فہرست مضامین
- جھولی میں ہیرے اور موتی
- انتساب
- پیش لفظ !
- حرفِ آغاز
- ڈاکٹر طاہر تونسوی: اردو ادب کا روشن ستارہ
- عبد الوہاب خان سلیم: ایک کتاب دوست
- فیض احمد فیضؔ ۔ میرا پرنسپل
- فر خندہ لودھی۔ایک ادیب ایک کتاب دار
- پروفیسر ڈاکٹر عبد السّلام:محترم و معزز
- پروفیسر لطیف اللہ: نفیس انسان
- پروفیسر محمد احمد۔۔ خوش گفتار
- عبد الستّار ایدھی۔۔خدمت و عظمت کا نشان
- عبد الصمد انصاری : دھیما سا لہجہ ۔ تھوڑی سی شوخی
- میری ماں
- اپنی تلاش
جھولی میں ہیرے اور موتی
( شخصی خاکے )
(اس میں شامل حصہ ’یادوں کے دریچے‘ ایک الگ ای بک کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
انتساب
شریکِ حیات !
شہناز
کے نام
جمیل الدین عالیؔ سے اتفاق کرتے ہوئے کہ شریکِ حیات شریک تحریر نہیں ہوتی، اکثر باعثِ تحریر بھی نہیں ہوتی مگر کسی شرکت و مداخلت کے بغیر جان تحریر ضرور ہوتی ہے۔ وہ بے شمار قربانیوں کے ساتھ عملی تعاون نہ کرے تو مصنف /مولف صاحب کو لکھنے کی توفیق ہوتے ہوئے بھی لکھنے کی خدمت اور ہمت نہ ہونے پائے۔ (روزنامہ جنگ کراچی اتوار ۲۷ مئی ۲۰۱۲ء ۵ رجب المرجب ۱۴۳۳ھ)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پیش لفظ !
کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں، متبسم ہونٹ
ڈاکٹر خالد ندیم
شعبہ اردو، جامعہ سرگوھا
اگر ظاہری زندگی سے قبل روحوں کے باہمی تعلقات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے تو عالمِ ارواح میں راقم اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے درمیان خلوص و مروّت کے تعلقات کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
شرق پور، شیخوپورہ، منکیرہ (بھکر)، نارووال، نوشہرہ ورکاں اور حافظ آباد میں زندگی کے بائیس برس گزارنے کے بعد جب مجھے جامعہ سرگودھا میں تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا تو یہاں کالجوں کی فضا سے مختلف اور بہتر ماحول میسر آیا۔ اپنے رفقائے کار کی علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ جس ہستی نے اپنے کارناموں اور اندازِ گفتگو سے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا، وہ ڈاکٹر طاہر تونسوی تھے۔ یوں تو ان کی شخصیت کے بارے میں ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں رائے دیتا ہے، لیکن مجھے اس سلسلے میں صرف ایک ہی بات کہنی ہے اور وہ یہ کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے مجھ سے پہلے ہی دِن محبت کا جو رشتہ استوار کیا، میری بعض کوتاہیوں کے باوجود انھوں نے اس میں کبھی کمی نہ آنے دی اور آج اگر مَیں طوفانوں اور آندھیوں کے رُوبرو کھڑا ہوں اور میرے قدموں کے نیچے زمین ہے تو یہ طاہر تونسوی کی دین ہے۔ اگرچہ ہم صبح سے شام پانچ ساڑھے پانچ بجے تک تدریسی ذمے داریوں کی بجا آوری کے لیے ایک ہی شعبے میں رہتے تھے اور فرصت کے اکثر لمحات اکٹھے گزارتے تھے، لیکن مَیں رات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کسی نہ کسی بہانے پھر ان کی سرکاری رہائش پر پہنچ جاتا۔ ان کے ہاسٹل کے کسی استاد کا ادب سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا، تاہم ان کی محفل آرائی نے سب کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ وہ سب تو ان کی رفاقت میں خوش تھے، لیکن طاہر تونسوی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کے الجھنے سے بہت بے زار رہتے ؛ چناں چہ ان کا بھی جی یہی چاہتا کہ مَیں ایسے ہی چلتے پھرتے اِدھر کا چکر لگاتا جاؤں۔
شب و روز کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک رات تونسوی صاحب کہنے لگے کہ آؤ، کمرہ نمبر پانچ میں چلتے ہیں، تمھیں ایک انسان سے ملواتے ہیں۔ مَیں حیران تھا کہ طاہر تونسوی، جو کسی کے بارے میں کوئی توصیفی کلمہ بلاوجہ نہیں کہتے، پھر ہاسٹل میں کسی کے ساتھ ان کا کوئی خلوص کا ایسا رشتہ بھی نہیں، جس کا تعارف یوں کراتے۔ مَیں یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں سے کوئی مہمان آیا ہو گا، چپ چاپ ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ ہم جس کمرے میں داخل ہوئے، وہاں دائیں بائیں دو بیڈ لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ایک میز رکھا ہوا تھا۔ ایک بیڈ خالی اور دوسرے پر ایک صاحب کمبل میں لپٹے لپٹائے لیپ ٹاپ لیے جھکے ہوئے بیٹھے تھے۔ پہلی نظر میں ان کے چہرے کے خد و خال سامنے نہ آ سکے، لیکن جونہی انھوں نے چہرہ اوپر اٹھایا؛ کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں، متبسم ہونٹوں اور شیریں لب و لہجے نے ہمارا استقبال کیا۔
ایک شریف النفس انسان سے مل کر مَیں نہ صرف خوش ہوا، بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا، مَیں ایک مدتوں سے جس پُرخلوص انسان کی تلاش میں سرگرداں تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے توسط سے آج مجھے وہ مل گیا ہے۔
شیخوپورہ کی علمی و ادبی تنظیم ’دریچہ، کے دوستوں کے بعد سرگودھا میں اگر کسی ادبی شخصیت نے مجھے متاثر کیا تو وہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تھے۔ ان کی رفاقت میرے لیے اس قدر خوش گوار تھی کہ سرگودھا مجھے اپنے شہر کی طرح محسوس ہونے لگا۔ ان سے اکثر علمی موضوعات پر گفتگو رہتی اور وہ میرے کاموں کے بارے میں استفسار کرتے رہے۔ مَیں انھیں ایک علمی شخصیت سمجھنے کے باوجود محض ایک کتاب دار کی حیثیت دیتا رہا؛ لیکن ایک دِن انھوں نے اپنا خاکوں کا مجموعہ یادوں کی مالا عنایت کیا تو مجھے ایک خوش گوار حیرت کے ساتھ ساتھ اپنے سابقہ رویے پر سخت ندامت بھی ہوئی۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہیں کہیں سے پڑھتا بھی جاتا تھا اور بعض مقامات پر میری حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ میرے مشاہدے میں اکثر یہی آیا ہے کہ لائبریری سائنس کے لوگ بالعموم علم و ادب سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ کتاب کے عنوان کے علاوہ ان کا کتاب سے کم ہی تعلق ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر صمدانی کی تحریر نے میری رائے کو یک سربدل کے رکھ دیا۔ اس کتاب میں انھوں نے تقریباً چوبیس شخصیات پر قلم اٹھایا، جن کے بارے میں انھوں نے اپنے تاثرات، افکار اور انعکاسات پیش کیے تھے۔
ایک وقت آیا کہ ڈاکٹر صمدانی کو سرگودھا سے واپس اپنے شہر (کراچی) جانا پڑا۔ ان کی رفاقت سے مجھے جس قدر اطمینان ہوا تھا، ان کی واپسی میرے لیے اسی قدر اذیت ناک بھی تھی؛ لیکن کیا کِیا جائے، زندگی اپنے سفر پر رواں دواں رہتی ہے۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ ڈاکٹر تونسوی اور ڈاکٹر صمدانی کے جامعہ سرگودھا سے جانے کے بعد بھی اگرچہ مَیں روزانہ اس ہاسٹل کے قریب سے گزرتا ہوں، لیکن کبھی اس کے اندر جھانکنے کی ہمت نہیں پا سکا کہ اس ہاسٹل کی ساری رعنائی صرف انھی شخصیات کے دم قدم سے تھیں۔
لائبریری سائنس اور کتب خانوں کی تاریخ پر ڈاکٹر صمدانی کی کئی ایک اردو اور انگریزی تصانیف و تالیفات کے علاوہ ڈاکٹر عبد المعید، ڈاکٹر غنی الاکرام سبزواری، محمد عادل عثمانی اوراختر ایچ صدیقی کی شخصیات اور خدمات پر بھی ان کی کتب شائع ہو چکی ہیں۔
خاکہ نگاری اور سوانح نگاری میں بنیادی فرق لطافت اور ذمہ داری کا ہے۔ جہاں خاکہ نگار اپنے موضوع سے متعلق چند واقعات کے بیان سے ایک بھرپور تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے، وہیں سوانح نگار تحقیقی بنیادوں پر ممدوح سے متعلق تمام تر معلومات قاری کے سامنے پیش کرنے کی تگ و دَو میں مصروف نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے اپنی ان تحریروں کو خاکہ نگاری سے متعلق نہیں کہا، بلکہ انھوں نے ان نگارشات کو سوانحی خاکے اور سوانحی مضامین کا نام دیا ہے، البتہ اس مجموعے کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ مصنف ان شخصیات سے جذباتی طور پر متاثر نہیں اور نہ ہی وہ ان کی قصیدہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے ان شخصیات کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو بھی ان میں شامل کر کے انھی واقعات کے بیان تک محدود نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے تخلیقی حرارت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
زیرِ نظر مجموعہ میں ان کے سوانحی خاکے اور مضامین شامل ہیں۔ یہ مجموعہ سابقہ مجموعے سے اگلی منزل کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صمدانی نے اپنے تخلیقی سفر کو بد ریج طے کیا ہے اور اب وہ اس صنف کی اس منزل پر ہیں، جہاں خاکہ نگاری میں ان کا رنگ اپنی انفرادیت کا اظہار کرنے لگا ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ قریبی شخصیات پر لکھنے کے لیے خاکہ نگار کے پاس زیادہ مواد ہوتا ہے، اس لیے ایسے موضوعات پر وہ زیادہ سہولت سے لکھ سکتا ہے، لیکن یہ تصویر کا محض ایک رُخ ہے۔ شخصیت جتنی زیادہ قریب رہی ہو، اس پر طبع آزمائی کرنا اتنا ہی مشکل کام ہے اور پھر بعض لمحوں کو قلم بند کرنے میں بعض شخصیات کی تقدیس بھی حائل ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے والدہ محترمہ کے خاکے میں زیادہ فنی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس خاکے میں انھوں نے ایک بیٹے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ادیب کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ایسا خاکہ مصنف کے لیے بالعموم پل صراط پر چلنے سے کم دشوار نہیں ہوتا اور پھر صحیح سلامت منزلِ مراد تک پہنچ جاتا یقیناً ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ مقامِ مسرت ہے کہ ڈاکٹر صمدانی اس خاکے میں اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔ فقط ایک اقتباس دیکھیے اور خاکہ نگار کو داد دیجیے ’’ مَیں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔ امی نے بتایا تھا کہ نہیں معلوم کیا وجوہات ہوئیں، پیدائش کے وقت دائی نے بتا یا کہ نو مولود کو الٹا پیدا ہونا ہے، جس کی وجہ سے پیدائش کے وقت مشکلات پیدا ہو گئیں۔ امی نے بتا یا تھا کہ اس وقت دائی کو یہ کہتے سنا گیا کہ زچہ و بچہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی کو خطرہ لائق ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل میری نانی کا انتقال بھی بچے کی پیدائش پر ہوا تھا۔ میری والدہ کے لیے یہ لمحات اس حوالہ سے بھی پریشان کن رہے ہوں گے ‘‘۔
خاکہ نگاری شروع ہی سے دو مختلف سمتوں میں رواں دواں رہی ہے۔ ایک طرف شخصیت سے انس، محبت اور ہمدردی کا پہلو غالب رہا، جس نے شگفتگی کے باوجود تحریر کو غیر سنجیدہ نہیں ہونے دیا؛ جب کہ دوسری طرف خاکہ نگاری لطافت سے مزاح، مزاح سے ظرافت اور ظرافت سے جملے بازی تک پہنچ گئی۔ ڈاکٹر صمدانی اپنی نستعلیق شخصیت کی بدولت شگفتہ سنجیدگی کو اپنانے پر مجبور تھے، چناں چہ ان کی تحریروں میں روانی، سادگی، بے ساختگی اور لطافت کا پایا جانا فطری امر ہے۔
ڈاکٹر صمدانی کسی شخصیت کی مضحکہ خیزی یا کرداری تضادات کے باعث اسے خاکے کا موضوع نہیں بناتے، بلکہ وہ مہرو وفا اور خلوص و مروّت کے رشتوں سے انھیں منتخب کرتے ہیں۔ وہ اپنے تعلقات کی بنیاد پر دھیمے سروں میں گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور کسی دعوے یا ادعا کے بغیر اپنی ملاقاتوں اور ممدوح کی فتوحات سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی شخصیت نہ تو فرشتہ ہے اور نہ ہی وہ مجسمہ شر؛ بلکہ وہ انسانوں سے ملواتے ہیں، جو خوبیوں اور خامیوں کا امتزاج ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صمدانی نے ان خاکوں کے روپ میں تہذیبی شکست و ریخت اور سیاسی انتشار سے جنم لینے والی بعض بد نمائیوں کو واضح کیا ہے ؛ چناں چہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (گورنمنٹ کالج، ناظم آباد، کراچی) کے ان خیالات سے کون ان کار کر سکتا ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد حالات بالکل بدل گئے، دنیا ہی بدل گئی، وہ دنیا الگ تھی یہاں کی دنیا الگ ہے ؛ وہاں استاد کا احترام تھا، عزت کی جاتی تھی؛ طلباء میں کچھ حاصل کرنے کا جذبہ اور لگن تھی، جس کا اب فقدان پایا جاتا ہے۔ آج کا استاد سیاست میں شامل ہو گیا۔
بعض مقامات پر شاہد احمد دہلوی کی طرح ڈاکٹر صمدانی نے بھی حلیہ نگاری پر توجہ دی ہے۔ ایسے مقامات سے بخو بی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ میدان کی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ عبدالصمد انصاری کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’ نوجوان دیکھنے میں خوبصورت، مناسب، گورا رنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دست ترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، کالے گھنے بالوں میں اب رنگنے کے باوجود سفیدی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ؛ المختصر صورت شکل، وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوش گوار اظہار،۔
چوں کہ فی زمانہ نام نہاد ’حقیقت نگاری، کی آڑ میں گھٹیا سے گھٹیا حرکت کو آرٹ کا نام دیا جانے لگا ہے، چناں چہ جوش ملیح آبادی کی ’آپ بیتی‘ کے بعد کئی ایک ’پاپ بیتیاں‘ سامنے آئی ہیں، جن کے مصنف لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی ’حرکات‘ کا فخریہ اظہار کرتے ہیں ؛ لیکن ڈاکٹر صمدانی کا خدا بھلا کرے، ابھی ان کی صورت میں مشرق کی آنکھ میں کچھ روشنی باقی ہے۔ وہ اپنے موضوع سے متعلق بات کرتے ہوئے اپنی تہذیبی روایات کو نظر انداز نہیں کرتے، چناں چہ صمد انصاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ اسے میَں نے جتنے قریب سے دیکھا، شاید ہی کسی اَور نے دیکھا ہو گا۔ یہ میرے اور میَں ان کے بہت سے ظاہری اور خفیہ رازوں کا امین بھی ہوں۔ امانت دار کی حیثیت سے میں اپنے دوست کی صرف ظاہری خصوصیات پر ہی قلم اٹھاؤں گا، کیوں کہ امانت میں خیانت کسی بھی طرح اچھا فعل نہیں ‘‘۔ ڈاکٹر صمدانی کا یہ کہنا ان کے کردار کی طہارت کا آئینہ دار ہے کہ مَیں نے زندگی میں اپنے دوستوں کو ممکن حد تک سنبھال کر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی؛ جس کسی سے تعلقِ دوستی قائم ہو گیا، اس سے ناتا جوڑے رکھا۔ ڈاکٹر صمدانی کا یہ مقولہ ان کے زیرِ نظر خاکوں میں کئی مقامات پر عملی صورت اختیار کرتا ہوا دِکھائی دیا ہے۔
فیض احمد فیضؔ کے خاکے میں معلومات کی فراہمی کے لیے انھوں نے اپنی یادداشتوں کے ساتھ ساتھ دیگر منابع سے بھی استفادہ کیا، لیکن اپنی تحریر کو تخلیقی توانائی سے ادبی شہ پارہ بنا دیا۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی سے اپنے تعلق کو خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’مجھے کچھ عرصہ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی قربت کا شرف حاصل ہوا، یہ قربت جامعہ سرگودھا کے ٹیچرز ہاسٹل نے فراہم کی، جہاں پر وہ کمرہ نمبر۲ میَں اور میں کمرہ نمبر۵ کا مقیم تھا۔ یہ تحریر اسی قرابت داری کا پیش خیمہ ہے۔ اس مختصر سے عرصہ میں مجھے اپنے موضوع کو سمجھنے اور پرکھنے میں آسانی ہوئی، میَں نے اُنہیں قریب سے دیکھا، مختلف موضوعات پر کھل کر سیر حاصل گفتگو کی، سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میَں اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں ڈاکٹر طاہر تونسوی پر آسانی سے کچھ لکھ لوں گا، جیسے جیسے میں ان کی شخصیت کو ٹٹولتا گیا، میری مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب میَں نے ان کے کام کا مطالعہ کیا اور ان مضامین، خاکوں، ان پر لکھی گئی کتابوں اور رسائل کے خاص نمبروں کا مطالعہ کیا تو ایک مرحلے پر میَں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اپنا قلم بس یہیں روک لوں۔ ڈاکٹر صاحب سے اپنے اس ارادے کا ذکر کر چکا تھا کہ سوانحی مضامین یا خاکہ نویسی میرا مشغلہ ہے اور میَں آپ پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس وجہ سے حوصلہ نہیں ہوا یہ کہنے کا کہ ڈاکٹر صاحب یہ کام میرے بس کا نہیں۔ آپ پر تو بے شمار قلم کار طبع آزمائی کر چکے۔ بعض تو اردو ادب کا بڑا نام ہیں، میَں کہاں ؟ میرا مقام کہاں ؟ لیکن ڈاکٹر صاحب کی صحبت نے مجھے حوصلہ دیے رکھا اور میں اپنی منزل کی جانب بڑھتا گیا‘‘۔
اسی طرح فرخندہ لودھی کے خاکے میں بھی انھوں نے دیگر ذرائع سے معلومات یکجا کیں، لیکن ممدوح کی شخصیت کے جو نقش قلم بند کرنے میں وہ کامیاب ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کا اندازہ خاکے سے محض دو مختصر اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ’’سرخ سفید، صحت مند اور خوب رُو شخص کو ’سانولی سلونی‘‘ سیاہ، متجسس آنکھیں کیسے بھا گئیں ؟ صابر لودھی کو فرخندہ کی وہ متجسس آنکھیں ایسی اچھی لگیں کہ انھوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انھیں اپنا لیا۔ اس طرح پروفیسر صابر لودھی کو فرخندہ کے رُوپ میں وہ ملاحت مل گئی، جس کو دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں ‘‘۔
’’لائبریرین کا عہدہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں بہت ہی منفرد ہوا کرتا ہے ؛ کام سب سے زیادہ، تنخواہ سب سے کم۔ تعلیمی استطاعت اساتذہ کے مساوی، بسا اوقات ان سے بھی زیادہ؛ لیکن عزت و احترام میں ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک عام سی بات تھی۔ فرخندہ نے اس ماحول اور رویے کا مقابلہ کرنے اور اس میں بہتری کی عملی جد و جہد کا بیڑا اٹھایا۔ وہ ایک حساس طبیعت کی مالک تھیں، اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے نارَوا سلوک اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کھڑی ہوئیں تو منزل کو پا کر ہی دم لیا‘‘۔
زیرِ نظر خاکوں میں سوانحی معلومات بھی ہیں اور خاکہ نگار کا تخلیقی لمس بھی۔ ان کے مطالعے سے قاری کو صرف شخصیت کے ماہ و سال سے آشنائی ہوتی ہے، بلکہ بعض مواقع پر خاکہ نگار کے لب و لہجے اور تاثرات کی مدد سے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہونے لگتا ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے قبل یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے خاکہ نگار کو، اپنے قاری کو متاثر کرنے کی جلدی نہیں۔ وہ جملے بازی سے قاری کے لیے کوئی سامانِ ضیافت پیش نہیں کرنا چاہتے ؛ انھیں شہرت کی احتیاج بھی نہیں، وہ تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے چند کرداروں کے ذریعے اُس تہذیبی روشنی کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، جو بتدر یج تاریکی کی نذر ہوتی جا رہی ہے اور جس کے خاتمے کے بعد اگر انسان زندہ رہا بھی تو وہ شرفِ انسانیت سے ضرور محروم ہو جائے گا۔ انھوں نے بڑی عام فہم اور آسان زبان میں اپنے ہر موضوع کے بارے میں وہ کچھ لکھ دیا ہے، جو حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے روزمرہ باتوں اور واقعات کو علمی و ادبی رنگ دینے اور محض اسلوب کا جادُو جگانے کے بجائے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ ان کی تحریر کی خصوصیت بھی ہے اور ہمارے بعض ادیبوں کے لیے باعثِ تقلید بھی۔
قارئین کرام! زیرِ نظر خاکے ڈاکٹر صمدانی کے روشن ادبی مستقبل کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ راقم کو یقین ہے کہ اس میدان میں وہ کئی ایک فتوحات حاصل کریں گے اور اگر مستقل مزاجی سے کام لے سکے تو خاکہ نگاری کی تاریخ میں اپنے لیے ایک مقام مختص کرنے میں یقیناً کامیاب ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر خالد ندیم
شعبۂ اردو، جامعہ سرگودھا
۲۲ فروری ۲۰۱۲ء
حرفِ آغاز
موجودہ دور کمپیوٹر، انٹر نیٹ، موبائل اور آزاد میڈیاکا دور ہے، اختصاریت، عجلت پسندی، تیز رفتاری، ہر چیز کا کم سے کم وقت میں حصول موجودہ دور کا تحفہ ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی نے وقت کی رفتار کو ایک نئی جہت عطا کی ہے اور اس کی طنابوں کو کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ یہ رویہ زبان پر بھی اثرانداز ہوا، موبائل اور انٹر نیٹ پر پیغامات کے تبادلوں میں انگریزی میں اردو کی آمیزش سے ایک نئی زبان معرض وجود میں آ رہی ہے اس نے دونوں زبانوں کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اردو زبان ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ اردو میں انگریزی الفاظ کی غیر ضروری آمیزش اور رومانائیزیشن نے زبان کو متاثر کیا ہے۔
فاصلوں اور دوری کا احساس مٹ گیا ہے، نیٹ اور موبائل نے دوریوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ تغیر و تبدیلی کا یہ عمل ادب کو بھی متاثر کیے بغیر نہ رہ سکا، ناول کی اہمیت اپنی جگہ لیکن افسانے اور مختصر کہانیاں پسند کی جانے لگیں، طویل مخمس، مسدس اور مثنوی کے مقابلے میں غزل اور نظم کو پذیرائی ملی، سلسلہ وار کئی کئی قسطوں پر مشتمل ڈراموں کی جگہ کسی ایک موضوع پر سنگل ایپی سوڈ پر مبنی ڈرامے کو پسند کیا جانے لگا، اسی طرح طویل سوانحی مضامین کو خاکوں نے اپنے پیچھے بٹھا دیا۔ خاکوں کو پسند کیا جانے لگا۔ انسان کی زندگی کی کہانی سے دلچسپی برقرار رہی، البتہ طوالت کے مقابلے میں اختصاریت کو پسند کیا جانے لگا۔ خاکہ میں کیوں کہ کسی بھی شخص کی زندگی کے خاص خاص پہلوؤں کو ہی دلچسپی پیرائے میں تاریخوں اور سنین کے بغیر پیش کیا جاتا ہے، ساتھ ہی اس میں مزاح کا تڑکا بھی لگا دیا جاتا ہے جو قاری کی دلچسپی کا باعث بن جاتا ہے۔
میری خاکہ نویسی کی ابتدا سوانحی مضامین سے ۱۹۷۸ء میں ہوئی، سوانحی مضامین سے میَں خاکہ نویسی کی جانب آیا، یہ عمل الحمد اللہ ۳۴برس سے جاری ہے اس دوران میری مختلف احباب پر چار سوانحی تصانیف شائع ہوئیں ان میں ’ڈاکٹر عبدالمعید اور پاکستان لائبریرین شپ، ۱۹۸۱ء، اختر ایچ صدیقی (انگریزی )۱۹۹۵ء، محمد عادل عثمانی( انگریزی )۲۰۰۴ء اور’ ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری: شخصیت و علمی خدمات، ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئیں، ۲۰۰۹ء میرے سوانحی مضامین اور خاکوں کا مجموعہ ’’یادوں کی مالا‘‘ لاہور سے الفیصل کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ پیش نظر ’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘میرے خاکوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس میں زندہ لوگوں کے خاکے بھی ہیں اور ان کے بھی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام اور پروفیسر لطیف اللہ صاحب پر لکھی گئی تحریریں اُس وقت کی ہیں جب وہ حیات تھے۔ یہ دونوں میرے کالج میں مجھ سے قبل استاد تھے، میری والدہ کا انتقال ۲۰۰۹ء میں ہوا، اپنی ماں کا خاکہ بھی قلم بند کیا ہے، ساتھ ہی اپنے اوپر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی ہے، میرا اپنا خاکہ ’اپنی تلاش، کے عنوان سے ہے۔ اپنے بارے میں لکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن زمانے میں یہ بھی دستور رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی معروف ادیب و دانشور ہیں، ان سے میری دوستی سرگودھا میں ہوئی، وہ شعبہ اردو کے سربراہ تھے اور میَں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر تھا، وہ اور میں جامعہ سرگودھا کے ٹیچرز ہاسٹل میں پڑوسی بھی تھے، تونسوی صاحب سے یہی قربت دوستی میں بدل گئی، ان پر قلم بند ہونے والا خاکہ بھی اُسی قربت کے نتیجے میں تخلیق ہو سکا، یہ خاکہ فیصل آباد سے شائع ہونے والے جریدے ’’زر نگار‘‘ کی اشاعت جنوری تا جون، شمارہ ۷۔ ۸، ۲۰۱۱ء میں شائع ہو چکا ہے۔
عبد الوہاب خان سلیم ایک کتاب دوست انسان ہیں، گزشتہ ۳۸ سال سے امریکہ میں مقیم ہیں، کتابوں کے قدر داں ہیں اور قلم کاروں کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، ۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی میں یہ میرے بیج میٹ بھی تھے یعنی میں ایم اے سال اول میں تھا اور یہ فائنل ائر میں، ان کا خاکہ ’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل، شمارہ جون ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا شامل کتاب ہے۔
فیض احمد فیضؔ سے کون واقف نہیں، عام طور پر لوگ انہیں شاعر کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں اور وہ اسی حیثیت سے معروف بھی ہیں لیکن وہ ایک استاد، ماہر تعلیم اور اچھے منتظم بھی تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز لیکچر ر کی حیثیت سے ہی کیا تھا۔ کراچی میں آٹھ برس حاجی عبد اللہ ہارون کالج کے پرنسپل رہے، میَں ان کے زمانہ پرنسپل شپ میں اس کالج کا طالب علم تھا، بعد ازاں ۲۳ برسا سیِ کالج میں خدمات انجام دیں، فیض صاحب کے خاکے میں میَں نے انہیں ایک پرنسپل کے طور پر پیش کیا ہے، یہ خاکہ کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’نگارِ پاکستان‘‘ فروری ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ عبد الستار ایدھی سے یوں تو ہر کوئی متاثر ہے، میَں اور ایدھی بنیادی طور پر کراچی کی بستی ’لیاری‘ کے باسی ہیں، میری رہائش آگرہ تاج کالونی میں اور کالج کھڈہ مارکیٹ، نوا آباد دونوں ایدھی کی رہائش اور مرکزی آفس واقع میٹھا در سے نزدیک ہی تھے، میَں نے ایدھی کو اس کی بھر پور جوانی میں لیاری میں لوگوں کی خدمت کرتے دیکھا، ایدھی کے خاکے میں اس دور کی کہانی کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔
فرخندہ لودھی کا تعلق لاہور سے ہے، اردو اور پنجابی کی معروف افسانہ نگار، حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا، میری ہم پیشہ تھی، فرخندہ کا خاکہ بھی خراج تحسین ہے ایک ہم پیشہ کا اپنے ہم پیشہ کے لیے۔ پروفیسر محمد احمد صاحب میرے کالج ’حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج، کے پرنسپل رہے، ان کا خاکہ ان دنوں کی یاد دلاتا ہے، عبد الصمد انصاری میرے قریبی دوست ہیں ان سے میری قربت کو کوئی تیس سال ہو چکے ہیں، کراچی میں یہ میرے ہم زاد ہیں، سفر میں، ہجر میں، خوشی میں غمی میں، بارش میں طوفان میں، گرم و سرد موسم میں یہ میرے شریک ہوتے ہیں، ان کے خاکے میں دوستی کی تاریخ رقم کی ہے۔ اپنے ان تمام خاکوں میں مجھے اپنی ماں کا خاکہ لکھ کر جو اطمینان اورسکون میسر آیا وہ اپنی کسی اور تحریر سے نہیں ملا، اپنے خاکے میں اپنے آپ کو تلاش کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
جن محترم شخصیات کو میَں نے اپنا موضوع بنا یا ہے میری نظر میں وہ بڑے لوگ ہیں، میَں دل سے ان سب کا حد درجہ احترام کرتا ہوں۔ میری حتمی رائے یہی ہے کہ خاکہ نگار صرف اُسی شخصیت پر قلم اٹھا سکتا ہے اور اُسے اس کا حق بھی حاصل ہے جس کے لیے خاکہ نگار کے دل میں جذبۂ احترام موجود ہو۔ میَں شخصیت کے حوالہ سے مضحکہ خیزی کا بھی قائل نہیں، عزت و احترام اور مثبت باتوں کوسامنے لانے کا قائل ہوں۔ بعض احباب لوگوں کی منفی باتوں کو نمک مرچ لگا کر سستی شہرت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں میری نظر میں یہ مشرقی روایات اور تہذیب کے منافی ہے۔ میَں نے اپنے موضوعات کے ساتھ اپنے مراسم کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کا حصہ دوم ’یادوں کے دریچے‘ کے عنوان سے ہے، اس میں اپنی بھولی بسری یادوں کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے، جامعہ سرگودھا میں گزارے دنوں کی داستان ہے، جامعہ کراچی میں طالب علم کی حیثیت سے جو وقت گزرا اس کی تفصیل ہے، ایک رپوتاژ بھی ہے، کراچی سے لاہور کے ہوائی سفر کے دوران پرواز ناہموار ہوئی اور ہوائی جہاز ڈولنے لگا، اس وقت جو کیفیت ہوائی جہاز میں بر پا ہوئی اسے قلم بند کیا گیا ہے، آخر میں اپنی کتاب ’یادوں کی مالا، معروف ادیب اور قلم کار پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور اکرام الحق صاحب کا تحریر کردہ تبصرہ اور ایک تقریب جو میرے اعزاز میں منعقد ہوئی اس کی روداد بھی شامل کتاب ہے۔
جامعہ سرگودھا، شعبہ اردو کے استاد پروفیسر ڈاکٹر خالد ندیم نے از راہِ عنایت کتاب کا پیش لفظ بہ عنوان ’’کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں، متبسم ہونٹ‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا، ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کے توسط سے یہ میرے بھی دوست ہوئے، اب جب کہ میں سر گودھا سے واپس کراچی آ گیا ہوں، ڈاکٹر خالد ندیم صاحب سے رسم دوستی قائم و دائم ہے۔ ان کے ساتھ مختصر وقت گزرا لیکن اس مختصر سے وقت میں میَں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، میرے لکھے ہوئے خاکوں کو انہوں نے دلچسپی سے پڑھا، کچھ اصلاح بھی کی، مفید مشورے بھی دیے اور کتاب کا پیش لفظ تحریر فر مایا، میَں ان کا انتہائی ممنون ہوں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے از راہ عنایت کتاب کا فلیپ تحریر فرمایا، آپ کی رائے میری حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔ محترم ڈاکٹر سلیم اختر صاحب یوں تو میرے محترم دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی کے ہر دلعزیز استاد ہیں لیکن اُن سے تعلق ڈاکٹر تونسوی کے توسط سے ہی قائم ہو، میرا ایک تعلق ڈاکٹر صاحب سے براہِ راست یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیٹ کورس اس وقت کیا جب پاکستان میں لائبریری پروفیشن نے قدم اٹھانا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ آپ نے بھی اپنی رائے کا اظہار فرمایا۔ آپ کا بھی بے حد شکریہ۔
کتاب کی پروف ریڈنگ میرے کئی کرم فرماؤں نے کی ان تمام کا شکریہ لیکن اردو کی ایک استاد پروفیسر رونق افروز جن کا تعلق اب عثمانیہ گورنمنٹ گرلز کالج سے ہے نے کتاب کو بہت ہی توجہ کے ساتھ حرف بہ حرف پڑھا اور غلطیوں کی نشان دہی کی، میَں ان کا انتہائی شکرگزار ہوں۔
پیش نظر کتاب میں شامل خاکے سرگودھا میں اپنے قیام کے دوران لکھنا شروع کر دیے تھے، بعض مجبوریوں کے باعث جامعہ سرگودھا کو خیر باد کہنا پڑا، سعودی عرب کی مقدس سرزمین پر میرا قیام پانچ ماہ رہا، کراچی کی ہنگامہ خیز زندگی کو میں وہی چھوڑ آیا تھا، یہاں میرے پاس کرنے کو صرف تین کام تھے، کھانا، آرام اور عبادت کرنا، زیادہ قیام جدہ میں تھا جہاں مکّہ المکرمہ جانا بہت آسان تھا اور میں جاتا رہا، ان مصروفیات کے بعد میرے پاس جو بھی وقت تھا اسے لکھنے اور پڑھنے میں صرف کیا، الحمد اللہ اس کتاب میں شامل زیادہ تر خاکے ارضِ مقدس ہی میں لکھے گئے۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
جدہ، سعودی عربیہ، ۱۰اکتوبر ۲۰۱۱ء، مطابق ۹ذی قعدہ ۱۴۳۲ھ
ڈاکٹر طاہر تونسوی: اردو ادب کا روشن ستارہ
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر یا ان سے ملاقات کرنے کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کے شعور کا حصہ بن جائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی سے میری ملاقات کو ابھی مختصر وقت ہی ہوا تھا، ان کی شخصیت میں مجھے ایسی جادوئی کشش محسوس ہوئی کہ وہ میرے شعور کا حصہ بن گئے۔ ڈاکٹر صاحب میرے پرانے واقف کار نہیں ، ان کا شعبہ الگ ،میرا شعبہ الگ۔ ان سے دوستی کو سال بھی نہیں ہوا، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم برسوں پرانے وقف کار ہیں۔ ہمارے مابین ملتان کی مقدس سر زمین قدر مشترک ہے۔ ان کی جنم بھومی’ تونسہ شریف‘ ،میری جنم بھومی’ میلسی‘ ،جن میں دو تین سوکلو میٹر کا ہی فاصلہ ہو گا۔ میں دنیا میں ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو آیا، وہ یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو وارد ہوئے، اس طرح وہ مجھ سے ڈھائی ماہ آگے ہیں۔ انہوں نے کراچی کے ماری پور کے ماڈل اسکول سے اپنی عملی زندگی کا آغاز بہ حیثیت استاد کے کیا، میرا تعلق بھی مسرور بیس سے رہا، میَں نے سیکنڈری اسکول تک تعلیم اسی جگہ سے حاصل کی۔ وہ مکمل ادیب ،میَں ادیبوں کا چاہنے والاَ، وہ شاعر، میں شاعروں کے خاندان سے متعلق۔ وہ محقق، سوانح نگار اور خاکہ نگار، میں نے بھی اس موضوع پر تھوڑا بہت لکھا اور شخصیات کو اپنا موضوع بنا یا، سوانحی مضامین اور خاکے لکھے۔ اور سب سے اہم بات جو قربت سے سامنے آئی کہ ہمارے مزاج میں بڑی حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ اسی مطابقت نے ہی ہمیں مختصر وقت میں قریب کر دیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگوں میں اتنی خوبیاں جمع ہو جاتی ہیں کہ اگر مجھ جیسا شخص ان پر قلم اٹھانا چاہیے تو شخصیت کو قلم کی گرفت میں لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی صورت حال ڈاکٹر طاہر تونسوی کے ساتھ بھی ہے، وہ اس قدر خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ میرے لیے ان کی ان خوبیوں کو اور صلاحیتوں کو سمیٹنا مشکل ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ میں ان کے ساتھ انصاف نہ کر سکوں گا۔ میرے موضوع کا نام حفیظ الرحمٰن، طاہر تخلص، تونسہ شریف سے نسبت نے انہیں طاہر تونسوی بنا دیا۔ تونسہ ڈیرہ غازی خان کی ایک مشہور تحصیل ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے، کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں معروف صوفی بزرگ خواجہ محمد سلیمان تونسوی ابدی نیندسورہے ہیں۔ جن کی تعظیم سے تونسہ ’تونسہ شریف ، کہلاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تونسہ میں یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو کاشانہ محمود میں پیدا ہوئے۔ تونسہ کو اپنی شناخت بنا لیا، اب لوگ ان کے اصل نام سے بھی واقف نہیں۔ آپ اردو کے محقق، نقاد، شاعر، سوانح و خاکہ نگار، سرائیکی ادب کا منفرد حوالہ،ا ستاد اور مقر رکی حیثیت سے معروف ہیں۔ اپنے نام کے ساتھ تونسوی کے لاحقہ کا اضافہ کرنے کی وجہ آپ نے یہ بیان کی کہ’ تونسہ میں تصوف کی روایت کے ساتھ ساتھ ادب کی روایت بھی ہے، تونسہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات فکر تونسوی، سرور تونسوی اور فدائے ادب تونسوی اپنے زمانے کے معروف ادیب و دانش ور تھے۔ فکر تونسوی کی کتاب ’چھٹا دریا، بہت ہی معرکۃ الا آرا تصنیف ہے۔ اپنی اس تصنیف میں فکر تونسوی کا کہنا ہے کہ پانچ دریاؤں کی مقدس سرزمین میں چھٹے دریا کا اضافہ ہوا وہ خون کا دریا تھا، یعنی تقسیم ہند کے وقت انسانی جانوں کا جو خون بہا یا گیا، اُسے انہوں نے خون کے چھٹے دریا سے تشبیہ دی۔ سرور تونسوی بنیادی طور پر صحافی تھے ،ساتھ ہی مشاعروں کی روداد لکھنے کے ماہر بھی تھے، فدائے ادب تونسوی طنزو مزاح لکھتے تھے۔
۱۱مئی ۲۰۱۰ء کو میَں نے سر گودھا یونیورسٹی میں بہ حیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر جوائن کیا۔ رہائش یونیورسٹی کے ٹیچرز ہاسٹل کے کمرہ نمبر ۵میں تھی، جہاں میَں بائیو لوجی کے ڈاکٹر ظفر اقبال کا روم پا ٹنر تھا۔ شہر نیا، لوگ نئے، ماحول اجنبی، البتہ خالصتاً علمی۔ زندگی کا پہلا تجربہ تھا گھر سے باہر رہنے کا ،وہ بھی ہاسٹل لائف۔ اکثر احباب سے سنا کرتا تھا کہ ہاسٹل لائف عام زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ میَں شعبہ سے واپس ہاسٹل آتا اور عصر کی نماز کے لیے مسجدچلا جاتا اور پھر کیمپس کے پر فضا ماحول میں کھو جایا کرتا۔ جامعہ سرگودھا کا عین وسطی حصہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے ، اس میں وسیع و عریض سر سبز کھیل کے میدان، جن کے گرد لہلہا تے درخت حسین نظارہ پیش کرتے اور شام کے اوقات میں ان میدانوں میں طلباء ہر قسم کے کھیلوں میں مصروف نظر آتے۔ ان میدانوں کے چہار اطراف صاف ستھری سڑکیں صبح و شام جاگنگ ٹریک جہاں ہر عمر کے لوگ صبح و شام دوڑتے اور چہل قدمی کر تے نظر آتے۔ میَں بھی اس حسین منظر نامے کا حصہ بن گیا تھا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر واپس ہاسٹل کا رخ کرتا تو باہر کھلی فضا میں کرسیاں رکھی ہوا کرتیں اور ایک کرسی پر عام طور پر ایک صاحب کو مستقل بیٹھا ہوا دیکھا کرتا، میرے ہی ہم عمر تھے۔ میَں انہیں دور ہی سے سلام کر دیا، کرتا وہ مجھے اسی طرح جواب دے دیا کرتے۔ اکثر احباب ان کے پاس آ کر بیٹھتے اور چلے جاتے ، لیکن یہ مستقل مزاجی سے اپنی نشست پر براجمان رہتے۔ ایک دن ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ کرتے ہوئے تفصیلی تعارف ہوا۔ جب میَں نے انھیں یہ بتا یا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور میَں ڈاکٹر محمد فاضل کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے آیا ہوں، عمر تو کراچی میں گزری، لیکن پنجاب کا شہر میلسی میری جنم بھومی ہے۔ انہوں نے بھی اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام طاہر تونسوی ہے شعبہ اردو کا چیر مین ہوں۔ اب ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے۔ دور دور کے سلام قربتوں کے سلاموں میں بدل گے ، ساتھ ہی میَں باقاعدگی سے ان کی شام کی محفل کا مستقل حصہ بن گیا اور گرمیوں کی شامیں ایک ساتھ گزرنے لگیں ، حتیٰ کہ گرم شامیں سرد شاموں میں تبدیل ہو گئیں اور یہ بھی فرق ہوا کہ یہ محفل کھلی فضا کے بجائے میرے کمرے میں سجنے لگی۔ اس محفل میں ہمارے شریک ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹر عبدالرشید رحمت بھی ہوتے، ڈاکٹر ظفر بائیالوجی میں اور ڈاکٹر عبدالرشید رحمت، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ، ڈاکٹر صاحب کے رفیق کار ڈاکٹر خالد ندیم بھی اس محفل کے شریک ہوتے۔ ڈاکٹر خالد ڈاکٹر صاحب کے قریبی ساتھی ہیں۔ کبھی کبھار ڈاکٹر شاہد راجپوت ،جو ہمارے ہا سٹل کے میس سیکریٹری تھے ، شریک محفل ہو جا یا کرتے۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی شخصیت کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے اس شخصیت سے قربت ہی درست پس منظر مہیا کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہچان اس کے ساتھ سفر کرنے یا ایک ساتھ وقت گزارنے سے ہوتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کسی بھی بڑی شخصیت کی سوانح قلم بند کرنے کے لیے قلم کار کو اپنے موضوع کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑا اس قربت کے نتیجے میں ہی قلم کار اپنے موضوع کو جان سکا اور اس کی زندگی کے بارے میں لکھ سکا۔ ہیکٹر بولیتھوں نے قائد اعظم کی سوانح تحریر کرنے کی منصوبہ بندی کی تو اُسے قائد کی قربت حاصل کرنا پڑی اور اس مقصد کے لیے وہ پاکستان آیا اور قائد کے روز و شب کا ساتھی بنا۔ ستار طاہر نے شہید حکیم محمد سعید کی سوانح قلم بند کی تو انہیں بھی حکیم صاحب کے ساتھ کچھ دن گزارنے پڑے۔ میں ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ’زیادہ قربت بھی اس تناظر سے محروم کر دیتی ہیں ،جو شخصیت کو سمجھنے کے لیے مُحدب شیشے کا کام کرتا ہے ،۔ مجھے کچھ عرصہ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی قربت کا شرف حاصل ہوا، یہ قربت جامعہ سرگودھا کے ٹیچرز ہاسٹل نے فراہم کی، جہاں پر وہ کمرہ نمبر۲ میَں اور میں کمرہ نمبر۵ کا مقیم تھا۔ یہ تحریر اسی قرابت داری کا پیش خیمہ ہے۔ اس مختصر سے عرصہ میں مجھے اپنے موضوع کو سمجھنے اور پرکھنے میں آسانی ہوئی، میَں نے اُنہیں قریب سے دیکھا، مختلف موضوعات پر کھل کر سیر حاصل گفتگو کی، سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میَں اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں ڈاکٹر طاہر تونسوی پر آسانی سے کچھ لکھ لوں گا، جیسے جیسے میں ان کی شخصیت کو ٹٹولتا گیا، میری مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب میَں نے ان کے کام کا مطالعہ کیا اور ان مضامین، خاکوں، ان پر لکھی گئی کتابوں اور رسائل کے خاص نمبروں کا مطالعہ کیا تو ایک مرحلے پر میَں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اپنا قلم بس یہیں روک لوں۔ ڈاکٹر صاحب سے اپنے اس ارادے کا ذکر کر چکا تھا کہ سوانحی مضامین یا خاکہ نویسی میرا مشغلہ ہے اور میَں آپ پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس وجہ سے حوصلہ نہیں ہوا یہ کہنے کا کہ ڈاکٹر صاحب یہ کام میرے بس کا نہیں۔ آپ پر تو بے شمار قلم کار طبع آزمائی کر چکے۔ بعض تو اردو ادب کا بڑا نام ہیں، میَں کہاں ؟ میرا مقام کہاں ؟ لیکن ڈاکٹر صاحب کی صحبت نے مجھے حوصلہ دیے رکھا اور میں اپنی منزل کی جانب بڑھتا گیا۔
ڈاکٹرطاہرتونسوی حساس اور درد مند انسان ہیں، دوستوں کے دوست، خیال کرنے والے اور کام آنے والوں میں سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے، ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد ملک خدا بخش محمود محکمہ انہار میں ملازم تھے، ڈپٹی کلکٹر ریٹائر ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم تونسہ میں حاصل کی، ایم اے اور پی ایچ ڈی پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ طاہر تونسوی کی تر بیت میں ان کی والدہ عائشہ بی بی کا زیادہ حصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب تین بھائی( خلیل الرحمن، جمیل الرحمن) ہیں، بہن کوئی نہیں۔ ابھی آپ چھوٹے ہی تھے کہ والد صاحب کی توجہ سے محروم ہو گئے، جس کی وجہ والد صاحب کا دوسری شادی کر لینا تھا۔ آپ کی والدہ اور چچا ملک قادر بخش، جو بعد میں آپ کے سسر بھی ہوئے ، نے پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔ چوں کہ آپ اپنے بھائیوں میں بڑے تھے ، اس وجہ سے ذمہ داریاں اور مشکلات بھی زیادہ اٹھانا پڑیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی والدہ مرحومہ سے بے انتہا محبت و عقیدت رکھتے ہیں، ایک دن گفتگو میں والدہ کا ذکر کر کے آب دیدہ ہو گئے۔ آپ کا کہنا ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد گھر سے برکت ہی اٹھ گئی۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں والدہ کی برسی کے موقع پر آپ ملتان تو نہ جا سکے ، لیکن برسی کے سلسلے میں آپ کئی دن مسلسل متفکر رہے اور اپنے بیٹوں اور بہوؤں کو برسی کے سلسلے میں مسلسل ہدایت دیتے رہے، ان دنوں وہ خاصے رنجیدہ بھی رہے۔ اپنے بیٹوں (عامر حفیظ، ناصر حفیظ )، بہوؤں (گل رخ عامر، صبا ناصر)، پوتے محمد عبداللہ، پوتیوں دل نشیں (عنیزہ)، علیہا، طیبہ، فاطمہ اور سدرہ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو سعادت مند بہوویں ملیں، دونوں کا معمول ہے کہ ہر روز شام سات بجے کے بعد الگ الگ فون کرتی ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی خیریت دریافت کرتی ہیں، ڈاکٹر صاحب اپنی پوتیوں اور پوتے محمد عبد اللہسے بات ضرور کرتے ہیں۔ اپنی پوتیوں اور پوتے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے چہرہ پر دیدنی خوشی ہوتی ہے۔ شام ہوتے ہی آپ کو فون کا انتظار رہتا ہے ، اگر کسی وجہ سے فون نہ آئیں تو یہ از خود فون کر کے پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ’ ہاں بھئی کیا وجہ، خیریت تو ہے ، فون کیوں نہیں کیا،۔ ان کا پوتا ابھی چھوٹا ہے اور ابھی بولنا شروع کر رہا ہے، یہ اُسے بھی فون پر بلاتے ہیں اور صرف یہ کہتے ہیں کہ محمد عبد اللہ جانی! اپنے بوڑھے بابا کو ڈراؤ تو سہی۔ جواب میں یقیناً وہ صرف ہنستا ہو گا یا کسی بھی قسم کی آواز نکالتا ہو گا۔ اس کی اس ادا پر فریفتہ اور قربان ہوئے جاتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی پوتی فون پر نہ آئے اور ان کی بہو یہ بتائے کہ وہ سوگئی ہے تو یہ قدرِ متفکرانہ انداز سے دریافت کرتے ہیں ’کیوں بھئی! کیا بات ہے، طبیعت تو ٹھیک ہے‘۔ آپ کا انداز ایک مشفق باب کا ہوتا ہے۔ خاندان کے سربراہ کو جن خوبیوں کا مالک ہونا چاہیے ، وہ تمام کی تمام خوبیاں آپ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر تونسوی کی علمی خدمات کو حکومت پا کستان نے سراہتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں تمغہ امتیاز سے نوازا، مختلف ادبی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے بھی آپ کو اعزازات سے نوازا گیا، اسی سال۲۰۱۱ء میں ادارہ نیاز و نگار کی جانب سے آپ کو ’نشان نیاز ،(نیاز فتح پوری ایوارڈ) سے نوازا گیا۔ ان کے چاہنے والوں نے ان کی شخصیت سے متا ثر ہو کر ان کے خاکے اور سوانحی مضامین لکھے۔ آپ کی تخلیقات کا اشاریہ رابعہ سرفراز نے مرتب کیا، ڈاکٹر عامر سہیل نے ڈاکٹر طاہر تونسوی پر کتابیات مرتب کی۔ شہزاد بیگ نے ’ ڈاکٹر طاہر تونسوی: ایک مطالعہ ،کے عنوان سے کتاب مرتب کی، ڈاکٹر اسد فیض نے اعتبار حرف کے عنوان سے مجموعہ مرتب کیا، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے تنقیدی مضامین کا انتخاب ’فن نعت کی نئی جہت‘ کے عنوان سے محمد حیات چغتائی نے مرتب کیا۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی کی علمی کاوشوں پر جامعہ الا ازہر(قاہرہ )مصر میں ایمن عبد الحلیم مصطفی احمد نے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کی نگرانی میں بہ عنوان’ ڈاکٹر طاہر تونسوی بہ حیثیت تنقید نگار، پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا، بھارت کی ونو بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ(جھاڑکھنڈ) میں محمد عاشق خان نے ڈاکٹر جلیل اشرف کی نگرانی میں بہ عنوان ’ہم عصر اردو تنقید کے فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی خدمات،پرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، پاکستان کی تقریباً تمام ہی جامعات میں آپ کی شخصیت اور علمی کاوشوں پر ایم فل اور ایم اے کی سطح پر مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں فاروق فیصل نے ڈاکٹر شفیق احمد کی نگرانی میں ’ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تحقیق و تنقید کا تجزیائی مطالعہ‘ کے عنوان سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، سمیہ ناز نے ڈاکٹر عقیلہ شاہین کی نگرانی میں ایم اے اردو کے لیے اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور میں ’ ڈاکٹر طاہر تونسوی بحیثیت محقق و نقاد، مقالہ تحریر کیا، صدف ناز نے پروفیسر فہمیدہ شیخ کی نگرانی میں ایم اے اردو کے لیے جامعہ سندھ جامشورو میں ’ادبیات اردو کے فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کا کردار، کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا، صائمہ تبسم منصوری نے ڈاکٹر ہلال نقوی کی نگرانی میں ایم اے اردو کے لیے جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں ’ڈاکٹر طاہر تونسوی کی قلمی خدمات ،کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا، یونیورسٹی کالج آف ایجوکیشن ملتان میں طاہرہ بی بی نے ڈاکٹر شوکت مغل کی نگرانی میں ایم اے اردو کے لیے ’ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تعلیمی خدمات ، کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا۔ نسرین بتول نے ڈاکٹر عقیلہ جاوید کی نگرانی میں ایم اے اردو کے لیے جامعہ بہاء الدین ملتان میں مقالہ تحریر کیا۔ مختلف رسائل و جرائد نے ڈاکٹر طاہر تونسوی کے حوالہ سے خصوصی نمبر بھی شائع کیے :ان میں ماہ نامہ ’وجدان ،لاہور، ’ ہم عصر ،ملتان، ’ا ہل قلم، ملتان، ماہ نامہ’ شام و سحر، اور روزنامہ’ آفتاب، ملتان شامل ہیں۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی کی شخصیت ایک کھلی کتاب کی سی ہے، انہوں نے دوسروں پر اور دوسروں نے ان پر بہت کچھ لکھا، جو کتابوں اور رسائل میں محفوظ ہے۔ پھر بھی انسان کی شخصیت کے بعض پہلو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ مجھے اب ڈاکٹر سلیم اختر والا وہ طاہرتونسوی نظر نہیں آیا، جو ملتان میں بیٹھ کر لاہور کو سرکرنے کا ارادہ رکھتا تھا، نہ ہی چومکھی لڑتا ہوا ڈاکٹر طاہر تونسوی کہیں دکھائی دیا۔ یہ تو صلح جو ہے، امن پسند ہے، ہر ایک سے خوش ہو کر ملتا ہے، البتہ صاف گو، نڈر، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا اس کے مزاج کا حصہ ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی ہے۔ یہ بے چین بگولہ ضرور ہو گا،کیونکہ اپنی عمر کے اس حصہ میں جب کہ اکثر لوگ گھر بیٹھ جایا کرتے ہیں اور اللہ اللہ کرتے نظر آتے ہیں، ڈاکٹر طاہر تونسوی ہے کہ اللہ اللہ کے ساتھ بہت کچھ کر گزرنے کے بعد بھی بہت کچھ کرنے کی لگن اپنے دل میں لیے ہوئے ہے بلکہ عملی طور پر میدان عمل میں دکھائی دیتا ہے، ہشاش بشاش گھر سے دور ہاسٹل لائف گزار رہا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’ وہ طبعاً فعال شخصیت ہیں اور جس کام کو ہاتھ لگاتے ہیں اس کو ہر زاویے سے قابل توجہ بنا دیتے ہیں ،۔ عطاء الحق قاسمی نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’روزنِ دیوار سے ، میں تونسوی صاحب کے بارے میں لکھا کہ’’یونیورسٹی کے شعبہ اردو (سرگودھا یونیورسٹی ) کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر طاہر تونسوی جیسا ایک فعال سربراہ میسر ہوا۔ شوگر کا مرض انسان کو بے بس بنا کر رکھ دیتا ہے لیکن طاہر تونسوی نے شوگر کو بے بس بنا کر رکھا ہواہے۔‘‘۔
برصغیر میں کسی بھی جگہ اردو کے حوالہ سے منعقد ہونے والا کوئی سیمینار یا کانفرنس ڈاکٹر طاہر تونسوی کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ سر گودھا جیسے شہر میں عالمی اردو کانفرنس کروا ڈالی، جس میں پاکستان ہی نہیں ، ہندستان، بنگلہ دیش، مصر، امریکہ سے دانش وروں نے بھر پور شرکت کی۔ سرگودھا کہنے کو تو شاہینوں کا شہر ہے ،لیکن عوام الناس کے لیے ائر پورٹ کی سہولت سے محروم ہے، یہاں پہنچنے کے لیے اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد سے تین گھنٹے کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ اس مشکل کے باوجود عالمی اردو کانفرنس میں مندوبین نے بھر پور شرکت کی، کانفرنس کی کامیابی کا سہرا ڈاکٹر طاہر تونسوی ہی کو جاتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں منعقد ہونے والا نیاز، نگارو فرمان سیمینار کراچی میں منعقد ہوا، مجھے ڈاکٹر طاہر تونسوی کے ساتھ اس سیمینا میں شرکت کا موقع ملا۔ خوشی اس بات کی رہی کہ اس موقع پر طاہر تونسوی کراچی میں میرے مہمان تھے۔ تین دن مختلف شخصیات سے ملاقات بھی رہی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کے گھر ان سے ملاقات کی، انجمن ترقی اردو کے دفتر میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان صاحب سے بھی ملے، معراج جامی صاحب کے دفتر بھی گئے اور انہوں نے اپنے گھر چائے پر بھی بلایا۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ انہی دنوں ایکسپو سینٹر میں کتابوں کی عالمی نمائش کا افتتاح ہوا، اکیڈمی ادبیات کراچی کے ڈائریکٹر نور محمد پٹھان کی دعوت پر افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈین فیکلٹی آف آرٹس، جامعہ کراچی ڈاکٹر طاہر تونسوی کے دیرینہ دوست ہیں، انہوں نے از راہ عنایت اپنے گھر واقع یونیورسٹی کیمپس دعوت پر بلا یا، اس موقع پر ان کے ساتھ طویل نشست رہی۔ انہوں نے از راہ عنایت اپنی ذاتی لائبریری کا ایک حصہ بھی دکھایا، جو ان کے کیمپس کے مکان کے گیراج میں قائم ہے۔ کتابیں خوبصورت الماریوں میں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی ذاتی لائبریری مختلف جگہ بکھری ہوئی ہے۔ ان کی لائبریری دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہ گھر واقعی کسی پروفیسر کا گھر ہے۔
ایک وقت تھا جب ڈاکٹر طاہر تونسوی ادبی معرکہ آرائیاں کر تے نظر آتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس دور کے لکھنے والوں نے جب بھی ڈاکٹر طاہر تونسوی پر قلم اٹھایا تو ان معرکوں کو بنیاد بنا یا، حالانکہ انہوں نے ہمیشہ اصولوں پر اختلاف کیا۔ اس موقع پر وہ کبھی اپنے استادوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ، کبھی دوستوں کے لیے مخالفین کو جواب دیتے دکھا ئی دیتے ہیں۔ اپنے اُن معرکوں کے بارے میں اب ان کا کہنا ہے کہ’ مجھے ان سے نقصان ہی ہوا، فائدہ نہیں ،۔ طاہر تونسوی دوستوں کے دوست ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ ’ ’ میَں دوستوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا شخص ہوں ،اپنے دوستوں کا دفاع کرنے سےمیَں نے کبھی گریز نہیں کیا‘‘۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی طبعاً شاعر اور تخلیقی فن کار ہیں، شعر کہنا ان کی جبلت اور فطرت میں شامل ہے۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز شاعری ہی سے ہوا، ابتدا میں استاد فیض تونسوی سے اصلاح لی، ۔ پہلا شعر ۱۳ سال کی عمر میں کہا،جب وہ میٹرک میں تھے۔ یہ نظم بچوں کے لیے تھی، اس نظم کا ایک مصرع، جو تونسوی صاحب کو یاد ہے کچھ ایسے ہے ؎
میں ڈاکٹر بنوں گا جب میَں جوان ہوں گا
ابا سے پیسے لے کر دوائی میَں مفت دوں گا
ڈاکٹر طاہر تونسوی نے شاعر کی حیثیت سے ہی ادبی سفر کا آغاز کیا۔ دورانِ تعلیم ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر وحید قریشی اور خواجہ محمد زکریا جیسے اردو کے اعلیٰ پائے کے اساتذہ کی سر پرستی حاصل ہوئی اور عرش صدیقی جیسے پائے کی شخصیت نے ان کا حوصلہ بلند کیا۔ تحقیق و تنقید کی جانب مائل ہونے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر تونسوی نے بتا یا کہ ان کے محترم استاد ڈاکٹر سلیم اختر کے کہنے پر کہ میَں دو کشتیوں میں پاؤں نہ رکھوں اور شاعری کے بجائے تحقیق و تنقید کو بنیاد بناؤں میَں نے شاعری کو ثانوی حیثیت دینا شروع کر دی، لیکن ختم نہیں کی اور اپنی تمام تر صلاحیتیں تحقیق و تنقید پر صرف کیں۔ اور ایک تنقید نگار کے طور پر مقبول ہوئے۔ طاہر تونسوی نے اپنے اندر کے شاعر کو بھی جگائے رکھا، شعر کہتے رہے اور بہت خوب کہا۔ محسن نقوی نے طاہر تونسوی کی شعری صلاحیت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا کہ ’’طاہر تونسوی کم کم شعر کہتا ہے ، مگر سوچ سمجھ کر کہتا ہے ‘‘۔ شعر اور شاعر سے عقیدت طاہر تونسوی کے مزاج کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جب پہلی مرتبہ ایم اے میں مقالہ لکھنے کا موقع ملا تو انہوں نے ملتان کے شعرا کو اپنا موضوع بنا یا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جناب احسان دانش پر کام کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ احسان دانش کے ہمراہ اپنے استاد ڈاکٹر وحید قریشی کے پاس گئے ، لیکن ڈاکٹر وحید قریشی نے احسان دانش کو جواب دیا کہ آپ پر کام کرنے والے تو بہت ہیں ، ملتان کے شعرا پر کام طاہر تونسوی سے بہتر کوئی نہ کر سکے گا۔ احسان دانش نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور تونسوی صاحب نے ڈاکٹر وحید قریشی کی زیر نگرانی ’’ملتان کے شعرا‘‘ پر مقالہ قلم بند کیا۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں شائع ہوا تو اسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ اپنے موضوع پر پہلا اور منفرد کام تھا، اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے لکھا ’حافظ محمود شیرانی نے پنجاب میں اردو کو جہاں چھوڑا تھا ،طاہر تونسوی نے اس کو بہت آگے بڑھایا ہے ،۔ اے بی اشرف نے اس کتاب کو ’ملتان کی شعری تاریخ ،قرار دیا، تاج سعید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی محنت کرنا جانتا ہے ، اپنی اس تالیف سے ملتان کو زندہ جاوید تذکرہ بنا دیا ہے ،۔ ان کا شعری مجموعہ ’تو طے ہوا نا‘ ہے۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی کے پسندیدہ شعرا میں میرؔ، اقبالؔ، غالبؔ، فیضؔ، ندیمؔ اور فرازؔ ہیں۔ میر کو پسند کرنے کی وجہ میرؔ کاسوز و گداز، اقبالؔ کی قومی شاعری، غالبؔ کا رنگ سخن، فیضؔ کی انقلابی شاعری، ندیمؔ کا تہذیبی شعور اور فرازؔ کا رومان اور انقلاب سے بھر پور لب و لہجہ پسند ہے تاہم ڈاکٹر طاہر تونسوی کا کہنا ہے کہ فرازؔ زمانہ طالب علمی سے پسندیدہ شاعر ہے، میَں جب انٹر ویوز دیا کرتا تھا تو کسی نہ کسی طریقہ سے احمد فرازؔ کی شاعری پر گفتگو کیا کرتا تھا۔ اب جب کہ اللہ کے فضل و کرم سے انٹر ویوز لینے کا موقع ملتا ہے تو میں احمد فرازؔ کی شاعری کے بارے میں سوال ضرور پوچھتا ہوں اور اس کے یہ دو شعر مجھے پسند ہیں :
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے
فاصلہ کچھ نہیں ترے در تک زندگی راستے میں پڑتی ہے
ڈاکٹر طاہر تونسوی نے ادیبوں اور دانش وروں پر بھی قلم اٹھایا، آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالہ سے بھارت کے معروف دانش ور خلیق انجم نے کہا کہ ’ڈاکٹر طاہر تونسوی اعلا درجے کے لکھنے والوں میں ہیں۔ ادب میں ان کا صاف ستھرمذاق ہے ،۔ بھارت ہی ایک اور دانش ور، محقق ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ڈاکٹر طاہرتونسوی کو ’ایک نعل در آتش اور کار آگاہ محقق ، قرار دیا۔ آپ کی تخلیقات میں ’ہم سفر بگولوں کا‘‘ ’مسعود حسن رضوی ادیب حیات اور کارنامے ‘‘ ’ فیضؔ کی تخلیقی شخصیت‘‘ ’غالبؔ تب اور اب‘‘ ’ڈاکٹر سلیم اختر شخصیت و تخلیقی شخصیت‘‘ ’وہ میرا محسن وہ تیرا شاعر‘‘ ’ڈاکٹر فرمان فتح پوری احوال و آثار‘‘ ’دنیائے ادب کا عرش‘‘ ’سر سیدشناسی‘‘ ’جہت ساز قلم کار ڈاکٹر سلیم اختر‘‘ ’جہت ساز دانش ور ڈاکٹر عرش صدیقی‘‘ ’جہت ساز تخلیقی شخصیت ع س مسلم‘‘ ’شجرسایہ دار سحراکا‘(کشفی ملتانی) شامل ہیں۔ ـ
اقبالؔ سے ڈاکٹر طاہر تونسوی کو خاص عقیدت ہے، اقبالؔ کے حوالہ سے آپ کی متعدد کتب شائع ہوئیں ان میں ’حیات اقبال‘‘ ’ اقبال اور پاکستانی ادب‘‘ ’اقبال اور مشاہیر‘‘ ’اقبال اور سید سلیمان ندوی‘‘ ’ اقبال اور عظیم شخصیات‘‘ ’ا قبال شناسی اور نخلستان‘‘ ’اقبال شناسی اور النخیل‘‘ ’ اقبال شناسی اور نیرنگ خیال‘‘ ’اقبال شناسی اور نیاز و نگار،شامل ہیں۔ فیض احمد فیضؔ سے ڈاکٹر صاحب کو خاص عقیدت ہے۔ ’فیض کی تخلیقی شخصیت‘‘ ’ فیض احمد فیض :تنقیدی مطالعہ‘‘ ’ شاعر خوش نوا۔ فیض،ؔ (بسلسلہ فیض صدی) اور’ مطالعہ فیض کے ماخذات، (اشاریہ ) آپ کی تصانیف ہیں۔ غالبؔ کے حوالہ سے آپ کی کتاب ’غالب تب اور اب،(مسعود حسن رضوی کے مضامین) منظر عام پر آ چکی ہے جسے غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دلی نے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی اردو تنقید میں معتبر حوالہ ہیں، ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے انہیں ’ سماجیاتی دبستان کا نقاد قرار دیا ہے، ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ ’تحقیق و تنقید اور اقبالیات میں ڈاکٹر طاہر تونسوی نے اپنے لیے جو نام اور مقام بنا یا ہے ، وہ اس کی محنت کا ثمر ہے ‘‘ عرش صدیقی نے ڈاکٹر تونسوی کی تنقید کے حوالے سے رائے دی کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی کا تنقیدی اسلوب امتزاجی ہے ،۔ ڈاکٹر وحید قریشی کا کہنا ہے کہ’ ڈاکٹر طاہر تونسوی اپنی تاریخی اہمیت کی بدولت مستقبل کے محققوں اور نقادوں کے لیے دلیل راہ ثابت ہو گا،۔ بھارت کے انیس اشفاق کا کہنا ہے کہ’ ڈاکٹر طاہر تونسوی کے تنقیدی تجزیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مضامین میں لفظیات و اصطلاحات کی تکرار نظر نہیں آتی،۔ بھارت ہی کے رام لعل کا کہنا ہے کہ’ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تنقید تجزیے اور تبصرے کی حدود کو پار کرتی ہوئی ایک نئے انداز کے ادبی مطالعوں کا سالطف پیدا کر دیتی ہے ‘۔ تحقیق و تنقید پر آپ کی تصانیف میں ’تجزیے ‘‘ ’رجحانات‘‘ ’ہم سخن فہم ہیں ‘‘ ’ لمحہ موجود۔ ادب اور ادیب‘‘ ’افکار و تجزیات‘‘ ’ تحقیق و تنقید منظر و نامہ‘‘ ’ طنز و مزاح۔ تاریخ تنقید انتخاب، اور’ تذکرہ کتابوں کا‘ شامل ہیں۔
فریدیات، تصوف اور صوفیائے کرام سے محبت اور عقیدت ڈاکٹرتونسوی کا خاندانی ورثہ ہے، آپ نے صوفیائے کرم کو بھی خراج عقیدت پیش کیا اور تصانیف تحریر کیں ان میں ’لطیف شناسی‘‘ ’ آئینہ خانہ شاہ لطیف‘‘ ’ خواجہ غلام فرید :شخصیت و فن‘‘ ’ فرمودات فرید‘‘ ’مطالعہ فرید کے دس سال‘‘ ’عکس فرید‘‘ ’ خواجہ محمد ابراہیم یکپاسی اور ان کا خاندان، شامل ہیں۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی سرائیکی کے بھی ادیب ہیں، سرائیکی میں شعر بھی کہتے ہیں۔ سرائیکی ادب کی تخلیق کے حوالہ سے پروفیسر فتح محمد ملک نے لکھا کہ ’ڈاکٹر طاہر تونسوی کے ادبی کمالات کا ایک رخ سرائیکی دنیا کی ادبی اور تہذیبی شخصیت کی دلکش و دلنواز پیشکش بھی ہے۔ پاکستان کی تہذیبی زندگی کو ان کی یہ ایسی عطا ہے ،جسے اردو دنیا کبھی فراموش نہ کر سکے گی،۔ سرائیکی ادب میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی تصانیف میں ’چراغ اعوان دی ہیر‘‘ ’ سرائیکی ادب:ریت تے روایت‘‘ ’سرائیکی وچ مزاحمتی شاعری ‘‘ ’خوش دل۔ حیات تے کلام‘‘ ’ خیر شاہ‘‘ ’سرائیکی دے چونڑویں افسانے ‘‘ ’علامہ اقبال تے سرائیکی زبان و ادب ، اور’سرائیکی کتابیات ،شامل ہیں۔ دیگر کتب میں ’اردو اور بہا الدین زکریہ یونیورسٹی‘‘ ’صنف نازک کی شاعری‘‘ ’ صنف نازک کی کہانیاں ‘‘ ’نصاب تعلیم اور اکیسویں صدی‘‘ ’مسعود حسن رضوی، (کتابیات)، ’عرش صدیقی کے سات مسترد افسانے ، قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی کو اللہ تعالیٰ نے خداداد صلاحیتوں سے نوازا، وہ اپنے مضامین اور تصانیف کے عنوانات ایسے رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا ششدر رہ جاتا ہے اور فوری اس جانب متوجہ ہوتا ہے۔ کسی بھی موضوع پر انداز سرسری نہیں ،بلکہ وہ اپنے موضوع سے پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔ اپنے موضوع کے بارے میں تحقیق کی غرض سے انہوں نے دور دراز کے سفر بھی کیے ، تاکہ ذاتی طور پر حقائق جان سکیں۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی نے ملازمت کا آغاز کراچی کے ایک اسکول سے استاد کی حیثیت سے کیا۔ اردو میں ایم اے کرنے کے بعد ۹۷۴اء میں کالج لیکچر ر ہو گئے۔ ابتدائی تعیناتی گورنمنٹ کالج، ڈیرہ غازی خان میں ہوئی، بعد ازاں ملتان، لاہور، کہروڑ پکا، کبیروالا، اور میانوالی کے مختلف کالجوں میں پڑھاتے رہے، ترقی پا کر اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسر ہوئے، ۱۹۸۷ء میں پرنسپل ہو گئے اور مختلف کالجوں میں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۳ء میں ڈائریکٹر کالجز، ملتان ہو گئے، بعد ازآں ملتان انٹر میڈیٹ بورڈ کے چیرمین ہوئے، فیصل آباد انٹر میڈیٹ و سیکنڈری بورڈ کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مختلف علمی و تہذیبی اداروں سے وابستہ رہے، اسی دوران بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔ گورنمنٹ صادق ایجر ٹن کالج بہاول پور کے پرنسپل کی حیثیت سے ۳۱ دسمبر ۲۰۰۷ء کو ریٹائر ہوئے اور ۲۲ جنوری ۲۰۰۸ء کو سرگودھا یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا، شعبہ کی ترقی میں آپ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ، وہ جامعہ سرگودھا کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ شعبہ میں ایم فل کلاسز کا آغاز آپ ہی کی کوششوں سے ہوا۔ تین سال جامعہ سرگودھا میں خدمات انجام دینے کے بعد آپ نے فیصل آباد یونیورسٹی میں خدمات کا آغاز کیا، جہاں پر آپ صدر شعبہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ذاتی کتب خانوں کو منتخب، نایاب اور قلمی نسخوں کے حوالہ سے ہمیشہ سے انفرادیت حاصل رہی ہے۔ ماضی میں بے شمار علمی شخصیتیں ایسی رہی ہیں کہ جن کے ذاتی ذخیرے قیمتی اور نایاب علمی ذخیرے سے مالا مال تھے۔ آج بھی علم سے محبت کرنے والوں کے ذاتی علمی ذخیرے منتخب و نایاب کتابوں سے معمور نظر آتے ہیں ،ان علم کے قدر دانوں میں ایک نام ڈاکٹرطاہرتونسوی کا بھی ہے۔ ان کی ذاتی لائبریری ہزاروں کتب و رسائل سے آراستہ ہے۔ آپ نے اپنے گھر واقع ملتان کی بالائی منزل پر لائبریری بنوائی ،جس میں بے شمار علمی سرمایہ محفوظ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذخیرے سے 2/3حصہ ملتان کے نزدیک واقع جھنڈیر لائبریری کو دے دیا ہے، جس میں کتب و رسائل کے علاوہ کافی تعداد میں خطوط بھی شامل ہیں۔ جھنڈٖیر لائبریری میں ایک ہال ڈاکٹر طاہر تونسوی کے نام سے معنون ہے، اس میں گوشہ عرش صدیقی بھی ہے۔ غالبؔ سے ڈاکٹر صاحب کو خاص عقیدت ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے ذاتی ذخیرے میں غالب پر خصوصی مواد محفوظ کیا، گویا آپ کی لائبریری کی خصوصیت اس میں قائم ’گوشہ غالب ، ہے۔ آپ نے غالب پر اشاریہ بھی بنا یا ہوا ہے، جس سے تحقیق کرنے والوں کو بھی سہولت ہوتی ہے۔ فرح ذبیح نے ڈاکٹر صاحب کی لائبریری میں قائم گوشہ غالب کی توضیحی و تشریحی فہرست مرتب کی ،جو ۳۰۱ اندراجات پر مشتمل ہے۔ فرح ذبیح کا یہ مضمون سہ ماہی ’ہم عصر،میں شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی از خود اشاریہ کی افادیت سے بخوبی آگاہ ہیں، آپ تحقیق و تنقید کے آدمی ہیں، ادب کی یہ صنف تلاش و جستجو کا تقاضا کرتی ہے اور یہ تلاش و جستجو اشاریہ اور کتابیات کے ذریعہ ہی پوری ہوتی ہے، چناں چہ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے اشاریہ اور کتابیات کو بھی اپنا موضوع بنا یا۔ ان کی تصانیف و تالیفات میں اشاریہ اور کتابیات بھی ملتی ہیں۔ کتابیات میں ’مسعود حسن رضوی ،(کتابیات) مقتدرہ قومی زبان نے شائع کی، ’ سرائیکی کتابیات‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کی، اشاریہ کے حوالہ سے آپ کا مرتب کردہ اشاریہ ’مطالعہ فیضؔ کے ماخذات ،کے عنوان سے مقتدرہ قومی زبان شائع کر رہی ہے، اس کے علاوہ آپ نے غالبؔ،ؔ ، خواجہ فرید، شاہ لطیف اور فراز پر اشاریہ مرتب کیے ، جو مضامین کی صورت میں آپ کی تصانیف اور رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹرطاہرتونسوی از خود ہی محقق نہیں ،بل کہ محقق گر بھی ہیں اور تحقیق کرنے والوں کو تحقیق و جستجو میں دامے درمے سخنے کتابے معاونت بھی کرتے ہیں۔ اس معاونت کا سلسلہ باقاعدہ کسی بھی تحقیق کرنے والے کے سپر وائیزر کی صورت میں ہی نہیں بلکہ وہ مضامین لکھنے والوں، کتاب لکھنے والوں کو بھی رہنما ئی فراہم کرتے ہیں۔ اس رہنمائی کا کوئی وقت مقر ر نہیں، ہر وقت اور ہر جگہ لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ طالب کی داد رسی خوشی سے کرتے ہیں۔ مجھے تو وہ چلتا پھر تا رہنما ئی کرنے والا بگولہ دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر لوگ موبائل پر بھی ان سے رہنما ئی لیتے ہیں، میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی سے یہ کہا ہو کہ آپ کون ہیں، میرے پاس وقت نہیں یا اس مقصد کے لیے از خود حاضر ہوں۔
بلا تفریق، ہر کس و نا کس کی رہنما ئی کرنا ڈاکٹر صاحب کا معمول ہے، جس نے جس وقت جو معلومات مانگی ،انہوں نے اسی وقت اسے فارغ کر دیا۔ اپنے شعبہ میں بلند مقام پر پہنچنے کے بعد بھی سادگی کا یہ انداز ان کے بلند مرتبہ اور حقیقی استاد ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔ دوسری جانب وہ تحقیق کرنے والوں کے باقاعدہ سپر وائیزر بھی ہیں، ان کی نگرانی میں ڈاکٹر مختار ظفر نے ’ملتان کے نمائندہ شعرا، کے موضوع پر زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ملتان کے معروف شاعر ڈاکٹراسلم انصاری نے ’اردو شاعری میں المیہ تصورات :میر سے فانی تک، کے موضوع پر زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ رعنا محمد صفدر نے ’اردو آپ بیتی کی تاریخ :ابتدا سے ۱۹۴۷ء تک، کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، پروفیسرمحمد خان نے ’لکھنوی غزل میں مبالغہ ، کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، سجاد احمد پرویز نے ’اردو اور سرائیکی کے باہمی تراجم، کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، چودھری بشیر احمد نے ’اقبال بحیثیت وکیل ، کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، فرح ذبیح نے ’لطیف الزماں کے کتب خانہ میں ذخیرہ غالبیات کی توضیحی و تشریحی فہرست، کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، تسنیم آصف نے ’الطاف فاطمہ کی ناول نگاری کا فکری و فنی جائزہ، کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، حمید الفت ملغانی نے ’سرائیکی کتابیات ، کے موضوع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں نو طلباء و طالبات آپ کی نگرانی میں ایم فل کر رہے ہیں۔
گندمی رنگ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، کتابی چہرہ، درمیانہ قد، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، کلین شیو، سنا ہے جوانی میں نواب آف کالا باغ کی طرز کی مونچھیں ہوا کرتی تھیں، سر پر مختصر بال جن میں چاندی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا خزانہ، ہر موضوع پر تفصیلی اور حوالائی گفتگو، گفتگو میں بر محل خوبصورت اشعار کا استعمال، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔
اللہ تعالیٰ تونسہ شریف کے اس روشن ستا رہ کو شاد آباد رکھے، علم و ادب کے فروغ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی کی علمی خدمات ہمیشہ قائم دائم رہیں گی اور انہیں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے گا کہ میں نے جامعہ سرگودھامیں رہتے ہوئے کیا حاصل کیا تو میَں بڑے فخر سے یہ کہوں گا کہ میَں نے ڈاکٹر طاہر تونسوی کی دوستی حاصل کی، جو میری باقی ماندہ زندگی کا قیمتی سرمایہ ہو گی۔ چند اشعار ڈاکٹر طاہر تونسوی کے شعری مجموعے ’تو طے ہوا نا‘ سے :
تو طے ہوا نا کہ جب بھی لکھنا رتوں کے عذاب لکھنا
یہ دور اہل قلم پہ بھاری کہ مصلحت کی سبیل جاری
اجاڑ موسم میں تپتے صحرا کو آب لکھنا حُباب لکھنا
جو ہو سکے تو مرے حق میں فیصلے لکھنا
گناہ کو بھی ثواب کہنا ببول کو بھی گلاب لکھنا
شکستگی کے معا نی مری لغت میں نہیں
مَیں ٹوٹ جاؤں تو اس کو بھی زاویے لکھنا
شائع شدہ: زرنگار، فیصل آباد، شمارہ ۷۔ ۸، جنوری۔ جون ۲۰۱۱ء
عبد الوہاب خان سلیم: ایک کتاب دوست
کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے اسے ہر دور، ہر زمانے میں فضیلت حاصل رہی ہے۔ بہ قول حکیم محمد سعید شہید ’’کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، جس درسگاہ میں کتابیں نہ ہوں وہ ایسی درس گاہ کی مانند ہے جس میں طلباء نہ ہوں۔ جس شہر میں کتب خانے نہ ہوں وہ ایک شہر ویراں ہے اور جس کتب خانے میں لوگوں کو کتابوں سے عشق و محبت نہ ہو وہ کتب خانہ علم کی بس ایک نمائش گاہ ہے، یہ نمائش گاہ لگی بھی رہ سکتی ہے اور یہ نمائش زمانے کے ہاتھوں تباہ بھی ہو سکتی ہے ، ،۔ در حقیقت، کتاب ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے گزرے زمانے کی شمع کو کسی لمحے مدھم ہونے نہیں دیا۔ زمانے کی ترقی اسی مینارہ نور کی مرہون منت ہے۔ یہ ایک ایسا انمٹ لازوال سرمایہ ہے کہ جس نے انسانی ترقی کے تمام ادوار یعنی ماضی، حال اور مستقبل کو مربوط رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک دوسرے سے متعارف کرانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ سقراط کا کہنا تھا کہ ’’ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے ‘‘۔ فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے کہ ’’اچھی کتاب بے مثال دوست ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے ‘‘ کارلائل کے خیال میں ’’اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی یونیورسٹی ہے ‘‘۔ ملٹن کا کہنا تھا کہ ’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے ‘‘۔ کتاب سے اچھا کوئی دوست نہیں۔ کتاب سے دوستی اور عقیدت انسان کی زندگی پر خوشگوار اثرات ڈالتی ہے۔ کتاب سے عشق کرنے والوں کی زندگی خوشگوار اور مطمئن ہوتی ہے۔ یہ کہا نی ہے کتاب سے عشق کرنے والے کی، ایک ایسے عاشق کی جس نے اپنی زندگی میں کتاب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا، اس سے محبت کی، اس کی خوشبو سے اپنی روح کو منور رکھا اور دوسروں تک اسے پہچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس کی
زندگی اطمینان اورسکون سے عبارت نظر آتی ہے۔ بقول صہبا اختر ؎
کتابیں اُجالوں کی دِم ساز ہیں کتابیں ستاروں کی آواز ہیں
کتابوں کا مقصد ہے روحانیت کتابوں کا مذہب ہے انسانیت
کتابوں کی طاقت ہیں فکر و خیال ہے کتابوں کو ممکن نہیں زوال
کتابوں کو حاصل ہے وہ اقتدار جسے چھین سکتے نہیں تاجدار
خموشی کبھی ان پہ چھاتی نہیں کتابوں کی گویائی جاتی نہیں
میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، یونیورسٹی آف سرگودھا میں بہ حیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر منسلک ہوں، قیام، جامعہ کے ٹیچرز ہاسٹل کے کمرہ نمبر ۵ میں ہے، شعبہ اردو کے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی اسی ہاسٹل کے کمرہ نمبر ۲ کے مقیم ہیں۔ ڈاکٹر تونسوی اردو کے معروف ادیب، شاعر، نقاد اور دانش ور ہیں، ان کی علمی خدمات کو حکومت پاکستان نے سراہتے ہوئے دوسال قبل تمغہ امتیاز سے نوازا، ان کے چاہنے والوں نے ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر ان کے خاکے اور سوانحی مضامین لکھے، آپ کی تخلیقات کا اشاریہ رابعہ سرفراز نے مرتب کیا۔ ان کی علمی کاوشوں پر مصر اور بھارت میں ڈاکٹریٹ ہو چکی ہے، پاکستان کی تقریباً تمام ہی جامعات میں آپ کی شخصیت اور علمی کاوشوں پر ایم فل اور ماسٹر تھیسس لکھے جا چکے ہیں۔ ماہ نامہ ’وجدان ،لاہور نے ان پر خصوصی شمارہ شائع کیا۔ سرگودھا میں ڈاکٹر صاحب میرے دوست ہی نہیں بلکہ میرے ہاسٹل کی تنہائی کے ساتھی بھی ہیں، آج کل ہماری سرد شامیں ایک ساتھ میرے کمرے میں گزرتی ہیں اس سے قبل سرگودھا کی گرم شامیں باہر کھلی فضاء میں گزرا کرتی تھیں۔ یہ تفصیل میں اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ ایک کتاب دوست عبدالوہاب خان سلیم پر لکھنے کا سبب میرے یہی محترم دوست بنے۔ ایک دن میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو معلوم ہے کہ شخصیات میرا موضوع ہیں اور ان پر لکھنا میرا پسندیدہ شوق بھی ہے، میں (معذرت کے ساتھ) آپ پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہوں۔ میرے اس جملے سے وہ محظوظ ہوئے، اگلے ہی دن مجھے ایک کتاب لا کر دی، کہا کہ میرا ایک خاکہ میرے استاد ڈاکٹر سلیم اختر صاحب نے لکھا ہے وہ اس میں شامل ہے اسے آپ پڑھ لیں مدد ملے گی، کتاب کا عنوان تھا ’’درشن جھروکہ‘‘۔ یہ ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اردو کے معروف ادیب و دانش ور، اَسی (۸۰) سے زیادہ کتابوں کے مصنف، آپ وہی سلیم اختر ہیں جنہوں ۱۹۵۷ء میں جامعہ پنجاب، لاہور سے لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا تھا، پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں خدمات انجام دیں اور کتب خانوں کے موضوعات پر بھی کافی کچھ لکھا۔
’’درشن جھروکہ ‘‘میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک خاکہ تحریر کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’ دوستی کا گُلِ سرسبز‘‘، یہ سر سبز اور باغ و بہار شخصیت ہے ’’ عبد الوہاب خان سلیم‘‘ کی۔ یہ خاکہ پڑھ کر طبیعت تو خوش ہوئی، ساتھ ہی وہ ارادہ تقویت پا گیا جو کئی ماہ قبل جب میں کراچی میں تھا تو استادمکرم ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب کی خواہش تھی کہ میں عبد الوہاب خان سلیم کا انٹر ویو کروں تاکہ ایک علم دوست، کتابوں کے عاشق، لکھاریوں کے بہی خواہ، جو عرصہ دراز سے انگریز بہادر کی سرزمین امریکہ میں رہتے ہوئے کتابوں اور اُن سے تعلق رکھنے والوں پر اپنی دلی محبت نچھاور کر رہا ہے کی شخصیت کے بارے میں احباب کو معلوم ہو سکے۔ میں اس منصوبے پر عمل کرنے کا پروگرام بنا چکا تھا اور ایک سوال نامہ بذریعہ برقی ڈاک بہ توسط ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری اور براہِ راست عبد الوہاب خان سلیم کی صاحب زادی کو امریکہ بھیج چکا تھا۔ سال گزر گیا، متعدد بار یاد دہانی بھی کرائی، ایک دن عبد الوہاب خان سلیم نے فون پر بات بھی کی اور انٹرویو دینے کا وعدہ بھی کیا، لیکن وقت گزرتا گیا یہ ممکن نہ ہو سکا۔ عبد الوہاب خان سلیم پر ڈاکٹر سلیم اختر کا خاکہ میری اس تحریر کی بنیاد بنا، بہت ممکن ہے کہ خان صاحب اس تحریر کے بعد اپنے اور میرے استاد ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب سے کیے وعدے کے مطابق ٹیلی فون پر وقت دے دیں، تاکہ ایک علم دوست، کتاب اور کتاب کاروں سے محبت کرنے والا، جس کے توسط سے بے شمار پاکستانی مصنفین کی تصانیف آج امریکہ، لندن اور بھارت کے کتب خانوں کی زینت بن سکی ہیں طالبان علم ان سے استفادہ کر رہے ہیں کے بارے میں لوگوں کو زیادہ تفصیل سے معلوم ہو سکے۔
۱۹۷۲ء کی بات ہے میں ایم اے (لائبریری سائنس )سال اول، جامعہ کراچی کا طالب علم تھا، اپنے سینئرز(ایم اے سال فائنل) میں سے ایک صاحب کو جو دیگر طالبِ علموں کے مقابلے میں زیادہ عمر کے دکھا ئی دیتے تھے کو اکثر ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب کے کمرے میں آتے جاتے دیکھا کرتا تھا، گفتگو کا انداز انتہائی مٔودبانہ، عاجزی، انکساری کا پیکر۔ اس وقت ان کے پاس جو بھی کتابیں یا فائل ہوا کرتیں وہ انہیں اپنی بغل میں دبائے رکھتے تھے، اپنی اس ادا کے باعث یہ شعبے میں پہچانے بھی جاتے تھے۔ وہاب صاحب نے ۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کرنے سے قبل ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونیوسٹی سے لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا، جہاں پر وہ ڈاکٹر سلیم اختر سے ایک سال پیچھے تھے اور جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں موصوف مجھ سے ایک سال آگے تھے، یعنی میرے بیج میٹ تھے۔ ان کے کلاس فیلوز میں آبان رستم جی، لینا ڈی سوزا، اودیشی لچھمن، صابرہ سلطانہ، رئیسہ خاتون، سکینہ محمد، رخسانہ جمیل، سیدہ آمنہ قادری، ظہیر الدین اور بدر الدین خورشید اور احمد خان شامل تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اور عبد الوہاب خان سلیم کورس کرنے کے بعد جامعہ پنجاب کے کتب خانے سے بھی منسلک رہے۔
ٍ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ ’’میں پہلی نگاہ کے عشق کا تو قائل نہیں لیکن نگاہ میں دوستی کا قائل ہوں اور یہی وہاب کے معاملہ میں ہوا۔ امتحان پاس کر لینے کے بعد وہاب بھی یونیورسٹی لائبریری میں آ گیا یوں مزید قربت کے مواقع ملے۔ بس یوں سمجھیں کہ میری ’’سرپرستی ‘‘ میں آ گیا۔ ہم دونوں کی عمروں میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا میں اس سے چند برس بڑا تھا لیکن بہت کچھ دیکھ چکا تھا اور وہاب کے مقابلے میں خاصا تجربہ کار بلکہ جہاں دیدہ تھا۔ سو میں نے اپنے تجربات کی روشنی میں وہاب کو مشوروں سے نوازنا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے مشورے ؟ چنچل نار کو کیسے لطیفے سنا کر راغب کیا جا سکتا ہے ؟ کس طرح لڑکی سے چائے کی پیالی کا رومانس کرو اور کس لڑکی کو تواضع تک محدود رکھنا ہر گز دل نہ دینا اور کس سے پناہ مانگنا وغیرہ وغیرہ‘‘۔ جامعہ کراچی میں دوران طالب علمی عبد الوہاب خان سلیم نے اپنے دوست ڈاکٹر سلیم اختر کے ان مشوروں پر خوب خوب عمل کیا اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ وہ کراچی کی رنگینیوں کا لطف اٹھا کر، علم کی دولت سے مالا مال ہو کر تن تنہا ہی پنجاب واپس لوٹ گئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ڈاکٹر سلیم اختر کو عبد الوہاب خان سلیم کی شادی میں بالواسطہ کردار ادا کرنے کا موقع کیسے ملتا اور چھ فٹ کا شہ بالا بننے کا موقع بھی نہ ملتا اور بقول ڈاکٹر سلیم اختر ’’وہاب کو خورشید بھابی کی صورت میں ایسی نیک بخت اور سلیقہ شعار بیوی کیسے ملتیں ‘‘۔ کہتے ہیں اولاد مرد کی قسمت سے اور خوشحالی یعنی دولت عورت کی قسمت سے ملتی ہے۔ الحمد اللہ وہاب صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دونوں ہی چیزوں سے نوازا ہے، اولاد بھی اور دولت بھی۔ اولاد سعادت مند اور دولت جس کا وہ دل کھول کر جائز استعمال کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر اردو میں ایم اے بھی تھے چناں چہ وہ اردو کے لیکچر ر ہو گئے بعد ازاں پروفیسر کے مرتبہ پر فائز ہوئے جب کہ وہاب صاحب کراچی سے پنجاب اور پھر امریکہ چلے گئے اور پھر امریکہ کے ہی ہو رہے لیکن انہوں نے اپنی روح سے رشتہ نہیں توڑا جیسا کہ اکثر ہمارے نوجوانوں نے کیا کہ وہ گوروں کے درمیان جا کر اپنے جسم کے ہو رہے اپنی روح، اپنی سر زمین، اپنے لوگوں کو بھول گئے۔ وہاب صاحب نے امریکہ جانے سے قبل ڈاکٹر سلیم اختر سے کہا تھا کہ’ ’بھائی سلیم ! اگر چہ میں پیسہ کمانے جا رہا ہوں اور اس کے لیے سب کچھ کر گزروں گامگرپیسے کے علاوہ اور بھی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں ، ،۔ وہاب صاحب کا کہا سچ ثابت ہوا واقعی انہوں نے پیسوں کے علاوہ بھی بہت کچھ حاصل کیا، یوں تو ان کی امریکہ میں گزری پوری زندگی ہی ان کے کہے کی منہ بولتی تصویر ہے لیکن انہوں نے اولاد کی صورت میں سعادت مند اولاد، (چار بیٹیاں، ایک بیٹا) اور دیار غیر میں رہتے ہوئے وطن عزیز کے لوگوں کو بھلا یا نہیں، کتاب ،کتب خانوں، کتابداروں اور اہل قلم سے روابط قائم رکھے، ادیبوں، شاعروں، مصنفین و مولفین کی حوصلہ افزائی میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھی، پاکستانی مصنفین و مولفین کا تخلیق کردہ علمی سر مایہ بڑی تعداد میں آج امریکہ، برطانیہ اور بھارت کے کتب خانوں میں محفوظ ہے اور تشنگانِ علم ان سے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔ بے شمار مصنفین کی کاوشیں وہاب صاحب کے توسط سے منظر عام پر آ سکیں۔
میری عادت رہی ہے کہ میں اپنے نام موصول ہونے والے خطوط حتیٰ کے چھوٹی چھوٹی تحریریں بھی ردی کی ٹوکری کی نظر نہیں کرتا بلکہ انھیں محفوظ رکھتا ہوں۔ خطوط کی تعداد سینکڑوں میں ہو گی، خطوط کی ان فائلوں کو کبھی کبھار کھول کر بیٹھ جاتا ہوں تو یادوں کے دریچے واہ ہو جاتے ہیں۔ بعض ایسے احباب کے خطوط بھی ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں ان کی تحریریں جو میرے نام تھیں میرے پاس محفوظ ہیں۔ عبد الوہاب خاں سلیم پر اپنی تحریر مکمل کر چکا تھا اور اپنی ایک اور ہم پیشہ محترمہ فرخندہ لودھی مرحومہ پر لکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، خطوط کی فائلوں میں اچانک اپنے نام موصول ہونے والے عبد الوہاب خاں سلیم کے خط پر نظر پڑی، اقبال حسین صاحب سے اسی وقت درخواست کی کہ اگر رسالے کی کاپیاں نہ جڑی ہوں تو ایک پیراگراف کا اضافہ کر دیں، ان کی عنایت سے وہاب صاحب کا یہ خط بھی شامل خاکہ ہوا۔ یہ خط وہاب صاحب نے ۸ فروری ۱۹۸۳ء کو امریکہ کے شہر نیویارک سے تحریر کیا تھا۔ آپ کا خط مختصر ضرور ہے لیکن ایک تعلق کا خوبصورت اظہار، ہزاروں میل دور بیٹھ کر یاد رکھنا بڑی بات ہے۔ :
۸ فروری ۱۹۸۳ء
برادرم صمدانی صاحب !
سلام شوق، مزاج گرامی!
عزیزم، مجھے آپ سے چند ضروری باتیں کرنی ہیں میں آپ کو جانتا ہوں، ممکن ہے آپ نے بھی مجھے پہچان لیا ہو!
گزشتہ دنوں ایک خط غنی الاکرم سبزواری صاحب کا بھی مکّے سے آیا تھا۔ یہ خط موصول کر کے مجھے اپنے صحیح پتے سے آگاہ فرمائیں تاکہ میں آپ کو تفصیلی خط تحریر کر سکوں۔ براہِ کرم آپ مایوس نہ فرمائیے گا چند سطور مجھے تحریر کر دیجیے گا تاکہ میں آپ سے گفتگو کر سکوں۔ شکریہ
عبد الو ہاب خان سلیم
یقیناً میں نے وہاب صاحب کو جواب ضرور دیا ہو گا، لیکن اس کے بعد ہمارے مابین خط کتابت کا کوئی ریکارڈ میرے پاس نہیں نہ ہی مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہاب صاحب کا کوئی پتر آیا تھا۔ البتہ ہم دونوں کے استاد محترم غنی الا کرم سبزواری صاحب ہمارے مابین تعلق کا ذریعہ تھے، مجھے اکثر وہاب صاحب کے بارے میں کچھ کچھ معلوم ہوتا رہا ہے اور اسی طرح وہاب صاحب تک میرا نام بھی پہنچتا رہا ۔ یہ تحریر اسی تعلق اور محبت کا ثمر ہے۔
کتاب سے محبت ہی عبد الوہاب خان سلیم کو شعبہ لائبریری سائنس میں کھینچ لائی۔ کتب بینی اوراس سے عقیدت انہیں عشق کی حد تک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ کتاب تحفہ کے طور پر اپنے احباب کو دیتے بھی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے عبد الواہاب خان سلیم کے خاکے میں لکھا کہ وہاب ’’ہندوستان ، پاکستان بلکہ یورپین ممالک سے کتابیں اور جرائد خریدتا اور پڑھتا رہتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اردو دنیا کے تمام اہل قلم سے ٹیلی فون پر رابطہ رکھتا ہے۔ آپ پاک و ہند کے کسی بھی بڑے ادیب اور دانشور کا نام لیں، وہ وہاب کا دوست نکلے گا اور اس سے بھی بڑی بات۔ ۔ ۔ ۔ جس کے لیے حوصلہ ، ظرف اور زر کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ یہ ہے کہ جو کتاب اسے پسند آ جائے اسے خرید کر احباب اور معزز اہل قلم کو بطور تحفہ پیش کرتا ہے اور سنیے۔ ۔ ۔ ابھی اور بھی بتانے کو بہت کچھ ہے۔ گرما کے آغاز میں نیویارک میں بیٹھے وہاب کی جانب سے روح افزا کی نصف درجن بوتلیں حاضر اور جولائی میں آم۔ خود شوگر کا مریض مگر دور بیٹھا احباب کی تواضع کا اہتمام کر رہا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے جن خوبیوں کا ذکر کیا، یہ تمام کی تمام وہاب صاحب میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کا رابطہ اردو کے شاعروں اور ادیبوں سے ہی نہیں بلکہ لائبریری سائنس کے پیشہ سے تعلق رکھنے والے ہم پیشہ احباب سے ایسا ہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ عبدالوہاب خان سلیم اپنے استاد ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب سے گزشتہ چالیس برس سے مسلسل رابطے میں ہیں، کیونکہ سبزواری صاحب از خود امریکی شہری ہیں، ۲۷ برس مکہ الامکرمہ میں رہے، اب امریکہ میں زیادہ پاکستان میں کم رہتے ہیں۔ وہاب صاحب اور سبزواری صاحب میں استاد و شاگرد کے رشتے کے علاوہ عقیدت اور محبت کا مثالی تعلق بھی ہے۔
عبد الوہاب خان سلیم کے بارے میں ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری نے اپنی سوانح عمری بہ عنوان ’کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گُہر ہونے تک: تلخ و شیریں حادثات اور واقعات پر مبنی آپ بیتی، شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں وہاب صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’ ’وہاب صاحب نے ایک بار بتایا کہ ان کے پاس اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کی تقریباًدس ہزارکتابیں جمع ہو گئی ہیں۔ ان میں کثیر تعداد حج اور عمرے کے سفر ناموں کی ہے۔ ان میں بعض تو بہت ہی نایاب اور کمیاب نسخے ہیں جو انہوں نے ہندوستان ،پاکستان اور امریکہ کے کتب خانوں سے فوٹو کاپی کراکے محفوظ کیے ہیں۔ ایسے ہی ادبی رسائل اور سوانحی کتا بوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ مجلات ہندوستان اور پاکستان سے کافی منگوائے ہیں۔ ان کا حافظہ ماشاء اللہ بڑے غضب کا ہے۔ میرا خیال ہے ان کو ساری کتابوں کے مندرجات ازبر ہیں۔ جب بھی گفتگو ہوتی ہے مصنفین کے حالات ، واقعات ، سرگزشت اس طرح سناتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ میں نے ان سے کئی بار کہا کہ آپ اپنے ذخیرہ کتب کی کتابیات مرتب کریں چھپوامیں دوں گا۔ لیکن یہ کام ابھی تک نہیں ہو سکا‘‘۔ ایک اور جگہ سبزواری صاحب نے لکھا’ عبد الوہاب صاحب کو حج کے سفر نامے جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔ ایک مرتبہ جب کہ خان صاحب عمرے کے لیے گئے ہوئے تھے اور سبزواری صاحب کے مہمان تھے، وہاب صاحب نے سبزواری صاحب سے کہا کہ’ ’ مدینہ منورہ پرانے راستے سے چلیں کیونکہ پرانے سفر نامے میں رابغ، مستورہ، بدر اور دیگر مقامات کا بہت تذکرہ کیا گیا ہے ‘‘۔ سبزواری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ میں انہیں پرانے راستے سے مدینہ منورہ لے گیا۔ راستے میں ہم رابغ میں رکے وہاں ہم نے مچھلی اور چاول کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا یا۔ اکثر سفر ناموں میں حجاج کرام نے رابغ میں مچھلی کھانے کا لکھا تھا‘‘۔ سبزواری صاحب نے یہ انکشاف کر کے یہ بات بھی عام کر دی کہ خان صاحب کا ذاتی ذخیرہ ہزاروں نایاب کتب پر مشتمل ہے۔ نیز آپ کی اس رائے میں وزن ہے کہ خان صاحب کو اپنے ذخیرہ کی کتابیات مرتب کرنی چاہیے۔ یہ مفید اور تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید تر ہو گا۔
عبدالوہاب خان سلیم بزرگوں خصوصاً اور اپنے اساتذہ کا حد درجہ احترام کرتے ہیں۔ استادوں کی تعظیم کرنا، ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر جھکے رہنا، نظر نہ اٹھا نا جیسے مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے اس وقت دیکھے جب وہاب صاحب جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں طالب علم تھے میں ان سے جونیئر تھا لیکن وہاب صاحب کو مودبانہ انداز میں اساتذہ کے سامنے متعدد بار دیکھا۔ استاد سے حد درجہ عقیدت اور محبت کی مثال جس کا ذکر ڈاکٹر سبزواری نے اپنی سوانح عمری میں کیا اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے۔
سبزواری صاحب جب جامعہ کراچی میں استاد تھے تو وہاب صاحب ایم اے کر رہے تھے، سبزواری صاحب جامعہ کراچی کے کیمپس میں اور وہاب صاحب ہاسٹل میں رہا کرتے تھے، وہاب صاحب اکثر اپنے استاد کے گھر جایا کرتے تھے، وہاب صاحب ایم کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے اور سبزواری صاحب مکہ المکرمہ چلے گئے۔ سبزواری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ وہاب صاحب امریکہ سے پاکستان گئے، جامعہ کراچی کیمپس جا کر سبزواری صاحب کے سابقہ مکان سی ۴۰ بھی گئے، اس مکان میں اُس وقت جامعہ کے ایک دوسرے استاد رہائش پذیر تھے، وہاب صاحب نے ان سے ملا قات کی اور ان سے کہا کہ ’اس مکان میں میرے استاد رہا کرتے تھے میں اُن کے پاس آیا کرتا تھا، مجھے اُن سے بہت عقیدت تھی اور اب بھی ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس مکان کے دروازے کو بوسہ دینا چا ہتا ہوں ،۔ ان استاد صاحب نے کہا ضرور۔ وہاب صاحب نے دروازے کو بوسہ دیا اور جانے لگے تووہ استاد صاحب وہاب صاحب کو عزت سے گھر میں لے گئے کچھ خاطر مدارت کی اور فرمایا’ ’میں حیران ہوں کہ آپ اپنے استاد سے اِس قدر محبت کرتے ہیں۔ ہم تو ایسے شاگردوں کو ترستے ہیں ‘‘ـ۔ کچھ اسی قسم سے وہاب صاحب نے سبزواری صاحب کے مکہ المکرمہ سے واپس آ جانے کے بعد سبزواری صاحب کے مکہ الکرمہ والے گھر بھی تشریف لے گئے اور مالک مکان جو کہ عربی تھا سے اجازت لے کر دروازہ کو بوسہ دیا۔ یہ ہے اپنے بزرگوں خصوصاً اساتذہ سے انتہائی محبت اور عقیدت، جس کا عملی مظاہرہ عبدالوہاب خان سلیم نے کیا۔
عبدالوہاب خان سلیم۶ فروری ۱۹۳۹ کو دریا باد، ضلع بارہ بنکی(یو پی) ہندوستان میں پیدا ہوے۔ ابتدائی تعلیم ضلع مراد آباد، سنبھل، حسن پور میں حاصل کی۔ میٹرک سیالکوٹ سے کیا، ایف اے، بی اے، مرے کالج، سیالکوٹ ہی سے کیا۔ ڈپلو ما لابٔریری سایِنس ۱۹۶۰ میں پنجاب یونیورسٹی سے اور ایم اے لابٔریری سایِنس ۱۹۷۱ میں کراچی یونیورسٹی سے کیا۔ پنجاب یو نیورسٹی لابٔریری میں ۱۹۵۹ سے ۱۹۷۳ تک اسسٹنٹ لابٔریرین کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ ۱۹۷۳ میں امریکہ چلے گیِ۔ آپ کی ما شا اللہ چار بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا۔ لڑکا اور لڑکیاں ڈاکٹر اور انجینٔیر ہیں، ایک بیٹی فارمیسسٹ ہے۔ بہ فضل تعالیٰ امریکہ میں خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
عبدالوہاب خان سلیم کو اللہ نے فراغ دل اور مدد کرنے والا جذبہ عطا کیا ہے۔ وہ اپنے شناسا احباب کی معاونت کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ لکھاریوں کی دل سے مدد کرتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان لائبریرین شپ کی معروف شخصیت پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی سوانح بہ عنوان ’پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ: شخصیت اور کام، شائع ہوئی جسے ہما منان بٹ نے مرتب کیا۔ یہ سوانح وہاب صاحب کی تحریک پر مرتب ہوئی اور اس کی اشاعت میں عبد الوہاب خان سلیم کی حوصلہ افزائی بھی شامل ہے جس کا اعتراف مولفہ نے کتاب کے تعارف میں اس طرح کیا ’ ’میں عبدالوہاب خان سلیم کی اس عنایت کی بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مالی معاونت بھی کی اور ہمت افزائی مسلسل کرتے رہے ‘‘۔ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا وہاب صاحب کی سرشت میں شامل ہے۔ کتاب میں مختلف احباب کے خطوط بھی شامل ہیں ان میں سے وہاب صاحب کے تین خطور صفحہ نمبر ۲۳۳۔ ۲۳۶ پر ہیں، یہ خطوط وہاب صاحب کی اپنی تحریر میں ہیں۔ اپنے ایک مکتوب بنام ڈاکٹر نسیم فاطمہ تحریر شدہ یکم اگست ۲۰۰۵ء میں وہاب صاحب نے لکھا ’’ مجھے خوشی ہوئی ہے آپ نے اپنی خود نوشت لکھنا شروع کر دی ہے۔ اس خود نوشت کی اشاعت پر جو بھی خرچہ ہو گا سب ادا کروں گا، گزشتہ روپیہ آپ کے پاس ہے جو کمی ہو گی میں اور دے دوں گا اور خوشی سے دوں گا، بس آپ محنت کر کے خود نوشت مکمل کر لیں ‘‘۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں اور بھی پائی جاتی ہیں کہ وہاب صاحب نے مصنفین کی حوصلہ افزائی کی جس کے باعث ان کی تخلیقات منظر عام پر آ سکیں۔ صہبا اختر نے کیا خوب نظم ’’کتابیں ‘‘ مصنفین کے بارے میں کیا خوب کہا ہے ؎
مبارک ہیں وہ ہاتھ اور قلم
جو کرتے ہیں زندہ کتابیں رقم
کتابوں میں جس نے اضافہ کیا
سرِ طاق فن اِک دیا رکھ دیا
عبد الوہاب خان سلیم اللہ کی وحدانیت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ خوف خدا کے جذبے سے سر شار مذہبی ذہن کے مالک ہیں۔ متعدد عمرے اور حج کر چکے ہیں، سنا ہے ہر سال ہی زیارت بیت اللہ کو جاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر سبزواری ’’ عبد الوہاب صاحب ربِ کعبہ نے اسِ قدر دینی جذبہ اُجاگر کر دیا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ماشاء اللہ مسلسل آٹھ حج کیے ‘‘۔ سبزواری صاحب لکھتے ہیں کہ ’ ’عبد الوہاب خان سلیم پہلی بار اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد ارشد خان صاحب کے ساتھ عمرے پر تشریف لائے میں ان کو جدہ ایئر پورٹ پر لینے گیا۔ قیام ہمارے ہاں ہی رہا۔ ان کو عمرہ کرانے حرم شریف لے گیا جوں ہی ہم باب عبد العزیز سے حرم شریف میں داخل ہوئے۔ اُن کی نظر بیت اللہ شریف پر پڑی بس وہیں سجدے میں گر گئے اور زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے اور توبہ استغفار کرتے رہے۔ میں نے ان کو اٹھا یا اور مطاف میں لے گیا۔ عمرہ کرایا۔ عمرے کے دوران روتے رہے ا اور توبہ استغفار کرتے رہے ‘‘۔
معراج جامی، وہاب صاحب کے خصوصی نمائندے اور دوست ہیں، کراچی میں رہتے ہیں، شاعر ہیں، ناشر ہیں، کتابیں اور رسائل شائع کرتے ہیں۔ ماہ نامہ ’پرواز،لندن، ماہ نامہ ’سفیر اردو ، لیو ٹن اور سہ ماہی ’ارتباط ، استنبول کے مدیر بھی ہیں۔ جامی صاحب نے وہاب صاحب کے بارے میں بتا یا کہ ’’ میرا تعلق وہاب صاحب سے بہت قدیم ہے لیکن میری آج تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی بس فون پر گفتگو ہوتی ہے۔
عبدالوہاب خان سلیم کتابوں کے دیوانے ہیں، اچھی کتاب یا ان کے خصوصی موضوعات پر کوئی کتاب ان کے علم میں آ جائے تو وہ کسی نہ کسی طرح اُسے حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں متعدد ایسے دوست بنائے ہوئے ہیں جو ان کی اس خواہش کی تکمیل کو ممکن بناتے ہیں۔ میں بھی اسی قسم کا فریضہ ان کے لیے انجام دیتا ہوں۔ جامی صاحب نے بتا یا کہ کتاب سے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ان کے ذاتی ذخیرے میں ہزاروں کتابیں ہیں، انہوں نے اپنے گھر کے علاوہ اپنی بڑی بیٹی کے گھر کا تہہ خانہ بھی اسی غرض سے لے لیا ہے اور وہ بھی کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ نے بتا یا کہ وہاب صاحب کے خاص یا پسندیدہ موضوعات خود نوشت، سوانح، خاکے اور سفر نامے ہیں۔ ان کے پاس ان موضوعات پر بے شمار نایاب اور قیمتی کتابیں موجود ہیں۔ آپ نے کہا کہ وہاب صاحب دوستوں کے دوست، خیال کرنے والے اور یاد رکھنے والوں میں سے ہیں۔ وضع دار انسان ہیں۔ دنیا دار ہی نہیں دین دار بھی ہیں، تقریباً ہر سال عمرہ کرتے ہیں ‘‘۔
عبدالوہاب خان سلیم پاکستان سے شائع ہونے والے رسالے ’’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل‘‘ جس کے سبزواری صاحب مدیر اعلیٰ اور میَں ایسو سی ایٹ چیف ایڈیٹر ہوں کے امریکہ کے لیے نمائندہ خصوصی کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ ’لائبریری پروموشن بیورو، جو اس رسالے کی اشاعت کا اہتمام بھی کرتا ہے نے پچاس سے زائد کتب بھی شائع کی ہیں۔ عبد الوہاب خان سلیم نے از راہ عنایت اس ادارے کی تمام کتابیں خرید کر ہندوستان میں علی گڑھ یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ کرا دی ہیں۔ کراچی میں موجود وہاب صاحب کے دوست معراج جامی صاحب نے یہ فریضہ انجام دیا۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے وہاب صاحب کے خاکے میں جامی صاحب کو ایک تجویز دی تھی کہ جامی صاحب اپنے رسالے سفیر اردو کا ایک شمارہ وہاب صاحب کے لیے مخصوص کر دیں۔ معقول تجویز تھی، جامی صاحب کو پسند بھی آئی لیکن اس تجویز پر عمل نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کی تجویز اور ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب کی تجویز کہ عبدالوہاب خان سلیم اپنے ذاتی ذخیرے کی فہرست مرتب کریں جس کی اشاعت کو ممکن بنا یا جائے تاکہ علم کے شیدائیوں کو وہاب صاحب کے ذخیرہ کتب کا علم ہو سکے اور وہ اس سے فیض حاصل کر سکیں۔ دونوں تجاویز مناسب ہیں۔
وہاب صاحب کے لیے تیسری تجویز میری بھی ہے کہ وہ اپنے تجربات و مشاہدات سے آنے والی نسل کو بہرا مند فرمائیں اور اپنی سوانح حیات قلم بند کریں۔ خود نوشت اور سوانح حیات تو وہاب صاحب کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ وہاب صاحب احباب کی سوانح میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں سوانح لکھنے کی تر غیب دیتے ہیں تو ان کی سوانح میں دیگر لوگوں کی دلچسپی کا خیال کرتے ہوئے خان صاحب کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے بے شمار خود نوشت اور سوانح حیات کا مطالعہ بھی کیا ہے، ان کے لیے یقیناً یہ کام مشکل نہیں ہو گا۔ سوانح حیات قلم بند کرنا ایک علمی، ادبی اور تاریخی فریضہ ہوتا ہے۔ ایسے احباب جن کی زندگی نشیب و فراز سے دوچار رہی ہو، جو سیلف میڈ رہے ہوں، ان کی جد و جہد دوسروں کے لیے نمونہ ہو، سب سے بڑھ کر اللہ تبارک تعالیٰ نے انہیں صلاحیت اور وسائل سے نوازا ہو، انہیں ہر صورت اس فریضہ کی انجام دہی میں سوچ و بچار کے بجائے عمل پیہم پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر وہاب صاحب اس تجویز پر عمل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو راقم اس فرض کی ادائیگی میں ان کی معاونت کر کے خوشی محسوس کرے گا اور معراج جامی اس کی اشاعت ذوق و شوق سے کریں گے۔
سرگودھا
۱۵ جنوری ۲۰۱۱ء
(شائع شدہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل، جلد ۴۲، شمارہ ۲، جون ۲۰۱۱)
فیض احمد فیضؔ ۔ میرا پرنسپل
فیض احمد فیضؔ سے کون واقف نہیں، ادب کی دنیا کا ایک عظیم نام۔ معروف شاعر تابشؔ دہلوی نے بہت سچ کہا کہ ’ عظیم شخصیتوں کو دیکھ لینا بھی عظمت ہے ،۔ الحمد اللہ مجھے یہ عظمت حاصل ہے کہ میں نے اردو ادب کی اس عظیم شخصیت کو نہ صرف دیکھا بلکہ بہت قریب سے دیکھا۔ فیضؔ صاحب بلاشبہ پاکستان کے اُن چند گنے چنے شاعروں اور ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے دنیائے ادب میں پاکستان کو بلند مقام دیا۔ ۲۰۱۱ء فیض احمد فیضؔ کی سوویں سالگرہ کا سال ہے، فیض صاحب سو سال قبل ۱۲ فروری ۱۹۱۱ء میں پاکستان کے شہر سیال کوٹ کے نزدیک کالا قادر کے مقام پر پیدا ہوئے۔ حکومت پاکستان نے موجودہ سال کو فیضؔ کی صدی کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سال ان کی ادبی خدمات کا اعتراف بھر پور انداز سے کیا جائے گا، مقتدرہ قومی زبان نےا س کا آغاز پروفیسر منیر یوسف حسن اور ڈاکٹر روش ندیم کی مرتب کردہ کتاب ’فیض احمد فیض (فیض صدی: منتخب مضامین) ، سے کیا، اس حوالہ سے ایک کتاب ڈاکٹر طاہر تونسوی نے بہ عنوان ’’فیض کی تخلیقی شخصیت : تنقیدی مطالعہ‘‘ بھی مرتب کی جو شائع ہو چکی ہے۔
فیض کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فیض جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جدید ادبی تحریک، ترقی پسند ادبی تحریک کے بانی ارکان میں سے تھے۔ فیضؔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر اور ہر دل عزیز شاعر بھی ہے، فیضؔ کی شاعری کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا مگر میَں شاعری سے قطع نظر فیضؔ کے بحیثیت کالج کے پرنسپل کے تذکرہ کروں گا، عام طور پر لوگ فیضؔ کو ایک بڑا شاعر ہی سمجھتے ہیں اور وہ ہے بھی لیکن بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو گی کہ فیض ایک ماہر تعلیم، پروفیسر، منتظم اور کالج پرنسپل بھی رہے اور اس حیثیت سے انہوں نے آٹھ سال (۱۹۶۴ء۔ ۱۹۷۲ء) خدمات انجام دیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ فیض صاحب جب حاجی عبد اللہ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل تھے تو میں اس کالج کا طالب علم تھا، دو سال (۱۹۶۸ء۔ ۱۹۷۰ء)میں اس کالج کا طالب علم رہا اور گریجویشن اسی کالج سے کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد ۱۹۷۴ء میں میرا تبادلہ اسی کالج میں ہو گیا، اس کالج میں میری خدمات ۲۷ سالوں (۱۹۷۴ء۔ ۱۹۹۷ء) پر محیط ہیں۔ ۱۹۷۲ء میں حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا تو فیضؔ صاحب نے سرکاری ملازمت اختیار کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن وہ جب بھی کراچی میں ہوتے کالج ضرور آیا کرتے، اس طرح مجھے فیضؔ صاحب کو ہر دو حیثیتوں سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ فیض صاحب نے ملازمت اختیار کی تھی، آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز ہی استاد کی حیثیت سے ایم اے او کالج امرتسر سے ۱۹۳۵ء میں کیا تھا، آپ برطانوی ہند میں فوج میں اعلیٰ عہدہ پر بھی رہ چکے تھے، اس وقت جب آپ نے محسوس کیا کہ انگریز اندرون خانہ پاکستان کے قیام کی مخالفت کر رہا ہے تو آپ نے فوج کی ملازمت کو خیر باد کیا اور روزنامہ ’پاکستان ٹائمز، کی ادارت سنبھال لی۔ گویا فیض صاحب شاعر و ادیب ہی نہیں بلکہ فوجی بھی تھے، صحافی بھی، استاد بھی تھے، اعلیٰ منتظم اور ما ہر تعلیم بھی اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے انسان تھے۔
میَں یہ تحریر سعودی عرب کے صوبہ جذان کی حسین وادی، پہاڑوں کی ملکہ فیفاء جسے ’ جبال فیفاء، بھی کہا جاتا ہے کے ایک گھر میں بیٹھ کر لکھا رہا ہوں، میرا چھوٹا بیٹا نبیل ’’فیفاء جنرل اسپتال ‘‘میں ڈاکٹر ہے اوراسپتال کے سامنے ہی رہائش پذیر بھی ہے۔ ابھی کوئی چار ماہ پہلے کی بات ہے، میَں جامعہ سرگودھا کو الوداع کہہ کر واپس کراچی پہنچا، اچانک دل نے پریشان کیا، ۱۲ اپریل کو میری انجو گرافی اور فوری طور پر انجو پلاسٹی بھی ہوئی اور دل کی ایک شریان میں اسٹینٹ ((stentڈالا گیا، دنیا میں میری زندگی کی دعائیں ہو رہی تھیں، اُدھر اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر حاضر ہونے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ کام مقدس سرزمین پر مجھ سے لینا تھے ان میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ میں فیض احمد فیضؔ پر اپنے بہت پرانے منصوبے کی تکمیل کروں۔
فیض احمد فیضؔ آٹھ برس(۱۹۶۴ء۔ ۱۹۷۲ء )کراچی کے ایک ڈگری کالج ’’حاجی عبداللہ ہارون کالج‘‘ کے پرنسپل رہے، آپ اس کالج کے بانی پرنسپل تھے۔ کالج کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ سر حاجی عبد اللہ ہارون بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، قائد اعظم کو آپ پر مکمل اعتماد تھا یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ ہارون ہر مرحلے پر قائد اعظم کے ہمراہ دکھا ئی دیتے ہیں جس کا ثبوت پیر علی محمد راشدی کے اس بیان سے ملتا ہے کہ ’’ قائد اعظم محمد علی جناح ۱۹۳۸ء میں اوراس کے بعد عبد اللہ ہارون مرحوم کے انتقال تک جب بھی کراچی تشریف لاتے ان کا قیام ہمیشہ ’’سیفیلڈ‘‘ یعنی سر حاجی عبد اللہ ہارون کی رہائش واقع کلفٹن میں ہوتا۔ بر صغیر کے معروف تاجر اور سب سے بڑھ کر انسان دوست۔ آپ کی سیاسی، سماجی، طبی، تعلیمی اور قیام پاکستان کی جد و جہد میں بے لوث خدمات سے کسی کو ان کار نہیں۔ حاجی عبد اللہ ہارون سندھ کے ان مسلمان سیاست دانوں اور تاجروں میں سے تھے جن کے دل میں مسلمانوں کے لیے ہمدردی، اخوت اور ایثار کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ آپ نے مسلمانوں کی سیاسی اور اقتصادی بہتری اور فلاح کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی، آپ نے مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور انہیں متحد کرنے میں بے پناہ محنت کی، آپ نے خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کے لیے بھی جد و جہد کی، آپ نے مسلمانوں کی آواز کو دنیا میں پہچانے اور عام کرنے کے لیے ۱۹۲۰ء میں ایک اخبار ’’الوحید‘‘ جاری کیا جس نے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی، انگریز اور ہندو بوکھلا اٹھے، آخر کار مقصد میں کامیابی ہو ئی لیکن افسوس کہ قیام پاکستان تک عبد اللہ ہارون کی عمر نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ ان کا گھر ’سیفیلڈ، ہندوستان کے مسلمانوں کی سیا ست کا مرکز تھا، اس گھر میں بر صغیر کا شا ید ہی کوئی مسلمان رہ نما ایساہو جس کا گزر نہ ہوا ہو جن میں قائد اعظم محمد علی جناح، سر آغا خان، مو نا محمد علی جوہر، مو لانا شو کت علی جو ہر، مولانا حسرت موہانی، آزاد سبحانی، فضل حسین، فضل الحق، سر سکندر حیات، مسعود اللہ، اکرام خان، سلطان احمد، صاحبزادہ عبد القیوم، ڈاکٹر انصاری، عبد الرحمٰن صدیقی، بہادر یار جنگ وغیرہ شامل مل ہیں۔ مجھے بھی اس گھر میں جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ یہ گھر عبد اللہ ہارون کے بعد ان کے بیٹوں یوسف ہارون، محمود ہارون، سعید ہارون اور پوتے حسین ہارون کے سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا، زمانہ طالب علمی اور ابتدائی دنوں میں میَں لیاری میں رہائش پذیر تھا اور ایک سماجی تنظیم’ تاج ویلفیرسینٹر، کا سرگرم کارکن بھی تھا، محمود ہارون اس ادارے کے سر پرستِ اعلیٰ ہوا کرتے تھے، اسی حوالے سے مجھے سیفیلڈ جانے اور اس گھر کو دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔
کراچی کی قدیم بستی ’’مچھروں کی بستی‘‘ ہے جو ’کھڈا مارکیٹ، کہلاتی ہے، اب اسے ’نوا آباد اور میمن سوسائیٹی ، کہا جاتا ہے، یہی مچھیروں کی بستی کراچی کا نقطہ آغاز تھا۔ حاجی عبد اللہ ہارون نے اسی بستی میں ۱۹۲۳ء میں غریب لوگوں کے لیے ایک یتیم خانہ قائم کیا تھا، جو آج بھی قائم ہے، خود حاجی عبد اللہ ہارون اسی یتیم خانے کے احاطہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ حاجی عبد اللہ ہارون کالج اور دیگر تعلیمی ادارے اسی احاطے میں قائم ہیں۔ حاجی عبد اللہ ہارون کے انتقال کے بعد ان کے مشن کو جاری و سا ری رکھنے کے لیے ’’ حاجی عبد اللہ ہارون ایسو سی ایشن ‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کی پر ستی حاجی عبد اللہ ہارون کے بیٹوں نے کی، حاجی عبد اللہ ہارون مسلم لیگی تھے، ان کے تینوں بیٹے تا دمِ مرگ مسلم لیگی رہے۔ اس ایسو سی ایشن نے حاجی عبد اللہ ہارون کے قائم کردہ یتیم خانے کو فعال بنا یا، اسکول، کالج، ٹیکنیکل کالج، اسپتال اسی احاطے میں قائم کیے۔ غریب بستی میں قائم یہ تمام ادارے آج بھی قائم ہیں اور خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ کا ایک خوبصورت شعر ؎
پھر نظر میں پھُول مہکے، دل میں پھِر شمعیں جلیں
پھِر تصّور نے لِیا اُس بزم میں جانے کا نام
فیض صاحب نے جب اس کالج کی پرنسپل شپ اختیار کی وہ اس وقت بھی ایک بڑے اور معروف شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ان کا بڑا نام تھا، کراچی کی غریب بستی میں نئے کالج کا سربراہ بننا، کیا مصلحت تھی، کیا راز تھا، اس بات کا جواب فیض صاحب کی اپنی زبان سے سنیے، فیضؔ صاحب نے ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو ایک انٹر ویو میں دیا، یہ انٹر ویو ڈاکٹر طاہر تونسوی کی مرتب کردہ کتاب ’’فیض کی تخلیقی شخصیت: تنقیدی مطالعہ‘‘ میں شامل ہے۔ سوال کیا گیا کہ ’آپ نے اس ادارے کی سربراہی کیوں قبول کی تھی،؟فیض صاحب کا کہنا تھا ’’جس علاقے میں حاجی عبد اللہ ہارون کالج قائم کیا تھا اس میں ہائی سکول کے علاوہ تعلیم کی اور سہولتیں نہ تھیں، اس علاقہ میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر، گاڑی چلانے والے اور مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کوکا لج نہیں بھجوا سکتے تھے، یہ علاقہ بُرے لوگوں کا مرکز تھا یہاں ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا تھا، اکثر غلط راہ پر بچپن ہی سے پڑ جاتے تھے، یہاں عبد اللہ ہارون نے یتیم خانہ بنوایا تھا جو ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا، باقی کچھ نہیں تھا، ان کے (حاجی عبد اللہ ہارون )جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں، صرف لیڈی نصرت ہارون کو اس ادارے سے دلچسپی تھی۔ لندن سے واپسی پر انھوں نے ہم سے فرمائش کی کہ ہم یہ کام سنبھال لیں۔ ہم نے جا کر علاقہ دیکھا، بہت ہی پسماندہ علاقہ تھا، یہاں انٹر میڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج پھر ٹیکنکل اسکول اور پھر آڈیٹوریم، کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی، کچھ ہم نے فراہم کی، ماہی گیروں کی سب سے بڑی کوآپریٹو سوسائیٹی بنی، انہوں نے ہمیں ڈائیریکٹر بنا لیا، ہم نے طے کیا کہ سوسائیٹی کے اخراجات سے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور بچوں کے سب اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے، اس کالج میں طلبہ کی اکثریت کو مفت تعلیم دی جاتی تھی‘‘۔
فیض صاحب کی ان باتوں کا میں بھی چشم دید گواہ ہوں، جیسا میں نے پہلے بھی کہا کہ۱۹۷۲ء کے بعد فیض صاحب جب کبھی کراچی میں ہوتے وہ بغیر بتائے کالج آ جایا کرتے، ایک مرتبہ جب کہ ہمارے کالج کے پرنسپل پروفیسر سید احمد حسین زیدی مرحوم تھے ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ فیض صاحب کرا چی آئے ہوئے ہیں، ہم چند ساتھیوں نے جن میں شبنم صدیقی، اقبال احمد مرحوم، عبد الرشید راجہ اور میَں پیش پیش تھے، فیض صاحب کو کالج آنے کی دعوت دی جسے آپ نے فوراً قبول کر لیا، یہ کوئی بڑی تقریب نہیں تھی، طے پایا تھا کہ ہم اساتذہ فیض صاحب سے خوب خوب باتیں کریں گے اور ان کی باتیں سنیں گے۔ یہ تقریب کالج کی لائبریری میں منعقد ہوئی۔ پروفیسر بشارت کریم کیفی مرحوم جن کا سلیکشن فیض صاحب نے ہی کیا تھا، استقبالیہ کمیٹی کے چیر مین تھے، اساتذہ اور طلبہ نے فیض صاحب کا استقبال کیا، پہلے تو فیض صاحب نے پورے کالج کا ایک چکر لگا یا، ان میں آفس، لیباریٹریز، اسکول، یتیم خانہ، اسپتال وغیرہ، بعد میں آپ لائبریری تشریف لائے، لائبریری دیکھ کر آپ نے خوشی کا اظہار کیا، یہ لائبریری فیض صاحب کے زیر نگرانی ہی پروان چڑھی تھی۔ پرنسپل صاحب نے استقالیہ کلمات کہے، اساتذہ کی جانب سے شبنم صدیقی صاحب جو اردو کے پروفیسر اور ادیب و شاعر ہیں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فیض صاحب خوش پوش انسان تھے، زیادہ تر سوٹ پہنا کرتے، سگریٹ پینا ان کا محبوب مشغلہ تھا، آپ نے اپنے منفرد انداز میں اساتذہ اور طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کالج سے اپنی وابستگی پر روشنی ڈالی، آپ نے کہا’ ’اس کالج سے میرا جو تعلق رہا ہے اس وجہ سے میں اپنے آپ کو یہاں اجنبی یا مہمان تصور نہیں کرتا، آپ نے اس کالج سے اپنی وابستگی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’’لیڈی نصرت ہارون مرحوم نے ہم سے کہا کہ لیاری میں جو کالج قائم ہوا ہے اس کی سرپرستی آپ حاصل کر لیں چناں چہ ہم لیاری میں آئے اور اس کالج کے علاوہ یہاں کے مکینوں کا جائزہ لیا مجھے یہاں عجیب سی مخلوق نظر آئی ہم نے فوراً حامی بھر لی، اس طرح ہمارا اس ادارے سے تعلق قائم ہو گیا۔ پھر اساتذہ اور ساتھیوں کی ایک اچھی جماعت مل گئی اس طرح یہ کالج بہت جلد ڈگری کالج بن گیا۔ اس کی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کامیابی ہوئی۔ آپ نے کہا کہ ’’لیاری جیسی بستی میں علم کو عام کرنے کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لیے ہم نے کوشش کی اور کسی حد تک اس میں کامیاب ہوئے ‘‘۔ اس سوال کے جواب میں کہ ’’فیض صاحب آپ عبد اللہ ہاران کالج سے الگ کیوں ہوئے ‘‘؟ آپ کا جو اب تھا کہ یہ ادارہ قومی تحویل میں لیا جا نے والا تھا اور مجھے گھر بھی واپس آنا تھا، کراچی میں کالج بن گیا، اسپتال بن گیا، اتنا کچھ بن گیا اب آگے دوسرے لوگ چلائیں ‘‘۔ آپ سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ فیض صاحب کہ ’’ ان امور کے علاوہ اس ادارے کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے لیے آپ نے کن امور پر توجہ دی‘‘؟ فیض صاحب کا جواب تھا ’’کراچی میں خاص طور پر بدامنی، بے چینی، ہڑتالوں وغیرہ کے قصے ہوتے رہتے تھے، طلباء اور اساتذہ میں بھی رابطہ نہیں تھا، ہم نے کوشش کی کہ اس امر کی اصلاح کی جائے، طلباء اور اساتذہ مل کر کام کریں چناں چہ ہمارے کالج میں ایک مرتبہ بھی ہڑتال نہیں ہوئی، گورنمنٹ ادارے بند ہو جاتے تھے مگر ہمارا کالج کھلا رہتا تھا اور طالب علم پڑھائی کے لیے آتے تھے۔ اس کالج کا نقشہ دوسرے کالجوں سے بالکل مختلف تھا، درسی کتابیں پڑھانے کے علاوہ اساتذہ اور طلباء کی بصیرت میں اضافہ کے لیے لائبریری کو بہتر بنانے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی، اہل ثروت سے مدد لی گئی، اساتذہ سے اپنے اپنے موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھوائے گئے، میرے خیال میں محدود ذرائع کے باوجود یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا‘‘۔
فیض صاحب کالج کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں بھر پور دلچسپی لیا کرتے تھے، اس زمانے میں طلبہ یونین باقاعدگی سے تشکیل پاتی تھیں، ان کے انتخابات ایک عام سے بات بھی، اس زمانے میں بھی انتخابات ہوئے ہم نے بھر پور حصہ لیا، اسلامی جمیعت طلبہ، نیشنل اسٹو ڈنٹ فیڈریشن NSF، بلوچ اسٹو ڈنٹ آرگنائیزیشن BSOاس دور کی خاص طلبہ تنظیمیں تھیں، فیض صاحب تمام تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کالج کے طلبہ کو یکساں اہمیت دیا کرتے تھے۔ تقریری مقابلے، بیت بازی کے مقابلے، حمد و نعت، مضمون نویسی اور طلبہ کے ساتھ پکنک منانا، مجھے یاد ہے کہ تعلیمی سال کے اختتام پر کالج کی طرف سے ٹھٹھہ میں کلری جھیل پر پکنک کا پروگرام تشکیل دیا گیا، تمام طلبہ دو بسوں میں تھے، فیض صاحب اپنی فوکس ویگن میں بعض اساتذہ کے ساتھ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، وہ کچھ دیر ہمارے ساتھ رہے، فیض صاحب کے پاس اس وقت فوکس ویگن تھی، ان کا ڈرائیور ایک دبلا پتلا نوجوان تھا، اُسے ہم نے ہمیشہ صاف ستھر ا، خوش پوش دیکھا، اس مانے میں تنگ پتلون، نوک دار جوتوں کا رواج تھا جسے عرف عام میں ’ ٹیڈی فیشن، کہا جاتا تھا، یہ ڈرائیور ٹیڈی لباس اور جوتوں میں ہوا کرتا تھا، زلفیں بڑی بڑی، سامنے سے وحید مراد بنا رہتا تھا۔ا س کی خوش پوشی اور اسمارٹ رہنا اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ فیضؔ صاحب کو اپنے ڈرائیور کا یہ انداز دلبرانہ بھی پسند تھا، وہ خوش پوش تھے اور خوش پوشی کو پسند کیا کرتے تھے۔
کالج میں اساتذہ کا انتخاب فیض صاحب نے از خود کیا تھا، کچھ اساتذہ اسکول سے لے لیے گئے تھے، فیض صاحب ترقی پسند مصنفین کی تحریک اور مارکسی فلسفہ حیات کے علم بردار تھے لیکن اساتذہ کے انتخاب میں آپ نے غیر جانبد اری اور میرٹ کو بنیاد بنا یا تھا، اسا تذہ کا انتخاب ان کی تعلیمی قابلیت و اہلیت کو بنیاد بنا کر کیا گیا تھا، تمام اساتذہ اپنے اپنے مضمون میں یکتا تھے، پروفیسر ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان واضح طور پر مارکسی فلسفہ کے پیروکار نظر آتے تھے تو دوسری جانب پروفیسر شفیق الرحمان صاحب پکے جماعت اسلامی کے حامی تھے، دیگر اساتذہ میں ڈاکٹر فہیم الدین، پروفیسر جمیل واسطی سید، معروف شاعر دلاور فگار، سندھی کے ادیب رشید احمد لاشاری، پروفیسر یونس صدیقی، پروفیسر انیس الرحمٰن قریشی، بشارت کریم، عبد الرحیم میمن، پروفیسر ریاض الحسن قدوائی، پروفیسر عبد الرشید راجہ، پروفیسر اقبال احمد، پروفیسر اطہر صدیقی، نجم الدین انصاری، اطہر آفریدی، پروفیسر شمشاد احمد خان، راشد حیِ، غلام اصغر، نظام سحرائی، عزیز انصاری اور ذکی حسن شامل تھے۔ ان اساتذہ میں متعدد ڈایریکٹر کالجز، چیرٔمین تعلیمی بورڈ اور پرنسپل بھی ہوئے۔ اساتذہ کے ساتھ فیض صاحب کا رویہ ہمدردانہ ا، اور شفقت آمیز ہوا کرتا تھا۔ پروفیسر عبد الرشید راجہ جو اسلامیات کے استاد تھے میرے بڑے مہربان، محبت کرنے والے، انہوں نے فیض صاحب کا اساتذہ سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ایک سال کالج کا نتیجہ صرف دس فیصد رہا، ہم سب کو اس پر بہت تشویش تھی، ڈر و خوف بھی تھا، کیونکہ یہ ایک پرائیویٹ کالج تھا، تمام اختیارات پرنسپل اور وائس پرنسپل کے پاس ہوا کرتے تھے، فیض صاحب پرنسپل اور پروفیسر ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان وائس پرنسپل تھے، فیض صاحب نے اسٹاف کی ایک میٹنگ طلب کی، تمام ساتھی بے انتہا پریشان اور تشویش میں مبتلا تھے، نہیں معلوم کیا ہونا ہے، بعض ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہم فیض صاحب سے کہیں گے کہ وہ ہماری تنخواہ سے انکریمنٹ واپس لے لیں، فیض صاحب اپنے مخصوص انداز سے تشریف لائے اور میٹنگ شروع کی، آپ نے میٹنگ میں کسی کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا، از خود ان وجوہات پر روشنی ڈالی جن کے باعث نتیجہ بہت خراب آیا، ساتھ ہی اساتذہ کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا کہ اب تمام ساتھی محنت سے پڑھائیں اور طلبہ پر خصوصی توجہ دیں، جس ٹیچر کا نتیجہ آئندہ اچھا ہو گا اسے اضافی انکریمنٹ دیئے جائیں گے، بعد میں فیض صاحب نے اپنی اس تجویز پر عمل بھی کیا، ریاضی کے پرفیسر جو بعد میں کالج کے پرنسپل بھی ہوئے ان کا نتیجہ اچھا آیاجس کے نتیجے میں انہیں اضافی انکریمنٹ بھی دئے گئے۔ ۱۹۷۴ء میں میَں جب اس کالج میں ٹرانسفر ہو کر آیا تو یہ کالج سرکاری تحویل میں آ چکا تھا اور یہ حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج بن چکا تھا، اس کالج میں سائنس، آرٹس اور کامرس فیکلٹیز تھیں، پروفیسر جمیل واسطی سید اس کالج کے پرنسپل تھے۔ بعض اساتذہ جو اسی کالج میں میرے استاد رہے تھے اب میرے ساتھی تھے ان میں پروفیسر شفیق رحمانی، ریاض الحسن قدوائی، محمد یونس صدیقی، عبد الرشید راجہ، بشارت کریم شامل تھے۔
فیض صاحب کو ۱۹۶۳ء میں لینن انعام سے نوازا گیا، یہ عالمی ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب میں فیض نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاــ ’’ امن کی جد و جہد اور آزادی کی جد و جہد کی سرحدیں آپس میں مِل جاتی ہیں ، اس لیے امن کے دوست اور دشمن اور آزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ، ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں ‘‘۔
فیض صاحب ترقی پسند بھی تھے، مارکسی فلسفہ حیات کے علم بردار بھی تھے۔ دانشوروں کا دائیں اور بائیں سے تعلق عام سی بات تھی۔ فیض صاحب نے اپنے خیالات زبردستی کسی پر تھوپنے کی کبھی کوشش نہیں کی، ایک زمانے میں آپ نے جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری، ایک دور ایسا بھی تھا کہ لوگ فیضؔ کے اشعار بر ملا بڑھتے ہوئے ڈرا کرتے تھے اور پھر یہ دور بھی آیا کہ مشاعروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر فیض ہی فیض ہوا کرتے تھے، متعدد گلوکاروں کو فیض کا کلام گانے سے ہی شہرت ملی۔
فیض ایک سیدھے سادھے مسلمان تھے، افتخار عارف نے ایک انٹر ویو میں فیض صاحب سے پوچھا آپ جب پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی پچھتاوا تو نہیں ہوتا؟ ’’ فیض صاحب نے بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی کہ زندگی میں دو پچھتاوے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں قرآن حفظ کرنا چاہتا تھا مگر چار پانچ پاروں کے حفظ کے بعد میں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا۔ مجھے ساری عمر اس کا ملال رہا۔ دوسرا یہ کہ میں کرکٹر بننا چاہتا تھا اور نہیں بن سکا‘‘۔ یہ بات تو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ فیض صاحب عربی جانتے تھے اور انہوں نے عربی میں بھی ایم اے کیا ہوا تھا لیکن یہ بات کہ وہ قرآن مجید حفظ کرنا چاہتے تھے اور یہ کہ چند پارے حفظ بھی کر چکے تھے بہت کم لوگ اس سے آگاہ ہوں گے۔ آپ کی اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اندر کا فیض کیسا تھا۔ یہ بات آغا ناصر نے اپنے مضمون ’فیض کی چند باتیں ، جو اخبار اردو کی جلد ۲۸ شمارہ ۲، ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں نقل کی ہے۔ عبداللہ ہارون کالج کے ایک استاد پروفیسر عبد الرشید راجہ جو ۳۰ سال اس کالج سے منسلک رہے، اسلامیات کے پروفیسر تھے، آپ نے بتا یا کہ جب تک فیض صاحب کالج کے پرنسپل رہے ہم نے فیض صاحب کو رمضان میں سگریٹ پیتے نہیں دیکھا، جب کے ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوا کرتا تھا۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا تھا کہ میں فیض کے بحیثیت شاعر بات نہیں کروں گا، اپنی بات کو صرف فیض کے بحیثیت کالج کے پرنسپل کے محدود رکھوں گا۔ کیونکہ میَں نے فیض کو بحیثیت پرنسپل کے دیکھا۔ میرا ایک مضمون۲۰۰۲ء میں عبداللہ ہارون گو رنمنٹ کالج کے میگزین ’’نوید سحر ‘‘ میں بعنوان ’’فیض احمد فیض سے پروفیسر فضل الٰہیٰ تک ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ جس میں میَں نے فیض صاحب سے ۲۰۰۲ء تک اس کالج کے جو پرنسپل ہوئے ان کی شخصیت کا اختصار سے احاطہ کیا ہے۔ اس مضمون کے بعد ہی میں نے ارادہ کیا تھا کہ فیض صاحب پر کچھ لکھوں گا، میرے اس ارادے کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب میں ۲۰۰۹ء میں جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے منسلک ہوا اور ہاسٹل لائف شروع ہوئی، میری خوش نصیبی کے میرے ہاسٹل میں میرے برابر والے کمرہ میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی تھے، ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے، اپنے اپنے شعبوں سے واپس آ کر ہما را وقت ایک ساتھ گزرتا، شعر و شاعری اور ادبی موضوعات پر گفتگو ہوا کرتی۔ تونسوی صاحب فیض کے چاہنے والے ہیں، اردو کے طلبہ کو فیض پڑھا یا بھی کرتے تھے، فیض پر تحقیق بھی کرا چکے تھے۔ فیض صدی کے حوالے سے فیض پر ایک کتاب بھی مرتب کر رہے تھے، ہم اکثر فیض کی غزلیں لیب ٹاپ پر سنا کرتے، اقبال بانو کی آواز میں فیض کی غزل ’ہم بھی دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ، ہم دونوں بڑے شوق سے سنا کرتے۔ ایک دن تونسوی صاحب نے فیض پر اپنی مرتب کردہ کتاب فیض کی تخلیقی شخصیت : تنقیدی مطالعہ کا ایک نسخہ دیا، یہ کتاب پڑھ کر فیضؔ پر لکھنے کا ارادہ اور بھی پختہ ہو گیا جس کی تکمیل اب رمضان کے مہینے میں اور سعودی عرب کی سر زمین پر ہوئی۔
فیض صاحب نے شہر کراچی میں رہتے ہوئے کئی ادبی، ثقافتی، تعلیمی اور سماجی تنظیموں کی سرپرستی بھی کی۔ کراچی میں ادارہ یاد گار غالب فیض احمد فیضؔ نے مرزا ظفر الحسن سے قائم کروا یا تھا۔ فیض صاحب تو اس ادارے کی سرپرستی کیا کرتے تھے، مرزا ظفر الحسن کی زندگی کا مقصدِ حیات یہ ادارہ تھا۔
ادارہ یاد گار غالب کے قیام کی روداد مرزا ظفر الحسن نے اپنے ایک مضمون ’’فیضؔ ایلس اور میں ‘‘ میں اس طرح بیان کی کہ ’’جنوری ۱۹۶۸ء کے پہلے ہفتے میں سبط حسن نے ٹیلی فون پر کہا فیضؔ نے تمہیں بلا یا ہے۔ میں نے سبب پوچھا تو کہا میرا اندازہ ہے کہ تم نے غالب کے پرزے اڑانے کی جو کوشش کی تھی اس کی کوئی سزا دینا چاہتے ہیں۔ اس جملے کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرے دن سبط کے گھر پہنچا جو سڑک پار فیضؔ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ ہم دونوں فیضؔ کے گھر گئے جہاں انہوں نے کہا فروری ۱۹۶۸ء میں پاکستان، ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں غالبؔ کی صد سالہ برسی منائی جانے والی ہے۔ ہمارا بھی ارادہ ہے کہ کراچی میں کچھ کام کریں۔ آپ ایک انجمن بنائیں اور شروع کر دیں ’’اس کے بعد کہا‘‘ البتہ ایک بات یاد رکھیے ویسے تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے مگر از خود کوئی کام نہیں کریں گے۔ آپ جو کام ہمارے سپرد کریں، کریں گے ‘‘۔ اس کے بعد اضافہ کیا ’’دوسروں کے متعلق سمجھ لیجیے کہ وعدے سب کریں گے پورا کوئی نہیں کرے گا‘‘۔ اس پر سبط حسن نے کہا ’’ہم تو وعدہ بھی نہیں کرتے۔ سارا کام تم ہی کو کرنا ہو گا‘‘۔ فیضؔ نے آخری جملہ کہا ’’بالکل تنہا‘‘۔ یہ میرے لیے کوئی چیلنج نہیں اعزاز تھا۔ کیوں کہ فیضؔ جیسی شخصیت کو مجھ پر اعتماد کہ میں انجمن بنا سکتا ہوں، صد سالہ برسی کا انتظام کر سکتا ہوں اور سب کچھ اکے لیے۔ اس وقت نام طے کیا ’’بزم غالب‘‘ اور پانچ سات منٹ ٹھہر کر آ گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس ملاقات سے پہلے یا اس کے بعد سبط اورفیضؔ میں میری بابت کیا گفتگوہوئی۔ نہ میں نے پوچھا نہ کسی نے بتایا۔ بزم غالب کے قیام اور نام کا اعلان اخباروں میں چھپوادیا دو چار دن بعد بزم کے پیڈ بنوانے انجمن پریش گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کی ایک انجمن دس پندرہ برس سے قائم ہے۔ اس خیال سے کہ نام پر کیوں کسی سے جھگڑا مول لیں اور وہ بھی ابتدائی دنوں میں اپنے طور پر طے کیا کہ بزم غالبؔ کی بجائے ’’ادارۂ یاد گارِ غالبؔ ‘‘نام رکھوں۔ فیضؔ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اب نام کی تبدیلی کا اعلان اخباروں میں شائع کر دیا۔ جیب میں دھیلہ نہ دمڑی ادارۂ یاد گارِ غالبؔ قائم ہو گیا۔ ایک ہفتے بعد فیضؔ کے بتائے ہوئے چند لوگوں کو ٹیلی فون کیا کہ فلاں اتوار کو صبح فیضؔ کے گھر جمع ہوں ادارے کی بابت کچھ گفتگو ہو گی۔ وہ سب آئے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ فیضؔ ادارے کے صدر ہوں۔ سبط نے یا شاید فیضؔ نے میرانام لے کر کہا یہ اس کے معتمدہ عمومی ہوں۔ اس کے بعد مجلس عاملہ تشکیل دی گئی جتنے مدعوئین اتنے ہی عہدے دار اور اراکین بلکہ بعض جو نہیں آئے تھے انھیں بھی رکن عاملہ بنا لیا گیا۔ کوئی خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ جاتے وقت سبط حسن نے پھر کہا تم نے ہمیں رکن تو بنا یا ہے کام ہم دمڑی کا نہیں کریں گے۔ سید اپنے قول کاسچا نکلا‘‘۔ مرزا ظفر الحسن نے ادارے کی لائبریری کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے لکھا کہ ــ ’’عمارت کس طرح بنی، کس طرح ہاتھ سے نکل گئی ایک طویل کہا نی ہے۔ یہاں اتنا اشارہ کر دوں کہ عمارت کو منہدم ہونے سے فیضؔ نے بچایا۔ اگر ان کا نام اور شخصیت درمیان میں نہ ہوتی تو آج غالب لائبریری کی جگہ اس عمارت کا ملبہ ہوتا‘‘۔
غالب لائبریری اپنی مثال آپ ہے۔ کراچی کے علاقے ناظم آباد میں گورنمنٹ کالج برائے طلباء کے احاطے میں اس ادارے کی عمارت ہے۔ ۱۹۹۷ء میں میرا تبادلہ حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج سے گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد میں ہو گیا اور پھر میَں اپنے ریٹائرمنٹ ۲۰۰۹ء تک اسی کالج میں خدمات انجام دیتا رہا۔ یہاں مجھے فیض صاحب کے قائم کردہ ادارے ادارہ یا دگار غالب اور غالب لائبریری کی قربت بھی میسر رہی کیونکہ یہ ادارہ میرے کالج کے احاطے میں ہی تھا۔ آخر میں فیضؔ صاحب کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
تمہاری یاد کے جب زخم بھر نے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
(شائع شدہ ماہ نا مہ ’’نگار پاکستان‘‘ کراچی، فروری ۲۰۱۲ء)
فیفاء، جیذان، سعودی عرب، ۳ /اگست ۲۰۱۱ء، مطابق ۳/رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ
فر خندہ لودھی۔ایک ادیب ایک کتاب دار
میں اپنے آپ کو خاکہ نگار نہیں سمجھتا، البتہ شخصیات میرا موضوع گزشتہ پینتیس برس سے ہیں۔ شخصیات پر لکھنا میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے، انہیں خراج عقیدت پیش کر کے میری روح کو تسکین ہوتی ہے، یہی میرا بنیادی مطمع نظر ہوتا ہے۔ یہ مضامین مختلف رسائل اور اخبارات میں چھپتے رہے، ۲۰۰۹ء میں چند خاکوں اور سوانحی مضامین پر مشتمل کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘ کے نام سے لاہور سے ’الفیصل‘ نے شائع کی۔ فرخندہ لودھی کے بارے میں میری یہ تحریر فرخندہ لودھی کا خاکہ نہیں، نہ ہی میرا یہ مقام ہے کہ میں فرخندہ لودھی جیسی قلم کار کا خاکہ لکھوں جس کی علمی و ادبی اور پیشہ ورانہ خدمات کا دائرہ انتہا ئی وسیع ہے جس کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے اسے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ یہ تحریر تو محض خراجِ تحسین ہے اپنی ہم پیشہ کے لیے ؎
ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں اے غم زدگاں
مرگ مجنوں پہ کڑھو ، ماتمِ فرہاد کرو
اگر کسی کو فرخندہ لودھی کا خاکہ پڑھنا ہی ہے تو وہ فرخندہ کے شوہر پروفیسر صابر لودھی کے لکھے ہوئے خاکے بہ عنوان ’فرخندہ لودھی اور میں (صبا حکایتِ زلف تو درمیاں انداخت)، یہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے مجلہ ’’راوی ۲۰۱۰ء‘‘ میں شائع ہوا، یہی خاکہ بقول صابر لودھی مکمل حالت میں لاہور کے رسالے ’الحمرا‘ کی جنوری ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں شامل ہے۔ مجلہ ’راوی‘ نے اس خاکے کو کاٹ چھانٹ دیا تھا، دوسرا خاکہ ’’فرخندہ لودھی۔ میں ہوں اپنی شکست کی آواز‘‘ پروفیسر صاحب کی خاکوں کی کتاب ’’بھلا یا نہ جائے گا‘‘ میں موجود ہے۔ یہ خاکے فرخندہ کی نجی اور ادبی زندگی کی مکمل اور خوب صورت تصویر پیش کرتے ہیں۔
صابر لودھی اردو کے پروفیسر ہیں، ایچی سن کالج لاہور سے ۱۹۵۸ء میں لیکچر ر کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا، مختلف کالجوں میں خدمات انجام دیں، پروفیسر اردو کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۹۴ء میں ریٹائر ہوئے۔ کیا خوب خاکے لکھتے ہیں بلکہ فرمائشی خاکہ نگار ہیں۔ ان کی خاکوں کی کتاب کے فلیپ پر فرخندہ لودھی کی اس رائے سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔ فرخندہ کے خیال میں ’’دوستوں کے اصرار پر ان کا خاکہ لکھ دیتے ہیں، خاکہ اڑانے سے احتراز کرتے ہیں، قلم کو ایسا کنٹرول میں رکھ کر چلاتے ہیں کہ خاکہ لکھوانے والا باغ باغ ہو جاتا ہے اور اپنے حلقہ احباب میں دکھاتا، سناتا پھر تا ہے۔ اب ان کی خاکہ نگاری کی دھوم کچھ اس انداز سے مچی ہے کہ دور دور سے خاکہ لکھوانے کی فرمائشیں اور سفارشیں آنے لگیں ہیں ‘‘۔ فرخندہ لودھی کے خاکوں میں انہوں نے جس سچائی اور بے باکی سے کام لیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکوں کے ذریعہ فرخندہ لودھی کی شخصیت کے تمام تر پہلو ایک ایک کر کے اس طرح سامنے آ جاتے ہیں کہ جیسے فرخندہ لودھی کی بارات اپنے روایتی انداز سے چھم چھم کرتی چلی آ رہی ہو۔
پاکستان لائبریرین شپ اور اردو و پنجابی ادب کی معروف و محترم شخصیت ۵ مئی ۲۰۱۰ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئی۔ میَں نے اسی ماہ کی ۱۱ تاریخ کو سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز میں ایسو سی ایٹ پروفسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ خیال یہی تھا کہ اپنی اولین فرصت میں فرخندہ لودھی کا خاکہ لکھوں گا لیکن شعبے میں پڑھانے کی مصروفیات، ہاسٹل لائف وہ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کی عمر میں، میرے لیے بالکل ہی انوکھا تجربہ تھا، شہر نیا، لوگوں کے درمیان اجنبی، الغرض بے شمار قسم کی وجوہات آڑے آتی گئیں۔ انہی دنوں ایک سینئر لائبریرین، جو عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہیں، کتاب دوست ہیں، ’عبد الوہاب خان سلیم، کا خاکہ لکھا جو ’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل میں شائع ہوا، دوسرا خا کہ اپنے عزیز دوست جامعہ سرگودھا کے شعبہ اردو کے چیر ٔ مین ڈاکٹر طاہر تونسوی کا لکھا۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی اب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اردو کے چیر مین ہیں۔ وقت تیزی سے رواں دواں تھا، اب میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اب کوئی اور کام نہیں کروں گا، چناں چہ میں نے اپنی سوچ کے دھارے کو اس جانب مرکوز کر دیا، جامعہ سرگودھا کی لائبریری سے چند کتابیں فرخندہ لودھی کی تحریر کردہ ملیں، لیکن وہ تو افسانے اور کہانیاں تھیں۔ عابد خورشید سے ذکر کیا، انہوں نے فرخندہ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
ایک دن اپنے ایک دوست ڈاکٹر خالد ندیم جو شعبہ اردو، جامعہ سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے قریبی دوست اور ساتھی، انھی کے توسط سے یہ میرے بھی دوست ہوئے، میں نے انہیں فون کیا کہ میں اپنی ایک ہم پیشہ خاتون (فرخندہ لودھی )جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، وہ اردو و پنجابی ادب کی معروف لکھاری بھی ہیں پر لکھنا چاہتا ہوں، ان پر مواد کی تلاش میں ہوں، کیا آپ اس سلسلے میں میری مدد کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد ندیم نے لمحے بھرکو سوچا اور گویا ہوئے، کچھ کچھ ذہن میں آ رہا ہے، میں آپ کو ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں۔ مشکل سے پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے میرے موبائل پر گھنٹی بجی، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے آپ کا مطلوبہ مواد مجھے مل گیا ہے، میں کچھ ہی دیر میں آپ کے ہاسٹل آتا ہوں۔ میں نے کہا، آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ فروری کا مہینہ سردی اپنی بہاریں دکھا رہی تھی، سورج غروب ہونے کے بعد تو سردی زیادہ ہی شدید ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سردی کی پروا نہ کرتے ہوئے میرے کمرے میں آ موجود ہوئے۔ کہنے لگے لیجیے آپ کی مشکل انشاء اللہ آسان ہو جائے گی، یہ کہہ کر انہوں نے بڑے سائز کا ایک ضخیم مجلہ میرے ہاتھ میں تھمایا، یہ تھا ’’مجلہ راوی ۲۰۱۰ء‘‘جی سی یونیورسٹی لاہور کا خصوصی مجلہ، اس مجلہ میں گوشہ میر تقی میرؔ، گوشہ ن۔ م۔ راشدؔ، گوشہ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، گوشہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علاوہ ’’گوشہ فرخندہ لودھی ‘‘ بھی تھا۔ اس لمحے میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میری ایک ہم پیشہ کے بارے میں یہ گوشہ مرحومہ کی علمی و ادبی خدمات کا کھلا اعتراف ہے۔
اس سے قبل ۲۰۰۶ء میں حکومت کی طرف سے فرخندہ لودھی کو ’صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ‘‘بھی دیا جا چکا تھا۔ میَں نے فرخندہ کے گوشے کو اُسی وقت پڑھنا شروع کر دیا، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے، ڈاکٹر صاحب آپ اِسے اپنے پاس رکھیں، استفادہ کر لیں تو واپس کر دیجیے گا۔ میں نے ان کا شکریہ اداکیا کہ انہوں نے میری مشکل آسان کر دی، اب میں یقیناً فرخندہ لودھی پر آسانی سے کچھ لکھ سکوں گا۔ ’گوشہ فرخندہ لودھی، میں ایک خاکہ فرخندہ لودھی کے شوہر پروفیسر صابر لودھی کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان ہے ’’فرخندہ لودھی اور میں (صبا حکایتِ زلف تو درمیاں انداخت)‘‘، ایک تحریر ڈاکٹر انور سدید کی ہے انہوں نے ’’فرخندہ لودھی کی ذاتی ڈائری سے ‘‘ کے عنوان سے فرخندہ لودھی کی ڈائری جو ۱۹۸۳ء کے مختلف ایام میں لکھی گئی سے اقتباسات نقل کیے، بقول انور سدید ’یہ ڈائری اشاعت کی غرض سے نہیں لکھی گئی لیکن یہ ایک ایسی خود کلامی ہے جس میں مصنفہ کا سماجی تاثر، بے لوث اور بے تکلف ذاتی رائے سماگئی ہے اور ہمیں ان کے داخلی جزیروں تک رسائی کا موقعہ فراہم کرتی ہے ‘‘۔ ایک اور اچھا مضمون جی سی یونیورسٹی کے موجودہ مہتمم اعلیٰ عبد الوحید نے تحریر کیا ہے جس کا عنوان ہے ’محترمہ فرخندہ لودھی: موقر لائبریرین اور ادبی شخصیت‘‘ سعشہ خان سابق مدیر مجلہ راوی کے مضمون کا عنوان ہے ’’فرخندہ لودھی: ماں۔ ۔ بس یادیں ہیں باقی‘‘۔ ان مضامین کے علاوہ خواتین کی افسانہ نگاری کے عنوان سے منعقد ہونے والے مذاکرہ کی روداد جس میں فرخندہ لودھی بھی شریکِ گفتگو تھیں شامل ہے۔ فرخندہ لودھی کا معروف افسانہ ’’اور۔ ۔ ۔ جب بجا کٹورا‘‘ گوشے کا حصہ ہے۔
ہم اپنی زندگی میں جو بھی منصوبے بنا لیں لیکن ہوتا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔ میں نے فرخندہ لودھی پر لکھنا شروع کیا لیکن اپنے نجی معاملات کے باعث مجھے جامعہ سرگودھا کو الوداع کہنا پڑا، ۲۸فروری ۲۰۱۱ء جامعہ سرگودھا میں میرا آخری دن تھا، یکم مارچ کو میں کراچی واپس پہنچ گیا، اب مجھے سعودی عرب جانا تھا، ویزا آ چکا تھا، چنانچہ تیاریاں شروع کر دیں۔ مالک تقدیر نے قسمت میں ابھی کچھ اور امتحان لکھا تھا، اپریل کے پہلے ہفتے میں اچانک میرے الٹے ہاتھ میں درد ہوا، جس نے شدت اختیار کر لی، نوبت عام ڈاکٹر سے کار رڈک سینٹر تک پہنچ گئی۔ ۱۲ اپریل کو انجو گرافی(Angiography) اور فوری طور پر انجو پلاسٹی (Angioplasty)بھی ہوئی اور دل کی ایک شریان Arteryمیں ا سٹینٹ((stentڈالا گیا، اس طرح میَں عام انسان سے کارڈک پیشنٹ بن گیا۔ سعودی عرب کے لیے میری سیٹ ۲۹ مئی کی بکُ ہو چکی تھی، میَں تیزی سے بہتری محسوس کر رہا تھا، ڈاکٹر نے مجھے سفر کی اجازت کے ساتھ عمرہ کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ انھی دنوں میَں پروفیسر صابر لودھی کے خاکوں کی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا جو میں نے لاہور کے ’کتاب سرائے‘ سے خریدی تھی، کتاب کا تعارف پڑھا اختتام پر لودھی صاحب کے گھر کا پتا اور فون نمبر درج تھا، میں نے انھیں فون کیا، انھوں نے ہی اٹھا یا، اپنا تعارف کرایا، کہنے لگے میں آپ سے بخوبی واقف ہوں، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی میں نے آپ کی کتابوں کو جو فرخندہ کی کتابوں کی الماری میں رکھی تھیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ وہیں رکھا ہے۔ میَں نے بتایا کہ میَں خاکے بھی لکھ لیتا ہوں، فرخندہ کا خاکہ لکھ رہا ہوں، کتاب میں آپ کا نمبر دیکھا تو سوچا کہ آپ سے بات کروں کچھ معلومات حاصل ہو جائیں گی۔ خوش ہوئے، میرا ایڈریس نوٹ کیا، کہا کہ فرخندہ پر لکھا ہوا میرا خاکہ جو حال ہی میں چھپا ہے آپ کو بھیج دوں گا، اس سے کافی مدد مل جائے گی۔ ایسا ہی ہو ا، چند روز میں مجھے وہ خاکہ مل گیا میری مشکل اور آسان ہو گئی۔
اب میں نے سعودی عرب میں رہتے ہوئے ہی فرخندہ کے خاکے کو مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا، جو کام کیا تھا وہ ساتھ رکھ لیا۔ عمرے کی ادائی گی اور مدینہ منورہ میں حاضری کے بعد میَں اس جانب متوجہ ہوا، اللہ نے مقدس سر زمین پر اس کام کو مکمل کرانا تھا، پہلے کس طرح ہو سکتا تھا۔ فرخندہ لودھی نے ۱۹۵۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کیا تھا، یہ وہی ڈپلومہ تھا جس کا آغاز۱۹۱۵ء میں آسا ڈان ڈکنسن نے کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد یہ کورس دوبارہ شروع ہوا، اس ڈپلومے کو حاصل کرنے والوں میں دیگر کے علاوہ اردو کے نامور محقق ڈاکٹر سلیم اختر، سینئر لائبریرین عبد الوہاب خان سلیم بھی شامل تھے۔ ملازمت کا آغاز ۱۹۵۸ء میں کوئنن میری کالج لاہور سے کیا، اس اعتبار سے فرخندہ مجھ سے سینئر تھی، میں نے ۱۹۷۲ء میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیا۔ میرا اولین رابطہ فرخندہ سے اس وقت ہوا جب فرخندہ اپنے کالج میں لائبریری سائنس بہ طور اختیاری مضمون شروع کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ کراچی کے کالجوں میں یہ مضمون ۱۹۷۶ء میں شروع ہو چکا تھا۔ میری نصابی کتاب ’’ابتدائی لائبریری سائنس‘‘ انٹر میڈیٹ سال اول کے لیے ۱۹۸۰ء میں اور سال دوم کے لیے ’’مبادیاتِ لائبریری سائنس‘‘ ۱۹۸۵ء میں آ چکی تھیں۔ پنجاب میں مضمون تو شروع ہو گیا تھا لیکن کوئی کتاب نصاب کے مطابق نہیں تھی۔ فرخندہ کی بڑائی تھی کہ انھوں نے نصاب میں میری کتب کو شامل کرایا۔ انھیں کتب کی حصولیابی کے لیے فرخندہ نے مجھ سے رابطہ کیا۔ بعد میں یہ تعلق پیشہ ورانہ مسائل کے حوالے سے قائم رہا۔ ۱۹۸۵ء کی بات ہے فرخندہ لودھی نے اپنے ایک خط میں مجھے لکھا :
صمدانی صاحب !
السلام علیکم !
’’آپ نے جس جذبے سے اس میدان میں کام کی پہل کی ہے میں اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہوں۔ سوچیے اگر آپ کی کتاب نہ ہو تی تو طالبات کیا پڑھتیں۔ اس وقت میری کلاس میں ۱۱۷ طالبات ہیں۔ کلاس شروع ہوئی تو پتہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ابتدائی اور مبادیات لائبریری سائنس کراچی میں بھی دست یاب نہیں۔ بڑی پریشانی ہوئی کریکلم ونگ لاہور کے رسرچ آفیسر (لائبریری سائنس) چوہدری نذیر احمد نے اس سلسلے میں بے حد مدد کی اور کہیں سے آپ کی کتاب حاصل کر کے فوٹو کاپیاں تیار کر کے طالبات کو دیں۔ نیا مضمون ہونے کی وجہ سے وہ بے حد پریشان تھیں ‘‘۔
فرخندہ لودھی
اس وقت فرخندہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین وحدت کالونی، لاہور میں تھیں۔ اسی حوالے سے جی سی یونیورسٹی کے چیف لائبریرین عبد الوحید نے اپنے مضمون ’’ ’’محترمہ فرخندہ لودھی: مؤقر لائبریرین اور ادبی شخصیت‘‘ میں لکھا ’’ ۱۹۹۰ء میں وہ انٹر کی سطح پر لائبریری سائنس کا مضمون متعارف کروانے میں کامیاب ہو گئیں اور اپنے کالج (گورنمنٹ کالج برائے خواتین وحدت کالونی لاہور ) پنجاب میں پہلی بار لائبریری سائنس کے مضمون کا اجراء کیا۔ بعد ازاں ۱۹۹۳ء میں جب وہ اپنی پوسٹ اور اسی تنخواہ پر گورنمنٹ کالج لاہور میں آئیں تو یہاں بھی یہ مضمون پڑھایا جانے لگا‘‘۔ فرخندہ لودھی کے اس عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مضمون سے انسیت، دلچسپی اور محبت رکھتی تھیں اس کی ترقی اور اس کے وقار کی سربلندی کے لیے ہر دم کوشاں رہیں۔
فرخندہ لودھی سے میرا ایک تعلق یہ بھی رہا کہ وہ بھی کالج لائبریرین تھی اور میری سرکا ری ملازمت جو ۳۵ برس پر محیط ہے مختلف کالجوں میں رہی۔ وہ مستند لکھاری اور میں قلم کاروں کی دنیا میں کچھ کوشش کر لیتا ہوں۔ اس حوالے سے ہمارے پیشہ ورانہ دکھ درد ایک ہی تھے۔ پروموشن، سروس اسٹرکچر، پرنسپل صاحبان کا نا مناسب سلوک جسیے مسائل ہمارے پیشہ ورانہ مسائل میں سر فہرست تھے جن سے لڑتے لڑتے بے شمار ساتھی ریٹائر ہو گئے کچھ فرخندہ کی طرح اللہ کو پیارے ہوئے۔ فرخندہ صرف اسی محاذ پربرسر پیکار نہیں رہی بلکہ اس کی زندگی میں کئی محاذ تھے جن پر وہ چومکھی لڑ رہی تھی۔ اس کی نجی زندگی بھی ایک محاذ تھی، وہ پنجابی اور اردو کی لکھا ری تھی وہاں بھی اُسے اپنے آپ کو منوانے کی جنگ لڑنا پڑ رہی تھی۔ اس نے ادیبوں کے کسی گروہ یا گروپ سے اپنے آپ کو منسلک نہیں کیا تھا پھر بھی اس پر مخصوص ادیبوں سے وابستگی کا لیبل لگتا رہا، ہر محاذ پر ہمت اور بہادری کا مقابلہ کیا، کالج کی سطح پر اپنے سبجیکٹ کو متعارف کرانے کا بیڑا اٹھا یا تو اسے پائے تکمیل تک پہنچا کر دم لیا، لائبریرینز کے پروموشن کی تحریک میں شامل ہوئی تو اسے مکمل کر کے دم لیا، کالج لائبریریز کے سروس اسٹرکچر کی جنگ اس خوبصورتی سے لڑی کہ وزارت تعلیم کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے، ادیبوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ایک ایسی لکھا ری ہے کہ جس کی تحریر میں جان ہے، وہ با مقصد لکھتی ہے، اپنی پذیرائی کے لیے ہر گز نہیں لکھتی بل کہ اپنی تحریر سے پڑھنے والوں کو ایک خاص پیغام دیتی ہے، وہ ادیبوں میں گروہ بندی کی بھی قائل نہیں، اس کا کہنا ہے کہ ادیب صرف اور صرف ادیب ہوتا ہے۔ اس نے احمد ندیم قاسمی کو بھی وہی عزت و احترام دیا جو ڈاکٹر وزیر آغا کو دیا۔
فرخندہ لودھی کا تعلق مشرقی پنجاب کے ککے زئی خاندان سے تھا جہاں یہ ہوشیار پور کے محلہ ’وکیلاں‘ میں رہا کرتے تھے۔ فرخندہ اپنے آبائی شہر میں ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء کو پیدا ہوئی، تقسیم ہند کے بعد اس خاندان نے پاکستان ہجرت کی اور پنجاب کے شہر منٹگمری ( ساہی وال) کو اپنا مسکن بنایا، ان کے والد اور تین بڑے بھائی محکمہ پولیس میں ملازم تھے، تین بہنوں اور تین بھائیوں میں فرخندہ کا آخری نمبر تھا۔ فرخندہ نے پولیس والوں کے ماحول میں آنکھ کھولی، پلی بڑھی لیکن اس نے اپنے آپ کو ان خصوصیات سے محفوظ رکھا جو عام طور پر پولیس والوں میں پائی جاتی ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کر کے اپنے گھر کے ماحول کو بدلنا چاہتی تھی، وہ تو کتاب سے محبت کا سچا جذبہ لیے پیدا ہوئی تھی، وہ قلم کی طاقت پر ایمان رکھتی تھی۔
اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس نے عملی جد و جہد کی، تعلیم حاصل کی، ملازمت کی، قلم اٹھایا، پوری زندگی کتابوں کے درمیان رہی اور کامیاب بھی ہوئی۔ فرخندہ کا کہنا تھا کہ ’’مجھے تعلیم حاصل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا جنون ہو گیا تاکہ خاندانی دباؤسے نجات مل سکے ‘‘۔ فرخندہ نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین، ساہی وال سے گریجویشن کیا، ۱۹۵۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ڈپلومہ کیا، ۱۹۶۲ء میں لائبریری سائنس ہی میں ایم اے کیا، ۱۹۷۸ء میں اردو میں ایم اے میں بھی کیا۔ وہ چاہتی تو بہت آسانی سے اردو کی لیکچر ر بن جاتی، اس میں صلاحیت بھی تھی، ڈگری بھی اور لکھاری ہونے کے ناتے ادبی حلقوں میں اس کا نام تھا لیکن اُسے تو کتابوں سے عشق تھا ، کتابیں اس کی دوست تھیں، ساتھی تھیں وہ کتابوں کے درمیان رہنا چاہتی تھی اور رہی، اس نے لائبریرین ہونے کو ترجیح دی، کبھی میَں نے کہا تھا ؎
حصول علم ہے ہر ایک کام سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر
فرخندہ کی شادی پروفیسر صابر لودھی سے ۱۵ اگست ۱۹۶۱ء کو ہوئی، بقول صابر لودھی ’’انھوں نے جس خانوادے میں آنکھ کھولی وہاں صباحت کا راج تھا۔ ملاحت کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستی تھیں ‘‘۔ پختون خواہ کی سرزمین جہاں کے لوگ اپنے ظاہری پن میں سرخ سفید، صحت مند اور خوبرو شخص کو ’سانولی سلونی، اداس، سیاہ، متجسس آنکھیں ، کیسے بھا گئیں۔ صابر لودھی کو فرخندہ کی متجسس آنکھیں ایسی اچھی لگیں کہ انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انھیں اپنا لیا۔ اس طرح پروفیسر صابر لودھی کو فرخندہ کے روپ میں وہ ملاحت مل گئی جس کو دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں۔ ایک ادیب لائبریرین اور ایک ادیب پروفیسر کا ملاپ یقیناً حسین ملاپ سے کم نہیں، اگر گاڑی کے دونوں پہیوں سے ادب کی کرنیں پھوٹتیں ہوں، ترسیل علم دو طرفہ ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہی ہے۔ دونوں کی زندگی کا سفر ادب کی ترویج و ترسیل سے عبارت رہا۔ فرخندہ ترسیل علم کے ساتھ ساتھ ادب کی ترویج میں بھی کردار ادا کرتی رہی اور صابر صاحب بھی اسی منزل کے شہ سوار رہے۔ یہ دوسری بات بقول صابر لودھی۔ ’’اصل میں فرخندہ روایتی ہے ، یونانی مگکر زینو کی شاگرد اور صابر لودھی یونانی فلسفی ایپی غورس کا پیرو ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی سوچ ہے، اپنے اپنے دائرے ہیں، تاہم فرخندہ پرسکون زندگی گزار رہی ہے، اضطراب ،محرومی،شکست کے باوجود پرسکون۔ ۔ ۔ ۔ اس اطمینان میں اُس کے اپنے فلسفے کا دخل ہے۔۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں ،ساتھ ساتھ چلو، دُور دُور رہو‘‘ سو دونوں دُور دُور رہ کر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ‘‘۔ ایک اور جگہ پروفیسر صابر لودھی نے لکھا ’’جب کوئی المیہ، ماضی کا کوئی دکھ، محرومی کا کوئی احساس، نارسائی کا کوئی لمحہ اُسے بے کل کر دیتا تو وہ کتھارسس کے لیے لکھنے بیٹھ جاتی اور جب کوئی افسانہ یا ناول کا ایک ٹکڑا مکمل ہو جاتا تو اطمینان کا سانس لیتی، تھک کر لیٹ جاتی یا کسی معصوم بچے سے باتیں کرنے لگتی۔ مجھ سے وہ اجنبی رہتی اور یہ اجنبیت زندگی بھر ہمارے درمیان قائم رہی۔ دونوں ایک ساتھ، ایک گھر میں۔ ۔ ۔ ۔ اپنے اپنے خیالات ایک دوسرے سے شیِر کرتے ہوئے (وہ کم، میں زیادہ)ایک دوسرے سے خوف زدہ یہی ہماری کامیاب زندگی اور پچاس سالہ رفاقت کا راز تھا‘‘۔ یہ تھی فرخندہ لودھی کی ازدواجی زندگی اس کے اپنے مجازی خدا کے الفاظ میں۔ بہ قول شاعر ؎
ساتھ رہ کے بھی دور ہی رہے ہم تم
دھوپ چھاؤں کی دوستی عجب گزری
فرخندہ لودھی کی پیشہ ورانہ خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اُس کے ہم پیشہ اُسے عزت و احترام سے دیکھا کرتے تھے۔ اردو اور پنجابی ادب کے دانش ور بھی اس کا اتنا ہی احترام کیا کرتے اور ’’باجی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ لائبریرین شپ کے پیشے میں بھی فرخندہ لودھی کا بہت ادب و احترام تھا، فرخندہ کی پیشہ ورانہ خدمات کے معترف ہی نہیں بلکہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فرخندہ نے ۱۹۵۸ء میں کوئین میری کالج لاہور سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بقول عبدالوحید ’’اس زمانے میں سانولا رنگ،د ل کش قامت، دل میں اتر جانے والی اداس آنکھیں اور غیر معمولی لمبے گھنے بال ان کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ زمانے کی گرد نے انھیں دھندلا دیا۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں ان کے سادہ لباس کی تقلید کی جاتی تھی۔ ساڑھی، پورے بازوؤں کا بلاؤز اور بند اونچے گلے کی قمیض کا پہنا و ا، انھوں نے کالج میں نہ صرف پسندیدہ بلکہ عام کیا تھا‘‘۔
لائبریرین کا عہدہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں بہت ہی منفرد ہوا کرتا ہے، کام سب سے زیادہ، تنخواہ سب سے کم، تعلیمی استطاعت اساتذہ کے مساوی بسا اوقات ان سے بھی زیادہ لیکن عزت و احترام میں ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک عام سی بات تھی۔ فرخندہ نے اس ماحول اور رویے کا مقابلہ کرنے اوراس میں بہتری کی عملی جد و جہد کا بیڑا اٹھایا۔ وہ ایک حساس طبیعت کی مالک تھی، اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کھڑی ہوئی تو منزل کو پا کر ہی دم لیا۔ یہ وہ دور تھا جب فرخندہ کوئین میری کالج میں ملازمت کیا کرتی تھیں۔ بقول عبد الوحید ’’ بطور لائبریرین کوئین میری کالج کا ملازمتی دور انہیں کسی ترقی کی منزل تک تو نہ پہنچا سکاکیوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب گریجویٹ لائبریرین کو بہ مشکل چودھواں اس کیل کے مساوی تنخواہ ملتی تھی۔ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر لائبریرین کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ اور تنخواہ سب سے کم تھی۔ پیشہ ورانہ ایسو سی ایشن کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی‘‘۔ اسی زمانہ میں فرخندہ لودھی نے پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن کے تحت لائبریریز کے حقوق کی جنگ لڑنے کا بیڑا اٹھا یا، بعد از آں پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے پلیٹ فا رم سے بھی جد و جہد کی اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر مقصد کے حصول میں کامیاب و کامران ہوئیں۔ لائبریری انجمنوں سے فرخندہ کی وابستگی کی تاریخ بہت طویل ہے۔ اس طویل جد و جہد میں فرخندہ اپنے ساتھیوں کے کٹھن سے کٹھن مرحلہ پر ہمیشہ اگلی صف میں نظر آئیں۔ انتظامیہ کے افسران فرخندہ کی ادبی حیثیت سے بھی بخوبی واقف تھے، اس کا ادبی قد کاٹھ بھی افسران پر بھاری پڑا اور انہوں نے مسائل کو حل کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دی۔
فرخندہ محض لائبریرین ہی نہ تھیں بلکہ ان کا شمار اردو اور پنجابی کی معروف لکھاریوں میں ہوتا تھا۔ اردو میں ناول نگاری اور افسانہ نگاری کے جوہر دکھا نے کے بعد انہوں نے پنجابی میں بھی افسانے، کہانیاں اور ناول تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ انہوں نے خاکہ نگاری بھی کی، ان کا تحریر کردہ خاکہ ’’انور سدید بھائی صاحب‘‘ میں مصنفہ نے ڈاکٹر انور سدید کی نجی زندگی کی جھلکیاں خوبصورت انداز سے قلم بند کی ہیں۔ خاکہ کے اختتام پر فرخندہ لکھتی ہیں ــ ’’بھائی صاحب کا خاکہ لکھنے کے لیے میں خود کو کئی برس سے آمادہ پا رہی ہوں لیکن وہی طبیعت کی کسل مندی اور بد عہدی، لفظوں کی تنگی اور بے آہنگی، مجھ جیسے لوگ قلم کاروں کی دنیا میں کبھی کبھی ٹامک ٹوئیاں مار لیتے ہیں۔ میدان مارنے والے شہسوار بھائی انور سدید جیسے ہی لوگ ہیں، قلم جن کی زیر ہیں اتنے رواں کہ مہمیز کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی لوگ آج ادب کی آبرو ہیں ‘‘۔ فرخندہ لودھی کا یہ خاکہ سجاد نقوی کی کتاب ـ ’’انور سدید۔ گرم دمِ جستجو‘‘میں شامل ہے۔ ڈاکٹر انور سدید نے مجلہ راوی ۲۰۱۰ء میں ’فرخندہ لودھی کی ذاتی ڈائری سے ، کچھ اقتباسات نقل کیے ہیں۔ بقول ڈاکٹر انور سدید فرخندہ نے باقاعدگی سے اپنی ڈائری نہیں لکھی۔ اس کی صرف ایک ڈائری دستیاب ہوئی جو ۱۹۸۳ء کے مختلف ایام میں لکھی گئی۔ انور سدید کے مطابق یہ ایک ایسی خود کلامی ہے جس میں مصنفہ کا سماجی تاثر، بے لوث اور بے تکلف ذاتی رائے سماگئی ہے اور ہمیں ان کے داخلی جزیروں تک رسائی کا موقعہ فراہم کرتی ہے ‘‘۔
فرخندہ نے ۱۹۸۳ء میں جو ڈائری لکھی اس کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیشے سے دل برداشتہ تھیں۔ اگر انھوں نے لائبریرین شپ کے بجائے اپنے شوہر کی طرح ٹیچنگ کا شعبہ اختیار کر لیا ہوتا تو وہ بھی پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوتیں۔ پھر بھی انھوں نے مسائل و مشکلات کا مقابلہ کیا، ہمت نہ ہاری، لڑتی رہیں، اپنی ڈائری میں ایک جگہ فرخندہ نے لکھا ’’لگتا ہے میں لائبریرین ہوں اور اس حیثیت سے کسی نہایت غیر اہم کالج سے اٹھا ئی جاؤں گی۔ میرے مقدر میں تمام محنت اور کوشش کے باوجود ترقی کا زینہ نہیں ‘‘۔ یہی بات پروفیسر صابر لودھی نے بھی کہی کہ ’’فرخندہ لودھی کو لائبریرین کا پیشہ تضحیک آمیز لگا، وہ کامل اختیار کی طلب گار تھی‘‘۔ فر خندہ لودھی نے زندگی کی بازی ہاری نہیں، بلکہ وہ
کامیاب و کامران رہی۔ فرخندہ فالج کی بیماری میں ۱۲ سال مبتلا رہی، اس مرض کے کئی حملے ہوئے، زندگی میں چلتے پھر تے حالات ومسائل کا مقابلہ کرتی رہی اور زندگی کے ۱۲ سال ویل چٔیر پر موذی مرض سے مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار گئی۔ ۵ مئی ۲۰۱۰ء، شام ۵ بجے شام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں واپڈا ٹاؤن لاہور کا قبرستان ان کا آخری مستقرٹھہر ا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے، آمین۔ علامہ اقبال نے کیا خوب شعر کہا ہے ؎
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
(شائع شدہ:ماہ نامہ ا’لحمر اء‘‘ لاہور، ۱۲: ۳، مارچ ۲۰۱۲ء)
تحریر شدہ۱۲جولائی ۲۰۱۱ء جدہ، سعودی عربیہ
پروفیسر ڈاکٹر عبد السّلام:محترم و معزز
پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے ان اساتذہ میں سے ہیں جنہوں نے کالج کے قیام کے ابتدائی دنوں (۱۹۵۶ء) میں تدریسی فرائض کا آغاز کیا۔ اس سے قبل وہ اردو کالج میں ۲۵ جون ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۶ء تک استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ گورنمنٹ کالج سے ۲۱ اگست ۱۹۸۲ء کو ریٹائر ہوئے ساتھ ہی جامعہ کراچی کے شعبہ اردو اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں ۲۰۰۰ء تک تدریس کے فرائض انجام دیے اس طرح آپ کی تدریسی خدمات ۱۹۴۹ ء تا ۲۰۰۰ء یعنی۵۱ برسوں پر محیط ہیں۔
۸۶ سالہ ڈاکٹر سلام ۲۰۰۰ ء سے ضعیفی اور صحت کی خرابی کے باعث اپنے گھر تک محدود ہیں۔ گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے میگزین ’’روایت‘‘ کے گولڈن جوبلی نمبر ڈاکٹر عبد السلام کے تاثرات کے بغیر ادھورا ہی رہے گا چنانچہ۷ اپریل ۲۰۰۸ء بہ روز پیر میں پروفیسر ہمایوں اقبال کے ہمراہ اپنے کالج سے ڈاکٹر عبد السلام کے گھر واقع نارتھ ناظم آباد کے بلاک ’ایچ، پہنچا، دروازے پر ڈاکٹر عبدالسلام ، کے نام کی تختی لگی تھی، بیگم عبد السلام نے ہمیں ڈاکٹر صاحب تک پہنچا یا، وہ اپنے گھر کے کامن روم میں ڈائننگ میز کے قریب کرسی پر بیٹھے تھے ساتھ ہی ’واکر‘ رکھی تھی، انتہائی نحیف، کمزور، چھوٹا قد، چھریرا بدن، سفید کرتا پائے جامہ پہنے، خس خسی مگر زیادہ سفید داڑھی، سر پر کالے سفید چند بال، چہرہ پر دانت نمایاں، لیکن بلند حوصلہ، بہ ہمت، خوش اخلاق، منکسر المزاج طبیعت۔ خوشی سے ملے، ہماری آمد ان کے لیے اچنبھا نہیں تھی بلکہ وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار تھے کیوں کہ چند روز قبل ہمایوں اقبال صاحب ان کے گھر جا چکے تھے اس وقت وہ قطعاً اس قابل نہیں تھے کہ گفتگو کر سکتے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم جن کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ بھی اردو میں ایم اے ہیں اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کرانے میں پھرتیلے انداز میں مصروف تھیں۔ جس قدر وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرا ان کی بیگم جو خود بھی عمر رسیدہ ہیں ڈاکٹر صاحب پر جس طرح توجہ اور ان کا خیال کر رہی تھیں، در حقیقت یہ مشرقی روایات اور اسلامی شعار کا جیتا جاگتا عملی نمونہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا، وہ پہلے سے تیار تھے۔ گفتگو شروع ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اردو کالج سے وابستگی اور خدمات پر بولنا شروع کیا، جب انہیں کافی دیر ہو گئی تو میں نے انہیں گورنمنٹ کالج ناظم میں گزارے ہوئے ماہ و سال کے بارے میں کچھ بتانے کو کہا، انہوں نے گورنمنٹ کالج سے اپنی وبستگی کے بارے میں چند جملے کہے لیکن وہ پھر سے اردو کالج میں گزارے ہوئے اپنے ماضی میں کھو جاتے، محسوس ہوا کہ ضعیف العمری کے باعث ڈاکٹر صاحب کی یادداشت ان کا ساتھ نہیں دے پا رہی۔ وہ بار بار اردو کالج پہنچ جاتے اور میں انہیں گورنمنٹ کالج جس میں انہوں نے ۲۶ سال(۱۹۵۶ء۔ ۱۹۸۲ء)گزارے تھے واپس لاتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی علمیت و قابلیت میں کوئی شبہ نہیں وہ اپنے موضوع پر authorityسمجھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا تحریر کردہ ایک خود نوشتی مضمون معروف ادبی رسالے ’’سیپ‘‘ کے شمارہ ۷۵ (خاص نمبر) ۲۰۰۶ء میں بہ عنوان ’’ممنوعہ راستہ‘‘ شائع ہوا۔ اس مضمون کی فوٹو کاپی آپ نے ہمیں فراہم کی۔ اس رسالے کی تلاش میں وہ اپنی واکر کے ذریعہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے اپنے بیڈ روم تک گئے اور از خود یہ شمارہ ڈھونڈ کر لائے۔ مضمون ڈاکٹر صاحب پر سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے تقسیم ہند کے بعدستمبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا۔ آپ کا تعلق ہندوستان کے علاقے راجستھان کے شہر ’’کوٹہ ‘‘ سے ہے۔ جہاں پر آپ ۲۵ جنوری ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب بچپن میں بہت ہی شوخ اور شرارتی تھے لیکن پڑھنے لکھنے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ اللہ تعا لیٰ نے ان میں ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ان کی پیدائش پر ان کے کان میں اذان کی نحیف آواز کے بعد جو زور دار آواز پڑی وہ طبلے کی تھاپ اور سارنگی کے سُر تھے۔ شا ید اسی لیے مجھے زندگی بھر موسیقی سےد لچسپی رہی‘‘۔ علی گڑھ مسلم یوینورسٹی سے اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کیا جہاں پر آپ کے اساتذہ میں پروفیسر آل احمد سرور، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور عزیز احمد شامل تھے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ’’مجھ میں تنقید سےد لچسپی پروفیسر آل احمد سرور صاحب کے لیکچروں کی وجہ سے ہوئی‘‘۔
ابتدا میں بر ماشیل، اسٹیت بنک میں ملازمت کی پھر بابائے اردو مولوی عبد الحق کے ساتھ ’کل پاکستان انجمن ترقی اردو ، سے منسلک ہو گئے۔ ڈاکٹر سلام کا مزاج کسی دفتر میں کلرکی کا نہیں تھا وہ بنیادی طور پر استاد تھے، ان کا کہنا ہے کہ ’’ وہ بنیادی طور پر ٹیچنگ کے آدمی ہیں ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برما شیل اور اسٹیٹ بنک کی ملازمت سے از خود سبکدوشی اختیار کی۔ ۱۹۵۶ء میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں سینئر لیکچر ر ہوئے اورساتھ ہی شعبہ اردو کے سربراہ بھی ہوئے اس وقت کالج میں آپ کے ساتھیوں میں ڈاکٹر اسلم فرخی، انجم اعظمی، شاہد عشقی اور عقیلہ شاہین عباسی تھیں۔ آپ نے گورنمنٹ کالج میں رہتے ہوئے ۱۹۶۸ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی آپ کے مقالے کا عنوان تھا ’’ اردو ناول بیسویں صدی میں ‘‘۔
گورنمنٹ کالج کے اساتذہ میں اسلم فرخی صاحب کو بھی یہ فضیلت حاصل ہے کہ انہوں نے بھی گورنمنٹ کالج میں رہتے ہوئے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر سلام لسانیات پر ماہر تصور کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے گورنمنٹ کالج میں ملازمت کے ساتھ سا تھ آپ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں لسانیات کے استاد بھی رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کالج میں بھر پور زندگی گزاری، تدریس کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں مسلسل سرپرستی کی، وہ ہاکی کے اچھے کھلاڑی رہ چکے تھے کالج میں بھی کھیلوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں شہنشاہ حسین بہت معروف طالب علم تھا لیکن وہ میری انتہائی عزت کیا کرتا تھا اس نے کبھی میرے سامنے سگریٹ نہیں پی، اگر کبھی ایسا ہوا کہ میں سامنے آ بھی گیا تو وہ سیگریٹ والا ہاتھ پیچھے کر لیا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ساتھی اساتذہ اور کالج پرنسپل کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ کالج پرنسپل گیلانی سروس کے آدمی تھے، اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے لیکن ان کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ ہم لوگ ان کی تعریف کریں۔ آپ نے کہا کہ گیلانی صاحب کے بعد جعفری صاحب اس منصب پر فائز ہوئے بہت اچھے دوست تھے، انہوں نے کالج کے امور کو اپنے کنٹرول میں رکھا، شریف اور نیک انسان تھے ان کے برعکس ڈاکٹر سید ایس ایم احمد تیز طرار اور انجمن باز قسم کے انسان تھے ان کا یہ نام اسلم فرخی نے رکھا تھا، رشید صاحب کو طلبا ء نے بہت پریشان کیا، فاروقی صاحب بہت کم وقت کے لیے آئے انہوں نے تیز دوڑنا شروع کر دیا تھا، ان کی شہرت ایک اچھے منتظم کی تھی لیکن انہیں چلنے نہیں دیا گیا۔ عبد الرؤف کو بھی طلبا ء نے تنگ کیا البتہ ظہیر صاحب کے زمانے میں حالات بدل گئے تھے وہ اچھے منتظم اور اچھے انسان تھے۔
اس سوال کا کہ آپ اپنے زمانہ طالب علمی کا موجودہ دور سے کیسے تقابل کریں گے۔ آپ نے کہا کہ ۱۹۴۷ء کے بعد حالات بالکل بدل گئے، دنیا ہی بدل گئی، وہ دنیا الگ تھی یہاں کی دنیا الگ ہے، وہاں استاد کا احترام تھا، عزت کی جاتی تھی، طلباء میں کچھ حاصل کرنے کا جذبہ اور لگن تھی جس کا اب فقدان پایا جاتا ہے۔ آج کا استاد سیاست میں شامل ہو گیا۔ آپ نے کہا کہ حالات بگاڑنے کی ایک وجہ اپنی عزت سے لڑکوں کو کھیلنے کا موقع دینا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں آپ کے بیتے ہوئے بائیس سالوں کا ناقابل فراموش واقعہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ ’’ مجھے زبر دستی پرنسپل بنایا جانا تھا‘‘۔ میں نے مجبوری میں پرنسپل کا چارج لے لیا لیکن انہیں تاکید کرتا رہا کہ جلد ریگولر پرنسپل بھیجیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے پڑھوا لیجیے میں صرف تدریس کا آدمی ہوں۔ ایک اور واقعہ آپ نے یہ بتا یا کہ ہمارے ایک انگریزی کے استاد تھے سید محمد احسن، وہ امریکہ چلے گئے تھے اور وہیں پر مستقل رہائش اختیار کر لی تھی ان کا خط امریکہ سے میرے پاس آیا جس میں انھوں نے لکھا کہ وہ وہاں old house میں رہتے ہیں، میں ان کا خط پڑھ کر خون کے آنسو رویا، خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ صورت حال نہیں، احسن صاحب کی دو لڑکیاں بھی ہیں۔ نئی نسل کے نام اپنے پیغام میں ڈاکٹر سلام نے کہا کہ وہ ’’ پڑھائی کو مقدم رکھیں اگر وقت ملے تو کھیلوں میں بھی دلچسپی لیں ‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام بنیادی طو پر ایک استاد ہیں انہوں نے ۱۹۴۹ء سے پڑھانا شروع کیا اردو کالج کے بعد گورنمنٹ کالج ناظم میں ۱۲ اگست ۱۹۸۲ء تک استاد رہے، اس دوران وہ جامعہ کراچی میں بھی پڑھاتے رہے، ریٹائر ہونے کے بعد جامعہ کراچی اور پھر جناح یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیے ۲۰۰۰ء میں جب آپ کی صحت اس قابل نہ رہی کہ آپ باہر جا سکیں تو آپ مجبور ہو گئے۔ آپ نے متعدد کتابیں تخلیق کیں ان میں تحقیق و تنقید، تسلیل البلاغت، فن ڈرامہ نگاری منزل بہ منزل، لسانیات کی ٹیکسٹ بک عمومے لسانیات، جدید اردو تنقید کے معمار، فن ناول نگاری، اصول تنقید، میرانیس اور ان کے مرثیے شامل ہیں۔ آپ کے بے شمار مضامین مختلف ادبی و تحقیقی رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ (شائع شدہ مجلہ ’روایت ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد)
پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام اب اس دنیا میں نہیں، مجھے اس بات کا علم ڈاکٹر اسلم فرخی کی خاکوں کی کتاب ’’موسم بہار جیسے لوگ‘‘ میں شامل ڈاکٹر عبد السلام کا خاکہ پڑھ کر ہوا، ڈاکٹر اسلم فرخی سلام صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے وہ اور سلام صاحب گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں کئی برس تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسلم فرخی صاحب کا لکھا ہوا خاکہ پڑھ کر سلام صاحب سے کی ہوئی گفتگو اور وہ ان کا معصوم چہرہ نظروں میں گھوم گیا۔ ڈاکٹر صاحب پر اب ایک کتاب بھی منظر عام پر آ گئی ہے۔ اچھے انسان تھے، اللہ مغفرت کرے۔
پروفیسر لطیف اللہ: نفیس انسان
ناظم آباد نمبر ۳ گول مارکیٹ سے چند قدم آگے ڈاکٹر ضیاء الدین میموریل اسپتال سے کچھ ہی فاصلہ پر ایک مثلث نما کشادہ جگہ کے انتہائی بائیں جانب کارنر کا ایک خستہ حال مکان جس کے ایک کمرے کا دروازہ باہر کی جانب کھلا ہوتا ہے، سامنے پلنگ پر سفید چادر، دو عدد لکڑی کے صوفے جن میں سے ایک پر کچھ گرد آلود کتابیں اور چند ریک جن میں کتابیں ہی کتابیں رکھی نظر آتی ہے۔ پلنگ پر ایک بزرگ لیٹے ہوتے ہیں۔ دھان پان جسم، چھوٹا قد، گندمی رنگ، چہرے پر’ شہاب نامہ، کے مصنف قدرت اللہ شہاب جیسی داڑھی، کبھی اس قسم کی داڑھی ویت نام کے عظیم رہنما ’’ہوچی مِنہ، کی مشہور تھی، بنگال کے اکثر لوگ بھی اسی قسم کی داڑھی رکھتے ہیں۔ سر پرسفید مٹیالے بالوں کابڑاسا گچھا جس نے ان کے چہرے کو نمایاں کیا ہوا ہے۔ یہ ہیں گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کے ایک ریٹائرڈ استاد ’’ پروفیسر لطیف اللہ‘‘ جنہوں نے ۲۲ سال (۱۹۶۶ء۔ ۱۹۸۸ء) کالج میں تدریسی فرائض انجام دئے۔ ایک ایسا فلسفی، سائنس داں، مصنف و محقق یا شاعر جو صرف اپنی دنیا میں مگن ہواس کی جیتی جاگتی تصویر پروفیسر لطیف اللہ میں نظر آتی ہے۔ ان پر ابن انشا ء کا کہا ہو ایہ جملہ صادق آتا ہے جو انہوں نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے ایک سابق پروفیسر انجم اعظمی کے لیے لکھا تھا کہ ’’یہ چہرہ عصر حاضر کے تب و تاب کو سمیٹنے والے شخص کا چہرہ نہیں۔ نہ فقط ان کے محبوب کا روئے دل آرا ہے بلکہ ایک عالم کا چہرہ ہے۔ کہیں شاداب، کہیں وقت کی تمازت سے جھلساہوا، کہیں روشن ، کہیں دھندلا،کہیں پورا کہیں آدھا‘‘۔
پروفیسر لطیف اللہ کا تعلق راجستھان کے علاقے ’’الور ‘‘ سے ہے جو دہلی کے نزدیک تر واقع ہے۔ گویا لطیف اللہ راجستھان کی علمی و ادبی تہذیب کی نمائندہ شخصیات میں سے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا۔ اردو کے علاوہ فلسفہ اور تصوف ان کے خاص موضوعات ہیں۔ کالج میگزین ’روایت ، کے گولڈن جوبلی نمبر کی اشاعت کا فیصلہ ہوا تو کالج کے سابق اساتذہ کا یاد کیا جانا ایک لازمی امر تھا چنانچہ دیگر شخصیات کے علاوہ پروفیسر لطیف اللہ کی تلاش شروع ہوئی۔ کئی احباب سے معلوم کیا لیکن کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ ایک روز اپنے کالج کے کامرس سیکشن میں کسی طرح لطیف اللہ صاحب کا ذکر آ گیا، میں نے ذکر کیا کہ مجھے ان کی تلاش ہے، نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔ منصور صاحب نے فرمایا کہ لطیف اللہ صاحب تو ناظم آباد نمبر ۳ میں ہی رہتے ہیں، انھوں نے راستہ سمجھایا کہ اس اس طرح ان کے گھر پہنچا جا سکتا ہے۔ میں اگلے ہی دن بتائے ہوئے راستے پر نکل کھڑا ہوا، گول مارکیٹ کے اردگرد چکر لگائے، مگر نا کامی ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد اپنی ناکامی کا ذکر منصور صاحب سے کیا کہ مجھے آپ کا بتایا ہوا لطیف اللہ کا گھر نہیں ملا۔ انہوں نے از راہ عنایت مجھے اسی وقت ساتھ چلنے کا کہا، میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی گاڑی ان کی گاڑی کے پیچھے لگا دی اس طرح ہم لطیف اللہ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔
کمرے کا دروازہ کھلا تھا، پلنگ پر ایک بیمار شخص لیٹا نظر آ رہا تھا، سفید کرتا پاجامہ اور زلف پریشان، چہرے پر اداسی اور تکلیف نمایاں تھی، ہمیں دیکھ کر اٹھ بیٹھے، سلام دعا ہوئی، میں نے مدعا بیان کیا، آپ نے وعدہ بھی کر لیا لیکن جب میں کوئی پندرہ دن بعد ۹ اپریل ۲۰۰۸ء کو دوبارہ یاد دہانی کے لیے پہنچا تو انھوں معذرت کی اور کہا کہ وہ اب خود تو لکھ نہیں سکتے شایدکسی دوسرے کی مدد کے منتظر رہتے ہیں، یہ مدد انھیں اس دوران نہیں مل سکی۔ ان کی کم زوری کی وہی کیفیت میں نے دیکھی تو ان سے گفتگو کا آغاز کر دیا اور ساتھ ہی جو کچھ وہ بول رہے تھے نوٹ بھی کرتا جا رہا تھا۔ انھوں نے بھی جب مجھے نوٹ لیتے دیکھا تو زیادہ دلچسپی سے گفتگو شروع کر دی۔ اپنی گفتگو کا آغاز ہی اقبال کے فلسفہ خودی، وحدت الوجود، امیر خسرو اور اسی طرح کے فلسفیانہ موضوعات پر بولتے رہے، اپنے بارے میں بتا یا:
’’میں نے ۷ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ڈائریکٹر آف اسکول ایجو کیشن (اس وقت ڈائریکٹر اسکول بورڈ تھا) کے آفس میں ملازمت کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور اردو میں ایم اے کر لیا۔ یہاں میری ملازمت کا سلسلہ ۱۹سال یعنی ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک جاری رہا۔ گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد میں جگہ خالی ہوئی وہ اس طرح کہ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے کالج سے جامعہ کراچی جانے کا فیصلہ کر لیا ان کے چلے جانے سے ایک لیکچر ر کی جگہ خالی ہوئی اس سیٹ پر میرا تقر ر بہ طور لیکچر ر اردو کے ہوا اور میں نے ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو اپنی ملازمت کا آغاز کیا جو میرے ریٹائر منٹ ۱۵ جولائی ۱۹۸۸ء تک جاری رہی۔ گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کے شعبہ اردو میں اس وقت ڈاکٹر عبد السلام، شاہد عشقی، انجم اعظمی پہلے سے تھے اب میرا اضافہ ہوا۔ بعد میں ڈاکٹر حسن محمد خان، سراج الدین قاضی صاحب بھی آ گئے۔ کالج میں بہت اچھا ماحول تھا، سب ہی اساتذہ اچھے تھے۔ میں کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں طلباء کی رہنمائی کیا کرتا تھا، کالج کے طلبہ بھی سر گرم رہتے، پروفیسر ظہیر احمد صاحب پرنسپل تھے انہوں نے کالج میگزین کی ذمہ داری مجھے سونپ دی اور میگزین کا نگرانِ اعلیٰ بنا دیا۔ اس سے قبل کالج کے جو میگزین شائع ہوئے وہ ڈاکٹر اسلم فرخی اور ڈاکٹر عبد السلام کی نگرانی میں شائع ہوئے تھے۔ اب یہ اہم ذمہ داری میرے کاندھوں پر تھی۔ اس کام میں میرے شریک کار پروفیسر سراج الدین قاضی تھے جنھیں شعبہ اردو کا نگراں مقر ر کیا گیا اور پروفیسر خواجہ نیاز حامد کو شعبہ انگریزی کا نگراں مقر ر کیا گیا۔ ہم سب نے مل کر مجلے کی ترتیب و اشاعت کا کام شروع کیا۔ ہماری یہ کاوش ’’روایت ۱۹۷۸ء۔ ۱۹۷۹ء ‘‘ کی صورت میں سامنے آئی۔ کالج کے میگزین کے حوالے سے اس بار ایک نئی روایت بھی قائم ہوئی وہ یہ کہ اس سے قبل کالج میگزین ’’المنورہ‘‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا تھا۔ ہم نے ایک نئی روایت قائم کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج کے میگزین کا نام ’روایت‘ رکھا۔ اس نام سے روایت شائع بھی ہوا۔ اس میں کیا کچھ ہے وہ آپ کو اس شمارے سے اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔ اس میگزین میں میرا ایک مضمون ’’ رسولﷺ کی سیاسی زندگی ‘‘ شامل ہے۔ ایک اور بات یہ کہ کالج میگزین کا یہ نام تا حال روایت ہی ہے اور یقیناً گولڈن جوبلی کے موقع پر جو خاص شمارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے حوالے سے ایک طالب علم شہنشاہ حسین کا ذکر ضرور آتا ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ وہ ان استادوں کی بے انتہا عزت و تکریم کیا کرتا تھا جو کسی بھی قسم کی سیاست میں نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ میرا براہ راست شاگرد نہیں تھا لیکن میرا حد درجے احترام کیا کرتا تھا، البتہ ایک اور طالب علم مسرور احسن گستاخ تھا لیکن اس نے میرے ساتھ کبھی بدتمیزی نہیں کی۔ اگر کبھی وہ سگریٹ پی رہا ہوتا اور میں وہاں سے گزر بھی جاتا تو وہ اپنا ہاتھ پیچھے کی جانب کر لیا کرتا تھا اس کے برعکس ایسا بھی ہوا کہ اس نے سگریٹ کا دھواں استاد کے منہ پر چھوڑا، اس کی بھی بعض وجوہات تھیں میں ان میں جانا نہیں چاہتا۔
آپ نے میرے دور کے پرنسپل صاحبان کے بارے میں پوچھا تو جناب سارے ہی پرنسپل اپنے اپنے دور میں کالج کی بہتری کے کام کرتے رہے جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے تو ہر ایک کی عادات و اطوار مختلف ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد حسن جعفری صاحب انتہائی سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے، نرم مزاج، شائستہ اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ کاظمی صاحب کے زمانے میں حالات میں تبدیلی آ چکی تھی، طلباء سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے، محکمہ تعلیم کے تحت جو تعلیمی ادارے تھے وہ اس وقت کی حکومت جو کہ بھٹو صاحب کی تھی کے حمایتی تھے۔ اسی اعتبار سے حالات بھی رہے۔ سموں صاحب کے دور میں کافی گڑ بڑ رہی۔ میں نے اپنے پورے تدریسی دور میں کبھی کسی بھی قسم کی سیاست میں حصہ نہیں لیا، تمام طلباء کو یک ساں جانا، ہمیشہ اپنے سبق کے دائرے میں رہا، پڑھانا، کلاس لینا، شعر و شاعری، ادبی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں طلباء کی رہنمائی کیا کرتا تھا۔ جو لوگ سیاست میں کسی بھی طرح شامل ہوئے انھیں اس کے نتائج بھگتنا بھی پڑے۔ پروفیسر ظہیر احمد بہت نفیس انسان ہیں۔ جب پرنسپل تھے کالج کے تعلیمی اور انتظامی امور کو خوب صورتی سے چلایا۔ میرے بہت اچھے تعلقات رہے بلکہ جب وہ ریٹائر ہو گئے تو ان تعلقات میں زیادہ سرگرمی آ گئی۔ میں انھیں کے دور میں ۱۹۸۸ء میں ریٹائر ہوا۔
میں اردو کا استاد تھا پڑھانے کے ساتھ ساتھ لکھنا میرا اوڑھنا بچھو نا رہا اور اب بھی ہے۔ جہاں آپ بیٹھے ہیں یہ میری کائنات ہے۔ اس سے آپ کو میرے بارے میں کافی اندازہ ہو گیا ہو گا۔ اردو کے علاوہ تصوف اور فلسفہ میرا موضوع ہے۔ اس پر میں نے لکھا، مضامین کی تعداد تو بہت ہو گی البتہ میری پانچ کتابیں ایسی ہیں جو میں نے فارسی سے اردو میں ترجمہ کیں، پانچ ذاتی تصانیف ہیں جو تصوف کے موضوعات پر ہیں، میرا نعتیہ مجموعہ کلام بہ عنوان ’’ مفلس کی سوغات‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ میرے مضامین پاکستان کے علاوہ ہندوستان سے بھی شائع ہوئے۔ میرا ایک مضمون ایران کے رسالے ’’دانش ‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ میری کتاب ’’ مولانا جلال الدین رومی کا پیام عشق ‘‘ ہندوستان سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی۔ ایک اور کتاب ’’ تصوف اور سریت‘‘ بھی ہندوستان سے شائع ہو چکی ہے۔
صمدانی صاحب میں جب پاکستان میں فارسی زبان کو ناپید ہوتے دیکھتا ہوں تو دلی دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ خاص طور پر وزارت تعلیم نے فارسی کی تدریس سے غفلت اختیار کر کے ہند اسلامی تہذیب کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور تخلیقی صاحیت کو ابھرنے اور بالیدہ ہونے کا موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ اب جو تہذیبی مظاہرے پڑھنے میں آتے ہیں وہ انتہائی شرم ناک اور قابل مذمت ہیں۔ کلا سیکی ادب اور فارسی سے غفلت اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک صاحب جو فارسی کے استاد رہے ہمارے کالج میں انہوں نے چھے سے سات سال فارسی کا مصرع پڑھا اور نہ کوئی اور اردو کا ایسا شعر پڑھا جس پر کلاسیکی فارسی کا اثر ہو۔ اگر چہ یہ بات قابل قبول محسوس نہیں ہوتی لیکن واقعہ یہی ہے کہ فارسی کے استاد ہو کر فارسی سے اتنا دور ہو جانا قومی المیہ ہے ‘‘۔ (شائع شدہ مجلہ ’روایت ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد)
پروفیسر لطیف اللہ کے بارے میں یہ میری یہ تحریر ۲۰۰۸ء کی ہے، جب میں گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کے مجلہ روایت کا چیف ایڈیٹر تھا اور مجھے روایت کا گولڈن جوبلی نمبر مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس وقت پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی کالج کے پرنسپل تھے، میں اسی حیثیت سے مجلہ روایت کا ایک شمارہ ۲۰۰۴ء میں مرتب کر چکا تھا، گولڈن جوبلی نمبر کے لیے میں نے پروفیسر لطیف اللہ سے ملاقات کی اور ان کے بارے میں لکھا، میری یہ تحریر مجلہ روایت ۲۰۰۸ء میں شائع ہو چکی ہے،
میں جب کراچی میں تھا تو مجھے پروفیسر لطیف اللہ کے انتقال کا علم ہوا، افسوس اور دکھ کے سوا انسان کر ہی کیاسکتا ہے۔ اب ڈاکٹر اسلم فرخی کی خاکوں کی کتاب ’’موسم بہار جیسے لوگ‘‘ میں لطیف اللہ کا خاکہ بہ عنوان ’’شیخ با چراغ: شیخ لطیف اللہ‘‘ پڑھ کر مرحوم کی یاد تازہ ہو گئی، ڈاکٹر اسلم فرخی، لطیف اللہ صاحب کے قریبی دوستوں میں سے تھے، دونوں کا ساتھ بہت طویل رہا، مجلہ روایت کے اس گولڈن جوبلی نمبر کے سلسلے میں میَں نے ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کے گھر کے دو چکر لگائے تھے، انہوں نے اپنی تحریر از خود لکھ کر دیدی تھی جو متعلقہ روایت نمبر میں شامل ہے۔ لطیف اللہ صاحب کا خاکہ تفصیلی اور بہت عمدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ لطیف اللہ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
شائع شدہ مجلہ ’’روایت ۲۰۰۸ء، گورنمنٹ کالج برائے طلباء، کراچی)
پروفیسر محمد احمد۔۔ خوش گفتار
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میَں یکم اپریل ۱۹۷۵ء کو گورنمنٹ پریمیئر کالج ناظم آباد سے حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کا لج ٹرانسفر ہو کر آیا۔ اس وقت پروفیسر جمیل واسطی سید کالج کے پرنسپل تھے۔ جمیل واسطی صاحب سندھ یونیورسٹی سے منسلک تھے، جب فیض احمد فیض اس کالج کے پرنسپل تھے توواسطی صاحب سندھ یونیورسٹی کو خیرباد کہہ کر عبد اللہ ہارون کا لج آ گئے تھے۔ انگریزی کے استادتھے، ۱۹۷۲ء میں فیض صاحب نے تعلیمی اداروں کو قو میائے جانے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار نہیں کی اور وہ کالج سے رخصت ہو گئے ان کے بعد پرورفیسر م۔ ر۔ حسان کالج کے پرنسپل ہوئے ان کا تبادلہ اردو کالج میں ہو گیا توپروفیسر جمیل واسطی سید کالج کے پرنسپل ہو گئے۔ واسطی صاحب انتہائی نفیس انسان تھے۔ خوش پوش و خوش گفتار، ہمیشہ سوٹ وہ بھی ٹائی کے ساتھ زیب تن کیے رہتے۔ گفتگو اور وضع قطع سے نستعلیق تھے، کسی کے دکھ تکلیف کو دل سے محسوس کرتے اور ٹھنڈی آہ بھر کر افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے۔ مجھ سے گرم جوشی سے ملے، گھنٹی بجائی چپراسی سے کہا زیدی صاحب کو بلائیے، کچھ ہی وقفے کے بعد زیدی صاحب آ گئے، یہ آفس سپرنٹنڈنٹ تھے، اچھے آدمی تھے، اللہ مغفرت فرمائے۔ انھوں نے میری جوائیننگ کی کاروائی مکمل کی۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک صاحب کمرہ میں داخل ہوئے، کالی شیروانی اور علی گڑھ پیجامہ میں ملبوس، دراز قد ہرے رنگ کا گاؤن پہنے ہوئے، بغل میں حاضری رجسٹر، دونوں ہا تھ چاک میں لت پت، ہنستے مسکراتے ہوئے کمرہ میں داخل ہوئے، السلام علیکم کے بعدواسطی صاحب کی طرف استفسارانہ نظروں سے دیکھا، واسطی صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا، یہ ہیں صمدانی صاحب ہمارے نئے لائبریرین گورنمنٹ پریمئر کالج سے ٹرانسفر ہو کر آئے ہیں، پھر واسطی صاحب نے ان صاحب کا مجھ سے تعارف کراتے ہوئے کہا آپ ہیں انیس الرحمٰن قریشی ہمارے میتھ کے استاد، جن کا علی گڑھ سے تعلق ہے، انیس الرحمٰن صاحب مجھ سے گرم جوشی سے ملے، اس لمحے ان کے چہرے پر خو بصورت مسکراہٹ تھی۔ بعد میں انیس صاحب کالج کے پرنسپل بھی ہوئے اور کالج میں میرے سب سے قریبی دوست بھی۔ ابھی انیس صاحب سے ملاقات ہوہی رہی تھی کہ ایک اور صاحب کمرے میں داخل ہوئے، یہ تھے شمشاد احمد خان صاحب، گٹھا ہوا بدن، چوڑا سینا، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، کلین شیو، سنجیدہ اور متین، ان سے بھی تعارف ہوا، شمشاد صاحب بھی بعد میں پروفیسر ہوئے اورپرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ کمرے میں داخل ہونے والے تیسرے ایک نوجوان تھے، کم عمر، خو بصورت، چھوٹا قد، گندمی رنگ، چشمہ لگا ہوا، کلین شیو، پینٹ شرٹ پہنے ہوئے، سنجیدہ اور بردباری نمایاں تھی، میرا خیال تھا کہ یہ اس کالج کے بی ایس سی کے طالب علم ہوں گے، سلام کے بعد وہ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر واسطی صاحب سے سنجیدگی سے مخاطب ہوئے اور لیب کے بارے میں کوئی مشکل بیان کی، واسطی صاحب نے ’ٹھیک ہے ٹھیک ہے ، کہا اور پھر میرا تعارف ان سے کرایا اور ان کے بارے میں مجھ سے کہا کہ یہ ہیں جناب راشد حی ٔ صاحب، فزکس کے استاد ہیں، اب راشد صاحب سے مصافحہ ہوا، راشد صاحب کالج کے سب سے کم عمر استاد تھے، کچھ دن بعد میرے ایک عزیز کی شادی میں نظر آئے، میں نے پوچھا آپ یہاں کیسے، انہوں نے بھی یہی جملہ مجھ سے دوہرایا، گفتگو کے بعد یہ راز افشاں ہوا کہ راشد حی ٔ اور میَں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقریبات میں ملتے رہے ہوں گے لیکن تعارف نہیں ہوا، اب ہم کالج کے ساتھی ہی نہیں تھے بلکہ عزیز بھی۔ اب میَں اسٹاف روم میں گیا جہاں دیگر اساتذہ موجود تھے، ان میں شعبہ اردو میں یونس صدیقی صاحب اور فضل الٰہی صاحب، شعبہ سیاسیات میں اقبال صاحب اور عبدا لباری سراج صاحب، شعبہ اسلامیات میں عبد الرشید راجا صاحب، نظام سحرائی سندھی کے استاد تھے، شعبہ فزکس میں راشد حیٰ اور اشفاق احمد خان، بوٹنی میں شمشاد احمد خان صاحب، زولوجی میں انور محمد شاہ، شعبہ کیمسٹری میں ذکی صاحب اور غلام اصغر صاحب۔ میرے وہاں آ جانے کے بعد کئی ساتھی آئے سب سے بہت اچھے قریبی دوستی رہی، بہت اچھا وقت گزرا۔ میرا تعلق کیونکہ لائبریری سے تھا اور حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کا لج صبح و شام کی شفٹ میں تھا، صبح میں سائنس، آرٹس فیکلٹی تھی اور شام میں آرٹس و کامرس فیکلٹی، لائبریری ایک ہی تھی، پرنسپل بھی ایک لیکن اساتذہ الگ الگ تھے، میری ذمہ داریوں میں شام کی شفٹ میں لائبریری کی نگرانی بھی قرار پائی۔ اب مجھے صبح ہی نہیں بلکہ شام میں بھی کالج آنا تھا۔ میرا گھر کالج سے نزدیک تھا، نئی نئی نوکری ملی تھی وہ بھی گریڈ۱۷ کی، جوانی کا خمار تھا، جوش و جذبہ تھا، گھر کی ذمے داریاں نہیں تھیں، میَں نے شام میں بھی کالج آنا قبول کر لیا۔
حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کا لج میرے لیے نیا نہیں تھا، میں نے بی اے اِسی کالج سے کیا تھا، اس زمانے میں فیض صاحب کالج کے پرنسپل تھے، کچھ اساتذہ سے سلام دعا تھی، آفس کے کچھ لوگ بھی واقف تھے، علاقہ بھی دیکھا بھالا تھا۔ اس زمانے میں میری رہائش کالج کے نزدیک آگرہ تاج کالونی میں تھی، میں زمانہ طالب علمی سے ہی لیاری کی سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں سرگرم تھا۔ اس وجہ سے میَں نے اپنے آپ کو اس کالج میں اجنبی محسوس نہیں کیا۔ اگلے ہی دن شام کی شفٹ میں چلا گیا، شام کی شفٹ میں جوائننگ رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس وقت شام کی شفٹ کا سربراہ’ انچارج، کہلا تا تھا جو کے پرنسپل کو جوابدہ ہو اکرتا تھا۔ اب شام کی شفٹ کو مکمل کالج کا درجا حاصل ہو چکا ہے، شام کی شفٹ کا انچارج پرنسپل ہوتا ہے۔ میَں سیدھا انچارج کے کمرے میں داخل ہوا، سلام کیا، انچارج کی کرسی پر جو صاحب براجمان تھے انہوں نے کرسی سے اُٹھ کر ہاتھ ملایا اور مجھے بیٹھنے کو کہا، میں نے اپنی جوائننگ کا بتا یا جس پروہ خوش ہوئے، جو اساتذہ ان کے سامنے بیٹھے تھے ان سے میرا تعارف کرایا، ان اساتذہ میں پروفیسر ریاض الحسن قدوائی، احمد حسین صاحب، عبد الرحیم میمن، سید نسم حسین زیدہ افتخاریوسف زئی، میر محمد شورو شامل تھے، بعد میں پروفیسر شفیق رحمانی صاحب سے بھی تعارف ہوا، رحمانی صاحب اسی کالج میں میرے استاد رہے تھے، انہوں نے سیاسیات پڑھائی تھی، ریاض الحسن قدوائی صاحب بھی میرے استاد تھے، وہ تاریخِ اسلام پڑھایا کرتے تھے، اکثر میرے ساتھی اور دوست بن چکے تھے۔
پروفیسر محمد احمد شام کی شفٹ کے انچارج اور پروفیسر جمیل واسطی سید کالج کے پرنسپل تھے۔ میَں بدستور صبح و شام کالج آیا کرتا تھا، واسطی صاحب بہت نیک انسان تھے البتہ اپنے اصولوں میں سخت گیر، اس زمانے میں تعلیمی اداروں میں بیرونی عناصر، طلباء تنظیموں کا عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا تھا، خاص طور پر ستر(۷۰)کی دھائی میں طلباء تنظیموں کے نام سے سیاسی لوگوں نے تعلیمی اداروں میں بے جا مداخلت بہت زیادہ شروع کر دی تھی، حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کا لج جس علاقے میں قائم تھا وہاں پاکستان پیپلز پارٹی کا طوطی بولا کرتا تھا اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF)کا اس علاقے میں غلبہ تھا، کچھ اثر بلوچ اسٹو ڈنٹس فیدریشن (BSO)کا بھی تھا، بعض ایسے عناصر بھی تھے جو نہ تو پی ایس ایف کے تھے اور نہ ہی بی ایس او کے وہ دونوں ہی تنظیموں سے فائدہ اٹھا یا کرتے تھے، انھوں نے کالج کو اپنے ناجائز کاروبار کا ذریعہ بنا یا ہوا تھا، یہ عناصر فیض صاحب کے زمانے سے ہی کالج میں موجود تھے۔ طلباء تو وہ ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر امتحان پاس کر کے، ڈگری لینے کے بعد اپنے اپنے پیشوں میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں، یہ لوگ تو برس ہا برس سے اسی کالج میں نظر آ رہے تھے، جب میَں ۱۹۶۸ء میں اس کالج کا طالب علم تھا تو میَں نے ایک لڑکے شوکت بلوچ کو دیکھا تھا جو اپنے آپ کو شوکت کامریڈ کہلوایا کرتا تھا، جب ۱۹۷۴ء میں میَں اس کالج میں تبادلہ ہو کر آیا تب بھی یہ اس کالج میں موجود تھا اور جب میَں ۲۳ سال اس کالج میں گزار نے کے بعد۱۹۹۷ء میں گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد جا رہا تھا تب بھی یہ شخص اسی کالج کی سیاست سے وابستہ تھا۔ اب یہ لڑکا نہیں رہا تھا بلکہ عمر رسیدہ شخص ہو چکا تھا لیکن اس کے روز و شب اسی کالج سے وابستہ تھے۔ امتحانات کے دنوں میں اس کی اور اس کے ساتھیوں کی منفی سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھیں، کبھی کبھی ہمیں اپنی بے بسی کا شدت سے احساس ہوا کرتا تھا، بس صبر کر کے رہ جایا کرتے تھے، جمیل واسطی سید صاحب نیک اور سیدھے سادھے آدمی تھے، غلط کام نہ کرتے اور نہ ہی کرنے دیا کرتے، چنانچہ کالج کے حالات بگڑ تے چلے گئے، ایک طرف واسطی صاحب بیرونی عناصر سے نبرد آزمأ تھے دوسری طرف نہیں معلوم کیا غلط فہمیاں ہوئیں کہ ان کی پروفیسر محمد احمد صاحب سے ٹھن گئی، حالانکہ وہ تو صبح میں ہوا کرتے تھے اور محمد احمد صاحب شام میں، کیونکہ پرنسپل پورے کالج کا ایک ہی ہوا کرتا تھا، محمد احمد صاحب کو ہر بات کے لیے پرنسپل سے ہی رابطہ کرنا ہوتا تھا، پرنسپل کو شام کے انچارج کی سالانہ خفیہ رپورٹ ACRبھی لکھنا ہوا کرتی تھی , دونوں انگریزی کے پروفیسرتھے، خوب خوب انگریزی کے جوہر دونوں نے دکھائے، نوبت یہاں تک آ گئی کے معاملہ ڈائریکٹریٹ تک پہنچ گیا، واسطی صاحب نے محمد احمد صاحب کی ACR بھی خراب کر دی تھی، محمد احمد صاحب نے بعد میں جب وہ پرنسپل ہو گئے واسطی صاحب کی وہ رپورٹ پڑھ کر سنا ئی، مجھے تو واسطی صاحب بہت ہی معصوم لگے، انہوں نے یہ عمل غصّے میں کیا، انھوں نے اس رپورٹ میں یہ کہنے کی کوشش کی کہ یہ شخص جو اپنے ظاہر میں مذہبی ہے، شیروانی، علی گڑ پیجامہ اور جناح کیپ پہنتا ہے، اس کا باطن اس کے ظاہر سے مختلف ہے، اِسی قسام کے الزامات جن کی بنیاد پر کوئی کاروائی ممکن نہیں تھی واسطی صاحب نے محمد احمد صاحب پر لگائے۔ ڈائریکٹریٹ کے اعلیٰ حکام نے محسوس کیا کہ اس جھگڑے کا حل یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کا تبادلہ کر دیا جائے، ایسا ہی ہوا، واسطی صاحب کا تبادلہ ملیر کے کالج میں کر دیا گیا، شروع میں انہوں نے اپنا ٹرانسفر رکوانے کی تگ و دو کی جب کامیابی نہ ہوئی تو خاموشی سے چلے گئے، لکھنے پڑھنے والے آدمی تھے، ایک دفعہ ہمدرد لائبریری میں ملاقات ہوئی تھی، پھر ملاقات نہ ہو سکی۔ محمد احمد صاحب کو پرنسپل بنا دیا گیا، اب وہ شام کے بجائے صبح آنے لگے، صبح میں اکثر اساتذہ ان کے لیے نئے تھے، میَں ان سے زیادہ نزدیک تھا، انہوں نے اپنی وہی روش رکھی، تمام اساتذہ کے ساتھ پیار محبت سے پیش آنا، ان کا خیال رکھنا، اپنی خوبیوں سے انھوں نے سب ہی اساتذہ کے دل جیت لیے تھے، سب ہی ان کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے، تاہم اساتذہ بیرونی عناصر کو اہمیت دینے، ان کے بعض کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی عادت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ محمد احمد صاحب ان بیرونی عناصر کے ساتھ از خود نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے جب کہ اساتذہ چاہتے تھے کہ ان کے خلاف مشترکہ کاروائی کی جائے، محمد احمد صاحب نے اپنی حکمت عملی سے بیرونی عناصر کو بھی اور اساتذہ کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتے رہے اور کامیاب رہے۔
محمد احمد صاحب نے کالج کے آفس اسٹاف کو کھلی چھٹی دی ہو ئی تھی، آفس کے تمام کام از خود کیا کرتے تھے، جب بھی کوئی لیٹر لکھنا ہوتا وہ مجھ سے کہتے آؤ میاں ذرا کاغذ قلم تو نکالو، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ڈکٹیشن دیں گے اور مجھے لیٹر لکھنا اور ٹائپ کر کے لانا ہو گا، یہ وہ زمانہ تھا جب کمپیوٹر عام نہیں ہوا تھا، ٹائپ رائیٹر پر خط کتابت ہوا کرتی تھی، مجھے اس وقت بھی ٹائپنگ آتی تھی چنانچہ وہ ڈکٹیشن دیا کرتے اور میں لکھتا جاتا، بعد میں ٹائپ شدہ لیٹر انھیں لا دیتا، اگر غلطی ہوتی تو دوبارہ ٹائپ کیا کرتا، وہ اس لیٹر کو از خود لفافے میں ڈالتے، ڈاک ٹکٹ لگاتے کالج سے واپسی پر ڈاکخانے میں ڈال دیا کرتے، آفس اسٹاف کی نا اہلی کے باعث انھیں ایسا کرنا پڑتا تھا۔ مجھ پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ سال کے اختتام پر اساتذہ کی سالانہ خفیہ رپورٹACR لکھنے کا وقت آتا تو یہ کام بھی میرے سپرد تھا، ایک ایک کر کے ہر ٹیچر کی Pen Pictureلکھواتے میَں پیراگراف ٹائپ کر کے لاتا پھر ہم ٹائپ شدہ پیراگراف متعلقہ ٹیچر کی اے سی آر میں پین پکچر کے خانے میں چسپاں کر دیا کرتے، ایک اے سی آر کی چار کاپیاں بنائی جاتی تھیں، ہر ایک میں تقریباً دس یا پندرہ خانے ہوتے ان میں سے کسی ایک پر پرنسپل کو اپنے چھوٹے دستخط (Initial)کرنا ہوتے تھے، محمد احمد صاحب چار میں سے ایک پر اپنے دستخط کر کے مجھے دے دیا کرتے میں متعلقہ خانوں میں نقطے لگا کر دیا کرتا پھر وہ جلدی جلدی اس پر اپنے چھوٹے دستخط کرتے جاتے، ہر سال کی اے سی آر کی فائلوں کور کھنا بھی میری ذمہ داری تھی، یہ بات تھی اعتماد اور بھروسے کی، ان اے سی آر میں میری اپنی اے سی آر بھی ہوا کرتی تھی۔ پین پکچر پر یاد آیا، دلچسپ واقعہ ہے جو ہمارے دور میں بہت مشہور ہوا، میَں ان پرنسپل صاحب کا نام نہیں لکھوں گا، لیکن یہ بات درست اور حقیقت ہے کہ میرے ہی کالج کے ایک پروفیسر صاحب پرنسپل ہو کر اندرون سندھ کے کسی ایک کالج میں چلے گئے، سال ختم ہونے پر انھیں اپنے ماتحت عملے کی اے سی آر بھی لکھنا تھی، سو انھوں نے لکھیں، پین پکچر کا مطلب وہ یہ سمجھے کہ یہاں متعلقہ ٹیچر کی تصویر اپنے پین سے بنا نا ہے، کسی سے مشورہ کیے بغیر انہوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ ہر ٹیچر کی تصویر اپنے پین سے اس خانے میں بناتے چلے گئے، ڈائریکٹر صاحب نے جب اس کالج کی اے سی آر دیکھیں تو سر پکڑ کر رہ گئے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس بات کو راز ہی رہنے دیتے لیکن انہوں نے محفلوں میں راز داری سے اس کا ذکر بھی کیا، ایسا اس وجہ سے ہوا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے اساتذہ کو سینیاریٹی کی بنیاد پر انتظامی امور سونپ دئے جاتے ہیں، ان کے لیے انتظامی امور کی تربیت کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ محمد احمد صاحب یہ قصہ اکثر سنا یا کرتے تھے اور ہم سب محظوظ ہوا کرتے۔ عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج کراچی کے دیگر کالجوں سے قدرِ مختلف تھا، اسی طرح جب پروفیسر انیس الرحمٰن قریشی صاحب پرنسپل ہوئے تو وہ بھی کالج کے تمام انتظامی امور از خود انجام دیا کرتے تھے، یہاں تک کے کیش بک بھی وہ از خود ہی لکھنے لگے تھے، اس کی وجہ کیشیئر پر عدم اعتماد تھا۔
محمد احمد صاحب مجلسی آدمی تھے، آپ کے گرد لوگوں کا گھیرا لگا رہتا، آپ کا مطالعہ وسیع، نظر گہری، یادداشت غیر معمولی اور جچی تلی تھی دورانِ گفتگو ادیبوں اور شاعروں کے قصے اور واقعات سنانا آپ کی عادت تھی، اسلامیہ کالج سکھر کا بہت زیادہ ذکر کیا کرتے خاص طور پر اس کالج کے ایک استاد جنہیں وہ ’خدا دوست، کہا کرتے تھے بہت ذکر کیا کرتے، ان کے قصے خوب سنایا کرتے، آپ کو اشعار بھی بہت یاد تھے اور ان کا بر محل استعمال بھی انھیں خوب آتا تھا۔ وقت پر کالج آیا کرتے، ان کے وقت پر کالج آ جانے سے کالج کا نظام درست رہتا تھا، کسی بھی ادارے کا سربراہ وقت کا پابند نہ ہو تو بہت سے مسائل بلا وجہ جنم لینا شروع کر دیتے، اسی کالج میں ہمارے ایک پرنسپل صاحب ایسے بھی بنے تھے جو صبح دس بجے سے پہلے کالج نہیں آیا کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ صبح سویرے نہیں اٹھ سکتے کیونکہ انھیں صبح کے وقت کالے پیلے چکر آتے ہیں۔ محمد احمد صاحب اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھنے والے تھے، کسی بھی ٹیچر کے ساتھ کوئی پریشانی ہو جاتی تو اس سے ہمدردی ہی نہیں کرتے بلکہ اس پریشانی کو حل کرنے میں پورا پورا ساتھ دیا کرتے، کالج اساتذہ کے لیے الیکشن ڈیوٹی بہت ہی پریشانی کا مرحلہ ہوا کرتا تھا، ہمارے کالج کے تمام ہی ساتھیوں کی الیکشن ڈیو ٹی لیاری میں لگا کرتی تھی، یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا حلقہ انتخاب تھا اور آج بھی ہے، کم پڑھے لکھے، غریب اور متوسط لوگ یہاں رہتے ہیں لیکن ان میں سیاسی شعور بہت ہے، یہاں کے مرد ہی نہیں بلکہ خواتین کچھ اور کریں یا نہ کریں ہر الیکشن میں جیے بھٹو کے نعرے ضرور لگاتی ہیں اور الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشن پر ضرور موجود ہوں گی، ان کا نام ووٹر لسٹ میں ہو یا نہ ہو، ان کی بلا سے انہیں ووٹ ہر صورت میں ڈالنا ہوتا ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ رہا ہے، میَں نے ۱۹۷۴ء سے ۱۹۹۷ء تک تمام ہی انتخابات میں پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اس دوران لیاری کے مختلف علاقوں میں تعینات رہا، یہاں کے لوگوں میں غربت اور ناخواندگی کے باوجود سیاسی شعور کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ محمد احمد صاحب کی پوری کوشش ہوا کرتی تھی کہ ان کے کالج کے ٹیچر کسی بھی طرح الیکشن ڈیوٹی سے بچ جائیں۔ کوئی ٹیچر بیمار ہو جاتا تو اس کی خبر گیری کیا کرتے، زیادہ بیماری کی صورت میں اس کے گھر مزاج پرسی کو بھی جاتے۔ اگست ۱۹۸۲ء کی بات ہے مجھے فسچیو لا ( Fistula)ہو گیا، نوبت آپریشن کی آ گئی، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اسپتال میں جو کیماڑی میں ہے آپریشن ہوا، ڈاکٹر رضا نے یہ آپریشن کیا، میَں کوئی ۱۹ دن اسپتال میں رہا، کالج میں چھٹی کی درخواست بھیج دی تھی۔ محمد احمد صاحب میرے گھر آئے، تسلی دی، حاضری رجسٹر ان کے ساتھ تھا، میرے دستخط کرائے اور مجھے مکمل ٹھیک ہونے تک آرام کا مشورہ دیا۔ اس طرح کا طرز عمل میرے ساتھ ہی نہ تھا وہ کالج کے تمام اساتذہ کے ساتھ بھی نیکی کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔ شیوا بریلوی نے کیا خوب کہا ؎
کوئی آساں نہیں ناصح مشفق بننا
کچھ سلیقہ بھی درکار نصیحت کے لیے
پروفیسر محمد احمد صاحب کا تعلق ہندوستان کے شہر شاہجہاں پور سے تھا۔ بچپن سے ہی ذہین اور پڑھاکو تھے، معاشیات میں ایم اے کیا، گولڈ میڈل حا صل کیا تھا، پھر انگریزی میں بھی ایم اے کیا، نثر اور نظم دونوں میں عبور حاصل تھا، شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ جوانی میں شوقین مزاج تھے، ازدواجی زندگی کامیاب نہیں ہوئی، شادی ہوئی اور علاحدگی ہو گئی، پھر شادی نہیں کی، زندگی تنہا اپنے بھائی اور ان کی اولاد کے ساتھ ہی گزار دی، اسلامیہ کالج سکھر پروفیسر محمد احمد صاحب کی پہچان تھا جہاں پر آپ نے اپنی زندگی کا قیمتی وقت گزارا، سکھر میں اسلامیہ اسکول اور اسلامیہ کالج کو ایک اہم مقام حاصل تھا، پروفیسر حنیف شاکر جو سکھر میں پروفیسر محمد احمد کے شاگرد رہ چکے تھے اور گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد میں میرے ساتھی بھی رہے کہ مطابق ’’ نسیم الہدیٰ صاحب نے ۱۹۶۱ء میں اسلامیہ اسکول و کالج کی بنیاد رکھی تھی، محمد احمد صاحب جو اس وقت اسکول میں استاد تھے کو کالج کا پرنسپل مقر ر کر دیا گیا، آپ کا تعلیمی ریکارڈ بہت ہی شاندار تھا، اچھے اور قابل استادتھے، انتظامی امور کو انجام دینے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ منتظم کی حیثیت سے آپ انتہائی بہ اصول اور سخت گیر تھے، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ آپ کا رویہ سخت ہوا کرتا تھا‘‘۔ بسا اوقات وقت اور حالات انسان کو بالکل مختلف بنا دیتے ہے لیکن ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آخری سانس تک اپنی اُسی روش پر قائم و دائم رہتے ہیں۔ پروفیسر محمد احمد کو وقت اور حالات نے مختلف بنا دیا تھا، ۱۹۷۳ء میں وہ سکھر سے کراچی آ گئے اور ان کا تبادلہ حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہو گیا جہاں پر انہیں شام کی شفٹ کا انچارج بنا دیا گیا۔ اب وہ ایک مختلف انسان تھے، مزاج میں نرمی، پیار محبت، حد درجہ انکساری، ہمدردی، خیال کرنے والے، حتیٰ کہ انتظامی امور میں بھی انتہائی نرم اور درگزر کرنے والے۔ وہ اپنے لباس، وضع قطع اور تراش خراش سے علی گیرین نظر آیا کرتے تھے، ان کی گفتگو اور طور طریقوں میں بھی علیگیوں کی سی نستعلیقیت واضح تھی۔ شین قاف درست، چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ دل نشیں گفتگو کیا کرتے، وضع داری ان پر ختم تھی، ان کے آفس میں کوئی چھوٹا یا بڑا داخل ہوتا تو اپنی کرسی سے اُٹھ کر اس سے مصافحہ کیا کرتے، خواہ اس وقت کتنا ہی بڑا شخص پہلے سے ان کے پاس کیوں نہ بیٹھا ہوتا یا وہ کتنا ہی ضروری کام ہی کیوں نہ کر رہے ہوتے۔ بہ قول الطاف حسین حالیؔ ؎
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
چھوٹا قد، گندمی رنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک، ستواں ناک جس کے نیچے سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، سر پر کالے سفید بال، ، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور برد باری کا خوشگوار اظہار۔ موسم گرم ہویا سرد، باد و باراں ہو یا خوش گوار، آندھی چل رہی ہو یا سخت حبس محمد احمد صاحب شیروانی اور علی گڑھ کاٹ پیجامے اور سر پر جناح کیپ لگائے، ہاتھ میں تسبیح لیے خراماں خراماں بس اسٹاپ سے کالج اور کالج سے بس اسٹاب کی طرف رواں دواں رہتے، یہ ان کا مستقل لباس تھا، جب کبھی وہ شیروانی اتار کر وضو کیا کرتے تو ان کے سفید کرتے میں کئی پیوند لگے ہوتے جو صاف نظر آیا کرتے، پرانے کپڑے میں پیوند لگنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن نئے کرتے میں پیوند سمجھ سے بالا تھے، ان پیوندوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ کسی اناڑی نے لگائے ہیں، میَں جب بھی یہ دیکھتا ذہن میں یہ خیال ضرور آتا کہ اس میں کیا راز پوشیدہ ہے، وہ دستگیر سوسائیٹی، فیڈرل بی ایریا میں رہا کرتے تھے، اتفاق سے میں بھی دستگیر میں ہی منتقل ہو گیا، میرا گھر ان کے گھر کے پاس ہی تھا، اب میں کبھی کبھار ان کے گھر چلا جاتا، نیچے کی منزل میں ان کے چھوٹے بھائی اپنی فیملی کے ہمراہ رہا کرتے تھے، گھر کی پہلی منزل پر ایک کمرہ محمد احمد صاحب کا ٹھکا نا تھا، کتابوں کی الماری، پڑھنے لکھنے کی میز اور کرسی، ایک الماری کپڑوں کی، سونے کے لیے فرش پر بستر لگا ہوا، کمرے میں سفائی ستھرا ئی کا فقدان نظر آتا تھا۔ گھر میں ہوتے تو بنیان اور دھوتی پہنے ملتے، سگریٹ پیا کرتے تھے، ابتدا میں سگریٹ خود بنا کر پیا کرتے، پھر پائپ میں تمباکو پینے لگے، میز پر تمباکو بکھرا ہوا ملتا۔ ایک دن میں نے ان سے کرتے میں پیوند والی بات پوچھ ہی لی کہ آپ کے صاف اور نئے کرتے میں بھی پیوند لگے ہوتے ہے ؟ کہنے لگے یہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ اب میَں آگے کچھ نہ بول سکا، میری حیرت دور ہو گئی۔ ان کی شادی کامیاب نہیں رہی، علیحدگی ہو گئی تھی، وہ میرے آفیسر تو تھے لیکن ان سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے، ان سے ہر قسم کی بات کر لیا کرتا تھا، ایک دن میَں نے کہا کہ ’آپ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے اگر آپ تیار ہوں تو کوشش کی جائے ‘‘ میَں نے پورا جملہ ایک ہی سانس میں کہہ دیا، ان کی باتوں سے لگا کہ وہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میرے عزیزوں میں ایک خاتون ایسی تھیں جو عمر اور عادات و اطوار کے اعتبار سے ان کے لیے مناسب لگیں۔ پہلے میَں نے ان خاتون کے بھائی سے بات کی ان کی رضامندی کے بعد محمد احمد صاحب سے کہا کہ میرے عزیزوں میں ایسی خاتون ہیں جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی، عمر کے اعتبار سے آپ کے لیے مناسب ہیں، نمازی پرہیز گار بھی ہیں۔ اگر آپ مناسب خیال کریں تو میرے ہمراہ چلیں، بات کر لیتے ہیں، انھوں نے کہا ٹھیک ہے، وقت لے کر میَں انھیں لڑکی والوں کے گھر لے گیا، گفتگو ہوئی، دونوں ہی نے ایک دوسرے کو پسند کیا لیکن نہیں معلوم بات آگے نہیں بڑھ سکی، بات آئی گئی ہو گئی، حسن اتفاق دیکھیے کہ کچھ عرصے بعد ان خاتون کی شادی سکھر ہی میں ایک صاحب سے ہو گئی، میَں ان سے ملا معلوم ہوا کہ وہ محمد احمد صاحب کے بہت اچھے دوستوں میں سے ہیں۔ میَں نے محمد احمد صاحب سے کہا کہ جہاں میَں آپ کو رشتے کے سلسلے میں لے گیا تھا، ان خاتون کی شادی سکھر میں آپ کے ایک دوست سے ہو گئی ہے نام بتا یا تو وہ بھی پہچان گئے کہنے لگے کہ وہ تو میرے بہت پرانے اور اچھے دوست ہیں۔ یہ محض اتفاق تھا، وہ خاتون اب اس دنیا میں نہیں۔ محمد احمد صاحب میرے کالج سے ریٹائر ہو گئے جس دن ریٹائر ہوئے دوسرے ہی دن سے انھوں نے پاکستان نیوی کے کسی تعلیمی ادارے کو جوائین کر لیا تھا۔ کافی عرصے وہاں پڑھاتے رہے۔ جب ہمت بالکل جواب دے گئی تو گھر بیٹھ گئے۔
۱۹۸۰ء کی بات ہے میری تیسری کتاب جو کہ انٹر میڈیٹ سال اول کے لیے تھی شائع ہونا تھی۔ میَں نے پروفیسر محمد احمد صاحب کو کتاب کا مسودہ مقدمہ تحریر کرنے کے لیے دیا، آپ نے اس کتاب کا مقدمہ تحریر فرمایا، آپ نے میرے بارے میں لکھا ’’ فاضل مصنف میں علمی کام کرنے کا بڑا ولولہ اور سلیقہ ہے انھوں نے اپنے وسیع مطالعے اور معلومات کو اپنی فطری انہماک و نشاط کے ساتھ قلم بند کیا ہے جو ان کی صلاحیت، قوت عمل اور فکری ارتقاء کا نمونہ ہے۔ کتاب پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف علم و انشاء پردازی کی کرشمہ سازی نہیں اس کے اندر ان کا خون جگر بھی شامل ہے ’معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود،۔ احقر فاضل مصنف سے ایک عرصے سے واقف ہے اور بغیر تکلف کے کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ ان کی علمی گفتگو، ذوق سلیم، وغیرہ معمولی حافظہ، تاریخی شعور سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی باغ و بہار شخصیت لائبریری سائنس کی اعلیٰ ترین ڈگری سے مزین ہے۔ انھوں نے لائبریری سائنس کے علوم میں ایک ماہر فن کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ میں پورے وثوق سے کے ساتھ امید کرتا ہوں کہ اس کتاب سے صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ ہر وہ انسان جس کا علم و ادب سے لگاؤ ہے مستفیدہو سکتا ہے۔ ‘‘مجھ جیسے کم علم کے بارے میں پروفیسر محمد احمد صاحب کی یہ رائے میرے نزدیک عظمت کی دلیل ہے۔ حقیقت یہ کہ آپ ایک عظیم انسان تھے اور عظیم شخصیتوں کے ساتھ رہنا بھی عظمت ہوتا ہے، مجھے اس بات پر فخر حاصل ہے کہ میں اپنی زندگی میں کئی سال محمد احمد صاحب کے زیر سایہ رہا۔ ’’یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر‘‘۔ پروفیسر محمد احمد صاحب کی مکمل زندگی تدریس اور علمی خدمت میں گزری۔ آپ سادگی کا نمونہ تھے، انکساری اور عاجزی آپ کا شعار تھا۔ ایک دن اطلاع ملی کہ محمد احمد صاحب کا انتقال ہو گیا، میں ان کی تدفین میں شریک نہ ہو سکا، افسوس ہوا، کہتے ہیں موت العالِم موت العالَم کے مصداق ہے، اللہ تعا لیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
کتنی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
فیفا ء، جیذان، سعودی عرب، ۴اگست ۲۰۱۱ء، مطابق ۴ رمضان الامبارک ۱۴۳۲ھ
عبد الستّار ایدھی۔۔خدمت و عظمت کا نشان
عبد الستّار ایدھی نام ہے ایک ایسی شخصیت کا جس کی زندگی انسانیت کی خدمت سے عبارت نظر آتی ہے۔ ایدھی نے پاکستان میں انسانی خدمت کی ایسی لازوال روایت قائم کی کہ آج پاکستان میں بے شمار لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں کی خدمت میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ عبد الستار ایدھی میرا ذاتی دوست نہیں، میرا رشتہ دار نہیں، اور نہ ہی اُس سے میرے ذاتی مراسم ہیں البتہ میَں نے عبد الستار ایدھی کو اس وقت بہت قریب سے دیکھا جب وہ جوان تھا، اس کی پوری زندگی خدمت انسانیت سے وابستہ نظر آتی ہے۔ اس نے اپنی فلاحی خدمات کا آغاز کراچی کے علاقے میٹھا درسے کیا تھا، میٹھا در اور میری رہائش کے درمیان بہت کم فاصلہ تھا، عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج جس میں میَں نے ۲۴ سال خدمات انجام دیں میٹھادر اور کھارادر سے کچھ ہی مسافت پر ہے۔
عروس البلاد کراچی کی ایک قدیم بستی ’’لیاری‘‘ میرے اور عبدالستا ایدھی کے مابین قدرِ مشترک ہے۔ ایدھی بنیادی طور پر کراچی کی ایک غریب اور کچی بستی لیاری کا باسی ہے اور میرا بچپن اور جوانی بھی اِسی بستی میں گزری۔ میری فلاحی اور نیم سیاسی سرگرمیوں کا محور بھی لیاری ہی رہا۔ لیاری نام ہے کراچی کی ایک ایسی بستی کا جس میں ایک طرف تو انتہائی غریب لوگ آباد ہیں تودوسری جانب متوسط لوگوں کے علاوہ میمن، کاٹھیاواڑی، گجراتی جو کاروباری ہیں کھارا در، میٹھا در، وزیر میشن، صرافا بازار، میمن سوسائیٹی جیسی آبادیوں میں چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں رہتے ہیں لیکن وہ مالی طور پر مستحکم ہیں۔ عبد الستار ایدھی نے انسانیت کی خدمات کا آغاز میٹھا در سے کیا۔ تقسیم سے قبل یہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی اب ان قدیم بلڈنگوں میں رہنے والے مکینوں کی اکثریت میمن، کاٹھیا واڑی، گجراتی، سندھی، تُرک اور کچھَ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ یہ علاقہ انتہائی تنگ اور گنجان آباد ہے، میٹھا در اور کھا را در کے اردگرد واقع علاقوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش گاہ وزیر میشن، موسی لائن، میمن سوسائیٹی(نوآباد)، کھڈا مارکیٹ، مچھی میانی مارکیٹ شامل ہیں۔ میٹھا در کے مشرق میں جوڑیا بازار، لی مارکیٹ، پرانا حاجی کیمپ، گارڈن، لسبیلا، لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اور جامعہ کراچی ہے، مغرب میں کراچی پورٹ، کیماڑی، منوڑہ، جنوب میں صرافہ بازار اور ککری گراؤنڈ، موسیٰ لین، کلری، بغدادی، بہار کالونی، آگرہ تاج کالونی اور شیر شاہ قبرستان اور شمال میں نیو میمن مسجد، بولٹن مارکیٹ، سٹی اسٹیشن، کلفٹن اور ڈیفنس ہے، میرا خاندان قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے کراچی آنے والوں میں سے تھا، ابتدا میں کراچی کی قدیم آبادی ’’کھڈا مارکیٹ‘‘ میں رہائش اختیار کی، کچھ عرصے کے بعد بہار کالونی منتقل ہو گئے اور پھر ’آگرہ تاج کالونی ‘‘میں اپنا گھر بنا لیا۔ میرا بچپن، جوانی انھی علاقوں میں گزرا۔ ملازمت کھڈا مارکیٹ میں واقع حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ساڑے تیئس سال رہی۔ اس طرح میری زندگی کے عروج کا زمانہ اور شباب کا دور لیاری کے علاقوں کھارا در، میٹھا در، کھڈا مارکیٹ، موسی لین، بہار کالونی، آگرہ تاج کالونی، کچھی کالونی میں گزرا، یہاں کی مٹی سے میں اسی طرح مانوس اور آشنا ہوں جس طرح عبد الستار ایدھی یا کوئی اور لیاری کا باسی۔
عبد الستار ایدھی کے پرکھوں کا تعلق ہندوستان کے علاقے گجرات سے تھا، ایدھی گجرات کے علاقے ’بانٹوا، میں ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوا، تقسیم ہندوستان کے وقت اس خاندان نے کراچی ہجرت کی لیاری کا علاقہ میٹھا در ان کا مستقرٹھرا، اس وقت ایدھی کی عمر ۱۹ برس تھی۔ دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ ایدھی میں اپنی ماں کی خدمت سے پیدا ہوا، ایدھی ابھی گیارہ برس کا تھا کہ اس کی ماں پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ معذور paralyzed ہو گئی، یہی نہیں ہوا بلکہ کچھ ہی دنوں کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن بھی کھو بیٹھی، ایسی صورت میں اُسے کل وقتی خدمات گزار کی ضرورت تھی، ایدھی نے اس کام کے لیے اپنے سے بہتر کسی کو نہ پا یا اوراس نے اپنی تمام تر توجہ اپنی ماں پر مرکوز کر دی اور اس کی خدمت میں لگ گیا، ایدھی اپنے ماں کے تمام تر کام از خود کیا کرتا تھا، کھانا کھلانا، کپڑے بدلوانا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھتا، نہلا نا دھلانا، ایدھی کی زندگی میں یہی وہ لمحات تھے کہ اس کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ بیدار ہوا۔ ایدھی کی ماں آٹھ سال بعد انتقال کر گئیں اور اپنے بیٹے کے اندر خدمت کا ایسا جذبہ اجاگر کر گئی جس نے ایدھی کی زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدمت کا نشان بنا دیا۔ ایدھی کی ماں نے ایدھی کو بچپن ہی سے دوسروں کے ساتھ مہربان رہنے اور غریبوں کی مدد کرنے کی تلقین کی تھی۔ ایدھی نے اپنی ماں کی اسی نصیحت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا
عبد الستار ایدھی کو دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ اپنی ماں کی خدمت کے نتیجے میں ملا، اگر ایدھی اپنی ماں کی خدمت نہ کرتا تو شاید آج وہ اس مقام و مرتبے پر نہ ہوتا، یہ مرتبہ، یہ اعزاز، یہ مقام ماں کی خدمت کے عوض نصیب ہوا اور اس اعزاز و مرتبے کو پروان چڑھانے میں بھی ایک عورت کا عمل دخل رہا اور وہ نیک صفت، وفا شعار عورت ہے بلقیس ایدھی، عبد الستار ایدھی سے شادی سے قبل بلقیس ایدھی نرسنگ کے پیشے سے تعلق رکھتی تھی اور عبد الستار ایدھی کی ڈسپنسری میں خدمات انجام دیا کرتی تھی، ایدھی نے ۱۹۶۵ء میں بلقیس ایدھی سے شادی کی، شادی کے بعد سے آج تک بلقیس ایدھی نے اپنے شوہر کا ایسا ساتھ نبھایا کہ جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ یہ قدم قدم پر ایدھی کے ساتھ رہی، ایدھی کو اس مقام، مرتبے اور منزل پر پہچانے میں اس کا کردار قابل رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثالی جوڑی کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا، بیٹے فیصل ایدھی اور قطب ایدھی اور بیٹیوں میں کبریٰ ایدھی اورالماس ایدھی ہیں۔ چاروں بچے بھی خدمت خلق کے مشن میں ایدھی کے شانہ بہ شانہ شریک کار ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ایدھی نے اپنی خاندانی روایات کے مطابق کاروبار شروع کیا، ابتداء میں پھیری لگا کر سازوسامان فروخت کیا، اخبارات گھروں میں ڈالے، دودھ گھروں پر پہچانے کا کام کیا، پھر کپڑوں کی فروخت کا کام بطور کمیشن ایجنٹ شروع کیا لیکن اس میں اس کا دل نہیں لگا کیونکہ اس کے دل میں توانسانیت کی خدمت کا جذبہ جنم لے چکا تھا، چنانچہ ۱۹۵۱ء میں اس نے میٹھادر میں ایک دکان خریدی اور اس میں غریب لوگوں کے لیے ڈسپنسری قائم کی، جو ڈاکٹر اس کی ڈسپنسری میں مریضوں کو دیکھا کرتا تھا اس نے ایدھی کو بھی طبی امداد کے تمام امور کی تر بیت دی۔ یہ ایدھی کی فلاحی خدمات کا نقطہ آغاز تھا۔ ایدھی اپنے آپ کو اس ڈسپنسری تک محدود رکھنا نہیں چاہتا تھاچنانچہ اس نے پہلی بار عوام سے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے مدد کی اپیل کی، لوگوں نے اس کی بات کو توجہ سے سنا، اللہ تعالیٰ نے اس کی بات میں اثر پیدا کر دیا تھا، لوگوں نے اس پر بھروسا کیا، اعتماد کیا، ابتدائی طور پر ایدھی کو دو لاکھ روپے کی رقم وصول ہوئی، اسی رقم سے ایدھی نے اپنی خدمات کے دائرے کو وسیع کیا، ایک کمرہے پر مشتمل ڈسپنسری ایک چھوٹے سے اسپتال میں تبدیل ہو گئی، ایک ایمبو لینس بھی خرید لی گئی۔ ان آنکھوں نے نوجوان ایدھی کو ملیشیا کے کپڑے کا لباس زیب تن کیے اسی چھوٹے سے اسپتال کے سامنے چارپائی پر بیٹھے بار ہا دیکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی فون نایاب چیز ہوا کرتا تھا، اکثر لوگ ایدھی کو از خود آ کر کسی بھی قسم کے حادثے کی اطلاع کیا کرتے تھے، ایدھی نے اپنی سماجی ادارے ایدھی ٹرسٹ کا آغاز مبلغ پانچ ہزار روپے سے کیا تھا جو ترقی کر کے کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہے۔
اگست ۲۰۱۱ء کی بات ہے لیاری کے علاقے موسیٰ لائن میں ایک بلڈنگ کے زمین بوس ہو جانے کا واقع پیش آیا جس میں کئی خاندان ملبے تلے دب کر اپنی جان کھو بیٹھے۔ اِن دنوں میَں سعودی عرب میں تھا، عمرے بھی کیے اور مدینے میں حاضری بھی دی، زیادہ وقت اپنے بڑے بیٹے عدیل کے پاس جدے میں اور اپنے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر نبیل کے پاس پہاڑی علاقہ فیفاء( جذان) میں گزرا، فیفاء سعودی عرب کا وہ علاقہ ہے جو یمن کی سرحد پر ہے، پہاڑ ہی پہاڑ ہیں، یہاں آ کر مری، ایوبیہ، نتھیا گلی اور بارہ گلی کی یاد تازہ ہو گئی، سرد موسم، تقریباً روز ہی بارش کا ہونا، یہاں میرا کام کچھ نہیں تھا ماسوائے عبادت، کھانا پینا اور آرام کے البتہ یہاں میَں نے خاکے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی احباب کے خاکے لکھے، کچھ خاکے جو سرگودھا میں رہتے ہوئے شروع کیے تھے، یہاں انہیں مکمل کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ یہاں سکون تھا، امن تھا، لکھنے والے کو اچھا ماحول میسر آ جائے تو وہ اسے غنیمت جانتا ہے۔ اِسی دوران کراچی میں موسیٰ لائن میں بلڈنگ گر نے کی افسوس ناک خبر آئی، رمضان کا مہینہ تھا، ایک دن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اے آر وائی پر اپنے پروگرام ’شہر رمضان ، میں اس بلڈنگ تلے دب جانے والی ایک فیمیلی کو بلا یاشاید دو بچے ہی زندہ بچ گئے تھے ان کے والدین اور دیگر بہن بھائی ملبے تلے دب جانے سے اللہ کو پیا رے ہو گئے تھے، وہ پروگرام دیکھ کر دکھ اور کرب تو قدرتی تھا، موسیٰ لائن کی مخدوش عمارتیں، تنگ و تاریک گلیاں نظروں میں گھوم گئیں۔ میَں برسوں اپنے گھر سے کالج موٹر سائیکل پر اِسی موسیٰ لائن کے سامنے سے جایا کرتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ عبدالستار ایدھی کا خاکہ لکھنے کی وجہ یہی موسیٰ لائن کی گرنے والی عمارت ہے۔ آج سے ۳۹ سال قبل ۱۹۷۳ء میں اِسی موسیٰ لائن میں زمین بوس ہونے والی ایک بلڈنگ کا منظر اور اس کی تباہ کاریاں، ہلاکتیں اور وہاں عبد الستار ایدھی کے ہمراہ لاشیں نکالنے، امداد فراہم کرنے کا منظر سامنے آ گیا۔ عبد الستا ایدھی نے اُس وقت اس بلڈنگ کے گرنے پر دن رات از خود ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے نکالا تھا، ایدھی اس وقت جوان تھا، اس کے رضاکار بھی تھے لیکن ان کی تعداد کم تھی اس کی ایمبو لینسیز نے جوکام کیا تھا وہ بھی قابل تعریف تھا، ایدھی کی سماجی خدمات کو شہرت اُسی واقعے سے ملی تھی، اس وقت کا ایدھی آج کے ایدھی سے جسمانی طور پر مختلف ہے، میَں نے اُسے اپنے ہاتھوں سے گری ہوئی عمارت کے ملبے تلے دبی ہوئی عورتوں، بچوں اور مردوں کی لاشوں کو نکالتے دیکھا تھا۔ مسخ شدہ اور ایسی لاشیں جن کے نزدیک جاتے ہوئے لوگ ڈرا کرتے تھے عبد الستار ایدھی ہر طرح کے ڈر و خوف سے آزاد ہو کر اس بدبو دار اورتعفّن زدہ لاش کو ٹھکانے لگا دیا کرتا تھا۔ کیا جذبہ تھا، ایدھی کی خدمات کا شہرہ ۱۹۷۳ء میں موسیٰ لائن میں زمین بوس ہونے والی عمارت اور عبد الستار ایدھی کی فراہم کردہ خدمت سے عواما لناس کا اعتماد ایدھی پر بڑھتا گیا اور ایدھی کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کو دنیا میں بڑے اور بہ اعتماد خدمتی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔
آج کے عبد الستار ایدھی کو گزشتہ سال ائر پورٹ پر قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، میَں کراچی سے لاہور جا رہا تھا، جہاں سے مجھے سرگودھا یونیورسٹی جانا تھا، ائر پورٹ پر عبد الستار ایدھی بھی موجود تھا، اس کا سفر بھی کراچی سے لاہور کے لیے تھا، لاہور ائر پورٹ پر دو نوجوان ایک دائیں اور ایک بائیں ایدھی کا ہاتھ پکڑے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ نہ سیکیوریٹی تھی، نہ پولس نہ پولیس کی موبائلیں، نہ لوگوں کو روکا گیا، نہ ٹریفک ہی جام ہوا، اگر غلطی سے کوئی وزیر یا سفیر ہوتا تو اس وقت ائر پورٹ پر قیامت کا سماں ہوتا، چھوٹا قد، وہی کالے رنگ کے ملیشیا کا شلوار قمیض، سر پر مخصوص کالی ٹوپی، سانولا رنگ جس میں کسی قدر سیاہی کی آمیزش، پیروں میں چمڑے کی چپل، سفید کالی داڑھی لمبائی میں بڑھی ہوئی، ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ، پیشانی سے عظمت و بزرگی آشکارا، چہرہ پر متانت وسنجیدگی، دھیرے دھیرے، چھوٹے چھوٹے قدموں سے ائر پورٹ سے باہر آئے، نہ وہ دبدبہ تھا نہ وہ جوش، چہرے پر اطمینان اور بردباری نمایاں تھی، وقت بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔ میَں نے ایدھی کو جوانی میں بھی دیکھا تھا۔ آج کا ایدھی جسمانی اعتبار سے مختلف ہے۔ انسا نیت کی خد مت کے طویل سفر نے ایدھی کی شخصیت میں نیکی، بھلائی اوردوسروں کی مدد و اعانت کی سفیدی کو اجاگر کر دیا ہے، ایدھی کا چہرہ ایک مہربان اور شفیق انسان کا چہرہ محسوس ہو رہا تھا، سنجیدہ اور متین انسان کا چہرہ، سلام اس عظیم ہستی پر۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت خدمات کی مختلف جہتیں ہیں، ایمبولینس سروس کے حوالے سے یہ دنیا کی سب سے بڑی خدمتی تنظیم ہے، ایدھی ایمبولینسز میں ائر ایمبو لینس بھی شامل ہے، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر مریضوں کی تیز تر منتقلی میں کام آتے ہیں، صرف کراچی میں ۸ اسپتال مفت طبی امداد فراہم کر رہے ہیں، موبائل ڈسپنسری اور بلڈ بنک اس کے علاوہ ہے، ایدھی کے تحت ۱۵ ’’اپنا گھر‘‘ ہیں جس میں بے سہارا، لا وارث، ذہنی معذوروں کو پناہ ملی ہوئی ہے۔ ایدھی کے تحت ’’جھولا ‘‘ایک ایسی منفرد خدمت ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی، پاکستان میں جس کا کوئی نہیں اللہ کے بعد ایدھی اس کاسہارا اور مدد گار ہوتا ہے۔ انسان خواہ امیر ہو یا غریب، وارثین موجود ہوں یا وہ لا وارث ہو مرنے کے بعد اس کے جسد خاکی کو جلد سے جلد خاک کی نذر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے فوری تدفین عمل میں نہ لائی جا سکے، یا لاش لا وارث ہو تو عبد الستا ایدھی کے ’’مردہ خانے ‘‘ ہی ان مردوں کی وقتی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں سہراب گوٹھ پر قائم ایدھی مردہ خانہ لاوارث لاشوں اور وقتی طور پر محفوظ کرائی گئی لاشوں کا مرکزہے۔ مجھے ایک سے زیادہ بار اس مردہ خانے کو دیکھنے کا اتفاق ہوا، لاشیں کفن پہنیں شیلفوں پر اوپر نیچے ترتیب سے رکھی ہوتی ہیں، دیکھ کر ایدھی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ یہاں مردوں کو غسل دینے اور کفنانے کا انتظام بھی ہے۔ عورتوں کے لیے غسل و کفن کا مرکز میٹھا در میں قائم ایدھی مرکز میں ہے۔
عبد الستار ایدھی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جائے گا۔ ایدھی پر مرتب کی جانے والی سوانح حیات انگریزی میں ہے جسے ایک معروف مصنفہ نے محنت اور مہارت سے مرتب کیا ہے۔ My Feudal Lord کی خالق تہمینہ درانی، تعارف کی محتاج نہیں، انھیں اپنی اِسی کتاب سے شہرت حاصل ہوئی، یہ غلام مصطفی کھر کی سابق اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی موجود ہ شریک حیات ہیں، معروف سیاست داں سر سکندر حیات کی پوتی اور شوکت اللہ درانی کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے عبدالستار ایدھی کی سوانح حیات A Mirror to the Blind کے نام سے مرتب کی ہے، یہ سوانح ۱۹۹۶ء میں نیشنل بیورو آف پبلی کیشن نے شائع کی تھی۔ میں نے یہ کتاب ایدھی کے مرکز سہراب گوٹھ کراچی سے حاصل کی، جہاں پر یہ مفت دستیاب ہے، اس کے چوتھے ایڈیشن پر کتاب کا پبلشر عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن تحریر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایدھی کی زندگی کی کہانی انھوں نے ٹیپ کی اور یہ ریکارڈنگ چالیس گھنٹوں پر محیط ہے۔ اس سوانح حیات میں عبد الستار ایدھی کی زندگی کے تمام تر پہلوؤں کو تفصیل سے قلم بند کیا گیا ہے۔ تہمینہ درانی کی کتاب My Feudal Lordکا ۳۶ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی اس کتاب کا ترجمہ اردو زبان ہی میں نہیں بلکہ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں ہو جائے تاکہ عام لوگ ایدھی کی زندگی کے بارے میں تفصیل سے جان سکیں۔
وقت اور پیسا ایدھی کی زندگی میں ہمیشہ سے اہم رہا ہے، وقت ضائع کرنا یا بے مقصد گزارنا ایدھی کا مقصد کبھی نہیں رہا، اسی طرح پیسے کا غلط استعمال، اصراف، دکھاوا ایدھی کی ڈکشنری میں نہیں۔ ایدھی کا کہنا ہے کہ ’’ہماری زندگی میں وقت اور پیسے کا غلط استعمال ہر گز نہیں، کوئی ہمارے ہاں ملاقات کے لیے نہ آئے اور نہ ہی ہم کسی سے ملاقات کے لیے جائیں گے میں نے کسی پروگرام اور تقریب میں شرکت نہیں کی ماسوا اقبال صاحب کی شادی کے جو میرے سالے ہیں۔ اس میں بھی میں پندرہ منٹ کے لیے گیا تھا۔ اس فیصلے سے قبل میں نے صرف دو شادیوں میں شرکت کی تھی۔ جب مجھے کوئی دعوت دیتا ہے تو میں یہ کہہ کر معذرت کر لیتا ہوں کہ ’یہ میرا موضوع نہیں ، ،۔ دوسری جانب ہم اگر اپنے روز و شب کا جائزہ لیں تو ہم شادیوں میں کس قدر پیسا لٹاتے ہیں، کتنا وقت ضائع کرتے ہیں۔
۱۹۸۹ء میں حکومت پاکستان نے ایدھی کو ’نشان امتیاز‘ دیا، بے شمار مقامی تنظیموں اور اداروں نے بھی ایدھی کو اعزازات سے نوازا۔ عالمی سطح پر بھی ایدھی کو اعزاز سے نوازا گیا، ۱۹۸۸ء میں آرمینیا میں زلزلے سے متاثرہ افراد کی خدت کے اعتراف میں اس وقت کی روس کی حکومت نے ایدھی کو ’’لینن امن انعام‘‘سے نوازا، فلپائن حکومت نے ۱۹۸۶ء میں عبدا لستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کو ’’میگسیا ایوارڈ ‘‘(Magsayay award)دیا، ۲۰۰۶ء میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے سب سے پہلے عبد الستار ایدھی کی سماجی خدمات کو سراہتے ہوئے ایدھی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند(Doctor of Social Services Management) سے نوازا۔ ۲۰۱۰ء میں یونیورسٹی آف بیڈفورڈشائر نے ایدھی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ اسی طرح عبد الستا ایدھی کو مختلف اداروں نے اعزازات و انعامات سے نوازا لیکن ایدھی کے لیے اصل اعزاز و انعام تو پاکستان کے لوگوں کا اعتماد اور بھروسا ہے، وہ والہانہ محبت، عقیدت اور احترام ہے جو لوگ ایدھی پر نچھاور کرتے ہیں۔ اللہ ایدھی کو سلامت رکھے۔
جدہ، سعودی عرب، ۸ ستمبر ۲۰۱۱ء، ۱۰ شوال ۱۴۲۳ھ، جدہ، سعودی عربیہ
عبد الصمد انصاری : دھیما سا لہجہ ۔ تھوڑی سی شوخی
عبد الصمد انصاری سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ یاد پڑتا ہے کہ۱۹۷۲میں یم اے کرنے کے بعد ملازمت مل گئی تھی لیکن حلقہ عثمانی و سبزواری میں داخل ہونے کے باعث اکثر جامعہ کراچی جانا ہوتا جہاں پر شعبہ لائبریری سائنس جو جامعہ کراچی کی لائبریری (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری )کی پانچویں منزل پر تھا اکثر احباب سے ملاقاتیں ہوتیں۔ انھیں دنوں معلوم ہوا کہ میرے بعد ایم اے کرنے والے کچھ طلباء میں سے ایک عبد الصمد انصاری، اقبال الرحمن فاروقی عرف لڈو میاں، فاروق عظیم، صمد بیگ اور چند دیگر نوجوان بھی عثمانی و سبزواری کے نیازمندان میں سے ہیں۔ یعنی سبزواری صاحب کے عشق میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس خبر پر اطمینان ہوا کہ چلو میرے پیر بھائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دیکھنے کا اشتیاق بڑھا۱۹۷۴کے ایک دن سبزواری صاحب کے کمرے میں ملاقات ہو گئی۔ نوجوان دیکھنے میں خوبصورت، منا سب، گورا رنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، کالے گھنے بالوں میں اب رنگنے کے باوجود سفیدی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔ کچھ کچھ شباہت کسی اداکار کی سی تھی، پہلے تو خیال ہوا کے شاید موصوف اداکار بھی ہوں لیکن یہ راز بعد میں عیاں ہوا کہ میرا خیال بڑی حد تک درست تھا، یہ خود تو اداکار نہیں البتہ معروف ادا کار قاضی واجد ان کے ماموں زاد بھائی ہیں۔ گویا با ذوق خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
میں نے زندگی میں اپنے دوستوں کو ممکن حد تک سنبھال کر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، جس کسی سے تعلقِ دوستی قائم ہو گیا اس سے ناتا جوڑے رکھا، بے شمار دوستوں کی ناپسند باتوں اور عادتوں کو محض اس وجہ سے درگزر کیا، کیونکہ میں دوست بنانے کا تو قائل ہوں، دوست گنوانے یا چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے مخالفین بڑھانے کو اچھا نہیں سمجھتا، دوستی کے بارے میں میری یہ سوچ ہے کہ ’’دوستی قربانی چاہتی ہے ‘‘۔ دوستوں کی کڑوی کسیلی، کسی حد تک نا پسند باتوں کو اس وجہ سے درگزر کیا جائے تاکہ دوستی قائم رہے، میں اس میں بڑی حد تک دوستی کے اس فلسفے پر کامیاب بھی رہا، باوجود اس کے کہ میرے بعض مہرباں میرے اس عمل سے اختلاف رکھتے ہوئے مجھ پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ بقول میر دردؔ ؎
کیا سیر سب ہم نے گل زار دنیا
گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے
صمد انصاری مزاجاً سست اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں، ہمارے استاد ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری انہیں پیار سے ’صمد ڈھیلے ، کہا کرتے ہیں اور ان کی اس عادت پر اکثر بیشتر ان کی سرزنش بھی کرتے ہیں۔ میرے ساتھ لائبریری اسکول میں پڑھاتے ہوئے انھیں ۳۰ سال ہو گئے ہیں، اکثر ایسا ہوتا کہ جس دن اُن کی کلاس ہوتی ہے میں لیاقت لائبریری جا تے ہوئے انھیں لینے ان کی لائبریری چلا جاتا، میں اکثر پندرا منٹ قبل ہی پہنچتا، انھیں معلوم ہے کہ وقت بہت کم، راستہ بھی پندرا منٹ کا ہی ہے اس کے باوجود اٹھتے اٹھتے خاصا وقت لگا دینا ان کا معمول ہوا کرتا ہے، جسے بسا اوقات میرے لیے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا لیکن برداشت کیا کرتا ہوں۔ جب وہ گاڑی چلا رہے ہوں اور آپ ان کے ہمراہ برابر والی سیٹ پر بیٹھے ہوں، اتفاق سے آپ خود بھی گاڑی چلانا جانتے ہوں تو ان کی سبک رفتاری کو دیکھتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ انہیں فوری سیٹ سے ہٹا کر بندہ خود گاڑی چلانے لگے۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ان کی کیفیت کچھ اس شعر کی سی ہوتی ہے۔
خراماں خراماں معطر معطر
نسیم آ رہی ہے کہ وہ آ رہے ہیں
کراچی کی ہنگامہ خیز سڑک جب آپ کے دائیں اور بائیں گاڑیاں ہارن بجاتی ہوئی دوڑی چلی جا رہی ہوں صمد انصاری ہیں کہ جیسے مال روڈ پر ٹہل رہے ہیں۔ اکثر گاڑی چلانے والے جب صمد انصاری کے دائیں یا بائیں سے گزرتے ہیں تو انھیں گھور گھور دیکھتے جاتے ہیں، یقیناً دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ کراچی کی سڑک ہے سفاری پارک نہیں۔
حلقہ عثمانی و سبزواری کسی نہ کسی موقعے پر پیشہ ورانہ تقریبات کا اہتمام کیا کرتے تھے، ایک تقریب عادل عثمانی صاحب کے اعزاز میں منعقد ہوئی جس میں اس نوجوان کے جوہر مزید کھلے، محفلوں میں بولنا جانتا ہے بلکہ اچھا بولتا، گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اس نوجوان باصلاحیت کے اندر ایک شاعر بھی موجود ہے، یعنی اس کے شعر پڑھنے کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ حساس دل کا مالک اور شعر کو صحیح پڑھنے کا ڈھنگ جانتا ہے۔ بس اسی دن غیر ارادی طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ دوستی بڑھائی جائے چنانچہ پینگیں بڑھانا شروع کیں، دوسری جانب بھی میرے لئے دوستی کی خواہش نظر آئی، بس اب ہم اکثر و بیشتر ملنے لگے۔ دوستی آگے بڑھنے لگی، دوریاں قربتوں میں بدل گئیں۔
میں ابتدا میں پریمئر کالج بعد از آں عبد اللہ کالج میں تھا، ساتھ ہی اسکول آف لائبریرین شپ میں پڑھا بھی رہا تھا جب کہ موصوف انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز کے لائبریرین تھے، میں کبھی کبھار ان کے آفس جایا کرتا، ہمارے موضوعات زیادہ تر اکرم صاحب اور عثما نی صاحب، اس حوالے سے کبھی لائبریری پروموشن بیورو اور کبھی اس کے جاری کردہ رسالے پاکستان لائبریری بلیٹن ہوا کرتے، ہم اکثر مختلف پروگراموں کی منصوبہ بندی کیا کرتے۔ ۱۹۷۹ میں جب میں اسکول آف لائبریرن شپ کا انتظامی سربراہ بن گیا تھا، اگر کوئی ٹیچر معذرت کر لے یا چلا جائے تو نئے استاد کی تلاش میری ذمے داری تھی۔ کسی استاد کے معذرت کرنے کے بعد نئے ٹیچر کی شمولیت کا مرحلہ آیا تو میری پہلی نظر عبد الصمد انصاری پر گئی، میں نے اپنا مدعا بیان کیا، تفصیل بتائی کہ تمہیں ہفتے میں صرف ایک ۴۵ منٹ کی کلاس لینا ہو گی، یہ کیوں کہ شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی میں جزوقتی استاد رہ چکے تھے، پڑھانے سے دلچسپی بھی رکھتے تھے، صلاحیت بھی تھی۔ انھیں میری بات میں کشش نظر آئی اور یہ میرے پھندے میں آ گئے وہ دن سو آج کا دن ہم ایک دوسرے کے اسیر ہو چکے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی شخصیت کو سمجھنے کے لیے اس شخصیت سے قربت ہی درست پس منظر مہیا کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہچان اس کے ساتھ سفر کرنے یا ایک ساتھ وقت گزارنے سے ہوتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کسی بھی شخصیت کی سوانح قلم بند کرنے کے لیے قلم کار کو اپنے موضوع کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑا اس قربت کے نتیجے میں ہی قلم کار اپنے موضوع کو جان سکا اور اس کی زندگی کے بارے میں لکھ سکا لیکن میرا موضوع تو گزشتہ تیس سال سے میرا ہمزاد ہے، گھر کی زندگی کے علاوہ شہر بھر میں ہونے والی کوئی تقریب، کوئی محفل، خوشی کی ہو یا غمی کی یہ میرے ساتھ ہوتا ہے، مختلف قسم کے فلاحی، سماجی، تفریحی اور ادبی پروگرام ہم نے ایک ساتھ ترتیب دیے، شہر سے باہر مختلف شہروں میں ہونے والی کانفرنسوں میں یہ میرا شریک سفر رہا، ہوٹل کے کمروں میں یہی میرا شریک ہوتا ہے۔ اسے میَں نے جتنے قریب سے دیکھا شاید ہی کسی اور نے دیکھا ہو گا۔ یہ میرے اور میَں اس کے بہت سے ظاہری اور خفیہ رازوں کا امین بھی ہوں۔ ٍٍامانت دار کی حیثیت سے میں اپنے دوست کی صرف ظاہری خصوصیات پر ہی قلم اٹھاؤں گا، کیونکہ امانت میں خیانت کسی بھی طرح اچھا فعل نہیں۔
صمد انصاری میں لکھنے کی صلاحیت موجود ہے، اس نے جب بھی لکھا اچھا لکھا، ادبی مزاج خاندانی ہے، لیکن اس نے اپنے اندر کے قلم کار کو پوری طرح باہر آنے ہی نہیں دیا، شعر کہتا ہے اور اچھے شعر کہے، لیکن بد قسمتی یہ کہ اس نے نہ تو جم کر نثر لکھی اور نہ ہی اپنے اندر کے شاعر کو آزادی کے ساتھ باہر آنے دیا، گویا یہ زندگی کے کسی بھی حصے میں اس جانب سنجیدہ نہیں رہا، باوجود اس کے کہ یہ نثر لکھنے والوں کے درمیاں رہا انھوں نے لاکھ ٹکریں ماریں کہ یہ سنجیدگی سے نثر لکھے، لیکن اس نے ان کی ایک نہ سنی، جب خود جی چاہا لکھا، اسی طرح شاعروں کی صحبت میں رہا، لیکن شاعری میں بھی اسی طرح ڈنڈی مارتا رہا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دامن میں چند غزلیں، چند نظمیں اور کچھ پیروڈیز ہوں گی، اسی طرح چند مضامین بھی۔ ہاں یہ دو کتابوں کا شریک مصنف بھی ہیں۔
قریبی دوست ہو تے ہوئے بھی میں صمد انصاری کے نکاح کا گواہ نہیں کیونکہ بارات کراچی سے اسلام آباد گئی تھی البتہ جائز ولیمے کا گواہ ضرور ہوں۔ قسمت سے اچھی بیوی ملی، پڑھی لکھی اورسیدھی سادھی، میری شاگرد بھی رہی۔ بچوں کی پرورش اور تربیت بہت اچھے طریقے سے کی۔ اپنی بیوی کی سادگی کا ایک واقعہ جو صمد انصاری نے سنا یا، دلچسپی سے خالی نہیں کہتے ہیں کہ ’میری شادی اسلام آباد میں ہوئی، یعنی سسرال والے اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔ بارات گئی، نکاح ہوا، رخصتی بھی ہوئی اور چند روز وہیں گزارنے کا پروگرام بنا۔ شادی کے بعد انھوں نے بیگم سے کہا کہ میرے ایک دوست نے مری میں رہنے کا انتظام اس طرح کر دیا ہے کہ مری میں ان کا اپنا گیسٹ ہاؤس ہے چنانچہ ہم ہنی مون کے لیے مری چلتے ہیں۔ صمد انصاری نے بتا یا کہ جب میں نے اپنی نئی نویلی بیگم سے یہ کہا کہ ہنی مون کے لیے مری چلتے ہیں قیام کا انتظام ہو گیا ہے تو انہوں نے انتہائی سادگی اور بے گانے انداز میں کہا کہ ہم تو مری بے شمار بارجا چکے ہیں، ہر آنے والے مہمان کو مری سیرکرا نے لے جاتے ہیں، میں مری جا کر کیا کروں گی آپ ندیم کے ساتھ چلے جائیں (ندیم بیگم صمد انصاری کے بھائی ہیں )، وہ آپ کو اچھی طرح مری کی سیر کرا دیں گے۔ ہائے رے تیری سادگی، قربان جائیے اس سادگی پر، آج کل کی لڑکیاں تو رشتہ طے ہونے سے قبل ہی ہنی مون کے منصوبے بنا لیتی ہیں۔ میرا دوست صمد انصاری اس سادگی پر قربان ہو گیا اپنے نئے نویلے سالے کے ساتھ مری چلے گئے۔ نہیں معلوم یہ ہنی مون تھا یا کچھ اور۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے صرف مون
ہی مون ہو گا کیونکہ ہنی تو اسلام آباد ہی میں رہ گئی تھی۔
اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
صمد انصاری کی ایک خوبی یہ ہے کہ انھیں وقت، حالات اور لمحہ موجود کے حوالے سے اشعار اور واقعات بہت جلد سوجھ جاتے ہیں اور یہ اسی وقت شعر سنادیتے ہیں یا اس سے مناسبت رکھتا ہوا کوئی قصہ، ایک دن کالج میگزین کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، انھوں نے فوری ایک قصہ رسید کر دیا، اپنے ایک کزن کا واقعہ سنا یا کہ ’’پنجاب کے کسی کالج میں ایک انگریز مہمان آئے، کالج پرنسپل انگریز موصوف کو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اپنے کالج کا میگزین دکھا رہے تھے جس پر شاہین کی خوبصورت رنگین تصویر چھپی ہوئی تھی، وہ انھیں بتا رہے تھے کہ ہم نے اپنے قومی ہیرو علامہ اقبال کے شاہین کی تصویر چھاپی ہے، علامہ اقبال کا شاہین اور ان کا تصور ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اس کے علاوہ علامہ اقبال اور ان کے فلسفے کے بارے میں تفصیل بتارہے تھے، اسی دوران اسی کالج کے ایک سینئر پروفیسر پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوئے، انھوں نے یہ خیال کیے بغیر کہ کوئی غیر ملکی مہمان بھی کمرے میں موجود ہے میگزین پر ایک نظر دوڑائی اور اپنے مخصوص انداز میں پنجابی میں گویا ہوئے ’’اوہی کبوترا‘‘ ان کا کہنا تھا میگزین پر سابقہ میگزین کی طرح شاہین کی تصویر ہے جسے انہوں نے کبوتر سے تشبیہہ دی، پرنسپل صاحب بھی ان کے اس برجستہ جملے کو سن کر رہ گئے ان کا خیال تھا کہ انگریز مہمان موصوف پروفیسر کے اس جملے کو سنا ان سنا کر دیں گے لیکن انگریز مہمان نے پرنسپل صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، پرنسپل صاحب نے انگریز مہمان کو کسی طرح ٹال دیا۔ یقیناً بعد میں انہوں نے موصوف پروفیسر کی خبر لی ہو گی۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم دونوں اپنے حلقہ دوستی میں ہر خوشی اور غمی میں اکثر ساتھ ہی جاتے ہیں، کبھی وہ مجھے لے لیتے ہیں کبھی یہ فریضہ میں ادا کرتا ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید کا انتقال ہوا تو جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہم ایک ساتھ تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر اللہ کو پیا رے ہوئے تو ہم دونوں نے انہیں بوجھل دل کے ساتھ وادی حسین قبرستان میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہا، ڈاکٹر انیس خورشید کے انتقال کے بعد ہم نے مل کر ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
اختر حنیف صاحب کے انتقال پر ہم ساتھ ساتھ تھے، ہمارے ایک شاگرد سمیع الدین، گورنمنٹ کالج برائے کامرس و اکنامکس کے لائبریرین تھے، اچھی خوبیوں کا نوجوان تھا، پہلی شادی ہوئی کامیاب نہ ہوئی، دوسری شادی ہوئی، ہنسی خوشی زندگی گزر رہی تھی کہ اچانک کسی موذی مرض نے آ دبوچا، دیکھتے ہی دیکھتے صحت مند اور خوب رو جوان چٹ پٹ ہو گیا، مغرب بعد تدفین ہوئی، لیاقت آباد میں رہا کرتا تھا وہیں سے جنازہ اٹھا، قبرستان میں صمد انصاری اور میں ساتھ ہی تھے۔ رات کی تاریکی میں جبکہ چاند کی روشنی بھی ماند تھی، شاید ایسی جوان موت پر چاند بھی افسوس کر رہا تھا۔ ہم نے اپنے اس شاگرد کو لحد میں اتارا، دل انتہائی دکھی اور افسردہ تھا، لیکن اللہ کی مرضی جسے جب چاہے اپنے پاس بلا لے، مصلحت خداوندی سمجھ کر سوائے صبر کے انسان کچھ نہیں کر سکتا۔
قبرستان سے واپسی کا سفر شروع ہوا، قبرستان میں اندھیرا تھا، معمولی سی روشنی کے سہارے ہم دونوں قبروں کو بچا تے ہوئے چلے آ رہے تھے ساتھ ہی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا کہ اچانک میری نظر ایک قبر کے کتبے پر پڑی لکھا تھا ’’سیدہ نجمہ سلطانہ تاریخ وفات۔ ۔ ‘‘، میں نے صمد انصاری کو متوجہ کیا اور کہا کہ ذرا یہ کتبہ تو پڑھو، یہ یہاں کب آ گئیں، صمد انصاری نے کتبہ دیکھا اور ہنس دئے، ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے صمد کہنے لگے ارے بھئی یہ بھی ہیں، میں نے کہا کون، کتبہ دیکھا تو لکھا تھا ’’ آمنہ خاتون تاریخ وفات۔ ۔ ‘‘، یہ حسن اتفاق تھا، ہم دونوں کچھ دیر قبروں کے درمیان کھڑے ہو گئے اور اس اتفاق پر گفتگو کرنے لگے، ہم دونوں نے کہا کہ چلو آگے چلتے ہیں ہو سکتا ہے، نسیم فاطمہ اور نسرین شگفتہ بھی یہیں کہیں ہوں، اس بات پر ہم دونوں خوب محظوظ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی عمر دراز کرے، اسکول آف لائبریرین شپ اور لائبریری پروموشن بیورو میں یہ ہماری شریک کار ہیں۔
صمد انصاری کا تعلق ہندوستان کی ریاست گوالیار سے ہے، انہوں نے اسی ریاست کے شہر ’لشکر‘ میں ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۴ء میں جنم لیا۔ قاضی خاندان سے تعلق ہے ان کے خاندان کے اکثر احباب اپنے نام کے ساتھ ’قاضی‘ لگاتے ہیں۔ ان کے جدِ امجد ہندوستان کی معروف شخصیت عبدا لمناف انصاری ہیں جن کا سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری سے جا ملتا ہے۔ صمد اپنے والدین کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں، ۱۹۶۳جب یہ کالج کے سیکنڈ ائیر میں تھے والدہ کا انتقال ہو گیا ، ان کی بقیہ تعلیم و تربیت کی ذمے داری ان کی والدہ بہنوں اور بھائیوں نے پوری کی، چھوٹے ہونے کے باعث لاڈلے بھی تھے، بھائیوں نے انہیں خوب خوب آزادی دے رکھی تھے، دوران تعلیم موٹر سائیکل اور کار کا استعمال کیا کرتے تھے، جامعہ میں پہنچے تو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، شکل پر کشش، ہینڈسم، چاکلیٹی مسکراہٹ اور سونے پر سہاگہ یہ کے چار ویل موجود، دوستوں خصوصاً لڑکیوں کے متوجہ ہونے کے تمام تر لوازمات موجود تھے۔ اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد لائبریری سائنس میں داخلہ لیا، بہت اچھا وقت جامعہ میں گزارا، شعبے کی طلباء سوسائٹی کے صدر بھی رہے، الیکشن لڑتے اور لڑواتے بھی رہے۔ اپنے زمانے میں ادبی، سماجی و ثقافتی پروگرام منعقد کرنے میں طاق تھے، اب بھی موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی پروگرام کر ڈالیں، سبزواری صاحب کی پاکستان آمد کے منتظر رہتے ہیں، ان کی آمد سے قبل ہی پروگرام ترتیب
دینے کی منصوبہ سازی کر ڈالتے ہیں۔
صمد انصاری کی ایک بہن۱۹۶۲ میں جامعہ کراچی سے MScکرنے کے بعد لندن چلی گئی اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی، ان کی دوسری بہن ’حبیبہ خاتون، نے بھی لائبریری سائنس میں ایم اے کیا ہوا تھا، صمد کو اس شعبے میں آنے کی ترغیب انھیں سے ملی، کیونکہ وہ ان سے قبل لائبریری سائنس کی ڈگری لے چکی تھیں۔ اردو میں بھی ایم اے تھیں، ادبی ذوق بھی رکھتی تھیں، اچھی شاعرہ بھی تھیں، ان کی غزلیں مختلف رسائل میں چھپ چکی ہیں۔
صمد انصاری کے خاندان میں لیٹ شادی کرنے کی روایت رہی ہے، حبیبہ خاتون کی شادی کراچی میں لیکن دیر سے ہوئی، اولاد بھی نہیں تھی، ساتھ ہی زندگی نے بھی وفا نہ کی، دونوں بہن بھائی برابر برابر فلیٹ میں رہا کرتے تھے، ایک دن صمد نے بتا یا کہ بہن پر فالج کا حملہ ہو گیا ہے، صمد نے بہت خدمت کی، ان کے شوہر بھی دیکھ بھال کیا کرتے تھے، صمد بہن کی بیماری سے پریشان رہا کرتے تھے، کچھ ہی عرصے بعد ایک اور حملہ ہوا اور وہ کچھ دن زندگی سے لڑتے لڑتے ہار گئیں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ حبیبہ خاتون کی ایک غزل کے چند اشعار ؎
راہ دل کی تھی نہ کوئے جسم و جان کی بات تھی
کاوشِ پیہم کا مقصد جستجوئے ذات تھی
کائنات وقت میں محصور تھے مجبور تھے
بن گئے کتنے فسانے مختصر سی بات تھی
صمد کی شادی لیٹ ہوئی، صمد کے سب سے بڑے بھائی اور صمد کی شادی ایک ساتھ ہی ہوئی تھی، لیٹ شادی کے کچھ فوائد ہیں تو نقصانات بھی ہیں جن کا احساس دیر سے ہوا کرتا ہے۔ صمد کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹیاں (فائزہ اور مدیحہ) اور ایک بیٹے (سعود ) سے نوازا، دونوں بیٹیوں کی بہ فضلِ تعا لیٰ شادیاں ہو چکی ہیں، مدیحہ لندن میں اور فائزہ لاہور میں رہتی ہیں، فائزہ نے فزیا لو جی میں ایم ایس سی کے ساتھ لائبریری سائنس کا کورس بھی کیا ہوا ہے جس ناطے سے یہ میری شاگرد بھی ہے۔ سعود این ای ڈی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے فائنل ائیر میں ہیں۔
صمد انصاری کے گھر کا ماحول علمی اور شاعرانہ تھا، خاندان کا تقریباً ہر شخص شاعری کے ہنر سے واقف تھا ان کے بزرگوں میں ریاض جیوری، معین الدین شیدا، عبدالرحمن دریا، پروفیسر یوسف جمال، محفوظ الرؤف اور آصف جمال خاصے معروف ہیں بڑی بہن اور بھائی شعری ذوق رکھتے تھے۔ صمد انصاری میں شعری ذوق ابتدا ء ہی سے تھا آٹھویں کلاس میں بچوں کی نظموں سے شاعری کی ابتداء ہوئی، روزنامہ جنگ میں بچوں کے صفحے میں ان کی نظمیں شائع ہوئیں۔
پاکستان میں اولین رہائش مارٹن کواٹر میں تھی، گلو کار ایم کلیم، احمد رشدی، مسرور انور اور راغب مراد آبادی ان کے ہمسائے تھے۔ گھر کا ماحول شاعرانہ تھا، ان کے گھر ادبی نشستیں بھی ہوا کرتیں تھیں سلیم احمد، اطہر نفیس، خالد علیگ، صادق مدہوش، شیدا گجراتی، اسد محمد خان اور ساقی فاروقی ان شعری نشستوں میں شریک ہوا کرتے۔ صمد انصاری مشاعرے کے شاعر نہیں لیکن انہیں بے شمار موقع محل کی مناسبت سے شعر یاد ہیں، شعر کہتے بھی ہیں۔ پیروڈی کے بھی ماہر ہیں۔
مجلسی آدمی ہیں، دوستوں میں رہنا، ہنسی مذاق، تفریحی ماحول کے شوقین ہیں، دوستوں کے دوست، یاروں کے یار، جس محفل میں ہوں، نمایاں نظر آتے ہیں، برملا شعر سناتے ہیں یا گفتگو کی مناسبت سے کوئی چٹکلا چھوڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
وفا شعار ہیں ہم دوستی میں یکتا ہیں
ملے نہ دادِ وفا اس کا غم نہیں کرتے
بڑوں، بزرگوں، استادوں کا احترام ان کا خاندانی شعار ہے، اپنے استاد ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری کے پرستاروں میں صف اول میں سے ہیں۔ یوں تو سبزواری صاحب کے چاہنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن صمد انصاری اپنے استاد سے جس قدر احترام اور عزت کا عملی ثبوت دیتے ہیں اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ اس عقیدت و محبت میں خلوص و سچائی کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ بقول منظر بھوپالی ؎
اپنے اسلاف کی عظمت کے پرستار ہیں ہم
سگ دربار نہیں صاحبِ کردار ہیں ہم
لائبریری سائنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد صمد انصاری نے عملی زندگی کا آغاز جامعہ کراچی کے کتب خانے سے کیا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں اپنے روز و شب کی تفصیل، ملازمت حال اور جناب عادل عثمانی و ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری سے اپنے تعلق کا مختصر احوال صمد انصاری نے اپنے ایک مضمون ’’میرے مربی میرے مہربان‘‘ میں اس طرح لکھا ــ ’’میں نے جب شعبہ لائبریری سائنس میں داخلہ لیا تو میری خوش قسمتی تھی کہ اس وقت شعبے کے بانی بابائے لائبریری سائنس ڈاکٹر عبدالمعید شعبے اور لائبریری دونوں کے سربراہ تھے اور کیا غضب کا معیار اور ڈسپلن تھا۔ معید صاحب کے علاوہ میرے استادوں میں ڈاکٹر انیس خورشید صاحب، ڈاکٹر غنی الاکرام سبزواری، اظہارالحق ضیاء صاحب اور اختر حنیف صاحب، مظہر باری خان صاحب شامل تھے۔ عادل عثمانی صاحب اور ممتاز بیگم صاحبہ جزوقتی اساتذہ میں شامل تھے میری بڑی خواہش تھی کہ مجھے عثمانی صاحب کا کورس ملے لیکن مجھے سائنس گریجویٹ ہونے کی وجہ سے مس ممتاز کے کورس میں بھیج دیا گیا مجھے بڑا افسوس تھا کہ میں اس عظیم شخصیت کا شاگرد نہ بن سکالیکن یہ افسوس اس وقت ختم ہو گیا جب ۱۹۷۴ میں ایم۔ ایل۔ آئی۔ ایس کے فوراً بعد یونیورسٹی لائبریری میں ملازمت کا موقع ملا۔ ہوا یوں کہ ابھی ہمارا رزلٹ صرف نوٹس بورڈ پر ہی لگایا گیا تھا کہ یونیورسٹی لائبریری میں کچھ نئے پروفیشنلز کی آسامیاں خالی ہوئیں اور سبزواری صاحب جو اسوقت شعبے کے چیئر مین تھے مجھے اور صمید بیگ کو عثمانی صاحب سے ملنے کو کہا صمید بیگ اور ہم دونوں کا شمار اس وقت کے ٹاپ ٹین طلبہ میں کیا جاتا تھا عثمانی صاحب نے ٹیسٹ لے کر کل سے کام پر آنے کے لیے کہہ دیا اسطرح ہم دونوں کا تقر ر کیٹلاگر کے طور پر کر دیا گیا اور یوں ان سے افسر اور ماتحت والا رشتہ قائم ہو گیا اور ہم دونوں نے عثمانی صاحب کے زیرِ تربیت اپنے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔
ہم نے عثمانی صاحب کو نہایت مہربان، اصول پسند اورمستعد افسر پایا وہ ہمیں اپنے دفتر میں بلا کر اکثر لائبریری کے مختلف شعبوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے اور محنت سے کام کرنے کی تلقین کرتے صمید بیگ کچھ ماہ کام کرنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور ان کی جگہ ہمارے ہی شعبے کے ایک ذہین طالبعلم سبطِ اختر نصیری کی تقرری ہو گئی مجھے اور سبطِ اختر صاحب کو ٹیکنیکل سیکشن میں درجہ بندی کرنے کے لیے تعینات کر دیا گیا جہاں ہماری انچارج مسز خان تھیں اور یوں چند سال میں ہم نے ان سے درجہ بندی سیکھی اور بہت کام کیا بعد میں اسی کام کے تجربے کی وجہ سے شعبہ میں جزوقتی استاد منتخب کر لیا گیا عثمانی صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے بلا کر مبارک باد دی وہ خود بھی شعبے میں پہلے سے ہی جزوقتی طور پر ایک کورس پڑھا رہے تھے۔ ۱۹۷۵ سے ۱۹۷۸ تک مجھے یونیورسٹی لائبریری کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملا اس میں بھی عثمانی صاحب کی مہربانیاں شامل تھیں عثمانی صاحب نے ہی مجھے لائبریری سے شائع ہونے والے نیوز لیٹر کے ادارت میں شامل کیا اور اس طرح میرا لکھنے پڑھنے کا شوق جو کچھ بھی ہے یہ عثمانی صاحب کی وجہ سے ہے بعد میں مجھے ان کی زیرِ نگرانی شائع ہونے والے رسالہ’ پاکستان لائبریری بلیٹن ،موجودہ نام’ پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جنرل، میں شامل ہونے کا موقع بھی ملا اس تین سال کے عرصے میں میں نے عثمانی صاحب کو نہایت شفیق اور مہربان افسر اور استاد کے طور پر پا لیا تھا شاید اگر میں ان کا ایک سیمسٹر کا شاگرد ہو بھی جاتا تو مجھے اس قدر سیکھنے کا موقعہ نا ملتا جو مجھے ان تین سالوں میں حاصل ہوا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ میرے سب سے عزیز استاد ڈاکٹر غنی الاکرام سبزواری کے سب سے عزیز استاد ہیں اس طرح میں ان کو اپنا دادا استاد شمار کرتا ہوں اس طور پر ان سے ایک جذ باتی لگاؤ ہونا یقینی تھا جذباتیت سے قطع نظر عثمانی صاحب ایک نہایت مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے انتہائی خوش لباس اور وضع قطع کے لحظ سے نستعلیق شخصیت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ایسی شخصیات کے جدا ہونے کا افسوس کبھی ختم نہیں ہوتا اور وہی شعر بار بار پھر زبان پر آتا ہے ؎
اور وہ جو دل نواز تھا وہ تو چلا گیا
ایک سوگوار درد سے رشتہ ضرور ہے
جامعہ کراچی کے بعد صمد انصاری سعودی عرب چلے گئے لیکن وہاں ان کا قیام مختصر رہا، واپس کراچی آ گئے اور انسٹی ٹیوٹ آف بنکرز کے چیف لائبریرین ہو گئے، میری دوستی انھیں انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز سے کالج کھینچ لائی، انہوں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور اور گورنمنٹ نبی باغ کالج کے لائبریرین ہو گئے، وہیں سے ریٹائر ہوئے، مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے گلشن اقبال میں ورکس کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائیٹی کے کمیونیٹی سینٹر میں قائم لائبریری میں بطور لائبریرین منسلک ہو گئے، تا حال یہ مصروفیت جاری ہے۔
صمد انصاری کے ہر دل عزیز استاد ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری نے اپنی سوانح حیات’ ’کیا بیت گئی؟ قطرہ پہ گہُر ہونے تک‘‘ میں صمد انصاری کے بارے میں لکھا ’’یہ بھی میرے ہونہار شاگرد ہیں۔ ذرا نازک مزاج ہیں۔ ادبی اور شاعرانہ ذوق رکھتے ہیں۔ تعلیم کے دوران خاصے سوشل تھے۔ ایم اے لائبریری سائنس ہیں۔ نبی باغ کالج میں لائبریرین رہے وہاں سے فارغ ہونے کے بعد گلشن اقبال میں ورکس کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کی لائبریری میں لائبریرین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ بیورو (لائبریری پروموشن بیورو) کے کام میں شریک ہیں۔ ہمارے مجلے میں Associate Chief Editorہیں، مضامین لکھتے رہتے ہیں اور رئیس احمد صمدانی صاحب کے لائبریری اسکول میں پڑھاتے ہیں۔ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن میں بھی متحرک ہیں اور پیشہ ورانہ انجمنوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک کتاب جو حال ہی میں شائع ہوئی ’اسکول کے کتب خانے ، کے شریک مصنف ہیں ‘‘۔
صمد انصاری کی ایک غزل ؎
وہ مجھے یاد نہیں اور اُسے بھولا بھی نہیں
دل ہے تنہا مگر ایسا تنہا بھی نہیں
دشمنِ جاں بھی نہیں اور مجھے پیارا بھی نہیں
وہ جو اپنا بھی نہیں اور پرایا بھی نہیں
کیوں فضا سرد ہے دل کی مجھے احساس کہاں
آتشِ غم سے سجاؤں کوئی شعلہ بھی نہیں
فضلِ گل آئی ہے لیکن کوئی زنجیر نہیں
ہار پھولوں کا نہیں پاؤں میں کانٹا بھی نہیں
دل بھی زخمی نہیں اور آنکھ میں آنسو بھی نہیں
حال اچھا ہے مگر ایسا اچھا بھی نہیں
غم کا احساس گیا اپنی بھی پہچان گئی
جو مجھے ڈھونڈ کے لائے کوئی ایسا بھی نہیں
اب کے کچھ اور بدل ڈالا ہے میں نے خود کو
کوئی جب دل کو دکھاتا ہے تو ہنستا بھی نہیں
صمد انصاری کی ایک تازہ غزل ؎
اداس شام بہت تھی مگر گزر ہی گئی جو تیری یاد میں گزری تو کچھ سنور ہی گئی
جو آگ تیری محبت نے ہم کو بخشی تھی وہ آگ راکھ ہوئی اور پھر بکھر ہی گئی
وہ آئے بزم میں لیکن ہمیں نہ دیکھ سکے نظر اٹھی تو مگر ہم سے بے خبر ہی گئی
ہر ایک کاوش گرما کے بے اثر ٹھہری وہ موج درد مگر اپنا کام کر ہی گئی
چہار سمت تباہی کا جال پھیلا کر چڑھی ہوئی وہ ندی آخرش اتر ہی گئی
کراچی، ۱۸ مئی ۲۰۱۱ء
میری ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں جب تھک کر سوجاتی ہے ماں
تب جا کر تھو ڑا سا سکوں پاتی ہے ماں
شکر ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مر تے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں
’’ماں ‘‘ایک عظیم نام، قدرت کا بے مثال اور انمول تحفہ، قربانی، ایثار، مروت، صبر و رضا، پیار و محبت، خلوص و وفا کی روشن مثال۔ ایک ایسا منفرد اور انمول رشتہ جس کی محبتوں کا، شفقت کا، قربانی کا، ایثار کا، خلوص کا، وفاؤں کا، تقدس کا اور سب سے بڑھ کر ممتا کا کوئی مول نہیں۔ ماں کی عظمت کو لاکھوں سلام، میری ماں تیرے قدموں کو سلام۔
میری ماں کا نام صفیہ سلطانہ اور والد صاحب کا نام انیس احمد صمدانی تھا۔ ماں سبزواری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور والد راجستھانی تھے، بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔ والد شہری بابو اور والدہ مشرقی پنجاب کی ایک دیہاتی۔ شہری اور دیہاتی ملاپ سے جنم لینے والے بندھن نے شہر کراچی میں ایک کامیاب زندگی گزاری، دنیاوی زندگی کادورانیہ ۵۰ سال ۵ماہ اور ۲۵دنوں پر محیط رہا۔ اس ملاپ نے سات زندگیوں کو جنم دیا، انھوں نے ان ساتوں زندگیوں کی پرورش کی، انھیں تناور درخت بنا یا، یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی تین بہنوں اور دو بھائیوں کی بھی پرورش کی، انہیں پروان چڑھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔
میری امی اور ابا ۱۵مارچ ۱۹۴۷ء بروز ہفتہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، گویا قیام پاکستان سے صرف چھ ماہ قبل۔ والد صاحب ملازمت کی وجہ سے راجستھان کے شہر گنگا نگر میں بہ سلسہ ملازمت رہا کرتے تھے، جب کہ دیگر اہل خانہ بیکانیر میں رہتے تھے۔ والدہ اپنے والدین کے ساتھ ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں رہائش پذیر تھیں۔ بارات کے بارے میں میرے چچا مغیث احمد صمدانی نے بتا یا جن کی عمر اس وقت آٹھ سال کی رہی ہو گی کہ ’’ بارات میں دیگر لوگوں کے علاوہ میں اور جلیس بھی زبردستی ساتھ ہولیے، شادی عجلت میں طے ہوئی تھی اس وجہ سے کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا، جب بارات کی روانگی کا وقت قریب آیا تو ہمیں معلوم ہوا، ہم دونوں بھائی ننگے پاؤں ہی بارات میں چل دئے، راستے میں بھائی نے جوتے دلوائے ‘‘۔ بارات گنگا نگر سے فرید کوٹ گئی تھی۔ میری پھوپھی مبینہ خاتون نے بتا یا کہ وہ اس وقت دس برس کی تھیں، اپنے بھائی کی بارات میں تو نہ جا سکیں کیونکہ وہ اس وقت بیکانیر میں تھیں، البتہ ان کی بھابی (میری والدہ) رخصت ہو کر آئیں تو وہ دیگر احباب کے ساتھ اسٹیشن انھیں لینے گئی تھیں، کہتی ہیں کہ ہم بھابی اور بھائی کو اسٹیشن سے بیل گاڑی پر گھر لے کر آئے۔ دونوں خاندانوں میں پہلے سے رشتہ داریاں تھیں۔
شادی کے وقت میری والدہ کے والد صاحب (امید حسن سبزواری)یعنی میرے نانا شدید بیمار تھے، ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی ان کی زندگی میں اپنے گھر کی ہو جائے۔ خاندان کے بعض بزرگوں نے یہ رشتہ بہت ہی عجلت میں طے کرایا۔ بقول جناب محبوب احمد سبزواری ’’ والد صاحب(میرے نانا) شدید بیمار تھے لیکن خواہش یہ تھی کہ ان کی بیٹی صفیہ سلطانہ (مصنف کی والدہ) کی شادی ان کی زندگی ہی میں ہو جائے، کہتے ہیں کہ کوئی پل انسان کی دعا کی قبولیت کا بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول کر لی تھی چنانچہ رشتہ طے ہو گیا، دوسری جانب بیماری شدید صورت اختیار کر تی گئی اسی دوران شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ بارات آئی آپ بستر علالت پر تھے بیٹی کو اُسی حالت میں رخصت کر کے اللہ کا شکر ادا کیا، حالت بگڑتی گئی آپ نے رات بھر اپنی نوبیاہتا بیٹی کی واپسی کا انتظار کیا، آنکھیں دروازے پر لگی تھیں، صبح ہو ئی، ٹرین نے دوپہر کو آنا تھا، باغباں کو اپنی اس کلی کا شدت سے انتظار تھا جو عنقریب پھول بننے جا رہی تھی لیکن دوسری جانب درخت جھک رہا تھا، پتے مرجھا رہے تھے، ٹہنیاں زرد ہو رہی تھیں، ہواؤں کا رنگ بدل رہا تھا، وقت کا صیاد اپنا تیر چلانے کو تیار بیٹھا تھا، مہلت ختم ہونے کو تھی، یکا یک کلی نمو دار ہو ئی اور منتظر باپ کے سینے سے جا لگی، باغباں کے مہر بان ہاتھوں نے اپنی کلی کو سینے سے لگا یا، منتظر آنکھوں کو ٹھنڈا کیا لیکن وہ ہاتھ وہیں جم کر رہ گئے وہ آنکھیں جو محوِ انتظار تھیں سینے کی ٹھنڈک کو پہچان کر مطمئن سی ہوئیں اور پھر انجان بن گئیں، دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کی اس خواہش کی تکمیل بھی کر دی جس کی آرزو انھوں نے بیماری کی حالت میں کی تھی، کلمہ طیبہ پڑھا اور اسی حالت میں جب کہ آپ کی بیٹی سرخ جوڑے میں ملبوس اپنے منتظر باپ کے سینے سے لگی اپنے سینے کو ٹھنڈا کر رہی تھی باغباں نے چپکے سے آنکھ موند لی اور آپ کی روح اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پرواز کر گئی۔
میرے والدین کی شادی کو چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہو گیا۔ ہندوستان سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستانی علاقوں میں آنے لگے۔ میرے والد صاحب ہندوستان کے شہر گنگا نگر کی عدالت میں پیش کار تھے انھوں نے وہاں سے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا، ان کے والد اور بہن بھائیوں نے بعد میں ہجرت کی اور کراچی منتقل ہوئے۔ والدہ اپنے میکے میں تھیں انھوں نے اپنے بڑے بھائی شیخ محبوب احمد سبزواری کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی۔ میرے وجود کا خمیر ہندوستان کی سرزمین گنگا نگر یابیکا نیر (راجستھان) میں معرض وجود میں آ چکا تھا، اسے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے والدین کو پاکستان ہجرت کا قصد کرنا پڑا، ’لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر رہے گا ہندوستان ،کی صدائیں میرے کانوں میں براہِ راست تو نہیں البتہ اپنی ماں کے کانوں سے ہوتی ہوئی مجھ تک ضرور پہنچیں۔ اس کا احساس میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں، کیوں کہ میں اس وقت شکم مادر میں رہتے ہوئے ہجرت کی بہاروں کا لطف لے رہا تھا۔ مجھے ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو یعنی قیام پاکستان کے سات ماہ بعد اس دنیا میں آنا تھا اور آیا۔ میری والدہ کی ہجرت کی داستان کچھ اس طرح ہے جو میرے ماموں جناب محبوب احمد سبزواری نے مجھے بتائی آپ نے بتا یا کہ ’’ فرید کوٹ سے ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء کو ٹرین انبالہ سے امرتسر ہو تے ہوئے لاہور پہنچی، رات لاہو رہی میں بسر کی، ہماری منزل ابھی دور تھی، اگلے روز مال گاڑی میں منڈگمڑی ہو تے ہوئے بھورے والا آ گئے، فرید کوٹ کے بے شمار لوگ بھورے والا آ چکے تھے، رات بھورے والا میں گزاری، ۲۰ اگست کو وھاڑی آئے یہاں سے ہمیں کرم پور جانا تھا جہاں پر ڈاکٹر انوار پہلے سے موجودتھے، جب ہم یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ میلسی منتقل ہو چکے ہیں، رات کرم پور میں ڈاکٹر انوار کے ڈیرے پر بسرکی اگلے روز ۲۱ اگست کو میلسی پہنچ گئے، ایک روز بعد بقرعید تھی، میں اگلے ہی روز میلسی کے تحصیلدار سے ملا اور بتا یا کہ میں میٹرک پاس ہوں پٹوار کا امتحان بھی پاس کر چکا ہوں، ہندوستان کے شہر فرید کوٹ میں پٹواری تھا، اس نے مجھے فوری کلرک بھرتی کر لیا، میلسی میں مجھے بھی ایک مکان الاٹ ہو گیا‘‘، میری امی اور میَں اسی قافلے میں تھے۔ امی نے میری پیدائش تک میلسی میں ہی قیام کا فیصلہ کیا۔
امی بتا یا کرتی تھیں کہ ہمارا زمانہ شرم و حیا کا تھا، زنِ حاملہ اپنے والد، بھائیوں اور اپنے بزرگوں کے سامنے آتے ہوئے شرم محسوس کرتی تھیں۔ چنانچہ وہ یعنی میری امی ان دنوں اپنے بھائیوں کے سامنے نہیں آتی تھیں، جب وہ گھر میں ہوتے تو وہ کسی بھی کمرہ میں ہی چھپی رہا کرتیں۔ وقت گزرتا گیا، میری دنیا میں آمد کے دن قریب آ رہے تھے، والد صاحب کراچی میں ملازم ہو چکے تھے، ایک بڑے کنبے کی کفالت ان کے کاندھوں پر تھی۔ ان کے والد(میرے دادا جناب حقیق احمد)، تین بہنیں (نسیمہ خاتون، مبینہ خاتون، تسلیماخاتون) اور دو بھائی (جلیس احمد، مغیث احمد)، سات افراد کا کنبہ اور کمانے والے میرے والد صاحب ہی تھے کیونکہ ان کے دونوں بھائی ابھی چھوٹے تھے۔ والد صاحب کی ملازمت بھی بہت قابل ذکر نہ تھی، ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت تھی، قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں والد صاحب نے کراچی میں محنت مزدوری بھی کی، پھر انہیں ملازمت مل گئی۔ وہ میری پیدائش پر والدہ کے پاس بھی نہ جا سکے، یقیناً مالی مشکلات رہی ہوں گی۔ میلسی شہر اس وقت ضلع ملتان کی تحصیل ہوا کرتا تھا، چھوٹا لیکن صاف ستھرا، اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’’میلسی شہر بڑا گل زار جس میں بجلی ہے نہ تار‘‘، یہ وہ دور تھا جب عام طور پر بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوا کرتی تھی، بلکہ یہ رواج بہت عرصہ تک قائم رہا، اسپتال نہ ہونے کے برابر تھے، مّحلوں میں بعض عورتیں بچوں کی پیدائش میں معاون کا کردار ادا کیا کرتی تھیں، اُنہیں عرف عام میں ’دائی، کہا جاتا تھا۔ ’دائی، کوئی کوالیفائیڈ نرس نہیں ہوتی تھی۔ وہ تو اپنے تجربے کی بنیاد پر زن حاملہ کا سہارا ہوا کرتی تھی۔ میری امی اور میں بھی ایک دائی جس کا نام’ اَنسری،تھا کے رحم کرم پر تھے۔ میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔ امی نے بتایا تھا کہ نہیں معلوم کیا وجوہات ہوئیں پیدائش کے وقت دائی نے بتا یا کہ نو مولود کو الٹا پیدا ہونا ہے، جس کی وجہ سے پیدائش کے وقت مشکلات پیدا ہو گئیں، امی نے بتا یا تھا کہ اس وقت دائی کو یہ کہتے سنا گیا کہ زچہ و بچہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل میری نانی کا انتقال بھی بچے کی پیدائش پر ہوا تھا، میری والدہ کے لیے یہ لمحات اس حوالے سے بھی پریشان کن رہے ہوں گے۔ گویا میری پیدائش کے وقت میری امی کی زندگی خطرے میں تھی اور میری جان کو بھی خطرہ تھا۔ خوشی کے یہ لمحات وقتی طور پر افسردگی اور پریشانی میں بدل گئے، لوگ پریشان تھے، دو زندگیوں کے لیے دعائیں بھی کر رہے تھے۔ لیکن زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے دونوں زندگیوں کو سلامت رکھا۔ ہمارے معاشرے میں لڑکے کی پیدائش کو زیادہ خوش کن سمجھا جاتا ہے، چنانچہ میری آمد پر میلسی اور کراچی میں خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے۔ کراچی میں میرے دادا اپنے پہلے پوتے کی آمد پر پھولے نہ سماتے تھے، میرا نام بھی انھوں نے ہی تجویز کیا تھا، میری پھوپیاں اور میرے چچا اپنے بھتیجے کی آمد پر بے انتہا خوش تھے، میری چھوٹی خالہ جن کی اس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی جو بعد میں میری خوش دامن بھی ہوئیں میری آمد پر کچھ زیادہ ہی خوش تھیں، میرے تینوں ماموؤں (محبوب احمد، مطلوب احمد اور محمد احمد ) کی خوشی دیدنی تھی، انھوں نے ڈھیروں لڈو اس موقعے پر تقسیم کیے۔ کراچی میں بھی خوب خوب مٹھائی تقسیم کی گئی۔
میری امی نے مشرقی پنجاب کے ایک دیہات میں آنکھ کھولی تھی، وہیں پلی بڑھی تھیں، بچپن اور جوانی دیہات کے ماحول میں گزرا تھا جہاں ان کے والد اور ایک بھائی پٹواری تھے، بعد میں ان کے بھائی( مطلوب احمد) بھی پاکستان میں پٹواری ہوئے۔ دیہات کے رہنے والے بخوبی واقف ہیں کہ پٹواریوں کا رہن سہن کس قسم کا ہوتا ہے، گندم، چاول، گھی، شکرسال بھر کا گھر میں جمع، گائیں، بھینس، بکری اور دیگر جانور، ساتھ ہی کام کرنے والے نو کرچاکر، الغرض صحت مند آب و ہوا کے ساتھ ساتھ خالص غذا، آج کے دیہاتوں میں بھی یہ سب کچھ میسر ہے۔ فرق یہ ہوا کہ ان دیہاتوں نے مختصر شہر کا روپ دھار لیا ہے۔ جہاں بجلی، ٹیلی ویژن، فرج اور ائر کنڈیشن کی سہولیات میسر آ گئیں ہیں۔
امی بڑی ہمت و حوصلے کی مالک تھیں، میری دنیا میں آمد کے بعد ۱۹۴۸ء میں میلسی سے کراچی آئیں تو گھر میں پاپا (میرے والد صاحب )کے علاوہ میرے دادا، تین پھوپیاں اور دو چچا بھی تھے۔ میری امی نے ان سب کو گلے سے لگا یا، ان کی پرورش اور تربیت ہی نہیں کی بلکہ رفتہ رفتہ اپنی نندوں اور دیوروں کی شادیوں کا اہتمام بھی کیا، ہماری ایک پھوپھی نسیمہ خاتون کی شادی امی نے اپنے بھائی مطلوب احمد سے کرا دی۔ اسی طرح دوسری پھوپیوں مبینہ خاتون اور تسلیما خاتون کی شادیاں بھی کیں۔ میرے چچا جلیس احمد اور مغیث احمد کی دو دو شادیاں ہوئیں۔ جلیس چچا کی پہلی بیوی (شمیم بنت خادم الا نبیا سبزواری) سے علیحدگی ہو گئی تھی جب کہ مغیث چچا کی پہلی بیوی حمیرا صمدانی اللہ کو پیا ری ہو گئی تھیں۔ میری امی اور پاپا نے ان تمام کی پرورش اور تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ پاپا اپنی ذات میں انجمن تھے انھوں نے اپنی بہنوں اور بھائیوں کو اپنی اولاد کی سی محبت دی، امی اُن کے ہر فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتیں اور اس پر عمل بھی کرتیں۔ امی نے اپنی نندوں اور دیوروں کو ماں کی شفقت اور پیار دیا۔ مغیث چچا کا کہنا ہے کہ ’’بھابی نے ہمیں اتنی محبت دی کہ ہم اپنی ماں کو بھول گئے ‘‘۔ ہمارے والدین نے اپنے بہن بھائیوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی پرورش بھی کی، ہم چار بھا ئی(رئیس، پرویز، تسلیم، ندیم) اور تین بہنیں (ناہید، شاہین، روحی ) تھے۔ ہماری تعلیم و تربیت کے علاوہ سب کی شادیاں بھی کیں، سب کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ الحمد اللہ آج ہم سب بہن بھائی صاحب اولاد اور اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ہمارے خاندان کے بزرگ فقہ حنفی سے تعلق رکھتے تھے، میرے پردادا شیخ محمد ابرہیم آزادؔ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے، جج و چیف جج بھی رہے، ساتھ ہی شاعری سے بھی شغف تھا۔ نذر و نیاز، محفل میلاد اور درود و سلام کے قائل تھے۔ میرے والد صاحب بھی انھی نظریات پر عمل پیرا رہے۔ ہم نے انھیں جوانی میں بھی نماز سے غافل نہیں دیکھا، ہمارے گھر کا ماحول مذہبی تھا، گھر میں نعتِ رسول مقبولﷺ اور میلاد کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ ہر اسلامی مہینے میں اس کے تقدس کی مناسبت سے پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا جس میں ہمارے قریبی عزیز رشتہ دار بھر پور شرکت کیا کرتے۔ محرم الحرام میں عاشورے کے دن گھر میں حلیم کی دیگ پکا کرتی، ہمارے قریبی عزیز شروع شب ہی ہمارے گھر آ جایا کرتے، رات بھر رَت جگا رہتا، صبح ہوتے ہی حلیم کی تقسیم شروع ہو جاتی، گھر میں کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ ہماری امی ذوق و شوق سے ہر سال اس کا اہتمام کیا کرتیں، ماہ ربیع الا ول میں گھر کا ماحول زیادہ مذہبی ہوا کرتا تھا، محفل میلاد کا انعقاد ہوا کرتا۔ گیارہویں شریف کو نیاز کی دیگ، ماہِ رجب کی ۲۲ تاریخ کو گھر میں کونڈوں کی ٹکیاں تیار ہوتیں، اس رات بھی ہمارے قریبی عزیز رشتہ دار شروع رات سے ہمارے گھر آ جاتے، رات بھر جشن کا سماں ہوا کرتا تھا، دن بھر مہمانوں کی آمد جاری رہتی تھی۔ ماہ شعبان کی پندرھویں شب خصوصی عبادت کا اہتمام ہوا کرتا، امی اس دن سوجی اور چنے کی دال کا حلوہ پکایا کرتیں اور رات میں ہمیں قبرستان جانے کی تاکید کیا کرتیں، شروع میں ہم شیر شاہ کے قبرستان جایا کرتے تھے جہاں پر میرے دادا اور دیگر احباب مدفن ہیں، جب ہم دستگیر منتقل ہو گئے تو یٰسین آباد کے قبرستان جانا ہمارا معمول بن گیا، اب میرے ابا اور امی اِسی قبرستان میں مدفن ہیں۔ ماہِ رمضان کا پورا مہینہ موسم بہار کی طرح ہوا کرتا تھا۔ عبادت کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا خصوصی اہتمام ہوتا۔ پاپا کھانے کے شوقین تھے، عام دنوں میں بھی اور ماہ رمضان میں خاص طور پر دسترخوان بے شمار قسم کے کھانوں کی اشیاء سے بھرا ہوا ہوتا۔ ہم نے اپنی امی کو ماہِ رمضان میں دن بھر مصروف دیکھا، کبھی ان کی زبان پر کسی قسم کا شکوہ نہیں آیا۔ گھر میں جو تقریبات ہوا کرتی تھیں، امی ان تمام کا اہتمام بہت ذوق و شوق سے کیا کرتی تھیں، وقت سے پہلے ہی تمام چیزیں بازار سے خرید کر لاتیں، جو عزیز و رشتہ دار ہمارے گھر کے نزدیک رہا کرتے تھے انھیں متعلقہ شب آنے کی دعوت دیا کرتیں۔ انہیں اپنے گھر دیکھ کر خوش ہوتیں، ان کی خاطر تَواضُع کیا کرتیں۔ پاپا کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ سلسلہ کم ہوا پھر ختم ہی ہو گیا۔
امی مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔ روز مرہ آنے والے مہمانوں کی خوش دلی سے خاطر مدارات کیا کرتیں۔ اگر کوئی کھانے کے وقت گھر آ جاتا تو پاپا کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ وہ کھانا کھائے بغیر ہر گز نہ جائے، ہماری امی نے پاپا کی اس خواہش پر ہمیشہ خوش دلی سے عمل کیا۔ ہمارے گھر کا دستر خوان ہمیشہ دراز رہا۔ ہمارے گھر کا دستر خوان ہمیشہ فرشی ہوا کرتا تھا، ہم نے ہمیشہ نیچے فرش پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ طویل عرصہ رہنے والے مہمان بھی ہمارے گھر میں اکثر رہے۔ در اصل ہمارے ابا جان انتہائی نرم دل، مہمان نواز اور کسی کی دکھ تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے، جب بھی کسی رشتہ دار نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو وہ فوراً اپنی خدمات حاضر کر دیا کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ شخص ہمارے ہاں مستقل مہمان ہو جایا کرتا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں۔ حتیٰ کہ پوری پوری فیمیلی کو ہمارے ابا جان اور امی نے اپنے گھر میں پناہ دی وہ کافی عرصے تک ہمارے گھر میں رہتے رہے۔ گویا ہمارا گھر مہمان سرائے بھی تھا، ہم میں سے کسی کی یہ مجال نہیں تھی کہ ان کے فیصلہ پر اُف بھی کرتے بلکہ وہ وقت بہت ہی ہنسی خوشی گزرتا۔ امی ہمہ وقت مستقل مہمانوں کے ساتھ خوش دلی سے پیش آیا کرتیں۔ مرحوم شیخ لئیق احمد جو ہمارے رشتے کے ماموں تھے، بعد میں ان کے بیٹے ندیم ارشد سے ہماری چھوٹی بہن روحی کی شادی ہوئی، پریشانی میں مبتلا ہوئے، پاپا کے علم میں جب یہ بات آئی تو وہ انھیں اپنے گھر لے آئے اور وہ کافی عرصے ہمارے گھرہنسی خوشی رہے، لئیق ماموں انتہائی نفیس، خلیق اور ملنسار انسان تھے، مامیِ ان سے بھی زیادہ محبت کرنے والی تھیں، میں نے ماموں کا خاکہ بھی لکھا جو میری کتاب ’یادوں کی مالا ، میں شامل ہے۔ اسی طرح ضمیرحسن سبزواری انہیں ہم ضمیر تایا کہا کرتے تھے ایک بار پریشانی میں مبتلا ہوئے، پاپا کو جب علم ہوا تو انھیں اپنے گھر رہنے کی دعوت دی، وہ کافی عرصے ہمارے گھر رہے، ان کے بیٹے ناظرحسن سبزواری اس وقت بی ای کر رہے تھے، میں اس وقت پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا، ناظر بھائی مجھے پڑھایا بھی کر تھے، ضمیر تایا بہت ہنسی مذاق کیا کرتے تھے، ان کی موجودگی میں محفل زعفران بنی رہتی، ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، حالات بہتر ہو گئے تو وہ اپنے گھر چلے گئے۔ خاندان کے بعض احباب پنجاب سے کراچی آئے مقصد، تعلیم اور پھر ملازمت کا حصول تھا، ان میں شکیل احمد مرحوم، شیخ طاہر حسن، شاہد احمد، مولانا شکیل مرحوم، محمد احمد سبزواری مرحوم اور دیگر شامل تھے۔ یہ احباب کافی عرصہ ہمارے گھر رہے۔ آج یہ قدریں معدوم ہوتی جا رہی ہیں، افسوس ہم نے ان قدروں کو بھلا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج مالی طور پر زیادہ مستحکم ہونے کے باوجود پریشان اور مشکل میں رہتے ہیں۔ ماں کے لیے پروفیسر محمد واصل عثمانی صاحب کے مجموعہ کلام ’سوزِ جان، سے چند خوبصورت اشعار :
ماں روح کی دولت ہے ماں باعثِ خلقت ہے
ماں رب کی عنایت ہے ماں وجۂ شرافت ہے
ماں موجبِ برکت ہے ماں سایۂ رحمت ہے
ماں جلوۂ قدرت ہے ماں صرف محبت ہے
میں نے اپنی امی کی زبانی سنا کہ ابھی وہ چند برس کی ہی تھیں کہ ان کی والدہ انتقال کر گئیں، ان کے والد صاحب کیونکہ پٹواری تھے اس وجہ سے گھر میں کسی قسم کی مالی پریشانی نہیں تھی، بڑی بہن کی شادی ہو چکی تھی، ایک بہن ان سے بھی چھوٹی تھی کوئی دو سال کی، ان دونوں بہنوں کی پرورش ان کے والد اور بڑے بھائیوں نے کی۔ امی کی آنکھیں قدرِے چھوٹی تھیں، یہ بچپن میں بہت خراب رہی تھیں، بیضوی مائل نکھرا نکھرا چہرہ، قد مناسب، رنگت دھُلی ہوئی گندم جیسی، ناک ستواں، لمبے ہاتھ، مخروطی انگلیاں، گال پر دائیں جانب نمایاں تلِ، سر پر ہمیشہ دوپٹے کا پلو، پر خلوص ملنسار، فراخ دلانہ لب و لہجہ، پاکیزہ خیالات کی مالک دیہات کے ماحول میں پروان چڑھنے والی، جس کی ماں کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا ہو، لکھنا پڑھنا کیسے سیکھ سکتی تھی، یہی ہوا امی لکھ پڑھ نہ سکیں۔ شادی بھی جلد ہو گئی، لیکن قربان جاؤں اس نیک صفت کے کہ ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ہماری ماں پڑھی لکھی نہیں، الحمد للہ ہم سب نے تعلیم حاصل کی، نماز بھی پڑھا کرتیں، ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کیا کرتی تھیں۔ بسم اللہ کا قرآن کریم پڑھنا اپنا معمول بنا لیا تھا۔ بسم اللہ کے قرآن کریم کی روایت گاؤں، دیہات اور پڑھے لکھے نہ ہونے والوں میں پا ئی جاتی ہے، اس کا طریقہ بڑی بوڑھیوں نے یہ نکالا کہ وہ قرآن کریم کھول کر بیٹھ جاتیں اور اس کی ہر ہر لائن پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتی رہتیں، علماء کرام نے اس طرح کلام کریم پڑھنے کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس کی کوئی روایت پائی نہیں جاتی، اس طرح ختمِ قرآن کا ثواب تو نہیں ملتا البتہ جتنی مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا جاتا ہے، پڑھنے والا اس کے ثواب کا حق دار ضرور ٹھر تا ہے، عام طور پر قرآن کریم کے ایک صفحہ پر ۱۵ سطریں ہوتی ہیں اور ایک پارہ ۲۰ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے، مکمل قرآن کریم ۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہوا اور مکمل قرآن کریم ۹ ہزار سطروں پر مشتمل ہوتا ہے، بسم اللہ کا قرآن کریم پڑھنے والے نے اگر ایک قرآن کریم پڑھا، گویا اس نے نو ہزار مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کا ثواب حاصل کر لیا، جتنی دیر وہ قرآن کریم کے سامنے رہا، اس کا دل و دماغ اللہ کے کلام کی جانب متوجہ رہا، اس کا جس قدر وقت گزرا وہ نیک عمل میں صرف ہوا، یقیناً اس کا بھی ثواب اسے ضرور ملے گا۔
ہم نے کبھی امی اور ابا کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتے نہیں دیکھا، حتیٰ کہ دونوں کو کبھی اونچی آواز سے بولتے نہیں سنا۔ اس میں ہمارے پاپا کا بھی کمال تھا۔ وہ انتہائی صلح جو قسم کے انسان تھے، ہر ایک کے سا تھ پیار محبت سے پیش آیا کرتے، نقل اتار کر اور منہ بنا بنا کر مذاق کرنا ان کی عادت تھی۔ جیسے ہی انہوں نے کسی کو دور سے آتا دیکھا، خواہ وہ چھوٹا ہویا بڑا اس کی شکل بنا کر اسے مخاطب کرنا ان کی عادت تھی، حتیٰ کے اپنے پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کے ساتھ بھی وہ اسی طرح مذاق کیا کرتے تھے۔ امی کبھی کبھی ان کی اس عادت پر انھیں ٹو کا بھی کرتی تھیں۔ متبسم رہتے، قہقہے کی آواز کو بلند نہ ہونے دیتے۔ کبھی کبھار پاپا کمرہ میں آتے تو چلتا ہوا پنکھا بند کر دیتے، امی کو پاپا کی یہ ادا نا پسند تھی، اس بات پر امی خفگی کا اظہار کیا کرتیں، امی نے کبھی پاپا کو ان کا نام لے کر مخاطب نہیں کیا، کہا کرتی تھیں کہ ہمارے ہاں شوہر کا نام لینا معیوب ہے، وہ اکثر پاپا کو’سنیے ‘‘ ’ اجی سنتے ہیں ،یا تمہارے پاپا کی یہ بات، تمہارے بھائی صاحب کی وہ بات وغیرہ سے پاپا کے بارے میں بات کیا کرتیں تھیں۔ پان دان ہمارے گھر کی روایت تھی، پاپا اور امی دونوں ہی پان کھا یا کرتے، پاپا اپنے ساتھ پان کی ڈبیا اور بٹوا رکھا کرتے تھے، امی کی دیگر ذمہ داریوں میں پان بنا کر دینا بھی تھا، آخر میں امی نے پان کھانا چھوڑ دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پاپا شروع میں سگریٹ بھی پیا کرتے تھے، جب پان کھا نا شروع کیا تو سیگریٹ پینا چھوڑ دی۔ میرے سب ہی بہن بھائیوں نے اپنے امی ابا کی اس روایت کو جاری رکھا ہوا ہے لیکن میَں ان دونوں ہی چیزوں یعنی پان اور سیگریٹ سے بچا ہوا ہوں۔ بچپن ہی سے میں ان سے دور رہا، امی جب مجھ سے لگا ہوا پان کسی کو دینے کے لیے کہتیں تو میں صاف انکار کر دیا کرتا کیونکہ مجھے کتھے سے گھن آیا کرتی تھی، اسی چیز نے مجھے پان سے ہمیشہ دور رکھا۔
امی بہت با ہمت اور قوت برداشت کی ما لک تھیں، سارا سارا دن گھر کے کاموں میں لگی رہتیں، زبان پرکبھی حرفِ شکایت نہیں آیا۔ کراچی میں رہائش کی ابتدا تو کراچی کی قدیم بستی کھڈا مارکیٹ سے ہوئی، ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے کئی خاندان ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے، ایک کمرے میں کوئی چار خاندان مقیم تھے، یہاں بھی امی نے استقامت سے وقت گزارا، حالانکہ وہ مشرقی پنجاب کے ایک دیہات کے کشادہ گھر میں رہنے کی عادی تھیں، اس جگہ قیام مختصر رہا، مہاجرین کی ایک آبادی ’’بہار کالونی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو وہاں ایک پلاٹ لے لیا گیا اور مکان بھی بن گیا، لیکن یہ مکان پاپا نے اپنے ماموں خادم الا نبیاء سبزواری مرحوم کے اشتراک سے بنا یا تھا، پلاٹ بڑا تھا لیکن بہت جلد یہاں کے شراکت داروں کے دلوں میں تنگی آ گئی اور مشکلات پیش آنے لگیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اور اس بات کا مشورہ بعض احباب نے ہمارے والد صاحب کو دیا بھی کہ اس مکان کا بٹوارا کر لیا جائے، یعنی بیچ سے دیوار کھڑی کر لی جاتی لیکن ہمارے امی اور پاپا نے اسے مناسب نہ جانا، مسئلہ کا دیر پا حل یہ نکالا کہ وہ مکان ہی چھوڑ دیا، کہا کر تے تھے کہ اللہ مجھے اس سے بھی زیادہ دے گا اور اللہ نے دیا۔ بہار کالونی سے کچھ فاصلے پر آباد ہونے والے نئی بستی ’’آگرہ تاج کالونی‘‘ تھی، جہاں پر پلاٹ فروخت ہو رہے تھے اور قیمت بھی کم تھی، پاپا نے وہاں دو پلاٹ خرید لیے اور اس پر ایک کمرہ تعمیر کر کے سر کنڈوں کی چار دیواری بنا لی اور وہاں منتقل ہو گئے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارا جھونپڑی نما گھر ریت کے ایک ٹیلے پر تھا، چاروں جانب ریت ہی ریت تھی، لیکن سر چھپانے کو اپنا گھر تھا، وقت کے ساتھ ساتھ ایک کمرہ کئی کمروں میں بدل گیا، چاردیواری بھی پکی ہو گئی، سکون سے زندگی بسر ہونے لگی۔ اس وقت ہم دو بہن بھائی تھے، دو پھوپھیاں اور دو چچا تھے، اس طرح ہمارا گھرانا آٹھ افراد پر مشتمل تھا، بعد از آں دونوں پھوپیوں کی شادی ہو گئی، ہم بہن بھائیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، ہم دو سے بڑھ کر سات ہو گئے۔ چھوٹی بستیوں میں رہنے والے مکینوں میں باہم رواداری، پیار و محبت زیادہ ہوتا ہے۔ میرا بچپن اور جوانی اسی بستی میں گزرا، حتیٰ کہ شادی کے بندھن میں بھی اسی جگہ بندھا، میرے پاپا اور میری امی اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے، پاپا تو اپنے چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ زاد بہن بھائیوں کو حقیقی بہن بھائیوں کی طرح چاہتے اور وہ بھی ہمارے پاپا کا حد درجہ احترام کیا کرتے، پاپا ہماری خالا ؤں اور ماموؤں کو بھی اپنے بھائی اور بہنوں کی طرح عزیز رکھا کرتے تھے، ہماری بڑی خالہ ہندوستان ہی میں تھیں، انھوں نے پاکستان ہجرت نہیں کی تھی، جب کہ چھوٹی خالہ حیدرآباد سندھ میں رہا کرتی تھیں، ۱۹۵۱ء میں میری چھوٹی خالہ ذکیہ خاتون کے ہاں پہلی لڑکی کی ولادت ہوئی، نام ’شہناز، رکھا گیا، میرے ابا جان نے فرط مسرت اور جذبات میں آ کر اُسی وقت اعلان کر دیا کہ ’یہ لڑکی میری ہوئی‘‘ کہتے ہیں زبان سے نکلی کوئی خواہش اللہ تعالیٰ سن لیتا ہے، شاید یہ بھی قبولیت کی گھڑی تھی، اللہ نے میرے اباکی یہ دعا قبول کر لی، فرشتوں نے پکے رجسٹر میں ہمارے نام لکھ کر مہر ثبت کر دی، میَں نے بھی بڑے ہو کر اپنے والدین کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کیا، ۲۸ سال بعد ۱۹۷۵ء میں میَں اور شہناز شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ چوتھی دھائی آدھی گزر چکی ہے بندھن قائم ہے، کب تک قائم رہتا ہے، یہ خدا کو معلوم، مختلف جہات سے مکمل شریک سفرہیں، مزاج شناس، ہم نوا اور ہم قدم بھی، ہم مکے، مدینے، جدے، فیفا (جیذان) کے پھیرے ساتھ ساتھ کر چکے ہیں۔ اللہ نے دو بیٹوں عدیل اور نبیل، ایک بیٹی فاہینہ سے نوازا، پوتا صائم عدیل، نواسہ ارحم اور نواسی نیہا ہماری کل کائنات ہے۔ ۱۹۸۵ء میں امی پاپا نے میرے چھوٹے بھائی پرویز کو بڑی خالہ عطیہ خاتون کی چھوٹی بیٹی ’پروین، کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا، اس رشتہ کو بندھوانے میں میرا عملی دخل زیادہ تھا۔ ۱۹۸۸ء میں پاپا اپنی چھوٹی بہن مبینہ خا تون کی اکلوتی بیٹی ’روبی، کو اپنے تیسرے بیٹے تسلیم کی دلہن بنا کر لے آئے۔ یہی نہیں وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی شادی بھی اپنے چچازاد بھائی کی بیٹی سے کرنا چاہتے تھے لیکن رشتے تو آسمانوں پر طے ہوا کرتے ہیں، ندیم کی شادی غیر برادری میں ’اسماء ، سے ہونا تھی ہوئی، وہ بھی اپنوں ہی جیسی ہے۔ امی پاپا نے اپنی تینوں بیٹیوں ناہید، شاہین اور روحی کو خاندان ہی میں مختلف جگہ بیاہ دیا۔ خدا کے فضل سے سب بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم اور صاحب اولاد ہیں۔ امی پاپا کے اس عمل سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو ہی نہیں بلکہ قریبی رشتہ داروں کو بھی انتہائی عزیز رکھتے تھے۔ الحمد اللہ دنیا میں میرے والدین کے نام لیواؤں میں ۴ بیٹے (رئیس، پرویز، تسلیم، ندیم)، ۳ بیٹیاں (ناہید، شاہیں، روحی)، ۹ پوتے (عدیل، نبیل، نجف، ناجد، زین، تحریم، توحید، ارحم، علی) ، ۴ پوتیاں ( مہناز (فاہینہ)، حنا، اقراء، نشاء)، ۷ نواسے (اویس، فیضان، سلمان، عدنان، فہد، فیصل، شایان)، ۴ نواسیاں (نادیہ، شازیہ، ہمنا، لائیبہ)، ایک پڑ پوتا(محمد صائم عدیل ۲ پڑ نواسے (اریب، عبدالا حد) اور ۲ پڑنواسیاں (نیہا، مرو۱، ) ہیں۔
جب ہم سب بھائی بڑے ہو گئے، کسی حد تک مالی طور پرآسودہ حال بھی، باہمی مشورہ سے کراچی کے کسی اچھے علاقے میں منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کی گئی، اس منصوبے پر عمل کی صورت ایک ہی تھی کہ اس مکان کو جس میں ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے رہ رہے تھے، جسے پاپا نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے رفتہ رفتہ تعمیر کیا تھا سیل آوٹ کر دیا جائے۔ پاپا کے لیے یہ ایک تکلیف دہ فیصلہ تھا۔ امی بھی پا پا کے ساتھ تھیں، شروع میں وہ تیار نہ ہوئے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی اولاد کی یہی خواہش ہے تو وہ اپنی اولاد کی خواہش کے آگے دست بردار ہو گئے۔ انھیں آمادہ کرنے میں ہماری امی نے اہم کردار ادا کیا، مغیث چچا بھی پاپا کو ذہنی طور پر آمادہ کرنے میں پیش پیش تھے۔ نومبر۱۹۸۶ء میں ہم دستگیر سوسائیٹی کی آبادی آصف نگر میں منتقل ہو گئے۔ یہ ۱۲۰ گز پر بنا ہوا مکان تھا، گنجائش کم تھی، مکین زیادہ تھے، لیکن اس وقت دلوں میں کشادگی تھی، رفتہ رفتہ مکان میں بھی بڑھاوا آتا گیا یعنی ۱۲۰ گز کا مکان جو زمینی منزل پر مشتمل تھا گرؤنڈ پلس ٹو ہو گیا۔ ستمبر ۱۹۹۷ء میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے صرف ہماری امی کوہی نہیں بلکہ ان کی تمام اولاد کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ ہمارے والد صاحب کا صدمۂ ارتحال تھا۔ پاپا انجائینا کے بھی مریض تھے، شوگر بھی تھی لیکن انہیں پیشاب میں تکلیف کے باعث ابن سینا اسپتال، گلشن اقبال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں پر ان کا پراسٹینڈ گلینڈProstate glandکا آپریشن ہوا، نہیں معلوم کیا پیچیدگی ہوئی دوسرے دن ہی طبیعت بگڑ گئی، ۵ستمبر، بروز جمعہ، صبح صادق کے وقت اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔ انا اللہ و انا علیہ راجعون، باغ باں نے اپنے گلشن کے ایک ایک پودے کی دل و جان سے آبیاری کی تھی، اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا، دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھا تھا، اس کی محنت کا ثمر تھا کہ باغ باں کا لگا یا ہوا ہر ہر پودا تناور درخت بن چکا تھا، ہر درخت چھاؤں دینے کے قابل ہو چکا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ باغ باں کو اپنے درختوں کی چھاؤں سے راحت میسر آتی، وہ سکون و آرام سے زندگی بسر کرتا، لیکن مالکِ کائنات نے قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ باغ باں کا کام پورا ہو چکا تھا، اب اُسے اُس دنیا میں جانا تھا جس کی تیاری بھی اس نے کر لی تھی۔ اس نے خاموشی سے اللہ کے حکم کو لبیک کہا اور اپنے ہرے بھرے گلشن کو الوداع کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی دنیا وہاں بسالی جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ پرنم آنکھوں، دکھے دل کے ساتھ پاپا کے بیٹوں، پوتوں، نواسوں اور دیگر احباب نے انہیں آخری آرام گاہ پہنچا یا، ہم بھائیوں نے لرزتے ہاتھوں پاپا کے جسد خاکی کو لحد میں اتارا اور انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہا۔ اس حادثے نے امی کو سب سے زیادہ متاثر کیا، ہم سب بہن بھائیوں کے لیے پاپا کی جدائی سخت تکلیف دہ تھی، امی نے اس صدمے کو مشکل سے برداشت کیا لیکن انہوں نے اس کمرہ کو جس میں وہ پاپا کے ساتھ سالوں رہی تھیں آخری وقت تک نہیں چھوڑا، حالانکہ وہ پاپا کے چلے جانے کے بعد ۱۲ سال اس دنیا میں رہیں، انھیں بھی اُسی جگہ ان کی بیٹیوں نے غسل دیا جہاں پر پاپا کو ہم سب بھائیوں نے اپنے ہاتھوں غسل دیا تھا۔
قدرت کا نظام ہے کہ مرد اور عورت شرعی طور پر مل کر ایک اکائی بنتے ہیں، ایک خاندان وجود میں آتا ہے، ایک خاندان سے کئی خاندان تشکیل پاتے ہیں۔ یہ دنیا اسی طرح پھیلی پھلی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں مجھے اپنے بچوں کے ہمراہ اپنے والد ین کے گھرسے منتقل ہونا پڑا، بچے بڑے ہو گئے تھے اور بھی مجبوریاں تھیں جن کے باعث مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا، بسا اوقات انسان کو کڑوی گولی کھانی ہی پڑتی ہے، امی کو بھی وقتی طور پر دکھ ہوا، پھر انہوں نے میرے اس فیصلے کو بہتر ہی جانا۔ میَں شروع میں نارتھ کراچی میں اپنے فلیٹ میں منتقل ہوا، چار سال بعد گلشن اقبال میں فلیٹ میں آ گیا۔
امی نے اپنی زندگی میں طویل وقت بیماری میں گزارا، ۱۹۶۹ء کی بات ہے امی کو کھانسی کی تکلیف شروع ہوئی، کافی علاج کرایا لیکن کھانسی میں اضافہ ہی ہوتا رہا، ڈاکٹر عبد لعزیز بلوانی جو ہمارا فیمیلی معالج تھا کا علاج ہوا کرتا تھا، ڈاکٹر بلوانی نے مشورہ دیا کہ کسی کنسلٹنٹ کو دکھا یا جائے، کچھ دن بعد ڈاکٹر بلوانی اپنے ہمراہ ڈاکٹر افتخار راٹھور کو ہمارے گھر لے آئے، ڈاکٹر افتخار راٹھور چیسٹ اسپیشلسٹ تھے، یہ وہی ڈاکٹر راٹھور تھے جنھوں نے پاکستان میں پہلا دل کا آپریشن کیا تھا۔ انہوں نے چیک کیا اور بتا یا کہ امی کے پھیپڑوں میں پانی بھر گیا ہے، اُسے سرنج کے ذریعہ نکالنا ہو گا، دوائیں لکھ کر دے دیں اور وقت دے دیا کلینک پر آنے کا، ڈاکٹر افتخار راٹھور کی کلینک اَنکل سریا اسپتال میں تھی، ہم مقر رہ وقت پر پہنچ گئے، ڈاکٹر صاحب نے امی کو بیڈ پر بٹھایا اور کمر کی جانب سے پسلیوں کے درمیان سے سرنج داخل کی اور خاصا پانی نکالا، اس عمل سے امی کی طبیعت تو بہتر ہو گئی لیکن وہ مستقل طور پر تب دق(TB)کی مریضہ بن گئیں، اس زمانے میں اس مرض کا علاج بہت طویل ہوا کرتا تھا، روزانا انجکشن لگنا ہوتا تھا، اور یہ انجکشن پینسلین کے ہوا کرتے تھے مہینوں لگنا تھے، شروع شروع میں تو کمپاؤنڈر سے انجکشن لگوائے گئے، لیکن مشکلات پیش آنے لگیں، اس مشکل کا یہ حل نکالا کہ میَں نے انجکشن لگا نا سیکھا اور مہینوں یہ ذمہ داری انجام دیتا رہا۔ ان کی طبیعت تو بہتر ہو گئی لیکن سردیوں میں اکثر کھانسی اور سانس کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی۔ وہ اس بیماری سے طویل عرصہ نبرد آزما رہیں، ۱۹۹۰ء میں ان کی آواز اچانک بند ہو گئی، تکلیف کوئی نہیں تھی صرف آواز بند ہو گئی تھی، علاج ہو ا، کچھ افاقہ بھی ہوا لیکن آواز پوری طرح بحال نہیں ہوئی، ابتداء میں تو بہت مشکل ہوئی لیکن رفتہ رفتہ آواز کچھ بہتر ہو گئی تھی۔ گلے کی یہ تکلیف ہی اُس بیماری کا شاخسانہ تھی جو انہیں ۲۰۰۹ء میں ہوئی اور پھر انہیں اپنے ساتھ ہی لے گئی۔
جِنّاَت کی موجودگی سےا نکار نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں انسان و جِن کو ایک ساتھ مخاطب کیا ہے تر جمہ ’’سو اے جِن و اِنس تم اپنے رَب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے ‘‘ (سورہ رحمٰن، آیت نمبر ۱۳)۔ جِنّاَت اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو پریشان کرنے والے بھی، ایسی مثالیں عام ملتی ہیں۔ ہم نے اپنی امی کی زبانی یہ بات کئی بار سنی کہ وہ جب چھو ٹی سی تھیں ابھی چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا تو اکثر ایک سانپ ان سے کھیلا کرتا تھا، وہ ان کے گلے میں کبھی ایک جانب کبھی دوسری جانب گھومتا رہتا اور وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسے پکڑتی اور کھیلا کرتی تھیں، جب کوئی ان کے پاس آ جاتا تو وہ غائب ہو جاتا، ان کے والدین نے کسی عامل کے ذریعے اس سانپ کو جو در اصل ’جِن ،تھا چلتا کیا۔ ہم بہن بھائی اکثر اپنی امی کو اس واقعہ کی یاد دلا کر مذاق کیا کرتے تھے۔ ۱۹۷۰ ء کی بات ہے میری امی کو بخار آ گیا، معمولی سی بات تھی، علاج ہوا اتر گیا لیکن کھانسی نہ گئی، ایسا بھی اکثر ہوتا ہے، کھانسی کی دوا استعمال کرتی رہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ آواز سے یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے کوئی مرد کھانس رہا ہے، سب کو تشویش ہوئی، ہمارے خاندان میں سید امام صاحب جِنّاَت کا اتار کیا کرتے تھے جب انہیں امی کی اس کیفیت کا علم ہوا تو انہوں نے بتا یا کہ امی پر کسی جِنّ کا اثر ہے، انھوں نے اس کا اتار شروع کر دیا، کچھ تعویذ، پڑھا ہوا پانی اور ساتھ ہی ہمیں پڑھنے کے لیے کچھ بتا یا، انھوں نے یہ بھی بتا یا کہ ان پر (ہماری امی پر) کسی مرد جن کا اثر ہے، ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ کچھ نہیں کرے گا، اسے جانے میں کچھ وقت لگے گا۔ سارے بہن بھائی چھوٹے تھے، خوف زدہ ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا، ان کی کھانسی اسی طرح جاری رہی، کھانستے وقت مرد کی آواز نمایاں ہوا کرتی لیکن کوئی اور بات کبھی نہیں ہوئی۔ امام صاحب کا عمل جاری رہا انھوں نے بتا یا کہ وہ رات میں پڑھائی بھی کرتے ہیں۔ چند روز گزرنے کے بعد ایک دن امی پر کھانسی کا شدید دورہ پڑا لیکن اس دورے کے باوجود ان میں وہ نقاہت یا کمزوری دیکھنے میں نہیں آئی۔ بیٹھے بیٹھے کھانس رہی تھیں البتہ اس دن انھوں نے مرد کی آواز میں بولنا شروع کیا چند جملے ہی ذہن میں ہیں، مرد کی آواز میں کہا کہ ’’میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا‘‘، ’’ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘، ’’تم لوگ مت ڈرو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا‘‘ وغیر وغیرہ، میں امی کے پاس ہی تھا، میری کسی بہن سے چائے کے لیے کہا کہ’ میں چائے پیوں گا‘‘ چائے بنا دی گئی، تھوڑی سے چائے پی، آدھا کپ چائے باقی تھی، مجھے مخاطب کیا، کہنے لگیں !تو میرا بیٹا ہے، میں نے کہا کہ ہاں ہوں، گویا ہوئیں ! میرا ایک کام کرے گا میں نے کہا کروں گا، پھر کہا کہ یہ کپ میں جو چائے ہے اسے دروازے کے باہر پھینک دے، بہ ظا ہر یہ عام سی بات تھی، لیکن اس وقت کچھ عجیب سا ڈر اور خوف کی کیفیت طاری تھی، میں نے کہا کہ اسے میز پر رکھ دیں، پھینکنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن مصر ہوئیں کہ میں اسے باہر پھینک دوں، میں ان کے اصرار پر سمجھ گیا کہ بات کچھ اور ہے، میں نے ڈرتے ڈرتے انکار کر دیا، کھانسی کے دورے میں بے انتہا اضافہ ہوا حتیٰ کہ رفتہ رفتہ کھانسی بند ہو گئی اور ان کی اس کیفیت میں بھی تبدیلی آ گئی یعنی وہ اپنی آواز میں باتیں کرنے لگیں، امام صاحب کو اس کیفیت سے آگاہ کیا گیا انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے بہت اچھا کیا کہ چائے باہر دروازے پر نہیں پھینکی، ایسا کرنے کی صورت میں ’جن، ان کے اوپر سے تو چلا جاتا لیکن باہر دروازے پر اپنا بسیرا جما لیتا۔ اس طرح امام صاحب نے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلائی اور امی ٹھیک ہو گئیں۔
مارچ ۲۰۰۹ء میں گلے کی تکلیف کی ابتداء ہوئی، کھانے پینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی، علاج مسلسل ہوتا رہا لیکن تکلیف میں اضافہ ہی ہوتا گیا، نوبت اس حد تک پہنچ گئی کہ پانی بھی مشکل سے پیا جانے لگا۔ کہا کرتی تھیں کہ مجھے کینسر سے ڈر لگتا ہے، انھیں یہ نہیں بتا یا گیا تھا کہ انہیں گلے کی نالی کا کینسر(Cancer of Oesophagus) ہو گیا ہے لیکن ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ انھیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا۔ رمضان المبارک قریب آ رہے تھے، ادھر ان کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ صحت مند جسم آہستہ آہستہ کمزوری کی جانب مائل تھا۔ امی کو اسپتال جانے سے بھی خوف آتا تھا۔ ہم نے محسوس کیا کہ اگر اسپتال میں داخل کرا دیا گیا تو ان کے لیے بھی تکلیف کا باعث ہو گا اور ہم سب بھی پریشان ہوں گے، ان کی تکلیف کا علاج تو اب یہ رہ گیا تھا کہ غذا کے لیے نالی پاس کرا دی جائے، اب انھیں أکسیجن کے بغیر سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آکسیجن سیلنڈر بدلنے کے دوران ان کی حالت بگڑ جاتی، بلڈ پریشر ایک دم کبھی ہائی اور کبھی ایک دم کم ہو جاتا۔ ارشد ندیم جو کوالیفائیڈمیڈیکل کمپاؤنڈربھی ہے امی کے انجکشن اور ڈرپ لگانے کی ذمہ داری لیے ہوئے تھے، میرا چھوٹا بیٹا ڈاکٹر نبیل جو عباسی شہید اسپتال میں تھا اب اسپتال سے اپنی دادی کے پاس ہی آ جاتا، ہم سب زیادہ وقت امی کے پاس ہی گزارا کرتے، ان کا کمرہ اسپتال کا کمرہ ہی بن گیا تھا، اسپتال کا ایک بیڈ بھی ایک پڑوسی سے مل گیا تھا، اس سے اور زیادہ آسانی ہو گئی تھی، رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا، امی کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی، ہڈیوں کا ڈھانچا ہو گئی تھیں۔ چہرے سے نقاہت اور کمزوری صاف عیاں ہونے لگی تھی، ستمبر کا مہینہ شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے، کہا کرتی تھیں کہ جمعرات مجھ پر بھاری ہوتی ہے اور یہ کہ اپنے پاپا کی اور میری فاتحہ ایک ساتھ ہی کرا دیا کرنا، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاپا کا انتقال۵ ستمبر کو ہوا تھا، جیسے جیسے ۵ ستمبر نزدیک آ رہی تھی ان کی حالت بگڑتی جا رہی تھی، جمعرات ۱۲ رمضان المبا رک(۳ ستمبر ۲۰۰۹ء)صبح سے ہی حالت بگڑنا شروع ہو گئی تھی، دن میں کئی بار حالت بگڑی، صبح کے وقت ندیم اپنے ایک جاننے والے ڈاکٹر سید جمال احسن کوجو میرے ایک مرحوم دوست پروفیسر سید ریاض احسن کے بھائی ہیں کو گھر پر لائے، انھوں نے بھی نا امیدی کا اظہار کیا، اسیِ دن ڈاکٹر انور سہیل بھی آئے ان کا خیال تھا کہ کیونکہ خوراک بالکل نہیں جا رہی اس لیے غذا کی نالی پاس کر دی جائے، تاکہ امی کچھ وقت اور ہمارے درمیان میں رہ سکیں، لیکن ہم سب نے اب یہ مناسب نہیں سمجھا کہ امی کو مزید اذیت میں مبتلا کیا جائے، ابھی ہم اس موضوع پر گفتگو کر ہی رہے تھے کہ امی کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی، ایسا محسوس ہوا کہ وہ جا چکی ہیں، ندیم ارشد کا خیال تھا کہ برین ڈیتھ ہو چکی ہے، اس نے امی کے سینے کو کئی بار پمپ بھی کیا، لیکن ایسا نہیں تھا، انھوں نے پھر سے سنبھالا لیا، تھوڑی دیر میں اُٹھ کر بیٹھ گئیں، ہم سب کو مسلسل خاموشی سے دیکھے جا رہی تھیں، بالکل خاموش، شاید اللہ تعالیٰ نے انہیں ہم سب کو آخری بار دیکھنے کی مہلت دی تھی، اس وقت ہم سب کے اوسان خطا تھے، ہم نے بھی ان سے کوئی بات نہیں کی، ہم بھی خاموشی سے انہیں دیکھتے رہے، وہ پھر سے کومہ میں چلی گئیں، میَں امی کے پیروں کی جانب کھڑا تھا، میرے برابر میری چھوٹی بہن روحی اور شاہیں کھڑی تھیں، ایک جانب پرویز، تسلیم، ندیم تھے، امی کی چاروں بہویں شہناز، پروین، روبی اور اسماء بھی ایک جانب کھڑی تھیں، دائیں جانب ارشد ندیم اور بائیں جانب ڈاکٹر ننیل تھے جو امی کی کیفیت کے مطابق ارشد ندیم کو ہدایت دیتے اور ندیم اس پر عمل کر رہے تھے، نبیل نے امی کے ہاتھ پر بلڈ پریشر کا آلہ لگا یا ہوا تھا، ایک ہاتھ امی کی نبض پر تھا، نبض ڈوبتی جا رہی تھی، بلڈ پریشر انتہائی نیچے کی جانب تھا، مسجد سے عصر کی اذان شروع ہوئی، ہماری نظریں امی کے چہرے پر تھیں، گھڑی میں چار بج کرپینتالیس منٹ ہوئے تھے، یک لخت محسوس ہوا کہ ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا(جسے سرسراہٹ کہا جا سکتا ہے ) امی کے پیروں سے شروع ہوا جب منہ تک پہنچا تو ان کا چہرہ ساکت اور بے جان ہو چکا تھا، اس لمحے میرے منہ سے نکلا ’نبیل امی گئیں ‘‘ اور بس ہم سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے، ایسامحسوس ہوا کہ کوئی ہمارے بند ہاتھوں سے ہماری انمول متاع چھین کر لے گیا ہو اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے ہوں، امی ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں اور ہم اپنے والد صاحب کے بعد اپنی ماں سے بھی محروم ہو گئے۔ انا اللہ و انا علیہ راجعون پروردگار عالم امی کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ آمین۔
بیماری اور کمزوری کے باعث چہرہ پر گوشت نام کو نہ تھا، گال پچک گئے تھے، کنپٹیوں میں گڑھے ہو گئے تھے، ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر رہ گئی تھیں، جب آخری سفر پر لے جانے کا وقت قریب آیا تو رنگت پیلی پڑ گئی تھی، کنپٹیاں بھر گئیں تھیں، پچکے ہوئے گال بھر گئے تھے، چہرہ پر ورم آ جانے سے چہرہ نورانی ہو گیا تھا۔ خاموشی اور سکون غالب تھا، محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی مسافر طویل مسافت طے کر کے تھک ہار کر سو گیا ہے، موت کی جلا چہرے پر نمایاں تھی اور رنگت میں کچھ عجیب سی طلسمی پیلاہٹ اپنا حسن دکھا رہی تھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے حنوط کی ہوئی ممی۔
امی کے تمام بچے بہ شمول پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں کراچی ہی میں تھے سوائے میری بیٹی فاہینہ جو کہ لاہور میں رہتی ہے، تدفین کیونکہ صبح ہونا تھی، اسے بھی وقت مل گیا اور وہ بھی صبح تین بجے کی فلائٹ سے اپنے بچوں کے ساتھ دادی کے سفر آخرت میں شرکت کو پہنچ گئی۔ سفر آخر شروع ہوا، انھیں پاپا کے قریب ہی جگہ ملی، صابرہ، شاکرہ، عالی حوصلہ کی زندگی کا سفر جو ۱۹۳۰ ء میں ہندوستان کی سرزمین سے شروع ہوا تھا ۳ ستمبر ۲۰۰۹ء کو ۷۹ سال بعد کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ ماں سے قلبی تعلق اور عقیدت کا رشتہ اس قدر مستحکم اور اٹوٹ ہے کہ ماں کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی یہ رشتہ اور تعلق ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے۔ اس کی یادوں کے دیے ہر دم روشن رہتے ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے اپنی ماں کی یاد میں اپنے دُکھ بھرے جذبات اور احساسات کو جس انداز اور اسلوب میں پیش کیا ’’ماں ‘‘ کے لیے یہ میرے ہی نہیں بلکہ ہر دکھ بھرے دل کی دردمندانہ اور پر خلوص دعا ہے :
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبہ میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا!
نُور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا !
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے !
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے !
(فیفاء، جیذان، سعودی عرب، ۱۲ اگست ۲۰۱۱ء، مطابق ۱۲ رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ)
اپنی تلاش
(خاکہ)
سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں، زندگی کی چو نسٹھویں بہار دیکھ رہا ہوں، سچ بات تو یہ ہے کہ اب بہت ہو چکا، بہت کچھ کھا لیا، بہت کچھ دیکھ لیا، بہت کچھ پڑھ لیا، بہت کچھ لکھ بھی لیا اور چھپ بھی گیا۔ لائبریری میں کتابوں کی درجہ بندی کے لیے ایک اسکیم رائج ہے جسے ایک امریکی ماہر لائبریری سائنس میلول ڈیوی نے ۱۸۷۶ء میں مرتب کیا تھا۔ اس اسکیم میں کل علم کو دس درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، علوم کی اوپر سے نیچے تقسیم کا فلسفہ ڈیوی نے یہ بیان کیا ہے کہ پتھر کا انسان جیسے جیسے شعور کی دنیا میں قدم رکھتا چلا گیا، مختلف علوم معرض وجود میں آتے گئے اِسی مناسبت سے اس نے علوم کی ترتیب مقر رکی، یہ اس کا اپنا فلسفہ ہے اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہے، اس کے خیال میں پتھر کے انسان کا اولین عمل سوچنا تھا چنانچہ اس نے فلسفہ کوسرِ فہرست رکھا، سوچنے کا یہ عمل جب آگے بڑھا تو پتھر کے انسان نے اپنے خالق کے بارے میں سوچا اس کا یہ عمل اُسے مذہب کی جانب لے گیا چنانچہ مذہب کو دوسرے نمبر پر رکھا، اب انسان کو اپنے ہم جنسوں سے تعلقات استوار کرنے کی رغبت ہوئی، اُس کا یہ عمل سماجی علوم کی ابتدا تھی، راہ و رسم قائم کرنے کے لیے زبان کی ضرورت تھی، اب زبان معرض وجود میں آئی، پتھر سے آگ اور پہیے سے گاڑی بنائی، اس کا یہ عمل سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمرہ میں آیا، مصوری اسے فائن آرٹس کی جا نب لے گی، اب حضرت انسان کو شاعری کی سوجھی تو ادب معرض وجود میں آیا۔ یہاں آ کر انسان بوڑھا ہو چکا تھا، چل چلاؤ کا وقت قریب آیا تو اس نے سوچا کہ اپنی زندگی کے حالات قلم بند کرے، زندگی میں جو تجربات و مشاہدات ہوئے انھیں آئندہ آنے والی نسل کی رہنمائی کے لیے قلم بند کر جائے۔ میلول ڈیوی کے فلسفے کے مطابق اب ہم بھی تمام تر مراحل طے کر چکے، لہٰذا اپنی آپ بیتی یا خاکہ، تجربات و مشاہدات جیسے بھی ہیں اچھے یا برے انھیں اپنی آنے والی نسل کے لیے چھوڑ جائیں، اگر وہ مناسب جانیں تو رہنمائی حاصل کر لیں ویسے سچ بات تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل نے موبائل، کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور آزاد میڈیا کے دور میں آنکھ کھولی ہے اسے ہم جیسے سیاہ وسفید ٹیلی ویژن دیکھنے والوں، بلیک رنگ کا لائن ٹیلی فون استعمال کرنے والوں، بسوں، منی بسوں، رکشا، سرکلر ریلوے، گھوڑا گاڑی اور بیل گاڑی میں سفر کرنے والوں کے تجربات و مشاہدات سے کیا لینا دینا، خاموشی سے کمپیوٹر آن کیا، انٹر نیٹ کے توسط سے جو مرضی چاہا دیکھ لیا، وہ چیز بھی جو ان کے کام کی ہے وہ بھی جو ان کے کام کی نہیں۔ میلول ڈیوی کا فلسفہ بیان کرنے کا مقصد اپنے بارے میں لکھنے کا مدعا بیان کرنا تھا کہ اب ہمارا بھی چل چلاؤ ہے، نہیں معلوم کب ہوا کا تیز جھونکا چلے اور چراغ گل ہو جائے۔ ویسے بھی جب سے ہماری انجوپلاسٹی ہوئی ہے، ہمارے دل نے ہمیں یہ احساس دلانا شروع کر دیا ہے کہ وہ ہمارے جسم میں موجود ہے، دھک دھک کر رہا ہے، اسے اختیار ہے کہ وہ جب چاہے اپنی دھک دھک بند کر سکتا ہے۔ ویسے اختیار کا مالک تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے، اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتاخواہ ہمارا دل ہمیں کتنا ہی ڈرائے، دھمکائے ہو گا وہی جو اللہ چاہے گا۔ غالبؔ نے اپنی آپ بیتی میں اِسی بات کو اس طرح کہا کہ ’’جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آ گئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی‘‘۔ تو جناب ہماری داڑھی میں بھی چاندی نمایاں ہو چکی ہے، گالوں پر چیونٹی کے انڈے بھی نظر آنے لگے ہیں البتہ ابھی دانت ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئی۔ ناصر کاظمی کے بقول ؎
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
اپنا خاکہ لکھنا یا آپ بیتی قلم بند کرنا بڑا کٹھن کام ہے حالانکہ خاکہ نگار پہلے ہی اپنے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوتا ہے۔ اپنے خاکے میں ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ بندہ اپنی ذات سے متعلق اچھی باتیں لکھے تو اپنے منہ میاں مٹھو والی مثال صادق آتی ہے، اچھا بھی نہیں لگتا، برائی لکھے، کیڑے نکالے تو کیسے، ہم نے دوسروں کے خاکے لکھے ہیں، ہر صورت میں خاکہ اڑانے سے احتراز کیا ہے، تو پھر اپنا خاکہ بھی ایمانداری سے لکھیں گے۔ مشتاق احمد یوسفی کا کہنا ہے کہ’ آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ آدمی اپنی بڑائی آپ کرے تو خود ستائی کہلائے اور از راہ کسر نفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کر لیں گے ،۔ سچی بات تو یہ ہے کہ خاکہ خواہ کسی کا ہو، اپنا ہی کیوں نہ ہو ہر صورت میں خاکہ نگار کو سچائی اور ایمانداری کا دامن تھامے رہنا چاہیے، اس کا بنیادی مقصد خاکہ اڑانا نہ ہو بلکہ شخصیت کے باطن میں چھپے موتیوں کی تلاش ہونا چاہیے۔ سو ہم نے بھی اپنی تلاش اور اپنے باطن میں چھپے رازوں کو افشا کرنے کا قصد کر لیا۔ نہیں معلوم اس میں کہاں تک کامیابی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی نے خاکے کو ’ایک ایسی صراطِ مستقیم قرار دیا ہے، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ،۔ مجھے اپنے باطن میں جھانکنے یا اپنا خاکہ لکھنے کی ترغیب ’’خود ستائیاں ‘‘ پڑھ کر ملی، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے اردو کے نادر و نایاب خود نوشت خاکے جمع کر کے خود نوشت خاکوں کی دنیا میں قابل تعریف کام کیا ہے۔
میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے میں بنیادی طور پر راجستھانی یا راجپوت ہوں، راجستھان آج کل آبادی کے لحاظ سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے، تقسیم سے قبل اس صوبے کا نام راجپوتانہ تھا اور یہ صوبہ بائیس راجواڑوں (ریاستوں ) کا مجموعہ تھا۔ راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرا بائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپوت ہی ہیں۔ بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔ ’ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ جو ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے انھوں نے سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں بہٹنیر(بیکانیر) سے دہلی ہجرت کی، اس وقت دھلی میں مہاراجہ پال عرف جیون سنگھ تورمار خاندان کی حکومت تھی، حکومت کی جانب سے ہمارے خاندان کے جد امجد کو کہڈی (شکارپور) جو اس زمانہ میں ایک صوبے کی حیثیت میں تھا دیوان مقرر کیا گیا۔ شہاب الدین شاہجہاں کے عہد میں ہمارا خاندان شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور، ضلع مظفر نگر، یو پی میں مقیم ہو ا۔ میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ حسین پور سے پہلے فرید کوٹ پھر بیکانیر منتقل ہوئے۔ ان کا یہ عمل ایسا ہی تھا کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، پردادا نے اپنے انتقال تک، دادا اور والد صاحب نے تقسیم ہندوستان تک بیکانیر کو ہی آباد کیے رکھا۔ میرے منہ میں خاک اگر پاکستان نہ بنتا اور اگر بنتا بھی تو دنیا کی سب سے بڑی ہجرت نہ ہوئی ہوتی تو آج ہم راجپوتانہ کی سرزمین بیکانیر میں ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔
مظفر نگر ہندوستان کے شمالی مغربی اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیائے کرام اور فقہائے اسلام کو جنم دیا، اہل علم و دانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی، ان شخصیات میں بعض احباب کے نام فخر سے لیے جا سکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ کا مولد مظفر نگر کا موضع ’پھلت، تھا، اسے قریہ اولیاء بھی کہا جاتا ہے۔ عالم دین مولانا اشرف علی تھانویؒ ۱۲۸۰ھ میں بمقام قصبہ تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان کا تعلق بھی مظفر نگر سے تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، حاجی ولی اللہ محمد احمد سراوے والے، زاہدحسین، اولین گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان، جسٹس (ر)نا صر اسلم زاہد، محمد ابصار حسین قرنی عمر پور والے، مفتی و محدث مولانا عبدلمالک، مولانا عبد الخالق کاندھلہ والے، شیخ محمد ابراہیم آزادؔ، سابق چیف جسٹس، بیکانیر چیف کورٹ، معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، ڈاکٹر الطاف حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ )، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری، ، مبشر احمد واحدی، معروف شاعر احسان دانش، تابشؔ صمدانی اورافسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا وطن بھی تھا نہ بھون مظفر نگر تھا۔ اس اعتبار سے مجھے ایسی متبرک سر زمین سے نسبت حاصل ہے جس کی کوکھ نے عظیم ہستیوں کو جنم دیا۔ میرے خاندان میں اکثر احباب تدریس اور شاعری سے شغف رکھتے ہیں، صاحب دیوان شاعر بھی ہیں اور بے دیوان شاعر بھی، میَں شعر گھڑ لیتا ہوں، شاعری میرے خمیر میں تو ہے لیکن تا حال باقاعدہ شاعری نہیں کی، اپنے موضوع پر لکھنے سے فرصت ہی نہیں ملی، البتہ موقعہ محل یا ضرورت کے لیے شعر کہہ لیتا ہوں، جیسے یہ نثری شعر ؎
مظفر نگر تری مٹی کی عظمت کو سلام
کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا کیے تو نے
میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب کا دیوان ۱۹۲۳ء میں آگرہ سے ’’ثنائے محبوب خالق: دیوان آزاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، ۷۵ سال بعد اس دیوان کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۶ء میں کراچی سے شائع ہوا، آزادؔ صاحب وکیل تھے، بیکانیر میں جج اور چیف جج بھی رہے، نثر بھی لکھی، تصوف ان کا خاص موضوع تھا، ان کے متعدد مضامین ’’پیامِ اتحاد ‘‘ میں شائع ہوئے۔ دادا شیخ خلیل صمدانی صاحبِ دیوان شاعر تھے، ان کے بیٹے تابشؔ صمدانی کئی نعتیہ مجموعوں کے خالق ہیں۔ میرے خاندان میں ادب سے تعلق کا یہ سلسلہ اللہ کے فضل سے کئی پشتوں سے جاری ہے۔ کئی احباب شعر و ادب کا ذوق رکھتے ہیں۔
جنابِ آزادؔ استاذ الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔
ادب سے وابستگی میرے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے، صاحبِ دیوان اور بقول ابن انشا بے دیوان شاعر ہوئے ہیں اس وجہ سے لکھنا ضروری سمجھا اور لکھنا بھی چاہیے، اپنے بزرگوں کو یاد رکھنے اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے، اگر ہمارے پرکھوں میں صاحب دیوان اور بے دیوان شاعر نہ ہوتے تو لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی، خاموشی سے گزر جاتے یا پھر ہم بھی ابن انشا کی طرح لکھ دیتے کہ ’’ادب کے بازار میں جس کی تعریف پوچھوں اپنے کو فلاں ابن فلاں اور موتیوں کا خاندانی سودا گر بتا تا ہے۔ ابن انشا کو بار ہا شکر ادا کرتے دیکھا گیا ہے کہ اس کے خاندان میں کوئی صاحب دیوان یا بے دیوان شاعر نہیں ہو اور نہ یا تو اسے اس کے نام کا سہارا لینا پڑتا یا اس کی وجہ سے شرمندہ ہونا پڑتا‘‘۔ ہمیں سہارے کی بھی ضرورت نہیں، شرمندگی بھی نہیں، ہمیں تو اپنے شاعر اور ادیب پرکھوں پر فخر ہے۔
اس تمہید کے بعد اب میری مختصر سی سر گذستِ حیات سنیے اور خود میری ہی زبانی۔ میری زندگی کا سب سے اہم اور منفرد واقعہ خود میری پیدائش ہے۔ جی ہاں یہی سچ ہے، تو سنیئے یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میرے والدین کی شادی قیام پاکستان سے پانچ ماہ قبل مارچ ۱۹۴۷ء میں ہوئی تھی، میرے وجود کا خمیر ہندوستان میں معرض وجود میں آ چکا تھا، اسے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے والدین کو پاکستان ہجرت کا قصد کرنا پڑا، ’’لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر رہے گا ہندوستان ‘‘کی صدائیں میرے کانوں میں براہِ راست تو نہیں البتہ اپنی ماں کے کانوں سے ہوتی ہوئی مجھ تک ضرور پہنچیں۔ اس کا احساس میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں، کیوں کہ میں اُس وقت شکم مادر میں رہتے ہوئے ہجرت کی بہاروں کا لطف لے رہا تھا۔ مجھے بروز پیر ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو یعنی قیام پاکستان کے سات ماہ بعد اس دنیا میں آنا تھا اور آیا۔ پنجاب کے ایک دیہات نما شہر ’میلسی ،میں اپنے ماموں جناب محبوب احمد سبزواری کے گھر پیدا ہوا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو میری والدہ اپنے میکے مشرقی پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں تھیں، والد صاحب بیکانیر میں تھے، چنانچہ والدہ نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور پنجاب کی سرزمین ان کی مستقر ٹھری جب کہ والد صاحب نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔
میلسی ہے ایک شہر، پانچ دریاؤں کی سرزمین پر
میں ہوں رئیسؔ اُسی آسماں کا ایک ستارہ
یہ وہ زمانہ تھا جب عام طور پر بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوا کرتی تھی، محلوں میں بعض عورتیں بچوں کی پیدائش میں مدد گار کا کردار ادا کیا کرتی تھیں، اُنھیں عرف عام میں ’دائی، کہا جاتا ہے۔ ’دائی، کوئی کوالیفائیڈ نرس نہیں ہوتی تھی۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر زن حاملہ کا سہارا ہوا کرتی تھی۔ میری امی اور میَں بھی ایک دائی جس کا نام’اَنسری‘تھا کے رحم و کرم پر تھے۔ میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔ اپنے دادا کا پہلا پوتا، اپنی پھوپھیوں اور چچاؤں کا پہلا بھتیجا، یہی وجہ تھی کہ میری آمد پر میرے چاہنے والوں نے کان لگائے ہوئے تھے کہ کیا خبر آتی ہے اب تو سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ وقت سے پہلے ہی اطلاع آ جاتی ہے کہ دنیا میں آنے والا ابنِ آدم ہو گا یا وہ بنتِ حوا ہو گی۔ اچانک یہ اطلاع ملے کے نومولود بابا آدم کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے تو خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔ دنیا میں میری آمد متوقع ہی تھی کہ ’دائی ، نے اعلان کر دیا کہ اس دنیا میں آنے وا لے رئیسِ اعظم ہیں وہ سر کے بل نہیں بلکہ پیروں کے بل اس دنیا میں آئیں گے۔ زچگی کی اصطلاح میں اِسے بچے کا الٹا پیدا ہونا کہا جاتا ہے۔ دائی کی اس دیدہ دلیری نے گھر کے ماحول کو یک سر بدل کے رکھ دیا، خوشی کا ماحول افسرد گی میں بدل گیا، موقع واردات پر موجود چہرے کملا گئے، فضاء غمگین ہو گئی، اس خبر نے کراچی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں پر میرے والد صاحب اپنے باپ بننے کی خبر سننے کے لیے بے تاب تھے، میرے دادا کو اپنے دادا بننے کی خبر کا انتظار تھا اور میری پھوپھیاں اور چچا اپنے بھتیجے کا اس دنیا میں آنے کا انتظار بے تابی سے کر رہے تھے، وہ بھی اس خبر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اب مجھے ہی نہیں بلکہ میری ماں کی زندگی کو بھی خطرہ تھا۔ گویا میَں نے دنیا میں آنے سے پہلے ہی یہ کارنامہ انجام دیا کہ اپنی ماں کی زندگی کو داؤ پر لگا دیا۔ رہا معاملہ الٹے اور سیدھے کا، تو بات یہ تھی کہ میَں نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میَں جوں ہی اس دنیا میں آؤں دائی صاحبہ میری گردن دبوچ لیں، میَں تو اُس سے اپنی قدم بوسی کرانا چاہتا تھا، ایساہی ہوا، میَں دنیا میں چلتا ہوا ہی آیا، گویا الٹا پیدا ہوا، اپنا اپنا طریقہ واردات ہے۔ بچے کا الٹا پیدا ہونا بھی کیا چیز ہوتا ہے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں، میَں جوان ہو گیا تھا، کالج میں پڑھا کرتا تھا، اُس وقت ہم آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے، چھٹی کا دن تھا، صبح ہو چکی تھی لیکن میَں ابھی سو رہا تھا، ابا جان نے سوتے سے اٹھایا کہنے لگے چلو ایک صاحب پڑوس سے آئے ہیں میرے دوست ہیں ان کی کمر میں چُک آ گئی ہے تم اُن کی کمر پر اپنے سیدھے پیر کی ایڑی رکھ دو، پہلے تو میَں سمجھا ہی نہیں، میَں نے آنکھیں ملتے ہوئے ساتھ ہی ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟پاپا( والد صاحب کو ہم پاپا کہا کرتے تھے )، انہوں نے وہی جملہ پھر دہرایا، میَں نے انتہائی ادب سے کہا کہ میں کوئی پہلوان، ہڈی جوڑ نے والا یا مالشیہ ہوں، کہنے لگے، نہیں بھئی، بات یہ ہے کہ کیونکہ تم الٹے پیدا ہوئے تھے اس لیے تمہارے پیر کی ایڑی میں یہ تاثیر ہے کہ اگر کسی کی کمر میں چُک آ جائے تو تمہارے اس عمل سے اس کی تکلیف دور ہو جائے گی۔ ابا جان کا حکم تھا، مجال نہیں تھی کہ چوں چرا کی جاتی، خاموشی سے آنکھیں ملتا ہوا ڈرائنگ روم میں گیا وہ صاحب فرش پر اوندھے منہ پڑے تھے، میَں نے جا کر ویسا ہی کیا جیسا ابا جان نے کہا۔ بعد میں بھی اس قسم کے واقعات میرے ساتھ ہوئے۔ جس طرح دنیا میں بے شمار قسم کی فضولیات اور توہمات ہیں، یہ بھی انھی میں سے ایک ہے۔
چار سال کی عمر سے پہلے کی باتوں کا مجھے ہوش نہیں ہے۔ ایک خواب کا سا خیال ہے کہ میَں اپنے دادا کے ساتھ بہار کالونی کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے گیا تھا، ایک دن دادا نماز پڑھنے میں مصروف تھے میَں مسجد کی چھوٹی سے دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور بلند آواز سے اُس زمانے کا ایک مشہور گانا ’’اے میرے دل کہیں اور چل اس دنیا سے دل بھر گیا‘‘ گانے لگا، دادا کو میری یہ حرکت بری نہیں لگی بلکہ انہوں نے گھر آ کر خوش ہو ہو کر سب کو میری اس حرکت کے بارے میں بتا یا، اس زمانے کا ایک اور واقعہ جو میری نظروں کے سامنے کبھی کبھی آ جاتا ہے وہ میرے دادا کا اس دنیا سے رخصت ہونا ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان کا انتقال ہوا تو انھیں بہار کالونی والے گھر ہی میں پلنگ کھڑے کر کے ان پر چادریں ڈال کر غسل دینے کی جگہ بنائی گئی تھی، میَں بار بار اس جگہ آ جایا کرتا لوگ مجھے وہاں سے بھگا دیا کرتے۔ کچھ بڑا ہوا تو بہار کالونی والے گھر سے آگرہ تاج کالونی والے جھونپڑی نما گھر منتقل ہونا یاد ہے، ایک چھوٹا سا کمرہ جس کی چھت ایس بسٹاس کی شیٹوں کی تھی، صحن کی چار دیواری سرکنڈوں کی، بارش میں چھت درمیان سے ٹپکا کرتی اور ہم اپنے پلنگ کبھی اِدھر کبھی اُدھر کر لیا کرتے۔ غسل خانہ علیحدہ، لازمی اثاث البیت Toilet) (قدیم طرز کا جس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا، رفتہ رفتہ گھر پکا ہوتا گیا لیکن تمام کمروں کی چھت ایس بسٹاس ہی کی تھیں، سردیوں میں سرد، گرمیوں میں گرم اوربرسات میں اللہ کی رحمت اندر آیا کرتی لیکن گھر اپنا تھا، یہی خیال ہم سب کو خوش و خرم رکھا کرتا، اسی گھر اوراسی ماحول میں ہم سب بہن بھائی پروان چڑھے اور بڑے ہوئے۔
بچپن میں خاموش طبع تھا، مجال ہے کہ کسی کے سامنے کوئی بات کر لوں، مجھے گونگے شاہ کا خطاب بھی ملا ہوا تھا۔ میٹرک کے بعد جوہر کھلے، اسٹیج پر بولنا، مجمعے کے سامنے تقریر کرنا، پروگراموں کی کمپیر نگ کرنا، اس کا چسکا کیسے لگا اس کی تفصیل میَں نے نیچے بیان کی ہے۔ پڑھائی میں مشکل سے پاس ہونے والا، کھلنڈرا قسم کا تھا، عام طور پر احباب کا خیال یہی تھا کہ یہ مشکل سے میٹرک کر لے تواسے کسی ٹیکنیکل کام میں لگا دیا جائے، ہوا بھی ایسا ہی، ابھی انٹر ہی کیا تھا یار لوگوں نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں اپرنٹس شپ میں بھرتی کرا دیا، اس کا قصہ کچھ اس طرح ہے، ۱۹۶۸ء کی بات ہے میں انٹر کر چکا تھا، میرا تعلیمی ریکارڈ بہت نمایاں نہیں تھا، بس نارمل تھا۔ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ فیصلہ ہوا کہ میں کوئی ٹیکنیکل لائن اختیار کروں، ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی جاری رکھوں۔ چنانچہ میں نے عبداللہ ہارون کالج میں شام کی شفٹ میں داخلہ لے لیا۔ ہمارے رشتہ کے ماموں لئیق احمد مرحوم پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازم تھے، انہوں نے مجھے فیکٹری میں شروع ہونے والی اپرنٹس شپ (Apprenticeship)میں بھر تی کرا دیا۔ یہ خالصتاً ٹیکنیکل کام تھا۔ شروع کے دو ماہ لوہے کے ٹکڑوں کو بنچ (Bench) پر فِٹ کرنے کے بعد لوہے کی فائل کے ذریعہ مخصوص طریقے سے گھسنا ہوتا تھا۔ دو ماہ کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر کوئی مشین مین بن جاتا، کوئی خراد مشین(Lathe Machine) کا کاریگر تو کوئی بنچ فٹر ہی رہتا، اس وقت ہم آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے، ہر روز فجر کے وقت گھر سے نکلتا، بس کے ذریعہ سٹی اسٹیشن پہنچتا اور وہاں سے مہران ایکسپر یس کے ذریعہ جو ۶ بجے چلا کرتی تھی مشین ٹول فیکٹری پہنچا کرتا۔ مرَ پِٹ کر میں نے دو ماہ گزار لیے اس کے بعد مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں اسے جاری رکھ سکتا، چنانچہ میَں تو دو ماہ بعد ہی بھاگ کھڑا ہو ا، یہ نرم و نازک ہاتھ تو قلم چلانے کے لیے تھے، ان سے لوہا کس طرح گھسا جا سکتا تھا، لئیق ماموں کیوں کہ آفس میں تھے اس وجہ سے میری جاں بخشی ہو گئی ورنہ شاید پو لیس کے ذریعہ بلوا لیا جاتا۔ یہ میری زندگی کی اولین ملازمت یا ایسی پڑھائی تھی کہ جس کے بعد روزگار کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ لئیق ماموں اکثر کہا کرتے تھے کہ تمہارا بیج ٹول فیکٹری کا اولین بیج تھا، کافی ترقی ہوتی، لیکن اس قدر سخت محنت کا کام میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے تو قلم چلانا تھا اور تعلیم کے میدان میں رہنا تھا خراد مشین کا ’’خرادیہ‘‘ کیسے بن سکتا تھا۔
حساب کتاب سے مجھے شروع ہی سے الجھن تھی، یہی وجہ ہے کہ میٹرک میں حساب کا پرچہ مشکل سے پاس کیا تھا۔ مرزا غالب کا بھی حساب سے جی گھبراتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ’ انہیں جوڑ لگا نا نہیں آتا،۔ میٹرک پیلے اسکول سے کیا، وہ دور پیلے اسکولوں ہی کا تھا، اُس وقت تعلیم کو لوگوں نے تجارت نہیں بنا یا تھا۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا بڑا نام تھا، لوگ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم نے کوتوال بلڈنگ، جیکب لائن، وسطانیہ، لیاری کواٹر، این جے وی میں پڑھا، ڈیجیرین ہونا بڑا اعزاز تھا، عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگ ڈیجیرین ہیں۔ میرا سرکاری اسکول کراچی میں پی اے ایف ماری پور اب اِسے ’ بیس مسر ور ،کہتے ہیں کہ کیمپ نمبر ۲ میں تھا۔ میرے گھر سے خاصا دور تھا، پیدل جانا مشکل ہوا کرتا تھا، لفٹ لے لیا کرتے یا پھر سرکاری بسیں ہمارا مقدر ہوا کرتی تھیں۔ اسکول کا ماحول صاف ستھرا نیم فوجیانہ تھا، اکثر اساتذہ کیمپس ہی میں رہا کرتے تھے، سول ادارے ہوتے ہوئے بھی فوجی ڈسیپلن تھا۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ ہوئی تو میں نویں جماعت میں تھا، ایوب خان کی تاریخی تقریر ’’دشمن نے کس قوم کو للکارا ہے ‘‘ ہم نے اپنے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے آفس کے ریڈیو پر سنی تھی۔ کیمپس میں کرکٹ گراؤنڈ بہت عمدہ تھے، کرکٹر امتیاز احمد کو اسی جگہ کھیلتے دیکھا تھا، اسکول کے دوست فوجیوں کی اولادیں ہی تھیں، یقیناً ان میں سے اکثریت نے فوجی ملازمت اختیار کی ہو گی۔ بہت کم سے ملاقات ہو سکی۔ چند نام ہی ذہن میں ہیں ریاض، اختر، افتخار، اظہر، شمیم، ظفر اللہ نیازی طالبات بھی کلاس میں تھیں لیکن ان میں سے کسی کا نام
ذہن میں نہیں۔
اساتذہ سب ہی محنتی، قابل اور اچھا پڑھانے والے تھے، جی چاہتا ہے کہ ان سب کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھوں پر طوالت ایسا کرنے سے روک رہی ہے، ان سب کے لیے محبت بھرا سلام عقیدت جو نام اب ذہن میں ہیں ان میں محمد احمد قریشی صاحب، کلیم صاحب، محمد ظہیر صاحب، امیر الہدیٰ صاحب، محمد احمد صدیقی (علیگ )، افسر صاحب، افسر صاحب ڈی ای او(DEO) بھی ہوئے، فیض احمد شاہ صاحب، سلیم صاحب، زرین صاحب، اکرام صاحب ان کا جوانی میں ہی انتقال ہو گیا تھا، مسیز مرتضیٰ اور مسیز شمیم شامل تھیں۔ ظہیر صاحب اور امیر الہدیٰ صاحب ایجو یشن سپروائیزر ہو گئے تھے، ۱۹۷۶ء میں شہناز کا تبادلہ حیدر آباد سے کراچی ہوا تو دونوں احباب نے ہماری بہت مدد کی اور گھرکے نزدیک تر اسکول میں تبادلہ کر دیا۔
ایف ایس سی سندھ مسلم کالج سے کیا، یہاں پروفیسر کوہاٹی پرنسپل ہوا کرتے تھے، لحیم شحیم، صحت مند اور با رُعب انسان تھے، ان کے سامنے کوئی پرندہ پر نہیں مارسکتا تھا، جوں ہی ان کی گاڑی کالج گیٹ کے سامنے آ کر رکا کرتی نیچے سے اوپر تک سناٹا چھا جا یا کرتا، کالج کے اساتذہ میں پروفیسر اویس احمد ادیب معاشیات کے استاد تھے، قابل اور اپنے موضوع پر مکمل دسترس، اویس صاحب سے متاثر ہو کر ہی میں نے معاشیات میں ایم اے کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ پروفیسر اسحاق اور پروفیسر چودھری صاحب اردو کے استاد ہوا کرتے تھے، پروفیسر سید لطف اللہ صاحب تاریخ اسلام پڑھا یا کرتے تھے، یہ بعد میں میرے ساتھی اور دوست بھی ہوئے، جماعت اسلامی سے تعلق تھا، فلاحی ادار ے جمعیت الفلاح کے سیکریٹری بھی رہے، مجھے جمعیت الفلاح میں سرگرم کرنے کی کئی سال کوشش کرتے رہے، ان کے کہنے پر میَں نے جمعیت کی لائبر یری کو از سر نو ترتیب دینے کا کام بھی کیا۔ سراج الدولہ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، اچھے اور نیک انسان تھے۔ بی اے عبدا للہ ہارون کالج سے کیا، یہاں ہمارے پرنسپل فیض احمد فیضؔ صاحب تھے۔ فیض صاحب کو بطور اپنے پرنسپل کے خاکے میں متعارف کرایا ہے۔ یہ خاکہ میری اِسی کتاب میں شامل ہے۔ دھیمے لہجے کے ساتھ ساتھ دھیمہ پن ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ یہاں میرے اساتذہ میں پروفیسر یونس صدیقی، پروفیسراحمد حسین، پروفیسر بشارت کریم، پروفیسر ریاض الحسن قدوائی، پروفیسرشفیق رحمانی اور عبد الرشید راجا صاحب تھے۔ ۱۹۷۴ء میں جب میرا تبادلہ اسی کالج میں ہوا تو یہ تمام اساتذہ میرے ساتھی ہوئے، طویل عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ اساتذہ اور بھی تھے، یہ داستان طویل ہے کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھی ہے۔
گریجویشن کے بعد اکنامکس میں ماسٹر کرنے جامعہ کراچی کی دہلیز پر قدم رکھا، معلومات حاصل کرنے کے چکر میں ہم پہنچ گئے اپنے چچا کے شعبے میں، انھوں نے سبز باغ دکھایا اپنے سبجیکٹ کا، ہم سیدھے سادھے تو تھے ہی آ گئے ان کے چکر میں اور اکنامکس کے بجائے لائبریری سائنس کے شعبے میں داخل کر لیے گئے۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی تو دیکھیے وہ دن اور آج کا دن اسی پروفیشن کے ہو کر رہ گئے۔ شادی ہوئی، تین بچے بھی ہو گئے پر ہم نے اپنی پڑھنے کی ڈگر نہ بدلی، شادی کے ۱۰ سال بعد ایک ایم اے علمِ سیاسیات میں اور کر ڈالا، ہمارا خیال تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگر عملی سیاست میں حصہ لینے کی ضرورت ہوئی تو سیاست کے یہ رموز کام آئیں گے لیکن نوبت ہی نہیں آئی، سیاست دانوں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر صبح و شام کانوں کو ہاتھ لگا تے ہیں، اب تو سیاست نام ہے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا، پیسے بنانے کا، کرپشن کرنے کا اور جان سے مار ڈالنے کا، ٹی وی پر جو روز سیاسی دنگل سجا ہوتا ہے وہی کافی ہے عبرت والوں کے لیے۔
پڑھائی کا بھوت بدستو ر ہمارے سر پر سوار رہا، کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے، ہم مسلسل اس چکر میں رہے کہ کسی طرح پی ایچ ڈی کرنے کا موقع مل جائے، نہ معلوم کیوں جیسے جیسے ہمارے مضامین اور کتابیں منظر عام پر آ رہی تھیں پی ایچ ڈی کرنے کی ہوس بڑھتی ہی جا رہی تھی، یہاں آ کر دوستوں نے ہری جھنڈی دکھا دی، وہ دوست جواس پوزیشن میں تھے کہ ہمارا ہاتھ تھام لیتے، تیرنا تو ہم نے خود ہی تھا، بس ڈوبتے کو تنکے کے سہارے والی بات تھی، انہوں نے ایسی کنی کاٹی کے خود تو تیر کر ساحل پر جا لگے، ہم رہ گئے وہیں پر کھڑے کے کھڑے، پر ہمارے باطن میں جو دیا روشن ہوا تھا اس کی روشنی ماند نہیں پڑی، ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری، ایک جانب عمر کے ماہ و سال ہمیں تیزی سے بڑھاپے کی جانب رواں دواں کیے ہوئے تھے دوسری طرف خواہش تھی کہ اس میں ذرہ برابر کمی نہیں آ رہی تھی بلکہ روز بہ روز جوان ہی ہو رہی تھی، با لآخِر ۲۰۰۶ء نے دستک دی، میرا ہمدرد یونیورسٹی میں جانا ہوا ہی کرتا تھا، بیت الحکمہ(ہمدرد لائبریری) کے ڈائریکٹرپروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری جو ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیزاینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر اور جامعہ ہمدرد کے ’لائف پروفیسر، بھی تھے، میری ان سے مراسم کی نوعیت قدیمی تھی، عمر کے فرق کے باوجود دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دن ان سے تحقیق پر گفتگو ہوئی، میَں نے ایک موضوع کا اظہار کیا کہ اس موضوع پر کام کیا جا سکتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پی ایچ ڈی سے نیچے بات نہیں ہو گی یعنی ایم فل نہیں کروں گا، انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور مجھے اس موضوع پر synopsisتیار کرنے کو کہا، میَں تو تیار ہی بیٹھا تھا اور ٹاپک بھی اپنی پسند کا، پھر کیا تھا، رات دن لگا کر ایک خاکہ تیار کیا اور ان کے پاس لے گیا۔ انہوں نے معمولی سی کانٹ چھانٹ کی اور پی ایچ ڈی کا پہلا پتھر رکھ دیا گیا، داخلے سے پہلے ہی کام بھی شروع ہو گیا، جب بھاری بھر کم سپر وائیز رہنمائی کے لیے تیار ہو تو پھر کیا چاہیے تھا، ہم نے کام شروع کر دیا۔
موضوع کے انتخاب کی داستان کچھ اس طرح ہے کہ مجھے زندگی میں ایک شخص نے بہت زیادہ متاثر کیا جو خون کے آخری قطرہ تک محب وطن تھا، وہ جب تک جیا زندگی کو سعی پیہم اور جہد مسلسل سمجھ کر جیا، اس مرد آہنگ کو آپ سب جانتے پہچانتے ہیں، وہ ہے شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید۔ میَں نے انھیں قریب سے دیکھا، کتب خانوں کے فروغ و ترقی کے لیے انہوں نے ۱۹۶۰ء میں ایک انجمن ’’انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات‘‘(SPIL, Society for the Promotion & Development of Libraries)بنائی تھی جس کے وہ تا دم شہادت صدر رہے، جب ان کی شہادت ہوئی وہ اس کے صدر اور میَں اس کا جوائنٹ سیکریٹری تھا۔ تحقیق کے لیے جو موضوع منتخب کیا گیا تھا وہ حکیم محمد سعید کی کتب خانوی خدمات سے متعلق تھا، مقالے کا عنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ تھا۔ تحقیق کا بنیادی مقصد پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں شہید حکیم محمد سعید اور انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، اسپل کے کردار اور کارناموں کا جائزہ لینا تھا۔ پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری میرے تھیسس سپر وائیزر اور ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری معاون سپر وائیزر مقر ر ہوئے۔ جون ۲۰۰۶ء میں کام شروع کر دیا گیا، میَں نے فیصلہ کیا کہ دو سال میں کام مکمل کر لوں گا، یہی ہوا، میَں رات رات بھر کام میں لگا رہتا، مجھے مواد کے حصول میں مشکل پیش نہیں آئی، میری ذاتی لائبریری میں اس موضوع پر وافر مواد موجود تھا، دوستوں نے بھی بھر پور تعاون کیا، حکیم محمد سعید کے قریبی ساتھیوں، ہمدرد لائبریری میں کام کرنے والوں اور لائبریری سائنس کے ماہرین کے انٹر ویوز میری تحقیق کا اہم حصہ تھا، کراچی کے علاوہ میں کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، حیدر آباد بھی گیا اور احباب کے انٹر ویوز کیے۔ دو سال بعد تھیسس تو مکمل ہو گیا لیکن جاتے جاتے مجھے ایک ایسا تحفہ دے گیا جو میری باقی ماندہ زندگی میں میرے ساتھ رہے گا وہ ہے میرے کمر کے مہروں کی تکلیف، مسلسل اور زیادہ کمپیوٹر پر کام کرنے کے نتیجے میں میَں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا مریض بن چکا تھا، کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی، پی ایچ ڈی میں دو مراحل ہوتے ہیں ایک تو کام جسے محقق کو ہی کرنا ہوتا ہے دوسرا مرحلہ جو بد قسمتی سے پاکستان کی جامعات میں زیادہ اہم ہے وہ ہے انتظامی مراحل کی پیچیدگیاں اور مشکلات۔ ہمارے ملک کی جامعہ سرکاری ہویا پرائیویٹ حال سب کا ایک جیسا ہے، اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پرائیویٹ جامعات میں پروفیسران اور دیگر عملہ زیادہ تر سرکاری جامعات سے جان چھڑا کر یہاں آتا ہے۔ جامعہ ہمدرد کا بھی یہی حال ہے۔ جامعہ ہمدرد کے ’بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ،(Board of Advanced Studies & Research ,BASR) نے مجھے ایم فل سے پی ایچ ڈی میں منتقلی کی حتمی منظوری دینا تھی، بورڈ کے بعض کرم فرما پروفیسرحضرات زبیری صاحب سے زیادہ ہی محبت کیا کرتے تھے، وہ بورڈ کی میٹنگ میں کوئی نہ کوئی نکتۂ اعتراض کھڑا کر دیا کرتے، جس کے باعث ایم فل سے پی ایچ ڈی میں منتقلی کا معاملہ التوا کا شکار ہوتا رہا، زبیری صاحب مسلسل کوشش کرتے رہے، اپنے سپر وائزر کی ہدایت پر میَں نے تھیسس بھی جمع کرا دیا، مہربان حضرات اپنی روش پر ڈٹے رہے، اسی کشمکش میں ایک سال گزر گیا، با لآخِر فتح حق کی ہوئی، بقول میری ایک کلاس فیلو عذرا قریشی ’’محنت رنگ لاتی ہے ‘‘، سو میری محنت رنگ لائی، مہربانوں کو اللہ نے ہدایت دی، بورڈ نے ایم فل سے پی ایچ ڈی میں منتقلی کی منظوری دے دی، تھیسس کی کاپیاں انڈیا بھیجی گئیں، رپورٹس مثبت تھیں، وائیوا ہوا، پروفیسرڈاکٹر نسیم فاطمہ ممتحن تھیں، اپریل ۲۰۰۹ء میں نوٹیفیکشن جاری ہوا کہ ہمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ کر دی گئی، مارچ ۲۰۰۹ء میں میَں ریٹائر ہو گیا، اس طرح مجھے دونوں اعزاز ساتھ ساتھ حاصل ہوئے۔ تجربہ ہوا کہ انسان اگر کچھ حاصل کرنے کی ٹھان لے بہ شرطِ کہ مقصد نیک ہو، اللہ پر مکمل بھروسا، صدق دل سے محنت کرے تو کامیابی قدم چوما کرتی ہے۔
لباس انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ میَں نے کالج میں ملازمت کے دوران کبھی شلوار قمیض نہیں پہنی، ہمیشہ پینٹ شرٹ، سوٹ یا سفاری سوٹ پہنا کرتا، یہ نہیں کہ شلوار قمیض میں کوئی برائی ہے بس یہ میرا مزاج تھا، میرے گھر کا لباس کرتا شلوار ہی ہے، پینٹ شرٹ کے نیچے چپل پہنے ہوئے لوگ اچھے نہیں لگتے، کھانے میں ہر شے کھا لیتا ہوں، لیکن چاول اور کالی مسور کی دال جسے کھڑی مسور کی دال بھی کہا جاتا ہے، ہری مرچ اور پودینے کی چٹنی، اچار اور سلاد کے ساتھ پسندیدہ ڈش ہے، سبزیوں میں بینگن سخت نا پسند ہیں، پھلوں میں کینو پسندیدہ ہیں، مٹھائی میں کچھ بھی پسند نہیں، بس جو سامنے آ جائے چکھ لیتا ہوں، کھانے کے دوران چپَ چپَ کی آواز نکالنے والوں کا گلا کاٹنے کو جی چاہتا ہے، چائے پیتا ہوا وہ شخص بھی اچھا نہیں لگتا جو سڑپ سڑپ کر کے چائے پیے، کھانا کھانے کے دوران اس بات کا خیال نہ رکھنے والے کہ ان کے منہ کے اطراف خصوصاً داڑھی یا مونچھوں پر کچھ لگ گیا ہے، ایسے لوگ سامنے والے کا کھانا بد مزہ کر دیتے ہیں۔ بچپن میں ہم نے ایک اصطلاح ایجاد کی تھی وہ یہ کہ جب ہم سب مل کر کھانا کھا رہے ہوتے اور کسی کے منہ پر کچھ لگ جاتا تو اس وقت کہا جاتا ’شاخ پے اُلو‘‘ یہ جملہ سن کر ہر شخص اپنا اپنا منہ صاف کرنے لگ جاتا۔ جس کسی کے منہ پر کچھ لگا ہوتا وہ خود بہ خود صاف ہو جاتا، اس طرح بات بھی بن جاتی کسی کو برا بھی نہیں لگتا تھا۔ مسجد میں با جماعت نماز کے دوران بعض نمازی حضرات قیام، رکوع و سجود میں دل ہی دل میں پڑھنے کی بجائے اتنی بلند آواز سے پڑھتے ہیں کہ ان کے دائیں اور بائیں موجود نمازی مشکل میں آ جاتے ہیں، ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ صاف سمجھ میں بھی نہیں آتے صرف ان کے منہ سے ہوا کے ساتھ پھُس پھُس سنائی دیتا ہے، اسلام میں تو پڑوسیوں کے بہت حقوق ہیں، ہمارے مولوی صاحبان کو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی نشان دہی کرنی چاہیے۔ ایسے نمازیوں سے صرف یہی کہا جا سکتا ہے ’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
کسی کی دل آزاری مجھے منظور نہیں، کوشش ہوتی ہے کہ میرے عمل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ بر داشت اور درگزر کا مادہ مجھ میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، میں اپنی زندگی میں ا پنوں اور غیروں کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی، کڑوی کسیلی حتیٰ کہ تیر و نشتر اپنے اندر خاموشی سے محفوظ رکھتا رہا ہوں، مجھے اپنی حیثیت و مقام کا ہمیشہ احساس رہا یہی وجہ ہے کہ میَں ساری زندگی زبان بند کیے رہا، اپنے لبوں کو سیے اور منہ کو تالا لگائے رہا، میرے صبر کو بارہا آزمایا گیا، میری خاموشی کو توڑنے کے لیے ہزار حربے استعمال کیے گئے، پر میَں نے چپ کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا، اس کا نقصان بھی ہوا لیکن فوائد زیادہ حاصل ہوئے، معدہ خراب نہیں ہوا، بد ہضمی نہیں ہوئی، جگر، گردے، پھیپڑے سب کچھ ہی ٹھیک رہابس ایک دل نے آخر میں آ کر گڑ بڑ کر دی۔
قدرتی حسن اور نزاکت کا قدر دان ہوں، میک اپ زدہ کو دیکھ کر دل خراب ہونے لگتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ موٹاپے سے اللہ بچائے۔ خواتین پردے میں بھلی لگتی ہیں، سعودی عرب میں خواتین کو عبایا پہننا لازمی ہے، وہ اس میں اچھی بھی لگتی ہیں۔ زیادہ آزادی خرابی کا باعث ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی برائیاں اسی وجہ سے ہیں۔ شہروں میں اپنے کراچی کی کیا بات ہے، کبھی یہ روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا، اب تو سیاست نے اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے، لاہور بھی کم اچھا نہیں، اب تو مجھے سرگودھا بھی اچھا لگنے لگا ہے۔ اسلام آباد میں مصنوعیت اور دکھاوا نمایاں ہے۔ پاکستان سے باہر سعودی عرب کی کیا بات ہے، مکہ دل کا سکون ہے تو مدینہ راحتِ جان، جی چاہتا ہے کہ دن مکّہ میں گزرے تو رات مدینے میں وہ بھی روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سا منے یہ سب نصیب کی بات ہے جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا، یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
بات سعودی عرب کی چلی تو جناب میَں ۲۹ مئی ۲۰۱۱ء کو سعودی عرب پہنچا اور پانچ ماہ(جون تا اکتوبر۲۰۱۱ء) یہاں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی، خانہ کعبہ کو پہلی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا کعبہ پر پڑنے والی پہلی نظر کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا، کس قدر حسین منظر تھا، کیا خوبصورتی تھی، نور ہی نور، میَں اس کے بعد بے شمار مرتبہ خانہ کعبہ گیا، بہت بہت دیر سامنے رہا، کئی فرض نمازیں اس طرح ادا کیں کہ میرے اور خانہ کعبہ کے بیچ کچھ نہیں ہوتا تھا اور فاصلہ مشکل سے دو گز، یعنی اول صف میں، کعبہ شریف کو بالکل قریب سے دیکھا، چھوا، چمٹا، لپٹا، التجائیں کیں، حرم کی چوکھٹ کو پکڑ کر روتا رہا، گِریَہ و زاری کرتا رہا، اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا رہا، حرم کی چوکھٹ کے بالکل نیچے کھڑے ہو کر مسلسل آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، حجرِاسود کے کئی بوسے لینے کی سعادت ملی، لیکن پہلی نظر کا منظر بھلائے نہیں بھولتا، جب بھی کعبہ شریف کا خیال آتا ہے وہی پہلی نظر کا منظر نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے، رہی بات مانگنے اور دعا کی، تو اپنی اس کیفیت کو اشعار میں میَں نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
مانگنے تو بہت کچھ گیا تھا، پر ہوا عجب حال
تھے اشک جاری، اندر تھا ایک تلاطم بر پا
سوچتا ہی رہا کروں پیش اپنی سیاہ کاریاں
نہ دل نے دیا ساتھ نہ زباں پہ ہی کچھ آ سکا
میرے محترم بزرگ دوست جمیل نقوی مرحوم کے یہ اشعار بھی میری اس کیفیت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں، میں نے جمیل نقوی صاحب کا خاکہ بھی لکھا تھا جو میری کتاب ’یادوں کی مالا ، میں شامل ہے ؎
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے دل ذوق تماشا بھول گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک اِک ابر کرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا یہ ہوش مجھے، کیا مانگ لیا کیا بھول گیا
یہ بات حقیقت ہے کہ خانہ کعبہ پر جب پہلی نظر پڑتی ہے تو انسان کے ہوش و خرد مفلوج ہو جاتے ہیں، اول تو یہ یقین ہی نہیں آتا کہ ہم جیسا گناہ گار اور یہ سعادت، صرف اور صرف آنکھوں سے ندامت اور توبہ کے آنسو رواں ہوتے ہیں۔ اللہ ہماری توبہ قبول کرنے والا ہے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
مجھ سے گناہ گار پر یہ بارش کرم
منہ دیکھتا ہوں، رحمت پروردگار کا
میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ جو الحمد اللہ صاحب دیوان شاعر تھے۔ آپ کو نعتیہ کلام بہ عنوان ثناء محبوب خالق: دیوان آزاد پہلی بار ۱۹۲۳ء میں آگرہ سے شائع ہوا، اس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۵ء میں کراچی سے شائع ہو چکا ہے۔ آپ جب روضہ اقدس پر حاضر ہوئے تو اپنی دلی کیفیت کو نظم میں بیان کیا اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں ؎
شکرِ خدا غلام ہے آقا کے سامنے
پہنچا دیا ہے پیاس نے دریا کے سامنے
کیا دیکھتی ہیں آنکھیں میں قرباں اے خدا
جانم فدا ہے کیا دلِ شیدا کے سامنے
دل سے زباں یہ کہتی ہے تو خود ہی عرض کر
میری مجال کیا ترے مولا کے سامنے
میَں نے پہلا عمرہ اپنی شریکِ حیات شہناز، بیٹے عدیل اور نبیل، اپنی چھوٹی بہو ثمرا نبیل کے ہمرہ جمعہ ۳ جون۲۰۱۱ء یکم رجب ۱۳۳۲ھ کو کیا، میری انجوپلاسٹی کو ابھی ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا، مجھ میں اتنی طاقت اور حوصلہ نہیں تھا کہ طواف کے سات پھیرے اور صفا و مروا کے ساتھ چکر از خود چل کر کر سکتا، ان دنوں حرم شریف میں رش بھی زیادہ تھا، چنانچہ وہیل چیِر لے لی گئی، خانہ کعبہ کے سات طواف عدیل نے وہیل چیِر چلائی اور صفا و مروا کے درمیان سات پھیروں میں چھوٹے بیٹے نبیل نے مجھے کھینچا، دونوں بیٹوں کو اپنے عمرہ کا ثواب تو ملا ہی، ساتھ ہی میری ویل چیِر چلانے کا ثواب بھی حاصل ہوا ہو گا۔ اس دوران میَں دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ بھی دعا کرتا رہا کہ پروردگار جب تو نے مجھے یہ سعادت عطا کی کہ اپنے گھر بلا لیا تو مجھے یہ بھی توفیق عطا فرما کہ آئندہ میں خود چل کر یہ سعادت حاصل کر سکوں، اللہ نے میری یہ دعا قبول فرمائی اور میَں نے بعد میں کئی عمرے اور متعدد طواف خود چل کر کیے۔ زیادہ قیام جدہ میں بڑے بیٹے عدیل کے پاس تھا، شروع میں تو عدیل اپنے ساتھ حرم شریف لے جاتا رہا لیکن پھر ہم دونوں نے سوچا کہ ہمیں از خود ہی ہمت کرنی چاہیے اور ایسا ہی ہوا، دونوں میاں بیوی جدہ سے مکہ جانے لگے، کعبہ شریف کے خوب خوب پھیرے لیے، مقام ملتزم، مقامِ ابراہیم، میزابِ رحمت پر دعائیں کیں، حَطِیم میں نمازیں ادا کیں، صفا و مروہ کے چکر کیے، حجر اسود کے خوب خوب بوسے نصیب ہوئے، آب زم زم جتنا پی سکتے تھے پیا۔ کعبہ شریف کی قربت کا خوب خوب موقع ملا، حسرت پوری کی، انسان اور اللہ کا معاملہ ایسا ہے کہ دل ہی نہیں بھر تا، ہم طواف کر کے گھر پہنچتے اور آئندہ جانے کی باتیں شروع کر دیا کرتے۔ مدینے میں بھی حاضری ہوئی، مدینے کی ٹھنڈک کا کیا کہنا، سعادت اور نصیب کی بات ہے۔ اپنی اس کیفیت کو میَں نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
کچھ ایسی تصویر بس گئی ہے دل میں کعبہ شریف کی
آنکھوں میں ہر دم رہتی ہے تصویر کعبہ شریف کی
پیاس بجھی ہے ، نہ بجھے گی یہ تو ہے مجھے معلوم
پھر بھی اک چاہت سی لگی رہتی ہے کعبہ شریف کی
ایک بار اور جاؤں، پھر جاؤں اور جا کرواپس نہ آؤں
بس یہی اک تدبیر سی لگی رہتی ہے کعبہ شریف کی
حرم کے میدان میں باب الفتح کے سامنے، باہر کی جانب، پہاڑ کے دامن میں قائم اپنے پیارے نبی کی پیدائش گاہ ( مَو لِدُ النبِی) صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، اس گھر کی تعمیر نو کر کے یہاں اب ایک عوامی کتب خانہ (مکتبہ مکہ المکرمہ)قائم کر دیا گیا ہے۔ یہ جگہ مولدِ نبی کے نام سے ہی جانی جاتی ہے، ’ الکر دی خاندان، کے ’ماجد کرد، سے ’’مجیدیہ لائبریری‘‘ جو ان کی ذاتی لائبریری تھی خریدی گئی، یہ لائبریری نایاب اور قیمتی کتب پر مشتمل ہے۔ کتابیں سلیقے سے دیدہ زیب الماریوں میں ترتیب وار رکھی ہیں۔ کتب خانے کے مدیر کا کمرہ(آفس) وہی جگہ ہے جہاں پر ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دنیا میں آمد ہوئی، یہ بات مجھے مدیر مکتبہ (لائبریرین) یَسلم بن عبد الواحد بن یَسلم بَاصَفَار نے ہی بتائی، الحمد اللہ مجھے اس کمرے میں بیٹھنے اور کچھ وقت گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی، یسلم صاحب سے جب میَں نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے خصوصی توجہ دی، اپنے آفس میں لے گئے، قہوا پلایا، کتب خانے میں موجود قدیم اور نادر کتب کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔ یَسلم بن عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَار اہل بیت میں سے ہیں، جامع مسجدامام البخاری کے امام و خطیب بھی ہیں۔ جدہ میں ا ماں حوا کے مقبرہ پر بھی حاضری کا موقع ملا، قدیم قبرستان کو مقبرہ حوا کا نام دیا گیا ہے اس میں اور بھی بے شمار قبریں ہیں، قبروں پر نمبر بھی ڈلے ہوئے ہیں لیکن اماں حوا کی قبر کا کوئی مخصوص نشان نہیں، نہ ہی یہاں کے ملازمین کے علم میں ہے کہ اماں حوا کی قبر کون سی ہے۔ سعودی عرب میں قبروں کے نشانات کہیں بھی نہیں، جنت المعلیٰ، جنت البقیع اور دیگر قبرستانوں میں کسی بھی قبر پر کوئی نشان نہیں ملتا۔
میری بیٹی فاہینہ، عاصم مشکور، نواسی نیہا اور نواسے ارحم بھی سعودی عرب آئے انہوں نے بھی ۱۷ جون کو عمرہ کی سعادت حاصل کی، میرا پوتا صائم اور بڑے بہو مہوش عدیل ایک ماہ قبل ہی سعودی عرب سے واپس کراچی آ گئے تھے، انہوں نے بھی عمرہ کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ الحمد اللہ میَں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں کہ میری شریک حیات، بیٹے، بہوؤیں، پوتا صائم، نواسی نیہا اور نواسہ ارحم عمرہ کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، یہ میری خواہش بھی تھی جو الحمد اللہ پوری ہوئی، اپنے پروردگار کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے۔
سعودی عرب میں قیام کے دوران مجھے شہر اور دیہات دونوں طرح کے ماحول کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مکّے و مدینے کے علاوہ میرا قیام مستقل طور پر جدہ میں رہا، یہاں جدید شہری سہو لتیں میسر ہیں۔ ترقی کا سفر جاری و ساری نظر آتا ہے، کشادہ صاف ستھری شاہراہیں، میلوں لمبے پل، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ، بڑے بڑے مال(شاپنگ سینٹر)، جدیدیت کا منہ بولتا ثبوت۔ لوگوں میں شہنشاہوں اور نوابوں والی صفات نمایاں، سعودیوں کو کریز(Crease) فوبیہ بھی ہے، صاف ستھرا تُوپ (جُبہ)، عام طور پر سفید وہ بھی بہترین کپڑے کا استری شدہ جس پر کریز نمایاں، مجال ہے کہ کسی جگہ کوئی نشان نظر آ جائے یا اس میں سلوٹیں پڑی ہوئی ہوں، سر پر بڑا مخصوص صاف ستھرا کریز شدہ رو مال (غنترہ/شماغ) رو مال کے درمیان والی کریز ان کے سر سے ناک کی جانب کھڑی ہوئی ہوتی ہے اور وہ بار بار اس کریز کو اپنی ناک کی سیدھ میں کرتے رہتے ہیں سر پر کالا گول رِنگ،(خاطم)، خوشبو میں بسے ہوئے، ہاتھ میں تسبیح، منہ میں مسواک، ٹیکسی چلانے والے سے لے کر بادشاہ وقت تک اسی وضع قطع میں رہتے ہیں، خواتین عبایا پہنے نظر آتی ہیں، منہ بھی ڈھکا ہوا، شادیوں کے شوقین ہیں، نماز کے پابند، ہر گلی محلے میں اذان کے فوری بعد بڑی تعداد میں سعودی مسجد کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ نماز کے اوقات میں کاروبار زندگی خواہ وہ کچھ بھی ہو بند ہو جاتا ہے۔ ان کی مسجدیں صرف اور صرف عبادت گاہیں ہیں، جمعہ کے خطبہ میں سیاست پر کوئی بات نہیں ہوتی، مسجدوں میں قرآن کریم کپڑے کے جز دانوں میں لپٹے ہوئے نہیں ہوتے، بلکہ عام کتابوں کی طرح اوپر اور نیچے شیلفوں میں سلیقے سے رکھے ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے مکے میں حرم شریف اور مدینے میں مسجد نبوی میں رکھے ہوئے ہیں۔ اکثر سعودیوں کو نماز سے پہلے یا بعد میں قرآن کریم پڑھنے کی عادت ہے، چاہے ایک صفحہ ہی کیوں نہ پڑھیں۔ خلوص سے ملتے ہیں، باہم مصافحہ کرتے ہیں، ارضِ مقدس میں معانقہ اور تقبیل کی روایت پائی جاتی ہے، اَلسلامُ علیکم کے بعد مصافحہ کرتے ہیں، بغل گیر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی پیشانی یا سر پر تین بوسے لیتے ہیں۔ اللہ کی خصوصی نظر کرم اس سرزمین پر، یہاں کے مکینوں پر۔ کبھی یہاں سواری کے لیے اونٹ اور دیگر جانور ہوا کرتے تھے آج دنیا کی قیمتی ترین گاڑیاں سڑکوں پر دندنا تی، لشکارے مارتی نظر آتی ہے۔ ہر گھر مکمل ائرکنڈیشن، لوڈ شیڈ نگ کیا ہوتی ہے یہاں کے لوگ اس سے لاعلم ہیں، پٹرول سستا البتہ پانی مہنگا ہے۔ ملاوٹ، دھوکہ دہی، چور بازاری، مال کا دو نمبر ہونا، ان سب باتوں کا یہاں تصور ہی نہیں، صفائی نصف ایمان ہے اس کا اندازہ یہاں آ کر ہوا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رشوت نہیں لی جاتی، جدہ شہر میں غیر سعودی ٹیکسی ڈرائیور نظر آتے ہیں، جدہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ صرف سعودی ٹیکسی ڈرائیور ہی جا سکتا ہے، عام طور پر جمعرات، جمعہ، رمضان اور حج کے ایام میں یہ سعودی ٹیکسی ڈرائیور مکہ اور مدینہ جانے والے زائرین سے خوب خوب رقم وصول کرتے ہیں، یہی صورت حال ایئر پورٹ سے شہر میں جانے کی بھی ہے۔ یہاں بھی غیر سعودی ٹیکسی ڈرائیور سواری ایئر پورٹ لے جا سکتا ہے لیکن ایئر پورٹ سے اندرون شہر مسافروں کو صرف سعودی ٹیکسی ڈرائیور ہی لے جا سکتے ہیں اور وہ مسافروں کی خوب کھال اتار تے ہیں۔ جدہ میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خاصی تعداد میں نظر آئے، بقالوں (جنرل اسٹور)، اسپتالوں میں پیرا میڈیکل اسٹاف بنگلہ دیشی اور ہندوستان کے شہر کیرا لا کے لوگ (ملباری) زیادہ تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹروں کی بڑی تعداد سعودی اسپتالوں میں کام کر رہی ہے۔
پہاڑی آبادی کی صورت حال قدرِ مختلف ہے، مجھے سعودی عرب کے صوبے جذان جسے وادی جذان بھی کہا جاتا ہے کے ایک پہاڑی علاقہ فیفاء میں رہنے کا موقع ملا، اسے جبال (پہاڑ) فیفاء (Jibal Fayfa) بھی کہا جاتا ہے، یمن کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہاں یمنی رسم و رواج کا غلبہ نظر آتا ہے۔ جذان سے صبیاء، العیدابی، عیان، الدائر، پھر پہاڑوں کے درمیان اوپر کی جانب سفر کرتے ہوئے فیفاء پہنچتے ہیں۔ راستے سنسان، دور دور تک نہ آدم نہ آدم زاد، میدان، پہاڑ ہی پہاڑ، لیکن مجال ہے کہ کسی بھی قسم کا ڈر یا خوف محسوس ہوتا ہو۔ جذان میں جزیرہ فراسان (Farasan Island)بھی ہے، یہ بحر الا حمر (Red Sea)میں ہے۔ جذان یونیورسٹی حال ہی میں قائم ہوئی ہے جو ہر اعتبار سے مثالی ہے۔ جذان میڈیکل کالج، جذان میوزیم اور مکتبہ جذان العامہ(Jazan General Library)بھی قائم ہے۔ جذان ائیرپورٹ پر جذان کی ثقافت کی خوبصورتی سے تشہیر کی گئی ہے۔ اسے دیکھ کر پنجاب کی ثقافت نظروں میں آ جاتی ہے۔
فیفاء میں میرا چھوٹا بیٹا نبیل فیفاء جنرل اسپتال میں ڈاکٹر ہے، محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کے علاقے مری، ایوبیہ، نتھیا گلی، بارہ گلی میں آ گئے ہیں، اسپتال بھی پہاڑ کی چوٹی پر، اس کا گھر بھی پہاڑ کی چوٹی پر، ہم گھر سے باہر نکلتے یا ٹیکسی سے اتر کر گھر میں جاتے تو ہماری چال اے آر وائی(ARY) کے ڈرامے ’’بلبلے ‘‘ والی’ مومو‘ کی طرح ہوا کرتی تھی، پہاڑی علاقوں کا موسم عام طور پر سرد ہی ہوا کرتا ہے، فیفاء کا موسم بھی سرد، خوش گوار اور صحت افزا تھا، بارش کا ہونا معمول تھا، اکثر بارش کے ساتھ اولے بھی گرا کرتے، یہاں ائیر کنڈیشن کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے میَں نے دیہات لکھا ہے، اس کی وجہ یہ کہ یہاں کے مکینوں کی اکثریت وہ لوگ ہیں جن کا لباس سعودیوں سے مختلف ہے، ہمارے دیہاتیوں کی طرح یہ دھوتی(فوطہ) پہنتے ہیں، وہ بھی رنگ برنگی، آدھی پنڈلیاں کھلی ہوئی، اوپر قمیض اس پر کوٹ، دونوں بے رنگے اور بے ڈھنگے، دھوتی کو کمر پر خوب اڑسا ہوا کہ یہاں موٹی تہہ بن جاتی ہے، کمر پر ایک چوڑی بیلٹ بندھی ہوتی ہے، عام طور پر عمرہ یا حج کے دوران جو بیلٹ استعمال ہوتی ہے یہ اُسی طرح کی بیلٹ (عصال )ہوتی ہے، اس بیلٹ کے بالکل سامنے ناف پر ایک خنجر یا چاقو(سکِن) جس کا دستہ اوپر کی جانب واضح نظر آ رہا ہوتا ہے لگائے رکھتے ہیں، سر پر ٹوپی کے بجائے رسی لپٹی ہوئی ہوتی ہے، اس میں درخت کی چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں جس میں پتے اور پھول لگے ہوتے ہیں لگائے رکھتے ہیں۔ یہ لباس بوڑھے اور جوان دونوں کا ہوتا ہے۔ ’گات ، کھانا ان کا محبوب مشغلہ ہے، یہ سارے ہی سعودی بڑے شوق اور اہتمام سے کھاتے ہیں، گات پودینا یا ہرا دھینے یا پودینے کی طرح ٹہنی میں لگے پتے ہوتے ہیں، گات، کھجور اور گہوہ(ایک طرح کا قہوا) چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں پینا تمام سعودیوں کی روایت ہے۔ گھروں، دفتروں، دکانوں میں لوبان کی طرح کسی چیز کی دھونی دینا بھی سعودی تہذیب کا حصہ ہے، اس مقصد کے لیے لوبان دان یا بجلی کے لیمپ نما لوبان دان استعمال کیے جاتے ہیں۔ خوشبو کے لیے لوبان کی جگہ کوئی خاص لکڑی یا اس کا برادہ استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس کی خوشبو لوبان کی طرح کی نہیں ہوتی۔ دیہات کی خواتین زیادہ پردے میں رہتی ہیں۔ سعودی اپنی زبان تک محدود ہیں، انگریزی کے بغیر ان کی تمام ضروریات احسن طریقے سے پوری ہو رہی ہیں۔
دوست بنا نے کا قائل ہوں، دوستی بگاڑنے کا قائل نہیں، میَں نے زندگی میں اپنے دوستوں کو ممکن حد تک کانچ کے گلاسوں کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھا ہے، جس کسی سے تعلقِ دوستی قائم ہو گیا اس سے ناتا جوڑے رکھا، بے شمار دوستوں کی ناپسند باتوں اور عادتوں کو محض اس وجہ سے درگزر کیا کہ تعلق دوستی جڑا رہے۔ دوستی کے بارے میں میرا فلسفہ یہ ہے کہ ’’دوستی قربانی چاہتی ہے ‘‘۔ دوستوں کی کڑوی کسیلی باتیں، کسی حد تک نا پسندیدہ باتوں کو اس وجہ سے درگزر کیا جائے کہ دوستی کا بندھن قائم رہے۔ کچھ دوست اپنے مزاج میں انتہائی کڑوے، کسیلے، بد مزاج بھی ہیں ان کی بد مزاجی اور تیزابیت کو برداشت کیے رہا، ان سے دوستی قائم ہے۔
بعض دوستوں سے دوستی کی نصف سنچری ہو چکی ہے، خیال ہے دوستی کی گولڈن جوبلی تقریب کا اہتمام کروں، یہ وہ دوست ہیں جن سے ۱۹۵۰ء کی دہائی میں تعلق دوستی قائم ہوا اور آج تک مراسم دوستانہ ہیں، گویا ان کے ساتھ بچپن گزرا، جوانی ایک ساتھ بسر ہوئی اور اب بڑھاپے کے شب و روز میں بھی ساتھ ہیں۔ چند کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں، ان میں ظفر احمد صدیقی، احمد حسین، سید اختر حسین شاہ، شکیل احمد صدیقی عرف پیارے، سید محمد سبطین رضوی، قاضی محمد ارشاد، ابرارحسین، یونس، سعید جعفری شامل ہیں، بعض سینئردوست بھی تھے جو عمر میں توہم سے بڑے تھے لیکن ہم سب دوستی کے بندھن میں ایک ہی تھے۔ سینئردوستوں میں سید جمال احمد، سید ممتاز علی زیدی، سید حیدر رضاء، شیث صمدانی، انیس فاروقی صاحب، مظہر الحق صاحب، چودھری محمد اشرف، منظور احمد بٹ، زماں صاحب، مغیث صمدانی، ظفر احمد صدیقی شامل ہیں، بعض ساتھی اب اس دنیا میں نہیں رہے انھیں یاد کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے ان میں محمد وسیم نظامی، جوانی میں موٹر سائیکل کے حادثے میں اللہ کو پیارا ہو گیا، منظور احمد بٹ، فیاض صاحب، اطہر مرزا، محمود احمد صدیقی، عارف احمد صدیقی، جلیس احمد صمدانی، سراج الحق اور محمد ربانی خان، شامل ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ ان میں سے اپنے دوست منظور احمد بٹ کا خاکہ لکھا تھا جو میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل ہے۔ ان سب دوستوں میں شکیل جسے اس کے گھر والے اور ہم بھی ’پیارے‘ کہتے تھے حال آں کہ وہ پیارا تھا نہیں، انتہائی شریر، چُلبلا، راہ چلتے ہوؤں کو بِتکا دینے والوں میں سے تھا، اس نے اپنی شرارتوں سے معمولی جھگڑے ہی نہیں بلکہ تصادم کرائے کہ نوبت تھانے اور کچہری تک پہنچ گئی، یہ بات جب کی ہے جب آتش جوان تھا، اب واقعی یہ پیارا ہو چکا ہے۔ احمد حسین خاموش اور سنجیدہ رہتے ہوئے بات میں مزاح پیدا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب وہ بھی سنجیدہ ہو گیا ہے، کالے رنگ پر سفید داڑھی بھلی لگتی ہے، ظفر سدا بہار ہے، نانا دادا بن گیا پر دیکھنے میں وہی نوجوان، چھوٹا سا۔ سید جمال احمد فٹبال کے بہترین کھلاڑی تھے، انھوں نے جوان رہنے کا رازکسی کو نہیں بتا یا، ممتاز زیدی صاحب پیشے کے اعتبار سے استاد تھے، اب کسی رسالے سے منسلک ہیں، قلم کار، قناعت پسند، برد بار، سنجیدہ اور متین، زندگی لوگوں کی خدمت کرتے گزار دی، شادی نہیں کی، لوگوں کی خدمت میں ہی مگن رہے جب ٹھان لی کہ شادی کرنا ہے تو ایک نہیں لگا تار دو چھکے لگا دیے، سنجیدہ مذاق اچھا کرتے ہیں۔ ان کی باغ و بہار شخصیت بے شمار خوبیوں سے مزین ہے۔ ان کی زندگی لگے بندھے انداز سے نہیں گزری، نہ ہی یہ اکہرے اور سپاٹ لوگوں میں سے ہیں، ان کی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں اور خاکہ نگار کا موضوع بن سکتی ہے، زندگی نے وفا کی تو انشاء اللہ زیدی صاحب کا خاکہ قلم بند کروں گا۔ سید اختر حسین شاہ کا تعلق بنیادی طور پر کہروڑ پکہ سے تھا، یہ روزگار کی تلاش میں کراچی آ نکلے، اس کے دو بھائی بھی اس کے ہمراہ تھے، بے بہا خوبیوں کے مالک، پرائمری اسکول میں ٹیچر رہے، پھر فزیکل ایجوکیشن میں ڈپلومہ کر لیا، اسٹیل مل کے اسکول میں اسپورٹس ٹیچر ہو گے، انتہائی ہنس مکھ، ہر زبان پر عبور، ہم انھیں شاہ جی کہا کرتے تھے، ان کے والد پیری مریدی سے تعلق رکھتے تھے، ایک بار میں میلسی گیا تو واپسی پر کہر وڑ پکہ بھی چلا گیا، اس قدر میٹھی زبان اور پیار کرنے والے لوگ، کچھ عرصہ ہوا انھوں نے کراچی کو خیر باد کہا، اور وہاڑی میں سکونت اختیار کی، ایک ہی بیٹا تھا وہ کسی بنک میں ملازم ہے، شاہ صاحب نے داڑھی رکھ لی ہے اور کسی مسجد میں امامت بھی کرتے ہیں۔ اُن کی اس خصوصیت کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ ابرار لندن میں اور سعید امریکہ میں ہیں۔ ابرار سے فیس بک پر رابطہ رہتا ہے، سعید نے اپنی دنیا الگ بسا لی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہمارے گھر کے سامنے ’والی بال، کا میدان تھا، شام کے اوقات میں والی بال کھیلا کرتے تھے، میں دیگر کے مقابلے میں چھوٹا تھا، چنانچہ کسی ایک جانب نیٹ پر کھڑا کر دیا جاتا، تمام دوستوں میں ربانی خان سب سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور تھے، قد کاٹھ میں بھی ماشاء اللہ لمبے چوڑے تھے، وہ میرے سامنے والی ٹیم میں تھے اور سینٹر میں تھے، ایک بال پر انہوں نے پوری شدت کے ساتھ شارٹ لگائی گیند اوپر جانے کے بجائے نیٹ کے نیچے سے ہوتی ہوئی میرے سینے پر لگی، اس شارٹ میں اس قدر شدت تھی کہ میرا سانس بند ہو گیا، منہ کھلا ہوا تھا، گرنے ہی والا تھا کہ لوگوں نے فوری زمین پر لٹا دیا، ان میں کوئی عقلمند بھی تھا اس نے میرے دونوں پیر سائیکل کے پیڈل کی طرح چلا نا شروع کیے، کسی نے میرے منہ میں اپنا منہ ڈال کر سانس اندر داخل کیا، تب کہیں جا کر میرا سانس شروع ہوا۔ اسی طرح ہاکی کھیلتے ہوئے قاضی ارشاد کی ہاکی میرے منہ پر لگی جس سے ہونٹ پھٹ گیا۔ ٹان کے لگنے کی نوبت آ گئی۔ تمام کھیلوں میں کر کٹ سب سے زیادہ کھیلی، ٹیم کی کپتانی بھی کی۔ ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن، گلُی ڈنڈا، کنچے، چھُپن چھپائی، پٹھو گرم، چَر را، کیرم، لیڈو الغرض کوئی کھیل ایسا نہیں جو نہ کھیلا ہو۔ اسی لیے تو میں نے اپنے آپ کو کھلنڈرا کہا۔ تاش کھیلنے کا شوق نہیں تھا پر کھیل لیا کرتے تھے۔ تاج ویلفیئر سینٹر جس کا میَں نے اوپر ذکر کیا میں بلیک کوئن کا ٹورنامنٹ منعقد ہوا، ہمارے بعض سینئر دوست خصوصاً محمود صاحب، حیدر بھائی، اطہر مرزا، عثمان صاحب، فیاض صاحب، اقبال بھائی، جلیس چچا تاش کھیلنے کے ماہر اور دیوانے تھے، بلیک کوئین کی جو ٹیم بنی اس میں میرے ساتھی ظفر صدیقی تھے، میچ ہوتے رہے، ہم یکے بعد دیگرے میچ جیت کر فائنل میں پہنچ گئے اور فائنل بھی جیت گئے۔
سینما میں فلم دیکھنے کا شوق کبھی نہیں رہا، شادی کے بعد بیگم کے ساتھ صرف ایک بار سینما میں فلم دیکھنے گیا، کلاسیکل میوزک پسند ہے، غزلیں سننا اچھا لگتا ہے، مہدی حسن، گلشن آرا سید، منی بیگم، تصور خانم، اقبال بانو کی گائی ہوئی غزلیں روح کو تسکین پہنچاتی ہیں۔ تاش تو کھیل لیا کرتا ہوں لیکن برج، پچیسی، شطرنج کھیلنا ہی نہیں آتی اور نہ ہی کبھی کھیلی۔ جب سے ہوش سنبھالا ایک بار رمضان کے روزے نہیں رکھے، وہ بھی اس وجہ سے کہ یکم رمضان کو عین تراویح پڑھنے کے دوران گردے کا درد شروع ہوا جواس قدر شدید تھا کہ مجھے تراویح میں نیت توڑنا پڑی، بہ مشکل گھر اور پھر اسپتال پہنچا یا گیا، جمعہ کی نماز نہیں چھوڑتا، نماز یں پڑھیں لیکن پنچ گا نہ نمازی نہیں رہا، اب کوشش ہوتی ہے کہ پابندی ہو جائے۔ گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتا ہوں، جھاڑو دینا اچھا نہیں لگتا، برتن دھو لیتا ہوں، صفائی بھی کر لیتا ہوں، اپنی کتابوں کی صفائی ستھرائی از خود کرتا ہوں۔ جب بیٹی گھر پر تھی تو وہ کام کرنے نہیں دیا کرتی تھی اب بہوؤیں موجود ہوں تو کام کرنا ممکن نہیں، جب دونوں گھر پر نہ ہوں تو بیوی کا ہاتھ بٹا دیا کرتا ہوں۔ بیوی پر رُعب نہیں جماتا، کوشش کرتا ہوں آواز دھیمی رہے اور بات بنی رہے۔ آہستہ چلتا ہوں، قدم چھوٹے اُٹھاتا ہوں، اکثر بیوی کے ساتھ چلتے ہوئے بیوی کو ٹوکنا پڑتا ہے کہ وہ بھی آہستہ چلے۔ ہنستا ہوں قہقہا نہیں لگا تا، ہنستے ہوئے آواز بلند نہیں ہوتی، وقت کی پابندی کی کوشش کرتا ہوں، کیا ہوا وعدہ پورا نہ کر سکوں تو کئی دن پریشان رہتا ہوں۔ محبت کس نے نہیں کی، میَں نے بھی کی، بہت ہی حسین چیز سے
جس کا نام ہے لکھنا اور پڑھنا، محبت ہے کتابوں سے، لکھاریوں سے اور کتابوں سے محبت کرنے والوں سے۔
قلم کار یا لکھا ری بھی اداکار ہوتا ہے، ہمارے صدرِ مملکت قبلہ آصف علی زرداری صاحب نے سیاسی اداکار کی اصطلاح ایجاد کی، لیکن انھوں نے کبھی وضاحت نہیں کی کہ سیاسی اداکار ان کی نظر میں در اصل ہیں کون، سیا ست داں، ٹیلی ویژن کے اینکر پرسن، گفتگو کا سیاسی دنگل سجانے والے یا سیاسی موضوعات پر کالم لکھنے والے صحافی، عام طور پر ٹی وی کے اینکر اور صحافی اپنے آپ کو سیاسی اداکار ہی سمجھنے لگے ہیں۔ قلمی اداکاروں میں شوکت صدیقی، اشفاق احمد، شاعروں میں میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ، پروین شاکر، سنجیدہ لکھاریوں میں ممتاز مفتی، خاکہ نگاروں میں حالیؔ، رشید احمد صدیقی، مولوی عبدالحق، فرحت اللہ بیگ، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر سلیم اختر، مبین مرزا، انور سدید، پروفیسر صابر لودھی، مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی، ابن انشاء، ڈاکٹر یونس بٹ، کالم نگاروں میں زاہدہ حنا، عطا ء الحق قاسمی، الطاف حسن قریشی، سیاست دانوں میں قائد اعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو، سائنسدانوں میں ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، اداکاروں میں شمیم آ را، دلیپ کمار، گلوکاروں میں مہدی حسن، نور جہاں، گلشن آرا سید، ایسے اداکار ہیں جنھیں پڑھ کر، دیکھ کریا سن کر طبیعت پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں میں عبد الستار ایدھی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر عبد المعید، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری، ڈاکٹر طاہر تونسوی، سے متاثر ہوں۔
میَں پیدائشی لکھاری نہیں، مجھے لکھنے کی جانب راغب کرنے میں میرے استادڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب کا پورا پورا ہاتھ ہے، اگر وہ مجھے اس جانب مائل نہ کرتے، مجھے لکھنے اور چھپنے کا چسکا نہ ڈالتے تو شاید میَں اس جانب نہ آتا، انھوں نے میرے گردایسا گھیرا تنگ کیا کہ میَں اس بھنور میں پھنستا ہی چلا گیا، حتیٰ کہ اسی کا ہی ہو کر رہ گیا، رہی سہی کسر میرے دوستوں نے پوری کر دی۔ لکھنا اور چھپنا بھی ایک طرح کا نشہ ہوتا ہے، جس طرح سگریٹ، پان، شراب نوشی، افیون، بھنگ، ہیروئن اور گھات کے عادی اپنی جان لاکھ چھڑائیں ان کے لیے مشکل ہو جا تا ہے اس سے آزاد ہونا اسی طرح لکھنا اور پھر چھپنا بھی ایسا ہی نشہ ہے جس کو لگ جاتا ہے اس سے آزاد نہیں ہو پاتا۔
میَں بعض لکھاریوں کی طرح ہر چیز ایک ہی نشست میں لکھنے کا عادی نہیں بلکہ لکھنے کے معاملے میں قدرِے مختلف واقع ہوا ہوں، ایک وقت میں کئی کئی مضامین بشمول کتاب کا لکھنا جاری رکھتا ہوں، جب لکھنے کے لیے قلم کاغذ استعمال ہوتا تھا، اس وقت کئی کئی فا ئلیں کھلی ہوا کرتی تھیں، جب سے کمپیو ٹر سیکھ لیا اور انگریزی اور اردو لکھنا شروع کرد ی، تو قلم ہاتھ سے جاتا رہا، اب ایک فولڈر میں کئی کئی موضوعات کی فائلیں بنی ہوتی ہیں۔ گویا اب کمپیوٹر ہی قلم ہے اور کمپیوٹر ہی کاغذ، کسی بھی ایک موضوع پر میَں زیادہ دیر تک نہیں لکھ سکتا، طبیعت جلد اکتا جاتی ہے۔ بعض لکھاری ایک مضمون شروع کرتے ہیں اور اسے ختم کر کے ہی دم لیتے ہیں، اپنا اپنا طریقہ واردات ہے۔ لکھنا کب شروع کیا یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، جامعہ کراچی میں ایم اے (۷۱۔ ۱۹۷۲ء) کرنے کے دوران باقاعدہ لکھنے کی جانب رغبت ہوئی، ۱۹۷۵ء میں میری پہلی کتاب جو ایک کتابیات تھی شائع ہوئی، یہ میرا ایم اے کا مقالہ تھا، ۱۹۷۷ء میں کتب خانوں کی تاریخ پر دوسری کتاب ’’کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ‘‘ شائع ہوئی، پہلا مضمون اسلامی کتب خانوں کے بارے میں تھا جو کراچی کے ایک ماہ نامہ ’’ترجمان‘‘ میں جنوری ۱۹۷۸میں شائع ہوا۔ سوانحی مضامین لکھنے کی ابتدا بھی۱۹۷۸ سے ہوئی، پہلا سوانحی مضمون خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تھا جو ماہ نامہ ’ترجمان، کی اگست ۱۹۷۸ کی اشاعت میں شامل ہوا۔ سوانحی مضامین سے میَں خاکوں اور رپورتاژ کی جانب آیا۔ پہلی رپورتاژ اپنی بیٹی’ سحر‘کے انتقال پر ۱۹۸۰ء میں لکھی جو ’ادب و کتب خانہ‘ میں شائع ہوئی، یہ میری کتاب ’یادوں کی مالا‘ میں بھی شامل ہے۔ اِسی سال اپنے جد امجد شیخ محمد ابرہیم آزادؔ پر میرا مضمون قصور سے شائع ہونے والے رسالے ’انوار الصوفیہ، میں شائع ہوا، ۱۹۷۸ء ہی میں لائبریری سائنس کے موضوع پر پہلا مضمون ’پاکستان لائبریری بلیٹن، میں شائع ہوا، اسی سال میَں اس رسالے کا ایڈیٹر مقر ر ہوا، اس رسالہ سے وابستگی کو آج ۳۳ سال ہو گئے ہیں، میرے سب سے زیادہ مضامین اسی رسالے میں شائع ہوئے۔ بس اس طرح لکھنے اور چھپنے کی یہ گاڑی چلنا شروع ہوئی جو گزشتہ ۳۵ برس سے رواں دواں ہے۔ میری کتابوں کی تعداد۲۸ ہو چکی ہے جب کہ ۱۵۰ کے قریب مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ عطا ء الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم ’’پچاس سالہ قلمی سفر‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ایک لکھنے والے کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے جو اس کی لکھنے پڑھنے میں گزرتی ہے ‘‘، میری اولین کاوش ۱۹۷۵ء میں منظر عام پر آئی تھی، اس طرح میرا قلمی سفر ۳۴سالوں پر محیط ہے، اب آپ کو میری عمر کا بھی اندازہ ہو گیا ہو گا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ نکما آدمی قلم کار کیسے بن گیا؟ کسی نے سچ کہا ہے کہ نکما آدمی ہی قلم کار بنتا ہے۔ اچھا، تو ہمارے ملک میں استاد کون بنتا ہے ؟ کبھی کسی کے والدین نے یہ خواہش کی کہ ان کا بیٹا یا بیٹی بڑے ہو کر استاد بنے، ہر گز نہیں، ڈاکٹر اور انجینئر سے نیچے کوئی آتا ہی نہیں۔ حال آں کہ معلم کا کام، مرتبہ اور شان ہم سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارا استاد تو حادثاتی استاد ہوتا ہے، اسی طرح قلم کار بھی حادثاتی ہوتے ہیں، میَں بھی حادثاتی قلم کار ہوں، حادثہ یہ ہوا کہ قلم کاروں کے بیچ پھنس گیا، مجھے لکھنے والوں کی صحبت و دوستی میسر آ گئی اور میَں نے بھی اس دوستی سے فائدہ اٹھا یا، لکھاریوں کی صف میں اپنے آپ کو بالکل پیچھے کھڑا پاتا ہوں۔ نکما ہونے کی وجہ سے میَں نے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا خواب دیکھا ہی نہیں، والدین نے یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دیا تھا، میَں نے یہ معاملہ اپنے اللہ پر چھوڑ دیا، بس اللہ نے جو بنا نا تھا بنا دیا، اب صبر شکر کرتا ہوں، کہ اس نے لکھنے پڑھنے کی توفیق عطا کی، ایک عدد سلیقہ مند استاد بیوی، بیٹے، بیٹی، گھر گھرستی، سب کچھ عطا کیا میرے مولا کا شکر ہے۔ لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنا بھی آ گیا، مجمعے میں بولنا، تقریر کرنا، اس کے پیچھے بھی میرے دوستوں کا ہا تھ ہے۔ میَں کراچی کی ایک غریب آبادی لیاری میں آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتا تھا، وہاں کے نوجوانوں نے جو عمر میں مجھ سے بڑے ہی تھے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے ایک سماجی ادارہ ’’تاج ویلفیئر سینٹر‘‘ قائم کیا تھا، یہ بات ہے ۱۹۶۰ء کی، جہاں اہل محلہ چھوٹے بڑے کھیل کود کے علاوہ فلاحی کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بہت ہی اچھا ماحول تھا، بڑے اپنے چھوٹوں کا حد درجہ خیال کیا کرتے، چھوٹے اپنے بڑوں کے احترام کے ساتھ ان کے شریک رہا کرتے، گویا چھوٹوں کے لیے یہ ایک تر بیت گاہ تھی۔ تاج ویلفئر سینٹر ایک ایسا فلاحی ادارہ تھا جس نے اپنے اراکین میں خدمت خلق کا مثالی جذبہ پیدا کر دیا تھا، مختلف سیاسی نظریات کے حامل، مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف قومیتوں سے تعلق اور مختلف مذہبی عقائد رکھنے کے با وجود اس ادارے سے منسلک لوگ اپنے آپ کو ایک ہی خاندان کا فرد تصور کیا کرتے تھے۔ ہر ایک کے دکھ، درد خوشی یا غمی میں عزیز رشتہ داروں سے بڑھ کر شریک رہا کرتے۔ خلوص، محبت، ہمدردی، با ہمی شفقت، اخوت، بھائی چارے کے اس ماحول کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا۔ شاید ہم میں سے کسی کو بھی وہ ماحول زندگی میں دوبارہ نہیں مل سکا۔ در حقیقت میں نے اس ماحول سے بہت کچھ سیکھا، محفل میں گفتگو کرنا، مجمعے کے سامنے اسٹیج پر تقریر کرنے کا حوصلہ مجھ میں اسی دور میں پیدا ہوا۔ میرا بچپن اور جوانی اسی جگہ گزری، میں نے اسی علاقے کے اسکولوں پہلے قومی انجمن پرائمری اسکول بعدہ غازی محمد بن قاسم ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، ایس ایم کالج اور عبدا للہ ہارون کالج سے انٹر اور بی اے کیا، اس ماحول سے میں تہذیبی اور تمدنی زندگی کی اعلیٰ قدروں سے واقف ہوا، یہی وجہ ہے کہ لڑکپن کے یہ تہذیبی نقوش میرے ذہن و دل پر آج بھی مر تسم ہیں۔
جمعہ ۷ دسمبر ۱۹۵۱ء کی بات ہے، میری چھوٹی خالہ ذکیہ خاتون کے ہاں شام پانچ بجے کراچی سے سیکڑوں میل دور اندرون سندھ تھاروشاہ میں پہلی لڑکی کی ولادت ہوئی، نام ’شہناز، رکھا گیا، میرے والد صاحب نے پانچ بج کر پانچ منٹ پر ریڈیو پر اعلان کر دیا، اس وقت ٹی وی تو تھا نہیں وگر نہ جیو پر اعلان ہوتا کہ ’یہ لڑکی میری ہوئی‘‘ اس وقت میری عمر پونے تین سال تھی، میَں حیرت و یاس کی مورت بنا اپنے ابا کی بات کو غور سے سن رہا تھا، میری قسمت کا فیصلہ بغیر مال دیکھے کس بے باکی اور دھڑ لے سے کر رہے تھے، کہتے ہیں کبھی زبان سے نکلی کوئی خواہش اللہ تعالیٰ سن لیتا ہے، شاید یہ بھی قبولیت کی گھڑی تھی، اللہ نے میرے اباکی یہ خواہش سن لی، فرشتوں نے پکے رجسٹر میں ہمارے نام لکھ کر مہر ثبت کر دی، میَں نے بھی بڑے ہو کر اپنے والدین کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کیا اس دوران نظریں اِدھر اُدھر بہکی بھی خاص طور پر جامعہ کراچی کی چکا چوند روشنی نے متاثر بھی کیا لیکن اللہ نے ثابت قدم رکھا، ۲۸ سال بعد ۱۹۷۵ء میں میَں اور شہناز شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ چوتھی دھائی آدھی گزر چکی ہے بندھن قائم ہے، کب تک قائم رہتا ہے، یہ خدا کو معلوم، مختلف جہات سے مکمل شریک سفرہیں، مزاج شناس، ہم نوا اور ہم قدم بھی، ہم مکہ، مدینہ، جدہ، فیفا (جیذان) کے پھیرے ساتھ ساتھ کر چکے ہیں۔ اللہ نے دو بیٹوں عدیل اور نبیل، ایک بیٹی فاہینہ سے نوازا، پوتا صائم عدیل، نواسہ ارحم اور نواسی نیہا میری کل کائنات ہے۔
بچپن ہی سے میَں پان اور سیگریٹ سے دور رہا، حال آں کہ میری امی اور ابا خوب خوب پان کھا یا کرتے تھے، بلکہ پان میں تمباکو بھی نوش کیا کرتے تھے، گھر میں باقاعدہ پان دان تھا، پان کی ڈبیا اور بٹوے کا بول بالا تھا۔ میَں پان، چھالیہ، تمباکو، کتھا اور چونا خرید کر لا یا کرتا تھا لیکن خود اس لَت سے دور ہی رہا، سیگریٹ البتہ کبھی دوستوں کے ساتھ وہ بھی پکنک پر، یا پھر کسی کانفرنس کے موقع پر ہوٹل میں قیام کے دوران کش لگا لیا کرتا ہوں۔ زندگی میں کبھی بقول سعادت حسن منٹو ’کڑوا شربت، (شراب) نہیں پیا، پینا تو دور کی بات چھوا تک نہیں۔ ایک مرتبہ ایک دوست عباس کو اپنے دوسرے دوست شاہ جی کے گھر پیتا دیکھ کر طبیعت خراب ہونے لگی تھی۔ کتابوں سے محبت اور انھیں سلیقہ سے رکھنے کی عادت شروع ہی سے ہے، ذاتی لائبریری دو ہزار کتب پر مشتمل ہو گی، یہ کتابیں مختلف موضوعات پر ہیں، ان میں لائبریری سائنس، اسلام کے علاوہ سوانح حیات، خاکے اور خود نوشت کا بڑا ذخیرہ ہے، خاکوں کی کتاب جب اور جہاں سے ملے خرید لیتا ہوں، جون ۲۰۱۱ء میں میَں سعودی عرب آیا تو میرے سامان میں کتابوں کا ایک علیحدہ سے کارٹن تھا، اس میں خاکوں کے مجموعے زیادہ تھے، مجھ سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ میَں نے لیپ ٹاپ کے خالی کارٹن میں کتابیں رکھ لی، اس کارٹن کے اوپر لیپ ٹاپ کی رنگین تصویر بنی ہوئی تھی، مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ تصویراس کارٹن کے گم ہو جانے کا سبب بن جائے گی، دیگر سامان کے ساتھ یہ کارٹن بھی لگیج میں جمع کرا دیا گیا، جب ہم جدہ ائر پورٹ پر اترے تو تمام سامان تو آ گیا، کتابوں کا یہ کارٹن غائب تھا، بہت انتظار کیا، متعلقہ کارندوں سے خوب خوب بحث و مباحثہ کیا، تو تو میں میں بھی کی، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، آخر کار اس کی رپورٹ ہوئی، کاغذی کاروائی کے بعد متعلقہ حکام نے یقین دلایا کہ آپ فلاں نمبر پر رابطہ کیجیے گا، اگر مل گیا تو آپ کو اطلاع کر دی جائے گی، گھر آ کر ایسا لگا کہ جیسے میں خالی ہاتھ ہی آیا ہوں، پروگرام تو یہ تھا کہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد کچھ لکھنے کا کام کروں گا، چند احباب کے خاکے سرگودھا میں رہتے ہوئے شروع کیے تھے انہیں مکمل کروں گا، کتابیں نہ ملنے کے باعث طبیعت لکھنے کی جانب مائل ہی نہیں ہوئی، وقت گزرے نہیں گزر رہا تھا، اپنے بیٹے عدیل کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ائیر پورٹ پر معلومات کرتا رہے شاید کچھ اچھی خبر سننے کو مل جائے، جدہ آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو تھا ہر طرح کی کوشش بے سود رہی، ایک دن ائر پورٹ سے فون آیا کہ کارٹن مل گیا ہے آ کر لے جائیے عدیل ائر پورٹ گیا، تلاش کیا پر نا امید ہو کر واپس آ گیا، رابطہ مسلسل جاری رکھا، چند دن بعد پھر اطلاع ملی کہ پیکٹ آ کر لے جائیں، اس بار میرے ایک دوست عبد الطیف جو ان دنوں جدہ کے ایک اسکول میں استاد ہیں مجھے اپنی کار میں ائیر پورٹ لے گئے، وہ اپنے کسی ساتھی کو رخصت کرنے ائیر پورٹ جا رہے تھے، از راہ عنایت مجھے بھی ساتھ لے لیا، کیونکہ میَں ان سے اس بات کا ذکر کر چکا تھا، ہم دونوں ائیر پورٹ پی آئی اے آفس گئے میری کتابوں کا پیکٹ آفس میں موجود تھا، جان میں جان آئی، اللہ کا شکر ادا کیا، آفس حکام نے بتا یا کہ یہ پیکٹ آپ کے سامان کے ساتھ ہوائی جہاز میں رکھا ہی نہیں گیا، شایدکسی مہربان نے لیپ ٹاپ سمجھتے ہوئے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا تھا، جب یہ راز افشا ہوا کہ اس میں تو کتابیں ہیں تو واپس ائر پورٹ پر چھوڑ دیا۔ پی آئی اے کے حکام نے بتا یا کہ یہ چند روز قبل اکیلا ہی کراچی سے آیا ہے۔ کسی نے درست کہا کہ ’اصل چیز معیار ہے۔ ایک چیز جو آپ کی نظر میں بے قیمت ہے وہی دوسرے کے لیے بیش قیمت ہے ،۔ یہ پیکٹ جو چند کتابوں پر مشتمل تھا میرے لیے اس کی بہت اہمیت تھی لیکن دوسروں کے لیے یہ چند کتابیں ہی تھیں۔ پیکٹ ملنے کے بعد میَں لکھنے کا سلسلہ شروع کر سکا۔ علامہ شبلی نعمانی کے صندوق کی چوری کا واقعہ میَں نے حکیم ڈاکٹر سید محمود احمد برکاتی کی کتاب ’’جادۂ نسیاں۔ بھولتی یادیں ‘‘ میں پڑھا، دلچسپ ہے، آپ بھی سنیے، اس سے کتاب کی وقعت عیاں ہوتی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی مولوی عبد الغفور، جو اکبری مسجد (درگاہ خواجہ صاحب، اجمیر)میں صدر مدرس تھے سے ملاقات کے لیے اجمیر گئے اور درگاہ خواجہ صاحب پہنچ کر وہاں ایک حجرے میں اپنا سامان رکھ دیا جو صرف ایک صندوق پر مشتمل تھا، مولوی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ یہ صندوق رکھ کر مجھے تلاش کرنے نکلے۔ مجھ سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے گھر قیام کے لیے اصرار کیا اور سامان یہاں منتقل کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ اس حجرے تک آیا، یہاں آ کر معلوم ہوا کہ وہ صندوق غائب ہے، چوری ہو گیا، پولیس میں رپورٹ لکھوا دی، اس زمانے کی پولیس فرض شناس ہوتی تھی، چنانچہ پولیس کا سپاہی بار بار یہ پوچھنے کے لیے آتا کہ اس صندوق میں کیا کیا تھا۔ علامہ صاحب ہر بار یہی جواب دیتے کہ چند کپڑوں کے علاوہ فلاں فلاں کم یاب اور نایاب کتابیں تھیں۔ آخر وہ سپاہی مجھے الگ لے جا کر کہنے لگا کہ ایک صندوق تو ہم نے دریافت کر لیا ہے مگراس میں تو نقد رقم بھی ہے اور آپ کے مہمان اس رقم کا تذکرہ ہی نہیں کرتے، اس لیے خیال ہوتا ہے کہ یہ صندوق ان کا نہیں ہے، میں نے مولانا شبلی سے دریافت کیا کہ اس صندوق میں کیا کیا تھا؟ تو انھوں نے پھر یہی جواب دیا کہ فلاں فلاں کم یاب و نایاب کتابیں تھیں۔ میں نے پوچھا، کوئی رقم بھی تھی؟ تو جواب دیا کہ، ہاں رقم تھی مگر اصل سرمایہ تو وہ کتابیں ہیں، میں نے پوچھا کہ وہ رقم کتنی ہے تو جواب دیا کہ پانچ ہزار روپے۔ اس پر میں نے جھنجلا کر کہا، کئی روزسے ہم پریشان ہیں اور پولیس بھی اور آپ نے اب تک کتابوں ہی کتابوں کا نام لیا ہے، رقم کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ چنانچہ میں نے غصے میں چیخ کر کہا ’اب تک کیوں نہیں بتایا کہ اس میں پانچ ہزار روپے بھی تھے ‘‘ پھر میں نے پولیس کو بتا یا کہ اس صندوق میں پانچ ہزار روپے بھی تھے، پولیس نے وہ صندوق مولانا کے حوالے کر دیا۔ علامہ شبلی نعمانی نے صندوق کھول کر سب سے پہلے اپنی کتابوں کو سنبھالا اور رقم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی،۔ یہ واقعہ آج سے سو سال پہلے کا ہے، پانچ ہزار کی رقم اس زمانے میں ایک حیثیت رکھتی تھی لیکن اہمیت کی بات ہے، علامہ شبلی نعمانی کے نزدیک بھاری رقم کی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ نایاب و نادر کتابیں اہمیت رکھتی تھی۔
عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہمارے ایک ساتھی تھے عبدالباری سراج احمد، یہ ایک پرائیویٹ کالج ’بلوچ انٹر میڈیٹ کالج، کے پرنسپل تھے، جب کالجوں کو قو می تحویل میں لے لیا گیا تو انھیں لیکچر ر بنا کر اس کالج میں ٹرانسفر کر دیا گیا، سیاسیات ان کا مضمون تھا، سیدھے سادھے بھلے آدمی تھے، حیدرآباد دکن سے ان کا تعلق تھا۔ انھیں سونے کے بسکٹ جمع کرنے کا شوق تھا، گلشن اقبال میں رہا کرتے تھے بس سے اتر تے تو راستے میں صرافا بازار پڑتا یہ وہاں سے اکثر سونے کی اشرفیاں خرید کر لاتے اور اسٹاف روم میں ان کی تشہیر کرنے کے علاوہ چائے میں ان اشرفیوں کو ڈال کر چمچے سے ہلایا کرتے ان کا خیال تھا اس طرح سونا ان کے جسم میں جا رہا ہے جو باعث تقویت ہے، ایک دن ہمارے ایک ساتھی غلام اصغر صاحب نے کہا کہ باری صاحب مجھے بھی یہ اشرفیاں دیں میں بھی چائے میں ڈال کر ان کی طاقت حاصل کر لوں انھوں نے وہ دو اشرفیاں اصغر صاحب کو دے دیں انھوں نے بھی انھیں اپنی چائے کی پیالی میں ڈالا، چمچے سے ہلایا اور چائے پینے لگے، چائے پیتے پیتے انھوں نے وہ اشرفیاں چھپا لیں اور باری صاحب سے کہا کہ باری صاحب یہ تو میرے پیٹ میں چلی گئیں، باری صاحب نے جب یہ سنا تو ان کی ہوائیاں اڑ گئیں، بیس گرام سونے کا معاملہ تھا، یہ ایک اچھا مذاق تھا، باری صاحب اکثر نئے نوٹوں کی گڈیاں بھی کالج لایا کرتے اور اسٹاف روم میں نکال کر ان کی تشہیر کیا کرتے، یہ ان کی عادت تھی، ایک دن کپڑے کے تھیلے میں نئے نوٹوں کی کئی گڈیاں تھیں، ان کے کہنے کے مطابق ایک ایک ہزار کے سو نوٹ تھے، جاتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے کہ مجھے کہیں جانا ہے پیسوں کا یہ تھیلا آپ لے جائیں کل مجھے لا کر دے د یجیے گا، میَں کالج سے نزدیک ہی رہا کرتا تھا، اعتماد کی بات تھی، میَں نے وہ تھیلا لے لیا اور اپنے ساتھ گھر لے گیا اگلے دن وہ تھیلا لا کر باری صاحب کے حوالہ کر دیا، انھوں نے گھر جا کر نوٹ گنے تو وہ ایک سو ایک تھے یعنی ایک لاکھ ایک ہزار روپے تھے، جب کہ انھوں نے اپنے طور پر سو نوٹ گن کر اس میں رکھے ہوں گے، اگلے روز کالج آئے مجھ سے کہنے لگے کہ صمدانی صاحب آپ نے نوٹ گنے تھے، میں نے کہا کہ نہیں مجھے ضرورت نہیں تھی نوٹ گنے کی، اب تو جناب انہوں نے اسٹاف روم میں میری ایمانداری کا خوب خوب پرچار کیا، کئی دن تک وہ اس بات کا ذکر کرتے رہے۔ باری صاحب اور اصغر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ میَں ۲۳ سال چھ ماہ عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں رہا پھر میرا تبادلہ گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد میں ہو گیا جہاں ۱۲ سال خدمت انجام دیں۔
سرگودھا یونیورسٹی میں گزارے ہوئے میرے روز و شب یاد گار اور میری زندگی کا سرمایا ہیں۔ سر کاری عہدہ ملازمت ختم کر چکا تھا، ڈاکٹر محمد فاضل صاحب جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے چیِر مین تھے جن سے میرے مراسم کی نوعیت برادرانہ تھی، انھوں نے از راہ عنایت میرا تقرر بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر کے اپنے شعبہ میں کرا دیا، یہ ان کی عنایت اور مجھ سے محبت تھی، میں نے بھی سرگودھا جانے کا فیصلہ کر لیا۔ مئی ۲۰۱۰ء کے ابتدائی دنوں میں مجھے سرگودھا یونیورسٹی کی جانب سے تقرر نامہ موصول ہوا، میں اس کے لیے پہلے سے تیار تھا چنانچہ میں نے کراچی سے رختِ سفر باندھا۔ جنت نگاہ شہر کراچی کو جہاں میرا سنہرا بچپن گزرا، رسیلی جوانی کی بہاریں پھلی پھولیں اور پھر بڑھاپے کی دہلیز پر بھی اسی شہر میں قدم رکھا۔ اس کی رونقوں کو، بہاروں اور محفلوں کو، دوستوں کو، عزیزوں کو، پیاروں کو الغرض ہر ایک کو چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ محسوس ہوتا ہے شہر سرگودھا میں کچھ خاص کشش تھی جس نے مجھے اتنے بڑے فیصلے پر آمادہ کر لیا۔
ہے عجب کشش اے سرگودھا تیری شام و سحر میں
کہ میں کراچی کی حسین رنگینیوں کو چھوڑ آیا
۱۲ مئی کی خوش گوار صبح سر گودھا میں ہوئی، ڈیوو بس اسٹاپ پر سرگودہ یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسزکے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل اور شعبے کے ایک سینئر استاد میاں محمد اسلم بھٹی جو میرے ایم اے کے کلاس فیلو بھی تھے مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ بس اسٹاپ سے جامعہ مشکل سے دس منٹ کے فاصلے پر ہے، فیصلہ ہوا کہ پہلے شیخ الجامعہ سے ملاقات کی جائے، چنانچہ ہم تینوں شیخ الجامعہ کے دفتر پہنچے، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر چودھری محمد اکرم سے ملاقات ہوئی، خوش ہوئے اور خوش اخلاقی سے ملے، فاضل صاحب کو میرے قیام کے بارے میں کچھ ہدایات دیں، پھر ہم نے ایڈیشنل رجسٹرار چودھری اظہارالحق صاحب سے ملاقات کی۔
جامعہ سر گودھا کا ٹیچرز ہاسٹل کا کمرہ نمبر ۵ میرے لیے مختص کیا گیا تھا۔ میں بائیلوجی کے استاد ڈاکٹر ظفر اقبال کا روم میٹ تھا، ڈاکٹر ظفر اچھے انسان تھے، تحقیق کے آدمی تھے، لکھنا اور چھپنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، ہاسٹل میں ٹیچرس کو انٹر نیٹ کی سہولتیں میسر تھیں، ظفر صاحب جتنی دیر کمرے میں ہوتے لیپ ٹاپ پر سرچنگ کرتے اور مضامین لکھتے رہتے، میَں اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف رہا کرتا، دونوں اپنے اپنے بیڈ پر لیپ ٹاپ پر مصروف عمل رہا کرتے۔ خاموش طبع تھے، کم سے کم گفتگو کیا کرتے تھے، اتفاق سے میَں بھی ان کا ہم مزاج تھا، ہم دونوں کے درمیان بہت کم جملوں کا تبادلہ ہوا کرتا، لیکن دونوں کو ایک دوسرے سے کبھی شکایت نہیں ہوئی، وہ اردو کم سرائیکی زیادہ بولا کرتے تھے، ان کی فیملی جھنگ میں تھی، وہ ہر جمعہ کی دوپہر اپنے گھر چلے جایا کرتے اور پیر کی صبح واپس آیا کرتے تھے، اس دوران میَں کمرے میں تنہا ہی ہوا کرتا۔ شہر نیا، لوگ نئے، ماحول اجنبی، البتہ خالصتاً علمی۔ زندگی کا پہلا تجربہ تھا گھر سے باہر رہنے کا وہ بھی ہاسٹل لائف۔ اکثر احباب سے سنا کرتا تھا کہ ہاسٹل لائف عام زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ میَں شام پانچ بجے تک شعبہ میں رہتا، عصر کے وقت شعبے سے واپس ہاسٹل آتا اور عصر کی نماز کے لیے مسجد چلا جاتا اور پھر کیمپس کے پر فضا ماحول میں کھو جایا کرتا۔ جامعہ سرگودھا کا عین وسطی حصہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے ، اس میں وسیع و عریض سر سبز کھیل کے میدان، جن کے گرد لہلہا تے درخت حسین نظارہ پیش کرتے اور شام کے اوقات میں ان میدانوں میں طلباء ہر قسم کے کھیلوں میں مصروف نظر آتے۔ ان میدانوں کے چاروں اطراف صاف ستھری سڑکیں صبح و شام جاگنگ ٹریک بنی ہوتی ہیں ،جہاں ہر عمر کے لوگ دوڑتے اور چہل قدمی کر تے نظر آتے۔ میَں بھی اس حسین منظر نامے کا حصہ بن گیا تھا۔ ٹیچرز ہاسٹل میں زمینی منزل پر ہمارے علاوہ کمرہ نمبر ۲ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب ہوا کرتے تھے، سرگودھا میں رہتے ہوئے تونسوی صاحب میرے قریبی دوست بن گئے۔
جامعہ کے ٹیچرز ہاسٹل میں میس کا انتظام ہاسٹل کے مکینوں کو از خود کرنا ہوتا تھا، جامعہ کی طرف سے ڈائننگ روم، کچن اور ایک عدد کک کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ نذر حسین ہمارا کک تھا، سابق فوجی تھا، برد بار اور اچھی عمر تھی، کھانا ٹھیک ہی پکا یا کرتا تھا۔ خاص طور پر مکس سبزی، کڑھی، کریلے جن میں کڑواہٹ نام کو بھی نہ ہوتی تھی اور آلو بھرے پراٹھے، میس سیکریٹری شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد راجپوت تھے، ان کا گھر اسلام آباد میں تھا وہ اکثر جمعرات کو اپنے گھر اسلام آباد چلے جاتے، اسی طرح وہ احباب جن کی فیمیلیز سرگودھا کے قرب و جوار میں تھیں وہ بھی اپنے اپنے گھروں کو سدھار جایا کرتے، ہاسٹل میں میرے اور ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کے علاوہ شاید ہی کوئی اور ہوا کرتا، شاہد راجپوت صاحب کی غیر موجودگی میں ہمارا کک یہ سمجھتا کہ اب اس کی بھی چھٹی ہے وہ ان احباب سے پہلے اپنے گھر روانہ ہو جاتا، گویا ہفتے کے تین دن جمعہ، ہفتہ اور اتوار ہمارے میس میں کھانے کی چھٹی ہونے لگی، ہمارے لیے یہ مشکل تھا کہ کیمپس کے باہر کھانا کھانے جایا کریں وہ بھی سخت سردی میں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر خالد ندیم اور طارق کلیم کی محبت اور خبر گیری کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا، سخت سردی میں یہ دونوں صاحبان موٹر سائیکل پر رات گئے کھانا لیے آیا کرتے، ان کے مزے دار کھانے بہت یاد آتے ہیں، خاص طور پر ساگ کا لطف میَں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔
ڈاکٹر خالد ندیم شعبہ اردو، جامعہ سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، تخلیقی سوچ رکھتے ہیں، لکھنا پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے، متعدد مضامین ادبی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں، انہوں نے اپنی ایک کتاب ’’مکاتیبِ ابنِ فرید بنام رفیع الدین ہاشمی‘‘ بھی مجھے عنایت فرمائی، لکھاریوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ سر گودھا میں قیام کے دوران خاکہ نویسی پر میری خاص توجہ رہی، شاید ماحول کا اثر تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوہاب خان سلیم پر ہاتھ صاف کیا اور ان کے خاکے قلم بند کیے، دونوں خاکے شائع ہو چکے ہیں۔ تیسرا خاکہ اپنی ہم پیشہ فرخندہ لودھی کا لکھنا شروع کیا، جو اردو و پنجابی ادب کی معروف لکھاری بھی تھیں، مجھے فرخندہ لودھی پر مواد درکار تھا، یونیورسٹی کے مرکزی لائبریری سے مجھے کچھ نہ مل سکا، ایک دن میَں نے ڈاکٹر خالد ندیم کو فون کیا اور مدعا بیان کیا، لمحے بھرکو سوچا اور گویا ہوئے، کچھ کچھ ذہن میں آ رہا ہے، میں آپ کو ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں۔ مشکل سے پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے میرے موبائل پر گھنٹی بجی، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے آپ کا مطلوبہ مواد مجھے مل گیا، میں کچھ ہی دیر میں آپ کے ہاسٹل آتا ہوں۔ میں نے کہا میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ فروری کا مہینہ سردی اپنی بہاریں دکھا رہی تھی، سورج غروب ہونے کے بعد تو سردی زیادہ ہی شدید ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سردی کی پروا نہ کرتے ہوئے میرے کمرے میں آ موجود ہوئے۔ کہنے لگے لیجیے آپ کی مشکل انشاء اللہ آسان ہو جائے گی، یہ کہہ کر انہوں نے بڑے سائز کا ایک ضخیم مجلہ میرے ہاتھ میں تھمایا، یہ تھا ’’مجلہ راوی ۲۰۱۰ء‘‘جی سی یونیورسٹی لاہور کا خصوصی مجلہ، اس مجلہ میں گوشہ میر تقی میرؔ، گوشہ ن۔ م۔ راشدؔ، گوشہ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، گوشہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علاوہ ’’گوشہ فرخندہ لودھی ‘‘ بھی تھا۔ اس لمحے میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میری ایک ہم پیشہ کے بارے میں یہ گوشہ مرحومہ کی علمی و ادبی خدمات کا کھلا اعتراف تھا،ا سیلمحے مجھے احساس ہوا کہ اب میَں یقیناً فرخندہ کو خراجِ تحسین پیش کر سکوں گا اور ایسا ہی ہوا، میَں نے فرخندہ پر اپنا خاکہ مکمل کر لیا۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی عنایتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔
اس موقع پر طارق کلیم کی محبتوں اور عنایتوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی، یہ ڈاکٹر تونسوی صاحب کے ایم فل کے شاگرد تھے انھوں نے تونسوی صاحب کے ساتھ ساتھ میرا اتنا ہی خیال رکھا جتنا وہ ڈاکٹر تونسوی کا رکھا کرتے تھے، گویا’ تمہیں چاہیں تمہارے چاہنے والوں کو چاہیں والی صورت تھی ،۔ خوب اچھے اچھے اور لذیذ کھانے کھلائے، یہ بھی سخت سردی میں موٹر سائیکل پر رات گئے آیا کرتے تھے، اسکول میں استادتھے، اکیڈمی میں بھی پڑھاتے تھے، صحافت سے بھی منسلک تھے، شاید اے آر وائی سے وابستہ تھے، مصروفیات کے با وجود اس قدر خیال۔ طارق کلیم کے ایک اور عمل کو میَں کبھی بھلا نہیں سکوں گا، اپنے استاد ڈاکٹر تونسوی کے تابع دار تو تھے ہی اپنے استاد کے دوست کے ساتھ بھی ان کی مہربانیاں اس بات کا واضح ثبوت تھیں کہ ان کی تربیت اچھے ہاتھوں میں ہوئی ہے، ہوا یہ کہ سرگودھا میں قیام کے دوران میرے دانت میں تکلیف شروع ہو گئی جو بڑھتی ہی گئی، تونسوی صاحب نے طارق کلیم سے کہا کہ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں، طارق کلیم نے اگلے ہی دن آنے کے لیے کہا، وہ طے شدہ وقت پر آ گئے مجھے اپنے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، انھوں نے دانت دیکھا اور کہا کہ اس کا علاج یہی ہے کہ اسے نکال دیا جائے ورنہ یہ آپ کو مسلسل پریشانی میں مبتلا رکھے گا، تین دن کی دوا لکھ دی، اب مجھے تین دن بعد پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا تھا، طارق کلیم پھر طے شدہ وقت پر میرے شعبے میں آ موجود ہوئے، وہ مجھے پھر ان ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، میرا دانت نکال دیا گیا، ڈاکٹر صاحب نے نہ تو پہلے فیس لی اور نہ ہی دوبارہ حالانکہ میَں نے طارق کلیم کو اشارہ بھی کیا جسے ڈاکٹر صاحب نے محسوس کر لیا کہنے لگے اشارے نہیں چلیں گے، بس ٹھیک ہے، ڈاکٹر صاحب طارق کلیم کے دوستوں میں سے تھے، جماعت اسلامی سے تعلق تھا، طارق کلیم نے بتا یا کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر سرگودھا سے الیکشن بھی لڑا تھا اور کم ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ اچھے ڈاکٹر تو ہیں ہی ساتھ ہی نیک انسان بھی ہیں، انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں جامعہ سرگودھا میں استاد ہوں تو زیادہ محبت سے ملے۔
حیات ہوٹل سرگودھا کے شاعروں اور دانشوروں کا مرکز بھی ہے، غالباً اس کے مالک ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے قدر داں ہیں، یہاں ادبی محفلوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر تونسوی صاحب نے کہا کہ آج محفل مسالمہ ہے اس میں جانا ہے، کہنے لگے کہ اگر آپ نے امام حسین کی شان بھی کچھ کہا ہے تو آپ کو بھی موقع مل سکتا ہے، میَں نے کہا کہ میَں صرف آپ کو اور دیگر احباب کو سنوں گا، مغرب کی نماز کے بعد ہم حیات ہوٹل پہنچ گئے، ایک چھوٹے سے کمرے میں محفل مسالمہ کا اہتمام کیا گیا تھا، شاعر حضرات پہنچ گئے، سب نے امام عالی مقام کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب، عابد خورشید نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ دیگر کے علاوہ صاحبزادہ پروفیسر محمد عبد الرشید صاحب بھی موجود تھے انھیں پہلی بار قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، سرگودھا کی تاریخ پر ان کی تحریر کردہ کتاب سے میَں استفادہ کر چکا تھا۔
جامعہ سرگودھا سے میری واپسی ایک ماہ قبل ہی طے ہو چکی تھی، کنٹریکٹ کے مطابق میَں نے ایک ماہ قبل انتظامیہ کو مطلع کر دیا کہ ۲۸ فروری ۲۰۱۱ء جامعہ میں میرا آخری ورکنگ ڈے ہو گا، ایسا ہی ہوا، یہ بات عام ہوئی کہ میَں جامعہ چھوڑ کر جا رہا ہوں تو میرے کرم فرماؤں نے مجھے روکنے کی کس کس طرح کوشش نہیں کی، میرے دل میں ان سب کے لیے بہت احترام ہے، میرے عزیز طلباء نے اجتماعی طور پر اور فرداً فرداً مجھ سے کہا کہ میَں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کروں، میَں ان سب کو اپنی مجبوریاں بتا تا رہا، میرے بعض طلباء نے پروگرام بنا یا کہ وائس چانسلر صاحب کے پاس جا کر احتجاج کیا جائے، یہ بات میرے علم میں آئی تو میَں نے ان طلباء کو بہت سمجھا یا اور انہیں ایسا نہ کرنے کی تاکید کی، یہ مجھ سے محبت تھی، جمعے کی نماز میں وائس چانسلر صاحب کے پی اے مقصود صاحب سے ملاقات ہوئی، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس بعض لوگوں کے فون آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم صمدانی صاحب کو نہ جانے دیں اور ان کی خواہش کے مطابق انھیں فیمیلی رہائش فراہم کریں، یہ میرے چاہنے والوں کی مجھ سے محبت تھی، احمد شاہ صاحب جو لائبریری میں تھے انھوں نے بھی مجھے بار ہا فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی، جب میَں نے انھیں اپنی مجبوری بتائی تو وہ مجھے سرگودھا شہر میں کئی مکان کرائے کے دکھانے کے لیے لے گئے، میَں ان کی اس محبت کو کبھی نہ بھلا سکوں گا، میَں نے وائس چانسلر صاحب کے پی اے سے کہا کہ یہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی مجھ سے چاہت ہے، میَں اس کی قدر کرتا ہوں، میرا نوٹس پیریڈ چل رہا تھا، انھی دنوں وائس چانسلر صاحب اچانک لائبریری اور شعبے میں آ گئے، فاضل صاحب چھٹی پر تھے اور میَں قائم مقام چیِر مین تھا، وائس چانسلر صاحب نے شعبے کے مختلف حصے اور وہ کمرے دیکھے جو میڈیکل کالج کے لائبریری بلڈنگ سے منتقل ہو جانے کی صورت میں خالی ہوئے تھے، میَں وائس چانسلر صاحب کو تفصیل بتا تا رہا، وائس چانسلر صاحب کے علم میں یہ بات تھی کہ فاضل صاحب چھٹی پر بہاولپور گئے ہوئے ہیں۔ جب وائس چانسلر صاحب واپس جانے کے لیے لائبریری سے باہر آئے تو میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے، کہنے لگے ۲۸ فروری کو آپ جا رہے ہیں، اگر آپ رہائکی وجہ سے جا رہے ہیں تو ہم آپ کو رہائش فراہم کر دیتے ہیں، پھر انھوں نے اپنے پی اے کو اشارہ کیا اور کہا کہ صمدانی صاحب کو رہائش فراہم کریں، جب وہ یہ سب کچھ کہہ چکے، میَں نے احترام سے عرض کیا کہ سرمجھے بعض مجبوریوں کے باعث جانا ہی ہو گا، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میَں جامعہ میں آ سکا، آپ کی اس عنایت کا بھی شکریہ۔
جامعہ سرگوھا کے شعبہ اردو نے سر گودھا جیسے شہر میں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں پاکستان ہی نہیں ، ہندوستان، بنگلہ دیش، مصر، امریکہ سے دانشوروں نے بھر پور شرکت کی۔ کراچی سے سحر انصاری اور جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ظفر اقبال نے شرکت کی، ان احباب سے ملاقات بھی ہوئی، سرگودھا کہنے کو تو شاہینوں کا شہر ہے ،لیکن عوام الناس کے لیے ائیر پورٹ کی سہولت سے محروم ہے، یہاں پہنچنے کے لیے اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد سے تین گھنٹے کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ اس مشکل کے باوجود عالمی اردو کانفرنس میں مندوبین نے بھر پور شرکت کی، مجھے بھی اس کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا، کئی سیشنز ہوئے جن میں ماہرین نے مقا لات پیش کیے، مشاعرہ بھی ہوا، شاعروں نے خوبصورت کلام پیش کر کے داد وصول کی۔ پروفیسرڈاکٹر محمد اسلمؔ انصاری کے دو خوبصورت شعر یاد رہ گئے ؎
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھُلا یا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تونے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
میں پیدائشی بیماری کی پوٹلی رہا ہوں، پیدا ہونے کا وقت نزدیک آیا تو دائی نے اعلان کیا کہ نو مولود کو الٹا پیدا ہونا ہے، اس اطلاع نے دو زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا، خوشی افسردگی میں بدل گئی، لوگ خوشی کے ترانے گانے کے بجائے دو زندگیوں کی دعا کرنے لگے۔ گویا دنیا میں آنے سے پہلے ہی میَں نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ اپنی ماں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ا للہ نے دونوں زندگیوں کو سلامت رکھا اور میَں اس دنیا میں آ گیا۔ یہ تھا دنیا میں میری زندگی کا آغاز۔ زندگی کے اس طویل سفر میں مجھے متعدد بار مختلف بڑی بیماریوں نے آ دبوچا، نوبت اسپتال میں داخل ہونے اور سرجری کی آ گئی، اللہ کے فضل و کرم سے میَں ہر بار صاف بچ نکلا۔ گویا مجھ پر اللہ کا خاص کرم بھی رہا اور میری ماں کی دعائیں بھی میرے شامل حال رہیں۔ بقول سورج نرائن ؎
غموں کی دھوپ مجھے راکھ کس طرح کرتی
میں اپنی ماں کی دعاؤں کے سائباں میں تھا
میَں منتوں اور مرادوں سے تو نہیں ہوا تھا البتہ اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا، یعنی پہلوٹھی کا تھا۔ بتانے والوں نے بتا یا کہ ابھی میں نے چلنا بھی شروع نہیں کیا تھا کہ میرے بدن پر آبلے نمودار ہو گئے، امی نے بتا یا تھا کہ ہمارے ہی خاندان کی کسی مہربان نے جو اولاد سے محروم تھی کچھ کارستانی مجھ پر کرا دی تھی، ایک دن میری بنیان خون میں لت پت ملی، کسی بڑی بزرگ کے کہنے پر امی نے اس بنیان پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دی، امی نے بتا یا کہ جیسے جیسے وہ بنیان جل رہی تھی اور شعلے فضا میں بلند ہو رہے تھے، ساتھ ہی میرا بدن آبلوں سے بھر تا جا رہا تھا۔ اس بیماری نے مجھے اور میرے والدین کو کافی عرصے مشکل میں مبتلا رکھا، ڈاکٹری علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج بھی ہوا تب جا کر مجھے اس بیماری سے نجات ملی، اس بیماری کی باقیات آج بھی میرے بدن پر موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو بلاوجہ پریشانی میں مبتلا کرنے والوں کو نیک ہدایت دے۔ عام طور پر بچے ایک سال کی عمر میں کھڑا ہونا یا قدم اٹھانا شروع کر دیتے ہیں کہتے ہیں کہ میَں دو سال کا ہو گیا تھا قدم اٹھ کر ہی نہیں دے رہے تھے، گمان گزرا کہ کہیں پیروں کی کوئی تکلیف تو نہیں، اصلی گھی کی خوب خوب مالش کی گئی تب جا کر میرے قدم اُٹھے۔ کوئی سات آٹھ سال کا ہوا تو کانوں میں تکلیف شروع ہو گئی، بہت علاج ہوا لیکن افاقہ نہیں ہوا، ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا، سول اسپتال میں ایک ڈاکٹر جاننے والا تھا اس کے توسط سے آپریشن ہوا، تب جا کر اس مرض سے نجات ملی۔ بواسیر کا مرض لاحق ہو گیا، اس کا ڈاکٹری علاج کے ساتھ روحانی علاج بھی ہوا، تب اس مرض سے نجات مل، بڑا ہوا، گردے میں پتھری ہو گئی پھر مثانے میں پتھری ہو گئی، عباسی شہید اسپتال میں ڈاکٹر انور سہیل کے توسط سے کیتھیڈر پاس کر کے پتھری کو باہر نکالنے کی تدبیر کی گئی لیکن پتھر نے باہر آنے سے صاف ان کار کر دیا، پھر آپریشن کی تاریخ طے ہوئی، پتھر خوف سے خود بہ خود باہر آ گیا۔ اگست ۱۹۸۲ء کی بات ہے مجھے فسچیو لا (Fistula)ہو گیا، آپریشن ہوا، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اسپتال میں جو کیماڑی میں ہے آپریشن ہوا، ڈاکٹر رضا نے یہ آپریشن کیا، میَں کوئی ۱۹ دن اسپتال میں رہا، مجھے یہ سہولت مغیث چچا کی وجہ سے میسر آئی، اس وقت وہ کے پی ٹی میں ملازم تھے اور وہاں کی یونین میں سرگرم عمل بھی، یہ وہ وقت تھا جب حمیرا چچی حیات تھیں، اسپتال کے نزدیک ہی وہ رہا کرتے تھے، دونوں نے میرا بے انتہا خیال رکھا، اللہ تعالیٰ حمیرا چچی کی مغفرت فرمائے، بہت نیک اور ہمدرد خاتون تھیں۔
پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کے دوران میَں رات دن کمپیوٹر پر کام کرتا رہا، کام تو ہو گیا، ڈگری بھی مل گئی لیکن یہ ڈگری مجھے تحفے میں کمر کی تکلیف دے گئی، اب میں کمر کے مہروں کی تکلیف میں مبتلا ہو چکا تھا، ہر طرح کا علاج ہوا لیکن یہ تکلیف میری زندگی کی ساتھی بن چکی ہے۔ میَں ان بیماریوں سے بچتا بچاتا، زندگی کے نشیب و فراز سے ہوتا ہوا عمر کے ۶۳ ویں سال میں پہنچ گیا، مارچ ۲۰۰۹ء میں کالج کی ملازمت سے ریٹائر ہو کر ایک سال سرگودھا یونیورسٹی میں پڑھا کر واپس کراچی آ گیا، خیال یہ تھا کہ بہت کما لیا، بہت ملازمت کر لی، کام بھی بہت کر لیا، لکھنے لکھانے کا عمل جاری رکھوں گا، اللہ کے گھر ’خانہ کعبہ، حاضری دوں گا، اپنے گناہوں کی معافی طلب کروں گا، سرکار دو عالم سر ور کائنات حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم کے روضہ اقدس پر سلام عرض کرنے مدینہ منورہ جاؤں گا، الحمد اللہ یہ سب کچھ ہوا، آج یہ تحریر میں سعودی عرب کی سرزمین پر ہی لکھ رہا ہوں لیکن یہاں حاضری سے قبل مجھ پر کیا گزری، میرے دل نے میرے ساتھ کیا تماشا کیا، یہ قصہ دلچسپ بھی ہے، سبق آموز بھی، اس میں مزہ بھی ہے، سنجیدگی بھی، اللہ پر بھروسا اور ایمان کی مثال بھی۔ میَں دردِ جگر، دردِ کمر کے ساتھ ساتھ دردِ ددل کا مریض بن چکا ہوں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ؎
ایک دکھ ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے
دردِ دل، دردِ جگر، دردِ کمر تینوں ہیں
میَں کالج کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد ۱۱ مئی ۲۰۰۹ء کو جامعہ سرگودھا سے منسلک ہو گیا، میرے سرگودھا چلے جانے کے ایک ماہ بعد ہی میرے بڑے بیٹے عدیل نے خوش خبری سنائی کہ اس کا بلا وا سعودی عرب سے آ گیا ہے، کچھ دن بعد میری بڑی بہو مہوش اور پوتا بھی سعودی عرب چلے گئے، ابھی چند ماہ ہی گزرے ہوں گے کے شہناز نے اطلاع دی کہ نبیل کو سعودی عرب سے ملازمت کا پروانہ آ گیا ہے اور وہ دونوں یعنی نبیل اور ثمرا نے بھی رخت سفر باندھا، میَں دونوں کو الوداع کہنے کراچی آتا رہا۔ اب میرا گھر میرے بچوں سے خالی ہو چکا تھا، بیٹی کی شادی تو کئی سال قبل ہی ہو چکی تھی۔ اب دونوں بیٹوں کی جانب سے تقاضا ہوتا رہا کہ ہم دونوں سعودی عرب آ جائیں، ہم نے جانا تو تھا ہی اب ہمارے جانے کی صورت بدل گئی تھی۔ میَں مارچ ۲۰۱۰ء کوسر گودھا سے مستقل کراچی واپس آ گیا۔ اب مجھے کسی بھی وقت سعودی عرب جانا تھا، ویزے کا انتظار تھا، تیاریاں شروع ہو چکی تھیں، دوسری جانب میرا دل اندر ہی اندر تماشا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، اپریل ۲۰۱۰ء کے پہلے ہفتے میں اچانک میرے الٹے ہاتھ میں درد ہوا، جس نے شدت اختیار کر لی، نوبت عام ڈاکٹر سے کارڈک سینٹر تک پہنچ گئی۔ ۱۲ اپریل کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈزیزز(KHID) اسپتال میں داخل ہوا، پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق نے انجو گرافی(Angiography) تجویز کی، اگلے ہی دن میَں آپریشن ٹیبل پر تھا، میرے دائیں جانب ڈاکٹر اور دیگر عملہ اپنے تمام تر ساز و سامان کے ساتھ ہرے رنگ کے ایپرن اور ٹوپی پہنے مجھ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہے تھے، میرے بائیں جانب اوپر اسکرین لگی تھی، اس کے نیچے ایک کمپیوٹر رکھا تھا، پیرا میڈیکل اسٹاف نے میری دائیں ٹانگ کے اوپر کی جانب سے کارستانی شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا پاس کیا ہوا کیتھیڈر میرے دل میں پہنچ گیا، اوپر اسکرین پر میرا دل واضح طور پر لشکارے مار رہا تھا، مشکل سے پندرہ منٹ بعد کام تمام ہوا، مجھے آپریشن بیڈ سے اسٹریچر پر منتقل کر دیا گیا، رپورٹ یہ دی گئی کہ دل کی ایک شریان بند ہے، فوری طور پر انجو پلاسٹی (Angioplasty) کر کے شریان Arteryمیں ا سٹینٹ (stent)ڈالنے کی ضرورت ہے، میرے تینوں بھائی اور مغیث چچا جو آپریشن تھیٹر کے باہر موجود تھے انہوں نے ڈاکٹر کو گرین سنگنل دے دیا، کچھ دیر بعد مجھے دوبارہ آپریشن ٹیبل پر منتقل کر دیا گیا، وہی عمل پھر سے شروع ہوا، اس بار کیتھڈر کے ذریعہ اسٹینٹ بند شریان تک پہچانا تھا، ڈاکٹر کے ہاتھ میری دائیں ران پر حرکت کرتے محسوس ہو رہے تھے جب کہ اس کی نظریں اُسی اسکرین پر تھیں، میَں بھی اپنے دل اور اس کے اندر ہونے والی کیفیت کو مسلسل دیکھ رہا تھا۔ بیچ میں ایک وقت ایسا آیا کہ میرے دل میں شدید درد ہونے لگا، میری شکایت پر ایک نرس نے میری زبان کے نیچے اسپرے کیا، جس سے درد فوری طور پر ختم ہو گیا، اس بار یہ عمل آدھے گھنٹے کا تھا، ڈاکٹر محمد اسحاق نے یہ عمل کیا، اس طرح آناً فاناً میں میَں عام انسان سے کارڈک پیشنٹ بن گیا۔ ہندوستان کے ایک شاعر اقبال اشعر کا ؔخوبصورت شعر ؎
وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں ایک زمانے سے
بیماریوں کے حوالے سے اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ میری پوری زندگی بیماریوں سے لڑتے جھگڑتے ہی گزری لیکن یہ بھی نہیں کہ ان بیماریوں نے مجھے کچھ کرنے نہیں دیا، میَں نے اپنی زندگی بھر پور انداز سے گزاری، بیماریاں آتی رہیں اور علاج کے بعد میَں نارمل لائف شروع کر دیا کرتا تھا ؎
عمر تو بیماریوں سے کھیلتے ہی گزری اپنی رئیسؔ
ایک دل ہی بچا تھا سو وہ بھی کر لے کسر پوری
دل کی تکلیف کیوں ہوئی؟ میَں تو عام زندگی میں بہت محتاط رہا تھا، خوش خوراک بھی نہیں ہوں، مرغن کھانے بھی نہیں کھائے، پھر میرے دل کو یہ کیا ہوا، کیوں اس نے اس عمر میں مجھے پریشان کیا، یہ راز اللہ کے سوا کسی کو نہیں معلوم، بیماری بھی اللہ کی طرف سے آیا کرتی ہیں، لگتا یہی ہے کہ مجھ سے ہی کوتاہی ہوئی اور میَں ہی اس کی صحیح دیکھ بھال نہ کر سکا، بہ قول سیماب اکبر آبادی ؎
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
دل کی بیماری بھی کیا خوب ہوتی ہے، ہر دم ہر لمحے اسی کے خیال میں گم، انسان ایک ایک قدم احتیاط سے اور پھونک پھونک کر اٹھانے لگتا ہے، اس کی سوچ کا محور وہ از خود ہو کر رہ جاتا ہے۔ جس لمحے دل ذرا بے چین ہوتا ہے دنیا کی ہر شے بیمار محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہی صورت میری بھی ہے، لیکن یہ دل ہی تو ہے جو مجھے جینے کا حوصلہ دیتا ہے، مجھ سے یہ کہتا ہے کہ انسان کے تمام اعضاء بیمار ہو سکتے ہیں تو دل کیوں نہیں، تمہارے ساتھ تو یہ ہو چکا ہے، کیا تمہاری آنکھیں آج بھی وہی ہیں، کیا تمہارے کان خراب نہیں ہوئے، کیا تمہیں پتھری کی تکلیف نہیں ہوئی، کیا تم بواسیر کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئے، کیا تمہاری کمر نے تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا، اب اگر میں کمزور پڑ گیا ہوں، تو اس میں میرا کیا قصور ہے، میں بھی تو آخر تمہارے جسم کا ایک ادنیٰ ساعُضوہوں، میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے، تمہیں حوصلہ دیا ہے، تمہیں برائی سے، غلط کاموں سے بچائے رکھا ہے، تمہیں بہکنے سے بچائے رکھا ہے، اب میں بھی تمہاری طرح چونسٹھ برس کا ہو گیا ہوں، میرے اعصاب بھی کمزور پڑ چکے ہیں، مجھے بھی سہارے کی، حوصلے کی ضرورت ہے، چلو اب ہم مل کر اللہ کا شکر ادا کریں، اللہ ہمیں ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہم اپنی باقی ماندہ زندگی کو حوصلے اور ہمت کے ساتھ گزار دیں۔ رضی اختر شوق نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ کیا اس دل کو بیماری لگی ہے
لگے ہے شہر سب بیمار ایسا
میَں فلاحی، سماجی، نیم سیاسی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ہمیشہ سرگرمی سے حصہ لیتا رہا ہوں، سرکاری ملازمت سے قبل سیاست میں بھی سرگر می سے حصہ لیا، فلاحی ادارے تاج ویلفیئر سینٹر کے پرچم تلے بے شمار فلاحی کام کیے، کالج میں ملازم ہو جانے کے بعد پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن سندھ کا صدر، سیکریٹری کی حیثیت سے کئی سال مصروف عمل رہا، پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کا ۱۹۷۴ء سے سرگرم کارکن ہوں، اسکول آف لائبریرین شپ کے تحت سرٹیفیکیٹ کورس سے مسلسل منسلک رہا۔ اب اس کا ڈائریکٹر ہوں، لائبریری پروموشن بیورو کے تحت کتابوں کی اشاعت اور رسالے کی تدوین و اشاعت کا فریضہ بھی ۱۹۷۸ء سے انجام دے رہا ہوں، بزم اکرم، سندھ پروفیسرز ایند لکچر ر ایسو سی ایشن کا کارکن ہی نہیں رہا بلکہ سندھ کی سطح پر کئی سال الیکشن آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا رہا۔ فلاحی، ادبی، ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرنے میں پیش پیش رہا ہوں۔
خاکے میں عام طور پر خاکہ نگار شخصیت کی شکل و صورت کے بارے میں یہ بھی بتاتا ہے کہ چہرہ کتابی ہے یا گول، نقشہ پتلا ہے یا نقوش تیکھے ہیں، داڑھی ہے توکیسی ہے، پیشانی کشادہ ہے یا آنکھوں سے لگی ہوئی ہے، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک ہے یا وہ کوری ہیں، ناک ستواں ہے یا پھیلی ہوئی، بال کالے گھنے ہیں یا چٹیل میدان ہے، رنگ کالا ہے یا گورا، قد لمبا ہے یا چھوٹا، جسم فربا ہے یا سیخ سلائی، مقصد شخصیت کے ظاہری نقوش کی تصویر کشی ہوتی ہے تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہو سکے کہ زیر مطالعہ شخصیت چہرے مہرے سے کیسی ہے۔ تو جناب اپنی شکل و صورت بس گزارے لائق ہے، غالبؔ کا یہ شعر ہی کافی ہے ؎
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
میَں اعتدال پسند واقع ہوا ہوں، کبھی اپنی بساط سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں کی، ہمیشہ چادر کو دیکھ کر پیر پھیلائے ہیں، سادہ زندگی بسر کی ہے، فلیٹ خریدنے کی استعداد تھی سوفلیٹ ہی میں رہا، گاڑی کبھی بہت اچھی نہیں رکھی مہران پر اکتفا کرتا رہا، جب تک صحت اچھی تھی موٹر سائیکل استعمال کرتا رہا، زندگی کا زیادہ سفر موٹر سائیکل پر ہی بسر ہوا، میری شریک سفر بھی قناعت پسند اور میری ہم خیال ہیں، انھوں نے ہمیشہ میری خوشیوں کا خیال رکھا، میری سوچ اور خواہش کو ترجیح دی، میرے بچوں نے بھی مجھ سے کبھی ایسی فرمائش نہیں کی جو میرے بس میں نہیں تھی، میرے بیٹے عدیل اور نبیل میری سوچ کے مطابق میرے ہم قدم رہے، تعلیم حاصل کی اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔ میری دونوں بہوؤیں مہوش اور ڈاکٹر ثمرا سادگی پسند ہیں، کم کو زیادہ جانتی ہیں، میری بیٹی فاہینہ بھی صابر اور قناعت پسند ہے، تھوڑے کو بہت جانتی ہے، شادی عاصم مشکور سے ہوئی، خوش و خرم ہیں، عاصم ایک خود دار اور محنت کر کے آگے بڑھنے والوں میں سے ہے، میری نواسی نیہا، نواسہ ارحم اسکول جانے لگے ہیں۔ میرا پوتا صائم میری جان ہے، اسے دیکھ کر میری روح خوش ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کی عمر دراز کرے۔
میرے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر نبیل کو اللہ تعالیٰ نے ایک پھول عطا کیا تھا، میَں نے اس کے کانوں میں اذان بھی دی اور اس کا نام محمد سبحان تجویز کیا۔ افسوس میرا یہ پوتا صرف چھ دن دنیا میں رہ کر دینا سے رخصت ہو گیا۔ مجھے اس کا بہت ملال اور دکھ ہے۔ معصوم بچے اپنے والدین کی بخشش کا ذریعہ بنیں گے۔
زندگی میں جِنّاَت کے حوالے سے بھی تجربات ہوئے، جِن انسانی روپ میں مجھ سے مخاطب بھی ہوئے، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی لیکن نقصان نہیں پہنچایا۔ جِنّاَت کی موجودگی ٍسےا نکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اچھے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کو پریشان کرنے والے بھی، ہماری امی پر ایک جِن صاحب آ گئے تھے، کافی پریشانی ہوئی، اس کی تفصیل میَں نے امی کے خاکے میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ یہاں ایک اور واقعہ بیان کروں گا۔ میرے ایک دوست کی بیوی (وہ بھی پروفیسر ہے ) اس مشکل سے دو چار ہوئی۔ پروفیسرنی صاحبہ کی بعض حرکات ایسی تھیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ معاملہ جِنّاَت کے اثر وغیرہ کا ہے۔ اسے کسی عامل کے بارے میں معلوم ہوا، سردیوں کا زمانہ تھا میرے دوست نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں مجھے کسی نے ایک عامل کے بارے میں بتا یا ہے جو ڈیفنس کے پاس کسی کچی بستی میں رہتا ہے اس کے پاس بیگم کو لے جانا ہے اچھا ہے ایک سے دوہوں گے، نہ معلوم کیا صورت ہو، میں تیار ہو گیا، اس کی طبیعت واقعی خراب تھی، میں اس کے ساتھ ہو لیا، مغرب کے بعد وہ عامل مریضوں کو دیکھا کرتا تھا، ہم بعد نماز مغرب وہاں پہنچ گئے۔ کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے ان کو فارغ کرنے کے بعد اس عامل نے پروفیسرنی صاحبہ کو اپنے دائیں جانب بٹھا دیا، اس کے برابر میرا دوست بیٹھا تھا، عامل نے تفصیل معلوم کی اور عمل شروع کر دیا، خاتون کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا، بڑی بڑی آنکھیں باہر کی جانب، ہم سب کو گھور گھور کر دیکھنے لگی، عامل نے یہ محسوس کیا کہ جِن آسانی سے نہیں جائے گا چنانچہ اس نے اپنے کارندوں کو کوئلے دہکانے کے لیے کہا، کمرے کی لائٹ مدھم کر دیں، عامل بہت زیادہ موٹے دانے والی تسبیح لے کر کھڑا ہو گیا اور تسبیح پڑھنے لگا، اتنے میں کوئلے دھک گئے، عامل نے دھکتے کوئلوں کو ایک مخصوص بر تن میں ڈال کر پروفیسرنی صاحبہ کی ناک کے نیچے کیا اور ان پر چھوٹی سرخ مرچیں جن پر اس نے تسبیح پڑھنے کے بعد پھونک ماری تھی کوئلوں پر ڈال دیں، مرچوں کی دھونی سے ہم سب کا برا حال لیکن وہ خاتون جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا، اس عامل نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کے بال پکڑے دوسرے ہاتھ سے مرچوں کی دھونی اس کی ناک میں زبر دست طریقے سے دی، کافی دیر کے بعد اس پر کچھ اثر ہوا، عامل اس سے مخاطب ہوا، پوچھا کہ ’بتا تو کون ہے ،؟ مردانہ آواز میں جواب دیا کہ’ میں جن ہوں ‘‘ تعداد کیا ہے، اکیلا ہوں، اس عورت کو چھوڑ دے، کہنے لگا کہ یہ میری بیوی ہے میں نہیں جاؤں گا وغیرہ وغیرہ، عامل نے یہ عمل دہرایا، مرچوں کی دھونی نے اس کمرے میں بیٹھے تمام لوگوں کا برا حال کر دیا تھا لیکن وہ عورت اطمینان سے تھی، آخر کار عامل نے ’جن، کو جانے پر مجبور کر دیا، اس نے جانے کا وعدہ تو کر لیا لیکن فوری طور پر نہیں گیا، ہم یہ سمجھے کہ وہ چلا گیا، واپسی کاسفر شروع ہوا، میرا دوست پہلے ہی بیمار تھا اس صورت حال کے بعد اسے سردی اور بخار ہو گیا، ڈیفنس سے گلشن اقبال تک کا سفر خاصا طویل تھا، میرے دوست کے لیے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا، اس نے مجھ سے گاڑی چلانے کے لیے کہا، یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، وہ جب اگلی سیٹ پر بیٹھنے لگا اور بیوی کو پیچھے سیٹ پر بٹھا نے کے لیے دروازہ کھولا تو اس کی بیوی نے مر دانہ آواز میں کہا ’’ ہٹو میں آگے بیٹھوں گا‘‘، میں گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا، میں نے جب یہ جملہ سنا تو میرے ہوش گم ہو گئے میں سمجھ گیا کہ ابھی وہ یعنی ’جِن ، اس عورت میں موجود ہے، اب کیا ہو سکتا تھا، میرا دوست پیچھے بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کی کوئی۱۲ سال کی بیٹی بھی پچھلی سیٹ پر تھی، اللہ کا نام لے کر ہم روانہ ہوئے، وہ عورت نظر نیچی کیے خاموش بیٹھی تھی، گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، میں گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ راز داری کے ساتھ اس عورت پر نظر رکھے ہوئے تھا، میں بھی یہ چاہتا تھا کہ خاموشی ٹوٹے، اسی لمحے میرے دوست نے اس کی خیریت پوچھی، شاید وہ بھی چاہتا تھا کہ خوف کا ماحول خوش گوار ماحول میں بدل جائے، اس کے بولتے ہی وہ عورت مردانہ آواز میں چلائی ’’خاموش بیٹھا رہے ‘‘، اس کے بعد وہ میری جانب مخاطب ہوئی، کہنے لگی ’’ تو خاموشی سے گاڑی چلا‘‘، میں نے اپنے دوست سے کچھ کہا، اس کے جواب میں وہ عورت مردانہ آواز میں مجھ پر برس پڑی، بولی، ’’ خاموش نہیں رہے گا، ابھی گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا‘‘، اس کے اس جملے نے میرے ہوش گم کر دیے، میں اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ اگر اس نے چلتی گاڑی سے دھکا دے دیا تو کیا ہو گا، میرے بدن کا ایک ایک رُواں کھڑا تھا، بدن کپکپا نے لگا، وہ یہ جملہ کہہ کر خاموش ہو گئی، میں بدستور گاڑی چلاتا رہا، جس قدر قرآنی آیات یاد تھیں وہ تمام مسلسل پڑھتا رہا اور دعا کرتا رہا کہ کسی بھی طرح منزل آ جائے، جب ہم شہید ملت روڈ کے پل پر پہنچے تووہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی، کہنے لگی ’’ پان کھلا اورسگریٹ پلا‘‘، میں نے جواب دیا کہ میں دونوں چیزیں نہیں استعمال کرتا اپنے میاں سے کہو وہ کھلائے گا، اب تو جناب وہ زور سے دھاڑی کہنے لگی ’سگریٹ کی دکان پر گاڑی روک، سنا نہیں تو نے، میں نے کہا کہ اچھا دکان آ جائے تو روکتا ہوں لیکن میں نے گاڑی کی اسپیڈ کم نہیں کی، وہ بھی اس کے بعد خاموش ہو رہی، گھر آ گیا، خدا کا شکر ادا کیا، چابی اپنے دوست کے حوالے کی اور اپنے گھر کی راہ لی۔ میرے دوست نے بتا یا کہ وہ رات بھر سوتی رہی، صبح اٹھی تو اسے ان تمام باتوں کا علم نہیں تھا کہ اس نے رات میں دو مردوں کو کس قدر خوف میں مبتلا کیا، اس نے بتا یا کہ اس عمل کے بعد اس کی بیوی ٹھیک ہو گئی۔ یہ میری زندگی کا نہ بھولنے والا واقعہ ہے، جب کبھی مجھے اس کا خیال آ جاتا ہے ’ جِن، سے ہونے والی گفتگو تازہ ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ سے جِنّاَت پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا۔
خطوط نویسی کو ادبی صنف میں ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے عام ہونے سے قبل تک خطوط ہی ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنے اور معلومات کے تبادلے کا اہم ذریعہ تھے، برقی ڈاک (E-Mail)نے خطوط نویسی کو تہس نہس کر دیا۔ ماضی میں لکھاریوں نے خطوط کے ذریعہ اپنے ادبی جوہر دکھائے، کتابی شکل میں شائع ہونے والے خطوط ادبی تاریخ میں امر ہو چکے ہیں۔ غالب علامہ اقبال، شبلی نعمانی، ابن انشا کے خطوط ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ میَں نے جب سے لکھنے کی دنیا میں قدم رکھا، اس بات کی عملی کوشش کی کہ میرے نام لکھی گئی ہر ہر تحریر خواہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو محفوظ کر لوں اور میَں نے ایسا ہی کیا، میرے علمی ذخیرہ میں ایک ہزار کے قریب خطوط محفوظ ہیں، یہ خطوط و تحریریں تمام طرح کے احباب کی ہیں جن سے میرا خط کتابت کا تعلق رہا۔ بعض اہم شخصیات جن کے خطوط میرے نام آئے اور وہ میرے پاس محفوظ ہیں ان میں حکیم محمد سعید، ڈاکٹر عبد المعید، ڈاکٹر انیس خورشید، محمد عادل عثمانی، ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری، الحاج محمد زبیر، میاں الطاف شوکت اور دیگر شامل ہیں۔
اپنی تلاش کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کوشش کی ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی کو اختصار سے خاکے کی صورت میں قلم بند کر سکوں تاہم بعض موضوعات طویل ہو گئے انہیں مختصر کرنے سے بات مکمل طور پر واضح نہ ہو پاتی، بہت سی باتیں ذہن سے محو ہو چکی ہیں۔ اپنی تلاش کی کوشش میَں نے اپنے سعودی عرب میں قیام کے دوران ہی کی، جس کی بنیادی وجہ وقت اور کراچی کے ہنگاموں اور روز مرہ کے معمولات اور جھمیلوں سے بے فکری تھی، آخر میں اپنی روداد حیات کو سیماب اکبر آباد کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں ؎
مری روداد، رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
جدہ، سعودی عربیہ۲۳اکتوبر ۲۰۱۱ء، مطابق ۲۵ ذیعقد ۱۴۳۲ھ
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید