FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

گلاب فن

(افسانے)

               نسیم انجم

 

نسیم انجم۔ افسانہ نگاری میں منفرد اور توانا آواز

               مصطفی کریم

زاہدہ حنا، فہمیدہ ریاض، رفعت مرتضیٰ، صفیہ صدیقی، نیلوفر اقبال اور اب نسیم انجم افسانہ کے فن کو نیا رُخ دے رہی ہیں ۔ اردو دُنیا میں مختصر افسانہ نے انگریزی ادب یا اس زبان میں دیگر ملکوں کے افسانوں کے ترجمے سے اپنا مقام اور اپنی غیر معمولی اہمیت حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے جب مطالعے میں آیا کہ چیخوف نے مختصر افسانے کو زندگی کی ایک قاش کہا تھا تو اسے تسلیم کرنے میں جھجک نہیں ہوئی۔ ابھی حال حال تک مختصر افسانہ اسی مثال کے تابع تھا۔ لیکن انسان کی عقل و فکر کسی ایک منزل پر نہیں رکتی۔ کینیڈا کی ایک خاتون افسانہ نگار Alice Munroe کو اس وقت انگریزی ادب کا سب سے بڑا افسانہ نگار تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس کے فن پر مبصر نے رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اب مختصر افسانہ کو کسی ایک کردار یا کسی ایک مخصوص واقعے یا کسی خاص احساس یا تاثر کا ترجمان ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔ اور مختصر افسانہ ایک مکمل ناول کا تاثر بھی دے سکتا ہے۔ اسی نکتے کو چیخوف کے بعض افسانوں کی بابت بھی بیان کیا گیا تھا۔ گو اس اطلاع کا نفس مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے، پھر بھی اس پر چند الفاظ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ جیسا میں نے پہلے کبھی لکھا ہے کہ کرداروں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو روشن کرنے ہی سے کردار کی پیچیدگی ظاہر کی جا سکتی ہے، جسے نبھانا مختصر افسانے میں مشکل ہوتا ہے لیکن ناول میں اتنا مشکل نہیں ۔ اس کے علاوہ جب ایک دو سے زیادہ کردار فکشن میں آ جائیں تو اسے ناول کی ہی خصوصیت سمجھنا پڑتا ہے۔ یہی خوبیاں Alice Munroe کے افسانوں میں بھی ہیں جنھیں طویل افسانہ کہنا درست ہو گا۔ ایک اور معتبر رائے بھی مختصر افسانے پر ابھی حال میں آئی ہے۔ چونکہ ادبی تحریر کا ایک بڑا مقصد علم میں دوسروں کو شریک کرنا بھی ہے، اسی لیے ایک آئرش دانشور کی رائے لکھ رہا ہوں ۔

A Story is a way to say something that can’t be said in any other way. and it takes every word in the story what the meaning is.

آئرش افسانہ نگاروں کا افسانہ نگاری میں بہت بڑا مقام رہا ہے اس لیے میں نے اس آرا کو لکھ دیا۔ دُنیا کے ان بڑے افسانہ نگاروں سے اردو کے افسانہ نگاروں کا مقابلہ کرنا یا ان کے مقام پر انھیں پہنچا دینا ایک ظریفانہ عمل ہے۔ چونکہ اس طرح نہ صرف اردو بلکہ ان بڑے افسانہ نگاروں کی ساری تخلیق کا مطالعہ لازمی ہے۔ اور ایسا دعویٰ کرنا اردو کیا کسی بھی زبان کے ادیب نہیں کر سکتے۔ انگلستان کے کسی بڑے ادیب کا ذکر ہوتا ہے تو اسے جرمنی یا فرانس کے بڑے ادیبوں سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ کسی کے اثرات انگلستان کے ادیب نے اگر قبول کیے ہیں تو اسے بیان کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ کی بابت لکھا گیا ہے۔ جو فرنچ شاعر Jules Laforgu سے متاثر ہوئے تھے یا جیمس جوئس جس نے داخلی مکالمے کے ہنر کو کسی فرنچ ادیب سے لیا تھا۔

نسیم انجم نے جرائم پیشہ افراد یا جرائم کو اپنا موضوع بنایا ہے اور مجرموں کی انسانیت اور ان کی نفسیاتی کشمکش کو نمایاں کیا ہے۔ یہی ان کی انفرادیت ہے جو ان کی تخلیق کو اہم بناتی ہے۔ دراصل جرائم کی بابت لکھنا اس عدم تحفظ کا اظہار ہے جسے ہر شخص معاشرے میں محسوس کرتا ہے۔ یہ وہ عنوان ہے جس پر خواتین کیا مرد ادیبوں کی نگاہ بھی کم جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں جرائم کو فکشن کی اصناف میں محترم رتبہ دینا ایک عرصے سے رائج ہے۔ اس سلسلے میں شرلک ہومز کی جاسوسی کہانیوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اب یہ فن اور بھی ترقی کر  ٭٭ سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدچکا ہے جس میں عورتیں بھی نامور ہو رہی ہیں ۔ نسیم انجم کے افسانے سراغ رسانی سے تعلق نہیں رکھتے۔ بلکہ جرم اور مجرموں کو قاری کے سامنے لا کر اسے دعوتِ فکر دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے اس کے سامنے انسانی زندگی اور معاشرے کے نئے پرت کھلنے لگتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کے صرف چار افسانوں کا جائزہ لینا مناسب ہے۔

’’منہ چھپانے والی عورت‘‘ افسانے میں روبینہ نام کی عورت ہے جو اپنی یتیم بیٹیوں کی پرورش کی خاطر پیشہ ور عورتوں کے درمیان پہنچتی ہے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتی ہے۔ تھانے میں وہ انسپکٹر کے سامنے بہت روتی گڑگڑاتی ہے اور اپنی معصومیت کا طرح طرح سے یقین دلاتی ہے۔ اور بار بار یہی کہتی ہے کہ وہ پہلی بار ان عورتوں کے پاس آئی تھی، اور جس کی وجہ اس کی بیوگی، غربت اور اس کی بیٹی کا خون کے سرطان میں مبتلا ہونا ہے اور جس کے لیے خون خریدنا لازمی ہے۔ ورنہ وہ جان توڑ دے گی۔ لیکن انسپکٹر کو یقین نہیں آتا۔ عورت کے بہت رونے گڑگڑانے پر وہ اسے رخصت کر دیتا ہے، لیکن اس کے جانے سے پہلے اس کی تصویر کھینچ کر اور اس کے جرم کی نوعیت لکھ کر تھانے کے ریکارڈ میں رکھ لیتا ہے۔ روبینہ جب واپس آتی ہے تو اس کی بیٹی مر چکی ہوتی ہے۔ وہ کسی طرح اذیت بھری زندگی گزارنے لگتی ہے۔ اچانک ایک دن وہ انسپکٹر اس کے گھر آتا ہے اور اس کی تصویر اور اس کی بابت تھانے میں لکھی روداد کو اسے واپس کر دیتا ہے۔ اور روبینہ کی زندگی پھر بدل جاتی ہے۔ اور ایک دن وہ بھی آتا ہے جب اس کی بیٹیوں کی شادیاں ہونے لگتی ہیں اور جس دن اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی ہونے لگتی ہے تو روبینہ کو اس کا وہ ہولناک ماضی یاد آنے لگتا ہے۔

افسانے کا اسلوب غیر معمولی تاثر دیتا ہے۔ افسانے میں وہ حسین استعارے اور کنایے ہیں جو مختصر افسانے کا ہنر ہیں ۔

’’تیسرے کانسٹیبل نے اس کی چادر کا کونا کھینچنے کی کوشش کی، اس کی دودھیا رنگت کمرے کی روشنی میں پھیل گئی۔‘‘ یا ’’ایک عورت (روبینہ) اپنے ڈھکے ہوئے جسم کو مزید ڈھانپنے کی اس وقت کوشش کر رہی تھی جب کہ دیگر مرد اور عورتوں کے برہنہ اجسام پر بید کی شائیں شائیں ہو رہی تھی۔‘‘ اس جملے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ روبینہ نے اپنا جسم بد فعلی کے لیے نہیں پیش کیا تھا۔

اور اس کے علاوہ ایسے مکالمے جو کرداروں کو اس طرح زندہ کر دیتے ہیں کہ وہ پاس کھڑے محسوس ہوتے ہیں ۔ ’’اچھا؟ تو تم نیک پروین ہو، سیتا ہو یا راجہ داہر کی مغوی… بند کر یہ ڈرامہ۔‘‘ انسپکٹر کا کہنا۔

افسانہ کو پڑھتے وقت یہی احساس ہوتا ہے کہ سارے واقعات دو سطح پر ایک ساتھ ہو رہے ہیں ۔ روبینہ کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی وہ خود اس واردات میں گرفتار ہو رہی ہے۔ حال اور ماضی ایک دوسرے میں جذب ہیں یا حال کو ماضی نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ افسانہ ایک ماورائی تصور محسوس ہوتا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ یقیناً نہیں ۔ اس لیے ذرا سا غور کرنے کے بعد خیال آتا ہے اور جیسا کہ مصنفہ نے خود بیان کیا۔ روبینہ کو اپنی بیٹی کی شادی کے دن وہ واقعات یاد آرہے ہیں ۔ اس کی اپنی مجبوری اور بے بسی جس نے اس جیسی شریف عورت کو بدکرداری کی منزل پر پہنچا دیا تھا اور جو محض اس انسپکٹر کی شرافت کی وجہ سے بچ گئی۔ افسانے میں دو بالکل مختلف واقعات، یعنی خوشی اور غم نیز بے شرمی اور انتہائی مسرت کے لمحات، کا جس طرح پہلو بہ پہلو ہونا یعنی Juxtaposition، وہ افسانے کے تاثر کو شدید سے شدید تر بناتا ہے۔ اسی لیے اس افسانے کو بہت اچھا کہنے میں جھجک نہیں محسوس ہوتی۔ افسانے کی خامی انسپکٹر کا کردار ہے۔ نسیم انجم نے عمدہ مکالمے سے اس کی اس ظالمانہ فطرت کا بڑی خوبی سے اظہار کیا ہے۔ پولیس والے اپنے کام میں اسی رویے کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ روبینہ کو اسی شرط پر رہا کرتا ہے کہ وہ مستقبل میں اس کی داشتہ بن کر رہے۔ لیکن انسپکٹر کا اچانک اتنا نیک دل بن جانا کہ وہ ایک دن روبینہ کے گھر آ کر اس کی تصویر اور اس کی بابت رپورٹ اسے واپس کر دیتا ہے، وہ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسپکٹر مصنفہ سے اپنی بابت کچھ اور چاہتا ہے۔ یعنی اشارے اور کنایے ہی سے سہی اس کی بابت اتنا لکھنا ضروری تھا کہ وہ ایک بڑی نیکی کرنے کا اہل ہے۔ خاص کر یوں بھی کہ ہر انسان میں اس کی برائیوں کے مقابلے میں اس کی نیکیاں کہیں زیادہ ہوتی ہیں ۔ ایک اور بھی نکتہ ہے وہ یہ کہ روبینہ اپنی مجبوری اور بے کسی ظاہر کرنے کے لیے خود کو اس بلی سے مشابہت دیتی ہے جو ہمیشہ کسی ظالم بلے کی زد میں رہتی ہے۔ مکالمہ کچھ طویل سا ہے۔

’’سیاہ گلاب‘‘ افسانہ پڑھنے کے بعد فوراً پتہ ہو جاتا ہے کہ یہ فلسطینی خود کُش بمبار کی بابت ہے۔ خود کُش بمباری سے فلسطینیوں کو فائدہ ہوا یا نقصان اور مسلمانوں یا مذہب اسلام کو وقار ملا یا نہیں ۔ سیاسی نکات ہیں ۔ ادیب کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اس فعل کے تمام پہلوؤں کو اپنی تخلیق میں لائے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے اور جو طویل افسانہ یا ناول میں ممکن ہے تو بڑی بات ہوسکتی ہے۔ میں نے افسانہ پڑھتے وقت ایسی کوئی توقع نہیں کی تھی۔ افسانہ ابتدا ہی سے ایک تجسس کی فضا قائم کرتا ہے جس کی وجہ افسانہ کا مرکزی کردار کا ابو صالح اچانک سیاہ گلاب نام کی تنظیم کے ایک اہم فرد کے پاس پہنچتا ہے۔ سیاہ گلاب دکھا کر اور اس کے بعد زرد گلاب کو جماعت کے دوسرے رکن کے پاس پا کر ایک دوسرے کی شناخت ہوتی ہے۔ ابو صالح کو دوسرے دن خود کُش بمباری کرنی ہے جس کی وجہ سے اسے اپنا حلیہ تبدیل کرنا ہے اور اس رات آرام بھی کرنا ہے۔ کمرے کے اندر جو آرائش ہے اور کھانے پینے کی جو اشیا لائی جاتی ہیں ، ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی عرب یا مشرق وسطیٰ کے رہنے والے کا گھر ہے۔ اور یہ اہم نکتہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب میں ایک طویل عرصے کے لیے کراچی میں مقیم تھا تو آرٹس کونسل کے ایک شام افسانہ میں شریک ہونے کا مجھے موقعہ ملا۔ کسی نے عرب کرداروں پر مبنی ایک افسانہ پڑھ کر سنایا۔ افسانہ میں وہ فضا نہیں تھی، جس سے پتہ چلتا کہ یہ سب کچھ کسی عرب خطے میں ہو رہا ہے۔ میں نے بعد میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس افسانے میں اس کی کمی ہے۔ اردو کے ایک مستند نقاد میرے سامنے بیٹھے تھے۔ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ افسانے میں ایسا ہونا ضروری نہیں ۔ نقاد چونکہ مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں ، اس لیے میں ان کا نام نہیں لکھنا چاہتا۔ انھوں نے جو کچھ کہا اس سے یہی پتہ چلا کہ انھوں نے افسانہ کی وسعت اور اس کی اہم جزئیات پر غور ہی نہیں کیا ہے۔ افسانے کا Atmospheric ہونا اس کے حسن کو نکھارتا ہے۔ اور اس فضا کو محض تین چار جملوں سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ابو صالح جانتا ہے کہ خود کُش بمباری میں اس کی موت یقینی ہے۔ اس وجہ سے اسے جو گھبراہٹ اور خوف ہے، اس کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ مثلاً، ابو صالح کا بھوک نہیں لگنا اور بہ مشکل دو تین لقمے کھانا، نیند کا نہیں آنا، یہ سب اس کی گھبراہٹ کی دلیل ہیں ۔ وہ جو سورما ہیں اور جنگ میں حصّہ لے چکے ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لڑائی سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے یقیناً گھبراہٹ ہوتی ہے اور ڈر بھی لگتا ہے۔ موت سے ڈرنا فطری ہے۔ انسان اسی دُنیا سے واقف ہے۔ اردگرد جو دیکھتا اور سنتا ہے اسی سے وہ آشنا ہے۔ بہ قول حضرت علیؓ کہ جو گیا وہ واپس نہیں آیا۔ ظاہر ہے اگر وہ واپس نہیں آیا تو موت کے بعد اس نے کیا دیکھا یا سنا اس کی بابت کچھ پتہ نہیں چل سکتا۔

جس رات ابو صالح اپنے دوست کے گھر میں قیام کر رہا ہے اسے اپنی بیوی، بیٹا اور ماں باپ یاد آتے ہیں ۔ ان سے جو گفتگو ہوئی تھی وہ اسے یاد آتی ہے۔ ان سب کرداروں کے مکالمے سے کسی میلو ڈراما یا تصنع کا احساس نہیں ہوتا۔ مختصر مکالمے سے ان سب کی مخصوص محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور وہ واقعہ بھی اسے یاد آتا ہے جب ابو صالح اپنے اس بھائی کی قبر پر جاتا ہے جس نے بھی خود کُش بمباری میں حصّہ لیا تھا اور مارا گیا تھا۔ ماں ابو صالح کو کہتی ہے کہ اس کے مزار کی مٹی اس کے لیے لے کر آئے۔ اس بات سے ماں کی عظیم اور مقدس محبت کا شدید تاثر اُبھرتا ہے۔ دوسرے دن ابو صالح بھیس بدل کر اس گاڑی میں سوار ہوتا ہے جس میں اسے خودکُش بمباری کے لیے جانا ہے اور وہ اس فریضے کو انجام دیتے ہوئے اپنی جان دے دیتا ہے۔ افسانہ اس کی بیوی اور بیٹے کی تنہائی پر ختم ہوتا ہے۔ چونکہ انھیں ہی اب ابو صالح کے بغیر مجبور اور بے بس زندگی گزارنی ہے۔ افسانے سے مصنفہ کی گہری سوچ اور فن پر گرفت کا علم ہوتا ہے۔

گلاب فن واجد نام کے ایک جیب کترے کا افسانہ ہے جسے اس کا استاد جیب کترنے کا طریقہ جب سکھاتا ہے تو اسے بتاتا ہے کہ پانی سے بھرے برتن میں سے گلاب کو اس طرح اُٹھائے کہ پانی میں کوئی  حرکت نہ ہو۔ واجد ایک نیک خوبصورت لڑکا ہے جسے بدمعاشوں نے اُٹھا لیا ہے اور اسے جرم کی تربیت دیتے ہیں ۔ واجد جلد اس فن میں ماہر ہو جاتا ہے اور استاد کا منظور نظر بھی بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے دل کے کسی گوشے میں اس کی انسانیت چھپی ہوتی ہے۔ اور ایک دن جب وہ کسی ضعیف کی جیب سے وولیٹ اُڑا لیتا ہے تو اس کا احساسِ جُرم اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ وہ ضعیف کے گھر پر پہنچ کر وولیٹ واپس کر دیتا ہے۔ اس گھر میں اسے اس ضعیف کی نابینا بیوی نظر آتی ہے اور مجبور بچے بھی نظر آتے ہیں ۔ اس سماں سے وہ اس حد تک متاثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے جرم کو ترک کر دینا چاہتا ہے۔ اس کے استاد کا جب انتقال ہوتا ہے تو واجد اس کی لاش پر گلاب کا پھول رکھ دیتا ہے۔ اس حرکت سے اس کی وہ نیکی نمایاں ہوتی ہے جسے وہ اب اپنانا چاہتا ہے۔ لیکن جرم اس حد تک اس کی روح میں بس چکا ہے کہ واجد فوراً اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ نسیم انجم نے مکالمے سے کرداروں کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔

’’نامُراد، عقل سے پیدل، کھوتا کہیں کا، اتنی دیر میں تو چار بچے ٹرینڈ کر دیتا۔‘‘

’’ابے چپ سالے، کیا لونڈیوں کی طرح روئے جا رہا ہے۔‘‘

اور بدمعاش استاد کے مرنے کے بعد اس کی لاش پر مکھیوں کا بھنبھنانا اور چیونٹیوں کا رینگنا ایک مجرم کی وہ سنگین سزا ہے جسے قدرت دیتی ہے۔ یہ نکتہ بھی افسانے کی تاثیر میں اضافہ ہے۔

بے کتبہ افسانہ اس جرم کی روداد ہے جو آئے دن لوٹ مار کی صورت میں کراچی میں نظر آتی ہے۔ اور جس کا شکار وہ معصوم بھی ہوتے ہیں جن کا کوئی تعلق اس قسم کے جرائم سے نہیں ہوتا۔ ایک دُور افتادہ قبرستان کا رکھوالا پیرو ہے جو گورکنی کے فرائض خاموشی سے انجام دے کر اپنی غریب بیوی اور بچے کا پیٹ پالتا ہے۔ ایک رات دو افراد آتے ہیں اور اسے قبر کھودنے کا حکم دیتے ہیں ۔ جب پیرو قبر کی ناپ کتنی ہو گی پوچھتا ہے تو دونوں مجرم حیرت زدہ ہو جاتے ہیں اور اسے پھٹکار کر کشادہ قبر کھودنے کی ہدایت دیتے ہیں ۔ یہاں پر پیرو کا وہ جواب اس کی سادگی اور ساتھ ہی اس گہری سوچ کی علامت ہے جو دن رات مُردوں سے واسطہ پڑنے کی وجہ سے پیرو کی سائیکی بن گئی ہے۔

’’ساب! میرے کشادہ قبر کھودنے سے کیا فائدہ؟ یہ تو بندے کے اعمال پر ہووے۔ کشادہ قبر بھی تنگ ہو جاوے اور تنگ قبر بھی کشادہ! اﷲ کے کام اﷲ ہی جانے۔‘‘

جب پیرو کو پتہ نہیں چلتا کہ قبر کس کے لیے کھودی جا رہی ہے تو نسیم انجم کی تانیثی افکار خوبی سے نمایاں ہوتے ہیں اور چونکہ ان کا اظہار ایک مرد ہی کی زبان سے ہوتا ہے اس لیے ان کا تاثر کچھ اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔

’’ہو نہ ہو ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیوی ہی ہو گی۔ غیرت کے نام پر اس بے چاری کا گلا گھونٹ دیا ہو گا۔ خود چاہے باہر کچھ بھی کرتے پھریں ۔ کوئی پرسان حال نہیں ۔ ان کا تو بس چلتا ہی عورت پر ہے، بزدل کہیں کے‘‘۔ اس (پیرو) نے حقارت سے زمین پر تھوک دیا۔

قبر کی کھدائی کی اچھی رقم پیرو کو ملتی ہے اور اسے آلو گوشت کھانے کی تمنّا پوری ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی بیوی بھی اس کی کمائی پر نہال ہے۔ اس سادہ گورکن کو علم نہیں ہے کہ وہ دو افراد جن کے لیے اس نے قبر کھودی ہے وہ مجرم ہیں اور تابوت میں ہتھیار چھپا کر لاتے رہے ہیں ۔ ایک دن پولیس آتی ہے اور ان تازہ قبروں کو کھُدواتی ہے تو وہ تابوت ملتے ہیں ، جن میں لاش نہیں تھی۔

نسیم انجم نے اہم عنوانات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ایک عورت کے لیے مرد مجرموں یا شدّت پسندوں کی سائیکی کو سمجھنا آسان نہیں ۔ افسانے کے اختصار کو ہُنر تسلیم کرنا اور ساتھ ہی سبک روی سے سب کچھ کہہ دینا ایک مشکل کام رہا ہو گا۔ لیکن مصنفہ اس آزمایش میں پوری طرح کامیاب ہوئی ہیں ۔ ان سے اب بڑی توقعات وابستہ ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ انھیں پورا کریں گی۔

٭٭٭

 

گلاب فن

’’ابے پانی کیوں ہلتا ہے، او ر تیری تو انگلیاں بھی کانپ رہی ہیں ۔ ادھر دیکھ یہ دو انگلیوں کا کمال ہے۔‘‘

استاد نے دو انگلیوں کی مدد سے پانی میں تیرتے ہوئے گلاب کے پھول کو اُٹھا لیا۔

’’دیکھیو! اب غلطی نہ ہو۔ نہیں تو لگاؤں گا دو ہاتھ۔‘‘

’’کوشش کرتا ہوں استاد۔‘‘

وہ سرخ و سپید صحت مند لڑکا مریل سی آواز میں بولا۔

’’دیکھ! پھر پانی ہلا‘‘ وہ غصے سے چیخا اور گدّی سے پکڑ کر اسے اٹھایا اور ایک جھٹکے سے زمین پر پٹخ کر دو مکے اس کی کمر پر رسید کر دیے۔

’’نامراد، عقل سے پیدل، کھوتا کہیں کا، اتنی دیر میں تو میں چار بچے ٹرینڈ کر دیتا اور تجھے کئی گھنٹوں سے نہیں بلکہ کئی دنوں سے سمجھا رہا ہوں ۔ اور تو ویسا کا ویسا ہی کورا رہا۔‘‘

واجد، استاد کے چیخنے چلانے پر پہلے آنسو بہا رہا تھا لیکن اب آواز کے ساتھ بھائیں بھائیں ک رکے رونے لگا۔

’’ابے چپ سالے، کیا لونڈیوں کی طرح روئے جا رہا ہے‘‘ اس نے ایک زوردار تھپڑ اس کے شانے پر لگایا۔

دو منٹ تک اسے بغور دیکھتا رہا۔ پھر نرمی سے بولا ’’چل اب رونا دھونا بند کر، شاباش آنسو پونچھ ڈال‘‘

اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ کس وقت سختی کی اور کس وقت نرمی کی ضرورت پیش آتی ہے؟ اس لیے وہ موقع کی مناسبت سے ہی اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کر لیا کرتا تھا۔

چند لمحوں تک واجد سوچتا رہا، پھر اس نے اپنی دو انگلیوں کو قینچی کی شکل دی، اور پانی سے گلاب نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔

’’ہاں یہ ہوئی نا بات، قسم پیرانِ پیر کی لاتوں کے بھوت باتوں سے کدھر مانتے ہیں ‘‘ وہ خوش ہوتا ہوا بولا۔

’’ٹھیک ہے بس آج تو پورے دن پریکٹس کیے جا، اور ہاں یہ بات ذہن میں رکھیو کہ نہ پانی ہلے اور نہ تیری انگلیوں سے پھول نکلے۔‘‘

’’جی سمجھ گیا استاد‘‘

’’بس اب تو اپنا کام کیے جا‘‘

استاد چلا گیا، اور وہ پورا دن دلجمعی سے کام کرتا رہا۔

جس دن استاد نے فقیر محمد، کالیے اور عطا اﷲ کے ساتھ اسے کام پر بھیجا تو پہلے ہی دن اس نے کمال دکھا دیا۔ اب یہ کمال اس کا تھا یا قسمت کا کھیل۔ کون جانے؟

اس نے پورے دن میں تین جیبیں کاٹی تھیں اور وولٹ بغیر دیکھے ہوئے اپنے استاد کو پکڑا دیے تھے۔ وہ تو درمیان میں کھول کر دیکھنا چاہتا تھا لیکن عطا، فقیرے اور کالیے نے اسے سختی سے منع کر دیا تھا، کالیے نے بتایا تھا کہ استاد بہت چالاک آدمی ہے، سمجھ جاتا ہے کہ درمیان میں تلاشی ہوئی ہے، اگر ذرا بھی شک پڑ جائے تو قسم اﷲ پاک کی کوٹھری میں الٹا لٹکا دیتا ہے اور مرچوں کی دھونی بھی دیتا ہے۔ ایسا مزہ چکھاتا ہے کہ ماں قسم چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے۔‘‘

’’اچھا ہوا جو تم نے بتا دیا‘‘ واجد نے ڈرتے ہوئے کہا۔

اور وولٹ دوبارہ جیب میں رکھ لیا۔

جب شام کو سب لڑکوں نے پورے دن کی کارستانی سنا کر بٹوے اس کے حوالے کیے تو استاد کی باچھیں کھل گئیں ۔

بولا ’’جیو میرے شیرو۔ اب جاؤ دانہ پانی کھاؤ اور پڑ کر سو رہو، اور ہاں آج برف کا پانی نوابوں کے لیے، خوب پیو جی بھر کر اور عیش کرو۔‘‘

سب لڑکے استاد کی کھولی سے گزر کر کوٹھری میں چلے گئے۔ کوٹھری چاروں طرف سے بند تھی، ہوا نہ آنے کی وجہ سے کوٹھری میں گرمی اور حبس تھا۔

واجد روز کی طرح آج بھی چاروں طرف دیکھنے لگا، شاید کہیں کھڑکی نظر آ جائے، جسے وہ کھول دے۔

’’ابے بھورے! کیا گھوم گھوم کر دیکھ رہا ہے‘‘ لڑکوں کی دیکھ بھال کرنے والے مولا بخش نے اس کے چہرے کو تاڑتے ہوئے کہا

’’کچھ نہیں ‘‘ وہ ایسا گھبرایا جیسے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو۔

’’دیکھ اوپر، روشن دان ہے نا، اسے کھولنے کی کبھی غلطی نہ کرنا ورنہ دوسرے دن تو اسی روشن دان کے ہی ذریعے اوپر پہنچ چکا ہو گا۔ وہ رُکا اور پھر بولا۔

’’اور وہ رہا کوڑا‘‘ اس نے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ وہ کوڑے کو دیکھ کر مزید سہم کر دیوار سے چپک گیا۔

’’جا، اب روٹی کھا لے جا کر‘‘

اس نے مولا بخش سے اپنے حصّے کی روٹی لی اور بچوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا۔

’’ارے او بدبختو! بے صبرے نہ بنو آرام سے کھاؤ، آج استاد نے سب کے لیے دو دو روٹی کا انتظام کیا ہے۔‘‘

’’کس خوشی میں ؟‘‘ لڑکے پُر جوش لہجے میں بولے۔

’’ارے یہ اپنا نیا پنچھی جو آیا ہے۔ اس نے واجد کی طرف اشارہ کیا۔

’’لگتا ہے استاد کے من کو کچھ زیادہ ہی بھا گیا ہے‘‘ مولا بخش نے اپنی داہنی آنکھ دبائی، تو سب لڑکے مسکرانے لگے۔

واجد کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا، وہ سب کو حیران و پریشان ہو کر دیکھ رہا تھا۔

ابھی وہ کھانا کھا ہی رہے تھے کہ واجد کو استاد نے آواز لگائی۔

’’چل بے اُٹھ، تیری پیشی ہے‘‘ مولا بخش نے کہا۔

’’اب واجد کی خیر نہیں ‘‘ سب لڑکے ایک ساتھ بولے۔

واجد خوف کی وجہ سے تھر تھر کانپنے لگا۔

’’ارے گھبراتا کیوں ہے، ہوسکتا ہے کہ استاد نے تجھے شاباشی دینے کے لیے بلایا ہو۔‘‘

’’ہوسکتا ہے‘‘ سب لڑکوں نے مولا بخش کی بات کی تائید کی وہ ڈرتا ہوا استاد کی کھولی کی طرف چل دیا۔

’’جی استاد‘‘ وہ دروازے پر رُک کر بولا۔

’’ارے ڈرتا کیوں ہے، ادھر آ میرے پاس تیری پپّی جو لینی ہے استاد نے آگے بڑھ کر ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ کھینچا اور چٹاخ سے اس کے گال پر پیار کر لیا۔ پیار کرتے ہوئے پان کی پیک اس کے کپڑوں پر گر گئی، پیک اس کے کپڑوں سے جذب ہو کر اس کے جسم پر بہنے لگی تھی، اسے بے حد کراہیت اور گھن محسوس ہو رہی تھی لیکن خوف کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کر سکا اور سر جھُکائے خاموش کھڑا رہا۔

’’بھئی واجد! تُو نے تو یار کمال ہی کر دیا، ایک دن میں تین بٹوے اُڑا لیے اور وہ بھی نقدی سے بھرے ہوئے، قسم پیرانِ پیر کی تیرا نام تو جیب کتروں کی تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔ واہ میرے شیر دل خوش کر دیا ایمان سے تُو نے۔‘‘

لے اسے رکھ لے، اس نے دس کا نوٹ اس کی طرف بڑھایا اور بولا جلیبی منگا لیجیو اس کی، دودھ مولا بخش سے لے لیجیو اور ہاں سونے سے پہلے میری ٹانگیں ضرور داب دیجیو‘‘ اس نے چھوٹے سے تخت پر اپنی ٹانگیں تانتے ہوئے کہا۔

اس نے استاد کو غور سے دیکھا، ملگجا لمبا سا کُرتا، گلے میں تعویذ اور منہ میں پان کی گلوری، چہرہ پھٹکار زدہ، ایسے خوف ناک آدمیوں کو دیکھ کر تو وہ ریس ہو جایا کرتا تھا۔

’’کیا دیکھ رہا ہے؟‘‘ استاد نے مسکرا کر آنکھ دبائی۔

’’کچھ نہیں استاد‘‘ وہ جھینپ سا گیا اور واپس جانے کے لیے مُڑ گیا۔

’’کیا ہوا، سب خیر تو ہے، اس کے ساتھیوں اور مولا بخش نے پوچھا۔ اس نے سب باتیں بتا کر دس کا نوٹ مولا بخش کی طرف بڑھا دیا اور بولا، ’’اس کی ٹافیاں لا دینا، ہم سب کھائیں گے۔‘‘

’’واجد، ہمارا واجد زندہ باد‘‘ بچوں نے شور مچایا۔

’’ابے سالو چپ ہوتے ہو یا نہیں ؟ یہ کوئی تمہارے ماما کا گھر ہے؟ یہاں ہر دم جان کو خطرہ لگا رہتا ہے۔ کسی وقت بھی کچھ ہوسکتا ہے؟‘‘ مولا بخش غصّے سے چیخا۔

لڑکے سب خاموش ہو گئے، البتہ واجد ایک کونے میں سہم کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بچے سونے کے لیے لیٹ گئے اور وہ استاد کی کھولی کی طرف بڑھ گیا۔

استاد کی خدمت کرنے اور اس کی نصیحتیں سننے کے بعد جب وہ تھکے تھکے قدموں سے کوٹھری میں واپس آیا تو بچے سب سوچکے تھے، البتہ مولا بخش کی سرخ سرخ آنکھیں اس کا تعاقب کر رہی تھیں ۔

اس کے اندازے کے مطابق رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اس نے بھی آنکھیں موند لیں ۔

آج اس کے اور اس کے ماں باپ کے تمام خواب چکنا چُور ہو گئے تھے۔ وہ کیا بننا چاہتا تھا اور کیا بن گیا؟

’’جیب کترا‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا۔

کاش وہ اپنے ماں باپ کی نصیحتوں پر عمل کرتا اور اسکول سے میلہ دیکھنے نہ جاتا تو اس طرح اغوا نہ ہوتا اور نہ۔۔۔۔۔ اسے اپنی بہن کلثوم بھی شدّت سے یاد آ رہی تھی ’’میرے بغیر وہ کیسے سوتی ہو گی؟‘‘

اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور روتے روتے وہ نہ جانے کب سو گیا۔

اس نے دو تین روز میں فرار ہونے کے بارے میں بہت سوچا تھا لیکن پہرے بہت سخت تھے استاد کا ایک آدمی جمال الدین عرف جمالو ان سب کی نگرانی پر مقرر تھا، وہ ہر لمحے سائے کی طرح ان کے پیچھے لگا رہتا۔

کالیے اور فقیرے نے اسے بتایا تھا کہ پچھلے سال دو بچوں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن پکڑے گئے، استاد نے ایک کے ہاتھ پیر کٹوا کر چوراہے پر بھیک مانگنے بٹھا دیا تھا اور دوسرے کی آنکھوں میں جمالو نے لوہے کی گرم گرم سلاخیں ڈال دی تھیں ، اب وہ بھی سنیما کے سامنے بیٹھ کر بھیک مانگتا ہے۔ اور رات کو جمال کا یار ہے نا شیدا، وہ اپنے اڈے پر لے جاتا ہے‘‘ واجد نے اس طرح کے واقعات سن کر دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ کبھی بھی بھاگنے کا خیال دل میں نہ لائے گا۔

چند ہی سالوں بعد وہ نہ صرف یہ کہ ایک ماہر جیب تراش بن گیا تھا بلکہ استاد کی جگہ نئے بچوں کو ٹریننگ دینے پر بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔ استاد کو واجد شروع ہی سے پسند تھا لیکن جوان ہونے کے بعد تو وہ استاد کے ساتھ ساتھ سب کی ہی نگاہوں کا مرکز بن گیا تھا۔

سرخ سپید رنگت پر ہر رنگ خوب جچتا تھا وہ اپنے گلے میں ہر وقت سرخ رومال باندھے رکھتا اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا کڑا پڑا رہتا۔ استاد اسے دیکھ کر سینے پر ہاتھ مار کر کہتا۔

’’واہ ظالم! کیا چیز نکلی ہے، قسم پیرانِ پیر کی تجھ پر لونڈیاں تو بہت مرتی ہوں گی۔ پر دیکھیو! کسی کو دل نہ دے بیٹھیو! ان کاموں میں پیارے، پیار محبت، شادی بیاہ سب کچھ بے کار ہے۔‘‘

’’جانتا ہوں استاد! پر تُو فکر نہ کر، اپنی قسمت میں سہرے کے پھول کہاں ؟‘‘

اب دل چھوٹا نہ کر، تھوڑے ہی دن بعد میں اپنی گدّی تیرے حوالے کرنے والا ہوں ۔ اب مجھ سے کام نہیں سنبھلتا۔ بس دل کرتا ہے ہر دم سٹہ لگاتا رہوں اور پڑا سوتا رہوں پھر تُو چاہے تو شادی کر لینا، لڑکی میں بتا دوں گا، بھئی وہ اپنا جمالو ہے نا، اس کی لونڈیا خیرون اگلے چوراہے پر بھیک مانگتی ہے۔ لونڈیا ہے بڑی خوب صورت، ایک دن جمالو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے اس کا بیاہ کرنا ہے، ہر آدمی اس پر میلی نگاہ ڈالتا ہے اور یہ بھی کہہ رہا تھا کہ میں چور اُچکا ضرور ہوں ’بے غیرت‘ نہیں ۔‘‘

’’استاد میں ’’بھک منگی‘‘ سے شادی کروں گا؟‘‘

’’تو کیا تجھے کوئی استانی یا ڈاکٹرنی ملے گی؟‘‘ استاد قہقہہ لگا کر بولا۔

’’نہیں استاد مجھے شادی ہی نہیں کرنی، بس تمہاری ہی طرح زندگی گزاروں گا۔‘‘

’’ہاں یہ ہوئی نا بات‘‘ استاد نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے استاد! چلتا ہوں ‘‘ پھر وہ باہر نکل گیا۔

استاد کی خصوصی توجہ ،محبت اور کچھ جوانی کے زور نے اسے نڈر بنا دیا تھا، اور اب وہ نہ جمالو سے خوف زدہ تھا اور نہ استاد اور مولا بخش سے۔ بھاگنا چاہتا تو آسانی سے بھاگ بھی سکتا تھا لیکن وہ بھاگ کر کہاں جائے؟ گھر جا نہیں سکتا ہے، چونکہ وہ اپنے ماں باپ کے خوابوں کی تعبیر نہیں تھا۔

’’نہیں میں ، گھر اب کبھی نہیں لوٹوں گا، اگر عزت کی زندگی گزارنے کی خواہش ہوئی تو دوسرے شہر بھی جا سکتا ہوں ، لیکن اگر پکڑا گیا۔۔۔۔۔؟ تو میرے ہاتھ پیر کسی قیمت پر بھی سلامت نہیں رہ سکیں گے۔‘‘ بچپن کا خوف اس کے خیالات پر غالب آ جاتا تو وہ اپنا ارادہ ترک کر دیتا۔

اس قسم کی سوچوں نے اسے ذہنی طور پر الجھا کر رکھ دیا تھا۔ استاد بچہ تو تھا نہیں جو اس کی پریشانی کو سمجھ نہ پاتا۔ ایک دن اس نے اسے بلا کر پوچھا۔

’’واجد سچ سچ بتا کیا بات ہے؟ اپنا یار آج کل کچھ بدلا بدلا سا نظر آ رہا ہے اور ہاں تُو نے تو اپنا حُلیہ بھی بدل ڈالا ہے نہ گلے میں رومال ہے نہ ہاتھ میں کڑا، قسم پیرانِ پیر کی بالکل اشٹوڈنٹ لگے ہے۔‘‘

’’استاد! بات کچھ نہیں ہے، بس آج کل نہ جانے کیوں ماں باپ، بہن بھائی، دوست، گھر، محلہ، گلیاں ، اسکول سب کچھ یاد آ رہا ہے‘‘ اس نے اُداسی سے کہا۔

’’گھر جانا چاہتا ہے؟‘‘

’’کس منہ سے جاؤں گا استاد؟‘‘

’’اسی منہ سے جا مل کر آ جائیو‘‘

’’نہیں استاد، اب یہ ناممکن ہے‘‘

’’ہاں تو کہتا تو ٹھیک ہی ہے جرم کی دُنیا سے واپسی ناممکن ہوتی ہے جو داغ ماتھے پر ایک دفعہ لگ جائے نا، عمر بھر نہیں چھوٹتا ہے، تجربے کی بات بتا رہا ہوں ‘‘ استاد سنجیدگی سے بولا۔

’’استاد! کیا تم بھی میری ہی طرح پھنسے تھے؟‘‘

استاد مسکرایا۔ پھر بولا ’’میری ماں شریف عورت تھی پر باپ اوّل درجے کا بدمعاش، بس وہی لایا ہے مجھے ادھر‘‘

’’استاد! تم نے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘ واجد نے استاد کا مزاج دیکھتے ہوئے دوسرا سوال کر دیا۔

’’شادی؟ ارے شادی تو میں نے تم سب سے کر لی ہے نا‘‘ اس نے آنکھ کو جنبش دے کر کہا۔

’’اچھا استاد چلتا ہوں ، دھندے کے لیے دیر ہو رہی ہے‘‘ پھر وہ کھولی سے باہر نکل گیا۔

تھوڑے ہی عرصے بعد استاد نے اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو اکٹھا کیا اور سب کے سامنے واجد کو اپنا گدی نشین بنانے کا اعلان کر دیا۔

جمالو اور چراغ دین کے علاوہ کسی کو استاد کے فیصلے سے اختلاف نہیں تھا، لیکن استاد کے جلال کو دیکھ کر وہ بھی ٹھنڈے ہو گئے۔ استاد کافی عرصہ سے کئی موذی امراض میں مبتلا تھا لیکن ان دنوں کچھ زیادہ ہی بیمار ہو گیا تھا۔ واجد نے اس کی تیمار داری میں دن رات ایک کر دیا، دوا دارو کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن افاقہ ہونے کے بجائے مرض بڑھتا ہی چلا گیا۔

استاد کی مستقل دیکھ بھال کی وجہ سے اس کی طبیعت اچاٹ سی ہو گئی تھی لہٰذا اس نے استاد سے باہر جانے کی اجازت طلب کی، نقاہت کی وجہ سے اس سے بولا نہیں گیا، اس نے اشارے سے کہا جلدی آ جانا۔

’’بالکل استاد! ابھی آیا، تمہاری دیکھ بھال فقیر اور کالیا کریں گے۔ میں نے انھیں اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔‘‘

پھر وہ باہر نکل گیا۔ بس اسٹاپ پر پہنچ کر وہ سوچنے لگا کہ وہ کہاں جائے؟ چونکہ اب وہ بالکل آزاد تھا۔ اس کا پیچھا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس نے پان کے کھوکے سے پان لے کر منہ میں رکھا اور اسٹول پر بیٹھ کر مستقبل کے بارے میں پلاننگ کرتا رہا۔ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ استاد اب ایک دو روز کا مہمان ہے۔ پھر اسے ہی سارے کام سنبھالنے ہیں ۔ جب اسے بیٹھے بیٹھے کافی دیر گزر گئی تب اس کا دل چاہا کیوں نہ کسی اچھے سے ہوٹل میں جا کر کھانا کھا لے۔ اس مقصد کے لیے وہ اسٹاپ پر آنے والی کوچ میں بیٹھ گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ہاتھ صاف کر دیا۔ ہوٹل میں پہنچ کر اس نے سب سے پہلے چائے کا آرڈر دیا اور خود وولیٹ کی تلاشی لینے لگا۔ وولیٹ میں بہت سارے نیلے نوٹ تھے اس نے جلدی جلدی گنے تو پوری تیس ہزار کی رقم تھی۔ اتنے سارے پیسے تو اس نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ ویسے بھی وہ سب استاد کو دیکھے بغیر ہی وولیٹ پکڑا دیتا تھا، وولیٹ میں ایک دو رسیدیں اور ڈاک کا لفافہ بھی تھا، لفافے پر بھیجنے والے کا ایڈریس درج تھا گویا خط پوسٹ ہونا باقی تھا۔

اتنی بڑی رقم کسی خاص ضرورت کی ہوسکتی ہے، ہوسکتا ہے کسی بیمار کے علاج کے لیے ہو یا کسی غریب کی بیٹی کا جہیز خریدنے کے لیے یا پھر کسی اور ضرورت کے لیے۔

اس نے دل ہی دل میں سوچا اور اس بوڑھے آدمی کا سراپا اس کی نگاہوں میں گھوم گیا۔

وہ سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ اس کے ہاتھ میں کے ٹو کا پیکٹ تھا وہ اس میں سے بار بار سگریٹ نکال کر ہونٹوں سے لگا لیتا اور دھوئیں کے مرغولوں میں گم ہو جاتا۔

’’اگر میں یہ رقم واپس کر دوں تو؟‘‘

معاً اس کے دل میں خیال بجلی کی طرح کوندا۔ ’’ماں کہتی تھی کہ ایمان داری بہت بڑی دولت ہے۔ تو کیا میں اس دولت کو حاصل نہیں کر سکتا ہوں ۔ چونکہ میں اب آزاد ہوں ویسے بھی ساری عمر لوگوں کی خوشیاں لوٹتا رہا ہوں اور آج کسی ایک کو ہی خوشی لوٹا دوں ؟ اور میں یہ کر سکتا ہوں ۔‘‘

اس نے ٹیکسی کی اور بہت جلدی مطلوبہ پتے پر پہنچ گیا۔ دروازے پر بیل بجتے ہی دروازہ اس قدر تیزی سے کھلا جیسے وہ کسی کا انتظار کر رہے ہوں ۔ سب سے آگے وہی بڑے میاں تھے۔ اسے پہچاننے میں بالکل دیر نہیں لگی۔ بڑے میاں کے پیچھے ایک نابینا بوڑھی عورت تھی جو لاٹھی کی مدد سے آگے بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ ان کے پیچھے ایک جوان عورت اور ایک کم عمر لڑکی اور چار پانچ بچے بھی تھے۔ سب کے کپڑے ملگجے اور آنکھیں روئی ہوئی تھی، امید و بیم کی کیفیت ان کے چہروں پر عیاں تھی۔

اس نے وولیٹ جیب سے نکالا اور بڑے میاں کی طرف بڑھا دیا۔

’’ارے؟ مل گئی رقم، آ گئی کمیٹی، اب میری اماں کی آنکھوں کا آپریشن ضرور ہو گا، ہماری سالوں کی کمائی‘‘

’’نفل روزے، منتیں کیا کیا نہیں مانی تھیں ؟ محنت کی کمائی تھی کہاں جاتی بھلا؟‘‘

وہ سب خود کلامی کی کیفیت میں مبتلا تھے، اور رقم کو ایک دوسرے سے جھپٹ جھپٹ کر دیکھ رہے تھے۔ ان پر شادیِ مرگ کی کیفیت طاری ہو چکی تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ ہوش میں آ کر اس سے پوچھ گچھ کرتے وہ خاموشی سے آ کر ٹیکسی میں بیٹھ گیا اور اس انمول خوشی سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

گھر پہنچا تو استاد کو مرے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے، سب نے نہلا دھُلا کر اسے کفنا دیا تھا۔ وہ لوگ اس کا ہی انتظار کر رہے تھے۔

وہ کھولی سے گزرتا ہوا اندر چلا گیا۔ کالیا اور فقیرا اس کے پاس آ گئے، اس نے ان دونوں سے آہستہ سے کچھ کہا۔

جواب میں وہ بولے ’’استاد! کوئی بھی نہیں جانا چاہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اب ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔‘‘

اور شاید استاد! ہم بھی کہیں نہ جا سکیں ۔ ان دونوں نے سرد آہ بھر کر کہا۔

’’ہاں کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا اور پھر کھولی میں آ گیا۔ نئے بچوں کو ٹریننگ دینے کے لیے بہت سے گلاب کے تازہ پھول ٹوکری میں رکھے تھے۔ اس نے ایک پھول اُٹھا لیا اور استاد کے جنازے کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ چند ثانیے تک وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا رہا اور پھر استاد کے کفن پر پھول رکھ کر دھیمے لہجے میں بولا۔

’’لو استاد آج میں نے تمہارا پھول تمہیں واپس کر دیا ہے‘‘ اس کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ استاد کے کفن پر گر کر جذب ہو گیا۔

اس کے اس عمل کو لڑکوں نے حیرت سے دیکھا اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔

’’یہ کیا استاد؟‘‘

فقیرا، عطا اﷲ اور کالیا کمزور سی آواز میں ایسے بولے، جیسے انھوں نے اپنی چیخوں کو اپنے اندر اُتار لیا ہو۔‘‘

اس قسم کی صورت حال سے، اس نے اپنے آپ کو اندر سے ٹوٹتا ہوا محسوس کیا۔

پھر اس کی نگاہیں اپنے ساتھیوں کے چہرے اور جنازے کا طواف کرنے لگیں ۔

جنازے کے اطراف میں کئی مکھیاں گشت کر رہی تھیں اور تخت کے پاس دس بارہ چیونٹیاں رینگے لگی تھیں ۔ لڑکوں کے چہرے سوالیہ نشان میں بدل گئے تھے۔

وہ کیا کرے؟ دو منٹ تک وہ شش و پنج میں مبتلا رہا، پھر بالکل اچانک اس کے جسم میں لرزش پیدا ہوئی اور اس نے کانپتے ہاتھوں سے استاد کے کفن سے پھول اُٹھا لیا۔

پھول اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ محسوس کر رہا تھا کہ جیسے وہ گہرے پانیوں کے بھنور میں اُبھر اور ڈوب رہا ہو۔

٭٭٭

 

مردم گزیدہ

وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ڈرے اور سہمے ہوئے انجانی منزل کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے، راستہ ناہموار اور پتھریلا تھا، کہیں کہیں ڈھلان یا کوئی گڑھا آ جاتا تب بڑھیا اپنے بڈھے کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیتی، اس کا کمزور، نحیف بدن دولخت ہوا جاتا۔ خمیدہ کمر مزید جھُک جاتی اور ٹانگیں کانپنے لگتیں ، سردی کی وجہ سے دانتوں کا باجا بھی مسلسل بجتا رہا۔

آ، اندر کو گھس آ، بڈھے نے اپنے گرم کوٹ کا ایک حصّہ آگے کی طرف پھیلا دیا، بڑھیا نے اپنا سر اس کے سینے پر اور سیدھا ہاتھ اس کی کمر کے گرد ڈال دیا، بڈھے نے بڑھیا کے بالائی جسم کو اپنے کوٹ سے اچھی طرح ڈھانپ دیا۔

’’سردی تو کم ہوئی، پر دکھائی نہ دے‘‘ بڑھیا منمنائی۔

’’تُو کاہے کو دیکھے، میں ہوں نا دیکھنے کے لیے، بس تو میرے ساتھ ساتھ قدم بڑھاتی رہ۔‘‘

’’نہ بابا، میرا دم گھٹے‘‘ اس نے کوٹ سے اپنا سر نکال لیا۔

’’ٹھیک ہے تو، تو اپنا باجا بجا۔‘‘

وہ تو بجے گا، بڑھیا کے منہ سے ’’سی سی‘‘ اور ’’ٹک ٹک‘‘ کی آوازیں مسلسل نکل رہی تھیں ۔

’’جوانی چلی گئی، پر تیرے نخرے نہ گئے‘‘ بڈھا کھسیانا سا ہو رہا تھا۔

’’تم تو میرے بڑھاپے کے یوں طعنے دے رہے ہو، جیسے تم ابھی تک نوجوان ہو‘‘ بڑھیا نے ’’آلات موسیقی‘‘ کو قابو میں کرتے ہوئے بہ مشکل الفاظ ادا کیے۔

’’ہاں ! میں اب بھی جوان ہوں ، دیکھ نہیں رہی تیز ہوا میں بھی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہوں ، تیری طرح جھولے میں نہیں بیٹھا‘‘ بڈھے نے اعتماد اور رعب دار لہجے کے ساتھ جواب دیا۔

’’تم! میری توہین کر رہے ہو، اچھا ہوتا جو میں اپنی بیٹی ’’رجاء‘‘ کے گھر چلی جاتی، وہ میرا ویزا بھیجنا چاہتی تھی، پر میں نے ہی منع کر دیا، میں نے اپنے آپ سے عہد جو کر لیا تھا کہ ساری عمر تمہارا ساتھ نبھاؤں گی، اب سوچتی ہوں ، غلطی کر بیٹھی۔‘‘

’’تو کیا رجاء نے مجھے نہیں بلایا تھا؟‘‘ بڈھا چہکا۔

’’بھئی اس نے اپنے ماں باپ کو بلایا تھا، آخر بیٹی جو ہوئی‘‘ بڑھیا نے بات اچک لی۔

’’اس نے ہم دونوں کو بلایا ضرور تھا، پر میں اپنا وطن، اپنا گھر، اپنے لوگ چھوڑ کر سات سمندر پار کیوں جاتا، مجھے تو اپنی ہی مٹی پیاری لگے اور میں اس میں ہی دفن ہونا چاہتا ہوں ۔‘‘

’’میں بہت تھک گئی ہوں ‘‘ بڑھیا چلتے چلتے رُک گئی۔

’’اری نیک بخت! ابھی سے تھک گئی، ابھی تو منزل بہت دُور ہے۔‘‘

وہ دونوں پگڈنڈی پر بیٹھ گئے، بڈھے نے بیگ اور بڑھیا نے چٹائی کی ٹوکری زمین پر رکھ دی۔

’’چندا!‘‘ بڈھے کے لہجے میں دنیا جہاں کا پیار سمٹ آیا۔

’’کیا ہے؟‘‘ وہ پیار کے ساگر میں ڈوب گئی۔

’’ایک کپ چائے تو پلا۔‘‘

’’تم تو یوں کہہ رہے ہو، جیسے میں باورچی خانے میں کھڑی ہوں ، سیانے ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں کہ بچے بوڑھے برابر ہوتے ہیں ‘‘ بڑھیا نے موقع پا کر چوٹ کی۔

’’لے لیا بدلا، تجھے یہ نہیں معلوم؟ سیانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ صورت پر نہیں سیرت پر جانا چاہیے، پر میں تھا سدا کا گاؤدی، تیری شکل پر مر مٹا، تو سدا کی زبان دراز تھی، اور آج بھی ہے‘‘ بڈھا انگاروں پر لوٹنے لگا۔

’’تمہارے مزاج میں تو شروع ہی سے گرمی ہے، عمر ڈھل گئی، پر مزاج نہ بدلا۔‘‘

یہ تو نے کیا عمر، عمر کی رٹ لگا رکھی ہے، میری عمر صرف ساٹھ سال ہے چھ سات آٹھ سال تو ایسے گزرے ہیں ، بلکہ پوری عمر ہی یوں گزری ہے کہ پتا ہی نہ چلا، اور ایک بات اور سن مرد، اس عمر میں کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، البتہ عورت پھونس ہو جاتی ہے‘‘ بڈھا جوش میں آ کر کھڑا ہو گیا۔

’’تمہاری عمر کے سب گزر چکے ہیں ‘‘ بڑھیا اگلے پچھلے تمام بدلے اُتارنے پر تلی ہوئی تھی۔

’’وہ میری عمر کے نہیں تھے، ہم جماعت ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب کی تاریخ پیدائش ایک ہو، اور پھر وہ سالے اپنی موت آپ مرے ہیں ۔ ادریس نشئی ہو گیا تھا اور عرفان کو مرغن غذائیں کھانے سے فرصت نہیں تھی، مرنے سے پہلے فٹ بال میں ڈھل گیا تھا، میں تو اکثر اسے کک مار کر کہتا، ابے چل گراؤنڈ میں ‘‘ بُڈھا مسکرانے لگا، ’’اور اس بے چارے قاضی مسرور کو اس کے بیٹے بہو ٹرسٹ چھوڑ آئے، اسی وقت کے لیے والدین اپنا خون پلا کر پروان چڑھاتے ہیں ، اس کا بدلہ اولاد اس طرح سے دے؟ بے چارہ یہ ہی صدمہ جھیل نہ سکا‘‘ بڈھے پر یاسیت طاری ہو گئی۔

اسی اثناء میں بڑھیا نے تھرماس اور دو کپ ٹوکری سے نکال کر باہر رکھ لیے تھے، پھر وہ چائے اُنڈیلنے لگی، اور نرمی سے بولی۔

’’کچھ کھانا ہے تو نکالوں ؟‘‘

’’ہاں خستہ پوریاں اور دو چار پکوڑے نکال لے، لیکن پہلے تھوڑا سا پانی دے دے‘‘ بڈھے نے تمام ہتھیار میدان جنگ میں پھینک دیے اور خود میدان سے خالی ہاتھ لوٹ آیا۔

’’تیرے ہاتھ میں ذائقہ اب تک ہے‘‘ بڈھے کے لب و لہجے میں مٹھاس گھل گئی۔

’’اب تک ہے کا کیا مطلب؟‘‘ بڑھیا ترش ہوتے ہوتے رہ گئی، پھر اس نے اپنے آپ کو جلد ہی سنبھال لیا اور بڑے رسان سے بولی۔

’’ذائقہ ہی تو ہے، اسی ہتھیار کو لے کر میں تمہارے دل میں اُتری اور تمہیں فتح کر لیا۔‘‘

’’ارے فتح تو میں نے تجھے اس دن کیا تھا جب تو بڑے بھیا کی شادی میں آسمانی غرارہ قمیص پہن کر ہمارے گھر جلوہ گر ہوئی تھی، آسمان تلے تو بالکل آسمانی پری لگ رہی تھی، یوں لگتا تھا کہ ابھی پر کھلے اور تو ابھی اُڑی، تجھے یاد ہے چندا تیری آؤ بھگت کر کے میں نے تجھے چند ہی گھنٹے میں شیشے میں اُتار لیا تھا۔‘‘

’’تیرا چاند چہرہ، گھٹاؤں جیسے بال، میں تو لُٹ گیا تھا، ایک دل ہی تو تھا پاس میرے جو مجھے کنواریوں کے پیچھے دوڑاتا اور میری درگت بنواتا، سو اس دن وہ بھی گیا۔‘‘

’’اچھا ہی ہوا جو ایک جگہ کا ہو رہا، ورنہ زندگی بھٹکتے گزر جاتی۔‘‘

بڈھا مکمل طور پر ماضی کا حصّہ بن چکا تھا اور بڑھیا سرنیہوڑائے خوشیوں کے جھولے میں بیٹھی محبت کی پینگ بڑھا رہی تھی۔

’’ارے! اندھیرا ہونے والا ہے، چل اب اُٹھ کھڑی ہو‘‘ بڈھے کو جیسے ہوش آ گیا، لیکن بڑھیا کے چہرے پر موسم بہار کا عکس اب بھی نمایاں تھا۔ پھر اس نے اپنے نین کٹوروں میں بہت سے پیار کے دیپ جلائے اور بڈھے کو اپنا ہاتھ تھما دیا، بڈھے نے اسے سہارا دے کر اُٹھایا اور وہ دونوں انجانی منزل کی سمت چل دیے۔

’’تُو نے میری ’’راڈو‘‘ گھڑی تو رکھ لی نا؟‘‘ بڈھا تشویش سے بولا۔

’’کیوں نہ رکھتی، تمام قیمتی چیزوں کی پوٹلی بنا کر چینی کے ڈبے میں چھپا دی ہے۔‘‘

’’اور ڈبا تو، تُو اپنے ساتھ لائی ہے نا۔‘‘

’’بالکل لائی ہوں ‘‘ بیگ میں دھرا ہے۔

’’چندا! مجھے یاد ہے جب ہم تقسیم ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آرہے تھے، اس وقت بھی ہمارا قیمتی اثاثہ ہمارے پاس تھا۔‘‘

’’ہاں یاد ہے‘‘ بڑھیا نے سرد آہ بھری، ’’بلوائیوں نے جب ہماری ٹرین رُکوائی تھی تو سکھنیوں نے کس طرح عورتوں کے جسم کی تلاشی لی اور میری شلوار کے نیفے میں اڑسے ہوئے تمام زیورات نکال لیے، ہائے مرے دل پر تو بجلی گر گئی تھی، اماں ابا نے اپنی لاڈلی کو کیا کیا نہ دیا تھا، پری بند، بازو بند، چمپا کلی، پازیب، چھلّے، بچھوے، چوڑیاں ، ہنسلی، کنگن، جھمکے۔‘‘

’’اور تجھے ہمارے گھر سے کچھ نہ ملا تھا‘‘ بڈھا چراغ پا ہو گیا۔

’’کیوں نہ ملا تھا، وہ بھی ان ہی زیورات میں شامل تھا، اب دو دو دفعہ ایک ہی چیز کا نام لینا کون سی دانائی کی بات ہے‘‘ بڑھیا نے نرمی کو برقرار رکھا۔ ’’ان بدبخت سکھ عورتوں نے پوٹلی اس زور سے کھینچی کہ کنگن کے کناروں سے میرے پیٹ کی کھال چھل گئی۔ کئی دنوں تک خون رستا رہا۔‘‘ ’’شکر کر جانیں بچ گئیں ورنہ تو لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔‘‘

’’ہاں ! جس کو اﷲ بچا لے‘‘ بڑھیا نے سرد آہ بھری۔

’’اندھیرا کافی پھیل گیا ہے، بس جلد سے جلد ٹھکانے پر پہنچ جانا چاہیے، مجھے اندھیرے سے بڑا خوف آتا ہے۔‘‘

بڑھیا نے جھرجھری بھری۔

’’ٹھکانہ ہے کہاں ؟‘‘ بڈھے نے سوال کیا۔

’’تو ہم کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘

’’تو بوجھ! دیکھیں آج تیری ذہانت؟‘‘

’’شاید کسی دوسرے شہر کی طرف۔‘‘

’’پاگل ہوئی ہے کیا، شہر سے نکل کر شہر میں جانا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ۔‘‘

’’تو پھر شاید ہم گاؤں ، دیہات کا رُخ کریں ہیں ؟‘‘

’’نہیں ، وہاں جانا بالکل ٹھیک نہیں ، وہ لوگ پیسے اور جائیداد کی خاطر ہم لوگوں کو کاراکاری کر کے مار دیں گے۔‘‘

’’اس عمر میں ؟‘‘ بڑھیا نے کھیسیں پھاڑیں ۔

’’وہ لوگ عمر ومر کچھ نہیں دیکھتے، پیسہ ہتھیانے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ‘‘ بڈھے نے دانائی کے گھوڑے دوڑائے۔

اچھا؟ بڑھیا نے ٹھنڈی سانس لی، ہندوستان کے سوا اب جگہ ہی کون سی بچی ہے؟ بڑھیا سوچ بچار کے بعد بولی۔

’’ارے چپ!‘‘ بڈھا طیش میں آ گیا، ’’ایمان سے تو کبھی بالکل پٹری سے اُتر جاتی ہے، اب ہم پرائے ملک جا کر کیا کریں گے؟ تجھے یاد نہیں گجرات کا واقعہ، نہتے کشمیریوں پر ان کا ظلم و ستم اور بھی دوسرے سیکڑوں واقعات۔‘‘

’’آخر ہم کب تک پیدل چلیں گے؟‘‘ بڑھیا نے موضوع بدل دیا۔

’’ٹیکسی کیوں نہیں کر لیتے‘‘ بڑھیا منمنائی۔

’’گھر چھوڑنے سے پہلے تجھے ہر بات سے آگاہ کیا تھا، کوئی بھی قابل اعتبار نہیں ، ہم دونوں کے خوف زدہ چہروں کو دیکھ کر ٹیکسی ڈرائیور ہمیں جان سے مار دے گا اور ہمارا اسباب لوٹ لے گا، میں ایک بار نہیں کئی بار ڈسا گیا ہوں ۔‘‘

بڑھیا چلتے چلتے رُک گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی ’’مجھ میں اب چلنے کی سکت نہیں ہے‘‘ پھر وہ ہری ہری گھاس پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی۔ تھرماس سے پانی نکال کر پیا اور اُداسی سے بولی۔

’’آخر ہم نے اپنا سجا سجایا گھر کیوں چھوڑ دیا، وہ گھر جس میں ہم نے زندگی کے تقریباً پچاس سال گزارے تھے، آخر کیوں ؟‘‘

’’یہ تو مجھ سے پوچھ رہی ہے؟‘‘ بڈھے کو حیرانی نے اپنے اندر اتار لیا۔

’’پھر کس سے پوچھوں ؟‘‘

’’تجھے نہیں معلوم؟ کیوں نہیں معلوم؟‘‘ بڈھا تلخ ہو گیا۔

’’گھر کے در و دیوار پر خوف کے سائے لہرانے لگے تھے۔ اس ڈر اور خوف نے ہمارے گھر میں ناجائز قبضہ جمایا ہوا تھا، زندگی کا ہر پل بھاری تھا۔‘‘

’’بس ہر گھڑی یوں ہی محسوس ہوتا جیسے کوئی گھر میں چھپ کر بیٹھا ہے اور مجھے اکیلا پا کر ذبح کر ڈالے گا، چھری کی نوکیلی نوک، پستول اور بندوق کی نال ہر دم میرے سامنے رہنے لگی تھی، ہر لمحہ ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے میرے بدن سے پھوٹتے‘‘ وہ خود کلامی میں مبتلا رہی، پھر ایک دم چونک کر بڈھے کی طرف دیکھنے لگی۔

’’تو کیا اندر اور باہر کے ماحول سے تم خائف نہ تھے؟‘‘ بڑھیا چڑچڑی سی نظر آنے لگی تھی۔

’’میں نے کب کہا کہ میں خوف سے آزاد تھا، ہمارے گھر تین دفعہ ڈاکہ پڑا، ڈاکو علیشا اور رجاء کا سارا جہیز لوٹ لے گئے، یہی شکر کہ ہماری اور ہماری بچیوں کی جانیں بچ گئیں ، تُو نے اس دن بڑی ہی عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور ڈاکوؤں کو الماری کی چابیاں پکڑا دیں ۔‘‘

’’پھر کیا کرتی، اس کے علاوہ چارہ نہ تھا۔‘‘

’’ہاں ، ہاں ، تُو نے اچھا کیا۔ میں ، میں تیری تعریف ہی کر رہا ہوں ۔‘‘

لیکن ڈکیتی کے بعد ہر دن مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی گھر میں کود گیا یا پھر گرل کاٹ کر اندر آ گیا ہے، بڑھیا خوف سے لرزنے لگی۔

’’چندا! جب سے بچیاں باہر گئی ہیں ، ہم لوگ تنہا رہ گئے ہیں ، ایک تو تنہائی دوسرے حالات نے اس قدر خوف زدہ کر دیا ہے کہ جینا مشکل ہو رہا ہے۔ جب سے اس پروفیسر اور اس کی بیوی کا قتل ہوا ہے، اس وقت سے یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں بھی کوئی آ کر اسی طرح قتل کر جائے گا۔‘‘

’’قتل تو اور بھی ہوئے ہیں فلیٹ میں لیڈی ڈاکٹر کا اور اس عورت کا جس کے بچے باہر رہتے تھے۔‘‘ بڑھیا نے اٹک اٹک کر بمشکل کہا، چونکہ اس کے منہ کا باجا پھر بجنے لگا تھا۔

’’میرے لیے تو گھر باہر دونوں ہی ایک سے ہیں ۔ گھر میں حفاظت نہیں تو باہر کون سی ہے؟ شہر کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں ‘‘ بڈھے نے سرد آہ بھری اور پھر خالی خالی نگاہوں سے اپنے اطراف میں دیکھنے لگا۔

’’کاش! ہمارے بھی بیٹے ہوتے تو آج ہم یوں دربدر نہ ہوتے۔‘‘

’’شکر کر نہیں ہیں !‘‘ بڈھے نے بڑھیا کی بات کا مختصر جواب دیا۔

’’کیوں ؟‘‘ بڑھیا سوالیہ نشان بن گئی۔

’’دیکھو! اگر بیٹے ہوتے تو یا تو حوالات میں ہوتے یا پھر قبر کی آغوش میں ۔‘‘

’’ایسے تو نہ کہو‘‘ بڑھیا رنجیدہ ہو گئی۔

’’ارے نادان! جب ان کا وجود ہی نہیں ، تو پھر تو خواہ مخواہ غم زدہ ہو رہی ہے۔‘‘

بڈھے نے عقل و دانش کے دیپ جلانے کی کوشش کی۔

’’پھر بھی؟‘‘ بڑھیا سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی۔

’’بھئی بات یہ ہے چندا آج کل جوان لڑکوں کو چھوڑتا ہی کون ہے، کچھ کو سیاست دان اور کچھ کو دہشت گرد لے اڑتے ہیں اور کچھ بے چارے بے قصور پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا فائرنگ اور دھماکوں کی زد میں آ جاتے ہیں اور بے چارے بوڑھے ماں باپ اپنی جوان اولادوں کا غم سہتے سہتے زندہ درگور ہو جاتے ہیں ۔‘‘

’’اگر بیٹے حادثے سے بچ جائیں ، تب وہ اپنی جورو کے کہنے پر اپنے ضعیف و لاچار والدین کو محتاج خانے چھوڑ آتے ہیں ‘‘ اچھا ہی ہوا ہم اولادِ نرینہ سے محروم ہی رہے، ورنہ بہو صبح و شام ہمارے سروں پر جوتے مارتی اور پوتے پوتیوں کے دلوں میں ہمارے لیے نفرت پیدا کرتی۔‘‘

’’کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو‘‘ بڑھیا کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔

’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اب کہیں پناہ لے لینی چاہیے‘‘ بڑھیا رومال سے اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو جذب کرنے لگی۔

’’یہی میں سوچ رہا ہوں ، دیکھو وہ سامنے روشنی نظر آ رہی ہے شاید یہی ہماری منزل ہو، بس قدم تیز بڑھا لے۔‘‘

تھوڑی دیر چلنے کے بعد وہ روشنی کے گھر کے قریب پہنچ گئے تھے۔

’’تُو باہر ٹھہر، میں اندر جا کر پوچھتا ہوں ۔‘‘

’’بس جی رات گزارنی ہے‘‘ بڈھا سفید داڑھی والے سے بولا۔

’’تیرے ساتھ زنانی بھی ہے؟‘‘

’’ہاں جی وہ تو ہے، ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا سہارا ہیں ۔‘‘

’’زنانی کی اجازت نہیں ہے‘‘ سفید داڑھی والے نے دروازہ بند کر لیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘ بڑھیا کی پیشانی پر فکر کی لکیریں نمودار ہوئیں ۔

’’کچھ نہیں ، یہ دیکھ سامنے جو گھر زیر تعمیر ہے نا، اس میں رات بسر کر لیتے ہیں پھر صبح میں روشنی والے گھر کے اطراف میں کوئی گھر کرایے کے لیے تلاش کر لوں گا، اس جگہ اور اس بستی سے بہتر ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، میں ایسی ہی پُرسکون اور پُر نور جگہ کی تلاش میں تھا، بس یہ سمجھ لے کہ میرے مالک نے خود بخود ہمیں منزل پر پہنچا دیا ہے۔‘‘ پھر وہ دونوں مکان کی طرف دبے قدموں چل دیے۔

’’میرا خیال ہے وہ جگہ بہتر ہے‘‘ بڑھیا نے کوٹھری کی طرف اشارہ کیا۔ وہ دونوں کوٹھری میں داخل ہو گئے، کوٹھری کی چار دیواری پر چھت نہیں تھی، پورے چاند کی روشنی کوٹھری میں اُتر آئی تھی، ہر چیز واضح نظر آ رہی تھی، بڑھیا نے بیگ سے کمبل نکالا اور ایک کونے میں بچھے ہوئے ٹاٹ کے اوپر بچھا کر اپنا سامان رکھ دیا اور پھر وہ دونوں پیر پھیلا کر بیٹھ گئے۔

’’بس سے اُترنے کے بعد بھی ہم نے بہت لمبا سفر کیا ہے‘‘ بڈھا کانوں کے گرد لپٹے ہوئے مفلر کو کھولتا ہوا بولا۔

میرا خیال ہے کچھ کھا لیتے ہیں ، بھوک بہت زوروں کی لگی ہے، بڑھیا نے بڈھے کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔

ہاں ، ہاں بھوک اور فکر دونوں ہی مجھ پر غالب ہیں ۔ پھر بڈھا کھانے پینے کی چیزیں نکالنے لگا، بڑھیا نے المونیم کی پلیٹوں میں نمک پارے، شامی کباب، آم اور شیرمال نکال کر رکھ دیے‘ ابھی وہ بسم اﷲ کرنا ہی چاہتے تھے کہ انھیں قدموں کی آہٹ سنائی دی، انھیں ایسا لگا جیسے کئی لوگ روشنی والے گھر کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے ہوں ۔

بڑھیا کونے میں دبک گئی، بڈھا بھی اس سے قریب ہو گیا۔

’’دیکھو! مجھے ان لوگوں کے سر نظر آرہے ہیں ، آخر یہ لوگ اندر کیوں نہیں جاتے ہیں ؟ باقی تو سب۔۔۔۔۔‘‘ ابھی بڈھا جملہ بھی مکمل نہیں کر سکا تھا کہ ’’اﷲ اکبر‘‘ کی صدا بلند ہوئی۔

’’میں بھی جاؤں ؟‘‘ بڈھا اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’نہ، نہ، میں اندھیری کوٹھری میں ایک منٹ نہیں گزار سکتی، تم تو جانو، میں نے گھر ہی اس لیے چھوڑا تھا۔‘‘

’’آخر خوف ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا‘‘ بڈھا سوچتا ہوا بولا۔

صدا کو بلند ہوئے دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک زوردار دھماکا ہوا، پھر دردناک چیخیں ، آہ و بکا، لوگوں کی آمدورفت بڑھنے لگی۔ بڑھیا نے بڈھے کا ہاتھ پکڑا اور وہ دُور کھینچتا ہوا لے گیا، وہ لوگ دوڑتے چلے جا رہے تھے، ’’پکڑو، پکڑو جانے نہ پائیں ‘‘ ان دونوں نے مڑ کر دیکھا، ہجوم ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

وہ لوگ مزید تیز بھاگنے کی کوشش کرنے لگے، بوڑھی ہڈیاں کب تک دوڑتیں ، دونوں لڑکھڑائے پھر پتھریلی اور ناہموار زمین پر لڑھکتے ہوئے ایک گہرے کھڈ میں جا گرے اور دنیا کے ہر خوف سے آزاد ہو گئے۔

٭٭٭

 

پکا کام

آفتاب کے ہاتھ میں ماچس ہے اور وہ صبح سے تقریباً تمام تیلیاں پھونک چکا ہے۔ ڈبیا سے ایک تیلی نکال کر جلاتا ہے اور پھر بھڑکتے ہوئے شعلے کو رقص کے میدان میں ڈال دیتا ہے، شعلہ خوب تھرکتا ہے، ناچتا ہے اور ادائے بے نیازی سے لہراتا ہوا لمحہ بھر میں نڈھال ہو کر زمین پر گر جاتا ہے اور دم توڑ دیتا ہے۔ دوسری، تیسری، چوتھی، اسی انداز میں آفتاب پوری ماچس ختم کر دیتا ہے۔ اس کھیل نے اسے دلی تسکین فراہم کر دی ہے۔ اسے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے شکاری دام سے چھوٹ گیا ہو اور اس کی آنکھوں میں جلنے والی آگ ایک دم بجھ گئی ہے اور اب اس کے اطراف میں راکھ ہی راکھ ہے۔

آگ کا کھیل جب اس نے شروع کیا تو نہ جانے کیوں اس کے ہاتھ تھرتھرائے تھے اور دل انجانے وسوسوں میں ڈوبنے لگا تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تیلی پھینکی اور یہ دیکھے بناء کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے کہ نہیں وہ دُور پرے ہٹتا چلا گیا اور من من وزنی پیروں کے ساتھ برآمدے میں داخل ہوا اور اپنے آپ کو بان کے جھولا پلنگ پر گرا لیا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس کی تیز تیز چلنے والی سانسیں قابو میں آ گئیں اور اسے یقین ہو گیا کہ اتنی دیر میں کام ہو چکا ہو گا اور ایندھن نے راکھ کی شکل اختیار کر لی ہو گی، تب اس نے سکھ کا سانس لیا۔

اس خاک سے بہت سی خوشیوں اور امیدوں کا جنم ہوا ہے اور اب وہ ہواؤں میں اُڑ رہا ہے، پورا منظر بدل چکا ہے، ماحول خوشگوار ہو گیا ہے۔ اس کی خالہ کی نازک اندام بیٹی تارہ ڈھیر سارے جہیز کے ساتھ اس کی زندگی میں شامل ہو گئی ہے۔ یہ شادی تو دو تین سال قبل ہی ہو جاتی لیکن محبت و طمع کے جال نے اسے اپنے اندر ایسا سمیٹا کہ وہ بصارت و دانش دونوں ہی سے محروم ہو گیا۔ اس وقت بھی اس کا ضمیر رویا نہ تڑپا، جب اماں نے اپنا دوپٹہ اور اس کے باپ نے اپنے سر سے سفید براق سی ٹوپی اُتار کر اس کے قدموں میں ڈال دی اور وہ دونوں روتے ہوئے بولے ’’دیکھو فتو! اپنی ضد چھوڑ دے وہ ہماری ذات برادری کی نہیں ہے اور اس کی معمولی سی تنخواہ ہمارے گھر کے حالات نہیں بدل سکے گی۔ اب رہ گئی تیری محبت تو اس کی حیثیت اس وقت دودھ کے اُبال کی طرح ہو جائے گی جب تارا اپنے ساتھ بہت سا جہیز لائے گی۔ بیٹا! دُنیا میں جو سب سے زیادہ طاقتور چیز ہے، وہ ہے دولت، پیسہ اچھے اچھوں کا ایمان خرید لیتا ہے اور محبت کے ایوانوں کو پل بھر میں چکنا چُور کر دیتا ہے۔ ابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے قدموں سے اپنی ٹوپی اٹھا کر سر پر جمالی اور ہولے سے بولے۔

’’مان لے، لالا! میری بات‘‘ اس نے زمین سے گلابی رنگ کا ملگجا سا دوپٹہ اُٹھایا اور اماں کی طرف بڑھا دیا۔

’’دیکھ رے! بڑوں کا کہا مانا کرتے ہیں ۔ تارا اپنے ساتھ بے حد قیمتی جہیز لائے گی۔ سارا سامان دبئی کا ہو گا اور ہماری غربت امیری میں بدل جائے گی۔‘‘

’’اماں آخر میں کیوں قربانی کا بکرا بنوں ؟ جب کہ دوسرا راستہ میرے سامنے ہے۔ میں امبر سے شادی کا وعدہ کر چکا ہوں اور پھر میں بے روزگار بھی ہوں ، امبر کی نوکری پکی ہے اور ایک فلیٹ بھی اس کے نام ہے۔ شادی کے بعد ہم اس ٹوٹے پھوٹے گھر سے نکل کر فلیٹ میں آ جائیں گے اور رہا جہیز کا معاملہ تو وہ بھی ہر چیز اپنے ساتھ لائے گی۔‘‘

’’تجھے یہ سب باتیں کس نے بتائیں ؟‘‘

ابا کا غصّہ برف کی ڈلی میں ڈھلنے لگا تھا۔

’’امبر نے بتائیں اور کس نے بتائیں ؟ ویسے ابا میں نے بھی اس پر بڑا رعب ڈالا ہوا ہے کہ میرے کئی پلاٹ اور فلیٹ ہیں پر اماں اور ابا یہ گھر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، کہتے ہیں کہ ہمارا پرانا محلہ ہے اور پرانے لوگ ان کے ہی ساتھ مرنا جینا ہے۔‘‘

’’معلوم ہے اماں اس معصوم لڑکی نے کیا جواب دیا؟‘‘

’’کیا جواب دیا؟‘‘ اماں کی آواز میں شوخی اور خوشی پنہاں تھی۔ ’’اس نے کہا کہ آفتاب میں نے تم سے محبت کی ہے، تمہاری جائیداد اور دولت سے نہیں ، بس مجھے تمہارا پیار اور تحفظ چاہیے۔ اس کے سوا کچھ نہیں ‘‘ ’’ابے گھامڑ! اگر تو یہ سب باتیں پہلے ہی بتا دیتا تو ہم تجھے تارا سے شادی کرنے پر مجبور تھوڑی کرتے۔‘‘

’’ابا آپ نے مجھے بتانے کا موقع ہی کب دیا؟‘‘

’’خیر جانے دے، اب یہ بتا رشتہ لے کر کب جانا ہے؟‘‘

’’ارے اس سے کیا پوچھ رہے ہو، میں بتاتی ہوں ، نیک کام میں دیر کیسی؟ بس آج ہی چلے چلتے ہیں ‘‘ اماں خوشیوں کے جھولے میں بیٹھی پینگیں بڑھاتی رہیں اور باتیں کرتی رہیں ۔ ’’ہاں یہ ہوئی نا بات آخر جورو کس کی ہو‘‘ ابا مزید پُر جوش ہو گئے۔ ’’اس شخص کی ہوں ، جو مُردے کے بدن سے کفن اُتار لے، تم بھی مجھے بناء جہیز کے بیاہ کے نہیں لائے تھے، میرے اماں ابا نے بیٹی کو وداع کرنے کے لیے زمیندار سے قرض لیا تھا اور قرض لینے کی ترکیب بھی تم نے ہی بتائی تھی، بھولی نہیں ہوں میں ، سب یاد ہے۔‘‘

’’اری رشیدہ بیگم! یہ موقع خوشی کا ہے نہ کہ شوہر کے عیب نکالنے کا اور ہاں ! آخر تو نے کفن کا طعنہ دے ہی دیا۔‘‘

’’وہ تو میں نے یوں ہی کہہ دیا، دل پر کیوں لیتے ہو، چلو اُٹھو اب چلنے کی تیاری کرو۔‘‘

’’اماں کہاں جانے کا پروگرام ہے؟‘‘

’’شگفتہ تو آ گئی۔۔۔؟‘‘

’’ہاں اماں آج ہماری مس نہیں آئیں ، اس لیے کلاس ہی نہیں ہوئی۔‘‘

’’شگو! تیرے بھیا نے تیرے لیے کماؤ پوت بھابھی ڈھونڈ لی ہے۔‘‘

’’اماں کماؤ پوت نہیں ، کماؤ پوتنی کہو، مذکر مونث کا خیال رکھا کرو۔‘‘

’’اے کچھ بھی کہہ لے بس اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں ۔ اپنے ساتھ فلیٹ بھی لا رہی ہے۔ آج ہی رشتہ لے کر جا رہے ہیں ، بس تو جا کر جلدی سے تیار ہو جا۔‘‘

’’اماں ! کون سے کپڑے پہنوں ؟‘‘

’’اری وہ لال زردوزی والا جوڑا پہن لے اور زیور بھی پہن لیجیو جو تیری خالہ نے دبئی سے بھیجا تھا۔ اچھا ہے ذرا رعب پڑے گا‘‘ اماں نے دیدے نچا کر کہا۔

’’اماں میں ٹھیک دو گھنٹے بعد ٹیکسی لے آؤں گا۔‘‘ آفتاب بالوں میں کنگھی کرتا ہوا باہر نکل گیا۔

’’اماں ! جب بھیا کی شادی ہو جائے گی نا، تو میں زیادہ تر ان کے ہی کمرے میں رہا کروں گی۔ بھابھی کام کیا کریں گی اور میں فوم کے گدے پر خوب لوٹ لگاؤں گی، اُچھلوں گی، کودوں گی اور سنگھار دان کے سامنے کھڑے ہو کر بال سنواروں گی، ہونٹوں پر لالی لگاؤں گی۔ ایمان سے ہمارے گھر تو کوئی بھی اچھا سامان نہیں ہے، سوائے نیواڑ اور بان کے پلنگوں کے علاوہ، ایک چھوٹا سا آئینہ ہے وہ بھی زنگ آلود۔‘‘

’’بس اب فکر کی کیا بات؟ دیکھتی رہ تھوڑے ہی دن میں ہمارے گھر بَڑھیا سے بَڑھیا سامان آ جائے گا‘‘ اماں نے اسے تسلی دی اور خود ہلکے آسمانی رنگ کا جوڑا لے کر کوٹھری میں چلی گئیں ۔ تھوڑا سا وقت تیزی سے گزر گیا اور آفتاب ٹیکسی لے کر آ گیا۔

’’ہائے! آج ٹیکسی میں جائیں گے۔‘‘ شگفتہ خوش ہوتی ہوئی بولی۔ ’’آخر کو بھائی کا رشتہ لے کر جا رہی ہے، ٹیکسی میں نہ جائے گی تو کیا بسوں کے دھکے کھاتے ہوئے سمدھیانے پہنچیں گے، اماں نے اٹھلا کر کہا تقریباً نصف گھنٹے میں وہ سب امبر کے گھر پہنچ گئے۔

امبر اور آفتاب کے گھر والوں میں پہلے رسمی اور پھر غیر رسمی گفتگو ہوئی، اس کے بعد چائے اور پھر کھانے کا دور چلا۔ کھانے سے فراغت کے بعد وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے کہ عین اسی وقت زوردار ہارن کی آوازیں آنی شروع ہو گئیں ۔

’’شاید ڈرائیور گاڑی لے آیا ہے۔‘‘ آفتاب تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔ اماں ابا اور شگفتہ بھی الوداعی کلمات کے بعد باہر آ گئیں ۔ گاڑی نے دو چار منٹ کا ہی سفر طے کیا ہو گا کہ ابا چہکے، ’’یار آفتاب تُو نے گاڑی اور ڈرائیور کا بہت اچھا کھیل کھیلا، ایمان سے مزہ آ گیا اور یہ ڈرائیور کون بنا ہے؟ ابے ذرا پیچھے تو منڈی کیجیو۔‘‘

’’اوئے کلو قصائی تو۔۔۔؟‘‘

’’چاچا! مجھے تو آفتاب بھائی نے جس طریو کہا، میں نے اسی طریو کر ڈالا‘‘ ’’اور یہ گاڑی؟‘‘

’’چاچا! گاڑی تو بوٹے کے ورکشاپ سے اُٹھائی ہے؟‘‘

’’تو! تو لمڈے ڈر کائیں کو ریا ہے! جو کیا تو نے اچھا ہی کیا۔‘‘

’’اماں ! کیا سوچ رہی ہو، کیا لڑکی پسند نہیں آئی۔۔۔؟‘‘

’’نہیں رے! ایسی بات نہیں ہے، لڑکی تو چاند سی ہے، گھر والے بھی اچھے ہیں ، پر اس کی ماں کی شرط۔۔۔؟‘‘

’’سمجھ گیا اماں سمجھ گیا، بات تو مجھے بھی ان کی یہ اچھی نہیں لگی تھی لیکن اماں جب امبر ہمارے گھر آ جائے گی نا تب سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

’’ارے بھولے بادشاہ! کیوں گھبراتا ہے۔ ناگ اپنا منکا صدیوں بعد نکالتا ہے اور ابھی تو صدی شروع ہی نہیں ہوئی، جب وہ اپنی ہو گی تو منکا بھی اپنا ہوا۔۔۔ میرا مطلب ہے اس کا سب کچھ اپنا ہی ہو گا۔‘‘

’’ابا تمہاری منکے والی بات دل کو بڑی اچھی لگی۔‘‘ آفتاب نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’ارے! تم لوگوں نے کیا منکا منکا لگایا ہوا ہے۔ تم باپ بیٹے نے بڑی بڑی چھوڑیاں تو چھوڑ دی ہیں پر اب نباہو گے کیسے؟‘‘

’’اری زوجہ! تو کیوں فکر کرتی ہے، پیر صاحب کی دعا سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم باپ بیٹے نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں ۔‘‘

سارا راستہ باتیں کرتے گزر گیا، جس وقت وہ لوگ گھر پہنچے رات بہت گہری ہو گئی تھی۔ دوسرے دن کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی اماں نے شادی کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ کئی ہفتوں خریداری کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی، دن بہت تیزی سے گزرتے چلے گئے اور شادی کا دن آ گیا۔

شادی کو بہ مشکل ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اس دوران سسرال والوں کو امبر سے بہت سی شکایتیں پیدا ہو گئیں ۔ بہت جلد آفتاب بھی گھر والوں کی شکایتوں میں برابر کا شریک ہو گیا۔ اسی طرح لڑائی، جھگڑوں ، حسد، جلن اور نفرتوں کے ساتھ ایک سال بیت گیا اور اس عرصے میں دونوں ایک بچی کے ماں باپ بھی بن گئے۔ امبر زیادہ دن تک مخالف پارٹی کا مقابلہ نہ کر سکی اور میکے سدھار گئی۔

امبر کے جانے کے بعد سب سے زیادہ شگفتہ خوش تھی، چونکہ اب امبر کے کمرے پر اس کا مکمل کنٹرول تھا، وہ امبر کے قیمتی کپڑے پہن کر گھنٹوں سنگھار دان کے سامنے بیٹھی میک اپ کیا کرتی، البتہ آفتاب اس صورتِ حال سے بے حد پریشان تھا، اسے امید تھی جیسا وہ اور اس کے گھر والے کہیں گے، وہ حکم بجا لائے گی، لیکن اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ وہ سارے گھر کا کام کاج ہرگز نہیں کرے گی، نہ ہی وہ سب کے کپڑے دھوئے گی۔ بس ان ہی اختلافات کی وجہ سے بات بڑھتی چلی گئی۔ آج وہ ناشتے کے بعد باہر جانے کی بجائے صحن کے ایک کونے میں بیٹھ گیا تھا اور کوئلے سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ اسے اداس دیکھ کر اماں اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں ۔

’’ارے لالا! کائیں کو پریشان بیٹھا ہے؟‘‘

’’اماں ! تمہیں نہیں معلوم حالات کیا چل رہے ہیں ، اس مُردار نے میرے کو پھنسا کر رکھ دیا ہے۔‘‘

’’جانتی ہوں بیٹا! میرا تو اس ہی دن ماتھا ٹھنکا تھا، جب اس کی ماں نے کہا تھا کہ ایک بات میں صاف بتائے دیتی ہوں کہ اس کی تنخواہ پر آپ لوگ ہرگز حق نہیں جمائیں گے، چونکہ میں ہوں بیوہ عورت، اس کی تنخواہ اور اس کے باپ کی پنشن کی رقم سے ہی ہمارا گزر بسر ہوتا ہے۔ جب اچھا وقت تھا، اس وقت ہم نے اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ کر دیا تھا۔ اور رہا بیٹا وہ ابھی زیر تعلیم ہے۔ سچی بات ہے آفتاب مجھے تو اس کلموہی کی باتیں اندر سے چاٹ گئی تھیں ۔ ماں کے بیوہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ شادی کے بعد بھی اپنی بیٹی کی کمائی کھائے اور اب تو وہ مسٹنڈا بھی کمانے لگا ہے۔ پر بیٹی کی تنخواہ سے دل نہیں بھرا اس حرافہ کا اور لونڈیا کی پیدائش کے بعد تو سارا ہی کھیل بگڑ گیا۔ حالانکہ میں نے اور تیرے باپ نے اس سے کہا تھا کہ بچی کی دیکھ بھال ہم کر لیں گے تو نوکری مت چھوڑ۔ پر وہ نہ مانی، گیس، بتی کا بل، ناشتے کا خرچ اُٹھا لیا کرتی تھی، تیرے ابا کو دوائیوں کے لیے پیسے بھی دے دیتی تھی لیکن اس کی نوکری کے بعد تو اس سے بھی گئے۔

’’اماں ! بس اب تو چھٹکارا پانے کی ترکیب سوچو۔‘‘

’’ترکیب تو میں نے سوچ لی ہے۔‘‘ اماں نے راز داری سے کہا۔

’’کون سی ترکیب اماں ؟‘‘

’’ایسی ترکیب ہے کہ نہ ہینگ لگے اور نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔‘‘

’’بس اماں ! یہی تو میں چاہتا ہوں ! اس سالی نے پچاس ہزار کا مہر رکھ کر مجھے بے بس کر دیا ہے۔‘‘

’’آفتاب! تو مہر کی بات کرے ہے، اس بد ذات نے تو تجھے عدالت میں کھینچنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جانے سے ایک دن پہلے کہہ رہی تھی کہ اب اگر آفتاب نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا یا میری اجازت کے بغیر کوئی زیور بیچا تو اس بار میں نہیں ، میرا وکیل بات کرے گا اور یہ فلیٹ بھی بہت جلد عدالت کے ذریعے خالی کرالوں گی۔‘‘

’’آفتاب تُو نے مار پیٹ کر اسے اپنا دشمن بنا   لیا۔‘‘

’’اماں مارتا نہیں تو کیا کرتا، میں نے تو شادی ہی اس کی کمائی اور فلیٹ کے لیے کی تھی، مگر کم عقل عورت الٹا مجھ سے کہتی کہ نوکری کرو۔ میرے پیسوں پر آسرا ختم کرو اور مجھے لالچی اور دھوکے باز بھی کہنا شروع کر دیا۔ کوئی مرد اتنا بے غیرت نہیں ہوتا ہے جو بیوی کے طعنے برداشت کرے، وہ ایک دفعہ ہاتھ لگ جائے، ایسے گن گن کر بدلے لوں گا، سارا خاندان یاد رکھے گا۔‘‘ آفتاب نے سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے سے کوئلے کو مسلتے ہوئے کہا۔

’’اچھا اب غصّہ نہ کر اور آ، ارے کو آ۔‘‘

’’اماں !‘‘ آفتاب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور پھر سرگوشی کے انداز میں بولا ’’کہیں پولیس کا چکر نہ چل جائے؟‘‘

’’ارے بزدل! کوئی ثبوت چھوڑے گا۔۔۔ تب نا۔۔۔ دیکھ لے وہ بشیرا ایک دن بعد ہی تھانے سے چھوٹ آیا تھا۔۔۔ بڑا کائیاں تھا وہ۔۔۔ ہر کام اُس نے پکا کیا تھا۔‘‘

’’خیر! پکا کام تو میں بھی کر لوں گا۔‘‘

’’ماں بیٹے کے درمیان کیا باتیں ہو رہی ہیں ‘‘ ابا ان دونوں کے قریب آتے ہوئے بولے۔

’’ابا! وہ ہی مسئلہ ہے۔۔۔‘‘

’’ہاں مسئلہ تو ہے، نہ خلع لیتے ہیں اور نہ راضی نامہ کرتے ہیں ، لیکن اب حالات بدل گئے ہیں ۔ سنا ہے اس کے بھائی کا بیاہ ہو گیا ہے۔ بھاوج کے ہوتے ہوئے زیادہ دن ٹکنے کی نہیں ۔ سب کس بل نکل جائیں گے، آفتاب! تو یوں کر بچی کے کپڑے، مٹھائی اور کھلونے وغیرہ لے جا اور منا کر لے آ، دیکھیو سر کے بل چلی آئے گی۔‘‘

ٹھیک ہے ابا! بس ایک دفعہ آ جائے، آفتاب مونچھوں پر بل دیتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آیا تو اس کے ہاتھ میں ماچس تھی، اب وہ ہر روز ماچس سے آگ کا کھیل کھیلتا ہے۔ آگ اور دھوئیں میں وہ تقریباً ایک ہفتے سے گھِرا ہوا ہے۔ ماچس کی تیلیاں جلا جلا کر ایک جھٹکے کے ساتھ دور اچھالتا ہے اور خود اُلٹے قدموں دوڑ لگا کر ایک طرف ہو جاتا ہے اور جب تک وہ پوری ماچس نہیں ختم کر لیتا ہے، اسے سکون نہیں آتا ہے۔ تسلسل سے کھیلے جانے والے اس کھیل میں وہ اب طاق ہو چکا ہے۔ جلتی اور بھڑکتی آگ نے اس کے سارے مسئلے حل کر دیے ہیں ۔‘‘

ادھر شگفتہ اور اماں امبر کے تمام جہیز پر قابض ہو گئی ہیں ۔ اماں نے الیکٹرک کے سامان اور کراکری کو شگو کے جہیز میں شامل کر لیا ہے۔ دونوں کے مشورے سے جوڑوں کا انتخاب بھی عمل میں آ گیا ہے۔ کون سے جوڑوں کو جہیز میں رکھا جائے اور کون سے پنہونیوں کے کام میں آئیں گے۔

فلیٹ فروخت ہونے کے بعد کیش کی صورت میں بدل گیا ہے اور نیلے نیلے نوٹ پورے گھر میں رقص کر رہے ہیں ، چونکہ آفتاب کا یہی پروگرام ہے کہ وہ اس رقم سے کاروبار کرے گا اور ایک پلاٹ خریدے گا۔ دبئی کا ساز وسامان بھی خوشی اور خوش حالی میں اضافے کا باعث بن گیا ہے، اس لیے کہ اماں نے اپنی بہن زینت سے بات کر لی ہے کہ گاڑی رُک گئی ہے اور اب چلنے والی نہیں ہے۔ زینت راضی ہے کہ اس کی بیٹی بہن کے گھر جائے گی۔ ظاہر ہے بے زبان لڑکی کو کوئی دوسرا ہرگز بیاہ کر نہیں لے جائے گا۔ آڑے وقت میں اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں ۔

پروگرام کے مطابق آفتاب امبر کو لے آیا ہے۔ امبر کو اس کے گھر والوں نے اس شرط پر بھیجا ہے کہ آفتاب اپنی بیوی اور بچی کی کفالت کرے گا۔ آفتاب نے اپنی ساس سے وعدہ کیا ہے کہ وہ بہت جلد کاروبار شروع کرنے والا ہے۔ ایک رات اور ایک دن تو سکون سے گزر گیا ہے لیکن دو دن بعد ہی آفتاب اپنی ڈگر پر آ گیا ہے۔

یہ فلیٹ کے کاغذات ہیں ، ان پر دستخط کر دو، زمین جائیداد مردوں کے نام ہی اچھی لگتی ہے، عورتوں کے نہیں ۔ لیکن اپنی کمائی کی اور اس فلیٹ میں میرے باپ کی خون پسینے کی کمائی شامل ہے۔ انھوں نے یہ ہی سوچ کر فلیٹ میرے نام کیا تھا کہ نہ جانے کیا حالات ہوں ، میری لاڈلی کو ٹھکانہ تو مل جائے گا اور اب اس ٹھکانے کو تم مجھ سے چھیننا چاہتے ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا آفتاب۔

میں کہتا ہوں تم دستخط کرو، ورنہ مجھے ٹیڑھی انگلیوں سے بھی گھی نکالنے کا فن آتا ہے۔ آفتاب غصّے سے بے قابو ہو گیا۔

تو کر لو ٹیڑھی انگلیاں ، لیکن کامیابی تمہیں پھر بھی نہیں ہو گی۔

ابھی پتا چل جاتا ہے، کامیابی ہوتی ہے کہ نہیں ، آفتاب اس کا ہاتھ کھینچتا ہوا اس کمرے میں لے گیا، جہاں کاٹھ کباڑ بھرا ہوا ہے اور اس نے امبر کو اسی اسٹور نما کمرے میں دھکیل دیا ہے، جہاں وہ ڈرامے کی ریہرسل کرتا تھا اور اب ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے والا ہے اور اسے اپنے ان خوابوں کی تعبیر ملنے والی ہے جو اس نے جاگتے میں دیکھے تھے۔ امبر گرتے گرتے بچی ہے، اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی آفتاب نے ایک زوردار لات اس کے پیٹ میں ماری، وہ دُور جا گری، پھر وہ شکار پر قابو پانے کے لیے مشاق شکاری کی طرح آگے بڑھا۔

یہ، یہ تم کیا کر رہے ہو؟ مجھے یہاں ۔۔۔ کیوں ۔۔۔ لائے ہو۔ چھوڑ دو مجھے، چھوڑ دو، بچی میری بھوکی ہے، اسے دودھ پلانا ہے۔۔۔ دیکھو، دیکھو۔۔۔ وہ۔۔۔ رو۔۔۔ رہی ہے، مجھے بلا رہی ہے۔ امبر کی سسکیوں اور فریاد کا آفتاب پر کسی قسم کا اثر نہیں ہوا بلکہ وہ اپنا کام کیے جا رہا ہے۔ اس نے امبر کو قابو کرنے کے لیے اس کے پیٹ پر اپنا بھاری بھر کم پیر رکھ دیا ہے اور اس نے اس زنجیر کا سرا اس کے ہاتھ میں ڈال دیا ہے جس کا دوسرا سرا گرل میں بندھا ہوا ہے۔ اس کے بعد اس نے سفید رنگ کی بڑی سی بوتل اُٹھائی اور اسے اُنڈیلنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی۔ چھوڑ دو مجھے، پھر وہ پوری طاقت کے ساتھ اُٹھ بیٹھتی ہے اس کے اُٹھنے سے آفتاب گرتے گرتے بچا ہے۔ اس سے پہلے کہ موت سے دامن بچا کر بھاگ کھڑی ہوتی وہ زنجیر کے جھٹکے کے ساتھ دوبارہ فرش پر گر گئی ہے۔ اور بھاگ جا، جا کر جان بچا لے، آفتاب کے منہ سے ایک شیطانی قہقہہ بلند ہوا، پھر اس نے بوتل اُنڈیلنے اور تیلی پھینکنے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کی۔‘‘

کام تو میں نے پکا کیا تھا، پھر یہ بچ کیسے گئی، بیڑہ غرق ہو کما لے گا جو گیلری سے کود کر اندر آ گیا۔ سالہ جن کا بچہ آگ میں گھستا چلا گیا، اسے باہر نکال لایا اور منٹوں میں ہسپتال بھی پہنچا دیا۔ لگتا ہے سالی کا لگّا سگّا تھا۔ آفتاب منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا تھا۔ باقی گھر والوں کی سسکیاں فضا میں بلند ہو رہی تھیں اور پولیس موبائل تھانے کی طرف دوڑتی چلی جا رہی تھی۔

٭٭٭

 

سزا

وہ تینوں بدحواسی کے عالم میں بھاگ رہے تھے، بھاگتے بھاگتے وہ اکثر لڑکھڑا جاتے، کبھی کبھی پتھر یا گڑھا راستے میں آ جاتا تو وہ دھڑام سے گر پڑتے، لیکن پھر فوراً ہی اُٹھ جاتے اور اسی رفتار سے بھاگنا شروع کر دیتے بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے، لیکن چند لمحوں بعد پھر مل جاتے، پتلی پتلی گلیاں ، گھپ اندھیرا، انجانی راہیں مگر وہ تھے کہ اونچی نیچی راہوں پر دوڑے چلے جا رہے تھے۔

اچانک انھیں ایک ایسا گھر نظر آیا جو زیر تعمیر تھا، گھر کے اطراف میں کانٹوں اور جنگلی پودوں کا جال بچھا ہوا تھا، مکان تک کیسے پہنچیں ؟ وہ پریشانی اور بے بسی کے عالم میں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے، پھر انھوں نے اپنے اطراف میں نگاہیں دوڑائیں ، انھیں تقریباً دس قدم کے فاصلے پر لکڑی کا ایک لمبا سا تختہ نظر آیا، ان میں سے ایک نے وہ تختہ اٹھایا اور کانٹوں پر پھینک دیا، وہ دونوں اپنے ساتھی کی دانائی پر مسکرادیے، پھر اسی نے اپنے ساتھیوں سے کہا اپنی اپنی اینٹ اُٹھا لو۔

ان تینوں نے سرخ اینٹیں اپنے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیں اور تختے پر چلنے لگے، کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ اپنی اپنی اینٹوں پر کھڑے ہو جاتے اور پڑا آگے بڑھا دیتے، اس طرح انھوں نے وہ راستہ طے کر لیا۔

اب وہ مکان نما کھنڈر میں تھے، وہ کہاں چھپیں ؟

وہ تینوں جگہ تلاش کرنے لگے، پھر انھیں ایک نامکمل کمرہ نظر آیا جس کی دیواریں چھوٹی تھیں اور کمرے کے ایک طرف اینٹوں کا انبار لگا ہوا تھا، چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں ہر چیز واضح تھی، کہیں وہ ہمیں دیکھ نہ لیں ؟ وہ زیر لب بڑبڑائے۔

پھر وہ تینوں کمر کے بل جھک گئے اور جھکے ہوئے جسموں کے ساتھ کمرے میں داخل ہو گئے۔

ان کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں ، مسلسل بھاگنے اور چیزوں سے ٹکرانے کی وجہ سے ان کے پیروں میں خراشیں پڑ گئیں ، پیاس سے ان کا حلق خشک ہو رہا تھا۔

پانی، ان تینوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

پھر وہ بے بسی سے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے، انھوں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور ان کی نگاہیں خلاؤں میں اٹک گئیں ، چند لمحے بعد ان میں سے ایک نے سرگوشی کی۔

’’آخر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہم نے قصور کیا کیا ہے؟‘‘ دوسرا گہری سانس لے کر بولا۔

’’قصور ہمارا کچھ نہیں ہے اور ہم چھپ رہے ہیں ، جو قصوروار ہیں وہ دندناتے پھر رہے ہیں ‘‘ تیسرے نے نہایت پُر جوش اور غصیلے لہجے میں کہا۔

’’آہستہ‘‘ ان دونوں نے اس کا پیر دبا کر احساس دلایا کہ وہ اونچی آواز میں بول رہا ہے۔

’’کیا ہم نے قتل کیا ہے، ڈاکا ڈالا ہے، اغوا برائے تاوان کے جرم میں ملوث ہیں ، بم بلاسٹ کیا ہے‘‘

اس کے لہجے میں اب بھی جوش تھا لیکن اب وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔

’’نہیں ، اس قسم کا ہم نے کوئی جرم نہیں کیا‘‘

پہلا اور دوسرا مکمل اعتماد سے بولے۔

’’تو پھر ہم کیوں پولیس کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں ؟‘‘

’’سامنا کرنے کا مطلب جانتے ہو‘‘

’’بیٹھا! دھر لیے جائیں گے‘‘ دوسرے نے پہلے کی بات کی وضاحت کی۔

’’میں تو ویسے بھی غریب آدمی کا بیٹا ہوں ، میرا باپ اسکول کے سامنے آلو چھولے کا ٹھیلا لگاتا ہے، اور میں اس کا مددگار ہوں ‘‘

’’اور میں کون سا کسی ساہوکار کا بیٹا ہوں ، میرا باپ قالین بُنتا ہے، مستقل کام کرنے کی وجہ سے اس کی پسلیوں میں درد رہنے لگا ہے، کنبے کے دس افراد کا پیٹ پال رہا ہے، اور اپنا علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں ۔‘‘

تیسرے نے برا سا منہ بنا کر اپنی غربت کا ذکر کیا۔

پہلا خاموش رہا، اس نے اپنے اور اپنے گھر کے بارے میں کسی قسم کی بات نہیں کی، چونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ تینوں پڑوسی ہونے کے ناتے ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہیں ، لہٰذا دہرانے سے کیا فائدہ، البتہ وہ سوچتا ہوا بولا۔

’’آج ہمیں اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کہیں انجانے میں تو ہم سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو گئی ہے۔‘‘

’’شاید اس دن جس دن جلسہ ہو رہا تھا، ہم نے پارٹی کے حق میں نعرے لگائے تھے‘‘ دوسرے نے سوچتے ہوئے کہا:

’’یہ تو کوئی غلطی نہیں ہوئی، ہر کوئی اپنی پارٹی کا فیور کرتا ہے، اور یہ فطری بات ہے‘‘ پہلے نے دوسرے کی بات کا جواب دیا۔

’’یہ کیسی آوازیں ہیں ؟ شاید کوئی آ رہا ہے‘‘

تیسرا خوف زدہ ہو کر بولا۔

’’نہیں ، میرا خیال ہے کہ ہوا کی وجہ سے کوڑا کرکٹ اُڑ رہا ہے، اور ویسے وہ یہاں پہنچ نہیں سکتے، ہمارے چاروں طرف کانٹوں کا جال بچھا ہوا ہے ’’بہت خوب‘‘ پہلے نے دوسرے کا مذاق اُڑایا، پھر ہنستا ہوا بولا۔

’’ہم یہاں پہنچ سکتے ہیں اور وہ ہمارے باپ یہاں نہیں پہنچ سکتے واہ!‘‘

’’ضروری نہیں ہے جو ترکیب ہمارے ذہن میں آئی تھی ان کے دماغ میں بھی آ جائے، دوسرے نے قدرے ترش لہجے میں جواب دیا۔‘‘

’’اُف! تم لوگوں نے کس قسم کی بحث شروع کر دی، سوچو، غور کرو کہ ہم لوگ خواہ مخواہ اس مصیبت میں کیوں گرفتار ہو گئے؟‘‘

تیسرے نے ان دونوں کو حقیقت کا احساس دلایا۔

’’ہاں ، ہاں ، سوچتے ہیں ، سوچتے ہیں ‘‘ وہ دونوں اس طرح بولے جیسے سوتے میں سے کسی نے جگا دیا ہو۔

’’میرا خیال ہے کہ ایک دفعہ ہم نے سفاری پارک میں بیٹھ کر چرس کے سگریٹ جو پیے تھے؟‘‘ دوسرے نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی غلطی کی نشان دہی کی۔

’’تو اس وقت تو پارک میں کوئی نہیں تھا، سوائے پہاڑی طوطوں ، کوؤں اور جنگلی پودوں کے نہ آدم نہ آدم زاد‘‘ پہلے نے دوسرے کی بات کی وضاحت کی۔

’’لیکن سُٹّا تو ہم نے ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ لگایا، اماں ابا کے سوا آج تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، وہ بھی ابا میرے منہ سے بھبکا آنے کی وجہ سے سمجھا، اس نے میری دھُنائی تو کی ہی، لیکن تم لوگوں کے گھر بھی شکایت لے کر پہنچ گیا، اس طرح ہم تینوں کی ایک ہی دن میں مرمت ہو گئی۔‘‘

تیسرے نے تفصیل بیان کی۔

’’ابا نے تو اسی دن سے مجھے اسکول سے اٹھا لیا تھا اور کہا تھا کہ برادری میں کسی اور نے پڑھا ہے جو تو پڑھے گا؟ بس تو کل سے میرے ساتھ کام پر جائے گا، اچھا ہی ہوا جو اُٹھا لیا، کبھی کاپیاں ہیں تو کتابیں نہیں ، اگر کسی نہ کسی طرح سے کتابیں خرید بھی لیں تو قلم نہیں ، میلا یونیفارم، پھٹا ہوا جوتا، چٹے کپڑے، پہننے والے سب بچے مجھے حقارت سے دیکھتے اور میرا مذاق اُڑاتے تھے، دوسرے نے دُکھ سے کہا۔

’’جن کے پیٹ میں روٹی نہ ہو وہ کیا پڑھیں گے؟‘‘ تیسرا لمبا سانس کھینچ کر بولا۔

’’پہلے روٹی پھر دوسرا کام، اسی لیے تو ہم محنت مزدوری کر رہے ہیں کہ پیٹ کا جہنّم بھرا رہے، اور پھر بھلا غریب کا پڑھائی سے کیا تعلق؟‘‘ دوسرا زمین پر تیلی کی مدد سے آڑی ترچھی لکیریں بناتا ہوا زیر لب بڑبڑایا۔

’’شاید وہ آرہے ہیں ؟‘‘ پہلے نے بوٹوں کی بھاری آوازوں کو غور سے سنتے ہوئے کہا۔

پھر وہ تینوں دیوار سے چپک گئے۔

’’شاید وہ ہمیں تلاش کر رہے ہیں ‘‘

’’ہاں ! میرا بھی یہی خیال ہے‘‘ دوسرے نے پہلے کی بات کا جواب دیا۔

’’لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ لوگ مکان سے کافی فاصلے پر ہیں اور شاید ان کا دھیان بھی اس طرف نہ جائے۔‘‘

’’خدا کرے ایسا ہی ہو‘‘ تیسرے نے دوسرے کی تائید کی۔

دو چار منٹ تک وہ اپنی اپنی سانسیں روکے، یوں ہی پڑے رہے اور جب جوتوں کی آوازیں دُور ہوتی چلی گئیں ، تب انھوں نے گہرا سانس لیا اور آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔

’’معلوم ہے! کل میری، بہن مایوں بیٹھے گی‘‘ پہلے نے نہایت مایوسی اور دُکھ کے ساتھ کہا۔

’’کل مایوں بیٹھے گی؟‘‘ دونوں بیک وقت بولے۔

’’ہاں کل، اور اماں کس قدر پریشان ہو رہی ہوں گی، اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا ایک ہی بھائی ہونا کوئی آسان بات نہیں ہوتی، مجھے اگر باتھ روم میں دو منٹ بھی دیر ہو جائے تو میری ماں دروازہ پیٹنے لگتی ہے۔‘‘

’’ارے کیا ہوا؟ جواب دے میرا دل ہول رہا ہے‘‘

’’کارخانے سے واپسی پر اگر آدھا گھنٹہ بھی لیٹ ہو جاؤں تو میری ماں میرے انتظار میں بس اسٹاپ کے کتنے ہی چکر لگا لیتی ہے۔‘‘

’’ماں تو ماں ہی ہوتی ہے‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔

’’لیکن سب کی ماں ایک سی نہیں ہوتی؟ میری ماں تو ہم آٹھوں بہن بھائیوں کو مار پیٹ کر گھر سے باہر نکال دیتی تھی، کہتی تھی سارا دن تم لوگ روٹی مانگتے رہتے ہو، کہاں سے لاؤں ؟ ایک کوٹھری میں اتنے سارے لوگ کیسے گزارہ کریں ، چلو باہر نکلو، ہم نے تو اپنا بچپن گندی گلیوں میں کھیلتے کودتے، لڑتے جھگڑتے گزارا ہے‘‘ تیسرے نے رونی آواز میں اپنی روداد سنائی۔

’’پھر وہ بے چاری بھی کیا کرتی؟ مجبور تھی‘‘ پہلے نے تیسرے کو تسلی دی

نہ جانے ساری مجبوریاں اور دکھ غریب کے ہی حصّے میں کیوں ہوتے ہیں ؟ تیسرا سرد آہ بھر کر بولا۔

’’کہیں اس لیے تو پولیس ہمارا پیچھا نہیں کر رہی ہے کہ ایک دن ہم تینوں فلم دیکھنے گئے تھے اور ہمارے ساتھ چندا بھی تھی‘‘ دوسرا اصل موضوع پر آ گیا۔

’’تو پھر کیا ہوا؟ فلم تو بہت سے لوگ دیکھنے جاتے ہیں ، فلم دیکھنا جرم نہیں ہے‘‘ تیسرا بیچ میں بول پڑا۔

’’ہاں فلم دیکھنا تو جرم نہیں ، لیکن؟‘‘ دوسرا خاموش ہو گیا ’’لیکن‘‘ کیا؟ تیسرے نے بے چینی سے پوچھا۔

’’تم دونوں تو فلم کے دوران کالج کے اس لڑکے اور لڑکی پر فقرے کس رہے تھے نا، جب وہ دونوں فلمی ہیرو ہیروئن کی طرح ایک دوسرے کے کاندھے پر اپنا سر لٹکا دیتے تھے اس وقت میں بھی چندا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیتا تھا، دوسرے نے جھجکتے ہوئے اخلاقی جرم کا اعتراف کیا۔

بیٹا! حرکتیں تو تم نے اور بہت سی کی تھیں ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت پولیس تو نہیں تھی نا، اور اگر اتفاق سے پولیس دیکھ لیتی تو تمہیں اسی وقت رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی تمہاری تصویریں اخباروں میں چھپتیں کہ ’’فحاشی کے الزام میں گرفتار‘‘ پہلے نے قہقہہ لگا کر جواب دیا۔

’’آہستہ، یہ مت بھولو کہ ہمارے پیچھے پولیس لگی ہے‘‘ دوسرے نے سرگوشی کی۔

’’پولیس نے ہمیں تین بار پکڑنے کی کوشش کی‘‘ پہلے نے تشویش سے کہا۔

’’وہ کیسے‘‘ تیسرے نے وضاحت چاہی۔

’’پہلی بار تو اس وقت جب ہم اسکول کے گیٹ پر کھڑے تھے تم نے مجھ سے کہا تھا کہ یار عبدل، تمہارے نام کے ساتھ ’’چریا‘‘ کیوں لگا ہوا ہے؟ میں نے جواب دیا تھا کہ نہ جانے مجھے سب لوگ بے وقوف کیوں سمجھتے تھے، شاید زیادہ بولنے اور بات دیر سے سمجھنے کی وجہ سے‘‘

’’اور تمہیں عابد ’’ٹوٹو‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟‘‘ میں نے تم سے پوچھا تھا، تم نے بتایا تھا کہ میں بچپن میں ’’طوطے‘‘ کو ’’توتو‘‘ کہتا تھا، اس طرح لوگ مجھے ہی ’’توتو‘‘ اور پھر ٹوٹو کہنے لگے۔‘‘

اور صابر خیراتی نے اپنے نام کی خود ہی وضاحت کر دی تھی کہ ’’میں جب چھوٹا تھا تو ہر کسی سے چیزیں مانگ کر کھا لیا کرتا تھا اور اماں کے منع کرنے کے باوجود میں آپا رشیدہ کے گھر دودھ کے چاول ہر جمعرات کو پابندی کے ساتھ کھانے جایا کرتا تھا بس جب سے ہی پہلے گھر والوں نے اور پھر پورے محلے بلکہ تمام لوگوں نے ’’خیراتی‘‘ کہنا شروع کر دیا۔‘‘

’’اور ہماری باتیں وہ چاروں پولیس والے کس قدر غور سے سن رہے تھے، اور پھر ان لوگوں نے ایک دوسرے کو آنکھ مار کر کہا تھا‘‘

’’اوئے ادھر آؤ‘‘

’’وہ مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے ہماری طرف بڑھے تھے، ان کے تیور ٹھیک نہیں تھے‘‘ پھر یاد ہے! ہم تینوں بھاگ لیے۔ پہلا، بولتے، بولتے خاموش ہو گیا تھا پھر دوسرا بولنے لگا۔

ایک دفعہ اس وقت جب ہم پارک سے سُٹّا لگا کر گھر آرہے تھے تب پولیس کی موبائل نے ہمارا راستہ روک لیا تھا۔

پکڑو، وہ چیخے، اور پھر واقعی ہمیں پکڑنے کے لیے دو پولیس والے گاڑی سے کود گئے، ہم اگر اس دن پتلی پتلی گلیوں سے بھاگتے ہوئے مائی شبراتن کے گھر نہ چلے گئے ہوتے تو ضرور دھر لیے جاتے۔

اور آج بھی یہ ہی ہوا کہ ہمارے ہاتھ میں صرف اور صرف پارٹی کا پرچم ہی تو تھا اور وہ بھی لپٹا ہوا، ہم تینوں ملا کے ہوٹل پر چائے ہی تو پینے گئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آ گیا، کس طرح انھوں نے ہمیں گھورا، پھر ایک نے پہچانتے ہوئے کہا ارے، ارے! یہ تو وہ ہی بھگوڑے ہیں ، اوئے پکڑو، ان لوگوں کو! آج ہاتھ سے نہ نکل پائیں ، قسمت اچھی تھی کہ سامنے سے ٹرک آ گیا اور ہمیں گلیوں میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا، آخر وہ ہمیں گرفتار کرنا کیوں چاہتے ہیں ؟ وہ تینوں ایک ساتھ بولے۔

’’کہیں ہمارے ناموں یا شکلوں میں کسی دوسرے مجرموں سے مشابہت تو نہیں ؟‘‘ تیسرے نے تفکر آمیز لہجے میں کہا۔

’’فرض کرو ناموں اور شکلوں میں مشابہت پائی بھی جاتی ہے لیکن حالات و واقعات میں تو نہیں ‘‘ دوسرا بولا۔

’’ہاں یہ بات تو ہے‘‘ تیسرے اور پہلے نے اطمینان سے کہا۔

’’کیوں نا ہم خود پولیس کے سامنے پیش ہو جائیں ، پتا تو چلے آخر وہ ہم سے کیا چاہتی ہے؟‘‘ پہلے نے بہادری کا مظاہرہ کیا۔

’’بچّو! پتا چلانے میں ہم سب کا تیا پانچہ ہو جائے گا، سمجھے، جیل، حوالات، پولیس کا تشدد، بوڑھے ماں باپ کی خواری، نا، بابا، نا۔‘‘ دوسرے اور تیسرے نے خوف زدہ ہو کر کہا۔

’’ماں کہتی تھی، جب ہم ہندوستان میں تھے تو ہندو مسلم فسادات کے موقع پر ہندوؤں نے مسلمانوں کی جان بچائی تھی اور اپنے ملک میں اپنوں ہی سے خطرہ ہے، جب چاہتے ہیں یہ لوگ بلڈوزر سے مکانات اور دکانیں گرا دیتے ہیں ، جھونپڑیاں ہٹا دیتے ہیں ، ٹھیلے اور پتھارے داروں سے بلا ناغہ بھتہ وصول کرتے ہیں ، بے قصور لوگوں کو گرفتار کر لیتے ہیں ، ماں نے بتایا تھا کہ ہندوستان میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا تھا‘‘ پہلا خود کلامی کے انداز میں بولا۔

بیٹا! جب نہیں ہوتا تھا، اب ہندوستان میں سب کچھ ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ، تیسرے نے جواب دیا‘‘

پھر اچانک ٹارچ کی روشنی مکان نما کھنڈر پر دائرے کی شکل میں ناچنے لگی، اور بوٹوں کی آوازیں بھی صاف سنائی دینے لگیں ۔

’’شاید وہ لوگ مکان کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔‘‘

’’ہاں ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘

’’اب کیا کریں ؟‘‘

’’آج بچنا مشکل ہے!‘‘

وہ تینوں پریشانی کے عالم میں بولے جا رہے تھے۔

’’جب ہم مکان میں داخل ہوئے تو میں نے ایک کنواں دیکھا تھا! رسی بھی پاس ہی پڑی تھی، کیوں نہ رسی کے بل کنویں میں اتر جائیں اور کنوئیں کا پانی بھی یقیناً سوکھ چکا ہو گا پھر ان کا باپ بھی ہمیں نہیں پکڑسکے گا۔‘‘

’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘ دونوں نے پہلے کی بات سے اتفاق کیا، اس لیے کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

’’جوتوں کی دھمک قریب سے آ رہی ہے! شاید وہ لوگ گھر میں داخل ہونے والے ہیں ، جلدی کرو۔‘‘

پھر وہ تینوں سرکتے ہوئے کنویں کے قریب پہنچ گئے، کنویں پر لوہے کا ڈھکن تھا، ایک نے لوہے کا ڈھکن اُٹھایا، دوسرے نے رسّی کا ایک سرا مکان کے پلر سے باندھ دیا، پھر وہ تینوں باری باری کنویں میں اُتر گئے۔

’’ارے، ارے یہ کیا؟‘‘

’’سانس رک رہا ہے‘‘

’’شاید گیس‘‘

’’زہریلی گیس‘‘

اس سے آگے وہ کچھ نہ بول سکے۔

صبح کے اخبار میں ان کی تصاویر کے ساتھ یہ خبر چھپی تھی کہ مشہور شخصیات کے قاتل عابد ٹوٹو، صابر خیراتی اور عبدل چریا نے پکڑے جانے کے خوف سے کنویں میں کود کر خودکشی کر لی، فرض شناس پولیس کئی ماہ سے ان کی تلاش میں تھی۔

٭٭٭

 

نظر کا ٹیکا

سینٹر کے کارکنوں نے سرد خانے سے لاش اُٹھا کر اسٹریچر پر ڈالی اور چند قدم چلنے کے بعد ایمبولینس میں رکھ دی۔ وہ کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد بڑے بڑے قدم بڑھاتا ہوا ایمبولینس کے قریب آیا اور لاش کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس کا دل چاہا کہ سفید چادر ہٹا کر چہرہ دیکھ لے لیکن اس نے اپنی خواہش پر جلد ہی قابو پا لیا۔ چونکہ پچھلی رات اس نے خاص مقصد کو پانے کے لیے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کیا تھا، یہ منصوبہ تو کئی ہفتوں پُرانا تھا، لیکن اپنی پلاننگ پر عمل کرنا بڑا جی گردے کا کام تھا۔ اسے اپنے مقصد کو پانے کے لیے دو تین خاص آدمیوں سے ملنا بھی پڑا۔ ان لوگوں نے اس کی بڑی رہنمائی کی۔ اس نے دو ہفتے قبل ہسپتال سے ملحق میڈیکل اسٹور سے اپنی ضرورت کی چیزیں بھی خرید لی تھیں ۔

ڈرائیور بڑی مہارت کے ساتھ ایمبولینس چلائے جا رہا تھا۔ راستہ ناہموار تھا۔ اونچے نیچے ٹیلے، چھوٹے چھوٹے گڑھے، راستے میں آنے کے باوجود رفتار میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا، سوائے معمولی جھٹکوں کے۔ راستہ پورا تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ جنگلی جانوروں کی آوازیں ، درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ، پاس کفنائی ہوئی لاش نے پورے ماحول کو دہشت زدہ اور پُراسرار بنا دیا تھا۔

’’سگریٹ پیو گے بابو؟‘‘

ایک سیاہ اور بھدا سا ہاتھ اچانک نمودار ہوا۔ خوف کی لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں اُتر گئی۔ اس کی نگاہیں ہاتھ کا طواف کرتی ہوئی کلائی،کہنی، کاندھے اور گردن سے سفر کرتی ہوئی، اس کے سر کے پچھلے حصّے پر جا کر ٹک گئیں ۔ یہ بھدے اور کالے ہاتھ والا شخص ڈرائیور تھا، جو گاڑی چلاتے ہوئے اسے سگریٹ کی پیشکش کر رہا تھا۔

’’نہیں ‘‘ اس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ پھر اس نے لمبا سانس لیا اور کھڑکی کے شیشے کو سرکا کر اپنے اطراف کا جائزہ لینے لگا۔ گیہوں ، جوار کی لہراتی ہوئی فصلیں ، جھومتے ہوئے تناور درخت اسے بھوت اور چڑیلوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ اسے ایسا محسوس ہوا، جیسے جنگل کی ہر شے اسے اپنی موٹی موٹی سرخ آنکھوں سے گھور رہی ہے۔ آخر نابینا چیزیں بینا کیسے ہو گئیں ؟

مجھے کھڑکی بند کر دینی چاہیے۔ اس نے جھرجھری لیتے ہوئے اپنا منہ کھڑکی سے باہر نکال لیا۔

’’میرا خیال ہے آدھاراستہ طے ہو گیا ہے۔‘‘ اس پر خود کلامی طاری تھی۔

’’بابو! کچھ مجھ سے بولا۔‘‘

’’نہیں ‘‘ اُس نے ڈرائیور کو مختصر ترین جواب دیا۔ پھر وہی گہرا سنّاٹا شیشوں سے نظر آتا ہوا گھپ اندھیرا، سفید کپڑے میں لپٹی ہوئی لاش اور موٹا کالا بھدا ڈرائیور۔ بہت دیر تک وہ سوچوں کی قبر میں مدفون رہا۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ وہ اسی سمے بے چینی کے ساتھ مرقد سے باہر آ گیا۔ اس نے اپنا سیاہ چرمی بیگ اس طرح کھولا جیسے بے حد عجلت میں ہو۔ دو لمحے بعد ہی اس کے تھرتھرائے ہاتھ کفن کے اندر تھے، وہ اپنی مطلوبہ چیز تلاش کرنے لگا۔ سخت سردی کے باوجود اس کے چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے اُبھر آئے۔ لاش برف کی طرح یخ تھی۔ اسے جلد ہی مطلوبہ چیز مل گئی۔ اس نے گنتی شروع کر دی۔ چھوٹی، بڑی اور بڑی، بڑی سے چھوٹی آخر میں فاصلے پر سب سے چھوٹا۔ وہ تلاش میں کامیاب ہو گیا۔ حصول مقصد کے لیے اس نے اپنی کوششیں تیز سے تیز تر کر دیں ۔ اس دوران لاش کے چہرے سے کئی بار چادر کا کونا ہٹ گیا اور آدھا چہرہ کفن سے جھانکنے لگا۔ اس نے سختی سے اپنی آنکھوں کے کواڑوں کو بند کر لیا اور زرد روشنی میں نہائی ہوئی لاش کی چادر درست کرنے لگا۔ پھر اس نے چرمی بیگ سے نکالا ہوا سامان اندر ڈالا اور زپ بند کر دی۔ اسی اثناء میں نہ جانے ماں کہاں سے اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ جوانی سے لڑکپن اور لڑکپن سے… بچپن میں ڈھلتا چلا گیا، ماں نے اسے نہلا دھلا کر تیار کیا اور کاجل کی شکوری سے اپنے انگوٹھے کی اوپری سطح کو کالا کر کے اس کے ماتھے پر سیاہ ٹیکا لگا دیا، اور اپنی بانہوں میں بھرتی ہوئی بولی۔

’’اب میرے چاند کو نظر نہیں لگے گی۔‘‘

اماں نظر تو لگ گئی، چہرہ بچ گیا، پر کردار نہیں بچ سکا۔

’’کیا بولا بابو؟‘‘

’’یہ ڈرائیور درمیان میں کیوں آ جاتا ہے؟‘‘ اس دفعہ اس نے اپنی آواز کو سرگوشی میں بدل دیا۔

بابو! جو بھی لاش کے سنگ جاتا ہے نا، اس کی حالت بالکل تمہارے مافک ہو جاتی ہے۔ ابھی اپن کو تو لاشیں اُٹھاتے اُٹھاتے عادت پڑ گئی ہے، کبھی کبھی تو بابو! یوں لگتا ہے جیسے اپن بھی لاش بن گیا ہے۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے بابو، غریب آدمی ہوتا ہی لاش ہے، چلتی پھرتی لاش۔ ایک ڈرائیور کی پگار ہی کتنی ہوتی ہے؟ اپنا ہی چائے سگریٹ کا خرچ نکل آئے تو بڑی بات ہے۔ معلوم ہے بابو! ہمارے گھر کا چولہا آدھا مہینہ تو ٹھنڈا ہی رہتا ہے۔ جب چولہا ٹھنڈا ہو گا، تو پیٹ تو آپ ہی آپ ٹھنڈا اس لاش کی مافک ہو جائے گا۔‘‘ اس نے اس ڈرائیور کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ اس کے سامنے تو کاجل لگا انگوٹھا اور سلائی مشین کے پیڈل پر پیر مارتی ہوئی ماں تھی۔ باپ کے انتقال کے بعد گھر کا سارا بوجھ اس کے ہی کاندھوں پر تھا۔ اس نے ایف اے کے بعد ملازمت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اسے ملازمت مل بھی گئی لیکن تنخواہ بے حد کم، کام زیادہ۔ ماں کے کہنے پر اس نے سال دو سال بعد ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ ماں کی خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے روپوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسی لیے وہ چھوٹی موٹی نوکری تلاش کرتا ہی رہتا۔

ماں اس کی پیشانی کا بوسہ لینے کے لیے آگے بڑھی۔

بیٹا تو نوکری کے چکر میں نہ پڑ، گھر کا خرچ میری سلائی اور دفتر کی پنشن سے پورا ہو جاتا ہے۔

’’پر ماں ! تمہاری صحت؟‘‘

’’کیا ہوا میری صحت کو بھلا، بالکل ٹھیک ہوں ۔‘‘

’’پر، میرا فرض؟‘‘ میں نے فرض ادا کر دیا۔ میں نے فرض ادا کر دیا۔‘‘ وہ چیخا۔

’’نہ رو، بابو! چپ ہو جاؤ۔‘‘

کیوں ، چپ ہو جاؤں ، وہ ہچکیوں کے درمیان بولا۔ سمجھانا میرا فرض ہے بابو! لیکن مانتا کوئی نہیں ہے۔ سب اسی طرح تڑپتے ہیں ۔ سفیدی اندھیرے کو اپنے اندر چھپانے کی کوشش میں مصروف تھی اور خود آگے بڑھتی چلی آ جا رہی تھی۔ گھر بھی قریب آ گیا تھا۔ دروازے پر سوئے عدم جانے والے کا استقبال کرنے، اس کے گھر والے، عزیز و اقارب اور محلے دار کھڑے تھے۔ بیرونی دروازے کے دونوں پٹ وا تھے، جوں ہی ایمبولینس آ کر رُکی، کئی مرد آگے بڑھے۔ اسٹریچر اندر لے جایا گیا۔ گریہ و زاری کی آوازیں مزید بلند ہونے لگیں ۔ ماحول دُور دُور تک سوگوار ہوتا چلا گیا۔

’’بھیا! تم نے تو کہا تھا کہ اماں شہر سے صحت مند ہو کر لوٹیں گی۔ پر یہ کیا ہوا؟ ہماری تو دُنیا ہی لُٹ گئی، اب کس طرح جئیں گے۔‘‘

’’اماں ! تم ہی کچھ بولو، چپ کیوں ہو، کیا چھوٹے کو پیار نہیں کروگی؟‘‘

’’آج بھیا کو لیکچر نہیں دینا ہے کیا؟‘‘

’’اماں ! تم نے وعدہ خلافی کی ہے، اپنے گھر کوئی اس طرح آتا ہے۔‘‘

’’بولو اماں ! جواب دو اماں ۔‘‘

اب لاش سے ڈائریکٹ سوالات شروع ہو گئے تھے۔

’’صبر کرو، موت برحق ہے۔‘‘

’’بے چاری کو سال بھر سے کینسر تھا۔‘‘

’’کہاں کا؟‘‘

’’جگر کا، جگر چھلنی ہو گیا تھا، بڑے صدمے اُٹھائے ہیں دُکھیا نے۔ بھری جوانی میں شوہر فوت ہو گیا۔ محنت مشقت کر کے اولاد کو پالا ہے۔‘‘

’’بات ایمان کی ہے، تھی بڑی صبر والی۔‘‘

مختلف آوازیں گھر میں گونج رہی تھیں ۔ بہنوں اور خالاؤں کا گریہ اور بین جاری تھا۔

وہ مردانے میں غم سے نڈھال بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔

’’بیٹا فکر نہ کرنا، ہم تمہاری ملازمت کے لیے کوشش کریں گے۔ اگر ممکن ہوا تو تمہیں تمہارے والد کی جگہ ملازمت دلوانے کی بھی بات کریں گے۔‘‘

’’لیکن خرم ابھی نابالغ ہے۔‘‘

’’ارے نہیں ! برخوردار، کم از کم اکیس سال کے ہوں گے۔ آخر محلے دار ہوں ۔ میرے سامنے کا بچہ ہے۔ ملازمت اسے تین سال پہلے ہی مل جانی چاہیے تھی۔‘‘ وہ دوران گفتگو کچھ نہیں بولا۔

جنازہ تیار ہو گیا تھا۔۔۔ لوگ اسے آوازیں دے رہے تھے۔

’’آؤ بیٹا! ماں کا آخری دیدار کر لو۔‘‘

’’ان کے سرہانے جا کر معافی مانگ لو۔‘‘

’’معافی کا وقت گزر چکا ہے۔‘‘ آنسوؤں میں ڈوبی آوازیں اس کی سماعت سے ٹکرائیں ۔

’’معافی کا وقت گزر گیا۔۔۔۔۔؟‘‘وہ زیر لب بولا اور مجمع کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا اور ماں کے سرہانے آنکھیں بند کر کے کھڑا ہو گیا۔

’’بھیا!ماں کو نہیں دیکھنا کیا؟ آنکھیں تو کھولو۔‘‘

’’کیسے دیکھوں ؟ وہ نظر کہاں سے لاؤں جو ماں کو الوداعی سلام کر سکے‘‘ اندر سے اُٹھنے والی آواز لبوں پر آتے ہی دم توڑ گئی۔

’’دیکھ لے جی بھر کر، پھر قیامت میں ہی ملاقات ہو گی‘‘ خالہ نے اسے جھنجھوڑا، تو وہ گہوارے کا پایہ پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

چلو بھئی جلدی کرو، نماز کا وقت نکل جائے گا۔

ماں کو دفنانے کے بعد جب وہ اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ گھر لوٹا تو اس نے دیکھا کہ پورے گھر میں ایک توانا اور نازک سا سوال اپنی خمیدہ کمر کے ساتھ ناچ رہا ہے۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کینسر تو جگر کا تھا لیکن۔۔۔۔۔؟

’’دل، گردوں کا تو سن رکھا ہے۔‘‘

ٹیپ ہٹانے کے بعد عجیب سا بھبکا نکلا تھا، نہلانے والی بھی بڑی حیران تھی۔‘‘

انسان کا جسم فانی ہے، ختم ہونے اور مٹی میں مٹی ہو جانے والا۔ اس بحث کو ختم کر کے مغفرت کی دعا کرو۔ دانشوروں کی بلند آواز نے سرگوشیوں کا گلا گھونٹ دیا۔ اب سب خاموش تھے، سوال بھی گھر میں گردش کرنے کی بجائے، ایک جگہ عجوبہ بنا ٹھہر گیا۔

شام تک مہمان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے، گھر میں بہن بھائی اور ساتھ میں غم، دُکھ اور تنہائی بچے تھے۔

سوئم کے بعد تمام کام معمول کے مطابق ہونے لگے، البتہ شام کو وہ محلے کے بچوں کو باقاعدگی کے ساتھ ٹیوشن پڑھانے لگا۔ اس دوران ملازمت کی بھی کوشش کی لیکن کامیابی پر وہ قابو نہ پا سکا۔ کئی ماہ بیت گئے، ایک دن اس کی بہن نے اپنے بھائی سے کہا۔

’’خرم بھائی! ایک بات تو بتاؤ۔ گھر کا خرچ کس طرح چل رہا ہے؟ چونکہ ٹیوشن کی رقم تو بہت تھوڑی ہوتی ہے اور اخراجات زیادہ۔ کیا ہر ماہ کسی سے قرض لیتے ہو؟‘‘

’’خیر ابھی تک تو قرض کی نوبت نہیں آئی۔‘‘ وہ بیزاری سے بولا۔

’’پھر یہ رقم؟‘‘

’’بس کہیں سے ذریعہ نکل آیا ہے۔‘‘

’’کیسا ذریعہ؟‘‘

اس نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے اُٹھا اور اماں کے کمرے میں اپنے آپ کو مقید کر لیا۔

’’باجی! بھیا! کمرہ بند کر کے کیا کرتے ہیں ؟‘‘ اس کے چھوٹے بھائی نے سرگوشی کی۔

’’اماں کو یاد کر کے روتے ہوں گے اور کیا کریں گے۔‘‘

’’میں نے کئی دفعہ خرم بھیا کو سمجھایا کہ اتنا نہ رویا کرو، رونے دھونے سے ماں تھوڑی آ جائے گی، تو ننھے بھیا تم جانتے ہو، انھوں نے کیا جواب دیا۔‘‘

’’کیا جواب دیا تھا باجی؟‘‘

’’وہ کہنے لگے، میں امّاں کی روح سے بہت شرمندہ ہوں ۔‘‘ ’’یہ بات انھوں نے کیوں کہی؟‘‘

’’معلوم نہیں ۔‘‘

ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔ اس کی بہن نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، پولیس والوں کو دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گئی۔

’’خرم احسان ہے؟‘‘

’’جی، ہیں ۔‘‘

’’فوراً اسے باہر بھیجو، نہیں تو، ہمیں اندر آنا پڑے گا۔‘‘

’’کیا کیا ہے میرے بھائی نے؟‘‘ وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

’’ابھی پتا چل جاتا ہے، وہ آ جائے۔‘‘

وہ کمرے کی طرف بھاگی۔

’’خرم بھیا، ہمارے دروازے پر پولیس آئی ہے، تمہیں بلا رہی ہے۔ آخر تم نے کیا جرم کیا ہے۔۔۔۔۔؟

اس نے دروازہ کھول دیا۔ ’’آخر آ ہی گئی پولیس۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا۔

’’منّی! تم چھوٹوں کو لے کر کمرے میں جاؤ۔ میں جاتا ہوں باہر۔‘‘

’’تم پریشان نہ ہونا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

’’کیا کوئی گڑبڑ والی بات ہے؟‘‘

’’نہیں ، نہیں ، کوئی گڑبڑ نہیں ، میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔‘‘

’’دیکھو بھیا، تمہارے سوا ہمارا کوئی نہیں ہے، امّاں ابّا کی جگہ تم ہی تو ہو۔‘‘ وہ سسکنے لگی۔

وہ اسے روتا چھوڑ کر کمرے میں بھاگا۔ الماری کھول کر چھوٹی سی اسٹیل کی ڈبیا نکالی، اُسے عقیدت سے آنکھوں سے لگایا، پھر بے تحاشا چومنے لگا۔

’’لو، منّی تم بھی اس کے سینے سے لگ جاؤ، میرا مطلب ہے منّی اسے دل بھر کے پیار کر لو‘‘ اس نے ڈبیا بہن کی طرف بڑھا دی۔ وہ سب حیرت اور غم کے ساتھ اس کی شکل دیکھنے لگے، جیسے وہ ذہنی توازن کھو بیٹھا ہو۔

وہ ڈبیا کھول کر دیکھنا ہی چاہتی تھی کہ آخر اس میں ہے کیا؟ جس نے اس کے بھائی کے حواس چھین لیے ہیں ، اس سے پہلے کہ حقیقت آشکارا ہوتی، خرم نے چیل کی سی تیزی کے ساتھ ڈبیا بہن کے ہاتھ سے جھپٹ لی، اور باہر نکل گیا۔ اب وہ پولیس اسٹیشن میں تھانے دار کے سامنے تھا۔

’’سر! ملوم(معلوم) ہے آپ کو یہ ہمیں سات آٹھ ماہ سے اُلّو بنا رہا ہے، وہ تو آج بھی اس راز سے پردہ نہ اُٹھتا۔ بھلا ہو سرجن وقار کا، جو چیک جمع کرانے آئے تھے، وہ کاغذات دیکھ کر نہ جانے کیوں تشویش میں پڑ گئے، انھوں نے اسی وقت اس سے پوچھا کہ یہ نشان کس نے لگایا ہے؟‘‘

’’سر! یہ شخص بری طرح بوکھلا گیا، پھر تھوک نگلتے ہوئے بولا ماں نے، وہ بہت بیمار ہیں ، اس لیے سفر نہیں کر سکتیں ، مزید سوال جواب کا اس نے موقع ہی نہیں دیا۔ اور رقم لے کر رفوچکر ہو گیا۔ اس کے جانے کے بعد تحقیقات کرائی، تب حقیقت سے پردہ اُٹھا۔‘‘

’’لیکن سر! یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ نشان اصلی ہے، بس یہی وہ معمہ ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔‘‘

’’منیجر صاحب! آپ پریشان نہ ہوں ، ابھی سب پتا چل جاتا ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔ صرف ایک پھینٹی کی ضرورت ہے۔‘‘

تھانے دار صاحب پھینٹی کی ضرورت ہرگز نہیں پڑے گی، میں سچ سچ سب کچھ بتا دوں گا۔ پھر آپ جو سزا دیں ، میں تیار ہوں ۔

سر! باپ کے انتقال کے بعد ہمارا گزر بسر اسی رقم سے ہو رہا تھا۔ میں کیا کرتا سر! مجھے دوسرا راستہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

’’اوئے، فالتو بات نہیں ، اصل بات بتا۔‘‘

جی سر! وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہو گیا، اپنی قمیص کی جیبوں کو ٹٹولنے لگا، پھر اس نے پینٹ کی اندرونی جیب سے چمکتی ہوئی ڈبیا نکالی اور اسے آنکھوں سے لگا کر سسکنے لگا۔ آنسو پونچھ کر دھیمے لہجے میں بولا۔

’’سر! میری ماں ایک پردہ نشین عورت تھی، اس کا ناخن بھی کسی غیر مرد نے نہیں دیکھا تھا، اس کی بے پردگی کا گناہ بھی میرے سر ہے۔‘‘

’’ابے کھوتے تقریر ہی کیے جائے گا یا آگے بھی کچھ پھوٹے گا۔ لا ڈبیا دے کیا ہے اس میں ۔‘‘

اس نے لرزتے ہاتھوں سے ڈبیا تھانے دار کی طرف بڑھا دی۔ تھانے دار نے جوں ہی ڈبیا کھولی کیمیکل کے بھبکے نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

بینک منیجر اپنی کرسی سے اُٹھا اور تھانے دار کے قریب جا کر ڈبیا میں جھانکنے لگا۔

اوہ مائی گاڈ! اس نے جھرجھری لی۔

سفّاکی کی انوکھی داستان، وہ بھی تھوڑی سی رقم کے لیے لاش کے ساتھ اس قدر ظالمانہ سلوک۔

منیجر کے چہرے پر حیرت اور نفرت کے ملے جُلے تاثرات اُبھرے اور وہ اسے حقارت سے دیکھنے لگا۔

تخریب کاری کے لیے تم لوگوں کا دماغ کیسے نت نئے طریقے ایجاد کرتا ہے، تھانے دار گرجا۔

سر! یہ تخریب کاری نہیں ہے، یہ تو، یہ تو، نظر کاٹیکا لگانے کا سانچا ہے اور۔۔۔ اور یہ انگوٹھا۔۔۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

٭٭٭

 

آزمائش

بیرسٹر اشفاق اور ان کی فیملی نے جب ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے اپنا اسبابِ سفر باندھا تو عین اسی وقت ایک دبلا پتلا، کالا کلوٹا، ستواں ناک اور چوکور چہرے والا لڑکا ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا، جسم پر مارکین کا کُرتا پاجامہ اور پاؤں میں چمڑے کے سیاہ سلیپر تھے۔

’’مما آپ ہم کو کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہیں ؟ آپ کے بعد ہمرا کون ہے، میّاں آپ تو ہماری ماں کی جگہ ہیں ، آپ کے جانے کے بعد ہمرا کون خیال رکھے گا؟‘‘

’’کیا آپ کو معلوم نہیں ، اماں باوا تو فساد میں مارے گئے اور ہم کو رونے کے واسطے تنہا چھوڑ گئے؟ ہم آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں ‘‘ اس نے اپنے ماموں اور ممانی کے سامنے ہاتھ باندھ لیے۔ اس کا لاغر جسم تھر تھر کانپ رہا تھا اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ستارے جھلملا رہے تھے۔

بیرسٹر اشفاق نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا، اور آبدیدہ ہو کر بولے۔

’’نہ رو میرے بیٹے، اگر تمہاری خواہش ہمارے ساتھ چلنے کی ہے تو ضرور چلو۔‘‘

تھوڑے ہی دنوں بعد وہ اپنی خوابوں کی سرزمین پاکستان پہنچ گئے۔ شروع میں تھوڑی بہت مشکلات پیش آئیں لیکن بیرسٹر صاحب نے جلد ہی ان پر قابو پا لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی پریکٹس بھی خوب چل نکلی۔ اور انہیں وہی پُرآسائش زندگی میسر آ گئی جو وہ چھوڑ کر آئے تھے۔

وحید دو تین سال تک تو اپنے ماموں ، ممانی جنہیں وہ اپنی دیہاتی زبان میں مما اور میّاں کہا کرتا تھا ان کے پاس رہا۔ بیرسٹر صاحب نے اس کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اس دوران اسے پڑھانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن اس کا پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگا اس کی خواہش کے مطابق بیرسٹر صاحب نے اسے قالین بننے کے کارخانے میں کام پر لگا دیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے اتنی رقم جمع کر لی کہ وہ الگ رہ سکے۔ ایک بار اس نے اپنے ماموں سے کہا۔

’’مما! اب ہم کو شرم آنے لگی ہے، کب تک آپ کے ساتھ رہیں گے اور ہم اب بالغ بھی ہو چکے ہیں ۔‘‘

’’تمہارے ارادے کچھ ٹھیک نہیں ہیں ‘‘ میاں نے اسے چھیڑا۔

’’ارادے تو اچھے ہیں بس آپ لوگوں کو چلنا ہو گا، برابر میں ہی ان کی جھونپڑی ہے، وہ کہتے ہیں ، کسی بڑے کو لاؤ‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے سب کچھ بتا دیا۔

’’اچھا تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے! خیر تم بتاؤ کس دن چلنا ہو گا‘‘ بیرسٹر صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔

’’میرا خیال ہے کہ یہی والا اتوار ٹھیک رہے گا‘‘

’’نوشے میاں کو جلدی کتنی ہے‘‘ میاں نے اس کے سر پر ایک دھول جمائی۔ اس نے پیار سے اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا۔

میّاں نے اسے بہت سی دُعائیں دیں اور پھر بولیں ۔

’’ارے کم بخت! تُو نے تو میرے براق جیسے کپڑے چکنے کر ڈالے اتنا تیل نہ ڈالا کر۔‘‘

’’میں دھو دوں گا‘‘ وہ شرمندہ سا ہو گیا۔

اتوار والے روز وہ لوگ وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔ ان کی عادت، اخلاق اور امارت کو دیکھ کر نہ صرف یہ کہ مولوی برکت نے ہاں کر دی بلکہ نکاح کی تاریخ کے ساتھ ساتھ مہر کی رقم، بری کے جوڑے، گھر بیٹھنے کی صورت میں نان نفقہ کا خرچ غرض تمام امور آسانی سے طے پا گئے۔

بیرسٹر اشفاق کو بھی اطمینان ہو گیا کہ چلو بار بار چکر لگانے سے بچے۔ ایک ہی دفعہ میں معاملات نمٹ گئے۔

شادی والے دن بیرسٹر صاحب اور ان کی فیملی صبح ہی آ گئی تھی۔ بیرسٹر صاحب دولہا دلہن کو اپنے گھر رخصت کر کے لے آئے تھے، کئی دن اپنے پاس رکھا، خوب خاطر مدارات کی، ان دنوں انھوں نے اپنے کلائنٹس اور ملنے جلنے والوں پر بھی پابندی لگا دی۔ اس طرح دولہا دلہن کے ساتھ انھوں نے سکون کے ساتھ وقت گزارا، ولیمے کے بعد وہ لوگ مع اپنے مہمانوں کے رخصت ہو گئے۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ بیرسٹر صاحب کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔ گھریلو ذمے داریوں میں بھی اضافہ ہوا کبھی نانا بنے، کبھی دادا کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ کسی کی چھٹی تو کسی کی سالگرہ، ان حالات میں یہ لوگ وحید کو بھول ہی گئے۔ کئی ایک دفعہ اس نے چکر بھی لگائے، بچوں کی پیدائش پر مٹھائی بھی لے کر آیا، لیکن سلام و دعا سے زیادہ بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

وقت پر لگا کر اُڑتا رہا، اس عرصے میں چھوٹے بچے بھی جوان ہو گئے۔ ایمن اور عمر کی تعلیم بھی مکمل ہو گئی۔ عمر کو ملازمت مل گئی ان ہی دنوں ایمن کے لیے کئی ایک رشتے بھی آئے، عمر کو آفس میں ہی کوئی لڑکی بھا گئی، ایمن کے لیے سوچ سمجھ کے اس کے جوڑ کے رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ اس طرح دونوں بچوں کی شادی کر دی۔

بچوں کی شادیوں کے بعد بیرسٹر اشفاق کو فراغت نصیب ہوئی۔ ایک دن یوں ہی بیٹھے وحید کو یاد کرنے لگے۔ ’’کافی زمانے سے وہ نہیں آیا، نہ جانے کس حال میں ہو گا؟‘‘ وہ بے قرار ہو کر بولے۔

’’چلو بیگم آج اس کی خیریت لے آئیں ‘‘

’’ہاں بالکل چلیے، میں بھی اسے یاد ہی کر رہی تھی‘‘ وہ کرسی سے اُٹھتی ہوئی بولیں ۔

’’تھوڑی دیر بعد وہ ان کے گھر پہنچ چکے تھے۔ میاں ، بیوی اور بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ محلے بھر کے بچے گاڑی کے گرد جمع ہو گئے اور پھر سب اندر آ گئے۔‘‘

’’ارے! نکلو باہر۔ دیکھتے نہیں میّاں ، ممّا آئے ہیں انہیں آرام سے بیٹھنے دو۔‘‘ بچے جلد ہی باہر چلے گئے۔ پھر وہ بیرسٹر صاحب کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

’’کتنے بچے ہیں ؟‘‘ بیرسٹر صاحب نے پوچھا۔

سات۔ چھ لڑکیاں ایک لڑکا۔ پھر اس کے چہرے پر شرمیلی شرمیلی مسکراہٹ چھا گئی۔

’’بلاؤ‘‘

اس نے ساتوں کو طلب کر لیا۔ اور بولا۔ دادا کو سلام کرو، بچوں نے نہ یہ کہ سیلوٹ کی شکل میں سلام کیا بلکہ ہاتھ بھی ملایا۔ بیرسٹر صاحب… سب کے ہاتھ میں دس بیس روپے پکڑاتے رہے۔ جس قدر خاطر مدارت ہوسکتی تھی دونوں میاں بیوی نے کی، چلتے وقت وحید کی بیوی ایک ٹفن اور اچار کی برنی اُٹھا لائی ’’یہ لیجیے میرے ہاتھ کا اچار اور کھانا‘‘

’’اچار تو خیر لے لیتے ہیں مگر کھانا کیوں ؟‘‘

’’آپ لوگوں نے ٹھیک طرح سے کھایا جو نہیں ‘‘ وہ روٹھتی ہوئی بولی۔ ’’اور گوشت بھی ٹھیک طرح سے نہیں گلا تھا‘‘

’’چلو اسے ہم گلا لیں گے‘‘ بیرسٹر صاحب نے ٹفن اور برنی لی اور پھر وہ مسکراتے ہوئے باہر نکل گئے۔

وحید کے گھر گئے ہوئے انہیں چند دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک شام اپنی فیملی کو لے کر اس وقت وارد ہوا جب ان کے چھوٹے بیٹے کے سسرال والے بیٹھے تھے۔ دو چار منٹ تک تو سناٹا سا چھا گیا، پھر بیرسٹر صاحب تحمل سے بولے۔

’’جاؤ بچوں کو اوپر لے جاؤ‘‘

’’کون لوگ ہیں ؟‘‘ شاید آپ کے ملازم اور اس کے بیوی بچے ہیں مہمانوں نے بڑے تجسس سے پوچھا۔

’’نہیں ہمارے عزیز ہیں ‘‘ بیرسٹر صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔

’’اسے کہتے ہیں خاندانی اور اعلیٰ ظرف لوگ، ایسے ہی لوگ جنتی ہیں ‘‘ ایک بڑی بی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔

’’معلوم نہیں جنتی ہیں کہ نہیں ‘‘ بیرسٹر صاحب لاپروائی سے بولے۔

اس دن کے بعد سے وہ لوگ کئی سال تک نہیں آئے اور نہ ہی بیرسٹر صاحب نے خبر لی۔

ایک دن بالکل اچانک گھر والے سو کر بھی نہیں اُٹھے تھے کہ وہ چلا آیا، بے حد کمزور نظر آ رہا تھا۔ وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہو گیا تھا ’’وحید میاں ! خیر تو ہے؟‘‘ بیرسٹر صاحب لان پر چہل قدمی کرتے کرتے رُک گئے۔

وہ ان کے پاس آ کر اکڑوں بیٹھ گیا۔ آنکھیں آنسوؤں سے بھیک گئیں ۔ بیرسٹر صاحب نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

’’مما! وہ گھر والی گزر گئی، آج دوسرا روز ہے۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔ ’’آپ کو اطلاع نہیں کر سکا، بس ہوش ہی نہیں تھا۔‘‘

’’کیا ہو گیا تھا؟‘‘

’’مما اسے ٹی بی ہو گئی تھی، معقول علاج نہ کرا سکا، نہ دوا اور نہ پرہیز۔ کیا کرتا؟ نو بچے، مہنگائی زوروں پر، پیٹ بھرنا مشکل ہے۔‘‘ باتیں کرتے کرتے اسے کھانسی کا دورہ پڑا اور وہ نڈھال ہو کر گھاس پر ہی بیٹھ گیا۔ آؤ چلو اندر چلتے ہیں ، بیرسٹر صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا۔ بیوی کو جگایا، وہ میّاں کہہ کر ان کے گلے لگ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تھوڑی دیر میں ملازم ناشتا لے آیا۔ اسے ناشتا کروایا اور چلتے وقت بیرسٹر صاحب نے ہزار ہزار کے دو نوٹ اس کے ہاتھ میں رکھے اور بولے ’’شام تک آئیں گے ہم لوگ۔‘‘

ابھی شام بھی نہیں ہوئی تھی کہ بڑی بیٹی آ گئی۔ تھوڑی دیر میں چھوٹی بھی آ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مہمانوں سے گھر بھر گیا۔ اور یوں بالکل اچانک نانا، نانی کے گھر یاسر کی سالگرہ منائی گئی۔ رات بھر خوب ہنگامہ رہا اور وحید کے گھر کوئی نہ جا سکا۔ اس بات کو کئی مہینے اور پھر کئی سال بیت گئے۔

ایک دن اچانک فون آیا کہ وحید کا انتقال ہو گیا ہے، یہ لوگ فوراً پہنچے۔ کفن دفن کا انتظام کیا۔ بچوں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی اور کچھ نقد رقم ہاتھ میں تھمائی۔ سوئم کے بعد یہ لوگ اپنے گھر لوٹ آئے۔

اس کے انتقال کو کئی سال بیت گئے۔ ایک شام دونوں میاں بیوی لان میں بیٹھے وحید کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ کس طرح ہمارے ساتھ آیا اور کس طرح ہم نے اس کی شادی بیاہ کیا۔ کئی گھنٹے وہی موضوع بحث رہا، ابھی وہ محوِ گفتگو ہی تھے کہ گیٹ سے ایک دبلا پتلا لڑکا داخل ہوا، اس کے بال تیل سے گیلے ہو رہے تھے اور ہاتھ میں لوہے کا کڑا اور گلے میں مفلر بندھا ہوا تھا۔ پاس آ کر بولا۔

’’پہچانا؟‘‘

بیرسٹر صاحب نے غور سے دیکھا۔ چہرہ کچھ شناسا سا لگ رہا تھا۔

’’دادا! میں وحید کا بڑا لڑکا صابر ہوں ۔ آج کل کنڈیکٹری کر رہا ہوں ، یہاں سے گزر رہا تھا، سوچا سلام کرتا چلوں ۔‘‘

میاں بیوی نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ سوچ رہے تھے کہ بیٹھنے کا کہیں یا نہیں ؟ اسی اثناء میں دو لڑکے کاندھوں پر اجرک ڈالے تیزی کے ساتھ گیٹ میں داخل ہوئے اور بیرسٹر صاحب کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بولا:

’’وکیل صاحب مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ، وہ تمہارا اصول تھا، جس کی وجہ سے بابا سائیں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور یہ ہمارا اصول ہے کہ ہم قتل کا بدلہ ضرور لیتے ہیں ، بس اب مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘

’’رحم کرو‘‘ مسز اشفاق گڑگڑائیں ۔

’’اس نے رحم کیا تھا، ہم سب نے ہاتھ جوڑے، اس کے پیر پڑے، نوٹوں سے بھرا بریف کیس پیش کیا، پھر اسے نہ رحم آیا اور نہ دولت کی چمک اس کے اصولوں کو ختم کر سکی۔‘‘

’’یار! جلدی کرو، وقت کم ہے‘‘ اس کا ساتھی غصّے سے چیخا۔ جس وقت اس نے ٹرائیگر دبایا، عین اسی وقت صابر کے جسم کو حرکت ہوئی۔ گولی صابر کا سینہ چھلنی کرتی ہوئی گزر گئی۔

٭٭٭

 

ننھے کے کپڑے

میرے لڑکپن کے دن تھے جب میں زینب آپا کے گھر گڑیاں کھیلنے جایا کرتی تھی۔ محلے کے دوسرے بچے بھی زینب آپا کے گھر کھیلنے آتے تھے۔ وہ سب تو برآمدے میں بیٹھے کھیلتے رہتے، لیکن میں آپا کے کمرے میں جا کر آپا سے باتیں کیا کرتی۔ زینب آپا مجھ سے کم از کم پندرہ سال بڑی ہوں گی پھر بھی وہ مجھ سے اور میں ان سے ہر طرح کی بات نہایت بے تکلفی سے کر لیتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہی تھی کہ آپا اور آپا کے سب گھر والے مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے اور خالہ تو مجھے اپنی تیسری بیٹی کہا کرتی تھیں ۔ گھر میں ، میں سب سے بڑی تھی اور چھوٹے بہن بھائیوں سے میری بنتی نہ تھی۔ بس مجھے تو آپا ہی بہت اچھی لگتی تھیں ۔

زینب آپا کی چھوٹی بہن ثریا ملازمت کے سلسلے میں صبح سے نکل جاتی اور شام گئے تک لوٹتی۔ زینب آپا گھر کا تمام کام کاج خود سنبھالتیں ۔

زینب آپا کے ابا کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ لہٰذا معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ زینب آپا اور ثریا باجی نے اپنے کاندھوں پر اُٹھا لیا تھا۔ زینب آپا ابّا کے انتقال کے بعد آگے نہیں پڑھ سکی تھیں ۔ صرف مڈل پاس تھیں ، اسی لیے انھوں نے گھر میں ہی کشیدہ کاری کا ایک چھوٹا سا اسکول کھول لیا تھا۔ ان کے اسکول میں بہت سی لڑکیاں ان سے سلائی کڑھائی سیکھنے آتی تھیں ۔ اس طرح گھر کا نظام بھی بہت اچھے طریقے سے چلتا رہا اور ان کی چھوٹی بہن ثریا کی تعلیم بھی جاری رہی۔

ایک دن دوپہر کو جب سب لوگ سو گئے اور مجھے نیند نہ آئی تو میں گڑیا کے کپڑوں کا تھیلا بغل میں دبا کر زینب آپا کے گھر کی طرف دوڑ گئی۔

خلافِ توقع آپا کے گھر کا منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ ثریا باجی آفس سے جلدی آ گئی تھیں اور خالہ نہ کہ صرف جاگ رہی تھیں ، بلکہ گلابی رنگ کا جوڑا پہنے، کانوں میں چنبیلی کے پھول لگائے، ہاتھ میں سروتا لیے چھالیہ کاٹ رہی تھیں ۔ زینب آپا اور ثریا باجی طرح طرح کی ڈشیں باورچی خانے سے لالا کر ٹیبل پر رکھ رہی تھیں ۔

ابھی مجھے حیران پریشان ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر بجنے والی بیل کی آواز سے سب اُچھل پڑے۔ زینب آپا کمرے کی طرف دوڑیں ۔ خالہ تخت سے اُتر کر کھڑی ہو گئیں اور پیر میں چپل ڈالنے لگیں ۔ ثریا باجی دروازے کی طرف بھاگیں ۔

دروازہ کھلا۔ دو عورتیں سیاہ برقعے میں ملبوس اندر داخل ہوئیں ۔ ان کے ساتھ نازک اندام سانولی رنگت والی دو لڑکیاں بھی تھیں اور ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا جس کے سر کے بال سرے سے غائب تھے۔

ثریا باجی اور خالہ نے مہمانوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ خواتین نے اپنے برقعے اُتارے اور پھر سرگوشی کے انداز میں دونوں باتیں کرنے لگیں ۔ لڑکیاں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ڈرائنگ روم کا جائزہ لے رہی تھیں اور ادھیڑ عمر کا آدمی جیب سے رومال نکال کر اپنے چہرے سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔

چند لمحے بعد ہی ثریا باجی ایک ٹرے میں شربت لے کر آ گئیں ۔ انھوں نے مہمانوں کو گلاس دینے کے بعد ایک گلاس میری طرف بھی بڑھایا لیکن میں شرما کر زینب آپا کے کمرے میں آ گئی۔ زینب آپا آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے آپ کو سنوار رہی تھیں ۔

میں نے آپا کی طرف شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا تو آپا بر دکھوے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔‘‘ ’’چل ہٹ‘‘ وہ شرما سی گئی تھیں ۔ پھر راز داری سے کہا۔

’’ادھر آ افشاں ۔‘‘

’’جی فرمائیے۔‘‘ میں ان کے گلے لگ کر بولی۔

’’کیسے لوگ ہیں ؟‘‘ میں نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سوچنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے آپا کا جملہ دہرایا۔

’’جلدی بتاؤ نا۔ افشاں ، خواہ مخواہ ڈراما کر رہی ہو۔‘‘ آپا جھنجھلا کر بولیں ۔ میں نے قہقہہ لگایا۔

’’بہت جلدی ہے آپا؟‘‘ وہ مارنے کے لیے آگے بڑھیں ۔

’’اچھا بتاتی ہوں ۔ وہ لوگ آپ سے زیادہ اچھے نہیں ہیں ۔‘‘

’’اور وہ کیسے ہیں ؟‘‘

’’یعنی کہ وہ بھی آئے ہیں ۔‘‘ میں نے آپا کی بے چینی کو بھانپتے ہوئے کہا۔ تو اور کیا؟‘‘ آپا جلدی سے بولیں ۔

’’آپا! ان کے ساتھ ایک بوڑھا سا آدمی ہے، اگر وہی ہے، تو ایمان سے آپا وہ بالکل بھی آپ کے جوڑ کا نہیں ہے۔‘‘ آپا اُداس ہو گئیں ۔

’’آپا! دل چھوٹا نہیں کریں ، ویسے زیادہ بوڑھے بھی نہیں ہیں ۔بس میری مانیں تو آپ انکار کر دیں ۔‘‘ ’’کیسے انکار کروں ؟ اس سے پہلے بھی کئی رشتے ٹھکرا چکی ہوں ، جسے دیکھو منہ اُٹھا کر چلا آتا ہے پچھلے دنوں جو رشتہ آیا تھا وہ کسی ہیروئنچی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ اس سے پہلے جو صاحب رشتہ لائے تھے وہ ’’درزی‘‘ کا کام کرتے تھے، عجیب طرح کے تھے۔ چھوٹا سا قد اور بھدا سا جسم مجھے ایک آنکھ نہیں بھائے تھے۔ لیکن یہ جو رشتہ آیا ہے یہ بہت پڑھے لکھے اور بہت بڑے افسر ہیں ۔‘‘

ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ثریا باجی آپا کو بلانے آ گئیں ۔ ’’آپا! دوپٹہ سر سے اوڑھ کر آنا وہ صاحب آئے ہوئے ہیں ۔‘‘

’’ثریا باجی آپ ہی کر لیں ان سے بیاہ۔ میری آپا اس بُڈھے سے ہرگز شادی نہیں کریں گی۔‘‘ میں نے غصّے سے کہا۔

’’تم اپنی چونچ بند ہی رکھو افشاں ! اور ایک تو تم عین وقت پر نہ جانے کہاں سے آن ٹپکتی ہو۔‘‘

’’میرے پاس جادو کا گولہ ہے۔ بس میں سب کچھ دیکھ لیتی ہوں ۔‘‘ میں نے ثریا باجی کو چڑاتے ہوئے جواب دیا۔ انھوں نے میری طرف غصّے سے دیکھا اور آپا کا ہاتھ پکڑ کر لے گئیں ۔

آپا کے جانے کے بعد میں اطمینان سے آپا کی مسہری پر پیر پھیلا کر لیٹ گئی او ر آپا کی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔

تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ آپا آ گئیں ۔ بڑی خاموش خاموش سی تھیں ۔

’’آپا! پسند نہیں آیا نا!‘‘ میں نے آپا کو کُریدا…

’’نہیں ایسی بھی بات نہیں ہے۔ بس ٹھیک ہی ہے‘‘ آپا نے بُجھے بُجھے لہجے میں جواب دیا۔ آپا کے چہرے پر پھیلنے والی امید اور خوشی کی کرنیں ماند پڑ گئی تھیں ۔

’’آپا! ہمت کر کے منع کر دیں ۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔

’’افشاں ! اس دفعہ تو اماں مجھے جان سے مار دیں گی چونکہ وہ اور ثریا میری وجہ سے بہت پریشان ہیں ۔ میں بھی کیا کروں ؟‘‘ وہ رونے لگی تھیں ، آنسو ان کے رخساروں پر موتیوں کی طرح ڈھلک رہے تھے، میں اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسوؤں کو پونچھنے لگی۔ اتنے میں ثریا باجی آ گئیں اور میں کمرے سے رفوچکر ہو گئی۔ گھر گئی تو پتا چلا چھوٹے بھائی کو بہت تیز بخار ہو گیا ہے، علاج معالجہ کرانے کے باوجود بخار ایک ہفتے تک نہ اُترا۔ اماں کے ڈاکٹروں کے پاس چکر لگتے رہے۔ مجھے اور میری بہن کو گھر سنبھالنا پڑا، پھر میرے ٹیسٹ بھی شروع ہو گئے۔ کئی دن پڑھائی میں نکل گئے۔

اس طرح آپا کے گھر نہ جا سکی۔ البتہ آپا کے لیے میں دل ہی دل میں دُعا کرتی رہی۔ مجھے آپا سے سگی بہنوں سے زیادہ محبت تھی اور آپا کی بھی مجھ سے برابری کی بنیاد پر دوستی تھی۔ اپنے دُکھ سُکھ مجھ سے کہا کرتی تھیں ۔ پچھلے دنوں آپا نے گڑیا کے نکاح کا سُرخ ستاروں بھرا جوڑا بڑی محنت سے سی کر دیا تھا۔ جسے میرے سمدھیانے والے دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔

آپا کی امی بھی مجھے بیٹیوں کی طرح چاہتی تھیں ۔ ثریا باجی غصّے کی تیز تھیں ۔ لیکن دل کی بُری نہ تھیں ۔ جب بھی دو چار روز ان کے گھر نہ جاتی تو بہت پریشان ہو جاتیں اور آفس آتے جاتے میری خیریت ضرور پوچھتیں لیکن اس بار ثریا باجی نہ جانے کیوں نہیں آسکی تھیں ۔

جب بھائی کا بخار ٹوٹا اور میرے ٹیسٹ بھی ختم ہو گئے۔ تب میں امی سے اجازت لے کر آپا کے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

اتفاق سے دروازہ آپا نے ہی کھولا تھا۔ آپا کو دیکھ کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔ نہ جانے آپا کی شادی کا کیا فیصلہ ہوا ؟ خالہ سورہی تھیں اور ثریا باجی کام پر گئی ہوئی تھیں ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میں آپا کے گلے لگ گئی۔

’’میری آپا۔‘‘

’’میری افشاں !‘‘ آپا نے بھی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری پیشانی پر بوسہ لیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی خیریت لیتے ہوئے کمرے تک پہنچ گئے۔

’’آپا کیا ہوا؟‘‘ میرا تجسس عروج پر تھا۔

’’بات بڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ میں نے بھی حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا لیکن وہ لوگ لالچی نکلے۔ جہیز میں گھر لکھوانا چاہتے تھے اماں نے صاف انکار کر دیا کہ میرے جیتے جی ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے اور پھر مکان میں آدھا حصّہ ثریا کا بھی ہے، جو ہوا بہتر ہی ہوا۔‘‘ آپا نے سرد آہ بھری۔ پھر اپنی کیفیت چھپانے کے لیے بولیں ۔

’’ارے افشاں ! کپڑا لائی ہو؟ تمہاری گڈے کی دلہن کے لیے بری کا جوڑا سی دوں اور ہاں میں نے تمہاری بہو کے لیے دوپٹے میں سلمیٰ ستارہ ٹانک دیا ہے۔ نیلا دوپٹہ ستاروں بھرا آسمان لگ رہا ہے۔ دیکھو گی؟‘‘

’’جی آپا ضرور۔‘‘ میں خوشی سے جھومتی ہوئی بولی اور آپا کے ساتھ الماری کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔

آپا نے الماری کھولی اور دوپٹہ نکالنے لگیں ، دوپٹہ نکالتے ہوئے ایک چھوٹی سی کپڑوں کی گٹھڑی میرے پاس آ کر گر گئی۔ میں دوپٹے کو بھول کر گٹھڑی کھولنے بیٹھ گئی۔ گٹھڑی کھول کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت کپڑے، بب، نیپکن، بڑی نفاست سے تہہ کیے ہوئے رکھے تھے۔ میں نے رنگ برنگی کپڑوں کی تہہ کھول لی اور پُر جوش انداز میں بولی۔

’’آپا یہ کس کے کپڑے ہیں ؟‘‘

’’کسی کے نہیں ۔‘‘ آپا نے جھنجھلاتے ہوئے کہا میرے ہاتھ سے کپڑے چھینتے ہوئے بولیں ۔

’’جب میں نے دستکاری کا کورس کیا تھا تب ہماری مس نے سلوائے تھے۔ میں اپنی سہیلی کے نوزائیدہ بچے کو دینا چاہتی تھی لیکن امی نے سختی سے منع کر دیا۔ بولیں رکھے رہنے دو۔ وقت ضرورت گھر میں ہی کام آ جائیں گے۔‘‘

میں آپا کے آخری جملے پر غور کرنے لگی۔ ’’خالہ نے ٹھیک ہی تو کہا تھا۔‘‘ جب میں جملے کی تہہ تک پہنچ گئی تب میں نے چہک کر کہا۔

’’کیا ٹھیک کہا تھا؟‘‘ آپا نے میرے ہاتھ سے کپڑے لیے اور الماری میں رکھ دیے، پھر میرے گال کھینچ کر بولیں ۔

’’افشاں ! تم ہو بڑی کمال کی چیز۔ ہر بات تمہاری سمجھ میں آ جاتی ہے۔‘‘

’’ہاں آپا! بس اﷲ کی دَین ہے۔‘‘میں نے قمیض کا کالر اُٹھا کر بڑے فخریہ انداز میں کہا۔ آپا میری حرکت سے محظوظ ہوتی ہوئی زور زور سے ہنسنے لگیں ۔ ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازے کی بیل بجی۔

’’اب کون آیا ہے؟‘‘ آپا نے حیران ہو کر کہا۔

’’میں دیکھتی ہوں کون آیا ہے۔‘‘ میں دروازے کی طرف بھاگی اور آپا میرے پیچھے پیچھے دوڑیں ۔

’’کون ہے بھلا اس وقت؟‘‘

ہم دونوں چونکہ ایک ساتھ ہی دروازے پر پہنچے تھے۔ اس لیے تقریباً دونوں نے ہی مل کر دروازہ کھولا۔ ہم نے دیکھا دروازے کے سامنے سفید رنگ کی گاڑی پارک ہے اور ایک پُر وقار شخص ہمارے بالکل سامنے کھڑا ہے۔

دو منٹ تک تو آپا اور وہ شخص ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، پھر اس شخص نے کہا۔

’’مجھے مس زینب سے گارمنٹس فیکٹری کے سلسلے میں ملنا ہے…‘‘

’’جی فرمائیے میرا ہی نام زینب ہے۔‘‘ آپا نے دوپٹے کا آنچل سر پر اچھی طرح اوڑھتے ہوئے کہا۔

’’اچھا تو آپ ہیں زینب بی بی۔ مجھے کمال کہتے ہیں غالباً آپ کو یاد ہو گا کہ آپ کی دوست مس رخسانہ اسلامک گارمنٹس میں کام کرتی ہیں ۔ بس انھوں نے ہی آپ کا تعارف کرایا تھا کہ آپ سلائی کٹائی کی ماسٹر ہیں ۔ ہم گھر بیٹھے آپ کو کام اور کام کا معقول معاوضہ ادا کریں گے۔‘‘

’’جی جی۔ میں سمجھ گئی۔ آپ اندر تشریف لائیے۔‘‘ آپا دروازے سے ہٹ گئیں اور کمال صاحب کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر آپا نے اپنی امی کو اُٹھا کر صورت حال سے آگاہ کیا۔ وہ ڈرائنگ روم میں آ گئیں ۔ آپا نے کمال صاحب کا تعارف کرایا۔ خالہ اور کمال صاحب باتیں کرنے لگے اور آپا چائے بنانے کچن میں آ گئیں ۔

باورچی خانے میں داخل ہوتے ہی میں نے کہا۔

’’آپا کیا زبردست آدمی ہے، اصل میں اُس کے ساتھ آپ کی جوڑی بہت خوبصورت لگے گی۔‘‘

’’سچ؟‘‘ آپا نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ پھر منہ بسورکر بولیں ۔

’’اپنے کہاں ایسے نصیب۔‘‘

’’ارے آپا کیسی باتیں کرتی ہیں ۔ ہونا ہو ہی آپ کے نصیب کا ہے۔ دیکھ نہیں رہی تھیں آپ کو کس قدر غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے تو لگ رہا ہے، اس نے آپ کو پسند کر لیا ہے۔‘‘

’’کیا واقعی؟‘‘ پھر آپا سنجیدگی سے بولیں ۔

’’بے وقوف لڑکی! یہ کوئی رشتے کے لیے تھوڑی آئے ہیں ۔ میرا کام دیکھنے کے لیے آئے ہیں ۔ اگر انہیں کام پسند آیا تو میرے وارے نیارے ہو جائیں گے، پھر میں تجھے بھی اپنے ساتھ لگا لوں گی۔‘‘

’’جی آپا! میری چھٹیاں بھی ہونے والی ہیں ۔‘‘ میں نے آپا کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے لیتے ہوئے کہا، پھر ہم دونوں ڈرائنگ روم کی طرف چل دیے۔

کمال بھائی کو نہ صرف یہ کہ آپا کا کام پسند آیا، بلکہ میرے اندازے کے مطابق آپا بھی بہت پسند آئیں ۔ آپا کا حال بھی جدا نہ تھا اب وہ کام لینے اور دینے کے بہانے ہر تیسرے چوتھے روز آنے جانے لگے۔ آپا بے حد خوش تھیں ، بلکہ سب گھر والے خوش تھے۔ جب بھی کمال بھائی آتے آپا ان کے لیے طرح طرح کے کھانے پکاتیں ، وہ بھی آپا کے لیے کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا گفٹ ضرور لاتے۔

گفٹ دیکھ کر میں اکثر آپا سے کہتی۔

’’آپا! کمال بھائی بہت کنجوس لگتے ہیں ، کتنے سستے سستے تحفے اُٹھا لاتے ہیں ۔ حالانکہ فیکٹری کے مالک ہیں ۔‘‘

’’اس سے کیا ہوتا ہے، ان کا خلوص اور محبت ہی میرے لیے سب کچھ ہے۔‘‘ آپا کمال بھائی کی محبت میں سرشار ہو کر جواب دیتیں ۔

تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ آپا کی کمال بھائی کے ساتھ شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ آپا خوش تو بہت تھیں ۔ لیکن کبھی کبھی نہ جانے مجھے یہ کیوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آپا مجھ سے کچھ چھپا رہی ہیں ۔ اُداسی ان کی آنکھوں سے جھانکتی ہوئی معلوم ہوتی نہ جانے یہ میرا وہم تھا یا حقیقت۔

خالہ اور ثریا باجی بھی کچھ خوش اور کچھ ناخوش لگتی تھیں ، لیکن شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ پھر مایوں والے دن میں نے دیکھا کہ آپا کے کمرے میں ان کا فرنیچر اور جہیز کا تمام سامان سیٹ کر دیا گیا۔ آپا کا کمرہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

لوگوں کے پوچھنے پر ثریا باجی اور خالہ بتا رہی تھیں کہ دراصل کمال سال چھ مہینے ادھر ہی رہیں گے اور پھر باہر چلے جائیں گے اس طرح پوچھنے والے مطمئن ہو جاتے تھے۔

وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ پانچ چھ سال گزر گئے، میں نے ایف ایس سی کر لیا اور میری نسبت میرے خالہ زاد سے طے ہو گئی۔ جب میں ایک طویل عرصے کے بعد آپا کے گھر اپنی منگنی کے لڈو لے کر گئی تو وہ بیڈ کی چادر کی شکنیں دُرست کر رہی تھیں ، مجھے گلے لگا کر مبارک باد دی۔ پھر کمال بھائی کے کپڑے استری کرنے لگیں ۔

دورانِ گفتگو میں نے آپا سے کہا ’’آپا ننھے کے کپڑوں کا کیا بنے گا۔ ننھا تو ابھی تک آیا ہی نہیں ۔‘‘ میری بات سن کر پھیکی سی ہنسی ہنسیں پھر بولیں ۔

’’میں کیا کر سکتی ہوں ؟‘‘

آپا گزرے سالوں میں اچھی خاصی بڑی لگنے لگی ہیں ۔ بڑھاپا ان کی دہلیز پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ بالوں میں چاندی کے تار جھلملانے لگے تھے۔ شربتی آنکھیں گڑھوں میں گھس گئی تھیں ۔ بال بھی بہت ہلکے ہو گئے تھے۔ آپا بے حد کمزور بھی ہو گئی تھیں ۔ آپا میرے سامنے چائے اور  بسکٹ رکھتے ہوئے بولیں ۔

’’افشاں ! جہیز کے کپڑے مجھ سے ہی سلوا لینا۔‘‘

’’کیوں نہیں آپا! آپ ہی سیئیں گی۔‘‘ میں آپا کے سینے سے لگ گئی۔ آپا نے مجھے پیار کیا اور بہت سی دُعائیں دے ڈالیں ۔

تھوڑے ہی عرصے بعد میری شادی ہو گئی اور میں دوسرے شہر چلی گئی۔ جب ایک سال بعد اپنے پہلوٹھی کے بچے کو لے کر میکے آئی تو دوسرے روز ہی آپا سے ملنے پہنچ گئی۔

بالکل وہی ماحول تھا۔ خالہ سورہی تھیں ۔ ثریا باجی کام پر گئی ہوئی تھیں اور آپا گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں ۔

آپا مجھے دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو گئیں ۔ پھر میری گود سے بچے کو لے کر سینے سے لگا لیا۔ ہم دونوں باتیں کرتے کرتے کمرے میں پہنچ گئے۔ میں نے بچے کو لٹا دیا اور خود دیر تک آپا کے گلے سے لگی بچپن کو یاد کرتی رہی۔

انھوں نے مجھے شفقت سے بٹھا لیا، خاطر تواضع کی۔ جاتے ہوئے انھوں نے الماری کھول کر کپڑوں کی گٹھڑی نکالی اور کپڑے نکال کر میری طرف بڑھا دیے۔ ’’آپا یہ کیا؟‘‘ میں اُداس ہو گئی۔

’’آپا! مایوس کیوں ہوتی ہیں ، ننھا ضرور آئے گا۔‘‘

’’نہیں کبھی نہیں …‘‘ وہ اعتماد سے بولیں ۔

’’لیکن کیوں آپا؟‘‘ میں حیران و پریشان تھی…

’’دراصل ہمارا معاہدہ تھا۔ کمال شادی شدہ اور بچوں والے تھے ان کی بیوی بیمار رہتی تھیں ۔ انہیں صحت مند رفیقۂ حیات کی ضرورت تھی۔ انہوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا کہ وہ بچوں کے خواہش مند نہیں ہیں اور یہ کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن میرے پاس آیا کریں گے۔‘‘

میں نے ان سے کبھی کسی بات کا شکوہ نہیں کیا۔ چونکہ معاہدے کی رو سے مجھے شکوہ کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔‘‘ آپا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں ٹوٹ ٹوٹ کر ننھے کے کپڑوں پر گرنے لگیں ۔

٭٭٭

 

منہ چھپانے والی عورت

کارروائی جاری تھی، نگینے والی جوتیاں ، زردوزی کے تاروں کے بنے ہوئے کھسے، رنگ برنگی سینڈیلیں ، مہندی لگے ہاتھ پیر، پیروں کی چھنگلیوں اور انگوٹھوں میں چاندی کے بچھوے، کھنکھناتی ہوئی چوڑیاں ، موتیوں اور کندن کے جڑاؤ سیٹ، رنگ برنگے لہراتے ہوئے آنچل، ایک قافلہ تھا جو گزرتا چلا جا رہا تھا، اس کے ساتھ ساتھ دوسرا قافلہ بھی شروع ہو گیا۔ بھاری بھر کم سیاہ اور براؤن جوتوں اور سینڈلوں کی دھمک سے زمین ہلنی شروع ہو گئی، پھر یہی دھمک اس کے دل میں اُترنے لگی، شاید اس آواز کا ہی کمال تھا کہ اس کے دل و دماغ میں کئی پروجیکٹر نصب ہو گئے، جن پر صرف ایک ہی فلم چل رہی تھی۔

ایک کارروائی ابھی مکمل نہیں ہوسکی تھی کہ دوسری کارروائی شروع ہو گئی۔ فلیٹ پر اچانک ہی چھاپا پڑا تھا، پولیس نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مین دروازے اور کمروں کے خودکار تالے بھی کھول لیے تھے، پھر سیاہ لوگوں کی آوازیں ، گالیوں کی یلغار اور برہنہ اجسام پر بید کی شائیں شائیں سب آوازیں گڈمڈ سی ہو گئیں ، ننگے شور کی آواز فلیٹ سے نکل کر باہر تک پھیل گئی تھی۔

وہ پانچ مرد اور چار عورتیں تھیں جنھیں پولیس نے مخبری کی وجہ سے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ چاروں عورتوں میں سے ایک عورت اپنے ڈھکے ہوئے جسم کو مزید ڈھانپنے کی کوشش کر رہی تھی، اس نے چادر کے کونے سے اپنا چہرہ بھی چھپا لیا تھا۔

’’اوئے بے غیرتاں ! بند کر یہ ناٹک اور اتار چادر۔‘‘

’’ہم سے کیسی شرم، جیسے یہ مرد ایسے ہم۔‘‘ دوسرا بولا۔

تیسرے کانسٹیبل نے اس کی چادر کا کونا کھینچنے کی کوشش کی، اس کی دودھیا رنگت سے کمرے میں روشنی سی پھیل گئی، وہ کوّے کی طرح چونچ مارنے آگے بڑھا ہی تھا کہ وہ چیخی۔

’’جو تم مجھے سمجھ رہے ہو، میں وہ نہیں ہوں ۔‘‘

’’اچھا…؟ تو تم نیک پروین ہو، سیتا ہو یا راجا داہر کی مغوی… بند کر یہ ڈراما۔‘‘

اس نے کوئی جواب نہیں دیا، زار و قطار رونے لگی۔ ان سب نے پانچ منٹ بعد ہی اپنا حلیہ دُرست کر لیا تھا۔ پولیس نے مردوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دیں اور عورتوں کو بید سے ٹھیلتے ہوئے موبائل کی طرف لے گئے تھے۔

تھانے میں پہنچتے ہی کئی فوٹوگرافر آ گئے اور انھوں نے تصویریں اُتارنی شروع کر دیں ۔ وہ ہتھیلیوں کی مدد سے اپنا چہرہ چھپاتی رہی۔

تھوڑی دیر بعد وہ سب ایس ایچ او کے کمرے میں تھے۔ ایس ایچ او نے کچھ ضروری سوالات کیے اور ان سب کو ایک گندی سی گالی دے کر بولا، ’’بند کر دو انھیں حوالات میں ۔‘‘

وہ جانے کے لیے مُڑے، لیکن چہرہ چھُپانے والی کرسی سے چپک گئی۔

’’اُٹھ، کیا تیرے لیے ہیلی کاپٹر آئے گا؟‘‘

وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

’’اوئے تجھ سے ہی کہہ رہا ہوں ۔‘‘ کانسٹیبل نے اس کے شانے پر بید کی نوک چُبھائی۔

’’مجھے ان سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘

’’مجھ سے؟ تو بات کرے گی، میں تیرا ماما لگتا ہوں کیا؟‘‘

No, sir, I have no blood relation with you, but just listen to me for the sake of humanity.

پھر اس نے چہرے سے پردہ ہٹا دیا۔ انگلش بولنے کے رعب اور حسن کی مار، دونوں ہی ایسے ہتھیار تھے جسے اس نے بروقت استعمال کیا تھا۔

ایس ایچ او شکستہ نظر آنے لگا۔

’’لے جاؤ ان سب کو، دیکھتے نہیں ہو میڈم کو مجھ سے کچھ بات کرنی ہے، ماشاء اﷲ تعلیم یافتہ ہیں ، حسین ہیں ، مردوں کو قابو کرنے کا ڈھنگ جانتی ہیں ۔ اس نے طنز کا نشتر اس کی طرف اُچھالا، جسے اس نے فوراً ہی کیچ کر لیا۔ اس کی شربتی آنکھوں میں دریا ڈولنے لگا، اس نے ہاتھ جوڑ دیے۔

’’Believe me sir, It was the first time میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ صرف ایک جست مجھے پاتال میں گرا دے گی۔ سر میں تین بچوں کی ماں ہوں ، سب سے چھوٹی بیٹی ہسپتال میں داخل ہے، اسے بلڈکینسر ہے۔ دیکھیے یہ رہے دواؤں اور بلڈ رپورٹ کے پرچے۔‘‘ اس نے پرس سے نکال کے تمام کاغذات ایس ایچ او کی طرف بڑھا دیے۔

’’سر مجھے اس کی زندگی بچانے کے لیے خون کا انتظام کرنا تھا، لیکن اس کے گروپ کا خون کسی ادارے میں فوراً دستیاب نہیں ہوسکا اور بلڈ بینک سے خون خریدنا آسان نہ تھا، ہزاروں کا خرچ تھا سر!‘‘

’’تو تجھے کسی اور کام کا خیال کیوں نہیں آیا؟ تم لوگ عزت بیچ کر روپیہ کمانا زیادہ آسان سمجھتے ہو اور ہوتا بھی آسان ہے۔‘‘ اس نے ایک تیر اور پھینکا۔

’’سر! وہ عورت جس کی شریانوں میں غیرت مندوں کا خون دوڑ رہا ہو، وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ہے۔ میں کئی سالوں سے ملازمت کے چکر میں دربدر بھٹک رہی ہوں ، لیکن کیا کروں کہیں مستقل تو کیا چند ماہ بھی نہیں گزار پاتی ہوں ۔ اس کی وجہ میرا چوکھٹا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ عورت کا حسن اس کی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے۔‘‘

’’نہ بی بی نا، ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ دراصل تم لوگ اپنی خوب صورتی کو کیش کرتی ہو اور دوش مقدر کو دیتی ہو۔ ذرا سی خواہش کے لیے بک جاتی ہو۔‘‘

’’سر! یہ ذرا سی خواہش نہیں تھی، میرے جسم کا حصّہ، میری بیٹی کی زندگی کا سوال تھا۔‘‘

’’تم کتنا پڑھی لکھی ہو؟‘‘

’’سر! میں نے فلاسفی میں ایم اے کیا ہے۔‘‘ وہ اپنی آنکھوں کے نمکین پانی کو چادر کے پلو سے جذب کرنے لگی۔

’’ان کاموں کے لیے تعلیم کی کیا ضرورت؟ بغیر ماسٹرز کیے بھی تمھارا کام بے حد شان دار طریقے سے چل جاتا۔‘‘ وہ طنزیہ ہنسی ہنسا اور اپنے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

’’سر! میں نے کہا نا کہ میں نوکری ہی کرتی تھی، لیکن یہ مرد جو ازل سے ہی عورت کا شکار کرنے کا عادی ہے، اسی مرد نے سر مجھے بے حد ذلیل و خوار کیا۔ آج جس روپ میں ، میں آپ کے سامنے پیش کی گئی ہوں ، یہ اسی مرد کا عطا کیا ہوا ہے۔‘‘

’’اچھا؟‘‘ ایس ایچ او نے لفظ ’’اچھا‘‘ میں طعنوں تشنوں کی بھرپور ملاوٹ کی۔

عورت دو منٹ خاموش رہی پھر ہولے سے بولی۔

’’سر! کیا آپ نے کبھی بلے بلیوں کو زندگی گزارتے دیکھا ہے؟ یقیناً دیکھا ہو گا۔‘‘ اس نے خود ہی جواب دیا، ’’لیکن سر! میں نے ان جانوروں کی حرکات و سکنات کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔ ہمارے محلے کی تمام بلیوں میں ایک بلی بے حد خوب صورت تھی اور موٹی تازی بھی، جب دیکھو اس کے پیچھے بلے گشت کیا کرتے تھے، اسے اپنے قبضے میں کرنے کے لیے نوچتے دبوچتے اور اس پر حاوی ہو جاتے، جس طرح مرد اپنی حاکمیت اور بڑا پن ظاہر کرنے کے لیے عورت کو مفتوح کرتا ہے اسے زیر کر کے اپنی برتری ثابت کرتا ہے، سر ایسا ہی حال بلوں کا ہے۔ دونوں ہی عورت اور اپنی مادہ کی کم زوری سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں ۔‘‘

وہ باتیں کرتی رہی اور ایس ایچ او اس کے حسن کی شراب اپنے حلق میں اُنڈیلتا رہا اور ہنکارے بھرتا رہا۔

’’سر! وہ بلی ہمارے گھر آ کر چھپ جاتی تھی، اس کا نر اسے تلاش کرتا ہوا اندر آ جاتا اور اس پر حملہ آور ہو جاتا۔ وہ باہر بھاگتی، وہ بھی اس کے پیچھے ریس ہو جاتا، کئی دن بعد وہ نظر آتی لٹی کھندی، بے بس اور زخمی حالت میں ۔‘‘

اس دوران کئی بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، کئی دفعہ اردلی نے کمرے میں جھانکا، ملاقاتی آتے رہے، لیکن ایس ایچ او نے نہ ہی فون اُٹھایا اور نہ ہی کسی کو کمرے میں آنے کی اجازت دی۔

اس کا دماغ، ذہن اور ہاتھ بڑی مستعدی سے اپنا اپنا کام کر رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ اس کے ہاتھوں کے گجروں کے پھول ریزہ ریزہ ہو کر فضا میں بکھر گئے تھے۔ اس دوران کئی معتبر لوگ ہاتھوں میں کاغذات تھامے اس کے پاس سے گزرے، لیکن وہ اپنے خلاف ہونے والی کارروائی میں مگن رہی۔

’’روبی خالہ! امی کہہ رہی ہیں تھوڑی دیر کے لیے آ جائیے۔‘‘

’’اچھا، تم چلو میں آتی ہوں ۔‘‘

اس نے اپنے جسم کے اعضا کو بڑی مشکل سے سمیٹا اور پھر تھکے تھکے قدموں سے کمرے میں پہنچ گئی، عورتوں نے اسے سہارا دے کر کرسی پر بٹھا دیا، کارروائی مکمل ہوتے ہی اس کی آنکھیں بھیک گئیں اور بہت سی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ۔

’’بس کرو روبینہ! تمھاری طبیعت زیادہ بگڑ جائے گی، چلو وہیں بیٹھو چل کر۔‘‘ عورت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ گھسٹتی ہوئی چلی گئی اور اپنی مخصوص کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔

’’تم نے نوکری کیوں چھوڑ دی…؟‘‘

ایس ایچ او کی آواز پر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، اس نے اپنی پشت کرسی سے ٹکا دی۔

’’سر! بات یہ تھی کہ مجھے ملازمت اختیار کیے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ میرا باس بلا بن گیا اور اپنی عنایتوں کے جال میں مجھے قید کر دیا۔ ان حالات میں ، نہ میں اقرار کر سکی اور نہ انکار، بلکہ ابھی میں خلاء میں ہی لٹکی ہوئی تھی کہ کسی نے مخبری کر دی اور وہ عورت جو اس کی سب کچھ تھی، میرے مدمقابل آ کر کھڑی ہو گئی اور میری اس قدر بے عزتی کی کہ میں لباس میں ہوتے ہوئے بھی بے لباس نظر آنے لگی اور وہ جو شیر بنا پھرتا تھا، ایک دم گیدڑ کی کھال میں گھس گیا، جیسے وہی اس کی پناہ گاہ تھی۔ میں اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن وہ حاکم زادی تو کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔‘‘

’’تمھارا میاں کہاں ہے؟‘‘ ایس ایچ او نے ٹانگیں میز پر پھیلا کر سگریٹ کے ایک ساتھ کئی کش لیے۔

’’سر! دو برس ہوئے ان کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔ ان کے فوت ہونے کے بعد میں نے کئی اداروں میں کام کیا، لیکن ہر جگہ یہی کہانی مختلف لبادے اوڑھ کر میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ سر! انہی دنوں جب میں آزمائشوں کے جنگل سے گزر رہی تھی میری دو سالہ بیٹی نمرہ کو بلڈ کینسر ہو گیا، میرے اپنے جس قدر مدد کر سکتے تھے کی، لیکن سر! ماں تو اپنی اولاد کی زندگی اور خوشی کے لیے اپنی عمر کا ایک ایک لمحہ دان کر دیتی ہے، سو میں نے بھی کیا۔ تیسری بار جب بچی کا خون بدلنا تھا تو ہسپتال میں ایک مریض عورت سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے میری ڈوبتی ناؤ کو ترانے کے لیے جو راستہ دکھایا، اسے دیکھ کر میرے قدموں سے زمین ہٹ گئی، وہ بولی، تمھیں اپنی بچی کی زندگی بچانے کے لیے گھڑوں بھرمایا چاہیے، جو تمھارے پاس نہیں ہے، لو پکڑو یہ کارڈ، جب ضرورت پڑے میرے پاس چلی آنا … وہ بد چلن مجھے عالمِ برزخ اور دھرتی کے درمیان خلاؤں میں معلق کر کے چلی گئی۔‘‘

’’سر! ان کا کیا کرنا ہے؟‘‘ کمرے میں داخل ہوتا ہوا کانسٹیبل دو خوب صورت لباس پہنے گداگر لڑکیوں کی طرف اشارہ کر کے بولا۔

’’جا کر ان کو لاک اپ میں بند کر دو اور ساتھ میں تم بھی بند ہو جانا۔‘‘ ایس ایچ او کی گرج دار آواز کمرے میں گونجی۔

’’سر! میں اﷲ دتہ کو منع کیتا، پر او نہیں سمجھدا۔‘‘ اردلی اپنی صفائی پیش کر کے فوراً دروازے سے ہٹ گیا۔

اس نے تیسرا سگریٹ سلگایا اور دھوئیں کے مرغولے بنا کر کمرے میں چھوڑتا رہا۔ دھواں مختلف دھاریوں اور دائروں کی شکل میں کمرے میں پھیل گیا۔ دھوئیں کے بادلوں سے اس کے ہاتھ نمودار ہوئے۔

’’سر! میں ہاتھ جوڑتی ہوں ، مجھ پر رحم کریں ، میں یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں اس جگہ سے گرفتار ہوئی ہوں جہاں عورت بدنما داغ بن جاتی ہے لیکن سر! یہ بات بھی ضروری نہیں کہ مسجد میں جانے والے سب نمازی اور مے خانے میں جانے والے سب شرابی ہوں ۔‘‘

’’ہاں ! ٹھیک ہے، لیکن یہ بتا، تو وہاں کیا کرنے گئی تھی؟‘‘

’’سر میں اپنی آواز کا مول بھاؤ کرنے گئی تھی اور بس۔‘‘

’’تو گائکہ بھی ہو؟‘‘

’’ہوں نہیں ، بننے جا رہی تھی۔ عزت کا سودا کرنے سے مجھے آواز کا سودا کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوا۔ اس عورت نے مجھے بتایا کہ بہت بڑے افسر آنے والے ہیں ۔ میں تمھیں ان سے ملوا دوں گی۔ بہت سخی ہیں ، تمھاری ہر طریقے سے مدد کریں گے۔ سر وہ آ گئے میں ان سے ملی، انھوں نے میرا گانا سنے بغیر ہی نوٹوں کی گڈی میری طرف بڑھا دی۔ میں روپوں کے بوجھ تلے دب گئی، اتنی دیر میں یہ سب کچھ ہو گیا۔‘‘ برتن بجنے کی آواز، پائلوں کی چھن چھن، مترنم قہقہے، غرارے، شرارے، تنگ پاجامے، روپہلی ساڑھیوں کے پلو، اسٹیل کے ڈھکنوں کی کھٹا کھٹ، وہ دونوں منظروں میں شریک رہی۔

’’روبی، روبی! آپا، کیا ہوا روبی خالہ کو؟ ہائے میری بچی، روبینہ، روبینہ۔‘‘ آوازیں موت گھر سے آتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں ۔

اماں ! روبی کا سر سیدھا کریں ، میرا خیال ہے بے ہوش ہو گئی ہے۔ نہیں ، میں ٹھیک ہوں ۔ اس نے اپنی گردن سیدھی کی، رخسار پر بہنے والے آنسوؤں کو پونچھا۔

’’جب سے تم بیمار رہنے لگی ہو، تمھیں دیکھ کر میرا دل ہولنے لگتا ہے۔‘‘

’’اماں ! آپ فکر نہ کریں میں بالکل ٹھیک ہوں ۔‘‘

قافلہ اس کے پاس سے روانہ ہو گیا۔ اب وہ اور ایس ایچ او کمرے میں تھے۔

’’سر! میں آپ کے پیر پکڑتی ہوں ، میری تصویر اخبار میں نہ چھپے۔ میری بچیوں کے ساتھ خاندان کی اس لڑکیوں کے مستقبل کا سوال ہے۔‘‘ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور اس کے قدموں میں گر گئی۔

’’سر! میرے باپ بھائی کے سر جھُک جائیں گے، ہوسکتا ہے وہ لوگ خود کُشی کر لیں ۔‘‘

’’اُٹھ جا اور جا کر وہاں پر بیٹھ۔‘‘ اس نے بینچ کی طرف اشارہ کیا۔

’’بی بی! ہمارے پاس روز ایسے کیس آتے ہیں اور لوگ ایسی ہی گھسی پٹی کہانیاں سناتے ہیں ۔‘‘

’’سر! یہ کہانی بالکل سچی ہے، آپ معلومات کرا سکتے ہیں ۔ اس احسان کے بدلے میں ، آپ مجھ سے جو کہیں گے وہ کروں گی، میری پوری زندگی آپ کے حوالے۔‘‘ وہ گھسٹتی، آنسوؤں کے دریا بہاتی اپنی جگہ پر چلی گئی۔

ایس ایچ او نے اس دوران کئی نمبر ملائے۔ وہ مختلف زبانوں میں بات کرتا رہا اور وہ آہوں اور سسکیوں کو اپنے حلق میں اُتارتی رہی۔

’’سودے بازی کرنا چاہتی ہو؟‘‘ وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’سر! آپ جو سمجھ لیں ۔‘‘

’’سودا تمھارے ساتھ ہوسکتا ہے … لیکن…‘‘ ایس ایچ او کی نگاہیں اس کے بدن پر گڑتی چلی گئیں ۔

’’لیکن کیا سر…؟‘‘ وہ بے تابی سے بولی۔

’’دیکھو بی بی! بات یہ ہے کہ ہم لوگ بھی کالے سفید بلوں کی ہی طرح ہوتے ہیں ۔ عورت کی خوب صورتی اور اس کا جوبن ہماری کم زوری ہوتی ہے۔ اسے ہم اپنی مجبوری کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ تمھیں وہی کچھ کرنا پڑے گا جو میں چاہوں گا۔‘‘

’’سر! جو آپ چاہیں گے اور جو حکم دیں گے میں بجا لاؤں گی۔‘‘

’’تو سنو! بدلے میں ، میں تمھارے شب و روز خریدنا چاہتا ہوں ۔ بولو منظور ہے؟‘‘

عورت کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے گہری سیاہ رات چھا گئی۔

’’سر! عزت بچانے کے لیے مجھے عزت کا سودا منظور ہے۔‘‘ اس کی آواز میں قبرستان کا سناٹا نمایاں تھا۔

’’ایک بات اور اچھی طرح سن لو، اس معاہدے کی کوئی میعاد نہیں ہے۔‘‘

’’سر! میں نے کہا نا، میری پوری زندگی کی ہر سانس آپ کے نام ہے اور میں سمجھتی ہوں یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہے۔‘‘ اس نے گہرا سانس لیا۔

’’اوئے کرم دین! فوٹو گرافرز اور ان مردو عورتوں کو بلاؤ۔‘‘

’’سر یہ کیا؟‘‘ وہ ایکوریم سے نکالی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔

’’فکر نہ کرو، زبان کا پکا آدمی، نہیں بلکہ پکا بلا ہوں ۔‘‘ وہ مسکرایا مونچھوں پر تاؤ دے کر ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔

’’تمھاری تصویریں اور نیگیٹو میرے پاس رہیں گے، اگر تم نے معاہدے کی خلاف ورزی یا کوئی بھی چال چلنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا پہلے تصویر چھپے گی، پھر حوالات، اس کے بعد تم بلی بن جاؤ گی۔ انڈر اسٹینڈ۔‘‘

’’یس سر! لیکن آپ کو اعتبار نہیں ہے؟‘‘

’’اعتبار…؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا۔ پھر تھرماس سے چائے نکال کر چسکیاں لیتا ہوا بولا، ’’پولیس والے اپنے باپ کا اعتبار نہیں کرتے ہیں ، تو کس کھیت کی مولی ہے۔ بس یہ جو میں نے تیرے ساتھ سودا کیا ہے نا، تجھے دیکھ کر نہ جانے کیوں بلا بننے کا دل چاہ گیا ہے اور سچی بات تو یہ ہے بی بی کہ تیری کہانی میں کہیں نہ کہیں سچّائی ہے ضرور، یا تیرا نصیب کام کر گیا ہے۔ اپنے گھر، رشتے داروں کے صحیح صحیح پتے مع نام اور ایڈریس لکھ کے دو۔‘‘ اس نے رجسٹر بڑھایا۔

’’روبی بیٹا! چلو اُٹھو، ڈریسنگ روم میں آ کر لیٹ جاؤ۔‘‘ اس کی ماں نے سہارا دے کر اسے پہنچا دیا۔ کمرہ خوشبوؤں میں بسا ہوا تھا، گلاب کی پتیاں جگہ جگہ بکھری ہوئی تھیں ۔

کوئی کانچ کھا کر زندہ رہ سکتا ہے؟ لیکن میں زندہ ہوں ۔ کوئی کانٹوں پر چل سکتا ہے، ننگے پیروں ، اندھیری رات میں ؟ لیکن میں چلی ہوں ۔ ہر آہٹ پر سانسیں رُکنے لگتی تھیں ۔ لیکن آج آزادی کا دن ہے۔ اس نے ٹانگیں پھیلائیں ۔

’’روبی خالہ! شال اوڑھ لیں ، ننو نے بھیجی ہے۔‘‘

’’تم اُڑھا دو گُڑیا۔‘‘

’’روبی خالہ جب عنبر آپی کی شادی ہوئی تو سارہ باجی آپ کے پاس تھیں اور اب تو آپ بالکل اکیلی ہو جائیں گی۔‘‘

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ آنکھیں موندے یوں ہی لیٹی رہی۔

اس نے کال بیل بجائی۔

’’شرف الدین سب انسپکٹر خالد کو بلاؤ۔‘‘

’’یس سر!‘‘ اس نے سیلیوٹ مارا۔

’’یار! خالد ایک کام کرو، اس بی بی کوہسپتال چھوڑ دو اور یہ لو، کرایہ دے کر باقی پیسے اس کو ہی دے دینا۔‘‘

’’سر! پیسے رکھیں ۔‘‘ سب انسپکٹر جانے کے لیے مُڑا۔ عورت نے چادر سے اپنے آپ کو اچھی طرح لپیٹا، شکریہ ادا کرنے کے لیے اس نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے اور سسکیاں لیتی ہوئی باہر نکل گئی۔

دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ ایک رات سادہ کپڑوں میں پہنچ گیا۔

’’کیا حال ہے بچی کا؟‘‘ اس نے اندر داخل ہوتے ہی پہلا سوال کیا۔

’’سر! پہنچنے میں بہت دیر ہو گئی، میری بچی آخری سانسیں لے چکی تھی۔ لاش کے ہاتھ میں لاش تھی، ایک کو دفنانا تھا اور ایک کو نہیں ۔‘‘ وہ کمرے کا دروازہ کھولتی ہوئی بولی۔

’’بولنے لگیں فلسفہ۔‘‘ وہ صوفے میں دھنس گیا۔

وہ ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

’’ادھر بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس نے سامنے والے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔

’’روبی!‘‘

’’جی سر!‘‘ اس نے جھُکی ہوئی گردن اور جھُکا لی۔

’’جانتی ہو، کل میں پورے دن تمھارے بارے میں تحقیق کرتا رہا، تمھارے عزیز و اقارب، دوست احباب، گھر والے، اساتذہ سب سے ہی ملاقات رہی۔‘‘

’’سر! وہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟‘‘ وہ رونے لگی۔

’’ارے نہیں ، ہماری تفتیش کا طریقہ ہی الگ ہوتا ہے، بندے کا نام بھی نہیں آتا اور سب معلومات بھی ہو جاتی ہیں ۔‘‘

’’جی سر! سولی پر لٹکی ہوئی ہوں ، نہ اوپر جاتی ہوں اور نہ نیچے۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بولی۔

اس نے سگریٹ سُلگایا، ایک کش لے کر ایش ٹرے میں رکھ دیا، ’’ہاں تو روبی! میں کہہ رہا تھا، کہ نہ جانے کیوں مجھے سب سے ملنے کے بعد ایسا محسوس ہوا، جیسے وہ سب میرے شناسا ہوں ، میرے اپنے لوگ ہوں اور میں ان لوگوں کو زمانۂ ازل سے جانتا ہوں ۔ شاید اس لیے کہ ہم سب ایک ہی قبیلے اور ایک ہی نسل کے لوگ ہیں ۔‘‘

’’سر! چائے چلے گی؟‘‘ وہ درمیان میں بول پڑی۔

’’نو۔‘‘ اس نے مختصر جواب دیا اور خلاؤں میں گھورتا ہوا بولا، ’’بی بی! کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ بھیڑیے کی کھال میں انسان چھپا ہوتا ہے، جس طرح کرتب دکھانے والے شیر کی کھال انسان کو پہنا دیتے ہیں ۔ دیکھا ہے کرتب؟‘‘ وہ مسکرایا۔

وہ سگریٹ کی طرح سلگنے کے عمل سے گزرتی رہی، اس کی نگاہیں اس کے سیاہ، چمک دار جوتوں پر مرکوز رہیں ۔

’’تو بس یوں سمجھ لو کہ ہم بھی انسان ہیں ، بشری خامیوں سے پُر لغزشیں ہوتی ہیں ، کبھی سنبھل جاتے ہیں اور کبھی اتنا پھسلتے ہیں کہ قدم پاتال میں جا کر رُکتے ہیں ، کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم میں سے اکثر نظریۂ ڈارون کے مطابق اپنے اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور مُردار کھاتے ہیں ، کیا کریں اندھیرے اُجالے کا کھیل ہے، خیر و شر کی جنگ ہے۔ تقدیر کا غلبہ، جو چاہے وہ کرا دے۔ روبی! رات میں نے بے حد غور و خوض کیا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معاہدے کو ختم کر دینا چاہیے۔‘‘

’’نو سر!‘‘ وہ بھڑک اُٹھی، بھڑبھڑ آگ میں جلنے لگی پھر اپنی جگہ سے اُٹھی اور دم توڑتی ہوئی بلی کی طرح اس کے قدموں میں لوٹنے لگی، ’’سر! میری معصوم بچیوں کا سوال ہے؟ وہ عہدِ بلوغت میں قدم رکھنے والی ہیں ، ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا سر۔‘‘

وہ اپنا گریبان کھینچنے لگی۔

’’سر! میں حاضر ہوں ، آپ جو چاہیں میرے ساتھ سلوک کریں ، لیکن میرے لوگ بے قصور ہیں ۔‘‘

’’بی بی! ہم بھی انسان ہیں ، ہمارے اندر بھی روشنی پھوٹ سکتی ہے۔ ہم بھی حجاج کے لشکر میں شریک ہوسکتے ہیں ۔‘‘

آنسوؤں کا سمندر آگ بُجھانے لگا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور سنبھل کر بیٹھ گئی۔

وہ کھڑا ہو گیا اور اپنی جیب سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا، پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا:

’’درد بھرا دل ہمارے پاس بھی ہے، ہم سکون اور خوشیاں ادھر سے ہی اور اسی طرح کشید کرتے ہیں ۔‘‘

پروجیکٹر رُک گیا۔

’’روبی خالہ! لیجیے یہ لفافے سنبھالیے۔‘‘

’’لڑکی ہوش کر، اسے اپنا ہوش نہیں ہے، وہ لفافے کیا سنبھالے گی، یہ لفافے اس کی ماں کو دے دو، سارا انتظام ان کے ہی ہاتھ میں ہے۔‘‘

لڑکی عورت کی بات سمجھ گئی۔ اس نے لفافے اپنے پرس میں ڈال لیے۔

’’امی، امی جانو!‘‘ اس نے آنکھیں کھول دیں ، سرخ شرارہ قمیص اس پر جھُک گیا، پھر ہر طرف اشکوں کی برسات ہو گئی، کسی نے اس کا ہاتھ اس کی زرتار سرخ اوڑھنی پر رکھوا دیا۔

اس کے ہونٹ ہلے، کیا دُعا دی، کوئی نہ سن سکا، پھر قافلہ روانہ ہو گیا۔

’’سر کیا ہے اس لفافے میں ؟‘‘ اس کی آواز اپنے گھر کے کمرے میں گونجی۔

’’تمھاری تصویریں اور نیگیٹو۔ انھیں اپنے ہاتھ سے ضائع کر دینا۔‘‘ وہ جانے کے لیے مُڑا، پھر دو لمحے کے لیے رُک گیا، اس کے قریب آیا، اور ہولے سے بولا، ’’یہ ہماری آخری ملاقات ہے اور ہاں تمام دروازے اچھی طرح بند کر لینا، تاکہ پھر کوئی بلا نہ آسکے۔‘‘

’’روبی خالہ! چلیں اُٹھیں ، کھیل ختم۔‘‘ اس نے مختصر سا قہقہہ لگایا، آئیے میں آپ کی مدد کرتی ہوں ۔‘‘

’’مما، مما! جلدی آئیں ، دیکھیں روبی خالہ کو کیا ہوا؟‘‘

’’ٹھنڈی، برف کی طرح ہو رہی ہیں ۔ میں نے تو شال بھی اُڑھا دی تھی۔‘‘ وہ ہولے سے بولی۔

’’روبی، روبینہ، میری بچی! روبی آپا۔‘‘ پھر بہت سی چیخیں شادی ہال میں ایک ساتھ بلند ہوئیں اور دُور دُور تک پھیل گئیں ۔

٭٭٭

 

کانچ کی بوتل

وہ ایک دلکش کانچ کی چمکتی ہوئی بوتل کی مانند تھی، ایسی بوتل جس میں جس رنگ کا مشروب ڈالا جائے وہ اس ہی رنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ وہ سرخ، میرون، براؤن، زرد اور کپاسی رنگوں میں اپنے کیف و سرور کے ساتھ نشے میں دھت بوتل نظر آتی تھی۔

نشہ بھی کیا چیز ہے، آدمی کو تھوڑی دیر کے لیے دُنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیتا ہے، اعصاب و ذہن کو مفلوج کرنے کے لیے کافی ہے اور اگر یہ نشے کی بوتل کسی اناڑی کے ہاتھوں لگ جائے، تب وہ اپنے آپ کو سر کے بل کھڑا پاتا ہے اور درندے کی طرح ثابت چیزوں سے اپنا سر ٹکرا کر انھیں پاش پاش کر دیتا ہے۔

وہ بوتل نما لڑکی جس کا نام نین تارا تھا، سرخ سوٹ میں ملبوس تھی۔ اس کے سنہرے تراشیدہ بال اس کے دونوں شانوں پر جھول رہے تھے، اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا پرس تھا، اس نے لانگ شرٹ اور کیپری پہنی ہوئی تھی۔ اس کی دودھیا رنگت پر سرخ اونچی ہیل کی سینڈل بے حد جچ رہی تھی، وہ بلا کی حسین تھی، عمر کے اعتبار سے 18-17 سال سے زیادہ کی نہیں تھی… وہ جس عمارت میں داخل ہوئی، وہ عمارت بے حد دلفریب اور وسیع و عریض رقبے پر بنی ہوئی تھی، عمارت کے بیرونی حصّے میں کئی بڑے بڑے لان تھے جن پر دُور دُور تک سبزہ پھیلا ہوا تھا، لان کے اطراف میں تناور درخت اپنا سایہ پھیلائے ہوئے تھے، پودوں میں رنگ برنگے پھول مہک رہے تھے۔

لان کے درمیان بنی ہوئی ماربل کی فُٹ پاتھ پر چلتی ہوئی سرخ پھولوں کی شاخ نظر آ رہی تھی، وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ہوئی اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئی، تھوڑی ہی دیر بعد ایک با وردی شخص نے اس کمرے کی نشان دہی کی جہاں اسے انٹرویو دینا تھا۔

اس کے لب و لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔ اس کی ذہانت، قابلیت اور حُسن نے تینوں افسران کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔

How many Demand about your Salary

انٹرویو مکمل ہونے کے بعد بڑے افسر نے آخری سوال کیا۔

سوال کا جواب دینے سے پہلے وہ تھوڑا سامسکرائی، پھر اس نے اپنی مخروطی انگلیاں اپنی ریشم جیسی زُلفوں میں پھیریں ، کاندھوں کو ہلکی سی جنبش دی اور خواب آور لہجے میں ایسے بولی جیسے کسی نشیلے سیال مادے کو حلق سے اُتار رہی ہو۔

’’Sir twenty thousand only‘‘

’’بی بی! آپ کیا چیک بھر رہی ہیں ؟‘‘ ان میں سے ایک افسر نے جس کی رنگت سانولی اور قد درمیانہ تھا، مسکرا کر کہا، اس کی مسکراہٹ نے اس کے پُر کشش چہرے کو مزید جاذبِ نظر بنا دیا تھا۔

بڑے افسر نے ایک لمحے کے لیے خلاؤں میں اپنی آنکھوں کو ٹکا دیا، اس کی نگاہوں میں بجلی کا سا کوندا لپکا اور پھر اپنے ساتھی سے سرگوشی کے انداز میں بولا۔

’’بی بی، کو چیک بھرنے کی کیا ضرورت ہے، چیک تو ہم بھریں گے۔‘‘

’’سر! میں سمجھ گیا‘‘ سانولی رنگت والا افسر جملے کی گہرائی پر غور کرتے ہوئے گویا ہوا۔

جواب میں بڑے افسر نے ترچھی نگاہ کا استعمال کیا۔

’’Ok, Sir‘‘ اوکے سر، کے سوا وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ ویسے بھی ماتحت کے لیے Yes Sir، No sir، Ok sir کہنے کے سوا چارہ بھی نہیں ہوتا ہے، سو اس نے بھی موقع کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے جواب دیا اور اپنا دایاں کان کھُجانے لگا، اس قسم کے حالات میں جب وہ اپنی تسلی کے لیے کئی سوالات کرنا چاہتا ہو اور کر نہ سکتا ہو، تب اس کا ہاتھ بے اختیار سیدھے کان پر پہنچ کر حرکت میں آ جایا کرتا تھا۔

Ok, Madam, your salary will according to your demand.

’’Thank you sir‘‘ خوشی سے اس کا چہرہ تمتمانے لگا، پھر اس نے اپنے کاندھوں کو جنبش دی، اس کے گلابی چہرے پر بالوں کی لٹیں آ کر ٹھہر گئیں ، اسے دیکھ کر پل بھر کو یوں لگا کہ جیسے کانچ کی مشروب بھری بوتل ہوا میں لہرا رہی ہو اور تینوں افسران اسے کیچ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہوں ۔

کمرے میں چند لمحوں تک سکوت طاری رہا، اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں نشہ آور دریا ڈولنے لگا، اسے دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اس کا انگ انگ رقص کر رہا ہو اور وہ نغمٔۂ  طرب میں ڈھل گئی ہو، عین اسی وقت دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

’’Yes‘‘ بڑے افسر کی آواز نے خمار آلود ماحول کو پارہ پارہ کر دیا۔

’’سر! وہ باقی…؟‘‘

’’میرا مطبل ہے سر! ابھی 15 کنڈیڈیٹ اور باقی ہیں ان سب کو فارغ کر دوں ۔‘‘

سر! وہ سوالیہ نشان بن گیا۔

کہہ دو آئندہ ہفتے کال کریں گے، بڑے افسر نے لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔

Ok sir باوردی شخص نے دروازہ چھوڑ دیا، دروازہ ایک ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ بند ہو گیا۔

’’نین تارا‘‘

’’Yes Sir‘‘ کل اپنے اوریجنل سر  ٹیفکیٹ کے ساتھ 9 بجے تک دفتر پہنچ جانا۔

’’Ok Sir‘‘

پھر وہ کرسی سے اُٹھی اور پرس لہراتی ہوئی خوشبو کے جھونکے کی طرح کمرے سے باہر نکل گئی۔

جب سے نین تارا آئی تھی، سر رضا کے مزاج میں شوخی عود آئی تھی، نین تارا روزِ اوّل سے ہی اس کی نگاہ کا مرکز بن گئی تھی۔ اس کی وجہ اس کی خوبصورتی اور ذہانت تھی، ویسے بھی خوبصورت لڑکیاں رضا کی کمزوری تھیں ، نین تارا کا معاملہ قدرے مختلف تھا، وہ سیکڑوں لڑکیوں پر بھاری تھی، اسی لیے شاید پسندیدگی اور محبت نے ایک ساتھ جنم لیا تھا۔ رضا کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہو گیا تھا کہ آگ بھڑکے گی اور دونوں طرف بھڑکے گی اور اب حقیقتاً آگ بھڑک اُٹھی تھی۔

دوست یار اسے چھیڑتے، ’’وہ آ گئی نین تارا‘‘

وہ چونک کر بیرونی دروازے کی طرف دیکھتا اور پھر مسکرا کر رہ جاتا۔

اس کے دوستوں نے اسے کئی بار سمجھایا کہ دیکھو رضا! تم ایک ایسے ادارے کے افسر ہو…

’’Dont worry مجھے اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے‘‘ وہ جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی بول اُٹھتا۔

ایک بار اس نے نین تارا سے پوچھا۔

نین! تمہارا نام ڈیڈ نے رکھا تھا یا ماما نے نین+ تارا دونوں لفظ گہرائی اور معنویت سے پُر ہیں ، تارا جو صرف آسمان کا حُسن ہے اور نین جس کے ذریعے کائنات کے حُسن اور رازوں کو دل و دماغ میں اُتار لیا جاتا ہے۔

’’ڈارلنگ میرا نام میرے ڈیڈ نے رکھا تھا، ہمارے نام بھی تم لوگوں جیسے ہی ہوتے ہیں بس ہم لوگ تمہارے بڑے پیغمبروں اور مقدس بیبیوں کے نام نہیں رکھتے ہیں ، ہمارے نام نہ کہ تم لوگوں سے میچ ہوتے ہیں بلکہ کلچر بھی میچ ہوتا ہے۔‘‘

’’کلچر؟‘‘ رضا ایک لمحے کے لیے سنجیدہ ہو گیا، پھر قہقہہ لگا کر بولا، کہہ سکتی ہو، ہم لوگوں نے تم سے اور تم نے ہم سے بہت کچھ لیا ہے، بلکہ…؟

خیر! رضا نے ایک سرد آہ بھری اور ہولے سے بولا۔ تم بہت حسین ہو اور تمہارے حُسن کا جادو مجھ پر چل چکا ہے اور میں اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ I am married and you are engaged اور اس میں بات سے بھی اچھی طرح واقف ہوں کہ تم صلیبی جنگوں کی شناخت اور میں حضرت خالد بن ولیدؓ کا پیروکار۔

یہ محبت کا کرشمہ ہے ڈارلنگ، جس نے ہمیں رومیو اور جیولیٹ بنا دیا… نین تارا پیار کے ساگر میں ڈبکیاں لگاتی ہوئی بولی۔

پھر اس ہی طرح بہت سے دن گزرتے چلے گئے۔ ایک دن بالکل اچانک جب نین تارا کے حسن و ذہانت کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پر تھے، اس کی ترقی کے آرڈر آ گئے اور اب وہ اپنے ساتھیوں کی باس بن چکی تھی۔

اس واقعے کے چند ماہ بعد ہی ایک غیر ملکی ٹیم ان اداروں کا دورہ کرنے آ گئی جہاں نین تارا ملازم تھی۔

ٹیم میں شامل ویلفیئر ٹرسٹ کا صدر پارکر نامی شخص تھا جو ٹھنگنے قد اور فربہ جسم کا مالک تھا، اس کے بال سنہرے اور آنکھیں قدرے چھوٹی تھیں ، اسے دیکھ کر کوئی خاص قسم کا تاثر نہیں اُبھرتا تھا، دوسرے شخص کا نام پال تھا جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھا، پال دراز قد اور اکہرے بدن کا مالک تھا، اس کی آنکھیں جھیل جیسی گہری اور سبز مائل تھیں ، ستواں ناک، کشادہ پیشانی اور پیشانی کو چھوتی ہوئی لٹیں اسے مزید خوبصورت بنارہی تھیں ، ان ہی لوگوں میں ایک پادری بھی تھا، اس کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں گہری سوچ اور اُداسی پنہاں تھی۔ کرنل ولیم بھی اسی ٹیم کا حصّہ تھا، اس کے چہرے پر عیاری اور نفرت کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا تھا، اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اس کی نگاہ میں ہر چیز حقیر ہے اور بہت جلد وہ ہر شے کو اپنے بوٹ تلے مسل دینا چاہتا ہو…

غیر ملکی ٹیم کا استقبال ادارے کی اہم شخصیات نے کیا، ان ہی اہم شخصیات میں سر رضا بھی شامل تھے، اسٹاف کے اہم ترین لوگوں سے غیر ملکی ٹیم کا تعارف کرایا گیا، باقی تمام لوگ اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہو گئے، لیکن نین تارا کو روک لیا گیا، نین تارا کے حسن و ذہانت کا ہر شخص اسیر ہو گیا، تھوڑی ہی دیر بعدمہمان اور میزبان کھانے پینے اور خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے اور لمحے بھر میں مشرق مغرب میں ڈھل گیا۔

جوں ہی کیف و سرور کی محفل اختتام کو پہنچی، سر رضا نے غیر ملکی ٹیم کو اسکول، کالج، ہسپتال اور فلاحی ادارے کا دورہ کرنے کی دعوت دی، دورہ مکمل ہونے کے بعد ویلفیئر ٹرسٹ کے صدر مسٹر پارکر نے اپنا بریف کیس کھولا اور مسکرا کر بولا۔

ویل، جنٹلمین! مسٹر رازا، ہماری کنٹری کی طرف سے یہ چھوٹا سا نازرانہ ہے، ہم ٹم کو بلینک چیک اس واسٹے دیتا ہے کہ تم اپنی مرضی سے جتنا چاہو منی بھرلو، تم غریبوں کا مفٹ علاج کرٹا ہے، ان کو ایجوکیشن دیتا ہے، Really I am very Happy۔

No, Sir۔ آپ اپنی مرضی سے ڈونیشن دیں گے، رضا نے چیک واپس کرتے ہوئے کہا۔

OK، پارکر نے چیک لے لیا اور کروڑوں کی رقم سے چیک فُل کر دیا۔

غیر ملکی ٹیم کے جانے کے بعد وہ سب اپنی اس خوشی اور کامیابی کو منانے کے لیے کلب روانہ ہو گئے، خوشی و انبساط کی محفل میں نین تارا بھی موجود تھی۔

اس اہم واقعے کے بعد کوئی خاص بات تو نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ ان دنوں اکثر نین تارا غیر حاضر رہتی اور اس غیر حاضری کی وجہ اس نے طبیعت کی ناسازی اور ذاتی مصروفیات بتائی تھی۔ ذاتی مصروفیات سے مُراد شادی تو نہیں ہے؟ رضا نے شوخ نگاہوں کا نشتر چلایا، جس سے وہ گھائل تو ہوئی، لیکن لمحہ بھر کے لیے جلد ہی سنبھل کر بولی۔

ڈارلنگ یہ بات تو تم اچھی طرح جانتے ہو مجھے مائیکل سے کبھی دلچسپی نہیں رہی اور تم سے ملنے کے بعد تو اس کی قدر و قیمت بالکل ہی ختم ہو گئی، لہٰذا شادی اور اس سے ناممکن بات ہے۔

I know, but why are you Upset, oh,no، پھر بات ختم ہو گئی۔

نین تارا کی غیر ملکی ٹیم سے بے حد اہم اور چوتھی ملاقات تھی۔

کرنل اسے بار بار تاریخ کا حوالہ دے رہا تھا، ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، سلطان صلاح الدین ایوبی۔

مسٹر ولیم! یہ تاریخ والے لوگ نہیں ہیں ، انھیں جنگ و جدل سے نفرت ہے، اس ہی لیے یہ اپنے بھائیوں کو بھی آگ اور بارود سے نکالنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ۔ اب ان میں اور ہم میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے اور اب تو یہ لوگ ویلنٹائن ڈے بھی بہت ذوق و شوق سے مناتے ہیں ، یہ لوگ زندگی کو انجوائے کرنے والے ہیں اور بس! ڈارلنگ تم کو کچھ نہیں معلوم؟

ہم کو معلوم ہے یہ کیا ہیں ؟ یہ لوگ ہماری کنٹری میں جا کر Preach کرتا ہے، ہماری ہی تعداد کو کم کرتا ہے، اس ہی واسطے ہم لوگ یہاں آیا ہے اپنے ساتھ شوگر بھی لایا ہے، اور ہم نے شوگر کا بارش کر دیا ہے۔ جب سب چیونٹیاں جمع ہو جائیں تو تم ان پر گھاسلیٹ ڈال کر لائٹر کو آن کر دو، سب فنش ہو جائے گا اور شوگر کا کھیل اس ہی طرح چلتا رہے گا…

But sir, It is impossible

Everything is possible Darling

چوکری! یہ کام کرنے کے واسٹے تم اکیلا نہیں ، آج بھی لارڈ ویلزلی، نظام اور مرہٹے ہمارے قافلے میں شامل ہیں ۔

اور ٹیپو کوئی نہیں ۔ پال نے خوشی کے ساتھ ایسے نعرہ لگایا جیسے اب وہ اور اس کے لوگ مکمل طور پر آزاد ہوں ۔ وہ کئی منٹ تک اپنے نیل پالش سے رنگے ناخنوں کو انگوٹھے کی مدد سے کُریدتی رہی ، پھر ہولے سے بولی۔

میں اسے Cheat نہیں کر سکتی Because he is my best friend,

Darling he is not sincere to you

اس نے کروڑوں روپے حاصل کرنے کے لیے تمھیں بلینک چیک بنایا ہے۔

 oh, no کرنل ولیم کے انکشاف پر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وجود ڈولنے لگا،پھر وہ بے یقینی کی حالت میں زیر لب بڑبڑائی۔ محبت تو ایک خوبصورت پودے کی مانند ہے، جس پر رنگ برنگے پھول کھِلتے ہیں ۔ پھولوں کی خوشبو دُور دُور تک پھیلتی ہے۔ محبت کے پودے کی تخلیق میں ہم دونوں شریک تھے… لیکن وہ مجھے پانا نہیں چاہتا تھا اور میں کھو کر بھی اسے کھونا نہیں چاہتی ہوں اور اب… اس نے ایک سرد آہ بھری۔ پال نے اسے امید و بیم کے دریا میں ڈوبتے دیکھا تو جھٹ سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ پال کا وجود اسے مضبوط قلعے کی طرح معلوم ہوا، جس میں وہ چند لمحوں کے لیے مقید سی ہو گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد کئی خفیہ ملاقاتیں غیر ملکی ٹیم سے ہوئیں ، لیکن پال اور نین تارا گوشۂ تنہائی میں ملتے، وہ چند ہی دن میں پال کے بے حد قریب آ گئی تھی، اس کی وجہ وہ سونے کی پلیٹ میں سنہرا مستقبل رکھ کر اسے پیش کر رہا تھا اور مقررہ تاریخ پر وہ چرچ بھی جانے والے تھے، جہاں سے اسے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا۔

ہر میٹنگ کے بعد وہ سب کچھ بھول جاتی، سوائے اس کے کہ یہ جنگ اس کی اور اس کے لوگوں کی بقا کی جنگ ہے۔

آنے والے مہمانوں کے استقبال کے لیے زور شور سے تیاریاں جاری تھیں اندرونی و بیرونی راستوں اور در و دیوار کو دلھن کی طرح سجایا جا رہا تھا۔ رضا نے مذکورہ دن کے لیے نین تارا کو کچھ خاص ہدایات دی تھیں اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس دن ہماری ملاقات ناممکن ہے۔

ناممکن کیوں ؟ اس کی آنکھوں میں شرارت اور شوخی رقص کر رہی تھی، رضا کو ایسا محسوس ہوا، جیسے کانچ کی مشروب بھری بوتل اس کے ہاتھ میں کسی نے تھما دی ہو اور وہ انکار و اقرار کی کیفیت میں معلق ہو کر رہ گیا تھا۔

اسے اپنی حسن و خوبصورتی پر بلا کا اعتماد تھا، لہٰذا وہ بناء جواب سنے مست پروا کی طرح سر سے گزر گئی۔

اس خاص دن اسے گئے ہوئے زیادہ وقت بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کا پھر فون آ گیا۔

’’Stupid‘‘ رضا کو پہلی بار اس پر سخت غصّہ آیا۔ سوری ڈارلنگ… وہ میرا پرس! بس ایک منٹ کی ہی تو بات ہے، میٹنگ شروع ہونے میں تو پورا ایک گھنٹہ باقی ہے، کہاں ہو تم؟ ابھی بھجواتا ہوں ، اور تم نے چھوڑا کہاں تھا؟ ڈارلنگ میں اندر داخل ہو چکی ہوں ، پھر نہ جانے اس نے کیا کہا۔ رضا کو اجازت دینی پڑی۔

وہ بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھی، اپنا کام کیا اور عمارت سے باہر نکل گئی۔

اس نے 10 منٹ کی ہی ڈرائیونگ کی ہو گی کہ اسے پال کی گاڑی نظر آ گئی، اس نے ایک خاص مقام پر گاڑی پارک کی اور گاڑی سے اُتر کر پال کی گاڑی میں اتنی دیر میں بیٹھی، جتنی دیر میں بجلی کے تار سے بجلی مطلوبہ جگہ پہنچتی ہے۔

Relax, Relax پال نے مشروب کی بوتل اس کے ہاتھ میں تھما دی۔

جس وقت وہ جہاز میں سوارہوئی، عین اس ہی وقت بی بی سی سے خبریں نشر ہو رہی تھیں ۔ ایک خاص عمارت میں دھماکا پچاس اہم شخصیات جاں بحق، ان اہم لوگوں میں ادارے کے سربراہ مسٹر رضا بھی شامل تھے۔

اس کی آنکھیں گیلی ہو گئیں اور آنسو کا ایک قطرہ اس کے گال پر ڈھلک گیا۔

٭٭٭

 

نئی ریت

ان دنوں نہ جانے مجھے کیا ہو گیا ہے، دُنیا کی ہر شے ویران اور اُداس نظر آ رہی ہے، کائنات کے خوبصورت رنگ نہ جانے کس نے چرا لیے ہیں ، ہر سمت مجھے ایک ہی رنگ نظر آتا ہے، وہ ہے سفید رنگ، جب بھی سفید دودھیا جیسا رنگ میرے سامنے چکر کاٹتا ہے، اس وقت ماں کا نورانی چہرہ میرے سامنے آ جاتا ہے، پھر وہ رات بھی مجھے یاد آ جاتی ہے جو میرے لیے تو کم از کم کسی سانحے سے کم نہیں تھی، میں پچھتاوے اور غم کو کبھی نہیں بھول سکتا ہوں ۔

سوچوں کی پرواز نہ جانے کیوں مجھے اپنے ساتھ لیے گھوم رہی ہے، دفتر سے نکلنے کے بعد میں یوں ہی بے مقصد بازاروں اور شاہراہوں پر بھٹکتا پھر رہا ہوں ۔ آخر مجھے کس چیز کی طلب ہے؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کس کام سے باہر نکلا ہوں اور کہاں جانا ہے اور مجھے کون سی چیز خریدنے کی خواہش ہے، کئی دکانوں پر گیا، ہر چیز اُلٹ پلٹ کر دیکھی، دام معلوم کیے اور پھر جیب میں بھی ہاتھ ڈالا، اس کے بعد دُکان دار کو حیران و پریشان چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

چلتے چلتے بالکل اچانک مجھے اپنے کانوں میں شہد ٹپکتا ہوا محسوس ہوا اور پیشانی پر کسی نے محبت کی مہر ثبت کر دی، پھر میرا پورا وجود ہلکے پھلکے بدن میں ڈھل گیا، میں پل بھر میں دوزخ سے جنّت کی طرف آ گیا ہوں لیکن جنّت میں پہنچ کر میں سکھ کا سانس بھی نہ لے سکا تھا کہ میرے نصیب میں لکھا جانے والا نوحہ دوبارہ لوٹ آیا ہے، میرا ہلکا بدن پھر بھاری ہو گیا اور پھر وہ ہی سوچ مجھ پر حاوی ہو گئی ہے، جب گھر کی دو خواتین نے ایک ضعیف و بے جان عورت پر نئی ریت کی آڑ لے کر رشتے کے حوالے سے ازلی دشمنی کو اختتام تک پہنچایا تھا۔ معاً مجھے اپنا باپ یاد آ گیا، جو کولہو میں بیلوں کی جگہ جوتا جاتا تھا، دوپہر کے سمے وہ پسینے میں شرابور کاندھوں پر انگوچھا ڈالے، اندر داخل ہوتا اور پیٹ کے لیے ایندھن کا مطالبہ کرتا، ماں جیسے اس آواز یا حکم کی منتظر ہوتی، وہ اس طرح حرکت میں آ جاتی، جس طرح پٹرول پمپ پر کھڑے ہونے والے کارکن تیزی کے ساتھ گاڑیوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں ، اماں کا فراہم کردہ ایندھن جو پکے ہوئے اناج کی شکل میں ہوتا، جب ابّا اس سے شکم سیر ہو جاتے، تب وہ اِدھر اُدھر کے قصّے کہانیاں بھی سناتے اور بات بات پر جھڑکتے جاتے۔ اماں کا ہمیشہ کی طرح منہ لٹک جاتا اور آنکھوں کے گوشے نم ہو جاتے۔ امّاں روہانسی ہو کر کہتیں ، تمھیں تو کبھی میرا کوئی کام پسند نہ آیا…؟

ابّا مزید چراغ پا ہو جاتے۔

’’کیا ابّا نے سب کو ڈانٹنے ڈپٹنے کا ٹھیکہ لیا ہے، جب میں بڑا ہو جاؤں گا، امّاں کو اپنے ساتھ شہر لے جاؤں گا، میں اپنے بچپن میں ایسا ہی سوچا کرتا تھا، میں تو ایسا نہ کر سکا، البتہ احسن بھیّا ابّا کی موت کے بعد جب ملازمت کی غرض سے شہر گئے تو ہم سب کو بھی اپنے ساتھ لے گئے، وہاں رہ کر کرتے بھی کیا، کون سی ہماری زمین و جائیداد تھی، جو تھی اسے بیچ کر ابّا نے ہم سب کے تعلیمی اخراجات پورے کیے، رہا اماں کا معاملہ تو وہ اپنی اولاد کی خوشی کے لیے ہر وہ کام کر سکتی تھیں جو انھیں بذاتِ خود ناپسند ہو، ان ماؤں کو اﷲ نے کس مٹی سے بنایا ہے آخر؟ اپنی ہر خوشی اپنی اولاد پر وار دیتی ہیں ، اپنے لیے کچھ بھی بچا کر نہیں رکھتی ہیں ، اس قدر اندھا اعتماد، آخر کیوں ؟‘‘ مجھے سڑکیں ناپتے ناپتے کئی گھنٹے گزر چکے ہیں ، اور کئی روز سے ایسی ہی حالت میں مبتلا ہوں ، کرنا کچھ چاہتا ہوں کرتا کچھ ہوں ، کہنا کچھ چاہتا ہوں ، منہ سے نکلتا کچھ اور ہے، جب کہ میں ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں ، بھیا نہ جانے کہاں سے آ کر کھڑے ہو گئے ہیں ۔‘‘

’’احسن بھیا! آخر تم نے جنّت کے بدلے دوزخ کیوں خرید لی، کیا بیویاں اس قدر اہم ہوتی ہیں کہ اپنی بہشت کو اپنے ہاتھوں آگ لگا دی جائے اور اپنے عظیم ترین محسن کو اس کی ہی جگہ سے بے دخل کر دیا جائے؟‘‘

سڑک کراس کرتے کرتے میں حادثے سے بال بال بچا ہوں ، گاڑی کی چرچراہٹ نے مجھے اپنی جگہ سے اُچھلنے پر مجبور کر دیا، ڈرائیور نے مجھے ننگی گالیاں دینی شروع کر دیں جواب میں ، میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘

’’اب میرے سامنے چٹیل میدان ہے اور میدان کے گرد جنگلی جھاڑیوں کی باڑھ، درمیان میں کرکٹ کے کھلاڑیوں نے پچ بنائی ہوئی ہے اور آس پاس کولڈ ڈرنکس اور جوس کے خالی پیکٹ اور بوتلیں بکھری پڑی ہیں ۔ میرا سائبان کہاں ہے، میرے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی، آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی اُتر آئی ہے، مجھے وہ دن بھی یاد آ گیا جب ہمارے گھر میں قیامت اُتر آئی تھی۔ اس روز احسن بھیا اور بھابھی نے امّاں سے کہا تھا۔

’’امّاں اب آپ انتظام کر لیں ، بچے بڑے ہو گئے ہیں اور گھر میں اتنی جگہ نہیں ان کے لیے ایک علیحدہ کمرے کی ضرورت ہے۔‘‘

تو کمرہ لے لو بیٹا، میں برآمدے میں لیٹ جایا کروں گی، امّاں نے اس طرح کہا جیسے کوئی کرائے دار مالک مکان سے بات کر رہا ہو، البتہ امّاں کا چہرہ گدلے اور کثیف دھوئیں کی زد میں آ گیا۔

’’اماں برآمدے میں سامان کیا کچھ کم ہے جو ایک بستر کا اور اضافہ کر لیا جائے۔‘‘ اس دفعہ بھابھی نے بات کو آگے بڑھایا۔

’’کیا میں اس گھر کی فرد نہیں ، جو مجھ پر سامان کو فوقیت دی جا رہی ہے، اماں زیر لب بولیں ، اسی لمحے میری نگاہ احسن بھیا اور بھابھی کے فولادی چہروں سے گردش کرتی ہوئی اماں پر آ کر ٹھہر گئی، یوں لگ رہا تھا جیسے اماں ہوا میں معلق ہوں ، نہ سر پر آسمان اور نہ پاؤں تلے زمین، شاید وہ اپنے جسم کے ساتھ عالمِ برزخ کی طرف سفر کر رہی تھیں ۔ اماں کو دیکھ کر میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، جی چاہا ان دونوں کے سر تن سے جُدا کر دوں ، لیکن قتل کرنا تو دُور کی بات ہے، ہمارے گھروں میں بڑوں سے اونچی آواز میں بات کرنا منع ہے۔ لیکن اس وقت احسن بھیا نہ کہ اصول توڑ رہے تھے بلکہ اپنی بیوی کی ساس پر ظلم کے بڑے بڑے پہاڑ اپنے ہاتھوں سے توڑنے پر تلے ہوئے تھے۔ اماں آپ فکر نہ کریں ، فراز کوئی گھر ڈھونڈ لے گا، کرایہ اور ڈپازٹ کی رقم میں ادا کر دوں گا۔‘‘

اماں نے ہاتھ کے اشارے سے بھیا کو خاموش کرا دیا اور دو چار روز بعد ہی اماں کے کہنے کے مطابق اماں کا زیور بیچ کر ایک چھوٹا سا گھر لے لیا۔ جب ہم اپنے نئے گھر میں منتقل ہو گئے تب میں اماں سے ذرا رسان سے بولا۔

’’اماں بڑے ارمانوں سے آپ نے بھیا کی شادی کی تھی، بدلے میں آپ کو کیا ملا؟‘‘

جواب میں اماں کی آنکھیں گہرے سیاہ بادلوں کی طرح برسنے لگیں ، ہم بہن بھائی اماں کو گلے لگا کر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔

سوچ کی نگری سے میں ٹوٹے دل کے ساتھ اس وقت لوٹا، جب میں میدان عبور کر چکا تھا اور تارکول کی سیاہ چمک دار سڑک میرے قدموں تلے تھی، منزل بے حد قریب اور دل زخموں سے چُور چُور، اپنے دُکھوں کا شریک کیسے بناؤں ؟ کاش میں اماں کے سینے سے لگ کر جی بھر کر روسکتا؟

میں ان دنوں بار بار سوچ رہا ہوں ، آخر میں نے اماں کی ضد کے آگے ہتھیار کیوں پھینک دیے تھے اور سر پر سہرا سجا لیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ سہرے کے پھول کھِلتے ہی گھر کے ساتھ قبرستان میں بھی ایک قبر کا اضافہ بہت جلد ہو جائے گا۔ چند ہی دن بعد ہمارے گھر بھی احسن بھیا والی کہانی دہرائی گئی، چونکہ وہ ہی رشتہ دوبارہ دوسری شکل میں وجود میں آ گیا تھا، ان دنوں اذیت تو اماں کو پہنچائی جا رہی تھی لیکن شکایت میری بیوی کو تھی۔

فراز! اماں کی گندگی کو میں برداشت نہیں کر سکتی ہوں ، ہر دم کھانسنا، کھنکارنا اور ساتھ میں اُگل دان بھی پاس ہی رکھ لیا ہے۔ ’’پھر ہر دم آوازیں لگانا، یہ دے دو، وہ رکھ دو، میں کوئی آیا یا ماسی نہیں ہوں ۔‘‘

’’میں اسے سمجھانے کی ہر بار کوشش کرتا، ساتھ میں یہ بھی کہتا کہ دیکھو اماں کا بڑھاپا ہے اور بڑھاپا کسی بیماری سے کم نہیں ، وہ بے چاری کس طرح اپنا لرزتا وجود سنبھالتی اور اپنے تمام کام زیادہ تر خود ہی کرتی ہیں ، پھر بھی تمھیں شکایت ہے۔ لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور میں پیر پٹختا ہوا باہر نکل جاتا…

اس بار ہمارے گھر کچھ نیا ہوا، وہ اس طرح کہ اماں دربدر ہونے سے بچ گئیں اور میں خود الگ ہو گیا نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے گھر دامادی قبول کرنی پڑی۔ کیا کرتا بچہ ایک ماہ کا تھا اور ایسی صورت میں اس عورت کو کسی بھی قیمت میں نہیں چھوڑ سکتا تھا جو میری ماں کی دشمن تھی۔ دوسرے صدمے نے اماں کو بیمار کر دیا، ان دنوں اماں کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ دانیہ شادی ہو کر پرائے دیس چلی گئی اور احمر ملازمت کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتا تھا، سو میں نے یہ ذمے داری اُٹھا لی، میں اماں کا دل بہلانے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔

اماں اکثر کہتیں ، فراز میرے آشیانے کے تنکے بکھر کر رہ گئے ہیں ، کوئی ہے ایسا جو انھیں دوبارہ اکٹھا کر دے، ان کی آواز اندھیرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوتی۔

’’اماں آپ فکر نہ کریں ، میں یہ کام بہت جلد کرنے والا ہوں ۔‘‘

سچ، اماں کے چہرے پر آس و نراس کی پرچھائیاں رقصاں ہو جاتیں ۔ میں تو چاہتا ہی یہ تھا کہ اماں خوش رہیں ، اسی لیے بعض اوقات وہ باتیں بھی کہہ دیتا، جن کا کرنا میرے بس میں نہیں تھا…

ایک دن بالکل اچانک ساری خوشیاں ، سارا سکون ہم سے رخصت ہو گیا، پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے میرے پاس، دل میں ایک پھانس لگی ہے جو نکلتی ہی نہیں ، چلتے چلتے میرا پیر پتھر سے ٹکرا گیا ہے، اب تھامنے والا کوئی نہیں ؟ میری آنکھیں آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب گئیں اور راستہ کہر آلود ہو گیا۔ پرانے زخم کچھ کم تھے جو ایک نیا زخم اور لگ گیا، وہ بھی کاری، دُنیا میں کیوں نا کتنی ہی بڑی تبدیلیاں رونما ہو جائیں ، پر کرنا وہ ہی چاہیے جو اپنے اور اپنے پیارے کے حق میں بہتر ہو۔

میں پاس پڑے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ جاتا ہوں ، بیٹھتے ہی گزرا ہوا زمانہ دوڑا دوڑا میرے پاس چلا آیا ہے اور ماضی کی بہت سی پرچھائیاں میرے سامنے رقص کرنے لگی ہیں ، ایک وہ وقت بھی تھا جب گھروں میں بڑے سے پتیلے میں مختلف قسم کے پتے ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا جاتا تھا، کافور اور اگر بتی کی خوشبو گھر سے نکل کر راہ گیر اور پڑوسیوں کو اطلاع کر دیا کرتی تھی کہ ضرور کوئی افسوس ناک واقعہ رونما ہوا ہے لیکن اب تو سب کچھ بدل گیا ہے اور ایک نئی ریت نے جنم لیا ہے، اب نہ تختہ آتا ہے اور نہ کوئی مخصوص شخص ،میرے اطراف میں اچانک بھیا کی آواز گونجتی ہے، تمام انتظامات تو رات میں نہیں ہوسکتے لہٰذا صبح ہی کا پروگرام رکھا جائے اور ہاں ابھی کسی کو اطلاع نہ کرنا خواہ مخواہ لوگ رات ہی میں پہنچ جائیں گے، احسن بھیا نے حکم صادر کیا۔

’’گرمی بہت ہے اور گھر چھوٹا کل تک کے لیے گھر میں رکھنا مناسب نہیں ہے‘‘ بھابھی تشویش سے بولیں ۔

’’تجویز معقول ہے، کچھ کرتا ہوں میں ‘‘ احسن بھیا فون کی طرف لپکے۔

’’لیکن بھابھی اے سی تو آپ کے بیڈ روم میں … میں جملہ مکمل نہیں کر سکا، البتہ اپنے دل کی بات اپنی بیوی سے کہہ دی، اگر ہم امّاں کو ایک رات کے لیے جو آخری رات ہو گی… اے سی ہمارے بیڈ روم میں ہے۔‘‘

’’نہیں ، نہیں وہ ایسے ڈری جیسے بھوت پریت سے ڈرا جاتا ہے، بھائی صاحب نے جو کچھ کہا ہے، ویسا ہی کرو، ویسے بھی آج کل گھر چھوٹے ہوں یا بڑے گرمی ہو یا سردی، سب لوگ وہیں چھوڑ آتے ہیں ، وہاں ہر طرح کے انتظامات ہوتے ہیں ، یہاں کس کس کو بلاتے پھرو گے۔‘‘ میں نے بے بسی سے بیوی کو دیکھا اور خاموشی اختیار کر لی، لیکن دماغ کے کسی خانے میں برف کی کئی سلیں بن گئی ہیں اور اب میں ان سلوں کو اپنے گھر لانا چاہتا ہوں ، اماں کے پلنگ کا پتیانہ اور سرہانہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا ہے اور وہ بڑا سا پتیلا بھی جو ہم نے ابّا کے وقت خریدا تھا۔

میں اُٹھ کر پھر چلنے لگا، طویل مسافت کے بعد میں چار دیواری کے قریب پہنچ گیا ہوں اور وہ الوداعی منظر میری نگاہوں کے سامنے آ کر ٹھہر گیا ہے، جب ظہر کے وقت نئے فیشن یا دستور کے مطابق سفید گاڑی شامیانے کے سامنے آ کر رُکی تھی، میں بے تابی کے ساتھ گاڑی کی طرف لپکا، پھر لمحہ بھر میں سارا منظر سفید براق سا ہو گیا۔ اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔

واپسی پر میں اس ہی کمرے میں چلا گیا ہوں ، جہاں اس عظیم ترین ہستی کو میری بیوی نے حبس بے جا میں رکھا تھا، وہ جوں ہی اپنے کمرے سے اپنے لڑکھڑاتے وجود کو باہر لے کر آتیں وہ پیچھے پیچھے بھاگتی۔

’’چلیں اماں اپنے کمرے میں ‘‘

’’کیوں کیا ہم قیدی ہیں ؟‘‘

’’اماں آپ سمجھا کریں ، آپ بیمار ہیں ، ہر جگہ جراثیم پھیلیں گے۔‘‘

تم سے بڑا بھی کوئی جراثیم ہوسکتا ہے، میں غصّے سے کہتا اور امّاں کا ہاتھ پکڑ کر بالکونی میں لے جاتا، ہم دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے، اماں کا دل بہل جاتا اور مجھے دلی تسکین حاصل ہوتی۔

بھابھی بھی کسی سے کم نہیں تھیں ، وہ جس قدر اماں کے ساتھ زیادتی کر سکتی تھیں ، انھوں نے کی حتیٰ کہ انھوں نے اپنے بچوں تک کو اماں سے دُور رکھا اور احسن بھیا کو کیا ہو گیا تھا، انھوں نے اماں کے اوپر ہونے والے ہر ظلم میں ان کا ساتھ دیا۔ بھابھی گھریلو سیاست سے اچھی طرح واقف تھیں ، اس لیے جیتے جی انھوں نے اماں سے ان کا بیٹا چھین لیا۔ ’’سوچوں کی بارات نہ جانے کس سمت روانہ ہو گئی اور میں چار دیواری کے اندر داخل ہو چکا ہوں ، وہ پھول میرے ہاتھ سے چھوٹ گئے ہیں ، جنھیں میں نے مختلف بازاروں میں گھومنے پھرنے کے بعد خریدے تھے، ڈوبتے دل کے ساتھ میں نے پھول اُٹھا لیے ہیں ، چند قدم چلنے کے بعد میں منزل پر پہنچ چکا ہوں ، میں دو زانو ہو کر بیٹھ جاتا ہوں ، اگر بتی سُلگا کر پھول نچھاور کرتا ہوں اور ہولے سے کہتا ہوں ۔

اماں آپ پر ہونے والے آخری ظلم پر میں بے حد شرمندہ ہوں ، پر اماں قصور میرا نہیں تھا، قصوروار صرف اور صرف احسن بھیا ہی تھے، جو ہر بات بھابھی کی مانتے ہی چلے گئے، اماں میری پیاری اماں مجھے معاف کر دو، آنسوؤں کا ریلا میری آنکھوں سے بہتا ہوا قبر کی مٹی کو تر کر رہا ہے اور میں مارے ندامت کے زمین میں گڑتا ہی چلا جا رہا ہوں ۔

٭٭٭

 

سیاہ گلاب

آدھی رات بیت چکی ہے، ہر سُو تاریکی اور سنّاٹے کی حکمرانی ہے۔ ایسے میں ایک مکان کے دروازے پر دستک ہوتی ہے، دروازہ کھولنے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ جیسے مکان میں روپوش شخص آنے والے کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہو، آنے والا مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔

ابو صالح!

یوسف ترمذی، دروازہ کھولنے والا اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ دیتا ہے، پھر اس کی نگاہیں سر سے پیر تک اس کا بھرپور جائزہ لیتی ہیں ، آنے والے کو یہ بات سمجھنے میں بالکل دیر نہیں لگتی ہے کہ وہ شک اور یقین کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہے، وہ اپنا بریف کیس کھولتا ہے اور ایک ڈائری سے سیاہ گلاب نکال کر اس کے سامنے کر دیتا ہے، دروازہ کھولنے والے کی آنکھوں میں بجلی کا کوندا لپکتا ہے اور ایک لمحے بعد ماند پڑ جاتا ہے۔ ابو صالح کے چہرے پر مسکراہٹ قدم رکھ دیتی ہے، وہ دوبارہ بریف کیس کھول کر سرخ رنگ کا مخملی پیکٹ نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے پھر چشمے کے کیس سے ایک ننھی سی مچھلی نما چابی نکال کر سُرخ پیکٹ کھولتا ہے، پھر زرد رنگ کا گلاب اُٹھا لیتا ہے اور پھول یوسف ترمذی کی طرف بڑھاتا ہے، یوسف ترمذی ناک کے پاس لے جا کر ایک لمبی سانس لیتا ہے، تبسم اس کے ہونٹوں پر پھیل جاتا ہے۔

’’اندر تشریف لائیے‘‘

وہ دونوں راہ داری سے گزرتے ہوئے ایک ایسے کمرے میں پہنچتے ہیں جو نہ بیٹھک ہے اور نہ سونے کا کمرہ۔ اس کمرے میں ایک بہت بڑی سی دری اور درمیان میں غالیچہ بچھا ہے، دیوار پر چنگھاڑتے ہوئے شیر کی تصویر لگی ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ شکار کی تلاش میں ناکام ہو کر مخملی فرش پر آ بیٹھا ہو۔ اﷲ مدد اور قرآنی آیات کے کئی طغرے دیوار پر آویزاں ہیں ۔

ایک کونے میں دو کرسیاں ایک چھوٹی سی گول ٹیبل اور پاس ہی ایک فریج رکھا ہے، فریج کے عقب میں لکڑی کی ایک بینچ پڑی ہے۔ بائیں ہاتھ پر دروازے کے قریب سنگل ڈور کی بہت پُرانی سی الماری کھڑی ہے۔

ابو صالح کمرے کا جائزہ لے کر بریف کیس ٹیبل پر رکھ دیتا ہے اور خود کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ اور میز پر رکھے کاغذات دیکھنے لگتا ہے۔

’’ابو صالح! میرا خیال ہے آپ پہلے غسل کر لیں ، اتنی دیر میں میں کھانا لگواتا ہوں ۔‘‘

’’جی شکریہ!‘‘ ابو صالح کھڑا ہو جاتا ہے۔

’’وہ رہا غسل خانے کا دروازہ‘‘

ابو صالح غسل خانے کی سمت چلا جاتا ہے۔

’’دیکھیے، صحیح ناپ ہے نا۔‘‘ یوسف ہینگر سے کپڑے نکال کر ابو صالح کو دکھاتا ہے۔

ابو صالح مُڑتا ہے، کپڑوں پر ایک نگاہ ڈالتا ہے۔ ’’میرا خیال ہے بالکل صحیح ہیں ۔‘‘ ’’یقینا میرے ناپ کے ہی سلوائے گئے ہوں گے۔‘‘

’’بے شک۔‘‘ پھر وہ کپڑوں کا ہینگر ابو صالح کے حوالے کر کے خود کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔

یوسف ترمذی نوکر کی مدد سے کھانا لگوا رہا ہے۔ وہ خود فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالتا ہے۔ کھجوریں ، پنیر، قہوے کا تھرماس، ٹشو پیپر اور نیپکن ٹیبل پر رکھ دیتا ہے، اتنی دیر میں ملازم، چکن کڑائی، لوکی کا رائتہ اور خشکہ چاول کی ڈش لے آتا ہے۔ دو تین منٹ بعد ابو صالح بھی آ جاتا ہے۔

یوسف ترمذی اس کی پلیٹ میں چکن اور رائتہ ڈال دیتا ہے۔

’’یہ بہت زیادہ ہے، اس پلیٹ کو آپ لے لیں ‘‘ ابو صالح پلیٹ بدل دیتا ہے۔

’’کیوں ؟‘‘

’’بھوک نہیں ہے۔‘‘ پھر وہ بے دلی سے رائتہ اور پنیر تھوڑے سے چاول پلیٹ میں ڈال دیتا ہے۔

ابو صالح دو تین لقمے بہ مشکل حلق سے اُتارتا ہے اور پھر پیالی میں قہوہ اُنڈیلنے لگتا ہے۔

اس دوران یوسف ترمذی مزید کھانے کے لیے اصرار نہیں کرتا ہے بلکہ خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف رہتا ہے۔

کھانے سے فراغت کے بعد وہ لوگ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں ۔ ملازم برتن اُٹھاتا ہے۔

’’یہ نصر بن موسیٰ ہے، ہمارا اپنا ہی آدمی ہے، سیاہ گلابوں کا رکھوالا، یہی پودوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ یوسف ترمذی ملازم کا تعارف کراتا ہے۔ ابو صالح مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے، ’’ابو صالح! میں نے آپ کی تصویر دیکھی تھی، میں آپ کو دیکھ کر پہچان گیا تھا‘‘ نصر بن موسیٰ نے برتنوں کی ٹرے اُٹھاتے ہوئے کہا اور پھر تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔

اب کمرے میں ابو صالح اور ترمذی ہیں ۔

’’ابو صالح! ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، صرف چند گھنٹے۔‘‘

پھر وہ بریف کیس سے ایک زرد رنگ کا لفافہ نکالتا ہے۔

’’دیکھو اس کا نام عبد اﷲ اشعری اور دوسرا جس کے سر پر کیپ ہے خالد بن عمیر ہے، اور یہ اس گاڑی کی تصویر ہے جو تمہارے حوالے کی جائے گی، اس کی نمبر پلیٹ اچھی طرح یاد کر لو، یہ دونوں تمہیں اسی گاڑی میں لے جائیں گے۔‘‘

پھر یوسف لفافے سے ایک اور کاغذ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیتا ہے۔

’’تم اس نقشے کو غور سے دیکھو۔‘‘

’’یہ پل ہے اسے ہم نے کراس کر لیا تو چوراہا آ گیا، ہمیں دائیں بائیں کے راستے کو چھوڑ کر سیدھی سڑک پر جانا ہے۔ یہ سڑک آگے جا کر شاہراہ کنگ سے ملا دے گی، اس کے بعد دائیں طرف مُڑنا ہے جہاں پیپسی کا بڑا سا بورڈ لگا ہے، اس سے تھوڑا سا آگے چرچ ہے۔ چرچ سے بائیں طرف مُڑو گے تو تقریباً پانچ منٹ بعد تم قونصل خانے پر ہو گے، بس یہی ہماری منزل ہے۔‘‘

’’تم سمجھ رہے ہو نا‘‘ یوسف نے ابو صالح کے چہرے پر گہری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔

’’لاریب‘‘

اور ہاں اب جو میں پیکٹ تمہارے حوالے کر رہا ہوں ، اس میں وہ تمام سامان موجود ہے جو تمہارا گیٹ اپ بدل دے گا، اس میں بُک لیٹ بھی موجود ہے، اس کتاب کی مدد سے تم ہر چیز کے استعمال کا طریقہ جان جاؤ گے۔‘‘

’’اسے پہچانو، یہ کون ہے؟‘‘

’’سوری! میں نہیں جانتا۔‘‘ ابو صالح نے متفکر ہو کر کہا۔

’’یہ آپ خود ہیں ‘‘ یوسف ترمذی مسکرانے لگا۔

’’اوہ، اب میں سمجھا۔‘‘

’’گیٹ اپ کے بعد آپ کا حلیہ بالکل ایسا ہی ہو جائے گا۔‘‘ یوسف نے تصویر پر انگلی رکھتے ہوئے کہا، ’’اور ہاں اب آپ مجھے فوراً ویزا، پاسپورٹ اور ضروری تمام کاغذات دے دیں ، اتنی دیر میں ، میں نئے کاغذات نکال لیتا ہوں ۔‘‘

وہ دونوں اپنے اپنے بریف کیس کھولنے لگے، پہلے ابو صالح نے اپنے تمام کاغذات یوسف کے حوالے کیے، یوسف ترمذی نے ایک نگاہ کاغذات پر ڈالی، پھر اپنی کرسی کو اُٹھا کر دوسری جگہ پر رکھا، دری کا کونا پلٹا، پھر چاقو کی مددسے فرش سے دس انچ لمبا اور دس ہی انچ چوڑا ٹائیل نکالا۔ اس نے جیب سے ریموٹ کنٹرول نکال کر اس کا بٹن دبایا، بٹن دباتے ہی وہ آہنی ڈھکن اپنی جگہ سے ہٹ گیا جس کی بیرونی سطح پر شیشم کی لکڑی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ ڈھکن ہٹتے ہی آگ کا بھپکا کمرے میں سرعت کے ساتھ داخل ہوا۔ یوسف ترمذی نے ویزے، پاسپورٹ سمیت تمام کاغذات آتش دان میں پھینک دیے اور پھر کھولنے والے عمل کو بیک کر کے کرسی رکھ کر اسی طرح بیٹھ گیا اور خاکی رنگ کا لفافہ ابو صالح کی طرف بڑھا دیا۔

’’پروفیسر احسان قاضی، ان کاغذات کو اچھی طرح دیکھ لیجیے۔‘‘

’’اوہ! تو ابو صالح موت کی وادی میں اُتر گیا‘‘ ابو صالح کے چہرے پر ننھے ننھے پسینے کے قطرے اور کرب کے سائے لہرانے لگے۔

’’ابو صالح مرا نہیں ، امر ہو گیا ہے، عنقریب وہ ہوا کے گھوڑے پر بیٹھ کر شہادت کا تاج پہننے کے لیے بہت بڑے معرکے پر جانے والا ہے۔ اور اب اس کی جگہ پروفیسر احسان قاضی نے لے لی ہے۔‘‘

’’اب تم اس چیک پر سائن کر دو، کل تمہارے گھر پہنچ جائے گا، وہ چیک کو دیکھتا ہے، اس چیک پر اس کا شہر، اس کا گھر اُبھر آتا ہے اس کی روتی ہوئی بیوی اور جان پدر ابو فرقان کی صدائیں اس کے کانوں میں گونجتی ہیں ۔

رابعہ سنبھالو اسے، وہ خود کلامی کے انداز میں بولتا ہے۔

’’آپ کو کچھ شاپنگ بھی کرنی ہو گی‘‘ ابو صالح نے جیب سے لسٹ نکال کر یوسف ترمذی کی طرف بڑھا دی۔

’’آپ جو خواہش کریں ، جو حکم کریں ، خادم حاضر ہے۔‘‘ ترمذی نے سر جھُکا کر کہا۔

’’اب تم آرام کرو، مجھے کچھ فون اور پیپر ورک کرنا ہے۔‘‘

’’اور ہاں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو یہ گھنٹی بجا دینا۔‘‘

’’مجھے ایک مصلیٰ اور قرآن پاک چاہیے۔‘‘

’’وہ سامنے بریکٹ پر دونوں ہی چیزیں موجود ہیں ۔‘‘

’’اور ہاں … میرا خیال ہے کہ تم کچھ دیر سوجاؤگو کہ تمہیں نیند نہیں آئے گی، لیکن یہ میرا مشورہ ہے۔‘‘

’’آپ نے صحیح سمجھا۔‘‘ ابو صالح نے ہولے سے کہا اور پھر واش بیسن کی طرف بڑھ گیا۔ یوسف ترمذی کمرے سے نکل گیا اور وہ وضو کرنے کے بعد کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا، اس نے پردہ ہٹایا، اسے اس وقت سیاہ اور زرد کھِلے ہوئے گلاب بڑے ڈراؤنے سے لگے، اس نے کھڑکی کا پردہ برابر کر دیا۔ نزدیک ہی پڑی ہوئی بینچ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں ۔ آنکھوں کی کھڑکیوں میں ابو فرقان اور رابعہ آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

’’بابا! کب واپسی ہو گی؟‘‘ اس کے چھ سالہ بیٹے نے اس کی گردن میں ننھے منے بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔

’’معلوم نہیں جان پدر! بس تم دُعا کرنا، میں کامیاب ہو جاؤں ، پھر میں تمہارے لیے ڈھیر سارے کھلونے، اسکول کا بستہ، ٹافیاں اور اچھے اچھے کپڑے خرید کر بھیجوں گا۔‘‘

’’نہیں بابا! یہ سب چیزیں آپ خود لائیں گے، نہیں تو میں آپ کی بھیجی ہوئی ساری چیزیں واپس کر دوں گا۔‘‘ بچے نے مچلتے ہوئے کہا۔

’’میں خود لاؤں ؟‘‘ وہ سوالیہ نشان بن گیا اور رابعہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا۔

’’میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ فی الحال نہ جائیں ، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے اور فرقان کو آپ کی شدید ضرورت ہے۔‘‘ وہ سسکیوں کے درمیان بولی۔

’’میں ، میں خود نہیں جا رہا ہوں ، مجھے بھیجا جا رہا ہے، قرعہ میرے نام کا کھلا ہے اور پھر ہم جس مشن کے لیے کام کر رہے ہیں اس میں دن، مہینہ اور ٹائم نہیں دیکھا جاتا ہے، جب بلاوا آ جائے اور تم تو خود میری شریکِ کار ہو، میری ہم خیال ہو، شاباش اب رونا بند کر دو۔‘‘

’’رونا تو میری زندگی کے ساتھ ہے ابو صالح۔‘‘

’’رابعہ صرف تم نہیں ہم سب رو رہے ہیں ، اور ظلم سے بچنے کے لیے ہی ہم سب کچھ کر رہے ہیں کہ ایک دن کامیابی کا سورج ضرور طلوع ہو گا اور یہ کامیابی اور فتح ہمیں اسی وقت ملے گی جب ہم بہادری اور نیک نیتی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں گے، اسے پسپا کریں گے۔‘‘

’’رابعہ! تمہارے آنسو میرے ارادوں کو کمزور کر دیتے ہیں ، دل چاہتا ہے کہ بس بزدلوں کی طرح ان کے لیے ہم سب تر نوالہ بنے رہیں اور وہ اطمینان کے ساتھ چباتے رہیں ۔ ہم ان کا اطمینان اور خوشی ہی تو چھیننا چاہتے ہیں ۔ انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اب بھی فولادی چٹان ہیں ، جس سے ٹکرا کر ایک نہیں سیکڑوں مر رہے ہیں ۔ اور یہی ہماری جیت ہے۔‘‘

’’ابو صالح تم میرا مطلب نہیں سمجھے، میں چاہتی تھی کہ تم کوشش کر کے اس وقت تک کے لیے اپنا پروگرام ملتوی کر دیتے جب تک کہ بچے ذرا سمجھ دار ہو جاتے۔ اپنی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو بچا سکتے۔‘‘

’’تمہیں بچوں کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ان کا انتظام میں نے کر دیا ہے۔ اس نے ابو فرقان کو کلیجے سے لگا کر بھینچ لیا، پھر رابعہ کو اپنے قریب کر کے اس کی پیشانی کا بوسہ لیا۔

’’رابعہ وہ وقت دُور نہیں ، جب ہم دوسری دُنیا میں اسی طرح جسموں اور روحوں کے ساتھ دوبارہ ملیں گے۔‘‘

اسی لمحے کئی عورتوں اور مردوں پر مشتمل قافلہ ان کے گھر میں داخل ہوا۔ انہوں نے روتی تڑپتی رابعہ کو سینے سے لگا لیا اور مرد ابو صالح کو اپنے ساتھ لے گئے۔

ابو صالح نے آنکھیں کھول دیں ۔ آنسوؤں کی وجہ سے اسے ہر چیز دھند میں ڈوبی نظر آئی۔ وہ تیزی سے واش بیسن کی طرف بڑھا اور وضو کر کے نماز پڑھنے کو کھڑا ہو گیا، پھر حالتِ سجدہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔ پھر اُٹھا اور کرسی پر جا کر بیٹھ گیا اور روڈ میپ کو بغور دیکھنے لگا، چند ثانیے کے بعد اس نے پنسل اُٹھائی، بالکل اسی طرح اس نے نقشہ بنا کر روڈ، چوراہوں اور سڑکوں اور موڑ کو ذہن نشین کر لیا۔ اب اس نے یوسف ترمذی کا دیا ہوا پیکٹ کھولا۔ سب سے پہلے بک لیٹ کی ہدایات پڑھیں ۔ اس نے پیکٹ کی چیزوں کا استعمال ہدایت کے مطابق کرنا شروع کر دیا۔ اسے ابو صالح سے پروفیسر احسان قاضی بننے میں آدھا گھنٹہ بھی نہیں لگا تھا۔ اس نے آئینہ پر تصویر چسپاں کی۔ ہو بہو وہ تصویر کی کاپی تھا۔

وہ کرسی پر آ کر بیٹھ گیا، اس نے خاکی لفافہ اُٹھایا اور پروفیسر احسان قاضی کے کوائف پڑھنے لگا۔ اس نے ہر بات ذہن نشین کر لی تھی۔ اب وہ مکمل طور پر پروفیسر احسان قاضی بن چکا تھا۔ اس نے احسان قاضی کے ہی انداز میں تھرماس سے قہوہ نکالا اور چسکیاں لے کر پینے لگا۔

’’ابو صالح اس قدر گرم قہوہ نہ پیا کرو، زبان جل جائے گی۔‘‘

’’اماں ! مزہ تو گرم پینے میں ہی آتا ہے۔‘‘

’’نہ ابو صالح نہ، مزے کے لیے اپنا منہ جلانا ٹھیک نہیں ، رکھو قہوہ۔ تھوڑی دیر بعد پینا، جب تک ایک آدھ سوال یاد کر لو، بس آخری سال ہے، پھر میرا بیٹا، میرا جگر ڈاکٹر بن جائے گا، زخمیوں کا علاج کرے گا۔‘‘

ماں نے قہوہ اس کے ہاتھ سے لے کر میز پر رکھا اور اس کا شانہ تھپتھپانے لگی۔

’’اماں معلوم نہیں ڈاکٹر بن بھی سکوں گا کہ نہیں ۔۔۔۔۔؟‘‘

’’جانِ مادر مایوسی کی بات نہ کرو، ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

’’اماں وہ دن کون سا ہو گا؟ میں تو اس دن کا انتظار نہ جانے کب سے کر رہا ہوں ۔ نہ جانے کب حالات سنبھلیں گے یا یوں ہی جنگیں ہوتی رہیں گی اور ہم سب کو ہمارا دشمن بلا جواز مارتا رہے گا۔‘‘

’’اﷲ اس کو غارت کرے گا۔ ماں نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔‘‘

’’اماں ہمارا قصور اتنا ہے نا کہ ہم کمزور ہیں اور ہمارا مدمقابل طاقتور، طاقت و دولت کے نشے میں چُور۔‘‘

’’کیا ان کے مذہب میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے؟‘‘

’’اماں !یہ درندے ہیں ، درندے۔ انہیں ہم سب مل کر ختم کریں گے، اسی مقصد کے لیے ہم نے ’’بلیک روز‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے، اس تنظیم میں دوسرے ملکوں کے لوگ بھی شامل ہیں ، کہ ہم سب کا دشمن ایک ہی ہے۔‘‘

’’نہ بیٹا ایسا سوچنا بھی نہیں ، تم مسیحا ہو، تمہیں لوگوں کا علاج معالجہ کرنا ہے، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے بلاکسی تفریق کے کہ سب کا دُکھ درد ایک جیسا ہوتا ہے، اور ہاں شاید تم نے آج کا اخبار نہیں پڑھا۔ اس نے اچھا نہیں کیا۔ اس کے بدنصیب ماں باپ اس کا آخری دیدار بھی نہ کر سکے۔‘‘

’’اس کو تم ایسی خبریں کیوں بتاتی ہو؟‘‘ ابو نصر نے بیوی سے غصّے سے کہا۔

’’بابا جان! مجھ کو معلوم ہے وہ لڑکا ابراہیم میرا ہم جماعت تھا، پھر وہ کیا کرتا، دشمن کے حملوں کے بعد چھپ کر بیٹھ جاتا۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کا بدلہ نہ لیتا، ان لوگوں نے اس کا گھر بھی مسمار کر دیا، وہ تنہا رہ گیا تھا، اسی لیے اس نے اپنی زندگی کو نیک کام کے لیے وقف کر دیا تھا۔‘‘

’’نیک کام‘‘

’’بالکل نیک کام۔‘‘

’’ہم لوگ اپنا آپ شہادت کے لیے قربان کر دیتے ہیں اور ابدی زندگی پا لیتے ہیں ، بابا جان ہماری حیثیت سیاہ گلابوں کی مانند ہے، آپ کو معلوم ہے نا، سیاہ گلابوں کا کوئی طلب گار نہیں ، کوئی خریدار نہیں ، اور نہ ہی سیاہ گلابوں کو سہرے کی زینت بنایا جاتا ہے اور نہ تربت پر سیاہ پھولوں کو نچھاور کیا جاتا ہے، سیاہ گلاب غم کا چولا پہن کر دُنیا میں آتے ہیں اور اسی لباس میں دُنیا سے منہ موڑ جاتے ہیں ، ہم مجاہدین کی زندگی بھی سیاہ گلابوں سے مشابہت رکھتی ہے، اسی لیے ہم نے اپنی تنظیم کا نام ’’بلیک روز‘‘ رکھا ہے۔‘‘

’’ابو صالح! تمہاری اور تمہاری تنظیم کی سوچ دُرست نہیں ہے۔ اس قسم کی موت کو شہادت کا نام ہرگز نہیں دیا جا سکتا ہے، چونکہ اس طرح خطا کاروں کے ساتھ ساتھ بے خطا و بے قصور بھی مارے جاتے ہیں ۔‘‘

’’لیکن بابا جان! اﷲ تعالیٰ نیتوں کے حال سے واقف ہے۔ ہم دشمن سے بدلہ لے رہے ہیں ، ہماری نیت معصوم و بے خطا کو مارنے کی ہرگز نہیں ہوتی ہے۔‘‘

’’اور پھر یہ سوچیں کہ ہمارے لوگ ہمارا ساتھ دینے کے بجائے تماشائی بنے ہوئے ہیں ، ہر کوئی اپنے تحفظ اور مفاد کی بات کرتا ہے، کوئی ہے جو ہمارے زخموں پر مرہم رکھے، ان کے ظلم سے نجات دلائے۔ بابا! کوئی نہیں ہے اپنا، ہمیں اپنا بدلہ خود لینا ہو گا، جو کچھ ہمارے بس میں ہے ہم وہی کر سکتے ہیں ، انتقام کی آگ کو سرد کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں ، اگر دس ہمارے مرتے ہیں تو دوچار دشمن کے بھی مارے جاتے ہیں ، اس طرح ان کے پیر اکھڑ رہے ہیں ۔ اور یہی ہماری فتح ہے، چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن فتح، فتح ہوتی ہے جانِ پسر۔‘‘

’’ابو صالح باپ سے بحث نہ کرو۔ جاؤ بڑے بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے۔ واپسی پر گھر کا سودا سلف لے آنا، ان کتوں نے میرا لعل مجھ سے جدا کر دیا، یہ کتنے بے رحم ہیں ، درندوں سے زیادہ خطرناک، ماؤں کے دل نکال کے لے جاتے ہیں ، اﷲ ان پر آگ برسائے۔‘‘ ماں نے آبدیدہ ہو کر کہا اور اگر بتی اور پھول اس کے ہاتھ میں تھما دیے۔

وہ گھر سے باہر چلا گیا۔ کئی گھنٹوں بعد اس کی واپسی اس لیے دیر سے ہوئی کہ قبرستان کم از کم بیس بائیس کلومیٹر دُور تھا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے بھائی کی قبر کی تھوڑی سی مٹی بھی لے آیا تھا تاکہ ماں مٹی کو سونگھ کر سکون حاصل کر سکے۔ ماں نے کئی بار مٹی کی فرمائش کی تھی لیکن وہ ہمیشہ بھول جایا کرتا تھا۔ لیکن وہ آج سبق کی طرح یاد کرتا ہوا گیا تھا،اسے کافی ہی فاصلے سے پتہ چل گیا تھا کہ اس کی بستی پر دشمنوں نے بمباری کی ہے اور یہ بستی آنِ واحد میں قبرستان میں بدل گئی تھی۔ ہر سمت ملبہ تھا اور لوگوں کے رونے چیخنے کی آوازیں ، وہ بھی ملبے کے اطراف میں بیٹھ کر گریہ و زاری کرنے لگا۔

ابو صالح کے دوست احباب اسے تسلی دے رہے تھے اور دشمن سے بدلہ لینے کے لیے راتوں کو منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ ان ہی دنوں رابعہ بھی تنظیم کی رکن بن گئی تھی۔ ابو صالح اور رابعہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے کرتے اتنے قریب آ گئے تھے کہ انھوں نے سب کے منع کرنے کے باوجود شادی کا فیصلہ کر لیا۔

ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ ابو فرقان پیدا ہوا۔ اور اب جب کہ کئی سالوں کے بعد ان کے یہاں اولاد میں اضافہ ہونے والا تھا، تنظیم نے اس کے نام کا انتخاب کر لیا۔

گھڑی نے تین بجا دیے تھے۔ وہ ماضی سے حال میں آ گیا، اس نے گیٹ اپ اُتارا، منہ ہاتھ دھویا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگا۔ بہت دیر تک وہ عبادت میں مشغول رہا۔ نیند سے اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں ، اس کی آنکھیں سو گئیں لیکن دماغ جاگتا رہا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ اور مؤذن کی صدا نے اسے بینچ سے اُٹھنے پر مجبور کر دیا۔ وہ کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے پردہ ہٹا دیا۔ رات کے کھلے سیاہ گلاب مُرجھا گئے تھے اور ادھ کھلی کلیاں آہستہ آہستہ اپنا منہ کھول رہی تھیں ۔ وہ کھڑکی سے ہٹ گیا، اس نے صابن سے اچھی طرح منہ دھویا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا اور میز پر رکھے کاغذات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا، اسی دوران یوسف ترمذی کمرے میں داخل ہوا، دونوں نے مصافحہ و معانقہ کیا۔

ملازم نے ناشتہ لگا دیا۔

ابو صالح نے بے دلی سے چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگا لی۔

’’یار کچھ تو کھاؤ‘‘ یوسف نے شہد کو سلائس پر لگا کر مکھن کی ٹکیہ کھول کر اس کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔

’’نہیں بالکل نہیں ‘‘

یوسف اس کی حالت سمجھ رہا تھا، اسی لیے اسے تھوڑا بہت کھانا کھلانے پر مصر تھا، یوسف کے بے حد اصرار پر اس نے توس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں رکھا اور اسے چبانے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے نوالہ حلق سے نہیں اُتر رہا ہے۔

’’ٹھیک ہے تم سے ناشتہ نہیں کیا جا رہا ہے، لیکن یہ جوس اور دودھ وقفے وقفے سے ضرور پی لینا، یہ تمہیں تقویت دیں گے۔‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، اس لیے وہ تو رابعہ کو دیکھ رہا تھا جو اس حالت میں بھی اپنے آپ کو گھسیٹتی ہوئی باورچی خانے میں لے جاتی اور اپنے ہاتھوں سے پنیر کا سینڈوچ بنا کر چائے کی کیتلی ٹرے میں رکھ کر لے آتی اور پھر بڑے پیار سے اپنے ہاتھ سے سینڈوچ اس کے منہ سے لگا دیتی۔

’’رابی! تم نے ماں کی کمی بھی پوری کر دی ہے۔ اسی طرح میرے ناز نخرے اُٹھاتی ہو جس طرح ماں اُٹھاتی تھی۔‘‘ ابو صالح اسے اپنے قریب کر کے کہتا۔ وہ مسکرانے لگتی۔

یوسف اسے اسی حالت میں چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا اور وہ واپس اسی کمرے میں آ گیا۔ اس نے کمرے کے در و دیوار پر ایک نظر ڈالی پھر اسے جھرجھری سی محسوس ہوئی۔ وہ پھرتی کے ساتھ کرسی سے اُٹھ گیا اور مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ بہت دیر تک وہ سربسجود رہا۔ اپنے بچوں اور بیوی کی سلامتی کی دعائیں مانگتا رہا۔

کاش میں اس دنیا میں آنے والے بچے کو دیکھ سکتا، آنسو اس کی آنکھوں میں بھر آئے۔ دماغ  ماؤف ہونے لگا۔ وہ جلدی سے پانی پینے کے لیے فریج کے پاس آیا۔ جگ سے پانی نکالتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں رعشہ طاری ہو گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے جگ پکڑا اور محتاط طریقے سے پانی نکالنے لگا۔ پھر اس نے کانپتے ہاتھوں سے بریف کیس اور اعصابی سکون کی ٹیبلٹ نکال کر کھائی اور ٹیبل پر دونوں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔

’’یااﷲ تُو ہی میرا حامی و ناصر ہے۔ اس نے اﷲ اکبر کی صدا لگائی اور آنکھیں بند کر لیں ، تھوڑی دیر بعد اس پر نیند کا خمار چھانے لگا۔‘‘

’’سوگئے کیا؟‘‘

اس نے آنکھیں کھول دیں ۔ اس کے سامنے با وردی پولیس انسپکٹر کھڑا تھا، جس کی داڑھی گھنی اور گہری سیاہ آنکھوں میں مخصوص قسم کی چمک نمایاں تھی۔

ابو صالح کے چہرے پر خوف نے قبضہ جما لیا۔

’’پہچانا نہیں کیا؟‘‘

’’نہیں ‘‘ ابو صالح کے منہ سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔

’’کوئی بات نہیں ‘‘ وہ مسکرایا ’’بس اب تیاری پکڑ لو۔ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔‘‘

’’اوہ! یوسف ترمذی تو یہ آپ ہیں ‘‘ وہ کرسی سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا، پھر دونوں آگے بڑھے اور گلے لگ کر ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

ابو صالح نے لباس تبدیل کیا اور قد آدم آئینے کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے پیکٹ کھولا اور بک لیٹ کی ہدایت کے مطابق عمل کرتا چلا گیا۔ اب وہ احسان قاضی تھا، وہ ٹیبل پر آیا، اس نے جوس کا گلاس اُٹھایا اور ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پی گیا۔

’’ہر کام میں جلدی،آرام سے پیو، جہاز چھوٹ رہا ہے کیا؟ جی مادر! آج واقعی جہاز چھوٹنے والا ہے، بہت جلدی میں ہوں ، بس آپ دُعا کریں ۔‘‘ اس نے پاس کھڑی ہوئی ماں سے کہا۔

’’دانا پانی اُٹھ گیا ہے، مسافر کے کوچ کا وقت ہے، آسمان پر طلوع ہونے والے سورج کا آخری دیدار، پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا۔‘‘ وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔

اس نے بریف کیس سے عبد اﷲ اشعری اور خالد بن عمیر کی تصویر نکالیں اور انہیں بغور دیکھنے لگا۔ اسی دوران مخصوص ہارن کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ یہ آواز یوسف ترمذی کیسٹ کے ذریعے کئی بار سنوا چکا تھا۔ اس نے بریف کیس بند کیا اور باہر نکل گیا، گاڑی کے پاس پہنچ کر پہلے اس نے، پھر ان دونوں نے ’’اﷲ اکبر‘‘ کی صدا لگائی۔

پھر ان میں سے ایک نے جو اس کے خیال کے مطابق عبد اﷲ تھا، سیاہ ڈائری سے سیاہ گلاب نکال کر اس کے سامنے کر دیا۔ وہ کھڑا رہا، دوسرے ساتھی نے بہت تیزی کے ساتھ سیاہ مخملی ڈبیا سے زرد رنگ کا پھول اسے پیش کیا، اس نے پھول لیا اور ناک تک لے گیا، نتھنوں میں اسے جلن کا احساس ہونے لگا۔ اس نے اطمینان سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گاڑی فراٹے بھرنے لگی۔ ان دونوں کو گائیڈ کرنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جلد ہی وہ مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے۔ ابو صالح نے ایک خاص سائن کی طرف گاڑی روکی وہ دونوں اُتر کر پاس کھڑی ہوئی ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔

گاڑی صرف دو منٹ چلی اور پھر اس زور سے قونصل خانے کی دیوار سے ٹکرائی کہ ایک زوردار دھماکا ہوا، بہت سے لوگوں کے اجسام ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ ان میں مقامی بھی تھے اور غیر ملکی بھی۔

جس وقت یوسف ترمذی ابو صالح کے گھر کھلونوں ، کپڑوں اور دوسرے تحائف سے لدا پھندا پہنچا تو اس نے دیکھا۔

کہ رابعہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بستر میں دھنسی ہوئی ہے۔

اور اس کے پہلو میں اس کا نوزائیدہ بیٹا ابو رافع لیٹا ہوا ہے۔

اور سیاہ تازہ گلاب کیاری میں لہلہا رہے ہیں ۔

٭٭٭

 

ہوا میں قدم

وہ یوں چل رہی تھی جیسے اس کی کمر پر سنگِ مرمر کے دودھیا کتبے اپنی قبروں کے ساتھ آ کر لد گئے ہوں ۔ اس کی کمر جھُک گئی تھی اور ہاتھ پیروں پر لرزہ طاری تھا۔ اس کا چہرہ اس دھوئیں کے حصار میں تھا جو مُردے کے سرہانے اگر بتی جلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا شریر نہ جانے کیوں سُلگتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کا بدن سلگنے اور جلنے کے عمل سے گزر رہا تھا۔ اسی دوران جب کہ وہ گیلی لکڑی کی طرح نہ جل سکتی تھی اور نہ بُجھ سکتی تھی، چار عورتیں آندھی طوفان کی طرح آگے بڑھیں اور اس کے ڈولتے وجود کو تھام لیا۔ یہ وہ عورتیں تھیں جن کے منہ میں سیاہ زہریلے ناگ کنڈلی مارے اس طرح بیٹھے تھے جیسے وہ اپنے بل میں موجود ہوں ۔ چاروں سانپ اپنی باریک تلوار جیسی زبان اندر باہر کرنے کی مشق کیا کرتے، بعض اوقات بے وجہ اور بے موقع اُچھل کر اس کی سمت بڑھتے اور اسے ڈس لیتے۔

وہ اتنی دفعہ ڈسی گئی کہ وہ اب اس اذیت کی عادی سی ہو گئی تھی۔ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ شریانوں میں سفر کرتا ہوا دل و دماغ تک پہنچتا ہے۔ ان عورتوں کی آنکھوں سے آگ برستی تھی اور ان کے چہرے دوزخ کی مانند تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ہر دم ہتھیار رہتے۔ وہ جب چاہتیں اس کے جسم کے کسی بھی اعضاء کا آسانی کے ساتھ نشانہ بنا لیتیں ۔ ان کے مرد بھی ان ہی جیسے سفّاک تھے، گو کہ اس کا لہو ان کے بدن میں شامل تھا۔ رات کو وہ جب اپنے اپنے کمروں میں پہنچتے تو وہ جادوگرنیاں نہ جانے کیا پڑھ کر پھونکتیں کہ وہ غیظ و غضب میں آ جاتے اور اپنی کرپانیں نکال کر اسے زد و کوب کرتے اور اسے مجبور کرتے کہ وہ جلد سے جلد ثانیہ کے مرقد میں اُتر جائے۔ ایسے موقع پر ان چڑیلوں کے منہ کے سانپ نہ جانے کہاں غائب ہو جاتے اور ان کی جگہ ڈراؤنے اور نوکیلے دانت نظر آنے لگتے۔

اب وہ ان کے حصار میں ہولے ہولے قدم بڑھا رہی تھی۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ چل نہ رہی ہو، بلکہ گہوارے میں رکھ دی گئی ہو اور گہوارے کے چاروں پائے ان آدمیوں نے تھام لیے ہوں ۔ ان کی عورتیں بین کرنے لگیں اور اب وہ سب میت گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر ان آٹھوں نے گہوارے کو سہارا دے کر گاڑی میں چڑھا دیا۔ کچھ لوگ گاڑی میں سوار ہو گئے اور کچھ واپس لوٹ گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد قبرستان آ گیا۔ اس کا جنازہ میت گاڑی سے اُتار لیا گیا۔ وہ اپنی قبر کے سامنے کھڑی سوچ رہی تھی کہ وہ اس میں اُترے یا نہیں ؟ کہتے ہیں مُردے سب کو سنتے اور سمجھتے ہیں لیکن بولتے نہیں ، سو وہ بھی نہیں بولی۔ البتہ سوچ رہی تھی اور اسی سوال پر غور و خوض کر رہی تھی جس نے اسے سالہا سال سے پریشان کیا ہوا تھا کہ ثانیہ کے مرقد میں اسے کیوں اُتارا جا رہا ہے، جب کہ ثانیہ کو تو خود اپنا مرقد پسند نہیں تھا۔ لیکن کیا کیا جائے امّاں کی فطرت کو کہ انھیں تو شروع ہی سے سونے کے سکّوں اور ہیرے موتیوں سے پیار تھا۔ ابّا سے شادی بھی انھوں نے اسی وجہ سے کی تھی کہ وہ امّاں کو سونے میں تول سکتے تھے۔ شادی کے بعد سمندر کے ہر قیمتی پتھر پر اماں کا حق تھا اور اب امّاں ثانیہ کے ذریعے ہیروں کا کاروبار کرنا چاہتی تھیں ۔ آغا سکندر کی تمام دولت پر قابض ہونا چاہتی تھیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ثانیہ تو پریوں کے دیس میں رہنے والی شہزادی ہے۔

ثانیہ کو نہ سمندری خزانہ اور نہ علی بابا کا غار پسند تھا جس کا دروازہ ’کھل جا سم سم‘ کی آواز سے وا ہو جاتا۔ اسے تو اپنے شہزادے کا انتظار تھا جو ہوائی گھوڑے پر اُڑتا ہوا آئے گا اور اسے ہمیشہ کے لیے اس جگہ لے جائے گا جہاں شفاف پانی کے جھرنون کی جلترنگ، تاروں کی چھاؤ ں اور سبز مخملی گھاس دور دور تک پھیلی ہو گی اور کہیں وہ دونوں پیار کے ساگر میں ڈوب جائیں گے اور ’’آج‘‘ گزرے کل میں ڈھلتا چلا جائے گا۔

ابھی وہ زیر تعلیم ہی تھی کہ اماں نہ جانے کہاں اور کس ترکیب سے سونے کے تھال میں زمردو یاقوت سے مرصع تاج لائیں اور اس کے سر پر سجا دیا وہ سچ مچ کی شہزادی بن گئی لیکن اس کا شہزادہ نہ جانے کہاں کھو گیا اور اس کی جگہ ایک ادھیڑ عمر حبشی نے لے لی۔ ثانیہ کے تاج اتارنے کے باوجود وہ تاج والی بنی رہی لیکن وہ اپنے میت کو نہ پا کر سسکنے لگی۔ اماں کی آنکھوں میں تو یہ خرابی شروع ہی سے تھی کہ انھیں زور و جواہر کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا اسی لیے انھوں نے بنا دیکھے، بنا سمجھے ثانیہ کو سچے موتیوں کے کفن میں لپیٹ کو اس مرقد میں لٹا دیا جہاں آج وہ خود کھڑی ہے۔ اماں اگر زندہ ہوتیں تو شاید اتنے عرصے میں ان کی آنکھیں اپنی اولاد کا غم دیکھنے کے قابل ہو جاتیں ، لیکن اب اماں نہیں ہیں تو ان کی فوج موجود ہے۔ کاش! ابّا ہی زندہ ہوتے!

وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتی ہے لیکن اس کے اطراف میں لوگوں کو ہجوم اور آتشیں اسلحہ لیے موٹی موٹی مونچھوں والے پہرے دار موجود ہیں ۔ آخر یہ لوگ اپنی حفاظت کا ذمہ دار گولے بارود کو کیوں سمجھتے ہیں ؟ ثانیہ جس وقت مرقد میں دفنائی گئی تھی۔ اس وقت بھی اسلحے سے لیس کئی لوگ موجود تھے۔ اس کے مرقد میں ہر قسم کی آسائش مہیا کی جاتی رہی، لیکن آسائش و آرائش کا خوشیوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ سونے کے محل میں رہنے والا قیدی کبھی ہشاش بشاش نہیں رہ سکتا تو پھر ثانیہ کس طرح خوش رہ سکتی تھی؟

’’ثانیہ ذرا اس زہر کا نام تو بتا جو تیری رگ رگ میں سما گیا تھا، وس سال کے اندر ہی تو نے سونے چاندی کی دیواروں کو موم کر دیا اور خود آزاد ہو کر اپنا سونے کا پنجرہ میرے لیے چھوڑ دیا۔ یہ وہ ہی پنجرہ ہے جس میں تیری زخمی روح پرواز کر گئی تھی اور اب میں اس پنجرے میں کیسے اورکس دل سے داخل ہو سکتی ہوں ؟

’’ثانیہ کاش تو نہ مرتی تو آج دولت کی دیوی ان چاروں مردوں کو فتح نہ کر پاتی جو میرے ماں جائی اور دودھ شریک میں ہیں ۔ ان کے خیال میں دولت ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے ساری دنیا فتح کی جا سکتی ہے، لکشمی کی پوجا کرنے والوں کو دلوں کے معاملات سے بھلا کیا مطلب؟

’’ثانیہ اس حبشی نے ہمارے گھر دوسری بار شب خون مارا ہے، اپنی امارت اور شان و شوقت کے بل پر کیا یہ شخص میری تنہائی اور خوشیوں کا شریک بن سکتا ہے؟‘‘

’’نہیں بالکل نہیں ۔‘‘

’’یہ تو سامری جادو گر ہے جس نے مجھے اور ثانیہ کو قید کر لیا۔ میں تیری طرح خاموش نہیں رہ سکتی تھی، میں نے بغاوت کی تھی، جنگ لڑی تھی، میں ہی جرنیل اور میں ہی سپاہی تھی، باقی سب ہار جیت کے منتظر میدان جنگ کے اطراف میں تماشائی بنے کھڑے تھے لیکن جیت شاید میری قسمت میں نہیں ہے، بہت سارے شب و روز ایک بہت بڑی طاقت کا مقابلہ کرنے میں گزارے ہیں لیکن اس جدوجہد کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ وہ بظاہر جیت گیا ہے اور تیری ہی طرح وہ مجھے بھی موم کر لے گا اور میں موم بتی کے قالب میں ڈھلنے پر مجبور کر دی جاؤں گی اور پھر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب میرا سارا موم پگھل جائے گا اور میں تم سے آن ملوں گی اور جب تک تیرے یہ ننھے پودے تناور درخت کی شکل اختیار کر لیں گے اور میری ضرورت بھی اپنی موت آپ مر جائے گی۔‘‘

’’ثانیہ میں اکثر سوچتی ہوں آخر لڑکیاں اس قدر بے بس کیوں ہوتی ہیں ، بالکل گائے بکری کی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ، کیونکہ جانور کا نصیب ہم بے کس لڑکیوں سے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ ان کی پسندیدہ جگہ اور غذا فراہم کی جاتی ہے، لیکن ہم لڑکیوں سے ہمارا مالک نہ مرضی پوچھتا ہے اور نہ ہماری پسند کا خیال رکھا جاتا ہے، بس ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے میں یا پرانے سامان کی طرح ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل کر دیا جاتا ہے، احتجاج کرنے پر گردن تن سے اڑا دی جاتی ہے، دل نکال کر پتھر نصب کر دیا جاتا ہے۔

’’خالہ چلونا۔‘‘ وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

’’ کیا سوچ رہی ہو بہو رانی، قدم آگے بڑھاؤ۔‘‘

’’چلو بھئی کب تک یونہی کھڑی رہو گی؟‘‘ بھاری بھرکم آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تو اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے حضرت عیسیٰ کی طرح کسی نے ’’قم‘‘ کہہ دیا ہو! اس کے مردہ بدن میں جان آ گئی۔

اس نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا، وہ ہی تانیہ والا حبشی تھا، بیتے دنوں میں اس کی توند آگے کو نکل آئی تھی اور کھچڑی بال بالکل سفید براق کی طرح ہو گئے تھے۔

’’ہائے پری کی ایسی قسمت؟‘‘ اس نے سرد آہ بھری۔

لوگ مجھے اور ثانیہ کو تو پریوں کی جوڑی کہا کرتے تھے، تو کیا پریوں کے بھی نصیب پھوٹتے ہیں ؟ ہاں شاید اس وقت، جب پریوں کو دیو اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور اپنے جادوئی محل میں قید کر لیتے ہیں یا پھر پتھر کا بنا دیتے ہیں ۔

کیا میں بھی پتھر کی بن جاؤں گی، ثانیہ کی طرح؟ اس کی آنکھوں سے آنسو موتی بن کر ٹوٹنے لگے، پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے دشمن کی فوج اس پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس نے بے اختیار قدم بڑھا دیا، لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ خاموشی سے اپنی قبر میں اُتر جائے یا تمام روایات کو روندتی ہوئی تیزی سے آگے بڑھ جائے۔ وہ اپنی سوچ کے اس دوراہے پر کھڑی تھی جہاں پر کوئی بھی فیصلہ کرنا اس کے لیے ناممکن تھا اور اس کا پاؤں ہوا میں معلق تھا۔

٭٭٭

 

بے کتبہ

رات اپنا نصف سفر طے کر چکی تھی۔ چاند بھی بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔ شاید اسی لیے ماحول پر تاریکی کی دبیز چادر تن گئی تھی۔ جوں جوں رات گزر رہی تھی قبرستان کی ویرانی اور سناٹا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ قبروں پر لگے سنگِ مر مر کے کتبوں کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے قبروں سے پریشان حال مُردے باہر نکل آئے ہوں اور جائے پناہ کی تلاش میں ہوں ۔ گلاب کے تازہ اور باسی پھولوں ، اگر بتیوں اور لوبان کی خوشبو، جانوروں کے بولنے کی آواز اور سائیں سائیں کرتی ہوئی پُراسرار ہواؤں نے قبرستان کے ماحول کو بے حد ڈراؤنا اور دہشت ناک بنا دیا تھا۔

قبرستان کے اطراف میں بھی خاموشی کا راج تھا، سڑک قبرستان سے ملحق تھی اس پر ٹریفک بہت کم چلتا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ایک تو سڑک بے حد پتلی تھی، دوسرے اس سڑک پر قبرستان کا مین گیٹ بھی تھا۔ جب بھی کوئی جنازہ آتا تو سڑک پر کافی رش ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سڑک پر چلنے والی اکا دکا گاڑی بھی متبادل راستہ اختیار کر لیتی تھی۔

ہولناک اندھیرے میں ہمیشہ کی طرح آج بھی قبرستان کا گورکن بُڈھا پیر محمد عرف پیرو ہاتھ میں لالٹین اور ایک موٹا سا ڈنڈا اُٹھائے قبروں کے اطراف میں چکر لگا رہا تھا۔ ہونٹوں میں اس کے بیڑی دبی ہوئی تھی اور زبان پر پرانے گانے کے بول ’’آئے گا، آئے گا، آنے والا آئے گا۔‘‘

گذشتہ پینتیس سالوں سے وہ اس قبرستان میں گورکن کی حیثیت سے بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ خدمات انجام دے رہا تھا۔ اس کا بچپن اور جوانی ان ہی نئی اور پُرانی قبروں کے درمیان گزری تھی۔ اس سے پہلے اس کا باپ یہاں کا گورکن مقرر تھا۔ اس کی موت کے بعد یہ ذمے داری اس نے اُٹھا لی تھی۔ اس طرح یہ اس کا آبائی پیشہ بن گیاتھا۔

اس وقت بھی اس کی سماعت گاڑی کی آواز سننے کے لیے بے چین تھی۔ اسے جب بھی محسوس ہوتا کہ کوئی گاڑی قبرستان کے گیٹ کی طرف بڑھ رہی ہے وہ تیزی سے گیٹ کے پاس اس امید سے بڑھ جاتا کہ شاید کوئی قبر کھدوانے کا آرڈر دینے آیا ہو۔ لیکن امید ہر بار دم توڑ دیتی اور گاڑی گیٹ کے پاس سے سر سے گزر جاتی۔ بعض اوقات اس کا وہم بھی ہوتا کہ سرے سے وہاں گاڑی ہوتی ہی نہیں تھی۔ وہ مایوس ہو کر گیٹ پر کھڑا ہو جاتا اور خالی خالی نگاہوں سے سڑک کو تکتا رہتا اور گزرے دنوں کو یاد کرتا، جب ایک نہیں کئی کئی جنازے آتے تھے اور اسے دن میں ایک ساتھ کئی قبریں کھودنی پڑتی تھیں ۔ بعض اوقات جب اس کا جسم تھکن سے نڈھال ہو جاتا تو قبریں کھودنے کی اجرت اس کی تھکن دُور کر دیتی۔ چونکہ اسی رقم سے اس کے گھر کا چولہا جلتا تھا۔

جب وہ کھڑے کھڑے تھک گیا تب گیٹ کے پاس پڑے اسٹول پر بیٹھ گیا اور دُکھ سے سوچنے لگا کہ شہر میں ہر روز کتنے لوگ مارے جارہے ہیں ، بم پھٹ رہے ہیں ، خود کُشیاں ہو رہی ہیں ، بسیں اُلٹ رہی ہیں ، جہاں نگاہ ڈالو جنازے ہی جنازے ہیں ، کیا میری قسمت میں ایک جنازہ بھی نہیں !

اس نے ایک سرد آہ بھری اور زیرِ لب بڑبڑایا، بھلا ہو ان سرد خانوں کا، ہفتوں اور مہینوں تو وہاں لاشیں پڑی رہتی ہیں ، وارثوں کا کچھ اتا پتا نہیں ہوتا، اس قسم کے سردخانوں نے تو اس جیسوں کا روزگار ہی چھین لیا ہے۔

اب میں کس کی قبر کھو دوں ؟

کہاں سے روپیہ لاؤں ؟

بچوں کی آلو گوشت کی فرمائش کس طرح پوری کروں ؟

آلو گوشت کھانے کا تو اس کا اپنا بھی دل چاہ رہا تھا۔ کئی دن سے گھر کے بچے کھچے راشن پر گزارہ ہو رہا تھا۔

ابھی وہ خیالات کی وادیوں میں نہ جانے کہاں کہاں اور بھٹکتا کہ گاڑی کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ گاڑی کی آواز قریب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ بے قرار ہو کر اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی گاڑی آئی ہے بلکہ ایک جھٹکے کے ساتھ رُکی بھی ہے۔ چونکہ گاڑی کی ہیڈ لائٹس قبرستان میں داخل ہونے والے راستے پر گول دائرہ بنا کر بوڑھے پیرو کو خوشی سے ہمکنار کر رہی تھی۔

وہ دو قدم آگے بڑھا۔ پھر امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہو کر گاڑی اور گاڑی سے اُترنے والوں کو دیکھنے لگا کہ آیا قبر کھودنے کا آرڈر دینے والے ہیں یا پھر کہیں گاڑی کا ٹائر تو پنکچر نہیں ہو گیا!

لیکن اس کا دل اس وقت خوشی سے اُچھلنے لگا جب قبرستان کے ہولناک اندھیرے میں دو سائے داخل ہوئے۔ قریب آ کر ان دونوں نے بڈھے کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا۔ بڈھا بھی ان دونوں کو بغور دیکھنے لگا۔ ایک آدمی پستہ قد اور دوسرا کافی لمبا تڑنگا تھا۔ چہرے پر سیاہ موٹی موٹی مونچھیں تھیں اور شانوں کے گرد چادر لپٹی ہوئی تھی۔ وہ مونچھوں کو عادتاً یا اتفاقاً بل دینے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ درمیانے قد والا کانوں سے مفلر لپیٹے ہوئے تھا اور کلین شیو تھا۔ دو لمحے کے توقف کے بعد ان میں سے ایک بولا۔

’’گورکن ہو؟‘‘

’’جی ساب! حکم کریں ۔‘‘

’’قبر کھدوانی ہے، ابھی اور اسی وقت۔‘‘

’’ابھی کھودے دیتا ہوں لیکن یہ تو بتائیے جنازہ کتنی دیر میں آئے گا؟‘‘

’’تقریباً دو گھنٹے بعد۔‘‘ مونچھوں والے نے جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے ساب۔ آپ ناپ دے دیں ۔‘‘

’’ناپ!‘‘ وہ دونوں چونکے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔

’’ناپ بھی مل جائے گا۔‘‘ مفلر والے نے لاپروائی سے کہا۔

’’شاید ساب! آپ میری بات سمجھے نہیں ۔ میرا مطبل ہے کہ لاش عورت کی ہے، مرد کی ہے یا پھر بچے کی؟ اسی حساب سے قبر کھودوں گا نا!‘‘

’’اتنے نادان بھی نہیں ہیں کہ تیرا مطلب نہ سمجھ سکیں ۔ قبر عورت کی ہو یا مرد کی، تجھے قبر کشادہ کھودنی ہے سمجھا!‘‘ اس دفعہ بھی مفلر والے نے جواب دیا۔

دو لمحے تک پیرو خاموش کھڑا رہا، پھر ہولے سے بولا۔ ’’ساب! میرے کشادہ قبر کھودنے سے کیا فائدہ؟ یہ تو بندے کے اعمال پر ہووے، کشادہ قبر بھی تنگ ہو جائے اور تنگ قبر بھی کشادہ! اﷲ کے کام اﷲ ہی جانے!‘‘

’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ یہ رکھ ایڈوانس۔ باقی بعد میں ۔‘‘ سیاہ چادر والے نے سُرخ سُرخ کئی نوٹ پیرو کے ہاتھ میں تھما دیے، پھر راز داری سے بولا۔

’’قبر دھیان سے کھودنا، کسی کو خبر نہ لگے، مٹی برابر کر دینا۔‘‘

’’ساب! کیا قتل ہو گیا ہے؟‘‘

’’چپ۔‘‘ چادر والے نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش رہنے کے لیے کہا، پھر آہستہ سے بولا۔ ’’برابر میں جو جھونپڑی ہے وہ تیری ہی ہے نا! اور یقیناً بیوی بچے بھی تیرے ہی ہوں گے۔‘‘

’’جی ساب!‘‘ اس دفعہ جی ساب کہتے ہوئے اس کا دل بیٹھنے لگا، پھر جی کڑا کر کے بولا۔ ’’ساب، آپ فکر ہی نہ کریں ، سب کام آپ کی مرضی کے مطابق ہو گا۔ بس آپ جنازہ لے آئیں ۔‘‘

ان دونوں کے جانے کے بعد وہ جھونپڑی میں گیا، بیوی بچوں پر ایک نگاہ ڈالی، پھر پھاؤڑا اور کدال لے کر قبرستان میں آ گیا اور قبر کھودنے لگا۔

سرخ نوٹوں نے اس کے اندر جوش پیدا کر دیا تھا۔ آلو گوشت اور تندور کی گرم گرم روٹی اس کے ذہن میں ناچنے لگی۔ اس نے ایک گھنٹے سے پہلے ہی قبر کھود دی۔

اب وہ اپنی تیز تیز سانسوں پر قابو پانے کے لیے ادھر ہی بیٹھ گیا۔ اس نے کاندھے پر پڑے ہوئے انگوچھے سے چہرے پر آئے ہوئے پسینے کو صاف کیا اور سوچنے لگا کہ نہ جانے ان لوگوں نے کس کا قتل کیا ہے؟ ہو نہ ہو ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیوی ہی ہو گی، غیرت کے نام پر اس بے چاری کا گلا گھونٹ دیا ہو گا۔ خود چاہے باہر کچھ بھی کرتے پھریں ، کوئی پرسان حال نہیں ۔ ان کا تو بس چلتا ہی عورت پر ہے۔ بزدل کہیں کے۔‘‘ اس نے حقارت سے زمین پر تھوک دیا۔ اور ہاں ! ان لوگوں نے میرے گھر والوں کا کیوں ذکر کیا؟ شاید مجھ بُڈھے کو تڑی دینے کو۔ میں سمجھتا ہوں ان کی چالوں کو۔ ارے! اب بھی میرے بازوؤں میں جان ہے، اس نے ہاتھوں کی مچھلیوں کو پھلاتے ہوئے سوچا۔

یہ لوگ میرے بیوی بچوں کے بارے میں ہرگز نہ جانتے اگر میری بیوی اور بچے قبرستان میں نہ آیا جایا کرتے۔ میں نے ان کو ہزار بار منع کیا کہ قبرستان میں بھلا تم لوگوں کا کیا کام! اگر بتی جلانا، پودوں میں پانی ڈالنا، قبریں پکی کرانا یہ سب کام میرے ہیں ۔ میری بیوی سکینہ نے تو میرے بار بار منع کرنے پر آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ لیکن بچے ہر قیمت پر قبرستان میں آ جایا کرتے۔ چونکہ نذر و نیاز کے لیے آنے والے لوگ انہیں خیرات زکوٰۃ کے پیسے اور نیاز کے چاول دے دیا کرتے تھے۔ قبرستان میں آنے جانے والے لوگ میرے گھر اور گھر کے لوگوں سے واقف تھے۔ بس یہ بدمعاش ان ہی لوگوں سے معلومات حاصل کرتے ہیں ، میں نہیں آنے والا ان کی گیدڑ بھبکیوں میں !

ابھی پیرو اور نہ جانے کیا کیا سوچتا کہ گاڑی کی آواز نے اس کے خیالات کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ پیرو نے لالٹین اُٹھائی اور گیٹ کی طرف چل دیا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دُور گیا تھا کہ اس نے دیکھا وہ دونوں تابوت کو اپنے کاندھوں پر اُٹھائے لڑکھڑاتے ہوئے اس کی سمت بڑھ رہے ہیں ۔ ان دونوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے لاش بہت بھاری ہے اور ان لوگوں سے تابوت سنبھل نہیں پا رہا ہے۔ پیرو نے تابوت کو سہارا دینا چاہا لیکن ان لوگوں نے اشارے سے اسے دُور رہنے کے لیے کہا۔ وہ دونوں بہ مشکل قبر تک پہنچے۔ پھر دونوں نے مل کر تابوت کو قبر میں اُتار دیا۔

گورکن نے قبر کو پاٹنے کے لیے تختہ اُٹھایا، پھر دھیمے اور ڈرے ہوئے لہجے میں بولا۔ ’’ساب! آخری دیدار کر لیں ۔‘‘

’’دیدار ہم کر چکے ہیں ، تم پٹرا رکھ کر مٹی ڈال دو۔‘‘ انھوں نے بیک وقت یہ جملہ اس طرح ادا کیا کہ جیسے وہ بہت عجلت میں ہوں ۔

’’ہاتھ تیز چلاؤ، مٹی برابر کر دینا۔‘‘ مفلر والا تحکمانہ لہجے میں بولا۔ پھر جیب سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر نکالا اور ایک ساتھ دو سگریٹ جلائے، ایک سگریٹ اس نے اپنے ساتھی کی طرف بڑھا دیا اور دوسرا اس نے اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔

جب تک پیرو نے اپنا کام ختم نہیں کر لیا، وہ دونوں بے قراری کے عالم میں سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتے رہے۔ پھر ان دونوں نے دس دس اور پچاس کے کئی نوٹ پیرو کی ہتھیلی پر رکھے اور کچھ ضروری ہدایات دے کر قبرستان سے نکل گئے۔

ان کے جانے کے بعد اس نے اپنی گھٹی ہوئی سانسوں کو فضا میں آزاد کیا اور نوٹ گن کر صدری کی اندرونی جیب میں رکھ لیے۔ پھر کُرتے کی جیب سے بیڑی کا بنڈل نکالا اور بیڑی جلا کر ہونٹوں میں دبا لی اور قبر کے پاس ہی ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ ہونٹوں پر اس کا من پسند گیت مچل گیا۔ ’’آئے گا، آئے گا، آنے والا آئے گا۔‘‘

گیت گاتے ہوئے اس کا ذہن نوٹوں پر چلا گیا۔ اس نے ایک بار پھر نوٹ نکالے اور گننے لگا۔ نوٹ گن کر اس نے دوبارہ اندرونی جیب میں رکھ لیے اور وہ خوشی سے جھومنے لگا۔ اس کا دل چاہا کہ صبح جلدی سے ہو جائے اور وہ ہمیشہ کی طرح سکینہ کے ہاتھ پر نوٹ تھما کر کہے کہ تیرا پیرو بڑا جی دار ہے، رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے کام کر لیتا ہے۔ جا اب گوشت، سبزی، اوڑھنی اور خوشبو والا صابن لے آ۔ اور ہاں جب تندوری روٹی لانا تو لال روٹی بھی لے لینا۔ بہت دن ہو گئے گوشت اور لال روٹی کھائے ہوئے۔

اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا، قبروں کے درمیان سے گزرتا ہوا بے اختیار اپنی جھونپڑی کی طرف بڑھ گیا۔ خلافِ توقع سکینہ جاگ رہی تھی۔ پیرو کو دیکھ کر وہ جھلنگا چارپائی سے اُٹھ کھڑی ہو گئی اور غصّے سے بولی۔

’’میں نے کتنی بار بولا تھا جلیبی لادو۔ ساری رات مچھر کاٹتے ہیں ، تم سنتے ہی نہیں ہو۔‘‘

’’اب تیری ہر بات سنوں گا۔‘‘ پیرو گنگناتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا ۔

’’غصّہ نہ کر، آ ادھر بیٹھ۔‘‘ پیرو نے جیب سے رقم نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیے۔

’’اتنے سارے پیسے! کیا کئی جنازے آئے تھے؟‘‘ سکینہ خوش ہوتی ہوئی بولی۔

’’ہاں ، یہی سمجھ لے۔‘‘

’’بس اب تو میں بہت ساری چیزیں خریدوں گی، ہونٹوں کی لالی، روٹی کی چنگیر اور گلابی رنگ کا تولیہ۔۔۔۔۔‘‘

’’آلو گوشت نہیں پکائے گی۔‘‘ پیرو نے لہک کر کہا۔

’’کیوں نہیں پکاؤں گی، ساتھ میں کھیر بھی پکاؤں گی، میٹھا کھائے ہوئے بہت دن گزر گئے۔‘‘

’’پھر تو گھر بیٹھے شادی کی دعوت ہو جائے گی۔‘‘ پیرو اسے اپنے قریب کرتا ہوا بولا۔

تقریباً ایک ہفتہ تو بے حد اطمینان اور سکون کے ساتھ گزرا۔ لیکن دوسرا ہفتہ شروع ہوتے ہی ایک رات بالکل اچانک ایک ساتھ پولیس کی کئی موبائل آ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے سپاہی قبرستان میں پھیل گئے۔

پیرو حیران و پریشان بدلتے منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اسی اثناء میں دو پھول والا پولیس افسر اس کی طرف بڑھا اور کرخت لہجے میں بولا۔ ’’تم ہی گورکن پیر محمد ہو نا!‘‘

’’جی سرکار۔ میں ہی پیر محمد عرف پیرو ہوں ۔ حکم کریں حضور والا، مجھے کیا کرنا ہو گا۔‘‘

’’تم ان قبروں کی نشان دہی کرو جو ہفتے دو ہفتے کے اندر بنائی ہیں ۔‘‘ پولیس افسر نے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’حضور کیا بتاؤں آج کل دھندا بڑا مندا چل رہا ہے۔ ساری لاشیں تو ایدھی کے سردخانوں میں چلی جاتی ہیں ۔ ہماری قسمت میں تو بہت کم جنازے آتے ہیں ۔‘‘

’’پیرو شاید تم نے میرا سوال غور سے نہیں سنا۔‘‘ پولیس افسر پیرو کی بوسیدہ قمیص کا کالر کھینچتا ہوا بولا۔

’’حضور والا ایسا بھی گھامڑ نہیں ۔ آپ کا سوال میری سمجھ میں اچھی طرح آ گیا ہے۔‘‘ اس نے لالٹین اُٹھائی اور گنگناتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ پولیس کی نفری اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ اس نے کئی نئی اور پرانی قبروں کی نشان دہی کر دی اور خود بے پروا سا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ایسے موقعوں پر اسی طرح کا رویہ رکھتا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں پولیس والوں نے کئی قبریں کھدوا دیں ۔ قبریں کھودنے اور بند کرنے کا عمل کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ پولیس تھک ہار کر چلی گئی اور پیرو نے جیب سے بیڑی کا بنڈل نکالا اور اپنی ترنگ میں آ کر گیت گنگنانے لگا۔ ’’آئے گا، آئے گا، آنے والا آئے گا۔‘‘

پولیس کو گئے ہوئے کئی ہفتے گزر گئے تھے اور کوئی خاص واقعہ بھی پیش نہیں آیا تھا لیکن پیرو نہ جانے کیوں ذہنی طور پر اُلجھا ہوا اور پریشان تھا۔ اسے ہر لمحے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے! اسی خطرے کے باعث اس نے بیوی بچوں کو گاؤں بھیج دیا تھا۔

ایک رات وہ اسی قسم کے پریشان کن خیالات میں غلطاں تھا کہ بالکل اچانک وہی پولیس افسر اور بہت سارے سپاہی قبرستان میں داخل ہوئے اور وہیں بیٹھ کر پیرو کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرتے رہے۔ پیرو ہر سوال کا ایک ہی جواب دیتا۔

’’جی سرکار، آپ کی بات سولہ آنے دُرست ہے۔‘‘

’’اگر دُرست ہے تو بس میری بات مان لو اور وطن کی محبت کا حق ادا کرو۔‘‘ پولیس افسر اس کی پیٹھ تھپتھپا کر بولا۔

’’جی حضور، مجھے اپنے وطن اور وطن کے نوجوانوں سے بہت محبت ہے۔ چونکہ پچھلے سال میرا بھی جواں سال بیٹا کسی ظالم کی گولی کا نشانہ بن گیا تھا، اب۔۔۔۔۔ اب میں ان کے ہاتھ سے ہتھیار ہی چھین لوں گا۔‘‘ پیرو نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا۔

دوسرے دن پولیس کی بھاری نفری اور ایک معائنہ ٹیم قبرستان میں داخل ہوئی۔ اس نے مخفی قبروں کی نشان دہی بے حد اطمینان سے کر دی، اس لیے کہ حق و باطل اس کے سامنے تھا۔

جس وقت پولیس والوں نے قبر سے تابوت باہر نکال کر کھولا تو پیرو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ چونکہ تابوت میں لاش نہیں تھی۔ ایسا ہی حال کئی اور دوسری قبروں کا تھا۔

جس وقت پولیس کامیاب و کامران اسلحے سے لیس ٹرک لے کر قبرستان سے نکل رہی تھی عین اسی وقت پیرو نے اپنا وہی پرانا گیت جسے وہ جوانی کے دور سے گا رہا تھا، گانا شروع کر دیا، ’’آئے گا، آئے گا، آنے والا آئے گا۔‘‘

آنے والا کون تھا؟ یہ پیرو کو نہیں معلوم۔ البتہ کئی گولیاں دندناتی ہوئی اس کی سمت بڑھی تھیں اور اس کے سینے میں پیوست ہو گئی تھیں ۔ وہ لڑکھڑا کر گر گیا۔ پھر اس کی کمزور سی آواز قبرستان کے سناٹے میں گونجی۔۔۔ مجھ غریب کو مار کر تم نے کون سا تیر مار لیا، تیر تو میں نے مارا ہے۔۔۔ اس نے فخر سے اپنا دایاں ہاتھ سینے پر مارنا چاہا مگر اس کا ہاتھ لڑکھڑا کر گر گیا اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔

٭٭٭

 

دوسرا قدم

وہ ایک درمیانے قد اور گٹھے ہوئے جسم کی عورت تھی۔ اس کے پیٹ کا گوشت آگے کو لٹکتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ رنگت سیاہ اور عمر کے اعتبار سے چالیس بیالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ اس کے چہرے کے نقوش بھدے تھے۔ پھیلی ہوئی ناک جس پر سرخ نگینے کی کیل سیاہ رات میں خطرے کی بتی کی طرح نمایاں تھی۔ چوڑے چوڑے رخسار، تنگ پیشانی اور ہونٹ تلوار کی دھار کی طرح باریک تھے۔ گردن کوتاہ جس پر چکنے اور جمے ہوئے بالوں کا جوڑا بندھا رہتا تھا۔ منہ میں ہمیشہ پان ہوتا۔

سردی ہو یا گرمی، برسات ہو یا موسم بہار، اندھیرا ہو یا اجالا اسے ہر موقع اور ہر موسم میں فوری طلب کیا جاتا تھا۔ اسے اکثر رات کے اندھیرے میں لالٹین اور کسی مرد کے ساتھ آتا جاتا دیکھا جاتا تھا۔ اسے دیکھ کر محلے کی عورتیں سرگوشیاں کرتیں کہ فلاں کے گھر جا رہی ہے، اسے وہاں سے بہت کچھ ملے گا، آخر کو پہلوٹھی کا بچہ ہے۔

لوگ اسے ’’صغرا دائی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ چونکہ اس کا نام صغرا اور پیشہ ’’دائی‘‘ کا تھا۔ یہ اس کا خاندانی پیشہ تھا۔ وہ اپنے پیشے میں بے حد ماہر سمجھی جاتی تھی۔ وہ ڈاکٹر کی طرح اپنے ساتھ ’’فرسٹ ایڈ‘‘ کا سامان رکھتی تھی۔ اس کے چمڑے کے بیگ میں سینکائی کے لیے ربڑ کی بوتل، انجیکشن، دوائیں اور دوسری بہت سی ضروری چیزیں ہوتی تھیں ۔ وہ بیگ کو بغل میں دبا کر بہت پھرتی کے ساتھ مطلوبہ جگہ پہنچ جاتی تھی۔

واپسی میں وہ جب بھی پتلی گلی سے گزر کر اپنے گھر جا رہی ہوتی تو گلی کی عورتیں دروازوں سے نکل کر بڑی بے چینی سے پوچھتیں ’’کیا ہوا ہے؟‘‘۔۔۔۔ ’’بیٹا‘‘ وہ مسکرا کے فخر کے ساتھ یوں جواب دیتی کہ جیسے یہ اس کا ہی کمال ہے اور بیٹی کی پیدائش پر ایسے منہ بناتی کہ جیسے کسی نے اس کے منہ میں کونین کی گولی ڈال دی ہو، کڑوا کسیلے ذائقہ جیسا منہ بنا کر پوچھنے والے کو جواب دیتی کہ ’’بیٹی آئی ہے وہ بھی نامراد ساتویں ۔‘‘ اور پھر اپنی پوٹلی کو دبا کر سر سے گلی سے نکل جاتی۔

بعض اوقات رات کے اندھیرے میں محلے والیوں نے اسے دبے قدموں آتے جاتے دیکھا تھا۔ صبح جب کوئی پوچھتا تو صاف مکر جاتی۔ ’’نہ، میں تو گھر سے باہر نکلی ہی نہیں ۔‘‘ لیکن جھوٹ بولتے وقت اس کا چہرہ چغلی کھا جاتا۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگتیں اور جرم کے خوف سے زردی چھا جاتی۔ پھر جان چھُڑانے کی غرض سے جلدی ہی آگے بڑھ جاتی یا دوسرے موضوع پر باتیں کرنے لگتی۔

ایسا کئی بار ہوا۔ پچھلے دنوں جب زمیندارنی کی بہن اور بھانجی گاؤں میں آ کر ٹھہری تھیں اور عورتوں نے جب زمیندارنی سے اس کی بھانجی کے بارے میں پوچھا تھا کہ ’’بیاہی ہے کہ بن بیاہی؟‘‘ ’’بن بیاہی۔ اس کو گیس کا مرض ہے۔‘‘ زمیندارنی نے نظریں چُراتے ہوئے جواب دیا تھا۔ تب عورتوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی تھی اور پھر صغرا کے جانے سے گاؤں والیوں کا شبہ یقین میں بدل گیا تھا۔

اس قسم کے واقعات کے بعد گاؤں والیاں صغرا کو بہت کریدتیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوتی۔ چونکہ صغرا اپنے اصولوں کی بہت پابند تھی، اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ لوگوں کے راز اس کے پاس امانت ہیں ۔

صغرا کا میاں دمے کا مریض تھا۔ دونوں کی عمروں میں پچیس تیس سال کا فرق تھا۔ دبلا پتلا تو شروع ہی سے تھا لیکن بیماری نے اسے مزید لاغر اور بوڑھا کر دیا تھا۔ ہر دم کھٹیا پر پڑا کھانستا رہتا اور صغرا کے گھر پہنچنے کے بعد دونوں میں کسی نہ کسی بات پر لڑائی شروع ہو جاتی اور بہت دیر تک لڑائی جاری رہتی۔ آخر صغرا ہی ہتھیار پھینک دیتی اور اپنی بچی ستارہ کو لے کر دوسرے کمرے میں آ جاتی اور اکثر ’’بڈھے‘‘ سے چھٹکارا پانے کے بارے میں سوچا کرتی۔ لیکن وہ بچی کو لے کر جائے تو کہاں جائے؟ کوئی بھی تو اس کا اپنا نہیں ۔ دوسرے دن وہ اس طرح شیر و شکر ہو جاتے کہ جیسے کبھی لڑائی ہوئی ہی نہ تھی۔ صغرا کے جانے کے بعد وہی بچی کی دیکھ بھال کرتا۔ دونوں باپ بیٹی مل کر صغرا کی لائی ہوئی چیزیں مزے لے لے کر کھاتے اور بار بار دروازے کی طرف دیکھتے کہ ابھی صغرا ان کے لیے اور چیزیں لے کر آئے گی۔

بڈھے نے شروع شروع میں تو محنت مزدوری کی تھی لیکن اس نے اپنی کمائی کبھی صغرا کو لا کر نہیں دی بلکہ اپنی رقم اپنے ہی پان، سگریٹ اور گھومنے پھرنے پر لگا دیتا۔ یا پھر بچی کی پیدائش کے بعد وہ بچی کے لیے کپڑے کھلونے خرید لاتا۔ گھر کا تمام خرچ صغرا کے ہی ذمے تھا۔

اس دن باپ بیٹی بے حد اُداس ہوتے جب صغرا خالی ہاتھ تھکے قدموں سے گھر لوٹتی۔ بچی اس کا بیگ اور پوٹلی کھول کر دیکھتی، پھر شکوہ کرتی:

’’اماں ، آج کسی نے مٹھائی، گڑ، بتاشے نہیں دیے۔ کیا آج کوئی منا، منی نہیں آیا؟‘‘

’’اب تجھے کیا بتاؤں ؟‘‘ صغرا اُداسی سے کہتی۔

بڈھا بستر سے اُٹھ کر بیٹھ جاتا، پھر تشویش سے کہتا۔ ’’خیر تو ہے؟‘‘

’’خیر کہاں ؟ مردہ بچہ پیدا ہوا تھا۔ اس کی موت کا ذمے دار مجھے ٹھہرا دیا کہ تُو نے کیس خراب کر دیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اسے تو مرے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے، وہ تو شکر کہ ماں بچ گئی۔ رب کے کام رب جانے، اس کے کاموں میں ہمارا کیا دخل!‘‘ وہ کانوں کو ہاتھ لگا لیتی۔ ’’تو دل چھوٹا نہ کر، سب کو معلوم ہے کہ موت زندگی اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ بڈھا اپنی بیوی کو تسلی دیتا۔

’’بچہ زندہ ہو یا مُردہ، کم از کم میری فیس تو دے دیتے۔‘‘ وہ منہ بسور کر کہتی۔

’’ارے بدبخت ان کے گھر موت ہو گئی ہے، تجھے فیس کی پڑی ہے۔‘‘ بُڈھا غصّے سے کہتا۔

’’تم بھی ان کی طرف ہو گئے، بھلا موت سے میرا کیا تعلق!‘‘

پھر وہ دونوں باقاعدگی سے لڑنے لگتے۔ جب وہ لڑتے لڑتے تھک جاتی تو ستارہ کو لے کر دوسرے کمرے میں آ جاتی اور اپنی زندگی کے بارے میں گھنٹوں سوچا کرتی، مزید بچوں کے لیے سوچ کر کڑھتی رہتی۔ اسے بچوں کا کس قدر شوق تھا لیکن ستارہ کی پیدائش کے بعد دوسرا بچہ پیدا ہی نہ ہوا۔ اس نے اپنی پریشانی اور خواہش کا اظہار کئی بار اپنے میاں سے بھی کیا تھا لیکن اس نے سمجھا بجھا کر اس کی خواہش کو سلا دیا تھا۔ لیکن خواہش تھی کہ بار بار جاگ جاتی تھی۔ پھر وہ اپنے دل کو بہلا لیتی کہ بس اس کی قسمت میں ایک ہی اولاد تھی۔

بڈھے سے لڑائی جھگڑے کے باوجود وہ اس کی تیمار داری کرتی۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی۔ اس کا علاج معالجہ کرانا بھی اپنی ذمے داری سمجھتی۔ باہر اور گھر کی ذمے داریوں میں اس کے شب و روز گزر رہے تھے۔

ان ہی دنوں ان کے سامنے والے گھر میں ایک نیا کرائے دار آ گیا تھا۔ آنے والا ادھیڑ عمر کا پستہ قد آدمی تھا۔ زردی مائل رنگت، اس پر سیاہ مونچھیں ، کسرتی بدن، گول سی ناک، سیاہ چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی عیاری نے اسے عجیب الخلقت انسان بنا دیا تھا۔

صغرا نے پڑوس کا حق ادا کرنے کے لیے اسے کئی بار کھانا پکا کر دیا تھا۔ صغرا کے پوچھنے پر اس نے اپنا نام، اپنے حالات اور پیشے سے بھی آگاہ کر دیا تھا۔ سب سے زیادہ صغرا کو اس بات کی خوشی نہ جانے کیوں ہوئی تھی کہ وہ چھڑا ہے اور اس کا آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ چونکہ تقسیمِ ہند کے وقت وہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر اپنے ماموں کے ساتھ پاکستان آ گیا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ قوال ہے اور اسے سب لوگ رئیس قوال کے نام سے جانتے ہیں اور یہی اس کی شناخت ہے۔

پہلی ہی ملاقات کے بعداسے اندازہ ہو گیا تھا کہ جیسے وہ اور رئیس ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں ۔ اس نے صغرا کے کھانے کی تعریف خاص انداز میں کی تھی اور برتن واپس کرتے کرتے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا اور اس کا دل خاص طریقے سے دھڑکنے لگا تھا اور وہ شرما کر کمسن دوشیزہ کی طرح بھاگی تھی۔

اب وہ دن میں کئی مرتبہ رئیس قوال کے گھر چکر لگا لیتی۔ کبھی گرم گرم پراٹھے اور ترکاری پکا کر لے جاتی، تو کبھی چائے اور حقہ کے لیے آگ لے جاتی۔ رئیس قوال کا حال بھی اس سے جُدا نہ تھا، زندگی میں پہلی عورت ٹکرائی تھی جو اس کی ضرورت زندگی کا خیال رکھ رہی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے جتنی عورتوں سے اس کے مراسم رہے، سب اس کی جیب خالی کرانے کا باعث بنیں ۔

بڈھے نے صغرا کے چہرے پر پھیلنے والی خوشی اور بے چینی کو بھانپ لیا تھا اور اسے دبے لفظوں میں آنے والے طوفان سے آگاہ بھی کر دیا تھا، اور اسے تنبیہ بھی کی تھی کہ وہ آئندہ اس کے گھر نہ جائے۔ورنہ بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔

’’کیوں نہ جاؤں ؟‘‘ صغرا غصّے سے چیخی تھی۔ ’’بے چارہ اکیلا آدمی ہے، کھانا وغیرہ پکا کر دے دیتی ہوں تو اس میں بھلا بدنامی کی کیا بات ہے؟‘‘

بڈھے نے اسے ایک ساتھ کئی گالیاں دے ڈالی تھیں ۔

بستی والے بھی صورت حال کو اچھی طرح سمجھ گئے تھے اور اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن اس کی عقل پر تو پردے پڑ چکے تھے اور اب نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ واپسی میں پہلے رئیس قوال کے گھر جاتی۔ آدھی مٹھائی اور دوسری چیزیں اسے دیتی، پھر گھر آتی۔ بچی نے رو رو کر کئی بار فریاد کی کہ ’’اماں تم آدھا حصّہ اسے دے آتی ہو، ہمارے حصّے میں مٹھائی اور بتاشے بہت کم آتے ہیں ۔ تم اس طرح نہیں کیا کرو اماں ۔ نہیں تو میں تم سے کُٹّی ہو جاؤں گی۔‘‘ وہ دائیں ہاتھ کی چھنگلی اس کے سامنے کر دیتی۔

ان ہی دنوں ستارہ پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کی ماں اسے تنہا چھوڑ کر نہ جانے رات کے اندھیرے میں کہاں گم ہو جاتی ہے۔ شروع شروع میں تو باپ بیٹی نے بہت واویلا مچایا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ لہٰذا دونوں اپنی بے بسی پر آنسو بہا کر خاموش ہو گئے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا کیوں کہ بیماری اور بڑھاپے نے اسے بے حد مجبور اور صغرا کا محتاج بنا دیا تھا۔

صغرا نے اپنی بیٹی کو اعتماد میں لے لیا تھا۔ اس نے کہا تھا۔ ’’دیکھو! میرا کام دن رات نہیں دیکھتا ہے۔ مجھے کسی بھی وقت گھر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ اور اگر کام نہ کروں تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟‘‘ بچی کی سمجھ میں سب باتیں تو نہیں آئیں البتہ اتنا ضرور سمجھ میں آ گیا کہ اماں کے باہر جانے کی ہی وجہ سے لڈو، اناج اور پیسہ آتا ہے۔

ان ہی دنوں صغرا کی طبیعت نہ جانے کیوں خراب رہنے لگی تھی۔ زیادہ تر گھر پر ہی رہتی۔ لوگوں کے بلانے پر وہ ستارہ سے کہلوا دیتی کہ کہہ دو اماں بیمار ہیں ، وہ کسی اور کا انتظام کر لیں ۔ لوگوں کے لاکھ اصرار پر بھی وہ یہی جواب دیتی کہ وہ بہت تھک چکی ہے اور اب آرام کرنا چاہتی ہے۔

بڈھے اور ستارہ کے سو جانے کے بعد خاموشی سے پُرانا صندوق کھولتی اور اس میں سے ایک چھوٹی سی کپڑوں کی گٹھری لے کر دالان میں آ جاتی اور ستارہ کے چھوٹے چھوٹے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا کرتی۔ پھر گن گن کر الگ الگ اس طرح رکھتی جاتی کہ جیسے جمع تفریق کے سوال حل کر رہی ہو۔ پھر من ہی من میں مسکراتی اور صندوق میں لے جا کر رکھ دیتی اور گھنٹوں سوچوں میں گم رہتی۔

ایک رات وہ جب رئیس قوال کے گھر سے لوٹی تو کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چیز کو اس نے سختی سے دبایا ہوا تھا۔ وہ کئی بار لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچی۔ بڈھا اس کی گھبراہٹ کو بھانپ گیا تھا اور اب اس کا جائزہ لے رہا تھا۔

وہ آ کر بستر پر لیٹ گئی تھی اور بند مٹھی کو کمر کے نیچے دبا لیا تھا۔ کافی دیر بے سدھ پڑی رہی۔ سانس بھی بے حد محتاط طریقے سے لے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اُٹھی اور باورچی خانے میں وہ چیز چھپا کر دوبارہ آ کر لیٹ گئی۔ نیند تو اسے نہیں آئی البتہ اس پر غنودگی طاری ہو گئی لیکن دماغ اس کا جاگتا رہا۔ اسے کسی پل قرار نہیں آرہا تھا۔ ایک بار پھر وہ اُٹھی اور تیزی سے باورچی خانے کی طرف بھاگی۔ وہ چیز اپنی جگہ پر رکھی تھی۔ اس نے اس چیز کو شلوار کے نیفے میں اڑسا اور پھر اطمینان سے آ کر بستر پر لیٹ گئی۔

صبح وہ دن چڑھے تک لیٹی رہی البتہ بڈھا رات بھر جاگتا اور سوچتا رہا کہ وہ کیا چیز چھپا کر لائی ہے۔ صغرا کے سونے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور بغیر لاٹھی کے وہ گرتا پڑتا باورچی خانے میں پہنچ گیا۔ اس نے کئی برتنوں میں جھانک جھانک کر دیکھا۔ اسے سوائے چند نوٹوں کے اور کچھ نہیں ملا۔ البتہ نائیلون کے بیگ میں شہد کی بوتل، تیل اور گھٹی کو بڑی احتیاط کے ساتھ کاغذوں میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور وہ محتاط قدموں سے اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا واپس آ کر کھٹیا پر پڑ گیا۔

پورے دن وہ گھر سے کہیں نہیں نکلی۔ بس گھر کے چھوٹے موٹے کام انجام دیتی رہی۔ رنگت اس کی اڑی اڑی اور چال میں لڑکھڑاہٹ نمایاں تھی۔ کام کرتے وقت اس سے کئی برتن ٹوٹ کر گرے تھے۔ ستارہ نے کئی بار آ کر اس سے کہا تھا کہ چلو اماں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔ تمہاری طبیعت زیادہ خراب لگ رہی ہے۔

’’نہیں میں ٹھیک ہوں ، تو فکر نہ کر‘‘ اس نے ستارہ کے گال تھپتھپائے۔

’’اماں ، ایک بات بتاؤں ۔‘‘ ستارہ نے آہستہ سے کہا۔

’’ہاں بتا۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولی۔

’’محلے والی عورتیں تمہارے بارے میں مجھ سے عجیب عجیب باتیں کرتی ہیں !‘‘

’’کون سی باتیں ؟‘‘ وہ چونکی۔

’’جاؤ، میں نہیں بتاتی۔بس تم ڈاکٹر کو دکھا دو۔‘‘ ستارہ باورچی خانے سے چلی گئی اور وہ مسکرانے لگی۔

بڑی ہی مشکل سے اس نے کھانا پکایا اور بہت مدت بعد اس نے اپنے میاں کے لیے پرہیزی کھانا بھی پکایا۔ ستارہ صبح سے بھوکی تھی لہٰذا وہ کھانا کھا کر جلدی ہی سو گئی۔ اس نے اپنا اور اپنے میاں کا کھانا ٹرے میں رکھا اور بڑے چاؤ سے آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ بڈھا پرہیزی کھانا اور مٹھائی دیکھ کر سب گلے شکوے بھول گیا۔ پھر مصنوعی غصّے کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔ ’’لے جا، میں تیرے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاؤں گا۔ آج تجھے میرا خیال کیسے آ گیا۔ میرے جیتے جی رنگ رلیاں منا رہی ہے۔ ارے میرے مرنے کا ہی انتظار کر لیا ہوتا۔ تجھے اپنی بچی کا بھی خیال نہیں آیا۔‘‘

صغرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہولے سے بولی۔ ’’وہم کا کوئی علاج نہیں ہے۔ بس تم اب کھانا کھاؤ، ٹھنڈا ہو رہا ہے۔‘‘

وہ اپنی پلیٹ کو اپنے پاس رکھ کر آہستہ آہستہ کھانا کھانے لگی۔ بڈھے کا بھوک سے بُرا حال تھا۔ دوبارہ پوچھنے پر اس نے جلدی سے پلیٹ اُٹھا لی اور بے صبری سے کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ بہت عرصے بعد اسے بکری کے گوشت کا شوربا میسر آیا تھا۔ اس نے کھانا اور مٹھائی خوب سیر ہو کر کھایا۔ جب وہ کھانا کھا چکا تو صغرا نے برتن سمیٹے اور باورچی خانے میں رکھ کر بستر پر آ کر لیٹ گئی۔

بڈھاکھانستا رہا، کراہتا رہا اور اسے آوازیں دیتا رہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسے تو ننھے کی کلکاریوں نے دوسرے دیس پہنچا دیا تھا اور وہ خوشی سے سرشار تھی۔

ستارہ صبح حسب معمول اُٹھ بیٹھی تھی اور وہ اپنی ماں کو آوازیں دے رہی تھی۔

’’اماں اُٹھو! اُٹھو نا! دیکھو سورج نکل آیا ہے اور ہمارے آنگن میں دھوپ پھیل گئی ہے اور مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے۔ اُٹھو ناشتہ بناؤ نا۔‘‘

’’تو دودھ سے پاپے کھا لے۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی۔

پھر ستارہ اپنے باپ کے پاس آ گئی۔ ’’ابا اُٹھو۔ ہم دونوں ناشتہ کریں گے۔ میں چائے بنا لوں گی۔ مجھے چائے بنانا آ گئی ہے۔‘‘ اس کے آواز دینے پر بھی بُڈھا یوں ہی بے سُدھ پڑا رہا تب اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنا شروع کر دیا۔ ’’اُٹھو ابا، صبح ہو گئی ہے۔ آخر کب تک سوؤگے؟‘‘ پھر وہ اپنے باپ کا چہرہ بغور دیکھنے لگی۔ ’’ابا تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘ وہ تقریباً رونے لگی تھی۔ ’’اماں ، اماں ، اُٹھو دیکھو ابا کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘

وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر بھاگ کر اس کی کھاٹ کے پاس آ گئی۔ اس نے نبض دیکھی۔ دل کی دھڑکن سنی، پھر اس کے ہاتھ پیر سیدھے کیے اور ستارہ کے ساتھ مل کر دھاڑیں مارنے لگی۔ ’’ہائے میں مر گئی، ہائے میں برباد ہو گئی، میرا گھر والا چلا گیا۔‘‘

ان کے رونے پیٹنے کی آوازوں سے محلے والے جمع ہو گئے تھے۔ رئیس قوال بھی آ گیا تھا۔ ’’کیا ہوا، کیا ہوا، کس طرح مرا؟‘‘ کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔

تھوڑی ہی دیر میں اپنے پرائے، عزیز و اقارب سب جمع ہو گئے تھے۔

’’ارے اس کا بدن تو نیلا ہو رہا ہے؟‘‘ لوگوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں آنکھوں میں دیکھا۔ ’’شاید اسے کسی نے کچھ کھلا دیا ہے۔‘‘ ’’لیکن کون کھلا سکتا ہے؟‘‘ رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ کسی نے کہا ۔ ’’پولیس کو اطلاع کر دو، ابھی پتا چل جائے گا‘‘ ’’لیکن کون اطلاع کرے گا؟ پولیس کچہری کے چکر کون کاٹے گا، نا بابا نا!‘‘ کئی آوازیں اُبھریں اور پھر رونے دھونے کے شور میں ڈوب گئیں ۔ لوگ لاش کو نہلا دھُلا کر دفنانے کے لیے لے گئے۔

سوئم والے دن محلے کی کچھ عورتوں نے اسے مشورہ دیا کہ عدت کے بعد وہ فوراً نکاح کر لے چونکہ اس کی وجہ سے پوری بستی پر نحوست پھیل گئی ہے۔ وہ خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی۔ کچھ لوگ اسے بستی سے نکالنا چاہتے تھے، کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ سیدھا سیدھا قتل کا کیس ہے، اسے پولیس کے حوالے کر دو۔

اس سے پہلے کہ بستی والے کوئی قدم اُٹھاتے ایک رات اس نے بالکل خاموشی سے گھر چھوڑ دیا۔ اس کے گھر چھوڑنے کے چند ہی روز بعد رئیس قوال بھی اپنی کل کائنات ایک صندوق اور ایک ہارمونیم کے ساتھ غائب ہو گیا۔

اپنے منصوبے کے مطابق وہ نئے محلے میں آباد ہو گئے تھے۔ چند ماہ بعد ہی صغرا کے ہاں چاند سا بیٹا پیدا ہوا۔ بچے کی پیدائش پر دونوں خوشی سے جھوم رہے تھے۔ ستارہ بھی خوش تھی چونکہ اس نے حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا۔

ایک رات جب بچے سو گئے تو وہ دبے قدموں رئیس کے پاس آئی اور بولی۔ ’’سورہے ہو کیا؟‘‘

’’نہیں ، جاگ رہا ہوں ۔ نیند مقدر میں کہاں !‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا۔

’’ہاں میں محسوس کر رہی ہوں ، کچھ دن سے تم پریشان نظر آرہے ہو لیکن پریشان میں بھی ہوں ۔‘‘

’’تجھے کیا پریشانی ہے۔‘‘ رئیس قوال کی جھنجھلاہٹ بدستور برقرار تھی۔

’’دیکھو رئیس، تم ناراض نہ ہونا۔ اس طرح ہم گناہ کی زندگی کب تک گزارتے رہیں گے۔ آخر نکاح کرنے میں کیا ہرج ہے؟‘‘

’’کوئی ہرج نہیں ۔‘‘ اس نے اپنے لہجے کی گرمی کو نرمی میں بدل دیا تھا۔ پھر صغرا کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔ ’’صغرا، تُو نے ایک بار کہا تھا کہ زندگی میں تو مجھ سے کبھی بھی کچھ مانگے گا تو میں انکار نہیں کروں گی۔‘‘

’’تُو مانگ کر تو دیکھ۔ صغرا تجھ پر اپنا تن من قربان کر دے گی۔‘‘ صغرا نے پُر جوش لہجے میں کہا اور اپنا سر اس کے کاندھے پر ٹکا دیا۔

’’دیکھ، سوچ لے۔ ناراض نہ ہونا۔‘‘ رئیس نے خوشامدانہ لہجے میں بات جاری رکھی۔ ’’دیکھ، تجھے بچے کی خواہش تھی وہ تجھے مل گیا۔ میری خواہش یہ ہے کہ تو ستارہ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے۔ اس طرح نکاح بھی ہو جائے گا۔ تجھ سے نہ سہی، تیری بیٹی سے سہی۔ آخر تو کہیں نہ کہیں تو شادی کرے گی نا۔ تو پھر میں کیوں نہیں ؟ اس طرح ہم سب ساتھ رہ سکتے ہیں ۔‘‘

صغرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ رئیس کی باتیں سن کر وہ پتھر کی ہو گئی تھی۔ بقیہ رات اس نے سوچ کر گزاری کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔

صبح ہوتے ہی رئیس کے جانے کے بعد اس نے ستارہ کا ہاتھ پکڑا اور گھر سے نکل گئی۔ بہت جلد وہ اپنے پرانے محلے کی ایک دکان پر کھڑی تھی۔ اسے جلد ہی لیاقت علی نظر آ گیا تھا۔

’’ارے خالہ، تم!‘‘ پھر وہ دونوں کو اپنے گھر لے آیا۔

صغرا نے اپنی پوری بپتا سنا ڈالی اور کہا۔ ’’بس اب تم فوراً ستارہ سے نکاح کر لو۔ چونکہ ایک بار تم نے خود ستارہ سے رشتے کی بات کی تھی اور آج میں خود چلی آئی ہوں ۔‘‘

لیاقت علی پہلے تو بہت پریشان ہوا اور سر جھُکا کر اپنے مرحوم ماں باپ کو یاد کر کے رونے لگا۔ ستارہ نے بھی تمام باتیں سن لی تھیں اور وہ حیران و پریشان ہو کر دونوں کو دیکھ رہی تھی۔

لیاقت علی کچھ دیر سوچتا رہا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھا اور ستارہ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے معصوم چہرے پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے بولا۔ ’’یہ مجھے شروع ہی سے پسند تھی۔ ہم دونوں ایک ساتھ کھیل کود کر جوان ہوئے ہیں ۔ میں ستارہ سے ضرور شادی کروں گا۔ ابھی اور اسی وقت۔‘‘

ستارہ کے چہرے پر خوشیوں کے گلاب مہکنے لگے تھے۔ اس کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔

دونوں نے ایک گھنٹے کی بھاگ دوڑ کے بعد نکاح کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں اور چند ہی گھنٹوں میں ستارہ لیاقت علی کی ہو گئی تھی۔ نکاح کے بعد لیاقت علی ستارہ کو کسی بھی قیمت میں صغرا کے ساتھ بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن صغرا نے کہا کہ میں نکاح کو فی الحال راز میں رکھنا چاہتی ہوں ۔ تم فکر نہ کرو میں تمہاری امانت کی حفاظت کروں گی۔ خواہ مجھے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔

شام کو جب رئیس قوال واپس گھر آیا تو صغرا بے حد پُرسکون اور خوش تھی۔ اس نے بہت عرصہ بعد گلابی ریشمیں جوڑا اور گوٹے والا دوپٹہ اوڑھا تھا۔ رئیس نے اسے بنا ٹھنا اور خوش دیکھ کر کہا۔

’’صغرا تُو نے شاید میری بات مان لی ہے۔ واقعی تو بہت اچھی اور سمجھ دار ہے۔ مجھے تجھ سے یہی امید تھی۔ آج تُو نے میری امیدوں اور خواہشوں میں خوشیوں کا رنگ بھر دیا ہے۔‘‘

ابھی وہ صغرا سے اظہارِ تشکر کے لیے نہ جانے کیا کیا کہتا کہ اچانک کمرے سے ستارہ نکل آئی۔ وہ ستارہ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے سیاہ لمبے بال اس کے شانوں پر پڑے تھے۔ چہرے پر ہلکا سا میک اپ بھی تھا، اور اس کے رخساروں پر حیا کی لالی بکھری ہوئی تھی۔ رئیس بے یقینی کی حالت میں دونوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ دونوں اتنی آسانی سے مان جائیں گی یہ تو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔

ستارہ کو کمرے میں جاتے دیکھ کر وہ بے قرار ہو کر اس کے پیچھے بھاگا۔

’’صبر، صبر۔‘‘ صغرا نے آواز لگائی۔ پھر اٹھلا کر بولی۔ ’’چند دنوں کی تو بات ہے راجا!‘‘

رئیس کچھ شرمندہ سا ہو گیا تھا۔ ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ’’غلطی ہو گئی سرکار۔‘‘

’’کوئی بات نہیں ۔ زندگی میں تو غلطیاں ہوتی ہی رہتی ہیں ۔‘‘ اس نے پُرسکون لہجے میں جواب دیا۔

رات کو جب سب لوگ سوگئے تب وہ دبے قدموں اسٹور میں گئی اور اس تکیے کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگی جسے چند دن پہلے رئیس خرید کر لایا تھا۔ یہ وہی تکیہ تھا جسے دیکھ کر نہ جانے کیوں اسے اپنی سانسیں رُکتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں ۔ اور اسے وہ باتیں بھی یاد آئی تھیں جو رئیس نے تکیے کے حوالے سے بتاتی تھیں ۔ وہ رئیس کی باتیں سن کر کبھی ہنسی تھی اور کبھی حیران و پریشان ہوئی تھی۔ اور پھر اس نے تکیے کو ہاتھ میں لے کر کہا تھا کہ یہ چھوٹا سا روئی کا تکیہ اس قدر کمال کی چیز ہے۔

رئیس کا جُملہ اس کے کانوں میں گونجا تھا۔ ’’تکیے کا نسخہ میرا آزمودہ ہے۔‘‘

وہ ماضی سے جلد ہی نکل آئی اور تکیہ لے کر رات کے گھپ اندھیرے میں نہ جانے کہاں غائب ہو گئی۔

جب وہ بستر پر آ کر لیٹی تو رات مزید تاریک اور ڈراؤنی ہو گئی تھی۔ اس کے چہرے پر زہریلی ہنسی بکھری ہوئی تھی۔ اس کی ناک کی کیل کا سُرخ نگینہ سگنل کی طرح جل اور بجھ رہا تھا۔ اس کی سیاہ رنگت پر سفید اور سرخی مائل دانت بہت ڈراؤنے لگ رہے تھے۔

رات اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹی۔ آسمان پر چمکنے والے ستارے صبح کی آمد کا پتا دے رہے تھے۔ اب صبح ہونے والی ہے۔ لوگوں کے لیے صبح مختلف پیغام لاتی ہے۔ یہ صبح میرے لیے خوشی اور زندگی کا پیغام لائی ہے۔ وہ مسکرانے لگی اور نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔

ستارہ، منا، رئیس اور وہ خود دیر تک سوتے رہے۔ حتیٰ کہ سورج کی کرنیں اس کے آنگن میں پھیل گئیں ۔ تب وہ بستر سے اُٹھی اور سیدھی رئیس کے پاس جا کر اسے آوازیں دینے لگی۔

’’اُٹھو راجا۔ صبح ہو گئی ہے۔ تمہیں تو نکاح کی بھی تیاری کرنی ہے۔‘‘ اس نے راز داری سے رئیس کے کان میں کہا۔ ’’ارے اُٹھو نا، کیوں نخرے دکھا رہے ہو!‘‘

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگی۔ ’’ارے، یہ تمہیں کیا ہوا؟ اُٹھتے کیوں نہیں ؟ ارے کیا تم بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے؟‘‘

پھر وہ چیخیں مار مار کر رونے لگی۔ ’’ہائے میں لُٹ گئی۔ ہائے میں تباہ ہو گئی، میرا سجن چلا گیا۔۔۔‘‘

اس کے رونے پیٹنے کی آواز سے ستارہ اور منا بھی اُٹھ گئے تھے اور اب وہ تینوں دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔

٭٭٭

 

کیش

ظفر اس وقت بھی برگد کے تناور درخت کی چھاؤں میں آ کر بیٹھ گیا تھا، چونکہ اس محلے میں سب سے زیادہ پُرسکون جگہ یہ ہی تھی، گلیوں میں سیوریج کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے گندا پانی پتلی پتلی نالیوں میں بہتا رہتا، جس کی وجہ سے محلے میں بدبو سی بس گئی تھی اور پھر پھیری والوں کا شور، ملگجے پردوں کی اوٹ سے جھانکتی ہوئی عورتوں کا تول بھاؤ کرنا، بچوں کا کانچ کی گولیاں کھیلنا اور ہار جیت پر لڑائی جھگڑا روز کا معمول بن گیا تھا۔

ظفر اس کے دوست اس قسم کے ماحول سے دُور ہی رہتے اور سایہ دار شجر تلے آ کر فارغ وقت میں ضرور بیٹھتے اور اپنے ذاتی و معاشرتی مسائل پر بحث و تکرار کیا کرتے۔

ظفر معمول سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے ہی آ گیا تھا اور کوئلے سے چکنی زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ اس کا ہاتھ اور دماغ دونوں ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔

کاش بابو جی نہ مرتے، اور میری ماں مجید بنگالی سے شادی نہ کرتی تو اس کا کیا بگڑ جاتا، لیکن شاید وہ بھی مجبور تھیں کہ ہم سب بہن بھائی چھوٹے چھوٹے تھے، رفیق صرف تین سال کا پولیو کا مریض، منجھلے بھیا کو دمہ تھا۔ اماں ان دونوں کا بے حد خیال رکھتی تھیں ، منجھلے بھیا کے سامنے ہم ٹافی، گولا گنڈا، کٹارے وغیرہ کچھ نہیں کھا سکتے تھے۔ ڈاکٹر نے اماں کو اور اماں نے ہمیں سختی سے منع کر رکھا تھا۔ اماں نے علاج اور پرہیز میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی، اس کی وجہ سے بابو جی کی آمدنی بھی ٹھیک ٹھاک تھی، سردی، عید، بقر عید، کے موقعوں پر تو بابوجی کی دُکان خوب چلتی، لوگ پینٹ کوٹ، واسکٹ اور شیروانی سلوانے دُور دُور سے آیا کرتے۔بابو جی کا نام اور کام دونوں مشہور ہو گئے تھے بقول بابو جی کے انھوں نے کبھی اپنے گاہک کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ بابو جی ان دنوں ہم سب کے لیے مزے مزے کی چیزیں لے کر آتے، ہم ہر ہفتے رات نو سے بارہ والا شو بھی دیکھتے۔ بابو جی میری پڑھائی پر بھی توجہ دیتے، البتہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف تھے، اسی لیے دونوں آپا صرف پانچ پانچ جماعتیں پڑھ سکی تھیں وہ بھی اماں کی ضد کی وجہ سے۔

مجید بنگالی جو اب اماں کا خصم بن چکا تھا۔ بابو جی کی زندگی میں بھی ہمارے گھر پابندی سے آیا کرتا تھا، اس کا بابو جی سے گہرا یارانہ جو تھا۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتا ہمارے لیے بسکٹ، گزک، مونگ پھلی لانا نہ بھولتا۔ اسی لیے وہ ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ بیٹھک میں بیٹھا گھنٹوں دُنیا جہاں کی باتیں کیا کرتا۔ اماں چھالیہ کاٹتی جاتیں مجید چاچا اور بابو جی کو پان بنا بنا کر دیتی رہتیں بابو جی اکثر مجید چاچا سے کہتے۔

’’یار مجید اپنی بھابھی کے ساتھ ہسپتال چلا جائیو رفیق کی ٹانگوں کی سکائی کرانی ہے، کیا کروں آج کل وقت نہیں نکال پا رہا ہوں ‘‘ میں ان لوگوں کی باتیں سنا کرتا، وہ باتوں کے دوران مجھے پڑھائی کی تاکید بھی کرتے۔

’’دیکھ ظفر تجھے ٹیلر ماسٹر نہیں بلکہ بڑا افسر بننا ہے۔ دل لگا کر پڑھیو‘‘

’’جی بابو جی میں ضرور بڑا افسر بنوں گا‘‘

’’شاباش!‘‘ وہ میری پیٹھ ٹھونکتے۔

ابھی وہ نہ جانے کتنی دیر سوچوں کی حصار میں رہتا کہ احسان آ گیا۔ ’’یار ظفر مجھے جس بنگلے میں کام ملا ہے نا۔ یہ لوگ بڑے ہی اچھے لوگ ہیں ، لیکن ایک بات دیکھنے میں آئی ہے جہاں لوگ کم ہیں وہاں پیسہ زیادہ ہے اور جن گھروں میں انسانوں کا منگل بازار لگا ہے وہاں پیسہ غائب، ایک بات اور ہے جو میری سمجھ سے باہر ہے، آخر اﷲ تعالیٰ غریبوں کے گھر اس قدر اولاد کیوں دیتا ہے؟‘‘

’’اصل میں یہ لوگ کسی بھی کام میں منصوبہ بندی نہیں کرتے ہیں اسی لیے ہر کام میں برکت زیادہ ہے اولاد، بیماری، غربت ظفر نے قہقہہ لگا کر کہا۔

خیر جانے دے میں کہہ رہا تھا، صاحب اور بیگم صاحبہ بہت اچھے ہیں اور چھوٹی بی بی کا تو جواب ہی نہیں ۔ یار ظفر چھوٹی بی بی غضب کی حسین ہیں ۔ ان کے بال اتنے لمبے کہ بس، اور شکل؟ میں کس کی مثال دوں ؟‘‘ ریما کی طرح ہے ‘‘ظفر جلدی سے بولا۔

’’ابے چپ، خبردار جو ریما سے ملایا ہو، کہاں ریما اور کہاں چھوٹی بی بی؟ بس یوں سمجھ لے پری ہیں پری۔‘‘

’’یار! تو جن پریوں کے چکر میں نہ پڑ، ورنہ پہلے کی طرح نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔‘‘

’’نہیں یار! احسان نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ باپ کسم اس بار تو بہت خیال رکھوں گا۔ ماں کو جب سے ٹی بی ہوئی ہے نا، میں نہیں چاہتا کہ میری ماں کو میری وجہ سے کوئی دُکھ ملے، ہاں البتہ چپکے چپکے دیکھ لیتا ہوں ۔ ایک دن چھوٹی بی بی شادی میں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں ، ان کے بیڈ روم کی کھڑکی لان میں کھلتی ہے، بس میں لان میں بھاگا اور پردے کی جھری میں آنکھ لگا دی۔ باپ کسم کیا منظر تھا، بے ہوش ہوتے ہوتے بچا ہوں ۔ کھلے بالوں چوڑی دار پاجامے اور دوپٹے کے بغیر وہ غضب ڈھا رہی تھی۔‘‘

’’یاد کر! ان ہی حرکتوں کی وجہ سے تو پہلے بھی نکالا گیا تھا ‘‘ظفر نے اسے خبردار کرنا چاہا۔

’’یار! غلطی میری نہیں تھی، انھوں نے مجھے خواہ مخواہ یہ کہہ کر نکال دیا کہ یہ میری بیٹی کو سارا دن تکتا رہتا ہے، ایک تو سولہ سنگھار کر کے غیر مردوں کے سامنے آ جاتی ہیں ، پھر دل والے جی بھر کر دیکھیں بھی نہیں ، یہ تو بڑا ظلم ہے نا، لیکن اب مجھے عقل آ گئی ہے۔‘‘

’’کس بات کی عقل‘‘ پیڑ دونوں کے قریب آتا ہوا بولا۔

یار سجن! اتنی دیر لگا دی، وہ دونوں پیڑ کو سجن ہی کہہ کر پکارتے تھے۔

’’کیا کرتا یاروں ! وہ سسٹر مریم ہے نا، اس کو آج جلدی گھر جانا تھا اس کی ڈیوٹی بھی مجھے کرنی پڑی، اس کی بھابھی ’’میری‘‘ کو بیٹا ہوا ہے، آج شام کو بپتسما ہے، پادری ولیم آرہا ہے، مجھے بھی دعوت دی ہے، تم لوگوں نے کھانا تو نہیں کھایا ہو گا؟ چلو پہلے کھانا کھاتے ہیں ‘‘

وہ تینوں ہوٹل کی طرف چل دیے، یہ ان کی بستی کا ہوٹل تھا چٹائی کی چار دیواری پر مشتمل یہ ہوٹل سمندر خان کا تھا، جو حال ہی میں افغانستان سے آیا تھا، بچوں کے پوچھنے پر بڑے فخر سے کہتا، ہاں ہم نے اسامہ کو دیکھا ہے وہ پہاڑوں پر گھومتا ہے امریکا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے، ہم سب اس کے ساتھ ہیں ، اس نے اسامہ کی تصویر کا بڑا سا پوسٹر بھی لگایا ہوا تھا، وہ جنگ کے قصّے بھی سناتا اور بڑے فخر سے سینہ پھلا کر کہتا ہم لوگ موت سے نہیں ڈرتے، موت ہم سے ڈرتی ہے۔‘‘

کھانا کھاتے کھاتے اچانک پیڑ بولا، ’’یار ظفر تم نے اماں کو ڈاکٹر کو دکھایا؟‘‘

’’ہاں دکھایا تو ہے، ڈاکٹر نے ٹیسٹ اور ایکسرے لکھ کر دیے ہیں ۔‘‘

’’تو کروا لے دیر کس بات کی ہے؟‘‘

’’یار وہ چاچا اماں کو اس حالت میں نہ جانے کہاں چھوڑ کر چلا گیا ہے؟ مالک مکان نے الگ پریشان کر رکھا ہے۔ بابو جی کی دُکان پر ان کے کاریگر اسماعیل نے قبضہ کر لیا ہے نہ دُکان خالی کرتا ہے اور نہ کرایہ دیتا ہے

’’سیدھا سادھا پولیس کیس ہے‘‘ احسان آنکھیں نکالتا ہوا بولا۔

’’ابے بھائی! پولیس کے لفڑے میں نہیں پڑنے کا بس خالی تڑی لگانے کا ہے اور بس۔‘‘

’’ہاں یہ بات ٹھیک کہہ رہا ہے‘‘ ظفر نے پیڑ کی بات کی تائید کی۔

’’چھوٹی آپا کا رشتہ آیا ہوا ہے، وہ لوگ منگنی کی تاریخ مانگ رہے ہیں کہاں سے کروں پیسے کا انتظام۔؟ میرا تو خیال ہے کہ چاچا گھر کے خرچ سے بچ رہا ہے۔ بس کے اڈے پر بھی نہیں ملا، فیکٹری بھی نہیں جا رہا ہے۔ اماں نے گھر کے خرچ کی وجہ سے تو اس سے شادی کی تھی اماں اکثر کہتی ہیں کہاں تمھارے بابو جی اور کہاں یہ بنگالی؟ بس مجبوریاں انسان سے وہ کام کروا لیتی ہیں جو وہ کرنا نہیں چاہتا‘‘ ظفر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے؟ یار تو کیوں دل چھوٹا کرتا ہے، میں اور سجن ہیں نا۔

 بس دس روز کی بات ہے، جب مجھے تنخواہ مل جائے گی۔ کھانا، کپڑا تو میرا اور اماں کا مفت ہے، بیگم صاحبہ اماں کا علاج بھی کروا رہی ہیں ، میں اماں کو بیگم ساب ملوانے لے گیا تھا، انھوں نے ڈاکٹر کو بھی دکھایا اور ڈرائیور سے کہہ کر گھر بھی چھڑوا دیا۔‘‘ باپ کسم بہت اچھے لوگ ہیں ، بس آدھی تنخواہ تم رکھ لینا۔‘‘

’’ابھی اپن کو بھی پگار ملنے والی ہے، پھر بونس بھی ملے گا۔ مجھ سے جو کچھ ہو گا، اپنے دوست کے واسطے کروں گا۔‘‘

’’تو منگنی کی تیاری کر، کل اماں کو میرے ہسپتال لے آنا، میں فری ٹیسٹ اور ایکسرے کروا دوں گا۔‘‘

تم دونوں کا میں بہت شکر گزار ہوں ، ظفر نے دھیمے سے کہا۔

کھانا کھانے کے بعد وہ تینوں اپنے اپنے راستوں کو روانہ ہو گئے۔ پیڑ نے کرسمس کے لیے کپڑے، کھلونے اور مٹھائی خریدی پھر گھر جا کر اپنی اماں کے ساتھ مل کر کرسمس ٹری کو سجایا گھر اور گھر کے باہر جھنڈیاں لگائیں تھوڑی دیر میں اس کا باپ جوزف آ گیا اور وہ سب مل کر کرسمس کی تیاریاں کرنے لگے۔

ظفر گھر پہنچا تو اس کی ماں کی طبیعت زیادہ بگڑ چکی تھی۔ وہ فوراً اسے لے کر ہسپتال پہنچا ایکسرے اور بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ نے اس کی زندگی میں دھماکا کر دیا تھا، وہ پوری رات جاگا تھا چونکہ صبح اسے سرکاری ہسپتال میں داخل کرانا تھا، دونوں بہنیں جلدی ہی اُٹھ گئی تھیں اور ہسپتال میں جو چیزیں درکار ہوتی ہیں ان سب چیزوں کو چمڑے کے بیگ میں ڈال رہی تھیں ۔

اس نے اپنی ماں کو غور سے دیکھا، اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا، وزن گھٹ گیا تھا اور سر کے بال جھڑ گئے تھے اور چاند نظر آنے لگی تھی، گنتی کے چند بال بچے تھے جنھیں وہ لپیٹ کر جوڑا بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔

ہسپتال میں اماں کو تقریباً ایک ہی ہفتے تک ہسپتال والوں نے رکھا اور پھر ظفر کو بلا کر کہا تمھاری اماں زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی مہمان ہے، جتنی خدمت کر سکو کر لو اور بہتر یہی ہے کہ انھیں گھر لے جاؤ، دوائیں پابندی سے کھلاتے رہنا، ڈاکٹر کے انکشاف کے بعد اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ہو گیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے، اس کے باپ کے انتقال کے بعد ماں ہی تو اس کے سر پر سائبان کی طرح تھی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اسے چکر سا آ گیا، اگر احسان اور پیڑ اسے سہارا نہ دیتے تو یقیناً وہ منہ کے بل زمین پر گرتا۔

ایک رات جب کہ وہ بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا کہ دروازے کی دستک نے اسے چونکا دیا، اس نے پھُرتی سے دروازہ کھولا، سامنے دیکھا تو پیڑ کھڑا تھا، وہ باہر نکل گیا وہ باتیں کرتے ہوئے اس ہی جگہ پہنچ گئے جہاں قبرستان سے ملحق پیپل کا تناور درخت کھڑا تھا۔ چاند کی مدھم مدھم روشنی اور گہرے سناٹے نے ماحول کو بے حد ڈراؤنا اور پُراسرار سا بنا دیا تھا۔

پیڑ ظفر کے قریب ہوتے ہوئے راز داری سے بولا،

’’یار! ایک خاص بات کرنی تھی، اسی لیے اس وقت کا انتخاب کیا ہے۔‘‘

’’خیر تو ہے؟‘‘ ظفر نے سہمتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ہاں سب خیر ہے جو بات میں تم سے کرنے آیا ہوں ، اسے غور سے سننا اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔‘‘

’’اب بتا بھی دو‘‘، وہ بے چین سا ہو گیا۔

’’دیکھو ظفر! بات یہ ہے کہ تمھاری ماں جو کہ میری بھی ماں کے برابر ہے سخت بیمار اور بقول ڈاکٹر کے چند ماہ کی مہمان ہے، نہ جانے کب ان کی آنکھیں بند ہو جائیں ، ماں کے مرنے کے بعد تمھارے اطراف میں اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘

’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ ظفر کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ ہچکیوں سے رونے لگا۔ ’’ٹھیک ہے تم رولو‘‘ دو منٹ خاموش رہنے کے بعد وہ ہولے سے بولا ’’ماں کے مرنے کے بعد تمھیں بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جب کہ نہ تمھاری تعلیم مکمل ہے اور نہ تمھارے پاس کوئی معقول ملازمت ان حالات میں بہنوں کی شادیاں ، بھائیوں کا علاج، مکان کا کرایہ، کہاں سے پیسہ آئے گا؟ بھیک تو مانگنے سے رہے، حالات سنورنے میں کم از کم دس پندرہ سال لگیں گے، اتنے عرصے میں تمھاری بہنیں بڑھاپے کی دہلیز پر چڑھ چکی ہوں گی۔‘‘

’’بات یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے میرے پاس ایک ترکیب ہے، میرا ایک دوست انتھونی ہے، جو بیمہ کمپنی میں ملازم ہے، وہ ماں کی زندگی کا انشورنس کر لے گا اور ہیلتھ سرٹیفکیٹ میں بنوا دوں گا، کام تھوڑا خطرے کا ہے، تم سمجھ رہے ہونا؟ بس ان دونوں کی مُٹھی گرم کرنا پڑے گی، وہ بھی اس وقت جب تمھیں رقم مل جائے گی۔ یہ رقم اتنی ہو گی تمھارے تمام مسائل آسانی سے حل ہو جائیں گے۔‘‘

’’لیکن اس کا مطلب تو یہ ہے کہ میں اپنی ماں کو۔۔۔‘‘ اس سے آگے وہ کچھ نہ بول سکا۔

’’میں تمھاری ذہنی حالت کو سمجھ رہا ہوں ‘‘پیڑ نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا ’’لیکن میرے دوست! کیا کیا جائے یہ حالات اور وقت کا تقاضا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں جو تمھاری ڈوبتی ناؤ کو ترا سکے، تم اچھی طرح غور کر لو، سوچ لو اگر میرا مشورہ قابل قبول لگے تو میرے ہسپتال آ جانا۔‘‘

پیڑ تو رخصت ہو گیا، لیکن وہ گھر پہنچ کر پوری رات بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ اسی سوچ و بچار میں کئی دن گزر گئے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر سکا۔

ایک دن وہ صبح ہی اُٹھا نماز فجر ادا کی، ناشتہ کرنے کے بعد وہ گھر سے باہر نکل گیا، گھنٹوں انجانے راستوں پر یوں ہی چہل قدمی کرتا رہا۔ نہ جانے کون سے راستے پر اس کے قدم پڑے کہ وہ تھوڑی دیر بعد پیڑ کے ہسپتال میں موجود تھا۔

پیڑ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور پھر اس نے کچھ ضروری کام انجام دیے، تھوڑی دیر بعد وہ ایک ہوٹل میں موجود تھے، سامنے انتھونی کاغذات لیے بیٹھا تھا۔

انتھونی نے انشورنس کے کاغذات اس کی طرف بڑھا دیے، پیٹر نے سائن کی جگہوں کی نشان دہی کر دی، سائن کرتے ہوئے نہ جانے اس کے سامنے ماں کی قبر کیسے آ گئی؟ اس کی آنکھوں سے کئی آنسو گرے اور مٹی میں جذب ہو گئے۔

٭٭٭

 

چنگاری

شرفو آنگن میں بیٹھا چھریوں کی دھار تیز کر رہا ہے ، رسوئی سے مسالہ بھننے کی خوشبو اور آواز ایک ساتھ آ رہی ہے، تھوڑے سے فاصلے پر مرغی اور اس کے بچے کچی زمین سے نہ جانے کیا الا بلا چیزیں اٹھا اٹھا کر کھا رہے ہیں ، قریب ہی سیاہ رنگ کی گیابھن بکری بندھی ہے، پاس ہی اس کے چارہ اور مٹی کے کونڈے میں پانی رکھا ہے، بچیاں سپارہ پڑھنے گئی ہوئی ہیں ، حسینہ باورچی خانے سے دوپٹے کے پلو سے پسینہ پونچھتی ہوئی شرفو کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

’’ارے! تجھے یہ پتھر کہاں سے مل گیا؟‘‘ وہ سفید ماربل کے ٹکڑے کو دیکھ کر خوشی اور حیرت کا اظہار کرتی ہے۔

’’ملے گا کہاں سے، ڈھونڈا ہے، جہاں پکے مکانات بنتے ہیں نا، وہاں ایسے پتھر آسانی سے مل جاتے ہیں ۔‘‘

’’اچھا! تو شہر میں آ کر زیادہ ہوشیار نہیں ہو گیا ہے‘‘ حسینہ نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا، شرفو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’بھابھی تو کتنی اچھی ہے۔‘‘

’’اچھا، اچھا، بس کام کر، زیادہ مکھن نہ لگا، اچھا ہوا جو تُو نے چھُریاں تیز کر لیں ، وقت ضرورت پر کام آئیں گی، اور ہاں آج چھنو کو آ جانے دو، آج ہی معاملہ صاف کر لوں گی، پھر صبح سکون سے کام نمٹاؤں گی۔‘‘

حسینہ کا میاں رکشہ ڈرائیور ہے، اس کی شادی کو دس سال گزر گئے ہیں لیکن وہ اپنی بیوی سے اس طرح محبت کرتا ہے، جس طرح لوگ شادی کے شروع میں نوبیاہتا کے ناز نخرے اُٹھاتے ہیں ، وہ اس کے لیے رنگ برنگے پراندے، سرخی پاؤڈر، غازہ، مینے والی چوڑیاں ، مہندی، جالی والی سرخ بنیان اور ریشمیں رومال پابندی سے لے کر آتا ہے۔ اسے اکثر رکشے میں بٹھا کر فلم دکھانے اور کھانا کھلانے ہوٹل میں لے جاتا ہے، واپسی پر اگر اس کی بیوی پاکولا اور میٹھے پان کی فرمائش کر دے تو اسی وقت اس کی فرمائش پوری کرنا ضروری خیال کرتا ہے۔ چھنو کی دو بیٹیاں ہیں ، ایک کا نام انیلہ اور دوسری کا شہنیلہ ہے، دونوں کی عمریں سات اور پانچ سال ہیں ، وہ جب تھکا ماندہ گھر لوٹتا ہے تو سب سے پہلے اپنی بچیوں کو سینے سے لگا کر پیار کرتا ہے۔ کبھی کبھی نہلا دھلا کر کپڑے پہنا دیتا ہے، گھر کے کام کاج میں بھی بیوی کا ہاتھ بٹا دیتا ہے، لیکن کچھ دن سے اس کے گھر میں بھونچال آ گیا ہے، جس کی وجہ سے ہر چیز تہہ و بالا ہو گئی ہے، تقریباً ڈیڑھ دو ماہ سے اس کا چھوٹا بھائی شرفو گاؤں سے آ گیا ہے، وہ اپنی بھابھی سے بے حد محبت کرتا ہے، جو کام چھنو کے ذمے تھے وہ تمام کام اب وہ خود انجام دیتا ہے۔ وہ اپنی بھابھی کے لیے پراندے سے لے کر پان اور گانوں کے کیسٹ تک لے آتا ہے۔

چھنو کو شروع شروع میں تو یہ سب کچھ اچھا لگا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے اسے اب نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہونے لگا ہے، جیسے اس کی بیوی نے اس کی طرف توجہ دینی کم کر دی ہے، وہ جب بھی گھر لوٹتا ہے تو اس کے سامنے چنگیر میں روٹی اور سالن کی پلیٹ لا کر رکھ دیتی ہے اور پھر ایک آدھ رسمی سا جملہ کہہ کر چلی جاتی ہے۔ آج بھی اس نے یہی کیا ہولے سے بولی۔

’’شہر کے حالات تو ٹھیک ہیں نا، میں تیرے لیے دل ہی دل میں دُعا کرتی ہوں …‘‘

’’کہ میں مر جاؤں اور تو اپنے عاشق سے بیاہ رچا لے‘‘ اس نے حسینہ کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی پیش گوئی کر دی۔

’’پاگل ہوا ہے کیا تُو، تُو نے پہلے تو کبھی ایسی گالی نہیں دی۔‘‘

’’تُو دیکھنے میں جتنی معصوم نظر آتی ہے، اتنی ہے نہیں ‘‘ اتنی دیر میں شرفو آ کر حسینہ کے برابر میں بیٹھ جاتا ہے، اور جیب سے پان نکال کر حسینہ کی طرف بڑھاتا ہے۔

’’بھائی تم کھاؤ گے؟‘‘

’’نہیں ، میرے لیے تو، تُو زہر لادے‘‘

وہ کھانا چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے، صحن سے رکشہ نکال کر اسٹارٹ کر دیتا ہے۔

’’بابا! ایک چکر‘‘ دونوں بیٹیاں پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ ’’بیٹھو‘‘ دونوں کو  بسکٹ اور ٹافیاں دلا کر انھیں گھر چھوڑ دیتا۔

چھنو اور حسینہ ہر ماہ چاند کی گیارہ تاریخ کو نذر و نیاز دلاتے ہیں ، وہ دونوں گھر کی در و دیوار پر سفیدی کرتے ہیں ، ملتانی مٹی سے زمین کو لیپتے ہیں اور رسوئی کو چکنی مٹی سے لیپ پوت کر چمکا دیتے ہیں ۔ لیکن اس بار چھنو کی جگہ شرفو نے لے لی ہے۔ مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے سارا گھر مہک رہا ہے، چھنو تماشائی بنا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

ایک رات یوں ہوا کہ چھنو رات گئے تک گھر نہیں لوٹا، گھڑی کی دونوں سوئیوں کو ملتا دیکھ کر حسینہ بے قرار ہو کر دروازے کی طرف بھاگی، تھوڑی دیر بعد رکشے کی بھڑبھڑاہٹ سنائی دینے لگی، حسینہ نے سکھ کا سانس لیا۔ آواز سن کر شرفو بھی باہر آ گیا۔

چھنو رکشے سے نکلا اور دونوں پر قہر آلود نگاہ ڈالتا ہوا کمرے میں چلا گیا۔

حسینہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑی، ’’بڑی دیر لگا دی، ایمان سے طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔‘‘

وہ منمنائی۔

ایک لمحے کے لیے چھنو کا دل چاہا کہ اسے بڑھ کر گلے لگا لے، وہ اس کی طرف بڑھا، لیکن اس کے جسم سے خوشبو کا ایک ریلا آیا اور چھنو کی ناک میں داخل ہو گیا۔ ایک لمحے میں جنم لینے والی محبت دوسرے ہی لمحے میں دم توڑ گئی، اب وہ نفرت کی گہری کھائی میں دھنستا چلا جا رہا تھا۔

’’کھانا کھالو‘‘ حسینہ نے کھانے کی ٹرے چھنو کے سامنے رکھ دی۔

لے جا مجھے نہیں کھانا، چھنو نے ٹرے کو دُور کھسکا دیا۔

’’باہر کھا لیا کیا وہ بھی میرے بغیر؟‘‘

’’تو میرے بغیر کیا کیا کر رہی ہے، تُو نے کبھی سوچا؟‘‘

میں کچھ کروں تو سوچوں نا، حسینہ کھلے بالوں کا جوڑا بناتی ہوئی بولی۔

’’تُو اپنا گھر تباہ کر رہی ہے سمجھی۔‘‘

’’لگتا ہے، تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘‘

چھنو نے جواب میں گالیاں دینی شروع کر دیں ۔

وہ پلنگ سے اُٹھی اور کمرے سے نکل گئی اور صحن میں جا کر دھیمی آواز میں رونے لگی۔

’’کیا ہوا بھابھی، بھیا نے کچھ کہہ دیا کیا؟ بھیا کو تو ان دنوں نہ جانے کیا ہو گیا ہے؟ ہر دم غصّے میں رہتے ہیں ، تم خواہ مخواہ اپنی جان کیوں جلاتی ہو، ٹھہرو، میں تمھارے لیے پانی لاتا ہوں ، اور چھریاں بھی دکھاتا ہوں ، پتھر پر گھس گھس کر کس قدر تیز ہو گئی ہیں ۔‘‘

شرفو کٹورے میں پانی اور طاق پر رکھی ہوئی چھریاں اُٹھا کر لے آتا ہے۔ حسینہ دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھتی ہے، پھر چھریاں اُٹھا کر دھار پر آہستہ آہستہ انگلی پھیرنے لگتی ہے۔

’’یہ تو بہت تیز ہو گئی ہیں ، چل وقتِ ضرورت پر کام آ جائیں گی‘‘ ’’بھابھی پانی تو پی لو۔‘‘ شرفو نے پانی کا کٹورہ اس کے ہونٹوں میں لگا دیا۔

چھنو کمرے کے دروازے سے نکلتا ہے، ان دونوں کو دیکھ کر ٹھٹھک جاتا ہے۔ پھر گھڑونچی پر رکھے مٹھائی کے ڈبے اور چھریوں کو دیکھتا ہے۔

’’اوہ! تو معاملہ یہاں تک بڑھ گیا ہے‘‘ چھریوں کی چمکتی ہوئی دھار اسے اپنے جسم میں پیوست ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

حسینہ ہاتھ سے کٹورا ہٹا دیتی ہے۔

’’رہنے دے، مجھے پانی نہیں پینا، پانی سے سینے کی آگ تو نہیں بجھ سکتی ہے‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائی۔

’’ارے پی لے پانی دیکھ کر کس قدر پیار سے پلا رہا ہے، اری نامراد اتنی محبت تو شاید میں نے بھی تجھ سے نہ کی ہو گی‘‘ چھنو غصّے سے چیخا۔

’’میں بھابھی سے محبت نہیں کروں گا تو بھلا اور کون کرے گا۔ اماں ابا کی فوتگی کے بعد مجھے سب سے زیادہ پیار بھابھی نے ہی دیا ہے۔‘‘

’’میں نے سوچا ہے زمیں بیچ کر ادھر ہی آ جاؤں گا، اور کوئی دھندا ڈھونڈ لوں گا‘‘ شرفو چھنو کے جملے کی گیرائی کو نہ سمجھ سکا اور اپنی صفائی پیش کرنے لگا۔

’’بڑے بڑے خواب دیکھ رہا ہے تُو‘‘

’’بڑا جو ہو گیا ہوں ‘‘

وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے، جب ہی تو ، تو نے میری جگہ لے لی ہے۔ ’’بھیا! تم ہر بات کا غلط مطلب کیوں سمجھتے ہو‘‘۔؟

’’جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ غلط نہیں ہے ، وہ سب سچ ہے میری عورت تیری عورت بن گئی ہے ۔‘‘ چھنو درندے کی طرح آیا۔

’’شرم کرو،بھا بھی پر اتنا بڑا الزام نا لگاؤ‘‘ شرفو تن کر کھڑا ہو گیا ’’میں شرم کروں ،؟مجھے سبق سکھا رہا ہے۔‘‘ وہ آگے بڑھ کر زوردار طما نچہ رسید کرتا ہے۔

ارے!یہ تو نے کیا کیا ۔؟ حسینہ شرفو کا گال سہلانے لگی ۔ کیوں !مارا سے پڑی اور چوٹ تجھے لگی،’’یاری ہو تو ایسی ‘‘چھنو نے پاس کھڑی ہوئی حسینہ کو دھکا دیا ۔ وہ دور گری جا کر پھر ایک زور دار لات ماری۔

’’عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے، بزدل کہیں کا،‘‘ پھر وہ گری ہوئی حسینہ کو اٹھانے لگا۔

’’میں بزدل ہوں ‘‘ وہ شرفو پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کرتا ہے۔ چھنو کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ہے، اس پر جنونی کیفیت طاری ہے۔

ارے چھوڑ دے، اس بے چارے کی جان کیوں لے رہا ہے؟ حسینہ نے روتے ہوئے کہا۔

جان تو میں تم دونوں کی ہی لوں گا ایک کو مارنے سے کچھ فائدہ نہیں ، وہ پاس پڑی ہوئی چھری اُٹھا لیتا ہے۔ شرفو چھنو کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چھنو کی گرفت مضبوط ہے، وہ اسے جھٹکا دے کر گراتا ہے اور ایک لمحے میں ہی اس کا کام تمام کر دیتا ہے، پھر سہمی ہوئی حسینہ کی طرف بڑھتا ہے، وہ جان بچا کر کمرے میں بھاگتی ہے، لیکن چھنو خوف سے تھر تھر کانپتی ہوئی حسینہ کو قابو میں کر کے چاقو اس کے پیٹ میں اُتار دیتا ہے۔

پانچ منٹ بعد وہ غسل کرتا ہے۔ اور سوئی ہوئی بچیوں کو کاندھے پر لاد کر رکشے میں ڈال کر رکشہ اسٹارٹ کر دیتا ہے۔ سب سے پہلے خون آلود کپڑوں اور چھریوں کو ٹھکانے لگاتا ہے، پھر اپنے جگری دوست کے پاس بچیوں کو چھوڑ کر خود انجانے راستوں پر نکل جاتا ہے۔ پولیس کی کوشش سے چھنو جلد ہی گرفتار ہو گیا، لیکن چھنو نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ کسی قیمت میں اپنا گناہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اس نے نہ کوئی گواہ چھوڑے اور نہ ثبوت، چھنو کا بڑا بھائی اس کی رہائی کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے، مقدمہ چلتا ہے، تاریخیں پڑتی ہیں ، جس دن مقدمے کا فیصلہ ہوتا ہے، تمام گواہوں کے بیانات قلم بند کیے جاتے ہیں ، سرکاری وکیل اور وکیل صفائی آپس میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں ، حسینہ کے بھائیوں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ چھنو کو اپنے کیے کی سزا ضرور ملے، لیکن ثبوت عینی گواہ نہ ہونے کی وجہ سے مقدمے کا فیصلہ چھنو کے حق میں ہونے کی امید ہے۔ چھنو خوش ہے کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔

کمرۂ عدالت میں مکمل خاموشی ہے، جج کے ہونٹوں کی جنبش اور خامہ فرسائی کے لوگ منتظر ہیں لیکن عین اسی وقت ایک باریش شخص کمرۂ عدالت میں داخل ہوتا ہے، چھنو کی دونوں بیٹیاں اس کے ساتھ ہیں ، چھنو کو اسے پہچاننے میں قطعی دیر نہیں لگتی ہے۔ یہ شخص حسینہ کا سابقہ منگیتر ہے، حسینہ کی منگنی اس کے ساتھ ہوئی تھی، لیکن شادی چھنو کے ساتھ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو حسینہ کو یہ شخص پسند نہیں تھا دوسرے چھنو بہت تیزی کے ساتھ اس کی زندگی میں داخل ہو گیا تھا اور بہت جلد نہ کہ حسینہ کا بلکہ اس کے گھر والوں کا بھی دل جیت لیا تھا۔

وہ تینوں پولیس کے ہمراہ جج کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

’’ساب! عینی گواہ‘‘

’’کون تم؟‘‘ جج کی بھاری بھر کم آواز کمرۂ عدالت میں گونجتی ہے، ’’میں نہیں ساب، یہ دونوں بچیاں ‘‘

چھنو کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے۔

’’جی بیٹا، آپ دونوں قتل کے بارے میں کیا جانتی ہیں ؟‘‘

پہلے انیلہ پھر شہنیلہ بیان دیتی ہے کہ

’’میرے بابا نے اماں اور شرفو ماما کو چھریوں سے قتل کر دیا تھا، ہم دونوں بستر میں لیٹ کر بابا کا انتظار کر رہے تھے کہ بابا آئیں گے، شرفو ماما اماں اور بابا کی دوستی کرا دیں گے پھر ککڑ کٹے گا، اماں پلاؤ بنا کر ہم سب کو کھلائیں گی، پھر ہم سب منہ میٹھا کریں گے، اماں نے اسی لیے مٹھائی منگوا کر رکھی تھی، پھر بابا نے تو آتے ہی ساتھ لڑائی شروع کر دی، ہم دونوں چیخوں کی آواز سن کر صحن میں آئے تو دیکھا بابا نے دونوں کو باری باری چھریوں سے مار دیا، ہم لوگ کمرے میں بھاگے۔ اس کے بعد ہمیں ہوش نہیں رہا۔‘‘

’’بیٹا! شرفو تو تمھارا چاچا تھا نا، پھر تم لوگ اسے ماما کیوں کہہ رہی ہو؟‘‘ سرکاری وکیل نے بچیوں سے پوچھا۔

’’پہلے چاچا تھا، پھر ماما بن گیا‘‘ اس بار انیلہ بولی، ’’شرفو چاچا اور اماں نے قرآن پاک اُٹھا کر قسم کھائی تھی، آج سے ہم دونوں بھائی بہن ہیں ۔ اماں نے کہا کہ دیور بھابھی کا رشتہ تو شک کا رشتہ ہے اور شک کی چنگاری ہم سب کو تباہ کر دے گی۔ چھنو کو آ لینے دو ہم اس کے سامنے بھی قسم اُٹھا لیں گے، لیکن بابا نے تو قسم کھانے کا موقع نہیں دیا۔‘‘

چھنو کے چہرے پر موت کا سناٹا چھا گیا اور بچیوں کی سسکیوں کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔

٭٭٭

 

دستک

’’زندگی کے خوبصورت سال تم نے یوں ہی گزار دیے!‘‘

’’کیسی عورت ہو تم؟‘‘

مجھے تمہارے عورت پن پر شبہ ہونے لگا ہے، اگر میں پتھر سے تمہارا مقابلہ کروں تو یقیناً میں تم سے بہتر پتھر کو پاؤں گی۔ پتھر پر اگر ہر روز پانی کی ایک ایک بوند اپنی اداؤں اور نزاکتوں کے ساتھ بھی گرے تو اس میں بھی سوراخ ہو جائے گا۔ لیکن تمہارا گوشت پوست کا ایک منفرد سا لوتھڑا جسے تم دل کہتی ہو، اس پر اب تک اثر نہیں ہوا۔‘‘

ہاں تم جس وقت دلہن بنی تھیں اس وقت تمہاری عمر صرف تیرہ سال تھی اور تیرہ سال بھلا کوئی عمر ہوتی ہے، اس عمر میں تو لڑکیاں بالیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں ، ان کا جہیز اکٹھا کرتی ہیں ، بیاہ رچاتی ہیں ، لیکن بیاہ تمہارا ہو گیا۔‘‘

’’سوچو! تمہارے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں چھُٹی تھی کہ تمہارے سر کا سائیں کشتی سمیت دریا میں ڈوب گیا۔‘‘

’’ہاں میرا سائیں ، میرا گھر والا دریا میں ڈوب گیا۔‘‘ اس کے اندر سے اُٹھنے والی آواز پر اب اس کی آواز غالب آ گئی تھی۔

’’یہ دریا بھی کتنا ظالم ہوتا ہے، کتنی آسانی سے اچھے بھلے انسان کو ہڑپ کر لیتا ہے، زنانیوں کو بے سہارا کر دیتا ہے۔‘‘

اگر دریا نے مجھ پر ظلم کیا ہے، تو آگ نے بھی مجھے نہیں بخشا، صرف ایک چنگاری تو ماں کی اوڑھنی پر اُڑتی ہوئی آئی تھی، پھر ایسا پھیلی کہ پھیلتی ہی چلی گئی۔ ماں دب گئی، خود حاوی آ گئی۔ میری ماں مدد، مدد کے نعرے بلند کرتی رہی، پر کوئی آگے نہیں بڑھا، جو آگ کے جنگل سے میری ماں کو نکال لیتا۔‘‘

ماں کو رخصت ہوئے زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ میرے باپ نے جھٹ پٹ بیاہ رچا لیا، یہ موٹی بھدّی عورتیں کیا اسی دن کا انتظار کرتی ہیں کہ کب کس کی لگائی مرے اور یہ ان کا گھر سنبھالیں ۔

’’ماں تو تھی سوتیلی، اس نے مجھ پر اگر ظلم کیا تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘

لیکن باپ تو میرا سگا تھا، اس نے مجھے کیوں دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا، میری سوتیلی ماں نے فٹا فٹ اپنے بوڑھے چاچا سے میرا نکاح پڑھوا دیا۔ وہ تھا تو بوڑھا، لیکن نوجوانوں کی طرح بڑا پھرتیلا اور چست تھا، بھاگ بھاگ کر وہ میرے سارے کام کرتا تھا کہتا تو آرام کر، ابھی تو نئی دلہن ہے۔‘‘

میں کب تک نئی دلہن رہوں گی؟ میں نے اس سے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوال کیا۔

’’وہ ہنس پڑا، کہنے لگا تو کبھی پرانی نہیں ہو گی‘‘ اس نے ایک ماہ میں مجھے اتنا پیار دیا کہ میں زندگی کے سب دُکھ بھلا بیٹھی۔‘‘

جوں ہی میرے سر کا سائیں مجھ سے روٹھا، سوتیلی ماں پورے گھر پر قبضہ کرنے چلی آئی۔

نکل یہاں سے، نصیبوں جلی، آتے ہی ساتھ چاچا کو کھا گئی!’’ اری تو نکل، یہ میرا گھر ہے، میرے خاوند کا گھر ہے۔ میں نے سوتیلی ماں کی چوٹی پکڑی اور کھینچتی ہوئی باہر لے آئی بڑی آئی قبضہ کرنے۔‘‘

محلے والوں نے اس کی ہمت کی داد دی۔ لیکن اسے تھوڑے ہی دنوں میں اندازہ ہو گیا کہ اس کا یہاں رہنا بڑا مشکل کام ہے، ہر کسی کی میلی نگاہ اس کے تعاقب میں ہے، اس کے لیے اس نے اس مسئلے کا حل سوچا اور ساتھ والے گاؤں سے اپنی نانی کو اپنے پاس بلا لیا، اب اس کی زندگی کا مقصد نانی کی خدمت کرنا تھا۔ وہ گھر کا کام کاج کرتی نانی کا خیال رکھتی، گھر کا خرچ اس کے لیے مسئلہ نہیں تھا کہ اس نے اپنا آدھا مکان کرائے پر دے دیا تھا۔

’’کیا ماضی کے جھمیلوں میں پڑ گئی ہو، مستقبل کی فکر کرو۔‘‘

’’برابر دستک ہو رہی ہے، اس بار کواڑ کھول دینا۔‘‘

’’سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ، زندگی کبھی کبھی تو مہربان ہوتی ہے۔‘‘

’’تم کل کی طرح آج بھی خوبصورت اور پُر شباب ہو۔‘‘

چاہو تو آئینے سے پوچھ لو، وہ تمہیں … سولہ آنے درست جواب دے گا۔

اس نے حکم کی تعمیل کی اور اپنا آپ درپن کو سونپ دیا۔ سیاہ جوڑے میں وہ چاند کی طرح چمک رہی تھی، اس کی روشن آنکھوں میں امید و بیم کے ستارے ٹمٹما رہے تھے، وہ سڈول جسم کی بے حد پُر کشش اور خوبصورت ناری تھی۔

’’آ گیا یقین؟‘‘

’’تو بس اپنے دل پر پیار کی رم جھم برسنے دو۔‘‘

’’پیار کی رم جھم برسنے دوں ؟‘‘ لیکن کیسے؟‘‘

جب وہ دستک دے تو من کے کواڑ کھول دینا، آخر کب تک ’’یادوں کے سہارے جیوگی۔‘‘

’’جانتی ہے؟ وہ تیری کب سے راہ تک رہا ہے؟ صرف ایک اشارے کا منتظر ہے۔‘‘

بانسری کی مُد بھری آواز نے اسے چونکا دیا۔ اندر سے باہر سے اور ہر سمت سے ہر طرح کی آوازیں آنی بند ہو گئیں ۔

’’وہ درپن کے حصار سے نکل آئی۔‘‘

’’اس کا دل عجیب طرح سے دھڑکا۔‘‘

رات آہستہ آہستہ سرکنے لگی۔ بانسری کی آواز بھی دھیمی ہوتی چلی گئی، پھر ہولے ہولے دروازے پر چوٹ پڑنے لگی۔‘‘

کھول دوں دروازہ؟

ہاں کھول دو، موسم بہار ہے، کلیوں کو پھول بننے دو، اس کے اندر سے پھر آواز اُبھری۔

’’وہ دبے قدموں دروازے کے قریب آ گئی، دروازے کی دستک سُر اور تال میں بدل کر اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی، یہ وہ ہی تو ہے جو میری سوچوں اور میرے خون میں شامل ہو گیا ہے۔‘‘ کب تک اس کے تصور کے ساتھ زندگی گزاروں گی؟

وہ سوچ کے سمندر میں قلابازیاں کھانے لگی، نہ جانے کس طرح اس کا ہاتھ کنڈے تک پہنچ گیا۔

درمیان میں حائل ہونے والی دیوار گر چکی تھی۔ محبوب سامنے تھا اور راستہ صاف، وہ بے قراری کے ساتھ آگے بڑھا۔ اسے اپنے روبرو پا کر وہ بوکھلا گئی، بھاگنا چاہتی تھی، لیکن اس نے گرفت میں لے لیا۔

’’بہت تڑپایا ہے رانو‘‘

یہ میری محنت و ریاضت اور سچی لگن کا نتیجہ ہے کہ آج تم میرے سامنے ہو۔

وہ خوف زدہ ہرنی کی طرح اسے یوں دیکھنے لگی، جیسے وہ شکاری ہو۔ ڈرو نہیں رانو۔ میں برا آدمی نہیں ہوں ۔ اگر چاہتا تو دیوار پھاند کر بھی آسکتا تھا، لیکن جانتا تھا کہ دیوار پھاند کر گھر میں تو آسکتا ہوں ، لیکن دل میں نہیں ، میں تمہیں اس وقت سے چاہتا ہوں ، جب میں نے تمہیں میلے میں پہلی بار دیکھا تھا، تمہاری مست نگاہوں کا دیوانہ ہو گیا تھا، اچھا مجھے چھوڑو تو، اس کا خوف اپنی موت، مر چکا تھا اور اس کے چہرے پر پیار کے ننھے ننھے پودے اگ آئے تھے۔ ان پودوں سے خوشیوں کے پھولوں کی تخلیق ہو رہی تھی۔

وہ مسکرا رہی تھی۔

ہاں ، ہاں چھوڑ دیتا ہوں اپنی سرکار کو، اس نے گرفت ڈھیلی کر دی وہ پھرتی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی، وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا ان لوگوں نے کئی گھنٹے ایک ساتھ گزارے، بہت سی باتیں کیں ، مستقبل کے سندر سپنے دیکھے۔

اس نے رانو کو پانے کے لیے باقاعدہ کارروائی کی، اس نے اپنی روٹھی ہوئی بیوی کو پیغام بھجوا دیا، کہ وہ اگر آسکتی ہے تو ایک ہفتے کے اندر اندر آ جائے، ورنہ طلاق کے کاغذات جلد ہی پہنچ جائیں گے۔ اسے معلوم تھا کہ سائرہ کبھی نہیں آئے گی، اس سے پہلے بھی وہ طلاق کی دھمکی دے چکا تھا۔ لیکن سائرہ کو نہ یہ بستی پسند تھی اور نہ اس کے لوگ، وہ شادی کے چند ماہ بعد ہی میکے سدھار گئی تھی اور اب اس کی اور اس کے ماں باپ کی یہ شرط تھی کہ وہ گھر داماد بن جائے۔ لیکن وہ سائرہ کی یہ شرط کسی قیمت پر بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔

خلاف توقع سائرہ ہمیشہ کے لیے لوٹ آئی تھی، رانو پر تو قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ سلیم نے اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ کسی نہ کسی بہانے اس بدمزاج عورت سے جلد سے جلد چھٹکارا پالے گا۔ لیکن رانو کو سلیم کی بات کا قطعی یقین نہیں آیا، لہٰذا اس نے کبھی نہ ملنے کی قسم کھا لی۔

اب وہ تھی اور اس کی ویران زندگی اور سلگتے ہوئے دن رات جو اسے صبح و شام جلا کر خاکستر کر رہے تھے۔

 ان ہی دنوں اسے ایک ایسا قافلہ نظر آیا جس کی راہیں دشوار گزار اور صبر آزما ضرور تھیں لیکن یہ راستے جنت کی سمت جا رہے تھے۔ اس نے فیصلہ کر لیا۔ وہ اس قافلے میں شامل ہو گی اور اﷲ اس کی توبہ ضرور قبول کرے گا کہ وہ درگزر کرنے والا ہے۔

وہ بہت جلد قافلے والوں سے جا ملی۔ اسے یہاں جو سکون اور اطمینان حاصل ہوا، ایسا دلی سکون جو روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے وہ اسے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا، اس نے صدق دل سے توبہ کی اﷲ کی دربار میں گڑگڑا کر معافیاں مانگیں اور رو روکر فریاد کی کہ اﷲ اس پر اپنا رحم نازل کر دے اور معاف کیے جانے والوں میں شامل کر لے، ان دعاؤں کے بعد اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے ہر سو نور ہی نور پھیلا ہے۔ پاکیزہ خیالات نے اسے اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا۔

وہ خوش تھی، بستی والے بھی خوش تھے، وہ بی بی کے نام سے پکاری جانے لگی۔ بستی والے اس سے دعا تعویذ کرانے لگے، وہ بھی عبادت گزاری میں کافی آگے نکل گئی۔

ایک بار وہ نہا دھو کر سفید براق جیسا لباس زیب تن کر کے چھت پر اپنے بال سُکھانے گئی تو نہ جانے کہاں سے اس کا جنس مخالف مانند جن نمودار ہوا۔

ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھیں چار ہوئیں ۔

’’ارے یہ کیا ہوا؟‘‘ اس نے جلدی سے منہ ڈھانپا اور زینہ اُتر گئی اور آئینہ کے مقابل جا کر کھڑی ہو گئی، وہ آج بھی اتنی ہی خوبصورت تھی، آئینے میں نہ جانے کہاں سے وہ ہی دو آنکھیں آ کر چپک گئیں وہ وہاں سے ہٹ گئی، اس نے جلدی سے اپنے آپ کو دوپٹے سے ڈھانپا۔ اور بستر پر لیٹ گئی، لیکن اس جن کی آنکھیں تو اس کے جسم میں پیوست ہو گئیں ۔ اس نے اپنے گرد چادر لپیٹ لی اور ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ کا ورد کرنے لگی۔ لیکن شیطان تھا کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس نے استغفار کا ورد کرنا شروع کر دیا۔ لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ چونکہ اس کی آنکھیں کمرے کے در و دیوار میں نصب ہو چکی تھیں ۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ یہ کیا ہوا؟ بے چینی بڑھنے لگی تھی۔ وہ بستر سے اُٹھی اس نے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھی اور قرآن پاک ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھنے بیٹھ گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد لوٹا ہوا قرار واپس آ گیا۔ پھر شام کو اسی طرح دم دعا کرانے والے لوگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس دن کے بعدسے اس نے چھت پر جانے کا سلسلہ ختم کر دیا تھا لیکن وہ جادو بھری آنکھوں کا جادو نہ بھلا سکی۔ تنہائی میں وہ جن نما شخص اس کے پاس چلا آتا۔ کون ہے یہ شخص کہاں سے آیا ہے؟ اس سے پہلے تو کبھی نظر نہیں آیا؟ خیر مجھے کیا، وہ خیالات کو جھٹک کر تسبیح کے دانے گھُمانے لگی۔

ایک رات جب کہ سب سوچکے تھے، نانی بھی کمزوری اور بیماری کے باعث نڈھال سی پڑی تھی، وہ تہجد پڑھنے کے لیے اُٹھی کہ اسی اثناء میں دستک کی دھیمی دھیمی آواز محسوس ہوئی وہ وضو کرتے کرتے اُٹھ کر کھڑی ہو گئی، اتنی رات گئے کون آیا ہے؟ ہوسکتا ہے وہی شخص ہو، یا اس کا وہم، اس نے بے اختیار زنجیر کنڈے سے اتار دی، اس کا گمان درست نکلا، وہی ساحر اور اس کی بدن میں گڑتی ہوئی آنکھیں اس نے دروازہ بند کرنا چاہا لیکن گھبراہٹ کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی، پھر دل کڑا کر کے بولی ’’کیوں آئے ہو آدھی رات گئے؟‘‘

’’اپنی مُراد حاصل کرنے۔‘‘

’’تمہاری مُراد سے میرا کیا تعلق‘‘

’’بہت گہرا تعلق ہے‘‘

’’وہ کیسے‘‘ وہ کرخت لہجے میں جواب دیتی رہی۔

’’آپ مجھے اندر نہیں بلائیں گی؟‘‘

’’بالکل نہیں ، نامحرم کا یہاں کیا کام؟‘‘

’’نامحرم‘‘ محرم بھی تو بن سکتا ہے۔

’’محرم؟‘‘ وہ دو منٹ کے لیے خاموش ہو گئی۔ جیسے محبت کا سوکھا پودا سرسبز ہونے کے لیے بے قرار ہو رہا ہو۔

پھر سنبھل کر بولی، ’’دستک کے لیے آپ نے غلط دروازے کا انتخاب کیا ہے۔‘‘

انتخاب بالکل درست ہے، اس دروازے اور دروازے والی کی تلاش کے لیے میں سالوں سال ریگستانوں اور صحراؤں میں دیوانوں کی طرح گھوما ہوں ، تب کہیں گوہر مراد ہاتھ آیا ہے۔ میں تمہاری مراد نہیں ، پھر اس نے تیزی سے دروازہ بند کیا اور کُنڈی لگا لی۔

’’شیطان مردود، پھر آ گیا ورغلانے۔‘‘

آخر انسان اتنا کمزور کیوں ہوتا ہے، اتنی جلدی بھٹک کیوں جاتا ہے؟ اندھیروں میں جنم لینے والی کہانیاں اتنی بھیانک کیوں ہوتی ہیں ؟ سوچتے ہوئے وہ گھڑونچی تک پہنچ گئی اور اس نے گھڑے سے نکال کر پانی پیا اور پھر بستر پر اوندھے منہ گر پڑی۔ اسے اپنا میاں یاد آیا، وہ بچے یاد آئے جو اس دنیا میں نہیں آئے تھے۔ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں اور میں ؟ سب آباد ہیں ۔ خوش ہیں میں آباد ہو کر برباد؟ آنسوؤں کا ریلہ نہ جانے کہاں سے آ گیا تھا۔ اس کے رخسار بھیگ گئے۔ پھر اس نے کروٹ بدلی، ماضی حال اور مستقبل کے اندھیروں اجالوں میں سفر کرتی رہی، حتیٰ کہ پرندوں کی سُریلی آوازوں نے صبح کی آمد کا اعلان کر دیا وہ بستر سے اُٹھی اور عبادت میں مشغول ہو گئی، آج کی عبادت نے اسے بے حد شرمسار کر دیا تھا، زبان اور دل و دماغ کا ساتھ دُور دُور تک نہ تھا، کتنی دفعہ بھولی کہ اس نے فرض پڑھے ہیں یا سنت، پھر وہ رسوئی میں گئی، بھوک بہت سخت لگ رہی تھی رات کی کھچڑی اور دم کرانے والوں کے گھر سے حلوہ اور زردہ آیا رکھا ہوا تھا اس نے بغیر گرم کیے جلدی جلدی کھانا شروع کر دیا اور سوچنے لگی کہ جن راہوں پر میرے قدم پڑ گئے ہیں ، یہ راہیں کس قدر پاکیزہ ہیں ، طہارت ہی طہارت ہے، پھر اسے خیال آیا کہ اپنی بوڑھی نانی کو تو دیکھ لوں کئی دنوں سے محلے والیاں ہی ان کا خیال رکھ رہی ہیں ۔ ناشتہ بھی کرا دوں گی۔ اس نے ناشتہ ٹرے میں رکھا اور نانی کے پاس لے کر آ گئی اور آوازیں دینے لگی، لیکن نانی نے اس کی ایک نہ سُنی اس طرح آج وہ پھر اکیلی رہ گئی۔ نانی کے غم نے اسے اپنے آپ سے بیگانہ کر دیا ،کئی ہفتوں وہ اُداس رہی لیکن زندگی ویسے ہی اپنے معمول پر آ گئی۔‘‘ اسی طرح سب کام ہونے لگے اس جن نما شخص کی آوازیں بھی گونجنے لگیں ’’میں محرم بن سکتا ہوں ۔‘‘

’’آخر کون ہے یہ کیوں اس نے میری راتوں کی نیند چُرا لی ہے؟‘‘ کوئی بھی ہو اس بار شیطان کے بہکائے میں ہرگز نہیں آؤں گی۔ لیکن وہ محرم بننا چاہتا ہے، آخر کب تک تنہا رہوں گی، بستی کے لوگ بھی تو… چاہتے کہ میں بیاہ رچا لوں ، اپنی پسند کی شادی کر لوں ۔ ایک بار اسے آزما کر تو دیکھوں شاید دھن کا پکا ہو۔‘‘

دل و دماغ میں جنگ ہوتی رہی اور وہ تسبیح کے دانوں پر استغفار کا ورد کرنے لگی اور ہواؤں کے ساتھ اڑنے لگی، تب ہی اپنے مخصوص ٹائم پر دروازے پر ہلکی ہلکی چوٹ پڑی۔

لگتا ہے شیطان وار کر کے ہی دم لے گا، اس نے تسبیح رکھ دی اور صحن میں آ گئی کُنڈی کھولنے کے لیے اس کے ہاتھ بڑھے ہی تھے کہ آوازوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ’’انسان واقعی بڑا خسارے میں ہے۔‘‘ اﷲ کے نیک بندوں کے لیے بڑا اجر ہے، اﷲ صابروں اور شاکروں کے ساتھ ہے۔ اس کے ہاتھ رُک گئے، وہ کمرے کی طرف بھاگی اور مصلّیٰ بچھا کر بیٹھ گئی اور صراط مستقیم پر رہنے کی دعائیں مانگیں اور رات ریگستان میں اڑنے والے بگولوں کی مانند اڑتی چلی گئی۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ دوبارہ بستر پر آ کر لیٹ گئی، رات بھر کی جاگی ہوئی تھی اسی لیے جلد ہی نیند آ گئی۔ دوپہر تک پڑی سوتی رہی ظہر کے بعد لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

’’بی بی جی طبیعت کیسی ہے؟‘‘

’’خیر تو ہے؟‘‘

’’کل بھی آئے، صبح بھی آئے، بڑی دیر دستک دی پر دروازہ نہیں کھُلا۔‘‘

’’ہاں ! طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘

’’لاؤ جی سر دبا دیں ، مالش کر دیں ۔‘‘

یہ آپ کے لیے زیتون کا تیل، سرکہ اور جوار کی روٹی ہے سرکہ، گھر کا ہے جی۔

’’تحفہ ہے قبول کر لیں ۔‘‘

’’اتنی تکلیف نہ کیا کرو، مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔‘‘

’’ ایسے ہی شرمندگی ہوتی ہے، آپ جو ہمارے بچوں کو پڑھاتی ہیں ہم لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں ، تو ہم کیا تھوڑی بہت خدمت بھی نہ کریں ۔‘‘

یہ تو جی ہمارا فرض ہے۔ پھر درس کی محفل سجی، اس کے بعد دعا درود کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور سورج کا سرخ گولہ نشیب کی طرف ڈھلکنے لگا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے۔ اور وہ پھر تنہا رہ گئی، تنہائی کا زہر اس کی رگ و پے میں سما گیا۔

’’اف یہ کیا ہو گیا ہے مجھے؟‘‘ اس نے سر پکڑ لیا۔ بہت دیر اسی قسم کی کیفیت میں مبتلا رہی، پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور ٹہلتی رہی پھر اس کے قدم غیر ارادی طور پر سیڑھیوں کی طرف بڑھے چھت پر پہنچ کر اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ البتہ ایک کمرے میں دیا روشن تھا۔ پھر اسی روشنی میں ایک سایہ نمودار ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ سایہ جن نما شخص میں تبدیل ہو گیا اور اس کی گھورتی ہوئی آنکھیں اس کے جسم میں پیوست ہونے لگیں ۔

اف! خوف و دہشت سے اس کی چیخ نکلنے سے پہلے ہی گھٹ کر اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

’’میں تمہارا انتظار کر رہا تھا، مجھے امید تھی تم ضرور آؤ گی۔ دیکھو شہزادی! میں ایک شریف آدمی ہوں ۔ پردیسی ہوں ، ملازمت کے لیے تمہارے شہر میں آیا ہوں ۔‘‘

’’آج رات میں آؤں گا، پلیز دروازہ کھول دینا، سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔‘‘

’’چور دروازے سے آنے والے شریف لوگ ہرگز نہیں ہوتے ہیں ۔‘‘ وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح دھاڑی۔

’’اپنے کسی بڑے کو لاؤ۔ تب ہی کچھ فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ’’بڑا تو کوئی نہیں ہے، تنہا ہوں ، ماں باپ نہیں ، بھائی موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے، میں ہی بڑا ہوں ۔ میں ہی چھوٹا۔‘‘

میرا خیال دل سے نکال دو، اس میں ہی ہم دونوں کی بہتری ہے۔

’’ناممکن‘‘ وہ اٹل لہجے میں بولا۔

’’پھر یہ تمہارا مسئلہ ہے‘‘ وہ زینہ اُتر گئی۔

کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنی بے ترتیب سانسوں پر قابو پانے کے لیے گھڑے سے ایک گلاس پانی نکال کر پیا اور اپنے آپ کو بستر کی نذر کر دیا۔

بہت دیر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن بے قراری تھی کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

’’نامحرم کو اگر محرم بنا لیا جائے تو تنہائی کا عذاب ختم ہو گا۔‘‘ اور پھر انسان کی ضرورت انسان ہی تو ہے۔‘‘ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ گھنٹوں سوچوں کی کشتی میں بیٹھ کر غور و خوض کرتی رہی اسی طرح سوچ و بچار میں کئی دن گزر گئے۔ رات کے پچھلے پہر دستک کا سلسلہ بھی یوں ہی جاری رہتا۔ وہ توجہ نہ دیتی اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس نے روح کی بالیدگی کا گیان جان لیا ہے، اس نے اپنے آپ کو مطالعے کی دُنیا کے سپرد کر دیا۔

ان ہی دنوں تپ کی ہوا ایسی پھیلی کہ وہ بھی نہ بچ سکی، کئی دن بخار چڑھا رہا۔ جب اُترا تو دل پر ایک گھبراہٹ اور مایوسی چھوڑ گیا، ان دنوں ٹھیک طرح سے عبادت بھی نہ کر سکی، ہیجان انگیز خیالات نہ جانے کہاں سے آئے اور اس کے دل و دماغ پر قبضہ کر بیٹھے۔

ایک شام وہ صحن میں چہل قدمی کر رہی تھی کہ اچانک ہوا کا سرپٹ گھوڑا گھر میں داخل ہوا اور اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر چھت پر لا کر چھوڑ دیا۔ وہ کوٹھری میں بیٹھا شاید کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر تیزی سے اُٹھا اور برق رفتاری کے ساتھ اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔

’’آپ نے مجھ فقیر کے بارے میں کچھ سوچا؟‘‘

’’آپ کے زلف کا اسیر اور آپ کا خادم ہوں ، بس مہربانی کرو آگ میں جل رہا ہوں جتنا پانی ڈالتا ہوں ، آگ اتنی ہی تیز بھڑکتی ہے۔ تمہاری طرح میں بھی پیر تھا، آستانے پر مُریدوں کا جمگھٹا رہتا، دن رات درود و سلام کی محفلیں سجتیں ، لنگر تقسیم ہوتا۔ دولت، عزت سب کچھ تھا میرے پاس، لیکن نہ جانے کس کی نگاہ کا شکار ہوا؟ راج پاٹ جاتا رہا، اور آج میں دربدر ہوں ، حسن کی بھیک کا طلب گار، تمہاری چوکھٹ پکڑے کھڑا ہوں ۔‘‘

’’قسمت کی دھنی بھکاری کو خالی ہاتھ نہ لوٹا وقت کے تقاضے کو سمجھ۔‘‘

 وہ تو خود عشق و محبت کے اڑیل گھوڑے پر سوار ہو چکی تھی کیا جواب دیتی۔

وہ کچھ نہ بولی، واپسی کے لیے مڑ گئی۔ اس کی بیماری کے بعد سے بچے اور بڑوں میں سے کوئی بھی نہیں آ رہا تھا، لہٰذا پورے گھر میں وہ ملکہ بنی گھومتی رہی، باد بہاری کی طرح انجانی فضاؤں میں اڑتی، دن کا پنچھی دور افق کے پار اپنے بسیرے میں لوٹ گیا، اندھیرے کی بادشاہت شروع ہوئی، اس نے سفید چولا بدل کر سرخ لباس زیب تن کیا، ہار سنگھار سے اپنے آپ کو سجایا اور خوشبوؤں میں اپنے آپ کو بسا کر انتظار کی چوکھٹ پر قدم رکھ دیا، رات خوشیوں کی نوید کے ساتھ اس کے گھر میں اُتر آئی۔ وہ عشق و محبت کے جادوئی تخت پر سوار ہو گئی۔

اس رات کی دستک نے نغموں کا روپ دھار لیا۔ جادوئی تخت اسے دروازے کے قریب لے آیا، عشق کی مستی نے اس کا ہاتھ دراز کر دیا۔ دروازہ کھل گیا۔ آنے والا اندر آ گیا، جنت دور ہو گئی اور دوزخ قریب ہو گئی۔ اور پھر محبت کی دیوی ان دونوں پر مہربان ہو گئی، عشق و محبت کا سلسلہ چل نکلا، دل سونے اور راتیں آباد ہو گئیں ، بستی میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں ، لوگوں نے آنا جانا بند کر دیا۔

’’رسوائی بڑھ رہی ہے، ہمیں جلد سے جلد شادی کر لینی چاہیے۔‘‘

’’شادی…؟‘‘ وہ چونکا جیسے بھول گیا ہو۔

’’ملکۂ دل! شادی کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پیش آئے گی اور وہ میرے پاس نہیں ہیں ، مجھے گاؤں جا کر زمینیں بیچنی پڑیں گی، اس کے بعد ہی میں تمھارے سنگ بیاہ کر سکتا ہوں ۔‘‘

’’شادی تو سادگی سے بھی ہوسکتی ہے، بس پہلے نکاح کر لو پھر دونوں گاؤں چلیں گے۔‘‘ اس نے تجویز پیش کی۔

’’نہیں ‘‘، وہ اٹل لہجے میں بولا، ’’پہلے پیسہ، پھر شادی‘‘

’’اچھا!‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔

پھر ایک دن وہ اچانک غائب ہو گیا اور وہ انتظار کی سولی پر لٹک گئی، اس کی راہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں ۔ پھر اسے احساس ہوا۔

وہ کس طرح قافلے سے بچھڑی اسے پتا ہی نہیں چلا۔ پچھتاوے کے احساس نے اسے بیمار کر دیا، کئی ماہ وہ یوں ہی بستر پر پڑی رہی، کچھ لوگوں نے رحم کھا کر اس کا چیک اپ کروایا۔ اس کی قوت مدافعت ختم ہو چکی تھی۔ بہت سی بیماریوں نے مل کر ایک ساتھ حملہ کر دیا تھا۔ اسے خود بھی اندازہ تھا کہ اس کے دل و دماغ پر ایک مخصوص قسم کی دستک کیوں ہو رہی ہے؟ وسوسے اسے کیوں کھوکھلا کیے دے رہے ہیں ؟ شاید دُکھوں کا قافلہ اسے اپنی آغوش میں سمیٹنے والا ہے اس کا اندازہ دُرست نکلا۔ اسے گھر سے دُور لے جایا گیا، پچھتاوے کا وزنی پتھر اس کے سینے پر رکھ دیا گیا تھا۔ وہ اس پتھر تلے دبتی چلی جا رہی تھی۔

٭٭٭

 

آگ اگلتا سورج

’’یہ، یہ، یہ تو میرا شبراتی ہے، میرا شبیرا، میرا لعل، میرا پتّر، اس کی چیخ و پکار اور آنکھوں دیکھا حال دیکھ کر محلے کی عورتیں ، مرد اور ڈھیر سارے بچے گھر میں داخل ہو گئے تھے، مائیں بچوں کا ہاتھ تھامے ہوئی تھیں اور کچھ سرگوشیوں میں انہیں گھر جانے کی تنبیہ کر رہی تھیں ۔ اس وقت نذیراں بی بی پورے گھر کا چکر کاٹ رہی تھی، کبھی دیوار سے اپنا سر ٹکراتی تو کبھی اپنے بال کھینچتی تو کبھی زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مارتی، ہائے میرا شبیرا، میرے پنڈدا  حصّہ، اُنا دے پیو نوں بلاؤ چھیتی کرو، اونوں دسو، میرا ببر شیر مل گیا ہے۔ وہ رہا ہو گیا ہے۔ بہنوں دا ویاہ (بیاہ) کرنے والا، بڑھاپے کا سہارا، میرا ہیرا، میرا شہزادہ۔ اب میں محنت مزدوری نہیں کروں گی، آج سے میری چھٹی، سارا دن کپاس چنتے چنتے میرے ہاتھوں وچ چھالے پڑ گئے تھے پھر بھی اس جاگیردارنوں رحم نہیں آندا تھا، اب، میں آزاد ہوں ، آزاد ہوں ، اس پر ہذیانی کیفیت طاری تھی مرد وزن اسے سمجھا رہے تھے لیکن وہ سمجھ سے بالاتر تھی، بس اسے سمجھ تھی تو اتنی کہ اس نے اپنے شبیرے کو پا لیا تھا۔ اس کا سراغ مل گیا تھا اور طویل قید کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ عورتیں اسے پانی پلانے کی کوشش کر رہی تھیں اس کا خاوند راجا حضور بخش بھی زمینوں سے گھر آ گیا تھا۔ چونکہ اس کے کان میں بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ آج  اس کے گھر میں جشن ہے دور دور سے لوگ آئیں گے اور وہ بھی آئیں گے بلکہ آئیں بھی کیا باقاعدہ بھیجے جائیں گے، استقبال کے لیے جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئے تھے، لیکن آج کی بات ہی کچھ اور ہے۔

اس وقت پورا گاؤں چوپال میں نہ جانے کیسے سما گیا تھا، قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہ بے حس و حرکت زمین پر پڑی تھی اس پر نیم بے ہوشی طاری تھی۔ اس کی زندگی کی فلم اس کے سامنے چل رہی تھی مہاوٹ کے دن تھے اور وہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں باراتیوں کی سنگت میں بیاہ کر آئی تھی تقریباً ایک سوا گھنٹے کا سفر تھا، تانگے میں بیٹھی بیٹھی وہ تھک گئی تھی۔ سسرال اور گاؤں کے لوگوں نے اس کا پر تپاک استقبال کیا تھا، ساس سسر نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی تھی، اس کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کا ہر طرح سے خیال رکھا تھا۔ اسے نہ زمیندار کی زمینوں پر کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا اور نہ اپلوں اور سرکنڈوں پر کھانا پکانے کے لیے کہا جاتا اس کے میاں حضور بخش اور اس کی ساس شکوراں بی بی نے کہا تھا دھوئیں سے اس کی گوری رنگت کالی ہو جائے گی، میں اسے چولھے کے پاس بیٹھنے نہ دوں گی اور شکوراں بی بی نے یہ بھی کہا تھا کہ میری دہی رانی کے ہاتھوں کی مہندی جب تک نہ اترے گی وہ کوئی کام نہ کرے گی۔ مہندی کا رنگ کبھی تو اترنا ہی تھا۔ سو وہ بھی اتر گیا اور اس نے گھر کی ذمے داری سنبھال لی اب اسے حضور بخش نہ فلم دکھانے لے جاتا اور نہ میلے پر اور نہ دریا کے کنارے چاندنی رات کی سیر کو۔ اس لیے کہ اب ان دونوں کے پاس وقت کی تنگی ہو گئی تھی۔ نذیراں گھر کے کام کاج میں لگی رہتی اور راجہ حضور بخش اپنے باپ کے ساتھ مل کر زمیندار کی زمینوں پر کام کرتا۔

نذیراں صبح سویرے اٹھ جاتی کنوئیں سے پانی بھرتی، ڈور ڈنگر کوسانی دیتی۔ دودھ بلوتی، ناشتے پانی کا انتظام کرتی اس سے سب خوش تھے اس نے اپنے ماں باپ کا سر اونچا کر دیا تھا، اس نے اس بات کی مکمل تیاری کر لی تھی کہ اب گھر سے وہ نہیں اس کا ڈولا ہی نکلے گا۔ اس کی برادری کی عزت کو بٹہ نہیں لگے گا اور برسوں کی ریت میں دراڑ نہیں پڑے گی۔

ان دنوں نہ جانے گھر والوں اور اس کے خاوند حضور بخش کو کیا ہوا تھا وہ سب اس سے روٹھے روٹھے نظر آتے، حضور بخش اور اس کی ساس شکوراں بی بی فارغ اوقات میں کوٹھری میں بیٹھے نہ جانے کیا کھسر پھسر کیا کرتے، کبھی اس کا سسر بھی اپنے حصّے کے دال چاول لے آتا اور خوب کھچڑی پکتی۔ اس نے کئی بار اپنے میاں سے پوچھا بھی کہ معاملہ کیا ہے لیکن وہ ٹال گیا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے تو پریشان نہ ہو۔ ’’کیوں نہ ہوں میں پریشان، میں سب کچھ سمجھ گئی ہوں ،بچی نہیں ہوں ۔‘‘

’’سمجھتی ہے تو سمجھا کر‘‘

’’پر میرا قصور کیا ہے‘‘ اﷲ کی مرضی ہے۔ وہ پروین ہے نا حجام شیر بخش کی جورو، اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ تو اور میں شہر جا کر ڈاکٹر نوں ویکھائیں ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔

’’تو چل، کب چلے گی۔ میں تو خود چاہتا ہوں سب کچھ پہلے ہی جیسا ہو جائے۔ تو میرے کاندھوں پر جائے یا میں تیری مانگ سونی کر جاؤں ۔‘‘

نہ، نہ، یہ نہ کہہ حضور بخش۔ میں تیرے کاندھوں پر چڑھنا چاہتی ہوں ۔ وہ خوف زدہ ہو جاتی۔

ابھی بہت وقت ہے چھلیا۔ انتظار کر۔ حضور بخش کی بات پر وہ مسکرانے لگی۔ اور حضور بخش نے اسے اپنے سے قریب کر لیا وہ دونوں جیسے ہی موقع ملا ہسپتال پہنچ گئے۔ یہ ان کی قسمت ہی تھی کہ انہیں نہ زیادہ ہسپتال کے چکر کاٹنا پڑے نہ پیروں فقیروں کے در پر جانا پڑا اور نہ تعویذ گنڈوں کے چکر میں پڑنا پڑا۔ ان کی مراد بہت جلد بر آئی۔

اب نہ وہ نکالی جائے گی اور نہ اس کے چاچا کی بیٹی زینب اس گھر میں دلھن بن کر آئے گی۔ بڑی آئی کہیں کی اس کی جگہ لینا چاہتی تھی اس کے ساس سسر کو اپنا ساس سسر سمجھنا چاہتی تھی، اس کے میاں کو اپنا خصّم بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی، میرا کمرہ چھیننا اور میری کھاٹ پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی تھی۔ رہ گئی نا منہ دیکھتی۔ وہ اپنی جیت پر دل ہی دل میں مسکراتی۔

ماہِ شب برأت کی مناسبت سے دادا جی نے اس کا نام شبراتی رکھ دیا۔ سب خوش تھے لیکن دادا جی کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں اندھیرا سا چھا جاتا ہے لیکن وہ جلد ہی اپنے خیال کو جھٹک کر اپنی دنیا اور اپنے گھر میں آ جاتے۔ اور بچے کو گود میں لے کر کہتے میں اسے سب سے چھپا کر رکھوں گا اور بڑا آدمی بناؤں گا۔ وہ میری اور اپنے باپ کی طرح زمیندار کی غلامی نہیں کر سکے گا بلکہ ہم سب کو بھی آزاد کرا دے گا انھوں نے نذیراں بی بی کو بتایا تھا کہ زمینداروں نے ہم پر بڑے ظلم کیے، ایک بار کھیتوں میں جبکہ گندم کی فصل تیار تھی، اس کی سنہری بالیاں ہواؤں سے اٹکھیلیاں کر رہی تھیں ، ان دنوں ہوائیں مجھے بھی گدگدایا کرتی تھیں ، لوریاں سناتی تھیں ، نہ جانے کیسے پہرہ دیتے ہوئے اونگھ آ گئی۔ بد نصیبی تھی میری، کچھ مویشی بھی کھیتوں میں آ کر نقصان کر گئے، اس نقصان کا خمیازہ میں نے اس طرح بھگتا کہ 11 سال کی عمر میں قید کر دیا گیا، زمیندار کی نجی جیل سے 11 سال بعد رہائی نصیب ہوئی، اس طرح 11 سال کا بچہ 22 سال کی عمر میں کڑیل نہیں مریل نوجوان بن کر آزاد ہوا، وہ بھی بھلا ہو چوہدری شرف الدین کا جس نے پنچایت بٹھائی، سود کے ساتھ اس کا نقصان پورا کیا۔ لیکن دہی رانی آج تک ہم سب کسی نہ کسی شکل میں زمینداروں کے غلام ہیں ۔ لیکن یہ میرا پوتا بڑا افسر بنے گا، زمینداروں کی نجی جیلوں کو مسمار کر دے گا۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور شبراتی 13 سال کا ہو گیا، اس نے بہت کچھ پڑھ لیا اور مزید پڑھنا چاہتا تھا لیکن ان دنوں کچھ عجیب و غریب وبا پھیلی، لوگ اشاروں کنایوں میں باتیں کرنے لگے۔ کچھ خاموشی کے ساتھ اس وقت جب ساری دنیا اصطبل کے تمام گھوڑے بیچ کر خواب خرگوش کے مزے لیتی ہے، خوف زدہ لوگ اپنے دل کی حفاظت اور اس کی ٹھنڈک کو بچانے کے لیے اہل بصیرت اور اہل علم کے قبیلوں اور ان کے قافلوں میں شامل ہو جاتے اور پو پھٹنے سے پہلے کوچ کر جاتے۔ نہ انہیں جنت کی تلاش تھی اور نہ حوروں کی طلب۔ کچھ لوگوں نے اپنے قیمتی لعل دوسری جگہ منتقل کر دیے تھے۔ کسی دوسرے شہر میں ، کسی دوسرے گاؤں میں اب وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے، لیکن ان لوگوں کے برعکس وہ لوگ بھی تھے جو اس ہی تگ و دو میں تھے کہ انہیں سب کچھ مل جائے اور انتقام کی آگ اور اپنوں کی موت کا بدلہ لے کر ظلم کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا جائے اور برابری کے مقابلے کی بناء پر حساب کتاب برابر کر دیا جائے، یہ ہی وہ لوگ تھے جو گوہر آبدار کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ جہاں اور جس طرح موقع ملتا وہ چیل کی طرح تازہ تازہ سرخ سرخ گوشت پر جھپٹتے اور آن واحد میں لے اڑتے اور پھر گوشت گوشت کا کھیل شروع ہو جاتا۔ اندھیرا بڑھ جاتا۔ روشنی کم ہو جاتی غریب اور بے بس ماں قبرستان کے کھنڈر میں کھڑی جانے والے کو دور تک تکتی رہتی۔ انتظار کی سولی پر لٹک جاتی اور جب انتظار کی پل صراط پر کھڑے کھڑے تھک جاتی تب قبرستان کی شکستہ قبروں میں اس کا ادھ مرا بدن گر جاتا اور ہمیشہ کے لیے مدفون ہو جاتی۔

دادا جی نے اس خطرناک وبا کے بارے میں حضور بخش کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ بہت پرانی بیماری ہے لیکن ان دنوں تیزی سے بڑھی ہے، حضور بخش سمجھ سکا تھا یا نہیں البتہ اس نے اتنا ضرور کہا تھا کہ:

بابا! اچھا برا میں بھی سمجھتا ہوں ۔ لیکن اس کے باوجود گھر کی عورتوں اور مردوں کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کے گھر کے صحن میں چمکنے والے چاند سورج پر کوئی نظر لگانا چاہتا ہے۔ ان کے صحن سے شمس و قمر کو کہیں دور بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔ ہر شخص پریشان تھا کہ وہ بناء چاند و سورج کے کیسے زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔ اندھیرے کے تصور سے انہیں ہول آنے لگا تھا۔ گھر کا نظام بھی بکھرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ عجیب الخلقت لوگوں کی آمد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ کاش وہ سب بھی قافلے میں شامل ہو جاتے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ وہم ہو۔ سب کچھ ٹھیک ہو۔ حالات ان کے حق میں ہوں ، وہ سب وہم و گمان کی فضا میں سانس لے رہے تھے۔

 عورتیں اس کے منہ پر پانی ڈال رہی تھیں ۔ اس نے آنکھیں کھول دیں ۔ خیالات کی دنیا گم ہو گئی۔

’’کہاں ہے میرا شبراتی؟‘‘ اس کی دل خراش چیخ بلند ہوئی۔

’’میرا پتر، میری ننھی سی جان۔ بلاؤ اسے۔ اب تو اسے میرے سامنے لے آؤ۔ اسے میں چھاتی سے لگانا چاہتی ہوں ۔ جی بھر کر پیار کرنا چاہتی ہوں ۔‘‘

’’ دہی رانی ہو سکتا ہے جو تو نے دیکھا ہو۔ وہ وہم ہو۔ وہ کوئی اور ہو۔ اپنا شبیرا نہ ہو۔‘‘ دادا کا چہرہ امید و بیم کی فضا میں معلق ہو گیا تھا۔

’’نہ بابا، نہ وہ ، وہ میرا جگر ہی تھا۔ ماں اپنے بچے نو پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکدی۔ وہ ہی کاجل لگی آنکھیں ، اونچی پیشانی، کھڑی ناک، سانولی رنگت، اونچے اونچے دانت، اس کا منہ کھلا تھا۔ اس کی آنکھیں بھی ادھ کھلی تھیں ۔‘‘

’’کیا وہ جاگ رہا تھا۔ یا سو رہا تھا‘‘ اور ۔اور اس کا وہ بدن۔ جس پر میں نے مالش کی تھی خالص سرسوں کے تیل کی تب اس ننھے بلوکڑے نے جان پکڑی تھی۔ اس کا بدن مضبوط ہو گیا تھا۔ کہاں ہے وہ؟‘‘

اس کی ٹانگیں اس کے ہاتھ، پیر، سینہ ، بازو، کمر اس کا پیٹ اور پیٹ میں پھولا ہوا غبارہ، اس کی نال دایہ نے بڑی مشکل سے کاٹی تھی اور پھر اس جگہ ٹنڈی کی جگہ ٹنڈا بن گیا تھا۔ ہاں وہ ہی ٹنڈے والا نازک سا پیٹ…… یہ ، یہ…….. سب چیزیں ، جسم کے حصے کہاں چلے گئے، ٹی وی کھول دو، ٹی وی کھول دو۔ میرا بچہ، میرا لخت جگر اس میں بند ہے‘‘ کسی بچے نے آگے بڑھ کر ٹی وی کھول دیا ہے۔

چاروں طرف لوگ ہی لوگ ہیں ، آگ اور دھوئیں کے بادل۔ آہ وبکا چیخ و پکار اور ایک دھڑ سے علیحدہ زمین پر پڑا ہوا سر۔

دیکھو لوگو! یہ رہا میرا شبراتی معصوم و بے خطا بچہ۔

حضور بخش، تو کیوں خاموش کھڑا ہے؟ دیکھ! سب رو رہے ہیں اور تو چپ ہے۔ نذیراں بی بی اسے جھنجھوڑ رہی ہے۔

حضور بخش کلہاڑی اٹھا اور اس ظالم کا سر پھاڑ دے اور اس کا سر بھی تن سے جدا کر دے۔ اسے بھی جنت….

چپ ہو جا نذیراں بی بی، کفر نہ بک۔ تجھے کیا معلوم کہ وہ ہم سب کو …….؟

تو یہ بدبخت سب تیرا کیا دھرا ہے۔ جب ہی تو اسے تین مہینے سے گھر نہیں لایا، ارے ظالم تو نے ہم سب کے دل نکال لیے ہیں ۔ دادا نے روتے ہوئے کہا، اور اپنی آنسوؤں سے تر داڑھی کے سفید بالوں کو اپنے انگوچھے سے پونچھنے لگے، مجمع اور نذیراں بی بی راجا حضور بخش کی شکل حیرت سے تک رہا ہے۔

’’حضور بخش! یہ تو نے کیا کیا ہم دونوں نے ہی پودا لگایا تھا تو نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا، میری بنا اجازت کے اتنا بڑا کام کر ڈالا، میرا لہو بھی اس میں شامل تھا اور تو، تو کہتا تھا کہ میں نے اسے روشنی والے گھر میں داخل کیا ہے۔ اور یہ روشنی بڑھتے بڑھتے ہمارے گھر تک آ جائے گی۔‘‘

حضور بخش انصاف کر یہ روشنی ہے یا اندھیرا؟ دیکھو غور سے اپنے  گھر کو ان روتے سسکتے لوگوں کو اور اپنے شبراتی کو، نذیراں بی بی دیوانوں کی طرح فریاد کر رہی ہے، رو رہی ہے لوگ اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے ہیں ۔ گھر جا کر انہوں نے بچے کھچے لعل و جواہر کو اپنے بوسیدہ دامنوں میں چھپا لیا ہے، بستی پر سیاہ بادل چھا گئے ہیں ، حضور بخش کو تمغہ مل گیا ہے اور اب وہ اسے سینے سے لگائے دھاڑیں مار رہا ہے، شبراتی شبراتی کی گردان کر رہا ہے۔ نذیراں بی بی، حضور بخش، دادی، دادا جی ان لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں جن کے گھروں میں سوا نیزے کا سورج اتر آیا ہے۔

٭٭٭

تشکر: یوسفِ ثانی، جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید