FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

خوشبوئے حسّان

غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

… مکمل کتاب پڑھیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حمد و نعت اور منقبت کا مختصر اِنتخاب

خُوشْبُوئے حسّانْ

نتیجۂ فکر

غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحیؔ، نظامیؔ

مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو لکشمی پور، ضلع مہراج گنج(یوپی)

حمد باری تعالیٰ

 

’گُلوں کو رنگ چمن کو بہار دیتا ہے‘

مرا خدا ہی جہاں کو ’نِکھار‘ دیتا ہے

وہی تو بگڑی ہوئی قسمتیں بناتا ہے

وہی تو عزّت و شہرت، وقار دیتا ہے

وہی حسِین بناتا ہے ذہن کے افکار

وہی دِلوں کو سکون و قرار دیتا ہے

اُسی کا رنگ ہر اِک رنگ میں نمایاں ہے

وہی تو ابرِ بہاراں کو دھار دیتا ہے

صدف میں گوہرِ یکتا وہی بناتا ہے

وہی بہار کو حُسنِ بہار دیتا ہے

اُسی کے حُکم سے چلتی ہے کاروانِ حیات

وہ اپنے فضل سے سانسیں اُدھار دیتا ہے

حقیقت اپنی ہے بے جان سے حجر جیسی

کرم اُسی کا ہے، کچھ اِختیار دیتا ہے

خدا کا نام زباں پر ہمیشہ رکھ عارفؔ

یہ نام بِگڑے ہُوؤں کو سنوار دیتا ہے

٭٭٭

 

حمد باری تعالیٰ

 

زمین تیری ہے اور آسمان تیرا ہے

مکان تیرا ہے اور لامکان تیرا ہے

یہ حُسنِ گُل، یہ ندی، آبشار، بحر و کوہ

یہ جان تیری ہے، سارا جہان تیرا ہے

تری ہی قدرتِ کامل سے ہے فنا و بقا

رکھے کہ چھوڑ دے تیر و کمان تیرا ہے

ترے کرم پہ ہی سارا جہان پلتا ہے

تمام خلق کی خاطر یہ خوان تیرا ہے

تری عطا سے ہے شادابیاں زمینوں کی

یہ مہر و ماہ و حسیں کہکشان تیرا ہے

ترا ہی نور ہے شمس و قمر، ستاروں میں

یہ باغ بھی ہے ترا، باغبان تیرا ہے

شعورِ فکر و نظر میں کہاں سمائے تُو

حدود و قید سے بالا بیان تیرا ہے

کرم کی آس ہے عارفؔ کو تیری رحمت سے

کریم ہے تُو یقیناً بیان تیرا ہے

٭٭٭

 

حمد باری تعالیٰ

 

قلبِ مغموم سے ہر رنج مٹاتا تُو ہے

رُوح میں خوشبوئے ایمان بساتا تُو ہے

میرے ارمانوں کی محفل کو سجاتا تُو ہے

مجھ سے عاصی کو کرم کر کے نبھاتا تُو ہے

شکر تیرا ہو ادا کیسے اے رحمٰن و رحیم

میرا ہر عیب زمانے سے چھُپاتا تُو ہے

تو ہی مشکل کو بدل دیتا ہے آسانی میں

بات بگڑی ہوئی اک پل میں بناتا تُو ہے

تیری قدرت کا نمونہ ہے نظامِ عالم

ایک اِک رنگ میں سو رنگ دکھاتا تُو ہے

تیری عظمت کا ثنا خوان ہے ذرّہ ذرّہ

ڈالیوں پہ گُلِ خوش رنگ کھِلاتا تُو ہے

فہم و دانش سے ورا ہے تری رِفعت مولیٰ

عقلِ انسان و ملک میں کہاں آتا تُو ہے

گرچہ نظروں سے ہے اوجھل تری صورت یارب

جلوۂ یار میں نور اپنا دکھاتا تُو ہے

نعمتیں اتنی ہیں تیری کہ نہیں جن کا شمار

عقل و حکمت کے خزینوں کو لٹاتا تُو ہے

رونقِ صبح و مسا میں ہے تجلی تیری

شان، خورشید و قمر میں بھی دکھاتا تُو ہے

 سینۂ سنگ سے چشمے کو کرے ہے جاری

اور صدف میں دُرِ نایاب سجاتا تُو ہے

کیوں نہ مشغول رہے حمد میں تیری ہر دم

سانس عارفؔ کی جو چلتی ہے چلاتا تُو ہے

٭٭٭

 

اپنے خوابیدہ مقدر کو سنواروں مولیٰ

 

اپنے خوابیدہ مقدر کو سنواروں مولیٰ

صبح ہو شام ہو بس تجھ کو پکاروں مولیٰ

زیب و زینت کی سنورنے کی ضرورت کیا ہے

نام لے لے کے ترا خود کو نکھاروں مولیٰ

مجھ پہ ہو تیری عنایات کی ایسی بارش

کوئی بازی نہ کسی طور سے ہاروں مولیٰ

میری قسمت پہ بھی نازاں رہے قسمت خود بھی

زندگی بھر تری چوکھٹ پہ گزاروں مولیٰ

کیا ہے عارف کا سبھی کچھ تو ترا ہے یارب

جان بھی واروں تو بس تجھ پہ ہی واروں مولیٰ

٭٭٭

 

میرے اللہ درِ پاک دکھانا مجھ کو

 

میرے اللہ درِ پاک دکھانا مجھ کو

اپنے محبوب کے روضے پہ بلانا مجھ کو

ہر شرارت سے خباثت سے بچانا مجھ کو

’نیک جو راہ ہو اُس رہ پہ چلانا مجھ کو‘

موت آئے تو ترے نام پہ آئے مولیٰ

اور اِسی طرزِ محبت میں جِلانا مجھ کو

جس سے پرواز میں کوتاہی کی بُو آتی ہو

میرے اللہ! وہ دانہ نہ کھلانا مجھ کو

عشق میں اپنے مجھے ایسا بنا دے عاشق

کوئی دیوانہ کہے تو کوئی دانا مجھ کو

بخش دینا مجھے محشر میں نبی کے صدقے

سایۂ لطف سے مولیٰ نہ ہٹانا مجھ کو

دولتِ کلمۂ طیب جو مِلا ہے مجھ کو

اور کیا چاہیئے پھر کوئی خزانہ مجھ کو

خالقِ کُل کا ہے عارفؔ پہ کرم لا محدُود

گردشِ وقت سُنو تم نہ ستانا مجھ کو

٭٭٭

 

خدایا ہمارا نصیبہ بنا دے

 

خدایا ہمارا نصیبہ بنا دے

غبارِ درِ شاہ والا بنا دے

نبی کا ہمیں ایسا شیدا بنا دے

کہ دل کو ہمارے مدینہ بنا دے

مری خاک بھی پاک کر دے الٰہی

’مجھے خاک بطحا کا ذرہ بنا دے‘

ادب سے جھکا کر نظر اُن کو دیکھوں

درِ شہ کی جالی کا ٹکڑا بنا دے

نبی کے قدم میرے سینے پہ آئیں

مجھے اُن کی گلیوں کا رستہ بنا دے

میں بن جاؤں آقا کے نعلین کا جُز

مجھے ایسا یارب انوکھا بنا دے

الٰہی عطاؤں کی بارش ہو مجھ پر

حبیبِ دو عالم کا منگتا بنا دے

جہاں جائے عارفؔ وہاں روشنی ہو

چمکتا ہوا ایسا تارہ بنا دے

٭٭٭

 

ہے عاصی کے دل کی صدا یا الٰہی

 

ہے عاصی کے دل کی صدا یا الٰہی

’’محبت میں اپنی گُما یا الٰہی‘‘

ہے فردوس جس پر نثار اور قرباں

وہ پیارا مدینہ دِکھا یا الٰہی

مجھے عشق کے رنگ میں رنگ دے ایسا

ہو مجھ سے نہ کوئی خطا یا الٰہی

تجھی سے لگی ہے تمنا ہماری

ترا ہوں بُرا یا بھلا یا الٰہی

رہوں قبر۔  و۔  حشر میں سُرخرو میں

نہ ذِلّت کو ہو سامنا یا الٰہی

مرا دل سیہ ہے تُو کر دے منور

بنا دے مجھے با صفا یا الٰہی

مجھے مانگنے کا سلیقہ کہاں ہے

ادب سے ہوں نا آشنا یا الٰہی

کرم عارفؔ بے نوا پر کرم ہو

بنا دے اسے کیمیا یا الٰہی

٭٭٭

٭٭٭

نعت پاک مصطفیٰ

٭٭٭

جمال گنبد خضریٰ مری نگاہ میں ہے

 

جمال گنبد خضریٰ مری نگاہ میں ہے

لگے ہے عرش معلیٰ مری نگاہ میں ہے

جہان بھر کے طبیبوں سے کیا غرض مجھ کو

مرا طبیب و مسیحا مری نگاہ میں ہے

ہے رشکِ ہشت بہشتِ بریں نظر میں مرے

بہارِ گلشن طیبہ مری نگاہ میں ہے

کسی ضیاء کی نہیں اب رہی کوئی حاجت

شعاعِ ماہِ مدینہ مری نگاہ میں ہے

مجھے نہ بھائے چمک چاند اور تاروں کی

نبی کے قدموں کا ذرّہ مری نگاہ میں ہے

مجھے اجل کی تمنا ہے اس لیے عارفؔ

مرے حضور کا جلوہ مری نگاہ میں ہے

٭٭٭

 

لے کر خدا کا نام قرینے کی بات ہو

 

لے کر خدا کا نام قرینے کی بات ہو

ذکر نبی ہو اور مدینے کی بات ہو

چھیڑے جو کوئی تذکرہ مشک و گلاب کا

محفل میں مصطفیٰ کے پسینے کی بات ہو

جب ہے حصارِ رحمتِ سرکارِ دوجہاں

پھر کیوں بھنور کی بات، سفینے کی بات ہو

مخزن ہے جو نبی کی محبت کا، عشق کا

اُس دل کی بات ہو، اُسی سینے کی بات ہو

گزرے ہر ایک آن عبادت کی بات میں

عشقِ نبی میں مرنے کی جینے کی بات ہو

ہم ہیں فدائے نعلِ نبی کیوں ہمارے گھر

ہیرے، جواہرات، نگینے کی بات ہو

عارفؔ بنا لو اپنے سخن کی یہی ادا

نعت رسول پاک، مدینے کی بات ہو

٭٭٭

 

رشتۂ عشق یوں نبھانا ہے

 

رشتۂ عشق یوں نبھانا ہے

ہر گھڑی نعت گنگنانا ہے

آئیے مصطفیٰ مرے دل میں

شہرِ طیبہ اسے بنانا ہے

اِذنِ طیبہ مجھے مِلے مولیٰ

درد، دل کا مجھے سنانا ہے

یہ بھی سچ ہے نبی کو ہے معلوم

کیا سنانا ہے کیا بتانا ہے

سارا عالم نبی کا صدقہ ہے

ذرّہ ذرّہ ہے دانہ دانہ ہے

میرے سرکار ہی مسیحا ہیں

اُن کو جانا ہے اُن کو مانا ہے

بھوکے رہ کر کھلائیں غیروں کو

ایسا دل دار کا گھرانا ہے

نعت دل سے پڑھو ذرا عارفؔ

نیکیاں گر تمھیں کمانا ہے

٭٭٭

 

مدینہ دیکھ کر عاشق زمانہ بھُول جاتے ہیں

 

مدینہ دیکھ کر عاشق زمانہ بھُول جاتے ہیں

نظر پڑتی ہے روضے پر نظارہ بھُول جاتے ہیں

مُسلسل آنسؤوں کی ہوتی ہے برسات چہرے پر

زباں چُپ رہتی ہے اورلبْ ہِلانا بھُول جاتے ہیں

اُنھیں دارین میں رُسوائیوں کا سامنا ہو گا

جو عشقِ سرورِ دِیں کا طریقہ بھُول جاتے ہیں

جو رہتے ہیں ہمہ دم گنبدِ خضریٰ کی چھاؤں میں

بہاریں دیکھ کر جنت کا نقشہ بھُول جاتے ہیں

جنھیں مِل جائے لذّت، مِدحتِ سرکارِ اقدس کی

اے عارفؔ وہ جہاں بھر کا ترانہ بھُول جاتے ہیں

٭٭٭

 

رنج و غم، درد میں دِل اپنا سنبھالے رکھیے

 

رنج و غم، درد میں دِل اپنا سنبھالے رکھیے

نعتِ سرکار سے گھر گھر میں اُجالے رکھیے

کوئی کیسے بھی جِیے آپ جِئیں رب کے لئے

اپنے انداز زمانے سے نرالے رکھیے

اُسوۂ سرورِ کونین، نجاتِ دارین

خُلق و کِردار اِسی سانچے میں ڈھالے رکھیے

غم تو بس ایک ہی غم ہے غمِ طیبہ کافی

اپنے چہرے پہ اِسی غم کے دوشالے رکھیے

حشر میں آپ پہ مولیٰ کا کرم ہو لاریب

آل محبوب اگر اپنے حوالے رکھیے

آزمائش میں اگر موت بھی آئے عارفؔ

آہ کیجے نہ زباں پر کوئی نالے رکھیے

٭٭٭

 

جب مدینے کی فضاؤں سے صبا آتی ہے

 

جب مدینے کی فضاؤں سے صبا آتی ہے

میری ہر سانس میں خوشبوئے وفا آتی ہے

جھولیاں بھرتی ہیں بِن مانگے در مولیٰ پر

لے کے سامانِ سُکوں اُن کی عطا آتی ہے

خواہش دید مدینہ مری بڑھ جاتی ہے

جب بھی ’’جاؤُکَ‘‘ کی کانوں میں صدا آتی ہے

زلفِ والّلیل بکھرتے ہیں، سنورتے ہیں جب

ایسا لگتا ہے کہ چھن چھن کے ضیا آتی ہے

آپ ہیں حامی و ناصر اے مدینے والے

خوف کیا مجھ کو جو آتی ہے قضا آتی ہے

ایسی پاکیزہ ادائیں نہیں دیکھی میں نے

کوچۂ یار سے لگتا ہے ہوا آتی ہے

وصلِ محبوب کا دِن اور خطائیں بے حد

رُخ پہ رہنے دو کفن، مجھ کو حیا آتی ہے

بانکپن آج ہے عارفؔ ترے انداز میں کیوں

شاید اشعار میں طیبہ سے جِلا آتی ہے

٭٭٭

 

مدینے کی گلیوں میں جا کر تو دیکھو

 

مدینے کی گلیوں میں جا کر تو دیکھو

برستی ہے رحمت، نہا کر تو دیکھو

مِلیں گے نبی اور خدا بھی مِلے گا

ذرا، خود کو پہلے مٹا کر تو دیکھو

جھُکے گی تمہارے قدم پر یہ دنیا

ذرا، اُن سے دل کو لگا کر تو دیکھو

نہ تم کہہ سکو گے انھیں اپنے جیسا

تعصب کی عینک، ہٹا کر تو دیکھو

انھیں کا ہے چرچا زمیں سے فلک تک

یقیں نہ ہو، قرآں اُٹھا کر تو دیکھو

فرشتے بھی آئیں گے محفل میں عارفؔ

محبت سے نعتیں سُنا کر تو دیکھو

٭٭٭

 

کیا شان ہے اُس محفل کی جہاں سرکار کی باتیں ہوتی ہیں

 

کیا شان ہے اُس محفل کی جہاں سرکار کی باتیں ہوتی ہیں

محبوب کی باتیں ہوتی ہیں، دِل دار کی باتیں ہوتی ہیں

زلفوں کی گھٹاؤں کا چرچا، لبہائے مقدس کی باتیں

ہے ذکرِ مبارک تلووں کا، رُخسار کی باتیں ہوتی ہیں

ہر بات نرالی ہوتی ہے جب بات ہو میرے آقا کی

باتوں کو سند مِل جاتی ہے جب یار کی باتیں ہوتی ہیں

چھیڑو نہ ابھی ذکرِ یوسف، جنت کی ابھی نہ بات کرو

ہے ذکر ادائے سرور کا، کِردار کی باتیں ہوتی ہیں

جب ذکر پسینے کا اُن کے ہوتا ہے ہماری محفل میں

تو خوشبو بکھرتی ہے ہر سُو، انوار کی باتیں ہوتی ہیں

اللہ نے بنایا ہے جن کو کونین کا مختار و مالک

چرچا ہے اُسی مالک کا یہاں مختار کی باتیں ہوتی ہیں

اب رُخ سے ہٹا دیجے پردہ، اب جلوہ دِکھا دیجے شاہا

دیکھیں تو ذرا دیوانوں میں دیدار کی باتیں ہوتی ہیں

عارفؔ کا بھلا کیا کام وہاں، جس جا پہ نبی کا ذکر نہ ہو

کس کام کی وہ محفل ہے جہاں بے کار کی باتیں ہوتی ہیں

٭٭٭

 

طیبہ بلائیں کیا اچھا ہو

 

طیبہ بلائیں کیا اچھا ہو

جلوہ دِکھائیں کیا اچھا ہو

یاد میں ہم کو اپنی، سُلائیں

اور جگائیں، کیا اچھا ہو

اپنے آقا کو اک دن ہم

نعت سنائیں، کیا اچھا ہو

اپنے غم میں روز و شب وہ

ہم کو رُلائیں، کیا اچھا ہو

یاد میں جب اُن کے سو جاؤں

خواب میں آئیں، کیا اچھا ہو

حشر کے دن ہم کو ہر غم سے

آقا چھڑائیں، کیا اچھا ہو

اپنے ہاتھوں سے کوثر کا

جام پلائیں، کیا اچھا ہو

عارفؔ کو سرکار ہمارے

اپنا بنائیں، کیا اچھا ہو

٭٭٭

 

زمیں کے ذرے ذرے پر مِرا پیغام لکھ دینا

 

زمیں کے ذرے ذرے پر مِرا پیغام لکھ دینا

کفن کے ایک ٹکڑے پر نبی کا نام لکھ دینا

وہ کوثر ہو کہ زمزم ہو کہ وہ جنت کا پیالہ ہو

ملے جو مصطفی کے ہاتھ سے وہ جام لکھ دینا

جلی حرفوں میں لکھ دینا مری قسمت کے کاغذ پر

مدینے کی وہ گلیاں اور صبح و شام لکھ دینا

اگر دینا ہے کوئی شے ہمیں بہتر سے بھی بہتر

نبی کے در کی جاروبی ہمارے نام لکھ دینا

ہمارا نامۂ اعمال تو پُر ہے گناہوں سے

اُسی کے ایک گوشے میں مِرا یہ کام لکھ دینا

کہ یہ خاطی و عاصی تھا مگر اِک بات یہ بھی تھی

نبی کی نعت پڑھتا تھا یہ صبح و شام، لکھ دینا

یہی عارفؔ کی خواہش ہے اِسے سُن لے مرے مولیٰ

نبی کے نعت خوانوں میں تُو اس کا نام لکھ دینا

٭٭٭

 

زمیں پیدا نہیں ہوتی فلک پیدا نہیں ہوتا

 

زمیں پیدا نہیں ہوتی فلک پیدا نہیں ہوتا

جہاں میں گر مِرے سرکار کا جلوہ نہیں ہوتا

نہ ہوتی خُلد کی رونق، نہ شادابی دو عالم میں

اگر کعبہ کا بھی کعبہ مرا آقا نہیں ہوتا

نہ بوئے مُشک ہم پاتے نہ پھولوں کی مہک ہوتی

پسینہ میرے آقا کا اگر ٹپکا نہیں ہوتا

نہ بلبل کی چہک ہوتی نہ قُمری کی صدا ہوتی

زبانِ کنجیِ کُن کا اگر صدقہ نہیں ہوتا

نبی پر جو بھی شیدا ہے ہمیشہ سُرخُرو ہو گا

کہ اُن کا چاہنے والا کبھی رُسوا نہیں ہوتا

اندھیری قبر میں کیسے بھلا ملتا سکوں مجھ کو

اگر اُس وقت تیری دید کا وعدہ نہیں ہوتا

میں بازارِ نبی میں بِک چُکا ہوں شوق سے عارفؔ

در سرکار سے ہٹ کر مرا سودا نہیں ہوتا

٭٭٭

 

جس نے لیا ہے نام مدینے والے کا

 

جس نے لیا ہے نام مدینے والے کا

فیض ہے اس پر عام مدینے والے کا

قسمت ان کی ہے اعلیٰ جو کرتے ہیں

چرچا صبح وشام مدینے والے کا

کیسے کسی کے دام میں وہ آ سکتا ہے

جس نے پیا ہے جام مدینے والے کا

قبر میں جب آئیں گے فرشتے پوچھیں گے

لے لیں گے ہم نام مدینے والے کا

اس کا ٹھکانہ جنت ہے ہاں جنت ہے

جس نے کیا اِکرام مدینے والے کا

ساری مصیبت ٹل جائے گی پل بھر میں

دل سے پکاریں نام مدینے والے کا

روز بٹے، پھر بھی نہ کمی کچھ بھی آئے

فیض ہے اتنا عام مدینے والے کا

عارفؔ تُو اک روز مدینہ جائے گا

آئے گا پیغام مدینے والے کا

٭٭٭

 

ہمیں سرکار سے جتنی محبت ہوتی جائے گی

 

ہمیں سرکار سے جتنی محبت ہوتی جائے گی

خدائے پاک کی اُتنی ہی رحمت ہوتی جائے گی

قرآنِ پاک کے آئینے میں نعتیں پڑھو ہر دم

تلاوت ہوتی جائے گی عبادت ہوتی جائے گی

درود پاک کو اپنا وظیفہ روز و شب کر لو

نبی کے روئے انور کی زیارت ہوتی جائے گی

درِ سرکار پر اِک روز ان شاء اللہ جائیں گے

کرم سرکار کا ہو گا سخاوت ہوتی جائے گی

نبی کی نعت پڑھنے سے سنور جائے گی دنیا بھی

منوّر اس عمل سے میری تُربت ہوتی جائے گی

بروز حشر میرے مصطفیٰ اپنا جسے کہہ دیں

تو اس پر باخدا قربان جنت ہوتی جائے گی

نبی کے عاشقوں کا دونوں عالم میں بھلا ہو گا

جو گستاخِ نبی ہیں اُن پہ آفت ہوتی جائے گی

کرم فرمائیں گے آقا یقیں ہے اپنے عارفؔ پر

بروز حشر اِس عاصی پہ رحمت ہوتی جائے گی

٭٭٭

 

اے جوہرِ کمال تجھے دیکھتا رہوں

 

اے جوہرِ کمال تجھے دیکھتا رہوں

بے مثل و بے مثال تجھے دیکھتا رہوں

رُخ سے نقاب اپنے ہٹا دیجیے ذرا

اے ناز شِ جمال تجھے دیکھتا رہوں

جبریل نُور ہوکے بھی کہتے ہیں آپ سے

اے نورِ لازوال تجھے دیکھتا رہوں

اِدراک وفہم سے ہے، تری ذات ماورا

بے بس، جہاں خیال تجھے دیکھتا رہوں

ہر ظلم ہر ستم کو مسرّت سے سہہ لیا

کہتے رہے بلال تجھے دیکھتا رہوں

آ جائے گر جمال ترا میرے سامنے

سب چھوڑ قیل و قال تجھے دیکھتا رہوں

ہو جائے وقت نزع کرم کی نظر شہا!

بن جائے میرا حال تجھے دیکھتا رہوں

نعتیں پڑھے دیار مدینہ میں اِس طرح

عارفؔ کا ہے سوال تجھے دیکھتا رہوں

٭٭٭

 

کاش ہو یہ خوشی مدینے میں

 

کاش ہو یہ خوشی مدینے میں

موت آئے مری مدینے میں

میں بھی بن جاؤں مل کے رشکِ قمر

خاک پائے نبی مدینے میں

رکھ کے نعلینِ پاک سر پہ کہوں

مِل گئی سروری مدینے میں

اُن کے در پر بڑھا کے دستِ سوال

ہو گئے ہم غنی مدینے میں

اِس لیے جان و دل سے ہے پیارا

ہیں خدا کے نبی مدینے میں

جس نے دیکھا ہے عشق سے طیبہ

ہو گیا جنتی مدینے میں

کر لے مولیٰ! مری دعا کو قبول

ہو مری حاضری مدینے میں

اک تمنّا ہے اور عارفؔ کی

پڑھ لے نعت نبی مدینے میں

٭٭٭

 

یادِ نبی سے دل چمکایا جاتا ہے

 

یادِ نبی سے دل چمکایا جاتا ہے

ذِکر نبی سے گھر مہکایا جاتا

یاد جو آقا کو کرتے ہیں ہر لمحہ

اُن کو ہی دیدار کرایا جاتا ہے

جس نے پکارا دِل سے پیارے آقا کو

پل بھر میں سب رنج مٹایا جاتا ہے

عشقِ نبی میں جینے والے کے گھر کو

جنت کے پھولوں سے سجایا جاتا ہے

اُن کا نصیبہ اوج پہ ہوتا ہے عارفؔ

جن کو درِ سرکار دِکھایا جاتا ہے

٭٭٭

 

وجہِ نزولِ رحمت، سرکار کا مدینہ

 

وجہِ نزولِ رحمت، سرکار کا مدینہ

ہے مرکزِ عقیدت، سرکار کا مدینہ

ہے مشعلِ ہدایت، سرکار کا مدینہ

بزم جہاں کی زینت، سرکار کا مدینہ

بہر سلامی آئیں صبح و مسا، فرشتے

ہے کتنا خوبصورت، سرکار کا مدینہ

طیبہ کے بانکپن پر رِضوان بھی فدا ہیں

قرباں ہے جس پہ جنت، سرکار کا مدینہ

خاک درِ مقدس سرمہ ہے عاشقوں کا

جالی ہے رشکِ جنت، سرکار کا مدینہ

ہم سائلوں کا ماویٰ دربارِ مصطفی ہے

لاریب باب نعمت، سرکار کا مدینہ

آرام گاہِ سرور، خیرالبشر کا مسکن

بے شک ہے سرِّ عظمت، سرکار کا مدینہ

عارفؔ خطا کا پُتلا، محبوب تُو نبی کا

کیسے ہو تیری مدحت، سرکار کا مدینہ

٭٭٭

 

راحتِ قلب و جاں مدینہ ہے

 

راحتِ قلب و جاں مدینہ ہے

رُوح و جانِ جہاں مدینہ ہے

رِفعتیں اُس کی کیا بیان کروں

عظمتوں کا مکاں مدینہ ہے

مرکزِ نعمتِ اِلہی ہے

فضل کا آستاں مدینہ ہے

رحمتوں کی ہے ہر گھڑی بارش

ایک ابرِ رواں مدینہ ہے

حُسن حیراں ہے حُسن پر اُس کے

رشکِ باغِ جناں مدینہ ہے

سرورِ دیں کا مسکن و محبوب

حامیِ بے کساں مدینہ ہے

کیوں ستائے کوئی بھی غم عارفؔ

مجھ پہ جب مہرباں مدینہ ہے

٭٭٭

 

نبی کے ذِکر کی محفل سجا رہا ہوں میں

 

 نبی کے ذِکر کی محفل سجا رہا ہوں میں

یقین جانیے قسمت جگا رہا ہوں میں

نہیں ہے تخت سلیماں کی آرزو مجھ کو

کہ نعلِ پاک کو سر پر سجا رہا ہوں میں

مرا سفینہ لگے گا ضرور ساحل پر

نبی کے نام سے کشتی چلا رہا ہوں میں

ادب سے بیٹھو ادب سے رہو ادب سے سنو

نبی کے حُسن کی باتیں سُنا رہا ہوں میں

دل و جگر میں بسا کر کے گنبد خضریٰ

تصورات کو جنت بنا رہا ہوں میں

بُلائیں گے مجھے طیبہ میں ایک دن آقا

اِسی اُمید میں لمحے بِتا رہا ہوں میں

تمہارا مصحفِ رُخ ہے کلام حق بے شک

اے نور! نورِ خدا تجھ میں پارہا ہوں میں

لگا ہوں ذکرِ نبی میں نہ چھیڑ اے عارفؔ

ابھی تو عشق کا رِشتہ نِبھا رہا ہوں میں

٭٭٭

 

سجدے میں جب بھی سر کو جھکایا کروں گا میں

 

سجدے میں جب بھی سر کو جھکایا کروں گا میں

طیبہ خدائے پاک سے مانگا کروں گا میں

حضرت بلال نے یہ اُمیّہ سے کہہ دیا

جاں اپنی مصطفی پہ لُٹایا کروں گا میں

بولے حسین نانا کی عظمت کے واسطے

اک سر ہے کیا ہزاروں کٹایا کروں گا میں

آئیں گے گر مصائب و آلام سامنے

مشکل کشا کا نعرہ لگایا کروں گا میں

بازارِ مصطفائی کا سکہ ہوں دوستو

کھوٹا ہوں پھر بھی شان سے چلتا رہوں گا میں

جب بھی سجے گی محفلِ سرکارِ مصطفیٰ

عارفؔ ! نبی کی نعت سُنایا کروں گا میں

٭٭٭

 

نبی کی نعت سُن سُن کر ہوائیں مسکراتی ہیں

 

نبی کی نعت سُن سُن کر ہوائیں مسکراتی ہیں

اُنھیں کے ذِکرِ اقدس سے فضائیں مسکراتی ہیں

کوئی عاشق نبی کا جب مدینے کے سفر پر ہو

خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے، ادائیں مسکراتی ہیں

مدینہ عاشقوں کا جان ودل ہے، مِحور و مرکز

مدینہ لب پہ آتا ہے دعائیں مسکراتی ہیں

مجھے رنج و الم کا خوف کیوں ہو آپ کے ہوتے

مسرت دیکھ کر میری، بلائیں مسکراتی ہیں

کرم، جود و سخا جب آپ کا ہوتا ہے عاصی پر

تو بادل مسکراتا ہے، گھٹائیں مسکراتی ہیں

رُخِ سرکارِ بطحا پر تبسُّم جب بِکھرتا ہے

تو خورشید و قمر کی بھی شعاعیں مسکراتی ہیں

کوئی جب جھوم کر عارفؔ نبی کی نعت پڑھتا ہے

بہاریں مسکراتی ہیں، فضائیں مسکراتی ہیں

٭٭٭

 

اُن کا نام لیتا ہوں نعت کے بہانے سے

 

اُن کا نام لیتا ہوں نعت کے بہانے سے

یہ تو اِک وظیفہ ہے میرا، اِک زمانے سے

حُسنِ یوسف و عیسیٰ مصطفیٰ کا صدقہ ہے

سب کو فیض ملتا ہے اُن کے آستانے سے

رمزِ عاشقی کیا ہے  بوالہوس یہ کیا جانے

جامِ وصل ملتا ہے اُن سے دل لگانے سے

اُن کے عشق میں مر کر زندگی کرو حاصل

سر بلند ہوتا ہے حق پہ سر کٹانے سے

آلِ مصطفی نے جو کربلا میں لِکّھا ہے

نقش مٹ نہیں سکتا وہ کبھی مٹانے سے

غور سے سنو گے گر میری بات اے عارفؔ

بُوئے نعت پھوٹے گی میرے ہر فسانے سے

٭٭٭

 

کرم کی بھیک دے دیجے خدا را یا رسول اللہ

 

کرم کی بھیک دے دیجے خدا را یا رسول اللہ

غریبوں کو بھی مِل جائے سہارا یا رسول اللہ

پھنسا ہوں بحر عصیاں کے تلاطُم میں مرے آقا

مری کشتی کو مل جائے کنارا یا رسول اللہ

غم ورنج و الم ہو یا کہ موسم ہو مسرت کا

زباں پر ہر گھڑی بس ایک نعرہ یا رسول اللہ

عقیدہ ہے یہی میرا اِسی پر میرا اِیماں ہے

خدا کا ہے وہی جو ہے تمہارا یا رسول اللہ

کرم کی اِک نظر اِس بندۂ بے دام پر کر دیں

کرے عارفؔ بھی طیبہ کا نظارہ یا رسول اللہ

٭٭٭

 

مرے مصطفی کا جمال اللہ اللہ

 

مرے مصطفی کا جمال اللہ اللہ

نہیں ایسی کوئی مثال اللہ اللہ

ہیں نبیوں میں اعلیٰ رسولوں میں بالا

ہے اونچا سبھی سے کمال اللہ اللہ

دعائیں جو دشمن کو بھی دے رہے ہیں

نبی ایسے ہیں خوش خصال اللہ اللہ

جو بھوکے رہیں خود، کھِلائیں سبھی کو

کہاں ایسا جود و نوال اللہ اللہ

وہ سنتے ہیں دل کی صدائیں بھی واللہ

زباں سے کروں کیا سوال اللہ اللہ

مجھے چاہئیے دولتِ عشق اُن کی

نہ چاہوں میں جاہ و جلال اللہ اللہ

درِ مصطفی پر اگر موت آئے

نہ ہو پھر ہمیں کچھ ملال اللہ اللہ

تصور میں عارفؔ کے ہے سبزِ گنبد

بڑا ہے حسیں یہ خیال اللہ اللہ

٭٭٭

 

جہان بھر کے لیے ارمُغان رحمت ہے

 

جہان بھر کے لیے ارمُغان رحمت ہے

’حضور آپ کا اُسوہ جہانِ رحمت ہے‘

حضور آپ کے جود و کرم کا طالب ہوں

کہ آپ کا درِ عالی، مکانِ رحمت ہے

زبانِ سید کونین کُن کی کنجی ہے

نبی کا نقشِ کفِ پا نشان رحمت ہے

سُخن، حضور کا وحیِ خدائے تعالیٰ ہے

کلام اُن کا ادائے بیانِ رحمت ہے

غلامِ آلِ نبی ہوں یہ شان ہے میری

مرا نصیب بھی وابستگانِ رحمت ہے

مقامِ گُل کا پتہ کیسے ہو ہمیں عارفؔ

در حبیب کا کانٹا بھی شان رحمت ہے

٭٭٭

 

بارشِ نور میں یوں نہایا کرو

 

بارشِ نور میں یوں نہایا کرو

’ذکر احمد کی محفل سجایا کرو‘

سنت مصطفیٰ میں ڈھلو اِس طرح

دشمنوں کو بھی اپنا بنایا کرو

شہرِ محبوب کی حاضری ہو نصیب

نعتِ سرکار یوں گنگنایا کرو

ہر گھڑی تم پڑھو مصطفیٰ پر درود

نیکیوں کا ذخیرہ کمایا کرو

نہ رکھو تم کسی سے حسد اور جلن

نہ جلو، نہ کسی کو جلایا کرو

گر مِلے خاکِ کوئے حبیبِ جہاں

چشم و قلب وجگر میں بسایا کرو

جو نبی کا نہیں اُس کو دھُتکار دو

جو نبی کا ہے سر پر بٹھایا کرو

سربلندی اے عارفؔ اگر چاہیے

یادِ سرور میں دِل کو لگایا کرو

٭٭٭

 

مال و دولت نہ خزینے کی دعائیں مانگوں

 

مال و دولت نہ خزینے کی دعائیں مانگوں

ایک ہی دھُن ہو مدینے کی دعائیں مانگوں

جان ودل ہوش وخرد سب میں مدینہ بس جائے

بس وہیں جینے کی، مرنے کی دعائیں مانگوں

میرے مولیٰ مجھے پاکیزہ بنا دے ایسا

تجھ سے مانگوں تو قرینے کی دعائیں مانگوں

مشک و عنبر نہ چمیلی نہ گلاب و بیلا

اپنے آقا کے پسینے کی دعائیں مانگوں

با ادب چوم کے روضے کی مقدس جالی

دستِ سرکار سے پینے کی دعائیں مانگوں

باندھ لوں رختِ سفر سُوئے در جاناں میں

اس طرح حج کے مہینے کی دعائیں مانگوں

مجھ کو کافی ہے حبیبِ درِ مولیٰ عارفؔ

کیوں کسی اور خزینے کی دعائیں مانگوں

٭٭٭

 

اک روز کاش عرشِ معلیّٰ ہو آنکھ میں

 

اک روز کاش عرشِ معلیّٰ ہو آنکھ میں

یعنی جمالِ گنبدِ خضریٰ ہو آنکھ میں

ہو رُوبرو نگاہ کے روضہ حبیب کا

یوں جانیے کہ خُلد کا نقشہ ہو آنکھ میں

تحت الثریٰ سے عرش تلک ہو مری نظر

نعلینِ شہ کی خاک کا سُرمہ ہو آنکھ میں

رُوئے حبیبِ پاک کا جلوہ ہو رُوبرو

خواہش نہ کوئی اور تمنا ہو آنکھ میں

کیوں کر جنچے امیر و شہنشہ نگاہ میں

جب روضۂ حبیب کا منگتا ہو آنکھ میں

دُنیا کے سارے حُسن سے رشتہ ہی توڑ لوں

بس ایک حُسنِ سرورِ والا ہو آنکھ میں

عارفؔ کی رنج  و غم سے رہائی ہو بالیقیں

وقتِ اجل جو قبلۂ کعبہ ہو آنکھ میں

٭٭٭

 

رِسالتوں کے گُلِ تر تمہارا کیا کہنا

 

رِسالتوں کے گُلِ تر تمہارا کیا کہنا

سبھی نبِیُّوں کے سرور تمہارا کیا کہنا

تمہاری بات نرالی ہے فرش سے تا عرش

تمہی ہو سب کے پیمبر تمہارا کیا کہنا

بس اک اشارے پہ سورج بھی ہو گیا واپس

مقام ایسا ہے برتر، تمہارا کیا کہنا

اُٹھی جو انگلی تو فوراً ہی شق ہوا مہتاب

سبھی نے دیکھا یہ منظر تمہارا کیا کہنا

خدا نے تیرے سُخن کو کہا ہے اپنا سُخن

فضیلتوں کے اے محور تمہارا کیا کہنا

جب اُنگلیوں سے بہے پنج آب، رحمت کے

بڑا حسین تھا منظر تمہارا کیا کہنا

جگا دو قسمتِ خُفتہ اب اپنے عارفؔ کی

دِکھا دو روضۂ انور، تمہارا کیا کہنا

٭٭٭

 

حسِین ہے، بے مثال بارِش

 

حسِین ہے، بے مثال بارِش

مدینے کی باکمال بارِش

بُجھاؤ آنکھوں کی تشنگی کو

دِکھا رہی ہے جمال بارِش

نہا سکو تو نہا لو جم کر

ہے رحمتوں کی کمال بارِش

نبیِ رحمت کی رحمتوں کی

ہے ایک ادنیٰ مثال بارِش

نبی کی عظمت کا خیال رکھو

کرے گی تُم کو نہال بارِش

برائے عُشّاقِ شاہِ طیبہ

ہے ہر گھڑی خوش خصال بارِش

سمجھ سکو تو سمجھ لو عارفؔ

ہے وجہِ قُرب و وِصال بارِش

٭٭٭

 

مری فکروں سے، لفظوں سے ثنائے مصطفیٰ نکلے

 

مری فکروں سے، لفظوں سے ثنائے مصطفیٰ نکلے

مری سانسوں سے بس صلِّ علیٰ، صلِّ علیٰ نکلے

الٰہی ہر گھڑی میرے لبوں سے یہ دُعا نکلے

کہ جب نکلے مری جاں رُوبروئے دِل رُبا نکلے

نبی کے ذِکر سے رحمت خدا کی ایسی ملتی ہے

کہ ہر رنج و الم ہو دُور اور ساری بلا نکلے

مہ و خورشید کی تابانیاں پھیکی نظر آئیں

اُٹھا کر پردۂ نوری جو شاہِ انبیاء نکلے

غموں کے چھٹ گئے بادل، اُجالا چار سُو پھیلا

کہ جب گیسو کو لہراتے ہوئے خیرالوریٰ نکلے

جہاں میں یوں تو لاکھوں صاحبانِ مرتبت آئے

مرے محبوب کے رُتبے جہاں بھر سے جُدا نکلے

وفادارِ شہِ بطحا رہوں جب تک ہے دم میں دم

الٰہی! نسل بھی میری ہمیشہ با وفا نکلے

بچا لینا شہِ کونین رُسوائی سے محشر میں

یہ عارفؔ آپ ہی کا ہے بھلا نکلے بُرا نکلے

٭٭٭

 

روضۂ یار پہ جانے کی تمنا کی ہے

 

روضۂ یار پہ جانے کی تمنا کی ہے

میں نے اک نعت سنانے کی تمنا کی ہے

عِشق کی دھُونی رمانے کی تمنا کی ہے

حُسن کو دل میں بسانے کی تمنا کی ہے

یادِ محبوب سے دِل میں ہے اُجالا ہر سُو

ہم نے اب شمع بُجھانے کی تمنا کی ہے

یار کے دستِ کرم نے ہے سنبھالا ہم کو

لاکھ دُنیا نے گِرانے کی تمنا کی ہے

ایک ٹھوکر سے مسیحا نے شفا بخشی ہے

مرض نے جب بھی ستانے کی تمنا کی ہے

میرے معشوق کے جیسا کوئی ہو تو لاؤ

جس نے روتوں کو ہنسانے کی تمنا کی ہے

’عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی‘

عِشق نے جان لُٹانے کی تمنا کی ہے

شاعری کا جو تجھے روگ لگا ہے عارفؔ

تُم نے بھی رنگ جمانے کی تمنا کی ہے

٭٭٭

 

نعت ہم اس لیے سُناتے ہیں

 

نعت ہم اس لیے سُناتے ہیں

جن کا کھاتے ہیں اُن کا گاتے ہیں

بس وہی جاتے ہیں مدینے میں

جن کو آقا مرے بلاتے ہیں

میرے مولیٰ مرے مسیحا ہیں

رنج و غم میں وہی نِبھاتے ہیں

ہم کہاں گِر کے پھر سنبھل پاتے

سرورِ دیں ہمیں بچاتے ہیں

اُن کا لُطف و کرم، نوازش ہے

ہم غموں میں بھی مسکراتے ہیں

اُن کو قدرت مِلی ہے قادِر سے

پل میں آتے ہیں، پل میں جاتے ہیں

صرف عارفؔ نہیں ہے زیرِ کرم

اُن سے سارے ہی فیض پاتے ہیں

٭٭٭

 

ہے آرزو، حسرت، یہی ارمان۔۔ مری جان

 

ہے آرزو، حسرت، یہی ارمان۔۔ مری جان

ہو جان تری ذات پہ قربان۔۔ مری جان

دربارِ ضیا بار کی عظمت ہے نرالی

جبریل ہیں دربار کے دربان۔۔ مری جان

کیسے ہو ادا حق، تری توصیف کا ہم سے

خالق ہے ترا خود ہی ثنا خوان۔۔ مری جان

بے مثل نے بے مثل بنائی ہے تری ذات

دنیا میں کہاں تجھ سا ہے انسان۔۔ مری جان

تیرے ہی کرم سے ہے مرے باغ کی رونق

تم سے ہے مری آن، مری شان۔۔ مری جان

خورشید و قمر اور کواکب ہوئے پُر نور

آفاق میں پھیلی تری مُسکان۔۔  مری جان

منجدھار میں کشتی ہے ذرا پار لگا دو

اے کشتیِ اُمّت کے نگہبان۔۔ مری جان

عارفؔ کو ثنا گوئی کا انداز عطا ہو

مِل جائے اِسے صدقۂ حسّان۔۔ مری جان

٭٭٭

 

ہم تو دیدار کے مُشتاق و طلب گار ہیں بس

 

ہم تو دیدار کے مُشتاق و طلب گار ہیں بس

طالبِ روئے پُر انوار و رُخسار ہیں بس

قاب قوسین کی رِفعت پہ پہنچنے والے

ہم غریبوں کے فقط آپ مدد گار ہیں بس

مِلکیت سارے جہانوں کی عطا کی رب نے

آپ ہی مالک و مختار ہیں سالار ہیں بس

آپ کے لطف و کرم نے ہے سنبھالا ہم کو

ورنہ ہم مجرم و بدکار، خطاکار ہیں بس

شرم آتی ہے ہمیں اپنی سیہ کاری پر

آپ ہی ایک مسیحائے دِلِ زار ہیں بس

آپ کی عظمت و رفعت کے جو اِنکاری ہیں

 وہ تو بد بخت ہیں، مکّار ہیں، غدار ہیں بس

ہم سے ممکن ہے کہاں حقِ ثنا گوئیِ شاہ

ہم تو اک ادنیٰ لِکھاری ہیں، قلم کار ہیں بس

بس اِسی آس پہ عارفؔ کو ہے اُمِّیدِ نجات

ہم وفا دار و غلامِ شہِ ابرار ہیں بس

٭٭٭

 

میرے سرکار جسے چاہیں انوکھا کر دیں

 

میرے سرکار جسے چاہیں انوکھا کر دیں

ایک لمحے میں وہ ادنیٰ کو بھی اعلیٰ کر دیں

جس کو نظروں سے گِرا دیں وہ کہیں کا نہ رہے

اُن کی مرضی ہو تو پھر پست کو بالا کر دیں

اِک اِشارہ ہو تو اشجار بھی ہوں سجدہ ریز

حُکم فرما دیں تو پتھر کو بھی گویا کر دیں

ایک مشکیزے سے سیراب کریں لشکر کو

دُودھ کے پیالے کو وہ دُودھ کا درِیا کر دیں

دیکھ کر پیٹ پہ پتھر نہیں دھوکہ کھانا

ایسے مختار ہیں مٹی کو بھی سونا کر دیں

یہ مسیحائیِ عیسیٰ ہے کہ مُردے اُٹھ جائیں

وہ کرم کر دیں تو مُردوں کو مسیحا کر دیں

اپنے الطاف و عنایات کا سایہ کر کے

میرے اطوار کو، کردار کو اچھا کر دیں

مرحمت کر دیں غلامی کی سند عارفؔ کو

اِس کے سینے پہ ذرا نقش، کفِ پا کر دیں

٭٭٭

 

تاریک دلوں میں رحمت کا شفقت کا اُجالا کرتے ہیں

 

تاریک دلوں میں رحمت کا شفقت کا اُجالا کرتے ہیں

سرکار غلاموں کے غم کا پل بھر میں مداوا کرتے ہیں

چہرے سے ہٹاتے ہیں پردہ، پُر نُور دو عالم ہوتا ہے

تاریک گھٹائیں چھاتی ہیں جب رُخ پہ دوشالا کرتے ہیں

گھر، آنگن، فکر و قلب و نظر روشن و منوّر کرتے ہیں

محبوبِ خدا کی محفل کو جو لوگ سجایا کرتے ہیں

تسلیم کو آتے ہیں اشجار، خورشید بھی رجعت کرتا ہے

دو ٹکڑے قمر ہو جاتا ہے، انگلی سے اشارہ کرتے ہیں

مانا کہ دمِ عیسیٰ بہتر، ذی شان، یدِ بیضا ہے مگر

وہ بات ہی اعلیٰ ہے عارفؔ جو میرے مسیحا کرتے ہیں

٭٭٭

 

کعبہ تمہی سے اور مدینہ تمہی سے ہے

 

کعبہ تمہی سے اور مدینہ تمہی سے ہے

صوم و صلوٰة و حج و صدقہ تمہی سے ہے

روشن، دِل و نگاہ کا نُقطہ تمہی سے ہے

فکر و عمل، خیال اُجالا تمہی سے ہے

پُر نور ہیں تمہی سے یہ خورشید اور قمر

یہ چاندنی، یہ چاند کا ہالہ تمہی سے ہے

بُوئے گلاب و مُشک و سمن، یہ دھنک کا رنگ

نکہت، بہار، غنچہ و لالہ تمہی سے ہے

اے جانِ کائنات! تمہی سے ہے کائنات

ساری حیات و زیست کا سبزہ تمہی سے ہے

تیرے لئے سجائی ہے رب نے بہشت ہشت

باغ و بہارِ خُلد کا جلوہ تمہی سے ہے

تیرا ہے جو اُسی سے ہمارا لگاؤ ہے

میرے ہر ایک رِشتے کا رِشتہ تمہی سے ہے

مُشکل کُشائے عارفؔ عاصی تمہی تو ہو

ہر درد، رنج و غم کا مداوا تمہی سے ہے

٭٭٭

 

لبوں پر نعتِ اقدس کا ترانہ لے کے آئے ہیں

 

لبوں پر نعتِ اقدس کا ترانہ لے کے آئے ہیں

نجاتِ دین و دُنیا کا وظیفہ لے کے آئے ہیں

ہمارا قلب مسکن ہے، شہِ دیں کی محبت کا

درودِ پاک کا پیارا سا تحفہ لے کے آئے ہیں

گنہ گاروں میں ہیں، پر مغفرت کا ایک ساماں ہے

ہم اپنے ساتھ آقا کا وسیلہ لے کے آئے ہیں

مدینہ سے جُدا ہو کر یہی کہتے ہیں دیوانے

ہم اپنی رُوح چھوڑ آئے ہیں لاشہ لے کے آئے ہیں

عبورِ بحرِ رنج وغم ہُوا ہے اِس لیے آساں

شہِ ابرار، رحمت کا سفینہ لے کے آئے ہیں

خدائے کُل جہاں نے مِلکیت بخشی ہے آقا کو

ہر اک عالم میں چلتا ہے وہ سِکّہ لے کے آئے ہیں

ستارے، چاند، سورج اِس لیے روشن ہیں اے عارفؔ

رُخِ سرکار سے یہ نُور، صدقہ لے کے آئے ہیں

٭٭٭

 

دِل و نگاہ کو جنت بنائے بیٹھے ہیں

 

دِل و نگاہ کو جنت بنائے بیٹھے ہیں

رسولِ پاک کی محفل سجائے بیٹھے ہیں

ہے ذکرِ سرورِ کونین دافعِ آلام

ہزار بار اِسے آزمائے بیٹھے ہیں

درِ حبیب، درِ رحمتِ اِلٰہی ہے

اِسی یقین پہ بِستر جمائے بیٹھے ہیں

کرم سے اپنے بُلائیں گے ایک دِن آقا

چراغ، اُمید کا ہم بھی جلائے بیٹھے ہیں

حضور سُنتے ہیں خود ذِکر اپنی محفل کا

ادب سے اِس لیے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں

میں مُنہ لگاتا نہیں دشمنانِ سرور کو

یہی سبب ہے کہ وہ خار کھائے بیٹھے ہیں

حضور نظرِ عنایت ہو اپنے عارفؔ پر

حضور آپ سے ہی لو لگائے بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

صورتِ لعلِ یمن، دُرِّ عدن بھول گئے

 

صورتِ لعلِ یمن، دُرِّ عدن بھول گئے

جس نے سرکار کو دیکھا وہ زمن بھول گئے

ایک شب خواب میں دیکھا تھا نبی کا روضہ

بس اُسی رات سے ہم رنگِ چمن بھول گئے

مل کے آقا کا پسینہ یہی کہہ اُٹّھی دُلہن

ہم تو اب بُوئے سمن، مُشکِ خُتن بھول گئے

ذِکرِ سرکار کی برکت کا کرِشمہ دیکھا

سارے غم دور ہوئے، رنج و محن بھول گئے

گنبدِ سبز جو دیکھا تو یہ بولے عُشّاق

ایسی رونق ہے، حسینوں کا دہن بھول گئے

بارِ عصیاں سے خجالت تھی بروزِ محشر

یار کو دیکھ کے قیامت کی گھُٹن بھول گئے

نفرتوں کا بھی صلہ دیتا ہے عارفؔ ، اُلفت

وہ کوئی اور ہیں، آداب سخن بھول گئے

٭٭٭

 

لب پہ جاری ہو ہمیشہ اور ہر دم السّلام

 

لب پہ جاری ہو ہمیشہ اور ہر دم السّلام

جانِ عالم، رُوحِ عالم، کانِ عالم السّلام

جن و انسان و ملائک کا وظیفہ ہے یہی

خالِقِ عالم بھی بھیجے اُن پہ پیہم السّلام

دست بستہ ہر نبی پڑھتے رہے اُن پر درود

ذکرِ موسیٰ، فِکرِ عیسیٰ، وِردِ آدم السّلام

بھیجتے رہیے ہمیشہ اپنے آقا پر درود

ہر وظیفے کا ہے مرکز اور سنگم السّلام

ہر بلا ہر رنج و غم، دُکھ درد میں اِکسیر ہے

کتنا سُندر ہے ترانہ، راگ، سرگم السّلام

غور سے سُن لیجیے عارفؔ !مِرا قولِ اخیر

من چنیں خوشتر نہ دیدم مرہمِ غم السّلام

٭٭٭

 

نغمہ صلِّ علیٰ لب پہ سجاتے جاتے 

 

نغمہ صلِّ علیٰ لب پہ سجاتے جاتے

کُوئے محبوب میں ہم نعت سناتے جاتے

سر کے بل جاتے جب آقا کا بُلاوا آتا

بارشِ رحمتِ باری میں نہاتے جاتے

پھول تو پھول ہیں آقا کی گلی میں جا کر

سنگ ریزوں کو بھی ہم تاج بناتے جاتے

صحبتِ سیّدِ عالم جو میسّر ہوتی

اُن کے دربار میں ہم بخت سجاتے جاتے

دیکھتے گیسو و رُخسار کے جلوے ہم بھی

پیکرِ حُسن کو آنکھوں میں سماتے جاتے

اُن کے ہر حکم پہ لبیک کا نغمہ ہوتا

رشتۂ عشق کو ہم ایسے نبھاتے جاتے

اُن کے ابرُو کا اگر ایک اشارہ پاتے

اُن کے قدموں میں دِل و جان لُٹاتے جاتے

عاشقوں کا تو ہے انداز نرالا عارفؔ

چوٹ کھاتے ہیں مگر پیار لُٹاتے جاتے

٭٭٭

 

مِلا جو اِذن تو منظر حسین دیکھوں گا

 

مِلا جو اِذن تو منظر حسین دیکھوں گا

درِ حبیب کی میں سرزمین دیکھوں گا

تصوّرات میں دیکھا ہے اب تلک روضہ

وہ چاہ لیں تو بنظرِ یقین دیکھوں گا

درود و نعت کے تحفے سجائے جاؤں گا

پھر اپنے سامنے نورِ مُبین دیکھوں گا

جہاں پہ قلب جھُکے گا دیارِ اقدس پر

وہیں کہیں پہ میں اپنی جبین دیکھوں گا

کرے گا رشک نصیبہ بھی خوش نصیبی پر

کریم کا جو کرم ہم نشین دیکھوں گا

نظر رہے گی فقط جالیوں کی رونق پر

اِدھر اُدھر نہ یسار و یمین دیکھوں گا

کرم کا ابر اگر جوش پر ہُوا عارفؔ

تو ایک ساتھ مکان و مکین دیکھوں گا

٭٭٭

 

نبی کی جُود و سخاوت سے جو نہال ہوئے

 

نبی کی جُود و سخاوت سے جو نہال ہوئے

وہی تو دونوں جہانوں میں مالا مال ہوئے

کمال والوں کو، کوئی کمال کب ملتا

جب اُن کا صدقہ ملا، صاحبِ کمال ہوئے

زمانے بھر میں نہیں جب کوئی مثال اُن کی

وہ بے نظیر ہوئے اور بے مثال ہوئے

 اُنھیں کے حُسن کا صدقہ مِلا جو یوسف کو

تو پھر جمیل ہوئے، صاحبِ جمال ہوئے

نبی کے عشق میں جس نے فنا کیا خود کو

وہی ’خُبیب‘ ہوئے اور وہی ’بلال‘ ہوئے

مدد کو آئیے آقا دُکھوں نے گھیرا ہے

غموں سے چُور ہوئے، ہم بہت نڈھال ہوئے

کہاں سُکون ملے گا بھلا اُنھیں عارفؔ

جو اپنے نفس کے ہاتھوں میں یرغمال ہوئے

٭٭٭

 

آرزوئے کمال رکھتے ہیں

 

’آرزوئے کمال رکھتے ہیں‘

نعت گوئی کا خیال رکھتے ہیں

شربتِ دید کی تمنا ہے

آرزوئے وصال رکھتے ہیں

میرے آقا ہیں بے مثال ایسے

آپ اپنی مثال رکھتے ہیں

چاہتے ہیں جو بِن نبی کے نجات

وہ خیالِ محال رکھتے ہیں

سب ہے صدقہ، حبیبِ مولیٰ کا

ہم کہاں خود کمال رکھتے ہیں

کوئی مشکل گھڑی اگر آئے

ہم کو آقا سنبھال رکھتے ہیں

آئیے کر دیں سب نبی پہ نثار

جو بھی ہم جان و مال رکھتے ہیں

اپنے عارفؔ کو اپنی رحمت سے

شاہِ عالم نہال رکھتے ہیں

٭٭٭

 

آئیے سرکار کی باتیں کریں

 

آئیے سرکار کی باتیں کریں

احمدِ مختار کی باتیں کریں

مشکلوں کو دُور کرنا ہے اگر

مُونس و غم خوار کی باتیں کریں

ذِکر ہو لب اور پائے ناز کا

زُلف و رُخ، رُخسار کی باتیں کریں

’خُلقہ القرآن‘ کے آئینے میں

ہم حسیں کردار کی باتیں کریں

راحتِ قلب و جِگر ہے جِن کی ذات

اُن کی شفقت، پیار کی باتیں کریں

آؤ عارفؔ مُشک سے دھوکر زباں

سید ابرار کی باتیں کریں

٭٭٭

 

ہٹا دیجیے رُخ سے پردہ ذرا سا

 

ہٹا دیجیے رُخ سے پردہ ذرا سا

دِکھا دیجیے نوری جلوہ ذرا سا

حُضوری مدینے کی ہو جائے آساں

شہا کیجیے اِک اِشارہ ذرا سا

ہوا ہوں مری مُشکلیں ایک پل میں

مِلے آپ کا اب سہارا ذرا سا

دِل مضطرب کو سکوں ہو میسّر

ہو موسم سہانا سہانا ذرا سا

شجر چل کے آیا، حجر بول اُٹّھا

یہ ہے میرے شہ کا کرشمہ ذرا سا

قمر شق ہوا، اور سورج بھی پلٹا

ہوا جب نبی کا اشارہ ذرا سا

اُسے مِل گئی دوجہاں کی سعادت

جسے مصطفیٰ نے نوازا ذرا سا

سنانا ہے حال اپنے مُحسِن کو عارفؔ

سنبھل کر کے آنسو بہانا ذرا سا

٭٭٭

 

مرے سرکار کا رُتبہ جہاں بھر سے نِرالا ہے

 

مرے سرکار کا رُتبہ جہاں بھر سے نِرالا ہے

زمیں سے آسماں تک بس اُنھیں کا بول بالا ہے

نہ ان کا کوئی سایہ ہے نہ ثانی ہے زمانے میں

مرے مولیٰ نے اُن کو نُور کے سانچے میں ڈھالا ہے

نبی کے جلوۂ زیبا سے شادابی ہے ہر جانب

اُنھیں کی رحمتوں کا سارے عالم میں اُجالا ہے

بظاہر پرورش کی ہے حلیمہ بی نے آقا کی

مگر در اصل آقا نے حلیمہ بی کو پالا ہے

مدینہ دیکھ کر، فردوس جب دیکھے گا دیوانہ

کہے گا یہ حسیں منظر تو میرا دیکھا بھالا ہے

وہی حق دار ہو گا رحمتِ باری کا محشر میں

چراغِ عشقِ شاہ دین کا جس میں اُجالا ہے

ہمیشہ رحمتوں کے سائے میں رہتے ہیں ہم عارفؔ

حبیبِ ربِّ اکبر نے ہمیں ہر دم سنبھالا ہے

 

٭٭٭

 

توشہ مری بخشش کا یہی روز جزا ہو

 

توشہ مری بخشش کا یہی روز جزا ہو

میری یہ زباں واصفِ محبوبِ خدا ہو

اے سیدِ عالی نسبی، مہر و سخا ہو

اے مالکِ فردوس بریں لطف و عطا ہو

امت پہ قیامت کی گھٹا چھائی ہوئی ہے

اے سیدِ ابرار، کرم بہرِ خدا ہو

اے مہبطِ الہامِ خدا، ہادیِ کونین

کچھ کیجیے ایسا کہ غریبوں کا بھلا ہو

ہیں درپئے آزار ہر اک سمت سے دشمن

اب درد کا درمان ہو کُلفت کی دوا ہو

سوئی ہوئی تقدیر جگا دیجیے اب تو

اے خواجۂ کونین گداؤں کا بھلا ہو

اے بحرِ فیوضاتِ اتم، مرکزِ حاجات

الطاف و عنایات کی خیرات عطا ہو

اے مونس و غم خوار، مسیحائے دو عالم!

اب دُور مرا درد ہو، درمانِ بلا ہو

یہ مژدۂ تسکین غلاموں کے لئے ہے

آزاد ہے جو آپ کے دامن سے بندھا ہو

کیوں خواہشِ بینائی کرے عارفؔ ناداں

آنکھوں میں اگر آپ کی خاکِ کفِ پا ہو

٭٭٭

 

کچھ اس طرح سے اپنے گناہوں کو کم کریں

 

کچھ اس طرح سے اپنے گناہوں کو کم کریں

’’یاد نبی سے چشم تمنا کو نم کریں‘‘

سرکار ہم غلاموں پہ نظر کرم کریں

مٹی ہماری خاک مدینہ میں ضم کریں

پھر بھی نہ ہو سکے گا ادا حقِّ اہلِ بیت

گر خونِ دل سے قصۂ کربل رقم کریں

جان مراد، کان تمنا ہیں جب حضور

آؤ اُنھیں کے در پہ دل و جان خم کریں

منکر نکیر سر پہ ہیں حامی کوئی نہیں

عاصی پہ اب کرم اے شفیع امم کریں

رشتہ رسول پاک سے مضبوط چاہیے

گر آرزو بہشت میں جانے کی ہم کریں

مل جائے گا وقار ہمیں پھر جہان میں

دل گر فدائے سید عرب و عجم کریں

عارفؔ کو اپنے دامن رحمت میں دیں پناہ

اتنی عطا اے دافعِ رنج و الم کریں

٭٭٭

 

مرے قلب و جگر میں روشنی معلوم ہوتی ہے

 

مرے قلب و جگر میں روشنی معلوم ہوتی ہے

نہ جانے کیوں عجب سی چاشنی معلوم ہوتی ہے

یقیناً نعت گوئی، نعت خوانی کا یہ صدقہ ہے

مرے ہوش و خِرد میں تازگی معلوم ہوتی ہے

مدینے کی بہاروں کا ہے جلوہ جِن کی نظروں میں

انھیں کی زندگی تو زندگی معلوم ہوتی ہے

مدینے کے گل و گلزار ہوں یا خار کے جلوے

وہاں ہر شئے حسیں ہے اور بھلی معلوم ہوتی ہے

ابھی تک میری آنکھوں نے نہ دیکھا گنبد خضریٰ

بہار زندگانی میں کمی معلوم ہوتی ہے

بلا لیجے مدینے میں مرے آقا مرے مولیٰ

عجب سی دُور، رہ کر بے بسی معلوم ہوتی ہے

مجھے لگتا ہے تم مقبول ہو گے ایک دن عارفؔ

تمہاری شاعری میں نغمگی معلوم ہوتی ہے

٭٭٭

 

جب شاہ دو عالم کا رُخسار نظر آیا

 

جب شاہ دو عالم کا رُخسار نظر آیا

تو نورِ مہ و خُر بھی بے کار نظر آیا

اِدراک سے بالا ہے رِفعت مرے آقا کی

محبوب مرا جگ کا سردار نظر آیا

جو عقل کے اندھے ہیں ان کو نہ نظر آیا

مجھ کو تو مرا آقا مختار نظر آیا

اپنے ہوں کہ بیگانے ہر ایک کو دیتے ہیں

ایسا نہ کوئی جگ میں دِل دار نظر آیا

محبوب کی گلیوں میں ہر چیز نرالی ہے

کیا پھول نظر آئے کیا خار نظر آیا

ہو جائے کرم آقا میں بھی تو کہوں سب سے

مجھ کو بھی مدینے کا گلزار نظر آیا

اِٹھلا کے مچل کر کے احباب کو بتلاؤں

کہ مسجد نبوی کا مینار نظر آیا

بلوائیے عارفؔ کو بلوائیے طیبہ میں

اب جینا یہاں اس کا دشوار نظر آیا

٭٭٭

 

یہی ہے بندگی اپنی، یہی ہے زندگی اپنی

 

یہی ہے بندگی اپنی، یہی ہے زندگی اپنی

نبی کی نعت خوانی سے بجھی ہے تشنگی اپنی

اسی اُمِّید میں نام محمد کا وظیفہ ہے

بروز حشر کام آ جائے یہ وارفتگی اپنی

کبھی تو اِذن، طیبہ کا ملے گا شاہِ شاہاں سے

یقیناً رنگ لائے گی کبھی وابستگی اپنی

جمالِ جلوۂ زیبا سے قسمت کیجیے روشن

دکھا دیجے مرے سرکار صورت موہنی اپنی

ہر اک نعمت خدا نے کی عطا محبوب کے صدقے

کہاں شاہنشہی اپنی، کہاں ہے خسروی اپنی

حبیبِ کبریا صلِّ علىٰ کا فیض ہے عارفؔ

وگرنہ اپنی کاوش اور کہاں ہے شاعری اپنی

٭٭٭

 

نعت نبی سے پائی ہے عزت جہان میں

 

نعت نبی سے پائی ہے عزت جہان میں

رونق اسی سے آئی مرے بوستان میں

بعد خدا ہیں سب سے بڑے میرے مصطفیٰ

رتبہ کہاں کسی کا ہے ایسا جہان میں

روح الامین جن کا قصیدہ پڑھیں مدام

ممتاز مصطفیٰ ہیں زمیں، آسمان میں

جن و ملک بشر ہیں سبھی آپ کے غلام

چرچا ہے آپ ہی کا مکاں، لامکان میں

بحر غم و الم میں پھنسا ہوں نکالیے

سرکار لیجیے مجھے اپنے امان میں

دیدارِ شہرِ یار سے آنکھیں ہوں شادکام

مولیٰ مزید اب نہ رہوں امتحان میں

نعت نبی سے عظمت نثر اور نظم ہے

ورنہ کہاں ہے حُسن، زبان و بیان میں

عارفؔ درود پاک کی برکت سے ہر گھڑی

ہے روشنی ہمارے دلوں کے مکان میں

٭٭٭

 

در گزر، عفو و کرم اور سخاوت کی ہے

 

در گزر، عفو و کرم اور سخاوت کی ہے

مجھ کو سرکار سے امید، شفاعت کی ہے

بات احباب میں اب تک جو بنی ہے میری

یہ نظر عرش کے دولھا کی عنایت کی ہے

جسم اور جان سبھی ان پہ نثار وقربان

انھیں جانا انھیں مانا ہے، اطاعت کی ہے

اب کسی اور کا قبضہ نہ یہاں ہوپائے

میرے دل پر مرے آقا نے حکومت کی ہے

کون کہتا ہے فرشتو میں گنہ گار نہیں

بات لیکن مرے آقا کی سخاوت کی ہے

کاش ہو جائے درِ سرورِ والا میں قبول

نعت گوئی کی جو عارفؔ نے جسارت کی ہے

٭٭٭

 

کسی کے سامنے کیوں ہاتھ پھیلائیں مرے آقا

 

کسی کے سامنے کیوں ہاتھ پھیلائیں مرے آقا

مدینہ آپ کا ہے آپ بلوائیں مرے آقا

ہُوا با ہوش جب سے میں تمنا ہے یہی میری

مدینہ دیکھ لوں اک بار دِکھلائیں مرے آقا

کرم فرمائیے، دکھلائیے جالی سنہری اب

زمانے کے یہ رنگ و بو نہ اب بھائیں مرے آقا

مری دارین میں ہر بات بن جائے گی پل بھر میں

اگر مجھ کو مرا دیوانہ فرمائیں مرے آقا

رُخِ انور، بوقت نزع، گر ہو سامنے میرے

اجل کی سختیوں سے پھر نہ گھبرائیں مرے آقا

مرے اعمال ہوں میزان پر اور آپ ہوں ناصر

خدا کے فضل سے جنت میں لے جائیں مرے آقا

تصور میں تمہارے حسن کے جلوے سمائے ہیں

بھلا کیوں چاند کی کرنوں پہ للچائیں مرے آقا

کچھ ایسا کیجیے نظر کرم عارفؔ پہ اے شاہا

کہ اس کی سانس میں بس آپ، بس جائیں مرے آقا

٭٭٭

 

جسم اپنے وطن میں رہتا ہے

 

جسم اپنے وطن میں رہتا ہے

دل مدینے کی سمت چلتا ہے

اس لیے دل مرا مہکتا ہے

ذکر سرکار میں مچلتا ہے

آؤ بتلاؤں نعت کیا شے ہے

نعت پڑھنے سے چین مِلتا ہے

فضل مولیٰ ہوا ہے عاصی پر

اپنے آقا کی نعت لکھتا ہے

اپنے عصیاں کے خوف سے مولیٰ

میری آنکھوں سے اشک بہتا ہے

 تجھ پہ عارفؔ کرم ہے آقا کا

جب بھی گِرتا ہے تُو سنبھلتا ہے

٭٭٭

 

چمکے نصیب گنبد خضریٰ ہو رُوبرو

 

چمکے نصیب گنبد خضریٰ ہو رُوبرو

نکلے وہیں پہ روح تماشا ہو رُوبرو

عاشق کو شہر طیبہ کی ہر شے بھلی لگے

ہو پھول سامنے کہ وہ کانٹا ہو رُوبرو

آقا کے پائے ناز ہوں اور ہو ہمارا سر

منظر حسین، خوب نظارا ہو رُوبرو

عاصی سہی مگر ہے تمنا مری بھی یہ

پردہ ہٹا دیں رُخ سے اُجالا ہو رُوبرو

فردوس میں رہیں گے خدا کے کرم سے ہم

میرے نبی کا ایک اشارہ ہو رُوبرو

عارفؔ کا دِل حصارِ الم سے نکالیے

نظر کرم حضور خدارا ہو رُوبرو

٭٭٭

 

محبت کا پیغام سب کو سنانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

 

محبت کا پیغام سب کو سنانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

ہمیں نیکیوں کی ڈگر پر چلانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

ترس جا رہی تھی محبت کو دنیا، کہیں پر تھی نفرت کہیں بغض و کینہ

محبت کی الفت کی باتیں بتانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

ملک اور جن و بشر کہہ رہے ہیں، شجر اور حجر خشک وتر کہہ رہے ہیں

وہ دیکھو کہ شمع فروزاں جلانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

سُنو کج کُلاہو سُنو بادشاہو، نہ اب ظلم کے تِیر ہم پر چلاؤ

مصائب و آلام سے اب بچانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

وہ قرآں وہ فرقاں وہ یٰسین و طٰہ، دو عالم کی شاہی انھیں کو ہے زیبا

بنے جن کی خاطر یہ سارے زمانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

گھرانا نبی کا گھرانا ہے ایسا، جنھیں خود خدا نے کیا ہے مُزکّیٰ

ہیں قربان اُن پر سبھی کے گھرانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

اے عارفؔ ملے گی اُسے ہی سعادت، اُسے ہی ملے گی بلا ریب جنت

جو دل سے محبت کرے اُن کو مانے نبی آ گئے ہیں نبی آ گئے ہیں

٭٭٭

 

دل کا قرار آیا، ماہ بہار آیا

 

دل کا قرار آیا، ماہ بہار آیا

ہر سمت نور چھایا، ماہ بہار آیا

شاخوں نے گُل کھلایا، ماہ بہار آیا

کلیوں نے رنگ جمایا، ماہ بہار آیا

جبریل نے لگایا کعبے کی چھت پہ جھنڈا

کعبہ نے دِل بچھایا، ماہ بہار آیا

رحمت اُتر پڑی ہے گودی میں آمنہ کی

ہر ذرہ جگمگایا، ماہ بہار آیا

میلادِ مصطفیٰ سے رونق ہوئی جہاں میں

موسم نے حُسن پایا، ماہ بہار آیا

چہرے کھِلے کھِلے ہیں روشن ہوئیں جبینیں

 ہر قلب مسکرایا، ماہ بہار آیا

عارفؔ نہ کیوں ہو رقصاں قسمت پہ اپنی نازاں

عالی وقار آیا، ماہ بہار آیا

٭٭٭

 

قرارِ قلبُ و جاں ماہِ ربیع النور آیا ہے

 

قرارِ قلبُ و جاں ماہِ ربیع النور آیا ہے

انیسِ بے کساں ماہِ ربیع النور آیا ہے

مبارک ہو مبارک، شادمانی کی گھڑی آئی

مناؤ شادیاں ماہِ ربیع النور آیا ہے

خدا کی رحمت و برکت اُتر آئی ہے عالم میں

لِیے امن و اماں ماہِ ربیع النور آیا ہے

سبھی عیدیں ہیں صدقہ عیدِ میلادِ پیمبر کا

سبھی عیدوں کی جاں ماہِ ربیع النور آیا ہے

زمیں سے آسماں تک روشنی پھیلی مسرّت کی

ہُوا دِلکش سماں ماہِ ربیع النور آیا ہے

سجاؤ محفلیں اُلفت کی اے عارفؔ عقیدت سے

محبّت کا نشاں ماہِ ربیع النور آیا ہے

مناقب

٭٭٭

 

منقبت در شان صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

صداقت کے علم بردار ہیں، صدیق اکبر ہیں

نبی کے سچے تابع دار ہیں، صدیق اکبر ہیں

جو ہیں اوّل خلیفہ سرور و شاہِ دوعالم کے

شبِ ہجرت جو یارِ غار ہیں، صدیق اکبر ہیں

رہے پروانہ بن کر زندگی بھر ساتھ آقا کے

مزارِ پاک میں بھی یار ہیں، صدیق اکبر ہیں

ہے اصحابِ نبی میں سب سے افضل آپ کا رُتبہ

جو سب کے قافلہ سالار ہیں، صدیق اکبر ہیں

نبی کی بارگہ میں اپنا سب کچھ کر دیا قرباں

سراپا عشق ہیں، ایثار ہیں، صدیق اکبر ہیں

مِلا صدیقِ اکبر کا اُنھیں تمغہ درِ شہ سے

نبی کے عشق کے معیار ہیں، صدیق اکبر ہیں

نہیں ممکن ہے عارفؔ سے بیانِ عظمتِ صدیق

کہ عاجز اب مرے اشعار ہیں، صدیق اکبر ہیں

٭٭٭

 

منقبت در شان فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

مُرادِ سرورِ کُل انبیا، فاروقِ اعظم ہیں

عطاے کبریا، شانِ خدا، فاروقِ اعظم ہیں

امیر و تاجدار و رہنما فاروقِ اعظم ہیں

حلیم ومہربان و پارسا، فاروقِ اعظم ہیں

عطا کی اُن کے ہاتھوں رب نے دینِ پاک کو شوکت

برائے مومناں فضلِ خدا، فاروقِ اعظم ہیں

شیاطیں کانپتے ہیں آپ کے اِسمِ گرامی سے

جہانِ کُفر پر برقِ قضا، فاروقِ اعظم ہیں

لرز اُٹّھا ہے جِن کا نام سُن کر قیصر و کِسریٰ

وہی مردِ دِلاور با خدا، فاروقِ اعظم ہیں

زمانے بھر میں اُن کے عدل کا سکہ ہوا جاری

عدیل و عادِل و جُود و سخا، فاروقِ اعظم ہیں

محبت اُن سے عارفؔ اہل ایماں کی نشانی ہے

فدائے خاک پائے مصطفیٰ فاروقِ اعظم ہیں

٭٭٭

 

منقبت در شان عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

دِل دارِ نبی، رحمتِ رحمان ہیں عثمان

ایثار و سخاوت کے گُلِستان ہیں عثمان

اِسلام کی عظمت کے نگہبان ہیں عثمان

فردوسِ بریں کے گُلِ ریحان ہیں عثمان

ہر ایک ادا اُن کی فرشتوں سے ہے مِلتی

اِس درجہ حیا دار ہیں، ذی شان ہیں عثمان

کِردار میں رنگِ شہِ ابرار ہے اُن کے

سرتاپا شہِ دین کے فیضان ہیں عثمان

دو نُور مِلے اُن کو درِ پاکِ نبی سے

وہ صاحبِ تقدیر، وہ ذی شان ہیں عثمان

سرکار کی اُمت پہ یہ احسان ہے اُن کا

یہ فضل مِلا جامعِ قرآن ہیں عثمان

معلوم ہوا بیعتِ رِضوان سے عارفؔ

عشقِ شہِ کونین کے گُل دان ہیں عثمان

٭٭٭

 

منقبت در شان مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

ہے فرمانِ شہ کوثر، سراپا علم کا پیکر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

علی کا نام، بنائے کام، دلوں کو دے، بڑا آرام

علی کے نام لیوا کو، نہ کوئی خوف نہ ہو ڈر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

علی ہیں پنجتن کی جان، علی اہلِ وفا کی شان

علی حق کی ہوئے پہچان، علی آقا، علی سرور

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

علی راہِ ہدایت ہیں، علی بابِ ولایت ہیں

علی جانِ سخاوت ہیں، علی نورِ دلِ مضطر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

علی رُوحِ بلاغت ہیں، علی جانِ کرامت ہیں

علی شانِ شجاعت ہیں، علی ہیں فاتحِ خیبر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

خیال و فِکر سے بالا، علی کا مرتبہ ٹھہرا

علی حسنین کے بابا، علی، زہرا کے ہیں شوہر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدراگر ہو طالبِ رحمت، شفاعت کی ہے گر چاہت

اگر ہے خواہشِ جنت، لگاؤ نعرۂ حیدر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

علی ہیں صاحبِ عرفان، علی ہیں ماہرِ قرآن

علی شاہوں کے ہیں سلطان، شرف کا ہیں علی گوہر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

علی مولودِ کعبہ ہیں، علی عارفؔ مسیحا ہیں

علی کے ہم بھی شیدا ہیں، علی کے ہم بھی ہیں نوکر

علی مولیٰ، علی حیدر، علی مشکل کُشا حیدر

٭٭٭

 

شانِ حق و صداقت ہیں کربلا والے

 

نشانِ حق و صداقت ہیں کربلا والے

خلوص و عدل و کرامت ہیں کربلا والے

اُنھیں کے دم سے جہاں میں ہے اہلِ حق کا وقار

علی کی جُرات و ہمت ہیں کربلا والے

یہ بھوکے رہ کے بھی خود اوروں کو کھلاتے ہیں

سراپا جود و سخاوت ہیں کربلا والے

بڑی ہے درد بھری داستان، کربل کی

جہاں میں صبر کی صورت ہیں کربلا والے

فضا میں گونج رہی ہے ابھی اذانِ حُسین

ہنوز محوِ عبادت ہیں کربلا والے

اُنھیں بھلا کسی پانی کی کیا ضرورت ہو

کہ تشنگانِ شہادت ہیں کربلا والے

اُنھیں تو صبر کی دولت ملی ہے وِرثے میں

عزیمتوں کی وضاحت ہیں کربلا والے

ہے اُن کے نام کی برکت جہان ہے شاداب

دِل و نگاہ کی راحت ہیں کربلا والے

نجات، ذکر سے اُن کے ملے گی عارفؔ کو

کہ مغفرت کی ضمانت ہیں کربلا والے

٭٭٭

 

جو حق کا ولی، جانِ نبی، نازِ علی ہے

 

جو حق کا ولی، جانِ نبی، نازِ علی ہے

سرخیلِ شہیداں ہے جو زہراء کی کلی ہے

وہ ذات کہ جو دوشِ نبوت پہ پلی ہے

وہ ابنِ علی، ابنِ علی، ابنِ علی ہے

جس ذات کو آقا نے کہا جسم کا ٹُکڑا

سردارِ جوانانِ جناں جس کو بتایا

جو سِبطِ پیمبر ہے، گُلِ باغِ علی ہے

وہ ابنِ علی، ابنِ علی، ابنِ علی ہے

ہے صبر کا، ایثار کا، اخلاص کا پیکر

ہے ایسا حسیں جِس پہ ہے خود حُسن، نِچھاور

جو رحمت و شفقت کا سخاوت کا دھنی ہے

وہ ابنِ علی، ابنِ علی، ابنِ علی ہے

اِسلام کو سرسبز کیا خونِ جگر سے

حق اُن کی وفا کا نہ ادا ہو گا بشر سے

جو کُشتۂ تیغِ ستم و ظلمِ جلی ہے

وہ ابنِ علی، ابنِ علی، ابنِ علی ہے

ہو کیوں نہ محبت ہمیں سرکار کے گھر سے

زہراء کے چمن، حیدرِ کرّار کے گھر سے

ایثار کی دولت ہمیں جس گھر سے مِلی ہے

وہ ابنِ علی، ابنِ علی، ابنِ علی ہے

جو ظُلم کی آندھی سے دبا ہے نہ جھُکا ہے

جو حق و صداقت کے لئے ڈٹ کے کھڑا ہے

وہ کون دِلاور ہے، بہادر ہے، جری ہے

وہ ابنِ علی، ابنِ علی، ابنِ علی ہے

عارفؔ کی ہر اک سانس ہے کس ذات کی جاگیر

کس کا ہے کرم آئی ہے تحریر میں تاثیر

وہ کون ہے  کہ جس سے بلا اِس کی ٹلی ہے

وہ ابنِ علی، ابنِ علی، ابنِ علی ہے

٭٭٭

 

 

آل نبی ہیں، سبط پیمبر حسن حسین

 

آل نبی ہیں، سبط پیمبر حسن حسین

زہرا کے لعل، گوہرِ حیدر حسن حسین

اللہ سے، نبی سے وہ رتبہ انھیں ملا

فکر و نظر خیال سے برتر حسن حسین

نازاں نہ ان کے حُسن پہ کیوں حُسن بھی رہے

عکسِ نبی، شبیہِ پیمبر حسن حسین

جنت بھی جس پہ رشک کرے دیکھ دیکھ کر

وہ گھر جہاں میں آپ کا ہے گھر حسن حسین

مقصود امتحان تھا رب کی جناب سے

قدموں میں ورنہ آتا سمندر حسن حسین

راہ خدا میں اپنا سبھی کچھ لٹاد یا

دیکھا جہان بھر نے یہ منظر حسن حسین

عارفؔ کے دل جگر کو بھی مل جائے گا سکون

ہو جائے دید روئے منور حسن حسین

٭٭٭

 

کیسے ممکن ہو بیانِ عظمتِ سرکارِ غوث

 

کیسے ممکن ہو بیانِ عظمتِ سرکارِ غوث

فہم و دانش سے ورا ہے رفعتِ سرکارِ غوث

قُرب ہے ایسا درِ ربِّ عُلیٰ میں آپ کا

فرش کیا ہے عرش پر بھی شہرتِ سرکارِ غوث

میرے آقا جس طرح ہیں درمیانِ انبیا

درمیانِ اولیا ہے شوکتِ سرکار غوث

میرا آنگن بھر گیا ہے شادمانی سے جناب

جب سے ہم کو مل گیا ہے برکتِ سرکارِ غوث

قبر و محشر میں ہماری مشکلیں ہو جائیں حل

فضل رب سے گر میں پاؤں نصرتِ سرکارِ غوث

ہم سگانِ غوث ہیں شیروں سے ڈر سکتے نہیں

ہم غریبوں کا ہے ماویٰ حضرتِ سرکارِ غوث

مظہر شانِ نبی ہیں حضرتِ غوث الوریٰ

دم میں جب تک دم ہے ہو گی مدحتِ سرکارِ غوث

یا الٰہی ایک دن عارفؔ کو بھی ایسا ملے

دیکھ لے آنکھوں سے اپنی تُربتِ سرکار غوث

٭٭٭

 

ہیں محبوبِ ربِّ عُلیٰ غوثِ اعظم

 

ہیں محبوبِ ربِّ عُلیٰ غوثِ اعظم

عطائے حبیبِ خدا غوثِ اعظم

کرم کی ذرا اِک نظر ڈال دیجے

منوّر ہو دِل بھی مرا غوث اعظم

پڑیں گر قدم آپ کے میرے گھر میں

تو پل میں ٹلے ہر بلا غوث اعظم

اُنھیں بھی شفا بخش دیں آپ پل میں

جو بیمار ہیں لا دوا غوث اعظم

کوئی در سے خالی بھلا جائے کیوں کر

سراپا ہیں جُود و سخا غوث اعظم

ہمیں بھی دِکھا دیجیے اپنا روضہ

برائے رسولِ خدا غوث اعظم

بشارت ہمارے لئے ’لا تخف‘ کی

ہے ہر درد و غم کی دوا غوث اعظم

خدا نے وہ رُتبہ دیا اُن کو عارفؔ

ہیں فہم و ذکا سے ورا غوث اعظم

٭٭٭

 

ہو کرم کی نظر شہِ جیلاں

 

 

ہو کرم کی نظر شہِ جیلاں

راہ ہے پُر خطر شہِ جیلاں

ہر طرف دشمنوں کے پہرے ہیں

سہل کیجے ڈگر شہِ جیلاں

آپ چاہیں تو پل میں آساں ہو

ہر کٹھن رہ گزر شہِ جیلاں

آئیے رکھیے قدم ہائے ناز

پیش ہے دِل، جِگر شہ جیلاں

آپ کے در پہ ایک سگ بن کر

میں رہوں عمر بھر شہ جیلاں

جو بھکاری ہے آپ کے در کا

وہ ہوا تاجور شہِ جیلاں

آپ کے عاشقوں کو جنت ہے

دشمنوں کو سقر شہ جیلاں

بے ہنر بے اثر ہے یہ عارفؔ

کیجیے معتبر شہِ جیلاں

٭٭٭

 

شامتِ نفس، پریشانی و کُلفت کا علاج

 

شامتِ نفس، پریشانی و کُلفت کا علاج

نعرۂ غوث ہے ہر رنج و مصیبت کا علاج

چور، بد کار، گنہ گار ولی بن جائیں

ہے درِ غوث دِلِ بد کی شقاوت کا علاج

اس کو شاہوں کے خزانوں کی ضرورت کیوں ہو

جس نے لی ہے شہِ جیلاں کی سخاوت کا علاج

لا تخفْ کہہ کے مُرِیدوں کو تسلی دی ہے

اور عطا کی ہے اُنھیں قبر کی وحشت کا علاج

مجھ کو قدموں میں بُلا لیجئے شاہِ بغداد

کیجے یا غوث مرے قلب کی حسرت کا علاج

ایک ہی وقت میں ستّر کے گھروں پر پہنچے

جس کو حیرت ہو کرے اپنی جہالت کا علاج

جس کو گیارہویں کی برکت نہ سمجھ میں آئے

اُس کو لازم ہے کرے اپنی حماقت کا علاج

دُور کر دیجئیے ہر رنج و غم و حُزن و ملال

اور کر دیجئیے عارف کی بھی قسمت کا علاج

٭٭٭

 

دین کے راہبر خواجۂ خواجگاں

 

دین کے راہبر خواجۂ خواجگاں

ہند کے تاجور خواجۂ خواجگاں

آپ پر ہوں فدا آپ پر ہوں نثار

میرے مادر، پدر خواجۂ خواجگاں

چشم تر میں رہیں دل، جگر میں رہیں

آپ ہی کا ہے گھر خواجۂ خواجگاں

مکرِ اعدا کا کیوں خوف مجھ کو رہے

آپ کا جب ہے در خواجۂ خواجگاں

آپ کے در کا صدقہ میں کھاتا رہوں

ہر گھڑی عمر بھر خواجۂ خواجگاں

مجھ کو نکمّے کو بھی کیمیا کیجیے

ڈالیے اک نظر خواجۂ خواجگاں

آپ کی مدح، عارفؔ کے لب پر رہے

شام ہو یا سحر خواجۂ خواجگاں

٭٭٭

 

کریم رب کی عطا ہیں مرے غریب نواز

 

کریم رب کی عطا ہیں مرے غریب نواز

درِ نبی کی دعا ہیں مرے غریب نواز

نوازتے ہیں وہ لطف و کرم کے پیکر ہیں

سراپا جود و سخا ہیں مرے غریب نواز

بلا و رنج و الم کیوں مرے قریب آئے

مرے دُکھوں کی دوا ہیں مرے غریب نواز

وہی ہیں ہند کے راجہ انھیں کا مُلک ہے یہ

نصیرِ شاہ و گدا ہیں مرے غریب نواز

سوال جتنا کیا اس سے بھی سوا پایا

کہ فکر سے بھی ورا ہیں مرے غریب نواز

بس اک اشارے سے کاسے میں آ گیا ساگر

حضور حق کی رِضا  ہیں مرے غریب نواز

گدا ہوں میں درِ خواجہ کا اس لیے عارفؔ

سخا ہیں جود و عطا ہیں مرے غریب نواز

٭٭٭

 

ہند کے سلطان ہیں خواجہ معین الدیں حسن

 

ہند کے سلطان ہیں خواجہ معین الدیں حسن

دینِ حق کی شان ہیں خواجہ معین الدیں حسن

رحمتِ رحمٰن ہیں خواجہ معین الدیں حسن

حافظ قرآن ہیں خواجہ معین الدیں حسن

بارگاہ سرورِ کونین کے مقبول ہیں

کس قدر ذیشان ہیں خواجہ معین الدیں حسن

جرأتِ ابنِ علی ہے اُن کی سیرت میں عیاں

مومنوں کی آن ہیں خواجہ معین الدیں حسن

آ گیا، کاسے میں کیسے آپ کے ساگر سبھی

ہم تو بس حیران ہیں خواجہ معین الدیں حسن

غم نہ کر عارفؔ ذرا بھی گردش دوران کا

دافعِ احزان ہیں خواجہ معین الدیں حسن

٭٭٭

 

اِک چشمِ ضیا بار ہو اے سید سالار

 

اِک چشمِ ضیا بار ہو اے سید سالار

قسمت مری گلزار ہو اے سید سالار

پھِر ملّتِ بیضا کو مِلے اوج و بلندی

پھِر حیدری للکار ہو اے سید سالار

سائل کو بھلا کیوں نہ مِلے سوچ سے زیادہ

جب آپ سا دربار ہو اے سید سالار

رُتبہ ہے سِوا آپ کا اِدراکِ سے شاہا

قدرت کا وہ شہکار ہو اے سید سالار

زہرا کے سکوں، حیدرِ کرّار کے ہو چین

نُورِ شہِ ابرار ہو اے سید سالار

پا کر کے شہادت بھی ہوئے غازی سے معروف

کیا صاحبِ اسرار ہو اے سید سالار

کرتے ہیں سبھی فخر غلامی پہ تمہارے

نادار کہ زر دار ہو اے سید سالار

عارفؔ کو غمِ گردشِ ایام ہو کیوں کر

جب آپ مددگار ہو اے سید سالار

٭٭٭

 

زمانے بھر میں ہے چرچا مرے مخدوم اشرف کا

 

زمانے بھر میں ہے چرچا مرے مخدوم اشرف کا

فرشتوں میں بھی ہے شُہرہ مرے مخدوم اشرف کا

درِ اشرف کو مولیٰ نے بنایا شافی و کافی

بڑا ہے مر تبہ اعلیٰ مرے مخدوم اشرف کا

جو کر دے ترک، سلطانی وہی ہیں شاہ سمنانی

یہ دل کس کا، جگر کس کا مرے مخدوم اشرف کا

کبھی رُسوا نہیں ہوتا پشیماں بھی نہیں ہوتا

کہ جو ہے چاہنے والا مرے مخدوم اشرف کا

کچھوچھہ میں ہے جاری بحرِ عرفان شہ اشرف

ہے جاری فیض کا دریا مرے مخدوم اشرف کا

کوئی آسیب ہو یا مرض، پل بھر میں شفا پاؤ

لگاؤ دل سے جو نعرہ مرے مخدوم اشرف کا

جہاں بھر میں وہ رُسوا ہے جو اُن سے بغض رکھتا ہے

مُحِب ہے شاد ہر لمحہ، مرے مخدوم اشرف کا

نہیں ہے خوف، اہل شر کا عارفؔ کو ذراسا بھی

سگِ در بار ہے کس کا مرے مخدوم اشرف کا

٭٭٭

 

اپنے ایماں کی حفاظت کیجیے

 

اپنے ایماں کی حفاظت کیجیے

اعلیٰ حضرت سے محبت کیجیے

ہیں رضائے مصطفٰے احمد رضا

ذکر اُن کا اپنی عادت کیجیے

مدحتِ آقا تھی اُن کی زندگی

جان و دل سے اُن کی مدحت کیجیے

ہے رضا نے کی حفاظت دین کی

اس لیے اُن سے محبت کیجیے

مسلکِ احمد رضا کو تھام کر

آئیے سامانِ راحت کیجیے

اے رضا، پیارے رضا، سچے رضا

اپنے عارفؔ پر عنایت کیجیے

٭٭٭

 

فیضِ رضا کا دل میں اُجالا ہے آج بھی

 

فیضِ رضا کا دل میں اُجالا ہے آج بھی

ان کے کرم نے ہم کو سنبھالا ہے آج بھی

سینہ تھا کہ دفینہ گُہر ہائے علم کا

فکر و نظر، خیال کا شہرہ ہے آج بھی

کل بھی مریضِ عشقِ رسولِ وقار تھا

خاکِ مزارِ پاک میں شیدا ہے آج بھی

تابِ بیانِ رفعت و عظمت کہاں مجھے

یہ فکر اور خیال سے بالا ہے آج بھی

ابنِ نقی علی پہ ہے فیضِ حبیبِ پاک

یوں وہ مرے غموں کا مسیحا ہے آج بھی

آیا دیارِ ’حضرتِ اعلیٰ‘ سے یہ پیام

قبلہ برائے کعبہ، مدینہ ہے آج بھی

عارفؔ نہ ڈر، نہ غم کو پھٹکنے دے رُوبرو

گردن میں تیری غوث کا پٹہ ہے آج بھی

٭٭٭

 

اعلیٰ حضرت کی ہر اک فِکر کا نقشہ ہے کمال

 

اعلیٰ حضرت کی ہر اک فِکر کا نقشہ ہے کمال

حمد اور نعت، سلام اور قصیدہ ہے کمال

عمر چھ سال کی ہے، پر ہے خطابت ایسی

بول اُٹھے اہل خرد واہ یہ خطبہ ہے کمال

عمر ہے آٹھ برس، نحو میں ایسا ہے مقام

دیکھ انگشت بدنداں یہ زمانہ ہے کمال

عمر دسویں میں وہ سمجھائیں اصول فقہی

بالیقیں آپ کا یہ فضل، یہ رتبہ ہے کمال

عمر تیرہ سے بڑھی سر پہ سجا تاجِ علوم

واہ دستارِ فضیلت کا یہ سہرا ہے کمال

اور پھر فضلِ الٰہی سے مُجدِّد ٹھہرے

کس قدر رب کی عنایات کا تحفہ ہے کمال

درجنوں فن میں لکھی آپ نے اعلیٰ تحریر

سب نے تسلیم کیا آپ کا جلوہ ہے کمال

اُن کی ہر بات نرالی ہے انوکھی عارفؔ

علم اخلاق، عمل، اُن کا سراپا ہے کمال

٭٭٭

 

خدا کا فضل و رحمت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

 

خدا کا فضل و رحمت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

درِ شہ کی امانت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

امام احمد رضا خاں بھی ہیں نازاں علم پر جن کے

جو خواجہ کی کرامت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

ہے اُن کے فیض کا دریا بشکل حافظ ملت

عُلو کی جو علامت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

دیار امجدی میں لُوٹ لو علم و ہنر سب کچھ

یہ سرتا پا سخاوت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

محدِّث ہیں مفسِّر ہیں فقیہِ بے مثالی ہیں

بہار علم و حکمت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

بہارِ شرع سے جِن کی بہاریں ہیں جہاں بھر میں

وہی ذی شان و شوکت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

شریعت اور طریقت کا ہے سنگم ان کی ہستی میں

بڑے پاکیزہ فطرت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

نہ ہو کیوں ناز عارفؔ کو درِ صدر ِشریعت پر

مری دولت ہیں ثروت ہیں مرے صدر شریعت ہیں

٭٭٭

 

حافظ ملت کی بے شک شان ہے سب سے الگ

 

حافظ ملت کی بے شک شان ہے سب سے الگ

فکر و فن، علم و ادب، پہچان ہے سب سے الگ

محوِ حیرت ہے زمانہ دیکھ کر اُن کا شعور

فکر کا اُن کی حسیں عنوان ہے سب سے الگ

آرزوئے حافظِ ملت کا پیکر جامعہ

امتِ نبوی پہ یہ احسان ہے سب سے الگ

کر زمیں پر کام اور زیر زمیں آرام کر

حافظ ملت کا یہ فرمان ہے سب سے الگ

خوشہ چینِ جامعہ جگ میں جہاں، جس جا گیے

منفرد اُن کی چمک اور شان ہے سب سے الگ

جو عزیزی مے کدہ کے جام سے سرشار ہے

اُس کی عظمت اور رفعت، شان ہے سب سے الگ

شاعری عارفؔ کی بس تُک بندیاں ہیں اور کیا

اِس ہنر میں ہند کا حسّان ہے سب سے الگ

٭٭٭

 

خدا کے فضل کا جلوہ مرے صوفی نظام الدیں

 

خدا کے فضل کا جلوہ مرے صوفی نظام الدیں

درِ سرکار کا صدقہ مرے صوفی نظام الدیں

صحابہ کے ہوئے شیدا مرے صوفی نظام الدیں

عطائے غوث اور خواجہ مرے صوفی نظام الدیں

تجھے رب نے عطا کی ہے بڑی عظمت، بڑی رفعت

تمہارا مرتبہ اعلیٰ مرے صوفی نظام الدیں

تمہاری زندگی میں ہی خدا نے فضل یہ بخشا

ولایت کا ہوا شُہرہ مرے صوفی نظام الدیں

زبانِ خلق پر تیری سخاوت کا ہوا چرچا

بہایا فیض کا دریا مرے صوفی نظام الدیں

ہے نازاں اپنی قسمت پر ترا دامن مِلا جس کو

مِلا جس کو ترا ٹکڑہ مرے صوفی نظام الدیں

یقیناً تیرا عارفؔ بھی بڑا خوش بخت ہے مُرشِد

مِلا اِس کو ترا شجرہ مرے صوفی نظام الدیں

٭٭٭

 

فدائے احمدِ مختار ہیں صوفی نظام الدیں

 

فدائے احمدِ مختار ہیں صوفی نظام الدیں

ہمارے قافلہ سالار ہیں صوفی نظام الدیں

کبھی اہل دُول کی مدح خوانی کی نہیں جس نے

وہی مردِ جری، خوددار ہیں صوفی نظام الدیں

وہ ایسے مُتّقی ہیں جن پہ تقویٰ ناز کرتا ہے

علومِ دین کے شہکار ہیں صوفی نظام الدیں

متانت، سادگی، سنجیدگی، اُن کی مثالی ہے

حسین و خوبرو، دِلدار ہیں صوفی نظام الدیں

شعور و آگہی کے آسماں ہیں صوفی ملت

یقیناً رونق گلزار ہیں صوفی نظام الدیں

شب ظلمت میں یک ماہِ درخشندہ و تابندہ

خموشی میں نئی گفتار ہیں صوفی نظام الدیں

سہارا دیجیے آ کر ذرا اب اپنے عارفؔ کو

کہ دشمن درپے آزار ہیں صوفی نظام الدیں

٭٭٭

 

سرور کونین کا فیضان ہیں اختر رضا

 

سرور کونین کا فیضان ہیں اختر رضا

اس لیے دارین میں ذیشان ہیں اختر رضا

غوث اعظم کی عطا، ہند الولی کا فیض ہیں

گلشنِ احمد رضا کی جان ہیں اختر رضا

فضل رب سے رفعت و عظمت ملی ایسی انھیں

مسلک اہل سنن کی شان ہیں اختر رضا

دورِ مشکل میں بھی حق پر قائم و دائم رہے

درمیانِ خیر و شر فرقان ہیں اختر رضا

متقیوں کو بھی ان کے اِتِّقا پر ناز ہے

کیسے پیارے اور حسیں انسان ہیں اختر رضا

دیکھ کر جن کا جنازہ محوِ حیرت ہے جہاں

اللہ اللہ کس قدر ذیشان ہیں اختر رضا

اہلِ دنیا کی مسرّت ہے تلاشِ مال میں

اور عارفؔ کے لئے مُسکان ہیں اختر رضا

٭٭٭

 

پیکر خلوص حضرت مولانا غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحیؔ نظامیؔ کی کتاب ’خوشبوئے حسان‘ پر اظہار محبت

 

محبتوں کا گلستان خوشبوئے حسان

 تجمل رخ وجدان خوشبوئے حسان

برنگ صوت و صدائے درون قلب و جگر

 قرار و فرح سخندان خوشبوئے حسان

عطائے سید و سلطان و صاحب معراج

 صفائے فکر کا سامان خوشبوئے حسان

ہے حرف حرف میں آہنگ کا جہاں آباد

 ہے لفظ لفظ میں ایقان خوشبوئے حسان

وفا، خلوص و محبت کا استعارہ ہے

ہے فیض حضرت حسان خوشبوئے حسان

نگار خانۂ مدح و ستائش و توصیف

شرف کا لؤلؤ و مرجان خوشبوئے حسان

خدا قبول کرے آپ کے نوشتے کو

اے پیارے عارفؔ ذیشان خوشبوئے حسان

دعا ہے آپ کی نسلیں بھی مستفیض رہیں

لٹائے جب گل فیضان خوشبوئے حسان

نہ کیسے مطمح اہل ولا ہو اے واصفؔ

کرے منیر جب ایمان خوشبوئے حسان

از:  مولانا واصف رضا واصف مصباحی

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل