FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دسترس میں آسمان

(تاثراتِ حج)

 

بہترین اسلامی ادب ۲۰۰۲؁ ایوارڈ یافتہ

 

 

               ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

 

 

 

 

 

               ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی

 

ہمارے عہد میں حج اور سرزمین حج کے بہت اچھے سفر نامے لکھے گئے ہیں اور مسلسل لکھے جا رہے ہیں ’’ دسترس میں آسمان ‘‘ ان سفر ناموں میں قابلِ توجہ سفر نامہ ہے، جو اسلوب اور مصنفہ کے وفورِ جذبات کے محاسن اپنے دامن میں رکھتا ہے۔

یہ سفر نامہ بہت طویل نہیں ہے۔ آغاز سر زمینِ مقدس کی دید کی تمنا سے ہوتا ہے جو ہر مسلمان کے زندہ وجود میں موجود اور اس کے خمیر میں گندھی ہوتی ہے۔

’’ مجھے معلوم نہیں کہ اس کونپل نے کب سر اٹھایا، شاید میرے جنم لینے کے ساتھ ہی یا میرے سنِ شعور کی ابتدا میں ۔۔۔ ‘‘

اور ہم مصنفہ کو سر زمینِ حجاز میں پاتے ہیں۔ تمنا اور اس کی تکمیل میں جیسے کوئی فاصلہ نہیں، اگر دستِ دعا پر گرنے والے آنسوؤں کی بوندیں سچی ہوں۔

اس مختصر رودادِ تاثرات میں قرۃالعین طاہرہ کی پوری شخصیت برافگندہ نقاب نظر آتی ہے۔ اس کی گہری مذہبیت، ارضِ مقدس کے ہر ذرے سے وابستگی، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا رشتہ، معمولاتِ شب و روز، صلٰوۃالتسبیح کی معنویت ۔۔۔ اور میں نے اس سفر نامے کے اختصار کا ایک سے زائد بار تذکرہ کیا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہم ارضِ مقدس کے ہر مسافر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ان فضاؤں میں سانس لینا چاہتے ہیں۔

بلقیس نے اس روداد کی ایک خوبی کی طرف میری توجہ مبذول کرائی ہے کہ شاہد صاحب( قرۃالعین کے شوہر ) کا ذکر اگرچہ کتاب میں بار بار نہیں آتا مگر وہ، ان کا خاموش خلوص اور روّیہ ہر جگہ کتاب میں جلوہ گر ہے۔

مناسکِ حج کی کتابیں ضابطے کے نوشتے معلوم ہو تی ہیں، جن میں دل کی آواز اور جذبات کی دستک سنائی نہیں دیتی لیکن زیرِ نظر سفر نامے میں دعائیں، مناسک کے طریقے اور ترتیب ۔۔۔ یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ اگر عمرے یا حج پر جانے والے خوش نصیب اس کتاب کو ساتھ رکھیں تو انھیں ایک رفیقِ سفر میسر آ جائے گا جو ان کے جذبۂ عبودیت اور ذوقِ قیام و سجود کی کیفیتوں میں اضافہ کرے گا۔

 

ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی

یکم مارچ ۲۰۰۴ء

 

 

 

ڈاکٹر طاہرہ کا سفرِ شوق

 

               پروفیسر فتح محمد ملک

 

ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ کا سفر نامہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ حج کا سفر زمین سے آسمان کی جانب سفر ہے، یہ سفر اور طرح کا ہے، اور اس کے احوال اور مقامات بھی اور طرح کے ہیں۔ ان احوال و مقامات کی سیر میں نے اس سے پیش تر بھی بہت کی۔ ایک سے ایک منفرد سفر نامہ مقاماتِ مقدسہ پر لے گیا اور پھر واپس لے آیا۔ محبت اور عقیدت کا یہ سفر ہر مسافر کے ہاں الگ آہنگ و ادا رکھتا ہے اور جدا گانہ سوغات فراہم کرتا ہے۔

ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ نے بہت بچپن ہی سے یہ سفرِ شوق اختیار کرنے کا عزم باندھ رکھا تھا۔ اس دوران وہ انتہائی شوق سے رختِ سفر اکٹھا کرنے کا اہتمام کرتی ر ہی تھیں۔ حج کی خاطر لکھی گئی کتابیں اور نام ور شخصیات کے سفر نامے بہت شوق سے پڑھ رکھے تھے، مگر جب اذنِ باریابی ملا تو ۔۔۔

’’ ڈرتے ڈرتے نگاہ اوپر کی، کائنات کے عین مرکز میں تعمیر یہ عمارت، جسے اللہ نے ’بیتی‘ یعنی میرا گھر کہا ہے۔ میں نے دیکھا ایک عام سی عمارت ہے، جس پر سیاہ غلاف چڑھا ہے۔ ملکوتی پھب نہ د ل کشی و رعنائی کا کوئی نادر مرقع۔ حیرت، محبت، عقیدت، خوف کسی جذبہ و احساس کا دور دور پتا نہیں، شانِ کبریائی، جلال و جمال کا کوئی رعب و دبدبہ دل پر نہیں۔ آنکھوں میں نمی آئی اور نہ ہی گناہوں کی طویل فہرست یاد آئی۔ کچھ بھی تو نہ ہوا، دعائیں جو صدیوں سے مانگتی آ رہی تھی، بغیر کسی دل گرفتگی اور تاثر کے مانگتی رہی، ممتاز مفتی البتہ یاد آئے۔

کافی دیر خانۂ کعبہ کو دیکھتی رہی۔ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کتنے طویل انتظار اور کتنی آرزوؤں کے بعد میں یہاں پہنچی تھی۔ ربِ کائنات میرے احساسات کیوں پتھر ہو گئے ہیں۔ بدن پر لرزہ طاری ہوا نہ شدید محبت کا احساس جاگا نہ اپنے سگِ دنیا ہونے کا خیال آیا۔ اپنا تجزیہ کیا، معلوم ہوا، صنم آشنا دل جتنی چاہے نمازیں پڑھ لے، اسے کچھ حاصل نہ ہو گا، خانۂ کعبہ پر نگاہ پڑتے ہی جو دعا مانگنی تھی، وہ بھی نہ یاد آئی، کتاب کھول کر دعا پڑھی ۔۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ۔۔۔ احساسِ ندامت لیے شاہد کی جانب آئی، ان پر ان تمام کیفیات کا اثر واضح تھا، جن سے میں محروم تھی۔ ‘‘

ڈاکٹر طاہرہ نے اوپر دیے گئے اقتباس میں جس واردات کو ندامت سے تعبیر کیا ہے، وہ دراصل حیرت کا مقام ہے،۔ اس سفر نامے کی سب سے بڑی قوت اس حقیقت سے آشکار ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی واردات اور مشاہدات کو بالکل دو ٹوک اور کھرے انداز میں بیان کر دیا ہے، حج کے تجربے سے گزرتے وقت جس جس مرحلے اور جس جس مقام پر ان کے جذبات اور احساسات کی جو کیفیت بھی تھی ا سے بلا جھجک بیان کر دیا۔ اوپر دیے گئے اقتباس سے یہ بات عیاں ہے کہ خدا کے گھر کو سامنے پا کر ان کے دل میں اول اول مایوسی کا سا جو احساس پیدا ہوا، اسے انھوں نے ہر گز نہیں چھپایا۔ ساری عمر انھوں نے جس عمارت کو اللہ کا گھر سمجھتے ہوئے جو رومانی خواب دیکھے تھے۔ انھیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار پایا اور یہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں کہ یہ ’ ’ایک عام سی عمارت ہے جس پر سیاہ غلاف چڑھا ہے۔ ملکوتی پھب نہ دلکشی و رعنائی کا کوئی نادر مرقع۔‘‘

اپنی غریب اور بے کس مخلوق سے ٹوٹ کر پیا ر کرنے والے اللہ کا گھر ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ مگر اس مقام عرفان تک پہنچنے میں بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی مقام پر پہنچ کر اللہ میاں کا فرمان ہم تک یوں پہنچایا تھا   ؎

میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

بادشاہوں کے محلات اور اقتدار کے ایوانو ں کی شان و شوکت دیکھتے دیکھتے ہم عموماً غیر محسوس طور پر اللہ کے گھر کا تصور بھی کسی بے مثال اور لافانی ایوان شاہی ہی کے انداز میں کرنے لگتے ہیں۔ خارجی مشاہدہ جب باطنی تجربے میں تحلیل ہو جاتا ہے، تب کہیں جا کر ہماری آنکھوں کا طلسم ٹوٹتا ہے اور ہمارے طواف میں ایک والہانہ پن آ جاتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر طاہرہ بھی بالآخر طواف کی اس سرمدی کیفیت کو پا لیتی ہیں۔

’’ہم آٹھ نو طواف کر کے خوش اور مطمئن تھے۔ کعبہ سے اجنبیت اور بیگانگی کا وہ احساس، میں نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ دور ہوتا جا رہا ہے۔اب دامنِ دل کعبہ کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔اس کے قریب جانے اس کو چھونے کی خواہش زور پکڑتی جا رہی ہے۔ آنکھوں سے اشکوں کا سلسلہ جو شروع ہوتا ہے، تو تھمنا مشکل ہو جاتا ہے۔مجھے یاد آیا، دانش کی آمد پربھی تو میری یہی کیفیت تھی۔پہلے دوسرے تیسرے روز کوئی احساس محبت نہ جاگا، کچھ خیال نہ آیا کہ کتنی آرزوؤں اور کس قدر اذیت سہنے کے بعد مجھے یہ تحفہ، یہ مقام ملا ہے۔ لیکن جیسے جیسے د ن گزرتے گئے صرف احساسِ محبت جاگا ہی نہیں، شدت اختیار کرتا گیا۔

آج کعبہ کے سلسلے میں بھی میرا یہی رویہ سامنے آیا تو مجھ پر کھلا کہ میں پہلی نظر میں محبت کی قائل نہیں۔شکر ہے کہ یہ محبت پائدار ہے، بلکہ روز بروز اس میں اتنی شدت آتی جا رہی ہے کہ بعض دفعہ میں خوف زدہ ہو جاتی ہوں۔ یہاں آتے ہوئے قطعی احساس نہ تھا کہ کعبہ کی طلب اتنی شدید ہو جائے گی۔ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں تڑپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘ ‘

ڈاکٹر طاہرہ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرتے کر تے اچانک دل کی آنکھ سے دیکھنے لگتی ہیں۔ خارج سے باطن اور پھر باطن سے خارج تک یہ آمد و رفت اس سفر نامے کو ایک خیال انگیز دستاویز بنا دیتی ہے۔ اپنے آس پاس سرگرداں مخلوق کے میکانکی طور اطوار اور چال چلن پر انھیں تعجب ہوتا ہے اور وہ سوچنے لگتی ہیں کہ جس وقت وہ بندگی اور عبودیت کے گہرے احساس میں سرشار ہو کر خدا سے براہ راست رابطہ قائم کرنے میں کوشاں ہیں اور رسول اکرم ﷺ کو اپنی رگِ جاں سے قریب محسوس کر رہی ہیں عین اسی وقت ان کے پاس بیٹھی ہوئی خواتین شاپنگ کے احوال و مقامات بیان کرنے میں منہمک ہیں۔

’’ میں نے دوپٹوں کے دو تھان لیے، چودہ ریال فی دوپٹہ پڑا۔ پاکستان میں ویلوٹ کا سوٹ دو ہزار کا ہے یہاں یہی سوٹ سات ہزار کا ہے ۔۔۔ میرا میاں پانچ سال سے یہاں ہے ۔۔۔ میرا بھائی ۔۔۔ میرا بیٹا ۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے لیے ۔۔۔ نند کے لیے ۔۔۔ خریداری کی تفصیل، قیمتوں کی باتیں، ساری زندگی سنتے آئے تھے کہ عورتیں بہت بولتی ہیں۔ ظہر کے وقت یہ عورتیں بولنا شروع ہوئی تھیں، مغرب کے بعد تک اسی ایک موضوع پر بولتی رہیں۔ میرا کئی مرتبہ جی چاہا، ان سے درخواست کروں کہ یہ کو ن سا مقام ہے، کون سا مبارک دن ہے۔ پھر یہ مبارک مقام زندگی میں آئے یا نہ آئے۔ در نبی پر آئے ہو کچھ درود و سلام بھیجو۔ اللہ کے سامنے اپنے کردہ نا کردہ گناہوں پر ندامت کا اظہار کرو۔ جرات کی کمی کہہ لیں یا یہ کہ میں وہاں ایک لمحے کا ہزارواں حصہ بھی ضائع کرنے کے حق میں نہ تھی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بحث و تکرار طول کھینچ جائے، دو کی بجائے دس جملے بولنے پڑ جائیں۔ میں اتنی دیر میں ایک اور تسبیح نہ پڑھ لوں۔

پچھلے روز بھی نمازِ مغرب کے بعد ایسی ہی کوفت ہوئی جب دو پاکستانی خواتین سرائیکی لب و لہجہ میں آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ ایک صحن مسجد کے دروازے کے قریب اور دوسری اس سے پانچ چھ صفیں آگے، ان دونوں کے درمیان کاروباری معاملات پر بڑی شد و مد سے تکرار بلکہ لڑائی ہو رہی ہے۔ وہ دونوں تو نمازِ مغرب کے فرض ادا کرنے کے بعد اپنے گلے شکوے اور الزامات کا تبادلہ نہایت کھلے الفاظ میں کر رہی ہیں، انھیں ذرا خیال نہیں تھا کہ باقی لوگ عبادت میں مصروف ہیں۔ ان کی کرخت آوازیں اور ناشائستہ الفاظ تمام نمازیوں کے لیے کس قدر کوفت کا باعث ہیں۔‘‘

کاروبارِ حج میں مشغول مسلمانوں کی جانب سے حج کی عبادت میں منہمک مسلمانوں کے جذب و مستی میں خلل انداز ہونے کی یہ غیر شعوری کوششیں ہماری سفر نامہ نگار کو حیران اور پریشان تو ضرور کرتی ہیں مگر ان کے ذوق حضوری میں کمی نہیں آنے دیتیں بلکہ اسے اور زیادہ انہماک و انجذاب پر مائل کر دیتی ہیں۔ پورا سفر نامہ از اول تا آخر خارج سے باطن اور باطن سے خارج، آمد و رفت کے دلکش اور دلگداز مناظر سے مالا مال ہے۔ ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ نے اپنے سفرِ شوق کی واردات کو صداقت پسندانہ انداز میں بیان کر کے مجھ جیسے عام قاری اور گنہگار مسلمان کو یہ سبق دیا ہے کہ حج پہ جانا ہے تو پہلے دلِ گداختہ پیدا کریں، کارو بار دنیا سے آگے بہت آگے گزر کر دل میں انہماک پیدا کریں اور حالی کے اس شعر کا مطلب خوب سمجھ کر سر زمینِ حجاز کو رختِ سفر باندھیں    ؎

اک عمر چاہیے کہ گوار ا ہو نیش عشق

رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

میں ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ کے اس سفر نامے کو بھی حج ہی کی عبادت کا ایک جزو لاینفک مانتا ہوں اور انھیں فریضۂ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس سفر نا مہ کی اشاعت پر بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

 

پروفیسر فتح محمد ملک

مقتدرہ قومی زبان

اسلام آباد

۱۴ دسمبر ۲۰۰۱ ء

 

 

 

 

               ڈاکٹر انور سدید

 

ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ کو یہ اعزاز مل چکا ہے کہ وہ ممتاز شیریں مرحومہ کے بعد اردو ادب میں ایک خاتون نقاد کی حیثیت میں سامنے آئیں اور ڈاکٹر شاہین مفتی اور ڈاکٹر عظمیٰ فرمان کی طرح ایک وقیع موضوع ’’ حفیظ ہوشیار پوری کی شخصیت اور فن ‘‘ پر مقالہ لکھ کر نہ صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی بلکہ تنقید میں بھی اپنا نام پیدا کیا، ان کی ادبی بازیافتوں کا ایک خاص شعبہ ’’انٹرویو نگاری ‘‘ہے ۔۔۔ قرۃالعین طاہرہ کی تنقیدی صلاحیتوں کا یہ اجمال بر سبیل تذکرہ سمجھیے، آج مجھے ان کی جس کتاب کا یہاں تعارف مقصود ہے، وہ ان کے سفرِ عقیدت کا صحیفہ ہے جسے فتح محمد ملک نے ’’سفرشوق ‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ سرزمینِ حجاز کے سفر ناموں میں بالعموم سفر نامہ نگار اپنی روح کی یاترا کرتا ہے اور مکتبہ المکرمہ اور مدینۃ ا لمنورہ کو ظاہر کی آنکھ سے دیکھتا اور ان مقاماتِ مقدسہ کے فیوض و برکات کو دل میں اتارتا چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ نے اس سفرِِ عقیدت میں اپنی ظاہر کی آنکھیں بھی کھلی رکھیں لیکن دل کی آنکھوں سے وہ انوار سمیٹنے کی زیادہ سعی کی جو صرف ان کی تخلیقی نظر ہی دیکھ سکتی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کر رہی ہیں لیکن در حقیقت وہ زمین سے آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہیں اور اس عمودی سفر میں ان پر اسلام کا ماضی، نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مقدسہ اور آثارِ مکہ و مدینہ اپنے ایسے اسرار کھولتے چلے جاتے ہیں جن سے آج کا انسان غافل ہوتا جا رہا ہے۔

میں نے سر زمینِ حجاز کے متعدد سفر نامے پڑھے ہیں۔ ممتاز مفتی، غلام الثقلین نقوی، عبداللہ ملک، شورش کاشمیری، ڈاکٹر نصیر احمد اور محمد اقبال انجم نے مختلف نوعیّتوں کی کیفیات پیدا کیں اور تشکیک سے اثبات کی طرف سفر بھی کیا۔ ڈاکٹر قرۃالعین کے سفر نامے میں مجھے دنیا داری کے ہجوم میں ایک ڈری سہمی خاتون نظر آتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سفر نامے کے اختتام پر ان کے خوف پر طمانیت غالب نظر آتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ خود بھی سفر نگار ہیں، انھوں نے چند سطور میں اس سفر نامے کی جو تحسین کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اس سفر نامے کی روحانی سطح پا لی ہے۔

 

انور سدید

۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ء

 

 

 

 

 

علامہ اقبال نے بالکل درست کہا ہے اور ہم سب کا اس پر ایمان ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

 

پروفیسرڈاکٹر ممتاز جعفری

۳فروری ۲۰۰۳ء

 

 

 

               پروفیسر غفور شاہ قاسم

 

دسترس میں آسمان ‘‘کا مطالعہ ابھی مکمل کیا ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ پڑھتے ہوئے ( بلا مبالغہ) یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم اس مقدس اور پاکیزہ سر زمین میں گھوم رہے ہوں، حج کا سفریقینا سیال اور نا قابل گرفت کیفیات کا سفر ہے، ان کیفیات کو من و عن لفظیات کے دامن میں سمیٹنا اگرچہ آسان کام نہیں لیکن یقین فرمائیے آپ نے اس سرشار سفر کی مختلف خوبصورت کیفیات کو احاطۂ تحریر میں نہایت عمدگی اور کامیابی سے سمیٹا ہے، بار ہا گمشدگی اور بارِ دگر بازیابی کا یہ سفر، حاضری اور حضوری کا یہ سفر، عقیدت اور ارادت کا یہ سفر انسانی زندگی کا نہایت دل آویز اور وقیع تجربہ ہے۔ آپ کی سطح کی تعلیم یافتہ، با شعور قلم کار اور تخلیق کار خاتون کے لیے اس سفر کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب کی اشاعت قارئینِ ادب کے لیے ایک نایاب تحفے سے کم نہیں، حج کے سفر ناموں میں ہر منصف مزاج نقاد اس سفر نامے کو نمایاں اور سرِ فہرست مقام دینے پر مجبور ہے، مجھے اس سفر نامے کے حوالے سے یہ بات بھی کہنا کہ اس کی ہر سطر میں آپ کے تحقیقی مزاج کی جھلک نمایاں ہے۔ اس روحانی سفر پر روانہ ہونے والے ہر مسافر کو ’’دسترس میں آسمان ‘‘کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

آپ کے تمام تحریری کام میں اس سفر نامے کو ہمیشہ امتیازی حیثیت حاصل رہے گی۔

غفور شاہ قاسم

 

 

 

 

دعا

 

اے ربِ کریم جو کچھ میں نے لکھا ہے، تیری ہی بخشی ہوئی استطاعت ہے۔ تیرے ہی عطا کردہ فہم اور علم کے باعث ہے۔ حج کی سعادت کو صفحۂ قرطاس پر لانا، نیکی اور بھلائی کے لیے ہے، تیرے ہی ذکر کو بلند کرنے کے لیے ہے۔ اے ربِ کریم اس کاوش کو قبول فرما۔

اے ربِ کریم اس کاوش میں جو کوتاہیاں، غلطیاں اور زعمِ بندگی میں گستاخیاں سر زد ہوئی ہیں، وہ ناخواستہ اور نادانستہ ہیں، میرے علم، عقل و فہم سے ماورا ہیں، اے اللہ انھیں معاف فرما، ان سے در گزر فرما۔

میرے لیے، شاہد کے لیے، میرے خاندان کے لیے، جملہ احباب کے لیے، جواس کاوش میں میرے معاون و مددگار رہے، ان سب کو اپنے رحم و کرم سے نواز، خاص طور پر جناب مولانا علامہ حافظ قاری نور حسین، خطیب جامع مسجد بہارِ مدینہ اِسلام آباد، جنھوں نے اس کا دینی نکتہ نگاہ سے مطالعہ کیا اور گستاخیوں کی نشاندہی کی۔ جناب فتح محمد ملک‘ جناب ڈاکٹر محمود الرحمٰن، جناب مستنصر حسین تار ڑ، محترمہ عدیلہ طاہر اور محترمہ ثروت حمید بٹ کی محبتوں کی میں ہمیشہ مقروض رہوں گی۔ اے ربِ کریم تو ہی اجر عنایت کرنے والا ہے۔

ا ے اللہ وہ احباب جو مطالعہ کے بعد مجھے میری کوتاہیوں سے آگاہ فرما کر اپنے ربِ کریم سے معافی کا موقع فراہم کریں گے، ان سب کے لیے اور تمام مومنین کے لیے اسے باعث اجرو ثواب فرما ۔۔۔

اے ربِ کریم شکر ادا کرنے والا دل، غور و فکر کرنے والا ذہن اور ذکر کرنے والی زبان عطا فرما ۔۔۔ آمین۔

 

قرۃ العین طاہرہ

۱۴ اگست، ۲۰۰۲ء

 

 

 

 

آغازِ سفر

 

مجھے معلوم نہیں کہ اس کونپل نے کب سر اٹھایا ۔شاید میرے جنم لینے کے ساتھ ہی یا میرے سنِ شعور کی ابتدا میں یا شاید اس وقت جب مجھے میری خواہش کے خلاف طالبات کے ایک بڑے ادارے میں صرف چند روز کے لیے بلایا گیا۔یہ الگ بات کہ یہ چند روز بعد ازاں مہینوں، سالوں میں بدلتے گئے، ایک ماہ بعد میرے ہاتھ اک معقول رقم آئی، شاید وہ کونپل اس روز پھوٹی تھی۔

وقت کا تعین میں کبھی نہ کر پائی، نہ ہی مجھے یہ علم ہوا کب یہ ننھی منی کونپل میرے سارے وجود کو امر بیل کی طرح اپنے حصار میں لیتی چلی گئی۔ ایک سال بعد میں نے حساب لگایا، میرے پاس اتنی رقم جمع ہو چکی ہے کہ میں اس امر بیل کے شور مچاتے مطالبے کو پورا کر سکوں۔ میں نے شاہد سے ذکر کیا، وہ ٹال گئے۔کچھ عرصہ میں بھی خاموش رہی لیکن کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا کہ امربیل مجھے اتنی شدت سے بھینچ رہی ہے کہ ایسے لگتا کہ کہیں میرا دم ہی نہ نکل جائے۔ میں دبے لفظوں میں بات دہرا دیتی، ایک روز تنگ آ کر شاہد نے کہا۔’’ میں ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں۔‘‘

میں خاموش ہو گئی، واقعی ان کی تنخواہ تو ساری کی ساری منہ کھولے ضرورتیں ہڑپ کر جاتی ہیں ، بچت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

امر بیل نے بھی سمجھوتہ کر لیا، وہ بھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سو گئی، لیکن جب کبھی کروٹ بدلتی، میرے جسم و جاں کو ہلا کر رکھ دیتی۔ نہ جانے کتنے ماہ و سال گزر گئے۔ سورج کی کسی کرن نے بھی نوید نہ دی اور پھر ایسا ہوا کہ موسم کی پہلی بارش نے امر بیل کی پیلا ہٹ کو سبزے میں تبدیل کیا، اطلاعات ملنا شروع ہوئیں۔ فلاں تاریخ سے درخواستیں وصول کی جائیں گی۔

شاہد نے بتایا، اشتیاق صاحب کا اصرار ہے میرے ساتھ حج پر چلو، روز مجھے سناتے رہے، میں دم سادھے ان کا منہ تکتی رہتی۔ اس خبر میں میرا کہیں ذکر نہ ہوتا، پھر ایک روز انھوں نے کہا کہ میں نے اشتیاق صاحب سے کہہ دیا ہے کہ میں اس سال نہیں جا سکتا، آپ بھی رک جائیں، اگلے سال اکٹھے چلیں گے، لیکن اشتیاق صاحب کا بلاوا تھا، وہ رخصت ہوئے، آ بھی گئے، مبارک بادیں وصول کیں۔ قصے، تجربے اور مشاہدے سنا سنا کر امر بیل کو تازہ پانی دیتے رہے۔دن رات اپنے لباس تبدیل کرتے رہے۔

جولائی کی ایک تپتی دوپہر، شاہد نے بتایا، یکم اگست سے درخواستیں وصول کی جا رہی ہیں۔ بہار و خزاں سے بے نیاز امر بیل نے سرگوشی کی، پھول کھلنے کا موسم آ گیا، درخواست فارم آ گئے، تصویریں کھنچیں۔ دن کبھی پر لگا کر اڑتے کبھی پہاڑ بن کر منجمد ہو جاتے۔

حکومت کی پالیسی کے مطابق ریگولر سکیم کے تحت جانے والے حاجی تعداد ۴۵ ہزار، سپانسر شپ سکیم کے تحت جانے والے حا جی تعداد ۶۵ ہزار۔ سپانسر شپ کے تحت زر مبادلہ ڈالروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ درخواستیں جمع کرا دی گئیں۔ معلوم ہوا ریگولر سکیم کے تحت جانے والے عازمینِ حج کی تعداد مطلوبہ تعداد سے بارہ تیرہ ہزار بڑھ گئی ہے اور سپانسر شپ سکیم کے تحت جمع ہونے والی درخواستوں میں اتنی ہی کمی ہے کہ اب تمام حاجیوں کو اس میں کھپایا جا سکتا ہے، صرف یہ کہ جن حاجیوں کے نام قرعہ اندازی میں نہیں نکلے وہ اپنی رقم بنکوں سے لے کر ڈالروں میں بدل کر سات ساڑھے سات ہزار مزید خرچ کر کے حج پر جا سکیں گے۔

قرعہ اندازی کا دن آیا۔ کچھ معلوم نہیں، خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے کیا فیصلہ ہوا، دوسرے روز اتوار تھا، کچھ پتا نہ چلا۔ دل میں خوف تھا جسے لا ا لہ الا انت سبحانک انی کنت من ا لظالمین کے وِرد سے دور کرتی رہی۔

پیر کی صبح بنک منیجر، جناب طارق محمود خان نے اطلاع دی ’’خدا پر توکل اچھی بات ہے لیکن آپ نے تو پتا بھی نہ کیا کہ کیا نتیجہ رہا، بہرحال مبارک ہو کہ آپ کا نام قرعہ میں نکل آیا ہے۔‘‘

بہن بھائیوں کو اطلاع دی۔ برابر سے مدثر کی امی مبارک دینے آئیں ’’مدثر کہہ رہا تھا کہ انکل اور آنٹی کا نام قرعہ میں نکل آیا ہے، وہ حج پر جا رہے ہیں، مبارک ہو وہاں کا بلاوا اور وہ بھی ا س طرح کہ حکومت سارا خرچ برداشت کرے گی۔ بڑی اچھی قسمت ہے۔‘‘

میں حیران ہوئی ’’ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘

پتا چلا کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ قرعہ میں نام آنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام بار حکومت اٹھائے گی۔

شاہد کی عادت ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہوم ورک بہت کرتے ہیں۔ حج پر کتابیں بہت دنوں سے پڑھ رہے تھے۔ اب اس میں شدت آ گئی، حج سے متعلق جتنی کتابیں ہاتھ آئیں، وہ پڑھیں۔ ایک سے ایک معلوماتی اور سحر انگیز، شروع کر لیں تو مکمل کیے بغیر رکھ نہ سکیں۔

اس دوران جو کتابیں پڑھیں ان میں جناب محمد معراج السلام کی مسجدِ نبوی اور کعبۃ اللہ اور اس کا حج دونوں کتابیں بہترین تھیں۔ کعبۃ اللہ اور اس کا حج میں چند ایک معلومات ایسی تھیں جو ہم میں سے بہتوں کے علم میں نہ ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ کعبۃ اللہ کی بنیاد کیسے رکھی گئی، آپ بھی سنیے، شاید اتنی تفصیل سے آپ بھی نہ جانتے ہوں۔

ْ            ’’ابھی زمین کی بنیاد نہیں رکھی گئی تھی لیکن قدرت کو منظور تھا کہ زمین بنائی جائے اور اس پر انوکھی مخلوق آباد کی جائے، جسے انسان کہتے ہیں، اس کا مورث اعلی خلیفہ آدمؑ ہو جس کا پیکر خاکی بنا کر اس میں نورانی روح پھونکی جائے اور ابو البشر کی حیثیت سے زمین پر بھیجا جائے، جہاں اس کی نسل بڑھے، پھلے پھولے اور زمین کو آباد کرے، چنانچہ حضرت آدمؑ اور زمین کی تخلیق سے تقریباً دو ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ، ٹھاٹھیں مارتے پانیوں سے زمین کو اور خاص طور پرسب سے پہلے اس کے مقدس مقامات کو پیدا کرنے کا انتظام فرمایا ۔۔۔ اس وقت ہر طرف پانی ہی پانی تھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے ان بہتے پانیوں پر ایک تند و تیز ہوا بھیجی، جس نے پر سکون پانی کو موجزن کر دیا، ہر طرف زبردست شور برپا ہو گیا، سمندر میں ہوشربا طوفان اٹھنے لگے، چٹانوں کو بھی اپنے منہ زور تھپیڑوں سے پاش پاش کر دینے والی فلک بوس لہریں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں۔ اس عمل نے ٹھوس شکل اختیار کر لی اور پھر آہستہ آہستہ وہ چیز بن گئی، جس کو زمین کہتے ہیں۔ زمین کا یہ ٹکڑا جو سب سے پہلے سطح سمندر پر نمودار ہوا، کعبہ معظمہ تھا، جس کے بعد باقی زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی اور پھر اسے ایک عظیم الشان کرہ کی شکل دے دی گئی، جو اکاون کروڑ چھیاسٹھ ہزار ایک سو کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔۔۔ جب زمین بن گئی تو اس کے کافی عرصے کے بعد جناب آدم کی تخلیق عمل میں آئی ۔۔۔ ‘‘ ( کعبۃ اللہ اور اس کا حج، محمد معراج السلام، صفحہ ۳۲، ۳۳، ۳۴)

اس کتاب کے علاوہ جاوید جمال ڈسکوی کی ’’میرے حضور کے دیس میں ‘‘ بار بار پڑھی، بلکہ تمام ضروری نکات لکھ لیے گئے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ہم ان زیارتوں سے بھی آگاہ ہوئے، جن سے مقامی لوگ بھی نا واقف تھے، گذشتہ سالوں میں وزارتِ حج کی جانب سے شائع ہونے والی کتابیں بھی پڑھتے رہے، پھر شاہد کے دفتر اور میرے کالج کی لائبریری میں جو کتب دستیاب تھیں، سبھی دیکھ لیں۔

جنوری میں حجاج کرام کے لیے تربیتی پروگراموں کا آغاز ہوا، پہلے پروگرام میں شرکت کی، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے نوید دی کہ وزارت حج کی جانب سے چند ایک روز میں کتابیں آپ کے گھر کے پتے پر روانہ کر دی جائیں گی۔ ایک بزرگ خاتون دوسری بزرگ خاتون سے پوچھ رہی تھیں ’’حج کی کتابیں کون سی دکان سے ملتی ہیں ؟‘‘

دو سری خاتون انھیں سمجھا رہی تھیں ’’راجا بازار میں ایک دکان ہے وہاں سے منگوا لیں۔‘‘

میں یہ سوچ رہی تھی کہ ہم تقریباً سال بھر سے حج کے موضوع پر کتابیں پڑھ رہے ہیں، کیونکہ وہ ہماری دسترس میں ہیں، لیکن ہمارے بیشتر حاجی تو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ تھا، جب چھ ماہ پیشتر رقم وصول کر لی جاتی ہے، تو انھیں بنیادی معلومات سے متعلق کتابچے بھی وقت پر ارسال کر دیے جائیں تاکہ وہ بار بار انھیں پڑھ سکیں۔

تقریب میں ہر مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ وہاں آپ کو پاکستان کی شناخت اپنے اچھے رویے، نظم و ضبط اور صبر و تحمل کے مظاہرے کے ذریعے کروانا ہو گی۔ نشست کے اختتام پر منتظمین نے مختصر سے کتابچے تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ ابھی وہ کتابوں کا بنڈل کھول ہی رہے تھے کہ سامعین جو چند لمحے پیشتر سر ہلا ہلا کر ہدایات یاد رکھنے کا وعدہ کر رہے تھے، ایک دم سٹیج پر چڑھ گئے اور وہ چھینا جھپٹی ہوئی کہ کتابیں تقسیم کرنے والے کارکنوں نے اس خوف سے کہ کہیں سٹیج ہی ٹوٹ نہ جائے، تمام کتابیں نیچے اچھال دیں اور ہم مستقبل کے حاجی صاحبان انھیں لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔

بہرحال دو دن گزرے، چار دن گزرے، مہینہ گزر گیا، وزارت مذہبی امور کی جانب سے کتابچوں نے آنا تھا نہ آئے، نہ ہی روانگی کے متعلق کوئی فرمان جاری ہوا۔ روانگی سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے پاکستان کمپیوٹر بیورو کے جناب عبد القیوم خان نے شاہد کو از راہِ دوستی فون پر بتا دیا کہ آپ کی روانگی ۳ فروری رات دس بجے سعودیہ ائر لائنز سے ہے۔

سنا تھا کہ ٹیکے روانگی سے دس دن پہلے لگائے جاتے ہیں لیکن ہمیں ہیلتھ کارڈ تک موصول نہ ہوئے تھے۔ حج کمپلیکس گئے تو انھوں نے تین روز قبل کی تاریخ میں ٹیکے لگائے۔

روانگی سے دو دن پہلے زر مبادلہ، ٹکٹ اور دیگر کاغذات کے حصول کے لیے حج کمپلیکس گئے، کتابچے کے متعلق پوچھا، بہت مشکل سے ایک صاحب تیار ہوئے، وہ ہمیں ایک بڑی بلڈنگ کے سامنے لے گئے، اس کی قد آدم کھڑکیوں کے شیشوں سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کتابچے بکھرے نظر آرہے تھے، اس نے بہ ہزار دقت ہمیں دو کتابیں عنایت کیں۔ عرض کیا، کیا یہ کتابیں وقت پر نہ مل سکتی تھیں۔ جواب ملا ابھی بہت وقت ہے مکہ، مدینہ جا کر پڑھ لیں، ۲۰۰۱ میں شائع ہونے والی کتابیں، جو قرعہ اندازی کے نتائج کے ساتھ ہی عازمینِ حج کو پہنچ جانا چاہیے تھیں، بڑے اطمینان سے ضائع کر دی گئیں ۔۔۔

۳ فروری کا دن آیا، نمازیں، دعائیں، مہمانوں کی آمد و رفت، مبارک بادیں، سبھی کچھ گڈ مڈ ہوتا رہا، گھر سے نکلتے ہوئے دو نفل پڑھے، پہلی رکعت میں سورۃ الکا فرون اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص، بعد نماز سورۃ القریش، اور دروازے کے قریب پہنچیں تو سورۃ القدر پڑھنی ہے، نکلتے ہوئے صدقہ دینا ہے، رخصت ہونے سے پہلے یہ دعا مانگنی ہے،

’’ یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اس سے پہلے کہ میں خود گمراہ ہو جاؤں یا گمراہ کیا جاؤں یا ظلم کروں یا مظلوم ہوں یا بے وقوفی کروں یا بے وقوف بنایا جاؤں۔ میں اللہ کا نام لے کر نکلتا ہوں، اللہ ہی پر بھروسا رکھتا ہوں، نیکی کرنے کی طاقت اور بدی سے بچنے کی ہمت صرف اللہ بزرگ و برتر کی توفیق سے ہی ہے، یا اللہ تو مجھے اس چیز کی توفیق عطا فرما، جسے تو اچھا سمجھتا ہے اور جس سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے راندے ہوئے شیطان سے بچانا۔‘‘

اتنے مہمانوں میں پتا نہیں کیا یاد رہا اور کیا نہیں، بہرحال بچے اور گھر اللہ کے حوالے کیا۔ پیاروں نے دہکتے سرخ گلابوں سے لاد دیا۔ وہ جسم جو ا یک عرصہ تک امربیل کی پرورش کرتا رہا تھا اسے ان سرخ مہکتے گلابوں کی توقع ہی نہ تھی، اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوا، کہاں میں اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔

حج کمپلیکس پہنچے، بسیں تیار تھیں، ائر پورٹ پہنچے، مغرب کی نماز ادا کی، لبیک کی روح پرور صداؤں میں مناسک حج کی ادائیگی کے لیکچر سنے، سعودی ائرلائنز کی پرواز کا وقت دس بجے تھا، نو بجے طیارہ ائر پورٹ پر تھا۔

اعلان ہوا کہ نماز عشا کے بعد احرام و عمرہ کی نیت کے نوافل ادا کر لیے جائیں۔ سعودی ائر لائنز کے سہیل آفتاب موجود تھے، انھوں نے سامان جمع کرانے سے لے کر جہاز میں بٹھانے تک کے تمام مراحل میں مدد کی۔ دس بجے جہاز روانہ ہوا۔

عملہ جانتا تھا یہاں سب حاجی ہیں، پھر انھوں نے خوشبو میں بسے ٹشو کیوں دیے، بیشتر نے تو اپنے بیگ میں ڈالے، کچھ نے کھول کر استعمال کرنے چاہے، ٹشو پیپر کا کھلنا تھا کہ تمام فضا خوشبوسے مہک اٹھی۔ حالت احرام میں خوشبو کا استعمال حرام ہے، اس کے دانستہ، نادانستہ استعمال سے دم واجب ہو جاتا ہے۔کھانا کھایا گیا، ایک کمی کا احساس ہوا، لبیک کی روح پر ور صدائیں کم سنائی دیں۔ کچھ ٹی وی دیکھ رہے تھے، کچھ سو رہے تھے، باقی زیر لب ذکر و اذکار میں مصروف ہوں گے۔

صبح ڈھائی تین بجے جدہ ائر پورٹ پر اترے، بسوں کے ذریعے حج ٹرمینل تک پہنچے، ایک تھکا دینے والے عمل سے گزر کر پاکستانی انکلوژر میں پہنچے، تہجد کی نماز ادا کی، بسیں آئیں، بس ڈرائیور اناڑی تھا یا نہ جا نے کیا وجہ تھی، تھوڑی دور جانے کے بعد پلٹ آتا، اور پھر چلنا شروع کر دیتا، ایک مرتبہ تو واپس ائر پورٹ لے آیا۔ خط سریع پر طویل انتظار کے بعد سات بجے مکہ پہنچے، مکہ میں داخل ہونے کی دعا زیر لب پڑھتے رہے۔

’’ اے اللہ یہ تیرا اور تیرے رسول پاک ﷺ کا حرم ہے، پس میرے گوشت، خون اور ہڈیوں پر آگ کو حرام کر دے، اے اللہ مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ، جس روز تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا اور مجھے اپنے ولیوں اور اطاعت گزاروں میں شامل کر دے اور میری طرف توجہ فرما، بے شک تو توبہ قبول کرنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

مکہ میں معلم کے دفتر کے سامنے بس کھڑی ہوئی، کافی وقت وہاں بھی صرف ہوا، معلم کی جانب سے جوس اور کیک پیس دیے گئے، خدا خدا کر کے بلڈنگ پہنچے، وہاں خدام الحجاج موجود تھے۔ پاکستانی عملے نے مسافروں کا سامان بسوں سے اتارا، ہمیں چھٹی منزل پر چھ افراد کے لیے کمرہ ملا، کمرے میں پہنچے، کچھ ہی دیر بعد معلم کی جانب سے کھانا آ گیا، تیز مرچوں والا مرغ آلو کا سالن، نان اور ایک ایک نہایت لذیذ مالٹا۔

کھانا کھا کر عمرے کے لیے روانہ ہوئے۔راستہ بھر لبیک کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگتے گئے، پہلی نظر کی دعا سال بھرسے تیار کر رکھی تھی، کیا کیا مانگنا ہے، کیسے مانگنا ہے، آنکھیں جھپکائے بغیر کعبہ کا دیدار کرنا ہے، جب کہ سنا یہ بھی ہے کہ انسان اسے آنکھ بھر کر دیکھ ہی نہیں سکتا۔

ایک طرف رعب و دبدبہ، شان و شوکت، رفعت و اقبال، جلال و جمال دوسری جانب اپنی کم مائیگی کا احساس، گناہوں کی کثرت، دل آزاریوں کے ازدحام کے ہمراہ انسان اس در رحمت پر پہنچتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے، اپنی خوش نصیبی کے رشک آور احساس پر کہ اللہ نے اسے اپنی مہمان نوازی کے لیے منتخب کیا ہے، ندامت اور خوف غلبہ پا لیتے ہیں، کانپتے لبوں اور جھکی آنکھوں کے ساتھ وہ آہستہ آہستہ چلتا، سیاہ لبادے میں ملبوس ا س مرکزِ نور کی جانب بڑھتا ہے، جس نے اپنی ابتدا سے آج تک زمانے کے کئی رنگ دیکھے، لیکن ہر رنگ میں عبادت کا مرکز رہا۔ دنیا کی واحد عبادت گاہ جہاں دن ہو یا رات، عبادت کا سلسلہ کبھی موقوف نہیں ہوتا۔

فرشتوں کی تعمیر کردہ اس عمارت کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جب انسان اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرے گا تو کوئی ایسا مقام ہونا چاہیے کہ جہاں آ کر وہ توبہ و استغفار کر کے اپنے رب کو راضی کرے۔ مخلوق ابھی تخلیق نہیں ہوئی اور اس کی بخشش و مغفرت کا اہتمام پہلے ہی سے کر دیا گیا۔

حضرت جبرائیلؑ کی رہنمائی میں بعد ازاں حضرت آدمؑ اور ان کے بیٹے شیثؑ نے اسے تعمیر کیا، پانچ پہاڑوں کوہِ جودی، کوہِ طور، کوہِ زیتون، کوہِ لبنان اور جبلِ حرا کے پتھر استعمال میں لائے گئے۔ جنت سے لایا گیا حجرِ اسود نصب کیا گیا، بندوں کو بندگی کا مرکز مل گیا، یہاں تک کہ حضرت نوحؑ کے عہد میں ان کی نا فرمان قوم کو ہوش ربا طوفان نے آ لیا۔ حضرت جبرائیلؑ نے کائنات کے پہلے پہاڑ کوہ ابو قبیس پر لا کر حجرِ اسود رکھ دیا۔ کعبہ کے نشانات باقی نہ رہے، لوگ اندازے سے عبادت کرتے رہے۔

مدتیں گزر گئیں، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے اللہ کی مدد سے بنیادوں کا سراغ لگایا اور تعمیر شروع کی۔ حضرت جبرائیلؑ کوہ ابو قبیس پر محفوظ حجرِاسودلے آئے، کعبے کی دیواریں بلند ہو چکی تھیں حضرت جبرئیل جنت سے ایک اور پتھر لے آئے کہ اب اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کعبہ کی جائے، ایمان کی حرارت نے اس پتھر کو موم کی طرح پگھلا دیا، حضرت ابراہیمؑ کے پائے مبارک کے نقش اس پر ثبت ہو گئے، پتھر ضرورت کے مطابق گردش کرتا رہتا اور بلند ہوتا رہتا۔ لاکھوں بند گا ن توحید کو جائے پناہ مل گئی۔ حضرت ابراہیمؑ کی دعا حضرت محمد ﷺ کی صورت مجسم ہو کر سامنے آئی۔

کعبہ کے متولی اہل قریش کواس لیے از سرِ نو تعمیر کی ضرورت پیش آئی کہ آتش زنی کے باعث کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔ پاک نیت اور حلال مال سے تعمیر کعبہ کا آغاز ہوا۔ کعبہ کا وہ حصہ جو حطیم کہلاتا ہے، تعمیر سے اس لیے رہ گیا کہ اہل قریش کے پاس جائز آمدن باقی نہ رہی تھی۔ حجرِ اسود نصب کرنے کا تنازع حضور ﷺ کی فہم و فراست سے حل ہوا۔ کعبہ کا ایک ہی بلند دروازہ رکھا گیا تا کہ اہل قریش اپنے پسندیدہ لوگوں کو ہی اندر جانے کی اجازت دیں، حضور ﷺ َ مصلحتہً خاموش رہے، جب کہ ان کی خواہش تھی کہ لوگوں کی سہولت کے لیے دو دروازے زمین کے ساتھ مشرق و مغرب کی سمت بنائے جائیں۔ حضور ﷺ کی اس خواہش کی تکمیل حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کی، جب اموی افواج نے خانۂ کعبہ کو اس قدر نقصان پہنچایا تھا کہ اس کی تعمیر از سرِ نو کرنا پڑی تھی۔ مروان کے بیٹے عبدالملک نے حجاج بن یوسف کو اجازت دے دی کہ کعبہ کو اس کی پرانی ہیئت پر تعمیر کیا جائے۔ بعد میں جب اسے علم ہوا کہ حضرت زبیرؓ کی تعمیر حضور ﷺ کی خواہش کے مطابق تھی تو وہ بہت پچھتایا۔

آج ہم بندگی کے اسی پہلے مرکز کی طرف رواں تھے۔ یقین کبھی وہم کی صورت اختیار کر لیتا، واقعی ہمارے نصیب ہمیں اس در کی طرف لیے جا رہے ہیں۔ راستے بھر خیالات اور دعاؤں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔

خانۂ کعبہ ہماری رہائش سے دس پندرہ منٹ کی مسافت پر تھا۔عمارت کی دلکشی، صفائی اور معجزاتی فن تعمیر، اس وقت کچھ دیکھنے کا خیال نہ تھا، خیال تھا تو صرف یہ کہ خانۂ کعبہ کو دیکھتے ہی کیا دعا مانگنی ہے، نظریں جھکائے حرم پاک پہنچے۔ سب ساتھی لاشعوری طور پر الگ ہو چکے تھے۔ در رحمت سامنے تھا، پہلی نظر کی دعا دل و ذہن کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی۔

’’ اے اللہ، تو میری تمام جائز دعائیں قبول فرما اور مجھے مستجاب الدعا بنا دے۔‘‘

ڈرتے ڈرتے نگاہ اوپر کی، کائنات کے عین مرکز میں تعمیر یہ عمارت، جسے اللہ نے ’بیتی‘ یعنی میرا گھر کہا ہے۔ میں نے دیکھا ایک عام سی عمارت ہے، جس پر سیاہ غلاف چڑھا ہے نہ ملکوتی پھب نہ دلکشی و رعنائی کا کوئی نادر مرقع۔ حیرت، محبت، عقیدت، خوف کسی جذبہ و احساس کا دور دور پتا نہیں، شان کبریائی، جلال و جمال کا کوئی رعب و دبدبہ دل پر نہیں۔ آنکھوں میں نمی آئی اور نہ ہی گناہوں کی طویل فہرست یاد آئی۔ کچھ بھی تو نہ ہوا دعائیں جو ہمیشہ سے مانگتی آ رہی تھی، بغیر کسی دل گرفتگی اور تاثر کے مانگتی رہی، ممتاز مفتی البتہ یاد آئے۔

کافی دیر خانۂ کعبہ کو دیکھتی رہی۔ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کتنے طویل انتظار اور کتنی آرزوؤں کے بعد میں یہاں پہنچی تھی۔ رب کائنات میرے احساسات پتھر کیوں ہو گئے ہیں۔ بدن پر لرزہ طاری ہوا نہ شدید محبت کا احساس جاگا نہ اپنے سگِ دنیا ہونے کا خیال آیا۔ اپنا تجزیہ کیا، معلوم ہوا، صنم آشنا دل جتنی چاہے نمازیں پڑھ لے، اسے کچھ حاصل نہ ہو گا، خانۂ کعبہ پر نگاہ پڑتے ہی جو دعا مانگنی تھی، وہ بھی نہ یاد آئی، کتاب کھول کر دعا پڑھی ۔۔۔ ’’ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر لا ا لہ الا اللہ واللہ اکبر ‘‘

احساسِ ندامت لیے شاہد کی جانب آئی، ان پر ان تمام کیفیات کا اثر واضح تھا، جن سے میں محروم تھی۔ مجھے یاد آیا، حج کے لیے گھر سے نکلتے ہوئے میں نے نہ جانے کتنی مرتبہ نفل پڑھے تھے، ہر مرتبہ تیزی سے نفل پڑھ کر اٹھ جاتی اور دنیا کے دھندوں میں مصروف ہو جاتی۔ شاہد کا معاملہ مختلف تھا۔ انھوں نے نہایت سکون سے نوافل ادا کیے، رو رو کر دیر تک دعائیں مانگتے رہے تھے۔ آج یہاں بھی یہی صورت حال تھی۔ مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اللہ کی مجھ پر خاص نظرِ کرم تھی، ورنہ میں تو اس قابل نہ تھی۔

نہایت بوجھل دل کے ساتھ عمرہ کے مناسک کا آغاز کیا۔ حجرِاسود کی سیدھ میں سرخ لکیر تک پہنچے، سا ل بھر سے کتابیں پڑھ رہے تھے، وہاں جا کر کچھ یاد نہ آیا کہ کیا پڑھنا ہے، نیت کیسے کرنی ہے، آغاز کیسے کرنا ہے، شاہد سے کہا ’’مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا کیا کہنا ہے، کیا پڑھنا ہے۔ آپ جو بھی پڑھیں، بلند آواز سے پڑھیں۔‘‘

’’اے اللہ میں تیرے گھر کے طواف کے سات چکروں کی نیت کرتا ہوں، تو اسے میرے لیے آسان فرما اور قبول فرما۔‘‘

نیت کے بعد کانوں تک دونوں ہاتھ اٹھا کر ’’بسم اللہ اللہ اکبر و للہ الحمد‘‘، کہہ کر ہاتھ نیچے کیے، پھر دونوں ہاتھ سینے تک اٹھا کر حجراسود کی طرف اشارہ کر کے چوم لیے۔ استلام کے بعد طواف شروع کیا، شاہد اضطباع میں تھے، پہلے تین چکروں میں انھیں رمل کرنا تھا، ایک عجیب سماں تھا، عاشقان الہی دیوانہ وار طواف میں مصروف تھے۔

طواف کے دوران طواف کعبہ کی تاریخ جو’ ’ کعبۃ اللہ اور اس کا حج‘ ‘ میں پڑھی تھی، نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگی، حضرت امام حسینؑ کے صاحبزادے جناب امام زین العابدینؑ نے طوافِ کعبہ کے بارے میں فرمایا، یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب نوری مخلوق فرشتے ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہتے اور اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے زمین پر خلیفہ بنانے کا ارادہ فرشتوں پر ظاہر کیا، تو وہ اپنی عبادت اور اطاعت میں سرخروئی کے باعث گویا ہوئے، تو اس نوری مخلوق کے ہوتے ہوئے ایک ایسی مخلوق کی تخلیق کیوں چاہتا ہے جو دنیا میں دنگا اور فساد کرے اور قتل و غارت گری جس کا شیوہ ہو، جب ہم تیری عبادت اور حمد و ثنا کے لیے موجود ہیں تو پھر اس مخلوق کی کیا ضرورت، بہرحال جو اللہ جانتا ہے وہ کوئی اور نہیں جانتا۔ فوراً ہی فرشتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم تو وہ مخلوق ہیں کہ جو اب تک اللہ کے احکامات پر بے چون و چرا عمل کرتے آرہے ہیں، آج ہم سے کیا خطا ہوئی کہ اس سے تکرار کر بیٹھے، کہیں ہم نے اپنے رب کو ناراض تو نہیں کر دیا۔ اس رنج، ندامت اور خوف کی حالت میں وہ اٹھے اور اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عرش علا کا دیوانہ وار طواف شروع کر دیا۔ لبوں پر تسبیح و استغفار کے کلمات تھے اور اپنی خطا کی معافی کی درخواست بھی، ربِ کریم جو الغفور الرحیم ہے اسے اپنی مخلوق پر پیار آ گیا، اسے اپنے عفو و کرم سے مالامال کیا اور عرش کی سیدھ میں نیچے ساتویں آسمان پر بیتِ معمور کی تعمیر کا حکم دیا اور فرشتوں کو ہدایت کی کہ وہ اس گھر کا عرش علا کی طرح طواف کریں ان کی خطا معاف ہو جائے گی۔

یہ بیتِ معمور وہ زیارت گاہ ہے کہ جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے طواف کے لیے آتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔عرشِ علا اور بیتِ معمور کا طواف زائر کے والہانہ شوق اور سرمستی کا واضح ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے اس بے تابانہ انداز کو پسند فرمایا اور ارادہ کیا کہ ز مین پر بھی ایک ایسا ہی گھر بنایا جائے جو اللہ کا گھر کہلائے۔

’’اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میرے لیے اب زمین پر بھی ایک گھر بناؤ، تاکہ اولاد آدمؑ سے جب میں کسی بات پر ناراض ہو جاؤں تو وہ اس کی پناہ لے سکے اور جس طرح تم نے میرے عرش کا طواف کیا تھا وہ اس کا طواف کر سکے، تب میں اس سے راضی ہو جاؤں گا جس طرح تم سے راضی ہوا تھا، چنانچہ فرشتوں نے اس حکم کی تعمیل کی ۔۔۔ ‘‘ (کعبۃ اللہ اور اس کا حج، مولانا محمد معراج الاسلام۔ صفحہ ۴۲)

اس نوری مخلوق نے عرش الٰہی اور بیتِ معمور کی سیدھ میں نیچے جہاں ٹھاٹیں مارتے سمندر کے درمیان ایک قطعۂ زمین ابھرا ہوا تھا، چار دیواری قائم کی اور طواف میں مشغول ہو گئے۔ یہی زمین پر اللہ کا پہلا گھر کہلایا، ستر ہزار فرشتے بیت معمور سے فارغ ہو کر روزانہ اس کے طواف کو آتے، یہاں تک کہ بنی نوع آدمؑ کی تخلیق ہوئی اور قرن ہا قرن سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

آج ہم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی یہاں طوافِ کعبہ میں مشغول ہیں۔ صدیاں گزر گئیں، یہ کیسی عبادت گاہ ہے، کیسی عبادت ہے کہ لمحہ بھر کے لیے بھی اس کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، ہر رنگ، نسل، زبان اور خطے کے لوگ شاہ و گدا طواف میں مشغول ہیں۔

’’ ۔۔۔ الجزائر کے بن بیلا کی آمد پر اس خیال سے کہ بعض خفیہ رپورٹیں نازک تھیں، سعودی حکومت نے کعبۃ اللہ کے دائرہ سے زائرین کو چند منٹ کے لیے پیچھے ہٹا دیا، جونہی طواف رکا اور مطاف خالی ہوا، کبوتروں کی ٹکڑیاں اِدھر اُدھر سے نکلیں اور بھرپور طواف شروع کر دیا۔ یہ نظارہ الٰہی دیکھ کر اعضائے رئیسہ سراسیمہ ہو گئے، فوراً اپنی روک ہٹا لی اور طواف شروع ہو گیا۔ کبوتر جس طرح آئے تھے اسی طرح لوٹ گئے، بن بیلا آئے اور عام لوگوں کے ساتھ طواف کر کے چلے گئے۔‘‘(شب جائے کہ من بودم۔شورش کاشمیری، صفحہ ۴۷)

دل کی عجب کیفیت ہوئی آج ہم بھی اسی مطاف میں طواف میں مصروف ہیں جہاں فرشتوں، پیغمبروں اور ولیوں کے قدم پڑے تھے۔ دل کو تسلی دی کہ ہم عاصیوں کا بھی بیڑا پا رہو جائے گا۔

انھی سوچوں کے ساتھ تیسرے کلمے کا ورد جاری تھا۔ رکن یمانی پر ربناٰ آتنا فی الدنیاحسنۃ ًو فی الآخرۃ حسنتۃً وقنا عذاب النار اور پھر حجرِاسود کی پٹی کی تلاش میں نگاہیں زمین کی طرف، پٹی کے قریب ہجوم، کہ وہاں استلام کرنا ہوتا ہے، جس میں دو ایک سیکنڈ ہی لگتے ہیں، لیکن لوگ اس لکیر سے ہلنا نہیں چاہتے۔ یہاں تک دیکھا گیا کہ لوگ یہاں بیٹھے نوافل ادا کر رہے ہیں اور اس بات سے قطعی بے نیاز کہ اس سے طواف کرنے والوں کو کتنی مشکل پیش آ رہی ہے۔ یہی حال مقامِ ابراہیم پر تھا۔

مجھے اس بات کا خدشہ تھا کہ میں تو نماز پڑھتے ہوئے رکعت بھول جاتی ہوں، طواف و سعی کرتے ہوئے میں ضرور تذبذب کا شکار ہو جاؤں گی۔ اسلام آباد میں احرام کی خریداری کے دوران دکان دار نے سات دانوں کی تسبیح ہدیہ کی تھی، اس نے میری مدد کی، شاہد حسب معمول ان چیزوں سے بے نیاز تھے۔ وہ طواف کے شروع میں ہی ہر چکر کے لیے دعا، کلمہ یا قرآنی سورتوں کا تعین کر لیتے، جس کے ورد کے ساتھ اپنے طواف کے سات شوط مکمل کر لیتے۔ واقعی انھیں اس سارے عرصے میں اپنی گنتی میں شک نہیں ہوا۔

ہم نے سکون سے طواف مکمل کیا کہ ابھی رش زیادہ نہ تھا اور طواف بھی کعبہ کی دیوار کے ساتھ کیا۔ آٹھواں استلام کیا، یہ احساس البتہ رہا کہ یہ عمرہ تو ریہرسل ہے آئندہ ہونے والے عمروں اور حج کی، پھر دورانِ طواف جو کوتاہیاں ہو رہی ہیں، آئندہ ان کا بھی دھیان رکھنا ہے۔ احساس ہوا مطالعہ اور بات ہے اور تجربہ اور چیز۔

طواف کے بھی کچھ آداب ہیں۔ طواف کرتے ہوئے نگاہیں نیچی رکھیں، دائیں بائیں نہ دیکھیں، حجرِ اسود کے استلام کے سوااپنا رخ خانۂ کعبہ کی طرف نہ کریں، دوران طواف کعبہ کی طرف سینہ یا پشت کرنا جائز نہیں اور نہ ہی دوران طواف کعبہ کو دیکھنے کی اجازت ہے۔

مقامِ ابراہیم کے پیچھے جا کر دو نوافل پڑھے۔ اب ہم آب زم زم پینے کے لیے وسیع سیڑھیوں سے نیچے تہ خانے میں اترے۔ شاہد نے مردانے اور میں نے خواتین کے لیے بنائے گئے مقام سے جی بھر کر آب زمزم پیا بھی لنڈھایا بھی اور دعا مانگی ۔۔۔

’’اے اللہ میں تجھ سے نفع دینے والے علم اور وسیع رزق اور ہر ایک بیماری سے شفا کا طلب گار ہوں۔‘‘

بے شمار نلکے زائرین کو سیراب کر رہے تھے۔ میں نے اس مقام کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ ایک گرِل نما دروازہ ہے، جو بند ہے، میں جان گئی کہ یہی آب زم زم کا منبع ہے کہ جہاں معصوم اسماعیلؑ کی ایڑیوں کی رگڑ نے ربِ کریم کو اس کرم پر آمادہ کیا جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔ یہیں حضرت ہاجرہ کے ہونٹوں سے بے تابانہ نکلا ہو گا، زم زم، ٹھہر ٹھہر۔ آج میں بالکل اسی مقام پر کھڑی ہوں، میں نے موٹی گرل والے مقفل دروازے کے قریب ٹھنڈے فرش پر شکرانے کے دو نوافل کی نیت کی۔ ٹھنڈے فرش پر سجدے کی تاثیر روح تک اتر گئی۔ پوری امت مسلمہ کی عافیت کے لیے دعا کی اور آبِ زم زم کے اس خنک تہ خانے سے باہر آئی، شاہد منتظر تھے۔

نواں استلام کیا اور سعی کے لیے صفا کی جانب روانہ ہوئے بھیڑ زیادہ نہ تھی، سکون کے ساتھ کتاب کھول کر ہر پھیرے کی اردو میں دعا پڑھتی گئی، اجنبیت کا احساس کچھ کچھ زائل ہونے لگا۔ سعی کے اختتام پر شاہد نے حلق کرایا اور میں نے ایک پور کے برابر بال کاٹے، عمرہ کے شکرانے کے نفل خانۂ کعبہ کے سامنے ادا کیے۔

عدیلہ طاہر نے شادی کے آٹھ سال بعد ہونے والے خدا کے لطف و کرم کے شکرانے کے نفل پڑھنے کے لیے اور جڑواں بچوں، حمزہ اور آمنہ کی صحت و زندگی کی دعا کے لیے کہا تھا، شاہین نے صلوٰۃ الحاجات پڑھنے کے لیے کہا تھا، وہ پڑھے۔ نفل پڑھنے شروع کیے، اتنا دل لگا کہ سلام پھیرتے ہی پھر اگلے نوافل کی نیت کر لیتی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ شاہد میرے فارغ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، میں پڑھتی گئی۔ آخر انھیں کہنا پڑا کہ اب اٹھو، ذرا حرمِ کعبہ کا ایک چکر لگا لیتے ہیں۔

اسی اثنا میں ظہر کا وقت ہو گیا۔ یہاں سب نے کہا تھا کہ با جماعت نماز کا طریقہ سیکھ کر جانا، خاص طور سے فیصل مسجد جا کر نماز پڑھی تھی، لیکن وہ حصہ مردانے حصے سے اتنا الگ ہے کہ کچھ سیکھنا خاصا مشکل ہے۔ حرم پاک میں با جماعت نماز کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ایک طواف اور کیا پھر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ پاکستانی ہو ٹل سے کھانا کھایا، بہت اپنائیت کا احساس ہوا۔

اختر باجی نے کبوتروں کو دانہ ڈالے کے لیے کچھ رقم دی تھی، وہاں حبشی خواتین لفافے پکڑے دانہ بیچتی نظر آئیں، دانہ خریدا، سرمئی کبوتروں کی مو دّب ٹولیاں ہوا میں اتنی آہستگی سے پرواز کر تی اور اتنی خاموشی سے ہمارے قدموں میں دانہ چگتی دکھائی دیتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے، انھیں دانہ ڈالا ابھی دو قدم بھی نہ چلے ہوں گے کہ و ہی حبشی خواتین تیزی سے آگے بڑھیں اور جلدی سے سارا دانہ سمیٹ کر اپنے لفافے میں ڈالا اور کسی اور حاجی کا دامن کھنچنے لگیں۔ میں اس منظر سے کچھ اس طرح بد دل ہوئی کہ تمام حج کے دوران حبشی خواتین سے کبھی کوئی شے نہ خریدی۔

عصر سے بہت پہلے پھر حرم پاک پہنچ گئے۔ خود سے کیا گیا وعدہ یاد تھا۔ حرم پاک میں ا نشا اللہ روزانہ ایک مرتبہ صلوٰۃ التسبیح پڑھا کروں گی۔ چنانچہ نماز ادا کی۔باب عبدالعزیز ہماری قیام گاہ کی سیدھ میں تھا۔آنے جانے کے لیے یہی دروازہ منتخب ہوا۔

عشاء کی نماز کے بعد نوافل کی ادائیگی میں مصروف تھی۔ شاہد قرآن پاک کے نسخوں کا جائزہ لے رہے تھے، وہیں ان کی ملاقات ایک پاکستانی خادم سے ہوئی ۔۔۔ یہ بات میں نے جلد ہی محسوس کر لی کہ شاہد کی نگاہ مردم شناس ہے۔ وہاں سیکڑوں پاکستانی قربِ حرم سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ وہ صفائی اور آبِ زمزم پلانے کی خدمات پر مامور اصحاب میں سے کسی ایک کو منتخب کرتے ہیں اور پھر اس سے تاریخی مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتے ہیں، چونکہ وہ خانۂ کعبہ، مکہ، مدینہ منورہ، مسجدِ نبوی اور دو سری زیارتوں کے متعلق خاصا مطالعہ کر کے چلے تھے،  اندازہ تھا کہ کون سامقدس مقام کہاں پر ہونا چاہیے ۔۔۔ شاہد کو ایک ایسے ہی صاحب دکھائی دیے، جو ان کے خیال میں بہت کچھ جانتے تھے شاہد نے ان سے پوچھا ’’کیا مجھے اردو ترجمے والا قرآن پاک مل سکتا ہے؟ ‘ ‘

’ ’ہاں ایسا ممکن ہے، صبح کے وقت آپ بابِ عمرہ پر آ جائیے، بہت سے حاجی حضرت قرآن پاک ہدیہ کرتے ہیں، چونکہ حرم پاک میں صر ف سعودی حکومت کے شائع کردہ ایک ہی تختی کے تمام نسخے رکھے جاتے ہیں اس لیے ہدیہ کیے گئے نسخے دوسرے دن بابِ عمرہ پر خواہشمند حاجیوں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ ان صاحب نے جواب دیا اور مزید فرمایا۔

’’سعود ی حکومت کو دراصل یہ قدم اس لیے اٹھانا پڑا کہ لوگ اپنے اپنے فرقوں کی تفسیر و تراجم والے قرآن یہاں رکھ جاتے ہیں اور عام مسلمان اپنی نا واقفیت کی بنا پر انھی کا مطالعہ شرو ع کر دیتے ہیں۔ یہاں دیکھا گیا ہے کہ وہ فرقہ جسے اپنے مذہبی نقطۂ نظر کے باعث غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے، دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اپنے تبلیغی ساز وسامان کے ہمراہ یہاں بھی آ موجود ہوتا ہے، بہر حال آپ فکر نہ کیجیے، آپ کو کل اردو تر جمے والا قرآن پاک کانسخہ مل جائے گا۔‘‘

دورانِ گفتگو پتا چلا کہ ان کا نام ٹکا خان ہے، ضلع راولپنڈی، کہوٹہ کے ساتھ کسی گاؤں سے تعلق ہے۔ انھوں نے شاہدسے پوچھا’’ کیا آپ نے حجرِ اسودکو بوسہ دینے کی سعاد ت حاصل کر لی ہے۔‘ ‘

شاہد نے کہا’ ’ہم آج ہی پہنچے ہیں، پھر حجرِ اسود پر بھیڑ اتنی زیادہ ہے کہ ابھی سوچا نہیں۔‘‘

جناب ٹکا خان کہنے لگے’’ ابھی سوا نو بجے ہیں، ساڑھے نو بجے حجرِ اسود کو عطر سے غسل دیا جائے گا، اس کے لیے ہماری ٹیم وہاں پہنچ کر رسی سے گھیرا ڈالے گی، آپ کوشش کر کے اس رسی کے اندر آ جائیں توبوسہ دینے کا موقع انشا اللہ مل جائے گا۔‘ ‘

ہم دونوں بہت خوش ہوئے اور ملتزم کے پاس آ کھڑے ہوئے، شاہد کو ملتزم پر جگہ مل گئی۔ ملتزم وہ مقام ہے کہ جو حجرِاسود اور خانۂ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے، جہاں تمام نبیوں اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے اس جگہ دونوں ہاتھ اپنے سر سے اوپر بچھا رکھ کر اور سینۂ مبارک دیوار سے ملا کر، رخسار بھی دیوار پر رکھ کر رو رو کر اپنی امت کی مغفرت اور دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے دعائیں کی تھیں، اس انتہائی مبارک، متبرک اور فضیلت والے مقام تک رسائی آسان نہیں کہ سبھی جانتے ہیں کہ اس مقام پر کی گئی دعا ضرور قبول ہو گی، مقام ملتزم پر کی گئی دعا ذہن میں گردش کرنے لگی۔

’’اے اللہ، اے اس قدیم گھر کے مالک، ہماری گردنوں کو ہمارے باپ دادوں، ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور اولاد کی گردنوں کو دوزخ سے آزاد کر دے۔ اے بخشش والے، کرم والے، فضل والے، احسان والے، عطا والے، اے اللہ تمام معاملات میں ہمارا انجام بخیر فرما اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں، تیرے مقدس گھر کے دروازے کے نیچے کھڑا ہوں اور تیرے دروازے کی چوکھٹ سے لپٹا ہوا ہوں، تیرے سامنے عاجزی کا اظہار کر رہا ہوں اور تیری رحمت کا طلب گار ہوں اور تیرے دوزخ کے عذاب سے ڈر رہا ہوں، اے ہمیشہ کے محسن اب بھی احسان فر ما دے۔ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، کہ میرے ذکر کو بلندی عطا فرما اور میرے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر اور میرے کاموں کو درست فر مادے اور میرے دل کو پاک کر اور میرے لیے قبر میں روشنی فرما اور میرے گناہ معاف فرما اور میں تجھ سے جنت کے اونچے درجوں کی بھیک مانگتا ہوں۔‘‘

میں قریب ہی کھڑی تھی، بہت جی چاہا کہ میں بھی اس چوکھٹ کو چھو لوں، لیکن جرات نہ کر سکی۔ شاہد ملتزم کے ساتھ چمٹے دعائیں مانگ رہے تھے اور بار بار پیچھے مڑ کر بھی دیکھتے جاتے تھے۔ بعد میں انھوں نے بتایا کہ میری کیفیت کا اندازہ کرنا کتنا مشکل ہو گا، میں اس مقام سے چمٹا ہوا ہوں کہ جہاں حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت محمدﷺ سے لے کر آج تک نبیوں ولیوں نیک ہستیوں نے چمٹ کر دعائیں کیں، اللہ کا بے انتہا کرم کہ اس نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں کسی کاوش کے بغیر نہایت سکون کے ساتھ اس درِ رحمت سے لپٹا ہوا تو ہوں مگر میرا دھیان کسی اور طرف ہے کہ کہیں میں رسی سے باہر رہ جاؤں اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے کا یہ خوش قسمت وقت گنوا بیٹھوں، تذبذب کے حصار میں مقید دو ذہنی کی حالت میں کہ ملتزم کو چھوڑنے کو جی چاہے نہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی سعادت سے محروم رہنے پر دل آمادہ ہو، پھر یوں ہوا کہ ایک دم صفائی کی ٹیم آ گئی، انھوں نے گھیرا تنگ کر لیا اور میں اس گھیرے سے باہر رہ گیا۔ نہایت تیزی کے ساتھ انھی بزرگ جناب ٹکا خان کوا پنی موجودگی کااحساس دلایا، انھوں نے مجھے رسی کے اندر کر لیا اور باری آنے پر میں نے نہایت سکون کے ساتھ حجرِ اسود کوبوسہ دے لیا۔

میں خواتین کے گروپ کے ساتھ کھڑی تھی، پہلے خواتین کو اس سعادت کا موقع فراہم کیا گیا، حجرِ اسود کے مقام پر متعین شرطہ حجرِ اسود سے چمٹ جانے والی اور جگہ نہ چھوڑنے والی خواتین کو بالوں سے کھینچ کر باہر کی طرف دھکیل رہا تھا۔مجھے یہ منظر اچھا نہ لگا، میں نے سوچا کہ میں صرف بوسہ دوں گی اوراس سے پہلے کہ شرطے کا ہاتھ میرے بالوں کی جانب بڑھے میں تیزی سے ہٹ جاؤں گی۔میں نے یہی کیابوسہ دے کر حطیم کی طرف آ کھڑی ہوئی اتنے میں شاہد بھی آ گئے۔

حطیم خانۂ کعبہ کے شمال کی جانب کا وہ حصہ ہے جسے طواف میں شامل کرنا واجب ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے حضورؐ سے خانۂ کعبہ میں نماز پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا حطیم میں نوافل ادا کر لو، یہ خانۂ کعبہ کا ہی حصہ ہے۔ حطیم میں نفل ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ بھیڑ تو تھی لیکن جگہ مل گئی۔میں نے نفل پڑھنے شروع کیے اور پڑھتی چلی گئی ڈر تھا کہ شرطہ بول نہ اٹھے۔ چودہ نوافل ادا کرنے کے بعد حطیم سے باہر آئی شاہد کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ دس منٹ، پندرہ منٹ، پون گھنٹہ، اس دوران گرد و پیش کا بھی چکر لگا آتی اور پھر وہیں کھڑی ہو جاتی۔ میں پریشان تو نہ ہوئی، بور البتہ ہو گئی کہ اگر وہ مل جاتے تو سکون سے بیٹھ کر عبادت کر لی جاتی۔ آخر تھک کر بابِ عبد العزیز کے قریب جہاں جوتوں کا تھیلا رکھا تھا وہاں پہنچی، دیکھا شاہد وہاں پریشانی کے عالم میں کھڑے ہیں۔ تھوڑی بہت ڈانٹ پڑی کہ دو نفل ادا کر کے میں تو حطیم سے باہر آ گیا تھا تمھاری تلاش میں اتنا وقت صرف کیا، کیا یہ بہتر نہ تھا کہ میں ایک طواف ہی کر لیتا۔ خیر اس پہلے روز کے تجربے نے پھر کبھی نہ بچھڑنے دیا۔ ہم نے اپنے تھیلے کو اپنے ملنے کا مقام بنا لیا، جو فارغ ہوتا وہاں آ جاتا۔

دوسرے دن نمازِ فجر کے بعد طواف کا آغاز کیا، سب سے پہلے حضور ﷺ کے نام کا طواف کیا، پھر حضرت ابراہیمؑ ، اپنے دادا، دادی، امی ابا جی کے نام کے طواف کیے۔ پھر اس کے بعد بہن بھائیوں کو ہدیۂ ثواب کے لیے طواف شروع کیے۔اس سلسلے میں پہلے ہی روز بحث و مباحثہ ہو چکا تھا۔ ہم نے اسلام آباد میں حج کی ویڈیو فلم دیکھی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ آپ فوت شدہ عزیزوں کو طواف کا ثواب پہنچا سکتے ہیں اور حیات بہن بھائیوں اوردوستوں کو بھی اس کا ثواب ہدیہ کر سکتے ہیں۔جب کہ یہاں بعض کا خیال تھا کہ جو زندہ ہیں اور خود آ کر طواف، عمرہ و حج کر سکتے ہیں، انھیں ہدیہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ہم نے یہ درمیانی رستہ نکالا کہ طواف برائے خصوصی دعا ۔۔۔ اس سلسلے کا پہلا طواف برائے خصوصی دعا، حمید بھائی، صبیحہ باجی، مدیحہ، خالد، حمیرا، فریحہ اور عشاء کے نام کا کیا۔پھر خالہ جی کے ڈاکٹر ارشد کے نام کا کیا۔ اسی طرح شاہد نے حضرت ابراہیم ؒ، حضرت محمدﷺ پھر اپنے نانا نانی، دادا دادی، والد، بھائی طارق اور پھر امی جی، طاہر، نزہت، قدسیہ، ثروت باجی، جاوید، بلال، طلال، فہد اور ڈاکٹر رانا کو ہدایا ثواب کے لیے طواف کیے۔ اس دن ہم نے نو نو طواف کیے۔ جس کی بے حد خوشی ہوئی بلکہ احساس ہوا کہ دو چار طواف مزید کیے جا سکتے تھے۔ حج سے پہلے میرا خیال تھا کہ ہم ہر روز یا دوسرے روز عمرہ کیا کریں گے۔ شاہد نے کہا کہ یہ مشکل ہے۔ طواف البتہ خوب کریں گے انشا اللہ۔

پھر کتابیں پڑھیں اور فلم دیکھی، اس میں یہی بتایا گیا تھا کہ عمرہ کی اہمیت اور فضیلت اپنی جگہ، لیکن عمرہ ایک دن میں ایک یا دو ہی کیے جا سکتے ہیں جب کہ طواف چالیس پچاس کیے جا سکتے ہیں۔بہر حال یہ اندازہ ہوا کہ چالیس پچاس مبالغہ بلکہ غلو ہے۔ غالباً یہ کہنا چاہیے کہ آپ کئی طواف کر سکتے ہیں۔

ہم آٹھ نو طواف کر کے خوش اور مطمئن تھے۔ کعبہ سے اجنبیت اور بے گانگی کا وہ احساس، میں نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ دور ہوتا جا رہا ہے۔اب دامنِ دل کعبہ کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔اس کے قریب جانے اس کو چھونے کی خواہش زور پکڑتی جا رہی ہے۔ آنکھوں سے اشکوں کا سلسلہ جو شروع ہوتا ہے، تو تھمنا مشکل ہو جاتا ہے۔مجھے یاد آیا دانش کی آمد پربھی تو میری یہی کیفیت تھی۔پہلے دوسرے تیسرے روز کوئی احساس محبت نہ جاگا، کچھ خیال نہ آیا کہ کتنی آرزوؤں اور کس قدر اذیت سہنے کے بعد مجھے یہ تحفہ، یہ مقام ملا ہے۔ لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے صرف احساسِ محبت جاگا ہی نہیں، شدت اختیار کرتا گیا۔

آج کعبہ کے سلسلے میں بھی میرا یہی رویہ سامنے آیا تو مجھ پر کھلا کہ میں پہلی نظر میں محبت کی قائل نہیں۔شکر ہے کہ یہ محبت پائدار ہے، بلکہ روز بروز اس میں اتنی شدت آتی جا رہی ہے کہ بعض دفعہ میں خوف زدہ ہو جاتی ہوں۔ اسلام آباد آتے ہوئے قطعی احساس نہ تھا کہ کعبہ کی طلب اتنی شدید ہو جائے گی۔ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں تڑپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خیال تھا، دعا بھی بہت مانگی تھی کہ آئندہ بچوں کے ساتھ عمرہ یا حج کے لیے آئیں، آتے ہی اس میں ترمیم کی، عمرہ نہیں حج پر جائیں گے۔عمرہ تو ایک مختصر عبادت ہے، جو لطف حج کا ہے وہ کسی اور عبادت میں کہاں ؟

میں ایک روز کالج میں طاہرہ غوری سے، کہ جس کا خیال ہے کہ وہ پہلے عمرہ کرنا چاہے گی، بات کر رہی تھی کہ کعبہ کو اس وقت دیکھوں جب وہاں زیادہ رش نہ ہو، پھر خیال آیا کہ رمضان المبارک کے عمرہ کی رونق اور فضیلت، کبھی وہ نصیب ہو جائے تو کیا بات ہے، پھر یہ خواہش کہ حج کی سعادت مقدر میں ہو تو پھر وہی تمام مقامات، مشاہدات، تجربات اور کیفیات سے گزروں۔اس کے دربار میں کیا کمی وہ ساری دعاؤں کو شرف قبولیت بخش سکتا ہے۔

 

 

 

مدینہ منورہ

 

مدینے سے بلاوے کا انتظار تھا۔خیال تھا کہ پانچ چھ تاریخ کو مدینہ کے لیے عازمِ سفر ہوں گے۔یہ تسلی بھی تھی کہ طواف کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ چنانچہ عطیہ، مشتاق اور ان کے چاروں شریر ترین اور بہت ہی پیارے بچوں حسن، محسن، ذہیب اور شعیب ۔۔۔ سہیل، رفعت اور ان کے بچوں ۔۔۔ شکیل اور اس کے بیوی بچوں ۔۔۔ عالی، صائمہ اور آنے والی روح ۔۔۔ سمیرا رضوان اور ماشاء اللہ بے انتہا پیاری ورع کے لیے خصوصی دعا کے طواف کیے۔ پھر خالہ جی، طاہر، نزہت اور قدسیہ کے لیے طواف کیے۔تایا جی بشیر احمد، داداجی خان صاحب قاضی فضلِ حق، چاچا جی بذلِ حق محمود، چاچا جی عزیزالحق مسعود، غرض لاہور میں بسنے وا لے ان تمام رشتہ داروں کو جو اپنا مقامِ قیام بدل چکے ہیں، ان کے ایصالِ ثواب کے لیے طواف کیے۔ خاندان کے تمام فوت شدہ عزیزوں کے لیے ایک طواف کیا۔دانش، سرمد اور فارد ہر طواف کے وقت ساتھ ساتھ رہے۔ اب اللہ نے موقع دیا تو ان سب کے لیے ا لگ الگ طواف کیے۔ہر عبادت کا الگ ہی مزہ ہے لیکن خدا کے حضور دیوانہ وار والہانہ طواف کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ میں سب سے زیادہ دعا دانش کے لیے کر رہی ہوں، ایک دم میں سرمد کے لیے دعا کرنے لگ جاتی کہ میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ سرمد نہ ہوتا تو میں کیا کرتی، اور پھر اسی کی ذمہ داری پر سب کچھ اللہ کے حوالے کر کے حج کے لیے نکل آئے ہیں۔سب سے پیارا اور سب کا لاڈلا بچہ فارد یاد آتا کہ وہاں مجھے بچوں کی بالکل فکر نہ تھی سوائے اس کے کہ فارد کو اس کے دونوں بڑے بھائی لاڈ کر کر کے ستا دیں گے۔ دانش تو فارد کے ساتھ اتنی ریسلنگ کرتا ہے کہ فارد چیخ پڑتا ہے۔

ایک دن دانش فارد سے پوچھنے لگا ’’فارد ایک بات تو بتاؤ تم ہمارے ساتھ خوب زور شور سے کُشتیاں کر رہے ہوتے ہو، بلکہ ہماری ٹھکائی کر رہے ہوتے ہو، امی کے آتے ہی تم رونے چیخنے لگ جاتے ہو، یہ سب تم کیسے کرتے ہو۔‘‘

کہنے لگا ’’بھائی زور زور سے آنکھیں میچو، آنسو خود بخود نکل آتے ہیں۔‘‘

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہاں بچوں کے متعلق سوچنے یا پریشان ہونے کی مہلت ہی نہ ملی۔ دعائیں ان کے لیے بہت کیں، لیکن فکر مند نہ ہوئے۔

۸ فروری کی رات مدینے جانے کا مژدہ سنایا گیا، لیکن ہمیں یہ مایوسی ہوئی کہ سارا سفر رات کا کرائیں گے اندھیرے میں ہم اس سر زمین کا جائزہ کیسے لے سکیں گے، جس کے تصور میں ساری زندگی بسر ہوئی۔ ہمارے پاس سارا دن موجود تھا، ہم نے کوئی نو بجے ارادہ کیا کہ ایک عمرہ ہی نہ کر لیا جائے۔ احرام تھیلے میں ڈال کر ابھی باہر نکلنے ہی والے تھے کہ مہربانوں نے مشورہ دیا کہ آج آپ کو ایک طویل سفر کرنا ہے، اپنے آپ کو نہ تھکائیں، عمرہ تو مدینے سے آ کر بھی کیا جا سکتا ہے اور ایک لازمی عمرہ تو اسی دن ہو جائے گا جب ہم مکہ سے یہاں پہنچیں گے۔ ہم نے ان کی بات رد نہ کی جس کا آج بھی افسوس ہے کہ عمرے کا ایک بہترین موقع صرف تھکن کے خیال سے گنوا دیا۔

عصر کے بعد مدینے کے لیے بس میں سوار ہوئے۔ ذرا سا ہی چلے تھے کہ کاغذی کاروائیوں کے لیے بس ایک دفتر کے سامنے جا رکی۔ مکہ سے نکلتے نکلتے اندھیرا ہونے لگا۔

بس بہت ہی خوبصورت لیکن انتہائی تکلیف دہ، یعنی تنگ سیٹوں والی تھی۔شاہد سب سے آخر میں سوار ہوئے تو ان کے لیے بس کی آخری لمبی نشست ہی بچی تھی۔وہ وہاں جا بیٹھے۔ وہ نشست بس کی سب سے کھلی اور دوسری نشستوں سے آرام دہ اور بلند تھی۔ جس وجہ سے ارد گرد کا منظر بس کے کشادہ شیشوں سے خوب نظر آتا تھا۔ انھوں نے مجھے بھی اسی نشست پر بلا لیا، پھر جناب و بیگم عابد آئے اور جب بیگم منیر بھی آ گئیں تو شاہد بس کی اگلی تنگ سیٹوں پر پہنچ چکے تھے۔

پورے چاند کی چاندنی نے رات کے سفر کی ابتدائی مایوسی کو نہایت دلفریب احساس میں بدل دیا۔ چاندنی میں نہائے عرب کے ریگ زار، ٹیلے اور گھاٹیاں، ہموار سڑک کے پیچ و خم، ہجرت اولیٰ کے پندرہ روزہ سفرکے تخیلاتی پر تو، یہ سفرزندگی کے یادگار لمحوں میں تبدیل ہوتا رہا۔

اس سفر کی ایک اور یادگار بات یہ بھی تھی کہ ڈرائیور نے بس چلاتے ہی نہایت خوش الحانی کے ساتھ تلاوتِ کلامِ پاک شروع کر دی اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا سلسلہ نہ رکا۔تلاوت کرنا اور سننا ہماری زندگی کا حصہ ہے لیکن جو سرور اس روز ملا اس کی حلاوت اب تک کانوں میں رس گھولتی ہے۔شاہد کا خیال ہے کہ اس نے تلاوت کا کیسٹ لگایا تھا، لیکن مجھے جو آواز سنائی دیتی تھی وہ کسی مشین کی مرہونِ احسان نہ تھی۔

آدھی رات کو کھانا ایک ہوٹل میں کھایا، وسیع عریض صحرا میں ایک پٹرول پمپ، مسجد اور ہوٹل، وہاں دنیا کی کیا کیا نعمتیں موجود تھیں۔ تلی ہوئی ثابت مچھلی، سلاد، روٹی، سالن، چاول اور نہ جانے کیا کیا۔ہم نے چاول منگوائے اور صبر و شکر سے کھا لیے۔کچھ عرب شیوخ کھلے آسمان تلے قالین پر گاؤ تکیے لگائے ٹی وی پر فٹ بال کا میچ دیکھ رہے تھے، فٹ بال اہل عرب کا پسندیدہ کھیل ہے۔

تہجد کے وقت مدینہ منورہ پہنچے۔ راستے بھر یہ خیال رہا کہ ا تنی آرام دہ سواری، جس نے ہمیں آٹھ گھنٹوں میں مدینہ منورہ پہنچا دیا ہے، پھر بھی انسان ناشکری سے باز نہیں آتا، رات کا سفر کیوں ؟ سیٹیں تنگ کیوں ؟ حضور نے مکہ سے مدینے کا ۲۷۷ میل کا سفر کن حالات میں کیا تھا۔ مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے کس دل گرفتگی کے عالم میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے ۔۔۔

’’مکہ تو مجھے ساری دنیا سے عزیز ہے مگر تیرے فرزند مجھے یہاں نہیں رہنے دیتے۔‘‘

حضرت ابو بکر کے ہمراہ تین دن تک انتہائی مشکل پہاڑ پر غار ثور میں قیام، بے شمار خطروں کے درمیان موسم کی سختیاں اٹھاتے ہوئے پندرہ روز کے سفر کے بعد مدینہ داخل ہوتے ہیں۔ والہانہ استقبال کا منظر دل پر یوں نقش ہے گویا سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔ شہر نبی ﷺ میں داخلے کے وقت درود شریف کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی ہونٹوں پر تھی ۔۔۔

’’ الٰہی تو سلامتی والا ہے اور تیری طرف لوٹتی ہے سلامتی، پس زندہ رکھ ہمیں ہمارے رب سلامتی کے ساتھ اور داخل فرما ہمیں اپنے گھر میں جو سلامتی والا ہے، بابرکت ہے، تو اے ہمارے رب اور اے عالی شان عظمت اور بزرگی والے پروردگار، داخل فرما مجھے مدینہ میں، داخل فرمانا مجھے سچا اور نکالنا مجھے مدینہ سے سچا اور عطا کر مجھ کو اپنی جانب سے فتح اور نصرت اور کہہ دیجیے آ گیا حق اور مٹ گیا باطل، بلا شبہ باطل مٹنے والا ہی تھا، اور ہم اتارتے ہیں قرآن جو کہ شفا اور رحمت ہے اور نہیں بڑھتے ظالم مگر خسارے میں۔‘‘

اپنی بلڈنگ پہنچے، وہاں آٹھ لوگوں کا کمرہ ملا، مسجد دس منٹ کی مسافت پر تھی۔ تہجد اور نمازِ فجر کی ادائیگی کے لیے درود شریف کا ورد کرتے ہوئے مسجدِ نبوی پہنچے، جس کی بنیاد چودہ سو بیس سال پہلے حضور اکرم ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے رکھی تھی اور جس کے بارے میں فرمایا

۔۔۔ ’’میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنادوسری مسجدوں میں ایک ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے، کہ وہاں نماز پڑھنا میری مسجد میں سو نمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘

مدینہ منورہ آمد پر آپ کی اونٹنی قصویٰ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان پر ر کی تھی۔ آپ ﷺ نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے ہاں قیام فرمایا۔

اس مکان کے سامنے ایک قطعہ زمین دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا، آپﷺ نے وہ خرید لیا اور درخت کاٹ کر زمین ہموار کی گئی۔ مسجد کی بنیاد آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔صحابہ کرامؓ کے ساتھ آپ نے تعمیر کا کام جاری رکھا۔ شمال کی جانب قبلہ کا رخ تھا۔ ۲ ہجری میں اس کا رخ تحویل قبلہ کا حکم آتے ہی کعبۃ اللہ کی طرف کر دیا گیا۔ دس سال تک آپﷺ نے اس کچی مسجدمیں امامت کرائی۔ فتح خیبر کے بعد حضورؐ نے اس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر توسیع کرائی۔ بعد ازاں حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ ، ولید بن عبدالملک، مہدی العباسی، سلطان اشرف قائت بائی، سلطان عبدالمجید عثمانی، شاہ الملک السعود اور شاہ فہد بن عبدالعزیز کے عہد میں اس کی توسیع ہوتی رہی۔

مسجدِ نبوی کا قدیم حصہ ترک سلاطین کی انتہائی محبت اور عقیدت کی یادگار ہے۔ ترک سلاطین نے آپﷺ سے وابستہ ہر یاد کو محفوظ کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور مسجدِ نبوی کی تعمیر و توسیع کا اعلان فرمایا۔

’’ اس مقدس تعمیر کے لیے عمارت سازی کے علوم فنون کے ماہرین درکار ہیں ۔۔۔ یہ سننا تھا کہ ہندوستان، افغانستان، چین، وسطی ایشیا، ایران، عراق، شام، مصر، یونان، شمالی اور وسطی افریقہ کے اسلامی خطوں سے نقشہ نویس، معمار، سنگ تراش، نقاش، خطاط، پچی کار، ماہرین طبقات الارض، چھتوں اور سائیبانوں کو ہوا میں معلق کرنے والے، رنگ ساز اور رنگ شناس، ماہرین فلکیات، ہواؤں پر عمارتوں کی دھار بٹھانے والے، نہ جانے کیسے کیسے عیاں اور نہاں فنون کے ماہرین، استاذان فن اور پیشہ ور ہنر مندوں نے دنیائے اسلام کے گوشے گوشے سے اپنے اہل و عیال کو سمیٹا اور اس نورانی مقصد کی خاطر قسطنطنیہ کی جانب چل پڑے۔

حکومت نے قسطنطنیہ سے چند میل کے فاصلے پر ایک کشادہ اور حسین بستی بسائی۔ جب یکتائے روزگار اہل فن کے قافلے پہنچنا شروع ہوئے تو انھیں شاہی انتظامات کے تحت الگ الگ بستیوں اور محلوں میں آباد کیا گیا اور ان کی ہمہ پہلو کفالت کے لیے خود حکومت نے ذمہ داری اٹھائی ۔۔۔ اس عمل میں پندرہ سال لگ گئے۔

جب اپنے وقت کے عظیم ترین فنکار جمع ہو چکے تو سلطان خود اس نئی بستی میں گئے اور خاندانی سربراہوں کا اجلاس طلب کر کے منصوبے کے دوسرے مرحلے کا اعلان کیا۔ وہ یہ تھا کہ ہر صاحبِ فن اپنے ہونہار فرزند یا قابل ترین شاگرد کا خود انتخاب کرے اوراس کے جوان ہونے تک اپنا مکمل فن اس کو سکھا دے۔حکومت نے یہ ذمہ لیا کہ وہ اس تربیتی عرصے میں ہر بچے کو قرآنِ پاک کا حافظ بنائے گی اور شاہسواری سکھائے گی ۔۔۔ اس تمام تعلیم و تربیت کے لیے پچیس (۲۵)سال کا عرصہ مقرر کیا گیا۔

اس منصوبے پر محنت و محبت اور صبر و حیرت کے ساتھ عمل شروع ہوا۔ پچیس سال گزر گئے۔ ان انوکھے ہنر مندوں کی ایک نئی اور اعلیٰ صلاحیتوں والی جماعت تیار ہو گئی، جس کے افراد علوم و فنون میں مہارت تامہ رکھنے اور فن میں اتھارٹی ہونے کے ساتھ ساتھ حافظِ قرآن بھی تھے۔ انھیں بچپن سے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا کہ انھیں اپنے پیارے رسول ﷺ کی عرش نشاں مسجد کی تعمیر کے لیے ان نادر خطوط پر تیار کیا جا رہا ہے۔

شعبہ کان کنی کے ماہرین نے خالص اور عمدہ پتھروں کی بالکل نئی کانیں دریافت کیں، جن سے اس مقصد کی خاطر پتھر حاصل کرنے کے بعد ان کو بند کر دیا گیا۔ان کانوں کے جائے وقوع کو بھی صیغۂ راز میں رکھا گیا تا کہ مسجدِ نبوی میں استعمال ہونے والے پتھروں کی جگہ سے کوئی شخص دیگر مقاصد کے لیے پتھر حاصل نہ کرسکے۔بالکل نئے اور ان چھوئے جنگل دریافت کیے گئے اور انھیں کاٹ کر ان کی لکڑی کو بیس برس تک حجاز کی آب و ہوا میں موسمایا گیا۔ رنگ سازوں نے عالم اسلام میں اگنے والے درختوں اور پودوں سے طرح طرح کے رنگ حاصل کیے۔ شیشہ گروں نے شیشہ سازی کے لیے ریگِ حجاز کو استعمال کیا۔ خطاطی کے لیے دریائے نیل کے کنارے قلم اگائے گئے۔ یہ سارا سامان مدینہ طیبہ سے بارہ میل دور اس نئی بستی میں پہنچایا گیا، جہاں اہل ہنر کی رہائش گاہیں اور ورکشاپیں بنائی گئی تھیں۔

جب سارا سامان اپنی خام شکل میں اس بستی کے اندر پہنچ گیا تو پانچ سو کے لگ بھگ ہنر مندوں نے بھی اس بستی میں سکونت اختیار کر لی، پھر ایک ساعتِ سعید میں مسجدِ نبوی کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اہل ہنر کو ہدایت تھی کہ وہ تعمیر کے دوران با وضو اور تلاوت میں مصروف رہیں، کسی قسم کی دنیاوی گفتگو نہ کریں۔ اس طرح صبر و محبت کے ساتھ اس حیرت انگیز اور انوکھی تعمیر کا سلسلہ پندرہ برس تک جاری رہا۔ آخر وہ روز سعید آ پہنچا جب اس کی تعمیر اختتام کو پہنچی اور اس کے فلک بوس میناروں سے اذان کے ساتھ اس کی تکمیل کا اعلان ہوا‘‘ ۔۔۔ (مسجدِ نبوی، مولانا محمد معراج الاسلام، صفحہ نمبر ۱۶۶ تا ۱۶۹)

موجودہ مسجدِ نبوی شاہ عبدالعزیز کی ذاتی دلچسپی اور حضورؑ سے والہانہ عشق کا منہ بولتا ثبوت ہے جو خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں مکمل ہوا۔اس سے پہلے مسجد کا کل رقبہ۱۶ ہزار ۵ سو مربع میٹر تھا اور ۲۸ ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی۔ اب تعمیری رقبہ پانچ گنا زیادہ یعنی ۹۸ ہزار ۵ سومربع میٹر ہے۔ حج اور رمضان المبارک میں نمازیوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔

شدید سردی تھی، ہم وفورِ شوق میں اس طرف دھیان دیے بغیر نکل آئے تھے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہاں مرد و زن کے لیے علیحدہ حصے ہیں، چنانچہ ہم خواتین عورتوں کے حصے کی جانب گئیں، دیکھا کہ اس سردی میں خواتین باہر صحن مسجد میں مصلے بچھائے عبادت میں مصروف ہیں۔ حیرت ہوئی کہ یہ مسجد میں کیوں نہیں جاتیں۔ ہم اندر جانے کے لیے دروازے کی جانب بڑھے، زیرِ لب دعا جاری تھی ۔۔۔

’’یا اللہ درود بھیج ہمارے سردارحضرت محمد ﷺ پر اور ان کی آل پاک پر۔ یا اللہ میرے گناہوں کو بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے، اے اللہ آج کے دن تیری طرف متوجہ ہونے والوں میں مجھے سب سے زیادہ متوجہ ہونے والا بنا لے۔ تیرا قرب حاصل ہونے والوں میں مجھے سب سے زیادہ قریب بنا لے او زیادہ کامیاب کر ان میں سے جنھوں نے تجھ سے دعا کی اور اپنی مرادیں مانگیں۔‘‘

دروازے پر بھی بے شمار خواتین بیٹھی تھیں۔شرطیوں نے ہمیں نہ روکا۔ ہم راستہ بناتے اندر چلتے گئے۔ایک اور ہی جہاں آباد تھا۔دور حدِ نظر تک ستون ہی ستون تھے اور تہجد کے وقت خواتین کا بے پناہ رش۔ ہمیں محسوس ہوا ہم میلوں چلتے چلے گئے، لیکن ایک متنفس کے لیے گنجائش نہیں، واپس ہوئے تو بڑی مشکل سے دہلیز پر جگہ ملی، اپنی قسمت پر رشک آیا، در نبی کی چوکھٹ اور ہم گناہ گار، درست ہے میرا مولا جسے چاہے نواز دے۔

تحیۃ المسجد اور تہجد کے نوافل انتہائی ٹھنڈے فرش پر پڑھے کہ جائے نماز نہ لائے تھے۔ حمیرا نے درِ نبی کو چھونے کے لیے کہا تھا، اس کی طرف سے بار بار چھوا اور اپنی تسکین کا سامان بہم کیا۔ فجر کا وقت ہوا۔

در نبی آرزوؤں کی تکمیل کا مرکز ہے۔ جب سے حج کے ارادے سے حرم پاک آئے تھے، خواہش تھی کہ کسی نماز میں امام صاحب سورۃالرحمن کی تلاوت کریں اور یہاں فجر کی نماز، مسجدِ نبوی کی پہلی ہی نماز میں سورۃالرحمن کی وجد آفریں تلاوت نے اشک بار کر دیا۔ سورۃ الرحمن کے فضائل، اس کی نغمگی، اس کے تاثر، حسنِ قرات نے اس یخ بستہ سحر کو عمر عزیز کے بہترین لمحوں میں کر دیا۔

اشراق کے نوافل ادا کرنے کے بعد گھر آئے۔ ظہر کی نماز کے لیے گیارہ بجے روانہ ہوئے، ساڑھے بارہ بجے نماز ہوتی ہے۔ دو بجے سے تین بجے تک روضۂ رسول خواتین کے لیے کھلتا ہے۔خواتین نماز کے فوراً بعد ہی اس چادر کی دیوار کے سامنے اکٹھا ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جہاں روضۂ رسول ہے۔ شرطے کبھی بائیں جانب سے دروازہ کھولتے ہیں تو کبھی دائیں جانب سے، اور پھر خواتین انتہائی تیزی سے اس طرف لپکتی ہیں۔

درود و سلام پڑھتے ہوئے ہم بھی کشاں کشاں اس سیلاب عاشقاں میں بہتے چلے گئے۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے، آپ دنیا کے کسی خطے میں ہی کیوں نہ ہوں، جب آپ نبی ﷺ کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں، تو ان کے جسم میں روح لوٹا دی جاتی ہے اور وہ آپ کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اس سے بڑ ھ کر اور خوش نصیبی کیا ہو گی کہ نبی اکرمﷺ نے خود آپ کوسلامتی کی دعا دی۔ اب ہم ان کے روضۂ اقدس کے قریب ہیں، خود کو ان کے بے حد قریب محسوس کر رہے ہیں۔ بھیڑ اس قدر تھی کہ اپنے قدموں کو دیکھنے کی گنجائش نہ تھی، نیچے دیکھنا اس لیے ضروری تھا کہ کہیں ہمارے قدموں تلے سفید قالین تو نہیں ؟

مسجدِ نبوی میں سرخ قالین بچھے ہیں لیکن وہ مقام کہ ریاض الجنۃ کہیں جسے، اس کی نشان دہی سفید قالینوں سے کی گئی ہے۔ زمین پر جنت کے اس ٹکڑے کا طول بائیس میٹر اور عرض پندرہ میٹر ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب کے لیے جنت کا یہ ٹکڑا زمین پر اتارا اور قیامت کے دن اسے واپس جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔ اس کی نشان دہی خود رسول پاک ﷺ نے کی کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کا ٹکرا ہے۔جیسے ہی معلوم ہوا میرے قدم ریاض الجنۃ میں ہیں، بغیر سوچے سمجھے جلدی سے دو نفل نماز کی نیت کر لی، دائیں اور بائیں جانب سے دھکے بہت لگ رہے تھے، رکوع و سجود کی کوئی جگہ نہ تھی، وقت آیا تو بڑی مشکل سے رکوع و سجود کیے، نماز کا کچھ مزہ نہ آیا۔ اس عبادت پر بھاگتے چور کی لنگوٹی و الی مثال یاد آئی تو مزید شرمندگی ہوئی لیکن اللہ اور اس کا نبی ﷺ اپنے در پر بلا کر بندے کی ہر خواہش پوری کرنے کا ذمہ لیتے ہیں۔ دو چار لمحوں میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ترک خواتین کسی ایک ستون کو اپنے قبضے میں کر لیتی ہیں اور تین چار خواتین اس ستون کے گرد گھیرا بنا کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور باری باری قدرے اطمینان سے نوافل ادا کر لیتی ہیں، چنانچہ ہم نے بھی ایسا ہی کیا اور نسبتاً بہتر انداز میں نفل ادا کیے۔ اس جگہ نوافل ادا کرنا نہایت جان جوکھوں کا کام ہے، کوئی پتہ نہیں کہ کب انسانی ریلا آئے اور آپ کو کچل کر نکل جائے۔ بہر حال سب کے لیے دعائیں کیں۔

جناب احسان اکبر شاہد کونے اپنی آٹھ دس نعتیں خطِ شکستہ میں لکھی دی تھیں کہ روضۂ رسول پر پڑھی جائیں۔ ایسی ہی آٹھ دس نعتیں جناب راحت منیر کو بھی عنایت کی تھیں۔ وہاں یہ عالم کہ انسان کو اپنا ہوش نہیں، لب پر درود اور دعائیں، آنکھوں سے اشک رواں، ایسے میں یہ وعدہ پورا کرنا کیسے ممکن ہے۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ انھوں نے جتنی نعتیں دی تھیں، جس کا ایک ایک شعر پڑھنے کے لیے کافی وقت اور محنت درکار تھی، اتنی دفعہ جناب احسان اکبر کی جانب سے خدمت اقدس ﷺ میں درود شریف پیش کر دیا گیا۔ جناب احسان اکبر نے جہازی سائز کا ایک قرآن شریف بھی حرم پاک میں رکھنے کے لیے دیا تھا، کتنی دقتوں اور رکاوٹوں کے بعد ہم وہ قرآنِ پاک مکہ لانے اور حرم پاک میں رکھنے میں کامیاب ہوئے۔

حرمِ پاک میں اذان کے فوراً بعد مشکل سے سنت نماز پڑھی جاتی ہے کہ امام صاحب فرض نماز شروع کر دیتے ہیں، جب کہ یہاں مسجدِ نبوی میں کافی دیر بعد، حتیٰ کہ مغرب کی نماز بھی اذان کے دس پندرہ منٹ کے بعد ادا کی جاتی ہے۔

ہفتہ کے روز نمازِ فجر کے بعد دیارِ نبی کی زیارتوں پر جانے کا پروگرام بنا۔ بس زائرین کودس ریال فی کس کے حساب سے لے گئی۔ مسجد بلال، پھر مسجد جمعہ گئے۔ بنی سالم کے محلے میں قائم اس مسجد میں آپ ﷺ نے جمعہ کی پہلی نماز ادا فرمائی اور خطبہ بھی ارشاد فرمایا۔ یہ مسجد، مسجد عاتکہ اور مسجد وادی بھی کہلاتی ہے۔

پھر مسجد قبا گئے، اسلام کی پہلی مسجد، مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے، مسجدِ نبوی اور بیت المقدس کے بعد تمام مساجد میں اسے افضل مقام حاصل ہے۔ یاد رہے کہ آج قدیم مدینہ تو سارا مسجدِ نبوی میں سمٹ آیا ہے، یوں مسجد قبا اب مدینے کی حدود میں ہے۔ یہاں دو رکعت نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرے کے برابر ہے۔ بس کے ڈرائیور نے صرف دس پندرہ منٹ کی مہلت دی، مسجد بھی دیکھنا تھی اور نوافل بھی ادا کرنے تھے، خیر میں نے آٹھ نوافل ادا کیے اور اللہ سے دعا مانگی کہ ابھی مدینہ میں چھ سات روز کا قیام باقی ہے، میرے مولا مجھے اتنی مہلت اور توفیق ضرور عطا کر کہ میں دوبارہ یہاں آؤں اور اپنی مرضی سے نوافل ادا کرسکوں ۔۔۔ اللہ نے یہ دعا قبول کی اور چار روز بعد میں اور شاہد آئے اور وہاں سکون سے نوافل ادا کیے۔ مسجد کے باہر ٹھنڈی میٹھی کھجوریں جنھیں پاکستان میں ڈوکے کہتے ہیں، بک رہی تھیں، ان کا ذائقہ آج تک زبان پر ہے۔

مسجد سے نکلے تو بس میں موجود افراد انتظار کی کوفت سے دوچار تھے۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ بس سے اترے ہی نہیں کہ زیارت کر لی ہے، اب آگے چلیں، اگر ہر جگہ اتنی دیر لگاتے رہے تو ظہر کی نماز مسجدِ نبوی میں ادا نہ کی جا سکے گی اور چالیس نمازوں کی ادائیگی میں تعطل آ جائے گا۔ انھیں بہت تسلی دی کہ ایسا نہیں ہو گا۔

اس کے بعد خاکِ شفا گئے، دور سے ایک چار دیواری دکھا دی گئی کہ یہ خاکِ شفا ہے۔ معلوم ہوا کہ حکومت نے چاردیواری اس لیے بنا دی ہے کہ اگر یہاں سے زائر ین خاکِ شفا لے جاتے رہے تو گڑھا بلکہ کنواں بن جائے گا، خاکِ شفا وہ مقام ہے کہ جہاں غزوۂ احد کے بعد حضورﷺ اور ان کے ساتھی شدید زخمی حالت میں پہنچے، تو صحابہ کرام خون بہ جانے کے باعث شدید نقاہت محسوس کر رہے تھے، حضورﷺ سے گویا ہوئے، کہ اب اور نہیں چلا جاتا، حضور نے یہ الفاظ سنے تو وہیں سے مٹی اٹھائی اور ان کے زخموں پر چھڑک دی۔ وہ مٹی معجزاتی طور پر ان کے لیے شفا بن گئی۔

اس کے بعد مسجد قبلتین گئے، مدینہ آمد کے سترہ ماہ بعد تک آپ ﷺ بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز ادا فرماتے رہے، آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ قبلہ کا رخ کعبۃ اللہ کی جانب کر دیا جائے، اس خواہش کے در پردہ یہ عوامل تھے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ تمہارا نبی اور تم ہمارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھتے ہو جب کہ خود کو دینِ ابراہیمی کے پیرو کار کہتے ہو، جن کا قبلہ خانۂ کعبہ تھا، اس لیے دینِ اسلام ترک کر کے ہمارے دین میں آ جاؤ۔

ظہر کی نماز کی ادائیگی کے دوران یہ آیت نازل ہوئی ۔۔۔

’’ تمہارے منہ کا بار بارآسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں، لو ہم تمھیں اس قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو، مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں بھی تم ہو اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔‘‘

چنانچہ نماز کے دوران ہی آپ ﷺ نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا۔ یہ واقعہ اسی مسجد میں رونما ہوا۔مسجد قبلتین میں نوافل کی ادائیگی کے بعد مساجد خمسہ گئے۔

اس کے صرف ایک سال بعد ہی کی بات ہے کہ اپنے قریبی عزیز جناب و بیگم یٰسین حج کے لیے گئے۔ واپسی پر دیگر احوال کے علاوہ یہ خبر بھی سنائی کہ ہمیں تو بس والوں نے ان مساجد کے قریب اترنے بھی نہ دیا، کہ وہاں بلڈوزر چل رہے تھے، اب وہاں اس کی یادگار میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی جا رہی ہے۔

مساجدِ خمسہ غزوۂ خندق کی یادگار ہیں۔ خندق کے ساتھ ساتھ مسجدِ فتح، مسجدِ سلمان فارسیؓ ، مسجدِ ابوبکر صدیقؓ، مسجدِ عمر فاروقؓ اور مسجدِ علی کرم اللہ وجہہ تعمیر کی گئی ہیں۔ ان مساجد کی صحیح تعداد کے متعلق میں ہمیشہ شش و پنج میں رہی، کیونکہ میں نے وہاں مسجد فاطمہؓ ، جو کہ بند تھی، کے دروازے کے سامنے بھی دو نوافل ادا کیے تھے۔ اس طرح تو ان کی تعداد چھے ہو گئی۔ حج سے واپسی کے بعد اب تک یہی لگن ہے کہ حج سے متعلق جو تحریر بھی رسائی میں ہو، اسے پڑھ لوں۔ پچھلے دنوں جناب افتخار احمد قادری کی کتاب ’’ دیارِ حبیب ‘‘ دیکھ رہی تھی اس میں بھی ان مساجد کی تعداد کے متعلق یہی مسئلہ در پیش تھا، آپ لکھتے ہیں۔

’’ تمام مورخین نے اس مقام پر چار مساجد کا ذکر کیا ہے لیکن ۱۹۴۷ء کے نقشے کے مطابق اس مقام پر چھ مساجد کا ذکر ملتا ہے جن کے اسمائے مبارکہ اور ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ مسجدِ فتح، مسجدِ سید نا سلمان فارسی، مسجدِ سید نا علی، مسجدِ سید نا عمر الفاروق، مسجد سید نا سعد بن معاذؓ مسجد سید نا ابو بکر، لیکن ان میں مسجد سیدتنا فاطمہ الزہراؓ کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔۔۔

مختلف محققین کے نزدیک ان مساجد کے ناموں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مساجد کے اس سلسلے کو پہلے مساجد الفتح کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، چودھویں صدی ہجری میں انھیں سبعتہ مساجد، اس کے کچھ عرصہ بعد ستہ مساجد اور بعد ازاں مساجدِ خمسہ کا نام سے یاد کیا جانے لگا۔‘‘

خندق کی جگہ اب سڑک بن گئی ہے۔ غزوہ خندق ایک ماہ جاری رہا، اس اعصاب شکن ماحول میں ایک رات ایسی آندھی آئی کہ کفار کے خیمے ا لٹ گئے۔ سامان خورد ونو ش آندھی کی نذر ہو گیا، کفار جو پہلے ہی سخت بد دل ہو چکے تھے، وہاں سے نہایت مایوسی کے عالم میں واپس ہوئے۔ اس جنگ کا مسلمانوں کو یہ فائدہ ہوا کہ پورے عرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور کفار جان گئے کہ مسلمان اپنے جذبۂ ایمانی کی بد و لت کفار سے کہیں طاقت ور قوم ہے۔ ان تمام مساجد میں نوافل ادا کیے۔

مسجد سقیا کی زیارت بھی ہمارے پروگرام میں شامل تھی، لیکن ہماری ایک ہی مجبوری، ہمارے کچھ ساتھی زائرین بس سے اترنا بھی نہ چاہتے تھے۔

میدانِ احد پہنچے، بعض ساتھی دس بجے سے ہی بار بار نماز کے قضا ہو جانے کا واویلا مچا ہے تھے، انھیں بہت سمجھایا کہ اگر ہم یہاں ڈیڑھ گھنٹہ بھی لگا لیتے ہیں تو بھی انشا اللہ ساڑھے بارہ سے کہیں پہلے مسجدِ نبوی پہنچ جائیں گے، لیکن میدانِ احد پہنچ کر وہ خاص طور سے شاہد سے مخاطب ہوئے کہ آپ دس منٹ کے اندر واپس آ جائیں۔

میدانِ احد وہ مقام ہے کہ جہاں کفار مکہ، جنگ بدر میں ناکامی کے بعد اپنے عزیز و اقارب کے مارے جانے کا انتقام لینے کے لیے سال بھر کی جنگی تیاریوں کے ساتھ، مسلمانوں سے معرکہ آرا ہوئے۔ کفار میدانِ احد کے قریب وادی قناۃ کے قریب قیام پذیر ہوئے۔ سات سو مجاہدین نے احد پہاڑ کی گھاٹی میں خیمے لگائے، حضور ﷺ نے لشکر بندی کی کہ پچاس تیر اندازوں کو حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی سر کر دگی میں وادی قناۃ میں ایک پہاڑی ٹیلہ پر مقرر فرمایا، اس پہاڑی کو چشموں کی موجودگی کے سبب جبل عینین بھی کہتے ہیں۔ آپﷺ نے ہدایت کی کہ فتح ہو یا شکست، کسی صورت پہاڑی سے نہ ہلنا، شدید لڑائی کے دوران کفار کے نامی گرامی پہلوان اور سپہ سالار مارے گئے۔ اسلامی لشکر حاوی ہوا۔ کفار کی پسپائی اور اسلامی لشکر کے تعاقب کے منظر نے پہاڑ کی چوٹی پر متعین دستے کو فتح کا یقین دلا دیا۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی صدا کی پروا کیے بغیر یہ دستہ مال غنیمت سمیٹنے کے لیے نیچے اتر آیا، خالد بن ولید نے موقع غنیمت جانا اور پشت پر سے بھر پور وار کیا، بھاگتے ہوئے مشرکین نے یہ منظر دیکھا تو وہ پلٹ آئے، مسلمان سخت انتشار کا شکار ہوئے، حتیٰ کہ مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہے، حضرت مصعبؓ ہم شکل رسول، کی شہادت نے اور غضب ڈھایا، ہر طرف شور مچ گیا کہ رسول اکرم ﷺ شہید ہو گئے۔ سراسیمگی اور بڑھی، اسی اثنا میں حضرت کعبؓ نے آپ ﷺ کو زندہ پا کر نعرہ بلند کیا، کفار کے حملے میں اور شدت پیدا ہوئی، حضور ﷺ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، نچلا ہونٹ پھٹ گیا، کندھے پر تلوار کا ایسا وار پڑا کہ آپ ایک ماہ تک تکلیف میں رہے۔

ہمارے وہ ساتھی جو بسوں سے نہ اترے تھے کہ میدان احد تو بس میں بیٹھ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے، اکتا چکے تھے، شاہد نے کافی مطالعہ کر رکھا تھا، انھیں ایک ایک چیز دیکھنے کا شوق تھا، ہم تیزی سے میدان احد اور اس کے گرد و نواح میں پھر آئے۔

کہا جاتا ہے کہ اسی پہاڑ پر حضرت موسیٰؑ کے بھائی حضرت ہارونؑ کی قبر ہے۔

میں اور شاہد تیر اندازوں والے ٹیلے پر بھی چڑھے، جبل احد پر سے کوئی پتا، کانٹا یا جڑ چبانا حکمِ رسول ﷺ ہے ۔۔۔

’’تم احد پر آؤ تو اس کے درخت سے کچھ کھاؤ، اگرچہ کانٹے والا ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘

بہت تلاش کیا پتھریلے پہاڑ تک ہو آئی بہر حال ایک تنکا سا ہی منہ میں ڈال کر چبایا۔

سرخ مٹی والا احد پہاڑ اگر چہ سبزے اور روئیدگی سے بالکل محروم ہے لیکن پھر بھی اس کے متعلق حضور پاک نے فرمایا کہ یہ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے، اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ احد سے رخصت ہو نے لگے تو پہاڑ بھی آپ کی جانب کھسکنے لگا اور آپ ﷺ کے دلاسا دینے پر رک گیا۔

میدانِ احد میں ایک چاردیواری کے اندر حضرت امیر حمزہؓ اور صحابہ کرام کی قبریں موجود ہیں۔ قبروں کا تو نام و نشان نہیں، ایک چٹیل میدان ہے جہاں مختلف مقامات پر پتھر رکھ کر قبروں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ دیوار میں بنی جالیوں سے قبور کی زیارت کی اور فاتحہ پڑھی، میدان احد کے وہ مقامات، قبہ ثنایا اور غار کہ جہاں آپ ﷺ نے زخمی ہونے کے بعد بیٹھ کر نماز کی امامت فرمائی اور مجاہدین نے بیٹھ کر نماز ادا کی، مکان عشرہ مبشرہ کی زیارت بھی ہماری فہرست میں شامل تھی، لیکن شنوائی نہ ہوئی، یہ مکان دس صحابۂ کرام حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، ابو عبیدہؓ بن الجراح، سعیدؓ بن زید، طلحہ ؓ بن عبید اللہ، اور زبیرؓ بن عوام کے حوالے سے محترم ہے۔

بس میں کان لپیٹے داخل ہوئے، مسجدِ نبوی پہنچے تو ابھی ساڑھے گیارہ بھی نہ بجے تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد گھر آ گئے، کھانا کھایا، کچھ دیر آرام کیا، مسجدِ نبوی پہنچے تو زیارتِ روضہ رسول ﷺ کا وقت ختم ہو چکا تھا، مسجدِ نبوی میں سبھی اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف تھے، اچانک بیگم صبیحہ منیر کہنے لگیں۔

’’ طاہرہ میں خاص طور سے آپ سے یہ بات کہہ رہی ہوں، ہم روضۂ پاک کی زیارت کر چکے، نوافل بھی ادا کر لیے، اب آپ وہاں نہیں جائیں گی، وہاں سے زندہ سلامت نکل آنا کتنا مشکل ہے۔‘‘

میں نے انھیں اشارے سے کہا کہ یہ تسبیح پڑھ لوں، پھر آپ کی بات کا جواب دیتی ہوں، دو منٹ بعد میں نے انھیں کہا۔

’’اگر اجازت ہو تو میں آپ کو اپنی وہ سو چ بتا دوں، جو بالکل اس وقت میرے ذہن میں تھی، جب آپ نے مجھے تنبیہ کی‘‘

کہنے لگیں۔ ’’کیا‘‘

میں نے کہا

’’ میں سوچ رہی تھی کہ آج روضۂ رسول ﷺ کی زیارت نہ کر سکے تھے، کل دو مرتبہ کروں گی‘‘ ۔۔۔ اور پھر یہی ہوا کہ اگلے دن اشراق اور ظہر کے بعد دو مرتبہ یہ سعادت ملی اور نوافل ادا کیے۔

حقیقت یہ ہے کہ روضۂ رسولﷺ پہنچ کر بھی ہم مزار اقدس کے دیدار سے محروم رہتے ہیں، روضۂ پاک کے سامنے لکڑی یا سفید چادر کی دیواریں تان دی جاتی ہیں کہ حضوراقدس ﷺ نے عورتوں کے لیے قبور کی زیارت ممنوع قرار دی ہے۔ روضۂ رسولﷺ کے سامنے پیتل کی تین جالیاں ہیں درمیان والی جالی کو مواجہ شریف کہتے ہیں جس میں تین سوراخ ہیں، بائیں طرف بڑے سوراخ کے سامنے نبی پاک ﷺ کا چہرہ مبارک ہے، درمیان والے سوراخ کے مقابل حضرت ابو بکر صدیقؓ اور اس سے ایک قدم دائیں طرف والے سوراخ کے سامنے حضرت عمر فاروقؓ کے چہرہ ہائے مبارک ہیں۔

بہر حال ہم آٹھ روز مدینہ منورہ میں رہے، ہر روز روضۂ رسول پر حاضری دی۔ ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کرتے رہے، دعائیں مانگتے رہے۔

ریاض الجنۃ میں سنگِ مرمر کے سات ستون جن پر انتہائی نفیس سنہری مینا کاری کی گئی ہے، خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں اور ہر ستون تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔

ستونِ حنانہ یا اسطوانِ مخلق ۔۔۔ یہ ستون محراب نبیؑ کے قریب ہے۔ آپﷺ یہاں خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ مسجدِ نبوی کے ابتدائی دور میں یہاں ایک کھجور کا درخت تھا جس کے تنے سے ٹیک لگا کر آپﷺ خطبہ دیا کر تے تھے اور لوگوں کے مسائل سنا کرتے تھے۔ مسجدِ نبوی کی تعمیر و توسیع کا منصوبہ تشکیل دیا گیا تو کھجور کا یہ درخت بھی اس کی زد میں آ گیا۔کھجور کا درخت کاٹا گیا تو وہ حضورﷺ کی جدائی کے تصور سے رویا۔ آپ ﷺ نے اسے دلاسا دیا اور اس کی محراب نبوی کے قریب تدفین کی گئی۔ ایک اور روایت کے مطابق حضورؑ کے لیے نیا منبر بنوا کر بھیجا گیا۔ آپ نے جب اس منبر پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دیا تو کھجور کا یہ درخت جس سے ٹیک لگا کر آپﷺ خطبہ دیا کرتے تھے، آپﷺ کے فراق میں بچوں کی طرح دیا۔جس پر آپ ﷺ نے اسے دلاسا دیا ۔۔۔ مخلق اس چیز کو کہتے ہیں جس پر خوشبو لگی ہو۔ اس ستون پر چونکہ خوشبو ملی جاتی تھی اس لیے اسے ستون مخلق بھی کہا گیا ہے۔

ستونِ عائشہ ۔۔۔ ایک مرتبہ حضورؑ نے فرمایا تھا کہ مسجدِ نبوی میں ایک مقام ایسا فضیلت والا ہے کہ اگر عقیدت مندوں کو علم ہو جائے تو وہ اس مقام پر عبادت کرنے کے لیے قرعہ اندازی کرنے لگیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے اصرار پر حضرت عائشہؓ نے اس مقام کی نشاندہی کر دی۔ علامت کے طور پر تعمیر شدہ اس ستون کو ستون عائشہ کا نام دیا گیا، اسے ستو ن قرعہ بھی کہتے ہیں۔

ستونِ ابوالبابہ ۔۔۔ حضرت رفاعہؓ بن عبدالمنذر جن کی کنیت ابو البابہ ہے، حضورؐ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ جنگِ خندق کے موقع پر بنو قریظہ نے غداری کی، جو بارگاہ نبوت میں پکڑی گئی اور کامیاب نہ ہو سکی۔ اب بنو قریظہ کو مواخذہ کا خوف تھا۔ وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہو گا۔ انھوں نے جناب ابو البابہؓ سے دریافت کیا، آپ نے اشارے سے بتا دیا کہ تمام غداروں کی گردنیں اڑا دی جائیں گی، لیکن فوراً ہی یہ احساس ہوا کہ مجھ سے راز فاش کرنے کی غلطی سرزد ہو چکی ہے۔ احساس ندامت سے دل شکستہ مسجدِ نبوی تشریف لے گئے اور خود کو ایک ستون سے باندھ لیا، کھانا پینا موقوف کر دیا۔ نماز یا انتہائی ضرورت کے وقت آپ کی بیٹی آپ کو کھول دیتی، نماز کے بعد آپ پھر خود کو باندھ لیتے۔سورۃ توبہ نازل ہوئی تو آپ کو معافی کی نوید دی گئی۔ آپ نے فرمایا جب تک حضور ؐ خود نہ کھولیں گے میں اسی طرح بندھا رہوں گا چنانچہ حضورﷺ نے خود آ کر آپ کو آزاد کرایا۔ یہ ستون اسی واقعے کی یاد دلاتا ہے۔

ستونِ سریر ۔۔۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آپ ﷺ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہیں آپ ﷺ کا بستر لگا دیا جاتا تھا اور آپ ﷺ یہیں آرام فرما لیتے تھے۔ سریر کا مطلب چارپائی بھی ہے۔

ستونِ وفود ۔۔۔ باہر سے آنے والے وفود اس مقام پر آپﷺ سے شرفِ ملاقات حاصل کرتے۔ اکثر کفار نے آپ ﷺ سے متاثر ہو کر اسی مقام پر اسلام قبول کیا۔ یہ ستون روضۂ مبارک کے ساتھ ہے۔

ستونِ علی یا ستونِ حرس ۔۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ یہاں نماز ادا کیا کرتے تھے اور سرکار دو عالم ﷺ کی حفاظت کے لیے پہرہ داری کیا کرتے تھے۔ تاوقتیکہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضورﷺ کی حفاظت کا ذمہ ہمارا ہے۔ یہ ستون بھی روضۂ رسول سے ملحق ہے۔

ستونِ تہجد ۔۔۔ یہاں آپ ﷺ تہجد کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔

اصحابِ صفہ کا چبوترہ ۔۔۔ مسجدِ نبوی کا ایک اہم مقام، مسلمان دینی تعلیم و تدریس کے لیے مسجدِ نبوی کا رخ کرتے تھے۔ مسجدِ نبوی صرف عبادت کا ہی مرکز نہ تھی بلکہ دینی علوم اور روحانی تربیت کا ادارہ بھی تھی، چونکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں مختلف مقامات سے آ کر اپنی زندگی علوم دین کی ترویج اور اشاعت کے لیے وقف کر چکے تھے، اس لیے خود حضور ﷺ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھا کرتے تھے۔

فقر و درویشی کی علامت، یہ برگزیدہ لوگ تزکیہ نفس اور قرآن و حدیث کی تعلیم میں ہمہ وقت مصروف رہتے اور تبلیغ اسلام کے لیے خندہ پیشانی سے دور دراز کے سفر کے مصائب اٹھاتے۔ یہ چبوترہ ان ہستیوں کا مسکن و مدرسہ تھا۔ جن کے قریب بیٹھ کر آپ دعا فرمایا کر تے تھے۔اے اللہ تو مجھے مسکینوں میں زندہ رکھ، مسکینوں میں یہ موت عطا کر، مسکینوں کے ساتھ قیامت کے روز اٹھا، تو اصحابِ صفہ سے زیادہ خوش بخت اور کون ہو سکتا ہے کہ جن کی معیت کی حضور پاک ﷺ خود دعا فر مائی۔

یہ وہی کھجور اور پانی پر گزارا کرنے والے، جن کے بدن کو پورا لباس بھی میسر نہ تھا، یہی صحابۂ کرام فکری، اخلاقی و اسلامی انقلاب کے داعی اور رشد و ہدایت کے چراغ اور تعلیم و تر بیت کے بہترین معلم و مبلغ ثابت ہوئے۔ ایسی درس گاہ، ایسے طالب علم اور ایسے معلم روئے زمین پر کہیں ہوئے ہوں گے۔ مدینہ میں اس مقام کی وہی فضیلت و اہمیت ہے جو مکہ میں دار ارقم کی ہے۔

حضرت داتا گنج بخش نے کشف المحجوب میں اصحابِ صفہ کے بائیس ناموں کی فہرست دی ہے۔

میری کتنی بدقسمتی کہ شدید آرزو کے باوجود میں علم کے شیدائی اور آپ ﷺ کی تربیت پذیری اور قربت کی آرزو میں اپنا گھر بار بھول کر مدینے کو اپنا مسکن بنا لینے والے اصحابِ صفہ کا چبوترہ نہ دیکھ سکی کہ وہ مردانے حصے میں ہے، اب خیال آتا ہے کہ میں شاہد سے ذکر ہی کر دیتی کہ مجھے ہر حال میں اصحابِ صفہ کا چبوترہ دیکھنا ہے بلکہ وہاں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کر نا ہے تو وہ یقیناً کوئی نہ کوئی سبیل نکال لیتے، کم از کم اس مقام کی زیارت ہی کر وا دیتے۔

اصحابِ صفہ کے عام طور پر جو معنی مشہور ہیں، وہ چبوترے والے کے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے معنی سایہ دار جگہ یا سائیبان کے ہیں، باب جبرئیل سے داخل ہونے پر دائیں جانب خوب صورت قالینوں سے ڈھکا زمین سے دو فٹ اونچا ایک چبوترہ ہے جسے اصحابِ صفہ کا چبوترہ سمجھ کر اس مقام پر عبادت کر نے کی سعادت حاصل کرنے کی لگن ہر دل میں جاگتی ہے، یہ اصحابِ صفہ کا چبوترہ نہیں ہے، بلکہ وہ مقام موجودہ چبوترے سے خاصا آگے مغرب کی جانب ہے، ستون عائشہ سے شمال کی سمت یعنی قبلے کی مخالف طرف چلیں تو پانچویں ستون کے قریب ستر اہل صفا کا چبوترہ اور سائبان ہوتا تھا۔ موجودہ چبوترہ ساڑھے آٹھ سوسال قبل مصر و شام کے فرماں روا سلطان نور الدین زنگی نے ۱۱۶۲ء میں بنوایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں عیسائیوں کی آپ ﷺ کے جسد مبارک کو روضۂ اطہر سے نکال لے جانے کی ناپاک سازش نا کام کی تھی۔سلطان نے روضۂ اقدس کے چاروں طرف خندق کھود کر اس میں سیسہ بھروا دیا تھا کہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک جسارت نہ کرسکے۔ انھوں نے یہ چبوترہ محافظوں کے بیٹھنے کے لیے بنوایا تھا۔

اب مسجدِ نبوی نے پورا قدیم مدینہ منورہ اپنے اندر سمیٹ لیا ہے لیکن روضۂ رسولؐ، منبرِ رسول، چبوترۂ اصحابِ صفہ اور یہ سارے ستون دراصل اس مسجد کی نشان دہی کرتے ہیں جو حضورؐ کے زمانۂ حیات میں تھی۔

میں اپنی خوش نصیبی پر نازاں مسجدِ نبوی کا چپہ چپہ دیکھنا چاہتی تھی مگر خواتین و مرد حضرات کے حصے الگ الگ کر کے انھوں نے انتظامی طور پر تو سہولت حاصل کر لی ہو گی، لیکن ان خواتین کے ساتھ جو اس مسجد کا ہر پہلو سے نظارہ کرنا چاہتی ہیں، بہت ناانصافی کی ہے۔

مسجدِ نبوی میں ترک خواتین کے قریب بیٹھنے کا موقع بھی ملا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی ہے، بڑی مشکل سے یہ خواتین جگہ بناتی ہمارے سروں پر کھڑی ہو جاتیں اور نہایت ہی غیر محسوس طریقے سے وہ اس مقام پر جہاں قطعاً کوئی گنجائش نہ ہوتی تھی، کسی نہ کسی طرح بیٹھ جاتیں اور بڑے آرام سے ان کا ایک پاؤں ہمارے پہلو سے نکلتا دکھائی دیتا اور ہم سکڑ کر اسے جگہ دے دیتے۔ چند لمحوں بعد ان کا دوسرا پیر جگہ بناتا نمودار ہوتا اور ہمیں سکیڑ کر اپنی جگہ بنا لیتا۔ بالآخر وہ جو اپنے وجود میں ہم سے کم از کم تین گنا ہیں، بڑے آرام سے نماز کے لیے جگہ بنا لیتیں۔ عرب کا اونٹ شدت سے یاد آتا۔ ترک بہت محبت کرنے والی قوم ہے۔ وہ اس طرح پیا ر سے مسکرا کر آپ کو دیکھیں گی کہ آپ مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دینے پر مجبور ہو جائیں گے، چونکہ ایک ترک میاں بیوی اسلام آباد میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی خوش مزاجی سے ہمیں اپنا گرویدہ کر چکے ہیں، ان کی وجہ سے بھی شاید ترک ہمیں اجنبی محسوس نہ ہوئے۔ اسلام آباد آ کر میں نے ان نازک اندام میاں بیوی سے کہا ’’میں تم دونوں کا مستقبل دیکھ کر آ رہی ہوں، فاطمہ نور تین سو بیس پونڈ، رمضان ارسلان تین سو ساٹھ پونڈ‘‘ ۔۔۔ دونوں اپنے مستقبل کی تصویر’’ سن‘‘ کر ہنسنے لگے۔

ترک ہمارے منہ سے چند ایک ترکی زبان کے الفاظ سن کر بہت خوش ہوتے۔ ایک ترک خاتون میرے پاس بیٹھی تھیں۔ ان کے پرس کے ساتھ ایک منا سا اونی موزہ لٹک رہا تھا۔ میرے منہ سے نکلا ’’چوک گزیل‘ ‘ یعنی بہت خوبصورت، انھوں نے موزہ کھولا اور میرے منع کرنے کے باوجود میرے بیگ کے ساتھ ٹانک دیا۔

یہاں پاکستان میں بھی میں نے محسوس کیا کہ وہ ترک جو مذہب کی طرف رجحان رکھتے ہیں ان کے لیے سعید نورسی کی شخصیت ایک اہم دینی رہنما کا درجہ رکھتی ہے۔ مصطفی کمال، اتا ترک یعنی ترکوں کا باپ کہلایا تو مذہبی مفکر اور دانشور سعید نورسی کا درجہ اسلام پسند لوگوں کے لیے اس سے کچھ کم نہیں۔ تراسی سالہ سعید نورسی نے ۱۹۶۰ ء میں وفات پائی۔ ان کے مضامین کا مجموعہ رسالۂ نور یہاں بھی ترکوں کے پاس اکثر نظر آیا۔

جمعہ کا روز پلک جھپکتے میں آ گیا۔ دل کی عجیب کیفیت تھی۔ دل و نگاہ دونوں ہی نہ بھرے تھے، آج مسجدِ نبوی میں آخری دن ہے۔ پھر پتہ نہیں یہاں آنا نصیب ہو یا نہ ہو، دعا تو بہت کی ہے لیکن اب وقت رخصت آ پہنچا ہے۔

مسجدِ نبوی دل و نگاہ کی تسکین کا مکمل سامان ا پنے اندر رکھتی ہے۔ اس کے بلند و بالا مینار انسانی ہاتھوں کی تعمیر معلوم نہیں ہوتے۔ میں اکثر سر اٹھا کر انھیں تکتی رہتی اور سوچتی خدا کے جلال و جمال کا کیا عالم ہو گا، جب اس کے گھر کا رعب و دبدبہ اس قدر ہے۔ اس وسیع و عریض عالیشان اور فنِ تعمیر کا نادر مرقع کیا روئے زمین پر کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اس کا ایک ایک ذرّہ شفاف، فرش انتہائی خوبصورت، منقش ستون، کھڑکیاں اور دروازے، قدیم و جدید فن تعمیر کی روشن مثال ہیں۔ صفائی کا انتظام اس قدر اعلیٰ کہ جہاں ہمہ وقت لاکھوں قدم گردش کرتے ہیں، صحنِ مسجد میں کھانا بھی کھاتے ہیں، پر کیا مجال کہ باقیات کا کوئی ذرّہ بھی نظر آئے۔ غسل خانے اس قدر صاف کہ کسی بڑے سے بڑے گھر کے بھی کیا ہوں گے، جہاں صرف چند نفوس ہی رہتے ہوں۔ صحنِ مسجد میں قالین بچھے ہیں۔ اندر بھی اور باہر بھی آبِ زمزم کے کولر بھرے ہیں، جو مکہ سے مدینہ لایا جا رہا ہے۔

آبِ زمزم قدرت کا کتنا بڑا معجزہ، کہ ہزاروں سال سے کروڑوں عقیدت مند اسے پیتے ہیں، اپنے جسموں پر ڈالتے ہیں، اپنی قیام گاہوں پر لے جاتے ہیں، وطن لوٹتے ہیں تو اپنے ساتھ اسے ہی لے جانا چاہتے ہیں کہ اور سب چیزیں تو ہر جگہ مل سکتی ہیں لیکن آبِ زمزم نہیں، یہ صرف بیت اللہ کا ہی تحفہ ہے۔ غرض مدینہ منورہ میں بھی جی بھر کر پیا، اور اب مدینہ منورہ کو الوداع کہنا ہو گا، دیار نبیؐ سے رخصت ہونا ہو گا۔ مجھے یاد آیا کہ جب ہم دوبارہ مسجدِ قبا گئے تھے اورواپس مسجدِ نبوی پیدل آئے تھے، خود پر نازاں تھے کہ دیار نبیؐ کی مقدس گلیوں میں پھر رہے ہیں، تو ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ احترام مدینۃ النبیؐ میں ننگے پاؤں مسجدِ نبوی کی طرف رواں ہیں۔

مجھے یاد آیا۔ امام مالکؓ نے تمام عمر مدینے میں کبھی کوئی سواری استعمال نہیں کی، ہمیشہ پیدل سفر کرتے رہے۔ مدینہ سے باہر کبھی نہ نکلتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس مقدس شہر سے باہر ہوں اور موت کا وقت آ جائے اور جب ضروری جانا ہوتا تو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اور واپسی میں تیز چلتے ہوئے آتے کہ پیشِ نظر ہمیشہ یہی خواہش ہوتی کہ موت مدینہ میں ہی مقدر ہو۔یہ واحد شہر ہے کہ جہاں موت کی آرزو پسندیدہ ہے۔

انھوں نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج کیا کہ وہ فرض عبادت ہے، اس کے بعد مدینے کی جدائی گوارا نہ کی۔ بیس برس تک انھوں نے روضۂ رسول کی چھاؤں میں درس حدیث و قرآنِ پاک دیا لیکن اس قدر آہستگی کے ساتھ ورق الٹتے کہ آواز نہ پیدا ہو اور حضور اکرم ﷺ کے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔ ایک مرتبہ حدیثِ مبارکہ کے درس کے دوران بچھو نے بار بار ڈنک مارا، آپ نے پہلو بدلنا بھی سوِئے ادب خیال کیا اور بعد میں جب اصحاب کو علم ہوا تو وہ ششدر رہ گئے، لیکن آپ ان کی ایسی تربیت کر گئے کہ انھیں بھی یہ احساس تھا کہ عشق مصطفوی ﷺ کا دعویٰ ادب و احترام کے بغیر ممکن نہیں۔ کیا صدیاں گزر جائیں تو ان دعووں پر کہنگی کے گہرے اثرات ثبت ہو جا تے ہیں، کہ ہمارے عہد تک آتے آتے روضۂ رسول پر جو کچھ ہوتا ہے اس کا تصور ہمارے یہ بزرگ کبھی نہ کر سکتے تھے۔

ہم ان گلیوں میں پیدل چلنے والوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ ہمیں پیدل چلنے میں ذرا سا بھی تھکن کا احساس نہ ہوا بلکہ ایک وجد و سرور کی سی کیفیت طاری رہی۔

اسلام آباد میں جب ہم حج کی تیاری میں، ساز و سامان ایک جگہ رکھنے میں مصروف تھے، شاہد کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز تھی کہ کہیں میں سامان زیادہ تو نہیں اکٹھا کر رہی۔

’’ میرے لیے صرف چار جوڑے کافی ہوں گے، تم پانچ یا چھ رکھ لو اس سے زیادہ ہر گز نہیں۔ جتنا کم سامان ہو گا ا تنا ہی چلنے پھرنے میں آسانی ہو گی۔‘‘

میں نے نہایت خاموشی سے آٹھ جوڑے رکھ لیے جو کہیں سے بھی زیادہ نہ تھے۔ ایک تو عید کے لیے محفوظ کر لیا، دوسرے دو مدینہ میں پہننے کے لیے ذرا گرم کہ وہاں ٹھنڈ ہو گی، پھر ایک سوٹ میں اس نیت سے سلوا کر لے گئی تھی کہ میمونہ عارف نے کہا تھا کہ ایک سوٹ مسجدِ نبوی میں کسی بھی ضرورت مند کو دینے کے لیے لے جانا کہ وہاں ادنیٰ سی نیکی کا اجر و ثواب بے شمار ہے۔ وہ ایک سوٹ مجھے وہاں دینا تھا۔

ہم مدینہ پہنچے، آٹھ دن کا قیام تھا، جمعے کے دن کہ آج مسجدِ نبوی میں ہمارا آخری روز تھا، میں اپنے تھیلے میں وہ سوٹ بھی ڈال کر لے گئی۔ دن بھر عبادتوں کی طرف ہی توجہ رہی، یہ یاد تو تھا کہ سوٹ کسی کی نذر کرنا ہے لیکن ابھی سو چا نہ تھا کہ کب، کہاں اور کسے دینا ہے، شاید عصر سے کچھ پہلے کی بات ہے، میں اور فریدہ صحنِ مسجد میں کھڑے کو ئی بات کر رہے تھے کہ اچانک تیزی سے ایک خاتون ہماری طرف آئی اور مجھے کہنے لگی، وہ سوٹ دے دیں، میں نے تھیلا کھولا، سوٹ نکالا اور اسے دے دیا، فریدہ حیران رہ گئی کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ آپ اس کے لیے سوٹ لے کر آئی ہیں۔وہ میری طرف یا دوسری بے شمار عورتوں کی طرف کیوں نہ گئی۔ اسی عالمِ حیرت میں فریدہ مجھ سے جدا ہو گئیں، مسجدِ نبوی کے کسی اور گوشے میں یکسوئی سے عبادت کے لیے ۔۔۔ وہاں آپ کے چھوٹے بڑے مسائل غیر محسوس طریقے سے حل ہوتے رہتے ہیں کہ آپ اللہ اور اس کے رسول کے مہمان ہیں۔

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ مدینہ منورہ کا ایک رمضان دوسرے شہروں کے ایک ہزار رمضان سے افضل ہے اور مدینہ منورہ کا ایک جمعہ دوسرے شہروں کے ایک ہزار جمعہ سے افضل ہے۔جمعہ کے روز اپنے وطن میں بھی میری یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ وقت عبادت میں گزارا جائے۔ نصیب سے ہمیں دو جمعے مسجدِ نبوی میں مل گئے۔ ظہر کے بعد سورۃ یٰسین کا تین مرتبہ خاص ورد، پھر عصر کے بعد اسّی مرتبہ درود شریف اور ستر مرتبہ آیت الکرسی میرے جمعے کے معمولات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ذکر و وظائف جو خدا توفیق دے، سبھی ادا کیے ۔۔۔ دعائیں دل و ذہن میں نہایت بے ترتیبی سے آتی رہیں، پھر وہ خیال جو صبح سے دل و جان کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا کہ حضور کے روضہ اور اس مسجد میں پھر آنا نصیب ہو کہ نہیں، جدائی کے احساس نے ایسا نشتر لگایا کہ ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ پھر یہ تسلی کہ اس وقت میرے آس پاس کوئی نہیں، میری ساتھی جا چکی تھیں، میری حالت دیکھنے والا کوئی ظاہر بین نہیں، زندگی میں پہلی بار درِ نبیﷺ پر اللہ ذوالجلال سے رو رو کر اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگی، گناہوں پر توبہ استغفار کی، جی بھر کر اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے مغفرت، صحت، زندگی اور دین و دنیا میں سرخروئی کے لیے دعائیں مانگیں۔ حضور سے بار بار معافی چاہی کہ چند ایک بار ایسا ہوا کہ حدیثِ نبوی کے پیش نظر کہ دعا مانگنے کی بجائے سائل کا تمام وقت درود شریف پڑھنے میں ہی گزر جائے تو اور زیادہ بہتر ہے، تو میرے دل میں یہ شیطانی وسوسہ پیدا ہوا کہ میں نے اتنی دفعہ درود شریف پڑھا، پھر میری دعا کیوں قبول نہیں ہوئی؟ اس روز بار بار اس غلط خیال پر ندامت کا اظہار کیا۔اتنی تسکین، اتنا انہماک، اتنی گریہ و زاری مجھے عمر بھر میں پہلی مرتبہ ملی تھی۔دنیا و مافیہا کا مجھے کچھ ہوش نہیں سوائے اس کے کہ وقت کو کسی طرح روک لوں جو کچھ پڑھ سکتی ہوں، پڑھ لوں۔ دنیا و عاقبت کی ساری نعمتیں مانگ لوں۔ ہوس کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے نے مجھے ایسا اسیر کیا، لفظ کم پڑ گئے، میرے دائیں جانب ترک اور بائیں جانب انڈونیشی خواتین بیٹھی تھیں، سبھی اپنے آپ میں گم۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس گھڑی خدا سے براہ راست رابطہ ہے، رسول اکرم ﷺ ہماری بے تابی اور اضطراب کو دیکھ رہے ہیں اور خدا کے حضور ہماری شفاعت کریں گے۔

گریہ و زاری میں بھی ایک لذت، ایک نشہ ہے۔ دنیا و مافیہا سے بے نیاز انسان خدا سے اپنا تعلق استوار کرے اور اس تعلق کو آوازوں کے پتھر پاش پاش کرنے لگے ۔۔۔ ’’میں نے دوپٹوں کے دو تھان لیے چودہ ریال فی دوپٹہ پڑا۔ پاکستان میں ویلوٹ کا سوٹ دو ہزار کا ہے یہاں یہی سوٹ سات ہزار کا ہے ۔۔۔ میرا میاں پانچ سال سے یہاں ہے ۔۔۔ میرا بھائی ۔۔۔ میرا بیٹا ۔۔۔ میں نے اپنی ساس کے لیے ۔۔۔ نند کے لیے ‘‘ ۔۔۔

خریداری کی تفصیل، قیمتوں کی باتیں، ساری زندگی سنتے آئے تھے کہ عورتیں بہت بولتی ہیں۔ ظہر کے وقت یہ عورتیں بولنا شروع ہوئی تھیں مغرب کے بعد تک اسی ایک موضوع پر بولتی رہیں۔ میرا کئی مرتبہ جی چاہا، ان سے درخواست کروں کہ یہ کو ن سا مقام ہے، کون سا مبارک دن ہے۔ پھر یہ مبارک مقام زندگی میں آئے یا نہ آئے۔ در نبی پر آئے ہو کچھ درود و سلام بھیجو۔ اللہ کے سامنے اپنے کردہ نا کردہ گناہوں پر ندامت کا اظہار کرو۔ جرات کی کمی کہہ لیں یا یہ کہ میں وہاں ایک لمحے کا ہزارواں حصہ بھی ضائع کرنے کے حق میں نہ تھی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بحث و تکرار طول کھینچ جائے، دو کی بجائے دس جملے بولنے پڑ جائیں۔ میں اتنی دیر میں ایک تسبیح اور نہ پڑھ لوں۔

پچھلے روز بھی نمازِ مغرب کے بعد ایسی ہی کوفت ہوئی جب دو پاکستانی خواتین نے سرائیکی لب و لہجہ میں آپس میں گفتگو شروع کر دی۔ ایک صحن مسجد کے دروازے کے پاس اور دوسری پانچ سات صفیں آگے، ان دونوں کے درمیان کاروباری معاملات پر بڑی شد و مد سے تکرار بلکہ لڑائی ہو رہی ہے وہ دونوں تو نمازِ مغرب کے فرض ادا کرنے کے بعد اپنے گلے شکوے اور الزامات کا تبادلہ نہایت کھلے الفاظ میں کر رہی ہیں، انھیں یہ خیال نہیں تھا کہ باقی لوگ عبادت میں مصروف ہیں، ان کی کرخت آوازیں اور ناشائستہ الفاظ تمام نمازیوں کے لیے کس قدر کوفت کا باعث ہیں۔

سلام پھیرنے کے بعد میں نے اپنے قریب بیٹھی خاتون سے کہا ’’ذرا تو پاکستان کا خیال کریں۔‘‘

میرا یہ کہنا تھا کہ اس کی توپوں کا رخ میری طرف ہو گیا ۔۔۔ ’’ کیا خیال کریں، ہم کسی کا سامان اٹھا کر بھاگ رہے ہیں۔ کیا جرم کیا ہے ہم نے ۔۔۔ ہم تو روٹی روزی کے چکر میں پڑے ہیں۔ ہم نے کیا بٹہ لگا دیا پاکستان کے نام کو ۔۔۔ ‘‘

میرے لیے اب ایک ہی رستہ رہ گیا تھا کہ خاموشی سے اگلے نوافل کی نیت کر لوں۔ مسجدِ نبوی میں اکثر پاکستانی اور انڈونیشی خواتین پرس، جرابیں، پنکھے، سکارف وغیرہ بیچنے آ جاتی ہیں۔ دین و دنیا ساتھ ساتھ، مگر یہ کسی ضابطۂ اخلاق میں ہونا چاہیے۔

ان دنوں میں محسوس کر رہی تھی کہ میری آرزوئیں بہت بڑھتی جار ہی تھیں۔ ابھی تو جو کچھ میرا ارادہ تھا اس کا بہت سا حصہ پڑھنا باقی ہے۔ اے اللہ دن چوبیس گھنٹوں کا کیوں ہوتا ہے، چھتیس گھنٹوں کا کیوں نہیں۔ بہر حا ل ا ن پاکستانی خواتین نے شدید ذہنی اذیت پہنچائی، حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ کیا خواتین شاپنگ کے موضوع پر لگاتار بے تکان تین چار گھنٹے بول سکتی ہیں ؟

عشاء کے بعد بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اٹھنے پر آمادہ کیا۔ سب اسی مقام پر اکٹھے ہوئے جو ہم نے گذشتہ آٹھ روز سے طے کیا ہوا تھا یعنی جنت البقیع کی سیڑھیوں کے ساتھ، روضۂ رسول ﷺ کے سامنے۔

جنت البقیع ۔۔۔ مسجدِ نبوی کی مشرقی سمت میں واقع ہے جس میں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں دس ہزار کے قریب صحابہ کرامؓ مدفون ہیں۔ اولیا اللہ اور دیگر زعما اس کے علاوہ ہیں۔ یہیں دخترِ رسو ل حضرت فاطمۃ الزہراؓ ؓ اور حضرت عثمانؓ مدفون ہیں۔ یہیں حضرت خدیجہؓ اور حضرت میمونہؓ کے علاوہ تمام امہات المومنینؓ آرام فرما ہیں ۔۔۔

’’جنت البقیع ان گیارہ میں سے نو کی آرام گاہ ہے لیکن حکمرانوں کی شرعی خشونت کا شکار، رسول اللہ کے اہل بیت، رسولؐ کی اولادیں، رسولؐ کے ساتھی، رسولؐ کے جانشین، رسولؐ کے فدائی، حتیٰ کہ رسولؐ کو گود میں کھلانے والی حلیمہ سعدیہؓ یہاں اس طرح لیٹی ہوئی ہیں جس طرح گمنام ادیبوں کے ادھورے مسودوں پر عبارتیں قلم کی کتر بیونت سے دم توڑ دیتی ہیں ‘‘ ۔۔۔ (شب جائے کہ من بودم، شورش کاشمیری، صفحہ ۱۶۹)

ایک روایت کے مطابق حضرت فاطمۃ الزہراؓ ، آپ کی صاحبزادیاں ؓ ، حضرت زینبؓ اور حضرت رقیہؓ، صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ ، آپ کے چچا حضرت عباسؓ، نواسے حضرت امام حسنؓ، رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ بھی یہاں مدفون ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ ایک نظر جنت البقیع کی زیارت کرنے کا موقع مل جائے۔ مسجدِ نبوی آئے دو تین دن ہوئے تھے۔ منتظمین نے ہمیں جنت البقیع کی طرف جانے نہ دیا تھا۔ ایران سے ہزارہا افراد مدینہ منورہ آئے، ان کے ہمراہ خواتین بھی تھیں۔ ان کے لیے جنت البقیع کھولا گیا تو ہم بھی ان کے ساتھ اوپر چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان کی قبر پر سب سے پہلے فاتحہ پڑھنی چاہئے لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ کسی گائیڈ کے بغیر ان کی قبر کا اندازہ کر سکتے، پھر یہ کہ یہاں ایک کھلا میدان ہے معمولی نشیب و فراز کے ساتھ، جس میں پتھر صرف قبور کی نشان دہی کرتے ہیں۔ کسی قبر کی کوئی پہچان نہیں۔کیا روزِ اول سے ہی اس عظیم قبرستان کی یہ حالت ہے۔ ایسا نہیں ہے خلفائے راشدین ہوں یا والیانِ مدینہ منورہ، سبھی نے ان برگزیدہ بندوں کے اس شہرِ خموشاں کی نہایت محبت سے دیکھ بھال کی، ان قبور پر کتبے بھی نصب تھے اور قبے اور گنبد بھی بنائے گئے تھے، موجودہ صورت حال بہت بعد کی ہے۔ ہم نے تمام مرحومین کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

اب وقتِ رخصت، حضور کے روضۂ اطہر پر الوداعی سلام پیش کیا، یہاں بھی وہی صورت حال ہوئی کہ جیسے ہی فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے، شرطہ اپنی چھڑی سمیت آ موجود ہوا ’’شرک شرک‘‘ دعا مانگنی ہے تو دوسری طرف رخ کرو، اس نے عربی میں سمجھانے کی کوشش کی۔ مسجدِ نبوی کے پر شکوہ جگمگاتے مینار، گنبد خضریٰ سے مس کرتی معطر ہوائیں، وہ خنک فرش جہاں جبیں سجدہ ریز ہوئی تھی، سبھی ہمیں جانے سے روکتے تھے، لیکن یہ امید بلکہ یقین کہ درِ نبی پر بار بار آنے کے لیے کی گئی دعا ضرور مستجاب ہو گی۔ وہاں سے رخصت ہوئے تو وہ ٹرالر آج بھی کھڑا تھا جس نے پہلے دن پلاؤ کے پیکٹ تقسیم کیے تھے تو لوگ ٹوٹے پڑتے تھے، لیکن آج کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔جدائی کا احساس بھوک پیاس سبھی کچھ ختم کر دیتا ہے۔

قیام گاہ پر آئے، سامان اٹھایا، بسوں میں رکھا، انتہائی تکلیف دہ حد تک تنگ نشستوں والی خوبصورت بسیں، کافی انتظار کے بعد چلیں۔ مدینہ سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر مسجد ذوالحلیفہ، جسے بئیر علی بھی کہا جا تا ہے اور مکہ جانے والے احرام یہیں سے باندھتے ہیں ۔۔۔ یہاں اترے، غسل کیا، احرام و عمرہ کی نیت کی، نوافل ادا کیے اور تلبیہ پکارتے ہوئے بس میں سوار ہو گئے۔

 

 

 

 

مکہ مکرمہ

 

بس کا سفر ہمیشہ سے ہی میرے لیے سوہان روح رہا ہے۔ بس میں بیٹھتے ہی طبیعت اتنی خراب ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ بس سے فورا ً اتر جاؤں اورسارا سفر خواہ سیکڑوں میل ہی کیوں نہ ہو، پیدل طے کروں۔ اب پھر وہی کیفیت طاری ہوئی۔ بڑی مشکل سے چند منٹ نیند آئی جس سے طبیعت قدرے سنبھلی۔ فجر کی نماز راستے میں ادا کی۔ صبح سات بجے اپنی قیام گاہ مکہ مکرمہ پہنچے، ناشتہ کو دل نہ کیا، عمرہ کے لیے روانہ ہوئے۔

کعبے کی رونق، کعبے کا منظر اللہ اکبر اللہ اکبر، واقعی دیدنی تھا، وہی مطاف جو آٹھ دس روز پہلے وسیع و عریض معلوم ہوتا تھا، ا ب انبوہ انسانی نے اسے بھر دیا تھا۔ جب ہم عمرے کے طواف کے لیے داخل ہوئے تو دیگر افراد کے علاوہ، وہاں انڈونیشیا کے مرد و خواتین پر مشتمل ایک گروہ بھی موجود تھاجس کی نمائندگی ایک دراز قد نوجوان لڑکا کر رہا تھا۔طواف کے دوران اس نوجوان کے اسمائے ربانی کے ورد نے ایک سحر سا طاری کر دیا، یا اللہ ُ یا رحیم ُ، یا اللہ یا کریم ُ، یا اللہ یا حی، ُ یا اللہ یا قیومُ آج تک وہ ایک آواز اور پھر اس کی پیروی میں پورے گروہ کی آوازیں سماعت میں محفوظ ہیں، ہم تیسرے شوط میں تھے کہ ا ن کا طواف مکمل ہو گیا، بہت جی چاہا کہ کاش یہ ایک طواف اور کر لیں تو ہم کچھ دیر اور اس الوہی فضا میں، اس وجد آفریں ماحول میں سانسیں لے سکیں۔ بہرحال طواف مکمل کیا، سعی اور حلق کے بعد واپس لوٹے۔

وہاں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اگر ریال کو پاکستانی روپے میں تبدیل کرنے لگتے تو شاید کھانا بھی نہ کھا پاتے، ایک ریال کا کیلا، مقامی لوگوں کے لیے سستا ہو گا لیکن ہم جو سترہ روپے درجن بہترین کیلا کھانے کے عادی ہیں، خاصا مہنگا معلوم ہوا۔ شکر ہے کہ ہم نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور روپے کو ریال سے ضرب، تقسیم دینے کی کبھی کوشش نہ کی، پاکستانی ہوٹل سے صبح کا ناشتہ، انڈے پراٹھے یا نان چھولے، چائے ہم پیتے نہ تھے، کوک کے ٹن خرید لیتے یا آب زمزم ہمراہ ہوتا، کہ وہاں پانی پٹرول سے مہنگا ہے، پھر ذرا دیر کو گھر آ جاتے، بلڈنگ کے باہر کی جانب پھل اور سبزی کی دکانیں سجی تھیں، وہاں سے چار یا پانچ ریال فی کلو کے حساب سے ایک کلو پھل خریدتے، دو سیب، دو مالٹے، ایک دو کھیرے اور ہری مر چ، آٹھ ساڑھے آٹھ بجے حرم پاک جانے کے لیے گھر سے نکلتے، یہ پھل اور دو ایک جوس کے ٹن اور دوپہر کے لیے کھانا راستے سے خرید کر لے جاتے۔

ہمارے پاس کپڑے کا ایک چھوٹا سا تھیلا تھا، اس میں ہم یہ سب چیزیں دو جائے نمازوں میں لپیٹ کر بلکہ چھپا کر لے جاتے کہ شرطے اندر کھانے پینے کی چیزیں لے جانے نہیں دیتے۔ پہلے کچھ روز یہ معمول رہا کہ ظہر اور عصر کے درمیان مسجد سے باہر آ کر پاکستانی ہوٹل سے کھانا کھاتے، پاکستانی ہوٹل کی انتظامیہ انتہائی خوش اخلاق اور حجاج کرام کی عزت اور خدمت کرتی محسوس ہوئی، وہاں کام کرنے والے تمیز دار، خوش شکل اور سمارٹ نوجوانوں کو دیکھ کر مجھے ہر مرتبہ شعیب منصور یاد آئے، وہ انھیں دیکھ پاتے تو نہ جانے کتنے باصلاحیت فنکاروں کا اضافہ ہو جاتا۔ بعد میں ایسا ہوا کہ ہجوم کے باعث آنا جانا مشکل محسوس ہوا اور وقت کے زیاں کا بھی افسوس ہوتا، ہم حرم پاک میں ہی کھانا لے جاتے، بابِ عبدالعزیز پر تھیلا چیک ہو جاتا تو بابِ فہد سے لے جاتے، بلکہ اب تو اکثر خود ہی پورے اعتماد کے ساتھ شرطوں کے آگے کر دیتے، وہ دیکھے بغیر ہی جانے کا اشارہ دے دیتے۔

ہم میں یہ جر ات اس وجہ سے ہوئی تھی کہ ہمارے دو ایک سیب اور ذرا سا کھانا لے جانا انھیں گراں گزرتا ہے، لیکن وہ مصری خاندان جو تین خواتین، تین مردوں اور چھ سات بچوں پر مشتمل ہے، گذشتہ سات روز سے تہ خانے میں مقیم ہے ۔۔۔ ہم نے حجاجِ کرام میں اضافے کے پیش نظر اب کئی دنوں سے اپنا مستقر تہ خانے کو بنا لیا تھا۔ ایک روز آئے تو دیکھا کہ تہ خانے کے چار پانچ انچ اونچے ایک برآمدے کو جو تین طرف سے دیواروں سے گھرا ہوا تھا اور سامنے سے کھلا تھا، وہاں دروازے کی جگہ چھوڑ کر قرآنِ پاک کے شیلف رکھ کر دیواریں بنا دی گئی ہیں، دریاں بچھی ہیں ضروریاتِ زندگی سے بھرے بڑے بڑے تھیلے بھی موجود ہیں۔ ان کے کھانے پینے کے لیے سارا دن ڈھیروں پھل، دودھ کے کرٹن، برگر اور خدا جانے کیا کیا آتا رہتا، سب سے بڑا بچہ پانچ سال کا ہو گا، سارا دن وہ بچے اودھم مچاتے رہتے، روتے بھی، دورانِ نماز بھاگتے دوڑتے لیکن کیا مجال کہ وہ عورتیں پاکستانی ماؤں کی طرح انھیں ڈانٹیں یا ماریں۔ انھوں نے کسی ہوٹل میں قیام کے بجائے خانۂ خدا کے اس گوشے کو اپنا مستقر بنا لیا تھا، اس وقت الجھن ہوتی جب وہ کپڑے دھو کر انھیں سکھانے کے لیے قرآن پاک کے شیلف استعمال کرتیں، ان کے بچے بے دردی سے قرآن پاک کے نسخوں کو اٹھاتے اور الٹتے پلٹے رہتے، وہ بچے کھاتے کھیلتے ر ہتے۔ حیرت ہوتی تھی کہ ان کے سامان کو دروازے پر روکنے والا کوئی نہیں۔

ایک اور بات جس نے مجھے حیران کیا وہ یہ تھی کہ ان بچوں کو جن میں سے کچھ کو تو شاید صحیح طریقے سے بولنا بھی نہ آتا تھا، انھیں پوری کی پوری اذان اور مکمل نمازِ جنازہ از بر تھیں، ایک روز میں نے دیکھا ان کا ڈیڑھ سالہ بچہ کھیلتے کھیلتے کھڑا ہوا۔ ظاہر ہے کہ اسے نماز کے معنی اور مفہوم سے کچھ آگا ہی نہیں، اس نے پہلے شانوں تک ہاتھ اٹھائے، پھر قیام کے لیے ہاتھ باندھے، چند لمحوں کے بعد وہ رکوع میں گیا، سیدھا کھڑا ہوا، دو سجدے کیے، قعدہ میں بیٹھا اور پھر دونوں طرف سلام پھیرا۔ میں حیرت زدہ رہ گئی کہ اتنے سے بچے کو ساری ترتیب کیسے یاد رہ گئی۔ ہم بچوں کی تعلیم میں رٹے پر زور دیتے ہیں، عملی طور پر نمونہ پیش نہیں کرتے۔

یہاں اور بھی بہت سے لوگ بچوں کو لے کر آئے ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں کاغذات جمع کراتے ہوئے، میں نے شاہد سے کہا تھا کہ فارد کو ساتھ لے چلتے ہیں تو انھوں نے کہا تھا کہ نہیں ابھی ہم اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں، بچوں کو انشا اللہ آئندہ حج یا عمرہ پر لے چلیں گے، فارد پر حج فرض نہیں۔

۳ فروری ۲۰۰۱ء کی صبح فارد مجھ سے لپٹ کر کہنے لگا ۔۔۔ ’ ’امی میں بھی جاؤں گا۔‘‘

میں کانپ اٹھی، اتنے دنوں سے تو و ہ کچھ نہ بولا تھا، آج کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے کہا ’’اگلی دفعہ جب عمرہ یا حج پر جائیں گے تو انشا اللہ سب جائیں گے۔‘‘

روتے ہوئے کہنے لگا ’’امی حج کمپلیکس تک تو لے جائیں۔‘‘

مجھے خیال آیا، رات شاہد کہہ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ کسی کو جانے کی ضرورت نہیں سب گھر سے ہی رخصت کر دیں، صرف طاہر جائے گا۔ عباس صاحب نے سنا تو انھوں نے کہا ’’شاہد صاحب بے شک نہ لے کر جائیں، میں تو دفتر سے چھٹی لے آیا ہوں، میں تو ضرور جاؤں گا۔‘‘

چنانچہ جس جس نے آنا چاہا آیا اور ہمیں دعاؤں میں رخصت کیا۔

سرزمینِ حجاز پہنچ کر فارد، سرمد اور دانش یاد آتے رہے، اگر ساتھ ہوتے تو کس قدر خوش ہوتے۔ مکہ، مدینہ اور منیٰ کے پہاڑ دیکھ کر دانش بے طرح یاد آتا وہ الپائن کلب کا ایسوسی ایٹ ممبر ہے اور بہت اچھا راک کلائمبر بھی، فارد اور سرمد بھی اس سے کچھ کم نہیں، وہ اگر ہوتے تو ہم کتنی تیزی سے غارِ ثور، غارِ حرا اور دیگر پہاڑوں پر چڑھتے، مجھے یاد آیا، آتے ہوئے میں نے دانش سے کہا تھا کہ نہ جانے وہاں ہمیں کتنا پیدل چلنا پڑتا ہے، پتا نہیں ہمارا کیا بنے گا، تو ہنس کر کہنے لگا، میری امی اور ابو سے بڑا ہچ ہا ئیکر اور کون ہو گا، فکر ہی نہ کریں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم جی بھر کر پیدل چلے اور خوشی سے چلے، مجبوری سے نہیں۔

صبح آٹھ نو بجے ہم حرم پاک پہنچتے تو گرمی محسوس ہو رہی ہوتی، اب ہم بابِ فہد کے بانوے نمبر دروازے سے تہ خانے میں ا ے سی والے حصے کی طرف اترتے، صلوٰۃِتسبیح یہاں ادا کرتے، اتنے میں جسم ٹھنڈک محسوس کرنے لگتا تو ہم اے سی والے تہ خانے سے بابِ عبد ا لعزیز کے نیچے والے تہ خانے میں آ جاتے اور بقیہ دن وہیں گزارتے۔چند سیڑھیاں چڑھتے، خانۂ کعبہ سامنے ہوتا، جب موقع ملتا طواف کے لیے نکل جاتے، نمازیں اب تہ خانے میں ہی ادا کرتے کیونکہ اوپر بھیڑ بہت ہو چکی تھی۔ ہر نماز کے بعد خانۂ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دعا مانگنے کو ترجیح دیتے کہ کعبہ کی دید بھی عبادت ہے۔

یہاں ہم نے یہ بات محسوس کی کہ نماز کے وقت جماعت کے لیے عورتوں اور مردوں کی صفیں الگ الگ بنائی جا تی ہیں، لیکن انڈونیشیا کے مرد دو قدم آگے ہو کر مردوں کی صف میں کھڑے ہونے کے بجائے اپنی خواتین کے ہمراہ ہی نماز ادا کرنا پسند کر تے ہیں۔

عمرہ کے لیے ہم نے یہ طریقہ اپنایا تھا کہ جس روز عمرہ کا ارادہ ہوتا، احرام اپنے تھیلے میں ڈالتے، ظہر کی نماز باہر صحن میں پڑھتے، کیونکہ شرطے احرام اندر نہ لے جانے دیتے تھے۔ وہاں اکثر حاجی احرام کو آب زمزم میں بھگو کر آخرت کا لباس تیار کرتے ہیں، یہ بات شرطوں کے نزدیک بدعت تھی۔ ہم نماز ختم ہوتے ہی باہر آ جاتے، دو قدم پر موجود بس سٹاپ سے مسجدِ عائشہ کے لیے دو منزلہ بس پکڑتے اور پندرہ منٹ کے سفرکے بعد خوبصورت اور انتہائی پر سکون مسجدِ عائشہ پہنچتے، صاف ستھرے غسل خانے، جہاں کبھی باری کا انتظار نہ کرنا پڑا تھا۔ وہاں نہا کر، احرام باندھ کرمسجد میں آ جاتے، احرام اور عمرے کی نیت کرتے، نوافل ادا کرتے، مسجد سے نکلتے تو دروازے پر حرمِ کعبہ کے لیے ویگن تیار ملتی۔ پندرہ منٹ کے اندر وہ خانۂ کعبہ کے بابِ فہد کے نیچے سرنگ میں اتار دیتی، برقی زینے سرنگ کی گود سے نکال کر بابِ فہد کے سامنے کھڑا کر دیتے۔ طواف و سعی کے مراحل اکثر عصر سے پہلے ہی تکمیل پا جاتے۔ شاہد حلق کرواتے، میں پور برابر بالوں کی لٹ کٹواتی، احرام اتار کر اپنے کپڑے پہنتے اور خانۂ کعبہ میں حسبِ توفیق عبادت میں مصروف ہو جاتے۔

حرمِ پاک میں ہمارا آخری جمعہ تھا۔ ایک ایک لمحہ انتہائی قیمتی، عصر کے بعد درود شریف کے وِرد سے فارغ ہوئی توسوچا کہ یہاں تہ خانے میں جو کچھ پڑھ رہی ہوں، اوپر خانۂ کعبہ کے سامنے جا کر پڑھوں، کعبہ دل و نگاہ کا مرکز ہو تو دعاؤں کا لطف ہی اور ہو گا۔ یہ سوچ کر اٹھی ہی تھی کہ ایک شناسا آواز آئی’’ آخر آج ہم نے آپ کو ڈھونڈ ہی لیا۔‘‘

ظاہر ہے کہ انھیں وقت دینا پڑا اور یہ احساس کہ وقت گزر رہا ہے۔ مجھے مغرب سے پہلے ستر مرتبہ آیت الکرسی پڑھنی ہے۔ دعاؤں کی ایک طویل فہرست میرے پاس موجود ہے وہ سب اس درِ دولت پر مانگنی ہیں۔ وہ رخصت ہوئیں تو نہایت تیزی کے ساتھ اوپر پہنچی، خانۂ خدا کے سامنے کھڑے ہو کر دعا کی اے اللہ میں مروّت میں بہت سا وقت ضائع کر چکی ہوں، یا اللہ مجھے توفیق دے کہ جو کچھ پڑھنا چاہتی ہوں، پڑھ لوں۔

میں نے ستر مرتبہ آیت الکرسی، جو تسبیحات میں پڑھنا چاہتی تھی اور جو دعائیں میرے پاس تحریری صورت میں موجود تھیں اور جو دل پر نقش تھیں، نہایت سکون سے سب کچھ پڑھا اور گھڑی کی طرف نگاہ کی تو یقین نہ آیا، ابھی مغرب کی نماز میں آدھ گھنٹا تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے شرمندگی سے بچا لیا۔

مغرب کی اذان ہوئی تو میں نیچے آئی۔ شاہد آئے تو میں نے انھیں کہا ’’میں گھر جانا نہیں چاہتی۔ ہم ایک رات خانۂ کعبہ میں گزارنا چاہتے تھے تو آج کی رات ہی کیوں نہیں ؟ ‘‘

شاہد کہنے لگے ’’ پھر کسی دن پروگرام بنا کر آئیں گے۔‘‘

ہم ر ات گئے گھر آ گئے۔

خانہ کعبہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کوئی بھولا رہ ہی نہیں سکتا۔ سب کے لیے پہلی دعا بلاوے کی اور پھر دیگر دعائیں کیں۔ وہاں وہ بھی یاد آئے جنھیں بچھڑے مدتیں ہو گئی تھیں۔پہلے عمرے کے دوران اپنے گھر، محلے، رشتہ دار، کالج کے ساتھی، اکادمی ادبیات، جسے ہمیشہ میں اپنا میکہ کہتی آئی ہوں، یہ الگ بات کہ میکے کی جانب سے پہنچنے والی معمولی تکلیف بھی سانس اکھیڑ دیتی ہے، سبھی کے لیے دعائیں کیں۔ دل مطمئن تھا کہ جس جس نے دعا کے لیے کہا تھا یا لکھ کر دیا تھا اور جن سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی، سبھی کے لیے دعا کی۔

واحدہ کو دوبئی گئے کتنے ہی سال ہو گئے ہیں وہ بار بار یاد آئی۔ سعی کے لیے صفا و مروہ کی طرف روانہ ہوئے۔ میں سیاہ چمکیلے صفا کی چوٹی تک یہ سوچے بغیر ہی تیزی سے چڑھ گئی، کہ چوٹی تک جانے کی اجازت حضور ﷺ کی طرف سے نہیں دی گئی۔ وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ اسی تیزی سے نیچے آئی، دو ایک منٹ لگے ہوں گے پھر سعی کا آغاز کیا۔

ابھی دوسرا چکر تھا کہ عزیز دوست عابدہ سامنے سے آتی دکھائی دی، حیران ہوئی کہ عابدہ یہاں کہاں، پھر یاد آیا کہ انھی دنوں اچانک اس کے شوہر کا انتقال ہو ا تھا۔ اُس دن چھٹی سے دو منٹ پہلے میں نے اس کے شوہر کی طبیعت کے باے میں پوچھا تھا اور اس نے اطمینان کا اظہار کیا تھا، مگر جب وہ گھر پہنچی تو تین سال کا بندھن ٹوٹ چکا تھا۔ کچھ لوگوں کو اللہ میاں اس دنیا میں بھیجتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اپنی تمام زندگی بغیر کسی صلے کے دوسروں کی خدمت کرتے گزار دیں۔ اتنے میں وہ خاتون قریب آ گئیں، وہ کہیں سے بھی عابدہ سے نہیں مل رہیں تھیں۔ مجھے احساس ہوا، چونکہ میں اپنی اس عزیز دوست کو اب تک یاد نہ کر سکی تھی یہ یاد آوری کا بہانہ تھا۔

اسی طرح ہمیں مکہ آئے دس بارہ روز ہو گئے تھے، ہم نمازِ مغرب کی ادائیگی کے لیے کھلی چھت پر چلے گئے، خانۂ کعبہ کا نظارہ کرتے رہے، نماز کے بعد برابر بیٹھی خاتون کی طرف نگاہ کی، ان کی شکل مسز مظہر کی طرح لگی، مسز مظہر کے لیے دعا کی، ان خاتون کو دوبارہ دیکھا تو کہا کہ نہیں یہ ثروت کی نند کہکشاں کی طرح ہے، یہ یاد آئیں تو ان کے لیے دعا کی اور پھر فورا ً ہی وہ یاد آئے جن کے لیے سوچا تھا کہ سب سے پہلے دعا کروں گی، احساس ندامت نے شرابور کر دیا۔

ثروت کے بھائی شاہد کی شادی کو دس سال ہوئے ہوں گے لیکن دونوں میاں بیوی نہایت کم عمر معلوم ہوتے ہیں، دو بیٹے ایک سات سال کا دوسرا پانچ سال کا، دونوں کسی نامعلوم بیماری کا شکار ہوئے، کوئی ڈاکٹر حکیم نہ چھوڑا، پیسہ پانی کی طرح بہایا، لیکن بے سود، رمضان کا مہینہ آیا، ماں نے بیٹے کی تیمار داری سے وقت نکال نکال کر عید کا جوڑا تیار کیا، سات سالہ بچے کے لیے تقدیر نے بھی ایک لباس تیار کر رکھا تھا اور تقدیر کے سامنے کس کی چلتی ہے، ماں کی بھی نہیں۔ عید کا بھی انتظار نہ کیا۔ سفید لبادہ اوڑھا اور منو ں مٹی میں جا سویا۔ دوسرے بھائی نے چھ ماہ بھی جدائی برداشت نہ کی اور ماں باپ اور دادی کو چیختا چلاتا چھوڑ کر بھائی کے پاس پہنچ گیا۔ ان کا غم دیکھا نہ جاتا تھا۔ ہر وقت دل سے دعا نکلتی تھی۔ ’’اے اللہ کوئی نظر کرم ادھر بھی‘‘

اب جب وہ یاد آئے تو آتے ہی چلے گئے اور جتنے دن وہاں رہی میرے ساتھ رہے ۔۔۔ اللہ نے ان پر کرم کیا اور آج ایک خوبصورت اور صحت مند بیٹا ان کے گھر کی رونق ہے۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ( یہ رونق بھی اسی عمر میں انھیں جدائی کے وسیع و عریض صحرا میں تنہا چھوڑ گئی۔ اب ان کے ہاں ایک گڑیا سی انتہائی باتونی، صحت مند اور خوب صورت بچی موجود ہے، جو ماشاء اللہ تین سال کی ہو چکی ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کی طرف سے اطمینان کا احساس دلایا ہے، اللہ اسے صحت وتندرستی کے ساتھ سلامت رکھے۔ آمین)

اللہ جسے چاہتا ہے، عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت، اس کا مشاہدہ پاکستانی قوم سے زیادہ کس کو ہو گا۔ یہاں کے سر براہ کا مقام تخت رہا ہے یا تختہ۔ غرور بھرے سروں کو زمانے کی ٹھوکروں میں دیکھا۔ نواز شریف جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری سے نکل کر شاہی مہمان کی حیثیت سے شاہی محل میں عین اس جگہ جہاں سے ہر لمحہ خانۂ خدا کا نظارہ کیا جا سکتا ہے، پہنچ گیا۔ نہیں معلوم خدا کی بارگاہ میں گنہگار کون ہے اور معصوم کون؟ ہم تو یہ بات سننے کے عادی ہو چکے ہیں کہ ہماری پارٹی کا کوئی شخص مرتا ہے تو ہم اسے شہید کہتے ہیں اور دوسری پارٹی کا کوئی شخص مرتا ہے تو ہلاک ہوتا ہے۔لگتا ہے یہ سب رب کے نہیں ہمارے ہاتھ میں ہے۔ بھٹو ہلاک، نہیں، بھٹو شہید۔ ضیاالحق شہید، نہیں ہلاک ؟ ۔۔۔ تو وہاں بابِ عبدالعزیز میں نواز شریف کو کئی مرتبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہی سرخ و سفید رنگت، سفید کھڑکھڑاتا لباس، وہی شاہانہ انداز، دائیں بائیں شرطے جلو میں، میں نے شاہد سے کہا ’’ یہ تو کہیں سے نہیں لگتا کہ کوئی سخت سزا کاٹ کر آیا ہے۔‘‘

کہنے لگے ’’ ہمارے ہاں قیدی قیدی میں فرق ہوتا ہے۔ عام قیدی کمر درد کی شکایت کرے تو اسے دوا دینے کی بجائے لات مار دی جاتی ہے، جبکہ ان کی کمر میں درد ہو تو علاج سوئمنگ پول تجویز ہوتا ہے۔‘‘

نواز شریف مدینے بھی باقاعدگی سے جا تے رہتے ہیں یہ وہ مقام ہے کہ نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و با یزیدؒ این جا، حیرت ہے کہ وہاں جا کر سیاہ مرسڈیز کاریں اور چار چار گارڈ کیسے یاد رہ سکتے ہیں۔ وہ تو خیر نواز شریف ہیں، یہاں ایک سرکاری ملازم کا نام، خدام الحجاج کے لیے کی گئی قرعہ اندازی میں نکل آیا، انھیں مبارک دیتے ہوئے اس خیال سے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ وہ محتاط رہیں کہ وہاں بہت سے پاکستانی خدام، حاجیوں کی رہنمائی کے بجائے صرف اپنے حج کی فکر میں رہتے ہیں، انھیں ہماری یہ بات سخت ناگوار گزری، کہنے لگے۔

‘‘ میں ایک سترہ گریڈ کا آفیسر ہوں خادم نہیں ’’

ہم ایک دم خاموش ہو گئے کہ شاہ فیصل ہوں یا شاہ سعود بن عبدالعزیز، شاہ فہد یاسعودی عرب کا کوئی بھی فرماں روا، وہ خود کو خادمِ حرمینِ شریفین کہلانے میں جو فخر محسوس کرتے ہیں اس کی لذت سے وہی آشنا ہوسکتے ہیں اور جو یومِ عرفہ کے روز کہ یہی حج کا عظیم ترین اور پر ہجوم دن ہے، خود تمام انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے موجود ہوتے ہیں اور اسے ذمہ داری ہی نہیں اپنے لیے ایک اعزاز جانتے ہیں۔

ُ           اُن دنوں پاکستان میں عظیم دانشوروں اور تخلیق کاروں سے مکالمے کا میرا ایک سلسلہ چل رہا تھا۔ایک مرتبہ خیال آیا، کیوں نہ نواز شریف سے انٹرویو کے لیے وقت لوں، فورا ً ہی خود کو سرزنش کی، کہ یہاں ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ایک انٹرویو البتہ میں کرنا چاہتی تھی اور اس کے لیے بھی وقت نہ نکال پائی۔ وہاں جا کر ہوس آپ پر اس طرح غلبہ پاتی ہے کہ آپ ایک ایک لمحہ بلکہ اس کا ہزارواں حصہ بھی سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔وہاں ترکی مصری خواتین ارد گرد ہوتی تھیں۔ ان سے گپ شپ کر کے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتی تھی۔ مجھے لکھنے کے لیے بہت مواد مل سکتا تھا، لیکن نہیں میری ذاتی ڈائری، میرا دل اور میرا رب اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے۔ میری ڈائری میں میرا روز کا شیڈول درج ہوتا تھا اور میرے شیڈول سے ہر روز کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا تھا اورواپسی کا وقت ہو جاتا تھا۔

وہ جن سے دل سے مکالمہ کرنا چاہتی تھی وہ جناب ٹکا خان تھے۔ جنھوں نے ہمیں وہ مقام دکھایا جہاں ایام جاہلیت میں عرب اپنی بچیوں کو زندہ دفن کیا کرتے تھے شبیکہ قبرستان جائے عبرت ہے۔ شاہد چونکہ مطالعہ کر کے گئے تھے، وہ ایک ایک مقام کے بارے میں پوچھتے۔ مگر ان کا پہلا جواب ‘‘اجازت نہیں ’’ ہی ہوتا۔

بہرحال شاہد کو انھوں نے وہ مقام معلوم دکھا دیا جہاں سے حضور پاک ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے، یعنی حضرت ام ہانیؓ کا گھر۔ وہاں قدم رکھتے ہوئے دل لرزتا ہے، ٹانگیں کانپتی ہیں، قسمت پر رشک آتا ہے اور اپنی حیثیت کا خیال بھی۔ صحن کعبہ کے بے شمار برآمدوں میں سے ایک، لوگ عبادت میں مصروف، لیکن بیشتر کو علم نہیں کہ ہم کس مقام پر ہیں۔ سفید سنگ مرمر کے حضور پاکؐ کے مصلے سے ہٹ کر صلوٰۃالتسبیح کا آغاز کیا، پھر تو اکثر صلوٰۃ التسبیح یہیں آ کر پڑھی۔ اس کے بالکل سامنے خانۂ کعبہ کا رکن یمانی ہے۔حضرت ہاجرہ، حضرت اسماعیل اور ان کے دیگر دو بیٹوں کا مدفن بھی حطیم ہی میں ہے، ہمیں اس بات کا بھی علم نہ تھا۔

جناب ٹکا خان نے ترجمے والا قرآن شریف بھی دیا، ان کی معلومات سے پُر باتیں بہت کار آمد ثابت ہو سکتی تھیں، لیکن وہی خیالِ تنگیِ وقت و داماں، پھر انھیں بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کا بہت خیال تھا، جس میں ہم آڑے نہ آنا چاہتے تھے۔

خدام حرمین شریف کی قسمتوں پر رشک آتا ہے، ہر وقت با وضو، لبوں پر تسبیحات، اللہ اللہ کیا مقام ہے، انھیں اپنے گھر گئے، اپنے پیاروں سے بچھڑے کتنا عرصہ ہو گیا ہے بہر حال یہ ان سے تو ہزار درجہ بہتر ہیں، جو روٹی روزی کے چکر میں، سالوں سے امریکہ، کینیڈا، یونان، نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھان رہے ہیں، یہاں پہلے پاکستانی خدا م ز یادہ تھے، اب بنگلہ دیشی زیادہ ہیں کہ ان کی حکومت کم تنخواہ پر راضی ہے۔

جب ہم پہلی مرتبہ سعی کے لیے گئے تو باب ارقم کی زیارت کی، باب ارقم، دراصل حضرت مخزومیؓ کی قیام گاہ تھی۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مشرکین مکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سخت دشمن ہو رہے تھے، وقت کے تقاضے کے تحت آپ ﷺ نے تبلیغ کا سلسلہ خفیہ رکھا۔ یہ مقام ان دنوں ان تبلیغی سرگرمیوں کا محور تھا۔ اسی مقام پر مسلمان اکٹھے ہوتے اور آئندہ کے پروگرام طے کیے جاتے، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت حمزہؓ جیسے جید صحابہ ان اجلاسوں میں شریک ہوتے۔ یہ وہی مقام ہے کہ جہاں حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا، یہ حضرت عمرؓ ہی کی جرات تھی کہ مسلمان، حضرت عمرؓ ، حضرت حمزہؓ اور آپ ﷺ کی سرکردگی میں حرم پاک میں داخل ہوئے اور پہلی دفعہ مسلمانوں نے خانۂ کعبہ میں نماز با جماعت ادا کی۔ قریش مسلمانوں کی اس جرات پر ششدر رہ گئے۔ حضرت عمرؓ اسی جرات و بہادری کے باعث فاروق کہلائے، یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا۔

مدینہ سے آئے چار چھ روز ہو گئے تھے ابھی تک زیارتوں کے لیے نہ جا سکے تھے، ایک روز صبح نو بجے ہم جناب و بیگم عابد کے ہمراہ قریبی زیارتوں کے لیے پیدل نکلے، سب سے پہلے مولد نبیؐ کی کی زیارت کے لیے محلہ شعبِ عامر جانے کے لیے بابِ فتح سے باہر آئے، پہاڑ بو قبیس کے دامن میں واقع نہایت سادہ سا دو منزلہ مکان ہے، جہاں آج کل ایک لائبریری قائم ہے۔رنگ و روغن بھی پھیکا پڑ چکا ہے۔ جبلِ بو قبیس پر بلند و بالا شاہی محلات اور ان کے دامن میں ایک قصباتی مکان مولد نبیﷺ ، یہ تضاد کچھ جی کو نہ بھایا۔

وہاں سے پیدل جنت معلیٰ گئے، مقامی لوگ اسے جنت مالا کہتے ہیں، چھ ہزار صحابہ کا مدفن، دو حصوں پر مشتمل ہے، درمیان سے سڑک گزرتی ہے، جس کے نیچے ایک سرنگ ہے جو دونوں حصوں کو آپس میں ملاتی ہے۔ یہاں آپؐ کے صاحب زادے حضرت قاسمؓ ، طاہرؓ ، طیبؓ ، دادا حضرت عبد المطلب، چچا حضرت ابو طالب، حضرت عبد اللہؓ بن زبیر، حضرت اسمائؓ بنت ابو بکر، ام المومنین حضرت خدیجہؓ اور بے شمار اولیا، غوث قطب، محدثین و مفکرین کی قبریں موجود ہیں، پہلے اندر جانے کا راستہ بند تھا لیکن اب کھول دیا گیا ہے، عورتوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ شاہد اور عابد صاحب اندر گئے مجھے علم تھا کہ اب وہ جلد واپس نہ آئیں گے۔ میں بیگم عابد کے ساتھ اطمینان سے چھتے ہوئے بڑے سے برآمدے کے سبز بنچ پر بیٹھ گئی، فاتحہ پڑھی، درود و تسبیحات کا ورد کرتی رہی، وقفے وقفے سے اندر بھی جھانک آتی تھی۔ ایک سپاٹ میدان جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ کر اس دنیا کی عظیم ترین ہستیوں کے مدفن کی نشان دہی کی گئی ہے۔

عابد صاحب اور شاہد واپس آئے۔ہم باہر نکل کر جنت معلیٰ کے دوسری جانب چلے، سڑک کے کنارے اس شہرِ خموشاں میں آنے والے باسیوں کے لیے کھدائی ہو رہی تھی، معلوم ہوا کہ حرمِ پاک میں جو روزانہ کئی کئی جنازے لائے جاتے ہیں، ان سب کے لیے قبریں تیار ہو رہی ہیں، اسی مقام پر ہر سال کھدائی کے بعد پرانی ہڈیاں اور نیچے دفن کر دی جا تی ہیں، اور نئے آنے والے مہمانوں کے لیے جگہ بنا دی جاتی ہے، واللہ اعلم۔

دیر تک وہاں کھڑے ہو کر ان ہستیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے رہے، کہ کس کا مدفن کون سا ہو گا، وقت نے کوئی نشان نہ چھوڑا، وقت نے یا ۔۔۔ ؟جناب شورش کاشمیری کی کتا ب ’’ شب جاے کہ من بودم ‘‘ میں اس تاریخی المیے کا تذکرہ نہایت دکھے دل کے ساتھ ایک نہیں، کئی مقامات پر کیا گیا ہے، ہمیں بھی اس کا تجربہ ہوا کہ شرطے ہر ایسی بات کے جواب میں ایک بلکہ دو الفاظ بولتے ہیں ’’بدعت، شرک‘‘

شورش کاشمیری کہتے ہیں ’’مکہ کا چپہ چپہ تاریخی ہے، لیکن جو چیز محفوظ نہیں کی گئی وہ تاریخ ہی ہے، بیت اللہ کے علاوہ کوئی مسجد اپنی روایتوں کے ساتھ محفوظ نہیں۔‘‘

’’ جنتِ معلیٰ، مکہ معظمہ کا قدیم ترین لیکن جنت البقیع کے بعد سب سے افضل قبرستان ہے۔ منیٰ کے راستے پر مسجد الحرام سے ایک میل دور ہے، یہاں سے ایک چوڑی سڑک نکالی گئی ہے، جس سے قبرستان کے دو حصے ہو گئے ہیں، گردا گرد ایک پختہ چا ر دیواری ہے، کسی قبر پر کوئی نشان یا کتبہ نہیں، سب نشان ڈھا دیے گئے ہیں، ہر طرف مٹی کے ڈھیر ہیں، چراغ نہ پھول، کسی کسی قبر پر نشان دہی کے لیے کنکریاں پڑی ہیں، عجب ویرانہ ہے، جس حصے میں حضرت اسمائؓ، حضرت عبد الرحمنؓ بن ابو بکر، حضرت عبد اللہؓ بن زبیر، حضرت عبداللہؓ بن مبارک، امام بن جبیرؓ، سعید بن حسیبؓ ( کشتگان حجاج بن یوسف ) کی قبریں ہیں وہاں اندر جانے کے لیے ایک دروازہ ہے، لیکن وہ قبور پر حاضر ی کے لیے نہیں، نئی میتوں کے لیے ہے ۔۔۔ اور جس حصہ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور ان کے خاندان کے افراد آرام فرما ہیں یا ۔۔۔ حضور ﷺ کے لخت جگر، حضرت قاسم اور حضور کے چچا حضرت ابو طالب مدفون ہیں، وہاں کوئی دروازہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، ٹوٹی پھوٹی قبریں مٹی کی ڈھیریاں ہو گئی ہیں ۔۔۔ پوری دنیا کا کوئی اور قبرستان اس بے بسی کی حالت میں نہ ہو گا ۔۔۔ حضرت خدیجہ کی قبر پر نگاہ کی، ام المومنین کا مزار ۔۔۔ ؟ میں کانپ اٹھا، ۔۔۔ مسلمانوں نے اپنی بیویوں کے تاج محل بنا ڈالے، لیکن جس عورت کو نبی آخر الزماں ﷺ کی پہلی شریک حیات ہونے کا شرف حاصل ہوا، جو حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی ماں تھیں، وہ ایک قبر میں ویرانے میں پڑی ہیں ۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی، کہ میں نے اس ڈھیری (لحد) کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ کیا، میں ہل گیا، ایک کپکپی طاری ہو گئی ۔۔۔ جس ذات اقدس کے صدقے میں عزتیں پائی ہیں اس کے آثار اقدس کی یہ بے حرمتی ۔۔۔ موت کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتی، جو موت کی اس طرح ہتک کر رہے ہیں موت ان سے بھی متعاقب ہے، لیکن جنت المعلیٰ میں وہ لوگ سو رہے ہیں جو ہمیں زندہ کر گئے ہیں  ۔۔۔ سعودی حکومت عشق اور شرک میں تمیز نہیں کر سکی ہے‘‘ ۔۔۔ ( شورش کاشمیری، شب جائے کہ من بودم، صفحہ ۷۱، ۷۲، ۷۳ )

یہاں حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے غلام محمد، عمر تراسی سال، قسم کے کتبوں کا رواج ہے، وہاں ان باتوں کی گنجائش اہل بیتؓ کے لیے بھی نہیں۔ وہاں سے چلے، اب ہماری منزل مسجدِ جن تھی، یہ وہ مقام ہے کہ جہاں جنات نے حضور پاک ﷺ کو قرآن پاک کی تلاوت کرتے سنا، تو آپ ﷺ پر ایمان لے آئے۔

ہماری واپسی مکہ کی گلیوں سے ہوئی، وہاں اتنی چڑھائی تھی کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ہماری رہائش اس جگہ نہ تھی۔ دن میں دو تین مرتبہ حرمِ پاک سے آنا جانا پڑے تو حشر ہو جائے۔

حج کے دن قریب آتے جا رہے تھے، ایک روز فجر کے فوراً بعد ناشتہ کیا اور زیارتوں کے لیے جانے والی سواری کی تلاش میں نکلے، دو افراد کے لیے ٹیکسی لینا خاصا مہنگا سودا تھا، بسوں کا کچھ پتا نہ تھا کہ کہاں سے ملیں گی، شرطے کبھی ایک چوک کی طرف بھیجتے تو کبھی دوسرے کی طرف، لیکن کچھ علم نہ ہوا، ویگن والے دو افراد کو بٹھانے پر راضی نہ ہوئے، وہ دس نفر کا مطالبہ کرتے، کہ دو دو چار چار سواریاں اکھٹی کرنا انھیں پسند نہ تھا، وہ گروپ لے جانے کے عادی تھے۔ تھک کر واپس آ گئے، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شاہد کیمرہ اور وہ ڈائری گھر بھول آئے تھے، جن میں مختلف کتابو ں، خاص طور سے جناب جمال ڈسکوی کی کتاب ’’میرے حضور ﷺ کے دیس میں ‘ ‘ سے ان تمام مقامات کے نام اور حدود اربعہ نوٹ کر رکھا تھا، خیال تھا کہ ڈائری بھی لے لیں گے اور منیر صاحب سے بھی پوچھ لیں گے کہ وہ بھی ابھی تک زیارتوں پر نہ جا سکے تھے، ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کا کوئی اور پروگرام ہے۔ ہم نے تھیلا دوبارہ تیار کیا یعنی ڈائری کیمرہ کے ساتھ احرام بھی تھیلے میں ڈالا۔اگر زیارتوں کا موقع نہ بن سکا تو عمرے کے لیے مسجد عائشہؓ چلے جائیں گے۔ ایک پروگرام یہ بھی تھا کہ آج منیٰ کا پیدل راستہ ہی دیکھ آئیں گے، آخری تجویز سے مجھے اتفاق نہ تھا، کہ جب جانا ہو گا تو خود ہی راستہ معلوم ہو جائے گا ا ور جب ہماری نیت ہی پیدل جانے کی ہے تو پھر اس کا کیا سوال کہ کتنا دور ہے، ایسے ہی وقت ضائع ہو گا۔

حرمِ پاک کے راستے پر تھے کہ ایک بھری ہوئی ویگن قریب آ کر رکی، کنڈیکٹر ’’زیارہ زیارہ‘‘ پکارتا آ گیا۔معلوم ہوا کہ ایک بنگلہ دیشی گروپ زیارتوں کے لیے جا رہا ہے صرف دو افراد، یعنی ہماری ہی تلاش تھی۔ اگلے چند سیکنڈوں میں ہم زیارتوں کے لیے بنگلہ دیشی گروپ کے ساتھ رواں تھے۔

چھ مرد اور چار عورتیں، گروپ لیڈر ڈھاکا کی جامعِ مسجد کے امام تھے، یہ ان کا اٹھارواں حج تھا۔خواتین ذرا جھجکتی تھیں لیکن مرد حضرات تو ہم پاکستانیوں سے ایسے ملے، جیسے صدیوں کے بچھڑے بھائی۔ فیض کی نظم ’’ ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘‘ کانوں میں گونجتی رہی۔ وہ پاکستان کے سیاسی، مذہبی، تعلیمی اور معاشی حقائق جاننے کے لیے مضطرب تھے، خاص طور سے شیخ عبدالقاسم جو ڈھاکا سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، دورانِ سفر کھل کر باتیں کرتے رہے۔

انھوں نے بتایا کہ بنگلہ دیشی حکومت حجاج کرام کا ۳۵ فیصد خرچ برداشت کرتی ہے، ہندوستانی حکومت ۵۰ فیصد اور اسی طرح دیگر اسلامی ممالک کی حکومتیں حاجیوں کے خرچ کا بڑا حصہ برداشت کرتی ہیں۔

شیخ صاحب اپنی کہتے رہے ہماری سنتے رہے۔ ان کے لہجے میں اتنی اپنائیت تھی کہ احساس ہوتا تھا شاید ہم مدتوں سے ان کے ساتھ ہیں، پھر ہر جملے کا آغاز وہ شاہد بھائی سے کرتے، نفسیات کا یہ نکتہ سامنے آیا کہ جب آپ نام لے کر مخاطب کرتے ہیں تو اجنبیت کی دیواریں بہت جلد گرا دیتے ہیں اور ہم اپنے خول میں سمٹے ہوئے وہ لوگ کہ جنھوں نے ان سے ان کا نام بھی نہ پوچھا، اگر وہ سفر کے اختتام پر ہمارا پتہ نہ لیتے تو شاید ہم بھی انھیں تکلیف نہ دیتے۔

ڈرائیور نہایت مشاق تھا، مکہ کی کھلی سڑ کیں، ٹریفک نام کو نہ تھا، خشک چٹانی پہاڑوں اور چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں والے ریتلے میدانوں کو تیزی سے پیچھے چھوڑتا، ہمیں منٹوں میں جبلِ ثور لے گیا۔یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں ہجرت مدینہ کے وقت آپ نے اپنے یارِ غار حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ تین روز قیام کیا تھا۔اس پتھریلے چٹانی پہاڑ پر، جس کی چڑھائی بے حد خطرناک ہے، حضرت اسماؓ کس طرح آپ کو کھانا پہنچاتی ہوں گی۔ اب تو پہاڑ کے دامن تک سڑک موجود ہے، پہلے تو پہاڑ در پہاڑ ایک سلسلہ تھا، ایک لڑکی کے لیے تن تنہا سب کی نظروں سے چھپ کر جانا کتنا مشکل ہو گا۔ اس مشکل مقام کو منتخب کرنے میں بھی مصلحت تھی۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے غار کی جھاڑ پونچھ کی، حضور ﷺ آپؓ کے زانو پر سر رکھ کر سوگئے، حضرت ابو بکرؓ نے غار کے تمام سوراخ بند کر د یے، ایک سوراخ بند کرنے کے لیے کپڑا نہ بچا، اس پر اپنا پاؤں رکھ دیا، یہ سانپ کا بل تھا، سانپ نے انھیں ڈس لیا، تکلیف کی شدت سے آنکھ میں آنسو آ گئے۔ حضور ﷺ کو علم ہوا تو لعاب دہن لگایا، زہر کا اثر زائل ہوا۔

غارِ ثور کے قریب ایک چرواہی کا بت ہے، جس نے کفار مکہ کو خبر دی تھی کہ اس نے دو آدمیوں کو اس طرف جا تے دیکھا ہے۔ اس مخبری پر حکمِ ربی نے اسے پتھر کا بنا دیا، سنا ہے کہ اس سال حکومت نے اسے تڑوا دیا ہے، حالانکہ یہ تو نسلِ انسانی کے لیے قیامت تک عبرت کا نشان تھا، اس سے تو بوئے شرک نہ آتی تھی۔

گروپ لیڈر نے بنگلہ زبان میں نہایت پر تاثیر دعا کی، الفاظ تو سمجھ میں نہ آئے لیکن روح تک تاثیر اتر گئی، ہم بھی سب کے ساتھ آمین کہتے رہے۔

اب ہمارا رخ میدانِ عرفات میں جبلِ رحمت کی جانب تھا، جبلِ رحمت پر انھوں نے پھر دعا کی بعد میں سب نے اپنی اپنی دعائیں مانگیں۔ اس سے پہلے کہ وہ واپسی کا قصد کرتے، میں نے اور شاہد نے جبلِ رحمت پر جانے کی اجازت چاہی، جو مل گئی۔ اس مختصر سے پہاڑ پرسجے سجائے اونٹ، بے شمار زائرین اور سفری دکانوں کی بہتات تھی۔

جبلِ رحمت کہ جہاں حضور ﷺ نے آخری خطبہ دیا، ایک لاکھ مسلمانوں کے مجمع میں آپ نے خون اور مال ایک دوسرے پر اس طرح حرام قرار دے دیے تھے جیسا کہ اس دن کی حرمت ہے، امانت کی حفاطت، خون کے دعویٰ کا خاتمہ، قصاص اور دیت کے اصول، بنی نوع ایک آدم کی اولاد، برتری اور فوقیت کا خاتمہ، حرام و حلال میں تمیز، عورتوں کے حقوق و فرائض اور غلاموں سے حسنِ سلوک، غرض اس خطبے میں انسانی زندگی کا وہ منشور ہے جو رہتی دنیا تک کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

جبلِ رحمت کے سفید دیوار نما ستون پر شرطے پہرہ دے رہے تھے۔ دو نفل شکرانے کے ادا کیے، دعائیں جتنی یاد تھیں، اللہ کے حضور پیش کیں۔ فریاد کی میرے مولا جو کچھ میرے لیے خیر ہو، مجھے عطا ہو۔

جبلِ رحمت سے میدانِ عرفات کا نظارہ بخوبی کیا جا سکتا ہے، اس خیال سے کہ ہمارے بنگلہ دیشی بھائی انتظار کر رہے ہوں گے، جلدی جلدی نیچے اترتے۔ اترتے ہوئے اچانک مجھے اپنے پہلو میں درد کا احساس ہوا ’’ گردے کی تکلیف؟‘‘ اس احساس سے میں کانپ اٹھی، ابھی تو ایام حج سر پر ہیں، شاہد میری تکلیف سے بے خبر تیزی سے نیچے اتر رہے تھے اور ان کے پیچھے پیچھے میں، بنگلہ دیشی بھائی کہیں نظر نہ آ رہے تھے۔ شاہد انھیں دیکھ رہے تھے اور درد میرے ذہن پر سوار ہونے لگا تھا۔ مجھے ایک قطار میں پانچ چھ نلکے نظر آئے، میں ان کی طرف لپکی اور تیزی سے ایک گھونٹ پانی پیا کہ کہیں شاہد بھی نظروں سے اوجھل نہ ہو جائیں۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ درد نام کی کوئی چیز میرے قریب بھی پھٹکی نہ تھی۔کیا پانی میں اتنی تاثیر ہوتی ہے یا یہ اس مقام کا اثر تھا یا میں نے خوف زدہ ہو کر جو دعا مانگی تھی کہ میرے مولا ابھی تو حج کا سارا سلسلہ باقی ہے مجھے کچھ نہ ہو، اللہ نے اسے شرفِ قبولیت بخشا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔بنگلہ دیشی بھائی اگر ہمارے انتظار سے اکتا کر یا ڈرائیور کے بڑبڑانے پر چلے گئے ہوں تو کیا ہو گا؟ لیکن ایسے خدشے بے بنیاد ہوا کرتے ہیں، وہ ہمارے منتظر تھے۔ ہماری اگلی منزل مسجدِنمرہ تھی۔

حضرت ابراہیمؑ کی تعمیر کردہ اس مسجدِ نمرہ سے اپنائیت کے احساس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ہم ہر سال بہت ذوق و شوق سے میدانِ عرفات کی حدود سے کچھ باہر، نمرہ کے مقام پر قائم اس مسجد سے امام صاحب کا خطبہ سنا کرتے ہیں، اس نہایت عالی شان اور وسیع و عریض مسجد کو دیکھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

مسجدِ مزدلفہ جسے مشعر الحرام بھی کہتے ہیں اور منیٰ کی مسجدِ خیف ایک سانس میں دیکھیں۔ پھر جمرات، تینو ں شیاطین کے نشانات جہاں حاجی رمی کرتے ہیں۔ امام صاحب نے حضرت ابراہیمؑ اور شیطان کے درمیان ہونے والے مکالمے عالمانہ انداز میں مختصراً سنائے کہ کس طرح اور کس کس مقام پر شیطان نے انھیں بہکانے کی کوشش کی اور منہ کی کھائی۔ اسی واقعے کی یاد میں حجاجِ کرام دس گیارہ اور بارہ ذی الحج کو تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں۔ شیطان تو ایک ہی تھا لیکن ان تین مقامات پر حضرت ابراہیمؑ نے اسے پتھر مارے تھے۔

ڈرائیور نے ویگن کا رخ حرمِ پاک کی طرف موڑ دیا تو امام صاحب نے شور مچا دیا ’’ جبلِ نور، جبلِ نور‘‘ نام تو جانا پہچانا لگا مگر فوری طور پر کچھ یاد نہ آیا کہ جبلِ نور کی وجہ شہرت کیا ہے؟ چپکے سے ڈائری کھولی، لکھا تھا ’’جبلِ نور، غارِ حرا ۔۔۔ ‘‘ کس قدر شرمندگی ہوئی اپنی ذہنی حالت پر، کہ سب سے اہم مقام یادداشت کی چادر سے دھُل گیا تھا۔ بنگالی میں کی گئی دعا، لہجے کی روانی، الفاظ کا زیر و بم، جب دل کے سوز و گداز سے مل کر اشکوں کو رواں، جسم کو کپکپاہٹ عطا کر دیتا ہے، تو پھر حرفوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔

غارِ حرا ایک نہایت مشکل چڑھائی جہاں عقیدت مند چڑھتے ہوئے دور سے باریک چیونٹیوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دانش یاد آیا کہ وہ ہوتا تو غارِ حرا پر بغیر سوچے سمجھے چڑھ جاتا اور اس کے پیچھے پیچھے ہم بھی کمرِ ہمت کس لیتے، مگر ہمارے بنگالی بھائیوں کا پروگرام نہ تھا۔

’’حکومت کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ غار حرا تک چڑھائی آسان کر دے۔ سوال ایک شارع ( شاہراہ) کا ہے اتنے حصہ کو ایک پختہ روش دے کر سہل کیا جا سکتا ہے۔اس قسم کی دو چار چیزیں محفوظ کر لی جائیں تو عیب کیا ہے؟ اس سے قرآن و سنت کی خلاف ورزی کہاں ہوتی ہے اور کہاں منشائے ایزدی کی نفی ہوتی ہے۔آخر حکومت خود کو بھی تو محفوظ کر رہی ہے، اگر شریعت کا اتنا ہی خیال ہے تو شریعت یہ نہیں کہ جبلِ نور یتیم پڑا رہے اور اس کی نگہ داری سے قطع نظر کیا جائے۔ شریعت کے احکام معاشرہ اور ریاست کے لیے ہیں، آثار و مظاہر کے لیے نہیں کہ ان پر سختی برتی جائے، جہاں اجتہاد لازم ہے وہاں اجتہاد کا نام بدعت بلکہ بغاوت رکھ دیا جائے ۔۔۔ (شب جائے کہ من بودم، شورش کاشمیری، صفحہ ۶۵)

واپسی پر امام صاحب نے دور سے مسجدِ جن دکھائی، یہ وہ مقام ہے جہاں جنات نے حضور ﷺ کی زبان سے قرآن سنا اوراسلام قبول کیا، آپ َ کے ہاتھ پر اطاعت کا عہد کیا، یوں آپ ﷺ جن و انس دونوں کے لیے رسولؐ بنا کر بھیجے گئے۔ جس طرح انسانوں کے لیے آپ ﷺ کو نبی آخر الزماں نہ ماننا کفر ہے اسی طرح جنوں کے لیے بھی آپ ﷺ کو نبی نہ ماننا کفر ہے۔ امام صاحب کی اس مسجد کی نشان دہی پر ہم کچھ پریشان ہوئے کیونکہ چند روز پہلے ہم جنت معلیٰ کی زیارت کے بعد ایک ڈیڑھ فرلانگ آگے گئے تو ہمیں ایک مسجد نظر آئی تھی، محافظ نے اسے مسجدِ جن بتایا تھا۔

شیخ صاحب نے اپنا پتا دیا اور ہمارا لیا اور انتہائی تپاک اور محبت سے ہمیں رخصت کیا۔ یہاں پاکستان آ کر ہم نے ان کے دیے گئے پتے پر ان کے ہمراہ کھنچی ہوئی تصاویر بھجوا دی تھیں، جس کی رسید نہیں ملی، اللہ کرے انھیں مل گئی ہوں۔ ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ ہم کب سے زیارتوں کا پروگرام بنا رہے تھے اور پروگرام بنا تو انتہائی مہربان اور اہلِ علم لوگوں کے ساتھ، جو محبت کرنا جانتے بھی ہیں اور دوسروں کے دل میں گھر کرنے کا فن بھی انھیں آتا ہے۔

خانۂ کعبہ میں ان دنوں کوئی دن بلکہ کوئی نمازایسی نہیں ہوتی کہ جب ایک دو اور بسا اوقات تو دس دس میّتوں کی نماز جنازہ ایک ساتھ نہ ہوتی ہو، جن میں حاجیوں کے علاوہ مکہ کے گرد و نواح کے مرحومین بھی شامل تھے۔ ہمارے ہاں خواتین کا نماز جنازہ پڑھتے کا دستور نہیں، لیکن وہاں عربی، ترکی اور انڈونیشی خواتین کو جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھتے دیکھا، جبکہ ہم پاکستانی خواتین فاتحہ پڑھ کر دعائے مغفرت کر لیتی تھیں۔

سعودی عرب میں قانون بہت سخت ہے۔ کسی غلطی میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قانون کی پابندی اور سختی صرف غیرملکیوں کے لیے ہے۔ ایک دل دکھا دینے والا واقعہ تو ہماری بلڈنگ میں رہنے والے ایک پاکستانی نوجوان کے ساتھ پیش آیا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ حج کے لیے آیا تھا۔حرمِ پاک میں قدم قدم پر بے شمار کیمرے لگے ہیں جو لمحہ بہ لمحہ اپنا رخ بدلتے رہتے ہیں، جن سے آپ کی کوئی جنبش پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ اس کے باوجود طواف کے دوران جیب کترے وارداتیں کرتے رہتے ہیں۔ حاجی عموماً ً تمام رقم اپنی کمر بیلٹ میں رکھتے ہیں، جو نہ صرف جیب کتروں کا نشانہ بنتی ہے بلکہ واردات کے دوران حاجیوں کے جسم پر کٹ بھی لگ جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک واردات کا مشاہدہ اس پاکستانی نوجوان کو ہوا۔

ایک روز وہ نوجوان طواف میں مصروف تھا۔ اس کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جو نہایت چابکدستی سے ایک حاجی کی جیب کاٹنے میں مصروف تھا۔ نوجوان آیات ربانی کا ورد کر رہا تھا اور ششدر تھا کہ اس مقام پر ایسا گھناؤنا فعل کرتے ہوئے ان مجرموں کے ہاتھ کانپ کیوں نہیں جاتے۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بڑی کامیابی سے اپنا کام مکمل کر کے ایک غریب الوطن حاجی کو مصائب کے ختم نہ ہونے والے سلسلے سے دو چار کر دیا۔ ابھی اس سانحے کے حصار میں گو مگو کی حالت میں ہی تھا کہ شرطے تیزی سے اس جیب تراش کی طرف لپکے اور کھینچ کر باہر لے گئے۔ وہ ابھی شکر کا سانس نہ لینے پایا تھا کہ شرطوں نے اسے بھی قابو میں کر لیا۔ وہ جو ابھی اپنے کردہ اور نا کردہ گناہوں کی معافی چاہ رہا اس بری طرح شکنجے میں آیا کہ اسے کچھ سجھائی نے دیا۔ وہ حیرت زدہ تھا کہ معاملہ کیا ہے؟ اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اس پر الزام ہی نہیں لگا بلکہ جرم ثابت ہو چکا ہے کہ وہ اس جیب تراش کا ساتھی ہے، کیونکہ وہ اسے جیب کاٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اگر اس کا ساتھی نہ ہوتا تو ضرور شور مچاتا یا کم از کم اپنے قریب طواف کرنے والے کسی حاجی کو تو بتا دیتا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ بھی شریکِ جرم ہے۔ ثبوت میں ویڈیو ریکارڈنگ تھی۔

اس حادثے کے باعث بڑی پریشانی تھی۔ اس کی ماں نے پردیس میں کس کس کے آگے فریاد نہ کی ہو گی۔ رب ذوالجلال کے سامنے کتنا گڑگڑائی ہو گی، لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ اس میں کیا مصلحت ہے وہی جانتا ہے۔ دو چار دن بعد سنا کہ فیصلہ ہو گیا ہے۔ جیب تراش کے لیے چار ماہ قید، چار ماہ کے مسلسل روزے اور ہاتھ کاٹنے کا حکم۔ جب کہ ہمارے پاکستانی بھائی کے لیے چار ماہ قید، چار ماہ کے مسلسل روزے اور سو کوڑوں کا حکم۔

پوری بلڈنگ میں اس واقعے کے خلاف شدید بے چینی پائی جاتی تھی لیکن سب بے بس تھے۔ ایک پڑھے لکھے، مضبوط معاشی اور خاندانی پس منظر رکھنے والے بے گناہ شخص کے ساتھ یہ نا انصافی، بات مضبوط پس منظر کی نہیں صرف بے گناہی کی ہے کہ حضور نے بھی قریش کے ایک بڑے خاندان کی عورت کو چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی تھی۔سنا ہے دکھیاری ماں اکیلی پاکستان واپس آئی۔

جیسے جیسے حج کے دن قریب آتے جا رہے تھے حجاجِ کرام کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔گداگروں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ معذور گداگروں میں ایک دم اضافہ ہو گیا، معلوم ہوا کہ حج کے موسم میں گداگروں کی تجارت کرنے والوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے۔ یمن، شام، صومالیہ اور نہ جانے کن کن ممالک سے گداگروں کو یہاں پہنچایا جاتا ہے، پھر مقامی حبشی گداگروں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں، بعض خاندان تو بیچ سڑک کے اس ترتیب سے بیٹھتے ہیں کہ سب سے پہلے ایک سالہ بچہ، پھر دو سالہ، پھر چار سالہ اور اسی طرح دو چار بچے، اور آخر میں ان کے ماں باپ۔

گداگروں کی یہ کھیپ بیرون ملک سے ہی نہیں پہنچتی بلکہ حج کے دنوں میں اندرون ملک کے تمام گداگر بھی یہاں پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔

’’نماز کے بعد گھر واپسی پر جس چیز کی کمی محسوس ہوئی وہ گداگر تھے۔ گداگر جو کافی سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مدینہ منورہ کی بجائے یقیناً مکہ مکرمہ اور منیٰ میں مصروف عمل ہوں گے‘‘ ۔۔۔ (قدسیہ کرمانی، رپورٹر، اردو نیوز، ۱۴ مارچ ۲۰۰۱ ئ)

ان گداگروں سے زیادہ تکلیف دہ وہ گداگر تھے جنھیں سفیدپوش گداگر کہنا مناسب ہو گا۔ حرمِ پاک میں پہلا روز، مغرب سے کچھ پہلے کا وقت، شاہد نے کہا۔

’’تم باب عبدالعزیز کے پاس موجود رہنا میں نماز کے بعد ڈالر ریال میں بدلوانے جاؤں گا۔ مجھے کچھ دیر ہو سکتی ہے۔ ‘‘

وہ رخصت ہوئے، میں اپنی عبادت میں مصروف ہو گئی۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص، جو لہجے سے پاکستانی معلوم نہ ہو تا تھا، میرے قریب آ کر کہنے لگا ’’ پاکستانی؟‘‘

میں نے اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگا ’’ بہت پریشانی میں ہوں۔ مدینہ میں میری بہو کا پرس کسی نے اٹھا لیا، اس میں تمام رقم اور ٹریولرز چیک تھے، ہمارے پاس اب کھانے کو کچھ نہیں، چھوٹے چھوٹے بچے ساتھ ہیں۔‘‘

اس نے بچوں کی طرف اشارہ کیا۔تین چار بچے، ایک جوان اور ایک ادھیڑ عمر خاتون نظر آئیں، جو نہایت لا تعلقی سے بیٹھی تھیں۔اتنے میں ایک جوان آدمی بھی اٹھ کر آ گیا۔’’ دیکھیں ہمارے بچے کتنی دیر سے بھوکے ہیں ہم انھیں آب زمزم پلا کر وقت گذار رہے ہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’ ٹریولرز چیک کھوئے ہیں تو کوئی بات نہیں، آپ بنک اطلاع کریں، آپ کا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آپ بجائے ایک ایک کو اپنا مسئلہ بتانے کے، بلڈنگ والوں کو یا پاکستان ہاؤس میں کیوں نہیں بتاتے۔‘‘

لیکن وہ باپ بیٹا یہی کہتے رہے کہ آپ کو جو مدد کرنا ہے وہ کر دیں۔میں نے انھیں بار بار کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے، کچھ دیر بعد میرے شوہر آئیں گے تو میں جو کچھ ہو سکا وہ ضرور کروں گی۔دل میں سوچا کہ اگر یہ فریب دے رہے ہیں تو بھی انھوں نے مجھ سے حرمِ پاک میں خانۂ کعبہ کے سامنے سوال کیا ہے، میں ان کی ضرور مدد کروں گی۔

شاہد ابھی تک نہ آئے تھے اور وہ بار بار مجھے کہہ رہے تھے آپ کو جو دینا ہے، دے دیں، ہم کوئی آپ سے ادھار تو نہیں مانگ رہے، جو آپ اتنا سوچ رہی ہیں۔ مگر میرے پاس کچھ ہوتا تو ضرور دے دیتی۔

اتنے میں شاہد سامنے سے آتے دکھائی دیے۔ میں فورا ً ان کے پاس پہنچی اور تیزی سے ساری روداد سنا کر کہا۔

’’ میں خود سے اور ان سے بھی مدد کا وعدہ کر چکی ہوں، مجھے ایک معقول رقم چاہیے۔‘‘

شاہد نے کہا ’’ٹھیک ہے‘‘

مڑ کر میں نے دیکھا وہ باپ بیٹا کہیں نہ تھے۔ ماں بیوی اور بچے بھی غائب تھے۔ میں نے انھیں بہت تلاش کیا لیکن وہ نظر نہ آئے۔ افسوس ہوا کہ میں ان کی مدد نہ کر سکی۔

شاہد نے کہا ’’زیادہ افسوس نہ کرو۔ انھوں نے تمھیں مجھ سے روداد کہتے دیکھا تو ڈر گئے کہ نہ جانے کون ہے؟ کہیں گداگری کے جرم میں ہم اندر ہی نہ ہو جائیں۔‘‘

کعبہ کے سائے میں مالک دو جہاں سے مانگنے کی بجائے ہم تہی دستوں کے آگے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ ہم کیا کسی کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں اور ہماری امداد انھیں کیا پوری پڑے گی۔ ہر ایک غالب تو نہیں ہوتا کہ رب سے سوال نہ کرنے میں بھی اپنی مروت اور لحاظ ہی کو ذمہ دار ٹہرائے   ؎

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے کہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

ایک گداگرسے شاہد کی ملاقات مسجد عائشہ میں ہوئی، احرام میں ملبوس نہایت شائستگی کے ساتھ سلام دعا کے بعد گویا ہوئے۔

’’ہم رمضان میں عمرہ ادا کرنے آئے تھے، حج کے لیے رک گئے۔اب زادِ راہ ختم ہو چکا ہے، مدد کیجئے۔‘‘

شاہد نے کہا ’’ اس کا مطلب ہے آپ غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، پکڑے گئے تو؟‘‘

کہنے لگے ’’چھپ چھپا کر گزارا کر لیتے ہیں، امید ہے پکڑے نہیں جائیں گے۔‘‘

شاہد ان سے معذرت کر کے آگے چلے گئے۔ جب غسل، احرام کر کے باہر آئے، موصوف کوغسل خانوں اور مسجد عائشہ کے درمیان والے باغیچے میں نہایت آسودگی سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ درخت کے نیچے دری ڈالے پکنک مناتے ہوئے پایا۔تھرمس،  بسکٹ، چپس، ڈرنکس وغیرہ سب موجود تھے۔

حج کے بعد ایک روز فجر کی نماز کے بعد ہم نے سوچا کہ آج بابِ فہد کے مقابل جو پلازہ ہے اس کو دیکھا جائے۔ پچھلے دروازے سے نکل کر اپنی بلڈنگ کی سڑک پر پہنچ جائیں گے۔روز ہی وہاں سے گزرتے تھے کبھی اندر جھانکنے کا خیال نہ آیا تھا۔کیا مارکیٹ تھی۔ ہمارے ایف ٹن مرکز یا جناح سپر اس کے مقابلے میں کیا ہیں۔بیکری نظر آئی، انواع و اقسام کی مٹھائیاں، کوکیز، بسکٹ، ٹافیاں اور وہ چیزیں جنھیں پہلی دفعہ دیکھا تھا، نہایت خوشنما اور اشتہا انگیز۔کھجور کی شکل کی مٹھائیاں، جن پر اصلی کھجوروں کا گمان ہوتا تھا۔ بیکری کے سامنے خوشبویات کا ایک جہاں آباد تھا۔ آگے گئے تو کرسٹل کے فانوس اور آرائشی اشیا دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ چیزوں کی نفاست اپنی جگہ، مگر جس طرح دکانیں سجی ہوئی تھیں، ان کا سحر گرفتار کر لیتا تھا۔ ہم نے یہ سب دکانیں باہر سے دیکھیں، صرف ایک دکان میں داخل ہوئے اور وہاں کافی وقت گزارا، کتابوں کی دکان میں ہر موضوع پر کتاب دستیاب تھی، ہر موضوع کا الگ شعبہ تھا، ظاہر ہے کہ قرآن و تفسیر کا بہت بڑا ذخیرہ تھا، نہیں تھا تو اردو ترجمے والا قرآن پاک، جبکہ دیگر کئی زبانوں میں ترجمے والے قرآن شریف موجود تھے۔

آگے گئے تو ریستوران، جس میں داخل ہونے کی ضرورت نہ تھی، اچانک ہی کھانے کی میزیں اور سجے ہوئے بوفے، ماحول پر چھا گئے، لوگ ناشتہ کر رہے تھے۔ چمکتی مکمل شیشے کی بنی ہوئی لفٹیں، جن پر سوار لوگ اوپر نیچے اُڑتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ابھی بہت صبح تھی لیکن سوچا کہ پھر ادھر آیا جائے یا نا، کچھ کھا پی لیا جائے۔

ہمیں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی ہو گی کہ ایک صاحب سفید کاٹن کا کھڑکھڑاتالباس پہنے، شکل و انداز سے کافی معتبر جوان معلوم ہو رہے تھے، شاہد کے پاس آ کر وہی داستان دہرائی۔

’’عمرے کے لیے کشمیر سے آیا تھا حج کے لیے رک گیا ہوں، پیسے ختم ہو گئے ہیں، چایس پچاس ریال کی مدد کر دیں۔‘‘

شاہد نے لمحہ بھر سوچا، پھر اسے صاف جواب دے دیا۔ مجھے اچھا نہ لگا، میں نے کہا۔

’’حضور پاک ﷺ نے کہا ہے کہ کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ۔ اس کی مدد ضرور کرو، خواہ کھجور کے ٹکرے جتنی ہی کیوں نہ ہو۔ آپ چالیس ریال نہ سہی آٹھ دس ریال تو دے سکتے تھے۔‘‘

کہنے لگے ’’سوچا تو میں نے بھی یہی تھا۔ پھر خیال آیا کہ یہ شخص برابر والی میز سے اٹھ کر ہمارے پاس آیا ہے۔ ہم سے کہیں اچھا ناشتہ اس نے کیا ہے، تو میں فور سٹار میں ناشتہ کرنے والے کو بھیک دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘

محنت میں عظمت ہے، بچپن میں اس موضوع پر مضمون رٹے تھے اس لیے بڑے ہو کر انھیں بھلانا ہمیں مشکل نہیں لگا ۔۔۔ ہماری تعلیم رٹے سے شروع ہو کر گھوٹے پر ختم ہوتی ہے۔ ہم عقل و شعور کو طاق میں رکھ کر تین گھنٹے کمرہ امتحان میں گزار لینے کو علم کی معراج سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دھوکہ، فریب، جھوٹ، جو بھی عین وقت پر ہمارے کام آ گیا وہی ہمارا سب سے بڑا سہارا ہے۔

ہم اشراق کے بعد جب گھر آ رہے ہوتے تھے، اکثر انڈونیشی اور ملائشی خواتین چھوٹے چھوٹے گتے کے ڈبے لیے، سڑک کے کنارے منی دکان لگائے نظر آتی تھیں۔چھوٹا سا سالن کا پتیلا، تھوڑی سی تلی ہوئی مچھلی، کچھ کے پاس آلو کے کٹلس اور اسی قسم کا ناشتے کا وہ سامان جو انھیں بنانے میں زیادہ وقت نہ لگا ہو گا، اور نہ ہی بیچنے میں بہت وقت درکار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے عبادت کے ساتھ حاجی کو تجارت کی اجازت دی ہے اور یہ لوگ اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ رزقِ حلال کمانے میں مصروف تھیں اور یہ بھی محسوس ہوا کہ ان کھانوں پر ان کے ہموطن ٹوٹے پڑتے تھے۔

 

 

 

 

سعادتِ حج

 

۶ ذی الحجہ ۱۴۲۱ ھ کو ہماری بلڈنگ مسفلہ خلیل ۱۶۶ کے نوٹس بورڈ پر معلم کی جانب سے اطلاع درج تھی کہ منیٰ جانے کے لیے تمام حجاجِ کرام ۷ ذی الحجہ کو نمازِ ظہر کے بعد تیار رہیں، مکتب کی بسیں حجاجِ کرام کو منیٰ لے جائیں گی۔منیٰ کو روانگی ۸ ذی الحجہ کو نمازِ فجر کے بعد مسنون ہے اور نمازِ ظہر منیٰ میں ادا کرنے کا حکم ہے۔ ۷ تاریخ کو کیوں جا رہے ہیں ؟ معلوم ہوا کہ بسوں، ویگنوں اور دیگر سواریوں کا رش ہو گا اور دیگر انتظامات کے باعث ۷ ذی الحجہ کو جانا قرار پایا ہے۔

ہمیں اس سے دلچسپی اس لیے نہ تھی کہ اسلام آباد سے ہی ہم منیٰ پیدل جانے کی نیت سے آئے تھے۔ ۷ ذی الحجہ کو ہم نے سارا دن حرمِ پاک میں گزارا، طواف کیے اور جمعہ کی اپنی مخصوص عبادتیں کیں۔ عصر کے وقت کھانا کھانے کے لیے نکلے، کھانا خرید کر گھرکی جانب چلے کہ بلڈنگ والوں کا پتہ کر آئیں، وہ جا چکے ہیں یا نہیں۔ وہاں پہنچے تو سب لوگ انتظار کھینچ رہے تھے، معلوم ہوا مکتب کی بسوں کا دور دور تک پتہ نہیں۔

ہمارے ساتھیوں نے ایک دفعہ پھر ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم پیدل جانے کے ارادے سے باز آ جائیں اور خود کو بلا وجہ مشکل میں نہ ڈالیں۔منیٰ میں اپنا خیمہ چھبیس لاکھ کے مجمع میں تلاش کرنا کتنا دشوار ہو گا۔

عابد صاحب نے کہا۔

’’ ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ جب آپ نے معلم کو بسوں کا کرایہ ادا کر دیا ہے تو پیدل جانے کی زحمت کیوں اٹھاتے ہیں، پھر آپ خیمے کی تلاش میں اتنا تھک چکے ہوں گے کہ باقی مناسک آپ کو مشکل ہو جائیں گے۔ کیوں اپنے آپ کو ہلکان کرتے ہیں ۔۔۔ ‘‘

ہم کھانے کے دوران یہ گفتگو سنتے رہے اور پھر حرم کی طرف روانہ ہوئے۔میں نے شاہد سے دبے الفاظ میں کہا۔

’’ہماری بلڈنگ کے تمام لوگ بسوں پر جا رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیں اس احمقانہ حرکت سے روکنے کی کوشش کی ہے اور ہم اپنی بات پر قائم ہیں، کہیں ہماری ضد ہمیں تماشا نہ بنا دے۔‘‘

در اصل میں خود پیدل چلنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن شکوک کے اتنے پتھر پڑے کہ میرے ارادے کی دیوار ہلتی نظر آئی۔ تذبذب کی اس کیفیت میں مجھے یہ بات جو میں نہ کہنا چاہتی تھی کہنا پڑی، مگر شاہد خاموش رہے۔

ان تمام خدشوں کے باوجود میں اپنا فیصلہ بدلنا نہ چاہتی تھی۔ اسی اثنا میں ہم حرمِ پاک کے قریب پہنچ گئے۔ تمام حجاجِ کرام مکہ میں جمع ہو چکے تھے۔ بھیڑ اس قدر تھی کہ ہمیں حرم تک پہنچنے کا موقع نہ ملا اور اذانِ مغرب ہو گئی۔ ہم نے دوسرے بے شمار ساتھیوں کے ہمراہ سڑک پر جائے نماز بچھا لیے۔ ہمارے ساتھ ایک اور میاں بیوی نے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد معلوم ہوا ان کا تعلق لاہور سے ہے۔ گذشتہ بارہ برس سے انگلستان میں مقیم ہیں اور حج کی نیت سے آج ہی مکہ مکرمہ پہنچے ہیں۔ باتوں کے دوران انھیں علم ہوا کہ ہم منیٰ پیدل جا رہے ہیں تو بہت خوش ہوئے۔ کہا ’’ ہم بھی پیدل جا رہے ہیں، جوان لوگوں کو پیدل ہی جانا چاہئے، نیت کر لی جائے تو اللہ سارے راستے سیدھے کر دیتا ہے۔‘‘

اس دو چار منٹ کی گفتگو نے تذبذب کی کیفیت یکسر ختم کر دی۔ جانا تو ہمیں پیدل ہی تھا لیکن ان سے مل کر حوصلہ ہوا اور خوشی بھی۔ دوسرے یہ اندازہ ہوا کہ دوسرے منفی اور مثبت، ہر دو انداز میں آپ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس خوبصورت اجنبی جوڑے کے دو چار جملے بلڈنگ والوں کے سینکڑوں جملوں پر بھاری تھے۔

ان سے رخصت ہو کر حرمِ پاک پہنچے اور یکسوئی سے عبادت میں مصروف ہو گئے۔ گیارہ بجے یہ سوچتے ہوئے گھر آئے کہ بلڈنگ والے رخصت ہو گئے ہوں گے، کچھ دیر آرام سے سوئیں گے، مگر گھر پر تمام خواتین و حضرات کو احرام باندھے نہایت مضطرب حالت میں پہلو بدلتے ہوئے بسوں کے انتظار میں پایا۔ بسیں تھیں کہ آنے کا نام نہیں لے رہیں۔

ان لوگوں نے عصر، مغرب اور عشاء سب نمازیں گھر میں پڑھیں کہ نہ جانے کب بسیں آ جائیں۔ ہمیں چونکہ صبح چار بجے جانا تھا آرام سے لیٹ گئے۔ نیند کیا آنی تھی۔ حاجی صاحبان کی آمد و رفت اور باتیں جاری تھیں۔ کوئی ساڑھے بارہ بجے شور ہوا کہ بسیں آ گئی ہیں۔ تمام حاجی صاحبان اپنا سامان اٹھا کر نہایت تیزی کے ساتھ، کوئی سیڑھیوں سے اور کوئی لفٹوں سے، نیچے گئے۔شکر کیا کہ اب کچھ دیر سو سکیں گے، مگر جاگو میٹی کی اس کیفیت کو اچانک کسی تیز دھار آلے نے چیر کر رکھ دیا۔ سارے حاجی شور مچاتے، برا بھلا کہتے واپس کمروں میں آ گئے کہ جن کا زور چلتا تھا وہ بسوں میں چڑھ گئے، ہم سے تو یہ بد تمیزی ہو نہیں سکتی اس لیے ہم رہ گئے، اب اگلے چکر میں جائیں گے۔خیر احرام میں ملبوس حاجی کچھ دیر بیٹھے، پھر لیٹے اور سو گئے۔

چار بجے شاہد نے جگایا اور کہا ’’اٹھو اب ہم چلتے ہیں۔‘‘

نہا دھو کر احرام باندھا، سامان کا ایک بیگ شاہد نے دوسرا میں نے اٹھایا اور کمرے سے نکلے۔ اس دوران دوسرے حاجی بھی اٹھ گئے۔ کچھ تہجد کی ادائیگی اور کچھ بسوں کا پتہ کرنے نیچے اتر گئے۔ ہم ان سے رخصت ہو کر باہر آ گئے۔ سب نے ہمیں ترحم سے دیکھا، مگر مروتاً بھی کسی نے ہمارا سامان بسوں سے لے آنے کی صلح نہ کی، ہم کون سا انھیں تکلیف دیتے۔ میں نے اپنا یہ احساس جب شاہد سے بیان کیا تو شاہد نے کہا ’’ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہوں گا، تم نے ایسا سوچا ہی کیوں ؟‘‘

بلڈنگ سے نکلتے ہی دکانوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پہلی دکان سے دو پہیوں والی ٹرالی خریدی اور بیگ اس پر باندھ لیے۔ اب سامان کے ساتھ چلنا بالکل مشکل نہ تھا۔ حرمِ پاک پہنچے۔ احرام کے نفل ادا کیے۔ احرام و حج کی نیت دل میں بھی کی جا سکتی ہے البتہ زبان سے کہنا افضل ہے

’’ اے اللہ میں حج کی نیت کرتا ہوں، پس اس کو میرے لیے آسان کر دے اور مجھ سے قبول فرما اور اس میں میری مدد فرما اور اس میں میرے لیے برکت ڈال۔ نیت کی میں نے حج کی اور احرام باندھااس کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے۔‘‘

اس کے بعد تین مرتبہ تلبیہ شاہد نے بلند آواز کے ساتھ اور میں نے زیر لب کہا۔ درود شریف اور دیگر دعائیں کیں۔ احرام کی تمام پابندیاں لازم ہوئیں۔ فجر کی نماز با جماعت ادا کی، یٰسین شریف پڑھی، دعائیں مانگیں۔ ارادہ تھا کہ منیٰ روانگی سے پیشتر ایک طواف کر لیں، مگر شرطوں نے ٹرالی اندر نہ لے جانے دی۔ ہمیں یہ زعم تھا کہ حرمِ پاک میں اب تک ہماری کوئی معمولی سی چیز بھی نہ کھوئی تھی، خیال آیا کہ آج ہی کہیں یہ مان نہ ٹوٹ جائے، اس لیے اب منیٰ کو روانہ ہو جانا چاہیے۔

آب زمزم لیا اور جب عازم منیٰ ہوئے تو ٹھیک سات بجے کا وقت تھا۔اسی وقت ہمارے مکتب ۳۷ کی بسیں ہمارے پاس سے گزر کر بلڈنگ کی طرف گئیں۔ شکر کیا کہ ہمارے ساتھیوں کا بھی انتظار ختم ہوا، پھر سرنگ آ گئی۔

سرنگ میں داخل ہوئے، جیٹ انجنوں کی مدد سے سرنگ میں ہوا کے جھکڑ آگے کو دھکیل رہے تھے۔چلنا نہایت آسان لگا۔ ذرا ہی دیر میں ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سرنگ عبور ہو گئی، تو اشراق کا وقت یعنی ساڑھے سات بجے تھے۔ ایک مختصر سے خوبصورت باغیچے میں نماز اشراق اور شکرانے کے نفل ادا کیے۔ پھر شیڈز شروع ہو گئے۔راستے میں جا بجا پانی کی بوتلیں، کھجور کے پیکٹ اور دیگر تبرکات ملتے گئے۔ لبیک، درود شریف، آیت الکرسی اور دوسری دعائیں بغیر کسی حساب اور ترتیب کے پڑھتے گئے۔

شاہد کو بھی باتیں کرنے کی عادت نہیں اور مجھے بھی احساس تھا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک ایک سانس، ایک ایک قدم اور ایک ایک دعا کی توفیق نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔ جس وقت ہمارے قدموں نے منیٰ کی مٹی کو چھونے کی سعادت حاصل کی، ٹھیک آٹھ بجے تھے یعنی حرمِ پاک سے منیٰ کا فاصلہ ہم نے ایک گھنٹہ میں نہایت سہولت سے طے کیا تھا۔

سامنے خیموں کا شہر آباد تھا۔ دائیں طرف جمرات اور اس کا پل، خوبصورت صاف ستھری چوڑی سڑکیں، بسیں گزر رہی تھیں۔ شرطے مختلف مقامات پر چاق چوبند۔ پہلے ہی قدم پر خیمہ نمبر ۲۲ نظر آ گیا۔ ہم بے حد خوش ہوئے کہ ہمارا ۲۳ نمبر اس کے ساتھ ہی ہو گا، مگر یہ کوئی اور مکتب تھا۔

اب اپنے مکتب کی تلاش شروع ہوئی۔ کسی کو کچھ علم نہیں، زبان کا مسئلہ بھی محسوس ہوا۔ کوئی پورب کی طرف اور کوئی پچھم کی جانب اشارہ کرتا۔ خدمت دفاتر سے تو ایک ہی جواب ملتا ’’ یلیٰ معافی‘‘ پاکستانی خدام کہیں نظر نہ آئے۔ مقامی سکاؤٹ تھے، لیکن ہاتھ میں پکڑے نقشے دکھانے کو تیار نہیں۔ مکتب نمبر پوچھ کر دوسری طرف متوجہ رہتے۔اس دوران ہم اپنی صوابدید پر چلتے چلے گئے۔

ایک جگہ ایک صاحب سے پتا پوچھ رہے تھے کہ ایک پاکستانی لڑکا تیزی سے ہمارے پاس آیا۔ اس کے پاس منیٰ کے خیموں کا نقشہ تھا۔ پہلی دفعہ اپنے موجودہ مقام اور مطلوبہ منزل کا تعارف ہوا۔ یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ہم نے سفر درست سمت میں کیا ہے۔ ابھی ایک کلو میٹر مزید اسی سمت جا کر خیمے ختم ہو جائیں گے اور کھلی جگہ آئے گی، اسے عبور کرنا ہے پھر جو خیمے مزدلفہ میں شروع ہوں گے، ان میں مکتب ۳۷ کے خیمے ملیں گے۔ اس پاکستانی لڑکے کو دعا دی اور سوئے منزل روانہ ہوئے۔

اس طویل مسافت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ درود و اذکار کے لیے وافر وقت میسر آیا، دوسرے پورے منیٰ کو تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا۔’’ نہایت المنیٰ‘‘ اور ’’بدایت المزدلفہ‘‘ کے سائن بورڈ ایک نئی الجھن میں ڈال گئے۔ ہمیں تو پانچ نمازیں منیٰ میں پڑھنی ہیں۔ ہم مزدلفہ میں کیسے رہ سکتے ہیں ؟ ہمیں تو عرفات سے واپسی پر مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے رات بسر کرنا ہے، تو ہم آج ہی کیسے یہاں رہیں ؟

بعد میں اس مسئلے پر بحث ہوئی، پتا چلا کہ حاجیوں کی بڑھتی ہو ئی تعداد اور امام کعبہ کے فتویٰ کے تحت، سعودی انتظامات پر ہزاروں حاجی منیٰ کی پانچ نمازیں مزدلفہ میں ادا کرنے پر اجتہاد کرتے ہیں۔اللہ قبول کرے۔

سائن بورڈ گزرتے ہی ہمیں ہماری بلڈنگ کے لوگ نظر آ گئے جو ہمیں ہمارے خیمے میں لے گئے۔

سفر شروع کرنے سے پہلے شاہد نے ظہر سے پہلے منیٰ اور مغرب سے پہلے خیمے میں پہنچنے کا ہدف مقرر کیا تھا، اس لیے بھی یہ سفر نہایت آسان لگا، کیونکہ ابھی صبح کے ساڑھے دس بجے تھے۔

آیات ربانی کے ورد نے ہمیں ترو تازہ رکھا۔ خیمے کا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوئے، تو سبھی خواتین ہماری تھکن کے احساس سے شرابور نظر آئیں۔ وہ لوگ کچھ ہی دیر پہلے پہنچے تھے اور ہمارے لیے بہت پریشان، کہ ہم دونوں کہاں کہاں خوار ہو رہے ہوں گے، اتنی دور پیدل کیسے پہنچیں گے، مکتب اور خیمے کی تلاش آسان تو نہیں، ہمیں دیکھتے ہی ان کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ ہمدردی کے واضح تاثرات بھی تھے۔

’’مکہ سے تم پیدل آ رہے ہو، مکتب کیسے ملا، پیروں کا کیا حال ہے، تھکن سے نڈھال ہو رہے ہو گے۔‘‘

ہماری یہ حالت تھی کہ مجال ہے جو ذرا محسوس ہوا ہو کہ ہم اتنا فاصلہ طے کر کے آئے ہیں۔ آج تک اس بات پر حیران ہوں اور اس کا ثبوت خود کو یہ دیتی ہوں کہ اگر میں تھکی ہوئی ہوتی تو آرام کرتی، فوراً ہی صلوٰۃ اتسبیح پڑھنے کھڑی نہ ہو جاتی۔

نماز ختم ہوئی تو پھر سلسلہ وہیں سے جڑا جہاں سے ٹوٹا تھا۔’’ بھئی تم لوگوں کو سوجھی کیا پیدل آنے کی، آرام سے بسوں پر آتے۔‘‘

مجبوراً انھیں بتانا پڑا کہ ہم حرص و ہوس کے مارے ہوئے لوگ ہیں، لالچ نے اندر باہر سے یوں جکڑا ہوا ہے کہ جنبش بھی اپنے آپ کو گراں گزرتی ہے۔ ایک ہی مرتبہ میں سب کچھ لوٹ لینا چاہتے ہیں، جانے پھر موقع ملے نہ ملے۔

’’حضرت عباسؓ نے آخری لمحات میں اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی، اے بیٹو پیدل حج کیا کرو۔ کیونکہ پیدل حج کرنے والے شخص کو ہر قدم پر سات سو نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ حرم کی نیکی اور عظمت سے وہ بچے نا واقف تھے اس لیے پوچھا یہ حرم کی نیکی کیا ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے جواب دیا حرم شریف میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے، ایک لاکھ کو سات سو کے ساتھ ضرب دیں توسات کروڑ بن جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیدل حج کرنے والے حاجی کو ہر قدم پر سات کروڑ نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے میدان عرفات براستہ منیٰ اور مزدلفہ تقریباً ۱۶ کلو میٹر ہے۔ انسان پہلے مکہ سے منیٰ اور عرفات جائے پھر واپسی پر مزدلفہ اور منیٰ سے ہوتا ہوا مکہ مکرمہ آئے تو وہ اس مبارک سفر میں جتنے قدم اٹھاتا ہے اس کا حساب کر کے اہل علم نے بتایا ہے کہ اس کی اٹھتر کھرب اور چالیس ارب نیکیاں بن جاتی ہیں۔‘‘ (کعبۃ اللہ اور اس کا حج، محمد معراج الاسلام، صفحہ ۱۷۶)

ظہر کی نماز ہم نے اپنے خیمے میں ادا کی، فائبر شیٹ کے خیمے، جن میں قالین بچھے ہوئے ہیں، کولر چل رہے ہیں۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد منیٰ کا میدان جو خیموں سے آباد تھا، دیکھنے کے لیے باہر نکلے، منیٰ کے پہاڑ انتہائی خوب صورت دکھائی دے رہے تھے، وہاں بھی لوگوں نے اپنے خیمے لگائے ہوئے تھے۔ کافی لوگ ویسے ہی منیٰ کا نظارہ کرنے کے لیے پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے۔ دانش یاد آیا اگر وہ ساتھ ہوتا تو ہم بھی ان پہاڑوں پر ضرور چڑھتے، اور میرا پاگل پن جو ہمیشہ مجھے اکساتا رہتا ہے کہ پہاڑ، خواہ اسلام آباد کا ہو خانسپور کا یا شنکیاری کا، میں یہ دیکھوں کہ پہاڑ کے پیچھے کیا ہے اور گھنٹوں کی ہائیکنگ کے بعد جب ایک پہاڑ ختم ہوتا ہے تو اس کے پیچھے بھی ویسا ہی پہاڑ ہوتا ہے، کوئی پرستان نہیں۔

عصر کی نماز بھی خیمے میں ادا کی۔ خیموں کی چادریں آوازوں کو روکنے میں ناکام رہتیں، اس لیے انتظار کیا کہ پہلے برابر والے خیمے کی نماز با جماعت ختم ہو لے پھر ہم نماز ادا کریں گے۔ نماز کے بعد باہر نکلے۔ ظہر کے بعد کینٹین سے جو کھانا منگوایا تھا وہ مہنگا بھی تھا اور ذائقہ بھی اتنا اچھا نہ تھا۔

یاد آیا کہ منیٰ روانگی سے پہلے ہر ایک نے کہا تھا کہ کھانے پینے کی چیزیں مکہ سے لے کر جانا، وہاں مشکل ہو گی، بلکہ پاکستان میں موجود، حاجیوں نے اپنے تجربے کی بنا پر خاصا زور دیا کہ چنے، پھل، بند، برگر، خشک میوہ اور نمکو وغیرہ منیٰ ضرور لے کر جا نا۔ مکہ رہائش سے روانگی صبح چار بجے ہوئی تھی۔ رات ایک وقت کا کھانا زیادہ لے لیا تھا، کہ کم از کم ایک وقت کے لیے تو ہو جائے اور کچھ پھل اور مشروبات بھی ر کھ لیے تھے، لیکن حرمِ پاک پہنچے تو خیال آیا کہ کھانے والا شاپر تو رہائش پر ہی چھوڑ آئے ہیں۔ دوبارہ گھر جانے کو جی نہ چاہا، یوں ہم کھانے پینے کی کوئی چیز بھی لیے بغیر منیٰ پہنچے۔ اب یہاں کا کھانا کھا نے کے بعد ہمارے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ رات کو دہی سے روٹی کھا لیں گے۔

عصر کی نماز پڑھ کر میں اور شاہد منیٰ کا جائزہ لینے باہر نکلے، تو کافی آگے تک چلتے چلے گئے۔ پل کے نیچے بازار لگا ہوا تھا۔ کھانے پینے کی بے شمار چیزیں، ابلے ہوئے انڈے، پھل، مختلف ممالک کے کھانوں کے سٹال، ہم پاکستانی سٹال پر گئے بہت ہی زبردست مرغ قورمہ اور نان، شاہد کہنے لگے ’’ ہم رات کے لیے کھانا خرید لیتے ہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’اب جب کہ سب کا اکھٹے کھانے کا فیصلہ ہوا ہے تو ہمیں سب کی رائے کا احترام کرنا ہو گا، دوپہر میں فیصلہ ہوا تھا کہ رات دہی سے روٹی کھائیں گے تو ہم کیسے یہ لے سکتے ہیں۔‘‘

یوں ہم کھانا لیے بغیر واپس آ گئے۔ خیمے میں آ کر ذکر کیا تو سب نے کہا کہ لے آتے تو اچھا تھا۔

عشا ء کی نماز کے بعد ہم سب کا رخ اسی پاکستانی ہوٹل کی جانب تھا، جسے کھوکھا کہنا زیادہ مناسب ہو گا، لیکن وہاں پہنچے تو، منظر بدل چکا تھا، بازار تو موجود لیکن دکانیں سب بند، ہم جیسے کئی، کھانے کی تلاش میں سرگرداں، آخر ایک بنگالی کھوکھے سے اسی قیمت پر دال چاول بڑی مشکل سے ملے۔ چھبیس لاکھ افراد کے لیے ایک محدود علاقے میں رہائش اور زندگی کی سہولیات فراہم کرنا، ایک نا ممکن عمل ہے لیکن یہاں ناممکن کو ممکن ہو تے کئی مرتبہ دیکھا، اب چونکہ ہم سے پہلے لوگ خریداری کر چکے تھے اس لیے ہمیں مشکل ہوئی، مایوسی نہیں۔ بہر حال بنگالی کھوکھے سے کھانا خریدا، مسور کی دال کے کچے ابلے ہوئے گلابی دانے اور موٹے کچے ابلے ہوئے چاول، بمشکل تھوڑا بہت کھایا اور اپنی بے وقوفی پر پچھتاتی رہی کہ جب شاہد نے بہترین کھانا خریدنے کے لیے کہا تھا تو انکار کیوں کیا۔

خیمے میں آ کر ذکرو اذکار میں مصروف ہو گئے، اور جب سونے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ سعی لا حاصل ہے، کیونکہ رات میں کھایا گیا کھانا اپنا اثر دکھانا چاہتا تھا، اتنی کھانسی کہ اپنی نیند کے خراب ہونے کا کیا افسوس ہوتا، یہی پشیمانی رہی کہ میری وجہ سے دوسرے بے آرام ہو رہے ہیں۔تمام رات آنکھوں میں کاٹی، فجر کے بعد شاہد سے کہا ’’مجھے کوئی دوا دے دیں، کہ اب جسم بھی گرم معلوم ہو رہا ہے۔‘‘

برائے نام ناشتے کے بعد عرفات کو روانگی ہوئی۔

نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد سورج نکل کر دھوپ جبل عمبیر پر پھیل جائے تو عرفات جانا اولیٰ ہے، راستے بھر یہ دعا زیر لب رہی۔

’’ اے اللہ تیرے پیارے حبیب ﷺ نے جس میدان میں جا کر امت کے لیے دعائیں مانگی تھیں، اسی میدان میں ہم تیرے پاس آرہے ہیں۔اے اللہ تو ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رہنے میں ہماری مدد فرما‘ ‘

اس کے علاوہ یہ دعا بھی مسنون ہے۔

’’ اے اللہ میری تمام صبحوں سے اس صبح کو بہترین کر دے، اپنی رضا مندی سے زیادہ قریب کر دے، اور اپنے غصے سے زیادہ دور کر دے، اے اللہ میں تیری طرف متوجہ ہوا اور تجھ پر ہی بھروسا رکھتا ہوں اور تیری ذات کو چاہتا ہوں، پس میرے گناہوں کو بخش دے اور حج کو قبول کر اور مجھ پر رحم فرما، اور مجھے محروم نہ کر اور میرے سفر میں برکت ڈال اور عرفات میں میری حاجت پوری کر، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

پندرہ بیس منٹوں میں ہم میدان عرفات میں تھے، رنگین خیموں کے اس بحر بے کراں میں اکثر و بیشتر خیمے ابھی خالی پڑے تھے، ایک نسبتاً کم آباد خیمے میں ہم نے اپنا سامان رکھا۔

دوا کا اثر تھا یا مقام کی برکت کہ کھانسی کا نام و نشان نہ رہا۔ کچھ آرام کیا، چند منٹ ارد گرد کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے صلوٰۃ التسبیح کی نیت کی۔ قبلہ کا تعین ایک خاتون کو نماز پڑھتے دیکھ کر کیا، آخری رکعت تھی کہ شاہد خیمے میں داخل ہوئے۔ کہنے لگے ’’ میں ابھی شرطے سے پوچھ کر آیا ہوں، اس نے قبلہ کی دوسری سمت بتائی ہے۔‘‘

میری نماز ختم ہونے والی تھی۔ نماز مکمل کی، سلام پھیرنے کے ساتھ ہی جائے نماز کا رخ درست کیا اور دوبارہ نماز ادا کی، ہر چند کہ ؎

ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں

اس کے بعد مختلف درود و اذکار کا سلسلہ شروع ہوا۔ گیارہ بجے مرد حضرات مسجد نمرہ چلے گئے۔ ہم خواتین نے خیمے میں ہی نماز ادا کی، وہ جو حج کی کتابوں میں پڑھتے آئے تھے کہ وہاں اگر آپ مفتی، معلم یا عالم بھی ہیں، تو بحث میں نہ الجھیے کہ یہ وقت باتوں میں ضائع کرنے کے لیے نہیں ہے، لیکن پھر بھی وہاں کئی خواتین زور شور سے خود کو درست اور دوسروں کو کوتاہ فہم ثابت کرنے میں مصروف تھیں، نماز ظہر کے دوران اسی بحث و مباحثہ کی تکرار کانوں کے پردوں سے ٹکراتی رہی۔ ظہر سے مغرب تک کا وقت انتہائی اہم بلکہ وہاں گزرتا ایک ایک لمحہ اہم ترین، کہ وہاں کا ہر لمحہ ان مول اور بے شک نصیب والوں کو ہی ملتا ہے۔ ان لمحات کو امر اسی طرح کیا جا سکتا ہے کہ خشوع و خضوع کے ساتھ رب ذوالجلال کے سامنے گڑگڑا کر گناہوں سے معافی طلب کی جائے۔ اب میں نے اپنی ڈائری اور دعاؤں کی کتاب کھولی، اس میں عرفات میں کی جانے والی دعائیں درج تھیں۔

تلبیہ وقفے وقفے سے پڑھتے ر ہیں، درود شریف، کلمہ طیبہ، آیت الکرسی، کلمہ سوم، کلمہ چہارم، سورۃ اخلاص، دعائے حضرت آدمؑ ؑ ، دعائے حضرت یونسؑ ، اور مختلف دعائیں اور دیگر اذکار، ایک ایک یا تین تین سو مرتبہ کبھی کھڑے ہو کر کبھی بیٹھ کر اور کبھی گھڑی دو گھڑی لیٹ کر، کبھی خیمے کے اندر کبھی خیمے سے باہر۔

اس دوران یہ تجربہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ا پنے مہمانوں پر کتنا مہربان ہے، ہمارے ہاں ایک سے دوسرا مہمان آ جائے تو ہم اس رحمت کو زحمت سمجھنے میں لمحہ بھر نہیں لگاتے اور وہاں یہ عالم کہ خیمے میں جو داخل ہو رہا ہے اس نے احرام کی چادر میں درجنوں لسی، جوس کے پیکٹ اٹھائے ہوئے ہیں اور لا کر سب کے سامنے ڈھیر کر رہا ہے، ایک مرتبہ ہم بھی باہر نکلے اور جوس کا کریٹ لے آئے، جس میں ستائیس پیکٹ تھے، جو ٹرالی کی وجہ سے منیٰ تک ہمارے ساتھ رہے۔ خاص طور سے جمرات جا تے ہوئے دوچار پیکٹ تھیلے میں ڈال لیتے اور جو کوئی گرمی اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہونے لگتا، اسے پیش کر دیتے۔

ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے کہ شاہ فہد کی جانب سے لنچ بکس خیموں میں پہنچنا شروع ہو گئے، سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے، منتظم نے ہر ایک کو لنچ بکس دیا ہم تینوں کے شوہر نماز کے لیے مسجد نمرہ گئے ہوئے تھے۔ان کے متعلق بتایا تو تین لنچ بکس اور دے گئے۔ کھانا انتہائی عمدہ تھا، بہترین چاول اور آدھا چکن روسٹ، ہر لنچ بکس میں تھا۔ پیٹ بھر کر کھایا، اور ربِ کریم کا شکر ادا کیا کہ اس ریگزار میں کیسی کیسی نعمتیں ہم گنہگاروں کو عنایت کر رہا ہے۔ سب نے سعودی حکومت اور انتظامیہ کی تعریف کی۔ اگر سوچا جائے کہ چھبیس لاکھ مہمانوں کے لیے کھانا پکانا اور پھر اسے اس طرح تقسیم بھی کرنا کہ کوئی بھوکا نہ رہ جائے، تو بظاہر نا ممکن نظر آتا ہے لیکن یہ اہتمام آج سے نہیں صدیوں پرانی روایت کا ایک تسلسل ہے۔

’’ رفادہ کا انتظام اس طرح ہوتا تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں قریش کچھ مال اپنی آمدن سے نکال کر قصی بن کلاب کو دے دیتے تھے۔ یہ اس سے حاجیوں کے لیے کھانا پکواتے اور جو حاجی غیر مستطیع ہوتے یا ان کے پاس زاد راہ نہ بچا ہوتا، وہ اس کھانے کو کھاتے، قصی نے یہ چندہ ان پر فرض کر دیا تھا اور کہا تھا، اے قریش تم اللہ کے ہمسایہ اور اس کے گھر اور حرم والے ہو، حاجی اللہ کے مہمان اور بیت اللہ کے زائر ہیں اس لیے وہ اس بات کے زیاد ہ مستحق ہیں کہ عزت کے ساتھ ان کی مہمان داری کی جائے، تمھیں چاہیے کہ زمانہ حج میں ان کے لیے کھانے اور پینے کا انتظام کرو۔ انھوں نے قصی کا کہنا مانا اور اس کے لیے ہر سال اپنے ما ل میں سے کچھ حصہ، علیحدہ کر کے قصی کو دے دیتے تھے۔ وہ اس سے منیٰ کے قیام کے ایام میں حاجیوں کے لیے کھانا پکواتا۔ یہ دستور اس کی قوم میں تمام عہد جاہلیت میں برابر قائم رہا اور اسلام کے بعد عہد اسلام میں بھی جاری رہا، چنانچہ آج تک جاری ہے اور یہ وہ کھانا ہے جو تمام زمانۂ حج میں حکومت وقت حاجیوں کے لیے ہر سال منیٰ میں پکواتی ہے ‘‘ ۔۔۔ ( تاریخ طبری، جلد اول، سیرت النبی، علامہ جریر طبری، صفحہ ۴۳، ۴۴ )

حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے جاہلیت کی تمام رسمیں ختم کر نے کا اعلان کیا لیکن رفادۃ اور سقایۃ کو قائم رکھا کہ ہر اچھا عمل اسلام ہے۔

میدانِ عرفات میں کمیٹی برائے جائزہ خدمات جنوب ایشیا حجاج کارپوریشن کی جانب سے ایک سوالنامہ دیا گیا جسے بعد میں فرصت سے دیکھا تو وہ کچھ اس طرح سے تھا، کیا معلم کے نمائندے نے آپ کو مناسک حج کے بارے میں بتایا ہے۔ کیا معلم کے نمائندے، مکہ سے منیٰ تک، منیٰ سے عرفات تک، عرفات سے مزدلفہ تک، مزدلفہ سے منیٰ تک موجود تھے، کیا آپ نے معلم یا اس کے نمائندے سے خدمات کے بارے میں کوئی شکایت کی ہے ۔۔۔ اب انھیں ان تمام باتوں کا صرف ایک ہی جواب دیا جا سکتا ہے کہ معلم کے نمائندے سے بس میں صرف اس وقت ملاقات ہوتی ہے جب اس نے ہمارے پاسپورٹ لینے یا دینے ہوتے ہیں، ہاں اس سوال نامہ میں صرف ایک سوال کا جواب مکمل اثبات میں تھا اور وہ یہ کہ کیا آپ کو عرفات میں کھانا دیا گیا، اور جیسا کہ میں بتا چکی ہوں کہ کھانا اچھا تھا، گرم تھا، وافر تھا کہ ہم گنہگار اللہ کے مہمان تھے۔

میدان عرفات میں قیام حج کا بنیادی جزو ہے، ۹ ذی الحجہ کی دوپہر سے دس ذی الحجہ کی صبح صادق تک کچھ دیر قیام، خواہ وہ چند لمحوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو، حج کا رکن اعظم ہے، جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ یا کسی بھی شہر میں ہوں، حاجی کے لیے نو ذ ی الحجہ کو عرفات پہنچنا لا زم ہے، حاجی اگر بے ہوشی کی حالت میں ہو۔ عالم نزع میں ہو یا کتنا ہی شدید بیمار کیوں نہ ہو اسے ہر حالت میں یہاں پہنچایا جاتا ہے۔

ایمبولینس اور ڈاکٹر ہمہ وقت موجود، بلکہ ایک مکمل سفری ہسپتال قائم کر دیا جاتا ہے۔ یوم عرفہ کے موقع پر چھ حجاج کرام نے داعی اجل کو لبیک کہا، چونکہ انھوں نے عرفات میں وقوف کر لیا تھا اس لیے ان کا حج مکمل ہوا۔ زندگی اگر کروٹ نہ بدلے تو نظام ہستی کا قائم و دائم رہنا ممکن نہیں، میدان عرفات میں بھی اس روز یہ مژدہ سنا گیا کہ آج پانچ بچوں کی ولادت ہوئی، جن میں سے تین کا تعلق مصر سے، ایک کا تعلق فلسطین سے اور ایک کی نسبت نائیجیریا سے ہے۔ اس روز کم سن ترین حجن مصر کی دو روزہ بچی تھی جس نے اپنی ماں کے ساتھ ایمبولنس میں وقوف کیا۔ معمر ترین حاجی کا تعلق سعودیہ سے تھا، یہ سو سالہ حاجی اپنی بیٹی کی طرف سے حج کر رہا تھا۔

تمام دن موسم خوشگوار رہا، سورج آنکھ مچولی کھیلتا رہا، ظہر کی نماز کے بعد میں کھڑے ہو کر دعاؤں میں مشغول تھی کہ خیمے کی چھت پر ٹپ ٹپ کی آواز سنائی دی ۔۔۔ بارش ۔۔۔ ؟ نہیں، یہ ممکن نہیں، لیکن ٹپ ٹپ کی آواز نے تیزی سے خیمے سے نکلنے پر مجبور کر دیا، وظائف کا کتابچہ میرے ہاتھ میں تھا۔ باہر بوندا باندی ہو رہی تھی، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے، فضا میں مٹی کی مہک رچی تھی۔ میں نے جتنی دعائیں یاد تھیں، مانگ لیں۔ دوسرے لوگ بھی خیمے سے باہر آ چکے تھے۔ گریہ و زاری اور دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا، چند لمحوں بعد بارش ر کی، ہم سب اپنے خیموں میں واپس آ گئے۔ وقوف عرفہ کے دوران عرفات کا موسم خوشگوار رہا۔ کبھی کبھی دھوپ بھی نکل آتی تھی جس کے باعث درجہ حرارت ۲۱ سے ۳۵ تک رہا۔

اس حج پر مختلف ممالک کے سربراہان نے حج کی سعادت حاصل کی۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ پا کستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف، موجودہ سربراہ جنرل پرویز مشرف، انڈونیشیا کے صدر عبد الرحمن، سوڈان، ملائیشیا اور مالی کے صدور کے علاوہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ قابل ذکر ہیں، شاہ فہد، حج کے انتظامات کی بذاتِ خود نگرانی کے لیے موجود تھے، تمام دن سب ایک دوسرے کو مناسکِ حج کی تکمیل پر مبارک دیتے رہے اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔

نمازِ ظہر کے بعد سے دعاؤں کا سلسلہ زوروں پر تھا، اسی اثنا میں لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان ہوا، عصر کے وقت وہ تمام حضرات جنھوں نے مسجد نمرہ میں ظہر کے ساتھ نماز عصر ادا نہیں کی ہے، اول وقت میں نماز عصر ادا کر کے خیموں سے باہر کھلے میدان میں آ جائیں، خواتین بھی نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے اپنے خیموں سے باہر آ جائیں، امام صاحب اجتماعی دعا فرمائیں گے۔

عصر کے بعد مرد میدان میں چلے گئے اور خواتین خیموں سے باہر آ گئیں۔ امام صاحب نے دعا کا آغاز کیا، نہایت ہی سادہ اور عام فہم انداز میں انھوں نے دعا مانگنی شروع کی۔ ہم جو اتنے دنوں سے عربی میں دعائیں مانگ رہے تھے، سن رہے تھے، کچھ سمجھ میں آتی تھیں، کچھ نہیں بھی آتی تھیں اور جب خود اپنی زبان میں دعا مانگتے تو ایسے محسوس ہوتا جیسے مانگنا آتا ہی نہیں، خشوع نہ خضوع، سوز و گداز نہ گریہ و زاری، نہ گناہوں پر ندامت کا اظہار۔ عجب میکانکی انداز، الفاظ پر دسترس نہ زبان میں اثر۔ دعا مانگنے کے دوران جو ایک روحانی تعلق قائم ہونا چاہیے، وہ بھی مفقود۔ بس ایک ہوس ہوتی تھی کہ اللہ کے دربار میں حاضر ہیں تو دین و دنیا کی بہتری کے لیے سب کچھ مانگ لیں اور دعا کا اختتام یوں ہو جاتا، کہ اے اللہ تو سب دلوں کا حال جانتا ہے، جو کچھ تو ہمارے لیے بہتر جانتا ہے، ا سے قبول کر اور جو کچھ ہم اپنی نادانی کے باعث طلب نہیں کر سکے اور وہ ہمارے لیے بہتر ہے، وہ بھی ہمیں عطا کر ۔۔۔ ٹوٹی پھوٹی دعائیں مانگنے کے عادی ہم جیسے لوگوں کو جب کچھ یاد نہ ہوتا تو یہ ذمہ داری بھی خدا پر ڈال دیتے ہیں        ؎

بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے

وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال ا چھا ہے

ا ن حالات میں ایک ایسے امام صاحب جو ظاہر ہے کہ ہمیں نظر نہیں آتے تھے لیکن جن کی آواز ہم تک فضا میں تیرتی ہوئی پہنچتی تھی، جو عالمانہ، دانشورانہ گفتگو کے بجائے عام آدمی کی سطح پر اتر کر بات کرتے تھے۔

اس ایک شخص کی آواز میں کتنی ملائمت تھی، کتنی نرمی اور شائستگی تھی اور کس قدر گھن گرج، اور رعب و دبدبہ بھی، ا س کا اندازہ اسی شخص کو ہوسکتا ہے جس نے وقوف عرفات کے دوران اس اجتماعی دعا میں شرکت کی ہو، عصر سے مغرب تک کا وقت غالباً دو ڈھائی گھنٹے بنتا ہے، وہ دعا کرتے رہے، مجمع سے آمین کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ یہ دعا کس کس کے لیے تھی، اس میں امت مسلمہ کا ایک ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں اور امت مسلمہ ایک فرد واحد کی صورت میں محسوس ہوتی رہی، انھوں نے ہر ایک کے لیے دعا کی۔ کیا پاکستان، کیا کشمیر، کیا فلسطین، کیا سعودیہ، غرض ایک ایک کی سربلندی اور عافیت کے لیے دعا کی، مجمع آمین کی صداؤں سے گونجتا رہا۔ اس گونج میں سسکیاں، آہیں اور چیخیں سبھی کچھ شامل تھا، کوئی فرد ایسا نہ تھا جو زار و قطار رو نہ رہا ہو، انھوں نے خاص طور پر پاکستان اور سعودی عرب میں خشک سالی کے خطرات کے پیش نظر بارش کے لیے گڑگڑا کر دعا مانگی۔ امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کے لیے مغفرت چاہی۔

مجمع کیوں نہ مسحور ہو کر رہ جاتا کہ بار بار امام صاحب فرماتے کہ یقین رکھیں کہ آپ کا حج قبول ہوا، اس باری ء تعالیٰ پر یقین رکھیں جو آپ کی دعائیں قبول کر تا ہے، یقین کریں کہ آپ کی تمام دعائیں قبول ہو رہی ہیں۔ کیسی کیسی تسلی ہو رہی تھی، تذبذب کی کیفیت ختم ہو رہی تھی۔بتان وہم و گمان لا ا لہ اللہ۔ شکوک کی فضا نے دم توڑا اور امید بلکہ یقین کی مضبوط دیوار نے سب کو اپنے حصار میں لے لیا۔

انھوں نے کون کون سی دعا نہ مانگی اور کس کس کے لیے نہ مانگی، انھیں تو کوئی بھولا ہی نہیں۔ کیا انفرادی، کیا اجتماعی، انھوں نے تو سب کے لیے، سب کچھ مانگ لیا۔ وقفے وقفے سے وہ کہتے رہے کہ اب میں اجتماعی دعا ختم کرتا ہوں آپ اپنے اپنے طور پر جو دعا مانگنا چاہتے ہیں، مانگ لیں اور پھر وہ دو ایک جملوں میں دعا ختم کرنا چاہتے لیکن وہ دعا زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماورا ہو جاتی۔ وہ مانگتے جاتے اور ہم سب اس کے سحر میں گرفتار دل ہی دل میں ان کے شکر گزار، کہ ہمیں کہاں سلیقہ۔ انھوں نے کس مرحلے پر ہماری کیسی مدد کی، اللہ ہر کام کے لیے اپنے منتخب بندے بھیج دیتا ہے۔

وہ دعا مانگ رہے ہیں سبھی یک سو ہو کر اس جانب متوجہ ہیں۔ دعا کے دوران اچانک مجھے محسوس ہوتا ہے کہ زمین بلند ہو گئی ہے۔ کب بلند ہو ئی یہ نہیں پتا، صبح جب ہم آئے تھے تو ہمیں چڑھائی کا احساس نہ ہوا تھا، سیدھی سڑکیں تھیں سپاٹ راستے تھے۔ یہ ز مین غیر محسوس طریقے سے اس قدر بلند کیسے ہو گئی، اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ یہ آسمان ۔۔۔ یہ اتنا نزدیک کیسے آ گیا، یہ تو اس قدر قریب ہے کہ اگر میں مجمع کو نظر انداز کر دوں ۔۔۔ اگر کوئی میری اس حرکت کو پاگل پن تصور نہ کرے تو میں اسے چھو سکتی ہوں ۔۔۔ یا کم از کم میرا ہاتھ اس کے بالکل قریب پہنچ سکتا ہے۔ ۔۔۔ لیکن اگر زمین سیاچن جتنی اونچی بھی ہو جائے تو آسمان کو تب بھی نہیں چھو سکتے۔ آسمان تو پھر بھی سینکڑوں، ہزاروں میل دور ہی رہتا ہے، پر یہ آسمان تو میری دسترس میں ہے ۔۔۔ اور آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے موجود ہیں، وہ کیسے ہیں، غروب ہوتے سورج کا تو کہیں نام نہیں، لیکن ان بادلوں کی آؤٹ لائن کیسی سنہری ہے ۔۔۔ سنہری پینٹ سے ڈبل زیرو برش سے بنائی گئی باریک آؤٹ لائن ۔۔۔ دنیا کا کوئی مصور اپنی شاہکار تصویر میں بھی ایسے بادل پینٹ نہیں کر سکتا ۔۔۔ اس قدر خوبصورت بادل اتنی دلکشی، یہ آسمان اس دنیا کا نہیں اور یہ زمین ۔۔۔ یہ زمین بھی تو اس دنیا کی نہیں۔آسمان اس قدر نیچا ۔۔۔ میں کس کو جھنجھوڑ کر دکھاؤں کہ آسمان ہمارے سروں کے اتنا قریب ہے کہ یہ میری دسترس میں ہے ۔۔۔ میں اسے پکڑ سکتی ہوں۔ زمین اتنی بلند ہو گئی ہے کہ زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ صرف اتنا رہ گیا ہے کہ جس میں انسان سیدھا کھڑا ہو سکے۔ یا اللہ یہ زمین ۔۔۔ یہ آسمان، اس دنیا کا نہیں اور ۔۔۔ اور یہ موسم یہ فضا یہ کہاں اس دنیا میں پائی جا تی ہے، یہ موسم بھی یہاں کا نہیں یہ درخت جو صبح سے ہمارے گرد رقص کناں تھے، اس کا ایک ایک پتا کسی اور دنیا کے ہونے کی بشارت دے رہا ہے۔ اتنا خوبصورت موسم کاہے کو کبھی دیکھا تھا۔ یہ زمین، یہ آسمان، یہ موسم یہ سب کچھ یہاں کا نہیں یہ تو جنت کی سر زمین ہے۔ یہ جنت کا فلک ہے۔ یہ موسم جنت کا ہے۔ میرے مولا تو نے کتنی بڑی نعمت سے نوازا، لوگ کہتے ہیں ہم نے حج کے لیے جسمانی مشقت و اذیت سہی، مال و دولت اور وقت، جو سب سے قیمتی متاع ہے، وہ صرف کیا۔ اے اللہ اگر تیرے نزدیک میں نے اس حج کی خاطر ذرا سی بھی مشقت سہی ہے، تو وہ مشقت ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی، سب کچھ ہیچ ہے اس کے سامنے، جو نظارہ تو نے مجھے کرا دیا، یا اللہ تو نے مجھے اس دنیا میں جنت دکھا دی، مجھے اب کسی اور چیز کی طلب نہیں۔یہ یقین ہے گمان نہیں، اے اللہ تیری جنت اس سے زیادہ کیا حسین ہو گی، بہشت کا موسم اس موسم سے کیا خوب صورت ہو گا، میری نگاہ مسلسل آسمان کی جانب تھی اس کے فریفتہ کر دینے والے حسن نے مجھے اس طرح اپنے حصار میں لیا ہوا تھا کہ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ میرے گرد و پیش میں کیا ہو رہا ہے، اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ بادل جن کی آؤٹ لائن اور خوب صورت شیڈز بنانے پر میں مصور کو داد دیتے تھک نہ رہی تھی، وہاں سے نور کی برسات ہو رہی ہے اور کرنیں ترچھے انداز میں زمین تک آ رہی ہیں۔مجھے خیال آیا کہ جب ہمارے بچے ڈرائنگ کرتے ہیں یا ہمارے میگزین مذہبی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اس میں اسی طرح نور کی بارش ہوتے دکھاتے ہیں، لیکن یہ تو رب ذو الجلال کا حقیقی نور ہے، کیا اللہ کا ہم گنہگاروں سے براہ راست رابطہ قائم ہو رہا ہے، کیا زمین و آسمان کی حدیں اس نور کے ذریعے ختم ہو رہی ہیں    ؎

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم

اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں

مجھے البتہ اتنا ہوش تھا کہ اس وقتِ سعید میں جو کچھ مانگنا ہے، مانگ لوں کہ پھر یہ موقع زندگی میں نہ ملے گا، مجھے نہیں معلوم کہ میری نگاہ اس نور کی بارش سے کب ہٹی، کب تک یہ کرنیں زمین تک آتی رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں امام صاحب کی ہر دعا پر آمین کہتی رہی اور ساتھ ساتھ نہایت تیزی سے اپنی دعائیں بھی مانگتی رہی۔ میں وہاں موجود تھی، لیکن میں وہاں موجود نہ تھی۔ کیا یہ میرے ایمان کی کمزوری تھی کہ جب سب لوگ اس مبارک وقت میں کہ جو دوبارہ زندگی میں آئے کہ نہ آئے، رو رو کر اپنی مغفرت کی دعائیں مانگ رہے ہیں، دین و دنیا کی بھلائی طلب کر رہے ہیں، میرا دھیان کہاں سے کہاں چلا گیا تھا۔ میں پورے انہماک سے، اس توجہ اور اخلاص سے، جو دعا کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ دعا سن رہی تھی، مانگ رہی تھی۔ نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہے، میری توجہ کسی اور نے کسی اور جانب مبذول کرا دی تھی، شاید اسے ایمان کی کمزوری کہا جائے، لیکن میں اس قدر خوش، اس قدر مطمئن کبھی نہ تھی۔

امام صاحب نے دعا مکمل کی، سب نے آمین کہا اور اپنی اپنی دعاؤں میں مشغول ہو گئے اور میں ایک ایک کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر کہہ رہی تھی، یہ زمین اس دنیا کی نہیں یہ آسمان اس دنیا کا نہیں یہ زمین کتنی بلند ہے۔ آسمان کتنا قریب آ گیا ہے، میں اسے چھو سکتی ہوں، میں اسے پکڑسکتی ہوں، آسمان میری دسترس میں ہے۔ یہ موسم یہ فضا یہ ماحول، یہ درخت یہ پتے، کچھ بھی تو اس دنیا کا نہیں، یہ جنت کی زمین ہے یہ جنت کا آسمان ہے۔ یہ موسم یہ فضا جنت کی ہے، میرے مولا نے سب کچھ یہیں دکھا دیا ہے۔ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

مجھے حفیظ یاد آئے۔حفیظ ہوشیار پوری نے کہا تھا

گر یہ دنیا ہے تو اے میرے خدا

کتنی دلکش تری جنت ہو گی

سب نے میری بات کی تائید کی۔ تائید اس لیے بھی کرنا پڑی کہ یوم عرفہ کی گرمی مشہور ہے۔ میدان عرفات میں قیامت کی گرمی ہوتی ہے۔ لوگ چھتریاں تانے وقوف کرتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ منیٰ آنے سے پہلے ہمارے ساتھی چھتریاں خرید کر لائے، کہ عرفات میں حشر کی گرمی ہوتی ہے، وہاں ان کی ضرورت ہو گی۔ انھوں نے مجھے بھی مشورہ دیا کہ چھتری ضرور لے لینا۔ مجھے چھتری پکڑنے کی عادت نہیں، پھر بھی ان کے زور دینے پر چھتری خرید لی، شاہد سے کہا کہ آپ بھی ایک چھتری لے لیں، لیکن وہ نہ مانے، کہ وہ کم سے کم اسباب اٹھانے، سنبھالنے کے قائل ہیں۔ ہمارے ساتھیوں نے جب یہ دیکھا کہ شاہد چھتری نہیں لائے تو کہنے لگے۔

’’ عرفات والے دن ہم انھیں اپنی چھتری میں نہیں آنے دیں گے، آپ بھی نہ آنے دیں، یہ ہماری کوئی بات نہیں مانتے۔‘‘

آج جب وقوف عرفات کا وقت آیا تو اس قدر سہانا کہ سارا دن بادل اٹھکیلیاں کرتے رہے، ہوا چلتی رہی اور امام صاحب جو بارش کی دعا کر کے ابھی فارغ ہوئے تھے۔ان آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ میدانِ عرفات میں ۲۲ سال بعد مغرب سے پہلے پہلے بادل اتنا ٹوٹ کے برسا کہ سب کچھ جل تھل ہو گیا، امام صاحب نے یقین دلایا تھا کہ آپ کا حج قبول ہوا، آپ کی دعائیں بارگاہ ایزدی میں ضرور قبول ہوں گی، تو یہ دعا کیسے فوری طور پر قبول ہوئی اور اس نے یہ نوید دی کہ باقی دعائیں بھی وقت آنے پر اپنے اپنے انداز میں انشا اللہ ضرور بار یاب ہوں گی۔ غالب کی تمام عمر یہ خواہش رہی           ؎

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

میرے لیے چند لمحوں کا یہ قیام عمر بھر کی سکونت سے بڑھ کر تھا۔ یہ قیام، یہ وقوف قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ شدید بارش کے بعد ایسی آندھی چلی کہ خیمے الٹ گئے۔ عرب کے ریگستانوں کی آندھی بہت خوفناک ہوتی ہے۔ ریت کے طوفان جب شہروں کا رخ کرتے ہیں تو بندہ کیا چیز ہے عمارتیں لرز جاتی ہیں۔ اڑتی ریت برچھیوں کی مانند آنکھوں ہی کو نہیں تمام جسم کو چھید ڈالتی ہے، لیکن اس آندھی میں ریت کا ایک ذرہ تک نہ اڑا، بارش کے باعث تمام ریت بیٹھ چکی تھی، آندھی کا زور تھما، دس ذی الحجہ کا چاند جو ذرا سا نامکمل تو تھا لیکن چاندنی بھر پور، وہ چاند بھی بے حد قریب تھا، ایسی نصیبوں والی رات میں میرا مولا میری رات کو مہتاب سے کیسے محروم رکھ سکتا تھا۔ آج تو اس نے اپنے جلووں کی انتہا کر دی تھی۔ کیا ہم میں اتنا ادراک ہے کہ ہم اس کی ایک ایک تخلیق میں اس کا جلوہ دیکھ سکیں۔

اس چاند کا حسن بھی اور اس کی چاندنی بھی اس دنیا کی نہیں تھی کیا جنت میں بھی رات ہوتی ہے، اگر ہوتی ہے تو ایسی ہی حسین ہوتی ہو گی۔

وہ حاجی جو بس کے پہلے چکر میں جانے کے لیے بے تاب تھے، دعا کے اختتام کے ساتھ ہی بسوں میں جا بیٹھے تھے، کہ میدان عرفات میں مغرب کی نماز ادا نہیں کی جا تی بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نمازیں اکھٹی ادا کی جا تی ہیں، وہ بس میں بیٹھے اس کے چلنے کے منتظر تھے۔ اب رات کے نو بج رہے تھے، ڈرائیور مسافروں کو بسوں سے اترنے بھی نہ دے رہے تھے۔ وہ اندر حبس، گھٹن اور گرمی سے نڈھال ہو رہے تھے اور ہم باہر خدا کی صناعی کی داد دے رہے تھے۔

کافی دیر بعد بسیں روانہ ہوئیں، مکتب کے نمبر لگی بسیں آتیں اور اپنے مسافر اٹھا کر روانہ ہو جاتیں۔ کچھ انتظار کے بعد ہماری بس آتی دکھائی دی، سب نے اس میں سوارہونے کی کوشش کی، شاہد صاحب، عابد صاحب اور چند لوگ باہر رہ گئے۔ انھیں کہا گیا کہ آپ لوگ بس کی چھت پر سوار ہو جائیں، موسم ٹھنڈا تھا اور کھلی چھت پر سفر کرنا اور وہ بھی احرام کے ساتھ، آسان نہ تھا۔ بارش کے بعد شام سے فضا میں خنکی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ مرد حضرات بار بار اپنے احرام جسم کے ساتھ لپیٹ ر ہے تھے۔ بہر حال ان چند مسافروں نے کھلی فضا میں سفر کے مزے لوٹے اور خوش رہے۔

مزدلفہ پہنچتے پہنچتے ساڑھے گیارہ بج گئے۔ مکتب کی بسیں ہمیں اپنے مکتب سے بہت دور اتار کر چلی گئیں۔ رات کھلے آسمان تلے بسر کرنا تھی۔ خیمے دور ہوں یا نزدیک، کہیں بھی بسر کر لیتے، لیکن پھر خیال آیا کہ صبح اٹھ کر بھی تو اتنا سفر کرنا ہو گا، تو ابھی کیوں نہیں، مزدلفہ میں مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ ادا کی جاتی ہیں، دونوں نمازوں کے فرضوں کے درمیان سنتیں اور نوافل ادا نہیں کیے جاتے، پہلے مغرب کے فرض، ادا کیے جاتے ہیں، پھر عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد مغرب کی سنتیں، پھر عشاء کی سنتیں، وتر اور نوافل ادا کر لیے جاتے ہیں۔

دونوں نمازیں اکھٹی پڑھیں۔ چکن روسٹ اور چپس کے دو لنچ بکس کوئی چلتے چلتے پکڑا گیا تھا۔ وہ کھائے اور پھر عازم سفر ہوئے۔ آدھ گھنٹے کے بعد ہم اپنے خیموں کے قریب پہنچ گئے، سڑک پر بستر لگائے، ایک ساتھی کہنے لگے ’’خیموں میں چل کر کیوں نہیں سوتے‘‘

انھیں کہا ’’سنت یہی ہے اور حکم بھی‘‘

کہنے لگے ’’حضور کے زمانے میں اتنے انتظامات کہاں ہوتے تھے۔ کھلے آسمان تلے رات بسر کرنا مجبوری تھی، اب تو ایسا نہیں ہے پھر کھلے آسمان کے نیچے رات کیوں بسر کی جائے‘‘

شاہد نے پر زور مخالفت کی اور سب کو باہر کھلی سڑک پر دریاں بچھانے کے لیے کہا، میرا دل کافی آزردہ ہوا کہ ہم لوگ کس طرح ا پنی آسانی کے لیے تاویلات گھڑ لیتے ہیں۔

حالت احرام میں سونا کچھ مشکل یوں ہے کہ کوئی کپڑا چہرے کو نہ لگے، دن میں مزدلفہ میں رات عبادت میں گزارنے کی بات ہوتی رہی تھی، کہ کیا کچھ پڑھا جائے۔ مزدلفہ میں پڑھنے کے لیے دو قسم کے نوافل بتائے گئے تھے۔ ایک طریقہ تو یہ تھا کہ سو نفل دو دو رکعت کر کے اس طرح پڑھے جائیں کہ ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی جائے، دوسرا طریقہ یہ تھا کہ دو رکعت نماز نفل کی نیت کی جائے اور پہلی رکعت میں سو مرتبہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی جائے۔ میں نے دن میں ہی ارادہ کر لیا کہ یہی دو رکعتیں پڑھوں گی، رات کچھ دیر سوئے کہ اس رات کچھ دیر سونا بھی مسنون ہے۔

تمام رات لوگ سڑک سے گزرتے رہے۔ معلوم ہوا کہ کنکریاں مارنے کے لیے ابھی سے جمرات جا رہے ہیں کہ جمرات کے قریب پڑاؤ ڈالیں گے اور صبح جلد کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں گے۔

ہم صبح چار بجے اٹھے، وضو کے بعد شاہد نے تہجد کے نوافل ادا کرنے شروع کیے ان سے کچھ فاصلے پر ان کے پیچھے میں نے اپنے سوچے ہوئے دو نوافل کی نیت کر لی، ارد گرد لوگ سو رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں قریب سے گزر رہے ہیں، شور و ہنگامہ کی کیفیت تو نہیں لیکن سکوت اور خاموش فضا بھی نہیں۔

میری بد قسمتی کہ نماز میں جو سکون و طمانیت کا احساس ہونا چاہیے، وہ کم ہی میسر آیا ہے۔ اکثر شکوک کے سنپولیے نماز کا مزا کرکرا کر کے رکھ دیتے ہیں ۔۔۔ دعائے قنوت ۔۔۔ پڑھی یا نہیں ؟ اب اس نماز میں سو سو مرتبہ کا حساب رکھنا ہو گا، اللہ سے دعا کر کے نماز شروع کی، اس نماز میں سو مرتبہ آیت الکرسی اور سو مرتبہ سورہ اخلاص اتنے خلوص اور فریفتگی سے پڑھی گئی کہ اپنا ہی جی خوش ہو گیا، اس نماز میں جو سکون، طمانیت، لذت اور یک سوئی نصیب ہوئی، شاید زندگی کی کسی نماز میں نہیں۔ یہاں ایک بات کا اعتراف کہیں یا اقرا ر، ضروری سمجھتی ہوں۔ میں اسلام آباد سے ۳۳ دانوں والی تسبیح لے کر چلی تھی، سو دانوں والی تسبیح کی ضرورت محسوس ہوئی، مدینے سے بٹن والی مکینیکل تسبیح خرید لی کہ اس پر دس ہزار (۹۹۹۹) کا شمار کیا جا سکتا ہے، میرا ارادہ تھا کہ قیام مکہ کے دوران کم از کم پچاس ہزار یا ستر ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ ضرور پڑھوں گی، تو اس سے مجھے گننے میں آسانی ہو جائے گی، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے یہ ورد چار دن میں مکمل کر لیا، مزدلفہ میں عبادت کے لیے سو سو مرتبہ آیت الکرسی اور سورہ اخلاص کا شمار ضروری تھا۔ کاؤنٹنگ والی تسبیح کسی خرابی کے باعث اپنا اعتماد کھو چکی تھی اور دوران نماز گنتی دیکھنا ممکن بھی نہ تھا۔ بہت تلاش کیا لیکن مزدلفہ اور منیٰ میں کہیں کوئی تسبیح فروخت کرتا نظر نہ آیا۔ اپنے ساتھیوں سے نا چاہتے ہوئے بھی سوال کیا، لیکن کسی کے پاس زائد تسبیح نہ تھی۔ میں نے عرفہ کی رات نوافل کے آغاز سے پہلے شاہد سے کہا ’’کسی سے تسبیح لے دیں ‘‘

انھوں نے حسبِ معمول انکار کیا ۔۔۔ ’’ تسبیح پکڑ کر نماز کیسے پڑھو گی، انگلیوں کی پوروں پر گنو، ہر پور پر تین تین مرتبہ گنو گی تو نوے مرتبہ ہو جائیں گے دس مرتبہ اور گن لینا تو سو ہو جائیں گے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’میرے لیے یہ شمار مشکل ہو جائے گا، یہ سامنے دانش جتنا بچہ ابھی ابھی جاگ اٹھا ہے، آپ نہیں پوچھتے تو میں اس سے پوچھ لیتی ہوں۔‘‘

تنگ آ کر انھوں نے اس سے کہا ’’بیٹا اگر تمہارے پاس تسبیح ہو تو دے دو، آدھ گھنٹے میں واپس کر دیں گے۔‘‘

اس نے فوراً تسبیح دے دی اور جیسا کہ میں کہہ چکی ہوں میں نے نماز ادا کی۔

دوسرے روز جب ہم رمی کے لیے گئے تو کافی بھیڑ تھی، لیکن تھوڑے تھوڑے فاصلے کے بعد کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع مل جاتا تھا، ایسا ہی کوئی لمحہ تھا سامنے کھلی جگہ تھی ایک جانب بڑا سا ٹرالر کھڑا تھا جس میں خادم ٹوٹی ہوئی چپلیں، عینکیں، چھتریاں اور نہ جانے کیا کیا اٹھا کر ڈال ر ہے تھے اور نہایت تیزی سے راستہ صاف کر رہے تھے۔

میں زیر لب دعائیں پڑھ رہی تھی اور یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ اچانک شاہد نے اپنا بازو میرے آگے کر کے میرا بڑھتا ہوا قدم روک لیا۔ جیسے ہی میں نے اپنا اٹھا ہوا پاؤں پیچھے کیا مجھے سبز رنگ کی تسبیح زمین پر پڑی ہوئی نظر آئی۔ میں نے شاہد کی طرف دیکھا، انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا اٹھا لو، میں جانتی تھی کے حدود حرم میں کسی بھی گری پڑی چیز کا اٹھانا ممنوع ہے۔ ہر چند کہ لمحہ بھر بعد اس تسبیح نے بھی ٹرالر کے پیٹ میں پہنچ جا نا تھا، ڈرتے ڈرتے میں نے وہ تسبیح اٹھا لی، وہ بالکل نئی تسبیح یقیناً ان چھوئی تھی اور اللہ میا ں نے میرے لیے بھیجی تھی۔ گناہ کا اعتراف ندامت اور شرمندگی سے کیا جاتا ہے لیکن میں اس عمل کے لیے اپنے دل میں پیار ہی پیار محسوس کرتی ہوں اور یہ تسبیح مجھے کتنی عزیز ہے اس کا کیا مذکور۔

بات ہو رہی تھی مزدلفہ میں نوافل کی، تہجد کے نوافل ادا کر رہی تھی کہ فجر کی اذان کا وقت ہو گیا، جہاں شاہد اکیلے نفل ادا کر رہے تھے وہاں دیکھتے ہی دیکھتے ایک جماعت کھڑی ہو گئی، بے شمار مسافروں نے وہاں نماز ادا کی، دعاؤں اور ذکرو اذکار سے فارغ ہو کر ہم سب خیمے میں آ گئے اور دن کا پروگرام طے کرنے لگے۔

ہمارے ساتھیوں نے حکومت سعودیہ کی جانب سے منتخب کردہ بنک میں قربانی کی رقم جمع کرا د ی تھی، شاہد کا اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے کا ارادہ تھا۔ جمرات کے لیے سب ساتھ نکلے، ہمارا یہ ارادہ تھا کہ جمرات پہ کنکریاں مار کر واپس قربان گاہ آئیں گے، جانور خریدیں گے، قربانی کریں گے پھر حلق کروا کے اپنے خیمے میں آ کر احرام کھول دیں گے اور لباس تبدیل کر کے دو بارہ اپنے سفر کا آغاز کریں گے۔ ہماری نیت آج ہی طواف زیارت بھی کرنے کی تھی۔

حجاج کرام کے قافلے لہر در لہر ایک دریا کی صورت جمرات کی طرف رواں تھے۔اس میں ہمارا چھ افراد پر مشتمل قافلہ بھی اپنی جد و جہد میں مصروف تھا، جس کے دو نفوس نے رمی سے فارغ ہو کراس ہجوم کو چیرتے ہوئے واپس مزدلفہ میں قربان گاہ بھی جانا تھا۔ حسب توقع جمرات پہنچنے میں کافی وقت لگا، کیونکہ ہمارا خیمہ منیٰ سے کہیں آگے مزدلفہ میں تھا۔ ابھی جمرات سے کچھ فا صلے پر ہی تھے کہ راستے میں سعودی بنک کے لگائے گئے سٹال سے اعلان نشر ہو رہا تھا، قربانی کے لیے ۳۷۵ ریال جمع کرائیے۔ ایک ساتھی نے کہا ’’ شاہد صاحب آج بھی پیسے جمع ہو رہے ہیں۔‘‘

وہ تو یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ شاہد چند قدم چلے، پھر رک گئے، کہنے لگے ’’میرا پختہ ارادہ تھا کہ قربانی اپنے ہاتھ سے کروں مگر اس صورت میں آج صرف قربانی ہی بمشکل کر سکیں گے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے کی گئی قربانی کا گوشت مختلف ممالک کے مہاجرین ومسا کین کو عطیہ کر دیا جاتا ہے اور کھالیں کام آتی ہیں، جب کہ اپنے ہاتھ سے ذبح کیے گئے جانور کو حاجی ذبح کر کے وہیں چھوڑ آتا ہے، مکہ کے قصائی اسے صاف کر کے ہوٹل والوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں یا قربان شدہ جانور کچرے میں چلا جاتا ہے۔ اس لیے کیوں نہ ہم بھی سعودی حکومت کی سہولت سے فائدہ اٹھا ہی لیں۔ ‘‘

میں خاموش رہی کہ وہ خود فیصلہ کریں، مجھے معلوم تھا کہ اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا ان کی بڑی خواہش ہے۔ اس لیے مکمل فیصلہ بھی وہی کریں تو بہتر ہے۔ انھوں نے چند لمحے سوچا اور پیسے بنک میں جمع کرا دیے۔ ان سے قربانی کا وقت پو چھا تو انھوں نے کہا ’’گیارہ بجے‘‘ پھر کہا ’’آپ کے رمی سے فارغ ہونے تک قربانی ہو جائے گی۔‘‘

شاہد کو افسوس تھا کہ میں جو نیّت کر کے آیا تھا وہ کسی بھی سوچ یا سبب کے باعث پوری نہ ہو سکی، مجھے بھی اس بات کا احساس تھا، اگر وہ واپس آ کر قربانی کرنا چاہتے تو میں انھیں کبھی نہ روکتی، وہ اسی روز طواف زیارت کے لیے آنا چاہتے، میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آمادہ ہو جاتی۔

بہر حال قربانی کی طرف سے مطمئن ہو کر ہم نے اپنا سفر جاری رکھا، اس اثنا میں ہمارے ساتھی کہیں دور نکل گئے تھے۔ جمرات ابھی کوئی فرلانگ بھر آگے تھا۔ بلڈنگ کی چھت پر بیٹھے شرطے لاؤڈسپیکر پر اعلان کرتے کہ آگے بھیڑ ہے، مجمع آگے نہ بڑھے، اردو، انگریزی اور عربی میں کیے گئے اس اعلان کے نتیجے میں مجمع پندرہ پندرہ منٹ ایک ہی جگہ کھڑا رہتا۔ پھر وہ چلنے کی اجازت دیتے، چند ایک قدم چلنے کے بعد وہ پھر ہجوم کے باعث رک جانے کو کہتے اور مجمع ساکت ہو جاتا، دس پندرہ منٹ بعد پھر اجازت دی جاتی، یہ فرلانگ بھر کا فاصلہ طے کرنے میں خاصا وقت لگا۔

ایک بزرگ کی حالت بگڑتے دیکھی، رنگ کیسے پیلا پڑتا ہے، شاید پہلی مرتبہ دیکھا، میرے پاس عرفات سے ملنے والے جوس کے پیکٹ تھے، میں نے ایک پیکٹ ان کی طرف بڑھایا، کسی اور نے پکڑا، میرا خیال تھا کہ ان بزرگ کو دینے کے لیے لیا ہے، لیکن ایسا نہ ہوا شاید وہ خود زیادہ پیاسے ہو رہے تھے۔ اس دوران شاہد کے منہ سے بار بار ایک ہی جملہ نکلتا تھا ’’ کیا منظم ہجوم ہے، لاکھوں کا مجمع اور اتنا منظم کہ ایک اشارے پر رکتا اور دوسرے پر چل پڑتا ہے۔‘‘

میں نے انھیں کہا ’’بار بار ایسا نہ کہیں، کہیں اپنی ہی نظر نہ لگ جائے‘‘۔

لیکن دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ ضرور سب سے آگے شرطے ہاتھوں کی زنجیر بنائے چل رہے ہوں گے وہ رکتے ہوں گے تو مجمع بھی رکنے پر مجبور ہو جاتا ہو گا، ورنہ صرف ایک آواز سے لاکھوں کا مجمع کہاں قابو میں رکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ میرا خیال خام ہی تھا مجمع واقعی با شعور تھا۔

پہلا جمرہ، مسجد خیف کے نزدیک ہے، یعنی جمرہ اولیٰ، دوسرا جمرہ اس سے کچھ فاصلے پر ہے اور جمرہ وسطیٰ کہلاتا ہے، تیسرا منیٰ کی آخری حدود پر ہے اور اسے جمرہ عقبیٰ کہتے ہیں، اور آج یعنی دس ذی الحجہ کو ہمیں صرف اسی کو کنکریاں مارنی ہیں۔

اس واقعے کی یاد میں ہم یہ عمل دہراتے ہیں جب حضرت ابراہیمؑ کو شیطان نے انسانی روپ میں حضرت اسماعیلؑ کی قربانی سے بہکانے کی کوشش ان تین مقامات پر کی تو آپؑ نے اسے کنکریاں مار کر بھگایا تھا، کاش کہ ہم اپنے نفس کے شیطان کے ساتھ بھی یہی سلوک کر سکتے، اتنے میں ہم بڑے شیطان تک پہنچ گئے۔

یہاں پہنچ کر تلبیہ کہنا بند کر دیا جاتا ہے، دیگر ذکرو اذکار اور درود و وظائف جاری رہتے ہیں۔ کنکریاں رات مزدلفہ سے ہی چن لی تھیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ آگے سے ہو کر کنکریاں مارنا آسان ہے، خیر آسان تو اتنا نہ تھا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے جمرات کے بالکل ساتھ لگ کر بسم ا للہ اللہ اکبر کہہ کر کنکریاں ماریں، جو لوگ ذرا فاصلے سے یہ عمل کر رہے تھے ان کی کنکریاں جمرہ عقبیٰ کو لگنے کے بجائے حاجیوں کو لگ رہی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے، بھائیو ہمیں نہ مارو شیطان کو مارو۔

کنکریاں مار کر باہر نکلنا چاہا تو ایک ایرانی صاحب خواتین کے ہمراہ بہت تیزی سے باہر نکلے اور باہر بھی پیچھے کی طرف سے نکلنا چاہا، جس کے باعث مجمع کا نظم و ضبط کچھ بگڑا، لیکن چند ایک لمحوں کے لیے۔ اگر انسان کسی ضابطے میں رہے اور ذرا دھیان کر لے تو کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ایک بڑا مرحلہ نہایت خوش اسلوبی سے طے ہوا۔

اب کچھ لوگ ویگن سٹاپ کی طرف اور کچھ ہماری طرح پیدل راستے پر گامزن ہوئے۔ اب ہمارا سفر مکہ کی جا نب ہے، تمتع اور قران والے کے لیے واجب ہے کہ حلق کروانے سے پہلے قربانی کا فریضہ ادا کر لیا گیا ہو، اور حج افراد والوں کے لیے مستحب ہے، ہرچند کہ بنک والوں نے تسلی دے دی تھی کہ آپ کے جمرات پہنچ کر شیطان کو کنکریاں مارنے تک قربانی ہو جائے گی، ہم نے اپنی تسلی کے لیے کچھ انتظار کرنا مناسب سمجھا اور یہ وقت فاصلہ طے کرتے ہوئے گزرا۔ اب ہم مکہ جانے والے شیڈز میں پہنچ چکے تھے۔ شاہد کی نگاہیں کسی حجام کی متلاشی تھیں جن کی آج چاندی تھی، کہیں کہیں کو ئی سر منڈواتا نظر آتا، شاہد ان کے پاس جاتے، لیکن پتہ چلتا وہ حجام نہ ہوتے۔ کہیں کوئی بات نہ بنی، ہم آگے چلتے گئے۔

ایک صاحب چار پانچ اصحاب کے نرغے میں اس عمل میں مصروف نظر آئے۔ شاہد نے کہا ’’نائی مل گیا ہے اب میرا کام ہو جائے گا۔‘‘

وہ تیزی سے ان کی طرف گئے، میں کچھ فاصلے سے دیکھ ر ہی تھی، شاہد نے ان صاحب سے بات کی، انھوں نے اپنے ہاتھ والی حجامت مکمل کی اور پھر شاہد کی حجامت بنانا شروع کی۔ شاہد منٹوں میں حلق سے فارغ ہو کر آ گئے۔

کہنے لگے ’’جب میں نے انھیں کہا کہ میری حجامت بھی بنا دیں تو جواب ملا میں صرف اپنے دوستوں کی حجامت کر رہا ہوں۔میں نے پوچھا، کیا میں آپ کا دشمن ہوں ؟ وہ صاحب زندہ دل شخص تھے۔انھوں نے اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر میری حجامت بنا دی۔ جب میں نے ہدیہ نذر کرنا چاہا تو ان کے دوست ہنس پڑے کہ جناب یہ مدراس کے بہت بڑے سیٹھ ہیں، انھیں ریالوں کی کیا پروا، چنانچہ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور آ گیا۔‘‘

اب میں بھی اپنے بالوں کی ایک لٹ کٹوا کر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوئی، ایک دوسرے کو مبارک باد دی کہ یہ مرحلہ بھی طے ہوا۔ ایک نئے عزم کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔

راستے میں کھڑے ٹرالر لسی اور جوس کے پیکٹ لوگوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ایک آد ھ مرتبہ کوئی ہمیں بھی دے گیا، آگے بڑھے تو بہت سے لوگوں کے پاس کنگ سائز لنچ بکس دیکھے۔ ایک ایک نہیں کئی کئی، کچھ لوگ بیٹھے کھا رہے ہیں، چکن روسٹ، بریانی، مالٹا، جوس اور نہ جانے کیا کیا، اس ایک لنچ بکس کے پیٹ میں سمایا ہوا ہے۔

میں نے شاہد سے کہا۔ ’’ یہ تو لگژری لنچ بکس ہیں، ہر ایک کے پاس ہے لیکن بانٹتا کوئی نظر نہیں آتا۔‘‘

شاہد کہتے ہیں۔’’ہمیں بھی مل جاتا تو اچھا تھا اب یہاں سے جا کر اتنے کام ہیں کہ ہوٹل جا کر کھانا کھانے کا موقع شاید نہ ملے، جب کہ صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’ جس پر ہمارا نام لکھا ہو گا وہ خود چل کر ہمارے پاس آ جائے گا۔‘‘

اب ہم سرنگ پار کر کے حرمِ پاک والی سڑک پر آ گئے تھے اور سڑک کے کنارے کنارے چل رہے تھے، اچانک سامنے سے ایک بڑا سا ٹرک ہمارے قریب آیا، ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر بیٹھے صاحب نے کچھ اشارہ کیا، میں سمجھی کہ وہ اپنا ٹرک یہاں پارک کرنا چاہتا ہے اور ہم اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔میں سڑک چھوڑ کر فٹ پاتھ پر ہو گئی اور وہ اپنا ٹرک ہمارے نزدیک لے آیا، ٹرک کے پچھلے کھلے حصے میں بیٹھے ایک صاحب نے نہایت تیزی سے ایک پلاسٹک بیگ میرے اور ایک شاہد کے ہاتھ میں تھمایا اور باقی حاجیوں کی طرف دیکھے بنا، اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ شاہد نے کہا ’’ واقعی جس دانے پر ہماری مہر تھی وہ خود چل کر ہمارے پاس آ گیا۔‘‘

حرمِ پاک پہنچے تو ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی، سوچا کہ اب بلڈنگ جا کر نہا دھو کر نماز پڑھ کر ہی حرمِ پاک آئیں گے۔ طوافِ زیارت احرام میں نہیں بلکہ عام لباس میں کرنا چاہیے۔

ہم اپنی رہائش گاہ پہنچے۔ خیال تھا کہ ہمارے ساتھی جو ہم سے کافی آگے نکل چکے تھے اور جن کا کچھ سفر بس میں بھی طے کرنے کا ارادہ تھا، ہم سے پہلے پہنچ چکے ہوں گے، لیکن استقبالیہ سے معلوم ہوا کہ ابھی کوئی نہیں پہنچا، چابی لی کمرے میں آئے۔شاہد نہانے چلے گئے، میں اس پلاسٹک بیگ کی طرف متوجہ ہوئی، جو ابھی کچھ دیر پہلے ہمیں ملا تھا، ا یک ڈبے میں آدھا چکن روسٹ، بسکٹ کا ایک بڑا رول، برگر کا ایک پیکٹ، خشک خوبانی، تلی ہوئی مونگ پھلی، کھجور، میں نے جلدی جلدی تھوڑا ساکھایا، اتنے میں شاہد غسل سے فارغ ہو گئے۔ انھوں نے نماز کی نیت کی اور میں نہانے کے لیے چلی گئی۔

’’ عید ‘ ‘کے کپڑے تو ہم منیٰ میں ہی چھوڑ آئے تھے کیونکہ ہمارا ارادہ تھا کہ خود قربانی کر کے حلق کے بعد اپنے خیمے میں جا کر احرام کھول کر نہا کر نیا لباس تبدیل کر کے طواف زیارت کے لیے جائیں گے، اب چونکہ ہمارے پروگرام میں یہ تبدیلی ہو چکی تھی، اس لیے اب جو بھی کپڑے یہاں موجود تھے، وہی پہنے، شاہد نماز پڑھ کر ہٹے تو میں نے نماز کی اور شاہد نے کھانے کی نیّت کی، جیسے ہی نماز ختم ہوئی، ہم تیزی سے حرمِ پاک کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ نماز عصر سے پہلے طواف زیارت سے فارغ ہو جائیں۔

خانہ کعبہ پہنچے خیال تھا کہ چھبیس لاکھ کا مجمع، سبھی چاہیں گے کہ آج ہی طواف زیارت کا فرض ادا کر لیا جائے۔ ہم ذہنی طور پر تیار تھے کہ آج کا نقشہ ہی کچھ اور ہو گا، ہم نے اب تک جتنے طواف کیے تھے ہمیشہ کعبہ کے ساتھ ساتھ ہی کیے تھے۔آج بھی ارادہ نیچے ہی طواف کرنے کا تھا اور جب ہم نے طواف شروع کیا نہایت اطمینان کے ساتھ، وہی معمول کا ہجوم، بلکہ اس سے بھی کم، بڑے سکون کے ساتھ ساڑھے پانچ چکر کیے تھے کہ عصر کی اذان ہو گئی۔

شاہد نے کہا۔’’اب سنتیں پڑھ لیتے ہیں ‘‘

میں نے کہا۔’’ آج سنتیں چھوڑ دیتے ہیں اور طواف مکمل کر لیتے ہیں ‘‘

لیکن شاہد کا کہنا تھا۔ ’’ جب ہم نے پہلے کبھی سنتیں نہیں چھوڑیں تو آج کیوں ؟‘‘

خیر میں سنتیں ادا کرنے کے لیے خواتین کی طرف آئی اور شاہد مردوں میں جا کھڑے ہوئے، ابھی صفیں بھی سیدھی نہ ہو ئی تھیں کہ ایک زبردست ریلے نے سب کچھ تہ و بالا کر دیا، کہاں کی نماز وہاں تو کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا، روز تو اذان کے بعد بمشکل سنت ادا کی جاتی تھی کہ امام صاحب فرض شروع کرا دیتے اور آج کافی وقفے کے بعد جماعت ہوئی۔ فرض، کچھ سکون سے ادا کیے گئے، میں سوچتی رہی کہ اگر آج ہم سنت پڑھنے کے لیے نہ رکتے تو ہمارا طوافِ زیارت نمازِ عصر کی جماعت سے پہلے مکمل ہو جاتا۔

شاہد کو تلاش کرنا مشکل تھا۔ میں نے اپنا ڈیڑھ شوط مکمل کیا، چونکہ نماز عصر کے بعد نفل نہیں پڑھے جا سکتے، اس لیے میں طواف کے بعد مطاف سے نکل آئی لیکن اتنی آسانی سے نہیں۔ ازدحام سامنے کی طرف زور شور سے جا رہا ہو اور درمیان سے کوئی تنہا نکلنا چاہے تو اس کا کیا حشر ہو گا، اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں اس ہجوم سے صحیح سلامت باہر نکل آئی، شاہد کو دیکھنا چاہا، جو ممکن نظر نہ آیا، اس لیے اپنے ملاقات کے مقام پر آئی، یعنی جہاں کپڑے کا تھیلا رکھا تھا۔ وہاں پہنچی تو تھیلا نظر نہ آیا، مجھے خیال ہوا کہ شاید دوسری سیڑھیوں کے پاس رکھا ہو، وہاں پہنچی، ادھر بھی کچھ نہ تھا۔ واپس اسی مقام پر آئی کہ جگہ تو وہی تھی پھر تھیلا کہاں گیا، خیال آیا کہ شاہد مجھ سے پہلے پہنچ چکے ہوں گے اور انھوں نے تھیلا اٹھا لیا ہو گا، مگر یہ ممکن نہیں، ابھی پریشان ہونا شروع نہیں ہوئی تھی کہ شاہد نظر آ گئے۔ معلوم ہوا کہ ہجوم کے پیش نظر صفائی کرنے والوں نے تھیلا کہیں کا کہیں پہنچا دیا تھا، جو شاہد جا کر لے آئے تھے۔

اب ہم سعی کے لیے روانہ ہوئے، پہلے دو چکر نیچے مکمل کیے۔ بھیڑ میں اضافہ ہوا تو اگلے تین چکر پہلی منزل پر کیے اور آخری دو چکر چھت پر۔ طواف و سعی اس قدر جلد مکمل ہوئی کہ یقین نہ آتا تھا، طواف کے پہلے ساڑھے پانچ چکر تو ہم نے پندرہ بیس منٹوں میں طے کر لیے تھے جب کہ اگلے ڈیڑھ چکروں نے کچھ وقت بھی لیا اور ہمیں جدا بھی کیا۔

ابھی مغرب کی نماز میں وقت باقی تھا۔ میں وہیں چھت کے ایک پر سکون گوشے میں سیڑھیوں کے پاس بیٹھ گئی اور دعاؤں میں مصروف ہوئی، آج کے دن بھی مجھے گوشۂ فراغت نصیب ہو گیا جو ایک نا ممکن بات نظر آتی ہے۔ سامنے طواف کرنے والوں کا ہجوم چیونٹی کی رفتار سے چل رہا ہے، چھت پر عام دنوں میں بھی طواف اتنا طویل ہوتا ہے کہ ایک گھنٹے سے بھی زائد وقت لگتا ہو گا، آج ا ن متوالوں کو نہ جانے کتنا وقت لگا ہو گا۔

مغرب کی اذان ہوئی ہم مروہ پہاڑی سے اتر کر نیچے آئے۔ میں نے شاہد سے کہا ’’مجھے یہ جگہ اوپری اوپری سی لگتی ہے، کچھ اپنائیت کا احساس نہیں ہو رہا۔ باب عبدالعزیز کے ساتھ جو انسیت پیدا ہو چکی ہے، وہ یہاں مفقود ہے، حالانکہ ہم پہلے بھی یہاں کئی مرتبہ آ چکے ہیں۔‘‘

صحن مسجد میں طواف کے نفل ادا کیے، مغرب کی نماز ادا کی تو اس نماز میں انتہائی سکون و طمانیت کا احساس ہوا، میں نے شکرانے کے نوافل ادا کرنے شروع کیے، وہی سر بلند گنبد، وہی در و دیوار وہی سنگ مر مر کے فرش جو لمحہ بھر پہلے اجنبی محسوس ہو رہے تھے اپنے اپنے سے لگنے لگے، میرا وہاں سے اٹھنے کو جی نہ چاہا۔ شاہد پہلے تو انتظار کرتے رہے پھر کہنے لگے، اب اٹھو، ہمیں ابھی منیٰ پہنچنا ہے، ابھی دو قدم ہی چلے ہوں گے کہ ایک نمازی نے مجھے دو سیب پکڑا دیے۔

صحن مسجد کافی حد تک خالی تھا، یعنی ابھی بیشتر حاجی حالت سفر میں تھے، ہم سڑک پر آ گئے، خیال تھا کہ چونکہ شاہد کے دونوں پیروں کی انگلیاں طواف کے آخری چکر میں زخمی ہو گئی تھیں اور سعی بھی اسی حالت میں کی تھی، اس لیے اب بس ویگن یا ٹیکسی کر لیتے ہیں۔ ایک ویگن ڈرائیور سے بات ہوئی اس نے کہا کہ جمرات سے پہلے ہی اتار دوں گا، بس والے نے بھی یہی کہا، جب کہ جمرات سے آگے منیٰ سے مزدلفہ کا سفر ہمیں زیادہ مشکل لگ رہا تھا۔ ہم دونوں خاموشی سے سرنگ کی طرف پیدل چل دیے۔

آہستہ روی سے سفر کا آغاز کیا، سرنگ پار کی، شیڈ زمیں جانے سے پہلے میں نے شاہد سے کہا ’’عشاء کی اذان کا وقت ہونے والا ہے، مجھے چند منٹ کی مہلت دے دیں، میں نماز پڑھ لوں۔‘‘

میں نماز خاص طور سے عشاء کی نماز اول وقت میں ادا کرنے کی عادی ہوں، نمازِ عشاء کے بعد کی تسبیحات راستے میں پڑھتی جاؤں گی۔ ان کا خیال تھا کہ راستے میں کہیں نہیں رکنا، خیمے تک مسلسل چلنا ہے، بڑی مشکل سے انھیں راضی کیا۔ عشاء کی نماز اسی مختصر سے باغیچہ میں ادا کی، جہاں آٹھ ذی الحجہ کو اشراق کے نوافل ادا کیے تھے، پھر سفر کا سلسلہ شروع کیا۔

مجھے احساس تھا کہ شاہد کے دونوں پاؤں کی انگلیاں زخمی ہیں، ان کے لیے قدم اٹھانا بھی مشکل ہو رہا ہو گا، لیکن وہ رکنا نہیں چاہتے کہ اگر کہیں سستانے بیٹھ گئے تو دوبارہ چلنا مشکل نہ ہو جائے، ہم راستے بھر مختلف ورد کرتے جا رہے تھے۔ کافی چلنے کے بعد ہم جمرات پہنچے۔

ہمیں منیٰ عبور کر کے مزدلفہ پہنچنا تھا۔ رات کے اس پہر راستہ چلنا اس لیے بھی دشوار ہو رہا تھا کہ ترکی، انڈونیشیا اور نہ جانے کہاں کہاں کے حاجیوں کے بڑے بڑے گروہ دن بھر کے آرام کے بعد اب منیٰ سے جمرات کنکریاں مارنے جا رہے تھے اور جو دن میں دیگر فرائض ادا کر چکے تھے وہ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو کر نہا دھو کر تازہ دم طواف زیارت کے لیے جا رہے تھے۔ دو ڈھائی سو افراد کا گروہ جب سامنے سے آتا تو ہمارا ان کے در میان سے نکلنا مشکل ہو جاتا، پھر منیٰ کے راستے کے تمام شیڈز حاجیوں سے بھرے پڑے تھے۔راستے میں انھوں نے اپنے بستر لگا رکھے تھے، ضروریات زندگی کا دوسرا سامان بھی ان کے ہمراہ تھا۔ ایک ترکی صاحب بڑے سے پتیلے میں کلیجی کی بوٹیاں بناتے نظر آئے۔ جگہ جگہ صفائی والے اور ان کے دیو ہیکل ٹرالر بھی موجود تھے اس قدر ہجوم میں بھی وہ اپنے فرائض سے غافل نہ تھے، مزدلفہ آ چکا تھا، راستے کھلے ہو چکے تھے، لیکن خیمے تک پہنچنے کے لیے ابھی کچھ مسافت طے کر نا تھی۔

میں نے شاہد سے کہا کہ کھانا جو راستے سے خریدا تھا، یہیں بیٹھ کر کھا لیتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے وہیں سڑک پر دستر خوان لگایا، یعنی جائے نماز بچھایا۔ اتنے میں ایک شخص لسی کے دو پیکٹ پکڑا گیا، کھانا کھاتے ہوئے میں نے شاہد کو نیم تاریکی، نیم روشنی میں اپنے پاؤں کے چھالے دکھائے۔ جو بن بن کر پھٹ چکے تھے، وہ کہنے لگے میرے پاؤں کی فکر کرتی رہیں، اپنے چھالے کیوں نہ دکھائے، میں نے کہا   ؎

کانٹوں کی زباں پیاس سے سوکھ گئی یا رب

اک آبلہ پا اس وادیِ پر خار میں آوے

تو یہاں کتنے تشنہ لب نہ جانے کب سے میرے منتظر تھے، میں کیسے شکوہ کرتی

ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہمارے ہمراہیوں کو نہ جانے کتنی مرتبہ چپل خریدنا پڑی تھی۔ میں اور شاہد اسلام آباد سے جو دو دو جوڑے چپل کے لائے تھے انھوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔ بلکہ ایک چپل تو میں نئی نکور واپس لے آئی کہ آئندہ حج یا عمرے کی جاگ لگی رہے، اسلام آباد میں حج کے لیے روا نہ ہونے سے کچھ دیر پہلے میں نے فارد سے کہا تھا، یہ میرے پرانے کھسے موچی کے لے جاؤ، میں انھیں بھی ساتھ ہی لے جاؤں گی، یوں وہ کھسے جنھیں لے جانے کے متعلق میں نے سوچا بھی نہ تھا تمام حج میں میرا ساتھ دیتے رہے۔آج لگاتار چودہ گھنٹے مسلسل چلنے کے سبب اگر ان کی وجہ سے تھوڑی سی تکلیف ہوئی تو یہ ان کا حق تھا، میں اب اکثر اپنی دوستوں کو مشورہ دیتی ہوں کہ حج پر اپنے پرانے کھسے ضرور لے جائیں۔ وضو میں بھی آسانی اور پیدل چلنے میں بھی، خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔

خیمے میں داخل ہونے سے پہلے ایک مرتبہ پھر وضو کیا، خیمے کا پردہ اٹھایا، خیمے کی حالت تبدیل ہو چکی تھی، درمیان سے پارٹیشن والی قنات اٹھائی جا چکی تھی اور وہاں جناب و بیگم منیر کے علاوہ، جو سو رہے تھے اور کوئی موجود نہ تھا۔

ہم نے شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ شاہد نے عشا کی نماز پڑھی اور میں سوچ رہی تھی کہ جناب و بیگم منیر تو ہم سے بھی پہلے فارغ ہو کر آ گئے، انھیں سواری جلد مل گئی ہو گی۔ اتنے میں باجی صبیحہ منیر کی آنکھ کھل گئی، ہمیں دیکھتے ہی بار بار ان کے منہ سے ایک ہی کلمہ نکلا ’’شکر ہے کہ آپ لوگ آ گئے، میں آپ کی طرف سے بہت پریشان تھی۔ آپ لوگ خطرے کو خطرہ نہیں مشغلہ سمجھتے ہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’آپ کیوں پریشان تھیں ؟ پھر آپ تو ہم سے بھی تیز نکلے، کہ ہم اب پہنچ رہے ہیں اور آپ جا کر ہو بھی آئے اور اب مزے سے سو ہے ہیں۔‘‘

کہنے لگیں ’’بات تو سنو ہم تو جمرات سے کوئی دو فرلانگ پہلے ہی آپ سے بچھڑ گئے تھے، ذرا آگے پہنچے تو بہت بھیڑ تھی ایک صاحب ملے، کہنے لگے آگے جانا حماقت ہے اتنی بھیڑ میں آپ کو بالکل نہیں جانا چاہیے، بہتر ہے کہ آپ شام کو کنکریاں مار لیں۔ ہم ان کی بات پر غور کر ہی رہے تھے کہ منیر صاحب کو اپنی کزن نظر آ گئیں، ان کے شوہر ہجوم میں کہیں بچھڑ گئے تھے اور وہ بہت پریشان تھیں، انھیں لے کر ان کے خیمے میں گئے۔ کچھ دیر بعد ان کے شوہر ان کی تلاش میں، اس امید پر خیمے میں آ گئے کہ شاید وہ پہنچ چکی ہوں، ان کا مسئلہ حل ہوا تو ہم واپس خیمہ میں آ گئے۔ جمرات، مغرب کے بعد دوبارہ گئے اور کنکریاں مار کر واپس آئے، ابھی حلق کرانا ہے اس لیے احرام نہیں کھول سکے، اب تمہاری اس بات کا جواب کہ میں پریشان کیوں تھی ؟ صبح ہم نے واپسی کا ارادہ اس لیے بھی کر لیا کہ ہمیں پتا چلا تھا کہ جمرات پر کنکریاں مارتے ہوئے ۳۵ حاجی کچلے گئے ہیں آپ کے متعلق سوچ سوچ کر میری تو جان ہی نکلی ہوئی تھی۔‘‘

مجھے یاد آیا ہم تو ہجوم کے اس قدر منظم رہنے پر مسلسل داد دے رہے تھے۔ یہ حادثہ ہمارے جمرات پہنچنے سے کوئی دو گھنٹہ پہلے ہو چکا تھا اور منٹوں میں سب صفائی بھی ہو گئی تھی۔ جتنے منہ اتنی باتیں، شنید ہے کہ ’ ’بڑے لوگوں ‘ ‘ نے رمی کرنا تھی اس وجہ سے ہجوم کو کا فی دیر قابو میں رکھنا پڑا، جب بڑے لوگ اس فرض سے عہدہ برا ہو چکے تو ہجوم چھوڑا گیا اور وہ سب کچھ ہو گیا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا، کچھ کا خیال تھا کہ صحت مند تن و توش کے مالک ایرانی ہاتھوں میں ہاتھ د یے تیزی سے آگے بڑھے اور لمحہ بھر میں سب کو کچل دیا۔ میرے کانوں میں وہی آوازیں اور آنکھوں میں وہی منظر ٹھہر گیا کہ جب ہم مزدلفہ میں لبِ سڑک، رات گزارنے کی تیاری کر رہے تھے، سونے کی کوشش کر رہے تھے اور پھر عبادت میں مصروف تھے، تو یہ حاجی رات بھر ہمارے قریب سے بلند آواز سے لبیک کہتے جوش و جذبے سے روشن چہرے لیے، تیز تیز قدم اٹھاتے رات کے پہلے پہر سے ہی جمرات کی جانب رواں تھے۔ کس کو خبر کہ اگلے لمحے کے لیے کاتب تقدیر نے لوح کائنات پر کیا تحریر کیا ہے۔

حکومت پاکستان نے اس سانحے کی اطلاع خبروں کے ذریعے عوام تک پہنچائی، ایک لاکھ گھرانے پریشان ہوئے۔ گری تھی جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو۔

رات ڈیڑھ بجے عباسی فیملی کے دس افراد پہنچے، وہ منیٰ تک کسی عزیز کی گاڑی میں آئے تھے، وہاں سے پیدل آنا پڑا، تھکن سے نڈھال ہو رہے تھے، انھوں نے بتایا کہ وہ تو اسلام آباد میں اپنے گھر والوں کو اطلاع کر آئے ہیں کہ ہم خیریت سے ہیں اسی طرح ہمارے گروپ کا تیسرا مختصر خاندان جناب و بیگم عابد رات کوئی تین بجے پہنچا۔

صبح ہوئی تو رات کی کہانی سنائی۔

’’رات گیارہ بجے ہم طواف زیارت سے فارغ ہوئے، منیٰ واپسی کے لیے ویگن میں بیٹھے، ڈرائیور نے ہمیں جمرات سے بھی پہلے اترنے کو کہا، ہم نے اس بیا بان میں اترنے سے انکار کیا۔ اس نے کہا ’’فوراً اتریں ورنہ میں سب کو واپس مکہ لے جاؤں گا۔ مکہ مدینہ کے ڈرائیور تو ویسے بھی حاجیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں لیکن اس روز مسافروں میں کوئی با اثر عربی شخصیت بھی موجود تھی، کافی تلخ کلامی کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ سب سواریاں اتر جائیں اور ڈرائیور کو ایک ریال بھی نہ دیا جائے۔ میں کافی تھک چکی تھی، سارا رستہ کہتی آئی کہ یہاں اتنے لوگ سڑک پر دریاں بچھائے سو رہے ہیں، ہم بھی یہیں کسی جگہ دری بچھاتے ہیں اور سو رہتے ہیں آخر کل بھی تو رمی جمرات کے لیے یہیں آنا ہے پر صاحب نے مان کر نہ دیا، پھر یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ تمام مناسک ایک ہی روز میں ادا کیے جائیں، میں پاکستان جا کر آنے والے حاجیوں سے کہوں گی کہ طواف زیارت اگلے دن کے لیے رکھیں۔ ‘‘

گیارہ ذی الحجہ کو تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے، رمی کا وقت ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے شروع ہو کر غروب آفتاب تک ہے۔ مجبوراً رات کو بھی جائز ہے مگر بلا وجہ مکروہ ہے۔

وہاں یہ مسئلہ بھی زیر بحث رہا کہ کیا خواتین کا رمی کرنا ضروری ہے، اکثر مرد حضرات کا خیال تھا کہ جب اسلام نے سہولت دی ہے تو اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے، حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سہولت ضعیف، کمزور اور بیمار عورتوں اور مردوں کے لیے ہے۔ ہم نے وہاں کافی لوگوں کو دیکھا کہ اپنی صحت مند بیویوں کی طرف سے خود رمی کی کہ اس قدر ہجوم میں نامحرموں کے دھکے لگتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے ضروری طواف کے علاوہ نفلی طواف بھی اسی لیے نہ کیے کہ مرد و عورت اکھٹے طواف کرتے ہیں جو مناسب نہیں۔ ظاہر ہے ان کے ساتھ بحث کی ضرورت نہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو حج صرف مردوں پر فرض ہوتا، عورتوں پر نہیں، اس عبادت کے لیے مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی، سبھی عبد ہیں جو اپنے معبود کے حضور دیوانہ وار طواف میں مصروف ہیں، اپنی اور اپنی گزشتہ اور آئندہ نسلوں کی مغفرت کے لیے، تیز تیز قدم اٹھاتے اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا اٹھنے والا ہر قدم صرف اور صرف تیری رضا کے لیے ہے۔

یہاں تک دیکھا گیا کہ بعض پردے کی پابند خواتین نے احرام کے دوران بھی اپنے چہرے کو نقاب سے اچھی طرح چھپایا ہوا تھا صرف ان کی آنکھیں دکھائی دیتی تھیں، دبے لفظوں میں ان کی توجہ اس جانب دلائی گئی کہ حالت احرام میں چہرے کی ہڈی کو کپڑا نہیں لگنا چاہیے۔ بال کوئی نظر نہ آئے لیکن چہرہ کھلا رہے، تو اس کا جواب یہی ملتا تھا کہ نامحرموں کے سامنے پردہ کیسے ترک کیا جا سکتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہاں جو کوئی جس انداز میں عبادت کر رہا ہے، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

ظہر کی نماز پڑھ کر اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ذرا بھیڑ کم ہو لے تو رمی کے لیے جائیں۔بڑی مشکل سے اپنے ساتھیوں کو راضی کیا کہ اب خیمے سے نکلتے ہیں، منیٰ پہنچنے اور جمرات پر کنکریاں مارنے تک شام ہو جائے گی۔ خیمے سے نکلے، سفر کا آغاز کیا، کافی چلنے کے بعد جمرہ اولیٰ آیا، سات کنکر الگ کیے، جمرات کے بالکل قریب بلکہ اس کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہر کنکر پر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر شیطان کو کنکر مارے، بھیڑ بہت تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ فرض بہت اچھی طرح ادا ہو گیا۔ رمی کے بعد ذرا ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر استغفار، دیگر ذکرو اذکار اور درود شریف پڑھ کر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر جمرہ وسطیٰ ہے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر سات کنکریاں شیطان کو مارنے کے بعد ذرا ہٹ کر قبلہ رو ہو کر جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے دعا کی۔ پھر تیسرے جمرہ پر پہنچے اسی طرح سات کنکریاں جمرہ عقبیٰ پر ماریں، مگر تیسرے جمرے پر ٹھہرنے اور دعا کرنے کے بجائے تیزی سے واپس ہوئے کہ یہی مسنون ہے۔ابھی چند قدم ہی واپس ہوئے ہوں گے کہ مغرب کی اذان کا وقت ہو گیا، قریب ہی مسجدِ خیف ہے۔

مسجدِ خیف پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، خیف پہاڑ کے دامن کو کہا جاتا ہے، اسی نسبت سے یہ مسجدِ خیف کے نام سے مشہور ہے، منیٰ کی اس سب سے بڑی مسجد کی فضیلت یہ ہے کہ آخری حج کے موقع پر رسول پاک کا خیمہ یہاں نصب کیا گیا تھا اور آ پ نے یہاں پانچ نمازیں ادا فرمائی تھیں۔ مسجدِ خیف کی جنوبی سمت جبل صفائح میں ایک چھوٹا سا غار ہے یہیں سورۃ مرسلات نازل ہو ئی تھی، اس مسجد میں ستر انبیا ء مدفون ہیں، اس عظیم الشان اور وسیع و عریض مسجد کو قریب سے دیکھنا اور یہاں نماز پڑھنا چاہتے تھے۔آ ج قدرت کی جانب سے خود ہی انتظام ہو گیا۔

جمرات سے سڑک پار کر کے، مسجد تک اس ازدحام میں پہنچنا آسان نہ تھا اور پھر اس صورت میں کہ مغرب کی اذان بھی ہو چکی ہو، تیز تیز قدم بڑھاتے مسجد تک پہنچے، لیکن وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں، شاہد اور عابد صاحب تو مسجد خیف کے اندر کسی نہ کسی طرح پہنچ گئے، ہمیں شرطوں نے جانے نہ دیا۔ہم وہاں صحن میں نماز کے لیے جگہ تلاش کر رہے تھے۔ جماعت شروع ہونے والی تھی، اتنے میں ایک خاتون نے اشارہ کیا کہ ادھر آ جائیں۔خوب صورت دری پر نرم و ملائم جائے نماز بچھے ہیں۔ ساتھ چھوٹے چھوٹے کشن رکھے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہاں سے ابھی کوئی اٹھ کر وضو کے لیے گیا ہے۔ خیر اللہ کی مہربانی سے جیسے ہی ہمیں نماز کے لیے جگہ ملی، نماز شروع ہو گئی۔

ایک بات البتہ محسوس ہوئی کہ مسجدِ نبوی یا مسجدحرام میں نماز کے لیے جگہ کتنی ہی دور کیوں نہ ملے، کہ ایک آدھ مرتبہ یوں بھی ہوا کہ بھیڑ کے باعث مسجد تک پہنچنا ممکن نہ ہوا اور جماعت شروع ہو گئی، لیکن کبھی بھی ہمیں نماز کی ادائیگی میں مشکل پیش نہ آئی۔ امام صاحب یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے سامنے ہی ہوں، لیکن یہاں صحن مسجد میں نماز کے دوران امام صاحب کی آواز ہم تک ہوا کے دوش پر لہراتی ہوئی، بہت ہی مدھم انداز میں کبھی پہنچتی تھی اور کبھی نہیں بھی پہنچتی تھی، ہمارے قریب ہی ایک نمازی نے یہ نیکی کی کہ امام صاحب کی نہایت ہی مدھم آواز کے ساتھ مکبر کے فرائض سنبھال لیے، یوں ہمیں نماز کی ادائیگی میں مشکل نہ ہوئی، یہ احساس البتہ ہوا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب لاؤڈسپیکرکی سہولت موجود نہ تھی، حضور ﷺ کی امامت میں ادا کی جانے والی نماز اسی طرح ہوا کرتی ہو گی اور آج بھی جس کی پیروی میں امام صاحب کے ساتھ مکبر ہوتے ہیں۔

نماز بہت سکون سے ادا کی، ان خاتون کا شکریہ ادا کیا تو کہنے لگیں ’’میں بھی یہاں خالی جگہ دیکھ کر بیٹھ گئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جائے نماز کس کے ہیں ‘‘

ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ دو عربی حاجی آ گئے، انھیں دیکھ کر ہم اٹھنے لگے تو انھوں نے کہا۔’’آپ بیٹھیں ‘‘ لیکن ہمیں اب اٹھنا ہی تھا ان کا شکریہ ادا کیا اور مسجد خیف کے دروازے کی جانب چلے۔

ابھی مرد حضرات باہر نہ آئے تھے ان کے انتظار میں تھے کہ ایک انڈونیشی خاندان مل گیا، انھوں نے ہمیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ خاتون بہت محبت سے ملیں کہنے لگیں ’’میری بڑی بہو پاکستانی ہے، ماشا اللہ بہت اچھی ہے، سعودی عرب میں وہ خاندان پندرہ بیس برس سے آباد ہے، میں نے یہیں ان کی شادی کی، میں اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی پاکستانی لڑکی لانا چاہتی ہوں کوئی لڑکی بتاؤ۔‘‘

اب چند لمحوں کی ملاقات میں ہم انھیں کیا بتاتے، البتہ اس پاکستانی لڑکی کے لیے دل سے دعا نکلی کہ جس کے حسن سلوک نے انھیں دوسری بہو بھی پاکستان سے لانے پر آمادہ کیا تھا۔

شاہد اور عابد صاحب آ گئے تھے اور تفصیل کے ساتھ مسجد دیکھ کر آئے تھے، ہم نے کہا کہ ہم بھی مسجد اندر سے دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن شرطوں نے اندر جانے نہ دیا، بعد میں پتا چلا کہ خواتین کے لیے دوسرا دروازہ تھا۔

واپسی پر شیڈز سے گزرتے ہوئے جہاں بے شمار قطار اندر قطار، سفری ہوٹل موجود تھے۔ دن بھر کے تھکے ہوئے اور بھوکے، ہم لوگ اب اچھا سا کھانا چاہتے تھے، سب نے یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی کہ آج آپ کا منتخب کردہ کھانا کھائیں گے۔ ہجوم بے انتہا تھا۔ کئی پتیلے جھانکے، بلکہ تمام ہوٹلوں کے سارے پتیلے چھانے، لیکن کہیں بھی وہ دانہ نظر نہ آیا جس پر ہماری مہر لگی ہو، اب سب کہنے لگے کہ یا تو آج آپ ہمیں ہوا کھلائیں گی یا آخر میں جو بھی ہے اور جیسا بھی ہے، کی بنیاد پر جو کھانا میسر ہوا کھانے پر مجبور کریں گی، اس لیے اگلے پتیلے میں جو کچھ بھی ہو، صبر شکر کر کے کھا لیا جائے، لیکن جو کچھ اس پتیلے میں تھا وہ ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا، شاید چالیس کی گنتی پوری ہو گئی تھی اور یہ دھڑکا الگ کہ اب تو ہوٹل ختم ہو رہے ہیں، کہیں میری وجہ سے سبھی کو بھوکا نہ رہنا پڑے اور پھر ہم نے ایک ایسا پتیلا پا ہی لیا کہ جس میں اللہ کے ان چار بلکہ کچھ زیادہ ہی بندوں کے لیے بہترین چکن بریانی تیار کی گئی تھی، سب نے نعرہ تشکر بلند کیا اور فوری طور پر گرما گرم بریانی پیک کرا لی گئی۔ بریانی کی اشتہا انگیز خوشبو نے سفر اور طویل کر دیا جتنا آگے بڑھتے منزل اتنی ہی دور ہوتی جاتی، مزدلفہ آ گیا لیکن خیمہ آنے کا نام نہ لیتا تھا     ؎

ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا

اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا

اس سفر کے دوران یہ احساس البتہ بہت رہا کہ انسان اکیلے سفر کر رہا ہو تو تمام را ستہ درود و اذکار میں مصروف رہتا ہے اور کسی اور جانب دھیان کم ہی جاتا ہے۔

۱۲ ذی الحجہ کو بھی رمی کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، آج کے دن حاجی کو اختیار ہے کہ وہ تیرہ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام کرے یا بارہ ذی الحجہ کو رمی کے بعد مکہ کے لیے روانہ ہو جائے، شرط صرف اتنی ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے نکلنا ہو گا، اگر آفتاب غروب ہو گیا تو منیٰ سے نکلنا مکروہ ہے، اب منیٰ میں رات کا قیام ناگزیر ہو گیا اور تیرہ کو اس دن کی رمی کے بعد ہی مکہ جا سکے گا، کہ اگر رمی کے بغیر روانہ ہو ا تو دم واجب ہو گا۔

ظہر کی نماز حسب معمول اپنے اپنے خیموں میں ادا کی، ہمارا ارادہ تھا کہ ہم اپنا سامان ساتھ ہی لے جائیں گے اور تینوں جمرات پر رمی کرتے ہوئے مکہ کی طرف مغرب کی اذان سے کہیں پہلے نکل جائیں گے۔ ہمارے ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ کنکریاں مارنے کے بعد واپس منیٰ آئیں گے اور تیرہ تاریخ کو آرام سے مکتب کی بسوں میں مکہ جائیں گے۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہ تھا مزدلفہ سے پانچ میل کا فاصلہ طے کر کے جمرات پہنچیں اور پھر جمرات سے واپس پانچ میل آئیں اور پھر دوسرے دن مکتب کی بسیں تلاش کریں اور پھر رمی کرتے ہوئے مکہ آئیں۔

ساتھیوں کو رائے دی کہ اگر مناسب سمجھیں تو آپ بھی اپنا سامان ساتھ لے لیں اور ہمارے ساتھ ہی مکہ چلیں کہ جتنا آپ واپس آئیں گے اتنا ہی آگے چلیں تو حرمِ پاک پہنچ جائیں گے۔ جمرات کے بعد آپ کو ویگن یا بس بھی مل سکتی ہے۔ انھوں نے اثبات میں جواب دیا، ظہر کے بعد ہم نکلنے کے لیے تیار تھے۔ ٹرالی نے بہت ساتھ دیا۔ سامان اس پر باندھا۔ ہمارے ساتھیوں کا خیال تھا کہ بھیڑ کچھ کم ہولے تو چلیں، خیر انھیں راضی کیا کہ اس وقت موسم بہت اچھا ہو رہا ہے بادل آئے ہوئے ہیں ایسا نہ ہو کہ دھوپ نکل آئے، سب نے رختِ سفر باندھا۔

آج ہمارے ساتھ جاوید بھی تھا، ہمارے گروپ کا سب سے کم عمر حاجی، وہ راولپنڈی کے کسی سرکاری محکمہ میں کام کرتا ہے اور دفتر میں ہونے والی قرعہ اندازی میں اس کا نام نکلا ہے اور بالکل درست نکلا ہے، انتہائی نیک اور خدمت گزار، وہ مکہ تک پیدل جانا چاہتا تھا اور اس بات سے بہت خوش تھا کہ ہم بھی پیدل جا رہے ہیں اور اب تو ہمارے دیگر ساتھیوں نے بھی ہمارے ساتھ جانے کا ارادہ کر لیا تھا، موسم انتہائی خوبصورت تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ حج کے تمام ارکان اللہ کے فضل و کرم سے بہ حسن و خوبی مکمل ہو چکے تھے اور ہم خود کو بے حد ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔

ہم اسلام آباد سے سخت ترین ذہنی اور جسمانی مشقت کے ساتھ کی جانے والی عبادت کا تصور لے کر گئے تھے۔ ہر مرحلے پر کہتے یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ مرحلہ تو مکھن ملائی کی طرح گزر گیا، تو اگلے مرحلے کو آسان فرما، اور اللہ کی مہربانی سے اگلا مرحلہ بھی اسی آسانی سے طے ہو جاتا اور آج حج کے تمام مناسک ادا کرنے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ ہم تو اول روز سے ہی ذہنی طور پر تیار تھے کہ حج مشقت سہ کر، تکلیف اٹھا کر عبادت کرنے کا نام ہے تو یہ سارا حج تو انتہائی آسانی سے ہو گیا۔ اس میں کچھ بھی کمال ہمارا نہ تھا کہ حج کی نیت ہی ان الفاظ پر مشتمل ہے۔

’’ اے اللہ میں حج کی نیت کرتا ہوں، پس اس کو میرے لیے آسان کر دے اور مجھ سے قبول کر لے اور اس میں میری مدد فرما‘‘ ۔۔۔ تو جب آپ نے اتنے خشوع و خضوع سے دعا مانگی ہو تو وہ رد کیسے ہو سکتی تھی۔

جمرات کے پل پر پہنچے تو شرطوں نے سامان والی ٹرالی ساتھ نہ لے جانے دی، فیصلہ ہوا کہ پہلے دو افراد یہ فرض ادا کر آئیں تو وہ سامان کے ساتھ کھڑے ہوں پھر باقی گروپ جائے۔ جاوید اور منیر صاحب رمی کے لیے پہلے گئے۔

تیسرے جمرے پر کنکریاں مارتے ہوئے بادلوں سے گھرے آسمان سے آتی گنگناتی بوندوں نے تیز اور موسلادھار بارش کی شکل اختیار کر لی۔میرے مولا کے جلوؤں کے ازدحام نے حیراں کر دیا، سر خوشی کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا، برستی بارش میں جمرات سے نکل کر نیچے سڑک پر آ گئے۔

شاہد نے کہا ’’ تم لوگ یہیں رکو میں اپنے دونوں حاجیوں اور سامان کو لے کر آتا ہوں۔‘‘

ہم چند قدم چلے تو دونوں حا جیوں کو سامان سمیت موجود پایا، اب ہمیں شاہد کا انتظار کرنا تھا۔ سامنے ٹرالر کھڑا تھا، دودھ اورجوس کے پیکٹ حاجیوں میں تقسیم ہو رہے تھے، جاوید نے برستی بارش میں ہم سب کو جوس اور دودھ کے پیکٹ لا کر د یے، مجھے یاد آیا کہ میدان عرفات میں بھی وہ اسی طرح سب کو لسی اور جوس کے پیکٹ لا کر دیتا رہا تھا، خود روزے سے تھا جب اسے کہتے کہ اپنے لیے بھی کچھ رکھ لو ایسا نہ ہو کہ افطار کے وقت کچھ نہ ملے تو مسکرا کر کہتا، اللہ مالک ہے۔ یہاں بھی تیز بارش میں اس نے ہم سب کو جوس لا کر دیے۔

ہم دیکھ رہے تھے کہ جوس بانٹنے والے دو چار منٹ کے لیے رک جاتے اور پھر تقسیم کرنا شروع کر دیتے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ کوئی بھی صاحبِ دل ٹرالر والوں کو کہہ دیتا ہے کہ میری جانب سے اتنی رقم کے جوس تقسیم کر دیے جائیں وہ تقسیم ہو جاتے تو کوئی اور صاحب کھڑے ہو جاتے تو مختصر وقفہ اس حساب کتاب کے باعث آ جاتا۔ ہم دس منٹ تک یہ تماشا دیکھتے رہے۔

شاہد جو اس دوران منیر صاحب کو ڈھونڈنے گئے تھے واپس آئے اور انھیں ہمارے درمیان کھڑا دیکھ کر سکون کا سانس لیا، جناب و بیگم منیر نے جمرات سے مکہ تک کا سفر بس میں طے کرنے کا ارادہ کیا تھا بیگم منیر کی طبیعت کے پیش نظر انھیں بس سٹاپ پر رخصت کیا، باقی ساتھیوں نے ہمارے ساتھ پیدل چلنے کی ہمت کر لی۔ سفر طویل تھا لیکن مشکل نہ تھا۔ بارش رک چکی تھی موسم میں خنکی کا خوشگوار احساس ہو رہا تھا، عصر کا وقت نکلتا جا رہا تھا لیکن سب نے فیصلہ کیا کہ عصر کی نماز مکہ جا کر قضا پڑھ لی جائے کیونکہ ہم بارش میں مکمل بھیگ چکے تھے اور سڑکوں سے گزرنے والا پانی پاک تو نہ ہو گا۔ مجھے افسوس تھا کہ ایک مفروضہ کی بنیاد پر ہم عصر کی نماز قضا کر رہے ہیں۔ بہر حال حرمِ پاک کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی رہائش گاہ کی جانب چلتے گئے۔

گھر جانے سے پہلے اسلام آباد فون کر کے بچوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دی، وہ پریشان تھے کہ سب پوچھتے تھے کہ امی ابو کا فون آیا تو ہمیں نفی میں جواب دینا پڑتا تھا، البتہ یہ ہوا کہ جمرات میں کچلے جانے والے حاجیوں کی اطلاع، ناموں کے ساتھ، حکومت پاکستان نے فو ری طور پر نشر کر دی تھی۔

مکہ میں بھی شدید بارش ہوئی تھی نشیبی علاقہ ہونے کے باعث مکہ کی سڑکوں پر پانی کھڑا تھا، گھر پہنچ کر عصر اور مغرب کی نماز ادا کی۔ جناب و بیگم منیر رات گئے گھر آئے۔ معلوم ہوا کہ انھیں بھی بس نہ مل سکی تھی اور وہ بھی پیدل ہی مکہ آئے۔

آج حرمِ پاک کی دھج ہی نرالی ہے۔ پرسوں طوافِ زیارت کے موقع پر اسے حالتِ احرام میں دیکھا تھا اب احرام کھل چکا ہے، نیا لباس سنہری کام کے ساتھ نگاہوں کو خیرہ کر رہا ہے۔ آج خانۂ کعبہ کسی یارِ طرحدار کی طرح خود اپنے حسن پر نازاں ہے اور اسے بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ سیاہ لباس اس پر کتنا سج رہا ہے۔ مجھے خیال آتا ہے، کالی کملی حضور پاک ﷺ پر اسی طرح سجتی ہو گی جس طرح آج کعبۃ اللہ کی چھب دیکھنے کے قابل ہے۔ میں سوچتی ہوں غلافِ کعبہ کی تاریخ و روایت کیا ہے سب سے پہلے کب، کیوں اور کس نے اس روایت کا آغاز کیا۔

’ ’سب سے پہلا غلاف، اسلام سے نو صدی پہلے یمن کے بادشاہ تبع حمیری نے چڑھایا تھا، پھر اسد حمیری نے، ان کے بعد قریشِ مکہ نے غلافِ کعبہ کو مستقل کر دیا، انھوں نے حریر کا غلاف چڑھایا، حضور ﷺ نے یمنی اور قباطی چادر کا، خلفائے راشدین نے آپ ہی کا اتباع کیا، عبد اللہؓ بن زبیر اور امیر معاویہ نے دیباج کا، بنوامیہ نے دیبا کا اور پھر مختلف قسم کے نفیس و اعلیٰ ریشم استعمال کیے گئے، مامون الرشید ہر سال تین پڑے چڑھایا کرتا تھا، آٹھویں ذ ی الحجہ کو دیبائے احمر کا، یکم رجب کو قباطی کا، ۲۷ رمضان المبارک کو دیبائے سفید کا، متوکل عباسی نے بھی ما مون کی تقلید کی، البتہ ناصر عباسی نے پہلی مرتبہ سیاہ رنگ کا ریشمی غلاف چڑھایا۔

سلطنت عباسیہ کی جگہ سلاطین ترک نے لی تو پہلا بادشاہ جس کو یہ شرف حاصل ہوا وہ الظایر بیبرس صالحی، شاہ مصر تھا، سلطان صالح بن سلطان قلاؤں نے مصر میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، تو اس نے دو گاؤں مصارف غلاف کے لیے وقف کیے۔ سلطان سلیمان نے اپنے عہد میں مزید چند گاؤں کا اضافہ کر دیا، ان سے پہلے مہدی حج کے لیے آیا تو بیت اللہ غلافوں سے اٹا پڑا تھا اس نے تمام پرانے غلاف اتروا دیے اور صرف ایک غلاف رہنے دیا، تب سے ہر سال پرانا غلاف اتارنے اور نیا غلاف چڑھانے کی رسم پڑ گئی۔ پہلے پہل غلاف کے مختلف رنگ رہے، کبھی سفید کبھی سیاہ، کبھی سبز کبھی سرخ، لیکن عباسی خلفاء نے سیاہ رنگ مخصوص کر دیا اور تب سے اب تک یہی رنگ چلا آ رہا ہے، محمد علی پاشا کے عہد سے مصری حکومت نے ہر سال غلاف بھیجنے کی خدمت اپنے ذمہ لے لی۔ ایک کارخانہ مصر میں غلاف کی تیاری کے لیے قائم کیا گیا۔ جو اب بھی ہے، اس کے سپرد صرف غلاف کی تیاری کا کام تھا۔ہر سال تقریباً پچاس ہزار مصری پونڈ اس پر صرف ہوتے تھے، پہلے یہ غلاف مصر سے محمل میں آیا کرتا اور اعیانِ سلطنت اس کے ساتھ ہوتے تھے، اب آلِ سعود کی حکومت نے یہ رسم ترک کر دی ہے، بلکہ غلاف حجاز میں ہی تیار ہونے لگا ہے۔

بیت اللہ کے چاروں طرف غلاف چڑھا ہوتا ہے اور اس پر آیات قرآنی منقش ہوتی ہیں، حرم کی روشنیوں کے ہالہ میں غلاف اتنا بھلا معلوم ہوتا ہے کہ بھلا کے لفظ کا اس سے بہتر استعمال ہی نہیں۔ ایک عمارت ایک عبا پہن کر کھڑی ہے، جس سے سطوت، عظمت اور حشمت ٹپکتی ہے، دنیا میں کوئی عمارت ایسی نہ ہو گی جو ہر دور کی ہر ساعت میں لوگوں کا مرکز ہو اور جہاں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ثانیہ طواف کے بغیر گزرتا ہو، روشنیوں نے کعبۃ اللہ کو اس طرح جگمگا رکھا ہے کہ ہر لحظہ بقعۂ نور نظر آتا ہے رات کو یہ منظر اور بھی دلکش ہو جاتا ہے۔‘ ‘ (شورش کاشمیری، شب جائے کہ من بودم صفحہ ۴۴، ۴۵ )

اس مرتبہ بھی غلاف کعبہ مکہ کے قریب ہی ایک کارخانے کے تین سو خوش نصیبوں کے ہاتھوں تیار ہوا۔

حرمِ پاک ہر دل میں بستا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہر د ل میں وہاں جانے کی شدید تمنا پائی جاتی ہے۔وہ جو بلاوے کے منتظر ہیں وہ ایک بار ضرور جانا چاہتے ہیں اور جو ایک بار ہو آئے ہیں، وہ بار بار جانا چاہتے ہیں، جب حالات ایسے ہوں تو میزبانوں کو بار بار کیوں نہ گھر کی توسیع کرنا پڑے۔ صدیوں سے اس کی تعمیر و توسیع کا کام جاری ہے اور انشا اللہ اس میں تو سیع ہوتی رہے گی۔

خادمِ حرمین شریفین، شاہ فہد بن عبد العزیز کے عہد میں کی گئی توسیع کے مطابق مسجد کا رقبہ۰۰۰، ۰۸، ۲مربع میٹر، چھت پر نماز کا رقبہ۰۰۰، ۶۱ مربع میٹر، مسجد کے اطراف صحن ۰۰۰، ۵۹ مربع میٹر، یوں مسجد کا کل رقبہ ۰۰۰، ۲۸، ۳ مربع میٹر ہے۔ عام دنوں میں نمازیوں کی تعداد۰۰۰، ۳۰، ۷ ہوتی ہے، جب کہ حج، رمضان اور دیگر خاص مواقع پر یہ تعداد ایک ملین سے تجاوز کر جا تی ہے۔ حرمِ پاک کے میناروں کی تعداد ۹ ہے اور ان کی بلندی ۸۹ میٹر ہے۔ سات برقی زینے اور گیارہ سیڑھیوں کے راستے ہمہ وقت عشاق کے لیے اپنے بازو وا رکھتے ہیں۔ مسجد سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع، ائر کنڈیشنگ پلانٹ، جس کی گنجائش ۰۰۰، ۴۰ ٹن ہے،  حرمِ پاک کو شدید گرم موسم میں بھی عبادت گزاروں کے لیے خنک رکھتا ہے۔

خیال تھا کہ حج کے بعد حاجیوں کی تعداد میں فوری کمی نظر آئے گی، مگر ایسا نہ ہوا اور ہم نے جو طے کیا تھا کہ حج کے بعد طواف کے مواقع خوب ملیں گے جی بھر کے طواف کریں گے اور عمرے بھی کریں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا، ایک رات تہجد کے وقت اس نیت سے نکلے کہ اس وقت رش نہ ہو گا، دو چار طواف تو ضرور کر لیں گے، ویسے بھی شاہد کی عادت تھی و ہ طواف کے لیے جاتے تو اکھٹے چار طواف کا ارادہ کر لیتے، اس پر مجھے ان کی اس عادت کا خیال آتا کہ پانی نہیں پئیں گے تو سارا دن نہیں پئیں گے اور جب پینے پر آئیں گے تو گلاس میں نہیں جگ کو منہ لگا لیں گے۔

اس رات کہاں ہم چار طواف کی نیت کا ارادہ رکھتے تھے اور کہاں یہ حالت کہ اس قدر بھیڑ کہ ہم باب عبد ا لعزیز یا کسی بھی دروازے تک پہنچ ہی نہ سکے۔مدینہ جانے سے پہلے جو ایک ایک روز میں آٹھ آٹھ، نو نو طواف کر لیے جاتے تھے، اب ایسا ممکن نہ تھا، پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ ان چار پانچ دنوں میں جب بھی طواف کا موقع ملا۔ طوافِ وداع کی نیت سے ہی طواف کیا۔

طوافِ وداع کرتے ہوئے انسان دعاؤں کے معاملے میں بہت حریص ہو جاتا ہے کہ پھر موقع ملے کہ نہ ملے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے دیگر دعاؤں کے علاوہ یہ دعا بہت مانگی کہ میرے مولا مجھے عینک کے عذاب سے نجات دلا میں اس کی محتاجی کے بغیر لکھ پڑھ سکوں، اس دعا کا محرک شاید وہ واقعہ تھا جو آج سے کوئی تیس برس پہلے پیش آیا تھا۔

ابا جی ریٹائر منٹ کے بعد ۱۹۷۳ء میں حج کے لیے گئے تھے۔ وہ نوجوانی کی عمرسے دور و نزدیک کا مشترکہ چشمہ استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک روز دورانِ طواف انھیں ایسا دھکا لگا کہ عینک گر گئی۔ گری ہوئی چیز کا اٹھانا ممکن نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے نہایت غمزدہ حالت میں طواف مکمل کیا اور پھر یہ سوچتے ہوئے میرے آنسو بہ نکلے کہ میں اس مقدس مقام پر ہوں کہ جہاں ایک ایک حرف کی تلاوت کا بے پناہ اجر و ثواب ہے۔ اب میں اس سعادت سے محروم رہ جاؤں گا۔مجھے کردہ نا کردہ، سبھی گناہ یاد آنے لگے۔ بہت بچپن میں مجھے والد سے محرومی کا دکھ برداشت کرنا پڑا تھا، لیکن محرومی کے معنی مجھ پر اس روز کھلے۔میں دکھ اور مایوسی کی اندھیری چادر اوڑھے پریشان بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے کہا’’ نذیر، اٹھ قرآن شریف کھول تو سہی۔‘‘

اور پھر میں نے دیکھا ایک ایک حر ف زیر زبر سب کچھ روشن اور واضح تھا۔ میں جو چالیس سال سے بغیر عینک کے کچھ نہ پڑھ سکتا تھا، اب روانی سے کلامِ پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔

اور پھر سب نے یہ دیکھا کہ ۱۹۹۸ء، اپنی زندگی کے آخری دنوں تک وہ تلاوتِ قرآن مجید اور اخبار کا مطالعہ بغیر کسی چشمے کے کرتے رہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ ابا جی قرآن پاک کی حرمت میں بہت محتاط تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ان کی واحد مصروفیت یہی تھی کہ مسجد الفلاح، مسجد طیبہ اور مسجد رحمانیہ سے کلام پاک کے بوسیدہ نسخے اٹھا لاتے، انھیں جوڑتے، جلد کرتے یا کرواتے اور واپس پہنچا آتے۔تلاوتِ کلامِ مجید اکانوے برس کی عمر تک ٹیک لگا کر نہیں کرتے تھے کہ ادب کے منافی ہے۔

دعا تو میں نے اپنی نظر کے لیے بہت کی کہ شاید ابا جی کی طرح مجھ پر بھی اللہ کا کرم ہو جائے لیکن یہ نہ سوچا کہ میں تو چار چار چشمے بنوا کر ساتھ لے گئی تھی۔

حرمِ پاک جاتے ہوئے، سڑک سے گزرتے ہوئے، امام کعبہ عمر بن عبداللہ السبیل کی پر اثر آوا ز میں تلاوت کانوں میں شہد گھولتی، دل کو گداز اور روح کو کیف و سرور سے آشنا کرتی یہ احساس جگاتی، اس آواز میں کلام پاک سننے کا جو نشہ ہے وہ کسی اور شے میں کہاں ہو سکتا ہے۔ وہ جب امامت کراتے ان کی آواز میں ایک بچے کی سی معصومیت، مادر مہربان کی سی ملائمت، ایک مذہبی پیشوا کی سی تمکنت اور رعب و دبدبہ ہوتا، یہ آواز دلوں کو مسحور کر دیتی۔ اسلام آباد آ کر بھی وہ آواز کانوں میں گونجتی ر ہی اور پھر اہل پاکستان کی خوش نصیبی کہ ماہ رمضان میں ان کی تلاوت روز صبح چھ سے سات بجے تک ٹی۔ وی پر سننے کی سعادت حاصل ہو تی رہی، یہ آواز سن کر محسوس ہوتا، ہم مکہ کی انھی گلیوں میں تیز تیز قدم اٹھاتے حرمِ پاک کی طرف رواں ہیں کہ راستے میں سی۔ ڈیز کی دکان سے نشر ہوتی تلاوت کی حلاوت ہمارے ہمراہ ہوتی، یہ وہی آواز ہے جو ہماری نماز کو ارتکاز بخشتی ہے، کس قدر سکون و طمانیت کا احساس ہوتا ہے اس آواز کوسن کر ۔۔۔

اور پھر ایسا ہوا کہ ایک روز اخبار میں خبر پڑھی امام کعبہ اہل خانہ کے ہمراہ اپنے گاؤں جا رہے تھے کہ طائف کے مقام پر ان کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا، گاڑی کی تباہی کا کیا ذکر، گاڑی میں موجود سبھی افراد شدید زخمی ہوئے، جنھیں طائف کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے، خبر پڑھ کر پریشانی ہوئی، جسے دعاؤں سے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن موت کب ٹلتی ہے، ان کی صحت یابی کے لیے کس کس نے دعا نہ کی ہو گی، لیکن موت برحق ہے ۱۶ مارچ ۲۰۰۲ کے تمام اخبارات میں ان کی رحلت کی خبر شائع ہوئی، ان کی نماز جنازہ بعد نمازِ عشا ء بیت اللہ شریف میں پڑھائی گئی۔انا للہ و انا علیہ راجعون۔

وہ جامعہ ام القراء میں شریعت کالج کے شعبہ قضاء کے استاد تھے۔ دس سال تک امام کعبہ نے بیت اللہ شریف میں نماز پڑھائی۔ جہاں آپ نے ہزاروں مسلمانوں کی نمازِ جنازہ پڑھائی، آج اسی مقام پر ان کا جسد خاکی رکھا گیا، یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔صدر پاکستان، جنرل پرویز مشرف نے اہل پاکستان کی جانب سے دلی صدمے کا اظہار کیا۔

حج سے وابستہ ایک ایک یاد اور ایک ایک لمحہ ایک ایک ساتھی کس قدر عزیز ہوتا ہے اس کا اندازہ حج کے بعد ہو رہا ہے۔

اس سال میرے کالج کی چھ اساتذہ حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوئیں۔ محترمہ ریحانہ رشید، محترمہ فرحت نثار، محترمہ عزیز فاطمہ، محترمہ شمیم اشتیاق اور محترمہ میمونہ عارف۔ میمونہ عارف کا پروگرام اس وقت بنا جب کہ درخواستیں جمع ہو چکی تھیں بلکہ قرعہ اندازی بھی ہو گئی تھی، ۳ فروری کو میری حج کے لیے روانگی تھی، اس وقت تک میمونہ کی سیٹ یقینی نہ تھی، اس کی جانب سے کسی قدر پریشانی تھی کہ اس نے اتنی خواہش اور کوشش کر کے یہاں تک کامیابی حاصل کر لی ہے تو آگے بھی اس کے سارے راستے سیدھے ہوتے جائیں۔

ہم نے یہیں طے کر لیا تھا کہ وہاں ایک دوسرے کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں گے اگر اتفاقیہ ملاقات ہو گئی تو بہت اچھی بات ہے۔ شاہد کے دفتر سے جناب و بیگم بابر اعوان گئے تھے۔ لیکن وہاں کسی سے بھی ملاقات نہ ہوئی۔ ہر چند کہ یہاں آ کر علم ہوا کہ بیشتر لوگ خانۂ کعبہ جانے کے لیے انھی دروازوں کو استعمال کرتے رہے تھے جن سے ہم آیا جایا کرتے تھے۔

ہمارے محلے سے جناب و بیگم راحت منیر جو اتفاق سے ہمارے ہی گروپ میں تھے، جناب بھٹی اور جناب عمر دین تھے۔ ان سب سے مسلسل رابطہ رہا، پھر ہمارے برابر والے کمر ے میں رہائش پذیر حجاجِ کرام بہت ہی محبت کر نے اور دھیان رکھنے والے تھے۔ وہ چونکہ گھر پہ کھانا بناتے تھے اس لیے اکثر ہمیں بھی دیار غیر میں گھر کے کھانے کا مزہ مل جایا کرتا تھا۔ جناب رنگ الٰہی، ان کے بھتیجے ریحان اور اس کی امی، جب بھی ملتے انتہائی اپنائیت سے ملتے۔ ہمارے اپنے کمرے کے ساتھیوں میں جناب و بیگم عابد پراچہ کا بہت اچھا ساتھ رہا، اکثر مقامات پر ہم اکھٹے رہے۔ جناب و بیگم صوفی امجد پرویز کے ساتھ بھی بہت اچھا وقت گزرا۔

 

 

 

واپسی

 

۹ مارچ کو بچوں کو فون کیا کہ ہم ۱۳ تاریخ کو مکہ سے جدہ کے لیے روانہ ہوں گے اور وہاں سے ۱۴ کی صبح آٹھ بجے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوں گے۔ انھیں فون کرنے کے بعد حسب عادت ناصر بھائی کا نمبر اس امید بلکہ یقین کے ساتھ ملایا کہ ان سے کہاں بات ہو سکے گی۔

ناصر بھائی اسلام آبا د میں ہمارے ہمسائے ہیں، تین چار برسوں سے جدہ میں مقیم ہیں، یہاں سرمد ا ن کی والدہ کا پیغام فو ن پر دیا کرتا ’’آنٹی مرتضیٰ کہہ رہی ہیں کہ آپ ناصر بھائی سے ضرور بات کریں، ان کی ڈیوٹی آج کل حرمِ پاک ہی میں ہے۔‘‘

اس نے جو موبائیل نمبر لکھوایا اس پر رابطہ کرتے تو اس پر ہمیشہ ایک ہی ٹیپ چل رہی ہوتی۔ حرمِ پاک میں تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف نام کے ساتھ تلاش نا ممکن تھی کہ ہر ایک پوچھتا کہ کس شعبے میں ہیں، کیا کام کرتے ہیں تو اس کا جواب ہمارے پاس نہ ہوتا اور سرمد بھی آنٹی سے پوچھنا بھول جاتا، شروع میں تو بہت زیادہ خواہش تھی کہ ان سے ملاقات ہو جا تی تو زیارتیں زیادہ آسانی کے ساتھ اور اچھے طریقے سے کر لیتے، لیکن اب مایوس ہو چکے تھے اور اب جو بالکل نا امیدی کی حالت میں نمبر ملایا تو ناصر بھائی سے با ت ہو گئی۔

اب ان کی طرف سے اصرار کہ آپ بتائیں کس جگہ پر ہیں، میں آپ کو لینے آ رہا ہوں اور جب ہم نے پوچھا کہ آپ کس مقام پر ہیں تو انھوں نے بتایا کہ میں جدہ اپنے دفتر میں ہوں، اس وقت ایک بجا ہے، میں تین بجے یہاں سے فارغ ہو کر عصر کی نماز کے بعد آپ کی طرف آ رہا ہوں، آپ تیار رہیے گا، دو تین روز ہمیں میزبانی کا موقع دیں اور ہمارا یہ حال کہ ان کی ہر بات کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ آپ سے فون پر بات ہو گئی یہی بہت ہے، آپ اتنی دور سے آنے کی زحمت نہ کریں، اب ہمارے پاس وقت بالکل نہیں ہے، یہ جو ایک آدھ دن ہے وہ ہم کعبۃ اللہ کے قریب رہ کر گزارنا چاہتے ہیں۔

ہم مستقل انھیں روک رہے ہیں اور وہ ایک ہی بات کہے جا رہے ہیں۔اپنا پتا سمجھائیں میں عصر کے بعد آ رہا ہوں اور پھر مغرب سے ذرا پہلے شاہد نماز کے لیے نکلے، میں گھر پر ہی رہی کہ ناصر بھائی آ گئے تو پریشان ہوں گے، چند ہی منٹوں کے بعد دیکھا کہ شاہد آ گئے، کہنے لگے ’’ناصر آ گئے ہیں شرطے گاڑی پارک کرنے نہیں دے رہے، جلدی سے اٹھو، وہ ہمیں جدہ لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ہم انھیں کہیں گے کہ ہم مکہ کے کئی اہم مقامات کی زیارتیں نہیں کرسکے، وہ ہمیں کرا دیں یہ بہت بڑی نیکی ہو گی۔‘‘

ہم تیزی سے باہر آئے، نہایت شاندار گاڑی میں ناصر بھائی ہمارے منتظر تھے اور ہم کہہ رہے تھے ’’جدہ جانا ہمارے لیے ممکن نہیں آپ ہمیں مکہ ہی دکھا دیں ‘‘ ۔۔۔ وغیرہ۔ انھوں نے تمام باتیں بڑے اطمینان سے سنیں مگر گاڑی کا رخ جدہ کی طرف ہی رکھا، ابھی مکہ سے باہر نہ نکلے تھے کہ مغرب کی اذان ہو گئی۔

سعودیہ کی جہاں کئی اور باتیں قابل تقلید ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں ہر مسجد میں عورتوں کے لیے نماز کی ا لگ جگہ ضرور موجود ہوتی ہے، یہاں سوائے فیصل مسجد یا چند ایک بڑی مساجد کے کہیں ایسا انتظام نہیں۔ حتیٰ کہ بادشاہی مسجد میں بھی عورتوں کی نماز کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں، پاکستان میں شاید اس لیے ایسا انتظام نہیں کیا گیا کہ اگر عورتیں بھی مساجد میں نماز ادا کرنے لگیں تو وہ کتنی مشکلات میں گرفتار ہو جائیں گی ۔۔۔ یہ سوٹ تو میں فجر میں پہن کر گئی تھی، اب کیا ظہر میں بھی یہی پہنوں، اس سوٹ کے ساتھ کا دوپٹہ ابھی تک نہیں آیا، اب کیا کروں   ۔۔۔ ؟

مغرب کی نماز کے بعد دوبارہ سفر شروع کیا، جلد ہی حدود حرم کی نشان دہی کرنے والا رحل نما پل دکھائی دینے لگا، روشنیوں میں نہایا ہوا خوب صورت پل دیکھتے ہوئے میں نے سوچا، اچھا ہوا ناصر بھائی ہمیں لے آئے ورنہ ہم اتنے دلکش منظر سے محروم رہتے۔ سرزمینِ عرب دیکھتے ہم جدہ کے قریب آتے جا رہے تھے۔

جدہ ایک انتہائی ترقی یافتہ جدید ترین سہو لتوں سے آراستہ شہر، جس کا پہلا تعارف یہاں کی خوبصورت سڑکیں، میلوں لمبے کئی منزلہ فلائی اوور جہاں سے گیارہ گیارہ سڑکیں اوپر تلے مختلف مقامات کو کاٹتی ہیں، کیا مجال کہ ٹریفک کے بہاؤ میں ذرہ برابر بھی فرق آئے۔ ہمارے لیے فیض آباد کا فلائی اوور بڑی چیز تھا۔

جدہ شہر میں گاڑیوں کے شو روم دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعودیہ کے پہاڑ دیکھتے تو دانش یاد آ جاتا اور اب شو روم دیکھتے ہوئے فارد بہت یاد آیا۔ اس کی زندگی کا ہر خواب گاڑیوں سے شروع ہو کر گاڑیوں پر ہی ختم ہوتا ہے۔اسے جب بولنا بھی صحیح طریقے سے نہ آیا تھا، اسے تمام گاڑیوں کے نام اور ماڈل یاد تھے۔ ٹرین سے کراچی جاتے ہوئے اس کا واحد مشغلہ یہی تھا کہ وہ گزرنے والی ہر گاڑی کا نام، ماڈل، قیمت، اوریجنل کلر، پینٹڈ، فور سپیڈ، فائیو سپیڈ، ٹربو اور نہ جانے کیا کیا بتاتا رہتا۔ اب میں یہاں انواع و اقسام کے نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے ماڈل دیکھتے ہوئے اسے یاد کر رہی ہوں۔

وہاں کی سڑکوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے بے رونقی کا احساس تو بالکل نہ ہوا، لیکن لوگ بھی چلتے پھرتے، شاپنگ کرتے نظر نہ آئے۔ نہایت خاموشی تھی، رات گہری ہوتی جا رہی تھی، شاید اس وجہ سے، لیکن راتیں بھی تو روشنیوں کے اس شہر میں جاگتی ہوں گی، لیکن مجھے شہر کا مخصوص شور ہنگامہ کہیں محسوس نہ ہوا۔

جد ہ شہر کو قابل دید بنانے میں وہاں کے مئیر یا منتظم کا بڑا دخل ہے، ہر چوک پر نصب مانو منٹس جدہ شہر کے باسیوں کی ذہنی خلاقی کا واضح ثبوت ہیں، ایک چوراہے پر ایک نازک سی بائیسکل نصب ہے جو غالباً ً تیرہ چودہ منزلہ عمارت جتنی بلند ہے، کتنی ہی شدید آندھی چلے، کیسا ہی طوفان کیوں نہ اٹھے اس کے پائے استقلال میں جنبش نہیں ہوتی۔ ایک چوک پر بحری بیڑہ نصب ہے۔ کسی چوک کو ہماری سوہنی سے گھڑے مستعار لے کر انھیں مختلف رنگوں اور روشنیوں سے مزین کر کے شہر کے حسن میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر ایک دیوار میں دھنسی ہوئی گاڑیوں کو د کھا یا گیا ہے۔ ایک چوک پر ناکارہ پائپ کے ٹکڑوں کو ترتیب دے کر تجریدی آرٹ کا نمونہ بنایا گیا ہے۔ ناصر بھائی ہمیں بحیرہ احمر کی جانب لے گئے، وہاں ایسے ایسے تجریدی آرٹ کے شہہ پارے تھے کہ ہر ایک دامن دل اپنی جانب کھینچتا تھا لیکن وقت کی کمی کے پیش نظر ہم دامن بچا کر گزرتے رہے۔ گاڑی دھیمی رفتار سے رواں تھی، بحیرہ احمر کے مست پانیوں میں گھری ایک انتہائی خوب صورت مسجد جو رات کے وقت روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی اور جس کا جھلملاتا عکس پانی کی مضطرب لہروں میں ہلکورے لیتا تھا۔ ہر قدم پر میرے منہ سے یہی جملہ نکلتا تھا۔ ’’ہمارا جدہ دیکھنا در اصل اللہ کی طرف سے حج کا انعام ہے۔‘‘

مکہ اور مدینہ مذہبی جذبہ و احساس میں ڈوبے ہوئے شہر ہیں۔ ان کا تقدس انسان کو اپنے سحر میں گرفتار رکھتا ہے، لیکن جدہ، دور جدید کے انتہائی ترقی یافتہ شہر کی حیثیت سے آپ کو اپنے حسن میں اسیر کر لیتا ہے۔ جدہ کا شبینہ حسن اپنے عروج پر تھا، سمندر کی نم آلود ہوا کے جھو نکے ہمارے تھکے ہوئے اعصاب کو سکون بخش رہے تھے۔

سمندر کے درمیان پانی اچھالتا فوارہ میلوں دور سے ایک دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس فوارے کا چلنا شاہی محلات میں شاہ فہد کی موجودگی کی علامت بھی ہے۔ اگر کوئی انسان یا کشتی اس کے قریب سے گزرنے کی غلطی کر بیٹھے تو یہ اسے بیس تیس فٹ اونچا اچھال دیتا ہے۔

پہاڑوں کی طرح پانی ہماری خاندانی کمزوری ہے سمندر اتنا قریب ہو اور ہم اسے چھو نہ سکیں یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ ناصر بھائی نے پھر گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کہا کہ اب میں آپ کو ذرا آ گے لیے چلتا ہوں وہاں سے آپ پانی میں جا سکیں گی۔ اب کے جو ہم رکے تو پانی کے اندر دور تک کنکریٹ کے بنے راستوں پر چلتے گئے چند ایک آدمی وقت گزارتے، یعنی مچھلیاں پکڑتے بھی نظر آئے، پانی انتہائی شفاف تھا۔ ریت کے ذرے چمکتے دکھائی دے رہے تھے، پانی کو تبرکاً چھوا کہ وقت پانی کے اندر جانے کی اجازت نہ دے رہا تھا۔دانش سرمد اور شاہد بہترین تیراک ہیں اور ایسے شفاف پانی کو دیکھ کر ضبط کر لینا واقعی ضبطِ نفس کا کڑا امتحان تھا۔

ناصر بھائی جدہ کا ایک ایک کونہ دکھانا چاہتے تھے اور ہم انھیں کہہ رہے تھے ’’آپ ہماری خاطر مسلسل سات گھنٹوں سے ڈرائیو کر رہے ہیں اب بس کریں اور گھر چلیں ‘‘

لیکن ان کا کہنا تھا ’’اب میں آپ کو ایسا شاپنگ پلازہ دکھاؤں گا کہ جہاں عقل دنگ رہ جاتی ہے۔‘‘

میں سفر کر کے اتنا تھک چکی تھی کہ مجھ میں کسی بھی منظر کے دیکھنے کی قوت موجود نہ تھی۔بڑی مشکل سے انھیں گھر چلنے پر آمادہ کیا حالانکہ جانتی تھی کہ پھر ایسا موقع شاید نہ ملے۔ لیکن میری حالت ایسی ہو رہی تھی کہ بس اب مجھے صرف ایک بستر کی طلب تھی۔

گھر کے راستے میں میں نے شاہد سے کہا ’’قاضی صاحب کا فون نمبر ہمارے پاس ہوتا تو ان سے بھی رابطہ ہو جاتا۔‘‘

ناصر بھائی پوچھنے لگے ’’کون قاضی صاحب؟‘‘

جب انھیں بتایا قاضی آفتاب صاحب، جو ہمارے قریبی عزیز ہیں، تو انھوں نے قاضی صاحب کا نہ صرف مکمل تعارف مع بیوی بچوں کے ہمارے سامنے پیش کر دیا، بلکہ موبائیل پر ان سے بات بھی کروا دی، اب قاضی صاحب بضد کہ میرے مہمان آپ کے پاس کیا کر رہے ہیں میں ابھی انھیں لینے کے لیے آ رہا ہوں بڑی مشکل سے انھیں راضی کیا کہ مہمان بے شک ہم آپ کے ہی ہیں لیکن میزبانی کے فرائض آپ ہی کے مہر بان انجام دے رہے ہیں۔پتہ چلا کہ جدہ میں پاکستانی کمیونٹی بہت مربوط ہے۔

میں نے راستے میں ہی ناصر بھائی کو کہہ دیا تھا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، مجھے کھانے کے لیے مجبور نہ کیا جائے، میں صرف سونا چاہتی ہوں۔ راستے میں انھوں نے ایک پاکستانی ہوٹل سے کچھ کھانے کا سا مان خریدا۔ تھوڑا اور آگے گئے تو انھوں نے ایک خوبصورت سی مارکیٹ کے سامنے گاڑی روکی، اب کے میں اور شاہد بھی اسے دیکھنے کے شوق میں اندر چلے گئے، مارکیٹ تو چھوٹی سی تھی، پر کون سی نعمت ہو گی جو وہاں موجود نہیں۔چاکلیٹ، مٹھائیاں، کھجوریں، ہر موسم کے پھل اور سبزیاں اور باورچی خانے سے متعلق ہر چیز موجود، سب سے بڑی یہ بات کہ اگر آپ کو دو کھیروں، تین ٹماٹروں، دو مولیوں، سلاد کے چند پتوں، آٹھ کیلوں، پانچ مالٹوں، اور پندرہ آلو بخاروں کی ضرورت ہے، تو آپ اپنی مرضی سے یہ تمام چیزیں ایک شاپر میں ڈالتے جائیں کوئی آپ کا ہاتھ نہیں پکڑے گا، یہاں آپ میں جرات نہیں کہ آپ سبزی والے کے ترازو میں اپنی پسند کی کوئی سبزی یا پھل ڈال جائیں اور اگر آ پ کو ایک دو شملہ مرچوں اور تین گاجروں کی ضرورت ہے تو آپ مروتا ً ایک ایک کلو چیز لینے پر مجبور ہیں کیونکہ آپ سبزی والے کی قہر آلود نگاہوں کی تاب نہیں لا سکتے۔ یہاں ہم نے اپنی پسند کی چیزیں اپنی ضرورت کے مطابق لیں اور کاؤنٹر پر موجود صاحب کے حوالے کر دیں۔انھوں نے ہر چیز تولی اور لکھی ہوئی قیمت کے مطابق بل بنایا اور ہمارے حوالے کیں۔

ایک مرتبہ مکہ میں اسی دکان سے جہاں سے ہم روز ایک کلو پھل لیا کرتے تھے وہاں انگور اچھے لگے شاہد نے ایک گچھا اٹھایا کہ اسے تول دو، لیکن اس دوکاندار نے ایک دم وہ ہاتھ سے لے لیا اور کہا ’’ نہیں یہ بیچنے کے لیے نہیں ہے۔‘‘

شاہد نے کہا ’’مجھے تو یہ ٹھیک لگ رہا ہے اس لیے مجھے دے دو۔‘‘

لیکن وہ نہ مانا پتہ چلا کہ وہاں کا قانون ہے کہ جو پھل یا سبزی آپ بیچ رہے ہوں اس کا کرٹن آپ کے پاس ہونا ضروری ہے کہ جس پر معینہ مدت برائے استعمال درج ہو، اب چونکہ بقول اس دکاندار کے میرا وہ کرٹن کسی وجہ سے ضائع ہو چکا ہے، اس لیے میں یہ پھل نہیں بیچ سکتا۔

یہ سب کچھ دیکھ کر جی چاہا کہ ہمارے گلی محلے میں بھی ایسی دکانیں اور مارکٹیں ہوں۔ پھر احساس ہوا، انسان ناشکرا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جس قیمت میں وہاں سے آپ ایک روز کے لیے سبزی پھل خرید رہے ہیں، اپنے ملک میں ہفتے بھر کے لیے لے سکتے ہیں، خیر معاشی صورت حال اور طلب و رسد پر سوچنے کی بالکل ہمت نہ تھی۔

ثمرین بھابھی کو موبائیل پر اطلاع کرتے رہے تھے کہ ہم ا ب کہاں ہیں اور اب گھر پہنچنے والے ہیں۔ وہ مغرب کے وقت سے کھانا تیار کر کے انتظار میں تھیں لیکن انھیں بھی اندازہ تھا نئے شہر کے دیدار میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ مل کر بہت خوش ہوئیں۔ انھوں نے کھانا لگانا شروع کیا، میں نے کہا ’’آپ لوگ کھائیں، میں راستے بھر ناصر بھائی سے کہتی آئی ہوں کہ اللہ کے واسطے مجھے کچھ کھانے کے لیے نہ کہیں مجھے صر ف سونے کے لیے بستر چاہیے۔‘‘

ثمرین بھابھی حاجیوں کی حالت سے اچھی طرح واقف تھیں، کہنے لگیں ’’مجھے معلوم ہے حاجی مہینے بھر کے تھکے ہوتے ہیں انھیں کھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ صرف آرام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

میں مہینہ بھر کی تو نہیں لیکن آج کے آرام دہ سفر سے نہ جانے کیوں بے آرام ہوئی تھی، سر کیوں چکرانے لگا تھا۔ اب میں ٹی وی کے سامنے لیٹی تھی سب کھانا کھا رہے تھے، ثمرین بھابھی نے میرے لیے پلیٹ بنا دی تھی کہ جب رات کو بھوک محسوس ہو تو کھا لوں، میں آہستہ آہستہ سلاد کھا رہی تھی۔

اتنے دنوں بعد ٹی۔ وی دیکھنا عجیب سا لگ رہا تھا، خبریں شروع ہوئیں، پاکستانی چینل لگا ہوا تھا، خبریں آ رہی تھیں، میں نے کہا۔

’’پہلے ہمارا چینل شریف نامہ ہوا کر تا تھا اب مشرف نامہ ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘

ثمرین بھابھی نے برجستہ کہا۔ ’’یہاں بھی شاہ نامہ چلا کرتا ہے۔ اکثر شاہ کی تصویر ہی گھنٹوں ٹی وی پر آتی رہتی ہے۔‘‘

ناصر بھائی اور ثمرین بھابھی کا اصرار تھا کہ ہم کم از کم ایک روز تو ان کے پاس رہیں اور میں کہہ رہی تھی ’’آپ نے اتنا کر لیا ہے ہمارے لیے یہی بہت ہے، آپ تھک نہیں جاتے اتنی مہمان داری کرتے ہوئے۔‘‘

ناصر بھائی نے کہا ’’اتنی مشکل سے تو اس سال یہ دو حاجی پھنسے ہیں، ورنہ تو ہر سال تیس تیس حاجیوں کی خدمت کا موقع ملتا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ ہم تھک نہیں جاتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اگر حاجیوں کو ذرا سا آرام و سکون پہنچانے کا باعث بنتے ہیں اور وہ جواب میں ہمیں ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے ہیں تو ہماری تھکن لمحہ بھر میں غائب ہو جاتی ہے اور ان کی دعاؤں کی برکت سے اللہ ہمیں اور نوازتا ہے۔ ‘‘

رات سکون سے سوئے۔ صبح ہمارا اصرار تھا کہ اب ہمیں اجازت دی جائے اور ناصر بھائی کا ارادہ تھا کہ میں دفتری کام نبٹا کر جلدی سے آ جاتا ہوں پھر آپ کو جدہ کی سیر کراؤں گا، خیر ہماری مجبوری سمجھ گئے۔ دفتر فون کر دیا اور ثمرین بھابھی نے ناشتہ تیار کیا اور دوپہر کا کھانا ساتھ پیک کر دیا۔ بچے ہمارے جاگنے سے پہلے سکول جا چکے تھے۔

دونوں میاں بیوی ہمیں چھوڑنے کے لیے اپنے سارے کام چھوڑ کر روانہ ہوئے، اب بھی ان کا بس نہ چلتا تھا کہ ہمیں شہر کا کو نہ کو نہ دکھا لیں، دیکھنا تو ہماری بھی خواہش تھی، لیکن وقت کے محدود ہونے کا احساس غالب تھا۔ صرف ایک دن ہمارے پاس تھا اور ہم ایک ایک لمحہ در کعبہ پر گزارنا چاہتے تھے۔

ناصر بھائی ہمیں پھر سمندر پر لے گئے ’’ آپ کل رات پوچھ رہی تھیں کہ پانی کا رنگ کیسا ہے ؟ اب دیکھ لیں۔‘‘

نیلے شفاف پانی کو دیکھ کر اپنے کلفٹن، منوڑہ اور ہاکس بے یاد آئے جہاں کے پانی کو ہم پکنک کے شوقین لوگوں نے شاپر، کاغذ چھلکے اور نہ جانے کیا کیا پھینک کر غلیظ کر دیا ہے۔ پھر کائی اور سمندری جھاڑیاں اور مختلف فیکٹریوں کا ناکارہ مواد پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔

وہاں سے ائر پورٹ لے گئے کہ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں کل آپ کو آ نا ہے کتنا وسیع و عریض ائر پورٹ ہے۔جہاں تمام ممالک کے لاکھوں حاجیوں کی آمد و رفت کا بندوبست ہو وہ کتنا عظیم الشان ہو گا۔ اس کے بعد ہمیں وہ اس مقام پرلے گئے کہ جہاں منشیات کے مجرموں کے سر، سر عام قلم کیے جاتے ہیں، خوبصورت سفید سنگ مر مر سے بنی مسجدِ جفالی کے ساتھ ہی ایک چبو ترہ سا بنا ہے۔ ناصر بھائی راستے میں بتا رہے تھے، پہلے صرف نماز جمعہ کے بعد سر قلم کیے جاتے تھے، اب کسی بھی روز یہ کام ہو سکتا ہے۔میں سوچنے لگی ہم آج جا رہے ہیں کیا پتا آج ہی ۔۔۔ فورا ً توبہ استغفار کی اور بنی نوع انسان اور امت مسلمہ کی سلامتی اور ہدایت کے لیے دعا کی۔

وہ بتا رہے تھے کہ جب مجرم یہاں لایا جاتا ہے تو وہ موت کی دہشت سے پہلے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے یا اسے اتنے انجکشن دیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں ہوتا۔ اسے تھام کر لا یا جاتا ہے۔جب بٹھایا جاتا ہے تو اس کا سرعالم بے ہوشی میں زمین کی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک تیز دھار تلوار کی نوک اس کی ریڑھ کی ہڈی میں چبھوئی جاتی ہے۔ مجرم ایک جھٹکے سے سر اٹھاتا ہے اور جلاد اس ایک لمحے میں اپنا کام مکمل اور مجرم کا کام تمام کر دیتا ہے۔

یہاں ڈاکٹر اور ایمبولنس موجود ہوتی ہیں تاکہ کمزور دل افراد کو فوراً ً طبّی امداد دی جا سکے۔ منشیات یا دیگر سنگین جرائم میں ملوث خواتین کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان کا سر قلم نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کے ماتھے پر گولی مار دی جاتی ہے۔ ان کے پیچھے ریت سے بھری ہوئی بوریاں رکھی جاتی ہیں۔

وہاں سے آگے بڑھے تو ایک چار دیواری سی دکھائی کہ یہاں اماں حوا کی قبر ہے۔ بھابھی ثمرین ہمیں شاپنگ پلازہ دکھانا چاہتی تھیں لیکن وقت کی کمی آڑے آئی۔ اب ہم سیدھے مکہ پہنچ کر دم لینا چاہتے تھے۔ ہمیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ ناصر بھائی کو دفتر پہنچنا ہے، ناصر بھائی اور ثمرین بھابھی کی بے مثال میزبانی کا شکریہ ادا کیا۔

ہم ظہر سے پہلے پہلے مکہ پہنچ گئے۔ قیام گاہ پہنچ کر سامان سمیٹنا شروع کیا کہ اب کسی بھی وقت کل کی روانگی کا وقت مل سکتا ہے، خانۂ کعبہ گئے تو عشا کے بعد واپسی ہوئی۔ ہمیں ابھی آب زم زم بھرنا تھا ہمارے ساتھیوں نے کہا کہ سعودی ائر لائنز والے ہر حاجی کو دس لٹر آب زم زم کا تحفہ دیں گے، اس لیے پانی لے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاہد آب زم زم کے سواکچھ اور لے جانے میں دلچسپی ہی نہ رکھتے تھے، پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہمارے وہی ساتھی آب زم زم بھر کر لا رہے ہیں۔ شاہد بیس بیس لٹر کے تین کین خریدنا چاہتے تھے۔ انھیں بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ ہر ایک کہہ رہا ہے کہ بیس لٹر والے کین ہوائی جہاز میں رکھنے نہیں دیے جائیں گے، دس لٹر والے ہی خریدیں، شاہد تین کین لے آئے۔

رات گئے ہم دوبارہ گئے کہ کعبۃ اللہ سے الوداعی ملاقات بھی کر لی جائے اور آب زمزم بھی بھر لیا جائے، کعبہ کی وہی رونق اور دل کی اداسی اور احساس تنہائی بڑھتا ہی جاتا تھا۔ ایک دعا جو سب دعاؤں پر غالب رہی کہ اے ہمارے رب ہمیں توفیق بخش کہ ہم دوبارہ تیرے در پر آئیں پھر اپنی اور امت مسلمہ کے لیے جتنی دعائیں کی جا سکتی تھیں، کرتے رہے۔ مناسک حج کی تکمیل کے بعد سے جتنے بھی طواف کیے الوداعی طواف کی نیت سے کیے۔ لیکن آج کچھ اور ہی بات تھی۔ دل گداز کیوں کر ہوتا ہے، عزیز از جاں فرد ہو یا مقام، اس سے جدائی کا صدمہ کتنا کڑا ہوتا ہے، اللہ اپنے مجبور اور بے بس اور عصیاں میں گھرے بندوں کو کس طرح اپنے در پر بلا کر ان کی بخشش کا سامان کرتا ہے اور کس طرح وہ خود اپنی نگاہوں میں سرخرو ہوتے ہیں، ساری کیفیات مدغم ہو رہی تھیں اور ان سب پر حاوی بیت اللہ کی دلکشی و رعنائی۔

نہ جانے کیوں مجھے کعبۃ اللہ کا حسن رات کے وقت انتہائی فریفتہ کر دینے والا معلوم ہوتا اور آج تو وداع کی رات تھی، جو تیزی سے گزرتی جا رہی تھی اور ہر گزرتا لمحہ کہتا تھا اپنے رب سے جو کچھ کہنا ہے کہہ لو پھر نہ جانے ۔۔۔ اور پھر دل سے فوراً ہی دعا نکلتی کہ اللہ وہ وقت جلد پھر لائے کہ ہم اس در پر حاضری دیں۔

شاہد نے تینوں کین پانی سے بھرے اور ہم الوداعی سلام کرتے ہوئے رخصت ہوئے، بڑی چھوٹی کئی بوتلیں شاہد پہلے ہی بھر چکے تھے۔کین ٹرالی پر ر کھے اور قیام گاہ پر آ گئے دوسرے روز ہمیں عصر کے بعد جدہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔

اب ہمیں سا مان باندھنا تھا، شاہد گتے کے دو مضبوط بڑے بڑے ڈبے لے آئے تھے۔ ہم نے عزیزوں کے لیے جو تحائف لیے تھے، وہ ان ڈبوں میں پیک کیے پھر مدینہ کے سوق الحرام سے پچیس تیس کلو کھجوریں لی تھیں کس طرح خریدی تھیں، یہ الگ داستان ہے، یہ ضرور کہوں گی کہ اس بازار کے دکان داروں نے بھی شکر کیا ہو گا کہ ان کا یہ کام پورا ہوا۔ میرا خیال ہے کہ یہ بتاتی ہی چلوں کہ ہمارے گروپ کے یہ تین حاجی کھجوریں خرید کر پیک کروا کے لائے تھے، گھر آ کر نہ جانے کس خیال کے تحت پیکنگ کھولی گئی کھجوریں کھول کر دیکھیں تو وہ کیڑوں سے بھری ہوئی تھیں۔ حرم کے زیر سایہ بھی کرنے والے جو کر نا چاہتے ہیں کر گزر تے ہیں، تو ا ب شاہد چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی ر ہے تھے۔ وہ کھجوریں واپس ہوئیں اور نئی خریدی گئیں اور اس خریداری میں، میں بھی ان کے ہمراہ تھی ان کی، اپنی اور دکان داروں کی قوت برداشت دیکھ رہی تھی۔ بہر حال وہ کھجوریں بھی پیک کی گئیں۔

شاہد کا خیال تھا کہ سب کچھ پا کستان میں مل جاتا ہے۔ سوائے آب زمزم کے، اس لیے صرف آب زمزم ہی لے جانا چاہیے۔آب زم زم سے متعلق ان کی طلب دیکھ کر میں اکثر کہا کر تی تھی کہ ان کا بس چلتا تو وہ کنواں ہی لے آتے، لیکن کچھ نہ کچھ تو لے جانا ضروری تھا۔وہ سب تبرکات و تحائف ان ڈبوں میں بند کیے۔ شاہد نے اپنے بیگ میں سے کپڑے نکال کر وہ بھی انھی ڈبوں میں پیک کر دیے اور اپنے خالی بیگ میں زمزم سے بھری چھوٹی بڑی بوتلیں رکھ لیں۔

عصر کے وقت ارادہ کیا کہ جتنی دیر میں بسیں آتی ہیں، تیزی سے ایک مرتبہ پھر زیارت کر آتے ہیں۔ ایک طواف کا اور موقع مل گیا۔ واپس آئے تو بسیں تیار کھڑی تھیں۔ چلتے چلتے مغرب ہو گئی۔ ذرا آگے گئے تو بسیں معلم کے دفتر پر جا کھڑی ہوئیں، اور گھنٹہ بھر کھڑی ہی رہیں، نہ جانے اب کون سی کاروائیاں ہو رہی تھیں۔

سامنے ایک خوب صورت باغ تھا اندر اس لیے نہ گئے کہ نہ جانے کب اذنِ سفر ہو جائے، دوسرے یہ کہ باغ میں داخلے کے لیے بچوں کی موجودگی ضروری تھی، تیسرے یہ کہ باغ میں داخلے کا ٹکٹ پانچ ریال تھا۔ خدا خدا کر کے بسیں روانہ ہوئیں۔ مختلف مقامات پر پڑتال کے مراحل طے کرتے نصف شب کو جدہ پہنچے۔

راستے میں معلم کی جانب سے جوس، کیک اور آب زمزم کی ایک ایک بوتل اور ملی جو فورا ً ہی شاہد کے بیگ میں منتقل ہو گئی۔ جدہ ہوائی مستقر پر سامان کے وزن کے لیے وہاں ملازم ایک بنگلہ دیشی بھائی آ موجود ہوئے۔ انھوں نے ہمارے سامان کا وزن کیا اور لمحوں میں ہمیں اس کام سے فارغ کر دیا لیکن یہ ضرور ہوا کہ شاہد نے جس توقع پر ان سے مدد لی تھی وہ پوری نہ ہوئی، آب زمزم کا تیسرا کین افسران بالا نے نہایت بے دردی سے نکال باہر کیا، جسے شاہد نے لپک کر گود لے لیا اب نہ وہ چاہتے ہیں کہ زمزم سے بھرا کین یہاں بے یار و مدد گار چھوڑا جائے نہ میرا دل مانتا ہے کہ اسے یہیں چھو ڑ دیں۔

شاہد نے کہا۔ ’’میں اسے دستی سامان کے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

ہم نے سارا سامان تو بجھوا دیا تھا۔ اب میرے پاس ایک چھوٹا بیگ، شاہد کے کاندھے پر ایک بڑا بیگ اور ہاتھ میں کین۔ کہنے لگے ’’جب مجھے سکریننگ کے مراحل سے گزرنا ہو گا تو ڈیوٹی پر موجود بندہ تو چکرا ہی جائے گا، کہ یہ کیسا شخص ہے کہ جس کے بیگ میں سوائے زمزم کی آٹھ دس بوتلوں کے اور کچھ نہیں اور جس کے ہاتھ میں بھی زمزم کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’اس چیز کو بیان کرنے والی مشین ایجاد نہیں ہوئی ورنہ وہ یہ بھی دکھا دیتی کہ اس شخص نے چالیس دنوں میں زمزم کے کتنے لٹر اپنے اندر انڈیلے ہیں۔‘‘

سامان جمع کرانے سے تو جلد ہی فراغت مل گئی لیکن لاؤ نچ میں داخلے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا، انتظار ختم ہوا کاغذی کاروائی کے بعد لاؤنج میں پہنچے، سوڈان جانے والے مسافرو ں کو انتظار کھنچتے پایا، معلوم ہوا کہ ان کا جہاز تین گھنٹے نہیں بلکہ تین دن نامعلوم وجوہ کی بنا پر لیٹ ہے۔ یقین تو نہ آیا لیکن مسافروں کی حالتِ زار اس داستان کے حقیقی ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔ ایک صاحب پر دورہ پڑتا تھا تو وہ سعودیہ ائر لائنز کے کارکنوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ان کی فلائٹ آنے والی ہے جب یہ لوگ رخصت ہوں گے تب ہم اندر جا کر بیٹھ سکیں گے۔

بلا مبالغہ وہاں ڈھائی تین گھنٹے کھڑے رہے۔ ان کی فلائٹ آئی، وہ گئے پھر ہمیں اندر انتظار گاہ میں جانے کی اجازت ملی، جہاں پتھر کے صوفے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ اندر جا کر بھی کاغذات کی جانچ پڑتال کے مراحل سے گزرے، اتنے میں فجر کا وقت ہو گیا، وہیں نماز پڑھی گئی، ساڑھے سات بجے جہاز کی آمد کا اعلان ہوا۔ ایک ایک نہایت خوب صورت قرآن پاک کا نسخہ جیسا ہم حرمِ پاک میں پڑھتے تھے، تین دینی مسائل سے متعلق کتابچے اور ایک ایک آڈیو کیسٹ، یہ تحائف سعودی حکومت کی جانب سے ہر حاجی کو دیے گئے۔

جہاز تک جانے کے لیے بس میں بیٹھے۔ شاہد ہجوم میں پیچھے رہ گئے تھے۔اتنے میں بس چل دی، میں نے سوچا کہ دوسری بس سے آ جائیں گے۔ میں جہاز میں کوئی آرام دہ سیٹ لینا چاہتی تھی۔ سعودی ائر لائنز میں سیٹوں کے نمبر نہیں ہوتے، جہاں جگہ ملے بیٹھ سکتے ہیں۔ میں اوپر پہنچی فرسٹ کلاس کی پہلی سیٹ پر بیٹھی کہ ذرا کھلی جگہ ہو تو سفر آسانی سے کٹ جائے گا۔ دوسری سیٹ پر میں نے اپنا بیگ رکھا، جب بھی کوئی مسافر سیٹ کی تلاش میں آتا، اسے میرے ساتھ کی سیٹ کے علاوہ کوئی اور جگہ نظر ہی نہیں آتی۔ ائر ہوسٹس بھی کہنے لگی ’’وہ کہیں اور بیٹھ چکے ہوں گے اب نہیں آتے۔‘‘

میں نے کہا ’’بیس سال سے تو وہ گھر کا راستہ نہیں بھولے میں کیسے مان لوں آج وہ نہیں آئیں گے۔‘‘

ذرا ہی دیر میں شاہد آ گئے کہ میں دوسری طرف تمہاری سیٹ روکے بیٹھا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ تم یہاں بیٹھی ہو تو میں یہاں آ گیا۔ ان کے ہاتھ میں آب زمزم کا کین تھا کہنے لگے ’’ اپنا بیگ تو میں وہاں اوپر شیلف میں رکھ چکا تھا وہ میں نہیں لایا واپسی پر لے لیں گے۔‘‘

ائرہوسٹس ناشتہ لانے میں مصروف ہوئی۔ ہماری خوش نصیبی کہ ہمارا یہ سفر کرنل محمد خان کے اس سفری تجربے سے قطعی مختلف تھا کہ ان کی ائر ہوسٹس کا سفر کے اختتام پر ہوا میں تیرتا یہ جملہ، جملہ مسافران کے لیے نا قابل قبول تھا ’’امید ہے کہ آپ کا سفر خوش گوار گزرا ہو گا۔‘‘

ایسے بانچھ سفر کو خوش گوار کہنے پر کسی دل جلے نے ائر ہوسٹس کو ڈائن کہہ دیا تھا، اس پر ایک پولیس افسر برداشت نہ کرسکے اور رعب و دبدبہ سے لبریز آواز میں بولے ’’ ائر ہوسٹس کو ڈائن کس نے کہا؟‘‘

پیچھے سے اتنی ہی با رعب آواز میں استفہامیہ جواب آیا ’’ ڈائن کو ائر ہوسٹس کس نے کہا؟‘‘

ہمارا سفر جنت نگاہ و فردوس گوش تھا کہ وہاں موجود تمام فضائی میزبانیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں اور وہ جو ہم سے قریب تھیں اور جن کا اسم سعید، سعدیہ ان کے سینے پر جگمگاتا تھا، فراز کی غزل ۔۔۔ ’’ سنا ہے‘‘ ۔۔۔ کی مکمل تفسیر و تشریح تھیں۔ ناشتے میں وہ سب کچھ تھا جو ایک پر تکلف ناشتے کا لازمی حصہ ہے، لیکن میں اپنی طبیعت سے ڈری ہوئی تھی کہ طبع نازک پہ کچھ گراں گزرا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔چنانچہ کچھ نہ کھایا پیا بلکہ سانس بھی آہستہ لینے کی کوشش کی کہ اس وقت میں اپنی طبیعت کی خرابی کی متحمل نہ ہو سکتی تھی۔

آتے ہوئے جہاز کے سفر کے دوران میری طبیعت بالکل خراب نہیں ہوئی تھی، لیکن مدینہ سے واپسی اور پھر ایک روز پہلے کے جدہ کے سفر میں گھبراہٹ ہوئی تھی۔ میں محتاط تھی کہ کسی بیزاری سے محفوظ رہوں۔ میں دیکھ رہی تھی کہ لوگ بڑے مزے سے سب کچھ کھا پی رہے تھے۔میں نے سوتے جاگتے سفر کاٹا۔ اللہ اللہ کر کے اسلام آباد پہنچنے کی نوید سنی۔ ہمارے جہاز نے سرزمین پاک کو چھوا۔

شاہد کہنے لگے ’’ میں جا کر اپنا بیگ جو پیچھے شیلف میں ہے، وہ لے آتا ہوں تم اپنا بیگ لے کر اتر جانا، یہ کین بھاری ہے واپسی پر میں خود اٹھا لاؤں گا۔‘‘

شاہد یہ کہہ کر چلے گئے۔ میں نے اپنا مختصر سا بیگ اٹھایا، جی چاہا کین بھی اٹھا لوں لیکن اٹھایا تو احساس ہوا کہ اتنا بھی ہلکا نہیں ہے، شاہد خود ہی اٹھا لیں گے۔ ائر ہوسٹس جلدی اترنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ میں جہاز سے باہر آئی بس تیار تھی، اس میں دوسرے مسافروں کے ساتھ بیٹھ گئی کہ شاہد دوسری بس سے آ جائیں گے۔ بس سے اتری محسوس ہوا ایک مدت تک خاکِ وطن سے دور رہی ہوں۔ پڑھا کرتے تھے کہ آزادی کے متوالوں نے جب سرزمین پاک پر قدم رکھا تو کس طرح سجدئہ شکر بجا لائے تھے، کیسے خاکِ وطن کو بوسے دیے تھے۔ آج، اگر مجھے بھی گرد و پیش کا احساس نہ ہوتا تو میں بھی یہی کچھ کر گزرتی۔

سامان آنا شروع ہو گیا اور شاہد ابھی نہیں پہنچے تھے۔ مجھے یہ پریشانی ہوئی کہ اگر ہمارا سامان آ گیا، تو اتنے بھاری سامان کو میں اکیلی کیسے اٹھاؤں گی اور اس وقت جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، میں کسی کو کیوں آزمائش میں ڈالوں۔

شاہد آتے دکھائی دیے۔ آ تے ہی انھوں نے پوچھا ’’ آب زمزم کا کین تم لے آئی تھیں۔‘‘

میں نے کہا ’’نہیں آپ کہہ رہے تھے کہ میں لے آؤں گا، اس لیے میں نے نہیں اٹھایا۔‘‘

کہنے لگے ’’ میں سارا جہاز دیکھ آیا ہوں، مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔‘‘

مجھے احساس تھا شاہد کتنے شوق سے یہ پانی لے کر جا رہے تھے، آب زمزم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے پینا ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا، جسے توفیق ہوتی ہے، وہی اسے پی سکتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ شاہد ایک وقت میں  حرمِ پاک میں موجود سٹیل کے نو نو مگ بھر کر پی جاتے تھے جب کہ میں ایک بھی بمشکل پی سکتی تھی۔ یہ کیا ہو گیا؟ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، مجھے بشریٰ رحمان یاد آئیں کہ ان کے ساتھ بھی برٹش ائر ویز نے ایسا ہی ہاتھ کر دیا تھا کہ جب وہ جہاز سے اتر نے لگیں، تو سٹیورڈ سے اپنا بیگ مانگا اور جواب نفی میں ملا، تو وہ کیسے پریشان ہوئی تھیں کہ اس بیگ میں بچوں کے لیے تحفے تھے کچھ خواب تھے، کچھ خیال تھے اور اب کچھ نہ تھا، مجھے شاہد بھی ایسے ہی خالی ہاتھ لگے۔

میں نے کہا ’’آپ یہیں ٹھہریں سامان پہنچنے والا ہو گا۔ میں سہیل آفتاب کا پتا کرتی ہوں۔‘‘

آفس کی طرف جاتے ہوئے میں نے ایک با وردی شخص سے سہیل کا پوچھا معلوم ہوا کہ وہ موجود نہیں ہیں، ان صاحب نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ کیا کام تھا میں نے بتایا ’’آب زمزم کا کین غالباً جہاز میں ہی رہ گیا ہے۔‘‘

انھوں نے مجھے قریب ہی کھڑے ایک صاحب سے رابطہ کرنے کو کہا۔ وہ موبائل پر ایک اور خاتون کے گم شدہ سامان کی تفصیل جہاز پر موجود عملے کو بتا رہے تھے، جب ان کی بات مکمل ہوئی تو میں نے اپنے آب زمزم کی گمشدگی کی داستان کہہ سنائی۔ وہ خاتون جو اپنے گمشدہ سامان کی تفصیل سنا رہی تھیں، ایک دم بول اٹھیں۔

’’اس کین پر کس کا نام تحریر ہے۔‘‘

میں نے کہا ’’شاہد محمود‘‘

وہ مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے انتہائی تیزی سے آگے بڑھیں اور دوسرے ہی لمحے ان کے ہاتھ میں ہمارا کین تھا۔ کہنے لگیں ہم جہاز سے اتر رہے تھے تو یہ کین کوئی بھول کر اتر آیا تھا۔ہم لے آئے کہ کہیں جہاز اسے لے کر نہ چلا جائے، جس کسی نے پوچھا تو اسے دے دیں گے میں نے لپک کر کین اٹھایا اور ان کا شکریہ ادا کرتی ہوئی شاہد کی طرف آئی، ابھی سامان پہنچا نہ تھا شاہد آب زمزم کا کین دیکھ کر خوش بھی ہوئے اور حیران بھی اور پوچھنے لگے ’’کیسے ملا، کہاں سے ملا‘‘

میں نے کہا ’’ سوال جواب بعد میں، باہر سب لوگ انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘

جو دستی سامان ہمارے ساتھ تھا وہ ٹرالی پر لادا اور چیکنگ کے بعد باہر نکل آئے۔ سب سے پہلے دانش نظر آیا، پھر فارد اور پھر سبھی نظر آنے لگے۔ اپنے اپنے حاجیوں کو لینے کے لیے آنے والوں کا ازدحام، اپنوں تک پہنچنے میں کسی قدر مشکل پیدا کر رہا تھا اور پھر اچانک انھی اجنبی لوگوں کے ایک گروہ نے مجھے پوچھا آپ حج کر کے آئی ہیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا، تو نہ جانے کتنی خواتین نے مجھے گلے لگایا اور اپنے پیاروں کے لیے لائے گئے گلاب میرے گلے میں ڈال دیے۔ نزہت، مسز عباس، حمید بھائی اور ماموں جی میرے فارغ ہونے کا انتظار کر رہے تھے شاہد بھی آ چکے تھے، انھوں نے مجھے اور شاہد کو سرخ دہکتے مہکتے گلابوں سے لاد دیا۔

امر بیل کسی اور جسم و جاں کو اپنا مستقر بنانے جا چکی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

کتابیات

 

٭افتخار احمد قادری حافظ، دیارِ حبیب۔جون۲۰۰۱ء

٭ بنت اسلام، ماہ صیام اور حج بیت اللہ۔

٭ ڈسکوی، جاوید جمال۔میرے حضور کے دیس میں، لاہور، جنگ پبلیشرز، ۱۹۹۰

٭ خان ایچ بی۔ کراچی سے گنبد خضرا تک، کراچی، الحمد اکادمی، ۱۹۸۶

٭ شورش کاشمیری، شب جائے کہ من بودم، لاہور، مکتبۂ چٹان، بار سوم، ۱۹۸۸

٭ طبری، علامہ جریر۔ تاریخ طبری، جلد اول، کراچی، نفیس اکیڈمی مارچ ۱۹۶۷ ء

٭ معراج الاسلام، محمد۔ کعبۃ اللہ اور اس کا حج، لاہور، گنبد خضریٰ پبلی کیشنز۔ س ن

٭ معراج الاسلام، محمد۔ مسجدِ نبوی، لاہور مکتبہ نوری،

٭ مختلف کتا بچے اور پاکستانی و سعودی اخبارات۔

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید