فہرست مضامین
- تیکھی غزلیں
- ۱۹۶۰ء — ۱۹۶۴ء
- مظفرؔ حنفی
- ترے تصور میں وادیِ دل جو رنگ و نکہت میں بس رہی ہے
- تجھے کچھ خبر بھی ہے بے خبر کہ تری نگاہ کدھر پڑی
- اٹھتے اٹھتے کہہ گئی مقتل میں دیوانے کی خاک
- تنقید مری مے نوشی پر فرمانے کی بھی خوب رہی
- کیا بیٹھیے وہاں، کوئی عزت جہاں نہ ہو
- تیرے قریب تیرے مقابل نہیں ہوں میں
- جو ناواقف ہیں چشمِ لطف کا احسان لیتے ہیں
- سوچ کر کہ اب کسی کا نام کیا اچھالیے
- عبادت ہے ہماری مے پرستی دیکھتا کیا ہے
- مجھے اداس دیکھ کر قریب آ گیا ہے وہ
- یا خدا کس جگہ آج ہم آ گئے
- گزر جائے گی آخر وصل کی یہ رات کہتا ہوں
- ظرفِ بے مایہ چھلک جائے تو پھر کیا کِیجے
- اس وقت، کہ جب آپ سے پہچان نہیں تھی
- عرض ہوتا ہے، طول ہوتا ہے
- اس جرم میں گواہ جو میرے خلاف ہیں
- زندگی کا سفر، شام بجھتی ہوئی، یوں نہ روکو قدم اتنی فرصت کہاں
- چاند را توں میں ہمارے پاس آنے کی کہو
- آپ کا سہارا ہے صرف آبگینوں پر
- وہ غلط سمجھے کہ ہے شیخ زمن میری طرف
- وہ یاد آ رہے ہیں سر شام دوستو
- ’’منظور ہے گزارشِ احوال واقعی‘‘
- ہم اگر اقدامِ مئے خواری کریں
- پہنچے گی ایک روز وہاں تک یہاں کی بات
- ہر جفا پر صبر کی تلقین ہے
- جام و مینا انھیں پسند نہیں
- وہی، جسے چراغ مشتعل میں دیکھتے ہو تم
- یا تو ان کی بے اصولی میں لچک آ جائے گی
- غم باغباں کی جو بات تھی، وہ ہنسی مذاق میں ٹل گئی
- یہ ہوا کہ تیرے خیال کا کوئی انتظام چلا نہیں
- ہاں بھی بانکپن سے پرچم خسرو نکلتا ہے
- لیجیے اب امتحانِ جذبہ دل ہو گیا
- دامن باطل میں یوں سوتے رہے ہیں زلزلے
- وہی جو بزم تمنا سے خوار ہو کر چلے
- مئے نوشوں کے سینے میں ہر سانس اٹکتی جاتی ہے
- کسی کی چشم مروّت پہ حرف آ نہ سکے
- نام ان کا زیر لب ہے اور ہم
- کلی کلی کی رنگتیں نکھارتی ہوئی چلی
- دیوانۂ بہار بنا چاہتے ہیں ہم
- مجھ کو بلا رہا ہے اڑا کر غبار کیوں
- آرام ہے حرام اگر کام کاج ہے
- ظلم تو کیجیے، جور تو کیجیے
- موت ہے کہ رہزن ہے، زندگی کہ جادہ ہے
- شایانِ بزم یار نہیں بات کیا کریں
- برق نگاہ کوش، انھیں دیکھتی رہی
- رند سے رند آمادۂ جنگ ہے
- آپ ٹھیک کہتے ہیں، سیکڑوں ٹھکانے ہیں، میں کہیں نہ جاؤں گا، بات آبرو کی ہے
- ایک ذرے کے برابر مری اوقات نہ تھی
- آ گیا یاد آ گیا کوئی
- ہمیشہ مہلتِ صبر آزما کے ساتھ چلتے ہیں
- وہ اختیار میں ہیں نہ دل اختیار میں
- اپنی کچھ بات تو بنائیں ہم
- احتیاطاً خار پر الزام پہنچایا گیا
- کسی سے حالِ دل کہہ دیں، نصیب ایسا کہاں اپنا
- اپنی عادت پہ کبھی شرم نہ آئی تم کو
- بجا ہے اس روش پر جس قدر تنقید کی جائے
- آزما کر آپ کو سو بار، اب میں نے کہا
- عندلیبانِ چمن کی بے قراری بڑھ گئی
- کیا نتیجہ اخذ کیجے آپ کی گفتار سے
- قسمت تری نصیب ترا قلب تشنہ کام
- سودائیانِ دیر و حرم تو وہاں نہیں
- وہ جن کے دم سے نہیں چودھویں کے ماہ کی خیر
- سیکڑوں طوفان کشتی میں دکھا سکتا ہوں میں
- ہاں، ترکِ تعلق کے طلب گار ہیں ہم بھی
- (ذوالقافیتین)
- عمر بھر صرف ترا نام لیا ہے ہم نے
- پھولوں کے پاسباں رہے، کانٹوں سے دوستی رہی
- کہنے کو ہمارا جو مددگار رہا ہے
- اب تمہارے نام کی عزت ہمارے ہات ہے، سوچنے کی بات ہے
- کیوں گلے مل مل کے ویرانے سے روئی چاندنی
- متھے دُودھ کو دنیا والے کہتے ہیں کھویا تو کیا
- بجا کہ اس کا بہت احترام کرتا ہوں
- پھر مقدر آزمانا چاہیے
- کیا جانیے کس کا ہے نقشِ کفِ پا دِل پر
- (ایک ٹھکرائی ہوئی بحر میں )
- یہ بھی تو ہے رہینِ غم میرے حبیب کے لیے
- ترے خیال کے گیسو سنوار جاتی ہے
- کنارے آ کے طوفاں سے تصادم یاد آتے ہیں
- عندلیب خوش گلو کا فرض ہے گاتی رہے
- ہم کل جو میکدے میں ذرا تیز ہو گئے
- انگڑائی اس ادا سے نہ لے جھومتے ہوئے
- کیوں کر ہنسی نہ آئے اس ندرتِ ادا پر
- وہیں صیاد بھی ہو گا جہاں بلبل چہکتا ہے
- اللہ رے فنکاری یوں سر بہ گریباں ہے
- سب کو چونکاتی رہتی ہیں میری باتیں میرا فن
- منصف، وکیل، شاہد و جلاد سب وہی
- ہر دروغِ مصلحت آمیز سے بچتے رہو
- سوچنے کی بات ہے اب بھی سنبھل
- وہ جو تیرے ہاتھوں چرکے کھا جاتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
- رکھتے ہیں الزام خزاں پر خود ہی کلیاں چن کر لوگ
- کچھ دن کی من مانی کر لو
- چونکہ ہر قسم کے جذبات سے محروم ہو تم
- قائم ہے جن کے نام سے عنوان باب کا
- یوں ہی بیٹھا ہوں انتظار کہاں
- طنزیہ فقرہ بطرزِ عاشقاں کہنا پڑا
- فضول اپنے ہی دامن پہ یوں نہ داغ لگاؤ
- کریں گے سنگباری یہ جو شیشہ گر نکلتے ہیں
- بہ فیضِ مصلحت جو ہمدمی کی بات کرتے ہیں
- سوکھے پتوں کی ٹولی میں ہو جیسے ناچ بگولوں کا
- مری غزل کا تری ذات سے تعلق ہے
- گھر کے رہتے ہی نہیں، گھاٹ اترتے ہی نہیں
- جب کوئی شکوہ نہیں کرتا کسی بیداد کا
- اِک عمر گزرتی ہے کہ ہلکان رہا ہوں
- احتجاجاً سر اٹھایا جب کسی ناچار نے
- اس نے میرا نام لیا تھا!
- سونی محفل اچھی لیکن عجلت سے یوں کام نہ لے
- نام کی رعایت سے کام بھی ضروری ہے
- ’’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے ‘‘
- طنز کے بارے میں ان کا یہ نیا ارشاد ہے
- میری تعریفوں پہ وہ رسماً تو جھلّائے بہت
- بادِ مسموم چلے، پھول سسکتے جائیں
- پیرِ مغاں کو قبلۂ حاجات کہہ گیا
- کبھی پتھر نکل آیا کبھی ہیرا نکل آیا
- جس میکدے میں جام مرے روبرو نہ آئے
- رہنما کے ذوق کو تسکین پہنچاتے ہوئے
- غور مت فرمائیے بے خوف چل کر آئیے
- وہ دشمن سے کچھ کم نہیں ہے مگر پھر بھی اپنا ہے، اپنا سمجھ کر نہ کہہ دیں
- کیوں اور کس لیے وہ پشیمان ہو گیا
- باغباں نے لوٹا ہے، آندھیوں نے گھیرا ہے
- تکرار بے مزہ ہے تری اے پری جمال
- صرف مظلومین کی تعداد مت گنوائیے
- وہ نہیں سنتا مگر پھر بھی سناتے جائیے
- ہر ایک محفل میں اس طرح تم جو رونق انجمن بنو گے
- داغ بن کر دو جہاں کا غم جگر میں آ گیا
- اس نمائش میں بدن پر کوئی گہنا چاہیے
- سایۂ گیسو میں اب رہرو ٹھہرنے سے رہا
- کہتے ہیں کھوٹا سکہ بھی اکثر کام آ جاتا ہے
- سمجھیے کہ اس بزم کی لاج ہوں میں
- جس کو پہلے پیار کیا، اس کے نام سے نفرت ہے
- وہ جو دنیا پر روتا ہے
- تم آہیں بھر سکتے ہو یا تفریحاً رو سکتے ہو
- چاندنی اتنی گھٹی، پہلو میں گھٹ کر آ گئی
- جو موقع خاموشی کا تھا اس موقع پر حجت کی
- تم نے جی بھر کے ستانے کی قسم کھائی ہے
- در پردہ چمکیلی آنکھیں !
- صحنِ چمن کا تم کو جو نگراں بنا دیا
- کہہ دو سارے ہمسفروں سے
- غیروں پر ظاہر کرتا ہوں جیسے پی کر دیکھ رہا ہوں
- یہ سوچ کر وفا پر مجبور ہو گیا وہ
- ظاہر ہے کہ کانٹوں پہ سفر کر نہ سکیں گے
- زلف سی شے نارسا کر دی گئی
- سونا تپ کر بہہ نکلے تب ہو گا کندن، میں کہتا ہوں
- اسی کو دیکھ کر دلگیر ہے کیا
- تری نظر نے غضب کیا
- اس پر کہیں وہ سر نہ دھنیں کچھ دنوں کے بعد
- تغافل میں کمالِ چشم مستانہ بھی دیکھا ہے
- ’’پتہ پتہ بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے ‘‘
- بات کہہ کر مکر نہیں سکتا
- منجدھار میں تنکے بھی سہاروں کی طرح ہیں
- دل کو غم جہاں سے ہم آغوش کر دیا
- واعظ کو روایات نے مجبور کیا ہے
- کہنے کو آزادی ہو گی
- کہا دشمنی کو اجازت نہ دینا
- جلوے کے انتظام میں پردا بھی ہو گیا
- وقتی ساکھ بنانی ہو تو ایسے میں آواز لگا دو
- ’’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں ‘‘
- مجھے الجھے ہوئے حالات نے اتنا ستایا ہے
- صبح دیکھی ہے مگر شام سے ناواقف ہے
- بیکار آ گئے عرقِ انفعال میں
- میں پوچھتا ہوں خیر سے کیا کیا نہیں ہے وہ
- اس کے دِل و دماغ کی دنیا ہی اور ہے
- کیوں یقین کر لیں ہم بولنے ہی والی ہیں
- رہتا ہے ہر وقت قلق میں
- غافل ہے مکیں، گھر میں اُجالا بھی نہیں ہے
- سوچتے ہیں اُداس ہو جائیں
- اس طرف وہ جو نظر پڑتا ہے
- تو میرا ہم جلیس ترا ہم جلیس وہ
- یا تو ’’ہر کمال را زوال‘‘ غلط ہے
- پہلے ہم اس کی محفل میں جانے سے کترائے تو
- اس مد میں چیونٹی بھی بھاری پڑتی ہے انسانوں پر
- کیا خبر کس کو بری لگ جائے تیری گفتگو؟
- سب کے بس کی بات نہیں ہے یوں ہنس ہنس کر دکھ سہنا
- دعوے بہت کیے ہیں مداوا کے نام پر
- خوب نمائش کاغذ اور قلم کے غازی کرتے ہیں
- گھر ’’گرتا ہوں ‘‘ کہہ کر لپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
- پرسِش غم کے لیے اہلِ کرم آتے ہیں
- عجب سلوک ہوا غیرت و کمال کے ساتھ
- مجھ پہ اس جورِ مسلسل کا سبب تو دیکھو
- حیرت ہے یہ تاریکی سی کیوں طاری ہے دو جہان پر
- جانے کس وہم میں مبتلا ہو گیا
- بدنام ہمیں کیجے، بیداد کرے کوئی!
- رہبر کا حلیہ لکھوا دوں، رنگ ذرا کچھ مدھم ہو گا
- میاں زہر کب تک پیا جائے نا
- سفر کے آگے صعوبت کی گرد کیا شے ہے
تیکھی غزلیں
۱۹۶۰ء — ۱۹۶۴ء
مظفرؔ حنفی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل
ترے تصور میں وادیِ دل جو رنگ و نکہت میں بس رہی ہے
بہار قوسِ قزح کے ہمراہ آ گئی ہے، برس رہی ہے
چمن میں رہ کر بھی مجھ پہ احسان کچھ نہیں اہل گلستاں کا
کہ فکر تعمیر آشیاں بھی مجھے مثالِ قفس رہی ہے
ہزار میں نے کسی کی یادوں سے حافظے کو بچا کے رکھا
مشامِ جاں میں کسی کی خوشبو مگر ہزاروں برس رہی ہے
قریب آؤ کہ منتشر منتشر سے گیسو سنوار دیں ہم
قریب آؤ کہ روشنی کو نظر ہماری ترس رہی ہے
خمار کی مشعلیں جلاؤ، شراب لاؤ، شراب لاؤ
کہ رات کی یہ سیاہ ناگن ہمیں لگاتار ڈس رہی ہے
ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ آ کے منزل پہ سن رہا ہوں
وہی صدا جو مرے لیے مدتوں صدائے جرس رہی ہے
وصال کی رات اور کچھ تو نہ چاہیے مجھ کو اے مظفر
مگر وہ بے نام سی خلش جو کبھی مری ہم نفس رہی ہے
٭٭٭
تجھے کچھ خبر بھی ہے بے خبر کہ تری نگاہ کدھر پڑی
وہی ایک شیشۂ دلِ ملا، نہ اِدھر پڑی نہ اُدھر پڑی
غمِ روزگار کا دِن اگر کسی میگھ رات سے کم نہیں
یہ ترے وصال کی رات ہے، سرِ شام، صبح نظر پڑی
مرے زخم یوں نہ ٹٹولیے، کسی داغِ دِل سے نہ بولیے
دِل ناصبور مچل گیا تو بلا حضور کے سر پڑی
اِسے میکدے کی کشش کہوں کہ عقیدتِ مُغِ نوجواں
مرے جس طرف بھی قدم اٹھے یہی ایک راہ گزر پڑی
تری آرزو میں سُرور ہے، مگر ایک بات ضرور ہے
مرے حال پر نہ نگاہ کی، مرے جام پر نہ نظر پڑی
وہ کنوار پن میں دبی دبی، وہ حیا کے بار سے مضمحل
مری اِک نگاہ کے لمس سے وہ متاعِ حسن نکھر پڑی
یہ مظفرؔ اپنا نصیب ہے، غمِ یار دِل کے قریب ہے
کہ غمِ جہاں کے لیے تو ہے ابھی ایک عمرِ خضَر پڑی
٭٭٭
اٹھتے اٹھتے کہہ گئی مقتل میں دیوانے کی خاک
ایک دن اڑ جائے گی ظالم کے کاشانے کی خاک
جب اٹھایا کاتبِ تقدیر نے دِل کا خمیر
ڈال دی کعبے کی مٹی میں صنم خانے کی خاک
آبِ زمزم کیا ہے اور خاکِ شفا کی کیا چیز ہے
بادۂ گل رنگ تھوڑا، تھوڑی میخانے کی خاک
شمع کی لو تھرتھراتی ہے، دھواں دینے کو ہے
بزم میں بادِ صبا لائی ہے پروانے کی خاک
سر چڑھاتی ہے کبھی، سینے لگاتی ہے کبھی
ان کا دامن پا گئی ہے آج دیوانے کی خاک
کیا خبر تھی تم عبادت گاہ کر لو گے اِسے
اتفاقاً رہ گئی تھی میرے پیمانے کی خاک
اے مظفر وہ تو خود عنوانِ صد افسانہ ہیں
قدر ان کی بزم میں ہو تیرے افسانے کی خاک
٭٭٭
تنقید مری مے نوشی پر فرمانے کی بھی خوب رہی
یہ چیز تمہاری آنکھوں کی نسبت سے ہمیں مرغوب رہی
ہر چند گلستاں والوں نے پابند رکھا دیوانے کو
ہر غنچے کی معصوم ہنسی دیوانے سے منسوب رہی
ہر شخص کی فطرت ہوتی ہے ہر موقع پر، ہر منزل میں
جس راہ پہ کانٹے بکھرے تھے وہ راہ مجھے محبوب رہی
محفل میں ہزاروں تھے لیکن یہ راز نہ کوئی جان سکا
یوں ایک نظر گستاخ رہی، کیوں ایک نظر محجوب رہی
کیوں بھیگی بھیگی آنکھوں سے دیکھا تھا دمِ رخصت تم نے
ویرانۂ دِل کی آب و ہوا اِک عرصے تک مرطوب رہی
ہر وقت مظفرؔ سوچیں گے کب راہ ملے، کب چل نکلیں
جن کی منزل مسدود رہی، جن کی ہستی معتوب رہی
٭٭٭
کیا بیٹھیے وہاں، کوئی عزت جہاں نہ ہو
لیکن خطا معاف، مرے ساتھ ہی اٹھو
ہم تم کو جانتے ہیں، ہمیں مت فریب دو
شیخِ حرم سلام، نمستے برہمنو
اتنی خصوصیت سے مرا نام تم نہ لو
کچھ اور لوگ بھی ہیں اگر بھانپ جائیں تو؟
میں تھا کہ احتیاط کو ٹھکرا کے پی گیا
وہ دیکھتے رہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو
کھاتے رہے فریب ہمیں جان بوجھ کر
اتنی سی بات ہے اسے جتنا بھی طول دو
پھولوں کے درمیاں نہ سہی، صحن باغ میں
میرا بھی آشیاں ہے، اگر ٹھیک سے گنو
میں دشمنوں کے ہاتھ سے مارا نہیں گیا
لازم ہے میرے حال پہ کچھ رحم دوستو
٭٭٭
تیرے قریب تیرے مقابل نہیں ہوں میں
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں ہوں میں
طوفاں میں ڈوبتا ہے سفینہ تو غم نہیں
یارو! فریب خوردۂ ساحل نہیں ہوں میں
اے کائناتِ دیدۂ و دِل، دِل پہ رکھ کے ہاتھ
سچ سچ کبھی بتا کہ ترا دل نہیں ہوں میں
میں کر چکا ہوں عشق کی سب منزلیں تمام
مجنوں کی طرح بندۂ محمل نہیں ہوں میں
میدانِ رستخیز ہے دنیا نہیں، کہ تو
کہہ دے اٹھا کے ہاتھ کہ قاتل نہیں ہوں میں
یا تو ہی ذوقِ دید کے قابل نہیں رہا
یا تیرے التفات کے قابل نہیں ہوں میں
دیکھا جو روشنی میں مرا عزمِ نوجواں
منزل پکار اٹھی ہے کہ منزل نہیں ہوں میں
٭٭٭
جو ناواقف ہیں چشمِ لطف کا احسان لیتے ہیں
مگر پہچاننے والے ترا ارمان لیتے ہیں
یقین آتا نہیں یہ باغبانانِ سِتم پیشہ
کلی کا سوز، کانٹوں کی خلش پہچان لیتے ہیں
ہماری زندگی ہے اک مسلسل موت، اے لوگو
کہیں اس طرح تڑپا کر کسی کی جان لیتے ہیں
تجھے اے قلبِ گیتی ہم سے بڑھ کر کون سمجھے گا
کہ اپنی نبض سے تیرا ارادہ جان لیتے ہیں
یہ پتھر پوجنے والے، خودی کو بھولنے والے
بتوں کا مفت میں کیوں اپنے سر احسان لیتے ہیں
مئے ہستی کی دُزدِ تلخ پینے پر نہ طعنہ دو
غمِ جاناں کے آنچل میں اسے ہم چھان لیتے ہیں
مظفر زندگی بھر ہم نے انسانوں کی خدمت کی
ہمارا نام لیکن چند ہی انسان لیتے ہیں
٭٭٭
سوچ کر کہ اب کسی کا نام کیا اچھالیے
زخم دل ہمیں نے جان بوجھ کر چھپا لیے
وہ کچھ اس طرح نظر جھکا کے مسکرا دیا
پھر کوئی نہ کہہ سکا کہ بات کو نہ ٹالیے
گھوم پھر کے خاک آپ ہی کے سر پہ آئے گی
خواہ جس طرح بھی آفتاب پر اُچھالیے
حسب حکم بار بار ہم سنبھل گئے مگر
آپ بھی تو زاویہ نگاہ کا سنبھالیے
اعتبارِ کچھ نہیں، کہاں یہ بھید کھول دیں
بزم سے ہر اِک نظر شناس کو نکالیے
شکوہ سنج ہو نہ پائے ان کی اس دلیل پر
گفتنی نہیں ہر ایک بات، خاک ڈالیے
بابِ عشق میں مظفرِؔ وفا پرست بھی
کہہ گیا کہ سانپ آستین میں نہ پالیے
٭٭٭
عبادت ہے ہماری مے پرستی دیکھتا کیا ہے
ہمیں اے ناشناسِ قدرِ مستی، دیکھتا کیا ہے
جنوں اک اجنبی سا کیوں کھڑا ہے راہِ ہستی میں
ہر اک بستی ہے دیوانوں کی بستی دیکھتا کیا ہے
تری یہ مصلحت اندیشیاں بیکار ہیں اے دِل
محبت میں بلندی اور پستی دیکھتا کیا ہے
دل ناداں یہی تو وقت ہے پینے پلانے کا
گھٹا اکثر نہیں کھل کر برستی، دیکھتا کیا ہے
زہے قسمت کہ ان کا نقش پا مل جائے سجدے کو
یہیں پر ہے کہیں معراجِ ہستی، دیکھتا کیا ہے
جدھر ساغر اٹھا دیں خود بخود لبریز ہو جائے
مظفرؔ تو ہماری تنگدستی دیکھتا کیا ہے
٭٭٭
مجھے اداس دیکھ کر قریب آ گیا ہے وہ
فریب کھا گیا ہے وہ فریب کھا گیا ہے وہ
مہ و نجوم کا غبار سا اڑا گیا ہے وہ
نظر بکھر گئی مری کہ جھلملا گیا ہے وہ
ذرا سا التفات پا کے سوچنے لگا ہوں میں
اسی کو میں پسند ہوں کہ مجھ کو بھا گیا ہے وہ
جہاں مجھے یقین تھا، وفا کی بات چل پڑی
اسی مقام پر نظر بچا بچا گیا ہے وہ
بسی ہوئی ہے دِل کے آس پاس درد کی مہک
سدا بہار پھول کچھ یہیں کھلا گیا ہے وہ
یہ اور بات ہے کہ شمع آرزو بجھی رہے
چراغ تو خیال میں کئی جلا گیا ہے وہ
مظفرِؔ خراب کو نہ خار کیوں پسند ہوں
بہار کے خلاف اک ثبوت پا گیا ہے وہ
٭٭٭
یا خدا کس جگہ آج ہم آ گئے
خود بخود آستیں میں صنم آ گئے
کوئی آئنہ سالم نہ رہتا یہاں
وہ تو کہیے کہ رستے میں ہم آ گئے
دل ترے غم کے ہاتھوں پریشان تھا
غمگساری کو دنیا کے غم آ گئے
گمرہی میں بھی اک لطف آنے لگا
راہ میں زلف جاناں کے خم آ گئے
خانۂ دِل میں ہے یاد کی روشنی
بت کدے میں چراغِ حرم آ گئے
کیجیے جام لبریز اور پیجیے
لیجیے واعظِ محترم آ گئے
ہم سے ملنے میں توہین کیا ہو گئی
آپ آگے اگر دو قدم آ گئے
٭٭٭
گزر جائے گی آخر وصل کی یہ رات کہتا ہوں
نہ ان کی بات سنتا ہوں نہ اپنی بات کہتا ہوں
چلا ہوں ساتھ لے کر مشعلوں کے قافلے دن میں
یہ فیضِ مصلحت ہر اک سحر کو رات کہتا ہوں
مری دیوانگی تسلیم، لیکن بات تو سنیے
پتے کی بات وحشت میں بسا اوقات کہتا ہوں
کسی جادو نظر، چشمِ کرم پر حرف آتا ہے
اگر پیر مغاں کو قبلۂ حاجات کہتا ہوں
مبادا اس طرح سیراب ہو جائے دلِ تفتہ
تمہارے گیسوؤں کو میں بھری برسات کہتا ہوں
مظفرؔ لوگ ان کو شعر سے تعبیر کرتے ہیں
جو مجھ کو پیش آتے ہیں وہی حالات کہتا ہوں
٭٭٭
ظرفِ بے مایہ چھلک جائے تو پھر کیا کِیجے
خون آنکھوں سے ٹپک جائے تو پھر کیا کِیجے
چونکہ فریاد و فغاں مجھ کو ہے توہین وفا
آتش شوق بھڑک جائے تو پھر کیا کِیجے
غنچۂ نو جو سر شاخ نظر آتا ہے
قبل از وقت چٹک جائے تو پھر کیا کِیجے
خضر کی راہ نمائی پہ یقیں ہے لیکن
خضر ہی راہ بھٹک جائے تو پھر کیا کِیجے
لاکھ تاریک سہی، لاکھ بہت لمبی ہو
رات زلفوں میں مہک جائے تو پھر کیا کِیجے
ہم نے آواز نہ دی تھی غم دوراں تجھ کو
دل کی قسمت ہی چمک جائے تو پھر کیا کِیجے
اے مظفرؔ کوئی تارا سا جگر میں ٹوٹے
اور پلکوں پہ دمک جائے تو پھر کیا کِیجے
٭٭٭
اس وقت، کہ جب آپ سے پہچان نہیں تھی
اتنی تو مصیبت میں مری جان نہیں تھی
وہ رات تمھیں یاد تو ہو گی کہ اسی رات
یہ زلف پریشاں بھی پریشان نہیں تھی
حالانکہ وفائیں ہی وفاؤں کا صلہ ہیں
دنیا تو ہماری طرح نادان نہیں تھی
مدت سے رگِ جاں کی تمنا یہ رہی ہے
تلوار مری موت کا سامان نہیں تھی
مائل بہ کرم تھی وہ نظر مصلحتاً کیوں ؟
اتنا تو سمجھتا ہوں پشیمان نہیں تھی
سچ ہے کہ مظفرؔ کو بہت داد ملی ہے
داد اس کی غزل پر کوئی احسان نہیں تھی
٭٭٭
عرض ہوتا ہے، طول ہوتا ہے
داستاں میں اصول ہوتا ہے
مطمئن ہیں انھیں بتائے کون
آدمی کیوں ملول ہوتا ہے
جس جگہ قہقہوں کا موقع ہو
اس جگہ غم فضول ہوتا ہے
توڑیے، کون ہاتھ روکے گا
توڑنے ہی کو پھول ہوتا ہے
خانقاہوں سے چالبازوں پر
برکتوں کا نزول ہوتا ہے
خاندانوں پہ صَرف کرنے کو
ہم سے چندہ وصول ہوتا ہے
طنز گو کے سوا مظفرؔ کون
شاعر با اصول ہوتا ہے
٭٭٭
اس جرم میں گواہ جو میرے خلاف ہیں
سچ مانیے حضور کہ ’’وعدہ معاف‘‘ ہیں
تعمیر کے خیال میں وہ بھول ہی گئے
دیوار میں ابھی سے ہزاروں شگاف ہیں
شاید انھیں خبر بھی نہیں، رات ڈھل چکی
پروانہ ہائے شوخ کہ محو طواف ہیں
مرکز چنا گیا ہے جسے اجتماع کا
در پردہ اس مقام پہ سو اختلاف ہیں
اے دوستو فریب نہ کھانا نگاہ کا
دل کی خباثتوں پہ سنہرے غلاف ہیں
نیت وہ باغباں کی پہچانتے نہیں
وہ لوگ جو سرے سے خزاں کے خلاف ہیں
کہتے ہیں یار لوگ مظفرؔ کے باب میں
کڑوے زبان کے ہیں طبیعت کے صاف ہیں
٭٭٭
زندگی کا سفر، شام بجھتی ہوئی، یوں نہ روکو قدم اتنی فرصت کہاں
زلف کی چھاؤں میں وقت ضائع کریں رہرو راہِ غم، اتنی فرصت کہاں !
محترم! آپ کی بات بھی خوب ہے، گردشِ روز و شب روک دیتے مگر
محو نظارۂ زلف و رخسار ہیں، اس طرف آئیں ہم، اتنی فرصت کہاں
فکر و احساس کے بار سے جس جگہ ہم غریبوں کا سر جھک گیا جھک گیا
قبل از سجدہ یہ سوچنے بیٹھتے، دیر ہے یا حرم، اتنی فرصت کہاں
مطلع دل پہ اڑتی ہوئی خاک سی، یہ بھی رُت ہے بھلا کوئی برسات کی
لاج رکھنی پڑی ہے روایات کی، ورنہ اے چشم نم، اتنی فرصت کہاں
ایک بھرپور جلوے کا محتاج ہوں یوں تو صدیاں لگیں گی ہٹاتے ہوئے
یہ نقابِ حیا و حجاب نظر، اے نگاہِ کرم، اتنی فرصت کہاں
اس نئے دور کے لاکھ مضمون ہیں، ہر طرف دعوتِ فکر دیتے ہوئے
شعر کہہ کر کریں ان کی تقطیع بھی، آج اہل قلم، اتنی فرصت کہاں
لاکھ پیر مغاں کا بھروسہ نہیں، کچھ مظفر کی تشنہ لبی پر نظر
لو پیو دوستو اب کرے کون اندیشۂ بیش و کم، اتنی فرصت کہاں
٭٭٭
چاند را توں میں ہمارے پاس آنے کی کہو
مان جانے کی کہو، قربان جانے کی کہو
سنگ در کس حال میں ہے میرے سجدوں کے بغیر
دوستو! کچھ بات ان کے آستانے کی کہو
چونک اٹھیں نیم خوابیدہ امیدیں اس طرح
اے نگاہو! داستاں جادو جگانے کی کہو
اہل زنداں یاد کی خوشبو لیے بیٹھے رہیں
ہر کلی کے گرد دیواریں اٹھانے کی کہو
نامرادی، خستگی، واماندگی، بیچارگی
سرخیاں کچھ اور بھی میرے فسانے کی کہو
شہد میں لپٹی ہوئی باتیں مزہ دیتی نہیں
دل جلوں سے بات کوئی دل جلانے کی کہو
وہ اگر اپنے مظفرؔ سے جتائیں بے رخی
زیر لب اشعار میرے گنگنانے کی کہو
٭٭٭
آپ کا سہارا ہے صرف آبگینوں پر
طنز کر رہا ہوں میں اپنے نکتہ چینوں پر
میں سوال کرتا ہوں، وہ جواب کیا دیں گے
خود نہیں بکھر سکتا، خون آستینوں پر
آستانِ ثروت پر جس قدر چکائے ہیں
طنز ہیں وہی سجدے آپ کی جبینوں پر
یوں تو خیر ملتا ہے پھل سبھی کو محنت کا
فیضِ عام ہوتا ہے باغ کے مکینوں پر
دست غیب نے ان سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے
روز روز پیتے تھے، آ گئے مہینوں پر
ہم فضول لوگوں کو ناخدا نہیں کہتے
آپ کا سفینہ ہے دلدلی زمینوں پر
شاعرانِ رجعت کے، بامِ فن پہ جانے کو
پیر ہی نہیں جمتے، فکر نو کے زینوں پر
٭٭٭
وہ غلط سمجھے کہ ہے شیخ زمن میری طرف
مسکرائے دیکھ کر استادِ فن میری طرف
میں یقیناً روزنِ زنداں کی نگرانی میں ہوں
ورنہ کیوں ہے اس اندھیرے میں کرن میری طرف
گلستاں میں اس لیے ہر گام پر محتاط ہوں
دیکھتا رہتا ہے وہ گل پیرہن میری طرف
میری بے باکی پہ ساری انجمن سکتے میں ہے
وہ سمجھتا ہے کہ ہو گی انجمن میری طرف
موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیتا ہوں میں
بارہا اس نے بڑھایا ہے کفن میری طرف
مدعا یہ ہے کہ میں اپنی جبلّت چھوڑ دوں
جرم ٹھہرایا گیا ہے بانکپن میری طرف
جانے کب میں چوٹ کر بیٹھوں اسی تشویش میں
ملتفت ہوتا نہیں ہے برہمن میری طرف
٭٭٭
وہ یاد آ رہے ہیں سر شام دوستو
دنیا ذرا شراب کا اک جام دوستو
کم ظرف منزلوں کی تمنا میں رہ گئے
بڑھتی گئی حیات سبک گام دوستو
بے شک قدم قدم پہ کرو بے وفائیاں
لیکن انھیں وفا کا نہ دو نام دوستو
یہ عرش ہے تو عرش نہیں منزل جنوں
آغاز کو بناؤ نہ انجام دوستو
مانوس ہو گیا ہوں غم انتظار سے
ان کا خیال جب نہ رہا خام دوستو
اکثر چراغ راہ بنی خضر کے لیے
میری ہر ایک کوشش ناکام دوستو
لٹتا رہا مظفرؔ آشفتہ سر مگر
ہے اور کیا خلوص کا انعام دوستو
٭٭٭
’’منظور ہے گزارشِ احوال واقعی‘‘
میری غزل سے سیکھ ادائیں نئی نئی
عرصے کے بعد اب جو میسر ہوئی خوشی
آنسو نہیں رہے کہ اتر جائے آرتی
ہم نے جو ایک بات بھی سیدھی نہیں کہی
مانی ہوئی ہے بات کہ دنیا نہ مانتی
انگڑائیاں جو یاد پڑیں آنجناب کی
زنجیر کی ہر ایک کڑی ٹوٹتی گئی
ہاں اے نگاہِ ناز ذرا دیکھ بھال کے
دل کو فریب کھانے کی عادت نہیں رہی
کیسے کریں وفا کی تمنا جناب سے
یہ سوچتے ہوئے بھی ہمیں شرم آئے گی
یہ طنزیہ زبان مظفرؔ انھیں کی ہے
مطعونِ رام پور جو ہیں شادؔ عارفی
٭٭٭
ہم اگر اقدامِ مئے خواری کریں
مدعا یہ ہے کہ سر بھاری کریں
دو رخی با توں سے بہتر ہے کہ وہ
صاف دشمن کی طرفداری کریں
چل رہے ہیں جو ہمارے رنگ پر
جیل ہو آنے کی تیاری کریں
قوم سے چندے وصولے ہیں بہت
اب ذرا خیرات بھی جاری کریں
گلستاں والو، اگر شبنم نہ ہو
پھول کیسے گریہ و زاری کریں
جو مظفرؔ نے کہا، کیسا کہا
فیصلہ ناقد کریں، قاری کریں
٭٭٭
پہنچے گی ایک روز وہاں تک یہاں کی بات
کرتے ہیں چند خاک نشیں، آسماں کی بات
وہ جن پہ رہ گزر ہی تری بند ہو گئی
ٹھوکر سے چھیڑتے ہیں ترے آستاں کی بات
کانٹے بھی شاخ پر نہ رہیں گے مثال گل
گُل چیں جو مان جائے کبھی باغباں کی بات
اِک سنسنی سی پھیل گئی بزمِ ناز میں
ہے معرضِ خطر میں ترے راز داں کی بات
معصوم ہیں جناب، ذرا غور کیجیے
ہے نقش آستیں پہ کسی نیم جاں کی بات
دیتا رہا فریب انھیں موسم بہار
کرتے رہے جناب مظفر خزاں کی بات
٭٭٭
ہر جفا پر صبر کی تلقین ہے
یہ ادا بھی لائق تحسین ہے
آپ آئے ہیں گواہی کے لیے
آستیں تک آپ کی رنگین ہے
گھونٹ دیجے ہر صداقت کا گلا
دوستو! یہ کون سا آئین ہے
دیکھیے اب کیا وفا کا حشر ہو
حادثہ تو واقعی سنگین ہے
پھول میں کانٹے چبھے ہیں دیکھنا
واہ! کس انداز کی تزئین ہے
کام سے جاتا رہا وہ آدمی
بعدِ شغلِ جام جو غمگین ہے
ہے مظفرؔ ناگوارِ انجمن
محترم! یہ آپ کی توہین ہے
٭٭٭
جام و مینا انھیں پسند نہیں
یہ قرینہ انھیں پسند نہیں
آبگینہ تو ٹوٹ جاتا ہے
آبگینہ انھیں پسند نہیں
ناخدا ہیں اسی سفینے کے
جو سفینہ انھیں پسند نہیں
مجھ سے نظریں وہ کم ملاتے ہیں
روز پینا انھیں پسند نہیں
ایک مدت سے جن پہ مرتا ہوں
میرا جینا انھیں پسند نہیں
دل کو انمول سب سمجھتے ہیں
یہ نگینہ انھیں پسند نہیں
اے مظفرؔ تری غزل پڑھ کر
پھینک دی نا! انھیں پسند نہیں
٭٭٭
وہی، جسے چراغ مشتعل میں دیکھتے ہو تم
مرا خیال ہے، جسے عمل میں دیکھتے ہو تم
وہ میں، کہ روز وادی اجل میں گھومتا رہا
مجھے تخیلات کے محل میں دیکھتے ہو تم
بشرط تازگی تلاشِ رنگ و بو کی بات ہے
تمھیں کو دیکھتا ہوں میں کنول میں دیکھتے ہو تم
ہمارے خط کو سرسری نگاہ سے نہ دیکھنا
صدی صدی کی بات ایک پل میں دیکھتے ہو تم
مظفرِ خراب کا مزاج پوچھتے ہو کیا؟
وہی ہے، جو مزاج ہر غزل میں دیکھتے ہو تم
٭٭٭
یا تو ان کی بے اصولی میں لچک آ جائے گی
ورنہ خود داری فرازِ دار تک آ جائے گی
آپ ہو جائیں گے جب واقف ہمارے حال سے
آپ کے دل دوز لہجے میں کھنک آ جائے گی
سرسری ملتے نہیں راہوں میں ہم آوارہ لوگ
دیکھیے تا دیر، آنکھوں میں چمک آ جائے گی
مانتے ہیں ان کو، لیکن ان کی ہر تقریر میں
جانتے ہیں ہم، تصنع کی جھلک آ جائے گی
ہم غریبانِ چمن ہیں بے نیازِ آشیاں
غالباً اس رنج میں چشم فلک آ جائے گی
آرزوئے صبح کو دل میں چھپائیں لاکھ ہم
شام غم لیکن چھڑکنے کو نمک آ جائے گی
دیکھ لینا اے مظفرؔ، آسماں ہے اور ہم
سربلندی کی اگر دل میں سنک آ جائے گی
٭٭٭
غم باغباں کی جو بات تھی، وہ ہنسی مذاق میں ٹل گئی
مگر ایک فتنہ کھڑا ہوا جو کلی کہیں بھی کچل گئی
مجھے حسن و عشق کے ذکر سے کوئی دشمنی تو نہیں مگر
کہیں قافیہ ہی نہیں سجا تو کہیں ردیف نکل گئی
یہ قریب تھا کہ ادائے ناز کا وار دِل پہ اثر کرے
اسے اتفاق ہی جانیے کہ مری نگاہ سنبھل گئی
وہ بزعم خود تھا جو باخبر، وہ ذرا سا چوک گیا اُدھر
تو وہ، جس پہ شہ کا مدار تھا وہی ایک چال بدل گئی
کوئی زیر دام نہ آئے گا، یہ فریب کام نہ آئے گا
یہ خبر نہ ہم کو سنائیے کہ شب فراق تو ڈھل گئی
جو نہیں تھا شاخ پہ آشیاں، تو دکھائے شاخ ہی باغباں
وہ ہزار نرم سہی مگر کوئی موم تھی، کہ پگھل گئی
مجھے اے مظفرؔ نیم جاں، اسی خار زار نے دی اماں
مری باغباں سے جو گلستاں میں خزاں کے نام پہ چل گئی
٭٭٭
یہ ہوا کہ تیرے خیال کا کوئی انتظام چلا نہیں
شب غم کا طول کچھ اتنا تھا کہ چراغِ شام چلا نہیں
کوئی دیر سے نہ نکل سکا، تو کوئی حرم میں بھٹک گیا
تری رہ گزر نہ ملی اگر بصد احترام چلا نہیں
یہ علاج خوب رہا کہ ہم کوئی تلخ بات نہ کہہ سکے
اسے تیز گام لقب دیا جو برائے نام چلا نہیں
یہ تری نگاہ کا فیض ہے کہ ہمارے ظرف کی بات ہے
کبھی تشنہ کام اٹھے نہیں، کبھی دورِ جام چلا نہیں
مرے امتحان کی راہ میں وہ عجیب ایک مقام تھا
کہ خرد کی بات بنی نہیں کہ جنوں سے کام چلا نہیں
وہ مری حکایت تلخ پر جو نہ مسکرائے تو کیا کرے
کبھی خار زار میں آج تک وہ سبک خرام چلا نہیں
٭٭٭
ہاں بھی بانکپن سے پرچم خسرو نکلتا ہے
پس پردہ کسی فرہاد کا بازو نکلتا ہے
بہ ظاہر شہد میں لپٹی ہوئی ہر بات ہے ان کی
مگر ہر بات میں اِک طنز کا پہلو نکلتا ہے
ہماری سانس گھٹتی ہے اگر آنسو نہیں آتے
ہماری بات جاتی ہے اگر آنسو نکلتا ہے
تعجب ہے کہ اتنی بے رخی کے بعد بھی دل میں
ہر اک ارمان کے نیچے ترا زانو نکلتا ہے
تری محفل سے اچھا ہے مرا وحشت کدہ جس میں
جدھر آواز دیتا ہوں وہیں سے تو نکلتا ہے
مظفرؔ آپ کے اشعار دِل میں ڈوب جاتے ہیں
قلم سے آپ کے منہ بولتا جادو نکلتا ہے
٭٭٭
لیجیے اب امتحانِ جذبہ دل ہو گیا
میں ہی خود اپنی تمناؤں کا قاتل ہو گیا
برق نے سارا گلستاں پھونک بھی ڈالا تو کیا
اِک ذرا سی دیر کو جشن عنا دل ہو گیا
غرق ہو کر ہم نے رکھ لی آبرو طوفان کی
تو کنارے پر پہنچ کر ننگ ساحل ہو گیا
پڑ گئی جس پر تمہاری اک نگاہِ ملتفت
ہر وہ ذرہ آنکھ میں رکھنے کے قابل ہو گیا
میری آنکھوں میں تو آنسو کی حقیقت کچھ نہ تھی
تیرے دامن پر ٹپکتے ہی مرا دل ہو گیا
اپنی محفل سے مجھے اٹھوا دیا اس نے مگر
دیکھیے میرے بنا کیا رنگ محفل ہو گیا
گلستاں پر پھٹ پڑی ہیں آج کل رنگینیاں
غالباً خونِ مظفرؔ ان میں شامل ہو گیا
٭٭٭
دامن باطل میں یوں سوتے رہے ہیں زلزلے
جیسے اِک موسیٰؑ کسی فرعون کے گھر میں پلے
دل میں تیرا پیار پہلی بار جاگا اس طرح
جیسے مئے خانے میں کوئی گلبدن آنکھیں ملے
یاد آ جاتی ہے کچھ بیتے ہوئے لمحات کی
جیسے دل کے پاس رہ رہ کر کوئی دیپک جلے
حافظے پر چوٹ پہنچاتی ہے یوں موجِ نسیم
جیسے پایل کو بجاتی کوئی دوشیزہ چلے
بادلوں کے درمیاں قوسِ قزح کھلتی ہوئی
جیسے دل میں درد سے ارمان ملتا ہو گلے
کنکری سے جھیل میں اٹھتا ہوا موجوں کا جال
جیسے اک مجبور کے دل میں ہزاروں ولولے
اس طرح حالات کی زد میں مظفرؔ آ گیا
جیسے انجانے میں کوئی پھول پیروں کے تلے
٭٭٭
وہی جو بزم تمنا سے خوار ہو کر چلے
ترے سلوک کے آئنہ دار ہو کے چلے
بجا کہ پاس ہے طوفاں مگر سفینۂ دل
اب اس طرح بھی نہ بے اختیار ہو کے چلے
حرم رہا نہ کوئی دَیر ہی رہا باقی
جدھر جدھر ترے بادہ گسار ہو کے چلے
جگہ ملی نہ کسی دامن محبت میں
نسیم بن کے اٹھے تھے غبار ہو کے چلے
سکوتِ صبح پہ کیسے یقیں کرے کوئی
اگر نسیم چمن بے قرار ہو کے چلے
بجا کہ ذکر دل داغ دار کرتا ہوں
مگر جناب کہاں شرمسار ہو کے چلے
بقول شادؔ، مظفرؔ اصول ہے اپنا
کہ سر بلند رہے خاکسار ہو کے چلے
٭٭٭
مئے نوشوں کے سینے میں ہر سانس اٹکتی جاتی ہے
صہبا تو کم ظرفوں ہی کے پاس چھلکتی جاتی ہے
رات بہت اندھیاری ہے اور وہ بھی کچھ نزدیک نہیں
پھر اتنی تابانی کیوں ہے آنکھ جھپکتی جاتی ہے
ان کی یاد کے آنچل سے اکثر دل کے انگاروں پر
شبنم جیسی کوئی ٹھنڈی چیز ٹپکتی جاتی ہے
چپکے چپکے روتا ہے اک نازک سا دل محمل میں
دور کہیں ویرانے میں زنجیر چھنکتی جاتی ہے
کہتے ہیں تیری محفل سے دل کی منزل دور نہیں
لیکن تیری محفل بھی تو دور سرکتی جاتی ہے
دل کی مشعل روشن کر کے جب دیکھی تصویر تری
مشعل مدھم ہوتی ہے، تصویر چمکتی جاتی ہے
ان آنکھوں کی بات مظفر نے چھیڑی ہے مستی میں
میری توبہ مئے خانے کے پاس بھٹکتی جاتی ہے
٭٭٭
کسی کی چشم مروّت پہ حرف آ نہ سکے
ہم اس لحاظ سے پی کر بھی ڈگمگا نہ سکے
اسے فریب نظر نام دوں کہ کم بینی
مری نگاہ میں جلوے ترے سما نہ سکے
تمام عمر کٹی احتیاطِ پیہم میں
قریب آ نہ سکے، آپ کو بلا نہ سکے
وفورِ شوق ترے پاس لے گیا لیکن
وہی ہوا کہ نظر سے نظر ملا نہ سکے
شب فراق کی تاریکیاں معاذاللہ
چراغِ اشک بھی تا دیر جھلملا نہ سکے
برائے نام کوئی زخم ہی عنایت کر
ترا خیال اگر پھول بھی کھلا نہ سکے
جنھیں تمام گلستاں کی فکر لاحق تھی
وہ آپ اپنا نشیمن کہیں بنا نہ سکے
٭٭٭
نام ان کا زیر لب ہے اور ہم
اک سکوت نیم شب ہے اور ہم
ان سے پھر کہنے چلے ہیں حالِ دل
پھر وہی پاس ادب ہے اور ہم
بھولنے کی کوششیں مت کیجیے
یاد آئیں، کیا عجب ہے اور ہم
یہ ہمارا ہی تصور تو نہیں
آپ کی بزمِ طرب ہے اور ہم
پھر اگر خالی گیا اپنا سوال
ایک دامانِ طلب ہے اور ہم
یاد کیوں آیا خدا منجدھار میں
ناخداؤں کا غضب ہے اور ہم
اے مظفر کیا کہیں، کس سے کہیں
ایک دردِ بے سبب ہے اور ہم
٭٭٭
کلی کلی کی رنگتیں نکھارتی ہوئی چلی
صبا چمن چمن تجھے پکارتی ہوئی چلی
مجھے پسند ہے نمودِ صبح نو کی روشنی
سحر کہ ظلمتوں پہ تیر مارتی ہوئی چلی
چمن میں جس طرح کسی جلاوطن کا داخلہ
بہار عمر اس طرح گزرتی ہوئی چلی
کبھی نکھر نکھر گئی، کبھی بکھر بکھر گئی
نظر کسی کی زلف یوں سنوارتی ہوئی چلی
جنوں اسی طرح فرازِ عرش پر کھڑا رہا
خرد ہزارہا کمند مارتی ہوئی چلی
مظفرؔ اب خموش کیا رہیں کہ لیلیِ غزل
قدم قدم پہ آرتی اتارتی ہوئی چلی
٭٭٭
دیوانۂ بہار بنا چاہتے ہیں ہم
اس زلف نارسا کی ہوا چاہتے ہیں ہم
نشتر اتر نہ جائیں کہیں دل کے آس پاس
سرخی اگر بطورِ حنا چاہتے ہیں ہم
جب بھی اٹھا سوال کہ غم چاہیے کسے
ہم نے بصد خلوص کہا چاہتے ہیں ہم
ہیں سجدہ ہائے شوق کچھ اس درجہ مضطرب
ہر گام پر خدا ہی خدا چاہتے ہیں ہم
تم سے اگر سوال کریں بھی تو کیا کریں
یہ بھی خبر نہیں ہے کہ کیا چاہتے ہیں ہم
مایوس کر گئی وہ نگاہِ ستم شعار
ہر آرزو کا خون کِیا چاہتے ہیں ہم
کتنی مٹھاس ہے کہ مظفرؔ ترا کلام
سن کر ہزار بار سنا چاہتے ہیں ہم
٭٭٭
مجھ کو بلا رہا ہے اڑا کر غبار کیوں
اسے کاروانِ شوق مرا انتظار کیوں
پھولوں سے چھیڑ چھاڑ میں کچھ شاعری تو ہے
کانٹوں کو چھیڑتی ہے صبا بار بار کیوں
افواہ برق و بادِ خزاں سچ نہ ہو کہیں
مہندی رچا رہی ہے عروسِ بہار کیوں
اس عہد میں ضرور کوئی خاص بات ہے
دو ایک ہوں تو خیر سبھی بے قرار کیوں
میں دیکھنے کی طرح کبھی دیکھتا نہیں
پھر آپ کی نگاہ ہوئی شرمسار کیوں
اپنا ہی حالِ زار اگر زیر غور تھا
کرتے تمام رات ترا انتظار کیوں
کیا ہو گیا مظفرؔ آشفتہ حال کو
ہنستا ہے اپنے آپ پہ دیوانہ وار کیوں
٭٭٭
آرام ہے حرام اگر کام کاج ہے
ترکاریاں اُگاؤ جو مہنگا اناج ہے
اس ملک میں وہ جنس محبت نہیں رہی
جس چیز کی حضور ہمیں احتیاج ہے
رشوت، فریب، فرقہ پرستی سبھی تو ہیں
اور کیوں نہ ہوں جناب کہ جنتا کا راج ہے
ہم نے کہا کہ آپ سے امید کیا رکھیں
کہنے لگے یہ وہم ترا لاعلاج ہے
سن کر اگر جناب کے ابرو پہ بل پڑیں
یہ چیز میرے طنز غزل کا خراج ہے
لکھ لیجیے کہ آج کی مایوسیِٔ عوام
کل کے لیے تباہی ہر تخت و تاج ہے
کہتے تھے ہم مظفرؔ نازک بیاں جسے
سنتے ہیں کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ہے
٭٭٭
ظلم تو کیجیے، جور تو کیجیے
یاد ہم کو کسی طور تو کیجیے
کون کہتا ہے اس بحث کو چھوڑ کر
کیا کہا اس پہ کچھ غور تو کیجیے
کیا تعجب کہ پڑ جائے عادت ہمیں
ہم پہ جور و ستم اور تو کیجیے
خوب دیتے رہے زخم احسان کے
اب مداوا بھی فی الفور تو کیجیے
دوسرے کے رواجوں کو مت مانیے
سیرِ بغداد و لاہور تو کیجیے
ہم کو غدار کہہ کر بڑا دکھ دیا
جائیے بیٹھ کر غور تو کیجیے
بن پئے چل دئیے اے مظفرؔ کہاں
ختم یہ آخری دور تو کیجیے
٭٭٭
موت ہے کہ رہزن ہے، زندگی کہ جادہ ہے
راہرو بھی تنہا ہے، رات بھی زیادہ ہے
اوپری نگاہوں سے نیک و بد نہ پہچانو
ہر گھناؤنے پن پر ریشمی لبادہ ہے
اب مری وفاداری، ظلم سہہ نہیں سکتی
اِک سوالِ رنگین کا، یہ جواب سادہ ہے
سابقہ عنایت سے آشیاں نہیں باقی
پھر بہار آئی ہے اور کیا ارادہ ہے ؟
خواہ دِل جلے اس کو قوم کا لہو سمجھیں
قوم کے مریضوں کا ہر علاج بادہ ہے
بادشاہ زادوں میں بیشتر وہ نکلیں گے
جن کی فکر چوپٹ ہے، جن کا ذہن سادہ ہے
کیوں نہ ہوں مظفر کے شعر مستند یارو
شادؔ عارفی ہیں وہ جن سے استفادہ ہے
٭٭٭
شایانِ بزم یار نہیں بات کیا کریں
کوئی بھی غم گسار نہیں بات کیا کریں
تب موسمِ بہار نے مہلت نہ دی ہمیں
اب موسم بہار نہیں بات کیا کریں
جو آپ نے سنائیں وہ سننا پڑیں ہمیں
دل کو ابھی قرار نہیں بات کیا کریں
آپس میں شہر یار ہیں مصروفِ گفتگو
ہم لوگ شہر یار نہیں بات کیا کریں
یکسوئیِ خیال پہ ٹھہرا ہے فیصلہ
کثرت پہ اختیار نہیں بات کیا کریں
یارانِ باغ و راغ، مظفرؔ کے باب میں
گنجائش فرار نہیں بات کیا کریں
٭٭٭
برق نگاہ کوش، انھیں دیکھتی رہی
باقی رہا نہ ہوش، انھیں دیکھتی رہی
ہر چند وہ نگاہِ کرم ملتفت نہ تھی
اِک آرزو خموش، انھیں دیکھتی رہی
آگے نکل چکا ہے جنوں زلف چوم کر
عقل سیاہ پوش، انھیں دیکھتی رہی
دوکانِ گُل فروش کو وہ دیکھتے رہے
دوکانِ گُل فروش، انھیں دیکھتی رہی
ساغر بھی تھے، شراب بھی تھی، میکدہ بھی تھا
چشم، شراب نوش، انھیں دیکھتی رہی
زلفیں بکھیرتے ہی گھٹا جھوم کر اٹھی
جو میکدہ بدوش انھیں دیکھتی رہی
انگڑائی تھی کہ تان مظفرؔ کے گیت کی
قوسِ قزح خموش، انھیں دیکھتی رہی
٭٭٭
رند سے رند آمادۂ جنگ ہے
آج کل میکدے کا عجب رنگ ہے
برہمن سیخ پا ہو رہا ہے اِدھر
اُس طرف شیخ کا قافیہ تنگ ہے
باغباں پر بھروسے کی اچھی کہی
غالباً آپ کی عقل پر زنگ ہے
آپ میں رہبری کے سبھی وصف ہیں
حوصلہ پست ہے، پاؤں میں لنگ ہے
آج دیوانہ کچھ کر نہ بیٹھے کہیں
سامنے آئنہ، ہاتھ میں سنگ ہے
آپ کے سامنے، آپ جیسی کہیں
یہ ہمارے لیے باعث ننگ ہے
اب مظفرؔ کے اشعار جیسے بھی ہوں
اُس کی آواز میں ایک آہنگ ہے
٭٭٭
آپ ٹھیک کہتے ہیں، سیکڑوں ٹھکانے ہیں، میں کہیں نہ جاؤں گا، بات آبرو کی ہے
سونگھ لیجیے مٹی، پوچھ لیجیے گل سے، گلستاں میں گلکاری، سب مرے لہو کی ہے
دیکھ لیجیے خنجر، آستین کے اندر، مل گیا ہے موقع سے، شاہراہ پر ہم کو
چھوڑیے کہ نادم ہے، احتیاط لازم ہے، صاف بچ گیا ہے یہ، جب نگاہ چوکی ہے
آپ جب غلط ہوں گے، بار بار ٹوکیں گے، لاکھ بار روکیں گے، رہنما ہوئے تو کیا!
اور آپ کے حق میں، ٹھیک بھی نہیں ہو گا، آپ نے اگر ہم سے، تلخ گفتگو کی ہے
بجلیاں مخالف ہیں، آندھیاں مخالف ہیں، پھر مَرے پہ سو دُرّے، باغباں مخالف ہیں
پھول میں نے بانٹے ہیں، اور میرے دامن میں، آج صرف کانٹے ہیں، کیا ہی بدسلوکی ہے
نظمِ گلستاں پر جب، بحث کر رہے تھے سب، پر خلوص کتنے ہیں بھانپتا رہا ہوں میں
سوچتا رہا ہوں میں، خاص خاص لوگوں کی، آنکھ میں لہو کیوں ہے، بات رنگ و بو کی ہے
سبز باغ دکھلا کر، آپ نے ہزاروں کو، لوٹ تو لیا لیکن، اب جواب دیں ان کو
یار لوگ ہنستے ہیں، آپ کی حماقت پر، آنکھ پھیرتے کیوں ہیں، بات دو بدو کی ہے
ذہن میں مظفرؔ کے، بات آ پڑی ہے یہ، مصلحت پرستی کی، کون سی کڑی ہے یہ
سامنے ہزاروں کے، رہزنوں کے افسر کو، خضر کا لقب دینا، انتہا غلو کی ہے
٭٭٭
ایک ذرے کے برابر مری اوقات نہ تھی
مہرباں آپ نہ ہوتے تو کوئی بات نہ تھی
یہ بھی سچ ہے کہ انھیں پہلے پہل دیکھا ہے
اور یہ بھی ہے غلط، پہلے ملاقات نہ تھی
آمد یار پہ کرتے تھے چراغاں کم فہم
ہم تو پھر کہتے ہیں وہ رات نہ تھی رات نہ تھی
ہائے وہ وقت کہ جب دِل کے لبھانے کے لیے
گردشِ جام نہ تھی، گردشِ حالات نہ تھی
اشکِ خوں یوں نکل آئے کہ وہاں جانا تھا
اور دامن میں ہمارے کوئی سوغات نہ تھی
ان کو الزام نہ دیجے کہ مظفرؔ صاحب
زندگی یوں بھی پریشاں تھی، نئی بات نہ تھی
٭٭٭
آ گیا یاد آ گیا کوئی
ہم کو جینا سکھا گیا کوئی
ہم کہ ہیں محوِ انتظار ابھی
اور آ کر چلا گیا کوئی
میرے ہر اک سوال پر ہنس کر
صاف پہلو بچا گیا کوئی
کوئی بچ کر چلا گیا ہم سے
چار آنسو بہا گیا کوئی
کان آواز، دل سے بجتے تھے
ہم یہ سمجھے کہ آ گیا کوئی
اب ستم گر کسے کہیں لوگو!
آئنہ سا دکھا گیا کوئی
معتقد ہو گیا مظفرؔ کا
جب تری بات پا گیا کوئی
٭٭٭
ہمیشہ مہلتِ صبر آزما کے ساتھ چلتے ہیں
تمہارے تیر پہلے ہی خطا کے ساتھ چلتے ہیں
جنہیں رخ موڑنا آتا نہیں بادِ مخالف کا
وہی بزدل زمانے کی ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
چھپائے پھر رہے ہیں تیز خنجر آستینوں میں
یہی جو آپ سے شانہ ملا کے ساتھ چلتے ہیں
مزا کچھ اور ہی دے گا کریلا نیم پر چڑھ کر
چلو ہم لوگ طوفانِ بلا کے ساتھ چلتے ہیں
کسی پتھر پہ سجدہ ریز ہوں گے ٹھوکریں کھا کر
بہت معصوم ہیں، کتنی ادا کے ساتھ چلتے ہیں
کہیں ان کے سہارے ہم نہ منزل پر پہنچ جائیں
ہمارے ہم سفر دامن بچا کے ساتھ چلتے ہیں
جدھر جائے گا، ان راہوں سے بچ کر پار ہو لیں گے
بہ فیض مصلحت ہم ناخدا کے ساتھ چلتے ہیں
٭٭٭
وہ اختیار میں ہیں نہ دل اختیار میں
فتنہ کوئی ضرور اٹھے گا بہار میں
در پردہ کہہ رہے ہیں کہ باقی بھرم رہے
ویسے تو بات کھول کے کہہ دیں ہزار میں
ہر کاروانِ شوق گزرتا چلا گیا
کچھ گرد اُڑ رہی ہے تری رہ گزار میں
طوفان ہی اٹھاؤ کنارے کے ساکنو
ملتی نہیں پناہ کہیں اس جوار میں
وہ بات کیا کریں گے جنہیں ہوش ہی نہیں
جیسے کہ نیند ٹوٹ گئی ہو خمار میں
پیروں میں جن کے جان نہیں، آن بھی نہیں
وہ گھوم پھر کے آ گئے تیرے دیار میں
چکنی غزل جناب مظفرؔ نہ چھیڑیے
دل آج کل نہیں ہے ہمارا قرار میں
٭٭٭
اپنی کچھ بات تو بنائیں ہم
طنزیہ شعر ہی سنائیں ہم
آپ کو مسند صدارت دیں
بیٹھنے کو جگہ نہ پائیں ہم
خیر ہم تو وفا پرست نہیں
آئنہ آپ کو دکھائیں ہم
مڑ کے دیکھا نہ ساتھ والوں نے
لاکھ دیتے رہے صدائیں ہم
آندھیوں کو نوازنا ہو گا
پھر کہیں آشیاں بنائیں ہم
یہ کرم گستری قیامت ہے
انجمن سے کہیں نہ جائیں ہم
تیری زلفوں کا آسرا لے کر
لے رہے ہیں تری بلائیں ہم
٭٭٭
احتیاطاً خار پر الزام پہنچایا گیا
پھر یہ سندیسہ خزاں کے نام پہنچایا گیا
ہم نے کہلائی ہیں کچھ بے لاگ سی باتیں انھیں
دیکھنا ہے کس طرح پیغام پہنچایا گیا!
باہمی تکرار سے ویسے تو کچھ حاصل نہیں
اس طرح دِل کو ذرا آرام پہنچایا گیا
وہ جو کاندھوں پر ہے، اس کے حوصلے بھی پست ہیں
فائدہ ہی کیا، اگر دو گام پہنچایا گیا!
حضرتِ آدم ہی کیا کم تھے زمانے کے لیے
پھر بھی پہلو میں دِلِ ناکام پہنچایا گیا
اے مظفرؔ موت میری زندگی پر طنز ہے
سلسلہ آغاز تا انجام پہنچایا گیا
٭٭٭
کسی سے حالِ دل کہہ دیں، نصیب ایسا کہاں اپنا
نہ کوئی ہم زباں اپنا، نہ کوئی راز داں اپنا
سنا ہے ہر کس و ناکس کو یہ نعمت نہیں ملتی
اگر سچ ہے تو پھر دم ساز ہے دردِ نہاں اپنا
ترس آتا ہے برقِ تند خو کی بدنصیبی پر
نہیں تو ہم قفس ہی میں بناتے آشیاں اپنا
سکونِ دل ہمارا منحصر ہے بے قراری پر
وہی ہے مہرباں اپنا جو ہے نامہرباں اپنا
گزارے جا رہے ہیں زندگانی اس دو عملی میں
زمیں دشمن رہی ہے اور مخالف آسماں اپنا
یہ عالم ہے کہ ویرانے میں بھی کھٹکا سا رہتا ہے
کہیں اک دن یہاں بھی آ نہ جائے باغباں اپنا
زمانہ ہی کچھ ایسا ہے، مظفرؔ جاگتے رہیے
کہیں رہزن سے مل جائے نہ میرِ کارواں اپنا
٭٭٭
اپنی عادت پہ کبھی شرم نہ آئی تم کو
زیب دیتی انگشت نمائی تم کو
ہم کو اس وقت بھی مشکوک نظر سے دیکھا
جب سلیقے کی کوئی بات بتائی تم کو
ہنس چکے ہو تو بتا دوں کہ پلٹ کر میں نے
آج تصویر تمہاری ہی دکھائی تم کو
چونکہ بے وقت کی چھیڑی ہے نہ راس آئے گی
عندلیبانِ چمن! نغمہ سرائی تم کو
میں جو اس قوم کا اک فرد ہوں شرمندہ ہوں
قوم کی بات کہاں یاد دِلائی تم کو
اے مظفرؔ وہ غزل جھوم کے سنتے ہیں مگر
جھوم کر بخش نہیں دیں گے خدائی تم کو
٭٭٭
بجا ہے اس روش پر جس قدر تنقید کی جائے
کہ پہلے بات کہہ دی جائے پھر تردید کی جائے
یہاں ہر شخص کا اپنا نیا قانون چلتا ہے
جہاں سب لوگ حاکم ہوں کسے تاکید کی جائے
سناتے ہو اگر قصہ گلستاں کی تباہی کا
جنابِ باغباں کے نام سے تمہید کی جائے
وفاداروں سے اپنے آج بھی نامطمئن ہے وہ
چلو عہد وفا کی آج پھر تجدید کی جائے
مناسب ہے غلط با توں پہ مجھ کو ٹوکنا لیکن
اگر حق بات کہتا ہوں مری تائید کی جائے
تمہارے سابقہ حالات روشن ہیں زمانے پر
تمہاری ذات سے اب اور کیا امید کی جائے
مظفرؔ! شادؔ صاحب اک انوکھی طرز رکھتے ہیں
ضرورت ہے کہ اب اس طرز کی تقلید کی جائے
٭٭٭
آزما کر آپ کو سو بار، اب میں نے کہا
بزم کی تفریق کا واحد سبب، میں نے کہا
یہ صدا نقار خانے کی ہے، طوطی کی نہیں
وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو بے ادب میں نے کہا
اس لیے آواز اونچی ہے کہ نیت صاف ہے
تذکرے ہوں گے اگر کچھ زیر لب میں نے کہا
دیکھیے سب لوگ کتنے غور سے سننے لگے
دوپہر کو سوچ کر ہی نیم شب میں نے کہا
وہ غلط کہتا ہے دونوں ہاتھ سے تالی بجی
بے سبب اس نے کہا، عند الطلب میں نے کہا
آج وہ چالاک پھر اپنی سنا کر بزم میں
بیچ میں لایا وفا کا نام، جب میں نے کہا
اے مظفرؔ چھیڑ خوباں سے چلی جائے مگر
یاد رکھنا چاہیے کیا اور کب میں نے کہا
٭٭٭
عندلیبانِ چمن کی بے قراری بڑھ گئی
نکہتِ گُل کو لیے بادِ بہاری بڑھ گئی
آپ کی پیہم نوازش ہے کہ میں بیمار ہوں
اِک مسیحا کا کرم ہے، بے قراری بڑھ گئی
بزم کی عزت بڑھانے کے لیے آئے تھے ہم
انجمن میں کون سی عزت ہماری بڑھ گئی
بات سننے کی بڑے لوگوں کو عادت ہی نہیں
دوستو کس کو سناتے ہو سواری بڑھ گئی
زخم تازہ کر دئیے، بیتے دنوں کی یاد نے
آپ نے دیکھا، ہماری مے گساری بڑھ گئی
یوں کسی کے عیب گنوانے کے ہم عادی نہیں
چشم پوشی سے مگر جرأت تمہاری بڑھ گئی
اس بنا پر آجکل اچھی غزل کمیاب ہے
اے مظفرؔ شاعروں میں انکساری بڑھ گئی
٭٭٭
کیا نتیجہ اخذ کیجے آپ کی گفتار سے
گونج اتنی ہے کہ جیسے بولتے ہوں غار سے
آپ کی معصومیت تسلیم ہو تو کس طرح
کیا رگِ جاں خود گلے ملنے گئی تلوار سے
خیر دیوانے سہی لیکن ہمیں انکار ہے
وہ اگر چاہیں کہ ہم سر پھوڑ لیں دیوار سے
روک دیجے وقت کی رفتار ہم خاموش ہیں
آج تک تو آپ کے حربے رہے بیکار سے
ہم وفاداروں میں اپنا نام لکھواتے نہیں
کچھ ہمیں خلعت ملی ہے آپ کی سرکار سے
موت وہ خود چاہتے ہیں زندگی کی کیا خطا
زندگی سے کیوں نظر آنے لگے بیزار سے
اے مظفر تشنگی دونوں طرف تھی زور پر
شیخ صاحب دیر تک الجھے رہے میخوار سے
٭٭٭
قسمت تری نصیب ترا قلب تشنہ کام
غم بھی تو ہو چکا ہے ہمارے لیے حرام
اس یاد کا پتہ بھی نہیں دور دور تک
دل ہے کہ ہو رہا ہے گزرگاہ خاص و عام
کیا ہم خیال یار کو اِذنِ خرام دیں
پھر اے غمِ حیات قریب آ رہی ہے شام
فرہاد و قیس بھی تو ہمارے ہی روپ تھے
لکھیے سبھی گناہِ محبت ہمارے نام
ہر دور میں، یہی تو ہوا، ڈھونڈتی رہی
اہل جنوں کے نقش قدم، عقلِ تیز گام
مہکی ہوئی ہے زلف، کسی دِل نواز کی
آؤ، کہ ایک رات یہاں بھی کریں قیام
صدیاں گزر چکی ہیں سناتے ہوئے ہمیں
یہ داستاں ہنوز نہیں ہو سکی تمام
٭٭٭
سودائیانِ دیر و حرم تو وہاں نہیں
اس بزم کی سناؤ کہ غم تو وہاں نہیں
پرواز کر رہی ہے خرد چاند کی طرف
اہل جنوں کے نقش قدم تو وہاں نہیں
کانٹوں سے پار پا نہ سکا فتنۂ بہار
اس بات پر کہ دیدۂ نم تو وہاں نہیں
قبل از نزولِ قہر، ذرا دیکھ لیجیے
مخبر برائے اہلِ قلم تو وہاں نہیں
پھر سوچ لیجیے کہ کوئی تشنہ لب نہ ہو
کافی ہے میرے جام میں، کم تو وہاں نہیں
کیوں میکدے میں شور سا برپا ہے ان دنوں
دیکھیں، تری نگاہ کرم تو وہاں نہیں
ہنستے ہیں چند لوگ مظفرؔ کے نام پر
کوئی ہمیں بتائے کہ ہم تو وہاں نہیں
٭٭٭
وہ جن کے دم سے نہیں چودھویں کے ماہ کی خیر
وہ آ رہے ہیں مرے گھر، چراغ راہ کی خیر
جھلس نہ جائے کہیں تابِ ضبط نظّارہ
کدھر اٹھی ہے الٰہی مری نگاہ کی خیر
عوام ہی کو نہ کیوں بادشاہ قتل کریں
عوام ہی تو مناتے ہیں بادشاہ کی خیر
دبی دبی سی ہیں پہلو میں دھڑکنیں دل کی
جفا شعار، ترے وعدۂ نباہ کی خیر
مریضِ عشق نے دامن جنوں کا تھام لیا
منائے حسن ادھر اپنی بارگاہ کی خیر
چمک رہی ہے کوئی برق سی بیاباں میں
نہیں ہے آج ہماری قیام گاہ کی خیر
وہ طنز تھا کہ دعا تھی کہا مظفرؔ نے
کہ غم گسار کی، ناصح کی، خیر خواہ کی خیر
٭٭٭
سیکڑوں طوفان کشتی میں دکھا سکتا ہوں میں
ناخدا پر کس طرح ایمان لا سکتا ہوں میں
کیا ضروری ہے کہ برقِ تند خو زحمت کرے
آپ ہی اپنے نشیمن کو جلا سکتا ہوں میں
مجھ پہ بے پایاں کرم ہے دردِ لامحدود کا
وسعتِ کونین میں کیسے سما سکتا ہوں میں
نشتر غم کی ذرا دِل پر عنایت چاہیے
یہ شگوفہ صرف کانٹوں میں کھلا سکتا ہوں میں
لاکھ پابندی سہی، تحریر پر گفتار پر
دوستو! بزم تمنا تو سجا سکتا ہوں میں
وہ اگر جامِ شکستہ سے نہ سمجھے بات کو
ایک دن آئنہ دِل بھی دِکھا سکتا ہوں میں
موڑ آنا لازمی ہیں زندگی کی راہ میں
بھولنے والے کہیں بھی یاد آ سکتا ہوں میں
٭٭٭
ہاں، ترکِ تعلق کے طلب گار ہیں ہم بھی
بیزار اگر وہ ہے تو بیزار ہیں ہم بھی
ہر جام پہ ساقی کا اجارہ تو نہیں ہے
میخانے کی ہر چیز کے حقدار ہیں ہم بھی
کیا غم ہے اگر لوگ کچھ اس پار کھڑے ہیں
دو ہاتھ ذرا اور کہ بس پار ہیں ہم بھی
اس دَور کے نزدیک تو گردن زدنی ہیں
ہاں جرم مروت کے سزاوار ہیں ہم بھی
پہلو جو بدلتے ہیں وہ اس ناز و ادا سے
اٹھنے کے لیے بزم سے تیار ہیں ہم بھی
آؤ کبھی دکھلائیں تمھیں راہ وفا کی
ہم یہ نہیں کہتے کہ وفادار ہیں ہم بھی
مجبور ہے وہ اپنی طبیعت سے مظفرؔ
اور اپنی طرح داری سے لاچار ہیں ہم بھی
٭٭٭
(ذوالقافیتین)
عمر بھر صرف ترا نام لیا ہے ہم نے
لوگ کہتے ہیں بڑا کام کیا ہے ہم نے
شوق سے کیجیے تضحیک ہمارے دل کی
یہ تو آئنہ ایام دیا ہے ہم نے
دل کو پھر یاد کے کانٹوں میں لیے پھرتی ہے رات
اس گریباں کو سر شام سیا ہے ہم نے
تم کہاں اتنی بلندی پہ ٹھہرنے والے
خیر جانو کہ تمھیں تھام لیا ہم نے
اے مظفرؔ غم و آلام کی پروا نہ کرو
آج پھر بادۂ گلفام پیا ہے ہم نے
٭٭٭
پھولوں کے پاسباں رہے، کانٹوں سے دوستی رہی
خالی پڑا ہے آج تک اپنا ہی دامنِ تہی
تم نے جو بات ٹال دی وقت پہ اتفاق سے
ہم نے بھی جان بوجھ کر وہ بات پھر نہیں کہی
میں نے قفس میں آشیاں یہ سوچ کر بنا لیا
میرے ہی آشیاں سے ہے برق کو بغض للّٰہی
ہاتھ چھڑا کے آپ سے عشق و جنوں تو بڑھ گئے
دور سے دیکھتے رہے آپ کو فہم و آگہی
کس لیے ہم مثال دیں چاند کی اک چراغ کو
آپ شب سیاہ کی چاہتے ہیں جو دلدہی
طنز مظفر حزیں، رنگ ضرور لائے گا
میری غزل غزل نہیں، لے دے کے طنز ہی سہی
٭٭٭
کہنے کو ہمارا جو مددگار رہا ہے
دَر پردہ رقیبوں کا طرفدار رہا ہے
ہر عہد میں کچھ لہجہ و عنوان بدل کر
موضوعِ وفا باعث تکرار رہا ہے
طاقت ہے تو ثابت، کہ رہا دور خطا سے
کمزور اگر ہے تو خطاوار رہا ہے
اس شخص کے لہجے میں لطافت نہ ملے گی
جو سخت مصیبت میں گرفتار رہا ہے
اقدامِ عمل کے لیے ناصح کو نہ کہنا
ہر دور میں یہ صاحب گفتار رہا ہے
بیزاریِ دنیا تو کوئی بات نہیں تھی
دِل تھا کہ ترے پاس بھی بیزار رہا ہے
ٹہری ہے مظفر کی دوا طنز کی تلخی
اِک عمر گزرتی ہے کہ بیمار رہا ہے
٭٭٭
اب تمہارے نام کی عزت ہمارے ہات ہے، سوچنے کی بات ہے
دامن دل میں تمہارے درد کی سوغات ہے، سوچنے کی بات ہے
خاص مہرے آ رہے ہیں ڈھائی گھر کی چال میں، آپ ہیں کس حال میں
دیکھیے شہ پڑ نہ جائے، شہ پڑی تو مات ہے، سوچنے کی بات ہے
حسب وعدہ آ گئے ہم جام و مینا توڑ کر، میکدے کو چھوڑ کر
حضرتِ ناصح مگر برسات پھر برسات ہے، سوچنے کی بات ہے
بخت کو بیدار کرنے کا بہانہ ہے یہی، ہاں زمانہ ہے یہی
چار دن کی چاندنی ہے، پھر اندھیری رات ہے، سوچنے کی بات ہے
کارواں میں جو ذرا ہشیار ہیں وہ چند ہیں، سب کی آنکھیں بند ہیں
دوستو اُلجھی ہوئی ہر رہنما کی ذات ہے، سوچنے کی بات ہے
آپ کا دورِ ترقی خوب سے ہے خوب تر، یہ حقیقت ہے مگر
آدمی پھر بھی رہین منت حالات ہے، سوچنے کی بات ہے
اے مظفرؔ ایک جوشیلی طبیعت چاہیے، فن پہ قدرت چاہیے
طنز ہی پر شاد صاحب کی گزر اوقات ہے سوچنے کی بات ہے
٭٭٭
کیوں گلے مل مل کے ویرانے سے روئی چاندنی
آبرو، صحن گلستاں کی ڈبوئی چاندنی
دفعتاً دل میں کہیں سے درد بن کر آ گیا
اور پھر چھٹکا گیا چپکے سے کوئی چاندنی
ساقیا! پیتے ہی روشن ہو گئے چودہ طبق
کیا مرے ساغر میں ڈھالی ہے بھگوئی چاندنی
چود ہویں کے چاند کی پلکیں بھی روشن ہو گئیں
رات بھر آرام سے زلفوں میں سوئی چاندنی
کن سیہ را توں کی پروردہ ہے تم کو کیا خبر
یہ ملائم، سرد، نازک، دھوئی دھوئی چاندنی
دیکھ ان کے عارض و رخسار آلودہ نہ کر
پھر بری لگتی ہے میری صاف گوئی چاندنی
اے مظفرؔ دیکھ لینا ہم سیہ بختوں کے بعد
مدتوں بھٹکا کرے گی کھوئی کھوئی چاندنی
٭٭٭
متھے دُودھ کو دنیا والے کہتے ہیں کھویا تو کیا
رنگیں کو نارنگی کہنے پر کبیرؔ رویا تو کیا
چالوں میں الجھا کر تم کو رہبر نکلا جاتا ہے
بھاگ سکو تو سرپٹ بھاگو دُلکی اور پویا تو کیا
اور لوگ تو بھر بھر لوٹے لے جاتے ہیں اپنے ساتھ
ہاتھ اگر بہتی گنگا میں ہم تم نے دھویا تو کیا
یہ تو ایسی بات ہے گویا اندھا پیسے، کتے کھائیں
رستے رستے پیڑ آم کا راہی نے بویا تو کیا
وہ مطلب کی بات کریں گے ایسے ہو یا ویسے ہو
کچھ ارشاد کیا تو کیا جو ہوئے نہیں گویا تو کیا
دُبکے ہیں کونے کونے میں چور اچکے چاروں کھونٹ
میں بھی کھٹکا لے کر من میں کہنے کو سویا تو کیا
سچی تلخ کلامی ہو تو ٹھیک مظفرؔ حنفی جی!
جھوٹی باتیں کہنے والے ہوں مرزا پھویا تو کیا
٭٭٭
بجا کہ اس کا بہت احترام کرتا ہوں
مگر نگاہ ملا کر کلام کرتا ہوں
مجھے یہ خوف کہ سر چھت سے جا لگے نہ کہیں
اسے گمان کہ جھک کر سلام کرتا ہوں
جفا شعار کے منہ پر جلی کٹی کہہ کر
جفا شعار کی نیندیں حرام کرتا ہوں
ہر اعتراض کا واحد جواب یہ تو نہیں
برائے قوم، برائے عوام کرتا ہوں
مجھے تو عیب تمہارے تمھیں گنانے تھے
یہ داستان یہیں پر تمام کرتا ہوں
جگا رہا ہوں بڑی تلخ و ترش یادوں کو
برائے شعر بہت اہتمام کرتا ہوں
اسی سبب سے مظفر وہ مجھ سے بد ظن ہے
کہ میں سکون سے سوتا ہوں کام کرتا ہوں
٭٭٭
پھر مقدر آزمانا چاہیے
طنزیہ غزلیں سنانا چاہیے
اب کہاں تک لوگ برتیں احتیاط
آپ کو تو اک بہانا چاہیے
بحث کا انجام ہو گا بحث پر
فیصلے کو اک زمانا چاہیے
فصلِ گُل میں آشیاں کو چھوڑ کر
باغباں کو آزمانا چاہیے
باغباں منہ پھیر کر ہنسنے لگا
’’آپ کو بھی آشیانا چاہیے !‘‘
دیر سے طاری ہے دریا پر سکوت
اب کوئی طوفان آنا چاہیے
بڑھ گئی ہے لن ترانی آپ کی
پھر مظفرؔ کو بلانا چاہیے
٭٭٭
کیا جانیے کس کا ہے نقشِ کفِ پا دِل پر
کونین نے سر رکھ کر آرام کیا دِل پر
یہ تھا، کہ مکمل تھی تصویرِ وفا دل پر
پھر آنکھ جھپکتے ہی کچھ بھی تو نہ تھا دل پر
آنکھیں سی جھپکتا ہے اِک دردِ خمار آگیں
جب رات کا سناٹا دیتا ہے صدا دِل پر
ہر یاد معطر ہے، ہر داغ منور ہے
یہ چوٹ لگی دل پر یا پھول کھلا دِل پر
آئنہ اندھیرے میں کچھ اور چمکتا ہے
یادوں کے دریچے سے چھنتی ہے ضیا دِل پر
کیا خوب نبھایا ہے حق تلخ نگاہی نے
اِک وقت محبت میں جب آن پڑا دِل پر
اک آگ کا دریا تھا، جو پھوٹ کے بہہ نکلا
معصوم نگاہوں نے جب ہاتھ رکھا دِل پر
٭٭٭
(ایک ٹھکرائی ہوئی بحر میں )
یہ بھی تو ہے رہینِ غم میرے حبیب کے لیے
میں نے وفورِ شوق میں بوسے رقیب کے لیے
اے کاروانِ انقلاب، کر ہی لیا نہ انتخاب
رہبرِ نکتہ سنج نے، مجھ کو نقیب کے لیے
ہر بار اس جہان کی تزئین نو کے نام پر
گل چیں نے پھول چھانٹ کر میرے قریب کے لیے
تیرے چمن سے بار بار لوٹ نہ جائے کیوں بہار
تنکے بھی مل سکیں نہ چار جب عندلیب کے لیے
آج مظفرؔ خراب، مر بھی گیا تو کیا ہوا
کیوں اشک بار ہو گئے وہ بدنصیب کے لیے
٭٭٭
ترے خیال کے گیسو سنوار جاتی ہے
شب فراق بہت خوشگوار جاتی ہے
عجیب تلخ ہنسی ہنس رہے ہیں دیوانے
بہار، چار دنوں کی بہار جاتی ہے
ہوا کے رخ سے بچاؤ وفا کے پروانو
قریب آؤ کہ شمعِ مزار جاتی ہے
بہت خفیف ہوئی پائے ناز کی ٹھوکر
صبا کے دوش پہ مشتِ غبار جاتی ہے
ضرور دِل سے اُچٹ کر پلٹ گئی ہو گی
تری نگاہ بہت شرمسار جاتی ہے
ہزار شمس و قمر سے نظر ملاتا ہوں
تمہاری سمت مگر بار بار جاتی ہے
جو ہم نہیں تو مظفرؔ کسی کی خدمت میں
ہماری یاد برنگِ ہزار جاتی ہے
٭٭٭
کنارے آ کے طوفاں سے تصادم یاد آتے ہیں
سفینے کو کرم ہائے تلاطم یاد آتے ہیں
شگوفے، چاندنی، قوس قزح، شبنم، شفق، تارے
بہر صورت تمہارے ہی تبسم یاد آتے ہیں
شب غم وہ نہیں آتے تو ان کی یاد ہی آئے
انھیں حالات میں تو ماہ و انجم یاد آتے ہیں
اگر وہ دیکھ لیتے ہیں تو پھر حاجت نہیں رہتی
نہیں تو پھر ہمیں پیمانہ و خم یاد آتے ہیں
طلائی گھنٹیاں سی گونج اٹھتی ہیں سماعت میں
تمہارے شوخ اندازِ تکلم یاد آتے ہیں
مظفرؔ اس غزل کو ختم کر کے دیکھتے ہیں ہم
سکوتِ ساز کو کتنے ترنم یاد آتے ہیں
٭٭٭
عندلیب خوش گلو کا فرض ہے گاتی رہے
خواہ فصلِ گُل چمن میں آگ برساتی رہے
دوستو ایسی سیاست کے تو ہم قائل نہیں
کام چل جائے بلا سے آبرو جاتی رہے
کون سنتا ہے کسی کی، سب کی خواہش ہے یہی
گھوم پھر کر بات میری سامنے آتی رہے
اس طرح مردم شناسی کا سلیقہ آ گیا
آپ کے ہم ایک عرصے تک ملاقاتی رہے
طائروں کو خود بخود محتاط رہنا آئے گا
اور کچھ دن آشیاں پر برق لہراتی رہے
بعد از ترکِ محبت کچھ نہیں یادش بخیر
ان دنوں اس حادثے سے ہم بھی جذباتی رہے
اے مظفرؔ شاعری کا طنز سے کیا واسطہ
ہاں مگر وقتاً فوقتاً عشق فرماتی رہے
٭٭٭
ہم کل جو میکدے میں ذرا تیز ہو گئے
پیمانے خاص و عام کے لبریز ہو گئے
یہ مصلحت پرست یہ شیریں بیان لوگ
فرہاد ہو نہ پائے تو پرویز ہو گئے
اندازِ دل ربائیِ ساقی سے دوستو
جذبات بارہا ہوس انگیز ہو گئے
ہم نے تو صاف بات کہی ہر مقام پر
کچھ حادثے ہی مصلحت آمیز ہو گئے
اک بار یوں خموش ہوئے وہ جواب میں
میرے سبھی سوال عرق ریز ہو گئے
بیٹھے رہے تو بن گئے زنجیر پاؤں کی
لیکن ذرا سی ڈھیل پہ چنگیز ہو گئے
ہے شادؔ عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ
اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے
٭٭٭
انگڑائی اس ادا سے نہ لے جھومتے ہوئے
ممکن ہے ماہتاب ڈھلے، جھومتے ہوئے
رعنائیِ خرام تمہاری کہاں نصیب
سروِ رواں ہزار چلے، جھومتے ہوئے
جلتے رہے چراغ، مگر کانپ کانپ کر
پروانے بار بار جلے، جھومتے ہوئے
یہ وہ غزل ہوئی ہے کہ جیسے خمار میں
اِک نو عروس آنکھ مَلے جھومتے ہوئے
آئے تھے میکدے سے مظفرؔ ابھی ابھی
پھر میکدے کی سمت چلے جھومتے ہوئے
٭٭٭
کیوں کر ہنسی نہ آئے اس ندرتِ ادا پر
وہ جال پھینکتے ہیں اب نکہت و صبا پر
یکسر عمل سے خالی نازک خیالیاں ہیں
تعمیر ہو رہے ہیں اونچے محل ہوا پر
چورا ہے پر جو آ کر دیکھا کہ تھم گیا ہے
میں نے قدم نہ رکھا پھر اس کے نقشِ پا پر
ہمراز کی طرف وہ گھبرا کے دیکھتا ہے
جب اس کو چھیڑتے ہیں ہم سرخیِ حنا پر
شاید کہ محترم کو محسوس ہو رہا ہو
محجوب ہو رہا ہوں میں آپ کی خطا پر
اشعار بھی مظفرؔ سَر چڑھ کے بولتے ہیں
لبیک کہہ رہا ہے وہ بھی مری صدا پر
٭٭٭
وہیں صیاد بھی ہو گا جہاں بلبل چہکتا ہے
کھڑے ہیں کان پھولوں کے، کہیں پتّہ کھڑکتا ہے
مقامِ رنج ہے، مغرور ہو دو پھول کھلنے پر
چمن والو ابھی اسٹیج کا پردہ سرکتا ہے
ہمیں جگنو بھلے جو پستیوں میں ٹمٹماتے ہیں
بڑے لوگوں کا ہر تارہ بلندی پر چمکتا ہے
عظیم المرتبت بننے کی خواہش کجکلاہوں کو
وہی قصہ ہوا ہے، چاند پر بچہ ہمکتا ہے
وہاں تنہا روی اچھی، جہاں ہر ہمسفر اپنا
سمٹتا ہے، دبکتا ہے، لرزتا ہے، جھجکتا ہے
ہمارے کان میں آواز آتی ہے سسکنے کی
بجا ارشاد فرمایا، کوئی غنچہ چٹکتا ہے
مظفرؔ چور کی داڑھی میں تنکا دیکھنا ہو تو
تمہارا طنز مجرم ذہن پر اچھا چپکتا ہے
٭٭٭
اللہ رے فنکاری یوں سر بہ گریباں ہے
جیسے وہ مری بابت مایوس و پریشاں ہے
گلشن میں بغاوت کے آثار نمایاں ہیں
کانٹے کے تبسم پر ہر پھول ہراساں ہے
دامن وہ بچاتا تھا، جب ہاتھ بڑھاتا تھا
اب میں جو گریزاں ہوں وہ سلسلہ جنباں ہے
ہے عرض کہ آئندہ معصوم نہ بنیے گا
یہ آپ کا دامن ہے یہ نرگس حیراں ہے
دُزدانِ چمن اب تک دبکے ہیں گلستاں میں
ہر آئنۂ گُل میں اِک عکس نمایاں ہے
نگراں کی نظر اپنی جانب سے ہٹانے کو
گلچیں نے اڑائی ہے آندھی ہے نہ طوفاں ہے
چونکی ہے صبا، غنچے انگشت بدنداں ہیں
شاید کہ مظفرؔ پھر گلشن میں غزل خواں ہے
٭٭٭
سب کو چونکاتی رہتی ہیں میری باتیں میرا فن
مجھ سے ملیے میں ہوں شہر غزل کا اک مردِ آہن
چبا چبا کر باتیں کرنا اخلاقی کمزوری ہے
ان با توں سے ظاہر ہو جاتا ہے دِل کا اوچھا پن
خیر منائے بکرے کی ماں، کب تک خیر منائے گی
وہ دِن دور نہیں جب ہو گا ہاتھ مرا تیرا دامن
گُل چینوں نے سارے گلشن ٹھیکے پر لے رکھے ہیں
ہم پھولوں کو دیکھو پھر بھی کھلتے ہیں گلشن گلشن
شیش محل والے لوگوں پر پتھر پھینکا کرتے تھے
سنیے کیسی ہوتی ہے اب شیش محل میں چھن چھن چھن
بوڑھوں کو الزام نہ دے تجھ میں ہی کچھ دم ہوتا تو
محبوبہ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بن جاتے کنگن
اُن کی خصلت کو جانا ہے خوب مظفرؔ حنفی نے
زہر آلود محبت ان کی، میٹھی باتیں، کھوٹا پن
٭٭٭
منصف، وکیل، شاہد و جلاد سب وہی
ثابت گناہ گار بھی ہو، کیا عجب وہی
اچھا اصول ہے کہ غلط بات تم کرو
تم پر جو اعتراض کرے بے ادب وہی
ہر ہر قدم پہ راہ بدلتا رہا ہوں میں
راہِ جنوں وہی ہے نہ دشت طلب وہی
سارے جہاں کا درد تمہارے جگر میں ہے
پھر بھی ہے اہتمامِ نشاط و طرب وہی
رہبر بدل چکے ہیں مگر برقرار ہیں
اندیشہ ہائے رہزنیِ روز و شب وہی
جو دوسروں کی پیاس بھی محسوس کر سکے
ساقی گری کا کام کرے تشنہ لب وہی
بھڑکا رہا تھا آگ مظفرؔ وہی مگر
ثالث برائے صلح و صفائی ہے اب وہی
٭٭٭
ہر دروغِ مصلحت آمیز سے بچتے رہو
لغویت کی اس ہوائے تیز سے بچتے رہو
راہ کا روڑا نہ بن جائے تخیل بھی کہیں
اب خیالاتِ طرب انگیز سے بچتے رہو
پھر کسی چنگیز کا خطرہ نہ رہ جائے، اگر
تم خود اپنی فطرتِ چنگیز سے بچتے رہو
کون جانے پاؤں کی زنجیر بن جائے کہاں
دوستو ہر زُلف عنبر بیز سے بچتے رہو
اس لیے افسانۂ فرہاد و شیریں لکھ دیا
دیکھ کر فرہاد کو پرویز سے بچتے رہو
اس حلاوت اور ہلاکت میں ذرا سا فرق ہے
اس کے لب ہائے تبسم ریز سے بچتے رہو
اے مظفر زندگی یوں بھی قیامت خیز ہے
آج کل حسن قیامت خیز سے بچتے رہو
٭٭٭
سوچنے کی بات ہے اب بھی سنبھل
دیکھ شہ پڑ جائے گی نقشہ بدل
اِک ذرا سی دور پر ہے کارواں
پھر تری مرضی ہے، چل یا ہاتھ مل
سچ تو ہے، اس دورِ استبداد میں
زندگی ہے موت کی نعم البدل
انگلیاں، دکھتی رگوں پر پڑ گئیں
کہہ رہے ہیں ان کی پیشانی کے بل
جیت پر ان کی یقیں کیسے کریں
مضمحل ہے چال، بازو بھی ہیں شل
جن کو ہے دنیا سے امید وفا
ریت پر تعمیر کرتے ہیں محل
چوٹ کھائی ہے مظفرؔ نے کہیں
طنز گوئی زور پر ہے آج کل
٭٭٭
وہ جو تیرے ہاتھوں چرکے کھا جاتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
تیری محفل میں آنے سے کتراتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
کچھ لوگوں کو جھوٹی تعریفیں بھاتی ہیں ’’مثلاً وہ‘‘
کچھ سچی تعریفیں سن کر شرماتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
بات نہیں کر سکتا جن سے گھل مل کر دو چار گھڑی
ایسے کچھ مہمان بھی میرے گھر آتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
پیراہن کی بات نہ پوچھو، ہیں کچھ ایسے دیوانے
جن کی خاطر غنچے دامن پھیلاتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
اکثر بیچاروں نے اتنے دھوکے کھائے دنیا سے
اب مخلص لوگوں سے بے حد گھبراتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
ضد ہی ضد میں مظلوموں نے ہنس کر جینا سیکھ لیا!
اپنی آنکھوں کو اشکوں سے ترساتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
پیروکار شادؔ مظفرؔ گنتی میں دو ایک سہی
طنز غزل کے تار پہ چل کر دکھلاتے ہیں ’’مثلاً میں ‘‘
٭٭٭
رکھتے ہیں الزام خزاں پر خود ہی کلیاں چن کر لوگ
رہنے دو، محسوس کریں گے میری غزلیں سن کر لوگ
اپنی نیندیں کیوں کھوتے ہو تم ان فکروں میں پڑ کر
یوں تو مرتے ہی رہتے ہیں دنیا میں گھن گھن کر لوگ
ہم جیسے تو بڑھ جاتے ہیں کترا کر یا ٹکرا کر
راہیں کھوٹی کرنے بیٹھیں کانٹے پتھر چن کر لوگ
وہ ہر محفل میں دانستہ، مجھ کو رسوا کرتے ہیں
ان کی بابت کیا سوچیں گے ایسی باتیں سن کر لوگ
چپ رہنے کی حد ہوتی ہے، ظالم لوگو سوچو تو
کب تک یوں خاموش رہیں گے، اپنا ہی سر دھن کر لوگ
دنیا کو محدود نہ کر لیں، بس اپنی ہی ہستی تک
دل ہی دل میں وہموں کے کچھ تانے بانے بُن کر لوگ
اُن پر جن کے نام بڑے ہیں، لیکن درشن چھوٹے ہیں
میرے ساتھ مظفرؔ، فقرے چپکائیں چن چن کر لوگ
٭٭٭
کچھ دن کی من مانی کر لو
حق سے نافرمانی کر لو
داناؤں کا دل رکھنا ہے
تھوری سی نادانی کر لو
پھر کوئی تکلیف نہ ہو گی
پیدا تن آسانی کر لو
چرب زبانی بھی کیا شے ہے
جس کو چاہو پانی کر لو
گردن کیا خم ہو گی میری
تم یوں ہی قربانی کر لو
طوفان آنے سے پہلے ہی
ہمت کو طوفانی کر لو
کچھ تیکھا پن اور مظفرؔ
لہجے کو لاثانی کر لو
٭٭٭
چونکہ ہر قسم کے جذبات سے محروم ہو تم
ظالمو! دوسرے الفاظ میں مظلوم ہو تم
اس لیے اور بھی صد وجہِ پریشانی ہو
جانتا ہوں کہ مرے واسطے مغموم ہو تم
راحتِ قلب و جگر بھی ہو ستم گر بھی ہو
دو طرح سے مرے اشعار میں منظوم ہو تم
اس نئے دور کی تاریخ لکھا دوں تم کو
جس نئے دور کی تاریخ سے معدوم ہو تم
تم کو اس بات سے انکار کہ ہم حق گو ہیں
ہم کو اصرار کہ معصوم ہو معصوم ہو تم
مدحت زلف و لب و رخ میں کہی ہیں غزلیں
میں اگر طنز کروں شاعر مرحوم ہو تم
اے مظفرؔ سرفہرست وہ لیں گے تم کو
دوسری بات کہ واوین میں مرقوم ہو تم
٭٭٭
قائم ہے جن کے نام سے عنوان باب کا
کہہ دیں تو یہ ورق ہی اڑا دوں کتاب کا
سمجھو کہ باغباں کی نظر پڑ نہیں سکی
سرسبز ہے اگر کوئی پودا گلاب کا
جو دوسرے گھروں کا نگہبان ہے یہاں
گھر لُٹ گیا نہ ہو اسی خانہ خراب کا
پھر تاجرانِ شہر لٹائیں علی الحساب
پھر آ گیا قریب مہینہ حساب کا
مرضی ہے آپ کی جو برا مان جائیے
ہم نے تو نام بھی نہ لیا تھا جناب کا
مجھ پر پڑی، پلٹ بھی گئی اس طرح کہ میں
منہ دیکھتا رہا نگہہِ کامیاب کا
کچھ اس قدر فریب مظفرؔ نے کھائے ہیں
دن پر اسے گماں ہے شب ماہتاب کا
٭٭٭
یوں ہی بیٹھا ہوں انتظار کہاں
اس کے وعدوں کا اعتبار کہاں
لوگ تو حاشیے لگاتے ہیں
ہم کہاں، آپ کا دیار کہاں
میں جو سچ بات منہ پہ کہتا ہوں
دوستوں میں مرا شمار کہاں
ان شرافت کے دعوے داروں کو
اپنی فطرت پہ اختیار کہاں
بلبل و گل معانقہ کرتے
بیچ میں آ گئے یہ خار کہاں
سَر کچھ ایسا بلند رکھتا ہوں
اتنی اونچائیوں پہ دَار کہاں
تم مظفرؔ کے پاس ہو کہ نہ ہو
اس کے اشعار سے فرار کہاں
٭٭٭
طنزیہ فقرہ بطرزِ عاشقاں کہنا پڑا
اس بتِ طناز کو جانِ جہاں کہنا پڑا
سوچنے کی بات تھی سچ بات چھپتی ہے کہیں
دیکھیے اب آسماں کو آسماں کہنا پڑا
ہمسفر کو چھوڑ کر آگے نکل جائیں گے ہم
سنگریزوں کو اگر کوہِ گراں کہنا پڑا
صاف گوئی کو بہت آساں سمجھ کر محترم
گنگنا کر رہ گئے سچ سچ جہاں کہنا پڑا
دیکھ کر، جو گل کھلائے ہیں چمن اندر چمن
ان بہاروں کو بلائے ناگہاں کہنا پڑا
ہم نے بدلا ہے ہمیشہ طنز سے مفہوم کو
جب کسی نامہرباں کو مہرباں کہنا پڑا
اے مظفرؔ وہ غلط انداز نظریں دیکھ کر
آج اس کی ہر نظر کو راز داں کہنا پڑا
٭٭٭
فضول اپنے ہی دامن پہ یوں نہ داغ لگاؤ
نہ سبز باغ دکھاؤ، نہ خشک باغ لگاؤ
ابھی تو چاند ستاروں سے بھیک مت مانگو
مرے چراغ سے بجھتے ہوئے چراغ لگاؤ
تمھیں ضرور بہکنے میں لطف آتا ہے
کہ ناسمجھ بھی نہیں ہو اگر دماغ لگاؤ
یہاں کی بات وہاں کس طرح پہنچتی ہے
تمہارے گھر میں کوئی ہے ذرا سراغ لگاؤ
جو امتیاز نہیں باغبان و گُل چیں میں
ہر ایک دامن گل پر سیاہ داغ لگاؤ
تونگروں سے مظفرؔ کو واسطہ کیا ہے
تمھیں جو فن سے نہیں، صاحبِ فراغ، لگاؤ
٭٭٭
کریں گے سنگباری یہ جو شیشہ گر نکلتے ہیں
قضا آنے سے پہلے چیونٹی کے پر نکلتے ہیں
شہِ شطرنج سے مایوس ہو جانا حماقت ہے
ذرا کچھ سوچنا ہو گا ہزاروں گھر نکلتے ہیں
کسی کی پاک دامانی یہاں ثابت نہیں ہوتی
کوئی دامن پلٹ کر دیکھیے، خنجر نکلتے ہیں !
بہت محدود سا اک سبز پردہ تان رکھا ہے
ذرا پوچھو چمن سے وہ کبھی باہر نکلتے ہیں
ہمارا کیا کہ ظاہر اور باطن ایک جیسا ہے
چھپے رستم تمہاری بزم کے اندر نکلتے ہیں
بہ ظاہر جو ابھی تازہ کھلے ہیں وہ شگوفے بھی
اگر کچھ غور سے دیکھو لہو میں تر نکلتے ہیں
بچا کر طنز کہنا، تار پر چلنا برابر ہے
مظفرؔ اس رہِ پر خار سے اکثر نکلتے ہیں
٭٭٭
بہ فیضِ مصلحت جو ہمدمی کی بات کرتے ہیں
وہی پہلو بدل کر برہمی کی بات کرتے ہیں
انھیں بتلاؤ آنکھوں کی نمی سے کچھ نہیں ہو گا
ابھی کچھ لوگ آنکھوں میں نمی کی بات کرتے ہیں
ہمارے ملک میں سوداگری بھی اک سیاست ہے
جہاں قیمت بڑھانی ہو، کمی کی بات کرتے ہیں
شناساؤں سے اپنے منہ چھپانا چاہتے ہوں گے
پس پردہ اگر نا محرمی کی بات کرتے ہیں
عجب ڈھلمل یقینی ہے، کبھی ترکِ محبت کی۔۔ ۔
۔۔ ۔ کبھی تجدید عہد باہمی کی بات کرتے ہیں
نہ جانے پرسشِ غم سے ہمیں وہ کب نوازیں گے
ابھی طرزِ لباسِ ماتمی کی بات کرتے ہیں
ہمارے دور کے ہر تین میں سے ایک رستم ہے
مظفرؔ ہیں کہ امن عالمی کی بات کرتے ہیں
٭٭٭
سوکھے پتوں کی ٹولی میں ہو جیسے ناچ بگولوں کا
افلاس کے گھر میں رقصاں ہے خدشہ بڑھتے محصولوں کا
وہ جن کا تخیل اونچا ہے میں ان سے ہٹ کر کہتا ہوں
کچھ لوگ قلابازی کے لیے لیتے ہیں سہارا جھولوں کا
کچھ آبلہ پا بھی راہ میں ہیں یہ بات نہ سوجھی لوگوں کو
کہتے ہیں کہ کانٹوں نے شاید منہ چوم لیا ہے پھولوں کا
یہ جانی پہچانی چالیں اب کام نہیں آنے والی
اب کے بچنا مشکل ہو گا لے لے کر نام اصولوں کا
اب دیکھو کس کے ہاتھ لگے اس روز صدارت کی مسند
اک جلسہ ہونے والا ہے کچھ گدی سے معزولوں کا
کیا خوب شگوفہ چھوڑا ہے گُٹ بندی کرنے والوں نے
ہم تخت بنانے سے پہلے میلان کریں گے چولوں کا
ہر وقت مظفرؔ خطرہ ہے اس کی بھی دانشمندی کو
جس کے بھی گرد و پیش رہے جمگھٹ سا نا معقولوں کا
٭٭٭
مری غزل کا تری ذات سے تعلق ہے
کہ فکر و فن کا اشارات سے تعلق ہے
غزل میں طنز علامات سے ابھرتا ہے
علامتوں کا روایات سے تعلق ہے
وہ ایک رات پشیماں ہوں جس کی نسبت سے
جناب کا بھی اسی رات سے تعلق ہے
جنابِ پیر مغاں یہ نشے کی بات نہ ہو
کہ ساقیوں کا بھی برسات سے تعلق ہے
اگرچہ میرا مخاطب نہیں ہے وہ لیکن
سمجھ رہا ہے مری ذات سے تعلق ہے
اسے بھی ٹالتے رہتے ہیں دورِ ساغر پر
ہمیں بھی گردشِ آفات سے تعلق ہے
تمہارے حسن کا قائل نہیں، مظفرؔ کو
تمہاری اور ہر اِک بات سے تعلق ہے
٭٭٭
گھر کے رہتے ہی نہیں، گھاٹ اترتے ہی نہیں
اس لیے ہم ترے کوچے سے گزرتے ہی نہیں
مسئلے آمدن و خرچ کے ایسے اُلجھے
جس طرح گیسوئے پیچاں کہ سنورتے ہی نہیں
کوئی لائق ہی نہ تھا جس سے محبت کرتے
اور نفرت وہ کسی شخص سے کرتے ہی نہیں
تو اگر اشک بہاتا نہ یہاں بن بن کر
داغ چہرے کے ترے صاف اُبھرتے ہی نہیں
ہم بھی اس بت کی نگاہوں پہ چڑھے ہیں لیکن
سخت جانی کا یہ عالم ہے کہ مرتے ہی نہیں
ترش با توں سے اجالا ہے دلوں کو ہم نے
ورنہ وہ زنگ چڑھا تھا کہ نکھرتے ہی نہیں
لوگ مایوس ہیں اس درجہ مظفرؔ صاحب
جیسے بگڑے ہوئے حالات سدھرتے ہی نہیں
٭٭٭
جب کوئی شکوہ نہیں کرتا کسی بیداد کا
حوصلہ بڑھتا رہے گا ہر ستم ایجاد کا
عندلیبانِ چمن کو یاد ہے، سن لیجیے
باغباں کے باب میں ہر تبصرہ صیاد کا
’’ظلم سہتے جائیے، افواہ مت پھیلائیے ‘‘
میں حوالہ دے رہا ہوں آپ کے ارشاد کا
آپ شیشہ گر، وہ تیشہ زن، وہاں مت جائیے
ہاتھ ایسے میں بہک جائے اگر فرہاد کا
زندگی کا فیصلہ دو ٹوک کرتا ہے وہی
آج کل انصاف کرنا کام ہے جلاد کا
جب کوئی معصوم صورت آ گئی ہے سامنے
سامنا کرنا پڑا ہے اِک نئی اُفتاد کا
یہ لگی لپٹی نہیں ہے، واقعی اس دَور میں
اے مظفرؔ دم غنیمت ہے جنابِ شادؔ کا
٭٭٭
اِک عمر گزرتی ہے کہ ہلکان رہا ہوں
اب جا کے تری چال کو پہچان رہا ہوں
بس گھور کے اِک بار اُسے دیکھ لیا ہے
حیران رہا ہوں نہ پریشان رہا ہوں
اخلاق پہ مجبور نہ کر اور زیادہ
دانستہ ترے جرم سے انجان رہا ہوں
ہاں پھول کوئی میری ضمانت پہ نہیں ہے
میں خود ہی جو گلشن کا نگہبان رہا ہوں
میں، چونکہ کرائے کے مکانوں پہ گزر ہے
الفاظ کے محلوں پہ محل تان رہا ہوں
بجلی سے شکایت، نہ بہاروں کی تمنا
گلشن میں رہا ہوں تو بصد شان رہا ہوں
چھپ کر تو کبھی بات مظفرؔ نے نہیں کی
رجعت کا مخالف علی الاعلان رہا ہوں
٭٭٭
احتجاجاً سر اٹھایا جب کسی ناچار نے
غور فرمانے کا وعدہ کر لیا سرکار نے
مغبچے، پیر مغاں، ساقی، سبھی ناراض ہیں
غالباً سچ بات کہہ دی ہے کسی میخوار نے
وہ تو کہیے کچھ ترس طوفان ہی کو آ گیا
کیا بتائیں کس جگہ دھوکا دیا پتوار نے
سوچتے ہیں ہر قدم پر، پھونک کر رکھتے ہیں پاؤں
آپ کو بہکا دیا ہے قافلہ سالار نے
وہ غم و غصے کا عالم تھا کہ اس کے روبرو
بات ہی کہنے نہ دی جذبات کے طومار نے
تبصرے فرما رہے ہیں رقص بسمل پر عوام
فیصلہ ہی کر دیا ہوتا تری تلوار نے
اے مظفرؔ دیکھنا پیتے ہوئے غش کھا گیا
آخری ہچکی نہ لی ہو قوم کے بیمار نے
٭٭٭
اس نے میرا نام لیا تھا!
وقت ہی ایسا آن پڑا تھا
آخر تم کھل کھیل کے مانے
کیا میں نے تم کو دیکھا تھا
بعد از وقت پشیماں ہے وہ
میں تو سب کچھ بھول چکا تھا
نادانستہ کہہ کر چپ ہیں
سب ان کا سوچا سمجھا تھا
بے رونق بے رونق سا ہے
میرا گھر پہلے کیسا تھا
ہم نے اس کا نام لیا جب
سنّاٹا سا سنّاٹا تھا
آج مظفرؔ کو محفل میں
وہ گھبرا کر دیکھ رہا تھا
٭٭٭
سونی محفل اچھی لیکن عجلت سے یوں کام نہ لے
اوچھے لوگوں کو بلوا کر اپنے سر الزام نہ لے
جیسے چونے کا دھبّہ پڑ جائے کالی چادر پر
نادانوں میں اتنی زیادہ دانائی سے کام نہ لے
قسمیں کھا کر کہتا جائے یہ غیبت کی بات نہیں
پھر اس پر تاکید کہ دیکھو میرا کوئی نام نہ لے
اتنی غیرت ناکامی کا باعث ہو گی، ایسے میں
اے پیچھے رہ جانے والے ہاتھ ہمارا تھام نہ لے
اب کیوں بغلیں جھانک رہا ہے پینے سے ڈرتا ہے کیوں
ساقی کا فرمان بجا لا، یا ساقی سے جام نہ لے
آپ مظفرؔ سے ملیے تو بات نرالی ہے اس کی
کانٹوں پر سو جائے لیکن پھولوں پر آرام نہ لے
٭٭٭
نام کی رعایت سے کام بھی ضروری ہے
صبح کے تمنائی، شام بھی ضروری ہے
بات کو گھمانے سے کام چل نہیں سکتا
محترم زمانے میں کام بھی ضروری ہے
آپ کی نگاہوں میں اِک سرور ہے ہو گا
مئے پرست کہتے ہیں جام بھی ضروری ہے
داستاں مکمل ہے، ہاں برائے رنگینی
خاص خاص لوگوں کا نام بھی ضروری ہے
اب اسیر ہونے پر راز یہ کھلا جا کر
جس جگہ بھی دانے ہوں دام بھی ضروری ہے
قلب کی ضرورت ہے، سربلند کرنے میں
سرفراز ہونے کو بام بھی ضروری ہے
راہِ عام سے بچ کر شعر کہنے والوں میں
آپ کے مظفرؔ کا نام بھی ضروری ہے
٭٭٭
’’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے ‘‘
اس کی نظروں میں سب حقیر ہوئے
بال و پر بے طرح مچلتے ہیں
مدتیں ہو گئیں اسیر ہوئے
پھر ضمانت نہیں شرافت کی
آپ ہم سے اگر شریر ہوئے
وہ نئی بات کس طرح سمجھیں
کچھ لکیروں کے جو فقیر ہوئے
ہم جنھیں ناخدا سمجھتے تھے
وہ بھی طوفان کے سفیر ہوئے
پیدلوں کی بساط ہی کیا تھی
جب بڑھائے گئے، وزیر ہوئے
اے مظفرؔ چھپائیں گے دیوان
اتفاقاً اگر امیر ہوئے
٭٭٭
طنز کے بارے میں ان کا یہ نیا ارشاد ہے
نشترِ فصّاد کیا ہے، خنجر جلّاد ہے
آپ کا وعدہ اصولاً یاد دلواتے ہیں ہم
ورنہ یہ تو جانتے ہیں آپ کو بھی یاد ہے
ہر قدم پر یہ نہیں، یہ راہ، کیوں ہونے لگی
ہمسفر کی آڑ میں کوئی ستم ایجاد ہے
’’دودھ کی نہریں نکالیں گے یہاں ‘‘ کا مدعی
میں سمجھتا ہوں کوئی بگڑا ہوا فرہاد ہے
آپ جس کو پیش کرتے ہیں گواہی کے لیے
آپ سے کیا منحرف ہو گا کہ خانہ زاد ہے
دونوں یکساں ہیں تو پھر ہم کس لیے بیعت کریں
ایک جانب باغباں ہے، اِک طرف صیاد ہے
اِک زمانہ تھا مگر ہسوہ میں اب شاعر کہاں
اِک مظفرؔ ہے تو وہ بھی خانماں برباد ہے
٭٭٭
میری تعریفوں پہ وہ رسماً تو جھلّائے بہت
خوش نما جملے اُنہیں دِل میں پسند آئے بہت
وقت پڑنے پر ہمیں آئیں گے اس ظالم کے کام
یوں تو اس نے انجمن میں نام گنوائے بہت
جستجو کا مشورہ یہ ہے کہ بڑھتے جائیے
راہ میں آرام کرنے کے لیے سائے بہت
واہ کیا حاضر دماغی ہے، حیا کے نام پر
وہ ہمارے سامنے آنے میں گھبرائے بہت
اب تمہاری بات کا ہم پر اثر ہوتا نہیں
آج تک دھوکے وفا کے نام پر کھائے بہت
آج پھر ہم نے سوالوں کی جھڑی کو روک کر
رہنمایانِ وطن پر پھول برسائے بہت
نام لکھنا ہے مظفرؔ کا ادب کے باب میں
تبصرے میری غزل پر اس نے فرمائے بہت
٭٭٭
بادِ مسموم چلے، پھول سسکتے جائیں
عندلیبوں پہ نظر ہے کہ چہکتے جائیں
اس شب تار میں ا، تنا بھی غنیمت جانو
آسماں پر جو ستارے ہی چمکتے جائیں
لطف جب ہے کہ کوئی خون سے انکار کرے
اور تلوار سے قطرے بھی ٹپکتے جائیں
خوابِ غفلت سے بچانے کا طریقہ یہ ہے
ہم زمانے کی نگاہوں میں کھٹکتے جائیں
صاف ظاہر ہے کوئی چیز چھپا رکھی ہے
وہ قسم کھائیں کہ دامن کو جھٹکتے جائیں
وہ جو الزام کی تردید نہیں کر سکتے
کچھ نہیں اور تو پلکیں ہی جھپکتے جائیں
اے مظفرؔ ترے اشعار کی عزت ہو گی
شادؔ صاحب کے جو انداز جھلکتے جائیں
٭٭٭
پیرِ مغاں کو قبلۂ حاجات کہہ گیا
میں بھی ہنسی ہنسی میں بڑی بات کہہ گیا
تاریک راستے کا مسافر نہیں ہے وہ
جو تیرے گیسوؤں کو سیہ رات کہہ گیا
قاصد نے اس کی بات بنائی نہ ہو کہیں
کس بے تکلفی سے جوابات کہہ گیا
پھولوں نے ہنس کے ٹال دیا وقت پر ہمیں
کانٹا مگر بہار کے حالات کہہ گیا
میں، چونکہ مصلحت کے تقاضے عجیب ہیں
اس کی جفا کو گردشِ آفات کہہ گیا
یہ لیجیے جناب کی بازی پلٹ گئی
جو ہارتا رہا ہے وہی مات کہہ گیا
ناگفتنی لکھی ہے مظفرؔ نے عمر بھر
جو کچھ زبان کہہ نہ سکی، ہات کہہ گیا
٭٭٭
کبھی پتھر نکل آیا کبھی ہیرا نکل آیا
ہمارے دامن کوتاہ سے کیا کیا نکل آیا
اب ایسے میں بھلا کیا عشق سے امید رکھیں ہم
حریمِ ناز سے جب حسن بے پردہ نکل آیا
یہ اِک آنسو نکل آیا جو مایوسی کے عالم میں
شب تاریک میں جیسے کوئی تارا نکل آیا
وہاں ہر صاحب غیرت نے میری پیروی کی ہے
مجھے جب بزم سے اٹھتے ہوئے دیکھا، نکل آیا
جہاں بھی اس طرف یا اس طرف کی بات ٹھہری ہے
تمہارے واسطے اک بیچ کا رَستا نکل آیا
جہاں بھی خود نمائی نے ذرا سا سر اُٹھایا ہے
وہاں ہر آدمی خود بین و خود آرا نکل آیا
غزل میں لوگ حسن و عشق تک محدود رہتے ہیں
مظفرؔ طنز کے میدان میں تنہا نکل آیا
٭٭٭
جس میکدے میں جام مرے روبرو نہ آئے
اس میکدے کا نام مرے روبرو نہ آئے
کھل جائے گی بہار کی مٹھی بندھی ہوئی
پھر باغباں کا نام مرے روبرو نہ آئے
مجھ سے نہ ہو سکے گا روایت کا احترام
زلف سیاہ فام مرے روبرو نہ آئے
یارب مرے قیام کا امکان ہو جہاں
ایسا کوئی مقام مرے روبرو نہ آئے
میری کسی کے ساتھ کوئی دوستی نہیں
اب نامہ و پیام مرے روبرو نہ آئے
لوگو چراغِ شام مجھے ناپسند ہے
دیکھو چراغِ شام مرے روبرو نہ آئے
پردہ جو بیچ میں تھا مظفرؔ نہ اٹھ سکا
بڑھ کر وہ چند گام مرے روبرو نہ آئے
٭٭٭
رہنما کے ذوق کو تسکین پہنچاتے ہوئے
راستہ طے کر رہا ہوں ٹھوکریں کھاتے ہوئے
بے مروّت ہوں مگر بے آبرو ہرگز نہیں
مطمئن ہوں آپ کے الفاظ لوٹاتے ہوئے
لوگ کیوں بے چین ہوں ان بد ضمیروں کے لیے
شرم ہی جن کو نہ آئے ہات پھیلاتے ہوئے
تذکرے اس دَور کی بے شرمیوں کے چھیڑ کر
آج وہ دیکھے گئے محفل میں شرماتے ہوئے
کب عمل ہو گا ابھی سرکار نے سوچا نہیں
اِک زمانہ ہو گیا، وعدوں سے بہلاتے ہوئے
کم نہیں ان سے کسی صورت مظفرؔ کی غزل
مدتیں گزریں جنہیں یہ شوق فرماتے ہوئے
٭٭٭
غور مت فرمائیے بے خوف چل کر آئیے
آئیے ساحل کے چکر سے نکل کر آئیے
صرف ہم بڑھتے رہے تو فاصلہ بڑھ جائے گا
محترم اب آپ تھوڑی دور چل کر آئیے
ڈگمگائیں گے قدم جب ہر طرف یہ شور ہو
اس طرف سے، یوں نہیں، ایسے سنبھل کر آئیے
ساتھ تو دینا پڑے گا وقت کی رفتار کا
آنکھ مَل کر آئیے یا ہاتھ مل کر آئیے
مشتعل ہیں اِس طرف کے لوگ ان کے نام پر
جائیے جا کر اُنھیں بھی مشتعل کر آئیے
یہ بہانہ خوبصورت ہے مگر رُکیے نہیں
راستے میں پھول پڑتے ہیں کچل کر آئیے
اے مظفرؔ ہم بڑی امید لے کر آئے ہیں
میکدے کے مسئلوں کو آج حل کر آئیے
٭٭٭
وہ دشمن سے کچھ کم نہیں ہے مگر پھر بھی اپنا ہے، اپنا سمجھ کر نہ کہہ دیں
وہی بات اغیار جو کل کہیں گے، اسے آج ہی کیوں مظفرؔ نہ کہہ دیں
ابھی وقت ہے سوچ لیجے کہ ہم پر عنایات میں کچھ کمی تو نہیں ہے
ابھی بولنے کی اجازت نہ دیجے کہیں آپ کو ہم ستم گر نہ کہہ دیں
کئی بار سوچا کہ دو چار پیغام اپنی طرف سے ترے نام بھیجیں
مگر قاصدوں کا بھروسہ نہیں ہے، کچھ اپنی طرف سے ملا کر نہ کہہ دیں
بڑی شخصیت ہم انھیں مانتے ہیں مگر قدر اپنی بھی پہچانتے ہیں
مساوات کے زعم میں ایک دِن وہ کہیں ہم کو اپنے برابر نہ کہہ دیں
دِکھانے لیے جا رہے ہیں بڑے فخر سے تاج بی بی کے روضے کی جالی
مگر ساتھ میں ایک گائڈ لگا ہے کہ مہمان دیوار کو در نہ کہہ دیں
بھلا اس سے بہتر حماقت کی پردہ دری کے لیے اور چارہ بھی کیا ہے
پشیمان ہو کر اگر لوگ خود ساختہ الجھنوں کو مقدر نہ کہہ دیں
بڑے تلخ گو ہیں، بڑے صاف گو ہیں، مگر اب جہاں ہیں وہیں ٹھہر جائیں
جنابِ مظفرؔ بہت بڑھ چلے ہیں کہیں آپ کو لوگ خود سر نہ کہہ دیں
٭٭٭
کیوں اور کس لیے وہ پشیمان ہو گیا
میں سوچنے لگا تو پریشان ہو گیا
اب جا کے راز دارِ چمن ہو سکا ہوں میں
جب تار تار میرا گریبان ہو گیا
معصومیت کے نام پہ دھوکا نہ کھائیے
کچھ مصلحت ہے وہ جو پشیمان ہو گیا
یہ آدمی بھی کتنا بڑا خود پسند ہے
آئنہ دیکھ دیکھ کے حیران ہو گیا
بے پَر کی یار لوگ اڑاتے ہیں آج کل
یہ ملکۂ سَبا، وہ سلیمان ہو گیا
لو شمع انجمن کی لرز کر سنبھل گئی
پروانہ اپنی جان سے قربان ہو گیا
ہاں طنز گو جنابِ مظفرؔ بھی ہیں مگر
سن لو گے ایک روز کہ چالان ہو گیا
٭٭٭
باغباں نے لوٹا ہے، آندھیوں نے گھیرا ہے
آج ہر نشیمن میں خوف کا بسیرا ہے
تو جفا پہ نادم ہے، میں وفا پہ نازاں ہوں
ایک ظرف تیرا ہے، ایک ظرف میرا ہے
روشنی کرو لوگو، سازشوں کی محفل میں
کون کس کو پہچانے، ہر طرف اندھیرا ہے
دِن پہ رات کا غلبہ سوچ کر ہنسی آئی
رات کے تعاقب میں اور اِک سویرا ہے
مستقل مزاجوں میں انتشار کیا معنی
بارہا یہ شیرازہ آپ نے بکھیرا ہے
اب سکون ملتا ہے دھوپ کی تمازت میں
گیسوؤں کا سایہ تو آج بھی گھنیرا ہے
طنز ہے کہ نشتر ہے حضرتِ مظفرؔ کا
سر پہ تنگدستی نے جب سے ہات پھیرا ہے
٭٭٭
تکرار بے مزہ ہے تری اے پری جمال
لہجہ بدل، لبوں کا ذرا زاویہ سنبھل
یہ سوچ کر سوال نہ اُن سے کیا کوئی
پورا کریں سوال نہ پورا کریں سوال
دھوکا غریب مرغ چمن کس طرح نہ کھائے
پھولوں میں باغبان نے پھیلا رکھے ہیں جال
ہر سعیِ کامیاب پہ بڑھتی رہی ہوس
کچھ اس طرح کہ جیسے جئیں گے ہزار سال
کم ظرف ہے تو اپنی حقیقت پہ جائے گا
ذرّے کو آفتاب کی لازم نہیں مثال
پالا نہیں پڑا کسی آشفتہ حال سے
بن بن کے پوچھتے ہیں تبھی وہ ہمارا حال
فطرت لچک سکی نہ مظفرؔ کی دوستو
اس کو نہ تن کی چوٹ نہ دھن کا کوئی خیال
٭٭٭
صرف مظلومین کی تعداد مت گنوائیے
آپ ہی کے کارنامے ہیں ذرا شرمائیے
اس دھندلکے میں نظر دھوکا نہ کھا جائے کہیں
محترم کو روشنی کے پاس تو بلوائیے
آپ نے جو زخم بخشے تھے کسکتے ہیں ابھی
آپ کو ہم جانتے ہیں اس طرف تو آئیے
بولنا ٹھہرا تو پھر کوئی نئی سی بات ہو
فائدہ ہی کیا پرانی بات مت دہرائیے
پارسائی کا بھرم رکھتے ہوئے پیتے ہیں یہ
چور دروازے سے ان کو میکدے پہنچائیے
آپ کی بیجا حمایت پر نہیں تیار ہم
آپ سے جو بن پڑے کر لیجیے گا، جائیے
زنگ آلودہ غزل کو رنگ دے کر طنز کا
اے مظفرؔ فکر کو جامہ نیا پہنائیے
٭٭٭
وہ نہیں سنتا مگر پھر بھی سناتے جائیے
ٹوکنا بھی فرض ہے اس کو نبھاتے جائیے
پاک دامن کون ہے اس لغویت کے دَور میں
آپ جب تک ہو سکے، دامن بچاتے جائیے
آپ واپس جا رہے ہیں شوق سے جائیں مگر
کیا ضروری ہے کہ سب کو ورغلاتے جائیے
ہر قدم پر ایک پابندی لگا دی ہے جہاں
سوچنے پر بھی کوئی ٹھپّہ لگاتے جائیے
حسرتِ تعمیر میں تعمیر ایسا لوچ ہے
مطمئن ہیں لوگ، منصوبے بناتے جائیے
رہزنوں کا کیا بھروسہ کب کدھر سے آ پڑیں
راستے میں خاک دانستہ اڑاتے جائیے
باغباں نے خوب لوٹا ہے خزاں کے نام پر
اے مظفرؔ پھول سے کانٹے ہٹاتے جائیے
٭٭٭
ہر ایک محفل میں اس طرح تم جو رونق انجمن بنو گے
تمہاری خصلت بتا رہی ہے کہ جلد ہی بد چلن بنو گے
ہمیں تمہارے خلوص پر اعتماد تھا یہ خبر نہیں تھی
کہ رہنمائی کا یہ لبادہ اتار کر راہزن بنو گے
جِیو یہاں سخت جان ہو کر بہت ہی نازک ہے یہ زمانہ
مگر نصیحت سے فائدہ کیا، یقین ہے گلبدن بنو گے
سنا دیا جوئے شیر و شیریں کی آڑ میں ظلم کا فسانہ
مجھے بتاؤ کہ تم بھی خسرو بنو گے یا کوہکن بنو گے
تمام غنچے ملول کیوں ہیں، تمہارے دامن میں پھول کیوں ہیں
ہمیں یہی اعتراض ہو گا جو پاسبانِ چمن بنو گے
یہ چھاچھ بھی پھونک کر پئیں گے کہ دودھ سے ان کا منہ جلا ہے
قفس نصیبوں سے پوچھ کر دیکھیے کہ گل پیرہن بنو گے ؟
کلام پر اک ذرا سی تنقید بھی تمھیں ناگوار گزری
اسی بھروسے پہ اے مظفرؔ حریفِ دار و رسن بنو گے
٭٭٭
داغ بن کر دو جہاں کا غم جگر میں آ گیا
اس غریبی میں کہاں مہمان گھر میں آ گیا
اس جفا پیشہ کی یاد آئی نہ زخم دل ہنسے
خود بخود سیلاب سا کیوں چشم تر میں آ گیا
میں نہ کہتا تھا سنبھلیے یوں نہ مجھ کو دیکھیے
مسکرانا آپ کا سب کی نظر میں آ گیا
میں تو بچنا چاہتا تھا طنز کے موضوع سے
اور یہ اخبار کی پہلی خبر میں آ گیا
آشیاں سے بڑھ کے تھا مجھ کو قفس کا احترام
جانے کیوں اک زلزلہ سا بال و پر میں آ گیا
سنگباری زور پر ہے خاک اڑتی ہے بہت
کون دیوانہ تمہاری رہ گزر میں آ گیا
اے مظفرؔ ریشمیں غزلوں کے اس انبوہ میں
یہ غزل! جیسے کوئی کنکر شکر میں آ گیا
٭٭٭
اس نمائش میں بدن پر کوئی گہنا چاہیے
فصل گُل ہے، پاؤں میں زنجیر پہنا چاہیے
ہر خدا لگتی پہ اِک طوفان برپا ہو گیا!
دوستو اس بزم میں خاموش رہنا چاہیے
محترم اس قول کی تائید ہم کیسے کریں ؟
ظلم کرنا چاہیے یا ظلم سہنا چاہیے
سامنے کی بات ہے شاید اسے محسوس ہو
اس نگاہِ شوخ کو محجوب کہنا چاہیے
ہو سکے تو ایک چپ سے سو بلا کو ٹالیے
اور اگر کہنا پڑے تو سچ ہی کہنا چاہیے
ظلم کی ہر چوٹ لیتے ہیں مظفرؔ طنز پر
آپ کی تحریر کے سائے میں رہنا چاہیے
٭٭٭
سایۂ گیسو میں اب رہرو ٹھہرنے سے رہا
آپ کی خاطر کوئی بے موت مرنے سے رہا
طنز کو توصیف سے تعبیر کر لیجے تو خیر
ورنہ میں تو آپ کی تعریف کرنے سے رہا
آج کل اہل قفس صیاد سے ڈرتے نہیں
جو کسی کی فکر کے بازو کترنے سے رہا
لوگ ظلم و جور سے کچھ اس طرح مرعوب ہیں
جیسے یہ چڑھتا ہوا سورج اترنے سے رہا
صاف گوئی کا مزا جس آدمی نے چکھ لیا
وہ دَبکنے، رعب کھانے اور ڈرنے سے رہا
دوستو اِن سخت راہوں کو نہ دیکھو غور سے
نقش پا اُن کا یہاں آ کر اُبھرنے سے رہا
اے مظفرؔ طنز کام آئے گا فن کی بزم میں
آگ سے کوئی برہنہ پا گزرنے سے رہا
٭٭٭
کہتے ہیں کھوٹا سکہ بھی اکثر کام آ جاتا ہے
مثلاً ان کی محفل میں اب میرا نام آ جاتا ہے
ہر دامن پر رنگینی ہے، پھولوں کے سو دامن ہیں
اور برہنہ تن کانٹوں کے سر الزام آ جاتا ہے
ان کی سوچو جو غم سے محروم ہیں لیکن جیتے ہیں
میرے دل کا کیا اس کو یوں ہی آرام آ جاتا ہے
تک کی بات کہیں تو ہو گا تلخ کلامی پر انجام
مجھ کو لے کر بزم میں وہ نازک اندام آ جاتا ہے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں چاند نہیں لیکن پھر بھی
سورج ڈھلنے پر وہ کیوں بالائے بام آ جاتا ہے
جانے اب کس پہلو سے، کس حیلے سے بیداد کریں
دِل کی حالت دیکھو جب ان کا پیغام آ جاتا ہے
روز مظفرؔ آتے ہیں کچھ تنقیدی، تہدیدی خط
میرے طنز و فن کا گھر بیٹھے انعام آ جاتا ہے
٭٭٭
سمجھیے کہ اس بزم کی لاج ہوں میں
خصوصی توجہ کا محتاج ہوں میں
مرا ابتدائی تصور تمھیں تھے
تمہارے تصور کی معراج ہوں میں
طرحداریاں ہیں جو روکے ہوئے ہیں
نہ مجبور ہوں میں نہ محتاج ہوں میں
مجھے گھر سے تھوڑی سی مہلت عطا ہو
کہ صنف غزل کا بھی سرتاج ہوں میں
مظفرؔ مجھے کوئی پروا نہیں ہے
اگر ایک مدت سے تاراج ہوں میں
٭٭٭
جس کو پہلے پیار کیا، اس کے نام سے نفرت ہے
وہ تو خیر حماقت تھی، یہ اِک اور حماقت ہے
وہ جو مجھ سے جلتے ہیں، میں جو ان پر ہنستا ہوں
جلنا ان کا شیوہ ہے، ہنسنا میری عادت ہے
سب کو اتنی جلدی کیوں، میری باری آنے پر
لو یہ ساغر رکھا ہے، دیکھوں کس میں ہمت ہے
یہ دیواریں نیچی ہیں، ان پہروں سے کیا ہو گا
لوگو یہ آزاد روی، میری ایک جبلّت ہے
جیسے پانی، آگ، ہوا، جینے کو سب لازم ہیں
ایسے ہی غزلیں کہنا، میری ایک ضرورت ہے
وہ کیا جانیں دونوں میں، کیسی چوٹیں چلتی ہیں
لوگوں نے بس یہ دیکھا مجھ کو اس سے نسبت ہے
خیر منائی جاتی ہے، اونچی پگڑی والوں کی
آج مظفرؔ حنفی کو، پھر تھوڑی سی فرصت ہے
٭٭٭
وہ جو دنیا پر روتا ہے
اپنے آنسو بھی کھوتا ہے
وہ پیراہن کیوں دھوتا ہے
رنگینی کا شک ہوتا ہے
اس نے وعدہ تو فرمایا
لیکن اس سے کیا ہوتا ہے
پاگل کی نگرانی ہو گی
کب ہنستا ہے، کب روتا ہے
مجبوراً آوارہ ہے وہ
اپنے گھر کا اکلوتا ہے
کانٹے غنچے کو تکتے ہیں
جاگ رہا ہے یا سوتا ہے
جو چلنے سے قاصر ہے وہ
راہوں میں کانٹے بوتا ہے
٭٭٭
تم آہیں بھر سکتے ہو یا تفریحاً رو سکتے ہو
یعنی، مظلوموں کے حق میں کانٹے ہی بو سکتے ہو
اس کا ہر فرمان بجا ہے یہ بھی تم نے خوب کہی!
وہ کہتا ہے انگاروں پر سو جاؤ سو سکتے ہو؟
ہم کو کس نے لوٹا، کوئی اور ہمارے ساتھ نہ تھا
میں رہزن ہو سکتا ہوں یا تم رہزن ہو سکتے ہو
یہ بتلا دوں اس بستی میں الٹی گنگا بہتی ہے
اب دھو لو بہتی گنگا میں ہاتھ اگر دھو سکتے ہو
اچھا میں معذور سہی، تم جا سکتے ہو، ظاہر ہے
اس محفل میں کیا پاؤ گے البتہ کھو سکتے ہو
لوگوں کے جذبات، مظفرؔ بھڑکا دینا آساں ہے
قابو پانا مشکل ہو گا آگ لگا تو سکتے ہو
٭٭٭
چاندنی اتنی گھٹی، پہلو میں گھٹ کر آ گئی
یاد اُن کی دامن شب سے لپٹ کر آ گئی
احتجاجاً میں اکیلا ہی اٹھا تھا بزم سے
بھیڑ یہ کیوں آپ کی محفل سے کٹ کر آ گئی
آپ کو جو رہبری کا زعم تھا، یہ دیکھیے
میری منزل آپ کی راہوں سے ہٹ کر آ گئی
یہ جو چنگاری فروزاں دامن قاتل میں ہے
اس طرف شاید مرے دل سے اچٹ کر آ گئی
میں نہ کہتا تھا کہ مٹی چاند پر مت پھینکیے
دیکھیے خود آپ کے سر پر پلٹ کر آ گئی
ظلم کا پلّہ جہاں بھاری پڑا، ایسا ہوا
اک نگاہ معتبر بازی الٹ کر آ گئی
اے مظفرؔ دو جہاں کا غم مرے سینے میں ہے
وسعت دریا سفینے میں سمٹ کر آ گئی
٭٭٭
جو موقع خاموشی کا تھا اس موقع پر حجت کی
بے موقع خاموشی برتی یہ اک اور حماقت کی
تم نے خوب نمائش کر لی اپنی اوچھی خصلت کی
پھر بھی سوچ رہا ہوں جیسے میرے ساتھ مروّت کی
ہوتے ہیں کچھ لوگ جنہیں بس باتیں کرنی آتی ہیں
ان سے کچھ امید نہ رکھیے باتیں سنیے حضرت کی
زخموں میں وہ ٹیس کہاں ہے بات جہاں سے بنتی ہے
اپنوں سے امید بندھی تھی، غیروں نے کیوں زحمت کی
بھوکے پیٹ بھجن کرنے سے آنت گلے میں آئے گی
اُلفت پھر کر لینا یارو یہ باتیں ہیں فرصت کی
اس نے اپنی ساکھ گنوائی چھوٹی موٹی با توں میں
اپنی جانب سے تو ہم نے اس کی حد بھر عزت کی
طنز مظفرؔ کے شعروں میں ہوتا ہے تو ہونے دو
تم نے یہ کیا گت کر لی ہے اچھی خاصی صورت کی
٭٭٭
تم نے جی بھر کے ستانے کی قسم کھائی ہے
میں نے آنسو نہ بہانے کی قسم کھائی ہے
باغبانوں نے (یہ احساس ہوا ہے مجھ کو)
آشیانوں کو جلانے کی قسم کھائی ہے
انقلابات کے شعلے بھی کہیں بجھتے ہیں
آپ نے آگ بجھانے کی قسم کھائی ہے
ڈر یہی ہے کہ کہیں خود سے نہ دھوکا کھا جائے
جس نے دھوکے میں نہ آنے کی قسم کھائی ہے
تجھ پہ مرتا ہوں، ترے سر کی قسم کھاتا ہوں
غیر نے آج ٹھکانے کی قسم کھائی ہے
صاف ظاہر ہے کہ اب راز نہیں رہ سکتا
راز داروں نے چھپانے کی قسم کھائی ہے
شادؔ صاحب کی طرح میں نے مظفرؔ حنفی
طنز پرسان چڑھانے کی قسم کھائی ہے
٭٭٭
در پردہ چمکیلی آنکھیں !
ہوتی ہیں زہریلی آنکھیں !
جھینپ رہی ہیں فرمائش پر
شرمیلی شرمیلی آنکھیں !
صواد ہیں تیری کم ظرفی پر
تیری گیلی گیلی آنکھیں !
محبو بوں پر وقت پڑا ہے
الجھے گیسو، پیلی آنکھیں !
ژرف نگاہی سے عاری ہیں
آہو کی تمثیلی آنکھیں !
آڑا ترچھا پن تو دیکھو
بانکے نین! کٹیلی آنکھیں !
آج مظفرؔ ہی پر کیوں ہیں
کالی پیلی نیلی آنکھیں !
٭٭٭
صحنِ چمن کا تم کو جو نگراں بنا دیا
تم نے تو چار دِن میں بیاباں بنا دیا
منظور ہے یہ ترکِ تعلق بصد خلوص
یہ مرحلہ تو آپ نے آساں بنا دیا
تخریب کو اٹھے تو نشیمن نہیں رہے
تعمیر پر جو آئے تو زنداں بنا دیا
لوگوں نے (جن کو ربط نہیں زندگی کے ساتھ)
صنف غزل کو مدحتِ جاناں بنا دیا
ممنونِ ہوں کہ شدتِ احساس بخش کر
مضرابِ غم برائے رگِ جاں بنا دیا
زخم جگر سے اور نہ کچھ بن پڑا سلوک
قاتل کی آستیں پہ گلستاں بنا دیا
انسان کش بنا کے ہر اک جان دار کو
مجھ کو ستم ظریف نے انساں بنا دیا!
٭٭٭
کہہ دو سارے ہمسفروں سے
بچتے رہنا راہبروں سے
کیا کر لے گی روٹھ کے دنیا
ہم جیسے آشفتہ سروں سے
چھوڑ نشیمن کے تنکوں کو
الجھیں گے بے کار پروں سے
اپنے کو محفوظ نہ سمجھیں !
باہر آ کر لوگ گھروں سے
شیش محل کو خطرہ ہو گا
سب سے زیادہ شیشہ گروں سے
رونق ہے تیری محفل میں
کم نظروں سے بے ہنروں سے
تلخ مزاجی سیکھ رہا ہوں
میں تیرے پیغام بروں سے
٭٭٭
غیروں پر ظاہر کرتا ہوں جیسے پی کر دیکھ رہا ہوں
اس کی آنکھیں دیکھ چکا ہوں اپنا ساغر دیکھ رہا ہوں
رہبر کا یہ حال کہ رہزن کے ڈر سے پیچھے چلتا ہے
مجھ پر یہ الزام کہ میں کیوں آگے بڑھ کر دیکھ رہا ہوں
گھپلے بازی میں وہ شاطر، میں دھوکے کھانے سے قاصر
وہ اپنا گھر دیکھ رہا ہے میں اپنا گھر دیکھ رہا ہوں
اب تم کو کیسے سمجھاؤں، وہ آنکھیں مستقبل کی ہیں
جن آنکھوں سے ذرّوں کو تاروں کا ہمسر دیکھ رہا ہوں
نام نہ لوں گا، واعظ ہوں یا زاہد ہوں، یہ ساقی جانے
چھپ چھپ کر بھی آتے ہیں کچھ لوگ برابر دیکھ رہا ہوں
سچ ہے اک مخصوص نظر سے دیکھ رہا ہوں میں دنیا کو
لیکن یہ بھی جھوٹ نہیں ہے تم سے بہتر دیکھ رہا ہوں
اردو پرچے اور مظفرؔ حنفی کو کیا دے سکتے ہیں ؟
سب میں ان کی کڑوی تیکھی غزلیں اکثر دیکھ رہا ہوں
٭٭٭
یہ سوچ کر وفا پر مجبور ہو گیا وہ
میں طنز کر نہ بیٹھوں مغرور ہو گیا وہ
اِک جام پی لیا تھا، خود آگہی کی مئے کا
پھر ہوش میں نہ آیا منصور ہو گیا وہ!
اس بات پر کہ جس سے دونوں ہیں بے تعلق
مغموم ہو گیا یہ۔۔ ۔ مسرور ہو گیا وہ
دریا دلی کی دھن میں ساقی بہک رہا ہے
یعنی مجھے پلا کر۔۔ ۔ مخمور ہو گیا وہ
سیکھی نہ اس بنا پر ہم نے نیاز مندی
ڈر تھا اگر جفا سے، معذور ہو گیا وہ؟
اس کے قریب آ کر محسوس کر رہا ہوں
بدنام ہو گیا میں، مشہور ہو گیا وہ
اتنے خلوص پر میں مشکوک ہو رہا ہوں
جو مشورہ دیا ہے، منظور ہو گیا وہ
٭٭٭
ظاہر ہے کہ کانٹوں پہ سفر کر نہ سکیں گے
احباب مرے ساتھ گزر کر نہ سکیں گے
جھوٹی ہے یہ افواہ کہ حالات سے ڈر کر
اظہارِ ہنر اہل ہنر کر نہ سکیں گے
آثار یہ کہتے ہیں بڑی بات کے عادی
را توں کو بہر حال سحر کر نہ سکیں گے
جو لوگ روایت سے بغاوت پہ خفا ہیں
حالات سے وہ قطع نظر کر نہ سکیں گے
بے شک وہ مجھے شوق سے محفل سے اٹھا دیں
غزلوں کو مری شہر بدر کر نہ سکیں گے
وہ صادق و جعفر ہوں کہ اس دَور کے رہبر
غیروں کا ہمیں دست نگر کر نہ سکیں گے
وہ طنز کا ماہر ہے، مظفرؔ کو بلاؤ
مرعوب اسے زید و بکر کر نہ سکیں گے
٭٭٭
زلف سی شے نارسا کر دی گئی
بات کیا تھی اور کیا کر دی گئی
ظالموں پر طنز کیا بھرپور تھا
ہاتھ پھیلا کر دعا کر دی گئی
اب چھلکتا ہے پیالہ صبر کا
دیکھیے اب انتہا کر دی گئی
احتیاطاً لوگ یوں جیتے رہے
رسم سی جیسے ادا کر دی گئی
ہر ستم پر ایک مصرع جڑ دیا
جب ذرا مہلت عطا کر دی گئی
اب کوئی تازہ ستم ایجاد ہو
یہ نوازِش بارہا کر دی گئی
اے مظفرؔ! مرحبا، ہر درد کی
تیر و نشتر سے دوا کر دی گئی
٭٭٭
سونا تپ کر بہہ نکلے تب ہو گا کندن، میں کہتا ہوں
اس کو کچھ احساس نہیں ہے جس کے کارن میں کہتا ہوں
اپنے حق کی خاطر لڑنا اوچھے پن کی بات نہیں ہے
لوگو! اب کچھ ساتھ نہ دے گا یہ سیدھاپن، میں کہتا ہوں
سیکھا ہے کچھ ٹھوکر کھا کر، سمجھا ہے چکر میں آ کر
یعنی سوچ سمجھ کر راہنما کو رہزن میں کہتا ہوں
کانٹوں کی بابت کچھ کڑوی تیکھی باتیں سن رکھی ہیں
پھولوں کو محسوس نہ ہو تو گلشن گلشن میں کہتا ہوں
مئے خانہ کیا دُنیا ہی میں جنت کی تصویر نہیں ہے ؟
واعظ اور رِندوں میں آخر کیوں ہے ان بن، میں کہتا ہوں
بے انصافی سے ٹکرانے کے جذبے کی شرط لگا لو
دِل کو شیشہ تم کہتے ہو، دل کو آہن میں کہتا ہوں
سچ کہتا ہوں آج مظفرؔ حنفی بھی مجھ سے ڈرتا ہے
عالم یہ ہے زنداں کو اپنا گھر آنگن میں کہتا ہوں
٭٭٭
اسی کو دیکھ کر دلگیر ہے کیا
ترے گھر میں مری تصویر ہے کیا
ہماری ہر تمنا مر چکی ہے
دعا کیا چیز ہے تاثیر ہے کیا
ذرا سستا رہے ہیں اس نے بہانے
ہمارے پاؤں کی زنجیر ہے کیا
ہمارے ذکر پر چونکی ہے محفل
نہیں تو آپ کی تقریر ہے کیا
سر تسلیم خم کرنے سے پہلے
سمجھنا چاہیے تقصیر ہے کیا
رقیبوں کی برائی ہو رہی ہے
ملانے کی کوئی تدبیر ہے کیا
مظفرؔ طنز کہنے پر برا ہے
غزل بھی آپ کی جاگیر ہے کیا
٭٭٭
تری نظر نے غضب کیا
رقیب کو بے ادب کیا
ستم گروں نے خلوص بھی
معاوضے میں طلب کیا
تری خموشی کو دیکھ کر
تصورِ نیم شب کیا
سمجھ کے جو کچھ کیا، گناہ!
ثواب! جو بے سبب کیا
ہمیں نہ الزام دیجیے
سوال ہی ہم سے کب کیا
جہاں کہیں مال مل گیا
عرب نے پیشِ عرب کیا
یہی مظفرؔ کی آن ہے
جھکا نہیں اور سب کیا!
٭٭٭
اس پر کہیں وہ سر نہ دھنیں کچھ دنوں کے بعد
ہم یاد بھی نہ آئے انھیں کچھ دنوں کے بعد
طوفان کی طرح تو مخالف نہیں کہ وہ
خاموش ہو کے بیٹھ رہیں کچھ دنوں کے بعد
ہمدرد ہو رہے ہیں سبھی آپ کے یہاں
دیکھو اگر دکھائی پڑیں کچھ دنوں کے بعد
ہم آج لاجواب رہیں جان بوجھ کر
اُن سے یہی سوال کریں کچھ دنوں کے بعد
جو آج آشیاں میں سکونت پذیر ہیں
باقی رہیں، رہیں نہ رہیں کچھ دنوں کے بعد
میرے خلاف لوگ صف آرا ہوئے مگر
آخر اکھڑ رہی ہیں صفیں کچھ دنوں کے بعد
اب کوششیں یہ ہیں کہ مظفرؔ عوام کو
غزلیں کہیں سنا نہ سکیں کچھ دنوں کے بعد
٭٭٭
تغافل میں کمالِ چشم مستانہ بھی دیکھا ہے
کبھی انداز اس کا درد مندانہ بھی دیکھا ہے
نہ کر تلقین ترکِ بادہ نوشی ہاتھ پھیلا کر
کبھی ہم نے انھیں ہاتھوں میں پیمانہ بھی دیکھا ہے
اسے کچھ سوچ لینا چاہیے انکار سے پہلے
اگر اس نے مرا اقدام رندانہ بھی دیکھا ہے
صنم خانے پہ ان کی بات کیوں کر مستند سمجھیں
جنابِ شیخ نے کوئی صنم خانہ بھی دیکھا ہے
بنامِ آگہی جو بات کرتے ہیں انھیں اکثر
وفورِ آگہی کے ہات دیوانہ بھی دیکھا ہے
شکستہ ہے تو کیا، اب تو لہو کے گھونٹ پینے ہیں
اسی ساغر میں ہم نے عکسِ جانانہ بھی دیکھا ہے
مظفرؔ لوگ شمع انجمن کی بات کرتے ہیں
کسی نے انجمن میں رقص پروانہ بھی دیکھا ہے
٭٭٭
’’پتہ پتہ بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے ‘‘
لیکن اس افراتفری میں کون کسے پہچانے ہے
اس نگری میں جھک کر چلنا بھی اک جرم ہوا یارو
نیچی گردن پا کر جس کو دیکھو خنجر تانے ہے
اپنے بارے میں خوش فہمی ہوتی ہے کج فہموں کو
سمجھانے کو سمجھاتے ہیں لیکن وہ کیا مانے ہے
جی میں کھٹکا سا ہوتا ہے راہ نما کی چالوں پر
رہزن کو اکثر آوارہ گردوں میں گردانے ہے
انگلی پکڑا کر پہونچے سے غافل رہنا ٹھیک نہیں
کل پیروں کے پاس کھڑا تھا آج وہی سرہانے ہے
اب مجھ کو الزام نہ دیجے میری تلخ کلامی پر
کیسی چوٹیں جھیل چکا ہوں میرا ہی جی جانے ہے
اِک صاحب طنزاً کہتے تھے آج مظفرؔ حنفی کو
اس نو عمری میں یہ لڑکا خاک جہاں کی چھانے ہے
٭٭٭
بات کہہ کر مکر نہیں سکتا
مَیں زمانے سے ڈر نہیں سکتا
لاکھ چالاک ہو مگر قاتل
ہم سے بچ کر گزر نہیں سکتا
صاف ظاہر ہے، چھیڑ کی ہو گی
پھول یوں تو بکھر نہیں سکتا
کیا ہوا، اس نے پر کتر ڈالے
فکر کے پر کتر نہیں سکتا
منع کرتے تھے ظلم کرنے کو
اب یہ نشہ اتر نہیں سکتا!
میں نے اس کا مزاج سمجھا ہے
اس کی تعریف کر نہیں سکتا
عرض ہے حضرتِ مظفرؔ سے
شعر سے پیٹ بھر نہیں سکتا
٭٭٭
منجدھار میں تنکے بھی سہاروں کی طرح ہیں
کھل جائیں تو دشمن مرے یاروں کی طرح ہیں
اک بوئے وفا ہے کہ میسر نہیں آتی
ویسے ترے انداز بہاروں کی طرح ہیں
اس قسم کی تعریف تو ہم کر نہیں سکتے
مثلاً ترے آنسو بھی ستاروں کی طرح ہیں
اس بات سے انکار کوئی کر نہیں سکتا
کچھ پھول بہر حال شراروں کی طرح ہیں
ہاں اپنے بہکنے پہ ہمیں ناز بہت ہے
اس باب میں ہم بادہ گساروں کی طرح ہیں
کرتے ہیں ہر اک گوشۂ تاریک نمایاں
ہم لوگ ترے آئنہ داروں کی طرح ہیں
اب لوگ مظفرؔ پہ یہ تنقید کریں گے
اسلوب ترے طنز نگاروں کی طرح ہیں
٭٭٭
دل کو غم جہاں سے ہم آغوش کر دیا
ہم نے تمہارے غم کو سبک دوش کر دیا
حالانکہ شیخ جی نے بڑی تین پانچ کی
لیکن تری نگاہ نے مئے نوش کر دیا
ویسے تو کوئی کیف نہ تھا چشم و جام میں
مجھ کو ترے خیال نے مد ہوش کر دیا
احسان کیا کیا ہے چمن پر بہار نے
صیاد و باغباں کو تو گل پوش کر دیا
جب آپ سے ہوا تھا تصادم نگاہ کا
وہ حادثہ تو میں نے فراموش کر دیا
ایسا ہوا کہ میں نے اسے احترام سے
بس ایک ہی سوال میں خاموش کر دیا
حالات سے تمھیں بھی مظفرؔ نہیں مفر
حالات نے مجھے بھی بلا نوش کر دیا
٭٭٭
واعظ کو روایات نے مجبور کیا ہے
لیکن ہمیں برسات نے مجبور کیا ہے
ہم لوگ اگر دل نہ جلائیں تو کیا کریں ؟
تاریک و جواں رات نے مجبور کیا ہے
سچ ہے تو بہر حال چھپائے نہ چھپے گا
ہر چند کہ حالات نے مجبور کیا ہے
الزام نہ دینا جو کھری بات کہیں ہم
اب تیری خرافات نے مجبور کیا ہے
قانون بنانے کو وہی ہات اٹھے گا
قانون کو جس ہات نے مجبور کیا ہے
سرکار! سوالوں کی جھڑی کیوں نہ لگائیں ؟
پیچیدہ بیانات نے مجبور کیا ہے
حق کے لیے لڑتا ہے مظفرؔ کو نہ روکو
یکطرفہ عنایات نے مجبور کیا ہے
٭٭٭
کہنے کو آزادی ہو گی
در پردہ صیادی ہو گی
تعریفاً اشعار نہ کہیے
لفظوں کی بربادی ہو گی
اس نے میرا نام لگا کر
بات وہاں پہنچا دی ہو گی
دنیا سے فریاد نہ کیجے
دنیا بھی فریادی ہو گی
منہ پھٹ لوگوں پر پابندی
گونگوں کو آزادی ہو گی
غزلوں پر بھی شرط لگی ہے
طنز نہ ہو گا سادی ہو گی
یہ اپنی اپنی فطرت ہے
قیس سے کیا فرہادی ہو گی
پتھریلی راہوں سے کہہ دو
ہمت بھی فولادی ہو گی
لوگ اگر خاموش رہیں گے
اور ستم ایجادی ہو گی
اس کی رگ رگ سے واقف ہوں
مجھ سے کیا استادی ہو گی
مالن کو مالن مت کہیے
پھولوں کی شہزادی ہو گی
آج مظفرؔ کے لہجے نے
محفل تو گرما دی ہو گی
٭٭٭
کہا دشمنی کو اجازت نہ دینا
وہ اس کا مجھی کو اجازت نہ دینا
ہمیں بولنے پر نہ مجبور کر دے
تمہارا کسی کو اجازت نہ دینا
یہاں برہمن کو اجازت نہیں ہے
وہاں شیخ جی کو اجازت نہ دینا
ادھر عام ہے مسکرانا قفس میں
چمن میں کلی کو اجازت نہ دینا
بتاؤ خرد نے کہاں لکھ دیا ہے
کہ دیوانگی کو اجازت نہ دینا
کئی دوستوں کو شکایات ہوں گی
پلک پر نمی کو اجازت نہ دینا
مظفرؔ زمانہ پریشان ہو گا!
مری شاعری کو اجازت نہ دینا
٭٭٭
جلوے کے انتظام میں پردا بھی ہو گیا
حیرت کی بات ہے مگر ایسا بھی ہو گیا
ہر تشنہ لب کی تشنہ لبی برقرار ہے
محفل میں رقص بادہ و مینا بھی ہو گیا
رد عمل کے طور پر کیا کیجیے گا آپ؟
بالفرض اس طرف سے اشارا بھی ہو گیا
مجبور ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں ہوئے
ہم کو ہر ایک ظلم گوارا بھی ہو گیا
پچھتا رہا ہے ترکِ تعلق کے بعد وہ
شکوے ہیں برقرار، مداوا بھی ہو گیا
ہر داغ دِل ہے جس کے ستم کا اک آئنہ
اب وہ ستم ظریف مسیحا بھی ہو گیا
ملتی نہیں کہیں بھی مظفر کو روشنی
کہنے سے کیا سحر کا اُجالا بھی ہو گیا
٭٭٭
وقتی ساکھ بنانی ہو تو ایسے میں آواز لگا دو
پنچھی مل کر پنجرہ توڑ رہے ہیں دوڑو اے صیادو
لوگ نشیمن کی پوچھیں تو بجلی کی افواہ اڑا دو
غنچے خون اُگلتے ہوں تو کانٹوں پر الزام لگا دو
چکنی چپڑی بات نہ ہو گی سوچ سمجھ کر غزلیں کہنا
ورنہ میں بھی طنز کروں گا اے ملک فن کے شہزادو
پہلے ان ہاتھوں کو روکو جو زنداں تعمیر کریں گے
ویسے ان دیواروں میں کیا دم ہے جب جی چاہے، ڈھا دو
سچ با توں پر یہ جھنجھلاہٹ کم ظرفی سمجھی جائے گی
جھوٹی باتیں کرتا ہوں تو بیشک محفل سے اٹھوا دو
واپس آنا ٹھیک نہ ہو گا، تھوڑی سی تاخیر چلے گی
اور ذرا سنگینی پیدا کر لو اے معصوم ارادو!
خوب مظفرؔ کے دامن پر دھبے گن گن کر دکھلائے
اب اپنے دامن کی بابت تھوری سی زحمت فرما دو
٭٭٭
’’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں ‘‘
مری فرد جرم ہے بس یہی کہ غزل میں طنز نگار ہوں
نہ خزاں سے ہے مری دوستی نہ حریفِ فصلِ بہار ہوں
یہ مرا قصور نہیں اگر میں چمن کا آئنہ دار ہوں
یہ تصورات کی بزم ہے کہ شریک محفل یار ہوں
تجھے کچھ خبر بھی ہے زندگی، تری انجمن سے فرار ہوں
کسی کور مغز کو حق نہیں کہ مرے خلوص پہ شک کرے
مجھے کیا پڑی ہے کہ بے سبب کسی در پہ شکر گزار ہوں
مجھے بندگی کا مرض نہیں، صنم و حرم سے غرض نہیں
میں وہاں بھی بادہ گسار تھا، میں یہاں بھی بادہ گسار ہوں
مرے انکسارِ مزاج کو نہ حقیر جانیے بھول کر
ذرا دیکھیے تو اچھال کر اگر ایک مشت غبار ہوں
کبھی اے مظفرؔ طنز گو! مرے حال پر بھی نگاہ کر
کہ میں ایک عام سا آدمی ترے خبط فن کا شکار ہوں
٭٭٭
مجھے الجھے ہوئے حالات نے اتنا ستایا ہے
کہ ضد میں زندگی کرنے کا جذبہ لوٹ آیا ہے
بہ ظاہر دامن قاتل پہ اک گلشن سجایا ہے
بباطن ہم غریبوں کا لہو کچھ رنگ لایا ہے
میں اپنی جرأتِ اظہار پر الزام رکھتا ہوں
مری عرضِ تمنا پر وہ کیا کیا سٹپٹایا ہے
کبھی بھڑکا دیا تم کو، کبھی بہکا دیا ہم کو
جہاں آں محترم پہنچے وہیں فتنہ اٹھایا ہے
کچھ اس انداز سے اس نے ہماری غمگساری کی
کہ جیسے زخم پر اک اور بھی چرکہ لگایا ہے
نہ قائم کیجیے خوش فہمیاں اُس کے تبسم پر
ذرا یہ پوچھیے کس بات پر وہ مسکرایا ہے
مظفرؔ سب ہی گلدستے بنا لیتے ہیں پھولوں سے
مگر ہم نے تو کانٹوں سے یہ گلدستہ سجایا ہے
٭٭٭
صبح دیکھی ہے مگر شام سے ناواقف ہے
وہ ابھی گردشِ ایام سے ناواقف ہے
اس نے آغاز کیا ہے جو تنک ظرفی کا
واقعہ یہ ہے کہ انجام سے ناواقف ہے
رنگ آ جاتا ہے چہرے پہ مرے نام کے ساتھ
وہ بہ ظاہر تو مرے نام سے ناواقف ہے
مجھ کو چڑھتے ہوئے سورج کی سلامی سے گریز
روشنی میرے در و بام سے ناواقف ہے
سرمۂ مفت نظر ہوں، مری قیمت؟ معلوم!
ہر خریدار مرے دام سے ناواقف ہے
تو مرے حال پہ ہنستا ہے تو شکوہ بھی نہیں !
دِل ترا حسرتِ ناکام سے ناواقف ہے
راستے میں بھی مظفرؔ کو نہ آرام ملا
آ کے منزل پہ آرام سے ناواقف ہے
٭٭٭
بیکار آ گئے عرقِ انفعال میں
معصوم ہیں جناب ہمارے خیال میں
ہے مشورہ کہ وقت نہ ضائع کریں وہاں
الجھا ہوا ہے شیخ جہاں قیل و قال میں
یوں دے سکے نہ پرسشِ غم کا جواب ہم
پنہاں تھے کچھ عجیب اشارے سوال میں
پھولوں کی پول کھول نہ دے سب کے سامنے
کانٹا کھٹک رہا ہے نگاہِ جمال میں
سامانِ انبساط مرا طنز ہے اُنھیں
زخم جگر ہیں مرحلۂ اندمال میں
آنتیں گلے پڑیں گی نہ سمجھائیے انھیں
آ جائیں گے عوام ابھی اشتعال میں
اہل نظر کی رائے مظفرؔ کے حق میں ہے
اس کی غزل ہی پیش کریں گے مثال میں
٭٭٭
میں پوچھتا ہوں خیر سے کیا کیا نہیں ہے وہ
خود بیں نہیں ہے وہ کہ خود آرا نہیں ہے وہ
اس کی ہر اک ادا پہ یقیں کر رہا ہوں میں
جیسے کہ بات کہہ کے پلٹتا نہیں ہے وہ
اس کا خیال ہے کہ وہی بے مثال ہے
لیکن مجھے یقیں ہے کہ مجھ سا نہیں ہے وہ
بے نام سا تعلق خاطر تو ہے مگر
بالکل غلط ہے میری تمنا نہیں ہے وہ
پہچانتا نہیں ہے بظاہر مجھے تو کیا
چِتون بتا رہی ہے کہ بھولا نہیں ہے وہ
پیمانۂ کمال مقرر ہوا ہے حسن
یوسف اگر نہیں تو مسیحا نہیں ہے وہ
مشہور ہے مظفرؔ خود سر مگر غلط
فطرت کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے وہ
٭٭٭
اس کے دِل و دماغ کی دنیا ہی اور ہے
ظالم کے سوچنے کا طریقہ ہی اور ہے
رعنائیِ چمن کی خبر گرم ہے مگر
اندر سے دیکھتا ہوں تو نقشہ ہی اور ہے
بس اتفاق ہی سے وہ محبوب ہو گیا!
ورنہ غزل میں اس کا سراپا ہی اور ہے
مرتے ہیں لوگ زلف و لب و رخ کے نام پر
حالات کا اگرچہ تقاضہ ہی اور ہے
الجھی ہوئی یہ چال بتاتی ہے دوستو
یعنی کہ راہبر کی تمنا ہی اور ہے
سوچا تری روش پہ کوئی تبصرہ کروں
پھر سوچنے لگا یہ زمانہ ہی اور ہے
چلیے چلیں مظفرؔ آشفتہ سر کے پاس
اس کی غزل کا شہر میں چرچا ہی اور ہے
٭٭٭
کیوں یقین کر لیں ہم بولنے ہی والی ہیں
جب کہ تیری تصویریں سر بسر خیالی ہیں
خون صَرف کرنے کی بات سوچتا ہوں میں
پھول بھی سوالی ہیں، خار بھی سوالی ہیں
ہم فضول لوگوں نے موشگافیاں کر کے
بعض بعض باتیں تو کام کی نکالی ہیں
اب وفا پرستوں سے احتراز کیا معنی
آپ کی ادائیں بھی واقعی نرالی ہیں
کج کلاہ بننے کا شوق ہو تو ایسا ہو
پگڑیاں ہزاروں کی آپ نے اُچھالی ہیں
ڈھیل دے رہا ہے وہ تاکہ خوف مٹ جائے
کور مغزیہ سمجھے بندشیں ہٹا لی ہیں
آپ کے مظفرؔ نے زندگی کو برتا ہے
اس لیے مظفر کے شعر بھی مثالی ہیں
٭٭٭
رہتا ہے ہر وقت قلق میں
ٹھیک نہ ہو گا تیرے حق میں
قائم ہے سرخی سے تعلق
ان کے دامن اور شفق میں
مجموعے پر نام ہے میرا
ذکر ترا ہر ایک ورق میں
یہ ہیں اُونچے اڑنے والے
پاؤں ہوا میں سر خندق میں !
بابو جی بھی پی لیتے ہیں
مل جاتی ہیں غیبی رقمیں
حقداروں کی چھٹی کر دو
استغنا کے ایک سبق میں
آج مظفرؔ کی غزلوں پر
خوب نہائے لوگ عرق میں
٭٭٭
غافل ہے مکیں، گھر میں اُجالا بھی نہیں ہے
حیرت ہے کوئی لوٹنے والا بھی نہیں ہے
ظالم نے اسی ضد میں ہر اک شمع بجھا دی
تسلیم کرو دال میں کالا بھی نہیں ہے
ہنستے ہیں تو کیا تجھ کو ترے ہمسفروں نے
گرتے ہوئے دیکھا تو سنبھالا بھی نہیں ہے
رسوائے زمانہ ہے اگر تو، تو ہمیں کیا؟
ہم نے تو ترا نام اُچھالا بھی نہیں ہے
یوں دشت نوردی میں بڑا نام ہے اُن کا
دیکھو تو کہیں پاؤں میں چھالا بھی نہیں ہے
میں نے بھی کبھی جام پہ نظریں نہیں ڈالیں
ساقی نے مری بات کو ٹالا بھی نہیں ہے
وہ چونکہ تری بزم میں موجود نہیں تھا
محفل سے مظفرؔ کو نکالا بھی نہیں ہے
٭٭٭
سوچتے ہیں اُداس ہو جائیں
اب زمانہ شناس ہو جائیں
مصلحت یا خلوص، جو بھی ہو
ہم مجسم سپاس ہو جائیں
رہزنوں کی بساط ہی کیا ہے
ہمسفر پاس پاس ہو جائیں
اس لیے تو نہیں کھلے تھے پھول
باغباں کا لباس ہو جائیں
روٹھ کر چاہتا ہے وہ ہم سے
سر بسر التماس ہو جائیں
اپنے کرتوت دیکھ کر شاید
آپ خود بدحواس ہو جائیں
یہ تو ممکن نہیں مظفرؔ سے
وہ بھی تصویرِ یاس ہو جائیں
٭٭٭
اس طرف وہ جو نظر پڑتا ہے
راستے میں مرا گھر پڑتا ہے
اختیارات سے مجبور ہے وہ
چاروں جانب سے اثر پڑتا ہے
آپ تو مشقِ ستم کرتے ہیں
اور ہر تیر ادھر پڑتا ہے
سر جھکانے کی جب عادت نہ رہی
آج ہر گام پہ در پڑتا ہے
رہنما آڑ نہ کر لے تو ہمیں
راہزن صاف نظر پڑتا ہے
کیوں نہ کانٹوں پہ لہو ٹپکائیں
پھول چھوتے ہی بکھر پڑتا ہے
محترم زخم لٹاتے چلیے
راہ میں دِل کا نگر پڑتا ہے
٭٭٭
تو میرا ہم جلیس ترا ہم جلیس وہ
جبراً بنا ہوا ہے مرا بھی انیس وہ
حالات کے لحاظ سے مٹھی کھلی ہوئی
آثار کہہ رہے ہیں کبھی تھا رئیس وہ
رِندوں پہ اختیار اسے یوں دیا گیا
مشہور ہے شراب کے حق میں خسیس وہ
کیوں برہمن کے باب میں مے نوش ہیں خموش
جب ہے جنابِ شیخ سے اُنّیس بیس وہ
اُردو کے حق میں زہر اُگلتا ہے بے طرح
اُردو تو بولتا ہے نہایت سلیس وہ
اُس مصلحت شناس کو پہچان لیجیے
تشریف لا رہا ہے بہ نفس نفیس وہ
ناراض کیوں ہیں آپ مظفرؔ کی بات پر
کردار آپ ہیں ’’تو فسانہ نویس وہ‘‘
٭٭٭
یا تو ’’ہر کمال را زوال‘‘ غلط ہے
ورنہ ترا دعویِ کمال غلط ہے
چاندنی کَے دِن کی ہے یہ چار دنوں کی
چاند سے محبوب کی مثال غلط ہے
اِک نگہِ ناز نے سلوک کیا تھا
زخم سے امیدِ اندمال غلط ہے
آپ کے ہر طنز کا جواب نہ دوں گا
مخلصِ من آپ کا خیال غلط ہے
ترکِ تعلق کے بعد خوش ہوں اگر میں
تیرے لیے رنج یا ملال غلط ہے
ظلم کی ٹہنی جناب پھل نہ سکے گی
ہر ستم ایجاد کا مآل غلط ہے
یوں نہ پریشان ہوں جنابِ مظفرؔ
اُن سے التفات کا سوال غلط ہے
٭٭٭
پہلے ہم اس کی محفل میں جانے سے کترائے تو
لیکن کیا کیجے جب دل کی شامت ہی آ جائے تو
اس جھگڑے میں ہمسایوں کی داخل اندازی واجب ہے
بنیادی موضوع یہی تھا جاگ پڑے ہمسائے تو
غزلوں میں رنگینی لانے کی بابت پھر سوچوں گا
پہلے یہ بتلا دو اس نے چھپ کر تیر چلائے تو
خود ملنے کی خواہش کرنا البتہ منظور نہیں
ویسے ہم کم ظرف نہیں ہیں وہ زحمت فرمائے تو
اپنا حق حاصل کرنے کی خاطر میں بھی چلتا ہوں
میرا تیرا ساتھ نہ ہو گا ہاتھ اگر پھیلائے تو
اُس کی خصلت بھانپ چکا ہوں باتیں ہنس کر ٹالے گا
اور یقیناً بات بنے گی با توں پر جھلّائے تو
لوگ مظفرؔ حنفی کو بھی پابندی سے پڑھتے ہیں
چکنی چپڑی غزلیں پڑھتے پڑھتے جی اُکتائے تو
٭٭٭
اس مد میں چیونٹی بھی بھاری پڑتی ہے انسانوں پر
’کیو‘ لگوایا جاتا ہے اب غلّے کی دوکانوں پر
جانب داری کرنے والے پیر مغاں ڈر اس دن سے
تشنہ لبوں کا مجمع جس دن ٹوٹ پڑے میخانوں پر
زندہ رکھنے والی ہر شے بازاروں میں عنقا ہے
اب کے شاید لگ جائے گی پابندی ارمانوں پر
ہم مجبوروں کی آوازیں قید نہیں کی جا سکتیں
وہ چاہے جتنے بھی پہرے بٹھلا دیں زندانوں پر
آخر اک دِن اپنے کیفر کرداروں کو پہنچیں گے
چالاکوں نے خوب حکومت کر لی ہم نادانوں پر
ثابت کرنا ہو گا گلشن کس پہلو سے بہتر ہے
فی الجملہ ترجیح نہ دیجے گلشن کو ویرانوں پر
طنز آلودہ لہجے میں سچ باتیں اور کہے گا کون
آج مظفرؔ غزلیں کہیے آٹے کی دوکانوں پر
٭٭٭
کیا خبر کس کو بری لگ جائے تیری گفتگو؟
آج کیا یہ سوچ کر خاموش رہ سکتا ہے تو!
ضبطِ غم کے نام پر قسمیں بہت کھائیں مگر
آنسوؤں نے آخرش دِل کی ڈبو دی آبرو
وہ زمانہ ہے کہ آنکھوں میں شرارے چاہئیں
چشمِ گریاں اس طرح کب تک بہائے گی لہو
اہل مطلب نے ہمیں جی کھول کر دھوکے دئیے
ہم کو اک مدت سے تھی جنسِ وفا کی جستجو
دو نگاہیں بزم میں مل کر نہ دوبارہ ملیں
اک نہایت مضطرب ہے، اِک نہایت حیلہ جُو
کیا کہیں گے اس حماقت کو کہ ناکامی کے بعد
روکنے بیٹھے ہیں وہ خود رو درختوں کا نمو
اے مظفرؔ وہ تغزل ہے تو میں معذور ہوں
انتہائی حد پہ ملتا ہے جو غزلوں میں غلو
٭٭٭
سب کے بس کی بات نہیں ہے یوں ہنس ہنس کر دکھ سہنا
اے تقلیدی سچے لوگو سوچ سمجھ کر سچ کہنا
نکلا ہوں اے تیر اندازو! جان ہتھیلی پر لے کر
ممکن ہو تو میری طنزوں کی زد سے بچتے رہنا
صاف دِلو! سچ کہتا ہوں یہ دو متضاد تقاضے ہیں
اس کی محفل میں جانا، پھر اپنے آپے میں رہنا
بہتر ہوتا آپ اگر دو بول تسلّی کے کہتے
ہمدردی ثابت نہ کرے گا آنکھوں سے آنسو بہنا
کیوں اس بار تکلّف سے سج دھج کر ملنے آیا ہے
اخلاقاً بتلا دے تجھ کو دیکھوں یا تیرا گہنا
میں نے پہلے ہی ٹوکا تھا اُلٹی سیدھی چال نہ چل
ورنہ تجھ پر شہہ پڑتی ہے، لے اب دیکھ، پڑی شہہ نا؟
آج مظفرؔ کی سچ با توں پر ان کو بھی شکوہ ہے
جن کی خاطر کانٹوں کا یہ تاج مظفرؔ نے پہنا
٭٭٭
دعوے بہت کیے ہیں مداوا کے نام پر
دھوکے نہ کھائیے گا مسیحا کے نام پر
یوسف کے نام پر تو بہت انگلیاں کٹیں
کچھ اے زنانِ مصر! زلیخا کے نام پر
اب یہ سنا گیا ہے کہ ہمت نہیں رہی
وہ زندگی کریں گے تمنّا کے نام پر
سادہ دِلوں کو لوگ یہاں لوٹتے رہے
دنیا کے نام پر کبھی عقبیٰ کے نام پر
سب لوگ دِن میں خواب اگر دیکھنے لگیں
ہم طنز کیوں کریں غم فردا کے نام پر؟
خوش ہو رہا ہوں آج یہی سوچ سوچ کر
میرا ہی دِل ملا غمِ دنیا کے نام پر
ہم کہہ چکے تھے یوں تو مظفرؔ نہ آئے گا
بلوائیے نہ ساغر و مینا کے نام پر
٭٭٭
خوب نمائش کاغذ اور قلم کے غازی کرتے ہیں
غزلیں کہہ کر اُردو کی خدمت اعزازی کرتے ہیں
مظلوموں کی خاطر جو انشاء پردازی کرتے ہیں
ہمدردی کے پردے میں وہ گھپلے بازی کرتے ہیں
آنکھ نچانا، ناک چڑھانا، منہ بچکانا یہ کیا ہے
پڑھنا سیکھو چہرے بھی دِل کی غمازی کرتے ہیں
جن کو اندیشہ رہتا ہے دِل کا چور نہ پکڑا جائے
چکنی چپڑی با توں سے سب کی دمسازی کرتے ہیں
میرا اور تمہارا جھگڑا دیکھو کَے دِن چلتا ہے
میرے کچھ ہمراز تمہاری بھی ’’ہمرازی‘‘ کرتے ہیں
رِندوں میں سے ایک نہیں ہے واعظ کے مداحوں میں
بے شک ان کی تعریفیں دو چار نمازی کرتے ہیں
ہم بھی کھل کر طنز کریں گے آج مظفرؔ غزلوں میں
ہم پر لوگ کمیں گاہوں سے تیر اندازی کرتے ہیں
٭٭٭
گھر ’’گرتا ہوں ‘‘ کہہ کر لپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
چھت بچوں کے سر پر ٹپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
چاروں جانب گھور اندھیرے، گہرے سنّاٹے سے ڈر کر
لالٹین بھی آنکھیں جھپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
لیٹ رہو تو مچھر کاٹیں، لکھنے بیٹھو تو آتے ہوں
نالی سے بدبو کے بھپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
ٹوٹی پھوٹی کھڑکی سے جب در آتے ہوں بیباکانہ
سر پر بوچھاروں کے چھپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
جب مجبوری کے عالم میں بہہ جائے احساس پگھل کر
جذبے کی بھٹی میں تپ کے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
ننھے منّے شور مچائیں، بیوی جھنجھلا کر اٹھ بیٹھے
اس کو ٹھونکے، اس کو تھپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
طنز مظفرؔ کرنا چاہیں، کاغذ بھیگا بھیگا نکلے
اور قلم سے سیاہی ٹپکے، پھر غزلیں کہیے تو جانوں
٭٭٭
پرسِش غم کے لیے اہلِ کرم آتے ہیں
غم بٹانے کے لیے اور بھی غم آتے ہیں
رہنماؤں نے یہ افواہ اڑائی ہو گی
راستے میں نہ کہیں پیچ نہ خم آتے ہیں
پھول کے ساتھ ہی کانٹے تو نہ توڑو لوگو
نیک بختوں میں کہاں سبز قدم آتے ہیں
سوچ لیجے کہ مروّت کے نہیں قائل ہم
آپ محسوس نہ فرمائیں تو ہم آتے ہیں
کس لیے لطف و عنایات کی بارش ہم پر
جب کہ ہم لوگ تری چال میں کم آتے ہیں
اے مظفرؔ یہ زمانہ ہے جو روکے نہ رُکے
ساتھ آ جائیں اگر اہل قلم آتے ہیں
٭٭٭
عجب سلوک ہوا غیرت و کمال کے ساتھ
جنابِ شادؔ کو روٹی ملی نہ دال کے ساتھ
وہ پستیوں میں یہی سوچ سوچ کر خوش ہے
مرے کمال کو نسبت نہیں زوال کے ساتھ
حصولِ رائے کا انداز بھی نرالا تھا
جواب آپ ہی دیتے رہے سوال کے ساتھ
یہ بے رخی ہے تو ممکن نہیں زمانے کو
ہماری یاد نہ آئے ترے خیال کے ساتھ
جنہیں شدید کدورت ہے عہد ماضی سے
نظر ملا نہ سکیں گے کبھی وہ حال کے ساتھ
اس انتقام سے ڈر جب ہر ایک ظالم کی
ہنسی اڑائے زمانہ تری مثال کے ساتھ
ہمارا طنز ہی آخر انھیں جگائے گا
ابھی تو لوگ پڑھیں گے اسے ملال کے ساتھ
٭٭٭
مجھ پہ اس جورِ مسلسل کا سبب تو دیکھو
ظلم پر داد کا طالب ہے غضب تو دیکھو
وہ تو الزام لگانے میں تکلّف نہ کریں
ہم صفائی بھی نہ دیں شرطِ ادب تو دیکھو
رقص بسمل ہے بہر حال انھیں کے دم سے
شہریاروں سے کہو جشنِ طرب تو دیکھو
کچھ نقیبانِ سحر ہی تو نہیں پردے میں
دوستو آج پس پردۂ شب تو دیکھو
ہاتھ پھیلا کے ندامت کے سوا کچھ نہ ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ اندازِ طلب تو دیکھو
حکم ہوتا ہے کہ محفل سے اٹھا دو ان کو
تازگی دیکھ چکے، جنبش لب تو دیکھو
جب مظفرؔ مرے اشعار میں رنگینی تھی
اور کچھ بات تھی اس وقت کی، اب تو دیکھو
٭٭٭
حیرت ہے یہ تاریکی سی کیوں طاری ہے دو جہان پر
جھلمل جھلمل کرتے ہیں جب لاکھوں تارے آسمان پر
میری باتیں سن کر وہ جو چپ ہیں تو کچھ مجبوری ہے
ان کا بس چل جائے تو وہ پہرے بٹھلا دیں زبان پر
طاقت کے بل حاصل کردہ وعدوں پر جو اعتماد ہے
کج فہمی ہے اور نہیں تو بھولے ہیں وہ کس گمان پر
گیدڑ بھپکی دینے والے دِل کے اتنے پوچے ہوں گے
ترکش سے نکلے گا لیکن تیر نہ آئے گا کمان پر
آپ سخاوت کے پردے میں غیرت پر حملے کرتے ہیں
ہم نے یہ الزام لگایا ہے اپنے اک مہربان پر
فن کی عظمت، اپنی غیرت، گھر کی عزت، دنیا کا غم
اور مظفرؔ یہ ساری فکریں ہیں میری ایک جان پر
٭٭٭
جانے کس وہم میں مبتلا ہو گیا
ہمسفر بھی مرا رہنما ہو گیا
رہبروں کی ہر اک پول کھل جائے گی
راہزن سے اگر سامنا ہو گیا
ہم یہ سمجھے کہ سچ مچ بہار آ گئی
واقعی آج اک معجزہ ہو گیا
اب عنایات میں کچھ کمی کیجیے
دیکھیے زخم دل پھر ہرا ہو گیا
جرم ٹھہرائیے ظلم سہنا وہاں
ظلم کرنا جہاں بھی روا ہو گیا
کھل کے وہ دشمنوں کی طرف جا ملے
یعنی حق دوستی کا ادا ہو گیا
اے مظفرؔ وہ آنکھیں چرانے لگے
جب کبھی آپ کا تذکرہ ہو گیا
٭٭٭
بدنام ہمیں کیجے، بیداد کرے کوئی!
یہ بحث اگر تم سے جلّاد کرے کوئی؟
حالات کے ہاتھوں سے ہر شخص پریشاں ہے
ایسے میں بھلا کس سے فریاد کرے کوئی
کیوں ظلم نہ پنپے جب ماحول سہارا دے
اس قول پہ اک فتویٰ ارشاد کرے کوئی
کم ظرف کی طینت کا پرتو نظر آ جائے
ایسا کوئی پیمانہ ایجاد کرے کوئی
جو اہلِ قفس کہہ دیں، سچ مان لیا جائے !
تصدیق اگر اُن کی صیاد کرے کوئی!
بخشش کی مسرت سے بِن مانگے کا غم اچھا
ناشاد رہے کوئی، جب شاد کرے کوئی
یوں سنگدلی پر ہے ہر طنز مظفرؔ کا
پھر کوہ کنی جیسے فرہاد کرے کوئی
٭٭٭
رہبر کا حلیہ لکھوا دوں، رنگ ذرا کچھ مدھم ہو گا
عقل ذرا کچھ موٹی ہو گی، خود بھی بھاری بھرکم ہو گا
جیتے جی تو سچی باتیں کرنے پر مطعون رہے ہم
ہاں مرنے کے بعد ہمارا ہر محفل میں ماتم ہو گا
آپ کھلونا بن کر طاقتور ہاتھوں میں جا پہنچیں گے
میں ان ہاتھوں کو چوموں گا جن ہاتھوں میں پرچم ہو گا
اُن سے کچھ امید نہ رکھیے، یہ ڈر ڈر کر کہنے والے
انگاروں کی بات کریں گے، شعر برائے شبنم ہو گا
دو مقصد بھی ہو سکتے ہیں مثلاً اک منزل ہے ’’گلشن‘‘
میں کانٹوں سے چھیڑ کروں گا، وہ پھولوں کا ہمدم ہو گا
بولو کیا ہر پینے والا، اعلیٰ ظرفی کا حامل ہے
میخانے کی بات نہ سوچو، ہونے دو جو عالم ہو گا
آج مظفرؔ کو دیکھا ہے حیرت ہے معصوم صفت ہے
ہم سمجھے تھے صورت سے یہ شاعر طنزِ مجسّم ہو گا!
٭٭٭
میاں زہر کب تک پیا جائے نا
کہ جینا تو چاہیں، جیا جائے نا!
شش و پنج میں پڑ گئی زندگی
کوئی فیصلہ کر دیا جائے نا!
تو پھر بات کا رخ پلٹ جائے گا
اگر نام اس کا لیا جائے نا!
بہاروں نے احکام جاری کیے
گریبان کوئی سیا جائے نا!
خبردار! ہشیار! اے دوستو!
نکل کر وہ بہروپیا جائے نا!
ہمیں بولنے کی تمنا نہیں
مگر کام تُک سے کیا جائے نا!
اصولاً تو، پھر شیخ ہی کیوں نہ ہو
کوئی تشنہ لب، ساقیا، جائے نا!
٭٭٭
سفر کے آگے صعوبت کی گرد کیا شے ہے
نہ ہو جو ہمت مردانہ، مرد کیا شے ہے
جنابِ قیس کے قصے مجھے نہیں بھاتے
خلا نورد کو صحرا نورد کیا شے ہے
سنا تھا قلب کو، گرم و گداز ہوتا ہے
ہمارے سینے میں یہ سخت و سرد کیا شے ہے
خیال تھا کہ لہو رو رہا ہوں، یا حیرت!
نظر کے سامنے یہ زرد زرد کیا شے ہے
یہ اب کھلا کہ مسیحا سمجھ رہے تھے جنہیں
انھیں پتہ بھی نہیں ہے کہ درد کیا شے ہے
معاشرہ بھی ہمیں محترم نہیں ہوگا
معاشرے کی نگاہوں میں فرد کیا شے ہے
٭٭٭
تشکر: شاعر، اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ای پب فائل