FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

خوشبو اُڑی اُڑی سی

 

 

بھاگ متی کے بعد سرزمین حیدرآباد کی ایک انوکھی داستان

 

                علامہ اعجاز فرخ

 

 

نوٹ : شہرِ حیدرآباد، جس کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہے۔جسے محبتوں نے پروان چڑھایا۔چاہتوں نے جس کی آبیاری کی۔جہاں بیسوں داستانِ محبت حینِ حیات ہیں۔ان ہی میں ایک داستانِ خیرالنسا بھی ہے جس کو عصر حاضر کے صاحبِ طرز انشا پرداز حضرت علامہ اعجاز فرخ نے حسین پیرائے میں بیان کیا ہے۔جن کی نادر تشبیہات، خوب صورت استعارے، نفیس علامتیں اور ان گنت تلمیحات نے ایک سماں باندھ دیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ان چھوئے اور ان کہے لفظوں کو ہی روشن کیا ہے۔یہی لفظ جب موقع و محل کی مناسبت سے جملوں میں ترتیب پاتے ہیں تو ان لفظوں کے جمال کی دوشیزگی نکھر آتی ہے۔ داستان خیرالنسا کے حوالے سے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ

ع۔ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا۔۔۔۔ امید کہ احباب کو یہ داستان پسند آئے گی۔

یحیٰ خان

 

 

 

 

                ریزیڈنسی کی تعمیر

 

 

جوں ہی ریزیڈنسی کی تعمیر کی اجازت مرحمت ہوئی، رود موسی کے شمال میں اس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ حیدرآباد میں شاید یہ پہلی عمارت تھی، جس کی طرز تعمیر میں مغرب و مشرق کا امتزاج تھا۔ یہ درست ہے کہ مختلف تہذیبوں کے میل جول سے مشترکہ تہذیب نمو پاتی ہے، لیکن اس اندیشے سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کس تہذیب کا اثر زیادہ غالب ہو جاتا ہےاوراس کے نتیجے میں کونسی تہذیب کیا کھوتی اور کیا پاتی ہے۔ میرے خیال میں عمارتیں خود بھی قوت گویائی رکھتی ہیں، ان کی شان و شوکت، طرز آرائش، مکینوں کی طرز بود و باش اور ان سب سے سواء ان کی خوشیاں، غم، تبسم، آنسو، کردار کے ساتھ ساتھ وصال آسودہ لمحات اور تپش فراق کی نہ صرف یہ چشم دید گواہ ہوتی ہیں، بلکہ کبھی کبھی کسی کو راز داں پاکر دیواریں سرگوشیوں میں جب آپ بیتی سناتی ہیں، تب ان دیواروں کے دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جاتا ہے، لیکن سننے والا ان کہانیوں کا بوجھ جو اس عمارت سے بھی گراں ہوتا ہے اپنے آپ میں سمیٹ کر منجمد سا ہو جاتا ہے کہ نہ کہا جائے ہے اور نہ سہا جائے ہے۔ وہ برطانوی جو ہندوستان آئے، اس میں دو شخصیتیں یاد رکھی جائیں گی، ایک پروفیسر جان گلکرائسٹ جس نے اردو سے والہانہ محبت کی، اسی کے دور میں فورٹ ولیم کالج میں میر تقی میرؔ کا پہلا دیوان ترتیب پایا۔ اس کی ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پروفیسر مغنی تبسم نے جب ڈاکٹریٹ کے لئے اپنے موضوع کا انتخاب کیا تو وہ ’’جان گلکرائسٹ کی ادبی خدمات‘‘ ہی تھا۔ لیکن ابھی ان کا مقالہ تکمیل کے مراحل کو پہنچا ہی چاہتا تھا کہ جامعہ عثمانیہ کے صدر شعبہ اردو نے اسے بدل کر ’’فانی بدایونی‘‘ پر تازہ مقالہ لکھنے کے لئے کہا۔ یہ کیوں ہوا؟ کس لئے ہوا؟ کس کے لئے ہوا؟ یہ ایک الگ داستان ہے۔ حیدرآباد اپنے دامن میں اتنی داستانوں کو سنبھالے ہوئے ہے کہ اس کے لئے ہزار ہزار راتوں کی داستان گوئی بھی شاید کم پڑ جائے۔ دوسری شخصیت کرک پیٹرک کی ہے، جس کا قیام تو حیدرآباد میں صرف سات برس رہا، لیکن اس کا افسانوی کردار بھی کسی ہزار شیوہ داستان سے کم نہیں ہے۔

جب ریزیڈنسی کی تعمیر مکمل ہو چکی تو ایک بہت بڑے بحری جہاز میں اس کے لئے برطانیہ سے فرنیچر لایا گیا۔ یہ فرنیچر دراصل پرنس ریجنٹ کی رہائش CARLTON HOUSEکا تھا۔ وہ اس فرنیچر کو بدلنا چاہتے تھے سو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے خرید لیا۔ خود ایسٹ انڈیا کمپنی شہزادہ والا شان کی خوشنودی چاہتی تھی، سو اسے منہ مانگی قیمت پر خریدا گیا۔ نظام جو ریزیڈنسی کے اخراجات کے ذمہ دار تھے، بالآخر یہ رقم ان کو ادا کرنی پڑی۔

 

                ریزیڈینسی

 

کرک پیٹرک جب ریزیڈنسی کی پر شکوہ عمارت میں منتقل ہوا تو اس نے میر عالم کے توسط سے حیدرآباد کے امراء کے لئے ایک پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس ضیافت میں امراء کے گھر کی بیگمات بھی مدعو تھیں، جن کا استقبال یوروپین خواتین نے کیا۔ امراء کے لئے ریزیڈنسی کا سبزہ زار سجا ہوا تھا، جب کہ خواتین کی میزبانی کے لئے خصوصی طورپر رنگ محل کو آراستہ کیا گیا تھا۔ اس پر اثر تقریب کے نتیجے میں حیدرآباد کے امراء سے نہ صرف کرک پیٹرک کے روابط بڑھ گئے، بلکہ دعوتوں اور ضیافتوں کا سلسلہ کچھ یوں بڑھا کہ کبھی کسی رئیس کے گھر کوئی تقریب ہو جاتی اور ریزیڈنٹ بہادر شریک ہو جاتے تو صاحب خانہ افتخار محسوس کرتے۔ کسی ریزیڈنٹ کا دعوت نامہ خصوصی قاصد کے ذریعہ کسی امیر کے گھر پہنچ جاتا تو وہ بھی تفاخر محسوس کرتے۔ اس باہمی تال میل سے نظام کے دربار میں ریزیڈنٹ کا رسوخ بھی اتنا بڑھ گیا کہ میر نظام علی خاں نے کرک پیٹرک کو نواب حشمت جنگ کے خطاب سے سرفراز کیا اور اسی کے نام سے ریزیڈنسی کوٹھی کا متصلہ علاقہ حشمت گنج کہلاتا ہے۔

آخرِ اردی بہشت کی خوشگوار شام تھی، چمن نے بہار کے قدموں کی چاپ سن لی تھی اور منہ بند کلیاں شاخوں پر انتظار کی ساعتیں کاٹ رہی تھیں کہ کب نسیم سحری چٹکنے کی نوید جانفزا سناتی ہے۔ رنگ محل کی سیڑھیوں کی دونوں جانب بوگن ویلیا کے غنچوں سے کبھی بوجھل تو کبھی سبک خرام ہوا کے جھونکے سے جھوم جھوم جاتی۔ لیکن اس شام گرمی کچھ زیادہ ہی تھی، شگوفوں کے کھلنے کا موسم ہو تو گرمی محسوس بھی ہوتی ہے، کچھ فضاء کی گرمی تو کچھ بے چین کلیوں کے وجود کے اندر کی گرماہٹ اور یوں بھی چٹکنے کا موسم اور بہار کی گرمی کا ساتھ تو چولی دامن کا ہے۔ ابھی رات ڈھلی نہ تھی، کرک پیٹرک ایک محفل سے واپس ہوا۔ نیلے سرج کے سوٹ میں ملبوس، سفید بے داغ قمیص اور گہری نیلی ٹائی۔ سنہرے بال کچھ اڑے اڑے سے۔ فراخ پیشانی اور نیلگوں آنکھیں۔ کچھ شام کا نشہ، کچھ محفل کا خمار۔ قدموں میں لڑکھڑاہٹ تو نہ تھی، لیکن بے پرواہی ضرور تھی۔ سرخ بجری پر چلتے ہوئے جب وہ سبزہ زار کے پہلو سے گزر رہا تھا تو اسے لگا جیسے اسے دیکھ کر کوئی پیڑ کی اوٹ میں چھپ گیا ہو۔ اس نے رک کر آواز دی ’’کون؟‘‘ ۔ کوئی سامنے تو نہیں آیا، لیکن حس کہہ رہی تھی کہ کوئی ہے ضرور۔ وہ رخ بدل کر پیڑ کی طرف بڑھا اور رک گیا۔ اسے پیڑ کے پیچھے لہراتا ہوا آنچل سا دکھائی دیا۔ کرک پیٹرک کو خیال ہوا کہ شاید یہ اس کا وہم ہے یا خمار کا اثر ہے۔ اس نے آہستہ آہستہ قدموں سے فاصلہ طے کیا اور جب قریب پہنچا تو دیکھا ایک دراز قد لڑکی سر کو آنچل سے ڈھانکے سر جھکائے خاموش کھڑی ہے۔ ’’کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ کرک پیٹرک نے پوچھا۔ وہ اسی طرح سر جھکائے کھڑی رہی۔ سفید قمیص اور غرارے میں ملبوس، سر پر مہین جالی کا دوپٹہ، روشن پیشانی، ابروئے خمدار، حیا سے بوجھل پلکیں، رنگت جیسے کسی نے کچے دودھ میں سیندور گھول دیا ہو، عارض پر شفق کی ہلکی سی لالی، پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، گویا کلیوں نے کم کم کھلنا ان ہی سے سیکھا ہو۔ صراحی دار گردن، سڈول بازو، مخروطی انگلیاں، حنائی ہتھیلیاں کہ کبھی اس ہتھیلی میں مصری کی ڈلی رکھ کر پوچھا جائے کہ کون میٹھی تو مقابل سانس لینا بھول جائے۔ آگے کو سینے پر پڑی گندھی ہوئی چوٹی جیسے خزانے پر سیاہ ناگن کا پہرہ۔ کرک پیٹرک نے آس پاس چاندنی کو دیکھا، یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ روشنی چاند کی ہے یا اس مہ جبین کی۔ وہ مبہوت کھڑا دیکھتا رہا۔ اس وقت تو ہوا بھی ساکت تھی کہ خاموشی کی شہنائی نے گویا سہاگ کے سر میں راگ مالکوس چھیڑ رکھا تھا۔ جب سحر ٹوٹا تو کرک پیٹرک نے اپنے پورے حواس جمع کر کے پوچھا ’’آپ! آپ کون ہیں؟ کیا نام ہے آپ کا؟ کہاں سے آئی ہیں؟‘‘ ۔ اس نے بیک وقت کئی سوال کر دیئے۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا، پھر بانسری کا ساتواں سر چھڑا ’’ہم! بس ہم ہیں، آپ کوئی بھی نام رکھ لیجئے‘‘ ۔ کرک پیٹرک نے سوچا شاید سوال غلط تھا، لیکن جواب بالکل صحیح ہے۔ حسن بس حسن ہوتا ہے، اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ نام تو بس ایک شناخت ہے، ایک پہچان، جس کی پہچان سب سے الگ ہو اس کا بھلا نام کیا ہوسکتا ہے۔ جس کے لئے ہر تشبیہ ہیچ ہو اس کا نام کیا ہو۔ ’’پھر بھی، پھر بھی! آخر کون ہے یہ‘‘ وہ سوچتا رہ گیا اور وہ خراماں خراماں چلتے ہوئے اوجھل ہو گئی، جیسے چمیلی کی خوشبو کو اوس نے ڈھک لیا ہو۔

کرک پیٹرک لباس تبدیل کر کے مسہری پر لیٹ گیا۔ نیند اس وقت پلکوں کی مسہری پر اتر آتی ہے، جب حواس اس کے حوالے کر دیئے جائیں۔ لیکن وہ تو جاتے جاتے حواس بھی ساتھ لے گئی تھی، سو نیند بھی روٹھ گئی۔ ابھی صبح نمودار نہیں ہوئی تھی، شب نے کامدانی کی ردا سر پر ڈال لی کہ کہیں آفتاب کو جھلک نہ دکھلائی دے کہ کرک پیٹرک برآمدے میں آ بیٹھا۔ ابھی ہلکی ہلکی روشنی سی نمودار ہوئی ہی تھی کہ وہ اٹھا اور اسی پیڑ کے نیچے پہنچ گیا، جہاں کل وہ کھڑی تھی۔ اس نے سوچا شاید کوئی نشان، کوئی پتہ، کوئی سراغ سہی مل جائے، لیکن وہ ایک خواب کی طرح سے آئی اور پلک کھلتے ہی غائب ہو گئی۔ دن میں وہ دربار پہنچا۔ مسند سے لگی ہوئی زرنگار کرسیوں پر ارسطو جاہ اور میر عالم تشریف فرما تھے۔ انکے مقابل ریزیڈنٹ بہادر کرک پیٹرک اور پھر حسب مراتب امراء، رؤساء اور نوابین کی نشست تھی۔ منادی نے نظام کی آمد کی خبر دی۔ اہل دربار نے تعظیم دی اور آصف ثانی مسند پر رونق افروز ہوئے۔ انھوں نے میر عالم اور ارسطو جاہ سے مخاطب ہو کر دریافت کیا کہ امرائے پائیگاہ کو ان کی جاگیروں سے کتنی آمدنی ہوتی ہے؟۔ میر عالم نے عرض کیا ’’حضور 52 لاکھ سالانہ‘‘ ۔ ’’اور اس کے عوض؟‘‘ نظام علی خاں نے دریافت کیا۔ میر عالم نے کہا ’’حضور والا کا اقبال بلند ہو، اس کے عوض حضور کی حفاظت کے لئے جو فوج ملازم رکھی گئی ہے، ان کی یافت ادا کی جاتی ہے‘‘ ۔ نظام نے فرمایا ’’ہم برطانوی ریزیڈنٹ کو 15 ہزار سپاہیوں کی فوج مہیا کرنے کا عہد کرچکے ہیں، پھر 70 ہزار نفری؟ یہ بے قاعدہ فوج! اس کا مصرف!‘‘ ۔ میر عالم نے ریزیڈنٹ بہادر کی طرف دیکھا کہ شاید وہ ان کی تائید اور مدد کے لئے آگے بڑھ کر کچھ کہے گا، لیکن وہ تو یوں گم صم جیسے پتھر کا مجسمہ ہو، اس کی تو پلک بھی نہیں جھپک رہی تھی۔ دربار برخاست ہو گیا تو ریزیڈنٹ اپنی بگھی میں سوار ہو کر لوٹ گیا۔

شام سے کچھ پہلے ملازم نے خبر دی کی دیوان بہادر میر عالم تشریف لا رہے ہیں۔ کرک پیٹرک استقبالیہ کے کمرے میں پہنچا اور انھیں لئے دیوان خانہ میں آ گیا۔ میر عالم نے اسے غور سے دیکھ کر کہا ’’نصیب دشمناں، آج آپ کی طبیعت ناساز سی لگتی ہے، خیر تو ہے؟۔ میں نے دربار میں دیکھا تو بے چین ہو اٹھا۔ آپ کے چہرے پر تفکر کی گہری لکیروں نے ہمیں بے چین کر دیا۔ ہم تو فوراً ہی آیا چاہتے تھے، لیکن خیال ہوا کہ دربار کی تکان نے آپ کو کچھ اور مضمحل کر دیا ہو گا۔ آپ آرام فرما لیں تو ہم حاضر ہوں۔ سو میں بغیر پیشگی اطلاع کے چلا آیا‘‘ ۔

کرک پیٹرک نے میر عالم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’میر صاحب! یقین جانئے، جب سے آپ ہم سے ملے ہیں ہمیں اپنے گھر سے دوری کا احساس نہ رہا۔ ہمیں تو ہمیشہ ہی یہ محسوس ہوا کہ ہم شاید اپنے ہی خاندان میں ہیں۔ آپ اسے ہماری صاف گوئی جانئے کہ برطانیہ میں تعلیم اور آداب شہر نشینی تو ہے، لیکن وہ محبتیں جو ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں، یقین جانئے ہمیں اس بیش قیمت سرمایہ پر رشک آتا ہے۔ ویسے میری طبیعت ٹھیک ہے، بس ذرا سا رات کسلمند سی گزری، سو شاید کم خوابی کا اثر ہے۔ میں نے آج شام کی تمام مصروفیات کو منسوخ کر دیا ہے۔ امید ہے گہری نیند کے بعد صبح تک طبیعت سنبھل جائے گی۔ آپ فکرمند نہ ہوں۔ آپ کی تشریف آوری اور خلوص کی وجہ سے میں یوں بھی خود کو بہتر محسوس کر رہا ہوں‘‘ ۔ میر عالم نے کہا ’’اگر طبیعت مکدر ہو تو چلئے، بندہ حاضر ہے، کہیں تفریح کر آتے ہیں‘‘ ۔ کرک پیٹرک نے کھڑکی سے باہر اسی درخت کو دیکھا، پھر کہا ’’نہیں میر صاحب! بس آپ نے یہ زمین دلوا دی۔ جانے وہ کونسی مبارک ساعت تھی کہ یہ کوٹھی یہاں بن گئی۔ اس کے معمار نے بھی جو نقشہ بنایا تھا، اسے دیکھ کر بھی میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ کاش! یہ میرا گھر ہوتا۔ میں تو یہاں تعیناتی پر آیا ہوں، اگر کبھی میں نے گھر بنوایا تو وہ بالکل ایسا ہی ہو گا۔ ورنہ شاید یہ میرا آخری گھر ہے‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ پھر خیالوں میں کھو گیا۔ میر عالم حیرت زدہ رہ گئے، ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ ریزیڈنٹ کیا کہہ رہا ہے۔ وہ جس تشویش کے ساتھ یہاں آئے تھے، اس سے زیادہ تشویش کے ساتھ واپس لوٹ گئے۔

کرک پیٹرک نے شام ہی سے اپنی کرسی لان پر ڈلوا دی۔ ملازم چائے کی میز روبرو رکھ کر حکم کا منتظر دست بستہ کھڑا رہا۔ کرک پیٹرک نے دو کپ چائے لی اور ملازم سے کہہ دیا کہ اس میں چینی نہ شامل کی جائے۔ تلخی انتظار کشیدہ تلخی کو کاٹ دیتی ہے۔ اس نے کچھ تازگی محسوس کی تو ملازم کو اشارہ کیا کہ وہ برتن سمیٹ لے جائے اور ساتھ ہی حکم بھی دیا کہ جب تک آواز نہ دی جائے کوئی مخل نہ ہو۔

رات ڈھل گئی، مگر نہ کوئی چاپ، نہ سنچل، نہ کوئی آہٹ، نہ کوئی سایہ۔ ادھر وہ پیڑ جس کے تلے وہ کھڑی تھی اسے انتظار تھا، ادھر کرک پیٹرک نے اپنی آنکھیں انتظار میں طاق پر رکھ چھوڑی تھیں۔ صبح سے پہلے جب چڑیاں جاگ پڑیں اور بلبل خاموش ہو گئی تو کرک پیٹرک اداس اداس، بوجھل بوجھل، تھکا تھکا اپنی خوابگاہ میں میں روٹھی نیند کو منانے چلا آیا۔ لیکن نہ اس کروٹ چین نہ اس پل قرار تھا۔ دو دن گزر گئے۔ خبر پھیل گئی کہ ریزیڈنٹ بہادر کا مزاج ناساز ہے۔ ادھر سے شاہی طبیب میر عالم کے ساتھ آیا، ادھر کمپنی بہادر کے ڈاکٹر پہنچے، لیکن سوائے تھکن کے کوئی تشخیص نہ ہوسکی۔ اس نے آرام کا بہانہ کر کے سب کو رخصت کر دیا۔

شام کو وہ روز کی طرح باہر بھی نہیں آیا، بس اپنے کمرے میں بند رہا، لیکن جب رات کے سائے دراز ہوئے تو اسے لگا شاید وہ آ گئی۔ اس نے تیزی سے پیروں میں سلیپر پہنے باہر نکل پڑا۔ گویا اس کا دل کہہ رہا تھا وہ آ گئی۔۔۔ اور وہ آ گئی۔ اسی پیڑ کے نیچے، سر پر فیروزی آنچل، فیروزی ریشمی قمیص اور اسی رنگ کا اطلسی غرارہ۔ کلائیوں میں فیروزی چوڑیاں اور انگلی میں نیلم کی انگوٹھی۔ نظر جھکائے ہوئے اور بدن چرائے ہوئے۔

کرک پیٹرک بے تابانہ آگے بڑھا اور اس کے روبرو ہو کر کہا ’’تم آ گئیں، تم وہی ہو نا!‘‘

پھر خود ہی کہنے لگا ’’ہاں! تم وہی ہو، وہی معصوم آنکھیں، وہی چہرے کا بھولپن، وہی سادگی، وہی آنکھوں پر حیا کی چلمن اور وہی خوشبوئے پیراہن‘‘ ۔

پھر کہا ’’مجھے دیکھو جب سے تم گئیں، اس دن سے میں نے پلک نہیں جھپکائی کہ شاید وہ کونسا لمحہ ہے جب تم آ جاؤ اور مجھے نہ پاکر واپس لوٹ جاؤ‘‘ ۔

اس نے آہستہ آہستہ بوجھل پلکیں اٹھائیں۔ کرک پیٹرک نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ آنکھوں میں کھنچے سرخ ڈوروں نے ساری داستان سنادی کہ تمہاری آنکھیں اگر بے چین تھیں تو میری آنکھوں کو بھی کب قرار تھا۔ وصال کی ساعتیں تو لمحوں سے بھی مختصر ہوتی ہیں، بے رحم وقت تو یہ بھی نہیں کرتا کہ ان ساعتوں میں شب فراق کا کوئی ٹکڑا ہی جوڑ دے کہ ساعت وصال کچھ اور دراز ہو جائے۔ وہ چلنے لگی تو کرک پیٹرک نے کہا ’’ذرا سی دیر اور رک جاؤ‘‘ ۔ تو اس نے یوں عاجزی سے دیکھا، گویا ’’بس اب نہ مجھ کو روکنا‘‘ ۔ لیکن جاتے جاتے یہ ہو گیا کہ اس کے دوپٹے کا آنچل سرک کر  پیٹرک کے ہاتھ کو جو چھوکر گزر گیا تو انگلی انگلی مہک اٹھی۔

چلتے چلتے کرک پیٹرک نے پوچھا ’’میں تم کو کہاں تلاش کروں، کہاں کہاں ڈھونڈوں، کچھ تو اپنا پتہ دیتی جاؤ‘‘

تو اس نے ایک ادائے دلبرانہ سے دیکھا اور چل پڑی۔ گویا کہہ گئی ہو ’’میرا پتہ! میرے ملبوس کی خوشبو، مرے قدموں کے نشاں‘‘ ۔

 

                میرے ملبوس کی خوشبو مرے قدموں کے نشاں

 

 

کرک پیٹرک اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ پالکی میں سوار ہوئی اور کہاروں نے پالکی اُٹھا لی۔ کرک پیٹرک بوجھل قدموں سے چلتا ہوا لان پر رکھی اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ بٹلر دست بستہ کھڑا رہا کہ حکم ہو تو درِ میخانہ کُھل جائے۔ لیکن کرک پیٹرک نے منع کر دیا اور چائے کے لئے کہہ دیا۔ TWININGS کی مہکتی ہوئی ارل گرے کی چائے نے اُسے تازہ دم کر دیا تو دوسرے ملازم نے حقہ تازہ کر کے پہلو میں رکھ دیا۔

کرک پیٹرک ہندوستان ہی میں پیدا ہوا تھا۔ مدراس کے فورٹ سینٹ جارج میں اس کی ولادت ہوئی تھی۔ بچپن ہی سے اس کے ذہن پر ہندوستانی تہذیب کے نقوش مرتسم تھے۔ اس کی ابتدائی تعلیم تو فورٹ سینٹ جارج ہی میں ہوئی لیکن بعد میں اسے باقاعدہ تعلیم کے لئے لندن بھیج دیا گیا۔ اس کا باپ کرنل جیمس کرک پیٹرک مدراس پریسیڈنسی کا ریذیڈنٹ تھا اور گہرے رسوخ کا حامل تھا۔اچیلی کرک پیٹرک اس کا دوسرا لڑکا تھا۔ اپنی تعلیم اور فوجی تربیت کے بعد اسے ہندوستان روانہ کر دیا گیا۔ جہاں مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد جب وہ لفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا چکا تو اسے اس کے بھائی ولیم کرک پیٹرک کی جگہ حیدرآباد کا ریذیڈنٹ مقرر کیا گیا۔ وہ مشرقی تہذیب کا اتنا دلدادہ تھا کہ بیشتر ہندوستانی تقاریب میں اسے مغلیہ لباس زیب تن کرتا ہوا دیکھا گیا۔ وہ اردو اور فارسی اس روانی کے ساتھ بولتا تھا جیسے وہ اس کی اپنی زبانیں ہوں۔ آصفیہ دربار میں اس کے رسوخ اور امراء سے تعلقات اور میل جول میں اس ک شیریں سخنی، حاضر جوابی، بذلہ سخی کے ساتھ ساتھ مشرقی لباس اور تہذیب کی آمیزش اس کے لئے بڑی سازگار ثابت ہوئی۔ چنانچہ میر نظام علی خاں نے اس پر اپنے لطف و کرم کی اتنی بارش کر دی کہ اسے پہلے حشمت جنگ، پھر فخر الدولہ اور آخر میں موتمن الملک کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ چنانچہ جیسا کہ کہا گیا ریذیڈنسی کے مقابل حشمت گنج اسی کے نام سے موسوم ہے۔ حال تک حشمت گنج کے باب الداخلہ کی کمان موجود تھی۔ اب شہر میں کونسی عمارت سلامت رہ گئی ہے جو اس کی یاد دلائی جائے۔ جب محل، دو محلے، چومحلے نہ رہے اور ارباب اقتدار سارے تعمیری اور تہذیبی ورثوں کو مٹانے کے درپے پوں تو کس کس کو یاد کیجئے اور کس کس روئیے۔ امراء کی صحبتوں اور محفلوں نے اسے عطر، پان اور حقّے کے شوق سے بھی آشنا کر دیا۔ چنانچہ کرک پیٹرک کی سوانح مرتب کرنے والے مشہور ادیب نے اس کی سوانح کا نام ہی THE WHITE MOGHAL رکھا ہے۔ اونچا پورا قد، مضبوط کسرتی بدن، فوجی چال کی استقامت، سفید اسٹالین گھوڑے پر مخصوص سواری کا انداز، سنہری بال، گورا رنگ، فراخ سینہ، مضبوط بازو، چہرے مہرے سے استقامت عیاں، شخصیت میں وجاہت اور چہرے پر تدبر اور متانت کے ساتھ تھوڑا سا کھلنڈرا پن۔ وہ صرف دربار کو جانے کے لئے چار گھوڑوں والی بگھی جسے دکن میں چوکڑا کہا جاتا تھا، استعمال کرتا تھا۔ ورنہ عموماً شام کو اپنے نمائشی مختصر دستے کے ساتھ گھوڑے پر سوار نکلا کرتا۔ آگے کو چتکبرے رنگ کے دو گھڑ سوار، کلاہ دار خوبصورت وردی میں ملبوس اور پیچھے چار گھوڑ سوار۔ تنو مند اور چاق چو بند۔ ملبوس کا یہ اہتمام کرک پیٹرک کا یہ بانک پن شریر کیوپڈ تو ان لمحات کی تاک میں رہتا ہے۔ ا س لڑکی نے پس چلمن سے جو اس بانک پن کو دیکھا تو کیوپڈ کی تیر نیم کش نے ناوک فگنی میں ایک لمحہ گنوانے کو بھی خطا جاتا۔ تیر نشانے پر بیٹھے تو لہو بہتا ہے لیکن کمبخت کیوپڈ کا تیر کبھی اپنا نشانہ خطا نہیں کرتا۔ لہو تو نہیں بہتا مگر خرمن دل میں ایک ایسی آگ لگا دیتا ہے کہ بجھائے نہ بنے۔

’’ ایک دوجے کے لئے‘‘ کا فلسفہ بھی عجب ہے۔ قدرت کے ان دیکھے ہاتھ جب مٹی کو محبت کا خمیر دے کر ایک کُرّہ کی تشکیل دینے کے بعد وقت کے حوالے کر دیتے ہیں تو گردش دوراں انہیں سمیٹے رکھنے کے بجائے دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے کہ یہ اپنی کشش کے تئیں ایک دوجے کو خود تلاش کریں اور باہم پیوست ہو جائیں۔ یہ نصف کُرّے ایک دوسرے کی تلاش میں جانے کتنی صدیاں گزار چکے ہوتے ہیں اور پھر جب زمین پر اتر آتے ہیں تو یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی ملک، خطّے، یا طبقۂ ارض کے پابند ہوں۔ یہ تلاش انہیں زندگی بھر ایک دوسرے کی تلاش میں سرگرداں رکھتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دونوں بہت قریب سے ہو کر گزر جاتے ہیں لیکن مقدر کی ساعتیں فصل رکھ چھوڑتی ہیں۔ کبھی ایک عارضی وقفہ کے لئے مل بھی جاتے ہیں تو اس کے بعد وصال آسودہ فراق کی تپش کے آگے ہر آگ اور اس کی تپش ہیچ ہے۔ اور اگر دونوں ایک دوسرے سے ملنے تک اگر اپنے وجود میں کچھ بکھر جائیں تو اس ہجر نصیب وصال کی ناآسودگی صرف بے منزل سفر اور آبلہ پائی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔شاید یہ بات درست نہیں ہے کہ بچھڑے ہوئے یہ وجود کسی اور کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ کسی اور کی نہیں بلکہ اپنے وجود کے اندر کے آئینہ میں نہاں اس تصویر کی تلاش میں ہوتے ہیں جنہیں کبھی کبھی خانۂ دل بھی کہا جاتا ہے۔ ان وصال آشنا ہجر نصیبوں کی داستانیں تو زندگی کے ہر گام پر یوں مل جاتی ہیں کہ کبھی کسی عمارت کی دیوار اور کبھی کوئی چٹان ان داستانوں کو سناتی ہوئی بلک اٹھتی ہیں تو دریاؤں کی موجیں اور سمندروں کا تلاطم اس داستاں گوئی کے وقت ساکت ہو جاتا ہے۔ ان داستانوں میں کرداروں کے نام الگ الگ سہی لیکن ان کی اصل ایک ہے۔

وہ شام دلفریب شام تھی۔ نواب محمود علی خاں گھر تقریب تھی وہ دیوان بہادر کے قریبی عزیز تھے اور خود بھی رئیس تھے۔ چنانچہ ارسطو جاہ کے علاوہ دولہ، جنگ، نواب، امراء، سب ہی مدعو تھے۔ موسم بہار نے اتنے سارے پھول کھلا دیئے تھے کہ نہ صرف خارِ نگہبان اپنے فرائض بھول بیٹھے بلکہ جن پتّیوں کے پہلو سے کلیاں پھوٹیں تھیں، پھولوں کے شباب نے انہیں بھی پچھلی صفوں میں ڈھکیل دیا۔ کِھل اٹھنے کا موسم بھی عجیب ہوتا ہے۔ بھونرا منڈلائے تو پھول تغافل آمادہ، نہ منڈلائے تو اپنے آپ سے خجل نہ اس پل چین نہ اس لمحے قرار۔

لان پر پر تکلف نشستوں کا اہتمام۔ با وردی خوش سلیقہ ملازم برف آب شربتوں کی بلوری صراحیاں اور جام بہ کف۔ کنیزیں خاص دانوں میں سونے چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی ٹھنڈی پان کی گلوریاں پیش کرتے ہوئے۔دو کنیزیں کرک پیٹرک کی طرف آگے بڑھ آئیں گویا وہ منتظر اسی کی تھیں۔ پہلی کنیز آگے بڑھی جُھک کر مجرا بجا لائی۔ کرک پیٹرک نے نظر اٹھا کر دیکھا چمپئی رنگ سرخ قبا اور بند قبا پیچھے سے یوں کسی ہوئی کہ ہر زاویہ چست۔ چوڑی دار پاجامہ، گھٹنوں تک پیرہن کا گھیر، کہنیوں سے کچھ نیچے تک چُنی ہوئی، آستین کلائیوں میں طلائی کام والی کانچ کی چوڑیاں، ہر سلام پر جلترنگ چھڑ رہی تھی۔ مجرا بجا لا کر بڑھی تو گندھے بالوں کی سیاہ ناگن پلٹ کر ڈس گئی اور ڈس کر پلٹ گئی۔

اس نے دوسری کنیز کے ہاتھ سے سونے چاندی کی منقش کشتی سنبھالی اور خاص دان آگے کو بڑھا کر کہا۔ حضور پان ملاحظہ ہو۔ پھر اس آہستگی سے جواہرات سے مرصع ڈبیا کھولی جیسے صدف چٹکے۔ پھر جھک کر آہستہ سے کہا ’’صاحبزادی نے اپنے ہاتھ سے آپ کے لئے بنایا ہے‘‘

کرک پیٹرک نے دیکھا ورق لپٹی گلوری کے ساتھ چھوٹا سا سادہ کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ اس نے کنیز کی طرف نگاہ کی تو اس کی نگاہوں نے چپکے سے پیام دیا ’’آپ ہی کے لئے ہے‘‘

اس نے کاغذ کو چھوا ہی تھا کہ پھر انگلی انگلی مہک اٹھی۔ وہی خوشبو، خوشبو کی اس طرزِ پذیرائی پر وہ حیران رہ گیا۔ اس نے کاغذ بائیں جانب جیب میں رکھا اور ادھر گلوری دہن میں رکھی ہی تھی کہ خوشبو سارے وجود کو معطر کر گئی۔ اس کی آنکھیں نشہ میں مخمور سی ہوئی جا رہی تھیں۔ اس نے بے ساختہ مقابل میں دیکھا تو کنیز غائب تھی۔ نامہ بر خط بھی پہنچا گیا۔ پیغام زبانی بھی دے گیا اور شاید اس کے دیدہ حیراں سے جواب بھی لے گیا۔ خط کا مضمون بھی خوشبو، حال دل بھی خوشبو، سلام بھی اور پیام بھی خوشبو اور تو اور پتّہ بھی خوشبو۔ اس نے سوچا نازو ادائے دلبری، رجھانا بھی جانتی ہے تڑپانا بھی۔ اسے شاید یوں بھی مزہ آتا ہے کہ میں ایک پہیلی ہوں مجھے بوجھو تو جانوں۔

کرک پیٹرک نے سوچا وہ پہیلی کیا جو بوجھی نہ جائے۔ کرک پیٹرک جب لوٹ رہا تھا تو اسے چلمن کے پیچھے ایک روشن روشن چہرہ نظر آیا۔ قریب سے گزرا تو کسی نہ آہستہ سے ہاتھ ماتھے تک لے جا کر سلام کیا۔ کرک پیٹرک کے دل میں پھلجھڑیاں سی چھوٹ گئیں۔ دو تین دن بعد کرک پیٹرک اپنے دفتری کام ختم  کر کے رہائش پر لوٹا ہی تھا کہ حاجب نے خبر دی نواب محمود علی خاں کی ڈیوڑھی سے پالکی آئی ہے۔ حضور تک کوئی سوغات پہنچانی ہے۔ کرک پیٹرک نے اجازت دی۔ وہی دونوں کنیزیں، ایک آگے آگے اور دوسری کشتی کو سنبھالے ہوئے۔ دونوں نے آہستہ سے کشتی کو سامنے کی میز پر رکھا اور تسلیم کو جھک گئیں۔ کرک پیٹرک نے پوچھا ’’اس دن پلک جھپکتے میں کہاں غائب ہو گئی تھیں؟‘‘

اس نے کہا ’’میری خوش بختی تھی کہ حضور نے پان قبول کر لیا۔ کنیز حکم کی پابند ہے، جو چیز پہنچانی تھی سو پہنچ گئی۔ آپ نے جو پیام دیا تھا ادھر بھی تو پہچانا تھا‘‘ ۔

’’میں نے! میں نے کب پیام دیا تھا؟‘‘ کرک پیٹرک نے حیرانی سے پوچھا۔

کنیز نے ہلکے سے تبسم کے ساتھ مسکراکر سر جھکا لیا۔

’’کہو تو! میں نے کب کوئی پیام دیا تھا۔ میں تو کچھ کہہ بھی نہ پایا کہ تم چلی گئیں۔ اور تم کہہ رہی ہو کہ۔۔۔!‘‘ کرک پیٹرک نے کہا۔

کنیز نے عرض کیا ’’بے شک صاحب نے کچھ نہیں، مگر پیام تو میں لے گئی تھی۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے ڈبیہ کو چھوکر اس میں سے گلوری اٹھائی اور شاید کچھ اور بھی اور جلدی سے ڈبیہ کو بند کر دیا۔ میں نے اس ڈر سے کہ کہیں منافق ہوا راز فاش نہ کر دے اور آپ کی انگلیوں کے لمس کو کوئی اور نہ چھولے اسے صاحبزادی تک پہنچا دیا‘‘

’’پھر؟‘‘ کرک پیٹرک نے پوچھا۔

’’پھر میں کیا جانوں کہ کس کے چہرے پہ ہلکی سرخی دوڑ گئی اور کس نے بے ساختہ اسی جگہ ڈبیا کو چوم لیا جہاں آپ نے چھوا تھا‘‘

کرک پیٹرک نے پوچھا ’’یہ کیا لائی ہو؟‘‘

اس نے کہا ’’جی حلوہ ہے۔ صاحبزادی نے خود اپنی ہاتھ سے آپ کے لئے بنایا ہے‘‘

کرک پیٹرک نے پوچھا ’’کچھ کہا نہیں کہ کب قدم رنجہ فرمائیں گی‘‘

کنیز نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف اتنا کہا ’’صاحب! حلوہ تازہ بھی ہے اور گرم بھی۔ آپ کے لئے پلیٹ میں تھوڑا سا نکال دوں۔ منہ میٹھا ہو جائے گا‘‘

کرک پیٹرک اندر سے جھینپ گیا۔ اسے کہا ’’تم شوخ بھی ہو حاضر جواب بھی‘‘ ۔

کنیز نے کہا ’’گستاخی معاف فرما دیجئے شاید کنیز نے اپنی حد کو فراموش کر دیا‘‘

کرک پیٹرک نے پوچھا ’’تمہارا نام؟‘‘

اس نے کہا ’’خوشبو‘‘ ۔

وہ چونک گیا پھر دوسری کنیز کی طرف اشارہ  کر کے کہا ’’اور اس کا؟‘‘

’’جی۔ جوہی۔ اس لئے دونوں ساتھ ہیں‘‘

کرک پیٹرک نے دریافت کیا ’’اور صاحبزادی کا نام؟‘‘

’’یہ آپ ان ہی سے پوچھ لیجئے گا! کنیز کو نام لینے کی اجازت نہیں۔ آپ اس شام جن کے مہمان تھے ان کی اکلوتی پوتی ہیں اور وہ دیوان ریاست نواب میر عالم بہادر کے عزیز ہیں‘‘

کرک پیٹرک نے اپنی جیب سے سونے کے دو سکّے نکالے اور دونوں کنیزوں کو دیتے ہوئے کہا ’’صاحبزادی سے کہنا، ہم میٹھے کا شکریہ ادا کرنے بہت جلد حاضر ہوں گے‘‘ ۔

کرک پیٹرک نے میر عالم کو رقعہ روانہ کیا کہ وہ ملنے کے لئے تشریف لائیں۔ اسی شام میر عالم ملنے کے لئے پہنچے تو علیک سلیک اور مزاج پرسی کے بعد کرک پیٹرک نے کہا ’’میر صاحب! ہم ایک بہت بڑی الجھن میں گرفتار ہیں۔ شاید ہماری اس الجھن کا حل آپ کے پاس ہے لیکن ہمیں کہنے میں تامل ہے‘‘

میر عالم نے کہا ’’ریذیڈنٹ بہادر! ایسی کیا بات ہے جو آپ اس قدر پریشان ہیں اگر اس کا حل ہمارے پاس ہے تو آپ میں اور مجھ میں کوئی غیریت تو ہے نہیں۔ آپ تامل نہ فرمائیں اور بلا تکلف فرمائیں کہ مسئلہ کیا ہے۔‘‘

ریذیڈنٹ نے کہا ’’پچھلے دنوں ہماری جو طبیعت بگڑ گئی تھی اس کی وجہ ہم نے آپ کو نہیں بتلائی۔ آپ کو نہیں بلکہ کسی کو نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے شادی نہیں کی۔ ہمارے مزاج سے بھی آپ کو اندازہ ہے کہ ہم مشرقی تہذیب کے کتنے دلدادہ ہیں اور پھر حیدرآباد کی سر زمین نے ہمیں بہت نوازا۔ عزت، خطاب، رُتبہ اور ان سب سے زیادہ آپ لوگوں کے وسیع دل اور بے پایاں محبت۔ ہم دراصل ایک حیدرآبادی نژاد لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں لیکن بخدا ہم سچ کہہ رہے ہیں۔‘‘

میر عالم حیران رہ گئے، پوچھا ’’لیکن کس سے؟کیا نام ہے اس کا؟کس گھرانے سے اس کا تعلق ہے؟‘‘

کرک پیٹرک نے کہا ’’نام تو ہم نہیں جانتے، نہ ہم نے کبھی اس کی آواز سنی ہے۔ بس اتفاقاً اسے اک دو بار دیکھا ہے۔ شرافت کا نور اس کی پیشانی سے عیاں ہے۔ کم سخنی اس کی نجابت کا ثبوت اور شرم و حیا اس کا زیور۔ ہم تو راست اس سے یا اس کے گھر والوں سے شادی کے لئے کہہ نہیں پائیں گے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ ہماری سفارش کر دیں تو اسے انکار نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں اگر اسے یا اس کے اہلِ خاندان کو ہماری کسی حیثیت پر اعتراض ہوا تو ہم ان کی ہر شرط پوری کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر انہیں ہمارے عہدے پر اعتراض ہوا تو ہم یہ عہدہ چھوڑ دیں گے۔ ہمارے مذہب پر کوئی اعتراض ہو تو ہم آپ کا دین اختیار کر لیں گے لیکن شاید وہی لڑکی ہماری عمر بھر کی تلاش ہے۔ ہم نے آپ سے کہا تھا کہ نہ جانے وہ کونسی مبارک ساعت تھی کہ جب آپ نے یہ زمین دلوا دی تھی اور ماہر تعمیرات نے اس ریذیڈنسی کی تعمیر بھی اس طرح کی ہے گویا وہ اپنی غیر مرئی انگلیوں سے ہمارے خواب ٹٹول کر ہمارا گھر بنا رہا ہو۔ یہ بس جائے گا تو حیدرآباد ہم کو آباد کر دے گا ورنہ شاید ہم برباد ہو جائیں گے‘‘ ۔

میر عالم حیرت میں ڈوب گئے۔ ان کی زبان گنگ ہو گئی۔ آخرکار انہوں نے بہ مشکل کہا ’’ریذیڈنٹ بہادر! ہم نے پوری سنجیدگی سے آپ کو سنا اور بڑی اپنائیت سے اسے محسوس کیا لیکن آخر وہ ہے کون؟‘‘

’’ہم یہ تو نہیں جانتے کہ اس کا نام کیا ہے۔ لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہم پچھلے دنوں نواب محمود علی خاں کے گھر جس ضیافت میں گئے تھے، وہ لڑکی شاید ان ہی کے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے‘‘ ۔ کرک پیٹرک نے کہا۔

’’اس گھرانے سے!‘‘ میر عالم نے حیرت اور استعجاب سے پوچھا۔ ’’لیکن وہ تو نواب عقیل الدولہ کی ڈیوڑھی ہے، وہاں کون؟‘‘

میر عالم شش و پنج میں پڑ گئے۔ ان کے چہرے پر فکر اور تشویش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر ریذیڈنٹ نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ’’میر صاحب! ہم آپ کی تشویش کو سمجھ رہے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔ کسی اور سے ہم یہ بات کہہ بھی نہیں سکتے۔ ہم نے آپ کو اپنا رفیق اور غم گسار جان کر آپ سے مدد چاہی اور ہمیں یقین ہے کہ آپ اس کا حل تلاش کر لیں گے‘‘ ۔ میر عالم نے کہا/

’’ریذیڈنٹ بہادر ہم آپ کی دانائی کے معترف ہیں۔ آپ نے بغیر کسی خون خرابے کے ریاست حیدرآباد سے فرانسیسیوں کا قلع قمع کیا ساتھ ہی ہندوستانی روایات کو اپنا کر آپ نے نہ صرف مشرق و مغرب کے درمیان کی خلیج کو کم کیا ہے بلکہ رعایا کو اپنا گرویدہ بھی کیا ہے۔ لیکن ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مشرق اپنی روایات کا پابند ہے وہ اپنی زمینی سرحدوں میں تو مغرب کو جگہ دے سکتا ہے لیکن تا حال اپنی روایات کی سرحدوں میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کر پائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اٹل حقیقت سے آپ کو بھی انکار نہیں ہو گا۔ دوسری طرف آپ نے ریاست حیدرآباد پر حملہ کرنے والوں کو ہر محاذ جنگ پر شکست دینے میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے سرکار عالی، نظام ثانی کی نگاہوں میں آپ کی وقعت کا بھی آپ کو اندازہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اگر یہ قضیہ کھڑا ہو جائے تو اسے سنبھالنا کس قدر مشکل کام ہو گا۔ نہ صرف حیدرآباد کے امراء آپ کے خلاف ہو جائیں گے بلکہ معززین اور شرفاء بھی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر میر عالم رک گئے۔

’’میر صاحب!‘‘ کرک پیٹرک نے نرمی سے کہا ’’ہم آپ سے کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارا مذہب حائل ہوتا ہے تو ہم اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس پر اعتراض ہو تو بخدا ہم یہ عہدہ چھوڑ دیں گے اور اسے لے کر اپنے وطن چلے جائیں گے۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ اتنا کچھ کہ ہم اور ہماری آئندہ نسل کو بھی شاید کسی سے کوئی ضرورت نہ پڑے۔ اس کے علاوہ بھی اگر کوئی اور شرط ہو تو آپ تامل نہ کریں۔ آپ جو ضمانت چاہیں مل جائے گی۔ بس ہمیں اس وقت آپ کی مدد چاہئے۔ ہم آپ کا یہ احسان زندگی بھر یاد رکھیں گے‘‘ ۔

میر عالم کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر کہا ’’اچھا، آپ ہمیں اجازت دیجئے، میں یہ پتہ کروں گا کہ وہ لڑکی کون ہے اور اگر کوئی راہ سوجھی تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ لیکن یہ بھی عرض کئے دیتا ہوں کہ یہ مسئلہ بھڑوں کے چھتّے کو چھیڑنے سے کم نہیں۔ اگر میں کچھ نہ کر پایا تو آپ مجھے درگذر فرمائیں کہ اس نازک اور حساس مسئلہ کا حل میں تلاش نہ کرسکا۔‘‘

یہ کہہ کر میر عالم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کرک پیٹرک انہیں سواری تک رخصت کرنے آیا۔ رخصت ہوتے ہوئے اس نے کہا ’’میر صاحب! آپ کو اس بات پر تو یقین ہے نا کہ جوڑے آسمان پر بنائے جاتے ہیں۔ جو اگر مقدر میں ہے تو ٹلے گا نہیں۔ آپ اپنی سی کوشش تو کر لیجئے شاید تدبیر تقدیر ساز ہو جائے‘‘ ۔

میر عالم سیدھے اپنی ڈیوڑھی کو لوٹ گئے۔ ملاقاتی اور دفتر کا عملہ مسلیں لئے منتظر تھا۔ ملاقاتیوں سے سرسری گفتگو کے بعد انہوں نے پیشی کے معتمد سے کہہ دیا کہ مسلیں اور دفتری امور ملتوی کر دیے جائیں اور محل سرا کی طرف روانہ ہو گئے۔ حاجب نے پردہ اُٹھاتے اُٹھاتے آواز دی ’’سرکار محل سرا میں تشریف لا رہے ہیں‘‘

مغلانیاں، مامائیں، اصیلیں، لونڈیاں، باندیاں، قلما قنیاں جسولنیاں سب با ادب اپنے اپنے مقام پر با ادب سلام، مجرے، تسلیم، بندگی کے لئے ایستادہ ہو گئیں۔ ابھی صدر دالان تک پہنچے بھی نہ تھے کہ بیگم صاحبہ زیب النساء کو خبر ہو گئی۔ کنیز کو پاندان لانے کا اشارہ  کر کے وہ اٹھ کھڑی ہوئیں کہ، الٰہی خیریہ آج دیوان جی کو نا وقت ہماری کیسے یاد آ گئی۔ یا تو رات کے خاصہ کے لئے آنکھیں ترس جاتی تھیں اور آج سہ پہر ہی محل سراء میں تشریف لے آئے۔ میر عالم صدر دالان تک پہنچ چکے تھے۔ تخت پر گاؤ تکیہ سے پشت لگا کر بیٹھ گئے۔ بیگم صاحبہ پاس میں تخت پر بیٹھ گئیں۔ کنیز نے پاندان برابر میں رکھ دیا۔ شوہر کے چہرے کو دیکھا، تردد کی لکیریں چھپی نہ رہ سکیں۔ فوراً کہا ’’نصیب دشمنان خیر تو ہے؟ آج سرکار کی طبعیت پر گرانی سی لگتی ہے۔ سچ بتلائیے، آپ کو ہمارے سر کی قسم ہے۔ کیا دربار میں کوئی بات ہو گئی یا پھر کوئی ناگہاں مہم سر کرنی ہے۔ آپ تو فرنگی محل گئے تھے۔ کیا کوئی انہونی ہو گئی؟‘‘

میر عالم نے کہا آپ تو خواہ مخواہ پریشان ہوتی ہیں۔ اور خود ہی رائی کا پہاڑ بنا لیتی ہیں‘‘ ۔ پھر مسکراکر کہا ’’کیا ہمارے لئے محل سراء میں آنے کا کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے کہ ہم آپ سے صرف اسی وقت ملنے کے لئے آئیں۔ بس ہمارا جی چاہا کہ آج شام کی چائے آپ کے ہاتھ کی بنی ہو تو تھکن دور ہو جائے۔ اور یوں بھی آپ کو دیکھ لیا، لیجئے ساری تھکن دور ہو گئی۔‘‘

بیگم صاحبہ نے کہا ’’زہے نصیب! کبھی وہ دن بھی تھے کہ حضور دوپہر میں خاصہ تناول فرمانے تشریف لاتے تھے اور ہماری بنائی ہوئی کسی چیز کو چکھ کر ہی ہماری طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھ لیتے تھے تو لگتا تھا زندگی کی ساری خوشیاں اسی ایک دزدیدہ نظر نے دامن میں ڈال دی ہیں۔ اب تو حضور دیوان بہادر ہیں کبھی یہاں دعوت تو کبھی وہاں ضیافت۔ شام ڈھلے فانوس تو جل اُٹھتے ہیں نہ جانے کب حضور قدم رنجہ فرمائیں۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ ابھی شمعوں کی روشنی کچھ باقی رہ جاتی ہے کہ شبستاں کے چراغ آپ کی آمد کی وجہ سے زیادہ روشن روشن سے لگتے ہیں۔‘‘

کنیز اتنے میں چائے اور لوازمات سجا گئی۔ میر عالم نے بیگم صاحبہ سے کہا ’’دراصل ہم آپ سے ایک امر میں مدد چاہتے ہیں‘‘

بیگم صاحبہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میر عالم نے ریذیڈنٹ سے ہونے والی ساری گفتگو سنا دی اور کہا کہ آپ اپنے طور پر عقیل الدولہ کی ڈیوڑھی میں پتہ لگوائیں کہ آخر وہ کون فتنہ ساماں ہے جس کی وجہ سے ساری ریاست کا وقار داؤ پر لگا ہے۔ بیگم صاحبہ نے کہا ’’وہ تو خیر میں آج ہی کل میں کر لوں گی لیکن یہ موا فرنگی تو جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسا آ رہا ہے۔ آپ یہ بھی تو سوچئے کہ خاندان بھر میں تو کیا سارے شہر میں ناک کٹ جائے گی۔‘‘

میر عالم نے کہا یہی تو مجھے بھی تردد ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ ہے‘‘ ۔

بیگم صاحبہ نے کہا ’’آپ فکر مند نہ ہو میں ایک دو دن ہی میں اس ناس پیٹی کا کُھرا (نشانِ قدم) اٹھوا لیتی ہوں کہ آخر وہ کونسی حور ہے کہ پری جس نے یہ آفت مچا رکھی ہے۔‘‘

دو روز بعد بیگم صاحبہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر میر عالم سمجھ گئے کہ بیگم کی زنانہ ماہرِ سراغ رساں کُھرا اٹھا لائی ہے۔ انہوں نے بیگم صاحبہ سے کہا ’’لگتا ہے سراغ لگ گیا ہے‘‘

بیگم صاحبہ نے کہا ’’ہاں! وہ عقیل الدولہ کی نواسی ہے۔ شرف النساء کی بیٹی خیر النساء، چودھواں سال پورا ہوا ہے پندرھویں میں چل رہی ہے۔ اس کا رشتہ بھی طئے ہو چکا ہے لیکن شر ف النساء خود بھی اس رشتہ سے خوش نہیں ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق یہ مسئلہ کوئی اکیلے فرنگی صاحب ہی کا نہیں بلکہ۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر بیگم صاحبہ خاموش ہو گئیں۔

میر عالم نے کہا ’’ہوں! آپ شرف النساء کو بلوائیے اور راست ان ہی سے سُن گُن لیں‘‘ بیگم صاحبہ تنک کر بولیں۔

’’اے لیجئے، وہ عیسائی ہم مسلمان، وہ فرنگی، موا ذات کا نہ پات کا۔ خاک ڈالئے، آپ نے تو بڑی بڑی گتھیاں سلجھائی ہیں، کوئی ایسی ترکیب نکالئے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘

میر عالم نے کہا ’’آپ شرف النساء کو تو بلوائیے اور اپنے طور پر بات کر لیجئے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

زیب النساء کی کنیز خاص شرف النساء کے پاس گئی اور نیوتہ پہنچا آئی کہ بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ بہت دن ہوئے آپ قدم رنجہ نہ ہوئیں آپ کو دیکھنے کو بہت جی چاہتا ہے تکلف نہ ہو تو محل سراء کو عزت بخشیں بیگم صاحبہ منتظر ہیں۔

شرف النساء نے کنیز کو رخصت کرتے ہوئے کہا ’’بیگم صاحبہ سے ہماری طرف سے تسلیم کہنا اور کہنا کہ ہم بہت جلد آئیں گے۔ اور چاندی کے سکّے دیکر کہا کہ، بوا یہ اپنے پاندان کے لئے رکھو۔ کنیز نے جھک کر سلام کیا اور رخصت ہو گئی۔ دوسرے دن کہاروں نے پالکی ڈیوڑھی کے پردے کے قریب رکھی اور باہر ہو گئے۔ حاجب نے آواز دی۔ میر بخشی نواب عقیل الدولہ کی محل سراء سے سواریاں آئی ہیں۔ بیگم صاحبہ زیب النساء بیگم خود دالان کی سیڑھیوں تک استقبال کو آئیں۔ کنیز یں پیچھے پیچھے غرارہ کے پائینچے سنبھالے ہوئے ایک اور کنیز بیگم صاحبہ کا پاندان اٹھائے ہوئے صحن سے سلام لیتی ہوئیں سیڑھیوں تک پہنچیں۔ بیگم زیب النساء نے بڑھ کر گلے لگا لیا اور تخت تک لے آئیں۔ دوپہر کو کھانے کے بعد اپنے ہاتھ سے پان بنا کر بیگم صاحبہ نے شرف النساء کو پیش کیا تو انہوں نے چٹ چٹ بلائیں لے کر کہا ’’خدا اس ڈیوڑھی کی شان و شوکت سلامت رکھے، عہدۂ دیوانی نسلوں میں جاری رہے اس شہرِ فیض بنیاد میں آباد رہئے شاد رہئے۔ دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو‘‘ تو بیگم زیب النساء تسلیم کو جھک گئیں۔

پھر کہا ’’آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں‘‘ شرف النساء نے کہا ’’ہاں ہاں کہئے، آپ میں اور مجھ میں کونسی غیریت ہے اور بھلا کوئی اپنوں کی بات کا برا بھی مانتا ہے۔‘‘ بیگم زیب النساء نے میر صاحب سے سنی پوری واردات کو مناسب کتر بیونت  کر کے شرف النساء کو سنادی۔ شرف النساء نے ساری بات نہایت تحمل سے سنی پھر کہا ’’اب آپ سے کیا چھپا ہے۔ خیر النساء کا رشتہ بھائی محمود علی خاں نے مجھ سے پوچھے بغیر طئے کر دیا۔ لڑکے کی عمر 50 کے لگ بھگ ہو گی۔ اوپر سے پہلی بیوی کے بچّے بھی ہیں۔ آپ تو جانتی ہیں، میں خود یہ عذاب بھوگ چکی ہوں۔ ایسے میں جانے کب کیا ہوا۔ ریذیڈنٹ دیوڑھی کے سامنے سے گزرا کرتا ہے۔ چلمن کی ایک تیلی ٹوٹی ہوئی ہو تو کہانی اپنے سارے منظر کے ساتھ در آتی ہے۔ موتیا کا گجرا گلے کا ہار ہو جائے تو صرف اپنی خوشبو بدن میں نہیں چھوڑتا بلکہ بدن کی مہک بھی اپنے وجود میں سمیٹ لیتا ہے۔ ہوا تو راز دار بھی پیام رساں بھی اور پھر اپنے دودھ کی مہک مامتا سے کب چھپی رہتی ہے سو جھکی ہوئی پلکوں نے داستاں سنادی۔مامتا اندھی سہی، لیکن ماں کی آنکھ بیٹی کے آر پار دیکھ لیتی ہے۔ ’’خیر النساء کے باپ تو گذر گئے اس کی تو ماں بھی میں ہوں اور باپ بھی۔ اتنا ضرور کہوں گی کہ، موتی نے صدف سے باہر ہو کر اپنی آب و تاب نہیں کھوئی‘‘ ۔

اتنا کہہ کر وہ رو پڑیں۔ پھر سسکیوں ہی میں کہا ’’مجھے پاک پروردگار کے بعد آپ کے سر تاج میر صاحب پر بڑا بھروسہ ہے۔ وہ فریس اور درد مند ہیں، مجھے ان پر کامل بھروسہ ہے وہ صرف اپنا منشاء ظاہر کر دیں۔ میں اپنے ہاتھ سے اسے زہر دے دوں گی اور لال جوڑے میں ڈولی میں نہ سہی ڈولے میں رخصت کر دوں گی‘‘ ۔

زیب النساء بیگم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور خود بھی روتے ہوئے کہا’’ یہ کیا بد شگونی کی باتیں کر رہی ہیں آپ؟ خدا نے چاہا تو لڑکی عروسی لباس میں ڈولی چڑھے گی۔ حرماں نصیب ہوں اس کے دشمن میں، ان، سے کہوں گی کہ وہ نواب عقیل الدولہ سے بات  کر کے کوئی راہ نکالیں۔ آپ خاطر جمع رکھئے خدا نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

شرف النساء کے رخصت ہونے کے بعد بیگم زیب النساء نے الماری سے عطر کی شیشی نکالی اور ذرا سی روئی ڈبو کر انگوٹھی کے نیچے رکھ لیا۔ اپنے ہاتھ سے پان کی گلوری بنا کر مرصع ڈبیا میں رکھ کر، کنیز سے کہا کہ وہ دیوان خانے میں پان سرکار تک پہنچا دے۔ کنیز گئی، جھک کر میر عالم کی خدمت میں پان پیش کیا ہی تھا کہ میر عالم نے نظر اٹھا کر کنیز کو دیکھا۔ عطر کی خوشبو اپنی مہک سے سوا بیگم صاحبہ کی انگلیوں کی مہک بھی ساتھ لائی تھی۔ میر عالم بہادر نے بڑے بڑے معرکے سر کئے ہمیشہ دشمن کی فوج کے آگے سینہ سپر رہے لیکن دشمن کی فوج اور ہے بیگم کی ’’نوج‘‘ اور۔ سیدھے اٹھ کر محل سراء میں آئے تو بیگم صاحبہ بھی مہکتی ہوئی آن بیٹھیں۔

میر عالم نے کہا ’’فرمائیے! آج آپ نے نا وقت ہمیں یاد کیا تو بیگم نے ذرا سی لٹک کے کہا ’’اے لو! میں کوئی ملاقاتی ہوں جو وقت کا انتظار کروں۔ بھاڑ میں جائے آپ کی دیوانی، دیوان صاحب ہوں گے آپ سب کے لئے۔ میرے لئے تو سب کچھ آپ ہیں۔‘‘

میر عالم مسکرا اُٹھے۔ پھر بیگم صاحبہ نے کہا ’’وہ جو آپ پرسوں ریذیڈنٹ بہادر کی بات کر رہے تھے، آپ نے اس مسئلہ پر غور فرمایا؟‘‘

میر عالم نے کہا ’’مسئلہ تو ہم نے آپ کے حوالے کیا تھا، آپ نے کچھ کہا نہیں‘‘ ۔

’’ہاں ہاں! میں کب انکاری ہوں‘‘ بیگم صاحبہ نے فرمایا ’’میں کہوں! آخر اس مسئلہ میں تردد کیا ہے۔ وہ ریذیڈنٹ ہے، پھر اسلام قبول کرنے کو تیار ہے، لڑکی کو عزت و احتشام کے ساتھ بیاہ لے جانا چاہتا ہے، محلوں میں رہے گی۔ راج کرے گی۔ آخر کو نو مسلم ہونا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ اور سنئے، کون نو مسلم نہیں! کوئی پہلے تو کوئی بعد۔ آپ کی نظر میں اس بوڑھے کھوسٹ سے چودہ برس کی لڑکی کا کوئی جوڑ ہے؟ آخر کو لڑکی ہے کوئی گائے، بھینس نہیں کہ جس کھونٹے سے چاہا باندھ دیا۔ آپ نواب عقیل الدولہ کو سمجھائیں تو شاید وہ بات مان جائیں گے۔‘‘

میر عالم دنگ رہ گئے۔ پھر کہا ’’آپ! آپ یہ کہہ رہی ہیں۔ کل تو آپ کچھ اور کہہ رہی تھیں۔ آپ تو معاشرے کی ہمنوا تھیں اور اس فرنگی پر پھٹکار کر رہی تھیں اور آج!‘‘

بیگم صاحبہ نے کہا ’’کل کی بات اور تھی وہ تو ہم نے صرف آپ کی بات سنی تھی۔ آج ہم شرف النساء کے سارے حالات سے واقفیت کے بعد آپ سے کہہ رہے ہیں۔ وہ بے چاری خود سوتن کا عذاب جھیل گئی۔ پھر شوہر گذر گئے۔ بھلا اس یتیم لڑکی کو پھر اسی جہنم میں ڈھکیل دینا، یہ کہاں کا انصاف ہے۔ دیوان صاحب! صرف دربار ہی کے مسائل نہیں ہوتے، مسائل تو انسانوں کے ہوتے ہیں۔ بھلا بتلائیے، ذرا سی دیر میں آپ فوراً دفتر برخواست  کر کے چلے آئے۔ ہم نے تو کچھ کہا نہیں تھا‘‘ ۔

میر عالم نے کہا ’’آپ نے کچھ کہا ہو نہ کہا ہو۔ لیکن پان کی ڈبیہ آپ کی انگلیوں کی مہک لے آئی تھی۔ یہ سوغات ہمارے سوا کس کا حصہ ہوسکتی تھی سو ہم چلے آئے‘‘ ۔

بیگم نے بڑی لگاوٹ سے میر عالم کے چہرے پر نظر کی اور اپنی نرم ہتھیلی میر عالم کے ہاتھ پر رکھ کر کہا ’’بس اب عقیل الدولہ سے بات کر لیجئے، سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ ۔

 

 

 

 

 

                زندگی بھر وہ رات یاد آئی

 

دوسرے دن میر عالم خود عقیل الدولہ سے ملاقات کے لئے گئے۔ عقیل الدولہ نے پذیرائی کرتے ہوئے کہا ’’آپ نے یاد کر لیا ہوتا، میں حاضر ہو جاتا۔ ویسے یہ غریب خانہ بھی آپ ہی کا ہے۔ میں تو صرف آپ کے زیر سایہ ہوں‘‘ ۔

میر عالم نے کہا ’’آج ہم آپ سے کچھ ضروری اور نجی بات کرنا چاہتے ہیں سو چلے آئے۔ پھر ٹھہر ٹھہر کر میر عالم نے ساری روداد سنادی اور کہا ’’اب آپ ارشاد فرمائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں‘‘

عقیل الدولہ گنگ ہو گئے۔ بڑی دیر کے بعد سکوت توڑتے ہوئے کہا ’’نواب صاحب! آپ ہمارے لئے لائق صد احترام ہیں آپ نے فرمایا سو ہم نے سن لیا۔ ہم تو یہ بھی نہیں سوچ پا رہے ہیں کہ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ اگر کوئی دوسرا ہوتا تو بخدا۔۔۔‘‘

’’بخدا یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سب سننے کے لئے زندہ کیوں ہیں۔ ہم یہ گوارہ کر لیں گے کہ ہیرا چاٹ لیں اور کفن پوشی ہماری آبرو کی پردہ پوش ہو جائے۔ ہماری ناموس اور فرنگی کے گھر! میر صاحب ہمارے پاس اب دو ہی راستے ہیں۔ یا تو اس نامراد کو زہر دے دیں کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ یا پھر خود ہم جی سے گزر جائیں۔ لیکن حشر تک بھی شاید ہماری ہڈیاں قبر کو نہ لگ سکیں‘‘ ۔

میر عالم اپنی جگہ سے اُٹھے صراحی سے ٹھنڈا پانی گلاس میں بھر کر دونوں ہاتھوں میں لئے عقیل الدولہ کے روبرو مودب کھڑے ہو گئے۔

عقیل الدولہ نے کہا ’’میر صاحب!‘‘

میر عالم نے کہا ’’میری خاطر دو گھونٹ پانی پی لیجئے۔ جو بھی ہو گا آپ کے حسب مرضی ہو گا‘‘ ۔ کچھ دیر ماحول پر سکوت رہا پھر میر عالم نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔

’’نواب صاحب! ہم بھی آپ کی جگہ ہوتے تو یہی سب سوچتے اور شاید یہی کچھ کہتے بھی لیکن ہمارے خیال میں مسائل کو حل کرنا عقل کا جوہر بھی ہے اور پا مردی بھی۔ موت مسائل کا حل نہیں ہے۔ مسائل سے تو زندگی کے ہر قدم پر سامنا ہے۔ موت تو ایک ہی بار اختیار کی جا سکتی ہے لیکن اس کے بعد پیدا ہونے والے مسائل پسماندگان کی زندگی کو جہنم بنا سکتے ہیں۔ ان کی پیشانی پر یہ داغ! کیا یہی ایک سوغات اپنی نسلوں کو ورثے میں چھوڑ جائیں گے؟‘‘

عقیل الدولہ گم سم سنتے رہے۔ پھر نہایت نحیف آواز میں کہا ’’تو کیا آپ کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟‘‘ میر عالم نے جواب دیا ’’ابھی آپ نے کچھ دیر پہلے فرمایا، کِسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج آپ منصف اور میں مدعی۔ بحیثیت منصف، آپ کا ہر فیصلہ میرے لئے قابل قبول ہو گا۔ نوعیت تو یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب، اس کی اخلاقیات، اپنے ضمیر سے زیادہ معاشرے کے خود ساختہ اصولوں کے اسیر ہیں۔ جس معاشرے میں دوستیوں اور دشمنیوں کی اساس ذاتی مفادات، خود غرضی، حرص و ہوس، ملک گیری، انا پرستی، جنونِ قد آوری، عیب جوئی، غیبت، تنگ نظری، کینہ، کپٹ، چھل، مکر، فریب، ریا، جھوٹ، منافقت اور ان سب سے سواء حسد پر ہو اس معاشرہ اور حاسدوں کے خوف سے فرار آمادہ ہونا میری نظر میں کوئی دانائی نہیں ہے۔ رہی بات اس مسئلہ میں ریذیڈنٹ کے موقف کی تو اس نے اسلام قبول کرنے پر از خود آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایک شریفانہ بات ہے۔ اور اگر بات رنگ و نسل کی ہے تو آپ کی نظر میں پوری اسلامی تاریخ ہے کہ کون کہاں سے چلا اور کس سے کتنی قربت پائی۔ عرب اور عجم تو اصطلاحات ہیں ورنہ اسلام نے کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں کچھ کینہ پرور اعصابی، نفسیاتی اور سادیت پسند مریض ہیں جو دشنام طرازی میں اس درجہ آگے بڑھ جاتے ہیں، مسلمان کو یہودی کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ دراصل زندہ انسان نہیں چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔‘‘

میر عالم سانس لینے کے لئے رُکے، پھر کہا ’’میں کوئی مبلغ نہیں ہوں، نہ کسی پر تنقید میرا مقصد ہے۔ خدا نخواستہ لڑکی نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس پر وہ خود شرمندہ ہو۔ آپ بتلائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک چودہ برس کی لڑکی کا رشتہ کسی پچاس برس کے ادھیڑ جہاندیدہ مرد سے کر دیا جائے۔ ذرا تصور کیجئے کہ دو، پانچ برس کے بعد کچی مٹی کے بند بھلا منہ زور چڑھی ہوئی ندی کی تاب لاسکتے ہیں؟ شرافتوں کے بھرم کو باقی رکھنے کے لئے جذبات اور جبلت کا گلا گھونٹنا ہی مقدر ٹھہرا تو جی سے گزر جانا تو ایک وقت کا مرنا ٹھہرا۔ کوئی لمحہ لمحہ پگھلتی ہوئی شمع تو نہ ہوئی جسے اپنے انجام کی تو خبر ہے لیکن انتظار سحر میں ہر لمحہ پگھلنا اس کی تقدیر بن جائے۔ شاید یہ ہمارا جھوٹا بھرم ہے نواب صاحب، ایک لاش جو ہمارے جھوٹے بھرم بوجھ صدیوں سے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہے۔ بس مجھے جو کہنا تھا سو کہہ چکا۔ اب فیصلہ آپ پر منحصر ہے۔‘‘

نواب عقیل الدولہ سرد پڑ گئے۔ کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر کہا ’’میر صاحب! آپ ہمارے عزیز ہیں، مونس و غمخوار بھی۔ آپ فرمائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ آپ کی صائب رائے یقیناًہ مارے حق میں بہتر ہو گی۔‘‘

میر عالم نے کہا ’’میں عرض کئے دیتا ہوں، ویسے آپ خود صائب الرائے ہیں۔ آپ چاہیں تو اوروں سے بھی مشورہ کر لیں اور جو پسند فرمائیں تو علماء سے بھی دریافت کر لیں۔ ویسے مسئلہ صاف اور صریح ہے۔ کوئی کسی کو دائرۂ اسلام میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا۔ ویسے یہ ایک پسندیدہ عمل ہو گا۔ رہی بات رشتے کی تو چونکہ صاحبزادی کے والد کا انتقال ہو چکا ہے، آپ اس کے سرپرست بھی ہیں اور ولی بھی۔ ان کی والدہ صاحبزادی کا عندیہ حاصل کر لیں گی تو مسئلہ صاف ہو جائے گا۔‘‘

عقیل الدولہ نے سر کو جنبش دی گویا ساری بات نہ صرف وہ سمجھ گئے ہوں بلکہ ان کے چہرے کا تناؤ ہٹ چکا تھا۔ میر عالم نے کہا اب مجھے اجازت عطا فرمائیں اور جب مناسب سمجھیں اپنے فیصلے سے آگاہ فرما دیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر میر عالم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ نواب عقیل الدولہ انہیں سواری تک رخصت کرنے آئے اور سلام کے بعد ہاتھ چوم کر انہیں رخصت کیا۔

دو تین دن بعد نواب عقیل الدولہ میر عالم کی دیوڑھی پر آئے۔ تواضع کے بعد میر عالم نے اشارہ کیا۔ ملازم تخلیہ کر گئے۔ عقیل الدولہ نے کہا ’’حضور والا! آپ کے تشریف لے جانے کے بعد ہم نے اس مسئلہ پر کافی غور کیا۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے نہ صرف ہماری دلجوئی کی بلکہ زندگی کے ان رموز سے آشنا کیا جن پر روایات کے اتنے دبیز پردے پڑے تھے کہ ہماری نظر نہ جا سکی۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ اپنی فراست اور دور رسی سے اس مسئلہ کو سلجھائیں۔ ہم اپنا سارا اختیار آپ کو سونپتے ہیں۔‘‘

میر عالم نے کہا ’’نواب صاحب آپ کا اور میرا خاندان الگ نہیں ہے۔ میں اس ذمہ داری کو نہ صرف قبول کرتا ہوں بلکہ خدا نخواستہ آئندہ کوئی ناگہانی پیش آئے تو اسے نمٹنا بھی میری ذمہ داری میں شامل ہے۔‘‘

دوسرے دن میر عالم ریذیڈنسی پہنچے۔ میر عالم کے چہرے کو فکرمند نہ دیکھ کر کرک پیٹرک کو اطمینان ہوا کہ جہاندیدہ اور تجربہ کار دیوان نے یقیناًمسئلہ کا کوئی حل تلاش کر لیا ہو گا۔ میر عالم شاید گفتگو میں پہل کرتے، لیکن کچھ تو بے تابیِ عشق اور کچھ وحشتِ دل، کرک پیٹرک نے خود ہی پوچھا ’’کہئے میر صاحب، آپ نے ہمارے مسئلے میں کچھ کیا؟ ہم تو ہر پل آپ کے انتظار میں ہیں کہ شاید آپ کوئی نوید لے کر آئیں‘‘

میر عالم نے کہا ’’ریذیڈنٹ بہادر! مسئلہ پیچیدہ بھی ہے اور نازک بھی۔ ہمیں آپ کے، ریاست کے اور اپنے وقار کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کے گھرانے کا وقار بھی عزیز ہے۔ بہر حال اگر آپ اپنی شرائط پر اٹل ہیں تو میں قاضی شہر سے کہوں کہ آپ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں اور اگر یہ مرحلہ گزر جائے تو شاید کامیابی کچھ دور نہیں۔‘‘

کرک پیٹرک خوش ہو گیا۔ اس نے کہا ’’بخدا میر صاحب! ہم اس بات کے پابند ہیں کہ نہ صرف ہم اسلام قبول کریں گے بلکہ ہم سے جو نسل پیدا ہو گی وہ بھی اسی دین کی پیرو ہو گی۔ ہماری زندگی تک ہمارا یہ وعدہ ہے کہ ہم اس لڑکی کے سواء کسی اور سے شادی بھی نہیں کریں گے۔‘‘

کرک پیٹرک مقررہ تاریخ اور وقت پر میر عالم کے گھر پہنچا۔ قاضی شریعت پناہ، علماء کرام، نواب عقیل الدولہ اور قریبی امراء اور معززین کی مختصر سی محفل تھی۔ قاضی شریعت پناہ نے ایک تحریر میر عالم کو پیش کی۔ میر عالم نے پڑھ کر اسے ریذیڈنٹ کے حوالے کر دیا۔

تحریر میں قبولیت اسلام کی ساری شرائط موجود تھیں۔ کرک پیٹرک نے بہ آواز بلند اس تحریر کو پڑھ کر بہ رضا و رغبت، بلا جبر و ا کراہ بحالت ہوش و حواس، بہ اختیارِ ذاتی اپنے قبولیت دین اسلام کا اقرار کیا اور مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ محفل میں مبارک سلامت کا شور ہوا۔ سب نے کرک پیٹرک کو مبارک باد دی اور اس کے بعد ضیافت کا پر تکلف اہتمام ہوا۔

حیدرآباد میں سلسلہ جنبانی کے ضمن میں کئی طریقے رائج تھے۔ کبھی خاندانوں ہی میں لڑکیاں آنکھوں آنکھوں میں چن لی جاتی تھیں۔ کبھی لڑکی پیدائش کے ساتھ ہی خاندان میں منسوب ہو جاتی تھی اسے ٹھیکرے کا رشتہ کہا جاتا تھا۔ خال خال کبھی مشاطہ کی ضرورت پڑ جاتی تو وہ لڑکی کو حور شمائل اور لڑکے کو ہفت اقلیم کا مالک ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ رکھ چھوڑتی اور دونوں طرف سے چاندی بٹورتی۔ لیکن پچھلے زمانے میں مطالبات کی فہرست کا کبھی کوئی رواج نہ رہا۔ بلکہ اسے انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آج لڑکی کا انتخاب انسانی اقدار پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس سے آمدنی کتنی ہو گی یا جہیز کے نام پر کیا کچھ سامان تعیش فراہم ہو جائے گا۔ اگر اس معیار پر لڑکی پوری نہ اُترے تو استخارہ کے منع آنے کے بہانے سارا الزام خدا کے سر رکھ دیا جاتا ہے۔ شاید کبھی میں نے اپنی کسی تحریر میں یہ لکھا تھا کہ ’’لوگ زندگی تو فرعون کی گزارتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عاقبت موسیٰ جیسی ہو‘‘ اس زمانے میں بن مانگے ہیرے موتی مل جاتے تھے۔ آج مانگے کی بھیک میں دھول بھی نہیں ملتی۔ باپ تعلیم تو دلوا دیتا ہے، اس کی مفلسی یہی کرسکتی ہے لیکن وہ جہیز فراہم نہیں کرسکتا۔ کمبخت آئینہ کی بھی مجبوری ہے کہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ عمر تو بہتی ندی کی طرح گزری جائے ہے۔ آئینہ جب سر میں چاندی کی کوئی لکیر سی دکھلا دیتا ہے تو لڑکی کو بھی یہ خیال کہ میرے حصے میں ملاح کے راگ کا رس تو نہیں ہے شاید ڈوبتی ناؤ کی سسکیاں ہوں۔ تب جانے انجانے ویران صحراؤں میں بگولے رقص کرتے دکھائی دیں تو کوئی حیرت بھی نہیں۔

شام ڈھل رہی تھی ابھی الھڑ رات نے اپنی کامدانی کی رِدا سر پر نہ ڈالی تھی کہ آگے آگے برطانوی گھڑ سوار دستہ، اس کے پیچھے چار گھوڑے والے چوکڑے، اس کے پیچھے قطار در قطار پالکیاں، پہلو میں مشعل بردار جلوس عقیل الدولہ کی دیوڑھی میں داخل ہوا۔ ریذیڈنٹ کے معتمد نے جھک کر نواب صاحب کو تعظیم دی اور مودب ہو کر عرض کیا۔ ’’ریذیڈنٹ بہادر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ تہذیب مانع ہے ورنہ وہ خود سلام کے لئے حاضر ہوتے۔ انہوں نے صاحبزادی سلمہا کے لئے سوغاتیں بھیجی ہیں آپ کی شرف قبولیت ان کے لئے باعث افتخار کا پیام دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دیوان ریاست ان کی طرف سے وکیل ہیں۔ ان کا کہا ہوا ریذیڈنٹ بہادر کا کہا ہوا تسلیم کیا جائے گا۔ سر پوش خوان دالانوں میں سجا دیئے گئے۔

نواب عقیل الدولہ نے کہا ’’ریذیڈنٹ بہادر سے کہئے کہ حضرت میر عالم ہماری طرف سے بھی مختار ہیں۔ ان کے ارشاد کی تعمیل ہو گی۔ معتمد کے رخصت ہو جانے کے بعد جب خوان سے سر پوش ہٹائے گئے تو مرصع کشتیوں میں سانچے موتی کا ست لڑا، طوق، ٹھسی، گلو بند، زنجیر، یاقوت، زمرد، الماس سے مزین ماتھے کے جھومر، کانوں کے لئے مرصع آویزے، چاند بالیاں، ہیرے، یاقوت و زبرجد کے بازو بند، کلائیوں کے لئے پہنچیاں، نقشی کڑے، مرصع گوٹ، بیش بہا انگشتریاں، درمیان میں بیضوی الماس اور اطراف میں زرد جواہر کا کمر بند، مرصع زریں پازیب، اطلس، زربفت، کمخواب، ریشم کے متعدد ملبوس ان سب کے بیچ جالی کے سنہری قلمدان میں ایک رقعہ جس میں صرف یہ تحریر تھا ’’آپ کی فرزندی کا آرزومند۔ کرک پیٹرک۔ گر قبول اُقتد زہے عِزّ و شرف۔‘‘

دوسرے دن میر عالم اور ان کی بیگم زیب النساء نواب عقیل الدولہ کے گھر آئے۔ شرف النساء بیگم میر عالم سے لپٹ گئیں۔ خیر النساء جھکی جھکی نظروں سے بیگم صاحبہ کو تسلیم کے لئے آئی تو زیب النساء نے کہا جُگ جُگ جیو ہمیشہ صندل سے مانگ بھری رہے۔ دونوں خاندانوں میں مشاورت کے بعد شادی کی تاریخ طئے کر دی گئی۔ میر عالم اور عقیل الدولہ نے کچھ مشترکہ فیصلے کئے اور سوغاتوں کے ساتھ کرک پیٹرک کو رشتہ کی منظوری کی اطلاع دے دی گئی۔

حیدرآباد کی شادی میں راجپوتانہ کی تہذیب کا بڑا دخل ہے چنانچہ لڑکی کو پانچ دن پہلے مائیوں(منجھے) بٹھلا دیا جاتا اور اسے زرد لباس پہنایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پوشاکیں زرد، فرش زرد، پلنگ پوش زرد۔ لڑکیاں، بالیاں، ہمجولیاں سب دن بھر دلہن کے کمرے میں گھسی رہتیں۔ بات بات پر نقرئی ہنسی اور ڈھولک کی تھاپ پر آرزوؤں اور امنگوں کی لئے آسمان کو چھو لیا کرتی۔ سب کی آنکھوں میں دھنک رنگ خواب۔ سانچق تو شوخ اور توبہ شکن ہوا کرتی تھی۔ دلہن کے لئے زیور اور ملبوسات کی سوغاتیں اور بانس کے خوبصورت چوکھٹوں پر فواکہات سے بنے ملیدے سے بھرے چاندی کے گھڑے۔ آگے آگے روشن چوکی اور شہنائی راگ مالکوس میں سہاگ کا سُر چھیڑے ہوئے۔ دونوں طرف مشعل برداروں کے ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں۔ جب سانچق راستوں سے گزرتی تو کنواریاں، سہاگنیں، بلکہ بڑی بوڑھیاں تک دریچوں کے چلمن سے یہ نظارہ کیا کرتیں۔ کنواریاں تو آنکھوں میں خواب لئے کہ شاید کبھی کوئی خوابوں کا شہزادہ یہ سوغاتیں لئے ادھر بھی آ نکلے اور سہاگنیں ماضی کی یادوں میں گم۔ دل دھڑکنے کے انداز الگ تھے لیکن دھڑکن سب کی تیز ہو جایا کرتی تھی۔

مہندی کی تقریب جسے حنا بندی بھی کہا جاتا ہے۔ بڑی شوخ اور توبہ شکن ہوا کرتی تھی۔ کنواری لڑکیاں اور دو چار سہاگنیں دولہا کو مہندی لگانے کے لئے دولہا کے گھر پہنچتے پہنچتے آسمان کے شامیانے پر ستاروں کی چادر تن جاتی تھی۔ دولہا کی چھوٹی سالی حنا بندی کی رسم انجام دیا کرتی تھی۔ دونوں کے درمیان ایک مہین پردہ لڑکیاں تھامے رکھتی تھیں گویا صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ سانچق دراصل اسی مہین پردے کو کہتے ہیں۔

خیر النساء کی آنکھوں میں لمحہ لمحہ یہی خواب اترتے رہے۔ انتظار کی ساعتیں طویل بھی، خوش کن بھی۔ دل میں انجانی مسرت بھی ہلکی ہلکی کسک بھی۔ کبھی کبھی خوابوں میں یوں کھو جانا کہ دل دھڑکنا بھول جائے اور کبھی کبھی یوں دھڑک اٹھے جیسے ساجن کے قدموں کی چاپ سن لی ہو۔ انتظار کشیدہ آنکھیں تھک سی گئیں لیکن سانچق نہیں آئی۔ دراصل ریذیڈنسی میں ان رسومات کے لئے کوئی تھا بھی نہیں۔ کرک پیٹرک کے دوست اور یوروپین خواتین ان رسومات سے نا بلد تھیں۔ تحائف آئے فرنگنیں رسم دیکھتی رہیں اور خوش ہوتی رہیں۔ انہیں پہلی مرتبہ ہندوستانی شادی کو تفصیلی دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ البتہ بارات بڑی دھوم دھام سے آئی۔ نوشہ سفید بروکیڈ کی اچکن سر پر راجپوتی شملہ، گلے میں بدّھی، چاندی اور سونے کے تار کے ساتھ موتیا اور گلاب میں گندھا ہوا سہرا۔ اونچا پورا قد، گورا چٹا رنگ، سجے ہوئے بلند ہاتھی پر سونا چڑھا ہودج اور اس پر نوشہ۔ ساتھ میں فوج کی بریگیڈ۔ نوشہ کی سواری جب عقیل الدولہ کی دیوڑھی پر پہنچی تو ادھر روشن چوکی جاگ اُٹھی اور ادھر بریگیڈ نے فوجی بینڈ پر سلامی کی دھن بجائی۔ میر عالم نے نوشہ اور باراتیوں کا استقبال کیا اور صدر دالان میں مسند تک خود بازو تھام کر نوشہ کو لے گئے۔

محفل آراستہ تھی۔ جاہ، دولہ، جنگ، امراء، روساء، معززین سب شریک تھے۔ سب کے چہرے پر مسرت عیاں تھی۔ صرف ارسطو جاہ کے ہونٹوں پر معنی خیز تبسم تھا۔ عقد کے بعد مبارک سلامت کا سلسلہ شروع ہوا۔ شعراء نے سہرا پیش کیا۔ نواب عقیل الدولہ نے 256 پکوان پر مشتمل ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ نشستوں میں بھی اہتمام یہ تھا کہ ہم جلیس اور ہم خیال احباب کی چوکیاں آراستہ کی گئی تھیں۔ وسیع صحن میں چوکور تخت پر طائفے محفل رقص و سرود سجائے ہوئے تھے۔ محفل میں ایک لہر ایک موج ایک مستی تھی۔ حسینہ شب کی زلفیں دراز ہو کر کمر سے نیچے آ پہنچی تھیں کہ شہنائی نوازوں نے بابل سے رخصتی کا نغمہ کچھ یوں چھیڑا کہ نہ صرف اہلِ محفل کی آنکھ بھر آئی بلکہ شہنائی بھی رو پڑی۔ آنگن بچپن کی کھیلی ہوئی کو رخصت کر رہا تھا۔ ماں اپنے وجود کے حصے کو۔ دلہن کی ڈولی کو پہلے خاندان کے لڑکوں نے اٹھا کر دیوڑھی کے دروازے تک پہنچایا پھر کہار آگے بڑھے۔ دلہن تاروں کی چھاؤں میں رخصت ہوئی اور بھرپور چاندنی میں نہائی ہوئی ڈولی ریذیڈنسی کے رنگ محل پہنچ گئی۔ کنیزوں نے بڑی آہستگی کے ساتھ اتارا اور آہستہ آہستہ دلہن کو حجلہ عروسی میں پہنچا کر دونوں کنیزیں خوشبو اور جوہی دروازے کے پاس کھڑی ہو گئیں۔

 

 

 

                خوشبو اُڑی اُڑی سی

 

 

کرک پیٹرک ریشمی کرتے، پاجامے میں ملبوس گلے میں سونے کی زنجیر، سنہری بال، مخمور نگاہوں اور فاتحانہ انداز میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے حجلہ عروسی کے دروازے تک پہنچا تو دونوں کنیزیں کورنش کے لئے جھک گئیں۔ کرک پیٹرک نے اپنے گلے کی زنجیر مسکراتے ہوئے خوشبو کو بخش دی اور ایک انگوٹھی جوہی کی ہتھیلی میں رکھ دی۔ دونوں دروازے سے ہٹ گئیں۔ کرک پیٹرک کمرہ میں داخل ہوا۔ مسہری پھولوں سے سجی تھی۔ سیج تک پہنچنے تک کی راہ بھی پنکھڑیوں سے آراستہ تھی۔ پھولوں کی مہک چار سو پھیلی تھی۔ کرک پیٹرک جیسے ہی مسہری تک پہنچا خوشبو کے نرغے سے نکل کر ایک مانوس خوشبو اس کے وجود کو معطر کر گئی۔ وہی خوشبو جو پہلی بار آنچل کے چھو جانے سے اس کے وجود کو معطر کر گئی تھی۔ کرک پیٹرک مسہری پر بیٹھ گیا وہ روبرو تھی۔ گردن جھکی ہوئی گھونگھٹ میں چھپا ہوا چہرہ، حنائی ہاتھ چہرے کو ڈھک ہوئے۔ اس نے آہستہ سے کہا ’’خیرون‘‘ لیکن کوئی جنبش نہ ہوئی۔ اس نے اپنا ہاتھ اس کی کلائی پر رکھا۔ دلہن کسمسائی لیکن چہرے سے ہاتھ نہیں ہٹائے۔ کرک پیٹرک نے اپنے ہاتھوں سے اس کی نازک کلائیوں کو تھاما۔ چوڑیوں کی جلترنگ بج اُٹھی۔ اس نے آہستہ سے اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اور تھوڑی کو ہلکے سے تھام کر چہرے کو اٹھا کر روبرو کیا ہی تھا کہ دنگ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ اور حیرت سے دیکھ کر کہا ’’تم؟‘‘

اور وہ اسے مبہوت دیکھتا رہ گیا۔ حسنِ مکمل اگر روبرو ہو تو عشق کو چپ لگ جاتی ہے اور یہی حسن کو عشق کا خراج ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حسن انگشت تراش ہو تو انگلیوں کے کٹ جانے کا بھی احساس نہیں ہوتا اور تحیر کی مسرت پلک جھپکنے کی بھی مہلت نہیں دیتی۔ کچھ دیر وہ اسے تکتا رہا پھر کہا ’’تم اسی زمین کی مخلوق ہو یا آسمان سے اتاری گئی ہو‘‘ دلہن نے کچھ کہا نہیں آہستہ سے سر کو جھکا لیا۔ ذرا سا آنچل جو سر سے ڈھلک گیا تو زلف بھی رخسار کو چھو گئی۔ کرک پیٹرک نے ذرا سا زلفوں کو چھیڑا ہی تھا کہ سیاہ ریشم کا ڈھیر کھل گیا اور فانوسوں میں چراغوں کی لو مدھم ہو گئی۔

کرک پیٹرک نے سوچا کہ شاید رات اس زلف کے بکھر جانے اور دن اس کے سنور جانے کا نام ہے۔ شمع کی لو کے اطراف پروانے کا رقص اور نظروں سے طواف اپنی جگہ لیکن پروانہ بھی جانتا ہے کہ حاصل عشق تو جل جانا ہے۔ شعلے کا بدن تو وسیلہ ہے ورنہ لذت وصل تو ایک کیف ہے ایک نشہ ہے۔

حیدرآباد میں دلہن کی رخصتی کے پھول پہنائے جاتے تو طلائی چوڑیوں کی جگہ لاک کی چوڑیوں کا جوڑا پہنایا جاتا تھا اور اسے ’’کھوبڑے کا جوڑا‘‘ کہا جاتا تھا۔ جو کھنکے تو کم کم پر بات پوری کر جائے۔ رات گزرنے کے بعد صبح جب پیش باندی بستر کی شکنیں درست کرنے آتی تو کھوبڑے کے جوڑے کی ٹوٹی کرچیاں چپکے سے چن کر آنچل کے گوشے میں باندھ لیا کرتی تھیں۔ گویا ساری داستانِ شب کو گرہ لگا کر محفوظ کر لیا ہو۔ اور زہر تو چہرے کی رنگت اجاڑ دیتے ہیں لیکن عشق جب حسن کو ڈس لے تو شباب کی دوشیزگی نکھر آتی ہے۔ ماہ عسل، دراصل کہتے اسی عرصے کو ہیں جب ایک دوسرے کے وجود میں، اپنی مرضی سے رات کو دن اور دن کو رات بنا دے۔ جب یہ مدت گزری تو کرک پیٹرک کو دربار کی یاد آئی۔

نظام علی خاں نے ریذیڈنٹ کو تحائف سے نوازا۔ خوشگوار زندگی کی دعائیں دیں۔ ملے توارسطو جاہ بھی لیکن ریذیڈنٹ سے ان کی کینہ توز نظریں چھپی نہ رہ سکیں۔

کچھ دن بعد ارسطو جاہ میر عالم کے گھر آئے۔ تواضع کے بعد انہوں نے میر عالم سے کہا ’’میر صاحب! برا نہ مانئے تو عرض کروں، ریذیڈنٹ کا یہ رویہ دراصل ہماری عزت کو للکارنا ہے۔ ہماری ریاست میں مداخلت کے بعد اب تو فرنگی سے ہمارے گھر بھی محفوظ نہیں۔ میں تو اسے توہین اور بے عزتی سمجھتا ہوں کہ ہماری ناموس فرنگیوں کا کھلونا بن جائے! بھلا کہاں ہمارا نجیب گھرانہ اور کہاں یہ فرنگی۔‘‘

میر عالم نے کہا ’’لیکن نواب صاحب یہ تو باقاعدہ شادی ہوئی ہے‘‘

ارسطو جاہ نے فوراً کہا ’’شادی! اور فرنگی سے اور اس کے بعد مخلوط نسل۔ غریت اور امارت تو بدل سکتی ہے۔ دولت تو دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے لیکن نجابت تو وہ جوہر ہے جو نسلاً بعد نسلاٍ منتقل ہوتا ہے۔ میری مانئے تو ہمیں اس بات کی اطلاع وائسرائے کو دینی چاہئے ورنہ پھر کوئی گھر محفوظ نہ رہ سکے گا۔‘‘

میر عالم کو اس کا خدشہ تو تھا ہی وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ارسطو جاہ نے اپنی جیب سے خط نکالا اور میر عالم سے کہا ’’میں نے محضر تیار کر لیا ہے اور دستخط بھی کر دیئے ہیں آپ بھی اسے ملاحظہ فرما لیں اور دستخط کر دیں۔‘‘

میر عالم نے کہا ’’میرا اس پر دستخط کرنا مناسب نہیں ہے۔ مجھے جو بھی لکھنا ہو وہ میں بذات خود تحریر  کر کے روانہ کردوں گا۔‘‘

ارسطو جاہ نے محضر لپیٹ لیا اور رخصت ہو گئے۔ لارڈ ولزلی کو جب یہ محضر وصول ہوا تو اس کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ محضر پر ارسطو جاہ اور میر عالم کے دستخط تھے اور وائسرائے سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ فوراً اس معاملے کی خبر لے ورنہ حیدرآباد میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا جذبہ بڑی شدت سے ابھر آئے گا۔ محضر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے معاہدہ کی حدود سے تجاوز  کر کے ریاست کے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا باعث ہو رہی جو نہ صرف ریاستی امور میں مداخلت بیجا ہے بلکہ سلطنت میں نظم و نسق میں بگاڑ کا بھی باعث ہے۔ لارڈ ولزلی نے فوراً تحقیقات کا حکم دے کر کیپٹن جان مالکم کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت محسوس ہو تو فوری طور پر کرک پیٹرک سے فوری طور پر جائزہ حاصل کر لے۔ کیپٹن جان مالکم کبھی کرک پیٹرک کا ماتحت رہ چکا تھا۔ اس کے باپ نے جان مالکم کا تقرر کیا تھا وہ نہ صرف اس خاندان سے غیر معمولی قربت رکھتا تھا بلکہ اسے ایک گونہ لگاؤ بھی تھا۔ اس نے کرک پیٹرک کو ایک شخصی خط میں ساری تفصیلات لکھ کر مشورہ دیا کہ وہ اپنے دفاع کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہ رکھے۔

کرک پیٹرک کو اس بات کی توقع نہیں تھی اس نے میر عالم کو بلوا بھیجا اور ساری صورتحال سے واقف کروانے کے بعد کہا ’’دیوان صاحب! محضر پر ارسطو جاہ کے دستخط تو سمجھ میں آتے ہیں لیکن آپ! ہم تو آپ کو اپنا محسن جانتے ہیں۔ آپ نے ہماری خواہش پر ہم سے بھر پور تعاون کیا اور پھر آپ کی یہ دستخط!کیا یہ سب کچھ نظام کی مرضی سے ہو رہا ہے اور آپ نے نظام کے دباؤ میں یہ دستخط کئے ہیں یا اور کوئی وجہ سے۔ آپ ہمیں صاف صاف بتلائیے تاکہ ہم اس تحقیقات کے لئے خود کو تیار کرسکیں‘‘

میر عالم نے قدرے تامل کے بعد ٹھہر ٹھہر کر کہا ’’ریذیڈنٹ بہادر! ہم اس واقعہ سے لاعلم نہیں ہیں لیکن ہم اس میں شریک بھی نہیں ہیں۔ ارسطو جاہ ہمارے پاس محضر ضرور لائے تھے اور ہم سے خواہش بھی کی تھی کہ ہم ان کے بنائے ہوئے محضر پر دستخط کر دیں لیکن ہم نے انکار کر دیا۔ ہم اپنے پُرکھوں سے حق شناس ہیں ایک کا ہو کر ہر ایک کا ہونا ہماری سرشت میں داخل نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس محضر پر کس کی دستخط ہے لیکن آپ کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ اس پر ہماری دستخط نہیں ہیں‘‘

کرک پیٹرک حیرت میں پڑ گیا پھر اس نے کہا ’’ٹھیک ہے، ہم نمٹ لیں گے لیکن آپ تو ہمارا ساتھ دیں گے نا!‘‘

میر عالم نے کہا ’’جتنا کچھ سچ ہو گا ہم اس پر برابر آپ کا ساتھ دیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے‘‘

کرک پیٹرک نے پوچھا ’’کیا آپ کے ذہن میں کوئی طریقہ ہے کہ ہم اس معاملے کو خوش اسلوبی سے سلجھا سکیں؟‘‘

میر عالم نے کہا ’’لڑکی اور اس کی والدہ سے تحریر لے لیجئے کہ کوئی کام ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوا ہے اور جو بھی ہوا وہ برضاء و رغبت ہوا ہے اور اس شفافیت کے بعد اگر نظام خود اس کی تصدیق کر دیں۔ پھر تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا‘‘ سارا منصوبہ کرک پیٹرک کی سمجھ میں آ گیا۔ اس نے شرف النساء بیگم سے تحریر حاصل کر لی اور قاضی سے وثیقۂ نکاح بھی۔ پھر ان دونوں کاغذات کو نظام علی خاں کی خدمت میں پیش  کر کے ساری روداد سنادی تو نظام نے بھی اس پر اپنی مہر ثبت کر دی۔

جان مالکم حیدرآباد نہیں آیا۔ وہ مچھلی پٹنم میں ٹھہرا رہا۔ جب کرک پیٹرک کا قاصد جان مالکم کے پاس پہنچا تو اس نے مہر بند لفافے میں سے دستاویزات برآمد کئے اور بغور مطالعہ  کر کے اس کی روشنی میں اپنی رپورٹ مرتب کر لی۔ اپنی تحقیق کو اور شواہد کی بنیاد پر اور مضبوط کرنے کے لئے اس نے پیٹرک کے خاص ملازمین کو بھی طلب کیا اور سارے بیانات کو قلمبند کرنے کے بعد وائسرائے کو نہ صرف اطمینان دلا دیا کہ جو کچھ بھی واقعہ گزرا ہے وہ صرف ذاتی ہے اور فریقین کی رضامندی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اس نے کلکتہ میں بھی پیش آنے والے ایسے ہی واقعے کی نظیر پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اور بھی واقعات ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں اس نے کچھ یوں لکھ دیا کہ جب دونوں راضی ہوں تو قاضی کی مداخلت نہ صرف نامناسب ہے بلکہ وہ مجبور بھی ہے۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔ البتہ اس نے ارسطو جاہ کے پیش کردہ محضر میں دستخط پر اپنے شکوک کا اظہار کیا جس کی بعد میں دستخط کے ماہرین نے توثیق کر دی کہ اس محضر میں میر عالم کے دستخط جعلی تھے۔ ارسطو جاہ کو نہ صرف شرمندگی ہاتھ آئی بلکہ انہیں محضر واپس لینا پڑا۔

خوشی کی مدت ماہ و سال کے پیمانوں میں کتنی ہی طویل سہی لیکن احساس کے پیمانے میں لمحوں سے بھی کم ہوتی ہے۔ انسان کے اندر کی گھڑی کی سوئیاں اس تیزی سے حرکت کرتی ہیں کہ پتہ نہیں چلتا اور ماہ و سال بدل جاتے ہیں لیکن وہی وقت ہے جو غم اور اندوہ کے پل کو صدیوں کی طوالت پہنچا دیتا ہے پھر بھی پل کی مسافت طئے نہیں ہوتی۔

پانچ برس کیسے گزرے کچھ خبر ہی نہ ہوئی۔ رنگ محل کے برآمدے میں بیٹھی خیر النساء نے دیکھا ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دو خوبصورت بچے سیڑھیوں پر ہیں تب اس نے سوچا اس کے بچے! چار برس کا لڑکا غلام علی صاحب عالم اور نورالنساء بیگم صاحبہ جنہیں کرک پیٹرک ہمیشہ پیار سے صاحب عالم اور بیگم صاحبہ ہی کہا کرتا تھا۔ بیٹی کو دیکھ کر خیر النساء کو خیال آیا کہ اس کا بچپن اس کے آنگن میں کھیل رہا ہے۔ وہی پھولے پھولے سے گال، وہی سیاہ وحشی ہرن جیسی آنکھیں، وہی بھولپن اور وہی معصومیت اسے بے ساختہ اپنے بچوں پر پیار آ گیا۔ اس نے دونوں کو کلیجے میں بھر لیا اور بے تحاشہ انہیں چومنے لگی۔ بیٹے نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور رخسار پر رخسار رکھ دیا اور بیٹی نے زانو پہ سر۔

خیر النساء اسی محویت میں تھی۔ اسے خبر بھی نہ ہوئی کہ پیٹرک کب سے کھڑا اسے اس عالم میں دیکھ رہا ہے۔ اس کی نظر پڑی تو اس نے کہا ’’آپ! آپ کب آئے؟ میں نے دیکھا ہی نہیں‘‘ پیٹرک نے کہا ’’آپ کو ہمیں دیکھنے کی فرصت ہو تب نا!‘‘ عورت ماں ہو جاتی ہے تو محبوبہ نہیں رہتی۔ مرد محبت میں ساجھے داری نہیں چاہتا۔ عورت اپنے وجود کے حصوں کو بکھرنے نہیں دینا چاہتی۔ کہتی تو نہیں لیکن سلوک یہی کہتا ہے ’’مجھ سے پہلی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘ ۔ عورت اتنی مامتا نچھاور کر دیتی ہے کہ زندگی کی کڑی دھوپ میں بھی ماں کا غیر مرئی آنچل سایہ کی طرح ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ آسمان کی تاروں بھری چادر اگر زمین پر آ جائے تو ماں کی اوڑھنی کے آگے ستاروں کی چادر ہیچ۔ باپ تو کمبخت ضرورتیں پوری کرنے والا مشینی آدمی ہے۔ ساری زندگی بیت جانے کے بعد اندیشۂ سو دوزیاں سے بے نیاز احترام کی خیرات پر فخر کرتا پھرتا ہے۔ احترام اور ہے محبت اور احترام ایک فرض۔محبت ایک عبادت۔

گورنس بچوں کو لے گئی تو خوشبو اور جوہی نے چائے سجادی۔ خیرالنساء نے اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پیٹرک کو پیش کی اور خود بھی ایک کپ اٹھا کر پیٹرک کی طرف دیکھا۔

پیٹرک نے کہا ’’آنکھیں تو وہی ہیں لیکن حضور کے انداز بدل گئے۔ اب نہ وہ اندازِ دلبری ہے نہ وہ والہانہ خود سپردگی۔ ہم دیکھ رہے ہیں جب سے صاحبِ عالم نے آپ کی آغوش میں جگہ پائی ہے، ہم سے وہ لگاوٹ نہیں رہی‘‘

خیرالنساء نے کہا ’’جل گئے نا!‘‘

پیٹرک نے کہا ’’جلن تو ہو گی! نقب زن کہیں کا۔ میری محبت میں ڈاکہ ڈال گیا اور وہ بھی دن دہاڑے۔ ذرا دیدہ دلیری تو دیکھئے۔اسی کو کہتے ہیں’’ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘ ۔

خیر النساء ہنس پڑی۔ پیٹرک نے کہا ’’سنو! میں سمجھتا ہوں کہ تم اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ پروان چڑھتے دیکھنا چاہو گی کہ وہ تمہیں سرخرو کرسکیں۔ لیکن اس کے لئے تمہیں تھوڑی سی قربانی دینی ہو گی۔ ہندوستان میں ابھی تعلیم کا اتنا بہتر انتظام نہیں ہے۔ ہمیں انہیں لندن بھیجنا ہو گا۔ میں انہیں تم سے دور نہیں کرنا چاہتا لیکن ان کے بہتر مستقبل کے لئے ان کی تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے۔ وہ ہر سال چھٹیوں میں تم سے ملنے آ جایا کریں گے اور جب جی چاہے تم ان کے پاس چلی جانا۔‘‘

خیر النساء کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔ پیٹرک نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’تم کہو تو میں تمہیں ان کے ساتھ بھیج دوں۔ میں یہاں کسی طرح رہ لوں گا‘‘ خیر النساء نے پیٹرک کو دیکھا۔ گویا کہہ رہی ہو، یوں بھی میری ہار اور یوں بھی، پھر دھیرے سے کہا ’’آپ کی مرضی‘‘

1804 ء میں بچے لندن کے لئے روانہ ہو گئے۔ خیر النساء رنگ محل کے برآمدے میں کھڑی رہی۔ دونوں بچے ماں سے لپٹ گئے۔ ماں نے آغوش میں اٹھا کر چوما اور پیٹرک کے حوالے کر دیا۔ جب تک گاڑی اوجھل نہ ہوئی بچے ماں کو دیکھتے رہے۔ گارڈ نے سلامی دی اور پیٹرک بچوں کو وداع کرنے روانہ ہو گیا۔

1805 ء میں کرک پیٹرک کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ بہتیرا علاج کیا لیکن مرض بڑھتا گیا۔ جوں جوں دوا کی، مصداق کوئی شفا نہ ہوئی تو طبیبوں نے تبدیلی آب و ہوا کا مشورہ دیا۔ اسی اثناء میں کلکتہ سے اس کی طلبی ہوئی۔ لارڈ ولزلی کو یہ محسوس ہوا کہ پیٹرک ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفادات کا حیدرآباد میں خیال رکھنے کی بجائے حیدرآباد کے مفادات کا زیادہ خیال رکھ رہا ہے۔ پیٹرک نے کلکتہ کے سفر کا عزم کیا۔ کچھ کمزور اور نحیف تو تھا ہی۔ ملازم سفر میں ساتھ ہو گئے۔ سامان سفر لادا جا چکا تو رخصت ہونے سے پہلے وہ خیرالنساء کے ساتھ اپنی خوابگاہ میں آیا۔ خیرالنساء روبرو تھی۔ اس نے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔ خیر النساء کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ اس نے آہستہ سے پکارا ’’خیرون‘‘ اس نے سر نہیں اٹھایا تو کرک پیٹرک نے تھوڑی کو انگلی سے اٹھا کر دیکھا تو اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ پیٹرک کو ہر آنسو میں اپنی تصویر اور تصویر کی آنکھوں میں خیرالنساء کی چھبی نظر آئی۔ اس نے بیساختہ خیرالنساء کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اور کہا ’’میری زندگی! اگر تم نے مجھے یوں رخصت کیا تو شاید میں منزل تک بھی نہ پہنچ پاؤں گا۔‘‘

خیرالنساء نے کہا ’’آپ مجھے اپنے ساتھ لے چلئے‘‘

پیٹرک نے کہا ’’اگر مجھے دیر لگ گئی تو میں تمہیں بلوا لوں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں تم بہت جلد مجھ سے ملنے آؤ گی‘‘

پیٹرک خیرالنساء کے ساتھ برآمدے تک آیا۔ اسے دیکھتا ہوا سیڑھیاں طئے کیں۔ گارڈ نے سلامی کا بگل بجایا۔ خیر النساء نے آنسووں کے پیچھے سے دیکھا پیٹرک اسے ہاتھ ہلا کر رخصت کر رہا تھا اور وہ رخصت ہو گیا۔ خیرالنساء جب بوجھل قدموں سے خوابگاہ میں لوٹ کر آئی تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ امام ضامن تو میز ہی پر رکھا رہ گیا تھا۔ وہ امام ضامن باندھنا بھول گئی۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’میرے مولا خیر ہو۔ یہ کیا بد شگونی ہو گئی۔ سب خیر ہو مولا۔ میرے مولا سب خیر ہو‘‘ ۔

مچھلی پٹنم پہنچ کر پیٹرک نے بحری سفر کو ترجیح دی لیکن سمندری آب و ہوا اسے راس نہیں آئی اور اس کی صحت بگڑتی چلی گئی۔

15  اکتوبر 1805 ء کی صبح تھی۔ جہاز ساحل سے کچھ ہی دور تھا۔ پیٹرک پر غشی طاری تھی۔ غشی کی کیفیت میں اس کے ہونٹوں سے آواز نکلی۔ ملازم سمجھا شاید کسی چیز کی طلب ہو۔ اس نے قریب پہنچ کر غور سے سنا۔ وہ پکار رہا تھا ’’خیرون، خیرون، کہاں ہو تم‘‘ پھر اس کی آواز بجھ گئی اور گردن بھی ڈھلک گئی۔ خادم نے چادر ڈھک دی۔

ساحل پر اس کے استقبال کو آنے والوں کو امید بھی نہ تھی کہ وہ یوں استقبال کریں گے۔ لاش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہیڈ کوارٹر لے جائی گئی۔ لارڈ ولزلی نے ٹوپی اتار دی اور جنازے پر پھول رکھتے ہوئے کہا ’’اچیلی کرک پیٹرک میں نے تمہیں صرف سرزنش کرنے کے لئے بلایا تھا۔ میرے بچے! میں شاید تمہارے باپ اور تمہارے بچوں سے ہمیشہ شرمندہ رہوں گا۔‘‘ پیٹرک کو سپرد لحد کر دیا گیا۔

حیدرآباد میں جب اطلاع پہنچی تو شہر سوگوار ہو گیا۔ خیر النساء اپنی ماں اور عزیزوں کے ساتھ کلکتہ پہنچی۔ جب قبر کے قریب پہنچی تو بے ساختہ قبر پر گر پڑی۔ جب روتے روتے بیہوش ہو گئی اور اسے قبر سے اٹھایا گیا تو اس کی مٹھی میں دبی امام ضامن قبر ہی پر رہ گئی۔ لیکن قبر کی مٹی سے ایک مانوس سی خوشبو پھوٹی پڑ رہی تھی۔ اس کے بعد خیر النساء صرف چھ سال زندہ رہی اور 27 برس کی عمر میں دنیا سے گزر گئی۔

اب تو شہر روشنیوں کا جنگل ہے لیکن کوئی چہرہ صاف نہیں دکھائی دیتا۔ آلودہ فضاء میں جہاں ہوا کا گزر نہیں وہاں خوشبو کا کیا تذکرہ۔ لیکن کبھی میں ترپ بازار سے گزرتا تھا تو مجھے خوشبو سی محسوس ہوتی تھی۔ شاید میں اس کی قبر کا پتہ جانتا ہوں۔ لیکن شاید میں اس کی قبر کا پتہ نہیں جانتا۔ WOMENS COLLEGE کی لڑکیاں کہتی ہیں کہ کبھی وہ اس چٹان کے پاس ہوتی ہیں جو BEGUM’S ROCK کہلاتی ہے تو اس کے قریب کے پیڑ سے ایک مخصوص خوشبو سی محسوس ہوتی ہے۔ خوشبو اُڑی اُڑی سی۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.jahan-e-urdu.com/tag/allama-aijaz-farruq/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید