FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

دس سندھی کہانیاں

 

 

انتخاب و ترجمہ

 

عامر صدیقی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

پیار کا ساون

 

امداد حسینی

 

شان نے کرسی کی ٹیک لگا کر، پنجوں پر زور لگایا، کرسی کو پچھلی ٹانگوں پر کھڑا کیا اور پھر دیوار سے ٹکانے کیلئے کرسی کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ توازن قائم نہ رہ سکا اور دھچکا کھا کر کرسی نے اسے میز پر لا پٹکا، جہاں وہ کچھ لمحے تو میز پر ہاتھوں کو سر میں دبائے ہی پڑا رہا۔

‘‘دیوار پیچھے تو نہیں ہٹ گئی ہے؟‘‘ اس نے سوچا۔

کہنی میں جلن محسوس ہوئی تو کراہتے ہوئے بازو کی طرف دیکھا۔ کہنی میں کھرونچیں آئی تھیں اور ان سے خون نکل کر وہیں جم گیا تھا۔ اس جگہ مرہم لگایا، منہ سے بھاپ دی، قمیض کی آستین نیچے کی، پھر میز پر بازوؤں کے درمیان سر رکھ دیا۔

‘‘ہیلو!‘‘

شان کے کانوں میں جلترنگ سے بجے۔ اس نے گردن اوپر اٹھائی۔ سامنے لالن کھڑی تھی۔ برساتی میں ملبوس، کندھوں پر گرجتے بادل لئے، لبوں پر لالی لگائے۔ وہ تو لالن کے چہرے پر ٹک جانے والی نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہا تھا۔

‘‘دیکھ تو ایسے رہے ہو جیسے پہلی بار دیکھا ہو۔‘‘ لالن کی مسکراہٹ نے گالوں پر پڑے ڈمپلوں کو مزید گہرا کر دیا۔

‘‘پہلی بار نہیں، آخری بار۔‘‘ وہ بھی مسکرایا۔ ایک روٹھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ لالن کو بیٹھنے کے لئے کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ باہر قمیض کی آستین سے آنکھیں پونچھ کر پھر اندر لوٹ آیا۔

‘‘باہر چلتے ہیں۔‘‘ اور وہ باہر نکل کر گاڑی میں آ بیٹھے۔ کار اسٹارٹ ہوئی اور حیدرآباد کی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔

‘‘کتنی قریب ہو اور کتنی دور بھی۔‘‘ شان نے جیسے اپنے آپ سے بات کی۔ لالن نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

لالن، جو اس کے لئے سب کچھ تھی، اور جیسے کچھ بھی نہ تھی۔ وہ جو اس کی ابتدا تھی اور انتہا بھی، وہ اس سے آج آخری بار مل رہی تھی۔ وہ ہر روز ملا کرتی تھی۔ کلاس میں، کاریڈور میں۔ سینٹ ہال میں، کانفرنسوں میں، مشاعروں میں، جشن رونمائیوں میں، جلسوں میں، جلوسوں میں، سندھو دریا پر، ہر جگہ۔۔۔۔ اب اس سے ملنا تو محال ہے ہی، آج کے بعد تو وہ اسے کبھی دیکھ بھی نہ پائے گا۔ وہ اندر تک بھیگ گیا تھا۔ باہر پانی برسنے لگا اور ونڈ اسکرین پر جمع ہو کر ریلا بن گیا۔ پھراس میں شدت ہونے لگی۔ شان نے وائپر چلایا، ہیڈ لائٹ جلا دیں اور لالن ان کی روشنی میں بوندوں کی ٹمٹماہٹ دیکھنے لگی۔

‘‘ہمارے آنسوؤں پر بادل بھی رو رہا ہے۔‘‘ شان نے قہقہہ لگایا، جو خود اسے ہی سسکیوں کا تاثر دیتا رہا۔ لالن اس کے ہاتھ کو ہونٹوں تک لائی اور اسے یاد دلایا،‘‘آج ہم رونے کی کوئی بھی بات نہیں کریں گے۔‘‘

شان نے ٹھنڈی سانس بھری اور لالن کے ہاتھ کو ہلکے سے دباتے ہوئے گاڑی کو جامشورو کی جانب موڑ دیا۔

‘‘لالن‘‘ صرف شان ہی اسے اس نام سے بلایا کرتا تھا۔ لالن نے پہلے ہی اسے بتا دیا تھا کہ ان کا ساتھ صرف امتحانوں تک ہی ہے۔ پھر جو گی کسی کا رشتہ دار نہیں۔ امتحانوں کے بعد وہ پھر اپنے شہر لوٹ جائے گی۔ تعلق اور پڑھائی کے سلسلے میں ان کی کئی بار بات ہوئی تھی، زندگی ساتھ گزارنے کی بات ہوئی پر۔۔۔

‘‘نہیں، ساری عمر کا ساتھ نہیں۔‘‘ لالن نے کہا تھا۔

‘‘اس میں پڑھنے کی بات ہے بھی، نہیں بھی ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ چند لمحوں تک خاموش رہی۔

‘‘دیکھو شان، میں ایک ایسے خاندان سے آئی ہوں، جس میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔ زیادہ سے زیادہ انہیں قرآن کی تعلیم دے دی جاتی ہے۔‘‘

‘‘پھر قرآن ان کی جھولیوں میں ڈال کر، بخشایا جاتا ہے۔‘‘ شان نے کہا۔

‘‘میں خاندان کی پہلی لڑکی ہوں۔‘‘ لالن نے سنا ان سنا کرتے ہوئے کہا،‘‘ جو یونیورسٹی تک پہنچی ہوں اور میں۔۔۔ میں اس ڈگر کی آخری لڑکی بننا نہیں چاہتی۔ میرے پیچھے خاندان کی اور بھی لڑکیاں ہیں، جو تعلیم حاصل کرنے میں در پیش مختلف دشواریوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ انہیں بھی یونیورسٹی تک پہچانا ہے۔‘‘ لالن نے اپنے باپ کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کبھی بھی، کوئی بھی دھوکہ نہیں کرے گی۔

‘‘اور محبت کے ساتھ دھوکہ۔‘‘ شان نے جیسے سسکیوں کو لفظوں کا کا لباس اوڑھا دیا ہو۔

‘‘یہ لفظ تمہارے منہ سے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ لالن نے اس کے کندھے پر گردن ٹکاتے ہوئے کہا،‘‘میں تو تمہارے ساتھ گزارے دو سالوں میں پوری زندگی گزار چکی ہوں۔‘‘ لالن کے اس طرح کے پر سکون اور غیر جذباتی رویے پر شان کو تعجب ہوتا تھا۔

کار جامشورو کے پل پر پہنچی تو لالن نے اپنے پرس میں موجود سکوں سے مٹھی بھری اور کار کی کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے جھنجھناتے سکے سندھو دریا کی گنگناتی لہروں کی جانب پھینکے۔ کار پل پار کر کے المنظر کی طرف مڑ گئی۔ وہ گاڑی سے اتر کر المنظر پر جا کر بیٹھے۔ وہاں کی ہوا لالن کے بالوں سے چھیڑخانی کر رہی تھی۔ برساتی بوچھاڑیں اور سندھودریا کا شور آپس میں گھل مل سے گئے تھے۔ لالن اٹھی اور ریلنگ کے پاس جا کھڑی ہوئی، سندھو دریا کی طرف اس کا چہرہ تھا۔ شان بھی اس کے قریب، اسی کی طرح کھڑا ہو گیا۔ دونوں بارش میں بھیگنے لگے۔

‘‘لالن۔‘‘

"ہوں۔۔۔‘‘

"جب زندگی میں تم ہی نہ رہو گی، تو پھر میرے پاس جینے کا کون سا سبب ہو گا؟‘‘

لالن کی ہنسی جلترنگ کی طرح بجی۔

"یہ تمہاری کہانی‘‘صحرا میں چیخ” کا ڈائیلاگ ہے نہ؟‘‘

"پر یہ میرے سوال کا جواب تو نہیں۔‘‘

"جینے کے لئے کوئی سبب ہو، یہ ضروری تو نہیں۔ زندگی تو ہم پر مسلط کر دی گئی ہے اور یہ ہمیں ہر حال میں گزارنی ہی گزارنی ہے، لیکن۔۔۔‘‘ لالن ریلنگ کے پاس سے ہٹ کر ٹیبل پرجا بیٹھی۔ شان کچھ دیر وہیں کھڑا رہا، نچلا ہونٹ دانتوں کے درمیان دبائے، وہ لالن کی پاس چلا آیا۔ وہ چائے پی رہی تھی۔ شان نے بھی چائے کی چسکیاں لیں اور پھر دونوں نے اپنی پیالیاں بدلیں۔

‘‘لیکن۔۔۔ کیا؟‘‘

‘‘لیکن۔۔۔ یہ کہ تمہارے پاس جینے کا سبب موجود ہے۔‘‘

‘‘کون سا؟‘‘

‘‘لکھنا۔‘‘

‘‘لکھنا۔‘‘ شان کے ہونٹوں پر بے روح مسکراہٹ تڑپنے لگی۔ دل میں آیا کہ وہ لالن کو بتا دے کہ ابھی کل رات ہی اس کے باپ نے اس کے ناول‘‘جو ڈگر پر مرتے ہیں‘‘ کا پہلا باب پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا تھا۔ شان نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا اور پھر کھلی ہتھیلی کو مٹھی کی شکل دے دی۔ باپ چاہتا تھا کہ شان کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ پر شان کاروباری ذہنیت کا نہ تھا اور وہ یہ بات اپنے باپ کو نہیں سمجھا پایا تھا۔

لالن نے گھڑی میں دیکھا۔

‘‘کیا گھڑی رک نہیں سکتی؟‘‘ شان نے پوچھا۔

لالن کے چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھی۔

‘‘گھڑی ٹھہر سکتی ہے، پر وقت نہیں۔‘‘

شان نے بل ادا کیا، اور دونوں نیچے اتر کر گاڑی میں جا بیٹھے۔ کار اسٹارٹ ہو کر سڑکوں پر بھاگتی رہی۔ لالن ہیڈ لائٹ کی روشنی میں بوندوں کا ٹمٹمانا دیکھنے لگی۔ حیدرآباد پہنچے تو بارش بند ہو چکی تھی۔

‘‘بس، یہیں۔۔‘‘ لالن نے کہا اور شان نے کار روک دی۔ لالن نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، اس کو ہونٹوں تک لا کر چوما اور آنکھوں پر رکھا، پھر چوما اور بغیر کچھ کہے کار کا دروازہ کھول کر اتر گئی اور شان اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا، جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔

***

 

 

 

 

جلتے ہوئے انگارے

 

سحر امداد

 

 

گزشتہ رات شبِ بارات تھی۔ اس نے حلوا، پوری بنائی پھر اس پر فاتحہ دے کر اسے پاس پڑوس میں تقسیم کر دیا۔ اس نے ہر کام اکیلے ہی کیا تھا، ایک دم خاموشی میں ملفوف، بڑے ہی سکون سے۔ اس کی یہ خاموشی، اس کے اندر کی تنہائی، اداسی اور سناٹے کی بازگشت تھی اور آج اس کی بڑی بیٹی اس کی آواز کا انتظار کرتی رہی تھی۔ نینا اپنی ماں کی اس عادت سے بخوبی واقف تھی کہ گھر کا کام کرتے وقت چلا کر آواز دینے کی عادت ہے۔ وہ کام کرتے ہوئے بار بار کسی نہ کسی کو بلاتی رہتی تھی، خاص طور پر نینا جب گھر میں ہوتی تھی، تب وہ نینا کو ہی بلاتی تھی۔

‘‘نینا! مجھے برنی میں چینی تو بھر کر دو۔‘‘

‘‘نینا، دوڑ کر آ، مجھے تھوڑے سے بادام پستے تو کاٹ دو۔‘‘

‘‘نینا، او نینا، بیٹے یہاں آؤ ذرا شیرا تو چکھ کر بتاؤ۔‘‘

‘‘نینا۔۔۔‘‘

‘‘نینا۔۔۔ نینا۔۔‘‘

اور نینا آخر ان بلاووں سے تنگ آ کر کہتی تھی،‘‘بس اماں، میں اور میرا کمپیوٹر دونوں آتے ہیں شوگر ٹیسٹ کرنے کے لئے۔‘‘

اور وہ مسکرا کر پیار سے کہتی،‘‘نینا، مذاق مت کر، پڑوسی سن لیں گے تو کل کی اخبار میں میری شوگر کا شکار ہونے کی خبر بڑے بڑے اخباروں میں لگ جائے گی اور کل سارے پڑوسی میرا حال جاننے کے لیے اپنے اپنے ٹوٹکے لئے آ کر گھر میں جمع ہو جائیں گے۔‘‘

پڑوسیوں کو اکٹھا کرنا تو دور کی بات ہے، اس نے تو اپنے بچوں کو بھی آج باورچی خانے میں آنے نہیں دیا۔ اس نے خاموشی سے اکیلے ہی تمام کام نمٹائے، بغیر کسی کو آواز دیئے، بلکہ اسے محسوس ہوا تھا کہ آج کام کچھ زیادہ جلدی اور زیادہ بہتر ڈھنگ سے ہو گیا ہے۔ اس کی نوکرانی نے تو بس آخر میں آ کر فقط پڑوسیوں میں تبرک بانٹنے کے کام میں ہاتھ بٹایا۔ نوکرانی، جو در اصل خود اپنا تبرک لینے آئی تھی، اس کے ساتھ بھی اس نے زیادہ حیل حجت نہیں کی، بس لے دے کر اسے روانہ کر دیا۔ اس نے ظاہری طور پر انتہائی‘‘کُول لُک‘‘ دی، پر اس کے اندر انگارے دہک رہے تھے۔ اس نے ان انگاروں کی تپش اپنے شوہر اور بچوں تک نہیں جانے دی، اس لئے وہ اپنے اوپر برف کی پرتیں چڑھاتی رہی۔ پرت در پرت چڑھی برف کی پہاڑی کے نیچے اپنے اندر کے آتش فشاں کو چھپائے چل رہی تھی۔ بالکل‘‘کُول” نظر آنے والی وہ پاس پڑوس میں بانٹنے کے بعد، چوکیدار اور نوکرانی کو بھی تبرک دے کر فارغ ہوئی۔ اس نے اپنے گھر والوں کے لئے حلوہ‘‘ ہاٹ پاٹ” میں رکھا، سفید نیپکن سے ڈھکی ہوئی پلیٹ میں پوریاں سجائیں۔ ایک پلیٹ میں بیسن کے حلوے کے قتلے رکھے۔ دیسی گھی میں لہسن کا بگھار دے کر آلو کی ترکاری اور ہرے مصالحے کا رائتہ اس نے اٹھا کر کھانے کی میز پر رکھے، مزید پلیٹیں بھی لا کر رکھ دیں۔ گھر کے ایک ایک فرد کو اس نے خود جا کر کھانے پر بلایا۔

اس کا سسر اپنے کمرے میں نماز پڑھ رہا تھا، اس لئے وہ نینا اور مینا کے کمرے کی طرف چلی گئی۔ نینا کمپیوٹر پر کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھی اور چھوٹی گول مٹول مینا، آنکھوں تک لٹکتے ہوئے بالوں کے بیچ سے گیم کو کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ ماں نے ان کے کمرے میں آ کر پیار سے نینا کی پیٹھ تھپتھپاتے کہا،‘‘ یہ کمپیوٹر بند کرنے کا وقت ہے۔‘‘

اس نے چھوٹی مینا کے چہرے سے بال ہٹائے، جھک کر اسے پیار کیا اور ٹیبل پر رکھے خوبصورت رنگ برنگے ربڑ بینڈ زسے اس کی دو چھوٹی چھوٹی سی‘‘پونی ٹیل‘‘ بنائیں۔ کمرے کے کشن ٹھیک کئے، چادر برابر کی اور باہر نکلتے ہوئے اس نے ایک بار پھر ان دونوں کو کھانے پر آنے کے لئے زور دیا۔

‘‘نینا مینا، تم دونوں ٹھیک پانچ منٹ کے اندر اندر کھانے کی میز پر آؤ۔‘‘ سارنگ، پاپا کی کراچی سے لائی ہوئی فینڈر کی تاروں کا سیٹ کھول کر بیٹھا تھا اور گٹار کی تاروں کو جوڑنے کے کام میں مصروف تھا۔

وہ فلور کشن پر اس کے برابر بیٹھ گئی۔

‘‘سارنگ، کیا ساری ہی تاریں تبدیل کر رہے ہو؟‘‘

‘‘ہاں ماں، ساری نئی تاریں لگائی ہیں، پرانی مگرسنبھال کے رکھوں گا، کسی بھی وقت کوئی تار ٹوٹ گئی تو کام آ جائیں گی۔‘‘

‘‘بس ہوا بیٹا، اب یہ بعد میں کر لینا، پہلے آؤ، تو سب مل کر کھانا کھائیں۔‘‘

‘‘بس ماں، یہ آخری تار سیٹ کر کے آتا ہوں۔‘‘

‘‘بس بیٹا، پانچ منٹ میں میز پر آؤ اور دادا سائیں کو بھی لے آنا۔‘‘

وہ اپنے بیڈ روم میں جاتی ہے، دروازے کے پاس رکھے سوفے پر اس کا شوہر اپنی ڈائری میں کچھ حساب کتاب کرنے میں مصروف ہے۔ وہ اس کے کندھوں کے پاس سے انہیں چھوتے ہوئے گزرتی ہے اور کہتی جاتی ہے،‘‘ڈارلنگ، کھانا تیار ہے۔ چلو۔‘‘

وہ دوپٹہ اتار کر بیڈ کے کنارے رکھتی ہے اور سنگھار میز کے سامنے ترچھے کھڑے ہو کر برش سے اپنے بال سیٹ کرتی ہے اور پھر اپنے جسم کا ایک ایک عضو احتیاط سے دیکھتے ہوئے باتھ روم میں چلی جاتی ہے، ہاتھ منہ دھوکر، تازہ دم ہو کر باہر آتی ہے، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر، پاؤڈر ہاتھ میں چھڑ کر دونوں ہاتھوں سے مل کر، اسے گردن پر لگاتی ہے اور پھر وہی ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرتی ہے، ذرا سی ویزلین انگلی پر لے کر ہونٹوں پر لگاتی ہے، ہینڈ لوشن ہاتھوں میں لے کر، دونوں ہاتھ کو ملتی ہے، بیڈ سے دوپٹہ لے کر سینے پر پھیلا لیتی ہے، تو اس کی نظر شوہر کی جانب جاتی ہے، جو ڈائری بند کر کے اسے گہری نظروں سے گھور رہا ہے۔ وہ دروازے کی طرف بڑھتی ہے

وہ سوچتی ہے کہ جب وہ اس کے قریب سے گزرے گی، تو وہ ضرور کوئی مستی کرے گا۔ وہ ہوا کے جھونکے کی طرح اس کے پاس سے گزرتی ہے، تو اسی لمحے وہ اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے اور اس کو بانہوں سے پکڑ کر جھٹکے سے اپنی طرف کھینچتا ہے اور آغوش میں بھرتے ہوئے کہتا ہے۔‘‘اچھی لگ رہی ہو۔‘‘

وہ دونوں بیڈروم کے دروازے کے باہر آ کر ایک دوسرے کے ہاتھ سے آہستہ سے پوروں تک چھوتے ہوئے الگ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے، کھانے کی میز پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ شوہر بچوں کے نام لے لے کر پکارتا ہے۔‘‘نینا، مینا، سارنگ آؤ۔‘‘ سارنگ آیا تو اسے دادا کو لانے کے لئے بھیجا۔

سبھی کھانا نکال لیتے ہیں۔ وہ اپنی پلیٹ میں اپنی پسند کا بیسن کا حلوہ لیتی ہے، تو اچانک اسے صبح والا حادثے یاد آ جاتا ہے اور اس کا سارا جسم جیسے ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے۔ وہ اس بات کو بھولنے کی کوشش کرتی ہے اور میز پر سب کے ساتھ باتیں کرنے میں بزی ہو جاتی ہے۔ بچوں کے اسکول کی باتیں، سارنگ کی گٹار کی دھنیں اورسُروں کی باتیں، دادا کے آج کی خاص خبروں کے اوپر تبصرے اور ایسی ہی کئی باتیں۔ سبھی گھر والوں نے ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں مل کر بانٹیں۔ اس طرح وہ دن ایک خوبصورت نجی گھریلو تقریب میں تبدیل ہو گیا۔

میز سے سب اٹھتے ہیں تو نینا اور سارنگ برتن اٹھانے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ نینا میز صاف کر کے برتن دھونے میں لگ جاتی ہے۔ تب تک سارنگ اپنے پاکٹ منی سے خریدے پٹاخے، لڑیاں، بم، بچھو، سانپ، انار سبھی لے آتا ہے۔ دادا، پاپا اور بیٹا، چھوٹی مینا سمیت سبھی آنگن میں جا کر پٹاخے جلاتے ہیں، بم پھوڑتے ہیں، لڑی جلاتے ہیں۔ نینا بھی کام سے فارغ ہو کر ان کی خوشیوں میں شامل ہو جاتی ہے۔ پٹاخوں کی آوازیں اور دھماکے اس کے دل کو ایک بار پھر ڈگمگا دیتے ہیں۔ اس کے اندر کا آتش فشاں پھٹنا چاہتا ہے۔ وہ ان سے بچنا اور بھاگنا چاہتی ہے۔ ایک جگہ جائے نماز بچھا کر، عبادت کی رات کا حق ادا کرنے کے لیے نفلیں پڑھتے، باہر بموں کے دھماکے۔۔ اس کے اندر جیسے تیزابی اثرات پیدا کر رہے تھے۔ اس کاباس پرچھائیں کا روپ دھار کرمسلسل اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اپنے دفاع میں وہ ہاتھ لگی لاٹھی سے اس پر ناکام وار کرتی ہے۔ وہ گر تا ہے، پھر اٹھتا ہے، ہر وار کو سہہ کر اس کی جانب اور بھی جوش اور طاقت سے بڑھتا ہے۔

وہ ہمیشہ اسے لبھانے والے جملے کہتا رہتا تھا،‘‘تمہارے شوہر بہت قسمت والے ہے، جو انہیں تمہاری جیسی بیوی ملی ہے۔‘‘ یا‘‘مجھے تمہارے شوہر سے جلن ہوتی ہے۔‘‘ کبھی وہ اسے گھورتا، کبھی گھناؤنی حرکتیں کرتا، پر وہ ہمیشہ ان باتوں کو نظر انداز کرتی رہی، سنا ان سنا کرتی رہی، دیکھی ان دیکھی کرتی رہی۔ پر آج، آج تو وہ کمینہ سبھی سرحدیں پار کر گیا۔ اسے اپنے آفس میں ایک خاص مسئلے پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے بلایا تھا۔ بات چیت ختم کر کے، چائے کی آخری گھونٹ بھر کر، جیسے ہی وہ اٹھی، وہ اچانک تیزی سے اٹھا اور اسے بانہوں میں لینے کی کوشش کی۔‘‘آئی ام ڈائینگ ٹو سلیپ ود یو ہنی۔‘‘

اور اس نے اپنے اندر موجود پوری قوت سے اپنا بازو چھڑایا اور بجلی کی رفتار سے ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر دے مارا اور تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔

وہ اپنی سیٹ پر پہنچی تو بری طرح ہانپ رہی تھی۔ اسے لگا کہ اس کی رگوں میں خون کی جگہ گرم لاوا بہہ رہا ہے۔ غصے میں اس کے ہاتھوں کی مٹھیاں بند تھیں اور پھر اس نے اپنی دونوں مٹھیاں زور سے میز پر دے ماریں اور ان پر اپنا ما تھا ٹکا دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سر اوپر اٹھایا، تھرماس سے ٹھنڈا پانی گلاس میں بھرا اور ایک ہی گھونٹ میں پی گئی۔ جسم کا تناؤ کم کرنے کے لیے اس نے بدن کو ڈھیلا چھوڑا۔۔۔ پھر ایک گلاس پانی مزید پیا۔ دراز کھول کر اس نے کچھ سادے پیپر نکالے۔ پین لیا اور اپنا سیکشن تبدیل کے لئے ایک درخواست لکھی۔ بیچ بیچ میں وہ ٹھنڈا پانی پیتی رہی۔ ایک اور صفحے پر اس نے‘‘شارٹ لِیو’’کے لیے نوٹ لکھا اور بیل بجائی۔ چپراسی آیا تو اسے وہ پیپر دیئے۔ اس نے اپنا شولڈر بیگ اور لنچ باکس اٹھایا اور آفس کے باہر نکل آئی۔

اتنے بڑے، جگمگاتے اور ائیر کنڈیشنڈ آفس میں آج اسے اندھیرے، گھٹن اور درد کا احساس ہوا تھا۔ ان لمحات میں اس کے دل میں سوائے نفرت کے کچھ بھی نہ تھا۔ نفرت اور غصے کی اس آگ کی اذیت نے اسے نڈھال کر رکھا تھا۔ وہ سارا دن جلتی رہی، سلگتی رہی، لمحہ لمحہ جیتی اور مرتی رہی تھی۔ سارا دن اس تپش کو جھیلتے جھیلتے اس کا انگ انگ چور ہو چکا تھا۔

وہ شام کو اٹھی تو یہ سوچ کر اٹھی کہ وہ اس حادثے کے بارے میں مزید نہیں سوچے گی۔ اس نے باتھ روم میں قدم رکھا، شاور سے بہتے پانی کے ٹھنڈے قطرے اس کے تن من پر سے تھکن کی ہر پرت اتار چکے تھے۔ وہ صاف آئینے کی طرح شفاف لگنے لگی۔ پھر اس نے پوری برداشت کے ساتھ گھر کے سارے کام اطمینان سے پورے کئے۔ اس میں جتنی دیر تک کھڑے ہونے کی طاقت تھی، وہ نفلیں پڑھتی رہی۔ نفلیں ختم کر کے اس نے آنکھیں موند کر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ باہر آنگن میں خاموشی تھی۔ اس کے کمرے سے کسی پرانی کلاسیکل فلم کے ڈائیلاگ روشنی کی لکیر کے ساتھ باہر تک آ رہے تھے۔ سارے ماحول میں گٹار کی دھن کی جھنکار طاری تھی۔

***

 

 

 

 

سیاست، میڈیا اور عجیب بو

 

تنویر جونیجو

 

 

 

قالین جیسی دری پر سفید دوپٹہ، جس پر گلابی پھول کڑھے تھے، سر پر اوڑھے وہ خدا کے حضور دعائیں کر رہی ہے، نازک کومل سے ہاتھ اٹھا کر اس رحمان، رحیم رب سے کچھ مانگ رہی تھی۔

محبت کی منزل، ہم سفر کا ساتھ، محبت کی معراج۔

‘‘اے میرے پاک پروردگار۔۔۔ وہ جیسا بھی ہے۔۔۔ مجھے بہت پیارا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ گزارا ہر لمحہ میرے لئے جنت جیسا ہے۔۔۔ تو مجھے اُس سے دور نہ کر۔۔۔ اے میرے کریم بادشاہ تمہارے علم میں ہر بندہ ایک کھلی کتاب ہے۔ ہر بندے کے پوشیدہ خیالوں سے تو واقف ہے۔۔۔ بندے کی مجبوریوں اور کمزوریوں کا سارا علم ہے تیرے پاس۔۔ اے پروردگار مجھے لوٹا دے، وہ اپنی تمام تر نیکیوں اور سچائیوں۔۔۔ معصومیت اور شفافیت کے ساتھ۔‘‘

اس کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے، آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں بہنے کو تیار تھیں۔۔۔ خیالوں کی پرواز۔۔۔ تیزی سے بلند ہوتی ماضی کی جانب جا رہی ہے۔

کچھ یادگار لمحوں کے کچھ یادگار پل۔۔۔!

اس کا نام بلقیس ہے۔۔۔ اور اس وقت جس کے لئے خدا سے دعائیں مانگ رہی ہے وہ اس کا دوست، اس کا ہم جماعت سلیم ہے۔ دونوں بی اے کے تیسرے سال کے طالب علم ہیں۔ بلقیس بہت سی خوبیوں کی مالک ہے۔ بات کرنے کی تمیز ہے اور کچھ عاجزی کے تاثرات لئے ہوئے اس کی شخصیت اپنے ہی ڈھنگ کی تھی۔ اس کا گھرانہ بھی اتنا تنگ نظریات والا نہ تھا، ایک ملے جلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے، جس میں ایک طرف روایات کی حفاطت کی جاتی، تو دوسری طرف وقت کی ضروریات کا خیال بھی۔ اس کی ماں بھی پڑھی لکھی نوکری پیشہ عورت ہے۔ وہ معروف ہسپتال میں ڈاکٹر تھی اور اس کے والد بھی ایک ڈاکٹر تھے۔

حیدرآباد میں سندھیوں کی آبادی قاسم آباد میں، ان کا چار سو گز کا ایک شاندار بنگلہ تھا۔ زندگی اس کے ساتھ اکثر مہربان رہی، بس اگر تھوڑی بہت کمی تھی تو اس کے اندر پنپتی احساس کمتری یا کسی حد تک ماں کی نوکری کے سبب ان کی محبت کی کمی۔ پر اس کی یہ کمی بھی اس کی دادی نے پوری کر دی تھی۔ پھر بھی کم تعلیم اور محدود صلاحیتوں کی وجہ اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے نظریات تھے یا ڈراموں اور فلموں کے گہرے اثرات، جو اس کے ذہن پر بری طرح حاوی تھے۔ انٹر سائنس میں مطلوبہ نمبرز حاصل نہ کرنے کی وجہ سے اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ سلیم اس کا کلاس فیلو تھا، دادو کے گورنمنٹ کالج سے انٹر کر کے یہاں آیا تھا۔ بلقیس کے مقابلے میں اس کا خاندان متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا باپ ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھا۔ اسے سی ایس ایس کرا کر‘‘ڈپٹی کمشنر” بنانے کا خواب اُس کی آنکھوں میں تھا۔ سلیم کی شخصیت پرکشش تھی۔ وہ قد آور اور خوبصورت نوجوان تھا۔ طبیعت میں کسی حد تک پختگی کی کمی اور پڑھنے کی جانب رجحان کم تھا۔ لیکن خوابوں کی پرواز کمشنری سے بھی اونچی تھی۔

بلقیس کے ساتھ محبت کی گانٹھیں کیسے بندھیں، اس کا پتہ دونوں کو نہیں چلا۔ نہ پہلی نظر میں محبت ہوئی تھی اور نہ ہی سلیم نے بلقیس کو کسی غنڈے سے بچایا تھا۔ آہستہ آہستہ بے خبری کے عالم میں دونوں ایک دوسرے کے نزدیک آنے لگے۔ سلیم کیلئے نوٹس تیار کرنا، اسائنمنٹ بنانا، بلقیس کے محبوب ترین کام تھے۔ پہلے فون پر باتیں ہوتیں تھیں یونیورسٹی کے بارے میں، پھر آہستہ آہستہ مستقبل ساتھ گزارنے کے منصوبے بننا شروع ہو کر کے‘‘ہالاناکا‘‘ کے ایوبر یسٹورنٹ تک پہنچے۔ سلیم اکثر کسی نامعلوم خوف کا شکار نظر آتا تھا۔

‘‘کہیں ہمارا ذکر بھی تو ‘‘پریمی جوڑوں‘‘ کی فہرست میں نہیں آئے گا؟‘‘ ایسا ہی سوال ایک دن سلیم نے بلقیس سے کیا تھا۔

‘‘نہیں سلیم، ہماری فیملی کافی آزاد خیال ہے اور اماں تو میری تم سے دوستی کے بارے میں جانتی بھی ہے۔‘‘ بلقیس نے اس کی ڈھارس بندھائی۔

بلقیس جو احساسِ کمتری کا شکار تھی، سلیم کے ساتھ نے اس کے وجود کو خود اعتمادی دی تھی۔ اسی یقین کے سہارے وہ اس گول گول گھومتی دنیا میں ناز کے ساتھ اترائی پھرتی تھی، خود اعتمادی کے ساتھ چلتی تھی اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ سلیم اس کا اپنا ہے۔ سلیم اور اس کے بیچ میں کوئی بھی سماج کی دیوار نہیں ہے۔ پھر اسے لگا کہ سلیم کی توجہ کا مرکز کوئی اور بننے لگی اور سلیم اس کے پیچھے پاگلوں کی طرح دوڑنے لگا اور وہ سلیم کا بانکپن دیکھ کر، اسے اپنی بانہوں میں جکڑتی رہی۔۔۔ وہ کوئی لڑکی نہیں بلکہ”سیاست” تھی۔

‘‘میں پریشر گروپ کا صدر منتخب کر لیا گیا ہوں۔‘‘ انٹرنیشنل ریلیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس اوپر جاتی ہوئی سیڑھیاں پر سلیم نے اس سے کہا تھا۔

‘‘سچ!‘‘ بلقیس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔

‘‘ہاں اب میں بھی لیڈر کہہ لاؤں گا۔ میرے بیانات اور تصویریں اخباروں میں آئیں گی۔‘‘

‘‘پر سلیم، تم حق کیلئے لڑنا، اسٹوڈنٹس کی پریشانیوں کے کیلئے جد و جہد کرنا اور زمین کے دکھوں کے خلاف جوجھنا۔‘‘ بلقیس نے طویل سانس لیتے ہوئے اس سے کہا تھا،‘‘سچ سلیم، میرا سر فخر سے بلند ہو گا، میرے اعتماد میں اور بھی اضافہ ہو گا۔‘‘

‘‘ہاں بلقیس، میں چاہتا ہوں کہ قوم کے دکھ سمیٹ لوں۔ اسٹوڈنٹس سکون سے تعلیم حاصل کریں۔ بسوں میں لٹکتے ہوئے نہیں آرام سے بیٹھ کر آئیں، جائیں۔ خود چھٹی لینے کے طریقے میں تبدیلی کے لیے جد و جہد کروں گا اور ہاں بلقیس تمہیں پتہ ہے میں سیاست میں کیوں آیا ہوں؟ اس لئے کہ تمہارا سر فخر سے بلند ہو اور وہ معیارات جو تم نے سوچے ہیں ان کو کامیابی ملے۔‘‘

سلیم نے پیار سے بلقیس کا ہاتھ پکڑا، پر میڈم کو آتے ہوئے دیکھ کر ہاتھ چھوڑ دیا۔ بلقیس نے شرارتی مسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،‘‘بس، اتنا سا دل ہے۔ ابھی تو لیڈر بننے چلے تھے۔‘‘

‘‘روایات کی حفاظت بھی تو کرنی ہے۔‘‘ سلیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

اور پھر سلیم کے بیانات اخباروں میں شائع ہونے لگے۔ تصویریں ڈیپارٹمنٹ کی دیواروں پر چسپاں ہونے لگیں۔ اب سلیم کوئی عام سا طالب علم نہیں، ایک خاص اسٹوڈنٹ تھا، جس پر ہر کوئی اِتراتا تھا، سلام کرتا تھا۔ سلیم میں بانکپن بڑھنے لگا۔

‘‘بلقیس آج تمہاری سالگرہ ہے نا۔‘‘سلیم کے ہاتھ میں ایک گفٹ پیک تھا۔

‘‘یہ دیکھو۔۔۔ تمہارے لئے کیا لایا ہوں؟‘‘

‘‘تمہارا لایا ہوا خوبصورت کارڈ بھی میرے لئے سونے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔‘‘ بلقیس گفٹ پیک کو دیکھ کر کہنے لگی۔

‘‘لیکن تم دیکھو تو سہی۔‘‘ سلیم نے کہا۔

‘‘ارے یہ۔۔۔ یہ تو سونے کا بریسلیٹ ہے۔‘‘ بلقیس نے حیرانی بھری سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

‘‘ہاں۔‘‘ سلیم مسکراتا رہا۔

‘‘پر اتنے پیسے تمہارے پاس آئے کہاں سے۔ سات ہزار سے تو کسی صورت کم نہ ہو گا یہ۔‘‘بلقیس ابھی تک حیران تھی۔

‘‘پیسوں کو چھوڑو۔ یہ بتاؤ تمہیں تحفہ پسند آیا نا؟‘‘

سلیم کی آنکھوں میں محبت کا جوش تھا۔

‘‘ اتنا اچھا ہے، پر۔۔۔‘‘ کچھ چاہ کر بھی وہ کچھ نہ کہہ پائی۔ سمسٹرز کے امتحان نزدیک تھے۔ بلقیس اپنی پڑھائی کے ساتھ سلیم کے اسائنمنٹ بھی تیار کرنے میں مصروف رہی۔

‘‘خدا کرے جلد امتحان ختم ہوں۔‘‘ ہر طالب علم کی طرح بلقیس کی بھی یہی خواہش تھی۔ وقت پر امتحان ہوں تو اچھا، نہیں تو دیر کی وجہ سے نوکری حاصل کرنے میں بھی طالب علم پیچھے رہ جاتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے خواہش مند طالب علم داخلہ لینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کتنی ہی اسکالرشپ منسوخ ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ والدین پر بھی اقتصادی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ عام طالب علم بے کار سے حالات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

‘‘ہیلو بلقیس، کیا کر رہی ہو؟‘‘ ایک دن سلیم نے فون پر پوچھا۔

‘‘تمہارے لئے اسائنمنٹ تیار کر رہی ہوں، اس بار تم نے پیپرز کیلئے کتنی تیاری کی ہے؟‘‘

‘‘تیاری کیسی؟ پہلے امتحان تو ہوں!‘‘

‘‘کیوں؟ کیا تمہاری سیاست بھی انہی راستوں پر چلنے لگی ہے؟‘‘

‘‘دیکھو نا بلقیس، اسٹوڈنٹس کے اَن گنت مسائل سامنے ہیں۔ ان مشکلات سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ بائیکاٹ کروایا جائے کیونکہ اسی سے سسٹم پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔‘‘

‘‘پر سلیم، اس میں بھی بھگتنا تو طالب علم کو ہی پڑتا ہے، سسٹم پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا اور اسی بائیکاٹ کی وجہ سے پولیس والوں کا بھی یونیورسٹی میں آنا جانا شروع ہو جائے گا۔ ایسا نہ کریں سلیم، کچھ سوچیں۔‘‘بلقیس اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی۔

‘‘بہتر یہ ہے کہ تم اس معاملے میں نہ الجھو۔‘‘ سلیم نے فون رکھ دیا۔

اس بارسسٹم نے امتحانوں کیلئے فوج کی مدد لی۔ امتحانات انتہائی آرام اور سکون سے شروع ہوئے، لیکن خوف کا ایک اَن دیکھا احساس ہر اسٹوڈنٹس کے دل و دماغ پر چھایا رہا۔ آج امتحانوں کو شروع ہوئے چار دن ہو گئے تھے۔

صبح کا وقت تھا اور اسٹوڈنٹس دستور کے مطابق کیمپس میں موجود ہوئے، لیکن آج ٹیچرز کی بسیں ابھی تک نہیں پہنچی تھیں۔۔ نو۔۔۔ دس۔۔ اچانک ایک خبر طوفان کی طرح کیمپس میں آ پہنچی۔

‘‘ٹیچرز کی بس پر کریکرز پھینکے گئے ہیں۔ چار ٹیچرز زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائے گئے۔‘‘

‘‘یہ کس نے کیا؟‘‘

مختلف آوازیں، مختلف خیالات سننے میں آئے۔

‘‘پریشر گروپ والوں کا کام ہے۔‘‘ گونج بلقیس کے کانوں تک پہنچی۔

‘‘سلیم۔۔۔ یہ تم نے کیا؟‘‘ بلقیس کے لہجے میں بے یقینی کیساتھ دکھ کا بھی احساس تھا اور ذہنی طور پر سلیم کے منہ سے‘‘نہیں‘‘ سننے کی خواہش بھی۔

‘‘نہیں بلقیس۔۔۔ سسٹم نے یہ خود کروایا ہے۔‘‘ سلیم نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

‘‘پلیز سلیم، ایسا مت کرو۔۔۔ میرے خواب، میری تمنائیں کہیں زخمی نہ ہو جائیں۔‘‘

‘‘پگلی، تمہارے خوابوں کو حقیقی شکل دینے کے لیے تو یہ سب کر رہا ہوں۔ محلات میں رہنے والی، چاندی کے چمچ سے کھانے والی کو جھونپڑی میں تو نہیں رکھوں گا؟‘‘

‘‘مفلسی کوئی خرابی نہیں، قابلِ نفرت نہیں اور میرے والدین کی کوئی ڈیمانڈ بھی نہیں ہے۔‘‘ بلقیس نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا،‘‘پلیز سلیم، اس بار سکون سے امتحان چلنے دو۔‘‘

‘‘تم جانتی ہو، اس بار ہماری منصوبہ بندی کیا ہے؟‘‘

‘‘کیا ہے؟‘‘

‘‘ہاسٹل پر حملہ کریں گے۔‘‘

‘‘آخر امتحانوں سے آپ لوگوں کو اتنی ناراضگی کیوں؟‘‘ بلقیس نے غصے میں اس سے پوچھا۔

‘‘امتحانوں سے ہمارا کیا لینا دینا۔۔۔ پتہ ہے ہم یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟‘‘

‘‘کیوں۔۔۔؟‘‘

‘‘ہمیں حکم ملا ہے کہ وہاں ہاسٹل ختم کئے جائیں، اور ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ہمیں سسٹم میں خوف پیدا کرنا ہے۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ ہاسٹل طاقت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہمارے خلاف اٹھتی للکار کی آواز ہے۔۔۔ کوئی بھی مسئلہ ہو۔۔۔ یہاں پر جلائی گئی لو، روشنی کا شعلہ بن کر گھر گھر، بستی بستی پہنچ جاتی ہے۔ ہمیں یہ حکم ملا ہے اور یہ ہمیں قبول ہے۔‘‘ سلیم نشے میں سچ کہتا رہا اور بلقیس کا چہرہ تمتماتا رہا، غصے سے، نفرت سے یا شاید بے بسی سے۔ وہ تیزی سے نکل جاتی ہے۔۔۔ سلیم وہیں بیٹھا رہتا ہے۔

خط کشیدہ کیا ہوا دستور۔۔۔ امتحانات شروع۔۔۔ ہاسٹل پر حملے۔۔۔ سلیم دو بارہ گرفتار۔۔۔ بلقیس کی ماں نسیم اخبار لے کر بلقیس کے سامنے کھڑی ہے۔۔۔ بلقیس کی گردن جھکی ہوئی ہے۔ رات کے پہر وہ دری پر بیٹھی خدا کے حضور دعائیں مانگ رہی ہے۔

‘‘خدا کرے سلیم سیدھی راہ پر آ جائے۔ قوم کا ہمدرد بنے، اس کے خوابوں کی تعمیر ہو۔‘‘

‘‘پر میرا بھی کام بھی تو اہم ہے۔ میں تمہیں ایسے کیسے گھر لے کر جاؤں گا؟‘‘ سلیم کا جواب تھا۔

اور پھر۔۔ اخبار میں خبر شائع کہ پریشر گروپ کے صدر کو گرفتار کیا گیا۔

بلقیس کی ماں نے اخبار بلقیس کو دکھایا،‘‘بیٹے، ہم نے تمہیں آزادی دی ہے، اپنے لئے زندگی کاساتھی منتخب کرنے کا اختیار بھی تمہیں ہے۔

پر تمہاری رہنمائی کرنے کا اختیار ہمیں بھی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ تم جو بھی فیصلہ کرو، سوچ سمجھ کر کرو۔‘‘

بلقیس خاموش تھی۔ جن والدین نے اس کی جھولی میں ہمیشہ محبتوں کی سوغات ڈالی، انہیں دکھ دینے کا اسے کوئی اختیار نہ تھا۔ جلد ہی سلیم کی رہائی کی خبر بھی ملی۔ سلیم گاؤں گیا ہوا تھا۔

‘‘بلقیس میں رہا ہو گیا ہوں۔۔۔ ضمانت پر رہا ہوا ہوں۔۔۔ جلد ہی حیدرآباد آؤں گا۔‘‘ سلیم نے دادو سے فون کیا تھا۔

‘‘سلیم، مہربانی کر کے اس راستے پر مت چلو۔۔۔‘‘ بلقیس نے درخواست کی۔

‘‘تم تو پاگل ہو، بالکل ڈرپوک۔۔۔ اگر یہی حال رہا تو تم میرے ساتھ کس طرح چل سکو گی؟‘‘ سلیم ہنسنے لگا۔

دوبارہ سمسٹر کے امتحان شروع ہونے والے ہیں۔ سلیم کی سرگرمیاں کچھ خفیہ ہیں، کبھی بلقیس سے ملاقات ہوتی تو کبھی کئی کئی دن غائب رہتا ہے۔

‘‘سلیم، آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟‘‘ جمنازیم کی سیڑھیوں پر بیٹھی بلقیس، سلیم سے کچھ پوچھ رہی ہے۔ بلقیس اس میں آئی ہوئی تبدیلی کو بخوبی محسوس کر رہی ہے۔۔۔ آواز میں لڑکھڑاہٹ۔۔۔ لہجے میں غیر معمولی پن۔۔ اور کچھ عجیب بو!!

***

 

 

 

 

چوراہے سے شمال کی جانب

 

عبدالرحمان سیال

 

صبح کا وقت ہے، بس سے اتر کر روز کی طرح چار کمروں تک محدود اس کالج کی عمارت کی جانب رخ کیا اور ہر روز کی طرح جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے کلاس روم میں پہنچ کر کتاب کاپیوں کو سیٹ پر پھینکتے ہوئے برآمدے میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ ادھر ادھر نظریں گھمائیں، پایا کہ ابھی تک کالج کا دربان بھی نہیں آیا تھا۔ روز کی طرح سامنے‘‘کورٹ ویو‘‘ بلڈنگ پر لگے انگریزی پوسٹرزکو دلچسپی کے ساتھ دیکھنے لگا، کہ ان میں کون سے نئے پوسٹروں کا اضافہ ہوا ہے۔ جسم کی نمائش کرتے پوسٹرز شاید امتحان لینے کے لیے لگائے گئے ہیں۔ پوسٹروں کے پیچھے کورٹ کے باہر جھونپڑیوں کے نیچے وکیلوں کی ٹیبل، کرسیاں اوپر سے دیکھیں، جو روز کی طرح الٹ کر رکھی گئی تھیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد نیچے اتر آیا۔ کالج کی عمارت کا چکر لگایا۔ لیکن کوئی بھی ایسا آدمی نہیں پہنچا تھا کہ جس کے ساتھ بیٹھ کر پل بھر بھی وقت گزارا جا سکے۔ کبھی کبھی کوئی مجھ سا سیدھا سادہ اسٹوڈنٹ آ جاتا تو پھر اچھی خاصی کچہری ہو جاتی تھی اور کافی وقت بھی گزر جاتا تھا۔

پر آج کوئی بھی اسٹوڈنٹ نہیں آیا تھا۔ بس میں اکیلا ہی تھا۔ لیکن تنہا بور ہو رہا ہوں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ ابھی انہی خیالوں میں گم تھا کہ اچانک گھڑیال کا گھنٹا بج اٹھا۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو ساڑھے سات بجے تھے۔ ٹائم دیکھ کر اور بھی زیادہ بور ہونے لگا۔ کالج شروع ہونے میں پورا ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پہلا پیریڈ مس جمال کا ہوتا ہے۔ ویسے تو پہلا پیریڈ اٹینڈ کرنا کسی کو بھی یاد نہیں ہوتا تھا۔ اکثر بہت سے اسٹوڈنٹس کا مس ہو جاتا تھا۔ لیکن جب سے مس روزی جمال ہمارے کالج میں آئی ہیں، اس کے بعد سے اسٹوڈنٹس کلاس شروع ہونے سے پہلے ہی آ جاتے ہیں۔ ہر ایک جیسے خوب تیار ہو کر آ جاتا ہے۔

کلاس شروع ہونے میں پورا ایک گھنٹہ باقی تھا۔ من میں بہت غصہ بھر گیا۔ جب کچھ اور نہ کر سکا تو دل ہی دل میں اسکول بس کے ڈرائیور کو پہلے تو کوسنے لگا اور پھر گالیاں دینے لگا، کیونکہ جو ٹھنڈک گالیاں دینے سے ملتی ہے، وہ کوسنے سے بھلا کہاں ملتی ہے۔ سالا۔۔ حرا۔۔ کہیں کا۔ صبح ساڑھے پانچ بجے نیند سے اٹھنا پڑتا ہے، بس اسکول بس تک پہنچنے کے لئے۔ بے بس ہو کر اسکول کی سیڑھی پر ایک کھمبے کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ دس پندرہ منٹ گزر گئے پر کوئی بھی دوست نہیں آیا، جس کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنے کی خاطر کسی عشق کی کہانی پر بات کروں۔ دل میں خیال آیا، کس کو فرصت ہے کہ ساڑھے سات بجے کالج آئے۔ شہر والوں کے لیے تو جیسے سورجا بھی نکلا ہی نہیں ہے۔ آٹھ سے پہلے کون آتا ہے؟ جہاں کہیں بھی نظر یں جاتی ہیں، وہاں ویرانگی ہے، جیسے کسی عفریت کے خوف سے لوگ گھروں میں چھپ کر بیٹھے ہوں۔ اسکول کی سیڑھی سے اٹھ کر باہر کے مین گیٹ پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ ہلکا پھلکا ٹریفک رواں دواں تھا۔

روز وقت گزارنے کے لیے کسی نہ کسی رستے پر نکل جاتا ہوں۔ آج بھی فردوس سنیما سے ہوتا ہوا چوراہے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ دل میں یہی تمنا رہی کہ صبح کے وقت شاید کسی اپنے کا دیدار ہو جائے، پر وہاں بھی یہی لگا جیسے کوئی عفریت صبح صبح وہاں سے ہو کر گیا ہو۔ ایک میں ہی تھا جو اس وقت ایسی بیکار باتیں سوچ رہا تھا۔ نجانے کیوں آج بے چینی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ آج بھی قدم اپنے آپ کسی جانب بڑھنے لگے۔ چوراہے سے ہو کر سیدھا‘‘سیماب ڈرائی کلینرز’’ کے سامنے سے گھومتے ہوئے شمال میں جاتی گلی کی جانب بڑھا۔

ایسے بھی دن تھے، جب میں ہر روز اس گلی میں سے گزرتا تھا، لیکن آج بہت دنوں کے بعد اس گلی میں داخل ہوا ہوں۔ گلی میں نظر دوڑائی اور کچھ تو نہیں، بس بیچ راستے میں کوئی پتھر پڑا تھا۔ فٹ بال کا دلدادہ ہوں، عادت سے مجبور ہو کر جوتے سے ایک زوردار ٹھوکر لگائی۔ پتھر اڑتا ہوا یہ جا وہ جا۔ پھر گردن اٹھا کر دیکھا تو وہ سامنے کسی دروازے پر بیٹھی لڑکی کے قریب جا کر گرا تھا۔ بہت شرمسار ہوا۔ دل میں سوچا،‘‘لڑکی کیا سوچے گی۔۔۔ شاید یہی سوچے گی کہ پاگل ہوں یا یہی کہ میں اسے چھیڑنے کے لیے ایسا کر رہا ہوں۔ سوچا کہ کہیں اپنے ماں باپ کو بلا کے مار نہ کھلوائے کہ دماغ سے عشق کا دھواں نکلتا رہے۔‘‘

پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔ دل میں آیا کہ دوڑ کر وہاں سے بھاگ جاؤں، تاکہ وہ مجھے دیکھ بھی نہ پائے۔ مگر نجانے کیوں ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹا سکا۔ سامنے بیٹھی لڑکی خیالوں میں گم تھی۔ سفید لباس اور سر پرکالے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ کالا پن تو مایوسی کی علامت ہے یا پھر محبت میں شکست کی، پر آج کل کالا کپڑا عام طور پر فیشن کی ڈیمانڈ رہا ہے، پھر چاہے پہننے خود بھی کوئلے کی طرح کالا ہو۔ لڑکی نے گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ یہ چہرہ تو خوبصورتی کی علامت لگا، جیسے جانا پہچانا، جیسے دیکھا بھالا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی شاید پہچان لیا اور میں نے گھبراہٹ کے مارے گردن اوپر اٹھا کر عمارت پر لکھا’’انگلش ٹیچنگ اسکول” کا نام پڑھنے لگا۔

دوسری بار پھر دیکھا۔ دردِ دل اٹھنے لگا۔ پرانے زخم جیسے رسنے لگے۔ خود بہ خود بغیر کسی ارادے کے وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ آگے چلا جاؤں؟ بات کروں یا نہ کروں؟ کیا کروں کیا نہ کروں؟ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا دی، یا شاید میری حالت پر۔ میں اب بھی سوچوں میں گم تھا۔ پھر یہاں وہاں دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ پر کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے اسکول کے دروازے کے پاس سیڑھی پر بیٹھی ہے۔ ابھی تک کوئی بھی بچہ نہیں آیا تھا۔ ہمت نہیں ہوتی کہ میں اس سے بات کر سکوں۔ آرام سے کھڑا ہوں۔

‘‘آج کیسے سویرے سویرے راستہ بھول گئے ہو؟‘‘ خود پہل کر کے اس نے میری مشکل آسان کر دی۔

‘‘بس! آج کوئی جنوب کی ہوا کھینچ لائی ہے، نہیں تو آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘ میں نے کہا۔

‘‘ہوائیں اگر کسی کو اپنے ساتھ لے آتیں تو پھر شاید میں بھی کسی طرف کھنچی چلی جاتی۔‘‘ اس نے کہا۔

‘‘ہوائیں ہر انسان کو تو نہیں کھنچتی، وہ صرف کمزوروں کو کھینچ کر لے جاتی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

اس نے گھور کر میری طرف دیکھا، کچھ مسکرائی اور پھر دائیں بائیں ایسے دیکھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو۔ آنکھیں جیسے کسی کو دیکھنے کیلئے منتظر تھیں۔

‘‘کسے ڈھونڈ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

‘‘اس گزرے وقت کو ڈھونڈ رہی ہوں جب میں اور تم۔۔۔‘‘ اس نے بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا اور پھر مجھ پر اپنی نظریں گڑا دیں، جیسے پوچھ رہی ہو۔ کہاں تھے؟ کیسے تھے؟

میرے پاس اس کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔

‘‘کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔

‘‘دیکھ رہی ہوں کہ۔۔۔ کتنی تبدیلی آئی ہے ان آنکھوں میں، جو ہمیشہ خمار میں ڈوبی رہتی تھیں اور وہ چہرہ جو ہمیشہ دکھوں کے باوجود بھی مسکراتا رہتا تھا، وہ سب کچھ آج پتہ نہیں کیوں۔۔۔‘‘ وہ آگے کچھ بھی نہیں کہہ پائی۔ میں پرسکون کھڑا رہا۔ کچھ کہنا چاہتا تھا، کچھ پوچھنا چاہتا تھا، کچھ بیتے ہوئے وقت کو دوہرانا چاہتا تھا۔ پر وہ تمام باتیں کہنی بیکار تھیں۔ کس سے بات کرتا؟ اس سے، جس کی ڈگر مجھ سے بالکل الگ تھی۔ جس کی منزل مجھ سے بہت دور تھی۔

‘‘کتنے دنوں کے بعد ملے ہو، پھر بھی خاموش!‘‘ اس نے پوچھا۔

‘‘بات کرنے کے لیے کچھ باقی بچا بھی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

‘‘جن کے پاس بات کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا، انہیں بیتے ہوئے کل کے کچھ لمحے اور کچھ یادیں ضرور تڑپاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا۔

‘‘جب تڑپنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو تو ماضی کے وہ لمحے، وہ یادیں کہاں تڑپائیں گی؟‘‘ میں نے کہا۔

‘‘پتہ نہیں کیوں، وقت اپنی رفتار کے ساتھ ساتھ انسان کو بھی بدل دیتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

‘‘وقت اگر انسان کو بدل دیتا تو پھر شاید آج کوئی کسی کو پہچان نہ پاتا۔‘‘ میں نے کہا۔

وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پتہ نہیں کیوں اس نے مجھ سے وہ سب کچھ دوبارہ پوچھنا چاہا، جو گزر چکا تھا۔ پر میں نہیں چاہتا تھا کہ ماضی کو دوبارہ سے یاد کیا جائے۔ ہماری راہیں مختلف تھیں اور ان راہوں پر چلنے والے دوسرے تھے۔ ہمارے ہاتھوں کی لکیریں دوسروں کے ہاتھوں میں تھیں۔ شاید ہم بوڑھے ہو جائیں گے، تب بھی ہماری لگام ہمیشہ اوروں کے ہاتھوں میں ہو گی۔ دور تک نظریں گھمائیں، بچوں نے اسکول میں آنا شروع کر دیا تھا۔ میں اس کے پاس کھڑا رہا، اس کی طرح میں بھی خاموش تھا۔ ہمارے درمیان وہی ایک سی خاموشی تھی۔ دور سے شاید کوئی اور ٹیچر آ رہی تھی اور میں گھبرا کر بغیر کچھ کہے آگے بڑھا۔ پتہ نہیں کیوں وقت نے اسے سمندر کی ایک لہر کی طرح کسی دوسرے کنارے پر پھینک دیا ہے۔ ہمارے درمیان فاصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ میں اس تک پہنچ نہیں پایا۔ اسے چھوڑ کر میں آگے بڑھا۔‘‘سیماب ڈرائی کلینرز’’ کی جانب سے چوراہے کا چکر کاٹ کر کالج کی طرف بڑھا۔ کچھ لمحے پہلے وہی قدم جلدی جلدی چوراہے کی جانب بڑھے تھے، تاہم اب وہ چستی بالکل ختم ہو گئی تھی۔ ایسے محسوس کر رہا ہوں، جیسے ساری دنیا کا بوجھ میرے کندھوں پر آ کر لد گیا ہو۔ کالج کے باہر والے میں گیٹ سے اندر داخل ہوا۔ اس سے پہلے صبح جہاں ویرانگی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، اب وہیں چہل پہل لگی ہوئی تھی۔ اسکول اور کالج کے اسٹوڈنٹ اپنی اپنی کلاسوں میں  جا چکے تھے۔ میں کالج کی سیڑھی سے چڑھتے ہوئے برآمدے میں داخل ہوا۔ پونے نو بج چکے تھے۔ میں اپنی کلاس کے پچھلے دروازے سے اجازت لیے بغیر خاموشی سے جا کر پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ مس جمال اس وقت پڑھا رہی تھی اور میں اپنی سوچوں میں گم تھا۔ وہ باتوں میں ہوشیار اور تیز ضرور ہے پر پڑھانے میں اتنی ماہر نہیں۔ انگریزی میں ماسٹرکی ڈگری ہے اس کے پاس۔ کالج کے تمام اسٹوڈنٹ مس روزی جمال کا نام لے کر آہیں بھرتے ہیں، پر مجھے وہ بالکل نہیں بھاتی۔۔۔ شاید غیر ہونے کے ناطے اور اپنے فیشن کے طور طریقوں اور نخروں کی وجہ سے۔ پورے کالج کی تینوں لیڈی ٹیچرز میں سے صرف ایک ٹیچر میری آئیڈیل ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ خاموش رہتی ہیں، میری طرح، یا شاید اپنی سی لگتی ہے۔

کلاس میں مس جمال کی آواز موسیقی کی طرح پھیل رہی تھی اور میری گردن زمین کی طرف جھکی ہوئی تھی۔ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ کلاس میں لیکچر کی طرف کوئی توجہ ہی نہ رہی۔ سیٹ پر خود کو لا ابالیوں کی طرح آزاد چھوڑ دیا ہے۔ سوچوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آج کی ملاقات منفرد اور اچانک ہوئی، بالکل خواب کی طرح مس جمال کی آواز نے اچانک سپنوں سے جگا دیا۔

آج بھی کل کی طرح بس نے جلدی لا کر چھوڑ دیا ہے۔ سب کچھ روز کی طرح نارمل ہے۔ میں کالج کی عمارت سے نکل کر چوراہے کی طرف بڑھتا ہوں، کہیں کہیں سوچوں میں کھو جاتا ہوں۔ میں آج اس سے ملو یا نہ ملو؟

ساری رات جاگتے اسی سوچ میں گزاری ہے۔ کوئی فیصلہ نہیں کر پایا ہوں۔ چوراہے پر کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ایک دو قدم آگے بڑھاتا ہوں۔ ہاں، وہ میرا انتظار کرتی ہو گی، اپنے ذہن میں سوچتا ہوں۔ ہاں، میرا انتظار کرتی رہے۔ جب ملن ہی نہیں ہونا تو پھر کیوں کسی سے ملا جائے۔ وہ الگ، میں الگ۔ پھر ملنا کیسا؟ میرے ملنے سے کہیں اس کی زندگی زہر نہ بن جائے۔ میں اس کے لیے سوچتا رہتا ہوں۔ آج اپنے آپ ہی شمال کی طرف جانے کے بجائے جنوب کی طرف نکل آیا ہوں۔ یہاں کوئی بھی اسکول نہیں، کوئی بھی لڑکی نہیں۔ سوائے گیراج کے جہاں چھوکرے اور مستری موجود ہیں، جو صبح سے آتے ہی ٹھک ٹھک کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔

ایک کار میرے پاس سے گزرتے ہوئے، تھوڑا آگے جا کر گیراج کے پاس رک جاتی ہے۔ ڈرائیور دروازہ کھول کر مستری سے بات کرنے لگتا ہے۔ کار کی پچھلی سیٹ پر کوئی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہے۔ اپنے آپ آنکھیں اٹھ جاتی ہیں۔ میں آنکھیں رگڑنے لگتا ہوں اور غور سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آنکھوں پر یقین نہیں ہوتا، نظر وہیں اٹک جاتی ہے۔ تصدیق کرنا چاہتا ہوں

وہ بیٹھی ہے۔ ترچھے زاویے سے چہرہ نظر آ رہا ہے۔ پتہ نہیں اس نے بھی مجھے دیکھا ہے یا نہیں؟ الٹے پاؤں لوٹتا ہوں، جیسے کسی نے بدن کو ڈس لیا ہو۔ لمبی سانسیں جاری رہتی ہیں۔ لگتا ہے اس نے مجھے دیکھا نہیں ہے، ورنہ مڑ کر میری طرف ضرور دیکھتی۔ پر وہ گاڑی کس کی ہو سکتی تھی؟

کار اور ٹیچر۔ لیکن سمجھ نہیں پایا۔ اب مکمل عزم کر لیا ہے کہ شمال کی طرف چلا جاؤں گا۔ بس یہی دو حصے رہ گئے ہیں۔ پر اگر وہ اس طرف، سوچ کر چونک اٹھتا ہوں، شاید میں اس سے ڈر گیا ہوں۔ میرے لئے ہر سمت محدود ہو چکی ہے۔ آج میں ڈرائیور کے بجائے خود کو کوسنے لگتا ہوں۔ کاش! میں شمال کی طرف نہ گیا ہوتا۔ اپنے آپ سے خود کلامی کرتا ہوں۔

میں اس سے بچ نہیں سکتا۔ ایسا لگتا ہے، میں ساری عمر اس سے دور بھاگتا رہوں گا، پر وہ کسی نہ کسی موڑ پر ضرور آ پہنچے گی۔

***

 

 

 

 

ملاقات

 

رشیدہ حجاب

 

آج پھر زویا کا فون آیا۔ گذشتہ ایک ماہ سے وہ کئی بار فون کر چکی ہے۔ ایک دو بار آ کر بھی کہہ گئی ہے، اس کا اصرار ہے کہ میں شیبا سے ملوں۔ ویسے بھی شیبا سے ملے برسوں بیت گئے تھے۔

اس سے کیسے ملوں؟

کس منہ سے ملوں؟

حقیقت تو یہی ہے کہ میری ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ایک لمبے عرصے سے نہ تو اس کا حال ہی جانا تھا، نہ ہی کبھی اسے اپنے پاس بلایا تھا۔ ابھی تو اس کے نقشِ پا بھی یادوں کے کینوس پر دھندلے سے پڑنے لگے تھے۔

شیبا وہ ہستی تھی جسے میں ایک لمحے کے لئے بھی خود سے جدا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ میرے ہی وجود کا ایک اہم جز بن گئی تھی۔ صحیح طرح تو یاد نہیں پر اتنا ضرور یاد ہے کہ اس کے ساتھ میری پہلی ملاقات ایک چھوٹے سے شہر میں ہوئی تھی۔ ہم دونوں ایک بڑے گھر کے صحن میں کھیلتے کودتے، ایک دوسرے کے ہمراز اور ساتھی بن گئے تھے۔ وہ ایک صحت مند اور خوبصورت شکل و صورت کی لڑکی تھی، پر اس کے باوجود اس کے وجود کی کبھی نہ بھول پانے والی بات تھی، اس کی ذہانت اور زندگی کی بھرپور چمک سے روشن آنکھوں اور اس کے گالوں پر بننے والے دو خوبصورت ڈمپل۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ ہنس مکھ اور ذہین لڑکی ایک گھڑی میں بیٹھے بیٹھے اچانک گوتم بدھ کی طرح خاموش ہو جاتی تھی۔ فلسفہ اور علم کا سنگم اسے ایک اور شخصیت کے روپ پیش کرتے تھے۔ ان دنوں میں ہی اس نے لکھنا شروع کیا اور تھوڑے ہی وقت میں بچوں کے ادب کی ایک مصنفہ کے طور پر اس کا نام مشہور ہو گیا۔ کبھی کبھی اسے بات کرتے دیکھ کر یہ یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ جو لڑکی پتھر کے ٹکڑوں کو پاؤں سے ٹھوکریں مار کر کودا کرتی تھی، وہ مصنفہ بن جائے گی۔ پھر وہ کافی عرصے تک مجھ سے دور چلی گئی۔

ایک لمبے وقفے کے بعد اس سے ملاقات ہوئی، تو وہ پہلے والی لا ابالی اور افراتفری مچانے والی شیبا نہ تھی۔ اس کی چال میں ہرنیوں والی مستی تو اب بھی تھی، آنکھوں کی چمک بھی ہیروں کو مات دے رہی تھی، گال کے خوبصورت ڈمپل چھپائے نہیں چھپ رہے تھے اور سب سے بڑی بات اب اس میں جوانی کی خوبصورتی بھی شامل ہو گئی تھی۔ اس کے بے حد گھنے بال، دو موٹی چوٹیوں میں بندھے ہوئے سیاہ سانپ کی طرح اس کے گلے میں جھول رہے تھے۔

‘‘ارے شیبا، تم اتنی بڑی کیسے ہو گئی؟‘‘ (وہ نہ صرف قد میں، بلکہ عہدے اور عزت میں بھی بہت بڑی ہو گئی تھی۔)

‘‘تم سے تو ملنے کے لئے بھی اب سوچنا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے بات کی، تو وہ ہمیشہ کی طرح بے جھجھک ہو کر میرے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ ڈال کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگی۔

‘‘نہیں، پاگل ہو گئی ہو کیا؟ دنیا کے لیے کچھ بھی ہوں، تمہارے لئے تو وہی بچپن والی شیبا ہوں۔ میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میرے لئے سب سے زیادہ خوشگوار لمحہ وہی ہوتا ہے جب میں تمہارے ساتھ ہوتی ہوں۔‘‘

وہ غلط نہیں کہہ رہی تھی پر مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ ایک غیر محسوس انداز میں مجھ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اب اس سے ملتے ہوئے وہ جوش، جذبہ اور امنگ محسوس نہ ہوتی تھی۔ اس کو دوسروں سے گھری ہوئی دیکھ کر، میں نے خود اپنے قدم پیچھے کر لیے۔ اخبارات میں، رسالوں میں، ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے اس کے بارے میں پتہ چلتا رہتا تھا۔ کبھی کبھی اس کی تصاویر بھی اخبارات میں آ جاتی تھیں۔ ایک لمبے عرصے کے بعد اس کی تصویر ایک رسالے میں دیکھی تو چونک اٹھی۔ رسالہ بار بار اٹھا کر دیکھا۔ نام اس کا ہی تھا پر ظاہری شکل و صورت اتنی بدلی ہوئی تھی کہ خود کو یقین دلانے کی کوشش میں میں ناکام رہی کہ یہ وہی شیبا ہے۔ وہ ایک بڑی ادارے کی منتظم اور روح رواں تھی۔ ٹیلیفون نمبر حاصل کر کے اسے فون کیا تو پہلا لفظ سن کر ہی وہ چلا اٹھی۔

‘‘ارے، آج کیسے تمہیں میں یاد آ گئی؟‘‘

‘‘یاد نہیں آئی، اب تم یاد انہیں کو آؤ گی جو تمہارے آس پاس مضبوط قلعے بنا کے کھڑے ہیں۔‘‘

‘‘مضبوط نہیں، کچے قلعے۔۔۔ ارے یہ تو کچی مٹی کی کچی دیواریں ہیں، میرا مضبوط پکا قلعہ، میری پختہ پناہ گاہ تو تم ہو۔‘‘ اس نے کمزور آواز میں کہا۔

‘‘شیبا، تم ٹھیک تو ہو؟ تصویر میں اتنی کمزور اور آواز اتنی پژمردہ اور بکھری بکھری، ہماری شیبا تو ایسی نہ تھی۔‘‘

اس نے جواب کیا دیا، میں سمجھ نہیں پائی۔ شاید اس کے آس پاس کافی لوگ تھے، یا وہ کوئی مسئلہ سلجھا رہی تھی۔

‘‘میں تم سے بعد میں بات کروں گی۔‘‘ پھر فون بند کر دیا۔ پہلے میں کچھ خفا ہوئی بعد میں بے انتہا دکھ ہوا۔ اسی دن زویا کا فون آیا۔ میں نے اسے صبح والی بات بتائی تو وہ تھوڑی دیر کے لئے تو خاموش ہو گئی، پھر کہا،‘‘تم کب سے اس سے نہیں ملی ہو؟‘‘

جواب دینے کے لیے ہونٹ ہلے تو، مگر شرمندگی کے مارے انہیں دوبارہ نہیں کھول پائی۔

‘‘یقیناً، تم نے عرصے سے اسے دیکھا نہیں ہے۔ وہ بہت کمزور، لاغر ہو گئی ہے اور اس کا دل بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ ہم سب سے بہت دور چلی گئی ہے۔ تمہارے اور میرے جیسے دوست اور محبت کے دعویدار اسے مشکل اور دشوار راہوں پر تنہا چھوڑ آئے ہیں۔ تمہیں تو یاد ہے، وہ گلی میں چھوٹے بچے کو روتا ہوا دیکھتی تھی تو کتاب کے درمیان میں رکھا اپنے جیب خرچ کا ایک روپے والا نوٹ بچے کے ہاتھ میں دے آتی تھی۔ عید پر پڑوس میں رہنے والی غریب چھوکری رحیماں نئے کپڑے نہ پا سکی، تو اپنا نیا قیمتی جوڑا موتیوں کے ہار سمیت زمین پر پھینک کر ماں کے ساتھ لڑنے لگی۔

‘‘کیوں بنوایا آپ نے یہ فضول جوڑا؟ آپ کو پتہ ہے کہ یہ رنگ مجھے ذرا نہیں بھاتا۔ نہیں چاہیے مجھے یہ جوڑا جا کر رحیماں کو دے دو، تو وہی پہن لے۔‘‘ غصے کا غصہ اور رحیماں کی عید کی عید، اس کی اس خاموش ہمدردی کو سب سمجھتے تھے، اس لئے اس کی ماں پہلے ہی بندوبست کر کے رکھتی تھی، فیروزی کے ساتھ نیلا جوڑا بھی تیار رہتا تھا۔

پڑھائی میں ہوشیار ہونے کی وجہ سے ہمارے سارے گروپ کو اسکالر شپ ملتی تھی۔ ستا ئیس روپے مہینے کے حساب سے سال بھر میں اچھا خاصا پیسہ ملتا تھا۔ ہم جان بوجھ کر اور چپکے سے جا کر اسکالر شپ لیتے تھے تاکہ کوئی سونے کی انگوٹھی یا کوئی اچھا جوڑا لے سکیں۔ وہ بار بار وعدہ کر کے عید بازار جانے کے وقت غائب ہو جایا کرتی تھی۔ ایک بار اس کی چوری پکڑی گئی۔ برف کی قلفیاں بیچنے والا پڑوسی رفیق جلدی جلدی جا رہا تھا، زویا نے جا کر ہاتھ پکڑا،‘‘یہ کیا چھپائے بھاگ رہے ہو؟‘‘

بیچارہ بچہ ڈر گیا، ایک ہی ڈانٹ میں سچ قبول کر لیا۔‘‘بہن، دو بار میٹرک میں فیل ہوا ہوں۔ قلفیوں کے کام سے تو گھر چل رہا ہے۔ فزکس اور میتھ میں ٹیوشن کی ضرورت ہے۔ شیبا باجی نے کہا تم ضرور پڑھو۔ ٹیوشن فیس دی ہے انہوں نے۔‘‘ لڑکے نے مٹھی کھولی۔ سو سو کے چار کڑک نوٹ تھے۔

ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا وہ شرمندہ ہو کر یہاں وہاں دیکھنے لگی، جیسے اس نے نیکی نہیں بلکہ چوری کا کام کیا ہو۔

ایسی ہمدرد، حساس ذہن والی، اتنی محبت کرنے اور محبت دینے والی شیبا اب افسری کے عہدے پر، رعب و دبدبہ، قوانین، فیصلوں کے جال میں، قاعدے قانون کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی، اپنی فطرت کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

‘‘تم اس سے ضرور ملو۔ اسے ہماری محبت کی جتنی ابھی ضرورت ہے پہلے کبھی بھی نہ تھی۔ اس کا غم، اس کی تنہائی ہے۔ اتنی بھیڑ میں رہتے بھی وہ اکیلی ہے، دل شکستہ ہے۔‘‘

جتنی دیر زویا بولتی رہی، میرے تصور میں تر و تازہ، گلاب کے پھول جیسی نکھری نکھری آنکھوں والی شیبا پھرتی رہی۔ اس کے لمبے بالوں کے بکھرے ہوئے کالے کالے بادل میری آنکھوں میں اتر آئے۔ اگلے لمحے ہی میرے قدم اس کے آفس کی جانب بڑھ گئے۔ آفس کے باہر گارڈ بندوق لیے بیٹھا تھا۔ اس کے کمرے سے پہلے، اس کی سیکریٹری کا کمرہ تھا۔ ملاقات سے پہلے اس سے اجازت لینا ضروری تھی۔ میں دل ہی دل میں ہنسی۔ شیبا جیسی مخلص، معصوم، نیک اور امن پسند، بلکہ کسی حد تک بزدل شخصیت کو اس دماغی فوج کی کیا ضرورت پڑی!

میں دونوں کمرے پار کر کے اس کے آفس میں آئی۔ وہ اپنے شاندار آفس میں ہمیشہ کی طرح سوچوں سے گھری ہوئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے میرا دل فخر سے بھر گیا۔ اتنی عزت، اتنی شان، ایسا مقام، اس چھوٹی سی کمزور لڑکی کو صرف اور صرف اس کی نیک دلی اور محنت کے بدلے ملا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں ہماری شیبا تھی۔ پر دوسرے ہی پل جب اس کے چہرے پر نظر پڑی تو زویا کا رونا یاد آ گیا۔ وقت اور کئی سالوں کی محنت نے شاید اب اس کی ہڈیوں تک کو نچوڑ ڈالا تھا۔ آنکھوں میں ذہانت تو آج بھی جھلک رہی تھی پر جوانی کی لو دم توڑتی نظر آ رہی تھی۔ چہرے کے گلاب جانے کب کے کملا گئے تھے۔ گھنے سیاہ بالوں میں چاندی کی تاریں لپٹی ہوئی تھیں۔ مجھے دیکھ کر وہ بے قابو ہو اٹھی۔ مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھا گئی۔ اس کے گالوں میں پڑتے خوبصورت ڈمپل جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ وہی تو تھے جو ہر کسی کو اس کی کشش میں ڈوبنے پر مجبور کرتے۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر بے اختیار مجھ سے ملنے کے لئے آگے بڑھی، پر اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی۔ پاس میں رکھا ہوا سرخ بلب بھی تیزی سے جلنے بجنے لگا، وہ رک گئی۔ ریسیور اٹھا کر کچھ دیر فون پر بات کرتی رہی۔ اس کے چہرے پر فکر مندی کی لکیریں ابھر کر سامنے آئے لگیں۔ رسیور رکھ کر وہ فوراً باہر نکلنے لگی۔ میرے استقبال کے لیے اٹھے اس کے ہاتھ نیچے ہو گئے۔

‘‘معاف کرنا، میں تم سے آج نہیں مل سکوں گی۔ ایک ایمرجنسی ہے۔ مجھے اسی وقت ہی ایک اہم میٹنگ میں حصہ لینا ہے۔‘‘

وہ تیزی کے ساتھ چلی گئی اور میں دروازے پر کھڑی سوچتی رہی۔‘‘تم کب ملو گی؟ کب اپنے وجود کے اس بچھڑے ہوئے حصے کو ملاقات کا موقع دو گی؟ کیا تم اور میں ہمیشہ کے لئے الگ ہو گئے ہیں؟ تمہارے حساس دل کا یہ نرم کونا، تمہارے کاغذ اور قلم، تپتی دوپہر کی مٹی اڑاتی گرم مگر زندگی سے بھرپور ہوائیں اور سردی کی لمبی سرد اور پیچیدہ راتیں، بہار میں نرگسی خوشبو سے بھری ہواؤں کے قافلے، سبھی میری طرح۔ ایک عرصے سے تم سے ملنے کے لئے بے قرار کھڑے ہیں، یہ ملاقات خود سے تمہاری کب ہو گی؟‘‘

***

 

 

 

 

مضبوط ٹکا ہوا بٹن

 

پوپٹی ہیرانندانی

 

میری نصف بہتر دیکھی ہے؟ جیسے فوج کا کوئی کردار۔ اس دن کہا تھا،‘‘مجھے تمہاری یہ بات بالکل اچھی نہیں لگتی۔‘‘

میں نے کہا تھا۔‘‘میری کوئی بھی بات تمہیں اچھی لگی ہے؟‘‘

اس پر کہتی ہے،‘‘تم ہو ہی الٹے تو پھر میں کیا کروں؟‘‘

اب میں ہو گیا الٹا اور وہ ہوئی سْلٹی۔ کھٹ پھٹ بھی تو اتنی ہے کہ بس پوچھو ہی مت۔ زبان جیسے دو دھاری تلوار۔ مجھ جیسے چھ فٹے کو اس کی تین انچ کی زبان لٹا دیتی ہے۔

دوست کہتا ہے،‘‘جس گھر میں میٹھی گفتگو کرنے والی عورت نہ ہو، اسے جنگل میں بس جانا چاہئے۔‘‘ سچ، جنگل میرے اس گھر سے کسی بھی حال میں بدتر نہ ہو گا۔

آتشزدگیاں جنگلوں میں بھی ہوتی ہی رہتیں ہیں۔ جب آگ لگتی ہے تو سب کچھ بھسم کر دیتی ہے نہ؟ یہاں تو ہر دم آگ لگتی رہتی ہے۔ کسی نہ کسی کونے میں آگ کے شعلے اٹھتے ہی رہتے ہیں۔ اس سے تو اگر گھر چھوڑ کر نکل۔۔۔۔ پر میں نکلو تو کیوں نکلو؟ گھر میرا اور میں ہی نکلو؟ کیوں نہ اس کو ہی نکال دوں؟ نکال دوں۔۔۔؟ اپنے بچوں کی ماں کو نکال دوں؟ بچوں کا کیا ہو گا؟ گھر کا کیا ہو گا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ۔۔۔!

لوگوں کو مارو گولی۔ یہ ہی تو تھے جو کہتے پھرتے تھے،‘‘شادی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

‘‘مومل کا چہرہ کب دکھاؤ گے؟‘‘

‘‘بھگوتی کے شادی بیاہ کے گیت کب گونجیں گے؟‘‘

یہ لو، مومل کو لے آیا، اب اس خوش شکل صراحی کے منہ سے یہ جو زہر نکلتا رہتا ہے، وہ بھلا میرے سوا دوسرا کون نگلتا ہے؟

میں بھی عجیب آدمی ہوں۔ اس طوطی نے اپنی چونچ سے نوچتے نوچتے میرے پروں کو اتنا کم کر دیا ہے کہ میرے پاس اس کے ساتھ پنجرے میں رہنے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا ہے۔ پر سوچتا ہوں کہ میں اس سے اتنا کیوں ڈرتا ہوں؟ عورت سے ڈر رہا ہوں۔ آفس میں تو میں کڑکتی آواز میں بات کرتا ہوں۔ وہ زرین کپاڑیا مجھ سے کتنا کتراتی ہے؟ ڈرافٹ لکھتے وقت اس کے ہاتھ کانپتے ہیں۔ تمام چپراسی مجھ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ میں بھی کہتا ہوں بھلے ہی ڈرتے رہیں۔۔۔ پراس آفس میں میرا رعب بنا رہے۔۔۔ ویسے گھر میں تو وہ مجھے دھمکاتی رہتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انگلی سے اٹھاتی ہے اور انگلی سے بٹھاتی ہے۔ میرے اعتماد کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ بچے کچھ پوچھتے ہیں تو کہتا ہوں۔‘‘جا کر ماں سے پوچھو۔‘‘ اس دن فتو نے جب کورس کے بارے میں پوچھا، تب بھی ماں سے پوچھنے کے لیے کہا، تووہ کتنا حیران ہوا؟ جھٹ کہہ دیا،‘‘ڈیڈی، ممی کو کالج کی تعلیم کے بارے میں کیا پتا؟‘‘

میں بھی کیا کروں؟ کبھی کچھ کہتا ہی نہیں ہوں کہ پھر فوراً ملٹری کا قاعدہ قانون لاگو ہو جاتا ہے۔ فارسی کے دانشور سچ کہتے ہیں کہ شادی کی پہلی رات ہی بلی مارنی چاہئے، نہیں تو پھر بیوی سر پر ناچنے لگتی ہے۔

توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ زبان کی قینچی اتنی تیز چلاتی ہے کہ میرا ساراوجود ہی ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹ کے درزی کی دھجیوں کی صورت ہو جاتا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ شادی ہی نہ کرتا!

پر بھائی، شادی کرنے کا تو میرا بھی دل تھا۔ میں سمجھا، عورت کیا ہو گی، گڑ کی ڈلی ہو گی۔ اس کے نرگسی چہرے پر مہکتی شبنم ہو گی، جس سے ہر وقت مہک آتی رہے گی۔ وہ بات کرے گی تو گیت جھڑنے لگیں گے اور میں ہوش وحواس بھلا کر اس کی مٹھاس میں مد ہوش ہو جاؤں گا۔ مجھے کیا پتہ کہ یہ بلا میرے پلے پڑ جائے گی۔

شادی کے وقت تک تو اسے بولتا رہا،‘‘میری چاشنی۔۔۔ میری روشنی۔۔۔ میری بلبل۔۔۔ میری سوہنی۔۔۔‘‘ بالکل مرید بن کر اس کے پیچھے کیوں پھرتا رہا؟

سچ۔۔۔ اس وقت مجھے کتنی اچھی لگتی تھی وہ۔ پلکیں جھکا کر ترچھی نظروں سے میری طرف دیکھتی تھی، تو میرے سارے بدن میں بجلی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ اس کا دوپٹہ کندھوں سے کھسک کر نیچے سرک آتا تھا، تو میری تمنائیں اوپر ابھر آتیں۔۔۔ اس کا ہاتھ تھام لیتا تھا، تو وہ شرما کر کہتی تھی۔‘‘’چھوڑو نا، کیا کر رہے ہو؟‘’’ بس میرے دل کی امنگوں کی لہریں ایک دوسرے کے اوپر لہراتی بل کھاتی رہتیں۔ ایک انوکھی سی خوشی کی لہر جھاگ اڑاتی میرے دل کے کنارے چلی آیا کرتی۔ گرم اور پر جوش ارمانوں کی چمک میرے دل پر پھیل جاتی تھی۔

پر اماں یار، جب میں نوجوان تھا، جوانی کے رنگوں کے سامنے قوس وقزح کے رنگ بھی شکست کھا جاتے ہیں۔ جوبن کی اس حالت میں کڑوی مٹھاس اور میٹھی کڑواہٹ، ملنے پر تڑپتی خوشی اور بچھڑنے میں سوز بھرا سکھ، نہ جانے کیا کیا محسوس کیا ہے۔

تو کیا اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں؟ ابھی تو صرف چالیس ہی پار کئے ہیں۔ پردیس میں چالیس کے بعد ہی جوانی کی رُت شروع ہوتی ہے۔ پر قصور بھی تو میرا ہی ہے، تب اتنی خوشامد نہ کرتا تو آج اتنا سر گھوما ہوا نہ ہوتا۔

پر اب بھی وقت ہے، اگر ڈنڈا اٹھے گا تو بھلا ہو گا۔۔۔ چ۔۔۔ چ۔۔۔

کیا کہہ رہے ہو؟ کیا کرو گے آخر؟ کیا مارو گے اسے؟ بس اسی شرافت نے تو مار ڈالا ہے۔ اگر مجھ سا کوئی مرد سامنے ہوتا تو اس کے دانت توڑ دیتا، پر اس عورت ذات کے سامنے۔۔۔۔

پتہ نہیں یہ عورتیں ایسی کیوں بنی ہیں آخر؟ کیوں ایک عورت میں دو عورتیں سمائی ہوئی ہیں۔۔۔ ایک نرم، دوسری سخت۔ ایک پھول جیسی، دوسری لوہے جیسی۔ ایک ملائم آگ اور دوسری جلتا پانی۔۔۔ اوہ! دو مخالف چیزیں ملیں گی تو ایسا ہی ہو گا۔

اے میرے بھگوان! بڑی تنقیدی نظر ہوتی ہے ان کی۔ اس دن کہہ رہی تھی۔‘‘چلو باندرہ، میری خالہ کے پاس۔‘‘

‘‘ارے، میں تمہاری خالہ کے پاس چل کر کیا کروں گا؟‘‘

بھئی دو عورتیں ملتی ہیں تو باتیں کرتی ہیں فقط اچار اور پاپڑ کے بارے میں، تقریریں کرتی ہیں سبزیوں کی مہنگائی پر اور بحث کرتی ہیں انجانے لوگوں کی منگنی اور شادی کی باتوں پر۔

میں نے کہا۔‘‘میں بیٹھ کر میگزین پڑھتا ہوں۔‘‘ تو منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔

حیف ہے ہماری مردانگی پر اور شرمندگی ہوتی ہے ہمارے مرد ہونے پر۔ بس، عورت نے اگر دو آنسو ٹپکا دیئے تو ہم نے اپنی داڑھی دے دی ان کے ہاتھوں میں۔۔۔!

کل بیچارا وِشنو آیا۔ بچپن کا دوست ہے، سنگی ساتھی۔ کھانا کھا کر نکل پڑے اور جا کر اندھیری میں ہو تو کے پاس پہنچے۔ اگر نکل گئے تو کیا ہوا؟

پر گھر پہنچے تو رات کو دن بنا کر رکھ دیا۔ بات کا بتنگڑ ہو گیا۔ شادی کی تو نل دمینتی کی طرح ایک ہی چادر میں لپٹے سے رہتے۔ بس کہتی رہی۔‘‘اس مردار وشنو سے کیوں نہیں شادی کر لی؟‘‘

وہ سندر ہے نا میری خالہ کا بیٹا۔ پورا گھمکڑ، سچ مچ پکا بنڈل باز، لیکن کچھ بھی کہو وہ دل بہلا جاتا ہے۔ اگر تھوڑی وہسکی پیتا ہے تو کیا ہوا؟ بوتل اگر پیتا ہوں تو اس کے میکے سے تو نہیں لے کر آتا؟

پر سندر کا کہنا تو اسے اچھا ہی نہیں لگتا۔ ارے، اگر میری بیوی ہو تو کیا ہوا؟ تمہارا شوہر ہوں تو کیا ہوا، کسی کا بھائی، یاردوست بھی ہوں۔ ماں اور بہن کو تو برداشت کرتی ہی نہیں، چاہے وہ اس سے کتنے ہی اچھے رویے کا مظاہرہ کریں۔ یہ صرف ان کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی طرف ہی نظر دھرے گی۔ اس کا شوہر ہونے کے ناطے کیا صرف اس کی ہی جاگیر بن گیا ہوں؟ خود اگرچہ ہزاروں خرچ کر کے ساڑیاں لے لے، پر مجال ہے کہ میری بہن کے لیے کبھی بھولے سے بھی سو ڈیڑھ کی کوئی چیز خریدے۔ میری ماں کو بھی اگر کچھ دیتی ہے تو  لیکھا جوکھا سنا کر، دام کو دس گنا بڑھا کر، پھر بھی جیسے ان پر بہت مہربانی کرتے ہوئے۔ پیسے میرے اور مہربانی اسکی۔ ظلم ہے! بیل کی طرح پسینہ بہا کر پیسے کمائیں ہم اور وہ اس کمائی کے پیسوں کی مفت میں مالکن بنے وہ۔ عجیب ماجرا ہے۔ صرف مالکن ہی بنے تو غنیمت، پر میری پوری ہستی کے حقوق جیسے اسے ملے ہوئے ہیں۔ میرے وقت پر اور میرے پیسے پر، میرے آنے پر اور میرے جانے پر، میرے اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت پر بھی اس کاپورا حق ہے۔

وہ لِیلا ہے نہ؟ موتی کی بیوی، اس کے طور طریقے، چال ڈھال کتنے عمدہ اور پیارے ہیں۔ بات چیت بھی میری بیوی کی طرح نہیں ہے۔ بات کرتی ہے، تو لگتا ہے جیسے صبح کی ہوا سیر کو نکلی ہو۔ دو گھڑی جا کر اْس کے گھر بیٹھو تو لگتا ہے گھٹن بھرے کمرے سے نکل کر کسی نیم کے درخت کی چھاؤں تلے بیٹھا ہوں۔ کبھی جو بیوی کی کاٹ کھانے والی باتوں سے بھاگ کر اس کے پاس جا بیٹھتا تھا تو ایسے لگتا تھا جیسے چودھویں کی رات میں، چاند اور ستاروں کے نیچے، کسی کی مدھر بانسری سن رہا ہوں۔ لیکن اسے میری خوشیاں کیوں راس آتیں؟ سچ میں پریشان کر دیا ہے۔ ابھی جوتے پہن کر دروازے کی طرف جاؤں گا، تو سوالوں سے حملہ شروع کر دے گی۔

‘‘کہاں جا رہے ہو؟ موتی کے گھر میں کیا ملتا ہے؟ اس سے بہتر ہے گھر میں بیٹھ کر آرام کرو۔‘‘

دل کہتا تھا کہ کہہ دوں۔‘‘میری ہر بات میں مداخلت کیوں کرتی ہو؟ آرام جانے اور میں جانوں، تم کیوں فالتو میں پریشان ہوتی ہو؟‘‘

وہ گھورتی اس طرح تھی جیسے زہر بھرا تیر پھینک رہی ہو۔ آخر میں بھی آدمی ہوں کوئی کیڑا مکوڑا تو نہیں؟ ارے اْس ایشور نے بھی ایک کہانی لکھی تھی‘‘ مرا ہوا مکوڑا‘’’۔ پر میں وہ مکوڑا بنوں؟ بے غیرت مرد بنوں؟

یہ تو ہونا ہی نہیں ہے۔ گردن مروڑ دوں گا۔۔۔ مروڑ کر پھینک دوں گا۔ پر بھئی، یہ ہے سچ، بچپن میں ریکارڈ پلیئر پر سنا تھا۔

ترجمہ: دولہا چڑھا گھوڑی پہ، سب کچھ داؤ پر لگا کر، سوا گھڑی کے واسطے عمر بھر پھنستا ہے۔

بس گڑ پر جمع کیڑے مکوڑے جیسی حالت ہے ہم مردوں کی۔ ارے شاید دھوبی بن گیا ہوں۔ سوچ رہا ہوں۔ شرٹ نکال کر پہن لیتا ہوں۔

مشکل سے جا کر اتوار ملتا ہے۔۔ آج لیٹ ہوا جاتا ہوں۔۔۔!

ارے مگر اس کا بٹن تو ٹوٹ گیا ہے، کہتا ہوں کہ ٹانک دے، نہیں نہیں رہنے دو بے چاری کو، آزادی سے لطف اندوز ہونے دو، نہیں تو ایسا مضبوط ٹانکے گی کہ کیا کہوں۔۔۔ چھید سے سوئی پار کر کے چاروں طرف دھاگا لپیٹ کر۔

سوئی آر پار۔۔۔ دھاگا چاروں طرف۔۔۔

"ارے لیٹ کیوں گئے ہو؟ بھابھی کے پاس چلنا ہے۔ جلدی سے تیار ہو کر آؤ، نہیں تو کہو گے دھوپ میں لے کر چلی تھی، اس لئے سر میں درد ہو گیا ہے۔۔۔ ”

"آج چھوڑ دو، تم بھابھی کے پاس ہو کر آؤ۔ میں بیٹھا ہوں۔۔۔ ”

"نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسے کیسے ہو گا؟ سب کے ساتھ تھوڑے ہی رشتہ توڑ دو گے۔۔۔ اٹھو۔۔۔ شرٹ پہنو۔۔۔ ”

***

 

 

 

 

بیمار خواہشوں کی تلاش

 

مشتاق احمد شورو

 

 

کیا یہ ان سب تکلیفوں، خفتوں، خواریوں، ذلتوں، ذہنی اذیتوں، اناڑی پن، بے ڈھنگے پن کے خفیف احساسات میرے حصے میں آنے والے تھے؟ الزام بھی بھلا کسے دیں، اپنی ایسی قابلِ رحم حالت کے لئے! ۔ ویسے تومیں اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں، امیدوں، ناکامیوں، مایوسیوں اور نا امیدیوں میں زندہ تھا، جیتا رہا ایسے ہی، لیکن یہ احساس؟ شاید میرے چہرے کی طرح، میری روح، میرے وجود اور سوچ میں بھی سلوٹیں پڑ گئی ہیں یا شاید میں غلط موقع، غلط وقت اور غلط جگہ پر پیدا ہوا ہوں یا موجود ہوں۔

لیکن یہ کوئی خاص نئی یا حیران کرنے والی بات تو نہیں ہے۔ میں جو کچھ بھی سوچتا ہوں، وہ کہہ نہیں سکتا۔ یہ تو ابتداسے ہی تھا۔ اور اس کے سوالوں کے جواب، اُن کی سوچ بچار اور رائے پر دلیل، اور اُن کے جوابوں کے جواب الجواب بعد میں ہی دماغ میں آتے ہیں۔

‘‘ایسے جواب دیتا تو میں یہ دلیل دیتا۔‘‘

سامنے منہ پر بات کرتے تو جیسے مجھے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ہوش گم ہو جاتے ہیں۔ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں، کون سا جواب دوں؟

لوگوں کے دھتکارنے، نفرت کرنے، نظر انداز کرنے اور اہمیت نہ دینے کی وجہ تو چلیں مان لیں، میرا اناڑی پن اور جنون ہی ہو۔ لیکن میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہے؟ کوئی کتنی بھی بے عزتی کرے، ذلیل کرے، استہزا کرے، طعنے مارے، لیکن بدلے میں دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ پہلے تو دل ہی دل میں اس آدمی کو اپنے ہاتھوں ذلیل اور نیچا کرنے کی فلم بار بار چلاتا تھا، لیکن اب زندگی کے اس پائیدان پر کون بیٹھ کر حساب کتاب کرے۔ بچا ہی کیا ہے اب، حساب کتاب کے لیے! شعلوں کے انتظار کا عذاب، اذیت اور شکستگی کو جو موت کی سزا ملنے والا قیدی، اپنی زندگی کی آخری رات محسوس کرتا ہے، اسے اس قیدی سے زیادہ اور کون کیسے سمجھ سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے؟

میں جو اپنے وجود کے پہلے دن سے اندھیروں میں بھٹکتا، کھسکتا، ٹھوکریں کھاتا، صاف شفاف، اجلی روشنی اور اجالے کی تلاش کرتا رہا۔ مگر ملا کیا؟ کالی سیاہ، اندھیری راتیں مقدر بنتی رہیں۔ مقدر کیا ہے، تقدیر کیا ہے، قسمت کیا ہے، معلوم نہیں!

لیکن حقیقت میں عجیب دستور ہے کہ ایک جیسے ہی حالات میں، ایک جیسے مواقع حاصل کرنے پر بھی کوئی جیت جاتا ہے، تو کوئی ہار جاتا ہے۔ کوئی بچ جاتا ہے، تو کوئی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ایک ہی بس کے حادثے میں کوئی مر جاتا ہے، تو کسی کا بال بھی بانکا نہیں ہوتا۔ اور میں جس کسی کام میں بھی ہاتھ ڈالتا ہوں تو تباہی اور خرابی پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہوں۔ سیدھا سادہ کام تو مجھ سے کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ میرا وجود ہی ایک ‘‘کریمنل جوک” ہے۔

کریمنل! ۔۔۔ کرائم۔۔۔ کیا ہے یہ کرائم؟ مجرم بننا آدمی کا اپنا انتخاب تو نہیں۔ انسان تو بالکل خالی اور کورا ہے۔ اس کے پاس دینے کے لیے اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ تو معاشرے کو بس وہی لوٹا دیتا ہے، جو معاشرہ اسے دیتا ہے۔ اور یہی معاشرہ! اس معاشرے کے پاس تو مجرم، ذہنی مریض یا پاگل پیدا کرنے کے علاوہ اور ہے بھی کیا؟ یہ اصل میں ایک بڑا کارخانہ ہے، گنہگار اور ذہنی مریض پیدا کرنے کا۔ خود سے پیدا کئے جانے والوں کے لئے سزائیں بھی معاشرہ خود ہی طے کر بیٹھتا ہے۔

میں زندگی نہیں گزار رہا، زندگی ہی مجھے آہستہ آہستہ جی رہی ہے۔ کبھی نہ کم ہونے والی مصیبتوں میں، نا امیدیوں اور مایوسیوں کے کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے میں۔ زندگی کے ہاتھوں میں نے ہر قدم پر، ہر موڑ پر مار کھائی ہے اور میرے حصے میں اپنے ہی زخموں کو چاٹنے کے سوا آیا ہی کیا ہے؟

آگے کیا ہو گا؟ بھلے کچھ بھی ہو پر بہتری کی امید رکھنا بیوقوفی ہے۔ کبھی کبھی سراب اور نخلستان بھی بہتر ہوتے ہیں۔ کچھ وقت کے لئے آدمی میں جینے کی تمنا تو پیدا ہو جاتی ہے۔ جب وہ زندگی میں آئی تو میں سمجھ بیٹھا، کہ کچھ بھی ہو وہ میرے لئے کسی گھنے درخت کی چھاؤں ہے۔ میں نے سوچا، اس درخت کے تنے کے سہارے اس کے کالے سیاہ بادلوں جیسے بالوں میں منہ چھپا کر، باقی کی بچی کچی زندگی گزار لوں گا۔ کچھ بھی سوچے بغیر ان دکھوں، ان مصیبتوں، ان بے غیرت رسموں اور ذلتوں کو ہٹا کر۔ پر وہ پرچھائیں تھی، ٹک نہ پائی۔

خواہشوں اور امیدوں کی بھیڑ میں پامال، کچلتے ہوئے بھی، اس بھیڑ سے الگ رہ پانا کتنا مشکل ہے، اپنے بدصورت، بے ہنگم اور معمولی وجود کو بھلا کر۔ چاہا میں نے بھی تھا کہ کوئی ہو جو ٹوٹ کر مجھے چاہے، کسی اور کے نام سے جڑی ہوئی نہ ہو۔ صرف اور صرف میرے لئے ہو اور اس کی آنکھوں میں صرف میں ہی سمایا رہوں۔ اس کی آنکھیں بھی اسی کی طرح کنواری ہوں اور میں نے اپنے خواب کو اس کے روپ میں حقیقت کی شکل اختیار کرتے ہوئے پایا۔

اس نے کہا،‘‘اس کا پہلا پیار کوئی تھا، جو اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ اسی لیے وہ اپنے آپ میں کھوئی رہتی ہے۔ ویسے بھی عورت کو محبت سے زیادہ سماجی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ تو صرف شادی کے چکر میں ہے۔ اس کا دل، سوچیں، خیال بٹے ہوئے ہیں۔ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں جیتی ہے۔‘‘

لفظ نہ تھے، بم کے دھماکے تھے۔ میرے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی اور میں خود کو زمین اور آسمان کے درمیان میں لٹکا ہوا محسوس کرنے لگا۔ یہ صدمے تو قسمت ہیں۔ دکھ پھر بھی ہوا، مصائب اور تکلیف کا سبب تو اتنا اہم بھی نہیں تھا، پھر بھی جانے کیوں؟ پتہ نہیں میں نے ایسا کیوں کیا۔ سکون حاصل کرنے سے زیادہ دکھ اور ذہنی اذیت یوں گھیر لیتے ہیں، جیسے شہد مکھی کے چھتے میں دخل اندازی کرنے سے شہد کی مکھیاں گھیر لیں۔ قصور اس کا نہیں تھا، دخل اندازی میں نے ہی کی تھی۔

اس نے کہا۔‘‘ایک بات کہوں؟‘‘

میں خاموش۔۔۔

میرا جواب سنے بغیر اس نے کہا،‘‘شادی عورت کے لئے انشورنس پالیسی ہے جس کا پریمیم وہ سیکس کی صورت میں ادا کرتی ہے۔‘‘

اس کی بات کے بھدے پن کے اثر کو کم کرنے کیلئے میں نے ہی کہا تھا،‘‘نہیں، ایسی بات بھی نہیں ہے، عورت کو بچوں کی بھی تو خواہش ہوتی ہے، یہ بھی تو غیر معمولی ہے۔۔۔!‘‘

اب کچھ تو یاد نہیں، بس اسی طرح کچھ بکتا رہا، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ سب کچھ نارمل ہے۔ کچھ بھی اچانک اور صدمے جیسا نہیں ہے، سب ٹھیک ہے، ایسا ہی جیسا تھا۔

چوراہے پر میرا کھڑا ہونا فطری ہے، جب منزل کا کوئی پتہ نہ ہو۔ میرا تکلیفوں بھرا سفر تو میری پیدائش سے شروع ہوا ہے، مرنے پر ختم ہو گا۔ موت بھی جانے کیسے اور کس حالت میں آئے گی۔ وہ بھی شاید دردناک ہی ہو گی۔

شاید نہیں، یقیناً دردناک ہو گی۔

سزائے موت تو کاٹ رہا ہوں۔‘‘سسی فس’’ کو سزا دی گئی تھی کہ وہ بھاری پتھر کندھے پر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے اور جب وہاں پہنچے تو پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر پھر پہاڑ کے دامن پر آ جائے اور وہ اس بے سود کام پر ہمیشہ افسوس کرتا رہے۔ بے مقصد، شرمندگی بھری سزا۔‘‘سسی فس’’ کی طرح مجھے بھی شکستوں کی اذیت اور بغیر کسی منزل کے سفر کرنے کی سزا ملی ہوئی ہے۔ میری روح کی دردناک چیخیں گونگے بہرے کانوں تک نہیں پہنچ سکتیں، سب بیکار ہے۔

یہ رات کی ان بہت سی منفرد راتوں میں سے ہے، جس میں راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور اس کی جگہ بے خوابی لے لیتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے، نیند بھی روٹھے ہوئے محبوب کی طرح ہوتی ہے، ضدی، سخت، کبھی نہ ماننے والی۔ بے خوابی آنکھوں میں یوں بس جاتی ہے، جیسے خالی ویران اور اجڑی جگہوں پر بھوت پریت اپنا گھر بنا بیٹھتے ہے۔ اب ہو گا کچھ اس طرح کہ سورج نکلنے کے بعد اونگھتا ہواسا، بے حال سا، بیہوشی کی عالم میں، آج کا سارا دن اور کل بھی بیکار چلا جائے گا۔ کوئی کام وام کرنے کی کوئی سدھ بدھ نہ رہے گی۔ یہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پر کرنے کے لیے ایسا کچھ ہے بھی تو نہیں!

اب اس زندگی کے لیے بیٹھ کر کیوں سوچا جائے، کون سا آرام اور سکون ملا ہے اور پھر زندگی کون سی ہموار ڈھنگ سے گزری ہے۔

یہ زندگی تو کیا، کیوں، کے سوالوں میں ہی گزر گئی۔

شراب کیوں پیتے ہو؟ گندی رنڈیوں کے پاس کیوں جاتے ہو؟

ایسے کیوں ہو؟ ویسے کیوں ہو تم؟

پر کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ تم زندہ کس لئے ہو؟ مر کیوں نہیں جاتے؟

کوئی بھی میرے اندر جھانک کر مجھ میں چھپا ہوا، ڈرا ہوا معصوم بچہ نہ دیکھ پایا، نہ پہچان پایا ہے۔ میرے سخت چہرے اور رویے کے پیچھے پوشیدہ کمزور، ناتواں شخص کو تو وہ بھی نہیں دیکھ پائی۔ ہمیشہ مجھے پتھر دل ہی کہتی رہی۔ زندگی کے زخموں کی خلش کو اس نے محسوس نہیں کیا، جو مجھ سے جڑی تھی۔

اس نے کہا،‘‘تمہارے رویے میں بھی مایوسی ہے، تم ہمیشہ منفی سوچتے ہو۔‘‘پوزیٹو‘‘ رویہ تو تمہارے پاس سے بھی نہیں گزرتا۔‘‘

میں نے کب کہا اور سوچا ہے کہ زندگی کا فقط ایک ہی پہلو ہے۔ میں تو صرف اس زندگی کی بات کر رہا ہوں جو میرے حصے میں آئی۔ ورنہ صبح کی روشن کرنوں میں رہنے کی تمناکسے نہیں ہوتی۔ ہر انسان خوشی چاہتا ہے اور دکھ سے چھٹکارے کی امید رکھتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ انسان کے کنٹرول میں ہے؟ سب کچھ ایسا ہی ہے؟

اب لگتا ہے زندگی کا سارا حساب کتاب ہو چکا ہے۔ یک طرفہ ہی سہی، اس کی زندگی میں نفع نقصان کی تکرار میں بیٹھ کر کون روئے؟ بے معنی سوالوں کا جواب حاصل ہونے والا ہے نہیں، ایسے جیسے دھتکارے ہوئے احساس، دیوالیہ اور کنگال محبت کے بدلے میں نہیں ملتے ہیں۔ میں چاہے کچھ بھی کر لوں پر یہ طے ہے اور یہی میری غیر تحریر شدہ سزا ہے، جس میں میرا سارا وجود ایک ایسی تندہی اور مشقت میں لگا ہوا ہے،

جس سے کچھ حاصل ہونا نہیں ہے۔ کوئی بھی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرانس کے قومی دن پر فرانس کے سفیر کی جانب سے ملی ایک دعوت میں، میں وہسکی کا ایک پیگ ہاتھ میں لئے لان کے ایک خالی کونے میں سب سے الگ بیٹھا ہوا تھا، تو وہ میری طرف بڑھ آئی، نجانے کیا سوچ کر یا شاید کسی غلط فہمی کی بنا پر۔ اس سے پہلے تو ایسا کبھی ہوا نہ تھا۔

‘‘ہیلو، کچھ اپنے بارے میں بھی تو بتاؤ؟‘‘

وہ کچھ حیرت میں تھی۔

‘‘میں، بس ایک عام آدمی ہوں۔ او۔۔۔ ہاں، خوبیوں کے مقابلے میں خامیاں شاید مجھ میں زیادہ ہیں۔ شاید اسی لیے اپنے بارے میں کچھ ٹھیک سے کہا نہیں جاتا۔ اپنے بارے میں درست فیصلہ نہیں ہوتا۔ زندگی میں ناکامیاں بہت ہیں، کامیابیاں نہیں کے برابر۔ کامیابیوں کے مقابلے میں ناکامیاں ہی ناکامیاں ہیں۔ میرے ساتھ ایسی کوئی بھی بات منسلک نہیں ہے، جو مجھے اوروں سے الگ پہچان دے۔ زندگی میں کوئی بھی کامیابی نہیں۔ بس سمجھ لو کہ اس زمین پر چھ اربوں کی آبادی میں، ایک میں بھی ہوں، ایسے ہی عام سا اور تو کچھ خاص نہیں سنانے کے لئے۔‘‘

‘‘تم تو شرمیلے ہو اور اپنے آپ میں کھوئے ہوئے ہو۔‘‘

‘‘مجھے معلوم نہیں۔ لیکن میں خوف سے ضرور دوچار ہوں۔ چوبیس گھنٹے ہی خوف میں جیتا ہوں، کچھ انجانا سا خوف، اندھیرے کا ڈر اور۔۔‘‘

‘‘کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ تم ایسے کیوں ہو، مایوس اورشکست خوردہ؟‘‘

‘‘سوچا تو کئی بار ہے۔ لیکن معلوم نہیں۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی میں کچھ کمی ہے اور اپنائیت کا فقدان میں ہمیشہ محسوس کرتا رہا ہوں۔ اس کے سوا مجھے کوئی اندازہ نہیں، کچھ اور بھی ہو شاید، تاہم میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘

‘‘سچ کیا ہے؟‘‘

‘‘سچ وہ ہے جس کی ہمیشہ تلاش رہی ہے، پر کبھی ملا نہیں ہے۔ کسی کو بھی نہیں، گوتم بدھ کو بھی نہیں۔۔۔!‘‘

وہ کچھ دیر خاموش سے میرے چہرے کو تکتی رہی اور پھر بغیر کچھ کہے، اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر، آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بھیڑ کا حصہ بن گئی اور میں وہیں اکیلا ہی بیٹھا رہا۔

اکیلا تو ساری عمر رہا ہوں۔ کسی کو اپنا بنانا بھی تو مجھے نہیں آیا ہے۔ تا عمر اکیلے رہتے رہتے، اب حالت ایسی گئی ہے کہ کوئی خود سے بھی میری طرف بڑھنے کی کوشش کرتا بھی ہے، تو میں خود دور بھاگ جاتا ہوں۔ شاید خوف سے، شاید بے یقینی سے، یا شاید بے اعتباری سے۔ لیکن مجھ میں کچھ ایسا ہے بھی نہیں کہ کوئی میرے ساتھ ساری عمر گزار سکے۔ احمق اور اناڑی تو ہوں ہی۔

اب شاید وقت بھی نہیں ہے میرے پاس رشتے ناطے بنانے کا اور نہ ہی ہمت۔ شاید وقت اور جرات دونوں میرے پاس نہیں۔ شاید۔۔۔!

اب تو لگتا ہے زندگی سے لڑنے کے لئے میرے پاس کوئی ہتھیار ہی نہیں بچا ہے۔

***

 

 

 

 

دنیا ایک اسٹیج ہے

 

نور الہدی شاہ

 

اس محفل میں صرف مجھے ہی رقص کے لیے بلایا گیا تھا۔ رات کے پہلے پہر جب لوگ جمع ہو چکے تھے اور سبھی شراب پی کر بے سدھ ہو چکے تھے، تب میں نے پائل کی چھم چھم کے ساتھ آہستہ آہستہ پاؤں اٹھانے شروع کیے۔ مرحومہ کجل بائی کو جنت نصیب ہو، ہمیشہ کہتی تھی کہ پہلے تماشائیوں کو جام بھر بھر کے پلاؤ، جب وہ نشے میں چور ہو جائیں، پھر ناچو۔ صرف نوٹ ہی نہیں، خود کو بھی تم پر قربان کر دیں گے۔ پائل کی چھم چھم کے ساتھ سازندوں نے بھی ساز چھیڑنے شروع کیے اور زمین میرے پاؤں تلے زور زور سے گھومنے لگی۔ اسی گھومتے منظر میں ہی جیسے بجلی کی طرح میری آنکھوں کے سامنے سے وہ آ کر گم ہو گیا۔ پردے میں منہ ڈال کر بیٹھا، اس کا سارا جسم پٹ سن میں لپٹا ہوا۔ مجھے لگا وہ بے سدھ تو ہے پر اس نے شراب نہیں پی ہے۔ ایک وہی ہے جو جاگ رہا ہے، باقی سب کھلی ہوئی سرخ آنکھوں کے اندر سوئے پڑے ہیں اور ان کے کھلے ہوئے منہ میں فقط کوے کائیں کائیں کر رہے ہیں۔

ناچ ناچنے والی!

ناچ ناچ ناچ، ناچنے والی!

ناچ۔ ناچ!! !

جب نوٹ، شکار ہوئے پرندوں کی طرح، ہوا میں ایک چکر لگا کر زمین پر آ گرتے تو زمین اور بھی تیزی سے میرے پاؤں تلے گھومنے لگتی تھی۔ زمین پر اس تیز گھومتے چکروں میں، فقط ایک بار ہی اس نے آہستہ آہستہ پردے سے منہ نکالتے ہوئے دیکھا اور صرف ایک ہی نظر مجھ یوں ڈالی، جیسے میں کوئی بیکار چیز ہوں اور ایک پھونک مار کر جیسے کیڑے مکوڑے کو ہوا میں اڑا دیا جائے، ویسی ہی مسکراہٹ کے ساتھ واپس پردے میں منہ چھپا لیا۔ مرحومہ کجل بائی کہتی تھی کہ اگر ایسا کوئی تماشائی، جس کی نظر میں تیری کوئی حیثیت نہ ہو، اسے پھنسا کر پھڑپھڑانے پر مجبور کر اور ادھ مرا کر کے پھینک دے۔ جیسے جیسے تڑپے گا اور چلائے گا، زمانہ اس کا تماشا دیکھ کر پتنگوں کی طرح تجھ پر مرے گا۔ اس کے پردے میں واپس منہ چھپانے پر میں نے پائل کی آواز کو اور بھی تیز کیا اور ناچتے ناچتے زمین کے گھیرے کو بھی اس کے قریب لے آئی۔ اس کے آگے میں گول گول گھومتی رہی، لیکن نہ وہ حیران ہوا، نہ چونکا، نہ پردے میں سے منہ کو نکالا، نہ ہلا، نہ ڈُلا۔ بس رات شمع کی طرح پگھلتی رہی اور تماشائی پتنگوں کی طرح خاک ہوتے رہے۔

فجر کی اذان سے کچھ پہلے محفل برباد شہر کے منظر میں بدل گئی، جسے دشمن کا کوئی لشکر گھوڑوں کے سموں تلے کچل گیا ہو اور ادھر ادھر لاشوں کے ڈھیر دکھائی دے رہے ہوں۔ کھانے کے لیے سجائے پکوان وہیں بکھر گئے، بستر، چادریں سوئے ہوئے جسموں کے نیچے سے کھسک گئیں۔

شہر اجڑا، سازندے مال بٹور کر چلتے بنے، بس میں تھی اور وہ تھا۔ کمرے کے بیچ، سرخ ایرانی قالین پر بیٹھ کر میں نے پازیب کھولی۔ مجھ سے بس دو قدم دور وہ پردے میں منہ چھپائے بیٹھا تھا۔ میرے ہاتھ پازیب پر اور آنکھوں اس پر گڑھی تھیں۔ باہر مسجد میں فجر کی اذان شروع ہو گئی تھی اور پوری رات میں اس نے دوسری بار پردے میں سے منہ نکالا۔ اس نے اٹھنا چاہا، تو میں نے بجلی کی تیزی سے اٹھ کر اسے جا پکڑا۔

‘‘ٹھہرو!‘‘ میں نے کہا۔

وہ جیسے نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گیا اور خاموشی سے میری طرف دیکھتا رہا۔

‘‘میرا رقص تمہیں نہیں بھایا؟‘‘

وہ صرف مسکرایا۔

‘‘کس بات کا غرور ہے؟ مردانگی پر؟‘‘ میں نے ایک قہقہہ لگایا اور وہ ایک مہذب مسکراہٹ ہونٹ کے بیچ دبا کر بیٹھا رہا۔

‘‘وہ مرد ہی کیا جس کی آنکھ عورت کو دیکھ کر بے قابو نہ ہو؟‘‘

میں نے کہا،‘‘لیکن بد نصیب، شرمندہ ہے تیری مردانگی۔‘‘ میں نے اپنی آنکھوں میں ملامت گھول کر اس کی طرف دیکھا۔ لیکن اس نے نہ خاموش توڑی، نہ مسکراہٹ۔

‘‘اکیلے میں میرا ناچ دیکھو گے؟‘‘ میں نے پوچھا،‘‘ ہجوم میں تیری شرمندہ مردانگی گھبراتی ہے شاید۔ چلو لوگوں سے دور کسی سنسان کونے میں چل کر میری جوانی کا جلوہ دیکھو۔ تمہاری شرمندہ مردانگی میری جوانی کا جوبن جھیل نہ پائے گی۔ مجنوں کی طرح کپڑے پھاڑ کر، چلاتے ہوئے سنسان ویرانے بساؤ گے۔ ہے کچھ دم؟ یہاں بہت آئے اور ان کا قتل ہوا۔ آؤ، آج تم خود کو آزماؤ، میں خود کو آزماتی ہوں۔ وہ رقاصہ کیسی جو دلیروں کو نہ لبھائے۔ مرحومہ کجل بائی جیسی تیز نظر رکھنے والی ماہر عورت بھی کہا کرتی تھی کہ اپنی ستر سال کی عمر میں اس نے مجھ جیسی رقاصہ نہیں دیکھی، جس کی نظر کا مارا نہ مر پایا، نہ جی پایا، بس تڑپتا رہا اور ایک گھونٹ کیلئے ترستا رہا۔ کہا کرتی تھی کہ وہ گھونٹ کبھی مت پلانا جسے پینے سے مردے میں جان پڑ جائے۔ چلو، چل کر دیکھو تو صحیح میرا رقص، جسے دیکھنے کے لیے بادشاہ بھی فقیر بن گئے۔ نوٹوں کے تھال بھر کر لانے والے لوٹتے وقت بخشش کا کٹورا ہاتھ میں لے کر مجھ سے ہی بھیک مانگتے رہے۔ مگر میں بادشاہ کو بھیک دیتی ہوں، فقیر کو نہیں۔ لیکن تم پر نوازش کرنے کیلئے تیار ہوں۔ آؤ، آؤ، تم اپنا امتحان لو، میں اپنا امتحان لوں۔‘‘

میں نے اس کے پٹ سن کا سرا جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا۔ اس نے وہ سرا اپنی طرف پھر کھینچ لیا۔ اس کی آواز میں اتنا سکون تھا، جیسے دریا کی چھاتی پر آواز کی بازگشت گونجتی ہو، دور تک، سادہ، خاموش اور تنہا۔

‘‘سب بیکار رقاصہ۔‘‘ اس نے آخر خاموشی توڑی،‘‘فالتو، بے کار، یہ سارا دھوکہ ہے۔ یہ شباب، یہ رقص، کچھ بھی تمہارا نہیں ہے۔ جسے تم رقص کہتی ہو، وہ کسی باریک سوئی کے سوراخ سے گزرتے دھاگے کا پیدا کردہ ہے، جس کا دوسرا سرا کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور تم فقط نچائی جا رہی ہو۔ اس کے لیے نہ تو تمہارے ناچ پر کوئی مر مٹا ہے، بلکہ اس لئے کہ زمانے کو گردش میں رکھنا ہے۔ شاہ کو فقیر بنانا ہے اور فقیر کو تخت نشیں کرنا ہے، جس کی انگلیوں میں سب کے دھاگے لپٹے ہوئے ہیں، اس کی بے فکری تو دیکھو۔۔۔ صرف اپنی انگلیوں کی جنبش کو دیکھتا ہے،

نیچے پتلیوں کا رقص نہیں۔ یہ تمہارے چکر لگاتے پیروں کے نیچے موت دینے والے پھانسی گھاٹ کا تختہ بچھا ہوا ہے، پھر یہ ناچ بھی کیسا ناچ ہے رقاصہ؟ جہاں جہاں پاؤں دھرا، وہاں وہاں سے زمین کھسکتی جائے۔ یہ جسے تم شباب کہتی ہو، پتہ بھی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں! صرف ہڈیوں پر مٹھی بھر گوشت۔ جب تک گدھ، چیلوں کا نوالہ بننے کے قابل ہے، آدمی کو اپنے ہونے کا گمان ہے۔ جیسے جیسے آدمی کے گوشت پر چیلیں جمع ہوتی ہیں، ویسے ویسے آدمی اپنی ہی مہک کا، خوبصورتی کا مزہ لیتا ہے۔ گوشت سڑ جائے گا، یہ جھیل جیسی آنکھیں، یہ گلابوں جیسے ہونٹ، یہ ڈالیوں کی طرح لہراتے بازو، یہ بھنور کی طرح گھومتے پیر اور یہ خوشبو دینے والا بدن، کچھ بھی نہیں ہے رقاصہ، فقط گوشت کا لوتھڑا ہے، اس کے بنا آدمی ہڈیوں کا ایک ڈھیر ہے، جس پر اس کے زخمی دل کا نشان بھی نہیں ملتا۔ یہ آنسو، مسکراہٹ، تکلیفیں، نزاکتیں سبھی ہوا کی ایک پھونک ہیں۔ صدیوں سے آدمی کی گمنام ہڈیاں خاک بنتی رہی ہیں۔ کون سی ہڈیاں شاہ کی، کون سی خاک فقیر کی، یہ گتھی کوئی حل نہیں کر پایا، سوائے اس کے۔ اس کی قدرت تو دیکھو، خاک سے آدمی بنا کر خاک میں ملا دیتا ہے۔ تم تو رقاصہ ہو، اپنے اَن چھوئے شباب پر مسکراتی ہو، لیکن پیچھے مڑ کر کے تو دیکھو۔ بھئی واہ۔۔۔ گھوڑوں کے سموں تلے کچلے گئے لشکر، خدائی کے دعویدار محل، قلعے سبھی برباد ہو گئے۔ دنیا نے تھوک دیا یا کتنوں نے دولت جائیداد کی طرح ہاتھوں میں لے کر ایک ہی پھونک سے اڑا دیا اور رقاصہ کچھ کے لئے تو یہ زندگی فقط ایک باریک شفاف پردہ ہے، عاشق اور معشوق کے درمیان۔ عاشقوں نے تو ایک ہی جھٹکے میں دنیا کو تہس نہس کر دیا۔ تم بتاؤ رقاصہ، جب تم چکر لگاتی ہو، تب تمہیں یہ دنیا کیا لگتی ہے؟ شراب کا پیالہ؟ کبھی سوچا ہے، جب نشہ اترے گا تو کیا ہو گا؟ شراب پینے کے لئے نہیں ہوتی رقاصہ، شراب گرا دینے کے لیے ہوتی ہے اور پھر چکھ کر دیکھو، شراب کو ہونٹوں تک لا کر گرا دینے کا نشہ، بس اتنا نشہ چکھ لینا چاہیے، نہیں تو باقی سب بیکار ہے، بے سود ہے، خاک ہے، فنا ہے۔‘‘

جتنی دیر وہ بات کرتا رہا، مجھے سانس لینا ہی یاد نہ رہا۔ مجھے لگا گوشت میری ہڈیوں سے آہستہ آہستہ سڑ گل رہا ہے اور ایک عجیب سی گندی بو میرے چاروں طرف پھیل رہی ہو۔ زمین میرے پاؤں تلے کھسک رہی ہے اور ہمارے سوا کوئی تیسرا ہے، جو اس کے اور میرے بیچ مسکرا رہا ہے، اس کے حال پر بھی اور میرے حال پر بھی۔ میرا گلا خشک ہونے لگا اور اس کی آنکھوں میں اس کے علاوہ سارے منظر دھندلا سے گئے۔ جانے کیا ہوا اور کیوں ہوا، میں نے جیسے اپنا تمام وجود جمع کر کے اپنے دونوں ہاتھوں میں سمیٹ لیا اور اس کے ہاتھ پکڑ کر، ان پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تھے۔ اسی لمحے مجھے لگا کہ میرے پاؤں کے نیچے سے ساری زمین کھسک چکی ہے اور میں فنا کے سمندر میں نیچے اور نیچے ڈوبتی جا رہی ہوں۔ گول گول سے چکر کاٹ رہی تھی، اس کے ہاتھ کا سہارا بھی، جو اس سمندر میں ایک تنکے کی طرح تھا، وہ بھی چھوٹتا گیا۔ میری حالت اس شرابی جیسی تھی، جسے اپنا نام اور گھر کا راستہ بھی یاد نہ رہا ہو۔ گھر پہنچنے کے بجائے کیسے لڑکھڑاتی ہوئی مرحومہ کجل بائی کی قبر پر پہنچی، یاد نہیں؟ یاد ہے تو صرف یہ کہ سورج ڈھل کر ملگجا ہو چکا ہے۔ نیچے ہر جانب جہاں تک نظر جاتی ہے قبرستان کی وسعتیں تھیں اور اوپر، بہت اوپر گدھ اور چیلیں چکر کاٹ رہی تھیں۔ میرا سر کجل بائی کے سینے پر تھا اور میں مسلسل رو رہی تھی۔

رقاصہ خاموش ہوئی تو میں رو دیا، کہا،‘‘سیاہ پٹ سن کے پردے میں منہ ڈھانپ کر بیٹھا وہ شخص میں ہی ہوں۔ اب سالوں سے پائل باندھ کر گلی گلی میں ناچتا ہوں اور تمہیں ڈھونڈتا ہوں، علم کا پٹارا ہاتھ میں لئے، در در پر آوازیں دیتا ہوں کہ کہیں کوئی ہاتھ آ جائے، جو تمہارے ہاتھ جیسا ہو۔ جس لمحے تم نے میرے ہاتھوں پر سے ہونٹ اٹھا لیے، اسی لمحے سے میں در بدر ہوں۔ تم سے پہلے میں نے زندگی کے کئی سال مرشد کے قدموں میں بیٹھ کر گزار دیئے، وہیں پر دنیا کو ترک کرنا اور سانسوں کی باغی گھوڑی کو باریک دھاگوں سے باندھ کر قابو کرنا سیکھا۔ لیکن نہیں، نہیں آدمی کی سانسیں سکھ چین کے لئے نہیں، آدمی کے لئے پاگل ہیں۔ رقاصہ، دنیا کو ٹھوکر مار بھی دی جائے، پر آدمی، آدمی کو کیسے چھوڑے۔ یہ انسان، جو فقط ہڈی پر، مٹھی بھر چڑھا ہوا گوشت ہے، اس کے جلووں کی جادوگری تو دیکھو۔ خاک، آگ کا شعلہ بن جائے اور آگ کے شعلے سے سمندر۔ آگ کا بھی وہ شعلہ، جو سمندر میں بھی نہ ٹھنڈا ہو سکے نہ بجھ سکے اور اسے تو دیکھو رقاصہ، آدمی کے وجود کے دھاگے تو اپنی انگلیوں سے باندھ لئے ہیں، پر اس کا دل بے لگام چھوڑ دیا ہے۔ با خدا، جب وجود اس کی مرضی سے گھومتا اور دل اپنی من مانی کرتا ہے، اس لمحے آدمی جیسے ادھ مرا پنچھی ہوتا ہے۔ ہائے ہائے۔ کس طرح پھڑپھڑاتا ہے، کس طرح تڑپتا ہے، پر سب بیکار۔ اس دن جب تم میرے ہاتھوں پر سے اپنے ہونٹ اٹھا کر تیز ہوا کی طرح یہاں سے نکل گئی تھیں، اس دن جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، پہلی بار فجر کی نماز میری بدقسمتی بن گئی اور میں وہاں سے ادھ مرے پنچھی کی طرح سیدھا آ کر اپنے مرشد کے قدموں میں گرا تھا۔

‘‘مجھے آزاد کرو، مجھے آزادی چاہیے۔‘‘ میں نے کہا۔ مرشد مسکرایا جیسے کسی بچے کی نا ممکن خواہش پر مسکرایا ہو۔

کہا،‘‘آزادی ہے کہاں؟ یہ سب جو تم دیکھ رہے ہوں، انسان کی قید کے الگ الگ درجے ہیں۔ بس، قید خانے کی کوٹھری تبدیل کی جاتی ہے، قیدی کا طریقہ بدل جاتا ہے، آزادی تو کہیں بھی نہیں ہے۔ پہلے جہاں قید تھے، وہاں تمہارے ساتھ دوسرے بہت سے قیدی تھے، اس لئے تم خاموش، صبر اور سکون سے بیٹھے رہے، پر عشق! عشق، تو اپنے آپ میں قیدِ تنہائی ہے۔ بس خدا معاف کرے، قیدِ تنہائی سمجھتے ہو؟ آدمی خود ہی تماشا بھی ہے اور اپنی حالت کا تماشائی بھی۔ کند دھار چھری سے خود کا قتل کرتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے، تڑپتا ہے، پھر خود کو سمیٹ کر پھر اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے۔ لیکن قیدِ تنہائی جو ہے، اس لئے کوئی اس کی آواز اور آہ و بکا نہیں سن سکتا، سوائے اس کے جس نے اُسکے لئے قید مقرر کی ہے۔‘‘ پھر مرشد نے اپنے قدموں کو سمیٹے ہوئے کہا،‘‘جاؤ، تمہارا قید خانہ بدل گیا ہے، جاؤ۔‘‘

وہ دن ہے اور یہ دن، میں مرشد کی پیشن گوئی کے مطابق قیدِ تنہائی میں ہوں۔ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے زخم دکھاتا ہوں۔ اپنے ٹکڑے پائل کی طرح پاؤں میں باندھ کر خوب ناچتا ہوں۔ تمہارا نام پکار پکار کر خوب شور کرتا ہوں۔ مگر سب بے کار، لوگ میرے قریب سے یوں گزر کر جاتے ہیں، جیسے مجھے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ لیکن تم مجھ پر رحم کرو رقاصہ، صرف ایک بار میرے ہاتھوں پر اپنے ہونٹ رکھ دو۔ صرف ایک بار رقاصہ۔ صرف ایک بار۔‘‘

رقاصہ خاموش! سیاہ پٹ سن میں لپٹے پردے سے منہ لگائے بیٹھا رہا۔ فجر کی اذان سے صرف کچھ لمحے پہلے آہستہ آہستہ پردے میں سے منہ نکالا، اس کے ہونٹوں پر سالوں کی تشنگی کے نشانات ٹھہر گئے تھے، جیسے اس نے شراب پیتے پیتے انڈیل دی ہو۔

آخر کہا،‘‘یہ بھی بیکار ہے، یہ بھی خاتمہ ہے، یہ بھی خاک ہے۔ صرف ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ہر کسی کا رخ وہ اپنی طرف موڑنا چاہتا ہے، تو پھر وہ اتنی کوششیں، بہانے، الجھن بھرے گھماؤ کیوں کرتا ہے؟ خاک ہی تو ہے، بس اس پر اپنے پاؤں دھر دے، پر پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ اسے اپنے ساتھ انسان کا عشق چاہیے یاوہ خود آدمی کے عشق میں جکڑا ہوا ہے۔ باہر فجر کی اذان سنائی پڑ رہی ہے۔‘‘ رقاصہ نے سانس لی اور کسی ہارے ہوئے سپاہی کی طرح اٹھتے ہوئے کہا۔

‘‘جیسے اس کی مرضی! فجر نماز قضا نہ بن جائے، ملن کی گھڑی بس گھڑی بھر کے لیے آتی ہے، کہیں بھول چوک نہ جائے۔ جلد بازی نہ آدمی سے سہی جاتی ہے نہ اُس سے۔‘‘

رقاصہ نے پاؤں اٹھائے اور اسٹیج سے اتر گئی۔ اس شخص کا کردار بھی پورا ہونے کو آیا تھا اور وہ اسٹیج سے اتر آیا اور پردہ گر گیا۔

نیا منظر شروع ہونے تک۔

***

 

 

 

 

درد کی پگڈنڈی

 

ڈاکٹر ہدایت پریم

 

یہ دنیا بڑی عجیب ہے۔ کہاں کہاں کے لوگ آ کر ملتے ہیں، مل کر بچھڑ جاتے ہیں پھر کوئی کسی کو یاد کرتا ہے، تو کوئی بھلا دیتا ہے۔ ملنے، بچھڑنے اور پھر ملنے کی آس امید پر آدمی جی رہے ہیں، جیتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں۔ کچھ آدمی اچانک ملتے ہیں، صرف چندپلوں کے لیے پھر بھی ہمیشہ یادوں میں بس جاتے ہیں۔ مگر کچھ کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے کے باوجود بھی انہیں یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ زندگی میں ایسے کم ہی آدمی ملتے ہیں، جن میں انسانیت کے اقدار بھرپور ہوتے ہیں اور وہ خود انمول موتی، انہیں بھلانا نا ممکن ہوتا ہے۔

سندھ کی روایتی مہمان نوازی پا کر باہر کے کتنے ہی ملکوں کے لوگ یہاں آتے ہیں، عزت اور محبتیں پا کر لوٹتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جوڑا، سارہ اور خضر انگلینڈ سے یہاں آیا ہوا تھا۔ وہ لندن یونیورسٹی کے ایک ریسرچ پراجیکٹ کی تحت آئے ہوئے تھے۔ سلیم نے رِیت کے مطابق ان کی خوب مہمان نوازی کی تھی۔ بہت کم امید کے باوجود بھی سلیم کو دوسرے سال کی اسکالرشپ ملی اور اس کا ایڈمیشن لندن یونیورسٹی میں ہی ہو گیا۔ لندن یونیورسٹی میں‘‘کناٹ ہال‘‘ میں پہنچتے ہی اس نے سارہ اور خضر کو‘‘ونڈسر’’، جہاں وہ رہتے تھے، فون کیا۔ جانے کیوں سلیم کو یہ محسوس ہوا کہ خضر کے مقابلے میں سارہ کو زیادہ خوشی ہوئی تھی۔ ایک انگریز عورت سارہ، جس نے پاکستان کے ایک نوجوان خضر سے شادی کی تھی، سندھ گھوم کر گئی تھی۔ سندھیوں کی سخاوت سے واقف ہو چکی تھی۔ سندھیوں کی سادگی اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ اس کے اندر شاید مہمان نوازی کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔ فون پر سلیم نے ایسے ہی جذبات کی خوشبو محسوس کی۔ سارہ اور خضر کو اس نے بتایا کہ وہ کناٹ ہال میں ٹھہرا ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے لندن آ کر سلیم سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

جمعے کے دن ونڈسر سے خضر نے سلیم کو فون کیا،‘‘یار سناؤ خضر، پہلا ہفتہ کیسے گزرا؟‘‘

سلیم نے جواب دیا،‘‘ابھی تو انجانوں کی طرح گھوم رہا ہوں۔ فقط یونیورسٹی اور برٹش میوزیم ہی دیکھ پایا ہوں۔‘‘

‘‘یہ تو بہت کچھ ہوا۔ خیر کل کہیں جانے کا پروگرام تو نہیں؟ ویک اینڈ ہے۔‘‘ خضر نے پوچھا۔

‘‘نہیں، کوئی پروگرام تو نہیں ہے۔‘‘ سلیم نے کہا۔

‘‘اچھا تو پھر شام کو چھ بجے کے قریب تمہارے پاس آئیں گے۔ کناٹ ہال وہی ہے نا جو نیو اسٹاک اسکوئر پر ہے اور گارڈن میں گاندھی کا مجسمہ لگا ہوا ہے۔‘‘

‘‘ہاں بالکل وہی ہے۔ شاید آپ کا دیکھا ہوا ہے۔‘‘

‘‘ہاں، ہاں! میں نے دیکھا ہے۔ اچھا کل ملتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر خضر نے بات ختم کی۔

کناٹ ہال، جس میں لگ بھگ ایک سو طلباء کے رہنے کی گنجائش تھی، اس کی تیسری منزل پر سلیم کو ایک کمرہ ملا تھا۔ پہلے دن کمرے میں آیا تو رات ہو چکی تھی۔ تھکن کی وجہ سے جلد ہی سو گیا۔ پھر صبح ہی اس کی آنکھ کھلی۔ پہلے اسے سارا ماحول اجنبی لگا تو ذہن میں سوال اٹھا۔‘‘سلیم، کہاں آ گئے ہو؟‘‘

یاد آتے ہی۔‘‘ارے پاگل بھول گئے، لندن پہنچ گئے ہو۔‘‘

سلیم اٹھا، کمرے کی بند کھڑکی پر سے سرخ ریشمی پردے ہٹا کر کھڑکی کھولی تو سامنے والے پارک سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ باغ میں کھڑے بڑے بڑے میپل ٹری کے پتوں نے کھڑکھڑ کرتے ہوئے ہواؤں کے ساتھ سُر ملایا۔ پھول بھی نہ جانے کتنے رنگوں کے، مختلف اقسام کے کھِلتے تھے۔ پارک کے مختلف کونوں میں مشہور شخصیات کے مجسمے لگے ہوئے تھے، پر ایک مجسمہ درمیان میں بھی لگا ہوا تھا، کسی آدمی کا! لیکن اس کی طرف پیٹھ تھی۔ آلتی پالتی مارے بیٹھے کسی شخص کامجسمہ۔ سلیم نے سوچا۔ مہاتما بدھ ہوں گے۔ لیکن پھر اسے دیکھنے کی خواہش دل میں ہلچل مچاتی رہی۔ سلیم نے جلدی سے غسل کیا، کپڑے بدلے اور نیچے تہہ خانے میں بنے ڈائننگ ہال میں جانے کے لیے لفٹ کے ذریعے نیچے آیا۔ لفٹ میں اس نے بیسمنٹ کا بٹن دبانے کی بجائے گراؤنڈ فلور کا بٹن دبایا اور لفٹ ہال کے دروازے کے سامنے آ کر رکی۔ وہ فوری طور پر باہر نکل کر روڈ کراس کر کے پارک پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اسے حیرانگی ہوئی۔ وہ مجسمہ گاندھی کا تھا، جس کے چرنوں میں کوئی پھول رکھ کر گیا تھا۔ سیاہ دھات سے بنا گاندھی، باغ کے درمیان میں بیٹھا تھا۔ سلیم نے مجسّمے کے چاروں طرف چکر لگایا۔ گاندھی جی نے دھوتی پہنی تھی، کرتہ نہیں تھا۔ نیچے تختی کے کنارے پر مجسمہ بنانے والے آرٹسٹ کا نام لکھا تھا۔‘‘فریدہ بینجمن’’۔

ہفتہ کے دن شام کو سلیم اپنے کمرے میں سارہ اور خضر کا انتظار کرتا رہا۔ ہال کی جانب سے پونے چھ سے پونے سات تک رات کا کھانا کھلایا جاتا تھا۔ سلیم نے سوچا۔ وہ دونوں کو کھانے کے لیے درخواست کرے گا۔ ڈپارٹمنٹ اسٹور سے فروٹ جوس کا ڈبہ بھی لے آیا۔ ابھی چھ بھی نہیں بجے تھے کہ نیچے استقبالیہ نے آگاہ کیا کہ آپ کے مہمان آئے ہیں۔ سلیم نیچے جا کر ان سے ملا۔ وہ جب سندھ آئے تھے تب اس نے کبھی بھی سارہ سے ہاتھ نہیں ملایا تھا، آج سارہ نے خود ہاتھ آگے بڑھا کر اس سے ہاتھ ملایا۔ کمرے کی طرف جاتے ہوئے سارہ نے اس سے پوچھا۔‘‘یہاں پہنچنے پر یہاں کے ماحول کے بارے میں تمہارے خیالات کیا ہیں؟‘‘

‘‘صاف ستھرا ملک دیکھ کر آنکھوں کو بہت سکون ملا۔ بہت خوش ہوا ہوں۔ اسکول کے استاد بھی اچھے ہیں۔ ہاسٹل بھی بالکل ہی پاس میں ملا ہے۔‘‘ سلیم نے آسانی سے اپنے من کی بات سامنے رکھی۔

خضر نے کہا،‘‘آپ کا اسکول بھی اچھا ہے، لائبریری بھی ڈھنگ کی ہے، آپ کے ملک میں بولی جانی والی اکثر زبانوں اور ثقافتوں پر بھی بہترین کتب کا ذخیرہ ہے۔‘‘

سلیم نے بات کو بدلتے ہوئے کہا،‘‘کھانے کا وقت ہو گیا ہے، چلو چل کر کھانا کھاتے ہیں۔‘‘

‘‘نہیں، ہم تمہارے پاس کھانا کھانے نہیں آئے ہیں بلکہ تمہیں کھانے کے لیے اپنے ساتھ لے جانے آئے ہیں۔ کچھ وقت رک کر چلتے ہیں، کسی انڈین ہوٹل میں۔‘‘ خضر نے اپنے پن کے ساتھ کہا۔

‘‘اچھا تو جوس پیتے ہیں۔‘‘ کہتے ہوئے سلیم نے پلاسٹک کے گلاس میں انہیں جوس دیا۔

‘‘ہاں، یہاں کسی سے دوستی ہوئی ہے یا نہیں؟‘‘ خضر نے اس سے پوچھا۔

‘‘ہاں، یہاں ہاسٹل میں ناصر شاہ صاحب خیرپور کے ہیں۔ دوسرا لاہور کا رہائشی بھی ہے۔ دونوں حکومت کی جانب سے یہاں پڑھنے آئے ہیں۔ بھلے لوگ ہیں۔ دوستی ہو گئی ہے۔ اکیلے پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ایک سکھ بھی دوست بن گیا ہے، من پریت سنگھ بادل۔ بالکل بادل کی طرح، ٹھنڈی چھاؤں دیتا ہوا، دل کو خوش کرتا ہوا۔‘‘

‘‘اسکول میں پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟‘‘ اب سارہ نے سوال کیا۔

‘‘سچ پوچھیں تو پہلے دن والے لیکچر میں تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا، اب آنا شروع ہوا ہے۔ کتاب بھی پڑھنے کے سجھاؤ دیئے گئے ہیں۔ دو تین کلاس کے طالب علم بھی مدد کرتے ہیں۔ ہر کلاس میں مختلف کلاسوں کی لڑکیاں ہیں۔ ایک ہے‘‘جولی‘‘، وہ انگریز ہے۔‘‘او ڈئیر‘‘ بار بار کہتی ہے۔ مجھ سے بڑا پیار ہے۔ دوسری ہے ہانگ کانگ کی‘‘چھوئی ینگ چیانگ’’۔ اسے تو انگریزی بھی اچھی نہیں آتی۔ اسے کہا گیا ہے کہ پہلے انگریزی زبان سیکھ لے۔ ایک انڈونیشیا سے آیا ہے،‘‘ملِیانو‘‘ بہت ہی بھلا مانس ہے۔ اپنے ملک میں انگریزی کا لیکچرار ہے۔ سنگاپور سے بھی لسانیات کا کورس کیا ہے۔ اچھی خاصی معلومات رکھتا ہے۔ میرے ساتھ بھی گھل مل گیا ہے۔ پانچواں ہے جاپانی‘‘سا تو‘‘، پورا نام‘‘ یاسو ہیدی سا تو‘‘ ہے۔ بہت خاموش رہتا ہے، پر ہے بہت ہوشیار۔ ویسے ہمارے بہت جنرل لیکچرز بھی ہوتے ہیں، جس میں مختلف طالب علم شامل ہوتے ہیں، اور پڑھانے والے بھی سینئر پروفیسر ہیں۔ کورس بڑی تیز رفتار سے پڑھاتے ہیں۔ ہوم ورک کا بوجھ بھی کافی زیادہ ہے۔

‘‘تمہارے اسکول میں میں نے بھی تین بار کھانا کھایا ہے۔ کھانا اچھا اور سستا بھی۔ میں اسکول میں اکثر آتی ہوں اور کافی شاپ میں بھی سینڈوچ وغیرہ اچھا ملتے ہیں۔ بھوک کم ہوتی ہے تو کافی شاپ میں جاتی ہوں، نہیں تو یہیں پر کھانا کھاتی ہوں۔‘‘ سارہ نے بتایا۔

خضر نے کہا،‘‘ ہم تمہیں دعوت دینے آئے ہیں۔ تم کسی ویک اینڈ پر‘‘ونڈسر‘‘ آؤ، تو ہم تم کو مکمل طور پر گھمائیں۔ محل بھی ہے، وکٹوریہ واٹرز بھی ہے، اور ہاں اپنا والا کالج‘‘رائل کالج آف ہالوے‘‘ بھی دکھاؤں گا۔‘‘

‘‘ضرور آؤں گا۔‘‘ سلیم نے کہا،‘‘پہلے آپ کو مطلع کروں گا، پھر چلا آؤں گا۔‘‘

خضر نے ہدایت دیتے ہوئے کہا،‘‘واٹر لو اسٹیشن سے ونڈسر کے لیے ٹرین ملے گی۔ اسٹیشن پر ہم تم کو لینے آئیں گے۔‘‘

سلیم نے سوچا۔ کسی موقع پر ونڈسر ضرور جانا ہے۔ اس دن ان تینوں نے مل کر ٹوٹنہم کورٹ روڈ پر ایک انڈین ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا، اس کے بعد وہ ونڈسر کی جانب روانہ ہوئے۔

سلیم اسکول کی لائبریری کے اس حصے میں بیٹھا تھا، جہاں لسانیات اور قانون کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ماحول بالکل پرسکون تھا۔ اس طرف لوگوں کا آنا جانا نہ کے برابر تھا۔ سلیم پڑھنے میں اتنا مگن تھا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ بڑی ٹیبل کے اُس سرے پر کوئی آ کر بیٹھ گیا ہے۔ آنکھیں کتاب سے ہٹا کر سلیم نے دیکھا تو سامنے ہی ایک لڑکی بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ لڑکی نے بھی اس کی طرف دیکھا اور پھر پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد سلیم نے لڑکی سے پوچھا،‘‘آپ کہاں سے آئی ہیں؟‘‘

شاید نرمی سے اس لئے پوچھ بیٹھا کہ لڑکی کی نقش و نگار اسے ایشیائی سے لگے، اس کے بال تھوڑے گھنگھریالے، رنگ گورا، قدمناسب تھا۔ اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی، اوپر سے سویٹر۔

‘‘ابھی تو برطانوی ہوں اور یہیں کی شہریت بہت سالوں سے ہے۔‘‘ اس نے انگریزوں کے انداز میں بات کی۔

‘‘یہاں کیا پڑھ رہی ہو؟‘‘

‘‘یہاں قانون کی ڈگری کے لیے پڑھ رہی ہوں۔ آپ کہاں سے آئے ہیں اور اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز میں کیا کر رہے ہیں؟‘‘

‘‘میں پاکستان سے آیا ہوں، لسانیات میں ڈگری کورس۔ وہاں میں یونیورسٹی ٹیچر ہوں۔ قسمت نے یہاں مجھے طالب علم بنا کر بھیجا ہے۔ میرا نام سلیم قریشی ہے۔۔ اور آپ کا؟‘‘

‘‘پائل۔‘‘

نام سن کر سلیم کے کانوں میں گھنگھرو بجنے لگے،‘‘اتنا خوبصورت اور پیارا نام کس نے رکھا ہے؟‘‘

‘‘مما نے نام رکھا ہے۔ وہ مانچسٹر میں ایشین ڈانس اسکول چلاتی ہیں اور کتھک رقص میں خاص مہارت رکھتی ہیں۔‘‘

‘‘پھر تو آپ بھی ڈانس کرتی ہوں گی؟‘‘

‘‘نہیں! مجھے مما نے پڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔ شروع میں تھوڑا رقص کیا تھا، پر اسے اپنا کیریئر نہیں بنایا۔‘‘

سلیم اور پائل بہت دھیمی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ وہاں کوئی تیسرا تھا بھی نہیں، نہیں تو لائبریری میں اتنی بھی بات نہیں کر سکتے۔ پائل اٹھ کر مزید کتابیں لے آئی۔ ٹیبل پر انہیں رکھتے ہوئے بولی۔‘‘جنوبی ایشیا میں عورتوں کو ان کے مذاہب نے، جیسی زندگی گزارنے کی اجازت دی ہے، معاشرہ انہیں اس حد تک آزادی دینے کی بات نہیں کرتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ در اصل یہ ایک موضوع میری اسائنمنٹ کا ہے، جس پر میں آج کل کام کر رہی ہوں۔‘‘

‘‘مرد کو برتری حاصل ہے۔ عورت ظلم کی چکی میں پس جاتی ہے تو بھی اف نہیں کرتی۔ اب کچھ عورتیں بیدار ہوئی ہیں۔ وہ اوروں کو راہ دکھا رہی ہیں، قانونی طور پر بھی مدد کر رہی ہیں، خود بھی وہ وکیل ہیں، اس لئے مڈل کلاس میں تھوڑا پڑھی ہوئی عورتوں میں شعور بیدار ہوا ہے۔ آپ کبھی وہاں گئی ہیں؟‘‘

‘‘نہیں، میں کبھی نہیں گئی ہوں۔ پر مجھے وہاں کے عورتوں، مردوں اور سبھی عوامی زندگیوں کی حالت کی مکمل خبر ہے، تبھی تو یہ موضوع لیا ہے۔‘‘

پائل کی سیاہ آنکھیں، سیاہ ابرو، دمکتی پیشانی سلیم کو زخمی کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس کا چمکتا ہوا چہرہ دل میں بس گیا تھا۔ لائبریری میں آہستہ سے چلنے کا دلچسپ انداز اسے بہت بھایا۔ پائل کام میں مصروف تھی، گالوں پر بال کی گرتی لٹیں وہ بار بار اپنے ہاتھ سے ہٹاتی رہی۔

سلیم رہ رہ کر اسے دیکھتا رہا اور اپنا کام بھی کرتا رہا۔ دوپہر کے کھانے کے وقت دونوں اٹھے، باہر نکل کر سلیم نے پائل کو کھانا ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ پائل نے معافی مانگتے ہوئے کہا،‘‘میں نے ایک سہیلی کو وقت دے رکھا ہے، کھانا بھی اس کے پاس ہی ہے۔‘‘ ایسا کہتے پائل اور سلیم پھر ملنے کی امید کا اظہار کرتے ہوئے اپنی اپنی راہ چل دیئے۔ اس کے بعد کاریڈورز، لائبریری، کافی شاپ یا یونیورسٹی آف لندن یونین اور ڈلنس بک شاپ میں پائل اور سلیم کی مختصر‘‘ ہیلو ہائے‘‘ ہوتی رہی، ایک دوسرے کی جانب چاہت بھرے خیالوں کے تبادلے اور آخر میں بائے بائے، گڈ بائے کہتے رہے۔

ان دنوں پنکج اداس آئے ہوئے تھے اور ویمبلی ایرینا میں پروگرام کی اطلاع ملی۔ موسیقی کے دیوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ٹکٹ کچھ مہنگا ضرور تھا، پر اپنے سکھ دوست من پریت سنگھ بادل کو کہہ کر اس نے دو ٹکٹ خرید لیئے۔

سلیم نے پائل کو خط لکھ بھیجا۔۔۔

‘‘پیاری پازیب۔۔ پنکج اداس کی موسیقی کا پروگرام،‘‘وطن سے چٹھی آئی ہے‘‘ آنے والی اٹھائیس تاریخ کو ویمبلی ایرینا میں ہے۔ میں نے اپنا اور تمہارا، دو ٹکٹ لے لیے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم یہ پروگرام ساتھ میں دیکھیں۔ امید ہے کہ اٹھائیس سے پہلے اس خط کا جواب ضرور دو گی۔ تمہارا خیرخواہ۔۔ سلیم‘‘

سلیم خط بند کر کے لاء سیکشن کے الفابیٹکلی کیبنٹ میں چپکے سے‘‘پ‘‘والے خانے میں رکھ آیا۔ ہر طالب علم اپنے اپنے سیکشن کے الفابیٹکلی کیبنٹ میں اپنی ڈاک قریب ہر روز دیکھتا تھا۔ سلیم کو یقین تھا کہ ایک دو دن میں خط پائل کو مل جائے گا۔ ویسے ہی وہ جواب لکھ کر اس کے سیکشن میں‘‘ی‘‘والے خانے میں رکھ جائے گی۔ کافی دنوں کے بعد سلیم کو پازیب کا جواب ملا۔ اس نے لکھا تھا۔۔

‘‘پیارے سلیم، تمہاری محبت بھری آفر مجھے ملی۔ پر افسوس کہ اٹھائیس تاریخ کو میں مانچسٹر جا رہی ہوں، دو چار دن مما کے پاس رہوں گی، معافی چاہتی ہوں۔ پیار کے ساتھ۔۔ پائل‘‘

خط پڑھتے ہی سلیم کو کافی دکھ ہوا۔ پنکج کا پروگرام وہ دوستوں کے ساتھ دیکھ آیا۔ پائل کی بے رخی کو بھلانے کی کوشش کرتا رہا۔

ایک دن پائل اسے کافی شاپ میں مل گئی۔ وہ کافی پی رہی تھی۔ مسکرا کر سلیم سے ملی۔ سلیم اپنے لئے چائے کا کپ لے آیا۔ کافی شاپ میں زیادہ طالب علم نہیں تھے۔

پائل نے بات شروع کی،‘‘پنکج اداس کا پروگرام کیسا رہا؟‘‘

‘‘پروگرام تو نہایت اچھا تھا، لوگ بھی بہت آئے تھے۔ وہ گانا لوگوں کو بہت بھایا۔‘‘چٹھی آئی والا”۔ پر تم نہیں چلیں، میں نے تمہیں بہت مس کیا۔‘‘

‘‘سلیم، تم اور میں ایسی تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں جو آپس میں مل نہیں سکتیں۔‘‘ پائل نے کہا۔

‘‘تو کیا ہوا، ہم اچھے دوست تو بن سکتے ہیں!‘‘

‘‘سلیم، یہ مت بھول جانا کہ مجھے ہر طرح کی آزادی حاصل ہے پر نہ جانے کیوں تمہیں دوست بناتے ہوئے، خوف لگتا ہے۔‘‘

سلیم نے جواب میں کہا،‘‘پائل، میں تو ایسا نہیں ہوں، میں نے تمہارے لئے اپنے دل کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ تمہیں ایسی بے بنیاد باتوں پر سوچنا نہیں چاہیے۔‘‘

‘‘یہی تو اس دنیا کی کڑوی حقیقتیں ہیں، جن سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔‘‘ پائل نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔

سلیم کو مایوسی ہوئی۔ شاید وہ اس طرح نہیں سوچتا۔ اس کے دل میں پائل کے لیے جو الفت پیدا ہوئی تھی، اس کا افسوسناک انجام وہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس شک ہی نہیں بلکہ یقین ہو گیا کہ وہ پائل کے دل میں جگہ نہیں بنا پائے گا۔ ایسی چاہت سے اور کچھ نہیں صرف درد ہی درد مل سکتا تھا۔ اس نے ایسے درد کو برداشت کرنے کا ارادہ کر لیا۔

کافی پی کر پائل کتابوں کا بیگ کندھے پر لٹکاتے ہوئے کرسی سے اٹھ کر جانے لگی، یہ کہتے ہوئے،‘‘سلیم، میں آنے والے ٹرم میں‘‘سواس‘‘ سے یونیورسٹی کالج آف لندن جا رہی ہوں۔ اوکے بائے، بائے۔‘‘

سلیم اس بات کی تہ تک پہنچ چکا تھا کہ اب پائل سے راستے چلتے بھی ملاقات نہیں ہو پائے گی۔ یہ قصہ یہیں ختم سمجھنا چاہئے۔ سلیم نے کرسی سے اٹھتے کہا۔‘‘بائے، بائے، گڈ بائے‘‘

سلیم نے پائل کی طرف ایک پیار بھرا ہاتھ بڑھایا تھا، جس کا انجام وہ بے دردی کے ساتھ دے گئی تھی۔ اس بات کا سلیم کو جانے کتنے دن دکھ اور افسوس رہا۔ وہ اپنے دل کو تسلی دیتا رہا کہ شاید اس کے نصیب میں وہی درد لکھا تھا، جسے برداشت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔

***

 

 

 

 

غار

 

امر جلیل

 

تقریباً ہر روز ہی ایسا ہوتا ہے کہ اماں پریشان ہو کر میرے غار میں چلی آتی ہیں۔ وہ تصدیق کرنے آتی ہیں کہ میں زندہ ہوں یا نعمتوں بھرا یہ جہان چھوڑ کر چلا گیا ہوں۔

جھک کر، میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اماں غور سے گردن کی طرف دیکھتی ہے، میرا سر سلامت دیکھ کر، ٹھنڈی سانس لے کر، پیار کے ساتھ مجھے سہلاتی ہے اور پھر آہ کو سانسوں میں سمیٹ لیتی ہے، آنکھ سے لڑھک آئے آنسوؤں کا میرے سر پر محراب بنا کر اپنی دنیا میں واپس لوٹ جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اماں اکثر میرے لئے پریشان رہتی ہے۔ وہ مسلسل ہر رات میرے بارے میں ایک ڈراؤنا خواب دیکھتی ہے، خواب دیکھ کر ڈر جاتی ہے، کانپ جاتی ہے، نیند سے چونک کر اٹھ بیٹھتی ہے اور خود کو پرسکون کرنے کے لیے پانی کا گلاس بھر کر پیتی ہے۔ اماں خواب میں مجھے بِنا سرکے ریگستان میں بھٹکتا ہوا دیکھتی ہے۔ میرے ایک ہاتھ میں میرا کٹا سر اور دوسرے ہاتھ میں کانٹوں کا تاج دیکھتی ہے۔

اماں نے دو جوتشوں سے خواب کی تعبیر نکلوائی تھی۔ ان دونوں میں سے ایک جوتش دیسی تھا اور دوسرا پردیسی۔ دیسی جوتش سے وہ سکھر کے قریب کسی متبرک مقام پر ملی تھی۔ دھیان سے خواب سن کر اس کا زائچہ بنانے کے بعد اس نے اماں کو خوش خبری دی تھی۔

‘‘تمہارا بیٹا بڑی لمبی عمر جئے گا۔ خدا کے فضل سے پاکستان کا بادشاہ بنے گا۔‘‘

زائچے کی قیمت ادا کرتے ہوئے اماں نے دیسی جوتش کو پانچ سو روپے دیے اور ساتھ میں ایک کالا سیاہ مرغ اور کالا سیاہ بکرا، جو اس بات کے گواہ تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بکرا ہو بہو مجھ جیسا تھا، جب قصائی نے بکرے کا سر دھڑ سے الگ کیا اور اس کے سر سے بھیجا نکالا تھا تب بکرے کے سر میں سے بھیجے کے بجائے مینڈک نکل آیا تھا۔ پردیسی جوتش سے اماں‘‘ویانا‘‘ میں عورتوں کی یونین میں ملی تھی۔ میری اماں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ پاکستان میں برباد ہو گئی عورتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کی جد و جہد میں اقوام متحدہ میں کام کرتے گزارا۔ اس نے ایک این جی او بھی بڑی کامیابی کے ساتھ چلائی تھی، جس کی تعریف کے شکل میں تعریفی خط اور سونے کا تمغہ حاصل ہوا تھا۔ ان دنوں اماں کو عورتوں کی بہتری کے سلسلے میں نیویارک، ہیگ، لندن، جینوا وغیرہ پریس کانفرنسوں میں جانا پڑتا تھا۔ پردیسی جوتش سے اماں کی ملاقات‘‘ویانا‘‘ میں ہی ہوئی تھی۔

اس جوتش نے خواب کی وضاحت کرنے سے پہلے کچھ تبصرے کئے۔ لیپ ٹاپ پر پاور پوائنٹ اور ایم ایس ایکسل کی مدد سے رنگین زائچہ بنایا، خوابوں کی تعبیر نامی سوفٹ وئیر سے مدد لی، پھر بہت ہی اداس لہجے میں خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا۔‘‘مجھے افسوس ہے کہ تمہارا بیٹا حکمرانوں کے ہاتھوں مارا جائے گا اور اگر بچ گیا تو خودکشی کر لے گا۔‘‘

میں نے بھی اپنی جانب سے انٹرنیٹ سے خواب کی تعبیر ڈاؤن لوڈ کی تھی۔ اس میں لکھا تھا۔‘‘تم ایک شادی شدہ عورت کے عشق میں گرفتار رہو گے اور اپنے سر میں عاشق کی طرح خاک ڈال کر ریگستان میں گھومتے رہو گے۔‘‘

تینوں تعبیروں میں سے اماں نے پردیسی جوتش کی تعبیر کو زیادہ اہمیت دی۔ ایک بار میں نے اماں سے کہا تھا۔‘‘ویانا والے جوتش کی پیشگوئی ایک دم بکواس ہے۔ سرتو سرداروں کے گرتے ہیں، میں خرگوش ہوں، بے مطلب ہی آدمی بن گیا ہوں۔ میں شکاری کتوں کا تر نوالہ تو ہو سکتا ہوں، پر کسی معرکے میں اپنا سر دے سکوں، یہ ممکن نہیں۔‘‘

اماں کو میری بات ناگوار لگی، اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

‘‘ دیسی جوتش کی پیشگوئی مجھے صحیح لگی ہے۔‘‘ میں نے کہا تھا۔‘‘پاکستان پر اکثر مجھ جیسے خبطی، دیوانوں نے حکومت کی ہے۔ اسی وجہ سے ممکن ہے کہ میں پاکستان پر حکومت کروں۔‘‘

میری ماں ضرورت سے زیادہ پڑھی لکھی تھی۔ شکاگو یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کر کے آئی ہے، اسی لیے میری بات سمجھ نہ پائی۔ مجھے الجھن زدہ اور کچھ کچھ بد دماغ سمجھتی ہے۔ میں اس کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ اس کی تین بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں، سندھیوں کے سبھی اکلوتے بیٹے کچھ کچھ خبطی، کچھ کچھ پاگل، کچھ کچھ سانولے ہوتے ہیں، پر میں کچھ زیادہ ہی شیدی ہوں۔

مجھے غار سے نکال کر اپنی دنیا میں لانے کے لیے اماں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاگلوں کے سر سے پاگل پنا اتارنے والا شاید ہی کوئی ڈاکٹر ہو، جس نے مجھے نہ دیکھا ہو۔ دو تین گھنٹے میرا دماغ چاٹنے کے بعد مجھے نیند آنے کی اور سوچ کو مفلوج کرنے کی گولیاں نسخے میں لکھ کر دے دیتے ہیں۔

ایک بار اماں مجھے ڈاکٹر سارہ سولنگی کے پاس لے گئی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ گائناکالوجسٹ نہ تھی، سائیکالوجسٹ تھی یا سائیکاٹرسٹ۔ آدمیوں کے سر سے جنون کی بیماری دور کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ وہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ جس نے بھی اس کا نام رکھا تھا، سوچ سمجھ کر رکھا تھا۔ بہت ہی تعریف کے قابل تھی وہ۔ مجھے یقین نہیں کہ میں پاگل ہوں یا نہیں ہوں، ڈاکٹر سارہ سولنگی کو دیکھنے کے بعد مجھے خیال آیا تھا کہ میں تمام عمر کے لئے پاگل بنا رہوں گا۔ ڈاکٹر سارہ سے علاج کرواؤں گا، تو کبھی بھی ٹھیک ہونے کی کوشش نہیں کروں گا۔ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی اماں کے خواب کی تیسری پیشگوئی مجھے مقدر پر تصدیق کی مہر لگاتی لگی۔

ڈاکٹر سارہ سولنگی سے میرا تعارف کراتے اماں نے کہا تھا۔ ‘‘عدم میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ اللہ نے تمہارے ہاتھوں میں شفا دی ہے۔ تم میرے بیٹے کا علاج کرو، اس کو نارمل کر دو۔‘‘

مجھے غصہ آ گیا تھا، میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا۔‘‘میں نارمل ہوں۔ میں نارمل ہوں۔‘‘

ڈاکٹر سارہ نے ایک دم کہا تھا۔‘‘تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم نارمل ہو۔‘‘

‘‘تو پھر اماں کیوں سمجھتی ہے کہ میں نارمل نہیں ہوں؟‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا،‘‘ ڈاکٹر سارہ، میری جانب غور سے دیکھو، کیا میں تمہیں ابنارمل نظر آتا ہوں؟‘‘

‘‘ایسے بات نہیں کرتے بیٹے!‘‘ اماں نے کہا تھا۔‘‘ تم کے بدلے ’آپ‘ کہو، کیا میں آپ کو ابنارمل نظر آتا ہوں؟‘‘

میں کرسی پر بیٹھ گیا۔

‘‘میڈم، عدم جس طرح بات کر رہا ہے، اس کو بات کرنے دیجئے۔‘‘

ڈاکٹر سارہ نے اماں سے کہا۔‘‘میں چاہتی ہوں کہ آپ ویٹنگ روم میں جا کر بیٹھیں۔ برا مت مانئے گا، میں عدم سے اکیلے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

اماں پیار سے میری طرف دیکھتے ہوئے ویٹنگ روم کی جانب چلی گئی۔ ڈاکٹرسارہ نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر غور سے میری طرف دیکھا۔ وہ مجھے بے حدپسند آئی تھی۔ آخر ڈاکٹر سارہ نے خاموش توڑتے ہوئے کہا۔‘‘مجھے اپنے بارے میں بتا ؤ عدم۔‘‘

‘‘کیا بتاؤں؟‘‘

‘‘اپنے اسکول کے بارے میں بتاؤ، کچھ اپنے کالج کے بارے میں بتا دو، کچھ یونیورسٹی کے بارے میں بتاؤ۔‘‘

‘‘کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہوا تھا، میں بہت عام سا طالب علم تھا۔‘‘

‘‘اور نوکری؟‘‘

‘‘نوکری میں نے چھوڑ دی۔‘‘

‘‘کیوں؟‘‘

‘‘میں کام کر نہیں پایا۔‘‘

‘‘کوئی خاص سبب تھا؟‘‘

‘‘کوئی خاص سبب نہیں تھا۔‘‘ مجھے پیشانی سے پسینہ بہتا ہوا محسوس ہوا تھا،‘‘ بس، میں نوکری کر نہیں پایا تھا۔‘‘

ڈاکٹر سارہ اپنی کرسی سے اٹھ کر میرے پاس آ کر کھڑی ہوئی۔ اس نے پینے کے لئے مجھے پانی کا گلاس دیا تھا۔

‘‘عدم!‘‘ ڈاکٹر سارہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، میں گردن اوپر اٹھا کر ڈاکٹر سارہ کی طرف دیکھ نہیں پایا تھا۔ مجھے لگا تھا، اگر اس کی طرف دیکھا، تو وہ ہماری درمیانی سرحدوں کو توڑ کر میرے وجود میں گھس آئے گی، میرے اندر ہلچل مچا دے گی۔

‘‘عدم!‘‘

میں نے ڈاکٹر سارہ کی آواز سنی۔

‘‘میری طرف دیکھو، عدم۔‘‘

میں نے ڈاکٹر سارہ کی طرف دیکھا، وہ اپنی کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔ اس نے پوچھا،‘‘تم اپنے کمرے سے باہر کیوں نہیں آتے؟‘‘

‘‘کمرہ!‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا تھا۔‘‘کون سا کمرہ؟‘‘

‘‘گھر میں تمہارا کمرہ۔‘‘

‘‘گھر، کون سا گھر؟‘‘

‘‘جہاں تم رہتے ہو۔‘‘

‘‘میرا کوئی گھر نہیں ہے۔‘‘

‘‘تو پھر تم کہاں رہتے ہو عدم؟‘‘

‘‘میں غار میں رہتا ہوں۔‘‘

اچانک میرے اوپر آسمان پر ہزاروں رتھ چلے آئے اور ایک لمحے میں گزر گئے۔ صدیوں سے بند تاریخ کے ماتم کدے سینے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ کائنات میں تھرتھراہٹ ہوئی، بجلی گری اور قلعے کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔

مجھے کچھ پتہ نہیں کہ ایسے کیوں ہوا تھا، اور کس لیے ہوا تھا۔ میں نے بد خواہوں لوگوں سے سنا تھا کہ میرے پیدائش کے بعد بابا بہت اداس ہو گئے تھے، تنہا اور خاموش رہنے لگے تھے۔ قہقہے لگاتے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو انہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ تاریخ کو تمام علوم اور عقیدوں کا چشم دید گواہ مانتے تھے۔ ملک میں اور ملک سے باہر کی درسگاہوں میں ان کی بڑی دھاک تھی۔ اپنے پورے نام کے بجائے‘‘پروفیسر روحل” کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔ مجھ سے بہت پیار تھا انہیں۔ بابا ان انسانوں میں سے تھے، جو بیٹے کے لیے مایوس رہتے ہیں۔ تیسری بیٹی شانی کی پیدائش کے بعد، اماں کے بجائے بابا نے چوتھے بچے کا خیال دل سے نکال دیا تھا۔

شانی کے تین سال بعد میں پیدا ہوا تھا۔ بدخواہ لوگوں کے مطابق بابا بہت اداس ہوئے تھے۔ مجھے گود میں لے کر خیالوں میں گم ہو گئے تھے۔ کچھ لوگوں نے انہیں روتے ہوئے دیکھا تھا۔

ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے بد خواہوں اور بد خواہوں کی باتوں کو ذہن کی ہارڈ ڈسک سے مٹا دیا، ہمیشہ کے لئے ڈیلیٹ کر دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ بابا کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا باپ ہو گا، جس نے اتنی شدت سے اپنے بیٹے سے پیار کیا ہو گا۔ پر میں نے بابا کو کبھی بھی ہنستے نہیں دیکھا تھا۔

ایک بار میں نے بابا سے کہا تھا،‘‘میری سب سے بڑی تمنا ہے کہ میں نامور مسخرا بنوں اور اپنی حرکتوں سے، باتوں سے آپ کو قہقہہ لگا کر ہنسنے پر مجبور کر دوں۔‘‘

میری بات سن کر بابا کے ہونٹوں پر بہت اداس، دل کو مسل دینے والی مسکراہٹ اتر آئی تھی۔

‘‘میرے ہنسنے یا نہ ہنسنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پر ابا نے مجھے نرمی سے پیار کرتے ہوئے کہا تھا،‘‘تاریخ نے بلند قہقہے لگا کر ہنسنے والوں کو آخر میں روتے دیکھا ہے۔‘‘

کچھ دیر کی بے چین خاموشی کے بعد بابا نے کہا تھا،‘‘تمہارے پیدا ہونے سے پہلے میں زوردار قہقہہ لگا کر ہنس سکتا تھا۔‘‘

تب، بابا کے کہے جملوں کا مطلب مجھے سمجھ نہیں آیا تھا۔ کالج میں پڑھتا تھا، لیکچر سننے کی بجائے، بابا کے جملوں کے مفہوم کے بارے میں سوچتا رہتا۔ ایک بار کالج بیچ میں چھوڑ کر میں کراچی یونیورسٹی گیا تھا۔ بابا لائبریری میں تھے، کسی انٹرنیشنل سمینار کے لئے پیپر تیار کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے۔

‘‘بہت پریشان ہوں۔‘‘ کہا تھا،‘‘آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘

لیکن بابا کے چہرے پر اداس مسکراہٹ اتر آئی۔ میز سے پیپر اٹھا کر بریف کیس میں ڈالتے ہوئے کہا تھا،‘‘مجھے قہقہہ لگا کر ہنسنے پر مجبور کرنے کی قسم تو نہیں کھائی ہے؟‘‘

لیکن بابا مجھے اپنے ڈپارٹمنٹ کے کمرے میں لے کر آئے، پوچھا،‘‘لنچ کیا ہے؟‘‘

‘‘نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

‘‘میں نے بھی نہیں کھایا ہے۔‘‘ پر ابا نے کہا،‘‘پہلے ہم کھانا کھائیں گے، اور پھر یونیورسٹی سے باہر چل کر بات کریں گے۔‘‘

کینٹین والوں سے فون پر بات کرنے سے پہلے بابا نے پوچھا تھا۔‘‘شامی کباب کھاؤ گے؟ اچھے ہوتے ہیں۔‘‘

‘‘جو آپ کھائیں، وہی میرے لئے بھی منگوا لیں۔‘‘ میں نے کہا تھا۔

یونیورسٹی کینٹین سے لنچ آیا۔ دال، چاول اور سبزی ساتھ میں شامی کباب بھی تھے۔ چپ چاپ لنچ کیا۔ رہ رہ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی لیتے۔ اس دوران مجھے بار بار یہ خیال آیا کہ بابا سے کچھ نہ پوچھوں، اپنی بے چینی کو اپنے اندر دفن کر دوں، بد خواہوں کی باتوں پر توجہ نہ دوں، ان کو بغیر کسی وجہ کے پریشان نہ کروں۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے کہ میرے پیدا ہونے کے بعد بابا بہت اداس اور چپ چاپ رہنے لگے ہیں۔ ہو سکتا ہے، میں انہیں پسند نہ آیا ہوں۔ ویسے بھی بابا نے تین بچوں کی پلاننگ کی تھی۔ شانی کے تین سال بعد میں اچانک ہی پیدا ہوا تھا۔ ان کا منصوبہ اپ سیٹ کر دی تھی میں نے، پر اس میں میرا قصور نہیں تھا۔ دنیا میں آنا نہ آنا میرے بس میں نہیں تھا۔ مجھے صرف ایک بات کا افسوس تھا کہ میں بابا کے لیے منحوس ثابت نہیں ہوا تھا۔ جس برس میں پیدا ہوا تھا، اسی سال بابا نے ورلڈ ہسٹوریکل کانگریس کی صدارت کی تھی۔ میں بارہ تیرہ برس کا تھا کہ بابا ایسوسی ایٹ پروفیسر ہو گئے تھے اور جب میں سترہ سال کا تھا کہ بابا ڈین فیکلٹی آف آرٹس مقرر ہوئے تھے، میں منحوس نہ تھا۔

برسوں پہلے کا ماجرا ہے، پردیس میں رہنے والے بابا کے ایک پرانے دوست اپنے بچوں سمیت پاکستان گھومنے آئے تھے۔ کراچی میں ہمارے پاس آ کر ٹھہرے تھے۔ مجھے چاکلیٹ کھلاتے تھے اور پرندوں کے لطیفے سناتے تھے۔ ان لطیفوں پر دیگر لوگ کم، وہ خود بہت ہنستے تھے۔ ایک دن مجھے گھسیٹ کر، اپنی گود میں بٹھایا تھا اور بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا،‘‘یار روحل، نہ تو تم اپنے بیٹے جیسے ہو اور نہ ہی تمہارا بیٹا تمہارے جیسا ہے۔‘‘ پھر اماں کی طرف دیکھتے پوچھا تھا۔‘‘ یہ ماجرا کیا ہے، امریکہ سے کسی نیگرو کا بیٹا تو نہیں چرا کر لے آئے ہو؟‘‘

خود زور زور سے قہقہے لگا کر ہنس پڑے، پر بابا ہنس نہیں سکے۔ انہوں نے حسرت کے ساتھ میری طرف دیکھا۔ تب میں چھوٹا تھا، پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، لیکن مجھے سب کچھ یاد ہیں، میں کچھ بھی بھول نہیں پایا ہوں۔ میرا ایک ایک احساس میرے وجود میں پروان چڑھا ہے، میرے ساتھ بڑا ہوا ہے۔

یونیورسٹی میں بابا کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے ایک واضح یا مبہم خوف مجھے پریشان کرتا رہا تھا۔ میں بابا سے کچھ پوچھ سکوں گا یا ہکلا کر خاموش ہو جاؤں گا؟

لنچ کے بعد بابا نے پوچھا،‘‘چائے پیو گے؟‘‘

‘‘آپ پئیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا تھا۔

‘‘ویسے تو نہیں پیتا ہوں، آج پی لیتے ہیں۔‘‘ بابا نے جواب دیا۔

چائے بھی خاموش رہ کر پی لی ہم نے۔ جانے کیوں میں نے محسوس کیا تھا کہ کچھ دیر کے بعد میں پل صراط سے گذروں گا۔

پل صراط کا سفر کراچی یونیورسٹی اور اوجھا سینی ٹوریم کے درمیان شروع ہوا تھا۔

‘‘لوگ بیٹا پیدا ہونے پر خوش ہوتے ہیں، میرے پیدا ہونے پر آپ خوش کیوں نہیں ہوئے تھے؟‘‘ میں نے دکھ سے پوچھا۔

‘‘میری تینوں بیٹیاں کسی بیٹے سے کم نہیں ہیں۔‘‘

‘‘میں نے سنا ہے میرے پیدا ہونے کے بعد آپ بہت اداس ہو گئے تھے۔ آپ نے لوگوں سے ملنا اور بات چیت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا؟‘‘ لیکن بابا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

‘‘میری بات سن رہے ہیں نہ، بابا؟‘‘

‘‘ہاں عدم، سن رہا ہوں۔‘‘

‘‘میرے پیدا ہونے کے بعد، آپ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا ہے۔‘‘

‘‘ہنسنا بس میں کہاں ہوتا ہے عدم؟‘‘

‘‘میرا پیدا ہونا آپ کو ناگوار گزرا تھا؟‘‘ مگر بابا نے گردن نیچے کر لی، جواب نہیں دیا تھا۔

میں نے دوسری بار اپنا خیال دوہرایا۔‘‘میرا پیدا ہونا آپ کو ناگوار لگا تھا؟‘‘

‘‘بابا!‘‘ میں نے بابا کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا، ان کا درد میری سمجھ میں نہیں آیا، میں نے پوچھا تھا۔‘‘ میرے پیدا ہونے پر آپ کو بہت دکھ ہوا تھا؟‘‘ پر بابا نے میرے ہاتھ کو کچھ اس طرح جکڑ کر پکڑ لیا جیسے کہہ رہے ہوں،‘‘ ہاں! تمہارے پیدا ہونے پر مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔‘‘ پل صراط کے بیچ سے میں نے بابا سے پوچھا تھا۔‘‘کیوں دکھ ہوا تھا آپ کو؟‘‘

‘‘کیونکہ میرا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔‘‘ پر ابا نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ پھر وہ آسمان کی طرف دیکھتے رہے اور کہنے لگے۔‘‘تم میرے بیٹے نہیں تھے، عدم!‘‘

میں نے صورِ اسرافیل کی آواز سنی۔ سب کچھ پوری کائنات کے ساتھ اندھیرے میں گم ہو گیا۔ میں گم ہو گیا، بابا گم ہو گئے۔ اندھیرے میں جیسے کروڑوں ابابیلیں اور چمگادڑیں غاروں سے نکل آئیں، میرے اوپر سے اندھیرے میں گھومتی رہیں۔ فنا کے ایک لمحے نے بقا کے تمام لمحات کو نگل لیا۔

میں نے پھر صورِ اسرافیل کی آواز سنی۔ ابابیلیں اور چمگادڑیں غاروں کی طرف لوٹ آئیں، اندھیرے کے بجائے نور کو بے نور کرنے والی روشنی چھا گئی۔ سورج مکمل طور پر ڈوب گیا۔ میں نے خود کو بابا سے ہزاروں میل دور محسوس کیا۔ میں نے بابا سے پوچھا،‘‘آپ نے کس طرح سمجھا کہ میں آپ کا بیٹا نہ تھا؟‘‘

‘‘شانی کے پیدا ہونے کے بعد میں نے آپریشن کرا لیا تھا۔‘‘ دل میں دراڑ ڈالنے والی دکھ بھری آواز میں بابا نے کہا‘‘مجھ سے بچے کی توقع، امکان کے باہر تھی۔‘‘

‘‘اماں کو معلوم تھا اس بات کا؟‘‘ میں نے بابا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

‘‘چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اس کو فرصت کہاں ہوتی ہے۔‘‘پھر ابا کی آواز کی گونج سنائی دی۔‘‘وہ اکثر اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کی خاطر ملک سے باہر رہتی تھی۔‘‘

آسمانی کتابوں والی قیامت جانے کب آئے گی، پر میرے لئے قیامت آئی اور سب کچھ تہس نہس کر کے چلی گئی۔ کچھ باقی نہ بچا۔

نہ حساب، نہ کتاب اور نہ سزا، نہ جزا۔

بابا نے یونیورسٹی سے استعفی دے دیا۔ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے اور نیپال میں جو گیوں کے ساتھ ہمالیہ کے غاروں میں جا کر بس گئے۔ جانے سے پہلے بابا نے مجھے بہت پیار کیا تھا۔ ان کے سسکتے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے میں نے پوچھا تھا،‘‘میری وجہ سے جوگ لے رہے ہیں نہ؟‘‘

‘‘نہیں عدم، نہیں۔‘‘ پھر بابا نے میری آنکھوں پر، گالوں پر، ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا‘‘تمہارا کوئی دوش نہیں بلکہ کسی کا بھی قصور نہیں ہے۔‘‘

ان کے دونوں ہاتھوں کو چومتے ہوئے میں نے کہا تھا،‘‘پھر جوگ کیوں لے رہے ہیں؟‘‘

‘‘ایک ماں کی حرمت کا راز میرے پاس امانت ہے۔‘‘ لیکن ابا کا مبہم جواب میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ میں نے حیرانی سے بابا کی طرف دیکھا۔

‘‘راز راز نہیں رہا ہے عدم۔‘‘ بابا نے الوداع کہتی نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور کہا تھا،‘‘اب تم جان چکے ہو کہ تاریخ کے ابتدائی دور کی طرح اس کے اختتامی دور میں، انسان کو باپ کی بجائے ماں کے نام سے کیوں پکارا جاتا رہا۔ تمہاری زندگی میں میرا رول ختم ہوا عدم۔‘‘

بابا پھر غائب ہو گئے۔

کبھی بھی بابا کا خط آتا، ہر خط میں ہر بار ایک جملہ لکھتے ہیں،‘‘تم مجھے بہت یاد آتے ہو عدم۔‘‘

میں نے اپنے غار کو بابا کی یاد سے روشن کر دیا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر سارہ سولنگی سے کہا تھا،‘‘یقین کرو سارہ، میں ٹھیک ہوں، ساری کی ساری گڑبڑ اماں کے سرمیں ہے۔‘‘

‘‘میں کہاں کہتی ہوں کہ تم ٹھیک نہیں ہو؟‘‘ ڈاکٹر سارہ نے کہا،‘‘لیکن تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو کہ گڑبڑ میڈم کے سر میں ہے؟‘‘

‘‘وہ اکثر میرے بارے میں ایک خوفناک خواب دیکھتی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

‘‘وہ مجھے سر کے بغیر بیابانوں میں بھٹکتے دیکھتی ہے، میرے ایک ہاتھ میں میرا کٹا سر اور دوسرے ہاتھ میں کانٹوں کا تاج ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر سارہ کو کچھ کچھ تعجب ہوا تھا، پوچھا تھا۔‘‘پر، میڈم نے تو کبھی اپنے کسی خواب کا ذکر نہیں کیا۔‘‘

‘‘وہ اپنے خواب کا کسی سے بھی ذکر نہیں کرتی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

‘‘تمہارے ساتھ کرتی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر سارہ نے پوچھا۔

‘‘بہت کم۔‘‘ میں نے کہا۔‘‘خواب دیکھنے کے بعد وہ غار میں چلی آتی ہے، میری گردن اور سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی کرتی ہے کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا ہوں۔‘‘

ڈاکٹر سارہ نے کاغذ پر کچھ لکھا اور پوچھا تھا۔‘‘اس خواب کے بارے میں میڈم نے تمہارے ساتھ کب ذکر کیا تھا، میرا مطلب ہے پہلی بار؟‘‘

میں سوچ میں پڑ گیا۔

مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اماں نے کب پہلی بار مجھ سے خواب کا ذکر کیا تھا۔ بابا کے غائب ہونے سے پہلے وہ میرے بارے میں خوفناک خواب نہیں دیکھتی تھی، میرے بارے میں اچھے خواب دیکھتی تھی۔ وہ خواب میں مجھے روئی بھرے ریچھ کی ساتھ کھیلتے دیکھتی تھی۔ اماں کبھی بھی اپنے خواب کی تعبیر کسی دیسی یا پردیسی جوتش سے نہیں کرواتی تھی۔ جب بھی ولایت سے واپس لوٹتی میرے لئے تحفے کے طور پر ایک روئی بھرا ریچھ ضرور لے آتی۔ میں سمجھتا ہوں، یا مجھے گمان ہے کہ بابا کے غائب ہونے کے بعد اماں نے میرے بارے میں، پہلی بار ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا، لیکن بعد میں خوابوں کی دنیا میں بہت توڑ پھوڑ ہوئی۔‘‘

اماں مجھ سے بار بار پوچھتی،‘‘جاتے وقت تمہارے باپ نے تم سے کیا بات چیت کی؟‘‘

اور ہر بار میں نے اسے وہی جواب دیا تھا۔‘‘اس نے میرے ساتھ آگاہی کے دردناک عذابوں کے بابت بات کی تھی۔‘‘

اماں جواب کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتی تھی، پر پہنچ نہ پاتی، پریشان ہو جاتی، جیسے تڑپتی رہتی، کھنڈرات جیسے گھر میں بے مقصد گھومتی تھی، اپنے آپ سے بات کرتی۔ ایک بار اس نے کہا تھا‘‘میں روحل جیسی حساس نہیں ہوں۔ اس لئے تم میرے ساتھ آگاہی کی بات نہ کر، صرف بتا دو کہ جاتے وقت اس نے میرے بارے میں کیا کہا تھا؟‘‘

‘‘آپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔‘‘ میں نے غور سے اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا‘‘اس درویش کو خبر تھی کہ میں اس کا بیٹا نہیں تھا۔‘‘

زمین ہل گئی، زلزلے کی طرح، پھر نہ جانے کتنے سال اور صدیاں خاموشی کا ایک موسم لے آئیں اور گزر گئیں۔ اس کے بعد نہ کوئی زلزلہ آیا، نہ کہیں آتش فشاں پھوٹا، نہ بجلی کڑکی، نہ آسمان سے آبشار برسے اور نہ سمندر میں طوفان آیا۔

اس خاموشی کو میں نے توڑا تھا، یہ ضروری تھا، ورنہ سانس لینا محال ہوا جاتا تھا۔

‘‘اگر آسمان تک میری پہنچ میری رسائی میں ہوتی، تو شاید میں مرنے دم تک تم سے کبھی نہ پوچھتا۔‘‘ میں نے اماں سے کہا اور پھر پوچھا‘‘اس لئے، تم بتاؤ کہ میں کس کا بیٹا ہوں؟‘‘

اماں کانپ گئی، میری طرف بڑھی، مجھے پیار سے شرابور کرتے کہا۔‘‘کیا یہ کافی نہیں کہ میں تمہاری ماں ہوں؟‘‘

‘‘جس قیامت سے میں گزرا ہوں، اس میں یہ کافی نہیں ہے۔ مجھے بتاؤ کہ میں کس کا بیٹا ہوں؟‘‘

اماں لاچار ہو کر یہاں وہاں دیکھنے لگی، اور پھر ٹوٹے پھوٹے لہجے میں جیسے اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا،‘‘ملکوں کے بننے اور بگڑنے کے بعد کئی ایسے لڑکے پیدا ہوتے ہیں، جنہیں اپنے باپ کا پتہ نہیں ہوتا ہے، وہ اپنی ماں سے باپ کے بارے میں سوال نہیں پوچھتے۔‘‘

‘‘میرے پیدا ہونے سے نہ ملک بنا تھا اور نہ ہی کوئی ملک ٹوٹا تھا، ہاں میرے پیدا ہونے سے ایک آدمی کا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔‘‘

میں سمجھتا ہوں اس کے بعد اماں نے پھر کبھی بھی مجھے خواب میں روئی سے بھرے ریچھ کی ساتھ کھیلتے نہیں دیکھا ہے، نہ اس کے بعد اس نے مجھے سر کے بغیر بیابان میں بھٹکتے دیکھا ہے۔ پر یہ باتیں ڈاکٹر سارہ سولنگی کو بتانے جیسی نہ تھیں، اس لئے وہ میرا علاج کرتی ہیں، اماں کا علاج نہیں کرتیں۔ وہ مجھے اچھی لگتی ہیں اور انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی اماں کے خواب کی تعبیر لگتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی سارہ کا یہ باتیں جاننے کا جذبہ میں مناسب سمجھتا ہوں، بلکہ میں اس بات کا ذکر کسی سے بھی کرنا نہیں چاہتا۔ جس راز پر سے قیامت کے دن پردہ اٹھنا نہیں ہے، اس راز سے پردہ اٹھانے کا حق میں بھی نہیں رکھتا۔ میرا باپ جانے کون ہے، پر حقیقت میں میں بیٹا اس شخص کا ہوں، جس نے ہمالیہ کی ایک غار میں جا کر جوگ لیا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل