FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دھرانی دیوی

 

 

               نامعلوم

 

 

میں ان دنوں پٹنہ کے ایک گاؤں میں سکول ٹیچر تعینات ہوا تھا۔ مگر سارا دن مکھیاں مارتا رہتا۔ وہاں لوگ کچھ بھی کرتے مگر پڑھتے نہ تھے۔

جب فراغت کی تھکن سے چور، میں اس چوبارے میں واپس لوٹتا تو بھی پاؤں پسار کر سونے کا لطف کبھی نہ ملتا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اول تو یہ کہ میں جس چوبارے میں ” پے انگ گیسٹ ” کی حیثیت سے رہ رہا تھا۔ اس کی لینڈ لیڈی کی پورے گاؤں میں کسی نہ بنتی تھی۔ وہ لڑ لڑا کر ” زیریں ایوان ” میں لوٹتی تو ایوان بالا ” آدم بو، آدم بو ” کو خوفناک و سراسیمہ نعروں سے لرز اٹھتا۔

” ٹھاہ ٹھاہ ” مختلف چیزیں راگ الاپ اٹھتیں اور میں دم دبا کر چوبارے کے ” ذیلی کنس ” پر جا ڈھیر ہوتا۔ یہ کنس دراصل منڈیر کے درمیان بنا ہوا اوپن ” جھروکہ ” تھا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اس جھروکے میں بیٹھ جانے کے گناہ کی پاداش میں مجھے لال بابو پاسوان کے ” شیش محل ” میں جھانکنا پڑ جاتا تھا۔

میری تھکن کی دوسری اور اصل وجہ یہی پاسوان فیملی تھی۔

کہنے کو تو لال بابو ” پاسوان کٹیا ” کا مالک و مختار تھا۔ مگر حق ملکیت سے اسے کوئی علاقہ نہ تھا۔ لے دے کے پورے گھر میں ، جو دو جھلنگا چارپائیاں تھیں وہ آٹھ نو نفوس کا بوجھ اٹھاتی تھیں۔

میں جب بھی جھروکے سے نیچے جھانکتا۔ لال بابو بڑی ذمہ داری سے کھانسی کا فریضہ انجام دے رہا ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے اس نے پوری ازدواجی زندگی میں کھانسنے اور بچے پیدا کرنے کے سوا، کوئی دوجا کام نہیں کیا تھا۔

پٹنہ کے اس گاؤں کی مسموم فضا نے میرے اندر باہر تنفر اور کراہت کا احساس بھر دیا تھا۔

کہاں میں ، پنجاب کے گاؤں میں پلا بڑھا کڑیل نوجوان اور کہاں صوبہ بہار کا وہ مریل سا افلاس گزیدہ گاؤں۔ ۔ ۔ جہاں جا کر، مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پیٹ کے ساتھ ” پاپی ” کی صفت کیوں لگائی جاتی ہے؟  اسے نرکھ کہا کیوں جاتا ہے ؟ پٹنہ کے اس گاؤں میں ، نہ کسی کا پیٹ بھرا ہوتا اور نہ زمین سے بھوک کا جنازہ اٹھتا تھا۔

کیونکہ فساد جرم کی اصل جڑ ” پیٹ کا پاپ ” ہے۔ شاید میں یہی فلسفہ حیات سیکھنے ، بلکہ برتنے یہاں چلا آیا تھا۔ حالانکہ وہاں میرے لئے دلچسپی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ہاں سرفراز نے فلسفے کو میرے اندر ضرور بھر دیا تھا۔ اس دن بھی میں ، مالکہ مکان کا ” بکواس کھانا ” زہر مار کر رہا تھا جو ہر ہر نوالے پہ مزید بد مزہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس پر آج سکول سے چھٹی تھی اور میں سارا دن ایک بدترین اور غلیظ وقت گزار گزار کر بری طرح اوب چکا تھا۔ جب آخری نوالہ حلق میں ٹھونسا تو عین اس وقت لال بابو پاسوان اپنے حلق کی راگنی چھیڑ بیٹھا۔

میں بدمزگی کی انتہاؤں کو چھونے لگا اور نفرت اور کراہت کی لہر کو سینے میں دبانے کی خاطر اٹھ کر چھت پر ٹہلنے لگا۔ کئی چکر کاٹ ڈالے مگر وہ منحوس کھانسی ختم نہ ہوئی۔

پھر یکایک نیچے سے ایک مریل سا غلغلہ اٹھا۔

” باپو کو کچھ ہو گیا مائی!”یہ بابو کے دس سالہ بیٹے گنیش کی آواز تھی۔

میں منڈیر کی طرف لپکا۔

نیچے جھلنگا چارپائی پر لال بابو پاسوان کی انسانی گٹھری یوں پڑی تھی جیسے کیچوا ” گچھو مچھو ” ہو کر ٹھٹھرا پڑا ہو۔ وہ اوندھے منہ پڑا تھا اور پاس ہی خون کا چھپڑ سا بنا ہوا تھا۔

” لال بابو میں اتنا خون تھا ؟” میرے تصور میں کھچڑی داڑھی میں دھنسا اس کا زرد چہرا ابھر آیا۔ اس کے نصف درجن سے زائد بچے باپ کے اردگرد یوں کھڑے تھے۔ جیسے بندر کا تماشہ دیکھ رہے ہوں۔ جبکہ اس کی دھرم پتنی کا ستاہوا چہرا مزید ست چکا تھا۔

پھر یکایک اس انسانی گٹھڑی میں جنبش ہوئی۔

کسی چہرے پر، اس کی زندگی کی خاطر خوشی نہ ناچی۔ حالانکہ اس نے کھانسی کی سنگت میں پورے سات بچے پیدا کرنے کا فریضہ ” انجام ” دیا ہوا تھا۔ اسی کٹیا میں نسل بڑھانے کے لئے۔

” اس کا نام تو ، گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ ، میں درج ہونا چاہیے وہ بھی سنہری حروف میں ”

یہاں پٹنہ آ کر ، میری بھی سوچیں انسانیت کا لمس بھلا بیٹھی تھیں حالانکہ میں نے یہاں پوسٹنگ تک اپنی مرضی سے کرائی تھی مگر اب جستجو انسانیت اور فلاح و بہبود کے جذبات دم توڑ چکے تھے۔ کیونکہ صوبہ بہار اور خصوَصاً ضلع پٹنہ کی فضاؤں میں گدھیں منڈلاتی رہتی تھیں۔ بہار ایک بار پھر بدترین قحط کی لپیٹ میں تھا اور ایک میں تھا جو پنجاب کی ہری بھری دھرتی سے اٹھ کر یہاں آ گیا تھا۔ یہاں بیٹھ کر میں کتنا سڑ بس گیا تھا۔

ابھی میں بھوک کے تعفن میں بساند چھوڑتے اس گھرانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ سرفراز آ گیا۔ بیٹھنے سے پہلے ، اس نے نتھنے سکیڑے اور یوں بولا جیسے جلتے توے پر کھڑا ہو۔

” یہ بو کہاں سے آ رہی ہے ؟ ”

” جہنم سے۔ میں جل ہی تو گیا ” بڑا غضب کا ٹھکانہ ڈھونڈ کر دیا ہے۔ نیچے اس لینڈ لیڈی کی بک بک اور ادھر پاسوان فیملی کی جھک جھک، میری تو سانس گھٹ کر رہ گئی ہے۔

اور ایک ہم ڈھیٹ ہڈی ہیں جو اس قحط میں جیتے جا رہے ہیں۔ ہمیں تو بھوک سے نہیں شرم سے ہی مر جانا چاہیے۔

اب تو بھی دھونی دے گا ؟۔ میرے غصیلے انداز پر وہ بھڑک ہی تو اٹھا ” یہ دھواں ہماری ارتھیوں سے اٹھتا ہے۔ خوشحال پنجاب کے جٹ ویر! ”

میں کئی ٹوٹے ہو گیا۔

سرفراز میرے ساتھ سکول میں پڑھتا تھا مگر یہاں بہار کے اس قحط نے اسے لفظوں کو ” بھونکنا ” سکھا دیا تھا کبھی وہ انہی لفظوں کو دوسروں کے سینوں میں گھونپ دیتا تھا کسی تیز دھار خنجر کی طرح۔

آج بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کسی سفاک قاتل کا روپ دھارن کئے ، عین میرے سامنے بیٹھ گیا تاکہ لفظوں کو بھونکتے اور گھونپتے ہوئے براہ راست میری آنکھوں میں دیکھ سکے۔

وہ ہندوستان بھر کا انتقام ایک "دوست” سے لیا کرتا تھا۔

اونہہ! عظیم بھارت !” اس نے میرے منہ پر حقائق تھوکنے کی ابتداء کی ” بھوکے ننگے عوام پہ مشتمل ہندوستان دی گریٹ !ر۔ ۔ آج فاقہ زدہ بہاریوں کے منہ سے آخری نوالہ تک نوچ کر ، دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ مگر یہ صوبہ بدترین قحط میں تڑپ رہا ہے۔

میں نے سر جھکانے میں ہی آفیت سمجھی۔

مگر تم کیا جانو۔ تمھارے گھروں میں تو حلوے مانڈے اسی طرح پکتے ہیں۔

سرفراز کو ٹیچر نہیں قصائی ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ لوگوں کی کھال کھینچ سکے۔

” یہ پیٹ کا پاپ تو ہم بدنصیبوں کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ ۔ ۔ نہ اس حرامی پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے اور نہ بہار کی بھوک کا جنازہ اٹھتا ہے۔ چند جرائم ہیں جن کا تعلق ، شوق ، سے ہوا کرتا ہے۔ ۔ ورنہ سب کا سب اسی جہنمی پیٹ کا کیا دھرا ہے۔ اس دنیا میں فساد کی اصل جڑ ہی پیٹ ہے۔ ”

میرے کان احتجاج پر آمادہ تھے جو سرفراز کا یہ فلسفہ ، یہ بھونڈا فلسفہ اور گھسا پٹا انداز سن سن کر پک گیا تھے۔

او یار!” بالآخر میں نے دونوں ہاتھ اس کے حضور جوڑ دئیے ” آخر میرا قصور کیا ہے ؟۔ ۔ ۔ ر اور کچھ سوچو تو ہندوستان کا قصور کیا ہے ؟ کیا یہ قحط کا بیج خود اس نے بویا ہے ؟ اور یہ تم پنجاب کے پیچھے لٹھ لے کر کیوں پڑ جاتے ہو؟ اگر یہاں سالی ‘ قحط سالی ‘ ہے تو کیا وہاں پنجابی بھی اپنے کھیتوں میں آگ لگا دیں ؟”

سرفراز کچھ نہیں بولا۔ غصے اور رنج کی زیادتی نے اس کی قوت گویائی سلب کر لی تھی شاید۔

” اور پھر یہ کون سی نئی بات ہے ؟ سدا سے یہاں غذائی قلت رہی ہے۔ ادھر ساؤتھ بنگال میں بھی یہی حال رہتا ہے۔ قدرت نے ان خطوں کو زرخیز نہیں بنایا تو اس میں بیچارے پنجاب کا کیا قصور ہے ؟ یہ تو صدیوں کی بھوک ہے۔ جو اس خطے کے انسانوں کی تقدیر بن چکی ہے۔ ”

میں نے ڈرتے ڈرتے سرفراز کی طرف دیکھا۔

وہ گنگ بیٹھا تھا۔

” تاریخ پڑھو۔ وہ تمھیں بتائے گی کہ ، غذائی قلت ، یہاں کا دستور ہے اور آبادی بڑھاتے جانا یہاں کی واحد تفریح بن چکی ہے۔ یہ لال بابو پاسوان ! کھانسی سے فرصت نہیں ملتی۔ مگر گذشتہ گیارہ برسوں میں سات نفوس۔ ۔ ۔  اس بنجر اور ویران دھرتی پہ مونگ دلنے کے واسطے پیدا کر لئے اس پنجر نے۔ ۔ ۔  آخر تم یہاں کے ٹیچر ! انہیں یہ بات کیوں نہیں سمجھاتے ؟۔

ٹیچر سرفراز کے نتھنے مارے تنفر و حقارت کے پھول رہے تھے اور زبان شدت جذبات کے سبب تالو سے جا لگی تھی۔

آج موقع غنیمت تھا۔

وگرنہ یہ چرب زبان شخص ‘ ہمیشہ یہی ثابت کرتا تھا کہ بولنے کا حق صرف بھوکے ننگے کو ہوتا ہے۔ یعنی فن خطابت کے لئے "بھوکا بٹیر” ہونا لازمی شرط ہے۔

میں نے اپنی تاریخ دانی کی پٹاری کھول لی۔

” تاریخ سے پوچھو میرے دوست!۱۸۶۹۔ ۷۰ میں اسی صوبہ بہار اور اس کے بھائی بند بنگال، میں دنیا کا بدترین قحط پڑ چکا تھا۔ ہمارے لوک گیتوں میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ۔ ۔  ابھی پچھلی صدی میں ، روس قحط کا شکار تھا اور لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور یہ آج کا ترقی یافتہ یورپ ۔ ۔ اسے تو کام ہی یہی ہوا کرتا تھا۔ ہر چار پانچ سال بعد ، کوئی نہ کوئی قحط تیار اور ہر قحط میں ملین کے حساب سے آبادی ختم۔ ۔ حضرت عیسی علیہ سلام کی پیدائش سے لے کر اٹھارویں صدی تک ، ریکارڈ قحط پڑے۔ حضرت یوسف علیہ سلام کے زمانے کا وہ معروف قحط اور وہ فرعون جو خدا بنا پھرتا تھا۔ اس کے زمانے کا قحط توبہ! توبہ! بھئی قحط اور اس دھرتی کے انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ”

” ہاں ! واقعی ! ” سرفراز نے سائبریا کی ہواؤں ایسی ٹھنڈی آہ بھری اور اٹھ کھڑا ہوا۔

” مگر اے کاش ! انسانوں کا دل، اس دھرتی کی طرح ‘قحط زدہ‘ نہ ہوتا تو شاید یہاں ‘انسانیت‘یوں ماری ماری نہ پھرتی۔ ”

میں اس رات نہ سو سکا۔

سرفراز کو میں نے ناراض کر دیا تھا۔

اور اس گناہ دوستاں کی پاداش میں آدھی رات کو میں نے ایک گھٹی گھٹی چیخ سنی۔

لاچار ممتا کا افلاس زدہ بین۔

دو سالہ مہیش ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا تھا۔ لال بابو پاسوان کی انسانی پروڈکشن ” مہیش پاسوان "۔ بھوک کی کالی دیوی کے آکٹوپس ہاتھوں نے معصوم جان کو چاروں شانے چت گرا دیا تھا۔ دھرانی دیوی کے تھکے تھکے بین اور لال بابو پاسوان کی جانی پہچانی کھانسی نے میرے اعصاب شل کر دئیے۔

کلیجہ منہ کو آنے لگا۔

میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا مگر میں نے دیکھا۔ ۔ کاش ! میں نہ دیکھتا کاش ! پاسوان خاندان اس چوبارے کے پچھواڑے ، اس اجڑے حصے میں نہ بستا۔

کاش ! میں پٹنہ نہ آتا۔

کہ پٹنہ کا تو پورا ضلع ایسے پاسوان خاندانوں سے بھرا پڑا تھا۔

فاقوں نے مہیش کو مار ڈالا تھا اور زندگی و موت کے شکنجے میں کسا پاسوان خاندان پتھرائی نظروں سے ہڈیوں کے اس ساکت و جامد پنجر کو دیکھ رہا تھا۔

کہ شاید اپنا اپنا نوشتہ تقدیر پڑھ رہا تھا۔

یکایک مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب پانچویں میں فیل ہو جانے پر ، میرے باپ نے مجھے اتنا مارا کہ جگہ جگہ سے کھال پھٹ گئی۔ اس سے پہلے کہ چمڑی ہی اتر جاتی میری ماں میرے باپ اور دنڈے کے درمیان آ گئی۔ یوں میری دھنائی تو وقتی طور پر رک گئی۔ مگر میں نے پورے "تین ڈنگ” روٹی نہ کھائی۔ ماں روٹی لے کر میرے سامنے بیٹھ جاتی مگر وہ روٹی ، میں نے خود پر حرام کر لی تھی۔ کبھی ماں میرے ترلے واسطے کرتی اور کبھی باپ کو جا جھنجھوڑتی۔

” بوٹے دے ابا! بوٹا مر جائے گا۔ تین ڈنگ سے کِھیل اڑ کر اس کے منہ میں نہیں گئی۔ ”

"او نئیں مرتا ” ابا ہتھے سے اکھڑ جاتا۔ یہ ہمیں دبا رہا ہے تو ارمان ( آرام ) سے بیٹھ۔ ۔ ڈرتی کیوں ہے ؟ بھلا بھوک سے آج تک کوئی مرا ہے ؟۔ ۔ ۔ ۔ اوئے شیدائن عورت ! بھوک سے کوئی نہیں مرتا۔ ”

واقعی چوتھے ڈنگ میں چپڑ چپڑ صدیوں کی بھوک مٹا رہا تھا۔

مگر۔ ۔ ۔ آج میں نے مہیش کو بھوک کے ہاتھوں مر جاتے خود دیکھ لیا تھا۔ میرے اندر سرفراز کا بھونڈا فلسفہ یکایک دھند صاف کرتا چلا گیا وہ کہتا رہتا تھا۔

” بھوکے انسان کو اس سے دلچسپی نہیں کہ زمین کیسے بنی ؟ یہ ملک کیسے قائم ہوئے ؟ ان ملکوں میں صوبوں کی لکیریں کیسے کھنچیں ؟ان کے پیٹ کو بس روٹی چاہیئے۔

انہیں اناج سے مطلب ہے۔ چاہے یہ اناج بہار کی بنجر زمینوں سے نہ پھوٹے۔ چاہے وہ اناج پنجاب سے آئے۔ ”

واقعی ! روٹی ہندوستان میں موجود تھی۔ مگر وہ روٹی بہار کے پاسوان بچوں کے نصیب میں نہ تھی۔ مہیش اس طلب کے چنگل سے مکت ہو گیا تھا۔ مگر ڈھائی ماہ کا مہیش ، دس سالہ گنیش ، رام ، پرشاد ، رادھا  اور کامنی ،کو "روٹی ” کی کوئی امید نہ تھی۔ کیونکہ روٹی کی عیاشی ان کے بس میں نہ تھی۔ میں اس "جہنم” میں کیوں بیٹھا ہوں ؟ دل نے چڑ کہ یہ سوال کیا۔

اور جواب میں ، میں نے اپنی ماں کو چھٹی لکھ کر ” خوشخبری” سنا ڈالی کہ میں واپس آ رہا ہوں۔ مجھے یہاں بہار میں دو ٹکے کی نوکری سے کچھ لینا دینا نہیں اور میرا دل ، اپنے باپ کی طرف سے صاف ہو چکا ہے۔ یہی میری ماں کی سب سے بڑی خواہش تھی۔

واقعی ! مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنا باپ بہت عظیم لگا۔ وہ پاسوان کی طرح گھر بیٹھ کر خالی خولی بچے پیدا نہیں کرتا تھا بلکہ میرا زمیندار باپ زمین کا سینہ چیر کر دھان اگاتا تھا۔

کسان یہاں بہار میں بھی تھا مگر اس نے تو پانی میں مدھانی ڈال رکھی تھی پھر مکھن کیسے نکلتا ؟ میرا کسان باپ اپنے پیروں پر اعتماد کے ساتھ کھڑا تھا کیونکہ وہ قدموں تلے فصل کا لمس محسوس کر سکتا تھا۔ چاہے بہت زیادہ دولت یا خوشحالی نہ ہو مگر لہلہاتی فصلوں کا سرور ہی بہت ہے۔

میں نے سکول میں سرفراز کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو اسے خاص حیرت نہ ہوئی۔ بس اس کے اندر کا کوڑا کرکٹ اس کے چہرے پر پھیل کر گند پھیلانے لگا۔ چھٹی کے وقت بولا۔

کب جا رہے ہو؟

شاید کوئی ہفتہ دس دن بعد ، میں مجرموں کی طرح نگاہیں جھکا کر اپنے پیروں کے ناخن دیکھنے لگا۔

” ہاں بھئی ! جہاں بھوک انسانیت کے منہ پر تھوک رہی ہو وہاں تم تعلق نبھانے کے لئے کیوں بیٹھے رہوں گے ؟۔ اس کے تیر و سنان میرے سینے میں کھب رہے تھے۔ لیکن یار ! اتنی تلخی میں ، میں کوئی میٹھی بات کیسے کر سکتا ہوں ، یہاں دوستی اور امن کی ہنسی کیونکر بج سکتی ہے ؟ پھر بھی ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ”

وہ رک گیا ، کچھ سوچا ، پھر گاڑھی اور خوفناک ہنسی ہنسا۔ ۔ ۔ ر وہ ہسنی جو مجھے جلا دیا کرتی تھی۔

” باقی کیا کہتے ہو تم پنجابی لوگ؟ ہاں درفٹے منہ۔ "اسے یاد آ گیا ” واقعی درفٹے منہ ہمارا۔ آخر ہم زندہ کس لئے ہیں ؟ اور کیوں جیتے جا رہے ہیں ؟ ڈھٹائی اور ذلت کی بھی حد ہوتی ہے۔ درفٹے منہ ہمارا۔ ”

میرے تصور میں مہیش کا چمڑی منڈھا استخوانی مردہ تن ابھر آیا۔ میں نے ایک پھریری سی لی اور خود کو اس چوبارے کی طرف گھسیٹنے لگا جس کے زیریں پہلو میں پاسوان خاندان فاقوں کی بساط بچھائے ، زندگی کی جنگ ہارے بیٹھا تھا اور کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔

میں نے اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر منڈیر سے نیچے جھانکا۔ مہیش کو آخری ٹھکانے لگایا جا چکا تھا ، نصف درجن بچے ماں کے اردگرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے ، چھوٹا منیش ماں کی سوکھی چھاتیوں سے چمٹا ، جبڑوں کو مشینی انداز میں چلا چلا کر ، خود کو خواہ مخواہ ہلکان کیئے جا رہا تھا۔ بچوں کی شل آنکھوں میں روٹیاں ناچتی پھر رہی تھیں اور ان کی آنکھوں میں پاسوان کے لئے ایک ہی سوال تھا۔

” ابا ہمیں پیدا کیوں کیا؟”

تب دھرانی کے پنجر میں ذرا سی جنبش ہوئی۔ اس نے ڈینگر جیسے پانچ بچوں کو پرے دھکیل دیا جیسے وہ کسی کتیا کے پلے ہوں۔ پھر اپنا وجود زمین سے اٹھانے کی تگ و دو میں جٹ گئی۔

ادھر رادھا اٹھی۔ اس نے ہینڈ پمپ کو بمشکل چلایا ، مفر وہاں بھی پانی کی جگہ ہوا ، شوکریں مارتی نکل رہی تھی۔

پورے پٹنہ میں یہی حال تھا۔ پانی کی سطح اس قدر گر چکی تھی کہ ہینڈ پمپ ، ٹیوب ویل ، اپنی استطاعت کھو بیٹھے تھے۔

نلکے کے آس پاس کالی بجھنگ پتیلیاں اوندھی پڑی تھیں۔ اس غذائی قلت نے مکھیاں تج مار ڈالی تھیں۔

پاسوان کیکھانی کو اس وقت وقفہ نصیب تھا۔ سو وہ اپنی نسل اپنی ” بڑھوتی ” کے مخدوش مستقبل کو غور سے جانچ رہا تھا۔ اس کی ابلی ابلی آنکھیں ، بچوں کے افلاس سے ڈسے چہروں پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ چہرے جو اب ” ندیدے پن ” کی کیفیت بھی کھو چکے تھے۔

لال بابو پاسوان نے گنہگاروں کی طرح نظریں چرا لیں۔

لال بابو ” باپو ” تھا وہ نظریں چرا سکتا تھا۔

مگر پاسوان کی گھر والی ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ اسے ممتا کا عذاب بھی تو بھگتنا تھا۔ ابھی رات ہی اس نے مہیش کے تڑپ تڑپ کر مر جانے کا کشف اٹھایا تھا۔ اور اب۔ ۔ ۔ ۔

پھر اگلی رات ، اِک آسمان اور اِک ، میں نے دیکھا۔ دھرانی دیوی نے اس قحط زدہ گھر پر ایک نظر ڈالی۔ منیش کو جھولی میں ڈالا اور شہر جانے والی لمبی سڑک پر چل دی۔ میں حیران تھا۔ آدھی رات کو یہ عورت کہاں جا رہی ہے ؟۔ صبح کئی زبانوں پر تھا۔

دھرانی دیوی ، لال بابو کو چھوڑ کر ، اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی۔ میں پریشان تھا کہ اس ” چمرخ سوکھے ڈینگر ” کا کوئی آشنا بھی ہو سکتا ہے ؟۔ جب یہی سوال میں نے علاقے کے حکیم یعنی سرفراز سے پوچھا تو وہ اپنی مخصوص طنزیہ ہنسی ہنس کر بولا۔

” اونہہ ! آشنا ؟۔ ۔ ۔ میرے دوست ! بھوک اور بیماری انسانوں سے یہ حس چھین لیا کرتی ہے۔ ”

تو پھر کہاں گئی دھرانی دیوی ؟ میں ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ ” بچوں کو اس حال میں چھوڑ کر وہ کہاں چلی گئی ؟

تب سرفراز اپنی بے رحم ہنسی ہنسا۔ حال۔ ۔  کیا فرق پڑا ان کے حال میں۔ وہ چلی اس لئے گئی ہے کہ اس کو پتہ چل چکا ہے کہ اس کے یہاں ہونے یا نہ ہونے سے ان پلے جیسے بچوں کا حال یہی ہو گا۔ کچھ فرق نہیں پڑتا۔

” مگر وہ گئی کہاں ؟” میں اس کی فلسفہ طرازی سے چڑ گیا۔

"جانا کہاں ہے ، کہیں مر کھپ گئی ہو گی۔ ” سردراز کا لہجہ عام سا تھا۔ ” ایک عورت ایک لاچار و بے بس عورت اور کر بھی کیا سکتی ہے ؟”

” نہیں۔ ” میں جیسے چیخ ہی تو پڑا۔ ” وہ آئے گی یار ! بھلا کوئی ماں ، اپنے بچوں کو کیسے چھوڑ سکتی ہے ؟ وہ اپنے بچوں سے بھاگ کر جا کہاں پائے گی۔ ”

” ہاں۔ ” سرفراز بھی گہری سوچ میں پڑ گیا۔ ” واقعی ممتا مفرور نہیں ہو سکتی۔ وہ بچوں سے ، فراریت ، پا ہی نہیں سکتی۔ مگر وہ مر تو سکتی ہے۔ ”

میں نے سرفراز کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

پتہ نہیں ، کیوں لال بابو پاسوان کا خاندان میرے حواسوں پر چھا گیا تھا۔ بچے بھوک سے یوں نڈھال تھے کہ ممتا تک کو رونے کی سکت کھو بیٹھے تھے۔ ادھر پاسوان کی کھانسی عروج پر تھی۔

ایسے جیسے کوئی جواب نہ بن پائے تو انسان کھانسنے لگتا ہے۔

مگر اس کا تو سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اور انجر پنجر ” ہِل ہلا ” چکے تھے۔ بھوک کی کالی دیوی اس گھر میں ناچ ناچ کر باؤلی ہوئی جا رہی تھی۔

بچے اب روٹی کا نہیں ، ماں کا نہیں ، موت کا انتظار کر رہے تھے۔ ” دھرانی دیوی کہاں چلی گئی ؟ کیوں چلی گئی ؟” میں پنجاب واپسی مشن بھول کر یہی سوچتا رہا۔ ادھر فراز کا فلسفہ پھر زور پکڑ چکا تھا۔ اسے شاید ڈر تھا کی میرے چلے جانے کے بعد اس کا فلسفہ گل سڑ جائے گا۔ اس لئے ” بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ” کے مصداق وہ موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا رہا تھا۔

مگر میں تھا ایک ہی گتھی سلجھائے نہ سلجھ رہی تھی کہ دھرانی دیوی کیسے جا سکتی ہے ؟ وہ ” ماں ” کیسی ہے ؟ اس ماں کو اس کی ممتا نے کیسے مفرور ہونے دیا۔

آخر تین دن بعد  مجھے سارے جواب مل گئے۔

دھرانی دیوی لوٹ آئی تھی۔ اشیائے خورد و نوش سے لدی پھندی دھرانی دیوی۔ جیسے دوبئی سے لوٹی ہو۔ بچوں کی آنکھیں چمک اٹھی۔ کالی دیوی مات کھا گئی۔ دھرانی دیوی جیت گئی۔

جبکہ آس پڑوس میں ، سب کے چہرے انگشت بدنداں تھے۔

دھرانی دیوی اپنی کٹیا میں پہنچ کر ڈھے سی پڑی۔ پھر اٹھی اور بچوں میں چیزیں بانٹنے لگی۔ آہیں بھر بھر کے ، کچھ ہی دیر میں ہنڈیا چولہے پر چڑھ گئی۔

پتہ نہیں اس نے کیا پکایا؟ جب ادھ پکا سب میں بٹ چکا تو خود خالی پیٹ سر تھام کت بیٹھ گئی۔

یوں جیسے مہیش پھر مر گیا ہو۔ لیکن اس کے حلق سے تو منیش کے بین نکل رہے تھے گھٹے گھٹے ، تھکے لٹے لاغر بین۔ یکایک وہ اپنی سوکھی چھاتیوں کو کوٹنے لگی۔ اس کی جھولی میں چند نوٹ پھڑ پھڑائے۔ یوں جیسے لب جاں نفوس زندگی کی آخری حد پہ اپنے بدن میں پھڑ پھڑائے۔

” ہائے میرا منیش ! ”

” بین میرے دل کو دہلائے دے رہے تھے۔ ” بک گیا ، مجھ کلموہی نے چھ ہزار میں اپنا جگر کا ٹکڑا بیچ دیا۔ میں دھرانی دیوی نہیں کالی دیوی ہوں۔ ”

پتہ نہیں ممتا مفرور ہوئی تھی کہ مر کھپ رہی تھی ؟

آج سرفراز کی بولتی بھی بند تھی۔

٭٭٭

بشکریہ ماہنامہ ادب لطیف

ماخذ: اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید