FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے

 

 

               عمران شناور

 

 

دعائیہ

 

مجھ پہ کر دے تو کرم یا اللہ

دے دے توفیقِ حرم یا اللہ

روبرو رونقِ دو عالم کے

میرا رکھ لینا بھرم یا اللہ

 

 

 

 

انتساب

 

اپنے والدین

چھوٹے بھائی عرفان -بہنوں عائشہ ، شائستہ اور سائرہ

اپنی شریکِ حیات -پیارے بچوں علی، علشبہ، عمارہ اور بلال

کے نام

 

 

عمران شناور

E-mail:        imran_shanawar@hotmail.com

Blog:  http://imranshanawar.blogspot.com

Facebook:  http://www.facebook.com/imran.shanawar

 

 

 

 

نئی بستیوں کا شاعر

 

اپنی کتابوں کی اشاعت اور نئی کتابوں کی ورق گردانی کا شوق مجھے اردو بازار لاہور کی جانب کھینچتا رہتا ہے۔ یہاں ایک اشاعتی ادارے میں عمران شناور سے بھی ہفتہ میں ایک دو بار ملاقات ہو جاتی ہے اور اسی بہانے اس کا تازہ کلام سننے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ عمران شناور نے شعر و ادب کے میدان میں بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو شاعری کی طرف اس کا طبعی میلان ہے، دوسرا سبب یہ ہے کہ اردو بازار میں اسے ایسا ماحول میسر آ گیا ہے جو شاعری کی نشوونما کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ مطالعہ کے لیے کتب کا انبار اس کے چاروں طرف موجود ہے۔ جس سے وہ کسبِ فیض کرتا ہے۔ علاوہ ازیں کئی سینئر شعراء اور نئے لکھنے والوں سے بھی یہاں اس کا رابطہ رہتا ہے۔ یہ ملاقاتیں تحریکِ سخن کا باعث بنتی ہیں۔ فیس بک پر بھی عمران شناور کی دن بدن بڑھتی مقبولیت اس کی شاعرانہ صلاحیتوں کا کھلا اعتراف ہے۔

ہر نیا شاعر جدید شاعر ہوتا ہے۔ اس کا لب و لہجہ اور اس کے خیالات و جذبات تازہ کاری سے مزین ہوتے ہیں پھر رفتہ رفتہ وہ روایت کی طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ غزل کی اساس بھی اور غزل کی منزل بھی روایت سے جڑی ہوئی ہے جیسے جیسے تجربے اور مشاہدے میں پختگی آتی ہے غزل کی روایت مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ عمران شناور بھی غزل کی خوبصورت روایتوں کی پاسداری کرتے ہوئے نئے آہنگ سے شاعری کو آشنا کرتا ہے۔ محبت کے رنگ میں رچی بسی شاعری دلوں کو تسخیر کرتی ہے اور شاعر کو مشہور کرتی ہے۔ عمران شناور کی شاعری میں محبت کی کئی نئی بستیاں آباد ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ نئی نئی بستیوں میں زندگی کا اپنا ایک لطف ہوتا ہے۔ شہر گنجان ہو جائیں تو ان کے شور و شر میں بہت سی آوازیں دب کے رہ جاتی ہیں۔

عمران شناور کی شاعری میں استادانہ چالاکیاں نظر نہیں آتیں مگر اس کے الفاظ کی اپنی در و بست ایسی ہے کہ قاری اس کے حصار میں کھنچا چلا آتا ہے۔ اس کی شاعری میں ہمیں اپنے معاشرے کے دکھوں کی روداد بھی ملتی ہے اور شاعر کی وارداتِ قلب بھی۔ اس امتزاج نے عمران شناور کی شاعری کو مقبولِ عام بنا دیا ہے۔

مشتے از خروارے کے طور پر میں اپنی پسند کے چند اشعار عمران کی شاعری سے یہاں پیش کر رہا ہوں۔

پیش خیمہ ہے شناورؔ یہ کسی طوفان کا

سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں

 

کتنا اچھا دور تھا، ہم نے بزرگوں سے سنا

چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے

 

میں تو ممنون ہوں زمانے کا

سیکھ لیتا ہوں جو سکھاتا ہے

 

آئنہ بھی نہ مجھ کو پہچانے

اس طرح گرد میں اٹا ہوں میں

 

امید ہے میری یہ تھوڑی سی شاباش اور دعا عمران شناور کے لیے ترقی کے نئے در وا کرے گی۔

باقی احمد پوری

 

 

 

 

عمران شناور – ایک توانا آواز

 

شاعری کسی بھی عہد اور کسی بھی مکتبۂ خیال کی نمائندہ ہو اس کا جمالیاتی قدروں سے ہمکنار ہونا ضروری ہے کیونکہ احساسِ جمال، شعورِ جمال اور توصیفِ جمال کو اگر زندگی سے نہیں نکالا جا سکتا تو شعر و ادب سے کس طرح دور رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کا جیتے جاگتے انسانوں اور ان پر مرتب ہوتے ہوئے حالات و واقعات کے اثرات سے دانستہ اغماض شاعری کو لطافت اور نزاکت سے تہی دست کر دیتا ہے … ایک ایسے شخص کی شاعری پر بات کرنا قدرے مشکل ہے جس کے لیے میں نے یہ شعر کہہ رکھا ہے:

اس قدر اپنا کہ رشتوں کے تکلف سے بلند

ایسا ہمدم کہ کسی درد کا احساس نہ ہو

لیکن اسی سبب سے اظہارِ خیال میں آسانی بھی ہے کہ عمران شناور کی شاعری ان کی شخصیت کاپرتو ہی تو ہے۔

عمران شناور کا نام ادبی حلقوں میں غیر مانوس نہیں۔ اکثر رسائل و جرائد اور انتخابات میں ان کا کلام اشاعت پذیر ہوتا رہتا ہے۔ ان کے حلقۂ احباب کو ایک مدت سے ان کے مجموعۂ کلام کا انتظار تھا۔ باعثِ مسرت و انبساط ہے یہ موقع کہ ان کا اولین شعری مجموعہ ’’ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے ‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو گیا ہے جو بیک وقت غزل، نظم اور قطعہ پر مشتمل ہے۔

عمران شناور کی غزل کا جائزہ لیں تو یہ روایتی مضامین اور جمالیاتی اقدار کا تحفظ کرتی اور اس کے نقش نگار میں مزید خوبصورتی پید ا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی غزل کا خمیر محبت کے لافانی جذبوں کی زرخیز زمین سے اٹھتا ہے اور وہ اپنے اردگرد کے ماحول اور فضا سے اثرات قبول کرتی ہوئی پروان چڑھتی ہے اور یہ بھی کہ ان کی محبت حدود و قیود کی اسیر نہیں بلکہ وسعت پذیر ہے اور ہمہ گیریت کی جانب رواں ہے۔

عمران شناور کا سفر گو کہ زیادہ طویل نہیں مگر ان کے مزاج کی استقامت اور جذبوں کی فراوانی اور مسلسل ریاضت نے ان کا لب و لہجہ توانا اور پر تاثیر بنا دیا ہے۔ ندرتِ خیال اور جدید اسلوب انہیں رجائیت اور ترقی پسند اہلِ سخن کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ یہی بات ان کے لیے خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے۔

اس قدر بھرپور غزل کے با وصف عمران شناور غزل گوئی تک محدود نہیں بلکہ اسی مہارت کے ساتھ نظم کے میدان میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ انہیں نظم کے جملہ تقاضوں پر پورا اترنا اور اس کے اشعار کو باہم مربوط رکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ نظم کی باریکیوں اور فنی ضرورتوں سے غافل نہیں۔ اسی سبب سے غزل کی طرح ان کی نظم بھی قاری کی توجہ حاصل کرنے کے جوہر سے متصف ہے… محبت ہو یا زندگی کی دیگر تلخ و شیریں سچائیاں عمران شناور کے احاطۂ تحریر میں آئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ گو کہ اس شعری مجموعہ میں نظمیں تعداد میں زیادہ نہیں مگر عمدہ ہیں ’’تیری یاد‘‘ اور ’’شناور‘‘ خوبصورت نظمیں ہیں۔

عمران شناور کے اشعار میں موسیقیت کا عنصر نمایاں طور پر موجود ہے۔ اس کا ایک سبب ان کا سادہ و عام فہم اسلوب ہے جو ابلاغ کی شرطِ لازم ہے اور مقبولیت و شہرت کی خشتِ اوّل بھی۔ مجھے یقین ہے شہرت اور مقبولیت کی منزلِ جاں فزا ان کی منتظر ہے۔ اپنے اوّلین مجموعہ کلام کی اشاعت کے لیے وہ بے پناہ تہنیت اور مبارک کے سزاوار ہیں۔

صیّاد سے قفس میں بھی کوئی گلہ نہیں

میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹے ہیں پر تمام

سرور ارمان

 

 

 

 

 

 

 

کچھ تو اے یار! علاجِ غمِ تنہائی ہو

بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو

 

ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں

ڈوبنے کے لیے لازم نہیں، گہرائی ہو

 

جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے

اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو

 

میں محبت میں لٹا بیٹھا ہوں دل کی دنیا

کام یہ ایسا بھی کب ہے کہ پذیرائی ہو

 

اجنبی تم سے کوئی بات جو کر لی میں نے

لوگ کہنے لگے ہرجائی ہو، ہرجائی ہو

 

کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں

کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

 

میں محبت کو چھپاتا رہا لیکن بے سود

بات چھپتی ہے کہاں جس میں کہ سچائی ہو

 

آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے

داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو

 

میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا

چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو

 

اب کے ساون تو برستا ہوا یوں لگتا ہے

آسماں پر بھی ترے غم کی گھٹا چھائی ہو

 

یوں گزر جاتا ہے عمرانؔ ترے کوچے سے

تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو

٭٭٭

 

 

 

 

لوگ پابندِ سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں

بے حسی چھائی ہے ایسی گھر کے گھر خاموش ہیں

 

دیکھتے ہیں ایک دوجے کو تماشے کی طرح

ان پہ کرتی ہی نہیں آہیں اثر، خاموش ہیں

 

ہم حریفِ جاں کو اس سے بڑھ کے دے دیتے جواب

کوئی تو حکمت ہے اس میں ہم اگر خاموش ہیں

 

اپنے ہی گھر میں نہیں ملتی اماں تو کیا کریں

پھر رہے ہیں مدتوں سے دربدر، خاموش ہی

ں

ٹوٹنے سے بچ بھی سکتے تھے یہاں سب آئنے

جانے کیوں اس شہر کے آئینہ گر خاموش ہیں

 

پیش خیمہ ہے شناورؔ یہ کسی طوفان کا

سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ستارے سب مرے، مہتاب میرے

ابھی مت ٹوٹنا، اے خواب میرے

 

ابھی اڑنا ہے مجھ کو آسماں تک

ہوئے جاتے ہیں پَر بے تاب میرے

 

میں تھک کر گر گیا، ٹوٹا نہیں ہوں

بہت مضبوط ہیں اعصاب میرے

 

ترے آنے پہ بھی بادِ بہاری

گلستاں کیوں نہیں شاداب میرے

 

بہت ہی شاد رہتا تھا میں جن میں

وہ لمحے ہو گئے نایاب میرے

 

ابھی آنکھوں میں طغیانی نہیں ہے

ابھی آئے نہیں سیلاب میرے

 

سمندر میں ہوا طوفان برپا

سفینے آئے زیرِ آب میرے

 

تُو اب کے بھی نہیں ڈوبا شناورؔ

بہت حیران ہیں احباب میرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

راز کی بات کوئی کیا جانے

میرے جذبات کوئی کیا جانے

 

میرے حصے میں ہجر آیا ہے

ہجر کی رات کوئی کیا جانے

 

روز ہوتی ہے گفتگو تجھ سے

یہ ملاقات کوئی کیا جانے

 

کس قدر حشر ہیں بپا دل میں

میرے حالات کوئی کیا جانے

 

بے سبب خود سے دشمنی کر لی

یہ مری مات کوئی کیا جانے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گام گام خواہشیں

ناتمام خواہشیں

 

ہر خوشی کی موت ہیں

بے لگام خواہشیں

 

لے ہی آئیں آخرش

زیرِ دام خواہشیں

 

ہوش میں نہیں ہوں میں

صبح و شام خواہشیں

 

کاٹتی ہیں روح کو

بے نیام خواہشیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھوک کم کم ہے، پیاس کم کم ہے

اب تو جینے کی آس کم کم ہے

 

سانس لیتے تھے ہجر موسم میں

اب یہ موسم بھی راس کم کم ہے

 

تتلیاں اڑ گئیں یہ غم لے کر

اب کے پھولوں میں باس کم کم ہے

 

دل جو ملنے کی ضد نہیں کرتا

اب یہ رہتا اداس کم کم ہے

 

اپنی حالت اسے بتا نہ سکوں

وہ جو چہرہ شناس کم کم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام

حالانکہ میرے اپنے ہیں دیوار و در تمام

 

صیّاد سے قفس میں بھی کوئی گلہ نہیں

میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹے ہیں پَر تمام

 

کب سے بلا رہا ہوں مدد کے لیے انہیں

کس سوچ میں پڑے ہیں مرے چارہ گر تمام

 

جتنے بھی معتبر تھے وہ نا معتبر ہوئے

رہزن بنے ہوئے ہیں یہاں راہبر تمام

 

دل سے نہ جائے وہم تو کچھ فائدہ نہیں

ہوتے نہیں ہیں شکوے گلے عمر بھر تمام

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہو رہا ہے کیا یہاں کچھ عقدۂ محشر کھلے

اب فصیلِ تیرگی میں روشنی کا در کھلے

 

’کتنا اچھا دور تھا، ہم نے بزرگوں سے سنا

چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے

 

سوچتے تھے زندگی میں اب کوئی مشکل نہیں

ایک کا حل مل گیا تو مسئلے دیگر کھلے

 

تُو مری شہ رگ کے اتنا پاس کیسے ہو گیا

سوچنے بیٹھا تو کیا کیا آگہی کے در کھلے

 

ڈوب کر ، بحرِ سخن کا مَیں شناورؔ ہو گیا

ایک پل میں زندگی کے کتنے ہی جوہر کھلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تُو اپنی محبت کا اثر دیکھ لیا کر

جاتے ہوئے بس ایک نظر دیکھ لیا کر

 

حسرت بھری نظریں ترے چہرے پہ جمی ہیں

بھولے سے کبھی تُو بھی اِدھر دیکھ لیا کر

 

انسان پہ لازم ہے کہ وہ خود کو سنوارے

دھندلا ہی سہی آئنہ، پر دیکھ لیا کر

 

رستے سے پلٹنے سے تو بہتر ہے مرے دوست

چلتے ہوئے سامانِ سفر دیکھ لیا کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بھولتا ہوں اسے، یاد آئے مگر، بول میں کیا کروں

جینے دیتی نہیں اس کی پہلی نظر، بول میں کیا کروں

 

تیرگی چھائی ہے، کوئی ہمدم نہیں، کوئی رہبر نہیں

مجھ کو درپیش ہے ایک لمبا سفر، بول میں کیا کروں

 

خود سے ہی بھاگ کر میں کہاں جاؤں گا یونہی مر جاؤں گا

کوئی صورت بھی آتی نہیں اب نظر، بول میں کیا کروں

 

میری تنہائی نے مجھ کو رسوا کیا، گھر بھی زندان ہے

مجھ پہ ہنسنے لگے اب تو دیوار و در، بول میں کیا کروں

 

اُڑ بھی سکتا نہیں، آگ ایسی لگی، کس کو الزام دوں

دھیرے دھیرے جلے ہیں مرے بال و پر، بول میں کیا کروں

 

تو مرا ہو گیا، میں ترا ہو گیا، خواب پورا ہوا

پھر بھی دل میں بچھڑنے کا رہتا ہے ڈر، بول میں کیا کروں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مری آنکھ کو تُو رہائی دے

مجھے چارسُو نہ دکھائی دے

 

ترے عشق نے کِیا دم بخود

ترے بِن نہ کچھ بھی سجھائی دے

 

کہیں جا چکا ہے کبھی کا تُو

تری چاپ دل میں سنائی دے

 

مرے عشق کا ہے مطالبہ

مجھے اپنا دستِ حنائی دے

 

کروں کس لیے میں وضاحتیں

مرے حق میں تُو جو صفائی دے

 

کبھی عمر بھر جو نہ بھر سکے

مجھے ایسا زخمِ جدائی دے

 

مجھے اور کچھ نہیں چاہیے

مجھے اپنے در کی گدائی دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے مرے چارہ گر! بات بڑھ جائے گی

دل دُکھایا نہ کر، بات بڑھ جائے گی

 

جو ہوا سو ہوا، تُو اُسے بھول جا

اب ملی جو نظر، بات بڑھ جائے گی

 

جو مرے دل میں ہے، دل میں ہی رہنے دے

لب پہ آئی اگر، بات بڑھ جائے گی

 

راز کی بات تھی، بزم میں جو کہی

دیکھنا کس قدر بات بڑھ جائے گی

 

وہ تو بدنام ہے، اس پہ الزام ہے

تُو ہی کچھ دھیان کر بات بڑھ جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

 

منظر اداس اداس ہیں آنکھیں لہو لہو

رہنے لگی ہیں ہجر کی راتیں لہو لہو

شاید مری طلب میں وہ شدت نہیں رہی

لوٹ آئیں آسماں سے دعائیں لہو لہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب کو کیوں حیران کیا ہے

یہ کیا اے نادان کیا ہے

 

پیار ہی اپنا سرمایہ تھا

ہم نے تم کو دان کیا ہے

 

غم کے دریا میں ہم ڈوبے

تیرا کیا نقصان کیا ہے

 

ہم نے سارے خار چنے ہیں

تیرا سفر آسان کیا ہے

 

ہم نے تم کو کب ہے چاہا

خود پر ہی احسان کیا ہے

 

شکر خدا کا جس نے تم کو

آج مرا مہمان کیا ہے

 

آج تو اس نے سامنے آ کے

جینے کا سامان کیا ہے

 

اس نے اپنا کہہ کے شناورؔ

دنیا سے انجان کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند کس نے اُجال رکھا ہے

سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے

 

میں بکھر بھی نہیں سکا اب تک

نفرتوں نے سنبھال رکھا ہے

 

تم تو کہتے ہو درد ہے اُلفت

ہاں، مگر میں نے پال رکھا ہے

 

اک فقط تم سے ملنے جلنے کو

ہم نے رستہ بحال رکھا ہے

 

اک محبت چھپائی تھی ہم نے

دل میں اب تک ملال رکھا ہے

 

حرزِ جاں بنتا جا رہا تھا تُو

تجھ کو دل سے نکال رکھا ہے

 

کون ٹالے گا آج ہونی کو

کس میں اتنا کمال رکھا ہے

 

سوچتا ہوں میں آج بھی عمرانؔ

کس نے جینا محال رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہوا دینے سے ڈرتے ہو

بجھا دینے سے ڈرتے ہو

 

چراغوں کو دریچوں میں

جلا دینے سے ڈرتے ہو

 

مجھے پتھر بھی کہتے ہو

ہٹا دینے سے ڈرتے ہو

 

وہ لوٹ آئے گی ٹکرا کر

صدا دینے سے ڈرتے ہو

 

محبت جرم ہے تو کیوں

سزا دینے سے ڈرتے ہو

 

یہ دھندلے نقش یادوں کے

مٹا دینے سے ڈرتے ہو

 

نگاہوں سے شناورؔ کو

گرا دینے سے ڈرتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

جتنے حصوں میں بھی بٹا ہوں میں

اپنے مقصد سے کب ہٹا ہوں میں

 

چپ رہوں تو میں ایک صحرا ہوں

اور برسوں تو اک گھٹا ہوں میں

 

لوگ الزام یونہی دیتے ہیں

تیری یادوں سے کب کٹا ہوں میں

 

آئنہ بھی نہ مجھ کو پہچانے

اس طرح گرد میں اَٹا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

رات دن محوِ سفر ہوتے ہوئے

کچھ نہ سوچا دربدر ہوتے ہوئے

 

اپنے گھر میں بھی شجر ہوتے ہوئے

خوش تھے محرومِ ثمر ہوتے ہوئے

 

ہم ہی کب سمجھے مسیحا کا مزاج

بے خبر رکھا، خبر ہوتے ہوئے

 

کس کا سایہ ہے ہماری زیست پر

شام چھائی ہے سحر ہوتے ہوئے

 

صحن میں چھاؤں نہیں دیکھی کبھی

اتنا قد آور شجر ہوتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

پیار آزمانے کو

آ، مجھے ستانے کو

 

ہاں مجھے بچانا ہے

اپنے آشیانے کو

 

اک تری ضرورت ہے

بس مرے فسانے کو

 

ڈھیر ہیں اناجوں کے

بس ہمیں دکھانے کو

 

اور ہم ترستے ہیں

ایک ایک دانے کو

 

یار لوگ آئیں گے

راہ سے ہٹانے کو

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

اہمیت اس کی میں بھی جان گیا

دور جب سے وہ بدگمان گیا

اور کتنی وفا کروں تجھ سے

تو نے جو کچھ کہا میں مان گیا

٭٭٭

 

 

 

 

میں ہوں مجنوں مرا انداز زمانے والا

تیری نگری میں تو پتھر نہیں کھانے والا

 

تو نے دیکھا ہی نہیں ساتھ مرے چل کے کبھی

میں ہوں تنہائی کا بھی ساتھ نبھانے والا

 

مجھ کو تم دشتِ تحیّر میں نہ چھوڑو تنہا

خوف طاری ہے عجب دل کو ڈرانے والا

 

خوف آتا ہے مجھے اپنی ہی تنہائی سے

روٹھ جاتا ہے کوئی مجھ کو منانے والا

 

دل وہ شیشہ کہ ترا عکس لیے پھرتا ہے

روز آتا ہے کوئی اس کو مٹانے والا!

 

اس کی ہر بات سر آنکھوں پہ لیے پھرتا ہوں

مجھ کو اچھا بھی تو لگتا ہے رُلانے والا

 

تیری نظروں سے گروں، ٹوٹ کے بکھروں کیونکر

جانتا ہوں کہ نہ آئے گا اٹھانے والا

 

اس قدر اجنبی انداز سے کیوں دیکھتا ہے

میں وہی ہوں ترا کردار فسانے والا

 

ہر قدم سوچ سمجھ کر ہی اٹھانا اے دل

تیرا رہبر تو نہیں، راہ بتانے والا

 

ہے اگر کچھ تو بتا دے گا زمانے بھر کو

وہ نہیں درد کو سینے میں چھپانے والا

 

چاہے جتنی بھی سفارش کرو اُس کی عمرانؔ

میں تری باتوں میں ہرگز نہیں آنے والا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم چاہو تو ساتھ نبھایا جا سکتا ہے

باغی دل کو راہ پہ لایا جا سکتا ہے

 

مرہم کی امید نہیں ہے ہم کو لیکن

تم چاہو تو زخم دکھایا جا سکتا ہے

 

میرے گھر میں تو صدیوں سے تاریکی ہے

تم چاہو تو دیپ جلایا جا سکتا ہے

 

اُن آنکھوں کا کاجل پھیکا پڑ سکتا ہے

وہ چاہیں تو اشک گرایا جا سکتا ہے

 

ویسے تو یہ دل صحراؤں کا عادی ہے

تم چاہو تو شہر بسایا جا سکتا ہے

 

اس بستی میں آنے والے لوٹ گئے ہیں

تم چاہو تو واپس لایا جا سکتا ہے

 

سستی شہرت کی خاطر اپنے دامن پر

تم چاہو تو داغ سجایا جا سکتا ہے

 

صحرا جیسے بنجر دل میں امیدوں کا

تم چاہو تو پھول کھلایا جا سکتا ہے

 

اک مدت سے جاگنے والی ان آنکھوں میں

تم چاہو تو خواب سجایا جا سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مر رہا تھا جب دوانہ آپ کا

سامنے تھا آشیانہ آپ کا

 

یاد آئے پھر مجھے بچپن کے دن

یاد آیا دوستانہ آپ کا

 

بیٹھے بیٹھے وہ شرارت سوجھنا

یاد ہے مجھ کو ستانا آپ کا

 

باتوں باتوں میں ہمارا روٹھنا

آنکھوں آنکھوں میں منانا آپ کا

 

ماننے پر پھر وہی اٹھکیلیاں

روٹھنے پر مسکرانا آپ کا

 

پھر ہوا کا رُخ بدلنا ایک دم

پھر مجھے وہ چھوڑ جانا آپ کا

 

ق

 

میں جو اس سے بچ گیا، میرا نصیب

وار تو تھا قاتلانہ آپ کا

 

جاگیے اب نیند سے عمران جی

جل رہا ہے آشیانہ آپ کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب سے میرے یار دشمن ہو گئے

یہ در و دیوار دشمن ہو گئے

 

دیکھ کر خوشحال اک کم بخت کو

سب کے سب بیمار دشمن ہو گئے

 

اس کہانی کو بدلنا تھا مجھے

جس کے سب کردار دشمن ہو گئے

 

پھوٹ کر رونے لگا کھلتا گلاب

ساتھ پل کر خار، دشمن ہو گئے

 

غیر تو ہیں غیر ان کی چھوڑئیے

آپ بھی سرکار دشمن ہو گئے

 

ڈوبنے والوں کو تنکا مل گیا!

لگ گئے جب پار دشمن ہو گئے

 

ہو گئی خاموشیوں سے دوستی

صاحبِ گفتار دشمن ہو گئے

 

آخرت کی فکر کرنے پر مرے

یونہی دنیا دار دشمن ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

داغِ ندامت دھو لیتے ہیں

آؤ مل کر رو لیتے ہیں

 

خشک ہوئی ہیں آنکھیں اپنی

اِن کو آج بھگو لیتے ہیں

 

آنسو قیمتی موتی ہیں تو

اِن سے ہار پرو لیتے ہیں

 

جب بنجر ہو جائیں آنکھیں

تیرا چہرہ بو لیتے ہیں

 

جب تک یاد نہیں تم آتے

تب تک ہم خوش ہو لیتے ہیں

 

جب جب یاد کریں ہم تم کو

دل میں خار چبھو لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی چاند بن کسی رات میں

کبھی آ نظر کسی بات میں

 

کبھی ساتھ ساتھ یوں ہم چلیں

ترا ہاتھ ہو مرے ہاتھ میں

 

میں کسی کی بات بھی جب کروں

تری بات ہو مری بات میں

 

اسے ڈھونڈتا ہوں میں رات دن

وہ جو گم ہوا مری ذات میں

 

پتہ پوچھتی تھی ہواؤں سے

تری سوچ تھی مری گھات میں

 

مجھے ہارنے کا گلہ نہیں

تری جیت تھی مری مات میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بجلیاں ہم پہ گرانے لگ گئے

ہوش اپنے بھی ٹھکانے لگ گئے

 

مدتیں جن کو بھلانے میں لگیں

آج وہ بھی یاد آنے لگ گئے

 

جانے کیا ہے آج اس بستی کے لوگ

ہنسنے والوں کو رُلانے لگ گئے

 

ہم سکونِ قلب کی خاطر ترا

نام لکھ لکھ کے مٹانے لگ گئے

 

زندگی غم کی امانت ہو گئی

جب محبت کے نشانے لگ گئے

 

آگ بھی دل میں لگی ہے آج کل

آنکھ میں آنسو بھی آنے لگ گئے

 

جاگتی آنکھوں میں جانے کس لیے

خواب تیرے ہم سجانے لگ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا محسوس کیا تھا تم نے میرے یار درختو

تنہائی جب ملنے آئی پہلی بار درختو

 

ہر شب تم سے ملنے آ جاتی ہے تنہا تنہا

کیا تم بھی کرتے ہو تنہائی سے پیار درختو

 

تنہائی میں بیٹھے بیٹھے اکثر سوچتا ہوں میں

کون تمہارا دلبر، کس کے تم دلدار درختو

 

لڑتے رہتے ہو تم اکثر تند و تیز ہوا سے

تم بھی تھک کر مان ہی لیتے ہو گے ہار درختو

 

اب کے سال بھی پت جھڑ آئے گا یہ ذہن میں رکھو

اتنا خود پر کیا اِترانا سایہ دار درختو

 

خود تم دھوپ میں جھلس رہے ہو مجھ پر سایہ کر کے

یہ ہے سیدھا سیدھا چاہت کا اظہار درختو

 

میں جب اپنے حق میں بولوں تم ناراض نہ ہونا

غیروں سے ہمدردی کرنا ہے بیکار درختو

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ دل کی آگ تیرا بھی تن من جلا نہ دے

میں آخری چراغ ہوں، مجھ کو ہوا نہ دے

 

تو خود ہی سامنے سے مجھے بھی ہٹا نہ دے

دیکھ، اب تو میرے ہاتھ میں یہ آئنہ نہ دے

 

وہ دیکھتا ہے مجھ کو مگر کچھ کہے بغیر

اس کی یہ خامشی اُسے پتھر بنا نہ دے

 

کوئی بھی تیرا ہاتھ بٹانے نہ آئے گا

اِن تیز آندھیوں میں کسی کو صدا نہ دے

 

دن رات گھومنا ترا یادوں کی موج میں

آوارگی کے شوق کو حد سے بڑھا نہ دے

 

مجھ کو خدا کے واسطے مت دیکھ پیار سے

یہ میرے سارے درد پرانے جگا نہ دے

 

حیرت سے میرا منہ بھی کھلے کا کھلا رہا

اس نے کہا کہ جینے کی مجھ کو دعا نہ دے

 

نفرت جو چھوڑ دی تو محبت بھی کب ملی

ٹوٹے ہوئے دلوں کو خدارا سزا نہ دے

 

پہلے تھا اک خیال مگر اب یہ فکر ہے

میں جس کو یاد کرتا ہوں، وہ ہی بھلا نہ دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا کیا سناؤں قصے دلِ بے قرار کے

بیٹھا ہوں دل میں زہرِ محبت اُتار کے

 

یارب! مری حیات میں کیوں کر عطا کیے

تنہا گزارنے تھے اگر دن بہار کے

 

سوچا نہیں تھا شہر میں آؤں گا پھر کبھی

آیا ہوں تو میں جاؤں گا کچھ دن گزار کے

 

آنا نہیں تھا تُو نے تو وعدہ ہی کیوں کیا

مشکل ہوئے گزارنے دن انتظار کے

 

میرے ہی دل کو چین نہیں ہے کسی طرح

یوں تو ہزار رنگ کھلے ہیں بہار کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بات سچ ہے مگر عجیب لگے

آج ہمدرد بھی رقیب لگے

 

جس کو ٹھکرا دیا محبت نے

وہ شہنشاہ بھی غریب لگے

 

جو مقدر پہ خوش نہیں ہوتا

کیسے وہ شخص خوش نصیب لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یوں تو دیکھی ہیں بے شمار آنکھیں

وہ مگر تیری پر خمار آنکھیں

 

غم کی لہریں تھیں موجزن ان میں

میں نے دیکھی ہیں اشکبار آنکھیں

 

تیرے آنے کی آس ہے اب بھی

راہ تکتی ہیں بار بار آنکھیں

 

من کے اندر اگر اجالا ہو

دیکھ لیتی ہیں آر پار آنکھیں

 

خوبصورت لگے گی یہ دنیا

اپنے باطن کی تُو سنوار آنکھیں

٭٭٭

 

 

 

 

اس حقیقت سے تو انکار نہیں ہو سکتا

ہر کوئی صاحبِ کردار نہیں ہو سکتا

 

یہ محبت تو اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

اس اذیت سے وہ دو چار نہیں ہو سکتا

 

پیار کی آب و ہوا جب تلک اطراف میں ہے

سانس لینا مرا دشوار نہیں ہو سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

جب تلک خوفِ خدا موجود ہے

تب تلک دستِ دعا موجود ہے

 

چاند میں جب تک ضیا موجود ہے

جھیل میں بھی اک دیا موجود ہے

 

مرتبہ انسان کا گھٹتا نہیں

آنکھ میں جب تک حیا موجود ہے

 

لوگ کہتے ہیں علاجِ غم نہیں

ہو مرض کوئی، شفا موجود ہے

 

حبس کیوں بڑھتا چلا جاتا ہے جب

ان فضاؤں میں ہوا موجود ہے

 

بے وفائی تو مقدر ہے مرا

میرے سینے میں وفا موجود ہے

 

جب ترا کچھ مانگنے کو جی کرے

جان لے حاجت روا موجود ہے

 

کیوں کروں گا میں دعا اپنے لیے

تیرے لب پر جب دعا موجود ہے

 

چیر کر دیکھو دلِ مجنوں کبھی

کچھ تو دھڑکن کے سوا موجود ہے

 

آنکھ سے آنسو نہیں بہتے کبھی

دل میں جب تک حوصلہ موجود ہے

 

حوصلہ بھی کام کب آیا مرے

حوصلہ بس نام کا موجود ہے

 

مان کر بھی مجھ سے وہ ناراض ہے

اس کے دل میں جانے کیا موجود ہے

 

میرے لب پر بھی شکایت ہے ابھی

اس کے دل میں بھی گلہ موجود ہے

 

بے سبب کس نے پکارا ہے مجھے

جب فضاؤں میں صدا موجود ہے

 

کاش کوئی تو کہے عمرانؔ سے

بول تیرے دل میں کیا موجود ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اپنی تنہائی بھی قبول نہیں

تجھ سا ہرجائی بھی قبول نہیں

 

اتنا محتاط ہوں محبت میں

تیری رسوائی بھی قبول نہیں

 

ایسے کچھ لوگ ہیں جنہیں اپنی

عزت افزائی بھی قبول نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب ان آنکھوں کو یقیں ہوتا ہے

کوئی اتنا بھی حسیں ہوتا ہے

 

ٹوٹ جاتے ہیں ستارے کتنے

چاند جب زیبِ جبیں ہوتا ہے

 

میں نے محسوس کیا ہے اکثر

تُو مرے پاس کہیں ہوتا ہے

 

ٹوٹنا دل کا کوئی کیا دیکھے

سانحہ زیرِ زمیں ہوتا ہے

 

دُور رہتا ہے بہت، جانے کیوں

وہ بھی، جو دل کے قریں ہوتا ہے

 

لاکھ چھپ جائے مری نظروں سے

وہ مگر دل میں مکیں ہوتا ہے

 

تجھ کو فرصت ہی نہیں ہے عمرانؔ

تیرا محبوب یہیں ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پتھروں سے واسطہ ہونا ہی تھا

دل شکستہ آئنہ ہونا ہی تھا

 

میں بھی اس کو پوجتا تھا رات دن

آخر اس بت کو خدا ہونا ہی تھا

 

مسندوں پر ہو گئے قابض یزید

اس نگر کو کربلا ہونا ہی تھا

 

جلد بازی میں کیا تھا فیصلہ

سو غلط وہ فیصلہ ہونا ہی تھا

 

تیرا چہرہ جب نہیں تھا سامنے

آئنوں کو بے صدا ہونا ہی تھا

 

آج کل سنسان ہے دل کا نگر

عشق میں یہ سانحہ ہونا ہی تھا

 

ایک ہی چہرہ تھا میرے سامنے

پیار اس سے برملا ہونا ہی تھا

 

بولتا عمرانؔ جب کوئی نہیں

خامشی کو تو صدا ہونا ہی تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اب مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

یہ مرے خواب کی تعبیر نہیں

 

دونوں ہاتھوں سے وطن لوٹتا ہے

یہ ترے باپ کی جاگیر نہیں

 

جابجا خون نظر آتا ہے

یہ مرے شہر کی تصویر نہیں

 

میرے ہاتھوں میں کماں ہے لیکن

میرے ترکش میں کوئی تیر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

پہلے دشمن کو للکارا کرتے ہیں

پھر سینے میں تیر اتارا کرتے ہیں

 

دیکھو بھائی آپس میں کیوں لڑتے ہو

دیکھنے والے صرف نظارا کرتے ہیں

 

ہم نے کون سا یہاں ہمیشہ رہنا ہے

جیسے بھی ہو یار گزارا کرتے ہیں

 

ہم مایوس نہیں ہیں تیری رحمت سے

مشکل وقت میں تجھے پکارا کرتے ہیں

 

باتوں باتوں میں تو جان بھی دیتے ہیں

وقت پڑے تو یار کنارا کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چلتے چلتے بات پہنچی آخرش الزام تک

وائے دل! تیری محبت آ گئی انجام تک

 

اے دلِ خاموش فطرت کیوں بھلا میں چپ رہوں

اس طرح تو سنگ ہو جائیں گے دونوں شام تک

 

دوستوں نے غم دئیے ہیں دوستی کی آڑ میں

اس لیے لیتا نہیں میں دوستی کا نام تک

 

اس قدر مصروف رکھتی ہیں تری یادیں مجھے

میں تو اکثر بھول جاتا ہوں ضروری کام تک

 

منزلیں معدوم ہیں اور راستے بھی بے نشاں

اور پھر محوِ سفر رہنا ہے مجھ کو شام تک

 

تو ہی تو سب کچھ تھا میرا، تو نہیں تو کچھ نہیں

اب نہ لوں گا میں کسی سے دوستی کا نام تک

 

آ گیا ہے تُو شناورؔ کس لیے اس دیس میں

یاں نہیں ملتا کسی کو دو گھڑی آرام تک

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھ سے اور یوں سوال کرتا ہے

یار! تُو بھی کمال کرتا ہے

 

صرف دیتا ہے وہ مثال اپنی

یوں مجھے بے مثال کرتا ہے

 

اپنی یادیں بھی سونپ دیں مجھ کو

میرا کتنا خیال کرتا ہے

 

میرے سینے پہ ہاتھ رکھ رکھ کر

میری سانسیں بحال کرتا ہے

 

اس طرح دیکھتا ہے وہ عمرانؔ

بات کرنا محال کرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

 

اسے دیکھا ہے جب سے ہم عجب مستی میں رہتے ہیں

بلندی پر اسے رکھتے ہیں خود پستی میں رہتے ہیں

بہت معصومیت سے پوچھتے پھرتے ہیں لوگوں سے

محبت کرنے والے کیا اسی بستی میں رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سکھ چین ساتھ لے گیا غم دان کر گیا

جاتے ہوئے بھی وہ مرا نقصان کر گیا

 

ملنا، بچھڑنا رِیت زمانے کی ہے مگر

وہ یوں جدا ہوا مجھے حیران کر گیا

 

اک شخص جانتا تھا مجھے سارے شہر میں

وہ شخص میری موت کا سامان کر گیا

 

بھولے سے کوئی چڑیا بھی پر مارتی نہیں

دل کے نگر کو اس طرح سنسان کر گیا

 

وہ ہی تھا راز داں مرا پھر بھی نہ جانے کیوں

گزرا کوئی جو پاس سے پہچان کر گیا

 

یوں اس کے چھوڑ جانے کا افسوس تو ہوا

یہ بھی ہوا کہ زیست کو آسان کر گیا

 

اس نے بنائی تجھ سے نہ جو بات بن سکی

جو کام تُو نہ کر سکا عمرانؔ کر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہو درد اور درد کا درمان بھی نہ ہو

تُو سامنے رہے، تری پہچان بھی نہ ہو

 

مانا کہ عمر بھر کے لیے ہو نہیں سکا

ایسا بھی کیا کہ تو مرا مہمان بھی نہ ہو

 

جب غم کی تیز دھوپ میں جلتا ہو تن بدن

سایہ ملے تو آدمی حیران بھی نہ ہو

 

آغاز اس سفر کا کریں آؤ مل کے ہم

جس میں کہیں بچھڑنے کا امکان بھی نہ ہو

 

ہو جائے جو بھی ہونا ہے، ایسا نہ ہو کبھی

اس دل میں تیرے ملنے کا ارمان بھی نہ ہو

 

ہر ہر قدم پہ خوف ہے، ہر ہر قدم پہ غم

دل کے نگر کا راستہ سنسان بھی نہ ہو

 

ہر بار پوچھتا ہے کہ آخر ہے بات کیا

ہمدم کسی کا اتنا تو انجان بھی نہ ہو

 

یہ قفلِ دل کلیدِ محبت سے کھول دو

ایسا نہ ہو کہ پھر کہیں عمرانؔ بھی نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بپا دل پر قیامت ہے

مگر پھر بھی سلامت ہے

 

کسی کے دھیان میں رہنا

محبت کی علامت ہے

 

ابھی میں اور نکھروں گا

مرا دشمن سلامت ہے

 

مرے قد کے برابر آ

ابھی تُو پست قامت ہے

 

میں اُس سے جیت آیا ہوں

مجھے خود سے ندامت ہے

 

بڑا ہوں میں، مرے ذمے

مرے گھر کی امامت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب نظروں سے وار کیا تھا

لہجہ کیوں تلوار کیا تھا

 

ساری دنیا دشمن کر کے

میں نے تجھ سے پیار کیا تھا

 

چاند، ستارو! کچھ تو بولو

کیا تم نے بھی پیار کیا تھا

 

میرے پاس تو دو آنکھیں تھیں

تُو نے ان کو چار کیا تھا

 

ہم نے شام سویرے تیرا

فرصت سے دیدار کیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

جب وہ نین ملاتے ہیں

ہم بے خود ہو جاتے ہیں

 

جب وہ شوخ سنورتا ہے

آئینے شرماتے ہیں

 

جانے کتنے ہی جذبے

آنکھوں سے بہہ جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مزاجِ یار کب، کیا ہو

محبت میں غضب کیا ہو

 

نہ میں جانوں نہ تُو جانے

پھر ایسے میں ادب کیا ہو

 

وہ روٹھے گا تو سوچیں گے

منا لینے کا ڈھب کیا ہو

 

بچھڑنا ہے تو طے کر لیں

بچھڑنے کا سبب کیا ہو

 

میں تنہائی میں ٹوٹا ہوں

مگر دیکھیں گے سب، کیا ہو

 

محبت جب ہوئی، کیا تھے

کہو عمرانؔ اب کیا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

ہر گھڑی درد سے دوچار نظر آتی ہے

زندگی باعثِ آزار نظر آتی ہے

 

میں تو خوشیوں کی تمنا بھی نہیں کر سکتا

ہر خوشی اب تو سرِ دار نظر آتی ہے

 

ہر گھڑی سوچتا ہوں اب مجھے کیا کرنا ہے

زندگی ویسے تو بے کار نظر آتی ہے

 

میں اگر اپنی ہی بربادی کا باعث ڈھونڈوں

تیری صورت مجھے ہر بار نظر آتی ہے

 

آئنہ ماضی کا دیکھا نہیں جاتا مجھ سے

اپنے ہی ہاتھ میں تلوار نظر آتی ہے

 

لا، مرے ہاتھ میں دے ہاتھ، تسلی ہو مری

لب پہ تو جنبشِ انکار نظر آتی ہے

 

کوئی منزل کی طرف جائے تو کیسے جائے

ہر قدم پر کھڑی دیوار نظر آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں بھی ہوں حیران، تجھ کو کیا ہوا

اے دلِ نادان، تجھ کو کیا ہوا

 

جان سے بڑھ کر تھا تجھ کو دل عزیز

کر دیا قربان، تجھ کو کیا ہوا

 

شمع کو جلنا تھا، اے پروانے! کیوں

دے دی تو نے جان، تجھ کو کیا ہوا

 

کن خیالوں میں ہو ڈوبے آج کل

اے بھلے انسان! تجھ کو کیا ہوا

 

منتظر ہے پھر ترا طوفانِ نوح

خود کو تُو پہچان، تجھ کو کیا ہوا

 

بال ہیں الجھے ہوئے، آنکھیں ہیں نم

کچھ تو کہہ عمرانؔ تجھ کو کیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل پر بوجھ اتار گئی

تیری چاہت مار گئی

 

پھولوں پر منڈلاتی تھی

تتلی جیون ہار گئی

 

پھول کے کھلتے ہی خوشبو

دریا کے اُس پار گئی

 

تیرے ہجر میں جل جل کر

شمع بھی رات گزار گئی

 

منزل تو مل جانی تھی

اپنی ہمت ہار گئی

 

کتنی حسرت سے پالی

خواہش سوئے دار گئی

 

کیسا ہے اندازِ وفا

دل سے صورتِ یار گئی

 

اس کو خوش خوش رکھنے کی

سب محنت بے کار گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جذبۂ احساس کو بیدار کر کے دیکھیے

جیسے تیسے یہ سمندر پار کر کے دیکھیے

 

ایک ہی جھٹکے میں سر تن سے جدا ہو جائیں گے

بس ذرا الفاظ کو تلوار کر کے دیکھیے

 

کس قدر تسکین ہوتی ہے دلِ ناساز کو

اپنے اپنے جرم کا اقرار کر کے دیکھیے

 

کچھ نہ کہتا ہو کسی سے اور سنتا سب کی ہو

ایک ایسے شخص سے بھی پیار کر کے دیکھیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لب پہ مسکان سجا لیتا ہے

وہ مجھے اپنا بنا لیتا ہے

 

میں بھی انکار نہیں کر سکتا

جب مجھے پاس بلا لیتا ہے

 

میں کہ ہر روز خفا ہوتا ہوں

وہ کہ ہر روز منا لیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب بھی گوش گزاری بات

اس نے منہ پر ماری بات

 

کہنے والے کہتے ہیں

دو لفظوں میں ساری بات

 

آخرِ کار اس قاتل کو

ماننا پڑی ہماری بات

 

سب کو اچھی لگتی ہے

جو ہے سب سے پیاری بات

 

میں تو لکھتا رہتا ہوں

خود سمجھے گا قاری بات

 

پھر بدلے میں مانگا دل

پھر وہ کاروباری بات

 

نوکر ہو ناں اسی لیے

کرتے ہو درباری بات

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

لو پہن لی پاؤں میں زنجیر اب

اور کیا دکھلائے گی تقدیر اب

 

خود ہی چل کر آ گیا زندان تک

کیا کرو گے خواب کی تعبیر اب

 

اے مسیحا! جو تری باتوں میں تھی

دل تلک پہنچی ہے وہ تاثیر اب

 

ہائے اک آہٹ نے پھر چونکا دیا

بولنے والی تھی وہ تصویر اب

 

ٹھیک میرے دل ہی پر آ کر لگے

آخری، ترکش میں ہے جو تیر اب

 

تیرگی تو مار ڈالے گی مجھے

ڈھونڈ کر لا دے کوئی تنویر اب

 

اور کچھ پانے کی حسرت ہی نہیں

مل گئی ہے پیار کی جاگیر اب

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرے ہی غم سے اجنبی ہو گی

کیا خبر تھی وہ زندگی ہو گی

 

نیند آنے لگی چراغوں کو

چند لمحوں میں تیرگی ہو گی

 

مجھ کو جلنے دو، کیوں بجھاتے ہو

میں جلوں گا تو روشنی ہو گی

 

اس کے دل میں ہے غم کا سرمایہ

جس کی آنکھوں میں بے بسی ہو گی

 

چاند تو بزم میں کئی ہوں گے

تیرے آنے سے روشنی ہو گی

 

عشق میں جان وہ گنوا بیٹھے

میں سمجھتا تھا دل لگی ہو گی

 

جب شناورؔ کوئی غزل لکھے

تیرے لہجے کی چاشنی ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو تری قربتوں کو پاتا ہے

اس کو مرنے میں لطف آتا ہے

 

میں جسے آشنا سمجھتا ہوں

دور بیٹھا وہ مسکراتا ہے

 

میں تو ممنون ہوں زمانے کا

سیکھ لیتا ہوں جو سکھاتا ہے

 

تیرگی ہر طرف ہے گلیوں میں

دیکھیے کون گھر جلاتا ہے

 

کون روشن کرے چراغ یہاں

کون بھٹکے کو رہ دکھاتا ہے

 

میں ہی سنتا نہیں صدا اس کی

روز کوئی مجھے بلاتا ہے

 

یہ تعلق تو سامنے رکھتا

تجھ سے برسوں پرانا ناتا ہے

 

ہاں مجھے اس قدر محبت ہے

تو مجھے جس قدر ستاتا ہے

 

کون کہتا ہے تُو شناور ہے

تُو تو آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے

 

تو نے منزل تو دیکھ لی عمران

اب تجھے راستہ بلاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

SMS

 

میں نے اس کو میسج بھیجا

جس میں میں نے

پیا رمحبت کے کچھ جملے درج کیے اور

نیچے اپنا نام بھی لکھا

وہ بھی عجلت میں تھی شاید

اس نے tooکا اضافہ کر کے

میسج مجھ کو واپس بھیجا

جلدی میں وہ اپنا نام ہی بھول گئی تھی

اس نے اپنا نام نہ لکھا

نیچے میرا نام لکھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

چاند کے روبرو ہوا کرتی

آپ سے گفتگو ہوا کرتی

جو محبت ہمارے دل میں ہے

بس یہی چار سو ہوا کرتی

٭٭٭

 

 

 

 

شناور

 

خلا میں غور سے دیکھوں

تو اک تصویر بنتی ہے

اور اس تصویر کا چہرہ

ترے چہرے سے ملتا ہے

وہی آنکھیں، وہی رنگت

وہی ہیں خال و خد سارے

مری آنکھوں سے دیکھے تو

تجھے اس عکس کے چہرے پہ

اک تِل بھی دکھائی دے

جو بالکل تیرے چہرے پر

سجے اُس تِل کے جیسا ہے

جو گہرا ہے ،بہت گہرا

سمندر سے بھی گہرا ہے

کہ اس گہرائی میں اکثر

شناورؔ ڈوب جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل سے مجھ کو نہ نکالے مرے ہمدم سے کہو

مجھ کو دھڑکن میں بسا لے مرے ہمدم سے کہو

 

اپنی سانسوں میں بسا لے مرے ہمدم سے کہو

چاہے جی بھر کے ستا لے مرے ہمدم سے کہو

 

زندہ رہنے کے لیے غم تو ضروری شے ہے

ایسے میں خود کو سنبھالے مرے ہمدم سے کہو

 

اس کا چہرہ بھی گلابوں کی طرح کھل جائے

لب پہ مسکان سجا لے مرے ہمدم سے کہو

 

اس کی راہوں کے سبھی خار چنوں پلکوں سے

اپنا ہمدرد بنا لے مرے ہمدم سے کہو

 

زندگی جب اسے دشوار نظر آنے لگے

پھر بزرگوں کی دعا لے مرے ہمدم سے کہو

 

تیرے عمران شناور کو ڈبو ڈالیں گی

جھیل سی آنکھیں جھکا لے مرے ہمدم سے کہو

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

جس کے بغیر جینے کا چارا نہیں ہوا

شاید وہ دل سے اب بھی ہمارا نہیں ہوا

اس کے بغیر جینے کا سوچا تو تھا مگر

اس کے بغیر اپنا گزارا نہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

اس نے پوچھا ہے آرزو کیا ہے

اُس سے کیسے کہوں کہ تُو کیا ہے

 

خواب ہے یا کوئی حقیقت ہے

عکس در عکس ہو بہو کیا ہے

 

گر نہیں ہے طلب محبت کی

پھر اداسی یہ چار سُو کیا ہے

 

آئنے میں بھی تیری صورت ہے

آج آنکھوں کے روبرو کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ مجھے، میں اُسے دیکھتا رہ گیا

اب ہمارا یہی واسطہ رہ گیا

 

اس کی یادوں کی چادر بھی اب چھن گئی

میں اُسے سوچ کر کانپتا رہ گیا

 

میں اسے ڈھونڈتا ڈھونڈتا تھک گیا

میں کہیں کھو گیا، راستہ رہ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

خبر یہ ہے کہ اچھا کچھ نہیں ہے

مگر چپ ہوں کہ دیکھا کچھ نہیں ہے

 

مجھے غیروں نے اکسایا تھا لیکن

ترے بارے میں سوچا کچھ نہیں ہے

 

یہ اک کڑوی حقیقت ہے شناورؔ

بھری دنیا میں تیرا کچھ نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیری یاد

 

ہفتہ پہلے جب تیرا

فون آیا اور تُو نے کہا

’’ جانِ جاناں! I Miss You ‘‘

تب سے جانے کیوں دل میں

ایک عجب سی ہلچل ہے

دل کے دریا میں جیسے

کسی نے پتھر پھینک دیا

مجھ کو ایسا لگتا ہے

پتھر تیری یاد کا تھا

جس کے گرتے ہی پانی

بے بس ہو کر اچھل گیا

آنکھ کٹورا بھر آیا

نہیں یقیں تو دیکھ آ کر

آج بھی میری آنکھوں سے

اکثر پانی بہتا ہے

تم سے کہتا رہتا ہے

’’ جاناں!ـ

too I Miss You ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

وہ مرا ساتھ چھوڑ جائے گا

 

اس نے دیکھا نہ میری حسرت کو

کوستا کیوں میں اپنی قسمت کو

جانتا تھا جب اس کی فطرت کو

وہ مرا ساتھ چھوڑ جائے گا

 

میرے دل میں قیام ہوتے ہی

زندگی اس کے نام ہوتے ہی

خوبصورت سی شام ہوتے ہی

وہ مرا ساتھ چھوڑ جائے گا

 

مانتا ہوں وہ خوبصورت ہے

میرے دل کی وہی ضرورت ہے

اس کے دل میں یہی کدورت ہے

وہ مرا ساتھ چھوڑ جائے گا

 

اس طرح وہ مجھے ستائے گا

ہنستے ہنستے مجھے رلائے گا

بات جو تھی نہیں، بنائے گا

وہ مرا ساتھ چھوڑ جائے گا

 

غم تو دے دے گا عمر بھر کے مجھے

خود بھی روئے گا یاد کر کے مجھے

بخش کر حوصلے سفر کے مجھے

وہ مرا ساتھ چھوڑ جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

قطعہ

 

 

میں اگر اچھا نہیں تو چھوڑ دے

میں نہیں کہتا کہ مجھ سے پیار کر

کس قدر خوش ہیں تری بستی کے لوگ

ایک دیوانے کو پتھر مار کر

٭٭٭

 

 

 

 

چلو یہ تو سہولت ہو گئی ہے

ترے غم میں رعایت ہو گئی ہے

 

ستارے دیکھتا رہتا ہوں شب بھر

مجھے اِن سے عقیدت ہو گئی ہے

 

چھپا جاتا ہے چندا بادلوں میں

خفا ہے وہ، وضاحت ہو گئی ہے

 

پڑا رہتا ہوں میں بے جان ہو کر

عجب میری طبیعت ہو گئی ہے

 

وہ میری بے بسی پہ ہنس رہا ہے

کہ ہنسنا اس کی عادت ہو گئی ہے

 

سمٹ کر رہ گئیں لمحوں میں صدیاں

بہت لمبی مسافت ہو گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اقرار

 

تری سنجیدہ باتیں یاد آئیں تو ہنساتی ہیں

تری سب بھولپن میں کی ہوئی باتیں ستاتی ہیں

ترا یہ بچپنا تو جانے کب جائے گا جانِ جاں

تجھے بھی پیار کرنا جانے کب آئے گا جانِ جاں

بھری محفل میں سب کے سامنے اقرار کرتا ہوں

میں تم سے پیار کرتا ہوں تمہی سے پیار کرتا ہوں

نہ ہو مجھ پر یقیں تم کو تو اک دن آزما لینا

اور اس کے بعد جانِ جاں مجھے اپنا بنا لینا

٭٭٭

 

 

 

 

استری کرتے ہوئے

 

وہ میری شرٹ جلنے پر

ترا بے ساختہ ہنسنا

مجھے جب یاد آتا ہے

تو جاناں ایسے لگتا ہے

تو میرے پاس بیٹھی ہے

مجھے محسوس ہوتی ہے

مگر میں چھو نہیں سکتا

تری آواز کانوں میں

ابھی تک گونج اٹھتی ہے

وہ میری شرٹ جلنے پر

ترا بے ساختہ ہنسنا

مجھے جب یاد آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ریاضت تھی مگر اتنی نہیں تھی

مہارت تھی مگر اتنی نہیں تھی

 

رفاقت راس تو آئی تھی لیکن

رفاقت تھی مگر اتنی نہیں تھی

 

دلوں میں دوریاں تھیں اور بظاہر

مسافت تھی مگر اتنی نہیں تھی

 

کھڑا ہوں میں گنہگاروں کی صف میں

عبادت تھی مگر اتنی نہیں تھی

 

رِہا ہوتے ہی زیرِ دام آئے

رعایت تھی مگر اتنی نہیں تھی

 

بچھڑتے وقت آنکھوں میں شناورؔ

طراوت تھی مگر اتنی نہیں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

اب تُو ہی بتا اے دل!

کرتے بھی تو کیا اے دل!

 

قسطوں میں بھلایا ہے

جب یاد کِیا اے دل!

 

میں جن کا نہیں واقف

وہ کیوں ہیں خفا اے دل!

 

جو بات نہیں کرتے

کرتے ہیں وفا اے دل!

 

ہر سمت وہی صورت

آئینہ ہٹا اے دل!

 

وہ آنکھ ملائیں تو

مٹ جائے گلہ اے دل!

 

ہم دیں گے محبت کو

انداز نیا اے دل!

 

شاید میں سنبھل جاؤں

ٹھوکر تو لگا اے دل!

 

ٹوٹے گی نہ یہ تجھ سے

دیوارِ اَنا اے دل!

 

جاتے ہوئے دشمن کو

واپس نہ بلا اے دل!

 

بِن تیرے میں تنہا ہوں

آ لوٹ بھی آ، اے دل!

٭٭٭

 

 

 

فرد فرد

 

نفرت کا اظہار بہت دکھ دیتا ہے

کبھی کبھی وہ یار بہت دکھ دیتا ہے

٭

 

تری ترجیح تو پیسہ نہیں تھا

مرے محبوب تُو ایسا نہیں تھا

٭

 

کبھی اس کی ضرورت ہو بھی سکتی ہے

گھروں میں تم شجر کاری کیے رکھو

 

خرد ورنہ کہیں کا بھی نہ چھوڑے گی

جنوں کی بھی طرف داری کیے رکھو

٭

 

میرا غم تیرا غم اب نہیں ہے

بس یہی غم مجھے کھا رہا ہے

٭

 

اس قدر چپ ہوں کہ لگتا ہے مجھے

بات کرنے لگ پڑے گی خامشی

 

چوم لیتا ہوں میں اپنے ہاتھ کو

جس پہ تو نے ہاتھ رکھا تھا کبھی

٭

 

میرے جیسے اگر ہزاروں ہیں

شہر میں تُو بھی بے نظیر نہیں

٭

 

کیا میں انسان نہیں ہوں یارو!

مجھ سے کیا بھول نہیں ہو سکتی

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید