فہرست مضامین
- دریا جل گیا
- رئیس فروغ
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- کہہ رہے تھے لوگ صحرا جل گیا
- سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
- اک اپنے سلسلے میں تو اہل ِ یقیں ہوں میں
- اوپر بادل نیچے پربت بیچ میں خواب غزالاں کا
- پھول زمین پر گرا، پھر مجھے نیند آ گئی
- راتوں کو دن سپنے دیکھوں، دن کو بِتاؤں سونے میں
- آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں، سپنوں میں بکھرا دینا
- کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- رئیس فروغ
- لورکا سے ایک بند
- منتخب اشعار
دریا جل گیا
رئیس فروغ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
کہہ رہے تھے لوگ صحرا جل گیا
پھر خبر آئی کہ دریا جل گیا
دیکھ لو میں بھی ہوں، میرا جسم بھی
بس ہُوا یہ ہے کہ چہرہ جل گیا
میرے اندازے کی نسبت وہ چراغ
کم جلا تھا، پھر بھی اچّھا جل گیا
شارٹ سرکٹ سے اُڑی چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
آگ برسی تھی بدی کے شہر پر
اک ہمارا بھی شناسا جل گیا
میں تو شعلوں میں نہایا تھا فروغ
دور سے لوگوں نے سمجھا جل گیا
٭٭٭
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے، ہم اپنے کام سے
نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل، سیٹیاں بجا
شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے
غصّے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے
میں بھی بھرا ہُوا ہوں بہت انتقام سے
دشمن ہے ایک شخص بہت، ایک شخص کا
ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے
میرے تمام عکس مرے کرّ و فر کے ساتھ
میں نے بھی سب کو دفن کیا دھوم دھام سے
مجھ بے عمل سے ربط بڑھانے کو آئے ہو
یہ بات ہے اگر، تو گئے تم بھی کام سے
ڈر تو یہ ہے ہوئی جو کبھی دن کی روشنی
اُس روشنی میں تم بھی لگو گے عوام سے
جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ
میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے
٭٭٭
اک اپنے سلسلے میں تو اہل ِ یقیں ہوں میں
چھ فیٹ تک ہوں، اس کے علاوہ نہیں ہوں میں
روئے زمیں پہ چار ارب میرے عکس ہیں
اِن میں سے میں بھی ایک ہوں، چاہے کہیں ہوں میں
ویسے تو میں گلوب کو پڑھتا ہوں رات دن
سچ یہ ہے اک فلیٹ ہے، جس کا مکیں ہوں میں
ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ
اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں
جانے وہ کوئی جبر ہے یا اختیار ہے
دفتر میں تھوڑی دیر جو کرسی نشیں ہوں میں
میری رگوں کے نیل سے معلوم کیجیئے
اپنی طرح کا ایک ہی زہر آفریں ہوں میں
مانا مری نشست بھی اکثر دلوں میں ہے
اینجائنا کی طرح مگر دل نشیں ہوں میں
میرا بھی ایک باپ تھا، اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا، وہیں ہوں میں
٭٭٭
اوپر بادل نیچے پربت بیچ میں خواب غزالاں کا
دیکھو میں نے حرف جما کے نگر بنایا جاناں کا
پاگل پنچھی بعد میں چہکے پہلے میں نے دیکھا تھا
اُس جمپر کی شکنوں میں ہلکا سا رنگ بہاراں کا
بستی یوں ہی بیچ میں آئی اصل میں جنگ تو مجھ سے تھی
جب تک میرے باغ نہ ڈوبے زور نہ ٹوٹا طوفاں کا
ہم املاک پرست نہیں ہیں پر یوں ہے تو یوں ہی سہی
اک ترے دل میں گھر ہے اپنا باقی ملک سلیماں کا
رنج کا اپنا ایک جہاں ہے اور تو جس میں کچھ بھی نہیں
یا گہراؤ سمندر کا ہے یا پھیلاؤ بیاباں کا
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لُوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
٭٭٭
پھول زمین پر گرا، پھر مجھے نیند آ گئی
دُور کسی نے کچھ کہا، پھر مجھے نیند آ گئی
ابر کی اوٹ سے کہیں، نرم سی دستکیں ہوئیں
ساتھ ہی کوئی در کھُلا، پھر مجھے نیند آ گئی
رات بہت ہوا چلی، اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا، پھر مجھے نیند آ گئی
اور ہی ایک سمت سے، اور ہی اک مقام پر
گرد نے شہر کو چھُوا، پھر مجھے نیند آ گئی
اپنے ہی ایک رُوپ سے، تازہ سخن کے درمیاں
میں کسی بات پر ہنسا، پھر مجھے نیند آ گئی
تُو کہیں آس پاس تھا، وہ ترا التباس تھا
میں اُسے دیکھتا رہا، پھر مجھے نیند آ گئی
ایک عجب فراق سے، ایک عجب وصال تک
اپنے خیال میں چلا، پھر مجھے نیند آ گئی
٭٭٭
راتوں کو دن سپنے دیکھوں، دن کو بِتاؤں سونے میں
میرے لیے کوئی فرق نہیں ہے، ہونے اور نہ ہونے میں
برسوں بعد اُسے دیکھا تو، آنکھوں میں دو ہیرے تھے
اور بدن کی ساری چاندی، چھُپی ہوئی تھی سونے میں
دھرتی تیری گہرائی میں، ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صرف ہُوا جاتا ہوں، کنکر پتھر ڈھونے میں
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے، ویسے آؤ تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو، اِدھر اُدھر کسی کونے میں
سائے میں سایہ اُلجھ رہا تھا، چاہت ہو کہ عداوت ہو
دور سے دیکھو تو لگتے تھے، سورج چاند بچھونے میں ٭٭٭
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں، سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں رُوپ تمہارے، جیتے جی دکھلا دینا
رات اور دن کے بیچ کہیں پر، جاگے سوئے رستوں میں
میں تم سے اک بات کہوں گا، تم بھی کچھ فرما دینا
اب کی رُت میں جب دھرتی کو، برکھا کی مہکار ملے
میرے بدن کی مٹی کو بھی، رنگوں سے نہلا دینا
دل دریا ہے دل ساگر ہے، اس دریا اس ساگر کی
ایک ہی لہر کا آنچل تھامے، ساری عمر بتِا دینا
ہم بھی لے کو تیز کریں گے، بوندوں کی بوچھار کے ساتھ
پہلا ساون جھولنے والو، تم بھی پینگ بڑھا دینا
فصل تمہاری اچھی ہوگی، جاؤ ہمارے کہنے سے
اپنے گاؤں کی ہر گوری کو، نئی چُنریا لا دینا
ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ، دو جلتے گھر اگر کہیں
تنہا تنہا جلتے ہوں تو، آگ میں آگ ملا دینا
آج کی رات کوئی بیراگن، کسی سے آنسو بدلے گی
بہتے دریا اُڑتے بادل، جہاں بھی ہوں ٹھہرا دینا
جاتے سال کی آخری شامیں، بالک چوری کرتی ہیں
آنگن آنگن آگ جلانا، گلی گلی پہرہ دینا
نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے، سبھی کے سیوک ہوتے ہیں
کوئی ناگ بھی آ نکلے تو، اُس کو دودھ پلا دینا
تیرے کرم سے یارب سب کو، اپنی اپنی مراد ملے
جس نے ہمارا دل توڑا ہے، اُس کو بھی بیٹا دینا
یہ مرے پودے، یہ مرے پنچھی، یہ مرے پیارے پیارے لوگ
میرے نام جو بادل آئے، بستی میں برسا دینا
آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے، ویسے جی بہلانے کو
شام ہوئے پر نیلے پیلے، کچھ بیلون اُڑا دینا
اوس سے بھیگے شہر سے باہر، آتے دن سے ملنا ہے
صبح تلک سنسار رہے تو، ہم کو جلد جگا دینا
٭٭٭
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں، اتنا برا تو میں بھی ہوں
خرام ِ عُمر، ترا کام پائمالی ہے
مگر یہ دیکھ، ترے زیر ِ پا تو میں بھی ہوں
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو، جلا تو میں بھی ہوں
تلاش ِ گُم شدگاں میں نکل چلوں، لیکن
یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہُوا تو میں بھی ہوں
مرے لیے تو یہ جو کچھ ہے، وہم ہے لیکن
یقیں کرو نہ کرو، واہمہ تو میں بھی ہوں
زمیں پہ شور جو اتنا ہے، صرف شور نہیں
کہ درمیاں میں کہیں بولتا تو میں بھی ہوں
عجب نہیں کہ مجھی پر وہ بات کھُل جائے
برائے نام سہی، سوچتا تو میں بھی ہوں
میں دوسروں کے جہنّم سے بھاگتا ہوں فروغ
فروغ اپنے لیے دوسرا تو میں بھی ہوں
٭٭٭
لورکا سے ایک بند
ایک تھا گھوڑا بہت بڑا
جو پانی سے ڈرتا تھا
وہ کالا کالا پانی
گھنے درختوں کے نیچے
پل کے پاس
ٹھہر ٹھہر کے گاتا تھا
کسے خبر ہے
چشمے نے
ہرے بھرے میدانوں کے
لمبے چوڑے ہاتھوں میں
کیا رکھا تھا
سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا
جنھیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو
وہ شاخیں کاٹ لانا پھر انھیں زیب ِ گُلو کرنا
تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے ، کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
غم ِ نا آگہی، جب رقص ِ وحشت کا خیال آئے
کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لا کر وضو کرنا
رفوگر، چاند نکلا ہے، نہ تارے ہیں، نہ جگنو ہیں
رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا
نئے چہروں سے ملنے کے لیے کیا شکل بہتر ہے
پرانے پیرہن پر رنگ کرنا، یا لہو کرنا
٭٭٭
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ برے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر
باتوں کے لئے شکوہ موسم ہی بہت ہے
کچھ اور کسی سے نہ کہا کر نہ سنا کر
سونے دے انھیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں
آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر
تو صبح بہاراں کا حسین خواب ہے پھر بھی
آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر
٭٭٭
منزلوں سے شکستہ پا گزرے
جلوہ جلوہ ادا ادا گزرے
آج موج سرور یوں گزری
جس طرح کوئی سانحہ گزرے
داغ دل تو مہک ہی اٹھتا ہے
تم گزر جاؤ یا صبا گزرے
دل کی راہیں کسی پہ بند نہیں
اجنبی ہو کہ آشنا گزرے
ساغر و لب کے درمیاں بھی کئی
مرحلے صبر آزما گزرے
ہم سے کچھ فاصلے پہ کتنے ہی
دلبران گریز پا گزرے
میں جو خود میں سمٹ کے بیٹھ رہوں
راستوں پر نہ جانے کیا گزرے
٭٭٭
درو دیوار سجائے میں نے
جیسے دیکھے نہیں سائےمیں نے
سخت برہم تھیں ہوائیں پھر بھی
ریت پر پھول بنائے میں نے
میرے آنگن کی اداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
پھر کسی خواب رمیدہ کے لئے
نیند کے جال بچھائے میں نے
جب سمندر میں تلاطم نہ رہے
اپنے گرداب بنائے میں نے
تیری تصویر جو دیکھی اس بار
رنگ پھیلے ہوے پائے میں نے
دھوپ نے اور جلایا تو فروغ
اور کچھ پیڑ لگائے میں نے
٭٭٭
فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے
یہ شام ہے کہ کوئی فرش پائمال سا ہے
ترے دیار میں کیا تیز دھوپ تھی لیکن
گھنے درخت بھی کچھ کم نہ تھے خیال سا ہے
کچھ اتنے پاس سے ہو کر وہ روشنی گزری
کہ آج تک در و دیوار کو ملال سا ہے
کدھر کدھر سے ہواؤں کے سامنے آؤں
چراغ کیا ہے مرے واسطے وبال سا ہے
کہاں سے اٹھتے ہیں بادل کہاں برستے ہیں
ہمارے شہر کی آنکھوں میں اک سوال سا ہے
سفر سے لوٹ کے آئے تو دیکھتے ہیں فروغ
جہاں مکاں تھا وہاں راستوں کا جال سا ہے
٭٭٭
راہوں کے پیچ خود ہی نکلتے چلے گئے
چلنا تھا جن کا کام وہ چلتے چلے گئے
نظریں ملیں تو ایک اندھیرا سا چھا گیا
پھر دور تک چراغ سے جلتے چلے گئے
آئی جو ایک ساعت برہم گرفت میں
حالات کروٹیں سی بدلتے چلے گئے
کچھ راستہ سرور صعوبت میں طے ہوا
کچھ دور زخم پا سے بہلتے چلے گئے
غم خواری جہاں کا ارادہ ہی رہ گیا
دن اپنی دیکھ بھال میں ٹلتے چلے گئے
لو شمع انجمن کی جو بڑھتی چلی گئی
دیوار و در بھی رنگ بدلتے چلے گئے
جس جس سے لغزشوں کا سہارا لیا فروغ
ہم ہر نئے قدم پہ سنبھلتے چلے گئے
٭٭٭
میں تو جلتا رہا، پر مری آگ میں
ایک شعلہ ترے نام کا بھی رہا
شہر میں سب سے چھوٹا تھا جو آدمی
اپنی تنہائیوں میں خدا بھی رہا
زندگی یاد رکھنا، کہ دو چار دن
میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا
تم سے جب گفتگو تھی، تو اک ہم سخن
کوئی جیسے تمہارے سِوا بھی رہا
٭٭٭
منتخب اشعار
اپنی انا کا جال کسی دن پاگل پن میں توڑوں گا
اپنی انا کے جال کو میں نے پاگل پن میں بُنا بھی ہے
روشنیوں پر پاؤں جما کر چلنا ہم کو آئے نہیں
ویسے در ِ خورشید تو ہم پر گاہے گاہے کھُلا بھی ہے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
شہر میں ایک ذرا سے کسی گھر کی خاطر
اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر سکتے
عشق وہ کار ِ مسلسل ہے، کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
شکایتیں ہی کرے گا کہ خود غرض نکلے
وہ دل میں کوئی بُلٹ تو نہیں اُتارے گا
لوگ اچھے ہیں بہت، دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
کیا رہے گا میرے خوابوں کا حساب
میں کسی آغوش ِ بے پروا میں ہوں
یہ کیسا جبر ِ سِن و سال درمیاں آیا
سو اس فضا میں ستارے سے کیا ستارہ ملے
موج در موج مفاہیم بہا کرتے تھے
وہی دریا ہیں مگر ہو گئے مہمل کیسے
دشت سے دُور سہی، سایۂ دیوار تو ہے
ہم نہ ٹھہریں گے، کوئی اور ٹھہر جائے گا
داغ رہنے کے لیے ہوتے ہیں، رہ جائیں گے
وقت کا کام گزرنا ہے، گزر جائے گا
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں، لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے، مر جائے گا
گلیوں میں آزار بہت ہے، گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سنّاٹے تک میرا حال تماشا ہے
دھوپ مسافر، چھاؤں مسافر، آئے کوئی، کوئی جائے
گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں، آنگن ہے یا رستہ ہے
زخموں سے بچاؤں کیا بدن کو
کانٹے تو لباس میں سِلے ہیں
مجھ سے مری رات بھی خفا ہے
مجھ سے مرے دن کو بھی گِلے ہیں
یوں خاک اُڑا رہا ہوں گھر میں
جیسے مرے ساتھ قافلے ہیں
کیا جانیئے کس دیئے کے پیچھے
کن روشنیوں کے سلسلے ہیں
ماتھے پہ جو زخموں کا دو راہا سا بنا ہے
یہ آدمی احساس کی سائیکل سے گرا ہے
پاگل کوئی کہتا تھا کہ سورج سے لڑوں گا
وہ اب تری دیوار کے سائے میں پڑا ہے
آدرش کو سینے سے لگائے ہوئے میں نے
لکھا ہے اگر شعر، تو فاقہ بھی کیا ہے
کچھ اتنے پاس سے ہو کر وہ روشنی گزری
کہ آج تک درودیوار کو ملال سا ہے
کدھر کدھر سے ہواؤں کے سامنے آؤں؟
چراغ کیا ہے مرے واسطے وبال سا ہے
سفر سے لوٹ کے آئے تو دیکھتے ہیں فروغ
جہاں مکاں تھا وہاں راستوں کا جال سا ہے
گرم زمیں پر پھر آ بیٹھے، خشک لب ِ محروم لیے
پانی کی اک بوند نہ پائی، بادل بادل گھوم لیے
سج رہے ہوں گے نازک پودے، چل رہی ہوگی نرم ہوا
تنہا گھر میں بیٹھے بیٹھے ، سوچ لیا اور جھوم لیے
آنگن کی مانوس فضا میں ، خوابوں نے زنجیر بُنی
بعد میں جھک کر اپنے سائے، دیواروں نے چوم لیے
خون تو خاک ہُوا، داغ ہے وہ بھی موہوم
کس کو پہچان ہے، نقش ِ کف ِ پا کہہ دینا
ہم نے اپنایا درختوں کا چلن
خود کبھی بیٹھے نہ اپنی چھاؤں میں
جب سے تمہارا ساتھ ہُوا ہے
روز ذرا سے جل جاتے ہیں
چکنے فرش پہ گھر والے بھی
بعض اوقات پھسل جاتے ہیں
لڑکیاں، روشنیاں، کاریں، دکانیں، شامیں
انہی چیزوں میں کہیں میرا بدن ہے لوگو
مجھ کو تری نازکی کا احساس
دوران ِ وصال بھی رہے گا
جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں
نقد ِ مرگ عطا ہوتا ہے، صلہ کہوں انعام کہوں
اپنا حال نہ جانے کیا ہے، ویسے بات بنانے کو
دنیا پوچھے درد بتاؤں، تُو پوچھے آرام کہوں
اک شور ہے بدن میں کہ اب وصل بھی کرو
کیسی یہ میرے عشق کے پیچھے بلا لگی
تُو نے تو میگھ راج کو نہلا کے رکھ دیا
ساون کی ایک شام ترے ہاتھ کیا لگی
گھر جو آباد کیا ہے تو یہ سوچا میں نے
تجھ کو جنّت میں رکھوں، آپ جہنّم میں رہوں
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں، پھر ترے ماتم میں رہوں
دست ِ دُعا میں شعلۂ نایاب دیکھنا
ہر شب ہمیں چمکتے ہوئے خواب دیکھنا
صحرا کی زندگی میں ہمارے تو عیش ہیں
دن کو غزال، رات کو مہتاب دیکھنا
خم ِ جادہ سے میں پیادہ پا کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا
کہیں دُور جیسے دھواں اُٹھے، کسی بھولی بسری سرائے سے
اُٹھی موج ِ درد تو یک بیک، مرے آس پاس بکھر گئے
مہ ِ نیم شب کے اِدھر اُدھر، جو لرز رہے تھے کنائے سے
مرے کارزار ِ حیات میں، رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے، کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں
دیکھ لیا تھا خواب پرایا
ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے
ملی سڑک پہ تو باد ِ صبا سے کچھ نہ کہا
یہی خیال، کہ برسے تو خود برس جائے
سو عمر بھر کسی کالی گھٹا سے کچھ نہ کہا
وہ راستوں کو سجاتے رہے، انھوں نے کبھی
گھروں میں ناچنے والی بلا سے کچھ نہ کہا
میں نے بھی ایک حرف بہت زور سے کہا
وہ شور تھا مگر کہ کسی نے سنا نہیں
ویسے تو یار، میں بھی تغیّر پسند ہوں
چھوٹا سا ایک خواب مجھے بھولتا نہیں
ذرا بھی تیز ہُوا شعلہ ء نوا تو یہ لوگ
یہی کہیں گے کہ درویش بے ادب ہے میاں
بلند بانگ ترے نغمہ گر ہزار سہی
ہمارے پاس تو اک حرف ِ زیر ِ لب ہے میاں
مرے چراغ، کہ جن کا کوئی شمار نہیں
سب ایک ساتھ ہی جل جائیں، بات جب ہے میاں
صبح کے ساتھ عجب لذّت ِ دریوزہ گری
رات بھر سوچتے رہنے کی تھکن سے آئے
ایسے ظالم ہیں مرے دوست، کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
اونچی مسہریوں کے دھُلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں سوئے تھے، مر گئے
کیا پوچھتے ہو یار، کہ سیدھی سی بات ہے
جو لوگ راستوں میں نہیں ہیں، وہ گھر گئے
آنکھ جو ہم کو دکھاتی ہے وہ ہم کیا دیکھیں
دیکھنا ہے، تو کسی خواب سے کم کیا دیکھیں
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں، ہم سے نہ ملا کر
شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر
یوں خاک اُڑا رہا ہوں گھر میں
جیسے مرے ساتھ قافلے ہیں
کیا جانیئے کس دیئے کے پیچھے
کن روشنیوں کے سلسلے ہیں
یہ مرا ہمزاد ہاکر تو نہیں؟
بیچتا پھرتا ہے سایہ دھوپ میں
تپ رہا ہے ریگ زار ِ زندگی
یار، کیوں کرتے ہو جھگڑا دھوپ میں
گھر میں صحرا ہے، تو صحرا کو خفا کر دیکھو
شاید آ جائے، سمندر کو بلا کر دیکھو
تم نے خوشبو سے کبھی عہد ِ وفا باندھا ہے؟
روشنی کو کبھی بستر میں لٹا کر دیکھو
٭٭٭
انٹر نیٹ سے ماخوذ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید