دعوت القرآن
حصہ ۱۱: احزاب، سبا، فاطر، یٰسین
شمس پیر زادہ
(۳۳) سورۂ الاحزاب
(۷۳ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آیت ۲۰ میں احزاب یعنی ان گروہوں کا ذکر ہوا ہے جنہوں نے اہل ایمان کے خلاف متحد ہو کر مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام احزاب ہے۔
زمانۂ نزول
مدنی ہے اور غزوہ احزاب کے بعد نازل ہوئی جو شوال ۵ ھ میں پیش آیا تھا۔
مرکزی مضمون
منصب رسالت، اس کے تقاضے اور رسول کے ساتھ اہل ایمان کا رویہ واقعات کی روشنی میں۔
نظم کلام
آیت ۱ تا ۳ تمہیدی آیات ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آنے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے وحی الہٰی کی اتباع کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آیت ۴ تا ۸ میں منہ بولے بیٹے کی رسم کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اہل ایمان کے تعلق کو نیز آپ کی ازواج کے مقام کو واضح کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس عہد کی یاد دہانی بھی کرائی گئی ہے جو ہر نبی اسے اللہ کے دین کی مخلصانہ پیروی کے سلسلہ میں لیا گیا تھا۔ آیت ۹ تا ۲۷ میں غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس بات کو نمایاں کیا گیا ہے کہ ان نازک حالات میں کس طرح نصرت الٰہی کا ظہور ہوا اور یہ اس بات کا ثبوت کہ اہل ایمان کی کار سازی کے لیے اللہ کافی ہے لہٰذا ان کو چاہیے کہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اسی کے بھروسہ پر اپنی دینی ذمہ داریوں کو انجام دیں۔
آیت ۲۸ تا ۳۴ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے خطاب کر کے ان پر اپنا مقام اور اس مناسبت سے ان کی ذمہ داریاں واضح کی گئی ہیں۔
آیت ۳۵ تا ۴۰ میں منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نہ کرنے کی رسم کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا ہے اور اس حکم کی اصلاح کے سلسلہ میں حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کے واقعہ کو پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۴۱ تا ۴۴ میں اہل ایمان کو ذکر الٰہی کی ہدایت کرتے ہوئے رحمت اور اجر کریم کی بشارت دی گئی ہے۔
آیت ۴۵ تا ۴۸ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کرتے ہوئے آپ کی شان نبوت کو واضح کیا گیا ہے۔
آیت ۴۹ تا ۵۲ میں پہلے طلاق کا ایک مسئلہ بیان ہوا ہے اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کی ازواج کے تعلق سے خاص احکام دیے گئے ہیں۔
آیت ۵۳ تا ۶۲ میں پردے کے احکام دیے گئے ہیں۔
آیت ۶۳ تا ۵۸ میں قیامت اور آخرت کا ذکر ہے۔
آیت ۶۹ تا ۷۲ میں اہل ایمان کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے منافقین کو تنبیہ کی گئی ہے۔
قرآن میں شک پیدا کرنے والی روایتیں
روایتوں میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو یہ تاثر دیتی ہیں کہ سورہ احزاب میں دو سو احزاب میں دو سو آیتیں تھی لیکن جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف لکھا تو وہ اتنی ہی آیتیں لکھ سکے جتنی کہ اس وقت قرآن میں موجود ہیں۔ اس روایت کو نقل کر کے علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا لیکن ایسی روایت جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا لیکن ایسی روایت موضوع ہے یا قابل تاویل ہے (یعنی اس کا مفہوم کچھ اور ہے )
(تفسیر روح المعانی ،ج۔۷ ، ص ۱۴۲)۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں جب مختلف فرقے وجود میں آ گئے تو انہوں نے اپنے عقائد اور اپنے مسلک کی تائید میں نہ کثرت روایتوں گڑھیں اور ان کو اس طرح خلط ملط کر دیا کہ صحیح اور غلط میں تمیز مشکل ہو گئی۔ خاص طور سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرنے والوں اور امامت کا عقیدہ ایجاد کرنے والوں نے تو اس کثرت سے روایتیں گڑھیں کہ دین کی بنیادیں ہل گئیں اور قرآن کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس کی کچھ آیتوں غائب کر دی گئی ہیں یا اس کے الفاظ غائب کر دیے گئے ہیں مثلاً سورہ احزاب کی آیت ۷۱ :
وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ تَوْزاً عَظِیْمَا۔ ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی حاصل کر ے گا۔
کے بارے میں شیعوں کی اہم ترین کتاب اصول الکافی میں ابو بصیر کی روایت ہے کہ حضرت جعفر صادق نے فرمایا یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی : وَمَنْ یُطْعِ اللہَ وَرَسُولَہٗ فِی ولایۃِ عَلیٍّ وَ وِلَا یَۃِ الْاَئمَّۃِ مِنْ بَعْدِہٖ) فَقَدْ فَازَ فوْزاً عَظِیْماً یعنی جو کوئی علی اور ان کے بعد کے ائمہ کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا بڑی کامیابی حاصل کرے گا (اصول الکانی ، ج ۱ ص ۳۴۲ المکتبہ الاسلامیہ طہران)۔
اسی طرح اصول الکانی میں حضرت جعفر صادق سے روایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ آیت لے کر نازل ہوئے تھے۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اَوْ تُو الْکِتابَ آمِنُوءا بِمَا نَزَّ لْنَا (فِی عَلِیِّ) نُوراً مُبِیْناً یعنی اے اہل کتاب ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے علی کے بارے میں نازل کیا ہے جو نور مبین ہے (اصول الکانی ج۔۱ ص ۳۴۵) لیکن یہ آیت قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں اختلاف قرآن کے نام سے بعض آیتوں میں کچھ الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے مثلاً یہ کہ سورہ احزاب کی آیت ۶ میں وَاَزْوَاجُہٗ اَمَّھَا تُھُمْ (پیغمبر کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ) کے بعد وَھُوَابٌ لَھُمْ (اور پیغمبر مسلمانوں کے باپ ہیں ) کا اضافہ کر دیا گیا ہے یا اور یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن میں زانی کی سزا کے لیے آیت رجم (اشیخ ولشیخۃ الخ) تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت منسوخ کر دی گئی (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ، ج۔۳ ص۔۴۶۵) یا یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں آخری دو سورتیں یعنی معوذتین موجود ہی نہیں تھیں۔ اس قسم کی روایتیں گڑھ کر بہت بڑے فتنہ کا سامان کیا گیا اور افسوس ہے کہ تفسیروں میں اس قسم کی روایتوں نے جگہ پالی حالانکہ یہ روایتیں اپنے متن (مضمون) ہی کے اعتبار سے رد کرنے کے و ابل تھیں کیونکہ قرآن کریم نے اپنی حفاظت کی خود ضمانت دی ہے۔
اِنَّا جَھْنُ نَزَّ لْنَا الذِّ کْرَوَ اَنَّا لَہٗ لَحَافِظُونَ(حجر۔۹) ” بلاشبہ یہ یاد دہانی والا قرآن ہم ہی نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں "۔
اور یہ بات تواتر اور قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے کہ جو مصحف آج ہمارے پاس موجود ہے وہ مکمل قرآن ہے اور اس میں ایک شوشہ کا بھی فرق نہیں ہوا۔ رہا قرأت کا فرق تو اس کی گنجائش اسی حد تک ہو سکتی ہے جس حد تک کہ معنی کا فرق واقع نہ ہوتا ہو مثلاً سورہ غاشیہ میں لفظ مصیطر کا تلفظ ص سے بھی درست ہے اور س سے بھی۔ لیکن جو روایتیں قرأت کے ایسے فرق کو بیان کرتی ہیں جن سے معنی کا فرق واقع ہو جاتا ہے وہ ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتیں امام رازی لکھتے ہیں :
"شاذ قرأت متواتر قرأت کو باطل نہیں کر سکتی اس لیے ہم اپنے مسلک کے اثبات میں متواتر قرأت پر اعتماد کرتے ہیں اور اس لیے بھی کہ جو قرأت شاذ ہو وہ ہمارے نزدیک حجت نہیں ہے کیونکہ ہمارے نزدیک اس کی حیثیت ہر گز قرآن کی نہیں ہے۔ اگر وہ قرأت قرآن ہوتی تو ضرور متواتر ہوتی اور اگر ہم اس بات کی گنجائش نکال لیں کہ قرآن کا ایک حصہ تواتر کے ساتھ منتقل نہیں ہوا ہے تو ہم رافضیوں اور ملحدوں کے لیے قرآن میں طعن کرنے کا دروازہ کھولیں گے اور کہا جا سکے گا کہ قرآن میں ایسی آیتیں تھیں جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی امامت کا اصلی ثبوت تھیں لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچیں اور یہ بھی کہا جا سکے گا کہ اس میں بہت سے شرعی احکام کو منسوخ کرنے والی آیتیں بھی تھیں لیکن وہ بھی ہم تک نہیں پہنچیں مگر یہ اس بنا پر باطل ہے کہ اگر یہ حصہ قرآن کا جزء ہوتا تو ضرور متواتر ہوتا اور جب یہ متواتر نہیں ہے تو لازماً قرآن نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ قرأت شاذہ ہر گز حجت نہیں ہے۔ (التفسیر الکبیر ، ج ۱۱، ص۲۲۷)
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! ۱ * اللہ سے ڈرو۔ اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو ۲ *۔ بے شک اللہ علم والا حکمت والا ہے ۳ *۔
۲۔۔۔۔۔۔ پیروی کرو اس وحی کی جو تمہارے ر کی طرف سے تم پر کی جار ہی ہے ۴ * تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔ اور اللہ پر توکل کرو۔ ۵ * وہ کار سازی کے لیئے کافی ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔ اللہ نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے ۶ *۔ اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کی جن سے تم ظہار کرتے ہو (یعنی یہ کہتے ہو کہ وہ تمہارے لیئے ماں کی پیٹھ ہیں) تمہاری مائیں بنا یا ہے ۷ *۔اور نہ ہی اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنا دیا ہے۔ ۸ * یہ تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ۹ *۔ مگر اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۱۰ *۔
۵۔۔۔۔۔۔ ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ ۱۱ * یہ اللہ کے نزدیک منصفانہ بات ہے ۱۲ *۔ اور اگر تم کو معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ۱۳* اس بارے میں جو غلطی تم سے سر زد ہوئی اس کے لیئے مت پر کوئی گرفت نہیں البتہ اس بات پر ضرور گرفت ہو گی جس کا قصد تم نے دل سے کیا ۱۴ *۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔ نبی مو منوں کے لیئے ان کی پانی جان سے زیادہ کا حق دار ہے ۱۵ * اور اس کی ازواج ان کی مائیں ہیں ۱۶ *۔ اور اللہ کے قانون میں رحمی (خون کے) رشتہ دار عام مومنین وا مہاجرین کے مقابلہ میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ تم اپنے رفیقیوں کے ساتھ کوئی بھلائی کرو ۱۷ *۔ یہ حکم کتاب الہی میں لکھا ہوا ہے ۱۸ *۔
۷۔۔۔۔۔۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا تھا۔ (اے نبی) تم سے بھی اور نوح ، ابراہیم ، موسی، اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا ۱۹ *۔
۸۔۔۔۔۔۔ تاکہ وہ سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے بارے میں پوچھے ۲۰ * اور کافروں کے لیئے تو اس نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۲۱ *۔
۹۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور ایسی فوجیں جو تم کو دکھائی نہیں دیتی تھیں ۲۲ *۔ اور اللہ تم جو کچھ کر رہے تھے اس کو دیکھ رہا تھا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ جب وہ تم پر اوپر کی طرف سے بھی چڑھ آئے اور تمہارے نشیب کی طرف سے بھی ۲۳ * جب نگاہیں پھر گئیں اور کلیجے منہ کو آ لگے ۲۴ *اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ اس وقت اہل ایمان آزمائیش میں ڈال دیئے گئے اور سخت ہلا مارے گئے۔ ۲۵ *
۱۲۔۔۔۔۔۔ جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ۲۶ * ہے کہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کئے تھے وہ محض فریب تھے ۲۷ *۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے اہل یثرب ۲۸ * !تمہارے لیئے ٹھر نے کا کوئی موقع نہیں ہے لہذا لوٹ جاؤ ۲۹ * اور ان میں سے ایک گروہ یہ کہ کر بنی سے اجازت طلب کر رہا تھا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہ تھے بلکہ یہ بھاگنا چاہتے تھے ۳۰ *۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ اگر شہر کے اطراف سے ان پر چڑھائی ہوتی اور اس وقت ان سے فتنہ میں پڑنے کے لیئے کہا جاتا تو وہ اس میں جا پڑ تے اور انہیں شکل ہی سے کوئی تامل ہوتا۔ ۳۱ *
۱۵۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ لوگ اس پہلے اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے۔ ۳۲ * اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ کہو اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیئے کچھ بھی مفید نہ ہو گا۔ اور اس کے بعد تم سامان زندگی سے تھوڑا ہی فائدہ اٹھا سکو گے ۳۳ *۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ کہو کون ہے جو تم کو اللہ سے بچا سکے اگر وہ تمھیں کو ئی نقصان پہنچانا چاہے یا اس کی رحمت کو روک سکے اگر وہ تم پر مہر بانی کرنا چاہے۔ اللہ کے مقابلہ میں وہ اپنے لیئے نہ کوئی کار ساز پائیں گے اور نہ مدد گار۔
۱۸۔۔۔۔۔۔اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو (جنگ کے کاموں میں) رکاوٹیں ڈال رہے تھے اور اپنے بھائیوں سے یہ کہ رہے تھے کہ ہمارے پاس آؤ ۳۴ *۔ اور وہ جنگ میں بہت کم حصّہ لیتے رہے ہیں۔
۱۹ ۔۔۔۔۔۔وہ تمہارا ساتھ دینے میں تنگ دل ہیں ۳۵*۔ جب خطرہ پیش آ جا تا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ وہ تمہاری طرف اس طرح آنکھوں کو پھرا پھرا کر دیکھتے ہیں جیسے کسی شخص پر موت کی غشی طاری ہو گئی ہو ۳۶ *۔ پھر جب خطرہ دور ہو جاتا ہے تو مال حریص بن کر تیز زبانی سے تم سے باتیں کرتے ہیں ۳۷ *۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائے اس لیئے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیئے ۳۸ *۔ اور یہ اللہ کیے بہت آسان ہے۔۳۹ *
۲۰۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں ۴۰ *اور اگر حملہ آور پھر آ جائیں تو یہ چائیں گے کہ وہ دیہات میں بدوؤں کے درمیان ہوں اور وہاں سے تمہاری خبریں معلوم کرتے رہیں ۴۱ *۔ اور اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو جنگ میں کم ہی حصہ لیں گے ۴۲ *۔
۲۱۔۔۔۔۔۔ تمہارے لیئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ۴۳ *۔ ان کے لیئے جو اللہ اور آخرت کے امیدوار ہوں اور اللہ کو بہ کثرت یاد کریں ۴۴ *۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ جب اہل ایمان نے حملہ آوروں گرہوں کو دیکھا تو پکار اٹھے یہ تو وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ فرمایا ہے اور اس چیز نے ان کے ایمان و اطاعت میں اور اضافہ کر دیا ۴۵ *۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ ایمان لانے والوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو سچا کر دیکھا یا ۴۶ *۔ ان میں سے بعض تو اپنی نذر پوری کر چکے ۴۷ *اور بعض منتظر ہیں ۴۸ *۔ انہوں نے (اس میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ (یہ امتحان اس لیئے پیش آیا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے یا ان کی تو بہ قبول کر لے ۴۹ *۔ بلاشبہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ اور اللہ نے کافروں کو اس حال میں لوٹا دیا کہ وہ غیظ و غضب میں بھرے ہوئے تھے اور کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے۔ ۵۰ * اورع مومنوں کی طرف سے لڑنے کے لیئے اللہ کافی ہو گیا ۵۱ *۔ اللہ بڑی قوت والا اور غالب ہے۔۵۲ *
۲۶۔۔۔۔۔۔ اور اہل کتاب میں جن لوگوں نے ان (حملہ آور گروہوں ) کی مدد کی تھی اللہ نے ان کے قلعوں سے ان کو اتار دیا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ ایک گروہ کو تم قتل کرتے رہے اور دوسرے گروہ کو تم نے قید کر لیا ۵۳ *۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ اور تم کو ان کی زمین ، ان کے گھروں اور ان کے مال کا وارث بنا دیا ۵۴ *۔ اور ایسی زمین کا بھی جس پر ابھی تم نے قدم نہیں ر کھے ۵۵ *۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہ دہ ۵۶ *۔ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ دے دلا کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں ۵۷ *۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کے طالب ہو تو لیئے اللہ نے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے ۵۸ *۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو کسی صریح بے حیائی ی مرتکب ہو گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا۔ ۵۹ * اللہ کے لیئے یہ بات آسان ہے ۶۰ *۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار بن کر رہے گی اور نیک عمل کرے گی ہم اس کو دوہرا اجر دیں گے ۶۱ * اور ہم نے اس کے لیئے با عزت رزق تیار رکھا ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ اے نبی کی بیویو ! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو ۶۲ *۔ اگر تم پرہیز گار ہو تو لوچ کے ساتھ بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہے وہ طمع کرنے لگے ۶۳ *، اور بھلی بات کہو ۶۴ *۔
۳۳۔۔۔۔۔۔اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور سابقہ جاہلیت کی سی نمائش نہ کرو ۶۵ *۔ نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو ۶۶ *۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے گندگی کو دور کرے اور تمھیں بالکل پاک کر دے ۶۷ *۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ۶۸ * بے شک اللہ نہایت باریک بیں ۶۹ * اور باخبر ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ یقیناً مسلم مرد اور مسلم عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ۷۰ * ، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں ۷۱ *، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ۷۲ *، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ۷۳ *، (اللہ کے حضور) عاجزی کرنے والے مرد اور عاجز ی کرنے والی عورتیں روزہ ۷۴ *، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ۷۵ * روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ۷۶ *اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں ۷۷ *۔۔ اللہ نے ان کے لیئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۷۸ *۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دے تو ان کے لیئے اپنے معاملہ میں کوئی اختیار باقی رہے ۷۹ *۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ (اے نبی) جب تم اس شخص سے کہ رہے تھے جس پر اللہ نے احسان کیا ہے اور تم نے بھی ۸۰ * کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس (یعنی طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو ۸۱ * اور اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ ظاہر کرے والا تھا ۸۲ *۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو ۸۳ *۔ پھر جب زید اس سے اپنی غرض پوری کر چکا تو ہم نے اس کو تمہاری زوجیت میں دے دیا ۸۴ * تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں جب کہ وہ ان سے اپنی غرض پوری کر چکے ہوں کوئی تنگی نہ رہے ۸۵ *۔ اور اللہ کے حکم کو عمل میں آنا ہی تھا۔۸۶ *
۳۸۔۔۔۔۔۔ نبی پر ایسے کام میں کوئی تنگی نہیں جو اس کے لیئے اللہ مقرر کر دیا ہو ۸۷ *۔ اللہ کی یہی سنت ان (انبیاء)کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں ۸۸ *اور اللہ کا حکم ایک طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے ۸۹ *۔
۳۹ ۔۔۔۔ وہ اللہ کے پیغامات کو پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۹۰* اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے۔، ۹۱*
۴۰۔۔۔۔۔۔ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۹۲ *بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۹۳ * اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۹۴ *۔
۴۱۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! اللہ کو بہ کثرت یاد کرو ۹۵ *۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو ۹۶ *۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ وہ تمھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے ۹۷ *۔ وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ جس دن وہ اس سے ملیں گے ان کا خیر مقدم سلام سے ہو گا ۹۸ *۔ اور ان کے لیئے اس نے با عزت اجر تیار کر رکھا ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! ہم ے تمھیں شاہد ۹۹ * (گواہی دینے والا) مبشر ۱۰۰ * (خوش خبری دینے والا) اور نذیر ۱۰۱ * (خبر دار کرنے والا) بنا کر بھیجا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کی طرف اس کے اذن سے دعوت دینے والا ۱۰۲ *، اور روشن چراغ بنا کر۔۱۰۳ *
۴۷۔۔۔۔۔۔ مومنوں کو خوش خبری دو کہ ان کے لیئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو ، ان کی ایذا رسانی کی پروا نہ کرو اور اللہ پر توکل کرو۔ اللہ اس بات کے لیئے کافی ہے کہ اس پر توکل کیا جائے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ اے۱۰۴ * ایمان لانے والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھارے لیئے ان پر کوئی عدت واجب نہیں جس کو تم شمار کرو۔ مگر انہیں متاع (کچھ مال) دو اور خوب صورتی کے ساتھ رخصت کرو۔۱۰۵ *
۵۰۔۔۔۔۔۔ اے نبی ۱۰۶ * ہم نے تمہارے لیئے تمہاری ان بیویوں کی جائز کر دیا جن کے مہر تم ادا کر چکے ہو ۱۰۷ * اور ان عورتوں کو بھی جو اللہ کے عطا ر کردہ مال غنیمت میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں ۱۰۸ *۔ اور تمہارے چچا ، تمہاری پھوپھیوں ، تمہارے ماموں اور تمہاری خالاؤں کی ان بیٹیوں کو بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے ۱۰۹ *۔ اور اس مومن عورت کو بھی جس نے اپنے آپ کو نبی کے لیئے ہبہ کر دیا ہو بہ شرط یہ کہ نبی اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہے ۱۱۰ *۔ یہ دوسرے مومنوں کو چھوڑ کو خاص طور سے تمہارے لیئے ہے ۱۱۱ * ہم کو معلوم ہے کہ ہم نے ان کی بیویوں اور ان کی مملوک عورتوں کے بارے میں ان پر کیا فرض کیا ہے ۱۱۲ * تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے ۱۱۳ *۔ اور اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے ۱۱۴ *۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ ان میں سے مت جن کو چاہو دور رکھو اور جن کو چاہو اپنے پاس رکھو اور جن کو تم نے الگ رکھا ان میں سے کسی کو تم طلب کرو تو اس میں بھی تمہارے لیئے کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے اس بات کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تم تم ان کو دو، اس پر وہ سب راضی ہوں گی۔ ۱۱۵* اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے ۱۱۶ *اور اللہ علم رکنے والا بر دبار ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد تمہارے لیئے دوسری عورتیں جائز نہیں ہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ دوسری بیویاں کر لو خواہ ان کا حسن تمھیں کتنا ہی پسند ہو ۱۱۷ *۔ سوائے ان کے جو تمہاری ملکیت میں ہوں ۱۱۸ *۔ (یعنی کنیز ہوں ) اور اللہ ہر چیز پر نگراں ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت جب تمھیں اجازت دی جائے۔ (اجازت ملنے پر) کھانے کی تیاری کے انتظار میں (بیٹھے ) نہ رہو ۱۱۹ * البتہ جب تم کو ( کھانے کے لیئے) بلا یا جائے تو داخل ہو اور جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ ۱۲۰ *۔۔ اور باتیں کرنے میں نہ لگ جاؤ ۱۲۱ *۔ یہ باتیں نبی کے لیئے تکلیف دہ ہیں مگر وہ تم سے کچھ کہتے ہوئے لحاظ کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے میں لحاظ نہیں کرتا ۱۲۲ *۔ اور جب تمھیں نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پر دہ کے پیچھے سے مانگو۔ ہ طریقہ تمہارے دلوں کے لیئے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور ان کے دلوں کے لیئے بھی ۱۲۳ *۔ اور تمہارے لیے ہر گزر روا نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو اور نہ یہ جائز ہے کہ اس کے بعد بھی کبھی تم ان کی بیویوں سے نکاح کرو ۱۲۴ *۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سنگین بات ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ تم کوئی بات ظاہر کرد یا چھپاؤ۔ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے ان کے بیٹوں ان کے بھائیوں ، ان کے بھیجوں ، ان کے بھانجوں ، ان کی اپنی عورتوں اور ان کے مملوک کے بارے میں ۱۲۵ *۔ اللہ سے ڈرو ، شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۱۲۶ *۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ اللہ اورع اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھجتے ہیں اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر رحمت (درود) و سلام بھیجو۔ ۱۲۷ *۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا و آخرت میں لعنت کی ہے ۱۲۸ * اور ان کے لیئے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان باتوں پر اذیت دیتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا وہ اپنے سر ایک بہتان اور صریح گناہ کا بار لیتے ہیں ۱۲۹ *۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کھ دہ کہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کریں یہ اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہے کہ ان کی شناخت ہو جائے اور ستائی نہ جائیں۔ ۱۳۰ * اور اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے ۱۳۱ *۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ۱۳۲ * ہے اور جو مدینہ میں جھوٹی افواہوں پھیلاتے ہیں اگر باز نہ آئے تو ہم تمھیں ان کے خلاف اٹھا کھڑا کریں گے پھر وہ اس (شہر) میں تمہارے ساتھ کم ہی رہ سکیں گے ۱۳۳۲ *۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ ان پر لعنت ہو گی۱۳۴ * اور جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح قتل کیے جائیں گے ۱۳۵ *۔
۶۲۔ یہ اللہ کی سنت (قاعدہ) رہی ہے ان لوگوں کے معاملہ میں جو پہلے گزر چکے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ ۱۳۶ *
۶۳۔ لوگ تم سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں پوچھتے ہیں کہو اس کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور تمہیں کیا خبر شیاد وہ گھڑی قریب آ لگی ہو۔ ۱۳۷ *
۶۴۔ یقیناً اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ۱۳۸ *
۶۵۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں نہ کوئی دوست ملے گا اور نہ مدد گار۔
۶۶۔ جس دن ان کے ہرے آگ میں الٹ لٹ کر دیئے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور اطاعت کی ہوتی رسول کی ۱۳۹ *
۶۷۔ اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ سے گمراہ کر دیا۔۱۴۰ *
۶۸۔ اے ہمارے رب! ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت کر۔۱۴۱ *
۶۹۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی مگر اللہ نے اس کو ان کی اذیت دہ باتوں سے بَری کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک با وقار تھا۔ ۱۴۲ *
۷۰۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔۱۴۳ *
۷۱۔ وہ تمہارے اعمال درست کرے گا۱۴۴ *اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا ۱۴۵ * اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
۷۲۔ ہم نے (اپنی) امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بلاشبہ وہ بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے ۱۴۶ *
۷۳۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں کو اور مشرف مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے ۱۴۷ * اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ ۱۴۸ * اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔ نبی کے معنی ہیں اللہ کے بارے میں خبر دینے والا (لسان العرب ، ج ۱ ص ۱۶۲) اور قرآن کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ شخص ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہو اور وہ اس خاص ذریعہ علم کی بنا پر لوگوں کو اللہ کے بارے میں خبریں دیتا ہو اور اس کے احکام سناتا ہو۔
یہاں خطاب قرآن کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ قرآن میں آپ کو آپ کے نام کے ساتھ کہیں بھی خطاب نہیں کیا گیا ہے بلکہ منصب نبوت کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے یعنی "یا محمد” نہیں کہا گیا ہے بلکہ یا ایہا النبی فرمایا گیا ہے جس سے شان نبوت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور آپ کے بارے میں خاص آداب کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت بھی ملتی ہے کیونکہ آپ وقت کے نبی ہیں۔
۲۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ تاکیدی حکم ایک ایسے موقع پر دیا گیا جب کہ عائلی زندگی (Family Life) سے متعلق ایک مسئلہ میں اصلاحی قدم اٹھانا ضروری تھا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت آپ کی من گھڑت چیز نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مبنی ہے جس کی پابندی آپ پر بھی لازم تھی۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شرعی حکم کی تعمیل میں جب کہ وہ رائج الوقت طور طریقہ کے خلاف ہو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے اور نہ کافروں اور منافقوں کے طنز و تشنیع اور ان کی طرف سے کیے جانے والے غلط پروپیگنڈہ کی کوئی پروا کرنا چاہیے بلکہ اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے کہ ایسی تمام باتیں بے وزن قرار پائیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔ اللہ علم و حکمت والا ہے اس لیے اس کے نازل کردہ شرعی احکام سر تا سر علم و حکمت پر مبنی ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔ وحی الٰہی کی اتباع کا حکم بی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی دیا گیا ہے اور آپ کے توسط سے تمام لوگوں کو بھی۔ اس وحی نے جو آپ پر نازل ہوئی انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے دائرہ میں لے لیا ہے اس لیے اتباع کا مطلب مخصوص مذہبی معاملات ہی میں اتباع کرنا نہیں بلکہ تمام معاملات میں تباع کرنا ہے۔ اس اصولی ہدایت کے پیش نظر زندگی کو سیکولر اور غیر سیکولر خانوں میں تقسیم کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
۵ ۔۔۔۔۔۔ یعنی احکام الٰہی پر چلنے کی بنا پر جن مخالفتوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑے ان کا کوئی اثر قبول نہ کرو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو کہ وہ تمہارے کام بنائے گا اور تمہیں با مراد کرے گا۔
توکل صالح عقیدہ کا ثمرہ ہے۔ یہ قلب کو یقین سے بھر دیتا اور حق پر جما دیتا ہے۔
۶ ۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس ساخت میں پیدا کیا ہے اس کے لحاظ سے اس کے اندر ایک ہی شخصیت کار فرما ہے۔ لہٰذا ایک عورت اپنی اولاد کی تو ماں ہے لیکن اس کے شوہر کے اس کو ماں کہہ دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ اسی طرح ایک شخص کی اولاد وہ ہے جو اس کے صلب سے پیدا ہوئی لیکن کسی کو محض بیٹا کہہ دینے سے نہ وہ اس کا باپ بن جاتا ہے اور نہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا۔
اس کے علاوہ اس فقرہ میں یہ معنی بھی مضمر ہیں کہ ہر شخص میں اس کی اپنی خلقت کے اعتبار سے عزم و ارادہ رکھنے والی ایک ہی شخصیت(نفس) کار فرما ہے لہٰذا وہ یا تو مومن ہو سکتا ہے یا کافر بھی لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے کو مؤمن ظاہر کرتا ہے اور اپنے دل میں کفر کو چھپائے ہوئے ہے تو وہ حقیقت میں کافر ہے اور متضاد باتیں اپنے اندر جمع کرنے کی بنا پر منافق کہلانے کا مستحق ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا کہ تو میرے لیے ماں کی پیٹھ (ظہر) کی طرح ہے تو وہ اس کے لیے حرام ہو جاتی۔ پھر وہ اس سے نہ زوجیت کا تعلق رکھ سکتا تھا اور نہ اس کو طلاق قرار دے سکتا تھا۔ قرآن نے جاہلیت کے اس طریقہ کی اصلاح فرمائی جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں تفصیلی حکم سورہ مجادلہ میں بیان ہوا ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کسی شخص کے اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی کیونکہ یہ بات خلاف واقعہ ہے اس لیے ایسی بات کہنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
۸۔۔۔۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹوں (متبنیٰ۔ لے پالک) کو صلبی (حقیقی) بیٹوں کا درجہ دے دیا گیا تھا کوئی شخص اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے اس کے طلاق دینے کے بعد نکاح نہیں کر سکتا اور منہ بولا بیٹا اس کا وارث ہوتا تھا۔ مگر چونکہ کسی کو بیٹا کہہ دینے سے وہ حقیقت میں بیٹا نہیں بن جاتا اس لیے صلبی بیٹے سے متعلق جو شرعی احکام ہیں وہ اس پر منطبق نہیں ہوتے۔ یہ آیتوں اس رسم کی اصلاح کے سلسلے میں نازل ہوئیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اصلاح کے لیے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام اس بات سے نہیں روکتا کہ کوئی مسلمان اپنے گھر میں کسی یتیم، لا وارث یا نادار بچہ کی پرورش کرے بلکہ وہ اسے بہت بڑی نیکی قرار دیتا ہے لیکن وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کو حقیقی بیٹا قرار دیا جائے۔ اس سلسلہ میں اس نے درج ذیل پابندیاں عائد کی ہیں :
۱)۔ لڑکے کو اس کی باپ کی نسبت سے پکارا جائے یعنی اس کی ولدیت اس کے حقیقی باپ کی طرف ہو۔
۲)۔ اس کی بیوی پرورش کرنے والے کی بہو نہیں ہو جاتی کہ اس کے طلاق دینے یا مر جانے کے بعد اس کے ساتھ اس کا نکاح نہ ہو سکتا ہو۔
۳)۔ وہ اپنے پرورش کرنے والے کا وارث نہیں ہو سکتا البتہ پرورش کرنے والا اگر اس کے حق میں وصیت کرنا چاہے تو وصیت کے اسلامی قانون کے مطابق ایک تہائی کی حد تک وصیت کر سکتا ہے۔
۴)۔ وہ گھر کی خواتین کے لیے نا محرم ہو گا اور اس کے بالغ ہو جانے کے بعد ان کو اس کے معاملہ میں بھی "پردہ” کی ان پابندیوں کا لحاظ کرنا ہو گا جو نا محرموں کے سلسلہ میں ان پر شریعت نے عائد کی ہیں۔
موجودہ دور میں سیکولر حکومتیں ایسی قانون سازی کرتی ہیں کہ لے پالک (Adopted Son) کو حقیقی بیٹے کا درجہ حاصل ہو جائے اور اس کو نادار اور بے کس بچوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی کفالت کے مسئلہ کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر اس سے عائلی زندگی میں جو بے اعتدالیاں ہو جاتی ہیں اور خونی رشتہ داروں کی جو حق تلفی ہو جاتی ہے اس کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جب کہ نادار اور بے کس بچوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی کفالت کے مسئلہ کو حال کرنے کی دوسری مناسب صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں اور یہ وہی صورتیں ہو سکتی ہیں جو شرعی حدود سے تجاوز نہ ہوں۔
۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی باتوں کو شریعت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ہی کی رہنمائی حق ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی بھی رسم اور قانون کی رہنمائی باطل ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی منہ بولے بیٹے کو اس شخص کی نسبت سے نہ پکارو جس نے اس کی پرورش کی ہے بلکہ اس کو اس کے حقیقی باپ کی نسبت سے پکارو کہ اس سے نسبت بھی ثابت ہوتا ہے اور ہر پہلو سے یہ منصفانہ بات ہے۔ حضرت زید کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بیٹے کی طرح پرورش کی تھی اس لیے انہیں لوگ زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے مگر اس آیت کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ کہہ کر پکارنے لگے۔
اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ آدمی کو اپنا نسب باپ کے تعلق سے ظاہر کرنا چاہیے یعنی فلاں ابن فلاں یا فلاں بنت فلاں۔ اور حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن فلاں ابن فلاں کہہ کر ہی پکارا جائے گا۔ اس سلسلہ میں ایک استثناء حضرت عیسیٰ کا ہے۔ انہیں عیسیٰ بن مریم اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔
ہندوستان میں عورتیں شادی کے بعد اپنے کو شوہروں کی طرف منسوب کر کے اپنا نام فلاں زوجہ فلاں لکھتی ہیں جب کہ زوجیت کا رشتہ ضروری نہیں کہ مستقل ہو مگر باپ کا رشتہ مستقل ہوتا ہے اس لیے اسلامی طریقہ یہ ہے کہ عورتیں اپنا نام اپنے باپ کی صراحت کے ساتھ لکھیں یعنی فلاں بنت فلاں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے نام بھی ان کے باپوں ہی کی طرف منسوب کر کے لیے جاتے ہیں یعنی حضرت عائشہ بنت ابوبکر اور حفصہ بنت عمر کہا جاتا ہے جب کہ حضرت فاطمہ کو فاطمہ بنت محمد۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ واقعہ کے مطابق بھی ہے اور اس سے ان کے حقیقی باپوں کی حق تلفی بھی نہیں ہوتی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر کسی کا باپ معلوم نہ ہو تو اسے کسی اور کا بیٹا کہہ کر نہ پکارو بلکہ ان کے معاملہ میں دینی اخوت اور رفاقت کے رشتہ کا اظہار کرو۔ اسلام جھوٹا نسب بیان کرنے پر سخت گرفت کرتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے :
مَنْاِدَّ عیٰ اِکیٰ غَیْرِ اَبِیْہِ وَھُوَیَعْلَمُ اَنَّہٗ غَیرُ اَبیْہِ فالجنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَام ٌ (مسلم کتاب الایمان)۔ ” جس نے اپنے کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کیا در آنحالیکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے "۔
لیکن ساتھ ہی نا معلوم باپوں کی اولاد کی تحقیر سے بھی روکتا ہے اور ان کو اپنا دینی بھائی اور رفیق کہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ یعنی لاعلمی کی بنا پر یا قصد کے بغیر تم سے جو غلطیاں سر زد ہو گئیں ان پر کوئی گرفت نہیں ہو گی لیکن اگر تم نے قصداً غلط بیانی سے کام لیا تو اس پر ضرور گرفت ہو گی۔
۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق اہل ایمان کے ساتھ سب سے زیادہ فوقیت رکھنے والا ہے اس بنا پر بھی کہ یہ ایمان کا تقاضا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ آپ ان کی ذات سے زیادہ ان کے خیر خواہ ہیں۔ لہٰذا اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات پر آپ کو مقدم رکھیں ، آپ سے والہانہ محبت رکھیں آپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں ، اپنی جانوں پر کھیل کر آپ کی حفاظت کریں اور آپ کے تمام فیصلوں کو بے چوں و چرا تسلیم کریں۔ حدیث میں آتا ہے :
لَایُؤْمِنْ اَحْدُ کُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَ لَدِہِ وَالنَّاسِ اجْمَعِینَ۔(بخاری کتاب الایمان) ” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں "۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اہل ایمان کے تعلق کی جو مخصوص نوعیت ہے اس کا یہی تقاضا تھا کہ آپ کی بیویاں اہل ایمان کے لیے ماں کے درجہ میں ہوں اور آپ کے بعد ان سے نکاح کرنا حرام ہو چنانچہ آگے آیت ۵۳ میں صراحت کے ساتھ اس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین کا درجہ دے کر امت کے اندر ان کے خاص مقام اور ان کے ناموس و احترام کو غایت درجہ ملحوظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ کسی مسلمان کی کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اذیت کا باعث نہ بنے (وَمَا کَنَ لَکُمْ اَنْ تُؤ ذُو ا رَسُولَ اللہ آیت ۵۳) لیکن افسوس ہے کہ اس واضح ہدایت کے باوجود مسلمانوں کے ایک فرقہ نے حضرت علی کی شان میں غلو کر کے حضرت عائشہ صدیقہ کو ملامت کا نشانہ بنایا۔ یہ لوگ اپنے فرقہ کے عقائد کو صحیح مان کر اپنے ذہنی تحفظات کے ساتھ جب قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو جہاں ان کو اپنے عقائد کے خلاف کوئی بات محسوس ہوتی ہے اس کی الٹی سیدھی تاویل کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح قرآن پڑھ کر بھی وہ بھٹکتے ہی رہتے ہیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں تک وراثت کا تعلق ہے اللہ کے قانون کے مطابق رحمی (خونی) رشتہ دار ہی وارث قرار پائیں گے یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین کا نیز یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی کا جو رشتہ قائم کر دیا گیا تھا اور جس کی بنا پر انصار نے اپنے مال میں مہاجرین کو باربر کا شریک کر لیا تھا وہ عارضی تھا۔ اس رشتہ کی بنا پر وہ وراثت میں ایک دوسرے کے شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام کا مستقل وراثتی قانون رحم اور خون کے رشتہ کو وراثت کے لیے بنیاد قرار دیتا ہے۔ البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ بھلائی کی دوسری مناسب صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں مثلاً اپنی زندگی ہی میں ان کو کچھ دے دینا یا ان کے حق میں ترکہ کے ایک تہائی حصہ کی حد تک وصیت کرنا۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس قانون وراثت کی طرف جو سورہ نساء میں بیان ہوا ہے نیز سورہ انفال آیت ۷۵ میں بھی رحمی رشتہ داروں کے معاشرتی حقوق کو اولیت دی گئی ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔ عہد (میثاق) سے مراد جیسا کہ آیت کے سیاق و سباق (Context) سے واضح ہے فرائض نبوت کو ادا کرنے کا عہد ہے۔ جس کی پابندی منصب نبوت پر مامور ہونے کی بنا پر عائد ہوتی ہے۔ ان فرائض میں لوگوں کی پرواہ کیے بغیر محض اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی وحی کی پیروی کرنا بھی شامل ہے اور لوگوں تک بے کم و کاست اللہ کے پیغام کو پہنچا دینا اور اس کے دین کو واضح کرنا بھی شامل ہے۔ اس سورہ کی آیت ۲ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی الہٰی کی خود اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آگے آیت ۳۹ میں یہ صراحت کر دی گئی ہے کہ انبیاء اللہ کے پیغامات کو پہنچاتے ہیں اور سی سے ڈرتے ہیں وہ اللہ کے پیغامات کو پہنچاتے ہیں اور اسی سئے ڈرتے ہیں۔ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ آیت میں انبیاء سے لیے ہوئے عہد کا عمومیت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے جلیل القدر انبیاء کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن انبیاء سے سوال کیا جائے گا کہ انہوں نے سچائی کے ساتھ وحی الہٰی پر عمل کیا یا نہیں اور لوگوں کو اس کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچائے یا نہیں۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوا ہے :
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اَرْسِلَ اِ لَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ (اعراف : ۶) ” ہم ان لوگوں سے ضرور باز پرس کریں گے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے اور یقیناً ہم پیغمبروں کے ذریعہ اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو جائے گی تو جو لوگ کفر کریں گے ان کو درد ناک سزا بھگتنا ہو گی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ یہ اشارہ ہے غزوہ خندق کی طرف جا میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اہل ایمان کے لیے نازل ہوئی اور نہایت قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود دشمن کی فوجیں ان کو زیر نہ کر سکیں بلکہ مقابلہ کیے بغیر ان کو واپس لوٹنا پڑا۔
یہ غزوہ جسے غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں شوال ۵ ھ …(۶۲۷ ء) میں پیش آیا۔ یہود کے قبیلہ بنی نضیر نے مدینہ سے اپنے جلا وطن ہونے کے بعد کفار کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسایا چنانچہ حُیَی بن اخطب جو بنی نضیر کا سردار تھا ایک وفد کے ساتھ مکہ پہنچا اور قریش کو اس بات کے لیے آمادہ کیا کہ وہ متحدہ محاذ بنا کر مدینہ پر حملہ آور ہوں۔ پھر نجد کا رخ کر کے قبیلہ غَطفَان کو بھی جنگ کے لیے آمادہ کیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ے حضرت سلمان کے مشورہ پر مدینہ کے شمالی اور مغربی جانب جہاں سے دشمن مدینہ میں داخل ہو سکتے تھے تقریباً دو کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی (غزوۃ الاحزاب۔ محمد احمد باشمیل ص ۱۶۲) اور اس کام میں جس کو صحابہ کرام نہایت جاں فشانی کی ساتھ انجام دے رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بنفس نفیس شریک ہوئے۔ خندق کے اس طرف سلع پہاڑی کو پشت کر کے مسلمان صف آراء ہوئے جو تعداد میں تقریباً تین ہزار تھے جن میں ایک تعداد منافقین کی بھی شامل تھی۔ خندق کے اس پار قریش بنی کنانہ کے ساتھ پہنچے اور نجد سے غَطَفان، ھوازن اور دیگر قبائل۔ اس طرح دس ہزار کا لشکر جرار جوہر طرح مسلح تھا مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے جمع ہو گیا ادھر یہود کے ایک قبیلہ بنی قریظہ نے جو مدینی کے مشرقی جانب آباد تھے اور جن کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ تھا عین وقت پر عہد شکنی کی اور کفار کی تائید کے لیے کھڑا ہو گیا۔ کفار کا یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ تک رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوجیں اتار کر ان کو ایسا مرعوب کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کر سکے اور ایسی تند اور سرد ہوا بھیجی کہ کفار کے نہ صرف خیمے اکھڑ گئے بلکہ پاؤں بھی اکھڑ گئے۔ سخت آندھی نے آگ بجھا دی اور ایسا اندھیرا ہو گیا کہ انہیں کچھ سمجھائی نہ دیتا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر قریش نے واپسی لوٹ گئے۔ دشمن کے واپس ہونے پر مسلمان سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اللہ کی نصرت اس کے نبی اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور کفار کا سارا منصوبہ خاک میں مل کر رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وہ احسان ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے اور یہ اتنا بڑا احسان تھا کہ پھر کفار مدینہ پر کبھی چڑھائی نہ کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار کے ناکام لوٹ جانے پر فرمایا تھا : لَنْ تغزُو قُریشُ بَعْدَ عَا مِکُمْ وَلَکَنَّکُمْ تَغْزُ وَفھُمْ ، کہ قریش اب کبھی تم پر چڑھائی نہ کر سکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے اور یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی۔ کفار پھر کبھی مدینہ کا رخ نہ کر سکے۔ البتہ مسلمان اس پوزیشن میں ہوئے کہ مکہ کا رخ کر کے اسے فتح کر لیں۔
واضح ہو کہ اہل ایمان اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اٹھیں تو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طریقہ پر ان کی مدد فرماتا ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ اوپر کی طرف سے یعنی مدینہ کی مشرقی جانت سے اور نشیب کی طرف سے یعنی مدینہ کی مغربی جانت سے مدینہ کا بالائی علاقہ مشرق کی طرف ہے اور نشیبی علاقہ مغرب کی طرف۔ مشرق کی طرف سے غطفان اور ہوازن وغیرہ کی فوجیں آ گئی تھیں اور مغرب کی طرف سے قریش اور بنی کنانہ وغیرہ کی۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ یہ پیرایہ بیان اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو شدت خوف کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔ بلاغت کے تقاضے کے تحت عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ بات کہہ دی گئی ہے لیکن مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان میں کمزور تھے۔ مخلص مؤمنوں کا حال اس سے مختلف تھا جیسا کہ آیت ۲۲ اور ۲۳ میں بیان ہوا ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ خندق کے موقع پر جن شدید حالات کا مسلمانوں و سامنا کرنا پڑا ان میں بہت بڑی مصلحت کار فرما تھی اور وہ یہ کہ اہل ایمان کو سخت آزمائش میں ڈال کر دیکھا جائے کہ کون اپنے ایمان میں مخلص ہے اور کون نفاق اور دک کی بیماری میں مبتلا ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔ روگ سے مراد شک کی بیماری ہے قرآن اور پیغمبر کے بارے میں شک کرنے والے یہی منافقین تھے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی مدد اور غلبہ و کامرانی کے وعدے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ یثرب مدینۃ النبوی کا پرانا نام ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تم اس پوزیشن میں نہیں ہو کہ جو لشکر تمہارے خلاف امنڈ آیا ہے اس کا مقابلہ کر سکو۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ تاکہ جنگ کی نوبت نہ آئے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ مدینہ میں عورتوں اور بچوں کو محفوظ قلعوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اس لیے منافقین کا یہ عذر صحیح نہ تھا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں لہٰذا ہمیں جانے کی اجازت دی جائے۔ دراصل ان میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لیے وہ محاذ چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے تھے اور بہانا یہ بنا لیا تھا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر مدینہ میں دشمن گھس پڑتے اور ان لوگوں سے فتنہ کی کوئی بات کہتے مثلاً یہ مطالبہ کرتے کہ پیغمبر کے ساتھیوں کو قتل کرنے میں ہمارا ساتھ دو یا یہ مطالبہ کرتے کہ اسلام سے پھر جاؤ تو انہیں ان کے اس مطالبہ کو پورا کرنے میں مشکل ہی سے کوئی تامل ہوتا کیونکہ وہ اپنے ایمان ہیں مخلص نہیں ہیں۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان لوگوں نے غزوہ احد کے موقع پر جو کمزوری دکھائی تھی اس کے بعد وہ اپنی ندامت کو دور کرنے کے لیے کہتے رہے کہ اگر اللہ نے اب کوئی موقع پیدا کر دیا تو وہ جم کر لڑیں گے اور ہر گز پیٹھ نہیں پھیریں گے۔ مگر جب غزوہ خندق میں دشمن کے مقابلہ میں ڈٹ جانے کا موقع آیا تو بھاگ جانے کے لیے بہانے ڈھونڈنے لگے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ یعنی موت یا قتل موت یا قتل ہو جانے کے اندیشہ سے جنگ سے فرار اختیار کرنا جب کہ وہ ایک دینی فریضہ ہو بالکل بے فائدہ بات ہے کیونکہ اس صورت میں اگر جینے کا موقع مل بھی گیا تو وہ بہت تھوڑا ہو گا اور بالآخر لوٹنا اللہ ہی کے حضور ہو گا اور اس طرز عمل کا نتیجہ محرومی اور ناکامی ہی کی شکل میں سامنے آئے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی راہ میں جان کا خطرہ مول لینے کی ترغیب دیتے ہوئے بڑی حقیقت افروز بات ارشاد فرمائی تھی:
"جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اسے پائے گا۔ اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے اسے کیا فائدہ ہو گا”؟ (مری ۲۵:۱۶ ، ۲۶)۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ مراد منافقین ہیں جو مسلمانوں کی دفاعی لائن میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور دوسروں کو محاذ سے ہٹا کر اپنے ساتھ ملا لینا چاہتے تھے۔ یہ ان کی کھلی غداری تھی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ تمہاری مدافعت کے لیے کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔ ان کو نہ تمہارا (سچے مسلمانوں کا) کوئی درد ہے اور نہ وہ تمہارے لیے کوئی قربانی دے سکتے ہیں۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ یہ منافقین کی بزدلی اور ان کی گھبراہٹ کی تصویر ہے۔ جنگ کے موقع پر جب کوئی خطرناک صورت پیش آ جاتی تو ان کی بد حواسی کا یہ علم ہوتا کہ گویا ان پر موت کی غشی طاری ہو گئی ہے۔ اگر وہ اپنے ایمان میں مخلص ہوتے تو اللہ کی راہ میں پا مردی سے جہاد کرتے اور کفار کا مردانہ وار مقابلہ کرتے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ ختم ہو جانے کے بعد جب مال غنیمت کی تقسیم کا موقع آ جاتا تو مال کے حریص بن کر سامنے آتے ہیں اور تند و موقع آ جاتا تو مال کے حریص بن کر سامنے آتے ہیں اور تند و تیز لہجہ میں مال غنیمت میں اپنے حصہ دار ہونے کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف سخت شکایتیں کرتے ہیں۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن در حقیقت یہ ایمان نہیں لائے ہیں۔ اگر یہ دل سے ایمان لاتے تو جہاد میں ان کا طرز عمل اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بے وفائی کا نہ ہوتا۔ اور جب ان کے دل ایمان سے خالی ہیں تو ان کی تمام ظاہری نیکیاں اکارت گئیں ان کا کوئی اجر ان کو ملنے والا نہیں۔
اس سے یہ اہم حقیقت واضح ہوئی کہ جو لوگ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں لاتے وہ اگر نیکی کے کام کرتے ہیں خواہ وہ نماز ہو یا جہاد تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان ہی اعمال کو قبول فرماتا ہے جو ایمان لا کر خالصتہً اس کی رضا جوئی کے لیے کیے گئے ہوں۔ ‘
مسلمانوں کی موجودہ سوسائٹی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو منافقوں کے نقوش قدم پر ہیں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں۔ ان کا طرز عمل ایمان کے تقاضوں کے صریح خلاف ہوتا ہے لیکن چونکہ دلوں کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے اس لیے ان کے دعوے کی بنا پر ان کو دنیا میں مسلمان سمجھا جاتا رہے گا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ مسلمان ہی قرار پائیں گے اگر ان کے دل ایمان سے خالی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے دعوائے اسلام کو بے حقیقت قرار دے گا اور ان کی نیکیاں ان کے منہ پر دے ماری جائیں گی خواہ وہ نماز ، حج اور جہاد جیسی بڑی بڑی نیکیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ جسم بے کار ہے اگر اس کے اندر روح موجود نہ ہو۔ اسی طرح نیک اعمال کا وجود بے کار ہے اگر ان کے اندر ایمان کی روح موجود نہ ہو۔
۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ان کی نیکیاں اللہ تعالیٰ کس طرح ضائع کرے گا۔ اس کے لیے ایسا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ نہ تو کسی کی سفارش اس کے لیے رکاوٹ بن سکے گی اور نہ ایسا کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہو گا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ منافقین کافروں کے لشکر سے ایسے مرعوب اور دہشت زدہ ہو گئے ہیں کہ اگر چہ حملہ آور گروہ ناکام واپس ہو چکے ہیں مگر ان لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اِدھر ادھر کہیں موجود ہیں اور ان کے دو بارہ حملہ آور ہونے کا اندیشہ ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اب ان کی خواہش یہ ہے کہ اگر کفار کے لشکر دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو اس موقع پر یہ شہر میں موجود ہی نہ رہیں بلکہ دیہات میں جا کر بدوؤں کے درمیان رہیں تاکہ مقابلہ کی نوبت نہ آئے اور وہاں رہ کر ہی مسلمانوں کے حالات معلوم کرتے رہیں کہ انہیں کفار کے ہاتھوں شکست ہوئی یا نہیں۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کو نہ جہاد سے دلچسپی ہے اور نہ وہ کوئی قربانی دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ ان کی جنگ میں شرکت محض نمائشی اور حالات کے دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ اس زمانہ میں مدینہ قبائلی سسٹم تھا اور اَوس و خَزْرج دو بڑے قبیلے تھے۔ جب ان قبیلوں نے اسلام قبول کیا تو ان افراد کے لیے جو اسلام قبول کرنا نہیں چاہتے تھے ایک مسئلہ پیکا ہو گیا اور وہ یہ کہ اس صورت میں قبیلہ کے مذہب سے الگ رہنے کی بنا پر ان کا اس قبیلہ میں کوئی مقام نہ ہو گا اور سماجی مسائل بھی پیدا ہو جائیں گے اس لیے انہوں نے مصلحت اس میں سمجھے کہ دل کے انکار کے باوجود اپنے کو مسلمانوں میں شامل کر لیں۔ اس کے بعد وہ ان ذمہ داریوں کو نبھا نہ سکے۔ جو مسلمان ہونے کی سے ان پر عائد ہوتی تھیں اس ان کا نفاق کھلتا ہی چلا گیا۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے رسول نے اس موقع پر جو تکلیفیں اٹھائیں جو خطرات مول لیے ، محاذ پر جس طرح ڈٹے رہے اور جو پا مردی دکھائی اس میں رسول کے پیروؤں کے لیے بہترین نمونہ تھا لہٰذا تمہیں اس موقع پروہ کچھ کرنا چاہیے تھا جو اللہ کے رسول نے کیا۔
آیت کا اشارہ اگرچہ اس خاص واقعہ کی طرف ہے لیکن الفاظ کی عمومیت ایک نہایت ہی اہم اور اصولی بات پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ کہ رسول کا طرز عمل مطلقاً اہل ایمان کے لیے نمونہ ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ رسول کی زندگی کو سامنے رکھیں اور "اسوہ حسنہ ” کی پیروی کریں۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ سے تجاوز کر کے اگر کسی نے کوئی طرز عمل اختیار کیا ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے لائق اِتباع نہیں ہے خواہ وہ زاہدوں اور عابدوں کا ہو یا صوفیوں کا۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنے والے در حقیقت وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ سے ملاقات کے امیدوار ہوں ، روز آخر جزا کی توقع رکھتے ہوں اور جن کے دلوں میں اللہ کی یاد بس گئی اور زبانیں اس کے ذکر سے تر ہوں۔ جو لوگ اس وصف سے خالی ہوں ان میں یہ حوصلہ نہیں ہو سکتا کہ پر خطر حالات میں رسول کا ساتھ دیں۔ اور اس کے اسوہ حسنہ کو مانے رکھتے ہوئے اپنے کردار کو ڈھالیں۔
آج مسلمانوں میں تو ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کی تعریف تو خوب کریں گے لیکن اس کو اپنے لیے رہنما نہیں بنائیں گے بلکہ جو گمراہ لوگ اپنی زندگیوں کا بد ترین نمونہ ” اسوہ سیئہ” پیش کر رہے ہیں اس کو قبول کریں گے تاکہ ان کی دنیا بھی بن جائے اور دنیا والے بھی ان سے خوش رہیں !
۴۵۔۔۔۔۔۔ غزوہ احزاب کے موقع پر مخلص مؤمنوں کا جو کردار رہا اس کو یہاں نمایاں کیا گیا ہے جس ان کی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفاداری پاس عہد، حوصلہ مندی اور قربانیوں کے لیے مستعدی کا اظہار ہوتا ہے۔ منافق تو جیسا کہ آیت ۱۱ اور ۱۲ میں بیان ہوا ہے۔ کافروں کے لشکر جرار کو دیکھ کر اللہ ہی سے بد گمان ہو گئے اور کہنے لگے اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ محض فریب تھا لیکن سچے مؤمنوں کی زبان سے یہ ایمان افروز کلمات نکلے کہ "یہ تو وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا”۔ یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ کامیابی کی راہ آزمائشوں سے ہو کر ہی گزرتی ہے جیسا کہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے :
"کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں ان لوگوں کے سے حالات سے سابقہ پیش آیا ہی نہیں جو تم سے پہلے گزرے ہیں ” (بقرہ۔ ۲۱۴)
اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے۔
"کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یہ کہہ دینے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کی ہم آزمائش کر چکے ہیں تو اللہ ان لوگوں کو ضرور جان کر رہے گا جو سچے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو جھوٹے ہیں۔” (عنکبوت : ۲ ،۳)
اور جب انہوں ے ان ایمانی جذبات کا اظہار کیا تو ان کے ایمان کی کیفیت اور ان کی اطاعت شعاری میں اور اضافہ ہو گیا۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ عہد کہ وہ اللہ کی راہ میں جان کی بازی لگا دیں گے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جان کی بازی لگا کر انہوں نے جام شہادت نوش کر لیا۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اس بات کے منتظر ہیں کہ کب انہیں اللہ کی راہ میں جاں بازی کے جو ہر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھلیں اور اپنے غلط طرز عمل کے لیے اللہ کے حضور توبہ کریں۔ مقصود منافقوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ تمہارے لیے اب بھی توبہ کا موقع ہے پھر اپنے کو کیوں عذاب الٰہی کا مستحق بناتے ہو ؟
۵۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی تدبیر ایسی ہوئی کہ کفار غصہ میں بھرے ہوئے ناکام واپس لوٹے۔ وہ مدینہ، کے مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کر سکے اور نہ اس جنگ سے ان کو کوئی فائدہ حاصل ہو سکا۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اگرچہ وہ مسلمانوں کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر حملہ آور ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ مسلمانوں کو لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ ان کی طرف سے لڑنے کے لیے اللہ کافی ہوا۔ حج کے موقع پر صفا اور مروہ پر یہ جو کلمات ادا کیے جاتے ہیں۔
لا الہ الا اللہُ وَحْدَہٗ وَ ھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحدَہٗ (مسلم کتاب الحج)۔
"ایک اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ کی مدد کی اور حملہ آور لشکروں کو تنہا شکست دی”۔
تو یہ اسی واقعہ کی ید تازہ کرتے ہیں اور اللہ کی نصرت کو یاد دلاتے ہیں۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ اللہ قوت والا ہے اس لیے ایک لشکر جرار کی شکست کے اسباب پیدا کرنا اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں اور وہ غالب ہے اس لیے اس کا ہر منصوبہ نافذ ہو کر رہتا ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ مراد بنی قریظہ ہیں جو مدینہ کے مشرقی حصہ میں آباد تھے اور مذہباً یہودی تھے۔ بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت کے بعد ان سے معاہدہ کیا تھا مگر وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہ سکے اور غزوہ احزاب کے موقع پر انہوں نے عہد شکنی کر کے حملہ آور کافروں کا ساتھ دیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم جنگ خندق سے فارغ ہو کر گھر لوٹے تو حضرت جبرئیل اللہ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ بلا تاخیر بنی قریظہ کا رخ کیا جائے اور ان کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے چنانچہ اسی وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو لے کر بنی قریظہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر ان کا محاصرہ کر لیا جو پچیس دن رہا۔ بالآخر بنی قریظہ اس شرط پر اپنے قلعوں سے اتر آئے کہ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کو جو بنی قریظہ کے حلیف تھے حکم بنایا جائے۔ چنانچہ حضرت سعد بن معاذ نے فیصلہ سنایا کہ :
"ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں ان سب کو قتل کر دیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کے مال تقسیم کر دیئے جائیں "۔
اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” تم نے حکم الٰہی کے مطابق فیصلہ کیا” (بخاری کتاب المغازی)۔
حضرت سعد بن معاذ ڑجی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ تورات کے مطابق تھا اس میں یہ جنگی قانون بیان ہوا ہے کہ :
"جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے …………. اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا لیکن عورتوں اور با ل بچوں اور چو پایوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لیے رکھ لینا” (استثناء :۲۰ ۔ ۱۰ تا ۱۴ )
اس طرح یہود بنی قریظہ کا مدینہ سے خاتمہ ہو گیا۔ ان کے ساتھ یہ سختی اس لیے برتی گئی کہ اس سے پہلے یہود کے ایک قبیلہ بنی نضیر کی عہد شکنی اور سازشی کاروائیوں کے باوجود ان کی ساتھ یہ رعایت برتی گئی تھی کہ وہ اپنے بال بچوں اور کسی قدر سامان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں چنانچہ وہ خیبر میں آباد ہو گئے لیکن وہاں سے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف پھر سازشیں شروع کر دیں۔ پھر بنی قریظہ نے ایک ایسے نازک موقع پر عہد شکنی کی جب کہ کفار بہت بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی مدد کر کے مسلمانوں کے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا اس لیے ایسے غداروں کو سخت سزا ملنا ہی چاہیے تھی۔
واضح رہے کہ مقتولین کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ نہیں تھی اور عورتوں اور بچوں کی تعداد جن کو قید کر لیا گیا تھا تقریباً ایک ہزار تھی (غزوہ بنی قریظہ۔ محمد احمد باشمیل ، ص ۱۹۷)۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ مال کے ساتھ بھاری اسلحہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ پندرہ سو تلواریں ، دو ہزار نیزے ، تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں مال غنیمت میں ملیں۔ (غزوہ بنی قیظیہ ، ص ۲۲۹،)۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ یہ اس بات کی خوش خبری تھی کہ (عنقریب ایسے علاقے بھی تم فتح کرو گے جہاں ابھی تمہارے قدم نہیں پہنچے ہیں۔ اس کے بعد سب سے پہلے خیبر فتح ہوا اور اس کے بعد دوسرے علاقے۔ اس طرح قرآن کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے متعلق ہے۔ ان آیات کے نزول تک یعنی ۵ ھ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ حضرت سودہ، حضرت عائشہ،حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کو جب امہات المؤمنین کا مقام دیا گیا تو ان کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔ اب ان کی تقویٰ، قناعت پسندی اور آخرت طلبی میں معیار مطلوب کو پہنچنا تھا اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی معاشی لحاظ سے نہایت عسرت کی زندگی تھی اور آپ کے پاس آسودگی اور دنیوی زیب و زینت کا کوئی سامان نہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی کہ آپ اپنی ازواج سے ان کی مرضی معلوم کریں۔اگر وہ بہ خوشی اس قسم کی زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور دنیا ہی کی زیب و زینت چاہتی ہیں تو انہیں کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دیا جائے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ سے پوچھا اور فرمایا کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دو لیکن حضرت عائشہ نے برجستہ جواب دیا کہ اس کے رسول اور دار آخرت ہی کو چاہتی ہوں پھر دوسری ازواج نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ (بخاری کتاب التفسیر۔ الاحزاب)
اس طرح ان کی آزادانہ مرضی معلوم کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان کو خود عزیمت کا مقام حاصل ہو گیا ، دوسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ان کا جواب سکون و مسرت کا باعث ہوا اور تیسرا فائدہ یہ کہ منافقین کو یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا کہ آپ اپنی ازواج کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کرتے اور وہ اپنی مرضی کے خلاف زندگی بسر کرنے کے لیے مجبور ہو گئی ہیں۔
آیت کا صحیح مفہوم واضح ہو جانے کے بعد اس خیال کی تردید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ آپ کی ازواج آپ سے زیادہ نفقہ (خرچ) کا مطالبہ کرتی تھیں جس کی وجہ سے آپ پریشان ہو گئے تھے۔ جن روایتوں میں اس طرح کی بات بیان ہوئی ہے وہ درایۃً صحیح نہیں کیونکہ ان میں متضاد باتیں بھی بیان ہوئی ہیں اور ایسی باتیں بھی جو قرائن کے خلاف ہیں۔ ان روایات پر گفتگو انشاء اللہ سورہ تحریم کے ذیل میں کی جائے گی۔
واضح رہے کہ فقہاء نے اس تخییر کو تفویض طلاق پر محمول کیا ہے یعنی اس صورت میں عورت کو یہ اختیار حاصل ہو جتا ہے کہ وہ اپنے اوپر طلاق نافذ کر لے جب کہ اس آیت اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے آیت میں تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ اپنی ازواج سے معلوم کر لیں کہ وہ دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہیں یا اللہ اور اس کے رسول کو۔ اگر دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہیں تو خوبصورتی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا جائے یعنی ان کی یہ مرضی معلوم ہونے کے بعد آپ انہیں طلاق دے دیں۔اس سے یہ کہاں لازم آیا کہ اگر آپ کی ازواج دنیا کی زینت چاہتیں تو طلاق خود بخود واقع ہو جاتی۔ آیت میں طلاق کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اور اس کے یہ الفاظ : اُسَرِّحْکُنَّ سَراجاً جمیلاً۔ ” میں تمہیں خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں ” صاف بتا ر ہے ہیں کہ آپ کے جدا کر دینے سے وہ جدا ہو جاتیں لہٰذا اس تخییر (اختیار) کو تفویض طلاق پر محمول کرنا صحیح نہیں اور فقہاء نے تفویض طلاق کا جو اصول وضع کیا اس سے موجودہ دور کے وہ مسلمان جو اسلام کے عائلی قوانین سے مطمئن نہیں ہیں اور ان میں ترمیم کے درپے ہیں یہ تجویز کرتے ہیں کہ نکاح کے موقع پر ایک کا بین نامہ تیار کیا جائے جس میں مرد عورت کو یہ پیشگی اختیار دے کے فلاں اور فلاں صورت میں عورت خود اپنے اوپر طلاق نافذ کر سکتی ہے۔
تفویض طلاق کے اس حیلہ کو اختیار کر کے وہ مرد و زن میں مساوات کا اصول قائم کرنا چاہتے ہیں مگر شریعت نے گوناگوں مصالح کے پیش نظر جن میں عورت کا مقام بھی شامل ہے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے عورت کو نہیں اس لیے اس اختیار کو عورت کی طرف منتقل کرنے کی کوشش شریعت کے منشاء کے بالکل خلاف ہے۔
اُمَتِّعْکُنَّ (تمہیں کچھ دے دلا کر ) سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ طلاق کی صورت میں بیوی کو متاع یا متعہ (کچھ مال) دیا جانا چاہیے۔ اس سے اس نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۱ میں مطلقات کو معروف کے مطابق متاع دینے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ تمام مطلقہ عورتوں ے بارے میں ہے نہ کہ صرف ان مطلقہ عورتوں کے بارے میں جنہیں خلوت سے پہلے طلاق دی گئی ہو۔
(ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۷۶ ، ۳۷۷)۔
۸۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم نے دنیا طلبی کے بجائے آخرت طلبی کو مقصود اور اللہ اور اس کے رسول کو محبوب بنا لیا اور حسن عمل کی روش اختیار کی تو تمہارا مرتبہ بہت بڑا ہو گا اور اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے کسی بے حیائی کے ارتکاب کا اندیشہ تھا بلکہ مقصود پاک دامنی اور عفت کا غایت درجہ احساس پیدا کرنا تھا تاکہ کافی محتاط رہیں اور منافقین کو ان کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اللہ کا قانون بے لاگ ہے۔ ایک نبی کی بیوی بھی اگر بے حیائی کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ اللہ کے ہاں سزا کی مستحق ہے بلکہ دوہری سزا کی ، کیونکہ یہ جرم اس بنا پر نہایت سنگین ہو گا کہ اس سے ایک نبی کے گھر کی بد نامی ہو گی اور لوگوں کے لیے بہت بُری مثال قائم ہو جائے گی۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جرم کے ارتکاب کی صورت میں ایک نبی کی بیوی کو سزا دینا اللہ کے لیے مشکل نہ ہو گا کیونکہ اللہ کا قانون عدل نے لاگ ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کا مقام امہات المؤمنین کا قرار پایا تو اس مقام کے لحاظ سے ان پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہو گئیں۔ ان ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے انہیں یہ بشارت بھی دی گئی کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی وفا شعار بن کر نیک عمل کریں گی تو انہیں یہ اعزاز و اکرام بخشا جائے گا کہ وہ دو مرتبہ اجر پائیں۔
۶۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اور عورتوں کے مقابلہ میں تمہیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ تم نبی کی ازواج ہو لہٰذا تمہیں اپنی عملی زندگی میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔
۶۳۔۔۔۔۔۔ یہاں روگ سے مراد شہوت کی بیماری ہے۔
عورتوں کی آواز بالعموم سریلی ہوتی ہے اور جب وہ لوچ کے ساتھ بات کرتی ہیں تو جن کی طبیعتوں میں شہوانی ہیجان ہوتا ہے وہ بری خواہشات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس لیے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ عورتیں مردوں سے بات کرتے ہوئے اپنے لہجہ میں لوچ پیدا نہ ہونے دیں۔ اور جب تقویٰ کا تقاضا یہ ہے تو اس کی پابندی ہر عورت کو کرنا چاہیے۔ یہاں ازواج نبی کو مخاطب کر کے یہ اور اس قسم کی جو دوسری ہدایات دی گئی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ہدایتیں ان کے لیے خالص ہیں اور دوسری عورتوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ مطلب ہے کہ ازواج نبی کو ان کا کہیں زیادہ پابند ہونا چاہیے اور ان معاملات میں غایت درجہ محتاط ہونا چاہیے۔
ضمناً اس سے یہ اصولی بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام جب عورتوں کو مردوں سے لوچ دار زبان میں بات کرنے سے منع کرتا ہے تو وہ ان کے گانے کو کس طرح گوارا کر سکتا ہے ؟ اس کی حرمت بالکل واضح ہے مگر موجودہ زمانے میں عورتوں کا گانا اور وہ بھی نہایت فحش انداز میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس کے منکر ہونے کا تصور ہی نہیں رہا اب مشکل ہی سے ایسے افراد ملیں گے جو اس کی حرمت کے پیش نظر اس کے سننے سے اجتناب کرتے ہوں۔
۶۴۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری زبان سے جو بات بھی نکلے وہ بھلائی ہی کی ہو۔ ہر قسم کی ناروا باتوں سے تمہیں سخت احتراز کرنا چاہیے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں تبرج کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اظہار اور نمائش کے ہیں اور اس سے مراد اجنبی مردوں کے سامنے زینت کی نمائش کرتے پھرنا ہے جیسا کہ سورہ نور کی آیت ۶۰۔۔۔۔۔۔ (غَیْرَمُتَبرِّ جَاتٍ بِزِیْنَۃٍ ، اپنی زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ) سے واضح ہے۔ اور الجاھلیۃ الاولیٰ سے مراد غیر اسلامی طور طریقے ہیں جو اسلام سے پلے رائج تھے مطلب یہ ہے کہ تمہارا اصل دائرہ کار گھر جہاں رہ کر تمہیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے اور اس غرض سے تو باہر نکلنا ہر گز روا نہیں کہ اپنی زینت کی نمائش کرتی پھرو۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ازواج نبی کے لیے گھر سے نکلنا بالکل ممنوع تھا۔ آگے آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں ، بیٹیوں اور عام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ باہر نکلیں تو اپنے اوپر چادر ڈال لیا کریں جس سے باہر نکلنے کا جواز ثابت ہوتا ہے نیز حدیث میں آتا ہے کہ :
قَدْاُذِنَ لَکُنَّ اَنْ تَخْرجْنَ لِحَا جِتِکُنَّ (بخاری کتاب التفسیر)۔
"تمہیں اپنی ضرورت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے "۔
ازواج نبی کے شایان شان بات یہی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں قیام پذیر رہیں اور باہر نکلے کے سلسلہ میں زیادہ محتاط رہیں۔ رہیں عام مسلمان عورتیں تو اس آیت کی روشنی میں ان کا بھی اصل دائرہ کار گھر ہی قرار پاتا ہے لیکن چونکہ ان کو باہر نکلنے کی ضرورت ازواج نبی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اس لیے اس آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ وہ گھر کی فہار دیواری میں بالکل محصور ہو کر رہ جائیں۔ موجودہ زمانہ میں تو عورتوں کی واقعی ضرورتیں بہت بڑھ گئی ہیں مثلاً سفر، تعلیم و تعلم ، عورتوں کے لیے سوشل خدمات، اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل ، دینی اجتماعات میں شرکت وغیرہ۔ اس قسم کی واقعی ضرورتوں کے لیے عورتوں کے باہر نکلنے پر پابندی نہیں ہے بشرطیکہ وہ باہر نکلنے کے شرعی آداب کو ملحوظ رکھیں خاص طور سے یہ بات کہ وہ اپنے حسن اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں۔
۶۶۔۔۔۔۔۔ نماز اور زکوٰۃ کا حکم عام ہے لیکن خاص طور سے ازواج نبی کو خطاب کر کے حکم دینے کا منشاء یہ ہے کہ وہ سختی کے ساتھ اس پر کار بند ہو جائیں۔
اس آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ عورت کے مال کی زکوٰۃ عورت ہی کے ذمہ ہے نہ کہ اس کے شوہر کے ذمے اس لیے اس کو اپنے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے۔ دوسری بات اس سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج بالکل مفلوک الحال نہیں تھیں جیسا کہ عام طور سے خیال کیا جاتا ہے بلکہ زکوٰۃ دے سکتی تھیں جب ہی تو انہیں زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کی ازواج کا مہر چار سو اسی درہم ہوا کرتا تھا جب کہ دو سو درہم پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔ کلام کا سیاق و سباق (Context) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں ” اہل بیت” سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج ہیں مگر مسلمانوں کا ایک فرقہ جس نے۔۔۔۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو لیتے ہیں۔ جہاں تک ” اہل بیت ” کے لغوی معنیٰ کا تعلق ہے اس میں بیویاں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں ان کے علاوہ اولاد بھی۔ اس لیے اہل بیت نبوی کا اطلاق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے علاوہ آپ کی اولاد پر بھی ہوتا ہے لیکن اس آیت میں آپ کی ازواج کو اہل البیت کہہ کر خطاب کیا گیا ہے اور ہدایات بھی براہ راست ان ہی کو دی گئی ہیں اس لیے اس موقع پر آپ کی صرف ازواج ہی مراد ہو سکتی ہیں لیکن قرآن کے واضح معنیٰ سے انحراف کرنے والوں نے ” اہل بیت” سے آپ کی ازواج کو تو خارج کر دیا اور حضرت علی، حضرت فاطمہ حضرت حسن، حضرت حسین پر اس کو چسپاں کر دیا اور ان کی تطہیر سے ان کے معصوم ہونے اور پھر اماموں کے معصوم ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے۔ یہ لوگ اس آیت کی جو تاویل کرتے ہیں اس کی غلطی واضح کرنے کے لیے ہم یہاں مختصراً چند باتیں عرض کریں گے۔
۱)۔ قرآن میں اہل بیت کے الفاظ دو اور جگہ استعمال ہوئے ہیں ایک اس موقع پر جب کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو اسحاق کے پیدائش کی خوش خبری دی تھی اور جب انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو فرشتوں نے ان سے کہا :
اَتَعْجبِیْنَ مَنْ اَمْرِ اللہ رَحْمَۃُ اللہِ وَ برکاتُہٗ عَلیکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ (ہود : ۷۳ )۔ ” تم اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے اہل بیت ”
اس آیت میں اہل البیت کا خطاب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سے ہے۔ دوسرے حضرت موسیٰ کی رضاعت کے سلسلہ میں جب کہ ان کی بہن نے فرعون والوں سے کہا :
ھَلْ اَدُّ لکُمْ عَلیٰ اَھْلِ بَیْتٍ یَکْفُلُو فَہ لَکُمْ (قصص : ۱۲ ) ” کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لیے اس کی پرورش کریں گے۔ ”
اس آیت میں بھی اہل بیت سے مراد موسیٰ کی والدہ ہیں۔ واضح ہوا کہ اہل بیت میں ازواج بدرجہ اولیٰ داخل ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت زینب کے ولیمہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ کے حجرہ میں تشریف لے گئے تو فرمایا ” السلام علیکم اھل البیت و رحمۃ اللہ” سلام اور اللہ کی رحمت ہو تم پر اہل بیت "(بخاری کتاب التفسیر) یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اہل بیت کہہ کر اپنی ازواج کو مخاطب کیا ہے اس کے بعد آپ کی ازواج کے اہل بیت میں سے ہونے کے لیے کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
۲)۔ یہ بات کہ آیت میں اہل البیت کے تعلق سے ضمیریں مذکر استعمال ہوئی ہیں لہٰذا ازواج مراد نہیں ہو سکتیں صحیح نہیں کیونکہ عربی میں لفظ اہل کی رعایت سے ضمیر مذکر استعمال کی جاتی ہے چنانچہ اوپر جن دو آیتوں کا حلہ دیا گیا ان میں بھی ضمیر اور فعل کا صیغہ مذکر ہی استعمال ہوا ہے جب کہ پہلی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سے خطاب ہے اور دوسری آیت میں اہل بیت سے مراد حضرت موسیٰ کی والدہ ہیں۔
۳)۔ تاویل کرنے والے ان روایتوں کا سہارا لیتے ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فاطمہ ، حسن ، حسین اور علی کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانک لیا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے گندگی کو دور فرما اور انہیں خوب پاک صاف کر دے۔ یہ حدیث ترمذی نے بیان کی ہے اور اس مفہوم کی متعدد روایتیں طبری نے اپنی تفسیر میں بھی بیان کی ہیں مگر یہ روایتیں ضعیف ہیں چنانچہ ترمذی نے اس کے غیرب (ضعیف) ہونے کی صراحت کی ہے اور طبری کی روایتوں میں متعدد راوی شیعہ ہیں مثال کے طور پر ایک راوی عبداللہ بن عبد القدوس ہیں جو شیعہ ہیں۔ ابن معین نے انہیں رافضی کہا ہے اور ابو داؤد نسائی اور دار قطنی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (ان روایات کی تحقیق کے لیے دیکھیے الدکتور علی احمد السالوسی کی کتاب ” اٰیۃ التطھیر بین امھات المؤمنین و اھل الکساء” شائع کردہ مکتبہ ابن تیمیہ پوسٹ بکس ۱۴۰۶۴ کویت)۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دو اور صاحبزادیاں حضرت ام کلثوم اور حضرت زینب زندہ تھیں ، پھر ان کو چھوڑ کر صرف حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور حضرت زینب ابو العاص کے نکاح میں۔ لیکن چونکہ شیعہ حضرت علی کی امامت کے دعویدار ہیں اس لیے وہ اہل بیت میں حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین کو تو شامل کرتے ہیں لیکن ام کلثوم اور زینب کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس لیے عجب نہیں کہ مذکورہ روایت شیعوں ہی کی گھڑی ہوئی ہو۔
۴)۔ تاویل کرنے والے اس آیت سے حضرت علی اور اماموں کے معصوم ہونے پر استدلال کرتے ہیں لیکن آیت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے اول تو آیت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے بارے میں ہے مزید یہ کہ اس میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ اسے اہل بیت تم کو اللہ نے پاک صاف کر دیا ہے بلکہ فرمایا اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سورہ مائدہ میں اہل ایمان کو وضو کا حکم دینے کے بعد فرمایا ولٰکِنْ یُرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ۔ ” بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک صاف کرے "(مائدہ : ۶) ظاہر ہے یہاں اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام اہل ایمان جس کو وضو کا حکم دیا جا رہا ہے وہ پاک اور معصوم ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وضو کے حکم پر عمل کرنے سے ان کو پاکیزگی حاصل ہو گی۔ اس میں جس طرح اہل ایمان کے معصوم ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے اسی طرح آیت تطہیر میں بھی اہل بیت کے معصوم ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
قدرے طوالت کے ساتھ یہ وضاحت اس لیے کی گئی تاکہ اندازہ ہو جائے کہ جو لوگ اپنے مخصوص عقائد کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ قرآن کے واضح مفہوم کو چھوڑ کر کس طرح غلط تاویل کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور کمزور روایتوں کا سہارا لے کر قرآن کو روایتوں کے مطابق بنانا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں کتنا ہی تکلف کیوں نہ کرنا پڑے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ شیعیت اختیار کرنے والوں نے اپنے عقائد و مسلک کی تائید میں اس کثرت سے روایتیں گھڑی ہیں کہ سنی بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔ اللہ کی آیات سے مراد قرآن کی آیتیں ہیں اور حکمت سے مراد بی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اور آپ کے ارشادات ہیں۔ ان کو ید رکھنے کا حکم خصوصیت کے ساتھ ازواج مطہرات کو دیا گیا تاکہ سب سے پہلے وہ اس روشنی سے اپنی زندگیاں منور کریں اور ساتھ ہی اس فیض کو عام کرنے میں لگ جائیں۔
اس حکم کی تعمیل میں ازواج مطہرات نے حدیث کی جو خدمت انجام دی اس کے لیے پوری امت ان کی مرہون منت ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
۶۹۔۔۔۔۔۔ اللہ لطیف یعنی باریک بین ہے اس لیے اس سے کوئی بات بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔
۷۰۔۔۔۔۔۔ اوپر ازواج مطہرات کے لیے عنایت خاص تھی اب یہ مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے عنایت عام ہے۔ یہاں وہ اوصاف بیان ہوئے ہیں جو معیار مطلوب کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر مسلمان کو خواہ وہ کرد ہو یا عورت اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنا چاہیے اور ان اوصاف ہی کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم کا مستحق ہو گا۔
مسلم مؤمن یا اسلام اور ایمان دونوں الفاظ جب ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو اسلام سے مراد ہوتا ہے عقیدہ توحید کو قبول کر کے اسلام کو دین کی حیثیت سے اختیار کرنا اور ایمان سے مراد ہوتا ہے دل کا اقرار یعنی کسی شخص کا محض اپنے کو مسلمان کہلانا اور اسلامی عقائد کو ماننے کا اعلان کرنا اس کے مؤمن مخلص ہونے کے لیے کافی نہیں بلکہ مومن مخلص ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دل سے ان عقائد کو مانتا ہو اور اسے اسلام کے دین حق ہونے کا یقین ہو یعنی کسی شخص کا السلام اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی صورت میں معتبر ہو گا جب کہ اس کا باطن اس سے ہم آہنگ ہو ورنہ نام نہاد مسلمان کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔ قانتین (فرمانبردار) ہونے کا وصف عملی وفاداری کو ظاہر کرتا ہے یعنی اسلام اور ایمان کے بعد عملاً انہوں نے اللہ کی وفاداری کا رویہ اختیار کیا۔
۷۲۔۔۔۔۔۔ سچ بولنا اور راست باز بننا بہت بڑی خوبی ہے مگر یہ خوبی وہی لوگ پیدا کرتے ہیں جو بلندی کی طرف چڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ سہولت پسند انسان کو جھوٹ بولنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا اور موجودہ زمانہ میں جب کہ دنیا کا کاروبار جھوٹ ہی پر چل رہا ہے سچائی کو اختیار کیے رہنا نہایت مشکل کام ہے مگر صداقت شعاری انسان کا جوہر ہے اور اللہ کی نظر میں بہت عزیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔
عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَاِ نَّ الصِّدقَ یَھْدِیْ اِلیٰ الَی الْجَنَّۃ، وَمَا یَزَالُ الرُجْلُ یَصْدُقُ وَ یَتَحَرَّی الصُدْقَ حَتَّ یَکْتَبَ عِنْدَاللہِ صِدِّ یقاً۔ (مسلم کتاب البر)۔
"سچائی اختیار کرو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی ہی کو اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق(بڑا سچا) لکھ لیا جاتا ہے "۔
۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبر کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ رعد نوٹ ۵۱۔
۷۴۔۔۔۔۔۔ خشوع (عاجزی( کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ مؤمنون نوٹ ۲ یہاں خشوع کا اشارہ نماز کی طرف ہے۔
۷۵۔۔۔۔۔۔ صدقہ میں زکوٰۃ بھی شامل ہے اور اللہ کی راہ میں ہر قسم کا انفاق بھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ توبہ نوٹ ۱۸۹۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ شرمگاہوں کی حفاظت میں اپنی عفت و عصمت کی حفاظت بھی شامل ہے اور ستر پوشی (جسم کے قابل ستر اعضاء کو ڈھانکنا) بھی ملاحظہ ہو سورہ مؤمنون نوٹ ۵۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذکر الہٰی کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۳۱۰، سورہ طٰہٰ نوٹ ۱۶ اور ۱۶۱ نیز سورہ عنکبوت نوٹ ۵۸۔
۷۸۔۔۔۔۔۔ مغفرت گویا جنت کا پروانہ ہے اور اجر عظیم ہمیشگی کی وہ نعمتیں ہیں جو نیک عمل کی جزا کے طور پر ملیں گی۔
یہاں آخرت کی کامیابی کی ضمانت ان ہی لوگوں کو دی گئی ہے جو اپنے اندر مذکورہ اوصاف پیدا کریں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں۔ رہے نام کے مسلمان جن کی زندگیاں ان اوصاف سے خالی ہوں تو ان کے لیے یہ ضمانت نہیں ہے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں نہایت اہم اصولی بات بیان ہوئی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کا انسانی زندگی کے معاملہ و مسائل سے متعلق کوئی فیصلہ ایسا نہیں جس کے بعد کسی مسلمان کو چون و چرا کرنے یا اپنے اختیار کو استعمال کرنے کا حق باقی رہتا ہو فیصلہ کا تعلق اختلافی مسائل سے ہو یا نزاعی معاملات سے یا اس کی نوعیت رسول کے عدالتی فیصلہ کی ہو ایک مسلمان کو اسے بسر و چشم تسلیم کرنا چاہیے اور لازماً اس کی تعمیل کرنا چاہیے۔ زندگی کو مذہبی اور غیر مذہبی دو خانوں میں تقسیم کر کے اللہ اور اس کے رسول کے کتنے ہی فیصلوں کو جو عائلی ، معاشی اور سیاسی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں رد کر دینا اور سیکولر طرز زندگی کو اختیار کرنا اسلام سے صریح انحراف ہے۔
جہاں تک اللہ کے فیصلوں کا تعلق ہے وہ قرآن میں موجود ہیں اور قطعی حجت ہیں۔ رہے رسول کے فیصلے تو جو تواتر سے ثابت ہیں ان کے حجت ہونے میں کلام نہیں اور جو ثقہ(معتبر) راویوں سے منقول ہیں وہ بھی یقیناً حجت ہیں الّا یہ کہ کسی روایت کا متن (مضمون) قرآن کی کسی بات کے خلاف پڑتا ہو یا دوسرے ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہو یا اس روایت میں کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہو جو عقل سلیم اور بصیرت کے خلاف ہو یا اس روایت میں کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہو جو عقل سلیم اور بصیرت کے خلاف ہو یا جو مضطرب (الجھی ہوئی) ہو یا جس کی سند متصل نہ ہو۔ ایسی روایتوں کے بارے میں جب وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات ہیں تو وہ حجت نہیں ہو سکتیں چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس کی اس حدیث کو جس میں بیان ہوا ہے کہ طلاق بائن دی ہوئی عورت کے لیے اس کے سابق شوہر کے ذمہ نفقہ نہیں ہے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ :
لَا نَترُکُ کِتَابَ اللہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیّنَا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ و سلم لِقَولِ امْرَ أۃٍ لا نَدْرِیٰ لَعَلَّھَا حَفِظَتْ اَوْ فَسِیَتْ۔ (مسلم کتاب الطلاق)۔ ” ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو محض ایک عورت کے کہنے پر ترک نہیں کریں گے ہمیں نہیں معلوم اس جے (ارشاد کو) محفوظ رکھا یا بھول گئی”۔
۸۰۔۔۔۔۔۔ مراد زید بن حارثہ ہیں جو غلام تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے قبل ان کو آزاد کر کے اپنے بیٹے کی طرح ان کی پرورش کی تھی اس لیے وہ آپ کے متبنٰی لے پالک (Adopted son) کہلاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زید پر یہ احسان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہنے کی بنا پر انہیں ایمان کی توفیق بخشی چنانچہ مکہ میں سب سے پہلے ایمان کی توفیق بخشی چنانچہ مکہ میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت زید شامل ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر یہ احسان کیا تھا کہ ان کو غلامی سے آزاد کر کے ان کی پرورش اور تربیت کی تھی۔ اللہ کے اس فضل اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس احسان کے نتیجہ میں حضرت زید ایک اہم شخصیت بن کر ابھرے اور نہایت اہم کارنامے انجام دیئے۔ یہ نمایاں مثال ہے اس بات کی کہ اسلام نے ایک غلام کو کتنے اونچے مقام پر پہنچایا ۔
۸۱۔۔۔۔۔۔ حضرت زید نے حضرت زینب بنت حجش سے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں نکاح کر لیا تھا۔ ایک آزاد کردہ غلام کا نکاح ایک قریش خاتون کے ساتھ ہونا معاشرتی مساوات (سماجی برابری) کو قائم کرنے کی اعلیٰ مثال ہے لیکن چونکہ مزاج میل نہیں کھاتے تھے اس لیے ایک ڈیڑھ سال کے اندر ہی نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے زید کو طلاق سے روکنا چاہا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اس معاملہ میں اللہ سے ڈریں۔ مگر جب زید نے دیکھا کہ نباہ مشکل ہے تو انہوں نے اپنی بیوی کو قید نکاح سے آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس سے ایک اصولی بات تو یہ واضح ہوئی کہ اسلام نے اگرچہ مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے لیکن اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اس اللہ سے ڈرنا چاہیے یعنی اس اختیار کے بیجا استعمال سے عورت کو سخت تکلیف پہنچ سکتی ہے اور یہ اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ بات ہو گی اور اس پر گرفت ہو سکتی ہے۔
دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں چاہتے تھے کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دے دیں لہٰذا جن روایتوں میں اس واقعہ کو افسانے کا رنگ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم زید کی منکوحہ کو اپنے نکاح میں لانے کے خواہش مند تھے وہ قرآن کے بیان کے خلاف ہے اور ایک ایسی بات ہے جو آپ کی پاکیزہ سیرت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے اس بنا پر یہ روایتوں قابل رد ہیں۔
اسی طرح یہ روایت بھی محل نظر ہے کہ حضرت زینب حضرت زید سے نکاح کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اصرار پر انہوں نے نکاح کر لیا تھا جو بالآخر طلاق پر منتج(ختم)ہوا۔ اول تو یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کسی بات کو منسوب کرنے کے لیے حدیث کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ محض سیرت نگاروں کا لکھ دنیا یا ابن ابی حاتم جیسی حدیث کی تیسرے درجہ کی کتاب میں کسی روایت کا بیان ہونا حدیث رسول ہونے کا کافی ثبوت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ آپ نے کسی خاتون کو اس کی پسند کے خلاف کسی شخص سے نکاح کرنے پر مجبور کیا ہو۔ یہاں تک کہ بریرہ کو اس کا سابق شوہر دوبارہ اپنے نکاح میں لینے کے لیے سخت پریشان اور بے چین رہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے یہ چاہتے تھے کہ بریرہ اپنے سابق شوہر کی طرف لوٹ جائیں لیکن آپ نے اس کو مجبور نہیں کیا اور نہ وہ اپنے سابق شوہر کے پاس لوٹیں۔ پھر آپ اپنی پھوپھی زاد بہن کو ایک ایسے شخص سے نکاح کے لیے کیوں مجبور کرتے جو پہلے غلام رہ چکا تھا۔
۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ : وَکانَ امراللہ مفعولاً (اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہیے تھا ) سے ظاہر ہے یہ حکم دیا گیا تھا کہ زید کے طلاق دینے کی صورت میں آپ کو ان کی مطلقہ سے نکاح کرنا ہو گا تاکہ جاہلیت کی یہ رسم کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح نہیں کیا جا سکتا ختم ہو جائے لیکن آپ یہ اندیشہ محسوس فرما رہے تھے کہ اس صورت میں منافقین اور کفار کو آپ کے خلاف ایک فتنہ کھڑا کرنے کا موقع ملے گا۔ اس لیے آپ چاہتے تھے کہنہ زید طلاق دیں اور نہ آپ کو ان کی مطلقہ سے نکاح کرنے کی نوبت آئے مگر اللہ آپ کے اس اندیشہ کو جو آپ دل ہی دل میں محسوس فرما رہے تھے ظاہر کرنے والا تھا چنانچہ اس نے اس آیت کے ذریعہ نہ صرف اس کو ظاہر کر دیا بلکہ اس پر متُنبّہ بھی فرمایا کہ اللہ کے حکم کے معاملہ میں کسی اندیشہ کو خاطر میں لانا صحیح نہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں پو و پیش کیا تھا کیونکہ ابھی اس حکم کی تعمیل کی نوبت ہی نہیں آئی تھی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گو اس کے حکم کی تعمیل کو نوبت ابھی نہیں آئی تھی لیکن جب ایک اشارہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل گیا تو پھر لوگوں کی طرف سے وارد ہونے والے اعتراضات کو خاطر میں لانا ایک نبی کا شایان شان نہیں ہے۔
آیت کے سیاق و سباق سے یہی مطلب واضح ہوتا ہے لیکن بعض روایتوں میں اس کا بالکل الٹا مطلب بیان ہوا ہے اور یہ رویتوں بعض تفسیروں میں بھی آ گئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم باہر زید کو طلاق دینے سے منع فرما رہے تھے لیکن چاہتے تھے کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دیں تاکہ پھر آپ اس سے نکاح کریں یہی بات تھی جس کو آپ اس سے نکاح کریں یہی بات تھی جس کو آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے۔ مگر ان روایتوں کی تردید کے لیے آیت کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں کہ مَا اللہُ مُبْدِیْہِ (جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ) اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے سلسلہ میں کیا بات ظاہر فرمائی؟ آیا یہ کہ آپ چاہتے تھے کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دیں تاکہ آپ اس سے نکاح کر سکیں یا یہ کہ آپ زید کو طلاق دینے سے منع کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیوی سے نکاح کی نوبت آئے پہلی بات تو اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں ظاہر فرمائی پھر راویوں کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دل میں حضرت زینب سے نکاح کرنے کا خیال چھپائے ہوئے تھے ؟ البتہ دوسری بات کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ زید انہیں طلاق دیں اور پھر ان سے نکاح کرنے کی نوبت آئے اور لوگوں کو اعتراضات کا موقع ملے آیت کے مضمون سے بالکل واضح ہے۔
۸۳۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تنبہ ہے کہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں لوگوں کے تعلق سے کسی اندیشہ کو خاطر میں لانا صحیح نہیں۔ قرآن کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ گرفت قرآن کے کلام الہٰی ہونے کی واضح دلیل اور آپ کی صداقت کا روشن ثبوت ہے۔ اگر قرآن آپ کی تصنیف کروہ کتا ب ہوتی تو اس میں ایسی آیتیں نہ ہوتیں جن میں آپ کی ادنیٰ کو تا ہی پر سخت گرفت کی گئی ہے۔
۸۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جب زید نے اپنی بیوی زینب بنت جحش کو طلاق دے دی اور اس کی عدت پوری ہو گئی تو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ آپ اس سے نکاح کریں چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعمیل کی اور حضرت زینب آپ کی زوجیت میں آ گئیں ابن ہشام کا بیان ہے کہ :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زینب بنت جحش بن رسایب الاسدیہ سے نکاح کر لیا ان کے بھائی ابو احمد بن جحش نے آپ سے ان کا نکاح کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مہر چار سو درہم دیا اس سے پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے (آزاد کردہ) غلام زید بن حارثہ کے نکاح میں تھیں ان ہی کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْھَا وَطَراً زَوَّ جْنَا کَھا۔ "جب زید نے اپنی غرض پوری کر لی تو ہم نے اس کا نکاح تم سے کر دیا "۔ (سیرت ابن ہشام ، ج۴ ص ۳۲۲ )۔
یہ روایت اگر صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ نکاح شرعی قاعدے کے مطابق ہی انجام پایا تھا البتہ چونکہ یہ اللہ کے حکم سے ہوا تھا اس لیے اسے یک گو نہ امتیاز حاصل تھا۔ اسی بنا پر حضرت زینب اپنے نکاح کو باعث فخر خیال کرتی تھیں بخاری میں ہے :
"زینب بن جحش رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج سے فخریہ کہتیں آپ لوگوں کا نکاح آپ کے گھر والوں نے کر دیا لیکن میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر سے کر دیا "۔
(تفسیر ابن کثیر ، ج ۳ ص ۴۹۱)۔
بہر کیف یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح اللہ کے حکم سے ہوا تھا اس لیے اس نکاح کے تعلق سے جن روایتوں میں لغو قصّے ے بیان ہوئے ہیں ان کی آپ سے آپ تردید ہو جاتی ہے۔ ابن جریر طبری کو اللہ معاف کرے انہوں نے احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا اور ایک ایسی روایت نقل کی جس میں اس نکاح کے تعلق نہایت بے ہودہ قصہ بیان ہوا ہے اور جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں توہین کا باعث ہے۔ ایسی روایتوں سے دشمنان اسلام کو دشمنان اسلام کو شخصیت رسول پر طنز و تشنیع کا موقع ملتا ہے ہم اس بے ہودہ روایت کو یہاں نقل کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے اور علامہ ابن کثیر کی اس صراحت کو کوئی خیال کرتے ہیں :
” اس موقع پر ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بعض سلف رضی اللہ عنہم سے کچھ اقوال نقل کیے ہیں لیکن ان کی عدم صحت کی بنا پر ہم نے ان کو نظر انداز کرنا مناسب سمجھا لہٰذا ہم ان کو بیان نہیں کریں گے ”
(تفسیر ابن کثیر ، ج ۳ ص ۴۹۱ )
۸۵۔۔۔۔۔۔ یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو زید کی مطلقہ سے نکاح کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا تھا۔ اس نکاح نے وہ رکاوٹ دور کر دی جو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بیاہ کرنے کے سلسلے میں زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی تھی اور اسلام کے عائلی قانون کی ایک اہم دفعہ روشن ہو کر سامنے آ گئی۔
حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح اس وقت ہوا جب کہ آپ کی چار بیویاں موجود تھیں۔ چار سے زائد عورتوں سے نکاح کی جو اجازت آپ کو خاص طور سے دی گئی تھی وہ متعدد دینی مصالح ہی پر مبنی تھی مگر معترضین اس سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور شان نبوت میں طعن کر کے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سامان کرتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں تو معترضین نے اس کو خاص موضوع بنا لیا ہے۔ شاید انہیں یہ نہیں معلوم کہ چاند پر تھوکنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
۸۶۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ نے اپنے نبی کو اس نکاح کا حکم دیا تھا تو وہ لازماً عمل میں آنا چاہیے تھا۔
۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ جو کام بھی اللہ نے اس کے لیے تجویز کیا خواہ وہ نکاح ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو اس کے کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے نہ اس کو اعتراضات کی پروا کرنا چاہیے اور نہ اس خیال سے پریشان ہو جانا چاہے کہ اس کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جائے گا کیونکہ اللہ اپنے دین کی مصلحتوں کو بہتر جانتا ہے۔
۸۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سے پہلے بھی انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ ایسے احکام دیتا رہا ہے جو ان کے لیے اس پہلو سے وجہ آزمائش رہے ہیں کہ ان کے مخالفین ان کو ان کی کردار کسی کا ذریعہ بنا لیں گے لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ کے احکام کی تعمیل کی اور یہی سنت انبیاء ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حضرت زینب سے نکاح کر کے اللہ کے ارشاد کی تعمیل کی اور وہی طریقہ اختیار کیا جو انبیاء علیہم السلام کا رہا ہے اس بات کے علی الرغم کے مخالفین کیا کہتے ہیں۔ آغاز میں جب کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف اشارہ ملا تھا یہ خیال ضرور پریشان کرتا رہا کہ مخالفین اس کے ذریعہ آپ کی سیرت کو داغ دار بنانے کی کوشش کریں گے لیکن جب اللہ کا واضح حکم آ گیا تو آپ نے بلا تامل ارشاد کی تعمیل کی۔
موجودہ زمانہ میں مغربی تہذیبی کے پرستار جب آپ کی حیات طیبہ میں کسی نقص کی نشاندہی کرنے سے اپنے کو قاصر پاتے ہیں تو آپ کی ازواج کی تعداد کو موضوع بحث بنا کر آپ کی شان میں طعن و تشنیع کرنے لگتے ہیں جب کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ نے یہ نکاح شوقیہ نہیں کیے تھے بلکہ دین کی عظیم مصلحت کے پیش نظر کیے تھے اور حضرت زینب سے نکاح تو آپ نے اللہ کے براہ راست حکم سے کیا تھا ورنہ آپ اس کے خواہش مند نہ تھے۔ اور جب حقیقت یہ ہے تو اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کے لیے معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ جب اپنے نبی کو کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی حیثیت ایک طے شدہ فیصلہ کی ہوتی ہے جو لازماً وقوع میں آ جانا چاہیے۔ اس کو کسی طرح ٹالا نہیں جا سکتا۔
۹۰۔۔۔۔۔۔ یعنی انبیاء کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کے پیغامات کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرتے رہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے کسی کے اعتراض یا ملامت کی پرواہ نہیں کی اور صرف اللہ ہی سے ڈرتے رہے۔ ان ہی کے نقش قدم کی (اے نبی ! ) آپ کو بھی پیروی کرنا ہے۔
۹۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جب حساب اللہ کو دنیا ہے تو اس کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔
۹۲۔۔۔۔۔۔ یعنی محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) جب تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں تو نہ زید آپ کے بیٹے ہوئے اور نہ زینب آپ کی بہو ہوئیں پھر زینب کے مطلقہ ہونے پر ان سے آپ کے نکاح کرنے میں کیا حرج ہے ؟
واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اولاد ذکور ضرور ہوئی لیکن ان کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ اور اس آیت کے نزول کے وقت کوئی بیٹا بھی زندہ نہیں تھا۔ بعد میں ماریہ قبطیہ سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے ابراہیم رکھا تھا مگر اس نے بھی بچپن ہی میں وفات پائی۔
۹۳۔۔۔۔۔۔ خاتَم ( ت کے زبر کے ساتھ ) کے معنی آخر کے ہیں عربی کی مشہور اور مستند لغت لسان العرب میں ہے :
خاتَمُھم : آخِرُ ھم ” قوم کا خاتم یعنی ان کا آخری شخص”۔ (لسان العرب ، ج ۱۲ ص ۱۶۴ )
اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے ہیں۔ اس موقع پر نبی اور رسول کے اس فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ نبی کی بہ نسبت رسول کا منصب خاص ہے یعنی ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی منصب کے لحاظ سے رسول نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب آیت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری نبی ہونے کی صراحت کر دی گئی تو آپ کا آخری رسول ہونا خود بخود واضح ہو گیا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے بعد کوئی رسول یا نبی آنے والا نہیں ہے اس لیے دین کی تکمیل آپ ہی کے ہاتھوں انجام پانا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کی ممانعت کی جو رسم زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی ہے اس کا آپ کے ہاتھوں خاتمہ ہو اور لوگوں پر یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی شریعت میں یہ نکاح بالکل جائز ہے۔ اگر آپ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کی اصلاح نہیں ہوئی تو پھر آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اس کسر کو پورا کر دے۔
آیت میں ختم نبوت کی جو بات بیان ہوئی ہے وہ اسلامی عقیدہ کا ایک ہم جز ء ہے۔ قرآن نہ صرف یہ کہ آنے والے کسی نبی کی پیشین گوئی نہیں کرتا جب کہ سابقہ آسمانی کتب میں آنے والے نبی کے بارے میں پیشین گوئیاں موجود رہی ہیں بلکہ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو آخرت نبی قرار دیتے ہوئے دین کی تکمیل کا اعلان کرتا ہے۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (سورہ مائدہ : ۳) یعنی جب السلام برد کامل بن کر آسمان پر جلوہ گر ہو گیا ہے تو اب مزید کسی روشنی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پھر یہ ضمانت بھی دی گئی کہ جو ہدایت اس نبی پر نازل کی گئی ہے وہ محفوظ رہنے والی ہے اس لیے کہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھی ہے۔ (اِنَّا نَحْنُ نَزَّ لْنَا الذِّ کْرَوَاِ نَّا لَہٗ لِحَا فِظُنَ سورہ حجر: ۹) اس لیے اس میں کسی تحریف کا بھی امکان نہیں ہے کہ کسی دوسرے نبی کو اس کی اصلاح کے لیے بھیج دیا جائے۔
ختم نبوت کے ثبوت میں قرآن کے علاوہ بہ کثرت حدیثوں کو پیش کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر یہاں چند صحیح حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :
مَثَلِیْ وَ مَثَلُ النبیَاء مِن قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنی بَیْتاً فَاَ حسَنَہُ وَاجْمَلَہُ اِلَّا مَوْ ضِعَ لَبِنَۃٍ مَنْ زاوِ یَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْ فُوْ نَ بِہِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ وَیَقُوْ لُونَ ھَلًّا وُضِعَتْ ھَذِہ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَاْ نَاللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیّیْنَ۔(بخاری کتاب الاحادیث الانبیاء) "حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : میری اور گزشتہ انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور شاندار مکان بنایا لیکن اس کے ایک گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومتے اور اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے البتہ (خالی جگہ کو دیکھ کر) کہتے کیا بات ہے یہاں اینٹ نہیں رکھی گئی ! آپؐ نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں "۔
کانَتْ بَنُو اسرائیل قسُو سُگُمْ الانبیاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ نَبِیٌّ وَاَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی وَسَیَکُو نُ خَلَفَاءُ۔ (بخاری کتاب المناقب) ” بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا لیکن میرے بعد کوئی بنی نہیں بلکہ خلفاء ہوں گے۔”
وَقُرْسِلْتُاِلَی الْخَلْقِ کافَّۃً وَ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْ نَ (مُسْلِمْ کتاب المساجد ) "مجھے ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بیج دیا گیا ہے اور انبیاء کا سلسلہ مجھ پر ختم کر دیا گیا ہے۔
وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِی ّینْلا نَبِیَّ بَعْدِی (تر مذی ابواب الفتن) ” میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”
آپ کے آخری نبی ہونے پر صحابہ کا اجماع ہے اور پوری امت اس پر متفق ہے۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں :
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتم النبیین ہونے پر اللہ کی کتاب ناطق ہے سنت نے بھی اس کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے لہٰذا جو شخص اس کے خلاف کوئی دعویٰ کرے اسے کافر قرار دیا جائے گا اور اگر اس نے اس پر اسرار کیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا”۔ (روح معانی ،ج ۲۲ ص ۲۱)
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔
” اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنت میں جو تواتر سے ثابت ہے خبر دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آپ کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا مدعی ہو گا وہ جھوٹا ، افترا پرداز اور دجال(فریب کار) ہے ، خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کی بھی گمراہ کرنے والا ہے "۔ (تفسیر ابن کثیر ، ج ۳ ص ۴۹۴)۔
خیم نبوت کے اس واضح عقیدے کے باوجود جس پر قرآن و سنت ناطق ہیں اور جس پر امت کا اتفاق ہے موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے اس کی غلط اور گمراہ کن تاویل کر کے ایک نئی نبوت کا فتنہ کھڑا کر دیا ہے۔ قادیانی مذہب کی اساس اسی باطل عقیدے پر ہے اور بہائی مذہب بھی نئی نبوت ہی کا مدعی ہے حالانکہ نبوت کا چھوٹا دعویٰ پر لے درجہ کی گمراہی اور ایک سنگین جرم ہے۔ قرآن کہتا ہے :
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّن افْتَرَیٰ عَلَی اللہِ کَذِ باً اَوْ قَالَ قَوححیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْ حَ اِلَیْہِشَیْئٌ (الانعام۔ ۹۳) ” اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے یا دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے درانحالیکہ اس پر کوئی وحی نہ کی گئی ہو۔
اور جو لوگ نبوت کے جھوٹے مدعیوں پر ایمان لاتے ہیں وہ در حقیقت طاغوت پر ایمان لاتے ہیں جب کہ اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
۹۴۔۔۔۔۔۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ نے ختم نبوت کا فیصلہ اپنے علم کی بنا پرکیا ہے۔ اس کو آئندہ حالات کا بھی علم ہے اس لیے اس کے فیصلہ میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہے۔ اب یہ آفتاب قیامت تک روشنی دیتا رہے گا۔
۹۵۔۔۔۔۔۔ ذکر الٰہی ایک ایسی عبادت ہے جس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ یہ جس کثرت سے ہو سکے مطلوب ہے اور ذکر کا مطلب جیسا کہ ہم واضح کرتے آئے ہیں حضور قلب کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا زبان پر اس کا نام جاری رکھنا اور شعوری طور پر اس کی حمد و ثنا کے کلمات ادا کرتے رہنا ہے۔ اللہ کو اس طرح یاد کرنے ہی کا ثمرہ وہ ہے جو آگے آیت ۴۳ میں بیان ہوا ہے۔ اور حدیث میں ایسے ہی ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے :
مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لا یَذْکُرُ ہٗ مَثَلُ الْحیِّ والْمَیِّتِ (بخاری کتاب الدعوات) ” اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی جو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی سی ہے "۔
یعنی اللہ کو یاد کرنے سے شعور بیدار ہوا ہے اور باطن میں ترو تازگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن جو شخص اللہ کو یاد نہیں کرتا وہ غفلت میں پڑا رہتا ہے اور اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: یَقُولُ اللہُ تعالیٰ : اَنَا عَنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَاَنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَ جِی، فَاِنْ ذکَرَ نِی، فَاِنْ ذ کَرَنِی فی نَفْسِہٖ ذَکَرْ تُہُ فِیْ نَفْسِی وَاِنْ ذ کَرَنِی فِی مَلَاءٍ ذَکَرْ تُمُ فیْ مَلاءٍ خَیْرٍ مِنْھُمْ (بخاری کتاب التوحید)۔ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندہ کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں جو وہ مجھ سے رکھتا ہے۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ رہتا ہوں۔ اگر وہ مجھ دل میں یاد کرتا ہے تو میں اپنے دل میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا ذکر مجلس میں کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں "۔
قَال: لَا یزالُ لِسَنُکَ رَطْباً مِنْ ذِکْرِاللہِ ۔ (ترمذی ابوب الدعوات) "تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے "۔
عن عائشہ رضی للہ عنہا قالتْ : کانَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یَذْ کُرُ اللہَ عَلیٰ کُلِّ اَحْیَانِہِ۔ (ریاض الصالحین بروایت مسلم) ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تمام اوقات میں اللہ کو یاد کیا کرتے تھے "۔
قرآن و سنت کی ان تصریحات کے پیش نظر ذکر الہٰی کے کلمات کی زبان سے ادائگی کی اہمیت کو گھٹانا یا اس کو بے وقعت خیال کرنا بڑی غلط بات ہے اور دین میں بصیرت کی کمی کی علامت ہے۔
۹۶۔۔۔۔۔۔ تسبیح سے مراد تسبیح کے دانے گھمانا نہیں بلکہ اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے۔ اس تسبیح کے لیے صبح و شام کی اوقات بڑی اہمیت رکھتے ہیں اس لیے خاص طور سے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ثمرہ ہے اللہ کے ذکر اور اس کی تسبیح کا۔ جب یہ چیز ایک مؤمن کا وظیفہ حیات بن جاری ہے تو اللہ اس پر رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے اس کے حق میں رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اس کی برکتیں اس طرح ظاہر ہونے لگتی ہیں کہ جہالت کی تاریکیوں سے نکلنا اور علم و ہدایت کی روشنی میں آنا آسان ہو جتا ہے۔
۹۸۔۔۔۔۔۔ یہ اعزاز ہے جو للہ کو بہ کثرت یاد کرنے والے مؤمنوں کو قیامت کے دن بخشا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا خیر مقدم سلام کے معزز اور امن بخشنے والے کلمے کے ساتھ ہو گا۔
۹۹۔۔۔۔۔۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چند اہم خصوصیات بیان ہوئی ہیں جو منصب رسالت سے تعلق رکھتی ہیں۔
پہلی خصوصیت یہ کہ آپ شاہد ہیں۔ شاہد کے معنی ہیں :
الشاھد العالم الذی یَبَیِّنُ مَا عَلِمَہُ (لسان العرب ، ج ۳ ص ۲۳۹ ) ” شاہد یعنی جاننے والا جو بیان کرے اس بات کو جسے وہ جانتا ہے ”
اور شہادت کے معنی قطعی خبر کے ہیں : والشھادۃُ کبرٌ قاطع (ایضاً ) "شہادت یعنی قطعی خبر "۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے شاہد ہونے کا مطلب یہ ہ کہ آپ علم وحی کی بنا پر اللہ کی ذات و صفات، اس کے احکام اور اس کی پسند و ناپسند کی قطعی خبر دینے والے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ اللہ کی طرف سے دین حق کی گواہی دینے والے ہیں۔ سورہ مزمل میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلیکُمْ رسولاً شَھِداً علَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِر عَونَ رَسُولاً۔ (المزمل:۱۵) ” ہم نے تمہاری طرف رسول تم پر شاہد بنا کر اسی طرح بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا "۔
بعض اردو مترجمین نے شاہد کا ترجمہ "حاضر و ناظر” کر دیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ان کے غلو آمیز اور بدعتی عقیدہ کی ترجمانی کرتا ہے لیکن محل کلام کے لحاظ سے یہ معنی بالکل غلط ہیں۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔ دوسری خصوصیت یہ کہ آپ مبشر ہیں یعنی ایمان لانے والوں کو اللہ کی رحمت اور ابدی کامیابی کی خوش خبری دینے والے ہیں۔ یہ خوش خبری قرآن میں بھی دی گئی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں بھی دی ہے۔ احادیث صحیحہ میں نیک اعمال کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں وہ در حقیقت اسی بشارت کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں۔ مگر یاد رہے کہ یہ دولت ان ہی لوگوں کا حصہ ہے جو اپنے ایمان میں مخلص اور اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسری خصوصیت یہ کہ آپ "نذیر” ہیں یعنی کفر اور سرکشی اختیار کرنے والوں کو اللہ کے عذاب اور آخرت کے برے انجام سے خبردار کرنے والے ہیں قرآن میں انذار (خبردار کرنے ) کا یہ پہلو اس قدر نمایا ہے کہ جو شخص بھی قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا کہ منکرین اور مجرمین کے لیے جہنم بالکل بے نقاب ہو کر سامنے آ گئی ہے۔اور احادیث رسول میں بھی اعمال بد کے برے انجام سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔ چوتھی خصوصیت یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس بات پر مامور کیا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں۔ چونکہ یہ دعوت آپ اللہ کے اذن سے دے رہے ہیں اس لیے آپ کی دعوت بالکل حق ہے اور کمال درجہ صحت پر مبنی ہے۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔ پانچویں خصوصیت یہ کہ آپ "سراج منیر” یعنی روشن چراغ ہیں۔ مراد چراغ ہدایت ہے جس کی روشنی میں آدمی منزل مقصود کو پہنچ سکتا ہے۔ قرآن و سنت میں یہ پہلو اس طرح اجاگر ہوئے ہیں کہ گویا آج بھی آپ ہمارے درمیان ان تمام خصوصیات کے ساتھ رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔ یہاں ے کلام کا رخ پھر معاشرتی احکام کی طرف مڑتا ہے۔ اس آیت میں طلاق سے متعلق مسئلہ کا جواب دیا گیا ہے اور بعد کی چند آیات میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تزویج کے تعلق سے مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔ یہاں نکاح کا لفظ عقد کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہی اس لفظ کے اصل معنی ہیں اور تَّمسُّو ھُنَّ (ان کو چھونے ) سے مراد زن و شوئی کا تعلق قائم کرنا ہے۔
اگر کسی نے نکاح کے بعد اپنی بیوی سے زن و شوئی کا تعلق قائم کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو اس صورت میں عورت کو عدت گزارنا نہیں ہو گی لیکن اس صورت میں شوہر کو چاہیے کہ وہ اسے متعۂ طلاق (کچھ مال نقد یا کپڑے زیورات وغیرہ کی شکل میں ) ضرور دے جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ۲۴۱ میں تمام مطلقہ عورتوں کے بارے میں تاکیدی حکم دیا گیا ہے (متاع طلاق کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۷۶) یہ متعہ مہر کے علاوہ ہے۔ اگر مہر مقرر ہوا تھا اور ان و شوئی کا تعلق پیدا کرنے سے پہلے طلاق دے دی تو جیسا سورہ بقرہ آیت ۲۳۷ میں گزر چکا نصف مہر دینا ہو گا اور مہر مقرر نہیں ہوا تھا تو متاع دیتے وقت اس کا لحاظ کرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ مہر کا تعلق نکاح سے ہے جب کہ متاع یا متعہ کا تعلق طلاق سے ہے اس لیے ہر مطلقہ کو رخصتی ہدیہ (متاع) دینا ضروری ہے جو معروف کے مطابق ہو یعنی جو نہ مرد کی حیثیت سے زیادہ ہو اور نہ اتنا کم کہ اس کئی وقعت نہ ہو۔ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
” تیسرا قول زیادہ صحیح ہے اور وہ ہے امام احمد سے منقول دوسرا قول کہ ہر مطلقہ کے لیے متعہ ہے جیسا کہ آیت وَ لِلْمُطِلَّقَاتِ مَتَا عٌ بِالمَعْروف کا ظاہر و عموم دلالت کرتا ہے اور اس لیے بھی کہ ارشاد خدا و ندی ہے اذا لَکَحْتُمُ الْمُؤْ مِنَات ………. سراحاً جَمِیْلًا۔
اس آیت میں ان عورتوں کو جن کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی گئی ہو متعہ دینے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم ان مطلقہ عورتوں کے لیے مخصوص نہیں ہے جن کا مہر مقرر نہیں کیا گیا تھا جب کہ اکثر عورتوں کو جو طلاق دی جاتی ہے تو مہر مقرر کرنے کے بعد ہی دی جاتی ہے ” (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ، ج ۳۲ ص ۲۷ )۔
طلاق کی صورت میں عورت کو خوبصورتی کے ساتھ رخصت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسلام کی یہ اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے کہ جب جدائی کی نوبت آ جائے تو بد اخلاقی کا مظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ شرافت اور بھلائی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ تلخیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تعداد ازواج کا مخصوص قاعدہ بیان ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر آپ کے لیے خاص ہوتا ہے کہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر آپ کے لیے خاص رعایت کر دی گئی تھی اور چونکہ یہ رعایت اللہ کی طرف سے تھی اس لیے کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو نکاح بھی کیے اس دائرہ میں رہ کر ہی کیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مقرر کیا تھا۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔ جن عورتوں کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مہر ادا کیے تھے وہ چھ تھیں۔ حضرت سودہ ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت ام سلمہ ،حضرت زینب بنت الحارث اور حضرت ام حبیبہ (حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا ) ازواج مطہرات کا مہر جیسا کہ حدیث میں آتا ہے پانچ سو درہم (۱۴۸۷ گرام چاندی ) ہو کرتا تھا (مسلم کتاب النکاح ) البتہ ام حبیبہ کا مہر چار سو دینار (۱۷۰۰ گرام سونا) تھا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے حبش کے حکمراں نجاشی نے ادا کر دیا تھا۔ (تفسیر ابن کثیر ، ج ۳ ص ۴۹۹)۔
یہ مثال ہے فراغ دلی کے ساتھ مہر ادا کرنے کی مگر مسلمانوں کے ایک طبقہ نے مہر کو محض رسمی بنا لیا ہے۔ یا تو وہ پچیس پچاس روپیئے مہر باندھتے ہیں جس میں پانچ گرام چاندی بھی نہیں آتی جب کہ وہ شادی پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں یا پھر دکھاوے کے لیے اتنا بڑا مہر باندھتے ہیں کہ اس کی ادائیگی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہ دونوں ہی باتیں اصلاح طلب ہیں۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔ مراد وہ عورتیں ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر بطور غنیمت آپ کے حصہ میں آئی ہوں۔ ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کی آپ کو اجازت تھی۔ اس اجازت کے تحت آپ نے حضرت جویریہ اور حضرت صفیہ سے نکاح کر لیا تھا۔ حضرت جویریہ غزوہ بنی لمصطلق (شعبان ۶ ھ ) میں گرفتار ہو کر آ گئی تھیں۔ وہ اس قبیلہ کے سردار کی بیٹی تھیں اور اسلام قبول کر لیا تھا اس لیے آپ نے ان کے مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے ان کو آزاد کر کے اپنے نکاح میں لے لیا تھا۔ اسی طرح حضرت صفیہ غزوہ خیبر(۷ ھ) میں گرفتار ہو کر آ گئی تھیں اور یہود کے مشہور سردار کی بیٹی تھیں جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو آپ نے ان کی آزادی کو مہر قرار دے کر ان سے نکاح کر لیا۔ اس طرح ان دونوں مملوک عورتوں کو ازواج مطہرات میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔” تمہارے ساتھ ہجرت کی ” کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام کی خاطر تم نے اپنے وطن اور گھر بار کو چھوڑا اسی طرح انہوں نے بھی یہ قربانی دی اور اس فریضہ کی ادائیگی میں تمہاری شریک رہیں ، ایسی چچا زاد پھوپھی زاد ، ماموں زاد، اور خالہ زاد بہنوں سے نکاح کرنے کی آپ کو اجازت دے دی گئی اس رخصت سے آپ نے اسی حد تک فائدہ اٹھایا جو حد تک دینی مصالح متقاضی ہوئے۔ حضرت زینب اور آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور حضرت ام حبیبہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں جو بنی امیہ سے تھے یعنی ابو سفیان پر دادا کے واسطے سے آپ کے چچا ہوتے تھے۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی مؤمن عورت نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) سے بلا مہر نکاح کی پیشکش کرے اور آپ اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اس سے نکاح کر لیں۔ حضرت میمونہ سے آپ کا نکاح جو ۷ ھ میں ہوا تھا اسی قاعدے کے تحت تھا۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بلا مہر نکاح کی پیشکش (ہبہ نفس) کو قبول کرنا نبی (صلی اللہ علیہ و سلم ) کے لیے خاص ہے۔ عام مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ سورہ نساء میں مسلمانوں کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور مملوک عورتوں کے سلسلہ میں بھی اس میں احکام بیان ہوئے ہیں۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔ یعنی آپ کے لیے نکاح کا دائرہ اس لیے وسیع کر دیا گیا تاکہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر اس دائرہ میں رہتے ہوئے نکاح کرنے میں آپ کوئی رکاوٹ محسوس نہ کریں اور مخالفین کے اعتراضات کی کوئی پر واہ نہ کریں۔
واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشتر نکاح بیواؤں اور بڑی عمر والی عورتوں سے کیے تھے جس سے ان عورتوں کی دل جوئی بھی مقصود تھی اور متعلقہ قبائل اور خاندانوں پر اسلام کے اثرات ڈالنا بھی نیز ان کی تربیت کر کے انہیں امت کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنانا بھی۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر ان عظیم عائلی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں نا دانستہ کوئی تقصیر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اس بات کا آپ کو اختیار ہے کہ ان میں سے جن کو چاہیں دور رکھیں اور جن کو چاہیں ساتھ رکھیں اور اس بات میں بھی آپ پر کوئی حرج نہیں کہ جن کو آپ نے الگ رکھا ہو ان میں کسی کو اپنے پاس بلا لیں۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کا حق ان کے حقوق پر مقدم ہے اور نبی نے متعدد نکاح محض دین کے مصالح کے پیش نظر کیے ہیں اس لیے آپ کی ازواج کو جس حد تک بھی نبی کی صحبت میں رہنے کا موقع ملے اپنے لیے باعث سعادت خیال کرتے ہوئے اس پر قناعت کرنا چاہیے۔ اس صورت میں نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی سہولت ہو گی اور آپ کی ازواج بھی مطمئن اور خوش رہیں گی اس طرح نبی کے گھر کی فضا خوش گوار رہے گی۔
اگرچہ یہ اختیار جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دیا تھا لیکن اس کے با وجود آپ اپنی تمام بیویوں کے درمیان باری باری رہتے تھے اور ان کے ساتھ عدل کرتے تھے۔ جن روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ نے اپنی کچھ بیویوں کو الگ کر رکھا تھا وہ صحیح نہیں۔ ابو بکر جصاص لکھتے ہیں۔
” نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ اپنی بیویوں کے درمیان (رہنے کے لیے ) باری مقرر کیا کرتے تھے اور اس میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ کسی کو آپ نے باری سے مستثنٰی کر دیا ہو۔۔ ۔۔۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عدل کے ساتھ باری مقرر فرمایا کرتے تھے اور فرماتے اے اللہ یہ تقسیم جس حد تک میرے بس میں ہے میں نے کی ہے تو جو تیرے اختیار میں ہے اور میرے بس میں نہیں ہے اس پر گرفت نہ فرما”۔ (تفسیر جصاص ،ج۳ ص ۴۵۳)۔
البتہ حضرت سودہ نے چونکہ ان کی عمر کافی ہو گئی تھی اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی تھی۔
اس ہدایت ہی کا اثر تھا کہ ازواج مطہرات میں نہ کوئی رقابت پیدا ہوئی اور نہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی طرف سے کسی اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور امہات المؤمنین کی حیثیت سے ان کا کردار بلند اور مثالی رہا۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ نے اپنے نبی کو ان کی ازواج کے تعلق سے جو رعایت دی ہے اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر تم نے شبہات کو بھی اپنے دل میں جگہ دی تو یاد رکھو اللہ تمہارے دلوں کا حال بخوبی جانتا ہے۔
۱۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی اس مخصوص دائرہ میں رہ کر ہی نکاح کر سکتے ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اس دائرہ کے باہر نکاح کرنے کی نبی کو اجازت نہیں ہے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جہاں مخصوص رعایتیں دی گئیں وہاں نکاح کے سلسلہ میں کچھ ایسی پابندیاں بھی آپ پر عائد کی گئیں جو عام مسلمانوں پر نہیں ہیں مثلاً یہ کہ اگر کسی مسلمان کی چار بیویاں ہیں تو وہ ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بیوی لا سکتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ آپ اپنی موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بیوی نہیں لا سکتے۔ یعنی شریعت کی پابندی آپ کے لیے بھی تھی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوتا تھا اس کی آپ اتباع کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی اپنی ذاتی اور عائلی زندگی بھی اس سے مستثنٰی نہیں تھی۔
علامہ ابن کثیر نے صراحت کی ہے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت آپ کی نو ازواج موجود تھیں ، (البدایتہ والنہاریۃ ، ج ۵ ص ۲۹۱)۔
آیت کے فقرہ "اگر چہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند آئے ” سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ مردوں کے لیے نکاح کے سلسلے میں عورتوں کا حسن وجہ کشش ہے مگر اہل ایمان کے لیے شرعی حدود کا لحاظ از بس ضروری ہے۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح تو ان ہی عورتوں سے جائز قرار دیا گیا جن کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا۔ البتہ اپنی مملوکہ عورتوں یعنی کنیز عورتوں سے زن و شوئی کا تعلق رکھنے کی اجازت دے دی گئی جو عام مسلمانوں کے لیے بھی تھی اس اجازت کے تحت ماریہ قبطیہ کو آپ نے قبول کر لیا تھا جس کو ہدیہ کے طور پر مصر کے نصرانی حکمراں مقوقس نے آپ کی خدمت میں بھیجا تھا اور یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ ان کو نہایت شریف خیال کیا جاتا ہے۔ ان ہی سے آپ کا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے ابراہیم رکھا تھا اور جس کا انتقال ۹ ھ میں ہوا۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے گھر والوں کے احترام کے تعلق سے اہل ایمان کو چند ہدایتیں دی گئی ہیں۔ایک یہ کہ آپ کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوں۔ دوسری یہ کہ اجازت ملنے کی صورت میں جائیں تو ضرورت کی حد تک ہی رکے رہیں کھانے کے انتظار میں بیٹھے نہ رہیں کہ کھانے کا وقت ہو جائے اور کھانا تمہارے سامنے آ جائے۔ ظاہر ہے یہ بات اخلاق سے فر و تر ہے اور ایک نبی کے گھر میں بُرے اخلاق کا مظاہرہ تو بہت بری حرکت ہے۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔ یہ تیسری ہدایت ہے کہ اگر تمہیں نبی کے گھر میں کھانے کے لیے مدعو کیا جائے تو ضرو جاؤ لیکن جب کھانا کھا چکو تو وہاں سے رخصت ہو جاؤ۔ آیت کے پہلے فقرہ میں نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کے گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونے کی ہدایت کی گئی تھی خواہ کسی ضرورت سے جانا پڑے اور اس فقرہ میں کھانے پر مدعو ہونے کی صورت میں ضروری احتیاط ملحوظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی کے گھر میں داخل ہو جانے کے بعد تمہیں باتوں میں نہیں لگ جانا چاہیے خواہ تم اجازت لے کر کسی کام کے لیے داخل ہوئے ہو یا کھانے پر مدعو ہو۔ بہر صورت نبی کا گھر عام مسلمانوں کے گھروں کی طرح نہیں ہے اس لیے آداب کو یہاں شدت کے ساتھ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی مروۃً تم سے کچھ نہیں کہتے اور اپنے گھر میں تمہارے ضرورت سے زیادہ بیٹھے رہنے کو یا تم میں سے کسی کے کھانے کا وقت تا کتے رہنے کو اپنے کریمانہ اخلاق کی وجہ سے برداشت کر لیتے ہیں مگر اللہ کے لیے مروت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نبی کے معاملے میں آداب کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ اس پہلو سے بھی تمہاری صحیح تربیت ہو جائے۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) کے گھر میں داخل ہونے کے تعلق سے چوتھی ہدایت ہے کہ تمہارے اور ازواج نبی کے درمیان پردہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو پردہ کے پیچھے سے مانگو۔ کسی آڑ کے بغیر ان کے سامنے جا کھڑے نہ ہو۔
اور اس کی حکمت بھی واضح فرما دی کہ اس طرح تم بھی اپنے دلوں کو زیادہ پاک صاف رکھ سکو گے اور وہ بھی ۔۔۔ بد گمانی کی کوئی بات پیدا نہ ہو سکے گی۔ پردہ کے سلسلہ میں یہ پہلی آیت تھی اور پردہ کے حکم کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے کیا گیا۔ یہ پردہ اگرچہ عام مسلمانوں کے گھروں میں بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے لیکن ان پر یہ لازم(واجب) نہیں کیا گیا ہے چنانچہ سورہ نور میں جو سورہ احزاب کے بعد نازل ہوئی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کر دوں کے سامنے جو اجازت لے کر گھر میں داخل ہوں اپنی زینت کا اظہار نہ کریں یعنی بن سنور کر ان کے سامنے نہ آئیں دیکھیے سورہ نور آیت ۳۱ نوٹ ۴۳۔
اگر گھر میں پردہ ڈال دینے کا حکم عام مسلمانوں کے لیے ہوتا تو پھر گھر میں یہ اجازت داخل ہونے والوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے کا سوال عورتوں کے لیے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ عام مسلمان عورتوں کو گھر کے پردہ کے معاملے میں اتنا سخت حکم نہیں دیا گیا جتنا سخت حکم کہ ازواج مطہرات کو دیا گیا اور یہ اس بنا پر کہ ازواج مطہرات کا مقام امہات المؤمنین ہونے کی حیثیت سے عام مسلمان عورتوں سے بہت بلند ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ یہ آیت حضرت زینب کے ولیمہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی :
"حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ علیہ و سلم نے زینب بنت جحش سے نکاح کیا تو لوگوں کو (ولیمہ کے لیے ) بلایا۔ جب لوگ کھانا کھا چکے تو بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ آپ کھڑے ہونا چاہتے تھے لیکن لوگ نہیں اٹھے۔ بالآخر آپ کھڑے ہو گئے۔ جب آپ کھڑے ہو گئے تو اور لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے لیکن تین آدمی بیٹھے رہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ اندر آنا چاہا تو دیکھا لوگ بیٹھے ہوئے ہی ہیں (اس لیے واپس تشریف لے گئے) پھر جب وہ اُٹھ کر چلے گئے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جا کر کہا وہ چلے گئے ہیں۔ آپ تشریف لائے اور ندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہونے لگا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ (حجاب)ڈال دیا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُو ا لَا تَدْ خُلُو ابُیُوتَ النَّبی "۔ (بخاری کتاب التفسیر)۔
۱۲۴۔۔۔۔۔۔ یعنی آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کی ازواج سے نکاح کرنا حرام ہے۔
۱۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی گھر کے پردہ کی اس قید سے جو اوپر کی آیت میں بیان ہوئی یہ لوگ مستثنٰی ہیں۔ ان میں محرم کے علاوہ مسلمان عورتوں اور مملوک یا لونڈی غلام جن کے وہ مال ہوں شامل ہیں۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ حاضر و ناظر ہے۔
۱۲۷۔۔۔۔۔۔ عربی میں جب صلّی کے ساتھ علیٰ کا صلہ (Preposition) آتا ہے تو اس کے معنی رحمت بھیجنے اور دعائے رحمت کرنے کے ہوتے ہیں اس لیے آیت کے معنی ہوئے اللہ نبی پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے نبی کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی کے لیے دعائے رحمت کرو اور خوب سالم بھیجو۔ پھر صلوٰۃ کے معنی عام رحمت کے نہیں بلکہ خاص رحمت کے ہیں یعنی ایسی رحمت جو عنایت اور اعزاز و اکرام کے ساتھ ہو۔ اردو میں اس کے لیے خاص لفظ درود ہے اور سلام بھیجنے کے معنی میں ہر قسم کی آفات سے سلامت رہنے کی دعا کرنا۔
درود و سلام کا یہ تحفہ بارگاہ رسالت میں پیش کرنے کا یہ حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے اور جیسا کہ حدیث میں آتا ہے اس کا کثرت سے اہتمام کرنا بھی مطلوب ہے کیونکہ درود و سلام کے ذریعہ آپ سے محبت اور عقیدت کا تعلق استوار ہوتا ہے۔
نماز میں تشہد میں سلام و درود کے جو کلمات ادا کیے جاتے ہیں وہ قرآن کے اسی حکم کی تعمیل ہیں اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام بھیجنے کا جو طریقہ سکھایا گیا ہے وہ یہ ہے۔
اَلسَّلَا مُ عَلیْکَ اَیُّھا انَّبِیُّ وَرَ حْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔ (بخاری ابواب صفۃ الصلوٰۃ) ” سلام ہو آپ پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں "۔
واضح رہے کہ ایھا النبی(اے نبی !) کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حاضر و ناظر ہیں کیونکہ ہر جگہ حاضر و ناظر صرف اللہ کی ذات ہے بلکہ یہ خطاب وقت کے نبی ہونے کی حیثیت سے ہے یعنی یہ تصور دلانے کے لیے کہ گویا آپ ہمارے درمیان رہنمائی کے لیے موجود ہی ہیں اور ہم بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر سلام عرض کر رہے ہیں۔ یہ بلاغت کا ایک اسلوب ہے جس کی مثال وہ دعا ہے جو زیارت قبور کے موقع پر کی جاتی ہے۔ اس دعا میں بھی مردوں سے خطاب کر کے انہیں سلام کیا جاتا ہے اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مردے حاضر و ناظر ہیں بلکہ مقصود یہ تصور دلانا ہوتا ہے کہ زیارت کرنے والا گویا مردوں کی مجلس میں پہنچ گیا ہے اور انہیں سلام کر رہا ہے۔جو لوگ بلاغت کے اس اسلوب کو نہیں سمجھتے وہ اس کو غلط معنی پہنا کر شرک و بدعت کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔ مگر اس کی تردید کے لیے حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ صراحت کافی ہے کہ ایھا النبی (اے نبی!) کے الفاظ ہم اس وقت کہا کرتے تھے جب آپ وفات پا گئے تو ہم السلام عَلَی النبی (سلام ہو نبی پر ) کہنے لگے (بخاری کتاب الاستسذان) یعنی مخاطب کے صیغہ (اَیُّھا) کے بجائے غائب کے صیغہ میں سلام بھیجنے لگے۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نماز میں سلام بیٹھ کر بھیجا جاتا ہے لہٰذا آپ پر کسی وقت بھی سلام بھیجنے کے لیے کھڑے ہونے کی قید نہیں ہے مگر بدعتیوں نے میلاد النبی کی مجلس منعقد کرنے کا جو طریقہ رائج کیا ہے اس میں آپ پر سلام بھیجتے وقت کھڑا ہونا ضروری قرار دیا ہے اگر کوئی کھڑا نہ ہو تو اسے مطعون کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے عقیدہ ہی کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ ایسی ہی بدعتوں نے امت کے درمیان تفرقہ ڈال دیا ہے۔
رہا درود تو اس کا طریقہ بھی حدیث میں بیان ہوا ہے۔ کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں ؟ فرمایا کہو:
اَلّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اٰلِ ابراھِیْمَ اِ نَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ اَلّٰھُمَّ بَا رِ کْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَا رَکْتَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (اے اللہ ! محمد پر اور آل محمد پر رحمت بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمت بھیجی۔ بلا شبہ تو لائق حمد اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی۔ بلا شبہ تو لائق حمد اور بزرگی والا ہے ) (بخاری کتاب الدعوات )۔
دوسری روایت میں دونوں جگہ علیٰ ابراہیم کے الفاظ کا اضافہ ہے درود میں تبعاً آل محمد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آل کا لفظ عربی میں نسل اور خاندان کے معنی میں بھی آتا ہے اور پیروؤں کے معنی میں بھی آتا ہے چنانچہ لسان العرب میں ہے آل یعنی اَتْباع (اتباع کرنے والے ) (لسان العرب ، ج ۱۱ ص ۳۸ ) اور قرآن میں آل فرعون اس گروہ کو کہا گیا ہے جو فرعون کا پیرو تھا۔ حضرت ابراہیم کے پیروؤں میں غالب تعداد ان لوگوں کی تھی جو آپ کی نسل سے تھے اس لیے ان کو آل ابراہیم کہا گیا مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرو ایک آفاقی امت ہیں اس لیے معنوی حیثیت سے وہ آل محمد قرار پائے۔ اس مفہوم کی تائید آیت ۴۳ سے بھی ہوتی ہے جس میں اہل ایمان پر اللہ اور اس کے فرشتوں کے صلاۃ یعنی رحمت بھیجنے کا ذکر ہوا ہے۔
درود کی فضیلت صحیح حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے :
مَنْ صَلَّی عَلیَّ صَلَاۃً صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ بِھَا عَشْراً ۔ ” جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجے گا”۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ)
مگر ضعیف اور موضوع حدیثوں میں بڑے مبالغہ کے ساتھ اس کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ بخاری کے شارح حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
” اس باب (یعنی درود کی فضیلت ) میں بہ کثرت ضعیف اور بے بنیاد حدیثیں ہیں اور جن روایتوں کو قصہ گویوں نے گڑھا ہے وہ تو بے شمار ہیں لیکن قوی حدیثیں ان سب سے بے نیاز کر دینے کے لیے کافی ہیں "۔ (فتح الباری ، ج ۱۱ ص ۱۴۱ )۔
مثال کے طور پر غیر معتبر روایت میں جمعہ کے دن اسی دفعہ درود بھیجنے کی فضیلت یہ بیان ہوئی ہے کہ اسی سال کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ للالبانی ج ۱ ص ۲۵۱ ) ایسی روایتوں کو غیر محقق علماء بڑی بے احتیاطی سے نقل کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ ان فضائل کا تو خوب اہتمام کرنے لگے لیکن کتنی ہی دینی ذمہ داریوں کی طرف سے غافل ہو گئے۔ رسمی طور پر تو وہ دیندار بن گئے لیکن دین کی کامل اور مخلصانہ پیروی کا احساس ان میں ابھر نہ سکا۔
یہ بھی واضح رہے کہ درود ایک دعا ہے اور اس کا دین میں ایک اہم مقام(فضیلت) ہے لیکن ورد کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ ہی کے نام کا کریں اور تسبیح و تحمید بھی اسی کی کریں۔ ایک لاکھ درود شریف کے ختم کے لیے جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں اس کا رواج صحابہ کرام کے زمانہ میں نہ تھا اور نہ یہ طریقہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ درود تاج اور اس قسم کے دوسرے درود نیز ان کی لمبی چوڑی فضیلتیں سب بعد والوں کے اضافے ہیں۔ راست رو مسلمانوں کے لیے تو وہ درود ہی کافی ہے جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے۔
آپ کی ذات غیر معمولی احترام کی مستحق ہے اس لیے آپ کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ و سلم کا اہتمام ضروری ہے۔ صحابہ کرام آپ سے حدیثیں روایت کرتے ہوئے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فرمایا رسول اللہ نے درود اور سلام ہو آپ پر) کہا کرتے تھے اور محدثین نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ اختصار کے ساتھ (صلعم) یا (ص) لکھنا صحیح نہیں کیونکہ یہ بخیلی ہے۔ لکھنے والا اس کا تلفظ صلی اللہ علیہ و سلم نہیں کرتا اور نہ پڑھنے والا کرتا ہے۔ درود و سلام کی جتنی تکرار لکھنے اور پڑھنے میں ہو گی اتنا ہی اجر میں اضافہ ہو گا پھر بخل سے کام لینے کی کیا ضرورت ہے ؟
۱۲۸۔۔۔۔۔۔ اوپر کی آیت میں اہل ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر رحمت بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس آیت میں ان لوگوں کو رسوا کن انجام سے خبر دار کیا جا رہا ہے جو نبی کی اذیت کے درپے ہوتے ہیں۔ واضح ہوا کہ جو لوگ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں وہ خود بھی رحمت کے مستحق بن جاتے ہیں۔اس کے بر خلاف جو لوگ نبی کو اذیت دیتے ہیں وہ لعنت کے مستحق بنتے ہیں اور یہ اشارہ ہے خاص طور سے ان منافقین کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تعدُّدِ نکاح اور آپ کی عائلی زندگی (Family Life) کو اعتراض کا نشانہ بناتے تھے اور اللہ کے احکام کا بھی مذاق اڑاتے تھے۔
اللہ کو اذیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بارے میں ایسی باتیں کہی جائیں جو اس کے غضب کو دعوت دینے والی ہوں۔ مثلاً اس کے لیے اولاد تجویز کرنا ، اس کے شریک ٹھہرانا، عیب اور نقص کو ا س کی طرف منسوب کرنا ، اس کو مخلوق پر قیاس کرنا ، اس کے مرتبہ سے فرو تر باتیں اس کی طرف منسوب کرنا ، اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں اور اس کے احکام کا مذاق اڑانا اور اس کی شان میں گستاخی کے کلمات کہنا وغیرہ۔
اور رسول کو اذیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کی شان میں گستاخی کرنا، آپ کی توہین کرنا آپ کی سنت کا مذاق اڑانا، آپ کی خانگی زندگی پر اعتراضات کرنا اور آپ کے فیصلوں کو نا انصافی پر محمول کرنا اور آپ سے لڑنا وغیرہ۔
اللہ اور اس کے رسول کی توہین کرنے والوں کے لیے نہ صرف آخرت میں لعنت ہے بلکہ دنیا میں بھی ان پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ وہ اللہ کی رحمت سے اس طرح دور پھینک دیے جاتے ہیں کہ ان کے حصے میں ذلت و رسوائی ہی آتی ہے۔ سچی عزت ان کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔
۱۲۹۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے منافقوں کی ان شرارتوں کی طرف جو وہ مومن مردوں اور عورتوں کو بد نام کرنے کے لیے کیا کرتے تھے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت سے جو بہترین گروہ وجود میں آ گیا تھا اس کو لوگوں کی نظروں میں گرایا جائے اور اسلام کے پھیلنے میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔ آیت میں اس بات پر سخت تنبیہ ہے کہ کسی بھی مومن کرد یا عورت کی دل آزاری کی جائے اور ناکردہ گناہ کا الزام ان پر لگایا جائے۔ بے قصور کو قصور وار ٹھہرانا اس پر بہتان لگانا ہے۔ اور یہ کوئی معمولی گناہ نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے خاص طور سے ایسی باتیں کہنا جو عفت و عصمت کو داغدار بنانے والی ہوں۔
موجودہ مسلم سوسائٹی میں تو معلوم ہوتا ہے اس گناہ کا کوئی احساس پایا ہی نہیں جاتا دیندار مسلمانوں پر الزام تراشی کرنا عام لوگوں کا شیوہ بن گیا ہے۔ مسلمانوں کے مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتے رہتے ہیں اور صحافت دل آزاری کا بھر پور سامان کرتی رہتی ہے۔ بہر حال جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہتا ہے اسے بہت محتاط ہونا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائی کے خلاف ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جس کا ارتکاب اس نے کیا نہ ہو۔ حدیث میں آتا ہے :
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُنَ من لِسَا نِہِ وَیَدِہِ۔ ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں "۔ (ریاض الصالحین ، ص ۵۹۹ بروایۃ بخاری و مسلم)
۱۳۰۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں عام مسلمان عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں جیسا کہ بعد کے فقرہ سے واضح ہے تو اپنے اوپر جلباب (چادر) ڈال لیا کریں اور اس کی مصلحت بھی واضح فرما دی کہ اس سے ان کی شناخت ہو سکے گی یعنی اس سے ظاہر ہو گا کہ وہ شریف اور حیا دار عورتیں ہیں لہٰذا شر پسند عناصر ان سے نہ غلط توقعات قائم کر سکیں گے اور نہ چھیڑ چھاڑ کر سکیں گے حیا کی یہ چادر ان کو نسبتاً زیادہ محفوظ رکھ سکے گی۔
جِلباب کے معنی ثوبٌ واسِعٌ "کشادہ کپڑے ” کے ہیں (لسان العرب ، ج ۱ ص ۲۷۲ ) اور یہ اس چادر کے لیے بولا جاتا ہے جو دوپٹہ سے بڑا ہوتا ہے اور جسے عورتیں اپنے جسم اور لباس ڈھانکنے کے لیے اوڑھ لیتی ہیں۔ مِنْ یہاں اسی طرح بیانیہ ہے جس طرح حدیث ام عطیہ میں بیانیہ آیا ہے :
” ام عطیہ کہتی ہیں (آپ نے جب عورتوں کو عید کی نماز میں شرکت کی ترغیب دی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ً ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی تو وہ کیا کرے ؟ فرمایا : لِتُلْبِسْھَا اُخْتُھَا مِنْ جِلْبَا بِھَا۔ اس کی بہن اپنی چادر اس کو اڑھائے”۔
(فتح القدیر ، ج ۴ ص ۳۰۴ بروایتہ البخاری)
اس حدیث میں بھی مِنْ جِلْبا بِھَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی اپنی چادر کے ایک حصہ یا پلو کو اڑھانے کے نہیں ہیں بلکہ اپنی چادر اڑھانے کے ہیں۔ اور یُدْ نِینَ عَلَیْھِنَّ کے معنی اپنے اوپر ڈال لینے کے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے وَدَانیَۃً عَلیْھم ظِلَا لْھَا ” اس کے سائے ان کے اوپر ہوں گے ( الانسان:۱۴)۔
مطلب یہ ہے کہ مسلمان عورتیں جب گھر سے نکلیں تو اپنے اوپر ایسا کپڑا ڈال کر نکلیں جو اوڑھنی سے بڑا ہو اور جو ان کے جسم اور ان کے لباس کو چھپائے۔ یہ کپڑا خواہ چادر کی شکل میں ہو یا برقع کی شکل میں مقصود جسم کے کھلے حصوں ، زینت اور لباس کی تراش خراش کو چھپانا ہے تاکہ عورت اپنی جاذبیت کے ساتھ اجنبی مردوں کے سامنے سے نہ گزرے بلیہ اس اہتمام کے ساتھ گزرے جو حیا کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور جس سے اس کے شریف عورت ہونے کا اظہار ہو۔ پردے کے سلسلے میں یہ ایک اجمالی حکم ہے جو اس آیت میں دیا گیا ہے۔ اور اس میں یہ صراحت نہیں کی گئی ہے کہ عورت نہ اپنا چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے اور نہ ہاتھ۔ کیونکہ قرآن جہاں فتنہ کے سدّ باب کی تدابیر تجویز کرتا ہے وہاں وہ حرج کو بھی رفع کرتا ہے تاکہ عورتوں کو غیر معمولی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چنانچہ سورہ نور میں جو اس سورہ کے بعد نازل ہوئی ہے عورتوں کو جہاں اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا گیا ہے وہاں اِلَّا مَظَھَرَ مَنْ ھَا ” بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے ” کا استثناء بھی کیا گیا ہے ( دیکھیے سورہ نور آیت ۳۱ اور نوٹ ۴۲ ) اس لیے جلباب(چادر ) کے حکم اجمال کے ساتھ دیا گیا ہے۔ اگر مقصود چہرہ اور ہاتھوں کو لازماً چھپانا ہوتا تو آیت میں اس کی صراحت موجود ہوتی۔ اس صراحت کی عدم موجودگی میں چہرہ اور ہاتھوں کو چھپانے اور جلباب (چادر)کو اس طرح سر سے پاؤں تک لپیٹ لینے پر اصرار کہ لباس کا کوئی بھی حصہ قطعاً کھلنے نہ پائے۔ قرآن کے ایک مجمل حکم میں شدت پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ شدت اگر ماضی میں پیدا کی گئی تھی تو وہ اس وقت کے حالات میں انگیز کر لی گئی ہو گی لیکن موجودہ حالات میں جبکہ عورتوں کو اپنی بہت سی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اپنی متعدد ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے پردہ کے حکم میں اس شدت کے پیدا کرنے سے ان کے لیے بڑا حرج اور بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ عورتیں پردہ کو ” ناقابل عمل” سمجھ کر بالکل ترک کر بیٹھیں۔ اس لیے اعتدال کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
۱۳۱۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جلباب(پردہ ) کے حکم کی تعمیل اگر نیک نیتی کے ساتھ صحیح طریقہ پر کی گئی تو اس سلسلہ میں نا دانستہ جو کوتاہیاں ہوئی ہوں گی اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے گا اور رحم فرمائے گا۔
۱۳۲۔۔۔۔۔۔ مراد شہوت کا روگ ہے یعنی شہوت پرست۔
۱۳۳۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت منافقین اور شر پسند عناصر نے مدینہ کی فضا کو مکدر کرنے ، جنگ کی جھوٹی خبریں اڑا کر لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے اور مسلمان شریف عورتوں کو چھیڑنے اور ان کو بد نام کرنے کے لیے ان پر تہمت لگانے اور جھوٹی افواہیں پھیلانے میں بہت بے باک ہو گئے تھے اس لیے ایک طرف مسلمان عورتوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے گھر کے باہر پردہ کا حکم دیا گیا اور دوسری طرف ان منافقین اور شر پسندوں کو تنبہ کیا گیا کہ اگر وہ باز نہیں آئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دے گا کہ وہ ان کی پوری سر کوبی کریں اور اسلامی معاشرہ کو ان مفسدین سے پاک کر دیں۔
واضح رہے کہ جلباب (پردہ) کے حکم کی اس مصلحت کا جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر بیان ہوئی ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ حکم ان حالات کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن کے بہت سے احکام مخصوص حالات ہی میں نازل ہوئے ہیں لیکن وہ اپنی مستقل حیثیت رکھتے ہیں اور کسی حکم کی ایک مصلحت کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس حکم کی کل مصلحت وہی ہو بلکہ دوسری مصلحتیں بھی ہو سکتی ہیں جب کہ ایک مصلحت بیان کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہو۔
۱۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اللہ کی رحمت سے دور پھینک دیئے جائیں گے اور جن کو اللہ اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے وہ ذلیل ہو کر رہتے ہیں۔
۱۳۵۔۔۔۔۔۔ چنانچہ سورہ توبہ میں (۹ ھ) میں منافقین کے ساتھ سختی برتنے کا حکم دیا گیا ہے :
یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنا فِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمُ (توبہ : ۷۳) ” اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ "۔
اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی مسجد کو بھی جو انہوں نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے بنائی تھی، جلانے کا حکم دیا۔ یہ سب تفصیل سورہ توبہ کی تفسیر میں گزر چکی۔
۱۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سے پہلے جن امتوں میں رسول بھیجے گئے تھے ان میں جہاں کافروں کا خاتمہ کر دیا گیا وہاں منافقوں اور مفسدوں سے بھی معاشرہ کو پاک کر دیا گیا اور مومنین صالحین پر مشتمل جس نئے معاشرے کی تشکیل ہوئی تھی اسی کو بر قرار رکھا گیا اور خلافت کی ذمہ داریاں اسی کے سپرد کر دی گئیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ زمین سے فساد کو مٹا دینے کے بعد انسانی سوسائٹی کے نظام کو از سر نو صلاح پر قائم فرماتا رہا ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ اللہ کی یہ سنت اس رسول کے حق میں پوری نہ ہو۔ اور یہ واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ و سلم کی وفات سے پہلے مدینہ کا ماحول مفسد عناصر سے پاک ہو گیا تھا۔
۱۳۷۔۔۔۔۔۔ قیامت کب آئے گی ؟ یہ سوال نہ صرف مکہ کے لوگ بار بار پیش کرتے رہے بلکہ مدینہ میں بھی یہ سوال دہرایا جاتا رہا۔ قرآن نے اگرچہ اس کا متعدد بار جواب دیا ہے لیکن لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو برابر پریشان کر تے رہے اور مقصد ان کا یہ تھا کہ قیامت کے بارے میں شبہات پیدا کیے جائیں۔ مکہ میں اگر یہ کفار شبہات پیدا کر رہے تھے تو مدینہ میں منافقین بھی وہی کچھ کر رہے تھے۔
اگر اللہ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ قیامت ا وقت کسی پر ظاہر نہ کر دیا جائے تو اس کا یہ مطلب کہاں ہوا کہ قیامت آئے گی ہی نہیں موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہوتا تو کیا اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہو گا کہ موت آئے گی ہی نہیں جب کہ اس کا آنا بالکل یقینی ہے۔ اسی طرح قیامت کا آنا بالکل یقینی ہے اگر چہ اس کا وقت ہمیں نہیں معلوم۔ البتہ قرآن یہ صراحت ضرور کرتا ہے کہ قیامت قریب ہی آ لگی ہے۔ اور واقعہ بھی یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں۔ آپ کے ذریعہ دین کی تکمیل ہو گئی اور اللہ کی حجت بھی دنیا والوں پر قائم ہو گئی اس لیے اب دنیا اپنے آخری مرحلہ ہی سے گزر رہی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّا عَۃُ کَھَا تَیْن وَ یَقْرِنُ بَیْنَ اُصْبُعَیْہِ السَّبَابَۃَ وَا لْوُسْطیٰ (مشکٰۃ کتاب الصلوٰۃ بروایۃ مسلم) "میں اور قیامت اس طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور درمیان کی انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا”۔
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۲۸۶ تا ۲۸۹۔
۱۳۸۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں کے لیے انتباہ ہے کہ قیامت تو اپنے وقت پر آ کر رہے گی۔ رہے اس کا انکار کرنے والے تو ان کے لیے اللہ کی رحمت سے محرومی ہے اور جس دن قیامت قائم ہو گی انہیں بھڑکتی آگ (جہنم) سے واسطہ پڑے گا۔ کیونکہ قیامت کے انکار کے بعد آدمی اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کر ہی نہیں سکتا جس کی بناء پر وہ آخرت میں اجر کا مستحق قرار پائے بلکہ وہ ایسے کرتوت کرتا ہے جس کی بنا پر آخرت میں سزا ہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔
۱۳۹۔۔۔۔۔۔ قیامت کے منکر دنیا میں تو اللہ کی اطاعت سے بھی منہ موڑے ہوئے ہیں اور اس کے رسول کی اطاعت سے بھی لیکن قیامت کے دن جب جہنم سے سابقہ پیش آئے گا تب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا اور نادم ہو کر کہنے لگیں گے کہ کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور اطاعت کی ہوتی اس کے رسول کی۔
۱۴۰۔۔۔۔۔۔ ساَدتَنا (اپنے سردار) سے مراد لیڈر اور با اقتدار لوگ ہیں اور کُبَراءَنا (اپنے بڑوں ) سے مراد مذہبی پیشوا وغیرہ ہیں منکرین کو جہنم میں پہنچ کر یہ احساس ہو گا کہ ہم نے دنیا میں اللہ کے بجائے سرکش لیڈروں کی بات مانی اور اس کے رسول کے بجائے گمراہ کرنے والے مذہبی پیشواؤں کی تقلید کی۔
۱۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی آج تو یہ منکرین اپنے قائدین پر تعریف کے ڈونگرے برسا رہے ہیں اور اپنے مذہبی پیشواؤں سے عقیدت کا اطہار کر رہے لیکن جہنم میں پہنچنے کے بعد یہ ان پر لعنت بھیجیں گے اور چاہی گے کہ ان کے عذاب اور لعنت میں اضافہ ہو جائے۔
۱۴۲۔۔۔۔۔۔ یہ پھر تاکیدی حکم ہے کہ اپنے نبی کو اس طرح اذیت نہ دو جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ کو اذیت دی تھی۔ حضرت موسیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بنی اسرائیل انہیں جو تلخ جوابات دیتے رہے اس کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر ہوا ہے مثلاً ان کا یہ جواب کہ ارض مقدس میں تم اور تمہارا خدا جاؤ اور ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔ اس قسم کی ایذا وہی کی طرف سورہ صف کی آیت ۵ اشارہ کرتی ہے۔ لیکن یہاں جس اذیت کا ذکر ہوا ہے وہ ان کے اخلاق و کردار کو مجروح کرنے والی تھی یعنی ان کے خلاف الزام تراشی اور تہمت۔ اور ایک نبی پر جب کوئی گھناؤنا الزام لگایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی زندگی ہی میں اس کو اس سے بری کر دیتا ہے تاکہ نبی کی شخصیت لوگوں کی نظروں میں داغ دار نہ ہونے پائے۔ اس سلسلہ میں حضرت یوسف کی مثال بہت واضح ہے جنہیں تہمت سے اللہ تعالیٰ نے اس طرح بری کر دیا کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس آیت میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے موسیٰ کو الزامات سے بری کر دیا اور وہ اللہ کے نزدیک با وقار تھے۔ یہ دونوں ہی باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ الزامات اس نوعیت کے تھے جس سے حضرت موسیٰ کی عزت و ناموس پر حرف آتا تھا۔ قرآن نے اس کی تعیین نہیں کی کہ وہ کیا واقعہ تھا کیونکہ تذکیر کے پہلو اسے ایسے واقعات بیان نہ کرنا ہی مفید ہوتا ہے اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس کو کریدنے کی کوشش کریں۔
مفسرین عام طور سے اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا موسیٰ بڑے حیا دار اور ستر پوش تھے اس لیے ان کے جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہیں ہوتا تھا مگر بنی اسرائیل نے اس کو اس بات پر محمول کیا کہ ان کو کوئی پوشیدہ مرض یا عیب ہے (ایک نبی کے احترام کے پیش نظر اس عیب کا ذکر کرنا ہم مناسب نہیں سمجھتے جو روایت میں بیان ہوا ہے ) اللہ نے ان کو اس عیب سے بری کرنا چاہا اس لیے ایسا ہوا کہ ایک دن جب موسیٰ تنہا تھے انہوں نے اپنے کپڑے اتار کر پتھر پر رکھے اور غسل کرنے لگے۔ جب غسل سے فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگنے لگا۔ موسیٰ اس پتھر کا پیچھا کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے مجمع میں جا پہنچے۔ وہاں ان لوگوں نے انہیں عریاں حالت میں دیکھا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ موسیٰ کی خلقت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ اس طرح اللہ نے ان کو اس بات سے بری کر دیا جو یہ لوگ ان کی طرف منسوب کرتے تھے۔ پھر پتھر ٹھہر گیا اور موسیٰ نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے اور اس پتھر پر اپنے عصا سے ضربیں لگائیں جس کے نشانات پتھر پر پڑ گئے۔ آیت : لاتکونوا۔ ………. "ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی ………… کا اشارہ اسی واقعہ کی طرف ہے۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء)
یہ حدیث بخاری نے بھی روایت کی ہے اور مسلم نے بھی۔ بخاری کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل برہنہ نہایا کرتے تھے۔ اور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھتے تھے لیکن موسیٰ تنہائی میں نہایا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الغسل )۔
مگر مذکورہ روایت اپنے اسناد اور مضمون دونوں اعتبار سے لائق حجت نہیں۔ عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں جو عربی میں ایک محققانہ کتاب ہے اس روایت پر سخت گرفت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
۱)۔ یہ کیسا معجزہ ہے جو یک نبی کو بے ستر کرتا ہے۔ اگر موسیٰ کے کوئی جسمانی عیب تھا تو وہ اللہ کے نزدیک ان کے با وقار ہونے میں کیونکر مانع ہو سکتا تھا !
۲)۔ اگر موسیٰ پر جسمانی عیب کا الزام لگایا گیا تھا تو اس سے ان کے اللہ کے رسول ہونے کی نفی کس طرح ہوتی تھی جب کہ سورہ صف میں حضرت موسیٰ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے ” اے میری قوم کے لوگو مجھے کیوں اذیت دیتے ہو جب کہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ” لہٰذا اذیت لازماً اس سے بڑی کسی بات کی رہی ہو گی۔ اور قرآن کریم میں ایذاء کا لفظ کسی بڑی بات ہی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
۳)۔ مذکورہ حدیث کی اسناد میں ایک راوی عوف ہیں جن کے بارے میں تہذیب التہذیب (اسماء الرجال کی مشہور اور مستند کتاب ) میں ہے کہ وہ شیعہ ، رافضی اور شیطان تھا:
۴)۔ میں اسی حدیث کو قبول کرتا ہوں جو خالص ہو یعنی جس کے رجال (راویوں ) میں کوئی عیب نہ ہو اور جس پر میرا نفس مطمئن ہوتا ہے۔ رہی وہ حدیث جس کا کوئی راوی مجروح ہو خواہ وہ جرح خفیف سی کیوں نہ ہو اس کی میرا نفس قبول نہیں کرتا خواہ اس حدیث کو کتنوں ہی نے معتبر مانا ہو۔ کیونکہ میں جرح کو تعدیل پر مقدم رکھتا ہوں خاص طور سے اس صورت میں جب کہ راوی بدعتی ہو خواہ وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو یا نہ دیتا ہو اور اس صورت میں تو اور بھی زیادہ جب کہ راوی شیعی ہو۔
۵ )۔حدیث میں ہے کہ حسن (بصری) نے ابو ہریرہ سے سماعت حدیث ثابت نہیں اور نہ خلاص کی ابوہریرہ سے سماعت حدیث ثابت نہیں اور نہ خلاص کی ابو ہریرہ سے سماعت ثابت ہے۔ عمدۃ القاری (شرح بخاری ) میں یہ صراحت موجود ہے۔
۶ )۔ رہی بخاری کی وہ روایت جو ایک دوسرے طریقہ اسناد سے بیان ہوئی ہے تو اس میں ایک راوی عبدالرزاق ہیں جن کے بارے میں ابن معین کہتے ہیں کہ وہ قوی نہیں ہیں اور ان کا تعلق شیعیت سے بتایا گیا ہے۔ انہوں نے اہل بیت کے فضائل میں بہت سی حدیثیں بیان کی ہیں جو کسی ثقہ راوی نے نہیں بیان کیں۔
۷)۔ علماء کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں برہنہ نہانا جائز تھا لیکن اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں۔ لوگوں کے سامنے ستر کھولنے کی قباحت تو انسانی طبیعت ہی میں مرکوز ہے۔
۸ )۔ کیا معجزہ بغیر نص قطعی کے ثابت ہوتا ہے ؟ (قصص الانبیاء عبد الوہاب نجار ص ۲۸۱ تا ۲۹۱)
عبدالوہاب نجار کے ان دلائل میں بڑا وزن ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ مذکورہ حدیث کو حدیث رسول قرار دیا جائے اور حضرت موسیٰ کی طرف ایک ایسی بات منسوب کی جائے جس سے ان کی ہتک عزت ہوتی ہو۔ مگر جو لوگ حدیث کے معاملہ میں تحقیق اور دینی بصیرت سے کام لینے کی راہ کھلی رکنا نہیں چاہتے وہ ایسے موقع پر انکار حدیث کی پھبتی چست کر دیتے ہیں مگر ہمیں اپنی مدافعت سے زیادہ قرآن اور پیغمبروں کی مدافعت عزیز ہونی چاہیے۔ مزید ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اسناد کے اعتبار سے یہ حدیث ہر گز ایسی نہیں ہے جس کو صحیح کا درجہ دیا جائے۔ عبدالرزاق کے بارے میں میزان الاعتدال (اسماءالرجال کی کتاب جو امام ذہبی کی تالیف ہے ) میں محدثین کی متضاد رائیں نقل کی گئی ہیں۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں لیکن معمر سے حدیثیں روایت کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔
نسائی کہتے ہیں کہ ان سے منکر حدیثیں مروی ہیں اور ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کو شیعیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ محمد بن عثمان الثقفی البصری کا بیان ہے کہ جب عباس بن عبد العطیم صنعاء سے عبدالرزاق کے پاس سے واپس آئے تو ہم سے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ عبد الرزاق کذاب ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں عبدالرزاق نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث بھی بیان کی ہے کہ جب تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو انہیں قتل کر دو۔ ( دیکھیے میزان الاعتدال ، ج ۲ ص ۶۰۹ تا ۶۱۲) اسی طرح عوف کے بارے میں بھی محدثین کی رائیں مختلف ہیں (میزان الاعتدال ، ج ۳ ص ۳۰۵ )۔
محدثین کی ان صراحتوں کے بعد بھی اگر امام بخاری عبد الرزاق کی روایت کو قابل قبول سمجھتے ہیں تو ضروری نہیں کہ دوسرے بھی ان سے اتفاق کریں۔
آیت کی تفسیر میں البتہ بخاری کی درج ذیل حدیث کو پیش کیا جا سکتا ہے :
” نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مال تقسیم فرمایا تو ایک شخص نے کہا اس تقسیم میں اللہ کی رضا نہیں چاہی گئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس سے با خبر کیا۔ آپ سخت بر ہم ہوئے۔ پھر فرمایا اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے۔ انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا”۔(بخاری کتاب احادیث الانبیاء)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مال کی تقسیم میں نا انصافی کا الزام اس نوعیت کا تھا جس سے آپ کی اخلاقی حیثیت مجروح ہوتی تھے اس لیے اس موقع پر آپ نے حضرت موسیٰ کا جو حوالہ دیا تو اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو ایسی اذیت دی گئی تھی جو آپ کی اخلاقی حیثیت کو مجروح کر دینے والی تھی۔
۱۴۳۔۔۔۔۔۔ درست بات (قول سدید) کہنے کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ کسی کے خلاف الزام تراشی اور تہمت کی باتیں نہ کی جائیں اور یہ بات بھی کہ جو بات کی جائے سر تا سر سچائی پر مبنی ہو۔ نیم صداقت اور گول مول باتیں کرنا جس سے دوسروں کو دھوکا ہو صحیح نہیں۔۔۔۔۔ جنگ کے موقع پر یا کسی مفسدہ سے بچنے کے لیے آدھا سچ (Half truth) کہنا ایک استثنائی صورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ جو بات کریں اللہ سے ڈرتے ہوئے کریں اور راست گوئی کو اپنا شعار بنا لیں۔ اگر کسی سے وعدہ کریں تو اس کو پورا کرنے کے ارادہ سے کریں۔ خالی وعدے جن کو پورا کرنے کی کوئی فکر نہیں کی جاتی درست بات کہنے کے منافی ہے۔
۱۴۴۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی زبان کو درست رکھتا ہے اور اپنے قول کا سچا اور پکا ہوتا ہے اس کو اپنے اعمال درست کرنے کی توفیق ملتی ہے گویا راست گفتاری کا ثمرہ عملی زندگی کا درست ہونا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتا ہے اور اپنی غلطیوں کو سننے کا روادار نہیں ہوتا ہو اپنے کو اصلاح سے محروم رکھتا ہے۔
۱۴۵۔۔۔۔۔۔ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اور رسول کی اطاعت یہ ہے کہ آپ سے جو احکام ثابت ہیں خواہ وہ عبادات سے تعلق رکھتے ہوں یا معاملات سے انفرادی زندگی سے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے ان کی ٹھیک ٹھیک پابندی کی جائے۔
۱۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں امانت سے مراد وہ اختیارات ہیں جو دیے تو اس لیے گئے ہیں کہ اللہ کی اطاعت کے لیے استعمال کیے جائیں لیکن چونکہ یہ اختیارات دے کر انسان کو امتحان گاہ میں کھڑا کر دیا گیا ہے اس لیے اسے یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ ان اختیارات کو چاہے تو اللہ کی اطاعت کے لیے استعمال کرے اور چاہے تو اس کی نافرمانی کے لیے استعمال کرے۔ جو شخص اس کی اطاعت کے لیے استعمال کرے گا وہ اس امتحان میں کامیاب ہو گا اور امانت داری کا ثبوت دینے کی بنا پر بہت بڑے انعام یعنی ابدی فوز و فلاح کا مستحق قرار پائے گا اور جو شخص اس کی نافرمانی کے لیے استعمال کرے گا وہ اس امتحان میں ناکام ٹھہرے گا اور اللہ کی امانت میں خیانت کرنے کی بنا پر بہت بڑی سزا یعنی ابدی خسران و عذاب کا مستحق قرار پائے گا۔
یہ بار امانت ایسا گراں تھا کہ آسمان و زمین اور پہاڑ جیسی عظیم مخلوق اسے اٹھانے سے ڈر گئی مگر انسان چونکہ طبعاً اس کو اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتا تھا اس لیے اس نے اللہ کی اس پیش کش کو ابدی انعام کی طمع میں قبول کر لیا۔ لہٰذا انسان کی حیثیت دنیا میں امانتی اختیارات رکھنے والی مخلوق کی ہے اور فطری طور پر اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان اختیارات کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق استعمال کرے لیکن انسان نے اس حقیقت کو بھلا دیا ہے چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد اپنے کو خود مختار سمجھتی ہے اور من مانے طریقے پر اپنے اختیارات کے استعمال کر کے اللہ کی امانت میں خیانت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ایسا کر کے وہ اپنے نفس پر بڑا ظلم بھی کر رہے ہیں اور بڑی جہالت کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔
کَانَ ظَلُوماً جَھُولاً کو بعض مفسرین نے ” وہ بڑا ظالم اور جاہل تھا ” کہ معنی میں لیا ہے اور پھر طرح طرح کی تاویلیں کی ہیں حالانکہ عربی میں کان "تھا” ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ "ہے ” اور "واقع ہوا ہے ” کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کَانَ اللہُ غَفوراً رَحِیْما ” اللہ غفور و رحیم ہے ” اور کَانَ الانسان عَجُولاً ” انسان جلد باز واقع ہوا ہے ” اس لیے یہاں جو معنی موزوں (فِٹ) ہوتے ہیں وہ یہی ہیں کہ انسان اس بار امانت کو اٹھانے کے بعد ظالم اور جاہل بن گیا ہے۔ ظالم اعتبار سے کہ اللہ کی امانت میں خیانت کرتا ہے اور جاہل اس اعتبار سے ہ اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتا اور انجام سے بے خبر ہو کر اپنے کو آزاد اور خود مختار خیال کرنے لگتا ہے۔ دنیا میں اکثر انسانوں کا حال یہی ہے۔
رہا یہ سوال کہ آسمان و زمین اور پہاڑ جمادات ہیں ان کے سامنے امانت کو پیش کرنے اور ان کے نکار کرنے کا کیا مطلب؟ تو ہمیں اپنے محدود دائرہ علم میں رہ کر اس کے معنی متعین نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس کو مجاز پر محمول کرنا چاہیے بلکہ اس کو اسی طرح حقیقت واقعہ سمجھنا چاہیے جس طرح قرآن میں اسے پیش کیا گیا ہے۔ اللہ اپنی کسی بھی مخلوق سے خواہ وہ جمادات ہی کیوں نہ ہو بات کر سکتا ہے اور وہ اس کی بات کو سن سکتی ہے قرآن صراحت کرتا ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و حمید کرتی ہے مگر انسان اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ آیت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر آسمان و زمین اور پہاڑ اس امانت حال اختیارات دے کر آزمائش میں ڈالا جاتا مگر وہ اس کے تصور ہی سے کانپ اٹھے۔ ان کا انکار بھی اس معنی میں نہیں تھا کہ اللہ نے ان کو اس کے اٹھانے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے انکار کیا بلیہ اس معنی میں تھا کہ ان کو امانت قبول کرنے یا نہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار (Choice) دیا گیا تو وہ اس کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔
۱۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اس مانت میں خیانت کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ اس جرم کے مرتکبین سزا پائیں۔ منافق (اپنے کفر کو چھپا کر اپنے کو مسلمان کہلانے والے ) اور وہ مشرک خواہ وہ مرد ہوں یا عورت سب سے بڑے خائن ہیں اس لیے وہ اپنے اس جرم کی سزا بھگت کر رہیں گے۔
۱۴۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو امانت داری کا ثبوت دیں گے وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں گے اور امانت داری کا ثبوت دینے والے سچے مومن ہی ہو سکتے ہیں خواہ وہ کرد ہوں یا عورتیں۔ انہوں نے جب ان اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کیا ہو گا تو جو قصور ان سے سر زد ہو گئے ہوں گے ان کے بارے میں اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اس میں اہل ایمان کے لیے ترغیب ہے اس بات کی کہ وہ اپنے قصوروں پر نظر رکھیں اور اللہ کے حضور توبہ کرتے رہیں۔
٭٭٭
(۳۴) سورۂ سبا
(۵۴ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آیت۔۱۵ میں قوم سبا کا ذکر ہوا ہے اور اس مناسبت سے اس سورہ کا نام سبا ہے۔
زمانۂ نزول
مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
کائنات میں اللہ ہی کی ذات ہے جو خوبیوں اور کمالات سے متصف ہے اس لیے شکر اور تعریف کا مستحق وہی ہے اور اللہ کے شکر کی واحد صورت یہ ہے کہ توحید اور آخرت پر ایمان لایا جائے۔
ربطِ کلام
آیت ۱، تا ۹ تمہیدی آیات ہیں جن میں شبہات کو دور کرتے ہوئے اللہ کی ایسی معرفت بخشی گئی ہے جس سے توحید اور آخرت کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔
آیت ۱۰، تا ۱۳ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان پر اللہ کی نوازشوں اور ان کی شکر گزاری کو ایک تاریخی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آیت ۱۴ تا ۲۱ میں عبرت کے لیے قوم سبا کی ناشکری اور اس کے انجام کو پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۲۲ تا ۲۷ میں شرک کی تردید ہے۔
آیت ۲۸ تا ۴۵ میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے آخرت کے بعض حقائق ان کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔
آیت ۴۶ تا ۵۴ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں غور کر کے فیصلہ کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے اور اس بات سے خبر دار بھی کر دیا گیا ہے کہ اگر وقت نکل گیا تو پھر ہمیشہ کے لیے پچھتاتے رہیں گے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔حمد ۱ * اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے ۲ * وہ حکمت والا اور باخبر ہے ۳ *۔
۲۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے ۴ * اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ۵ * وہ رحم فرمانے والا بخشنے والا ہے ۶ *۔
۳۔۔۔۔۔۔ انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی ۷ * کہو کیسے نہیں آئے گی ؟ میرے رب عالم الغیب کی قسم۔ وہ تم پر آ کر رہے گی ۸ * اس سے ذرہ برار کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں۔ نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے ۹ *
۴۔۔۔۔۔۔ قیامت اس لیے آئے گی تاکہ وہ صلہ دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ ان کے لیے مغفرت اور با عزت رزق ہے۔۱۰ *
۵۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ہماری آیات کو بے اثر کرنے کے لیے سرگرم ہیں ۱۱ * ان کے لیے بدترین قسم کا درد ناک عذاب ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔اور جن کو علم عطا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ بالکل حق ہے ۱۲ * اور اس (ذات) کا راستہ دکھاتا ہے جو غالب اور خوبیوں والا ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہیں ایسا شخص بتائیں جو تم کو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہو چکے ہو گے اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کئے جاؤ گے ۱۳ *
۸۔۔۔۔۔۔”اس نے اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑا ہے یا اس کو جنون ہو گیا ہے ؟” ۱۴ * نہیں بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہی عذاب اور ور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۵ *
۹۔۔۔۔۔۔کیسا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے آسمان و زمین کو نہیں دیکھا۔ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں ۱۶ *۔ بلاشبہ اس میں بہت بڑی نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو رجوع ہونے والا ہو۔۱۷ *
۱۰۔۔۔۔۔۔ ہم نے داؤد کو اپنے پاس سے فضل عطا کیا تھا ۱۸ *۔ اے پہاڑو، تم بھی اس کے ساتھ تسبیح میں ہم نوا ہو جاؤ اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو دیا تھا ۱۹ * اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا تھا۔۲۰ *
۱۱۔۔۔۔۔۔ کہ مکمل ر ہیں بناؤ اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے سے رکھو ۲۱ * اور تم سب نیک عمل کرو ۲۲ * جو کچھ تم لوگ کرتے ہو اس کو میں دیکھ رہا ہوں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کومسخر کر دیا۔ اس کا صبح کے وقت چلنا بھی مہینہ بھر (کی مسافت) کا ہوتا اور اس کا شام کے وقت چلنا بھی مہینہ بھر (کی مسافت) کا ہوتا ۲۳ * اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا ۲۴ * اور ایسے جن اس کے لیے مسخر کر دیئے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے ۲۵ * ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا ہم اس کو بھڑتی آگ کا مزا چکھاتے ۲۶ *۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، عمارتیں ۲۷ * تصویریں ۲۸ * لگن ایسے جیسے بڑے بڑے حوض اور اپنی جگہ جمی رہنے والی بھاری دیگیں ۲۹ * اے آلِ داؤد عمل کرو شکر کے ساتھ ۳۰ * اور میرے بندوں میں شکر گزار کم ہی ہیں ۳۱ *
۱۴۔۔۔۔۔۔ پھر جب ہم نے اس کی موت کا حکم نافذ کیا تو ان کو اس کی موت سے آگاہ کرنے والی چیز صرف زمین کا کیڑا تھا جواس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ جب سلیمان گر پڑا تو جنوں پر یہ بات واضح ہوئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت کی مصیبت میں پڑے نہ رہتے۔۳۲ *
۱۵۔۔۔۔۔۔ سبا۳۳ * کے لیے ان کے مسکن ہی میں ایک بڑی نشانی موجود تھی ۳۴ *۔ دو باغ دائیں اور بائیں جانب ۳۵ * کھاؤ اپنے رب کا بخشا ہوا رزق اور شکر کرو اس کا۔ اچھی سرزمین اور بخشنے والا رب ۳۶ *۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے منہ موڑا ۳۷ * تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا ۳۸ *اور ان کے باغوں کو دو ایسے باغوں میں بدل دیا جن میں بد مزہ پھل، جھاؤ اور قدرے قلیل بیریاں تھیں ۳۹ *
۱۷۔۔۔۔۔۔ یہ تھا ان کی ناشکری کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا ۴۰ * اور ایسا بدلہ ہم ناشکرے لوگوں ہی کو دیا کرتے ہیں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کھلی بستیاں بھی آباد کی تھیں اور ان کے درمیان سفر کی منزلیں بھی مقرر کر دی تھیں ۴۱ * سفر کرو ان میں رات دن امن کے ساتھ ۴۲ *
۱۹۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ۴۳ * ہمارے سفر کی مسافتوں میں دوری پیدا کر دے ۴۴ * اور انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ۴۵ * کیا تو ہم نے ان کو افسانہ بنا کر رکھ دیا ۴۶ * اور ان کو بالکل تتر بتر کر د ڈالا ۴۷ * یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر کرنے والا شکر کرنے والا ہو ۴۸ *
۲۰۔۔۔۔۔۔ اور ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا ۴۹ *۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی بجز ایک گروہ کے جو مومن تھا ۵۰ *
۲۱۔۔۔۔۔۔ س کا ان پر کوئی زور نہ تھا ۵۱ * مگر ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس کے بارے میں شک میں پڑا ہوا ہے ۵۲ *۔ اور تمہارا رب ہر چیز پر نگراں ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ کہو ۵۳ * پکار ان کو جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود گمان کر رکھا ہے۔ وہ نہ آسمانوں میں ذرا برابر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں ۵۴* اور نہ ان دونوں میں ان کا کوئی ساجھا ہے ۵۵ * اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ اس کے حضور کوئی شفاعت کام نہیں آسکتی مگر جن کے لیے وہ اجازت دے ۵۶ * یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ پوچھیں گے تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ ۵۷ * وہ کہیں گے بالکل حق فرمایا ہے ۵۸ *اور وہ بلند و برتر ہے ۵۹ *۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ ان سے پوچھو کون تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کہو اللہ اور ہم اور تم دونوں میں سے ایک ہدایت پر ے اور دوسرا کھلی گمراہی میں ۶۰ *
۲۵۔۔۔۔۔۔ کہو تم سے ہمارے جرم کی باز پرس نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھا جائے گا۔۶۱ *
۲۶۔۔۔۔۔۔کہو ہمارا رب ہم سب کو جمع کرے گا۶۲ * پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا ۶۳ * اور وہی فیصلہ کرنے والا علم والا ہے
۲۷۔۔۔۔۔۔ کہو ذرا مجھے دکھاؤ تو وہ کون ہیں جن کو تم نے اس کے ساتھ شریک جوڑ رکھا ہے ۶۴ * ہر گز نہیں۔ غلبہ والا اور حکمت والا تو اللہ ہی ۶۵ * ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ اور (اے نبی!) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۶۶ *
۲۹۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ تم سے کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو؟۶۷ *
۳۰۔۔۔۔۔۔ کہو تمہارے لیے ایک ایسے دن کی میعاد مقرر ہے جس سے تم ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکت ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو ۶۸ *
۳۱۔۔۔۔۔۔کافر کہتے ہیں ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس سے پہلے کی کسی کتاب پر ۶۹ * اور اگر تم (ان کی اس حالت کو) دیکھ لیتے جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے کر دیئے جائیں گے ! ۷۰ * وہ ایک دوسرے کو ملامت کریں گے۔ جو لوگ کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوتے ۷۱ *
۳۲۔۔۔۔۔۔ بڑے بن کر رہنے والے ان کمزور لوگوں کو جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تم کو ہدایت سے روکا تھا جب کہ وہ تمہارے پاس آ چکی تھی؟ نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ کمزور لوگ بڑے بن کر رہنے والوں سے کہیں گے نہیں بلکہ تمہاری رات دن کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ اللہ سے کفر کریں اور اس کے ہمسر ٹھہرائیں اور جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں پشیمان ہوں گے اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔ وہ بدلہ میں وہی پائیں گے جو وہ کرتے رہے ہیں ۷۲ *
۳۴۔۔۔۔۔۔ ہم نے جس بستی میں بھی کوئی خبردار کرنے والا بھیجا تو اس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ جو پیغام دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر (انکار کرنے والے) ہیں ۷۳ *
۳۵۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے کہا ہم تم سے زیادہ مال اور اولاد رکھتے ہیں اور ہم کو ہر گز عذاب نہیں دیا جائے گا۔ ۷۴ *
۳۶۔۔۔۔۔۔ کہو میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ۷۵ *
۳۷۔۔۔۔۔۔ تمہارے مال اور تمہاری اولاد وہ چیز نہیں ہے جو تمہیں ہمارا مقرب بناتی ہو ۷۶ * البتہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیا ۷۷ * تو ان کے لیے ان کے اعمال کی دوہری جزا ہے اور وہ (جنت کے) بالا خانوں میں چین سے رہیں گے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں کو بے اثر کرنے کے لیے دوڑ دوپ کرتے ہیں وہ عذاب میں گرفتار کر لئے جائیں گے ۷۸ *
۳۹۔۔۔۔۔۔ کہو میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ۷۹ * اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہ تم کو اور دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ ۸۰ *
۴۰۔۔۔۔۔۔اور وہ دن کہ ان سب کو وہ جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے ؟ ۸۱ *
۴۱۔۔۔۔۔۔ وہ عرض کریں گے۔ پاک ہے تو۔ ہمارا دوست تو ہے نہ کہ یہ لوگ ۸۲ * دراصل یہ جنوں کی عبادت کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر ان ہی پر اعتقاد رکھتے تھے۔ ۸۳ *
۴۲۔۔۔۔۔۔ تو آج کے دن تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ۸۴ * اور ظالموں ۸۵ * سے ہم کہیں گے چکھو اب آگ کے عذاب کا مزہ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کو جب ہماری روشن آیتیں سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ تو بس ایک آدمی ہے ۸۶ * جو چاہتا ہے کہ تم کو ان چیزوں سے روک دے جن کی پرستش تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض من گھڑت جھوٹ ہے اور ان کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہ۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو کتابیں نہیں دی تھیں جن کو وہ پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی خبردار کرنے والا بھیجا تھا۔ ۸۷*
۴۵۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا اس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنے ۸۸ * انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھو کیسی رہی میری سزا! ۸۹ *
۴۶۔۔۔۔۔۔ کہو میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ اللہ کے لیے تم دو دو مل کر اٹھو اور اکیلے اکیلے بھی اور سوچو ۹۰ * تمہارے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے ۹۱ * وہ تو ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبر دار کرنے والا ہے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ کہو اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تمہارے ہی لیے ہے ۹۲ * میرا اجر تو اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ کہو میرا رب حق کا القا کرتا ہے وہ غیب کی تمام باتوں کا جاننے والا ہے ۹۳ *
۴۹۔۔۔۔۔۔کہو حق آ گیا اور باطل نہ پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور نہ دوسری مرتبہ پیدا کرے گا؟ ۹۴ *
۵۰۔۔۔۔۔۔ کہو اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے ۹۵ * اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرا رب میری طرف نازل کرتا ہے ۹۶ * وہ سب کچھ سننے ولا اور نہایت قریب ہے ۹۷ *
۵۱۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم انہیں دیکھ لیتے جب یہ گھبرائے ہوئے ہوں گے اور بھاگ نہ سکیں گے اور قریب ہی سے پکڑ لئے جائیں گے ۹۸ *
۵۲۔۔۔۔۔۔ (اس وقت) یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لائے ۹۹ * اور اتنی دور سے یہ اس کو کہاں پا سکتے ہیں ! ۱۰۰ *
۵۳۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے انہوں نے اس کا انکار کیا تھا اور دور سے اٹکل کے تیر چلاتے رہے ۱۰۱ *
۵۴۔۔۔۔۔۔ (اس روز) ان کے اور ان کی (اس) خواہش کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی جائے گی جس طرح ان کے پیشرو ہم مشربوں کے ساتھ معاملہ کیا جا چکا ہو گا۔ ۱۰۲ * وہ بھی ایسے شک میں پڑے ہوئے تھے جس نے ان کو الجھن میں ڈال دیا تھا ۱۰۳ *
تفسیر
ا۔۔۔۔۔۔ حمد کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فاتحہ نوٹ ۲۔
۲۔۔۔۔۔۔ آخرت میں اللہ کی کرشمہ سازیوں اور اس کے کمالات کا اس سے کہیں زیادہ ظہور ہو گا جو دنیا میں ہو رہا ہے اس لیے وہاں بھی وہی مستحق تعریف ہو گا، اس کے گن گائے جائیں گے ، اہل ایمان انعام سے نوازے جانے پر اسی کا شکر ادا کریں گے اور جنت میں اسی کی حمد کی صدائیں سنائیں دیں گی۔
۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اس نے دنیا اور آخرت کے لیے جو منصوبہ بھی بنایا ہے وہ کمالِ حکمت اور کمال علم پر مبنی ہے۔ اس کا کوئی کام بھی علم و حکمت سے خالی نہیں اس لیے وہ اپنے تمام کاموں پر ستائش کا مستحق ہے۔ اگر اس کے کسی کام کی حکمت انسان کی سمجھ میں نہیں آتی تو یہ اس کے فلم کا قصور ہے یا اس بنا پر ہے کہ اس کے عقل کی رسائی اپنی محدودیت کی بنا پر اس کی حکمت تک نہیں ہو سکتی۔
۴۔۔۔۔۔۔ زمین میں جو چیز بھی داخل ہوتی ہے وہ بظاہر غائب ہو جاتی ہے لیکن اللہ کے علم میں وہ موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کے زمین میں جذب ہونے کے بعد زمین سے کونپلیں نکلنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو پانی زمین کے اندر چلا گیا تھا وہ اللہ کے علم میں تھا اور اس نے اس پانی کے ذریعہ زمین سے نباتات نکالیں۔ اسی طرح انسان بھی مرنے کے بعد زمین کے اندر چلا جاتا ہے لیکن اس کے تمام اجزاء اللہ کے علم میں ہوتے ہیں اس لیے قیامت کے دن اس کا مردوں کو ان کے جسموں کے ساتھ زمین سے نکال لینا اور انہیں دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔
۵۔۔۔۔۔۔ آسمان سے پانی بھی برستا ہے ، شعاعیں بھی زمین پر گرتی ہیں اور بجلی وغیرہ بھی۔ اسی طرح بخارات سمندر سے اٹھتے ہیں اور فضا میں پہنچ کر قطروں کی شکل میں برتے ہیں۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بخارات اللہ کے علم میں تھے اور اس نے ان کو بارش کی شکل میں برسایا۔ فرشتے بھی آسمان سے اترتے ہیں اور اس میں چڑھتے ہیں۔ اسی طرح نیک لوگوں کی روحیں آسمان کی طرف پرواز کرتی ہیں۔
۶۔۔۔۔۔۔ ان آیتوں میں اللہ کی معرفت عطا کرتے ہوئے اس کے رحیم اور غفور ہونے کی صفتیں بیان کی گئی ہیں یہ گویا دعوت ہے بندوں کو اس بات کی کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی طرف لپکیں۔
۷۔۔۔۔۔۔ آج بھی قیامت کا انکار کرنے والوں کی کمی نہیں مگر ان کے پاس ا سکی کوئی دلیل نہیں ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔ جو لوگ قیامت کا انکار کر رہے تھے ان کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ ان کے دعوے کی تردید اپنے رب عالم الغیب کی قسم کھا کر پورے یقین اور پورے زور کے ساتھ کریں کیونکہ قیامت ایک اٹل حقیقت ہے اور اس کا علم وحی الٰہی نے یقین کی حد تک بخشا ہے۔
قرآن کے اس بیان کے پیش نظر موجودہ دور کے منکرین کے سامنے بھی قیامت کی خبر کو پورے وثوق کے ساتھ زور دار طریقہ پر پیش کرنا اسلام کی طرف دعوت دینے والوں کی ذمہ داری ہے۔
عالم الغیب کی صفت کے ساتھ قسم کھانے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ قیامت کا تعلق غیب سے ہے اور میرا رب ہی غیب کو جانتا ہے اس لیے اس کی دی ہوئی خبر یقیناً صحیح ہے منکرین نے تو غیب میں جھانک کر دیکھا نہیں پھر وہ کس بنا پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامت کبھی آئے گی ہی نہیں ؟
۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر چیز کا ریکارڈ واضح طور سے اللہ کے پاس موجود ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کا مثبت پہلو ہے کہ مومنین صالحین کو اچھا صلہ دیا جائے ان کے قصور معاف کر دیئے جائیں اور انہیں ایسا نفیس رزق دیا جائے جو ان کے لیے باعثِ عزت ہو۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ اللہ کی آیات کو بے اثر کرنے کے لیے سرگرم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کے ارشادات کی مخالفت کے لیے کھڑا ہو جائے مثلاً اللہ کے وجود یا اس کی وحدانیت اور آخرت اور رسالت کو غلط قرار دینے کے لیے پورا زور لگائے تاکہ ان عقائد کو لوگ قبول نہ کریں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ علم سے مراد وہ علم ہے جو اللہ کی صحیح معرفت عطا کرتا اور اس کی راہ روشن کرتا ہے۔ یہ علم آدمی کو ایک حد تک اپنی فطرت اور عقل سلیم سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ نزول قرآن سے پہلے مشرکین مکہ کے درمیان ایسے لوگ موجود تھے جو خدائے واحد ہی کی عبادت کرتے تھے اور ان کا مذہب حنیفیت (اللہ ہی کا ہو کر رہنا) تھا۔ لیکن علم کی پوری پوری روشنی وحی الٰہی کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔
جو لوگ جہالت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ علم کی روشنی میں خدا، مذہب اور آخرت کے مسئلہ پر غور کرتے ہیں ان کو قرآن کی صداقت و حقانیت کا یقین ہو جاتا ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ یہ جہالت کی تاریکی میں بھٹکنے والوں کی احمقانہ حرکتیں ہیں کہ وہ پیغمبر کا اور اس کی اس بات کا کہ وہ دوبارہ زندہ کئے جانے کی خبر دے رہا ہے مذاق اڑاتے ہیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ پیغمبر کے بارے میں منکرین کا یہ کہنا کہ اس شخص نے جھوٹ گھڑا ہے یا اسے جنون ہو گیا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ محض شک اور وہم کی بناء پر یہ باتیں کہتے تھے۔ اگر ان کو یقین ہوتا تو کوئی ایک بات کہتے۔ دو مختلف باتیں نہ کہتے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔ منکرین کی یہ باتیں سورج سے آنکھیں بند کر کے اس کا انکار کرنے کے مترادف تھیں اس لیے ان کا جواب دینے کے بجائے ان کے اصل جرم کی نشاندہی کی گئی کہ وہ آخرت کو ماننا ہی نہیں چاہتے اس لیے پیغمبر کے بارے میں ایسی بے تکی باتیں کہتے ہیں مگر انکار آخرت کا رویہ اختیار کر کے وہ عذاب کی گرفت میں آ گئے ہیں اور گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان و زمین کو رات دن اپنے آگے پیچھے دیکھتے رہتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے کہ ان کا خالق اگر چاہے تو اس زمین میں ان کو دھنسا بھی سکتا ہے اور اگر چاہے تو آسمان کے ٹکڑے بھی ان پر گرا سکتا ہے گر وہ اس طرح سوچتے تو ان کے اندر خدا خوفی پیدا ہوتی ہے۔ پھر نہ وہ آخرت کا انکار کرتے اور نہ مجرم بن کر رہتے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی زمینو آسمان کی عظمت میں الہ کی قہاریت کی بہت بڑی نشانی موجود ہے ، وہ چاہے تو بہت بڑا قہر نازل کر سکتا ہے مگر اس نشانی کی طرف اللہ کے وہی بندے متوجہ ہوتے ہیں جو اس کی طرف رجوع ہونے والے ہوں
"منیب” وہ جو دل سے اللہ کی طرف رجوع ہو۔ انابت کی یہ کیفیت ہدایت کی راہ کھول دیتی ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی داؤد کو اللہ نے اپنے خاص فضل سے نوازا تھا۔ اس فضل کی کھ تفصیل آگے بیان ہوئی ہے جس سے واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ تعریف اور شکر کے لائق اللہ ہی کی ذات ہے جو اپنے خاص بندوں (انبیاء کو غیر معمولی فضل سے نوازتا رہا ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ انبیاء نوٹ ۱۰۶۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ حضرت داؤد کے ہاتھ میں لوہے کا نرم ہو جانا جیسا کہ آیت کے الفاظ اور انداز کلام سے واضح ہے ایک معجزہ کے طور پر تھا۔ اس کو لوہے کے استعمال کے عام طریقہ پر محمول کرنا بالکل غلط ہے جس میں لوہے کو گرم کیا جاتا ہے اور جب وہ گرم ہو کر نرم پڑتا ہے تو اس ے مختلف چیزیں ڈھالی جاتی ہیں۔ اگر معمول کے مطابق ظہور میں آنے والی کوئی ٹیکنالوجی یا تمدنی ترقی ہوتی تو قرآن اسے اس شان سے بیان نہ کرتا اور نہ معجزات کے درمیان اس کا ذکر کرتا۔
۲۱۔۔۔۔۔۔ زرہ ایک جنگی ضرورت کی چیز ہے اور قدیم زمانے میں اس کی بڑی اہمیت تھی۔ حضرت داؤد سے پہلے اگر زرہیں بنتی بھی تھیں تو سپاٹ قسم کی جو بہت وزنی ہوتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد پر یہ انام فرمایا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا تاکہ وہ اس سے حلقے بنا کر ان کو زرہ کی شکل دیں۔ یہ زرہ ہلکی ہونی کی وجہ سے بآسانی استعمال کی جا سکتی تھی۔ یہ حضرت داؤد کے دفاعی اسلحہ جات میں ایک اہم اور قابل قدر اضافہ تھا اور چونکہ اس فن سے دوری قومیں ناآشنا تھیں اس لیے دشمن طاقتیں حضرت داؤد کے لشکر کے مقابلہ میں ٹک نہیں سکتی تھیں۔ یہ زبردست جنگی فائدہ تھا جو بنی اسرائیل کو حضرت داؤد کے اس معجزہ کے ذریعہ حاصل ہوا۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ۸ ۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ خطاب داؤد والوں یعنی بنی اسرائیل سے ہے کہ اس فضل سے نوازے جانے پر تمہیں نیک بننا چاہئے کہ یہ حقیقی شکر گزاری ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو اس طرح مسخر کر دیا گیا تھا کہ وہ ان کے اشارے پر اس طویل سفر صبح یا شام کے وقت میں طے کرتے ہوں
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۰۹۔
۲۴۔۔۔۔۔۔تانبے کی کانیں ہوتی ہیں مگر حضرت سلیمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا تھا یہ غیر معمولی بات تھی جو اس کے فضل خاص کا نتیجہ تھی تاکہ کان کنی کے مرحلوں سے گزرنے بغیر سلیمان ایک پر شکوہ اور بے مثال اسلامی حکومت قائم کرسکیں۔ چنانچہ انہوں نے اس سے جیسا کہ آگے آ رہا ہے بڑے بڑے ظروف بنائے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۱۰ ، نیز سورۂ نمل نوٹ ۲۵۔
۲۶۔۔۔۔۔۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ حضرت سلیمان نے جنوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا تھا بلکہ جیسا کہ آیت صراحت کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے جنوں کو حضرت سلیمان کے تابع کر دیا تھا وہ ان سے جو چاہیں خدمت لیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی جن اس حکم سے سرتابی کرتا تو اللہ تعالیٰ اس پر آگ کے عذاب کا سارا برسا دیتا۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان نے ان جنوں سے بڑی بڑی اور مضبوط عمارتوں کی تعمیر کا کام لیا۔ بڑے بڑے پتھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اس زمانہ میں جب کہ کرین ایجاد نہیں ہوئے تھے آسان نہیں تھا لیکن جنوں کی وجہ سے یہ کام آسان ہو گیا۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ آیت میں لفظ "تماثیل” استعمال ہوا ہے جو تمثال کی جمع ہے اور تمثال عربی میں مجسمہ کو بھی کہتے ہیں اور تصویر کو بھی۔ عربی کی مبسوط اور مستند لغت لسان العرب میں ہے :
والتمثال : الصورۃ۔۔۔ متثال یعنی صورۃ (تصویر) و ظل کل شی تمثالہ۔۔۔ ہر چیز کا سایہ اس کی تمثال (تصویر) ہے ”
والتمثال اسم للشئ للمصنوع متشبھا بخلق من خلق اللہ (لسان العرب ج ۱۱ ص ۶۱۳)
"اور تمثال اس مصنوعی چیز کا نام ہے جو اللہ کی کسی مخلوق کے مشابہ بنائی گئی ہو۔”
والتمثال الشی ء المصور ، تمثال یعنی مصور چیز (مفردات راغب ص ۴۷۸)
حضرت سلیمان پیغمبر تھے اور حضرت موسیٰ کی شریعت کے پیرو تھے لہذا ان کے بارے میں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے جاندار (ذی روح) کے مجسمے یا تصویریں بنائی ہوں گی تورات میں جاندار کی تصویر بنانے کی حرمت بیان ہوئی ہے :
"تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین میں یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ (استثناء ۵:۸)
جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ پچھلی شریعت میں جاندار کی تصویریں بنانا جائز تھا، انہوں نے غلط کہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث بھی اس کی تردید کرتی ہے :
عن عائشۃ ان ام حبیبۃ و امسلمۃ ذکرنا کنیۃ راینھا باحبشۃ فیھا تصاویر لرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان اولیک اذکان فیھم الرجل الصالح فمات بنواعلی قبرہ مسجدا وصوروا فیہ تلک الصور اولیک شرارالخلق عنداللہ عز وجل یوم القیامۃ (مسلم کتاب المساجد)
(ام المومنین) عائشہ سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور جس میں تصویریں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان لوگوں میں جب کوئی صالح شخص ہوتا اور وہ جاتا تو یہ لوگ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا دیتے اور اس میں اس قسم کی تصویریں بنا لیتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ عزوجل کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔”
یہ حدیث اس باب میں صریح ہے کہ پچھلی شریعت میں بھی تصویر بنانا جائز نہ تھا۔
اس لیے حضرت سلیمان نے غیر جاندار (غیر ذی روح) کی ہی تصویریں بنوائی ہوں گی جو شریعت میں ممنوع نہیں ہیں۔ یہ تصویریں پھول، پتے ، درخت اور قدرتی مناظر کی ہو سکتی ہیں۔ رہا بائیبل کی کتاب "سلاطین” اور "تواریخ” کا یہ بیان کہ حضرت سلیمان نے جانداروں کی تصویریں بنائی تھیں تو یہ لائق اعتبار نہیں کیونکہ یہ کتابیں جیسا کہ بائیبل کے شارح کا بیان ہے ، حضرت سلیمان کے صدیوں بعد لکھی گئیں جن میں سنی سنائی باتوں اور قصوں کو بڑا دخل رہا ہے۔
اور بائیبل میں تو حضرت سلیمان کی طرف شرک اور بت پرستی کو بھی منسوب کیا گیا ہے اس لیے اس مسئلہ میں اس سے استدلال صحیح نہیں اس آیت کا صحیح اور بہترین مفہوم وہی ہو سکتا ہے جو شرعی احکام سے مطابقت رکھتا ہو اور جس سے مطابقت رکھتا ہو اور جس سے ایک پیغمبر کے کردار پر حرف نہ آتا ہو۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے :
بات ایک یہ کہ تصاویر سے مزین شاندار عمارتوں کی تعمیر کا کام جیسا کہ آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے حضرت سلیمان نے جنوں سے لیا تھا وہ بڑے بڑے اور قیمتی پتھر اٹھا کر بھی لاتے تھے اور ان پر نقش و نگار کا کام بھی کرتے تھے۔ اس کام کی نہ ان کو مزدوری دینا پڑتی تھی اور نہ حکومت کے خزانہ پر اس کا کوئی بار پڑتا تھا اس لیے اس کو اسراف نہیں قرار دیا جا سکتا۔
دوسری بات یہ کہ حضرت سلیمان کے کارناموں میں اچھا خاصا دخل خدائی معجزات کا تھا۔ تانبے کے چشمے کا جاری ہو جانا اور جنوں سے خدمت لینا یہ سب اسی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ انہوں نے اس تعمیری کام اور تصویر سازی کو بطورِ فن یا ثقافت اپنی قوم میں رائج نہیں کیا تھا۔
بات تیسری یہ کہ تصویروں سے مزین شاندار تعمیرات فخر و نمائش کے لیے نہیں بنائی گئی تھی بلکہ اللہ کے خصوصی فضل کے اظہار کے لیے بنائی گئی تھیں بلکہ اللہ کے خصوصی فضل کے اظہار کے لیے بنائی گئیں تھیں جو اس نے اپنے پیغمبر سلیمان پر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے غیر معمولی وسائل فراہم کئے تھے کہ ان کا کام انسانی صناعوں کے بغیر اور حکومت کے خزانہ پر بار ڈالے بغیر انجام پاتا ہے۔ اس سے ایک تو اسلامی حکومت کا رعب غیر اقوام پر قائم ہو گیا تھا اور دوسرے حضرت سلیمان کی صداقت ظاہر ہو رہی تھی کہ وہ واقعی اللہ کے نبی ہیں۔ چنانچہ ان کے شیش محل کو دیکھ کر ملکۂ سبا کے حضرت سلیمان سے متاثر ہونے کے واقعہ سورۂ نمل میں گزر چکا۔
چوتھی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت یہ تھی کہ ایک خاص شان کی اسلامی حکومت ایک نبی کے ہاتھوں بنی اسرائیل میں قائم ہو جائے تاکہ یہ بنی اسرائیل پر غیر معمولی انعام بھی ہو اور دنیا والوں پر ظاہر ہو جائے کہ ایک ایسی اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہے اپنی ظاہری شان میں بالکل منفرد تھی اور اس کی شان و شوکت کو دیکھ کر خدا یاد آ جاتا تھا اور اس حکومت کو نہایت کامیابی اور پورے عدل و انصاف کے ساتھ ایک نبی نے چلا کر دکھایا ہے۔
ان باتوں کو سمجھ لینے کے بعد حضرت سلیمان کے کار نامہ کو مسلمان بادشاہوں کی مسرفانہ اور نمائشی تعمیرات اور شاہی محلات کے جواز کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ دہلی کے لال قلعہ کا دیوان خاص جس کی دیواریں نہ صرف پھولوں کی تصاویر اور نقش و نگار سے مزین نمونہ ہے اور مغل بادشاہوں نے شاندار محل محض عیش پرستی کے لیے بائے تھے اور تاج محل جیسی شان و شوکت والی جو یادگاریں انہوں نے قائم کیں وہ محض فخر و نمائش کے لیے تھیں۔
تصویر کا مسئلہ سامنے آنے سے ذہن میں فوٹو کے جواز و عدم جواز کا سوال بھی ابھرنے لگتا ہے مگر یہاں یہ بحث طوالت کا موجب ہو گی کیونکہ فوٹو موجودہ زمانہ کی ایجاد ہے اور اس لحاظ سے یہ اجتہادی مسئلہ ہے نیز ہم یہاں اس بحث میں پڑنا مناسب بھی نہیں سمجھتے اس لیے ان سطور ہی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ بڑی بڑی دیگوں میں کھانا پکتا تھا اور بڑے بڑے لگن میں اس کو نکالا جاتا تھا تاکہ بیک وقت بہت سے لوگ کھانا کھائیں۔ حضرت سلیمان کے پاس جو بھاری لشکر تھا معلوم ہوتا ہے ان کے کھانے کے لیے یہ اہتمام کیا گیا تھا یعنی ایک فوجی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے۔
پتھر کے بڑے بڑے لگن اور بڑی بڑی دیگیں بنانے کا کام جو اپنی جگہ سے ہٹائی نہیں جا سکتی تھیں جنوں سے لیا گیا تھا۔ یہ ساری کاریگری جیسا کہ آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے جنوں ہی کی کاریگری تھی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔آلِ داؤد سے مراد حضرت داؤد کی اولاد بھی ہے اور ان کے پیرو بھی اور شکر کے ساتھ عمل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ان احسانات کا شکر اس طرح ادا کرو کہ عملی زندگی سے اس کا اظہار ہو یعنی ایسا طرز عمل جو شکر سے مطابقت رکھنے والا ہو۔ معلوم ہوا کہ شکر گزاری کے لیے زبان سے شکر کے کلمات ادا کرنا کافی نہیں بلکہ عمل سے اس کا ثبوت دینا ضروری ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ قیمتی چیزیں دنیا میں کم ہی پائی جاتی ہیں ، سونا لوہے کے مقابلہ میں ، ہیرے اور جواہرات کوئلے اور پتھر کے مقابلہ میں ، خوبصورت اور خوشبو دار پھول جھاڑ جھنکاڑ کے مقابلہ میں اور زعفران گھاس پھوس کے مقابلہ میں۔ اسی طرح اللہ کے شکر گزار بندے ناشکروں کے مقابلہ میں بہت کم پائے جاتے ہیں مگر وہی سوسائٹی کا مکھن اور انسانیت کا بیش بہا جو ہر ہوتے ہیں۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان کی موت بھی معجزانہ طور پر ہوئی تھی۔ صورت کچھ اس طرح پیش آئی کہ وہ اپنے عصا سے ٹیک لگائے کھڑے تھے اور جنوں کے کام کی نگرانی کر رہے تھے کہ موت نے انہیں آ لیا۔ مگر ان کی لاش کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر گرنے نہیں دیا بلکہ اسے عصا کے سہارے کھڑا ہی رکھتا تاکہ جن یہ سمجھتے رہیں کہ سلیمان زندہ ہیں اور اس خدمت میں لگے رہیں جو ان کے سپرد کر دی گئی تھی تاکہ تعمیر وغیرہ کا کام مکمل ہو۔ وہ اس خدمت کو انجام دیتے رہے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کو ان پر ظاہر کرنا چاہا تو زمین کے کیڑے یعنی دیمک کو اشارہ کیا کہ وہ ان کے عصا کو کھا لے۔ دیمک نے جب عصا کو چاٹ ڈالا تو عصا ٹھہر نہ سکا اور حضرت سلیمان زمین پر گر پڑے۔ اس وقت جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ سلیمان کی موت اس سے پہلے ہی واقع ہو گئی تھی اور ان کی لاش عصا کے سہارے کھڑی تھی۔ اس وقت انہیں احساس ہوا کہ اگر وہ غیب کی باتیں جانتے ہوتے تو سلیمان کی موت کی خبر انہیں پہلے ہی ہو گئی ہوتی اور انہیں اس کام سے جو ذلت کے ساتھ مصیبت میں پڑ کر انہیں انجام دینا پڑ رہا تھا کبھی کا چھٹکارا مل گیا ہوتا کیونکہ جن سلیمان کے حضور سلیمان ان ہی کی ہدایت پر خدمت انجام دینے کے لیے مامور کئے گئے تھے۔
اس واقعہ کا خاص پہلو جس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا مقصود ہے یہ ہے کہ جنوں کے بارے میں یہ خیال غلط ہے کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں جنوں کو غیب داں سمجھ کر ہی لوگ ان سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور سفلی اعمال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ محض وہم پرستی ہے مگر آج بھی کتنے ہی لوگ اعتقاد کی اس خرابی کی بناء پر جنوں کی دہائی دیتے ہیں اور جب کوئی شخص دماغی عارضہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اسے آسیب پر محمول کر کے بے رحمی کے ساتھ اس کی پٹائی کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دراصل وہ اس جن کو پیٹ رہے ہیں جو اس شخص پر سوار ہو گیا ہے اور پھر جن کو حاضر کر کے اس سے کچھ اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس موقع پر شیطان انہیں دھوکہ پر دھوکہ دیئے چلا جاتا ہے اور ان کی بد اعتقادی ان کو پستی اور ذلتیں مبتلا کر دیتی ہے۔
واضح رہے کہ قرآن نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ حضرت سلیمان انتقال کے بعد کتنے عرصہ تک ٹیک لگائے کھڑے رہے۔ جن روایتوں میں ایک سال کا ذکر ہوا ہے اور جن کو مفسرین نے نقل کیا ہے وہ سب ناقابل اعتبار ہیں صحیح درجہ کی کوئی روایت بھی اس سلسلہ میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کسی لمبی مدت کو فرض کرنا ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ اس حالت میں چند روز رہے ہوں گے اور اتنا وقت بھی جنوں کو یہ محسوس کرا دینے کے لیے کافی ہوا کہ انہیں ان کے موت کے بروقت خبر نہ ہو سکی۔ رہا یہ سوال کہ اگر جنوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کی خبر نہ ہو سکی تو کیا انسانوں کو بھی نہیں ہو سکی تھی اور اگر انسانوں کو ہوئی تھی تو پھر بغیر تجہیز و تکفین کے لاش کو کس طرح ایک عرصہ تک اسی حالت پر رہنے دیا گیا؟ تو اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ قرآن نے صرف جنوں کے بے خبر رہنے کی صراحت کی ہے۔ انسانوں کے بے خبر رہنے کی صراحت نہیں کی ہے۔ مادلھم علی موتہ الادابۃ الارض، اس کی موت پر ان کو مطلع کرنے والی چیز زمین کا کیڑا تھا۔ میں ھم (ان کو) کی ضمیر جنوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ اس آیت میں بھی جنوں ہی کا ذکر ہوا ہے اور اس سے پہلے والی آیت میں بھی جنوں کی کاریگری بیان ہوئی ہے۔ اس سیاق و (Context) کوئی ایسی بات نہیں جو انسانوں پر دلالت کرتی ہو۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے اللہ سے اشارہ پاکر اپنے انتقال کے موقع پر ہی اپنے اہل و عیال اور اپنی حکومت کے نائبین کو ہدایت کی ہو گی کہ وہ ان کی لاش کو اپنے حال پر رہنے دیں جب تک کہ وہ گر نہ پڑے اور انہوں نے اس کی تعمیل کی ہو گی یا پھر انہوں نے یہ دیکھ کر حضرت سلیمان انتقال کے باوجود عصا کے سہارے کھڑے ہیں اور زمین پر ان کی لاش گر نہیں رہی ہے یہ سمجھا ہو گا کہ یہ اللہ کا سراسر معجزہ ہے اس لیے آئندہ کوئی بات ظاہر ہونے تک لاش کو اسی حالت میں رہنے دنیا چاہئے۔ اور چونکہ ان کی لاش خدائی معجزہ کی بنا پر کھڑی تھی اس لیے اس کے محفوظ رہنے کی طرف سے بھی اطمینان رہا ہو گا اور تدفین اسی وقت عمل میں آئی ہو گی جب کہ وہ زمین پر گر پڑے۔ جوجن خدمت پر مامور تھے ان کو اور انسانوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہوں گی کہ جنوں کو کسی طرح بھی حضرت سلیمان کی موت کا پتہ نہ چل کا۔ ہمارے خیال میں اس توجیہ کے بعد کوئی اشکال باقی نہیں رہتا اور حقیقتِ حال کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔سبا ایک قوم کا نام ہے جو یمن کے علاقہ میں آباد تھی اور اس کا دارالحکومت مآرب تھا جو صناء کے مشرق جانب ۱۹۳ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ سورۂ نمل میں ملکۂ سبا کے حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہونے اور اسلام قبول کرنے کا واقعہ گزر چکا۔ اس زمانہ میں عام طور سے رعایا کا دین وہی ہوتا تھا جو بادشاہ کا ہوتا اس لیے ملکہ سبا اسلام قبول کر کے جب اپنے ملک کو لوٹی ہو گی تو اس کی رعایا نے بھی اسلام قبول کیا ہو گا۔ اس طرح سبا کے ملک یمن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ ہی میں اسلام پہونچ گیا تھا۔ قوم سبا سینکڑوں سال تک حکومت بھی کرتی رہی اور خوش حال بھی رہی۔ وہ عرب کی عظیم الشان متمدن حکومت تھی۔ لیکن بعد میں جب انہوں نے اللہ کی ناشکری کا رویہ اختیار کیا تو وہ ساری نعمتیں ان سے چھین لی گئیں جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں۔ ناشکری کرنے والی قوم کے اس انجام کو یہاں عبرت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جس علاقہ میں وہ آباد تھے اس کے زرخیز ہونے اور قوم کے لیے خوشحال کا باعث ہونے میں اس بات کی واضح علامت موجود تھی کہ یہ نعمتیں ان کے رب اللہ ہی کی عطا کردہ ہیں اور اس کے اس احسان پر شکر واجب ہے اور یہ کہ اگر وہ چاہے تو یہ نعمتیں چھین بھی سکتا ہے اس لیے اس سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہئے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی باغوں کا ایک سلسلہ داہنی جانب تھا اور دوسرا بائیں جانب جن میں نفیس اور لذیذ پھلوں سے لدے ہوئے درخت ، لہلہاتے کھیت اور خوشبو دار درخت اس کثرت سے تھے کہ پورا علاقہ چمنستان بنا ہوا تھا۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی رزق کی یہ فراوانی ان کے رب ہی کی بخشش تھی اور یہ خوان نعمت زبان حال سے گویا تھی کہ اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو اور قدرت بھی اپنی خاموش زبان میں اعلان کر رہی تھی کہ کیسی زرخیز اور عمدہ ہے یہ زمین اور خوب ہے وہ رب جو اپنے شکر گزار بندوں کے قصور معاف کرتا ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس سے بے تعلقی اور بے رخی اختیار کی۔ اور جب انہوں نے اللہ سے روگردانی کی تو پھر ان کا شرک اور دنیا پرستی میں مبتلا ہونا لازمی بات ہے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ سیل العرم (بند کا سیلاب) سے مراد وہ سیلاب ہے جو بند (Dam) توڑ کر سبا کے باغوں اور کھیتوں میں گھس پڑا اور سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یہ بند سد مآرب کے نام سے مشہور ہے جو قوم سبا نے اپنے دارالحکومت مآرب میں دو پہاڑوں کے درمیان جن کا نام ابلق ہے بنایا تھا تاکہ بارش اور چشموں کا پانی اس میں جمع رہے۔ انہوں نے اس سے نہریں نکال کر آب پاشی کا سامان کیا تھا۔ ڈیم (Dam) بنانے کا فن موجودہ زمانہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ یہ فن دو ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ قوم سبا نے ا میں بڑی مہارت کا ثبوت دیا تھا۔ (بند کی تفصیلات کے لیے دیکھئے ارض القرآن از سید سلیمان ندوی، عنوان سد مآرب ج ۱ ص ۲۵۴) بند ٹوٹنے کا یہ واقعہ اندازہ ہے کہ دوسری صدی قبل مسیح میں پیش آیا ہو گا۔
اس بند (Dam) کے آثار اب بھی مآرب میں موجود ہیں اور زبان حال سے داستان عبرت سنا رہے ہیں۔ ہم اس کی تصویریں آگے کے صفحات پر پیش کر رہے ہیں۔ (ان آثار کی تفصیلات کے لیے دیکھئے ڈاکٹر عبد العلیم عبدالرحمن خضر کی کتاب مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآنی مطبوعہ دارالشروق جدہ ص ۱۹۵ تا ۲۰۶)۔
۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی سیلاب کی تباہ کاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ثمر آور باغ ختم ہو گئے اور ان کی جگہ کڑوے کسیلے پھل والے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ نے لے لی۔ اگر کھانے کا کوئی درخت رہا تو وہ بیریاں اور وہ بھی بہت کم۔
معلوم ہوتا ہے سیلاب نے اپنے ساتھ ریت اور کچھ ایسے مادے بکھیر دیے کہ زمین پر ان کی تہ جم جانے سے اس کی ساری زرخیزی ختم ہو گئی۔
۴۰۔۔۔۔۔۔ سبا کو ناشکری کی ایسی سزا ملی کہ اس کا سارا عیش کا فور ہو گیا اور خوشحالی کی زندگی بدحالی میں تبدیل ہو گئی۔
واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نا سپاس اور نا شکر گزار قوم کو سزا دیا چاہتا ہے تو اس سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور ا کی معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب قوم اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے لگتی ہے اور اپنے رب سے منہ پھیر لیتی ہے۔
قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ کی یہ نت (قاعدہ) بیان ہوئی ہے کہ:
اِنّ اللہ لا یغیرمابقوم حتی یغیر وامابانفسھم۔ (رعد۔۱۱)
"اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے رویہ کو نہیں بدلتی۔”
سبا کے اس واقعہ سے یہ بھی واضح ہوا کہ خوشحالی ہو یا بد حالی سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے نہ دیو دیوتاؤں کا کوئی وجود ہے اور نہ رزق دینے پر کوئی قادر ہے۔ حق صرف توحید ہے اور شرک سراسر باطل۔
۴۱۔۔۔۔۔۔ یہ ایک دوسری نعمت کا ذکر ہے جو سباکو عطا ہوئی تھی۔ ان کے لیے سفر ک نہایت آسان اور آرام دہ بنا دیا گیا تھا وہ شام اور فلسطین کی طرف تجارتی سفر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شاہراہ کو جو یمن سے بیت المقدس اور دمشق تک جاتی تھی اس قابل بنا دیا تھا کہ قریب قریب بستیاں آباد ہو گئیں۔ مسافروں کے لیے منزل طے کرنا آسان ہو گیا۔ یہ بستیاں شاہراہ کے کنارے پر آباد ہونے کی وجہ سے کھلی دکھائی دینے والی بستیاں تھیں اس لیے امن کے ساتھ سفر کرنا ممکن ہو گیا تھا۔
"ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں۔” اس مراد بیت المقدس اور فلسطین و شام کا علاقہ ہے اس سرزمین کے لیے قرآن کی یہ معروف تعبیر ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ یہ بھی قدرت کا اپنی خاموش زبان میں اعلان تھا۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ قومِ سبا اللہ کو اپنا رب مانتی تھی پھر بھی اس کی نا شکر گزار تھی۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ سبا نے اللہ کی اس نعمت کی بھی ناقدری کی۔ کہنے لگے جس سفر میں صعوبتیں نہ ہوں وہ سفر ہی کیا۔ ان کی یہ دعا ہمارے سفر کی منزلوں میں دوری پیدا کر دے انسان کی اس ذہنیت کی غمازی کرتی ہے جو قرآن میں دوسری جگہ بیان ہوئی ہے :
ویدعوالانسان بالشر دعاء ہ بالخیر۔ (بنی اسرائیل۔ ۱۱)
"اور انسان شر کے لیے اسی طرح دعا کرنے لگتا ہے جس طرح اسے خیر کے لیے دعا کرنا چاہئے۔”
اور مشرکین مکہ نے بھی اپنے لیے بد دعا کی تھی:
اللھم ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنابعذاب الیم (انفال۔ ۳۲)
"اے اللہ! اگر یہ واقعی حق ہے تیری جانب سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب نازل کر”۔
۴۵۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسا کر کے انہوں نے اپنے ہی اوپر زیادتی کی۔ اللہ کی ناشکری کرنے سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ آدمی اپنے ہی کو اللہ کے غضب کا مستحق بنا دیتا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ یعنی کہاں سبا کا وہ عروج اور کہاں اس کا یہ زوال کہ وہ تاریخ کے اوراق میں داستانِ پارینہ بن کر رہ گئے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ بند کے ٹوٹ جانے اور باغوں اجڑ جانے سے سبا کی تجارت بھی متاثر ہوئی۔ جو تجارتی قافلہ خوشبودار مسالے اور دیگر قیمتی اشیاء لے کر شام کی طرف جایا کرتے تھے ان کا کاروبار بھی ٹھپ ہو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ سبا کے مختلف قبیلے وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور تہامہ، شام وغیرہ مختلف علاقوں میں انہوں نے سکونت اختیار کی۔ اس طرح سباکی جمعیت پارہ پارہ ہو گئی اور وہ منتشر ہو کر رہ گئے۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ سباکی طرف انبیاء بھیجے گئے تھے مگر یہ بات نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں۔ اور جو سزا جو قوم سبا کو ملی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی رسل براہِ راست ان کی طرف نہیں بھیجا گیا تھا ورنہ رسول کو جھٹلانے کا انجام تو یہ ہوتا کہ وہ قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی ہے مگر سبا کی معیشت تباہ کر دی گئی اور اس کا شیرازہ بکھر دیا گیا۔ یہ سزا اس سزا سے مختلف تھی جو رول کو جھٹلانے والی قوموں کو دی جاتی رہی۔ رہا اسلام کی دعوت کا قوم سباکو پہنچنا اور ان پر اللہ کی حجت کا قائم ہو جانا تو یہ کام حضرت سلیمان کے ذریعہ بھی انجام پایا تھا اور دیگر انبیائے بنی اسرائیل کے ذریعہ بھی انجام پاتا رہا ہو گا کیونکہ اس زمانہ میں ارض مقدس کو دعوتِ اسلامی کا مرکز بنایا گیا تھا تاکہ بنی اسرائیل کے ذریعہ دوسری اقوام تک دعوت پہنچے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ سبا کے اس تاریخی واقعہ میں رہنمائی کا کافی سامان موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ کسی قوم کی خوشحالی اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہوتی ہے اور جب وہ قوم اس کی ناقدری کرتی اور اپنے رب سے منہ پھیر لیتی ہے تو اس کی خوشحالی کو اللہ تعالیٰ بدحالی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ قوموں کا عروج و زوال محض ظاہری اسباب کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے اللہ کی حکمت اور اس کا قانون عدل کارفرما ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اس نے سبا کو ناشکری کی سزا دے کر عبرت کے لیے ایک مثال پیش کر دی ہے جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہو گئی ہے۔ چوتھے یہ کہ دنیا مزے اڑانے کے لیے نہیں ہے بلکہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہے اور انسان کی فلاح کا دار و مدار ذمہ داریوں کو ادا کرنے ہی پر موقف ہے۔ مگر اللہ اور آخرت کی طرف رہنمائی کرنے والی ان نشانیوں سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو صبر اور شکر کی خصوصیات اپنے اندر رکھتے ہیں۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف جو ابلیس نے کہی تھی کہ :
ولاغوینھم اجمعین الا عبادک منھم المخلصین (حجر۔۳۹،۴۰)
"اور میں ان سب کو بہکاؤں گا سوائے تیرے ان بندوں کے جن کو تو نے ان میں سے خاص کر لیا ہو۔”
ولاتجداکثرھم شاکرین (اعراف۔ ۱۷)
"اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ ”
اور با نے ابلیس کو اپنا یہ خیال صحیح ثابت کر دکھانے کا موقع دیا۔
۵۰۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ قوم سبا میں ایک مومن گروہ بھی تھا جس نے شیطان کی پیروی نہیں کی اور اللہ کی ناشکری کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ یعنی شیطان نے اپنی پیروی کے لیے لوگوں کو مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ صرف ترغیب دی تھی اس لیے جن لوگوں نے اس کی پیروی کی وہ اپنے کئے کے خود ذمہ دار ہیں۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سبا کو پہلے خوشحال اور پھر بدحال بنا کر اس آزمائش میں ڈالا کہ وہ آخرت کو مانتے ہیں یا نہیں۔ جو آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے ممیز ہو جائیں جن کو آخرت کا یقین نہیں ہے اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔
واضح ہوا کہ حقیقۃً اللہ کی شکر گزاری وہی ہے جو ایمان بالآخرت کے ساتھ ہو۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ یہاں سے خطاب کا رخ مشرکین کی طرف ہو گیا اور شرک کی تردید میں دل و دماغ کو اپیل کرنے والی باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ یہ مشرکین کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ ان کے معبود کچھ خدائی اختیارات رکھتے ہیں۔ فرمایا وہ ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ سارا اختیار اللہ ہی کا ہے۔ پھر جو بے اختیار ہیں وہ کس رح پرستش کے مستحق ہوئے اور ان کی پرستش کر کے کیا چیز حاصل کی جا سکتی ہے ؟
اس آیت میں غیر اللہ کے اختیارات کی جو نفی کی گئی ہے اس سے صرف بت پرستوں کے عقیدہ ہی کی تردید نہیں ہوتی بلکہ قبر پرستوں کے عقیدہ کی بھی ترید ہوتی ہے۔ وہ بھی قطب، ابدال وغیرہ کو متصرف (اختیارات رکھنے والا استعمال کرنے والا) مانتے ہیں اور تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ اختیار ان کو اللہ کے عطا کرنے سے حاصل ہوئے ہیں مگر اول تو یہ اللہ پر افتراء (جھوٹ) ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں فرمایا کہ اس نے فلاں اور فلاں کو تصرف کے اختیارات دیئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ خدائی اختیارات سرے سے قابل انتقال ہیں ہی نہیں بالکل اسی طرح جس رح خدا کا کوئی جز ء قابل انتقال نہیں ہے ورنہ اللہ کی صفات میں شرک لازم آئے گا۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ جو اختیارات عطا کرتا ہے وہ تخلیقی نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی خدا کے پیدا کردہ ہوتے ہیں نہ کہ خدا کے اپنے اختیارات کا جزء۔ اور حاجت روائی، فریاد رسی اور مشکل کشائی کا تعلق خدائی اختیارات سے ہے کیونکہ اس کے لیے حاضر ناظر ہونا، ہر شخص کے حالات کو جاننا، جس زبان میں وہ پکارے اس کو سمجھنا اس کے دل کی باتوں کو بھی جان لینا اور اس کی حاجتوں کو پورا کرنے پر قادر ہونا ضروری ہے اس لیے بندوں کو جو اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ تخلیقی نوعیت کے اور نہایت محدود ہوتے ہیں۔ فریاد رسی اس فرق کو نظر انداز کر کے کتنے ہی مسلمان شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اب ایسی تفسیریں بھی لکھی جا رہی ہیں جو شرک کے بارے میں لوگوں کو مغالطہ میں ڈال دیتی ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
"معلوم ہوا کہ کسی چیز پر مالک ہونا بتوں کے لیے ، انبیاء اولیاء رب کی عطا سے رب کی ہر چیز کے مالک ہیں۔ ”
(مختصر تفسیر نعیمی ص ۶۸۷)۔
آیت کی یہ تفسیر کس قدر گمراہ کن ہے۔ جو آیت غیر اللہ کے اختیارات کی نفی کرتی ہے اسی کو انبیاء اور اولیاء کے با اختیار ہونے کے ثبوت میں پیش کیا جا رہا ہے یعنی جو آیت ہدایت کے لیے تھی اس سے گمراہی اخذ کی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان گمراہیوں سے بچائے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں غیر اللہ کا کوئی حصہ نہیں پھر انہیں اس کائنات میں وہ اختیارات کہاں سے حاصل ہو گئے جو اس کے خالق ہی کی صفت ہیں ؟
۵۶۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے فرشتوں کی طرف جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر پرستش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔ یعنی اگر قیامت قائم ہو ہی گئی تو یہ اللہ کے حضور ہماری سفارش کر کے ہمیں عذاب سے نجات دلائیں گے۔ شفاعت کے اس تور کو باطل قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ فرشتوں کی یہ مجال نہیں کہ وہ اللہ کے حضور کسی کے لیے سفارش کریں کجا یہ کہ وہ اپنی سفارش منوا کر رہیں۔ شفاعت اللہ کی مغفرت کی ایک شکل ہے اور وہ ان ہی لوگوں کے حق میں ہو سکے گی جن کے لیے اللہ اجازت دے اور یہ اجازت مشرکوں اور کافروں کے حق میں ہرگز نہیں ہو گی کیونکہ ان کے لیے مغفرت کے دروازے بند ہوں گے۔
شفاعت کی مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۱۱۱، سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۲، اور سورہ انبیاء نوٹ ۳۱۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ اس فقرہ کا تعلق "مگر جن کے لیے وہ اجازت دے ” سے ہے یعنی جن لوگوں کے حق میں شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو اس کا موقع بھی قیامت کے دن ایک خاص مرحلہ میں ہی آئے گا۔ اس مرحلہ کے آنے تک تو البینِ شفاعت پر سخت خوف طاری رہے گا اور وہ گھبراہٹ کی حالت میں رہیں گے۔ ان کی یہ گھبراہٹ اسی وقت دور ہو گی جب اللہ تعالیٰ ان کے حق میں شفاعت کرنے کی اجازت فرشتوں اور انبیاء وغیرہ کودے گا۔ س وقت وہ شفاعت کرنے والوں سے پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ وہ جواب دیں گے کہ حق فرمایا یعنی اس شفاعت کی اجازت دے ہے اور یہ حق عدل پر مبنی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے تمہارے حق میں شفاعت کی اجازت اس لیے دی ہے کہ تم مشرک اور کافر نہیں تھے۔
اس سے شفاعت کے سلسلہ میں یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ:
اولاً فرشتوں کی شفاعت کا وہ تصور جو مشرکین نے قائم کر رکھا ہے سراسر غلط اور باطل ہے۔
ثانیاً قیامت کے دن نجات کا اصل دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہو گا۔ شفاعت ایک استثنائی صورت ہو گی اور وہ ان ہی لوگوں کے حق میں ہو گی جو مشرک اور کافر نہیں ہوں گے اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے کی اجازت دے۔
ثالثاً یہ اجازت بھی ایک خاص مرحلہ میں دی جائے گی۔ اس وقت تک طالبین شفاعت پر گھبراہٹ کا عالم طاری رہے گا۔ یعنی جب تک یہ مرحلہ آ نہیں جاتا قیامت کا طویل دن ان کے لیے کرب و مصیبت ہی کا دن رہے گا۔ انسان جب دنیا میں تھوڑی دیر کے لیے مصیبت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو پھر شفاعت پر تکیہ کر کے قیامت کے دن کی طویل مصیبت کو برداشت کرنے کے لیے کس طرح آمادہ ہو جاتا ہے۔ صحیح صورت یہی ہے کہ آدمی شفاعت پر تکیہ کرنے کے بجائے ایمان و عمل صالح کی زندگی گزارے۔
موجودہ مسلمانوں میں بھی شفاعت کا غلط تصور قائم ہو گیا ہے اور اس بنا پر ان کی بڑی تعداد بے عمل ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر وہ قرآن کی ان آیات پر غور کرتے تو اس انحطاط کو نہ پہنچتے۔
۵۸؟؟۔۔۔۔۔۔بعض مفسرین نے "ان کے دلوں کی گھبراہٹ دور ہو گی” سے فرشتوں کی گھبراہٹ مراد لی ہے لیکن عن قلوبھم "ان کے دلوں سے ” کے الفاظ فرشتوں کے لیے موزوں ہونے میں کلام ہے۔ اگر فرشتوں کی گھبراہٹ مراد ہوتی تو ان کے لیے عن انفسھم "ان کے نفس سے ” کے الفاظ استعمال ہوئے اس لیے ہم نے البین شفاعت کی گھبراہٹ مراد لی ہے اور آیت کا جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے اس کے بعد ہمارے خیال میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ واللہ اعلم۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ اللہ بلند و برتر ہے اس لیے کسی کی مجال نہیں کہ وہ بزور اس سے سفارش منوائیں۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اس حقیقت سے تمہیں بھی انکار نہیں کہ رزق اللہ ہی دیتا ہے تو پھر غیر اللہ کو جو رزق نہیں دیتے معبود بنانے کا کیا جواز ہے ؟ اور جب ہم نے حقیقی رازق ہی کو معبود مان لیا اور تم نے ان کو معبود بنا لیا جو رازق نہیں ہیں تو ہماری اور تمہاری راہیں الگ ہو گئیں۔ اب لازماً ہم دونوں میں سے ایک ہدایت پر ہے اور دوسرا گمراہی میں۔ اب تم سوچ لو کہ ہدایت پر کون ہے اور گمراہ کون؟
آیت میں جس اسلوب میں بات کہی گئی ہے وہ منکرین کو دعوتِ فکر دینے کے لیے ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں انکار کرنے والوں کو دعوتِ فکر دی گئی ہے کہ تم الٹا ہم کو مجرم گردانتے ہو لیکن اگر ہم نے واقعی جرمن کیا ہے تو اس کی جواب دہی ہمیں کرنا ہو گی نہ کہ تمہیں اور تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا نہ کہ ہم سے لہذا عقلمندی کا تقاضا ہے کہ تم ہمیں مجرم قرار دینے سے پہلے خود اپنے عقائد و اعمال کا جائزہ لو کہ کیا یہ درست ہیں اور قیامت کے دن جب تم سے باز پرس ہو گی تو تم اس کا کیا جواب دے سکو گے ؟
۶۲ ۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن۔
۶۳۔۔۔۔۔۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اہل ایمان اور کاروں کے درمیان حق و عدل کی بنیاد پر فیصلہ فرمائے گا اور اس فیصلہ کو نافذ بھی کرے گا کہ کون گروہ حق پر تھا اور کون باطل مذاہب کی پیروی کرتے رہے۔
۶۴۔۔۔۔۔۔ یہ سوال بھی مشرکین کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں وہ کونسی خدائی صفات ہیں جن کی بنا پر تم نے ان کو اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور جن کی بنا پر تم ان کی پرستش کرتے ہو جب کہ پرستش صرف اللہ کا حق ہے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جو غلبہ اور اقتدار اور علم و حکمت کی صفات سے متصف ہو اس لیے تم نے جن کو خدا اور معبود بنا کر رکھا ہے وہ ہرگز نہ خدا ہیں اور نہ لائق پرستش۔
۶۶۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عالمگیر رسالت کا اعلان ہے کہ آپ کی بعثت صرف عربوں کی طرف نہیں بلکہ بلا قید قوم و ملک تمام انسان کی طرف ہوئی ہے اور قیامت تک پیدا ہونے والی تمام قومیں آپ کی امتِ دعوت ہیں۔یہاں منکرین پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس شخصیت کی مخالفت پر تم تلے ہوئے ہو اس کی ناقدری کر رہے ہو اسے اللہ تعالیٰ نے اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ وہ پوری انسانیت کے لیے رہنما ہے۔ ایسی قدر و منزلت رکھنے و الی شخصیت کی اگر تم ناقدری کرتے ہو تو یہ تمہارے لیے بڑی محرومی کی بات ہے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا وعدہ کب پورا ہو گا۔
۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا وقت مقرر ہے۔ تمہارے لب کرنے سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ ایک گھڑی بعد اور جب قیامت کا ظہور ہو گا تو ٹھیک وقت پر تم حاضر کر دیئے جاؤ گے نہ ایک گھڑی پہلے اور نہ ایک گھڑی بعد۔
۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تورات، انجیل وغیرہ پر۔
۷۰۔۔۔۔۔۔یعنی آج تو یہ لوگ بڑے تکبر سے کہتے ہیں ہ ہم قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں کو نہیں مانتے لیکن قیامت کے دن جب یہ جواب دہی کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے تو انہیں اپنی اس مجرمانہ غلطی کا احساس ہو گا۔ اس وقت ان کی سراندامت سے جھکے ہوں گے۔
قیامت کا یہ منظر الفاظ کی شکل میں پیش کر دیا گیا ہے تاکہ لوگ ہوش میں آئیں۔
۷۱۔۔۔۔۔۔ "جو لوگ کمزور تے "سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو برے بن کر رہنے والوں یعنی لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ ان کے پیروکار بن گئے تھے۔ قیامت کے دن وہ جس طرح ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ایکدوسرے کی تردید کریں گے اس کی ایک جھلک یہاں پیش کر دی گئی ہے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔ یعنی وام ہوں یا لیڈر، پیرو ہوں یا پیشوا کفر کرنے کی بنا پر سب ہی سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ عوام اپنے لیڈروں اور پیشواؤں پر گمراہ کرنے کا الزام عائد کر کے اپنی ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی عقل کا استعمال کیوں نہیں کیا اور کیوں آنکھیں بند کر کے بڑے بنے والوں کے پیچھے چلتے رہے اور کیوں انہوں نے قرآن اور پیغمبر کی باتوں پر دھیان نہیں دیا؟
۷۳۔۔۔۔۔۔ خوشحال لوگ دنیا پرستی میں مگن ہوتے ہیں اس لیے وہ رسول کی دعوت پر کان نہیں دھرتے اور جب وہ انہیں اللہ کے عذاب سے خبردار کرتا ہے تو وہ اپنی خرمستیوں کی وجہ سے اس کا انکار کرنے لگتے ہیں اور اللہ کے پیغام کو روا کر دیتے ہیں۔
۷۴۔۔۔۔۔۔ یعنی خوشحال لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ مال و اولاد کی جو فراوانی حاصل ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اللہ کے منظورِ نظر ہیں۔ ان کے عذاب بھگتنے کا کیا سوال ؟
۷۵۔۔۔۔۔۔ یہ ان خوشحال لوگوں کے دعوے کی تردید ہے کہ مال و اولاد کی فراوانی اللہ کے منظور نظر ہونے کی علامت نہیں ہے۔ رزق میں کشادگی اور تنگی اس کی مشیت پر موقوف ہے نہ کہ اس کی رضامندی کی علامت۔ وہ بندوں کے مصالح کے پیش نظر جس کو چاہتا ہے وافر رزق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے اور دونوں صورتوں میں بندوں کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ شکر اور صبر کرتے ہیں یا نہیں۔ مگر اس حقیقت کو بہت سے لوگ نہیں جانتے اس لیے غلط توجیہ کرنے لگتے ہیں۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ یہ منکرین کے اس خیال کی تردید ہے کہ جس کے پاس مال اور اولاد کی کثرت ہے وہ خدا کا پسندیدہ اور مقرب بندہ ہے۔ یہ چیزیں تو ان لوگوں کو بھی حاصل ہوتی ہیں جو فاسق اور فاجر اور مفسد ہوتے ہیں پھر اس کو تقریبِ الٰہی کی علامت کس طرح قرار دیاجا سکتا ہے ؟
۷۷ ۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان اور عملِ صالح ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان اللہ کا تقرّب حاصل کرتا ہے اور اس صفت کے لوگ ہی اللہ کو محبوب ہوتے ہیں۔
۷۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اللہ کے ارشادات کی مخالفت میں سرگرمی رکھا رہے ہیں ان کولازماًسزا بھگتنی ہو گی خواہ وہ دنیا میں کتنے ہی مالدار رہے ہوں اور اولاد کا کتنا ہی بڑا جتھا ان کے ساتھ رہا ہو۔ ان کی یہ ساری شان و شوکت دنیا ہی میں رہ جائے گی اور آخرت میں وہ عذاب کے حوالہ کر دیے جائیں گے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ اوپر یہ مضمون گزر چکا۔ اس آیت میں من عِبادہ "اپنے بندوں میں سے ” کا اضافہ ہے اور مقصود اللہ کی رزاقیت کو واضح کرنا ہے۔
۸۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللی کی رزاقیت پر غور کرو۔ وہ تمہیں مسلسل رزق دئے جا رہا ہے۔ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ تمہارے پاس کچھ نہ رہ گیا ہو بلکہ تم خرچ کرتے رہتے ہو اور وہ عطا کرتا رہتا ہے۔ کتنا بہترین رازق ہے وہ۔ پھر بھی تم اس کے شکر گزار نہیں بنتے۔؟
۸۱۔۔۔۔۔۔ یہاں قیامت کا ایک اور منظر پیش کیا گیا ہے۔ مشرکین جب میدان حشر میں جمع ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے ؟
۸۲۔۔۔۔۔۔ فرشتے جواب میں سب سے پہلے اللہ کی پاکی بیان کریں گے کہ تو اس بات سے منزہ ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو۔ اور ہم نے ان گمراہوں کو دوست نہیں بنایا تھا کہ ان کی پرستش ے خوش ہوتے اور ان سے اپنا تعلق جوڑتے بلکہ ہمارا دوست تو ہی تھا اور ہے۔
۸۳۔۔۔۔۔۔ فرشتے مزید کہیں گے کہ یہ در حقیقت جنوں کی عبادت کرتے تھے اور ان ہی کے معتقد تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے ہماری پرستش کی بھی تھی تو ہمارے کہنے سے نہیں بلیہ شیاطین جن کے اشارے پر کی تھی۔ وہ ان کے ایسے معتقد تھے کہ ان کے پیچھے برابر چلتے رہے اور گمراہ ہوتے رہے ہمیں ان سے کوئی سروکار نہ تھا۔
فرشتوں کا یہ بیان ان کے پرستاروں پر یہ حقیقت کھول دے گا کہ فرشتوں کو معبود بنانا اور اللہ کا شریک ٹھہرانا صحیح نہ تھا۔
۸۴۔۔۔۔۔۔ فرشتوں کے اس بیان کے بعد مشرکین جو ان سے شفاعت کی امید رکھتے تھے مایوس ہو جائیں گے کہ وہ ان کے کچھ کام نہ آسکے۔ یہ ہے اللہ کو چھوڑ کر اور سہاروں پر جینے کا انجام !
۸۵۔۔۔۔۔۔ ظالم یعنی غلط کار، جس کا عقیدہ و عمل حق و عدل کے خلاف ہو اور اس بنا پر وہ اپنے نفس پر زیادتی کر رہا ہو۔ اس آیت میں جیسا کہ سیاق و سباق سے (Context) واضح ہے۔ ظالم سے مراد مشرک اور آخرت کے منکر ہیں۔
۸۶۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول نہیں ہے۔
۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسمٰعیل میں، ان عربوں میں ، کتابوں کا نزول نہیں ہوا جس طرح بنی اسرائیل میں تورات ، انجیل وغیرہ کا ہوا تھا۔ یہ ایک امی قوم تھی اور کوئی پیغمبر بھی حضرت اسمٰعیل کے بعد ان میں نہیں بھیجا گیا اس لیے ایک طویل عرصہ کے بعد جو پیغمبر ان میں مبعوث ہوا ہے اور جو کتاب انہیں دی جا رہی ہے اس کا انہیں قدر داں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کا کیسا سامان کیا ہے اور وہ انہیں کتنا اونچا مقام عطا کرنا چاہتا ہے مگر یہ لوگ پیغمبر اور کتاب کی قدر کرنے کے بجائے ان کو جھوٹ اور جادو قرار دے رہے ہیں۔
۸۸۔۔۔۔۔۔ مراد ماضی کی وہ قومیں ہیں جن کو زبردست قوت و اقتدار اور معیشت کے وافر ذرائع حاصل تھے مثلاً قوم عاد، قوم فرعون وغیرہ۔ ان کے مقابلہ میں قریش کو نہ وہ قوت و اقتدار حاصل تھا اور نہ وہ خوش حالی۔ ان کے پاس نہ لاؤ لشکر تھا، اور نہ تمدنی ترقی کا سامان اور نہ ہی وسائل معیشت کی فراوانی۔
۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جب وہ طاقتور قومیں رسول کو جھٹلانے کی بنا پر اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکیں تو تم رسول کو جھٹلا کر کس طرح عذاب سے بچ سکتے ہو ؟ جو قوت و دولت اور سامان معیشت تمہیں حاصل ہے اس کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر رسول کی مخالفت پر آمادہ ہو جانا اپنے لیے برے انجام کو دعوت دینا ہے۔
۹۰۔۔۔۔۔۔ آدمی اکثر اپنے ماحول اور اپنی سوسائٹی کی رائے سے متاثر ہوتا ہے اور یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اس لیے اس آیت میں فہمائش کی گئی ہے کہ دو دو آدمی مل کر غور کریں کہ پیغمبر کی باتیں واقعی دیوانہ کی بڑ ہیں یا دانائی و بینائی کا سامان۔ وہ آپس میں سنجیدگی کے ساتھ اس پر گفتگو کر کے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کریں نیز فرداً فرداً ہر شخص اپنے طور پر بھی غور کرے کہ معاملہ کی نوعیت کیا ہے۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو صحیح نتیجہ پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور اس کی توفیق دے گا کیونکہ جن کو حق کی تلاش ہوتی ہے ان پر اللہ تعالیٰ ضرور حق واضح فرماتا ہے۔
۹۱۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک سیرت اور یہ حکمت بھرا قرآن اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ کسی دماغی عارضہ میں ہر گز مبتلا نہیں تھے بلکہ آپ کی دانش مندی کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔
۹۲۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے تم سے اجر مانگا ہی نہیں ہے۔ جو کچھ میں نے تم سے طلب کیا ہے وہ یہ ہے کہ تم اس ہدایت کو قبول کرو جو تمہارے رب نے اتاری ہے اور جس کے قبول کرنے میں تمہاری اپنی بھلائی ہے۔ میں بالکل بے لوث ہو کر تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں۔
۹۳۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا رب جو باتیں بذریعہ وحی مجھ پر نازل کر رہا ہے وہ بالکل حق ہیں اور حق کیوں نہ ہوں جب کہ اسے غیب کے تمام اسرار کا علم ہے اس سے زیادہ اس بات کا جانے والا اور کون ہو سکتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا اور حق کیا ہے اور باطل کیا؟
۹۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بات واضح طور پر تمہارے سامنے آئی ہے کہ توحید ہی حق ہے۔ رہا باطل یعنی تمہارے خود ساختہ معبود تو وہ نہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور نہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں پھر وہ خدا کیسے بن گئے اور عبادت کے مستحق کیسے قرار پائے !
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ یونس نوٹ ۶۱۔
۹۵۔۔۔۔۔۔ جب فہمائش کے لئے بحث (جدال) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو کچھ باتیں فرض کر کے بھی کہنا پڑتی ہیں تاکہ مخاطب تعصّب سے بلند ہو کر سوچنے کے لئے آمادہ ہو جائے۔ یہاں "اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں” کی بات اسی مناسبت سے کہی گئی ہے۔
۹۶۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا ہدایت پر ہونا میرے رب ہی کے فضل سے ہے اور اس کا فضل یہ کہ اس نے مجھ پر وحی نازل کر کے ہدایت کی راہ مجھ پر کھول دی۔
۹۷۔۔۔۔۔۔ انسان کی گمراہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کو بہت دور خیال کرتا ہے اور پھر اِدھر ادھر سہارے تلاش کرتا ہے۔ اگر وہ یقین کر لے کہ اللہ بہت قریب ہے اور سب کچھ سنتا ہے تو اسی سے اپنا تعلق استوار کرے اور اسی کو اپنا کارساز سمجھے۔
۹۸۔۔۔۔۔۔ یہاں قیامت کا ایک اور منظر پیش کیا جا رہا ہے۔ منکرین آج تو بڑے اطمینان سے حق کی مخالفت کرتے ہیں لیکن قیامت کے دن گھبراہٹ کے عالم میں ہوں گے اور بھاگنا چاہیں گے مگر بھاگ نہ سکیں گے کیونکہ فرشتے قریب ہی میں موجود ہوں گے اور وہ انہیں پکڑ لیں گے۔ کیسا عجیب منظر ہو گا وہ ان کی بے بسی کا!
۹۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اس حق پر ایمان لائے جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا تھا۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان لانے کا وقت گزر چکا۔ جو کام دنیا میں کرنے کا تھا وہ آخرت میں کیوں کر کیا جا سکتا ہے ؟ دنیا امتحان گاہ تھی اور آخرت بدلہ پانے کی جگہ۔ جب آخرت میں پہنچ گئے تو دنیا سے دوری ہو گئی۔ اور امتحان گاہ سے اتنی دور پہنچنے کے بعد ایمان کے حصول کی کوئی صورت ممکن نہیں رہی۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں انہیں ایمان لانے کا موقع حاصل تھا مگر اٹکل پچو باتیں کر کے انہوں نے یہ موقع کھو دیا۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے اور ان کی اس خواہش کے درمیان کہ وہ دنیا میں پھر لوٹائے جائیں تا کہ وہ ایمان لا سکیں رکاوٹ کھڑی کر دی جائے گی۔ مطلب یہ کہ ان کی یہ خواہش کبھی پوری ہونے والی نہیں۔ اور یہی حشر ان سے پیش رو قوموں کا بھی ہو چکا ہو گا۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔ خدا، آخرت اور رسالت کے بارے میں شک میں پڑنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اطمینان نصیب نہ ہو اور ذہن الجھ کر رہ جائے۔
٭٭٭
(۳۵)سورۂ فَاطِرْ
(۴۵ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
پہلی آیت میں لفظ "فاطر ” (پیدا کرنے والا) آیا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "فاطر” ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
اس سورہ میں اللہ کی خلاقیت کو اس کے واحد الہٰ ہونے کی بنیاد قرار دیتے ہوئے رسالت اور آخرت کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ یہ اس کی شان خلاقیت کا مظہر ہیں۔
نظم کلام
آیت ۱ تا ۸ تمہیدی آیات ہیں جن میں اللہ کی خلاقیت اور ربوبیت کو واضح کرتے ہوئے لوگوں کو توحید، رسال اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان آیات میں گویا پوری سورہ کا خلاصہ آ گیا ہے۔
آیت ۹ تا ۱۸ میں توحید اور آخرت کا تفصیلی بیان ہے اور شرک کی تردیدی ہے۔ آیت ۱۹ تا ۲۶ میں رسالت کا بیان ہے اور رسول پر ایمان نہ لانے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۲۷ تا ۳۸ میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی نشانیوں کے ذریعہ اس کی جو معرفت حاصل ہوتی ہے اور کتاب الہٰی کے ذریعہ جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ہدایت کی راہ کھول دیتا ہے جس سے ابدی کامیابی حاصل ہوتی ہے اور اس علم و معرفت سے بے نیازی کا نتیجہ کفر ہے اور اس کا انجام ابدی ہلاکت۔
آیت ۳۹ تا ۴۵ میں شرک کرنے والوں کو تنبیہ ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔حمد اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ۱ * اور فرشتوں کو پیغام رسانی بنانے والا ہے ۲ * جن کو دو دو اور تین تین اور چار چار پَر ہیں ۳ * وہ تخلیق میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے ۴ * یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔اللہ لوگوں کے لیے جس رحمت ( دروازہ) کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو روک لے تو اس کے بعد کوئی اس کو کھولنے ولا نہیں ۵ * وہ غالب ہے حکمت والا۔
۳۔۔۔۔۔۔لوگو! تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۶ * پھر تم کو کہاں پھیرا جا رہا ہے ؟ ۷ *
۴۔۔۔۔۔۔اگر یہ لوگ (اے نبی!) تم کو جھٹلاتے ہیں تو تم سے پہلے بھی کتنے ہی رسول جھٹلائے جا چکے ہیں اور سارے امور بالآخر اللہ ہی کے حضور پیش ہوں گے۔ ۸ *
۵۔۔۔۔۔۔لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے ۹ * لہذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ میں نہ ڈالے ۱۰ * اور نہ وہ بڑا فریب کار ۱۱ * تم کو اللہ کے بارے میں فریب میں رکھے۔
۶۔۔۔۔۔۔بلاشبہ شیطان تمہارا دشمن ہے لہذا اس کو دشمن ہی سمجھو۱۲ *وہ اپنے گروہ کو (اپنی طرف) اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخ والوں میں شامل ہو جائیں۔ ۱۳ *
۷۔۔۔۔۔۔جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔کیا وہ جس کا برا عمل اس کے لیے خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا خیال کرتا ہو (ہدایت پا سکتا ہے ! ) ۱۴ * حقیقت یہ ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تو (اے نبی!) تمہاری جان ان کے غم میں نہ گھلے ۱۵ * جو کھ یہ کر رہے ہیں اس کو اللہ اچھی طرح جانتا ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اس کومردہ خطہ کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ زمین کو جو مردہ ہو چکی تھی زندہ کر دیتے ہیں (قیامت کے دن) مردوں کا جی اٹھنا اسی طرح ہو گا۔ ۱۶ *
۱۰۔۔۔۔۔۔جو عزت چاہتا ہو اسے جان لینا چاہئے کہ عزت ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۱۷ * اس کی طرف پاکیزہ کلمہ چڑھتا ہے اور عملِ صالح کو وہ رفعت بخشتا ہے ۱۸ * اور جو لوگ بری چالیں چل رہے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کی چالیں تباہ ہو کر رہیں گی۔ ۱۹ *
۱۱۔۔۔۔۔۔اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۲۰ * پھر نطفہ ۲۱ * سے ، پھر تمہارے جوڑے بنا دیئے اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے ا ور نہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے۔ کوئی عمر۲۲ * والا لمبی عمر نہیں پاتا اور نہ اس ی عمر میں کمی ہوتی ہے مگر یہ سب ایک کتاب میں درج ہے۔ یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ ۲۳ *
۱۲۔۔۔۔۔۔اور دونوں دریا یکساں نہیں ہیں۔ ایک شیریں ،پیاس بجھانے والا اور پینے میں خوشگوار ہے اور دوسرا کھاری کڑوا۔ اور تم دونوں سے تازہ گوشت (نکال کر) کھاتے ہو۲۴ * اور زینت کی چیزیں نکالتے ہو جن کو تم پہنتے ہو ۲۵ * اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کو چیری ہوئی چلی جاتی ہیں تاکہ تم ا س کا فضل تلاش کرو ۲۶ * اور تم اس کے شکر گزار بنو۔
۱۳۔۔۔۔۔۔وہ دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور رات کودن میں ۲۷ * اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک ایک وقتِ مقررہ تک کے لیے رواں ہے ۲۸ * وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اسی کی بادشاہی ہے ۲۹ * اس کو چھوڑ کر تم جن کو پکارتے ہو وہ ایک قطمیر ۳۰ * جتنا بھی اختیار نہیں رکھتے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن بھی لیں تو اس کے جواب میں تمہارے لیے کھ کر نہیں سکتے اور قیامت کے دن تمہارے رک کا انکار کریں گے ۳۱ * اور اس باخبر کی طرح تمھیں (اصل حقیقت) کوئی نہیں بتلا سکتا ۳۲ *
۱۵۔۔۔۔۔۔لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو۔ اللہ تو بے نیاز (بے محتاج) اور خوبیوں والا ہے حمد کا مستحق۔
۱۶۔۔۔۔۔۔وہ چاہے تو تمہیں ختم کر دے اور ایک نئی مخلوق لا کھڑی کر دے ۳۳ *
۱۷۔۔۔۔۔۔ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔کوئی بوجھ اٹھانے والاکسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۳۴ * اور اگر کوئی بوجھ سے لدا ہوا شخص اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو پکارے گا تو کوئی بھی اس کے بوجھ کا کوئی حصہ اپنے سر نہ لے گا خواہ وہ اس کا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔ (اے نبیؐ!) تم ان ہی لوگوں کو خبر دار کرسکتے ہو جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ۳۵ * اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے کرتا ہے ۳۶ * اور پہنچنا سب کو اللہ ہی کے حضور ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔اندھا اور بینا دونوں یکساں نہیں ہیں۔ ۳۷ *
۲۰۔۔۔۔۔۔نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہے۔ ۳۸ *
۲۱۔۔۔۔۔۔نہ چھاؤں ور دھوپ یکساں ہے۔ ۳۹ *
۲۲۔۔۔۔۔۔اور نہ زندہ اور مردے یکساں ہیں ۴۰ * اللہ جن کو چاہتا ہے سنواتا ہے ۴۱ * اور تم ان کو سنا نہیں سکتے جو قبروں کے اندر ہیں ۴۲ *
۲۳۔۔۔۔۔۔تم تو بس خبردار کرنے والے ہو۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ہم نے تم کو اے پیغمبر! * حق کے ساتھ بھیجا ہے خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ آیا ہو ۴۳ *
۲۵۔۔۔۔۔۔اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھیرسولوں کو * جھٹلا کے ہیں۔ ان کے پا ان کے رسول واضح دلائل ، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔ ۴۴ *
۲۶۔۔۔۔۔۔پھر جن لوگوں نے کفر کیا ان کو میں نے پکڑ لیا تو دیکھ لو کیسی تھی میرا سزا۔
۲۷۔۔۔۔۔۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے ۴۵ * ور اس کے ذریعے پھل پیدا کرتا ہے جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ مختلف رنگوں کے خطے ہیں ۴۶ * اور گہرے سیاہ بھی۔
۲۸۔۔۔۔۔۔اسی طرح انسانوں ، جانوروں اور چوپایوں کے رنگ بھی مختلف ہیں ۴۷ * حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں ۴۸ * بلاشبہ اللہ غالب معاف کرنے والا ہے ۴۹ *
۲۹۔۔۔۔۔۔جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ۵۰ * اور نماز قائم کرتے ہیں ۵۱ * اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ۵۲ * وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں ہر گز خسارہ نہ ہو گا۔ ۵۳ *
۳۰۔۔۔۔۔۔تاکہ وہ ان کو ان کا پورا پورا اجر دے اور اپنے فضل سے مزید عطا کرے۔ یقیناً وہ مغفرت فرمانے والا اور قدرداں ہے ۵۴ *
۳۱۔۔۔۔۔۔اوراے نبی! * ہم نے جو کتاب تمہاری طرف وحی کی ہے وہی حق ہے ۵۵ * ان کتابوں کی تصدیق کرنے والی جو اس سے پہلے آ چکی ہیں ۵۶ * یقیناً اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے۔ ۵۷ *
۳۲۔۔۔۔۔۔پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان کو جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا۔ تو کوئی ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے تو کوئی میانہ روہے اور کوئی اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے ۵۸ * یہ بہت بڑا فضل ہے ۵۹ *۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ہمیشگی کے باغ ہیں جن میں یہ داخل ہوں گے ۶۰ * وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان میں ان کا لباس ریشم ہو گا ۶۱ *
۳۴۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کاجس نے ہم سے غم دور کر دیا ۶۲ * ہمارا رب بڑا بخشنے والا ہے قدر فرمانے والا ہے ۶۳ *
۳۵۔۔۔۔۔۔جس نے ہمیں اپنے فضل سے اس اقامت کے گھر میں ٹھہرایا۔ یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے۔ ۶۴ *
۳۶۔۔۔۔۔۔اور جنہوں نے کفر کیا ۶۵ * ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ نہ ان کو قضا آئے گی کہ مر جائیں ۶۶ * اور نہ ان سے اس کا عذاب ہلکا کر دیا جائے گا۔ اس طرح ہم بدلہ دیں گے ہر ناشکرے کو ۶۷ *
۳۷۔۔۔۔۔۔اور وہ اس میں چیخ یخ کر کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال۔ اب ہم اچھا عمل کریں گے۔ ان اعمال سے مختلف جو ہم کرتے رہے ۶۸* کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ کوئی یاد دہانی حاصل کرنا چاہتا تو یاد دہانی حاصل کرسکتا تھا۔ ۶۹ * اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔ ۷۰ * اب مزا چکھو۔ ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔
۳۸۔۔۔۔۔۔اللہ آسمانوں اور زمین کے غیب کو جاننے والا ہے ، وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔اسی نے تم کو زمین میں خلیفہ ۷۱ * (با اختیار) بنایا ہے۔ تو جو کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑے گا۔ ۷۲ * اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے رب کے نزدیک اس کے غضب ہی کو بھڑکانے والا ہو گا اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے خسارہ ہی میں اضافہ کرے گا۔
۴۰۔۔۔۔۔۔کہو کیا تم نے دیکھا اپنے ان شریکوں کو جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو! مجھے بتاؤ انہوں نے زمین میں سے کوئی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمانوں میں ان کی کوئی حصہ داری ہے ؟ ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے تو وہ اس کی کسی واضح حجت پر ہیں ؟ نہیں بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے محض فریب کے وعدے کر رہے ہیں۔ ۷۳ *
۴۱۔۔۔۔۔۔بلاشبہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں۔ ۷۵ * بلا شبہ وہ بڑا حلیم اور غفور ہے ۷۶ *۔
۴۲۔۔۔۔۔۔یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا آیا تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت اختیار کرنے والے بنیں گے ۷۷ *۔ مگر جب خبردار کرنے والا ان کے پاس آ گیا تو ان کی دوری ہی میں اضافہ ہو گا۔
۴۳۔۔۔۔۔۔یہ زمین میں تکبر کرنے لگے اور بری چالیں چلنے لگے۔ حالانکہ بری چالیں ان ہی کو گرفت میں لیتی ہیں جو یہ چالیں چلتے ہیں ۷۸ *اب کیا یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جائے جو پچھلی قوموں کے ساتھ کیا گیا تھا ۷۹ * ایسا ہے تو تم اللہ کے قاعدے میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ اللہ کے قاعدے کو ٹلتا ہوا دیکھو گے ۸۰ *
۴۴۔۔۔۔۔۔کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھ لیتے ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھے اور آسمان اور زمین میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اللہ کو عاجز کرنے والی ہو۔ وہ سب کھ جاننے والا اور بڑی قدرت والا ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔اگر وہ لوگوں کو ان کے عمل کی پاداش میں پکڑتا تو زمین پر ایک جاندار کو بھی نہیں چھوڑتا۔ مگر وہ انہیں ایک وقتِ مقررہ تک کے لیے مہلت دیتا ہے۔ پھر جب ان کا وقت مقرر آ جائے گا تو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ لے گا۔ ۸۱ *
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔اللہ کا آسمانوں اور زمین کا خلاق ہوتا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور جب وہ خالق ہے تو حمد یعنی تعریف اور شکر کا مستحق بھی وہی ہے۔ لہٰذا اسی کے گن گائے جانے چاہیں اور اسی کا شکر گزار بن کر رہنا چاہیے۔ یہی توحید کی اصل ہے اور اس سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
آیت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ کائنات کے پیدا کرنے پر اللہ کی ستائش ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ حسین و جمیل کائنات اس بات کا مظہر ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا بڑی خوبیوں والا ہے۔ موجودہ زمانہ کے ملحدین کہتے ہیں کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے مگر ان کا یہ دعویٰ بلا دلیل اور بالکل غیر معقول ہے۔ اگر اس کا وجود بغیر خالق کے ہوتا تو اس میں نہ تغیر ہوتا اور نہ ارتقاء اور نہ کوئی مخلوق وجود میں آتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مادہ میں تغیرات بھی ہوتے ہیں اور یہ بھی باور کرتے ہیں کہ کائنات کا موجودہ ارتقاء مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد ہوا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ زمین پر انسان کا وجود بہت بعد میں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ انسان جو زمین پر سب سے اعلیٰ درجہ کی نوع ہے اور جو خشکی اور تری پر حکومت کرتا ہے یکایک کس طرح وجود میں آ گیا؟ کیا یہ کائنات اپنے اندر عقل و علم اور ارادہ و تدبیر کے اوصاف رکھتی ہے ؟ ان سوالوں کا جواب ہر گز اثبات میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نہ یہ ہمارا مشاہدہ ہے اور نہ اس کی تائید میں کوئی دلیل ہے اس لیے خالق کے وجود سے انکار سب سے زیادہ روشن حقیقت کا انکار ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔فرشتوں کو اللہ تعالیٰ پیغام رساں بنا کر انبیاء علیہم السلام کی طرف بھیجتا ہے جو ان پر وحی کرتے ہیں اس کے علاوہ ان سے پیغام رسانی کا کام کس طرح لیا جاتا ہے کس کس مخلوق کی طرف ان کا قاصد بنا کر بھیجا جاتا ہے اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔پَر قوت پرواز کی علامت ہیں۔ جن فرشتوں کے جتنے زیادہ پر ہیں ان کی گویا قوت پرواز اتنی ہی زیادہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جبرئیل کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پَر تھے۔ قرآن نے یہ بیان کر کے کہ فرشتوں کے کئی پَر ہوتے ہیں انسان کے علم میں ایک قابل قدر اضافہ کر دیا ہے ورنہ اس کے پاس اس کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
۴۔۔۔۔۔۔یعنی ایسا نہیں کہ اس نے جو کچھ خلق کیا اس کے بعد اب اس کے پاس خلق کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے اس کی مثال انسانی آبادی میں مسلسل اضافہ ہے اور اس کی اعلیٰ مثال وہ نئی دنیا ہو گی جس کا ظہور اس کے بعد ہو گا۔
۵۔۔۔۔۔۔اسی حقیقت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دعائیہ کلمات میں اس طرح ادا کیا ہے :
اَللّٰہمَّ لَا مَنِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذالْجَدِّ مِنْکَ الْھَدُّ (مسلم کتاب الصلاۃ)۔ ” اے اللہ تو جو کچھ دے اس کی روکنے والا کوئی نہیں اور جس چیز کو روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں اور تیرے مقابل کسی دولت مند کو اس کی دولت فائدہ نہیں پہنچا سکتی”۔
۶۔۔۔۔۔۔یعنی جو رازق ہے وہی معبود (عبادت کا مستحق ) بھی ہے۔ جو رازق نہیں ہیں وہ کس طرح معبود ہو سکتے ہیں ؟
۷۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ سے پھیر کر تم کو کہاں لے جایا جا رہا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ شیطان تمہیں بہکا کر حق سے پھیر رہا ہے۔ عقل سے کام لو اور شیطان کے بہکاوے میں نہ آؤ۔
۸۔۔۔۔۔۔لہٰذا تمہاری اس نزاع کا فیصلہ بھی قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں ہو گا اور اس وقت تمہیں پتہ چلے گا کہ تم نے اللہ کے رسول کو جھٹلا کر کتنا بڑا جرم کیا تھا۔
۹۔۔۔۔۔۔مراد قیامت اور آخرت کا وعدہ ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔دنیا کی ظاہر کشش ایسی ہے کہ وہ انسان کی توجہ آخرت سے ہٹا کر اسے دنیا کا پرستار بنا دیتی ہے۔ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے جس سے چوکنا رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آج بھی جب کہ انسان کی "عقل” ے ترقی کے بڑے مدارج طے کیے ہیں وہ دنیا کی دلفریبیوں سے برار دھوکہ کھا رہا ہے۔ چنانچہ دنیا کی اکثریت دنیا کے سوا کسی اور دنیا کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔” بڑے فریب کار” سے مراد شیطان ہے جو اپنے وسوسوں کے ذریعے انسان کو خدا کے بارے میں بہت بڑے دھوکہ میں ڈال دیتا ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔شیطان جیسے دشمن کو دوست سمجھنا بہت بڑی حماقت ہے۔ اس کو دشمن سمجھ کر اس کی چالوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ قرآن نے انسان کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ اس کے خیالات پر خارج سے اثر انداز ہونے والے شر پسند عناصر موجود ہیں جو اگرچہ اسے کھائی نہیں دیتے مگر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ شیاطین ہیں جن کے شر سے بچنے کے لیے انسان کو ہر وقت چوکنا رہنا چاہیے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔یعنی جو لوگ شیطان سے دوستی کر لیتے ہیں وہ اس کے گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں اور شیطان اپنے گروہ کو جہنم کی راہ دکھاتا ہے۔ اس کا تو مقصد ہی انسانوں کو گمراہ کرنا ہے تاکہ وہ جہنمیوں میں شامل ہو جائیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ آدمی جب برائی کو اچھائی سمجھ کر کرنے لگتا ہے تو اس کا باز آنا ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ برائی کو برائی نہ سمجھ لے۔ اور اللہ کا قانون ضلالت یہ ہے کہ جس شخص کو اپنی برائیاں بھلی معلوم ہونے لگتی ہیں ہدایت کی راہ اس پر بند کر دی جاتی ہے اور اس کو چھاڑ دیا جاتا ہے کہ بھٹکتا رہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔یعنی جب انہیں اپنے برے عمل پر اصرار ہے اور وہ گمراہی سے نکلنا نہیں چاہتے تو تم ان کا غم کہاں تک کرو۔ بہتر ہے ان کو انکے حال پر چھوڑ دو۔
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ کہف نوٹ ۷۔
۱۶۔۔۔۔۔۔یعنی جس طرح بارش ہوتے ہی زمین سے نباتات نکلنے لگتی ہیں اور اس کی سر سبزی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ مردہ زمین زندہ ہو گئی اسی طرح قیامت کے دن جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو مردے زندہ ہو کر زمین سے نکل پڑیں گے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔یعنی عزتِ دنیا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ کلمہ سے مراد کلمہ طیبہ ” لا الہٰ الا اللہ” ہے جو کلمہ توحید ہے۔ اس کے اللہ کی طرف چڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے تقرب کا ذریعہ اور عمل صالح کو رفعت بخشنے کا مطلب اس کو قبولیت کا اعزاز بخشنا ہے۔ یہاں خاص طور سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عزت غیر اللہ کے پاس نہیں ہے اور نہ وہ ان کی پرستش کر کے حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ عزت اللہ کے پاس ہے اور وہ ایمان اور عمل صلح ہی کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔یعنی جو لوگ حق کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور طرح طرح کیسازشیں کر رہے ہیں ان کو بالآخر ناکامی کا منہ دیکھنا ہو گا۔ جب نتائج کے ظہور کا وقت آئے گا ان کے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔یعنی نوع انسانی کی پیدائش کا آغاز مٹی سے کیا۔ آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔پھر آدم کی نسل کا سلسلہ نطفہ یعنی پانی کی حقیر بوند سے چلایا۔
۲۲۔۔۔۔۔۔یعنی کسی کی عمر کو دراز کرنا یا کم کرنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اس سلسلہ میں اس کے فیصلے ایک نوشتہ میں درج ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عمر کی کمی و بیشی میں غیر اللہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔یعنی بے شمار انسانوں کی عمریں مقرر کرنا اور ان کو ضبط تحریر میں لانا اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔یعنی میٹھے پانی (دریا) سے بھی مچھلی حاصل کرتے ہو اور کھارے پانی (سمندر ) سے بھی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔جیسے موتی اور مرجان اور بعض دریاؤں سے ہیرے اور سونا بھی برآمد ہوتا ہے۔ دریاؤں کی لائی ہوئی ریت میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں انسائیکلو پیڈیا برناٹیکا میں یہ وضاحت ہے کہ :
"Alluvial deposits of native gold found in or along streams were "the principal sources of the metal fro the ancient civilization of the Middle East.”
"The alluvial deposits mined by placer that have been deposited by rapidly moving streams and other rivers at places where they widen or for some other reason lose speed”.
(The New Ency. Britannica Vol. 8 P. 237)
اور ہیرے کے بارے میں انسائکلو پیڈیا آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ دریا کی جمی ہوئی تہوں میں پائے جاتے ہیں۔
"….but a significant amount (of diamonds) comes from individual operations from stream-bed deposits in Sierra Leone, Ghana, and the Union or South Africa.”
(Mc Graw-Hill Ency. Of Science & Technology- New York Vol. 4 P.164)
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ نحل نوٹ ۲۴۔
۲۶۔۔۔۔۔۔یعنی تجارتی سفر کر کے معاش حاصل کرو جو اللہ کا فضل ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۳۹۔
۲۸۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ رعد نوٹ ۸۔
۲۹۔۔۔۔۔۔یعنی اس کی حکومت انسان سمیت پوری کائنات پر چھائی ہوئی ہے اور اسی کے احکام نافذ ہوتے ہیں۔
۳۰۔۔۔۔۔۔قطمیر اس جھلی کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتی ہے مطلب یہ ہے کہ وہ ادنیٰ اختیار بھی نہیں رکھتے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔قیامت کے دن اپنے پرستاروں کے شرک کا انکار اس سے بیزاری ظاہر کرنے والے وہ فرشتے اور بزرگ انسان ہوں گے جن کو حاجت روائی ، مشکل کشائی اور فریاد رسی کے لیے پکارا جاتا تھا۔ ان ہی کے بارے میں یہاں فرمایا گیا ہے کہ اول تو یہ پکارنے والے کی پکار سنتے نہیں ہیں اور اگر سن بھی لیں تو نہ حاجت روائی کرسکتے ہیں اور نہ فریاد رسی۔
فرشتے جن کاموں پر مامور کیے گئے ہیں ان کا دائرہ عمل سی حد تک ہے۔ اس سے آگے ان کے بس میں نہیں ہے کہ جو شخص جہاں سے بھی ان کو پکارے وہ اس کی پکار کو سن لیں اور اس کی مدد کو پہنچیں۔ اور اگر بالفرض سن لیں تو وہ اس کی حاجتیں ہر گز پوری نہیں کر سکتے رہیں بزرگ انسانوں کی روحیں تو ان کے بارے میں بھی یہ خیال کہ وہ ہر پکارنے والے کی پکار سنتے ہیں بالکل بے بنیاد اور سراسر باطل ہے۔ وہ عالم برزخ میں رہ کر نہ کسی کی فریاد سنتے ہیں اور نہ اس کی مدد اور حاجت روائی کو پہنچتے ہیں۔
کوئی وجہ نہیں کہ آیت کے مفہوم کو بت پرستوں کی تردید کی حد تک محدود سمجھ لیا جائے بلکہ اس کے وسیع تر مفہوم میں ہر قسم کی بزرگ پرستی اور قبر پرستی بھی شامل ہے لہٰذا جو مسلمان یا علی المدد! اور یا غوث (عبد القادر جیلانی) المدد ! کے نعرے لگاتے ہیں وہ صریح شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان بزرگوں کا ان کی مدد کو پہنچنا تو درکنار وہ ان کی پکار سرے سے سنتے ہیں نہیں۔ اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب یہ بزرگ اپنی زندگی میں ہر پکارنے والے کی پکار سنتے نہیں تھے اور نہ ان کی فریاد کو پہنچنا ان کے بس میں تھا تو قبر میں پہنچنے کے بعد یکایک ان میں یہ قوت کہاں سے پیدا ہو گئی ؟
۳۲۔۔۔۔۔۔یعنی ان باتوں کی خبر جو عالم بالا اور غیب سے تعلق رکھنے والی ہیں ایک خبیر ہسیت ہی دے سکتی ہے اور وہ خبیر ہستی اللہ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں جو تمہیں وہاں کی صحیح خبریں دے۔ لہٰذا اللہ اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ غیب کی جو خبریں دے رہا ہے ان پر یقین کرو اور ان لوگوں ک۹ی باتوں کو چھوڑ دو جو محض قیاس سے غیب کی باتیں کرتے ہیں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔یعنی یہ نہ سمجھو کہ تمہارا وجود زمین پر برقرار رکھنے میں اللہ کی کوئی غرض ہے۔ وہ بے نیاز ہے اور کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے وہ لائق ستائش ہی ہے۔ وہ چاہے تو پوری انسانیت کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور اس کی جگہ نئی مخلوق لا سکتا ہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا۔
تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بنی اسرائیل نوٹ ۱۸ اور سورہ عنکبوت نوٹ ۱۸۔
۳۵۔۔۔۔۔۔یعنی تمہارے خبر دار کرنے کا فائدہ وہی لوگ اٹھا سکیں گے جو اللہ سے بے خوف نہیں ہیں بلکہ اپنے اندر اس کا خوف رکھتے اور نماز کو جو اللہ کی خشیت (خوف) کا مظہر ہے قائم کرتے ہیں۔
۳۶۔۔۔۔۔۔یعنی عقیدہ و عمل کی پاکیزگی (تزکیہ) اختیار کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے جو اس وصف اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ اور قرآن کا پنے مخاطب سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ اسب سے پہلے اپنے عقیدہ عمل کو پاکیزہ بنانے کی فکر کرے۔
آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ اللہ کا ڈر اور نماز کا اہتمام آدمی کو تزکیہ (پاکیزگی) کی راہ پر ڈال دیتا ہے اور پھر اس کے لیے ایک صاف ستھری زندگی بسر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔یعنی جب اندھا اور آنکھوں والا یکساں نہیں ہے تو بے بصیرت اور بصیر ت مند دولوں کس طرح یکساں ہو سکتے ہیں ؟ اور جب دونوں اپنے عمل کے اعتبار سے یکساں نہیں ہوتے تو دونوں کوانجامکیسے یکساں ہوسکتا ہے ؟
۳۸۔۔۔۔۔۔یعنی جب تاریکیاں ور روشنی برابر نہیں ہوسکتے تو جہالت کی تاریکیاں اور علم کی روشنی دونوں کس طرح برابرہوسکتے ہیں۔
۳۹۔۔۔۔۔۔یعنی جب چھاؤں اور دھوپ یکساں نہیں ہو سکتے تو نیکی کی ٹھنڈک اور گناہ کی تپ دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں۔ اثرات کے اعتبار سے لازماً دونوں میں فرق ہے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔یعنی جب زندہ اشخاص اور مردہ اشخاص یکساں نہیں ہیں تو وحی الٰہی سے حیات تازہ پانے والا اور اس کے فیض سے محروم ہو کر اپنے ضمیر کو مردہ کانے والا یکسں کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ اور جب یکساں نہیں ہیں تو انجام بھی دونوں کا مختلف ہونا چاہیے۔ اور یہ صورت واقعہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسانوں کا رب ایک دن عدالت برپا کرے اور جزا و سزا کا معاملہ ظہور میں آئے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔یعنی حق بات وہی لوگ سنتے اور قبول کرتے ہیں جن کو اللہ اس کی توفیق دیتا ہے اور وہایسے لوگوں کو س کی توفیق نہیں دیتا جن کے دل مردہ ہوکے ہیں۔
۴۲۔۔۔۔۔۔یعنی اے پیغمبر ! جس طرح تم ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبر میں دجن ہو چکے اسی طرح تم ان لوگوں کو بھی نہیں سنا سکتے جن کے دل مردہ ہو چکے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مردہ دل انسانوں پر تمہاری نصیحت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ نصیحت پذیری کے لیے دل کا زندہ اور شعور کا بیدار ہونا ضروری ہے۔
یہاں مردوں کے نہ سننے کی بات اگرچہ مثال کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے لیکن مثال حقیقت واقعہ ہی کی ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مردوں کو جو قبر میں مدون ہیں سنانا کسی شخص کے بس کی بات نہیں ہے یہاں تک کہ پیغمبر بھی انہیں نہیں سنا سکتا اور جب قبر والوں کو سنایا ہی نہیں جا سکتا تو جو لوگ ان سے فریاد کرتے ہیں وہ ایک لغو حرکت کرتے ہیں یہ آیت مزید قبر پرستی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ نمل نوٹ ۱۱۸۔
۴۳۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کا ایسا سامان کیا کہکسی قوم کو بھی تاریکی میں بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑا اس نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا جس نے اس قوم کو قیامت کے دن اور اللہ کی نافرمانی کے انجام سے خبر دار کیا۔ قرآن نے متعدد قوموں کا ذکر جن کی طرف جو رسول بھیجے گئے تھے ان کے ناموں کی صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن جن قوموں کا ذکر نہیں کیا ہے ان کے بارے میں ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کی طرف کون رسول بھیجے گئے تھے اس لیے ہم یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان قوموں کی فلاں اور فلاں شخصیتیں رسول تھیں۔ قرآن نے فارس کی مجوس قوم کا ذکر کیا ہے لیکن اس کی طرف کس کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا اس کی صراحت نہیں کہ اس لیے ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم زر تشت کو نبی یا رسول قرار دیں۔ اسی طرح ہندو قوم کے بارے میں ہم یقینی طور سے نہیں یہہسکتے کہ ان کی فلاں اور فلاں شخصیتیں نبی یا رسول تھیں۔ کسی کو نبی یا رسول علم و یقین کی بنیاد پر ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ قیس اور گمان کی بنا پر کیونکہ یہ مسئلہ عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اور عقیدہ کی بنیاد واضح حجت پر ہوتی ہے۔ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت اس لیے بھی باقی نہیں رہی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم دنیا کی تمام قوموں کی طرف رسول اور نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کی لائی ہوئی کتاب (قرآن) ہدایات و رہنمائی کے لیے موجود ہے نیز آپ کی امت (امت مسلمہ) کو برپا کیا گیا ہے تاکہ وہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں پیغام حق پہنچائے اور لوگوں کو دین حق کی دعوت دے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔یعنی ایسے دلائل لے کر آئے تھے جو ان کی رسالت کا واضح ثبوت تھے۔ ان رسولوں میں ایسے بھی تھے جن کو صحیفے دیے گئے تھے مثلاً حضرت ابراہیم۔ اور ایسے بھی تھے جن کو کتابیں دی گئی تھیں مثلاً حضرت موسیٰ اور حضرت عیسٰی۔ صحیفہ ور کتاب میں فرق یہ ہے کہ صحیفہ مختصر ہوتا ہے اور کتاب تفصیلی۔
۴۵۔۔۔۔۔۔آسمان سے پانی برسانے کا مطلب آسمان کی جانب سے یعنی اوپر سے پانی برسانا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔یعنی پہاڑوں میں سفید پتھر کے بھی خطے ہوتے ہیں جیسے سنگ مر مر۔ اور سرخ رنگ کے بھی۔ چنانچہ راجستھان میں سرخ رنگ کے پہاڑ ہیں اور دہلی کی جامع مسجد اور لال قلعہ کی تعمیر سرخ پتھر ہی سے ہوئی ہے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔یعنی رنگوں کا یہ اختلاف اللہ کے کمال قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس نے جو چیز بھی بنائی اس کے مختلف نمونے پیش کر دیے تاکہ ان کو دیکھ کر ذہن خدا کی طرف منتقل ہو۔ اگر یہ کائنات بے خدا ہوتی تو یہاں یہ رنگا رنگی نہیں ہوسکتی تھی اور اگر اس کی قدرت محدود ہوتی تو اس کی تخلیق میں یہ گوناگونی نہیں ہو سکتی تھی۔
۴۸۔۔۔۔۔۔علم رکھنے والوں سے مراد اللہ کی معرفت رکھنے والے ہیں یعنی جو لوگ خدا شناس ہوتے ہیں وہ اللہ کی عظمت کے تصور ہی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ ہر طرف پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں کو جب وہ آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں تو ان کو اس کی صفات کے جلوے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ کی صفات کا صحیح علم خشیت پیدا کرتا ہے۔ یہ حقیقی علم ہے اور جو شخص اس علم میں جتنی ترقی کرتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی خشیت ہی ہے جو انسان کے اندر ایمان اور عمل صالح کی روح پھونک دیتی ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص اللہ کی معرفت سے بے بہرہ ہے وہ جاہل مطلق ہے خواہ وہ دنیوی علوم و فنون کا ماہر ہی کیوں نہ ہو۔
۴۹۔۔۔۔۔۔اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ کے جو بندے خشیت اختیار کریں گے ان کے قصوروں کو وہ زبردست ہونے کے باوجود معاف کر دے گا۔
۵۰۔۔۔۔۔۔تلاوت کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت نوٹ ۸۳۔
۵۱۔۔۔۔۔۔نماز قائم کرنے کا مطلب نماز کا محض خارجی طور سے اہتمام کرنا نہیں بلکہ اس کو پابندی کے ساتھ اور ٹھیک ٹھیک ادا کرنا ہے۔ یہ سورہ مکی ہے اور مکیہ میں اقامت صلوٰۃ کے داخلی پہلوؤں ہی پر اصل زور تھا کیونکہ خارجی اہتمام کے زیادہ مواقع نہیں تھے۔ البتہ جب مدینہ میں یہ مواقع حاصل ہوئے تو مسجدیں بھی تعمیر کی گئیں اور اذان اور جماعت کا بھی اہتمام کیا گیا۔
لغت میں بھی اقامت صلوٰۃ کے معنی مداومت اور محافظت بیان کیے گئے ہیں۔ لسان العرب میں ہے :
و اَقامَ الشئَ ادَامَہٗ مِن قولِہ تعالیٰ وَ یُقیمُونَ الصلوٰۃ (ج۔ ۱۲ ص ۴۹۰ّ) ” کسی چیز کو قائم کرنے کے معنی اس پر مداومت اختیار کرنے کے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد "نماز قائم کرتے ہیں ” اسی مفہوم میں ہے "”
اور مفردات راغب میں ہے :
یُقیمُون الصَّلوٰۃ ای یُدیْمُونَ فِعْلِھَا و یَحفِظونَ عَلَیھَا۔ (ص۔ ۴۲۸ ) "نماز قائم کرتے ہیں ینی ہمیشہ یہ عمل کرتے ہیں ور اور نماز کی حفاظت کرتے ہیں ”
واضح ہوا کہ اقامت صلوٰۃ میں بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ آدمی اس کو ہمیشہ اور صحیح طریقہ پر ادا کرتا رہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔اللہ کی رہ میں پوشیدہ خرچ کرنا بہتر ہے لیکن جہاں ضرورت ہو علانیہ بھی خرچ کر سکتا ہے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔یعنی وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اخروی نفع کی امید رکھتے ہیں۔
۵۴۔۔۔۔۔۔اللہ قدر داں ہے لہٰذا خلوص کے ساتھ جو انفاق کیا جائے گا اور اس کے لیے جو قربانیاں دی جائیں گی ان کی اللہ تعالیٰ قدر فرمائے گا۔
۵۵۔۔۔۔۔۔یعنی یہ کتاب بالکل حق ہے۔ اس میں باطل کی کہیں سے بھی آمیزش نہیں ہوئی ہے اس لیے اس کی پیروی حق کی پیروی ہے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔مراد تورات اور انجیل ہیں۔ قرآن ان کی تصدیق اس معنی میں کرتا ہے کہ یہ کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں اور اس معنی میں بھی کہ ان کی تعلیم بھی وہی تھی جو قرآن کی تعلیم ہے نیز اس معنی میں بھی کہ ان کتابوں میں جو پیشین گوئیاں نبی امی کے بارے میں موجود ہیں ان کا مصداق محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ کی رسالت سے تورات و انجیل کی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں اور یہ ان کتابوں کی سچائی کا ثبوت ہے۔
واضح رہے کہ قرآن اصل تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ نے ان میں جو تحریف کی ہے اور جو اضافے کیے ہیں ان کی نہیں۔
۵۷۔۔۔۔۔۔لہٰذا اب وہ دیکھے گا کہ اس کے بندے اس کتاب حق کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
۵۸۔۔۔۔۔۔یعنی اس کتاب کو پیغمبر پر نازل کر کے اس کا وارث اس کی امت کو بنایا۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور اس کا وارث بنانے کا مطلب اس کا حامل بنانا ہے۔ اور ” اپنے بندوں میں ے جن کو منتخب کیا” سے مراد امت مسلمہ ہے جس کا انتخاب دین حق کی شہادت (گواہی دینے ) کے لیے ہوا ہے :
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا کُمْ اُمَّۃً وَّسَطاًلِّتکُونو اشُھَدَاءَ عَلَی النَّاسِ۔ (بقرہ۔ ۱۴۳)۔ ” اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو”۔
اور دوسری جگہ فرمایا:
ھُوَا جْتَبَا کُمْ (حج۔ ۷۸) ” اس نے تمہیں چن لیا ہے۔ ”
یہ انتخاب اور چننا نہ حیثیت گروہ کے ہے اور اس گروہ کو اس لیے منتخب کیا گیا ہے تاکہ کتاب اس کو عطا کی جائے اور وہاس کی حامل بنے۔ یہ گروہ اس شرف سے تو نوازا گیا ہے لیکن اس کے افراد کا حال مختلف ہے۔ اس میں ایسے بھی ہیں جو غلط روی اختیار کر کے اپنے ہی نفس پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ انہوں نے نہ اس کتاب کی قدر کی اور نہ اپنے اس شرف کا لحاظ کیا جو انہیں امت مسلمہ میں شامل ہونے کی حیثیت سے حاصل ہوا تھا۔ قرآن ایسے لوگوں کو ظالم کہتا ہے اس لیے وہ در حقیقت اس شرف کے مستحق نہیں ہیں جو امت مسلمہ کو بخشا گیا ہے۔ اور امت مسلمہ میں دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو مقتصد یعنی اعتدال پسند اور میانہ رو ہیں مراد ایمان کے ساتھ بیک عمل کرنے والے لوگ ہیں۔ سورہ مائدہ آیت ۶۶ میں اُمَّۃٌ مُقْتصِدَۃٌ ” میانہ رو گروہ” ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو فاسق نہیں ہیں۔ اور امت مسلمہ میں تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں یعنی نیک کاموں میں آگے اور دین کی جد و جہد میں سرگرم رہنے والے ہیں۔ یہ عم صالحین سے اونچا مقام رکھنے والے اور اول درجہ کے لوگ ہیں۔
۵۹۔۔۔۔۔۔یعنی کتاب الٰہی کا صحیح معنی میں حامل بننا بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور جن لوگوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی ان پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہوا۔
۶۰۔۔۔۔۔۔یعنی جنت کے جاودانی باغ۔ یہ جزا جیسا کہ کلام کے رُخ (Tenor of the speech) سے نیز قرآن کیدوسری تصریحات سے واضح ہے اخیر کے دو گروہوں یعنی صالحین اور سابقین کی بیان ہوئی ہے۔ رہا پہلا گروہ یعنی اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تو وہ اپنے عقیدہ و عمل کے مطابق سزا کے مستحق ہیں جس کی صراحت قرآن نے دوسرے مقامات پر کی ہے مثلاً کسی مومن کو عمداً قتل کرنے کی سزا جہنم ہے جیسا کہ سورہ نساء آیت ۹۲ میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح اللہ اور اس ے رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
وَمَنْ یَعْصِ اللہَ وَرَسُولَہ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْ خِلْہٗ نَاراً خالداً فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُھِینٌ (نساء۔ ۱۴) ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کرے گا۔ اسے وہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے "۔
پھر اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں فاس بھی ہو سکتے ہیں اور منافق بھی اس لیے قرآن یہاں جنت کی جو خوش خبری دے رہا ہے اس کو ان لوگوں متعلق قرار دینا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا مگر متعدد مفسرین نے س خوش خبری میں ان لوگوں ( اپنے نفس پر ظلم ڈھانے والوں ) کو شامل کر کے آیت کی غلط توجیہ کی ہے۔ جنت کی جو جزاء یہاں بیان ہوئی ہے تقریباً ان ہی الفاظ میں سورہ حج میں بیان ہوئی ہے اور اس صراحت کے ساتھ کہ یہ ان لوگوں کی جزاء ہے جو ایمان لا اور نیک اعمال کیے۔
اِنَّ اللہَ یُدْ خِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ جِنّٰتً تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَالْاَنھٰرُ یُحَلّونَ فِیْھَا مِنْ اَسَا وِرَمِنْ ذھَبٍ وَّ لُؤ لُؤً وَّلِبَاسُھُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ (حج۔ ۲۳ ) ” اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے بیک عمل کیے اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتی کے زیور پہنائے جائیں گے اور ان کا لناس وہاں ریشم کا ہو گا۔”
اور جن حدیثوں کو اس بات کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے کہ آیت میں جنت کی جو خوش خبری سانئیگئی ہے وہ اس امت کے ظالم گروہ کے لیے بھی ہے وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں مثلاً ترمذی کی ابو سعید خدری والی حدیث کہ اس کی اسناد میں دو راوی مجہول ہیں یعنی ان کے نام ہی سرے سے مذکور نہیں۔ ثقیف کے ایک شخص سے سنا اور کنانہ کے ایک شخص سے مروی ہے کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ (ترمذی ابواب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الملائکۃ)۔
ظاہر ہے جب راوی ہی معلوم نہیں ہے تو روایت کس طرح صحیح قرار دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح احمد بن حنبل نے ابو الدرداء سے جو حدیث روایت کی ہے اس کے ایک راوی اسحاق بن عیسیٰ ہیں اور دوسرے راوی علیٰ بن عبد اللہ لازدی ہیں اور ان دونوں کے بارے میں حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے کہ وہ سچے ہیں مگر حدیث بیان کرنے میں غلطیاں کر جاتے ہیں (تقریب التہذیب ، ص ۳۷ ، ۲۷۳ )۔
واضح رہے کہ اس وقت امت میں فاسقوں اور بے عمل لوگوں کی کثرت ہ اور منافقین کی بھی کمی نہیں۔ ان سب کو محض امت مسلمہ میں شامل ہونے ی بنا پر جبت کا مستحق قرار دینا ان کو اس حال میں چھوڑ دینا ہے کہ وہ گناہوں میں ڈوبے رہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اللہ ان میں سے کن لوگوں ی مغفرت فرمائے گا اور کب فرمائے گا اس لیے ہمیں کوئی ایسی بات نہیں کہنا چاہیے جس سے غلط کار لوگ مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حج نوٹ ۳۵۔
۶۲۔۔۔۔۔۔غم سے مراد ہر قسم کا غم ہے۔ جنت کی زندگی غم سے بالکل پاک اور مکمل خوشی کی زندگی ہو گی۔ انسان کی فطرت ایسی ہی زندگی کا تقاضا کرتی ہے اور انسان اسی کی تمنا کرتا ہے مگر اس کے پورا ہونے کا محل یہ دنیا نہیں بلکہ جنت ہے اگر وہ اس حقیقت کو سمجھ لے تو اس کے سارے غم غلط ہو کر رہ جائیں۔
۶۳۔۔۔۔۔۔اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ہم سے جو قصور سرزد ہوئے تھے ان کو ہمارے رب نے معاف کر دیا اور ہمارے اچھے اعمال کی قدر فرمائی۔
۶۴۔۔۔۔۔۔یعنی ہمارے رب نے ہمیں اس منزل پر اتارا ہے جو ہمیشگی کا گھر ہے اور وہاں ہماری اقامت بھی ہمیشہ کے لیے ہے۔ پھر اس گھر (جنت) کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں نہ محنت و مشقت کرنا پڑتی ہے اور نہ کسی قسم کی تکان لاحق ہوتی ہے۔
آدمی جب محنت کرتا ہے تو اس اسے تکان لاحق ہوتی ہے لیکن جنت کا ماحول دنیا کے ماحول سے بہت اعلیٰ و ارفع ہو گا وہاں کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت کی ضرورت نہیں ہو گی اس لیے تکان بھی محسوس نہ ہو گی۔
۶۵۔۔۔۔۔۔مرد خاص طور سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو کتاب الٰہی ماننے سے انکار کیا۔
۶۶۔۔۔۔۔۔یعنی موت آ کر ان کی تکلیف کا خاتمہ کر دینے والی نہیں بلکہ وہ ہمیشہ تکلیف کی حالت میں رہیں گے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔اتنی سخت سزا اللہ کے قانون عدل کے مطابق ہو گی کہ جہاں شکر کرنے والوں کا بدلہ ہمیشگی کی جنت ہے وہاں ناشکر کر نے والوں کا بدلہ ہمیشگی کی جہنم۔
جو شخص اپنی آنکھیں پھوڑ دیتا ہے اس کو دوبارہ آنکھیں نہیں ملتیں۔ اسی طرح جو شخص اللہ کی نعمتوں کو ٹھکرا دیتا ہے اس کا ابدی نعمتوں سے محروم رہنا مقدر ہے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔یہ جہنم کا کیسا درد ناک منظر ہے جس میں کافروں کو چیختے چلاتے ہوئے اور اپنی غلط کاریوں کا اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس لیے دکھایا گیا ہے تاکہ جو لوگ قرآن کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے خطرناک اور درد ناک انجام کی ایک جھلک دیکھ لیں۔ عجب نہیں کہ یہ جھلک ان کو اپنی اصلاح پر آمادہ کر دے۔
۶۹۔۔۔۔۔۔مراد وہ عمر ہے جسمیں انسان حق و باطل میں تمیز کرنے اور واقعات سے سبق حاصل کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ قرآن نے دوسری جگہ جوانی کی عمر کو سوجھ بوجھ کی عمر قرار دیا ہے (حَتیّٰ یَبْلُعُ اَشُدَّہٗ۔ بنی اسرائیل ۳۴) جو شخص بھی سوجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ گیا اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں اپنا موقف متعین کرنے کے سلسلے میں ہوش سے کام لے اور یاد دہانی کی جو باتیں اس کے سامنے آئیں ان سے وہ سبق لے۔
۷۰۔۔۔۔۔۔یعنی مزید براں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس رسول آیا تھا جس نے تم پر حجّت قائم کر دی تھی۔
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خلیفہ کے معنی با اختیار کے ہیں۔ اس کی تشریح سورہ نور نوٹ ۹۵ میں گزر چکی۔ واضح رہے کہ قرآن میں انسان کو خلیفۃ اللہ (اللہ کا خلیفہ) کہیں نہیں کہا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ اس کو اللہ نے خلیفہ بنایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک با اختیار مخلوق ہے اور یہ اختیارات اللہ کے پیدا کردہ اور اس کی طرف سے امانت ہیں۔ خدائی اختیارات کا کوئی جزء بھی اس کو حاصل نہیں ہے اور نہ وہ خدا کا قائم مقام ہے۔ خدا کا خلیفہ یا نائب کہنے سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے اس لیے خلیفہ کا ترجمہ با اختیار زیادہ موزوں ہے اور یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔یعنی جو اس حقیقت کو ماننے سے نکار کرے گا کہ اللہ نے اس کو خلیفہ بنایا ہے اور اس کے بر خلاف اپنے کو خود مختار قرار دے گا تو اس کی حیثیت اللہ کے باغی اور بہت بڑے مجرم کی ہو گی اور اس کا سارا وبال اسی پر پڑے گا۔
۷۳۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن کو تم نے خدا بنا رکھا ہے اس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل تمہارے پاس ہے ؟ اگر ہے تو بتاؤ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے ؟ اگر آسمان و زمین کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے تو پھر وہ خدا کیسے ہوئے ؟ اگر متعدد خداؤں کے حق میں کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے تو کیا کوئی آسمانی کتاب تمہارے پاس موجود ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہو ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور واقعہ یہی ہے کہ متعدد خداؤں کے وجود کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ اس کی تائید میں تم کوئی آسمانی کتاب پیش کر سکتے ہو تو پھر تمہارا یہ عقیدہ بے بنیاد نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اس بے بنیاد اور جھوٹے عقیدہ سے وابستہ رہنے کے لیے تم ایک دوسرے کو جو امیدیں دلاتے ہو کہ یہ عقیدہ اور یہ مذہب ہی تمہیں مالا مال کرنے والا ہے وہ اس کے سوا کیا ہیں کہ ایک دوسرے کو سبز باغ دکھانا اور دھوکہ میں رکھنا۔
مشرکین عرب کے پاس تو کوئی مذہبی کتاب تھی ہی نہیں جس کے آسمانی ہونے کا دعویٰ کرتے مگر مشرکین ہند کے پاس قدیم مذہبی کتاب دید موجود ہے جس میں متعدد دیوتاؤں کا تصور پایا جاتا ہے لیکن وید نہ خود آسمانی کتاب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور نہ اس کے وحی الہٰی ہونے کی کوئی شہادت موجود ہے یہاں تک کہ یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا مصنف یا پیش کرنے والا کون تھا۔
وید کے بارے میں سی کنہن راجا لکھتے ہیں :
"In Most of the religions, the person who had the revelation had that revelation imparted by a God, Even within the scheme of the rituals of the Vedas, there is no such original Teacher of the religion and there are no dogmas for belief”.
(The Quintessence of the Rigveda P.6)
اس لیے وید میں پائے جانے والے متعدد خداؤں اور دیوتاؤں کے تصور کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
۷۴۔۔۔۔۔۔یعنی ان کو جس طرح قائم کر دیا گیا ہے قائم رہیں۔ زمین کہیں لڑھک نہ جائے اور آسمان کہیں گر نہ پڑے۔
۷۵۔۔۔۔۔۔یعنی اگر اللہ آسمانوں اور زمین کی گرفت ڈھیلی کر دے یا ان کو زائل کر دے تو ان کو اپنی جگہ قائم رکھنے والا کوئی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین اللہ کے قائم کرنے سے قائم ہیں اور اگر وہ ان و قائم رکھنا نہ چاہے تو کوئی نہیں جو ان کو قائم رکھ سکے۔
۷۶۔۔۔۔۔۔اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ کافروں کی باتیں ایسی ہیں کہ اللہ کا غضب ٹوٹ پڑے اور آسمان و زمین کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے لیکن اللہ برد بار ہے اس لیے اس کا غضب ٹوٹ نہیں پڑتا اور وہ معاف کرنے والا ہے اس لیے کافروں کو بھی مہلت دیتا ہے کہ وہ اس سے معافی کے خواستگار بن کر اصلاح کر لیں۔
۷۷۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے پہلے مشرکین مکہ یہود و نصاریٰ کو دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس اللہ کا کوئی رسول آیا تو ہم ان امتوں کے مقابلہ میں اپنے کو زیادہ ہدایت یافتہ ثابت کر دکھائیں گے۔
۷۸۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کے رسول اور دین کے خلاف جو سازشیں بھی کی جائیں گی ان کے حال میں بالآخر سازش کرنے والے ہی پھنسیں گے۔ اور دنیا نے دیکھ لیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف سازش کرنے والوں کی تدبیریں کس طرح الٹی پڑیں۔ یہ تو دنیا میں ان کا انجام ہوا اور آخرت میں تو ہولناک انجام سے انہیں دوچار ہونا ہے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔یعنی رسولوں کو جھٹلانے کا جا انجام گزری ہوئی قوموں کا ہوا وہی انجام ان کا ہو جائے؟
۸۰۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کا دستور کہ اس کے رسول کو جھٹلانے والوں کو وہ دنیا میں تباہ کر دیتا ہے ایک اٹل دستور ہے۔ اس میں کسی قوم کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاتی۔ ہر جھٹلانے والی قوم کا یہی حشر ہوا ہے لہٰذا قرآن کے پیغمبر کو جھٹلانے والی قوم کا بھی لازماً یہی حشر ہو گا۔ اللہ کی اس سنت(دستور) میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ اس کے مطابق ظاہر ہونے والے عذاب کو ٹالا جا سکتا ہے۔
مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بنی اسرائیل نوٹ ۱۰۷۔
۸۱۔۔۔۔۔۔یہ منکرین کے اس شبہ کا جواب ہے کہ اگر ہم گمراہ ہیں تو اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا۔ فرمایا اگر اللہ لوگوں کو ان کے قصوروں پر فوراً پکڑتا تو پوری نوع انسانی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا کیونکہ کوئی انسان ایسا نہیں جس سے کوئی نہ کوئی قصور سرزد نہ ہوتا ہو لیکن اللہ لوگوں کو اصلاح کا موقع دیتا ہے یہاں تک کہ وہ گمراہ قوموں کو بھی ایک وقت تک مہلت دیتا ہے تاکہ وہ اپنے رویہ کو دست کر لیں۔ جب یہ مہلت ختم ہو گی اور فیصلہ کا وقت آئے گا تو اللہ دیکھ لے گا کہ اس کے بندوں نے کیا کیا ہے اور ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے۔ اس میں گمراہ اور غلط کار لوگوں کے لیے سخت تنبیہ ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ ان کو کبھی پکڑنے والا نہیں ہے۔
٭٭٭
(۳۶) سورہ یٰسین
(۸۳ آیات)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
سورہ کا آغاز "ی” (یا) اور "س” (سین) دو حرفوں سے ہوا ہے اس مناسبت سے اس کا نام سورہ یٰس ہے۔
زمانۂ نزول
مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے درمیانی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہو گی نیز یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سورہ فاطر کے بعد نازل ہوئی ہو گی کیونکہ اس میں خبردار کرنے والے (نذیر) کا ذکر مجملاً ہوا تھا اور اس میں زیادہ وضاحت کے ساتھ ہوا ہے۔
مرکزی مضمون
آخرت کے انجام سے خبردار کرنا ہے اس طور سے کہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگ جاگ اٹھیں اور انہیں اپنے مستقبل اور اپنی نجات کی فکر دامن گیر ہو۔ رسول کی بعثت اسی لیے ہوتی ہے کہ وہ خبردار کرنے کا یہ فریضہ انجام دے۔
نظم کلام
آیت ۱ تا ۱۲ میں رسول کی صداقت پر قرآن کی شہادت پیش کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اس کی بعثت کا مقصد غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو خبردار کرنا ہے۔
آیت ۱۳ تا ۳۲ میں عبرت کے ایک بستی کی مثال پیش کی گئی ہے جس نے خبر دار کرنے والے رسولوں کو جھٹلایا تھا نتیجہ یہ کہ اللہ نے عذاب بھیج کر اس کو تباہ کر دیا۔
آیت ۳۳ تا ۵۰ میں توحید کی نشانیوں کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے منکرین کے اعتراضات کی تردید کی گئی ہے۔
آیت ۵۱ تا ۶۵ میں قیامت کے احوال اس طور سے پیش کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والا محسوس کرنے لگتا ہے کہ قیامت برپا ہو گئی ہے اور وہ میدان حشر میں کھڑا ہے۔
آیت ۶۶ تا ۶۸ میں منکرین کو تنبیہ ہے۔
آیت ۶۹ تا ۸۳ میں رسالت ، توحید اور دوسری زندگی سے متعلق منکرین کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔
فضیلت کے بارے میں روایتیں
اس سورہ کی فضیلت میں ترمذی نے حضرت انس سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "یٰس قرآن کا دل ہے” ساتھ ہی انہوں نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور اس کا ایک راوی ہارون ابو محمد مجہول ہے۔ (دیکھیے ترمذی ابواب فضائل القرآن)۔
دوسری حدیث ابو داؤد کی ہے جس میں انہوں نے معقل بن یسار سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ :
اقراء و ا یٰس علیٰ موتا کم (ابو داؤد کتاب الجنائز) ” مرنے والوں پر یٰس پڑھا کرو”۔
یہ روایت ابو عثمان نے اپنے والد کے واسظہ سے معقل بن یسار سے بیان کی ہے۔ لیکن امام ذہبی ابو عثمان کے بارے میں لکھتے ہیں ” نہ اس کا باپ معروف ہے اور نہ وہ”
(دیکھیے میزان الاعتدال ، ج ۴ ص ۵۵۰)
اس مضمون کی روایتیں مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے لیکن اسناد کے اعتبار سے یہ صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتیں اس لیے ان کو ارشاد رسول نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور یہ بات بھی ثابت نہیں ہے کہ صحابہ اس سورہ کو کسی شخص کی جانکنی کے موقع پر پڑھا کرتے تھے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔ یا۔ سین ۱*
۲۔۔۔۔۔۔ قسم ہے حکمت سے بھرے قرآن کی۔
۳۔۔۔۔۔۔ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ۲*۔
۴۔۔۔۔۔۔ سیدھے راستہ پر ۳*
۵۔۔۔۔۔۔ یہ نازل کیا ہوا ہے اس کا جو غالب اور رحیم ہے ۴*
۶۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم ایک ایسی قوم کو خبردار کرو جس کے آباء و اجداد کو خبردار نہیں کیا گیا تھا اسلیے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۵*
۷۔۔۔۔۔۔ ان میں سے اکثر لوگوں پر ہمارا قول صادق آ چکا ہے ۶* اس لیے وہ ایمان نہیں لاتے۔
۸۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں اس لیے ان کے سر اوپر کو اٹھ رہ گئے ہیں۔ ۷*
۹۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کے آگے بھی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک دیوار اور ہم نے ان کو ڈھانک دیا ہے۔ لہذا انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ۸*
۱۰۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے یکساں ہے تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو۔ وہ ایمان لانے والے نہیں ۹*
۱۱۔۔۔۔۔۔ تم اسی کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور رحمن سے بے دیکھے ڈرے ۱۰* ایسے شخص کو مغفرت اور با عزت اجر کی خوشخبری دو۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ ہم یقیناً مردوں کو زندہ کریں گے ۱۱* اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو آثار (نقوش) انہوں نے پیچھے چھوڑے۔ ہم نے ہر چیز کو ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔ ۱۲*
۱۳۔۔۔۔۔۔ ان کو مثال کے طور پر بستی والوں کا واقعہ سناؤ جب کہ ان کے پاس رسول آئے۔ ۱۳*
۱۴۔۔۔۔۔۔ جب ہم نے ان کے پاس دو رسول بھیجے تو انہوں نے ان کو جھٹلایا۔ پھر ہم نے تیسرا رسول بھیج کر (ان رسولوں کی) تائید کی۔ ان سب نے کہا ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ۱۴*
۱۵۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں نے جواب دیا تم تو ہمارے ہی جیسے بشر ہو اور رحمن نے کوئی چیز بھی نازل نہیں کی ہے تم بالکل جھوٹ بولتے ہو ۱۵*
۱۶۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ۱۶*
۱۷۔۔۔۔۔۔ اور ہماری ذمے داری اس کے سوا کچھ نہیں کہ صاف ساف پیغام پہنچا دیں ۱۷*۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں نے کہا ہم تو تمہیں منحوس سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے۔ اور تم ہمارے ہاتھوں دردناک سزاپاؤگے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔ انہوں نے (رسولوں نے) جواب دیا تمہاری نحوستتمہارے ساتھ لگی ہوئی ہے ۱۹* کیا یہ (سزا) اس بنا پر (دو گے) کہ تمہیں نصیحت کی گئی ۲۰* واقعہ یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو ۲۱*
۲۰۔۔۔۔۔۔ اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہا آیا ۲۲* اس نے کہا میری قوم کے لوگو! رسولوں کی پیروی کرو ۲۳*
۲۱۔۔۔۔۔۔ پیروی کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتے اور راہِ راست پر ہیں۔ ۲۴*
۲۲۔۔۔۔۔۔ اور میں کیوں نہ عبادت کروں اس کی جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۲۵* اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۲۶*
۲۳۔۔۔۔۔۔ کیا میں اس کو چھوڑ کر اور معبود بنا لوں ؟ اگر رحمن مجھے تکلیف پہنانا چاہے تو نہ ان کی سفارش میرے کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا سکتے ہیں ۲۷*
۲۴۔۔۔۔۔۔ اگر میں ایسا کروں تو میں کھلی گمراہی میں ہوں گا۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ میں تو تمہارے رب ۲۸* پر ایمان لے آیا تو میری بات سنو ۲۹*
۲۶۔۔۔۔۔۔ ارشاد ہوا جنت میں داخل وہاج۔ اس نے کہا کاش میری قوم جان لیتی۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ کہ میرے رب نے میری مغفرت فرمائی اور مجھے با عزت لوگوں میں شامل کیا۔ ۳۰*
۲۸۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد ۳۱* ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہم لشکر اتارا کرتے ہیں۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ بس ایک ہولناک آواز تھی کہ سب بجھ کر رہ گئے ۳۲*
۳۰۔۔۔۔۔۔ افسوس بندوں کے حال پر ! جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے ۳۳*
۳۱۔۔۔۔۔۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں ۳۴* کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اور وہ لوگ ان کے پاس واپس آنے والے نہیں ۳۵*
۳۲۔۔۔۔۔۔ اور یقیناً سب ہی ہمارے حضور حاضر کئے جائیں گے ۳۶*
۳۳۔۔۔۔۔۔ اور ایک بڑی نشانی ان کے لیے مردہ زمین ہے۔ ہم نے اس کو زندہ کیا ۳۷* اور اس سے غلہ نکالا جسے وہ کھاتے ہیں۔۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے ہیں۔ اس میں چشمے جاری کر دیئے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ تاکہ وہ اس کے پھل کھائیں۔ یہ ان کے ہاتھ کا کام نہیں ہے۔ پھر کیا وہ شکر نہیں کریں گے ۳۸*
۳۶۔۔۔۔۔۔ پاک ہے وہ جس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے ۳۹*۔ زمین کی نباتات میں بھی ۴۰* ان کے اپنے اندر سے بھی ۴۱* اور ان چیزوں کے اندر سے بھی جن کو وہ نہیں جانتے ۴۲*
۳۷۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے ایک نشانی رات ہے۔ ہم اس سے دن کھینچ لیتے ہیں تو وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ ۴۳*
۳۸۔۔۔۔۔۔ اور سورج اپنی جائے قرار کی طرف چلا جا رہا ہے ۴۴* یہ اس ہستی کی منصوبہ بندی ہے جو غالب اور علم والا ہے ۴۵*
۳۹۔۔۔۔۔۔ اور چاند کہ ہم نے اس کی منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح رہ جاتا ہے ۴۶*
۴۰۔۔۔۔۔۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے۔ سب ایک ایک دائرہ میں حرکت کر رہے ہیں ۴۷*
۴۱۔۔۔۔۔۔ اور ان کے لیے ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ ۴۸*
۴۲۔۔۔۔۔۔ اور ان کے لیے اسی کی مانند اور (کشتیاں) پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں ۴۹*
۴۳۔۔۔۔۔۔ اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں پھر نہ ان کا کوئی فریاد رس ہو گا اور نہ وہ بچائے جا سکیں گے۔ ۵۰*
۴۴۔۔۔۔۔۔ مگر یہ ہماری رحمت ہے اور ایک وقت تک کے لیے فائدہ اٹھانے کا سامان ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو اس چیز سے جو تمہارے آگے اور پیچھے ہے ۵۱* تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (تو وہ منہ موڑ لیتے ہیں)۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ اور ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو نشانی بھی ان کے پاس آتی ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں بخشا ہے اس میں سے (محتاجوں پر) خرچ کرو تو یہ کافر ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کیا ہم ان لوگوں کو کھلائیں جن کو اگر اللہ چاہتا تو کھلا دیتا ۵۲* تم لوگ صریح گمراہی میں پڑ گئے ہو۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ اور کہتے ہیں یہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہو گا۔ ۵۳* اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ)۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ بس ایک ہولناک آواز کے منتظر ہیں جو انہیں اس حال میں کہ باہم جھگڑ رہے ہوں گے آ پکڑے گی ۵۴*
۵۰۔۔۔۔۔۔ پھر نہ تو وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ ہی سکیں گے ۵۵*
۵۱۔۔۔۔۔۔ اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے ۵۶*
۵۲۔۔۔۔۔۔ کہیں گے افسوس ہم پر ! کس نے ہم کو ہماری خواب گاہوں سے اٹھایا؟ ۵۷*۔۔۔ یہ وہی ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے کہا تھا ۵۸*
۵۳۔۔۔۔۔۔ بس ایک ہولناک آواز ہو گی اور دفعتہً وہ سب کے سب ہمارے حضور حاضر کر دیئے جائیں گے ۵۹*
۵۴۔۔۔۔۔۔ آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا اور تمہیں وہی کچھ بدلہ میں ملے گا جو تم کرتے رہے ہو ۶۰*
۵۵۔۔۔۔۔۔ آج جنت والے اپنے مشغلوں میں شاداں و فرحان ہوں گے۔ ۶۱*
۵۶۔۔۔۔۔۔ وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے ۶۲*
۵۷۔۔۔۔۔۔ اس میں ان کے لیے میوے ہوں گے اور جو کچھ وہ طلب کریں گے وہ انہیں ملے گا ۶۳*
۵۸۔۔۔۔۔۔ ان کو سلام کہلایا جائے گا ربِ رحیم کی طرف سے ۶۴*
۵۹۔۔۔۔۔۔ اور اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ ۶۵*
۶۰۔۔۔۔۔۔ اے اولاد، آدم ! کیا میں نے تمہیں ہدایت نہیں کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۶۶*
۶۱۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ میری ہی عبادت کرو۔ یہ سیدھا راستہ ہے ۶۷*
۶۲۔۔۔۔۔۔ پھر بھی اس نے تم میں سے بڑی خلقت کو گمراہ کر لیا ۶۸* تو کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟ ۶۹*
۶۳۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا۔
۶۴۔۔۔۔۔۔ اب داخل ہو جاؤ اس میں اس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔ ۷۰*
۶۶۔۔۔۔۔۔ اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں مٹا دیں پھر وہ راستہ کی طرف بڑھیں۔ انہیں کہاں سے دکھائی دے گا۔ ۷۱*
۶۷۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہ ہی پر مسخ کر دیں پھر نہ وہ آگے بڑھ سکیں اور نہ پیچھے لوٹ سکیں۔ ۷۲*
۶۸۔۔۔۔۔۔ اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو ہم خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں۔ پھر کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟ ۷۳*
۶۹۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس (نبی) کو شعر کہنا نہیں سکھا یا اور نہ یہ اس کے شایانِ شان ہے۔ یہ تو ایک یاددہانی اور واضح قرآن ہے۔ ۷۴*
۷۰۔۔۔۔۔۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو خبردار کر دے جو زندہ ہیں اور کافروں پر حجت قائم ہو جائے ۷۵*
۷۱۔۔۔۔۔۔ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے پیدا کئے تو وہ ان کے مالک ہیں۔ ۷۶*
۷۲۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان کو ان کے ماتحت کر دیا تو ان میں سے کوئی ان کی سواری کے کام آتا ہے اور کسی کا وہ گوشت کھاتے ہیں۔
۷۳۔۔۔۔۔۔ اور ان کے لیے ان میں دوسری منفعتیں ۷۷* اور مشروبات ۷۸* بھی ہیں پھر کیا وہ شکر نہیں کریں گے؟ ۷۹*
۷۴۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا لیے ہیں اس امید پر کہ ان کی مدد کی جائے گی۔
۷۵۔۔۔۔۔۔ وہ ان کی مدد نہیں کرسکتے بلکہ یہ ان کے لشکر کی حیثیت سے حاضر کر دیئے جائیں گے ۸۰*
۷۶۔۔۔۔۔۔ تو ان کی باتیں تمہارے لے باعثِ رنج نہ ہوں ۸۱* ہم ان کی ان باتوں کو بھی جانتے ہیں جو یہ چھپاتے ہیں اور ان کو بھی جو یہ ظاہر کرتے ہیں۔
۷۷۔۔۔۔۔۔ کیا انسان نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا۔ پھر وہ کھلا جھگڑالو بنکر اٹھ کھڑا ہوا! ۸۲*
۷۸۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارے لیے مثالیں بیان کرتا ہے ۸۳* اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے ۸۴* کہتا ہے ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے جب کہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ کہو ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہ ہر مخلوق کو جانتا ہے ۸۵*
۸۰۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے آگ جلاتے ہو ۸۶*
۸۱۔۔۔۔۔۔ کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیااس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو پیدا کرے ۸۷* کیوں نہیں ؟ وہ بڑا پیدا کرنے والا علم والا ہے ۸۸*
۸۲۔۔۔۔۔۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ "ہو جا” اور وہ ہو جاتی ہے۔ ۸۹*
۸۳۔۔۔۔۔۔ تو پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ ۹۰*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔ بعض مفسرین نے یٰس کے معنی اے انسان بیان کیے ہیں اور بعض کے نزدیک اس سےمراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں لیکن یہ بات نہ لغت سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے۔
حروف مقطعات جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں سورتوں کے بعض اہم مضامین کی طرف اشارہ کرتے ہیں (دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱ اور سورہ یونس نوٹ ۱) اس سورہ میں "ی” کا اشارہ یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَاد (بندوں کے حال پر افسوس ! آیت ۳۰) کی طرف ہے اور "س” کا اشارہ سلٰمٌ قولا مِنْ رَّبِّ رَّ حِیْم (جنت میں ان کے لیے رب رحیم کی طرف سے قول ہو گا سلام۔ آیت ۵۸) کی طرف گویا اس سورہ میں ایک رف ان بدوں کے حال پر اظہار افسوس کیا گیا ہے جو رسول کی صداقت پر یقین نہیں کرتے بلکہ اس مذاق اڑاتے ہیں اور دوسری طرف ایمان لانے والوں کو خوش خبری دی گئی ہے کہ ان کا رب رحیم ان کو سلام کا تحفہ پیش کرے گا۔
۲۔۔۔۔۔۔ عرب میں ایسے موقع پر قوم شہادت کے معنی میں آتی ہے۔ یعنی جس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے اس کو ثبوت اور دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کے ثبوت میں حکمت بھرے قرآن کو پیش کیا گیا ہے۔
جو شخص بھی قرآن کا کھلے ذہن سے مطالعہ کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہے گا کہ :
اولاً قرآن کی علمی سطح نہایت بلند ہے۔ وہ انسان کے علم میں زبردست اضافہ کرتا ہے اور اپر کائنات کے اسرار و رموز کو کھولتا ہے اور انسانی زندگی کے بارے میں حقائق کو بے نقاب کرتا ہے ثانیاً وہ انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور اسے رفعت عطا کرتا ہے۔
ثالثاً غور و فکر کی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے اور اس کی عقل کو جلا بخشتا ہے۔
رابعاً اس کی تعلیمات نہایت اعلیٰ اور انسانی فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہیں۔
خامساً وہ عدل کی میزان قائم کرتا ہے اور دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرنا سکھاتا ہے۔
سادساً وہ تاریخ کے گمشدہ اوراق کو پیش کرتا ہے جن میں انسانیت کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اور مستقبل کی دنیا میں کیا کچھ پیش آنے والا ہے اس سے آگاہ کرتا ہے۔
سابعاً وہ انسان کے ظاہر کو بھی پاکیزگی عطا کرتا ہے اور باطن کو بھی اس میں ایسی روح پھونک دیتا ہے کہ وہ زندگی کی اصل حقیقت سے لذت آشنا ہو جاتا ہے۔
ایسا حکیمانہ کلام جو انسان کی کایا پلٹ دیتا ہو اور اسے بام عروج پر پہنچاتا ہو وحی الٰہی ہو سکتا ہے اور جب یہ کلام وحی الٰہی ہے تو اس کا پیش کرنے والا لازماً اللہ کا رسول ہے مختصر یہ کہ قرآن کا معجزہ کی حد تک حکیمانہ کلام ہونا اس کے لانے والے کے جو ایک امی شخص ہے پیغمبر ہونے کا بین ثبوت ہے اور یہ ایسا ثبوت ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہنے والا ہے تاکہ ہر زمانہ کے لوگ آپ کی رسالت پر یقین کر سکیں۔
۳۔۔۔۔۔۔ سیدھے راستے سے مراد وہ راستہ ہے جو سیدھا اللہ تک پہنچتا ہے اور وہ ہے توحید کی راہ جس کا نام اسلام ہے۔
سورہ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی ہدایت کے بندوں کی زبان سے دعا نکلی ہے وہ یہ صراط مستقیم ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔
۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اس قرآن کو اللہ نے نازل کیا جو غالب بھی ہے اور رحیم بھی۔ ان دو صفتوں کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ یہ قرآن اس ہستی کا فرمان ہے جس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے اس لیے اس کو رد کرنا یا اس سے بے توجہی برتنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بہت بڑی نافرمانی ہے جس پر اس کی طرف سے سخت گرفت ہو گی۔ اور اگر تم اس کے فرمان کو قبول کرو تو اس کی رحمت کے مستحق بن سکتے ہو۔
۵۔۔۔۔۔۔ مراد عرب یعنی بنی اسمٰعیل ہیں جن میں حضرت اسمٰعیل کے بعد کوئی رسول (خبر کرنے والا) نہیں آیا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کا زمانہ تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح کا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ۶۱۰ عیسوی میں ہوئی۔ گویا ڈھائی ہزار سال بعد ان میں پیغمبر کی بعثت ہوئی۔ اتنے طویل عرصہ تک ان میں کوئی پیغمبر اس لیے نہیں مبعوث کیا گیا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعین نے مکہ میں اللہ کا گھر تعمیر کر کے اور نماز اور حج کا طریقہ رائج کر کے توحید کے گہرے نقوش چھوڑے تھے اور ایک مختصر اور غیر متمدن معاشرہ کے لیے جس حد تک شرعی احکام کی ضرورت تھی وہ بھی سنت ابراہیمی کی شکل میں موجود چلی آ رہی تھی۔ علاوہ ازیں ان کی تذکیر کا سامان بالواسطہ و پر حضرت شعیب علیہ السلام کے ذریعہ جو شمالی حجاز کے علاقہ میں مبعوث ہوتے تھے نیز بنی اسرائیل کے پیغمبر خاص طور سے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے ذریعہ انجام پاتا ہرا یعنی ان کے پیرو قریب کے علاقوں میں آباد ہوئے اور دین کی باتیں برابر ان تک پہنچتی رہیں اس لیے یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ اس طویل مدت میں وہ بالکل تاریکی میں رہے اور ہدایت کی روشنی کا ان کے لیے کوئی سامان نہیں کیا گیا تھا۔ یہاں دراصل عربوں پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک مدت مدید کے بعد تمہارے اندر جو رسول مبعوث ہوا ہے اس کی تمہیں قدر کرنی چاہیے کہ اللہ نے تمہیں بہت بڑے فضل سے نوازا ، جس غفلت میں تم پڑ گئے تھے اس سے تمہیں بیدار کرنے کا سامان کیا اور ہدایت کی جو روشنی دھیمی پڑ گئی تھی اس کو تیز کر دیا لیکن تم اس کی نا قدری کر رہے ہو۔ گویا تمہیں نہ رسول کی ضرورت ہے اور ہدایت کی۔
۶۔۔۔۔۔۔ مراد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو اس نے ابلیس کو مخاطب کر کے فرمایا تھا : لَاَمْلَائَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَ مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ( ص۔ ۸۵) "میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا”۔
مطلب یہ ہے کہ ان میں سےاکثر لوگوں نے شیطان کی پیروی کر کے اپنے کو جہنم کا مستحق بنا لیا ہے یہاں خاص طور سے مشرکین مکہ مراد ہیں جن پر اللہ کی حجت بدرجہ اتم قائم ہو گئی تھی اس کے باوجود ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے اور بالآخر کفر کی حالت ہی میں مرے یا جنگ نے ان کا خاتمہ کر دیا۔ مکہ میں قلیل تعداد ہی ایسی نکلی جو دی سویر ایمان لے آئی۔
۷۔۔۔۔۔۔ طوق سے مراد آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے طوق ہیں۔ انہوں نے جب یہی طوق پسند کر لیے تو اللہ کے قانون ضلالت نے انہیں یہی طوق پہنا دیے۔ یہ طوق ان کی ٹھوڑیوں تک آ لگے ہیں اس لیے ان کے سر اوپر ہی کو اٹھ کر رہ گئے ہیں۔ یہ ان کے تکبر اور سر کشی کی تصویر ہے کہ اب ان کے سر اللہ کے آگے چھکنے والے نہیں۔ واضح ہوا کہ عقیدہ و مذہب کے معاملہ میں باپ دادا کی اندھی تقلید انسان کی تکبر پیدا کرتی اور اس کو اللہ کا سرکش بنا دیتی ہے۔ ہر انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کو تلاش کرے اور اللہ کی دی ہوئی عقل کو صحیح طور سے استعمال کرے۔
۸۔۔۔۔۔۔ یہ ان گمراہوں کی اس حالت کی تصویر ہے کہ ان کے سامنے حق کی طرف رہنمائی کرنے والی جو نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ انہیں دکھائی نہیں دیتیں اور اس لیے دکھائی نہیں دیتیں کہ ان کے اور حق کے درمیان تعصب کی دیوار حائل ہو گئی ہے۔ اسی طرح گزری ہوئی قوموں کے عبرتناک انجام سےبھی انہیں کوئی سبق نہیں مل رہا ہے کیونکہ ان کے پیچھے بھی دیوار حائل ہو گئی ہے۔ تعصب کے یہ پردے ان کی آنکھوں پر اس طرح پڑ گئے ہیں کہ ان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے ہٹ دھرم لوگ پیغمبر کی تنبیہات کا کوئی اثر قبول کرنے والے نہیں۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے لوگ ہی پیغمبر کی تنبیہات کا اثر قبول کریں گے جو نصیحت کی بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوں اور خدائے رحمٰن کی عظمت سے خائف ہوں۔ خدا سے بے دیکھ ڈرنے کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۶۸۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن تمام مرے ہوئے انسانوں کو زندہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کریں اور ان کی مناسبت سے اچھا یا برا بدلہ پائیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نہ صرف ان اعمال کو ضبط تحریر میں لا رہے ہیں جو انہوں نے کیے بلکہ جو اثرات اور نقوش انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان کا بھی ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔ اللہ نے ایسا ریکارڈ تیار کرنے کا انتظام کیا ہے کہ ہر شخص کا ہر ہر عمل اور اس کا چھوڑا ہوا ہر نقش محفوظ ہو جائے تاکہ قیامت کے دن وہ دیکھ لے کہ اس نے دنیا میں اچھے کام کیے تھے یا برے، اپنے پیچھے اچھے نقوش چھڑے تھے یا برے اور اچھی فصل بوئی تھی یا کانٹے۔
اس زمانہ میں قرآن کا یہ بیان لوگوں کو عجیب معلوم ہو رہا تھا کہ انسان کے اعمال کا ایسا مفصل ریکارڈ کس طرح تیار کیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ دور میں جب کہ انسان نے ٹیپ ریکارڈ کمپیوٹر اور بولتی فلمیں ایجاد کر لی ہیں اس پر یقین کرنا کچھ بھی مشکل نہیں رہا۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قادر اور ہر بات کو جاننے والا ہے۔
مَا قدَّ مُوا (جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا) سے مراد ان کے اعمال ہیں جن کا نتیجہ آخرت میں ان کے سامنے آنے والا ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انفطار نوٹ ۵۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں ایک تاریخی واقعہ پیش کیا گیا ہے تاکہ رسول کے منکرین اس سے سبق لیں۔ واقعہ کے صرف ان اجزاء کا ذکر کیا گیا ہے جو نصیحت پذیری کے لیے کافی ہو سکتے تھے۔ یہ بستی کون سی تھی جن رسولوں کو وہاں بھیجا گیا تھا اور یہ واقعہ کب پیش آیا؟ ان باتوں کی صراحت قرآن نے نہیں کی اور غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعہ نہایت قدیم زمانہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے پیش آیا ہو گا اور چونکہ اس کے تاریخی نقوش مٹ چکے تھے اس لیے بستی کے نام وغیرہ کی صراحت کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
اکثر مفسرین نے بستی سے مراد انطاکیہ (Antioch) لیا ہے جو شام میں ترکی کی سرحد کے قریب ایک بڑا تجارتی شہر تھا اور رسولوں سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کے حواری لیے ہیں جنہوں نے انطاکیہ میں دین کی تبلیغ کی تھی لیکن علام ابن کثیر نے اس کو بوجوہ غلط قرار دیا ہے (دیکھیے تفسیر ابن کثیر ، ج ۳ ص ۵۶۹) ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آیتیں انطاکیہ اور وہاں کے مبلغین پر کسی طرح بھی منطبق نہیں ہوتیں :
اولاً انطاکیہ وہ بستی نہیں ہے جو عذاب الٰہی سے تباہ کر دی گئی ہو جب کہ قرآن آگے (آیت ۲۹) صراحت کرتا ہے کہ اس بستی پر اللہ نے بالآخر عذاب نازل کیا جس کے نتیجے میں وہ بالکل تباہ ہو کر رہ گئی۔ انطاکیہ میں تو جیسا کہ بائیبل کا بیان ہے عیسائی مبلغین کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھے (دیکھیے بائیبل کی کتاب "اعمال” باب ۱۱)۔
ثانیاً جن تین شخصیتوں کو بستی والوں کی طرف بھیجا گیا تھا ان کے بارے میں قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول تھے (آیت ۱۴ ، ۱۶) جبکہ حضرت عیسیٰ کے حواری اصطلاحی معنی میں اللہ کے رسول نہیں تھے۔ وہ تو جیسا کہ قرآن کا بیان ہے حضرت عیسیٰ کے ساتھ اور مدد گار تھے (سورہ صف آیت ۱۴)۔
ثالثاً بستی والوں کا یہ اعتراض کہ تم ہمارے ہی طرح بشیر ہو اور رحمٰن نے کوئی چیز بھی نازل نہیں کی (آیت ۱۵) اللہ ان رسولوں ہی کے بارے میں ہو سکتا تھا جو کہتے تھے کہ ہم پر وحی الٰہی نازل ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ کے حواری تو مبلغ کی حیثیت سے انطاکیہ گئے تھے اور ایک مبلغ پر جب کہ وہ اللہ کا رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرے کوئی شخص یہ اعتراض نہیں کرتا کہ تم تو ہماری طرح بشر ہو۔
صاحب ” تدبر قرآن” نے اس سے مختلف اپنی اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ بستی سےمراد مصر ہے اور دو رسولوں سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ہیں اور تیسرا شخص جس کے ذریعہ قوت پہنچائی گئی فرعون کے دربار کا وہ شخص تھا جو ایمان لے آیا۔ مگر یہ رائے اس لیے صحیح نہیں کہ قرآن تینوں شخصیتوں کو رسول قرار دیتا ہے (آیت ۱۶) ور جو تاویل انہوں نے آیات کی کی ہے وہ تکلف سے خالی نہیں نیز اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مصر کی تباہی صیحۃ (ہولناک چیخ) کے ذریعہ ہوئی تھی اس لیے آیت ۲۹ میں جس عذاب کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد وہ عذاب نہیں لیا جا سکتا جو فرعون کے ملک پر آیا تھا۔ مختصر یہ کہ قرآن کی تصریحات سے اس رائے کی تردید ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ ہم محض قیاس سے کام لے کر ان باتوں کی تعیین کریں جن کی تعیین قرآن نے نہیں کی۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ تیسرا شخص بھی رسول تھا اور یہ تینوں رسول اللہ کے بھیجے ہوئے تھے یعنی یہ اصطلاحی معنی میں رسول تھے اس لیے ان کو حضرت عیسیٰ کا قاصد قرار دینا ہر گز صحیح نہیں۔ ایک بستی میں تین رسول بھیجنے کی مصلحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اتمام حجت کی ایک مثال یہ بھی قائم ہو جائے اور دنیا والوں پر واضح ہو جائے کہ جو قوم ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوتی ہے وہ ایک نہیں تین تین رسولوں کو بھی جھٹلانے میں تامل نہیں کرتی۔
۱۵۔۔۔۔۔۔ یہ ویسے ہی اعتراضات تھے جیسے مکہ کے مشرکین نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کر رہے تھے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم ان دلائل کی روشنی میں ہمیں رسول تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو جو ہم پیش کر رہے ہیں تو نہ مانو۔ ہم تو اللہ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ اس نے ہم کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ واضح طور سے اللہ کا پیغام پہنچا دیں اس کے بعد اپنے عمل کے تم ذمہ دار ہو۔ ہماری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ تمہیں ایمان لانے کے لیے مجبور کریں۔
واضح رہے کہ یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ ان لوگوں کے تعلق سے ہے جو ایمان نہیں لائے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ رسول کی ذمہ داری اہل ایمان کے معاملہ میں بھی پیغام رسانی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل کے تعلق سے کیسی کیسی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا پڑا ، حضرت داؤد کو خلافت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں ، حضرت سلیمان نے ایک شاندار حکومت قائم کرنے کےساتھ عدالت کے فرائض بھی انجام دیے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تزکیہ و تربیت اور کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دی اور عدالتی فیصلے بھی کیے نیز کفار کےساتھ جہاد جیسی ذمہ داریاں بھی کما حقہ ادا کیں۔ مختصر یہ کہ پورے دین کی آپ نے اپنے قول و عمل سے تشریح و توضیح فرمائی جس کی پیروی اہل ایمان کے لیے ضروری ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں قحط یا کسی اور مصیبت میں مبتلا کر دیا تھا تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں لیکن انہوں نے اپنے پیغمبروں کو نحوست قرار دیا۔
۱۹۔۔۔۔۔۔ یعنی نحوست کا وجود خارج میں نہیں بلکہ تمہارے اپنے نفس میں ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برا ہی ہے اس لیے برا عمل کر کے نتائج کا ذمہ دار دوسروں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے کیا جرم کیا ہے جس کی اتنی سخت سزا تم ہم کو دینا چاہتے ہو۔ کیا تذکیر و نصیحت کا کام کرنا بھی جرم ہے ؟
۲۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اخلاق اور عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو تم نے پس پشت ڈال دیا ہے اور شر و فساد پر اتر آئے ہو۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اس پوری بستی میں ایک مرد مومن نکل آیا ورنہ پوری قوم نے پیغمبروں کی دعوت کو رد کر دیا تھا۔ یہ شخص اگر چہ شہر کے آخری کنارے پرتھا لیکن جب پیغمبروں کی دعوت اس تک پہنچ گئی تو وہ دوڑتے ہوئے یعنی بڑی مستعدی کے ساتھ اس رزم گا میں پہنچ گیا جہاں رسولوں اور بستی والوں کے درمیان کشمکش برپا تھی۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ اس نے بستی والوں کے درمیان پہنچ کر اعلان حق کیا اور اپنی قوم کو رسولوں کی پیروی کی دعوت دی ایمان نے اس کے اندر ایسی اسپرت پیدا کر دی کہ وہ آناً فاناً حق کا داعی اور مرد مجاہد بن گیا۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول اپنی سیرت کے اعتبار سے بے لوث ہیں اور بالکل صحیح رہنمائی کرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ راہ حق پر ہیں اور اسی راہ کی طرف تمہیں بلا رہے ہیں۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی عبادت خالق ہی کا حق ہے۔ پھر میں اپنے خالق ہی کی عبادت کیوں نہ کروں۔
۲۶۔۔۔۔۔۔ ان الفاظ میں اس شخص نے آخرت پر اپنے یقین کا اظہار بھی کیا اور قوم کو بھی آگاہ کیا کہ تم سب کو بالآخر اسی کے پاس جانا ہے لہٰذا اپنی عاقبت کی فکر کرو۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ اس موقع پر اس شخص کی زبان سے رحمٰن کا ذکر اس کی اللہ سے قلبی وابستگی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اس اعتراف کو بھی کہ وہ بڑا مہربان ہے۔ اس مہربان خدا کو چھوڑ کر اوروں کو معبود بنانے کا کیا فائدہ جن کے بس میں کچھ بھی نہیں۔ اگر خدائے رحمٰن تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ ان کی سفارش کچھ کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مصیبت سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔ پھر یہ واسطے اور وسیلے کیا معنی رکھتے ہیں ؟
۲۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ پر جو تم سب کا حقیقی رب ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی میں ایمان لا کر رسولوں کی پیروی کی جو نصیحت تمہیں کر رہا ہوں اسے قبول کرو۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ انداز کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرد مومن کی بے لاگ باتیں لوگوں کو سخت ناگوار ہوئیں اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اس نے جرأت ایمانی کا ثبوت دیا تھا اور وہ جانبازی کے جوہر دکھاتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا تھا اس لیے اس کو فوراً جنت کی بشارت سنا دی گئی۔
قرآن کی تصریحات کے مطابق اہل ایمان اپنے جسم کے ساتھ جنت میں قیامت کے دن ہی داخل ہوں گے البتہ اس سے پہلے عالم برزخ میں پاکیزہ روحوں کو اعزاز و اکرام سے نوازا جاتا ہے اور شہداء کو ایک خاص قسم کی زندگی ملتی ہے اور وہ رزق بھی پاتے ہیں ، (سورہ بقرہ آیت ۷ ، آل عمران آیت ) اس مرد مومن نے بھی عالم برزخ میں پہنچ کر اللہ کی اسی عنایت پر اپنی مسرت کا اظہار کیا کہ میرے رب نے میری مغفرت فرمائی اور مجھے ان لوگوں میں شامل کیا جنہیں اعزاز و اکرام سے نوازا گیا اور اس تمنا کا اظہار کیا کہ کاش میری قوم کو یہ معلوم ہو جاتا اور وہ ایمان لے آتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مومن کی یہ تمنا قرآن کے پڑھنے والوں تک پہنچا دی۔ اب ان کا کام ہے کہ وہ اس کی روشنی میں اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں۔
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مرنے کے بعد روحیں عالم برزخ میں جس کو حدیث میں قبر سے تعبیر کیا گیا ہے پہنچتی ہیں اور وہاں ان کے ساتھ ان کے عمل کے لحاظ سےمعاملہ کیا جاتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ قیامت سے پہلے جزا یا سزا کیسے ملتی ہے ؟ تو در اصل قیامت کے دن تو انسان کو جسم سمیت اٹھایا جائے گا اور اس کے اعمال کا حساب کر کے اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا لیکن قیامت سے پہلے جزا یا سزا کا صرف ایک حصہ ملتا ہے اور وہ بھی روح کو۔ اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بھی ایک حد تک جزا و سزا کا معاملہ پیش آتا رہتا ہے۔ جن کافر قوموں کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عذاب نازل کر کے ہلاک کیا ان کو بھی تو قیامت سے پہلے ہی سزا کا ایک حصہ مل گیا۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اس مرد مومن کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اس قوم کی تباہی کے لیے اللہ کو کوئی خاص اہتمام نہیں کرنا پڑا کہ اتنی بڑی آبادی کو سزا دینے لیے کوئی لشکر اتارا گیا ہو اور نہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کسی قوم کو سزا دینے لیے کوئی لشکر اتارا تھا بلکہ اس کا ایک اشارہ کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہو جاتا ہے چنانچہ اس قوم کو بھی ہلاک کرنے کے لیے ایک ہولناک آواز کافی ہو گئی۔ ممکن ہے یہ بجلی کی چنگھاڑ رہی ہو یا زلزلہ اور لاوے کا دھماکہ یا اور کوئی غیر معمولی ہولناک آواز۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا صورت پیش آئی۔ بہر صورت اس ہولناک آواز نے پوری قوم کا اس طرح خاتمہ کر دیا کہ وہ راکھ کا ڈھیر ہو کر رہ گئی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ اور یہ ماضی ہی کی بات نہیں۔ آج بھی نہ کثرت لوگ ایسےہیں کہ رسالت اور وحی کی بات سنتے ہی غیر سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور اس کو مذاق بنا لیتے ہیں۔ مگر ایک وقت آئے گا جب یہ لوگ اپنی حرکتوں پر کف افسوس ملتے رہیں گے۔
بندوں کے حال پر افسوس کا مطلب یہ ہے کہ بندوں نے اپنے کو ایسی حالت میں پہنچا دیا ہے کہ ان کے لی ندامت اور افسوس کے سوا کچھ نہیں
۳۴۔۔۔۔۔۔ "کیا انہوں نے دیکھا نہیں ” عربی میں ” کیا انہوں نے غور نہیں کیا ” کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اردو میں بھی یہ محاورہ ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جس قوم کو ایک مرتبہ ہلاک کر دیا گیا وہ دوبارہ دنیا میں لوٹ کر نہیں آتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
اس سے نظریہ آوا گون کی بھی تردید ہوتی ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی ان قوموں کا وجود اگر چہ دنیا میں نہیں رہا لیکن ان کی روحیں عالم برزخ میں ہیں اور قیامت کے دن ان کو جسم سمیت اٹھایا جائے گا اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر کر دیا جائے گا۔ یہ بات ان قوموں کی حد تک ہی نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ مردہ زمین کو زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین خشک پڑی تھی مگر پانی برسانے سےسر سبز ہو گئی اوور اس میں سےنباتات نکل آئیں۔ ہر شخص اس بات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ مردہ زمین بارش کے ہوتے ہی غلہ اگلنے لگتی ہے۔ کیا یہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اس کے پیچھے ایک زبردست قدرت رکھنے والی ہستی کا ہاتھ کار فرما ہے اور کیا اس سے یہ یقین پیدا نہیں ہوتا کہ وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ غلہ اور پھل وغیرہ انسان کے لیے غذائی اشیاء ہیں اور ان غذائی اشیاء میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو انسان نے پیدا کی ہو۔ انسان تو اللہ کے ہی پیدا کردہ بیج زمین میں بوتا ہے اور زمین اللہ کے حکم سے غلہ اگل دیتی ہے۔ اسی طرح انسان صرف شجر کاری کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ درخت اور باغ پیدا کر دیتا ہے جو پھلوں سے لدے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ اللہ کی بخشی ہوئی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے باوجود انسان اس کا شکر گزار نہیں بنتا !
کھجوروں اور انگوروں کا ذکر خاص طور سے اس لیے کیا گیا کہ جس سر زمین میں قرآن نازل ہوا اس کے قرب و جوار میں کھجور اور انگور کے باغ پائے جاتے تھے نیز یہ دو پھر لذیذ بھی ہیں اور غذائیت سے بھر پور بھی۔
۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جوڑے ہونا مخلوق کی خصوصیت ہے کیونکہ جوڑے ایک دوسرےکے مماثل (مشابہ) بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل بھی کرتے ہیں۔۔ لیکن خالق کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہر قسم کے نقص سے پاک ہے اس لیے اس کے جوڑ کا کوئی نہیں۔ وہ بالکل یکتا ہے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔ نباتات میں جوڑوں کا وجود مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے۔ بعض ثمر آور ہوتے ہیں تو بعض کوئی پھر نہیں لاتے، بعض پیداوار کا دو اجزاء سے مرکب ہونا عام مشاہدہ میں آنے والی بات ہے مثلاً چنا ، دالیں ، مختلف قسم کے بیج ، بادام، کاجو، پستہ وغیرہ۔ ان کے دونوں اجزاء بہ آسانی الگ کیے جا سکتے ہیں۔ بعض وہ جن کے زر گل میں نر و مادہ کی خصوصیات پائی جاتی ہیں .
“Most forest trees in fact, have separate flowers for each sex (Some for pollen, of hens for ovules) but have both types of flowers on every tree.
(Hugh Johnson’s Ency. of Trees, Landon. P 15)
اور ان میں بار آوری (Fertilization) ہونے پھل پیدا ہوتے ہیں۔ کونپلیں بیج کو پھاڑ کر یعنی اس کو دو اجزاء میں منقسم کر کے نکل آتی ہیں۔ علم نباتات (Botany) کی رو سے یہ انقسام (Fragmentation) بہت سی نباتات میں تولید کا عمل ہے (دیکھیے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا عنوان (Reproductive systems, plant cells) اور موجودہ سائنس نے یہ اکتشاف بھی کیا ہے کہ پودوں (Plants) میں خلیے (Cells) ہوتے ہیں اور ہر خلیہ میں کروموزومس (Chromosomes) کے جوڑے Pairs ہوتے ہیں۔ (سورہ رعد نوٹ ۱۳ بھی پیش نظر رہے)۔
۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی مرد و عورت۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے لیکن کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں انسان نہیں جانتا کہ ان کے جوڑا ہونے کی نوعیت کیا ہے جمادات کے بارے میں کون جانتا تھا کہ ان میں بھی جوڑے ہوتے ہیں لیکن موجودہ سائنس نے یہ اکتشاف کیا کہ ذرہ Atom میں ایک مرکزہ (Nucleus) ہوتا ہے جو مثبت برق (Positive Charge) رکھتا ہے اور دوسرا الیکٹرون (Electron) جو منفی برق Negative Charge رکھتا ہے اور یہ اپنے مرکزہ کے گرد گردش کرتا ہے۔ پھر مرکزہ Nucleus بھی پروٹون Protonاور نیٹرون Neutron سے مرکب ہوتا ہے۔ (دیکھیے
Mc. Graw Hill Ency. Of Science and Technology _Newyork_Vol. I P. 844))
اگرچہ قرآن کے پیش کردہ حقائق اپنی صداقت کے لیے علمی اکتشافات کے محتاج نہیں ہیں کیونکہ وہ ایک علیم و خبیر ہستی کے پیش کردہ حقائق ہیں جن میں غلطی کا قطعاً کوئی احتمال نہیں ہے لیکن موجودہ سائنسی انکشافات سے قرآن کی صداقت اور زیادہ روشن ہو جاتی ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ یعنی دن کی سفید چادر جب ہم کھینچ لیتے ہیں تو اندھیرا ہی رہ جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ سن کی روشنی نوع انسانی کے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت اور اس کی قدرت کا کرشمہ ہے اگر انسان اس پہلو سے اس نشانی پر غور کرے جو روزانہ ظہور میں آتی رہتی ہے تو اس کے اندر خدائے واحد کا یقین اور اس کے لیے شکر کے جذبات پیدا ہو جائیں۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی سورج حرکت میں ہے اور اس کی یہ حرکت اس کے مستقر (جائے قرار) کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو راہ اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہے اسی راہ پر وہ چلا جا رہا ہے اور اپنے آخری ٹھکانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا آخری ٹھکانہ قیامت کی منزل ہے جہاں پہنچ کر اس کی حرکت رک جائے گی۔
بخاری میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آیت کی یہ تشریح منقول ہے کہ سورج جب غروب ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے سفدہ کرنے کے لیے جاتا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر)۔ محل کلام دلیل ہے کہ یہاں اصل حقیقت کی طرف ذہنوں کو موڑنے کے لیے استعارہ (Metaphor) کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سورج اپنی ضیا پاشیوں کے بعد جن نظروں سے غائب ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کے زیر اقتدار ہی رہتا ہے اور اس کے اس قانون کی تابعداری کرتے ہوئے جو اس کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ ہی کے آگے جھکا ہوا ہے۔ جو لوگ بات کو اس کے محل پر رکھ کر سمجھنےکی کوشش نہیں کرتے وہ الفاظ کو پکڑ کر بحثیں کھڑی کر دیتے ہیں اور نا فہمی کی بنا پر حدیث ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔
جہاں تک جدید سائنس کا تعلق ہے وہ سورج کو متحرک مانتی ہے۔ اس کی رو سے سورج کی محوری گردش تقریباً ۲۷ دن میں پوری ہوتی ہے :
“The Sun is a slow rotator …… period of rotation 26.9 days.”
(The New Ency. Britannica Vol. 17 P 801 & 799)
رہی سورج کی مداری گردش Orbital Rotation تو اس سلسلہ میں اب تک کوئی تحقیقی بات سامنےنہیں آ سکی ہے البتہ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ وہ اپنے نظام کے ساتھ ۲۵۰ کلو میٹر فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے:
“Earth’s Sun moves with the system at a speed of about 250 Kilometers (160 Miles) per second.”
(The New Ency. Britannica Vol. 17, 15th Edn. P. 833)
سائنس کی یہ تصریحات قرآن کے اس بیان سے اس حد تک تو مطابقت رکھتی ہیں کہ سورج متحرک ہے لیکن سائنس کی تصریحات میں قیاس کا بھی دخل ہے۔ اور اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سورج اپنے مدار پر گردش کرتا ہے تو پھر امین اور سورج کے فاصلہ میں بھی کمی بیشی ہوتی رہنی چاہیے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ سورج اپنے نظام شمسی کو لیے ہوئے حرکت کر رہا ہو اور یہ دوسری صورت ہی قرآن کا بیان حقیقت واقعہ کا اظہار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے علم اور فہم کی رسائی اتنی دور تک نہیں ہو سکتی کہ اس کی نوعیت ہم پوری طرح واضح ہو جائے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔ یعنی سورج کی یہ حرکت کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک زبردست علیم ہستی کا بنایا ہوا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ ایسا مضبوط ہے کہ سورج سر مو اس سے انحراف نہیں کر سکتا۔ اگر سورج دیو ہوتا جیسا کہ مشرکین سمجھتے ہیں تو وہ ایک خاص حرکت خاص حرکت کا پابند ہو کر نہ رہتا اور اگر وہ اتفاقی حادثہ کے طور پر وجود میں آ گیا ہوتا جیسا کہ ملحدین سمجھتے ہیں تو اس کی حرکت میں یہ باقاعدگی اور اس کے نظام میں یہ استواری نہ ہوتی۔ پھر کیا سورج کا یہ باقاعدہ نظام جس کا ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے اس بات کا یقین پیدا نہیں کرتا کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ کے تحت ہو راہ ہے اور یہ منصوبہ اسی ہستی کا بنایا ہوا ہے جو سب پر غالب اور سب کچھ جاننے والی ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ چاند اپنا چکر ایک مہینہ میں پورا کر لیتا ہے۔ اس کی شکل روزانہ بدلتی رہتی ہے۔ ہلال سےبدر کامل بن جاتا ہے اور پھر گھٹتے گھٹتے ہلال ہی کی سی شکل میں رہ جاتا ہے گویا کھجور کی پرانی ٹہنی جو خشک ہو کر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ چاند کی یہ شکلیں مداری حرکت Orbital Motion کے نتیجہ میں نمایا ہوتی ہیں اس لیے اس کی اس حرکت کو منزلوں والے سفر سے تعبیر کیا گیا ہے گویا چاند روزانہ ایک منزل گے کرتا ہوا اور اپنی بدلتی ہوئی شکل کو نمایاں کرتا ہوا اپنا چکر پورا کر لیتا ہے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی سورج اپنے دائرہ سے نکل کر چاند کے دائرہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ رات دن کے وقت نمودار ہو سکتی ہے۔ ہر ایک کے لیے جو دائرہ مخصوص کر دیا گیا ہے اس میں رہ کر اسے حرکت کرنا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۴۲)۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ ان کی نسل سے مراد انسانی نسل ہے اور بھری ہوئی کشتی سے مراد کشتی نوح ہے جو اہل ایمان سے اور ان کے کام آنے والے جانوروں سے بھر دی گئی تھی اور جو اس طوفان میں جس نے پوری انسانی آبادی کو ہلاک کر دیا تھا صحیح سلامت چلتی رہی۔
فَاَنْجَیْنَاہُ وَمَنْ مَعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ (شعراء۔ ۱۱۹)۔ ” بالآخر ہم نے اس کو (یعنی نوح کو) اور ان کو جو اس کےساتھ تھے بھری ہوئی کشتی میں نجات دی”۔
کشتی میں جو اہل ایمان سوار تھے وہ انسانی آبادی کا کل سرمایہ تھے۔ بعد میں ان ہی کی نسلوں سے زمین آباد ہوئی اس لے ان لوگوں کو جو کشتی میں سوار تھے نسل انسانی (ذُرِّیَّتَھُمْ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انہیں نہ بچاتا تو زمین پر انسان کا وجود باقی نہ رہتا۔ یہ اہم تاریخی اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے انسانیت کی کشتی کو پار لگایا اور یہ اسی کی رحمت ہے کہ نسل انسانی محفوظ رہی۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ پہلی کشتی حضرت نوح کی تھی جو انہوں نے اللہ کی ہدایت کے مطابق بنائی تھی اس کے بعد لوگوں نے اسی کشتی کی مانند دوسری کشتیاں بنائیں اور موجودہ زمانہ کے بڑے بڑے جہاز بھی اسی علم کی خوشہ چینی ہے جو انسان کی اولین کشتی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بخشا تھا اس لیے یہ کشتیاں اور جہاز گو انسان کی کاریگری ہے لیکن در حقیقت یہ اللہ ہی کی پیدا کردہ سواریاں ہیں۔
۵۰۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ اس بات پر کیوں نہیں غور کرتے کہ اگر اللہ ان لوگوں کو جب وہ کشتی پر سوار ہوتے ہیں غرق کرنا چاہے تو نہ کوئی ان کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے اور نہ وہ اس مصیبت سے نجات پا سکتے ہیں۔
آیت میں لفظ "صریخ” استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں فریاد کو پہنچنے والا یہی معنی لفظ "غوث” کے بھی ہیں۔ یہ آیت اس حقیقت کا واضح طور سے اعلان کرتی ہے کہ اللہ کے سوا نہ کوئی غوث ہے اور نہ کوئی ناؤ کو پار لگانے والا۔ لہٰذا جس طرح مشرکین کا اپنے دیوی دیوتاؤں کو غوث (فریاد رس) سمجھنا باطل ہے اس طرح مسلمانوں کا اپنے پیروں اور ولیوں کو غوث سمجھنا بھی سراسر باطل اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ ” جو تمہارے آگے ہے” سے مراد دنیا کا عذاب ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے، سےمراد آخرت کا عذاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس بات سے ڈرو کہ اللہ کا عذاب تمہیں آگے اور پیچھے سے گھیر نہ لے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں ان کافروں کا حال بیان ہوا ہے جن کی زر پرستی سنگ دلی کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ ان کو محتاجوں کی حالت پر رحم نہیں آتا تھا اور جب ان سے اہل ایمان کہتے کہ ان پر خرچ کرو تو اہ ان کی بات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ ہم ان کو کیا کھلائیں جن کو اللہ ہی نے کھلانا پسند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسکین اور محتاج ہیں۔
ان کے اس اعتراض کی نا معقولیت بالکل واضح ہے اس لیے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ انسانی فطرت بھوکوں کو کھلانے پر آمادہ کرتی ہے اور مصیبت زدگان کو دیکھ کر ہمدردی کے جذبات کا پیدا ہو جانا ایک فطری بات ہے نیز اس میں انسان کا امتحان بھی ہے کہ وہ دین اور فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرتا ہے یا نہیں۔ مگر بے عقل لوگ اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے دین پر اعتراض کرنے لگتے ہیں۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا وعدہ ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اپنے برے انجام ہی کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ قیامت جس کی خبر انہیں دی جا رہی ہے وہ تو ایک ہولناک آواز کی شکل میں نمودار ہو گی اور ایسے وقت نمودار ہو گی اور ایسے وقت نمودار ہو گی کہ لوگ غفلت میں ہوں گے اور اسی بحث میں الجھے ہوئے ہوں گے کہ قیامت آئے گی بھی یا نہیں۔
معلوم ہوا کہ قیامت کی بحث دنیا میں چلتی ہی رہے گی اور انکار کرنے والے انکار کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ قیامت اپنی ہولناکیوں کے ساتھ ظہور میں آ کر ان بحثوں کا خاتمہ کر دے گی۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت اس طرح اچانک آئے گی کہ لوگوں کو مہلت نہ مل سکے گی۔ نہ کسی کو کچھ وصیت (ہدایت) کرنے کی مہلت اور نہ اپنے گھر جانے کی مہلت۔ جو جہاں ہو گا وہیں ڈھیر ہو کر رہ جائے گا۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ یعنی جب قیامت کا دوسرا صور پھونکا جائے گا تو دفعۃً تمام مردے قبروں سے (زمین کے اندر سے) نکل پڑیں گے اور اپنی پیشی کے مقام کی طرف چل پڑیں گے۔ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو زندہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کو کچھ وقت نہیں لگے گا۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ جو آج دوسری زندگی کا انکار کر رہے ہیں جب قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو انہیں تعجب اور افسوس ہو گا کہ یہ ہم کس دنیا میں پہنچ گئے اور کس حال میں اٹھے ہیں۔
"مَرْقَد ” کے معنی خواب گاہ کے ہیں۔ قیامت کا دوسرا صور پھونکے جانے سے پہلے برزخ کا جو آخری مرحلہ ہو گا اس میں ان کی روحوں پر سونے کی کیفیت طاری رہے گی اور دوسرا صور پھونکے جانے پر وہ جاگ اٹھیں گے اور جسم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے اس لیے انہیں حیرت ہو گی کہ ہمیں نیند سے کا نے بیدار کیا۔
اس سے برزخ کے عذاب (عذاب قبر) کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ نیند کی حالت میں وہ برزخ (قبر) کے آخری مرحلہ میں رہیں گے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔ یہ جواب جیسا کہ اس کی اسپرٹ سے ظاہر ہے اہل ایمان دیں گے وہ ان منکرین کو یاد دلائیں گے کہ خدائے رحمٰن نے دوبارہ زندہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھا یہ اسی کی تکمیل ہے اور رسولوں نے قیامت کی جو خبر دی تھی وہ بالکل سچی تھی اور آج کا دن ان کی سچائی کا ثبوت ہے۔ قیامت کے دن اہلِ ایمان کا منکرین کو جواب دینا سورہ روم میں بیان ہوا ہے۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ اُتُو ا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَا نَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِی کِتَابِ اللہِ اِلیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔ (سورہ روم:۵۶)
"اور جن لوگوں کو علم اور ایمان عطاء ہوا تھا وہ کہیں گے اللہ کے نوشتہ میں تم اٹھائے جانے کے دن تک رہے تو یہ اٹھائے جانے کا دن ہے لیکن تم نہیں جانتے تھے۔ ”
۵۹۔۔۔۔۔۔ اس ہولناک آواز کو دوسری جگہ ڈانٹ سے تعبیر کیا گیا ہے :
فَاِنَّمَا ھِیَ زَجْرَۃٌ واحِدَۃُ (نازعات :۱۳)۔ ” وہ تو بس ایک ڈانٹ ہو گی”۔
یعنی قیامت کا دوسرا بگل کیا ہو گا ایک ہولناک آواز کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سخت ڈانٹ ہو گی کہ اٹھو اور حاضر ہو جاؤ میرے حضور۔ اس ڈانٹ کے نتیجہ میں سب مردے پیشی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ جب سب مردہ انسان اٹھ کھڑے ہوں گے تو اعلان کر دیا جائے گا کہ یہ انصاف کا دن ہے اور ہر شخص کو اپنے کیے کا پھر پانا ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ان لوگوں کو جو نیک عمل کرتے رہے ہیں بدلہ میں جنت ملے گی۔ وہاں ان کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپی کا سامان ہو گا۔
۶۲۔۔۔۔۔۔ یہ جنت کی شاہانہ اور عیش و نشاط کی سندگی کی ایک جھلک ہے۔ جنت میں تجرد کی نہیں بلکہ ازدواجی زندگی ہو گی جو سکون و راحت کی زندگی ہے۔ وہاں دھوپ کی تپش نہیں ہو گی بلکہ ٹھنڈک بخشنے والا سایہ دار ماحول ہو گا اور بیٹھنے کے لیے شاہانہ انداز کے نہایت آرام دہ تخت ہوں گے۔
۶۳۔۔۔۔۔۔ یعنی کھانے کے لیے اعلیٰ قسم کے میوے بھی ملیں گے اور جو کچھ وہ اپنے ذوق کے مطابق طلب کریں گے وہ بھی ان کو مل جائے گا۔
۶۴۔۔۔۔۔۔ رحمت والے رب کی طرف سے سلام ان کے اعزاز و اکرام کا باعث بھی ہو گا اور اطمینان کا بھی کہ یہ ضمانت ہے اس بات کی کہ وہ ہمیشہ سلامت رہیں گے۔
۶۵۔۔۔۔۔۔ دنیا میں تو مؤمن اور کافر نل ، خاندان مُلک اور قومیت وغیرہ کی بنا پر آپس میں خلط ملط ہو جاتے ہیں لیکن قیامت کے دن ان کے درمیان مکمل تفریق کر دی جائے گی۔ اس روز عقیدہ و عمل کی بنا پر انسانوں کی گروہ بندی ہو گی اس لیے کافروں سے کہا جائے گا کہ تمہارا اہل ایمان سے کوئی تعلق نہیں خواہ وہ تمہارے اپنے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں۔ تمہیں ان سے بالکل الگ ہو کر اپنے آخری ٹھکانے پر (جہنم میں) پہنچنا ہے۔
۶۶۔۔۔۔۔۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور حضرت آدم کے ساتھ شیطان کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس میں ان کے لیے یہ سبق تھا کہ وہ شیطان کے اشاروں پر نہ چلیں ان کی فطرت بھی شر سے باز رہنے ہی کی تلقین کرتی تھی اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تاکید کی تھی شیطان کی پیروی نہ کریں وہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔
"شیطان کی عبادت نہ کرو” میں عبادت سے مراد شیطان کی اطاعت ہے جس میں انسان اپنے نفس کی باگ ڈور اس کے حوالہ کر کے اس کے حکم پر چلنے لگتا ہے۔ بالفاظ دیگر انسان شیطان کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں ڈالتا ہے اور اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی جگہ لے لیتی ہے۔ اس طرح انسان اللہ کا نہیں بلکہ شیطان کا غلام بن کر رہتا ہے اس لیے اس کی اطاعت کو اس کی عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حدیث میں زر پرست کو دینار و درہم کا بندہ کہا گیا ہے:
تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَا رِ وَ الدِّرْھِمْ۔ "دینار و درہم کا بندہ ہلاک ہو "۔
اور اس کی تشریح حدیث میں اس طرح کر دی گئی ہے کہ :
اِنْ اُعْطِیَ رَضِیَ وَاِنْ لَمْ یُعْطَ لَمْ یَرْضَ (بخاری کتاب الرقاق) ” اگر اسے دیا گیا تو راضی اور نہ دیا گیا تو ناراض "۔
یعنی مال مل جانے پر اللہ سے خوش ہونا اور نہ ملنے پر اس سے ناراض ہونا اللہ کی بندگی نہیں بلکہ درہم و دینار (مال) کی بندگی ہے۔ اس حدیث میں بھی درہم و دینار کا بندہ اس سے شدید قلبی تعلق کی بنا پر کہا گیا ہے۔ ایسا تعلق جو اللہ سے تعلق کی جگہ لے لے اور آدمی اسی کو ہو کر رہ جائے۔
پھر شیطان کی اطاعت کو اس کی عبادت سے اس بنا پر بھی تعبیر کیا گیا ہے کہ آدمی اسی کے حکم سے غیر اللہ کی عبادت (پرستش) کرتا ہے اس لیے یہ در حقیقت شیطان ہی کی عبادت ہے۔
علامہ آلوسی نے اس کی بڑی اچھی تشریح کی ہے۔ فرماتے ہیں :
"شیطان کی عبادت سے مراد اس کی اطاعت ہے ان باتوں میں جن کی وہ ان کی طرف وسوسہ اندازی کرتا ہے اور ان کے لیے ان کو مزین کر کے پیش کرتا ہے۔ اس کو عبادت سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ اس سے دوری اور تنفر بڑھے نیز اس لیے بھی کہ وہ اللہ کی عبادت کے مقابلہ میں ہوتی ہے۔ اور اس سے مراد غیر اللہ کی عبادت بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لیے کر دی گئی ہے کہ وہ اس کا حکم دیتا ہے اور اس کو نظروں میں کھبا دیتا ہے لہٰذا یہ تعبیر اسی مناسبت سے ہے "۔
(روح المعانی جزء ۱۳ ص ۴۰)
واضح رہے کہ اطاعت کو عبادت سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے عبادت اور اطاعت بالکل ہم معنی الفاظ ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایسا سمجھنا عبادت الٰہی کی وقعت کر گھٹانا اور دین میں اس کا جو مقام ہے اس سے فرو تر مقام اس کے لیے تجویز کرنا ہے۔ عبادت اور اطاعت میں جو فرق ہے اس کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں :
۱) عبادت فطرت انسانی کا ایک خاص داعیہ ہے جو عقیدت و محبت کے جذبات اور خشوع اور خضوع کی کیفیات کا مظہر ہے جن کہ اطاعت کا تعلق ارادہ و عمل سے ہے۔
۲) عقیدہ و ایمان کا اولین مظہر عبادت یعنی پرستش ہے اور اس کے بعد اطاعت یعنی احکام کی بجا آوری۔
۳) عبادت میں دل کی مخصوص کیفیت مطلوب ہوتی ہے جب کہ اطاعت کے لیے نیت کا درست ہونا کافی ہوتا ہے۔
۴) عبادت کے مفہوم میں گو طاعت شامل ہے کیونکہ عبادت بھی حکم کی تعمیل میں ہی کی جاتی ہے اس کے باوجود عبادت کا ایک دائرہ ہے اور اطاعت کا ایک دائرہ۔ فقہاء نے بھی عبادت اور معاملات کے الگ الگ دائرے متعین کیے ہیں۔
۵) عبادت اللہ کے لیے خاص ہے اور اس میں خشوع اور خضوع، دل کا تقویٰ ، اپنے بندہ ہونے کا احساس ، انابت اور ذکر الٰہی جیسی چیزیں اصلاً مقصود ہوتی ہیں جب کہ اطاعت کے لیے جو احکام دئے گئے ہیں ان کے ذریعہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی ، معاشرہ کی اصلاح اور عدل اجتماعی کا قیام جیسی چیزیں مطلوب ہوتی ہیں۔
۶) عبادت اللہ کے سوا کسی کی نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب کہ اطاعت روسل کی بھی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور مسلمان اصحاب امر کی بھی۔ اس سے عبادت اور اطاعت کا فرق بالکل واضح ہے۔
۷) عبادت کے طور طریقوں میں عقل اور اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ جو طور طریقے وحی الٰہی نے متعین کیے ہیں ان کی جوں کی توں تعمیل کی جاتی ہے لیکن اطاعت کے سلسلہ میں جو احکام دیئے گئے ہیں ان کی علت اور مصالح کی طرف خود وحی الٰہی نے اشارے کر دیے ہیں اس لیے نئے حالات میں ان کا انطباق (Application) اور نئے مسائل کے پیش آ جانے پر ان مصالح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتہاد کیا جاتا ہے۔
۹) ایک مومن جہالت سے وقتی طور پر شیطان کے فریب کا شکار ہو کر معصیت کا مرتکب ہو سکتا ہے لیکن اس کے اس عمل کو شیطان کی عبادت سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ شیطان کی مستقل اطاعت کو اس کی عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۱۰) اللہ کی اطاعت کا تعلق اس بات سے ہے کہ اس نے کیا احکام دیئے ہیں لیکن عبادت تو انسان کا وہ جذبہ دروں ہے جو اس کے رب کے لیے فطری طور پر امنڈ پڑتا ہے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔ خدائے واحد کی عبادت کو صراط مستقیم (سیدھی راہ) سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہی راہ اللہ تک پہنچتی ہے اور یہی کامیابی کی منزل ہے۔ اسی راہ کا نام اسلام ہے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اس تاکید کے باوجود انسانوں کی کثیر تعداد شیطان کے پیچھے چل پڑی اور اس کے اشارہ پر غیر اللہ کو معبود بنا بیٹھی۔ اس طرح ان پر ہدایت کی راہ گم ہو گئی اور وہ گمراہی میں پڑ گئے۔
۶۹۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے عقل اس لیے نہیں دی تھی کہ اس کو بے کار اور معطل کر کے رکھا جائے اور خدا اور مذہب کے معاملہ میں اس کو استعمال نہ کیا جائے بلکہ اس لیے دی تھی کہ وہ خدا اور مذہب کے بارے میں پیدا ہونے والے اہم ترین اور بنیادی سوالات کا صحیح جواب معلوم کرنے کے لیے اس کو استعمال کرے۔ اگر انسان اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرے اور اللہ کی بخشی ہوئی عقل سے کام لے تو اس کو ان سوالات کا یہی جواب ملے گا کہ اس کائنات کا صرف ایک خدا ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے۔ مگر اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنے آبائی مذہب سے وابستہ رہتے ہیں خواہ انہیں ہزاروں خدا کیوں نہ تسلیم کرنا پڑیں اور خواہ انہیں اینٹ پتھر کی پوجا کیوں نہ کرنا پڑے۔ ان باتوں کی نا معقولیت بالکل واضح ہے لیکن جب انہوں نےاس معاملہ میں عقل کی روشنی میں چلنے سے انکار کیا تو ان کے مصنوعی خدا بھی ان کو حقیقی معلوم ہونے لگے۔
قرآن تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ خدا اور مذہب کے معاملہ میں حق کیا ہے اس کو معلوم کرنے کے لیے وہ اپنی عقل کی روشنی میں غور کریں اور انبیائی ہدایت سے مدد لیں۔
واضح رہے کہ الحاد (خدا کا انکار) بھی عقل کا تقاضا نہیں ہے بلکہ وہ بھی ویسی ہی نا معقول بات ہے جیسے متعدد خداؤں کو تسلیم کرنا۔
۷۰۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن کافروں کو مختلف مراحل سے گزرنا ہو گا۔ ایک مرحلہ وہ آئے گا کہ ان کی زبانیں ان کی منشاء کے مطابق بات نہ کر سکیں گی اور ان کے اعضاء ہاتھ پاؤں وغیرہ ناطق ہو کر گواہی دیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے رہے ہیں۔
۷۱۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے کہ اگر مثال کے طور پر وہ ان کی آنکھیں ہی مٹا دے تو ان کا کیا حال ہو گا۔ کیا وہ اس قابل رہ سکیں گے کہ راستہ کی طرف بڑھیں۔ جب آنکھیں ہی نہیں رہیں گی تو انہیں دکھائی کہاں سے دے گا؟ آنکھیں مٹا دینے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی حادثہ سے اللہ تعالیٰ دو چار کر دے اور آنکھیں پھوٹ جائیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بینائی کو زائل کرنے والا عذاب آ پکڑ لے جس طرح حضرت لوط کے گھر پر حملہ کرنے والوں کی آنکھیں مٹا دی گئیں تھیں۔ اگر انسان اس بات پر غور کرے کہ اس کا خالق و مالک اگر چاہے تو اس کی صلاحیتیں اور قوتیں کسی وقت بھی سلب کر سکتا ہے تو اس کے ڈر سے کانپ اٹھے۔ اور جب اس کے ڈر سے ہو کانپ اٹھے گا تو پھر اپنے کو اس راہ پر ڈال دے گا جو تقویٰ کی راہ ہے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے عذاب کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کافروں کی صورتیں وہ عین اس وقت مسخ کر دے جب کہ یہ راہ چل رہے ہوں اور نہ صرف صورتیں مسخ کر دے بلکہ ان کو پوری طرح مسخ کر کے رکھ دے کہ پھر نہ وہ آگے قدم بڑھا سکیں گے اور نہ گھر لوٹ سکیں گے بلکہ راستہ ہی میں جہاں تھے وہیں ڈھیر ہو کر رہ جائیں گے۔ اس کی صورت آسمانی عذاب کی بھی ہو سکتی ہے اور حادثات کی بھی جن میں لاشیں اس طرح نکلتی ہیں کہ ہاتھ پیر غائب ہوتے ہیں اور صورتیں بالکل مسخ۔ موجودہ زمانہ میں تو موٹر ، ٹرین اور ہوائی جہاز کے المناک حادثات نہ کثرت ہو رہے ہیں اور عبرت پذیری کا برابر سامان کر رہے ہیں مگر ہے کوئی جو ان حادثات کو دیکھ کر اللہ سے ڈرے !
۷۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ نحل نوٹ ۱۰۴۔
یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جو خدا انسان کی صلاحیتیں بڑھاپے میں بتدریج کم کر دیتا ہے وہ اگر چاہے تو کسی وقت بھی ان صلاحیتوں کو پوری طرح سلب کر سکتا ہے۔ اگر اس پہلو سے انسان اپنی صلاحیتوں پر غور کرے تو کبھی گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو اور خدا کے آگے جھک جائے۔
۷۴۔۔۔۔۔۔ یہ کافروں کے اس الزام کی تردید ہے کہ یہ شخص نبی نہیں بلکہ شاعر ہے اور قرآن اشعار کا مجموعہ ہے۔ فرمایا شعر کہنا ہم نے اپنے نبی کو نہیں سکھایا اور نہ شاعری نبی کی شایان شان ہے۔ یہ کلام سر تا سر یاد دہانی اور واضح طور سے پڑھی جانے والی کتاب (قرآن) ہے۔
شاعری میں قافیہ بندی اور کلام کو موزوں بنانا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا شاعر قافیہ ملانے اور کلام کو موزوں بنانے کے لیے خیالی اور دو راز کار باتیں کرنے لگتا ہے۔ کوئی مربوط بات پیش کرنے کے بجائے وہ منتشر باتیں اشعار کی صورت میں ڈھال دیتا ہے۔ گویا شاعری کی خصوصیت ہی خیال آرائی ہے اس لیے یہ منصب نبوت سے بہت فرو تر چیز ہے۔ نبی جو بات بھی کہتا ہے ٹھوس ، اٹل اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور جو قرآن آپ پر نازل ہوا اس کو شاعری سے کوئی مناسبت نہیں ہے ہر وہ شخص جو اس کا مطالعہ کرے یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اس میں خیال آرائی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور نہ اس میں قافیہ بندی کے لیے تک بندی کی گئی ہے۔ بلکہ یہ کتاب انسان کے بھولے ہوئے سبق کی یاد دہانی ، سرتا سر نصیحت اور ایسا واضح کلام ہے کہ ہر شخص اس کو سمجھ سکتا ہے اور اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔
۷۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کے دل مردہ نہیں ہوئے ہیں بلکہ زندہ ہیں وہ پیغمبر کی اس تنبیہ کا اثر قبول کریں گے جو قرآن کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ رہے وہ لوگ جن کو دل بالکل مردہ ہو چکے ہیں تو وہ کوئی اثر قبول کرنے سے رہے البتہ ان پر اللہ کی حجت ضرور قائم ہو جائے گی اور وہ قیامت کے دن یہ عذر نہ کرسیں گے کہ ان کو اس انجام کی خبر نہیں تھی۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چو پائے جو ان کی ملکیت میں آ جاتے ہیں اور جن سے وہ طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہیں اللہ ہی کے ہاتھوں کی کاری گری ہے۔ کسی اور کے ہاتھوں کی نہیں۔
آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے اور اس بحث میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اللہ کے ہاتھوں کی حقیقت کیا ہے۔ ہمارے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ اس کے جیسی کوئی چیز نہیں۔ اس لیے مخلوق کے ہاتھوں پر خالق کے ہاتھوں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے۔
۷۷۔۔۔۔۔۔ چمڑا اون وغیرہ نیز بیلوں سے زمین جوتنے کا کام۔
۷۸۔۔۔۔۔۔ یعنی گائے، بکری اور اونٹ کے مختلف قسم کے دودھ۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ یہ نعمتیں جب اللہ ہی کی بخشی ہوئی ہیں تو اس پر اس کا شکر واجب ہے اور یہ شکر اسی صورت میں ادا ہو سکتا ہے جب کہ اس کو واحد الٰہ اور رب مان کر اس کی عبادت و اطاعت کی جائے۔
۸۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے یہ معبود ان کی مدد کیا کریں گے الٹ یہ اپنے معبودوں کے لشکر کی حیثیت سے گرفتار کر کے اللہ کے حجور حاضر کر دیئے جائیں گے۔ یہ دنیا میں اپنے معبودوں کی جے پکارتے رہے ، ان کے بت بنا کر اور ان کے لیے مندر تعمیر کر کے خدائے واحد کے پر ستاروں سے الجھتے اور کشمکش کرتے رہے یہاں تک کہ ان معبودوں کی حمایت میں ان سے جنگیں بھی کیں اس طرح دنیا میں یہ معبودوں کی فوج بن کر رہے لہٰذا قیامت کے دن ان کو ان کے معبودوں کے لشکر کی حیثیت سے گرفتار کر کے اللہ کے رو برو حاضر کر دیا جائے گا۔
۸۱۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تسلی کے کلمات ہیں کہ اتنی واضح اور معقول باتوں کو بھی سمجنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو تم ان کا کیوں غم کرو۔ وہ اپنے انجام کو پہنچ کر ہیں گے۔
۸۲۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان بنا تو ہے ایک حقیر پانی کی بوند سے لیکن اپنی بڑائی کا گھمنڈ اس کے سر میں ایسا سما گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی بات بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس کا مخالف بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی بے مائیگی پر غور کرتا تو اس کے اندر اپنے رب کی بندگی اور عجز و نیاز کا احساس ابھرتا مگر وہ اپنی حقیقت کو بھلا کر خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو خلاف حق ہیں اور ان کو زبان پر لانا اس کو زیب نہیں دیتا۔
۸۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کو مخلوق پر قیاس کر کے اس کی نسبت ایسی باتیں کہنے لگتا ہے جس سے اس کی ذات و صفات میں عیب اور نقص لازم آتا ہے حالانکہ وہ ہر قسم کے عیب و نقص ے بالکل پاک ہے۔
۸۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے بارے میں یہ خیال کرنا ہے کہ وہ انسان کو اس کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے کہ اس کو اللہ نے پانی کی ایک بوند سے جیتا جاگتا انسان بنا کر کھڑا کیا ہے جس ہستی کی یہ کار فرمائی ہو اس کی قدرت محدود کس طرح ہو سکتی ہے ؟
۸۵۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنی ہر مخلوق کو تمام جزئی تفصیلات کے ساتھ جانتا ہے۔ اس کو ہر ایک کے اجزائے ترکیبی کا بھی علم ہے اور دیگر تمام خصوصیات کا بھی۔ پھر اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ ؟
۸۶۔۔۔۔۔۔ قدیم زمانہ میں جب کہ ماجس اور لائٹر ایجاد نہیں ہوئے تھے آگ پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بعض درختوں کی ٹہنیاں تھیں جن کو ایک دوسرے پر رگڑنے سے آگ پیدا ہو جاتی تھی۔ عرب میں اس زمانہ میں اس قسم کے دو درخت پائے جاتے تھے جن کے نام مَرْخ اور عَفار تھے ایک نر تھا اور دوسرا مادہ چنانچہ عربی کی مشہور لغت لسان العرب میں ان کے بارے میں یہ صراحت ہے کہ :
"یہ مَرْخ اور عَفار ہیں اور ان دونوں درختوں میں آگ ہوتی ہے۔ دوسرے درختوں میں نہیں۔ اور ان کی ٹہنیوں سے چقماق بنائے جاتے ہیں اور ان سے آگ نکالی جاتی ہے۔ ازہری کہتے ہیں میں نے یہ درخت صحرا میں دیکھا ہے۔ ”
(لسان العرب ، ج ۴ ص ۵۸۹)
ہرے بھرے درخت سے آگ کی چنگاری پیدا کر دینا اللہ کی قدرت کا بہت بڑا کرشمہ ہے۔ اور یہ بھی اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ آگ میں جو لکڑی جلائی جاتی ہے وہ بھی ہرے بھرے درختو سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔ پانی بھی آکسیجن اور ہائیڈروجن سے مرکب ہوتا ہے اور آکسیجن آگ پکڑنے والی گیس ہے۔ سائنس کے ان اکتشافات نے اللہ کی قدرت کے کرشموں کے کئی اور نمونے ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں۔
۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جس گوشت پوست کے انسان اس زمین پر پیدا ہوئے اسی گوشت پوست کے انسان دوبارہ پیدا کر دے۔
۸۸۔۔۔۔۔۔ یعنی انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو پیدا کر کے وہ تھک نہیں گیا ہے بلکہ وہ زبردست قدرت والا ہے اور اس کی قدرت میں کبھی کوئی کمی ہونے والی نہیں اور وہ نہایت علم والا ہے اس سے کبھی بھول ہونے والی نہیں۔
۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کو کسی چیز کی تخلیق کے لیے کوئی محنت نہیں کرنا پڑتی بلکہ جب وہ اس کا ارادہ کر لیتا ہے تو جو چیز اس کے ارادہ میں ہوتی ہے اس کے لیے وہ ہو جا کہہ دیتا ہے اور اسی وقت وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔
اللہ کی تخلیقی قدرت کے بارے میں یہ بالکل صحیح علم ہے جو قرآن کے ذریعہ انسان کو بخشا گیا ہے۔ اس کے بعد ان فلسفیانہ بحثوں کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی جن میں اہل مذاہب الجھ کر رہ گئے ہیں۔
۹۰۔۔۔۔۔۔ یہ اس سورہ کی اختتامی آیت ہے جس میں چند لفظوں میں تین اہم باتیں بیان ہوئی ہیں اور اس طرح بیان ہوئی ہیں کہ دل میں اتر جاتی ہیں ایک یہ کہ اللہ کی ذات ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے۔ دوسری یہ کہ ہر چیز اسی کے زیر اقتدار ہے اور سب پر اسی کی حکومت چھائی ہوئی ہے۔ اس کائنات میں سارا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور تیسری بات یہ کہ بالآخر جب لوگوں کو پلٹ کر اسی کے حضور جانا ہے تاکہ وہ اپنے اعمال کی جواب دہی کریں اور اپنے اعمال کے مطابق اچھا یا برا بدلہ پائیں۔ اس طرح توحید اور آخرت دونوں کے مضامین اس آیت میں سمٹ کر آ گئے ہیں اور ان کے اندر سے رسالت کا تقاضا خود بخود ابھر رہا ہے۔ قرآن کے ایجاز اور معجزانہ کلام کی یہ ایک واضح مثال ہے۔
٭٭٭
ای بک: اعجاز عبید
ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید