FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

جنگلی مینڈھے کا شکار

اور دوسری کہانیاں

               صبا شقیق

 

جنگلی مینڈھے کا شکار

مجھے برسوں سے یہ خواہش تھی کہ پہاڑوں پر رہنے والے شاندار گول گول سینگوں والے مینڈھے کا شکار کروں۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے ماہر شکاری ہونے کے ساتھ ساتھ پہاڑوں پر چڑھنے کا تجربہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور یہ تجربہ حاصل کرنے میں مجھے کافی عرصہ لگا۔ کینیڈا کے شمال میں یوکن نامی خوبصورت وادی ان پہاڑی مینڈھوں کا قدیم مسکن ہے۔

سو میں نے اور میرے دوست مائیکل نے اسی کا انتخاب کیا۔ ہم جہاز کے ذریعے برفانی چوٹیوں سے گھری اس وادی میں پہنچے۔ ہمارا گائیڈ ڈین تھا جو کہ کئی سال پہلے اس وادی کی سیر کو آیا اور پھر اس کی خوبصورتی میں اس قدر کھو گیا کہ یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اب وہ یہاں آنے والے سیاحوں اور شکاریوں کی رہنمائی کرتا تھا اور انھیں وادی کی خوبصورت جگہیں دکھانے کے ساتھ ساتھ شکار کے بہترین مقامات تک بھی لے کر جاتا تھا۔

ہم نے وادی کے اندر تک پہنچنے کے لیے کرائے پر جیپ حاصل کی اور تمام ضروری سامان جس میں خیمے، پانی، ٹن خوراک، پنیر، مونگ پھلی، بسکٹ، مچھلی، سوپ کے ٹِن وغیرہ شامل تھے جیپ پر لادے۔ اپنے کیمرے ہم نے اپنے رُک بیک میں رکھے۔ سامان پر ترپال کسی گئی اور وادی کے دامن تک ہمارے سفر کا آغاز ہوا۔ ہم نے پہلا کیمپ کساوا جھیل کے کنارے لگایا۔ یہاں نظارہ بے حد دلفریب تھا۔ جھیل کے سبزی مائل شفاف پانی میں نظر آتی برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہم شکار بھول کر قدرت کی رنگینی میں کھو گئے۔

یوں جیسے ہم طلسم ہو شربا میں ہوں۔ جھیل تک ہم سہ پہر کو پہنچ گئے تھے۔ مگر اب شام ہو چکی تھی، ڈین نے کہا ’’اس وقت پہاڑوں پر چڑھنا مشکل اور جان لیوا ہو سکتا ہے، سو آرام کرتے ہیں اور صبح تازہ دم ہو کر مینڈھوں کو ڈھونڈنے نکلیں گے۔ کیونکہ اکثر یہ مینڈھے ایسی جگہ پر نظر آتے ہیں جہاں انسان کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ سو پہاڑوں میں دور تک چلنا پڑتا ہے۔ اس لیے جوانو! آرام کرو اور صبح کے ایڈونچر کے لیے تیار اور تازہ دم ہو جاؤ۔‘‘

ہم نے ڈین کی بات سے اتفاق کیا۔ ہم نے کیمپ میں الاؤ جلایا اور مچھلی کو پکانے لگے۔ برفانی چوٹیوں سے آتی یخ بستہ ہوا اور بھی ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ ایسے میں گرم گرم مچھلی کھانے کا اپنا ہی لطف آرہا تھا۔ کھانے کے بعد ہم نے کافی پی اور پھر سونے کے لیے ہم تینوں اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے۔

اگلے روز ہم علی الصبح ہی بیدار ہو گئے۔ سورج ابھی نکل رہا تھا ہم نے ناشتہ کیا اور جیپ میں سوار ہو گئے۔ ہماری رفتار بہت آہستہ تھی کیونکہ ہم اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جا رہے تھے۔ ڈین نے کہا کہ اوپر پہاڑوں پر بھی نظر رکھو کیونکہ صبح صبح وہاں مینڈھوں کے ملنے کے امکانات ہوتے ہیں جب کہ پہاڑوں کے پیچھے تو کسی بھی وقت مل سکتے ہیں مگر وہ جان جوکھوں کا کام ہے۔‘‘ بلندی بتدریج بڑھ رہی تھی اور راستہ بھی تنگ ہوتا جا رہا تھا۔

ایک نسبتاً کھلی جگہ پر پہنچ کر ہم نے جیپ روک دی کیونکہ یہاں سے ہمیں پیدل اتر کر پہاڑوں پر چلنا تھا۔ ہم نے اپنے اپنے رُک بیک اٹھائے۔ بندوقیں تھامیں اور چل پڑے۔ ابھی ہم کچھ ہی دیر چلے تھے کہ ہم نے ایک ڈھلوان پر جنگلی بھیڑیں دیکھیں۔

مگر یہ صرف مادہ اور بچے تھے ان میں کوئی نر مینڈھا نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے انھیں جانے دیا۔ ہم نے شکار کے لیے باقاعدہ پرمٹ حاصل کیا تھا اور اس پرمٹ کے مطابق آٹھ سال سے کم عمر مینڈھا شکار کرنا غیر قانونی تھا۔ ہم دوپہر تک پہاڑ پر چڑھتے رہے مگر ہمیں ہمارے مطلب کا کوئی مینڈھا نظر نہیں آیا۔

دوپہر کو ہم نے ایک چٹان پر بیٹھ کر رک بیک میں ساتھ لائے ہوئے سینڈوچ کھائے جو ہم نے صبح ناشتے میں ساتھ لے جانے کی نیت سے ہی زیادہ بنائے تھے۔ پھر ہم نے تھرماس سے چائے پی، سورج سر پر آ چکا تھا اور اس کی تپش اب جھلسا رہی تھی، سو ہم چٹان کی اوٹ میں لیٹ کر کچھ دیر سستانے لگے۔

ڈین نے کہا کہ اگر اب ہم مزید اوپر چڑھے تو پہاڑ سے اترتے ہمیں اندھیرا ہو جائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ خطرہ مول نہ لیا جائے اور واپسی کا سفر شروع کر دیا جائے۔ میں اور مائیک بھی تھک گئے تھے سو ہم نیچے اترنے لگے مگر ہماری نظریں مینڈھا تلاش کرتی رہیں۔

جب ہم جیپ تک پہنچے توسورج غروب ہو رہا تھا۔ سوجھیل کنارے اپنے کیمپ تک آتے ہمیں رات ہو گئی۔ کھانا کھانے کے بعد ہم الاؤ کے گرد بیٹھے تھے جب ڈین نے کہا کہ بہتر ہے کہ ہم اپنا کیمپ وادی کے کچھ اور اندر لے جائیں اور مزید آگے جا کر مینڈھے تلاش کریں۔

ہم نے ڈین کی تجویز سے اتفاق کیا۔ اگلے روز ہم صبح سویرے اٹھے۔ناشتہ کر کے اپنے خیمے سمیٹے اور جیپ پر لاد کر روانہ ہو گئے۔ آج ہم دوسری سمت کے پہاڑوں کی طرف جا رہے تھے۔ دوگھنٹے کی مسافت کے بعد ہمیں دور پہاڑوں پر بھیڑوں کا ایک گلّہ نظر آیا۔ ہم جیپ روک کر دور بینوں سے دیکھنے لگے۔

اس غول میں مادائیں بچے اور تین خوبصورت نر بھی شامل تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں ہماری مرضی کا مینڈھا تو نظر آ گیا تھا۔ مگر وہ ہم سے بہت دور تھا اور یہاں سے نشانہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ پھر غول اوپر کی جانب چڑھ رہا تھا اگر وہ نیچے اتر رہا ہوتا تو تب بھی امید تھی کہ ہم راستے میں چھپ کر ان کے نیچے پہنچنے کا انتظار کرتے۔

مگر اب تو بس ہم ہاتھ ہی ملتے رہ گئے کیونکہ اگر ہم بھی ان کے پیچھے اوپر جاتے تو اتنی دیر میں وہ مزیداوپر پہنچ گئے ہوتے، سو تعاقب بھی بیکار ہی جاتا۔چنانچہ ہم واپس جیپ میں بیٹھ گئے اور سفر پھر سے شروع ہوا۔ ڈین کے مطابق آج رات ہم ایک برفانی نالے کے قریب کیمپ لگانے والے تھے۔

تقریباًگھنٹہ بھر کی مزید مسافت کے بعد ہم ایک برفانی نالے کے قریب پہنچ گئے۔ اس سے کچھ فاصلے پر ہم نے جیپ روکی اور خیمہ زن ہو گئے۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم ڈین کی رہنمائی میں پیدل ایک سمت کو چل پڑے اردگرد کے مناظر انتہائی خوبصورت تھے۔ گھنٹہ بھر چلنے کے بعد ہمیں ایک غول نظر آیا مگر اس میں مادائیں اوربچے تھے۔

کوئی نر مینڈھا نہیں تھا، ہم مایوس سے ہو گئے۔ اس پر ڈین نے ہمیں بتایا کہ بعض اوقات بہت ہفتوں بعد بھی بہت سے شکاری ناکام ہی لوٹتے ہیں کیونکہ نر مینڈھا مشکل سے ہی ہاتھ آتا ہے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا ’’جوانو! تم تو دو دن میں ہی ہمت ہار گئے۔‘‘ پھر ڈین نے کہا کہ کچھ فاصلے پر ایک ندی ہے اور ندی کے پار ایک دشوار گزار چوٹی ہے۔

چوٹی کا راستہ خطرناک اور پر پیچ ہے مگر وہاں نر مینڈھا یقینی طور پر مل سکتا ہے۔ ہم نے ڈین سے کہا کہ وہ ہمیں فوری طور پر وہاں لے چلے۔ اس پر ڈین نے ہمیں سمجھایا کہ اس کے لیے ہمیں صبح سویرے نکلنا ہو گا تاکہ ہم شام تک واپس آ سکیں۔ اور اب تو ویسے ہی شام ہو رہی تھی۔ برف پوش چوٹیوں کے پیچھے ڈوبتا سورج بہت دلفریب لگ رہا تھا ہم کچھ دیر اس نظارے سے لطف اندوز ہوتے رہے اور پھر اپنے خیموں کی طرف چل دئیے۔

اگلی صبح ہم سورج نکلتے ہی بیدار ہو گئے۔ ناشتہ کر کے اپنے رک بیک تیار کیے اور ندی کی طرف چل دئیے۔ندی پر ایک سولہ انچ کی ایلومینیم کی کشتی موجود تھی۔ ہم کشتی میں بیٹھ کر ندی کے دوسرے کنارے پہنچے تو ڈین نے سامنے موجود ایک چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج یہاں تمھیں مینڈھا ضرور ملے گا۔ سورج سر پر آچکا تھا، گرمی بڑھ رہی تھی۔

ہم نے چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر چڑھ کر چوٹی کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا۔ راستہ واقعی بہت مشکل تھا، پتھر پیروں کے نیچے سے سرک جاتے تھے سو ہم نے اپنی واکنگ اسٹیکس نکال لیں اور محتاط طریقے سے اوپر چڑھنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ہم پسینے سے شرابور ہو چکے تھے۔ ہماری پانی کی بوتلیں بھی گرم ہو چکی تھیں اور ان میں پانی بھی کم ہی رہ گیا تھا۔

اب چڑھائی بہت دشوار ہو گئی تھی اور راستہ بے حد تنگ ہو گیا تھا، اتنا کہ ایک وقت میں ایک شخص ہی اوپر چڑھ سکتا تھا سو ہم ایک دوسرے کے پیچھے احتیاط سے قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہے تھے۔ ابھی تک کوئی مینڈھا تو کیا مادہ اور بچے تک بھی نظر نہیں آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم چوٹی کے اوپر پہنچ چکے تھے مگر یہاں بھی کوئی مینڈھا نہیں تھا۔

مجھے ڈین پر غصہ آنے لگا کہ اگر یہاں مینڈھے نہیں تھے تو وہ ہمیں جان جوکھوں میں ڈال کر یہاں تک لایا کیوں؟ میں ابھی ڈین سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ بائیں طرف موجود ایک چٹان کی طرف بڑھ گیا اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دوربین سے دیکھنے لگا اور پھر جب وہ مڑا تو اس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ ہماری ریاضت رائیگاں نہیں گئی تھی۔

ہم بھی چٹان کے پاس پہنچے اور جب ہم نے آنکھوں سے دور بین لگائی تو ایک دم بے ساختہ ایک ساتھ میرے اور مائیکل کے منہ سے نکلا ’’واہ کیا شاندار مینڈھے ہیں۔‘‘ دراصل چٹان کے دوسری جانب ایک وسیع و عریض چراگاہ تھی جس میں ایک بہت بڑا غول چر رہا تھا۔ اس میں بہت سے مینڈھے شامل تھے۔

غول کے اور ہمارے درمیان خاصا فاصلہ تھا، اتنی دور سے نشانہ خطا ہونے کا امکان زیادہ تھا اور ہم ایک بار پھرخالی ہاتھ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ سو ہم پیٹ کے بل رینگتے ہوئے غول کے قریب ہونے لگے۔ قریب ہونے پر ہمیں ایک بہت بڑا اور نہایت شاندار مینڈھا نظر آیا۔

ڈین نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’دوست! اس سے شاندار مینڈھا میں نے آج تک خود بھی شکار نہیں کیا۔ چلو،باندھو نشانہ۔‘‘ مگر اچانک اس مینڈھے کو جانے کیا سوجھی وہ چوٹی کے کنارے پر کھڑا ہو گیا۔ ’’شاید وہ دوسری طرف اترنے لگا ہے۔‘‘ ڈین بولا۔

مائیک کہنے لگا ’’جلدی کرو کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔‘‘ میں نے جلدی سے شست باندھی اور رائفل کا ٹریگر دبا دیا۔ گولی سیدھی مینڈھے کے سر میں لگی۔ وہ بھاگا اور اس کے وہ دو قدم اسے نیچے تنگ چٹانی کھائی میں گرانے کا سبب بن گئے۔

ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور جلدی سے چوٹی کے کنارے تک پہنچ کر نیچے دیکھنے لگے۔ باقی مینڈھے اور بھیڑیں اس دوران بھاگ اُٹھی تھیں۔ مینڈھا جس جگہ گرا تھا وہاں تک پہنچنا بے حد مشکل نظر آ رہا تھا۔ مگر ہم نے چوٹی کے کنارے پر موجود ایک درخت سے رسی باندھی مائیک کو اوپر ہی چھوڑا اور میں اور ڈین کھائی میں اتر گئے۔

قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ مینڈھا تقریباً بارہ سال کا تھا۔ اس کے سینگ شاندار تھے مگر چونکہ نر مینڈھے اکثر سینگ لڑاتے رہتے ہیں سو اس کے سینگوں پر اس کی جنگوں اور فتوحات کے تمغے ثبت تھے۔ وہ کافی وزنی تھا۔ سو ڈین نے کہا کہ ہم کھائی میں ہی اس کی کھال اتارتے ہیں اور سینگ کھوپڑی، کھال اور کچھ گوشت لے کر چلتے ہیں اس کی ہڈیوں کا وزن اٹھا کر چوٹی تک پہنچنا اورپھر وہاں سے نیچے کیمپ تک پہنچنا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘‘

میں نے اس کی تجویز سے اتفاق کیا۔ ہم نے مینڈھے کی کھال اتارنی شروع کی اور پھر اس کا گوشت ہڈیوں سے علیحدہ کیا۔ کھال اور کچھ گوشت میں نے اپنے بیگ میں رکھا جب کہ سینگوں والی کھوپڑی اور باقی گوشت ڈین نے اپنے بیگ میں رکھا۔ جس کھائی میں ہم موجود تھے وہاں موجود پتھر ہمارے حرکت کرنے سے مسلسل سرک رہے تھے اور گوشت بناتے، کھال اتارتے ہم اس جگہ سے سو گز دور آچکے تھے جہاں کہ ہم اترے تھے۔

سو ہم نے محتاط انداز میں واپسی کا سفر شروع کیا۔ مائیک اوپر سے آواز لگا لگا کر ہماری ہمت بڑھا رہا تھا۔ رسی ہمارے بہت کام آئی اور ہم اسے تھام کر چوٹی کے اوپر پہنچ گئے۔ کچھ دیر وہاں لیٹ کر ہم نے گہرے گہرے سانس لیے۔ ڈین نے کہا ’’ہمیں جلدی چوٹی سے نیچے اتر جانا چاہیے کیونکہ شام ہونے والی ہے۔

ہم نے جلدی جلدی قدم بڑھائے مگر پھر بھی ہمیں چوٹی سے اترتے اندھیرا ہو گیا۔ اندھیرے میں ہمیں ندی کا راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ڈین نے قطب نما نکال کر اس کی مدد لینے کی کوشش کی اور پھر گھنٹہ بھر بھٹکنے کے بعد ہم ندی کنارے پہنچ چکے تھے۔ کشتی وہیں موجود تھی، ہم نے اپنی ٹارچ چلائی اور کشتی میں چپو چلاتے ہوئے دوسرے کنارے تک پہنچ گئے۔

رات گہری ہو رہی تھی اور ہم بری طرح تھک گئے تھے۔ مگر خیموں تک پہنچنا بھی ضروری تھا۔ رات کے اندھیرے میں برفانی نالے کا شور ہمیں ہمارے خیموں کی طرف لے جانے میں معاون ثابت ہو رہا تھا کیونکہ خیمے نالے سے کچھ ہی دور تھے۔ ہم اپنی ٹارچوں کی روشنی میں آگے بڑھ رہے تھے۔

گھنٹہ بھر مزید چلنے کے بعد ہم اپنے خیموں کے قریب پہنچ گئے۔گو کہ ہم تھکن سے چور اور نڈھال تھے مگر اس تھکن میں بھی ایک سرشاری اور خوشی تھی۔ دو دن خوار ہونے کے بعد آج تیسرے دن ہمیں کامیابی ملی تھی۔ مائیک کہنے لگا ’’سننے میں کس قدر آسان لگتا ہے، جنگلی مینڈھے کا شکار… مگر آج پتا لگا کہ شکار تو شکار ہوتا ہے چاہے شیر کا ہو یا مینڈھے کا… ضبط، حوصلہ، صبر اور اعصاب سب کا امتحان ہوتا ہے۔‘‘

’’جی جی آپ بہت بہادر اور حوصلہ مند ہیں۔‘‘ میں نے کہا اور ہمارے قہقہے فضا میں گونجنے لگے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2013/06/jungle-maindak-ka-shikar#sthash.tvzgM3kx.dpuf

 

الاسکا کا بھالو

میرا  نام جِم ہے اور میں ایک عرصہ سے الاسکا کے برفانی علاقے میں آنے والے شکاریوں کی مدد اور رہنمائی کا کام کر رہا ہوں۔ اپنے وسیع تجربے سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ ہر شکار دوسرے شکار سے مختلف ہوتا ہے اور شکار کے دوران یہ سوچنا کہ جیسا آپ نے منصوبہ بندی کی ہے ویسا ہی ہو گا،سب آپ کی سوچ کے مطابق چلے گا۔

ایک بہت بڑی غلطی ہے۔کیونکہ ہر شکار آپ کو حیران کر سکتا ہے اور آپ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک شکار الاسکا کے بھورے بھالو کا ہے۔ اس بھالو کو تو میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا جو اپنے پہاڑوں کا صحیح معنوں میں بادشاہ تھا اور ہمیں اپنے علاقے میں دیکھ کر وہ بزدلوں کی طرح پیٹھ دکھا کر بھاگا نہیں تھا بلکہ ہم پر حملہ آور ہو گیا تھا۔

جیمز بہت ماہر شکاری تھا اور ڈنمارک سے امریکا اور پھر الاسکا آیا تھا، خصوصاً الاسکا کے بھورے بھالو کے شکار کے لیے۔ میں جب اس سے ملا تو بے حد متاثر ہوا اور خوشی تو مجھے ہمیشہ ہی شکاریوں سے مل کر ہوتی تھی جو اپنے شوق کے لیے یہاں آتے تھے۔ ان کا جوش اور شوق ہمیشہ ہی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

الاسکا میں شکار کرنا بے حد مشکل ہے۔ بہادر، ہمت والے، صبر والے اور موسم کی سختی کو سہنے والے ہی یہاں شکار کر سکتے ہیں، کیونکہ اس برفانی علاقے کا درجہ حرارت اکثر اوقات نقطۂ انجماد سے نیچے ہی رہتا ہے۔ مگر اب شکاریوں کے لیے دستیاب گرم خیموں اور چولہوں نے شکار میں کافی آسانیاں پیدا کر دی ہیں، ورنہ پہلے اکثر شکاری الاسکا میں رات گزارنے کے بجائے ناکام لوٹ جانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔

میں علاقے سے اچھی طرح واقف تھا مگر پھر بھی میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ فلاں مقام پر بھالو ضرور ملے گا۔ سو میں، جیمز اور آٹو جو کہ ہمارا قلی اور باورچی تھا، الاسکا کے برفانی جنگل کی طرف بڑھے۔ آٹو ہمارا سامان اٹھانے کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر خیمہ لگانے اور کھانا بنانے کے لیے ہمارے ساتھ چل رہا تھا۔ ہم نے اپنا پہلا کیمپ جس جگہ لگایا وہاں دیودار کے درختوں اور منجمد جھیلوں کا سلسلہ 20 میل تک پھیلا ہوا تھا۔

پہاڑوں سے گھرا یہ مقام بے حد پُرسکون اور خوبصورت تھا۔ ہم نے خیمے لگائے اور دائیں طرف موجود ایک برفانی چٹانی سلسلے پر چڑھنے لگے۔ کچھ دیر تک چٹانوں پر چڑھنے کے بعد ہمیں بھالو کے تازہ قدموں کے نشان نظر آئے۔ ہم پُر جوش ہو گئے اور آگے بڑھنے لگے مگر کافی چڑھائی کے بعد بھی ہمیں کوئی بھالو نظر نہ آیا تو ہم نے خیموں میں واپسی کا ارادہ کیا۔کیونکہ برفانی چوٹیوں سے گھری اس وادی میں اب شام اتر رہی تھی۔

اَلاسکا میں بہار کا غروب آفتاب کا منظر ایسا دلفریب ہوتا ہے کہ کوئی مصور وہاں ہو تواس کا برش خود بہ خود تصویر بنا ڈالے اور کوئی شاعر وہاں ہو تواس کے ذہنِ رسا سے شعر موزوں ہونے لگیں۔ہلکی سنہری دھوپ تمام چوٹیوں کو سونے کا بنا دیتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے کاسنی پردے میں ڈھل جاتی ہے۔

مئی میں سورج شام کو تقریباً10 بجے غروب ہوتا ہے اور آدھی رات کے قریب پوری طرح تاریکی پھیل جاتی ہے۔ بہار کے موسم کی رات بھی یہاں بہت دلفریب ہوتی ہے۔ آسمان صاف رہتا ہے اور ان گنت تارے آسمان پر جگمگ جگمگ کرتے رہتے ہیں۔ شکار کے لیے اس سے بہترین صورت حال الاسکا میں اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

شام ہو گئی تو ہم چوٹی سے اتر کر اپنے خیموں میں آ گئے آٹو نے ہمارے لیے لذیذ کھانا تیار کر رکھا تھا اور خیموں میں آرام دہ بستر بھی ہمارے منتظر تھے۔مگر کھانے کے بعد ہم ایک دوسرے سے باتیں کرنے بیٹھے تو ایک دوسرے سے مزید واقفیت ہوئی۔ مجھے پتا چلا کہ جیمز ڈنمارک کے ایک شکاری رسالے کا مدیر ہے۔

خود بھی دنیا کے 33سے زائد ممالک میں بے شمار مختلف جانوروں کا شکار کر چکا ہے۔ اس نے شکاریات پر کتابیں بھی لکھ رکھی تھیں۔ یہاں آنے والے شکاری ہمیشہ اپنی بہادری اور مہارت کی داستانیں سناتے ہیں۔ مگر جیمز واقعی ایک منجھا ہوا تجربہ کار شکار ی تھا۔ وہ افریقہ میں ہاتھی اور جنگلی بھینسے کا شکار بھی کر چکا تھا۔

دو بار وہ شیر کے شکار کے لیے بھی افریقہ گیا تھا مگر قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور اب وہ یہاں الاسکا کے بھورے بھالو کے شکار کے لیے آیا تھا۔ مجھے امید تھی کہ میں اسے درست رہنمائی اور معاونت فراہم کر کے کامیابی سے ہمکنار کراؤں گا واپسی پر اس کے پاس اپنی زندگی اور اپنے رسالے کے لیے بھورے بھالو کے شکار کی ایک ناقابل فراموش داستان ہو گی۔

بھورے بھالو کا شکار اکثر بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔ خصوصاً الاسکا کے بھالو تو اس قدر چالاک ہو چکے ہیں کہ وہ شکاری کو پہچان لیتے ہیں اور اس کا ارادہ پڑھ لیتے ہیں اور اکثر اوقات شکاری پر حملہ کر دیتے ہیں۔ اکثر اناڑی شکاری بھالو کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور ضبط اور برداشت کا سبق بھول کر ٹھیک سے نشانہ باندھے بغیر بندوق چلا دیتے ہیں۔

ایسا نشانہ کبھی ٹھیک نہیں لگتا اور بھالو غضب ناک ہو کر شکاری پر چڑھ دوڑتا ہے۔ یہاں آنے والے کئی شکاری یہ غلطی کرتے ہیں اور پھر مجھے ہی بھالو کو گولی مار کر ان کی جان بچانی پڑتی ہے۔ مگر مجھے امید تھی جیمز جیسا ماہر شکاری پرسکون ہو کر شکار کرے گا اور کوئی غلطی نہیں کرے گا۔

اگلی صبح بھی موسم خاصا دلفریب تھا۔ برفانی چوٹیوں سے گھری اس وادی کے سکوت نے ہمیں مدہوش کر دیا تھا۔ آج ہمارا ارادہ چٹانوں کی پچھلی جانب جانے کا تھا جہاں کچھ غار تھے۔ ہمیں امید تھی کہ ہمیں وہاں کوئی بھالو ضرور ملے گا۔ اور کچھ ہی دیر بعد واقعی ہمیں ایک غار کے سامنے بھالو اپنے تازہ شکار سے پیٹ بھرتا نظر آیا۔

ہم نے دوربین لگا کر اسے قریب سے دیکھنا چاہا تو جانے کیسے اس نے ہماری آہٹ پا لی اور ایک دم غائب ہو گیا۔ ہم قریب ہی جھاڑیوں میں چھپ کر بھالو کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگے۔ صبح سے دوپہر ہو گئی مگر بھالو واپس نہیں آیا۔ الاسکا میں بھالو اکثر پہاڑوں سے اتر کر نیچے وادی میں چلے جاتے ہیں۔

مگر اس کا شکار چونکہ یہاں موجود تھا اس لیے ہمیں امید تھی کہ وہ ضرور واپس آئے گا۔ گرمی بڑھ رہی تھی کیونکہ سورج سر پر آ گیا تھا۔ ہم شام تک وہیں بیٹھے رہے مگر بھالو لوٹ کر نہ آیا۔ اگلے دو دن بھی ہم اس جگہ جا کر جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھے رہے کہ شاید بھالو لوٹ آئے مگر وہ نہیں آیا۔

اس دوران ہم نے کئی نر اور مادہ برفانی سؤر دیکھے۔ چند چھوٹے برفانی بھورے ریچھ بھی اٹھکیلیاں کرتے اور برف سے پھسلتے ہوئے ہماری نظروں میں آئے۔ مگر جیمز کو چھوٹے بھالو کا شکار پسند نہیں تھا۔ اس کی تمنا ایک بڑے اور شاندار بھالو کو شکار کرنے کی تھی۔

اگلے روز میرا دوست مِلر بھی ہمارا ساتھ دینے کے لیے آ گیا۔ اس نے کہا کہ ہمیں زیادہ بلندی پر جانا چاہیے۔ سو ہم نے اپنے خیمے سمیٹے اور برف پوش چوٹیوں کی آغوش میں جا پہنچے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے ہمیں شام ہو گئی تھی۔ سو آٹو کیمپ لگانے لگا اور ہم اردگرد کا جائزہ لینے لگے۔ اچانک جیمز کی نظر اوپر پڑی۔

ایک بڑا بھورا بھالو ہمارے خیموں کے عین اوپر ڈھلوانوں سے نیچے اتر رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ہمارے خیموں کی طرف ہی آ رہا ہے۔ ہم پُر جوش ہو گئے کہ شکار خود ہماری طرف آ رہا ہے۔یہ کافی بڑا بھالو تھا۔ ہم نے اپنی دوربینیں آنکھوں سے لگا لیں اور بھالو کا جائزہ لینے لگے۔

خیمے کی جانب اترتے اترتے اس نے اچانک راستہ بدلا اور مخالف سمت میں ایک چوٹی پر چڑھنے لگا۔ ہمیں تو یہ ایک ناممکن چڑھائی لگ رہی تھی مگر وہ ایک ماہر کوہ پیما کی طرح برف میں راستہ بناتا اوپر چڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ہم آنکھوں میں حیرانی لیے اسے دیکھتے رہ گئے اور وہ چوٹی کے دوسری جانب پہاڑوں میں غائب ہو گیا۔ وہ الاسکا کا باسی تھا اور اس کا روزانہ کا معمول تھا برف زاروں پر چڑھنا اور اترنا مگر ہم پھر بھی اس کی مہارت کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔

اگلی صبح ہم جلدی بیدار ہو گئے اور آٹو کے بنائے ہوئے لذیذ ناشتے کے بعد ہم نے ان غاروں کی طرف رختِ سفر باندھا جو مِلر نے دیکھ رکھی تھیں۔ بہار کے اوائل کا یہ ٹھنڈا ٹھنڈا دن تھا مگر غار تک پہنچتے پہنچتے دن پورا چڑھ آیا اور درجۂ حرارت بڑھنے لگا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد ہم نے ایک بھالو دیکھا جو بہت دور ایک چوٹی پر درخت سے پتے کھا رہا تھا۔

الاسکا کے یہ بھالو گوشت خور ہونے کے ساتھ ساتھ سبزی خور بھی ہوتے ہیں۔ شکار نہ ملے تو درختوں کے پتوں پر بھی گزارہ کر لیتے ہیں۔ وہ بھالو بھی شاید بھوکا تھا اور ہرن کی مانند ادھر سے ادھر چر رہا تھا۔ وہ ہم سے بہت دور تھا اس لیے اس کا نشانہ لینا ہی بے کار تھا۔ سو ہم نے غاروں کی جانب سفر جاری رکھا۔

جب ہم اس علاقے میں پہنچ گئے تو ہم نے اپنی رفتار دھیمی کر دی اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے لگے اور پھر جب ہم ایک چٹان کی پچھلی جانب سے سامنے کی طرف آئے تو اس کے عین سامنے ایک غار کے دہانے پر ایک بھالو بیٹھا اپنے تازہ شکار سے شِکم پُری کر رہا تھا۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ چٹان کے ساتھ ہی گھنی جھاڑیاں تھیں۔

ہم ان میں چھپ کر آگے بڑھنے لگے ہم گھٹنوں کے بل رینگ رہے تھے۔ مگر اچانک ہوا کا رخ تبدیل ہو گیا اور بھالو کی تیز ناک نے ہماری بُو پا لی۔ وہ پلک جھپکنے میں شکار کو چھوڑ کر غار کے پچھلی جانب ایک بڑی برفانی ڈھلوان کے پیچھے غائب ہو گیا۔ یہ ایک بہت بڑا بھالو تھا۔ بالکل ویسا ہی جس کا شکار کرنے کی تمنا جیمز کو ڈنمارک سے الاسکا لائی تھی۔

ہم نے اسے ڈرا دیا تھا۔ مگر ہم جانتے تھے کہ وہ اپنے شکار پر دوبارہ واپس ضرور آئے گا۔ ہم نے غار کے اردگرد کے علاقے کا جائزہ لیا۔ غار کے شمال میں ایک بڑا میدان تھا جس میں کچھ فاصلے پر بید کے درختوں کے جھُنڈ تھے۔ باقی طرف چٹانیں تھیں اور کہیں کہیں جھاڑیاں بھی تھیں۔ نیچے کی طرف جاتی ایک چٹان کے کناروں پر خاصی گھنی جھاڑیاں تھیں۔

بھالو کے لیے گھات لگا کر بیٹھنے کے لیے یہ جگہ بہترین تھی۔ یہ جگہ مناسب نشانے کی حد سے ذرا دور تھی مگر اس کا فائدہ یہ تھا کہ بھالو اگر بھاگ جاتا تو ہم بھاگتے بھالو پر ایک نہیں کئی بار گولی چلا سکتے تھے۔کیونکہ یہ ایک ایسا مقام تھا کہ وہ اچانک نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا تھا۔

ہم نے وہاں چھپ کر کچھ دیر بھالو کا انتظار کیا مگر جب شام ہونے لگی تو ہم اپنے خیموں کی طرف چل دئیے۔ آٹو نے آج پھر ہمارے لیے ایک شاندار اور مزیدار ڈنر تیار کر رکھا تھا۔ کھانے کے بعد میں نے جیمز اور مِلر کے ساتھ مل کر اگلے دن کی منصوبہ بندی کی اور آج کی سرگرمیوں پر پوری طرح غور کیا اور پھر باہمی مشاورت سے ہم نے فیصلہ کیا کہ کل بھی ہم اسی جگہ گھات لگا کر بیٹھیں گے۔ کیونکہ وہاں سے ہم ایک بڑے علاقے پر نظر رکھ سکتے تھے۔

اگلی صبح ہم اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچے۔ بھالو کا کوئی نشان نہیں تھا اور شکار بھی ویسے ہی پڑا تھا۔ یعنی وہ رات کو بھی نہیں لوٹا تھا۔ آسمان صاف تھا، ہوا ہلکی تھی اور درجہ حرارت معتدل تھا۔ ہم تمام دن وہاں چھپ کر انتظار کرتے رہے، مگر بھالو نہیں آیا۔ ہمارا جوش ماند پڑنے لگا۔ پھر جیمز اٹھا اور چٹانوں پر چڑھ کر اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔

اس نے تقریباً پندرہ بار اردگرد کا جائزہ لیا اور پھر تھک کر بیٹھ گیا۔ شام ہو رہی تھی جب بھالو ہمیں غار کی طرف آتا دکھائی دیا۔ جیمز نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا۔ اس کا دل زورزور سے دھڑک رہا تھا۔وہ کہنے لگا۔

’’ یہ یہاں پہاڑوں پر چڑھنے اترنے سے بے قابو نہیں ہوا بلکہ یہ تو اس بھورے بھالو کو دیکھ کر جوش سے بے قابو ہو گیا ہے۔‘‘ میں مسکرایا دیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ سچ ہے۔ جیمز ایک مضبوط اور تنو مند جسم کا مالک شکاری تھا جس نے افریقہ میں ان گنت شکار کیے تھے۔وہ اتنی جلد تھکنے والا نہیں تھا۔

ہم نے بھالو کا دور بین سے جائزہ لیا تو وہ غار کے دہانے پر بیٹھا اپنا شکار کھا رہا تھا۔ ہم نشانہ لینے لگے مگر جیمز کا کہنا تھا کہ ایک تو فاصلہ بہت ہے، دوسرا راستے میں گھنی جھاڑیاں حائل ہو رہی ہیں۔ سو ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور منجمد برف پر رینگتے ہوئے جھاڑیوں کے اگلے جھُنڈ کی طرف بڑھنے لگے۔

ہمارا خیال تھا کہ بھالو اپنا شکار کھانے میں مگن ہے۔ مگر ہماری توقع کے برعکس ہوا تھا۔ اس نے ہماری آہٹ یا بُو پا لی تھی اور ہمارا ارادہ بھی بھانپ لیا تھا۔ جس قدر خاموشی سے ہم اس کی طرف بڑھ رہے تھے اسی قدر خاموشی سے وہ جھاڑیوں سے ہماری طرف بڑھنے لگا۔

ہم چونکہ برف پر گھٹنوں کے بل رینگ رہے تھے اس لیے اس بات سے بے خبر رہے کہ بھالو شکار کو چھوڑ کر ہمارے سر پر آ پہنچا ہے۔ جھاڑیوں کا جھُنڈ ہم سے صرف بیس قدم دور رہ گیا تھا جب ہم نے غُرانے کی آواز نہایت قریب سے سنی۔ میں نے اور جیمز نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اپنی رائفلیں تھام کر یکدم کھڑے ہو گئے اور جو ہم نے دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔

جیمز کی جگہ کوئی اناڑی شکاری ہوتا تو شاید اس کے اوسان ہی خطا ہو جاتے۔ ہم سے صرف بارہ قدم دور اپنی چاروں ٹانگوں پر بھاگتا ہوا بھالو ہم پر حملہ کرنے کو دوڑا آ رہا تھا۔ جیمز نے رائفل سیدھی کی اور جلدی سے گولی چلا دی مگر گولی نشانے پر نہیں لگی۔ ہم الٹے قدموں پیچھے کی طرف بھاگنے لگے مگر اس دوران میں، میں بھالو کا نشانہ لے چکا تھا۔

میں نے گولی چلا دی مگر وہ گولی بھی بالکل نشانے پر نہ لگی اور اس کا بازو زخمی کرتی نکل گئی۔ بھالو ایک لمحے کو رکا پھر غضب ناک ہو کر ہماری طرف جھپٹا۔ اس کے اور ہمارے درمیان صرف تین قدم کا فاصلہ تھا جب مِلر کی گولی اس کی گردن پر لگی۔گولی لگنے کے بعد وہ اچانک مڑا اور پہاڑی سے نیچے اترنا شروع کر دیا۔

وہ بے حد جاندار تھا، اب ضروری ہو گیا تھا کہ اس کے سرکا نشانہ لیا جائے۔ مگر وہ نہایت تیزی سے برف کی ڈھلوانوں سے اتر رہا تھا۔اس کی گردن سے نکلتا خون برف کو رنگین کر رہا تھا۔

مگر وہ رک نہیں رہا تھا اور پھر جیمز نے بھاگتے ہوئے بھالو پر گولی چلا دی، گولی سیدھی اس کے سر میں لگی اور وہ دھم سے جھاڑیوں کے جھُنڈ میں گر گیا۔ اس کی برق رفتاری کا یہ عالم تھا کہ وہ پلک جھپکنے میں ہم سے پندرہ فٹ دور چلا گیا تھا، جب جیمز کی گولی نے اس کو بے دم کر دیا۔

ہم نہایت احتیاط سے جھاڑیوں کے جھُنڈ کی طرف بڑھنے لگے۔ وہ جھاڑیوں میں چت لیٹا تھا۔ اس کے سر اور گردن سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ جیمز نے رائفل کی نال سے اسے ہلایا تو اس کی ایک طرف ڈھلکی گردن دیکھنے پر جیمز کو یقین ہوا کہ وہ واقعی مر چکا تھا۔

قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس کی عمر تقریباً بیس سال تھی۔ اس کے پنجے اور کھال بے داغ تھی۔ البتہ دایاں جبڑا اور آنکھ شاید کسی شکار کے دوران یا کسی دوسرے بھالو سے لڑائی کے دوران خراب ہو چکے تھے۔ اس کا قد نو فٹ چار انچ تھا۔ وہ ایک نہایت شاندار بھالو تھا۔ جیمز بہت خوش تھا وہ جس ٹرافی کے لیے یہاں آیا تھا وہ اسے مل گئی تھی۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2013/07/alaska-ka-bhalu#sthash.LrYAe8Vw.dpuf

 

تنزانیہ کے جنگلوں میں 5 دن

ڈیانا کیا تم اس جنگلی بھینسے کو دیکھ رہی ہو…؟ پیٹر نے آنکھوں سے دوربین ہٹائے بغیر مجھ سے پوچھا: ’’بالکل… وہ سب سے منفرد بڑا نظر آتا ہے۔‘‘

میں گھاس کے آخری سرے پر کھڑے اس بھینسے کو دیکھتے ہوئے بولی: ’’میں نے اتنا شاندار جنگلی بھینسا آج تک نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس کے تیز، نوکیلے خم دار سینگ دھوپ میں چمک رہے تھے۔ سینہ چوڑا اور جسم خوب بھرا ہوا تھا۔ میدان میں کھڑے باقی بھینسوں سے بلاشبہ وہ منفرد تھا۔ ہم اپنی شکاری جیپ میں ان سے کوئی ۵۰ گز دور کھڑے تھے۔ بھینسوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا مگر وہ خوفزدہ ہو کر بھاگے نہیں اور آرام سے گھاس چرنے میں مگن تھے۔ شاید وہ تھک گئے تھے کیونکہ گزشتہ ایک گھنٹے سے ہم مامبو کے جنگلوں سے ان کا پیچھا کرتے ہوئے گھاس کے اس میدان تک آئے تھے۔

ہم بھی اب مزید قریب جا کر انھیں ہراساں کر کے بھگانا نہیں چاہتے تھے۔ سو وہیں سے نشانہ باندھنے لگے۔ میں نے بھی اپنی ۳۷۵  بور کی رائفل سیدھی کی اور اس شاندار بھینسے کے سینے کا نشانہ باندھ لیا۔ جیپ میں سب دم سادھے بیٹھے اپنی اپنی دوربینوں سے دیکھ رہے تھے۔ ’’میراخیال ہے کہ سینے کے بجائے تم پہلو کا نشانہ لو۔‘‘ پیٹر نے مجھ سے کہا۔

پیٹر ایک ماہر شکاری تھا۔ جانتا تھا کہ سینے کا نشانہ خطا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ میں نے سر ہلا دیا۔ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ ریوڑ کسی بھی وقت دوبارہ بھاگ سکتا ہے مگر مجھے یہ بھی علم تھا کہ ۴۵ انچ چوڑے سینگوں والا بھینسا نشانہ خطا ہونے پر ہمارے اوپر چڑھ سکتا ہے۔ ویسے اس بات کا قوی امکان تھا کہ ایک طرف کی گھاس کھانے کے بعد بھینسا رخ بدلے گا۔ تب مجھے پہلو کا نشانہ لینے کا موقع مل جاتا۔ سو ہم انتظار کرنے لگے۔ میں گہرے سانس لے کر خود کو پُرسکون کرنے لگی۔ میں نے بھینسوں کے شکار کے متعلق کافی پڑھا تھا۔ پیٹر نے بھی میری معلومات میں گراں قدر اضافہ کیا تھا مگر عملی طور پر بھینسے کا یہ میرا پہلا شکار تھا۔

پیٹر نے مجھے بتایا تھا کہ جنگلی بھینسا اگر نشانہ خطا ہونے پر زخمی ہو جائے تو وہ افریقہ کے خطرناک ترین جانوروں میں سے ایک ہوتا ہے۔ اس لیے کسی قسم کی غلطی مجھ سمیت میری پوری ٹیم کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ اچانک بھینسا مڑا اور میں نے اس کے پہلو کا نشانہ باندھ لیا۔ جیپ میں باقی ۷  لوگ دم سادھے بیٹھے تھے۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور آنکھیں بھینسے پر جماتے ہوئے لبلبی دبا دی۔ رائفل نے شعلہ اُگلا اور بھینسا چند قدم بھاگ کر ڈھیر ہو گیا۔ باقی ریوڑ بھاگ اٹھا۔ ہم بھینسے کے پاس پہنچے۔ پیٹر نے بھینسے کے ساتھ میری ڈھیر ساری تصویریں بنائیں۔

اس صبح ہم نے ناشتے اور کافی کے بعد ساڑھے ۶ بجے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔ ہماری ٹیم میں میرا شوہر سکاٹ، رینجر سام، گائیڈ مارٹن اور فلکر، مقامی کومبو اور زمبابوے سے آئے ہوئے ۲  ماہر شکاری پیٹر اور مشاک شامل تھے۔ میں بہت خوش تھی۔ آج ہماری سفاری کا پہلا دن تھا اور میں نے شاندار بھینسا شکار کر لیا۔ اس رات ہم نے آگ کے گرد بیٹھ کر بھینسے کے لذیذ تکے کھائے اور ارادہ کیا کہ اپنی مہم کے دوران ہر روز ایک بھینسا شکار کریں گے۔

سفاری کے دوسرے روز ہم نے بھینسوں کے کھُروں کے نشانات کا پیچھا کیا اور ایک بڑے ریوڑ کے قریب پہنچ گئے۔ سکاٹ نے ۳۷۵  گز کے فاصلے سے ایک بھینسے کا نشانہ لیا مگر اس کا کندھا ہل گیا اور بھینسا زخمی ہو کر بھاگ اٹھا۔ ہم نے اس کا پیچھا کیا۔ سکاٹ کی مزید تین گولیوں سے وہ ڈھیر ہو گیا۔ یہ ہماری مہم کا تیسرا دن تھا۔ اب ہم مقامی زبان کے لفظوں سے بھی کچھ مانوس ہو گئے۔ خصوصاً بھینسے کا نام مجھے بہت دلچسپ لگا۔ وہ اسے ’’نیاتی‘‘ اور ’’مبوگو‘‘ کہتے تھے۔

تیسرے دن کی صبح بہت خوبصورت تھی۔ سورج نکل رہا تھا اور شفق کی لالی پھیل رہی تھی۔ آسمان پر رنگ برنگے پرندے اُڑ رہے تھے۔ ان کی چہچہاہٹ اور سریلے گیتوں نے فضا کو معطر کر دیا۔ ہم نے جس جگہ خیمے لگائے، وہ ۵  ہزار فٹ بلند پہاڑیوں سے گھری ہوئی خوبصورت وادی تھی۔ آگے جنگل اور گھاس کے بڑے بڑے میدان تھے۔ کومبو نے ہمارے لیے لذیذ ناشتہ تیار کیا تھا۔ وہ کھایا اور جیپ میں بیٹھ کر اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔ ۲  گھنٹے تک جیپ چلتی رہی پھر ہمیں بھینسوں کا تازہ گوبر نظر آیا۔ ہم نے جیپ روک دی اور پیدل ان کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کھُروں کے نشانات چھوٹی ڈھلوانوں اور چٹانوں کی طرف جا رہے تھے۔

مجھے کچھ عجیب بھی لگا کہ بھینسے چٹانوں پر کیونکر چڑھیں گے…؟ مگر پیٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں آگے ایک شاندار ریوڑ ملنے والا ہے۔ کچھ دیر چٹانوں پر چلنے کے بعد پیٹر کی بات واقعی سچ ہو گئی۔ ہمارے سامنے ایک بڑا میدان تھا مگر وہاں بھینسے نہیں تھے اور میدان بھی گھاس سے تقریباً خالی تھا۔ ایک اور چٹانی ڈھلوان تھی اور اس سے آگے ایک اور بڑا میدان جہاں بھینسوں کا ایک ریوڑ چر رہا تھا۔ ہم مسلسل گھنٹے بھر سے چڑھائی کر رہے تھے اس لیے بری طرح تھک گئے۔ ہم سب نے رائفلیں، کیمرے اور دیگر سامان چٹان پر رکھا اور گہرے سانس لینے لگے۔

کچھ فاصلے پر دیمک نے مٹی کی ایک بڑی ڈھلوان کھڑی کر رکھی تھی۔ پیٹر پیٹ کے بل رینگتا ہوا اس ڈھلوان تک پہنچا۔ پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈھلوان کے پیچھے سے بذریعہ دوربین بھینسوں کا جائزہ لینے لگا۔ کچھ دیر جائزہ لینے کے بعد پیٹر نے ہمیں اشارہ کیا۔ ہم بھی پیٹ کے بل رینگتے ہوئے پیٹر تک پہنچے۔ پیٹر نے کہا: ’’ریوڑ میں دو تین شاندار بھینسے ہیں مگر ایک اچھا نشانہ باندھنے کے لیے ہمیں قریب جانا پڑے گا۔ ہم سب کھڑے ہوئے تو بھینسے بھاگ جائیں گے۔ اس لیے ہمیں تقریباً ۱۰۰  گز تک گھاس میں رینگتے ہوئے بھینسوں کے قریب پہنچنا ہے۔‘‘

میں ذرا گھبرائی مگر سکاٹ نے میری ہمت بندھائی۔ پھر ہم سب قطار میں رینگتے ہوئے پیٹر کے پیچھے پیچھے بڑھنے لگے۔ جب پیٹر نے ہمیں رکنے اور گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا اشارہ کیا تو ہم سب آہنگی سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ سامنے جو منظر تھا، اسے دیکھ کر لمحہ بھر کو تو میری سانس رک گئی۔ ہم گھاس چرتے ہوئے کئی بڑے بڑے بھینسوں کے انتہائی قریب تھے۔ عین اسی لمحے ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔ ہوا چونکہ ہماری طرف سے بھینسوں کی سمت جا رہی تھی، سو انھوں نے بدقسمتی سے ہماری بو پا لی اور ریوڑ بھاگ اٹھا۔ ہم بھی ان کا پیچھا کرنے لگے۔ ریوڑ ایک جگہ رکا۔ ہم بھی رک کر نشانہ باندھنے لگے۔ مگر بدقسمتی سے بھینسوں نے پھر دوڑ لگا دی مجبوراً ہمیں بھی ان کے پیچھے بھاگنا پڑا۔

ہم نے درختوں اور دیمک کی ڈھلوانوں کے پیچھے چھپتے چھپاتے ان کا تعاقب جاری رکھا۔ اس دوران بھینسے دو بار مزید رکے مگر جیسے ہی ہم نشانہ باندھنے لگتے، وہ بھاگ اٹھتے۔ پھر وہ ایک بڑے گھاس کے میدان میں پہنچ کر بکھر گئے اور ادھر ادھر چرنے لگے۔ شاید وہ اب تھک گئے تھے۔ ہم بھی رک کر ایک چھوٹے جھنڈ کے پیچھے چھپ گئے جو گھاس والے میدان کے سرے پر واقع تھا۔ اب پیٹر پھر دوربین سے بھینسوں کا جائزہ لینے لگا۔

ہم بھی اپنی اپنی دوربینوں سے ریوڑ میں کوئی بڑا بھینسا ڈھونڈنے لگے۔ پیٹر نے ایک بھینسے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’دیکھو… سب دیکھو! کیا شاندار چیز ہے؟‘‘ ہم سب نے اس سمت دیکھا اور ہمارے منہ سے بے ساختہ واہ نکلا۔ وہ واقعی انتہائی شاندار، جوان اور طاقتور بھینسا تھا۔ میں نے ایسا بھینسا پہلے صرف تصویروں میں یا ٹی وی پر ہی دیکھا تھا۔ مجھ میں عجیب جوش اُمڈ آیا۔ میں نے پیٹر سے کہا: ’’اس کو میں شکار کروں گی۔‘‘ پیٹر اور سکاٹ مسکرانے لگے اور پھر سکاٹ نے شرارت سے میرے کان میں کہا: ’’جی!جی! مادام آپ ہی لگا لیں۔آپ کا نشانہ ویسے بھی کبھی خطا نہیں ہوا۔ ہم بھی تو آپ کے تیرِ نظر کا شکار ہوئے تھے۔‘‘

میں مسکرا کر اس بھینسے کا نشانہ باندھنے لگی۔ مجھے پیٹر کی پہلو کا نشانہ لینے والی ہدایت اچھی طرح یاد تھی۔ سو میں نے ۱۰  منٹ تک انتظار کیا اور پھر وہ لمحہ آ ہی گیا جب بھینسے کے پہلو کا نشانہ باندھ کر میں نے لبلبی دبا دی۔ ریوڑ بھاگنے لگا۔ کھُروں کے شور میں لمحہ بھر کو مجھے لگا کہ میرا نشانہ خطا گیا، میں مایوس ہو گئی مگر پھر پیٹر اور سکاٹ کی مسکراہٹ سے مجھے پتا لگا کہ میرا نشانہ خطا نہیں ہوا تھا۔ پیٹر نے ہمیں اشارہ کیا اور ہم درختوں کے پیچھے سے نکل کر ریوڑ کی طرف بھاگے۔ بھینسے یک دم رک کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ہم بھی رک گئے اور اپنی رائفلیں سیدھی کر لیں۔ لمحہ بھر کو ہمیں لگا کہ بھینسوں کا ریوڑ ہم پر چڑھ دوڑے گا اور ہمیں نیست و نابود کر دے گا۔

وہ ایک لمحہ یوں تھا جیسے صدیوں پر محیط ہو اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھینسے مڑے اور اپنی دُمیں اوپر اٹھائے بھاگنے لگے۔ ہم ساکت کھڑے تھے۔ ہماری انگلیاں رائفلوں کی لبلبیوں پر تھیں۔ جب ریوڑ آگے چلا گیا تو ہماری نظر زمین پر لیٹے اس شاندار بھینسے پر پڑی جو میری گولی کا شکار ہوا تھا۔ وہ اتنا جاندار تھا کہ اس کی ٹانگیں ابھی تک ہل رہی تھیں۔ ہم بڑے محتاط انداز میں اس کے قریب پہنچے۔ پیٹر نے مجھے اشارہ کیا، ایک بار پھر رائفل کی لبلبی دبا کر اسے ٹھنڈا کر دیا گیا۔

قریب سے دیکھنے پر اس کے سینگ اور بھی خوبصورت و شاندار لگ رہے تھے۔ ہم سب سینگوں پر ہاتھ پھیر کر ان کی خوبصورتی سراہنے لگے۔ ہم بھینسے کو جیپ میں ڈال کر خیموں تک لے آئے۔ اس رات ہم نے بھینسے کا بھنا ہوا لذیذ گوشت کھاتے وقت اگلے دن کی مہم پر بات چیت کی۔ تین بھینسے شکار کرنے کے بعد ہمارے حوصلے کافی بلند ہو چکے تھے۔ سکاٹ نے پیٹر سے کہا کہ وہ اب تیندوے کا شکار کرنا چاہتا ہے۔ پیٹر نے کہا: ’’ٹھیک ہے، پھر ہم اس بھینسے کا کچھ گوشت چارے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘ پیٹر ہمیں تیندوے کے شکار کے متعلق بنیادی ہدایات دینے لگا۔

اس نے بتایا کہ تیندوے کا شکار بعض اوقات شیر کے شکار سے بھی مشکل ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایک تو وہ درختوں پر چڑھ کر چھپنے کی صلاحیت رکھتا ہے یوں شکاری پر اچانک حملہ کر سکتا ہے۔ دوسرا وہ اپنی جسمانی لچک کے باعث تنگ جگہوں میں بھی جا چھپتا ہے۔ تیسرا اگر اسے پتا لگ جائے کہ کوئی انسان اس کے پیچھے ہے تو مڑ کر اتنی تیزی سے حملہ کرتا ہے کہ شکاری سنبھل بھی نہیں پاتا۔ دن کے وقت غاروں، گھاٹیوں اور درختوں کی گھنی شاخوں میں آرام کرتا اور رات کو شکار کے لیے نکلتا ہے۔

ہم نے بھینسوں کا تعاقب کرنے کے دوران دو تین مقامات پر تیندوے کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔

تیندوے اکثر اپنا شکار درختوں پر لے جا کر کھاتے ہیں تاکہ کوئی چھین نہ سکے۔ سو پیٹر نے فیصلہ کیا کہ کل ہم دو درختوں پر بطور چارہ بھینسے کی لذیذ رانیں رکھیں گے اور اس سے تقریباً ۳۵  گز دور اپنی جیپ میں بیٹھ کر ہی تیندوے کا انتظار کریں گے۔ رات کے وقت پیدل تیندوے کا انتظار جان لیوا بھی ہو سکتا تھا۔ اگلے دن ہم صبح کچھ دیر بعد بیدار ہوئے۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے خیمے سے نکل کر پوری تیاری اور سازوسامان کے ساتھ جیپ میں جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔

ہماری جدید شکاری جیپ دراصل پوری ویگن تھی۔ اس میں کھانا پکانے، لیٹنے اور بہت سا سامان رکھنے کی سہولت موجود تھی۔ چھت ضرورت کے مطابق کھولی اور بند کی جا سکتی تھی۔ فوجی بنکروں کی طرح اس پہ دو مقامات پر رائفلیں نصب کر کے نشانہ باندھنے کی سہولت بھی موجود تھی۔ آج رات ہمیں اسی سہولت سے فائدہ اٹھانا تھا۔ ہم ان مقامات کی سمت بڑھے جہاں تیندوے ملنے کے قوی امکانات تھے۔ ہمارے گائیڈ مارٹن اور فلکر علاقے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ پیٹر بھی پہلے کئی شکاری سفاریوں کے ساتھ یہاں آ چکا تھا۔ میں اور سکاٹ پہلی بار شکار کے لیے تنزانیہ آئے تھے۔ سکاٹ اس سے پہلے کئی ملکوں میں شکاری مہموں پر جا چکا تھا جب کہ میری یہ دوسری شکاری مہم تھی۔

خیر ہم مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے بڑھے۔ راستے میں ہاتھیوں کا ایک ریوڑ دیکھا۔ ان میں سے دو ہاتھیوں کے لمبے لمبے ہاتھی دانت دیکھ کر میرے اور سکاٹ کے منہ میں پانی بھر آیا۔ پیٹر ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا: ’’دوستو! پہلے تیندوا تو شکار کر لو۔ پھر دوسرے جانوروں کو بھی نشانہ بنا لینا۔‘‘ ہم نے راستے میں زیبرا اور زرافے بھی دیکھے، یہ افریقہ تھا، جہاں کے جنگل اور میدان شکاریوں کے لیے بہترین تحفہ ہیں۔ یہاں آنے والا شکاری اگر ایک جانور کے شکار کی نیت سے آیا ہو تو باقی جانور دیکھ کر خودبخود اس کا دل للچانے لگتا ہے۔ ایسی ہی حالت اس وقت میری ہو رہی تھی۔ شکار کا لطف گہرا ہوتا جا رہا تھا۔میرا دل کبھی ہاتھی کے شکار کو مچلتا تو کبھی دھاری دار زیبروں کو دیکھ کر۔ میں نے پیٹر سے کہا: ’’کیوں نہ بونس میں ایک زیبرا شکار کر لیا جائے آج…؟‘‘

پیٹر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’پہلے ہم تیندوے کے لیے چارہ ڈال آئیں پھر وقت بچا تو زیبرے پر قسمت آزمائی کر لینا۔‘‘ کچھ دور جانے کے بعد پیٹر نے جیپ رکوا دی۔ وہاں درختوں کے چھوٹے چھوٹے جھنڈ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے۔ جھاڑیاں بھی خاصی تعداد میں تھیں۔ اردگرد کا جائزہ لینے کے بعد پیٹر نے بھینسے کی ران ایک درخت پر بندھوائی اور دوسری پچاس گز دور ایک دوسرے درخت پر… جیپ کھڑی کرنے کے لیے اس نے جھاڑیوں کے ایک جھنڈ کا انتخاب کیا جو دونوں درختوں کے درمیان تھا۔ تا کہ جیپ چھپی رہے اور ہمیں جیپ سے دونوں درخت بآسانی نظر آ ئیں اور ہم نشانہ باندھ سکیں۔

پھر پیٹر نے مجھے اور سکاٹ سے کہا کہ ہم دوربین سے دیکھیں ہمیں دونوں چارے ٹھیک سے نظر آ رہے ہیں؟ پھر پیٹر نے ہمیں جیپ میں کھڑے ہو کر نشانہ باندھنے اور لگانے کی مشق کرائی۔ وہ ایک بہت اچھا استاد ثابت ہو رہا تھا۔ ایسا استاد جو اپنے شاگردوں کو ہر کوشش میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ شام ہو چکی تھی اس لیے واپس جا کر زیبرے کا شکار کرنا اب ممکن نہیں تھا سو ہم جیپ میں ہی کھانا کھا کر رات ہونے اور تیندوے کا انتظار کرنے لگے۔ چاند نکل آیا، رات گہری ہو رہی تھی۔ ہم سب وقتاً فوقتاً دور بین سے دونوں درختوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہ تقریباً رات ایک بجے کا وقت تھا جب پیٹر کو درخت میں ہلچل محسوس ہوئی۔

ہم نے ساتھ لائی ہوئی سپاٹ لائٹ کو بھی درخت پر فوکس کر رکھا تھا۔ پیٹر دور بین سے دیکھنے لگا اور پھر اس نے سکاٹ کو اشارہ کیا کہ اس کے نشانہ باندھنے کا وقت آ چکا ہے۔ اس نے سکاٹ کے کان میں مزید سرگوشی کی ’’تم خوش قسمت ہو کہ تمھیں پہلی بار چارہ ڈالنے پر ہی تیندوے کو شکار کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم کتنی مہارت اور پھُرتی سے نشانہ لگاتے ہو۔ میں سپاٹ لائٹ چلاؤں گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی روشنی پڑتے ہی تیندوا بھاگ جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گوشت کی دعوت اڑاتا رہے۔ سو تم نشانہ باندھ کر لبلبی دبانے میں پھرتی دکھانا۔‘‘

پیٹر نے سکاٹ کو تیار رہنے کا اشارہ کیا اور سپاٹ لائٹ چلا دی۔ اب ہم تیندوے کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ یہ ایک نوجوان نر تیندوا تھا۔ وہ ایک دم روشنی جلنے پر کچھ حیران پریشان سا ہو گیا اور اپنی چمکدار آنکھوں سے جیپ کی طرف دیکھنے لگا۔ سکاٹ نشانہ باندھ چکا تھا۔ اسے لگا کہ تیندوا بس بھاگنے کو ہے سو اس نے گولی چلا دی۔ گولی تیندوے کے پیٹ پر لگی۔ وہ دھڑام سے درخت سے نیچے گرا۔ اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی مگر چند قدم دور جا کر گر گیا۔ ہم نے جیپ سٹارٹ کی اور تیندوے کے قریب لے آئے۔ سکاٹ کی گولی بالکل نشانے پر لگی تھی۔ ہمارے وہاں پہنچنے تک تیندوا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ سکاٹ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ یہ اس کا دوسرا تیندوا تھا۔ پہلا تیندوا اس نے دو سال قبل زمبابوے میں شکار کیا تھا۔

میں نے سکاٹ کے نشانے کی داد دی۔ پیٹر اسے سکاٹ کی خوشی قسمتی قرار دے رہا تھا کہ اس نے پہلی ہی رات میں شکار مار لیا۔ ہم نے تیندوے کے ساتھ جی بھر کر تصویریں بنائیں اور پھر اسے جیپ میں ڈال کر اپنے خیمے کی طرف لوٹ آئے۔ کیونکہ رات جنگل میںاس جگہ گزارنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ہمیں لگڑبھگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس سے لگتا تھا کہ شیر بھی کہیں قریب ہی ہے۔ ہم نے آہستہ سے جیپ چلاتے ہوئے اپنے خیموں میں جا کر ہی رات گزارنے میں عافیت جانی کیونکہ وہ ایک محفوظ جگہ پر تھا۔ اس کے اردگرد خار دار تاروں کی باڑ بھی بنی ہوئی تھی۔

ہم حکومت کی طرف سے شکار کا باقاعدہ پرمٹ لے کر آئے تھے۔ یہ حفاظتی انتظامات بھی حکومت کی طرف سے کیے گئے تھے کیونکہ اکثر سفاری اور شکاری ٹیمیں اسی جگہ پر خیمے لگاتی تھیں۔ رات کے ۳۰:۳  بج رہے تھے جب ہم خیمے میں پہنچے۔ سکاٹ کو تو خوشی کے مارے نیند نہیں آ رہی تھی مگر باقی سب تھکے ہوئے تھے سو اپنے اپنے خیموں میں جا کر سو گئے۔

اگلے دن صبح میرا اٹھنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا مگر سکاٹ نے مجھے زبردستی اٹھا دیا کیونکہ آج ہماری سفاری کا آخری دن تھا۔ وہ مجھے چھیڑتا ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، تم سوئی رہو… میں تو آج وہ خوبصورت زیبرا شکار کروں گا جسے دیکھ کر کل تمھارا جی للچاتا تھا… میری مہم کا آج آخری دن ہے، تم اسے سو کر ضائع کر لو، میں نہیں کروں گا۔‘‘ باہر سے آنے والی آوازیں بتاتی تھیں کہ سب اٹھ گئے ہیں اور ناشتہ بھی تیار ہے۔ ’’باقی کی نیند گھر جا کر پوری کر لینا۔‘‘ سکاٹ نے جب مصنوعی ناراضگی سے کہا تو ناچار مجھے اٹھتے ہی بنی۔ میں نے سکاٹ سے کہا کہ وہ جا کر ناشتہ کرے، میں ۲  منٹ میں تیار ہو کر پہنچتی ہوں۔ جب میں تیار ہو کر پہنچی تو واقعی سب تیار اور ناشتہ کر رہے تھے۔ میں بھی منہ ہاتھ دھو کر جلدی سے ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔

پیٹر کہنے لگا: ’’آج آپ کی مہم کا آخری دن ہے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ اسے آپ کے لیے گزشتہ دنوں سے زیادہ بھرپور اور یادگار بنا دوں۔‘‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سکاٹ سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ آج زیبرے کے شکار کا ارادہ رکھتا ہے؟ سکاٹ نے اثبات میں گردن ہلا دی۔

ہمارا قلی اور باورچی کومبو کھال اتارنے سے لے کر شکاری گوشت کو لذیذ اور مزیدار بنانے میں بے حد ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ کافی بھی بہترین بناتا تھا۔ ناشتے کے بعد اس کی بنائی لذیذ کافی پیتے ہوئے میں نے اس سے کہا ’’کومبو! میں تمھاری کافی کا ذائقہ گھر جا کر بھی نہیں بھلا پاؤں گی۔‘‘ وہ تو جیسے بے انتہا خوش ہو گیا اور بولا: ’’مادام میں بھی آپ لوگوں کا ساتھ کبھی نہیں بھولوں گا۔‘‘

ناشتے کے بعد ہم اپنا سامان سمیٹ کر جیپ میں بیٹھے اور اس جگہ روانہ ہوئے جہاں گزشتہ روز زیبرے دیکھے تھے۔ وہاں سے کچھ دور ایک ندی تھی۔ پیٹر جانتا تھا کہ زیبرے روزانہ اس جگہ سے مختلف اوقات میں گزرتے ہیں۔ سو ہم نے ندی کے قریب جھاڑیوں میں بیٹھ کر زیبرے کے انتظار کا فیصلہ کیا۔ صبح سے دوپہر ہو گئی مگر کوئی زیبرا نہیں آیا تو پیٹر خود ہی کہنے لگا ’’اس طرح تو آپ کا دن ضائع ہو جائے گا۔ ایسا کرتے ہیں جیپ میں گھومتے ہیں۔ مجھے امید ہے ہمیں جلد ہی زیبرے مل جائیں گے۔ سب نے اس بات سے اتفاق کیا۔ ہمارے گائیڈ مارٹن اور فلکر ہمیں ان میدانوں کی طرف رہنمائی کرنے لگے جہاں زیبرا ملنے کے قوی امکانات تھے۔ دوپہر کے ۳ بج رہے تھے جب ہمیں زیبروں کا ایک ریوڑ نظر آیا۔ ہم ان سے تقریباً سو گز دور تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ جیپ کا شور انھیں ہراساں کر دے۔

سو اتر آئے اور پیدل چلتے ہوئے ان کے قریب ہونے لگے۔ گروہ میں نر، مادہ اور چھوٹے زیبرے بھی موجود تھے۔ اب ہم زیبروں سے تقریباً ۳۵  گز دور تھے۔ وہ مگن چر رہے تھے۔ انھوں نے شاید ہماری موجودگی کو ابھی تک محسوس نہیں کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ہم دبے پاؤں جھاڑیوں میں چھپتے چھپاتے آگے بڑھ رہے تھے اور ہوا کا رخ ان کی جانب سے ہماری طرف تھا۔

میں اور سکاٹ دونوں نشانہ باندھنے لگے تو پیٹر ہنسنے لگا اور بولا: ’’مسٹر سکاٹ کیا خیال ہے، پہلے موقع مادام کو نہ دیا جائے؟ کیونکہ اگر آپ دونوں نے ایک ساتھ گولی نہ چلائی تو یا تو مادام شکار سے محروم رہیں گی یا پھر آپ…‘‘ سکاٹ نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے ڈیانا، مہم کا آخری دن تمھارے نام کرتے ہیں۔‘‘ اس پر پیٹر بولا: ’’سکاٹ! میں کوشش کروں گا کہ آپ بھی زیبرے کی خوبصورت کھال اپنے ساتھ لے جا سکیں…ہم ان کا پیچھا کریں گے۔ کچھ دور جا کر آپ بھی ایک زیبرا شکار کر سکتے ہیں۔‘‘

سکاٹ مسکرانے لگا۔ اس دوران میں نشانہ باندھ چکی تھی۔ میں نے لبلبی دبا دی۔ گولی سیدھی زیبرے کی گردن میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔

باقی ریوڑ بھاگ اٹھا۔ ہم نے شکار شدہ زیبرا جیپ میں ڈالا اور ریوڑ کا پیچھا کرنے لگے۔ ہم نے درمیان میں خاصا فاصلہ رکھا تاکہ ہم پہلے کی طرح بے خبری میں انھیں جا لیں۔ گھنٹہ بھر بھاگنے کے بعد ریوڑ ایک جگہ رک گیا، ہم نے بھی جیپ روک دی اور زمین پر رینگتے ہوئے ریوڑ کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ کر سکاٹ نشانہ باندھنے لگا۔ پیٹر اس کی ہمت بڑھا رہا تھا۔ سکاٹ نے نشانہ باندھ کر لبلبی دبا دی۔ گولی زیبرے کی آنتوں کو چیرتی ہوئی اسے وہیں ڈھیر کر گئی۔ باقی ریوڑ ایک بار پھر خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھا۔

ہم نے دونوں زیبروں کے ساتھ جی بھر کر تصویریں بنائیں۔ ۶  بج رہے تھے، شام ہو رہی تھی۔ ہم نے دونوں زیبروں کو جیپ میں ڈالا اور واپس شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ تنزانیہ میں ہماری شکاری سفاری توقع سے زیادہ کامیاب، دلچسپ اور تفریح سے بھرپور رہی۔ ہم نے ہر دن ایک شاندار شکار کیا اور آخری دن تو دو شاندار شکار کر ڈالے۔ پیٹر نے ٹھیک کہا تھا، اس نے آخری دن ہمارے لیے دگنا یادگار بنایا۔ ہم نے پیٹر، مشاک، کومبو، فلکر اور مارٹن کا شکریہ ادا کیا۔ وہ لوگ اگر اس قدر خلوص اور محنت سے ہمارا قدم قدم پر ساتھ نہ دیتے تو شاید ہم ۵  دنوں میں ایک بھی شکار نہیں کر پاتے۔ ۵  دنوں میں یہ ۶ شکار مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ سکاٹ تو اس قدر خوش اور پُر جوش ہے کہ ابھی سے اگلے سال اسی ٹیم کے ساتھ تنزانیہ کے جنگلوں میں ۵  نہیں بلکہ ۱۵  دن گزارنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://urdudigest.pk/2013/02/tanzania-k-junglon-me#sthash.aKVBBPyu.dpuf

 

جیکی

میرے والدین کا تعلق برطانیہ سے تھا، لیکن میں شمال مشرقی نمیبیا میں پیدا ہوئی۔ وہاں میرے والدین کا ایک بہت بڑا فارم تھا۔ چونکہ میں ان کی اکلوتی اولاد تھی، لہٰذا جب وہ چل بسے، تو فارم میری ملکیت بن گیا۔ اس کا انتظام تاہم میرے شوہر، رالف نے سنبھالا اور بڑی خوبی سے یہ ۱۵ سال قبل کی بات ہے، ہمارا یک تنومند بکرا رسی توڑ کر نکل بھاگا۔ میرے شوہر تین ملازمین کے ہمراہ اس کی تلاش میں نکلے۔ فارم کے درمیان ایک پہاڑی سی بنی ہوئی تھی۔ وہاں بھی دیکھا گیا مگر بکرا نہ ملنا تھا نہ ملا، البتہ اس کی ہڈیاں ایک جگہ مل گئیں۔ قریب ہی رالف وہاں تیندوے کے تین بچے دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔ انھوں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی مگر بچوں کی ماں کہیں نظر نہ آئی۔ یقیناً وہ اپنی دانست میں بچوں کو پہاڑی پر چھپا کر شکار کرنے گئی ہوئی تھی۔

بچوں کی عمر چند ہفتے تھی۔ بڑے خوبصورت، بالوں بھرے اور گول مٹول سے تھے۔ مگر جب رالف نے ایک بچے کو تھامنا چاہا، تو وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر غرایا اور اس نے ہاتھ پر کاٹ کھانا چاہا جبکہ دوسرا بچہ آسانی سے ہاتھوں میں آ گیا۔ جب رالف نے اس کا جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ اس کا پچھلا پیر زخمی ہے۔ زخم سے ہڈیاں نظر آ رہی تھیں اور پیر سُوجا ہوا تھا۔ بچے کی حالت خاصی بُری تھی۔ صاف لگتا تھا کہ زخم صحیح نہ ہوا، تو وہ جلد ہی موت کے منہ میں پہنچ جائے گا۔ یہ امر مدِ نظر رکھ کر میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ بچے کا علاج کرایا جائے۔

رالف نے بچہ ملازمین کے حوالے کر دیا۔ بقیہ دو بچے وہیں رہ گئے۔ تین دن بعد ہمارے ملازمین دوبارہ وہاں گئے، تو بچے غائب تھے۔ انھوں نے پھر مادہ تیندوا کے نشاناتِ پا دیکھے جو فارم سے باہر جا رہے تھے۔ یقیناً ماں واپس آ کر دونوں بچوں کو کسی محفوظ مقام پر لے گئی تھی۔ تیندوے کے بچے کو نزدیکی قصبے لے جایا گیا جہاں ایک ڈنگر ڈاکٹر بیٹھتا تھا۔ ہم نے بچے کا نام ’’جیکی‘‘ رکھ دیا۔ ڈاکٹر نے بہت اچھی طرح جیکی کا علاج کیا۔ زخم صاف کیا اور مرہم پٹی کر دی۔ اس کے علاوہ ہمیں تفصیل سے یہ بھی بتایا کہ زخم کیونکر دیکھنا بھالنا اور بچے کو کیا کھلانا ہے۔ (بچے کی غذا دودھ، کریم، انڈے کی زردی اور ادویہ کا آمیزہ تھی۔)

علاج مکمل ہوا، تو ہم جیکی کو اپنے گھر لے آئے۔ مجھے یہ معصوم سا بچہ بہت پسند آیا۔ ہم نے ایک کارٹن میں اس کا گھر بنایا اور اُسے اپنے بیٹے، رین ہارڈ کے بستر تلے رکھ دیا۔ ہم تب تک جان گئے کہ وہ مادہ ہے۔ شروع میں وہ ہمیں دیکھ کر سانپ کی طرح پھنکار مارتی اور خوفزدہ کرنے کی سعی کرتی۔ لیکن چند دن بعد وہ ماحول سے مانوس ہو گئی۔ خصوصاً جب کھانے کی خوشبو اس کے نتھنو ں میں گھستی، تو وہ کارٹن سے سر باہر نکال کر ہمیں گھورنے لگتی۔

جیکی میں انقلاب ۲ ہفتے بعد آیا۔ ہوا یہ کہ ہمارا ۱۳ سالہ بیٹا، رین ہارڈ اقامتی سکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ ایک دن وہ ہفتہ بھر کی چھٹیاں گزارنے ہمارے پاس چلا آیا۔ اس نے جیکی کو کارٹن سے نکالا اور اپنے بستر میں گھُسا لیا۔ حقیقتاً یہ دونوں کے لیے پہلی نظر میں عشق ہو جانے کا معاملہ تھا۔ رفتہ رفتہ دونوں میں اتنی الفت ہو گئی کہ جیکی کو جب بھی نیند آتی، وہ رین ہارڈ کے کمبل میں گھُستی، اس کے شکم پر لیٹتی اور بڑے مزے سے سو جاتی۔ کبھی موڈ میں آتی، تو بیٹے کے کاندھوں یا گردن پر سوار ہوتی اور اٹکھیلیاں کرتی رہتی۔ صبح وہ باغ میں گیند سے کھیلتے اور جب تھک جاتے، تو سامانِ خورد و نوش سے لطف اندوز ہوتے۔ غرض ان میں بڑی دوستی ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب رین ہارڈ ایک ہفتہ گزار کر واپس اقامتی سکول گیا، تو جیکی بہت اُداس ہو گئی۔

چند ہفتوں بعد جب جیکی میں خوداعتمادی آئی اور اُسے معلوم ہو گیا کہ گھر والے اس کے دوست ہیں، تو وہ گھوم پھر کر ہمارا مسکن دیکھنے بھالنے لگی۔ جب کبھی اُسے خطرے کا احساس ہوتا، تو بھاگ کر رین ہارڈ کی جرسی میں گھس جاتی۔ ہم نے بیٹے کے کمرے کی وہ کھڑکی کھول دی جو باغ کی سمت کھلتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ وہ جب چاہے باغ کی سیر کر سکے۔ شروع میں جیکی کئی گھنٹے کھڑکی میں بیٹھی بیرون دنیا کا مشاہدہ کرتی رہی۔ آخر جب اس میں حوصلہ آیا، تو وہ تنہا باغ میں گھومنے پھرنے لگی اور یوں جیکی کی جھجک دور ہو گئی۔

خوش قسمتی سے ہمارے آئرش ٹیرئر کتے رومیل اور جیکی کی بہت جلد دوستی ہو گئی۔ حالانکہ رومیل اس وقت قد کاٹھ میں جیکی سے دوگنا بڑا تھا۔ وہ دونوں گھنٹوں کھیلتے اور اپنے کھیلوں میں مگن رہتے۔ جب بھی رین ہارڈ چھٹیوں پر آتا، تو جیکی کی عید ہو جاتی۔ بیٹا جیکی کو موٹرسائیکل پر بٹھاتا اور اردگرد کا چکر لگاتا۔ دونوں جانور اس سے بہت مانوس تھے اور رین ہارڈ کے آتے ہی وہ بیٹے کے گرد ناچنے لگتے۔

رفتہ رفتہ جیکی کو احساس ہو گیا کہ رین ہارڈ مقررہ وقت آتا جاتا ہے۔ بیٹا جمعے کی شام گھر پہنچتا۔ وہ دروازے پر ہی صدا لگاتا ’’جیکی!‘‘ وہ باغ میں بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی ہوتی۔ آواز سنتے ہی چھلانگ لگاتی اور رین ہارڈ کی بانہوں میں پہنچ جاتی۔ اسی طرح اتوار کی سہ پہر جیکی جان جاتی کہ اس کا بہترین دوست عارضی طور پر بچھڑنے والا ہے۔ چنانچہ وہ رین ہارڈ کے ساتھ چپکی رہتی۔ جب بیٹا چلا جاتا، تو جیکی اُداسی کے عالم میں اِدھر اُدھر پھرتی اور جب اسے بھوک لگتی، تبھی ہمارے پاس آتی۔

جیکی کو پوری آزادی حاصل تھی کہ گھر میں جہاں مرضی گھومے۔ جب وہ جوان ہوئی، تو اس میں زیادہ جرأت آ گئی۔ وہ پھر ہمارے پالتو پرندوں پر اپنی شکاری حسّیں آزمانے لگی۔ ہم نے اُسے نہیں روکا تاہم ہمارے مابین ایک خاموش معاہدہ ہو گیا۔

وہ یہ کہ جیکی روزانہ ہمارے فارم میں پلی دو تین بطخیں شکار کر سکتی تھی، لیکن شرط یہ تھی کہ وہ مرغیوں کو کچھ نہ کہے۔ جیکی یہ معاہد بخوبی سمجھ گئی اور اس نے ایک مرغی کو بھی پنجہ نہ لگایا۔ بطخیں مارنے کا جیکی کو یہ فائدہ ہوا کہ اُسے شکار کے طور طریقوں سے فائدہ اٹھانا آ گیا۔ اب وہ رات کو جنگلوں میں جانے لگی۔ تاہم دوسرے دن صبح واپس آ جاتی۔ دراصل اس کے پیروں کے نشان دیکھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ مادام فارم سے باہر جاتی ہے۔ راتوں کو شکار کرنے سے اس نے بڑے جانور مثلاً ہرن، لگڑبگڑ وغیرہ کو بھی شکار کرنا سیکھ لیا۔

تیندوؤں کی تمام مخصوص عادات اپنا لینے کے باوجود جیکی نے ایک ایسی عادت ترک نہ کی جو ہم نے اُسے ڈالی تھی۔ وہ یہ کہ شام ہوتے ہی وہ باورچی خانے پہنچتی اور چھلانگ مار کر مائیکروویو کے قریب بیٹھ جاتی۔ دراصل اُسے اپنے خصوصی دودھ کا انتظار ہوتا۔ وہ پھر صبر سے برتن خود تک پہنچنے کا انتظار کرتی اور دودھ ملتے ہی بے تابی سے غٹ غٹ پینے لگتی۔ جب جیکی جوان ہوئی، تو ایک خوبصورت، دیدہ زیب اور شاندار مادہ تیندوا میں ڈھل گئی۔ وہ ہمارے لیے تو قطعاً خطرہ نہیں تھی، لیکن ہمیں احساس ہو گیا کہ وہ اجنبیوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم جیکی کو کسی چڑیا گھر نہیں بھجوانا چاہتے تھے کیونکہ وہ وہاں کی سخت زندگی شاید برداشت نہ کر پاتی۔ مگر ہمیں کوئی ایسا گھرانا بھی نہیں ملا جو اُسے ہمارے گھر جیسا آرام عطا کرتا۔

ایک دن جیکی اچانک غائب ہو گئی۔ شاید اُسے بھی محسوس ہو گیا تھا کہ اس نے ہمارے ساتھ جتنا وقت گزارنا تھا، گزار لیا، اب راہیں جدا کرنے کا لمحہ آ پہنچا تھا۔ ہم نے آس پاس کے جنگل چھان مارے مگر بدقسمتی سے اسی دوران تیز بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چنانچہ جیکی کے قدموں کے رہے سہے نشان بھی مِٹ گئے۔ تین مہینے بعد کی بات ہے، ہمارے بچے سکول سے واپس آ گئے تھے۔ تبھی ہم اپنے فارم میں جیکی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ مگر وہ شدید زخمی تھی۔ معائنے پر پتا چلا کہ اس کی ایک ٹانگ میں گولی لگی ہے۔ وہ پھر تین ٹانگوں سے چلتی ہمارے پاس پہنچی تھی۔ مگر اس کٹھن سفر نے اُسے بے دم کر دیا۔ وہ فارم پر پہنچتے ہی زمین پر گر پڑی اور ہانپنے لگی۔ رین ہارڈ نے دوڑ کر اُسے بانہوں میں لے لیا۔ خدا جانے اس احساس کو کیا کہنا چاہیے جو اسے مشکل لمحوں میں مدد لینے واپس ہمارے پاس لے آیا تھا۔

ہم فوراً اُسے ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ وہ فی الفور اپنے نائب کی مدد سے جیکی کے آپریشن میں جُت گیا تاکہ گولی نکال سکے۔ مگر دورانِ سفر اس کا بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ چنانچہ وہ جانبر نہ ہوسکی اور ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئی۔ یوں ہمارا ایک پیارا ساتھی چند لمحوں میں جُدا ہو گیا۔ ہم آج بھی جیکی کو یاد کرتے ہیں۔ ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایک خوبصورت اور شاہانہ حیوان پالنے کا سنہرا موقع ملا۔ ہم نے جانا کہ یہ بڑی بلیاں کیونکر اپنی مخصوص حسّیات سے کام لیتی ہیں اور یہ بھی پایا کہ انھیں

جب آزادی دی جائے، تو کتنی خوش سلیقگی سے زندگی بسر کرتی ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

 http://urdudigest.pk/2012/09/jaki#sthash.7NcQZOgS.dpuf

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید