FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تمہارے اور میرے درمیاں

 

 

نظمیں

                جون ایلیا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

 

تمہارے اور میرے درمیاں

 

 

تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی

بِلا کا دن نکلنا تھا بَلا کی رات ہونا تھی

بلا کا دن بھی نکلا اور بَلا کی رات بھی گزری

عذابِ ذات بھی گزرا فنائے ذات بھی گزری

 

مگر معلوم نامعلوم میں جانے نہ جانے کیوں

تمہارے اور میرے درمیاں وہ بات جانم جاں

کسی صورت نہ ہو پائی کسی صورت نہ ہو پائی

میرے دل اور میری جان کے گزرے زمانے کیوں

تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمثیل

 

(پہلا منظر)

 

 

میں لمحوں کا گدا گر تھا

تمہارے جاوداں افروز لمحوں کی پذیرش کا گداگر تھا

سراسر اک گداگر

ایک بے کشکول و کاسہ ایک بے کوچہ بہ کوچہ

بے صدا و بے دعا از خود گزشتہ اک گداگر تھا

جو گمانِ پُر سرو سودا کے جاں پرور سراغ آرزو آگیں میں

رفتہ اور آئندہ کے خوابوں کی گدائی پیشہ کرتا ہے

خیالوں کو ، نفس بودش خیالوں کو ، ابد اندیشہ کرتا ہے

یہ اک تمثیل تھی بے صحنۂ تمثیل

اور جو کچھ تھا یہی تھا بس یہی کچھ تھا

 

 

(دوسرا منظر)

 

پھر اس کے بعد جانانہ

تمہاری جاودانہ آرزو کے بازوانِ مرمریں

میرے، مرے آغوش کے مرگِ سفیدِ بے فغاں میں

میری دل جُو زندگی تھے ارجمندی تھے

میں جن میں خرم و خُرسند رہتا تھا

یہ میری دم بہ دم کی زندگی کی صحنہ تابی تھی

مری ہر آرزو پہلو بہ پہلو سبزہ گوں تھی اور شہابی تھی

 

(تیسرا منظر)

 

پھر اس کے بعد کے منظر میں

(یعنی اس گھڑی)

جو پیش آیا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ میں تم میں

تمہارے جاں فزا آغوش کی نزدیک تر خوشبوئی میں

اور اس کے گرداگرد میں دم توڑ دیتا ہوں

پھر اس کے بعد زندہ ہو کے اُٹھتا ہوں

قیامت کی ہنسی ہنستا ہوں

پھر سکتے میں رہ جاتا ہوں

آخر اک نہایت خندہ آور گریہ کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

زہرِ ناب کا دن

 

(جاوید معنی کی وفات پر)

 

ہم سے بے واسطہ نہیں ہے وہ

وہ یہیں تھا یہیں کہیں ہے وہ

 

کر گیا ہے وہ رَم کسی جانب

اک غزالِ غزل زمیں ہے وہ

 

میرا جاوید، معنی جاوید

خود بھی ایک شعر دل نشیں ہے وہ

 

میں ہوں اپنا حریفِ سخت کماں

روزِ ہیجاں مری کمیں ہے وہ

 

در شبِ کوچ یارِ من فروخت

کہ مرا سالکِ گزیں ہے وہ

 

آخرش میرا ہی تو ہے شاگرد

سب جہاں ہیں، وہیں نہیں ہے وہ

 

کیسے میں سہہ سکوں گا ہجر اس کا

کہ میرا ناز و نازنیں ہے وہ

 

خاک گنجینۂ زمیں ہو خاک

زیرِ گنجینۂ زمیں ہے وہ

 

غم میں غالب کا سہہ رہا ہوں آج

آج عارف کا ہم نشین ہے وہ

 

اب زمیں بوس آستاں ہوں میں

آسماں مرتبہ جبیں ہے وہ

 

اُس نے مارا ہے اپنے مرشد کو

کِس بَلا کا جہنمیں ہے وہ

 

اب رگوں میں مری بچا ہے جو خوں

مالِ مژگاں و آستیں ہے وہ

 

پڑ گیا چین، دل ہوا یک سو

وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ

 

نالہ ہا، شور ہا، تپیدن ہا

میرے ہوتے کفن گزیں ہے وہ

 

آج کا دن نہیں شراب کا دن

آج ہے جونؔ زہرِ ناب کا دن

٭٭٭

 

 

 

 

انگارے

 

تم

تمہارا نام

لیکن میں نے یہ نام پہلی بار تم سے ہی سُنا ہے

کون ہو تم

کون تھیں تم

اب رہا میں یعنی میں

میں تو کبھی تھا ہی نہیں

تھا ہی نہیں میں

اور سارے کاغذوں پر صرف انگارے لکھے ہیں

صرف انگارے

٭٭٭

 

 

 

 

تم مجھے بتاؤ تو۔۔۔۔

 

 

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے

مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجے

آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا

دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا

٭٭

 

میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ

زشکِ سروِ سیمینا

اے بہ نازُکی مینا

اے بہ جلوہ آئینہ

میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں

لوحِ دل جلا دوں کیا

سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی

کہکشاں لُٹا دوں کیا

جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے

نقشِ جاں مٹا دوں کیا

ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی

میں انہیں گنوا دوں کیا

لوحِ دل جلا دوں کیا

کہکشاں لُٹا دوں کیا

نقشِ جاں مٹا دوں کیا

٭٭

 

مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید

جرم کر گئی ہو تم

اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم

جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے

پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے

اے مری فروزینہ!

دل کی جانِ زرّینا!

رنگ رنگ رنگینا!

بات جو ہے وہ کیا ہے

تم مجھے بتاؤ تو ۔۔۔۔۔

میں تمہیں نہیں سمجھا

تم سمجھ میں آؤ تو

جُرم کیوں کیے تم نے

خط ہی کیوں لکھے تم نے

٭٭٭

 

 

 

 

بے ساز و ساماں

 

 

حقیقت مجھ کو راس آتی نہیں ہے

غزالہ! تم فقط اک خواب ہو کیا

تمہاری جاودانہ جستجو ہے

مری جاں! تم جو ہو نایاب ہو کیا

سراپا سحر، یکسر بے نیازی

تم اِک آہنگِ بے مضراب ہو کیا

٭٭

 

مری زیبُ النسائے شعر ہو تم

تمہارا سحر میری شاعری ہے

تمہاری آرزوئے جاودانہ

جمالِ جاودانِ زندگی ہے

تمہیں دیکھا ہے پر دیکھا نہیں ہے

تمہارے خواب کو سجدے کیے ہیں

تمہارے ہجرِ بے وعدہ میں میں نے

تمہاری یاد کے بوسے لیے ہیں

بدن ہو تم خیالِ جاوداں کا

بدن کو پیرہن بھی چاہیے ہے

شمیمِ جاں نوازِ یاسمن کو

نہالِ یاسمن بھی چاہیے ہے

نظر ہے خواب کی بے ساز و ساماں

نظر کو بھی تو کچھ بخشو مری جاں

٭٭٭

 

 

 

 

فارہہ

 

تم سے جو میری جانِ جاں تھیں فارہہ

کون تھیں تم اور کہاں تھی فارہہ

 

ہوں میں اب اور اک جہانِ نا شناس

تم ہی بس میرا خیال تھیں فارہہ

 

کیا ہوا وہ رودِ خوابِ جاں کہ تم

جس میں دست و پا زناں تھیں فارہہ

 

میں غریقِ رودِ زہرِ ناب ہوں

تم جو تھیں نوشیں زباں تھیں فارہہ

 

اور کہہ سکتا ہوں کیا میں یعنی میں

تم زمین و آسماں تھیں فارہہ

 

اب تو میں ہوں خزاں اندر خزاں

تم بہارِ بے خزاں تھیں فارہہ

 

اب میں ہوں خانہ بدوش اور تم مرا

اک مکانِ جاوداں تھیں فارہہ

 

میں تھا میرِ داستاں یعنی کہ تم

داستانِ داستاں تھیں فارہہ

 

کیا بھلا میرا وجود اور کیا عدم

تم *نہیں* تھیں اور *ہاں* تھیں فارہہ

 

ہاں میں شاید تھا بہت نا مہرباں

تم بَلا کی مہرباں تھیں فارہہ

 

تھی وہ اپنی درمیانی بھی عجیب

یعنی تم نا درمیاں تھیں فارہہ

 

کیوں نہ تھوکا جائے اب خونِ جگر

یعنی تم میرا زیاں تھیں فارہہ

 

ہائے وہ بادِ برینِ سبز کوک

پر تم اک رودِ دُخاں تھیں فارہہ

 

کیسی خوش بینی خوش اُمیدی کہاں

تم تو حشر بے اماں تھیں فارہہ

 

کچھ نہیں تھیں تم نہیں تھیں کچھ بھی تم

پر مرا ہندوستاں تھیں فارہہ

 

سب کنیزیں تھیں تمہاری جانِ من

تم مری نورِ جہاں تھیں فارہہ

 

جو بدل ٹھہریں تمہارا وہ سبھی

کتنی گھٹیا لڑکیاں تھیں فارہہ

 

میں جو ہوں اب میں ہوں بے نام و نشاں

تم مرا نام و نشاں تھیں فارہہ

 

تم نوائے جاودانِ جاں ہو جاں

تم نوائے جاوداں تھیں فارہہ

 

ایک دل تھا جو کہ تھا اور ایک جاں

اور تم ان کے درمیاں تھیں فارہہ

 

میں تمہیں میں ٹھوکریں کھاتا رہا

کیوں تم اتنی مہرباں تھیں فارہہ

 

اک جہانِ بے جہانِ خواب تھا

اور تم اس کا آسماں تھیں فارہہ

 

میں نے تم کو اپنے دل کا گھر دیا

تم جو تھیں بے خانماں تھیں فارہہ

 

شکوہ ہا شوریدگی ہا شور ہا

تم بہت کمتر گماں تھیں فارہہ

٭٭

 

دل تھا درہم اور برہم رایگاں

تھے تمہاری زُلف کے خم رایگاں

 

اپنی ساری آرزوئیں تھیں فریب

اپنے خوابوں کا تھا عالم رایگاں

 

جونؔ شاید کچھ نہیں کچھ بھی نہیں

ہے دوام اک وہم اور دم رایگاں

 

زندگی بس رایگانی ہی تو ہے

میں بہت خوش ہوں کہ تھے ہم رایگاں

 

ہم رَسا اور نارسا کچھ بھی نہ تھے

یعنی جونؔ و فارہہ کچھ بھی نہ تھے

٭٭٭

 

 

 

 

راتیں سچی ہیں، دن جھوٹے ہیں

 

 

چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو پھر بھی میں اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا

اِن کی لذت اور اذیت سے میں اپنا عہد نہیں توڑوں گا

تیز نظر نابیناؤں کی آبادی میں ،

کیا میں اپنے دھیان کی یہ پونجی بھی گنوا دوں

ہاں میرے خوابوں کو تمھاری صبحوں کی سرد اور سایہ گوں تعبیر

اِن صبحوں نے شام کے ہاتھوں اب تک جتنے سورج بیچے

وہ سب اک برفانی بھاپ کی چمکیلی اور چکر کھاتی گولائی تھے

سو میرے خوابوں کی راتیں جلتی اور دہکتی راتیں

ایسی یخ بستہ تعبیر کے ہر دن سے اچھی ہیں اور سچی بھی ہیں

جس میں دھندلا چکر کھاتا چمکیلا پن چھ اطراف کا روگ بنا ہے

میرے اندھیرے بھی سچے ہیں

اور تمھارے روگ اُجالے بھی جھوٹے ہیں

راتیں سچی ، دن جھوٹے

جب تک دن جھوٹے ہیں جب تک

راتیں سہنا اور اپنے خوابوں میں رہنا

خوابوں کو بہانے والے دن کے اجالے سے اچھے ہیں

ہاں میں بہکاؤں کی دھند سے اڑوں گا

چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو میں پھر بھی اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا

اپنا عہد نہیں توڑوں گا

یہی تو بس میرا سب کچھ ہے

ماہ و سال کے غارت گر سے میری ٹھنی ہے

میری جان پر آن بنی ہے

چاہے کچھ ہو میرے آخری سانس تلک اب چاہے کچھ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

دریچہ ہائے خیال

 

چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں

اور یہ سب دریچہ ہائے خیال

جو تمہاری ہی سمت کھلتے ہیں

بند کر دوں کہ کچھ اس طرح کہ یہاں

یاد کی اک کرن بھی آنہ سکے

چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں

اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں

جیسے تم صرف اک کہانی تھیں

جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

اس رائیگانی میں

 

 

 

سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے

جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے

نہ جانے وقت ان آنکھوں سے پھر کس طور پیش آیا

مگر میری فریب وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے

اس کے بعد بھی

آنسو بہائے ہیں

مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں

مگر یوں ہے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں

مری آنکھیں

گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو

پھر نہ رو پائیں

٭٭٭

 

 

 

 

معمول

 

 

جانے کب سے

مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے

ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں

اور شام کو

ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے ہیں

مگر ہم نے اک دوسرے سے

کبھی حال پرسی نہیں کی

نہ اک دوسرے کو

کبھی نام لے کر مخاطب کیا

جانے ہم کون ہیں؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمہارا فیصلہ جاناں

 

 

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا

پسند آنا ہی تھا جاناں

ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں

 

بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،

سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،

ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے

اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو

اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ

بھُلا دینا ہی اچھا ہے

وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا

گنوا دینا ہی اچھا ہے

زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو

بجھا دینا ہی اچھا ہے

تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 تا کجا

 

 

کہاں ہے سمتِ گماں وہ جہانِ جاں پرور

کہ جس کی شش جہتی کا فسونِ چشم کشا

دلوں میں‌ پھیلتا ہے منزلوں میں پھیلتا ہے

جہاں سخن ہے سماعت ، نظر ہی منظر ہے

جہاں حروف لبوں سے کلام کرتے ہیں

جہاں وجود کے معنی خرام کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

 

دھُند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر

اُڑ رہے ہیں پرندے ٹیلوں پر

 

سب کا رُخ ہے نشیمنوں کی طرف

بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف

 

اپنے گَلوں کو لے کے چرواہے

سرحدی بستیوں میں جا پہنچے

 

دلِ ناکام میں کہاں جاؤں

اجنبی شام، میں کہاں جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

شنکر جی

 

 

دُکھ ہیں اور میں ہوں

میں ہوں اور دُکھ ہیں

قاتل تر سُکھ ہیں

شنکر جی، گونگے شنکر جی

ہونٹ میرے کُکھ ہیں

میں ہوں اور دُکھ ہیں

٭٭٭

ٹائپنگ: اردو کی مختلف فورموں کے مختلف ارکان

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید