فہرست مضامین
دعوت القرآن
حصہ ۱۶: حاقہ(۶۹) تا مرسلات (۷۷)
شمس پیر زادہ
(۶۹)۔ سورہ الحاقّۃ
(۵۲ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
سورہ کا آغاز’ الحاقۃ‘( سچ ہو کر رہنے والی گھڑی) کے ذکر سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اسی لفظ کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور ابتدائی دور کی تنزیل ہے۔
مرکزی مضمون
قیامت کا ہول اور عذاب کا خوف پیدا کرنا ہے۔ تاکہ لوگ ہوش میں آئیں اور جزا و سزا پر یقین کرنے لگیں۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۳ تمہیدی آیات ہیں جن میں قیامت کے امرِ یقینی ہونے اور لازماً وقوع میں آنے کی خبر دی گئی ہے۔
آیت ۴ تا۱۲ میں ان قوموں کے عذاب سے عبرت دلائی گئی ہے جنہوں نے قیامت کا انکار کیا تھا اور رسولوں کو جھٹلایا تھا۔
آیت ۱۳ تا ۱۸ میں قیامت کی ہولناکی کی تصویر پیش کی گئی ہے۔
آیت ۱۹ تا ۳۷ میں خداشناس ، اور نا خداشناس ، نیک عمل اور بد عمل لوگوں کا الگ الگ انجام بیان ہوا ہے۔
آیت ۳۸ تا ۵۱ میں کافروں سے خطاب کر کے ان پر قرآن اور رسول کی صداقت واضح کی گئی ہے۔
آیت ۵۲ سورہ کی اختتامی آیت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب کی تسبیح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ ہو کر رہنے والی! ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے وہ سچ ہو کر رہنے والی؟
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ سچ ہو کر رہنے والی! ۲*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود اور عاد نے اس کھڑکھڑانے والی آفت کو جھٹلایا۔ ۳*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ثمود ایک زبردست چنگھاڑ سے ہلاک کر دیئے گئے۔ ۴*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عاد شدید بادِ صر صر سے ہلاک کر دئے گئے۔ ۵*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے اس کو سات رات اور آٹھ دن ان کو کاٹ پھیکنے کے لیے مسلط رکھا۔۶* تم ان کو دیکھتے کہ اس طرح ڈھیر ہو گئے ہیں گویا کہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے۔ ۷*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ان میں سے کسی کو تم باقی بچا ہوا دیکھتے ہو؟ ۸*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فرعون اور اس سے پہلے کے لوگوں ۹* اور الٹی ہوئی بستیوں ۱۰* نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی۔ ۱۱* تو اس نے ان کو سخت گرفت میں لیا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تم کو جب کہ پانی کا طوفان حد سے گذر گیا کشتی میں سوار کر دیا۔۱۲*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ اس واقعہ کو تمہارے لیے سبق آموز بنا دیں۔ ۱۳* اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔ ۱۴*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب صور میں ایک پھونک ماری جائے گی۔ ۱۵*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر یک بارگی ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔ ۱۶*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی۔۱۷*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس دن وہ نہایت کمزور ہو گا۔۱۸*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے۔ ۱۹* اور تمہارے رب کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ ۲۰*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن تم لوگ پیش کئے جاؤ گے۔ ۲۱* تمہاری کوئی بات بھی چھپی نہ رہے گی۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ دیا جائے گا۔۲۲* وہ کہے گا لو پڑھو میرا نامہ اعمال۔۲۳*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنے حساب سے دو چار ہونا ہے۔ ۲۴*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔پس وہ پسندیدہ عیش میں ہو گا۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند مقام جنت میں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے پھلوں کے گچھے جھکے ہوئے ہوں گے۔ ۲۵*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اور پیو مزے سے۔ اپنے اعمال کے بدلہ میں جو تم نے گذرے ہوئے دنوں میں کئے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ ۲۶* وہ کہے گا کاش ! میرا نامۂ اعمال مجھے دیا ہی نہ جاتا۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میری وہی موت فیصلہ کن ہوتی۔ ۲۷*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مال میرے کام نہ آیا۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا اقتدار زور(حاکمانہ قوت) ختم ہو گیا۔ ۲۸*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ ۲۹*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو جہنم میں جھونک دو۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو ایک زنجیر میں جو ستر ہاتھ لمبی ہے جکڑ دو۔ ۳۰*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔ ۳۱*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ ۳۲*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آج اس کا یہاں کوئی دوست نہیں ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ پیپ کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا ہے۔ ۳۳*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو گنہگار ہی کھائیں گے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ ۳۴* میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان چیزوں کی بھی جن کو تم نہیں دیکھتے۔ ۳۵*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ ایک با عزت رسول کا قول ہے۔ ۳۶*
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی شاعر کا قول نہیں۔ ۳۷* تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔ ۳۸*
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے۔ ۳۹* تم لوگ کم ہی سمجھتے ہو۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ ۴۰*
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس (پیغمبر)نے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ ۴۱*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تم میں سے کوئی (ہمیں )اس کام سے روک نہ سکتا۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ۴۲* متقیوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے اس کو جھٹلانے والے بھی ہیں۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کافروں کے لیے موجبِ حسرت ہو گا۔ ۴۳*
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بالکل یقینی حق ہے۔ ۴۴*
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ ۴۵*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ الحاقۃ قیامت کا نام ہے جس کے معنی ہیں سچ ہو کر رہنے والی، لازماً وقوع میں آنے والی اور وہ گھڑی جس میں حق بے نقاب ہو کر سامنے آئے گا۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسلوب اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے کہ یہ نہایت غیر معمولی واقعہ ہو گا لہٰذا اچھی طرح خبردار ہو جاؤ۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جن قوموں نے قیامت کی خبر کو جوان کے رسولوں نے انہیں دی تھی جھٹلایا تھا اور اس کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا ان میں سے چند قوموں کا ذکر یہاں مثال کے طور پر ہوا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔
اس آیت میں قیامت کو القارعۃ ( کھڑکھڑانے والی آفت) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ القارعۃ۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر قرآن نے صراحت کی ہے ثمود کو رَجفۃ (تھرتھرا دینے والی ) اور صَیحۃ (زبردست چیخ) کے ذریعہ ہلاک کیا گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے بادلوں کی غیر معمولی گرج اور بجلی کی زبردست چنگھاڑ نے ان پر شدید اضطراب کی کیفیت طاری کر دی اور وہ آنًا فانًا گر کر ہلاک ہو گئے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بادِ صر صر یعنی سرد اور تیز ہوا۔ معلوم ہوتا ہے عاد کی ہلاکت سرد ہوا ؤں کے ساتھ تیز آندھی کے چلنے سے ہوئی تھی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بادِ صر صر ان پر مسلسل سات راتوں اور آٹھ دنوں تک چلتی رہی اور آٹھویں دن ان کی ایسی بیخ کنی ہوئی کہ ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کھجور کے درخت کے تنے بڑے مضبوط ہوتے ہیں لیکن جب طوفان کی زد میں آ کر گر جاتے ہیں تو ان کو دیکھ کر آدمی دم بخود رہ جاتا ہے۔ یہی حال عاد کا ہوا کہ وہ بڑے طاقتور تھے مگر تندو تیز ہوا نے انہیں ایسا گرا دیا کہ ہر طرف انکی لاشیں ہی لاشیں تھیں۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان جھٹلانے والوں کو ایسا ہلاک کیا کہ ان میں سے ایک آدمی بھی بچ نہ سکا۔ اس طرح ان کی نسل باقی ہی نہیں رہی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون سے پہلے کئی سرکش قومیں گذر چکی ہیں۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں جو زلزلہ سے الٹ دی گئی تھیں۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے رسول کی باتوں کو نہ ماننا بہت بڑی نافرمانی اور جرم ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ حضرت نوح کے واقعہ کی طرف ہے کہ جب پانی کا سخت طوفان آیا تو ان کی قوم کو غرق کر دیا گیا لیکن جو لوگ ایمان لائے تھے ان کو نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں سوار کرایا گیا اور غرق ہونے سے بچالیا گیا۔ ان ہی کی نسل سے تم لوگ ہو۔ لہٰذا ان کو سوار کرانا نسل انسانی کو سوار کرانا تھا اس لیے اللہ کا یہ احسان تم سب پر ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعہ میں یہ سبق ہے کہ اللہ سے سرکشی کرنے اوراس کے رسول کی بات نہ ماننے کی کیسی سخت سزا ملتی ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسانی تاریخ کا یہ اہم ترین اور سبق آموز واقعہ ایک یادگار واقعہ ہے مگر اس سبق کو وہی لوگ یاد رکھیں گے جن کے کان حق بات سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی صور میں ایک پھونک مارتے ہی قیامت برپا ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کو قیامت برپا کرنے کے لیے کوئی اہتمام کرنا نہیں پڑے گا۔ بس ادھر پھونک مار دی ادھر کائنات کا سارا نظام درہم برہم۔یہ پھونک مارنا گویا قیامت کا الارم ہو گا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی اس خام خیال میں مبتلا نہ رہے کہ یہ زمین اور یہ بڑے بڑے پہاڑ ہمیشہ باقی رہیں گے نہیں بلکہ قیامت کا جھٹکا لگتے ہی ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے۔ اللہ کے لیے زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ریزہ ریزہ کرنا نہایت آسان ہے اور یہ تخریب اس لیے عمل میں لائی جائے گی تاکہ نئی زمین جو حشر برپا کرنے کے لیے موزوں ہو سکتی ہے وجود میں لائی جاسکے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت برپا ہو جائے گی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان نہایت مضبوط ہے لیکن قیامت کا بگل بجتے ہی وہ کمزور ہو جائے گا۔ قیامت زمین ہی پر برپا نہیں ہو گی بلکہ آسمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی۔ یہ شکست و ریخت اس لیے ہو گی تاکہ ایک نقشہ کے مطابق نیا عالم وجود میں لایا جائے۔ مگر شکست و ریخت کا یہ حادثہ ایسا زبردست ہو گا کہ اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرشتے سمٹ کر آسمانوں کے کناروں پر آ جائیں گے اور درمیان کی پوری فضا میں ہلچل مچ جائے گی۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آیت متشابہات میں سے ہے اور اس کی تاویل کرنا اپنے کو فتنہ میں ڈالنا ہے۔ آیت میں جو بات بیان ہوئی ہے اس سے اصلاً عدالتِ الٰہی کا تصور دلانا مقصود ہے جو قیامت کے دن برپا ہو گی اور فرمانروائے کائنات اپنے تختِ سلطنت سے فیصلے صادر فرمائے گا۔ اس کی کیفیت کیا ہو گی اور یہ منظر کیسا ہو گا اس کو قیامت سے پہلے سمجھا نہیں جاسکتا۔
متشابہات کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۱۳
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس روز اللہ کے حضور تم سب لوگوں کی اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے پیشی ہو گی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ واقعہ نوٹ ۷۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ نیک شخص ہو گا اور اپنا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں پاتے ہی خوشی سے جھوم اٹھے گا کہ یہ کامیابی کی علامت ہے اور دوسروں کو دکھانا پسند کرے گا۔
جب کوئی طالبِ علم امتحان میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اپنا رزلٹ دوسروں کو دکھانا پسند کرتا ہے لیکن جو ناکام( فیل) ہو جاتا ہے وہ اپنا رزلٹ دکھانا پسند نہیں کرتا۔ قیامت کے دن وہی لوگ اپنا نامہ اعمال دوسروں کو دکھانا پسند کریں گے جو دنیا کے امتحان میں کامیاب ہو چکے ہوں گے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ قیامت کے دن مجھے اپنے اعمال کاحساب دینا ہے اس لیے میں نے اس تصور ہی کے تحت زندگی گذاری تھی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قریب ہوں گے کہ آسانی سے توڑے جاسکیں۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ واقعہ نوٹ ۸۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں جو مرگیا تھا تو بہتر ہوتا کہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتا اور حساب کا یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی حسرت ناک باتیں ہوں گی جو قیامت کے دن کافروں کی زبان سے نکلیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ہی باخبر کر دیا ہے تاکہ انسان سنبھل جائے اور اسے پچھتانا نہ پڑے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں تو انسان حکومت اور اقتدار کے نشہ میں گھمنڈی بن جاتا ہے لیکن قیامت کے دن اسے احساس ہو گا کہ وہ میدانِ حشر میں تنہا ہے۔ نہ اس کا لاؤ لشکر اس کے ساتھ ہے۔ اور نہ اس کی سلطنت باقی ہے۔ تمام حاکمانہ اختیارات اس سے چھین لیے گئے ہیں۔
بادشاہوں اور با اقتدار لوگوں کے لیے کیسی دل دہلا دینے والی بات ہے یہ! کاش وہ اس آیت کو بغور پڑھتے !
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر ادھر پچھتانے کی باتیں کر ہی رہا ہو گا کہ ادھر فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اسے پکڑ کر اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ یہ طوق اس کے تکبر کی سزا ہو گی۔ اس کے بعد اس کو جہنم میں جھونک دینے کا حکم ہو گا جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں وہ خواہشات کا غلام تھا اور خواہشات کا یہ سلسلہ بڑا دراز تھا۔ اس لیے اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑدیا جائے گا۔ بدلہ انسان کو اس کے اعمال کی مناسبت ہی سے ملے گا۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی جسارت دیکھو کہ اللہ کی عظمت کو اس نے نہیں پہچانا اور اس عظیم ہستی پر ایمان لانے سے اس نے انکار کر دیا۔ یہ جرم کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ سنگین جرم ہے کیونکہ یہ اللہ کے خلاف صریح بغاوت ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ آدمی جب اپنے رب سے بے پروا ہو جاتا ہے تو ان کاموں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جو اللہ کی رضا کے ہیں جس کی ایک نمایاں مثال محتاجوں کو کھانا کھلانا اور ان کو کھلانے کی دوسروں کو ترغیب دینا ہے۔ قرآن اس بخل اور اس غیر ہمدردانہ رویہ کو بہت بڑا جرم قرار دیتا ہے جس کسی کو اللہ نے مال عطا کیا ہے اس کے مال میں محتاجوں کا حق بھی ہے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پینے کے لیے پیپ جیسی گندی چیز ملے گی۔ یہ اس لیے کہ اس کے عقائد و اعمال خبیثا نہ رہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں لا( نہیں ) منکرین کے خیالات کی تردید کے لیے ہے۔ یعنی تمہارا یہ خیال کہ قیامت واقع نہیں ہو گی مطابقِ حقیقت نہیں بلکہ خلاف حقیقت ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم شہادت کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کا تم مشاہدہ کرتے ہو ان میں روزِ جزا کے آثار بالکل نمایاں ہیں جن کو قرآن نے کھول کھول کر بیان بھی کر دیا ہے۔ اور جو چیزیں تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہیں مثلاً فرشتے ، جنت دوزخ وغیرہ ان سے تم کو قرآن کے ذریعہ باخبر کر دیا گیا ہے۔ ان غیبی حقیقتوں پر غور کرنے سے روزِ جزا کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ جبرائیل کی زبان سے ادا ہوئے کلمات ہیں جو اللہ کا با عزت پیغامبر ہے اور پیغامبر ہونے کی حیثیت سے وہ اللہ کا کلام اس کے نبی پر وحی کرتا ہے۔ سورۂ تکویر آیت ۱۹۔ میں بھی یہی بات حضرت جبرائیل کے بارے میں ارشاد ہوئی ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول جو کلام پیش کر رہا ہے وہ شاعری نہیں ہے بلکہ جبرائیل کا لایا ہوا کلام ہے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان کا کچھ اثر قبول کرتے ہو اور پھر چھوڑ دیتے ہو۔ قرآن کی باتیں حق ہونے کی بنا پر تمہارے وجدان کو اپیل کرتی ہیں اور دلوں میں یقین پیدا کرتی ہیں مگر خواہشات کا غلبہ اسے قبول کرنے میں مانع ہوتا ہے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ کاہن کی تشریح سورۂ شعراء نوٹ ۱۸۰۔ میں گزر چکی۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن نہ شاعری ہے اور نہ کہانت بلکہ اللہ کا کلام ہے جو جبرائیل کی زبانی رسول پر وحی کیا گیا ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول اپنے منصب پر رہتے ہوئے کوئی بات اپنی طرف سے اللہ کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔ وہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اللہ کا کلام جوں کا توں پیش کرے۔ اگر اس نے اپنی طرف سے کوئی بات اللہ کے کلام میں ملائی ہوتی تو اس منصب کا غلط استعمال ہوتا اور یہ ایسا سنگین جرم ہوتا کہ ہم اسی وقت اس کو ہلاک کر دیتے اور یہ عبرتناک سزا اس لیے بھی دیتے تاکہ لوگوں کی غلط رہنمائی نہ ہو۔
اس سزا کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا ہے جیسے بادشاہ اپنے اس سفیر کی جو اس کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرے داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی گردن اڑادے۔
یہ سزا اس کے لیے ہے جو منصبِ رسالت پر رہتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ باتیں اللہ کی طرف منسوب کرے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر جھوٹے مدعیٔ نبوت کو یہ سزا فوراً مل جائے گی اور اگر کسی مدعیِ نبوت کو نہیں ملی تو ہے اس کے سچے ہونے کی دلیل ہو گی۔ایسی کوئی بات آیت میں نہیں کہی گئی ہے۔ اس لیے نبوت کے جھوٹے مدعی اس کا سہارا نہیں لے سکتے۔ دنیا میں جھوٹے مدعی نبوت تو کیا جھوٹے مدعیِ خدا بھی ہوئے ہیں اور خدا کو برا بھلا کہنے والے بھی ہیں لیکن اللہ ان کو مہلت دے دیتا ہے تاکہ وہ اپنا پیمانہ بھر لیں۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن کافر افسوس کریں گے اور پچھتائیں گے کہ قرآن پر ایمان نہ لا کر انہوں نے بہت بڑی غلطی کی۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قرآن جو روز جزا کی خبر دے رہا ہے بالکل حق اور یقینی ہے۔ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالکل بالاتر۔ پھر ایسے یقینی حق کو کیوں قبول نہیں کرتے ؟
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے توسط سے آپ کے پیرووں کو ہدایت ہے کہ جب حقیقت وہ ہے جو اس سورۂ میں بیان ہوئی تو تم کافروں کی باتوں کو خاطر میں نہ لاؤ اور اپنے رب عظیم کی تسبیح و عبادت میں سرگرم ہو جاؤ۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ واقعہ نوٹ ۵۸۔ اور ۷۶۔
٭٭٭
(۷۰)۔ سورہ المعارج
(۴۴ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
آیت ۳ میں ذی المعارج( بلندیوں والے ) کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ المعارج‘ ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں کو متنبہ کرنا ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۷ میں قیامت کے عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ وہ عذاب آ کر رہے گا اور ٹھیک اپنے وقت پر آئے گا۔
آیت ۸ تا ۱۸ میں قیامت کے احوال بیان کئے گئے ہیں کہ وہ کیسی سخت گھڑی ہو گی۔
آیت ۱۹ تا ۲۵ میں انسان کی عام کمزوری بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ کمزوری عبادت ( نماز) کے دریعہ ہی دور ہوتی ہے اور وہ اوصاف پیدا وہتی ہیں جو انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہیں
آیت ۲۶ تا ۴۴ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے والوں اور قرآن سنانے سے روکنے کے لیے آپ پر ٹوٹ پڑنے والوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مانگنے والے نے مانگا وہ عذاب جو واقع ہونے والا ہے۔ ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں پر۔ کوئی اس کو دفع کرنے والا ہیں۔ ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ (عذاب) اللہ کی طرف سے ہو گا جو بلندیوں والا ہے۔ ۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتے اور روح (جبرئیل) اس کی طرف چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ ۴*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو صبر کرو صبرِ جمیل۔ ۵*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ ۶*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن آسمان پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہو جائے گا۔ ۷*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑ (دھنکی ہوئی) اون کی طرح۔ ۸*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ انہیں دکھائے جائیں گے۔ ۹* مجرم چا ہے گا کہ اس دن کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے فدیے میں دے اپنے بیٹوں کو،
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو،
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ او ر روئے زمین کے سب لوگوں کو اور اپنے کو بچا لے۔ ۱۰*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۱۱* وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہو گی۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کھال کو ادھیڑ لے گی۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو جس نے (حق سے) پیٹھ پھیری تھی اور منہ موڑا تھا۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ مال جمع کیا تھا اور سینت سینت کر رکھا تھا۔ ۱۲*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے۔ ۱۳*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بنتا ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر نمازی اس سے بچے ہوئے ہیں۔۱۴*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ ۱۵*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کے مالوں میں ایک مقرر حق ہے۔ ۱۶*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ سائل اور محروم کا۔ ۱۷*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو روزِ جزا کو سچ مانتے ہیں۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں۔ ۱۸*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ بجز اپنی بیویوں اور اپنی مملوکہ عورتوں (لونڈیوں) کے کہ اس بارے میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ۱۹*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ ۲۰*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھتے ہیں۔ ۲۱*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی شہادتوں کو ادا کرتے ہیں۔ ۲۲*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ ۲۳*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔ ۲۴*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔تو (اے نبی!) ان کافروں کو کیاہو گیا ہے کہ وہ تمہاری طرف دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ ۲۵*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ دائیں اور بائیں سے گروہ در گروہ۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ نعمت بھری جنت میں داخل کر دیا جائے گا؟
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔ ۲۶* ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اس چیز سے جسے وہ جانتے ہیں۔ ۲۷*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ ۲۸* میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی کہ ہم قادر ہیں۔ ۲۹*
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات پر کہ ہم ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور ہم عاجز رہنے والے نہیں ہیں۔ ۳۰*
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ باتیں بناتے اور کھیلتے رہیں یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے دو چار ہوں جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ۳۱*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن یہ اپنی قبروں سے اس سرعت کے ساتھ نکلیں گے کہ گویا ایک نشانہ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ۳۲*
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ ذلت ان پر چھائی ہو گی۔ یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ آپ قیامت کے جس عذاب سے ہمیں ڈرا رہے ہیں وہ لے آؤ۔ یہ بات وہ عذاب کا مذاق اڑانے کے لیے کہتے تھے۔ ان کے اسی مطالبہ کے جواب میں فرمایا گیا کہ جو عذاب تم طلب کرتے ہو وہ واقعہ ہو کر رہنے والا ہے۔ تمہیں ایک یقینی بات سے باخبر کیا گیا ہے۔ اب اگر تم اس کا مذاق اڑانا چاہتے ہو تو اڑاؤ اپنا انجام دیکھ لو گے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا ظہور ہو کر رہے گا اور اس روز کافروں پر لازماً عذاب مسلط ہو گا۔ یہ بات بالکل اٹل ہے اور کسی طرح ٹلنے والی نہیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب کا یہ فیصلہ اللہ کی بارگاہ سے ہو چکا ہے جس کی عظمت کی شان یہ ہے کہ اس کی بارگاہ تک پہنچنے کے لیے بلندیوں پر بلندیاں طے کرنا پڑتی ہیں۔ اس بالاتر ہستی کی عظمت کا تمہیں احساس ہوتا تو اس سے ڈرتے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگتے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آیت متشابہات میں سے ہے جس کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے اور ایسی آیتوں کی اصل حقیقت معلوم کرنے کی کاوش فتنہ کا موجب ہے۔ اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی تاویل کے پیچھے نہیں پڑتے۔ حضرت ابن عباس سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے صاف کہا کہ میں نہیں جانتا۔( تفسیر طبری ج ۲۹ ص ۴۵)
رہا اس آیت سے مقصود تو اللہ کی عظمت کا تصور پیش کرنا ہے اور قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں پر واضح کرنا ہے کہ اس دن کا عذاب اس ہستی کی طرف سے ہو گا جو عظیم المرتبت ہے اور جس کی بارگاہ میں پہنچنے کے لیے فرشتوں کو بھی کتنے مدارج اور کتنی بلندیاں طے کرنا پڑتی ہیں۔ اس عظمت والے خدا کی طرف سے جو عذاب ہو گا اس کی سختی کے تصور ہی سے انسان کانپ اٹھے مگر یہ منکرین ہیں کہ اس کا مذاق اڑا کر اس کے لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس موقع پر سورۂ حج نوٹ ۸۴ اور سورۂ سجدہ نوٹ ۸ بھی پیشِ نظر رہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ہے کہ ان منکرین کی باتوں پر صبر کرو اور ایسا خوبصورت صبر کہ ان کی باتوں کا گویا تم پر کوئی اثر ہوا ہی نہیں ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے بارے میں ان کا خیال یہ ہے کہ اول تو وہ ہو گی نہیں اور اگر ہوئی بھی تو وہ بہت دور کی بات ہے جبکہ اللہ کے نزدیک اسے لازماً واقع ہونا ہے اور وہ عنقریب وقوع میں آنے والی ہے۔ جو مہلت انسان کو دی گئی ہے وہ بہت تھوڑی ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان کا مادہ گرم ہو کر دھات کی طرح پگھلنے لگے گا۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۵۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ایک دوست دوسرے دوست کو دیکھ رہا ہو گا لیکن اس کی طرف کوئی توجہ نہ کرے گا۔ اسے اپنی ہی پڑی ہو گی۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن مجرم یہ چا ہے گا کہ اگر وہ اپنے عزیز و اقارب کو بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو فدیہ میں دے کر اپنے کو چھڑاسکتا ہے تو چھڑا لے لیکن اس کے پاس نہ فدیہ دینے کے لیے کچھ ہو گا اور نہ اس سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دنانسان کی بے بسی کا جو عالم ہو گا اس سے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے تاکہ جو شخص اپنے عزیز و اقارب، اپنے خاندان اور اپنی قوم Nationکے لیے آخرت کو پسِ پشت ڈال کر دنیا کو مقصود بناتا ہے وہ ہوش کے ناخن لے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منکرینِ قیامت کا یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے کہ جہنم جیسی چیز سے انہیں کوئی سابقہ پیش نہیں آئے گا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس کے بخل کی تصویر ہے کہ مال کو جمع کرنے اور بڑھانے کی فکر تو اسے ہوئی لیکن اس میں محتاجوں کا جو حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا تھا اس سے وہ بے پرواہ رہا۔ مال اللہ تعالیٰ نے اس لیے نہیں دیا تھا کہ اپنی تجوریاں بھر کر رکھے بلکہ اس لیے دیا تھا کہ اس سے ضروری مصارف پورے کئے جائیں جن میں محتاجوں اور غریبوں کا حق بھی ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کی یہ فطری کمزوری ہے کہ وہ بہت جلد ہمت ہار جاتا ہے اور حوصلہ کا ثبوت نہیں دیتا۔ آگے کی آیتوں میں اس کی اس کمزوری کو واضح کیا گیا ہے۔ لیکن یہ کمزوری ایسی نہیں ہے کہ اسے دور نہ کیا جاسکتاہو۔ تربیت کے ذریعہ اسے ضرور دور کیا جاسکتا ہے اور یہ تربیت جیسا کہ آگے واضح کیا گیا ہے نماز کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ امتحانی زندگی کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس کے اندر کچھ ایسی کمزوریاں رکھ دی جائیں جن کو وہ اپنے عمل سے دورکرسکے۔ یہ کمزوریاں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر انسان قابو نہ پاسکے اور مجبور ہو کر رہ جائے۔ اگر انسان کی خلقت میں مجبوری کی نوعیت کی کمزوریاں ہوتیں تو نمازیوں کو اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جاتا۔ جب کہ آیت ۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انہیں مستثنیٰ کیا گیا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نماز پڑھنے والے اپنی اس فطری کمزوری پر قابو پا لیتے ہیں۔ وہ نہ تکلیف پہنچنے پر واویلا مچاتے ہیں اور نہ آسائش کے حاصل ہونے پر محتاجوں کا حق ادا کرنے سے بخل برتتے ہیں۔ واضح رہے کہ نماز کا یہ اثر ان لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں ہوتا ہے جو شعور کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نماز کبھی ناغہ نہیں کرتے بلکہ پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد زکوٰۃ ہے جس کی تفصیلات اگرچہ بعد کے دور میں بیان ہوئی ہیں لیکن اس کے اجمالی احکام پہلے سے چلے آ رہے تھے۔ تورات میں بھی وہ یکی( عشر) ادا کرنے کا حکم موجود ہے۔ اور حضرت اسمعٰیل نے بھی زکوٰۃ کا حکم دیا تھا اس لیے ان کی نسل میں یہ حکم چلا آ رہا تھا علاوہ ازیں صاحبِ مال کے مال میں محتاجوں کا حق ایک معروف حق ہے جس کو انسان اپنی عقل اور فطرت سے جانتا ہے گو اس کی تفصیلات جاننے کا ذریعہ شریعت ہی ہے۔ اس لیے جس وقت یہ تفصیلات نازل نہیں ہوئی تھیں شریعت کا اجمالی حکم موجود تھا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا اور محتاجوں کو صدقہ دینا ایک ایسا حق ہے جس سے انسان کی فطرت اچھی طرح آشنا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ ذاریات نوٹ ۳۰ میں گزر چکی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آدمی یہ خیال نہ کرے کہ میں اللہ کے عذاب سے ہر طرح محفوظ ہوں بلکہ اسے یہ کھٹکا لگا رہنا چاہیے کہ معلوم نہیں مجھ سے کیا قصور سرزد ہو جائے اور اللہ کا عذاب مجھے اپنی لپیٹ میں لے لے عذاب کا یہی خوف آدمی کو محتاط بناتا ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ مومنون نوٹ ۶ میں گزر چکی۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ مومنون نوٹ اور ۹ میں گزر چکی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنی شہادتوں کو عدل اور راستی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ شہادتوں میں توحید اور رسالت کی شہادت بدرجہ اولیٰ شامل ہے اور وہ گواہیاں بھی جو انسان اور انسان کے درمیان معاملات کے تعلق سے دی جاتی ہیں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز کی حفاظت میں وقت پر نماز ادا کرنا اور کوئی نماز قضا نہ کرنا، ٹھیک سے وضو کرنا، نماز کے ارکان کو اطمینان اور وقار کے ساتھ ادا کرنا، اپنی توجہ اللہ کی طرف مرکوز رکھنا۔ قرأت قرآن اور نماز کے اذکار پر دھیان دینا، خیالات کو ادھر ادھر بھٹکنے نہ دینا اور خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا اور نماز کے سلسلہ کی تمام ضروری باتوں کو پورا کرنا شامل ہے۔مثلاً مردوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا وغیرہ۔
اوپر اہلِ ایمان کے جو اوصاف بیان ہوئے ان کا آغاز نماز سے ہوا اور اختتام بھی نماز پر ہو رہا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ اوصاف نماز ہی کا فیضان ہیں اور نماز ہی ا ن کی ضامن ہے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت مفت میں ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ ان کو ملے گی جو اپنے کو ان اوصاف سے آراستہ کر کے اس کا مستحق بنائیں گے۔
پھل وہی کاٹتا ہے جو محنت کر کے درخت لگاتا ہے۔ صرف خواہش کرنے سے نہ درخت اگتا ہے اور نہ پھل حاصل ہوتے ہیں۔ جنت بھی اعمال ہی کا ثمرہ ہے اس لیے محنت ضروری ہے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن پڑھ کر سناتے تو کافر آواز سن کر قرآن کا مذاق اڑانے کے لیے آپ کی طرف دوڑے چلے آتے۔ ان کی اسی حرکت کی تصویر ان آیتوں میں پیش کی گئی ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کافروں کے اس خیال کی تردید ہے کہ آخرت برپا ہو گی ہی نہیں اور اگر وہ برپا ہوہی گئی تو ان کو جنت ہی ملے گی کیونکہ دنیا میں ان کو مال و دولت کی فراوانی کے ساتھ جاہ و حشمت بھی ملی ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ ان سے خوش ہے لہٰذا وہ آخرت میں بھی اللہ کی نعمتوں کے مستحق ہوں گے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب ہم نے ان کو پانی کی ایک حقیر بوند سے پیدا کیا ہے تو ان میں یہ گھمنڈ کہاں سے آ گیا کہ وہ خدا کے مقابل اکڑنے لگتے ہیں ؟ اگر وہ اپنی پیدائش پر غور کرتے تو انہیں اپنی بے مائگی کا احساس ہوتا اور وہ اپنے خالق کے آگے جھکتے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا احساس برتری اور اپنے خالق کے مقابل ان کا گھمنڈ بالکل بے معنی ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرق اور مغرب ایک نہیں بلکہ کئی ہیں اور ان سب کا رب اللہ ہی ہے۔ جس طرح زمین کے مشرق و مغرب ہیں اسی طرح چاند ، سیاروں اور ستاروں کے بھی مشرق و مغرب ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کائنات میں کتنے مشرق اور کتنے مغرب ہیں۔ ان سب کا مالک ظاہر ہے اللہ کے سوا کوئی نہیں اور یہ حقیقت اس کے قادر مطلق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ کی قدرت لا محدود ہے تو اس کے لیے یہ کیا مشکل ہے کہ انسانوں کے مر کھپ جانے کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کر دے ؟ وہ نہ صرف اسی ساختModelمیں ان کو دوبارہ ڈھال سکتا ہے بلکہ اگر چا ہے تو ان کی جگہ ان سے بہتر ساخت Modelکے لوگ بھی وجود میں لاسکتا ہے۔ اس کی قدرت انسان کو موجودہ شکل میں پیدا کر کے ختم نہیں ہوئی کہ وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے یا اس سے بہتر مخلوق کو وجود میں لانے سے عاجز ہو۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر وہ ان روشن حقیقتوں کو قبول نہیں کرتے اور ان کا مذاق اڑانے ہی میں لگے ہوئے ہیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ قیامت کے دن ان کو اصل حقیقت کا پتہ چل جائے گا۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب قیامت کا دوسرا صور پھونکا جائے گا تو یہ لوگ جو دوبارہ جی اٹھنے کا انکار کر رہے ہیں قبروں سے بڑی تیزی کے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور ایسے دوڑیں گے جیسے مقررہ نشانہ تک پہنچنے کے لیے لوگ دوڑ پڑتے ہیں۔
قبروں سے نکلنے کا مطلب زمین کا پھٹ جانا اور اس سے باہر نکل آنا ہے۔ قیامت تک پیدا ہونے والے انسان جو مر کر مٹی میں مل چکے تھے خدا کا حکم ہوتے ہی دوبارہ زندہ ہو کر زمین سے نکل پڑیں گے اور گھبراہٹ کے عالم میں تیز بھاگ رہے ہوں گے۔
٭٭٭
(۷۱)۔سورۂ نوح
(۲۸ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
یہ سورہ حضرت نوح( علیہ السلام) کی دعوت کو تفصیل کے ساتھ پیش کرتی ہے اس لیے اس کا نام سورۂ نوح ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور ان حالات میں نازل ہوئی جب کہ مشرکین مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کی مخالفت میں شدت اختیار کر لی تھی۔
مرکزی مضمون
حضرت نوح کا قصہ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ رسول کی مخالفت کرنے والے چونک جائیں اور اس آئینہ میں اپنا عکس دیکھ لیں۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۴ میں بیان ہوا ہے کہ جب نوح( علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تھا تو انہوں نے کیا دعوت پیش کی تھی۔
آیت ۵ تا ۲۰ میں حضرت نوح کی دعوتی جدوجہد کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے اپنے قوم کو جو فہمائش کی تھی اس کو بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۲۱ تا ۲۴ میں حضرت نوح کی اللہ کے حضور فریاد کو پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنی قوم پر حجت تمام کرنے کے بعد ان کی ہٹ دھرمی کے پیش نظر کی تھی۔
آیت ۲۵ میں اس عذاب کا ذکر ہے جو قوم نوح پر آیا۔
آیت ۲۶ تا ۲۸ میں حضرت نوح کی اس دعا کو پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے اس عذاب کے موقع پر کی تھی جو ان کی قوم پر آیا۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ ۱* کہ اپنی قوم کو خبردار کر دو قبل اس کے کہ ان پر درد ناک عذاب آئے۔۲*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! میں تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ۴*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔۵* اور تم کو ایک مقرر وقت تک مہلت دے گا۔ ۶* یقیناً جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آ جائے گا تو اس کو ٹالا نہیں جا سکے گا۔ ۷* کاش کہ تم جان لیتے !
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ نوح نے عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا۔ ۸*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میری پکارنے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ ۹*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے جب بھی ان کو بلایا تاکہ تو ان کو بخش دے۔ ۱۰* انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں ، کپڑوں سے اپنے کو ڈھانک لیا۔ ۱۱* اپنی ضد پر اڑے رہے اور بڑا تکبر کیا۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے ان کو بہ آواز بلند دعوت دی۔
۱۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے ان کو علانیہ بھی سمجھایا اور تنہائی میں بھی۔ ۱۳*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو۔ بلا شبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تم پر خوب بارش برسائے گا۔ ۱۴*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں مال اور اولاد کی فراوانی بخشے گا۔ تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی عظمت سے ڈرتے نہیں ہو۔ ۱۵*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس نے تمہیں مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ ۱۶*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔۱۷*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں ۱۸* چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۔ ۱۹*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے خاص طریقہ پر اُگایا۔۲۰*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ تمہیں اس میں لوٹائے گا۔ ۲۱* اور اس سے نکال کھڑا کرے گا۔ ۲۲*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ ہی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا۔ ۲۳*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم اس کے کھلے راستوں میں چلو۔ ۲۴*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نوح نے عرض کیا۔ ۲۵* اے میرے رب! انہوں نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کو خسارہ ہی میں اضافہ کیا۔ ۲۶*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے بہت بڑی چال چلی۔ ۲۷*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو۔ اور نہ چھوڑو وَدّ کو اور نہ سُواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نَسر کو۔ ۲۸*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور تو ان ظالموں کی گمراہی میں ہی اضافہ فرما۔۲۹*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر وہ اپنے گناہ کی بنا پر غرق کئے گئے۔ ۳۰* پھر آگ میں داخل کر دئے گئے۔ ۳۱ * تو اللہ کے مقابل میں انہوں نے کوئی مددگار نہ پایا۔ ۳۲*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نوح نے دعا مانگی۔ ۳۳* اے میرے رب! تو زمین پر ان کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد بھی پیدا ہو گی وہ بدکار اور کافر ہی ہو گی۔ ۳۴*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو ۳۵* اور ان کو جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہوں۔ ۲۶* اور سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ۳۷* اور ظالموں کی ہلاکت میں اضافہ فرما۔
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح کا قصہ تفصیل کے ساتھ سورۂ ہود میں گذر چکا اور دوسری متعدد سورتوں میں بھی اس کے اجزاء بیان ہوئے ہیں۔ اس سورۂ میں خاص طور سے ان کی دعوتی جدوجہد کو پیش کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حضرت نوح پہلے رسول ہیں جو حضرت آدم کے بعد ان کی نسل کی طرف جس کی آبادیاں عراق کے شمالی حصہ میں تھیں اور جن میں ایک مدت گذر جانے کی وجہ سے عقیدہ و عمل کا فساد پیدا ہو گیا تھا بھیجے گئے تھے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ ایک رسول کی اولین ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے خبردار کر دے۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی یہی خصوصیت ہوتی ہے جسے قرآن کی اصطلاح میں انذار( ڈرانا) کہا جاتا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے جو دعوتِ حق کا کام کرنے کے لیے اٹھیں یہ رہنمائی ہے کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی ہدایت کے مطابق حضرت نوح نے اپنے کو اس حیثیت سے پیش کیا کہ وہ اللہ کی طرف سے واضح طور پر خبردار کرنے والے ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح کی دعوت مختصراً یہ تھی کہ اللہ کی اور صرف اللہ کی عبادت کرو۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ شرک اور بت پرستی کو چھوڑ دو اور ایک اللہ ہی کو معبود بناؤ۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے ڈرو اور اس کی نافرمانی اور گناہ کے کاموں سے بچو جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس کے حضور جوابدہی کا احساس رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ زندگی گذارو اور تیسرے یہ کہ رسول کی اطاعت کرو جس کا مطلب یہ تھا کہ رسول کا ہر حکم واجب الاتباع ہے کیونکہ اللہ کے احکام رسول ہی کے ذریعہ ملتے ہیں اس لیے رسول کی اطاعت در حقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے۔
حضرت نوح کی دعوت کے یہ تین نکات تھے جن کوجیسا کہ آگے چل کر واضح ہو گا دلائل کی قوت کے ساتھ پیش کیا گیاتھا۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس دعوت کو قبول کرو تو اللہ تمہارے پچھلے گناہ معاف کر دے گا۔ ایمان لانے پر کافروں کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۂ انفال میں ارشاد ہوا ہے :
قُل لِّلَذِینَ کَفَرُوْااِنْ ینْتَہُوْا یغْفَرْلَہُمْ مَاقَدْسَلَفَ’’ ان لوگوں سے کہو جنہوں نے کفر کیا ہے کہ اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ ان سے پہلے ہو چکا اس کے لیے انہیں معاف کر دیا جائے گا۔‘‘( انفال:۳۸)
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس صورت میں تم پر عذاب نہیں آئے گا بلکہ اس وقت تک تمہیں دنیا میں مہلت ملے گی جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے مہلتِ عمل کی جو مدت مقرر کی ہے اس کے ختم ہونے پر کسی کو بھی مزید مہلت نہیں ملتی اس لیے اس مہلت کو غنیمت جانو اور اصلاح کر لو۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس دعوتی جدوجہد کا خلاصہ ہے جس کے لیے حضرت نوح نے ایک طویل عرصہ تک رات دن ایک کر دئے تھے۔ دعوت پیش کرنے کے لیے موزوں وقت وہی ہے جب لوگ توجہ کے ساتھ بات سن سکیں۔ خواہ وہ دن کا وقت ہو یا رات کا۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پیغمبر کی دعوت کا بھی لوگوں نے اثر قبول نہیں کیا بلکہ الٹے اس سے متنفر ہو گئے کیونکہ وہ بڑے ہٹ دھرم لوگ تھے اور جہالت کی تاریکی سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح کی دعوت کو قبول کرنے کا مطلب اپنے کو اللہ کی مغفرت کا مستحق بنانا تھا اور اللہ کی مغفرت جس کو حاصل ہوئی یقیناً وہ نہال ہو گیا لیکن حضرت نوح کی قوم نے اس کی کوئی قدر نہیں کی۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس رد عمل کی تصویر ہے جو اس ہٹ دھرم قوم کی طرف سے ہوا۔ ان کو حضرت نوح کی باتیں سننا گوارا نہیں تھا اس لیے وہ ان سے منہ چھپا لیتے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے مجمعوں کو بہ آواز بلند خطاب کیا۔
دعوت کا ایک طریقہ خطابِ عام ہے جس کے ذریعہ بیک وقت اور بہ آوازِ بلند لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی جاتی ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی مجلسوں میں بھی ان کو سمجھایا اور تنہائی میں ان سے مل کر بھی۔
مطلب یہ ہے کہ فہمائش کے مختلف طریقے اختیار کئے۔۔ علانیہ بھی انہیں سمجھایا اور انفرادی ملاقاتوں میں بھی تاکہ وہ کسی طرح بات سمجھنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے لوگ بارش کی کمی کی وجہ سے پریشان تھے اور یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی تاکہ انہیں اپنی غلط روی کا احساس ہو اور وہ اللہ کی طرف لپکیں۔ حضرت نوح نے انہیں استغفار کرنے ( اللہ سے معافی مانگنے ) کے لیے کہا اور فرمایا کہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ تم پر موسلادھار بارش بھیجے گا۔
حضرت نوح کی اس ہدایت سے واضح ہوا کہ جو قوم بھی بارش کے قحط میں مبتلا ہو اس کے لیے مقبول دعا استغفار ہے یعنی وہ اپنے گناہوں کے لیے اللہ سے معافی مانگے اور اپنا رویہ درست کر لے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ’رجا‘ کے اصل معنی امید کرنے کے ہیں لیکن جب یہ لفظ لا( نفی) کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی خوف کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ لسان العرب میں صراحت ہے :
الرجاء فی معنی الخوف لا یکون الا مع الجحد ’’ رجاء خوف کے معنی میں اسی صورت میں آتا ہے جب کہ وہ نفی کے ساتھ ہو۔‘‘
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سوچو کہ تم کیا تھے اور تمہیں کیا بنا دیا گیا۔ حقیر پانی کی ایک بوند کو مختلف مراحل سے گذارکر تم کو ایک مکمل انسان بنایا گیا کیا اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ تمہارا خالق کس شان کا ہے پھر اس کی عظمت سے ڈرتے کیوں نہیں ؟
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ سات آسمانوں کے تہ بہ تہ ہونے کا مطلب سات عالموں کا وجود ہے جن میں سے ہر ایک کا ایک آسمان ہے۔ ہمارا یہ نیلگوں آسمان اس دنیا کا آسمان ہے۔ سات آسمانوں کا علم انسان کو قدیم سے انبیائی ہدایت کے ذریعہ بخشا گیا ہے۔ اس لیے اس کی حیثیت مسلمات کی ہے۔ حضرت نوح نے لوگوں کو آسمانوں کی تخلیق پر غور وفکر کی دعوت دی تاکہ انہیں اللہ کی عظیم الشان قدرت کا اندازہ ہو اور حضرت نوح کی دعوت کی صداقت کی نشانیاں آسمان میں بھی دیکھ لیں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ چاند اور سورج آسمانِ دنیا میں ہے اس لیے ان کو آسمانوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نباء نوٹ ۱۱۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح پودا زمین سے اُگتا ہے اور پھر نشو و نما پاتا ہے اسی طرح انسان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا فرما کر اس کی نشو ونما کی ہے۔ چنانچہ اس کا سلسلۂ تناسل پانی کی حقیر بوند سے چلتا ہے اور پھر وہ اس کی ایسی نشو و نما کرتا ہے کہ وہ پروان چڑھ کر با صلاحیت انسان بن جاتا ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پھر تم مر کر مٹی میں مل جاؤ گے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن وہ تم کو دوبارہ زندہ کر کے زمین سے نکالے گا۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسا ہموار بنایا کہ اس پر انسان کا رہنا بسنا آسان ہو گیا۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ پہاڑوں میں درّے اسی مقصد سے رکھے گئے ہیں تاکہ لوگ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں پہنچ سکیں۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جب حضرت نوح نے سینکڑوں سال تک دعوت پیش کر کے حجت پوری طرح قائم کی اور قوم کفر ہی پر مصر رہی تو انہوں نے اللہ کے حضور وہ فریاد کی جو آگے بیان ہوئی ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قوم کے وہ لیڈر ہیں جن کو مال کی فراوانی حاصل تھی اور جو کثیر الاولاد تھے۔ ان چیزوں کے گھمنڈ میں وہ اللہ کے سرکش بن گئے تھے۔ ان کی ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہو کر لوگ ان کی باتوں میں آ رہے تھے اور گمراہ ہو رہے تھے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں نے حضرت نوح کے خلاف بہت بڑی سازش کی تھی جس کی تفصیل اگرچہ بیان ہوئی ہے لیکن بعد کی آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جاہلی عصبیت کو ابھارنا چاہا اور لوگوں کو شہ دی کہ نوح تمہیں اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے کہہ رہے ہیں تاکہ لوگ برہم ہو کر نوح پر ٹوٹ پڑیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قوم نوح کے معبودوں ( بتوں ) کے نام ہیں۔ ان کے معنی کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی کی تحقیق یہ ہے کہ :
’’ وَدّ کے متعلق معلوم ہو چکا ہے کہ یہ وُدّ سے ہے جس کے معنی محبت کے ہیں۔
سُواع۔ اس لفظ کا مشتق منہ کلام عرب میں نہیں ملتا ممکن ہے کہ سوع سے مشتق ہو جس کے معنی زمانے کے ہیں۔
ے عُوق۔عوق سے (روکنا) مضارع کا صیغہ ہے ……….یعوق کے معنی روکتا ہے یعنی مصیبتوں سے روکتا ہے۔
ے غُوث۔بھی یعوق کے قاعدہ سے عَلَم( اسم خاص) ہے۔
غَوث۔(فریاد کو پہنچنا) اس کا مصدر ہے ے غوث کے معنی فریاد رسی کرنا ہے۔
نَسْر۔ کے لغوی معنی گدھ کے ہیں۔ اسی شکل کا ایک مجموعۂ کواکب آسمان میں ہے جس کو نسر کہتے ہیں۔ نسر دیوتا کی حیثیت سے سامی قوموں میں بہت مدت سے پوجا جاتا ہے۔‘‘( ارض القرآن ج ۲ ص۲۳۶۔ ۲۳۵ )
ان ناموں میں یغوث خالص عربی لفظ ہے جو غوث سے ہے اور جس کے معنی فریاد رسی کرنے کے ہیں یہ قوم نوح کے بت کا نام تھا لیکن مسلمانوں کے بھی ایک طبقہ نے اپنے بعض بزرگوں کو غوث کا لقب دے رکھا ہے اور انہیں حاضر و ناظر اور حاجت روا سمجھ کر مدد اور فریاد رسی کے لیے پکارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی توحید پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ حالانکہ یہ کھلا شرک ہے اور شرک ایک ناقابلِ معافی گناہ ہے لیکن جو مسلمان بدعات میں غرق ہیں انہیں اس کا شعور نہیں۔ قوم نوح بت پرستی میں مبتلا تھی اور یہ پیر پرستی میں مبتلا ہیں۔ فریاد رسی کرنے والا ( غوث) اللہ کے سوا کوئی نہیں اس لیے اسی کو پکارنا برحق ہے۔ کاش وہ توحید اور شرک کے فرق کو سمجھ لیتے !
قوم نوح کے بت ان کے ساتھ ہی طوفان میں غرق ہو گئے تھے اس لیے ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ کافر ڈوبے اور اپنے خداؤں کو لے کر ڈوبے۔
بت پرستی کا آغاز قومِ نوح میں ہوا تھا۔ یہ آغاز کس طرح ہوا اس پر حضرت ابنِ عباس نے روشنی ڈالی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بتوں کے یہ نام دراصل نو کی قوم کے صالح مردوں کے نام ہیں۔ جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے مجسمے بنائے جائیں۔ ان مجسموں کی انہوں نے پرستش نہیں کی لیکن جب وہ مر گئے تو بعد کے لوگ ان مجسموں کی پرستش کرنے لگے۔ (بخاری کتاب التفسیر)
گویا یہ مجسمے جو ان بزرگوں کی یادگار کے طور پر بنائے گئے تھے۔ بت پرستی کا ذریعہ بن گئے۔ اسی لیے اسلام نے مجسمہ سازی کو حرام قرار دیا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کلمات حضرت نوح کی زبان سے اس وقت نکلے جب کہ ان کی قوم گمراہی پر جمی رہی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی کا ایسا طوفان آیا کہ اس میں سب کافر غرق ہو گئے۔ دنیا میں یہ سزا ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ملی۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے جسم اگرچہ پانی میں غرق ہوئے لیکن ان کی روحیں آگ میں داخل ہو گئیں۔ یہ عذاب ان پر عالم برزخ میں ہو رہا ہے اور قیامت کے دن تو وہ جسم کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔ اس آیت سے برزخ(قبر) کا عذاب ثابت ہوتا ہے۔ اس موقع پر سورۂ مومن نوٹ بھی پیش نظر رہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جن معبودوں کو انہوں نے مددگار اور فریاد رس سمجھا تھا ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچا۔ اس طرح اللہ کے عذاب نے ان معبودوں کا باطل ہونا ثابت کر دیا۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ وہ پوری طرح حجت قائم کرچکے تھے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کافر بنے رہے اور ان سے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تو انہوں نے یہ دعا۔سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یؤمِنَ مِنْ قَوْلِکَ اِلاَّ مَنْ قَدْآمَنَ۔ ’’ اور نوح پر وحی کی گئی کہ تمہاری قو میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اب کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔‘‘( ہود۔۳۶)
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ ہر بچہ فطرت( توحید) پر پیدا ہوتا ہے لیکن جیسا کہ حدیث میں آتا ہے اس کے ماں ، باپ اسے یہودی، نصرانی، مجوسی اور مشرک بنا دیتے ہیں یعنی انسان بالعموم ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ اگر وہ مشرکانہ ماحول میں رہتا ہے تو مشرک ہی بن جاتا ہے۔ اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے فطری دین پر قائم رہے اور ماحول کا اثر قبول نہ کرے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی انسان کا یہ حال ہے کہ وہ جس فرقہ میں پیدا ہوا ہے اور جو اس کا آبائی مذہب ہے اسی سے وہ وابستہ ہے اور یہ عصبیت اسے خدا اور مذہب کے بارے میں کھلے ذہن سے سوچنے پر آمادہ نہیں کرتی۔
اسی لیے حضرت نوح نے یہ دعا فرمائی کہ خدا یا زمین سے کافروں کا وجود ہی ختم کر دے ورنہ یہ کافروں ہی کو جنم دیں گے۔ اور ان فاجروں کی نسل بھی فاجر ہی ہو گی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت نوح نے اس موقع پر اپنے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کی نیز اپنے والدین کے لیے بھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دونوں مومن تھے اور اپنے مومن والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ان کی وفات کے بعد ان کے ساتھ نیکی کرنا ہے اسلام کی یہی تعلیم ہے اور حضرت نوح نے اپنے پیچھے یہی اسوہ چھوڑا ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے جو شخص بھی ایمان لے آتا ہے اُسے حضرت نوح کے گھر میں پناہ لینا پڑتی اس لیے حضرت نوح نے اس صراحت کے ساتھ دعا کی کہ جو شخص بھی میرے گھر میں مومن بن کر داخل ہوا اس کی مغفرت فرما۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی انہوں نے عمومیت کے ساتھ تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے مغفرت کی۔ حضرت نوح کی یہ دعا جو آیت ۲۶ تا ۲۸ میں بیان ہوئی ہے قوم کے غرق ہونے سے پہلے کی ہے لیکن اس کا ذکر اخیر میں ہوا تاکہ واضح ہو جائے کہ وہ بالکل بر محل تھی اور جہاں کافروں کے حصہ میں عذاب آیا وہاں اہل ایمان کے حصہ میں مغفرت آئی۔
٭٭٭
(۷۲)۔ سورہ الجِنّ
(۲۸ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
اس سورہ میں جِنّوں کا بیان نقل ہوا ہے اس مناسبت سے اس کا نام ’ سورۃ ُالجن‘ ہے۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور سورۂ احقاف سے پہلے نازل ہوئی۔ مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے دورِ اول میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
یہ واضح کرنا ہے کہ قرآن اپنے کلام الٰہی ہونے کی آپ ہی شہادت ہے چنانچہ جنوں کی ایک جماعت نے اس کلام کو سنا تو ان کا ضمیر پکار اٹھا کہ یہ کلام الٰہی ہے اور وہ فوراً اس پر ایمان لے آئے۔ انہوں نے شرک کو باطل قرار دیتے ہوئے توحید کو حق قرار دیا جس کی دعوت قرآن پیش کر رہا ہے۔ اسی طرح جزا و سزا اور رسالت پر بھی اپنے یقین کا اظہار کیا۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۱۵ میں جنوں کے ایک گروہ کا بیان نقل ہوا ہے جس میں انہوں نے قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے اور اس کی دعوت کے برحق ہونے کی شہادت دی ہے۔
آیت ۱۶ تا ۱۹ میں کلام کا رخ مشرکینِ مکہ کی طرف پھر گیا ہے اور انہیں فہمائش کی گئی ہے۔
آیت ۲۰ تا ۲۸ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی منصبِ رسالت کے تعلق سے ضروری باتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو جہنم کے عذاب سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔
خصوصیت
یہ سورہ ایسی مربوط ہے اور اس میں اس بلا کی روانی ہے کہ آخر تک آدمی اس کو مسلسل پڑھتے ہی چلا جاتا ہے۔ اس کی روانی کے آگے دریا کی روانی بھی ہیچ ہے جو پہاڑوں سے ٹکراتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ قرآن کی روانی باطل کے پرخچے اڑاتے ہوئے حق کو غالب کرتی ہے پھر اس سورہ کا آہنگ ایسا ہے کہ ایک طرف وہ کانوں میں رس گھولتا ہے تو دوسری طرف دلوں میں سوز پیدا کرتا ہے۔ مزید یہ کہ اس میں غیب کے وہ اسرار پیش کئے گئے ہیں جن کو سننے کی طرف طبیعت مائل ہو جاتی ہے اور جس سے یقین پیدا ہو جاتا ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
(۱) ( اے نبی!) کہو میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں ۱* کی ایک جماعت نے ( قرآن کو) سنا تو کہا: ہم نے بہت عجیب قرآن سنا ہے۔ ۲*
(۲) جو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے۔ ۳* ہم اس پر ایمان لے آئے۔ ۴* اور ہم ہرگز اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ۵*
(۳) اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے۔ اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی بنائی ہے اور نہ اولاد۔ ۶*
(۴) اور یہ کہ ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں۔ ۷*
(۵) اور یہ کہ ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن اللہ کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ ۸*
(۶) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں کے کچھ لوگوں کی پناہ مانگتے رہے ہیں۔ اس طرح انہوں نے ان کی سرکشی میں اضافہ کیا۔ ۹*
(۷) اور یہ کہ انہوں نے بھی اس طرح گمان کیا جس طرح تم نے کیا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجے گا۔ ۱۰*
(۸) اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ سخت پرہ داروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا ہے۔ ۱۱*
(۹) اور یہ کہ ہم اس کے بعض ٹھکانوں میں سننے کے لیے بیٹھ جایا کرتے تھے مگر اب جو سننے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک شہاب کو اپنی گھات میں پاتا ہے۔ ۱۲*
(۱۰) اور یہ کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ زمین والوں پر کوئی مصیبت نازل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں ہدایت سے نوازنا چاہتا ہے۔ ۱۳*
(۱۱) اور یہ کہ ہم میں صالح لوگ بھی ہیں اور غیر صالح بھی۔ہماری راہیں الگ الگ ہیں۔ ۱۴*
(۱۲) اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ زمین میں ہم اللہ کے قابو سے باہر نہیں جا سکتے اور نہ( آسمان میں ) بھاگ کر اس کے قابو سے نکل سکتے ہیں۔ ۱۵*
(۱۳) اور یہ کہ جب ہم نے ہدایت کی بات سنی تو اس پر ایمان لے آئے۔اور جب بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی حق تلفی کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی قسم کی زیادتی کا۔۱۶*
(۱۴) اور یہ کہ ہم میں مسلم بھی ہیں اور ظالم بھی تو جنہوں نے اسلام کو اختیار کیا انہوں نے ہدایت کی راہ ڈھونڈ لی۔ ۱۷*
(۱۵) اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ۱۸*
(۱۶) اور ۱۹*( مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ) اگر یہ لوگ سیدھی راہ چلتے تو ہم انہیں خوب سیراب کرتے۔ ۲۰*
(۱۷) تاکہ ہم اس میں ان کو آزمائیں۔۲۱* اور جو اپنے رب کے ذکر سے رخ پھیرے گا۔ ۲۲* اس کو وہ سخت مشقت والے عذاب میں داخل کرے گا۔
(۱۸) اور یہ کہ مسجد یں اللہ کے لیے ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔۲۳*
(۱۹) اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو یہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ۲۴*
(۲۰) کہو میں اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتا۔
(۲۱) کہو میں تمہارے لیے نہ کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ ہدایت کا۔ ۲۵*
(۲۲) کہو مجھے اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا اور نہ میں اس کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکوں گا۔ ۲۶*
(۲۳) میرا کام تو صرف یہ ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں۔ ۲۷* اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ۲۸*
(۲۴) یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے۔ ۲۹*
(۲۵) کہو میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کو ایک عرصہ کے لیے مؤخر کرے گا۔ ۳۰*
(۲۶) غیب کا جاننے والا وہی ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔
(۲۷) سوائے اس کے جسے اس نے رسول کی حیثیت سے پسند فرما لیا ہو۔ ۳۱* تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے۔ ۳۲*
(۲۸) تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئے۔ ۲۳* اور وہ ا ن کے تمام احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔ ۲۴*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوں کے بارے میں متعدد مقامات پر وضاحتی نوٹ پیش کئے جا چکے ہیں۔ دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۱۹۰ اور ۲۳۷، سورہ حجر نوٹ ۲۵، سورۂ احقاف نوٹ ۴۸ ، ۴۹۔
جن ایک پوشیدہ مخلوق ہیں اس لیے ان کا تعلق غیب سے ہے اور غیب کے بارے میں ہمارے جاننے کا ذریعہ صرف وحی الٰہی ہے اس لیے کتاب و سنت کے بیان پر ہمیں اکتفاء کرنا چاہیے۔ جن لوگوں نے قیاس آرائی کر کے ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی ہیں انہوں نے اوہام و خرافات کا دروازہ کھولا ہے تعجب ہے کہ بعض علماء نے بھی جنوں کے بارے میں سنی سنائی باتوں اور بے سروپا روایتوں اور رقصوں کو بلا تردید نقل کیا ہے جن پر اعتماد کر کے لوگوں نے غلط اور غیر شرعی طور طریقے اختیار کر لئے ہیں اس سلسلہ کی چند باتیں ہم یہاں مختصراً بیان کرتے ہیں :
۱: جب کوئی شخص مرگی یا دماغی عارضہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور خاص طور سے جب کوئی عورت ہسٹریا کے مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ ڈاکٹر سے اس کا علاج کرایا جائے اسے آسیب مدہ قرار دیا جاتا ہے یعنی جن اس پر سوار ہوا ہے اور وہی اس شخص یا اس عورت کی زبان سے بول رہا ہے۔ گویا اس مرد یا عورت کا وجود بالکل معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ پھر اس جن کو اتارنے کے لیے جاہل باواؤں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور درگاہوں پر لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح شرک اور بدعات کے ڈوس(Dose) اسے دیئے جاتے ہیں نیز اس کی خوب پٹائی کی جاتی ہے اور خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اس مار پیٹ سے آسیب زدہ شخص کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ اس جن کو تکلیف ہوتی ہے جو اس پر مسلط ہوا ہے اس صورت میں وہ اس شخص کا جسم چھوڑ کر بھاگ جانے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے لیکن بسا اوقات یہ سارے جتن بیکار ہو جاتے ہیں اور مریض اچھا نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض وہم پرستی ہے ورنہ آسیب زدگی نہ قرآن وسنت سے ثابت ہے اور نہ یہ کوئی معقول بات ہے۔ ایک شخص طبی وجوہ کی بنا پر مریض ہے یا آسیب زدہہے اس کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے گا؟ اگر آسیب زدہ سمجھ کر اس کی پٹائی کی گئی اور حقیقۃً وہ مریض ہو تو کیا اس کی تکلیف میں اضافہ نہیں ہو گا اور اس مار پیٹ کے لیے شرعاً وجہ جواز کیا ہے ؟ کیا یہ مریض پر سراسر ظلم نہیں ہے ؟ یہ بات صریحاً غلط ہے کہ مار پیٹ سے آسیب زدہ شخص کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی بلکہ اس جن کو پہنچتی ہے جو اس پر مسلط ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آسیب زدہ شخص کے جسم کو کاٹنے سے خون نہیں نکلنا چاہیے۔ مگر کیا ایسا ہونا ممکن ہے ؟ یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات اس کی نا معقولیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
۲۔ جِنّوں کو اپنے قبضہ میں لینے کا خیا ل بھی پایا جاتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ خصوصیت تو حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جن ان کے قبضہ میں دیئے تھے جن سے وہ تعمیرات وغیرہ کا کام لیتے۔یہ اللہ کا معجزہ تھا جس کا ظہور ایک نبی کے ہاتھ پر ہوا۔
۳۔ ایک فاسد خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بعض جن بعض انسانی عورتوں سے شادی کر لیتے ہیں اور یہ کہ ان سے اولاد بھی ہو جاتی ہے۔ یہ بڑی احمقانہ بات ہے کیونکہ اس صورت میں تو ایک عورت جس کو ناجائز حمل ٹھہرگیا ہو یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ ایک جن نے زبردستی میرے ساتھ مجامعت کی تھی تو کیا اس کے اس بیان کو صحیح تسلیم کر لیا جائے گا یا اس پر شرعی حد نافذ کی جائے گی؟
۴۔ جنوں کے بارے میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ وہ مال چرالے جاتے ہیں۔ اگر واقعی وہ اس قسم کا تصرف کرسکتے تو انسانی سوسائٹی میں بڑا خلل واقع ہوتا۔ کسی بھی چوری کی صورت میں یہ پتہ چلانا مشکل ہوتا کہ یہ مال جن نے چرایا ہے یا انسان نے ایک پہرہ دار جس نے خود مال چرایا ہویہ کہہ کر اپنے کو بری کرنے کی کوشش کرسکتا ہے کہ میں نے نہیں بلکہ جن نے مال چرایا ہے۔ کیا اس کے اس بیان کو قبول کر لیا جائے گا اگر نہیں تو کیوں ؟
اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے جو اس نے شیطان سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:
وَشَارِکْہُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ ’’ مال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا۔‘‘( بنی اسرائیل: ۶۴)
یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ مال اور اولاد میں جن شریک ہوتے ہیں اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن مال چرالے جاتے ہیں اور عورتوں سے جنسی تعلق بھی پیدا کر لیتے ہیں جس کے نتیجہ میں اولاد بھی پیدا ہو جاتی ہے مگر یہ دونوں ہی باتیں بالکل لغو ہیں اور آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں۔ مال اور اولاد میں شیطان کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کو آدمی غیر اللہ کی دین قرار دے کر شرک کا مرتکب ہو جائے درآنحالیکہ یہ چیزیں اللہ ی کی بخشی ہوئی ہوتی ہیں۔
۵۔ یہ بات بھی عوام میں مشہور ہے کہ جن غیب جانتے ہیں لیکن یہ عقیدہ بالکل باطل ہے اللہ کے سوا عالم الغیب کوئی نہیں اور قرآن نے اس بات کی سخت تردید کی ہے کہ جِن غیب کی باتیں جانتے ہیں۔چنانچہ قرآن نے اس کی تردید میں حضرت سلیمان کی موت کا واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کی موت کی خبر جنوں کو اس وقت ہوئی جب کہ ان کا عصا کیڑے کے کھا جانے سے گر گیا اور حضرت سلیمان بھی گر پڑے۔ قرآن اس واقعہ کو نقل کر کے کہتا ہے کہ :
فَلَمَّا خَرَّتَبَینَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْکَانُوْا عْلَیمُوْنَ الْغَیبَ مَا لَبِثُوْ فِی الْعَذَابِ الْمُہِین۔’’جب سلیمان گر پڑا تو جنوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت کی مصیبت میں پڑے نہ رہتے۔‘‘(سبا:۱۴)
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس سے جنوں کے قرآن سننے کا واقعہ جس طرح منقول ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بازار عکاظ ( جو مکہ اور طائف کے درمیان تھا ) تشریف لے جا رہے تھے کہ نخلہ کے مقام پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز فجر ادا کی۔ اس وقت جنوں کے ایک گروہ کا گذر ادھر سے ہوا تو اس نے قرأت سن لی۔ یہ گروہ آسمان میں سخت حفاظتی انتظامات اور شہابوں کے تعاقب کو دیکھ کر اس بات کی تلاش میں نکلا تھا کہ زمین پر کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کی پیش بندی کے لیے حفاظتی انتظامات کر دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سنتے ہی فوراً کہا کہ یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان میں سن گن لینے سے روک دیا گیا ہے۔ وہ قرآن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کی دعوت ایمانی کو انہوں نے فوراً قبول کر لیا اور اپنی قوم میں جا کر انہوں نے وہ باتیں کہیں جو ان آیتوں میں بیان ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی۔ ( بخاری کتاب التفسیر) ترمذی کی روایت میں یہ صراحت بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے سامنے قرآن کی تلاوت نہیں کی تھی اور نہ ان کو دیکھا تھا( یعنی جنوں نے آپ کی قرأت اتفاقاً سن لی تھی اور آپ کو اس کی اطلاع وحی کے ذریعہ ہوئی) دیکھئے ترمذی تفسیر سورۃ الجن)
جنوں کے اس بیان سے واضح ہے کہ وہ عربی جانتے ہیں اس لیے جب انہوں نے قرآن سنا تو اس کی معجزانہ بلاغت اور دلوں کو مسخر کرنے والی باتیں انہیں عجیب معلوم ہوئیں اور اس کی ان امتیازی خصوصیت کو دیکھ کر انہوں نے فوراً پہچان لیا کہ یہ کلام الٰہی ہے۔ اور آیت کا منشا اصلاً اسی بات کو لوگوں پر واضح کرنا ہے کہ قرآن اپنے کلامِ الٰہی ہونے کا آپ ثبوت ہے۔ حق کی طلب رکھنے والے انسان تو انسان جن بھی اس کو سن لیتے ہیں تو انہیں اپنے رب کے کلام کو پہچاننے میں کوئی وقت پیش نہیں آتی۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کی سماعت نے جنوں پر ہدایت کی راہ کھول دی۔ وہ اس بات کے معترف ہوئے کہ یہ راہ جو قرآن دکھا رہا ہے سراسر ہدایت کی راہ ہے یعنی حق کی طرف رہنمائی کرنے والی اور اللہ تک پہنچانے والی۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوں کا یہ گروہ قرآن پر ایمان لے آیا۔ معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول انس و جن ( دونوں کے لیے ہوا ہے یعنی دونوں سے ایمان لانے کا مطالبہ ہے چنانچہ سورۂ رحمن میں تو دونوں گروہوں سے براہ راست خطاب کیا گیا ہے۔ اور جب جن قرآن پر ایمان لانے کے مکلف ہیں تو پیغمبرِ قرآن پر ایمان لانا بھی ان کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب کرتا رہا کہ جن خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں اور آپ کی زبان سے قرآن سننے کا انہیں موقع ملے۔ اس سورۂ کے علاوہ سورۂ احقاف کی آیت ۲۹ بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ جس طرح انسانوں میں شرک کا عقیدہ رکھنے والے پائے جاتے ہیں اسی طرح جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔جنوں کے اس گروہ نے جب قرآن کی دعوتِ توحید سنی تو شرک سے بیزاری کا اظہار کیا اس عزم کے ساتھ کہ وہ توحید پر قائم رہیں گے اور کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
آیت سے یہ بات بھی واضح ہے کہ ہدایت کا آغاز توحید سے ہوتا ہے اور توحید شرک کی مکمل نفی ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہمارے رب کی شان اس سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے کہ اس کی بیوی اور اولاد ہو۔ اس کو مخلوق پر قیاس کرنا اس کی شان کو فروتر خیال کرنا ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے اور اللہ کے بارے میں حق و عدل کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم اس مغالطہ میں رہے کہ انسان اور جن اللہ کے بارے میں جھوٹ بولنے کی جسارت نہیں کریں گے لیکن اب ہم پر واضح ہو ا کہ دونوں اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے رہے ہیں اور اس جھوٹ ہی پر شرک کی عمارت کھڑی کر دی گئی ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ روایتوں میں آتا ہے کہ عربوں کا کوئی قافلہ جب کسی وحشتناک جگہ پر قیام کرتا تو اس وادی کے سردار جن کی پناہ مانگتا تاکہ وہ جنوں کے شر سے انہیں محفوظ رکھے۔ یہ سراسر جاہلانہ اور مشرکانہ عقیدہ تھا لیکن اس چیز نے جنوں کے احساس برتری میں اضافہ کیا اور وہ سرکش ہو گئے۔
پناہ دہندہ صرف اللہ ہے اس لیے جنوں کی پناہ مانگنا سراسر لغو اور باطل ہے مگر آج بھی کتنے ہی جاہل جنوں کی دہائی دیتے ہیں۔ عقیدہ کا یہ فساد بہت بڑا فساد ہے جو انسان کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ان جنوں نے اپنی قوم سے کہا کہ جس طرح تم نے خیال کر رکھا تھا کہ کوئی رسول مبعوث ہونے والا نہیں اسی طرح مشرک انسانوں نے بھی یہی گمان کر رکھا تھا لیکن دونوں کا گمان غلط ثابت ہوا اور اللہ نے ہدایت کی راہ دکھانے کے لیے رسول بھیجا جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوں کی پرواز آسمان کی فضاء میں ہوتی ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث ہوئی تو آسمان میں فرشتوں کے سخت پہرہ لگا دئے گئے اور شہابوں سے اسے بھر دیا گیا تاکہ رسول پر جو پیغام نازل ہوا اس میں نہ وہ مداخلت کرسکیں اور نہ کوئی بات اچک لے سکیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان کی فضاء میں ہم نے ایسے ٹھکانے بنائے تھے جہاں سے ہمآسمان والوں کی باتیں سن گن لینے کی کوشش کرتے مگر اب یہ ممکن نہیں رہا۔ اگر ہم کچھ سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں تو آگ کا شعلہ( شہاب) ہمارا پیچھا کرتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ شہاب آسمان میں کافی بلندی پر تاروں سے نکلنے والے شعلے ہیں جو جنوں کی گھات میں لگے رہتے ہیں۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۱۶۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان میں ان سخت حفاظتی انتظامات کو دیکھ کر یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ زمین پر کوئی انقلابی واقعہ ضرور رونما ہونے والا ہے۔ ہو سکتا ہے اہلِ زمین پر کوئی عذاب نازل کیا جانے والا ہو یا پھر ان کے لیے ہدایت نازل کی جانے والی ہو جس کی پیشگی خبر جنوں کو نہ ہو جائے اس لیے یہ اہتمام کیا گیا ہو۔ ان دو میں سے کون سی بات وقوع میں آنے والی ہے اس کا علم جنوں کو نہ ہو سکا۔البتہ جب انہوں نے قرآن سنا تو ان کا تردد رفع ہوا اور ان کو معلوم ہوا کہ آسمان میں یہ حفاظتی انتظامات زمین والوں کو ہدایت سے نوازنے کے لیے کئے گئے ہیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ جن سب برے نہیں ہیں۔ ان میں نیک لوگ بھی موجود ہیں۔ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی عقیدہ و عمل کی راہیں مختلف ہیں۔ چونکہ جن بھی ایک مکلف مخلوق ہیں اور انہیں بھی امتحان گاہ میں کھڑا کر دیا گیا ہے اس لیے انہیں بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو ہدایت کی راہ اختیار کریں اور چاہیں تو گمراہی کی۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم یہ ضرور سمجھتے تھے کہ گو ہماری پرواز آسمانوں میں ہے لیکن اللہ کے قابو سے ہم ہرگز باہر نہیں ہیں۔ وہ اگر ہمیں پکڑنا چا ہے تو نہ زمین میں ہمیں کہیں پناہ مل سکتی ہے اور نہ ہم آسان کی فضائے بسیط میں بھاگ کر کہیں پناہ لے سکتے ہیں۔ جنوں کے اس بیان سے ان کی اللہ کے آگ ے بے بسی ظاہر ہوتی ہے اور ان کو خدائی میں جو شریک ٹھہرایا جاتا ہے اس کی تردید ہوتی ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے نہ صرف اپنے ایمان لانے کا ذکر کیا بلکہ ان کو ایمان لانے کی دعوت بھی دی اور ایمان لانے کا صلہ یہ بیان کیا کہ اس کو پورا پورا اجر ملے گا۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوں کے اس بیان سے اسلام کا دینِ حق اور روشن ہو گیا اور واضح ہو گیا کہ مسلم صرف انسانوں ہی میں نہیں جنوں میں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح مشرک اور کافر بھی۔
ایمان لانے والے جنوں نے اپنی قوم کے سامنے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ اسلام کوپا لینا ہدایت کو پا لینا ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ بالفاظ دیگر جو دین حق(اسلام) سے برگشتہ ہیں وہ جہنم کی سزا بھگتنے والے ہیں۔ اس طرح جزا و سزا پر انہوں نے اپنے ایمان و یقین کا اظہار کیا۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوں کا بیان اوپر ختم ہو گیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا اپنا بیان شروع ہو رہا ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مشرکین مکہ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اسلام کی شاہراہ پر چلتے تو انہیں وافر پانی کی نعمت سے بہرہ مند کیا جاتا۔ پانی پر ہر قسم کی پیداوار کا انحصار ہے اور عرب کے صحرائی علاقہ میں تو اس کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ قرآن نے اس مقام نیز دوسرے مقامات پر بھی واضح کیا ہے کہ جو قوم راہ ہدایت پر چلتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے وسائل رزق میں وسعت اور برکت عطا فرماتا ہے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۵۲۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کی نعمتوں میں آزمائش کا پہلو ضرور ہوتا ہے کہ ان کے حاصل ہو جانے پر لوگ اللہ کے شکر گذار بنتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کے ذکر سے رخ پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے بے پرواہ ہو جائے۔ اس کے ذکر سے کوئی دلچسپی نہ ہو اور اس کی نصیحت کو وہ خاطر میں نہ لائے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مسجدوں سے مراد وہ عبادت گاہیں ہیں جو اصلاً اللہ ہی کے عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں۔ مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ تو بدرجہ اولیٰ اس میں شامل ہیں نیز وہ تمام مسجدیں بھی جو بعد میں مسلمانوں نے بائیں۔ علاوہ ازیں اہلِ کتاب کی عبادت گاہیں بھی کیونکہ وہ اصلاً اللہ ہی کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہیں اللہ کے لیے خاص ہیں اس لیے ان میں اسی کی عبادت کی جانی چاہیے۔ ان میں بت پرستی اور شرک بہت بڑی مجرمانہ اور ظالمانہ حرکت ہے۔
مسجدوں کی اس حرمت کے باوجود مسلمانوں میں ایسے بد عقیدہ لوگ بھی ہیں جو مسجدوں میں غیر اللہ کو حاجت روائی اور فریاد رسی کے لیے پکارتے ہیں۔ ان کی زبانوں پر یا اللہ اور یارب کے بجائے یا ’’ غوث‘‘ اور یا ’’پیر دستگیر‘‘ ہوتا ہے۔ غیر اللہ کی دہائی کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے عقیدۂ توحید میں کوئی خرابی نہیں آئی۔
مسجدوں میں ایک نت نئی بدعت یہ بھی رائج کی جا رہی ہے کہ جس سمت کو مدینہ ہے اس کی طرف مسجد کی دیوار پر گنبد خضراء کی تصویر آویزاں کی جائے جس کی طرف رخ کر کے اور با ادب کھڑے ہو کر’’ یا رسول اللہ‘‘ کہا جائے اور آپ پر ورود بھیجا جائے۔ گویا قبلہ ایک نہیں دو ہیں۔ ایک نماز کے لیے قبلہ جس کا رخ حرم مکہ ہے اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے اور آپ پر درود و سلام بھیجنے کے لیے جس کا رخ مدینہ کا گنبد خضراء ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت دے کہ وہ اپنی مسجدوں کو شرک و بدعات سے پاک رکھیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت میں عبداللہ( اللہ کا بندہ) سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ جب مسجد حرام میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور صرف اللہ کو پکارتے تو مشرکین غصہ میں بھرے ہوئے آپ کے ارد گرد اس طرح جمع ہو جاتے گویا آپ پر ٹوٹ پڑیں گے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ہوئی کہ ان سے کہہ دو کہ نقصان پہنچانا یا گمراہ کرنا اور نفع پہنچانا یا ہدایت دینا یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں خود اللہ سے ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی سزا سے مجھے کوئی بچا نہ سکے گا اور نہ میں کوئی جائے پناہ پا سکوں گا۔ اور جب رسول ہونے کے باوجود اللہ سے بے خوف نہیں ہوں تو تم کس طرح اللہ سے بے خوف ہو گئے ؟
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول کے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت دے بلکہ اس کے سپرد جو کام ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو بات بھی ہو اور اس کے جو پیغامات ہوں ان کو وہ لوگوں تک پہنچا دے اس کے بعد لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو قبول کریں
بلاغ( بات پہنچانا) میں عمومیت ہے یعنی جو بات بھی اللہ کی طرف سے ہو پہنچادی جائے اور رسالات ( پیغامات ) خاص ہے جس سے مراد کلامِ الٰہی ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو اللہ کے پیغامات کو قبول نہیں کریں گے اور اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان بن کر رہیں گے ان کے لیے ہمیشگی کی جہنم کی سزا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مشرکینِ مکہ کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے مددگار طاقتور ہیں اور ان کا جتھا بڑا ہے اور ان کے مقابل رسول کے مددگار کمزور لوگ ہیں اور آپ کے ساتھیوں کی تعداد بھی تھوڑی ہے۔
لیکن جب اللہ کا عذاب آئے گا تو ان مشرکین کو پتہ چلے گا کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی اب سرے سے ان کا کوئی مددگار ہی نہیں اور نہ ان کے جتھے کا کوئی وجود ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول کو جھٹلانے کی صورت میں جس دنیوی عذاب کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ لازماً پورا ہو کر رہے گا۔ رہی یہ بات کہ وہ کب پورا ہو گا تو اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عنقریب یہ وعدہ وقوع میں آنے والا ہے یا کچھ عرصہ بعد۔
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۷۵۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول کو فریضۂ رسالت کی ادائے گی کے لیے جس قدر غیب کی باتوں پر مطلع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس پر کھول دی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ رسول کو بھی غیب کا علم نہیں ہوتا چنانچہ رسول کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے مخالفین پر عذاب کب آئے گا اور نہ اسے یہ معلوم ہے کہ قیامت کب قائم ہو گی۔
رسول کو جس قدر علم غیب بخشا جاتا ہے اس کی حقیقت اس آیت سے بالکل واضح ہے پھر بھی مسلمانوں کے ایک طبقہ نے غلو میں مبتلا ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علم غیب کی بحث چھیڑ رکھی ہے۔ گویا آپ کو تمام جزئیات و کلیات کا علم تھا اور آپ ؐ حاضر و ناظر ہیں کہ ہر ایک کی پکارسنتے ہیں اور ہر ایک کے ظاہری و باطنی احوال سے واقف ہیں اور تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ علم غیب عطائی (وہبی) تھا یعنی اللہ کا بخشا ہوا تھا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو خدائی ہی بخشش دی تھی۔ کیسا مشرکانہ تصور ہے یہ لیکن ان کے عقیدہ توحید پر اس سے کوئی حرف نہیں آتا!
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول کے آگے اور پیچھے محافظ فرشتے مقرر کر دیتا ہے تاکہ غیب کی باتیں ( پیغامات) ٹھیک ٹھیک رسول تک پہنچ جائیں اور شیطان کو ان میں دخل اندازی کا موقع نہ ملے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رسول کی حفاظت کا یہ انتظام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رسول اللہ کے پیغامات بے کم و کاست لوگوں تک پہنچادے مطلب یہ ہے کہ رسول کو غیب کی جن باتوں سے مطلع کیا جاتا ہے ان کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام کیا جاتا ہے تاکہ پیغمبر کے سینہ میں وہ محفوظ رہے اور شیطان اس میں وسوسہ اندازی نہ کرسکے اور پیغمبر ان پیغامات کو مِن و عَن لوگوں تک پہنچائے اس اہتمام کے ساتھ اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ رسول نے اللہ کے پیغامات لوگوں تک بے کم و کاست پہنچا دیئے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ رسولوں کے احوال کو بخوبی جانتا ہے اور اس نے ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے اس لیے اس بات کا کوئی احتمال نہیں ہے کہ رسول اس کے پیغامات پہنچانے میں کوئی کوتاہی یا کسی قسم کی کمی بیشی کرے۔ اگر ایسا ہوا تو ، وہ فوراً اس پر گرفت کرے گا۔ لہٰذا لوگوں کو چاہیے کہ رسول اللہ کی طرف سے جو کچھ کہے اسے وہ اس اطمینان اور یقین کے ساتھ قبو ل کریں کہ یہ اللہ کی فرمودہ باتیں ہیں جو اس کے رسول نے بے کم و کاست ہم تک پہنچا دی ہیں۔
٭٭٭
(۷۳)۔سورہ المزمل
(۲۸ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
سورہ کے آغاز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو المُزّمِّل (چادر میں لپٹنے والے ) فرما کر خطاب کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’المُزّمِّل‘ ہے۔
زمانۂ نزول
مکہ کے دور اول میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ آپ کی مخالفت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا البتہ آخری آیت ایک عرصہ بد جبکہ پنجوقتہ نماز کا حکم آ چکا تھا نازل ہوئی۔
مرکزی مضمون
مقام رسالت کی گراں بار ذمہ داریوں کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام لیل( رات کو اٹھ کر نماز میں مشغول ہو جانے ) کی ہدایت اور رسول کا انکار کرنے والوں کو تنبیہ۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۹ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ لیل کی ہدایت دی گئی ہے اور تربیتِ نفس کے پہلو سے اس کی جو افادیت ہے اس کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
آیت ۱۰ تا ۱۴ میں آپ کو مخالفین کی باتوں پر صبر کی تلقین کرتے ہوئے ان کے انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۱۵ تا ۱۹ میں کفار مکہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا تو دیکھ لو فرعون نے جب رسول کی نافرمانی کی تو اس کا کیا انجام ہوا اور تم کفر کے آخرت کے عذاب سے کس طرح بچ سکو گے۔
آیت ۲۰ میں قیام لیل کے اس حکم میں جو ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا حالات کے پیش نظر تخفیف کر دی گئی اور فرض نمازوں کے اہتمام اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی ہدایت کی گئی۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
(۱) اے چادر میں لپٹنے والے ! ۱*
(۲) رات کو( نماز میں ) قیام کرو بجز تھوڑے حصہ کے۔ ۲*
(۳) آدھی رات یا اس میں سے کچھ کم کر دو۔ ۳*
(۴) یا اس سے کچھ زیادہ کر لو۔ ۴* اور قرآن کو ترتیل ۵* کے ساتھ( یعنی صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر) پڑھو۔
(۵) ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ ۶*
(۶) واقعی رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لیے نہاتے موثر اور قول کو زیادہ درست رکھنے والا ہے۔ ۷*
(۷) دن میں تمہارے لیے طویل مصروفیتیں ہیں۔ ۸*
(۸) اپنے رب کے نام کا ذکر کرو۔ ۹* اور سب سے بے تعلق ہو کر اسی کے ہو رہو۔۱۰*
(۹) وہ مشرق و مغرب کے رب ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بنا لو۔۱۱*
(۱۰) یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور ان کو خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو۔ ۱۲*
(۱۱) اور ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو اور انہیں تھوڑی مہلت دے دو۔
(۱۲) ہمارے پاس ان کے لیے بیڑیاں اور جہنم کی آگ ہے۔
(۱۳) اور حلق میں پھسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔
(۱۴) اس دن زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے۔ ۱۳* اور پہاڑ بکھری ہوئی ریت بن جائیں گے۔
(۱۵) ہم نے تم لوگوں کی طرف ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے۔ ۱۴* جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔
(۱۶) تو فرعون نے رسول کی نافرمانی کی بالآخر ہم نے اس کو سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔
(۱۷) اگر تم نے کفر کیا تو اس دن( کی سختی) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ ۱۵*
(۱۸) آسمان اس( دن کی سختی) سے پھٹ پڑے گا۔ اس کا وعدہ(کہ قیامت برپا ہو گی) پورا ہو کر رہے گا۔
(۱۹) یہ ایک یاددہانی ہے ۱۶* تو جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کی راہ اختیار کر لے۔ ۱۷*
(۲۰) ( اے نبی!) تمہارا رب جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی شب( نماز میں ) کھڑے ہوتے ہو۔ ۱۸* اور تمہارے ساتھیوں میں سے ایک گروہ بھی۔ ۱۹* اللہ ہی رات اور دن کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ ۲۰* اسے معلوم ہے کہ تم اس کا ٹھیک ٹھیک شمار نہیں کر سکتے۔ ۲۱* لہٰذا اس نے تم پر عنایت کی تو جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ ۲۲* اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے اور ایسے بھی جو اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے اور ایسے بھی جو اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے اور ایسے بھی جو اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے تو جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ ۲۳* اور نماز قائم کرو ۲۴* زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دو۔ ۲۵* جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے تم اللہ کے یہاں موجود پاؤ گے۔ ۲۶* وہ بہتر اور اجر میں بڑھ کر ہو گی۔ اللہ سے استغفار کرو۔ ۲۷* وہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سورہ کے نزول کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔ اس لیے آپ کو المُزمّل کہہ کر خطاب کیا گیا جو بڑا پیار بھرا خطاب ہے اور جس میں آپ کی قلبی تسکین کا سامان بھی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ آپؐ کے رب نے آپ کو خلعت نبوت سینوازا ہے لہٰذا اس کے شکر کے طور پر آپ قیامِ لیل کا اہتمام کریں اور قرآن کی یہ شانِ بلاغت ہے کہ وہ ظاہر سے باطن کی طرف متوجہ کرتا ہے جس کی مثال سورۂ اعراف کی آیت ۲۶ ہے جس میں لباس کا جب ذکر ہوا تو لِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیرٌ فرما کر تقویٰ کے لباس کی طرف متوجہ کیا گیا تاکہ انسان ظاہری لباس کے ساتھ باطنی لباس سے بھی اپنے کو آراستہ کرے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پوری رات بجز تھوڑے حصہ کے عبادت ( نماز) میں گذارو۔ تھوڑے حصہ سے مراد رات کا ایک تہائی حصہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رات کے ایک تہائی حصہ میں آرام کرو اور دو تہائی حصے عبادت میں گزارو چنانچہ آیت ۲۰ میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو تہائی رات عبادت میں گزارا کرتے تھے۔
اس طویل قیام لیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رات کی ان نمازوں کے لیے رکعتوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے۔ جو شخص جتنی رکعتیں پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے البتہ یہ مطالبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی سے بھی نہیں کیا کہ وہ پوری رات عبادت یں گذارے اور آرام اس کے کسی حصہ میں بھی نہ کرے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل جیسا کہ آخری آیت سے واضح ہے اس زمانہ میں دو تہائی شب یا اس سے کم وقت عبادت میں مشغول رہنے کا رہا لہٰذا جن بزرگان دین کی مثالیں قیام لیل کے تعلق سے پیش کی جاتی ہیں کہ وہ پوری رات عبادت میں گذارتے تھے وہ ان کی شدت تھی جس کا حکم نہ شریعت نے دیا ہے اور نہ وہ لوگوں کے لیے کوئی مثالی چیز ہو سکتی ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نصف شب قیام کر دیا اس سے کم یعنی ایک تہائی رات۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یا نصف سے زیادہ یعنی دو تہائی رات قیام کرو۔
ان احکام کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ لیل کا جو حکم آغاز میں دیا گیاتھا اس میں یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ آپ کم از کم ایک تہائی رات اور زیادہ سے زیادہ دو تہائی رات نماز میں گزاریں۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ترتیل کے معنی مفرداتِ راغب میں اس طرح بیان ہوئے ہیں۔
والترتیل ارسال الکلمۃ من القم لبھولۃ و استقامۃ ’’ ترتیل یہ ہے کہ زبان سے کلمات بسہولت اور درست طریقہ ادا کئے جائیں۔ ‘‘ ( ص ۱۸)
اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ صاف صاف ادا کے جائیں ، قرأت آیتوں پر وقف کرتے ہوئے اس طرح کی جائے کہ اس کا حسن نمایاں ہو اور اس کے اثرات پڑھنے والے کے قلب و ذہن پر مرتب ہوں۔
ترتیل نہ تو یہ ہے کہ قرآن کو گا گا کر پڑھا جائے اور فنی مہارت کا مظاہرہ کیا جائے اور نہ یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کی رفتار ایسی سست ہو کہ اس کلام میں دریا کی سی جو روانی ہے وہ ظاہر نہ ہو سکے۔
بعض حفاظ تراویح میں قرآن کو اس تیزی کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ سننے والوں کے کچھ پلے نہیں پڑتا اور کلام الٰہی کا وقار متاثر ہو جاتا ہے۔ ان کی یہ قرأت ترتیل کے صریح خلاف ہوتی ہے اور وہ صرف بوجھ اتارنے کا کام کرتے ہیں۔
قرآن کی قرأت تو اس اندازسے ہونی چاہیے کہ اس سے خشیت اور رقت پیدا ہو مگر موجودہ زمانہ کے قاری حضرات عام طور سے اپنی خوش الحانی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو تکلف سے خالی نہیں ہوتا ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ قولاً ثقیلاً۔(بھاری بات ) سے مراد جہاد کا حکم ہے جو یقیناً ایک ذمہ داری ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ قبل اس کے کہ جہاد کی عظیم ذمہ داریاں آپ پر آ پڑیں آپ رات کی عبادت گذاری میں زیادہ مشغول رہیں کہ جہاد کی مصروفیات رات کے طویل قیام میں مانع ہوں گی۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشئۃ اللیل( رات کا اٹھنا) کا مطلب رات کو نیند سے بیدار ہو جانا اور آرام کو چھوڑ کر نماز کے لیے کھڑے ہو جانا ہے۔ اس وقت آرام کو قربان کرنا نفس پر گراں ہوتا ہے لیکن جب ایک مومن عبادتِ الٰہی کے لیے اٹھنے کی ہمت کرتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا نفس زیر ہو جاتا ہے اور نفس پر قابو پا لینے کے بعد دین کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا آسانہو جاتا ہے۔ اس کا دوسرا اہم ترین فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ قول کو زیادہ درست رکھنے والا ہے۔ رات کا وقت چونکہ سکون کا ہوتا ہے اس لیے یہ فہم قرآن اور غور و فکر کے لیے نہایت موزوں وقت ہوتا ہے۔ اس وقت جو کلمات زبان سے نکلیں گے خواہ وہ قرآن کی آیات ہوں یا دعا اور اذکار وہ دل کی گہرائیوں سے نکلیں گے اس لیے ان کی ادائیگی پختگی کے ساتھ ہو گی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیتیں مکہ میں بھی بہت زیادہ تھیں۔ دعوت و تبلیغ کی مصروفیات کے علاوہ اپنے ساتھیوں کو قرآن کی سورتیں حفظ کرانے اور ان کی تربیت کرنے میں بھی آپ کو مشغول رہنا پڑتا تھا۔ اس لیے رات کا وقت ہی طویل قیام کے لیے موزوں ہو سکتا تھا۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ رب کے نام کا ذکر کرنے میں دل کے ساتھ زبان کا ذکر بھی شامل ہے۔ زبان سے جب اللہ کا بہ کثرت ذکر کیا جاتا ہے تو اس کی یاد دل میں رچ بس جاتی ہے اس لیے ذکر لسانی کی بھی دین میں بڑی اہمیت ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوق سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھو بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا سے تعلق کی جو نوعیت ہے اور اس کا جو دائرہ ہے وہ اسی کے لیے خاص ہونا چاہیے مثلاً اسی کو حاجت روا سمجھ کر اپنی حاجتیں اس کے سامنے پیش کرو۔ اسی کو ماویٰ و ملجا سمجھ کر اس کی طرف رجوع کرے ، فریاد رسی کے لیے اسی کو پکارو، اسی کو معبود مان کر اسی کی عبادت کرو، اسی کی نام کی تسبیح کرو، اور اسی سے امیدیں وابستہ کرو۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے تمام معاملات اس کے سپرد کر دو اور یقین رکھو کہ کار سازِ حقیقی وہی ہے۔ دوسرا کوئی نہیں جو تمہارے کام بنا سکے۔
انسان کسی کام کا ارادہ کرے اور کیسا ہی شاندار منصوبہ بنائے اس کی تکمیل اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچانا اللہ ہی کا کام ہے ورنہ باوجود کوششوں کے کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس کا تجربہ روز مرہ کی زندگی میں انسان کو ہوتا رہتا ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مخالفین کی اذیت دہ باتوں پر صبر کر و اور ان سے الجھے بغیر اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کئے بغیر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شدید زلزلہ سے ہلا دئے جائیں گے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہد( گواہ) بنا کر بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین کی گواہی دے۔ یہ بات سورۂ بقرہ آیت ۱۴۳ میں بھی ارشاد ہوئی ہے اور سورۂ حج کی آخری آیت میں بھی اور سیاق و سباق( Context) کے لحاظ سے اس کے یہ معنی بالکل واضح ہیں لیکن جن لوگوں نے دین میں شرک و بدعات کی آمیزش کی ہے وہ اس کے معنی حاضر و ناظر کرتے ہیں تاکہ ان کے اس باطل عقیدہ کی تائید ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور ہر شخص کو دیکھ رہے ہیں اور اس کے احوال سے واقف ہیں جبکہ یہ عقیدہ اللہ کے سوا کسی کے بارے میں رکھا نہیں جا سکتا۔
اگر لغت میں شاہد کے معنی گواہ اور حاضر کے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے اس کے معنی حاضر و ناظر کے لئے جائیں جبکہ حاضر و ناظر کے الفاظ خاص معنی میں بولے جاتے ہیں۔ سورۂ انبیاء میں ابراہیم ؑ کا ارشاد نقل ہوا ہے۔
قَالَ بَلْ رَّبُّکُمْ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ اَلَّذِیْ فَطَرَہُنَّ وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکُمْ مِنَ الشّٰہِدِینَ ’’ابراہیم نے کہا نہیں بلکہ واقعی تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ اسی نے ان کو پیدا کیا ہے اور اس پر میں تمہارے سامنے گواہ ہوں۔‘‘ (انبیاء: ۵۶)
ظاہر ہے من الشاہدین کے معنی گواہی دینے والے کے ہی ہو سکتے ہیں نہ کہ حاضر و ناظر ہونے کے۔
سورۂ حج میں فرمایا:
لِیکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیدًا عَلَی کُمْ وَتَکُوْنُوْا شَہَدآءَ عَلَی النَّاسِ’’ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔‘‘ ( حج:۷۸)
اگر یہاں معنی ’’ رسول تم پر گواہ ہو‘‘ کے بجائے ’’ رسول تم پر حاضر و ناظر ہو‘‘ کئے جائیں تو ’’ تم لوگوں پر گواہ ہو‘‘ کے بجائے ’’ تم لوگوں پر حاضر و ناظر ہو‘‘ کرنا پڑیں گے۔ اس طرح تمام اہل ایمان کو حاضر و ناظر ماننا پڑے گا، کتنے غلط معنی ہیں جو قرآن کی آیت کے لئے جا رہے ہیں۔ یہود اپنی کتاب کے کلمات کو اسی طرح الٹے سیدھے معنی پہناتے تھے جن کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے :
یحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ’’ وہ کلمات کو ان کی اصل جگہ سے پھیردیتے ہیں۔‘‘(مائدہ: ۱۳)
مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ احزاب نوٹ ۹۹۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحبِ کشاف کہتے ہیں ’’ یہ شدت کی مثال ہے۔ سخت مصیبت کے دن کے لیے کہا جاتا ہے یوم یشِیبُ نواصی الاطفال یعنی یہ ایسا دن ہے جو بچوں کی پشانیوں کے بال سفید کر دے گا۔‘‘( تفسیر کشاف ج ۵ ص ۱۷۸)
گویا دن کا بچوں کو بوڑھا بنا دینا عربی کا محاورہ ہے اس معنی میں کہ وہ دن سخت مصیبت کا ہو گا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن یاد دہانی اور نصیحت ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ قرآن کی نصیحت قبول کر کے ہی آدمی اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔ اس تک پہنچنے کی واحد راہ وہی ہے جو قرآن بتا رہا ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آخری آیت بھی مکی ہی ہے لیکن اوپر کی آیتوں کے نازل ہو جانے کے ایک عرصہ بعد نازل ہوئی اور اس میں قیامِ لیل کے حکم میں تخفیف کر دی گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام لیل کا جو حکم آغازِ سورہ میں دیا گیا تھا اس کے مطابق آپ عمل کر رہے تھے۔ اس فقرہ میں آپ کی اس تعمیل کا ذکر ہوا ہے کہ آپ کبھی قریب دو تہائی شب عبادت میں گذار دیتے ہیں اور کبھی نصف شب اور کبھی ایک تہائی شب۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ قیام لیل کا تاکیدی حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن آپؐ کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ اپنے شوقِ عبادت کی بنا پر رات کی اس نماز میں شریک ہو جایا کرتا تھا اور غالباً یہ نماز مسجدِ حرام میں ادا کی جاتی تھی۔ اس نماز میں صحابہ کرام کے ایک گروہ کے شامل ہونے سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ نماز ان پر واجب نہیں تھی بلکہ ان کے حق میں نفل تھی۔ اگر ان پر واجب ہوتی تو تمام صحابہ اس میں شریک ہوتے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رات کا کبھی چھوٹا اور کبھی بڑا ہونا اور اسی طرح دن کے اوقات کا گھٹنا اور بڑھنا سب اللہ کے بنائے ہوئے نظام الاوقات کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی کے اختیار میں نہیں کہ رات کو چھوٹا بنائے اور دن کو بڑا یا دن کو چھوٹا بنائے اور رات کو بڑا۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانہ میں گھڑیاں نہیں تھیں اس لیے یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ ٹھیک نصف شب کب ہوتی ہے اور شب کا آخری ایک تہائی حصہ ٹھیک کس وقت شروع ہو رہا ہے۔ گھڑی اور الارم کی غیر موجودگی میں وقت کا صحیح اندازہ لگانا اور نیند سے ٹھیک وقت پر بیدار ہونا مشکل تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے پیروان رسول کو اس مشقت میں نہیں ڈالا اور آسان حکم دیا جو آگے بیان ہوا ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن پڑھنا نماز کا اہم ترین جزء ہے اس لیے ہاں جیسا کہ سیاقِ کلام(Context) سے واضح ہے قرأتِ قرآن سے مراد نماز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رات کی یہ نماز (تہجد) آسانی کے ساتھ جتنی پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ نصف شب یا اس سے کم و بیش قیام کرنا واجب نہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ قیامِ لیل ( رات کی نفل نمازوں ) کے لیے رکعتوں کی تعداد کی کوئی قید نہیں نہ رمضان میں نہ دوسرے مہینوں میں البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو آپؐ کے آخری دور میں رہا وہ یہ تھا کہ آپ ؐ آٹھ رکعتیں حسن و خوبی کے ساتھ ادا فرماتے جن میں طویل قرأت ہوتی اور رکوع اور سجدے بھی طویل ہوتے۔
سورۂ بقرہ سورۂ ال عمران اور سورۂ نساء جیسی طویل سورتیں آپؐ نماز میں پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ :
’’ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے آپ چار رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ ان کی حسن ادائیگی اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر آپ چار رکعت پڑھتے جن کی حسن ادائیگی اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھو۔ پھر آپ تین رکعتیں ( وتر کی) پڑھتے۔‘‘ ( بخاری کتاب صلوٰۃ التراویح)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بھی ہے کہ : ’’ آپ ؐ رات کے اول حصہ میں سوجاتے اور آخر شب میں اٹھتے اور نماز پڑھتے۔‘‘(بخاری ابواب التہجد)
رات کی یہ نفل نمازیں دو دو رکعتوں کی صورت میں جتنی تعداد میں چاہیں ادا کی جا سکتی ہیں۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’ رات کی نماز کس طرح ادا کی جائے ؟ فرمایا مثنیٰ مثنیٰ یعنی دو دو رکعتوں کی صورت میں۔ پھر جب صبح ہو جانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھو۔‘‘( بخاری ابو اب التہجد)
اگر کوئی شخص رات کو نقل نماز( تہجد) نہ پڑھ سکے تو قرآن کی جتنی آیتیں آسانی سے پڑھ سکتا ہو پڑھ لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے رات کے وقت سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لیں تو وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔‘‘(بخاری کتاب فضائل القرآن)
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں ان حالات کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جو آئندہ پیش آنے والے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے قیام الیل کے حکم میں تخفیف کر دی گئی۔ کچھ لوگ مریض ہوں گے تو کچھ تجارتی سفر کریں گے اور ایسے بھی جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ ان سب صورتوں میں طویل قیام الیل مشقت میں ڈالنے والا ہو گا۔ اس لیے یہ آسانی پیدا کر دی گئی کہ جس قدر قرآن آسانی سے پڑھا جا سکے پڑھو اور جتنی نفل نمازیں آسانی سے پڑھی جا سکتی ہیں پڑھو۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرض نماز یں پابندی کے ساتھ ادا کرو۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حدید نوٹ ۲۱۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو نیکی بھی تم آخرت کو نصب العین بنا کر کرو گے وہ تمہارا محفوظ سرمایہ ہو گا جو آخرت میں تمہیں ملے گا۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس بات کی ترغیب ہے کہ نیک عمل کرتے ہوئے اپنے گناہوں اور قصوروں کا احساس ہونا چاہیے اور اس کے لیے اللہ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ حدیث میں بھی کثرت سے استغفار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
٭٭٭
(۷۴)۔ سورہ المدثر
(۵۶ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
سورہ کے آغاز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اَلْمُدّثِّرْ ( چادر اوڑھنے والے ) کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’اَلْمُدّثِّرْ‘ ہے۔
زمانۂ نزول
یہ سورہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ شروع کی آیتیں پہلے نازل ہوئیں اور بقیہ حصہ بعد میں نازل ہوا۔
مرکزی مضمون
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منصبِ رسالت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہدایت دینا اور آپ کے اِنذار( خبردار کرنے ) کے بعد بھی جو لوگ انکارِ حق پر مصر ہیں۔ انہیں جہنم کے دردناک عذاب کی وعید سنانا ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا۱۰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے فضیلت اخلاق اور بلندی کردار کی تلقین کی گئی ہے۔
آیت ۱۱ تا ۳۱ میں قریش کے لیڈروں کو جو مخالفت پر آمادہ ہو گئے تھے جہنم کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
آیت ۳۲ تا ۴۸ میں آخرت کے بارے میں فہمائش ہے۔
آیت ۴۹ تا ۵۶ میں قرآن کے یاددہانی ہونے کے پہلو کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ بات دل میں اترجائے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
(۱) اور چادر اوڑھنے والے ! ۱*
(۲) اٹھو اور خبردار کرو۔ ۲*
(۳) اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔ ۳*
(۴) اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ ۴*
(۵)اور(بتوں کی)گندگی سے دور رہو۔ ۵*
(۶) اور زیادہ حاصل کرنے کی غرض سے احسان نہ کرو۔ ۶*
(۷) اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔ ۷*
(۸) پھر جب صور پھونکا جائے گا۔ ۸*
(۹) تو وہ دن بڑا ہی سخت دن ہو گا۔
(۱۰) کافروں پر آسان نہ ہو گا۔ ۹*
(۱۱) چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔۱۰*
(۱۲) اور اس شخص کو کثیر مال بخشا۔ ۱۱*
(۱۳) اور حاضر رہنے والے بیٹے دئے۔۱۲*
(۱۴) اور اس کے لیے سامان مہیا کیا۔ ۱۳*
(۱۵) پھر وہ توقع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں گا۔ ۱۴*
(۱۶) ہرگز نہیں۔ وہ ہماری آیتوں سے بیر رکھتا ہے۔ ۱۵*
(۱۷) میں اس کو عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھاؤں گا۔ ۱۶*
(۱۸) اس نے سوچا اور ایک بات تجویز کی۔ ۱۷*
(۱۹) تو مارا جائے وہ کیسی بات اس نے تجویز کی!
(۲۰) پھر مارا جائے وہ کیسی بات اس نے تجویز کی!
(۲۱) پھر اس نے نظر ڈالی۔
(۲۲) پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا۔
(۲۳) پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔ ۱۸*
(۲۴) اور بولا یہ تو محض جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔
(۲۵) یہ انسان کا کلام ہی ہے۔ ۱۹*
(۲۶) عنقریب میں اسے سَقرَ ۲۰*( دوزخ) میں داخل کروں گا۔
(۲۷) اور تم نے سمجھا کہ سَقرَ(دوزخ) کیا ہے ؟ ۲۱*
(۲۸) نہ باقی رکھے گی اور نہ چھوڑے گی۔ ۲۲*
(۲۹) کھال کو جھلس دینے والی۔ ۲۳*
(۳۰) اس پر اُنیس ( فرشتے ) مقرر ہیں۔
(۳۱) اور ہم نے دوزخ کے نگراں فرشتے بنائے ہیں اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنایا ہے۔ تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آ جائے اور اہلِ ایمان کا ایمان بڑھے۔ اور اہلِ کتاب اور مومن کسی شک میں نہ پڑیں اور جن کے دلوں میں روگ ہے وہ اور کفار کہیں کہ اس بات سے اللہ کی کیا مراد ہے۔ ۲۴* اس طرح اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ۲۵* اور یہ قرآن انسانوں کے لیے سرتاسر نصیحت ہے۔ ۲۶*
(۳۲) ہرگز نہیں۔ ۲۷* قسم ہے۔ ۲۸* چاند کی۔
(۳۳) اور رات کی جب کہ وہ پلٹتی ہے۔
(۳۴) اور صبح کی جب کہ وہ روشن ہو جائے۔
(۳۵) کہ یہ ( قرآن) بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ۲۹*
(۳۶) انسانوں کو خبردار کرنے والا۔ ۳۰*
(۳۷) تم میں سے ہر اس شخص کو جو آگے بڑھنا یا پیچھے رہنا چاہیے۔ ۳۱*
(۳۸) ہر شخص اپنی کمائی کے بدلہ رہن ہے۔ ۳۲*
(۳۹) سوائے داہنے ہاتھ والوں کے۔ ۳۳*
(۴۰) وہ جنتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ پوچھ رہے ہوں گے۔
(۴۱) مجرموں کے بارے میں۔
(۴۲) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ ۳۴*
(۴۳) وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ۳۵*
(۴۴) اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ ۳۶*
(۴۵) اور بحث کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی بحث کرتے تھے۔ ۳۷*
(۴۶) اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے۔
(۴۷) یہاں تک کہ یقینی چیز ہمارے سامنے آ گئی۔ ۳۸*
(۴۸) تو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو گی۔ ۳۹*
(۴۹) ان کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ نصیحت سے رخ پھیر رہے ہیں۔
(۵۰) گویا یہ بد کے ہوئے گدھے ہیں۔
(۵۱) جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہوں۔ ۴۰*
(۵۲) بلکہ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اسے کھلا صحیفہ دیا جائے۔۴۱*
(۵۳) ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔ ۴۲*
(۵۴) ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے۔ ۴۳*
(۵۵) تو جس کا جی چا ہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔
(۵۶) اور یہ نصیحت حاصل نہیں کرسکتے۔ مگر یہ کہ اللہ چا ہے ۴۴ * وہ اس کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ ۴۵* اور وہی اس کا اہل ہے کہ بخش دے۔ ۴۶*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی وحی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آئی وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیتیں ( اِقْرَأبِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ…….) تھیں اس کے بعد دوسری وحی سورۂ مدثر کی ابتدائی آیتوں کی صورت میں نازل ہوئی۔ چونکہ وحی کے نزول اور فرشتہ کے نظر آنے کا یہ پہلا اتفاق تھا اس لیے بہ تقاضائے بشریت آپؐ پر ہیبت طاری ہو گئی جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے (ملاحظہ ہو بخاری کتاب التفسیر باب سورۃ المدثر)۔ اس ہیبت کی وجہ سے آپؐ نے چادر اوڑھ لی تھی۔ اس موقع پر آپ کے طبعی خوف کو دور کرنے اور وحی سے مانوس کرنے کے لیے یا ایہا المدثر( اے چادر اوڑھنے والے ) کے پیار بھرے لفظ سے آپ کو مخاطب کیا گیا۔
واضح رہے کہ انبیاء علیہم السلام پر جب پہلی مرتبہ وحی آتی ہے تو انہیں اس کے وحی الٰہی ہونے میں کوئی شک اور تردد نہیں ہوتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کوئی تردد نہیں ہوا البتہ فرشتہ کے پہلی مرتبہ نظر آنے سے بہ تقاضائے بشریت آپؐ پر ہیبت طاری ہوئی جو ایک عارضی کیفیت تھی۔
اس موقع پر سورۂ مزمل نوٹ ۱ بھی پیشِ نظر رہے۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اٹھو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ آرام کی نیند سورہے ہیں اور اس سے اٹھ کھڑے ہو جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدا اور آخرت سے غافل انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے عزم و ہمت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جو پہلی ہدایت دی گئی وہ انذار( خبردار کرنے ) کی تھی اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی یہ اہم ترین خصوصیت ہے کہ وہ لوگوں کو سب سے پہلے اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں تاکہ وہ چونک جائیں اور اپنی اصلاح کی فکر کریں۔ ان کی دعوت کا ارتکاز(Focus) افراد کا نفس ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی کے بگاڑ کر دور کرنا اور صالح نظام قائم کرنا سب شریعت کے تقاضے ہیں لیکن انبیائی طریقِ دعوت نے ہر چیز کا ایک محل متعین کر دیا ہے اس لیے اس کو اسی محل پر رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ توازن بگڑ جاتا ہے جس کا مظاہرہ موجودہ دور میں دعوتی کام کے سلسلہ میں ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دعوتی کام کرنے والوں نے گھوڑے کے آگے گاڑی کو باندھ دیا ہے اس لیے ان کی دعوت موثر ثابت نہیں ہوتی۔
اس موقع پر سورۂ نوح آیت ۱ نوٹ ۲ بھی پیشِ نظر رہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کبریائی صرف اللہ کے لیے ہے اس لیے اسی کی کبریائی کا ذکر تمہاری زبان پر ہونا چاہیے اور اسی کا چرچا لوگوں میں کرنا چاہیے۔ نماز کا آغاز تکبیر یعنی اللہ اکبر( اللہ سب سے بڑا ہے ) کے کلمات ہی سے ہوتا ہے اور اذان میں بھی بار بار اس کلمہ کو دہرایا جاتا ہے تاکہ فضا اللہ کی تکبیر سے گونج اٹھے۔
تکبیر کا حکم سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت میں بھی دیا گیا ہے :
وَکَبِّرْہُ تَکْبِیراً ’’اور اس کی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنا چاہیے۔‘‘
اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں شرک کی تردید بھی ہے اور توحید کا اثبات بھی۔ مشرکین نے کسی کو مہادیو بنا دیا ہے اور کسی کو مہاتما جن کی وہ پرستش کرتے ہیں لیکن یہ صرف دعوے ہیں حقیقت یہ ہے کہ کبریائی اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اور نہ اس کے سوا کوئی معبود ہے جس کی پرستش کی جائے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر کی پاکیزگی سے باطن کی پاکیزگی کا احساس ابھرتا ہے۔ اس لیے اسلام نے ظاہر کی پاکیزگی کو بڑی اہمیت دی ہے چنانچہ نماز کے لیے کپڑوں کا نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اور جب کپڑوں کو پاک رکھنے کی ہدایت کی گئی تو جسم کو پاک رکھنا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوا۔
اسلام نے پیشاب اور دوسری نجاستوں سے طہارت حاصل کرنے اور کپڑوں کو پاک رکھنے کا بہترین طریقہ بتایا ہے اور طہارت ( پاکیزگی) کا اہتمام نماز پڑھنے والوں کا اولین وصف ہے لیکن موجودہ دور کے کتنے ہی مہذب لوگ طہارت کے اس تصور ہی سے نا آشنا ہیں۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ رُجز کے معنی القاموس المحیط میں اس طرح بیان ہوئے ہیں :
القذرو عبادۃ الاوثان والعذاب والشرک ’’گندگی، بتوں کی پرستش، عذاب وار شرک۔‘‘
اور ہجر کے معنی دور رہنے کے بھی آتے ہیں ( ہَجر الرجل ہَجرا اذا تباعد و نأی۔ لسان العرب ج۵ص۲۴۲)
یہاں خاص طور سے بتوں کی گندگی اور شرک سے دور رہنا مراد ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس حکم کی حیثیت ایک تاکیدی حکم کی تھی جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ وَلاَ تُشْرِکَ بِیْ شَیئًا (کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرانا۔سورۂ حج : ۲۶) ورنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم زمانۂ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے الگ رہے۔ علاوہ ازیں یہ حکم اس معنی میں بھی تھا کہ لوگوں پر واضح ہو جائے کہ اللہ نے بت پرستی کو چھوڑ دینے اور اس سے علاحدہ رہنے کا حکم دیا ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ آدمی دوسرے پر احسان اس لیے کرتا ہے تاکہ اس سے بدلہ میں زیادہ پائے یا اس کا کوئی نہ کوئی مفاد اس میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ پست اخلاقی کی بات ہے۔ بلند اخلاقی یہ ہے کہ آدمی بے لوث ہو کر احسان کرے۔ یہ ہدایت گوناگوں پہلوؤں سے ہے لیکن خاص طور سے یہاں فریضۂ رسالت کی ادائیگی اور اس سلسلہ میں لوگوں کی نصح و خیر خواہی کا پہلو نمایاں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچانے پر لوگوں سے کوئی اجر طلب نہیں کیا۔قُلْ مَآاَسْئَلُکُمْ عَلَیہِ مِنْ اَجْرٍ(ص:۸۶) ’’ کہو میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیم کتنی عظیم ہے جس تعلیم کا آغاز اس بلند سطح سے ہوا ہو اس کا عروج اور اس کی انتہا کیا ہو گی! قرآن کا اعجاز( معجزہ ہونا) تو اس کی تعلیمات سے بھی ظاہر ہو رہا ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو تو قدم قدم پر صبر آزما حالات سے دو چار ہونا ہو گا لہٰذا تم صبر کو اپنا شیوہ بنا لو اور یہ صبر خلوص دل سے اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ وہ اس کی بہترین جزا دے گا۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا بگل بجے گا۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ دن کافروں کے حق میں نہایت سخت دن ہو گا۔ ایسا سخت کہ کسی پہلو سے بھی آسانی کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں تنہا اس کا خالق ہوں اور اس سے نمٹنے کے لیے کافی ہوں ۰ اس ارشاد سے ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا مقصود ہے کہ آپؐ ان لوگوں کی فکر نہ کریں جو آپؐ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں اور دوسری طرف مخالفت کرنے والوں کو تنبیہ ہے کہ معاملہ اللہ سے ہے اور اس کی گرفت بڑی سخت ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دولت مند بنایا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے بیٹے جو اس کے کاروبار میں ہاتھ بٹائیں اور اس کی خدمت میں حاضر رہیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کے لیے دنیوی ترقی اور ریاست و قیادت کی راہیں ہموار کیں۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی بخشی ہوئی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے مزید مال و جاہ کا حریص بن گیا ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہے ک اگر آخرت برپا ہوئی تو اپنے شرک اور کفر کے باوجود وہاں بھی وہ نعمتوں سے مالا مال کر دیا جائے گا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ جب وہ ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کر رہا ہے کہ نہ ہمارے رسول پر ایما ن لانے کے لیے تیار ہے اور نہ ہمارے کلام پر تو آخرت میں وہ نعمتوں کا مستحق کس طرح ہو سکتا ہے۔
اوپر کی آیتوں میں ان لیڈروں کی تصویر کھینچی گئی ہے جو دنیوی اعتبار سے خوشحال تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور ولید بن مغیرہ تو پوری طرح اس کا مصداق تھا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ چڑھنے میں انسان کا سانس پھولتا ہے اور پھر جب چڑھائی کٹھن ہو اور دوزخ میں ہو تو وہ کیسی مشقت والا عذاب ہو گا۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ سوچنا لال بجھکڑ کی طرح تھا اور جو بات اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے تعلق سے تجویز کی اس کا ذکر آگے آیت ۲۴ اور ۲۵ میں ہوا ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیتوں میں اس کافر لیڈر کی حرکتیں (Actions) بیان ہوئی ہیں جو کلام الٰہی کو سننے کے بعد ناگواری کی صورت میں اس سے ظاہر ہوئیں۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی لوگوں کو اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کافی غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ قرآن انسانی کلام ہی ہے البتہ یہ بیان کی جادوگری ہے جو لوگوں کو مسحور کر رہی ہے۔ اور بیان کی جادوگری کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ بات تو پہلے سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ ولید بن مغیرہ نے ابوجہل کو یہی مشورہ دیا تھا کہ لوگوں میں قرآن کے جادو ہونے کا چرچا کیا جائے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ سَقَر دوزخ کا نام ہے۔ یہ سَقَر سے ہے جس کے معنی شدتِ حرارت کے ہیں۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دوزخ کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھو۔ وہ دردناک عذاب کی جگہ ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دوزخ کی آگ انسان کو جلا نے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی اور پھر جلنے کے بعد بھی اسے چھوڑے گی نہیں بلکہ جلانے کا عمل جاری رکھے گی۔ دوزخ اس کو نہ جینے دے گی اور نہ مرنے دے گی اور نہ اپنی گرفت سے آزاد ہونے دے گی۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کھال انسان کی جسم کا نازک حصہ ہوتا ہے اور تکلیف کا احساس جِلد ہی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ دوزخ کی آگ جب کھال کو جھلس دے گی تو انسان کا کیا حال ہو گا! اللہ تعالیٰ دوزخ کے یہ احوال سنا کر خبردار کر رہا ہے تاکہ انسان اس سے بچنے کا سامان کرے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں لہٰذا اس نے دوزخ پر جو اُنیس فرشتے مقرر کئے ہیں وہ بھی یقیناً اس کا ایک حکیمانہ فیصلہ ہے اگرچہ ہم اس کے اس فیصلہ کی مصلحت کو نہیں جانتے اور نہ ہمیں ان انیس فرشتوں کے کام کی نوعیت کا علم ہے البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ فرشتوں کو وہ قوتیں عطا کی گئی ہیں جن کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے مثال کے طور پر آسمان سے ان کا نزول ، ملک الموت کا روحوں کو قبض کرنا وغیرہ اس لیے دوزخ پر مامور فرشتوں کی تعداد کو حقیر خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ دوزخیوں کی کثیر تعداد کو عذاب میں مبتلا رکھنے کے لیے اُنیس کی تعداد کیسے کافی ہو سکتی ہے سراسر حماقت ہے مگر کافروں نے قرآن کی اس خبر کو سن کر اسی حماقت کا اظہار کیا جس پر اس آیت میں انہیں متنبہ کیا گیا ہے۔
رہی اس تعداد کے بیان کی مصلحت تو اس کی ایک مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ کافروں کے لیے وجہ آزمائش بنے۔ یعنی بجائے متنبہ ہونے کے وہ دوزخ کو مذاق کا موضوع بنانا چاہتے ہیں تو وہ اپنا شوق پورا کر لیں اور گمراہی میں دور نکل جائیں۔ دوسری مصلحت یہ کہ اہلِ کتاب کو یقین ہو جائے کہ اس تفصیل کے ساتھ دوزخ کا ذکر قرآن کے وحی الٰہی ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ دوزخ کا ذکر تو ان کی کتابوں میں موجود تھا لیکن اس کا تفصیلی نقشہ قرآن نے پیش کر دیا۔ اور تیسری مصلحت یہ ہے کہ اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو کیونکہ اہل ایمان کا یہ طریقہ نہیں کہ قرآن کی ایک ایک بات کی حکمت جاننے کے بعد اس پر ایمان لائیں بلکہ جو بات بھی اس میں بیان کی گئی ہے اس پر وہ ایمان لاتے ہیں خواہ اس کی حکمت اللہ نے واضح فرمائی ہو یا نہ ہو۔ بندہ کا کام تو اللہ کے ارشادات پر غیر مشروط طریقہ پر ایمان لانا ہے اس کے ایمان لانے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ یہ اللہ کا ارشاد ہے۔ آخرت کے احوال پر جو انسان کی نگاہوں سے مستور ہیں اہلِ ایمان یقین کر لیتے ہیں تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اور چوتھی مصلحت یہ بیان کی گئی کہ اہل کتاب اور مومنوں کے لیے مخالفین کے اعتراضات تذبذب کا باعث نہ بنیں بلکہ انہیں اطمینان ہو کہ غیب کی یہ باتیں اتنے وثوق کے ساتھ کہنے والا نبی ہی ہو سکتا ہے اور پانچویں مصلحت یہ ہے کہ جو لوگ بے یقینی کے مرص میں مبتلا ہیں وہ اور منکرین اس پر حیرت کا اظہار کر کے رہ جائیں۔
واضح رہے کہ بعض مفسرین نے انیس فرشتوں کے جہنم پر مقرر کئے جانے کی مختلف توجیہیں کی ہیں مگر یہ سب قیاسی باتیں اور تکلفات ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس تعداد کے مقرر کئے جانے کی کوئی وجہ نہیں بتلائی اور اجمالی بات بیان فرما کر ہمارے ایمان کا امتحان لینا چاہا ہے تو ہم کیوں تعداد کی بحث میں پڑیں ؟
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ اللہ کے پاس فرشتوں کے لشکر کی کمی ہے اس لیے دوزخ پر صرف ۱۹ فرشتے مقرر کئے گئے ہیں یہ تعداد بظاہر قلیل ہے لیکن وہ اپنی طاقت اور وسائل کے اعتبار سے پوری جہنم کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ جب انسان کا اپنا حال یہ ہے کہ ایک آدمی جراثیمی ہتھیار استعمال کر کے ہزاروں فوجیوں کو بیک وقت ہلاک کر سکتا ہے اور ایٹم بم استعمال کر کے لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو فرشتے آخر فرشتے ہیں۔ ان کی غیر معمولی قوت اور ان کے ان وسائل کا جو اللہ نے ان کو خاص طور سے بے شمار جہنمیوں کو سزا دینے کے لیے عطا کئے ہوں گے کون اندازہ کر سکتا ہے۔ پھر جب انسان کی قابلیت کا یہ حال کہ وہ اسکڈ میزائل (Scud missile) اور پٹر یاٹ(Patriot) کے ذریعہ ہزاروں میل دوری کے مقامات کو نشانہ بنا لیتا ہے تو فرشتوں کے لیے وسیع جہنم میں دوزخیوں کو نشانہ بنانا کیا مشکل ہے۔
اللہ کے لشکر بہ کثرت ہیں اور ان کی تعداد کا علم بھی اسی کو ہے۔ کوئی شخص بھی اس کے لشکر وں کا اندازہ نہیں کرسکتا۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قرآن جو جہنم کے احوال بیان کر رہا ہے لوگوں کے لیے نصیحت پذیری کا سامان ہے۔ عقلمند ہیں وہ لوگ جو بحثوں میں الجھے بغیر اس کی نصیحت پر کان دھریں۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کو انسانی کلام یا جادو سمجھنا ہرگز صحیح نہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قسم شہادت اور دلالت کے معنی میں ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کا نزول اللہ کی ایک بہت بڑی نشانی کا ظہور ہے جو انسان کو اپنے رب کی صحیح معرفت بخشتا ہے اور اس کی زندگی کی غایت بیان کرتا ہے یعنی توحید کے ساتھ جزائے عمل کی خبر دیتا ہے۔ یہ نشانی کلامِ الٰہی کی شکل میں ہے اس لیے نہایت عظیم ہے اور اس کی تائید ان نشانیوں سے ہوتی ہے جو آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر چاند جو اپنے خالق کی صفتِ جمال کے ساتھ اس کے اِلٰہ واحد ہونے کا اعلان کرتا ہے اور رات اور دن کا یہ نظام کہ رات اپنی تاریکی کے ساتھ رخصت ہو جاتی ہے اور صبح اپنی روشنی کے ساتھ نمودار ہو جاتی ہے اللہ کی عظیم قدرت پر بھی دلالت کرتی ہے اور اس بات پر بھی کہ وہ حق و عدل کے ساتھ اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے نیز اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس عالم کے بطن سے قیامت کی صبح نمودار ہونے والی ہے۔ اس طرح کائنات کے یہ اشارات اور قرآن کی ناطق شہادت دونوں کو تم بالکل ہم آہنگ پاؤ گے اور ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کا نزول اللہ کی نہایت عظیم نشانی کا ظہور ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کا اولین مقصد لوگوں کو بدلہ کے دن سے خبردار کرنا ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سے متنبہ ہو کر جو لوگ اللہ کی راہ میں آگے بڑھنا چاہیں اور اپنے مستقبل کا سامان کرنا چاہیں کریں اور جو لوگ اس تنبیہ کے باوجود پیچھے رہنا چاہیں یعنی اللہ کی راہ میں قدم رکھنا نہ چاہیں اور اپنے مستقبل کے لیے کوئی سامان کرنا نہ چاہیں وہ اپنی ناعاقبت اندیشی کی سزا بھگتیں۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ طور نوٹ ۲۱ میں گزر چکی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ داہنے ہاتھ والوں سے مراد مومنین صالحین ہیں جن کا نامۂ عمل ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل ایمان جنت میں کافروں کے بارے میں آپس میں بات چیت کر رہے ہوں گے کہ ان کا کیا حال ہوا؟ ان کی اس خواہش پر انہیں دوزخیوں سے براہِ راست بات کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ وہ جنت میں رہتے ہوئے مجرمین سے جو دوزخ میں ہوں گے سوال کریں گے جس کا انہیں ان کی طرف سے جواب بھی ملے گا جو آگے بیان ہوا ہے۔ جنت سے دوزخ بہت دوری پر ہو گی مگر ان سے بات چیت بالکل ممکن ہو گی۔ نزولِ قرآن کے زمانہ میں تویہ بات انسان کے لیے تعجب کی ہو سکتی تھی مگر موجودہ زمانہ میں جب کہ ٹیلیفون کے ذریعہ ہزاروں میل کی دوری پر دو شخصوں کے درمیان بات چیت کرنا آسان ہو گیا ہے۔ نیز وائر لیس وغیرہ کے ذریعہ یہ بھی ممکن ہو گیا ہے کہ زمین پر رہتے ہوئے خلاء میں پرواز کرنے والے انسان سے گفتگو کی جائے قرآن کا یہ بیان کہ جنت میں رہنے والے دوزخ میں پڑے ہوئے مجرموں سے بات چیت کریں گے تعجب کی بات نہیں رہی۔گویا ان آلات کی ایجاد سے قرآن کے بیان کی صداقت اور زیادہ روشن ہو گئی۔ قرآن کی یہ پیشین گوئی کہ :
سَنُرِیہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِٓیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یتَبَینَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۔ ’’ عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق ( اطرافِ عالم) میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس (ذات) میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ حق ہے۔‘‘ ( حم السجدہ: ۵۳)
آج حقیقت بن کر ابھر رہی ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے نماز کی اہمیت اور زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اس کے ضائع کرنے کاحساس مجرموں کو دوزخ میں ہو گا۔ نماز اسلام کا سب سے بڑا رکن ہے اور ایمان اس کے لیے شرط ہے۔ اس کے بغیر نہ نماز نماز کہلا سکتی ہے اور نہ اس کو اللہ کے ہاں قبولیت حاصل ہو سکتی ہے اسی طرح زکوٰۃ وغیرہ عبادات کا معاملہ بھی ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ کی شریعت کے مکلف( یعنی جن پر عمل کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہو) تمام انسان ہیں لیکن اس کی تعمیل اور عند اللہ اس کی قبولیت کے لیے ایمان شرطِ لازم ہے۔
اس آیت کو پڑھ کر ان مسلمانوں کو بھی ہوش میں آ جانا چاہیے جو نماز سے بالکل غافل ہیں۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ الحاقہ نوٹ ۳۲
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں تو یہ لوگ خدا و آخرت اور قرآن و رسالت کے بارے میں طرح طرح کی بحثیں کھڑی کرتے رہے اور دین کی باتوں کو انہوں نے اعتراضات کا نشانہ بنا دیا لیکن اپنی اس زبردست غلطی کا احساس انہیں دوزخ میں پہنچ کر ہو گا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی موت جس کا آنا یقینی تھا اور جو ان باتوں کو سامنے لے آئی جن کو دیکھ کر یقین آیا کہ یہ باتیں حقیقت تھیں۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر مجرمین کا بیان ختم ہوا۔ اب اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ جن لوگوں نے مجرمانہ روش اختیار کی ہے وہ شفاعت پر تکیہ کئے ہوئے ہیں کہ اگر آخرت برپا ہوئی تو فلاں اور فلاں کی سفارش سے ہم نجات پائیں گے حالانکہ نجات کے لیے کسی کی بھی سفارش کام نہ آ سکے گی۔ نجات کا دارو مدار سفارش پر نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح پر ہے اور یہ لوگ جب آخرت کے منکر ہو کر جرم پر جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کے لیے سفارش کا دروازہ بالکل بند ہو گا اور جن کو انہوں نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی سمجھ کر معبود بنا لیا تھا وہ ان کی سفارش کے لیے سرے سے موجود ہی نہیں ہوں گے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح وحشی گدھے شیر سے بدک کر بھاگ جاتے ہیں اسی طرح یہ نادان لوگ پیغمبر کی نصیحت سے گھبرا کر بھاگ رہے ہیں۔ قرآن اور اس کے پیغمبر سے ان کا یہ فرار سراسر ان کی حماقت ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اللہ نے اپنی کتاب اس کے رسول پر نازل کی ہے بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اگر اللہ کو کتاب نازل کرنا ہے تو وہ ہم میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں اس کا ایک ایک نسخہ دے دے۔ ان کے نزدیک رسول کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اللہ براہ راست ہم کو اپنی کتاب عطا کرے۔ یہ تھیں ان کی متکبرانہ باتیں اور ان کا یہ مطالبہ سراسر نامعقول تھا۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ قرآن کا وحی الٰہی ہونا ایک واضح حقیقت نہ ہو اور اس وجہ سے یہ لوگ اس سے گریز کر رہے ہوں بلکہ اس سے گریز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں آخرت کی جوابدہی کا کوئی احساس نہیں ہے وہ اس سے بالکل بے پروا ہیں۔
آخرت کا خوف قرآن کے اِنذار( تنبیہ) سے پیدا ہوتا ہے بشرطیکہ آدمی اس پر دھان دے۔ پھر جب آخرت کا خوف پیدا ہو جاتا ہے تو نصیحت کی تمام باتیں سننا اور قبول کرنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ مگر جب آدمی اپنے کو خدا کے حضور جوابدہ نہ سمجھے اور آخرت کا خوف دلانے کے باوجود اس کا کوئی اثر قبول نہ کرے تو نصیحت بھری یہ کتاب (قرآن) اس پر کچھ بھی اثر نہیں کرسکتی۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن ہرگز جادو نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے نصیحت اور یاد دہانی ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اچھی طرح جان لو کہ تمہارا نصیحت حاصل کرنا بھی اللہ کی مشیت کے تحت ہی ہے۔ اگر اس کی مشیت نہ ہو تو تم نصیحت بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ تمہیں نصیحت حاصل کرنے کا جو اختیار حاصل ہے وہ اللہ کے عطا کرنے سے حاصل ہوا ہے ورنہ تمہارا اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اپنی عظمت، اپنی کبریائی اور اپنے الٰہ ہونے کی بنا پر اس بات کا مستحق ہے کہ بندے اس سے ڈریں اور اس کا تقویٰ اختیار کریں۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ گناہوں کو بخش دینے کا اہل بھی وہی ہے۔ ظاہر ہے جو خالق اور رب ہے وہی اپنے بندوں کے گناہوں کو بخش سکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکے۔ اس سے عیسائیوں کے اس عقیدے کی تردید ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنے پیروؤں کے گناہ بخش دیں گے۔
٭٭٭
(۷۵)۔ سورہ القیامۃ
(۴۰ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
پہلی آیت میں قیامت کے دن کی قسم کھائی گئی ہے اور پوری سورہ قیامت ہی کے مباحث پر مشتمل ہے اس لیے اس کا نام ’ القیٰمۃ‘ ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے نزول کا زمانہ مکہ کا ابتدائی دور ہے۔
مرکزی مضمون
قیامت کے بارے میں جو شبہات وارد کئے جا رہے تھے ان کو دور کر کے اس کا یقین پیدا کرنا ہے۔
نظمِ کلام
آیت ۱ تا ۶ میں قیامت کی قطعیت کو پیش کرتے ہوئے شبہات کو دور کیا گیا ہے۔
آیت ۷ تا ۱۵ میں قیامت کے کچھ احوال پیش کئے گئے ہیں۔
آیت ۱۶ تا ۱۹ کا مضمون بطورِ جملہ معترضہ ہے۔
یعنی سلسلہ کلام کو کاٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اخذ کرنے کے تعلق سے بر وقت ہدایت دی گئی ہے۔
آیت ۲۰ تا ۲۵ میں منکرین کو ان کی دنیا پرستی پر متنبہ کرتے ہوئے قیامت کے دن ظاہر ہونے والی نیکو کاروں کی سرخروئی اور بدکاروں کی سیاہ روئی کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔
آیت ۲۶ تا ۳۰ میں موت کی تصویر پیش کی گئی ہے جو قیامت کا پیش خیمہ ہے۔
آیت ۳۱ تا ۳۵ میں منکرین قیامت کے رویہ پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔
آیت ۳۶ تا ۴۰ میں دوبارہ زندہ کئے جانے پر قاطع حجت پیش کی گئی ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۱* ، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ ۲*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔ ۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے۔ ۴*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔ ۵*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے بد اعمالیاں کرتا رہے۔ ۶*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھتا ہے کب آئے گا قیامت کا دن۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (سن لو) جب آنکھیں چندھیا جائیں گے۔۷*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چاند بے نور ہو جائے گا۔ ۸*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سورج اور چاند اکٹھے کر دئے جائیں گے۔ ۹*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں ؟ ۱۰*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ کہیں پناہ نہیں۔ ۱۱*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز تیرے رب ہی کی طرف ٹھکانا ہو گا۔ ۱۲*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔اس روز انسان کو بتا دیا جائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔ ۱۳*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل انسان آپ اپنے اوپر حجت ہے۔ ۱۴*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ ۱۵*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) اس (قرآن) کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔۱۶*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو جمع کرا دینا اور پڑھو ا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ ۱۷*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کرو۔ ۱۸*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی وضاحت کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ ۱۹*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ۲۰* بلکہ تم لوگ جلد حاصل ہونے والی دنیا سے محبت کرتے ہو۔۲۱*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز کتنے چہرے تر و تازہ ہوں گے۔ ۲۲*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ ۲۳*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے چہرے اس دن اداس ہوں گے۔ ۲۴*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ ہونے والا ہے۔ ۲۵*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔ ۲۶* جب جان ہنسلی تک پہنچ جائے گی۔ ۲۷*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا جائے گا۔۔ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا؟ ۲۸*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ سمجھے گا کہ یہ جدائی کا وقت ہے۔ ۲۹*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ ۳۰*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن تیرے رب کی طرف جانا ہو گا۔ ۳۱*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے نہ سچائی کو قبول کیا اور نہ نماز پڑھی۔ ۳۲*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ جھٹلایا اور منہ موڑا۔ ۳۳*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا۔ ۳۴*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس ہے تجھ پر افسوس ہے !
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر افسوس ہے تجھ پر افسوس ہے ! ۳۵*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ ۳۶*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ منی کی ایک بوند نہ تھا جو (رحم میں) ڈالی جاتی ہے۔ ۳۷*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ علقہ ہوا۔ ۳۸* پھر (اللہ نے) اس کا جسم بنایا اور اسے درست کیا۔ ۳۹*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ۴۰* اس سے جوڑا بنایا مرد اور عورت۔ ۴۱*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم سے پہلے لا(نہیں ) کسی ایسی بات کی تردید کے لیے آتا ہے جو اس بات کے خلاف ہو جس کے لیے قسم کھائی جا رہی ہے۔ مثلاً لا واللہ( نہیں۔ اللہ کی قسم) ایسے موقع پر کہا جاتا ہے جب کسی شخص کے کسی خیال کی تردید کرتے ہوئے اپنی بات کو تاکید کے ساتھ پیش کرنا مقصود ہو۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں منکرینِ قیامت کے اس خیال کی کہ جزا و سزا کا معاملہ پیش نہیں آئے گا تردید کرتے ہوئے قیامت کے دن کو امر یقینی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم قیامت کا کتنا ہی انکار کرو اس کا ظہور میں آنا قطعی ہے اور ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان جب کسی برائی یا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا نفس اسے ملامت کرنے لگتا ہے مثال کے طور پر کسی کے ساتھ ناروا سلوک کرنے یا اس پر ظلم کرنے یا جھوٹ بولنے یا فضول خرچی کرنے پر انسان کا ضمیر اگر وہ بالکل مردہ نہیں ہو گیا ہے اسے ضرور ٹوکتا ہے کہ یہ کام تو نے غلط کیا اور اس پر وہ اسے ملامت کرتا ہے۔ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل تو کر دیا لیکن اس کے بعد وہ پچھتا یا کہ یہ کام اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح نفس کا برائی پر ملامت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بھلائی اور برائی میں تمیز کرنا انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے اور وہ اپنے اعمال کے بارے میں اپنے رب کے حضور جوابدہ ہے۔ برائی کے ارتکاب پر وہ سزا کا مستحق ہے اور بھلائی پر اچھی جزا کا۔ نفسِ انسانی کی یہ صفت روزِ جزا کی شہادت پیش کرتی ہے۔ اگر جزا و سزا کا معاملہ پیش آنے والا نہ ہوتا اور انسان اپنے اعمال کے لیے ذمہ دار نہ ہوتا تو برائی کے ارتکاب پر اس کا نفس اسے ملامت نہ کرتا اور نہ کسی دوسرے شخص کے ظلم کرنے پر اس کا نفس اس ظالم کو ملامت کرتا۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ منکرینِ قیامت کا بہت بڑا شبہ یہ تھا کہ جب انسان کا جسم مرنے کے بعدسڑگل جاتا ہے اور وہ بوسیدہ ہڈیاں ہو کر رہ جاتا ہے اور ہڈیاں بھی بکھر جاتی ہیں تو پھر ان کو کس طرح جمع کر کے جسم کی تشکیل کی جا سکے گی۔ اور اس کو زندہ انسان بنایا جائے گا؟ یہ شبہ دراصل اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہ کرنے کی بنا پر پیدا ہو رہا تھا اس لیے اس شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ سوال کیا گیا کہ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کر نے پر قادر نہیں ہیں ؟ ظاہر ہے اللہ کی قدرت کا یہ محدود تصور سراسر غلط ہے اور یہ چیز مشاہدہ میں آتی رہتی ہے کہ اللہ منتشر اجزا کو جمع بھی کر دیتا ہے اور ایک بے جان چیز میں جان بھی ڈال دیتا ہے۔ پھر مردہ انسان کے منتشر اجزاء کو جمع کرنا اور اس کو دوبارہ زندہ کرنا اس کے لیے کیا مشکل ہے ؟
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہڈیوں کو جمع کر کے دوبارہ ان کا ڈھانچہ کھڑا کر دینے ہی پر نہیں بلکہ انسان کے جسم کے ایک ایک جزء کو یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کے پور تک جو بہت نازک ہوتے ہیں دوسری مرتبہ ٹھیک ٹھیک پیدا کرنے پر ہم قادر ہیں۔ انسان کا جسم جیسا تھا ویسا ہی اسے قیامت کے دن عطا یا جائے گا تاکہ جس جسم سے اعمال کا صدور ہوا تھا وہی جسم اعمال کی نوعیت کے مطابق جزا یا سزا پائے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی روز جزا کا انکار کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ جو بد اعمالیاں کرتا رہا ہے آئندہ بھی کرتا رہے اور ایک پابند آئین زندگی اسے گزارنا پڑے کیونکہ فسق و فجور میں دنیا کی لذتیں ہیں جبکہ متقیانہ زندگی میں صبر کی خشکی ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال قیامت کی تاریخ کے بارے میں تھا لیکن جواب میں قیامت کے احوال پیش کئے جا رہے ہیں کیونکہ جس طرح موت کا آنا یقینی ہے جبکہ اس کی تاریخ کسی کو معلوم نہیں ہوتی اس طرح قیامت کا آنا بھی یقینی ہے اگرچہ اس کی تاریخ سوائے اللہ کے کسی کو نہیں معلوم۔ اس لیے اصل بات جس کی ہر شخص کو فکر کرنا چاہیے یہ ہے کہ جب قیامت آئے گی تو یہ حادثہ کتنا زبردست ہو گا اور اس روز آدمی کس طرح نجات پا سکے گا؟ قرآن نے جواب میں اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔
قیام جب برپا ہو گی تو اس کی ہولناکیاں ایسی زبردست ہوں گی کہ انسان ان کو دیکھنے کی تاب نہ لا سکے گا۔ سورۂ ابراہیم میں بھی یہ مضمون گزر چکا کہ : اِنَّما یؤَخِّرُہُمْ لِیوْمٍ تَشْخَصُ فِیہِ الْاَبْصَارُ۔ ’’ وہ تو ان کو اس دن تک کے لیے مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔‘‘( ابراہیم: ۴۲)
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن چونکہ سورج کی چادر لپیٹ دی جائے گی جیسا کہ سورۂ تکویر میں ارشاد ہوا ہے : اِذاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ( جب سورج لپیٹ دیا جائے گا) تو چاند بے نور ہو کر رہ جائے گا گویا کہ اسے گہن لگ گیا ہے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر ہیں لیکن قیامت جب برپا ہو گی تو یہ توازن برقرار نہیں رہے گا۔ سورج اور چاند دونوں اکٹھے ہو جائیں گے۔ ان کے اکٹھا ہونے کی کیا صورت ہو گی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آج تو انسان قیامت کے بارے میں غیر ضروری سوالات میں الجھ رہا ہے لیکن جب وہ گھڑی نمودار ہو گی تو انسان اس کی ہولناکیوں کو دیکھ کر بھاگنا چاہے گا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بھاگنے کے لیے اسے کوئی جائے پناہ نہ مل سکے گی۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے حضور پیشی ہو گی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے بھیجنے سے مراد انسان کے اچھے اور برے اعمال ہیں جن کے نتائج آخرت میں ظاہر ہوں گے اور پیچھے چھوڑنے سے مراد وہ اعمال ہیں جو اسے دنیا میں کرنا چاہیے تھے لیکن اس نے نہیں کئے اور آخرت کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے قاصر رہا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان اپنے آپ پر حجت ہے۔ اس کا وجدان پکار پکار کر کہتا ہے کہ وہ ایک اخلاقی ذمہ داری رکھنے والی مخلوق ہے۔ بھلائی اور برائی دونوں کے اثرات و نتائج الگ الگ ہیں اور یہ کہ وہ اپنے رب کے حضر اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔ خارجی دلائل سے قطعِ نظر انسان کے نفس کی یہ داخلی شہادت جزا و سزا کی ایسی شہادت ہے جس سے کسی انسان کے لیے انکار ممکن نہیں۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا و سزا سے انکار کے لیے انسان بہانے بہت سے تراش سکتا ہے اور بہت کچھ سخن طرازیاں کرسکتا ہے لیکن جزا و سزا کا برحق ہونا اس پر بالکل روشن ہے کیونکہ اس کی فطرت کا نور اسی حقیقت کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت ۱۶ تا ۱۹ جملۂ معترضہ کے طور پر ہیں یعنی سلسلہ کلام کو کاٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بر وقت ایک ہدایت دی گئی ہے۔ آپ جیسا کہ بخاری کی روایت ہے جبرائیل علیہ السلام سے وحی حاصل کرنے میں جلدی کرتے اور آیتوں کو اپنی زبان سے دہراتے تاکہ کوئی بھول نہ ہو۔ اس موقع پر آپ کو ہدایت دی گئی کہ وحی اخذ کرنے کے لیے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جبرائیل کی زبان سے وحی کو پہلے پوری طرح سن لیں اس کے بعد اس کو دوہرائیں۔اس طرح آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ وحی کے معاملہ میں کوئی بھول آپ سے نہیں ہو گی کیونکہ قرآن کو آپ کے سینہ میں محفوظ کرا دینے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔
ایک سلسلۂ کلام میں دوسری بات کا ذکر بظاہر بے ربط ہوتا ہے لیکن خطابت میں جب موقع کی مناسبت سے یا ضرورتاً کوئی دوسری بات کہی جاتی ہے تو اس کا کوئی اثر ربطِ کلام پر نہیں پڑتا۔ امام رازی نے اس بات کو بڑی اچھی مثال سے واضح کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک استاد جب اپنے شاگرد کو سبق پڑھا رہا ہو اور شاگرد ادھر ادھر دیکھنے لگے تو استاد درس کے دوران شاگرد سے کہتا ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھ اور پھر سبق پڑھاتا ہے۔ اب اگر یہ سبق اس جملۂ معترضہ کے ساتھ نقل کیا جائے تو جملۂ معترضہ کی وجہ جس کو معلوم نہیں ہو گی وہ درس کے دوران کی اس بات کو مناسب خیال کرے گا لیکن جس کو صورتِ واقعہ معلوم ہو وہ اس کلام کو حسنِ ترتیب پر محمول کرے گا۔( التفسیر الکبیر ج ۲۹ ص ۲۲۳)
اور حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دورانِ وحی یہ ہدایت دینا کہ آپ اس کو اخذ کرنے میں جلدی نہ کریں قرآن کے اپنی اصل شکل میں محفوظ ہونے کا ثبوت ہے کہ اگر سلسلۂ کلام کو کاٹ کر کوئی بات اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہے تو وہ بھی بعینہ نقل ہوئی ہے۔ اگر قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تصنیف کردہ ہوتا تو اس میں یہ باتیں موجود نہ ہوتیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جمع کر دینے سے مراد قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی تالیف ہے حسنِ ترتیب کے ساتھ۔ اور پڑھا دینے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کو صحت کے ساتھ ادا کرا دینا ہے۔ ان دونوں باتوں کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا تھا ادا کرا دینا ہے۔ ان دونوں باتوں کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا تھا چنانچہ قرآن جس کتابی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے وہ اللہ ہی کا ترتیب دیا ہوا ہے اور کلام کی اندرونی شہادت بھی یہی ہے کہ یہ اللہ ہی کی تالیف و ترتیب ہے کیونکہ نظمِ کلام پر غور کرنے سے کتنے ہی اسرار منکشف ہوتے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں بعض تجدد پسند لوگوں نے قرآن کو اس کی نزولی ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہیں کیونکہ نزول ترتیب کو پوری تفصیل اور قطعیت کے ساتھ جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے بہ تقاضائے حکمت اپنی کتاب کو نزولی ترتیب کے بجائے ایک دوسری ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے تو کسی کو کیا حق ہے کہ وہ اس کی ترتیب کو بدل دے ؟
یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ہو جانا چاہیے کہ قرآن کو خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یا خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جمع کیا تھا ورنہ اس سے پہلے وہ ایک مرتب کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں اللہ کی ہدایت کے مطابق مرتب ہو گیا تھا چنانچہ نماز میں اسی ترتیب کے ساتھ آیتیں اور سورتیں پڑھی جاتی تھیں اور حدیث میں آتا ہے کہ رمضان میں حضرت جبرائیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے ( بخاری کتاب الوحی) یہ دور ظاہر ہے کہ ایک مرتب کتاب ہی کا ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوبکر نے جو خدمت انجام دی وہ یہ تھی کہ قرآن کے جو اجزاء مختلف کاتبانِ وحی کے پاس موجود تھے ان کو انہوں نے جمع کرا دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے جو اجزاء لکھواتے رہے وہ متعدد صحابہ کے پاس موجود تھے۔ ان کتاب شدہ اجزاء کو جمع کرنے کا کام حضرت ابوبکر نے چند صحابہ کے سپرد کیا اور انہوں نے ان کو جمع کیا اور آیات اور سورتوں کی ترتیب وہی رکھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلی آ رہی تھی۔ بالفاظ دیگر قرآن اسی ترتیب کے ساتھ جو متداول ہے حفاظ کے سینوں میں محفوظ تھا اور نماز میں اسی طرح پڑھا جاتا تھا البتہ اس کے کتابت شدہ اجزاء کو مصحف کی شکل میں جمع کرنے کا کام حضرت ابوبکر نے انجام دیا۔ رہا حضرت عثمان کا قرآن کو جمع کرنا تو وہ اس اعتبار سے تھا کہ انہوں نے قریش کے عربی تلفظات کی رعایت کرتے ہوئے مصحف کی کتابت کروائی اور اسے رائج کر دیا۔ قرآن کے بعض الفاظ کا تلفظ مختلف قبائل میں مختلف تھا جس سے معنی کا کوئی فرق واقع نہ ہوتا تھا لیکن ان کے دور میں جب عجمیوں کی کثرت ہو گئی تلفظ کا یہ اختلاف مسئلہ بن گیا اس لیے حضرت عثمان نے ان کے فرق کو مٹایا اور ایک ہی قرأت پر سب کو جمع کر دیا اور اس کے مطابق قرآن کے نسخے تیار کر کے ان کی اشاعت عمل میں لائی گئی۔ تلفظ کے فرق کی مثال لفظ ’ مصطر‘ ہے جو سورۂ غاشیہ آیت ۲۲ میں آیا ہے۔ اس کا تلفظ ’ص‘ سے بھی کیا جا سکتا ہے اور ’س ‘ سے بھی۔ اسی لیے اس لفظ کے اوپر چھوٹا ’س‘ لکھ دیا جاتا ہے مگر اس سے معنی کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی جبر کرنے والا۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ وحی اگرچہ حضرت جبرائیل لے کر نازل ہوتے تھے لیکن کلام چونکہ اللہ تعالیٰ کا تھا اس لیے جبرائیل کی قرأت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قرأت سے تعبیر فرمایا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب جبرائیل وحی نازل کر چکیں تب اے نبی! تم اس کی قرأت کرو۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مزید اطمینان کی بات فرمائی کہ آیات کا مدعا واضح کرنا بھی اللہ کے ذمہ ہے لہٰذا اس پہلو سے بھی فکر کی کوئی بات نہیں۔چنانچہ قرآن میں کتنی آیتیں ایسی ہیں جو بطور تیئین( توضیح و تشریح) نازل ہوئی ہیں نیز آپ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی تھی جس میں تفصیلی احکام وغیرہ دئیے گئے ہیں جو احادیثِ صحیحہ میں محفوظ ہیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے سلسلۂ کلام پھر اسی بات کی طرف مڑتا ہے جو جملۂ معترضہ سے پہلے چلی آ رہی تھی۔ کلاّ( ہرگز نہیں ) کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ۔ یوم جزا کا انکار اس بنا پر نہیں کر تے کہ اس کی دلیل واضح نہیں ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جزا و سزا کی حجت تو تمہارے اپنے نفس میں بھی موجود ہیں لیکن تمہارے انکار کی اصل وجہ دنیا کی محبت اور نقد حاصل ہونے والا فائدہ ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ آخرت کا فائدہ ادھار ہے ادھار کی خاطر نقد فائدہ کو کون چھوڑ دے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ دنیا کا فائدہ بہت مختصر اور عارضی ہے اور آخرت کا فائدہ بہت بڑا اور مستقل ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ روزِ جزا پر ایمان لا کر نیک عمل کرنے والے لوگوں کے چہرے ہوں گے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ قیامت کے دن کامیاب ہونے والے لوگ اپنے رب کو دیکھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہوں گے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عِیاناً ’’تم عنقریب اپنے رب کو کھلی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔‘‘(بخاری کتاب التوحید)
اور اس سلسلہ میں دوسری حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ اور علامہ ابن کثیر نے متعدد حدیثیں نقل کر کے لکھا ہے کہ اللہ کی رویت مومنین کو قیامت کے دن ہو گی۔ اس مسئلہ پر صحابہ تابعین اور اس امت کے سلف کا اتفاق ہے نیز ائمہ اسلام کے درمیان بھی یہ متفق علیہ بات ہے۔
(تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۴۵۰ )
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کافروں کے چہرے ہوں گے اور اپنے جرم کی وجہ سے ان پر اداسی چھائی ہوئی ہو گی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو کڑی سزا ملنے والی ہے جو ان کی کمر توڑ کر رکھ دے گی۔ بالفاظ دیگر ناقابلِ برداشت مصیبت ان پر ٹوٹ پڑے گی۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم لوگوں کا یہ خیال کہ آدمی مر کر بالکل فنا ہو جاتا ہے ہرگز صحیح نہیں۔ موت کے بعد جسم توسڑگل جاتا ہے لیکن روح باقی رہتی ہے اور جسم سے جدا ہوتے ہی اپنے رب کی طرف چلی جاتی ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جاں کنی کی حالت کا نقشہ ہے جو پیش کیا گیا ہے تاکہ انسان میں یہ احساس پیدا ہو کہ اسے بہر حال ایک دن مرنا ہے اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرنا ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ جب کسی مریض کو آخری حالت میں دیکھ لیتے ہیں اور علاج معالجہ سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں تو جھاڑ پھونک کرنے والے کو بلاتے ہیں تاکہ اس تدبیر سے اسے افاقہ ہو۔ مگر جب موت کا وقت آ جاتا ہے تو کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ چونکہ عربوں میں جھاڑ پھونک کا رواج تھا اس لیے اس کا خاص طور سے حوالہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ اسلام نے جھاڑ پھونک ( رُقیہ) کو جس میں مشرکانہ کلمات ہوتے ہیں حرام اور باطل قرار دیا اور شفا یابی کے لیے دعائیہ کلمات کی تعلیم دی جن میں توحید کا اقرار اور اللہ پر توکل کا اظہار ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آدمی کو یقین ہو گا کہ اس کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ پہنچا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس کی بے بسی کی تصویر ہے اپنی جن ٹانگوں کے ذریعہ وہ سرگرمیاں دکھاتا تھا وہ موت کے وقت اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی روح جسم سے پرواز کر کے اپنے رب کے پاس پہنچ جائے گی۔ مراد عالم برزخ میں پہنچنا ہے جو کافروں کی روحوں کے لیے بمنزلہ حوالات( قید خانہ) ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس شخص کی عملی زندگی کی تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ وہ دنیا سے رخصت ہو رہا ہے تو اپنے ساتھ کیا لے کر رخصت ہو رہا ہے۔ روزِ جزا کو اس نے سچ نہیں مانا تھا اور نہ اللہ کی عبادت سے اسے کوئی سروکار رہا چنانچہ اس نے نماز جیسے اہم ترین فریضہ سے بے اعتنائی برتی۔
واضح ہوا کہ روزِ جزا پر ایما ن لانے کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے اور قرآن کافروں کا یہ حال بتاتا ہے کہ وہ نماز کے تارک ہوتے ہیں لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بے نمازی ہے۔ اگر وہ قرآن کی ان آیتوں کو غور سے پڑھیں تو چونک جائیں اور نماز کی انہیں توفیق ہو۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جھٹلایا آخرت کو اور منہ موڑا اللہ کی عبادت و اطاعت سے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اس کا گھمنڈ ہے جو قبول حق سے اسے روک رہا ہے۔ ایسا شخص نصیحت کا کوئی اثر قبول نہیں کرتا بلکہ اس سے منہ موڑ کر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیتا ہے اور اپنی خوشحالی پر نازاں ہوتا ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ’اَولیٰ لَکَ‘ جیسا کہ جو ہری نے صراحت کی ہے تہدید اور وعید کا کلمہ ہے۔ اصل میں یہ وَلِی سے ہے جس کے معنی قریب ہونے کے ہیں۔ اصمعی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں ہلاک کرنے والی چیز قریب ہو گئی۔ یعنی مصیبت نازل ہو گئی۔( الصحاح للجوھری ج ۶ ص ۲۵۳۰)
ان دو آیتوں میں اس شخص کی اس روش پر افسوس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ کلمہ چار مرتبہ آیا ہے جو اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ ایسے شخص کے لیے ہلاکت پر ہلاکت ہے۔ دنیا میں بھی ہلاکت اور عالم برزخ میں بھی ہلاکت پھر میدانِ حشر میں بھی ہلاک اور انجامِ کار دوزخ جہاں ہمیشہ کے لیے ہلاکت میں رہنا ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مومنوں نوٹ ۱۰۲۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کا گھمنڈ اور دوسری زندگی سے اس کا انکار کس بنیاد پر ہے ؟ وہ اپنی اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ وہ منی کی ایک حقیر بوند تھا جسے رحم میں ڈالنے کا عمل انسان نے کیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی تخلیق مختلف مراحل سے گزار کر کی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حج نوٹ ۹ اور سورۂ مومنون نوٹ ۱۴۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خون کے تھِکّے کو جسمِ انسانی کی شکل دی اور پھر اس کے نوک پلک درست کئے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مزید برآں۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جوڑا بنانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اس کے خالق نے اس کو حکمت و مصلحت اور ایک منصوبہ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
٭٭٭
(۷۶)۔سورہ الانسان
(۳۱ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
پہلی آیت میں انسان کی اس حالت کا ذکر ہوا ہے جب وہ کچھ بھی نہ تھا۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ الانسان‘ ہے۔ اس کا دوسرا معروف نام ’’ الدہر‘‘(زمانہ) بھی ہے اس مناسبت سے کہ یہ لفظ پہلی آیت میں آیا ہے۔ جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں سورتوں کے نام موضوع کے لحاظ سے نہیں ہوتے بلکہ خاص الفاظ (Significant words) کی مناسبت سے شناخت کے لیے ہوتے ہیں۔
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورِ اول میں نازل ہوئی ہو گی۔
مرکزی مضمون
جزا و سزا ہے لیکن جزا (انعام)کا پہلو غالب ہے تاکہ ان ابدی انعامات کو حاصل کرنے کی لوگوں کو ترغیب ہو اور وہ نیک کردار بنیں۔
نظم کلام
آیت ۱ تا ۳ میں انسان کی تخلیق اور اس کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۴ میں کافروں کے لیے سخت سزا کا اعلان ہے۔
آیت ۵ تا ۲۲ میں نیک عمل لوگوں کا عظیم الشان صلہ بیان ہوا ہے۔
آیت ۲۳ تا ۲۶ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر، نماز اور تسبیح کی ہدایت کی گئی ہے۔
آیت ۲۷ اور ۲۸ میں ان لوگوں کو جو دنیا پر فریفتہ ہو کر آخرت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ متنبہ کیا گیا ہے۔
آیت ۲۹ تا ۳۱ میں قرآن کی نصیحت کو قبول کرنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ لوگ اللہ کی رحمت میں داخل ہوں۔ لیکن جو لوگ انکار پر مصر رہیں گے انہیں دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انسان پر زمانۂ مدید میں ایک وقت ایسا نہیں گزرا جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے پیدا کیا ۲* تاکہ اسے آزمائیں چنانچہ ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو راہ دکھا دی۔ ۴* چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔ ۵*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ۶*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ نیک لوگ ۷* ایسی شراب کے جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک چشمہ ہو گا۸* جس سے اللہ کے بندے ۹* پئیں گے۔ اور اس کی شاخیں (جہاں چاہیں گے )نکال لیں گے۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں۔ ۱۱* اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ۱۲*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ۱۳*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن کا خوف رکھتے ہیں جو ترش رو اور نہایت سخت ہو گا۔ ۱۴*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ نے ان کو اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور ان کو تازگی اور سرور بخشا۔ ۱۵*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے صبر کے بدلہ میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطاء کیا۔ ۱۶*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں وہ تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ۱۷* نہ انہیں دھوپ کی حدت محسوس ہو گی اور نہ سردی کی شدت۔ ۱۸*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے۔ ۱۹* اور اس کے خوشے جھک کر لٹک رہے ہوں گے۔ ۲۰*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے آگے چاندی کے برتن۔ ۲۱* اور شیشے کے گلاس گردش میں ہوں گے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ شیشے بھی وہ جو چاندی کے ہوں گے ۲۲* اور ان کے پیمانے وہ خود مقرر کریں گے۔ ۲۳*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں زنجبیل (سونٹھ) کی آمیزش ہو گی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک چشمہ ہو گا ۲۴* جس کو سلسبیل کہا جاتا ہے۔ ۲۵*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پاس ایسے لڑکے گردش میں ہوں گے جو ہمیشہ اسی سِن کے رہیں گے۔ ۲۶* تم ان کو دیکھو تو خیال کرو یہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ ۲۷*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں جدھر بھی دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم بادشاہی دکھائی دے گی۔ ۲۸*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے اوپر باریک ریشم کے سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے۔ ۲۹* ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ ۳۰ * اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ ۳۱*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے تمہاری جزا اور تمہاری سعی مقبول ہوئی۔ ۳۲*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) ۳۳* ہم نے تم پر قرآن بتدریج نازل کیا ہے۔ ۳۴*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا تم اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ ۳۵* اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکر ے کی بات نہ مانو۔۳۶*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کرو صبح و شام ۳۷*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ کرو۔ ۳۸* اور رات کے طویل حصہ میں اس کی تسبیح کرو۔ ۳۹*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جلد حاصل ہونے والی دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور ایک بھاری دن کو اپنے پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ ۴۰*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں۔ اور ہم جب چاہیں ان کی صورتیں بدل دیں۔ ۴۱*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کی راہ اختیار کر لے۔۴۲*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم نہیں چاہ سکتے جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔ ۴۳* یقیناً اللہ علم والا حکمت والا ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے۔ ۴۴* اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ۴۵*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نے زمین پر جب سے آنکھیں کھولی ہیں وہ عروج اور کمالات کے جوہر دکھا رہا ہے گویا زمین پر انسانی آبادی کا یہ دور گزشتہ ادوار کے مقابلہ میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے اور انسان اپنی اس دنیوی ترقی پر فخر کرتا ہے لیکن اپنے ماضی پر غور نہیں کرتا کہ وہ آغاز میں کیا تھا اور اس کے خالق نے اسے کیا بنا دیا۔ ایک وقت وہ تھا جبکہ انسان سڑی ہوئی مٹی میں ڈھل رہا تھا اور سڑی ہوئی مٹی کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہے۔ پھر آدم کی تخلیق کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ نطفہ سے جو پانی کی نہایت حقیر بوند ہوتی ہے چلایا گیا۔ ہر شخص پر ایک وقت گزر چکا ہوتا ہے جبکہ وہ ایسی چیز تھا جو نہ وقیع تھی اور نہ قابلِ ذکر۔ کیا انسان کا یہ ماضی اور اس کی یہ حقیقت اس بات کی یاددہانی نہیں ہے کہ اس کے رب نے اپنے کرشمۂ قدرت سے ذرہ کو آفتاب بنا دیا ہے ؟
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ نطفہ بجائے خود مخلوط ہوتا ہے یعنی اس میں کئی قسم کی رطوبتیں ہوتی ہیں اور موجودہ فیزیالوجی( Physiology) کے رو سے ایک رطوبت(Liquid) وہ ہوتی ہے جس میں جرثومۂ حیات(Spermatozoa) ہوتے ہیں اور یہ جرثومہ خصیوں سے نکل کر کیسۂ منی(Seminal Vesicles) میں جمع ہو جاتے ہیں اور تیسری رطوبت پروسٹیٹ گلینڈ(Prostate gland )کی ہوتی ہے جو اس میں خاص بو پیدا کرتی ہے اور چوتھی رطوبت وہ غدود(glands) پیدا کرتے ہیں جو پیشاب کی نالی کے پاس ہوتے ہیں اور اسے لعابدار بناتے ہیں۔ نطفہ ان سب رطوبتوں سے مخلوط ہوتا ہے۔ پھر جب یہ نطفہ رحم میں بیضہ(Ovum) سے مل جاتا ہے تو بیضہ بار آور(Fertilized) ہو جاتا ہے یعنی حمل قرار پاتا ہے۔ اس طرح انسان کی پیدائش کا آغا زمرد کے مادۂ تولید( نطفہ) کے عورت کے مادۂ تولید (بیضہ) سے مخلوط ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کی تخلیق اس لیے ہوئی ہے تاکہ اس کا امتحان لیا جائے۔ اسی لیے اس کو سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کی گئی ہیں۔ ان قوتوں نے اسے سوجھ بوجھ رکھنے والی مخلوق بنا دیا ہے اور اسے یہ شعور بخشا ہے کہ وہ خیر و شر میں تمیز کرے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے اس پر ہدایت کی راہ واضح کر دی۔ فطرت کی رہنمائی کے ذریعہ بھی، آفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعہ بھی اور سلسلۂوحی و رسالت کے ذریعہ بھی۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اسے اختیار ہے کہ اللہ کا شکر گزار بندہ بنے یا ناشکرا اور کافر بنے۔ جب انسان کا امتحان لینا مقصود قرار پایا تو اس کو اپنی مرضی کے مطابق شاکر یا کافر بننے کی آزادی بھی بخشی گئی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر بننے کا اختیار دیا تو گیا ہے لیکن جو لوگ کافر بنیں گے وہ یاد رکھیں کہ وہ امتحان میں ناکام ہوئے۔ انہوں نے اپنی خواہشات کے پیچھے چل کر غلط راہ کا انتخاب کیا اس لیے آخرت میں وہ سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔ وہ زنجیروں میں جکڑ دئے جائیں گے ، طوق ان کے گلے میں پڑے ہوں گے اور وہ بھڑکتی آگ میں جھونک دئے جائیں گے کیسی دردناک سزائیں ہیں اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنے والوں کے لیے !
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ’ ابرار‘ بَرٌّ کی جمع ہے اور یہ لفظ بَرٌّ سے ہے جس کے معنی صدق و وفا اور اطاعت شعاری کے ہیں۔ جس شخص کی یہ صفت ہو اس کو اردو میں نیک کہتے ہیں۔ آیت کا سیاق و سباق(۔Context)دلیل ہے کہ ابرار سے مراد اللہ کے وہ بندے ہیں جو اس کے شکر گزار اور اطاعت شعار بن کر رہے اور جنہوں نے آخرت کو مقصد بنا کر نیک عملی کی زندگی بسر کی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کافور جنت میں ایک چشمہ ہو گا جس کو دنیا کے کافور پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس کا تصور اس طرح قائم ہوتا ہے کہ وہ صفائی اور ٹھنڈک میں کافور کی طرح ہو گا نیز اس کی خوشبو اور اس کا ذائقہ ایسا ہو گا کہ پینے والے اس سے سرور حاصل کریں گے۔ اس کی تھوڑی سی مقدار ہی شراب کو لذت بخش بنانے کے لیے کافی ہو گی اس لیے شراب کے جام میں اس کی آمیزش ہو گی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ عباد سے مراد اللہ کے مخلص بندے ہیں۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہو گا کہ وہ اس چشمہ پر آئیں اور پھر اس سے بہرہ مند ہوں بلکہ یہ بات ان کے اختیار میں ہو گی کہ وہ جہاں چاہیں اس چشمہ کو جاری کر دیں۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نذر یہ ہے کہ آدمی اپنے اوپر اللہ کے تقرب کا کوئی کام واجب کر لے مثلاً کسی نعمت کے حاصل ہو جانے پر یہ عہد کر کہ میں اتنے روزے رکھوں گا یا منت مانے کہ اگر مرض سے شفا یاب ہوا تو اتنا مال صدقہ کروں گا۔ایسی نذر کا پورا کرنا واجب ہے کیونکہ جو عہد اللہ کے ساتھ کیا گیا وہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس کو پورا کر کے ہی آدمی اپنے صداقت شعار اور نیک ہونے کا ثبوت دے سکتا ہے۔
اسلام نے نذر ماننے کی ترغیب نہیں دی۔ مغنی میں ہے :
وَلِاَنَّ النَّذْرَلَوْکَانَ مُسْتَحَبّاً لَفَعَلَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَاَفَاضِلُ اَصْحَابِہِ۔’’اور اس لیے کہ نذر اگر مستحب ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جلیل القدر صحابہ اس پر عمل کرتے۔‘‘ (المغنی ج ۹ص۱)
اور فقہ السنہ میں ہے :
وَالْاِسْلَامُ وَاِنْ کَانَ قَدْشَرَعَۃَ اِلاَّ اِنَّہٗ لاَ یسْتَحِبُّہٗفَعْن ْابْنِ عُمَرَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ النَّذْرِ وَقَالً! اِنَّہٗ لاَ یأتِیْ بِخَیرٍ وَّاِنَّمَا یسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیلِ رَاوَاہُ الْبُخَارِیْ وَمُسْلِمْ۔ ’’ اسلام نے اگرچہ نذر کو مشروع ( جائز) قرار دیا ہے لیکن یہ مستحب نہیں ہے۔ ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا وہ کسی خیر کا موجب نہیں البتہ اس کے ذریعہ کچھ مال بخیل سے نکلوایا جاتا ہے۔‘‘( فقہ السنہ للسید سابق ج ۳ ص ۳۵)
اور یہ بھی واقعہ ہے کہ شرعی احکام کی تکمیل کے بعد نذر کے لیے کم ہی گنجائش رہ گئی ہے کیونکہ ان احکام کی پابندی لازم اور مقدم ہے نیز نفل نماز اور صدقات بھی بلا تحدید ادا کئے جا سکتے ہیں پھر نذر کی صورت میں اپنے اوپر کچھ چیزیں واجب کرنا اپنے کو مشکلات ہی میں ڈالنا ہے اس لیے اسلام نے نذر ماننے کی ترغیب نہیں دی البتہ اگر کوئی شخص نذر مان لے تو اس کو پورا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ نذر عبادت ہے اس لیے اللہ ہی کے لیے نذر مانی جا سکتی ہے۔ کسی اور کے نام کے نذر( منت) ماننا خواہ وہ دیوی دیوتا ہو یا پیر اور ولی شرک ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی محبت میں وہ ناداروں کی مدد کرتے ہیں۔ حاجتمندوں کو کھانا کھلانا اس کی اولین ضرورت کو پورا کرنا ہے اس لیے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے ورنہ ان کو کپڑے پہنانا، ان کے علاج معالجہ اور بے گھر ہونے کی صورت میں ان کی رہائش کا انتظام کرنا سب نیکی کے کام ہیں اور ضروری بھی۔
اس زمانہ میں قیدیوں کے لیے باقاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے جہاں کھانے کا بھی انتظام ہو اس لیے ان کو کھانا کھلانے کی خاص طور سے ترغیب دی گئی قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم اور جنگی قیدی ہوں یا کسی جرم میں گرفتار کر لئے گئے ہوں۔ اخلاق و انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان کی بھوک کی تکلیف کو دور کیا جائے اور ان کے لیے کھانا مہیا کیا جائے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ان محتاجوں کی مدد اس لیے نہیں کرتے کہ ان سے کسی قسم کا بدلہ ملے اور نہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ہو اور ان کا شکریہ ادا کیا جائے بلکہ ان تمام باتوں سے بے نیاز ہو کروہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے ان کی امداد و اعانت کرتے ہیں۔ اور صدقہ حقیقۃً وہی ہے جو خالصتہً اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے۔ نہ تو اس کا بدلہ چاہا جائے اور نہ نام و نمود مقصود ہو، جہاں ریا کا شائبہ آ گیا وہاں اجر جاتا رہا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو نیکی بھی ہم کرتے ہیں آخرت کو مقصود بنا کر کرتے ہیں۔ قیامت کے دن کی مصیبت کے تصور سے ہم لرزاں رہتے ہیں اور اس دن کی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کو ہم اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔
قیامت کا دن ترش رو ہو گا یعنی وہ دن ایسا ہو گا کہ ہر مجرم کو ترش رو بنا دے گا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ان لوگوں کو جن کے اوصاف اوپر بیان ہوئے قیامت کے دن کی آفت سے محفوظ رکھے گا اور انہیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی بلکہ ان کے چہرے ترو تازہ ہوں گے اور ان کے دل شاداں و فرحاں کہ وہ دنیا کے امتحان سے کامیاب نکل آئے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ جنت مفت میں ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ صبر کے بدلہ میں ملے گی۔ شرعی احکام کی پابندی اور نیکی اور تقویٰ کی زندگی یقیناً صبر آزما ہوتی ہے لیکن اس امتحانی مرحلہ سے کامیابی کے ساتھ گزرنے والوں کے لیے ابدی جنت کے دروازے کھلتے ہیں۔
جنت کی ہر چیز اعلیٰ درجہ کی ہو گی۔ لباس بھی نہایت نفیس اور خالص ریشم کے ہوں گے۔ جنت کی نعمتوں میں جو آگے بیان ہوئی ہیں لباس کا ذکر سب سے پہلے ہوا۔ گویا سب سے پہلا اعزاز جو اہل جنت کو عطا کیا جائے گا وہ لباسِفاخرہ ہو گا۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیتوں میں جنت کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے کہ کیسی شاندار ہو گی وہ جنت اور کس شان سے رہیں گے اس میں جنتی! جنت کی یہ جھلک قرآن ہی نے دکھائی ہے اور یہ اس کتاب کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہ دنیا ہی میں جنت کی سیر کراتی ہے۔
اہل جنت تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے اور یہ تعبیر ہے ان کے شاہانہ انداز سے جنت میں رہنے کی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کی فضا بالکل خوشگوار ہو گی۔ سردی اور گرمی کی کوئی تکلیف وہاں محسوس نہ ہو گی۔ ہر چیز کمال درجہ اعتدال پر ہو گی۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کے درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے۔ اس سے جنت کے پر فضا اور راحت بخش ہونے کا تصور قائم ہوتا ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کے درختوں کے خوشے اس طرح لٹک رہے ہوں گے کہ ان کو بہ آسانی توڑا جا سکے۔ ان کے پھل حاصل کرنے کے لیے کوئی زحمت کرنا نہیں ہو گی۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ سورۂ زخرف آیت ۷۱ میں بیان ہوا ہے کہ جنت میں سونے کے برتن ہوں گے اور یہاں چاندی کے برتنوں کا ذکر ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ جنت میں چاندی کے بھی برتن ہوں گے اور سونے کے بھی۔
واضح رہے کہ دنیا میں چاندی اور سونے کے برتنوں کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ یہ سامانِ عیش جنت ہی کے لیے موزوں ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پیالے شیشے کے ہوں گے اور شیشہ وہ جو چاندی کا ہو گا۔ بالفاظ دیگر ایسی چاندی کے پیالے ہوں گے جو شیشہ کی طرح شفاف(Transparent) ہو گی۔ یہ جنت کی چاندی کی خصوصیت ہو گی دنیا میں ایسی چاندی کا وجود نہیں ہے۔ اور جس چیز کا وجود نیا میں نہیں ہے اس کا تصور دے کر قرآن نے اپنے پیرووں کو کیسی روحانی پرواز بخشی ہے !
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مفہوم کچھ اس طرح سمجھ میں آتا ہے کہ جنت کے گلاس ایڈجسٹ کرنے کے قابل(Adjustable) ہوں گے۔ وہ ان کا جو پیمانہ چاہیں گے مقر ر کریں گے تاکہ وہ اپنی مطلوبہ مقدار میں مشروب حاصل کرسکیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ زنجبیل(سونٹھ) ایک خوشبو دار اور حرارت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اس سے جنت کے چشمہ کا ایک ہلکا سا تصور قائم ہوتا ہے ورنہ دنیا کی سونٹھ پر جنت کی زنجبیل کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ زنجبیل کی آمیزش سے جنت کی شراب کیف آور بنے گی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ سلسبیل کے لغوی معنی ہیں آسانی سے حلق میں اترنے والا اور رواں ، دواں۔ زنجبیل کے چشمہ کا یہ نام اس کی خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے کہ اس میں کسی طرح کی تلخی نہیں ہو گی بلکہ اس کا پانی بڑی آسانی سے حلق سے اترے گا۔
جنت کی دوسری نعمتوں کی طرح اس کے اس چشمہ کی خصوصیت کا بھی صحیح اندازہ ہم دنیا میں نہیں قائم کرسکتے جن لوگوں کو جنت کی سعادت حاصل ہو گی وہی اس کی خصوصیات سے آشنا ہو سکیں گے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ طور نوٹ ۲۲ میں گزر چکی۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لڑکے اپنے مال اور اپنی نظامت کا ایسا منظر پیش کریں گے کہ گویا وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کی طرح جنت میں نپی تلی نعمتیں نہیں ملیں گی بلکہ ہر شخص وہاں نعمتوں سے مالا مال ہو گا اور شاہانہ انداز کی شان و شوکت اسے حاصل ہو گی اور جنت کا چپہ چپہ اسے عزت و سرفرازی بخشنے والا ہو گا۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ کہف نوٹ ۴۸ میں گزر چکی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ سورۂ کہف آیت ۳۱ میں بیان ہوا ہے کہ ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور یہاں چاندی کے کنگن پہنائے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ اہل جنت کو دونوں ہی قسم کے کنگن پہنائے جائیں گے چاندی کے بھی اور سونے کے بھی۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ گویا اللہ کا فضلِ خاص ہو گا کہ وہ ان شرابوں کے علاوہ جس کا ذکر اوپر ہوا ایک خاص قسم کا مشروب جو نہایت ہی پاکیزہ ہو گا انہیں پلائے گا۔ اس کی لذت اور اس کا کیف کیا ہو گا اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ صلہ اور انعام ہے ان اعمال کا جو دنیا میں تم نے انجام دئے اور تمہاری سعی تمہارے رب کی نظر میں قابلِ قدر ٹھہری اور مقبولِ بارگاہ ہوئی۔ یہ مبارکباد کا بہت بڑا اعزاز و اکرام ہو گا جس سے اہلِ جنت کو نوازا جائے گا۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اب خطاب کا رخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو رہا ہے اور آپ کو ہدایات دی جا رہی ہیں اور آپ کے توسط سے آپ کے پیرووں کو۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۴۰۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ان کافروں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے اس کا صبر کے ساتھ انتظار کرو۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ آثِم( گنہگار) یعنی ناجائز کاموں کا ارتکاب کرنے والا اور کَفُورا( ناشکرا) یعنی اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کرنے والا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص گناہ کی زندگی گزار رہا ہو وہ تم سے گناہ کے کام کرنے کے لیے ہی کہے گا اور جو اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والا ہو وہ انکارِ نعمت اور کفر ہی کی باتیں کرے گا تو ایسے کسی بھی شخص کی باتوں میں تم مت آؤ اور اس کا دباؤ قبول نہ کرو۔
اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن اصل مخاطب آپ کے پیرو ہیں۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح و شام اللہ کا نام یاد کرنے کا حکم عمومیت کے ساتھ دیا گیا ہے یعنی اللہ کی حمد و تسبیح کے کلمات صبح و شام دل کو حاضر رکھ کر زبان سے ادا کرتے رہو۔ اس حکم کی تعمیل کی بہترین صورت صبح و شام کی نمازیں قرار پائیں۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ نماز کا اہم رکن ہے اس لیے نماز کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رات میں بھی نماز پڑھو۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ آغاز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے طویل حصہ میں اللہ کی تسبیح کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد سورۂ مزمل میں رات کا بڑا حصہ نماز میں گزارنے کا حکم دیا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ مزمل نوٹ ۲ اورنوٹ ۴۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کافروں کو دنیا کا مفاد اتنا عزیز ہے کہ ان کو قیامت کے دن کی کوئی پرواہ نہیں حالانکہ وہ دن بڑا سخت ہو گا۔ ہر مجرم اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو گا اور اپنی نجات کے لیے سخت پریشان ہو گا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب ہم ہی نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں تو ہم اگر چاہیں تو ان کی صورتیں مسخ بھی کرسکتے ہیں پھر وہ اپنے رب کو بھول کر اپنی موجودہ خلقت پر نازاں کیوں ہیں اور اس سے ڈرتے کیوں نہیں ؟
اس موقع پر سورۂ یسٰین آیت ۶۷ اور نوٹ ۷۲ بھی پیشِ نظر رہے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن سر تا سر نصیحت ہے اور اس نصیحت کو قبول کر کے آدمی اپنے رب تک پہنچنے کی راہ اختیار کرسکتا ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ تکویر نوٹ ۳۰۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے کس بندے کو رحمت میں داخل کیا جائے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق کرتا ہے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالمین سے مراد توحید اور آخرت کا انکار کرنے والے لوگ ہیں جن کی زندگیاں اس انکار کے نتیجہ میں بالکل غلط ہو کر رہ گئیں اور وہ گمراہ ہوئے۔ ایسے لوگوں کو دردناک سزا دینا اللہ کی حکمت اور اس کے عدل کا تقاضا ہے اس لیے اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔
٭٭٭
(۷۷)۔سورۂ المرسلٰت
(۵۰ آیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
تعارف
نام
پہلی آیت میں مُرسلات( ہواؤں ) کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ اَلْمُرْسَلاَت‘ ہے
زمانۂ نزول
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دور کے آخری حصہ میں نازل ہوئی ہو گی جبکہ کفار مکہ شدت سے روز جزا کو جھٹلا رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور دعوتِ اسلامی کے خلاف چال چلنے لگے تھے۔
بخاری کی حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم مِنٰی کے غار میں تھے اور سورۂ مرسلات نازل ہوئی۔ آپ اسے تلاوت فرما رہے تھے اور ہم اسے آپ کی زبان سے سیکھ رہے تھے۔ ( بخاری کتاب التفسیر)
مرکزی مضمون
بدلہ کے دن کا انکار کرنے والوں کو ان کے بُرے انجام سے خبردار کرنا اور اللہ سے ڈرنے والوں کے حسنِ انجام کو پیش کرنا ہے تاکہ منکرین ہوش میں آئیں اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کی فکر کریں۔
اس سورہ میں منکرین کے لیے اِنذار ( تنبیہ) کا پہلو غالب ہے جب کہ سابق سورہ( الانسان) میں نیکو کاروں کے لیے خوشخبری کا پہلو غالب ہے۔
نظم کلام
آیت ۱ تا ۷ میں تیز ہواؤں کو قیامت کی تائید میں پیش کیا گیا ہے۔
آیت۸ تا ۱۵ میں قیامت کی ہولناک تصویر پیش کی گئی ہے۔
آیت ۱۶ تا ۲۸ میں یوم جزا کی تائید میں شواہد پیش کرتے ہوئے اس کے حق ہونے پر دعوتِ فکر دی گئی ہے۔
آیت ۲۹ تا ۴۰ میں جھٹلانے والوں کو قیامت کے دن جن حالات سے سابقہ پیش آئے گا اس کی تصویر پیش کی گئی ہے۔
آیت ۴۱ تا ۴۴ میں متقیوں کے حسنِ جزا کی تصویر پیش کی گئی ہے۔
آیت ۴۵ تا ۵۰ میں جھٹلانے والوں کی مجرمانہ روش پر انہیں سخت تنبیہ کی گئی ہے۔
ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ رحمن و رحیم کے نام سے
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں۔ ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تندو تیز چلنے لگتی ہیں۔ ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو بادلوں کو پھیلاتی ہیں۔ ۳*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر( ان کو) الگ الگ کرتی ہیں۔ ۴*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر( دلوں میں ) یاد دہانی ( کی بات) ڈالتی ہیں۔ ۵*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ حجت قائم کرنے یا خبردار کرنے کے لیے۔ ۶*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور واقع ہو گی۔ ۷*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔ ۸*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان پھٹ جائے گا۔ ۹*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے۔ ۱۰*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب رسولوں کے لیے وقت مقرر ہو گا۔ ۱۱*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کس دن کے لیے تاخیر ہو رہی ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کے دن کے لیے۔ ۱۲*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ فیصلہ کا دن کیا ہے ؟۱۳*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۱۴*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے اگلے لوگوں کو ہلاک کرتے رہے۔ ۱۶*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بعد والوں کو ان کے پیچھے ہلاک کرتے رہے۔ ۱۷*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں۔ ۱۷*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۱۸*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟ ۱۹*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ۲۰*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مقررہ مدت تک۔ ۲۱*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے ایک منصوبہ بنایا اور ہم کیا ہی خوب منصوبہ بنانے والے ہیں۔ ۲۲*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ رکھنے والی نہیں بنایا؟
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ زندوں اور مردوں کو۔ ۲۳*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس میں اونچے پہاڑ رکھے۔ ۲۴* اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا۔ ۲۵*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو اس چیز کی طرف جسے تم جھٹلاتے رہے۔ ۲۶*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو اس سایہ کی طرف جو تین شاخوں والا ہے۔ ۲۷*
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں نہ چھاؤں ہے اور نہ وہ شعلوں کی لپٹ سے بچائے گا۔ ۲۸*
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آگ محل کی طرح ( اونچی) چنگاریاں پھینکتی ہو گی۔ ۲۹*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا وہ زرد اونٹ ہیں۔ ۳۰*
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے۔ ۳۱*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ عذر پیش کر سکیں۔ ۳۲*
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۳۳*
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ فیصلہ کا دن ہے۔ ہم نے تم کو بھی جمع کر دیا ہے اور تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی۔ ۳۴*
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم کوئی چال چل سکتے ہو تو میرے مقابلہ میں چل دیکھو۔ ۳۵*
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ متقی اللہ سے ڈرنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔ سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ۳۶*
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی پسند کے میووں میں۔ ۳۷*
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اعمال کے بدلہ میں۔ ۳۸*
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نیکو کاروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ ۳۹*
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۴۰*
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اور مزے کر لو تھوڑے دن۔ تم مجرم ہو۔ ۴۱*
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جھکو تو جھکتے نہیں ہیں۔ ۴۲*
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس کے بعد وہ کس کلا م پر ایمان لائیں گے ؟ ۴۳*
تفسیر
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم یہاں شہادت ( گواہی) کے معنی میں ہے یعنی یہ ہوائیں جن کی قسم کھائی گئی ہے روزِ جزاء کی تائید کرتی ہیں جس سے قرآن خبردار کر رہا ہے۔
ہوائیں یونہی نہیں چلتیں بلکہ ان کو چلایا جاتا ہے اور ان کی وہ کیفیت جبکہ وہ لگاتار چلتی ہیں اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کو اس ہستی نے جس کا ان پر کنٹرول ہے ایک خاص مقصد سے بھیجا ہے اور وہ ہے بارش۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پھر ان ہواؤں کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور کبھی وہ آندھی اور کبھی طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوائیں سمندر سے اٹھنے والے بادلوں کو فضا میں اس طرح پھیلاتی ہیں کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں میل کی دوری پر پہنچ جاتے ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوائیں بادلوں کو الگ الگ کر دیتی ہیں یعنی ان کا ایک حصہ ایک خطۂ زمین کی طرف لے جاتی ہیں تو ان کا دوسرا حصہ دوسرے خطۂ زمین کی طرف تاکہ اس منصوبہ کے مطابق بارش ہو جو ہواؤں کو چلانے والی ہستی نے بنایا ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ان ہواؤں کی حرکات اور کیفیات دلوں کو جگاتی اور ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں اور اپنے رب حقیقی کی خشیت پیدا کرتی ہیں۔ جب ہوائیں آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تو ہر شخص کو اگر اس کا ضمیر بالکل مردہ نہ ہو گیا ہو خدا یاد آ جاتا ہے۔ بجلی کی کڑک اور چمک اللہ کا خوف پیدا کرتی ہے کہ وہ عذاب کا کوڑا برسا سکتا ہے۔ دوسری طرف ہوائیں بادلوں کو کھینچ کر لاتی ہیں اور بارانِ رحمت کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنی خاموش زبان میں اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ رب کائنات جس کے اشارہ پر وہ یہ تصرفات کرتی ہیں ایک زبردست ہستی ہے جو سخت سزا دینے پر قادر ہے اس لیے اس کی نافرمانی کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینا ہے اور اس کی فرمانبرداری کر کے ہی انسان اس کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے اس سے جزا و سزا کے اس تصور کی تائید ہوتی ہے جو قرآن پیش کرتا ہے۔
یہ ہوائیں رب العٰلمین کی قدرت اور حکمت کا نشان بن کر ظاہر ہوتی ہیں۔ ہواؤں کا ہے عالمگیر نظام اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے بلکہ اس کا ایک خدا ہے اور وہ ایک نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہوائیں بھی اس نظام ہی کے تحت ہیں۔ یہ نظام خدا کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی قدرت سے ہرگز یہ بعید نہیں کہ وہ قیمت برپا کرے اور انسان کو دوبارہ اٹھائے۔ اور اس کی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ انصاف کا دن قائم کر ے اور انسان اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائے ورنہ یہ زندگی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے اور زندگی کا بے مقصد ہونا خلافِ حکمت ہے۔
مختصر یہ کہ تیز چلنے والی یہ ہوائیں اپنے گوناگوں اور عجیب و غریب تصرفات سے انسان کو اپنے رب کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور ایک عزیز( زبردست) اور حکیم ہستی کا احساس اس میں پیدا کرتی ہیں اور اسی احساس کے نتیجہ میں جزا و سزا کا تصور ابھرتا ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہوائیں اپنی حرکات و کیفیات سے اللہ کی وحدانیت، اس کی ربوبیت ، اس کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کے مدبر کائنات ہونے کی شہادت دیتی ہیں اور ان کے تھپیڑے سوئی ہوئی انسانیت کو جگاتے ہیں اور ان کی سر سراہٹ قیامت کا الارم بجاتی ہیں۔ گویا ہوائیں اللہ کی وحدانیت کا گیت گاتے ہوئے اور انسان کو احساسِ ذمہ داری کا سبق دیتے ہوئے گزرتی ہیں۔ اس طرح ان ہواؤں کے ذریعہ لوگوں پر اللہ کی حجت بھی قائم ہو جاتی ہے اور ان کو چونکا نے اور خبردار کرنے کی خدمت بھی وہ انجام دیتی ہیں۔
ہواؤں کے چلنے میں توحید و آخرت کی جو نشانیاں ہیں ان کی طرف قرآن میں متعدد مقامات پر متوجہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر دیکھئے سورۂ ذاریات آیت ۱ تا ۶
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ بات ہے جس پر ہواؤں کی قسم کھائی گئی ہے۔ وعدہ قیامت کے دن کا کیا جا رہا ہے کہ اس روز انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے عمل کی جزا یا سزا پائے۔ یہ وعدہ لازماً پورا ہو گا اور وہ باتیں حقیقتِ واقعہ بن کر سامنے آئیں گی جن کے واقعہ ہونے کی خبر قرآن دے رہا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اب قیامت کے کچھ احوال بیان کئے جا رہے ہیں۔
جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو زمین اور آسمان دونوں زبردست حادثہ سے دو چار ہو جائیں گے۔ بے شمار ستارے جو آج روشن ہیں اس روز ان کی روشنی بالکل ختم ہو جائے گی۔ سورۂ التکویر میں فرمایا:
وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ ’’ جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔‘‘ وہ وقت ایسا ہو گا جبکہ پورے عالم میں تاریکی چھا جائے گی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انشقاق نوٹ ۱
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۶۶
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس وقت کا ذکر ہو رہا ہے جب دوسرا صور پھونکا جائے گا اور تمام انسانوں کو زندہ کر کے میدانِ حشر میں لایا جائے گا۔
اس روز عدالت برپا ہو گی اور رسولوں کو بلایا جائے گا کہ وہ اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جانتے ہو کہ یہ تمام کام کس دن کے لیے اٹھا رکھے گئے ہیں ؟ فیصلہ کے دن کے لیے۔ یعنی آج دنیا میں عدالتِ الٰہی برپا نہیں کی جا رہی ہے تو یہ نہ سمجھو کہ کبھی عدالتِ الٰہی برپا ہو گی ہی نہیں اور مجرم سزا پانے سے چھوٹ جائیں گے۔ نہیں بلکہ عدالتِ الٰہی کے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس روز ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہو گا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خوب سمجھ لو کہ فیصلہ کا دن بڑا سخت ہو گا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ آج روزِ جزا کو جھٹلا رہے ہیں وہ اس روز ہلاکت میں پڑیں گے۔
’ ویل‘ کے معنی ہر قسم کی تباہی کے ہیں۔ لسان العرب میں ہے :
واصل الویل فی اللغۃ العذاب والہلاک۔’’لغت میں ویل کے اصل معنی عذاب اور ہلاکت کے ہیں۔‘‘
الویل: الحزن والہلاک والمشقۃ من العذاب۔’’ ویل کے معنی حزن(غز اور افسوس)، ہلاکت اور عذاب کی مشقت کے ہیں۔‘‘
قال سیبویہ ویلٌ لہٗ و ویلاًلہٗ ای قبیحاً۔ ’’ سیبویہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ویل ہے یعنی اس کے لیے خرابی ہے۔‘‘ ( لسان العرب ج ۱۱ ص ۷۳۸)
قیامت کے دن جھٹلانے والے کے لیے ’ویل‘ ہے کا مطلب یہ ہے کہ روز جزا کو جھٹلانے والے نہایت افسوسناک حالت سے دور چار ہوں گے۔ انہیں سخت عذاب بھگتنا ہو گا ، وہ ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں گریں گے اور ان کا انجام نہایت براہو گا۔
یہ آیت اس سورہ میں دس مرتبہ آئی ہے اور یہ اس سورہ کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس تکرار( بار بار دہرانے ) سے مقصود جھٹلانے والوں کو بار بار انجام بد کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ وہ چونکیں اور ہوش کے ناخن لیں۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قدیم ترین کافر قومیں ہیں۔مثلاً قومِ نوح،قومِ عاد ، ثمود وغیرہ۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے بعد آنے والی دوسری کافر قوموں کو بھی ہلاک کرتے رہے ہیں۔ مثلاً قومِ لوط، قوم شعیب اور قوم فرعون۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ مجرمین سے مراد کافر اور جھٹلانے والی قومیں ہیں۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ جب کوئی رسول آیا اور اس کی قوم نے اسے جھٹلایا تو اسے عذاب کے ذریعہ ہلاک کر دیا گیا تاکہ رسول کی حقانیت ثابت ہو نیز اس لیے بھی کہ جس قوم پر اللہ کے رسول نے حجت تمام کر دی ہو اور اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو ایسی قوم انسانیت کے لیے ناسور بن جاتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ حق کے واضح ہو جانے کے بعد کسی قوم کا کفر پر اصرار اللہ کے غضب کا موجب ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جب دنیا میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا تو قیامت کے دن جو عدل و انصاف کا دن ہو گا کس طرح وہ سزا سے بچ سکیں گے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی معمولی نطفہ سے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رحم( شکم) میں۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد حمل کی مدت ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کی تخلیق کا کام ایک خاص منصوبہ کے مطابق انجام پاتا ہے اور وہ با شعور اور بہترین مخلوق بن جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بندی اللہ ہی کی ہوتی ہے تو جو ہستی اتنا بہترین منصوبہ بنانے والی اور اتنی عمدہ تدبیر کرنے والی ہے اس کی طرف ہے بات کیسے منسوب کی جا سکتی ہے کہ اس نے انسان کو بے مقصد پیدا کیا ہے اور اس کی کوئی غایت نہیں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین زندہ انسانوں کو اپنی آغوش میں رہنے بسنے کے لیے جگہ دیتی ہے اور مُردوں کے لیے بھی مدفن بن جاتی ہے اس طرح زمین انسان کو اس کی زندگی میں بھی سمیٹ رکھتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اونچے پہاڑ بادلوں کو روکتے ہیں جس کی وجہ سے پہاڑی علاقہ میں خو ب بارش ہوتی ہے اور دریا بہہ پڑتے ہیں۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ دریاؤں اور چشموں کو جاری کیا جن سے میٹھا پانی حاصل ہوتا ہے۔
کیا یہ سب نعمتیں اللہ کی ربوبیت کی نشانی نہیں ہیں اور جب اس نے تمہاری ربوبیت( پرورش) کا یہ سامان کیا ہے تو وہ تم سے تمہارے رویہ کے بارے میں باز پرس کیسے نہیں کرے گا اور اپنی نعمتوں کا حساب تم سے کیوں نہیں لے گا۔ اس کی ربوبیت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ حساب کا دن لائے اور شکر گزاروں کو اچھا صلہ دے اور ناشکروں کو سزا دے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن کا عذاب۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سایہ سے جو دھوئیں کی شکل میں ہو گا کافروں کو میدانِ حشر میں سابقہ پیش آئے گا۔ اس کی تین شاخیں ہوں گی۔ یہ اشارہ غالباً اس کی تین خصوصیات(Characteristics) کی طرف ہے اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مجرم پر اسی خصوصیت کا دھواں مسلط کر دیا جائے گا۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دوزخ سے جو شعلے اٹھ رہے ہوں گے وہ میدانِ حشر میں مجرموں پر آ آ کر گر رہے ہوں گے اور وہ جس سایہ کے نیچے ہوں گے وہ انہیں ان شعلوں کی زد سے بچا نہ سکے گا۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم سے جو چنگاریاں خارج ہو رہی ہوں گی وہ محل کی طرح بلند ہوں گی اور ان کی ہیئت بھی محل کی ہو گی تاکہ مجرموں کو دنیا کے محل یاد آ جائیں جن میں وہ دادِ عیش دیتے رہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ دوزخ سے نکلنے والی چنگاریاں گویا میزائیل ہوں گی جو میدانِ حشر میں مجرموں کو نشانہ بنائیں گی۔ ان چنگاریوں کی شکل محل کے علاوہ زرد اونٹوں جیسی بھی ہو گی تاکہ مجرموں کو اپنے قیمتی اونٹ یاد آ جائیں جن کو انہوں نے دنیا میں اصل سرمایہ سمجھ رکھا تھا اور اس کی محبت میں گرفتار ہو کر آخرت کو نظر انداز کر دیا تھا۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ میدانِ حشر میں مجرموں کو مختلف مرحلوں سے گزرنا ہو گا ایک مرحلہ وہ ہو گا جب ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء بول پڑیں گے کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں۔:
اَلْیوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اَیدِیہِم وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْایکسِبُوْنَ۔ ’’آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘( یٰس:۶۵)
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع اس سے پہلے ہی دیا جا چکا ہو گا اس لیے اس مرحلہ میں جب کہ ان کا منہ بند کر دیا جائے گا انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سوچو کہ میدانِ حشر میں جھٹلانے والوں کا حال کتنا بُرا ہو گا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات خاص طور سے نبی صلی اللہ علیہوسلم کے مخالفین سے خطاب کر کے کہی جائے گی کہ تم لوگ فیصلہ کے دن کا انکار کرتے تھے تو دیکھو تمہارا خیال غلط ثابت ہوا۔ آج فیصلہ کا دن ہے اور فیصلہ کے لیے ہم نے تم کو بھی حاضر کر دیا ہے اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے تھے۔ مراد گزرے ہوئے زمانہ کے گمراہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر یہ لوگ چلتے رہے۔ یہ بات موقع کے لحاظ سے ارشاد ہوئی ہے ورنہ قیامت کے دن بلا استثناء تمام انسانوں کو جو دنیا میں پیدا ہوئے تھے دوبارہ زندہ کر دیا جائے گا۔ اس طرح پوری نوع انسانی اس روز حاضر کر دی جائے گی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں تو تم میرے کلمہ کو نیچا دکھانے اور میرے رسول کو شکست دینے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے اور سازشیں کرتے رہے اور یہ نہ سوچا کہ فیصلہ کا ایک دن مقرر ہے۔ اب اگر تم میں کچھ بل بوتا ہے تو میرے مقابلہ میں کوئی تدبیر کر دکھاؤ۔ اس کا جواب وہ کیا دے سکیں گے البتہ پشیمان ہو کر رہ جائیں گے۔ تو جھٹلانے والوں کے لیے اس روز پشیمانی اور ندامت ہو گی۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اب مکذبین ( جھٹلانے والوں ) کے مقابل میں متقین کی جزا بیان کی جا رہی ہے یعنی ان لوگوں کی جو اللہ سے ڈرتے رہے اور جنہوں نے اس احساس کے ساتھ زندگی گزاری کہ قیامت کے دن انہیں اللہ کے حضور جوابدہی کرنا ہے۔ وہ جن انعامات سے نوازے جائیں گے ان کا مختصر ذکر یہاں ہوا ہے۔ وہ حقیقی سایہ میں ہوں گے اس لیے ان کو ہر طرح کا اطمینان اور راحت حاصل ہو گی اور اللہ جن کو اپنے ساے ۂ عاطفت میں لے ان کے سکون و راحت کا کیا کہنا! دوسری چیز جو ان کو سیراب کرے گی اور تشنگی کی تکلیف انہیں کبھی محسوس نہ ہونے دے گی وہ جنت کے چشمے ہوں گے جو انہیں اعلیٰ اور لذیذ مشروب مہیا کریں گے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسری بڑی نعمت ا ن کے لیے یہ ہو گی کہ وہ اپنی پسند کے میوے نوش کریں گے۔ جب ان کے ذوق کے مطابق ان کو میوے فراہم ہوں گے اور وہ بھی بہ کثرت تو وہ کس قدر شاداں و فرحاں ہوں گے !
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نیک اعمال کا یہ بدلہ کہ جنت کی زندگی جس میں کھانے پینے کی فراوانی اور چیزیں بھی ایسی جو نہایت لذیذ اور مرغوب ہوں کتنا بہترین بدلہ ہے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ترغیب ہے لوگوں کو نیکو کار بننے کی کہ اپنے کو اس بہترین جزا کا مستحق بناؤ۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جھٹلانے والے سوچیں کہ قیامت کا دن ان کے لیے کتنی بڑی محرومی کا ہو گا۔ ایک طرف نیکو کار جنت کا لطف حاصل کر رہے ہوں گے اور دوسری طرف جھٹلانے والے جہنم کی تباہ کاریوں کا شکار ہوں گے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں۔ کافروں کو خطاب کر کے انہیں آخری مرتبہ جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اے مجرمو! اس تمام تذکیر کے باوجود اگر تمہیں اپنی کافرانہ روش پر اصرار ہے تو دنیا میں چند دن مزے کر لو اس کے بعد تمہیں لازماً تباہی سے دو چار ہونا ہے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن اور پیغمبر انہیں اللہ کے حضور جھکنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔اور جو اللہ کے حضور نہ جھکے اس کے لیے تباہی مقدر ہے۔
اِرکعوا کے معنی ہیں جھکو۔ اور اللہ کے حضور جھکنے کا مفہوم نہایت وسیع ہے۔ اس کی عبادت و اطاعت اور رکوع اور سجدہ سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن جو اللہ کا آخری کلام ہے اور جس نے مضبوط دلائل کے ذریعہ اپنی حجت قائم کر دی ہے اور جس کی حکمت ، حکمتِ بالغہ، جس کا اسلوب موثر اور جس کی تذکیر دلوں کو مسخر کرنے والی ہے اس پر بھی اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آخر وہ کس کلام کے منتظر ہیں ؟ اگر وہ قرآن سے بھی نصیحت پذیر نہیں ہوئے تو پھر کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہو سکتی جو ان کو ہوش میں لائے اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب نازل ہونے والی ہے اس لیے جس کو ایمان لانا ہے قرآن پر لائے۔
٭٭٭
ای بک: اعجاز عبید
ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید