FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

درِ خواب پہ دستک

 

 

                فراغ روہوی

 

 

 

 

 

 

دی تو نے کسی شب جو درِ خواب پہ دستک

آنکھوں سے نشہ بن کے اُبھرتی رہی خوشبو

 

 

 

 

 

سوانحی کوائف

 

نام     :       محمد علی صدیقی

قلمی نام :       فراغ روہوی

والد    :       جناب محمد انعام الحق صدیقی(مرحوم)

ولادت :       ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۶ء، بمقام موضع : روہ، ضلع : نوادہ، بہار

تعلیم   :       بی۔ کام پارٹ – I

شغل   :       تجارت

آغاز شاعری    :       ۱۹۸۵ء

شرفِ تلمذ     :       حضرت قیصر شمیم

تصانیف        :       (۱) چھیاں چھیاں (ماہیے ) ۱۹۹۹ء

(۲) ذرا انتظار کر (غزلیں ) ۲۰۰۲ء

(۳) مرا آئینہ مدینہ (نعتیہ کلام) ۲۰۰۳ء

(۴) جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے (شاعری برائے اطفال) ۲۰۰۴ء

(۵) ہم بچے ہیں پڑھنے والے ( نظمیں برائے اطفال) ۲۰۱۲ء

(۶) جنوں خواب (رباعیات) ۲۰۱۳ء

(۷) درِ خواب پہ دستک (غزلیں ) ۲۰۱۵ء

(۸) دوہا درپن (دوہا) ۲۰۱۵ء

(۹) بوجھ سکھی ری بوجھ (کہہ مکرنیاں ) زیر ترتیب

انعامات :       ’’چھیاں چھیاں ‘‘ پرا ُتر پردیش اور مغربی بنگال اُردو اکاڈمیوں کے  انعامات برائے ۱۹۹۹ء

’’ذرا انتظار کر ‘‘ پر مغربی بنگال اُردو اکا ڈمی کا انعام برائے ۲۰۰۲ء

’’جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے ‘‘ پر اُتر پردیش اور بہار اُردو اکاڈمیوں کے انعامات برائے ۲۰۰۴ء

’’ہم بچے ہیں پڑھنے والے ‘‘ پر بہاراُردو اکا ڈمی کا انعام برائے ۲۰۱۳ء

’’جنوں خواب ‘‘ پر اُتر پردیش اُردو اکا ڈمی کا انعام برائے ۲۰۱۳ء

قدر شناسی       :ہوڑہ رائٹرزایسوسی ایشن ایوارڈبرائے ۲۰۰۸ء

دلیپ کمار فینس کلب،کلکتہ کا ’’دلیپ کمار ایوارڈ‘‘ برائے ۲۰۱۲ء

فنکار اکاڈمی،کلکتہ کا ’’ساحر لدھیانوی ایوارڈ‘‘ برائے ۲۰۱۳ء

انتخاب :       کئی نظمیں نصابی کتب میں شامل ہیں

ادارت : سہ ماہی ’’ترکش‘‘ کلکتہ، دو ماہی ’’دستخط‘‘ بارک پور، ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کلکتہ اور  ماہنامہ ’’کلید خزانہ‘‘ کلکتہ

وابستگی : ممبر ، دی فلم رائٹرزایسوسی ایشن،ممبئی

لائف ممبر ، دی انڈین پرفارمنگ رائٹ سوسائٹی لمیٹیڈ،ممبئی

سکریٹری، ادارہ ’’ہم نوا‘‘ کلکتہ

سکریٹری ، ادارہ ’’دیارِ ادب‘‘ کلکتہ

آبائی وطن:     صدیقی ہاؤس، محلہ خلیفہ ٹولہ، موضع : روہ، ضلع : نوادہ، بہار805110-

موجودہ رہائش:  -67مولانا شوکت علی اسٹریٹ(کولوٹولہ اسٹریٹ) ،کلکتہ700073-

موبائل :9831775593 / 9830616464

ای-میل       :E-mail: faraghrohvi@gmail.com

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

اُس سنہری ساعت

کے نام

جب پہلے شعر کی آمد ہوئی تھی!

 

 

 

 

 

نئی غزل کا استعارہ

 

غزل ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس جملے میں تہذیب کا لفظ کئی فکری و فنی جہات کو روشن کرتا ہے۔ جن میں غزل کی خاص ہیئت اور اُس کا ایمائی انداز نیز موضوع و مضامیں کی داخلی صورت گری شامل ہو کر کثرت میں وحدت کو جنم دیتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اکثر اوقات غزل کی تہذیب سے عدم آگہی بہت سے شعرا و قارئین کے لیے منصبِ خاص تک پہنچنے میں حائل ہوتی ہے۔ قارئین غزل کی تفہیم سے محروم اور شعرا اپنے خیال کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت معنوی اکہرے پن کا شکار ہو جاتے ہیں ، چنانچہ اُن کے مجموعے میں اشعار کے درمیان غزل یا غزل کا شعر دکھائی نہیں دیتا۔ بسا اوقات شعرا کی جلد بازی بھی اُن کے اشعار کو غزل کے فکری و فنی مزاج سے الگ کر دیتی ہے۔ جس کی مثال کلاسیکی شعرا کے دواوین سے بھی دی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں زمانۂ حال کا شعری منظر نامہ بھی خوش کن نہیں ہے۔ غزل کے جتنے مجموعے اشاعتی مراحل سے گزر کر ہمارے ہاتھوں تک پہنچتے ہیں ،اُن میں سے زیادہ تر مجموعوں میں غزل کی تہذیب عنقا ہوتی ہے۔ چند ایک مجموعے ہی ایسے ہوتے ہیں ، جن میں غزل کی تہذیب کے تمام جہات روشن دکھائی دیتے ہیں۔

فراغ روہوی نے شاعری کی مختلف اصناف میں اپنے خیال کو آئینہ کیا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ اُن کی متعدد کتابیں شائع ہو کر دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ اُن کی غزل کا پہلا مجموعہ ’’ ذرا انتظار کر‘‘ قارئین کے ذہن پر اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب ہوا تو اُن سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہو گئیں۔ اُن کی غزل کا دوسرا مجموعہ ’’درِ خواب پہ دستک‘‘ در اصل اُنھی اُمیدوں کی تعبیر ہے۔ اس مجموعے کی بیشتر غزلوں کو غزل کی تہذیب کے فنی و فکری جہات کی مثال کہا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اُن کی شاعری میں غزل کی ہیئت کے اہم رموز، ایمائی انداز اور مضمون کی داخلی صورت گری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اُنھوں نے معنی کا جہاں آباد کرتے ہوئے اپنی غزلوں میں ادق الفاظ، بے معنی تشبیہات و استعارات اور دور از کار علامتوں سے گریز کیا ہے۔ ان کی جگہ ایسے الفاظ، تشبیہات و استعارات اور علامات کا استعمال کیا ہے ، جو قارئین کی فہم کے مطابق بھی ہیں اور معنی کی کثیرالعناصری کی بھی غماز ہیں۔ غزل کے کلاسیکی دور سے اب تک اکثر شعرا شعوری اور غیر شعوری طور پر میرؔ سے متاثر رہے ہیں۔ جس کا اظہار اُنھوں نے وقفے وقفے کے ساتھ اشعار میں بھی کیا ہے۔ میرؔ کی غزلوں کے بہت سے شیڈس بھی ہیں۔ کمال یہ ہے کہ شعرا اُن میں سے کتنے ہی شیڈس کو اپنی غزلوں میں آئینہ کرتے ہیں۔ فراغ روہوی نے بھی اپنے متعدد اشعار میں میرؔ سے متاثر ہونے کی بات کہی ہے۔ اُن کا ایک شعر ہے :

بسا ہوا جو غزل کا اسیر ہے مجھ میں

وہ کوئی اور نہیں ، صرف میرؔ ہے مجھ میں

فراغ روہوی کی شعری کائنات میں معنوی سطح پر میرؔ کی جو بازگشت سنائی دیتی ہے ، اُس میں حسن و عشق حاوی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کا محبوب تصوراتی نہیں بلکہ گوشت پوست سے بنا ہوا اسی دنیائے فانی کا رہنے والا ہے۔ اُنھوں نے محبوب کے حسن اور اُس کے جزئیات و صفات کو لفظی پیکر عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کی غزلوں کا مطالعہ قارئین کے حواسِ خمسہ کو متحرک کر کے معانی کے نئے دریچوں کو وا کر دیتا ہے۔ اُن کی شعری کائنات در اصل بصری پیکروں کی رقص گاہ ہے ، جہاں مفاہیم کی مختلف پرچھائیاں آنکھوں میں متحرک ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھئے :

 

میں آئینے سے کہیں بدگماں نہ ہو جاؤں

نہ بار بار دکھا میرے خال و خد مجھ کو

 

تا دیر ہم تو جنبشِ لب دیکھتے رہے

شاید کہ وہ سنائے ہمیں اَن کہی سی کچھ

 

فراغ روہوی نے بصری پیکروں کے دوش بدوش محبوب کے سراپے کو لمسی پیکروں میں بھی ڈھالا ہے۔ جہاں محبوب کی بے خبری کو بھی باخبری سمجھتے ہوئے اُس کے بدن کو چھونے سے جھجھکنا، سلگتے جسم کے لیے بدن کے سائبان کی تمنا کرنا، محبوب کے گرم ہونٹوں کی حرارت کو اپنے رگ و پے میں اُترتے ہوئے محسوس کرنا اور محبوب کے جسم کی کتاب کا مطالعہ کرنے کی تمنا رکھنا لمسی پیکروں کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لمسی پیکروں کو خلق کرتے ہوئے شعرا رکاکت و ابتذال کے شکار ہو جاتے ہیں لیکن فراغ روہوی کے ان اشعار میں اس کا شائبہ تک نہیں ہوتا:

وہ بے خبر ہی رہے اور باخبر سا لگے

تو اُس کے جسم کو چھوتے ہوئے بھی ڈر سالگے

 

سلگ رہا ہے مرا جسم دھیان کب دو گے

بدن کا اپنے مجھے سائبان کب دو گے

 

کسی کے گرم ہونٹوں کی حرارت

رگ و پے میں اُترنا چاہتی ہے

 

تجھے تو دیکھتے ہیں سب، مری یہ خواہش ہے

مطالعہ میں ترے جسم کی کتاب آئے

فراغ روہوی جس دنیا میں زندگی کر رہے ہیں ، وہاں گلوبل ولیج اور صارفی کلچر کے دوش بدوش سائبر کلچر کا جادو بھی چھایا ہوا ہے ، ایک انگلی کے معمولی لمس سے پوری دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو فراق و وصل کا تصور ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ اس کلچر میں ہر لمحہ ایک نئی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مواد و موضوعات بھی تیزی کے ساتھ متغیر ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ایک حساس شاعر محض حسن و عشق کی طلسمی دنیا کی سیر نہیں کرتا بلکہ اُس کی نگاہیں اپنے اطراف میں موضوع و مواد تلاش کرتی رہتی ہیں۔ فراغ روہوی بھی حساس شاعر ہیں اور زمانے کی تغیر پذیری کا اُنھیں احساس بھی ہے۔ وہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں :

پچھلی بیاض طاق پہ رکھ کر فراغؔ بھی

اکیسویں صدی میں نئی شاعری کرے

نئے زمانے کی نئی نئی صورتیں اور حالتیں اُن کے ذہن پر بھی کچوکے لگاتی رہتی ہیں۔ اُن کے دل میں بھی ہوک اُٹھتی ہے۔ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر زمانے کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے مشاہدے کو تخلیقی تجربات کی بھٹی میں تپا کر غزل کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ اُن کی غزلوں کے خارجی موضوع و مواد بھی داخلیت سے مملو نظر آتے ہیں۔ اُن کے اشعار میں تند و تیز اور نرم و نازک الفاظ کی دل نشینی، اچھوتی تشبیہات، تازہ استعاروں اور نئی نئی علامتوں کا جال سا بنا ہوا ہے۔ در اصل اسے فراغ روہوی کی غزل کا ایک نیا موڑ سمجھنا چاہئے۔ جس میں پختگی کے عناصر کے ساتھ شعری بنت میں بھی انفرادیت جھلکتی ہے۔ چند اشعار پیش ہیں :

مرے اندر سمندر موجزن ہے

میں ساحل سے اُبلنا چاہتا ہوں

 

کہرے کے سوا کچھ نہ دکھائی تجھے دے گا

مت دیکھنا اُس پار خبردار! خبردار!

 

کس زمیں کے گوشے پر آپ حق جماتے ہیں

ہر جگہ ہمارا ہی مقبرہ نکلتا ہے

 

تمام رات میں اپنے محاصرے میں رہا

اک انتشار سا سانسوں کے قافلے میں رہا

 

فضا پہ رات چھاگئی، جہاں کو نیند آ گئی

مگر میں جاگتا رہا کہ کوئی جاگتا رہے

ان اشعار میں اپنے اندر کے سمندر کو موجوں کی طرح ساحل سے اُبلنے کی تمنا کرنا، خبردار کرتے ہوئے کہنا کہ اُس پار مت دیکھو وہاں کہرے کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دے گا، خطۂ زمیں پر اپنی وراثت کی باتیں کرنا اور سانس کے انتشار کے باوجود محاصرے کا گمان کرنا نیز دنیائے فانی کے خوابِ غفلت میں محو ہونے کے بعد بھی اس خیال سے رتجگے کرنا کہ زندگی کی رمق کو باقی رکھا جائے ، ایسے مضامیں ہیں جو نئی غزل کے امکانی پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔ اُن کے مجموعے میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جو ہمارے ذہن پر دستکیں دیتے ہیں اور ایک نئی معنوی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ جن میں لفظوں کا دروبست شاعر کی فنی پختگی پر دال ہے۔ فراغ روہوی کی غزلیں فنی و فکری ہر دو سطح پر نئی غزل کا حوالہ ہیں۔ دیر یا سویر اُنھیں بھی نکتہ داں تلاش کر لیں گے اور اُن کے اس مجموعے ’’ درِ خواب پہ دستک‘‘ کو بھی شہ      رت و مقبولیت حاصل ہو گی۔ میں اپنی بات اُن کے ہی ایک شعر پر ختم کرنا چاہتا ہوں :

نئی غزل کا اگر میں بھی اک حوالہ ہوں

تو اے فراغؔ کوئی نکتہ داں تلاش کرے

 

ڈاکٹر عادل حیات

شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی

٭٭٭

 

 

 

کسے کسے نہ خدا نے پناہ میں رکھا

فلک سے زیرِ زمیں تک نگاہ میں رکھا

 

ہماری نفس پرستی کے امتحاں کے لیے

عجب سرور خدا نے گناہ میں رکھا

 

نہ جانے کون سی تھی مصلحت کہ آدم ؑ نے

قدم جو رکھا جہانِ تباہ میں رکھا

 

گلوں کو پہلے تو بخشی متاعِ حسن و جمال

پھر اُس نے خار کو اُن کی سپاہ میں رکھا

 

کبھی جو اُس نے رُلایا ہمیں شبِ ہجراں

الگ ہی کیف ہماری کراہ میں رکھا

 

اُسے یہاں بھی، وہاں بھی ہے سرخرو ہونا

وہ جس نے اپنا قدم اُس کی راہ میں رکھا

 

جواب حشر کے دن کیا خدا کو دو گے فراغؔ

کہ خود کو محو تو کارِ سیاہ میں رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

مانا کہ چھپاتی ہے مرا سر، مرے اللہ

ہو میرے برابر مری چادر مرے اللہ

 

کنبے کی کفالت کا تو اعزاز دیا ہے

مطلوبہ ہر اک شے ہو میسر مرے اللہ

 

اُڑنے کی للک ہے حدِ پرواز سے آگے

دنیا نہ کتر ڈالے مرے پر مرے اللہ

 

چلنا ہی لکھا ہے تو چلوں اپنی روش پر

یا شاہ بنا دے یا قلندر مرے اللہ

 

حق گوئی کا چسکا تو مجھے پڑ ہی گیا ہے

اب چاہے سلامت نہ رہے سر مرے اللہ

 

پھر برسرِ پیکار ہوئے ابرہہ والے

پھر بھیج ابابیل کا لشکر مرے اللہ

 

اشعار کی آمد پہ مجھے بھی ہوئی حیرت

بے نطق ہوا کیسے سخنور مرے اللہ

 

مایوس فراغؔ اپنے اندھیروں میں پڑا ہے

اب کھول اُجالوں کے نئے در مرے اللہ

٭٭٭

 

 

 

 

اُس سمت اندھیرا ہے ، اُجالا ہے اِدھر آ

یہ دشت نہیں ، شہر تمنا ہے اِدھر آ

 

جس راہ پہ تو ہے وہ چھلاوہ ہے سمجھ لے

منزل کا تری ایک ہی رستہ ہے اِدھر آ

 

محفوظ علاقہ ہے یہی ایک مرا دل

جنگل نہ سمندر نہ ہمالہ ہے اِدھر آ

 

رُک جا کہ جدھر اب ہے سفینے کا ترے رُخ

گرداب وہیں پر ہے ، کنارا ہے اِدھر آ

 

یہ غار ہے ایسا کہ نکلنا نہیں آساں

نظروں سے جو اوجھل ہے وہ زینہ ہے اِدھر آ

 

بندوں نے خدا کو بھی اُدھر بانٹ دیا ہے

مسجد نہ کلیسا نہ شوالہ ہے اِدھر آ

 

جس سمت ہیں سب محوِ سفر تیز روی سے

اُس سمت خسارا ہی خسارا ہے اِدھر آ

 

دل کھول کے رکھا ہے ترے واسطے کب سے

اس گھر میں ہوا دار دریچہ ہے اِدھر آ

 

ہر سمت فراغؔ ایک نہ اک خوف ہے لاحق

یہ اہلِ محبت کا علاقہ ہے اِدھر آ

٭٭٭

 

 

 

 

 

دن میں بھی حسرتِ مہتاب لیے پھرتے ہیں

ہائے کیا لوگ ہیں کیا خواب لیے پھرتے ہیں

 

ہم کہاں منظرِ شاداب لیے پھرتے ہیں

در بدر دیدۂ خوں ناب لیے پھرتے ہیں

 

وہ قیامت سے تو پہلے نہیں ملنے والا

کس لیے پھر دلِ بے تاب لیے پھرتے ہیں

 

ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا

دشتِ وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں

 

سلطنت ہاتھ سے جاتی رہی، لیکن ہم لوگ

چند بخشے ہوئے القاب لیے پھرتے ہیں

 

ایک دن ہونا ہے مٹی کا نوالہ پھر بھی

جسم پر اطلس و کمخواب لیے پھرتے ہیں

 

ہم نوائی کہاں حاصل ہے کسی کی مجھ کو

ہم نواؤں کو تو احباب لیے پھرتے ہیں

 

کس لیے لوگ ہمیں سر پہ بٹھائیں گے فراغؔ

کون سے ہم پرِ سرخاب لیے پھرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرا خاموش بدن چیخ اُٹھا شام کے بعد

میں بھی زندہ ہوں یہ احساس ہوا شام کے بعد

 

جانی پہچانی سی لگتی ہے ہوا شام کے بعد

اوڑھ لیتا ہوں میں یادوں کی رِدا شام کے بعد

 

جس کے بوسے مرے ہونٹوں نے لیے ہی نہ کبھی

تیز ہوتا ہے اُسی لب کا نشہ شام کے بعد

 

قریۂ جاں میں زمستاں کی جو آہٹ گونجی

خواہشِ قرب ہوئی اور سوا شام کے بعد

 

سرحدِ دل کو کھلا چھوڑ دیا تھا پھر بھی

کوئی اِس پار نہ اُس پار گیا شام کے بعد

 

صبح اُگتی رہی کیا کیا نہ تمنا دل میں

ہر تمنا کا مزہ میں نے چکھا شام کے بعد

 

دن نکلتے ہی جو پھل پھول رہی تھی مجھ میں

ہے زمیں بوس وہی شاخِ انا شام کے بعد

 

اپنی سرگوشیِ احساس بھی ہے خوف انگیز

زندگی جیسے ہو اک دشتِ بلا شام کے بعد

 

کاٹ کر جس کی جڑیں شاد تھا میں دن میں فراغؔ

میرے اندر وہی انسان اُگا شام کے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

 

گماں سے کچھ نہ ملا، جو ملا یقیں سے ملا

ہمیں تو اُس کا پتا بھی اسی زمیں سے ملا

 

اُسی مقام سے دیوانہ وار ہم گزرے

ترا سراغ ذرا بھی جہاں کہیں سے ملا

 

لگاؤ میری جبیں کا نہ ٹھہرا یک طرفہ

کہ سنگِ در بھی لپک کر مری جبیں سے ملا

 

فلک کے چاند ستارے تو چھپ گئے تھے ، مگر

سسکتی شب کو اُجالا یہیں کہیں سے ملا

 

ہم اپنی پیاس لیے کیا گئے سمندر تک

کہ وہ بھی ہاتھ پسارے ہوئے ہمیں سے ملا

 

مہکتی زلف کا سایہ، متاعِ زخمِ جگر

ہمیں تو جو بھی ملا شہر دل نشیں سے ملا

 

بلندیوں پہ پہنچ کر ٹھہر گیا کہ نہیں

مجھے یہ حوصلہ اپنے مخالفیں سے ملا

 

شبِ وصال جو گزری تو کس طرح گزری

کہ اُن کی ہاں کا اشارا نہیں نہیں سے ملا

 

دلِ فراغؔ کی رونق ہے دید کے قابل

کہ اس مکاں کو مکاں کا شرف مکیں سے ملا

٭٭٭

 

 

 

نہ اتنا اُونچا دکھائی دے اپنا قد مجھ کو

کہ اپنے آپ سے ہونے لگے حسد مجھ کو

 

ہر اک مقام پہ جس نے کیا ہے رد مجھ کو

اُسی کے ہاتھ سے لینی ہے اب سند مجھ کو

 

صفر کی حد سے نکلنا محال لگتا ہے

مجھے بھی سونپ دے آ کر کوئی عدد مجھ کو

 

میں آئینے سے کہیں بدگماں نہ ہو جاؤں

نہ بار بار دکھا میرے خال و خد مجھ کو

 

میں اک کتابِ محبت ہوں ، عرض داشت نہیں

یہ کیا ستم ہے ، کیا جا رہا ہے رد مجھ کو

 

نگاہِ شوق کو مقصود تھی تلاش تری

کہاں کہاں لیے پھرتی رہی خرد مجھ کو

 

ہے تار تار گریباں بھی اور دامن بھی

مرے جنوں کی بالآخر ملی سند مجھ کو

 

میں راہِ حق میں اکیلا ہی لڑنے نکلا تھا

کبھی تو غیب سے ملتی کوئی مدد مجھ کو

 

فراغؔ راہِ محبت میں کب یہ سوچا تھا

کہ پار کرنا پڑے گی انا کی حد مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کون ہے ، کیا ہے ، نظر بھی نہیں آتا ہے مجھے

وہ جو کٹھ پتلی سا دن رات نچاتا ہے مجھے

 

کب مرے بس میں ہے راہوں کا تعین کرنا

رہ نما دیکھئے کس سمت چلاتا ہے مجھے

 

اے مصور، مری تصویر مکمل تو نہیں

چاہتا کیا ہوں ، تو کس طرح بناتا ہے مجھے

 

میں نے شہپر کے لیے ہاتھ پسارا ہی نہیں

حوصلہ ہے جو خلاؤں میں اُڑاتا ہے مجھے

 

میں برا ہوں کہ بھلا ہوں یہ بتانے کے لیے

میرا احساس ہی آئینہ دکھاتا ہے مجھے

 

صحرا جلتا ہے تو برسات بھی آ جاتی ہے

میں سلگتا ہوں تو پھر کون بجھاتا ہے مجھے

 

خواب کیا دیکھوں کہ اب خواب دکھانے والا

رات بھر درد کے پہلو میں سلاتا ہے مجھے

 

تیری راہوں کا پتا پوچھ رہا تھا، لیکن

ہر کوئی میری ہی جانب لیے جاتا ہے مجھے

 

وقت کے ہاتھ میں ہے زہر بھی، امرت بھی فراغؔ

دیکھنا ہے کہ وہ کیا چیز پلاتا ہے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی یقیں سے ہوئی اور کبھی گماں سے ہوئی

ترے حضور رسائی کہاں کہاں سے ہوئی

 

فلک نہ ماہِ منور نہ کہکشاں سے ہوئی

کھلی جب آنکھ ملاقات خاک داں سے ہوئی

 

نہ فلسفی نہ مفکر نہ نکتہ داں سے ہوئی

ادا جو بات ہمیشہ تری زباں سے ہوئی

 

کھلی نہ مجھ پہ بھی دیوانگی مری برسوں

مرے جنون کی شہرت ترے بیاں سے ہوئی

 

جو تیرے نام سے منسوب میرا نام ہوا

تو شہر بھر کو عداوت بھی میری جاں سے ہوئی

 

تمام لوگ مری شکل دیکھتے ہی رہے

کسی کی آنکھ نہ تر میری داستاں سے ہوئی

 

جنھیں تھا ڈوبنا اُن کو اُچھال بخش دیا

کبھی کبھی یہ خطا بحرِ بے کراں سے ہوئی

 

فراغؔ ہاتھ سے کیا دامنِ خرد چھوٹا

کہ سر پہ سنگ کی بارش جہاں تہاں سے ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب کوئی خود کو سنبھالے کہ سنبھالے مجھ کو

ہوش کس میں ہے جو گرنے سے بچا لے مجھ کو

 

وقت گمنام جزیرے سے نکالے مجھ کو

اب کوئی ہاتھ بلندی میں اُچھالے مجھ کو

 

جب سنبھالا نہ گیا میرے امینوں سے مجھے

وقت نے کر دیا دنیا کے حوالے مجھ کو

 

سارے چہرے ہیں مرے چہرے سے ملتے جلتے

ڈھونڈ ہی لیں گے مگر ڈھونڈنے والے مجھ کو

 

ظلمتِ شب میں نہ جگنو سا بھٹکتا پھرتا

راس آ جاتے اگر دن کے اُجالے مجھ کو

 

مجھ کو دم لینا تھا منزل پہ پہنچ کر، لیکن

بد دعا دینے لگے پاؤں کے چھالے مجھ کو

 

میں تو دشمن کے بلاوے پہ بھی آ سکتا ہوں

گر محبت کے حوالے سے بلا لے مجھ کو

 

میں کوئی مالِ غنیمت تو نہیں ہوں کہ فراغؔ

جس کا جی چاہے وہی آ کے اُٹھا لے مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

کسی مقام پہ حاصل کہاں قرار مجھے

ملا ہے راہ میں ہر سایہ شعلہ بار مجھے

 

یہی خیال ستاتا ہے بار بار مجھے

ہوائیں چھوڑ نہ دیں کر کے تار تار مجھے

 

میں مشتِ خاک سہی ،پھر بھی کس قرینے سے

بنا دیا مرے خالق نے شاہکار مجھے

 

مری سرشت میں رکھ کر گناہ کی لذت

بنا دیا ہے یہ کس نے گناہگار مجھے

 

جو قید کرنا ہے مجھ کو تو اُس بدن میں کرو

کہ جس بدن سے دکھائی دے آر پار مجھے

 

یہ کیا کہ میں ہی پکارا کروں تجھے ہر پل

مزہ تو جب ہے کہ تو بھی کبھی پکار مجھے

 

تجھے جو دیکھ سکے وہ نظر میں تاب کہاں

تو کس لیے ہے قیامت کا انتظار مجھے

 

نئے جہاں سے طبیعت جو ہو گئی مانوس

صدائیں دینے لگا گم شدہ دیار مجھے

 

میں اپنی ذات سے پیتل نہیں ہوں ، سونا ہوں

یہ دیکھنا ہے تو پھر آگ میں اُتار مجھے

 

میں ایک نقشِ نمایاں تھا منظروں میں فراغؔ

یہ کون چھوڑ گیا ہے پسِ غبار مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

کہاں کہاں نہ ہوا لے گئی اُڑا کے مجھے

ستم نواز نے چھوڑا دھواں بنا کے مجھے

 

بہت اُداس ہوا آئینہ دکھا کے مجھے

زمانہ دیکھ چکا ہے ہدف بنا کے مجھے

 

ابھی تھمی بھی نہ تھیں سسکیاں کہ رات گئے

کسی کی چیخ نے پھر رکھ دیا ہلا کے مجھے

 

زمانہ شوق سے مجھ کو جلائے تا بہ ابد

اگر نصیب ہو کچھ روشنی جلا کے مجھے

 

میں شرمسار بہت ہوں حیات سے اپنی

کہ ہارتی ہی رہی داؤ پر لگا کے مجھے

 

میں آدمی ہوں ، مگر مثلِ شہر دلّی ہوں

کہ روند دیتی ہے دنیا بسا بسا کے مجھے

 

رواں دواں ہے جو تیزی سے جانبِ منزل

مزہ ملا ہے اُسے راہ میں گرا کے مجھے

 

مرے سخن کے پرستار کیسے ہیں یہ فراغؔ

اُٹھا رہے ہیں جو محفل سے خود بلا کے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے فلک سے زمیں پر گرا دیا کس نے

زوالِ خاک نشینی پہ لا دیا کس نے

 

میں سنگِ راہ نہیں ، سنگِ میل تھا، لیکن

مجھے بھی رستے سے آخر ہٹا دیا کس نے

 

بڑے خلوص سے نہلا رہی تھی اوس مجھے

غلاف دھوپ کا مجھ پر چڑھا دیا کس نے

 

کسی نے خانۂ دل میں سجا لیا ہوتا

مجھے دکان میں لا کر سجا دیا کس نے

 

زمانہ مجھ کو تو بے کار شے سمجھتا تھا

مجھے جہاز کا لنگر بنا دیا کس نے

 

نہ جانے کب سے میں بے جان تھا، مجھے چھو کر

مرے وجود کو آخر ہلا دیا کس نے

 

مرے حریف کی اب نیند اُڑ گئی ہو گی

میں محوِ خواب تھا مجھ کو جگا دیا کس نے

 

اُسے تو خود ہی نہیں آج تک خبر اپنی

پتا فراغؔ کا تجھ کو بتا دیا کس نے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے مجھ کو

ہزار غم دے مگر اُن کا توڑ دے مجھ کو

 

کہیں نہ اور کوئی توڑ پھوڑ دے مجھ کو

کسی کڑی کا میں حصہ ہوں ، جوڑ دے مجھ کو

 

میں وہ سکوت ہوں جو مدتوں نہیں ٹوٹا

صدائے حشر اُٹھا دے کہ توڑ دے مجھ کو

 

کیا ہے منصبِ دریا پہ جب مجھے فائز

سلگتے دشت کی جانب بھی موڑ دے مجھ کو

 

مری رگوں میں محبت نہ زہر بن جائے

کوئی نچوڑ سکے تو نچوڑ دے مجھ کو

 

مرے مزاج کو سختی نہ راس آئے گی

جو موڑنا ہے سلیقے سے موڑ دے مجھ کو

 

غبارِ قلب کا چھٹنا بہت ضروری ہے

کبھی سسکتا ہوا بھی تو چھوڑ دے مجھ کو

 

کوئی تو اتنا ہنسے سسکیوں کے بعد فراغؔ

کہ اُس کے کرب کی شدت جھنجوڑ دے مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

سمندروں سا مسلسل رواں دواں ہی رہا

میں بے کراں تھا سدا سے ، میں بے کراں ہی رہا

 

یہ اور بات کہ منزل نہ مل سکی، لیکن

مری اُڑان کا محور تو آسماں ہی رہا

 

عجب سفر پہ روانہ کیا گیا مجھ کو

کہ ہر پڑاؤ میں درپیش امتحاں ہی رہا

 

سفر ہمارے لیے باعثِ ظفر نہ سہی

مگر شکست پہ بھی حوصلہ جواں ہی رہا

 

حسیں رُتوں کی میں تصویر کھینچتا کیسے

مری نظر میں تو جلتا ہوا سماں ہی رہا

 

کسی مقام پہ ہم دل کو زیر کر نہ سکے

وہ میرا حاکمِ جاں تھا سو حکمراں ہی رہا

 

اُسے منانے کے سو سو جتن کیے پھر بھی

وہ بدگماں تھا کچھ ایسا کہ بدگماں ہی رہا

 

جسے میں ڈھونڈ رہا ہوں فراغؔ پیش و عقب

قریبِ جاں تھا ازل سے ، قریبِ جاں ہی رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لبوں کے سامنے خالی گلاس رکھتے ہیں

سمندروں کی طرح ہم بھی پیاس رکھتے ہیں

 

صدائیں دیتے اُسے تو ضرور سن لیتا

ہم اُس کے آگے کہاں التماس رکھتے ہیں

 

ہر ایک گام پہ روشن ہوا خدا کا گماں

اسی گماں پہ یقیں کی اساس رکھتے ہیں

 

ہم اپنے آپ سے پاتے ہیں کوسوں دور اُسے

وہی خدا کہ جسے آس پاس رکھتے ہیں

 

چڑھا کے دارِ قناعت پہ ہر تمنا کو

جو ایک دل ہے اُسے بھی اُداس رکھتے ہیں

 

زیاں پسند ہمارا مزاج ہے ورنہ

نگاہ ہم بھی زمانہ شناس رکھتے ہیں

 

ہمارے تن پہ کوئی قیمتی قبا نہ سہی

غزل کو اپنی مگر خوش لباس رکھتے ہیں

 

چلو کہ راہِ تمنا میں چل کے ہم بھی فراغؔ

زمینِ دل پہ غموں کی اساس رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہزار اپنے لبوں کو اُداس رکھتے ہیں

سمندروں سے کہا کب کہ پیاس رکھتے ہیں

 

ہماری تشنہ لبی بوند بوند سے یوں ہی

ہمیشہ بجھتی رہے گی یہ آس رکھتے ہیں

 

نہ جانے کون سی شے کی کمی کھٹکتی ہے

جو اُس کی فکر میں دل کو اُداس رکھتے ہیں

 

یہ راز ہم پہ بھی ظاہر نہ ہو سکا اب تک

کہ اپنے آپ کو کیوں بدحواس رکھتے ہیں

 

ہوائے تیز بجھا دے گی اک چراغ تو پھر

کئی چراغ جلیں گے ، قیاس رکھتے ہیں

 

کہیں یہ غصے کا اظہار تو نہیں ساقی،

جو بادہ خوار اُلٹ کر گلاس رکھتے ہیں

 

ہم اہلِ ظرف ڈبو کر شراب میں خود کو

خدا کا شکر ہے ہوش و حواس رکھتے ہیں

 

رموزِ شعر سمجھنے کے بعد ہم بھی فراغؔ

غزل کے فن کا ہمیشہ ہی پاس رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب دامنِ حیات میں تنہائیاں سمیٹ

سب جا چکے ہیں ، انجمن آرائیاں سمیٹ

 

یہ بھی نہ ساتھ چھوڑ دیں احباب کی طرح

خلوت کدے میں بکھری ہیں پرچھائیاں سمیٹ

 

نادانیوں نے تیری کھلائے ہیں گل بہت

اب سر جھکائے شہر میں رُسوائیاں سمیٹ

 

تجھ پر زمیں تنگ اگر ہو گئی تو کیا

جا ہفت آسمان کی بالائیاں سمیٹ

 

دینا ہے ہر قدم پہ نیا امتحاں تجھے

دریا کیا ہے پار تو اب کھائیاں سمیٹ

 

ہونے لگے ہیں پھر سے ہرے زخمِ دل مرے

لِلہ اس دیار سے پروائیاں سمیٹ

 

بھرتا کہیں ہے زخم دلِ نامراد کا

تا عمر تو بھی درد کی انگڑائیاں سمیٹ

 

ہو گا ہمالہ سر نہ کبھی تجھ سے اے فراغؔ

بہتر ترے لیے ہے کہ تورائیاں سمیٹ

٭٭٭

 

 

 

 

ہر ایک موڑ پہ تصویرِ جستجو رکھ دے

دیے جلا کے ہواؤں کے روبرو رکھ دے

 

وہ آسماں سے زمیں پر کبھی تو اُترے گا

اس انتظار میں آنکھوں کو چار سو رکھ دے

 

عجب نہیں کہ وہ تیری نگاہ کے آگے

ہر ایک خواب کی تعبیر ہو بہ ہو رکھ دے

 

ہمارا چاکِ جگر کب اُٹھائے گا احساں

یہ بخیہ گر سے کہو آلۂ رفو رکھ دے

 

بھری بہار میں صد حیف بیو گی کا لباس!

قبائے گل پہ چھڑک کر مرا لہو رکھ دے

 

جسے بیاں تو کھلے عام کر نہیں سکتا

غزل کے پردے میں اپنی وہ گفتگو رکھ دے

 

ہر ایک رُت میں جو احساسِ تازگی بخشے

مری زمینِ غزل میں بھی وہ نمو رکھ دے

 

کبھی تو دستِ دعا کر بلند دل سے فراغؔ

کبھی تو داؤ پہ اپنی ہر آرزو رکھ دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ظلمت میں اُجالوں کی ضمانت بھی وہی دے

ہر ساعتِ غم میں مجھے راحت بھی وہی دے

 

ہجرت تو رقم کی ہے مقدر میں اُسی نے

قدموں کو مرے عزمِ مسافت بھی وہی دے

 

جس نے دی اجازت مجھے آغازِ سفر کی

مجھ کو مری منزل کی بشارت بھی وہی دے

 

اُمید کے ساحل پہ کھڑے ہیں کہ کسی پل

اُس پار نکل جانے کی صورت بھی وہی دے

 

ہے اُس کے اشارے سے رواں میری رگوں میں

اب خون کے دھارے کو حرارت بھی وہی دے

 

آنکھوں کو مری جس نے عطا کی ہے بصارت

اے کاش! مرے دل کو بصیرت بھی وہی دے

 

ہے طاقتِ گفتار مری اُس کی عنایت

لفظوں کو مرے حسنِ بلاغت بھی وہی دے

 

رکھا ہے مجھے صبر کے زنداں میں جب اُس نے

اک روز فراغؔ اذنِ بغاوت بھی وہی دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیارِ شب کا مقدر ضرور چمکے گا

یہیں کہیں سے چراغوں کا نور چمکے گا

 

کہاں ہوں میں کوئی موسیٰؑ کہ اک صدا پہ مری

وہ نور پھر سے سرِ کوہِ طور چمکے گا

 

بھرم جو پیاس کا رکھے گا آخری دم تک

اُسی کے ہاتھ میں جامِ طہور چمکے گا

 

ترے جمال کا نشہ شراب جیسا ہے

ہماری آنکھ سے اس کا سرور چمکے گا

 

یہ کہہ کے اپنا بدن ظالموں کو سونپ دیا

کہ دار پر بھی سرِ بے قصور چمکے گا

 

لٹے ہوئے ہیں ، مگر ہم ابھی نہیں مایوس

ہمارے تاج میں پھر کوہِ نور چمکے گا

 

تلاش کرتا ہے مجھ مشتِ خاک میں تو عبث

غرور ہو گا جبھی تو غرور چمکے گا

 

مرے ہنر کا گماں ہو گا عیب پر میرے

مری غزل میں جو فن کا شعور چمکے گا

 

متاعِ فن سے نوازا گیا ہے تجھ کو فراغؔ

اسی سے نام ترا دور دور چمکے گا

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ بھی انجام ہو، آغاز کیے دیتے ہیں

آ تجھے اپنا ہم آواز کیے دیتے ہیں

 

موسموں کو نظر انداز کیے دیتے ہیں

آ بلند اور بھی پرواز کیے دیتے ہیں

 

کچھ تو پہلے سے تھا رگ رگ میں شجاعت کا سرور

کچھ ہمیں آپ بھی جاں باز کیے دیتے ہیں

 

حد سے آگے جو پرندے نہیں اُڑنے والے

حادثے اُن کو بھی شہباز کیے دیتے ہیں

 

شبِ ظلمت نہ ہو غمگیں کہ جلا کر خود کو

نور سے تجھ کو سرافراز کیے دیتے ہیں

 

شہر جاں پر کئی برسوں سے مسلط ہے جمود

چھیڑ کر دل کو چلو ساز کیے دیتے ہیں

 

ہم کہ زندہ ہیں ابھی، زلفِ غزل! آ تجھ کو

پھر عطا نکہتِ شیراز کیے دیتے ہیں

 

دشت و صحرا یہ سمندر یہ جزیرے یہ پہاڑ

منکشف ہم پہ کئی راز کیے دیتے ہیں

 

کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ

اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نثار آج کسی پر ہے سادگی کا بدن

زمین اوڑھ کے سوئی ہے چاندنی کا بدن

 

گھرا ہے نرغۂ آتش میں زندگی کا بدن

جھلس نہ جائے کہیں فکر و آگہی کا بدن

 

اُس اک بدن کی زباں کو سمجھنا مشکل ہے

کہ اُس سے آشنا اب تک نہیں کسی کا بدن

 

ادائے پہلو نشینی سے دل کو حیرت تھی

کہ اُس کا جسم بھی لگتا تھا اجنبی کا بدن

 

غموں سے روح کا رشتہ یوں اُستوار ہوا

کہ غیر محرموں جیسا ہے ہر خوشی کا بدن

 

نہ احتجاج لبوں پر نہ چیخنے کی للک

لہو لہان ہے ہر چند آدمی کا بدن

 

دکھایا کھیل عجب سرپھری ہواؤں نے

کہ تار تار ہوا ہے کلی کلی کا بدن

 

انوکھے پن کی عجب دھُن لگی ہے سب کو فراغؔ

برہنہ اور نہ ہو جائے شاعری کا بدن

٭٭٭

 

 

 

 

مس کر گئی بدن سے مرے مخملی سی کچھ

اک ایک رگ میں دوڑ گئی سنسنی سی کچھ

 

کچھ اس ادا سے مجھ پہ ندی مہرباں ہوئی

ہونٹوں پہ رقص کرنے لگی تشنگی سی کچھ

 

آئینہ پوچھتا ہے وہ رنگت کہاں گئی

جو عارضِ حیات پہ تھی چمپئی سی کچھ

 

دل ہو رہا ہے درد کی لذت سے آشنا

محسوس ہو رہی تھی ازل سے کمی سی کچھ

 

میں آنکھیں مل کے دیکھ رہا ہوں اِدھر اُدھر

بیدار کر گئی ہے مجھے زندگی سی کچھ

 

کل تک ہمارے بیچ تھی بے داغ دوستی

اب آ گئی ہے اس میں مگر دشمنی سی کچھ

 

کیا کیا نہ چاہتا تھا میں کہنا جناب سے

لیکن ٹھہر گئی تھی لبوں پر دبی سی کچھ

 

تا دیر ہم تو جنبشِ لب دیکھتے رہے

شاید کہ وہ سنائے ہمیں اَن کہی سی کچھ

 

مجھ کو ہوا جو شعر و سخن سے شغف فراغؔ

قرطاس پر اُترنے لگی شاعری سی کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ بے خبر ہی رہے اور با خبر سا لگے

تو اُس کے جسم کو چھوتے ہوئے بھی ڈر سا لگے

 

ملے جو اذنِ سفر تو سفر سفر سا لگے

پڑاؤ آئے تو ہم کو نہ اپنے گھر سا لگے

 

جو میرے ساتھ شریکِ سفر ہے برسوں سے

کسی مقام پہ اے کاش! ہمسفر سا لگے

 

عجیب سمت کا اب کے ملا ہے حکمِ سفر

جہاں نہ رستہ کوئی تیری رہ گذر سا لگے

 

کسی جہت سے کسی وصف کا تو دے وہ ثبوت

ثمر رہے نہ رہے پر شجر شجر سا لگے

 

حصارِ خوف سے باہر نکل ہی جاؤں گا

مری حیات کا اک پل تو معتبر سا لگے

 

نہ دیں سند نہ سہی میرے نکتہ چیں ، لیکن

یہ کم نہیں کہ مرا عیب بھی ہنر سا لگے

 

بنا لے اپنی نظر کو یوں معتبر اے دوست،

کہ عیب عیب لگے اور ہنر ہنر سا لگے

 

فراغؔ ایسا کوئی شخص اب نہیں ملتا

جو اپنے گھر میں بھی رہ کر نہ در بدر سا لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے چشمِ سیہ کار، خبردار! خبردار!

پھر جرأت دیدار، خبردار! خبردار!

 

کہرے کے سوا کچھ نہ دکھائی تجھے دے گا

مت دیکھنا اُس پار، خبردار! خبردار!

 

ہم دشت نوردوں سے نہ کھیل آنکھ مچولی

اے ابرِ طرح دار، خبردار! خبردار!

 

جگنو ہیں تو کیا آنکھ دکھائے گی ہمیں بھی

مغرور شبِ تار، خبردار! خبردار!

 

اُبھرے نہ کہیں آئینہ داری میں ترا عکس

اے آئینہ بردار، خبردار! خبردار!

 

یہ حسنِ مجسم، یہ جوانی، یہ تب و تاب

سب جاں کے ہیں آزار، خبردار! خبردار!

 

کچھ فاصلہ رکھنا ہے تعلق میں ضروری

مت کرنا حدیں پار، خبردار! خبردار!

 

منزل پہ پہنچنا ہے اگر شام سے پہلے

مدھم نہ ہو رفتار، خبردار! خبردار!

 

لڑنا ہے مسائل سے فراغؔ آخری دم تک

مت پھینکنا ہتھیار، خبردار! خبردار!

٭٭٭

 

 

 

 

آسماں سے دھرتی کا رابطہ نکلتا ہے

درمیاں مگر کتنا فاصلہ نکلتا ہے

 

اہلِ حق کا جس جانب قافلہ نکلتا ہے

منتظر وہیں دشتِ کربلا نکلتا ہے

 

تشنگی لپکتی ہے جس کو جان کر دریا

اُس جگہ سرابوں کا سلسلہ نکلتا ہے

 

جو خدا ٹھہرتا ہے قلب کی بصارت پر

کم نگاہ کے آگے واہمہ نکلتا ہے

 

دور کیسا آیا ہے مصلحت پسندی کا

خال خال اب کوئی کج ادا نکلتا ہے

 

جو لذیذ ہوتا ہے ہر زبانِ قاتل پر

میرے ہی لہو کا وہ ذائقہ نکلتا ہے

 

کس زمیں کے گوشے پر آپ حق جماتے ہیں

ہر جگہ ہمارا ہی مقبرہ نکلتا ہے

 

کچھ نہ کچھ تو مجھ میں بھی خامیاں در آئی ہیں

ورنہ کیوں خفا اپنا آئینہ نکلتا ہے

 

خلق کرتے رہنا ہے کچھ نہ کچھ کہ فنکارو،

ناقدوں کا تنقیدی حوصلہ نکلتا ہے

 

اب فراغِؔ خود سر کا سر قلم کیا جائے

کب وہ اہلِ باطل کا ہم نوا نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پھر بھی کر لیا ہم نے اعتبار پانی کا

کشتیاں ڈبو دینا ہے شعار پانی کا

 

آسماں چلاتا ہے کاروبار پانی کا

بادلوں کا لشکر ہے اشتہار پانی کا

 

تو بھلا چکائے گا کیا اُدھار پانی کا

مر کے بھی تو رہنا ہے قرض دار پانی کا

 

روز یہ تماشہ ہم دیکھتے ہیں ساحل سے

اک چڑھاؤ پانی کا، اک اُتار پانی کا

 

موجِ بد دماغ آخر کیوں نہیں سمجھتی ہے

ہم نے زعم توڑا ہے بار بار پانی کا

 

کیوں نہ مرنے والے پر فاتحہ پڑھی جائے

برف کی جو سل ٹھہری، ہے مزار پانی کا

 

بادلوں کا سندیسہ آئے دن پہنچتا ہے

پر ہے بختِ صحرا میں انتظار پانی کا

 

لاکھ قحط سالی ہو، پیاس ہم بجھا لیں گے

آنکھ میں ذخیرہ ہے بے کنار پانی کا

 

آپ سے ملوں کیسے ، میں تو اک جزیرہ ہوں

جس کے چاروں جانب ہے رہ گذار پانی کا

 

ہم بچا نہیں پائے خواب کے گھروندے کو

کس غضب کا تھا ریلا زور دار پانی کا

 

سوچتے نہیں اس میں سب گناہ دھوتے ہیں

کہہ رہے ہیں دامن ہے داغ دار پانی کا

 

توڑنا نہ تم ہرگز ان کنول کے پھولوں کو

ان سے ہی فراغؔ آخر ہے سنگار پانی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

آدمی پرندوں سا بے اماں نہیں ہے کیا

ایک ہی سی دونوں کی داستاں نہیں ہے کیا

 

دور تک کہیں کوئی آسماں نہیں ہے کیا

اب زمیں کی قسمت میں سائباں نہیں ہے کیا

 

سلسلہ عذابوں کا ختم ہو تو کیسے ہو

اس زمین سے برہم آسماں نہیں ہے کیا

 

اے خدا، بظاہر تو جی رہے ہیں سب، لیکن

ہر کوئی مقدر سے بدگماں نہیں ہے کیا

 

کس لیے کریں ہجرت اپنے شہر سے آخر

اس زمیں کا ہر خطہ بے اماں نہیں ہے کیا

 

راستوں کے جنگل میں قافلہ کدھر جائے

پیچ و خم میں ہر رستہ بے نشاں نہیں ہے کیا

 

جو قفس سے چھوٹا تھا، کیوں قفس میں لوٹ آیا

سرپھرے پرندوں کا آشیاں نہیں ہے کیا

 

ناقدوں کی نظروں میں اے فراغؔ بتلاؤ

شاعری مری کارِ رائے گاں نہیں ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس غم میں گرفتار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

جب تک جیے بیمار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

بے یار و مددگار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

کس کرب سے دوچار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

تا عمر انا دار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

خود طالبِ آزار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

چھوٹا نہ کبھی ہاتھ سے تہذیب کا دامن

پروردۂ اقدار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

تھی ہم سے فقیروں کی طبیعت ہی کچھ ایسی

دربار سے بیزار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

جس غم پہ نہ ٹھہریں کبھی دنیا کی نگاہیں

اُس غم کے طلب گار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

ہم ہجر کے ماروں پہ ہر اک رات تھی بھاری

پھر کس لیے بیدار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

جس جام کی ہر بوند کے حق دار ہمیں تھے

اُس جام سے بیزار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

اک موجِ بلا جس کو ڈبونے پہ تلی تھی

اُس ناؤ کی پتوار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

 

کس دورِ مصائب میں فراغؔ آخری دم تک

اُردو کے نمک خوار رہے میرؔ بھی، ہم بھی

٭٭٭

 

 

 

 

دن کیا ہے ، رات کیا ہے ، اللہ جانتا ہے

کب سے یہ سلسلہ ہے ، اللہ جانتا ہے

 

پردے میں کیوں چھپائے رکھتا ہے ذات اپنی

آخر یہ راز کیا ہے ، اللہ جانتا ہے

 

مرتے ہیں جینے والے سب کو خبر ہے ، لیکن

درپردہ اس کے کیا ہے ، اللہ جانتا ہے

 

روزِ ازل سے اب تک ارض و سما میں آخر

کیوں اتنا فاصلہ ہے ، اللہ جانتا ہے

 

منزل کے شوق میں تو سب گامزن ہیں ، لیکن

جو اُس کا فیصلہ ہے ، اللہ جانتا ہے

 

آئی نہیں قیامت، پھر بھی ہر ایک ساعت

کیوں حشر سا بپا ہے ، اللہ جانتا ہے

 

حالت درونِ دل کی ہم جانتے ہیں یا پھر

اللہ کو پتا ہے ، اللہ جانتا ہے

 

دیکھے ہیں خواب کیا کیا ہم نے فراغؔ، لیکن

تعبیر خواب کیا ہے ، اللہ جانتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے نور سحر کو یا سیہ رات کو روؤں

رونے کی ہر اک بات ہے ، کس بات کو روؤں

 

کرتا ہی رہوں اپنی نگاہوں کو ملامت

یا اب میں ترے طرزِ حجابات کو روؤں

 

کوسوں میں شبِ وعدہ دلِ سادہ کو اپنے

یا آپ کے ہر عہدِ ملاقات کو روؤں

 

جس سے نہ دلِ سنگ ہوا موم کسی طور

لازم ہے اُسی گرمیِ جذبات کو روؤں

 

مٹھی سے پھسلتے جو رہے ریت کی مانند

کیا شام و سحر میں اُنھی لمحات کو روؤں

 

بے جا تھی توقع تو کروں نوحہ اُسی کا

یا کھنچتے ہوئے دستِ عنایات کو روؤں

 

نمدیدہ ہوں ، لیکن یہ ضروری تو نہیں ہے

تا عمر ترے جورِ کمالات کو روؤں

 

ہنسنا بھی ضروری ہے یہاں طرزِ ستم پر

کب تک میں بھلا رسمِ مکافات کو روؤں

 

میں جنگ کے میداں میں تھا خود اپنے مقابل

رویا کروں اب جیت کو یا مات کو روؤں

 

میں شکوہ کروں یاروں کا یا راہِ سفر میں

جو چھوٹ گیا ہاتھ اُسی ہاتھ کو روؤں

 

جو میرے لیے باعثِ رُسوائی ہوئی ہے

اب اور کہاں تک میں اُسی ذات کو روؤں

 

ہر رُت ہی رُلاتی ہے مجھے خون کے آنسو

کیوں سوچ کے ہر وقت اِسی بات کو روؤں

 

اوروں کے خیالات پہ رونے سے کیا حاصل

بہتر ہے فراغؔ اپنے خیالات کو روؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں کر پلٹ کے دیکھتا دیوار و در کو میں

گھر زار زار روتا مجھے ، اور گھر کو میں

 

رُسوا کروں گا اور نہ زخمِ جگر کو میں

جب آزما چکا ہوں ہر اک چارہ گر کو میں

 

روؤں گا زخمِ دل کو ترے روبرو، مگر

بہنے نہ دوں گا آنکھ سے خونِ جگر کو میں

 

کیسا جنون ہے کہ جلا کر چراغِ دل

پُر نور کر رہا ہوں تری رہ گذر کو میں

 

منزل پہنچ سے دور ہوئی تب ہوا ملال

کیوں راہبر سمجھتا رہا ہمسفر کو میں

 

کافر کہا ہے مجھ کو بتوں نے مرے خدا،

تیرے سوا سناؤں کسے اِس خبر کو میں

 

اُٹھتی ہے بار بار مرے عیب کی طرف

دیتا ہوں داد دل سے تمھاری نظر کو میں

 

زحمت اُٹھائے کس لیے صیاد روز روز

خود ہی کتر رہا ہوں فراغؔ اپنے پر کو میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

شدتِ دردِ جگر ایک زمانے سے رہی

ابنِ مریم کا مگر ناز اُٹھانے سے رہی

 

باندھ برسات کی رُت میں بھی گرانے سے رہی

موجِ دریا تو مری پیاس بجھانے سے رہی

 

لوٹ کر عزت و توقیر تو آنے سے رہی

اب تری بزم ہمیں سر پہ بٹھانے سے رہی

 

جگنوؤ، جاؤ مرے گھر سے پرے ہی چمکو

میری غیرت کوئی احسان اُٹھانے سے رہی

 

شورِ احباب میں دب سکتی ہے آواز، مگر

میرے لہجے کی تب و تاب تو جانے سے رہی

 

تھپکیاں دے کے مجھے موت سلا سکتی ہے

زندگی چین سے اک رات سلانے سے رہی

 

ایک اک قرض میں خود ہی کیے دیتا ہوں معاف

زندگانی تو مرا قرض چکانے سے رہی

 

آندھیوں میں بھی جنھیں آ گیا جلنے کا شعور

کوئی رُت ایسے چراغوں کو بجھانے سے رہی

 

ایک تہذیبِ مکمل ہے زبانِ اُردو

یہ وراثت تو مرے ہاتھ سے جانے سے رہی

 

اب تہہِ خاک بھی شاید نہ بسا جائے فراغؔ

یہ زمیں ہم کو تو سینے میں چھپانے سے رہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

وقت دیوارِ تکلف کو گرانے سے رہا

وہ بلانے سے رہے ، اور میں جانے سے رہا

 

میں دکھاوے کی کوئی رسم نبھانے سے رہا

بے دلی سے تو کبھی ہاتھ ملانے سے رہا

 

قطرۂ ابر بھلا تیری حقیقت کیا ہے

جب سمندر ہی مری پیاس بجھانے سے رہا

 

میں نے مانا کہ خدا روٹھا ہوا ہے مجھ سے

ہر کسی در پہ مگر سر کو جھکانے سے رہا

 

لے مری ڈھال اُٹھا اپنی حفاظت کے لیے

بے سپر تو ہے تو میں تیغ اُٹھانے سے رہا

 

دوستو، آؤ تمھیں زہر پلا دو مجھ کو

اک یہی چیز مسیحا تو پلانے سے رہا

 

ایسی جرأت مرے احباب ہی کر سکتے ہیں

اور کوئی تو مرا خون بہانے سے رہا

 

میں اداکار نہیں ، ایک سخنور ہوں فراغؔ

محفلوں میں کوئی کرتب تو دکھانے سے رہا

٭٭٭

 

 

 

 

رستہ نہ دے کہ حسرتِ منزل نہیں مجھے

موجِ بلا پسند ہے ، ساحل نہیں مجھے

 

ہے بد حواس خود ہی مری اک نگاہ سے

اب تو ذرا بھی خدشۂ قاتل نہیں مجھے

 

جلنا قبول ہے مجھے مانندِ کوہِ طور

لیکن گوارہ پردۂ محمل نہیں مجھے

 

جتنا زیادہ ہے تجھے رُسوائیوں کا ڈر

اتنا عزیز تو دلِ بسمل نہیں مجھے

 

شاید مرے گزشتہ عمل کی سزا ہے یہ

جو فرصتِ گناہ بھی حاصل نہیں مجھے

 

میں خوش رہا مشیتِ یزداں کے سامنے

گزری ہے شاق کوئی بھی مشکل نہیں مجھے

 

یہ ایک ایک سانس مری حق نواز ہے

ہرگز قبول دعوتِ باطل نہیں مجھے

 

زنجیر میرے پیروں کی مت کھولنا فراغؔ

بارِ گراں تو شورِ سلاسل نہیں مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر ایک شعر کہاں دل پذیر سمجھا گیا

کمانِ فکر سے نکلا تو تیر سمجھا گیا

 

ہمارا عشق کہاں بے نظیر سمجھا گیا

فقط شباب کا تیرے اسیر سمجھا گیا

 

جو اُس کی گرد برابر نہ تھا کسی صورت

اُسے بھی محفلِ یاراں میں میرؔ سمجھا گیا

 

برا کیا کہ میں سچ بولتا رہا منہ پر

میں آئینہ تھا، مگر حرف گیر سمجھا گیا

 

سرِ انا کو جھکانے کی یہ سزا پائی

کہ ہر مقام پہ مجھ کو حقیر سمجھا گیا

 

مرے بدن پہ کچھ ایسا لباس تھا کہ یہاں

فقیر کو بھی امیر و کبیر سمجھا گیا

 

میں کس کے ساتھ نہ تھا ہر محاذ پر، لیکن

مجھے کسی کا کہاں دست گیر سمجھا گیا

 

ٹپک پڑی جو بجھی زندگی کے صحرا میں

اُس ایک بوند کو آبِ کثیر سمجھا گیا

 

فراغؔ اصل میں وہ تھا ہجومِ آسیبی

جو میرے سایوں کا جم غفیر سمجھا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

رہتے اگر نہ تیرے وفا دار ہوکے ہم

مشہورہوتے سرخیِ اخبار ہوکے ہم

 

کوئی نکالتا نہیں قیدِ نیام سے

بے کار ہوکے رہ گئے تلوار ہوکے ہم

 

سن کر تری زبان سے اک قیمتِ حقیر

پچھتا رہے ہیں تیرے خریدار ہوکے ہم

 

آئی نہ راس جب ہمیں ویرانیوں کی سیر

گھر میں پڑے ہیں دشت سے بیزار ہوکے ہم

 

لاحق ہوا ہے جب سے ہمیں عشق کا مرض

ہنستے ہیں سب کے سامنے بیمار ہوکے ہم

 

کیا عابدوں سے چھوٹا ہے مسجد کا راستہ

پینے سے توبہ کیوں کریں میخوار ہوکے ہم

 

یہ سادگی تو دیکھ تصور میں رات دن

جنت میں جا رہے ہیں سیہ کار ہوکے ہم

 

لائی ہے کس مقام پہ یہ زندگی فراغؔ

بے نطق سے ہیں صاحبِ گفتار ہوکے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی جو ہم سرِ بازار آ گئے ہوتے

ہمارے فن کے خریدار آ گئے ہوتے

 

قدم جو تم نے مرے گھر میں رکھ دیا ہوتا

تو وجد میں در و دیوار آ گئے ہوتے

 

بس ایک شرطِ محبت پہ ہم انا والے

تمھارے در پہ کئی بار آ گئے ہوتے

 

ہماری آنکھوں پہ پٹی بندھی رہی ورنہ

نظر زوال کے آثار آ گئے ہوتے

 

یہ سانحہ جو گزرتا کسی رئیس کے گھر

قطار باندھے عزا دار آ گئے ہوتے

 

ہماری چیخ وہاں تک اگر گئی ہوتی

تو آسماں سے مددگار آ گئے ہوتے

 

زبان سی کے سلامت رہے مرے احباب

وگرنہ وہ بھی سرِ دار آ گئے ہوتے

 

خدا کو بانٹ دیا ورنہ ایک مرکز پر

تمام واعظ و میخوار آ گئے ہوتے

 

خدا رحیم نہ ہوتا تو اُس کی زد میں فراغؔ

زمانے بھر کے گنہگار آ گئے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

رُکتا کہاں ہے ، ساتھ ہی چلتا ہے آج بھی

وابستہ میرے پیروں سے رستہ ہے آج بھی

 

اُس پر نہ جانے کون سا گزرا ہے سانحہ

کوئی دیارِ جاں میں سسکتا ہے آج بھی

 

اک دن بچھڑ گیا تھا کہیں اپنے آپ سے

اپنی تلاش میں جو بھٹکتا ہے آج بھی

 

کیا مجھ پہ ماہ و سال کا کوئی اثر نہیں

حیرت سے آئینہ مجھے تکتا ہے آج بھی

 

سیراب پھر بھی ہوتی نہیں وادیِ ہوس

ابرِ کرم تو کھل کے برستا ہے آج بھی

 

تجھ کو نہیں ہے یاد، مگر سب کو یاد ہے

میری طرف جو راستہ مڑتا ہے آج بھی

 

تم جھوٹ بولتے ہو جو از راہِ مصلحت

اُس پر گماں یقیں کا گزرتا ہے آج بھی

 

تنہا کہاں غلام خدائے سخن کا میں

دم کون میرؔ کا نہیں بھرتا ہے آج بھی

 

اک دن جو ہو گیا تھا ترے پیرہن سے مس

وہ دامنِ فراغؔ مہکتا ہے آج بھی

٭٭٭

 

 

 

 

ہو گئی کیا اک نگاہِ مہرباں میرے خلاف

اُٹھ رہی ہے آج انگشتِ جہاں میرے خلاف

 

گھر کے اندر اختلافِ رائے کیا پیدا ہوا

سر اُٹھائے ہے قطارِ دشمناں میرے خلاف

 

وار کرتا بھی تو کس پر، دشمنوں کے ساتھ ساتھ

تھا کمر باندھے ہجومِ دوستاں میرے خلاف

 

اُس کے اک اک وار کا میں شان سے دیتا جواب

ہاں ! اگر ہوتا کوئی مردِ جواں میرے خلاف

 

سب بدل جائیں گے ، لیکن یہ کبھی سوچا نہ تھا

زہر اُگلے گی تمھاری بھی زباں میرے خلاف

 

جس کی وسعت اور گہرائی سے ہے رشتہ مرا

ہے اُسی دریا کی ہر موجِ رواں میرے خلاف

 

کل جہاں دادِ وفا ملتی رہی مجھ کو، وہیں

اب سنائی جا رہی ہے داستاں میرے خلاف

 

سرخرو ہونا ہے مجھ کو اک خدا کے سامنے

کیا ہوا جو ہو گیا شہر بتاں میرے خلاف

 

کیوں ہے یہ طرفہ تماشا تیرے رہتے اے خدا،

یہ زمیں تو ہے زمیں ، ہے آسماں میرے خلاف

 

اب کسی پر ہو توکیسے ہو بھروسہ اے فراغؔ

آج جب ہے خود ہی میرا پاسباں میرے خلاف

٭٭٭

 

 

 

 

محرومیوں کا درد کبھی بے بسی کا درد

چہرے بدل کے ملتا رہا زندگی کا درد

 

روشن ہر ایک چہرے پہ ہے زندگی کا درد

پھر بھی کوئی سمجھتا نہیں ہے کسی کا درد

 

کس کرب سے گزرتا ہوں دنیا کو کیا خبر

اللہ جانتا ہے مری خامشی کا درد

 

اک بحرِ بے کنار تھا آنکھوں کے سامنے

اور مجھ پہ ہنس رہا تھا مری تشنگی کا درد

 

ملتا کہاں سے منزلِ مقصود کا سراغ

میرے نصیب میں تھا لکھا گمرہی کا درد

 

ہوتی ہے بے گھروں کو تسلی یہ دیکھ کر

ہم جی رہے ہیں گھر میں لیے بے گھری کا درد

 

فصلِ بہار آئی بڑی تمکنت کے ساتھ

ہر شاخِ گل پہ پھر بھی تھا افسردگی کا درد

 

کیوں دے رہی ہے ہم کو نئے غم نئی صدی

کچھ کم نہیں فراغؔ گزشتہ صدی کا درد

٭٭٭

 

 

 

 

شعلہ نوائے دل کا دربار تک نہ پہنچا

کیا تھا جنوں ہمارا جو دار تک نہ پہنچا

 

آساں نہیں ہے اُس کا پانا سراغِ منزل

وہ کارواں جو دشتِ پُر خار تک نہ پہنچا

 

ممکن تھا موجِ طوفاں رُخ اپنا موڑ لیتی

لیکن کوئی سفینہ منجدھار تک نہ پہنچا

 

اک قافلہ رواں ہے وہم و گماں کی جانب

اب تک شعور شاید اسرار تک نہ پہنچا

 

پردے سرک ہی جاتے ، جلوہ نما تو ہوتا

عاشق ہی تیرا شرطِ دیدار تک نہ پہنچا

 

کیوں تیرے میکدے میں اور وہ بھی تیرے رہتے

اک جام تیرے تشنہ میخوار تک نہ پہنچا

 

اِس پار ہی گرا وہ ہر بار پھڑپھڑا کر

کیوں طائرِ محبت اُس پار تک نہ پہنچا

 

ہم کیوں فراغؔ رہتے دادِ ہنر کے طالب

اک شعر بھی تو حسنِ اظہار تک نہ پہنچا

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر خوف کا اک رنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

درپیش کوئی جنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

محفوظ کہیں بھی تو نہیں ہے سرِ انساں

ہر ہاتھ میں اب سنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

جائیں تو کہاں جائیں اماں ڈھونڈنے والے

انساں پہ زمیں تنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

کب جنگ سے نکلی ہیں کہیں امن کی راہیں

ذہنوں پہ عجب زنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

سرحد پہ دھواں سا ہے ، مگر شہر کے اندر

بجتی ہوئی مردنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

اللہ رے تجدیدِ رفاقت کی یہ کوشش!

ہر شخص مگر دنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

جذباتِ محبت کے معانی تو بتاؤ

بدلی ہوئی فرہنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

جیتے ہیں ، مگر موت سے بدتر ہے یہ جینا

جینے کا یہی ڈھنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

پازیب کی جھنکار میں ، برسات کی لے میں

اک رنگ، اک آہنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

 

ہے گرم فراغؔ آج بھی بازار غزل کا

پر شاعری بے رنگ یہاں بھی ہے ، وہاں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

اپنا وجود بھی تجھے دِکھتا نہیں ہے کیا

رب کا مرے یہ کوئی کرشمہ نہیں ہے کیا

 

بے شک دیارِ جاں میں ہی کرتا ہے وہ قیام

دل میں اسی یقیں کا اُجالا نہیں ہے کیا

 

دامن پسارتا پھروں جس تس کے سامنے

اُس کے کرم پہ مجھ کو بھروسہ نہیں ہے کیا

 

انساں ڈرا ہوا ہے زمانے سے کس لیے

رحم و کرم پہ اُس کے زمانہ نہیں ہے کیا

 

ہنگامۂ حیات و عروج و زوال میں

روزِ ازل سے دخل خدا کا نہیں ہے کیا

 

فطرت سے سرد و گرم کی نسبت سہی، مگر

موت و حیات مرضیِ مولا نہیں ہے کیا

 

حیرت کی بات کیا ہے جو اُڑتا ہے آدمی

سوئے فلک پرند بھی اُڑتا نہیں ہے کیا

 

جو ڈھیل ظالموں کو بھی دیتا ہے بار بار

اُن کی نکیل پھر وہی کستا نہیں ہے کیا

 

چاہے تو ایک پل میں بدل دے مرا نصیب

وہ قدرت و کمال میں یکتا نہیں ہے کیا

 

مایوس اُس کی ذات سے ہرگز نہیں فراغؔ

ذرّوں کا بھی نصیب چمکتا نہیں ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

تمھارا وعدہ خدائی قرار تھوڑی ہے

چمکتی شے کا کوئی اعتبار تھوڑی ہے

 

یہ راہوارِ قلم بے مہار تھوڑی ہے

کسی کا اس پہ کوئی اختیار تھوڑی ہے

 

جنوں میں حد سے ہم اہلِ جنوں گزرتے ہیں

ہمارا اہلِ خرد میں شمار تھوڑی ہے

 

وہ ہم سے پیش نہ آئے گا بادشاہوں سا

وزیر ہے ، وہ کوئی شہریار تھوڑی ہے

 

ہم اُس کے آگے کبھی سر جھکا نہیں سکتے

امیرِ شہر ہے ، پروردگار تھوڑی ہے

 

رئیسِ وقت کے درباریوں میں رہنا کیا

یہ بات باعثِ صد افتخار تھوڑی ہے

 

محل نشینو، تکلف کرو نہ آنے میں

مرا ٹھکانہ سرِ رہ گذار تھوڑی ہے

 

کہاں سے لاؤں میں قالین اب تمھارے لیے

درِ فقیر ہے ، شاہی دیار تھوڑی ہے

 

خیال سود کا رکھتے ہو تو پلٹ جاؤ

یہ شاعری ہے ، کوئی کاروبار تھوڑی ہے

 

فراغؔ اشاروں میں ہی گفتگو کرے گا کہ وہ

سخن طراز ہے ، نامہ نگار تھوڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ ایسے ویسے نہیں ہیں، یہ آن والے ہیں

یہی پرندے تو اُونچی اُڑان والے ہیں

 

یہ دھوپ دھوپ سفر امتحان والے ہیں

اُنھیں نہ ساتھ لو جو سائبان والے ہیں

 

بسے ہوئے ہیں جو برسوں سے خواب آنکھوں میں

نئی زمین، نئے آسمان والے ہیں

 

برے اِدھر بھی نہیں ہیں ، برے اُدھر بھی نہیں

منافقین تو بس درمیان والے ہیں

 

ہر ایک ظلم جو سہ کر خموش رہتے ہیں

وہ بے زبان نہیں ہیں ، زبان والے ہیں

 

نبھے گی کیسے بھلا اِن سے ہم فقیروں کی

یہ لوگ باگ بڑے ہی گمان والے ہیں

 

ہمارے شعر کو سن کر عدو بھی بول پڑے

غضب کے تیر تمھاری کمان والے ہیں

 

انھیں حقیر سمجھنا نہ تم فراغؔ کبھی

مسافرانِ زمیں ، آسمان والے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُکتا گیا ہوں بھیڑ سے تنہائی چاہیے

یاروں میں اس قدر نہ پذیرائی چاہیے

 

دنیا مجھے فرشتہ نہ کہنے لگے کہیں

تھوڑی سی راہِ شوق میں رُسوائی چاہیے

 

مجھ پر نہ ختم ہو گا تماشائے زندگی

اس کو تو بار بار تماشائی چاہیے

 

دنیا شناس میری نظر ہے تو کیا ہوا

کچھ اپنی ذات سے بھی شناسائی چاہیے

 

دریا میں تیرنے کی تمنا نہیں مجھے

اے بحرِ بے کراں ، تری گہرائی چاہیے

 

اک دن میں کون پہنچا ہے بامِ عروج پر

اس راہِ میں کمالِ شکیبائی چاہیے

 

ہو گی مری حیات بھی خود زیر سے زبر

بس وقتِ محوِ خواب کی انگڑائی چاہیے

 

نا دیدہ حسنِ زیست کا نظارہ جس سے ہو

میرے خدا، مجھے بھی وہ بینائی چاہیے

 

سچ منہ سے خود بخود ہی نکل جاتا ہے فراغؔ

پر جھوٹ بولنا ہو تو دانائی چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ پر عتابِ خاص کی بوچھار کم نہ تھی

لہجہ تھا اُس کا نرم مگر دھار کم نہ تھی

 

اک بار آبگینۂ دل ٹوٹنے کے بعد

تجدیدِ ربطِ دوستی دشوار کم نہ تھی

 

جاری تھا یوں تو آنکھ مچولی کا سلسلہ

پر گردشِ حیات طرح دار کم نہ تھی

 

کیا کھینچتی مجھے کسی پازیب کی صدا

میرے لیے تو درد کی جھنکار کم نہ تھی

 

میں نے تو ایک عمر تعاقب کیا، مگر

کیا کیجئے کہ وقت کی رفتار کم نہ تھی

 

دیوانگی نے ساتھ دیا ورنہ راہ میں

بارش رُکی تو دھوپ کی یلغار کم نہ تھی

 

کس کو خبر تھی چومے گی منزل مرے قدم

جس راہ میں چلا تھا وہ دشوار کم نہ تھی

 

تم نے بھی ساتھ چھوڑ دیا جب کہ اے فراغؔ

میرے خلاف سازشِ اغیار کم نہ تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

راہِ طلب میں حسرتِ دیدار کم نہ ہو

ایسے ملو کہ بیچ کی دیوار کم نہ ہو

 

تابِ نظر رہے نہ رہے چشمِ شوق میں

پر شوقِ انتظار مرے یار، کم نہ ہو

 

منزل تمھارے سامنے آئے گی خود بخود

شرطِ سفر یہی ہے کہ رفتار کم نہ ہو

 

تجھ پر نثار خون کی ہر بوند زندگی

لیکن تری یہ سرخیِ رُخسار کم نہ ہو

 

اُس نے زبان دی ہے تو بولیں گے برملا

اس شرط پر کہ جرأتِ اظہار کم نہ ہو

 

یہ کیا کہ خود بتاتے پھریں سب سے اپنا مول

فن خود کہے کہ قیمتِ فنکار کم نہ ہو

 

بکنے پہ آ گئے ہیں تو اک دن بکیں گے سب

پر لازمی ہے گرمیِ بازار کم نہ ہو

 

معیار دوستی کا ہماری رہا بلند

اب طرزِ دشمنی کا بھی معیار کم نہ ہو

 

ساقی کو جاتے جاتے دعا شیخ نے یہ دی

اس میکدے میں آمدِ میخوار کم نہ ہو

 

تجھ سے مطالبہ ہے غزل کا یہی فراغؔ

لہجہ تو مخملی ہو مگر دھار کم نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی چہرہ ترے چہرے کا بدل ہو کیسے

ہر غزل تیری طرح جانِ غزل ہو کیسے

 

وہ حرارت کہ رگ و پے میں شرارے بھر دے

تیرے ہونٹوں کا بدل کوئی کنول ہو کیسے

 

تجھ سے منسوب ہر اک بات عبادت ٹھہری

تیری آمد سے عبادت میں خلل ہو کیسے

 

تو کبھی سامنے آتا ہے تو پل بھر کے لیے

قید آنکھوں میں ملاقات کا پل ہو کیسے

 

تو رگِ جاں کے قریں ہے کہ تصور سے پرے

یہ معمہ ترے دیوانے سے حل ہو کیسے

 

جب پہل کرنا ہے دشوار تو پھر دونوں طرف

عشق پروان چڑھے اس پہ عمل ہو کیسے

 

عشق نے جب کسی قابل ہمیں رکھا ہی نہیں

’’ہم سے تعمیر کوئی تاج محل ہو کیسے ‘‘

 

پھول کھلتے نہیں جس پیڑ کی شاخوں پہ کبھی

کوئی بتلائے کہ اُس پیڑ پہ پھل ہو کیسے

 

اپنی بے تاب نگاہوں سے ذرا پوچھ فراغؔ

کسی پتھر پہ کوئی ردِ عمل ہو کیسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو مثلِ ساز دل دھڑکا تمھارا بھی، ہمارا بھی

سریلا ہو گیا لہجہ تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

نگاہیں چار ہوتی ہیں تو معنی خیز نظروں سے

تکا کرتے ہیں سب چہرہ تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

ہماری زندگی سانسوں کے سنگم پر تو لے آئی

رہے گا دل مگر پیاسا تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

رہِ اُلفت میں رُسوائی سنا ہے ساتھ چلتی ہے

بلا سے نام ہو رُسوا تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

دعائیں دو محبت کو کہ اس کے ہی وسیلے سے

زمانے بھر میں ہے چرچا تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

محبت کے لیے دنیا ترستی ہے ، مگر دیکھو

مخالف ہے جہاں سارا تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

زمانہ رات دن ہم پر اُٹھائے اُنگلیاں، لیکن

بڑا پاکیزہ ہے رشتہ تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

سدا راہِ محبت میں رہیں ثابت قدم اپنے

نہ جھوٹا ہو کوئی وعدہ تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

کنارے لگ ہی جائے گی کسی دن عشق کی کشتی

خدا جب ناخدا ٹھہرا تمھارا بھی، ہمارا بھی

 

فراغؔ اہلِ محبت میں شمار اپنا اگر ہو گا

سبھی دہرائیں گے قصہ تمھارا بھی، ہمارا بھی

٭٭٭

 

 

 

 

بچھڑ کے تجھ سے کسی پل کہاں میں تنہا تھا

ترا وجود مرے ارد گرد پھیلا تھا

 

سلگ اُٹھا تھا مرا جسم سرد موسم میں

وہ تیری یاد کا جھونکا تھا یا شرارا تھا

 

کسی کنول پہ اگر چاندنی چھٹکتی تھی

ترے گداز بدن کا گماں گزرتا تھا

 

شبِ فراق مرے ساتھ ساتھ روتی تھی

کتابِ زیست کے اوراق جب پلٹا تھا

 

خموشیوں کے جزیرے میں بھی قیامت تھی

’’وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا‘‘

 

اگرچہ میری پہنچ سے تو دور تھا، پھر بھی

تمام رات ترا راستہ میں تکتا تھا

 

ترے نقوش اُبھرتے تھے جب تصور میں

تو ساتھ ساتھ ہے میرے، یقین ہوتا تھا

 

اُداسیوں کے سمندر میں جانے کب سے فراغؔ

مرا وجود سسکتا ہوا جزیرا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہاں راحتیں ہیں نصیب میں ، وہی سلسلہ ہے عذاب کا

جسے میں سمیٹنے بیٹھا ہوں وہ تو ملبہ ہے مرے خواب کا

 

مرے ساتھ بھی تو وفا کرو، مجھے حرف حرف پڑھا کرو

جسے پڑھ سکا نہ کوئی کبھی وہی باب ہوں میں کتاب کا

 

تری سمت لے گیا کھینچ کر مجھے عاشقی کا جنوں ، مگر

تجھے پا کے کیوں لگا سوچنے ترا ساتھ ہے کہ سراب کا

 

کسی طور بھی نہ قرار ہے ، جسے دیکھئے وہ شکار ہے

کہیں فاصلوں کے عذاب کا، کہیں قربتوں کے عتاب کا

 

سبھی غم کی آمد و رفت کا رہے سلسلہ تو رہے ، مگر

غمِ ہجر مجھ کو عزیز ہے کہ یہ غم ہے عہدِ شباب کا

 

مجھے کس گناہ کی دی سزا، تری کائنات میں اے خدا،

میں وہ دشت ہوں کہ جہاں کبھی نہ رُکا ہے سایہ سحاب کا

 

کسے دید کی نہ ہوئی طلب، ہوا جگ میں جلوہ نما تو جب

کہاں کر سکا کوئی سامنا ترے حسن کی تب و تاب کا

 

رہیں کیوں فراغؔ چہار سو یہ خموشیاں ، یہ اُداسیاں

کوئی تار آ کے تو چھیڑ دے مری زندگی کے رباب کا

٭٭٭

 

 

 

 

عشق میں دل پر کیا گزری ہے سب سے نہیں فرمانے کا

اک دیوانہ ہی سمجھے گا حال کسی دیوانے کا

 

فرزانوں کی سیر و سیاحت راس نہ آئی گلشن کو

مجنوں سے مشہور ہوا ہے نام مگر ویرانے کا

 

ہم مستوں کو روکے رکھا اک انجانی مستی نے

ورنہ رستہ دور نہیں تھا مسجد سے میخانے کا

 

کم ظرفوں نے پیاس بجھا کر توڑ دیا پیمانوں کو

ہم نے بھرم رکھا ہے لیکن ہر خالی پیمانے کا

 

جن کی آنکھیں ہوش اُڑا دیں ، حق ہے اُنھیں یہ کہنے کا

اِن آنکھوں کے جام کے آگے نام نہ لو میخانے کا

 

جاتے جاتے خود جائے گی اُن کی یہ بے پروائی

آتے آتے آ جائے گا اُن کو ہنر شرمانے کا

 

عشق میں تیرے کیا بتلاؤں کس منزل سے گزرا ہوں

اب تو حقیقت پر بھی گماں ہوتا ہے مجھے افسانے کا

 

جلنا جلانا شیوہ ٹھہرا شمعِ فروزاں کا اے فراغؔ

وہ بے چاری کیا دیکھے گی سوزِ الم پروانے کا

٭٭٭

 

 

 

 

آنا ہے تو بے خوف و خطر کیوں نہیں آتا

وہ گھر سے نہیں دور تو گھر کیوں نہیں آتا

 

سچ مچ ہے پشیمان اگر اپنی خطا پر

وہ سامنے با دیدۂ تر کیوں نہیں آتا

 

میری ہی نگاہوں میں کوئی کھوٹ ہے ورنہ

وہ سامنے رہ کر بھی نظر کیوں نہیں آتا

 

غوطے تو لگاتا ہوں ، مگر ہاتھ میں میرے

بس ریت ہی آتی ہے ، گہر کیوں نہیں آتا

 

لگتا ہے کہ برسے گا کہیں اور ہی بادل

ہم لوگ بھی پیاسے ہیں اِدھر کیوں نہیں آتا

 

کیا کوئی چھلاوہ ہے چمکتا ہوا سورج

ہمراہِ سحر نورِ سحر کیوں نہیں آتا

 

ہجرت کے سوا جب کوئی چارہ ہی نہیں ہے

آنکھوں کو کوئی رستہ نظر کیوں نہیں آتا

 

بے کار نہیں جاتی ہیں مظلوم کیا آہیں

پھر میری دعاؤں میں اثر کیوں نہیں آتا

 

کچھ پھول فراغؔ اس پہ بھی کھلتے تو ہیں ، لیکن

اس پیڑ پہ اک آدھ ثمر کیوں نہیں آتا

٭٭٭

 

 

 

 

کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے

وہ شخص پھر سے مرے رابطے میں آ جائے

 

وہ دوست بن کے اگر دائرے میں آ جائے

اک اور شخص مرے تجربے میں آ جائے

 

اُسے کرید رہا ہوں طرح طرح سے کہ وہ

جہت جہت سے مرے جائزے میں آ جائے

 

کمال جب ہے کہ سنورے وہ اپنے درپن میں

اور اُس کا عکس مرے آئینے میں آ جائے

 

دماغ اہلِ محبت کا ساتھ دیتا نہیں

اُسے کہو کہ وہ دل کے کہے میں آ جائے

 

وہ ماہتابِ زمانہ ہے لوگ کہتے ہیں

تو اُس کا نور مرے شب کدے میں آ جائے

 

وہ میری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا ہو

یہ واقعہ بھی کبھی دیکھنے میں آ جائے

 

کوئی گناہ نہیں ہے تو یہ محبت بھی

ہر ایک شے کی طرح ضابطے میں آ جائے

 

کیا ہے ترکِ تعلق تو مڑ کے دیکھنا کیا

کہیں نہ فرق ترے فیصلے میں آ جائے

 

یہ سوچ کر میں اُسے بے وفا نہیں کہتا

مرا بیاں نہ کہیں تذکرے میں آ جائے

 

بس اک فراغؔ بچا ہے جنوں پسند یہاں

کہو کہ وہ بھی مرے قافلے میں آ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاہتا ہے تو ذرا اس کی نمائش بھی کرے

ٹوٹ کر مجھ پہ محبت کی وہ بارش بھی کرے

 

اُس نے طے کر ہی لیا آنکھ سے جب دل کا سفر

وہ رگِ جاں میں اُتر جانے کی کوشش بھی کرے

 

اُس کی طاعت میں رہے گا دلِ سرکش میرا

حکم جب دے تو ذرا مجھ سے گزارش بھی کرے

 

وہ بھکاری ہے تو آ جائے ہماری صف میں

حاتمِ شہر اگر ہے تو نوازش بھی کرے

 

زندگی اتنی بڑی ہو کہ نہ چھوٹے دنیا

دل مگر اُس سے الگ خلد کی خواہش بھی کرے

 

میں نے چاہا تھا اُسے ، یہ تو نہیں چاہا تھا

دوستی کر کے مرے ساتھ وہ سازش بھی کرے

 

یہ زمانہ تو دکھاوے کا زمانہ ہے فراغؔ

وہ بھلا ہے تو بھلائی کی نمائش بھی کرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی خوشی تو کبھی بے دلی کے ساتھ رہے

تمام عمر مگر ہم اُسی کے ساتھ رہے

 

کب آس ہم کو زمانے سے تھی رفاقت کی

کب اپنے دل کے مطابق کسی کے ساتھ رہے

 

یہ بات باعثِ رُسوائی محبت ہے

کہ جو لگاؤ ہے تجھ سے ، سبھی کے ساتھ رہے

 

اُمید و یاس، فراق و وصال، رنج و خوشی

تمام عمر یہ جنجال جی کے ساتھ رہے

 

وہ اپنی ذات کا غم ہو کہ کائنات کا غم

کوئی نہ کوئی تو غم زندگی کے ساتھ رہے

 

ہمیں سزا یہ ملی ہے وطن سے ہجرت کی

کہ ہم جہاں بھی رہے ، بے بسی کے ساتھ رہے

 

طویل راہ گذر ہو کہ مختصر ہو فراغؔ

سفر میں رختِ سفر آدمی کے ساتھ رہے

٭٭٭

 

 

 

 

غمِ جہاں سے ہے ہر چند اضطراب اُسے

ہمارے ساتھ گوارہ ہے ہر عذاب اُسے

 

اسی ادا نے تو رکھا ہے مجھ کو اُس کا اسیر

کہ یاد عشق کے جذبوں کا ہے نصاب اُسے

 

وفا کا اُس کی ہے مقروض ایک ایک نفس

قبول پھر بھی نہیں قرض کا حساب اُسے

 

مری بساط سے بڑھ کر نہ تھی طلب اُس کی

نہ میں نے تاج محل کا دکھایا خواب اُسے

 

اُداسیوں کا تسلط کبھی جو مجھ پہ ہوا

تو مسکرانا پڑا مثلِ ماہتاب اُسے

 

اُس ایک پل میں ہی صدیاں گزرنے لگتی ہیں

میں ایک پل بھی جو ہوتا ہوں دستیاب اُسے

 

سفر میں دھوپ ہو یا چھاؤں ہو فراغؔ، مگر

ہر ایک حال میں پاتا ہوں ہم رکاب اُسے

٭٭٭

 

 

 

 

کب شہر طرب ہے کہ سدا شاد رہے گا

یہ دل ہے تو پھر درد سے آباد رہے گا

 

اللہ رے اُس گیسوئے خم دار کا جادو

چھایا تھا کچھ ایسا کہ مجھے یاد رہے گا

 

وہ عہدِ محبت، وہ تکلف کا زمانہ

کچھ یاد تھا، کچھ یاد ہے ، کچھ یاد رہے گا

 

پہلو میں جو اک دل ہے سو وہ عشق میں تیرے

برباد تھا، برباد ہے ، برباد رہے گا

 

اک عشق ہے دنیا میں کہ ہر قیدِجہاں سے

آزاد تھا، آزاد ہے ، آزاد رہے گا

 

عاشق کا یہ شیوہ ہے کہ محبوب کے آگے

تا عمر وہ شرمندۂ فریاد رہے گا

 

ہیں مائلِ پرواز فراغؔ اور بھی، لیکن

ہر وقت مری تاک میں صیاد رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمین بوس فصیلِ انا اُدھر بھی ہو

اِدھر کھلا ہے درِ دل، کھلا اُدھر بھی ہو

 

اِدھر جو ہے ، وہی عالم ذرا اُدھر بھی ہو

کہ رتجگوں کا کوئی سلسلہ اُدھر بھی ہو

 

خدا کرے کہ مری طرح دردِ اُلفت میں

تمام عمر کوئی مبتلا اُدھر بھی ہو

 

اٹل ہیں راہِ محبت پہ ہم اِدھر، لیکن

مزہ تو جب ہے یہی حوصلہ اُدھر بھی ہو

 

دعا یہ مانگ کہ تجدیدِ دوستی کے لیے

اِدھر ہے جیسی فضا، وہ فضا اُدھر بھی ہو

 

بنامِ امن و اماں جو اِدھر ہے جوش و خروش

یہی جنون، یہی ولولہ اُدھر بھی ہو

 

خلیج پاٹنا امرِ محال کب ہے فراغؔ

نظر میں عیب اگر فاصلہ اُدھر بھی ہو

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی سلام سے ، کبھی دعا سے واسطہ رہے

کسی سے رسم و راہ کا کوئی تو سلسلہ رہے

 

دعا کرو کہ قربتوں کے ساتھ فاصلہ رہے

مگر ہمارے درمیاں نہ کوئی تیسرا رہے

 

وفا کا حق ادا کریں ، تجھی پہ جاں فدا کریں

تمام عمر اک یہی ہمارا مشغلہ رہے

 

جنھیں حرم کی ہے طلب، اُنھیں ہو اُس کی جستجو

ہمارا محورِ طواف کوچۂ وفا رہے

 

ہزار کج ادا ہے تو، بلا سے بے وفا ہے تو

تمام عمر دل مگر تجھی کو چاہتا رہے

 

تو راز دار ہے مرا، تو غم گسار ہے مرا

ترے تئیں سدا مجھے یہی مغالطہ رہے

 

حرم برائے شیخ ہے ، صنم برائے برہمن

فراغِؔ بادہ خوار کے قریب میکدہ رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایوانِ تخیل میں اُترتی رہی خوشبو

جب یاد کیا تجھ کو بکھرتی رہی خوشبو

 

اک یاس کا عالم تھا، مگر یاد تمھاری

پھر دامنِ احساس میں بھرتی رہی خوشبو

 

دی تو نے کسی شب جو درِ خواب پہ دستک

آنکھوں سے نشہ بن کے اُبھرتی رہی خوشبو

 

آباد ترا عشق تھا جس کعبۂ دل میں

اُس دل کا طواف آپ ہی کرتی رہی خوشبو

 

گل رنگ شبستانوں میں مہمان کی صورت

کچھ روز سہی، پھر بھی ٹھہرتی رہی خوشبو

 

کیا کم ہے کہ خوش رنگ حویلی سے نکل کر

ہم خانہ خرابوں میں نکھرتی رہی خوشبو

 

سرحد بھی فراغؔ اُس کے قدم روک نہ پائی

اِس پار سے اُس پار گزرتی رہی خوشبو

٭٭٭

 

 

 

 

وہ جب بھی آئے مرے پاس بے حجاب آئے

سمجھ میں کچھ تو جنوں کا اُسے نصاب آئے

 

تجھے تو دیکھتے ہیں سب، مری یہ خواہش ہے

مطالعہ میں ترے جسم کی کتاب آئے

 

کچھ اس طرح کی مجھے اب پلائی جائے شراب

کہ ہو سکون مجھے ، وجد میں شراب آئے

 

ہو اتنا گہرا کہ اُترے نہ رنگِ تنہائی

شبِ وصال جو آئے تو لاجواب آئے

 

شبِ فراق میں رویا ہوں خون کے آنسو

شبِ وصال کی لذت کا اُس کو خواب آئے

 

کبھی سکون سے رہنے نہ دے کوئی مجھ کو

کسی کی یاد جو آئے تو بے حساب آئے

 

فراغؔ میں بھی ہوں اس انتظار میں کہ کبھی

مجھے اُجالنے بھرپور ماہتاب آئے

٭٭٭

 

 

 

 

تو بے نقاب نہ ہو، شوق سے نقاب میں آ

مرے قریب مگر عالمِ شباب میں آ

 

اکیلا چھوڑ گیا کیوں عذابِ جاں میں مجھے

تو مجھ سے ملنے اسی قریۂ عذاب میں آ

 

سمندروں ہی میں طوفان کیا اُٹھاتا ہے

مزہ تو جب ہے کہ معمورۂ سراب میں آ

 

ترے طفیل مجھے رت جگے ہوئے ہیں نصیب

جو نیند آئے تو میرے دیارِ خواب میں آ

 

میں چاہتا ہوں کہ تو حرفِ بے بدل بن کر

مری کتابِ تصور کے انتساب میں آ

 

غبار دل کا چھٹے ، چشمِ پُر سکوں ، تو بھی

سمندروں کی طرح سیلِ اضطراب میں آ

 

اُسے فراغؔ تکلف اگر ہے آنے میں

مجھے وہ کیوں نہیں کہتا مری جناب میں آ

٭٭٭

 

 

 

 

اُس ایک پردہ نشیں کا جواب تھا ہی نہیں

وہ جلوہ گر تھا مگر بے حجاب تھا ہی نہیں

 

سفر میں جوشِ سفر ہم رکاب تھا ہی نہیں

کسی کو یاد جنوں کا نصاب تھا ہی نہیں

 

تمام رات جلاتا رہا میں دل کا چراغ

شبِ فراق کوئی ماہتاب تھا ہی نہیں

 

کھلی جب آنکھ مری، وادیِ تمنا میں

عجب سحر تھی کہیں آفتاب تھا ہی نہیں

 

خمار ٹوٹتا کیسے گزشتہ شب کا بھلا

نئی شراب میں جوشِ شراب تھا ہی نہیں

 

دلوں کو چھوڑئیے ، میں روح میں اُتر جاتا

کھلا ہوا تو مگر کوئی باب تھا ہی نہیں

 

جنون لے تو گیا اُس طرف مجھے بھی فراغؔ

مگر وہ شہر، مرا شہر خواب تھا ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تھی آمدِ غزل کی شب، میں رات بھر خموش تھا

صریرِ خامہ تھی رواں کہ نغمۂ سروش تھا

 

شراب تھی نئی، مگر عجیب اُس کا جوش تھا

بہک رہے تھے پی کے سب، کہاں کسی کو ہوش تھا

 

نہ حبس تھا نہ تھی گھٹن، مہک رہا تھا پیرہن

کہ میں وہاں تھا جس جگہ دیارِ گل فروش تھا

 

نہ جانتا تھا میں جسے ، میں ڈھونڈتا کہاں اُسے

متاعِ دل جو لے گیا وہ اک نقاب پوش تھا

 

قریبِ منزل طلب نہ جا سکا وہ کارواں

ذرا بھی جس کی چال میں جنون تھا نہ جوش تھا

 

جو کٹ گئے تھے رابطے ، جو بڑھ گئے تھے فاصلے

کچھ اس میں دوش تھا مرا، کچھ آپ کا بھی دوش تھا

 

خموشیوں کو چیر کر جو چڑھ گیا تھا دار پر

فراغؔ تم نہ تھے تو پھر وہ کون سرفروش تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ سرد ہو جنوں کبھی، جوان حوصلہ رہے

چراغ ہم جلائیں گے ، ہوا چراغ پا رہے

 

فضا پہ رات چھا گئی، جہاں کو نیند آ گئی

مگر میں جاگتا رہا کہ کوئی جاگتا رہے

 

کوئی یہاں جو آ گیا، اُسے یہ دی گئی سزا

خرابۂ حیات کی وہ خاک چھانتا رہے

 

یہی ہے عظمتِ بشر، اسی میں اُس کا ہے ہنر

کہ عمر بھر حیات کا پہاڑ کاٹتا رہے

 

زمیں سے آسمان تک، مکاں سے لا مکان تک

کمال جب ہے آدمی خلیج پاٹتا رہے

 

درِ نمود و نام سے ، بلندیوں کے بام سے

کبھی تجھے ، کبھی مجھے خدا نوازتا رہے

 

فراغؔ شرطِ شاعری اگر کوئی تو ہے یہی

کہ تو بھی کشتِ فکر و فن لہو سے سینچتا رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہوا نہ ختم کرب کا یہ سلسلہ تو کیا ہوا

گلے میں گھٹ رہ کے گئی مری صدا تو کیا ہوا

 

کسی کو بھی خبر نہیں ، کسی کی آنکھ تر نہیں

گزر گیا ہے مجھ پہ ایک حادثہ تو کیا ہوا

 

کبھی نہ ختم ہو سکیں ہماری آزمائشیں

جو پھر ہمارے سامنے ہے کربلا تو کیا ہوا

 

ابھی ہیں منتشر مگر ملیں گے اک مقام پر

سفر میں چل رہے ہیں ہم جدا جدا تو کیا ہوا

 

ہر ایک ہاتھ میں تھا دف، چہل پہل تھی ہر طرف

وہ دوستوں کا دائرہ سمٹ گیا تو کیا ہوا

 

زمین خاکسار ہے ، شبیہ انکسار ہے

کسی نے اس پہ آسماں بنا لیا تو کیا ہوا

 

نہ غم گساریاں ہوئیں ، نہ آب پاشیاں ہوئیں

فراغؔ میرے دل سے جو دھواں اُٹھا تو کیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے آندھیوں کے اثر میں پتا نہیں کیا کیا

سنائی دے گا خبر میں پتا نہیں کیا کیا

 

صعوبتیں ہیں سفر میں پتا نہیں کیا کیا

سہیں گے راہ گذر میں پتا نہیں کیا کیا

 

ابھی تو ڈھونڈ رہا ہوں خود اپنے آپ کو میں

کہ چھوڑ آیا ہوں گھر میں پتا نہیں کیا کیا

 

بدل رہے ہیں کیلنڈر، مگر ہمارے لیے

ہے دستِ شام و سحر میں پتا نہیں کیا کیا

 

میں دیکھتا ہوں پسِ برگ و بار کیا، مت پوچھ

اُگے ہوئے ہیں شجر میں پتا نہیں کیا کیا

 

ترے دیار سے جب اشکبار لوٹا ہوں

ہے دھندلا دھندلا نظر میں پتا نہیں کیا کیا

 

میں روشنی سے بھی پیکر تراشتا ہوں فراغؔ

ہے میرے دستِ ہنر میں پتا نہیں کیا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

ڈھونڈے گا، مل نہ پائے گا رستہ ہمارے بعد

جانے کہاں پہ اُترے گا دریا ہمارے بعد

 

پھر ہو گا جب بھی طرفہ تماشا ہمارے بعد

ہو گی تماش بین یہ دنیا ہمارے بعد

 

اب تک تو اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں ہم

بھٹکا کرے گا دیکھنا سایہ ہمارے بعد

 

ہلچل نمو پذیر ہمیں سے ہے ہر طرف

ہو گی کہاں یہ رونقِ صحرا ہمارے بعد

 

رکھے گا ٹھوکروں میں ہماری طرح تمھیں

ہو گا سمندرو، کوئی پیاسا ہمارے بعد

 

مانا دراز ہو گی ترے عاشقوں کی صف

کس کو ملے گا موقعِ سجدہ ہمارے بعد

 

شاعر تو باکمال سہی پھر بھی اے فراغؔ

ہو گا گلی گلی ترا شہرہ ہمارے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

 

بارِ غمِ حیات اُٹھائے ہوئے ہیں دیکھ

غم کو ہنسی کی تہہ میں چھپائے ہوئے ہیں دیکھ

 

کس آستاں پہ سر کو جھکائے ہوئے ہیں دیکھ

ہم سر بر سر لہو میں نہائے ہوئے ہیں دیکھ

 

اہلِ فلک زمین پہ آئے ہوئے ہیں دیکھ

دل کو اسی جہاں سے لگائے ہوئے ہیں دیکھ

 

آ جا کہ آج شام بھی تیرے فراق میں

ہم ہر طرف چراغ جلائے ہوئے ہیں دیکھ

 

طرزِ ستم تو اب بھی وہی پتھروں کا ہے

ہم آئینے سدا کے ستائے ہوئے ہیں دیکھ

 

ہم اپنے آپ سے بھی ملاتے نہیں ہیں آنکھ

اپنی نظر سے خود کو بچائے ہوئے ہیں دیکھ

 

پلکوں پہ آج اشکِ ندامت ہے اے فراغؔ

حرفِ دعا لبوں پہ سجائے ہوئے ہیں دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

دراز سلسلۂ پیچ و تاب ہونا ہے

اسی خرابۂ غم میں خراب ہونا ہے

 

یہ داستانِ شبِ غم سمیٹ کر رکھئے

ورق ورق کو کسی دن کتاب ہونا ہے

 

میں آئینہ ہوں تمھارا تو پھر تکلف کیا

مرے قریب تمھیں بے حجاب ہونا ہے

 

ترے کرم کا اگر سلسلہ رہا مجھ پر

مجھے چراغ نہیں ، آفتاب ہونا ہے

 

میں ایک ذرّہ ہوں ، لیکن تری نظر کے طفیل

مرے نصیب میں عزت مآب ہونا ہے

 

تمھیں جہاں بھی برسنا ہے بادلو، برسو

برائے دشت مجھے تو سحاب ہونا ہے

 

جب آسمان کو چھونے کی آرزو ہے فراغؔ

مرے جنوں کو مرا ہم رکاب ہونا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمام رات میں اپنے محاصرے میں رہا

اک انتشار سا سانسوں کے قافلے میں رہا

 

ہماری آنکھوں میں آتا کہاں سے رنگِ شفق

دھواں دھواں سا تصور کے دائرے میں رہا

 

کہاں کی منزلِ مقصود اور کہاں کا پڑاؤ

میں تا حیات سفر ہی کے مرحلے میں رہا

 

مسافروں کو ٹھکانے نصیب ہوتے رہے

مگر جو راہ نما تھا وہ راستے میں رہا

 

ترے وجود سے ان کار تھا کسے ، پھر بھی

اک اختلاف نگاہوں کے زاویے میں رہا

 

مرے لیے یہ بہت ہے کہ تیرے نام کے ساتھ

مرا بھی نام ہمیشہ ہی تذکرے میں رہا

 

فراغؔ شمس و قمر ہی نہ تھے نگاہوں میں

زمیں کا ذرّہ بھی میرے مشاہدے میں رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی خوشی ہے کہاں ، غم کا سلسلہ ہے وہی

کہ جو ادا تھی مری زیست کی، ادا ہے وہی

 

نئی رُتوں نے ہمیں کیا دیا، نہیں معلوم

دیارِ دل ہے وہی، درد کی فضا ہے وہی

 

سوائے ہمسفروں کے تو کچھ نہیں بدلا

یہ دھوپ چھاؤں وہی ہے ، یہ راستہ ہے وہی

 

نئی زمین، نئے آسماں کے خواب لیے

بھٹک رہا ہے جو مدت سے ، قافلہ ہے وہی

 

حدودِ بابِ اثر تک گزر نہیں جس کا

مرے لبوں پہ سسکتی ہوئی دعا ہے وہی

 

کوئی سوال انا کا نہیں ہے دونوں طرف

ہمارے بیچ مگر اب بھی فاصلہ ہے وہی

 

مذاق زیست نے جو کچھ کیا تھا میرؔ کے ساتھ

فراغؔ آج مرے ساتھ بھی ہوا ہے وہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کی تاب و تواں میں ابھی سے کیا دیکھوں

ہوا چلے تو چراغوں کا حوصلہ دیکھوں

 

نہ کچھ اُمیدِ مسافر نہ کچھ فقیر کی آس

کھنڈر ہوا ہوں تو اب کس کا راستہ دیکھوں

 

یہ کس مقام پہ پہنچا دیا مجھے تو نے

خیال و خواب میں بھی دشتِ کربلا دیکھوں

 

میں اپنے چہرے سے واقف ہوں ، دیکھنا کیا ہے

اک آدھ عیب اگر ہو تو آئینہ دیکھوں

 

میں جانتا ہوں جو لمحہ ہے منتظر میرا

اب اور کیا تجھے اے میرے ناخدا، دیکھوں

 

کسی کے دستِ کرم پر نگاہ کیا رکھنا

جو دیکھنا ہے تو پھر جانبِ خدا دیکھوں

 

فراغؔ جھیل رہا ہوں میں ہجرتوں کا عذاب

نہ جانے ختم کہاں ہو یہ سلسلہ، دیکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

بسا ہوا جو غزل کا اسیر ہے مجھ میں

وہ کوئی اور نہیں ، صرف میرؔ ہے مجھ میں

 

میں خود سے ملنا بھی چاہوں تو مل نہیں سکتا

کھنچی ہوئی سی عجب اک لکیر ہے مجھ میں

 

جسے تناؤ کی شدت سے ہم کنار کیا

اُسی کمان کا پیوست تیر ہے مجھ میں

 

مجھے بکھرنے سے پہلے سنبھالنے والا

خدا کا شکر! کوئی دست گیر ہے مجھ میں

 

یہ کم نہیں کہ زمانے میں بے ضمیری کے

کسی طرح تو سلامت ضمیر ہے مجھ میں

 

جو میرے فن سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا

مقیم آج بھی وہ حرف گیر ہے مجھ میں

 

کچھ اور دینا تو بس میں نہیں فراغؔ، مگر

دعائیں دیتا ہوا اک فقیر ہے مجھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمارے پیشِ نظر تھا سوال مٹی کا

اسی خیال سے رکھا خیال مٹی کا

 

عروج دیکھ کے دیکھا زوال مٹی کا

ملا ہے خاک میں جاہ و جلال مٹی کا

 

دکھائی دینے لگے گا جمال مٹی کا

نظر کے سامنے رکھئے ہلال مٹی کا

 

مرے خلوص، مرے رکھ رکھاؤ میں بے شک

مرا کمال نہیں ، ہے کمال مٹی کا

 

کہاں کہاں نہ مقدر پھرا رہا ہے اسے

نہ جانے ہو گا کہاں پر وصال مٹی کا

 

فساد ہوتا کہیں پر نہ جنگ ہوتی کبھی

زمانے بھر میں ہے سارا وبال مٹی کا

 

فراغؔ اس سے رہائی کبھی نہیں ملتی

نہ جانے جال ہے کیسا یہ جال مٹی کا

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ موافق ہمیں حالات میسر نہ ہوئے

ہم ندی بن کے رہے ، کوئی سمندر نہ ہوئے

 

زندگی نے مجھے تا عمر بکھیرے رکھا

میرے ذرّات سمٹ کر کبھی پتھر نہ ہوئے

 

نصب کر دیتی صلیبوں پہ ہمیں بھی دنیا

یہ تو اچھا ہوا ہم مثلِ پیمبر نہ ہوئے

 

بادشاہوں کو فقیروں نے بنایا ہے غلام

کبھی سلطانوں سے مرعوب قلندر نہ ہوئے

 

ڈھونڈ لیتے ہیں ہر اک بات میں مثبت پہلو

غلط اثرات مرتب کبھی ہم پر نہ ہوئے

 

یوں تو کہنے کو ہیں شاداب شجر ہم بھی، مگر

جانے کس رُت میں اُگے تھے کہ ثمرور نہ ہوئے

 

کتنی خوددار طبیعت تھی ہماری کہ فراغؔ

پر بریدہ ہی رہے ، طالبِ شہپر نہ ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

جو سنگِ میل میں ہوتا رہِ صداقت کا

کوئی تو پہلو نکلتا مری فضیلت کا

 

چراغِ بزم بھی میں اور شہیرِ رزم بھی میں

یہی جواز بہت ہے مری امامت کا

 

کچھ اس طرح سے چلی سرپھری ہوا کہ مجھے

سہارا بننا پڑا خیمۂ روایت کا

 

دلوں پہ جب کہ حکومت نہ ہو سکی قائم

کمال دیکھتا کیا خاک بادشاہت کا

 

مرے عروج کا عرصہ، مرے زوال کے دن

ہے کھیل سارے کا سارا تری مشیت کا

 

تمام عمر تڑپ کر گزار دینا ہے

یہی ہے اصل سبق عشق کی شریعت کا

 

میں اُڑ رہا ہوں کہاں اپنے بال و پر سے فراغؔ

کہ کارگر ہے وسیلہ کسی کرامت کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تھے حق نمائی پہ فائز تو حق نما ہی رہے

ہم آئینہ تھے سراپا، ہم آئینہ ہی رہے

 

خدا ہے کون، کہاں ہے پتا نہیں ، لیکن

بتوں کے بیچ بھی ہم بندۂ خدا ہی رہے

 

اسی خیال سے شاید ہے فاصلے کی لکیر

کہ ارض ارض رہے اور سما سما ہی رہے

 

ہوا ہے حکم تو پھر درد کے سمندر میں

میں ڈوبتا ہی رہوں ، تو اُبھارتا ہی رہے

 

خودی کو بھینٹ چڑھاتے رہے ہوس کے غلام

اور ایک ہم ہیں کہ زندانیِ انا ہی رہے

 

غرور تھا نہ رعونت ہماری فطرت میں

مگر نگاہِ رفیقاں میں کج ادا ہی رہے

 

خدائے وقت اسی بات پر بضد ہے فراغؔ

کبھی اُٹھے نہ کوئی سر، سدا جھکا ہی رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجیب حال ہے ، کیا کیا مری تلاش میں ہے

میں چھپ گیا ہوں تو دنیا مری تلاش میں ہے

 

میں ایک بوند کا احساں اُٹھا نہیں سکتا

بلا سبب کوئی دریا مری تلاش میں ہے

 

مزہ تو جب تھا کوئی شاہ ڈھونڈتا مجھ کو

یہ کیا کہ شہ کا پیادا مری تلاش میں ہے

 

تم اپنے پاس ہی رکھو یہ اپنے شمس و قمر

سفر نصیب ستارہ مری تلاش میں ہے

 

اسی خیال سے ہر رہ گذر سے گزرا ہوں

کہ جانے کون سا رستہ مری تلاش میں ہے

 

گھنیرے سائے کو ٹھکرا کے یہ سزا پائی

کہ تپتی ریت کا صحرا مری تلاش میں ہے

 

جہاں سے شہر نکالا دیا گیا مجھ کو

فراغؔ پھر وہی کوچہ مری تلاش میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب جوشِ جنوں عالی جنابوں میں رہا ہے

یہ شوق تو ہم خانہ خرابوں میں رہا ہے

 

کب عمرِ عزیز ایسے خرابے میں گزرتی

اک لطف مگر جاں کے عذابوں میں رہا ہے

 

طاری تھا خمار ایسا کہ ٹوٹا نہ ابھی تک

کیا نشہ فقیری کے نصابوں میں رہا ہے !

 

پھرتا رہا آنکھوں میں اُسی حسن کا جلوہ

وہ حسنِ فراواں جو حجابوں میں رہا ہے

 

بے وجہ فریب اہلِ خرد کھاتے کہاں ہیں

ہاں ! کچھ تو چمکتا سا سرابوں میں رہا ہے

 

حیرت ہے کہ خاروں سے نگہدار کے رہتے

بیٹھا ہوا اک ڈر بھی گلابوں میں رہا ہے

 

اس خواب کی تعبیر فراغؔ آپ بتائیں

اک نجمِ سحر ٹوٹتا خوابوں میں رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہاں وہ سیرِ گلستاں پسند کرتے ہیں

جنوں پسند بیاباں پسند کرتے ہیں

 

جلائے جاتے ہیں خود اپنے دل کہ اہلِ فراق

تمام رات چراغاں پسند کرتے ہیں

 

ہمیں یہ علم شعورِ جنوں کے بعد ہوا

کہ ہم بھی چاکِ گریباں پسند کرتے ہیں

 

شبِ سیاہ کے مارے ہی روشنی کے لیے

طلوعِ مہرِ درخشاں پسند کرتے ہیں

 

جنھیں قبول نہیں عرضِ حال کی زحمت

کہیں وہ درد کا درماں پسند کرتے ہیں

 

ہم عاشقانِ غزل ہی غزل کے شانوں پر

ہمیشہ زلفِ پریشاں پسند کرتے ہیں

 

فراغؔ جان کی پروا نہیں پتنگوں کو

جبھی وہ شمعِ فروزاں پسند کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

برا کیا تھا اگر ہم بھی یہی کارِ زیاں کرتے

بیاباں کی طرف جاتے ، اُسی کو گلستاں کرتے

 

اگر منت کشِ دریا نہ ہوتی تشنگی اُن کی

تو ممکن تھا سمندر ہی طوافِ تشنگاں کرتے

 

جو پاسِ خاک داں ہوتا نہ اُڑتے آسمانوں میں

زمیں کی گود میں رہ کر زمیں کو آسماں کرتے

 

اُتر کر موجِ دریا میں پلٹنے سے تو اچھا تھا

بناتے عزم کو کشتی، جنوں کو بادباں کرتے

 

نظر سے جب نظر ملتی، زباں سے کچھ نہ کہتے ہم

شبِ ہجراں جو گزری ہے وہ آنکھوں سے عیاں کرتے

 

تکلف سے ملے ورنہ جدائی کا سفر نامہ

’’ کہیں سے تم بیاں کرتے ، کہیں سے ہم بیاں کرتے ‘‘

 

تمھارا نام بھی آتا فراغؔ اکثر حوالوں میں

اگر راہِ طلب میں خود کو تم بھی بے نشاں کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہاں قیام کریں گے ، کہاں سے گزریں گے

سفر میں اب کے بڑے امتحاں سے گزریں گے

 

تری تلاش میں حدِ جہاں سے گزریں گے

کبھی مکاں سے ، کبھی لامکاں سے گزریں گے

 

جدھر ہواؤں کا رُخ ہو اُدھر نہیں جانا

جہاں کوئی نہ گیا ہو وہاں سے گزریں گے

 

ہے دشت دشت ہی چلنا اگر مقدر میں

تو خواب میں بھی نہ ہم گلستاں سے گزریں گے

 

تری نظر کا اشارہ اگر ہو کچھ بھی تو ہم

رہِ وفا میں ہر اک امتحاں سے گزریں گے

 

ہمارے بچوں کے تیور یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ

نئی زمین، نئے آسماں سے گزریں گے

 

مسافرانِ رہِ شوق کو خبر ہے فراغؔ

کہ ایک دن وہ مقامِ زیاں سے گزریں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خیال و خواب کا اپنے جہاں تلاش کرے

جسے زمیں نہ ملے ، آسماں تلاش کرے

 

جسے زمین کی قدروں سے کچھ علاقہ نہیں

وہ کوئی اور زمان و مکاں تلاش کرے

 

خود اپنی ذات کے گمنام سے جزیرے میں

میں کھو گیا ہوں ، کوئی مہرباں تلاش کرے

 

سلگ رہا ہوں میں صدیوں سے ریت کی صورت

کبھی تو مجھ کو بھی آبِ رواں تلاش کرے

 

جو دھوپ دھوپ مرے ساتھ چل نہیں سکتا

اُسے یہ حق ہے کہ وہ سائباں تلاش کرے

 

جہاں بھی جائیں گے ، خوشبو بھی ساتھ جائے گی

وہ پھول ہم ہیں ، جنھیں اک جہاں تلاش کرے

 

نئی غزل کا اگر میں بھی اک حوالہ ہوں

تو اے فراغؔ کوئی نکتہ داں تلاش کرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدا ہر ایک بشر کا کفیل ہے کہ نہیں

وہ اپنے وعدے کی روشن دلیل ہے کہ نہیں

 

اذان گونج چکی صرف رہ گئی ہے نماز

بشر کی عمر کا عرصہ قلیل ہے کہ نہیں

 

چلا ہے خاک اُڑانے خرابۂ غم میں

تری حیات میں کوئی دخیل ہے کہ نہیں

 

کوئی سنانے جو بیٹھے صدی گزر جائے

ترے ستم کی کہانی طویل ہے کہ نہیں

 

کبھی جو کھل کے برستا نہیں سرِ صحرا

تمھیں بتاؤ وہ بادل بخیل ہے کہ نہیں

 

کوئی بھی غم ہو یہیں منہ اُٹھائے آتا ہے

دیارِ دل میں ہمارے فصیل ہے کہ نہیں

 

لکھے نہ کیسے قصیدہ حیات کا آخر

فراغؔ اُس کی ادا کا قتیل ہے کہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہی نہیں کہ رضائے خدا بھی شامل ہے

مری شکست میں میری انا بھی شامل ہے

 

لگا رہی ہیں جو ضربیں مری سماعت پر

اُنھی صداؤں میں تیری صدا بھی شامل ہے

 

کوئی تو بات ہے اب جو مخالفت میں مری

عدو کے ساتھ مرا آئینہ بھی شامل ہے

 

وہی ہے زیست، مگر کس نہج پہ آ پہنچی

کہ میرے زادِ سفر میں دوا بھی شامل ہے

 

مری تباہیِ صحت میں رتجگے ہی نہیں

تمھارے شہر کی آب و ہوا بھی شامل ہے

 

ردائے نیم شبی چاک کرنے والوں میں

مہ و نجوم سے کہئے دِیا بھی شامل ہے

 

ابھی تو جاری ہے اپنی بقا کا باب فراغؔ

کتابِ زیست میں بابِ فنا بھی شامل ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمارے فن کی کیا دیتے ہیں قیمت، دیکھ لیتے ہیں

کہ یوں ظلِ الٰہی کی امارت دیکھ لیتے ہیں

 

سخاوت میں کوئی ثانی نہیں اُس کا تو پھر اُس سے

بیاں کر کے ذرا اپنی ضرورت دیکھ لیتے ہیں

 

بظاہر تو سبھی حامی ہمارے ہیں یہاں پھر بھی

ہماری کون کرتا ہے حمایت، دیکھ لیتے ہیں

 

یہ سوچا ہے کہ اب دکھتی رگوں پہ رکھ کے ہم اُنگلی

ذرا اہلِ شرافت کی شرافت دیکھ لیتے ہیں

 

ہمیں ملنے نہیں دے گا کسی بھی حال میں کوئی

زمانے سے چلو کر کے بغاوت، دیکھ لیتے ہیں

 

زباں سے کچھ نہیں کہتی ہماری زندگی، لیکن

ہم اُس کے چہرے پر حرفِ شکایت دیکھ لیتے ہیں

 

دکھا کر آئینہ شہر تصنع میں فراغؔ اک دن

کدھر سے آتے ہیں سنگِ ملامت، دیکھ لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اخلاق کا مظاہرہ دریا کبھی کرے

خود بڑھ کے کچھ تو دور مری تشنگی کرے

 

کچھ اور بوجھ مجھ پہ مسائل کا ڈال کر

میرا خدا دراز مری زندگی کرے

 

کب سے بھٹک رہا ہوں میں اپنی تلاش میں

کوئی سراغ دے یا مری رہبری کرے

 

آزر تو بے شمار ہیں ، لیکن مری طرح

کوئی تو شہر سنگ میں شیشہ گری کرے

 

ہر زاویے سے ایک مکمل کتاب ہوں

میرا مطالعہ نہ کوئی سرسری کرے

 

مشہور ہوں تو کاتبِ اخبار سے کہو

میرے کلام کی بھی کتابت جلی کرے

 

پچھلی بیاض طاق پہ رکھ کر فراغؔ بھی

اکیسویں صدی میں نئی شاعری کرے

٭٭٭

 

 

 

 

نثار ہم پہ سمندر ہوا، ہوا نہ ہوا

ہمیں کچھ آب میسر ہوا، ہوا نہ ہوا

 

مرے خیال، مری جستجو کا حاصل وہ

میں اُس کی دید کا محور ہوا، ہوا نہ ہوا

 

مرے خلوص، مرے لمس کی حرارت سے

ذرا بھی موم وہ پتھر ہوا، ہوا نہ ہوا

 

یہی بہت ہے کہ سایہ تو دے رہا ہے ہمیں

شجر بلا سے ثمرور ہوا، ہوا نہ ہوا

 

ہمارا کام تھا صحرا کو سینچتے رہنا

ہمیں نصیب گلِ تر ہوا، ہوا نہ ہوا

 

کئی گھروں کے چراغوں کو کر دیا روشن

گھر ایک میرا منور ہوا، ہوا نہ ہوا

 

دلوں پہ راج تو کرنا نصیب ہو ہی گیا

فراغؔ میں کوئی افسر ہوا، ہوا نہ ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سلگ رہا ہے مرا جسم دھیان کب دو گے

بدن کا اپنے مجھے سائبان کب دو گے

 

بہت ہے نام تمھارا جہاں پناہوں میں

میں در بدر ہوں مجھے بھی امان کب دو گے

 

بساط دیکھ کے سب کو نواز دیتے ہو

مجھے زمین، اُسے آسمان کب دو گے

 

تمھاری ذات کے اسرار پر ہے کیوں پردہ

کہاں ہو، کون ہو تم، مجھ کو گیان کب دو گے

 

فرشتے سنتے ہی جس کو صفیں بناتے تھے

مؤذنو، وہ بلالیؓ اذان کب دو گے

 

زبان کھلتی نہیں جب مری حمایت میں

مرے خلاف بتاؤ بیان کب دو گے

 

سوال کرتے رہو گے جو ممتحن کی طرح

فراغؔ خود بھی کوئی امتحان کب دو گے

٭٭٭

 

 

 

 

ابرِ کرم کی مجھ پہ نوازش کچھ اور ہو

کہتی ہے میری پیاس کہ بارش کچھ اور ہو

 

اک رُت جو آئی ہے تو نہ بہکائے اس طرح

دل کی کچھ اور، جسم کی خواہش کچھ اور ہو

 

پتھر کے جس صنم کو خدا کہہ دیا گیا

اُس کی یہ آرزو کہ ستائش کچھ اور ہو

 

فرمائیں گے جبھی وہ مرے مدعا پہ غور

مدھم اگر صدائے گزارش کچھ اور ہو

 

ظاہر کو چھوڑئیے ، مرا باطن تو صاف ہے

ممکن نہیں کہ مجھ سے نمائش کچھ اور ہو

 

مجھ کو ڈبو نہ دیں مرے وہم و گماں کہیں

کیوں سوچتا ہوں میں پسِ سازش کچھ اور ہو

 

جو آسمانِ ذہن پہ اُبھرے فراغؔ کے

اُس ماہتابِ فکر میں تابش کچھ اور ہو

٭٭٭

 

 

 

 

کتنی قسطوں میں مرا ہوں صبح سے میں شام تک

اک سزا ہے زندگی آغاز سے انجام تک

 

یہ خبر پہنچی نہیں کیا تشنگانِ عام تک

لذتِ تشنہ لبی ہے انتظارِ جام تک

 

جگمگا اُٹھے ہیں تارے ، جگمگانے دیجئے

رونقِ مژگاں فقط ہے مدتِ آلام تک

 

اپنا گھر چھوٹا تو کتنے دکھ سہے مت پوچھئے

لوٹ آیا ہوں ، پہنچ کر شہرتوں کے بام تک

 

ساتھ مرنے کی نہ باتیں کیجئے مجھ سے کبھی

لوگ جاتے ہیں اکے لیے قریۂ انجام تک

 

چھوٹتے ہی قید سے اپنا دکھائیں گے کمال

بے بسی ہم طائروں کی ہے حصارِ دام تک

 

منکشف جب تک حقیقت ہو نہ پائی تھی فراغؔ

راستے جاتے تھے سارے کوچۂ اصنام تک

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوب نبھے گی ہم دونوں میں ، میرے جیسا تو بھی ہے

تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا، تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے

 

جنگ انا کی ہار ہی جانا بہتر ہے اب لڑنے سے

ٹوٹا ٹوٹا سا میں بھی ہوں ، بکھرا بکھرا تو بھی ہے

 

جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں

میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا، سہما سہما تو بھی ہے

 

اک مدت سے فاصلہ قائم صرف ہمارے بیچ ہی کیوں

سب سے ملتا رہتا ہوں میں ، سب سے ملتا تو بھی ہے

 

اپنے اپنے دل کے اندر سمٹے ہوئے ہیں ہم دونوں

گم صم گم صم میں بھی بہت ہوں ، کھویا کھویا تو بھی ہے

 

ہم دونوں تجدیدِ رفاقت کر لیتے تو اچھا تھا

تنہا تنہا میں ہی نہیں ہوں ، تنہا تنہا تو بھی ہے

 

حد سے فراغؔ آگے جا نکلے دونوں انا کی راہوں پر

کچھ شرمندہ میں بھی ٹھہرا، کچھ شرمندہ تو بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مٹی سے اب چاند اُگانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

دھرتی کو آکاش بنانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

 

جنگوں سے جنگیں اُگتی ہیں ، امن کبھی اُگتا ہی نہیں

اس دنیا کو یہ سمجھانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

 

بھولے بھالے لوگوں کے جو بیچ کھڑی ہے برسوں سے

خوف کی وہ دیوار گرانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

 

ایک ہی امبر کے نیچے جب جینا بھی ہے ، مرنا بھی

دکھ سکھ میں پھر ساتھ نبھانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

 

کب تک بچوں کو بہلانا، اب تو سچ مچ اُن کے لیے

چاند ستارے توڑ کے لانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

 

قدرت نے جو سونپ دئیے ہیں تیرے میرے کاندھوں پر

اُن رشتوں کا ناز اُٹھانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

 

زہر گھلا جاتا ہے فضا میں ، دم نہ کہیں گھٹ جائے فراغؔ

جینا ہے تو پیڑ لگانا، تجھ کو بھی ہے ، مجھ کو بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب کے منہ پر سچ کہہ پانا، سب کے بس کی بات نہیں

آئینے کا فرض نبھانا،سب کے بس کی بات نہیں

 

اس دنیا میں سہل بہت ہے کاندھا دینا اوروں کو

خود اپنا تابوت اُٹھانا، سب کے بس کی بات نہیں

 

عمر گنوا دیتی ہے دنیا دنیا کو سر کرنے میں

لیکن دنیا کو ٹھکرانا، سب کے بس کی بات نہیں

 

کون نہیں قاتل جذبوں کا، داغ نہیں کس دامن پر

خود کو مگر مجرم ٹھہرانا، سب کے بس کی بات نہیں

 

زہر جدائی کا رو رو کر ہر انساں پی سکتا ہے

ہنستے ہوئے یہ جام اُٹھانا، سب کے بس کی بات نہیں

 

دل کے کسی گوشے پر اکثر راون قابض ہوتا ہے

اس لنکا میں آگ لگانا، سب کے بس کی بات نہیں

 

دیوانوں میں شامل ہونا مشکل کب ہے پھر بھی فراغؔ

صحرا صحرا خاک اُڑانا، سب کے بس کی بات نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ اگر مہربان ہو جائے

یہ زمیں آسمان ہو جائے

 

ہم اسیرِ حیات ہیں ورنہ

لامکانی مکان ہو جائے

 

کیا عجب ہے رہِ صداقت میں

دھوپ ہی سائبان ہو جائے

 

اس سے پہلے کہ دیکھیں رقصِ بلا

لب پہ روشن اذان ہو جائے

 

لب کشائی کی جب نہیں جرأت

آدمی بے زبان ہو جائے

 

تیر اپنا ہنر دکھا دے گا

دستیاب اک کمان ہو جائے

 

اک ہمیں پر عذابِ جاں کا فراغؔ

ختم ہر امتحان ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مسائل کے اثر میں رہ گیا ہوں

اُلجھ کر اپنے گھر میں رہ گیا ہوں

 

اُفق کے پار جانا تھا مجھے بھی

شمارِ بال و پر میں رہ گیا ہوں

 

فریبِ ہمسفر ایسا کہ توبہ!

اکیلا رہ گذر میں رہ گیا ہوں

 

چھلاوہ بن کے منزل رہ گئی ہے

شکستہ پا سفر میں رہ گیا ہوں

 

کسی نے کچھ نہیں سوچا، مگر میں

تمیزِ خیر و شر میں رہ گیا ہوں

 

اُتر کر میں تمھاری چشمِ تر سے

غبارِ رہ گذر میں رہ گیا ہوں

 

فراغؔ اب حال کیا اپنا بتاؤں

محل میں تھا، کھنڈر میں رہ گیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یقیں کا نور چھایا جا رہا ہے

خدا مجھ میں اُترتا جا رہا ہے

 

ہماری پیاس بڑھتی جا رہی ہے

سمندر پیچھے ہٹتا جا رہا ہے

 

بھنور کو آزمائے گا سفینہ

ہواؤں سے اُلجھتا جا رہا ہے

 

جسے ٹھوکر لگائی جا رہی تھی

وہی پتھر تراشا جا رہا ہے

 

جسے پاگل سمجھتی ہے یہ دنیا

زمانے پر وہ ہنستا جا رہا ہے

 

ضرورت ہے اسے میرے لہو کی

جنوں بے رنگ ہوتا جا رہا ہے

 

جہاں پر بے گھری لکھی گئی تھی

وہیں سب کو بلایا جا رہا ہے

 

فراغؔؔ اُس کی نوازش ہے کہ ہم پر

درِ ادراک کھلتا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمیں تا آسماں رکھا ہوا ہے

غزل میں اک جہاں رکھا ہوا ہے

 

جو سر پر آسماں رکھا ہوا ہے

کوئی بارِ گراں رکھا ہوا ہے

 

وہی ہے بے گھری ہر سمت، لیکن

تصور میں مکاں رکھا ہوا ہے

 

سرابوں میں بھٹکتا پھر رہا ہوں

کہاں آبِ رواں رکھا ہوا ہے

 

نہ جانے کون سی منزل یہ ٹھہری

یقیں میں بھی گماں رکھا ہوا ہے

 

اُترنے کو ہے خندق میں یہ رستہ

زوالِ کارواں رکھا ہوا ہے

 

کھلا رہنے دو دروازہ محل کا

خزانہ کب یہاں رکھا ہوا ہے

 

قدم رکھنے سے پہلے سوچ لینا

محبت میں زیاں رکھا ہوا ہے

 

فراغؔؔ آتش فشانی کا حوالہ

درونِ جسم و جاں رکھا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جنوں میں کب لحاظِ آبرو تھا

میں صحرا میں تھا، شہرہ کو بہ کو تھا

 

پسِ پردہ نہ میرے روبرو تھا

مگر مجھ سے وہ محوِ گفتگو تھا

 

نگاہوں سے وہ ہٹتا بھی تو کیسے

اُسی کا عکس پھیلا چار سو تھا

 

درِ تعبیر کھلتے جا رہے تھے

مرے دل میں وہ شوقِ جستجو تھا

 

دریدہ تھے ہمارے جیب و داماں

مگر دل میں نہ ارمانِ رفو تھا

 

تمنا کا وہی اب مقبرہ ہے

جو دل کل تک دیارِ آرزو تھا

 

نظامِ میکدہ بدلا نہ تھا جب

مرے حصے میں بھی جام و سبو تھا

 

فراغؔؔ ایسے میں سنتا کون کس کی؟

زمانے کو تو شوقِ ہاؤ ہو تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ستم گر ہے ، ستم گر ہی رہے گا

میں آئینہ، وہ پتھر ہی رہے گا

 

ندی نالے تو اُچھلیں گے زیادہ

مگر ساکت سمندر ہی رہے گا

 

زمانے کو رکھے گا ٹھوکروں میں

قلندر پھر قلندر ہی رہے گا

 

جھکا کب ہے جھکانے سے کسی کے

جو خود سر ہے وہ خود سر ہی رہے گا

 

اکے لیے ہم چلے آئیں گے رن میں

تمھارے ساتھ لشکر ہی رہے گا

 

کوئی تسخیرِ دل کرتا ہے دل سے

کوئی محتاجِ خنجر ہی رہے گا

 

ابھی تو جوش پر پت جھڑ کی رُت ہے

ابھی بے رنگ منظر ہی رہے گا

 

بڑے ہوں گے کئی نقاد، لیکن

فراغؔؔ، اونچا سخنور ہی رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے اشک بے گھر ہو چکے ہیں

غموں کے راز اُجاگر ہو چکے ہیں

 

اُنھی کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں آنکھیں

نظر سے گم جو منظر ہو چکے ہیں

 

نئی باتیں اُگیں کاغذ پہ کیسے

سبھی کے ذہن بنجر ہو چکے ہیں

 

نئی صورت گری کی راہ نکلے

پرانے سارے پیکر ہو چکے ہیں

 

سجایا جائے اُن کو بت کدوں میں

جو انساں تھے وہ پتھر ہو چکے ہیں

 

کبھی جن کو تھا زعمِ حق نوائی

یزیدوں کے ثناگر ہو چکے ہیں

 

جو چلتے تھے مری اُنگلی پکڑ کر

مرے قد کے برابر ہو چکے ہیں

 

اُنھیں بھی تو بلاؤ محفلوں میں

فراغؔؔ آخر سخنور ہو چکے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب تھا خیر خواہوں سے تعلق

ہوا دل کا کراہوں سے تعلق

 

بیاں کرتا ہے دو دل کی کہانی

نگاہوں کا نگاہوں سے تعلق

 

نہ ہم ٹھہرے نہ تم ٹھہرے فرشتہ

نہیں کس کا گناہوں سے تعلق

 

یہی ٹھہرا ہمیشہ حکمِ منزل

رہے قدموں کا راہوں سے تعلق

 

میسر ہے جنھیں شانِ فقیری

نہ رکھیں گے وہ شاہوں سے تعلق

 

یزیدوں کو نہیں معلوم شاید

خدا رکھتا ہے آہوں سے تعلق

 

شرافت سرخرو ہوتی، جو ہوتا

صداقت کا گواہوں سے تعلق

 

نہ ماں زندہ نہ میرے ساتھ باقی

دعاؤں کی پناہوں سے تعلق

 

میں شاعر عام لوگوں کا ہوں غالبؔ

نہ رکھا بادشاہوں سے تعلق

 

فراغؔؔ اک روز قائم کر کے دیکھو

ہم ایسے کج کلاہوں سے تعلق

٭٭٭

 

 

 

 

نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں

میں پتھر ہوں ، پگھلنا چاہتا ہوں

 

حقیقت منکشف ہونے لگی ہے

سرابوں سے نکلنا چاہتا ہوں

 

چراغِ انجمن کب تک رہوں میں

اب اپنے گھر میں جلنا چاہتا ہوں

 

جہاں گر کر کوئی سنبھلا نہیں ہے

وہیں گر کر سنبھلنا چاہتا ہوں

 

بہت ناراض ہیں ظلِ الٰہی

ذرا لہجہ بدلنا چاہتا ہوں

 

عطا سنگِ قناعت ہو کہ اُس سے

ہوس کا سر کچلنا چاہتا ہوں

 

مرے اندر سمندر موجزن ہے

میں ساحل سے اُبلنا چاہتا ہوں

 

حصارِ ذات سے باہر نکل کر

کس و ناکس میں رَلنا چاہتا ہوں

 

لگا کر داؤ پر اب زندگی کو

انوکھی چال چلنا چاہتا ہوں

 

فراغؔؔ اب دوستوں کو یاد کر کے

کفِ افسوس ملنا چاہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

قبائے گل کترنا چاہتی ہے

وہ خوشبو ہے ، بکھرنا چاہتی ہے

 

کسی کے گرم ہونٹوں کی حرارت

رگِ جاں میں اُترنا چاہتی ہے

 

بضد تکمیل پانے پر ہے خواہش

اُسے روکو، وہ مرنا چاہتی ہے

 

ہوس کو لازمی ہے باندھ رکھنا

یہ ندی تو بپھرنا چاہتی ہے

 

خوشی مہمان کی صورت مرے گھر

گھڑی بھر ہی ٹھہرنا چاہتی ہے

 

مرے دل کی دعا بابِ اثر تک

خدایا، اب گزرنا چاہتی ہے

 

پرندوں کی طرح ہر فکر میری

اُڑانیں اور بھرنا چاہتی ہے

 

غزل کی زلف صدیوں سے ابھی تک

پریشاں ہے ، سنورنا چاہتی ہے

 

یہ دنیا کیوں فراغؔؔ آخر قلم سے

ہمیں تلوار کرنا چاہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

صفائی پر صفائی دے رہا ہے

بڑا جھوٹا دکھائی دے رہا ہے

 

گلے ننھے فرشتوں کو لگا لو

خدا اُن میں دکھائی دے رہا ہے

 

چلو پردیش سے گھر لوٹ جائیں

صدا رنگِ حنائی دے رہا ہے

 

ہماری پیاس بجھتے ہی سمندر

ہمیں اذنِ رسائی دے رہا ہے

 

سوا نیزے پہ آ پہنچا ہے سورج

مرا سایہ دہائی دے رہا ہے

 

جزیرے کی خموشی کو بڑھا دو

مجھے سب کچھ سنائی دے رہا ہے

 

صلائے عام اک ظلِ الٰہی

برائے خود نمائی دے رہا ہے

 

لہو اپنا مرے کام آ گیا جب

مجھے وہ روشنائی دے رہا ہے

 

کرم ہے اے فراغؔؔ اُس کا کہ مجھ کو

ادائے حق نوائی دے رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی تیرا، کبھی میرا ہوا ہے

زمانہ عمر بھر کس کا ہوا ہے ؟

 

مقدر میں سفر لکھا ہوا ہے

قدم سے راستہ لپٹا ہوا ہے

 

چمکتی ریت پر پانی کا اکثر

نگاہِ تشنہ کو دھوکا ہوا ہے

 

مرے سر پر بھی سورج آ گیا کیا؟

اچانک گم مرا سایا ہوا ہے

 

ہوائیں سر اُٹھانے پر بضد ہیں

چراغِ رہ گذر سہما ہوا ہے

 

پرندہ امن کا ہے پر سمیٹے

دلوں میں خوف سا بیٹھا ہوا ہے

 

وہ اک ننھا شرارہ تھا کسی دن

ہوا کی شہ پہ جو شعلہ ہوا ہے

 

ندی نالوں کا جاری ہے اُچھلنا

سمندر کس قدر ٹھہرا ہوا ہے

 

تمھارے ہوش گم ہیں جس پہ چل کر

مرا وہ راستہ روندا ہوا ہے

 

فراغؔؔ اپنی غزل کو کیا سنوارے

مسائل میں ابھی اُلجھا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زباں پر اُس کی طعنہ رہ گیا تھا

یہی سننا، سنانا رہ گیا تھا

 

چلا تھا تمکنت کے ساتھ میرے

مگر پیچھے زمانہ رہ گیا تھا

 

ہمارا کام شاید آندھیوں میں

چراغوں کو جلانا رہ گیا تھا

 

جنونِ عشق میں شیوہ ہمارا

خدا اُس کو بنانا رہ گیا تھا

 

دِوانے تھے بہت، لیکن لبوں پر

ہمارا ہی فسانہ رہ گیا تھا

 

نبھانے کے لیے یاں وضع داری

شریفوں کا گھرانہ رہ گیا تھا

 

شبِ ہجراں مقدر میں ہمارے

چراغِ دل جلانا رہ گیا تھا

 

ادا کرنے کی خاطر صدقۂ غم

کچھ اشکوں کا خزانہ رہ گیا تھا

 

فراغؔؔ اک دل ہمارا تھا، جہاں تک

غموں کا آنا جانا رہ گیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

چراغِ جاں جلاؤ گے کہاں تک

اندھیرا یوں مٹاؤ گے کہاں تک

 

ہماری حد سے واقف ہے زمانہ

ہمارا قد گھٹاؤ گے کہاں تک

 

ہمارا ڈر نکل جائے گا اک دن

ہمیں آنکھیں دکھاؤ گے کہاں تک

 

تمھارے ساتھ کب سے چل رہے ہیں

بتاؤ اور جاؤ گے کہاں تک

 

بھنور کی زد میں جب سب کچھ ہے یارو

سفینے کو بچاؤ گے کہاں تک

 

نہ ہارے تھے نہ ہاریں گے کبھی ہم

ہمیں تم آزماؤ گے کہاں تک

 

ہوا پا کر بھڑک اُٹھیں گے اک دن

شراروں کو دباؤ گے کہاں تک

 

فراغؔؔ اُن سے جو کہنا ہے وہ کہہ دو

خموشی اوڑھ پاؤ گے کہاں تک

٭٭٭

 

 

 

 

 

رونے والا رُکا نہیں ہے کیا

درد کی انتہا نہیں ہے کیا

 

چیخ کا سلسلہ دراز ہے کیوں

کوئی مشکل کشا نہیں ہے کیا

 

اور کیا ہو گا شور محشر میں

حشر ہر سو بپا نہیں ہے کیا

 

ہم مٹانے پہ بھی مٹے ہیں کہاں

یہ کوئی معجزہ نہیں ہے کیا

 

ایک مرکز پہ کیوں نہیں آتے

سامنے راستہ نہیں ہے کیا

 

کچھ نہیں بولتی، مگر ہم سے

زندگی کو گلہ نہیں ہے کیا

 

موت کیا مسئلے کی دشمن ہے

حل کوئی دوسرا نہیں ہے کیا

 

ہر طرف اک چراغ روشن ہے

اب مخالف ہوا نہیں ہے کیا

 

کل جہاں پر فراغؔؔ تھا صاحب

وہ وہیں پر کھڑا نہیں ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرؔ کے ہم آ واز ہوئے ہیں

تب جا کر ممتاز ہوئے ہیں

 

یکتائے پرواز ہوئے ہیں

ہم بھی کیا شہباز ہوئے ہیں

 

ہم دیوانے ہی دنیا میں

غم سے سرافراز ہوئے ہیں

 

چاک گریباں ، عالمِ وحشت

اسبابِ اعزاز ہوئے ہیں

 

قیس فدائے لیلیٰ اور ہم

شیدائے ’شہناز‘ ہوئے ہیں

 

اُس کے سریلے بول کے آگے

شرمندہ سب ساز ہوئے ہیں

 

آپ جو چاہیں جی اُٹھیں ہم

آپ کرشمہ ساز ہوئے ہیں

 

لب پر آہِ سرد ہے ، جب سے

آپ مرے دمساز ہوئے ہیں

 

بھر جائیں گے زخم وہی، جو

تم سے نظر انداز ہوئے ہیں

 

غم کی پردہ داری کرتے

اشک مگر غماز ہوئے ہیں

 

ذکر تمھارا ہے جن میں ، وہ

شعر اثر انداز ہوئے ہیں

 

خیر فراغؔؔ اللہ فرمائے

لوگ عجب ہم راز ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

پہلوئے گلفام کی خوشبو

ہائے وہ رنگیں شام کی خوشبو

 

شہروں شہروں پھیل گئی ہے

تیرے میرے نام کی خوشبو

 

میخانے تک جانے نہ دے گی

اُن ہونٹوں کے جام کی خوشبو

 

آوارے کو قید کیے ہے

اُن زلفوں کے دام کی خوشبو

 

اُس کے آگے شرماتی ہے

گل پیراہن بام کی خوشبو

 

دیوانے کے سر آنکھوں پر

آپ کے ہر الزام کی خوشبو

 

ہم سے پہلے گھر گھر پہنچی

ہم جیسے بدنام کی خوشبو

 

جھونکے ہواؤں کے لاتے ہیں

ساقی کے پیغام کی خوشبو

 

جانِ فراغؔؔ ترے ہی صدقے

آتی ہے الہام کی خوشبو

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہی جو ہے ماہتاب جیسا

ہے میری تعبیر خواب جیسا

 

وہ پردے میں بے حجاب جیسا

لگے ہے منظر یہ خواب جیسا

 

میں ایک ذرّہ ہوں اُس کے آگے

وہ سر بہ سر آفتاب جیسا

 

وہ زندگی کی اُداس شب میں

چمک اُٹھا ماہتاب جیسا

 

اُسے ہم آخر چھوئیں تو کیسے

وہ نازکی میں گلاب جیسا

 

جو چھو لے مضراب سی وہ اُنگلی

تو بج اُٹھے تن رباب جیسا

 

نگاہ اُس کی زبان جیسی

اشارہ اُس کا خطاب جیسا

 

زمانہ ٹھہرا سوال مبہم

مگر وہ روشن کتاب جیسا

 

کتابِ دل کے ہر اک ورق پر

رقم ہے وہ انتساب جیسا

 

سلگ رہا تھا میں مثلِ صحرا

وہ مجھ پہ چھایا سحاب جیسا

 

پلا دیا کیا نظر سے اُس نے

نشہ ہے جس کا شراب جیسا

 

بدن سمندر میں کب تھا پہلے

ابھی جو ہے اضطراب جیسا

 

جو پڑھ سکو تو کھلا ہوا ہے

ہر ایک چہرہ کتاب جیسا

 

سفر میں تنہا نہیں ہوں ، لیکن

کوئی نہیں ہم رکاب جیسا

 

زمانے بھر میں کہاں ہے کوئی

فراغِؔ خانہ خراب جیسا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ تو اچھا ہوا، برا نہ ہوا

عشق کا تجھ کو عارضہ نہ ہوا

 

مستقل شاد دل مرا نہ ہوا

مہرباں وہ کبھی ہوا، نہ ہوا

 

حق شبِ ہجر کا ادا نہ ہوا

وہ جدا ہو کے بھی جدا نہ ہوا

 

ساتھ میرے یہ سانحہ نہ ہوا

مختصر غم کا سلسلہ نہ ہوا

 

کچھ کمی رہ گئی ستم میں ترے

درد دل کا مرے سوا نہ ہوا

 

اس ادا سے وہ پیش آتا ہے

گویا اُس کا کوئی خدا نہ ہوا

 

مدتوں بعد ایسا ملنا کیا

جب کسی سے کوئی گلہ نہ ہوا

 

کر گئی کام آج چارہ گری

زخم کے حق میں یہ بھلا نہ ہوا

 

کب نہیں دیکھا بے حجاب اُنھیں

کب قیامت کا سامنا نہ ہوا

 

جانے کیسی شراب تھی ساقی،

خم کے خم پی کے بھی نشہ نہ ہوا

 

آنکھ پتھرا گئی مگر اُن سے

طے مرے گھر کا راستہ نہ ہوا

 

عشق میں جان تک گنوا دی فراغؔؔ

پھر بھی وہ قائلِ وفا نہ ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ حرم کیا ہے ، بت کدہ کیا ہے

اک ترا گھر ہے ، دوسرا کیا ہے

 

بت کدوں میں تو ڈھونڈتا کیا ہے

جو دکھائی دے وہ خدا کیا ہے

 

یہ جنوں ہے کہ عارضہ کیا ہے

بک رہا ہوں ، مجھے ہوا کیا ہے

 

چوٹ لگتے ہی چیختا کیا ہے

زندگی درد کے سوا کیا ہے

 

میں سمندر ہوں ، میری قسمت میں

تشنگی کا یہ سلسلہ کیا ہے

 

بام و در ہاتھ مل رہے ہوں گے

گھر کو مڑ مڑ کے دیکھتا کیا ہے

 

وہ جدا ہو گیا تو راز کھلا

جسم سے جاں کا رابطہ کیا ہے

 

دل نہیں ہے تو میرے پہلو میں

اک چھناکے سے ٹوٹتا کیا ہے

 

روز مرتا ہوں ، روز جیتا ہوں

یہ تماشا مرے خدا، کیا ہے

 

کیا زمیں سے معائنہ کرتے

آسمانوں کی انتہا کیا ہے

 

اک نظر میں فراغؔؔ ہے سب کچھ

جامِ جم کیا ہے ، آئینہ کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی اُجڑے دیار سا کیوں ہے

دل ہمارا مزار سا کیوں ہے

 

موت سے قبل زندگانی کا

پیرہن تار تار سا کیوں ہے

 

ہے وہی زندگی پہ سانسوں کا

سلسلہ بے وقار سا کیوں ہے

 

اُڑ گیا بھاپ بن کے دریا کیا

دور تک ریگ زار سا کیوں ہے

 

چاند زخمی نہیں تو صدیوں سے

اُس کا تن داغ دار سا کیوں ہے

 

جب کبھی جھوٹ بولتا ہی نہیں

آئینہ شرمسار سا کیوں ہے

 

ہائے اہلِ کرم کا طرزِ کرم

سرخیِ اشتہار سا کیوں ہے

 

جب کسی کی نہ ہو سکی دنیا

اُس پہ پھر اعتبار سا کیوں ہے

 

حشر ساماں جو ہے فراغؔ، اُس کا

ہر گھڑی انتظار سا کیوں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اُس کے وعدے کھوکھلے نکلے

ہم بھی کس پر مرنے نکلے

 

ہر موقع پر جھوٹے نکلے

تم بھی اوروں جیسے نکلے

 

ریشم جیسے اُس کے گیسو

آفت کے پرکالے نکلے

 

چاند، ستارے ، پھول اور خوشبو

سب اُس کے دیوانے نکلے

 

ہائے دیارِ جاناں سے ہم

لے کر دل کے ٹکڑے نکلے

 

تم کیا بچھڑے ، اُس دن سے ہم

گھر سے جیسے تیسے نکلے

 

اشک جو ٹپکے یاد میں اُس کی

سب موتی کے دانے نکلے

 

گھٹ گھٹ کر ہی کیوں مرتے ہم

گھر سے باہر جینے نکلے

 

اُجلے اُجلے چہرے والے

اکثر دل کے کالے نکلے

 

چاک تھے جن کے جیب و داماں

لوگ وہی دل والے نکلے

 

جتنے چہرے تھے مقتل میں

سب جانے پہچانے نکلے

 

سچ کوئی سنتا ہی نہیں ہے

آپ بھی کیا فرمانے نکلے

 

آئینے بھی اک دن آخر

پتھر سے ٹکرانے نکلے

 

سب کا سفر نامہ ہے اتنا

روتے آئے ، رُلاتے نکلے

 

نین فراغؔؔ اُس ہرجائی کے

ساگر سے بھی گہرے نکلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا اُس کا معمول رہا ہے

ناداں دل یہ بھول رہا ہے

 

اک اک ارماں قاتل ٹھہرا

اک اک دل مقتول رہا ہے

 

دیوانہ ہی کارِ زیاں میں

مدت سے مشغول رہا ہے

 

ہم دیوانوں کے سر پر کب

الزامِ معقول رہا ہے

 

جھوٹ ہے زندہ اور سولی پر

سچ کا لاشہ جھول رہا ہے

 

قاتل کو قاتل کہہ دینا

کس کا یہاں معمول رہا ہے

 

غم کا شجر تو ہر موسم میں

تیزی سے پھل پھول رہا ہے

 

ہم کانٹے ہی چنتے رہے ہیں

قسمت میں کب پھول رہا ہے

 

چوم فراغؔؔ اُن قدموں کو تو

جن قدموں کی دھول رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا سب کچھ گوارا کیا

بھرم ٹوٹا ہمارا کیا

 

ہے موسم کا اشارا کیا

میں دیکھوں استخارا کیا

 

مجھے تم نے پکارا کیا

مرا رستہ نہارا کیا

 

اُسے میں چاند کہتا ہوں

یہی ہے استعارا کیا

 

نثار اُس پر ہمہ عالم

سمرقند و بخارا کیا

 

اُفق کے پار بھی کوئی

ہے خوابیدہ نظارا کیا

 

چمکتے جگنوؤں کو بھی

سمجھ لوں میں ستارا کیا

 

ہوس دریا، بتا تیرا

نہیں کوئی کنارا کیا

 

مرے اندر بھی شنکر ہے

میں پی لوں زہر سارا کیا

 

چٹخنے کی صدا گونجی

ہوا دل پارا پارا کیا

 

گرے تو جسم جلتا ہے

ہے شبنم بھی شرارا کیا

 

طلسماتی وسیلے سے

چمکتا ہے ستارا کیا

 

صدائے دل سنی جائے

دہائی دوں دوبارا کیا

 

تہی دستی سے تنگ آ کر

کہیں دامن پسارا کیا

 

نظر کیا کچھ نہیں کہتی

زباں کا لوں سہارا کیا

 

مرے چہرے سے رازِ دل

ہوا ہے آشکارا کیا

 

مرے جیسا نیا ہر دن

کبھی تم نے گزارا کیا

 

گوارہ کر لیا جو کچھ

کسی کو ہے گوارا کیا

 

چلے ہو عشق فرمانے

گوارا ہے خسارا کیا

 

پٹارا سچ کا کھلتے ہی

لگا جھٹکا کرارا کیا

 

جما ہے جھیل کا پانی

اُتاروں میں شکارا کیا

 

فراغؔؔ اُس نے نہیں سمجھا

نگاہوں کا اشارا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہماری حق نوائی کیا

سنے گی یہ خدائی کیا

 

تمھارے بس سے باہر ہے

مری حاجت روائی کیا

 

انا کے سامنے تیری

ہماری کج ادائی کیا

 

فلک سے جب اُتر آئے

سفر کرتے خلائی کیا

 

میں سچا ہوں ، یہی سچ ہے

تو پھر میری صفائی کیا

 

کسی ظلِ الٰہی تک

مری ہو گی رسائی کیا

 

شبابِ یار کے آگے

ہماری پارسائی کیا

 

کسی کی زلفِ پیچاں سے

ملے گی اب رہائی کیا

 

فراغؔؔ اُس کی نگاہوں میں

لہو کیا، روشنائی کیا

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی اُس نے نہ ٹالا ہے نہ ٹالے گا

مری روزی مری جھولی میں ڈالے گا

 

کوئی غواص جب مجھ کو کھنگالے گا

یقیناً  ڈوب کر موتی نکالے گا

 

وہی، جس نے لبوں کو تشنگی دی ہے

مری جانب سمندر بھی اُچھالے گا

 

میں ذرّہ ہوں ، مری تاریک ہستی کو

کوئی مغرور سورج کیا اُجالے گا

 

ڈبو کر ناخدا خوش ہے ، مگر مجھ کو

سمندر ہی کنارے پر اُچھالے گا

 

سنبھلنا ہے تو اپنے طور پر سنبھلو

جو خود ہی گر رہا ہو، کیا سنبھالے گا

 

بٹھا رکھا ہے خود میں نے جسے سر پر

وہی اک دن مری پگڑی اُچھالے گا

 

پرانے لفظ آتے ہیں تو آنے دو

فراغؔ اُن کو نئے قالب میں ڈھالے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس نگری میں ہم آئے ہیں

دکھ سکھ اپنے ہمسائے ہیں

 

لوگ نئے ہیں ، شہر نیا ہے

رنگ یہیں کے اپنائے ہیں

 

چھل گئے کچھ لوگوں کے کاندھے

کیا کیا بوجھ اُٹھا لائے ہیں

 

دنیا سے سمجھوتہ کر کے

کچھ یاروں نے سکھ پائے ہیں

 

اپنی شرطوں پر ہی چل کر

اس منزل تک ہم آئے ہیں

 

پتھر برسانے والوں نے

پھول بھی ہم پر برسائے ہیں

 

تجھ سے رشتہ توڑ کے ہم بھی

یار، بہت ہی پچھتائے ہیں

 

مت جا فراغؔ اُس پیڑ تلے

آگ اُگلتے سائے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

فلک سے دور، زمیں کے قریب ہو جاؤں

خدا کرے کہ میں پھر سے غریب ہو جاؤں

 

مرا وجود زمانے کو جب میسر ہے

دعا کرو کہ تمھیں بھی نصیب ہو جاؤں

 

کچھ اختیار مجھے بھی اگر خدا دے دے

تو زندگی کی رُتوں کا نقیب ہو جاؤں

 

مرے سوا مرا دشمن نہیں ہے اور کوئی

انا کو چھوڑ دوں ، اپنا حبیب ہو جاؤں

 

چھپا ہے مجھ میں جو، اہلِ زباں سا لگتا ہے

اُسی سے بات کروں تو ادیب ہو جاؤں

 

فقط جھجک سی ہے طاری مرے تکلم پر

وگرنہ چاہوں تو میں بھی خطیب ہو جاؤں

 

زمانہ نبض شناسی سکھا رہا ہے مجھے

کہیں فراغؔ نہ میں بھی طبیب ہو جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چراغوں پر نوازش ہو رہی ہے

خلش کب سے ہواؤں کو رہی ہے

 

ہماری آنکھ برسوں تک نہ جھپکی

مگر اک خواب بنتی تو رہی ہے

 

جدائی کی اذیت ناک ساعت

اُمیدِ وصل دل میں بو رہی ہے

 

عجب ہے حال میری زندگی کا

میں کیا رویا کہ وہ بھی رو رہی ہے

 

وہی بستر ہے ،لیکن آج اُس پر

’’اداسی بال کھولے سو رہی ہے ‘‘

 

فراغؔ اب اُنگلیوں پر کیا گنائیں

شکایت مجھ سے کس کس کو رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اعزازِ بال و پر سے سرافراز ہم بھی ہیں

تم ہی نہیں ہو، مائلِ پرواز ہم بھی ہیں

 

اکیسویں صدی میں بھی ہے جس کی بازگشت

عہدِ گزشتہ کی وہی آواز ہم بھی ہیں

 

پیشین گوئی کرتے نہیں اور بات ہے

ویسے تو کائنات کے ہم راز ہم بھی ہیں

 

اک آپ ہی نہیں ہیں زمانے میں سرفروش

میدانِ کارزار کے جانباز ہم بھی ہیں

 

کہہ دو شکاریوں سے نہ آئیں گے دام میں

چالاک وہ بہت ہیں تو شہباز ہم بھی ہیں

 

اپنے کمالِ فن کی بدولت ہی اے فراغؔ

شہر سخن کے صاحبِ اعزاز ہم بھی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہو نہیں سکتا یہ پتھر آخری

زد میں کب ہے میرا ہی سر آخری

 

کس کی باری آ گئی ہے دیکھئے

دستِ قاتل میں ہے خنجر آخری

 

ایک ہی کشتی سلامت رہ گئی

اور آگے ہے سمندر آخری

 

اور کس کا کر رہے ہو انتظار

آ گیا کب کا پیمبر آخری

 

اب کسی در کی ضرورت ہی نہیں

میرے سر کو مل گیا در آخری

 

تم جدا مجھ سے ہوئے جس موڑ پر

ہے تعاقب میں وہ منظر آخری

 

ہے ہجومِ میرؔ و غالبؔ اے فراغؔ

کس کو مانیں ہم سخنور آخری

٭٭٭

 

 

 

 

جب نہیں کوچۂ قاتل تو یہ عالم کیوں ہے

شہر میں ہر کوئی آمادۂ ماتم کیوں ہے

 

اب جو اربابِ سیاست کے لبوں پر ہے رواں

یہ اگر امن کی سرگم ہے تو مدھم کیوں ہے

 

ساقیا، تیری سخاوت پہ مجھے شک تو نہیں

میرے ساغر میں بھی جو مے ہے تو کم کم کیوں ہے

 

دھوپ نکلی ہے نہ چلتی ہے کہیں گرم ہوا

عارضِ گل پہ لرزتی ہوئی شبنم کیوں ہے

 

کیا جواب اُن کو میں دوں ، اب جو یہ فرماتے ہیں

چوٹ تو مجھ کو لگی، آنکھ تری نم کیوں ہے

 

میں بھلا دینے کی منزل پہ جب آ پہنچا ہوں

اے صنم، میرے تعاقب میں ترا غم کیوں ہے

 

اتنی مدت میں فراغؔ اس کو سنور جانا تھا

گیسوئے زیست مگر آج بھی برہم کیوں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک ہی تار میں ہم سب کو پرونے والے

وہ بھلے لوگ میسر نہیں ہونے والے

 

ہائے احساس کے دامن کو بھگونے والے

اب گلے لگ کے کہاں لوگ وہ رونے والے

 

وہ کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوتے ہیں

خوابِ خوش رنگ ہر اک آنکھ میں بونے والے

 

ریت پر صبح سے تا شام سلگنا ہے نصیب

سایۂ گل میں کبھی ہم بھی تھے سونے والے

 

راحتِ جاں تھے کبھی سرد ہوا کے جھونکے

ہو گئے دل میں یہی خار چبھونے والے

 

یہ حقیقت تمھیں معلوم نہیں ہے شاید

ڈوب جاتے ہیں کبھی خود بھی ڈبونے والے

 

شہر جاں پر جو گزرنا ہے گزر جائے فراغؔ

ہم کسی موڑ پہ کب ہوش ہیں کھونے والے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بدلی میں ماہتاب کا منظر عجیب تھا

ہر سمت اضطراب کا منظر عجیب تھا

 

اللہ کے عذاب کا منظر عجیب تھا

بے نور آفتاب کا منظر عجیب تھا

 

توبہ و احتساب کا منظر عجیب تھا

پھینکی ہوئی شراب کا منظر عجیب تھا

 

کشتی خدا نے پار لگا دی یہ اور بات

دریا میں رقصِ آب کا منظر عجیب تھا

 

تعبیر جل رہی تھی مکانوں کے ساتھ ساتھ

پل بھر میں شہر خواب کا منظر عجیب تھا

 

تیور بدل دئیے جو ہواؤں نے اک ذرا

سہمے ہوئے گلاب کا منظر عجیب تھا

 

ہم نے دکاں بڑھا دی کہ دانشوروں کے بیچ

ناپرسیِ کتاب کا منظر عجیب تھا

 

دریا سمجھ کے ہم بھی اُدھر بڑھ گئے فراغؔ

اب کیا کہیں سراب کا منظر عجیب تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ندی کبھی نہ کبھی تو اُبل ہی جائے گی

مگر یہ بات کناروں کو کھل ہی جائے گی

 

ہر ایک شمع بجھائی بھی جا نہیں سکتی

جسے ہواؤں میں جلنا ہے جل ہی جائے گی

 

ابھی تو تخت نشیں ہے سیاہ رات، مگر

یہ طے ہے اس کی حکومت بدل ہی جائے گی

 

نہ آئی صبحِ مسرت، یہ دکھ نہیں مجھ کو

ملال ہے کہ شبِ غم بھی ڈھل ہی جائے گی

 

یہ رُت بھی ریت کی مانند اپنی مٹھی سے

میں جانتا ہوں پھسل کر نکل ہی جائے گی

 

تمھارے ہجر میں دل کا عجیب عالم ہے

تم آ سکو توطبیعت سنبھل ہی جائے گی

 

ملا کرو گے اگر یوں ہی گرم جوشی سے

انا کی برف کسی دن پگھل ہی جائے گی

 

فراغؔ دامنِ اُمید چھوڑنا نہ کبھی

مصیبتوں کی یہ ساعت بھی ٹل ہی جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہیں تصور میں زمین و آسماں کچھ اور ہی

اس جہاں سے بھی حسیں ہے وہ جہاں کچھ اور ہی

 

ہیں ہماری بے سر و سامانیاں کچھ اور ہی

ہم کو بٹوارے سے پہنچا ہے زیاں کچھ اور ہی

 

شور ہے کوئی نہ ہلچل اور نہ ہے کوئی ترنگ

زندگی پر اب گزرتا ہے گماں کچھ اور ہی

 

بجھ چکا تھا دل ہمارا کب کا، لیکن ان دنوں

اُٹھ رہا ہے اس کے اندر سے دھواں کچھ اور ہی

 

ہم تصور کی حسیں دنیا سے لوٹے جب کبھی

گھر سے باہر تک نظر آیا سماں کچھ اور ہی

 

ایک طرفہ رابطے سے فاصلے مٹتے نہیں

رفتہ رفتہ بڑھ گئی ہیں دوریاں کچھ اور ہی

 

ہم سے ہوتی ہی نہیں ہے موت کی سودا گری

شہر میں تیرے ہماری ہے دکاں کچھ اور ہی

 

دور تک روشن ہیں کتنے نقشِ پا، لیکن فراغؔ

تیرے قدموں کے نمایاں ہیں نشاں کچھ اور ہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

لٹنے پہ بھی ہم صاحبِ آداب رہیں گے

نواب تو ہر حال میں نواب رہیں گے

 

دنیا میں پڑھے جائیں گے جو شوق سے صدیوں

ہم لوگ کتابوں کے وہ ابواب رہیں گے

 

ہم آج میسر ہیں مگر ایک نہ اک دن

نایاب نہیں ہوں گے تو کمیاب رہیں گے

 

مانو کہ نہ مانو یہ حقیقت ہے کہ ہم پر

تم خاک بھی ڈالو گے تو مہتاب رہیں گے

 

ساگر ہیں کوئی سیپ نہیں ، ہم کہ سواتی!

اک بوند کی خاطر تری بے تاب رہیں گے

 

صحرا کسی بادل کی خوشامد کرے ، ہم تو

سیراب تھے ، سیراب ہیں ، سیراب رہیں گے

 

ہم لوگ تو دریا ہیں ٹھہرتے ہی نہیں ہیں

تالاب جہاں ہیں ، وہیں تالاب رہیں گے

 

اِترایا نہیں کرتے بہاروں پہ جو اپنی

وہ پھول خزاؤں میں بھی شاداب رہیں گے

 

تعبیر ملے یا نہ ملے ، آخری دم تک

آنکھوں میں فراغؔ اپنی بھی کچھ خواب رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

طمانچہ وقت کا کیا کھا رہے ہیں برسوں سے

ہم اپنے گال کو سہلا رہے ہیں برسوں سے

 

ذرا سی ڈھیل جو دے دی تو یہ جہاں والے

ہمارے سر پہ چڑھے آ رہے ہیں برسوں سے

 

ستم تو دیکھئے ہم جیسے بے گناہوں کو

گناہگار وہ ٹھہرا رہے ہیں برسوں سے

 

جسے سنا کے پشیماں وہ خود ہی ہوتے ہیں

اُسی کہانی کو دہرا رہے ہیں برسوں سے

 

کوئی مدد کو ہماری نہ آئے گا، پھر بھی

ہم اپنے آپ کو بہلا رہے ہیں برسوں سے

 

ہمیں زمیں پہ ہی آنا ہے لوٹ کر اک دن

اُڑان پھر بھی بھرے جا رہے ہیں برسوں سے

 

رہِ ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی

دلِ حریص کو سمجھا رہے ہیں برسوں سے

 

فراغؔ غالبِ دوراں نہیں ، مگر وہ بھی

غزل کی زلف کو سلجھا رہے ہیں برسوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجیب پاسِ مروّت کا بار ہے ہم پر

بلائے جاں کی طرح جو سوار ہے ہم پر

 

تمھارے بس میں نہیں برہمی زمانے کی

قیامِ امن کا دار و مدار ہے ہم پر

 

نگار خانوں میں ہم بھی چمک رہے ہوتے

عیاں نہیں ہیں کہ گرد و غبار ہے ہم پر

 

بدلتے رہتے ہیں رُخ موسموں کے ،یاد رہے

ابھی تمھارے ستم کی بہار ہے ہم پر

 

جو ہم چکا نہ سکے تو چکائیں گی نسلیں

تمھاری ضربِ مسلسل اُدھار ہے ہم پر

 

زمیں سے تا بہ فلک کائناتِ عالم کا

ہر ایک رازِ نہاں آشکار ہے ہم پر

 

کیا ہے خلق تو اشرف بنا کے بھیجا ہے

ازل سے رحمتِ پروردگار ہے ہم پر

 

فراغؔ گردشِ لیل و نہار اپنی جگہ

خدا کا شکر! قلم تو نثار ہے ہم پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

سفر میں عزم کو زادِ سفر بنا کے چلو

زمیں سے تا بہ فلک رہ گذر بنا کے چلو

 

زمیں کے ذرّوں کو شمس و قمر بنا کے چلو

جہانِ خوب کو تم خوب تر بنا کے چلو

 

سفر میں ساتھ نہیں دیتا عمر بھر کوئی

کسی کو اپنا مگر ہمسفر بنا کے چلو

 

تمھارے ہاتھ میں روشن ہے جب ہنر کا چراغ

دیارِ شب کو دیارِ سحر بنا کے چلو

 

مقام سخت سہی، پھر بھی اپنی راہوں میں

تم اپنے نقشِ قدم معتبر بنا کے چلو

 

تمھارے بعد یہاں در بدر نہ ہو کوئی

جدھر سے گزرو اُدھر ایک گھر بنا کے چلو

 

یہ سہمے سہمے سے قطرے جو ہیں سرِ مژگاں

انھیں بکھرنے سے پہلے گہر بنا کے چلو

 

تمھاری راہِ طرب میں جو ایک مدت سے

کھڑی ہے خوف کی دیوار، در بنا کے چلو

 

اگر زمانے میں ہونا ہے سرخرو تم کو

تو اپنے عیب کو اپنا ہنر بنا کے چلو

 

فراغؔ فکر و نظر کی سلامتی کے لیے

جو اہلِ دل ہیں اُنھیں ہم نظر بنا کے چلو

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری زمین ترے آسماں سے بہتر ہے

یہی یقین خیال و گماں سے بہتر ہے

 

اسی زمین سے ملتا ہے آسماں کا سراغ

بتاؤ کون جہاں اس جہاں سے بہتر ہے

 

مہ و نجوم سے تیرے مجھے غرض ہی نہیں

کہ ذرّہ ذرّہ مرا کہکشاں سے بہتر ہے

 

مری نگاہ نے ہر زاویے سے دیکھ لیا

میں جانتا ہوں کہ دنیا کہاں سے بہتر ہے

 

یہ تپتی دھوپ، سلگتی ہوئی یہ راہ گذر

کسی سے مانگے ہوئے سائباں سے بہتر ہے

 

بچھی ہوئی ہو جہاں پہلے ہی صفِ ماتم

وہاں خموشی ہی شورِ فغاں سے بہتر ہے

 

خودی کو دارِ ضرورت پہ کیا چڑھانا فراغؔ

اُداس دل ہی دلِ شادماں سے بہتر ہے

٭٭٭

تشکر: افتخار راغب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید