FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

پَلیتہ

 

حصہ دوّم

ناول

 

 

پیغام آفاقی

 

 

حصہ اول یہاں دیکھیں

 

اپنے  دادا کی کہانی کو وہ کبھی کا بھول چکا تھا۔ اسے  بار بار کلکتے  کی لائبریری میں  ملے  شخص  کا چہرہ یاد آتا تھا۔ یہاں  رہتے  ہوئے  اسے  ہفتوں  ہو گئے  تھے  لیکن وہ یہاں  سے  جانا بھی نہیں  چاہتا تھا۔ دلی میں  اس کے  ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ  سب اس کے  لئے  محض ایک عظیم کہانی کا  عنوان بن کر رہ گیا تھا۔ اسے  اپنے  اس زمانے  کے  اپنے  آپ کے  ساتھ  دوسروں  کے  چہرے  بھی معصوم  دکھنے  لگے  تھے۔ ظلم کیا ہوتا ہے  یہ انہوں  نے  دیکھا کہاں  تھا۔ امتحان والے  واقعے  کو بھی اس نے   تب اتنی گہرائی سے  کہاں  سمجھا تھا۔ لیکن اس کے  بعد اسے  کہیں  بھی کامیابی کیوں  نہیں  ملی  یہ بات اس کو اب کچھ کچھ سمجھ میں  آنے  لگی تھی۔ عام انسان اگر تاریخ کو اپنے  طور پر پڑھے   تو تاریخ اور دنیا کے  چہرے  بدلے  ہوئے  دکھ سکتے  ہیں   اس کا احساس اسے  مسلسل جھٹکوں  کے  ساتھ  زیادہ سے  زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس وقت اس کے  لئے  ممکن ہی نہیں  تھا  کہ وہ واپس چلا جائے۔ وہ اس وقت تاریخ کے  ایک ایسے  منظر میں   آ کھڑا ہوا تھا  جو حکومت، معاشرہ اور انسانوں   کی ان الجھنوں  کو سمجھنے  میں  معاون ہو سکتا تھا  جس کے  بغیر وہ سب بھی بیکار تھا جو اس نے  اب تک سمجھ رکھا تھا۔  یہ بات صرف اس کے  اپنے  متعلق ہی صحیح نہیں  تھی بلکہ معاشرہ کی ایک بڑی اکثریت  اسی کی طرح شدید دھوکے  کا شکار تھی۔

وہ بار بار اپنے  والد کو خط لکھنے  کے  لئے  قلم اٹھاتا تھا لیکن پھر رکھ دیتا تھا کیونکہ یہ عجب گاہ اتنی گنجلک تھی کہ اس کی سمجھ میں  نہیں  آتا تھا کہ کہاں  سے  شروع کرے او ر کہاں  ختم کرے  گا تو اس کی بات واضح طور پر مکمل  ہو سکے  گی۔ نتیجے  کے  طور پر وہ یہاں  آنے  کے  بعد  ایک بھی خط نہیں  لکھ پایا تھا۔ آتے  وقت تو اس نے  یہ بھی سوچا تھا کہ وہ اپنے  والد کو فون پر بتاتا جائے  گا کہ اس نے  کیا دیکھا اور کیا کیا پایا اور اس کے  پردادا سے  متعلق کیا معلومات حاصل ہوئیں۔ اس نے  یہ بھی سوچا تھا کہ اپنی بستی کے  کسی پڑھے  لکھے  نوجوان کے  ذریعے  وہ انٹرنیٹ کے  کسی سوشل نیت ورک پر یہاں  کی تصویریں  ڈال کر اپنے  گھر والوں  تک پہنچوا دیگا  لیکن یہ سب باتیں  اب بے  معنی ہو گئی تھیں۔ خط لکھنے  کا اس کا ارادہ اسی دن کہیں  اٹک گیا تھا جب اسے  معلوم ہوا کہ یہاں  کوئی ایسا قبرستان نہیں  جس کے  بارے  میں  وہ سوچ سکے  کہ اس کے   پردادا کو اس میں  دفن کیا گیا ہو گااور  وہ جانتا تھا کہ اس کے  والد اس کے  خط میں  سب سے  پہلے  اسی بارے  میں  کچھ ڈھونڈیں  گے او ر اگر اصلیت کی طرف اشارہ بھی کیا  تو شاید یہ بات اس کے  لئے  کافی ہو گی کہ وہ اس کے  لوٹنے  سے  پہلے  ہی اس دنیا سے  چلے  جائیں۔ اس نے  سوچا تھا کہ وہ خط تبھی لکھے  گا جب وہ  یہاں  کے  مظالم کی پوری تصویر کھینچ کر دنیا کو دکھانے او ر ایک تاریخی مقدمہ قائم کرنے  میں کامیاب ہو جائے  گا۔

اس کہانی نے  ہی دنیا کے  بارے  میں  اس کا نظریہ بدل دیا تھا۔

’اور اسی دن سے  یہ ابدی مقدمہ اس کی روح کی بیماری بن گیا تھا۔ وہ دراصل بے  حد حساس تھا۔ اسے  اس بات کی تکلیف تھی کہ اتنی جانسوز مصیبت سے  گزرے  لوگوں  کی جان بچی بھی تو پھر انہیں  پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور ان کے  ساتھ ذرا سا بھی رحم کا سلوک نہیں  کیا گیا۔ اسے  اتنا اندازہ سا ہو رہا تھا کہ اس کے  پردادا اسی دور میں  آئے  تھے او ر ممکن تھا کہ کتے  کے  مقدمے  کے  اس ملزم کو یہ سب کچھ سہنا پڑا ہو۔ اگر ایسا ہوا ہو تو کیا یہ واقعہ پوری انسانیت کے  ضمیر کو ہلا دینے او ر حکومتوں  کے  کردار پر از سرِ نو گور کرنے  کے  لئے  کافی نہیں  تھا۔ ‘مجاور نے  کہا۔ اور خاموش ہو گیا جیسے  وہ خالد کو کہانی سناتے  سناتے  تھک سا گیا ہو۔

سامعین طالب علم بھی گہری سوچ میں  ڈوب گئے  تھے۔

مجاور نے  کہانی جاری رکھی۔

اس واقعہ کہ بعد قیدیوں  کے  اندر ایک شدید بے  چینی سلگتی آگ کی طرح گردش کرتی رہی۔ شیر علی کے  ہاتھوں  لارڈ میو کا قتل کوئی لمحاتی یا جذباتی واقعہ نہیں  تھا۔ اس کی جڑیں  دراصل بہت گہری تھیں۔ اور اس کا یہ عمل ایک اعتبار سے  تمام قیدیوں  کی طرف سے  اجتماعی عمل تھا ہر چند کہ یہ اس کے  بہت دنوں  کے  ذاتی مشاہدے  کا نتیجہ تھا اور جس بات نے  اس کو اس عمل پر آمادہ کر دیا وہ کوئی اور بات تھی جس کا ذکر میں  آگے  کروں  گا۔ ابھی تک تو شیر علی ان جزیروں  میں پہنچا بھی نہیں  تھا۔

oo

 

 

 

 

بھاگے  ہوئے  قیدیوں  کی اس طرح گرفتاری اور ان کی اجتماعی پھانسی نے  سب کا دل توڑ دیا تھا۔ وہ ڈاکٹر والکر کی طرف سے  اتنی بے  رحمی کی توقع نہیں  رکھتے  تھے۔ پہلے  تو انہوں  نے  ڈاکٹر والکر کی دہشت آفریں  حرکت کو قیدیوں  کو نفسیاتی طور پر پر قابو میں  لانے  کا  ایک حربہ سمجھا تھا اور اس کی طرح سے  قیدیوں  کو دی جانے  والی اذیتوں  کو بھی اس کے  اسی عمل کا حصہ سمجھا تھا لیکن اس اجتماعی پھانسی کو وہ اس کی بے  رحمی نہیں  بلکہ قیدیوں  کے  لئے  اس کے  دل میں  موجود گہری حقارت کا نتیجہ ماننے  لگے  تھے۔ ان کو تعجب خود اس بات پر بھی تھی کہ انگریزی سرکار کا ایک ملازم ایسی بڑی سزا کا فیصلہ اتنی آسانی سے  کیسے  لے  رہا تھا۔ انہیں  یہاں  نافذ قانون بڑا اجنبی لگنے  لگا۔

وہ بڑے  جری لوگ تھے۔ ان کے  دماغ سے  لے کر لبوں  تک پر سوالات ابھرنے  لگے۔

’ ہندوستان کے  جیل خانوں  کے  لیے  تو ایسا قانون نہیں  ہے  کہ وہاں  سے  جیل سے  بھاگنے  والے  قیدی کو سزائے  موت دی جائے  گی۔

’کیا یہ دیکھنا نہیں  چاہئے  کہ اگر مجرم قید سے  بھاگتے  ہیں  تو کیوں  بھاگتے  ہیں  ؟

کیا اس لیے  بھاگتے  ہیں  کہ وہ قید کی مدت کی پوری سزا بھگتنا نہیں  چاہتے۔

یا  یہ کہ وہ قید کی صعوبتوں  سے  تنگ ہو کر بھاگتے  ہیں۔

یا ان کے  اوپر قید کے  دوران اتنے  مظالم ڈھائے  جاتے  ہیں، اس کو اتنا زد و کوب کیا جاتا ہے او ر وہ بھی موت کے  خوف کے  تلے  کہ جب وہ برداشت نہیں  کر پاتے  تو باہر نکل جاتے  ہیں ؟

کیا یہ دیکھنا ضروری نہیں  ہے  کہ قیدیوں  کے  بھاگنے  کے  پیچھے  وجہ وہ اذیت تو نہیں  ہے  جو انہیں  دی جاتی ہے  ؟

کچھ سوال واقعی بہت گمبھیر تھے۔

’ مجرموں  کو بھاگنے  سے  روکنے  میں  جیل کے  انتظامیہ کی کتنی کمزوری ہے ؟

’ جب ایک حد سے  زیادہ اذیت بڑھائی جائے  گی تو مجرم قید سے  بھاگے  گا اور گولی سے  مر جانا یا جنگل میں جا کر مر جانے  یا سمندر میں  ڈوب کر مر جانے  کو ترجیح دے  گا۔

’یہاں  یہ سب دیکھنے  والا کوئی نہیں۔ ان کی حکومت ہے۔ ‘ ان میں  سے  ایک نے  دوسروں  سے  کہا۔ وہ یہاں  ایسے  زنداں  میں  گرفتار تھے  جہاں  سوچ کر خاموش رہ جانے  کے  علاوہ اور کوئی چارہ نہیں  تھا۔

oo

 

 

 

دوسرے  دن مجاور نے  گوپی کی آگے  کی کہانی سنائی۔  ’رفتہ رفتہ جب رتھی نے  گوپی کو اپنی زبان سمجھا دی تو گوپی نے  اسے او ر قبیلے  کے  دوسرے  لوگوں  کو اپنے  بار ے  میں، اپنے  قیدی ہونے  کے  بارے  میں  بتایا۔ جب سردار کو یہ معلوم ہوا کہ جن لوگوں  کو اس نے  مارا تھا وہ لوگ قیدی تھی تو اس نے  بہت افسو س کیا۔

’ہم انگریزوں  کا بدلہ خود لیں  گے۔ یہ ظالم لوگ ہمارے  اپنے  اوپر ظلم کرتے  ہیں  ہم ایک ایک قیدی کے  خون کا بدلہ ان انگریزوں  سے  لیں  گے۔

اسی بات سے  تو گوپی گھبراتا تھا۔

یہ انگریزوں  سے  مصالحت کیوں  نہیں  کر لیتے   ؟

اسے  محسوس ہونے  لگا کہ یہ قبائلی حد درجہ بیوقوف ہیں۔

یہ انگریزوں  سے  لڑیں  گی  ؟

گوپی ان لوگوں  کی زبان یا حرکات کا معنی نہیں  سمجھ پا رہا تھا۔ اس لیے  زیادہ وقت وہ چپ رہتا۔ ایک قبائلی نے  اس کے  اس مسئلہ کو تاڑ لیا اور گاہے  گاہے  کبھی خاموشی سے او ر کبھی مسکرا کر گوپی کو اکثر الفاظ یا حرکتوں  کے  معنی سمجھاتا رہتا تھا۔ شام میں  اسے  وہی کھانا دیا گیا جو قبائلی کھاتے  تھے۔ پھر اس کے  کپڑے  مکمل طور پر اتار کر اسے  جنگلیوں  کی طرح بنا دیا گیا۔

ابتدا میں گوپی کو عورتوں او ر نوخیز لڑکیوں  کے  بدن پر اور پستان پر نظریں  اٹھانے  میں  جھجک محسوس ہوتی اور اندازہ نہیں  لگا پاتا کہ اسے  کہاں  دیکھنا چاہیے او ر کہاں  نہیں  دیکھنا چاہیے  لیکن دھیرے  دھیرے  وہ ان قبائلیوں  کے  آداب زندگی کو کافی حد تک سیکھ گیا۔ وہ مسلسل اس بات سے  خوفزدہ رہتا کہ کیاپتہ کس بات پر قبائلیوں  کو غصہ آ جائے۔ ان کا تیور بدل جائے او ر وہ اسے  موت کے  گھاٹ اتار دیں  لیکن دھیرے  دھیرے  وہ ان قبائلیوں  کے  انداز زندگی کو کافی حد تک سیکھ گیا۔ بہت جلد وہ ان میں  سے  ایک بن گیا۔ رفتہ رفتہ اسے  معلوم ہوا کہ جو لوگ بھی آپس میں  معاشقہ کرتے  ہیں او ر شادی میں  بندھن میں  داخل ہوتے  ہیں او ر میاں  بیوی کے  تئیں  وفاداری نبھاتے  ہیں او ر اپنے  بچوں  کی پرورش کی ذمہ داری اپنے  کندھوں  پر اٹھاتے  ہیں  یعنی ان کے  ننگے  بدن کا معنی یہ قطعی نہیں  تھا کہ وہ ایک دوسرے  کے  ساتھ بے  راہ روی کے  ساتھ جنس کی تسکین کرتے  البتہ بوڑھے، بڑے او ر نوجوان سے  نوخیز سبھی جب ایک ساتھ ہوتے  تو اس کے  ذہن کے  پرخچے  ضرور اڑتے  کیونکہ وہ اپنے  معاشرے  میں  اس کا تصور بھی نہیں  کر سکتا تھا۔

ان کی عورتیں  آپس میں  بچوں  کو لے  کر جھگڑے  کرتیں۔ مرد آپس میں  جنگ کرتے  لیکن سردار کے  سامنے  سب خاموش ہو جاتے۔

ان دنوں  میں  جب گوپی ابھی زخمی تھا اسے  کھانا پانی دینے  کی ذمہ داری سردار نے  اپنی پندرہ سالہ بیٹی کو دی تھی۔ وہ بہت سنجیدگی سے  گوپی کی دیکھ بھال کرنے  لگی تھی اور اس وقت وہ اداس ہو جاتی جب وہ گوپی کی کچھ یاد کر کے  تنہائی میں  ڈوبتے  دیکھتی جب گوپی کی تنہائی کا دکھ اس سے  نہیں  دیکھا جاتا تو وہ اس کے  قریب آتی اور کسی نہ کسی بہانے  سے  اس کے  سامنے  آ کر مسکراتے  ہوئے  اس کو اس تنہائی سے  باہر لاتی۔ لڑکی کی گہری اور تازہ آنکھیں او ر مالش کیا ہوا جسم ایک جادو کا سماں  پیدا کر دیتے او ر گوپی سب کچھ بھول کر اس کے  حسین بدن اور اس کے  جسم کے  نوخیز خد و خال میں  کھو جاتا لیکن کبھی اس کے  ساتھ بے  تکلف ہونے  کی ہمت نہیں  پڑی لیکن دن بدن لڑکی خود بخود اس کی جانب کھنچی آ رہی تھی۔ ایک دن جب قبائلی اکھٹے  ڈانس کر رہے  تھے۔ رتی نے  گوپی کا بازو پکڑ کر اسے  بھی کھینچ کر رقص کرنے  کے  لیے  لے  گئی۔ سردار نے  ایک بار تو اسے  گمبھیر نظروں  سے  دیکھا لیکن اس کے  بعد نظریں  نیچی کر کے  کچھ سوچنے  لگا۔ لڑکی نے  ضد کی۔ دوسروں  کو کچھ حیرت نہیں  ہوئی۔ حسن کی اس قربان گاہ پر اپنی جان کی بازی لگانے  کی ہمت کرتے  ہوئے  وہ رقص میں  شامل ہو گیا۔ سب ڈانس کرتے  رہے او ر سردار اسے  ہی دیکھتا رہا۔ ڈانس ختم ہو گیا۔ اس نے  بھی اوروں  کے  ساتھ شراب پی۔

رات میں  جب وہ سو رہا تھا اس نے  دیکھا کہ سردار اپنی اس بیٹی سے  بات کر رہا تھا۔  لڑکی سنجیدہ دیکھ رہی تھی۔ صبح کے  وقت اس نے  سردار کے  دروازے  پر قبائلیوں  کو جمع ہوتے  دیکھا۔

غالباً میرے  سر کو میرے  دھڑ سے  کاٹ کر الگ کرنے  کی تیاری ہو رہی ہے، گوپی نے  سوچا اور خوف سے  اس کے  رونگٹے  کھڑے  ہو گئے۔ وہ بے  چینی سے  سوچنے  لگا کہ کیسے  وہ یہاں  سے  فرار ہو۔ وہ ضرورت سے  فرار ہونے  کے  بہانے  سامنے  کے  جنگل کی طرف گیا اور وہاں  سے  آگے  نکلنے  لگا لیکن وہ جانتا تھا کہ یہاں  سے  نکل بھاگنا لگ بھگ ناممکن تھا۔ سیکڑوں میل دور تک پھیلا ہوا جنگل انہی قبائلیوں  کا علاقہ تھا کہ سردار کا ایک اشارہ ملتے  ہی پورا قبیلہ تیر کمان لیے  تلاش میں  نکل پڑے  گا۔ اسے  ڈھونڈے  گا اور پورے  قبیلہ کے  سامنے  آگ کی بھٹی میں  ڈال کر کباب بنا دیا جائے  گا۔ وہ تیز تیز بھاگتا جا رہا تھا، جب وہ تھک گیا تو وہ درختوں  کے  ایک جھنڈ میں  چھپ کر آرام کرنے  لگا۔

انسان کسی ایک لمحہ میں  غلطی کرتا ہے او ر پھر ایک طویل خوفناک انجام کو بھگتتا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا، اس نے  کب غلطی کی۔ اس لمحے  جب وہ اس نوخیز اجنبی حسینہ کے  خوبصورت جادوئی نرم گرم جسم کی کرنوں  سے  پگھلنے  لگا تھا، وہ اسے  دیکھتے  ہوئے  اس کے  قریب آ بیٹھی تھی۔ اس نے  پہلے  اس کے  کندھوں  پر پھر اس کی کمر پر ہاتھ رکھ دیا تھا، اور پھر اس کی نظروں  میں  ڈوبتے  ہی نہ جانے  کب اس کے  ہاتھ میں  اس کا خوبصورت سینہ آ گیا تھا۔ کیسی لذت محسوس کی تھی اس نے۔ اس کی انگلیوں  کو اب تک اس نوخیز کے  سینے  کے  ابھار کی اندرونی نرمی کی لذت یاد تھی۔

پھر وہ لڑکی اچانک ہی دور ہو گئی تھی اور غصہ بھری آنکھوں  سے  دیکھتی ہوئی بھاگ کر وہاں  سے  چلی گئی تھی۔ وہ خوف سے  کانپنے  لگا تھا، رات میں  اسے  نیند نہیں  آئی تھی۔ وہ جاگ ہی رہا تھا کہ اندھیرے  میں  اس کی نظر دور بیٹھے  سردار پر پڑی۔ اس کی بیٹی اس کے  سامنے  ہی بیٹھی تھی۔

اسے  یاد آ رہا تھا کہ جب وہ لڑکی اس کے  بالکل قریب آ گئی تھی اس لمحے  اسے  اس خطرناک لمحہ کے  انجام کا خیال آیا تھا۔ اسے  موت کی تلوار لٹکتی دیکھ رہی تھی پھر بھی اس نے  چانس لیا تھا لیکن اب تو وہی ہو بھی گیا تھا جس کا خطرہ تھا۔

اسے  اپنی زندگی کے  ابتدائی دن اور اس کے  بعد کے  برس یاد آئے۔ وہ بچپن سے  ہی اپنی جڑوں  سے  اکھڑتا آیا تھا۔ وہ چوروں  کے  ایک خاندان سے  تعلق رکھتا تھا۔ وہ ایک گھر میں  سیندھ لگانے  گئے  تھے۔ وہ ابھی گھر میں  راستہ بنا ہی رہے  تھے  کہ کوئی جاگ گیا۔ تب بھی اس نے  غیر ضروری ہمت سے  کام لیا تھا، اس نے  سوچا کہ جاگا ہوا آدمی جب سامنے  آئے  گا تو وہ اسکو ڈرا دے  گا۔ جب وہ نہیں  ڈرا تو اس نے  اپنے  داب سے  اس کی گردن پر حملہ کر کے  اس کو مہلک طور پر زخمی کر دیا۔ لیکن اس کے  بھاگنے  سے  پہلے  آواز سن کر کچھ دوسرے  لوگ گھروں  سے  نکل پڑے  تھے۔ اس کا پیچھا کیا اور پھر اس پر مقدمہ چلا اور اسے  کالا پانی بھیج دیا گیا۔

اس کو اپنی جان بے  حد عزیز تھی اور وہ بہت جلد کسی کی ہمدردی حاصل کرنے  کی قدرتی صلاحیت رکھتا تھا اور اس کی بنیاد تھی اس کے  اندر ہمت کی یکسر کمی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ فطرتاً شاعر بھی تھا۔ لہٰذا وہ وہاں  سے  نکل کر بھاگا تھا لیکن اب سوچ رہا تھا کہ اس کا شاید کچھ فائدہ نہ ہو۔

وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس چلانے  کی آوازیں  سنائی دیں۔ یہ آوازیں  اسی کی تلاش سے  متعلق تھیں۔ اس نے  درختوں  کے  بیچ سے  سر اٹھا کر دیکھا۔ کچھ نوجوان تھے  جو ادھر ادھر نظریں  دوڑا رہے  تھے۔ کبھی زمین پر قدموں  کے  نشان ڈھونڈتے، کبھی مڑی شاخوں او ر پتیوں  سے  اس کے  گزرنے  کا راستہ ڈھونڈ رہے  تھے،وہ خاموش رہا۔ وہ اس کا نام لے  کر اسے  پکارتے  رہے۔ وہ آگے  بڑھ گئے۔ اس کو سوچنے  کا موقع ملا۔ کسی تھکے  ہوئے  شکار کی طرح جو شکاری جانور کے  ڈر سے  بھاگتے  بھاگتے  بھاگنے  کے  ارادہ ترک کر چکا ہو اور خود ہی اپنے  آپ کو شکاری کے  پنجے  میں  ڈال دینا چاہتا ہو۔ اس نے  اپنے  کو سپرد کر کے  ایک بار پھر ہمدردی کے  آزماتے  ہوئے  نسخے  کو استعمال کرنے  کا فیصلہ کر لیا۔ وہ نکل کر سامنے  آ گیا اور جیسے  موت کی طرف خود ہی چلنے  لگا۔ گھنے  درختوں  والے  اس جنگل میں  چلنے  والی ہوا کچھ ایسا محسوس کروا رہی تھی جیسے  یہ اس کی زندگی کے  آخری لمحات تھے۔ اسی بیچ اس کو ایک اور گروہ پیچھے  سے  آتا دکھائی دیا۔ وہ غالباً گھبرا کر گر جاتا لیکن یہ دیکھ کر اسے  کچھ اطمینان ہوا کہ ان کے  ہاتھوں  میں  تیر کمان نہیں  تھے۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ وہ قریب آئے۔ وہ ایک بار پھر ان سے  طرح طرح سے  ہمدردی اور رحم کی بھیک مانگنے  لگا۔ اس وقت وہ خالصتاً اپنی مادری زبان بول رہا تھا۔ صرف اس کی آواز اور چہرے  کے  تاثرات اس کے  معنی کھول رہے  تھے  لیکن ان کے  چہروں  پر کسی قسم کا غصہ نہیں  تھا۔

اس نے  ان کو بتایا کہ وہ بھاگا نہیں  تھا بلکہ راستہ بھول گیا تھا۔ وہ گوپی کو ساتھ لے  کر آ گئے۔

سردار بیٹھا انتظار کر رہا تھا اور لڑکی رتھی دلہن بنی بیٹھی تھی۔ اسے  بتایا گیا کہ سردار اس سے  اپنی لڑکی کو بیاہ رہا تھا۔ شادی کی رسم ادا ہوئی۔

وہ رات گوپی کی زندگی کی سب سے  زیادہ بھرپور رات تھی۔

’رتھی۔ ‘

گوپی نے  جھک کر پیار سے  رتھی کا بوسہ لیا تو وہ لوہے  کی بنی لڑکی اتنی نرم بن گئی جیسے  ریشم کی ہو۔ جذبہ پیار سے  سرشار رتھی نے  اپنے  پورے  وجود کو اسے  پروسے  ہوئے، اپنی گرم سانسوں  کی خوشبوؤں  سے  اسے  دنیا و مافیہا سے  کاٹ کر جنت میں  پہنچا دیا تھا۔ وہ انتھک انداز میں  بار بار کسی پاگل کی طرح انتہائی معصومیت اور بے  ساختگی سے  اپنے  پورے  وجود کے  ساتھ اس سے  لپٹی رہی۔ اس کے  اندر سے  اس جنگل میں  اجنبی اور تنہا ہونے  کا احساس مکمل طور پر جاتا رہا۔

دوسری صبح اس کی زندگی کے  ایک انتہائی حسین باب کا آغاز معلوم ہو رہا تھا، کیونکہ اب رتھی اس کے  ساتھ گھر بسا چکی تھی۔ کچھ دنوں  بعد جب رتھی حاملہ ہو گئی تو سردار نے  امور خانہ داری کی ذمہ داری اٹھانے  کے  لیے  گوپی سے  ایک دوسری عورت کی بھی شادی کر دی۔ ان دو بیویوں او ر رتھی کے  پیٹ میں  پلنے  والے  بچے  کے  ساتھ اب وہ مکمل طور پر قبائلی بن چکا تھا۔ ان کا رہن سہن، ان کا علم، ان کے  جذبات، ان کی زندگی گزارنے  کے  ذرائع، ان کے  جنگی حربے، ان کے  چھپنے  کی جگہیں، ان کے  دشمنوں  پر حملہ کرنے  کے  طریقوں او ر ان کے  گانے  بجانے  سب دھیرے  دھیرے  اس کے  ذہن و دل کا حصہ بن گئے۔ لیکن وہ پوری طرح ان قبائلیوں میں  کبھی بھی فنا نہیں  ہو پایا۔

مجاور کی گول گول چھوٹی چھوٹی آنکھوں  میں  اس کے  اندر کا پروفیسر جاگ اٹھا تھا۔

اس کی وجہ تھی وہ عظیم تنہائی جس کا احساس ان جزائر کی دنیا قدرتی طور پر پیدا کرتی تھی۔ یہ تنہائی صرف اپنے  جیسے  لوگوں  سے  الگ ہونے  کی تنہائی نہیں  تھی بلکہ یہ ایک ایسی تنہائی تھی جس نے  مکمل طور پر اس جگہ کو ساری دنیا سے  الگ کر رکھا تھا۔ اس زندگی کی تمام رنگینیوں  کے  باوجود وہ کبھی کبھی بے  حد دکھی ہو جاتا۔ رتھی اس کے  جسم کے  قریب تو آ جاتی۔ اس کے  دل کو بھی چھوتی لیکن شاید وہ بھی اسی طرح اس سے  دور تھی جس طرح انگریز ہندوستان سے  دور تھے۔ وہ لاکھ جتن کے  باوجود نہ خود اس کی روح میں  گھل پایا نہ وہ پوری طرح اسے  سمجھ پائی لیکن وہ اس سے  محبت کرتی تھی اس کا اسے  گہرا احساس تھا۔ پھر بھی جب کبھی رات کی گہری تنہائی میں  اس کی آنکھ کھلتی تو ایک بھیانک سناٹا اس کو گھیر لیتا اور کبھی کبھی دہشت زدہ بھی کر دیتا او ر اس کا جی چاہتا کہ وہ کسی طرح یہاں  سے  بھاگ جائے۔ پورٹ بلیر دوسرے  قیدیوں  کے  بیچ پہنچ جائے  یا کسی طریقے  سے  اپنے  وطن ہی چلا جائے۔ وہ رتھی کو لیکر بھی جانے  کی کوشش کر سکتا تھا لیکن شاید یہ قبائلی نہ تو اسے  اس طرح جانے  دیں  گے  نہ خود رتھی جانا چاہے  گی۔ یہ سوچتے  سوچتے  اسے  رتھی کی محبت پر شک ہونے  لگتا۔ کبھی کبھی سوچتا کہ اگر وہ انہی لوگوں  کے  بیچ رہ گیا تو یہیں  بوڑھا ہو جائے  گا اور انہیں  کے  بیچ مر جائے  گا۔ اپنی زندگی کا اس طرح کا خاتمہ پتہ نہیں  کیوں  اسے  بالکل پسند نہیں  تھا۔

کبھی کبھی اسے  یہ لوگ انگریزوں  سے  بھی زیادہ اجنبی محسوس ہوتے  کیونکہ یہ کسی بھی اعتبار سے  اس کے  وطن کے  لوگوں  سے  جڑے  ہوئے  نہیں  تھے۔ ان کی دنیا محدود تھی اور یہ اسی دنیا میں  محدود رہنا چاہتے  تھے۔ اس علاقہ کے  آفاق سے  آگے  سیکڑوں  میل تک کوئی دوسرا ملک نہیں  تھا، اور اس درمیان اگر کچھ تھا تو صرف گہرا سمندر، جس میں  اٹھتی ہوئی لہریں  چلتی پھرتی پہاڑیوں  کی طرح دکھائی دیتی تھیں  جن سے  ہو کر بغیر کسی جہاز کے  جانا ممکن نہ تھا۔ وہ اکثر ساحل پر کھڑے  ہو کر اپنے  وطن کے  بارے  میں  سوچتا اور بہت مایوس ہو جاتا تھا۔ یہاں  کوئی ایسا ذریعہ نہیں  تھا جس سے  اپنی کوئی بات یا خبر اپنے  ملک تک پہنچائی جا سکتی۔ خود ان لوگوں  کے  بیچ رہ کر اسے  جو تجربہ ہو رہا تھا اسے  وہ کسی ’اپنے ‘ سے  بانٹنا چاہتا تھا۔ دھیرے  دھیرے  اس کے  اندر ایک ناقابلِ برداشت گھٹن پیدا ہونے  لگی۔ اس نے  کئی بار اس گھٹن کو ہٹانے  کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یہاں  کی آب و ہوا اس کی طبیعت سے  میل نہیں  کھاتی تھی۔ یہاں  ملنے  والی کھانے  پینے  کی چیزیں  کھاتے  کھاتے  وہ اوب سا گیا تھا۔ ہرچند کہ یہ چیزیں  اسے  رتھی اپنے  ہاتھوں سے  بنا کر بے  حد پیار سے  کھلاتی تھی اور اس کے  اوپر جان چھڑکتی تھی۔ لیکن رتھی کے  علاوہ اسے  یہاں  کی کسی اور چیز میں  گہری دلچسپی پیدا نہیں  ہو سکی۔

یہ جزائر بے  حد ہرے  بھرے  سبز و شاداب تھے  لیکن ان زمینوں  پر کھانے  والی کوئی بھی سبزی نہیں  اگتی تھی۔ خوراک میں  وہ وٹامن یہاں  مل ہی نہیں  سکتے  تھے  جو جسم کو تندرست اور بیماریوں  سے  محفوظ رکھتے۔ نہانے  کے  لیے  میٹھا پانی نہیں  تھا۔ دن بھر کڑی دھوپ کی گرمی میں  کام کرنے  کے  بعد چپچپے  بدن کو صاف کرنے  کے  لیے  سمندر کے  اس کھارے  پانی کے  علاوہ وہاں  کچھ نہ تھا جو خون بدن کی کھال کو چپکے  چپکے  خراب کرتا رہتا تھا اور نئی بیماریوں  کو جنم دیتا رہتا تھا۔ مین لینڈ سے  آیا ہوا آدمی ان جزیروں  میں  آ کر ایک رفتہ رفتہ ایسا بوسیدہ مکان بن جاتا تھا جس کو وقت سے  بہت پہلے  ٹوٹ کر گر ہی جانا تھا۔ یہاں  آ کر احساس ہوتا تھا کہ انسان کی زندگی غیر محسوس طریقے  سے  کتنی ایسی ان دیکھی چیزوں  کی بنیاد پر قائم تھی جن کی غیر موجودگی انسان کو اس مچھلی کی طرح بنا سکتی تھی جسے  پانی سے  نکال کر خشکی میں  تڑپنے ‘پریشان ہونے او ر موت کے  منھ میں  جانے  کے  لیے  ڈال دیا گیا ہو۔ وہ یہاں  ایک ساری دنیا سے  کٹا ہوا  انسان بن کر رہ گیا تھا۔

وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ اجنبی دنیا بھی محفوظ نہیں  تھی۔ یہ انگریزوں  کے  نشانے  پر تھی۔ ایک نہ ایک دن اسے  تباہ ہونا تھا۔ وہ انگریزوں  کی اسکیم سے  واقف تھا کہ کسی بھی دن انگریزی فوج یہاں  بھیجی جا سکتی تھی۔ جن انگریزوں  نے  پوری دنیا کو فتح کیا تھا ان کے  لئے  یہ جنگل کیا چیز تھے۔ انگریزوں  کو نئی مجرم آبادی کو بسانے او ر سرکاری دفتروں ، فوجی ٹکڑیوں  کے  کھیل کود، ٹریننگ وغیرہ کے  لیے  جگہ اور عمارتوں  کی ضرورت تھی۔ عمارتیں  لکڑیوں  سے  بنتی تھی۔ اس کے  لئے  لکڑی چیرنے  کی مشینوں او ر فیکٹریوں  کی ضرورت تھی اور ان تمام چیزوں  کے  لئے  ایسے  علاقوں کو قبضے  میں  لینے  کی ضرورت تھی جہاں  سے  لکڑیاں  لائی جا سکیں۔ لیکن لکڑی کاٹنے  کی کوشش میں  اکثر ان قبائلیوں  سے  لڑائی ہو جاتی تھی۔ وہ کبھی کبھی تنہا بیٹھا ہوا انہی ’مسائل‘ پر غور کرتا رہتا۔ لیکن اپنے  ان اندیشوں  میں  وہ کسی کو شامل نہیں  کر پاتا۔ یہ قبائلی بے  حد ضدی تھے او ر ان مسائل پر غور کرنے  کیلئے  وہ بالکل تیار نہیں  تھے۔

جیلانی کو یہ کہانی سنتے  ہوئے  سمجھ میں  آنے  لگا کہ جب کسی معاشرے  کے  کمزور یا موقع پرست طبیعت کے  عوام کسی فاتح یا حاوی طبقے  کے  سامنے  اپنے  لوگوں  کو کمزور پاتے  ہیں  تو کیسے  وہ خود اپنے  ہی مجاہدوں  کی حوصلہ شکنی کرنے  لگتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں  کے  بارے  میں  اس کے  چاروں  طرف معاشرے  کے  لوگوں  کی رائے  اسی طرح تو بنتی جا رہی تھی۔

گوپی جانتا تھا کہ انگریز یہ طے  کر چکے  ہیں  کہ ان جزیروں  میں  ایک مکمل دنیا آباد کرنے  کے  لئے  اس جروا قبیلے  کے  لوگوں  کو ایک مخصوص علاقے  میں  ہانک کر کم از کم ان جزیروں  کے  ایک بڑے  علاقے  کو جروا قبائلیوں سے  خالی کروا لیا جائے  جہاں  فوجی یا قیدی مزدوروں  کو ان کے  تیروں  کا سامنا نہیں  کرنا پڑے۔

اس کے  مد نظر حاکموں  نے  ان جزائر کے  نقشے  پر نظر ڈالتے  ہوئے  ایک بڑے  علاقہ کو غیر جروا علاقہ قرار دے  کر فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ اس پورے  علاقے  سے  جروا قبائلیوں  کو نکال کر اسے  خالی کرے او ر اس کی سرحدوں  پر پہرہ لگا دے۔

فوج نے  جب یہ کار روائی کی تو جروا قبائلیوں  کے  اوپر یہ گویا ان کے  ملک کے  بڑے  حصے  سے  ان کو نکالے  جانے  جیسا تھا۔ جا بجا جنگلوں  میں  لڑائیاں  ہوئیں۔ جروا انگریزوں  کی رائفلوں  کا مقابلہ نہیں  کر سکے۔ دوربین لگی رائفلوں  سے  جس دوری سے  انگریزی فوج انہیں  دیکھ کر ان پر نشانہ کر سکتی تھی وہاں  سے  تیروں  سے  جوابی حملہ نہیں  ہو سکتا تھا۔ رفتہ رفتہ جروا قبیلے  میں  غصہ بڑھتا گیا۔ دنیا کی کسی بھی قوم کی طرح انہیں  اپنے  ملک پر یہ حملہ پسند نہیں  تھا اور وہ اپنی زمین چھوڑنے  کو تیار نہیں  تھے۔ انہوں  نے  ایک زبردست کار روائی کا حربہ تیار کرنا شروع کر دیا۔ سردار سے  قربت کی وجہ سے  گوپی اس پوری سوچ میں  شامل رہا۔ سردار نے  اس کو زندگی بخشی تھی۔ اپنی بیٹی سے  شادی کر کے  اپنے  پیار کا احساس دلایا تھا اور قبائلیوں  میں  اسے  ایک ممتاز مقام دیا تھا۔ اسے  گوپی پر مکمل بھروسہ تھا۔ لہٰذا وہ جروا قبیلے  کی وار کونسل کی ہر میٹنگ میں  شامل رہتا۔

oo

 

 

 

 

ادھر جروا انگریزوں  سے  جنگ کی تیاری کر رہے  تھے  ادھر بڑے  پیمانے  پر ان کے  جنگلوں  پر قبضہ کر کے  وہاں  کی زمینوں، درختوں او ر ساحلوں  کو استعمال کرنے  کے  لیے  مین لینڈ سے  زیادہ سے  زیادہ آدمی لانے  کی مہم شروع ہو گئی۔

ملک کے  جیلوں  کے  دروازے  اس اجنبی کام کے  لیے  کھول دئے  گئے۔ اپنے  علاقے  کے  جیلوں  سے  چلنے  کے  بعد اس سفر میں  سڑکوں، درختوں ، بستیوں، ندیوں  کو دیکھتے  ہوئے  یہ  قیدی سوچ رہے  تھے  کہ ان چیزوں  پر ان کی نظریں  شاید آخری بار پڑ رہی ہیں۔ انہیں  کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے  وہ اب ان تمام چیزوں  کو الوداع کہہ رہے  تھے۔ اس جذبہ کے  تحت ان کا حب الوطنی کا جذبہ ایک بار پھر بجھتے  چراغ کی لو کی طرح بھڑک اٹھا تھا۔ جہاں جہاں  انہیں  موقع ملا ٹرین کی کھڑکیوں  سے  انہوں  نے  مویشی چراتے  چرا ہوں او ر صبح کو کام پر جانے  یا شام کو گھر لوٹتے  مسافروں  کو ہاتھ ہلا کر آوازیں  دیں او ر نعرے  لگائے  جو کبھی بمشکل ہی ان کو سنائی دئے  سوائے  اسی کے  ان کی پکار بلند ہوئی جو صدا بہ صحرا ہو گئی۔ سننے  والوں  کے  پاس جواب میں  ان کے  اس صبر و تحمل کے  علاوہ اور کچھ نہ تھا جو ان کی آنکھوں  میں  رات کے  طویل صحرا میں  جھلملاتے  شمعوں  کی طرح روشنی تھا۔ ان کی آنکھوں  میں  ان وطن کے  جیالوں  کے  اوپر فخر کے  وہ موتی ضرور چمک اٹھے  جنہوں  نے  وطن کی آزادی کے  لیے  اپنی مکمل زندگی کی قربانی دی تھی اور اب ایک نئے  تماشہ کا جانور بنے  ہوئے  تھے۔ ان کو ٹرین میں  چاہئے  دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے  ملک کی روح کو ٹرین کا انجن پنجروں  میں  بند کر کے  کھینچے  جا رہا ہو۔

کھیپ کے  کھیپ ملزم مجرموں  میں  تبدیل ہوتے  جا رہے  تھے  کیونکہ کالا پانی میں  مزدوروں  کی ضرورت تھی۔ تمام عدالتوں  میں  ایسے  ہنر اور فنون کی فہرست بھیج دی گئی تھی جن کے  جاننے  والوں  کی کالا پانی میں  ضرورت تھی۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ کالا پانی کی سزا دیتے  ہوئے  اس بات کا دھیان رکھا جائے  کہ قیدی مضبوط اور صحت مند ہوں۔  عدالتیں  اپنے  حیرت انگیز فیصلوں  سے  وکیلوں  کو ششدر کر رہی تھیں۔ کسی مقدمے  میں  ملزم کے  طور پر نام آنا اور جسمانی طور پر مضبوط ہونا سزا پانے  کے  لیے  کافی تھا۔ عدالتیں  مزدور منڈی بنی جا رہی تھیں۔

ہندوستان کے  ہر کونے  کے  لوگ تھے، پنجابی، بہاری، یوپی والے، بنگالی، آسامی اور ہر طرح کے  جرم میں  سزائیں  پائے  ہوئے۔ حکومت برطانیہ کے  خلاف سر اٹھانے  والے، نعرہ لگانے  والے ، قتل کرنے  والے، ڈاکہ زنی کرنے  والے  یا کئی کئی بار مسلسل جرم کرنے  والے۔

قیدیوں  کے  چہرے  جھلسے  ہوئے ، داڑھی بڑھی ہوئی، ناخون میلے، پاؤں  خالی اور نگاہوں  میں  ایک لا متناہی اداسی گہرائی۔

عدالت نے  انھیں  کالا پانی کی سزا دی تھی۔ وہ سزا کاٹنے  جا رہے  تھے  لیکن وہ خود بھی سوچے  جا رہے  تھے۔

ان کا جرم کیا تھا۔

وہ جرم تھا تو وہ جرم کیوں تھا؟

کیا وہ واقعی جرم تھا؟

یہ دنیا طاقت کے  کمپاس سے  چل رہی تھی۔

انھیں  اپنی اپنی مختلف طرح کی کہانیاں  یاد آتی رہیں …

وہ فلسفیانہ انداز میں  اپنے  جرائم کے  بارے  میں  سوچ رہے  تھے۔

اپنی دفاع میں۔

قانون کون بناتا ہے۔

کیوں  بناتا ہے۔

اس کے  مقاصد کیا ہوتے  ہیں۔

کیا قانون کبھی کبھی کچھ مخصوص گروہ کے  لوگوں  کو دبانے  یا پھنسانے  کی لئے  بھی بنتا ہے۔

کچھ مخصوص لوگوں  کے  مفاد کو محفوظ رکھنے  کے  لئے  بنتا ہے۔

اگر ایسا ہے  تو وہ قانون محترم کیسے  ہو سکتے  ہیں۔

شکاری کی طاقت ان کی زبان کو روک سکتی تھی‘ ذہن کو نہیں۔

وہ سوچا کرتے  تھے  کہ انہوں  نے  عدالتوں  میں  کتنی بنتیاں  کی تھیں۔ کتنی دلیلیں  دی تھیں، سچائی کو بے  نقاب کرنے  والے  اشارے  کئے  تھے  لیکن کوتاہ نظر اور متعصب حاکموں او ر ججوں  کی سوچ پر ان کی اپنی ذاتی رائے او ر اپنے  مقاصد حاوی تھے۔

یہ معصوم پرندے الزام کے  پنجروں  میں  ڈال کر ان کے  سامنے  فیصلے  کے  لئے  رکھ دئے  گئے  تھے۔

ملزم کو جرم ثابت ہونے  تک معصوم سمجھنے  کا اصول ایک خوابِ پریشاں  بن کر رہ گیا تھا۔ ایک بار سرکار مقدمہ قائم کر دیتی تھی تو معصوم نہ صرف مجرم سمجھ لیا جاتا تھا بلکہ اس کے  ساتھ مجرم جیسا سلوک بھی ہوتا تھا اور اسے  مجرم ثابت کر کے  اسے  سزا دلانے او ر دینے  کی کوشش ہوتی تھی۔ کیونکہ مدعی خود سرکار تھی اور وہی سرکار ججوں  کی بحالی کرتی تھی‘ ان کو ترقی دیتی تھی۔ معصوم ملزم کی حالت ایسی خوبصورت عورت کی ہو جاتی تھی جسے  ہتھیاروں  سے  لیس خطرناک غنڈے  سڑک پر گھیرے  ہوئے  ہوں او ر خوفزدہ عوام بے  بسی سے  دیکھ رہے  ہوں۔

جج صرف عدالت کے  کمروں  میں  بیٹھے  ہوئے  شطرنج کے  کھلاڑیوں  کی طرح قانون کی کھال میں  سے  بال نکالنے  کو ہی ججی سمجھتے  تھے۔ اس صورتحال کا سامنا ان قیدیوں  کے  وکیلوں  نے  کیا تھا۔ اور ججوں  کے  سامنے  سے  ہٹتے  ہی باہر آ کر ماتم کئے  تھے۔ کئی بار یہ شک ہوا کہ یہ وکیل ہی کمزور تھے۔ لیکن اپیلوں  کے  بعد معلوم ہوا کہ نیچے  سے  اوپر تک ان قتل گا ہوں  کی سیڑھیاں  ایک خاص انداز میں  بنائی گئی تھیں۔

عدالتوں  میں انسانی حقوق اور انسانی آزادی کی پامالی اور شہریوں  کی بے  حرمتی چاہے  وہ غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے  ہو یا جذبہ آقائیت کے  تحت ہو‘ جمہوریت کے  گلے  پر خنجر چلانے  جیسا ہے۔ جنگ، ملک پر بیرونی لٹیروں  کی گرفت، حیرت انگیز حد تک بے  رحمی، دھوکے  بازی،سفید پوشی، کمینی مسکراہٹیں،یہ عدالتیں  بھی اسی کریہہ درندہ کا ایک بازو تھیں۔ ایک روشن تہذیب کے  ارتقا کو ناکام کرنے  میں  یہ بھی برابر کی حصہ دار تھیں۔ یہ ان سفید ریش بزرگوں  کی طرح تھیں  جو در حقیقت پاکھنڈی ہوتے  ہیں۔ وہ لوگ یہی تو تھے  جنہوں  نے  خالد کے  پردادا کو کالا پانی بھیجا تھا۔

عدالتیں  تکلیف زدہ انسانوں  کے  جدوجہد کا آخری پرامن راستہ ہوتی ہیں۔ اس کے  بعد خلفشار کا راستہ کھلتا ہے۔

اس راز کا کسی  بھی مورخ نے  کھل کر اظہار نہیں  کیا کہ دراصل خونی انقلابات کے  پلیتے  عدالتوں  کے  بند دماغوں  سے  ہی پھٹتے  ہیں اور جمہوریت کے  مجبور آنسوؤں  کا پہلا قطرہ عدالتوں  کے  دروازۂ انخلا  کے  چوکھٹے  پر گرتا ہے۔

قیدیوں  میں  بہت سے  قیدی عالم اور مفکر تھے او ر ان مسائل پر تفصیل سے  سوچ سکتے  تھے۔ تمام باتیں  ان کے  اوپر روشن تھیں  لیکن وہ عدالتوں  کے  اس ننگے  ناچ کو دیکھنے  پر مجبور تھے  کیونکہ وہ میدانِ جنگ میں  ہار گئے  تھے۔

ایک بہاری کو مقدمہ میں  قتل کی سزا ملی، اور وہ قاتل بن کر کالا پانی جا رہا تھا۔ کیونکہ اس نے  قانون کو اپنے  ہاتھ میں لیا تھا۔ قتل کی سزا قتل۔ قاتل کی اڑا دو گردن۔ لیکن وہ اب محسوس کر رہا تھا کہ وہ تو کہیں او ر جا رہا تھا۔ تاریخ میں  ایسا بھی ہوتا آیا تھا۔

وہ اپنی بہن کی عصمت دری کی گالی سن کر غصہ میں  آ گیا تھا۔

اس گالی سے  ابھرنے  والی وہ گھناؤنی تصویر جو اس کے  ذہن میں  ابھری تھی وہ اسے  اب تک یاد تھی۔ !

وہ بھالا جو اپنی حفاظت کے  لیے  لے  گیا تھا۔

وہ لمحہ۔

ایک لمحہ۔

ایک لمحہ میں  غصہ میں  آ جانا۔

ایک پل کا غصہ۔

اور وہ عورت تھی جس نے  اپنے  نوزائیدہ بچے  کو قتل کر دیا تھا اور دریا میں  پھینک آئی تھی۔ کیونکہ وہ بچہ جائز نہیں  تھا بلکہ وہ اس پڑوسی کا بچہ تھا جس سے  اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ جذبات میں  بہہ گئی تھی اور پھر کھیتوں  کے  درمیان۔ چاندنی۔ ایسی ہی کھلی چاندنی میں  اس پڑوسی سے  باتیں  کرتے  کرتے  مدہوش ہو گئی تھی۔ اور پھر یہ بچہ پیدا ہوا تھا۔ جس کو وہ رکھنا نہیں  چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ نہیں  چاہتی تھی کہ لوگ اس کے  بچہ کو باسٹارڈ کہہ کر پکاریں ! اسے  وہ چاندنی رات یا د آ رہی تھی۔ اور وہ پڑوسی۔ اور اس کے  حمل سے  پیدا ہونے  والا وہ بچہ۔ اور اس بچے  کی پہلی آواز۔

ایک انسان کی پیدائش پر غلط صحیح کا فیصلہ صادر کر کے  اس کی پیشانی پر ٹھپہ لگانا۔ اگر پیدائش غلط تھی تو اسے   کائنات نے   پیدا ہی کیوں  کیا۔

اور کائنات نے  پیدا کیا تو یہ ٹھپہ کائنات کی پیشانی پر کیوں  نہیں۔

اب یہ نئے  بھیڑ بھی ان جزیروں  کو دیکھ رہی تھی۔

خودرو جھاڑیاں، بید کے  پودے،

پتھریلے  چٹان،

اونچی نیچی پہاڑیاں،

لکڑی سے  بنی ہوئی سیڑھیاں

ٹیڑھی میڑھی چڑھائیوں  پر چڑھنے  کے  لیے  دشوار گزار راستے

سمندر ی لہروں  کی آواز،

سمندر کے  پانیوں  کے  مختلف رنگ،

گھاس سے  بھری پہاڑیاں،

ٹیلے ،

گھنے  درختوں  کی ہری ٹھنڈک ،

پہاڑی نالا،

چشموں  کے   پانی کی آوازیں،

پتھروں  پہ کھلے  ہوئے  پودے،

پودوں  کے  قریب آ کر کائنات کے  فلسفے  سے  انتہائی قربت،

لیکن فرصت کہاں ؟

 

کھلا سمندر، افق تک پھیلا ہوا،

سامنے  نیل آئی لینڈ،

آسمان پر دیو پیکر بادل،

سورج، چاند، ٹھنڈی ہواؤں  کا رات بھر چلنا اور سمندر کی آواز کی گہری پراسراریت۔

سامنے  جیلر کے  مکان کے  سامنے  ایک گول نما پہرہ گھر میں  کھڑا رائفل لیے  سنتری جس کی مونچھیں  تیل پلائی ہوئی، چہرہ لوہے  سے  بنا ہوا، اور کپڑے  بھی پولس کی ٹریننگ پائے  ہوئے  تھے۔ اس مکان سے  آگے  وہ تالاب تھا جسے  قیدیوں  کی محنت و مشقت سے  انگریزوں  کی عیش و عشرت کے  لیے  بنایا گیا تھا، اس میں  سیڑھیاں  تھیں  جو پانی کے  اندر جاتی تھیں۔

دوسری طرف سپاہیوں  کے  رہنے  کے  لیے  بیرک تھا، جہاں  وہ اپنی آدھی پینٹ پہنے  ادھر ادھر لاپرواہی سے  آتے  جاتے  دکھائی دیتے  تھے۔

تیسری طرف کافی دور ایک ٹیلے  نما بلندی پر گنبد نما پھانسی گھر تھا، جہاں  ان لوگوں  کو لے  جایا جاتا تھا جو یا تو کسی ظلم سے  مر جاتے  تھے  یا جن کو پھانسی کے  پھندے  پر لٹکا دینا ہوتا تھا۔

دھول مٹی، چیخ پکار اور ہنگاموں  کی اس دنیا کے  پیچھے او ر نیچے  ایک سسکتی ہوئی دنیا بھی تھی جو ان لوگوں کو جینے  کی طاقت دیتی تھی۔

ایک دن۔

دو دن۔

کئی دن۔

رفتہ رفتہ مہینوں  بیت گئے۔

سمندر کے  کنارے  ایک بڑے  پتھر پر بیٹھا ہوا،

اپنی جانگھ پر کاغذ رکھ کر ایک قیدی ایک خط لکھ رہا تھا،

وہ یہ خط اگلے  جہاز سے  بھیجنا چاہتا تھا۔

 

’ میرے  دوست!

ہمیں  کالا پانی آئے  ہوئے  ایک مدت گزر گئی۔

لکھتے  لکھتے  اس نے  سامنے  کھلے  گنبدی نیلے  آسمان میں  دیکھا۔

وہ جانتا تھا یہ خط کبھی نہیں  پہنچے  گا کیونکہ اسے  خط بھیجنے  کی اجازت نہیں  تھی لیکن اسے  سمندر کے  کنارے  پتھروں  پر رکھی ہوئی ایک بڑی سی سادہ کاپی مل گئی تھی جس کے  اوراق سمندری ہوا کے  جھونکوں  سے  پھڑپھڑا رہے  تھے۔

پاس ہی ایک دوات میں  گردن تک روشنائی بھی بھری تھی، اس نے  ادھر ادھر دیکھا تو وہاں قلم دان میں  ایک قلم بھی تھا۔ شاید ڈاکٹر والکر یہاں  آیا تھا، اور کھلی جگہ میں  بیٹھ کر کام کر رہا تھا اور اس کے  جانے  کے  بعد اس کا ماتحت ابھی یہ سب سامان سمیٹ کر نہیں  لے  گیا تھا۔

وہ ایک صفحے  پر خط لکھ کر اسے  کاپی سے  پھاڑ کر رکھ لے  گا اور اسے  کسی طرح بعد میں  بھیجنے  کی کوشش کرے  گا، وہ اس خط میں یہاں  کی درد ناک حالت کی منظر کشی اس شدت سے  کرے  گا کہ وطن کا جو کوئی بھی اسے  پڑھے  گا، اس کے  گھر پہنچوا دے  گا۔ وہ اس خط کو سمندر کی لہروں  پر ایسے  موسم میں  ڈالے  گا جب ہوا ملک کے  ساحلوں  کی طرف جاتی ہو۔

میں  جانتا ہوں  یہ خط شاید تمہیں  کبھی نہ ملے  لیکن میں  اس وقت وہ سب کچھ لکھنا چاہتا ہوں  جو تم وہاں  سے  نہیں  دیکھ سکتے او ر اب تک نہیں جانتے۔ میں   یہاں ایک عجیب و غریب دنیا دیکھ رہا ہوں۔ تم کو پچھلی بار میں  نے  اس وقت خط لکھا تھا جب جیل سے  ہم کو دوسرے  جگہ لے  جانے  کا پروگرام ہمیں  معلوم ہوا تھا۔ اس وقت یہ بتایا گیا تھا کہ قاتل ہونے  کی وجہ سے  مجھے  سخت سزا ملنی تھی لیکن عدالت نے  نرمی سے  کام لیتے  ہوئے  جلاوطنی کی سزا دی ہے۔ لیکن یہ صرف جلاوطنی نہیں  ہے۔ یہاں  یوں  تو جلاوطنی بھی ہے  کہ یہاں  سے  نہ تو اب تک میں تم کو خط بھیج سکا، نہ اب تک، کوئی تمہارا کوئی خط آیا۔ یہ جلا وطنی یوں  بھی ہے  کہ یہاں  نہ وطن کا موسم ہے، نہ وطن کے  چڑیوں  کی آوازیں ہیں، نہ وطن کے  چہرے  ہیں، نہ وطن کے  جیلر ہیں  نہ وطن کے  سپاہی جو ہم کو گالیاں  بکا کرتے  تھے، اور ہم پر رعب جماتے  تھے، یہاں  تو سب کچھ اجنبی ہے  لیکن اس جلاوطنی میں  بھی ہم آزاد نہیں۔ وطن سے  خارج کرنا ہی صرف ہماری سزا نہیں  ہے۔۔۔   ہم  بیڑیوں او ر زنجیروں  میں  گرفتار رہتے  ہیں۔ سوتے  جاگتے  اٹھتے  بیٹھتے، کھاتے  پیتے  ہر وقت یہ بیڑیاں او ر زنجیریں  ہمارے  ساتھ رہتی ہیں۔ ہم کو جانوروں  کی طرح اس غیر آباد جنگل میں  درختوں  سے  باندھ دیا جاتا ہے۔ دیکھا تم نے  ہم قیدی کے  قیدی ہیں او ر جلاوطن کے  جلاوطن۔ لیکن اس سے  آگے  ابھی بہت کچھ ہے۔ اس سے  آگے  وہ مسلسل اذیتیں  ہیں  جو ایک مقررہ وقت اور مقررہ انداز میں  ہم کو دی جاتی ہیں، لیکن ان اذیتوں  تک ہی محدود نہیں۔ ہم محنت کے  ساتھ دن بھر اس جگہ کی کھلی تیز ترین بال جھلسا دینے  والے او ر بیٹھ کے  چمڑے  کو کالا کر دینے او ر اس کی چربی کو پگھلا دینے  والی دھوپ میں  کام کرتے  ہیں اور ہمارے  پیچھے  سفید پوش ایسے  کوڑے  لے  کر کھڑے  رہتے  ہیں  گویا ہمارا ہاتھ رکا اور اوپر سے  کوڑا لگا۔۔۔  یہاں  ہر منٹ ہی نہیں  ہرسکنڈ قید ہے، گھنٹہ دن، ہفتہ، مہینہ، سب کچھ یوں  گزرتا ہے  ہم موت کی تمنا کرتے  ہیں او ر وہ کہتے  ہیں  کہ یہاں موت سب سے  بعد میں  آتی ہے، پہلے  ان تمام مراحل سے  گزرنا پڑتا ہے۔ اور وہ کہتے  ہیں کہ موت اور زندگی دونوں  ان کے  ہاتھ میں  ہے او ر وہ کہتے  ہیں  کہ جس دن تم بیکار ہو جاؤ گے او ر ہم کو تمھیں  موت دینی ہو گی، اس دن ہم تمہاری بیڑیاں  کھلوا دیں  گے او ر کوڑا زیادہ اور بے  وجہ لگوائیں  گے  تاکہ تم بھاگنے  کی کوشش کرو اور قبائلیوں  کے  تیروں  کا نشانہ بن جاؤ یا بھاگنے  کے  جرم میں  گرفتار کر کے  خود تمہارے  ہاتھوں او ر تمہاری محنت سے  بنے  ہوئے  پھانسی گھر کے  موت کے  پھندے  میں  تم کو لٹکا دیا جائے۔ اور اس سے  بھی آگے۔ یہاں  نہ تو کسی سے  اپنی تکلیف بتائی جا سکتی ہے او ر نہ کسی کے  پاس شکایت کی جا سکتی ہے۔ نہ اپیل اور اس سے  بھی آگے۔ سب سے  بڑی اذیت۔

یکایک اسے  کسی نے  ٹھوکر ماری تو آنکھ کھل گئی۔

وہ تو کام کرتے  کرتے  درخت کے  سائے  کے  نیچے  اونگھ گیا تھا۔

اور اب ایک گورا اسے  ٹھوکر لگا رہا تھا۔

اس کے  دل کو ایک شدید دھچکا سا لگا۔

’ کاش ہمارے  ہمدردوں، ہمارے  ہم وطنوں  ہمارے  اپنوں  کو صرف میرا خط پہنچ جاتا۔ وہ خط جو میں  خواب میں  لکھ رہا تھا۔ کاش ہم وطنوں  تک صرف یہ بات پہنچ جاتی اور ملک کے  گوشے  گوشے  میں  لوگوں  کو معلوم ہو جاتا کہ وہ لوگ جن کے  لیے  سماج پھانسی کی سزا دلوانا چاہتا ہے  اسے  حکومت برطانیہ کیسے  استعمال کر رہی ہے۔ اسکا دل گویا اندر سے  ٹکڑا ٹکڑا ‘ بے  جان اور کمزور ہو گیا،پھر اسے  خط کا خیال آیا۔

’ اس کے  ہاتھ پاؤں  میں  تو بیڑیاں  ہیں، اور وہ تو قید میں ہے، اس نے  آسمان کی بے  پناہ وسعتوں  کی طرف دیکھا اور فضاؤں او ر ہواؤں  کی صرصر اور درختوں  کی پتیوں  میں  کھو گیا۔

کاش یہ الفاظ ان لوگوں  تک۔

لیکن جاگنے  کے  بعد اسے  معلوم ہو گیا تھا کہ یہ سارا تصور فضول اور بے  معنی ہے !!

کبھی نہ پورا ہونے  والا خواب!

ہفتوں ‘ مہینوں  تک ایک کے  بعد دوسرا جہاز نئے  قیدیوں  سے  بھر بھر کر آتا رہا۔ اور جنگل بھرے  جزائر میں  جنگلوں  کو کاٹنے او ر عمارتیں  بنانے  کا کام چاروں  طرف دور دور تک تیزی کے  ساتھ پھیلتا رہا۔

انسانوں  کی جان اور خون کی بھوکی اور پیاسی ایک اجنبی نئی دنیا یہاں  آباد ہوتی رہی۔

oo

 

 

 

شیر علی کابل کا پٹھان ایک قتل کے  الزام میں  گرفتار ہو کر کالا پانی کی سزا پا کر انہیں  دوسری کھیپوں  میں  آیا تھا اور میر علی کو بھی سزا اسی دوران ہوئی تھی۔ خالد کو خیال آیا کہ اگر یہ کالا پانی نہ ہوتا تو اپیل اور اعتراض کے  بعد اس کے  پردادا یقیناً چھوٹ گئے  ہوتے۔

تھوڑی دیر بعد خالد کو پھر خیال آیا کہ میر علی کی شیر علی سے  ضرور ملاقات ہوئی ہو گی اور دونوں  میں  پٹتی بھی ہو گی۔ خالد کو میر علی کی تلواریں او ر زرہ بکتر یاد آنے  لگے  تھے۔ ہر چند کہ شیر علی کی کہانی لکھنے  والا کوئی نہیں  تھا اور انگریزوں  کے  ریکارڈ میں  محض اس کے  مقدمے  کا ذکر تھا لیکن اس کے  بارے  میں، اس کی زندگی اور کالا پانی  کے  اس کے  ایک ایک لمحہ کے  بارے  میں  تفصیلات اس طرح موجود تھیں  کہ جب ان کا بیان ہوتا تو اس کی سانسوں  کی آواز، الگ الگ موقعوں  پر اس کے  ابرو کے  تیور،اس کے  غصے، اس کی باتوں، مختلف چیزوں  پر اس کی رائے،یہ سب اتنا جانا مانا سا تھا جتنا خود اپنے  وقت کے  زندہ لوگوں  کے  بارے  میں  کسی کو نہیں  معلوم تھا۔ ایک ایک تفصیل سینہ بہ سینہ آئی تھی اور اس کی سچائی لوگوں  کو اتنی عزیز تھی کہ کسی کی کیا مجال کہ اس تفصیل میں  رد و بدل کر دے۔ خالد سہیل جب ان سے  یہ تفصیلات سنتا تو یہ قصہ اس کی نظروں  کے  سامنے  فلم کی طرح گزرنے  لگتا اور اس میں  شیر علی ہیرو کی طرح دور اور قریب، سب کے  بیچ اور مکمل تنہائی میں، ہر جگہ دکھائی دینے  لگتا۔ چند ہی روز میں  خالد تقریباً اس عہد میں  آباد سا ہو گیا۔ اور اس عہد کی مکمل چلتی پھرتی تصویر اس کے  سامنے  آنے  لگیں۔ اس سے  اس کو دستاویزات کو سمجھنی میں  بہت مدد ملی۔ اسے  کالا پانی کے  اس واقعہ پر پوری دنیا سے  ایک تاریخی مقدمہ لڑنا تھا اور وہ اس سانحاتی دور کے  ایک ایک لمحے  کی انتہائی سچی تصویر اپنے  دل و دماغ کی آنکھوں  سے  دیکھنا چاہتا تھا اور اس میں  کسی طرح کی افسانوی ملاوٹ کی قطعی گنجائش نہیں  تھی۔

یہ قصہ اب خالد کے  دل و دماغ کو متاثر بھی کرنے  لگا۔ اور اس کے  خیالات کی دنیا میں  ایک کہرام سا مچنے  لگا تھا۔ اس کے  ذہن میں  نہ صرف سوالات اٹھنے  لگے  تھے  بلکہ یہ سوالات ایک وسیع تر دنیا کو اپنی لپیٹ میں  لیتے  ہوئے  عام آدمیوں  سے  لے  کر حکمرانوں  تک  کے  کردار اور ان کی تقدیر کے  بارے  میں  نئے  نئے  تصورات پیدا کرنے  لگے  تھے۔ اس کائنات کے  درمیان انسان موقع پانے  پر کیا کیا تماشے  کھڑے  کر سکتا ہے  اس بات پر وہ متحیر تھا۔

یہ قیدی یہاں  قید میں  ہونے  کے  باوجود اپنے  اندر اور اپنے  درمیان ایک بڑی دنیا رکھتے  تھے۔ ان میں  کافی لوگ کردار اور ذہن کے  اعتبار سے  وہ لوگ تھے  جو اپنے  ملک کی حکومت سے  لے کر دوسرے  ملکوں  سے  معاشرتی اور سیاسی تعلقات، نیز معاشرہ، زندگی، فلسفہ ہر میدان کے  وہ منتخب روزگار تھے  جنہوں  نے  ہندوستان کو بچانے  کے  لئے  انگریزوں  سے  جنگ لڑنے  کی جرات کی تھی اور جو اس کی بصیرت رکھتے  تھے۔ یہ اس معاشرے  کے  خالق تھے  جس نے  غالب اور مومن جیسے  شعرا کی ذہنی پرورش کی تھی،تربیت کی تھی اور ہمت افزائی کی تھی۔ کالا پانی میں  پتھر توڑنے  والے  یہ لوگ ایک زمانہ پیدا کر دینے  کی ذہنی صلاحیت رکھتے  تھے۔ شیر علی جیسے  نوجوانوں کی تربیت ان کا صبح شام کا کھیل ہوتا تھا۔ کالا پانی میں  آیا ہوا قیدیوں  کا پہلا کھیپ شہر تاریخ میں  عجائب گھر کی طرح تھا۔ دلی کے  ذہن کو پتیوں  کی طرح پیڑ سے  تراش کر یہاں  ڈال دیا گیا تھا اور اس کے  افراد کے  نام سرکاری راز داری کے  تحت مٹا دئے  گئے  تھے۔ یہ وہ اہم لوگ تھے  جن کو مین لینڈ میں  عوام کے  علم میں  ہوتے  ہوئے  قتل کر کے  ختم کرنا انگریزوں  کے  لئے  خطرے  سی خالی نہیں  تھا۔ مغل شہنشاہوں  کے  خاندان سے  تعلق رکھنے  والے او ر سلطنت مغلیہ کے  سارے  ستون جو ۱۸۵۷ء کی جنگ میں  مارے  نہیں  جا سکے  تھے  وہ سب مصلحتاً یہاں  لائے  گئے  تھے۔

ان قیدیوں  کے  نام سے  ان کے  بھاری بھرکم الفاظ تو جا چکے  تھے  لہذا انہوں  نے  خود ہی  اپنے  کو اپنے  چھوٹے  ناموں  سے  مشہور کر لیا تھا۔

یہ لوگ جو کچھ تھے  وہ تو یہ اب تھے  نہیں ، بس صرف زندہ لاش تھے او ر اس کا انہیں  مکمل احساس تھا۔ ان کا مزدوروں  کی طرح حکم ماننا اور کام کرنا تاریخ کا غیر معمولی واقعہ تھا۔

بڑے  بڑے  ذہنوں او ر کرداروں  کو طاقت کس طرح ذلیل کرتی ہے  اس کا یہ نمونہ تھے۔

ان کو جب بھی موقع ملتا وہ سوچتے  تھے۔

یہ برف سے  آگ پیدا کرنے  والے  انسانوں  کی صف سے  تعلق رکھتے  تھے۔ یہ تو صرف تاریخ اور تقدیر کے  ہاتھوں  پٹ گئے  تھے  ورنہ حقیقت یہ تھی کہ زمین پر ان کا کوئی ثانی نہیں  تھا لیکن اب ان کے  بارے  میں  اس بات کا اعتراف کرنے  کی بھی کسی میں  ہمت نہیں  تھی۔

oo

 

 

 

 

 

شیر علی کالا پانی پہنچا تو یہاں کے  قیدیوں  کے  سماج کا ایک مقبول ممبر بن گیا۔ ایک قیدی سے  اس کی اچھی خاصی دوستی ہو گئی۔ دن میں  کام کرتے  کرتے  وہ آپس میں  خو ب باتیں  کرتے او ر حکومت برطانیہ اور کمپنی کے  اوپر تبصرہ خیال کرتے  رہتے  تھے۔

قیدیوں  کا عام خیال تھا کہ اصل دکھ کی وجہ تو حکومت کی پالیسی تھی اور یہ بیچارے  جیلر تو مجبور کیے  گئے  ہیں جن کی یہاں  پوسٹنگ ہو جاتی ہے۔ ان سے  تو جیسا کہا گیا ہوتا ہے  وہ ویسا کرتے  ہیں او ر ان کو جیسے  اختیارات دئے  جاتے  ہیں  ان کا استعمال ان مقاصد کے  لیے  کرتے  ہیں  جن کو پورا کرنے  کے  لیے  ان کو بھیجا گیا ہے او ر وہ یہ سب کچھ کرنے  سے  انکار بھی نہیں  کر سکتے  کہ ان کے  بال بچوں  کی روزی روٹی اسی میں  ہے او ر وہ کیا کر سکتے  ہیں ؟ وہ تو اسی نظر سے  اس جلاد کو بھی دیکھتے  تھے  جس نے  تمام اگلے  لوگوں  کو موت کے  پھندے  پر چڑھایا تھا۔

’ جلاد کا پیشہ برا نہیں۔ جلاد تو ہمیشہ سے  رکھے  گئے  ہیں او ر رکھے  جائیں  گے۔ ‘

پھر قیدیوں  میں  جلادوں  کی قسم اور واقعات پر گفتگو ہونے  لگی۔

’میں  متفق نہیں  کہ جلاد کا کام برا نہیں  ہوتا۔ لوگ تو صرف یہ سمجھتے  ہیں  کہ جلاد کا کام پھانسی دینا ہے۔ لیکن ایسی بات نہیں  ہے۔ جلاد تو انسان کو اذیت دینے  کا فن سیکھتے  ہیں۔ ان کے  کچھ فن خاندانی ہوتے  ہیں۔ اور پشت در پشت چلے  آتے  ہیں او ر اس فن میں  وہ ماہر ہوتے  ہیں۔ ان کی اسی اہلیت کی بنا پر ان کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے او ر ترقی ملتی ہے۔ ‘

یہ گفتگو ان کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھی۔ وہ اسی خوراک پر تو اس تنہائی میں  جی رہے  تھے۔

مجاور آگے  کہہ رہا تھا۔

خالد کی موت کے  بعد میں  نے  خود بھی انڈمان  کے  ماضی اور خصوصی طور پر کالا پانی  کے  بارے  میں  جو کچھ ملا اس کو پڑھنے او ر سمجھنے  کی کوشش کی۔ میں  نے  یہاں  اپنے  گھر میں اس کی ایک چھوٹی سی لائبریری بنا رکھی ہے۔ میں  اس انسانی فریب، مکاری اور ظلم کے  اس جال کو سمجھ سکتا ہوں  جس میں  خالد کا ذہن جا کر پھنس گیا تھا۔ میں  سمجھ سکتا ہوں  کہ خالد اس  کچی عمر میں  انسانی بے  رحمی کے  اس گہرے  احساس کی تاب نہیں لا سکتا تھا۔ یہ تو بہت بعد میں  ہوتا ہے۔ تبھی تو غالب نے  کہا تھا کہ

رنج کا خوگر ہوا انساں  تو مٹ جاتا ہے  رنج

مشکلیں  اتنی پڑیں  مجھ پر کہ آساں  ہو گئیں

اور پھر وہ دیارِ غیر کی تنہائی جہاں  کسی کو شاید یاد بھی نہیں  کہ اس زمین پر کبھی کیا ہوا تھا۔

جس کمرے  میں  مجاور یہ کہانی سنا رہا تھا اس کے  سامنے  سے  نیل گایوں  کا ایک پورا غول گزرنے  لگا۔ جیلانی کے  کچھ دوستوں  نے  کبھی کسی بستی میں  نیل گایوں  کو یوں  آزادی سے  گھومتے  ہوئے  نہیں  دیکھا تھا۔ سب ادھر دیکھنے  لگے۔ نیل گائیں  آگے  جاتی ہوئی خالد کی قبر کے  بغل سے  جنگل میں  دریا کی طرف چلی گئیں۔ شاید انہیں  پیاس لگی تھی۔ مجاور نے  بھی گھڑے  سے  پانی نکال کر پیا اور پھر دوبارہ دیوار سے  ٹیک لگا کر خالد کی داستان سنانا شروع کر دیا۔

جلاد والی بحث پر خالد کے  ذہن میں  آج کے  ملٹی نیشنل بنکوں  کے  قرض اصولی دستوں  کا خیال آیا جس میں  خاص طور سے  غنڈے ، ریٹائرڈ پولس افسر اور محلے  علاقے  کے  با اثر چودھری رکھے  جاتے  تھے او ر وصولی کا کام ٹھیکے  پر دے  دیا جاتا تھا۔

 

شیر علی  کو کسی نے  وہ قتل عام کا منظر سنایا تھا جس میں  بے  شمار قیدیوں  کو ڈاکٹر والکر نے  موت کے  گھاٹ اتروا دیا تھا اور اس نے  بقیہ قیدیوں  سے  کہا تھا۔

’ تم لوگوں  کو یقین نہیں  آتا تھا  ؟ میں  جانتا ہوں۔ میں  جانتا ہوں  کہ تم لوگوں  کو یقین آ ہی نہیں  سکتا تھا۔ کیا سمجھتے  تھے  کہ پھانسی کی سزا صرف ایک دو یا چار آدمی کو ہی دی جا سکتی ہے۔ اگر آئندہ کسی نے  گستاخی کی اور اس زندگی سے  گھبرا کر بھاگنے  کی یا احتجاج کی کوشش کی تو سب کو موت کے  گھاٹ اتار کر ہندوستان سے  ہزاروں  قیدی اور منگا لیے  جائیں  گے۔ ہم تمہاری جان کے  محتاج نہیں  ہیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں  رکھو۔ ‘

جیلانی بول پڑا  ’ وہ تو آج بھی حکومتیں  نہیں ، صرف امیدوار الیکشن جیتنے  کے  لئے  عوام کے  محتاج ہوتے  ہیں۔ ‘

شیر علی جب آیا تھا تو اس نے  سنجیدہ ہو کر کہا تھا۔ ’شیر علی دشمن کو پہچانتا ہے۔ ‘

شیر علی کے  اس مشہور جملے  نے  جو اس نے  لارڈ میو  کو قتل کرنے  سے  بہت پہلے  کہی تھی خالد کے  دل میں  شیر علی کے  لئے  ایک خاص طرح کی عزت اور محبت پیدا کر تھی۔  جیسے  جیسے  وہ شیر علی کے  بارے  میں  جانتا گیا ویسے  ویسے  اس کے  اندر یہ احساس پیدا ہونے  لگا  جیسے  گویا  شیر علی بھی اس کے  دادا تھے  بلکہ اب تو یہ ہو گیا تھا کہ اپنے  پردادا کی کوئی نشانی نہ ملنے  کی وجہ سے  اب شیر علی ہی ان کی بھی نشانی بن گیا تھا۔ اور شیر علی کی ہر ایک حرکت میں  وہ اپنی پردادا کو دیکھنے  لگا۔ شیر علی کی تاریخ زندہ تھی اور وہ  اکیلے  اس دور کے   تمام قیدیوں  کا نمائندہ بن گیا تھا۔ رفتہ رفتہ شیر علی کے  چہرے  میں  اسے  اپنا پردادا دکھنے  لگا۔ پچیس سال کا ایک نوجوان جو شیر علی ہی کی طرح رہا ہو گا اور ممکن ہے  کئی معنوں  میں  ان سے  آگے  بھی رہا ہو۔ اور ضرور شیر علی اور وہ دونوں  ایک دوسرے  کے  چہیتے  یار رہے  ہونگے او ر دونوں  کے  جذبات اور خیالات ایک رہے  ہونگے۔

اگر لارڈ میو کو شیر علی نہیں  مارتے  تو میر علی مارتے۔ دھیرے  دھیرے  شیر علی اس کے  لئے  اپنے  ماضی کی ایک اہم دریافت بن گیا۔

 

oo

 

 

 

 

 

 

قیدی اب دھیرے  دھیرے  اونچی آواز میں  اپنے  خیالات کا اظہار کرنے  لگے  تھے۔ منشی ان باتوں  پر اب دھیان نہیں  دیتے  کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان قیدیوں  کا اظہار خیال ان کے  دلوں  کی بھڑاس نکالنے  بھر ہے او ر عظیم برطانوی حکومت کے  لیے  ان کی آوازیں  مچھروں  کے  بھنبھنانے  کی آواز سے  بھی سیکڑوں  گنا کم اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ جس حال میں  کام کر رہے  تھے  یہ حالات خود ان کے  تبصروں  پر ایک مذاق تھے۔

یہ سننے  کے  بعد کہ 182فرار شدہ قیدی پکڑے  گئے  ہیں او ر پورٹ بلیر لائے  گئے  ہیں، یہ سوچ کر کہ نہ جانے  اس بار ڈاکٹر والکر کیا فیصلہ کرے  گا،وہ پورا منظر ایک بگولے  کی طرح شیر علی کے  ذہن میں  گھومنے  لگا جس کے  بارے  میں  اس نے  سنا تھا کہ 33 قیدیوں  کو ایک ساتھ سولیوں  پر لٹکا دیا گیا تھا۔

جیل سے  فرار شدہ 182 مجرم دوبارہ گرفتار کر کے  لائے  جانے  کے  بعد دوبارہ سلاخوں  کے  پیچھے  بند کر دیے  گئے  تھے۔

قیدیوں  کی ان فرار شدہ مجرموں کے  بارے  میں  عام توقع یہ تھی کہ اس سے  پہلے  ڈاکٹر والکر نے  جو بہت بڑی تعداد میں  بھاگے  ہوئے  قیدیوں  کو پھانسی کی سزا دی تھی اس سے  اس کے  اندر کا زہر شانت ہو گیا ہو گا اور اس بار قیدیوں  کو کڑی سزا سنا کر دوبارہ کام پر لگا دیا جائے  گا۔ لیکن ایک قیدی جس کی آنکھیں  بڑی عجیب سی تھیں ، اس بات سے  بالکل ہی متفق نہیں  تھا۔

’وہ پھانسی ہی دے  گا۔ ‘

’پھانسی تو نہیں  ہو گی۔ لیکن سختی بڑھے  گی۔ ‘ ایک دوسرے  قیدی نے  کہا۔

’جو ہو گا وہ خود ہی دیکھ لو گے۔ ‘عجیب آنکھوں  والے  نے  کہا۔ ’تم لوگوں  نے  ابھی اسے  سمجھا نہیں  ہے۔ میں  نے  اس کو بہت غور سے  دیکھا ہے۔ ڈاکٹر والکر انسان نہیں ، درندہ ہے۔ اس دن وہ اس مہاراشٹرین کے  بارے  میں  جانتے  ہو کیا حکم دے  رہا تھا ؟ کہہ رہا تھا کہ اتنے  کوڑے  مارو کہ کھال ادھڑ جائے۔ جب کھال ادھڑی تو اسے  انگلیوں  سے  پکڑ کر قیدی کی آنکھوں  میں  جھانکتے  ہوئے  نوچنے  لگا۔ ‘

اس سزا کا تصور کر کے  ہی سب چپ ہو گئے۔

فرار شدہ قیدیوں  کے  فرار اور دوبارہ گرفتاری کی ایک تحریری رپورٹ جیل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر والکر کے  حکم کے  لئے  تیار کی گئی۔

ڈاکٹر والکر شراب کا گلاس ہاتھ میں  لیے  ہوئے  ہی جھومتا ہوا اپنے  آفس میں  آ گیا، منشی سلام کر کے  حاضر ہوا اور فائل سامنے  رکھ دی۔ منشی جو سرکاری احکامات کے  دستور سے  واقف تھا۔ ڈاکٹر والکر سے  باحترام بولا ’حضور اگر اجازت ہو تو یہ گلاس بعد میں  پیش کر دوں۔ ‘

’منشی رام نرائن، تم کو نہیں  معلوم کہ میرے  اختیارات اور اس قلم میں  جو میرے  سامنے  تم نے  قلمدان میں  لگا رکھے  ہیں ، اس گلاس سے  ہزاروں  گنا زیادہ نشہ ہے۔ اگر یقین نہ آئے  تو غور کرو کہ ان 182  لوگوں  کی زندگی اس قلم کی نب میں  لٹکی ہوئی ہے۔

اس نے  قلم اٹھا کر اس کے  نب کو دیکھا۔

منشی رام نرائن دل ہی دل میں  سہم گیا۔

’اور میں  انھیں  کیا دوں  گا ؟

موت۔

کیوں ؟

اس لیے  نہیں  کہ ڈاکٹر والکر کے  سینے  میں  دل نہیں  ہے۔

اس نے  منشی رام نرائن کی آنکھوں  میں  جھانکا جہاں  ایک انجانا خوف جھانک رہا تھا۔

’ ڈاکٹر والکر رحم دل ہے۔ لیکن ان قیدیوں  کو قانون نے  موت کی وادی میں   بھیجنے  کی جگہ کالا پانی کی سزا دے  کر جو زندگی عطا کی ہے  یہ اس زندگی کو چھوڑ کر بھاگے  تھے۔ ان کو ان کی اس غداری کی سزا دینا ضروری ہے۔ ‘

ڈاکٹر والکر نے  بائیں  ہاتھ سے  گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ لیا۔ اور قلم کاغذ کی طرف بڑھایا۔ میں جانتا ہوں  کہ یہ جیل سے  تنگ ہو کر بھاگے  تھے۔ میں جانتا ہوں  کہ میں  چا ہوں  تو ان 182  آدمیوں  کو پھر سے  زندہ رہنے  کا موقع دے  دوں  لیکن نہیں۔ میرا نام ڈاکٹر والکر ہے۔ میری اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ اور اسی پہچان کی بنا پر برطانوی سرکار نے  میرے  اوپر بھروسہ کیا ہے۔۔ اس جیل کے  قیدیوں  کو معلوم ہونا چاہئے او ر ان کے  دلوں  میں  یہ بات گہرائی میں  ثبت ہونی چاہئے  کہ ڈاکٹر والکر کون ہے۔

اور قلم کاغذ پر جھک کر لکھنے  لگا۔

’کل صبح بارہ بجے  سے  پہلے  پہلے  ان تمام 182 قیدیوں  کو جیل خانے  کے  میدان میں  پھانسی کے  پھندے  میں  لٹکا کر موت کی سزا دے  دی جائے  گی۔ ‘

وہ گلاس لے  کر اپنے  ریسٹ روم کی طرف بڑھ گیا۔

دوسرے  دن جیل کی چار دیواری کے  پاس فوج کی پوری ٹکڑی آ گئی۔

سبھی سمجھ گئے۔

چند قیدیوں  کو بلا کر انہیں  حکم دیا گیا کہ وہ پھانسی دینے  کے  لیے  تین کھمبے  تیار کریں۔ جیل کے  احاطے  میں  تین نئے  پھانسی کے  کھمبے  لگائے  گئے۔ ان میں  پھانسی کی رسیاں  لٹکائی گئیں۔ سامنے  ڈاکٹر والکر کی کرسی لگی۔ پھر ڈاکٹر والکر بھی وہاں  آ گیا۔ سارے  قیدیوں  کو زنجیروں  میں  باندھ کر اس کار روائی کو دیکھنے  کے  لیے  چھوٹے  چھوٹے  گروہوں  میں  دور کھڑا کیا گیا۔ سامنے  سنگین لگی رائفلوں  میں  فوج کے  جوانوں  نے  گولیاں  بھریں او ر چوکنا ہو کر دیکھنے  والے  قیدیوں  کی طرف رخ کر لیا۔ پھر ہاتھوں او ر پاؤں  میں  بیڑیاں  لگے  فرار شدہ قیدیوں  کو رائفل بردار فوجیوں  کے  گھیرے  میں  سنگینوں  کی نوک پر گھیرے  ہوئے  جیل کے  وسیع احاطے  میں  لایا گیا۔ ان قیدیوں  کے  چہرے  اڑے  ہوئے  تھے۔ انہوں  نے  پتھر کی طرح ساکت چہروں  والے  جیل کے  قیدیوں  پر نظر ڈالی اور ان میں  کئی پھوٹ پھوٹ کر رونے  لگے۔ کئی نڈھال ہو کر گرنے  لگے  تو ان کے  پیٹ یا کمر میں  سنگینیں  لگا کر ان کو اٹھایا گیا۔ انہوں  نے  چلا چلا کر سامنے  بیٹھے  والکر سے  استدعا کی۔ اپنی جان کی بھیک مانگی۔ دوبارہ کبھی ایسا نہ کرنے  کا وعدہ کیا۔ قسمیں  کھائیں۔ لیکن ان کی اس استدعا سے  ڈاکٹر والکر کا جوش اور بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی چیخوں  سے  بے  پرواہ فوج کی ٹکڑی اپنا کام کرتی رہی۔ اونچی آواز میں  یکے  بعد دیگرے  حسب دستور احکامات دیے  جاتے  رہے۔ قیدیوں  کو پھانسی کے  پھندوں  سے  کچھ دور لا کر کھڑا کر دیا گیا۔ ان میں  کئی بے  ہوش ہو کر گر گئے۔ انہیں  گرا رہنے  دیا گیا۔ ڈاکٹر والکر نے  اٹھ کر اپنی عقابی نگاہوں  سے  دور سے  اس منظر کو دیکھتے  ہوئے  قیدیوں  کو دیکھا۔ وہاں  ہر طرف زبردست سناٹا تھا۔ پھر اس نے  کار روائی شروع کرنے  کا اشارہ کیا۔ تین قیدیوں  کو کھینچ کر پھندوں  کے  پاس لے  جایا گیا۔ پتہ نہیں  کہاں  سے  ان کے  اندر ہمت آ گئی کہ وہ اچانک سنبھل کر کھڑے  ہو گئے۔ ٹھیک پھانسی کے  پھندوں  کو دیکھتے  ہوئے  سپاہیوں  سے  بھی آگے  چلتے  ہوئے  انہیں  لگ بھگ کھینچتے  ہوئے  پھندوں  تک پہنچے۔ خود سے  ان تختوں  پر چڑھے  جن کے  اوپر پھندے  لٹک رہے  تھے۔ یہ سب کچھ ایسے  ہو رہا تھا جیسے  وہ پھانسی کے  پھندوں  پر نہیں  جا رہے  ہوں  کوئی کام کر رہے  ہوں۔ وہاں  کھڑے  جلادوں  سے  ان میں  سے  ایک نے  خود ہدایت دی کہ وہ ان کے  گلے  میں  پھندا ڈالے۔ جلاد نے  جلدی جلدی ان کو کالی ٹوپی پہنائی۔ وہ یہ سب کچھ ایسے  کر رہے  تھے  جیسے  وہ ڈاکٹر والکر کی نگاہوں  کا مذاق اڑا رہے  ہوں۔ یہ سب دیکھ کر اچانک دوسرے  قیدیوں  میں  بھی موت سے  بے  خوفی کا جوش چڑھ آیا ’’اب ہمیں  لے  چلو، مجھے  لے  چلو، ارے  پہلے  مجھے  جانے  دو۔ ‘‘کی آوازوں  کے  ساتھ انہوں  نے  ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ان کی تازہ دمدار آوازوں  میں  موت کی وہ آواز جو تھوڑی دیر پہلے  جیل کے  پورے  علاقے  میں  ڈنکے  کی آواز جیسی چیخ رہی تھی، کہیں  گم ہو گئی جیسے  یہاں  پھانسی نہیں  دی جا رہی تھی بلکہ جنگ ہو رہی تھی۔ جنگ تلواروں او ر بندوقوں  سے  اوپر اٹھ کر خوف اور بے  خوفی کی جنگ میں  تبدیل ہو گئی تھی اور بے  خوفی کی فتح ہو رہی تھی۔ چیختے  ہوئے  قیدیوں  کو ہنگامہ کرنے  سے  روکنے  کے  لیے او ر اپنی بے  عزتی کے  غصے  میں  سپاہیوں  نے  قیدیوں  کو رائفل کے  کندوں او ر سنگینوں  سے  زد و کوب کرنا شروع کر دیا۔ کئی قیدی خون سے  لہولہان ہو گئے۔ کئی کے  جسموں  سے  خون کے  فوارے  نکل پڑے۔ ڈاکٹر والکر خاموش کھڑا یہ سب دیکھتا رہا۔ قیدی موت پر فاتح ہو چکے  تھے۔ اور اب کچھ تھم کر اپنے  مفتوح کی بزدلانہ کار روائیوں  کو دیکھ رہے  تھے  جو تین تین قیدیوں  کو باری باری لے  جا کر پھانسی دیتے  رہے او ر لاشوں  کو اٹھا اٹھا کر ایک طرف ذبح کیے  ہوئے  جانوروں  کی طرح پھینکتے  رہے۔ لگ بھگ تین گھنٹے  کے  اندر پورے 182قیدی جو وہاں  اپنے  پیروں  پر چلتے  ہوئے  لائے  گئے  تھے  ڈاکٹر والکر کے  نوک قلم کے  تین لفظوں  ’’Hang them all‘‘ سے  لاشوں  کا ڈھیر بن گئے۔ انگریزی زبان میں  بہت طاقت تھی۔ تیز تیز ہوائیں  جزیروں  سے  ٹکراتی ہوئی سائیں  سائیں  کی آوازیں  پیدا کرتی چلتی رہیں۔

182 لاشیں  نیچے  جمع ہو گئی تھیں۔

ڈاکٹر والکر کو رپورٹ پیش کی گئی۔

اس نے  رپورٹ پر اپنا دستخط کر کے  فائل کو کلوز کر دیا۔

لاشیں  دوسرے  قیدیوں  سے  اٹھوا اٹھوا کر سمندر میں  پھنکوا دی گئیں۔

پھانسی کے  اس منظر کو دیکھنے  کے  بعد قیدیوں  پر ایک سناٹا چھا گیا تھا۔ دن بھر حسبِ معمول کام ہوتا رہا۔

اس دن شیر علی نے  دیکھ لیا کہ وہ جس نظام میں  تھا وہاں  لوگ گفتگو نہیں  کرتے  تھے  بلکہ محض سمجھتے  تھے۔ شیر علی نے  اس پر غور کرتے  کرتے  محسوس کیا کہ وہ ایک مزدور سے  ترقی پا کر ایک ٹنڈیل بن گیا ہے۔

oo

 

 

 

 

 

سامنے  جیلر کے  مکان کے  روبرو ایک گول نما پہرہ گھر میں رائفل لیے   ایک سنتری کھڑا ہوتا تھا۔ سنتری جس کی مونچھیں  تیل پلائی ہوئی، چہرہ لوہے  سے  بنا ہوا اور کپڑے  بھی پولس کی ٹریننگ پائے  ہوئے  تھے۔ اس مکان سے  آگے  وہ تالاب تھا جسے  قیدیوں  کی محنت و مشقت سے  انگریز افسروں  کی عیش و عشرت کے  لیے  بنایا گیا تھا۔ اس میں  سیڑھیاں  تھیں۔ جو پانی کے  اندر جاتی تھیں۔ چاروں  طرف ہری بھری جھاڑیاں او ر پھر جنگل تھے۔

دوسری طرف سپاہیوں  کے  رہنے  کے  لیے  بیرک تھا۔ جہاں  وہ اپنی آدھی پینٹ پہنے  ادھر ادھر لاپرواہی سے  آتے  جاتے  دکھائی دیتے  تھے۔ تیسری طرف کافی دور ایک ٹیلے  نما بلندی پر گنبد نما پھانسی گھر تھا۔ جہاں  ان لوگوں  کولے  جایا جاتا تھا جو یا تو کسی ظلم سے  مر جاتے  تھے۔ یا جن کو پھانسی کے  پھندے  پر لٹکا دینا ہوتا تھا۔

خالد بنیادی طور پر اس جگہ کو آج کے  زمانے  کے  اپنے  معاشرے  کے  آئینہ کے  طور پر دیکھنے  لگا تھا۔ حالانکہ اس نے  اپنی کتاب میں  ایسا کچھ لکھا نہیں  ہے  لیکن اس کے  ذہن کا اتنی گہرائی میں  اتر کر اس ماحول کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا ہی اس بات کی دلیل ہے  کہ وہ اس زندگی کو اپنے  ارد گرد کے  اس ماحول کے  استعارے  کے  طور پر دیکھ رہا تھا جس کا وہ خود ایک حصہ تھا اور جو کچھ اس پر گزرا تھا اور جس کو وہ اپنے  سادہ لوحی کے  باعث ابھی تک سمجھ نہیں  پایا تھا۔

ایسا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی جب کوئی واقعہ ہماری آنکھوں  کے  سامنے  ہو جاتا ہے  تو ہمارے  اوپر اسرار کھل جاتے  ہیں۔ خصوصاً تب جب ہم اس کے  دباؤ یا تلخ تجربے  سے  گزرے  ہوتے  ہیں  یا گزر رہے  ہوتے  ہیں  یا ہم اپنی صورتحال کے  بارے  میں  واقعی اندھیرے  میں  ہوتے  ہیں۔

ایک بار جہانگیر کی بھی بحیثیت ایک شہنشاہ اپنی صورتحال کے  بارے  میں  آنکھ کھلی تھی۔ وہ کشمیر جا رہا تھا۔ ہاتھیوں  کا قافلہ تھا۔ اچانک ایک پتلے  راستے  سے  گزرتے  ہوئے  ایک ہاتھی کھائیوں  میں  گرا اور مسلسل لڑھکتے  ہوئے  بہت نیچے  مٹی کے  ایک ڈھیلے  کی طرح جا گرا۔ جہانگیر نے  اسے  گرتے  ہوئے  دیکھ لیا تھا۔ اس نے  قافلہ وہیں  روک لیا اور حکم دیا کہ دوسرے  ہاتھی کو اسی جگہ لے  جایا جائے۔ دوسرا ہاتھی بھی وہاں  جا کر گرا تو سنبھل نہیں  پایا اور اسی طرح بے  سہارا چیختا ہوا نیچے  گرتا چلا گیا۔ جہانگیر نے  وہیں  بیٹھے  بیٹھے  یکے  بعد دیگرے  اس وقت تک کئی ہاتھی گروا دئے  جب تک اس کا معنی اس کے  دل کی گہرائیوں  میں  پیوست نہیں  ہو گیا۔ بس یہی صورتحال خالد کی ہو گئی تھی۔ یہ ہر سوچنے  والے او ر خصوصاً تخلیقی ذہن رکھنے  والوں  کے  ساتھ ہوتا ہے۔ اور اسی سے  وہ کائنات اور زندگی کے  اسرار کھول کر ہمارے  سامنے  لاتے  ہیں  جس کے  مطابق ہم اپنی سوچ،زندگی اور معاشرے  کو از سرِ نو ترتیب دیتے  ہیں۔

وہ اپنے  تخیل کے  سہارے او ر ان قیدیوں  کی زندگی کے  حقائق کی روشنی میں  دنیائے  زندگی کے  انہیں  سات سمندروں  کی سیاحی میں  اتر پڑا تھا اور اس سیاحی کے  ہولناک ہونے  کے  باوجود کبھی باہر نہیں  نکلا کیونکہ تخلیقی مفکر ایک ایسا سپاہی ہوتا ہے  جو تجربات کی دنیا کو اسی نسل کے  لئے  باغِ عدم سمجھتا ہے او ر ایک باپ یا ماں  کی طرح اسے  انسانیت کو کچھ دینے  میں  اسی طرح کی ایسی خوشی اور مسرت ملتی ہے  کہ وہ باغِ عدم کے  ان پھلوں  کو ان کے  لئے  زیادہ سے  زیادہ بٹور کر لانا چاہتا ہے او ر اس کے  لئے  اس کے  سامنے  چاہے  کتنا بڑا ہی خطرہ کیوں  نہ سامنے  آ جائے  وہ خطرہ مول لے  لیتا ہے۔ یہ تو ہم جیسے  لوگ ہوتے  ہیں  جو اپنی طرح کی سوچ رکھنے  کی وجہ سے  ان تخلیق کاروں  کی اس محبت کو سمجھ نہیں  پاتے  جو ان کے  دلوں  میں  ہمارے  لئے  ہوتی ہے  لیکن ماں  باپ کی طرح انہیں  بھی اس بات کی فکر نہیں  ہوتی کہ ہم ان کو سمجھتے  ہیں  یا نہیں  سمجھتے  ہیں۔

قیدیوں  کی زندگی میں  جو قہر برپا ہوا تھا، ان سارے  واقعات نے  جو ان کے  نہ چاہتے  ہوئے  بھی ان کے  ساتھ گزرے  تھے، وہ ساری باتیں  جن کا وہ امید یا تصور بھی نہیں  کر سکتے  تھے  کہ کوئی انسان ان کے  یا کسی دوسرے  انسان کے  ساتھ کر سکتا تھا لیکن جو ہوئے  تھے، ان تمام باتوں  نے  ان پر یہ عیاں  کر دیا تھا کہ وہ جس طرح سے  دنیا، اور زندگی کو دیکھتے  ہیں  اس سے  الگ بھی زندگی کی حقیقتیں  موجود ہیں او ر وہ ان حقیقتوں  کے  درمیان آ گئے  ہیں۔ اس ادراک نے  ان کی سوچ کی کھڑکیوں  کو رفتہ رفتہ کھولتے  کھولتے  اب پوری طرح روشن کر دیا تھا۔ انہیں  یہ محسوس ہونے  لگا تھا کہ وہ بہت سی باتیں  جس پر ان کو یقین اور کسی حد تک بھروسہ تھا ان کے  کچھ حدود ہیں او ر اگر وہ جسمانی اور ذہنی سکون چاہتے  ہیں  تو انہیں  یہاں  جینے  کی نئی راہیں  دریافت کرنی پڑیں گی۔ وطن، رشتے  داروں، دوستوں او ر اپنے  کاروبار سے  مکمل طور سے  کٹ جانے  کے  بعد ان کے  ذہنوں  کو اچھی خاصی فرصت میسر آ گئی تھی، اور ان کا ذہن سوچنے  کے  عمل کے  لیے  اچھا خاصا آزاد ہو گیا تھا اور یہاں  کی زندگی کی اذیتوں  نے  انہیں  نہ صرف سوچنے  پر مجبور کر دیا تھا بلکہ ان اذیتوں  نے  خود ان کے  سوچنے  کے  لیے  جیتے  جاگتے او ر مضبوط سوال کھڑے  کر دیے  تھے۔ دھیرے  دھیرے  وہ ذہنی طور پر مین لینڈ کے  جیلوں  میں  پڑے  قیدیوں  سے  بہت مختلف قسم کے  انسان بن گئے  تھے۔ یہاں  جینے  کی راہ ڈھونڈتے۔ ہر شخص مفکر بن گیا تھا۔ ان کے  ذہنوں  پر چھائی ہوئی پرانی باتیں  ایک ایک کر کے  تفکر کے  زور سے  کسی پرانے  درخت کی خال کی طرح الگ ہوتے  جا رہے  تھے  جنہیں  یہ مفکر اچانک محسوس کر لیتے او ر انہیں  نوچ کر دوسروں  کو بھی یہ دکھانے  لگتے۔ وہ اب حکام کی چالوں  کو بھی باریک بینی سے  سمجھنے  لگے  تھے۔

انڈمان میں  انہوں  نے  بھی ایسی ایسی باتیں  دریافت کی تھی جس کے  نتیجے  میں  ایک جرم سے  پاک معاشرہ آگے  چل کر پیدا ہوا جس کا  پہلے  ذکر آیا ہے او ر ایک  ایسا معاشرہ بھی سامنے  آیا جس میں  لوگ بلا تفریق مذہب آپس میں  شادیاں  کرتے  ہیں  یعنی ان کے  نزدیک انسانی محبت ہی رشتوں  کی بنیاد ہے ، مذہبی عقیدہ نہیں۔ یعنی محبت جو انسانی سرشت  کی زیادہ بنیادی چیز ہے  جس کے  بارے  میں  ہم خود جانتے  ہیں  وہ عقیدوں  سی زیادہ بنیادی چیز ہے او ر زیادہ اہمیت کی حامل ہے او ر وہی ہماری فکر کی بنیاد بننی چاہئے او ر جو لوگ عقیدوں  پر محبت کو قربان کرتے  ہیں  وہ دراصل خطرہ مول لیتے  ہیں۔

ایک دن اسی ماحول میں  گفتگو کرتے  ہوئے  ایک قیدی نے  یہاں  لانے  کی وجہ پر تبصرہ کرتے  ہوئے  کہا کہ ’’بات صرف یہ نہیں  ہے  کہ یہ ہمیں  یہاں  کام کرنے  کے  لیے  لائے  ہیں، اور یہ دوری اس کا ایک حصہ ہے۔ صرف یہ بات ہوتی تو ہمیں  اپنے  گھر خط لکھنے  کی، اپنے  دکھ سکھ کا خطوں  کے  ذریعے  اپنے  عزیزوں  سے  اظہار کرنے  کی اجازت ہوتی۔ اپنے  گھروں  سے  خط پڑھ کر ان کے  بارے  میں  جاننے  کی اجازت ہوتی۔ لیکن خط بھیجنے  کی اجازت اس لیے  نہیں  کہ یہ نہیں  چاہتے  کہ ہمارے  ہم وطنوں  کو معلوم ہویا یہ خود ان کے  ہم وطنوں  کو معلوم ہو کہ یہ ہمارا کس بے  رحمی کے  ساتھ استحصال کر رہے  ہیں۔ ایسا کرنا انسان کی فطرت بھی ہے۔

جب بھی ہمیں  اپنی من مانی کرنی ہوتی ہے۔ تو ہم پردہ کر لیتے  ہیں۔ جب بھی ہم اپنی کسی بات کو چھپانا چاہتے  ہیں  تو پردہ کر لیتے  ہیں۔ جب بھی ہم غلط کام کرنا چاہتے  ہیں تو پردہ کا سہارا لیتے  ہیں۔ پردہ کا استعمال بہت وسیع ہے۔ تمام انسانی سماج کا انحصار پردوں  اور لہروں  پر ہے۔ چاہے  یہ چہرے  کا نقاب ہو یا دروازوں  کا پردہ، یا بند کواڑ، یا خاردار دیوار کا اور اس کا پھاٹک، اس پر پڑا ہوا تالا اور ایک ہولناک کتا، جیل کی دیواریں  ہوں  یا کسی دفتر کا چپراسی ہو یا سنتری رائفل لیے  کھڑا ہوا یا کسی فائل پر کنفیڈنسیل لکھا ہوا۔ یا کوڈ میں  ہو رہی گفتگو ہو، یا اسمگلروں  کے  تعارفی نشانات ہوں  یا کسی محل یا قلعہ کی دیوار ہو، یا ہندوستان اور جزائر انڈمان اور نیکوبار جسے  ’کالا پانی‘ کہا جاتا تھا اس کے  درمیان کے  وسیع سمندروں  کی دوری ہو یا فلسفہ کے  دبیز ذرہ بکتر ہوں، یا قانون کی پیچیدگیاں  ہوں  یا کسی مخصوص آئین کے  دو معنی الفاظ اور جملے  ہوں یا کسی ڈکٹیٹر کے  گھر کے  چاروں  طرف لگی ہوئی سیکورٹی کی فورس ہو، یہ سب پردے او ر یہ سب پہرے  چلمن ہیں۔ یہ سب ایک یا کچھ انسانوں  کی سے  نظروں  سے  پڑتے ، تنہائی کا فائدہ اٹھا کر، رائے  عامہ کی پسند سے  الگ اور قانون عامہ کی پابندیوں  سے  نکل کر اپنی من مانی کرنے  کے  ذرائع ہیں۔ ہندوستان کے  جیلوں  میں، کال کوٹھیوں  میں،مجرموں  کے  ساتھ جو نازیبا اور انتہائی وحشت ناک سلوک کیا جاتا ہے  وہ کسی سے  پوشیدہ نہیں  ہے۔ لیکن اس سے  بڑے  پردے ، سمندروں  کے  دبیز پردے ،اور پہرے  کی کیا ضرورت!کیسے  پردہ ایک با سیرت پتلی لڑکی کو ننگی موم کی پتلی کی طرح ظاہر کر دیتا ہے  یہ کس سے  پوشیدہ ہے  ؟ تنہائی جیل کی تنہائی، دشت کی تنہائی، جزیرہ کی تنہائی میں  صاحب اختیار جن کو ان پردوں  پر پورا اختیار ہوتا ہے  وہ کیسے  مادر زاد ننگے  ہو جاتے  ہیں۔ یہ عجیب و غریب منظر ہے۔

یہاں  ان کا وہ چہرہ ہمارے  سامنے  کھل کر آ رہا ہے  جس سے  ابھی ہمارے  ملک کے  لوگ واقف نہیں  ہیں۔ وہ تو صرف یہ جانتے  ہیں  کہ ایک ملک جب دوسرے  ملک پر حملہ کرتا ہے  تو لڑائی میں  کھل کرخوں  ریزی ہوتی ہے، جب تک جنگ کا خون لوگوں  کے  ذہنوں  پر سوار رہتا ہے  تب تک اکثر رونگٹے  کھڑے  کرنے  والے  مظالم بھی ہوتے  ہیں او ر بے  رحمی اور بے  حسی کے  ان دنوں  میں  لوٹ مار، عصمت دری اور بدسلوکیاں  بھی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ سماں  تو ہمارے  ملک کے  لوگوں  نے  کبھی دیکھا ہی نہیں  کہ قابض ہو جانے  کے  بعد ملک اور حکومت کے  قوانین کو فوجی ضرورتوں  کے  نام پر تجارتی مقاصد کے  لیے  اس بے  رحمی سے  کیا جائے  گویا مفتوح ملک کے  باشندوں  نے  کوئی جرم کیا ہو۔ ایسے  لوگ تو پہلی بار فاتح کے  طور پر ہمارے  ملک میں  آئے  ہیں۔ اور یہ کام کافی حد تک دانستہ طور پر ڈھکے  چھپے  طور پر کر رہے  ہیں  یعنی یہ عوام سے  اپنا اصلی چہرہ چھپانا چاہتے  ہیں۔ کوئی حکومت تو عموماً ایسا نہیں  کرتی حکومتوں  کو اپنے  ارادوں  کو چھپانے  کی کیا پرواہ۔

دوسرے  نے  جواب دیا ’’ان کی مجبوری شاید تم نہیں  جانتے۔ انہوں  نے  اپنے  ملک میں  جمہوریت چلا رکھی ہے۔ وہاں  اب بادشاہت نہیں  ہے  کہ کوئی کچھ نہیں  بولے  گا۔ کوئی بھی منہ پھٹ وہاں  کے  پارلیمنٹ میں  یہ پوچھ سکتا ہے  کہ یہاں  جو کچھ ہو رہا ہے  اس کا قانونی جواز کیا ہے او ر سرکار یہ کہہ نہیں  سکتی کہ بغیر کسی جواز کے  یہ سب کچھ ہو رہا ہے او ر یہ سب چلتا رہے  گا۔ اس مسئلے  سے  نمٹنے  کے  لیے  انہوں  نے  منافقت کی راہ ڈھونڈ رکھی ہے۔ یہ لوگ عملاً یہاں  کی خبر وہاں  جانے  ہی نہیں  دیں گے او ر ویسے  بھی یہ ضروری نہیں  کہ کلکتہ کے  افسروں  کی یہ منشا ہو کہ ہمارے  ساتھ اتنی سختی اور زیادتی کی جائے  لیکن یہاں  کی تنہائی، یہاں  کے  جیلروں او ر افسروں  کو خود بخود ایسا کرنے  کے  مواقع دیتی ہے۔ دراصل اس طرح کی صورت حال پیدا ہی نہیں  ہونی چاہیے۔

انڈمان کی دوری ایک طویل اور دبیز لٹکے  پردے  کی طرح سے  تھی جس کو نہ نظر پار کر سکتی تھی نہ آواز اور اس طرح یہ اس پردے  کی طرح تھی جو زندگی اور موت کے  بیچ ہوتی ہے۔ آپ تصور کیجئے  کہ اگر آپ نہ دیکھ پائیں ، نہ سن پائیں، نہ بول پائیں  تو آپ کی کیا حالت ہو گی۔ بالکل اس مرتے  ہوئے  انسان کی طرح جس کی زبان بند ہو جاتی ہے  لیکن روح نکلنے  سے  پہلے  وہ نہ جانے  کیا کیا دیکھنے  لگتا ہے ، اشارے  بھی کرتا ہے  لیکن بتا نہیں  پاتا۔ اسی صورتحال میں  ان قیدیوں  کو ڈال کر پھر ان کے  ساتھ یہاں  پوری آزادی سے  من مانی سلوک ہو رہا تھا۔ اور کیا یہی صورتحال آج کے  معمولی انسانوں  کی آج کے  عظیم معاشی نظام میں  نہیں  ہو گیا ہے  جس میں  سب کچھ بالے  بالے او ر من مانی ہوتی رہتی ہے او ر ہم آزاد ہوتے  ہوئے  بھی قید ہیں او ر ان کے  اعمال اور فیصلوں  کو جھیلنے  پر مجبور ہیں۔

پردوں  کا زیادہ ہونا، اور موٹا ہونا، اور بے  ضرورت ہونا، اور اس پر پہرہ ہونا کبھی مناسب نہیں، پردہ اور پہرہ، یہ دونوں  قانون کے  متضاد ہیں، اس لیے  کہ قانون سماج سے  وابستہ ہے ، اور کھلے  میدان کی چیز ہے ، پردہ کے  اندر قانون اپنی اصل کھو کر اس پردہ کے  اندر موجود روشنی یا تاریکی کے  رنگ میں  ڈھل جاتا ہے۔ اور پھر قانون نہیں  رہ جاتا۔ قانون پردوں  کے  پیچھے  جا کر فوراً اپنا چولا بدل لیتا ہے ، کیونکہ قانون پانی کی طرح ہے  جو سمندر میں  رہ کر ہی سطح سمندر کے  برابر رہ سکتا ہے۔ یہ جس دریا،جس نالہ، جس کوزہ، جس برتن میں  جائے  گا، اس برتن کے  مطابق ڈھل جائے  گا۔

پردہ انسان کو غلط کاری کا موقع فراہم کرتا ہے او ر پہرہ انسان کو ظلم کرنے  کے  لیے  اطمینان بخش ماحول عطا کرتا ہے۔ عقل پہ پردے  ڈالنا، غلط باتیں  بتا کر اور سمجھا کر اور زبان و فکر پہ پہرے  بٹھانا پابندی گفتگو لگا کر،  وہ دونوں  صورتیں  بھی آنکھوں  کے  سامنے او ر کانوں  کے  قریب ظلم کے  جال بچھانے  کا ذریعہ ہیں ، جب بھی ہم سے  کوئی پردہ کرتا ہے  یا ہماری کوئی چیز پردے او ر پہرے  کے  پیچھے  جاتی ہے  تو اس کے  ساتھ کیا گزرتا ہے  یہ ہم کو معلوم ہونا چاہئے۔ اور جب بھی کوئی کسی کو پردے او ر پہرے  کے  پیچھے  لے  جاتا ہے  تو ہم کو سمجھ لینا چاہئے  کہ اس کو قانون کے  سائے  سے  دور لے  جایا گیا اور لاقانونیت کی حدود میں  داخل کر کے۔ اس کے  اوپر جنگل کے  قانون کا اطلاق کیا جائے  گا۔ ‘

خالد سہیل نے  محسوس کیا کہ دنیا دو حصوں  میں  بٹی ہوئی ہے۔ ایک وہ جسے  سب جانتے  ہیں او ر ایک وہ جسے  عام آدمی نہیں  دیکھ سکتا اور جابر حکمرانوں  کو یہ دنیا بہت مرغوب ہے۔

oo

 

 

 

 

انہیں  پردوں  کے  پیچھے  موت کے  اس جنگل میں  زندگی اپنے  راستے  ڈھونڈتی رہی۔

موت کے  سائے  میں  کالا پانی کی زندگی دبے  قدموں  آگے  بڑھتی رہی۔ رفتہ رفتہ قیدی اس نئی زندگی کی انگریزی گرامر کو سمجھ چکے  تھے۔ پھانسی کے  منظر کے  چند روز کے  اندر ہی قیدیوں  کے  ذہنوں  میں  گہری تبدیلی نمودار ہونے  لگی۔ پہلے  وہ تمام دکھوں او ر ذلتوں  کے  باوجود کبھی کبھی آپس میں  ہنسی مذاق اڑا کر اپنے  غموں  کو ہلکا کر لیتے  تھے  لیکن اب وہ سلسلہ بالکل بند ہو گیا۔ ایسا لگنے  لگا جیسے  سبھی اپنے  طور پر کچھ سوچ رہے  ہیں۔ دھیرے۔ ان کی سوچ بھی باہر آنے  لگی۔

مشرا جو ایک بڑے  برہمن خاندان سے  تھا اور جسے  یہاں  لکڑیاں  ڈھونے او ر کھینچنے  کے  کام پر کئی مہینوں  سے  لگا دیا گیا تھا اور سست کام کرنے  کے  پاداش میں  جس کو تین چار بار کوڑے  لگ چکے  تھے  کئی بار گھوم کر اپنے  ملک کی طرف دیکھنے  کی کوشش کر چکا تھا لیکن نہ تو ملک دکھائی دیا نہ ملک کا کوئی آدمی اور نہ مستقبل میں  کبھی کسی کے  دکھائی دینے  کی کوئی امید باقی رہ گئی تھی۔ اب تو وہی لوگ دکھائی دے  رہے  تھے  جو اسی کی طرح یہاں  کے  کاموں  میں  جوت کر بیل اور گدھے  بنا دیے  گئے  تھے۔ یہاں  کی برہمن کی اونچی ذات اور ان کا پیشہ اور کہاں  کی وہ سماجی حکمرانی۔ منو کا فلسفہ کہیں  مین لینڈ میں  ہی اٹک کر رہ گیا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ جس حکومت نے  انہیں  غلام بنا کر ذلّت کے  گڈھے  میں  ڈال رکھا تھا وہ حکومت جیل کو اس زندگی میں  قیدیوں  کے  ذات پات کے  تئیں  از حد احترام کا اظہار کرتی تھی۔ جیل کے  حکام کی یہ حرکت ہی اسے  بڑی کمینی لگنے  لگی اس نے  تو بچپن سے  کبھی ذات پات کے  اس پہلو کو دیکھا ہی نہیں  جس پہلو کو اتنی آسانی سے  انگریزوں  نے  دیکھ لیا تھا اور وہ اپنے  راج پاٹ کو چلانے  کے  لیے  بڑی باریک بینی سے  استعمال کر رہے  تھے۔ اسے  محسوس ہوا کہ انگریزوں  کی اس چال کی کاٹ کرنی چاہیے او ر یہ کاٹ اسے  ہی کرنی چاہیے  کیونکہ وہ برہمن ہے او ر کسی فلسفے  میں  نیا پہلو تلاش کرنا ان کی بنیادی ذمے  داری ہے۔ اتنا خیال آنا تھا کہ وہ لگ بھگ کٹار لے  کر اس پر ٹوٹ پڑا۔

جن دنوں  وہ یہ سب کچھ سوچ رہا تھا ان دنوں  اسے  کام پورا نہ کرنے  کے  عوض میں  اس بار کوڑے  نہیں  لگائے  گئے  تھے  بلکہ اس کا پانی بند کر دیا گیا تھا۔ جب پانچ دنوں  تک پیاسا رہنے  کے  باوجود اس نے  آئندہ ٹھیک سے  کام کرنے  کی خود اپنی طرف سے  یقین دہانی نہیں  کرائی تو جیلر کو شک ہو گیا کہ وہ دراصل پیاسا نہیں  ہے او ر اس کو کسی نے  پانی پلایا ہے۔ اس خیال کے  آتے  ہی ڈاکٹر والکر نے  سب کو بلا لیا۔

’اسے  پانی کس نے  پلایا  ؟

’پتہ نہیں ‘

جب ہم نے  حکم دے  دیا ہے  کہ اس کو پانچ دن تک پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں  دیا جائے  گا تو کون احکامات کو توڑتا ہے۔

’سر‘ ایسا بالکل نہیں  ہو سکتا، وہاں  تو کوئی جاتا ہی نہیں  ہے۔ وہ آدمی ہے  ہی اتنا ضدی کہ اس کے  اوپر پانی نہیں  ملنے  کا اثر نہیں  پڑتا ہے۔

وہاں  چوکیداری پر کون لگا ہے۔

’رام پت یا دو لگا ہے  جناب‘

’ہٹاؤ اس کو اور تمام چوکیداروں  کی سروس بک لاؤ۔

جیلر نے  ایک ایک سروس بک کا معائنہ کیا اور ایک جگہ ٹھہر گیا۔

’گلا رام، ذات بھنگی، ضلع، دہرادون۔

اس نے  گھنٹی بجائی اور اردلی آ کر کھڑا ہوا۔

’ہیڈ کلرک‘ اس نے  اونچی آواز میں  کہا جو بلانے  کا اشارہ تھا۔

تھوڑی دیر میں  ہیڈ کلرک آ گیا۔

ونگ نمبر پانچ میں  گلارام کی ڈیوٹی ہو گی چابی صرف اس کے  پاس رہے  گی اور کسی دوسرے  کو اندر جانے  کی اجازت نہیں  ہو گی۔

’یس سر‘ میں  حکم جاری کر دیتا ہوں۔

مشرا بھی اب یہاں  کے  حقائق سے  نبٹنے  کے  لئے  ذہنی اور خاص طور سے  جذباتی طور پر تیار ہو چکا تھا۔ ’جہاں  میرا دھرم روشنی نہیں  دے  سکا وہاں  مجھے  خود فیصلہ کرنا چاہئے او ر اس کٹر برہمن نے  درخت کی اس پرانی چھال کو ایک رات اپنے  دل و دماغ سے  نوچ پھینکا۔

دوسری صبح وہ ایک بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔ ایک ایسا انسان جسے  انگریز نہیں  سمجھ سکتے  تھے۔ اس نے  کالا پانی کے  ان لوگوں  میں  شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا جو اپنی زندگی کی لڑائی خود اپنے  طور پر لڑ رہے  تھے۔ وہ نئی چوکیدار گلا رام کے  آنے  کا انتظار کرنے  لگا۔

گلا رام آیا تو اس نے  گلا رام کو قریب بلایا اور اس سے  انتہائی سنجیدگی سے  کہا۔

"گلارام اگر میں  تمہارے  ہاتھ کا پانی لینا چا ہوں  تو کیا تم دے  دو گے ؟”

مشرا نے  جب یہ کہا تو گلارام کو لگا جیسے  صدیوں  کی بوسیدہ فصل اچانک کسی طوفان کی زور سے  ٹوٹ کر گر رہی ہو۔ پہلے  تو وہ اس جملے  کے  اثر کو اپنے  آپ میں  محسوس کرتا رہا۔ پھر اسے  لگا کہ اسے  مشرا کی بات کا مناسب جواب دینا چاہیے او ر ادب اور احترام سے  دینا چاہیے۔ اچانک اس کے  لہجے  میں  درد ابھر آیا۔

’آپ کے  لیے  میری جان حاضر ہے ، میں  پانی کیا اپنا خون۔۔۔  ‘کہتے  کہتے  گلارام کی زبان بند ہو گئی۔

لیکن سرکار میں  کچھ کرتا ہوں۔

حضور۔ میں  گلا رام یہاں  چوکیداری کر رہا ہوں  لیکن میں  ذات کا بھنگی ہوں  جناب۔ میرے  ہاتھ کا چھوا پانی آپ کیسے  پئیں  گے  ؟ میں  کچھ کرتا ہوں۔ دیکھتا ہوں  کوئی آدمی جو تیار ہو۔ یہاں  بڑا خطرہ ہے۔ کسی سے  بات کرنا اپنے  کو بھٹی میں  جھونکنا ہے۔ ‘

’ لیکن میں ‘  مشرا نے  نگاہیں  اٹھا کر گلارام کو دیکھا’ گلا رام۔ مجھے  لگنے  لگا ہے  کہ یہاں  کی دنیا میں  اگر ہم لوگوں  کو جینا ہے  تو ہمیں  اپنے  دماغ کو بہت کھول کر اس دنیا کو دیکھنا چاہئے۔ ہم نے  دھرم کے  بہانے  بہت سی چیزیں  اپنے  مطلب کی بنا رکھی ہیں۔ جب ہم اپنے  مطلب کی آنکھوں  سے  دیکھتے  ہیں  تو ہمیں  وہ سب کچھ دکھتا ہے  جو میں  اب تک دیکھتا تھا۔ لیکن وہ سب یہاں  ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ ہمیں  اس دھرتی اور آکاش کو ایسی ہی نظر سے  دیکھنا چاہئے  جیسے  یہ کہ ہم دونوں  ایک ہی دھرتی کی مٹی سے  بنے  ہیں۔ ہمیں  یہ دیکھنا چاہئے  کہ یہ مٹی پاک ہے  یا ناپاک۔ ‘

یہ تو میں  کیا کہہ سکتا ہوں  جناب۔

’اسی طرح یہ پانی ہے۔ جات پات ہماری آنکھوں  میں  ہے ، ہماری نظروں  میں  ہے ، ہمارے  دلوں  میں  ہے او ر کہیں  نہیں  ہے۔ جب مکان ٹوٹ کر گرنے  لگے  تو ہمیں  سمجھ لینا چاہئے  کہ مٹی بھر بھری ہو چکی ہے۔ اپنے  کو مورکھ بنائے  رکھنے  کا کوئی فائدہ ہے  کیا۔ میں  تمہارے  ہاتھ سے  ہی پانی پیوں  گا۔ کسی اور کے  ہاتھ کا پانی نہیں  پیوں  گا۔ ‘

’ سرکار، آپ کیسی بات کر رہے  ہیں ؟ میں  شودر ہوں،آپ براہمن ہیں، انگریز آئیں  جائیں، یہ تو آتے  جاتے  رہیں گے  پرنتو آپ برہمن ہی رہیں  گے او ر میں  شودر ہی رہوں  گا۔ ہم اپنے  سنسکار، اپنے  دھرم پر قائم رہیں  گے۔ ‘

’گلا رام‘ یہ جیل کی دیواریں  اتنی لمبی چوڑی بحثیں  کرنے  کے  لیے  نہیں  ہوتیں، اور اونچی آوازیں  یہاں  دور تک سنائی دیتی ہیں۔ ,ذرا دھیرے  بولو۔ سنو گلا رام،  مجھے  لگتا ہے۔ دھرم مجھ سے او ر تم سے او ر سچ سے  بڑا ہو گیا۔ جو دھرم سچ سے  بڑا روپ لے  لیتا ہے  وہ مٹنے  لگتا ہے  اس کی حقیقت ختم ہونے  لگتی ہے۔ وقت سب سے  زیادہ اہم ذریعہ اور چشم ہے  علم و دانش کا وقت۔ کیا کہہ رہا ہے  ؟ وقت کی آواز کو دھرم کی آواز سمجھو۔ گلارام، ابھی جو سانس کی ہوا تمہارے  نتھنوں  سے  نکل رہی ہے  وہ میرے  نتھنوں  میں  جا رہی ہے  یا نہیں ؟ کل تم مرو گے او ر تمہاری راکھ فضا میں  پھیلے  گی۔ اور اسے  درخت اور پودے  چوس پر اپنے  پھلوں  میں ڈالیں  گے  تو اسے  کوئی برہمن کسی دیوی کے  چرنوں  میں  راکھ پر اپنی پوجا کرے  گا یا نہیں ؟سمے  کا الٹ پلٹ چیزوں  کو دھو دیتا ہے  جیسے  بہتے  دریا کا پانی صاف ستھرا رہتا ہے  زندہ سنسکار اور دھرم جنتوؤں  کی طرح اپنے  شریر کی مٹی گراتے  رہتے  ہیں۔ دھرم تو آتما سمان ہے۔ جسے  دیکھا نہیں  جا سکتا محض محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور اسے  ہم اپنے  اندر جھانک کر محسوس کر سکتے  ہیں۔ گلارام تمہارا دھرم تو یہ ہے  کہ تم جس کا نمک کھا رہے  ہو اس کی نمک حلالی کرو۔ انگریز تمہارا آقا ہے۔ اس کے  وفادار ہو رہے  نا؟ لیکن تم یہ بہکی بہکی باتیں  کیوں  کر رہے  ہو؟‘

گلا رام کے  چہرے  پر ایک ہنسی ابھر آئی۔

’تم مسکرا رہے  ہو گلارام، کیوں ؟ اس لیے  کہ تم جو کچھ دیکھ رہے  ہو اس سے  تم کو خوشی ہو رہی ہے۔ ‘

تم جو کچھ دیکھ رہے  ہو، وہی دھرم ہے

’ اسی کو پھیلاؤ نا‘

ہم سب اپنی جھوٹی وفاداریوں  سے  باہر نکلیں او ر کھلے  میں  آ کر دھرم کو پہچانیں او ر یہ دیکھیں  کہ سچائی کا مارگ کون سا ہے۔

تم شودر ہو، میں  برہمن ہوں، لیکن ہماری مٹی؟ یہ مٹی تو اس دھر تی کی مٹی ہے  جس میں  سے  سب نکلتے  ہیں او ر سب ڈوب جاتے  ہیں او ر ہماری آتمائیں  سب کی سب پرماتما کا حصہ ہیں۔

جسے  ہم چھوا چھوٹ کہتے  ہیں  گلا رام، وہ ہمارے  کرداروں او ر صورتحال کی سرحدیں  ہیں، تم شودر ہو اس لیے  کہ تم گندگیاں  صاف کرتے  ہو، اور میں  برہمن ہوں  کیونکہ میں  علم کا دھنی ہوں، لیکن وہ پانی جو تم مجھے  دو گے، اس پانی کو کیا لگ جائے  گا۔ کیا دھرتی سے  نکلا ہوا اور آسمان سے  برسا ہوا پانی تمہارے  چھو دینے  سے  ناپاک ہو جائے  گا؟

پورا آسمان جس کے  نیچے  تم ہو، اور پوری دھرتی جس پر تم رہتے  سوتے  ہو، وہ ناپاک کیوں  نہیں  ہو جاتی؟

گلا رام یہ دھرتی جس سے  ہم بنے  ہوئے  ہیں  وہ پاک ہے  یا ناپاک،

اس دھرتی کی ہریالی ختم ہونے  جا رہی ہے۔ ہم اس پر لگے  ہوئے  پودے  ہیں او ر ہم۔ ‘

گلا رام صرف اپنی آنکھیں  پوری طرح کھول کر چپ چاپ سوچتا ہوا مشرا کی باتوں  کو دھیان سے  سنتا رہا۔

’ہم سوکھ رہے  ہیں ، ہم سوکھیں  گے  تو یہ دھرتی ویران ہو گی۔ تمھیں  مجھے  نہیں  اس دھرتی کو پانی پلانا ہے۔ جب کروڑوں  اچھوتوں  کی آبادی سے  کوئی زمین ناپاک نہیں  ہو سکتی، جب وہ ندیاں  ناپاک نہیں  ہو جاتیں  جو بہت کچھ دھوکر اپنے  اندر لے  جاتی ہیں، تو تمہارا چھوا ہوا جل کیسے  ناپاک ہو سکتا ہے۔ یہ ناپاکی کیا چیز ہے  ؟ یہ صرف میرے  ہی دماغ کے  پیچھے  گرا ہوا کالا پردہ ہے۔ یہ ہماری آنکھوں  کا پردہ ہے۔ یہ ہمارے  سے  کیے  رہنے  کا دوش ہے۔ اور یہی دوش تمہارے  دل میں  دھرم کے  پروش کو روکتا ہے۔ تمہارے  اس مکڑے  کے  جالے  سے  گھرے  ہوئے  دل میں  اس شنکر مشرا کے  لیے  جس کے  ذات والے  تمھیں  اپنے  کنویں  سے  پانی نہیں  لینے  دیتے۔ جو اپنے  سامنے  تم کو بیٹھنے  نہیں  دیتے۔ جو اپنے  گھروں  میں  تمھیں  قدم نہیں  رکھنے  دیتے۔ جو ہاتھ اٹھا کر تمہارے  پر نام کا جواب نہیں  دیتے  ان کے  لیے  ہمدردی ضرور ہے  لیکن تم احساس کمتری کے  پنجرے  میں  گرفتار ہو۔ اور پھر ٹھہرا رہے  ہو۔ تم جانتے  ہو کہ ہمارا اور تمہارا درد الگ الگ نہیں ہے۔ اگر تمہارے  بچے  کو بیل سینگ مار دے  تو میں  اس کے  لیے  جڑی بوٹی ضرور بناؤں  گا۔ تمہاری بیٹا کی شادی میں  مہمان کو کھانا نہ ملے  تو ہمیں  شرمندگی ضرور ہو گی۔ ہم تو دراصل الگ الگ بھی ہیں، اور ساتھ ساتھ بھی ہیں۔ کوئی کوّے  کی چال چلتا ہے او ر کوئی ہنس کی،کوئی تیندوے  کی۔ یہ کون سا بٹوارہ ہے  کہ ہم اس ظلم سے  ٹکرانے  کے  لیے  کھل کر ایک دوسرے  کا ہاتھ نہیں  بٹا سکتے ؟ اور اس بڑی لڑائی میں  ہم ایک دوسرے  سے  اتنے  الگ رہیں  کہ ہمارا پورا فلسفہ کھوکھلا دکھائی دینے  لگے او ر ہماری درشٹی ولپت ہو جائے۔ ‘

گلا رام شنکر مشرا کو محض دیکھتا رہا۔ اس کے  ذہن میں  گفتگو کے  دوران کبھی کبھار جگنوؤں  کی طرح کوئی چنگاری روشن ہو جاتی اور پھر اندھیروں  میں  معدوم ہو جاتی لیکن اسے  یہ صاف صاف محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں  کچھ جگمگاہٹ سی تھی۔

’آپ ٹھیک کہتے  ہیں  سرکار‘

’گلارام ، جانتے  ہو کہ پہلے  والے  چوکیدار کو ہٹا کر تم کو یہاں  کیوں  لگایا گیا ہے  ؟ اسی لیے  کہ یہ جیلر یہ جانتا ہے  کہ رام بت یادو اس فرنگی کا اتنا وفا دار نہیں  جتنا اپنے  دیس اور دھرم کا اور یہ گلا رام بھی فرنگی کا اتنا وفادار نہیں  ہے  جتنا اپنے  دیس اور دھرم کا وہ جانتا ہے  کہ یادو اس فرنگی سے  اپنی جان،زندگی اور نوکری کا خطرہ مول لے  کر مجھے  پانی پلا سکتا ہے  کہ اس کو اپنے  دیس اور دیس واسیوں  سے  پیار ہے او ر فرنگی یہ بھی سوچتا ہے  کہ اگر تم چوکیدار ہو گے  تو میں  پیاس سے  مر جاؤں  گا لیکن تمہارے  ہاتھ کا پانی نہیں  پیوں  گا کہ تم بھنگی ہو۔ اس لیے  اس نے  تمہارے  اوپر بھروسہ کیا۔ اور تمھیں یہاں  لگایا۔

’ہاں جناب، جیلر صاحب نے  مجھے  بھی سمجھا یا کہ ہم نے  تم کو وہاں  پراس لیے  لگایا ہے  کہ یادو اور پنڈت ایک ہے۔ وہ ایک دوسرے  کا ہے۔ اور اس سے  ہم کو خطرہ ہے  لیکن تم کوتو انگریز سرکار کا وفادار ہونا چاہئے  کیونکہ یہ برہمن اور اونچی ذات والا تم پر ظلم ڈھاتا ہے۔ یہ اس کے  خلاف ہے او ر ہم اس ذات پات کے  خلاف ہے ، تم کو غداری نہیں  کرنا ہے۔ ہم تمہارا مالک ہے۔ ہم تمہاری بھلائی کرتا ہے۔ ہم تم سے  نفرت نہیں  کرتا ہے۔ ہم تمہارے  ہاتھ کا دیا ہوا پانی پی سکتا ہے  اس لیے  کہ ہم تم کو انسان سمجھتا ہے  لیکن تمہارا برہمن تم کو جانور سمجھتا رہے۔ جانور سے  بھی بدتر سور سمجھتا ہے۔ ‘

پھر تم نے  کیا کہا۔

’میں  کیا کہتا جناب، جیلر صاحب کے  سامنے  میری کہاں  زبان کھلتی، میرے  دل میں  آیا تھا کہ میں جیلر سے  کہتا

کہ اگر تم ذات پات کے  خلاف ہو تو تم اس کے  خلاف آواز کیوں  نہیں  اٹھاتے۔ اس کے  خلاف قانون کیوں  نہیں بناتے۔ اور تم اپنی سرکاری کتابوں  میں  ہر آدمی کے  نام کے  آگے  اس کی ذات کا نام لکھ کر اس کو اور پکا کیوں  کرتے  ہو، تم کیوں  الگ الگ ذات کے  لیے  الگ الگ نوکری کو مخصوص کرتے  ہو لیکن میری زبان مالکوں  کے  سامنے  کیسے  کھل سکتی ہے۔ ہم نے  تو بچپن سے  ہی سیکھا ہے  کہ بڑا چاہے  ظلم کرے  یا رحم، اپنی زبان کبھی نہ کھولو ورنہ اور ظلم بڑھتا ہے۔ قہر آتا ہے۔ خاندان تباہ ہوتا ہے۔ ہماری زبان تو بند رہنے  کے  لیے  ہوتی ہے۔ ‘

سلاخوں  کے  پیچھے  سے  شنکر مشرا ، گلارام کی آنکھوں  کے  ان دائروں میں  غور سے  دیکھتا رہ گیا جہاں  غلامی کے  گہرے  سائے  پلکوں  کی طرح جھول رہے  تھے۔

’شنکر، تم نے  ان زبانوں  کو کچلا ہے او ر آج بھگت رہے  ہو، تم کو اپنی تعداد بہت بڑی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن وہ اتنی بڑی نہیں  ہے  شنکر، تم نے  خود ہندوستان کی مٹی کو ذلیل کیا ہے۔ یہاں  کے  انسانوں  کی ایک بڑی تعداد کو کمزور اور بے  زبان رکھا ہے۔ شنکر، اگر اس گلا رام کی زبان بند نہ کی گئی ہوتی‘ اگر ا س کو بڑوں  کے  سامنے  کھلنے  سے  نہیں  روکا گیا ہوتا تو یہ گلا رام جو تم کو جو ایک سلاخوں  کے  پیچھے  ڈالے  گئے  مجرم ہو، اور جس پر نگرانی رکھنے  کے  لیے  اس گلا رام کو یہاں  تمہارے  اوپر حاکم بنایا گیا ہے او ر جو تم کو سرکار، حضور اور جناب کہہ کر بات کر رہا ہے۔ تم کو پانی دینے  سے  نہیں  گھبراتا۔

وہ گہری سوچ میں  ڈوب گیا۔ ’ تم نے  اپنے  وہ ہاتھ کاٹ دئے  ہیں جو تمہاری آزادی کی جنگ میں  زخمی سپاہیوں  کو پانی پلاتے  ہیں۔ تم نے  اپنے  کمزور لوگوں  کو اور اپنی عورتوں  کو اپنے  معاشی رقیبوں  کو کمزور کر کے  دراصل اپنی قوم کو کمزور کیا ہے او ر آج اسی کا نتیجہ بھگت رہے  ہو۔ تم نہ صرف اپنی سزاؤں  کے  ذمے  دار ہو بلکہ ان کی تکلیفوں  کے  بھی ذمہ دار ہوں  جن کو تم نے  دانستہ طور پر کمزور بنا کر رکھا۔ ‘ شنکر نے  دل ہی دل میں  اپنے  آپ سے  کہا۔

پھر وہ گلا رام سے  مخاطب ہوا۔

’گلارام، تم تو جانتے  ہو کہ ایک برہمن بھوکے  پیاسے  مر جائے  گا لیکن ایک اچھوت کے  ہاتھ کا پانی نہیں  پئے  گا۔ ‘

’جی جناب‘

’ تو میں  بھی پیاس سے  مر جاؤں  گا لیکن تمہارے  ہاتھ کا پانی نہیں  پیوں  گا۔ ‘

’جناب آپ تو ان برہمنوں  میں  سے  ہیں  جو چھتری سے  برتر مقام بھی رکھتے  ہیں ، آپ تو جنگ آزادی لڑتے  ہوئے  یہاں  بند ہوئے  ہیں۔ آپ تو اپنی جان کی پرواہ بالکل نہیں  کرتے۔ ‘

’اگر میں  تمہارے  ہاتھ کا پانی پیوں  تو تم کیا کہو گے۔ ‘

’مجھے  حیرت ہو گی‘

’گلارام، ہم کیوں  نہ ایسا کریں  کہ سب جاتی مل کر ایک ایسی فوج بنائیں  جس میں  ہر زخمی کو ہر دوسرا پانی پلا سکے ، ہر باغی کو ہر دوسرا کھانا کھلا سکے۔ ہر ایک کو ہر ایک اپنا خون پسینہ دے  سکے۔ ہر ایک کو ہر ایک پکڑ کر سنبھال سکے۔ ہر بیمار کی ہر ایک تیمار داری کر سکے۔ گلا رام تم ایک لوٹا پانی لاؤ۔ ‘

گلارام لڑکھڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور تھوڑی ہی دیر بعد ایک لوٹے  میں  پانی لے کر آیا۔

’گلارام، تم اس میں  سے  پیو۔ ‘

’نہیں  جناب میں ایسا نہیں  کر سکتا۔ ‘

’گلارام، اگر تم نے  اس پانی کو پینے  سے  انکار کیا تو میں  یہ سمجھوں  گا کہ دیس کو کمزور کرنے  میں  جتنا حصہ اونچے  ذات والوں  کا ہے  اتنا ہی نیچی ذات والوں  کا ہے۔ گلا رام ہر وہ آدمی دوشی ہے  جو اس بھید بھاؤ کو مانتا ہے  چاہے  وہ میں  ہوں  یا تم ہو۔ پیو تم یہ پانی، اس میں  منہ لگا کر۔ ‘

گلا رام تھرتھراتے  ہاتھوں  سے  لوٹا منہ تک لے  گیا اور ایک گھونٹ پانی پیا۔

’اب یہ پانی مجھے  دو! پیاسا میں  نہیں  ہوں۔ پیاسی ہے  ہماری تہذیب، ہماری مٹی۔ یہ پانی اس مٹی کی پیاس کو بجھائے  گا، اسے  مضبوط بنائے  گا۔ ‘

اور شنکر مشرا نے  منہ لگا کر ایک گھونٹ پانی پی لیا۔ وہ چار دن سے  پیاسے  تھے  لیکن انہوں  نے  صرف ایک گھونٹ پانی پیا۔

’ اور پئیں  جناب۔ ‘

’نہیں ، مجھے  تو یہ دیکھنا ہے  کہ انگریزوں  کی دی ہوئی اس پیاس میں  کتنی طاقت ہے۔ ‘

بیشتر قیدیوں  کو مین لینڈ سے  آئے  ہوئے  ایک عرصہ گزر گیا تھا۔ ان میں  بہت سارے  بیمار ہونے  کی وجہ سے  سختی کے  باوجود ٹھیک سے  کام نہیں  کرپا رہے  تھے او ر اذیتوں  کے  بعد وہ اور بھی لاغر ہو جاتے  تھے۔

بہت سے  دوسرے  کام کرنا ہی نہیں  چاہتے  تھے او ر ان کو اپنی جان کی بھی پروا نہیں  تھی۔ بہت سے  قیدیوں  کی سزا لگاتار ڈسپلن توڑنے  کی وجہ سے  یا پھر دوسروں  کو بھڑکاتے  ہوئے  پائے  جانے  کے  سبب سزا کو بڑھا کر سزائے  موت میں  تبدیل کر کے  پھانسی دی جا چکی تھی۔ ڈاکٹر والکر محسوس کر رہا تھا کہ اب نئے  قیدیوں  کی کھیپ آنی چاہئے۔ پرانے  ہندوستانی کارندے  بھی قیدیوں  سے  گھلنے  ملنے  کی وجہ سے  نرمی برتنے  لگے  تھے او ر قیدیوں  کی سستی کی طرف سے  نظریں  چرانے  لگے  تھے  یا پھر کام کے  حساب میں  خرد برد کر کے  ان کو سزا سے  بچانے  کی کوشش کرتے  تھے۔ ان کو بھی بدلنے  کی ضرورت تھی۔ اس نے  حال ہی میں  کچھ نئے  کارندے  مین لینڈ سے  بلائے  تھے او ر زیادہ تر ذمہ داریاں  ان کو سونپ دی تھیں۔ کچھ وفادار قیدیوں  کو پروموشن دیا گیا تھا۔ وہ زیادہ مستعدی سے  اپنا کام کرتے  تھے۔

اسسٹنٹ جیلر کو ڈاکٹر والکر کے  تیور پر تعجب ہوا۔ اتنے  حسّاس بات پر اس کا رد عمل بالکل غیر متوقع سا تھا۔ اس نے  ڈاکٹر والکر سے  خاص طور سے  تنہائی میں  مل کر ابھی ابھی کہا تھا۔

’سر، جیل کی دیواریں  کافی کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کی مرمت کی ضرورت ہے۔ برسات میں  جگہ جگہ سے  اس میں  دراریں  پڑ گئی ہیں۔ ‘

’ جوہیں  کافی ہیں۔ ان کو اگر جیل کی دیواریں  نہیں  روکیں  گی تو قانون روکے  گا۔ جانتے  ہو کیا ہے  قانون؟

’لیکن جناب اگر سب کے  سب نکل گئے  تو کیا سیکڑوں  آدمیوں  کو پھانسی کی سزا دے  سکتے  ہیں ؟

تم نئے  آئے  ہو، تم کو یہاں  کی تاریخ کے  بارے  میں  کسی نے  نہیں  بتایا کہ یہاں  پندرہ سال قبل ایک سو اسی فرار مجرموں  کو راتوں  رات پھانسی پر  چڑھا دیا گیا تھا۔ اور پھر یہ لوگ نکل کر جائیں  گے  کہاں ؟ کیسے  جائیں  گے  ؟ ان کے  پاس کیا ہے ؟

’لیکن جناب‘ پچھم کی دیوار بالکل ہی ناقابل اعتبار ہے  اور وہاں  کا چوکیدار بھی کافی لا پرواہ ہے ، پرسوں  رات چیکنگ میں  سویا ہوا پایا گیا تھا۔ اسے  کوئی سزا نہیں  ہوئی۔

’ٹھیک ہے ، اس کے  بارے  میں  مجھے  رپورٹ پیش کی جائے۔

’لیکن جناب جب تک ان اسٹاف والوں  پر سختی نہیں  ہو گی۔ یہ خطرہ بنا رہے  گا۔

’تمھیں  معلوم ہے۔ ’اسے  ان مجرموں  کے  بھاگنے  کی بروقت خبر نہ دینے  کے  انعام میں کیا دیا گیا تھا۔

جیل سپرنٹنڈنٹ نے  معنی خیز نظروں  سے  جیلر کو دیکھا۔

جیلر خاموش رہا۔ پھر واپس آ گیا۔

بیڑے  میں تقریباً۵۵ آدمی سوار تھے۔ سمندر میں  ابھی کچھ ہی دور گئے  تھے  کہ آسمان سے  کالے  بادل اٹھنے  لگے او ر پھر تیز ہوائیں  چلنے  لگیں۔ سمندر میں  بھی تیز ہوائیں  چلنے  لگیں اور لہریں  تھپیڑے  مارنے  لگیں۔ چاند چھپ گیا۔ ستارے  کھو گئے۔ تاریکی بڑھتی چلی گئی۔ صرف سمندر کے  اندر جگنوؤں  کی طرح چمکنے  والی چمکیلی مچھلیاں  دکھائی دیتی رہیں۔

تھوڑی دیر تک ہچکولے  کھانے  کے  بعد بیڑا ہلنے  لگا اور اس کی جوڑیں کھلنے  لگیں او ر بالآخر بیڑا ٹوٹ کر بکھر گیا۔ پانی میں  گرنے  کے  بعد وہ تیرنے  لگے۔ چاروں  طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور کچھ دکھائی نہیں  دے  رہا تھا کہ کون کہاں  جا رہا ہے۔

تین چار گھنٹے  تک لگاتار تیرنے  کی وجہ سے  اب وہ کافی تھک چکے  تھے۔ ہمت ختم ہونے  لگی تھی اور وہ اپنے  کو موت کے  حوالے  کرنے  کو تیار ہو چکے  تھے  کہ یکایک ان کے  پاؤں  نیچے  ریت سے  ٹکرائے۔ وہ دھیرے  دھیرے  چلتے  ہوئے  کنارے  تک آ کر پانی سے  باہر نکلے او ر کنارے  پر آ کر ریت پر آ کر گر پڑے۔

وہ رات بھر وہیں  پڑے  رہے۔ صبح دھوپ سے  ان کی آنکھ کھلی۔ سامنے  سمندر کی لہریں  دوڑ رہی تھیں۔ پیچھے  گھنا جنگل پھیلا ہوا سائیں  سائیں  کر رہا تھا۔ دور دور تک ساحل پر انسانی لاشیں  پڑی تھیں۔ یکے  دکے  آدمی زندہ دکھائی دے  رہے  تھے  جو ادھر ادھر رینگ رہے  تھے۔

شام تک بھوک تیز ہو گئی۔ پانی اترا تو سمندر کے  کنارے  سے  وہ سمندری کیڑے  مکوڑے  چن چن کر کھانے  لگے، پھر جنگل میں  تلاش کرتے  کرتے  نالے  کا پانی ملا جس سے  پیاس بجھائی۔ جب آس پاس کے  کیڑے  مکوڑے  بھی ختم ہونے  لگے  تو وہ پیڑوں  کی پتیاں  بھی کھانے  لگے۔ اب بھوک برداشت سے  باہر ہو رہی تھی۔ انہوں  نے  مشورہ کیا کہ آدمیوں  کا گوشت کھا کر دیکھا جائے۔ اب کیا تھا جو آدمی مرنے  والا ہوتا ہے  اس کو کھانے  لگے۔ کسی نے  نہیں  دیکھا کہ مرنے  والے  کی جات پات کیا تھی۔ لیکن جو لوگ آدمی کا گوشت کھانے  لگے، اُن لوگوں  کی آنکھیں  پیلی ہو جاتیں  اور پاؤں  کے  جوڑوں  میں  درد ہو جاتا اور یہ گوشت کھانے  والے  بھی اس طرح رفتہ رفتہ مرنے  لگے۔ اس سے  گھبرا کر کچھ لوگوں  نے  آدمی کا گوشت کھانا چھوڑ دیا۔

آدمی کا گوشت کھانے  کی طبیعت نہیں  چاہتی تھی۔ یہ گوشت کافی نمکین ہوتا تھا۔ لیکن موت کو سامنے  دیکھ کر وہ سب کچھ کر رہے  تھے۔ اب وہ سب کمزور ہوتے  جا رہے  تھے۔ جو جہاں  پڑجاتا وہیں  پڑا رہ جاتا۔ یکے  بعد دیگرے  لوگ مرتے  رہے  اور آخر میں  صرف تین بچ گئے۔ انھیں  لگا کہ وہ بھی اب صرف چند دنوں  کے  مہمان ہیں۔ پھر ان میں  سے  بھی ایک کی آنکھیں  بند ہو گئیں او ر وہ مرنے  کے  قریب تھا کہ ایک اور انسانی لاش مل گئی جیسے  نوچ نوچ کر اس نے  خود بھی کھایا اور دوسروں  کو بھی کھلایا۔

اب وہ زندگی کی آخری سانس لے  رہے  تھے  کہ ایک دن برما کے  مچھیروں  کی ایک کشتی وہاں  طوفان میں  بھٹک کر آ لگی۔ ان سے  ان کی ملاقات ہوئی۔ انہوں  نے  ان کو سنبھالا اور اپنی کشتی سے  انھیں  کھانا اور پانی دیا۔ اور پھر ان کو اپنے  ساتھ لے  گئے۔ کچھ دنوں  بعد وہ وہاں  سے  اپنے  وطن لوٹے  لیکن پولیس کے  ڈر سے  اپنے  گھروں  میں  جانے  کے  بجائے  اپنے  رشتہ داروں  کے  یہاں  زندگی بھر چھپے  رہے۔

oo

 

 

 

 

 

رتھی کا بھائی جو کچھوے  نکالنے  گیا تھا،لڑکھڑاتا ہوا جھوپڑے  کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اس کے  سیاہ جانگھ سے  خون تیزی سے  بہہ رہا تھا۔ اور اس کی سانس پھول رہی تھی۔ وہ جھوپڑے  کے  قریب آتے  ہی گر پڑا۔ آس پاس کے  سبھی اس کے  پاس پہنچ گئے۔

گولی کی آواز سب نے  سنی تھی، ایک دھماکہ ہوا تھا۔ جنگلوں  میں  چڑیا اڑنے  لگتی تھی۔ ہرنیں  بھاگ گئی تھیں۔ اور رتھی کا بھائی زخمی ہو کر آیا تھا۔ دو ماہ کے  اندر یہ پانچواں  واقعہ تھا جس میں  پورٹ بلیر میں  آئے  ہوئے  لوگوں  نے  جروا قبیلہ کے  افراد کو گولی ماری تھی چار ہلاک ہو چکے  تھے، یہ آج بچ کر آ گیا تھا۔

جروا قبیلہ کا پورٹ بلیر میں  آئی ہوئی باہری آبادی سے  جنگ کی ایک پوری تاریخ تھی۔ قبائلیوں  کو وہ دن یاد تھے۔ جب پہلی بار اس جزیرہ پر یہ نئی آبادی آئی تھی۔ اس وقت وہ لوگ انھیں حیرت سے  دیکھتے  تھے  آنے  والوں  نے  ان کے  اوپر گولی چلائی تھی۔ اور وہ بھاگ کھڑے  ہوئے  تھے  اس لیے  کہ انہوں  نے  سوچا تھا کہ یہ اجنبی لوگ انھیں  اپنا دشمنی سمجھ کر ان پر گولی چلا رہے  ہیں۔ رفتہ رفتہ ان اجنبی لوگوں  نے  پورٹ بلیر میں  قبضہ جمایا۔ قبائلی وہاں  سے  کچھ دور ہٹ گئے۔ جب بھی کہیں  قبائل سامنے  آتے  تو وہ اجنبی ان کے  اوپر گولی چلاتے  تھے۔

پھر ایک دو بار دونوں  طرف سے  گولیاں او ر تیر چلے۔ دو بار گھائل ہوئے  لیکن رفتہ رفتہ وقت گزرنے  کے  ساتھ ساتھ ان کی ملاقات بھی ہوئی۔ اور وہ کچھ کچھ ایک دوسرے  کی باتیں  اشاروں  سے  سمجھنے  بھی لگے۔ لیکن ان تمام باتوں  کے  باوجود باہر سے  آئے  ہوئے  لوگوں  کی جارحانہ رویوں  سے  قبائلی گھبراتے  رہے۔ اور ان کے  دل میں  یہ اندیشہ اٹھتا رہا کہ وہ لوگ ان کو نقصان پہنچائیں  گے۔ اور رفتہ رفتہ ان کی زمینوں  کو پکڑ لیں  گے۔ درمیان ایک فوجی افسر ایسا بھی آیا جس کو قبائلیوں  کے  جوابی حملے  پر طیش آ گیا۔ اور اس نے  اپنی پوری فوج کے  ساتھ حملہ کر کے  کئی قبائلیوں  کو موت کے  گھاٹ اتار کر تقریباً دو میل تک کے  علاقہ کو اپنے  قبضہ میں  لیا۔ تب سے  قبائلی ہراس آدمی کو جو پورٹ بلیر سے  آیا اس پر بھی حملہ کرنے  کی کوشش کی لیکن ہر بار ان کی کوشش یوں  ناکام رہی کیوں  کہ شہر میں  فوج کی طرف سے  حفاظت کا انتظام کافی اچھا تھا۔

ادھر کئی برسوں  سے  امن تھا۔ لیکن جب سے  انگریزوں  نے  ہندوستان سے  مجرموں  کو منگوا کر ان سے  جنگل صاف کرائے۔ لکڑی کاٹنے او ر چیرنے او ر اس سے  جہاز میں باہر ملکوں  میں  بھیجنے  کا کاروبار شروع کیا تھا تب سے  وہ جنگلوں  کے  ان علاقوں  پر بھی دھڑا دھڑ قبضہ کرنے  لگے  تھے  جو اب تک جروا قبیلہ کے  پا س تھے۔ انگریزوں  کی اس جارحانہ اور غاصبانہ پالیسی کے  ردّ عمل کے  طور پر جب بھی قبائلی کہیں  رکاوٹ ڈالتے  تو انھیں  گولیوں  کا شکار ہونا پڑتا تھا۔

انگریزوں  کی اس پالیسی نے  قبائلیوں  کے  تمام خاندانوں  میں او ر علاقوں  میں  ایک سنسنی اور دہشت پھیلا دی تھی اور ایک زبردست جذبۂ بغاوت ابھر رہا تھا۔ دو ماہ سے  جب سے  نئے  قیدیوں  کی ٹیمیں  جنگل میں  بھیجی گئی تھیں، جروا قبیلے  کے  اوپر حملے او ر بڑھ گئے  تھے او ر اس حملہ میں  چار جروا گولی کے  شکار ہو کر مر گئے  تھے او ر آج پانچواں  جروا زخمی ہو کر آ گرا تھا۔

رفتہ رفتہ تمام قبائلیوں  میں  یہ خبر پھیل گئی اور وہ جمع ہونے  لگے۔ جگہ جگہ انہوں  نے  تیر بنانے  کے  کام پر زیادہ دھیان دینا شروع کر دیا۔ اور مرد و عورت و بچے  سبھی اپنے  ہتھیار چمکانے  لگے۔ پھر ایک دن ہزاروں  کی تعداد میں  جمع جروا کی میٹینگ ہوئی جس میں  انہوں  نے  پورٹ بلیر کو چاروں  طرف سے  گھیر کر، رات کے  اندھیرے  میں  ہر قسم کی جان کی قربانی دیکر پورٹ بلیر پر مکمل قبضہ کرنے  کا فیصلہ کر لیا اور یلغار کی تیاری ہوئی۔

تین دنوں  کے  اندر اندر جنگل کی ہر سمت سے  قبائلی جوق در جوق اپنے  تیر کمان اور چاقوؤں  کے  ساتھ پورٹ بلیر کی سمت میں  بڑھنے  لگے۔ بڑے  ہی خفیہ طریقے  سے  وہ جنگل، نالے  پہاڑیاں  پار کرتے  کرتے  پورٹ بلیر سے  کچھ دور جنگل میں  یکجا ہوئے۔ اگلی رات انھیں  پورٹ بلیر پر یلغار کرنا تھا۔ قبیلے  کے  سرداروں او ر ماہرین جنگ نے  ایک ساتھ بیٹھ کر آخری پلان تیار کیا۔ تمام رات آگ جلا کر اس میں  شکار بھون بھون کر کھاتے  رہے۔ ان کی جوان خوبصورت لڑکیاں  رقص کرتی رہیں۔ جوانوں  کی نظریں  رات کے  اس جادوئی منظر میں  قیامت برپا کرنے  والی کی جنگ پر گڑی ہوئی تھیں۔

دوسرے  دن دھیرے  دھیرے  سارے  قبائلی شام کے  تقریباً اندھیرے  ہونے  کے  بعد پورٹ بلیر کے  چاروں  طرف پھیلنے  لگے۔ پورٹ بلیر میں  بارش ہو رہی تھی۔ تمام تر آسمان پر گھنے  بادل چھائے  ہوئے  تھے  جس کی وجہ سے  مکمل اندھیرا تھا۔ جیل اور سرکاری عمارتوں او ر مکانوں  پر کھڑے  سنتری بھی آرام کرنے  لگے  تھے۔ وہ بارش سے  بچنے  کے  لیے  اندر چھپ گئے  تھے۔ مکانوں  کے  باہر سڑکوں او ر درختوں او ر گلیوں  پر مکمل اندھیرا طاری تھا۔ چاروں  طرف سے  قبائلی پورٹ بلیر کے  حدود کے  پاس پہنچ کر رکے  ہوئے  تھے  اس آخری لمحہ کے  منتظر تھے۔ جب وہ جانوروں  کی ایک مصنوعی آواز لگاتے او ر آگے  بڑھ جاتے  تھے۔

گوپی کے  دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ اگر یہ جروا کامیاب ہو گئے  تو پورٹ بلیر کے  ہزاروں  کو آدمیوں  کا خاتمہ ہو جائے  گا۔ انگریز اور اس کے  ہم وطن سب مارے  جائیں  گے۔ اور یہ اجنبی جنگلی کامیاب ہو جائیں  گے۔

’’میں  میدان جا رہا ہوں ‘‘ آخر کار اس نے  اٹھ کر پاخانہ جانے  کا بہانہ بیوی سے  کر کے  گیا۔ کافی دیر تک وہ نہیں  لوٹا۔ اس کی بیوی رتھی اٹھ اٹھ کر اس کو تلاش کرتی رہی۔ نہ جانے  کہاں  گم ہو گیا۔ سامنے  کے  کھائیوں  میں  پھسل کر گر گیا یا کیا ہوا۔ وہ آگے  بڑھی اور جنگل میں  ادھر ادھر گرتی پڑتی جا کر آواز دی۔ لیکن گوپی کی آواز کہیں  سے  نہیں  آئی وہ واپس پیڑ کے  نیچے  آئی۔ پھر اٹھی۔ پھر تلاش کی! راستہ بھٹک گیا ہو گا، اس نے  سوچا۔

بارش اور تیز ہواؤں  کا زور تھوڑا کم ہوا۔ ہرماؤں  کی آواز میں  جروا کے  سردار نے  آواز لگائی اور پھر آواز چاروں  طرف سے  دہرائی گئی۔ نقشہ کے  مطابق ایک پہاڑی کے  نیچے  سے  سمندر کے  کنارے  کنارے  ہوتے  ہوئے  آگے  بڑھنا تھا اور دوسری طرف دو پہاڑیوں  کے  بیچ سے  ہو کر ٹھیک ایک ساتھ دونوں  طرف سے  حملہ کرنا تھا۔

تیر کمان لیے  ہوئے  سیکڑوں  کی تعداد میں  جروا آگے  بڑھے  کہ اس دوران فائر کی آواز آئی۔ پہاڑی کے  اوپر سے  گولی آئی۔ اور پھر گولیوں  کی بوچھار ہو گئی۔ جروا ادھر ادھر بھاگے  لیکن جنگل میں  جانے  والے۔ پہاڑی پر چڑھنے  کی کوشش کرنے  والے او ر سمندر میں  کودنے  کی کوشش کرنے  والے  سب آدھے  سے  زیادہ گول کھا کر گر گئے۔

گولیوں  کی بارش مسلسل ہوتی رہیں۔

سردار نے  آخرکار حالات کو سمجھتے  ہوئے  واپس جانے  کا سگنل دیا۔ ادھر ادھر بھاگتے  ہوئے  جروا قبائلی جنگلوں  میں  پہنچ گئے۔ حملہ کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ سیکڑوں  جروا مارے  گئے  تھے۔

’گوپی کہاں  ہے  ؟‘ رتھ کے  باپ نے  رتھی سے  پوچھا۔

’پتہ نہیں، وہ میدان گیا تھا، پھر واپس نہیں  آیا، میں  اسے  تلاش کرتی رہی۔ ‘

’ وہ فرار ہے ؟‘

’ایسا ہی لگتا ہے  ؟‘

’غدار۔ ہم نے  غلط آدمی پر بھروسہ کیا۔ زندگی میں  آگے  کبھی اس قبیلے  کا کوئی کسی اجنبی کو پناہ نہ دے۔ ‘

وہ کرب کے  عالم میں  بڑبڑا نے  لگا۔

’گوپی، تم نے  جروا قبیلے  کے  اس یقین کو توڑا ہے  جس سے  لگا ہوا زخم ہزاروں  سال تک مندمل نہ ہو پائے  گا۔ یہ بات کہ تم جھوٹی محبت کا اظہار اتنی شدت سے  کر سکتے  ہو، تم ہمارے  احسانات اور رشتے  کو اتنی بے  دردی ٹھکرا سکتے  ہو۔ تم ان تمام انسانی خوبیوں  کو پامال کر سکتے  ہو جس پر ایک اچھے  انسانی سماج کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ تجربہ میں او ر میرا قبیلہ کبھی نہیں  بھول پائے  گا۔

تمہاری دنیا کے  انسان کیسے  ہیں  اس کا جو تجربہ ہمیں  تم سے  ہوا ہے  اس کو  ہم کبھی نہیں  بھلا پائیں  گے۔ ہماری بوڑھی عورتیں، اور جوان مائیں او ر بوڑھے  سردار رہتی انسانیت تک تمہارا اور تمہاری قوم کا ذکر کریں  گے۔

اور تمہارے  سائے  سے  بھی نفرت کریں  گے  کہ ان کے  اندر وہ بیماریاں  نہ پیدا ہو جائیں  جن اخلاقی بیماریوں  کا شکار تم اور تمہارا سماج ہے۔ تم نے  تو اپنے  سماج کے  بارے  میں  اتنے  بڑے  بڑے  دعوے  کیے  تھے  کہ لگتا تھا کہ تمہارے  دیوتا اور پیغمبر اور رشی اور منی دودھ سے  سَنے  ہوئے  ہیں۔ لیکن اگر ان سب نے  ملا کر تمہارے  سماج کو ویسا بنایا ہے  جیسا تم ہو تو لعنت ہے۔ تمہارے او ر اس پورے  معاشرے  پر۔ ہم تم سے  بہت بہتر ہیں ، ہمارے  جنگل کے  پیڑوں  کی ایک ایک پتی تمہاری کتابوں  کے  ایک ایک ورق سے  ہزار گنا زیادہ پاک اور برتر ہے۔ ‘

گوپی ہاتھوں  میں  ہتھکڑی پہننے  جیل سپرنڈنٹ کے  ساتھ کھڑا تھا۔

گوپی جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہا تھا۔ یہ ان لوگوں  میں  ایک تھا جنھوں  نے  جیل کی دیواریں  توڑ کر فرار کیا۔ اس جرم کی سزا موت ہے۔ اور فرار ہونے  والوں  کے  سرپر موت کی سزا واجب ہے۔

لیکن گوپی نے  حکومت برطانیہ کے  ایک وفادار رعایا کی طرح اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے او ر اگر گوپی اس دن شام جیل کو خبر نہ کرتا اور ہماری فوجیں  مناسب جگہوں  پر عین وقت پر نہ پہنچ گئی ہوتیں  تو اس میں  کوئی شک نہیں  کہ ایک بڑی خونریز جنگ ہوتی جس میں  نہ صرف لوگ مارے  جاتے او ر مکان جلائے  جاتے  بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ ہماری مکمل پسپائی ہوتی، ہمارے  جہازوں  میں  آگ لگا دی جاتی اور ہمارے  راشن کے  گودام جل کر راکھ ہو جاتے او ر ہم بمشکل بچ پاتے  یا ہمارا مکمل خاتمہ ہو جاتا۔ چونکہ گوپی نے  ایک اہم فریضہ ادا کرتے  ہوئے  ایک ذمہ دار اور انتہائی غیر معمولی وفاداری کا ثبوت دیا ہے  اس لیے  ہم اس کے  سنگین جرم کے  باوجود اسے  معافی دیتے  ہیں۔ تاکہ ہمارے  دوسرے  قیدی اور رعایا بھی اس بات کو سمجھیں  کہ ہم خدمات کا صلہ کیسے  دیتے  ہیں۔ گوپی کی سزائے  موت معاف کی جاتی ہے او ر اس کو دوبارہ اسی قیدی کی طرح رکھا جائے  گا جو سزائے  قید کاٹ رہا تھا۔

گوپی نے  مشکور نظروں  سے  دیکھا۔

’جیلر صاحب نے  تمہارے  ساتھ بڑی مہربانی کی ہے۔ تمھیں  نئی زندگی عطا کی ہے۔ تم نے  بہت اچھا کیا کہ اس موقع سے  فائدہ اٹھایا اور آ کر ان کو خبر کر دی۔ اس ایک سمجھداری کے  کام نے  تمہاری زندگی بحال کر دی ورنہ تم ان جنگلیوں  میں  گم ہو کر فنا ہو جاتے۔ تم تو موت کے  غار سے  نکلے  ہو۔ جیل وارڈر  نے  اسے  مسکراتے  ہوئے  مبارکباد دیا تھا۔

شیر علی نے  جب گوپی کے  بارے  میں  ہوئے  اس فیصلے  کی خبر سنی تو اس کے  ابرو تن گئے  ؟

اور اس کی آنکھیں  سوچتی رہیں۔

اس کے  ذہن میں  سوالوں او ر جوابوں  کی ایک جنگ شروع ہو گئی۔

شیر علی یاد ہے  تم ایک دن انگریزوں  سے  پوچھنا چاہتے  تھے  کہ ہے  کوئی طریقہ کوئی کام جو کر کے  اپنی اس حالت سے  باہر نکل سکو!!

یہ ہے  وہ کام جو کر کے  تم  اس قید سے  آزاد ہو سکتے  ہو۔

یعنی تم اپنی جان کے  اتنے  بڑے  لالچی ہو جاؤ۔

اور اپنی نظروں او ر وفاداریوں  کو اتنا محدود کر لو۔

کہ جن کے  سامنے  تم  نے  وفاداری کی قسمیں  کھائی ہیں۔

اور جن کی لڑکیوں  سے   تم لوگوں  نے  شادیاں  کیں۔

اور جن کے  ساتھ شب و روز گزارے۔

اور جوتم پر بھروسہ کرتے  ہیں۔

ان کے  ساتھ تم لوگ غداری کرو۔

تم لوگ اپنے  الفاظ اور وعدوں  کو

بے  وزن

بے  ہودہ بنا لو

تو تمہیں  اس قید سے  نجات مل سکتی ہے ؟

کیوں  شیر علی؟

چا ہو گے  ایسی آزادی؟

یا یہ قید بھلی ہے  ؟

یہ قید جسے  تم موت سے  بدتر سمجھتے  ہو؟

نہیں

کبھی نہیں

گوپی کی آزادی سے  میری یہ قید!

ہزار گنا زیادہ آرام دہ ہے۔

اس نے  آنکھیں  زور سے  بند کر لیں۔

اور کانوں  میں  انگلیاں  ڈال لیں۔

جیسے  اس موضوع پر وہ اور کچھ نہیں  سوچنا۔

چاہتا تھا!

لیکن اس کے  ساتھ ہی شیر علی کے  ساتھ و ہ ہوا جو اندر سے  مضبوط انسانوں  کے  ساتھ ہوتا ہے۔

شیر علی نے  یکایک محسوس کیا جیسے  شدید احساسِ مجبوری نے  اس کی روح کو بے  پناہ قوتوں  سے  بھر دیا ہو۔

وہ مطمئن نہیں  تھا۔ وہ اس مسئلے  پر سنجیدگی سے  سوچنا چاہتا تھا۔ اس کے  ذہن میں  انگریزی حکومت کی جانب سے  بھی کچھ باتیں  اٹھ رہی تھیں  اس نے  ہمیشہ ہی صورت حال کو سمجھنے او ر دوسروں  کی باتوں  کو بھی اہمیت دینے  کی کوشش کی تھی اور کوئی مناسب نتیجہ برآمد کیا تھا۔ اسی وجہ سے  وہ اپنے  قبیلے  کے  قانون کے  مطابق بے  قصور ہونے  کے  باوجود انگریزی قانون کے  مطابق ملی سزا کو قبول کر چکا تھا اور ایک غیور پٹھان ہونے  کے  باوجود اس نے  جیل کی انتظامیہ کی ہر زیبا نازیبا بات کو برداشت کرتے  ہوئے  خود کو ایک اچھا قیدی بنا کر رکھا جس کے  نتیجے  میں  اسے  عزت، چھوٹ اور ترقیاں  ملیں۔ یہ تو آج گوپی کے  حوالے  سے  ایک ایسی بات آ گئی جس نے  کافی عرصہ بعد اس کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ شیر علی کے  اندر اس واقعے  کے  بعد اچانک اپنے  اعمال کے  بارے  میں  ایک گہرا شبہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں  اس کی جیل کے  حکام کے  ساتھ اٹوٹ وفاداری اور تعاون گوپی والے  زمرے  کی ہی چیز تو نہیں  ہے او ر اسے  جو رعایت اور ترقی دی گئی ہے  اس کے  پیچھے  بھی جیل کے  حکام کی وہی پالیسی تو کارفرما  تو نہیں  ہے  جو پالیسی گوپی کے  حوالے  سے  سامنے  آئی ہے۔

پھر اسے  خیال آیا کہ ایک سپاہی جس سے  تنخواہ لیتا ہے  اس کے  لیے  لڑتا ہے  ایک مزدور جس سے  مزدوری لیتا ہے  اس کے  لیے  کام کرتا ہے  اس میں  برا کیا ہے ؟ ایسے  سپاہی اور مزدور کو وفادار تو ہونا چاہیے او ر سچے  دل سے  وفادار ہونا چاہیے  لیکن فوراً ہی ایک ایسا خیال اس کے  ذہن میں  بجلی کی طرح چمک کر اچانک سامنے  آیا جس نے  اس کی پوری سوچ کو جڑ سے  ہلا دیا۔ اسے  خیال آیا کہ وہ نہ تو انگریزوں  کا مزدور ہے  نہ ان کی جان کی بھی پرواہ نہیں  تھی۔ بہت سے  قیدیوں  کی سزا لگاتار ڈسپلن توڑنے  کی وجہ سے  یا پھر دوسرے  کو بھڑکاتے  ہوئے  پائے  جانے  کے  سبب بڑھا کر سزائے  موت میں  تبدیل کر کے  ان کو پھانسی دی جا چکی تھی۔ ڈاکٹر والکر محسوس کر رہا تھا کہ اب نئے  قیدیوں  کی کھیپ آنی چاہیے۔ پرانے  ہندوستانی کارندے  بھی قیدیوں  سے  گھلنے  ملنے  کی وجہ سے  نرمی برتنے  لگے  تھے او ر قیدیوں  کی سستی کی طرف سے  نظریں  چرانے  لگے  تھے۔ یا پھر کام کے  حساب میں  خرد برد کر کے  ان کو سزا سے  بچانے  کی کوشش کرتے  تھے۔ ان کو بھی بدلنے  کی ضرورت تھی۔ اس نے  حال ہی میں  کچھ نئے  کارندے  مین لینڈ سے  بلائے  تھے او ر زیادہ تر ذمے  داریاں  ان کو سونپ دی تھیں۔ کچھ وفادار قیدیوں  کو پرموشن دیا گیا تھا۔ وہ زیادہ مستعدی سے  اپنا کام کرتے  تھے۔ پورے  معاملے  کو سنبھالنے  کے  لیے  ڈاکٹر والکر اکثر نئی نئی ترکیبیں  سوچنے  میں  الجھا رہتا۔ ہیڈ کوارٹر سے  لگاتار کام کے  بارے  میں  رپورٹ مانگی جاتی تھی اور ان دنوں  کام حسب توقع آگے  نہیں  بڑھ رہا تھا۔ اس کی وجہ کچھ تو قیدیوں  کی تساہلی تھی کچھ موسم کی خرابی جس سے  ڈاکٹر والکر عاجز آنے  لگا تھا۔ مین لینڈ کے  حکام یہاں  کے  مسائل کو سمجھ ہی نہیں  پاتے  تھے۔ ڈاکٹر والکر اکثر بڑبڑاتے  ہوئے  اپنے  اسٹاف کے  سامنے  ہی اپنے  اعلیٰ حکام کو جن کے  خط میں  اس کی نقطہ چینی ہوتی تھی گالیاں  تک بکنے  لگا تھا۔ اس کے  اسٹاف کے  لوگ اس کی مشکلات اور تجربے  میں  شریک تھے  اس لیے  وہ اس کی مجبوری اور شدید اکتاہٹ کو سمجھتے  تھے او ر اس سے  ہمدردی بھی رکھتے  تھے۔

ایک دن ڈاکٹر والکر چیخ پڑا تھا۔ ’’پھانسی کا اختیار دے  کر سمجھ لیا ہے  کہ سارے  مسئلے  حل ہو گئے۔ اگر یہی حال ہے  تو یہی کیے  جائیں۔ ہمارا کیا ہم تو حکم کے  غلام ہیں  اختیار ہر بار یہی پوچھتے  ہیں  کہ اور کیا اختیار چاہئے۔ I am fed up with bloody this place. I feel like going on medical leave.”

چند لمحے  وہ بہت تناؤ کے  عالم میں  سوچتا رہا۔

"Now I will show them my metal ".

اس کے  چہرے  سے  صاف ظاہر تھا کہ وہ بوکھلاہٹ میں  کوئی نازیبا بات سوچ رہا تھا، کوئی ایسی بات جس سے  وہ خود بھی متفق نہیں  تھا لیکن اب کرنا سپاہی کو ہے  جو ان کی تنخواہ لے  رہا ہے۔ وہ تو ایک آزاد انسان ہے  جسے  جرم کی سزا کاٹنے  کے  نام پر قیدی بنایا گیا ہے او ر وفاداری اس پر لازم نہیں او ر نہ ہی اس سے  وفاداری کی امید کی جاتی ہو گی۔ پھر اسے  خیال آیا کہ ایک سپاہی جس سے  تنخواہ لیتا ہے  وہ اس سے  وفاداری کی امید رکھتا ہے۔ جیل کے  حکام بھی اپنے  دل میں  یہی سوچتے  ہوں گے  کہ وہ جیل کی اذیتوں  کے  خوف سے او ر پرموشن کے  لالچ میں  وفاداری دکھا رہا ہے۔ اس انکشاف کے  ساتھ ہی اس کی سوچ بدل گئی۔

یہ سچ ہے  کہ میں  جو کچھ کر رہا ہوں  اس میں  میری مرضی کہیں  شامل نہیں  ہے  یعنی میں  جو کچھ کر رہا ہوں  وہ میں  نہیں  کر رہا ہوں  بلکہ مجھ سے  کروایا جا رہا ہے  اس خیال نے  اس کے  ذہن میں  سوچ کے  چشمے  پھوڑ دیے۔

سوالوں او ر جوابوں  کا ٹکراؤ پہلے  سے  بھی زیادہ شدت کے  ساتھ شروع ہو گیا۔

’ظلم صرف مظلوموں  میں  نہیں  ظالموں  کے  اندر بھی طرح طرح کے  تناؤ پیدا کرتا ہے  او ر اسے او ر مضبوطی سے  ظالم ہونے  پر مجبور کرتا ہے۔ ‘

مجاور نے  ڈاکٹر والکر کا قصہ سناتے  ہوئے  کہا۔

میرے  ہاتھ ایک اخبار لگا جس میں  کلکتہ کے  ایک افسر نے  ایک برطانوی نامہ نگار کو اس کے  سوال کا جواب دیتے  ہوئے   بڑے  ٹھسے  سے  کہا تھا۔

‘ہم اس ملک کی معاشی ترقی کے  لیے  ایسا کر رہے  ہیں  اس سے  حکومت برطانیہ کے  فوجی نظام اور استحکام میں  مدد ملے  گی۔ ہم کوئی غلطی نہیں  کر رہے  ہیں۔ ایسا نہ کبھی ہوا ہے او ر نہ ممکن ہے  کہ کوئی کام صرف عوام کے  لیے  ہو اور پھر برطانوی حکومت ہندوستان کے  تحفظ کا ذمہ بھی اپنے  اوپر لیتی ہے۔ ایسی صورت میں  جب اس جزیرہ پر بخوشی کوئی آنے  کے  لیے  تیار نہیں  ہے۔ اگر حکومت مجرموں  کو یہاں  لا کر رکھتی ہے  اور ان سے  مزدوروں کی جگہ یہاں  کام لیتی ہے   تو اس میں  کیا برائی ہے  ؟

اور یہ لوگ  سیاسی قیدی نہیں  ہیں – باغی میں او ر سیاسی قیدی  میں  کچھ فرق ہوتا ہے۔ تاریخ عالم میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے  کہ باغیوں  کا مستقبل یا تو بہت درخشاں  ہوتا ہے  یا انتہائی تاریک- دنیا کی کوئی حکومت باغی کو معاف نہیں  کر سکتی۔ اور اگر انگریزوں  نے  ان کے  ساتھ سختی سے  سلوک نہیں کیا تو کل دوسرے  لوگوں  کے  اندر بھی بغاوت کا جذبہ پیدا ہو گا۔ جس کے  جی میں  آئے  گا حکومت برطانیہ کے  خلاف بندوق اور تلوار اٹھا لے  گا اور انگریزوں  کو، ان کے  بال بچوں  کو اس طرح کاٹ رکھ دے  گا۔ جیسے  ان لوگوں  نے  دلی میں کیا تھا۔ اور کیا اگر انگریز حکومت چھوڑ کر چلے  جائیں  تو یہ لوگ خود اپنے  کاروبار کو سنبھال سکتے  ہیں ؟حکومت کرنے  کا فن صرف اس کو آتا ہے او ر حکومت کرنے  کی صلاحیت صرف اس میں  ہوتی ہے  جو بزور طاقت حکومت حاصل کر لے  یا اپنے  آباء و اجداد سے  ملی ہوئی حکومت کی حفاظت کر سکے ؟

ہم ایسے  لوگوں  کی عزت کرنے  کو تیار ہیں او ر ایسے  لوگوں  کو احترام کی نظر سے  دیکھنے  کو تیار ہیں جن کے  اندر حکومت کرنے  کی صلاحیت ہو لیکن یہ باغی ان سے  مختلف تھے، یہ باغی وہ ناکارہ لوگ ہیں جنھوں  نے  نہ اپنی مقامی حکومت کو مضبوط کیا نہ برطانوی حکومت کو مضبوط رہنے  دینا چاہتے  تھے۔ کہاں  تھی ان کی صلاحیت کہاں  تھی ان کی بہادری جب مغل حکومت ٹوٹ کر قدیم بوسیدہ مکانوں  کی طرح گر رہی تھی؟کہاں  تھے  یہ مُلا جو آج حکومت برطانیہ کو کافروں  کی حکومت کہتے  ہیں ؟کہاں  تھے  یہ اس وقت جب مغلیہ حکومت کمزور ہو رہی تھی؟ تب انہوں  نے  کیوں فتوے  نہیں  دئے  تھے ؟ یہ ناکارہ لوگ ہیں  جو فتویٰ دینے  کے  علاوہ کچھ نہیں  کر سکتے  جو فوجوں  کو اور عوام کو غداری اور بغاوت کے  لیے  بھڑکا سکتے  ہیں۔ جن کے  فتوے  میں  یہ اثر ضرور ہے۔ کہ وہ کسی فوجی کو غدار بنا دے۔ لیکن یہ اثر نہیں  کہ کسی فوجی کو با صلاحیت اور وفادار بنا دے۔ سچ یہ ہے  کہ ہم نے  ہندوستان پر قبضہ کیا ہے،کچھ لوگ کہتے  ہیں  کہ ہم نے  ہندوستان پر دھوکے  سے  قبضہ کیا ہے  کہ ہم نے  اپنے  وعدے  پورے  نہیں  کیے او ر دھوکے  دئے  کہ ہم نے  دھوکے  بازی سے  اس ملک کو حاصل کیا ہے۔ کوئی اس بات کو کیوں  یاد نہیں  کرتا کہ ہم اپنے  وطن کو چھوڑ کر اتنی دور اس اجنبی ملک میں ، اجنبی لوگوں  میں  کتنے  برسوں  رہے  ہیں ؟ کوئی ان آنسوؤں  کو کیوں  نہیں دیکھتا۔ الوداع کہتے  ہوئے  ان بازوؤں  کو کیوں  نہیں  دیکھتا جو ان لوگوں  کے  لیے  لرزتے  ہوئے  ہلتے  ہیں  جو برطانیہ سے  مہینوں او ر سالوں  کے  لیے  باہر جاتے  ہیں۔ کوئی ان شب و روز کو کیوں  نہیں یاد کرتا جو ہم جہازوں  میں  سمندروں  میں  ہچکولے  کھاتے  رہتے  ہیں۔ کتنے  بیمار پڑتے  ہیں۔ کتنے  مرتے  ہیں۔ یہ اپنے  وطن میں  مرنے  والے او ر اپنی وفاداری کا ثبوت دینے  والے  یہ کیوں  نہیں  سوچتے  کہ برطانیہ سے  ہندوستان تک سمندر کی گہرائیوں  میں  کتنے  انگریز دفن ہوئے  ہیں  تب ہم یہاں  تک پہنچتے  ہیں۔ ہندوستان پہ اگر ہم نے  قبضہ کیا تو یہ ہمارا جرم نہیں  ہے، ہندوستان کو ہم نے  اگر لوٹا بھی ہے  تو یہ ہمارا جرم نہیں  ہے۔ کیوں  ہندوستان نے  اپنے  کو لٹنے  دیا کیوں  ہندوستان کی زمین نے  ایسے  فرزند پیدا نہیں  کیے  جو ہمارا مقابلہ کرتے او ر اپنی مٹی کی حفاظت کرتے  اگر ہندوستان کی مٹی ایسے  فرزند نہ پیدا کر سکتی۔ اگر ہندوستان دنیا کی دوڑ میں  پیچھے  رہ گیا تو وہ اپنی کمزوری کے  لیے  خود ذمہ دا رہے، حکومتوں، ملکوں او ر قوموں  کے  لیے  کمزور ہونا گناہ ہے ، جرم ہے ، ہندوستان اس بات کا مجرم ہے۔ اور اس جرم کی سزا ہے  غلامی۔ ہر مجرم کو سزا ملتی ہے ،ہندوستانیوں  کو یہ سزا مل رہی ہے۔ اگر یہ سزا انگریز نہیں  دیتے  تو فرنچ دیتے، ڈچ دیتے  یا کوئی اور دیتا۔ اس میں  ہماری کوئی غلطی نہیں۔ ہمیں  افسوس ہے  کہ ہمیں  ان لوگوں  پر سختی کرنی پڑ رہی ہے۔ جنھوں  نے  اپنی آزادی کی جنگ لڑی۔ لیکن ہمیں  اس کا بھی افسوس ہے  کہ ان میں  اتنی صلاحیت نہیں  کہ اپنی آزادی کی جنگ جیت سکیں۔ انہوں  نے  ایک جذباتی لڑائی لڑی ہے او ر آزادی کے  لیے  جذباتی لڑائی لڑنا ایک جرم ہے  او ر اسی جذباتی لڑائی کو غداری اور بغاوت کہتے  ہیں۔ آزادی کی جنگ کرنے  والا کوئی آئے  ہم اس کی عزت کریں  گے۔ لیکن یہ لوگ جو ناکارہ ہیں،جو آزادی کو بچوں  کا تماشہ سمجھتے  ہیں۔ انہوں  نے  اپنی کمزوری سے  اپنے  وطن کی حکومتوں  کو بھی کمزور و برباد کیا اور اب برطانوی حکومت کو بھی برباد کرنا چاہتے  تھے۔ اس میں  بھی کمزوری کا بیج بونا چاہتے  تھے۔ ہم اس بات کو برداشت نہیں  کر سکتے۔ ، ہمیں  دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں  سے  مقابلہ کرنا ہے۔ ہمارے  پاس اس بات کی گنجائش نہیں  ہے  کہ ہم کچی تھیوریوں  میں  اپنے  وقت خراب کریں۔ ہمیں ان الجھی ہوئی باتوں  سے  دور رہنا چاہتے، فضول اور بکواس میں  اپنا وقت نہیں  برباد کرنا چاہے  ہمیں  سیدھی اور تعمیری باتیں  سوچنی چاہئے۔ اور سیدھی بات یہ ہے  کہ ہمیں  ان جزائر کو آباد کرنا ہے  تاکہ اس ملک کی معاشی ترقی میں  اس کا رول ہو اور ہماری دفاعی انتظامات میں  اس سے  مدد مل سکے او ر جہاں  تک ان باغیوں  کا تعلق ہے  تو ہمیں  ان کو یہاں  یہ سبق دینا چاہئے  کہ ڈسپلن کیا ہے او ر اس دنیا میں  ترقی کرنے  کے  لیے  کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ کتنی قربانیاں  دینی پڑتی ہیں۔ ان لوگوں  کے  فرسودہ اور ہوائی اور خام خیالات کا کوئی استعمال نہیں  ہے۔ ان سے  کہو کہ وہ اس کو بھول جائیں۔۔۔ او ر ان سے  کہو کہ محنت کر کے  کچھ تعمیری کام کریں  کہ یہی زیادہ عملی بات ہے۔

شیر علی انڈمان میں  چھوٹے  موٹے  انگریز عملہ کی طرف سے  کبھی کبھار اسی طرح کی کہی جانے  والی باتیں  سنجیدگی سے  سنتا رہا اور خاموش رہا کہ کسی کی غیر موجودگی میں  اس کے  خلاف سوچنا یا بولنا بہت آسان ہے  لیکن سچائی کی آواز کو سننا اور برداشت کرنا بہت جرأت کی بات ہے۔ سچ تو یہ تھا کہ ان باتوں  کا جواب اس کے  ذہن میں  نہیں  ابھر پایا لیکن وہ ان باتوں  سے  کہیں  دل ہی دل میں  مطمئن بھی نہیں  تھا۔

ایک بار یہی بات جو اس انگریز افسر نے  اخبار کے  نامہ نگار سے  کہی تھی، ایک انگریز سپاہی نے  وہاں  کالا پانی میں  قیدیوں  سے  کہی۔ انگریز سپاہیوں  کے  جانے  کے  بعد ایک قیدی نے  جو دلی کی جنگ آزادی سے  گرفتار ہو کر آیا تھا، دوسرے  قیدیوں  سے  کہنے  لگا۔

’یہ بیچارے  کیا جانیں  کہ ہم کون ہیں۔ ‘

اس قیدی کا تیور دیکھ کر سب اس کی طرف دیکھنے  لگے۔ وہ بہت کم بولا کرتا تھا اور جب بولتا تھا تو کام کی بات کرتا تھا۔

’ایسے  ہی ایک بار دلی میں  نادر شاہ نے  ہانکی تھی۔ اس نے  دعوی کیا تھا کہ اس کی فوج بہتر تھی اور ہندوستانی فوج کی تربیت اچھی نہیں  تھی۔ اس پر ایک بوڑھے  نے  جو ہندوستانی فوج کا سپہ سالار اعظم رہ چکا تھا کہا کہ آپ نے  ہندوستانی فوج کو دیکھا ہی نہیں  ہے۔ نادر شاہ نے  کہا کہ یہ بہادر پانی پت کی لڑائی میں  کیا کر رہے  تھے۔

بوڑھے  نے  کہا کہ سپہ سالار وہاں  گئے  ہی کہاں  تھے ، وہاں  تو نچنئے او ر بجنئے  گئے  تھے۔ اگر سپہ سالار کو دیکھنا ہے  تو اپنے  سپہ سالار سے  کہئے  کہ وہ ہمارے  سامنے  مقابلے  پر آئے۔

مقابلہ طے  ہو گیا۔ لال قلعے  کے  نیچے  جمنا کے  کنارے  ایرانیوں  کا نوجوان سپہ  جرح بکتر میں  لدا تلوار ڈھال میں  آیا دوسری طرف سے  بڈھا خود نیزہ لے کر آیا۔

مقابلہ میں  ایرانی تلوار اور ڈھال کے  ساتھ بڈھے  پر جھپٹا۔ بڈھے  نے  نیزہ مارا۔ ایرانی نے  روکا لیکن نیزہ ڈھال کو پار کرتا ہوا ایرانی کے  سینے  میں  جا گھسا۔ کام مکمل کرنے  کے  لئے  بڈھے  نے  نیزے  پر ایرانی کو ہوا میں  اٹھا لیا اور دوسری جانب پھینک دیا۔ لیکن بڈھے  کے  منھ میں  سینے  کے  پھٹنے  سے  خون آ گیا۔ اس کو اس کے  فرزند کندھوں  پر اٹھا کر لے  گئے۔

جب حکومت نچنیوں ، بجنیوں  او ر مجرم پیشہ لوگوں  کے  ہاتھ میں  چلی جاتی ہے   اور ملک کی رہنمائی ذہین اور محنت کش لوگوں  کے  ہاتھوں  سے  نکل جاتی ہے  تو دنیا کو یوں  ہی ہنسنے  کا موقع مل جاتا ہے۔

شیر علی بھی وہاں  بیٹھا تھا۔ اپنی جگہ سے  اٹھا اور بھاری قدموں  سے  آہستہ چلتا ہوا جیل کی طرف جا رہا تھا کہ پھر اس کے  ذہن میں  کچھ خیالات تیزی سے  ابھر کر گردش کرنے  لگے او ر وہ پھر سامنے  کی پہاڑی کے  ایک تنہا مقام پر پڑے  ہوئے  پتھر پر بیٹھ گیا۔ اس کے  چہرے  پر ایسا سناٹا تھا کہ ہونٹ تک نہیں  ہل پا رہے  تھے۔

سوال تودیر سے  اٹکا ہوا تھا ہی اچانک جواب سامنے  آیا۔

’’کیا انگریز جو کر رہے  ہیں  یہ حکومت ہے ؟‘‘

ہمارے  ملک میں  حکومت کی ایک روایت ہے۔

اگر یہ سزا ہے  تو سزاؤں  کا یہ پورا نظام انسانی تہذیب کے  جسم پر کوڑھ ہے۔ ہمیں  انعام کا پورا تصور بھی غلامانہ ذہنیت کی پرورش کرنے  کا ذریعہ ہے۔

سزا کا اصل طریقہ تو ہماری تہذیب نے  ہمیں  کسی اور ہی طرح سمجھا رکھا ہے  جو انگریزوں  کے  اس طریقے  سے  مختلف ہے۔ سزاؤں او ر انعام کا نظام تو دراصل ہمیں  بہتر انسان بنانے  کے  لیے  بنایا گیا ہے، انتقام یا استحصال کے  لیے  نہیں۔

سزا کو تجارتی استعمال پوری انسانی تہذیب کی روایت کی خلاف ورزی ہے او ر یہ جرم کی کھیتی کرنے  کے  مترادف ہے او ر یہ بات حکومت کے  اقدار کا گھناؤنی خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی ملک کے  عوام کے  لیے  کسی ایسی حکومت کی حمایت کرنا ان کے  لیے  شرم کی بات اور ان کے  عوامی کردار پر ایسا داغ ہے  جو اسے  انسانیت کی نگاہ میں  گراتی ہے۔ حکومتوں  کو ایسا قدم اٹھانے  سے  پہلے  سوچنا چاہیے  کہ ان کے  ملک کی تاریخ کے  ایمیج پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے۔ خالد نے  سوچا جمہوریت میں  اس کی فکر کون کرتا ہے۔ حاکم تو آتے  جاتے  رہتے  ہیں  فرق تو عوام کی اس وراثت پر پڑتا ہے  جسے  تاریخ کہتے  ہیں۔

مشرقی تہذیب ہویا مغربی دونوں  جگہ گناہ و،ثواب، ترازو کے  دو پلڑے  ہوتے  ہیں  جو اس کی بری عادتوں  کو کمزور اور اچھی عادتوں  کو مضبوط کرتی ہیں۔ ایک بار انسان گناہ سے  توبہ کر لیتا ہے  یعنی اپنی عادت کو بدلنے  کا ارادہ کر لیتا ہے  تو اس کے  گناہ معاف ہو جاتے  ہیں  یعنی اس کی عادت بدل جاتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر کسی گناہ کی سزا دئے  جانے  کا مستحق نہیں  ہے۔ اس کے  اعمال و گناہ سزا کی ذلت سے  بلند ہیں۔ سزا انسان کی ذات اور رتبہ کے  خلاف ہے۔ سزا صرف ہماری مجبوری ہے۔ سزا دوسروں  کی تسلی کے  لیے  ہے۔

ان کی نسلی کے  لیے  جو انسان کی عظمت کو ابھی پوری طرح سمجھ نہیں  پائے  ہیں۔

انسان کو اس کے  اعمال سے  روک دو،

کہ اس کی بری عادتیں  ہی اس کی سزا ہیں۔

جب ہم جزا یا سزا کی وجہ سے  کچھ کرتے  ہیں  تو ہمارا کردار بری طرح مجروح ہوتا ہے۔

جزا اور سزا دونوں  ہی انسان کی تخلیقی آزادی و عمل میں  باہری مداخلت سے   انسان کو غلام بناتے  ہیں۔

اور جب کوئی ہم سے  جزا یا سزا کی امید کرتا ہے  تب بھی ہمارے  اندر آقائیت پیدا ہو جاتی ہے او ر ہم اوروں  سے  دور ہو جاتے  ہیں  کہ حکم کا استعمال تب ہوتا ہے۔ جب ذمہ داری کام نہیں  کرتی۔ اور حکم کے  استعمال اور ذمہ داری  کے  فقدان سے  انسان کے  اندر کی تخلیقی صلاحیت نظر انداز ہو کر پڑی رہتی ہیں او ر ہمیں  تکلیف پہنچاتی ہے۔ اور ہمارا ارتقا ء جاتا ہے۔

حکو مت کے  اشارے  پر ہمارا جس قدر ارتقاء ہو گا وہ ہماری غلامی اور آقائیت کو اور مضبوط کرے  گا۔

شیر علی جب وہاں  سے  اٹھا تو وہ بدل چکا تھا۔ برسوں  بعد اسے  آج پہلی بار محسوس ہونے  لگا کہ وہ یہاں  آنے  کے  بعد غلط راستے  پر چل رہا تھا۔ کم از کم اس حد تک وہ ضرور غلط راستے  پر چل رہا تھا کہ اس نے  اس بارے  میں  کبھی سوچا ہی نہیں۔ گوپی کے  لیے  اس کے  دل میں  جو نفرت پیدا ہوئی تھی وہ اپنی جگہ، لیکن وہ خود اپنی جگہ جو کچھ کرتا آیا تھا وہ گوپی کے  عمل سے  کتنا مختلف تھا اور مختلف تھا بھی کہ نہیں  یہ اس کا اپنے  آپ سے  کہنا مشکل ہو رہا تھا۔

خالد کے  ذہن میں ان باتوں  سے  متعلق ایک سوال ان دنوں  بار بار اٹھتا تھا ’’میر علی اس سوال پر کیا رائے  رکھتے  تھے۔‘‘

وہ سوچنے  والا لڑکا تھا اور بہت کچھ سوچنے  لگا تھا۔

خالد نے  سن رکھا تھا کہ میر علی ایک پڑھے  لکھے  آدمی تھے۔ ادب سے  ان کو خاص دلچسپی تھی صوفیوں  سنتوں  کی صحبت بھی انہیں  پسند تھی۔ رامائن اور مہابھارت کی کہانیاں  سننے  کے  لیے  وہ پنڈتوں  کو دعوت دیتے او ر سماجی معاملات میں  بولتے  ہوئے  اکثر ان کتابوں او ر ان کے  واقعات کا حوالہ دیتے۔

کیا کالا پانی جیسا کوئی واقعہ جس میں  جرم کی سزا کے  طور پر تاجروں  کے  اشارے  پر مجرم کا استعمال کیا جائے۔ اپنے  ہی قانون کو توڑ کر اس طرح کی کوئی چیز وجود میں  لائی گئی ہو اس کی کوئی مثال اسے  نہیں  یاد آئی۔ میر علی نے  پھر یہاں  کی صورت حال کو کیا سمجھ کر برداشت کیا ہو گا، اور دیگر قیدیوں  نے  بھی۔ کیا ان کے  دلوں  میں  حکومت کے  لیے  کوئی احترام باقی رہ گیا ہو گا۔ یقیناً انہوں  نے  یہاں  وہ سب کچھ دیکھا اور پھر محسوس کیا ہو گا جس کو وہ کسی حکومت سے  توقع نہیں  رکھتے  ہوں گے۔ پتہ نہیں  وہ اس حکومت کو حکومت سمجھتے  ہوں گے  یا سمندری قزاق جن کے  لیے  کالا پانی کسی طوائف کا ایسا بدن تھا جس میں  شرفاء اپنا وہی سب کچھ ڈال کر اسے  گھناؤنی چیز کی طرح چھوڑ آتے  ہیں  جس سے  وہ اپنے  گھروں  میں  وارث پیدا کرتے  ہیں۔ میر علی یہ سوچتے  تو ضرور ہوں گے  کہ حکومتیں  ملکوں  پر قابض ہونے  سے  نہیں  قائم ہوتیں  بلکہ حکومتوں  کے  فن جاننے او ر حکومتوں  کی ذمے  داریاں او ر کردار پیدا کرنے  سے  قائم ہوتی ہیں  ورنہ حکومت قزاقی اور بزنس میں  کوئی فرق نہیں  رہ جاتا اور جب حکومت حکومت نہیں  رہتی تو وہ عوام کی وفاداریوں  کا حق کھو دیتی ہے۔

oo

 

 

 

شیر علی کو ان جزیروں  میں  آئے  ہوئے  تین چار سال ہو گئے  تھے۔ وہ جن دنوں  آیا تھا اس سے  پہلے  بھی ایک بار بھاری تعداد میں  بھاگے  ہوئے  قیدیوں  کو ڈاکٹر والکر نے  سزائے  موت سنا کر پھانسی دی تھی۔ اس کے  بعد اس نے  دو سو بارہ لوگوں  کے  پھانسی کا منظر خود بھی کانٹے  دار لوہے  کے  تاروں  کے  گھیرے  سے  باہر سے  دوسرے  قیدیوں  کی طرح دیکھا تھا۔ تب اس کو معاملہ پوری طرح سمجھ میں  نہیں  آیا تھا۔ اس نے  سوچا تھا کہ جب یہاں  کا قانون یہی ہے  تو اس کی بہرحال خلاف ورزی کرنے  کی کیا ضرورت ہے۔ وہ یہاں  کے  ماحول کو سمجھنے  کی کوشش کرتے  ہوئے  پوری مستعدی سے  ان ذمے  داریوں  کو نبھاتا رہا جو اسے  دی جاتی تھیں  ڈسپلن میں  وہ سب سے  آگے  دکھائی دیتا تھا۔ شخصیت بھی بھاری بھرکم تھی۔

جن قیدیوں  کے  آنکھوں  کے  سامنے  مجرموں  کو پھانسی پر چڑھایا گیا تھا ان کے  دل و دماغ پر ایک گہرا سناٹا بہت یہاں  آنے  کے  بعد شیر علی شروع سے  ہدایات پر عمل کرنے  میں  اتنا سنجیدہ تھا کہ یہاں  کے  افسر اور کارندے  اس کو کسی بھی طرح کی ذمہ داری پورے  اعتماد سے  دینے  لگے  تھے۔ وہ ایک لمبا تڑنگا، گورا چٹا، بلند نظروں  والا سنجیدہ دکھائی دینے  والا، بائیس چوبیس سال کا نوجوان تھا۔ اس کی وجاہت ہی اس بات کا تقاضا کر رہی تھی کہ اس کا احترام کیا جائے۔ وہ کہیں  سے  مجرم نہیں  لگ رہا تھا۔  وہ اپنے  کام اتنی چابکدستی اور پھرتی سے  انجام دیتا تھا کہ اسے  کبھی ڈانٹنے، پھٹکارنے  کی بات تو دور ٹوکنے  تک کی ضرورت نہیں  پڑتی تھی۔ وہ سمجھی کوئی بات کہتا تو کچھ اس طرح کہتا کہ اگر وہ ماننے  والی بات نہ ہو تو بھی اس کی بات پوری طرح سنی جاتی تھی۔ اور جب اس کی کوئی بات رد کی جاتی تو اسے  وہ بغیر کسی حیلہ اور حجت کے  مان لیا کرتا۔ جلد ہی وہ اتنا مقبول ہو گیا کہ اس کے  افسر اسے  اپنی ذمہ داریاں  بھی دینے  لگے۔ وہ اس کے  اوپر اس سلسلے  میں  بھروسہ کر سکتے  تھے۔ اس کی بات پر یقین کرتے  تھے او ر عزت سے  خان کہہ کر پکارتے  تھے۔ وہ اپنی مثال اور کردار سے  دوسرے  قیدیوں  کو بھی لگن اور محنت سے  کام کرنے  کی ہمت افزائی کر دیتا تھا۔ اس کے  پیچھے  اس کی نیت یہ تھی کہ غیر ضروری طور پر انہیں  ڈانٹ کھانے  یا اذیت اٹھانے  کی ضرورت نہ پڑے  جس کا سامنا ان قیدیوں  کو عام طور پر کرنا پڑتا تھا جو اپن اکام کرنے  میں  کوتاہی برتے  تھے۔ جب بھی کسی قیدی کو سزا دی جاتی کوڑے  مارے  جاتے  تو اس کے  چہرے  پر اس کے  اندر پیدا کرب صاف دکھائی دیتا لیکن وہ بھی اس کے  خلاف آواز بلند نہیں  کرتا۔ غالباً اس لیے  کہ وہ جانتا تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ سو ان تمام باتوں  کی وجہ سے  ڈاکٹر والکر اسے  لگاتار ترقی دیتا گیا۔

اس کا نام شیر علی تھا ہی،اس کی آنکھوں او ر بھنووں  میں  ایسا کچھ ضرور تھا۔ وہ کابل کے  کسی گاؤں  کا رہنے  والا تھا۔ اس کو اپنے  بھائی کے  قاتل کے  قتل کے  جرم میں  یہ سزا ملی تھی۔ اس نے  یہ قتل اس لیے  کیا تھا کہ بھائی کے  قتل کا انتقام لینا اس کے  اخلاقی فرائض میں  شامل تھا۔ لیکن اب افغانستان میں  انگریزی قانون نافذ ہو چکا تھا اور نئے  قانون کے  مطابق اس کے  خلاف ایک مقدمہ قائم ہو چکا تھا۔ عدالت میں  اس پر مقدمہ چلا۔ اپنے  دفاع میں  اس نے  قبائلی قانون کا حوالہ دیا لیکن اس کے  باوجود اس کو سزا ہوئی اور اسے  کالا پانی بھیجنے  کی سزا دی گئی۔ لیکن اسے  کبھی اپنے  عمل میں  کوئی جرم نہیں  دکھائی دیا اور اس نے  اپنے  آپ کو ہمیشہ ہی بے  قصور مانا۔ لیکن جب اس کی گرفتاری اور بعد ازا ں  سزا ہوئی تو اس نے  اس کو ایک حقیقت تسلیم کر لیا۔ چونکہ اس کے  اندر عزت نفس کا مادہ بہت زیادہ تھا اس لیے  اس نے  اپنی عزت کی حفاظت کے  لیے  کبھی چھوٹی موٹی باتوں  میں  نہیں  الجھا۔ اس کو دوسری کی نامناسب باتیں  بھی پسند نہیں  تھیں۔ اس کے  لیے  ضروری تھا کہ وہ بے  جا باتوں  سے  بچے او ر انتہائی صبر سے  کا ملے۔ اس نے  کہیں  اپنے  دل کی گہرائی میں  اس بات کو تسلیم کر لیا تھا کہ جب ایک بار قسمت نے  اس کو مجرم قرار دے  دیا تھا تو اس طرح کی زندگی گزارنا بھی اس کی تقدیر میں  لکھ دیا گیا تھا۔ اس لیے  اس نے  بہت خوبصورتی کے  ساتھ اس زندگی کو اپنا لیا تھا اور نتیجے  کے  طور پر قیدی کی حقیقت سے  جتنی مراعات اور ترقیاتی سے  مل سکتی تھیں  وہ سب اسے  ملتی چلی گئیں۔ اور اب حالت یہ تھی کہ قیدیوں  کی اس خانے  میں  تھا جس میں  اس کی بیڑیوں، سلاخوں او ر وقت کی پابندیوں  سے  پوری طرح آزاد کر دیا گیا تھا اور اب وہ کسی خاتون قیدی سے  شادی بھی کر سکتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے  مقدمہ اور سزا کی نوعیت کے  بارے  میں  بھی سب کو معلوم ہو گیا تھا اور اس کی بہادر کی وجہ سے  لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے  دیکھتے  تھے او ر سبھی یہ محسوس کرتے  تھے  کہ یہ محض اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ یاں  یہ سزا کاٹ رہا تھا۔

لیکن انڈمان نکوبار کی آب و ہوا کو برداشت کرنے  میں  اسے  بہت دشواری پیش آ رہی تھی اور اس کا اس کے  مزاج پر کبھی کبھی بڑا پریشان کن اثر پڑتا تھا اور ایسے  لمحوں  میں  وہ اکثر اپنا اطمینان کھو بیٹھتا تھا،وہ لوگ جو اسے  جانتے  تھے، ایسے  لمحوں  میں  اس سے  بچ کر دور ہی رہتے  تھے۔ ایسے  لمحوں  میں  وہ یہاں  وہاں  بے  چینی سے  گھومنے  لگتا اور آنکھیں  بند کر کے  بیٹھ جاتا اور ہونٹ اس طرح نیچے  تک جاتے  جیسے  وہ کوئی دل برداشتہ شیر ہو۔ ایسے  لمحوں  میں  وہ خود بھی کہ گو ہو جاتا اور عموماً تنہائی پسند ہو جاتا۔

اس کی پہلی ترقی تب ہوئی جب اپنے  اوپر کے  منشی کی سفارش پر اسے  جیل کی تعمیر کی نگرانی کا کام دیا گیا۔

سرکار نے  ان جزیروں  پر ایک اچھی خاصی آبادی بسانے  کا فیصلہ کر لیا تھا۔  وہ پرانے  باغی جو یہاں  لائے  گئے  تھے۔ بیشتر اب مر چکے  تھے۔ جو نئے  قیدی لائے  جا رہے  تھے  ان کے  دلوں  میں  آزادی کی آگ والی بات نہیں  تھی اور ان کو قابو میں  رکھنا نسبتاً آسان تھا۔ ڈاکٹر والکر پر سرکار کی طرف سے  یہ نکتہ چینی ہوئی تھی کہ اس نے  کافی قیدیوں  کو پھانسی پر لٹکا کر ایک طرح سے  محنت کرنے  والے  مزدوروں  کو ضائع ہی کیا تھا۔ یہ رائے  قائم کی گئی تھی کہ وہ قیدیوں  سے  کام لینے  میں  مہارت نہیں  رکھتا تھا۔ اس صورت میں  ڈاکٹر والکر نے  اسے  ترقی دے  کر نگراں  مقرر کر دیا۔ اس کو بیماروں  کے  وارڈ کا انچارج بنا دیا گیا۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ مریضوں  کا خیال رکھے او ر یہ دھیان رکھے  کہ ان کو مناسب دوائیں  مل رہی ہیں۔ ایک دن اچانک وہ نماز پڑھ کر مریضوں  کی صحت کی دعائیں  مانگنے  لگا۔ ایک کونے  میں  جب وہ مریضوں  کے  لیے  دعا مانگ رہا تھا تو اس کی سسکیوں  کی آواز دور تک سنائی دے  رہی تھی۔ ایک مریض اس کے  قریب گیا تو دیکھا کہ اس کی آنکھوں  سے  آنسو کے  قطرے  بہہ بہہ کر اس کے  رخسار پر گر رہے  تھے۔ اور اس کا چہرہ زرد ہو گیا تھا۔ دوسرے  دن سے  وہ پابندی سے  نماز پڑھنے  لگا تھا۔

اس کے  جذبات بالکل فطرتی تھے۔ وہاں  مشکل سے  ہی کوئی دوا موجود تھی۔ جب کوئی قیدی تپ دق کا مریض ہو جاتا تو شیر علی کا صرف یہی کام رہ جاتا کہ وہ اس مریض کی دلجوئی کرے۔ اس کو دلاسہ دے او ر اسے  اپنی تکلیف کو برداشت کرنے  میں  اس کی ہمت افزائی کرے  کیونکہ اب سوائے  موت کا انتظار کرنے  کے  لیے او ر کچھ نہیں  ہوتا۔ جب زندگی کے  آخری دنوں  میں  ان کی حالت بالکل خراب ہو جاتی تو انہیں  ایک الگ کمرے  میں  ڈال دیا جاتا تھا جہاں  پہلے  سے  اس حالت کو پہنچے  ہوئے  دوسرے  مریض ہوتے۔ یہ مریض اپنے  رشتہ داروں اور پرانے  دوست احباب کو یاد کرتے  رہتے۔ انہیں  اپنے  بچپن کی، اپنے  ماں باپ کی محبتوں، اپنے  بھائی بہنوں  کی محبتوں  کی بے  تحاشا یاد آتی۔ اس کمرے  میں  دن اور رات ایک ہی طرح کے  گزرتے۔ کسی کو بھی بمشکل ہی نیند آتی۔ ان کے  پاس سونے  کے  لئے  وقت ہی کہاں  تھا۔ ان تمام باتوں  کا انحصار اس پر تھا کہ وہ زندگی میں  کتنا تھکے  تھے۔ اسپتال میں  بیمار ہو کر داخل ہونا کوئی آسان بات نہ تھی۔ مریضوں  کو تب تک کام کرنا پڑتا تھا جب تک ڈاکٹر یہ تصدیق نہ کر دے  کہ مریض کام کرنے  کے  لائق نہیں  رہ گیا تھا۔ زیادہ تر یوں  ہوتا کہ اس بنا پر مریضوں  کے  کام کا بوجھ کم کر دیا جاتا۔ کئی مریضوں  کی موت کام کرتے  کرتے  خون کی قے  کرتے  ہو گئی تھی۔ یہ سب کچھ اس ڈاکٹر کے  مشورے  سے  طے  ہوتا جس کے  نزدیک سرکاری کام کی اہمیت قیدیوں  کی جان یا راحت سے  زیادہ تھی۔

شیر علی ہمیشہ اس کوشش میں  رہتا کہ وہ مریضوں  کی تکلیف کے  بارے  میں  ڈاکٹر کو یقین دلائے  لیکن کچھ دنوں  کے  بعد ڈاکٹر اس کی باتوں  کو نظرانداز کرنے  لگا تھا کیونکہ وہ تقریباً ہر اس شخص کے  بارے  میں  سفارش کرنے  لگا تھا جو واقعی بیمار تھا اور ڈاکٹر کے  دل میں  یہ بات آ گئی تھی کہ اگر ایسا کیا گیا تو سرکاری کام کا نقصان ہونے  لگے  گا۔ بلکہ آخر میں  ایک دن ڈاکٹر نے  شیر علی سے  منھ کھول کر صاف کہہ دیا کہ وہ مریضوں  کے  معاملے  میں  مداخلت کرنا بند کرے۔ شیر علی کو مداخلت کے  لفظ سے  کافی گہری تکلیف ہوئی تھی۔ لیکن اس کے  بعد اس نے  کبھی کسی کی سفارش نہیں  کی۔ اسی کے  چند دنوں  کے  بعد وہ دعاؤں  میں  پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔

مریض قیدیوں  کی زندگی بچانے  پر بھی دھیان دیا جانے  لگا لیکن عموماً  ان لوگوں  کا خاتمہ ایک منظم انداز میں  کیا گیا جن سے  جیل کے  حکام کو کسی بھی اعتبار سے  پریشانی ہوتی تھی۔ نگراں  مقرر ہونے  کے  بعد شیر علی کو اس بات کی بھنک مل گئی تھی۔ ایسے  لوگوں  کو یہ بہانہ بنا کر پھانسی دے  دی جاتی تھی کہ وہ جیل کی ہدایت پر عمل نہیں  کرتے او ر اس لیے  وہ عمر قید کی رعایت کے  حق دار نہیں  رہ جاتے۔ ایسے  بہت سارے  قیدی تھے  جن کو پھانسی کی جگہ رعایت کے  طور پر عمر قید دی گئی تھی۔ پھانسی کی سزا کو عبرت اور ہیبت کا نمونہ بنانے  کی غرض سے  وائپر جزیرہ پر ایک شاندار پھانسی گھر تعمیر کیا گیا تھا۔ جیلر کی رہائش بھی اسی کے  پاس تھی جس میں  ایک طویل و عریض احاطہ تھا۔

قیدی مرغی خانے  کی مرغیاں  بن گئے  تھے۔ ان کو کیا ملے۔ کیا نہ ملے، وہ کیسے  رہیں  یہ ساری باتیں  سرکار کے  فائدے  کی روشنی میں  طے  ہوتی تھیں۔ اسی نقطہ نظر سے  اس پر بھی غور کیا گیا کہ اگر یہاں  کچھ عورتیں  بھی لائی جائیں  تو اس کے  فائدے او ر نقصانات کیا ہوں  گے۔ اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ کچھ نوجوان عورتیں  بھی یہاں لائی جائیں  تاکہ بے  چین طبیعت اور دماغوں  والے  مردوں  کو رام کیا جا سکے۔ عورتوں  کو انعام کے  طور پر استعمال کیا جا سکے،ان سے  تفریح کی ضرورت پوری کی جا سکے او ر افسروں  کے  گھروں  میں  گھریلو خدمات کے  لیے  ان کا استعمال کیا جا سکے  کیونکہ ان کو نسبتاً کم خطرناک مانا گیا۔

عورتوں  کی آمد نے  واقعی یہاں  کی فضا بدل دی۔ جن قیدیوں  کو عورتیں  بہنیں  ملیں  ان کے  اندر بھی صرف اپنے  ارد گرد عورتوں  کو دیکھ کر تبدیلی نمایاں  ہونے  لگی۔ اب وہ یہاں  انسانوں  کی طرح رہنے  کے  امکانات دیکھ سکتے  تھے۔ ان کے  لیے  یہاں  لائی جانے  والی عورتیں  مجرم نہیں  تھیں  بلکہ صنف نازک تھیں  جن میں  وہ ساری باتیں  تھیں  جن کی یہاں  کمی تھی۔ محبت، میٹھی آوازیں  جو انہوں  نے  برسوں  سے  نہیں  سنی تھیں۔ گھریلو فضا، اور ہنسی مذاق۔ ان عورتوں  میں  دو رقاصائیں  تھیں او ر ایک دو گانے  والیاں  تھیں۔ رقاصاؤں  نے  کلکتہ میں  کسی جھگڑے  میں  کوٹھے  کے  اوپر ایک سیٹھ کا قتل کر دیا تھا۔ ان کی چال اوروں  سے  مختلف تھی۔ ان کو بیئریوں  سے  آزاد رکھا گیا تھا تاکہ وہ اپنے  رقص کا ریاض جاری رکھ سکیں۔ مشکل کام، اذیتیں او ر بے  عزتی کی سارے  احساسات ان رقاصاؤں  کے  رقص اور گانوں  کی مدھم آواز میں  ڈوب گئے۔ یہ عورتیں  ایک مخصوص فرش پر رقص کرتی جہاں  ایک طرف جیلر اپنے  محافظین کے  ساتھ بیٹھتا اور دوسری طرف قیدی زنجیروں  میں  بندھے  زمین پر بیٹھتے،چونکہ ان قیدیوں  میں  مراتب بنا دئے  گئے  تھے  اس لیے  ان کی نشست بھی ان کے  مراتب کے  مطابق ہو گی۔ قیدیوں  کو رقاصاؤں  کی ادا پر دادا دینے  کی یا بول مارنے  کی اجازت تھی لہٰذا وہ ایسے  موقعوں  پر آپس میں  مسکرا کر آنکھیں  مار کر یا جھوم جھام کر کام چلا لیتے  یا پھر کبھی کبھی اونچی آواز میں  اپنے  خالص علاقائی لہجے  میں تبصرہ کرتے  جس سے  جیلر بھی محفوظ ہوتا۔ یادہ رات گئے  یہ رقاصائیں  جیلر کے  بنگلے  کے  اندر رقص کرتیں  جہاں  جیلر کے  علاوہ انگریز افسر بھی ہوتے  جن کی وہاں  تعیناتی ہوئی تھی۔ دوسری صورتوں  کو بنگلوں  کے  اندر گھریلو امور کے  لیے  بنایا جاتا۔ شیر علی ان محفلوں  میں  یا تو آتا نہیں  یا اگر آتا تو مکمل طور پر خاموش رہتا۔

ایک دن شیر علی کو ان قیدیوں  کا نگراں  بنایا گیا جو قیدی افسروں  کے  بنگلوں  میں  کام کرتے  تھے۔ ان میں  عورت قیدی اور رقاصائیں  سب شامل تھے۔ شیر علی نے  بہت ہی ہوشیاری سے  اپنی جگہ کسی اور کے  لیے  سفارش کر کے  اس طرح کی ذمہ داری سے  کترا گیا تھا۔

لیکن ان میں  بڑی والی رقاصہ محفل رقص میں  سامنے  کی صف میں  بالکل خاموش بیٹھے  ہوئے  اس پٹھان پر دل دے  بیٹھی تھی۔ رقص کے  دوران اپنی ہر تہلکہ خیز ادا کے  ساتھ وہ اس کو ضرور دیکھتی لیکن وہاں  وہ ذرا سی بھی حرکت نہیں  دیکھتی۔ یہ بات رقاصہ کے  دل میں  گانٹھ کی طرح بن گئی تھی اور کہیں  نہ کہیں  اس کے  لیے  چنوتی بنتی جا رہی تھی۔ اس کو اس بات کی بھی خبر ہو گئی تھی کہ شیر علی ترقیوں  کے  بعد اس مرتبہ پر پہنچ چکا ہے  جہاں  اس کو کسی قیدی سے  شادی کی اجازت مل سکتی ہے۔

شیر علی کی زندگی میں  محبت کا ایک یادگار واقعہ ہوا تھا جو انڈمان کی لوک کتھاؤں کا حصہ بن گیا ہے۔

کہتے  ہیں  کہ ایک دن شیر علی بغل کے  راستے  پر مزدوروں  کے  کام کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس نے  اپنی لمبی پلکوں  کے  نیچے  سامنے  کی پہاڑی وادی پر نظر ڈالی اور اسے  اپنے  وطن کی ایک بار پھر یاد آئی اور وہ ان یادوں  میں  کھو گیا۔ اسی دوران رقاصہ سنہری جو اسی راستے  سے  گزر رہی تھی، جان بوجھ کر اس کے  بالکل قریب سے  گزرنے  لگی۔ جب وہ اس کے  بالکل قریب قدم دو قدم کی دوری پر پہنچی تو اس نے  اپنی میٹھی لچکتی آواز میں  اسے  سلام کیا۔

’آداب خاں  صاحب‘

ان جزیروں  پر وہ پہلی شخص تھی جس نے  اس کو صاف کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ اس کی نسوانی آواز میں  جو اس کے  بالکل قریب سے  آ رہی تھی میں  دھماکہ خیز قوت تھی جس نے  شیر علی کے  گاؤں  کے  تصورات کی دنیا کی پرخچیاں  اڑا دیں  جیسے  اس کے  حواس میں  اندر دور تک اس آواز کے  تیر نما لہریں  اس کی رگوں  میں  دوڑ گئی ہوں۔ یہ بوچھار اس قوت کے  ساتھ ہوئی تھی کہ شیر علی اس کی لذت کی مسرت سے  کود بخود سرشار ہو گیا۔ اسی دوران  سنہری ٹھیک اس کے  سامنے  آ چکی تھی اور اپنی نظریں  اوپر اٹھا کر اس کی آنکھوں  میں  دیکھ رہی تھی۔ شیر علی اپنی کوشش کے  باوجود اس کی آنکھوں  میں  جھانکنے  سے  اپنے  کو روک نہیں  سکا۔ ان آنکھوں  میں  جھانکنا کیا تھا کہ ان آنکھوں  میں  جھیل برابر پھیلا پانی۔ برف سے  ڈھکا ہوا، خنک، روح افزا، لاکھوں  گلاب کے  پھولوں  کی خوشبو کا جھونکا، اور اننت کی گہرائی نے  شیر علی کے  لمبے  چوڑے  وجود اور ان جزیروں  کی سخت کوشش سب کو پگھلا کر اس کی روح کو ایسے  آزاد کیا کہ وہ ایک بالکل ہلکا پھلکا آدمی بن گیا۔

اس نے  نظر یں  اٹھا کر دائیں  بائیں  کے  ماحول کو دیکھا تو اسے  محسوس ہوا کہ اس پورے  کرخت ماحول میں  وہ بالکل خوشی خوشی رہ سکتا ہے۔ اگر صرف یہ آنکھیں  اس کے  قریب رہیں او ر آس پاس رہیں ، صرف اگر وہ انہیں  ایک لمحے  کے  لیے  بھی روزانہ اور کم از کم ہفتے  میں  ایک بار دیکھ سکے۔ اسے  محسوس ہوا کہ اس کے  اپنے  جسم، اپنی شخصیت میں،جس کو وہ بہت اہمیت دیتا تھا کچھ بھی نہیں  رکھا ہے او ر حسن میں  اس کے  مقابلے  بہت بڑے  معجزہ کی قوت موجود ہے۔

اسے  اس وقت سے  یہ جگہ وہی سخت کوش جگہ، اب افغانستان کی وادیوں او ر پہاڑیوں  سے  زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے  لگا جسے  اگر اسے  یہاں  رہنے  کا موقع ملے  تو وہ کبھی واپس افغانستان جانے  کی خواہش نہیں  کرے  گا۔

جب وہ قدرے  ہوش میں  آیا تو اسے  محسوس ہوا کہ ایک شگفتہ گلاب کی طرح  سنہری اس کے  قریب کھڑی اسے  دیکھ رہی تھی۔

کیسی ہو، شیر علی نے  اپنی بھاری آواز میں  پوچھا۔

جہاں  آپ جیسا شیر محافظ ہو وہاں  میری طرح کی ایک عورت کو کس بات کی فکر ہو گی۔ سنہری نے  جواب دیا اور پھر پوچھا آپ مجرے  میں  چپ چپ کیوں  رہتے  ہیں۔ وہ مسکرائی، کیا آپ کے  دل پر کچھ نہیں  ہوتا۔ کیا میں  خوبصورت نہیں  ہوں۔

شیر علی نے  آہستہ اور نرمی سے  کہا، تمہارے  اوپر تعریف کے  پھول برسانے  والے  اتنے  سارے  لوگ ہوتے  ہیں۔ میرا کیا۔

سنہری سیدھی، سخت لائق کی طرح کھڑی ہو گئی۔

لیکن خان صاحب، آپ کی صرف ایک مسکراہٹ میرے  دل کی کلی کو لمحے  میں  پھول بنا سکتی ہے۔ مجھے  بتائیے۔ آپ کو میں  اچھی نہیں  لگتی۔

شیر علی کے  لیے  اب خاموش رہنا ممکن نہیں  رہ گیا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کا اپنے  حواس پر قابو ہی نہیں  رہ گیا۔ برسوں  کی پیاس مٹی پر گرا بارش کا قطرہ اسے  بارود بنا دیا گیا ہے۔ شیر علی نہ جانے  کتنی گہرائی سے  جاگ اٹھا تھا۔ وہ اندازہ نہیں  لگا پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ کیسے  کہے۔ شاید اس سے  بھی زیادہ مشکل حالات میں  وہ بآسانی کسی نتیجہ پر پہنچ جاتا تھا کہ وہ کیا کہے۔ کیسے  کہے۔ کوڑے  لیے  کھڑے  انگریز افسروں  سے  وہ بغیر کسی وقت کے  مناسب ترین گفتگو کر لیا کرتا تھا۔ خطروں  سے  بھرے  لمحے  اسے  معمولی لگتے  تھے۔ کیونکہ ان میں  سے  کوئی قوت شیر علی کے  حواس کی جڑ تک نہیں  پہنچ پائی تھی۔ لیکن یہ ڈھیٹ عورت کچھ اور ہی تھی۔

جب شیر علی کو کچھ نہیں  سوجھا تو اس نے  سیدھے  طور پر بات کرنے  کا فیصلہ کیا۔

تم خوبصورت ہو۔

واہ، سنہری ایک ٹانگ پر رقص کر گئی، اور پھر سامنے  آ گئی۔ اس کا چہرہ سورج کی طرح کھل اٹھا۔ میں  خوبصورت ہوں، اس نے  تصدیق کے  نام پر دوبارہ تعریف کی، فرمائش کی نہیں، مجھے  نہیں  معلوم۔ شیر علی کے  اس جملہ پر وہ بجھ گئی۔

آپ کو کیا نہیں  معلوم۔

تم اچھی ہو۔ بہت خوبصورت ہو۔ لیکن مجھے  تمہاری تعریف کرنی چاہیے  یا نہیں۔ یہ مجھے  نہیں  معلوم۔ میری شخصیت تم سے  عاشقی کی باتیں کرنے  کی اجازت نہیں  دیتی۔

عاشقی آپ نہیں  کر رہے  ہیں  خان صاحب۔ میں  کر رہی ہوں۔ لیکن میں  آپ کو حقیقت بتاتی ہوں۔ میں  اپنے  دل سے  آپ کی عزت کرتی ہوں۔ یہاں  ان جزیروں  میں  صرف ایک مرد ہے او ر وہ آپ ہیں۔ ان سارے  اجلوں او ر کالوں  میں۔ اس نے  اپنی انگلی سے  چاروں  طرف سے  ایک دائرہ بناتے  ہوئے  کہا۔

کچھ دور چند قیدی بغل کی سڑک سے  نمودار ہو کر محافظ دستے  کی نگرانی میں  آ رہے  تھے۔

آداب، سنہری نے  شیر علی کو مخاطب کیا ایسے  آہستہ سے  آگے  بڑھ گئی جیسے  خان کے  پاس رکنا محض ایک اتفاقیہ لمحہ تھا۔ جب سنہری جا رہی تھی تو خان اسے  مسلسل پیچھے  سے  دیکھتا رہا۔ اور پھر اس کے  آنکھوں  سے  اوجھل ہونے  کے  بعد خواتین کے  بیرک کی طرف مڑ گیا جہاں  کام ہو رہا تھا۔ اس رات وہ سو نہیں  سکا۔ اس کے  لیے  جزائر انڈمان کی پوری تصویر بدل چکی تھی۔ یہ جزیرے  میٹھے  پانی کی کمی اور جاں کش فضا کے  باوجود اب بے  حد خوبصورت لگنے  لگے  تھے۔

رفتہ رفتہ شیر علی نے  ان جذباتی جھٹکوں  پر قابو پا لیا جو سنہری سے  گفتگو کے  بعد اس کے  اندر پیدا ہونے  لگے  تھے  لیکن اپنی پوری کوشش کے  باوجود سنہری کے  اثر کو اپنے  اندر سے  نہیں  نکال پایا وہ بار بار سوچتا رہا کہ یہ محض ایک عورت کے  اس کے  اندر دلچسپی لینے  کا اثر تھا۔ وہ خود اس کے  اندر کوئی دلچسپی نہیں  رکھتا تھا۔ اس نے  اپنے  کو بار بار ایک بات سمجھائی لیکن یہ بات اس کے  اندرون میں  داخل نہیں  ہو پا رہی تھی اور سنہری کا اثر اس کے  اندر اٹک سا گیا تھا۔ وہ اسے  بار بار یاد آتی رہی۔ کچھ ایسا ہو گیا تھا جیسے  سنہری نے  اس کی یادوں  میں  ایک طاق سا بنا لیا ہو۔ بالآخر اس نے  اسے  اسی طرح وہیں  چھوڑ دیا۔ لیکن یہ طاق خالی نہیں  تھا اس میں  کچھ روشنی تھی اور وہ روشنی بار بار بھڑکتے  ہوئے  بڑھتی جا رہی تھی۔

چند روز بعد وہ اچانک اپنے  ایک دوست سے  پوچھ بیٹھا۔

’’یہ بتاؤ کہ عشق کیا ہوتا ہے ؟‘‘

’’آں ؟‘‘

دوست کو اس بات پر سخت حیرت ہوئی کہ وہ ایسا جملہ خان سے  سن رہا تھا۔ وہ پوری طرح متوجہ ہو کر گہری دلچسپی کے  ساتھ اور تجسس کے  عالم میں  اٹھ بیٹھا اور خان کو دیکھنے  لگا پھر کافی دیر تک دونوں  اس موضوع پر بات کرتے  رہے او ر عشق کے  معنیٰ کی گہرائیوں  میں  جا کر اسے  ٹھیک سے  سمجھنے  کی کوشش کرتے  رہے  لیکن کسی نتیجے  پر نہیں  پہنچ پائے۔ بالآخر انہوں  نے  یہی نتیجہ نکال لیا کہ کوئی عشق کی تعریف بیان نہیں  کر سکتا کہ اس کی کئی سطحیں  ہیں  کئی سائے او ر کئی رنگ ہوتے  ہیں او ر یہ مکمل ہوش و حواس میں  آنے  سے  لے  کر  مکمل طور پر دیوانہ ہو جانے  تک ہر طرح پھیل سکتا ہے۔

’’تو یہ بہت خطرناک ہے۔ ‘‘ شیر علی نے  سوچا۔ وجہ بہت سادہ سی تھی کہ اسے  کچھ ہو رہا تھا یہ بھی عشق ہی کی کوئی شکل ہو سکتی تھی کہ انہوں  نے  جو چند تعریفیں  نکالی تھیں  وہ اچھی خاصی پریشان کن تھیں۔

’’یہ ایک ایسی واردات ہے  کہ جب یہ شروع ہو جاتی ہے  تو کبھی ختم نہیں  ہوتی۔ ‘‘

’’اس کا کوئی علاج نہیں۔ ‘‘

’’یہ کسی کو بھی ہو سکتا ہے  چاہے  وہ شخص اسے  پسند کرے  یا نہ کرے۔ ‘‘

’’یہ ایک ایسی بیماری ہے  جو آدمی کو اندر سے  اس طرح پگھلا دیتی ہے  جیسے  موم باہر کی آگ سے  پگھل جاتا ہے۔ ‘‘

’’تم اس سے  جتنا ہی زیادہ لڑو گے، کتنی ہی زیادہ کوشش کرو گے او ر جتنا اچھل کود کرو گے  یہ سب اس کے  ارتقاء میں  ورزش کا کام کریں گے۔ ‘‘

شیر علی پریشان ہونے  لگا۔ سنہری ایک رقاصہ تھی۔ ایک ایسی عورت جو بہت سے  مردوں  کی خدمت کرتی رہی تھی۔ ان کے  ذریعے  استعمال ہوئی تھی۔ ہر ادا ہر صورت اور ہر انداز میں او ر اپنی مرضی اور شرکت سے  ہوئی تھی۔ حالانکہ، اس نے  سوچا اس کی مرضی کوئی متبادل نہیں  ہونے  کی بنیاد پر بھی ممکن ہے  ہوئی ہو اور ممکن ہے  زبردستی شرکت پر مجبور کیا گیا ہو۔ پھر بھی کیا اس کے  پاس اب کچھ بچا تھا کچھ ایسا جو پراگندہ نہیں  ہو چکا ہو۔ اس کا پورا بدن اس کے  اندرونی اعضا،اس کے  سر سے او ر دھڑ سے  پاؤں تک،اس کے  پورے  ذہن پر ان غلیظ الفاظ سے  بمباری ہوئی ہو گی جو برسانا گوروں  نے  تلذذ آمیز محسوس کیا ہو گا اور اس نے  وہ سب کچھ اپنے  کانوں  سے  سنا ہو گا اور اس کی آنکھوں  نے  نہ جانے  کتنے  بھانت بھانت کے  مردوں  کا سب کچھ دیکھا ہو گا۔ کچھ نہیں  کچھ نہیں۔ اس کے  یہاں  کچھ بھی باقی نہیں۔ اس کی سوچ شدت اختیار کرتی جا رہی تھی کہ اچانک اس کے  اندر ایک دھماکہ سا ہوا۔

سنہری کا دل

تھوڑی دیر بعد شیر علی کو محسوس ہوا کہ وہ کچھ ایسے  ذہنی عالم میں  ہے  جو اس آدمی کی ہو سکتی جس کے  بہت قریب کسی بم کا زور دار دھماکہ ہوا ہو اور اس کا سب کچھ ٹوٹ کر چیتھڑوں  میں  بٹ گیا ہو لیکن وہ پھر بھی زندہ ہو۔ اب اسے  علم ہوا کہ یہ جو اس کا چیتھڑا ہوا تھا یہ ناقابل مرمت تھا۔

اس موضوع پر شیر علی کو اپنے  دوست کے  ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ شیر علی ایک سوچنے  والی مخلوق تھا۔

اس نے  دوبارہ ان ساری باتوں  کو بھول جانے  کی کوشش کی لیکن پھر ایک دن اس نے  محسوس کیا کہ اسے  سنہری سے  ملنا چاہیے۔ اس کا چہرہ دیکھنا چاہیے  اس کی آنکھوں  میں  جھانک کر دیکھنا چاہیے  وہ اس سے  شادی کرنا چاہتی تھی۔ آخر ان جزیروں  میں  کون اس سے  ملنے  آتا تھا۔

لیکن جب اس بارے  میں  اس کے  گھر والوں  کو اور رشتے  داروں  کو معلوم ہو گا تو کیا ہو گا۔ وہ سوچنے  لگا اگر وہ اپنے  اچھے  ریکارڈ کی بنیاد پر کبھی بالآخر چھوٹ بھی گیا اور اپنے  وطن واپس گیا تو وہ وہاں  جا کر یہ اعلان کرنے  کی جرأت رکھتا ہے  کہ اس نے  کیا کیا ہے ؟ کیونکہ یہ اس کا عمل تھا۔ وہ اعلان کر دے  گا کہ اس نے  اس عورت سے  شادی کی ہے۔ اس سنہری سے  نہیں، سنہری کے  اس بدن سے  نہیں  بلکہ اس عورت سے  جس کا نام سنہری ہے۔ وہ پورے  قبیلے  کے  سامنے  یہ اعلان کرنے  کی جرأت رکھتا ہے۔ یا پھر وہ سنہری کے  ساتھ جنگلوں  میں  چلا جائے  گا اور وہاں  اس کے  ساتھ تنہائی میں  رہے  گا لیکن وہ اس بات کو چھپائے  گا نہیں۔ شیر علی کے  چاروں  طرف ایک طوفان سا سنسنانے  لگا۔ اس نے  محسوس کیا کہ وہ دنیا میں  جو چاہے  کر سکتا ہے  لیکن اگر نہیں  کر سکتا تو صرف یہ کہ وہ سنہری کو بھول نہیں  سکتا۔

اس نے  اپنے  تصور میں  سنہری کے  جسم کو زمین کے  پاک ترین پانی سے  مکمل طور پر دھوکر صاف کر لیا ہے او ر پھر اسے  قبول کر لیا۔

اس لمحے  کے  بعد اس کے  اندر تنہائی کا احساس بہت گہرائی سے  ستانے  لگا۔ اپنے  دوستوں  سے  اس کے  بارے  میں  بتانا بہت مشکل کام تھا۔ اس نے  کم از کم وقتی طور پر اس بات کو صیغۂ راز میں  رکھنے  کا فیصلہ کر لیا۔ حالانکہ اسے  محسوس ہوا کہ چوری چھپے  کرنے  کا فن وہ پہلی بار سیکھ رہا ہے  لیکن اسے  ان گہری باتوں  سے  مالا مال ہونے  کا احساس بھی ہوا۔ وہ بہت گہرا انسان بنتا جا رہا ہے۔ اس نے  محسوس کیا کہ وہ تبدیل ہو رہا تھا۔ وہ جو ایک انتہائی صاف گو آدمی تھا اب پہلے  جیسا نہیں  رہا تھا۔

کیا وہ سنہری کو بتا دے  کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔

نہیں  اگر وہ سنہری کو بتائے  گا تو سنہری یہ سوچے  گی کہ وہ ایک ایسا معمولی انسان ہے  جو ایک عورت کے  چند لٹکو جھٹکوں  کے  اثر میں  آسانی سے  گرفتار ہو سکتا ہے۔ وہ کوئی معمولی خمیر کا مرد نہیں  تھا وہ انتظار کرے  گا۔

اب جب سنہری اس کے  تصور میں  آئی تو اس کا پورا وجود پاک صاف، خوبصورت اور خوشبوؤں  سے  بھرا ہوا تھا۔ وہ اس کی مہک کو اس لمحے  میں  اپنی ناک سے  اندر آتی سانسوں  میں او ر اپنے  اندر پھیلتے  ہوئے  محسوس کر رہا تھا۔

اس نے  ایک لمحے  کے  لیے  تصور کیا کہ اگر وہ سنہری کو اپنے  آغوش میں  لے  لے او ر اس کے  گھنے  لمبے  بال اس کے  چہرے  کے  نیچے  چاروں  طرف پھیلے  ہوئے  ہوں او ر وہ تازہ دکھ رہی ہو کبھی کبھی اس کی محبت آمیز نظروں  کو دیکھ کر مسکرائی ہوتی تو اسے  کیسا لگے  گا۔

اس کی سانس بھاری ہونے  لگی۔ کچھ دیر بعد اس نے  سنہری کے  بارے  میں  سوچنا بند کر دیا دن میں  وہ اس جانب نکل گیا جہاں  سنہری آیا کرتی تھی اور اس سے  بات کرنے  کے  لیے  وہ لگاتار گھنٹوں  تک انتظار کرتا رہا۔ آخر سنہری جیل کے  پیچھے  کسی کام سے  آتی ہوئی دکھائی پڑی۔

کیا وہ اس کے  پاس جائے او ر اس سے  ملے ؟

وہ جانا چاہتا تھا۔

یا نہیں  جانا چاہتا تھا۔ وہ فیصلہ نہیں  کر پایا۔ وہ تذبذب میں  پھنسا رہا۔ سنہری اب واپس جانے  لگی تھی۔

آخرکار وہ اس کے  قریب پہنچ گیا۔

’’سلام خان صاحب۔ ‘‘

سنہری نے  اسے  دیکھ کر کیا لیکن رکی نہیں۔ صرف اس کی رفتار کم ہونے  لگی جیسے  وہ چاہتی ہو کہ خان اسے  خود رکنے  کے  لیے  کہے۔ اچانک اس نے  فیصلہ کر لیا اور ایک شیر کی طرح اس کے  سامنے  آ گیا اس نے  محسوس کیا کہ وہ ایک شیر کی طرح اس کے  سامنے  آ کھڑا ہوا ہے۔

چادر پر لپٹے  لپٹے  اسے  خیال آیا کہ وہ سنہری سے  شادی کر لے۔ لیکن وہ ایک رقاصہ تھی۔ وہ اسے  اپنی بیوی بنانے  کے  بعد محفل میں  اس رح کا رقص کرنے  کی اجازت کیسے  دے  سکتا تھا۔ اور وہ جیلر کے  بنگلے  کے  اس بدنام رقص میں  کیسے  جا سکتی تھی جس کے  بارے  میں  سب جانتے  تھے  کہ رقاصائیں  رقص کی محفلیں  ختم ہونے  کے  بعد فوراً نہیں  لوٹیں  بلکہ صبح تک وہیں  رکھی جاتیں۔

سنہری کی طبیعت آج بہت ہری ہری سی تھی۔ اس نے  آج اس مرد سے  بات کی تھی جس کو دیکھ کر اس کا دل جاگتا تھا۔ وہ ان تمام افسروں  سے  زیادہ مردانہ قید رکھتا تھا۔ سوچتے  سوچتے  اس نے  سوچا، یہ سفید چمڑی والے  افسر جو رعایا پر اتنی رعب دکھاتے  تھے او ر شاہانہ چال چلتے  تھے  وہ کیسے  رات میں  کتوں  جیسی حرکتیں  کرنے  لگتے  تھے۔

جب سے  سنہری نے  خان سے  گفتگو کی تھی، سنہری کو کچھ ہو گیا تھا۔ اس کے  ہنستے  بولتے  چہرے  پر سنجیدگی طاری ہو گئی تھی۔ اس نے  فحش گانے  گانا بند کر دیا تھا اور زیادہ خوش مزاج گانے  گانے  لگی تھی اور کبھی کبھی اس میں  بھجن بھی گانے  لگی تھی۔ رات کے  پروگراموں  میں  وہ انگریز افسروں  کے  ہر اشارے  پر عمل کیا کرتی تھی۔ وہ شراب کی بوتلیں  ہاتھ میں  لئے  اسے  کبھی گود میں  کھینچ لیتے، کبھی اس سے  شراب کے  گلا س بنا کر خود پیش کرنے  کا حکم دیتے ، کبھی گلاس منھ میں  لگانے  سے  پہلے  اس کے  ہسپتانوی کا بوسہ لیتے، اور وہ یہ سب کچھ پیشہ ورانہ ڈھنگ سے  کرتی چلی آئی تھی۔ ایک خاص بے  باک انداز میں  اس کی مسکراہٹ میں کبھی تصنع کی جھلک تک نہیں  آتی تھی لیکن اس مہارت کے  بعد اچانک اس کے  اندر ایسی تبدیلی آئی جیسے  وہ خود بھی چاہتے  ہوئے  نہیں  روک سکتی تھی۔ اس نے  محسوس کیا کہ اب وہ اس قابل رہی ہی نہیں  کہ اس کے  سامعین جو چاہتے  تھے  وہ انہیں  دے  سکے۔ انگریز افسروں  نے  یہ سمجھا کہ شاید وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئی ہے۔ کچھ شامیں  اس طرح گزر گئیں۔

پھر اس کی طرف سے  اس طرح کی بے  پروائی دیکھ کر انہوں  نے  اپنی مدد آپ کرنے  کی سوچی۔ وہ اسے  پکڑ لیتے۔ اس سے  بوس و کنار کرنے  لگتے اور وہ ایک گوشہ پوسٹ کے  خوبصورت ٹیلے  کی طرح گر جاتی، اور تیز شمعوں  کی روشنی میں  اس کا جسم جگمگاتا۔ اس کی چھوٹی دوست مایا بھی اس کے  اندر یہ تبدیلی دیکھ کر متفکر تھی۔ اب انگریز افسر مایا کو زیادہ توجہ دینے  لگے  تھے  جو اب رفتہ رفتہ سنہری کی جگہ لیتی جا رہی تھی۔ اپنے  دل ہی دل میں  وہ خوش بھی ہو رہی تھی کہ اب اسے  زیادہ اہمیت حاصل تھی اور وہ سنہری کے  مقابلے  میں  دوئم درجہ کی نہیں  سمجھی جا رہی تھی۔

رات کا گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ دوسروں  سے  الگ شیر علی اپنے  خیمہ میں  گہری نیند سویا ہا تھا۔ خیمہ کے  اندر ایک کونے  سے  چاند کی روشنی گر رہی تھی۔ رات کی خاموشی میں  بہتی ہوئی ہوا ایک خاص طرح کی جادوئی ترنم گھول رہی تھی جو ارد گرد کی پہاڑیوں  پر اور سمندر پر چھائی ہوئی تھی۔ سمندر کی چمکتی لہریں  سرگوشیوں  جیسی آوازیں  پیدا کر رہی تھیں  جو سائے  کی وجہ سے  اس خیمہ تک صاف سنائی دے  جاتی تھیں۔ سمندر کی لہروں  کی آواز جیسے  قدرت و فطرت کی عظمت کی گواہی دے  رہی تھیں او ر وہ بتا رہی تھیں  کہ وہ عظیم تر ہیں۔ چاروں  طرف، ہر جانب، سوائے  انسان کی روح سے  جو کسی بھی بلندی پر پہنچ سکتی تھی اور ایسے  کام کر سکتی تھی جو سمندروں  کے  لیے  بھی ممکن نہ تھا۔

سنہری ایک دوسرے  کونے  سے  احاطہ میں  داخل ہوئی۔ لہنگا اور چولی پہنے  سنہری  گلے، بازو اور پاؤں  میں  گہنے  پہنے  ہوئے  وہ چوروں  کی طرح رفتہ رفتہ بڑھ رہی تھی۔ وہ آگے  بڑھتی ہوئی شیر علی کے  خیمہ کے  پاس آئی۔ وہ دھیرے  دھیرے  خموشی سے  آ رہی تھی لیکن دور سے  دکھائی دے  رہی تھی۔ دوسرے  کو نے  میں  کھڑے  گارڈ نے  ادھر آتے  دیکھا لیکن وہاں  سے  وہ محض ایک سائے  کی طرح دکھ رہی تھی۔ اس نے  سنہری کو غور سے  دیکھنا شروع کیا اور دھیرے  دھیرے  اس کے  پیچھے  پیچھے  آیا۔ خیمہ کے  قریب اندر سر بڑھا کر دیکھا۔ خان کا چہرہ چاند کی روشنی میں  چمک رہا تھا۔ چند لمحوں  بعد اس کا پورا جسم دکھنے  لگا۔ اس کی سانس کی آواز سنہری کو سمندر کی لہروں  کی آواز سے  بھی زیادہ طاقتور محسوس ہو رہی تھی۔ سنہری خان کو غور سے  دیکھنے  لگی۔ خان کسی شہزادے  کی طرح دکھ رہا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ دور تک دائیں  کو پھیلا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ اس کے  سینے  پر تھا۔ وہ اتنی بے  فکری سے  سویا ہوا تھا اور اتنے  اطمینان کی سانس لے  رہا تھا کہ سنہری کو اپنے  اندر ایک تحفظ کا احساس ہوا۔ اس نے  سوچا وہ صحیح تھی۔ یہی وہ مرد تھا جس کی اس نے  بچپن سے  تمنا کی تھی۔ وہ بنگال کے  ایک زمیندار خاندان کی لڑکی تھی۔ اس خاندان میں  گیارہ برس کی عمر تک اس کی پرورش ہوئی تھی لیکن اچانک ایک رات اس کے  گھر پر ڈکیتی پڑی وہ بھی اغوا ہو گئی۔ اس کے  خاندان کے  سارے  افراد اس کے  سامنے  مارے  گئے  تھے او ر چند لمحوں  میں  اس کی پوری دنیا بدل گئی تھی۔ وہ ایک کونے  میں  چھپی ہوئی تھی لیکن ڈاکوؤں  نے  اسے  کھوج نکالا۔ ایک مضبوط موٹا، ہٹا کھا ڈاکو اسے  کھینچ کر اپنے  ساتھ لے  گیا۔ اسے  فوراً ایک اجنبی جگہ پر لے  جایا گیا۔ وہاں  ایک خوبصورت کمرہ تھا جہاں  اس کو کئی دنوں  تک رکھا گیا اور اس کو گہری مایوسی سے  نکالنے  کے  لیے  اسے  ایک ڈاکٹر دوا بھی دیتا رہا۔ پھر ایک دن اس کے  کمرے  میں  ایک آدمی آیا۔ وہ سفید پتلا اور لمبا تھا وہ اس رات اس کے  ساتھ سویا۔ اس کے  جسم کو بے  دردی سے  لوٹتا رہا اور اسے  انگریزی میں  گالیاں  دیتا رہا۔ چند روز کے  بعد اس نے  آنا بند کر دیا۔

اب اسے  ایک کوٹھے  پر بیچ دیا گیا۔ وہ بے  حد حسین تھی۔ اس پر خاص توجہ دی گئی۔ اس کو تربیت کے  لیے  ایک ایسی طوائف کے  ذمہ لگایا گیا جس کا مادری خاندان کئی پشتوں  سے  طوائف تھا۔ اس طوائف نے  بے  حد توجہ اور لگن سے  اس کی ہمت افزائی کرتے  ہوئے  اس کی تربیت کچھ اس طرح کی کہ وہ ایک ایسی ماہر رقاصہ بن گئی جو ناچتے  وقت محفل میں  بیٹھے  لوگوں  کے  دل و دماغ پر حکومت کرتی تھی۔ لیکن اس کی بچپن کی یادیں  اکثر اس صورتحال کے  مدمقابل آ کھڑی ہوتی تھیں او ر پریشان کر دیتی تھیں۔ ایک دن ایک گراہک نے  جو ایک بڑا تاجر تھا اس کا ہاتھ پکڑا ور اپنے  ساتھ جانے  کے  لیے  کہا۔ ہاتھ پکڑ کر اس طرح کھینچا جانا اسے  اچھا نہیں  لگا اور اس نے  انکار کر دیا۔ گراہک نے  اپنی پستول نکال کر اس پر گولی چلائی۔ سنہری کا خون اصل رنگ دکھا گیا۔ اس نے  بے  خوفی سے  گراہک کا ہاتھ پکڑلیا اور اس کی آنکھوں  میں  نظریں  گڑا دیں۔ گراہک اس کی آنکھوں  کے  جادو میں  پھنس گیا اور اس سے  پیار کی باتیں  کرنے  لگا لیکن سنہری کے  دماغ میں  کچھ اور ہی تھا، اس نے  چالاکی سے  پستول چھین لیا اور چستی سے  ٹھیک گراہک کے  سینے  میں  اس کے  دل کے  سامنے  گولی مار ی۔ گراہک مرگیا۔ کوٹھے  کی مالکن تھانے  کو اپنی طرف کرنے  میں  مہارت رکھتی تھی لیکن اس معاملے  میں  وہ ناکام ہو گئی۔ سنہری پر مقدمہ چلا اور اسے  کالا پانی کی سزا ہو گئی۔

اس طرح وہ آج یہاں  تھی۔

وہ کچھ دیر تک خان کو دیکھتی رہی۔ وہ کبھی اپنے  دونوں  ہاتھ اکٹھا کرتی،کبھی کھلا چھوڑ دیتی۔ دراصل وہ بہت کچھ سوچ رہی تھی اور اچانک جیسے  اس نے  کچھ فیصلہ کر لیا۔ وہ خان کے  قریب گئی۔ خان کے  ان پیروں  کو بوسہ دیا جو پتھر کی اینٹوں  کی سخت مضبوط تھے۔ خان کی نیند نہیں  ٹوٹی۔ پھر اس نے  اپنی ہتھیلی سے  اس کے  بازو پر رکھ دی۔ پھر کندھوں  پر رکھا۔ پھر اس نے  اپنا سر اس کے  پھیلے  ہوئے  بازو پر رکھا اور اس کے  برابر پاؤں  پھیلا کر لیٹ گئی۔ اس کی نظریں  خیمہ کی چھت پر پھیلتی رہیں۔ وہ یوں  ہی خاموش پڑی رہی اور اس کا سر خان کی سانسوں  کے  ساتھ ہلکے  ہلکے  ہلتے  ہوئے  بازو پر اونچا نیچا ہوتا رہا۔ اچانک خان کے  جسم میں  جھرجھری سی ہوئی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے  اپنا سر داہنے  طرف موڑا اور جو کچھ نظر آیا اسے  دیکھتا رہا۔ پتہ نہیں  کیوں  اسے  اس سر کو اپنے  سے  دور کرنے  کا جی نہیں  چاہا۔ وہ سمجھ چکا تھا، وہ اس احساس تحفظ کو بھی محسوس کر رہا تھا جس کے  تحت وہ عورت اس کے  بازو پر سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی۔ چند لمحوں  تک وہ کچھ نہیں  بولا۔ سنہری نے  بھی کچھ نہیں  کہا۔ ایک ضدی بچے  کی طرح اس نے  پھر سر نہیں  اٹھایا۔ خان نے  اسے  دوبارہ دیکھا اور دیکھتا رہا۔ پھر وہ اپنا بایاں  ہاتھ اس طرف لایا۔ سنہری کی طرف کروٹ لی اور اپنا بازو اس کے  گرد ڈال دیا۔ سنہری اچانک پوری طرح خان کے  بازو وں  میں  چلی گئی۔ خان نے  اپنی پوری قوت سے  اسے  پکڑ کر اپنے  بازوؤں  میں  رکھا۔ اس کے  بعد وہ بولا۔

’اب تم کو وہ مل گیا جوتم چاہتی تھیں۔ اب جاؤ،

’میں  نہیں  جاؤں  گی‘

’کیوں ‘

میں  نے  فیصلہ کر لیا ہے  میں  تم سے  بیاہ کروں  گی‘

خان اس کو دکھی کرنا نہیں  چاہتا تھا۔

آگے  دیکھ لیں  گے۔ ابھی تم جاؤ۔

سنہری نے  کچھ نہیں  کہا لیکن اس نے  خان کے  بائیں  بازو کی ہتھیلی کو سختی سے  پکڑ لیا اور اسے  اپنے  سینے  پر لانے  کی کوشش کرنے  لگی۔ خان نے  اس کا ہاتھ روکا اور اسے  پیچھے  کر دیا۔

سنہری تم جاؤ، میں  کہہ نہیں  سکتا کہ میں  تم سے  شادی کروں  گا۔ لیکن میں  تم سے  محبت کرتا ہوں۔ میں  ہمیشہ تمہارے  ساتھ ہوں،

سنہری نے  دوبارہ اس کے  قریب ہونے  کی کوشش کی۔

ایسا مت کرو، اگر میں  تم کو قبول کروں  گا، تو قبول کروں  گا، اگر نہیں، تو نہیں، وہ کافی دیر تک خیمہ میں  ساتھ رہے۔ پھر دونوں  باہر نکلے او ر خان نے  سنہری کو الوداع کہا۔

اس دن کے  بعد سنہری مکمل طور پر بدل گئی۔ اس نے  رقص کرنا بند کر دیا اور صرف گانے  تک محدود ہو گئی۔ مومن کی اردو غزل سیکھنے  لگی اور اسے  اتنی خوش الحانی سے  گایا کہ لو اس کے  فحش گانوں  کو بھول گئے۔

اس کے  چند ہی روز بعد اسے  جیلر کے  بنگلے  میں  بلایا گیا۔

ایک افسر نے  اس کے  پستانوں  کے  اوپر سے  کپڑا ہٹانے  کی کوشش کی۔ اس نے  روکا۔

’تم، تم نے  روکنے  کی ہمت کی، افسر چلایا۔

کیا ہوا، دوسرے  افسر نے  پوچھا۔

کچھ نہیں۔ یہ گر گئی ہے۔

کیا،یہ گر گئی ہے۔ یہ گر گئی ہے۔ تم نہیں  جانتے۔ کسی کو نہیں  معلوم لیکن مجھے  معلوم ہے، اسے  پیار ہو گیا ہے۔ اس نے  سنہری کو زور سے  دھکا دیا۔ اس نے  اپنے  کو سنبھالنے  کی کوشش کی۔ افسر نے  اپنا ریوالور نکالا ور گولی چلا دی۔ گولی ٹھیک سنہری کے  پیٹ میں  لگی۔ وہ گر گئی۔ فرش پر بہت سارا خون بہا۔

’خان، اے  خان،، تم کہاں  ہو۔ دیکھو۔ انہوں  نے  میرے  ساتھ کیا کر دیا، اس کی لاش کو خاموشی کے  ساتھ غائب کر دیا گیا۔ مایا نے  خان سے  یہ پورا منظر بیان کیا۔

خان صرف افسوس کر کے  رہ گیا۔

جس افسر نے  سنہری کو مارا تھا وہ براہ راست خان کا افسر بالا تھا۔

دوسرے  دن خاں  سمندر کے  کنارے  گیا۔ وہ جانتا تھا کہ انہوں  نے  سنہری کی لاش کہاں  پھینکی ہو گی۔ جب وہ وہاں  پہنچا تو سمندری لہروں  نے  سنہری کی لاش کو کنارے  پھینک دیا تھا جہاں  وہ ایک سوکھے  گرے  ہوئے  پیڑ میں  پھنسی ایک چٹان پر ٹکی ہوئی تھی اور سمندری لہریں  کبھی اس کے  اوپر آ جاتی اور کبھی اسے  اوپر چھوڑ کر نیچے  چلی جاتیں۔ وہ سنہری کے  قریب گیا۔ اس کی لاش کو اپنے  بازوں  میں  لیا، بے  انتہا روتا رہا اور اللہ سے  اس کی روح کے  سکون کے  لیے  دعائیں  مانگتا رہا۔

اس کے  اندر کسی بھی طرح کے  غصے  کا انتقام، خسارہ کا جذبہ نہیں  تھا۔ یہ سب تقدیر میں  تھا۔

لہریں  سنہری کے  قدموں  کو پانی مارتی رہیں۔ اس نے  غصے  سے  سمندر کو دیکھا۔

 

oo

 

 

 

قیدی اب اپنی قسمت سے  مصالحت کرنے  لگے  تھے  -ملک، عوام افراد سبھی اپنے  طور پر اپنی نشو و نما چاہتے  ہیں۔ یہ کائنات کی گوناگوں  سمتوں  سے  ابھری ہوئی زندگی کی آواز ہوتی ہے۔ زندگی کسی شے  کو اپنے  سے  برتر تسلیم نہیں  کرتی۔ انسانوں  کی آوازیں  اسی زندگی کی بنیادی رویہ کا اظہار ہوتی ہیں۔۔ لیکن دراصل یہ زندگی تھی جو اس صورتحال میں اپنی کسی نہ کسی شکل میں  ابھرنے  کی کوشش کر رہی تھی۔ قیدیوں  کو معلوم تھا کہ ان کی تقدیر پر مہر لگ چکی ہے او ر وہ اب اپنے  بے  رحم خونخوار مالکوں  کے  غلام کے  سوا اور کچھ نہیں  ہیں۔ ان کی خدمات کو دوسرے  قیدیوں  کو قید و بند میں  رکھنے  کے  لیے  استعمال کیا جا رہا تھا۔ انہی کے  ذریعہ ان جیسے  دوسرے  قیدیوں  کے  ہاتھ پاؤں  میں  زنجیریں  ڈلوائی جاتی تھیں۔ ان کو اذیت دلوائی جاتی تھی۔ دوسروں  سے  زبردستی کام کرایا جاتا تھا۔ ان کے  لیے  جیل بنوائے  جاتے  تھے۔ عورتوں  سے  جنسی خدمات لی جاتی تھی اور ایسا نہ کرنے  پر ان کے  خلاف جھوٹی رپورٹ لی جاتی تھی تاکہ ان کی سزا کو بڑھا کر اسے  سزائے  موت میں  تبدیل کر دیا جائے۔ ایسی ایک حسین و جمیل خاتون کو جو کسی بہت اچھے  گھرانے  کی تھی یہاں  لایا گیا تھا۔ اس کو پہلے  سزائے  موت سنائی گئی۔ پھر اسے  جیلر کے  بنگلے  میں  بلایا گیا۔ وہاں  کے  افسروں  نے  رات پھر اسے  کوچا، کھسوٹا اور صبح کے  وقت اسے  پھانسی کے  پھندے  پر لٹکا دیا گیا۔ یہاں  مردوں  کے  ساتھ عورتوں  کو بھی اپنا کام پورا نہ کرنے  کے  پاداش میں  پیٹا جاتا تھا۔ ان کی صورتحال جانوروں  سے  بھی بدتر تھی۔ کوئی اس موضوع پر گفتگو نہیں  کرتا تھا کیونکہ یہ خاموش دہشت پوری طرح یہاں  کارفرما تھی۔

جن قیدیوں  کو ترقی دے  کر زنجیروں  سے  آزاد کیا جاتا تھا وہ رات میں  آزاد رہتے  تھے۔ اور وہ کٹھیلے  تاروں  کے  گھیرے  کے  اندر گھوم پھر سکتے  تھے۔ رات میں  وہ ایک دوسرے  سے  مل سکتے  تھے۔ اس بڑے  گھر ے  کے  اندر بڑے  بڑے  میدان تھے۔ درخت تھے او ر چھوٹے   موٹے  ٹیلے  تھے۔ اس کے  باہر اس سے  منسلک عورت قیدیوں  کا بیرک تھا۔ ایک دن اس طرف سے  گھیرے  کے  تار کچھ ٹوٹ گئے۔ لیکن اسے  کبھی مرمت نہیں  کیا گیا۔ اب قیدی کبھی بھی آسانی سے  اس طرح جا سکتے  تھے، وہاں  جا کروہ آسانی سے  کسی عورت سے  ملتے۔ کسی درخت کے  نیچے  بیٹھتے  یا  سو لیتے۔ رات گہری ہوتے  ہی اگر وہاں  کی تمام عورتیں  وہاں  آ جاتیں، گھنٹہ بجنے  کے  بعد وہاں  چوکیدار آتا۔ اس سے  پہلے  سب واپس چلے  جاتے۔ اس آنکھ مچولی میں  جب کچھ عورتیں  حاملہ ہوتیں  تو ان کی ان قیدیوں  سے  شادی کر دی جاتی جو زنجیروں  سے  آزاد ہو چکے  تھے۔ رفتہ رفتہ قیدیوں  میں  جنسی بیماریاں  پھیلنے  لگیں  کیونکہ کچھ عورتیں  جو یہاں لائی گئی تھیں  وہ کوٹھوں  پر دھندہ کرنے  کے  دوران ان بیماریوں  کے  جراثیم اپنے  اندر پال چکی تھیں۔ ڈاکٹر اس کے  لیے  پہلے  سے  تیار نہیں  تھا، اس کے  پاس ان بیماریوں  کی دوائیں  بھی نہیں  تھیں۔ نتیجتاً ڈاکٹر ایسے  مریضوں  کو گندی گندی گالیاں  دیتا اور ان کو آرام کی ڈیوٹی دینے  سے  انکار کر دیتا۔ قیدیوں  کو ڈاکٹر کے  اس رویہ سے  سخت صدمہ ہوا۔

محبت، جنس اور جنسی بیماریاں  جیسے  بھوکے  پیاسے  کو زہر ملا ہوا کھانا کھلایا جا رہا ہو۔ ڈاکٹر والکر کو معلوم تھا کہ کون سی عورتیں  بیمار ہیں  لیکن قیدیوں  کو نہ معلوم تھا نہ وہ جاننا چاہتے  تھے۔

ایک دن ڈاکٹر وہاں  کے  سپرنٹنڈنٹ سے  ملنے  آیا اور بالکل تخلیہ میں  اس سے  بتایا کے  جانچ کے  دوران پایا گیا ہے  کہا   جنسی بیماریوں  کے  علاوہ تین انگریز سپاہیوں  کو تپ دق ہے۔ یہ بات ہلچل مچانے  والی تھی۔ بہت تشویشناک تھی۔ فوراً یہ پیغام کلکتہ بھیجا گیا کہ وہاں  سے  ایک جہاز ان مریضوں  کو لے  جانے  کے  لیے  بھیجا جائے۔ پتہ نہیں  کیسے  ان مریضوں  کے  بارے  میں  یہ خبر کیسے  دوسرے  انگریز سپاہیوں او ر افسروں  تک پہنچ گئی۔ سب کے  اندر ایک خاموش خوف طاری ہو گیا۔

جو رپورٹ پورٹ بلیئر سے  کلکتہ آئی تھی اسے  ہائی کمان کے  سامنے  رکھا گیا۔ اور آگے  بڑھ کر یہ رپورٹ وائسرائے  لارڈ میو کی میز تک پہنچ گئی۔ سفارش میں  یہ بات لکھی گئی تھی کہ فوراً انگلینڈ سے  دوائیں  منگائی جائیں۔ لارڈ میو کی سوچتی ہوئی نگاہیں  ان کے  طویل و عریض آفس کی دیواروں  تک پہنچ گئیں او ر پھر باہر گردش کرنے  لگیں۔ اس کے  دماغ میں  چند سوالات ابھرے  جن میں  یہ سوال بہت اہم تھا کہ اگر یہ خبر انگریزی فوج میں  پھیل گئی تو کوئی وہاں  جانا پسند نہیں  کرے  گا۔ یہ سوال اس کے  دماغ میں  جم گیا۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس سے  فرار کا کوئی راستہ نہیں  تھا۔ تب اس نے  دواؤں  کی مانگ کو قبول کرتے  ہوئے  نیچے  ایک نوٹ لکھا۔

’’قیدیوں  کی فلاح و بہبود کے  لیے  جو ہماری ضمیر کی ذمہ داری ہے، سرکار کو انڈمان نکوبار میں  ایک اسپتال اور ایک سینی ٹوریم بنانا چاہئے۔ اس کے  لیے  جگہ کا انتخاب کیا جائے او ر میں  خود اس کو حتمی شکل دینے  کے  لیے  انڈمان نکوبار جانا چا ہوں  گا تاکہ قیدیوں  کا حوصلہ بلند رہے۔ میرے  اس حکم کی ترسیل فوراً مجرم آبادی اور اس کے  حکام تک کی جائے او ر قیدیوں  کو خاص طور سے  اس کے  بارے  میں  اطلاع دی جائے۔

اس پیغام کو انڈمان بھیج دیا گیا ہے۔ تمام یہ خبر پھیل گئی کہ قیدیوں  کے  فلاح و بہبود کے  لیے  وائسرائے۔۔۔  انڈیا لارڈ میو بہ نفس نفیس اسپتال کے  لیے  مناسب مقام کا انتخاب کرنے  آئیں  گے۔

انگریز مریضوں  کا وارڈ الگ تھا۔ وہاں  ایک سپاہی جو تپ دق کا مریض تھا۔ اب قریب از مرگ تھا۔ اس نے  اپنے  پڑوس بیڈ پر پڑے  دوسرے  انگریز افسر سے  کہا مریض سپاہی ہم یہاں  کیوں ہیں ، یہ کس لیے ، دوسرا مریض خود ہی دن رات سوچتا رہتا تھا۔ پلٹ کر بولا، اس لیے  کہ کمپنی بہادر کی یہ مرضی ہے۔ کمپنی بہادر نے  برطانوی تاجروں  کا ایک بڑا سرمایہ زمین کے  اس حصے  میں  لگا رکھا ہے او ر اس علاقے  کے  تحفظ کے  لیے  ان جزیروں  کو اڈہ بنائے  رکھنا ضروری ہے۔ کمپنی بہادر نے  یہاں  کامیابی تجارت قائم کر رکھی ہے۔ یہاں  سے  اس کو بے  تحاشا منافع ہو رہا ہے۔ انگلینڈ جیسے  چھوٹے  سے  ٹائیگر کے  ہاتھوں  ہندوستان جیسے  ہاتھی مل گئے  ہیں  جن کا وہ شکار کر چکا ہے او ر اب اس کی قیدیوں  سے  لے  کر دانتوں  تک ہر چیز کی کٹائی چھٹائی جاری ہے۔ اس کمپنی کے  شیرز کی قیمت آسمان چھو رہی یہ۔ اس آمدنی نے  متوسط طبقے  کی مشکل گھریلو زندگی کو شاہانہ ٹھاٹ باٹ عطا کر دی ہے۔ لندن شہر بلندی اور عظمت کی اوپری منازل طے  کر دیا ہے۔ پرانے او ر نئے  محلوں  میں  عظیم الشان عمارتیں  تعمیر ہو رہی ہیں۔ وہ بھی سمندروں  میں  کود پڑی ہیں۔ زبردست مقابلہ آرائی ہے او ر کسی بھی وقت یہ مقابلہ آرائی کسی جنگ میں  تبدیل ہو سکتی ہے۔

تم کسی ایسی فوج کا حصہ نہیں  ہو جو کسی ملک کے  لوگوں  کی زندگی، دولت اور عزت کی حفاظت کرتی ہو۔ تم یہاں  تاجروں  کی تجارت اور مفاد کے  محافظ ہو۔ ان کے  تاجرانہ پروجیکٹ کا حصہ ہو اور تمہاری تنخواہ کمپنی کے  منافع میں  سے  دی جاتی ہے۔ تمہارے  عہدے  کرنل، جنرل، کمانڈر، سرجنٹ ضروری ہیں۔ لیکن یہ سب لفظوں  کا غلط استعمال ہیں۔ یہ فوجیں  دراصل تجارتی مفاد کی محافظ دستے  ہیں  جن کی زندگی تنخواہ اور کرائے  پر لی گئی ہیں۔ ممکن ہے  کہ تم کو یہ غلط فہمی ہو کہ تم سرکار کا حصہ ہو۔ ملکہ برطانیہ کے  افسر ہو۔ اور انہی کی طرح تم افضل ہو، تم کو کوئی تاجر آنکھ نہیں  دکھا سکتا، تم کو کمپنی کے  نوکروں  کی طرح ایک جھٹکے  سے  نکالا نہیں  جا سکتا کہ تجارتی تنخواہ کوئی تاجر نہیں  مقرر کرتا بلکہ ملکہ برطانیہ کے  حکام طے  کرتے  ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے  کہ یہ سب تجارت کے  لیے  سرکاری مشین کو استعمال کرنے  کا ایک جربہ ہے۔ کسی کو بھی گولی مار کر قانون کی پکڑ سے  مبرا رہنے  کے  تمہارے  مراعات وہ ہتھیار ہیں  جو ٹیکس دینے  والے  تاجر اپنی تجارت کی توسیع کے  لیے  استعمال کرتے  ہیں۔ تمہاری زندگی تجارت کی منطق اور فلسفے  سے  کنٹرول ہوتی ہے۔ سرکار کو چھتری کے  طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ تاجر طبقہ مفاد کے  لیے  قانون بنائے  جاتے  ہیں او ر اس کی اطلاق سرکار کرتی ہے۔ عوام کے  فلاح کا خیال صرف اس غرض سے  کیا جاتا ہے  کہ عوام کی خوشنودی، سیاسی تعاون ملتی رہے  لیکن یہ بات ذہن میں  رکھنی چاہئے  کہ دراصل تمہارا مرتبہ ان قیدیوں  سے  مختلف نہیں  ہے۔ یہ قیدی اور ہم سبھی ایک ہی مقصد کے  لیے  کام کر رہے  ہیں۔ ان تاجروں  کے  لیے  ورنہ ہم یہاں، اس خوفناک تنہا جگہ پر کیوں  ہیں۔ اور یہ قیدی یہاں کیوں  ہیں، اور کیوں  سارے  جہازوں  کو ان سمندروں  میں  بھیج دیا گیا ہے۔ پوری برطانوی سرکار ہندوستان میں  کیا کر رہی ہے  کہ انگریزوں  کا ملک تو نہیں  ہے۔ یہ انگریزوں  کا وطن تو نہیں  ہے۔ پھر انگریز اس ملک کی حفاظت میں  اپنی جانیں  کیوں  گنواتے  ہیں۔ یہ حب الوطنی تو نہیں  ہے۔ یہ تاجرانہ مفاد کے  لیے  ہے۔ کوئی بھی انگریز سپاہی جو ہندوستان کی حفاظت میں  مارا جاتا ہے۔ شہادت کا مقام نہیں  پاتا اور اگر اس کو اس طرح یاد کیا جاتا ہے  تو یہ لفظوں  کا استحصال ہوتا ہے۔ صرف وطن کے  لیے  مرنے  والے  شہید ہوتے  ہیں۔ حکومتوں  کے  لیے  مرنے  والے ، تاجروں  کے  لیے  مرنے  والے  شہید نہیں  ہوتے۔ وہ صرف میدان جنگ میں  کام آتے  ہیں۔ یہ دراصل سپاہیوں  کے  جذبہ حب الوطنی کا استحصال ہے۔ یہ سب تجارت ہے او ر تجارت کا کوئی دل نہیں  ہوتا۔ اس میں  جذبات کی کوئی قیمت نہیں  ہوتی، اس میں  محض دماغ ہوتا ہے۔ یہ خود غرض ہوتی ہے۔ یہ صرف خود غرض نہیں  ہوتی۔ یہ بے  رحم ہوتی ہے۔ وحشی ہوتی ہے۔ خونخوار ہوتی ہے۔ یہ اس بات کو بھی تسلیم نہیں  کرتی کہ ملک وہاں  کے  عوام کے  ہوتے  ہیں۔ جب ایسے  لوگ اقتدار میں  آتے  ہیں۔ پارلیمنٹ پران کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ بیورو کریسی ان کے  اختیار میں  آ جاتی ہے  تو عوام کے  تئیں  سرکار کی صدق دلی ختم ہو جاتی ہے۔ بے  رحم منافقت حکومت کرنے  لگتی ہے۔ حکومت کی اعلان ہونے  والی پالیسیاں بزنس گھروں  کے  شو روم بن جاتی ہیں او ر عوام کو یہ جتایا جاتا ہے  کہ پالیسی، ٹیکس، جنگیں  سب ان کے  فلاح و بہبود کے  لیے  ہیں  لیکن دراصل ایسا ہوتا نہیں  ہے۔ ہندوستان کے  راجہ اور نواب اب انگریزوں  کے  ہاتھوں  کے  ہتھیار بن گئے  ہیں۔ پرانی سرکاری مشین کے  یہ ٹکڑے  اب کئی تاجر حکومت کے  کل پرزے  بن گئے  ہیں۔ اس لیے  یاد رکھو کہ عموماً ہوتا یہ ہے  کہ سرکار عوام کے  ساتھ تاجر کی طرح پیش آتی ہے۔ حاکم و محکوم کے  اس نظام کی جڑ پر یہ تاجر طبقہ اتنی مضبوطی سے  حاوی رہتا ہے  کہ جو کوئی بھی سربراہ حکومت بن کر آتا ہے  وہ اسی جڑ میں  لگی دھوری پر چکی کی طرح گھومنے  لگتا ہے او ر ہر منتخب سرکار اس بات پر مجبور ہو جاتی ہے  کہ وہ ان تاجروں  کے  اشارے  پر چلے او ر ان کے  مفاد میں  وہ خود ان لوگوں  کو دھوکا دے  جنہوں  نے  اسے  منتخب کر کے  بھیجا ہے۔ انہیں  کمزور تر کرے  ان کی آواز کو دبائے او ر ان کو اسی طرح گھیر کر رکھے  جیسے  لوگوں کو یہاں مجرم بستی میں  رکھا گیا ہے۔ جمہوریت کو توڑ مروڑ کر ویسا بنایا جاتا ہے  جیسا یہ اصلی حاکم چاہتے  ہیں۔ جمہوریت میں  لوگوں کو اپنے  غم و غصہ کا اظہار کرنے  کی اجازت ہوتی ہے۔ لکھنے  کی اجازت نہیں  ہوتی ہے، بولنے  کی اجازت ہوتی ہے او ر پھر ٹھنڈے  ہونے  کی اجازت ہوتی ہے  لیکن یہ اصلی حاکم عوام کے  رویہ پر ایسے  نظر رکھتی ہے  جیسے  چرواہا اپنے  مویشیوں  پر رکھتا ہے۔ حکومتوں  کے  بدلنے  سے  کوئی فرق نہیں  پڑتا کیونکہ سیاسی پارٹیوں  کے  مینی فیسٹو محض پبلسٹی کا ذریعہ ہوتے  ہیں  جس کے  بنا یوں  بھی کوئی الیکشن نہیں  لڑ سکتا۔ اس طرح اس وسیع نظام میں یہاں  ہم سبھی، کیا سپاہی اور کیا قیدی، ایک ہیں۔ ہم سبھی یہاں  کے  سخت موسم سے  پریشان حال ہیں۔ کسی کو ہری سبزی نہیں  ملتی۔ سبھی اپنے  کنبوں  سے  دور ہیں۔ فرق صرف یہ ہے  کہ ہم سپاہی اس سختی کو برداشت کرتے  ہیں او ر اس سے  اکتا کر ان بیچاروں  پر اور بھی زیادہ ظلم ڈھاتے  ہیں۔ ہم سبھی دراصل درکنار کیے  ہوئے  لوگ ہیں۔ یہاں  کہیں  بھی کوئی ایسی سرکار نہیں  دکھائی دیتی جو برطانوی آئین کی روح کے  مد نظر کام کرتی ہو۔

مجاور بتا رہا تھا   ’لارڈ میو نے  اپنے  ایک رازدارانہ خط میں  لندن کے  ہوم سکریٹری کو لکھا تھا کہ ہندوستان کی زمین عظیم برطانوی سلطنت کا ایک اہم حصہ ہے او ر اس ملک میں  کیا ہونا چاہئے او ر کیا نہیں  ہونا چاہئے  اس کا فیصلہ اس بنیاد پر ہو گا کہ اس زمین پر ایک عظیم تہذیب کا قیام کیسے  ممکن ہو گا۔ کہ عظیم تہذیبیں  کہاں  سے  اپنی قوت حاصل کرتی ہیں۔ خصوصاً ایسی عظیم تہذیبیں جو مصر کے  پیرامڈ،چین کی دیوار،اور ہندوستان کا تاج محل پیدا کرتی ہیں۔ جن مغلوں  نے  تاج محل بنایا انہوں  نے  حکومت کو مضبوط بنانے  کے  لئے  خود اپنے  سگے  رشتہ داروں  کے  ساتھ کیا سلوک کیا۔ لارڈ میو یہ بھول گیا تھا کہ اس کی حکومت نے  تاج محل کو نیلام کر دیا تھا۔ وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ نپولین نے  مصر کے  پیرامڈوں  کو توڑ کر اس سے  ایک قلعہ بنانے  کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ وہ ایک تاجر ملک کا کارندہ تھا جو خود تاجروں  کے  دئے  گئے  خوابوں  میں  گرفتار تھا۔

دیکھنے  کی بات یہ ہے  کہ کس طرح انسان ان بڑے  پروجیکٹس میں  ایندھن بنتے  ہیں۔ کس طرح عیسائیت،اسلام اور دوسرے  مذہبوں نے  ایک ذات  کا تسلط دنیا پر قائم کرنے  کے  لئے  دنیا کی ہر ذات اور شخصیت کو مسمار کرنے  کا تہیہ کر لیا اور پوری دنیا کے  افراد سے  آزادی کے  ساتھ سوچنے  کا حق چھین کر وہ حق اپنے  ہاتھوں  میں  لینے  کی کوشش کی۔ اور جن موضوعات پر اپنی رائے  دے  دی اس پر دوسروں  کے  سوچنے  کا حق ختم کیا۔ سوچنے  کی بات یہ ہے  کہ یہ اندازِ فکر کس طرح دوسروں  کے  کلچر کو ختم کرتا ہے۔

آج کیا ہو رہا ہے۔

اشتراکیت کیا کر رہی ہے۔ وہی جو فیصلہ ان مذاہب نے  کیا۔

اور ہٹلر نے  کیا کیا۔

کولون بناتے  ہیں  یہ لوگ۔

اور عام آدمی کے  وجود کو کیسے  نیست و نابود کیا جاتا ہے۔

اور اگر وہ زندہ بچ جاتا ہے  تو بھی کس طرح وہ اپنے  کو شیر علی کی طرح محسوس کرتا ہے۔ لارڈ میو کی سوچ میں یہی خطرناک خامی تھی۔

بڑی قوتیں  بڑے  خواب دیکھتی ہیں۔ اس کے  لئے  ان کے  اوپر الزام لگانا درست نہیں۔ ان کی اصل کمی ان کی کوتاہ اندیشی میں  ہوتی ہے۔

ان کے  لئے  یہ جاننا ضروری ہے  کہ دنیا میں  دائمی امن کے  قیام میں  دشواری کیسے  اور کہاں  سے  پیدا ہوتی ہے ، کہاں  یہ طاقتیں  غلطی کرتی ہیں  جس سے  وہ دوسروں  کو بھی تباہ کرتی ہیں او ر خود بھی تباہ ہوتی ہیں  لیکن کس کوتاہ نظری کی وجہ سے  وہ بار بار یہی غلطی دہراتی ہیں۔

کہاں  ان کے  کارندے  عام انسانوں  کو کمزور سمجھ کر اور ان کی توانائیوں  کو نظر انداز کر کے  اپنی طاقت کا ایسا بے  جا استعمال کرتی ہیں۔

جب اس عمل میں  حکومتیں ،حاکم اور ان کی پشت پر چلنے  والے  مافیائی  چہرے  جب ان بڑے  خوابوں کا ناپسندیدہ اور گھناؤنا ہتھیار بن جاتے  ہیں  تو اس سے  انسانی زندگی کا امن تباہ ہوتا ہے۔

اس طرح عظمت کے  متلاشی انسانی محبت کو فنا کرتے  ہیں۔ اور اس کی خوبصورتی سے  دنیا کو محروم کرتے  ہیں۔ یہ گویا انسانیت کشی کا عمل ہوتا ہے۔ کام کرنے  کا ایک غلط طریقہ ہوتا ہے۔ اور یہی غلط طریقہ تباہی کی اس عظیم خفیہ طاقت کو دعوت دیتی ہے  جو دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں او ر تہذیبوں  کو تباہ کرتی آئی ہے او ر اسی بات کو عظیم تہذیبیں  نہ سمجھ پائیں  نہ دیکھ پائیں۔ ان غلطیوں  کی طرف خالد نے  اپنی کتاب میں  واضح اشارے  کئے  ہیں۔ لارڈ میو کے  قتل کے  اوپر غور کرتے  ہوئے  اس نے  بڑے  لوگوں او ر بڑی طاقتوں  کی کمزوریوں  کی نشاندہی کی ہے۔ یہ دبائے  ہوئے او ر بے  بس بنائے  گئے  عام آدمی کی وہی طاقت ہے  جس کا اظہار شیر علی نے  کیا تھا۔

دنیا میں  امن و امان قائم رکھنے  کے  لئے  اس لاوا کے  وجود اور اس کے  عمل کو سمجھنا ہو گا۔ اسی سمجھ سے  دنیا کو ان تناؤں او ر درد سے  تحفظ حاصل ہو گا جس کا انسانیت نے  ماضی سے  لے کر حال تک بار بار تجربہ کیا ہے۔

یہ خالد کے  تجربہ کا وہ بنیادی نکتہ ہے  جو اس المیہ کا شکار ہے  کہ انسان اس کو سمجھ تو لیتا ہے  لیکن گیلی لکڑی کی طرح روشن نہیں  ہوتا۔ ایک بانجھ عورت کی طرح مایوس ہوتا ہے  لیکن کچھ پیدا نہیں  کرتا اور آزادی کا چشمہ گندی نالیوں  میں  تبدیل ہو کر موریوں  میں  جذب ہو رہا ہے۔ ‘

شیر علی کا چہرہ اب خالد کے  پورے  تخیل کو اپنی گرفت میں  لے  چکا تھا۔ اس نے  شیر علی کے  احساس کو جان لیا تھا۔ اس احساس نے  ایک ایسی دنیا میں  جنم لیا تھا جہاں  قیدیوں  کی داد صرف قیدی ہی محسوس کر سکتے  تھے، جہاں  سے  ان کا مادر وطن ہزاروں  میل دور تھا۔ ہندوستان کے  ساحلوں او ر جزیروں  کے  درمیان ا تھاہ پانی سے  بھرا وہ سمندر تھا جن کا سفر جہاز بھی کئی دنوں  میں  طے  کر تے  تھے۔ انسان جب کلکتے  کی بندرگاہ سے  باہر نکل کر بحیرۂ ہند میں  داخل ہوتا تھا تو اس کی دنیا بدل چکی ہوتی تھی۔ وہ باقی تمام دنیا کے  لیے او ر خود اپنے  لیے  بھی تقریباً مر چکا ہوتا تھا۔ سزا کاٹنے  کو اپنی تقدیر سمجھنے  والے  ان لوگوں  کو اس موت کے  بعد بھی سکون نہیں  ملتا تھا۔ جب ان پر منکشف ہوتا تھا کہ سزا کی مشقت کے  عادی ہونے  کے  بعد جب اس زندگی کا معنیٰ ان پر کھلتا تھا تو انھیں  بے  بسی کے  عالم میں  اپنے  روح سے  بھی گھن آنے  لگتی تھی اور وہ اپنے  ان ہم وطنوں  کو کوسنے  لگتے  تھے  جن کی کو تا ہوں او ر لا پرواہیوں او ر کوتاہ نظری نے  ان کے  مادر وطن کو اس حال تک پہنچایا تھا کہ دور دیش کے  ان اجنبیوں  کو اس ملک پر دسترس حاصل ہو گیا۔ وہ اپنے  ہم وطنوں  سے  کچھ کہنا چاہتے  تھے  لیکن ان کی آوازوں  کے  اس جزائر سے  باہر نکلنے  کا کوئی راستہ نہیں  تھا۔ سارے  رستے  بند تھے۔ جنگ ہارنا اور آزادی کھو دینا دنیا کی ترقی کی دوڑ میں  پیچھے  رہ جانا کتنا خطرناک تھا،یہ کتنی بڑی غلطی تھی اس کا احساس انھیں  یہاں ہوتا تو وہ کسی طرح ایک بار اپنے  ہم وطنوں  تک اپنے  پیغام کو پہنچانے  کے  لیے  کڑھتے  رہتے، انھیں  لگتا کہ اگر صرف ایک بار، کسی بھی صورت میں  انھیں  اپنے  ہم وطنوں  کو جھنجھوڑنے  کا موقعہ مل جائے  تو وہ ان سے  کچھ ایسا کہیں  گے  کہ ان کے  غفلت کی دھجیاں  اڑ جائیں او ر ہندوستانیوں  کی روح آتش فشاں  کی قوت اور سرعت کے  ساتھ بے  دار ہو جائے۔ لیکن سب سے  بڑی دکھ کی بات تو یہی تھی کہ آج ایسا کوئی بھی ذریعہ دستیاب نہیں  رہ گیا تھا۔ وہ خود اپنے  کو سوچ کر تدبر، مشقت اور بصیرت سے  کام لیتے  ہوئے  ایسا کچھ کیوں  نہیں  کیا؟ وہ خود اپنے  کو ان گنہ گاروں  میں  شمار کرتے  تھے  جنہوں  نے  اپنے  ساتھ اپنی اولاد کو بھی ایسی مصیبت کی چکی میں  ڈال دیا تھا جہاں  ان کے  خون کا آخری قطرہ اور ان کی ایک ایک سانس غلام بن چکے  ہیں۔ کبھی ان کا جی چاہتا کہ اپنے  بدن میں  آگ لگا لیں  کبھی ان کے  من میں  یہ خیال اٹھتا کہ وہ سمندروں  میں کو د جائیں  لیکن انھیں  یہ بھی معلوم تھا کہ یہ سب کچھ خود کشی سے  زیادہ کچھ نہیں او ر ان کے  ہم وطنوں  تک اس خود کشی کی خبر تک نہیں  پہنچائی جائے  گی۔ حکومت وقت کے  اس مکمل گرفت سے  ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ حکومتِ وقت سے  ان کو جو شکایت تھی اس کا اظہار کرنے  تک کا ان کے  پاس کو ئی ذریعہ نہیں  تھا۔ کبھی وہ سوچتے  کہ ان کی زندگی میں  کیا بچا تھا؟ ان کو خود انھیں  کی بنائی ہوئی پھانسی دینے  کی بنائی رسیوں  سے  قید سے  بھاگے  ہوئے  سیکڑوں  معصوم قیدیوں  کو پھانسی دی گئی تھی۔ ان کے  بیویاں  شادی پہلے او ر شادی کے  بعد داشتاؤں  کے  طور پر استعمال ہوتی تھیں او ر انکار کی صورت میں  کسی بہانے  سے  پھانسی پر لٹکا دی جاتی تھیں۔ ذلت کا کوئی رنگ ایسا نہیں  تھا جو ان کے  چہروں  پر ملا نہیں  گیا ہو۔ شیروں  کو کتوں  کی طرح دم ہلانے  اور مردوں  کونا مردوں  کی طرح بھڑوا بننے  پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ ان کو اتنا دہشت زدہ کر دیا گیا تھا کہ ان کے  بدن اِن کے  اختیار میں  نہیں  رہ گیے  تھے۔ اور ان کی مرضی کے  خلاف انگریزوں  کی چڑھی ہوئی تیوری ہی دیکھ کر کانپنے  لگتے  تھے۔ جب وہ اپنے  ملک کو یاد کرتے  تو ملک اپنے  ہی خون کے  آنسو میں  رنگین ہو ہو کر ان کے  تخیل میں  ابھرتا۔ سوچتے۔ سوچتے  ان کو اکثر ایسا لگتا کہ وہ اپنے  اندر سے  پھٹ کر مر جائیں۔ یہ انتہائی کیفیت تھی جہاں  پہنچنے  کے  بعد اس پر زندگی کے  بلند ترین آسمان کی باتیں لگنے  لگتی ہیں۔ خالد بھی اس وقت اس منزل کی بلند ی پر پہنچ آیا تھا۔ جہاں  ڈھیر ساری باتیں  اس پر یوں  عیاں  ہو رہی تھی جیسے  کھلے  آسمان کے  چاروں  طرف پہاڑیاں ہی پہاڑیاں  ہوں  تمام پہاڑیوں  کے  پیچھے  سے  یک بہ یک وقت کئی آفتاب طلوع  ہو رہے  ہوں او ر ان کی کرنوں  سے  پورا آسمان بھر گیا ہو۔

’’زندگی میں  دھوکہ کھانے  کی کہیں  کوئی گنجائش نہیں۔ ‘‘

اچانک اس کے  ذہن میں  ایک شعر خلق ہوا:

اب کوئی رات نہیں  آئے  گی ان آنکھوں  میں

تیری کرنوں  نے  جلا ڈالی ہیں  پلکیں  میری

وہ کچھ دیکھ رہا تھا وہ سیاسی حقیقت کی آخری سرحد تھی۔ اور روشنی کی قوت کے  ساتھ ابھر رہی تھی۔

اب وہ تقریباً پاگل سا ہو گیا تھا۔ اس نے  چاروں  طرف کے  منظر پر نگاہ ڈالی تو اسے  محسوس ہوا کہ وہ دنیا کو ڈیڑھ سو سال کی ہی نہیں  ڈیڑھ ہزار سال کی سیڑھیوں  پر چڑھ کر وہ دیکھ رہا ہے۔ پوری دنیا کے  حکمراں  اس کے  سامنے  ان مینڈکوں  کی طرح دکھائی دے  رہے  تھے  جن کو چیر  چیر کر اس نے  جانوروں  کی اندرونی ساخت کا مطالعہ کیا تھا۔ حکومتوں  کے  بڑے  بڑے  محلوں او ر یہاں  خانوں  کے  چلمن اٹھنے  لگے  تھے۔ ا س نے  محسوس کیا کہ یہ سارے  چلمن تو دراصل اس کے  اعصاب اور ذہن پر لٹک رہے  تھے  جنھیں  اس نے  کبھی اٹھا کر دیکھا ہی نہیں۔ جب وہ کالا پانی سے  متعلق فائلوں  کی ورق گردانی کراہا تھا تو اس کے  سامنے  شیر علی کا لکھا ہوا ایک نوٹ ملا جسے  لارڈ میو کی قتل کی تفصیل کے  دوران انگریزی میں  ترجمہ کیا گیا تھا۔

‘  I am eating but not according to my choice, as if, some body else is eating through me. My body is moving but not according to my desire, as if, some body else is moving in me. I negotiate, I promise, I assure, I smile, but I know, that it is some body else’s smile that apears in my face -I challenge and  threaten   –  but I feel like becoming a matter of great joke an my own eyes as I see what in fact I am   –   and how, I was posing to be powerful  –  like this how far I was going from my self  –  I dont feel insulted when some body spits on my face –  because it is not my face –  but some body else who acts through my face, feels insulted and shivers with enger through my hands and body  –  and threatens through my eyes  –  I speak not what I want to  –  but what he wants to! And I behave like not what I want to, ought to, but like what he wants to. And I develop a friend circle of not the type what I want to, and which comforts me, but what he wants to and what suits him  –  not only that  –  if I would marry, the girl would not marry me, but she would marry that who is visible on my face  –  and she would enjoy company, not of me, but of him who lives on my face – and I would not be proud of her but he would be proud of her – and if I disclose my real face to her, she would desert me and go over to him and the girl of my choice would not be able to marry me because I would not be able to show her my real  face, and if I show her, she would not believe because, I do not exist – I do not have the evidence of my existence!

It is only Dr. Walker who exists ! It is Dr. Walker who is standing on my nose! A dirty fly ! People, when they see me, they see Dr. Walker in my face – and they hate me! They spit right and left on seeing me! And though, I do not like – still. Dr. Walker exists on my face like a patch of old eczema ! ‘

فائلوں  میں  لکھے  نوٹ کے  مطابق شیر علی کی یہ تحریر لارڈ میو کے  قتل سے  پہلے او ر سنہری کی موت کے  بعد لکھا گیا تھا۔ لیکن فائل کے  نوٹ اور تفصیلات سے  ظاہر ہو رہ تھا کہ اس تحریر کو تفتیش میں  کوئی اہمیت نہیں  دی گئی تھی اور اس کا تفتیش میں کوئی حوالہ نہیں  دیا گیا تھا۔ جیسے  اس تحریر کی شیر علی کے  ذریعے  کئے  گئے  قتل کو سمجھنے  کے  حوالے  سے  کوئی معنویت نہیں  تھی اور اسے  محض ایک جذباتی تحریر سمجھا گیا۔ اس تحریر کو ایک قیدی کے  جذباتی بڑ کے  کھاتے  میں  ڈال دیا گیا تھا۔ جس پر یس لکھ دیا گیا تھا کہ اس کی مقدمہ میں  شہادت کے  نقطہ نظر سے  کوئی اہمیت نہیں  تھی۔ اور اس طرح اسے  محض ایک فالتو کاغذ کے  طور پر کیس فائل میں  منسلک کر کے  رکھ دیا گیا تھا۔

oo

 

 

 

 

جون کا مہینہ آ گیا تھا اور اب تک بارش نہیں  ہوئی تھی۔ سورج کی کرنیں  اپنی تمازت کی شان و شوکت کا کھل کر اظہار کر رہی تھیں۔ اس سال گرمی کا موسم اپنی بدترین شکل میں  آیا تھا اور کئی برسوں  کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔ چٹانیں  جل رہی تھیں۔ درخت زرد ہونے  لگے  تھے او ر لوگ ہر لمحہ کسی سائے  کی تلاش میں  نظریں  دوڑاتے  رہتے۔ جنگلوں کو کاٹنے او ر مکان تعمیر کرنے  کا کام بے  حد مدھم ہو گیا۔ پورا آسمان اس طرح گرم ہو گیا تھا کہ سمندروں  پر نظر ڈالنے  سے  بھی آنکھیں  چوندھیاتی تھیں۔ سورج کی کرنیں  صرف سمندر کے  کناروں  کی ریت سے  ہی نہیں  پانی کی لہروں  سے  بھی چمک کر آتی تھیں۔ آفس میں  زیادہ سے  زیادہ قیدیوں  کے  بیمار ہونے  کی رپورٹ آ رہی تھی۔ دواؤں  کی کمی تھی۔ جلد ہی قیدی زیادہ سے  زیادہ تعداد میں  مرنے  لگے۔ دق کے  مریضوں  کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ کلکتہ خصوصی درخواست بھیجی گئی کہ وہاں  سے  دق اور دوسرے  امراض کے  لیے  دوائیں  بھیجی جائیں او ر کچھ اور ڈاکٹر بھی وہاں  سے  روانہ کیے  جائیں۔

اس وقت ہندوستان کا وائسرائے  لارڈ میو لندن کے  دورے  پر گیا ہوا تھا۔ اور ہندوستان سے  متعلق مسئلوں  پر گفتگو کرنے  کے  لئے  وہاں  کے  مختلف اعلی عہدیداروں  سے  ملاقات کر رہا تھا۔ وہاں  ہوم ڈیپارٹمنٹ میں  تو اس کا ایک نجی دوست ہی سکریٹری تھا جو اس کا بہی خواہ تھا۔ گفتگو کے  دوران اس نے  ایک فائل اٹھائی۔ اور اس میں  سے  ایک خط نکالا جو لارڈ میو نے  ہی لکھا تھا۔

فائل کے  اندر اس کے  خط پر دو تین لوگوں  کے  ریمارک لکھے  ہوئے  تھے  جن میں  ایک ریمارک خود وہاں  کے  وزیرِ اعظم کا تھا۔

لارڈ میو نے  اپنے  خط میں  لکھا تھا۔

”I have only one object in all I do. I believe we have not done our duty to the people of this land. Millions have been spent on the conquering race, which might have been spent enriching and elevating the children of the soil. We have done much. We can do a great deal more. It is how ever, impossible unless we spend less on the ‘interests’ and more on the’ people’  in the consideration of all these matters.

We must first take into account the inhabitants of this country. The welfare of the people of India is our primary object.”

اس خط سے  متعلق سکریٹری نے  لارڈ میو سے  کہا

‘‘Your policy in the Indian sub-continent as written in your letter is really causing some worry. Some senior members of the cabinet have raised their apprehensions on the point raised in your demi-official letter that you have written to me. They wanted me to discuss with you. They feel that you are indulging into something of personal nature by considering humanitarian causes which are better left to the missionaries. The point needs clarifications for their satisfaction, so please tell me what exactly you mean.

لارڈ میو

"See. The population of the colony- may be any- is a resource, an asset. Our own asset. it belongs to us. We have to see how best it can be exploited. Once the political consolidation is done and political conflicts are largely resolved, the next target should be not to see the inhabitants as hostile people but to see them as resource. For managing the be best the exploitation of the very vast resources of a territory like India this needs serious consideration. The population has to be enabled to meet the requirements. Their health is thus important. their whole hearted participation is also important. Thus exploitation of their spirit is required and for expoliting their spirit environment has to be created. Thus so long they show the signs of participation in our programs there is no harm in talking in a language of well being.This should not only be told but should be expressed in actions, even in moods. Only then it will have real impact. This is essential part of diplomacy. Controlling the hearts and minds is very essential for turning controlled populations into natural subjects. Care is the the last weapon by which you can even make the subjects make sacrifices for you – sacrifices of labor as well as desires. This will ultimately cultivate them for making sacrifices of their lives for the empire. We should keep in view the fact that we do not only require labor but we also require forces- policemen and soldiers and buraucrates. The time has come after suppression of rebellions that we make some policy changes. It has to be shown. More over at certain places we have British populations for which we have to create facilities but why not to create it in the name of welfare of the inhabitants. It has great publicity value. Thus the justification for budgets have been given new words. You  know, now we are engaging Indians in our official works and many of the correspondence passes from under their eyes. They should feel without our saying that the British empire is thinking in terms of their welfare and full participation in the process of growth of their own economy. It is only difference of language. The senior members seem to have missed the point that they are reading a letter of a viceroy, not of a missionary.’

لارڈ میو نے  اپنے  اس حکمراں  دوست کی آنکھوں  میں  دیکھتے  ہوئے   کہا۔

‘And keep in mind, we are not at all soft to those who are reluctant, or who resist or those who oppose. We have implemented a policy to either ‘submit or get finished, and in getting finished they are to serve as examples’.

‘Further, open wars and open exploitation in terms in violation of laws should not be resorted to as it creates doubts about the bonafides of the government. It must be the endeavour of the government to take some extra pains and formulate some laws, rules or provisions under which the required undesirable actions could be adjusted by executive actions. This is also essential for training purposes. When people see that some action is covered by some law or rule or by some power bestowed on some officer as executive power, they are discouraged from raising objections because raising objections on such point amounts to revolting against the government or inciting against governments. Thus every thing should be managed through approprite legislations and executive orders.’

گفتگو کے  اخیر میں  ہوم سکریٹری نے  مسکراتے  ہوئے  کہا۔

‘OK. This stands clarified.’

اپنی دلیل میں  کامیاب ہونے  کے  بعد لارڈ میو کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی عظیم ہے۔ اور اس کا طریقہ کار اور وہاں  سے    ایسے  نکلا جیسے  وہ مہذب دنیا کا عظیم رہنما ہو۔ اور برطانوی حکومت کی توسیع اور مضبوطی  کے  اسرار سے  اس سے  بہتر واقفیت رکھنے  میں  اس کا کوئی ثانی نہ ہو۔

لارڈ میو لندن سے  واپس آنے  کے  بعد اب اور بھی زیادہ انہماک سے  برطانوی سامراج کو مضبوط کرنے  میں  لگ گیا تھا۔

ان دنوں جزائر انڈمان اپنے  اندر سیاسی، سرکاری اور انسانی زندگیوں  کے  اختلاط سے  ایک ایسا بھنور پیدا کر چکے  تھے  اوریہ بھنور حاکموں  سے  لے  کر ملزموں  تک سب کو پورے  بر صغیر سے  اپنے  اندر کھینچ رہا تھا اور ایک ایسی پر اسراریت کا ماحول وجود میں  آ گیا تھا جو جس کو بھی کھینچتا تھا اسے  یہاں  آنا ہی تھا اور آنے  کے  بعد اس بھنور سے  بچنے  کی کوشش بھی کرنی تھی اور یہ بھنور ایک قہقہہ لگاتا ہوا ہر آنے  والے  کی تقدیر حتیٰ کہ حیات و موت کا عصا لیے  ہوئے  قانونِ قدرت کو سمجھانے  کا گویا فریضہ اٹھائے  ہوا تھا۔ اسی بھنور کے  کنارے  کنارے  اپنی جان کی حفاظت کا انتظام کیے  ہوئے او ر بھنور میں  غلطاں  و پیچاں  ملزموں  پر نظریں  ٹکائے   ہوئے  نئے  جیل سپرنٹنڈنٹ کے  ذہن میں  انتہائی خرم روی اور بے  آواز قدموں  سے  ایک خیال پردۂ ذہن پر ابھر ا کہ یہاں  اس بھنور کی اوپری سطح پر اس تماشہ گاہ میں  ہندوستان کے  وائسرائے  لارڈ کو بھی بلایا جائے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے  اس خیال نے  اس کے  ذہن میں  خود ستائی ایک ایسی چکا چوند روشنی کر دی کہ اس کا ہاتھ اپنی میز پر رکھے  قلم پر گیا اور کاغذ پر وہ سطور شروع ہو گیے  جو نہ صرف ان جزیروں  کے  لیے  بلکہ زمین پر چاروں  طرف پھیلی ہوئی برطانوی حکومت کے  لیے  بھی ایک بڑا واقعہ ہونے  کا امکان رکھتے  تھے۔

خط پورا ہونے  کے  بعد جیل سپرنٹنڈنٹ نے  خط کو دوبارہ پڑھا اور پورے  ہوش و حواس میں  اس نے  محسوس کیا کہ اس نے  لارڈ میو کو ان زہر ناک اور خطرناک فضاؤں  میں  مدعو کیا لیکن اس کے  دل میں  اٹھی ہوئی خواہش کچھ اتنی دلکش اور شدید کروٹیں  لے  رہی تھی کہ اس نے  اس خط کو کلکتہ بھیجنے  کا فیصلہ کر لیا۔

خط اس کی میز سے  دراز میں  رکھے  ہوئے  ایک لفافے  میں  داخل ہوا۔ اوپر سے  سیل بند ہوا ڈاک کے  بستے  میں  داخل ہوا جہاز پر سوار ہوا اور سمندر کی اونچی اونچی لہروں  کو چیرتے  ہوئے  جہاز میں  سوار ایک پر اسرار اور قوی قاصد کی طرح تمام حفاظتی دروازوں  سے  گزرتا ہوا اور لفافے  سے  باہر نمودار ہو کر لارڈ میو کے  ہاتھوں  میں  کھل گیا۔ کوئی اسے  انڈمان نکوبار کے  زہر ناک فضاؤں  میں  بلا رہا تھا لیکن اس خط میں  ایسی کسی خطرے  کا نام و نشان تک نہیں  تھا۔ یہ خط تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ اس نے  جو احکامات دیے  ہیں  اس پر جوش و خروش اور مستعدی سے  عمل ہو رہا ہے او ر اس کے  خوابوں  میں  اٹھی ہوئی ان جزائر کی تصویر اس کے  احکامات کی طاقت سے  حقیقت کا خط نے  لارڈ میو کے  دل پر ایک پر اسرار ڈنک مارا۔ جس کا اثر تیز تلخ نہیں  تھا بلکہ میٹھا اور گہرا تھا اور لارڈ میو کے  ذہن میں  جزائر انڈمان کے  آفاق کسی جادو گر کے  نقوش فریب کی طرح اجاگر ہونے  لگے۔

اس خط میں  انڈمان آنے  کی گزارش کے  ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ اگر وہ بذاتِ خود وہاں  جاتے  تو ان جزائر میں  وجود میں  لائی گئی آبادی اور برٹش راج کے  مقاصد کے  تئیں  کیے  جانے  والے  کاموں  کی توسیع کی راہ میں  جو دشواریاں  ہیں  وہ کتنی بڑی اور مشکل ہیں  اس کا اندازہ وہ خود کر سکے  گا اور اس میں  اس کی موقعے  کے  اوپر معائنے  کے  بعد دیئے  گیے  احکامات اس کی تکمیل میں  زیادہ معاون ثابت ہوں  گے۔ لارڈ میو کو یاد آیا کہ اس نے  حکم دیا تھا کہ انڈمان کی آبادی اور دوسری ضرورتوں  کے  لیے  ان جزائر میں  ایک بڑے  علاقے  کو موجودہ علاقہ میں  شامل کیا جائے  جیل سپرنٹنڈنٹ نے  لکھا تھا کہ ’وہاں  کچھ ایسا ہے  جسے  الفاظ میں  بیان نہیں  کیا جا سکتا ‘

(No one can thoroughly understand this place untill he has seen it.)

لارڈ میو  نے  سوچا اور خود وہاں  جانے  کی تجویز سے  وہ  متفق ہو گیا۔

اس جملے  میں  ایک سچائی تھی یہ سچائی خالد سہیل کے  سامنے  بھی آہنی دیوار بن کر کھڑی تھی۔ حالانکہ وہ اس جگہ کو ڈیڑھ سو سال پہلے  والے  ماضی کو جاننے  کے  لیے  ان جزیروں  میں  آ کر مہینوں  سے  سر گرداں  تھا۔ اور تاریخ کے  ذرائع سے  لے  کر لوگوں  سے  سننے  والی کہانیوں او ر وہاں  کے  آثار قدیمہ کی ایک ایک تفصیل کو باریک نگاہوں  سے  دیکھتے  ہوئے  اسے  سمجھنے  کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ لیکن حقیقی تصویر تھی کہ تاریخ کے  اس گرداب میں  مسلسل ڈوبتے  ابھر تے  اپنی شکل بدلتی ہوئی اسے  نیچے  اتارتی جا رہی تھی۔

oo

 

 

 

۲۶ جنوری ۱۹۷۲ ء کو کلکتہ کے  اس بندرگاہ پر جہاں  سے  برطانوی جہاز مختلف سمندری راستوں  سے  ہوتے  ہوئے  کرّۂ زمین کے  مختلف مقامات تک جاتے  تھے  دو جہاز H.M.S. Prigate glassgow اور S.S. Dhakaوائس رائے  کو لے  جانے  کی تیاری میں  گویا اپنے  چاروں  طرف فخریہ نگاہوں  سے  ساحل سمندر اور دور دور کی عمارتوں  کو دیکھ رہے  تھے۔ ان کو اعلیٰ ترین سرکاری شان و شوکت کی تیاریوں  کے  ساتھ سجایا گیا تھا۔

انڈمان نکو بار کے  اس سفر کا تعین لارڈ وائسرائے  نے  اپنی مشغولیات اور اپنی سوچ اور کار کر دگی کے  تحت نہیں  کیا تھا بلکہ دعوت نے  خود سے  نازل ہو کر اس کے  ذہن میں  جگہ بنا لی تھی اور اب اسے  محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک ایسی سمت میں  کھینچا جا رہا تھا جس میں  اس کی مرضی شامل نہیں  تھی۔ جس احساس نے  اس کے  اعتماد اور سکون کو پرلے  ڈال دیا تھا جو بڑی بڑی سیاسی بغاوتوں او ر جنگی خبروں او ر تیاریوں  کو بھی اپنے  اوپر حاوی نہیں  ہونے  دیتا تھا۔ گویا تاریخ جس نے  اس کو اب تک اپنی پیٹھ پر بیٹھا رکھا تھا، ایک پر اسرار قوت کے  ساتھ اب اسے  جبراً پکڑ  یوں کے  اوپر معائنے  کے  بعد دےکر کھینچے  لیے  جا رہی تھی۔

بندر گاہ پر بنگال کے  لفٹیننٹ گورنر اعلیٰ ترین انگریز آفیسر دوست اور احباب، لارڈ میو اور اس کے  ساتھ جانے  والے  لوگوں  کو جن میں  اس کی بیحد خوبصورت اور حساس طبیعت والی اس کی بیگم بھی شامل تھی، جمع تھے۔ جب لارڈ میو کی سواری آئی تو سب نے  اسے  سرکاری سلام کیا، بگُل بجے او ر لارڈ میو کی نظر تمام لوگوں  کو دیکھتی ہوئی اس جہاز پر گئی جس پر اسے  سوار ہونا تھا۔ لیکن اس بار جہاز پر  سوار ہوتے  ہوئے  اس کے  چہرے  پر وہ کیفیت غائب تھی جو ان منزلوں  پر جاتے  ہوئے  ہوا کرتی تھی جن کے  بارے  میں  اس کا ذہن صاف ہوا کرتا تھا۔ لوگوں  کے  الوداعی شور و شرابے او ر اظہار مسرّت کے  درمیان وہ کچھ پریشان سا دیکھ رہا تھا۔ اس کے  ذہن میں  کئی ایسے  ملکی مسائل گردش کر رہے  تھے  جنھیں  پس پشت ڈال کر وہ اس سفر پر چل نکلا تھا۔ افغانستان میں  ہونے  والی بغاوت کو نبٹانے  کے  لیے  اس نے  جو نمائندے  بھیجے  تھے  اس کے  نتائج کے  بارے  میں  وہ بہت متفکر تھا۔ کیونکہ اس مسئلے  کا حل ہونا ہندوستان میں  برطانوی راج کے  استحکام کے  لیے  بہت اہم تھا۔ اس نے  ہری چند کو حکم دے  رکھا تھا کہ اس سلسلے  میں  جو بھی نتائج برآمد ہوں  اس کی خبر اس کو فوری طور پر دی جائے۔

انڈمان کے  لیے  جہاز بر ما سے  ہو کر جاتا تھا۔ اس نے  اپنے  برما سے  فوراً کلکتہ واپس لوٹنے  کے  انتظام کا حکم بھی دے  رکھا تھا تاکہ اگر افغانستان کے  معاملے  میں  بات چیت کے  نتائج مایوس کن نکلیں تو وہ پروگرام بدل کر فوراً رنگون سے  کلکتہ پہنچ جائے  گا۔

لارڈ میو کے  جہاز نے  کلکتہ کا بندرگاہ چھوڑا۔ جب وہ برما پہنچا تو اسے  لگا تار کئی ٹیلی گرام ملے  کہ افغانستان کے  معاملات میں  امید افزا نتائج برآمد ہو رہے  ہیں او ر کسی بڑی پریشانی کے  امکانات لگ بھگ ختم ہو چکے  ہیں۔ اس خبر کے  بعداس کا ذہن اس معاملے  کے  تناؤ سے  رفتہ رفتہ فارغ ہونے  لگا اور۵ فروری کو وہ دوبارہ جہاز پر سوار ہوا اور قافلہ بنگال کی کھاڑی کو پار کرتا ہوا دن کے  اجالوں او ر رات کے  اندھیروں  سے  مسلسل تین دن تک گزرتا ہوا آٹھ بجے  صبح ان جزیروں  کی طرف بڑھنے  لگا جو سامنے  دکھائی دے  رہے  تھے او ر جنھیں  اس نے  پہلے  کبھی نہیں  دیکھا تھا۔ لیکن لارڈ میو کے  دماغ پر اب بھی افغانستانی معاملے  کی بے  چینی خطرے  کی گھنٹی بجا رہی تھی اور اس نے  اپنے  ساتھیوں  سے  کہا کہ وہ ان جزائر کا معائنہ کر کے  فوراً دارالسلطنت کلکتہ پہنچنا چاہتا ہے۔

وائسرائے  کے  ان جزائر میں  آنے  کی خبر قیدیوں  میں  بھی پھیل چکی تھی۔

شیر علی جیلر کے  دفتر میں  بیٹھا ہی تھا کہ وہ لوگ گفتگو کر رہے  تھے  جہ لارڈ میو ممکن ہے  نہیں  بھی آئیں ،کیونکہ افغانستان کا مسئلہ ان کے  پروگرام کو التوا میں  ڈالے  ہوا ہے۔ اور اگر افغانیوں  نے  اپنے  کو انگریزی حکومت کے  حوالے  نہیں  کیا تو افغانستان پر فوراً جنگ کر کے  اسے  قبضے  میں  لینا پڑے  گا۔

وہ سوچتا رہ گیا۔

وائسرائے  کی شریف النفس اور ہمدردانہ شخصیت کے  بارے  میں  یہاں  کے  قیدیوں  نے  سن رکھا تھا۔ لا رڈ میو کے  متوقع آمد نے  ان کے  دلوں  پر جیسے  سوکھی مٹی پر بارش کا چھڑکاؤ کر دیا تھا۔ ان کے  اندر یہ امید نشو و نما پانے  لگی تھی کہ جس ہمدرد ہاتھ میں  ملک تھا اگر اس کو ا اندازہ ہو جائے  کہ یہاں  کے  قیدیوں  کی زندگی ایک دوزخ میں  گزر رہی ہے  تو وہ اسے  قطعی نظر انداز نہیں  کر سکتا اور ایک مضبوط توقع وجود میں  آنے  لگی تھی۔ اس بات پر چہ مگویاں  ہونے  لگی تھیں  کہ یہاں  کے  حاکم ضرور یہ کوشش کریں  گے  کہ ان کے  مظالم کی خبر کسی بھی طرح وائس رائے  کو نہ ہو۔ اس بات کی روشنی میں  قیدی اپنی تکلیفوں  کو اس حاکم اعلیٰ کے  گوش گزار کرنے  کے  لیے  درخواستوں  سے  لے  کر آوازوں او ر اشاروں  کنایوں  کے  ہر ممکن امکان کو عمل میں  لانے  پر آمادہ ہو گئے  تھے۔

لارڈ میو نے  حکم دیا کہ اس کے  آمد اور معائنے  کے  دوران جیل اور اس کے  باہر کے  کام دھام کے  روز مرہ میں  کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی نہ کی جائے او ر وہ وہاں  کی اصلی زندگی کو دورانِ عمل دیکھنا چاہتا ہے۔

جیلر کے  آفس میں  میٹنگ چل رہی تھی۔ جیلر نے  لارڈ میو کے  احکامات کے  پیش نظر اپنے  ماتحتوں  سے  کہا، وائس رائے  کے  اس حکم کی تعمیل کرنے  میں  ہمیں  اپنے  طور پر کچھ باتوں  کا لحاظ رکھنا ہے۔ پہلی بات یہ کہ ہر جگہ روز مرہ کا کام بالکل اسی طرح چلتا رہے  گا جیسے  باہر سے  کوئی آیا ہی نہ ہو لیکن وائس رائے  کی سیکورٹی اور سفر کا انتظام مکمل طور پر کیا جائے  گا۔ دوسری بات یہ کہ روز مرہ کے  طور پر سب کچھ چلنے دینے  کا مطلب صرف یہ ہے  کہ قیدی اپنی اپنی جگہ کام کرتے  رہیں  لیکن ان پر سختیاں  برتی جاتی ہیں او ر جیل میں  جو سزائیں  دی جاتی ہیں  وہ مکمل طور پر وائسرائے  کے  دورانِ سفر بند رہیں  گی۔ اور تیسری بات یہ کہ قیدیوں  سے  یہ بتایا جائے  کہ اگر وہ شور و شرابا نہیں  کریں  گے او ر وائسرائے  کے  شایانِ شان ہی انتہائی انکساری کے  ساتھ اپنی گزارشات پیش کرنے  کی کوشش کریں  گے  تو حتی الامکان ان کو وائسرائے  کے  سامنے او ر قریب آنے  کی اجازت دی جائے  گی۔ یہ بھی دھیان رہے  کہ ان تمام قیدیوں  کو دور رکھا جائے  جو منھ پھٹ یا سر کش ہیں  بلکہ ان کو علاحدہ جگہ جمع کر کے  وائسرائے  کے  معائنہ سے  دور رکھا جائے۔ میٹنگ ختم ہونے  کے  بعد جیل کے  ملازمین انتہائی چستی اور پھر تی کے  ساتھ اپنی اپنی جگہوں  پر پہنچے او ر پورے  جزیرے  میں  ہر جگہ جیلر کی دی ہوئی ہدایات قیدیوں  کو سنائی جانے  لگیں۔

بیگم لارڈ میو صبح سویرے  ہی کمرے  سے  نکل کر ڈیک پر آ گئیں  تھیں۔ وہ ایک بے  چین روح کی طرح سمندر کو دیکھ رہی تھیں۔ جہاز کے  ایک عملے  نے  بتایا کہ آدھے  گھنٹے  کے  اندر جزائر دیکھنے  لگیں  گے۔ اسے  انگلستان کے  ساحلِ سمندر پر واقع اپنا گاؤں او ر محل یاد آیا جہاں  سے  سمندر گہرا نیلا دکھتا تھا اور اطراف میں  کئی جگہ اس کی سہیلیاں او ر اس کے  ملنے  جلنے  والے  رہتے  تھے  زندگی کیسے  مضبوط سے  مضبوط لوگوں  کو اٹھا کر اپنی مرضی سے  یہاں  وہاں  لے  جاتی ہے او ر وہ کچھ نہیں  کر پاتے۔ وہ لارڈ میو کے  ساتھ بہت خوش تھی لیکن اس زمین سے  اس کا کیا تعلق تھا اس کی سمجھ میں  نہیں  آتا تھا سوائے  اس کے  کہ انگریز قوم یہاں  دھن لوٹنے  آئی تھی اور اسے  اب اپنی کھیتی بنانے  پر کوشاں  تھی۔ کیا دولت ہی سب کچھ ہے او ر انسان کے  نازک احساسات خواہش اور ارمان کچھ بھی نہیں۔ اسے  خیال آیا کہ لارڈ میو تو اس لیے  خوش رہتا ہے  کہ وہ انتہائی مشغول ہے  لیکن وہ خود؟

اسے  خیال آیا کہ ان جزیروں  کا سفر بھی تو محض ایک خوبصورت تماشہ ہے۔ وہ جانتی تھی کہ قید خانوں  میں  کیا ہوتا ہے۔ اسے  معلوم تھا کہ اگر وہ ان جزیروں  پر اتری اور لارڈ میو کے  ساتھ گھومی تو قیدیوں  کے  اداس دکھ بھرے  رحم کی درخواست مانگتے  چہروں  کو دیکھ کر اندر سے  لرز جائے  گی اور اداس ہو جائے  گی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ قیدی بھی کسی سرکاری تانے  بانے  میں  متحرک مکڑیوں  کے  ذریعے  اپنے  گھروں  سے  اٹھا کر تنہائیوں  کے  ان سمندروں  کے  بیچ لائے  گیے  ہیں۔ اسے  محسوس ہوا جیسے  اس قیدیوں  کے  دکھ اور اس کے  اپنے  دکھ میں  مماثلت ہے۔ تھوڑی دیر میں  جزیرے  دکھنے  لگے  لیکن جزیروں  کو دیکھ کر جس مسرت کی وہ توقع کر  کر رہی تھی ویسا کچھ بھی نہیں  ہوا۔ اس کی سمجھ میں  اب یہ نہیں  آ رہا تھا کہ وہ قیدیوں  کی اس بستی کو دیکھنے  کے  سفر میں  اپنے  شوہر کے  ساتھ یہاں  آ گئی ہے۔ ایک عجیب سی مجبوری سرکاری معاملات میں  دخل نہ دینے  کی لیڈی لارڈ میو کو لگ بھگ عادت سی ہو گئی۔ اس کو مطلب تھا تو صرف اپنے  شوہر سے  جس سے  اس کی زندگی وابستہ تھی۔ جزیروں  پر نظر پڑتے  ہی اس کے  اندر ایک ابکائی سی آئی۔

وہ ابھی اپنے  اس احساس کو سمجھنے  کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ پیچھے  سے  قدموں  کی آواز آئی۔ اس نے  مڑ کر دیکھا لارڈ میو مسکراتا ہوا اس کے  پاس آیا۔

لارڈ میو۔ کتنی خوبصورت صبح ہے۔ کیا تمھیں  پسند آیا؟

لیڈی لارڈ میو۔ میں  بیمار سی محسوس کر رہی ہوں۔

لارڈ میو۔ فکر مت کرو۔ تم ان اَن دیکھے  جزیروں  میں  اتر کر تازہ دم ہو جاؤ گی۔ نئی جگہوں  کو دیکھنے  کا تجربہ بہت خوبصورت ہوتا ہے۔

لیڈی لارڈ میو۔ مجھے  شک ہے۔

لارڈ میو۔ اچھا چلو ناشتہ کر لیں۔ میں  پہنچتے  ہی نیچے  اترنا چاہتا ہوں او ر یہاں  کا دورہ آج ہی مکمل کر لوں  گا۔ پھر تمھیں  واپس کلکتے  پہنچا دوں  گا۔ تمہاری دوستوں  کے  درمیان۔

جزیرے  قریب آتے  جا رہے  تھے۔ بندر گاہ پر کھڑے  لوگ دکھائی دے  رہے  تھے  لیڈی لارڈ میو بے  دلی سے  پیچھے  مڑی اور لارڈ میو کے  ساتھ ساتھ چل دی۔ اپنے  کیبن میں  پہنچ گئی۔

لارڈ میو۔ تو تم ساتھ نہیں  آ رہی ہو؟

لیڈی لارڈ میو۔ نہیں۔ میرا جی نہیں  چاہ رہا ہے او ر تم جلدی سے  معائنہ ختم کر کے  آ جانا۔ مجھے  بہت الجھن ہو رہی ہے۔

لارڈ میو۔ اسی کو عورت کا دل کہتے  ہیں۔ او۔ کے  میں  جلدی جلدی فارغ ہو کر آ جاؤں  گا اور آج کی شام واپسی کے  سفر پر چل پڑیں  گے

لیڈی لارڈ میو۔ تم جاؤ۔ تم جاؤ۔ میں  تمہارا شام کا ناشتہ اپنی نگرانی میں  بنواؤں  گی اور تمہارا انتظار کروں  گی۔

دونوں  تیار ہو کر ناشتے  کے  لیے  نکل پڑے۔

ایک اوسط درجہ کی پہاڑی کے  اوپر کھڑے  ہو کر شیر علی نے  سمندر میں  کی طرف دیکھا۔ وہاں  جہاز جزیروں  کی طرف آ رہا تھا۔ ساتھ میں  ایک دوسرا جہاز بھی تھا۔ اس نے  غور سے  دیکھا۔ جہاز پر بڑا سا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس کے  پیچھے  پیچھے  ایک فوجی ٹکڑی چلی آ رہی تھی۔ جہاز ساحل کے  کنارے  آ گیا۔ شیر علی نے  اندازہ لگایا کہ یہی لارڈ میو کا جہاز تھا۔ فوجی وردی میں  تاجروں  کا ایجنٹ!پورے  منظر پر جیسے  خون کے  تازہ چھینٹے  بکھر گئے  ہوں او ر پورا سمندر اور سارے  پہاڑ سرخ ہو گئے۔ ایک معمولی انسان کے  دل میں  ایک تاریخی کارنامہ انجام دینے  کی خواہش جنم لے  رہی تھی۔

باہر جہاز چلتا ہوا کیپ ٹاؤن  کے  قریب لنگر انداز ہو گیا۔ بندرگاہ سے  چھوٹے  چھوٹے  بوٹ جہاز کی طرف دوڑ پڑے۔

شیر علی کا ذہن جیلر کے  احکامات کے  بارے  میں  سن کر اٹک سا گیا تھا۔ جب سے  اس نے  سنا تھا کہ لارڈ میو وہاں  آ رہا ہے  وہ لارڈ میو کے  چہرے  پر اس وقت پیدا ہونے  والے  تاثرات کو قریب سے  دیکھنا چاہتا تھا جب وہ معائنے  کے  دوران قیدیوں  پر ہونے  والے  مظالم اور اذیتوں  کے  بارے  میں  قیدیوں  سے  سنے  گا۔ لیکن جیلر کی تیاریوں  نے  اس کی امید پر پانی پھیر دیا تھا۔ قیدی پر جوش طور پر یہ امید لگائے  بیٹھے  تھے  کہ کچھ نہ کچھہ اچھا ہو گا۔ اس کا اندازہ ان کے  لہجے او ر آواز سے  بھی ہو رہا تھا جب وہ جوش میں  اپنی امیدوں  کا اظہار کر رہے  تھے۔ لیکن شیر علی جو ان قیدیوں  کا ایک نگراں  بن گیا تھا چپ چاپ صرف ان کی باتیں  سن رہا تھا۔ اپنے  نیک چال چلن کی بنیاد پر شیر علی کو بہت ساری مراعات جو کسی قیدی کو مل سکتی تھیں، ملی تھیں، اسے  شک کی نگاہ سے  نہیں  دیکھا جاتا تھا۔ جیل کا کوئی بھی ملازم اس سے  کوئی خطرہ محسوس نہیں  کرتا تھا۔ کئی بار جیلر نے  اسے  اپنے  دفتر میں  بھی بلایا تھا اور شیر علی مع اپنے  کام کرنے  کے  آہنی اوزاروں  کے  ساتھ اس کے  قریب تک گیا تھا لیکن جیلر کو اس سے  تنہائی میں  اس طرح ملنے  سے  کوئی تعمل نہیں  ہوا تھا۔ جیلر نے  اس سے  ذاتی طور پر کہا تھا کہ اگر قیدی اپنے  آپ کو قابو میں  رکھیں  تو ان کو وائسرائے  سے  رحم اور معافی کی گزارش کرنے  کا پورا پورا موقع دیا جائے  گا۔ یہیں  اس کا ذہن اٹک گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ چند قیدیوں  کو اگر نجات مل بھی گئی تو اس سے  کیا ہو گا۔ اصل بات تفصیل میں  وائس رائے  تک کیسے  پہنچے  گی۔ لیکن (لارڈ میو تو ایک دانشمند اور ہمدرد انسان ہے۔ اسے  خود بھی تو جاننے  میں  دلچسپی ہو گی اسے  یہ جیلر کیسے  روک سکے  گا۔ ) لارڈ میو کی حفاظت کے  لیے  ہر جگہ خاص انتظامات کیے  گیے  تھے۔ مسلّم محافظوں  کا دستہ بوٹ سے  اترتے  ہی ان کے  ساتھ ہو گیا تھا جو ان کے  سامنے  دائیں  بائیں او ر پیچھے  ٹکڑیاں  بنا کر چل رہا تھا۔ انتظامات میں  ان جگہوں  پر تحفظ کا خاص انتظام کیا گیا تھا جہاں  جیل گھر واقع تھا خاص طور سے  اہم تھا۔ یہاں  خطر ناک ترین مجرموں  سے  اس لیے  کام لیا جاتا تھا تاکہ کام کرنے  کے  ساتھ ساتھ ان کی نظریں  اس پر شکوہ پھانسی گھر پر بھی پڑتی رہیں  جہاں  سر کشی کرنے  والے  قیدیوں  کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ معائنہ کے  لیے  جگہوں  کی فہرست بن گئی تھی۔ دفتر کو دیکھنے  کے  بعد وائسرائے  کا قافلہ اس علاقے  میں  پہنچا جہاں  بیشتر قیدی کام کرتے  تھے۔ چلتے  ہوئے  وائس رائے  کے  پہنچنے  سے  پہلے  بگُل بجا اور قیدی بتائی گئی جگہوں  پر اپنے  اوزار چھوڑ کر راستے  کے  دونوں طرف کھڑے  ہو گئے۔ وائسرائے  اپنے  چہرے  پر حاکمانہ شان کے  جلوے  کے  ساتھ انسانی رشتوں  کا اظہار اپنی مسکراہٹوں  سے  کرتے  ہوئے  گزرنے  لگے او ر ان کے  محافظ دستے  قیدیوں  میں  اجازت لے  کر آگے  بڑھ کر درخواست دیتے  ہوئے  قیدیوں  کی درخواست لینے  لگے۔ ان درخواستوں  میں  یہ گزارش کی گئی تھی کہ وائس رائے  کے  اس دورے  کے  موقع پر رحم کا اظہار کیا جائے  اور انھیں  معاف کر کے  اپنے  وطن جانے  کی اجازت دی جائے۔ لارڈ میو کی مسکراہٹ نے  کشش کی ایک ایسی لہر دوڑائی کہ قیدیوں  نے  اس موقعے  کو غنیمت جانا اور بغیر اجازت وہ قریب آنے  کی کوشش کرنے  لگے۔ ہر آنکھ میں  امید اور ہر ہاتھ میں  التجا چیخ رہی تھی۔ شیر علی دور کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ایک قیدی جس کے  گھر پر اس کے  بوڑھے  ماں  باپ کے  علاوہ اور کوئی نہیں  تھا۔ چیخ کر یہ بات کہہ رہا تھا۔ اسے  ایک گارڈ نے  روکا اور ساتھ ہی ساتھ لا رڈ میو ہر چند کہ ان کی نظر اس چیخنے  والے  کی نظر سے  ملی، نے  اپنا سر دوسری طرف کی قطار کی طرف موڑ دیا۔ قیدی کا ہاتھ توبہ کے  لیے  ترستا رہ گیا۔

شیر علی کی نظریں  سارے  منظر کو بھول کر نیچے  جھک گئیں۔

اس دن جیسے  جزائر انڈمان نکوبار پر کوئی سورج اتر آیا تھا۔ اس معمولی چھوٹی سی جگہ پر بر صغیر کے  کسی فرماں  رواں  کا قافلہ اس کی تاریخ میں  پہلی بار اترا تھا۔ جدھر بھی لارڈ میو کی نگاہ اٹھتی تھی یوں  لگتا تھا کہ اس وادی کی تقدیر بدلنے  والی ہے۔ پہاڑیوں  پر نظر پڑتی تو دیکھنے  والوں  کو یہ محسوس ہوتا کہ وہ نئے  سرے  سے  آراستہ کی جائیں  گی۔ سمندر سے  ساحل پر آنے  والی لہروں  پر جب نظر پڑتی تو یوں  محسوس ہوتا جیسے  ان لہروں  کو پہلی بار دیکھے  جانا نصیب ہوا ہے۔ جگہ جگہ دور تک پولیس ڈیوٹی پر تعینات تھی جیسے  جیسے  لارڈ میو آگے  بڑھ رہا تھا آگے  آگے  میلوں  دور تک پہلے  خبر پہنچ جاتی کہ اب وہ آ رہا ہے  جیسے  لارڈ میو کے  قدموں  کی چاپ پوری وادی میں  حسن کے  جال میں  مسلسل جکڑتے  ہوئے  اسے  مد ہوش کرتی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں  یہ عالم تھا کہ وہ اپنے  ارد گرد کھڑے  محافظ دستوں او ر پولیس والوں  کی بھیڑ سے  اکتانے  لگا۔ سامنے  کے  مناظر اسے  چپکے  چپکے  اشارہ کرنے  لگے  کہ وہ اپنے او ر ان مناظر کے  بیچ کھڑے  محافظ دستوں  کو دور ہونے  کا حکم دے او ر ایسا ہی ہونے  لگا۔ لارڈ میو نے  محافظ دستوں  کی بھیڑپر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا جس سے  ڈیوٹی پر کھڑے  سپاہیوں  کو نظر نہ آنے  والی جگہوں  تک کھسک جانے  کا اشارہ کیا گیا۔ لارڈ میو قدرتی حسن کے  ساتھ ان قیدیوں  کے  ذریعہ اظہار کیے  جانے  والے  عزت واحترام کی مسرت سے  زیادہ سے  زیادہ محفوظ ہونے  لگا۔ قیدی لکڑی کے  بنے  پتلوں  کی طرح بے  جان تھے۔ ان سے  کیا ڈرنا جب کہ محافظ دستے  رائفلوں  کے  ساتھ پیچھے  پیچھے  چل رہے  تھے۔ لارڈ میو کے  چلنے  کے  لیے  جیل سپرنٹنڈنٹ نے  خچروں  کا انتظام کیا تھا جن کی پیٹھ پر کلکتے  سے  منگائے  گیے  زرق برق پوشاک ڈالے  گیے  تھے او ر جنھیں  سیرومونیل ڈریس میں  ملبوس سائس ساتھ میں  لے  کر چل رہے  تھے۔ لیکن ان جزیروں  کی مسرت آفریں او ر جاں  فضا ہواؤں  نے  اس کے  اوپر ایسا جادو کیا کہ وہ پیدل ہی تیز تیز مارچ کرتا رہا جیسے  تھکنے  کا نام نہ لیتا ہو لیکن اس کے  ساتھ چلنے  والا عملہ جن کے  ذہنوں  پر صرف ذمے  داری کا بوجھ تھا اور جنھیں  ان وادیوں  کے  بیچ لارڈ میو کے  علاوہ اور کچھ بھی دکھائی نہیں  دے  رہا تھا وہمختلف پہاڑیوں  پر سے  چڑھتے  اترتے  تھکنے  لگے  تھے۔ نہ جانے  کیوں  لارڈ میو کے  قافلے  کے  چند سربر آوردہ حکام کا اندیشہ ہونے  لگا کہ لارڈ میو بے  احتیاطی میں  سکیورٹی کے  جائز حدود کو یاد کر رہا ہے۔ ان لوگوں  میں  لارڈ میو کا بھائی جو اس کا پرائیویٹ سکریٹری تھا، بھی موجود تھا۔ اس نے  ہمت کر کے  اصرار کے  ساتھ لارڈ میو کو محتاط رہنے  کا مشورہ دیا۔ اس کے  اصرار پر بالآخر لارڈ میو نے  اپنے  ہاتھ میں  ایک ہنٹر لے  کر کہا کہ یہ اس کی حفاظت کے  لیے  کافی ہے او ر وہ ہنٹر کو دائیں  بائیں  گھماتا ہوا آگے  چلتا رہا۔

شام کے  پانچ بج گیے  تھے۔ سورج کی روشنی مدھم پڑتی جا رہی تھی پہاڑیوں  سے  لے  کر سمندر تک ہر چیز کا رنگ بدلتا جا رہا تھا جیسے  شام کی آمد آمد اس کو پر اسرار انداز میں  خوش آمدید کہہ رہی ہو۔ اب اس کی فہرست میں  صرف ایک کام رہ گیا تھا یعنی سامنے  کی پہاڑی ماونٹ ہیریٹ کی چوٹی پر جانا اور وہاں  ملیریا اور تپے  دق کے  مریضوں  کے  لیے  ایک سینی ٹوریم کی تعمیر کرنے  کی تجویز پر غور کرنا اور اس کے  امکانات پیدا کرنے  کے  لیے  ضروری مصارف کی منظوری دینا۔ لیکن اس کے  علاوہ لارڈ میو کے  دل میں  نہ جانے  کہاں  سے  ایک اور خواہش جاگ رہی تھی۔ جیسے  یہ وادیاں  اس کے  دل و دماغ پر اپنے  اسرار کی کھڑکیاں  رفتہ رفتہ کھول رہی تھیں۔ وہ اس پہاڑ کی چوٹی کے  اوپر بیٹھ کر وہاں  سے  سمندر وں  پار شام کے  ڈوبتے  ہوئے  سورج کے  منظر سے  محظوظ ہونا چاہتا تھا۔ اور ڈوبتے  سورج کا آنے  والا یہ منظر بھی لارڈ میو سے  کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اسی خیال میں  گم لارڈ میو نے  چوٹی کی جانب مڑتے  ہوئے  کہا۔

لارڈ میو۔ ابھی روشنی ختم ہونے  میں  ایک گھنٹہ باقی ہے۔ ’مجھے  وہاں  تک جانا ہے۔ ‘اس نے  چوٹی پر نظر ڈالتے  ہوئے  کہا۔ اس کے  اس جملے  نے  اپنے  پیچھے  کے  لوگوں  میں  طرح طرح کی سنسنی پیدا کر دی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ بے  حد تناؤ میں  آ گیا۔ مطلق العنان وائسرائے  سے  مزید کچھ کہنے  کہ ہمت کسی کی نہیں  پڑی۔ اس کا اشارہ حکم تھا۔ اور ماؤنٹ ہیریٹ کی چوٹی پر پہنچنا اور اس بلندی سے  ڈوبتے  سورج کی آخری کرنوں  کو دیکھنا جیسے  اس کی روح کی کسی بہت گہری پیاس کو بجھانے  والی تھی۔

ادھر جہاز پر لیڈی لارڈ میو بار بار جزیروں  کو دیکھتے  ہوئے  قافلے  کو تلاش کر رہی تھی۔ چاروں  طرف آفاق سے  رفتہ رفتہ تاریک سائے  اوپر اٹھ رہے  تھے  پہاڑوں  کے  سائے  میں  آتی سمندر کی لہریں  ڈراؤنا منظر پیش کرنے  لگی تھیں۔ لیڈی لارڈ میو بار بار جہاز کے  عملے  سے  یہ پوچھ رہی تھیں  کہ قافلہ کتنی دیر میں  واپس لوٹے  گا۔ اس کی نظریں  با ر بار ان وادیوں  میں  جا رہی تھیں  جن میں  خاموش اجنبی پہاڑیاں  تھیں۔ شام کے  اترتے  سائے  تھے او ر جابہ جا روحوں  کی طرح گھومتے  پھرتے  قیدی نظر آ رہے  تھے۔

ماونٹ ہیریٹ تک پہنچنے  کے  لیے  سمندر کے  اس حصے  کو بوٹ سے  پار کرنا تھا جو دور تک جزیروں  کے  اندر پھیلا ہوا تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے  فوراً پولیس کا ایک دستہ کیپ ٹاؤن جٹّی پر بھیجا۔ اسی درمیان وائسرائے  کا مخصوص بوٹ بھی وہاں  آ گیا اور قافلہ اس پر سوار ہو نے  کے  لیے  تیار ہو گیا۔ جہاز سے  آئے  ہوئے  لارڈ میو کے  بہت سے  دوست احباب وہاں  موجود کچھ کھانے  پینے  میں  مشغول تھے۔ بوٹ پر جانے  سے  پہلے  لارڈ میو انتہائی شگفتہ دلی کے  ساتھ لوگوں  سے  ملا جلا اور پھر ماونٹ ہیریٹ کی جانب دیکھتے  ہوئے  اس نے  ایک خاتون سے  کہا۔

لارڈ میو۔ آیئے  آپ کو وہاں  سے  سورج کے  غروب ہونے  کا بے  حد انوکھا منظر دیکھنے  کو ملے  گا۔

لوگوں  کو حیرت تھی کہ لارڈ میو دن بھر پیدل دور دراز تک گھومنے  کے  باوجود بھی اس قدر تازہ دم کیوں  ہے ؟لیکن جیسے  ان جزیروں  کی روح اس کے  اندر حلول ہو کر اسے  دیوانہ کر چکی تھی۔ ان میں  کئی لوگ اس کے  ساتھ ہو لیے۔ حالانکہ وہ سب بے  حد تھکے  تھکائے  واضح طور پر آرام کی ضرورت محسوس کر رہے  تھے۔ ماونٹ ہیریٹ پر چڑھتے  ہوئے  لارڈ میو نے  پیچھے  مڑ کر دیکھا۔ اس کا ذاتی محافظ بہت ہی تھکا دکھائی دے  رہا تھا۔ لارڈ میو نے  رک کر اس کہا۔

لارڈ میو۔ تم بہت تھک گئے  ہو۔ میرے  ساتھ آنے  کی کوشش مت کرو۔ یہیں  آرام کرو اور شام کی ان چلتی ہوئی ہواؤں  کا لطف لو۔

اسے  وہیں  چھوڑ کر لارڈ میو فوراً ماونٹ ہیریٹ کی بلند یاں  طے  کرنے  لگا۔ اسی دوران جیل سپرنٹنڈنٹ پہاڑی پر چڑھنے  کے  لیے  جلد ہی ایک خچر بھیجا۔

لارڈ میو۔ لیکن باقی لوگ تو پیدل چل رہے  ہیں۔ میں  کیسے  خچر پر چلوں ؟

ایک افسر نے  آگے  بڑھ کر کہا۔ ’’حضور والا آپ آرام سے  خچر پر بیٹھ کر جائیں  تاکہ وہاں  پہنچ کر ٹھیک سے  منظر کا لطف لے  سکیں۔ ہم آپ کے  پیچھے  دھیرے  سے  آئیں  گے ‘‘

لارڈ میو خچر پر بیٹھا لیکن اس کے  اندر نہ جانے  کیسی بے  چینی تھی کہ اسے  یہ سواری پسند نہیں  آئی۔ وہ کود کر خچر سے  نیچے  اتر آیا اور کچھ ہانپتی ہوئی آواز میں  اس نے  لوگوں  کو ٹالنے  کے  لیے  کہا۔

لارڈ میو۔ اب میری پیدل چلنے  کی باری ہے۔ تم میں  سے  کوئی خچر پر بیٹھ جائے۔

بالآخر یوں  ہی پہاڑی چڑھائی سے  پر جوشیلے  طریقے  سے  جھومتے  ہوئے  پتھروں  نالوں،پیڑوں،جھاڑوں او ر نالیوں  کے  درمیان سے  گزرتے  ہوئے  لارڈ میو ماونٹ ہیریٹ کی چوٹی پر پہنچ کر ایک صاف ستھرے  پر سکون پتھر پر بیٹھ گیا۔ اس نے  اپنی ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ ڈالی پھر دونوں  ہاتھوں  کی انگلیاں  ملاتے  ہوئے  اپنے  ٹخنے  کو پکڑا اور انتہائی پر سکون انداز میں  دائیں  سے  بائیں  پھیلی وادیوں  کو دیکھا۔ یہاں  تو دور دور تک بہت بڑی جگہ موجود ہے۔ ایک بار اس کی نظر نتیجے  بائیں  جانب وائیپر آئی لینڈ کے  پھانسی گھر پر بھی پڑی۔ ایک لمحے  کوٹ ھہری اور پھر دوسری سمتوں  کا محاسبہ کرنے  لگی۔

لارڈ میو۔ ان جزیروں  میں  کوئی بیس لاکھ قیدی آباد کیے  جا سکتے  ہیں۔

اس کے  بعد وہ چند لمحہ خاموش رہا۔ لوگوں  کی نظریں  اس کے  چہرے  پر ٹکی ہوئی تھیں  اس نے  سب کو دور ہونے  کا اشارہ کیا اور ممکن خاموشی اور خود فراموشی کے  عالم میں  دیر تک پچھم کی جانب چمکتے  رنگین بادلوں کے  سائے  میں  ڈوبتے  ہوئے  سرخ سورج کو افق کے  تاریک گود میں  اترتے  ہوئے  دیکھتا رہا۔ جب سورج کا آخر حصہ بھی افق میں  ڈوب گیا تو اچانک ایک عظیم تاریکی نے  پورے  منظر کو سیاہی مائل کر دیا۔ سمندر کی لہروں  کا رنگ بدل گیا۔ تیز ہوائیں  چلتی رہیں۔ جن کی بے  معنی آوازیں  دور پچھم دیشوں  کی کہانیاں  لارڈ میو کے  ذہن میں  بیدار کرنے  لگیں او ر اسے  محسوس ہوا کہ وہ اپنے  وطن سے  ہزاروں  میل دور اس وقت ایک ایسے  تنہا مقام پر ہے  جو اس کا نہیں  ہوتے  ہوئے  بھی اسے  اپنی کشش کی گود میں  اسطرح جکڑے  ہوئے  ہے  کہ اس کا جی چاہ رہا ہے  کہ اب تک وہ یہیں  بیٹھا رہے۔ اس کے  بعد وہ وہاں  سے  اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے  اٹھتے  دیکھ کر دور پیچھے  کھڑا عملہ بھی اسی کے  پاس آ کھڑا ہوا۔

لارڈ میو۔ یہ اتنا خوبصورت منظر میں  نے  اپنی زندگی میں  اس سے  پہلے  کبھی نہیں  دیکھا۔ آج مجھے  معلوم ہو رہا ہے  کہ خوبصورتی میں  کتنی طاقت ہے۔ اس منظر نے  تو میرے  اوپر جادو کر دیا۔

عملہ اس کی بات سنتا رہا لیکن عملے  کے  لوگوں  کی نظر وادیوں  میں  ابھر تے  ہوئے  اندھیروں  پر بھی جا رہی تھی۔

لارڈ میو۔ آؤ اب چلتے  ہیں۔ لارڈ میو نے  تھکی ہوئی مدھم آواز میں  کہا اور خود ہی آگے  بڑھ کر نیچے  اترنے  لگا۔

ابھی قافلہ کچھ ہی دور نیچے  اترا تھا کہ چاروں  طرف گھپ اندھیرا چھا گیا۔ ٹٹول ٹٹول چلتے  راستے  میں  ساحل کی چٹانوں  پر ٹکراتی سمندر کی لہروں  کی آواز صاف صاف سنائی دے  رہی تھی۔ سامنے  دور سمندر میں  کھڑا جہاز روشنیوں  میں  ڈوبا ہوا تھا۔ جہاز کے  ڈیک پر کھڑی لیڈی لارڈ میو بے  چینی سے  جزیروں  کے  اندھیروں  میں  گھور رہی تھی۔ لارڈ میو کی پارٹی کہاں  ہے  اس کا وہ اندازہ نہیں  لگاپا رہی تھی۔ سمندر کی تیز ہواؤں  کے  جھونکوں  سے  گلا سگو آگے  پیچھے  ڈول رہا تھا۔ اس کے  بازو میں  دائیں  بائیں  دونوں  چھوٹے  جہاز ڈاٹا اور اسکوٹیا لنگر انداز تھے۔ تینوں  جہازوں  پر موجود لوگ بھی اب پریشان ہو رہے  تھے  انھیں  اندھیروں  میں  موجود خطروں  کا اندیشہ بے  چین کر رہا تھا جو مہمان نیچے  رہ گیے  تھے  وہ ان جہازوں  پر جا چکے  تھے۔ نیچے  اب کوئی نہیں  تھا۔ صرف اندھیرے  میں  یہاں  وہاں  حفاظتی دستے  راستے  میں  تعینات تھے۔ ماونٹ ہیریٹ سے  نیچے  آتے  آتے  پوری طرح رات غالب آ چکی تھی۔ سات بج چکے  تھے۔

شیر علی اپنے  آپ سے  ہم کلام تھا۔

"پہاڑوں  کی خوبصورتی سے  متاثر ہو کر اپنے  ذوقِ حسن کی داد لینے  والے  لارڈ میو، تم پہاڑوں او ر ہواؤں او ر درختوں او ر آسمانوں،ڈوبتے  سورج، اور سمندر کی لہروں  کی خوبصورتی تو دیکھ سکتے  ہو۔ تم بگل اور شاہی سازوں  کے  معنی پر اپنے  اچھے  ذوق و مذاق سے  اپنے  تبصرے  دے  کر اپنے  ذوق کا ثبوت تودے  سکتے  ہو۔

لیکن تمہارا یہ ذوق حسن اس خوبصورتی کو کیوں  نہیں  دیکھ سکتا جو ان ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے  والوں  کے  دلوں  کی ہمت میں  ہے۔ جو ان کی شخصیتوں  کی کوششوں  میں  ہے ، جواس انسان کی ذات میں  ہے  جسے  قدرت نے  بڑے  سلیقے  سے  بنایا ہے۔ تم ان انسانوں  کے  دل و دماغ میں  رنگین کرنوں  کی طرح کوندتی آزادی اور غرور کے  جذبے  کو کیوں  مٹا دینا چاہتے  ہو۔ تمہارا ذوق اس حسن کو کیوں  نہیں دیکھتا۔ اس سے  کیوں  متاثر نہیں  ہوتا۔

تم اصل حسن کے  ذوق سے  ابھی کتنی دور ہو؟

تم ابھی انسانیت کے  حسن سے  کتنے  ناآشنا ہو؟

تم آنکھوں  سے  تو دیکھ سکتے  ہو۔

کانوں  سے  سن سکتے  ہو۔

چمڑے  سے  ہواؤں  کی سرسراہٹ اور خنکی کو محسوس کر سکتے  ہو۔

لیکن تم ان آنکھوں  کی چمک، ان میں  جھانکتی انسانی خواہش اور پکار کو کیوں  نہیں  دیکھ پائے  جب یہ انسانی آنکھیں  اپنی درد کو تمہارے  سامنے  پیش کرنے  تمہارے  ذوق کو پرکھ رہی تھیں ! تم کس قدر نادان لگ رہے  ہو، کس قدر بے  ذوق، غیر مہذب!

تم ان انسانی جسموں  میں انگڑائیاں  لیتی،اچھلتی کودتی، کوندتی خواہشات، تمناؤں، ارمانوں او ر ولولوں  کے  رقص اور دھن کو نہیں  سن سکتے۔ تم نے  اپنے  لیے  آزادی لینے  کا اور اپنی آزادی کی حفاظت کا سلیقہ ضرور سیکھا ہے۔ دوسروں  کو آزادی دینے  کا اور دوسری کی آزادی کے  احترام کا سلیقہ نہیں  سیکھا ہے۔

شیر علی برطانیہ کے  کسی ذمہ دار شہری کی طرح  اپنے  آپ سے  گفتگو کر رہا تھا۔ انقلاب فرانس کے  بعد والے  جدید انسان کی طرح۔

"ایک ایسی حکومت جو خود قانون کی قدر کرنا نہیں  چاہتی ہو اس کو خود مختاری اور راز داری کا کوئی حق نہیں  دیا جا سکتا۔ ورنہ وحشت کی ایک بہت بڑی مشین وجود میں  آ سکتی ہے۔ سرکار کو یا تو ایماندار ہونا چاہئے  یا پھر شفاف۔ دنیا میں  کسی ایسے  جرم کا تصور نہیں  کیا جا سکتا جو سرکاری اختیارات کے  بے  جا استعمال سے  بڑا ہو۔ کسی ایسی حکومت پر یقین کرنا اس وقت بند کر دینا چاہئے  جب اس کے  اعمال سے  بے  ایمانی کے  ثبوت نمایاں  ہونے  لگیں۔ قیدیوں  کی بدحالی کی طرف توجہ نہیں  دینا اپنے  آپ میں  حکومت کو زمین کا سب سے  بڑا مجرم پیشہ بنا دیتا ہے۔ ”

شیر علی سوچ رہا تھا۔

‘لارڈ میو ان جزائر میں  آ رہا تھا۔

لارڈ پلون جزائر میں  مریضوں  کا مسیحا بن کر آ رہا تھا۔

لیکن وہ اسی کے  ساتھ وہ شخص بھی تھا جو یہاں  کے  لوگوں  کو بیمار کرنے  کا ذمہ دار تھا۔ یہ وہ شخص تھا جو اس مشین کا مالک تھا جو کتنے  ہی لوگوں  کی بیماریوں  سے  موت کا ذریعہ بن گئی تھی۔

زمین پر کوئی ایسا نہیں  تھا جو لارڈ میو کو اس کے  سیاہ کارناموں  سے  روک سکتا تھا۔ اور اس کی سزا دے  سکتا۔ اس کے  اس کھیل کو روک سکتا جس میں  وہ خود ہی لوگوں  کو بیمار کرتا تھا اور خود ہی ان کا علاج کرتا ہے۔

لیکن وہ سزا کا مستحق ہے، شیر علی نے  سوچا۔

اسے  سزا ملنی چاہئے، شیر علی نے  اس فیصلے  کو اپنے  دل کی عدالت میں  انسانیت، دانشوری، فطری ذمہ داری کے  اصولوں  کی روشنی میں  لکھ دیا۔

لارڈ میو کو سزائے  موت ملنی چاہئے، یہ فیصلہ اس کے  ضمیر سے  ابھرا اور اس کے  دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔ ‘

وہ تیزی سے  خنجر اپنے  جیل کے  لباس میں  احتیاط سے  چھپائے  جٹی کی طرح بڑھ رہا تھا تاکہ وہاں  لارڈ میو کے  اترنے  سے  پہلے  پہنچ جائے۔

’’ وہ کسی بھی قیمت پر اسے  مارے  گا۔ ‘‘

لارڈ میو کے  محافظ اس پر شک نہیں  کریں  گے  کیونکہ وہ پھانسی پا کر جیل کے  عملہ کا خاص آدمی بن چکا ہے۔ انگریزوں نے  بھی اسی طرح خاص آدمی بن کر ہندوستان کے  حکمرانوں  کو مارا تھا مرنے  کا یہی راستہ ہے۔

بے  چینی سے  ماونٹ ہیریٹ کی جڑ کی طرف دیکھتی ہوئی لیڈی لارڈ میو کو لالٹینوں کے  ساتھ چلتا ہوا لارڈ میو کا چھوٹا سا قافلہ دکھائی دیا تو اس نے  سوچا کہ اب ایک معمولی سی دوری رہ گئی ہے او ر بس لارڈ میو چند لمحوں  میں  جٹّی پر پہنچے  گا اور بوٹ میں  بیٹھ کر جہاز پر آ جائے  گا۔ اس کی نظریں  وائس رائے  کے  پہنچنے  کے  آخری لمحوں  تک ادھر ہی ٹکی رہنا چاہتی تھیں۔ تا وقت کہ لارڈ میو اندھیروں  کو پار کرتا ہوا ان جزیروں  سے  نکلتا ہوا روشنیوں  سے  بھرے  جہاز پر آ جائے۔ وائس رائے  کے  جہاز پر واپس پہنچنے  کے  اس لمحے  کو وہ استقبالیہ میں  بدلنا چاہتی تھی۔ اس نے  بینڈ پارٹی کو رول برطانیہ کے  نغمے  کا دھن بجانے  کا حکم دیا جٹّی پر لگا ہوا چھوٹا بوٹ وائسرائے  کو لانے  کے  لیے  بھیجا گیا جٹّی پر بندھا ہوا پانی میں  ہلتا ہوا دکھائی دے  رہا تھا۔ لارڈ میو اب تھکے  قدموں  سے  اس کی طرف بڑھنے  لگا۔ اس کے  کانوں  میں  اب دھیرے  دھیرے  جہاز سے  پھیلتا ہوا استقبالیہ نغمہ سنائی دینے  لگا۔ جٹّی پر آ کر اس نے  آگے  ان سیڑھیوں  کو دیکھا جن سے  اتر کر اس کو بوٹ میں  سوار ہونا تھا۔ اور پھر اس نے  سیڑھیوں  سے  اترنے  کے  لیے  قدم بڑھائے۔ اسے  محسوس ہوا کہ ان جزیروں  کا سفر ان سیڑھیوں  کے  ساتھ ہی ختم ہو جائے  گا۔ اچانک اس نے  سیڑھی کے  بغل میں  کسی پتھر کے  کھسک کر گرنے  کی آواز سنی۔ اس نے  مڑ کر اس طرف دیکھا تو دو خوفناک آنکھیں  چمکتی ہوئی اس کے  اوپر بجلی کی طرح گریں او ر جیسے  کسی شیر نے  اسے  اپنے  پنجوں  میں  جکڑ لیا ہو۔ ایک مضبوط ہاتھ نے  اس کی گردن کو انتہائی مضبوطی سے  دبوچ لیا اور پھر اس کی شست میں  کھچ کی آواز کے  ساتھ ایک خنجر اس کے  جگر تک اتر گیا۔

پھر اسی سرعت کے  ساتھ بارہ محافظوں  دستہ حملہ آور پر ٹوٹ پڑا اور لارڈ میو کو اس مضبوط ہاتھ کی پکڑ سے  کھینچ کر باہر نکالا۔ اس سے  قبل کہ محافظ دستوں  میں  سے  کوئی حملہ آور کا مار دیتا ایک انگریز افسر نے  تلوار نکال کر سب کو ایسا کرنے  سے  روکا۔ اس شور شرابے  میں  لالٹینیں  ہاتھوں  سے  گر کر بجھ گئیں  تھیں  لارڈ میو شیر علی کی پکڑ سے  چھوٹ کر سیڑھیوں  کے  اوپر سے  نیچے ،پانی میں  گر گیا تھا۔ اندھیرے  میں  لڑکھڑاتے  ہوئے  سہارا لے  کر لارڈ میو اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے  ہاتھوں  سے  اس نے  اپنے  بالوں  کا پانی پوچھا جیسے  اب وہ کچھ سنبھل رہا ہو۔ اس کا پرائیویٹ سکریٹری بھی اب اس کے  پاس آ گیا تھا اور اسے  چلنے  میں  سہارا دے  رہا تھا۔

لارڈ میو۔ "بائرن”

اس نے  دھیرے  سے  کہا۔

"انہوں  نے  مجھے  زخمی کر دیا”

لارڈ میو کو سہارا دیتے  ہوئے او ر اس کے  بعد پھر اٹھا کر ایک چٹائی پر جٹّی کے  کنارے  لٹایا گیا

لارڈ میو۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔ مجھے  نہیں  لگتا کہ مجھے  گہرا زخم لگا ہے۔

چند لمحوں  بعد۔

لالٹینیں  دوبارہ جل چکی تھیں۔ اور اب سب کچھ دکھائی دے  رہا تھا۔ لارڈ میو کو چٹائی سمیٹ اٹھا کر ایک مختصر سے  دیہاتی کھاٹ پر لٹا دیا گیا تھا جس پر اس کے  پاؤں  کا اگلا حصہ نیچے  جھول رہا تھا اس کی پیٹھ سے  نکلتا خون زمین پر ٹپکتا رہا۔ لارڈ میو نے  آہستہ سے  کہا۔

لارڈ میو۔ میرے  سر کو ذرا اور اوپر اٹھا دو۔

لارڈ میو کے  کھاٹ کو بوٹ میں  رکھ کر جانے  لگا سب کو معلوم تھا کہ یہ لارڈ میو نہیں  صرف اس کا جسم ہے۔

تھوڑی دور پر رسیوں  میں  بندھے  شیر علی کو ایک کھمبے  میں  جکڑ دیا گیا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں  اس کھاٹ کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جیسے  ہی اندھیرے  میں  ڈوبے  پانی میں  بوٹ جٹّی سے  چھوٹ کر آگے  بڑھا جہاز پر گھنٹے  بجنے  لگے۔ بوٹ اس جہاز کے  پاس پہنچا جہاں  مہمان پہلے  سے  پہنچے  ہوئے  سمندر کی تازہ تازہ شکار کی ہوئی مچھلیوں  کے  لذیذ دستر خوان پر چہل پہل کے  ساتھ بے  چینی سے  لارڈ میو کا انتظار کر رہے  تھے۔ اسی دوران قافلے  میں  شامل ڈاکٹر نے  لارڈ میو کے  آخری سانس ختم ہونے  کی تصدیق کر دی۔ جہاز پر کھڑے  لوگوں  نے  دیکھا کہ بوٹ کی بتّیاں  اچانک گل ہو گئی ہیں۔ بوٹ آ کر جہاز سے  لگ گیا۔ اب وہاں  سے  لارڈ میو کا کھاٹ اٹھایا جا رہا تھا۔ لارڈ میو کی لاش کو اس کے  کیبن میں  لا کر اس کے  بستر پر لٹا دیا گیا۔ پورے  جہاز پر سوار چھ سو لوگوں  پر عمیق خاموشی طاری ہو گئی۔

جہاز پر لہراتا ہوا پرچم سرنگوں  ہو گیا۔

جھکے  ہوئے  جھنڈے او ر لارڈ میو کے  مردہ جسم کے  ساتھ جہاز تیزی سے  سمندر کی لہروں  کو پھلانگتا ہوا کلکتے  کی جانب چل پڑا۔ رسیوں او ر زنجیروں  میں  بندھا ہوا شیر علی جسے  ایک کھمبے  میں  باندھا گیا تھا اس آسمان کی طرف دیکھتا رہا جس کے  سائے  میں  جہاز واپس کلکتے  کی طرف جا رہا تھا۔ اور اسے  محسوس ہوا جیسے  وہ جہاز ان لمحوں  میں  اس کا پیغام بر بن گیا تھا۔

’’انسان لارڈ میو اور شیر علی سے  عظیم تر ہے ‘‘ اس نے  جیسے  چیخ کر اس جزیرے  کی وادیوں  میں  بھاگتی ہواؤں  سے  کہا۔ اس کے  ارد گرد بھاری بوٹ پہنے او ر سنگین لگی رائفل لٹکائے  سپاہی پتنگوں  کی طرح کاٹ رہے  تھے۔

ایسی باتیں  کیوں  ہوتی ہیں۔ اتنے  عظیم لوگ ناکام کیوں  ہو جاتے  ہیں  کہ بار بار انسانوں  کا خون دریا کی طرح بہتا ہے۔

oo

 

 

 

 

 

بہت سے  لوگ زنجیروں  میں  بندھے  شیر علی کے  ارد گرد جمع کر دیا تھا۔ ایک وائسرائے  کے  قتل نے  اسے  قاتل ہوتے  ہوئے  بھی اہم اور اس کے  مقام کو قابلِ رشک بنا دیا تھا۔ اب اس کے  منھ سے  نکلنے  والا ایک ایک لفظ اہم اور انتہائی بامعنی ہو گیا تھا۔ سبھی اس کو ذاتی طور پر پہچانتے  تھے۔ وہ سب کو ذاتی طور پر دوستی کی حد تک جانتا تھا۔ وہ لوگ کہ رہے  تھے۔

’تم نے  ایک شریف النفس انسان کو قتل کر دیا۔ ‘

’’ تم نے  ایک شریف النفس انسان کو قتل کیا ہے ، کیا تم یہ بتا سکے  ہو کہ لارڈ میو کی کیا غلطی تھی کہ تم نے  اس کو ہلاک کر دیا؟ اس کی بیوی کو بیوہ اور بچوں  کو یتیم کر دیا۔ کیا سوچا ہو گا اس شخص نے  جب تم نے  اس کو چاقو مارا ہو گا، لارڈ میو وہ شخص تھا کہ جس نے  یہاں  کے  قیدیوں  کے  حقوق محفوظ کئے۔ وہ تم لوگوں  کے  لیے  ایک ہسپتال بنانے  کے  لیے  آتا تھا۔ اس نے  تمہارے  اوپر بھروسہ کیا اور تمہارے  بیچ کھلے  دل سے  آیا اور تم نے  اس کے  بدلے  اسے  چاقو مارا۔۔۔  تم غدار اور باغی لوگ واقعی غدار ہو، تم وفاداری اور انسانیت کو نہیں  جانتے ‘‘

شیر علی نے  جواب دیا۔

’’ میں  نے  لارڈ میو کو نہیں، حکومت برطانیہ کو چاقو مارا تھا۔

’اگر انگلستان کے  شہری ہوتے  تو کیا کرتے ؟ وہاں  کے  پر ائم منسٹر کو خنجر مارتے  یا نہیں۔ ‘

’پھر یہ تم نے  کیا سوال کر دیا۔ مجھے  لگتا ہے  تم نے  میرے  دل کی بات سمجھ لی۔ کاش میں  برطانوی حکومت کا غلام نہیں  بلکہ شہری ہوتا مجھے  لارڈ میو کے  خون سے  ہاتھ دھونے  کی ضرورت نہیں  پڑتی میں  اس سے  بھی زیادہ نتیجہ خیز کام کرتا ہوں۔ میں  کمپنی بہادر کی حمایت کرنے  والی حکومت کو ایسے  خنجر سے  مارتا کہ خون کا ایک قطرہ نہیں  ٹپکتا۔

سپاہی، میں  نے  یہاں  جیل سے  بہت سوچا ہے، رات بھر سوچا ہے۔ میرے  جیسے  آدمی کے  لیے  جان سے  ہاتھ دھونے  کا فیصلہ آسان نہیں  ہوتا۔ انسان کی زندگی اس کی سب سے  بڑی دولت ہوتی ہے او ر میں  نے  اس دولت کو قربان کرنے  کا فیصلہ کیا۔ میں  نے  اس قید کے  خلاف کبھی احتجاج نہیں  کیا،، میں نے  جیل کی سختیوں  کے  خلاف کبھی احتجاج کیں میں  نے  جیل کی ہر جائز نا جائز سختی کو افسروں  کی مجبوری سمجھ کر برداشت کیا لیکن جب سے  مجھے  یہ احساس ہوا کہ یہ حکومت مکار ہے او ر اپنے  اقتدار کا استعمال تجارتی مفاد کے  لیے  کر رہی ہے  اس دن سے  نہ صرف میرے  دل سے  اس کے  لیے  احترام مٹ گیا بلکہ یہ میرے  لیے  ناقابل برداشت ہو گئی۔ انسان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے  جو ہر تجارتی اور سیاسی مکاری کے  خلاف اس کی حفاظت کرے۔ جس پر وہ آنکھ بند کر کے  بھروسہ کر سکے۔ اور وہ چپکے  چپکے  تاجروں  کے  لیے  ہمارا استحصال کرتی ہے۔ یہ ہماری پھانسیاں، یہ سارا زورو کوب، کالا پانی کی سزا۔ یہ حکومت کا حصہ نہیں دھندا ہے۔ یہ انسانوں  کے  جسم اور جان کالا پانی انسانوں  کا خون چو سنے  والی ایک مشین ہے، لارڈ میو یہاں  ہماری صحت کی غرض سے  یہاں  ہاسٹل کھولنے  آیا تھا، تاکہ اس کی مشین بہتر طریقے  سے  چل سکے۔ اس کے  دل میں  ہمارے  لیے  ہمدردی نہیں  لالچ تھا۔ وہ یہاں  اب ہماری تعداد بڑھانا چاہتا تھا۔ وہ یہاں  بیس لاکھ انسانوں  کو لانا چاہتا تھا کس کے  لیے  دنیا کی کون سی حکومت اپنے  شہریوں  کو ان کے  وطن سے  اجاڑ کر اپنی ضرورت کے  مطابق بسانا چاہتی ہے۔ یہ حکومت کا کام نہیں۔ حکومت پوری طرح تاجروں  کے  دستِ قدرت میں آ چکی ہے۔ حکومت خود ایک قیدی بن چکی ہے، جواب تاجروں  کی سنگینوں  کے  اشارے  پر چلنے  پر مجبور ہے۔ اگر میں  برطانوی شہری ہوتا تو برطانوی پارلیمنٹ میں  پہنچ کر حکومت کے  ان غاصبوں کا خاتمہ کرتا لیکن میں  تو محض کالا پانی کے  اس مشین کا ایک پرزہ تھا اس لیے  مجھے  خنجر اٹھانا پڑا۔ ‘

برطانوی سپاہی شیر علی کا جواب سن کر بھو نچکا رہ گیا۔ اسے  لگا کہ اس جنونی دکھنے  والے  ہندوستان پٹھان نے  آج پہلی بار اس پر جمہوریت کا معنی کھولا ہے۔ تھوڑی دیر کے  لیے  وہ بھول گیا کہ وہ ایک مجرم سے  بات کر رہا ہے۔ اسے  پنے  سامنے  صرف لارڈ میو وائسرائے  کا قاتل دکھ رہا تھا۔

’’ اگر اس شخص کے  پاس حق رائے  دہندگی ہوتی تو لارڈ میو کا قتل نہیں  ہوتا۔ ‘‘

کیمپ میں  دوسرے  قیدی محوِ گفتگو تھے۔

اس نے  دراصل اس حکومت کو چاقو مارا تھا۔ جو ہمیں  غلام بنانے  کے  لیے  مسلسل اپنی طاقت،اپنا دباؤ اور اپنی ترکیبی تیز تر کر رہی ہے  جو ہمارے  اوپر طاقت، خوف، لالچ اور ہر قسم کے  حربے  استعمال کر کے  غلام بنانا چاہتی ہے۔۔۔  لارڈ مایو ذاتی طور پر ایک شریف انسان ہو سکتا ہے۔۔۔  لیکن جس طرح میدانِ جنگ میں  سپاہی کی ذاتی شرافت اور خاندانی حالات کو مد نظر نہیں  رکھا جا سکتا اسی طرح حکمراں  پہلے  حکمراں  ہوتا ہے او ر اسکو حکومت کے  حوالے  سے  پہچانا جائے  گا اور اس سے  ٹکراتے  ہوئے  اس کی ذاتی خوبیوں  کا لحاظ نہیں  رکھا جا سکتا۔ میں  غدار تو نہیں  لیکن باغی ضرور ہوں، اور باغی سے  اپنے  کو محفوظ رکھنا حکومت کا کام ہے۔ یہ میری خطا، میرا جرم نہیں  کہ میں  نے  لارڈ میو کو مار دیا۔ یہ لارڈ میو اور ان کی حکومت کی خطا ہے  کہ اس نے  ایسے  انتظامات نہیں  کیے  کہ وہ لارڈ میو کی حفاظت کر سکتی۔ اگر لارڈ میو بے  خوف اور کھلے  دل سے  ہم قیدیوں  کے  بیچ آیا تو یہ اس کی شرافت اور نیک دلی نہیں  بلکہ اس کی بیوقوفی اور نادانی اور نا اہلیت تھی۔

اور جو حکمراں  اتنے  نا اہل ہیں  ا ن کا اگر قتل ہوا ہے  تو اس میں  باغی مجرم نہیں  کہ باغی کا باغی ہونا اپنی جگہ درست ہے۔ جرم اور غلطی حکمراں  کی ہے۔ اور ہر حکمراں  جانتا ہے  کہ جب وہ دوسروں  کو غلام بنانے  کی کوشش کرتا ہے  تو اس میں  کیا خطرات ہوتے  ہیں۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو اس کے  لیے  وہ لا پرواہ سیکورٹی فورس ذمہ دار ہے ،اور نالائق ہے ، میں  نہیں  ہوں۔ ‘‘

اور اگر تم مجھے  پھانسی کی سزا دینا چاہتے  ہو اگر تم مجھے  اس بات کی سزا دینا چاہتے  ہو کہ میں  نے  حکمراں  کو مارا ہے  تو تم ان انگریزوں  کو بھی سزا دو جنھوں  نے  بہادر شاہ سے  دھوکے  سے  حکومت چھین لی تھی۔

یا پھر تم یہ تسلیم کرو کہ تم بھی غلط تھے او ر ہم بھی غلط ہیں، مجھے  صرف یہ کہنا کہ ہم اس لیے  غلام بنائے  جانے  کے  قابل تھے  کہ ہم نا اہل تھے، کافی نہیں  ہے۔ جنگیں  ہار جانے  سے  نا اہلی نہیں  ثابت ہو جاتی۔

تم نے  تیل کی ان چکیوں  میں  ہندوستان کے  جنگ آزادی کے  سورماؤں  کو جوت رکھا ہے  یہ دکھانے  کے  لیے  کہ یہ مجرم ہیں، ناکارہ ہیں، اگر تمہاری پوری فوج لارڈ میو کو ایک انسان سے  نہیں  بچا سکی تو تمہاری پوری فوج سے  اگر مغل بار گئے  تو کیا ہوا؟

لارڈ اپنے  جانے  مانے  دشمن سے  اپنے  کو نہیں  بچا سکا تو ہندوستان کے  شریف النفس بادشاہ انگریزوں  سے  دھوکا کھا گئے  تو کیا ہوا۔ دھوکا میں  نے  نہیں  کیا کہ میں  نے  دوستی کا ہاتھ بڑھا کر چاقو نہیں  مارا۔ دھوکا تم نے  دیا تھا کہ تم نے  دوست بن کر ہمارے  اسلاف کو دھوکا دیا۔

اگر کوئی ایک بات لارڈ میو کی موت کی ذمہ دار ہے  تو یہ لارڈ میو کی یہ غلط فہمی ہے  کہ آزادی کے  احساس سے  لبریز لوگ دباؤ اور اذیت میں  دب کر ٹوٹ جائیں  گے۔ غلام بن جائیں، آزادی سب سے  عزیز شئے  ہے او ر اس کے  لیے  تو ہم جھوٹ بولنے ، چوری ڈکیتی کرنے ، گویا کچھ بھی کرنے  کو تیار ہیں۔

اگر تم لارڈ میو کی موت سے  کوئی ایک سبق یاد رکھنا چاہئے  ہو تو یاد رکھو کہ جو قومیں  آزادی کی لذت سے  آشنا ہو جاتی ہیں  ان کی فطرت بدل جاتی ہے۔ اور ان کو لالچ یا خوف کسی بھی چیز سے  دوبارہ غلام نہیں  بنایا جا سکتا۔ عدالتی کار روائی سے  واپس لاتے  ہوئے  ایک ہندوستانی سپاہی نے  شیر علی سے  کہا: ’’یہ ایک شریف النفس اور نیک انسان تھے، وہ ہماری فلاح کے  سلسلے  میں  جذباتی حد تک وابستہ تھے۔ مرتے  وقت انھوں نے  کیا محسوس کیا ہو گا کہ انھیں  ان لوگوں  نے  قتل کیا،جن کی بھلائی میں  وہ کوشاں  تھے۔ سچ تو یہ ہے  کہ ہندوستان کی تاریخ بھی ان کو ایک شہید اور تم کو ایک خونخوار قاتل کے  طور پر یاد کرے  گی۔ ‘‘

شیر علی کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ اس کی سانس کسی گہری سوچ کے  بعد تیز ہو گئی۔ اس کی آنکھوں  میں  ایک غار سا بن گیا۔ لیکن پھر وہ سنبھل گیا۔ سپاہی کی طرف دیکھتے  ہوئے  اس نے  پوچھا: ’’تو پھر میں  کس کو مارتا؟‘‘

’’اب تو مار چکے  ہو،پہلے  سوچا ہوتا اور پوچھا ہوتا تو کچھ اور ہی بات ہوتی۔ دشمن تو پیچھے  کھڑا تھا۔ ‘‘سپاہی نے  گہری سوچ میں  ڈوب کر کہا۔ ’’کون؟‘‘ شیر علی نے  اسے  غور سے  دیکھا۔

’’وہ جس نے  تم کو اکسایا۔ ‘‘

شیر علی کی سوچ میں  گڑبڑ پیدا ہو گئی۔

’’ایک بات تو بتاؤ۔ ‘‘سپاہی نے  محبت سے  پوچھا۔

شیر علی اسے  دیکھنے  لگا۔

’’ اگر تمہارے  پیغمبرؐ صاحب تمھیں  خواب میں  دکھ جاتے  تو وہ تمھیں  اس کی اجازت دیتے ؟ایک اتنے  معصوم اور نیک انسان کے  قتل کی اور وہ بھی اس انداز میں۔ بغیر مقدمہ چلائے، بغیر صفائی کا موقع دیے۔ اللہ نے  اس کے  دل میں  نیکی کی شمع ڈالی تھی۔ تم نے  اسے  بجھا دیا۔ ‘‘

’’تومیں  دوزخی ہوں، جہنمی ہوں۔ ‘‘

’’بے  شک دوزخی ہو۔ لیکن ایک بات کہوں،شیر علی اب سرد پڑ گیا تھا۔ سپاہی نے  کہا:’’قیامت کے  دن تم کو سزا دینے  سے  پہلے  خدا اس مقتول سے  پوچھے  گا۔ لارڈ کی روح سے او ر وہ تمھیں  معاف کر دے  گا۔ مجھے  یقین ہے  وہ تمھیں  معاف کر دے  گا۔ پھر خدا بھی تم کو معاف کر دے  گا۔ یہ مقتول سمجھتا تھا کہ دوزخ کی آگ کہیں  کیسی ہے۔ اس نے  کالا پانی کے  اس دوزخ کی آگ کو محسوس کر لیا تھا جو اصل دوزخ سے  بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ اس میں  معصوم لوگ ڈالے  جاتے  ہیں۔ تبھی وہ یہاں  اپنے  ہاتھوں  سے  کچھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ بڑی دیر تک جیل کی سلاخوں  کے  آر پار بیٹھے  ہوئے  باتیں  کرتے  رہے۔ ایک بے  پروا ہوا مسلسل جنگلوں میں  چلتی رہی۔ پھانسی گھر پر اندھیرا چھایا ہوا تھا اور جیلر کے  مکان کے  سامنے  کی فوجی ٹکڑی اور بھی مستعد ہو گئی تھی۔

oo

 

 

 

 

رات کی چکی میں  جذبۂ شہادت سے  لبریز خواب نیست و نابود ہو چکا تھا۔ لیکن رات کے  آخری پہر پٹھان جاگ اٹھا۔ ’تم نے  آنکھوں  پہ کالی پٹی باندھ کر اور ہماری زندگی ہماری نظروں  سے  دنیا کو ہمیشہ کے  لیے  دور کر دیا ہے۔ ہمارے  دوسرے  ساتھی قیدیوں  سے  دور لا کر پھانسی کے  پھندے  پر لے جاتے  ہوئے  تم یہ سمجھتے  ہو کہ اب میری آواز صدا بہ صحرا اور صرف ایک بے  معنی بکواس ہے ، اب میرے  نعروں  پر بھی تم کو ہنسی آئے  گی جن نعروں  کا ذکر تاریخ میں  کبھی نہیں  آ سکے  گا الفاظ میں  جن کی قیمت مجھ سے  بہتر تم جانتے  ہو کہ یہ بھی صدا بہ صحرا ہیں۔

لیکن میں  تم پر صرف ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں  کہ یہ آوازیں  جو میری زبان سے  نکل رہی ہیں  وہ صدا بہ صحرا نہیں، وہ بے  معنی نہیں، وہ تو ایک گونج ہیں، عکس ہیں، روشنی کی وہ انمٹ کرن ہیں۔ پھول سے  نکلی ہوئی وہ خوشبو ہیں  جو اپنے  ڈھول، اپنے  چراغ، اپنے  چمن سے  دور ہو گئی ہیں۔ لیکن جنھوں  نے  اپنی جھنکار، اپنی چمک اور خوشبو کو کھویا نہیں  ہے۔ یہ چمک،یہ جھنکار یہ خوشبو،اس اعلیٰ درجہ کی ہیں جو تنہائی میں  بھی زندہ رہنا جانتی ہیں، یہ نعرہ، جو نعرہ میں  لگا رہا ہوں ، یہ نعرہ نعرہ نہیں، صرف گونج ہے، میری فنا اس نعرہ کی فنا نہیں،اس گونج اس چراغ، اس پھول اس چمن کی فنا نہیں  جس سے  میں  نکلا ہوں۔ انسان تو پھول ہے، کھلتا ہے  مرجھانے  کے  لیے  لیکن چمن باقی رہتا ہے۔ انسان کو ایک خبر ہے،اس تاریخ، اس تہذیب، اس تمدن، اس روایت کی جو کبھی مرتے  نہیں۔ انسان تو وقتی ہے ، لیکن تہذیبیں  دائمی ہیں، جنگیں  لڑی جاتی ہیں، یہ جان کر کہ جب جنگ ختم ہو گی تو کافی لوگ اس فیصلہ کو، اس ملک اس سلطنت اور اس کے  پرچم کو دیکھنے  کے  لیے  باقی نہیں  رہیں  گے۔ انھیں  یہ بھی پتہ نہیں  ہوتا کہ فتح ان کی فوج کی ہو گی یا دوسروں  کی او ر ان کے  خواب تعبیر بنیں  گے  یا مر جائیں  گے۔ لیکن سپاہی جنگ لڑتے  ہیں او ر جرأت سے  لڑتے  ہیں۔ اس لیے  کہ جنگ سپاہی نہیں  لڑا کرتے  بلکہ جنگ خواب لڑا کرتے  ہیں  مقاصد لڑا کرتے  ہیں، اور سپاہی خود کچھ نہیں  ہوتا، وہ خواب، وہ مقصد ہی سپاہی کو پیدا کرتے  ہیں۔ تہذیبیں  عظیم ہیں او ر تہذیبوں  کی لڑائیاں  دن اور مہینوں  میں  نہیں  بلکہ صدیوں  میں  ہوتی ہیں، نسل در نسل ہوتی ہیں۔ کبھی دشمن حاوی ہو جاتے  ہیں،اور کبھی خود ہم حاوی ہو جاتے  ہیں، ہمارے  کسی سپاہی کو دشمن مار دیتا ہے، اور دشمن کے  کسی سپاہی کو ہم مار دیتے  ہیں۔ جنگیں  یوں  ہی ہوا کرتی ہیں  ہم تو اس جنگ کے  سپاہی ہیں  جو دو تہذیبوں  کے، دو قوموں  کے  درمیان لڑی جا رہی ہے۔ ہم تو وہ سپاہی ہیں  جن کی تلواریں  ٹوٹ گئیں  ا ور جن کو قید کرنے  میں  تم کامیاب ہو گئے۔ لیکن ہماری تہذیب کی لڑائی تم سے  ہندوستان کے  گوشے  گوشے  میں ہو رہی ہے۔ شہروں  کی بھیانک خاموشی میں  جنگ کی دھڑکن موجود ہے۔ دیہاتوں  کی اجڑتی بستیوں  میں کشمکش جاری ہے۔ زبانوں،تہذیبوں، فن اور ادب کے  محاذ پر جنگ جاری ہے۔ عدالتوں  میں، جیلوں  میں، پھانسی گھروں  میں، حتی کہ جزائر انڈمان کی اس طویل ویران اور بھیانک سناٹوں  میں  بھی یہ جنگ جاری ہے۔ تاریخ کا قلم بڑا عجیب و غریب ہے۔ تاریخ ہمارے  ان نعروں  کو لکھ نہیں  سکتی لیکن محسوس کر سکتی ہے۔ اور محسوسات کو لکھ سکتی ہے۔۔ ہماری تہذیب نے  اپنی ساری کوششوں، ساری تربیتوں  ساری تعلیم، اور صدیوں  کے  تجربات سے  ہم کو جو شئے  دی ہے۔ اور جو ہماری تہذیب کا اصل مقصد رہی ہے۔ وہ ہے  وہ انسانی معیار جس بلندی پرہم نے  جانے او ر رہنے  کی کوشش کی ہے۔ اور وہ معیار ہی ہماری اس فانی زندگی کا مقصد ہوا کرتی ہے او ر وہ معیار ہے  خدا کے  علاوہ کسی دوسری طاقت کے  سامنے  سجدہ نہ کرنا، اپنی خود داری، اور اپنی آواز کو باقی رکھنا۔ تمہاری ساری اذیت جو تم ہم کو اس لیے  دے  سکتے  ہو کہ ہمارا جسم تمہارے  قبضے  میں  ہے، ہم سے  ہماری اصل دولت کو نہ چھین سکے۔ تم نے  ہمارے  جسم میں  جونک لگا دئے ، تم نے  ہمارے  جسموں  کو کنکھجوروں  کے  زہریلے  ڈنک سے  زہر آلود کر دیا اور تم خوش ہوئے  اس لیے  کہ تمہاری غلامانہ طبیعت اور تہذیب تم کو یہی تربیت دیتی ہے او ر بتاتی ہے  کہ انسان جسم کا غلام اور عکس ہے۔ ہم اس جسمانی تکلیف کو، ایک محنت، ایک مشقت صرف مشقت سمجھتے  ہیں،اور ہم اپنے  مقصد کو حاصل کرنے  کے  لیے  اس مشقت کو سہنے  کے  عادی ہیں۔ اور مجسم کو زندگی اور شخصیت نہیں  بلکہ زندگی اور شخصیت کو قائم رکھنے  کا ایک ذریعہ سمجھتے  ہیں، جسم ہماری سواری ہے، ہماری راہ، ہماری منزل نہیں۔

تم یہ سمجھتے  ہو کہ تم میری زندگی کا خاتمہ کر کے  میری زندگی کا چراغ گل کر دو گے۔ اور تم یہ نہیں جانتے  کہ ہمارے  نزدیک زندگی سانسوں کا نام نہیں، روز و شب کا نام نہیں، زمینوں، پہاڑوں،سورج،چاند، دیا، زمین اور جنگلوں  کا نام نہیں، بچوں، عورتوں او ر اہل و عیال کا نام نہیں، ہمارے  نزدیک زندگی کا مطلب وہ عظیم خواب ہے  جس سے  ہم منسلک ہوتے  ہیں۔ وہ غرور ہے ،وہ ناز ہے ، جو ہمیں  اپنی تہذیب اور اپنے  تمدن پر ہوتا ہے، وہ یادیں او ر عظیم لمحے او ر ان عظیم لمحوں  کا سرور ہے۔ جو ہماری تمام کاوشوں  کا مرکز ہے  وہ بلندی ہے  جس بلندی پر ہم زندہ رہتے  ہیں او ر مرتے  ہیں، اس بلندی پہ ہم پیدا ہوئے  تھے۔ اس بلندی پہ رہنے  میں  ہم کامیاب ہو گئے۔ اس بلندی پر ہی ہمارا خاتمہ ہو رہا ہے ، فرد کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ آنکھوں  کا خاتمہ ہو رہا ہے  ہماری قیمت، ہماری بلندی جو مرتے  وقت باقی ہے  وہ باقی رہے  گی۔

تم نے  شاید یہ سوچا تھا کہ تم ہم کو اپنے  تباہ کن نظام کی بگھی کھینچنے  والا گھوڑا بنا سکو گے۔ تم نے  شاید یہ سوچا تھا کہ جب ہم کو اپنے  جسم اور روح اور اپنے  نعروں او ر خوابوں  میں  سے  کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے  گا تو ہم یہ سوچ کہ یہ ہمارے  نعرے او ر خواب تو محض خواب ہیں، اور اب انڈمان کی اس مجبور و محصور تنہائی میں  ان خالی بے  معنی خوابوں  کے  لیے  اپنے  جسم اور روح کو برباد کرنا ہے  بے  سود اور بیوقوفی ہو گی لیکن تم کو یہ معلوم نہیں  کہ یہ خواب فرد کے  خواب نہیں  بلکہ ایک بڑا خواب ہے  او ر یہ معیار جو میرے  ساتھ ہے  اس معیار کا کسی ملک یا سماج سے  اور کسی جگہ سے  تعلق نہیں، اور ان کا کسی سماج اور تنہائی سے  مطلب نہیں  یہ آزاد ہیں ، یہ ایک چمک ہے ،ایک آبرو ہے او ر ہم اپنی آبرو کے  لیے  باقی رہنا چاہتے  ہیں اور مرنا چاہتے  ہیں۔

میری اس طویل اور زندگی کی آخری گفتگو کا مطلب صرف یہ ہے  کہ میں  پھانسی کے  پھندے  پر جاتے  ہوئے  تم کو صرف یہ بتلا دوں  کہ تم میری زندگی کے  اس آخری لمحہ سے  بھی بہت کچھ سیکھ سکتے  ہو، کہ زندگی زندگی کی عظمت تجارت سے  نہیں  ہوتی، دولت سے  نہیں  ہوتی، جنگیں  جیتنے او ر ملک فتح کرنے او ر اپنے  مخالفین کو قید کرنے او ر ان کے  جسموں  کو اذیت دینے  سے  نہیں  ہوتی، زندگی کی عظمت یہ ہے ، یہ خود داری، یہ اٹل سچائی جو تم ابھی دیکھ رہے  ہو اور تاریخ کی سب سے  بڑی اور سب سے  اٹل سچائی یہی ہے۔ یہی سچائی کہ کون سی تہذیب کتنے  مضبوط کردار پیدا کرتی ہے  کہ اس کے  افراد تنہائیوں  میں  بھی اپنے  وقار اور اپنے  اصولوں  کو باقی رکھتے  ہیں او ر تمہاری طرح تنہائیوں  میں  اپنے  نقلی لبادوں  کو اتار کر ننگے  نہیں  ہو جاتے ! ہم تو صرف یہ جانتے  ہیں او ر ہمارے  آباء و اجداد نے  تو ہم کو پیدا کرنے  کے  بعد یہ تعلیم دی کہ ہم نے  تم کو اس لیے  پیدا کیا کہ تم یہ یاد رکھو کہ شیر کی موت ٹکڑوں  پہ پلنے  والے او ر ظالم حکمرانوں  کے  سامنے  دم ہلانے  والے  سرکاری نوکروں، اور جلادوں  کی زندگی سے  ہزار گنا بہتر ہے  پھانسی کا پھندا کھینچ دو۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ ہمیں  یہ پھندے  ماریں  گے ، تمھیں  موت مارے  گی۔ اگلی صدی میں  نہ ہم ہوں  گے ، نہ تم ہو گے ،تمہاری تہذیب تمہارے  لیے  ، ہماری تہذیب ہمارے  لیے  !!بھیج دینا میرا یہ پیغام لارڈ میو کے  تابوت کے  ساتھ لکھ کر بھجوا دینا اپنے  اخباروں میں  اور کہنا اپنے  ملک کے  ایوانِ حکومت کے  اراکین سے  کہ وہ محسوس کریں  کہ معصوموں  کے  قتل سے  کتنا درد پیدا ہوتا ہے۔

جذبات سے  اس کی آواز رندھ گئی۔ جلاد نے  کہا: شیر علی کی آنکھوں  میں  آنسو تھے۔

صبح ایک رپورٹ جیل سے  تیار ہو کر لندن بھیج دی گئی

’ دہشت گرد قاتل شیر علی کو آج صبح ساڑھے  چار بجے  پھانسی دے  دی گئی۔

کیا  میں صحیح نوٹ کر رہا ہوں۔ خالد نے  انٹرنیٹ پر دوبارہ میوزیم کی لائبریری میں  جو لندن کی ایک قدیم عمارت میں  واقع تھی۔ اس بوسیدہ ٹیلی گرام کو پڑھا جو اب ڈیجیٹل تصویر کی شکل میں  تھا۔ اس نے  اپنے  نوٹ کو درست کر لیا کیونکہ وہاں  صرف اتنا لکھا تھا:

Sher Ali was hanged to death on this day.

ممکن ہے  دہشت گرد کا لفظ میڈیا نے  استعمال کیا ہو۔ لیکن شیر علی تو صرف قاتل تھا۔ البتہ وہ  پوری برطانوی سلطنت میں  دہشت کی ایک زبردست لہر ضرور پیدا کرنا چاہتا تھا۔

شاید یہی اس کے  آخری الفاظ تھے  جو اس نے  ہلکے  لیکن با وقار لہجہ میں  نعرے  کی طرح ادا کیے۔

پھر پھانسی کا تختہ کھینچ دیا گیا، اور ایک لاش رسی پر جھول رہی تھی۔

oo

 

 

 

 

 

اور پھر کئی برس گزر گئے۔

اور وہ جلاد بھی اور زیادہ شراب پینے  کی وجہ سے  مرگیا۔

عمر رفتہ رفتہ کی رو میں  رفتہ رفتہ وہ تمام لوگ جو قید تھے، اور وہ تمام لوگ جو جیل کے  مالک تھے، سب فنا ہو گئے، خاک میں  مل گئے۔ صرف چاتھم اور وائپر اور انڈمان کے  دوسرے  جزیرے  باقی رہے۔

زمانہ ایک صدی سے  زیادہ آگے  آ چکا ہے