FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دستِ صحرا

اظہر ادیب

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

 

سلام

رات کے اندھے سفر میں روشنی کی بات ہے

میرے لب پر شیوۂ ابن علیؓ کی بات ہے

میں شمر کے وارثوں سے لڑ رہا ہوں اور یہ

ایک دو دن کی نہیں آدھی صدی کی بات ہے

رِس رہا ہے خون اس دھرتی کے زخموں سے ابھی

کربلا کا واقعہ جیسے ابھی کی بات ہے

ہم کہ تیرہ بخت تھے اب بانٹتے ہیں روشنی

مصدرِ انوار سے وابستگی کی بات ہے

کر رہے ہیں اعتبار اہل کوفہ جان کر

کیا کریں یہ سنت آلِ نبیؐ کی بات ہے

یاد آئے گی تو آنکھوں میں دھواں بھی آئے گا

جن کے خیمے جل رہے تھے یہ انہی کی بات ہے

دشمنوں نے جان کر پہچان کر مارا انہیں

کون کہتا ہے کہ نادانستگی کی بات ہے

پہلے دل کو غسل دو اشکوں سے اظہرؔ پھر سنو

وہ جو دریا تھا یہ اس کی  تشنگی کی بات ہے

٭٭٭

پورا سچ

جھو ٹ کے جتنے بھی ہوں سچ کے بہتّر نا م ہیں !

٭٭٭

 

غزلیں

اپنا جیسا بھی حال رکھا ہے

تیرے غم کو نہال رکھا ہے

شاعری کیا ہے ہم نے جینے کا

ایک رستہ نکال رکھا ہے

ہم نے گھر کی سلامتی کے لیے

خُود کو گھر سے نکال رکھا ہے

میرے اندر جو سر پھرا ہے اُسے

میں نے زنداں میں ڈال رکھا ہے

ایک چہرہ ہے ہم نے جس کے لیے

آئینوں کا خیال رکھاّ ہے

اِس برس کا بھی نام ہم نے تو

تیری یادوں کا سال رکھا ہے

گِرتے گِرتے بھی ہم نے ہاتھوں پر

آسماں کو سنبھال رکھا ہے

کیا خبر شیشہ گر نے کیوں اظہرؔ

میرے شیشے میں بال رکھا ہے

٭٭٭

 

چیختی لُو کو صبا، دھُوپ کو سایا لکھیں

حُکمِ حاکم ہے کہ ماحول کو اچھا لکھیں

جب بدن جلنے لگے اوڑھ لیں اُس زلف کی یاد

جب لہو جمنے لگے اُس کا سراپا لکھیں

نامہ بر خط تو سبھی اُس کے لیے ہوتے ہیں

چاہے ہم نام لفافوں پہ کِسی کا لکھیں

اے خدا ! لکھنا دیا ہے تو یہ توفیق بھی دے

سنگ کو سنگ، ستارے کو ستارہ لکھیں

قافلے سبزرُتوں کے اُتر آئیں اظہرؔ

دستِ صحرا پہ اگر اپنا ارادہ لکھیں

٭٭٭

طلوعِ صبح تلک یار بیلیوں میں رہا

میں شہرِ یاد کی روشن حویلیوں میں رہا

پھِسل گئے مِری مُٹھی سے آسرے سارے

بس ایک لفظ دُعا کی ہتھیلیوں میں رہا

وہ منکشف نہ ہوا مجھ پہ، ساتھ رہ کے بھی

سدا مزاج کی اُلجھی پہیلیوں میں رہا

بدل گیا ہے ستاروں کو دیکھ کر وہ بھی

لکیر بن کے جو میری ہتھیلیوں میں رہا

چھوا جو اُس نے تو میرا بدن مہک اُٹھاّ

وُہ ساری عمر تھا اظہرؔ چنبیلیوں میں رہا

٭٭٭

گھنیری چھاؤں کے سپنے بہت دکھائے گئے

سوال یہ ہے کہ کتنے شجر اُگائے گئے

مِلی ہے اور ہی تعبیر آ کے منزل پر

وہ اور خواب تھے رستے میں جو دکھائے گئے

مرے لہُو سے مجھے منہدم کرایا گیا

دیارِ غیر سے لشکر کہاں بُلائے گئے

دیئے بنا کے جلائی تھیں اُنگلیاں ہم نے

اندھیری شب کی عدالت میں ہم بھی لائے گئے

فلک پہ اُڑتے ہُوؤں کو قفس میں ڈالا گیا

زمیں پہ رینگنے والوں کو پرَ لگائے گئے

ہمارے نام کی تختی بھی اُن پہ لگ نہ سکی

لہو میں گوندھ کے مِّٹی جو گھر بنائے گئے

مِلے تھے پہلے سے لکھے ہوئے عدالت کو

وہ فیصلے جو، ہمیں بعد میں سُنائے گئے

تمام سعد ستارے بگڑ گئے اظہرؔ

سُلگتی ریت پہ جب زائچے بنائے گئے

٭٭٭

 

اپنے اور اُس کے ستاروں کو ملاِ کر دیکھتے

مشتری کو ہم اسد کے گھر میں لا کر دیکھتے

دسترس حاصل اگر ہوتی لکیروں پر ہمیں

ہم ترا چہرہ ہتھیلی پر بنا کر دیکھتے

روشنی تحریر کرنا کس قدر کس قدر دشوار ہے

پڑھنے والے اُنگلیاں اپنی جلا کر دیکھتے

کیا نظر آتا تمہیں میَں اِس قدر نزدیک سے

معترف ہوتے اگر تم دُور جا کر دیکھتے

لازمی ٹھہرا ہے اب تو سانس لینے کی طرح

وَرنہ اظہرؔ اپنے دُشمن کو بھلا کر دیکھتے

٭٭٭

جواب دے نہ سکا میرے چار لفظوں کا

وہ اپنے زعم میں تھا شہر یار لفظوں کا

سماعتوں کے دریچوں پہ برف اُتری ہے

زباں کی شاخ پہ موسم اُتار لفظوں کا

اُسی کے نام کی تختی کو دھُوپ چاٹ گئی

بُلند جس نے کیا تھا وقار لفظوں کا

بدلتے رہتے ہیں مفہوم موسموں کی طرح

کرے بھی کیسے کوئی اعتبار لفظوں کا

جو زلزلوں میں بھی جَم کر کھڑا رہا اظہرؔ

گِرا گیا ہے اُسے ایک وَار لفظوں کا

٭٭٭

نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے

پسِ حروف سہی روشنی ضروری ہے

کہیں سے لاؤ کسی زلفِ عنبریں کی ہوا

یہ اب جو  حبس  ہے  اس  میں کمی  ضروری ہے

اَب اُسکے قد کے برابر اُسے بھی لایا جائے

یہ بات کتنی ہی مشکل سہی ضروری ہے

عذاب یہ ہے کہ تکمیلِ داستاں کے لئے

جو حرف بس میں نہیں ہے وہی ضروری ہے

یہ آگ خیمئہ جاں تک پہنچ نہ جائے کہیں

سُلگتی آنکھ میں تھوڑی نمی ضروری ہے

وہ آنکھ کہتی ہے اس زندگی کے منظر میں

سمندروں پہ جھکی شام بھی ضروری ہے

ذرا سیِ مٹّی کسی شے میں باندھ لے اظہرؔ

سفر میں گھر کی نشانی بڑی ضروری ہے

٭٭٭

 

خوش ہو نہ تُو کہ ختم ہوا دھُوپ کا سفر

دَر کھٹکھٹا رہا ہے نیا دھُوپ کا سفر

پہنا کے موم جِسم مجھے بے نیاز نے

میری ہتھیلیوں پہ لِکھا دھُوپ کا سفر

کالے سمندروں سے گزر کر بھی کیا ملا

تپتی زمین، گرم ہوا، دھُوپ کا سفر

پو چھا شجر نے، کیا ہے نئے موسموں کے پاس

جاتی ہوئی ہوا نے کہا دھُوپ کا سفر

چھتری تو قرض خواہ کو اظہرؔ چلی گئی

اور میرے وارثوں کو ملا دھُوپ کا سفر

٭٭٭

یہ کیسا شہر ہے جس میں مکّمل گھر نہیں مِلتا

کِسی کو چھت نہیں ملتی کِسی کو در نہیں مِلتا

اُٹھا رکھے ہیں اپنے نا مکمّل جسم لوگوں نے

کِسی کے پاؤں غائب ہیں کسی کا سر نہیں مِلتا

گھری رہتی ہیں جانے کس بلا کے خوف میں گلیاں

یہاں روشن دنوں میں بھی کوئی باہر نہیں مِلتا

بھری بستی کے چوراہے پہ لا وارث پڑا ہوں میں

مری پہچان کیسے ہو کہ میرا سر نہیں مِلتا

اُلجھ جاتی ہیں ہاتھوں کی لکیروں سے تمنّائیں

جو ملنا چاہیئے اظہرؔ ہمیں ، اکثر نہیں مِلتا

٭٭٭

جلتے ہوئے پانی کی روانی نہیں رکھی

آنکھوں میں کبھی دل کی کہانی نہیں رکھی

ہر روز نئے زخم سجا لیتے ہیں دِل میں

اِس گھر میں کبھی چیز پُرانی نہیں رکھی

کر نا تھا سفر دھُوپ نگر کا تو بچا کر

کیوں تم نے کوئی شام سُہانی نہیں رکھی

میں نے بھی جلا ڈالی ہیں یادوں کی بیاضیں

اُس نے بھی مری کوئی نشانی نہیں رکھی

ہر اینٹ کے صَدقے میں لہُو اپنا دیا ہے

اس شہر کی بنیاد زبانی نہیں رکھی

کر دار ہوں وہ جس کی ہتھیلی پہ فلک نے

آوارگی رکھی ہے کہانی نہیں رکھی

اظہرؔ نے تو اس شہر کے پیڑوں سے بھی اب تک

سائے کی توقع مِرے جانی نہیں رکھی

٭٭٭

 

ہر راستے پہ اپنی اَنا کی فصیل تھی

اِک مختصر سفر کی کہانی طویل تھی

اُبھرا میں ڈُوب کر تو مُعّطر تھا سارا جسم

جیسے وہ آنکھ بھی کوئی خوشبو کی جھیل تھی

منکر تھے رنگ و بُو کے ہمیں ، ورنہ اَبکی بار

ہر دَستِ شاخ میں نئی رُت کی دلیل تھی

کتنے شگاف ڈالتے میرے نحیف ہاتھ

دُکھ کی ہر اک فصیل کے آگے فصیل تھی

کچھ مختصر تھے زندگی کے ماہ و سال بھی

کچھ ساعتِ فراق بھی اظہرؔ  طویل تھی

٭٭٭

پہلے سفر نصیب کو صحرا دیا گیا

پھر دوپہر کے وقت کو رکوا دیا گیا

خوش رنگ موسموں کی کہانی گھڑی گئی

مصنوعی خوشبوؤں کا حوالہ دیا گیا

پہرے بٹھا دئیے گئے کلیوں پہ جبر کے

بادِ صبا کو دیس نکالا دیا گیا

ویران کر کے چاندنی کی کھیتیاں سبھی

اہلِ ہُنر کو ایک دریچہ دیا گیا

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید