فہرست مضامین
تقریباً ہر شے کی مختصر تاریخ
(اے بریف ہسٹری آف نیئرلی ایوری تھنگ)
بل برائسن (Bill Bryson)
حصہ دوم
اردو ترجمہ
منصور محمد قیصرانی
حصہ سوم: نیو ایج ڈانز
طبعیات دان در اصل ایٹموں کی طرح ایٹموں کے بارے سوچنے کا طریقہ ہے
نامعلوم
8 آئن سٹائن کی کائنات
جب اٹھارہویں صدی کا اختتام قریب پہنچا تو سائنس دانوں کا خیال تھا کہ انہوں نے طبعی دنیا کی تقریباً ساری ہی قوتوں کو مسخر کر لیا ہے۔ بجلی، مقناطیسیت، گیسیں، بصریات، آواز، حرکیات اور شماریاتی میکانیات بھی اس فہرست میں شامل تھیں۔ انہوں نے ایکس رے، کیتھوڈ رے، الیکٹران اور تابکاری، اوہم کی ایجاد، واٹ، کیلون، جاؤل، ایمپیئر اور ارگ بھی ایجاد کر لیے تھے۔
اگر کسی چیز کو تھرتھرایا، رفتار بڑھانا، مشتعل کرنا، تقطیر کرنا، ملانا، وزن کرنا یا گیس بنایا جانا ممکن تھا تو سائنس دان یہ سب کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالمگیر قوانین کی ایسی فہرست بھی مرتب کر لی تھی جسے ہم ابھی تک بڑے حروف سے ظاہر کرتے ہیں۔ The Electromagnetic Field Theory of Light, Richter’s Law of Reciprocal Proportions, Charles’s Law of Gates, the Law of Combining Volumes, the Zeroth Law, the Valence Concept, the Laws of Mass Actions اور اسی طرح کے بے شمار دیگر قوانین۔ ہر طرف ان کی آوازیں اور ان کے بنائے ہوئے آلات چھائے ہوئے تھے۔ بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا خیال تھا کہ اب سائنس کے پاس کچھ نیا کرنے کو باقی نہیں بچا۔
1875 میں نوجوان جرمن میکس پلانک کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ آیا وہ ریاضی کا انتخاب کرے یا طبعیات کا تو اسے ہر کسی نے یہی مشورہ دیا کہ طبعیات میں اب کچھ کرنے کو باقی نہیں بچا، اس لیے اسے ریاضی کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ اسے یقین دلایا گیا کہ اگلی صدی میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد ہونی بلکہ پہلے سے موجود علوم کو ترتیب دی جائے گی۔ تاہم پلانک نے اس مشورے پر کان نہیں دھرے۔ اس نے نظریاتی طبعیات کی تعلیم پائی اور دل و جان سے انٹراپی پر تحقیق میں جُٹ گیا۔ یہ عمل حرحرکیات کی جان ہوتا ہے اور نئے محقق کے لیے اس میں کرنے کو بہت کچھ تھا (در حقیقت یہ کسی نظام میں موجود بے ترتیبی کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیرل ایبنگ نے اپنی کتاب General Chemistry میں اچھی مثال دی ہے کہ تاش کے پتوں کی نئی گڈی میں سارے پتے ترتیب سے رکھے ہوتے ہیں۔ یہ ترتیب شدہ حالت ہے۔ جب آپ اسے پھینٹتے ہیں تو بے ترتیبی پیدا ہو جاتی ہے۔ اینٹراپی موجودہ بے ترتیبی کو ماپنے اور مزید پھینٹنے سے ممکنہ بے ترتیبی کو جاننے کے عمل کا نام ہے )۔ 1891 میں اس نے جب اپنی تحقیق کے نتائج پیش کیے تو اسے یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ سارا اہم کام اس سے قبل امریکی ییل یونیورسٹی کے ولارڈ گبز نے کر لیا ہے۔
گبز اپنے دور کے ان ذہین ترین سائنس دانوں میں سے ایک ہے جس کے بارے لوگ نہ ہونے کے برابر جانتے ہیں۔ اس نے اپنی ساری زندگی ماسوائے تین سال کے، ییل یونیورسٹی کے نیو ہیون، کنکٹی کٹ کیمپس اور اپنے گھر کے درمیان محض تین بلاک کے علاقے میں گزارا۔ یہ تین سال اس نے یورپ میں حصولِ تعلیم میں گزارے تھے۔ یونیورسٹی میں پہلے دس سال تو اس نے اپنی تنخواہ تک نکالنے کی ضرورت نہیں محسوس کی کہ اس کے پاس کافی دولت تھی۔ 1871 میں یونیورسٹی میں پروفیسر کا عہدہ سنبھالنے سے لے کر 1903 میں اپنی وفات تک اس کے پاس ہر سمسٹر میں بمشکل چند طلباء ہی ہوتے تھے۔ اس کا تحریری کام بھی بہت مشکل زبان میں اور اس کے اپنی ذاتی کوڈ میں لکھا ہوتا تھا۔ زیادہ تر ناقابلِ فہم تحاریر میں انتہائی ذہانت چھپی ہوئی ہوتی تھی۔
1875 تا 1878 گبز نے مقالہ جات لکھے جن کو On the Equilibrium of Heterogeneous Substances کہا گیا۔ ان میں نہ صرف حرحرکی قوانین بلکہ گیسوں، آمیزوں، سطحوں، ٹھوس، حالت کی تبدیلیاں، کیمیائی تعامل، الیکٹروکیمیکل سیلز، سیڈیمنٹیشن اور اوسموسس پر بھی انتہائی واضح انداز میں لکھا گیا تھا۔ مختصراً یوں کہہ لیں کہ گبز نے ثابت کیا کہ حرحرکی قوانین سٹیم انجن کی حرارت اور توانائی تک محدود نہیں بلکہ کیمیائی تعاملات میں ایٹمی سطح پر بھی اسی طرح لاگو ہوتے ہیں۔ گبز کے ان مقالہ جات کو حرحرکیات کی Principia کہا گیا۔ حیرت کی بات یہ کہ گبز نے اپنے مقالہ جات کو چھپوانے کے لیے ایک مقامی جریدے کا انتخاب کیا جو کنکٹی کٹ میں بھی کم پڑھا جاتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے پلانک نے ان کے بارے کبھی نہ سنا تھا۔
ہمت نہ ہارتے ہوئے پلانک نے اپنی توجہ دیگر امور پر مرکوز کر لی (پلانک زندگی بھر بدقسمت رہا۔ پہلے 1909 میں اس کی بیوی نوجوانی میں مر گئی۔ چھوٹا بیٹا پہلی جنگِ عظیم میں مارا گیا۔ اسے اپنی جڑواں بیٹیوں سے بہت پیار تھا۔ ان میں سے ایک زچگی کے دوران مر گئی۔ بچے کی دیکھ بھال کرنے جب دوسری بہن گئی تو اسے اپنے سابقہ بہنوئی سے محبت ہو گئی۔ شادی کے دو سال بعد دوسری بیٹی بھی زچگی کے دوران مر گئی۔ 1944 میں 85 سالہ پلانک کے مکان پر اتحادیوں کا بم گرا اور اس کا سارا ساز و سامان بمع کاغذات، ڈائریاں اور سب کچھ تباہ ہو گیا۔ اگلے سال اس کا دوسرا بیٹا ہٹلر کے قتل کی سازش میں گرفتار ہوا اور اسے سزائے موت دی گئی)۔ ان کے بارے ہم کچھ دیر میں پڑھیں گے۔ ابھی ہم کلیولینڈ، اوہائیو چلتے ہیں، جہاں کیس سکول آف اپلائیڈ سائنسز ہمارا منتظر ہے۔ اس ادارے میں 1880 میں طبعیات دان البرٹ مچلسن نے اپنے دوست اور کیمیاء دان ایڈورڈ مورلے کی مدد سے ایسے تجربات کیے جن کے نتائج نے مستقبل میں بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔
مچلسن اور مورلے کے تجربات نے انجانے میں ایتھر کے نظریے کو باطل ثابت کیا۔ ایتھر کے بارے فرض کیا جاتا تھا کہ یہ روشنی پیدا کرنے والا، مستحکم، ناقابلِ مشاہدہ، بے وزن اور رگڑ کے بغیر ہوتا ہے۔ اس کے بارے سب سے پہلے دیکارت نے نظریہ پیش کیا جسے نیوٹن نے اپنایا اور پھر اس وقت سے اٹھارہویں صدی تک ہر سائنس دان نے ایمان رکھا۔ اس مادے کی وجہ سے روشنی خلاء میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی تھی۔ اس صدی میں برقناطیسیت اور روشنی کو موج کی شکلیں سمجھا جاتا تھا جنہیں منتقل ہونے کے لیے کسی مادے کی ضرورت ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ 1909 میں برطانوی طبعیات دان جے جے تھامپسن نے اصرار کیا ‘ایتھر کسی فلسفی کا دلچسپ خیال نہیں بلکہ یہ ہمارے لیے ویسے ہی اہم ہے جیسے سانس لینے کو ہوا’۔ یہ بیان اس واقعے کے چار سال بعد سامنے آیا جس کی مدد سے ایتھر کا فرضی ہونا ہر طرح سے ثابت ہو چکا تھا۔ یعنی لوگ اس کے عادی ہو گئے تھے۔
اگر آپ امریکہ کو امید کی سرزمین کہتے ہیں تو اس کے لیے مچلسن سے بہتر کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ 1852 میں جرمن-پولینڈ کی سرحد پر غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا اور پھر اس کا پورا خاندان امریکہ منتقل ہوا اور اس نے کیلیفورنیا میں سونے کی دوڑ کے دوران کان کنی والے کیمپ میں پرورش پائی۔ غربت کی وجہ سے کالج نہ جا سکا تو اس نے واشنگٹن ڈی سی کا رخ کیا جہاں اس نے وائٹ ہاؤس کے سامنے مٹرگشت کی عادت اختیار کی۔ مقصد یہ تھا کہ جب امریکی صدر گرانٹ وہاں سے گزرے تو اس سے ملاقات کر سکے۔ جب ملاقات ہوئی تو اس نے صدر کو اپنے حالات بتا کر متاثر کیا اور صدر نے اسے نیول اکیڈمی میں طبعیات کی تعلیم کے لیے مفت جگہ دلوا دی۔
دس سال بعد کیس سکول میں پروفیسر کی حیثیت سے مچلسن نے ایتھر کے بہاؤ کو ماپنے کا ارادہ کیا۔ نیوٹن کے نظریات کے مطابق روشنی کی رفتار اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنے والا روشنی کی طرف جا رہا ہے یا اس سے دور ہٹ رہا ہے۔ تاہم اس کی پیمائش کرنے کا طریقہ کسی کو نہیں معلوم تھا۔ مچلسن نے یہ جانا کہ آدھا سال زمین سورج کی طرف اور آدھا سال سورج سے دور حرکت کرتی ہے۔ اس خیال کی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ مختلف موسموں میں روشنی کی رفتار ناپیں تو دونوں کا فرق آپ کو ایتھر کے بہاؤ کے بارے معلومات دے سکتا ہے۔
مچلسن نے الیگزنڈر گراہم بیل سے رابطہ کیا اور اس سے مطلوبہ آلات کی تیاری کے لیے رقم مانگی۔ گراہم بیل انہی دنوں ٹیلی فون کی ایجاد سے امیر ہوا تھا۔ یہ نیا آلہ مچلسن کا اپنا ڈیزائن کردہ تھا اور اسے انٹرفیرومیٹر کا نام دیا گیا۔ اس کا کام روشنی کی رفتار کو انتہائی درستگی کی حد تک ماپنا تھا۔ جب یہ آلہ تیار ہوا تو گوشہ نشین مورلے کی مدد سے اس نے برسوں پر محیط طویل اور صبر آزما تجربات شروع کیے۔ یہ کام بہت نفیس اور تھکا دینے والا تھا۔ 1887 میں ان تجربات کے نتائج آ گئے۔ تاہم یہ تجربات ان دونوں کی توقعات کے برعکس تھے۔
کالٹک کے آسٹرو فزسٹ کے مطابق ‘نتائج سے ثابت ہوا کہ روشنی کی رفتار ہر سمت اور ہر وقت ایک جیسی رہتی ہے ‘۔ دو سو سال میں پہلی بار ثابت ہوا کہ نیوٹن کے قوانین ہر جگہ اور ہر وقت نافذ نہیں ہوتے۔ بعض سائنس دانوں کے مطابق مچلسن اور مورلے کے نتائج طبعیات کی تاریخ کے اہم ترین منفی نتائج تھے۔ تاہم مچلسن کو طبعیات کا نوبل انعام حاصل کرنے میں 20 برس لگ گئے۔ مچلسن پہلا امریکی تھا جسے یہ اعزاز ملا۔ یہ نتائج منفی تاثر کی طرح طویل عرصے تک سائنس دانوں کے ذہن پر چھائے رہے۔
ان تمام تر کاوشوں کے باوجود مچلسن کا خیال تھا کہ اس صدی میں سائنس اپنی انتہا کو پہنچنے والی ہے اور محض چند ہی امور پر کام ہونا باقی ہے۔
در حقیقت اس وقت سائنس کی دنیا ایک نئی جہت میں داخل ہونے جا رہی تھی جہاں بہت سارے لوگوں کو بہت ساری چیزوں کی اور کسی بھی انسان کو تمام تر چیزوں کے بارے پوری سمجھ نہیں تھی۔ جلد ہی سائنس دان ذرات اور ضد ذرات کی دنیا میں ششدر دیکھنے لگے جہاں ذرات کا عدم سے وجود اور وجود سے عدم کا سفر اتنے مختصر وقت میں تمام ہو جاتا تھا کہ نینو سیکنڈ بھی انتہائی طویل عرصہ لگتا۔ سائنس اب میکرو طبعیات کی دنیا سے نکل کر کہ جہاں آپ چیزوں کو دیکھ اور ماپ سکتے ہیں، خورد بینی طبعیات کی دنیا میں داخل ہو رہی تھی کہ جہاں ذرات کی جسامت اور ان کی مقدار تخیل سے بھی کہیں پرے تھی۔ اب ہم کوانٹم فزکس کی دنیا میں داخل ہو رہے تھے اور اس دنیا میں داخلے کا راستہ میکس پلانک نے کھولا تھا۔
1900 میں نظریات طبعیات دان کی حیثیت سے یونیورسٹی آف برلن میں کام کرتے ہوئے پلانک نے نیا ‘کوانٹم نظریہ’ پیش کیا جس کے مطابق توانائی مسلسل نہیں ہوتی جیسے پانی بہہ رہا ہو، بلکہ توانائی چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی شکل میں ہوتی ہے۔ ہر ڈبہ یا پیکٹ کوانٹا کہلاتا ہے۔ یہ نظریہ اچھوتا اور بہترین تھا۔ اس طرح فوری طور پر مچلسن اور مورلے کے تجربہ کے نتائج کی وضاحت ہو سکتی تھی یعنی روشنی کا موج کی شکل میں ہونا لازمی نہیں تھا۔ طویل مدتی فائدہ یہ تھا کہ جدید طبعیات کی از سرِ نو بنیاد پڑی۔
1905 میں جب جرمن جریدے میں سوئس پیٹنٹ دفتر کے ایک دفتری ملازم کی جانب سے باقاعدگی سے مضامین چھپنے لگے جو کسی یونیورسٹی سے بھی متعلق نہیں تھا اور نہ ہی لیبارٹری یا کسی خصوصی لائبریری تک رسائی رکھتا تھا۔ اس کا عہدہ درجہ سوئم کا معائنہ کار کا تھا اور درجہ دوم میں ترقی کی درخواست حال ہی میں مسترد ہوئی تھی۔
اس کا نام البرٹ آئن سٹائن تھا اور ایک سال میں اس نے طبعیات پر پانچ مضامین لکھے جنہیں بعض محقق طبعیات کی دنیا کے اہم ترین مضامین میں شمار کرتے ہیں۔ ایک مضمون میں میکس پلانک کے کوانٹم نظریے کے تحت فوٹو الیکٹرک افیکٹ کا جائزہ لیا گیا تھا، دوسرے میں معلق حالت میں ذرات کی حرکت، جسے ہم براؤنین حرکت کے نام سے جانتے ہیں اور تیسرا مضمون میں اضافیت کے خصوصی نظریے پر تھا۔
پہلے مضمون کی بنیاد پر آئن سٹائن کو نہ صرف نوبل انعام ملا بلکہ روشنی کی نوعیت بھی واضح ہوئی اور ٹیلی ویژن وغیرہ بھی اسی سے ایجاد ہوئے (آئن سٹائن کو یہ اعزاز ‘نظریاتی طبعیات کے لیے خدمات’ پر دیا گیا لیکن اسے 16 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ عرصہ بہت طویل محسوس ہوتا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ فریڈریک رینز نے 1957 میں نیوٹرینو دریافت کیے لیکن اسے 38 سال بعد 1995 میں نوبل انعام دیا گیا۔ جرمن سائنس دان ارنسٹ رسکا، جس نے 1932 میں الیکٹران مائیکروسکوپ بنائی، کو 1986 میں نوبل انعام ملا۔ چونکہ نوبل انعام صرف زندہ انسان کو ہی دیا جاتا ہے، اس لیے ذہانت کے علاوہ لمبی عم بھی اس کے حصول کے لیے اہم ہے )، دوسرے مضمون سے ایٹموں کا وجود ثابت ہوا، جو اس مضمون کے لکھے جانے تک مشکوک تھا جبکہ تیسرے مضمون نے تو پوری دنیا ہی بدل دی۔
آئن سٹام جرمنی کے جنوبی شہر اُلم میں 1879 میں پیدا ہوا اور میونخ میں پرورش پائی۔ ابتدائی زندگی سے کسی کو بھی اس کے مستقبل کے بارے خوش فہمی نہیں تھی۔ تین سال کی عمر تک تو اس نے بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ 1890 کی دہائی میں جب اس کے باپ کے بجلی کے ساز و سامان کی تجارت ڈوب رہی تھی تو ان کا خاندان میلان منتقل ہو گیا لیکن آئن سٹائن نے سوئٹزرلینڈ جا کر تعلیم جاری رکھی۔ تاہم پہلی بار امتحان میں اسے ڈگری نہیں ملی۔ 1896 میں اس نے جبری لام بندی سے بچنے کے لیے جرمن شہریت ترک کر دی اور زیورچ کے پولی ٹیکنیک ادارے میں 4 سال کے کورس میں داخلہ لیا جو ہائی سکول کے سائنس پڑھانے والے اساتذہ کو تیار کرتا تھا۔ ذہین تو تھا لیکن غیر معمولی ذہانت نہیں تھی۔
1900 میں اس ادارے میں داخلے کے چند ماہ بعد ہی اس نے مندرجہ بالا مضامین لکھنا شروع کر دیئے۔ اس کا پہلا مضمون تیل میں مائع کی حرکت سے متعلق تھا۔ یہ مضمون اسی شمارے میں چھپا جس میں میکس پلانک کا کوانٹم نظریہ چھپا تھا۔ 1902 سے 1904 تک اس نے شماریاتی میکانیات پر لگاتار کئی مضامین لکھے اور اسے پھر پتہ چلا کہ یہ کام 1901 میں کنکٹی کٹ کے گبز نے پہلے ہی لکھ کر چھپوا لیے تھے۔
اسی دوران آئن سٹائن کو اپنی ساتھی طالبہ میلیوا میرک سے محبت ہو گئی۔ 1901 میں ان کی قبل از شادی ایک بیٹی پیدا ہوئی جسے انہوں نے گود لینے کے لیے خفیہ طور پر کہیں بھیج دیا۔ آئن سٹائن نے اس بچی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ دو سال بعد ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ اسی دوران 1902 میں سوئس پیٹنٹ دفتر میں آئن سٹائن نے نوکری کر لی جو 7 سال جاری رہی۔ اسے اپنا کام پسند تھا کہ یہ کام اسے مصروف تو رکھتا تھا لیکن طبعیات کے لیے بھی اسے کافی وقت مل جاتا تھا۔ اس پسِ منظر کے ساتھ 1905 میں اضافیت کے خصوصی نظریے کی پیدائش ہوئی۔
‘متحرک اجسام کی الیکٹروڈائنامکس’ پر لکھا ہوا مضمون سائنسی لحاظ سے اہم ترین مضامین میں سے ایک ہے۔ اس کی اہمیت اور اس کو پیش کرنے کا انداز، دونوں ہی منفرد تھے۔ اس پر نہ تو کوئی حاشیے تھے، نہ ہی فٹ نوٹ، نہ ہونے کے برابر ریاضی اور نہ ہی اس سے قبل ہوئے ایسے کام کا کوئی حوالہ تھا اور صرف اپنے ایک دفتری ساتھی مچل بیسو کے تعاون کا ذکر تھا۔ ایک محقق کے مطابق آئن سٹائن نے محض اپنے تخیل کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا۔
اس کی مشہور مساوات E=mc2 اس مضمون کا حصہ نہیں تھی بلکہ چند ماہ بعد لکھے جانے والے اضافی متن میں شامل تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ E سے مراد توانائی، m سے مراد کمیت اور c2 سے مراد روشنی کی رفتار کا مربع ہے۔
سادہ الفاظ میں اس مساوات میں مادے اور توانائی کے درمیان موجود توازن کے بارے بتایا گیا ہے۔ یعنی مادہ اور توانائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ توانائی مادے سے نکلتا ہے تو مادہ توانائی کے پیدا ہونے سے پہلے کی حالت ہے۔ روشنی کی رفتار کا مربع بہت بڑی رقم بنتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ہر مادی شئے میں کتنی بڑی مقدار میں توانائی چھپی ہوئی ہے (c کیسے اس مساوات میں روشنی کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے، ذرا حل طلب معاملہ ہے۔ ایک سائنس دان کے مطابق یہ لاطینی لفظ celeritas سے نکلا ہے جس کا مطلب ‘سریع’ ہے۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری جو کہ آئن سٹائن کے نظریے سے ایک دہائی قبل چھپی تھی، میں c سے متعلق اشیاء میں کاربن سے لے کر کرکٹ تک سب لکھا ہے لیکن روشنی یا سرعت کے بارے کوئی تذکرہ نہیں )۔
عام حجم کے انسان ہونے کی حیثیت سے آپ کو محسوس نہیں ہو گا لیکن آپ کے اندر کم از کم 7 x 1018 جاؤل جتنی توانائی چھپی ہے جو بہت بڑے 30 ہائیڈروجن بموں سے نکلنے والی توانائی کے برابر ہے۔ ہر شئے میں ایسی ہی توانائی چھپی ہوتی ہے۔ ہمیں اس توانائی کو نکالنے کا طریقہ نہیں آتا۔ ایک ایٹم بم جو ہمارے لیے مادے سے توانائی پیدا کرنے کی سب سے بہترین تکنیک ہے، اصل مادے کے ایک فیصد سے بھی کم حصے کو توانائی میں بدلتی ہے۔
آئن سٹائن کے نظریے سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ تابکار مادے اتنی بڑی مقدار میں توانائی پیدا کرتے رہنے کے باوجود بھی پگھلتی ہوئی برف کی طرح چھوٹے نہیں ہوتے۔ قدرتی تابکاری آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق بہترین طور پر مادے کو توانائی میں بدلتی ہے۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کیسے ستارے اربوں سال تک اپنا ایندھن جلاتے رہتے ہیں اور ختم نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ روشنی کی رفتار سب سے زیادہ اور ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ کوئی بھی چیز روشنی سے آگے نہیں نکل سکتی۔ اس سے ہمیں کائنات کی حقیقت کو سمجھنے میں سہولت ہوئی اور اسی سے ایتھر کا غیر ضروری ہونا ثابت ہو گیا۔ آئن سٹائن نے ہمیں جو کائنات دی، اس میں ایتھر کی کوئی گنجائش تھی اور نہ کوئی ضرورت۔
طبعیات دان سوئس پیٹنٹ آفس کے کلرکوں کے مقالہ جات پر توجہ نہیں دیتے اور مفید ہونے کے باوجود شاید ہی کسی نے ان پر توجہ دی ہو۔ کائنات کے گہرے ترین اسراروں میں سے کئی کو حل کرنے کے بعد آئن سٹائن نے یونیورسٹی لیکچرار کی نوکری کے لیے درخواست دی اور ناکام رہا۔ پھر اس نے ہائی سکول استاد کے لیے درخواست دی جو مسترد ہوئی۔ آئن سٹائن واپس اپنی پرانی نوکری پر چلا گیا لیکن اس نے سوچنا جاری رکھا۔ ابھی اس کے لیے بہت کچھ کرنا باقی تھا۔
ایک بار جب آئن سٹائن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے خیالات کو کسی نوٹ بک پر لکھتا ہے تو اس نے حیران ہو کر جواب دیا کہ شاذ و نادر ہی اسے کوئی نیا خیال سوجھتا ہے۔ یاد رہے کہ آئن سٹائن کو آنے والے خیالات انتہائی بلکہ بعض کے خیال میں تو سب سے زیادہ اہم ترین خیالات ہوتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ خیالات انسانی ذہانت کی انتہا ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 1907 میں یا اس کے لگ بھگ آئن سٹائن نے ایک مزدور کو چھت سے نیچے گرتے دیکھا تو اس نے تجاذب پر غور شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے یہ خیال کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوجھا تھا۔
اصل میں آئن سٹائن کے ذہن میں تجاذب نہیں بلکہ اس کے حل کے بارے خیال آیا تھا کہ اس کے اضافیت کے خصوصی نظریے میں تجاذب غائب تھی۔ اضافیت کے خصوصی نظریے میں خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسے متحرک اجسام کے بارے ہے جن کو کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ تاہم اگر ایسی کسی چیز مثلاً روشنی کا سامنا کسی رکاوٹ مثلاً تجاذب سے ہو؟ اگلی دہائی کا زیادہ تر وقت آئن سٹائن نے اسی بارے سوچتے گزارا۔ اسی غور و فکر کا نتیجہ 1917 کے اوائل میں چھپنے والے ‘Cosmological Considerations on the General Theory of Relativity’ کی صورت میں سامنے آیا۔ اگرچہ اضافیت کا خصوصی نظریہ انتہائی اہم اور انقلابی دریافت تھی لیکن ایک محقق کے خیال میں اس کا وقت آ چکا تھا اور اگر آئن سٹائن اسے نہ بھی دریافت کرتا تو بھی پانچ سال میں کوئی اور اسے ضرور دریافت کر لیتا۔ تاہم اضافیت کا عمومی نظریہ یکسر مختلف شئے ہے۔ اسی محقق کے خیال میں اگر آئن سٹائن اسے نہ دریافت کرتا تو آج بھی ہم اس کے بغیر ہوتے۔
اپنے پائپ، پسِ منظر میں رہنے کی عادت اور کھڑے بالوں کی وجہ سے آئن سٹائن کا ہمیشہ گمنام رہنا ناممکن امر تھا اور 1919 میں جب پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا کو اچانک اس کے وجود کا علم ہوا۔ فوراً لوگوں کو یہ خیال آیا کہ اضافیت کے نظریے عام لوگوں کی سمجھ سے بہت اوپر کی چیز ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جب نیو یارک ٹائمز نے اس نظریے سے متعلق آئن سٹائن کا انٹرویو کرنے کا سوچا تو انہوں نے اپنے گالف کے نمائندہ ہنری کراؤچ کو انٹرویو کرنے بھیجا۔
کراؤچ بے چارہ اس صورتحال میں بے بس تھا اور اسے کسی بات کی سمجھ نہ آ سکی۔ دیگر غلطیوں کے علاوہ اس نے یہ بھی لکھا کہ اگرچہ اس کتاب کو پوری دنیا میں محض بارہ افراد سمجھ سکتے ہیں، پھر بھی آئن سٹائن کو اپنی کتاب چھپوانے کے لیے پبلشر بھی مل گیا ہے۔ ایسی کوئی کتاب تھی نہ کوئی پبلشر اور نہ ہی ایسے بارہ افراد، تاہم لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیل گئی۔ جلد ہی لوگوں کے خیال میں ایسے افراد کی تعداد مزید گھٹ گئی اور سائنسی حلقے اس غلط فہمی کے ازالے کی بجائے خاموش رہے۔
جب ایک صحافی نے برطانوی ماہرِ فلکیات سر آرتھر ایڈنگٹن سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آئن سٹائن کے اضافیت کے نظریات کو دنیا میں محض تین افراد سمجھتے ہیں تو ایک لمحہ خاموش رہ کر اس نے جواب دیا کہ، ‘میں سوچ رہا ہوں کہ تیسرا انسان کون ہو سکتا ہے۔ ‘ ان نظریات میں کوئی بہت زیادہ مشکل ریاضی یا دیگر علوم شامل نہیں بلکہ اس کو سمجھنے میں مشکل اس لیے پیش آتی ہے کہ یہ نظریات بغیر کسی پسِ منظر کے اور محض عقلی دلائل سے پیدا ہوئے تھے۔
اضافیت کے نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ وقت اور مقام مطلق نہیں بلکہ مشاہدہ کرنے والے پر منحصر ہوتے ہیں۔ مشاہدہ کرنے والا جتنا تیزی سے حرکت کرے گا، مشاہدات اتنا ہی تیز ہوتے جائیں گے۔ ہم کبھی روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتے اور جتنا ہم تیز ہوتے جائیں گے، مشاہدہ کرنے والے کے لیے ہم اتنے ہی دھندلے ہوتے جائیں گے۔
فوراً ہی سائنس دانوں نے ان نظریات کو عام فہم بنانے پر کام شروع کر دیا۔ ان میں سے زیادہ مشہور اور کاروباری لحاظ سے کامیاب کوشش برٹرنارڈ رسل کی تھی۔ رسل کی بنائی ہوئی تصویر آج تک استعمال ہو رہی ہے۔ رسل نے کہا کہ فرض کریں کہ 100 گز لمبی ٹرین ہے جو روشنی کی رفتار کے 60 فیصد پر حرکت کر رہی ہے۔ پلیٹ فارم سے گزرتے ہوئے وہاں پر کھڑے فرد کو یہ ٹرین 80 گز لمبی دکھائی دے گی اور اس میں موجود ہر چیز اسی طرح اپنے اصل حجم کا 80 فیصد دکھائی دے گی۔ اگر ہم ٹرین پر سوار افراد کی آوازیں سنیں تو وہ ایسے ہوں گی جیسے ریکارڈ کو ذرا کم رفتار پر چلایا جا رہا ہو اور ان کی حرکات بھی اسی تناسب سے دکھائی دیں گی۔ اسی طرح ٹرین پر موجود گھڑیاں بھی اصل رفتار کا 4/5 تیزی سے حرکت کر رہی ہوں گی۔
تاہم ٹرین پر موجود افراد کو ان تبدیلیوں کو علم نہیں ہو گا۔ ان کے لیے ہر چیز بالکل درست ہو گی۔ البتہ انہیں پلیٹ فارم پر موجود ہر چیز چھوٹی اور سُست دکھائی دے رہی ہو گی۔ یعنی سارا کمال مشاہدہ کرنے والے کے مقام پر ہے۔
جب بھی آپ حرکت کرتے ہیں تو یہی اثر پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ امریکہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہوائی جہاز سے سفر کریں تو وہ افراد جو پیچھے رہ گئے تھے، آپ سے ایک سیکنڈ کے ایک کھربویں حصے جتنا کم عمر ہوں گے۔ کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جاتے وقت آپ کی حرکت سے بھی وقت اور مکاں میں تبدیلی آتی ہے۔ اس بات کا حساب لگایا گیا ہے کہ ایک بیس بال جسے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکا جائے تو دورانِ سفر اس کے وزن میں 0.000000000002 گرام جتنا اضافہ ہو چکا ہو گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اضافیت کے اثرات حقیقی ہیں اور ان کی پیمائش کی جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں انتہائی معمولی ہوتی ہیں۔ تاہم کائنات میں دیگر اشیاء جیسا کہ روشنی، تجاذب اور کائنات بذاتِ خود، پر ان چیزوں کا کافی اثر ہوتا ہے۔
اگر ہمیں اضافیت کے نظریات عجیب لگتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عام زندگی میں ان اثرات کو نہیں دیکھ پاتے۔ تاہم اس سلسلے میں آواز سے متعلق ہمارا روزمرہ تجربہ سامنے آتا ہے۔ اگر آپ کسی پارک میں ہوں اور وہاں بلند آواز میں موسیقی چل رہی ہو تو آپ اس سے جتنا دور ہوتے جائیں گے، آواز اتنی کم ہوتی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ موسیقی تو اسی طرح چل رہی ہے، فرق محض ہمارے مقام کی وجہ سے پڑا ہے۔ تاہم کوئی ایسا جاندار مثلاً گھونگھا جو تیزی سے حرکت نہ کر سکتا ہو، اس کے لیے یہ خیال ہی انتہائی اچھوتا اور ناقابلِ فہم ہو گا۔
اضافیت کے عمومی نظریے کا سب سے مشکل اور ناقابلِ فہم حصہ وہ ہے جس میں وقت کو مکاں کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ ہم وقت کو مطلق، ازلی اور مسلسل جاری عمل سمجھتے ہیں جس کو روکنا ممکن نہیں۔ حقیقت میں آئن سٹائن کے خیال میں وقت متغیر اور مسلسل بدل رہا ہے۔ اس کی باقاعدہ شکل بھی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ کے خیال میں وقت سے ہمارا تعلق ایسے پیچیدہ طریقے سے جڑا ہوا ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں اور یہ بھی کہ مکاں کے تین عام ابعاد ہیں اور چوتھی بُعد سپیس ٹائم یعنی وقت-مکاں کہلاتی ہے۔
سپیس ٹائم کو سمجھنے کے لیے ایک گدے کی مثال لیتے ہیں جو چپٹا لیکن لچکدار ہے اور اس پر لوہے کی ایک بھاری گیند رکھی ہے۔ اس گیند کے وزن کی وجہ سے نیچے موجود گدے میں ہلکا سا خم پیدا ہوتا ہے۔ یہی اثر کسی بھی بھاری اجرامِ فلکی مثلاً سورج سے پیدا ہوتا ہے۔ اب آپ اس گدے پر کوئی ہلکے وزن کی گیند لڑھکائیں تو حرکت کے قانون کے مطابق اسے سیدھی لکیر میں حرکت کرنی چاہئے۔ لیکن بھاری گیند سے پیدا شدہ ڈھلوان کی جانب کھنچتے ہوئے چھوٹی گیند بڑی گیند کی طرف بڑھتی جائے گی۔ اسی عمل کو ہم تجاذب کا نام دیتے ہیں جو سپیس ٹائم میں پیدا ہونے والے خم کا نتیجہ ہے۔
کاسموس میں ہر چیز اپنی کمیت کے مطابق خم یا جھکاؤ پیدا کرتی ہے۔ تجاذب کوئی قوت نہیں بلکہ سپیس ٹائم کے جھکاؤ کا نتیجہ ہے۔
خم والے گدے کی تشبیہ ہمیں وقت کے اثرات کے بارے نہیں بتاتی لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس سے آگے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ تاہم اس بات پر سب اتفاق کریں گے کہ پیٹنٹ آفس کے نوجوان کلرک کی یہ سوچ بہت آگے کی تھی۔
آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات یا تو پھیل رہی ہے یا سکڑ رہی ہے۔ تاہم چونکہ آئن سٹائن ماہرِ فلکیات نہیں تھا، اس لیے اس نے اس دور کے عام نظریے کو قبول کیا جس کے مطابق کائنات ازلی اور ساکن ہے۔ اس نے شاید اسی وجہ سے فلکیاتی مستقل کو اپنی مساوات میں شامل کر دیا تاکہ تجاذب کے اثر کو معطل کر سکے۔ سائنسی تاریخ کی کتب آئن سٹائن کی اس غلطی کو نظرانداز کر دیتی ہیں لیکن آئن سٹائن اسے جانتا تھا اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بھیانک غلطی قرار دیتا تھا۔
قسمت دیکھئے کہ جب تجاذب کے اثر کو ختم کرنے کے لیے آئن سٹائن اضافیت کے نظریے میں ایک مستقل کا اضافہ کر رہا تھا تو اسی وقت لوویل کی رصد گاہ میں ویسٹو سلائیفر نامی ماہرِ فلکیات ایسے مشاہدے کر رہا تھا جن کے مطابق دور کے ستارے ہم سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ کائنات ساکن نہیں تھی۔ سلائیفر کے مشاہدے والے ستارے ڈاپلر اثر کو ظاہر کرتے تھے۔ عین اسی اثر کے مطابق کار دوڑ میں آپ کو اپنی طرف آتی کار کی آواز میں اس وقت اچانک تبدیلی محسوس ہوتی ہے جب کار آپ کے پاس سے گزر کر جاتی ہے (اس اثر کا نام آسٹریا کے طبعیات دان جوہن کرسچیان ڈاپلر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب متحرک جسم کسی ساکن جسم کی طرف جاتا ہے تو آواز کی لہریں ساکن جسم کی طرف جاتے ہوئے سکڑتی جاتی ہیں جس کی وجہ سے آواز باریک ہوتی جاتی ہے۔ جب متحرک جسم ساکن جسم کے پاس سے گزر جاتا ہے تو آواز کی لہریں پھر پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں اور آواز بھاری اور مدھم ہوتی جاتی ہے )۔ یہی عمل روشنی کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ہم سے دور ہوتی کہکشاؤں کی روشنی سرخ جھکاؤ یعنی ریڈ شفٹ کا شکار ہوتی ہے۔ ہم سے قریب ہوتی کہکشاں کی روشنی طیف کے نیلے رنگ کی طرف منتقل ہوتی محسوس ہو گی۔
سلائیفر نے روشنی کا یہ اثر سب سے پہلے محسوس کیا اور کائنات کی حرکات سے متعلق اس کی اہمیت بھی جانی۔ بدقسمتی سے کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ سلائیفر کو آئن سٹائن کے بارے اور دنیا کو سلائیفر کے کام کے بارے کچھ علم نہ تھا۔
اس دریافت کا سہرہ ایڈون ہبل کے سر بندھا۔ ہبل 1889 میں آئن سٹائن کے دس سال بعد پیدا ہوا اور شکاگو کے باہر ویٹن نامی مضافاتی علاقے میں پرورش پائی۔ اس کا باپ کامیاب انشورنس افسر تھا اور ہبل کے لیے زندگی ہمیشہ ہی آسان رہی تھی۔ ہبل نہ صرف بہترین کھلاڑی تھا بلکہ پُر کشش، ذہین اور انتہائی خوبصورت بھی تھا۔ اس کے علاوہ لائف گارڈ، فرانس کے میدانِ جنگ میں خوفزدہ افراد کو محفوظ جگہ تک پہچانا، عالمی چیمپئن باکسروں کو نمائشی میچوں میں انتہائی آسانی سے ہرا دینا اس کے لیے عام سی بات تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہبل پیدائشی جھوٹا تھا۔
پیدائش سے ہی ہبل کی انتہائی ذہانت ظاہر تھی۔ ایک بار ہائی سکول کے کھیلوں میں 1906 میں ہبل نے پول والٹ، شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو، ہیمر تھرو، سٹینڈنگ ہائی جمپ اور رننگ ہائی جمپ کے علاوہ ریلے ٹیم میں سات کھیلوں میں پہلے نمبر پر اور لانگ جمپ میں تیسرے نمبر پر آیا۔ اسی سال اس نے ایلنوائس میں ہائی جمپ کا ریاستی ریکارڈ بنایا۔
تعلیمی لحاظ سے بھی اس کی کامیابیاں ظاہر تھیں۔ اسے یونیورسٹی آف شکاگو میں داخلے میں کوئی مشکل نہ ہوئی اور وہاں اس نے طبعیات اور فلکیات کی تعلیم پائی۔ اسے آکسفورڈ میں اولین رہوڈز سکالرز میں سے ایک بنایا گیا۔ بعد میں اس نے کینٹکی میں قانون کی پریکٹس کے علاوہ ہائی سکول کے استاد اور باسکٹ بال کے کوچ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ بعد میں اس نے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی اور فوج میں بھی مختصر عرصہ گزارا جو جنگ بندی کے ایک ماہ بعد فرانس میں گزرا۔
1919 میں 30 سال کی عمر میں ہبل کیلیفورنیا منتقل ہوا اور ماؤنٹ ولسن کی رصد گاہ میں نوکری کر لی جو لاس اینجلس کے پاس ہے۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے اپنی شناخت اس صدی کے بہترین ماہرِ فلکیات کے طور پر کرا لی۔
ذرا دیکھتے ہیں کہ اس وقت کائنات کے بارے کتنی کم معلومات ہوتی تھیں۔ آج کے ماہرینِ فلکیات کے مطابق ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات میں 140 ارب کہکشائیں ہیں جو ناقابلِ فہم حد تک بڑی تعداد ہے۔ اگر ہر کہکشاں کو ہم مٹر کا دانہ سمجھ لیں تو یہ تعداد ایک بڑے آڈیٹوریم کو بھرنے کو کافی ہیں اور یہ حساب ایک آسٹروفزسٹ بروس گریگری لگا چکا ہے۔ 1919 میں جب ہبل نے دوربین کی مدد سے کائنات کا مشاہدہ شروع کیا تو اس وقت کائنات میں موجود کہکشاؤں کی معلوم تعداد صرف ایک تھی جو ہماری اپنی کہکشاں ہے۔ اس کے علاوہ دکھائی دینے والی ہر چیز یا تو ہماری کہکشاں کا ہی کوئی دور واقع حصہ ہیں یا محض گیسی مجموعے۔ ہبل نے اس غلط فہمی کو دور کیا۔
اگلی دہائی کے دوران ہبل نے کائنات سے متعلق دو اہم ترین سوالات پر کام کیا کہ کائنات کتنی پرانی ہے اور کتنی بڑی۔ ان دونوں سوالات کا جواب دینے کے لیے دو باتیں جاننا لازمی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مخصوص کہکشائیں ہم سے کتنی دور ہیں اور یہ کہ ان کے دور جانے کی کیا رفتار ہے۔ ریڈ شفٹ سے ہمیں کہکشاں کی دور ہونے کی رفتار کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہکشاں ہم سے کتنی دور ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ‘معیاری موم بتیوں ‘ یعنی سٹینڈرڈ کینڈلز کی ضرورت پڑتی ہے جو ایسے ستارے ہوتے ہیں جن کی روشنی کو ہم درست طور پر ماپ سکتے ہیں اور ان کی روشنی کے حوالے سے دیگر ستاروں کی روشنی اور ان کا فاصلہ جان سکتے ہیں۔
ہبل کی خوش قسمتی دیکھئے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ہینریٹا سوان لیووٹ نامی ایک ذہین خاتون نے ان ستاروں کا فاصلہ جاننے کا طریقہ وضع کیا تھا۔ یہ خاتون ہارورڈ کالج کی رصد گاہ میں بطور کمپیوٹر کام کرتی تھی۔ ان کمپیوٹروں کا کام فوٹوگرافک پلیٹوں کا معائنہ کر کے ستاروں کے بارے مختلف حساب کتاب کرنا ہوتا تھا۔ ان دنوں خواتین کو ہارورڈ یا کسی بھی جگہ اس سے زیادہ بڑا عہدہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اس نظام کی خامیوں سے قطع نظر، اس کے کئی غیر متوقع فوائد بھی تھے۔ ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ذہین ترین افراد کی آدھی تعداد ایسے کام کو کرتی تھی جسے بصورتِ دیگر کرنے کے لیے کوئی تیار نہ ہوتا اور یہ بھی کہ کائنات کی خوبصورتی کو سمجھنا عورتوں کے لیے آسان تھا جو مرد شاید کبھی نہ سمجھ پاتے۔
ہارورڈ کی ایک کمپیوٹر این جمپ کینن نے مختلف ستاروں کو بار بار دیکھتے رہنے سے ان کی درجہ بندی کا ایک نظام وضع کیا جو آج تک استعمال ہو رہا ہے۔ لیووٹ کا کردار اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس نے یہ بات جانی کہ سیفائیڈ ویری ایبل نامی ستارے کے جھلملانے کا ایک مخصوص دورانیہ ہے۔ اسے اجرامِ فلکی کی دھڑکن کہا جاتا ہے۔ سفیائیڈ ستارے بہت کم پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے ایک ستارہ ہم سب جانتے ہیں جو قطبی ستارہ ہے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ سیفائیڈ ستارے اپنے عروج کا وقت گزار کر اب سرخ دیو بن چکے ہوتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ یہ ستارے اپنا بقیہ ایندھن اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ نتیجتاً باقاعدہ وقفوں سے روشن اور مدھم ہوتے ہیں۔ لیووٹ نے یہ سوچا کہ اس طرح کے ہر ستارے کے روشن اور مدھم ہونے کے دورانیے کا مشاہدہ کر کے ہم ایسے مختلف ستاروں کا باہمی فاصلہ جان سکتے ہیں۔ لیووٹ نے ہی سٹینڈرڈ کینڈل کی اصطلاح وضع کی جو آج تک استعمال ہو رہی ہے۔ تاہم اس طرح ان ستاروں کا باہمی فاصلہ تو جانا جا سکتا ہے لیکن زمین سے ان کا فاصلہ جاننا ممکن نہیں۔ تاہم کائنات کے وسیع فاصلوں کو ماپنے کا پہلا طریقہ وضع ہو چکا تھا۔
ذرا سوچئے کہ جب یہ لیووٹ اور کینن فوٹوگرافک پلیٹوں پر موجود معمولی روشن دھبوں کی مدد سے کائنات کی بنیادی خصوصیات پر کام کر رہی تھیں تو اس وقت ہارورڈ کا ماہرِ فلکیات ولیم پِکرنگ (جس کی دسترس میں بہترین دوربینیں تھیں ) اس نظریے پر کام کر رہا تھا کہ چاند پر موجود تاریک دھبے در اصل موسم کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے پتنگوں کے غول ہیں۔
لیووٹ کے حساب کتاب اور ویسٹو سلائیفر کے ریڈ شفٹ کو ملا کر ہبل نے نئے سرے سے کائنات کے مختلف حصوں کو دیکھنا شروع کیا۔ 1923 میں اس نے ثابت کیا کہ اینڈرومیڈا میں دکھائی دینے والا ننھا سا جالا در اصل ایک کہکشاں ہے جو 1 لاکھ نوری سال وسیع اور ہم سے کم از کم 9 لاکھ نوری سال دور ہے۔ اس وقت کے تصور کے برعکس کائنات انتہائی وسیع نکلی۔ 1924 میں ہبل نے اپنے مشہورِ زمانہ مقالے Cepheids in Spiral Nebulae میں واضح کیا کہ کائنات میں محض ہماری کہکشاں ہی نہیں بلکہ بے شمار دوسری کہکشائیں بھی ہیں جن میں سے بہت ساری ہماری کہکشاں سے بڑی اور بہت دور بھی ہیں۔
اکیلی یہی دریافت ہبل کو امر کر دینے کو کافی تھی مگر اس نے اس سے بھی زیادہ اہم دریافت کی۔ ہبل نے دور دراز کی کہکشاؤں کے طیف کو ماپنا شروع کیا۔ اس نے ماؤنٹ ولسن کی نئی 100 انچ والی ہُکر دوربین کی مدد سے کام کرتے ہوئے 1930 کی دہائی تک یہ بات واضح جان لی کہ ہمارے مقامی مجموعے کے علاوہ باقی تمام کہکشائیں ہم سے دور جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا فاصلہ اور ان کی رفتار براہ راست متناسب ہیں یعنی جو کہکشاں جتنی دور ہے، اتنی تیزی سے حرکت کر رہی ہے۔
یہ دریافت حیران کن تھی کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ یہ پھیلاؤ ہر سمت میں یکساں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر کائنات آج پھیل رہی ہے تو ماضی میں کسی وقت وہ ایک ہی جگہ ایک مقام پر جمع ہو گی جہاں سے یہ پھیلاؤ شروع ہوا۔ یعنی ازل سے موجود، مستحکم اور مستقل کائنات کی بجائے اب کائنات کو نکتہ آغاز مل گیا تھا۔ اس سے یہ بھی امکان پیدا ہوتا ہے کہ اگر کائنات کا آغاز ہے تو اس کا انجام بھی ممکن ہے۔
سٹیفن ہاکنگ نے اس امر پر حیرت ظاہر کی ہے کہ پھیلتی کائنات کے بارے پہلے کسی نے سوچا تک نہ تھا۔ نیوٹن اور دیگر تمام ماہرینِ فلکیات کو یہ بات سمجھنی چاہئے تھی کہ ساکن کائنات سمٹ کر اپنے اندر سما جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر کائنات ازل ہے تو اس میں موجود ستاروں کی پیدا کردہ حرارت سے کائنات کا مجموعی درجہ حرارت انتہائی بڑھ چکا ہوتا۔ اس مسئلے کو پھیلتی کائنات کے نظریے نے حل کر دیا تھا۔
ہبل سوچنے سے زیادہ مشاہدہ کرنے میں کامیاب رہتا تھا اور اسی وجہ سے اسے اس بات کو سمجھنے میں وقت لگا کہ اس نے کیا دریافت کیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اسے آئن سٹائن کے عمومی نظریہ برائے اضافیت کے بارے علم نہیں تھا حالانکہ آئن سٹائن اور اس کا نظریہ اب پوری دنیا میں مشہور ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ 1929 میں البرٹ مچلسن نے ماؤنٹ ولسن میں روشنی کی رفتار کو اپنے آلے سے ماپنے کی ذمہ داری اٹھا لی تھی اور اندازہ ہے کہ اس نے لازمی طور پر آئن سٹائن کے نظریے کو اپنی دریافتوں پر لاگو کرنے کے بارے بات کی ہو گی۔
بہرحال، وجہ جو بھی ہو، ہبل نظریاتی اعتبار سے کوئی بڑی تبدیلی لانے میں ناکام رہا اور یہ نظریہ بعد میں بیلجین پادری اور عالم جارجز لیماتر پر منکشف ہوا۔ لیماتر ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی کر چکا تھا۔ اس نے ان دونوں نظریات کو ملا کر اپنا نظریہ پیش کیا کہ کائنات کی ابتداء ایک وحدت سے ہوئی جو اب مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔ جدید دور کے بگ بینگ کا پیش خیمہ سمجھ سکتے ہیں لیکن یہ بات اتنی قبل از وقت تھی کہ لیماتر کو تاریخ میں ایک یا دو سطروں جتنی جگہ ہی ملتی ہے۔ کئی دہائیوں اور کاسمک بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن کی دریافت کے بعد جا کر ہی بگ بینگ کو ٹھوس نظریہ سمجھا گیا۔
ہبل اور آئن سٹائن، دونوں اس سے محروم رہ گئے۔ اگرچہ اس وقت لوگوں کو علم نہیں تھا لیکن یہ دونوں اپنا اپنا کردار ادا کر چکے تھے۔
1936 میں ہبل نے مشہور کتاب لکھی جس کا نام The Realm of the Nebulae تھا جس میں ہبل نے اپنے کارناموں کی خوب تعریف کیں۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ہبل کو آئن سٹائن کے نظریات سے کچھ نہ کچھ آگہی ضرور تھی کہ اس نے 200 صفحات کی کتاب کے 4 صفحات اس کے لیے مختص کیے تھے۔
ہبل 1953 میں دل کے دورے سے فوت ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کی بیوی نے آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کیا اور آج تک یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ آخر اس کی لاش کا کیا ہوا۔ اگر آپ کو ہبل کی یادگار دیکھنی ہو تو آسمان کی طرف منہ کر کے ہبل خلائی دوربین کو دیکھ لیجئے جو 1990 میں چھوڑی گئی تھی اور ہبل سے منسوب ہے۔
٭٭٭
9 طاقتور ایٹم
جب آئن سٹائن اور ہبل کائنات کے بنیادی ڈھانچے کو بے نقاب کرنے میں لگے تھے تو دیگر سائنس دان ننھے اور حیران کن ایٹم پر کام جاری رکھے ہوئے تھے۔
کالٹیک کے رچرڈ فین مین نے ایک بار لکھا کہ اگر آپ تمام تر سائنسی تاریخ کو ایک فقرے میں بیان کرنا چاہیں تو یہ فقرہ کافی رہے گا ‘تمام چیزیں ایٹموں سے بنی ہیں۔ ‘ ہر جگہ ایٹم موجود ہیں اور ہر چیز انہی سے بنتی ہے۔ اپنے اردگرد دیکھیں، ہر طرف ایٹم ہی ایٹم ہیں۔ نہ صرف ٹھوس اجسام جیسا کہ میز، کرسی وغیرہ بلکہ ہوا بھی ایٹموں سے بنی ہے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
ایٹموں سے بننے والی بنیادی اکائی مالیکیول کہلاتی ہے جو لاطینی زبان کا لفظ ہے، یعنی ‘چھوٹی جسامت’۔ مالیکیول دو یا دو سے زیادہ ایٹموں سے مل کر بنتا ہے۔ ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کا ایک ایٹم ملائیں تو پانی کا ایک مالیکیول بن جاتا ہے۔ کیمیا دان ایٹموں کی بجائے عناصر کو مالیکیول کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے آپ لکھتے ہوئے حروف کی بجائے الفاظ کے بارے سوچتے ہیں۔ مالیکیولوں کی تعداد بھی انتہائی زیادہ ہے۔ سطح سمندر پر صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک مکعب سینٹی میٹر ہوا میں 45 ارب ارب مالیکیول ہوتے ہیں۔ یہ تعداد آپ کے اردگرد موجود آپ تک پہنچنے سے قبل یقیناً کئی ستاروں اور کروڑوں جانداروں کا حصہ بھی رہ چکی ہو گی۔ انسان کے مرتے ہی ایٹموں کی اتنی بڑی مقدار خارج ہو کر دوبارہ استعمال ہوتی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ہمارے جسم میں موجود تقریباً ایک ارب ایٹم شاید شیکسپیئر کا حصہ رہ چکے ہوں۔ اتنے ہی ایٹم مہاتما بدھ اور اتنے ہی چنگیز خان اور دیگر تاریخی شخصیات سے آئے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ایٹموں کو دوبارہ استعمال ہونے میں کئی دہائیاں لگتی ہیں۔ اسی وجہ سے شاید ایلوس پریسلے کے ایٹم ہم تک نہیں پہنچے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ہم سب ہی تناسخ ہیں۔ جب ہم مریں گے تو ایٹم آزاد ہو کر پھر کسی اور چیز کو بنانے میں لگ جائیں گے، چاہے وہ گھاس کا پتہ ہو، انسان یا شبنم کا قطرہ۔ تاہم ایٹم ایک طرح سے لازوال ہوتے ہیں۔ مارٹن ریس کے مطابق ایٹموں کی اوسط عمر 1035 سال ہوتی ہے جو اتنا بڑا نمبر ہے کہ میں بھی اسے اس طرح لکھتے ہوئے خوش ہوں۔
اس کے علاوہ ایٹم انتہائی ننھا سا ہوتا ہے۔ ایک انسانی بال جتنی چوڑی جگہ پر پانچ لاکھ ایٹم بہ آسانی سما سکتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کی جسامت کا اندازہ کرنا آسان تو نہیں لیکن کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔
ملی میٹر سے شروع کرتے ہیں جو۔ کے برابر ہے۔ اس لکیر کو ہم 1000 برابر حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہر حصہ ایک مائیکرون کہلاتا ہے۔ میٹھے پانی میں موجود یک خلوی جاندار جیسا کہ پیرامیشیم دو مائیکرون کے برابر ہوتے ہیں یعنی 0.002 ملی میٹر۔ اگر آپ خورد بین کے بغیر پیرامیشم کو پانی کے قطرے میں تیرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس قطرے کو 12 میٹر جتنا بڑا کرنا پڑے گا۔ تاہم اگر آپ اسی قطرے میں ایک ایٹم کو دیکھنا چاہیں تو اسی قطرے کو 24 کلومیٹر چوڑا کرنا پڑے گا۔
ایٹموں کی جسامت انتہائی مختصر ہوتی ہے۔ اگر آپ ایٹم کا حجم دیکھنا چاہتے ہیں تو مندرجہ بالا ایک مائیکرون کو مزید 10,000 حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ یعنی ایک ملی میٹر کا ایک کروڑواں حصہ۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک ایٹم کو اگر ایک کاغذ کی موٹائی سمجھا جائے تو ایک ملی میٹر اس تناسب سے ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کے برابر ہو گا۔
ایٹموں کی اس مختصر جسامت کے باوجود ان کی کثرت اور ان کی طویل عمر ہی انہیں فائدہ مند بناتی ہے۔ انتہائی مختصر جسامت کی وجہ سے ان کا مطالعہ اور ان کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایٹموں کی تین خوبیاں یعنی چھوٹے، بکثرت اور ناقابلِ شکست ہونے کی وجہ سے جان ڈالٹن ہی پہلا انسان تھا جس نے یہ بتایا کہ تمام چیزیں ایٹموں سے بنتی ہیں۔
جان ڈالٹن 1766 میں برطانیہ میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ شروع سے ہی وہ انتہائی ذہین طالبعلم تھا۔ 12 سال کی عمر میں اسے سکول کا انچارج بنا دیا گیا۔ اسی عمر میں اس نے نیوٹن کی Principia کا لاطینی زبان میں مطالعہ شروع کر دیا اور اسی نوعیت کے دیگر سنجیدہ سائنسی موضوعات کو پڑھا۔ 15 سال کی عمر میں سکول ماسٹری کرتے ہوئے اس نے نزدیکی قصبے میں بھی ملازمت اختیار کر لی۔ دس سال بعد اس نے مانچسٹر کا رخ کیا اور بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ مانچسٹر پہنچ کر اس نے ذہانت کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اس نے مسلسل کتب اور مقالہ جات چھپوانا شروع کر دیے جو موسمیات سے لے کر گرائمر تک، بے شمار موضوعات پر تھے۔ رنگ کوری پر اس کی تحقیقات کی وجہ سے اس بیماری کو طویل عرصے تک ڈالٹنیزم کے نام سے بھی جانا جاتا رہا کہ ڈالٹن خود بھی رنگ کوری کا شکار تھا۔ تاہم اس کی شہرت کا اصل سبب 1808 میں چھپنے والی کتاب A New System of Chemical Philosophy تھی۔
900 سے زائد صفحات کی کتاب میں سے محض پانچ صفحات پر ڈالٹن نے پہلی بار ایٹموں کے موجودہ نظریے کو بیان کیا۔ ڈالٹن کی سوچ یہ تھی کہ تمام تر مادہ انتہائی چھوٹے اور ناقابلِ تقسیم ایٹموں سے بنا ہے۔ اس نے لکھا کہ ہائیڈروجن کے ایک ایٹم کو بنانا یا ختم کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ہمارے نظامِ شمسی کے کسی سیارے کو تباہ کرنا یا کسی نئے سیارے کو بنانا۔
تاہم ایٹم کا نظریہ یا نام کوئی نئی بات نہیں۔ یونانی ان دونوں کو متعارف کرا چکے تھے۔ ڈالٹن کا کارنامہ ان کی ساخت، جسامت اور باہمی تعامل جاننا تھا۔ اسے علم تھا کہ ہائیڈروجن کا ایٹم سب سے ہلکا ہوتا ہے اس لیے اس نے ہائیڈروجن کا ایٹمی وزن ایک رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ پانی میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کا تناسب 1 اور 7 ہے۔ اس طرح ڈالٹن نے معلوم عناصر کے اوزان کے بارے اندازے لگائے۔ تاہم اس نے بہت غلطیاں بھی کیں، مثلاً آکسیجن کا وزن 7 نہیں بلکہ 16 ہے۔ تاہم اس کا بنیادی خیال نہ صرف جدید کیمیا بلکہ جدید سائنس کی بھی بنیاد بنا۔
اس کام کی وجہ سے ڈالٹن کو کچھ شہرت ملی۔ 1826 میں جب فرانسیسی کیمیا دان پیلٹیئر نے مانچسٹر جا کر اپنے ہیرو سے ملنے کا فیصلہ کیا تو اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ ڈالٹن کسی بہت مشہور ادارے سے وابستہ ہونے کی بجائے ایک گلی میں چھوٹے سے سکول میں بچوں کو بنیادی ریاضی پڑھا رہا تھا۔
اگرچہ ڈالٹن نے ہر ممکن طور پر شہرت سے بچنے کی کوشش کی لیکن اسے رائل سوسائٹی کا رکن بنا دیا گیا۔ اس پر تمغوں کی برسات ہوئی اور معقول سرکاری پنشن بھی ملی۔ جب 1844 میں وفات پائی تو اس کے آخری دیدار کے لیے 40,000 افراد جمع ہوئے اور جنازے کی لمبائی 2 میل تھی۔ ڈکشنری آف نیشنل بائیوگرافی میں ڈالٹن کی تفصیل طویل ترین تفاصیل میں سے ایک ہونے کے علاوہ طوالت میں محض ڈارون اور لائل سے کم ہے۔
ڈارون کے نظریے کے سو سال بعد تک ایٹموں کی موجودگی محض نظریاتی تھی اور کئی بڑے سائنس دان جیسا کہ ارنسٹ ماخ (جس کے نام پر آواز کی رفتار رکھی گئی ہے ) وغیرہ تو اس خیال سے بالکل ہی منکر تھے۔ ماخ نے لکھا کہ ایٹموں کو حواسِ خمسہ سے نہیں جانا جا سکتا، اس لیے یہ محض تخیلاتی ہیں۔ اس دور میں جرمن بولی جانے والی سائنسی دنیا میں ایٹموں کی موجودگی کے بارے ایسے ہی نظریات پائے جاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اسی مخالفت کی وجہ سے مشہور نظریاتی طبعیات دان لڈویک بولٹزمین نے 1906 میں خودکشی کر لی تھی۔
آئن سٹائن نے 1905 میں براؤنین حرکت کے بارے اپنے مضمون میں ایٹموں کی موجودگی کا یقینی ثبوت دیا۔ تاہم اس پر کم ہی توجہ دی گئی اور آئن سٹائن جلد ہی اضافیت کے نظریات پر کام میں مصروف ہو گیا۔ اس طرح ایٹمی دور کا سب سے اہم فرد ارنسٹ ردرفورڈ بنا۔
ردرفورڈ 1871 میں نیوزی لینڈ میں سکاٹ لینڈ سے ہجرت کر کے آنے والے خاندان میں پیدا ہوا جن کے پاس تھوڑی زمین اور ڈھیر سارے بچے تھے۔ اس کی رہائش گاہ انتہائی دور دراز علاقے میں تھی جہاں اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن اس نے 1895 میں وظیفہ جیتا اور کیمبرج یونیورسٹی کی کیونڈش لیبارٹری میں تعلیم حاصل کرنے آن پہنچا۔ یہ جگہ طبعیات کے حوالے سے دنیا کو حیران کرنے والی تھی۔
طبعیات دان دوسرے مضامین کے سائنس دانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ جب آسٹریا کے طبعیات دان ولف گینگ پاؤلی کی بیوی اسے چھوڑ کر کیمیا دان کے ساتھ بھاگ گئی تو پاؤلی کو یقین نہ آیا۔ اس کے تاثرات یہ تھے ‘اگر وہ بُل فائٹر کے ساتھ بھی بھاگ جاتی تو میں سمجھ سکتا تھا لیکن کیمیا دان۔ ۔ ۔؟’
ایک بار ردرفورڈ نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ‘سائنس یا تو طبعیات ہے یا پھر ٹکٹ جمع کرنا’۔ شومیِ قسمت کہ 1908 میں ردرفورڈ کو ملنے والا نوبل انعام طبعیات کا نہیں بلکہ کیمیا کا تھا۔
ردرفورڈ کی خوش قسمتی کہ اس کے ذہین ہونے کے علاوہ اس کے دور میں کیمیا اور طبعیات ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ اس کے بعد سے دونوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
تمام تر کامیابیوں کے باوجود ردرفورڈ بہت ذہین نہیں تھا اور ریاضی میں اسے مشکل پیش آتی تھی۔ اکثر لیکچر کے دوران اپنی ہی لکھی ہوئی مساواتوں میں الجھ جاتا اور آخر طلباء کو کہتا کہ وہ اپنے آپ ہی ان مساوات کو حل کر لیں۔ اس کے قریبی ساتھی جیمز چیڈوِک کے مطابق (جس نے نیوٹران دریافت کیا تھا) کا خیال تھا کہ ردرفورڈ تجربات کرنے میں زیادہ ذہین نہیں تھا۔ اس کی اصل خوبی مستقل مزاجی اور کھلے ذہن کا مالک ہونا تھا۔ ذہانت کی کمی کو اس نے اپنے اطوار سے پورا کیا۔ اس کی سوانح حیات لکھنے والے ایک فرد کے مطابق ردرفورڈ ہمیشہ انتہائی دور کی سوچتا تھا جو اسے دیگر ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی۔ جتنا مشکل مسئلہ پیش آتا، اتنا ہی محنت اور سخت جانی سے وہ اس پر کام کرتا اور ہر قسم کے غیر روایتی نظریات کو بھی قبول کرنے کو تیار رہتا۔ سکرین کے سامنے بیٹھ کر انتہائی جانفشانی سے گھنٹوں الفا ذرات سے پیدا ہونے والے جھماکوں کو گنتا رہتا۔ ایٹم میں چھپی طاقت کو دیکھنے والا شاید وہ پہلا انسان تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اگر اس طاقت کو قابو کر لیا جائے تو ان بموں سے پوری دنیا کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔
جسمانی طور پر بہت بڑا اور بھاری آواز کا مالک تھا۔ ایک بار جب کسی نے بتایا کہ ردرفورڈ بحرِ اوقیانوس کے پار ریڈیو کے سگنل بھیجنے لگا ہے تو اس کے ساتھی نے رسان سے پوچھا، ‘اس کام کے لیے ریڈیو کی کیا ضرورت۔ ‘ اس کے علاوہ اس کی برجستگی بھی قابلِ تعریف تھی۔ ایک بار کسی نے پوچھا ‘آپ ہمیشہ موج پر سوار رہتے ہیں۔ ‘ تو اس نے فوراً جواب دیا ‘موج کو میں نے ہی دریافت کیا تھا نا’۔ ایک بار اسے یہ کہتے سنا گیا ‘میں روز چوڑائی اور عقل، دونوں میں بڑھتا ہوں ‘۔
1895 میں جب وہ کیونڈش پہنچا تو اس کی موٹائی اور شہرت، دونوں ہی اس سے آگے بڑھ چکی تھیں۔ یہ دور سائنس کے لیے یادگار تھا۔ اسی سال ویل ہل رونتگن نے ایکس رے دریافت کیں، اگلے سال ہنری بیکرل نے تابکاری دریافت کی۔ کیونڈش کے عروج کا طویل دور شروع ہونے والا تھا۔ 1897 میں جے جے تھامپسن نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے الیکٹران دریافت کیا۔ 1911 میں ولسن نے پہلا پارٹیکل ڈیٹکٹر بنایا اور 1932 میں جیمز چیڈوِک نے نیوٹران دریافت کیا۔ 1953 میں جیمز واٹسن اور فرانسز کرک نے ڈی این اے کی ساخت کیونڈش میں ہی دریافت کی۔
ابتدا میں ردرفورڈ نے ریڈیائی لہروں پر کام کیا اور ایک میل سے بھی زیادہ فاصلے تک بہترین سگنل بھیجے جو اس دور کے اعتبار سے بہت بڑی کامیابی تھی۔ تاہم جب اس کے سینئر نے اسے بتایا کہ ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ تین سال تک کیونڈش میں رہنے کے بعد اس نے سوچا کہ آگے بڑھنے کے لیے یہاں سے نکلنا ہو گا اور اس نے مانٹریال کی میکگل یونیورسٹی میں نوکری کر لی۔ یہاں اس کے عروج کا آغاز ہوا۔ نوبل انعام ملنے تک (عناصر کی تقسیم پر تحقیق اور تابکار عناصر کی کیمیا پر کیا گیا کام) وہ مانچسٹر یونیورسٹی منتقل ہو چکا تھا اور وہیں اس نے اپنی زندگی کا اہم ترین کام کیا جو ایٹم کی ساخت اور اس کی بناوٹ پر تھا۔
19ویں صدی تک یہ بات واضح ہو چلی تھی کہ ایٹم مزید چھوٹے ذرات سے بنتے ہیں۔ تھامسن نے الیکٹران کی دریافت سے یہ بات ثابت کر دی تھی۔ تاہم ایٹم میں موجود ذرات کی تعداد اور ان کی شکل اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح جڑتے ہیں، کے بارے کچھ معلوم نہ تھا۔ کچھ طبعیات دان کے خیال میں ایٹم مکعب شکل کے ہو سکتے تھے کہ اس طرح وہ ایک دوسرے کے ساتھ بغیر جگہ کے جڑ سکتے ہیں۔ تاہم عام نظریہ یہ تھا کہ ایٹم کی ساخت کشمش والے بن جیسی ہے جو ٹھوس ہو اور اس میں مثبت چارج موجود ہو اور جگہ جگہ منفی چارج بھی، جیسے بن میں کشمش ہوتی ہے۔
1910 میں ردرفورڈ نے اپنے طالبعلم ہانس گائے گر (جس نے تابکاری جانچنے والا آلہ گائے گر بنایا تھا) کی مدد سے آئیونائزڈ ہیلئم ایٹموں یعنی الفا پارٹیکلز کو سونے کی پتلی سی تہہ پر فائر کیا۔ ردرفورڈ کی حیرت دیکھیے کہ بعض الفا پارٹیکل ایسے واپس مڑے جیسے کسی ٹھوس چیز سے ٹکرائے ہوں۔ بقول اس کے، یہ ایسے ہی تھا جیسے آپ پندرہ انچ دہانے کی توپ کاغذ پر چلائیں اور توپ کا گولہ ٹکرا کر واپس مڑ جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بہت غور و خوض کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ یہ ایٹم ضرور کسی ٹھوس لیکن انتہائی مختصر حجم کی چیز سے ٹکرائے ہوں گے جو ایٹم کے اندر ہو گی۔ جبکہ الفا ذرات کی اکثریت سیدھی گزر گئی۔ ردرفورڈ نے جانا کہ ایٹم زیادہ تر خالی ہوتا ہے اور اس کے عین درمیان انتہائی کثیف مرکزہ ہوتا ہے۔ یہ بہت عظیم دریافت تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ تمام تر روایتی طبعیات کی رو سے ایٹم کو ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔
ذرا دیر کو یہاں رک کر ہم دیکھتے ہیں کہ ایٹم کی ساخت ہمارے موجودہ علم کے مطابق کیسی ہے۔ ہر ایٹم تین بنیادی ذرات سے مل کر بنتا ہے جو مثبت بار والے پروٹان، منفی بار والے الیکٹران اور بغیر کسی بار کے نیوٹران ہیں۔ پروٹان اور نیوٹران مرکزے کے اندر ٹھسے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ الیکٹران اس کے باہر گردش کرتے ہیں۔ پروٹان کی تعداد سے ایٹم کو اس کی کیمیائی شناخت ملتی ہے۔ ایک پروٹان والا ایٹم ہائیڈروجن کا ہوتا ہے، دو والا ہیلیم، تین والا لیتھیم اور اسی طرح دیگر عناصر ہیں۔ ہر مرتبہ مرکزے میں نئے پروٹان کے اضافے سے نیا عنصر بن جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ہر بار پروٹان کے اضافے کے ساتھ ہی توازن کی خاطر الیکٹران کا بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ بعض اوقات الیکٹرانوں کی تعداد سے بھی اسے ظاہر کیا جاتا ہے کہ الیکٹران اور پروٹان کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ الیکٹران سے ایٹم کی شخصیت اور پروٹان اسے ایٹم کی شناخت بنتی ہے۔
نیوٹران سے ایٹم کی شناخت پر تو فرق نہیں پڑتا البتہ اس کا وزن ضرور بڑھ جاتا ہے۔ نیوٹران کی تعداد عام طور پر پروٹان کی تعداد کے برابر ہی ہوتی ہے تاہم بعض اوقات کچھ فرق بھی ہو سکتی ہے۔ ایک یا دو نیوٹران کے اضافے یا کمی سے ہم جا پیدا ہوتے ہیں۔ مختلف اشیاء کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے ہم جا استعمال ہوتے ہیں اور آپ نے بھی کاربن 14 کا نام بہت بار سنا ہو گا۔ اس کاربن میں چھ پروٹان اور آٹھ نیوٹران ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ 14 ہوتا ہے۔
نیوٹران اور پروٹان مل کر ایٹم کا مرکزہ بناتے ہیں۔ مرکزہ پورے ایٹم کے ایک دس لاکھ اربویں حصے کے برابر لیکن انتہائی کثیف ہوتا ہے اور ایٹم کا سارا وزن یہیں ہوتا ہے۔ ایک سائنس دان نے بتایا کہ اگر ایٹم کو ایک بہت بڑے گرجا گھر کے برابر بڑا کر دیا جائے تو مرکزے کی جسامت ایک مکھی جتنی ہو گی۔ ایٹم کے اندر اتنی وسیع اور خالی جگہ کی وجہ سے ہی ردرفورڈ کو 1910 میں اپنے مشاہدے پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔
آج بھی ہمیں یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اگر ایٹموں میں اتنی جگہ خالی ہوتی ہے تو ہمیں اپنے اردگرد کوئی چیز ٹھوس کیسے محسوس ہوتی ہے؟ جب دو اجسام آپس میں ٹکراتے ہیں جیسا کہ بلیئرڈ کی دو گیندیں، تو دونوں ایک دوسرے کو چھوتی نہیں بلکہ دونوں گیندوں کے مجموعی منفی چارج انہیں انتہائی قریب آنے پر ایک دوسرے سے دور دھکیل دیتے ہیں۔ اگر چارج نہ ہوتے تو دونوں گیندیں ایک دوسرے سے ایسے گزر جاتیں جیسے دو کہکشائیں قریب آنے پر ایک دوسرے سے آر پار گزر جاتی ہیں۔ جب آپ کرسی پر بیٹھتے ہیں تو در اصل آپ کرسی کی سطح سے ایک آنگسٹروم یعنی سینٹی میٹر کے دس کروڑویں حصے کے برابر اوپر ہوتے ہیں کیونکہ آپ کے اور کرسی کے الیکٹران اس سے زیادہ قربت برداشت نہیں کر سکتے۔
ہر انسان کے ذہن میں ایٹم کی عمومی شکل کچھ یوں ہوتی ہے جیسے الیکٹران مرکزے کے گرد ایسے گھوم رہے ہوں جیسے نظامِ شمسی میں سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ در اصل یہ تصویر 1904 میں ایک جاپانی طبعیات دان ہانتارو ناگواکا نے اندازے سے بنائی تھی۔ اگرچہ یہ تشبیہ بالکل غلط ہے لیکن اسے عام قبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ آئزک اسیموو کے مطابق، اسی تصویر کے نتیجے میں سائنس فکشن لکھنے والوں نے اس موضوع پر بہت لکھا ہے کہ ایٹم کے اندر پورا نظامِ شمسی موجود ہے اور اس میں موجود ہر ایٹم کے اندر اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے اور یہ بھی کہ ہمارا نظامِ شمسی در اصل ایک ایٹم پر مشتمل ہے جو خود ایک اور نظامِ شمسی کا حصہ ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ یورپی ادارہ برائے ایٹمی تحقیقات کی ویب سائٹ پر یہی تصویر آویزاں ہے۔ طبعیات دانوں کو جلد ہی علم ہو چکا تھا کہ ایٹم سیاروں کی مانند اپنے مرکزے کے گرد نہیں گھومتے بلکہ ان کی حرکت پنکھے کے گردش کرتے پروں کی مانند ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پنکھے کے پر محض ہر جگہ محسوس ہوتے ہیں جبکہ الیکٹران ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔
اب یہ کہنا تو ضروری نہیں کہ 1910 میں اور اس کے بعد کے برسوں تک کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ ردرفورڈ کی دریافت کا پہلا نقصان اس معمے کی صورت میں سامنے آیا کہ ایٹم میں الیکٹران مرکزے میں گرے بنا کیسے اپنی گردش جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس دور کی الیکٹروڈائنامک نظریے کے مطابق گردش کرتے الیکٹرانوں کی توانائی تھوڑی دیر میں ختم ہو جانی چاہئے اور الیکٹران مرکزے میں جا گریں اور دونوں تباہ ہو جائیں۔ یہ بھی مسئلہ تھا کہ مثبت بار والے الیکٹران کیسے اتنی چھوٹی سی اور تنگ جگہ میں ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے چھوٹے پیمانے کی دنیا پر ہماری عام دنیا کے طبعیاتی اصول لاگو نہیں ہوتے۔
جب طبعیات دانوں نے ایٹمی پیمانے پر کام شروع کیا تو یہ بات واضح ہو گئی کہ اس دنیا میں ہر چیز نہ صرف ہماری دنیا سے مختلف ہے بلکہ ہمارے تصور سے بھی کہیں زیادہ مختلف ہے۔ رچرڈ فین مین کے خیال میں ‘چونکہ ایٹمی پیمانے پر دنیا اتنی مختلف ہے کہ وہ نو وارد اور ماہر، دونوں کو انتہائی عجیب اور ناقابلِ فہم لگتی ہے۔ ‘ یاد رہے کہ مندرجہ بالا بیان سے قبل سائنس دان کم از کم 50 برس ایٹم پر تحقیق کر چکے تھے۔ اب سوچیے کہ 1910 میں ردرفورڈ اور اس کے ساتھیوں کو یہ سمجھنے میں کتنی دشواری پیش آئی ہو گی۔
ردرفورڈ کے ساتھیوں میں سے ایک خاموش طبع ڈینش نوجوان نیلس بوہر بھی تھا۔ 1913 میں ایٹم کی ساخت پر غور کرتے ہوئے بوہر کو ایک ایسا اچھوتا خیال آیا کہ اس نے اپنا ماہِ عُسل ملتوی کر کے مشہورِ زمانہ مقالہ لکھنا شروع کر دیا۔
چونکہ طبعیات دان ایٹم جیسی چھوٹی چیز کو نہیں دیکھ سکتے، اس لیے انہیں ایٹم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اس کے رویے سے اس کی ساخت کا اندازہ لگانا پڑا۔ یہی کام ردرفورڈ نے سونے کی باریک تہہ پر الفا ذرات کی بوچھاڑ کر کے کیا تھا۔ کافی عرصے سے ہائیڈروجن کی طیف میں طولِ موج کے مشاہدے کی بے قاعدگیاں تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ بعض طولِ موج میں ہائیڈروجن کے ایٹم توانائی خارج کرتے تھے اور بعض طولِ موج میں نہیں۔ یہ ایسے ہی تھا کہ آپ کسی شخص کی نگرانی کر رہے ہوں اور وہ مختلف جگہوں پر تو دکھائی دے لیکن ان کے درمیان سفر کرتا نہ دکھائی دے۔ کسی کو بھی اس کی وجہ نہیں معلوم تھی۔
اسی پر غور کرتے ہوئے بوہر کو وہ خیال آیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مقالے کا عنوان تھا On the Constitutions of Atoms and Molecules۔ اس مقالے میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ الیکٹران کو گرنے سے بچنے کے لیے مخصوص مداروں میں گردش کرنا ہوتی ہے۔ جب الیکٹران کو ایک مدار سے دوسرے میں جانا ہو تو وہ پہلے مدار سے غائب ہو کر بغیر درمیانی جگہ سے گزرے اچانک دوسرے مدار میں نمودار ہو جائے گا۔ اس نظریے کو ‘کوانٹم لیپ’ کا نام دیا گیا۔ اس سے نہ صرف الیکٹرانوں کے مرکزے میں نہ گرنے کا مسئلہ حل ہوا بلکہ مخصوص طولِ موج پر ہائیڈروجن سے خارج ہونے والی توانائی کا معمہ بھی حل ہو گیا۔ الیکٹران مخصوص مداروں میں اس لیے ظاہر ہوتے ہیں کہ وہ ہوتے ہی مخصوص مداروں میں ہیں۔ اس دریافت کی وجہ سے 1922 میں بوہر کو طبعیات کا نوبل انعام ملا۔ 1921 میں آئن سٹائن کو نوبل انعام ملا تھا۔
اس دوران کیمبرج میں ردرفورڈ نے جے جے تھامپسن کی مدد سے ایک ماڈل تیار کیا کہ آخر ایٹم کا مرکزہ کیوں پاش پاش نہیں ہوتا۔ اس نے سوچا کہ ایٹم میں مثبت بار والے ذرات کے ساتھ کوئی تعدیلی چیز ہونی چاہئے اور اسے نیوٹران کا نام دیا۔ اگرچہ یہ خیال سادہ اور پُر کشش تھا لیکن اسے ثابت کرنا آسان نہیں تھا۔ ردرفورڈ کے ساتھی جیمز چیڈوِک نے نیوٹران کی تلاش میں 11 سال صرف کیے اور آخر نیوٹران کو پا ہی لیا۔ اسے 1935 میں طبعیات کا نوبل انعام ملا۔ کچھ مؤرخین کے خیال میں نیوٹران کی دریافت میں اتنی تاخیر مثبت بات تھی کیونکہ نیوٹران کو اچھی طرح سمجھے بغیر ایٹم بم بنانا ممکن نہیں تھا (نیوٹران پر چونکہ کوئی بار نہیں ہوتا، اس لیے نیوٹران کو ایٹمی مرکزے پر مارا جاتا ہے جس سے مرکزے کی تباہی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس عمل کو فشن یعنی انشقاق کا نام دیتے ہیں )۔ اگر نیوٹران 1920 کی دہائی میں قابو کر لیا گیا ہوتا تو پہلا ایٹم بم جرمنی میں بنتا۔
یورپ بھر میں الیکٹران کو سمجھنے کی کوششیں جاری تھیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ بعض اوقات الیکٹران بطور ذرہ اور بعض اوقات بطور موج کے دکھائی دیتا تھا۔ اس دُہریت نے سائنس دانوں کو دیوانہ بنایا ہوا تھا۔ اس بارے یورپ بھر سے کوششیں ہوئیں اور طرح طرح کے نظریات پیش کیے گئے۔ فرانس میں پرنس لوئیس وکٹر ڈی بروگلی نے دیکھا کہ اگر الیکٹران کو موج کی صورت دیکھا جائے تو ایک مدار سے غائب ہو کر دوسرے تک پہنچنے میں کئی بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں۔ اس سے آسٹرین طبعیات دان ایروِن شروڈنگر نے ایک نیا نظام تیار کیا جو موجی میکانیات کے نام سے مشہور ہوا۔ تقریباً اسی وقت جرمن طبعیات دان ورنر ہائیزنبرگ نے میٹرکس میکانیات کے نام سے نظریہ پیش کیا۔ یہ نظریہ اتنا مشکل تھا کہ خود ہائیزنبرگ کو بھی پوری طرح سمجھ نہ آیا تاہم اس سے شروڈنگر کے نظریے کے کئی مسائل حل ہو گئے۔
اب طبعیات میں دو مختلف نظریات تھے جو ایک ہی طرح کے نتائج سے اخذ کیے گئے تھے جو ناممکن صورتحال تھی۔
آخرکار 1926 میں ہائزنبرگ نے کوانٹم میکینکس کے نام سے اپنا مشہورِ زمانہ نظریہ پیش کیا جو بعد میں طبعیات کی الگ شاخ بنی۔ اس کی بنیاد ہائیزنبرگ کا غیر یقینی کا نظریہ تھا (جرمن زبان میں ہائیزنبرگ کے لکھے ہوئے لفظ کے کئی معنی ہو سکتے ہیں لیکن مترجم نے ‘غیر یقینی’ چنا۔ بعض افراد کے خیال میں ‘ناقابلِ پیمائش’ زیادہ بہتر متبادل ہے )۔ اس کے مطابق الیکٹران ذرات ہوتے ہیں لیکن انہیں بطور موج بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ غیر یقینی اس بات کی ہے کہ ہمیں الیکٹران کی گردش کا مدار معلوم ہوتا ہے یا ہم کسی خاص وقت پر الیکٹران کسی خاص جگہ موجود ہونے کے بارے تو جان سکتے ہیں لیکن دونوں باتیں ایک ساتھ معلوم نہیں ہو سکتیں۔ جب آپ ایک چیز معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو دوسری متاثر ہو گی۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے نہیں پیدا ہوتا کہ ہمارے پاس مناسب آلات نہیں بلکہ یہ کائناتی خاصیت ہے۔
اب اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کبھی یہ پیشین گوئی نہیں کر سکتے کہ کسی خاص وقت میں الیکٹران کس جگہ موجود ہو گا۔ البتہ ہمارے پاس امکانات ہو سکتے ہیں کہ الیکٹران کہاں کہاں ہو سکتا ہے۔ ڈینس اووربائی کے مطابق ‘جب تک الیکٹران کا مشاہدہ نہ کر لیا جائے، اس کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ جب تک الیکٹران کا مشاہدہ نہ ہو جائے، وہ ہر جگہ ہوتا ہے اور کہیں بھی نہیں۔ ‘
اگر آپ کو یہ بات سمجھنے میں دشواری ہو تو کوئی بات نہیں۔ شروع شروع میں طبعیات دانوں کو بھی یہ بات سمجھنے میں بہت دقت ہوئی۔ بوہر نے ایک بار کہا ‘جو بندہ کوانٹم نظریے کو سنتے ہی غصے نہ ہو، اسے اس کی سمجھ ہی نہیں آئی ہو گی۔ ‘ ہیزنبرگ سے پوچھا گیا کہ ایٹم کا تصور کیسے کیا جائے تو اس کا جواب تھا ‘کوشش بھی مت کرنا۔ ‘
ایٹم کا تصور عام تصور کے برعکس نکلا۔ الیکٹران مرکزے کے گرد ایسے نہیں گھومتے جیسے سیارے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں، بلکہ بادل کی شکل میں مسلسل اور ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ایٹم کا ‘خول’ کوئی سخت چمکدار قسم کا خول نہیں بلکہ الیکٹرانوں کے بادل نما شکل کا بیرونی سرا ہوتا ہے۔ تاہم یہ منفی بار والا بادل محض ایک امکان ہی ہے اور یہ اس علاقے کو ظاہر کرتا ہے جہاں سے الیکٹران شاید ہی کبھی باہر نکلتا ہو۔ یعنی اگر آپ ایٹم کو دیکھ سکیں تو ایک بہت دھندلی سی ٹینس کی گیند کی طرح دکھائی دے گا، اگرچہ ایٹم ایسی کوئی چیز نہیں جو آپ نے پہلے کبھی دیکھی ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے معمہ الجھتا ہی جا رہا ہو۔ ایک سائنس دان کے مطابق ‘ہمارے سامنے کائنات کا وہ حصہ آ گیا تھا جسے سمجھنے کے لیے ہمارے دماغ بنائے ہی نہیں گئے تھے۔ ‘ فین مین کے مطابق ‘چھوٹے پیمانے کی دنیا بڑے پیمانے کی دنیا سے انتہائی مختلف ہے۔ ‘ جوں جوں طبعیات دان اس کی گہرائی میں اترتے گئے، حیران کن انکشافات ہوتے گئے کہ نہ صرف الیکٹران ایک مدار سے دوسرے مدار تک درمیانی فاصلے سے گزرے بنا جا سکتے ہیں بلکہ مادہ بھی عدم سے وجود اور وجود سے عدم تک آتا جاتا رہتا ہے۔ جو چیز جتنی عجلت سے پیدا ہو گی، اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہو گی۔
شاید کوانٹم امکانات میں سب سے عجیب یہ خیال ہے جو وولف گینگ پاؤلی نے 1925 میں Exclusion Principle کے نام سے متعارف کرایا تھا۔ اس کے مطابق مخصوص سب اٹامک ذرات کے جوڑوں کو جب الگ الگ کر کے ایک دوسرے سے بہت دور بھی بھیج دیے جائیں تو بھی دونوں کو فوری پتہ چل جاتا ہے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ ان ذرات میں گھماؤ کی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ جب آپ ایک ذرے کو گھماتے ہیں تو اس کا جڑواں ذرہ چاہے جتنی بھی دور ہو، عین اسی وقت پہلے ذرے کی مخالف سمت اور اسی رفتار سے گھومنا شروع ہو جائے گا۔
یوں سمجھئے کہ اگر پول کی دو گیندیں ہیں جن میں سے ایک امریکہ اور دوسری فجی میں ہو اور جب آپ پہلی کو ضرب لگائیں تو عین اسی وقت دوسری گیند مخالف سمت ٹھیک اسی رفتار سے چلنا شروع ہو جائے۔ یاد رہے کہ 1997 میں اسے تجرباتی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے اور اس تجربے میں ایسے دو فوٹانوں کو ایک دوسرے سے 7 میل دور بھیجا اور جب پہلے ذرے پر جونہی کوئی تبدیلی آئی، دوسرے ذرے سے فوراً متوقع جواب آیا۔
نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک کانفرنس میں نیل بوہر نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ نظریہ پاگل پن تو ہے، مگر اصل بات یہ معلوم کرنی ہے کہ کتنا پاگل پن ہے۔ کوانٹم کی دنیا کے بارے شروڈنگر نے مشہور مثال دی۔ اس نے کہا کہ ایک فرضی بلی کو آپ ایک ڈبے میں بند کر کے اس کے ساتھ ہائیڈرو سائینک ایسڈ کی شیشی کو ایک تابکار ایٹم کے ساتھ جوڑ دیں۔ اگر ایک گھنٹے کے دوران وہ ایٹم انحطاط کا شکار ہوا تو ٹوٹ پھوٹ کے بعد زہر شیشی سے نکل آئے گا اور بلی مر جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بلی زندہ رہے گی۔ جب تک ہمیں حقیقت کا علم نہ ہو، سائنسی اعتبار سے ہمیں بلی کو بیک وقت سو فیصد زندہ اور سو فیصد مردہ سمجھنا پڑے گا۔ سٹیفن ہاکنگ نے اسے دیکھ کر کہا تھا ‘جب تک ہم کائنات کو اس کی موجودہ حالت میں نہیں جان سکتے، ہم مستقبل کے بارے کیسے سو فیصد درستگی سے کوئی بات کر سکتے ہیں۔ ‘
اپنی انہی عجیب باتوں کی وجہ سے اکثر طبعیات دانوں کو کوانٹم نظریہ یا اس کے کچھ پہلو پسند نہیں۔ ان میں آئن سٹائن سرِفہرست تھا۔ اندازہ کیجئے کہ یہ آئن سٹائن ہی تھا جس نے اپنی کتاب Annus Mirabilis میں 1905 میں لکھا تھا کہ روشنی کے فوٹان بعض حالات میں ذرات اور بعض حالات میں موج کی طرح ہوتے ہیں۔ اس کا بعد میں تبصرہ تھا کہ ‘کوانٹم نظریہ ہر طرح سے اس قابل ہے کہ اس پر غور کیا جائے، لیکن خدا پانسہ نہیں کھیلتا’ (اصل میں آئن سٹائن کا تبصرہ یہ تھا ‘خدا کے پتوں کو چوری چوری دیکھنا ممکن نہیں لگتا۔ لیکن اگر خدا تاش کھیلتا اور خیال خوانی کرتا ہے تو مجھے اس پر بالکل یقین نہیں ‘)۔
آئن سٹائن کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ خدا ایسی کائنات بنائے گا کہ جس کے کئی پہلو ہمیشہ کے لیے ناقابلِ فہم رہیں۔ اس کے علاوہ کھربہا میل کی دوری پر موجود دو ذرات کیسے ایک دوسرے سے کیسے منسلک رہ سکتے ہیں کہ یہ اضافیت کے خصوصی نظریے کی خلاف ورزی ہے کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی طبعیات دان اصرار کر رہے تھے کہ سب اٹامک سطح پر معلومات ایسا کر سکتی ہیں ( آج تک یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ ایک مشہور طبعیات دان یاکر اہارانوف کے مطابق ‘طبعیات دانوں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ اس کے بارے نہ سوچا جائے ‘)۔
مزید یہ بھی کہ کوانٹم طبعیات نے مزید الجھنیں پیدا کر دی تھیں۔ اب ہمیں کائنات کی وضاحت کے لیے دو نظریات کی ضرورت تھی۔ ایک کوانٹم نظریہ جو انتہائی چھوٹی دنیا کی اور دوسرا اضافیت جو اس سے بڑی ہر چیز کی وضاحت کرتا ہے۔ اضافیت میں تجاذب سے اس بات کی بہترین وضاحت ہوتی ہے کہ سیارے سورج کے گرد کیوں گردش کرتے ہیں یا کہکشائیں جھرمٹ کی شکل کیوں اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن ذرات کی سطح پر یہ نظریہ فضول تھا۔ ایٹم کو یکجا رکھنے کے لیے اضافی قوتیں درکار تھیں۔ 1930 میں ان میں سے دو دریافت ہوئیں جن کو سٹرانگ نیوکلیئر فورس اور وِیک نیوکلیئر فورس کا نام دیا گیا۔ سٹرانگ فورس کا کام ایٹموں کو ثابت رکھنا تھا اور اسی کی وجہ سے پروٹان مرکزے میں جمع رہتے ہیں۔ وِیک نیوکلیئر فورس متفرق کام کرتی ہے جن میں تابکاری کی مختلف اقسام کی شرح وغیرہ کا تعین کرنا۔
اپنے نام کے برعکس وِیک نیوکلیئر فورس تجاذب سے دس ارب ارب ارب گنا زیادہ طاقتور ہے اور سٹرانگ نیوکلیئر فورس اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ تاہم یہ قوتیں انتہائی مختصر فاصلے تک ہی کام کرتی ہیں۔ سٹرانگ فورس کی پہنچ ایٹم کی چوڑائی کے ایک لاکھویں حصے تک محدود رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹم کے مرکزے اتنے کثیف اور چھوٹے ہوتے ہیں اور بھاری عناصر کے مرکزے کیوں اتنے غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ سٹرانگ فورس ان تمام پروٹانوں کو ایک ساتھ ہمیشہ کے لیے نہیں جمع رکھ پاتی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طبعیات اب دو مختلف قوانین میں منقسم ہو گئی۔ ایک انتہائی چھوٹی دنیا کے قوانین جبکہ دوسرا انتہائی بڑی دنیا کے قوانین۔ آئن سٹائن کو یہ بات پسند نہیں تھی اور اس نے اپنی بقیہ زندگی گرینڈ یونیفیکیشن تھیوری کی تلاش میں صرف کر دی یعنی انہیں یکجا کر کے ایک نظریہ بنایا جا سکے، مگر وہ ناکام رہا۔ اسے کئی بار ایسا لگا کہ اس نے یہ راز پا لیا ہے مگر جلد ہی اس کی خوشی ختم ہو جاتی۔ ساتھیوں کے خیال میں اس نے اپنی آخری نصف زندگی ضائع کی تھی۔
تاہم دیگر جگہوں پر کام جاری تھا۔ 1940 کی دہائی کے وسط تک سائنس دان ایٹم کے بارے بہت کچھ جان چکے تھے اور انہوں نے 1945 میں ایٹم بم چلا کر اس کا واضح ثبوت بھی دیا۔
اس مقام پر سائنس دان یہ کہنے لگے گئے تھے کہ انہوں نے ایٹم کو تسخیر کر لیا ہے۔ در حقیقت پارٹیکل فزکس کی دنیا اب الجھنے والی تھی۔ تاہم اس کو شروع کرنے سے قبل ہم زمین کی عمر کے تعین کی تفصیل دیکھتے ہیں جس میں کئی غیر ضروری اموات، بری سائنس، دھوکہ، دولت کی بھوک وغیرہ شامل ہیں۔
٭٭٭
10 گیٹنگ دی لیڈ آؤٹ
1940 کی دہائی میں یونیورسٹی آف شکاگو کے ایک طالبعلم کلیئر پیٹرسن نے سیسے کے ایک ہم جا کی مدد سے پیمائش کر کے زمین کی عمر کا درست اندازہ لگانے کا طریقہ وضع کیا۔ بدقسمتی سے اس کے پاس موجود پتھروں کے تمام تر نمونوں میں ملاوٹ ہو چکی تھی جس کی مقدار ناقابلِ یقین حد تک بلند تھی۔ بعض نمونوں میں ملاوٹ اندازے سے 200 گنا سے بھی زیادہ تھی۔ بہت عرصے بعد جا کر پیٹرسن کو علم ہوا کہ اس ملاوٹ کی وجہ اوہائیو کا ایک نالائق موجد تھامس مجلے جونیئر تھا۔
مجلے پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھا اور اگر وہ انجینئر ہی رہتا تو دنیا بہت بہتر مقام ہوتی۔ تاہم مجلے نے کیمیا کے صنعتی اطلاق پر کام شروع کر دیا۔ 1921 میں جنرل موٹرز ریسرچ کارپوریشن، اوہائیو میں کام کرتے ہوئے اس نے ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پر تجربات کیے اور پایا کہ اس سے انجن ناک ڈرامائی حد تک کم ہو جاتی ہے۔
اگرچہ اس وقت تک ہر کوئی جانتا تھا کہ سیسہ خطرناک ہے پھر بھی 19ویں صدی میں ہر طرح کی مصنوعات میں سیسہ پایا جاتا تھا۔ خوراک کے ڈبوں کو سیسے کے قاویے سے بند کیا جاتا تھا۔ پانی کو سیسے کی تہہ لگے ٹینکوں میں رکھا جاتا تھا۔ لیڈ آرسینیٹ کو پھلوں پر بطور کرم کش دوا چھڑکا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبوں میں بھی سیسہ استعمال ہوتا تھا۔ شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو صارفین کی زندگی میں سیسے کی مقدار میں اضافہ نہ کرتی ہو۔ تاہم انسانی زندگی پر سب سے خطرناک اور طویل مدتی اثرات سیسے کو ایندھن میں ملانے سے پیدا ہوئے۔
سیسہ نیوروٹاکسن (اعصابی زہر) ہے یعنی ایسا زہر جو انسانی اعصاب کو متاثر کرتا ہے۔ اگر اس کی زیادہ مقدار جسم کے اندر چلی جائے تو دماغ اور مرکزی نظامِ اعصاب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ سیسے کے مضر اثرات میں اندھا پن، نیند نہ آنا، گردوں کا فیل ہونا، بہرہ پن، کینسر، رسولیاں بننا اور دورے پڑنا شامل ہیں۔ انتہائی شدید حالت میں انسان کو ہذیان کے اچانک اور شدید دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد کوما اور پھر موت واقع ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی اپنے جسم میں سیسے کی زیادہ مقدار پسند نہیں کرتا۔
دوسری جانب سیسے کو نکالنا اور اس کو استعمال کرنا انتہائی سستا تھا اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کے استعمال سے انجن ناکنگ بالکل بند ہو گئی۔ اس لیے 1923 میں امریکہ کے تین بڑے اداروں جنرل موٹرز، ڈو پونٹ اور سٹینڈرڈ آئل آف نیوجرسی نے انضمام کر کے ایک ادارے ایتھائل گیسولین کارپوریشن کی بنیاد رکھی جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ ٹیٹرا ایتھائل لیڈ تیار کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے اس آمیزے کو ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کی بجائے ایتھائل کہا کیونکہ سیسے کا ذکر ذرا برا لگتا تھا۔ اسے یکم فروری 1923 کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔
تقریباً اسی وقت اس ادارے کے کارکنوں میں بیماریاں شروع ہونے لگیں اور ساتھ ہی ادارے نے اس بارے بالکل خاموش انکار کا رویہ اختیار کر لیا جو کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ ایک فیکٹری کے ملازمین جب ناقابلِ علاج حد تک بیمار ہو گئے تو فیکٹری کے بڑوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ شاید یہ بہت زیادہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے بیمار ہو گئے ہیں۔ شروع کے دنوں میں ہی کم از کم 15 ملازمین ہلاک ہوئے اور ان گنت ملازمین شدید بیمار ہوئے لیکن انتظامیہ ہمیشہ ہی معاملے کو ٹھنڈا کرانے میں کامیاب رہی۔ تاہم 1924 میں چند دنوں کے وقفے سے ایک ہی فیکٹری کے 5 ملازمین ہلاک ہوئے اور 35 لاعلاج حد تک بیمار ہو گئے تو خبروں کو روکنا کمپنی کے لیے ممکن نہ رہا۔
جب اس نئی چیز کے نقصانات کے بارے افواہیں پھیل گئیں تو اس کے موجد تھامس مجلے نے پریس کے سامنے ایک عملی مظاہرہ کرنے کا سوچا۔ اس نے رپورٹروں کے سامنے کمپنی کے حفاظتی معیار کے بارے بات کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر ٹیٹرا ایتھائل چھڑکا اور اس کے بیکر کو اپنی ناک سے ایک منٹ تک لگائے رکھا اور دعویٰ کیا کہ وہ ہر روز کئی بار ایسا کرنے کو تیار ہے۔ مجلے سے زیادہ اس کیمیکل کے نقصان کے بارے کوئی نہیں جانتا تھا کہ چند ماہ قبل ہی اسی سے شدید بیمار ہو کر بمشکل صحت یاب ہوا تھا۔ اب نمائش سے ہٹ کر وہ کسی قیمت پر اس کیمیکل کے قریب تک جانے کو تیار نہ تھا۔
اس خطرناک کیمیکل سے فارغ ہو کر مجلے نے اپنی توجہ اس دور کے ایک تکنیکی مسئلے پر مرکوز کی۔ 1920 کی دہائی میں ریفریجریٹرز میں انتہائی خطرناک اور زہریلی گیسیں استعمال ہوتی تھیں جو بعض اوقات پھیل جاتی تھیں۔ اوہائیو کے ایک ہسپتال میں ہونے والے لیک سے سو سے زیادہ افراد 1929 میں ہلاک ہوئے تھے۔ مجلے نے سوچا کہ ایسی گیس تیار کی جائے جو مستحکم ہو، آتش گیر نہ ہو، زنگ پیدا نہ کرے اور سانس لینے میں خطرناک نہ ہو۔ بدقسمتی سے اس نے سی ایف سی یعنی کلورو فلورو کاربن ایجاد کر لی۔
بدقسمتی سے شاید ہی کوئی اور صنعتی شئے کو اتنی تیزی اور اتنی خوشی سے قبولیت ملی ہو۔ سی ایف سی 1930 کی دہائی میں بننا شروع ہوئیں اور ہر جگہ اس کے استعمال شروع ہو گئے۔ کار ایئر کنڈیشنر سے لے کر ڈیوڈرنٹ تک استعمال ہوتے رہے۔ نصف صدی بعد جا کر علم ہوا کہ سی ایف سی ہماری اوزون کی تہہ کو کھائے جا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
اوزون آکسیجن کی ایک شکل ہے جس میں آکسیجن کے مالیکیول میں دو کی جگہ تین ایٹم ہوتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ سطح زمین پر اوزون انتہائی زہریلی ہے لیکن بالائی فضاء میں اس کا کام انتہائی خطرناک بالائے بنفشی شعاعوں کو جذب کرنا ہے۔ اتنی مفید ہونے کے باوجود اوزون بکثرت نہیں ملتی۔ اگر ہم اوزون کو بالائی فضاء میں یکساں پھیلا دیں تو نتیجتاً بننے والی تہہ 2 ملی میٹر جتنی موٹی ہو گی۔ اتنی باریک تہہ ہونے کی وجہ سے اتنی آسانی سے متاثر ہو سکتی ہے۔
سی ایف سی بھی زیادہ نہیں پائی جاتیں بلکہ فضاء میں ایک ارب ذرات میں ان کا ایک ذرہ ہوتا ہے لیکن انتہائی تباہ کن ہوتی ہیں۔ ایک کلو سی ایف سی اوزون کی 70,000 کلو مقدار کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ سی ایف سی تقریباً سو سال تک موجود رہ کر تباہی پھیلاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں حرارت کو جذب کرنے کی صلاحیت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ سی ایف سی کا ایک مالیکیول کاربن ڈائی آکسائیڈ کے 10,000 مالیکیولوں کے برابر حرارت کو جذب کرتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بذاتِ خود حرارت جذب کرنے میں بہت تیز ہے۔ سی ایف سی شاید انیسویں صدی کی بدترین ایجاد ہے۔
مجلے کو ان سب نقصانات کا علم تک نہ ہو سکا کیونکہ ان کا علم ہونے سے قبل ہی اس کی وفات ہو چکی تھی۔ اس کی وفات بذاتِ خود ایک عجوبہ تھی۔ پولیو کا شکار ہونے کے بعد مجلے نے خود کو بستر پر کروٹ بدلوانے اور اٹھانے بٹھانے کے لیے ایک مشین ایجاد کی۔ 1944 میں وہ اس مشین کی تاروں میں الجھ کر دم گھٹنے سے مر گیا۔
اگر آپ کو مختلف اشیاء کی عمر کا تعین کرنے میں دلچسپی ہو تو 1940 کی دہائی میں یونیورسٹی آف شکاگو اس کے لیے بہترین جگہ تھی۔ ویلارڈ لبی نے ریڈیو کاربن سے عمر کے تعین کا طریقہ کار وضع کیا تھا جس سے سائنس دانوں کو ہڈیوں اور دیگر نامیاتی مواد کی عمر کے تعین میں آسانی ہوئی۔ اس وقت تک قابل اعتبار طور پر سب سے پرانی چیز کی عمر کا تعین 3000 قم تھا جو فراعینِ مصر کے دور سے تعلق رکھتی تھی۔ تاہم کوئی اس بارے روشنی نہ ڈال سکتا تھا کہ آخری بار برفانی تہہ کب ہٹی تھی یا فرانس میں کرو میگنن لوگوں نے غاروں میں تصاویر بنانا شروع کی تھیں۔
لبی کا خیال اتنا مفید تھا کہ اسے 1960 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بنیادی خیال یہ تھا کہ ہر زندہ چیز میں کاربن کا ہم جا جو کاربن 14 کہلاتا ہے، جمع ہوتا رہتا ہے۔ جونہی وہ جاندار مرتا ہے تو اسی لمحے سے کاربن 14 انحطاط پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کاربن 14 کی نصف عمر یعنی ہاف لائف 5,600 سال ہے۔ اگر آپ کسی جاندار کی باقیات میں موجود کاربن 14 کی مقدار جانچ لیں تو ایک خاص حد تک آپ اس کی عمر کا تعین کر سکتے ہیں۔ آٹھ ہاف لائف کے بعد 0.39 فیصد اصل کاربن 14 بچتی ہے جس کی پیمائش کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یعنی ریڈیو کاربن کی مدد سے زیادہ سے زیادہ 40,000 سال پرانی چیزوں کی عمر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
جونہی اس تکنیک کو قبولیت ملی، اس کی خامیاں سامنے آنے لگیں۔ سب سے پہلے تو انحطاط کی شرح تین فیصد غلط نکلی۔ اس وقت تک دنیا بھر سے ہزاروں نمونوں کی پیمائش کی جا چکی تھی۔ بجائے اس کے کہ سائنس دان ان کی تصحیح کرتے، انہوں نے غلط شرح کو ہی مستقل قرار دے دیا۔ یعنی ہر نمونہ جس کی پیمائش کی جاتی ہے، وہ اصل سے 3 فیصد کم عمر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ کاربن 14 کی مقدار بیرونی ملاوٹ سے فوراً تبدیل ہو جاتی ہے۔ یعنی اگر آپ اصل نمونہ لیتے وقت غلطی سے تھوڑی سی سبزی یا کسی اور چیز کو مکس کر جاتے ہیں تو اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔ 20,000 سال سے کم عمر نمونوں میں معمولی ملاوٹ سے زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن پرانے نمونوں میں جہاں کاربن 14 کے محض چند ہی ایٹم ہوتے ہیں، پر یہ غلط نتائج دیتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ پہلی صورت میں آپ 1,000 روپے کی گنتی کرتے وقت ایک روپے کی غلطی کرتے ہیں تو دوسری صورت میں جب دو روپے گننے ہوں اور آپ ایک روپیہ غلط گن جائیں۔
لبی کے کلیے میں یہ بات بھی فرض کی گئی تھی کہ ریڈیو کاربن کی مقدار فضاء میں ہمیشہ یکساں رہی ہے اور ہر جاندار اسے ایک ہی شرح سے جذب کرتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اب ہمیں یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ ریڈیو کاربن کی مقدار زمین کے مقناطیسی میدان پر منحصر کرتی ہے کہ وہ کتنی مقدار میں کاسمک شعاعیں منعکس کرتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر یہ تکنیک ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہی ہے۔
مزید یہ بھی کہ کئی دوسرے عوامل بھی ریڈیو کاربن کی مقدار میں فرق پیدا کر سکتے ہیں۔ مثلاً جن ہڈیوں کا معائنہ کیا جا رہا ہو، اس جاندار کی خوراک کیا رہی تھی۔ ایک نئی بحث کا موضوع یہ ہے کہ آتشک کی بیماری نئی دنیا میں ہوئی یا پرانی دنیا میں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے ‘ہل’ میں رہائشی قبرستان کے راہبوں میں یہ بیماری کولمبس کے سفر سے قبل پائی جاتی تھی۔ تاہم پھر پتہ چلا کہ انہوں نے مچھلی بہت زیادہ کھائی تھی جس سے ان کی ہڈیاں زیادہ پرانی دکھائی دیتی ہیں۔ اب انہیں یہ بیماری کب اور کیسے لاحق ہوئی، یہ بات معمہ ہے۔
کاربن 14 کی انہی خامیوں کی وجہ سے سائنس دانوں نے نئے طریقے دریافت کیے جن میں تھرمو لیومینیسنس یعنی چکنی مٹی میں پھنسے الیکٹرانوں کی پیمائش اور الیکٹران سپسن ریزونینس، جس میں نمونے پر برقناطیسی موجیں ڈال کر الیکٹرانوں کی تھرتھراہٹ کی پیمائش کرنا بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ سب طریقے 2 لاکھ سال سے زیادہ پرانے نمونوں پر کام نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ غیر نامیاتی مواد پر یہ تکنیک بالکل کارآمد نہیں۔ زمین کی عمر جاننے کے لیے ہمیں انہی غیر نامیاتی چیزوں کی عمر کے بارے جاننا ہوتا ہے۔
پتھروں کی عمر جاننے میں اتنے مسائل پیش آئے کہ پوری دنیا کے سائنس دانوں نے اسے چھوڑ دیا۔ اگر انگریز پروفیسر آرتھر ہومز نہ ہوتا تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہوتا۔
ہومز کی وجہ شہرت نہ صرف رکاوٹوں پر قابو پانا بلکہ نتائج حاصل کرنا بھی ہے۔ 1920 کی دہائی میں جب ہومز عروج پر تھا تو ارضیات کی جگہ طبعیات کو قبولِ عام کا درجہ مل چکا تھا۔ ارضیات کو ہر جگہ کی طرح برطانیہ میں بھی وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ بہت برسوں تک ڈرہم یونیورسٹی میں ہومز کی ذات ہی ارضیات کا پورا ڈیپارٹمنٹ تھا۔ اپنی تحقیق جاری رکھنے کے لیے اسے یا تو دوسروں سے مشینیں ادھار لینی پڑتیں یا اپنی مشینوں کی ٹھوک پیٹ کر کے کام چلانا ہوتا۔ ایک مرتبہ پورا سال تحقیقی کام محض اس وجہ سے رکا رہا کہ یونیورسٹی کے پاس کیلکولیٹر دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ بعض اوقات اسے تعلیمی سلسلے سے وقفہ لینا پڑتا تاکہ اپنے خاندان کے لیے کچھ کمائی کر سکے۔ کچھ عرصہ اس نے نوادرات کی دکان چلائی اور بعض اوقات اس کے پاس جیولاجیکل سوسائٹی کی سالانہ 5 پاؤنڈ کی فیس بھی برداشت نہ کر سکتا تھا۔
ہومز کی تکنیک سادہ اور آسان تھی۔ یہ تکنیک وہی تھی جو ردرفورڈ نے 1904 دریافت کی تھی کہ بعض عناصر ایک مخصوص رفتار سے انحطاط کا شکار ہو کر دوسرے عنصر میں بدل جاتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ پوٹاشیم 40 کتنے عرصے بعد آرگان 40 بن جاتا ہے اور آپ کسی نمونے میں ان کی مقدار جان لیں تو اس نمونے کی عمر آسانی سے معلوم ہو سکتی ہے۔ ہومز کا کارنامہ یورینیم کے سیسے میں انحطاط پذیر ہونے کی شرح کی پیمائش کرنا تھا جس سے چٹانوں اور پھر زمین کی عمر جاننا آسان ہو گیا۔
تاہم اس بارے کئی تکنیکی مسائل سامنے آئے۔ سب سے پہلے تو ہومز کو انتہائی نفیس آلات درکار تھے جن کی مدد سے وہ انتہائی قلیل مقدار میں موجود نمونوں کی پیمائش کر سکے جبکہ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ سادہ سے کیلکولیٹر کا حصول کتنا مشکل تھا۔ ہومز کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ اس نے 1946 میں کسی حد تک درستگی کے ساتھ اعلان کیا کہ زمین کی عمر 3 ارب سال یا اس سے زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس کے اپنے ساتھیوں کی تنگ نظری سے قبولیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ انہوں نے تکنیک کی تو بہت تعریف کی لیکن اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ یہ عمر زمین کی نہیں بلکہ ان چٹانوں کی ہے جن کی پیمائش اس نے کی تھی۔
عین اسی دوران یونیورسٹی آف شکاگو کے ہیریسن براؤن نے سیسے کے ہم جا کی پیمائش ایسے پتھروں میں کرنے کا طریقہ وضع کیا جو حرارت سے بنتی ہیں۔ اسے اندازہ تھا کہ اس کا کام انتہائی مشقت طلب ہو گا، اس نے یہ کام کلیئر پیٹرسن کو سونپا اور کہا کہ انتہائی آسان کام ہے۔ تاہم اس پر برسوں لگ گئے۔
پیٹرسن نے اس کام کو 1948 میں شروع کیا۔ سات سال تک پہلے یونیورسٹی آف شکاگو اور پھر کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اور صاف لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے، احتیاط سے چنے ہوئے نمونوں سے اور انتہائی احتیاط سے یورینیم اور سیسے کو ماپتا رہا۔
زمین کی عمر جاننے کے لیے آپ کو جن پتھروں کی ضرورت تھی، وہ بہت پرانے ہونے چاہئیں اور ان میں یورینیم اور سیسے کی قلمیں بھی موجود ہوں اور ان کا زمین جتنا قدیم ہونا بھی لازمی امر ہے۔ زمین سے کم عمر پتھروں کا معائنہ کرنے سے زمین کی عمر کا غلط اندازہ لگتا۔ تاہم انتہائی قدیم پتھروں کا حصول بہت مشکل تھا۔ 1940 کی دہائی تک یہ بات معمہ بنی رہی کہ زمین پر انتہائی قدیم پتھر یا چٹانیں کیوں نہیں ملتیں۔ اندازہ کیجئے کہ خلائی دور تک پہنچنے کے باوجود ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ہماری اپنی زمین پر موجود انتہائی قدیم پتھر کہاں جاتے ہیں (اس کا جواب پلیٹ ٹیکٹانکس تھا جس پر بعد میں بات کرتے ہیں )۔ پیٹرسن کو انتہائی قلیل مقدار میں شواہد سے نتائج نکالنے کا اہم کام سونپا گیا تھا۔ آخرکار اس نے سوچا کہ زمین پر موجود پتھروں کو چھوڑ کر باہر سے آئی ہوئی چٹانوں سے کام لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے شہابِ ثاقب چنے۔
اس کا اندازہ تھا کہ شہابِ ثاقب در اصل نظامِ شمسی کے اولین دور میں بنے تھے اور یہ سیاروں کے بننے کے عمل کے دوران فالتو بچ گئے تھے۔ یعنی ان کی کیمیائی ساخت زمین جیسی ہی ہو گی۔ اس کا اندازہ درست نکلا۔ ان چٹانوں کی عمر کا تعین کرنے سے ہمیں زمین کی عمر کا انتہائی عمدہ اندازہ ہو جائے گا۔
ہمیشہ کی طرح یہ کام بھی سیدھا سادا یا آسان نہ نکلا۔ شہابِ ثاقب عام نہیں ملتے اور ان کا نمونہ حاصل کرنا مزید مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ براؤن کی تکنیک میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ پیٹرسن کے نمونوں میں بہت بڑی مقدار میں فضائی سیسے کی مقدار بھی شامل ہو جاتی تھی۔ اس وجہ سے اس نے سٹیرائل لیبارٹری بنائی تھی تاکہ ہوا سے سیسے کی ملاوٹ ختم ہو جائے۔
فائنل ٹیسٹنگ کے لیے نمونوں کی تلاش اور ان کی چھان بین کرنے میں سال لگ گئے۔ 1953 کے موسمِ بہار میں وہ اپنے نمونوں کو لے کر آرگون نیشنل لیبارٹری، النوائے گیا جہاں اسے جدید ماس سپیکٹروگراف پر وقت دیا گیا اور یہ مشین انتہائی درستگی کے ساتھ نمونوں میں موجود یورینیم اور سیسے کی پرانی قلموں کو گننے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جب نتائج نکلے تو اتنے حیران کن تھے کہ پیٹرسن نے سیدھا اپنے بچپن والے گھر کا رخ کیا اور اپنی ماں سے کہا کہ وہ اسے ہسپتال داخل کرائے کہ اسے کہیں دل کا دورہ تو نہیں پڑ رہا۔
تاہم جلد ہی وسکونسن میں ایک میٹنگ میں پیٹرسن نے زمین کی عمر کا محتاط تخمینہ پیش کیا جو ساڑھے چار ارب سال تھا۔ غلطی کا اندازہ 7 کروڑ سال تھا۔ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی یہ اندازہ آج تک درست سمجھا جاتا ہے۔ دو سو سال کی کوششوں کے بعد آخرکار زمین کی عمر کا تعین ہو گیا۔
پھر پیٹرسن نے فضاء میں سیسے کی مقدار پر توجہ دی۔ وہ یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ انسانی صحت پر سیسے کے اثرات کے بارے یا تو معلومات ہی نہیں تھیں اور جو تھیں، وہ انتہائی حد تک غلط تھیں۔ عجیب ‘اتفاق’ دیکھیئے کہ پچھلے چالیس برسوں سے ایسی ہر تحقیق کے بارے رقم انہی کمپنیوں نے دی تھی جو ایندھن میں سیسہ ملانے کا کام کرتی تھیں۔
ایک ایسے ہی مطالعے میں ایک ڈاکٹر نے، کہ جس کا کیمیکل پیتھالوجی کا کوئی علم نہیں تھا، کو پانچ سالہ پروگرام دیا گیا جس میں اس نے رضاکاروں کو سونگھنے اور نگلنے کے لیے سیسے کی غیر معمولی مقداریں دیں اور پھر ان کے بول و براز کو چیک کیا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ سیسہ فضلے کے راستے کبھی خارج نہیں ہوتا۔ سیسہ ہماری ہڈیوں اور خون میں جمع ہوتا ہے اور ڈاکٹر نے خون اور ہڈیوں کا معائنہ کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ نتیجتاً سیسے کو صاف چھوٹ مل گئی۔
پیٹرسن نے جانا کہ ہماری فضاء میں بہت بڑی مقدار میں سیسہ موجود ہے اور اس کا کم از کم 90 فیصد حصہ گاڑیوں کے دھوئیں سے آیا ہے۔ یہ سیسہ کبھی ختم نہیں ہوتا کہ سیسہ از خود ختم نہیں ہوتا۔ تاہم اسے ثابت کرنے میں اسے کافی مشکل پیش آئی۔ تاہم جب اس نے فضاء میں سیسے کی موجودہ مقدار کا مقابلہ قبل از 1923 سے کرنا چاہا کہ جب ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کی صنعتی پیمانے پر تیاری شروع ہوئی تھی، تو اسے خیال آیا کہ برفانی تہوں سے شاید کوئی مدد مل سکے۔
اس وقت تک یہ بات جانی جا چکی تھی کہ گرین لینڈ جیسی جگہوں پر سالانہ برفباری الگ الگ تہوں کی شکل میں محفوظ ہوتی ہے کہ موسمی حرارتی تبدیلیوں سے ہر تہہ کا رنگ دوسری سے کچھ فرق ہو جاتا ہے۔ ان تہوں کی گنتی کرنے اور ان میں موجود سیسے کی مقدار جاننے سے ہم سابقہ نہ صرف سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں کی مقدار جان سکتے ہیں۔ یہ دریافت آئس کور نامی سائنسی شاخ کی بنیاد بنی جو موجودہ موسمیاتی تعلیم کی اہم بنیاد ہے۔
پیٹرسن کو علم ہوا کہ 1923 سے قبل فضاء میں سیسے کی مقدار نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کے بعد سے ہر سال اس کی سطح مستقل بڑھتی گئی۔ اب پیٹرسن نے اپنا مقصدِ حیات بنا لیا کہ وہ سیسے کی پیٹرول میں ملاوٹ کے خلاف مہم چلائے جو وقت کے ساتھ ساتھ تیز تر ہوتی چلی گئی۔
تاہم یہ کام انتہائی دشوار تھا۔ ایتھائل بہت طاقتور اور عالمگیر ادارہ تھا اور اس کے وفادار اہم مقامات پر کام کرتے تھے (اس کے ڈائریکٹروں میں اس وقت کے سپریم کورٹ کا جج لیوس پاؤل اور نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کا گلبرٹ گراس وینور بھی شامل تھے )۔ پیٹرسن کو اچانک احساس ہوا کہ اس کی تحقیقات کے لیے رقم کا حصول یا تو رک گیا ہے یا اس میں بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔ امریکی پیٹرولیم ادارے نے ایک تحقیقاتی منصوبے کو پیٹرسن سے واپس لے لیا۔ یہی کچھ امریکی عوامی صحت کے محکمے نے بھی کیا جو کہ غیر جانبدار ادارہ تھا۔ دی نیشن میں 2000 میں لکھے گئے مضمون میں جیمی لنکن نے انکشاف کیا ہے کہ ایتھائل کے ذمہ داران نے اس شرط پر کالٹیک میں ایک مستقل شعبے کے قیام کے لیے مالی وسائل دینے کی پیشکش کی کہ پیٹرسن کو نوکری سے نکال دیا جائے۔ 1971 میں نیشنل ریسرچ کاؤنسل نے جب فضاء میں سیسے کے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے پینل بنایا تو پیٹرسن کو اس سے خارج کر دیا گیا حالانکہ اس وقت تک پیٹرسن اس موضوع پر امریکہ بھر میں سب سے زیادہ دسترس رکھتا تھا۔
تاہم پیٹرسن کو شاباش کہ اس نے ہمت نہ ہاری اور 1970 میں صاف ہوا کا قانون منظور ہوا اور امریکہ بھر میں گاڑیوں کے ایندھن میں سیسے کی ملاوٹ کو 1986 میں روک دیا گیا۔ اس کے فوراً ہی بعد امریکیوں کے خون میں سے سیسے کی مقدار میں 80 فیصد تک کی کمی دیکھی گئی ہے۔ تاہم چونکہ سیسہ خود سے ختم نہیں ہوتا، اس لیے آج کل امریکیوں کے خون میں 100 سال قبل کی نسبت 625 گنا زیادہ سیسہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ فضاء میں سیسے کی مقدار مستقل بڑھ رہی ہے جو سالانہ ایک لاکھ ٹن کے برابر ہے۔ یہ مقدار کان کنی، دھاتوں کو جلانے اور دیگر صنعتی عوامل سے آتی ہے۔ امریکہ نے گھر کے اندر والے پینٹ سے سیسے کو تب ہٹایا جب یورپ میں اس پر پابندی لگے 44 سال گزر چکے تھے۔ تاہم زہریلے ہونے کے باوجود 1993 میں جا کر امریکی خوراک کے ڈبوں سے سیسے کے قاویے ہٹائے گئے۔
ایتھائل کارپوریشن نے اپنا کام جاری رکھا لیکن جنرل موٹرز، سٹینڈرڈ آئل اور ڈو پونٹ نے اپنے حصص ایک اور کمپنی کو 1962 میں بیچ دیے۔ فروری 2001 میں ایتھائل کا کام جاری تھا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ تحقیق سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ سیسہ ملا پیٹرول انسانی صحت یا ماحول کے لیے کوئی نقصان کا سبب بنتا ہے۔ اپنی ویب سائٹ پر تاریخ کے حصے میں نہ تو سیسے کا ذکر ہے اور نہ ہی تھامس مجلے جونیئر کا، بلکہ انہوں نے اپنی تیار کردہ چیز کو ‘چند مخصوص کیمیائی اجزا’ کا مرکب قرار دیا ہے۔
اگرچہ ایتھائل اب ٹیٹرا ایتھائل لیڈ نہیں بناتی لیکن انہوں نے اپنے 2001 کے حسابات میں بتایا ہے کہ 2000 میں کل 795 ملین ڈالر کی فروخت سے انہیں 25.1 ملین ڈالر ٹیٹرا ایتھائل لیڈ سے ملے ہیں اور یہ مقدار پچھلے سال یعنی 1999 سے دس لاکھ ڈالر زیادہ ہے۔ تاہم 1998 میں یہ فروخت 117 ملین ڈالر رہی تھی۔ دنیا بھر میں ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کی فروخت کم ہونے کے باوجود کارپوریشن اس سے زیادہ سے زیادہ کمانے کا اعلان کر رہی ہے۔ برطانیہ کی کمپنی ایسوسی ایٹڈ آکٹل لمیٹڈ کے ذریعے معاہدے کے تحت ٹیٹرا ایتھائل لیڈ کو دنیا بھر میں بیچا جاتا ہے۔
جہاں تک رہی تھامس مجلے کی چھوڑی ہوئی دوسری مصیبت، یعنی کلورو فلورو کاربن، تو ان کی فروخت امریکہ میں 1974 میں ممنوع قرار پائی۔ اس سے قبل کی بنائی گئی سی ایف سی آج بھی اور ہمارے مرنے کے بعد بھی اوزون کو کھاتی رہے گی۔ مزید یہ بھی اہم بات ہے کہ آج بھی سی ایف سی کی بھاری مقدار فضاء میں پہنچتی ہے۔ وائن بڈل کے مطابق سی ایف سی کی تقریباً پونے تین کروڑ کلوگرام جتنی مقدار جس کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر بنتی ہے، ہر سال بیچی جاتی ہے۔ اسے کون تیار کرتا ہے؟ ہم، یا ہمارے بڑے تجارتی ادارے بیرون ملک اسے تیار کراتے ہیں۔ 2010 میں اسے عالمی سطح پر ممنوع قرار دیا جائے گا۔
کلیئر پیٹرسن 1995 میں فوت ہوا۔ اس کے کام کے لیے اسے کوئی نوبل انعام نہیں ملا۔ ماہرینِ ارضیات کو کبھی نوبل انعام نہیں دیا جاتا ہے۔ نصف صدی کی بے لوث کاوش کے باوجود اسے نہ تو شہرت ملی اور نہ ہی اسے عام پہچان ملی۔ ہاں ہم اسے 19ویں صدی کا بہترین ماہرِ ارضیات کہہ سکتے ہیں۔ پھر بھی، کیا ہم نے کبھی اس کا نام سنا؟ زمین کی تاریخ پر لکھی گئی دو حالیہ کتب میں اس کے نام کے ہجے غلط لکھے گئے ہیں۔ 2001 کے شروع میں رسالے ‘نیچر’ نے ایک اور بھیانک غلطی کی کہ اس نے پیٹرسن کو خاتون ظاہر کیا۔
تاہم پیٹرسن کا شکریہ کہ 1953 میں ہماری زمین کو ایک عمر مل گئی جس پر ہر کوئی متفق تھا۔ تاہم مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ یہ عمر اس وقت کے اندازے کے مطابق کائنات سے کہیں زیادہ پرانی تھی۔
٭٭٭
11مارک کے کوارک
1911 میں برطانوی سائنس دان ولسن سکاٹ لینڈ کے ایک مشہور مرطوب پہاڑ پر بادلوں کا مطالعہ کر رہا تھا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ یہی کام تجربہ گاہ میں کیا جائے۔ اس نے کیمبرج کی کیونڈش تجربہ گاہ میں سادہ سا چیمبر بنایا جہاں وہ ہوا کو مرطوب اور نم کر کے مناسب حد تک بادل کا نمونہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ آلہ ٹھیک کام کر رہا تہا اور اس کا ایک اور فائدہ بھی اتفاق سے دریافت ہو گیا۔ جب اس نے چارج شدہ الفا ذرات کو اس سے گزارا تو وہ پیچھے باقاعدہ ایسے نشان چھوڑ گئے جیسے ہوائی جہاز چھوڑتا ہے۔ اس نے دنیا کا اولین پارٹیکل ڈیٹیکٹر بنا لیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سب اٹامک ذرات حقیقی ہیں۔
آخر کار کیونڈش کے ہی دو اور سائنس دانوں نے مزید طاقتور پروٹان بیم ڈیوائس بنائی جبکہ کیلیفورنیا میں برکلے میں ارنسٹ لارنس نے سائیکلوٹران بنایا جسے عرصے تک ایٹم سمیشر کے نام سے جانا جاتا رہا۔ ابھی تک یہ آلے ایک ہی اصول پر کام کر رہے ہیں کہ پروٹان یا کسی اور چارج بردار ذرے کو انتہائی تیزی سے گول یا سیدہے راستے پر چلا کر دوسرے ذرے سے ٹکرا کر دیکھا جائے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ کام کوئی بہت مشکل سائنس نہیں لیکن پہر بہی مناسب کام کرتا ہے۔ جب طبعیات دانوں نے مزید طاقتور مشینیں بنانا شروع کیں تو ایسے نئے ذرات کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے مثلاً میوان، پائیون، ہائپران، میسون، کے میسون، ہگس بوسون، انٹرمیڈیٹ ویکٹر بوسون، بریان اور ٹائیکون وغیرہ۔ ان کی تعداد اتنی ہو گئی کہ طبعیات دان بہی الجھ گئے۔
آج ان آلات کے نام سائنسی سے زیادہ جنگی لگتے ہیں جیسا کہ دی سپر پروٹان سنکروٹان، دی لارج الیکٹران-پازیٹران کولائیڈر، دی لارج ہیڈرون کولائیڈر، دی ریلیٹوسٹک ہیوی آئن کولائیڈر وغیرہ۔ انتہائی زیادہ توانائی کو استعمال کرتے ہوئے ان ذرات کو اتنی تیزی سے چلایا جاتا ہے کہ ایک الیکٹران ایک سیکنڈ سے بہی کم وقت میں 7 کلومیٹر طویل سرنگ کے 47,000 چکر لگا سکتا ہے۔ اس بارے کچھ سائنس دان پریشان ہیں کہ اس عمل میں کہیں غلطی سے بلیک ہول نہ بن جائے یا کوئی ایسا عجیب کوارک نہ بن جائے جو دیگر ذرات کے ساتھ عمل کرتے ہوئے قابو سے باہر ہو جائے۔ اگر آپ یہ فقرہ پڑھ رہے ہیں تو ایسا ابہی نہیں ہوا۔
ذرات کو تلاش کرنے میں بہت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ صرف ان کا حجم مختصر اور رفتار تیز ہوتی ہے بلکہ ان کا وجود بھی بہت کم وقت کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ذرات 10-24 سیکنڈ میں عدم سے وجود میں آ کر اور پہر ختم ہو سکتے ہیں۔ سب سے سست ذرات بہی 10-7 سیکنڈ میں ظاہر ہو کر غائب ہو سکتے ہیں۔
بعض ذرات انتہائی چکنے ہوتے ہیں۔ ہر سیکنڈ دس ہزار کہرب کہرب ایسے بے وزن نیوٹرینو ہماری زمین اور ہمارے وجود سے ایسے گزرتے ہیں جیسے خلا سے گزر رہے ہوں۔ ان ذرات کی اکثریت سورج سے آتی ہے۔ ان میں سے چند ذرات کو قابو کرنے کے لیے سائنس دانوں کو 57,000 مکعب میٹر بہاری پانی کے تالابوں کی ضرورت ہوتی ہے جو زیر زمین ہوتے ہیں تاکہ دیگر ذرات نہ پہنچ سکیں۔
کبہی کبہار ایک ایسا ذرہ کسی ایٹمی مرکزے سے ٹکراتا ہے تو ہلکا سا جہماکہ ہوتا ہے۔ انہی جہماکوں کی گنتی کر کے سائنس دان کائنات کے بنیادی ذرات کے بارے کچھ مزید معلومات پا لیتے ہیں۔ 1998 میں جاپانی سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ نیوٹرینوں کا بہی وزن ہوتا ہے جو کہ ایک الیکٹران کے ایک کروڑویں حصے کے برابر ہے۔
ان ذرات کو تلاش کرنے کے لیے بہت پیسہ درکار ہوتا ہے۔ جتنا چہوٹا ذرہ تلاش کرنا ہو، اتنی بڑی مشینیں اور آلات درکار ہوتے ہیں۔ یورپی ایٹمی تحقیقاتی ادارہ سرن ایک چہوٹا سا شہر ہے جو فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر ہے۔ اس میں 3,000 افراد کام کرتے ہیں اور اس کا رقبہ کئی مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں موجود مقناطیسوں کا وزن آئفل ٹاور سے زیادہ ہے اور اس کی زیرِ زمین سرنگ 26 کلومیٹر طویل ہے۔
ایٹم توڑنا آسان ہے۔ جب آپ فلوریسنٹ لائٹ جلاتے ہیں تو یہی کام ہوتا ہے۔ تاہم ایٹم کا مرکزہ توڑنا بہت مشکل، مہنگا اور توانائی طلب کام ہے۔ ایٹمی ذرات کو بنانے والے کوارک تک جانے کے لیے کہربوں وولٹ بجلی اور چہوٹے موٹے ملک کے بجٹ جتنا پیسہ درکار ہوتا ہے۔ سرن کی نئی لارج ہیڈرون کولائڈر کے بنانے پر ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ لگے جبکہ چلانے کو 14 کہرب وولٹ بجلی درکار ہوتی ہے (اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ورلڈ وائڈ ویب ایجاد ہوا جو سرن کی ہی ایجاد ہے۔ اسے سرن کے سائنس دان سر ٹم برنرز لی نے 1989 میں ایجاد کیا)۔
تاہم یہ تو اس کے مقابلے کچھ بہی نہیں جو امریکہ میں ٹیکساس میں بنائے جانے والے سپر کنڈکٹنگ سپر کولائئڈر پر خرچ ہونے تھے۔ اس کا مقصد 84 کلومیٹر طویل سرنگ میں 99 ارب وولٹ کی مدد سے ذرات کو اس سطح پر لے جانا تھا جہاں وہ بگ بینگ کے ابتدائی سیکنڈ کے دس ہزار کہربویں حصے جیسے ہو جاتے۔ اس پر پہلے 8 اور بعد میں 10 ارب ڈالر کا تخمینہ تھا اور چلانے پر سالانہ کروڑوں ڈالر الگ۔ کانگریس نے یہ منصوبہ روک دیا۔
کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 2 ارب ڈالر ایک گڑہے میں ڈالے گئے یعنی 22 کلومیٹر طویل سرنگ کہودی گئی اور پہر منصوبہ ختم ہو گیا۔ اس وقت ٹیکساس کی وجہ افتخار کائنات کا سب سے مہنگا گڑہا ہے۔ اس سارے علاقے میں زمین صاف کی گئی ہے اور سرنگ کے اوپر جگہ جگہ مایوس قصبے ہیں۔ اس منصوبے سے مایوس ہو کر اب طبعیات دان نسبتاً سستے منصوبے بنا رہے ہیں۔ تاہم نسبتاً چھوٹے منصوبے بھی حیران کن حد تک مہنگے ہوتے ہیں۔ ایک نیوٹرینو مشاہدہ گاہ کی تجویز پیش کی گئی ہے جو ساؤتھ ڈکوٹا میں ایک پرانی اور متروک کان میں بنائی جانی تھی۔ اس کو بنانے کی قیمت 50 کروڑ ڈالر ہے اور وہ بھی اس لیے کہ کان پہلے سے کھدی ہوئی ہے۔ اسے چلانے کے سالانہ اخراجات کا ابھی حساب نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ‘جنرل کنورژن کاسٹ’ کے نام سے 28 کروڑ ڈالر سے زیادہ الگ سے مختص ہوں گے۔ النوائس کے ایک پارٹیکل ایکسلریٹر کو دوبارہ محض نصب کرنے کا خرچہ 26 کروڑ ڈالر تھا۔
پارٹیکل فزکس انتہائی مہنگی سائنس ہے لیکن اس کے بہت کچھ فائدے بھی ہیں۔ آج تک دریافت شدہ سب ایٹمی ذرات کی تعداد 150 سے تجاوز کر چکی ہے اور مزید 100 سے زیادہ کے بارے امید ہے کہ وہ بھی موجود ہوں گے۔ رچرڈ فین مین کے مطابق ‘بدقسمتی سے ان ذرات کے باہمی تعلقات کو سمجھنا انتہائی دشوار ہے اور یہ بھی کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ ‘ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہر بار جب ہم ایک صندوق کھولتے ہیں تو اس کے اندر ایک اور بند صندوق ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹائیکون نام کے ذرات بھی موجود ہیں جو روشنی سے بھی تیز ہو سکتے ہیں۔ کچھ سائنس دان گریویٹان کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں جو ان کے خیال میں کششِ ثقل کی بنیاد ہے۔ یہ کہنا آسان نہیں کہ کب ایسے ذرات سامنے آئیں گے جن کو مزید تقسیم کرنا ممکن نہ رہے۔ کارل ساگان نے اپنی کتاب ‘کوسموس’ میں یہ امکان پیش کیا تھا کہ اگر آپ الیکٹران کے اندر کا سفر کریں تو عین ممکن ہے کہ اس کے اندر ایک پوری کائنات چھپی ہوئی ہو۔ اس امکان کے بارے 1950 کی دہائی میں سائنس فکشن میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس نے لکھا تھا کہ عین ممکن ہے کہ ہر الیکٹران کے اندر موجود کائنات کے ہر ایٹم کے الیکٹران میں پھر مزید کائنات چھپی ہو اور یہ سلسلہ اسی طرح لامتناہی طور پر چلتا رہے۔ اور یہی سلسلہ اوپر کی جانب بھی لامتناہی ہو کہ ہماری پوری کائنات کسی دوسری سطح پر ایک الیکٹران ہو؟
یہ دنیا ہم میں سے زیادہ تر کے خواب و خیال سے بھی باہر ہے۔ پارٹیکل فزکس کی بنیادی معلومات جاننے کے لیے جو درسی مواد آپ پڑھیں گے وہ انتہائی ادق اصطلاحات اور مشکل زبان پر مشتمل ہو گا۔ ایسی کتب عام قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔
1960 میں کالٹیک کے طبعیات دن مرے جیل من نے سادگی متعارف کرانے کی خاطر ایک تجویز دی کہ وہ تمام ذرات جوسٹرانگ نیوکلیئر فورس سے متعلق ہیں، انہیں ایک مشترکہ نام دے دیا جائے۔ اس کے ساتھی رچرڈ فین مین نے تجویز پیش کی ان ذرات کو پارٹنز کہا جائے لیکن اسے مسترد کر کے ‘کوارک’ نام رکھا گیا۔
اگرچہ ابتداء میں کوارک کو بہت سادہ سمجھا گیا لیکن اس میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہونے لگ گئیں اور مزید شاخیں بنانی پڑیں۔ کوارک اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی رنگ، ذائقہ یا دیگر طبعی خصوصیات نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی ان کی شناخت کے لیے ان کی چھ قسمیں بنائی گئیں، اوپر، نیچے، عجیب، جادوئی، بالائی اور تہہ دار۔ طبعیات دان ان ناموں کو ذائقہ سمجھتے ہیں اور انہیں مزید آگے سرخ، سبز اور نیلے رنگوں میں بانٹا ہوا ہے۔
ان سب کو ملا کر جو نتیجہ نکلا، اسے سٹینڈرڈ ماڈل یعنی معیاری نمونہ کہتے ہیں۔ اسے آپ سب ایٹمی ذرات کی فرہنگ کہہ لیں۔ اس ماڈل میں چھ کوارکس، چھ لیپٹان، پانچ معلوم اور ایک فرض شدہ بوسون (چھٹا بوسون ہگز بوسون ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے ) اور چار طبعی قوتوں میں سے تین یعنی سٹرانگ اینڈ ویک نیوکلیئر فورسز اور برقناطیسیت ظاہر کی گئی ہیں۔
ترتیب کچھ اس طرح سے ہوئی کہ مادے کے بنیادی ذرات کوارک کہلاتے ہیں۔ انہیں گلُوآن نے ایک دوسرے سے جوڑا ہوا ہے۔ گلُوآن مل کر پروٹان اور نیوٹران یعنی ایٹم کا مرکزہ بناتے ہیں۔ لیپٹان سے الیکٹران اور نیوٹرینو بنتے ہیں۔ کوارک اور لیپٹان ایک ساتھ مل کر فرمیون کہلاتے ہیں۔ بوسون ایسے ذرات ہیں جو مختلف قوتوں کو پیدا کرتے ہیں اور ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس میں فوٹان اور گلُیوآن شامل ہیں۔ اس ماڈل کا مقصد وزن رکھنے والے ذرات کو بیان کرنا تھا۔
اگرچہ یہ ماڈل بہت آسان یا سادہ نہیں لیکن پھر بھی ذرات کی دنیا کی وضاحت کرتا ہے۔ زیادہ تر پارٹیکل فزسسٹ کے خیال میں اس ماڈل میں سادگی اور نفاست کی کمی ہے۔ فزکس ایک بنیادی سادگی کی تلاش کا نام ہے۔ ابھی تک ہم نے سادگی کی بجائے پیچیدگی ہی بڑھائی ہے۔
تاہم یہ ماڈل پُروقار نہ ہونے کے علاوہ مکمل بھی نہیں۔ اس میں کششِ ثقل کے بارے کچھ نہیں بیان کیا گیا۔ یعنی اگر آپ میز پر کچھ رکھیں تو وہ اڑ کر چھت کو کیوں نہیں جا چپکتا۔ ذرات کو کمیت دینے کی غرض سے فرض کیا گیا ہے کہ ہگس بوسون موجود ہونا چاہئے (یہ ذرہ اس کتاب کے لکھے جانے کے بعد دریافت ہوا ہے )۔
معاملہ سادہ بنانے کی غرض سے طبعیات دانوں نے سپر سٹرنگ نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق کوارک اور لیپٹان جو پہلے ذرات سمجھے جاتے تھے، در اصل سٹرنگ یعنی لڑیاں ہیں۔ توانائی کی یہ لڑیاں 11 مختلف سمتوں میں تھرتھراتی ہیں۔ ان میں سے تین سمتیں ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں، چوتھی سمت وقت اور سات مزید سمتیں جن کے بارے عام انسان کو کچھ علم نہیں۔ یہ لڑیاں انتہائی چھوٹی ہیں۔
اضافی سمتوں کی وجہ سے طبعیات دانوں نے کوانٹم قوانین اور کششِ ثقل کو ملا کر ایک نسبتاً مختصر نمونہ بنا لیا ہے۔ تاہم یہ سب نظریات اتنے عجیب ہیں کہ اگر کوئی اجنبی بندہ آپ سے اس طرح کی کوئی بات کہے تو آپ اسے سنکی سمجھ کر اس سے دور ہو جائیں۔ مثال کے طور پر مشہور طبعیات دان ماچیو کاکو نے سپر سٹرنگ نظریے کے حوالے سے کائنات کی ساخت کچھ ایسے بیان کی:
ایک مخلوط لڑی در اصل ایک بند لڑی پر مشتمل ہے جس میں دو اقسام کی تھرتھراہٹ پائی جاتی ہے یعنی گھڑیال موافق اور گھڑیال مخالف۔ دونوں کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے۔ گھڑیال موافق تھرتھراہٹ مکاں میں 10 مختلف سمتوں میں ہوتی ہے۔ گھڑیال مخالف تھرتھراہٹ 26 مختلف سمتوں میں ہوتی ہے جن میں سے 16 سمتوں کو ملا کر ایک سمت بنا دی جاتی ہے۔
اسی طرح کا متن لگ بھگ 350 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔
سٹرنگ تھیوری آگے چل کر ایم تھیوری بناتی ہے جس کے بارے میرے الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ بہتر ہے کہ اسے یہیں روک دیا جائے۔
طبعیات میں علم اب جس سطح پر پہنچ گیا ہے، اس بارے ‘نیچر’ میں پال ڈیویز نے لکھا ہے ‘اب عام قاری کے لیے یہ فرق کرنا ممکن نہیں رہا کہ کون سی بات حقیقت میں عجیب ہے اور کون سی بات نرا پاگل پن۔ ‘ 2002 میں دو فرانسیسی جڑواں بھائیوں ایگور اور گریچکا بوگڈانوف نے کثافت کا ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس میں ‘فرضی وقت’ جیسے نظریات شامل تھے اور یہ نظریہ عدم کی وضاحت کرتا ہے کہ بگ بینگ سے قبل کیا تھا (چونکہ طبعی قوانین اور طبعیات کا آغاز بگ بینگ کے بعد ہوا تھا، اس لیے بظاہر طبعیات اس عدم کے بارے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی)۔
فوراً ہی طبعیات دان اس بات پر بحث کرنے لگ گئے کہ یہ عام سی بات ہے، ذہانت کا شاہکار یا محض دھوکہ بازی؟ کولمبیا یونیورسٹی کے طبعیات دان پیٹر ووئٹ کے مطابق ‘سائنسی اعتبار سے تو یہ بالکل احمقانہ ہے لیکن آج کل ایسی باتوں کو جانچنا بہت مشکل ہو گیا ہے ‘۔
سٹیون وائن برگ نے کارل پوپر کو موجودہ سائنسی فلاسفروں کا رہنما گردانا ہے اور اس رہنما کے خیال میں ‘کوئی نظریہ آخری نہیں بلکہ ہر نظریے کی وضاحت کے لیے مزید نظریات لانا پڑیں گے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا’۔ دوسرے الفاظ میں یہ علم ہماری سمجھ سے باہر ہی رہے گا۔ تاہم وائن برگ کے مطابق ‘ابھی ذہانت ختم نہیں ہوئی، اس لیے امید باقی ہے ‘۔
اس بات پر مزید تحقیق ہونا بظاہر لازم امر ہے اور جو بھی ہو گا، وہ ہم میں سے زیادہ تر کی سمجھ سے ویسے بھی باہر ہو گا۔
پچھلی صدی کے وسط میں سائنس دان ابھی انتہائی چھوٹے پیمانے والی دنیا پر کام کر رہے تھے تو فلکیات دان کائنات کو پورا نہ سمجھ سکنے پر کام کر رہے تھے۔
جب ہم نے ایڈون ہبل کا تذکرہ کیا تھا تو بات یہاں تک پہنچی تھی کہ اس وقت تقریباً تمام ہی کہکشائیں ہم سے دور جا رہی تھیں اور جو کہکشاں جتنی دور تھی، اتنی تیزی سے جا رہی تھی۔ ہبل نے اس ساری بات کو ایک مساوات کی مدد سے ظاہر کیا جو یہ ہے
Ho=v/d
Ho ایک مستقل ہے، v کہکشاں کی رفتار اور d کہکشاں سے ہمارا فاصلہ۔ Ho کو ہبل کا مستقل اور اس مساوات کو ہبل کا قانون کہتے ہیں۔ اس مساوات کی مدد سے ہبل نے کائنات کی عمر 2 ارب سال بتائی۔ یہ بات کچھ عجیب سی تھی کیونکہ اسی صدی کے آغاز سے معلوم ہو چکا تھا کہ کائنات کے بعض اجرامِ فلکی بشمول زمین کے، اس سے زیادہ پرانے ہیں۔ کائنات کی عمر کے بارے نظریات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔
ہبل کے مستقل کے بارے ایک بات پکی ہے کہ اس پر اختلافات مستقل بڑھ رہے ہیں۔ 1956 میں ماہرینِ فلکیات نے سیفائیڈ متغیرات کے بارے یہ جانا کہ وہ ان کی توقعات سے بڑھ کر متغیر ہیں۔ ان کی ایک نہیں بلکہ دو اقسام ہیں۔ اس وجہ سے سارا حساب کتاب دوبارہ کرنا پڑا اور اب کائنات کی عمر 7 سے 20 ارب سال کے درمیان ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ بہت بڑا فرق رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ زمین کی عمر سے مطابقت رکھتا ہے۔
ہبل کے جانشین سینڈیج نے پوری احتیاط سے حساب کتاب کر کے معلوم کیا کہ ہبل کے مستقل کی قیمت 50 ہے۔ عین اسی طرح یونیورسٹی آف ٹیکساس کے فرانسیسی نژاد ماہرِ فلکیات کے انتہائی محتاط حساب کتاب کے مطابق اس کی قیمت 100 ہے (آپ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ 50 یا 100 سے کیا مراد ہے۔ اس کا جواب فلکیاتی پیمائش کی اکائی ہے۔ بحث سے ہٹ کر سائنس دان نوری سال کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے بلکہ parsec یعنی Parallax اور second کا مخفف۔ یہ 3.26 نوری سال کے برابر ہوتا ہے۔ بہت بڑے فاصلے، جیسا کہ کائنات کا طول و عرض میگا پارسیک میں ظاہر کرتے ہیں۔ یہ مستقل کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ہبل کے مستقل کی قیمت 50 ہو تو یہ 50 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو اور 100 ہو تو 100 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک کو ظاہر کرتا ہے )۔ یعنی دونوں ماہرین کے اندازے میں دگنا فرق پایا جاتا ہے۔ 1994 میں خلائی دوربین ہبل سے کی گئی پیمائش کے مطابق کچھ طبعیات دانوں نے کائنات کی عمر 8 ارب سال بتائی ہے جو ان کے اپنے خیال میں کائنات کے کئی ستاروں کی عمر سے کم ہے۔ 2003 میں ناسا کی ایک ٹیم نے ایک نئے اور دور تک پیمائش کرنے والے مصنوعی سیارے کی مدد سے کائنات کی عمر 13.7 ارب سال اخذ کی ہے۔ تاہم اس میں 10 کروڑ سال کی کمی بیشی ممکن ہے۔ ابھی اس کے بعد کوئی نظریہ نہیں آیا۔
ان مشکلات کا سبب یہ بھی ہے کہ مختلف اندازے لگانے میں بہت گنجائش نکل آتی ہے۔ فرض کریں کہ آپ رات کو کسی کھیت میں کھڑے ہو کر دور دکھائی دینے والی دو روشنیوں کا فاصلہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اگر آپ عام فلکیاتی اصول اپنائیں اور فرض کریں کہ دونوں یکساں دکھائی دینے والے دو بلب ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے دو گنا دور ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا نزدیکی بلب 58 واٹ والا ہے جو ہم سے 37 میٹر دور ہے یا کہ 61 واٹ کا بلب ہے جو کہ 36.5 میٹر دور ہو گا۔ اس کے علاوہ مزید یہ بھی کہ کرہ ہوائی میں موجود مختلف ذرات، کہکشاؤں کے بیچ موجود گرد، سامنے موجود ستاروں کی روشنی اور دیگر بہت سارے عوامل بھی اس فاصلے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ یعنی یوں کہہ لیں کہ آپ کا اندازہ مسلسل فرض کردہ مقداروں پر مبنی ہے۔ اگر ایک بھی فرض کردہ مقدار غلط ہو تو اس کے نتیجے میں آگے والی تمام مقداریں بھی خودبخود غلط ہو جائیں گی۔ مزید یہ بھی خیال رہے کہ دوربینوں پر وقت لینا بہت دشوار ہے اور سرخ جھکاؤ یعنی ریڈ شفٹ کو ماپنا کافی مہنگا کام ہے۔ نتیجتاً ماہرین بعض اوقات انتہائی معمولی شواہد کی بنیاد پر اندازے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک صحافی جیفری کار کے مطابق ‘چوہے کے بل جتنے شواہد پر نظریات کا پہاڑ کھڑا کر دیا جاتا ہے ‘۔ مارٹن ریس کے خیال میں ‘ہمارا موجودہ علم ہمارے نظریات کی درستگی کی بجائے شواہد کی قلت کو ظاہر کرتا ہے ‘۔
نتیجتاً یہ مشکلات نہ صرف بلکہ کائنات کے سروں پر موجود چیزوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ ڈونلڈ گولڈ سمتھ کے مطابق ‘جب فلکیات دان کہتے ہیں کہ ایم 87 کہکشاں ہم سے 6 کروڑ نوری سال دور ہے تو ان کے کہنے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ کہکشاں ہم سے 4 سے 9 کروڑ نوری سال دور ہے۔ 4، 6 اور 9 کروڑ نوری سال کا فرق بہت زیادہ ہے۔ ‘
ایک نئے نظریے کے مطابق یہ کائنات اتنی بڑی نہیں جتنی ہم سمجھ رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ دور پار کی کہکشائیں در اصل پاس موجود کی کہکشاں کا عکس ہوں؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی سطح پر بھی بہت کچھ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ کائنات کس چیز سے بنی ہے۔ جب بھی ماہرین کائنات کو جمع رکھنے والی کشش کی پیمائش کے لیے مادے کا شمار کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ مطلوبہ مقدار سے کہیں کم نکلتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہماری کائنات کا 90 سے 99 فیصد حصہ زویسکی والے ‘تاریک مادے ‘ سے بنا ہو۔ اس بات سے بہت مایوسی ہوتی ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، اس کا انتہائی بڑا حصہ ہم دیکھ بھی نہیں سکتے۔ تاہم اس سے دو نظریات سامنے آتے ہیں کہ یہ ناقابلِ مشاہدہ حصہ یا تو WIMP یعنی بگ بینگ کے بعد رہنے والے آوارہ مادے یا MACHO یعنی سیاہ شگافوں، بھورے بونوں اور دیگر انتہائی مدھم ستاروں پر مشتمل ہے۔
ذراتی طبعیات دانوں کے خیال میں یہ WIMP ہے تو فلکیاتی طبعیات دانوں کا زور MACHO پر ہے۔ کچھ عرصے تک MACHO کو برتری رہی لیکن چونکہ ان کی اکثریت کا مشاہدہ نہیں ہو سکا، اس لیے اب اکثریت WIMP کے حق میں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ WIMP آج تک نہیں ملے۔ چونکہ ان کی باہمی قوتیں بہت کمزور ہوتی ہیں، اس لیے انہیں دیکھنا اتنا ہی مشکل۔ کائناتی شعاعیں بہت خلل پیدا کر سکتی ہیں۔ سائنس دانوں کو زمین کے بہت اندر جا کر تجربات کرنے پڑتے ہیں۔ زمین پر سطح پر ٹکرانے والے ذرات کی تعداد 1 کلومیٹر گہرائی پر 10 لاکھ گنا کم ہو جاتی ہے۔ تاہم ان سب کو جمع کرنے کے بعد بھی کائنات کا دو تہائی حصہ نہیں ملتا۔ فی الوقت ہم انہیں DUNNOS کہہ دیتے ہیں یعنی مدھم، منعکس نہ کرنے والے، نہ محسوس ہونے والے اجسام جو کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔
حالیہ مشاہدات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہ صرف کہکشائیں ہم سے دور ہو رہی ہیں بلکہ یہ بھی کہ ان کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہے جو کہ تمام توقعات کے برعکس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کائنات میں نہ صرف تاریک مادہ بلکہ تاریک توانائی بھی موجود ہے۔ سائنس دان اسے بعض اوقات خلائی توانائی کہتے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو، کسی کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ نظریہ یہ بھی بتاتا ہے کہ خلاء یکسر خالی نہیں۔ اس میں مادہ اور ضد مادہ پیدا ہوتا اور گم ہوتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے کہکشاؤں کے دور جانے کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ دیکھیں کہ اس ساری الجھن کی وضاحت کرنے کو آئن سٹائن کا وہ مستقل موجود ہے جو اس نے اپنے عمومی نظریہ اضافت سے یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ شاید یہ غلطی، غلطی نہیں تھی؟
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، ہمیں اس کی عمر کا علم نہیں، ہمارے آس پاس موجود ستاروں کا ہم سے یا باہمی فاصلہ ہم نہیں ناپ سکتے، ایسے مادے سے بھری کائنات ہے جو ہم پہچان نہیں سکتے، ایسے قوانین پر چل رہی ہے جس کے بارے ہمیں کوئی سمجھ نہیں۔
اب اسے یہیں چھوڑ کر ہم کرہ ارض کی جانب واپس لوٹتے ہیں جس کے بارے ہمیں کچھ تو علم ہے۔ اگرچہ ہمیں اس کے بارے بہت کچھ معلوم نہیں اور جو کچھ علم ہے وہ بھی کچھ عرصہ قبل پتہ چلا ہے۔
٭٭٭
12زمین حرکت کرتی ہے
1955 میں اپنی وفات سے قبل البرٹ آئن سٹائن نے مشہور ماہرِ ارضیات چارلس ہیپ گڈ کی کتاب Earth’s Shifting Crust: A Key to Some Basic Probelms of Earth Science کا مختصر مگر بہترین پیش لفظ لکھا۔ یہ کتاب اس نظریے کی بہترین نفی تھی کہ براعظم حرکت کر رہے ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں ہیپ گڈ نے بتایا کہ ‘چند سادہ لوح افراد براعظموں کے کناروں کے درمیان تعلق دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں براعظم جنوبی امریکہ براعظم افریقہ کے ساتھ منقطبق ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کے خیال میں بحرِ اوقیانوس کے دونوں کناروں کی چٹانیں تک ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ ‘
ہیپ گڈ نے ایسی کسی بھی بات کو رد کیا اور کہا کہ اپنے وقت کے مشہور ماہرینِ ارضیات کے ای کیسٹر اور جے سی مینڈس نے بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب کی چٹانوں پر طویل تحقیق کی ہے اور انہیں ایسی کوئی مماثلت نہیں ملی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان ماہرین نے کن چٹانوں کا مشاہدہ کیا تھا کیونکہ دونوں اطراف کی چٹانیں مماثل نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔
یہ نظریہ اس دور کے اکثر ماہرینِ ارضیات کے عتاب کا شکار رہا تھا۔ ہیپ گڈ نے جس نظریے کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ نظریہ 1908 میں ایک امریکی شوقیہ ماہرِ ارضیات فرینک برسلے ٹیلر نے پیش کیا تھا۔ ٹیلر کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا جس کی وجہ سے اسے تعلیمی یا مالی مشکلات کا سامنا کیے بغیر اس میدان میں غیر روایتی انداز سے کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان افراد میں تھا جن کی توجہ سب سے پہلے افریقہ اور جنوبی امریکہ کے براعظموں کی ساخت کی جانب مبذول ہوئی اور اسی سے اس نے اندازہ لگایا کہ براعظم کبھی حرکت میں تھے۔ اس نے یہ بھی درست اندازہ لگایا براعظموں کی حرکت کی وجہ سے ہی دنیا کے پہاڑی سلسلے بلند ہوئے ہیں۔ تاہم وہ شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے سائنسی دنیا میں اس کے نظریات کو دیوانہ پن کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔
تاہم جرمنی میں ایک نظریاتی سائنس دان اور یونیورسٹی آف ماربورگ کے ماہرِ موسمیات الفریڈ ویگنر نے قبول کیا۔ اس نے یہ تحقیق کی تھی کہ نباتات اور حیوانات کے فاسلوں میں پائی جانے والی عدم یکسانیت کے بارے موجودہ ارضیاتی نظریہ خاموش ہے اور اگر اسے لاگو کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ جانوروں کے فوسل مسلسل سمندر کے دونوں اطراف میں پائے جاتے ہیں جبکہ سمندر اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی جانور اسے تیر کر عبور نہیں کر سکتا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ کیا تھیلی دار جانور جنوبی امریکہ سے آسٹریلیا تک سفر کر کے پہنچے؟ سکینڈے نیویا اور نیو انگلینڈ میں ایک ہی نسل کے گھونگھے کیسے پہنچے؟ اسی طرح اس بات کی وضاحت کیسے کی جائے کہ سپیٹس برگن کے مقام پر پایا جانے والا کوئلے کا ذخیرہ جو قدیم جنگلات سے بنا ہے، ناروے سے 600 کلومیٹر میں شمال میں کیسے پیدا ہو گیا؟ کیا یہ جنگل کبھی گرم علاقے میں نہیں تھا جو زمین کی حرکت کے ساتھ شمال کو چلا گیا؟
ویگنر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کے تمام براعظم پہلے پہل ایک بڑے زمینی قطعے کی شکل میں ایک جگہ موجود تھے جسے پنجائیا کہا گیا۔ اس مقام پر حیوانات اور نباتات ہر جگہ پھیل گئے اور جب یہ زمین موجودہ براعظموں کی شکل میں الگ ہوئی تو یہ نباتات اور حیوانات بھی اس کے ساتھ پھیل کر موجودہ مقامات تک پہنچ گئے۔ اس نے اس موضوع پر کتاب لکھی جس کا نام Die Entstehung der Kontinente und Ozeane یا The Origina of Continents and Oceans تھا۔ یہ کتاب 1912 میں جرمن زبان میں چھپی اور پہلی جنگِ عظیم کے باوجود انگریزی میں تین سال بعد چھپی۔
جنگ کی وجہ سے پہلے پہل تو اس نظریے پر کسی نے توجہ نہیں دی لیکن 1920 میں جب نظرِ ثانی اور اضافے کے بعد اس کتاب کو دوبارہ پیش کیا گیا تو ہر جگہ اس پر بحث شروع ہو گئی۔ اس بات پر عمومی اتفاق تھا کہ براعظم اوپر نیچے کو حرکت کرتے ہیں، اطراف میں نہیں۔ عمودی حرکات کا یہ نظریہ Isostasy کہلاتا ہے اور کئی نسلوں سے ارضیاتی اہمیت رکھتا ہے لیکن اس بارے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کب اور کیسے ہوا۔ میرے سکول کے دور تک ایک نظریہ جو درسی کتب میں شامل تھا، کو آسٹریا کے ایڈورڈ سوئیز نے پچھلی صدی کے اختتام پر پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق پگھلی ہوئی زمین جب ٹھنڈی ہوئی تو اس پر ایسے سلوٹیں پڑ گئیں جیسے آپ کسی سیب کو پکائیں تو پڑتی ہیں۔ اس طرح پہاڑی سلسلے اور سمندر بنے۔ اگرچہ اس سے بہت پہلے ہٹن یہ بات ثابت کر چکا تھا کہ ایسی کی سبھی صورتحال میں زمین محض ایک کرہ بن جاتا کہ کٹاؤ کی وجہ سے سارے اونچے اور نیچے مقامات برابر ہو جاتے۔ اس کے علاوہ ردرفورڈ اور سوڈی اس بات کو صدی پہلے بتا چکے تھے کہ زمینی عناصر میں کتنی گرمی چھپی ہوئی ہے جو اتنی زیادہ ہے کہ زمین اس طرح کبھی ٹھنڈی ہو ہی نہیں سکتی جیسا کہ سوئیز نے بتایا۔ بہرحال، اگر سوئیز کا نظریہ درست بھی ہوتا تو پہاڑی سلسلے پوری زمین پر یکسانیت سے پائے جاتے جو حقیقت کے برخلاف ہے۔ اس کے علاوہ ان کی عمریں بھی کم و بیش برابر ہوتیں جبکہ یہ بات 18ویں صدی میں واضح ہو چکی تھی کہ کچھ پہاڑی سلسلے جیسا کہ یورال اور اپلاچین کی عمر ایلپس اور راکیز سے کئی کروڑ سال زیادہ ہے۔ ظاہراً نئے نظریے کے لیے میدان ہموار ہو چکا تھا۔ بدقسمتی سے ویگنر جیسے بندے کی طرف سے ایسے نظریے کا پیش کیا جانا ماہرین ارضیات کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
سب سے پہلے تو یہ بات قابلِ اعتراض تھی کہ ویگنر کے ‘احمقانہ’ نظریے نے ان کے علم کی پوری بنیاد ہی ہلا دی تھی، جو سامعین سے داد وصول کرنے کا سب سے برا طریقہ ہے۔ ایسا کوئی نظریہ ماہرِ ارضیات بھی پیش کرتا تو وہ بھی تکلیف دہ ہوتا جبکہ ویگنر ماہرِ ارضیات بھی نہیں تھا۔ اس کی تعلیم موسمیات سے متعلق تھی۔ ماہرِ موسمیات اور وہ بھی جرمن۔ یہ صورتحال تو بالکل ہی ناقابلِ قبول تھی۔
اس طرح ہر ممکن کاوش سے ماہرینِ ارضیات نے ویگنر کو جھٹلانے کی کوشش کی۔ فوسل کی یکسانیت سے پیچھا چھڑانے کے لیے انہوں نے ہر ممکن جگہ پر زمینی راستے یا پل ظاہر کرنا شروع کر دیے۔ جب ایک قدیم نسل کا گھوڑا فرانس اور فلوریڈا، دونوں جگہ فاسل حالت میں پایا گیا تو ان ماہرین نے بحرِ اوقیانوس پر ایک پل بنا دیا۔ جب ٹیپر کی ایک نسل جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی امریکہ میں ایک ساتھ پائی گئی تو ایک پل وہاں بنا دیا گیا۔ کچھ ہی عرصے میں ان فرضی پلوں سے تقریباً سارے سمندر بھر گئے۔ یہ پل شمالی امریکہ سے یورپ، برازیل سے افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا سے آسٹریلیا اور آسٹریلیا سے انٹارکٹکا تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ پل نہ صرف بوقتِ ضرورت کہیں بھی نمودار ہو سکتے تھے بلکہ ان کے غائب ہونے پر ان کے تمام تر نشانات بھی مٹ جاتے تھے۔ اگرچہ ان سب کے پیچھے کوئی شواہد نہیں تھے لیکن پھر بھی اگلی نصف صدی تک یہی نظریات علم الارضیات کی بنیاد بنے رہے۔
تاہم زمینی پلوں سے بھی ہر مشکل کی وضاحت نہ ہو پائی۔ مثال کے طور پر ٹریلوبائٹس کی ایک نسل یورپ اور نیو فاؤنڈ لینڈ، دونوں جگہوں پر پائی جاتی ہے۔ تاہم نیو فاؤنڈ لینڈ جزیرے کے ایک سرے پر تو یہ ملتے ہیں، دوسرے پر نہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹریلوبائٹس بپھرے سمندر میں 3,000 کلومیٹر سفر طے کر کے نیوفاؤنڈ لینڈ تو جا پہنچے ہوں لیکن محض 300 کلومیٹر کا سفر کر کے اس جزیرے کے دوسرے سرے تک نہ پہنچ پائے ہوں؟ ٹریلو بائٹس کی ایک قسم یورپ کے علاوہ شمالی امریکہ میں بحرِ الکاہل کے مشرقی ساحل پر تو پائی گئی لیکن درمیان میں ان کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس کے باوجود 1964 کے انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں مختلف نظریات پر بات کرتے ہوئے ویگنر کے نظریات کے بارے محض یہ درج ہے کہ اس میں شدید نظریاتی مشکلات پائی جاتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ویگنر کے نظریات میں غلطیاں تھیں۔ مثال کے طور پر اس نے بتایا کہ گرین لینڈ 1.6 کلومیٹر سالانہ مغرب کو سرک رہا ہے جبکہ اصل میں یہ ایک سینٹی میٹر سالانہ ہے۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی وضاحت نہیں کی کہ آخر زمین کے اتنے بڑے قطعے کیوں سرکتے ہیں۔ اس نظریے کو ماننے کا مطلب یہ تھا کہ خشکی کے بڑے بڑے قطعے زمین کی بالائی سطح سے ایسے گزرتے ہیں جیسے کھیت میں ہل چلاتے ہیں۔ تاہم ان کا کوئی نشان نہیں باقی بچتا۔ ان عظیم سرکاؤ کی کوئی معقول وجہ نہیں مل سکی تھی۔
آرتھر ہومز وہ انگریز ماہرِ ارضیات تھا جس نے نہ صرف زمین کی عمر جاننے کے لیے کافی کام کیا تھا بلکہ اس نے ایک رائے پیش کی۔ ہومز پہلا سائنس دان تھا جس نے جانا کہ تابکاری سے پیدا ہونے والی حدت کی وجہ سے زمین کے اندر لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے یہ لہریں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ زمین کی سطح پر موجود براعظموں کو سرکا سکیں۔ اپنی 1944 میں چھپنے والی مشہور کتاب Principles of Physical Geology میں اس نے براعظموں کے سرکاؤ کا نظریہ پیش کیا جو بنیادی طور پر آج تک مانا جاتا ہے۔ تاہم یہ نظریہ قبل از وقت تھا اور اس کی سب سے زیادہ مخالفت ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہوئی۔ ایک ناقد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہومز اپنے نظریات اور دلائل کو اتنے واضح اور پر زور انداز میں پیش کرتا ہے کہ اس کے طلباء کو شاید ان پر یقین بھی آ جاتا ہو۔ تاہم دیگر جگہوں پر محتاط لیکن مثبت انداز میں اس نظریے کو قبول کیا گیا۔ 1950 میں سائنس کی ترقی کی سالانہ میٹنگ میں رائے شماری سے پتہ چلا کہ کم از کم نصف افراد اب اس نظریے کو اپنا چکے ہیں (ہیپ گڈ نے اس رائے شماری پر رائے دی کہ برطانوی ماہرِ ارضیات کتنے بھٹک گئے ہیں )۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہومز خود بھی بعض اوقات شکوک کا شکار ہو جاتا تھا۔ 1953 میں اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا۔
امریکہ میں کچھ لوگ براعظمی سرکاؤ یعنی کانٹی نینٹل ڈریفٹ کے حق میں بھی تھے۔ ہارورڈ کے ریگنالڈ ڈالی نے اس کے حق میں بات کی لیکن شاید آپ کو یاد ہو گا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے کہا تھا کہ چاند کیسے بنا تھا۔ اس کے نظریات کے بارے عام خیال یہی تھا کہ وہ دلچسپ تو ہیں لیکن ان پر سنجیدگی سے غور کرنا فضول ہے۔ اس طرح زیادہ تر امریکی تعلیمی ادارے اس بات پر قائم رہے کہ براعظم شروع سے ہی موجودہ مقامات پر تھے اور ان کے کناروں کی ساخت سرکاؤ کی بجائے کسی اور وجہ سے ایسی تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ برسوں سے تیل کمپنیوں کے ماہرینِ ارضیات اس بات کو جانتے تھے کہ تیل کی تلاش کے کام میں آپ کو جن باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، وہ صرف اور صرف پلیٹ ٹیکٹانکس سے ہی پیدا ہو سکتی ہیں۔ تاہم تیل کمپنیوں کے ماہرینِ ارضیات کبھی اس طرح کے مقالہ جات نہیں لکھتے۔ ان کا کام تیل تلاش تک محدود رہتا ہے۔
زمین کے حوالے سے پیش کردہ نظریات میں ایک بہت بڑا جھول تھا جو معمہ بنا ہوا تھا۔ جھول یہ تھا کہ آخر سمندری تلچھٹ جاتی کہاں ہے۔ ہر سال دریا بہت بڑی مقدار میں تلچھٹ سمندر میں لا کر ڈالتے ہیں۔ اس میں صرف کیلشیم کی مقدار 50 کروڑ ٹن ہوتی ہے۔ اگر اتنی بڑی مقدار میں تلچھٹ یا گاد جمع ہوتی رہے تو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی مقدار ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہوتی۔ اندازہ ہے کہ اس وقت سمندر کی تہہ میں کم از کم 20 کلومیٹر اونچی تہہ ہوتی یا یہ کہ تمام تر سمندری تہیں اب سطح سمندر سے زیادہ بلند ہو چکی ہوتیں۔ سائنس دانوں نے اس مسئلے کا انتہائی خوبصورت حل نکالا۔ انہوں نے اس بات کو سرے سے نظر انداز کر دیا۔ تاہم پھر ایسا وقت بھی آیا کہ وہ اسے مزید نظر انداز نہ کر سکتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر معدنیات ہیری ہیس کو ایک جنگی مال بردار جہاز کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ جہاز یو ایس ایس کیپ جانسن تھا۔ اس جہاز پر گہرائی ماپنے والا آلہ فیدو میٹر بھی نصب تھا۔ اس آلے کا بنیادی مقصد ساحل پر فوجی اور سامان اتارتے ہوئے زیرِ آب چھپی چٹانوں کو دیکھنا تھا۔ ہیس نے محسوس کیا کہ اس سے سائنسی کام بھی لیا جا سکتا ہے اور اس نے گہرے سمندر اور حالتِ جنگ میں بھی اس آلے کو چلائے رکھا۔ اسے ملنے والے نتائج ناقابلِ یقین تھے۔ عام نظریے کے مطابق اگر سمندری تہیں قدیم تھیں تو ان پر تلچھٹ کی بہت بڑی مقدار موجود ہوتی، جو کہ جھیلوں اور دریاؤں میں عام پائی جاتی ہے۔ ہیس کے پیمائشوں کے مطابق کہیں بھی تلچھٹ دکھائی نہیں دی۔ ہر جگہ کھائیاں، خندق نما جگہیں اور سلوٹیں سی موجود تھی۔ بہت ساری جگہوں پر زیرِ آب آتش فشاں پہاڑ بھی موجود تھے جنہیں اس نے پرنسٹن کے ایک ماہرِ ارضیات آرنلڈ گاؤٹ کے نام پر گاؤٹ کہا۔ اگرچہ یہ سب باتیں عجیب تو تھیں لیکن ہیس کے سامنے جنگ تھی۔ اس لیے اس نے یہ سوچیں بعد کے لیے چھوڑ دیں۔
جنگ کے بعد ہیس پرنسٹن لوٹا اور پڑھانے میں مشغول تو ہو گیا لیکن سمندری تہہ سے متعلق سوالات اس کے ذہن پر چھائے رہے۔ 1950 کی دہائی میں اوشیانوگرافر سمندری تہوں کے بہتر نقشے تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے اور اس عمل میں انہیں مزید حیران کن معلومات ملیں۔ دنیا کے سے بڑے اور سب سے اونچے پہاڑی سلسلے سمندروں میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ سلسلے سمندروں کے نیچے ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے ٹینس کی گیند پر نشان ہوتے ہیں۔ اگر آپ آئس لینڈ سے شروع کریں تو یہ سلسلہ بحرِ اوقیانوس کے وسط سے ہوتا ہوا افریقہ کے گرد گھوم کر بحرِ ہند اور دیگر جنوبی سمندروں سے گزرتا ہوا آسٹریلیا کے نیچے سے گزرتا ہوا بحرالکاہل کو مڑ کر باجا کیلیفورنیا کو جاتا اور وہاں سے امریکہ کے ساحل سے ہوتے ہوئے الاس کا تک جاتا ہے۔ جگہ جگہ اس کی اونچی چوٹیاں پانی کی سطح سے اوپر نکل کر جزیرے یا جزائرکے مجموعے مثلاً بحرِ اوقیانوس میں ازور اور کناری جزائر اور بحرالکاہل میں ریاست ہوائی اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ تاہم زیادہ تر حصے پانی کی گہرائیوں میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ اگر ہم ان تمام پہاڑی سلسلوں کو اکٹھا کریں تو ان کی لمبائی 75,000 کلومیٹر بنتی ہے۔
اس وقت تک ان پہاڑوں کے بارے شاید ہی کسی کو کچھ علم ہو۔ 18ویں صدی میں سمندر کی تہہ میں تار بچھانے والے لوگ جانتے تھے کہ بحرِ اوقیانوس کے وسط میں کہیں نہ کہیں پہاڑ موجود ہیں لیکن انہیں ان پہاڑوں کے حجم یا ان کے تسلسل کے بارے کوئی معلومات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ایسی تھیں جن کی کوئی وضاحت ممکن نہیں تھی۔ بحرِ اوقیانوس کے درمیان 20 کلومیٹر تک چوڑی ایک دراڑ اس پہاڑی سلسلے میں موجود تھی اور اس کی لمبائی 19,000 کلومیٹر تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین دو حصوں میں تقسیم ہو رہی ہو۔ اگرچہ ایسا خیال ناممکن اور تکلیف دہ تھا لیکن تمام تر شواہد یہی بتا رہے تھے۔
1960 کی دہائی میں لیے گئے نمونوں سے پتہ چلا کہ اس دراڑ پر موجود تلچھٹ زیادہ پرانی نہیں۔ لیکن جوں جوں اس سے دور ہوتے جائیں تو تلچھٹ پرانی ہوتی جاتی ہے۔ ہیری ہیس نے اس بارے سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ سمندر کی نئی سطح اس دراڑ سے نمودار ہو رہی ہے اور پہلے سے موجود سطح کو دور دھکیلتی جاتی ہے۔ یعنی بحرِ اقیانوس کی سطح پر دو کنویئر بیلٹیں چل رہی ہیں جو شمالی امریکہ اور یورپ کی طرف نئی سمندری تہہ بکھیر رہی ہیں۔ اس عمل کو سمندری تہہ کا پھیلاؤ کہا جاتا ہے۔
جب یہ تہہ پھیلتے ہوئے اس جگہ پہنچتی ہے جہاں خشکی کی تہہ سمندر سے ملتی ہے تو یہ نئی تہہ خشکی کے نیچے گھُستی ہے جسے سب ڈکشن کہتے ہیں۔ اس عمل سے وضاحت ہوتی ہے کہ پرانی تلچھٹ کہاں جاتی ہے۔ یہ تلچھٹ واپس زمین کی نچلی سطح کو لوٹ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سمندروں کی تہہ نسبتاً کم پرانی ہے۔ آج تک کہیں بھی سمندر کی سطح ساڑھے 17 کروڑ سال سے زیادہ پرانی نہیں مل سکی جبکہ سطح زمین پر موجود پتھروں اور چٹانوں میں اربوں سال پرانے نمونے مل جاتے ہیں۔ اس طرح ہیس کو یہ جواب ملا کہ سمندری سطح محض اتنی ہی پرانی ہو سکتی ہے جتنا وقت اسے اس دراڑ سے کنارے تک پہنچنے میں لگتا ہے۔ اس خوبصورت نظریے سے بہت ساری باتوں کی وضاحت ہو گئی تھی۔ ہیس نے اس بارے بہت اہم مقالہ لکھا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔ بعض اوقات دنیا کسی اچھے خیال کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
اس دوران دو محقق جو الگ الگ کام کر رہے تھے، نے کئی دہائیاں قبل دریافت شدہ حقائق کی بنیاد پر زمین کی تاریخ کے بارے حیران کن انکشافات کرنا شروع کر دیے۔ 1906 میں فرانسیسی طبعیات دان برنارڈ برن ہیس نے دیکھا کہ زمین کا مقناطیسی میدان اپنا رخ بدلتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت مختلف پتھروں میں موجود لوہے کے انتہائی باریک ذرات کے رخ سے ملتے ہیں۔ جب چٹان ٹھنڈی ہو کر جمتی ہے تو اس وقت اس میں موجود یہ ذرات جس طرح ہوتے ہیں، ویسے ہی جم کر رہ جاتے ہیں اور اپنی تخلیق کے وقت مقناطیسی قطب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں یونیورسٹی آف لندن کے پیٹرک بلیکیٹ اور یونیورسٹی آف نیو کیسل کے ایس کے رنکارن نے برطانیہ کی قدیم چٹانوں میں ایسے ذرات کا جائزہ لیا تو انتہائی حیران کن انکشافات ہوا کہ جیسے ماضی بعید میں برطانیہ جیسے اپنے مرکز پر گھوم کر اور تھوڑا سا شمال کو سرک گیا ہو۔ مزید برآں اگر آپ یورپ کے ایسے نقشے کو امریکہ کے اسی دور کے ایسے ہی نقشے سے ملائیں تو دونوں ایک دوسرے سے ایسے فٹ ہوتے ہیں جیسے ایک ہی ہوں۔ تاہم ان کی دریافت بھی نظرانداز ہوئی۔
آخرکار کیمبرج کے جیو فزسٹ ڈرمنڈ میتھیوز اور اس کے طالبعلم فریڈ وائن نے مل کر سارے نظریات جمع کیے۔ 1963 میں انہوں نے بحرِ منجمد شمالی کی تہہ کے مقناطیسی مطالعے سے دکھایا کہ سمندری تہہ عین اسی طرح پھیل رہی ہے جیسے کہ ہیس نے پیشین گوئی کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ براعظم حرکت کر رہے ہیں۔ عین اسی وقت ایک بدقسمت کینیڈین ماہرِ ارضیات عین اسی نتیجے پر پہنچا لیکن اپنا تحقیقی مقالہ بروقت چھپوانے میں ناکام رہا۔ اس وقت جرنل آف جیو فزیکل ریسرچ نامی رسالے کے ایڈیٹر نے اسے بتایا ‘ایسے نظریات کاک ٹیل پارٹی میں ہی دلچسپ محسوس ہوتے ہیں۔ تاہم سائنسی حلقوں میں ایسی باتیں چھپوانا مستحسن نہیں۔ ‘ بعد میں ایک ماہرِ ارضیات کے مطابق ‘سائنسی تاریخ میں شاید یہ اہم ترین مقالہ تھا جسے شائع کرنے سے انکار کیا گیا۔ ‘
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت تک زمین کی اوپری سطح کا حرکت کرنے کا خیال اتنا عام ہو چکا تھا کہ یہ خیال کسی نہ کسی کو آ ہی جاتا۔ رائل سوسائٹی کی 1964 کی ایک میٹنگ میں سائنس کی اس شاخ کے اہم ترین افراد جمع ہوئے اور اچانک ہی ہر کوئی اس پر یقین کرنے لگا۔ میٹنگ میں اس بات پر ہر کسی نے اتفاق کیا کہ زمین کی سطح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ٹکڑوں سے مل کر بنی ہے جس کی وجہ سے اتنے بڑے بڑے ارضیاتی حادثات پیش آتے ہیں۔
کانٹی نینٹل ڈریفٹ یعنی براعظمی سرکاؤ کا لفظ جلد ہی اپنا معنی کھو بیٹھا کہ نئی تحقیق نے بتایا کہ صرف برِاعظم ہی نہیں بلکہ تمام تر اوپری تہہ حرکت کر رہی ہے۔ تاہم نئے نام کے لیے فوری اتفاق نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوں نے ‘کرسٹل بلاکس’ کہا تو کچھ نے اسے ‘پیوونگ سٹونز’۔ تاہم 1968 میں تین امریکی سائزمالوجسٹس نے جرنل آف جیوفزیکل ریسرچ میں ایک مضمون چھپوایا۔ اس مضمون میں ان ٹکڑوں کو پلیٹس کا نام دیا گیا اور اس مضمون نے متعلقہ علمی شاخ کو پلیٹ ٹیکٹانکس کا نام دیا۔
چونکہ پرانے نظریات سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں، اس لیے اس نئے خیال کو ماننے والے افراد کی تعداد آہستہ آہستہ ہی بڑھی۔ 1970 کی دہائی میں ارضیات کے موضوع پر انتہائی اہم اور پراثر کتاب The Earth میں ہیرلڈ جیفریز نے پورے یقین سے پلیٹ ٹیکٹانکس کے نظریے کو یہ کہہ کر جھٹلایا کہ طبعی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں۔ عین یہی نظریہ اس نے اسی کتاب کے 1924 کے پہلے ایڈیشن میں بھی ایسے ہی پیش کیا تھا۔ زمین کے اندر حرارت کی منتقلی ہو یا سمندروں کی پھیلتی تہہ، دونوں ہی ناممکن تھے۔ 1980 میں اپنی کتاب Basin and Range میں جان میکفی نے بتایا کہ ہر آٹھ میں سے ایک امریکی ارضیات دان پلیٹ ٹیکٹانکس پر یقین نہیں کرتا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ زمین کی اوپری سطح آٹھ سے بارہ بڑی (اس بات پر منحصر ہے کہ آپ بڑی کسے کہتے ہیں ) جبکہ بیس چھوٹی پلیٹوں پر مشتمل ہے۔ جتنی بڑی پلیٹ ہو گی، اتنی کم اور جتنی چھوٹی پلیٹ ہو گی، اتنا ہی تیز حرکت کرے گی۔ اتفاق سے ان کے نام بھی وہی ہیں جو ان کے اوپر موجود زمین کے مقامات کے نام ہیں۔ نارتھ امریکن پلیٹ برِاعظم شمالی امریکہ سے بہت بڑی ہے۔ یہ پلیٹ شمالی امریکہ کے مغربی ساحل سے شروع ہوتی ہے (اسی وجہ سے یہ جگہ زلزلوں کے حوالے سے کافی متحرک ہے ) اور بحرِ اوقیانوس کے وسط میں موجود عظیم دراڑ تک جاتی ہے۔ آئس لینڈ کا نصف حصہ شمالی امریکی اور نصف حصہ یورپی پلیٹ پر موجود ہے۔ نیوزی لینڈ بحرِ ہند کی پلیٹ پر رکھا ہے حالانکہ وہ بحرِہند سے کہیں دور واقع ہے۔ زیادہ تر پلیٹیں ایسی ہی ہیں۔
موجودہ اور سابقہ زمینی مقامات کے رابطے ہر کسی کی توقع سے بھی زیادہ گنجلک نکلے۔ مثال کے طور پر قزاقستان کبھی ناروے اور نیو انگلینڈ سے جڑا تھا۔ اسی طرح سٹیٹن آئی لینڈ کا ایک کنارہ یورپ میں ہے۔ اسی طرح نیو فاؤنڈ لینڈ کا ایک حصہ یورپ سے ہے۔ میساچوسٹس کے ساحل سے ایک کنکر اٹھائیے اور اس کا دوسرا ‘رشتہ دار’ آپ کو افریقہ سے ملے گا۔ سکاٹ لینڈ کاپہاڑی علاقہ اور سکینڈے نیویا کا زیادہ تر حصہ امریکی ہے۔ انٹارکٹکا کی شیکلٹن رینج کے بارے خیال ہے کہ وہ مشرقی امریکہ کے اپلانچین پہاڑی سلسلے کا حصہ رہ چکا ہے۔
مستقل حرکت کی وجہ سے متحرک پلیٹیں کبھی ایک جگہ جمع ہو کر ایک ساکن پلیٹ نہیں بنا سکتیں۔ بحرِ اوقیانوس مسلسل پھیل رہا ہے اور انجام کار بحر الکاہل سے بڑا ہو جائے گا۔ کیلیفورنیا کابڑا حصہ الگ ہو کر ایک طرح سے امریکہ کا مڈغاسکر بن جائے گا۔ افریقہ شمال میں یورپ میں گھس جائے گا اور بحیرہ روم ختم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ پیرس سے کلکتہ تک ہمالیہ جتنا بلند پہاڑی سلسلہ پیدا ہو جائے گا۔ آسٹریلیا شمالی جزائر سے جڑتے جڑتے ایشیاء سے جڑ جائے گا۔ تاہم یہ سب پیشین گوئیاں ہیں، لازمی نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ تاہم ان کی ابتداء ہو چکی ہے۔ آج کے جی پی ایس سسٹم کی مدد سے ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ براعظم یورپ اور براعظم شمالی امریکہ اس رفتار سے الگ ہو رہے ہیں جس سے انسانی ناخن اگتا ہے، یعنی عام انسان کی زندگی میں دو میٹر جتنا۔ نقشے پر جب آپ زمین کو دیکھتے ہیں تو براعظموں کے موجودہ مقامات زمین کی تاریخ کے ایک فیصد کے بھی دسویں حصہ کے برابر موجودہ مقامات پر ہیں۔
پتھریلے سیاروں میں سے زمین ہی واحد سیارہ ہے جس میں ٹیکٹانکس پائی جاتی ہیں جو سائنس دانوں کے لیے قدرے اچھنبے کی بات ہے۔ حجم یا جسامت سے فرق نہیں پڑتا کہ زہرہ اور زمین تقریباً جڑواں سیارے ہیں لیکن زہرہ پر ٹیکٹانکس نہیں پائی جاتیں۔ شاید زمین جس مادے سے بنی ہے، اس کی نوعیت اور مقدار بالکل درست ہے، تبھی ہمارا سیارہ ٹیکٹانکس رکھتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ٹیکٹانکس کسی بھی سیارے پر زندگی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک ماہر طبعیات اور لکھاری جیمز ٹریفل نے لکھا ہے ‘یہ سوچنا محال ہے کہ ٹیکٹانکس کی مسلسل حرکت کا زمین پر موجود زندگی کی پیدائش پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ‘ اس کے خیال میں ٹیکٹانکس سے پیدا شدہ تبدیلیاں جیسا کہ موسم کی تبدیلی، ذہانت کی ابتداء کے لیے انتہائی اہم رہی ہوں گی۔ بعض کے خیال میں براعظموں کا سرکاؤ زمین پر ہونے والے مختلف معدومیت کے واقعات کا اہم سبب ہو سکتا ہے۔ نومبر 2002 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ٹونی ڈکسن نے سائنس نامی رسالے میں رپورٹ چھپوائی کہ زمین کی چٹانوں اور زندگی کی تاریخ میں تعلق ہو سکتا ہے۔ اس کے خیال میں ہماری دنیا کے سمندروں میں پچھلے نصف ارب سال سے اچانک ڈرامائی تبدیلیاں آتی رہی ہیں جو کہ ہماری حیاتیاتی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات سے وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر انگلستان کے جنوبی ساحل پر ایسے ننھے جانداروں کی بہت بڑی تعداد کا اچانک نمودار ہو جانا جنہوں نے چاک والی چٹانیں بنائیں یا پھر کیمبرین دور میں سمندری جانوروں کے بنائے گئے خول وغیرہ۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سمندروں کی کیمسٹری میں اچانک کس وجہ سے اتنی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ تاہم بحری دراڑوں کا کھلنا اور بند ہونا ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔
تاہم پلیٹ ٹیکٹانکس نے نہ صرف زمین کی متحرک سطح کی وضاحت کی بلکہ اور بھی بہت کچھ بتایا۔ زلزلے، جزائر کے سلسلے، کاربن چکر، پہاڑوں کے مقامات، برفانی ادوار کا آنا جانا، زندگی کی ابتداء، غرض کون سا ایسا اہم مسئلہ تھا جس کی وضاحت اس نظریے سے نہ ہوئی ہو۔ میکیفی کے مطابق ‘ارضیات دانوں کو یہ جان کر اچانک چکر آنے لگ گئے کہ پورا کرہ ارض اچانک بامعنی ہو گیا۔ ‘
تاہم ایک حد تک۔ مثال کے طور پر پرانے دور کے براعظموں کی تقسیم وغیرہ کے معاملے ایسے ہیں کہ وہاں شاید جیو فزکس کی دنیا میں ایک رائے ملے۔ جارج گیری لارڈ سمپسن نے اپنی کتاب Fossils and the History of Life میں لکھا ہے کہ قدیم دور کے جانوروں اور پودوں کی انواع اچانک وہاں ملتی ہیں جہاں انہیں نہیں ہونا چاہیئے تھا اور وہاں سے اچانک غائب ہو جاتی ہیں کہ جہاں انہیں موجود رہنا چاہیے تھا۔
ایک عظیم براعظم گونڈوانا تھا جس میں آسٹریلیا، افریقہ، انٹارکٹکا اور جنوبی امریکہ موجود تھے، اس میں فرن کی ایک قسم پائی جاتی تھی جو ہر اس جگہ ملتی ہے جہاں اس کا ہونا ممکن تھا۔ تاہم بہت عرصے بعد جا کر پتہ چلا کہ یہ پودا ان جگہوں پر بھی بکثرت پایا جاتا تھا کہ جن کا گونڈوانا سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ تاہم اس نوعیت کے اہم مسائل عموماً نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک خزندے کے آثار ہمیں انٹارکٹکا سے ایشیاء تک تو ملتے ہیں لیکن جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا ان سے یکسر خالی ہیں، حالانکہ جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا اس دور میں اسی بڑے برِ اعظم کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔
اس کے علاوہ بہت سارے زمینی آثار ایسے ہیں کہ جن کی وضاحت ٹیکٹانکس سے ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ڈینور کو دیکھیں۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی ایک کلومیٹر سے کچھ کم ہے۔ تاہم اس کا ابھار ماضی قریب میں ہوا ہے۔ جب ڈائنو سار زمین پر آباد تھے تو یہ خطہ سمندر کی تہہ کا حصہ اور سطح سمندر سے کئی ہزار میٹر نیچے تھا۔ اس کے باوجود ڈینور جن چٹانوں پر قائم ہے، ان میں ٹوٹ پھوٹ اور دباؤ کے کوئی آثار نہیں ملتے کہ پلیٹ ٹیکٹانکس سے ابھرا ہو؟ ویسے بھی ڈینور پلیٹ کے کنارے سے اتنا دور ہے کہ ایسا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ بچھے ہوئے قالین کے ایک حصے کو آگے کو دھکیلیں تو قالین کا دوسرے سرے پر رکھی بھاری چیز اونچی ہونے لگ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ کروڑوں سالوں سے ڈینور ایسے ابھر رہا ہے جیسے خمیر والا آٹا۔ یہی کچھ جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس کا 1,600 کلومیٹر کا ایک حصہ پچھلے دس کروڑ سال میں لگ بھگ ڈیڑھ کلومیٹر اوپر کو اٹھا ہے جبکہ اس کی بظاہر کوئی وجہ بھی ممکن نہیں۔ آسٹریلیا جھک اور ڈوب رہا ہے۔ پچھلے دس کروڑ سال میں اس کا رخ شمال کی جانب ایشیاء کی جانب ہے اور اس کا اگلا کنارہ تقریباً دو سو میٹر ڈوب چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے اور اپنے ساتھ آسٹریلیا کو بھی لے جا رہا ہے۔ ٹیکٹانکس نظریے میں کوئی بھی بات اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔
الفریڈ ویگنر اپنے نظریات کو سچا ثابت ہونے تک زندہ نہ رہا۔ اپنی پچاسویں سالگرہ کے وقت 1930 میں اکیلی مہم پر گرین لینڈ گیا ہوا تھا۔ ایک روز وہ فضاء سے گرائی جانے والی راشن کی سپلائی دیکھنے نکلا اور واپس نہ لوٹا۔ چند روز بعد اس کی جمی ہوئی لاش ملی۔ اسی جگہ اسے دفن کیا گیا۔ تاہم اس کی موت کے وقت سے لے کر اب تک اس کی لاش شمالی امریکہ سے ایک میٹر زیادہ قریب ہو چکی ہے۔
آئن سٹائن اپنی غلطی کا اندازہ لگانے سے قبل ہی اس جہان سے گزر گیا تھا۔ در حقیقت 1955 میں پرنسٹن میں جب اس کا انتقال ہوا تو اس وقت چارلس ہیپ گڈ کی کتاب ابھی چھپی بھی نہیں تھی۔
ٹیکٹانکس کے نظریے کا ایک اور اہم کردار ہیری ہیس اس وقت پرنسٹن میں تھا اور اس نے اپنی بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ یہاں اس کا ایک انتہائی ہونہار طالبعلم والٹر الوارز تھا جس نے انتہائی الگ انداز سے سائنس کی دنیا بدل دی۔
ارضیات کے لیے تباہی کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا اور اس کی ابتداء کرنے و الا الوارز ہی تھا۔
٭٭٭
حصہ چہارم: خطرناک سیارہ
زمین کی تاریخ فوجی کی زندگی جیسی ہوتی ہے کہ جس میں طویل عرصے تک کچھ نہیں ہوتا اور مختصر عرصے کی دہشت۔
برطانوی ماہرِ ارضیات ڈیریک وی ایگر
13 دھماکہ
بہت عرصے سے لوگ جانتے تھے کہ آئیووا میں مینسن کے نیچے کچھ عجیب سا موجود ہے۔ 1912 میں ایک بندہ شہر کے لئے پانی کا کنواں کھود رہا تھا کہ اسے عجیب سی شکل کی چٹان ملی۔ بعد میں سرکاری رپورٹ میں اس چٹان کو crystalline clast breccia with a melt matric اور overturned ejecta flapکہا گیا۔ پانی بھی عجیب نکلا کہ یہ پانی بارش کے پانی کی مانند میٹھا تھا۔ آئیووا میں پہلے کبھی قدرتی طور پر میٹھا پانی نہیں ملا تھا۔
اگرچہ شروع میں یہ میٹھا پانی اور عجیب شکل کی چٹان لوگوں کے لئے محض دلچسپی کا سبب بنی رہی لیکن پھر 41 سال بعد یونیورسٹی آف آئیووا کی ایک ٹیم تحقیقات کرنے آئی۔ اس وقت اس قصبے کی آبادی 2٫000 افراد کے لگ بھگ تھی۔ 1953 میں تجرباتی کھدائیوں کے بعد یونیورسٹی کے ماہرینِ ارضیات کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس جگہ واقعی عجیب طرح سے بگڑی ہوئی شکل کی چٹانیں موجود ہیں جو قدیم ہونے کے علاوہ کسی نامعلوم آتش فشانی نوعیت کی ہیں۔ یہ خیال اس وقت کے نظریات کے عین مطابق لیکن حقیقت سے بہت دور تھا۔
میسن کی جغرافیائی تبدیلیوں کے پیچھے موجود وجہ زمین سے کم از کم 10 کروڑ میل دور سے آئی تھی۔ ماضی بعید میں کسی وقت موجودہ وقت کا مینسن کم گہرے سمندر کے کنارے پر تھا کہ ڈیڑھ میل چوڑی ایک چٹان جس کا وزن دس ارب ٹن ہو گا، آواز کی رفتار سے دو سو گنا زیادہ تیزی سے سفر کرتے ہوئے اتنی شدت سے آن گری کہ جس کا تصور بھی کرنا ممکن نہیں۔ مینسن کے موجودہ مقام پر تین میل گہرا اور بیس میل چوڑا گڑھا پڑ گیا۔ آئیووا میں ہر جگہ کھارے پانی کی وجہ بننے والا چونے کا پتھر بھاپ بن کر تحلیل ہو گیا۔ اسی وجہ سے 1912 میں کھدائی کرنے والا پریشان تھا۔
مینسن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرزمین پر ہونے والا کسی بھی نوعیت کا سب سے عظیم واقعہ تھا۔ اس کے نتیجے میں بننے والے گڑھے کے طول و عرض کے بارے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنا بڑا ہو گا کہ روشن دن میں ایک سرے پر کھڑے ہو کر دوسرے سرے کا نظارہ مشکل سے دکھائی دیتا ہو گا۔ گرینڈ کینین اس کے سامنے بونی لگتی ہوں گی۔ بدقسمتی سے اس واقعے کے بعد 25 لاکھ سال تک برفانی تہوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اس گڑھے میں زرخیز مٹی بھرتی گئی پھر برفانی تہوں کے گزرنے کی وجہ سے اوپری سطح چھل کر ہموار ہو گئی۔ آج مینسن اور اس کے آس پاس کا علاقہ بالکل ہموار ہے۔ شاید اسی وجہ سے کسی نے مینسن گڑھے کے بارے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
مینسن کی لائبریری میں آپ کو اخباری مضامین اور 1991 تا 1992 کے ڈرلنگ پروگرام کے دوران لیے گئے نمونوں کو بخوشی دکھایا جائے گا مگر اس کے لئے آپ کو خود پوچھنا پڑے گا کہ وہاں کوئی مستقل نمائش نہیں جاری رہتی۔
مینسن میں لوگوں کی یاداشت میں پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ 1979 کا طوفانی بگولا یعنی ٹارنیڈو تھا جس نے مرکزی گزرگاہ میں تباہی پھیلائی تھی۔ آس پاس کی مسطح زمین ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ ایسی آفت کو دور سے آتا دیکھ سکتے ہیں۔ سارا قصبہ مرکزی گزرگاہ کے ایک سرے پر جمع ہو کر نصف گھنٹے تک ٹارنیڈو کو اس امید سے اپنی طرف آتا دیکھتا رہا کہ شاید اس کا راستہ بدل جائے۔ تاہم جب راستہ نہ بدلا تو بھگدڑ مچ گئی۔ تاہم چار افراد تیز نہ بھاگ سکے اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہر جون میں ایک ہفتے کے لئے کریٹز ڈیز منائے جاتے ہیں تاکہ اس حادثے کی یاد بھلائی جا سکے۔ تاہم اس تہوار کا مینسن کریٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جو گڑھا دکھائی بھی نہیں دیتا، اسے کیسے مشہور کیا جائے۔
بعض اوقات لوگ آن کر پوچھتے ہیں کہ کریٹر کہاں سے دکھائی دیتا ہے تو مقامی لوگ انہیں بتاتے ہیں کہ کریٹر نام کی کوئی جگہ موجود نہیں اور لوگ مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ مقامی لوگ بھی اس کریٹر کے نام سے بخوبی واقف نہیں اور ماہرینِ ارضیات بھی محض حاشیے میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم 1980 کی دہائی میں ارضیات کے حوالے سے یہ جگہ دنیا میں سب سے مشہور ہو گئی تھی۔
کہانی کی ابتداء 1950 کی دہائی کے اوائل سے ہوتی ہے جب یوجین شومیکر نامی ذہین اور نوجوان ماہرِ ارضیات نے ایریزونا میں شہابِ ثاقب سے بننے والے گڑھے کا دورہ کیا تھا۔ شہابِ ثاقب سے بننے والا یہ مقام آج دنیا بھر میں مشہور اور سیاحوں کا بڑا مرکز ہے۔ تاہم ماضی میں زیادہ سیاح نہیں آتے تھے اور اسے بیرنگر کریٹر کہا جاتا تھا کہ ایک امیر بندے ڈینیل ایم بیرنگر نے 1903 میں اس جگہ پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔ بیرنگر کا خیال تھا کہ اس جگہ ایک کروڑ ٹن وزنی شہابِ ثاقب گرا ہے جس میں لوہا اور نکل کی بھاری مقدار موجود ہو گی۔ اس کا خیال تھا کہ ان دھاتوں کی کھدائی سے اچھی دولت کمائی جا سکتی ہے۔ اسے علم نہیں تھا کہ ٹکراؤ کے ساتھ ہی پورا شہابِ ثاقب بخارات میں تبدیل ہو کر ضائع ہو گیا تھا۔ 26 سال تک کھدائی کرتے کرتے اس نے بہت بڑی رقم ضائع کی۔
آج کے اعتبار سے 1900 کی دہائی میں کی جانے والے گڑھوں کی تحقیقات کافی بنیادی نوعیت کی تھی۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک نمایاں محقق گلبرٹ نے اس تجربے کو آٹے اور کنچوں کی مدد سے دہرایا اور یہ تجربہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر تجربہ گاہ کی بجائے ہوٹل کے کمرے میں کیا گیا تھا۔ اسی تجربے سے گلبرٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ چاند کے گڑھے بھی اسی طرح بنے ہوں گے لیکن زمینی گڑھے ایسے نہیں بنتے۔ یہ بات انتہائی تعجب سے دیکھی گئی۔ زیادہ تر سائنس دانوں نے تو اپنی سوچ کو اس حد تک محدود کر لیا تھا کہ چاند کے گڑھے محض قدیم آتش فشانوں کی یادگار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ زمین کے بعد گڑھوں کے لیے عجیب عجیب تاویلات پیش کی گئی تھیں۔
شومیکر کی آمد تک یہ بات سوچ لی گئی تھی کہ یہ گڑھا زیرِ زمین بھاپ کے دھماکے سے بنا ہے۔ شومیکر کو ان زیرِ زمین دھماکوں کے بارے کوئی علم نہیں تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ تاہم اسے بلاسٹ زون یعنی دھماکوں سے پیدا ہونے والے مقامات کے بارے اچھا علم تھا۔ کالج سے نکلنے کے بعد اس کی پہلی ملازمت نیواڈا میں یُکا فلیٹس کے ایٹمی دھماکے والی جگہ پر دھماکے سے بننے والے دائروں پر تحقیق کرنا تھا۔ بیرنگر کی طرح اس نے بھی یہ نتیجہ نکالا کہ یہ گڑھا آتش فشاں سے نہیں بنا ہے۔ اس کے دعوے کے ثبوت کے لئے اس مقام پر سیلیکا اور میگنیٹائٹ کی بہت بڑی مقدار موجود تھی۔ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکنے پر اس نے فارغ وقت میں اس پر تحقیق جاری رکھی۔
پہلے اپنے ساتھی ایلینور ہیلین اور پھر اپنی بیوی کیرولن اور دوست ڈیوڈ لیوی کے ساتھ مل کر شومیکرنے اندرونی نظامِ شمسی کا باقاعدہ معائنہ شروع کر دیا۔ انہوں نے ہر ماہ ایک ہفتہ کیلیفورنیا کی پالمر رصدگاہ میں ایسے شہابِ ثاقب اور دیگر اجرامِ فلکی کی تلاش جاری رکھی کہ جن کا راستہ زمین کے مدار سے ہو کر گزرتا ہو۔
کئی سال بعد ٹیلی ویژن انٹرویو میں شومیکرنے بتایا ‘جب ہم نے کام شروع کیا تو اس وقت تک پوری سائنسی تاریخ میں اس جیسے دس یا بارہ اجرامِ فلکی دریافت ہوئے تھے۔ انیسویں صدی میں فلکیات دانوں نے نظامِ شمسی کو سرے سے بھلا دیا تھا۔ ان کی نظر ستاروں اور کہکشاؤں پر مرکوز ہو چکی تھی۔ ‘
شومیکر اور اس کے ساتھیوں کی تحقیق نے ہمیں بتایا کہ خلاء میں موجود خطرات ہمارے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ بڑے ہیں۔
شہابِ ثاقب کے بارے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ مریخ اور مشتری کے درمیان موجود یہ پتھریلے اجسام بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے ہیں۔ تصاویر میں تو یہ سارے اجسام ایک انتہائی کثیف شکل میں دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ہر دو اجسام کا درمیانی فاصلہ اوسطاً پندرہ لاکھ کلومیٹر ہے کہ نظامِ شمسی انتہائی وسیع ہے۔ اس بات کا درستگی سے اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں کہ ایسے کُل کتنے اجسام ہوں گے تاہم ایک ارب سے کم تو ممکن ہی نہیں۔ یہ شاید کسی ایسے سیارے کا حصہ ہیں جو کبھی سیارہ نہ بن سکا کہ مشتری کی کششِ ثقل بہت طاقتور تھی۔
اٹھارہویں صدی کی پہلی کی دہائی میں جب شہابِ ثاقب دریافت ہوئے۔ در حقیقت اس صدی کے پہلے روز ہی پہلا شہابِ ثاقب سسلی کے ایک رہائشی جیو سیپی پیاتزی نے دریافت کیا۔ انہیں شروع میں چھوٹے سیارے سمجھا گیا اور پہلے دو کے نام سیریس اور پالِس رکھے گئے۔ بعد میں تحقیقات سے ماہرِ فلکیات ولیم ہرشل نے جانا کہ ان کا حجم سیاروں سے کہیں چھوٹا ہے۔ اس نے ان کو اسٹیرائیڈ یعنی شہابِ ثاقب کہا جو لاطینی میں ‘ستارہ نما’ بنتا ہے، حالانکہ ان کا ستاروں سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بعض اوقات انہیں سیارے نما یعنی پلینیٹائڈز بھی کہا جاتا ہے۔
18ویں صدی میں شہابِ ثاقب کی تلاش مشغلہ بن گئی اور صدی کے اختتام تک ہزار کے لگ بھگ تلاش کیے جا چکے تھے۔ تاہم ان کی معلومات کو کہیں ترتیب سے جمع نہیں کیا گیا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز میں یہ بتانا ناممکن ہو چلا تھا کہ آیا جو شہابِ ثاقب اب دیکھا گیا ہے، کیا وہ پہلے بھی دیکھا جا چکا ہے یا پہلی بار دکھائی دیا ہے۔ تاہم اس وقت تک فلکیات کا شعبہ اتنی ترقی کر گیا تھا کہ چند ہی فلکیات دان ایسی معمولی چیزوں پر کام کرنے کو تیار ہوئے۔ ان میں سے سب سے مشہور ولندیزی جیرارڈ کوئیپر تھا جس کے نام سے کوئیپر کی پٹی مشہور ہے۔ ٹیکساس میں میک ڈونل رصدگاہ میں اس کے کیے ہوئے کام اور اس کے بعد دوسروں کے کام کے علاوہ سنسنیاٹی کے مائنر پلینیٹ سینٹر اور ایریزونا کے سپیس واچ پراجیکٹ کے بعد بیسویں صدی تک ماسوائے 719 البرٹ، تمام شہابِ ثاقب تلاش کر لیے گئے تھے۔ اکتوبر 1911 میں دیکھا جانے والا یہ شہابِ ثاقب آخرکار 89 سال گم رہنے کے بعد 2000 میں مل گیا۔
بیسویں صدی میں شہابِ ثاقبوں پر ہونے والا کام زیادہ تر ان کو ترتیب دینے تک محدود رہا۔ محض پچھلے چند برسوں سے ماہرین فلکیات نے نئے شہابِ ثاقب کی تلاش پر پھر سے توجہ مرکوز کی ہے۔ جولائی 2001 تک 26,000 ایسے اجرامِ فلکی دریافت اور شناخت ہو چکے ہیں جن میں سے نصف محض دو سال میں تلاش کیے گئے ہیں۔ ایک ارب اجرامِ فلکی کی تلاش کا کام محض شروع ہوا ہے۔
اس سے کوئی خاص فرق تو نہیں پڑے گا۔ ایک شہابِ ثاقب کو تلاش کر لینے سے اس کا خطرہ نہیں ٹل جاتا۔ اگر ہمیں نظامِ شمسی میں موجود تمام تر شہابِ ثاقبوں کے نام اور ان کے مداروں کا علم بھی ہو جائے تو بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کن وجوہات کی بناء پر ان کے مدار میں گڑبڑ پیدا ہو سکتی ہے اور ان کا رُخ ہماری جانب ہو جائے گا۔ ہم تو اپنی زمین پر موجود چٹانوں کے بارے کچھ کہنے کے قابل نہیں۔ انہیں خلاء میں آزاد چھوڑ دیں تو کوئی بھی کہنے کے قابل نہیں رہے گا کہ ان کا کیا اثر ہو گا۔ کوئی بھی شہابِ ثاقب کسی بھی وقت ہماری جانب رُخ کر سکتا ہے۔
زمین کے مدار کو آپ کسی شاہراہ سمجھیں جس پر ہم اکیلی گاڑی ہیں۔ تاہم اس شاہراہ کو مسلسل پیدل افراد عبور کرتے ہیں اور دائیں بائیں دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ ان میں سے کم از کم 90 فیصد کا ہمیں علم تک نہیں۔ ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں، کس وقت کہاں ملیں گے یا کس وقت ہمارا راستہ کاٹیں گے۔ ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت ان کا رخ ہمارے راستے کی جانب ہو جائے گا جہاں ہم لگ بھگ ایک لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے سٹیون اوسٹرو کے مطابق ‘اگر ہم بٹن دبا کر اپنے آس پاس روشنی کر دیں کہ جس میں زمین کے مدار کو عبور کرنے والے دس میٹر یا اس سے بڑے اجرامِ فلکی دکھائی دیں تو ہمیں کم از کم دس کروڑ ایسے اجرامِ فلکی دکھائی دیں گے۔ ‘ یعنی ہمیں محض دو ہزار ٹمٹاتے ستارے نہیں دکھائی دیں گے بلکہ کروڑوں کی تعداد میں بے ترتیبی سے گھومتے ہوئے ایسے اجسام دکھائی دیں گے ‘جو کسی وقت بھی زمین سے ٹکرا سکتے ہیں اور ہر ایک کا رخ اور رفتار دوسرے سے معمولی سی فرق ہے۔ ‘ ظاہر ہے کہ یہ بات پریشان کن ہے۔ آپ پریشان ہو سکتے ہیں کہ یہ تمام اجسام یہیں موجود ہیں۔ بس آپ انہیں دیکھ نہیں سکتے۔
چاند پر بننے والے گڑھوں کی شرح کو دیکھ کر اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم از کم 2,000 اتنے بڑے شہابِ ثاقب کہ جو زمین پر انسانیت کے لئے خطرہ بن سکیں، مستقل طور پر ہمارے مدار سے گزرتے رہتے ہیں۔ لیکن چھوٹے شہابِ ثاقب، جیسا کہ عام گھر جتنے بھی ہوں تو وہ پورا شہر تباہ کر سکتے ہیں۔ ان کی تعداد شاید لاکھوں یا کروڑوں میں بھی ہو سکتی ہے لیکن ان کا پیچھا کرنا ممکن نہیں۔
اس طرح کا پہلا شہابِ ثاقب 1991 میں پہلی بار اس وقت دیکھا گیا جب وہ ہمارے پاس سے گزر چکا تھا۔ اسے 1991 BA کہا گیا اور یہ ہم سے 1,70,000 کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا تھا۔ فلکیاتی اعتبار سے ایسے سمجھیں کہ گولی آپ کے بازو کو چھوئے بنا آپ کی آستین سے گزرے۔ تین سال بعد اس سے نسبتاً بڑا شہابِ ثاقب محض 65,000 میل کے فاصلے سے گزرا۔ یہ سب سے قریب ترین تھا۔ اس کا مشاہدہ بھی اس کے گزرنے کے بعد ہوا جبکہ اس کے آنے کی ہمیں کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ نیو یارکر میں ٹموتھی فیرس کے مطابق ‘شاید ہر ہفتے دو یا تین بار شہابِ ثاقب ہمارے اتنے قریب سے گزرتے ہوں اور ہمیں خبر تک نہ ہوتی ہو۔ ‘
سو میٹر سے چھوٹا شہابِ ثاقب زمین پر موجود دوربینوں سے اس وقت دکھائی دے گا جب وہ ہم سے چند روز کے فاصلے پر رہ جائے گا اور وہ بھی تب دکھائی دے گا اگر دوربین بطورِ خاص اس کے رخ پر ہو۔ ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ایسے افراد بہت کم ہیں جو ایسے اجرامِ فلکی تلاش کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد کی تشبیہ ایک عام میک ڈونلڈ ریستوران کے عملے سے دی جاتی ہے کہ عملے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے (اب یہ تعداد معمولی سی بڑھ گئی ہے )۔
جب جین شومیکر دنیا کو اندرونی نظامِ شمسی کے خطرات کے بارے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو اٹلی میں کولمبیا یونیورسٹی میں لامونٹ ڈوہرٹی لیبارٹری کے ایک نوجوان ماہرِ ارضیات نے بظاہر اس سے قطعی غیر متعلق تحقیق پر کام شروع کیا۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں والٹر الوریز گبیو کے پہاڑی قصبے کے پاس بوٹاشیئن جارج نامی جگہ پر فیلڈ ورک کر رہا تھا۔ اس کی توجہ اس سرخی مائل مٹی کی باریک تہہ پر مرکوز ہوئی جو چونے کی دو قدیم تہوں کے درمیان موجود تھی۔ ایک تہہ کریٹیشیس جبکہ دوسری ٹرشری دور سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ پٹی ارضیات کی زبان میں K-T حد (سی ٹی ہونا چاہیئے تھا لیکن سی پہلے سے کیمبرین کے لئے مختص ہے ) کہلاتی ہے اور اس وقت سے تعلق رکھتی ہے جب ساڑھے چھ کروڑ سال قبل ڈائنوسار اور دنیا کے جانوروں کی لگ بھگ نصف انواع فاسل ریکارڈ سے اچانک مٹ گئیں۔ الوریز اس بات پر حیران ہوا کہ محض چھ ملی میٹر موٹی یہ تہہ کیا واقعی جانوروں کی اتنی بڑی معدومیت کا سبب ہو سکتی ہے؟
اس وقت عام فہم یہی تھی کہ ڈائنوسارز دسیوں لاکھ سال پر مشتمل طویل عرصے کے دوران معدوم ہوئے۔ تاہم مٹی کی یہ تہہ بتا رہی تھی کہ ایسا عمل اچانک ہوا تھا۔ بدقسمتی سے 1970 کی دہائی میں ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں تھا کہ جس سے اس تہہ کے جمع ہونے کے عرصے کی نشاندہی کی جا سکتی۔
عام طور پر یہی سوچا جا سکتا تھا کہ الوریز نے اس کی فکر چھوڑ دی ہو گی لیکن الوریز کی رسائی ارضیات سے باہر ایک اور غیر متعلق فرد تک تھی جو اس کی مدد کر سکتا تھا۔ یہ فرد لوئیس الوریز اس کا باپ اور اپنے دور کا مشہور ایٹمی طبعیات دان تھا اور چند سال قبل اسے نوبل انعام مل چکا تھا۔ اسے ہمیشہ اپنے بیٹے کی ارضیات میں دلچسپی سے الجھن ہوتی لیکن اس نئے مسئلے نے اسے بھی الجھا دیا۔ اس نے سوچا کہ ہو نہ ہو، یہ تہہ خلاء سے آئی ہے۔
زمین پر ہر سال 30,000 ٹن خلائی مٹی گرتی ہے۔ اگر اسے ساری سطح زمین سے ایک جگہ پر اکٹھا کر دیا جائے تو بہت بڑا ڈھیر بن جائے گا۔ اس مٹی میں وہ نایاب عناصر بھی ملتے ہیں جو زمین پر ویسے نہیں پائے جاتے۔ ان میں سے ایک عنصر اریڈیم ہے جو زمین کی نسبت خلاء میں ہزاروں گنا زیادہ پایا جاتا ہے (خیال ہے کہ زمین کا زیادہ تر اریڈیم زمین کے شروع کے دور میں مرکزے میں دھنس گیا تھا)۔
لوئیس الوریز کا ایک ساتھی اس وقت کیلیفورنیا کی لارنس برکلے لیبارٹری میں کام کرتا تھا۔ اس کا نام فرینک اسارو تھا اور اس نے نیوٹران ایکٹیویشن اینالسز کی تکنیک ایجاد کی تھی کہ جس کی مدد سے کسی بھی تہہ کی کیمیائی ساخت کو انتہائی درستگی سے جانچا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں ایک چھوٹے نیوکلیئر ری ایکٹر میں نمونوں پر نیوٹران کی بوچھاڑ کر کے ان سے نکلنے والی گاما شعاعیں گنی جاتی تھیں۔ اسارو نے یہ تکنیک مٹی کے برتنوں پر آزمائی تھی لیکن الوریز کو یقین تھا کہ اگر اس کے بیٹے کے نمونے کی پیمائش کا مقابلہ جب سالانہ شرح سے کیا جائے گا تو یہ جاننا آسان ہو جائے گا کہ وہ تہہ کتنے عرصے میں بنی ہو گی۔ اکتوبر 1977 میں الوریز نے نمونے دے کر کہا کہ اس پر مطلوبہ ٹیسٹ کیے جائیں۔
بظاہر یہ انتہائی احمقانہ مطالبہ تھا کہ اسارو کئی ماہ لگا کر اور انتہائی محنت سے کام کرتے ہوئے وہ بات بتائے جو صاف دکھائی دے رہی ہے کہ اتنی پتلی تہہ بہت کم وقت میں ہی بنی ہو گی۔ تاہم اس سے کسی نئی بات کی توقع کسی کو نہیں رہی ہو گی۔
اسارو نے 2002 میں انٹرویو میں بتایا ‘دونوں باپ بیٹا بہت متجسس اور اچھے تھے۔ ان کا بتایا ہوا کام ایک طرح سے مجھے دشوار لگا اور میں نے قبول کر لیا۔ بدقسمتی سے میرے پاس کام زیادہ تھا اور یہ کام آٹھ ماہ بعد جا کر شروع ہوا۔ ‘ اپنی ڈائری دیکھ کر اس نے بتایا ’21 جون 1978 کو دن پونے دو بجے ہم نے نمونے کو ڈیٹیکٹر میں ڈالا۔ یہ ٹیسٹ 224 منٹ تک چلا اور ہمیں جونہی پتہ چلا کہ نتائج بہت دلچسپ ہیں تو ہم نے رک کر ان کا جائزہ لینے کا سوچا۔ ‘
نتائج اتنے فرق تھے کہ تینوں سائنس دانوں کا پہلا خیال یہی تھا کہ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔ الوریز کے نمونوں میں اریڈیم کی مقدار معمول سے 300 گنا زیادہ تھی۔ اگلے کئی ماہ تک یہ ٹیسٹ چلتے رہے اور بعض اوقات انہیں 30 گھنٹے لگاتار کام کرنا پڑتا کہ ٹیسٹ شروع ہو جائے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔ نمونوں کو لگاتار جانچا جاتا رہا لیکن ہر بار نتیجہ ایک ہی رہا۔ انہوں نے یہ ٹیسٹ ڈنمارک، سپین، فرانس، نیوزی لینڈ اور انٹارکٹکا کے نمونوں پر بھی کیا اور ہر جگہ انہیں اریڈیم کی انتہائی زیادہ مقدار ملی جو بعض اوقات معمول سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ غیر معمولی ہوا ہو گا۔
بہت سوچ بچار کے بعد الوریز ایک ہی نتیجے پر پہنچے کہ زمین پر شہابِ ثاقب یا دمدار ستارے کا ٹکراؤ ہوا ہو گا۔
زمین پر خلاء سے آنے والے ایسے تباہ کن ٹکراؤ کا نظریہ کافی پرانا ہے۔ 1942 میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے آسٹرو فزسٹ رالف بالڈوِن نے پاپولر آسٹرانومی نامی میگزین میں یہ مقالہ لکھا تھا۔ اس کا مقالہ کسی بھی تعلیمی جریدے نے چھاپنے سے انکار کیا تھا۔ اس کے علاوہ مشہور ماہرِ فلکیات ارنسٹ اوپیک اور نوبل انعام یافتہ کیمیا دان ہیرلڈ اُرے نے بھی کئی بار ایسا نظریہ پیش کیا تھا۔ پیلنٹالوجسٹس بھی اس نظریے سے واقف تھے۔ 1956 میں اوریگان سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈی لابن فیلس نے جریدے جرنل آف پیلنٹالوجی میں الوریز کے نظرے سے پہلے ہی یہ لکھا تھا کہ ڈائنو سار شاید بیرونی خلاء سے آنے والے ایسے حادثے کی وجہ سے معدوم ہوئے ہوں گے۔ 1970 میں امریکی پیلنٹالوجی سوسائٹی کے صدر ڈیوی میکلارن نے سالانہ کانفرنس میں خیال پیش کیا کہ شاید فراسنیان معدومیت کی وجہ بھی ایسا کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔
یہ نظریہ اتنا عام ہو چلا تھا کہ 1979 میں ہالی ووڈ سٹوڈیو نے ایک فلم Meteor بنائی (پانچ میل چوڑا اور 30,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آ رہا ہے اور بچاؤ کی کوئی جگہ نہیں ) اور اس میں ہینری فونڈا، نتالی ووڈ، کارل مالڈن اور ایک بہت بڑی چٹان دکھائے گئے تھے۔
جب 1980 کے پہلے ہفتے میں امریکن ایسوسی ایشن برائے ترقی سائنس میں الوریزوں نے بتایا کہ ان کے خیال میں ڈائنوساروں کی معدومیت لاکھوں یا کروڑوں سال طویل عمل نہیں بلکہ اچانک اور حادثاتی واقعہ تھا، تو بظاہر اسے قبولِ عام ملنا چاہیئے تھا۔
تاہم ہر جگہ بالعموم اور پیلنٹالوجیکل دنیا میں اس کی سخت مخالفت کی گئی۔
اسارو نے بتایا ‘آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس فیلڈ میں اناڑی تھے۔ والٹر ماہر ارضیات تھا، لوئیس طبعیات دان اور میں نیوکلیئر کیمسٹ۔ اور اب ہم انہیں بتا رہے تھے کہ ہم نے ان کا ایک صدی پرانے اور انتہائی بڑے مسئلے کو ان سے پہلے حل کر چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی مخالفت تو ہونی ہی تھی۔ ‘ لوئیس الوریز نے مذاق کیا ‘ہم بغیر اجازت ارضیات سے کھیلتے پکڑے گئے تھے۔ ‘
تاہم اس ٹکراؤ کے نظریے میں بنیادی مسائل بھی تھے۔ نیچرل ہسٹری کے بنیادی نظریات میں سے ایک یہ تھا کہ زمین پر ہونے والے تمام تر عمل آہستگی سے ہوتے ہیں۔ لائل کے بعد 1980 کی دہائی میں حادثات والے نظریات اتنے پرانے ہو گئے تھے کہ لوگوں نے ان پر کان دھرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ یوجین شومیکر کے مطابق ‘ٹکراؤ کا ایسا نظریہ ان کے سائنسی عقائد کے خلاف تھا۔ ‘
لوئیس الوریز نے تو کھلے عام سائنسی دنیا میں پیلنٹالوجسٹوں کے کردار پر انگلی اٹھائی۔ اس نے نیو یارک ٹائمز میں لکھا ‘یہ لوگ محض ٹکٹ جمع کرنے والے ہیں۔ ‘ اس مضمون کی کسک آج تک محسوس کی جاتی ہے۔
الوری کے نظریے کے مخالفین نے اریڈیم کی مقدار کی وضاحت کرنے کے لئے ہر ممکن تاویل پیش کی جن میں سب سے مشہور یہ نظریہ تھا کہ ہندوستان میں دکن کے طویل آتش فشانی عمل سے اریڈیم آئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی عام کہا گیا کہ ڈائنوساروں کی معدومیت اور اریڈیم کے اجتماع کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ الوریز کے بڑے مخالفین میں سے ایک ڈارٹ ماؤتھ کالج کا چارلس آفیسر بھی تھا۔ ایک بار اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ اریڈیم آتش فشانی عمل سے جمع ہوا تھا اور ساتھ ہی اعتراف کیا کہ اگرچہ اس کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ 1988 تک نصف سے زیادہ امریکی پیلنٹالوجسٹس اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ڈائنوساروں کی معدومیت میں شہابِ ثاقب یا دمدار ستارے کے ٹکراؤ کا کوئی عمل دخل نہیں۔
تاہم الوریز کے نظریے کی حمایت میں سب سے بہتر جو ثبوت ہوتا وہ ایسے ٹکراؤ سے بننے والا گڑھا ہوتا۔ تاہم انہیں ایسا کوئی گڑھا نہیں ملا۔ عین اس وقت یوجین شومیکر نمودار ہوتا ہے جس کا آئیووا سے تعلق ہے کہ اس کی بہو یونیورسٹی آف آئیووا میں پڑھی تھی اور اسے میسن کریٹر کے بارے بھی علم تھا۔ شومیکر کی وجہ سے ساری دنیا کی توجہ اب آئیووا کی جانب مبذول ہو گئی۔
ارضیات کی نوعیت مقامات کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ آئیووا کی ریاست انتہائی مسطح اور پرسکون ہے۔ یہاں کوئی اونچے اونچے پہاڑ یا بڑے گلیشیئر نہیں ہیں اور نہ ہی تیل یا قیمتی معدنیات کے ذخیرے اور نہ ہی لاوے کے نشان۔ اگر آپ ریاستی سطح پر بطور ماہرِ ارضیات کام کر رہے ہیں تو زیادہ تر وقت آپ Manure Management Plans پر صرف کریں گے۔ یہاں سؤروں کے فارم بنے ہوئے ہیں اور لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ سور پالے جاتے ہیں۔ آئیووا کے پانی کو صاف رکھنا ایک بہت بڑا اور بہت اہم کام ہے جو ہر قسم کی روایتی مشکلات سے پاک ہے۔ اس طرح آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب دنیا بھر کے ماہرینِ ارضیات کی توجہ مینسن اور اس کے گڑھے پر مرکوز ہوئی تو آئیووا کے قدرتی ذخائر کے محکمے میں کتنی ہلچل مچی ہو گی۔
ٹرون برج ہال اس صدی کے اوائل میں بنی سرخ پتھروں کی عمارت ہے جس میں آئیووا یونیورسٹی کا ارضیاتی سائنسی ڈیپارٹمنٹ پرچھتی میں قائم ہے۔ اس بارے تو کوئی نہیں جانتا کہ سرکاری سائنس دانوں کو تعلیمی ادارے میں کب اور کیوں رکھا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر نچلی چھتوں والے کمرے میں ایسی جگہ رکھا گیا ہے جہاں جانے کے لئے شاید آپ کو چھت کے ذریعے لٹک کر کھڑکی سے جانا ہو۔
رے اینڈرسن اور برائن وٹزک نے اپنی ساری زندگی یہیں کام کرتے گزاری ہے اور ہر جگہ کاغذات، جرائد، چارٹ اور پتھروں کے انبار لگے ہیں۔ اگر آپ کو کرسی رکھنی ہو، بجتا فون اٹھانا ہو، کافی کا کپ رکھنا ہو یا کوئی بھی کام بھی ہو، کاغذات کے انبار ہٹانے پڑیں گے۔
جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو ایندڑسن نے بتایا ‘اچانک پوری دنیا کی توجہ ہم پر مرکوز ہو گئی۔ کتنا اچھا وقت تھا۔ ‘
جب میں نے ان سے جین شومیکر کے بارے پوچھا تو وٹزک نے فوراً جواب دیا ‘بہت اچھا انسان تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو یہ پورا سلسلہ شروع ہونے سے قبل ہی تھم جاتا۔ اس کی مدد کے باوجود بھی ہمیں دو سال لگ گئے کام شروع کرتے کرتے۔ ڈرلنگ بہت مہنگا کام ہے۔ اُس وقت ایک فٹ کھدائی کی قیمت 35 ڈالر تھی جو آج اس سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ہمیں کم از کم 3,000 فٹ جتنی کھدائی کرنی ہوتی تھی۔
اینڈرسن نے بتایا ‘کئی بار تو اس سے بھی گہرائی تک جانا ہوتا تھا’۔
وٹزک نے اتفاق کیا ‘کئی بار ہمیں اس سے بھی گہرا جانا ہوتا تھا اور کئی کئی جگہوں پر کھدائی کرنی پڑتی تھی جو ہمارے سالانہ بجٹ سے بھی کہیں زیادہ مہنگا کام تھا۔
اس طرح آئیووا کے جیولاجیکل سروے اور امریکی جیولاجیکل سروے کے درمیان تعاون کا معاہدہ ہوا۔
اینڈرسن نے لقمہ دیا، ‘ہمارے خیال میں تو یہ معاہدہ ہی تھا۔ ‘
وٹزک نے بات جاری رکھی، ‘ہمارے لئے سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ بری سائنس چل رہی تھی۔ لوگ ایسے نتائج پیش کر رہے تھے کہ جن کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔ ‘ ایسی ہی ایک مثال امریکی جیوفزیکل یونین کے اجلاس میں 1985 میں پیش کی گئی۔ پوری دنیا کی توجہ اس پر مبذول ہو گئی۔ بدقسمتی سے یہ انکشاف قبل از وقت تھا۔ بعد میں تمام تر شواہد کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ مینسن والا واقعہ نہ صرف بہت چھوٹا تھا بلکہ 90 لاکھ سال پہلے ہوا تھا۔
اینڈرسن اور وٹزک کو اس بارے اس وقت پتہ چلا جب وہ ساؤتھ ڈکوٹا میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے پہنچے تو لوگوں نے انہیں دیکھتے ہی ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ ان کے لئے یہ بات نئی تھی کہ عزت اور دیگر ماہرین نے کچھ دیر قبل ہی اپنے نتائج کی تصحیح کر کے انہیں پیش کیا تھا۔
اینڈرسن نے بتایا، ‘یہ بہت حیران کن تھا۔ ابھی ہمارے پاس انتہائی اہم چیز تھی اور اچانک ہی ہم سے لے لی گئی اس سے بھی برا یہ ہوا کہ جو لوگ ہمارے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے، نے ہمیں بتانے کی زحمت تک نہ گوارا کی۔ ‘
‘کیوں ‘؟
شانے ا چکاتے ہوئے اس نے جواب دیا ‘کوئی نہیں جانتا۔ خیر، یہ بات ہمیں واضح ہو گئی کہ سائنس بعض سطحوں پر انتہائی خشک ہو کر رہ جاتی ہے۔
تحقیق کا مرکز بدل گیا۔ اتفاق سے 1990 میں یونیورسٹی آف ایریزونا کے ایلن ہلڈ برانڈ نامی محقق کی ملاقات ہیوسٹن کرانیکل کے رپورٹر سے ہوئی اور اسے ایک بڑے اور ناقابلِ توجیہ دائرے کے بارے پتہ چلا جو 193 کلومیٹر چوڑا اور 48 کلومیٹر گہرا تھا۔ یہ دائرہ میکسیکو میں یوکاٹین کے جزیرہ نما میں تھا۔ یہ جگہ نیو اورلینز سے 950 کلومیٹر جنوب میں تھی۔ اس جگہ کو 1952 میں میکسیکو کی تیل کی کمپنی پیمیکس نے دریافت کیا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب یوجین شومیکرنے ایریزونا کے گڑھے کا چکر لگایا تھا۔ تاہم اس کمپنی کے ماہرینِ ارضیات نے سوچا کہ یہ گڑھا آتش فشاں سے بنا ہے اور اس وقت کے حساب سے یہ سوچ درست تھی۔ ہلڈ برانڈ نے اس جگہ کا چکر لگایا اور فوراً ہی پہچان گیا کہ یہ ان کا مطلوبہ گڑھا ہے۔ 1991 تک تقریباً سبھی فریقین اس پر متفق ہو چکے تھے۔
تاہم بہت سارے لوگوں کو ابھی بھی یہ اندازہ لگانے میں دشواری ہو رہی تھی کہ آخر اس نوعیت کے ٹکراؤ کی شدت کتنی ہو گی۔ سٹیفن جے گولڈ کے مطابق ‘مجھے یاد ہے کہ میں حیران ہو رہا تھا کہ محض چھ میل چوڑے شہابِ ثاقب سے 8,000 میل قطر کے کرہ ارض پر کیسے اتنا بڑا اثر پڑ سکتا ہے ‘۔
اتفاق کی بات دیکھیئے کہ کچھ ہی عرصے بعد اس کا ثبوت بھی مل گیا۔ شومیکرز اور لیوی نے شومیکر لیوی 9 شہاب ثاقب دریافت کیا اور جانا کہ اس کا رخ مشتری کی جانب ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا کوئی ٹکراؤ ہونے والا تھا اور ہبل خلائی دوربین اس کے مشاہدے کے لئے تیار ہو گئی۔ تاہم زیادہ تر ماہرینِ فلکیات کے خیال میں مشتری جیسے بڑے سیارے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ ایک بڑا شہابِ ثاقب نہیں بلکہ 21 چھوٹے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ جرائد میں بھی اسی طرح کی باتیں چھپیں۔
16 جولائی 1994 کو ٹکراؤ شروع ہوا اور ایک ہفتے تک جاری رہا۔ اس کی شدت کا اندازہ شاید شومیکر کے علاوہ اور کسی نے بھی نہیں لگایا تھا۔ ایک ٹکڑا جسے مرکزہ جی کہا گیا، کے ٹکراؤ کی شدت 60 لاکھ میگا ٹن کے برابر تھی جو زمین پر موجود تمام تر اقسام کے اسلحے سے بھی 75 گنا زیادہ تھی۔ مرکزہ جی ایک چھوٹے پہاڑ کے حجم کا تھا لیکن مشتری کی سطح پر پیدا ہونے والا گڑھا زمین کے حجم کے برابر تھا۔ الوریز کے نظریے کے ناقدین کے لئے یہ اختتام ثابت ہوا۔
لوئیس الوریز کو میکسیکو کے گڑھے اور شومیکر لیوی شہابِ ثاقب کے بارے کبھی پتہ نہ چل سکا کیونکہ اس کا انتقال 1988 میں ہو گیا تھا۔ شومیکر بھی اس سے پہلے فوت ہوا۔ شومیکر کی عادت تھی کہ وہ مختلف جگہوں پر ایسے گڑھوں کو تلاش کرتا تھا جو شہابِ ثاقب کے ٹکراؤ سے بنے ہوں۔ آسٹریلیا میں تنامی صحرا میں، جو کہ دنیا میں خالی ترین جگہوں میں سے ایک ہے، پر چھوٹا ٹیلہ عبور کرتے ہوئے شومیکر کی گاڑی سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرائی۔ شومیکر جائے حادثہ پر جاں بحق ہوا اور اس کی بیوی زخمی ہوئی۔ شومیکر کی کچھ راکھ لیونر پروسپکٹر نامی خلائی جہاز کے ذریعے چاند پر بھیجی گئی اور بقیہ راکھ کو Meteor Crater کے گرد بکھیر دیا گیا۔
اینڈرسن اور وٹزک کے پاس ڈائنوسار معدوم کر دینے وال گڑھا تو نہیں بچا لیکن ان کے الفاظ میں ‘ہمارے پاس اس وقت ریاست ہائے متحدہ کا سب سے بہترین محفوظ شدہ گڑھا موجود ہے۔ دوسرے گڑھے اس سے بہت بڑے تو ہیں لیکن یا تو وہ ادھورے ہیں یا پھر پانی میں۔ میکسیکو والا گڑھا دو یا تین کلومیٹر چونے کی تہہ میں چھپا ہوا ہے جبکہ مینسن والا گڑھا بالکل سامنے رکھا ہوا ہے اور دفن ہونے کی وجہ سے بہترین حالت میں ہے۔
میں نے پوچھا کہ اس طرح کے واقعات کے بارے ہمیں کتنا پیشگی علم ہو سکے گا؟
اینڈرسن نے کہا، ‘بالکل بھی نہیں۔ جب کرہ فضائی میں داخل ہو کر شہابِ ثاقب جلنے لگے گا تو ہمیں احساس ہو گا۔ اس وقت زمین سے اس کا ٹکراؤ محض ایک سیکنڈ دور ہو گا۔ ہم جس چیز کی بات کر رہے ہیں، وہ تیز ترین گولی سے بھی کئی ہزار یا لاکھ گنا زیادہ تیزی سے حرکت کر رہی ہو گی۔ اگر کسی دوربین سے اسے قبل از وقت نہ دیکھ لیا گیا تو ہمیں اس کی آمد کا پتہ بھی نہیں چلے گا’۔
اس طرح کے ٹکراؤ کی شدت کا انحصار بہت سارے عناصر پر ہے جن میں داخلے کا زاویہ، رفتار، ٹریجکٹری، سیدھا یا پہلو سے ٹکراؤ، ٹکرانے والے جسم کی کمیت اور کثافت وغیرہ اہم ہوتے ہیں تاہم ان کے بارے کروڑوں سال بعد جاننا ممکن نہیں رہتا۔ تاہم سائنس دان جو کر سکتے ہیں اور جو اینڈرسن اور وٹزک نے بھی کیا، وہ گڑھے کی پیمائش کر کے خارج ہونے والی توانائی کی مقدار کا تخمینہ لگا کر ان حالات کا منظر پیش کرنا تھا کہ یہ کیسے ہوا یا اگر مستقبل میں ہوا تو کیسے ہو گا۔
جب انتہائی تیزی سے حرکت کرتا ہوا شہابِ ثاقب زمین کی فضاء میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ اس کے نیچے موجود ہوا کو ہٹنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ دبنے لگ جاتی ہے۔ ایسے ہی جیسے سائیکل کے پمپ میں ہوا دبتی ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ جب ہوا دبتی ہے تو تیزی سے گرم ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح گرتے ہوئے شہابِ ثاقب کے نیچے ہوا کا درجہ حرارت لگ بھگ 60,000 کیلون تک پہنچ جاتا ہے جو سورج کی سطح سے دس گنا زیادہ ہے۔ داخلے کے وقت اس شہابِ ثاقب کے راستے میں آنے والی تمام چیزیں، چاہے وہ انسان ہوں، گھر، فیکٹریاں یا کچھ بھی، جل کر راکھ ہوتے جائیں گے۔
منٹوں میں بہت بڑا علاقہ جو ڈینور سے ڈیٹرائٹ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں شکاگو، سینٹ لوئیس، کینساس سٹی، دی ٹوئن سٹی، یعنی پورا مڈ ویسٹ اور اس پر موجود ہر چیز یا تو تباہ ہو جائے گی یا جل کر راکھ ہو جائے گی۔ 1,500 کلومیٹر کے دائرے میں موجود افراد کے پیر اکھڑ جائیں گے اور اڑنے والے ملبے سے ان کے جسم چھلنی ہو جائیں گے۔ 1,500 کلومیٹر کے دائرے سے باہر نقصانات کی شدت کم ہو جاتی جائے گی۔
تاہم یہ محض ابتدائی شاک ویو تھی۔ اس کے بعد ہونے والی تباہی کا محض اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سریع اور عالمگیر ہو گی۔ قوی امکانات ہیں کہ اس ٹکراؤ کے بعد تباہ کن زلزلوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ دنیا بھر کے آتش فشاں پھٹنے لگ جائیں گے۔ سونامیوں سے آنے والی تباہیاں بھی ہوں گی۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر پورے کرہ ارض پر تاریکی کا بادل چھا جائے گا۔ جلتی ہوئی چٹانیں اور دیگر ملبہ ہر جگہ گرے گا اور زیادہ تر زمین پر آگ لگ جائے گی۔ اندازہ ہے کہ پہلے روز کے اختتام پر ڈیڑھ ارب انسان جان سے ہاتھ دھو چکے ہوں گے۔ آئنو سفیئر کو ہونے والے بے پناہ نقصان سے مواصلاتی نظام تباہ ہو جائیں گے اور باقی بچنے والے انسانوں کو کوئی اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے یا یہ کہ پناہ کہاں ملے گی۔ اس سے شاید ہی کوئی فرق پڑے۔ ایک مبصر کے مطابق ‘بھاگنے کا مطلب سریع موت کی بجائے سسک سسک کر مرنا ہو گا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ زمین پر زندگی کے لئے سازگار حالات نہ ہونے کے برابر ہوں گے ‘۔
ٹکراؤ کے بعد پیدا ہونے والے دھوئیں اور اڑتی ہوئی راکھ سے کئی ماہ یا شاید کئی سال تک سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچے گی جس سے زراعت متاثر ہو گی۔ 2001 میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین کو ٹی ٹکراؤ والے گڑھے سے ہیلیم آئسو ٹوپس کا جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ اس حادثے کے بعد زمین کا موسم کم از کم 10,000 سال تک متاثر رہا ہو گا۔ اس کو ڈائنوساروں کے اچانک معدوم ہونے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم لفظ ‘اچانک’ ہم ارضیاتی اعتبار سے استعمال کرتے ہیں۔ اب اس بارے ہم محض اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا تو بنی نوع انسان اس سے کیسے نمٹ پائے گی۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ ایسا واقعہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پیش آئے گا۔
فرض کریں کہ اگر ہم ایسے کسی جرمِ فلکی کو آتا دیکھ لیتے ہیں۔ پھر کیا ہو گا؟ ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہم فوراً ایک ایٹم بم بھیجیں گے جو اسے تباہ کر دے گا۔ تاہم ایسا ممکن نہیں۔ جان لیوس کے مطابق ‘ہمارے ایٹمی میزائل خلاء میں چلنے کے لئے نہیں بنائے گئے۔ وہ کششِ ثقل پر قابو نہیں پا سکتے۔ اگر کسی طرح وہ خلاء میں پہنچ بھی جائیں تو بھی کروڑوں کلومیٹر کے سفر پر انہیں خلاء میں اپنی مرضی سے نہیں چلایا جا سکتا۔ اس بات کے مزید کم امکانات ہیں کہ ہم ‘آرماگیڈن’ فلم کی طرح خلائی جہاز میں خلاء بازوں کو بھیج کر اسے تباہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس اب اتنے طاقتور راکٹ نہیں رہے جو انسان کو چاند تک بھی پہنچا سکیں۔ ایسا آخری راکٹ سیٹرن 5 تھا جو برسوں قبل متروک ہوا اور اس کی جگہ دوسرا کوئی راکٹ تیار نہیں۔ نہ ہی ایسا کوئی راکٹ عجلت میں تیار ہو پائے گا کہ سیٹرن لانچر کے نقشے ناسا کے پروگرام کے مطابق تباہ کئے جا چکے ہیں۔
اگر ہم کسی طرح ایٹم بم کو شہابِ ثاقب تک پہنچا کر اسے توڑ بھی لیں تو بھی یہ شہابِ ثاقب عین اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرے گا جیسے شومیکر لیوی مشتری پر گرا تھا۔ فرق صرف اتنا ہو گا کہ یہ تمام ٹکڑے انتہائی تابکار ہوں گے۔ ایک ماہر کے مطابق اگر ہمیں ایک سال کا وقت بھی مل جائے تو بھی تیاری کے لئے کافی نہیں ہو گا۔ زیادہ امکانات اسی بات کے ہیں کہ ایسا کوئی بھی جرمِ فلکی ہمیں اس وقت دکھائی دے گا جب وہ چھ ماہ سے کم فاصلے پر رہ گیا ہو گا۔ شومیکر لیوی 1929 سے مشتری کے گرد انتہائی واضح انداز سے چکر لگا رہا تھا لیکن نصف صدی بعد جا کر کسی نے اسے دیکھا۔
چونکہ یہ سب چیزیں جاننا انتہائی مشکل ہے اور پھر بھی غلطی کا بہت زیادہ امکان رہ جاتا ہے، اس لئے ہمیں ایسے کسی جرمِ فلکی کے زمین سے ٹکراؤ کے بارے سو فیصد یقین اس وقت ہو گا جب وہ ہم سے دو ہفتے دور رہ گیا ہو گا۔ زیادہ تر وقت ہم غیر یقینی کی کیفیت میں رہیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ شاید انسانی تاریخ کے انتہائی دلچسپ ترین چند ماہ ہوں گے۔ اور اگر ایسا ٹکراؤ ٹل گیا تو اس پر کتنی خوشیاں منائی جائیں گی۔
میں نے نکلنے سے قبل اینڈرسن اور وٹزک سے پوچھا، ‘مینسن نوعیت کے ٹکراؤ کتنے عرصے بعد ہوتے ہیں ‘؟
وٹزک نے جواب دیا، ‘اوسطاً ہر دس لاکھ سال بعد’۔
‘یاد رہے کہ یہ نسبتاً چھوٹا واقعہ تھا۔ اندازہ کریں کہ اس واقعے سے کتنی انواع معدوم ہوئیں ‘؟ اینڈرسن نے پوچھا۔
میں نے جواب دیا ‘معلوم نہیں ‘۔
‘ایک بھی نہیں ‘۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
فوراً ہی اینڈڑسن اور وٹزک نے بتایا کہ اس طرح کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی تباہی دنیا کے زیادہ تر حصوں پر پھیل جائے گی اور ٹکراؤ کے مقام سے سینکڑوں کلومیٹر کے دائرے میں موجود تمام تر چیزیں تباہ ہو جائیں گی۔ تاہم حیات بہت سخت جان ہوتی ہے اور ہر نوع کے بے شمار جاندار بچ جائیں گے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ کسی نوع کی معدومیت کی خاطر انتہائی زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ اس اچھی خبر پر ہمیشہ یقین نہیں کیا جا سکتا۔ مزید براں یہ بھی کہ ایسی تباہی محض خلا سے آنا لازم نہیں۔ ابھی ہم آگے چل کر دیکھتے ہیں کہ کرہ ارض کے اندر موجود اپنے خطرات بھی اس کام کے لئے کافی ہیں۔
٭٭٭
14 ہمارے نیچے کی آگ
1971 کی گرمیوں میں ایک نوجوان مائیک وُورہیز مشرقی نبراس کا میں گھاس کے میدانوں میں پھر رہا تھا جو آرچرڈ کے چھوٹے سے قصبے کے پاس ہے۔ ایک ڈھلوان کھائی سے گزرتے ہوئے اس نے چمکتی ہوئی کوئی چیز دیکھی جو اس نے معائنے کے لیے اٹھائی۔ یہ چیز ایک نوعمر گینڈے کی کھوپڑی تھی جو بہترین حالت میں محفوظ تھی اور حالیہ بارشوں کے نتیجے میں نکل آئی تھی۔
اس سے چند گز آگے شمالی امریکہ میں فوسلز کا بہترین مقام دریافت ہوا جو کسی زمانے میں جانوروں کے پانی پینے کا مقام تھا۔ یہ جگہ بے شمار جانوروں کی موت کا مقام بنا جن میں گینڈے، زیبرا نما گھوڑے، نوکے لیے دانتوں والے ہرن، اونٹ اور کچھوے وغیرہ تھے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل اچانک یہ سب جانور نامعلوم وجہ سے مرے تھے۔ ارضیات کی زبان میں اس وقت کو مائیوسین کہا جاتا ہے۔ ان دنوں نبراس کا وسیع اور گرم مسطح زمین تھا جیسا کہ افریقہ کا سرنگیٹی کا میدان ہے۔ یہ جانور تین میٹر گہری آتش فشانی راکھ میں دبے ہوئے تھے۔ اصل معمہ یہ بات ہے کہ نبراس کا میں نہ تو کوئی آتش فشاں اب ہے اور نہ ہی ماضی میں کبھی تھا۔
آج وُورہیز کے دریافت کردہ مقام کو ایش فال فاسل بیڈز سٹیٹ پارک کہا جاتا ہے۔ اس میں پُرکشش عجائب گھر اور سیاحوں کے لیے مرکز بنا ہوا ہے اور ماضی کے حالات کے تخیلاتی مناظر بھی بنائے گئے ہیں۔ لیبارٹری میں شیشے کی دیوار بنائی گئی ہے اور سیاح اس کے پار ماہرین کو ہڈیوں پر کام کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ جب میں وہاں گیا تو اکیلا ماہر جو وہاں کام کر رہا تھا، وہ وُورہیز تھا۔ اس جگہ زیادہ سیاح نہیں آتے کہ یہ جگہ بہت دور افتادہ ہے۔ وُورہیز نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں اس نے پہلی ہڈی دریافت کی تھی۔
اس نے خوشی خوشی بتایا، ‘اس جگہ ہڈیوں کی تلاش احمقانہ کام تھا۔ لیکن میں ہڈیاں نہیں تلاش کر رہا تھا۔ میں اس وقت مشرقی نبراس کا کا ارضیاتی نقشہ بنا رہا تھا۔ اگر میں اس کھائی تک نہ جاتا یا حالیہ بارشوں سے یہ ہڈی باہر نہ نکلی ہوتی تو شاید ہم کبھی بھی اسے دریافت نہ کر پاتے ‘۔ اس نے ساتھ موجود ایک جگہ دکھائی جہاں چھت بنی ہوئی تھی اور وہاں اس وقت ہڈیوں کی تلاش جاری تھی۔ اس جگہ تقریباً 200 جانور اکٹھے ملے۔
میں نے پوچھا کہ اس جگہ ہڈیاں تلاش کرنا کیسے احمقانہ کام ہوا؟ اس نے بتایا، ‘ہڈیوں کی تلاش ایسی جگہ کی جاتی ہے جہاں چٹانیں یا پتھر دکھائی دے رہے ہوں۔ اسی وجہ سے فوسلز کی تلاش ہمیشہ گرم اور خشک جگہوں پر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں زیادہ ہڈیاں ہوتی ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یہاں ہڈیاں دکھائی دینے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ ہڈیاں تو کسی بھی جگہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن سطح پر دکھائی دے رہی ہوں تو تلاش شروع کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے ‘۔
پہلے پہل سوچا گیا کہ یہ تمام جانور زندہ دفن ہوئے ہوں گے اور 1981 میں نیشنل جیوگرافک کے مضمون میں اس جگہ کو ‘قبل از تاریخ جانوروں کا پومپی’ لکھا گیا۔ تاہم بعد میں واضح ہوا کہ یہ تمام جانور اچانک نہیں مرے بلکہ وہ پھپھڑوں میں پانی بھرنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ گرد آلود ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ اُس وقت تو سینکڑوں میل تک کئی فٹ موٹی راکھ کی تہہ تھی۔ اس نے زمین سے خاکستری مائل چکنی مٹی ہاتھ میں لے کر اسے مسلا اور میرے ہاتھ پر رکھ دی۔ مٹی میں معمولی سی ریت شامل تھی۔ ‘سانس لینے کو انتہائی بری چیز۔ اگرچہ یہ گرد بہت باریک ہے لیکن یہ بہت تیز دھار بھی ہے۔ اس لیے جو بھی اس جگہ پیاس بجھانے آتا، بے بسی سے مر جاتا۔ اس راکھ سے ہر چیز تباہ ہو گئی ہو گی۔ ساری گھاس، سارے پتے، سب کچھ اس کے نیچے دب کر رہ گیا ہو گا’۔
ہورائیزن ڈاکومنٹری کے مطابق نبراس کا میں اتنی راکھ غیر معمولی امر تھا۔ در حقیقت نبراس کا کے راکھ کے یہ ڈھیر بہت عرصے سے مشہور ہیں۔ سو سال سے زیادہ عرصے سے کھدائی کر کے اس مٹی کو نکالا جاتا ہے اور اس سے برتن دھونے کے پاوڈر بنتے ہیں۔ تاہم اس بات پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ آخر یہ مٹی آئی کہاں سے۔
وُورہیز نے بتایا، ‘جب مجھ سے پہلی بار نیشنل جیوگرافک کے ایڈیٹر نے اس مٹی کے بارے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئی ہو گی، تو یقین کریں مجھے اس کا جواب معلوم نہیں تھا۔ شاید کوئی بھی اس کا جواب نہ جانتا ہو گا’۔
وُورہیز نے اس مٹی کے نمونے اپنے جاننے والے ماہرین کو پورے مغربی امریکہ بھیجے اور ان سے رائے مانگی کہ یہ کیا ہو سکتی ہے۔ کئی ماہ بعد ایڈاہو جیولاجیکل سروے کے ماہرِ ارضیات بل بونیچسن رابطہ کیا اور بتایا کہ جنوب مغربی ایڈاہو میں موجود ایک آتش فشاں سے نکلی راکھ اور یہ نمونے مماثل ہیں۔ نبراس کا میں ان جانوروں کی ہلاکت کا سبب بننے والی یہ آتش فشانی راکھ در اصل اتنے بڑے آتش فشانی عمل سے پیدا ہوئی تھی کہ جس کا تصور کرنا محال ہے۔ تاہم یہ دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ 1,600 کلومیٹر دور مشرقی نبراس کا تک اس نے راکھ کی 3 میٹر موٹی تہہ بنا دی تھی۔ آخر یہ بات پتہ چلی کہ مغربی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نیچے لاوے اور آتش فشاں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور یہ ذخیرہ اوسطاً ہر چھ لاکھ سال بعد پھٹتا ہے۔ آخری بار یہ چھ لاکھ سال قبل پھٹا تھا۔ یہ جگہ ابھی تک متحرک ہے اور آج کل اسے ‘ییلو سٹون نیشنل پارک’ کہا جاتا ہے۔
ہمیں اپنے قدموں کے نیچے کی زمین میں واقع ہونے والے واقعات کے بارے انتہائی کم معلومات ہیں۔ فورڈ کمپنی کے کاریں بنانا شروع کرنے اور نوبل انعامات کی تقسیم شروع ہونے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ زمین کا ایک مرکزہ بھی ہے۔ براعظموں کی حرکت یعنی پلیٹ ٹیکٹانکس محض ایک نسل پہلے پتہ چلی تھی۔ رچرڈ فین مین کے مطابق، ‘یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہمیں زمین کے اندر کی نسبت سورج کے اندر موجود مادے کی تقسیم کے بارے زیادہ جانتے ہیں ‘۔
زمین کی سطح سے مرکز تک کا فاصلہ لگ بھگ 6,370 کلومیٹر بنتا ہے جو زیادہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ زمین کے مرکزے تک کنواں کھود کر اس میں ایک اینٹ گرائیں تو 45 منٹ میں وہ مرکزے تک پہنچ جائے گی (اگرچہ وہاں وہ گرے گی نہیں بلکہ معلق ہو جائے گی کہ کششِ ثقل اس وقت اس کے نیچے نہیں بلکہ ہر جانب ہو گی)۔ زمین کے مرکزے کی طرف جانے کی ہماری کوششیں بہت معمولی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں سونے کی ایک یا دو کانیں محض 3 کلومیٹر گہرائی تک پہنچی ہیں جبکہ زیادہ تر کانیں محض 400 میٹر کی گہرائی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر زمین کو سیب سے تشبیہ دیں تو کہہ لیجئے کہ ابھی تک ہم سیب کے چھلکے سے نیچے نہیں گئے۔ بلکہ ہم نے چھلکے کو بھی عبور نہیں کیا۔
سو سال قبل زمین کے اندر کے بارے اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنس دان کی معلومات کوئلے کے کان کن سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ یعنی زمین کو کھودتے جائیں اور ایک وقت آئے گا کہ پتھر آ جائیں گے اور بس۔ پھر 1906 میں آئرش ماہرِ ارضیات اولڈہیم نے گوئٹے مالا کے زلزلے سے متعلق سائزموگراف کی لکیروں کو پڑھنا شروع کیا تو اس نے دیکھا کہ زلزلے کی بعض لہریں زمین کے بہت اندر تک جاتی ہیں اور پھر ایک خاص زاویے پر دوبارہ اوپر کو اٹھتی ہیں کہ جیسے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ آ گئی ہو۔ اس نے نتیجہ نکالا کہ زمین کے اندر مرکزہ بھی موجود ہے۔ تین سال بعد کروشیئن سائزمالوجسٹ آندریا موہورووچ زغرب کے زلزلے کے گراف کو دیکھ رہا تھا کہ اس نے اسی طرح کی ایک چیز بہت کم گہرائی پر دیکھی۔ اس نے زمین کی سطح اور نیچے والی تہہ کی حد دریافت کر لی تھی۔ اس دریافت کو آج تک اسی کے نام سے موہورووچ کی رکاوٹ یا موہو کہا جاتا ہے۔
اس وقت ہمیں زمین کے اندرونی حصے کے تہہ دار ہونے کے بارے معمولی سا علم ہونا شروع ہوا۔ 1936 میں ڈینش سائنس دان انگے لہمن نے جب نیوزی لینڈ کے زلزلوں کی پیمائشی لکیریں پڑھیں تو دریافت ہوا کہ زمین کا ایک نہیں بلکہ دو مرکزے ہیں اور آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اندرونی مرکزہ ٹھوس ہے اور اس کے گرد موجود دوسرا مرکزہ مائع حالت میں اور مقناطیسیت کا مرکز ہے۔
لہمن کی دریافت کے ساتھ ساتھ کالٹیک، کیلیفورنیا میں دو سائنس دان ایک زلزلے اور اس کے بعد آنے والے دوسرے زلزلے کے تقابل کے بارے کام کر رہے تھے۔ ان کے نام چارلس ریکٹر اور بینو گُٹن برگ تھے تاہم پھر بھی ان کا بنایا ہوا پیمانہ ریکٹر سکیل کہلاتا ہے (اس میں ریکٹر کا بھی کوئی قصور نہیں۔ اس نے اس پیمانے کو کبھی اپنے نام سے نہیں متعارف کرایا بلکہ وہ اسے ‘شدت ماپنے والا پیمانہ’ کہتا تھا)۔
ریکٹر سکیل کو شروع سے ہی غلط سمجھا گیا ہے۔ شروع شروع میں ریکٹر کے دفتر لوگ آ کر پوچھتے کہ ‘ریکٹر سکیل کہاں رکھا ہے۔ ‘ جیسے یہ کوئی مشین ہو۔ حقیقت میں مشین کی بجائے یہ ایک نظریہ ہے جو زمین کے اندر ہونے والی حرکات کو زمین کی سطح پر ماپتا ہے۔ اس کی شدت متناسب انداز سے بڑھتی ہے۔ اس طرح 7.3 شدت کا زلزلہ 6.3 سے دس گنا زیادہ طاقتور اور 5.3 سے سو گنا زیادہ طاقتور ہو گا۔
نظریاتی طور پر زلزلے کی زیادہ سے زیادہ شدت کوئی مقر ر نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کوئی کم سے کم شدت۔ یہ پیمانہ زلزلے کی شدت کو ماپتا ہے لیکن اس سے ہونے والی تباہی کو نہیں۔ مثال کے طور پر 650 کلومیٹر گہرائی میں ہونے والے 7 شدت کے زلزلے سے زمین کی سطح پر شاید ہی کوئی تباہی ہو لیکن اس سے بہت کم شدت کا زلزلہ اگر سطح زمین کے پاس اگر 6 یا 7 کلومیٹر گہرائی پر ہو تو اس سے ہونے والی تباہی بہت شدید ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس جگہ زمین کی نوعیت، زلزلے کے دورانیے، ثانوی جھٹکوں کی شدت اور تعداد کے علاوہ اس جگہ موجود تعمیرات بھی زلزلے سے ہونے والی تباہی میں اہم عنصر ہوتی ہیں۔
اس سکیل کی ایجاد کے بعد سے اب تک آنے والا شدید ترین زلزلہ (اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس ذریعے کو دیکھتے ہیں ) یا تو پرنس ولیم ساؤنڈ، الاس کا میں مارچ 1964 میں آیا تھا جس کی شدت 9.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ دوسرا زلزلہ 1960 میں چلی کے ساحل سے پرے بحرالکاہل میں آیا تھا جس کی شدت ابتدا میں 8.6 اور پھر بعض ذرائع بشمول امریکی جیولاجیکل سروے نے دوبارہ تحقیق کے بعد 9.5 مقر ر کی۔ یعنی آپ درست سمجھے ہیں کہ زلزلوں کی شدت کو ماپنا کوئی آسان یا سیدھا کام نہیں ہے اور یہ کام اس وقت اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب ان زلزلوں کو دور دراز مقامات پر ماپنا پڑے۔ تاہم یہ دونوں ہی زلزلے انتہائی شدید تھے۔ 1960 کے زلزلے نے نہ صرف جنوبی امریکہ کے ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی بلکہ اس سے پیدا ہونے والی سونامی اتنی شدید تھی کہ تقریباً 10,000 کلومیٹر کا سفر طے کر کے بحرالکاہل کے دوسرے کنارے تک جا پہنچی اور ہوائی میں ہیلو کے شہر کے زیادہ تر کاروباری علاقے کو بہا لے گئی جہاں 500 عمارتیں تباہ ہوئیں اور 60 افراد بھی ہلاک ہوئے۔ اسی طرح کی لہروں سے جاپان اور فلپائن تک اموات ہوئیں۔
اگر صرف تباہی کو دیکھا جائے تو شاید پرتگال کے شہر لزبن میں یکم نومبر 1755 کو آنے والا زلزلہ سب سے بڑا تھا۔ اس دن آل سینٹس ڈے منایا جاتا ہے اور صبح دس بجے سے ذرا قبل شہر کو اچانک زور کا جھٹکا لگا جو پورے سات منٹ تک جاری رہا۔ اس زلزلے کی شدت کا تخمینہ 9.0 لگایا گیا ہے۔ جب یہ جھٹکے رکے تو لوگوں کو محض تین منٹ سکون کا سانس لینے کا وقت ملا اور پھر دوسرا زلزلہ آیا جس کی شدت پہلے سے ذرا سی کم تھی۔ تیسرا اور آخری زلزلہ بھی آیا۔ ان کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ شہر کی بندرگاہ سے پانی باہر نکل آیا اور لہروں کی اونچائی 15 میٹر سے زیادہ تھی جس سے بھی کافی تباہی ہوئی۔ زلزلے سے کل 60,000 افراد ہلاک ہوئے اور میلوں تک کوئی عمارت ثابت نہ بچی۔ مقابلے کے لیے دیکھتے ہیں کہ سان فرانسسکو میں آنے والے 1906 کے زلزلے کی شدت 7.8 تھی اور دورانیہ نصف منٹ سے بھی کم۔
زلزلے معمول کی بات ہیں۔ دنیا میں ہر روز 2.0 یا اس سے زیادہ شدت کے اوسطاً دو زلزلے آتے ہیں۔ اگر آپ اس مقام سے قریب ہوں تو خاصا جھٹکا محسوس کر سکتے ہیں۔ اگرچہ زلزلے عموماً مخصوص جگہوں پر ہی مرکوز ہوتے ہیں جن میں بحرالکاہل کے کنارے اہم ہیں، تاہم کہیں بھی آ سکتے ہیں۔ امریکہ میں فلوریڈا، مشرقی ٹیکساس اور بالائی مڈ ویسٹ میں ابھی تک زلزلے نہ ہونے کے برابر آئے ہیں۔ نیو انگلینڈ میں سابقہ 200 سالوں میں 6.0 یا اس سے زیادہ شدت کے دو زلزلے آ چکے ہیں۔ اپریل 2002 میں اس جگہ 5.1 شدت کا زلزلہ آیا جس کا مرکز لیک چیمپلین تھا جو نیو یارک اور ورمونٹ کی سرحد کے قریب ہے۔ مقامی طور پر اس سے کافی نقصان پہنچا اور نیو ہمپشائر تک دیواروں سے تصاویر اور بچوں کا بستروں سے گرنا دیکھا گیا۔
زلزلوں کی عام قسم وہ ہے جو دو پلیٹوں کے مقامِ اتصال پر آتی ہے جیسے کیلیفورنیا میں سینٹ اینڈریاس فالٹ پر۔ جب پلیٹیں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں تو ان کے درمیان دباؤ بڑھتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک پلیٹ دوسری کو راستہ دے دیتی ہے۔ عام طور پر جتنا زیادہ عرصہ دباؤ بڑھتا رہے، اتنا ہی شدید زلزلہ آتا ہے۔ ٹوکیو کے لیے یہ انتہائی پریشانی کی بات ہے کہ آفات کے ایک ماہر بل میگوئیر جو کہ یونیورسٹی کالج لندن میں کام کرتے ہیں، کے مطابق ‘ٹوکیو شہر موت کا منتظر ہے ‘۔ ٹوکیو کے نیچے تین پلیٹیں ملتی ہیں اور جاپان میں ویسے بھی زلزلے آنا معمول کی بات ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1995 میں کوبے شہر میں آنے والے 7.2 شدت کے زلزلے سے 6,394 افراد ہلاک ہوئے تھے اور نقصان کا اندازہ 99 ارب ڈالر تھا۔ تاہم ٹوکیو پر آنے والے متوقع زلزلے کے آگے تو یہ کچھ بھی نہیں۔
موجودہ دور میں ٹوکیو میں ایک بار شدید زلزلہ آ چکا ہے۔ یکم ستمبر 1923 کو دوپہر سے ذرا قبل آنے والے زلزلے کو، کہ جس کا نام گریٹ کانٹو کواک رکھا گیا ہے، کی شدت کوبے کے زلزلے سے دس گنا زیادہ تھی۔ دو لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے بعد سے ٹوکیو حیران کن حد تک پرسکون ہو چکا ہے۔ یعنی تقریباً اسی سال سے ٹوکیو کے نیچے پلیٹوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ 1923 میں ٹوکیو کی کل آبادی تیس لاکھ تھی۔ آج ٹوکیو کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے بارے تو کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن معاشی نقصان کا اندازہ 7 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کن زلزلے وہ ہوتے ہیں جن کے بارے معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ کہیں بھی آ سکتے ہیں۔ انہیں انٹرپلیٹ زلزلے کہا جاتا ہے۔ یہ زلزلے پلیٹوں کے کناروں سے دور آتے ہیں اور ان کے آنے کے بارے کسی قسم کی معلومات کا حصول ممکن نہیں۔ چونکہ یہ زلزلے انتہائی گہرائی پر آتے ہیں، اس لیے ان کے اثرات بہت بڑے علاقے پر پڑتے ہیں۔ امریکی سرزمین پر آنے والا ایسا سب سے شدید زلزلہ 1811 اور 1812 کے موسمِ سرما میں نیو میڈریڈ میں تین بار آیا تھا۔ 16 دسمبر کو نصف شب سے ذرا قبل لوگوں کو جانوروں میں ہونے والی بھگدڑ کی آوازوں نے جگا دیا (زلزلوں سے قبل جانوروں کا پریشان ہونا سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے اگرچہ اس کی وجہ کا علم نہیں ) اور پھر زمین کے اندر سے سماعت شکن آواز آتی سنائی دی۔ جب لوگ پریشان ہو کر گھروں سے نکلے تو دیکھا کہ زمین میں ایک میٹر جتنی بلند لہریں پیدا ہو رہی ہیں اور زمین پھٹ رہی ہے۔ سلفر کی بہت تیز بو بھی محسوس کی گئی تھی۔ یہ زلزلہ چار منٹ تک جاری رہا اور عمارات کو شدید نقصان پہنچا۔ عینی شاہدین میں مشہور آرٹسٹ جان جیمز آڈوبن بھی شامل تھا۔ یہ زلزلہ اتنی شدت سے پھیلا کہ 600 کلومیٹر دور سنسنیاٹی میں گھروں کی چمنیاں گر گئیں اور ایک خبر کے مطابق تو واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل بلڈنگ کے گرد لگایا ہوا تعمیراتی ڈھانچہ بھی گر گیا۔ اسی طرح کے زلزلے 23 جنوری اور 4 فروری کو بھی آئے اور اس کے بعد سے نیو میڈرڈ اب تک خاموش ہے۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا زلزلہ اس سے قبل کبھی ایک جگہ دو بار نہیں آیا۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ ان کی پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں۔ ایسا اگلا زلزلہ شکاگو، پیرس یا کنساشا میں بھی آ سکتا ہے۔ ابھی کسی نے اس بارے اندازہ لگانا بھی شروع نہیں کیا۔ انٹرپلیٹ مقام پر ایسا کیا ہوتا ہے کہ یہ زلزلے آتے ہیں؟ شاید زمین کی گہرائی میں کچھ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ہمیں علم نہیں۔
1960 کی دہائی میں سائنس دان اس بات پر مسلسل پریشان ہوتے رہے کہ ان کا زمین کے بارے علم کتنا محدود ہے اور انہوں نے اس بارے کچھ کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ سمندر کی تہہ میں سوراخ کیا جائے (زمین پر یہ تہہ بہت موٹی ہوتی) اور پھر زمین کے مرکزے کا حصہ نکال کر اسے آرام سے جانچا جائے۔ اس کے پسِ پردہ یہ خیال تھا کہ اگر انہیں زمین کے اندر موجود چٹانوں کی ساخت کے بارے علم ہو جائے تو وہ ان چٹانوں کے باہمی تعامل کو سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور پھر زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کے بارے پیشین گوئی کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
اس منصوبے کو ‘موہول’ کا نام دیا گیا اور اس کا نتیجہ بھیانک نکلا۔ منصوبے کے مطابق میکسیکو کے ساحل سے دور بحرالکاہل میں 4,000 میٹر کی گہرائی تک ڈرل کو اتار جائے جو 5,000 میٹر جتنی کھدائی کرے کیونکہ اُس جگہ زمین کی تہہ زیادہ موٹی نہیں تھی۔ تاہم ایک اوشیانوگرافر کے مطابق ‘کھلے سمندر میں جہاز پر کھڑے ہو کر کھدائی کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر کھڑے ہو کر سپاگیٹی کی مدد سے نیچے زمین کی سطح پر سوراخ کرنے کی کوشش کریں ‘۔ ہر کوشش ناکامی پر منتج ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ 180 میٹر کی گہرائی تک کھدائی ہو سکی۔ موہول کو ‘نو ہول’ کے نام سے جانا جانے لگا۔ 1966 میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے کانگریس نے اس منصوبے کو روک دیا۔
چار سال بعد روسی سائنس دانوں نے اس تجرے کو اپنے انداز میں کرنے کا سوچا۔ ان کا منصوبہ زمین پر کھدائی کرنے کا تھا۔ انہوں نے روس میں جزیرہ نما کولا جو کہ فن لینڈ کی سرحد کے قریب واقع ہے، پر کھدائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا ارادہ پندرہ کلومیٹر گہرائی تک جانے کا تھا۔ تاہم یہ کام ان کے اندازوں سے زیادہ مشکل نکلا مگر روسی دھن کے پکے تھے۔ 19 سال بعد جب انہوں نے کام روکا تو اس وقت تک وہ 12,262 میٹر کی گہرائی تک پہنچ چکے تھے۔ یاد رہے کہ زمین کی بالائی سطح کل کمیت کا محض 0.3 فیصد ہے۔ کولا کا یہ گڑھا اس سطح کے ایک تہائی سے بھی کم گہرائی تک پہنچا تھا۔ زمین کے مرکزے کو سمجھنا آج بھی ہمارے بس سے باہر ہے۔
اگرچہ یہ سوراخ کوئی بہت غیر معمولی نہیں تھا لیکن اس سے متعلق ہر بات عجیب تر نکلی۔ سائزمک مطالعے سے سائنس دان پُریقین تھے کہ پہلے 4,700 میٹر کی گہرائی تک چٹانیں ہیں اور اگلے 2,300 میٹر تک گرینائٹ اور پھر اس سے نیچے بسالٹ ہے۔ پہلی تہہ اندازے سے ڈیڑھ گنا نکلی جبکہ بسالٹ کی تہہ آج تک نہیں مل سکی۔ اس کے علاوہ اتنی گہرائی پر حدت اندازے سے کہیں زیادہ تھی۔ 10,000 میٹر کی گہرائی پر درجہ حرارت 180 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو اندازے سے تقریباً دوگنا نکلا۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنی گہرائی پر چٹانوں میں پانی بھرا ہوا تھا جو اب سے پہلے ناممکن بات سمجھی جاتی تھی۔
چونکہ ہم زمین کے اندر دیکھ نہیں سکتے، اس لیے ہم مختلف تکنیکیں آزماتے ہیں جن کی اکثریت میں مختلف لہروں کو زمین کے اندر کی طرف بھیج کر دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کیا ملتا ہے۔ ہماری معلومات کا بڑا حصہ حصہ کمبرلائٹ پائپ سے آیا ہے۔ اس جگہ ہیرے بنتے ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ زمین کے اندر انتہائی گہرائی میں ایک دھماکہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں میگما یا پگھلی ہوئی چٹانوں کا ایک گولہ سا زمین کی سطح کی طرف آواز سے بھی زیادہ تیز رفتار سے نکلتا ہے۔ یہ عمل کہیں بھی اور کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ابھی آپ کے باغیچے میں ابھی کمبرلائٹ پائپ پھٹ جائے۔ عموماً ایسے پائپوں میں 200 کلومیٹر کی گہرائی سے ہر قسم کی چیزیں اوپر پہنچتی ہیں جو عام طور پر زمین کی سطح یا اس کے قریب نہیں پائی جاتیں۔ عموماً اس میں ایک قسم کی چٹان پیریڈائٹ، اولی وائن کی قلمیں اور سو میں سے ایک پائپ میں ہیرے اوپر پہنچتے ہیں۔ کمبرلائٹ سے بڑی مقدار میں کاربن خارج ہوتی ہے لیکن زیادہ تر بخارات بن کر یا گریفائٹ کی شکل میں بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ایسا مادہ بالکل ٹھیک رفتار سے نکلتا اور درست رفتار سے ٹھنڈا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ہیرا بنتا ہے۔ ایسے ہی ایک پائپ کی وجہ سے جنوبی افریقہ دنیا میں ہیروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بنا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ہیرے کہیں بھی موجود ہو سکتے ہیں جن کے بارے ہمیں کوئی علم نہیں۔ ماہرینِ ارضیات کو علم ہے کہ شمال مشرقی انڈیانا میں کہیں ایسا ہی ایک یا ایک سے زیادہ پائپ موجود ہیں جن میں ہیروں کی انتہائی بڑی مقدار موجود ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک وہ اسے پا نہیں سکے۔ البتہ اس علاقے میں 20 قیراط یا اس سے بڑے ہیرے بکثرت ملے ہیں۔ جان میکفی کے مطابق ‘عین ممکن ہے کہ ایسا پائپ کسی گلیشیئر کی لائی ہوئی مٹی کے نیچے دفن ہو جیسا کہ آئیوا میں مینسن کے گڑھے میں ہوا تھا یا پھر عظیم جھیلوں کے نیچے ہو’۔
ہم زمین کے اندر کے بارے کتنا جانتے ہیں؟ بہت کم۔ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کی چار تہیں ہیں، بیرونی پتھریلی سطح، کثیف اور گرم چٹانوں والی مینٹل، اندرونی مائع مرکزہ اور اندرونی ٹھوس مرکزہ (اس بارے مزید تفصیل جاننے کے خواہش مند قاریوں کے لیے مزید تفصیل یہ ہے جس میں اوسط اعداد و شمار اپنائے گئے ہیں : 0 سے 40 کلومیٹر تک بیرونی تہہ ہے۔ 40 سے 400 کلومیٹر تک بالائی مینٹل۔ 400 سے 650 کلومیٹر تک ٹرانزیشن زون ہے جو بالائی اور زیریں مینٹل کو ملاتا ہے۔ 650 سے 2,700 کلومیٹر تک زیریں مینٹل ہے۔ 2,700 سے 2,890 کلومیٹر تک موجود سطح کا نام D ہے۔ 2,890 سے 5,150 کلومیٹر تک کی تہہ بیرونی کور اور اس کے بعد 5,150 سے 6,370 کلومیٹر تک اندرونی تہہ)۔ ہمیں علم ہے کہ زمین کی سطح پر سیلیکیٹ کی کثرت ہے جو ہلکی ہوتی ہے اور زمین کا وزن اس سے اتنا نہیں ہو سکتا۔ نیتجتاً زیادہ بھاری مادہ اندر موجود ہونا چاہیے۔ مقناطیسی میدان کے لیے کہیں درمیان میں پگھلی ہوئی دھاتیں بھی موجود ہونا چاہئیں۔ اس بات پر ہر کسی کا اتفاق ہے۔ تاہم اس کے بعد صرف اختلافات شروع ہوتے ہیں جیسا کہ یہ تہیں ایک دوسرے سے کیسے تعامل کرتی ہیں، تعامل کی وجہ کیا ہے، مستقبل میں ان کے تعامل کیسے ہوں گے، پر صرف اختلافات پائے جاتے ہیں۔
زمین کی بیرونی تہہ جو ہمیں دکھائی دیتی ہے، میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ارضیات کی تقریباً تمام تر کتب میں درج ہے کہ سمندروں کے نیچے اس کی موٹائی 5 سے 10 کلومیٹر، براعظموں کے نیچے 40 کلومیٹر اور اونچے پہاڑوں کے نیچے 65 سے 95 کلومیٹر تک ہے۔ تاہم اس میں بہت ساری غیر معمولی باتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سیئرا نیواڈا پہاڑوں کے نیچے زمین کی یہ تہہ محض 30 سے 40 کلومیٹر موٹی ہے اور کسی کو علم نہیں کہ کیوں۔ جیوفزکس کے تمام تر قوانین کے مطابق سیئرا نیواڈا ایسے زمین میں دھنسنا چاہیئے جیسے کہ دلدل میں ڈوب رہا ہو (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پہاڑ ڈوب رہے ہیں )۔
زمین کی بیرونی تہہ کب اور کیوں بنی، اس کے جواب کی تلاش میں ماہرینِ ارضیات کے دو گروہ ہو جاتے ہیں۔ ایک کا خیال ہے کہ ایسا اچانک اور زمین کی پیدائش کے ابتدائی زمانے میں ہوا، دوسرے سمجھتے ہیں کہ ایسا بہت طویل عرصے میں اور بہت بعد میں جا کر ہوا۔ ایسے معاملات میں جذبات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ یےل کے رچرڈ آرمسٹرانگ نے 1960 کی دہائی میں پہلا نظریہ پیش کیا اور بقیہ زندگی اس کی صفائیاں دیتے گزاری۔ اس کا انتقال 1991 میں کینسر سے ہوا اور مرتے دم تک اس کی تلخیاں جاری رہیں۔
زمین کی بیرونی سطح اور مینٹل کا بیرونی حصہ مل کر لتھو سفیئر (یونانی لفظ لتھوس یعنی ‘پتھر’) کہلاتے ہیں۔ اس کے نیچے موجود تہہ نرم پتھروں سے بنی ہے جسے استھینو سفیئر (یونانی لفظ، جس کا مطلب ‘طاقت کے بغیر’ بنتا ہے ) کہتے ہیں۔ تاہم ایسی اصطلاحات سے ماہرین کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ اب مندرجہ بالا تعریفوں سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اوپر والی تہہ نچلی تہہ پر تیر رہی ہو جو کہ غلط تصور ہے۔ اسی طرح پتھروں کا بہاؤ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی مائع بہہ رہا ہو۔ پتھر کا بہنا ایسے ہی ہے جیسے شیشے کا بہنا۔ ایسا محسوس تو نہیں ہوتا لیکن زمین پر موجود ہر شیشہ کششِ ثقل کی وجہ سے نیچے کو بہہ رہا ہے۔ کسی پرانے یورپی گرجا گھر کی کھڑکی سے شیشہ اتاریں تو اس کا نچلا حصہ اوپری حصے کی نسبت کافی موٹا ہو گا (اس طرح کی باتیں اکثر جگہ لکھی ہوئی ہیں۔ تاہم اس کتاب کی اشاعت کے بعد 2003 کے موسمِ گرما میں برازیل کے سائنس دان پروفیسر ای ڈی زنوٹو نے ثابت کیا ہے کہ شیشہ چاہے جتنا بھی پرانا ہو، اس کے بہاؤ کو انسانی آنکھ نہیں ماپ سکتی)۔ اس قسم کے بہاؤ کے بارے ہم بات کر رہے ہیں۔ مینٹل کی چٹانوں کا ‘بہاؤ’ گھڑیال میں گھنٹے کی سوئی کی حرکت سے دس ہزار گنا سُست ہوتا ہے۔
یہ حرکات محض افقی ہی نہیں ہوتیں جیسا کہ زمینی پلیٹیں حرکت کرتی ہیں بلکہ یہ عمودی بھی ہوتی ہیں جیسا کہ چٹانیں اوپر نیچے ہوتی ہیں۔ اس عمل کو انگریزی میں Convection کہتے ہیں۔ اس عمل کے بارے سب سے پہلے سترہویں صدی کے کاؤنٹ وان رمفورڈ نے بتایا تھا۔ ساٹھ سال بعد ایک انگریز پادری اوسمونڈ فشر نے تجویز کیا کہ زمین کا اندرونی حصہ اتنا مائع شکل میں ہو سکتا ہے کہ وہ حرکت کرے۔ تاہم اس خیال کو جڑ پکڑنے میں بہت عرصہ لگا۔
1970 کے اوائل میں جب جیوفزسٹ سائنس دانوں کو علم ہوا کہ زمین کے اندر کتنی ہلچل مچی ہوئی ہے تو انہیں اس سے کافی جھٹکا لگا۔ اس بارے شانا وگل نے بہت مزے کا تبصرہ اپنی کتاب Naked Earth: The New Geophysics میں لکھا: یہ ایسے ہی ہے جیسے سائنس دان کئی دہائیوں سے زمین کی فضا میں ٹروپوسفیئر، سٹریٹوسفیئر وغیرہ پر کام کرتے رہے ہوں اور پھر اچانک انہیں علم ہو کہ ہوا بھی موجود ہے۔
تاہم اس بارے ابھی تک اتفاق نہیں ہو پایا کہ کنوکشن کا عمل کتنی گہرائی تک جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ 650 کلومیٹر کی گہرائی سے شروع ہوتا ہے جبکہ دوسروں کے خیال میں 3,000 کلومیٹر کی گہرائی سے۔ جیمز ٹریفل کے بقول، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس دو مختلف شعبوں سے آنے والے دو ڈیٹا ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے سے فرق ہیں۔ جیو کیمسٹس کے بقول زمین کی سطح پر موجود کئی معدنیات بالائی تہہ کی بجائے گہرائی سے آئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بالائی اور نچلی تہہ، دونوں بعض اوقات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ سائزمالوجسٹس کے مطابق اس کے کوئی شواہد موجود نہیں۔
یقین سے محض اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جب ہم زمین کے مرکزے کی طرف جائیں تو ایستھینو سفیئر سے نکلتے ہی ہم مینٹل میں گھس جاتے ہیں۔ یہ حصہ زمین کے حجم کا 82 فیصد جبکہ کمیت کا 65 فیصد ہے۔ تاہم اس میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لیتا کیونکہ سائنس دانوں اور عام افراد کی دلچسپی کے مراکز یا تو بہت گہرائی میں ہیں جیسا کہ مقناطیسیت، یا پھر سطح کے قریب تر، جیسا کہ زلزلے۔ ہمیں علم ہے کہ ڈیڑھ سو کلومیٹر کی گہرائی پر مینٹل میں Peridotite نامی چٹانیں عام پائی جاتی ہیں لیکن اگلے 2,650 کلومیٹر تک کیا ہے، اس بارے ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق شاید یہ Peridotite نہیں، لیکن اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔
مینٹل کے نیچے دو مرکزے ہیں۔ اندرونی مرکزہ ٹھوس ہے اور اس کے باہر ایک مائع مرکزہ۔ اب یہ کہنے کی تو شاید ضرورت نہ پڑے کہ ان مرکزوں کے بارے ہماری معلومات بالواسطہ ہیں لیکن سائنس دان مناسب حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ زمین کے مرکز میں دباؤ بہت زیادہ ہے جو سطح کی نسبت شاید 30 لاکھ گنا تک زیادہ ہے جس سے وہاں موجود ہر چٹان ٹھوس ہو جاتی ہے۔ انہیں زمین کی تاریخ (اور دیگر شواہد) سے یہ بھی علم ہے کہ اندرونی مرکزہ حرارت کو اپنے تک محدود رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ محض اندازہ ہی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ 4 ارب سال میں اس کا درجہ حرارت محض 110 ڈگری سینٹی گریڈ جتنا گرا ہے۔ زمین کے مرکزے کے اصل درجہ حرارت کے بارے تو کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن اندازہ ہے کہ 4٫000 سے 7٫000 ڈگری تک ہو گا، جو کہ سورج کی سطح کے برابر گرم ہے۔
بیرونی مرکزے کے بارے ہماری معلومات اس سے بھی کم ہیں۔ اگرچہ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ بیرونی مرکزہ مائع حالت میں ہے اور یہ بھی کہ مقناطیسیت یہیں سے پیدا ہوتی ہے۔ 1949 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ای سی بلارڈ نے نظریہ پیش کیا کہ مرکزے کا یہ مائع حصہ اس طرح گھومتا ہے کہ جیسے برقی موٹر گھومتی ہو، اور اس طرح مقناطیسیت پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ کنوکٹنگ فلوئڈز (کسی مائع میں موجود گرم اور ہلکے حصے کا اوپر کو اٹھنا اور کم گرم یا سرد اور بھاری حصے کا نیچے کو جانا) بجلی کی لہروں کی طرح کام کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل کیسے ہوتا ہے، اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم یہ کہنا بے جا نہیں کہ اس کا تعلق مرکزے کی گردش اور اس کے مائع ہونے سے ہے۔ ایسے اجرامِ فلکی جن میں مائع مرکزہ نہیں، جیسا کہ چاند اور مریخ، پر مقناطیسیت نہیں پائی جاتی۔
ہمیں علم ہے کہ زمینی مقناطیسی میدان کی طاقت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے : ڈائنوساروں کے عہد میں یہ آج کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ اوسطاً ہر پانچ لاکھ سال بعد اس کی سمت بدل جاتی ہے۔ یہ اوسط محض اوسط ہی ہے کہ پچھلی بار یہ تبدیلی ساڑھے سات لاکھ سال قبل ہوئی تھی۔ بعض اوقات اسے سمت بدلنے میں کروڑوں سال بھی لگ سکتے ہیں۔ سب سے طویل عرصہ لگ بھگ 3 کروڑ 70 لاکھ سال تھا۔ تاہم دوسری جانب بعض اوقات اس تبدیلی میں محض 20,000 سال لگے۔ پچھلے دس کروڑ سال میں یہ کم از کم 200 بار تبدیل ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے کوئی علم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اسے جغرافیائی سائنس کا سب سے بڑا معمہ قرار دیا جاتا ہے۔
شاید اس وقت بھی یہ تبدیلی جاری ہے۔ زمین کے مقناطیسی میدان میں پچھلی ایک صدی کے دوران 6 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ مقناطیسی کشش میں پیدا ہونے والی کمی بری خبر ہے کیونکہ یہ محض فریج پر نوٹ چپکانے یا کمپاس سے سمت دیکھنے کے ہی کام نہیں آتی بلکہ یہ ہمیں زندہ رکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ خلاء میں خلائی شعاعیں بھری پڑی ہیں اور اگر مقناطیسیت ختم ہو جائے تو یہ شعاعیں ہمارے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گی اور ہمارے ڈی این اے کا بہت بڑا حصہ بیکار ہو جائے گا۔ مقناطیسی میدان ان شعاعوں کو موڑ کر زمین کے قریب کے خلاء میں دو پٹیوں کی شکل میں بھیج دیتا ہے جسے ‘وان ایلم بیلٹس’ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالائی فضاء میں یہی ذرات ‘انوارِ قطبی’ پیدا کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔
ہماری لاعلمی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ زمین کے اوپر اور اندر ہونے والے عوامل کو کبھی یکجا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ شانا ووگل کے مطابق ‘جغرافیہ دان اور جیو فزسٹ کبھی ایک میٹنگ میں نہیں آتے اور نہ ہی کسی مسئلے پر ایک ساتھ کام کرتے ہیں ‘۔
زمین کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے ہماری لاعلمی کی سب سے بڑی مثال شاید 1980 میں واشنگٹن کی ریاست میں سینٹ ہیلنز کے پھٹنے سے متعلق ہے۔
اس وقت نچلی 48 ریاستوں میں آتش فشاں پھٹے 65 سال گزر چکے تھے۔ اس لیے جب حکومت نے سینٹ ہیلنز کی نگرانی اور پیشین گوئی کے لیے آتش فشانوں کے ماہرین کو ملک بھر سے بلایا تو ان کا مشاہدہ محض ہوائی تک محدود تھا۔ جیسا کہ بعد میں علم ہوا، وہ بالکل ہی الگ نوعیت کے آتش فشاں ہیں۔
20 مارچ کو سینٹ ہیلنز میں ہلچل شروع ہوئی۔ اسی ہفتے میگما نکلنا شروع ہو گیا تاہم اس کی مقدار زیادہ نہیں تھی۔ میگما نکلنے کا عمل دن میں سو بار تک بھی دیکھا گیا۔ زلزلے بھی مسلسل محسوس ہوتے رہے۔ 13 کلومیٹر تک کے فاصلے سے لوگوں کو نکال لیا گیا۔ جوں جوں سینٹ ہیلنز کی ہلچل بڑھتی گئی سیاحوں کا رش لگنے لگا۔ اخباروں میں ہر روز مشاہدے کے لیے بہترین مقامات کی فہرستیں چھپنے لگیں۔ ٹی وی رپورٹر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر کیمروں کے ساتھ پہاڑ کے اوپر جانے لگے اور کئی لوگ تو پیدل پہاڑ پر چڑھتے پائے گئے۔ ایک دن تو ستر ہیلی کاپٹر اور چھوٹے جہازوں نے چوٹی کا چکر لگایا۔ تاہم جوں جوں دن گزرتے گئے اور آتش فشاں نہ پھٹا تو لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔ عام خیال تھا کہ آتش فشاں نہیں پھٹے گا۔
19 اپریل کو شمالی سرے پر ایک بڑا ابھار نمودار ہوا۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی بھی ذمہ دار فرد ایسا نہ تھا کہ جو اس کو پہلوئی دھماکے کی نشانی سمجھتا۔ ماہرین کا مشاہدہ ہوائی کے آتش فشانوں تک محدود تھا جو کبھی بھی پہلو سے نہیں پھٹتے۔ صرف ایک فرد، جسے دھماکے کا اندازہ ہوا، وہ ٹاکوما کے کمیونٹی کالج میں جغرافیہ کا پروفیسر جیک ہائیڈ تھا۔ اس نے بتایا کہ چونکہ سینٹ ہیلنز پر ہوائی کے آتش فشانوں کی مانند کوئی کھلا شگاف نہیں، اس لیے اس کے اندر کا دباؤ بے پناہ ہو گا اور اس سے پیدا ہونے والی تباہی بھی اسی حساب سے بہت بڑی ہو گی۔ چونکہ ہائیڈ سرکاری ٹیم کا حصہ نہیں تھا، اس لیے کسی نے اس کی بات کو سننے کی زحمت نہیں کی۔
آگے کیا ہوا، تاریخ کا حصہ ہے۔ 18 مئی کو صبح 8:32 پر اتوار کے روز شمالی سمت اپنی جگہ سے کھسکی اور اپنے ساتھ بے پناہ مقدار میں مٹی اور پتھر ساتھ لے کر نیچے کو تقریباً 250 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھسلی۔ انسانی تاریخ میں زمین کھسکنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس کی مقدار اتنی تھی کہ پورے مین ہٹن کو 120 میٹر اونچائی تک بھر دیتی۔ ایک منٹ بعد جب پہاڑ کا پہلو کمزور ہوا تو سینٹ ہیلنز پھٹا تو اس کی شدت 27,000 ہیروشیما والے ایٹم بموں کے برابر تھی۔ انتہائی گرم بادل 1,050 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نکلا جس سے بچ کر بھاگنا ممکن نہیں تھا۔ اکثر لوگ جو پہاڑ سے دور اور نظروں سے اوجھل تھے، بے خبری میں مارے گئے۔ کل 75 افراد ہلاک ہوئے۔ 23 لاشیں نہیں مل سکیں۔ اگر اتوار نہ ہوتا تو شاید ہلاکتیں کہیں زیادہ ہوتیں۔ عام طور پر اس کے پاس بہت سارے لکڑہارے بھی کام کر رہے ہوتے تھے۔ 30 کلومیٹر دور موجود لوگ بھی زندہ نہ بچ سکے۔
اس دن خوش نصیب ترین انسان ایک طالبعلم ہیری گلیکن تھا۔ وہ پہاڑ سے نو کلومیٹر دور مشاہدہ گاہ سے پہاڑ کا مشاہدہ کر رہا تھا لیکن 18 مئی کو اسے کیلیفورنیا ایک انٹرویو کو جانا پڑا۔ اس کی جگہ ڈیوڈ جانسٹسن آیا۔ اس نے سب سے پہلے آتش فشاں کے پھٹنے کی اطلاع دی اور چند لمحے بعد اپنی جان گنوا بیٹھا۔ اس کی لاش بھی کبھی نہیں مل پائی۔ گلیکن کی قسمت دیکھیے کہ گیارہ سال بعد وہ 43 سائنس دانوں اور صحافیوں کی اس ٹیم کا حصہ تھا جو جاپان میں ‘ماؤنٹ اُنزین’ پھٹنے کے نتیجے میں انتہائی گرم راکھ، گیسوں اور پگھلی چٹانوں کے بہاؤ میں پھنس کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اس آتش فشاں کو بھی انتہائی غلط سمجھا گیا۔
آتش فشانی ماہرین شاید پیشین گوئیاں کرنے میں سب سے برے نہ بھی ہوں لیکن انہیں اپنی پیشین گوئیوں کے بھیانک نتائج کا شاید ہی اندازہ ہوتا ہو۔ اُنزین والے مندرجہ بالا واقعے کے دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد یونیورسٹی آف ایریزونا کے سٹینلے ولیمز کی سربراہی میں کولمبیا کے گالیراس آتش فشاں کے مشاہدے کے لیے ایک ٹیم اس کے منہ میں اتری۔ حالیہ اموات کے باوجود سولہ افراد میں محض دو افراد ہیلمٹ یا کسی اور طرح کے حفاظتی آلات اٹھائے ہوئے تھے۔ پہاڑ پھٹا اور 6 سائنس دان اور 3 سیاح، جو ان کے پیچھے آ رہے تھے، مارے گئے۔ ولیمز سمیت کئی دیگر شدید زخمی ہوئے۔
انتہائی حد تک خود پر تنقید سے گریز کرتے ہوئے ولیمز نے اپنی کتاب Surviving Galeras میں لکھا کہ ‘میں محض حیرت سے سر پکڑے بیٹھ گیا٬ جب اسے دنیا بھر سے آتش فشانوں کے دیگر ماہرین نے بتایا کہ کیسے اس نے اہم ترین علامات اور نشانیوں کو نظرانداز کیا تھا۔ واقعہ رونما ہونے کے بعد اس پر تنقید کرنا کتنا سہل ہے۔ آج کے علم کی روشنی میں 1993 میں رونما ہونے والے حادثے کو دیکھنا’۔ اس کے خیال میں اس کی غلطی محض اتنی سی تھی کہ اس نے نیچے اترنے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا، عین اسی وقت قدرت نے آتش فشاں کو پھاڑا۔ ‘مجھ سے غلطی ہوئی اور اس کی ذمہ داری میرے سر ہے۔ تاہم اپنے ساتھیوں کی موت کی ذمہ داری میری نہیں اور نہ ہی مجھے شرمندگی ہے۔ وہ لوگ میری وجہ سے نہیں بلکہ آتش فشاں پھٹنے سے مرے تھے ‘
خیر، واشنگٹن واپس چلتے ہیں۔ ماؤنٹ سینٹ ہیلنز کا اوپری 400 میٹر جتنا حصہ غائب ہو گیا اور 600 مربع کلومیٹر پر مشتمل جنگل تباہ ہوا۔ اس جنگل کی لکڑی سے ڈیڑھ سے تین لاکھ گھر بنائے جا سکتے تھے۔ مالی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 2.7 ارب ڈالر لگایا گیا۔ دھوئیں اور راکھ کا بادل دس منٹ میں 18,000 میٹر تک بلند ہو گیا۔ 48 کلومیٹر دور سے گزرنے والے ایک ہوائی جہاز پر کنکروں کی بوچھاڑ ہوئی۔
دھماکے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد واشنگٹن میں یاکیما کے مقام پر راکھ کا بادل برسنے لگا۔ یہاں پچاس ہزار لوگ رہتے تھے اور یہ جگہ دھماکے سے 130 کلومیٹر دور تھی۔ راکھ کی وجہ سے دن کو بھی رات کا سماں پیدا ہو گیا اور ہر چیز سے چپک گیا۔ کاروں کے انجن بند ہو گئے، جنریٹر اور دیگر برقی آلات ناکارہ ہو گئے، پیدل چلنے والے افراد کا دم گھٹنے لگا اور ہر چیز رک سی گئی۔ ایئرپورٹ اور شاہراہیں بند کرنی پڑیں۔
واضح رہے کہ یہ سب کچھ دھماکے والی جگہ سے نیچے کی جانب ہو رہا ہے جہاں ہوا کے رخ سے راکھ کا بادل پہنچا۔ یہ آتش فشاں دو ماہ سے گڑ گڑا رہا تھا۔ یاکیما میں اس طرح کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ شہر میں ہنگامی حالات سے آگاہ کرنے والے نشریاتی نظام کو خودبخود چلنا چاہیئے تھا لیکن اس روز والا عملہ اسے چلانے میں ناکام رہا۔ مسلسل تین روز تک شہر کا رابطہ باقی دنیا سے کٹا رہا اور ایئرپورٹ اور سڑکیں بند رہیں۔ بحیثیتِ مجموعی شہر پر اوسطاً ڈیڑھ سینٹی میٹر جتنی راکھ کی تہہ گری۔ سوچیے کہ ییلو سٹون اگر پھٹے تو کیا آفت آئے گی۔
٭٭٭
15 خطرناک حسن
1960 کی دہائی میں یونائیٹڈ سٹیٹس جیولاجیکل سروے کے باب کرسچیئنسن کو ییلو سٹون نیشنل پارک کے مطالعے کے دوران اس وقت شدید حیرت ہوئی جب اسے پارک کا آتش فشاں نہ مل سکا۔ مزید حیرت اس امر پر تھی کہ یہ بات پہلے کسی نے محسوس نہیں کی۔ طویل عرصے سے یہ بات واضح ہے کہ ییلو سٹون کی نوعیت آتش فشانی ہے جو کہ اس کے گرم پانی کے چشموں اور فواروں سے صاف ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ آتش فشاں دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم کرسچیئنسن کو پارک کا آتش فشاں نہ مل پایا۔ سائنسی زبان میں یوں کہہ لیں کہ اسے کالڈرا نہیں ملا۔
ہم میں سے زیادہ تر افراد جب آتش فشاں کا سوچتے ہیں تو ذہن میں جاپان کے ماؤنٹ فیوجی یا افریقہ کے کلے منجارو جیسی مخروطی شکل آتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب آتش فشاں لاوے کو ہر سمت میں یکساں خارج کرے۔ ان کے بننے کا عمل بہت تیز بھی ہو سکتا ہے۔ 1943 میں میکسیکو میں ایک کسان نے اپنے کھیت سے دھواں اٹھتا دیکھا۔ ایک ہفتے بعد اس جگہ 152 میٹر اونچی مخروطی کون بن چکی تھی۔ دو سال میں اس کی اونچائی 430 میٹر تک جا پہنچی۔ دنیا میں ایسے دس ہزار سے زیادہ آتش فشاں ہیں جن میں سے اب محض چند سو ہی باقی رہ گئے ہیں۔ تاہم آتش فشاں کی ایک اور شکل بھی ہوتی ہے جو پہاڑ جیسی نہیں دکھائی دیتی۔ ایسے آتش فشاں جب پھٹتے ہیں تو اپنے پیچھے ایک بہت بڑا گڑھا چھوڑ جاتے ہیں۔ ییلو سٹون اسی دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے تاہم کرسچیئنسن کو کالڈرا نہیں مل سکا۔
اتفاق دیکھیے کہ انہی دنوں ناسا نے انتہائی بلندی پر کام کرنے والے چند نئے کیمروں کے امتحان کی غرض سے ییلو سٹون کی تصاویر کھینچیں اور کسی نے وہ تصاویر پارک کی انتظامیہ کو بھی بھجوا دیں۔ جونہی کرسچیئنسن نے ان تصاویر کو دیکھا، اسے فوراً علم ہو گیا کہ اسے کالڈرا کیوں نہیں ملا۔ در حقیقت پورے کا پورا پارک جو لگ بھگ 9,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، کالڈرا ہے۔ دھماکے کے بعد پیدا ہونے والا گڑھا 65 کلومیٹر وسیع ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی شئے کو زمین پر کھڑے ہو کر تو نہیں دیکھا جا سکتا۔ ماضی میں کبھی ییلو سٹون جس قوت سے پھٹا ہو گا، اس کے بارے اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
ییلو سٹون عام آتش فشاں نہیں بلکہ سپر آتش فشاں ہے۔ اس کے نیچے بہت بڑا حرارتی مقام موجود ہے جس میں پگھلی ہوئی چٹانیں سطح سے لگ بھگ 200 کلومیٹر نیچے موجود ہیں جو اوپر سطح تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس گرم مقام کی وجہ سے ییلو سٹون کے تمام گیزر اور گرم چشمے بنے ہیں۔ سطح کے نیچے میگما کا خانہ 72 کلومیٹر وسیع ہے جو پارک کے کل رقبے کے برابر ہے۔ بعض جگہوں پر اس کی موٹائی 13 کلومیٹر ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اتنے بڑے رقبے پر 13 کلومیٹر اونچا بارود یا ڈائنامائٹ کا ڈھیر موجود ہو جو اونچے بادلوں سے بھی اوپر تک گیا ہو، تو آپ کو اندازہ ہو سکے گا کہ ییلو سٹون کے نیچے کیا بلا چھپی ہے۔ اس حرارت کے بے پناہ دباؤ کی وجہ سے ییلو سٹون آس پاس کے مقامات کی نسبت آدھا کلومیٹر زیادہ اونچا ہے۔ اگر یہ آتش فشاں پھٹا تو اس سے ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یونیورسٹی کالج آف لندن کے پروفیسر بِل میک گوئر کے مطابق جب یہ آتش فشاں پھٹ رہا ہو گا تو اس کے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ قریب جانا ممکن نہیں ہو گا۔ تاہم پھٹنے کے بعد پیدا ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ییلو سٹون جیسے آتش فشاں کی شکل جام جیسی ہوتی ہے۔ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے ان کی چوڑائی کم ہوتی ہے لیکن سطح کے قریب جا کر یہ بہت پھیل جاتے ہیں جس میں موجود میگما یعنی لاوا متحرک رہتا ہے۔ بعض مقامات پر ان کی چوڑائی 1900 کلومیٹر تک بھی ہو سکتی ہے۔ موجودہ نظریات کے مطابق یہ پہاڑ دھماکے سے پھٹنے کی بجائے مسلسل لاوے کو باہر پھینکتے رہتے ہیں۔ ساڑھے چھ کروڑ سال قبل انڈیا میں دکن کے مقام پر ایسا ہی آتش فشاں پھٹا تھا جس سے نکلنے والا لاوا پانچ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیل گیا اور ڈائنو ساروں کے خاتمے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ ان سے نکلنے والی زہریلی گیسوں سے بہت نقصان ہوا ہو گا۔ ان کی وجہ سے ہی شاید عظیم کھائیاں بنتی ہوں گی جو براعظم توڑنے کا سبب بنتی ہیں۔
ایسے اجسام نایاب نہیں۔ اس وقت زمین پر 30 سے زیادہ ایسے زندہ اجسام موجود ہیں اور انہی کی وجہ سے دنیا کے بہترین جزائر کے سلسلے وجود میں آئے ہیں، مثلاً آئس لینڈ، ہوائی، آزور، کناری اور گیلاپیگوس وغیرہ۔ تاہم ییلو سٹون کے علاوہ باقی تمام تر زیرِ آب ہیں۔ اس بارے کسی کو علم نہیں کہ ییلو سٹون کیسے برِاعظمی پلیٹ کے نیچے بنا۔ دو باتیں تو واضح ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ییلو سٹون کے نیچے کی تہہ بہت پتلی ہے اور یہ کہ اس کے نیچے کی دنیا بہت گرم ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تہہ نیچے موجود گرم مواد کی وجہ سے پتلی ہے یا پھر یہ کہ گرم مواد اس لیے یہاں جمع ہوا ہے کہ اس کے اوپر کی تہہ پتلی ہے۔ براعظمی تہہ کی نوعیت سے ان سپر آتش فشانوں کے پھٹنے پر بھی فرق پڑتا ہے۔ دیگر سپر آتش فشاں آہستہ آہستہ اور مستقل رفتار سے لاوا اگلتے ہیں لیکن ییلو سٹون انتہائی بڑے دھماکے سے پھٹتا ہے۔ اگرچہ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے لیکن جب ہوتا ہے تو اس کی تباہی سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہماری معلومات میں سب سے پہلے ییلو سٹون 1 کروڑ 65 لاکھ سال قبل پھٹا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک لگ بھگ سو مرتبہ پھٹ چکا ہے لیکن آخری تین مرتبہ جب پھٹا تو اس کے بارے ہمیں زیادہ معلومات ہیں۔ آخری بار یہ ماؤنٹ سینٹ ہیلنز سے لگ بھگ 1,000 گنا زیادہ، اس سے قبل اس کی شدت 280 گنا جبکہ اس سے پہلے والے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کے بارے کوئی اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ شاید 2,500 سے 8,000 گنا زیادہ بڑا دھماکہ ہوا ہو۔
اس کا مقابلہ کرنے کو ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں۔ حالیہ تاریخ میں ہونے والا سب سے بڑا دھماکہ انڈونیشیا میں کراکاٹو میں اگست 1883 میں ہوا تھا اور اس کی گونج نو دن تک دنیا کے گرد گھومتی رہی۔ زلزلے کی شدت سے رودبارِ انگلستان یعنی انگلش چینل کا پانی کناروں سے چھلک گیا۔ اب فرض کریں کہ کراکاٹو سے نکلنے والے مواد کی مقدار اگر گولف کی گیند کے برابر ہو تو ییلو سٹون سے نکلنے والے مواد سے بننے والی گیند آپ کے قد سے زیادہ بڑی ہو گی۔ اس پیمانے پر ماؤنٹ ہیلنز سے نکلنے والے مواد کی مقدار محض مٹر کے دانے کے برابر ہو گی۔
20 لاکھ سال قبل ییلو سٹون کے پھٹنے سے نکلنے والے مواد سے نیو یارک کی پوری ریاست پر راکھ کی تہہ 20 میٹر یا پھر کیلیفورنیا پر یہ تہہ 6 میٹر اونچی ہوتی۔ راکھ کی اسی تہہ نے مائیک ورہیز والے مشرقی نبراس کا والے متحجرات کے میدان یعنی فاسل بیڈ بنائے۔ لاکھوں سال قبل جب یہ دھماکہ ہوا تو یہ مقام آج کے ایڈاہو کے نیچے تھا۔ تاہم بعد میں اڑھائی سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے زمین کی سطح اس پر حرکت کرتی رہی اور آج یہ شمال مغربی وایومنگ کے نیچے ہے (اصل مقام تو اسی جگہ رہتا ہے، اوپری سطح حرکت کرتی ہے )۔ اس حرکت کے نتیجے میں انتہائی زرخیز مٹی جمع ہوتی رہتی ہے جس پر آلو کی بہترین فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایڈاہو کے کسانوں کو یہ بات طویل عرصے سے معلوم ہے۔ ماہرینِ ارضیات مذاق میں کہتے ہیں کہ اگلے بیس لاکھ سال میں ییلو سٹون میں میک ڈونلڈز کے فرنچ فرائیز اگیں گے اور مونٹینا میں بلنگز کے رہائشی لوگ گرم پانی کے چشموں پر کودتے پھر رہے ہوں گے۔
ییلو سٹون کے آخری دھماکے سے نکلنے والی راکھ کی تہہ نے اس وقت امریکہ کی مغربی 19 ریاستوں کو کلی یا جزوی طور پر ڈھانپ لیا اور کینیڈا اور میکسیکو کے کچھ علاقے بھی متاثر ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ امریکہ میں زراعت کا مرکز ہے اور دنیا بھر میں پیدا ہونے والے غلے کا نصف یہاں سے آتا ہے۔ یہ راکھ کوئی برف نہیں ہوتی کہ موسم بدلتے ہی پگھل جائے گی۔ اگر آپ راکھ سے متاثرہ علاقے میں پھر سے کاشتکاری کرنا چاہیں تو آپ کو یہ ساری راکھ ہٹانی ہو گی۔ یاد رہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو ارب ٹن سے بھی کم وزن کے ملبے کو ساڑھے چھ ہیکٹر رقبے سے صاف کرنے کے لیے ہزاروں کارکنوں نے آٹھ ماہ لگائے۔ اندازہ کریں کہ اگر یہ صفائی کینساس جیسی پوری ریاست میں کرنی ہو۔
ابھی تو ہم نے ایسے واقعے سے ماحول پر ہونے والے اثرات کی بات نہیں سوچی۔ کرہ ارض پر آخری بار سپر آتش فشاں 74,000 سال قبل ٹوبا کے مقام پر شمالی سماٹرا میں پھٹا تھا۔ اس کی شدت کا درست اندازہ لگانا تو ممکن نہیں لیکن یہ انتہائی عظیم شدت سے پھٹا تھا۔ گرین لینڈ میں برفانی تہوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ٹوبا کے دھماکے کے بعد کم از کم چھ سال تک ‘آتش فشانی سردیاں ‘ رہیں یعنی گرمیاں آئی ہی نہیں۔ اس کے بعد کتنے برس تک فصلوں کی اگائی کا موسم متاثر رہا ہو گا، کچھ کہنا ممکن نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دھماکے سے نسلِ انسانی معدومیت کے کنارے تک پہنچ گئی تھی اور پوری دنیا میں محض چند ہزار افراد ہی باقی بچے۔ یعنی آج ہر زندہ انسان اسی چھوٹے سے گروہ سے نکلا ہے۔ انسانی جین میں تغیر کا نہ ہونا اسی بات کا ثبوت ہے۔ چند شواہد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اگلے کئی ہزار سال تک انسانی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہو پائی۔ اب یہ کہنا بیکار ہے کہ محض ایک آتش فشاں کے ایک بار پھٹنے کے بعد حالات معمول پر آنے پر اتنا عرصہ لگا۔
اس بات کو محض ایک نظریے کے طور پر اہمیت دی جاتی تھی لیکن 1973 میں ہونے والے ایک واقعے نے سارے معاملے کو اچانک مشہور کر دیا۔ ییلو سٹون جھیل جو کہ پارک کے عین وسط میں ہے، کے ایک کنارے سے پانی بہنے لگا اور دوسرے کنارے سے پانی کی سطح اچانک نیچی ہونے لگی۔ ماہرینِ ارضیات نے عجلت میں معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ پارک کے ایک بڑے حصے میں ابھار نمودار ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے جھیل کا ایک کنارہ اونچا اور ایک نیچا ہو گیا۔ 1984 تک پارک کا وسطی علاقہ جو کہ سو مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ وسیع ہے، 1924 کے آخری سروے کی نسبت ایک میٹر زیادہ اونچا ہو چکا تھا۔ 1985 میں پارک کا یہ حصہ اچانک 8 انچ جتنا دھنس گیا۔ اب یہ پھر ابھر رہا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کے خیال میں محض یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اس کے نیچے میگما کا متحرک خانہ ہے۔ یاد رہے کہ ییلو سٹون کسی پرانے آتش فشاں کی یادگار نہیں بلکہ زندہ آتش فشاں ہے۔ اس کے علاوہ سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ ییلو سٹون اوسطاً ہر چھ لاکھ سال بعد پھٹتا ہے۔ اس بار اس کو پھٹے ہوئے 6 لاکھ 30 ہزار سال ہو چکے ہیں۔ یعنی کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
ییلو سٹون پارک کے ماہرِ ارضیات پال ڈوس نے اپنے ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل سے اتر کر مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا، ‘اگرچہ آپ کو ایسا محسوس نہیں ہو گا لیکن اس وقت آپ دنیا کے سب سے بڑے اور زندہ آتش فشاں پر کھڑے ہیں ‘۔ ہماری یہ ملاقات ییلو سٹون نیشنل پارک کے مرکزی دفتر میمتھ ہاٹ سپرنگز پر جون کے اوائل میں ہوئی۔ ڈوس خود تو انڈیانا سے تعلق رکھتا ہے لیکن نرم لہجے میں بات کرنے والا یہ مہربان شخص کسی طور بھی نیشنل پارک سروس سے متعلق نہیں لگتا۔ اس کی داڑھی میں سفید بال آنے لگ گئے ہیں اور لمبے بالوں کی پونی بنائی ہوئی ہے۔ ایک کان میں بالی بھی پہن رکھی ہے۔ یونیفارم میں پیٹ ہلکا سا نکلا ہوا ہے۔ سرکاری ملازم سے زیادہ موسیقار لگتا ہے اور در حقیقت موسیقار ہے بھی۔ تاہم اس کی اصل محبت ارضیات کا علم ہے۔ پرانی جیپ میں جب ہم ‘اولڈ فیتھ فل’ کی جانب روانہ ہوئے تو اس نے کہا، ‘مجھے ارضیات کے علم سے محبت ہے اور میں اس علم کے لیے دنیا کے بہترین مقام پر کام کر رہا ہوں ‘۔ ہم نے طے کیا تھا کہ میں ایک دن اس کے ساتھ گزاروں گا تاکہ دیکھ سکوں کہ اس پارک کے ماہرِ ارضیات کون سے کام روزانہ کرتے ہیں۔ آج اس کا پہلا کام نئے بھرتی ہونے والے گائیڈوں سے تعارفی بات چیت تھی۔
ییلو سٹون کے بارے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ انتہائی دلفریب اور خوبصورت ہے جس میں جگہ جگہ خوبصورت پہاڑ، جنگلی بھینسوں سے بھرے گھاس کے میدان، بہتی نہریں، نیلے رنگ کی جھیل اور جنگلی حیات شمار سے باہر ہے، موجود ہیں۔ ڈوس نے بتایا، ‘اگر آپ ماہرِ ارضیات بھی ہوں تو یہ جگہ جنت سے کم نہیں ہے۔ یہاں ایک جگہ آپ کو تقریباً تین ارب سال پرانی چٹانیں ملتی ہیں جو زمین کی پیدائش سے اب تک کے وقت کے تین چوتھائی کے برابر ہیں، گرم معدنی چشمے بھی ہیں جہاں آپ ان چٹانوں کو جنم لیتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر چیز جس کا آپ تصور کر سکیں، یہاں موجود ہے۔ ارضیات کے لیے اس سے بہتر اور خوبصورت جگہ کا تصور ممکن نہیں ہے ‘۔
میں نے پوچھا، ‘آپ کو یہ پسند ہے؟’
‘بہت زیادہ۔ اگرچہ سردیوں کا موسم سخت ہوتا ہے اور تنخواہ زیادہ اچھی نہیں لیکن پھر بھی۔ ۔ ۔ ‘ اس نے جواب دیا۔
اچانک اس نے ایک چڑھائی پر گاڑی روک کر مجھے افق پر موجود ایک منظر کی طرف متوجہ کیا جو چڑھائی چڑھتے ہوئے اچانک سامنے آیا۔ دو پہاڑی سلسلے میں ایک بہت بڑا سوراخ سا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس جگہ کو ‘گلاٹینز’ کہتے ہیں۔ ‘اس سوراخ کا قطر ساٹھ یا ستر میل ہے۔ عرصے تک کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ سوراخ یہاں کیوں ہے۔ تاہم باب کرسچینسز کو علم ہو گیا کہ اس جگہ پہاڑ تھے جو آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے مٹ گئے۔ اندازہ کریں کہ اس آتش فشاں کی تباہی کی نوعیت کیا ہو گی کہ جس کے پھٹنے سے ساٹھ میل جتنے پہاڑ صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہوں۔ کرسیچنسز کو یہ معمہ حل کرنے میں چھ سال لگے ‘۔
میں نے پوچھا کہ ییلو سٹون آتش فشاں کے پھٹنے کی کیا وجہ رہی ہو گی۔
‘معلوم نہیں۔ کسی کو بھی علم نہیں۔ آتش فشاں بہت عجیب ہوتے ہیں۔ کسی کو بھی ان کی سمجھ نہیں آتی۔ مثال کے طور پر اٹلی میں ویسی ویوس نامی آتش فشاں مسلسل تین سو سال تک زندہ رہا اور 1944 میں پھٹنے کے بعد سے اچانک خاموش ہو گیا ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں یہ پہاڑ اب زیادہ بڑی شدت سے پھٹنے کی تیاری میں ہے۔ اس پہاڑ کے آس پاس بیس لاکھ سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ تاہم کوئی نہیں جانتا’۔
‘آپ کے خیال میں ییلو سٹون کے پھٹنے سے کتنا پہلے ہمیں انتباہ مل سکتا ہے ‘؟
کندھے ا چکاتے ہوئے اس نے جواب دیا، ‘پچھلی بار جب یہ پھٹا تو کوئی یہاں نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں ہرگز اندازہ نہیں ہے کہ انتباہی علامات کیسی ہوں گی۔ عین ممکن ہے کہ کافی زلزلے آئیں، بعض جگہوں پر زمین اوپر نیچے ہو اور شاید گرم فواروں کا رویہ بدل جائے۔ تاہم کوئی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا’۔
‘یعنی بغیر کسی انتباہ کے یہ پھٹ سکتا ہے ‘؟
اس نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا۔ پھر اس نے وضاحت کی کہ عام طور پر آتش فشاں کے پھٹنے سے قبل کی جو انتباہی علامات ہوتی ہیں، وہ سب کی سب کم و بیش پہلے سے ہی ییلو سٹون میں موجود ہیں۔ ‘کسی آتش فشاں کے پھٹنے سے قبل زلزلے ایک عام بات ہوتی ہے لیکن ییلو سٹون میں اب پچھلے سال کے دوران 1260 زلزلے آئے۔ ان کی اکثریت اتنی معمولی ہوتی ہے کہ انہیں محسوس نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی وہ زلزلے تو ہوتے ہی ہیں ‘۔
گیزر کے معمول میں آنے والی تبدیلی بھی اچھی علامت ہوتی ہے لیکن ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ پارک کے مشہور ترین گیزروں میں سے ایک ایکسلسیئر گیزر تھا جو باقاعدگی سے پھٹتا اور پانی کو سو میٹر تک کی بلندی تک اچھالتا۔ تاہم 1890 میں اچانک رک گیا۔ 1985 میں پھر چلنے لگا اور اس کی بلندی اب محض 25 میٹر رہ گئی۔ سٹیم بوٹ گیزر دنیا کا سب سے بڑا گیزر ہے جو پانی کو 120 میٹر تک اچھالتا ہے لیکن بعض اوقات یہ چار روز کے بعد پھٹتا ہے تو کبھی پچاس برس کے بعد۔ ‘اگر یہ آج پھٹے اور پھر اگلے ہفتے بھی، تو بھی ہمیں اندازہ نہیں کہ اگلی بار اس کے ایک ہفتے بعد پھٹے گا کہ بیس برس بعد’۔ ڈوس نے کہا۔ ‘پورا پارک اس حالت میں ہے کہ کسی بھی واقعے سے نتیجہ نکالنا ممکن نہیں ‘۔
ییلو سٹون سے انخلا کبھی آسان کام نہیں رہا۔ پارک میں ہر سال 30 لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں جن کی اکثریت گرمیوں کے تین ماہ میں آتی ہے۔ پارک کی سڑکیں چند ایک ہیں اور ان کو جان بوجھ کر تنگ رکھا گیا ہے تاکہ ٹریفک تیز نہ ہو یا پھر خوبصورتی کو برقرار رکھنا ہو یا پھر یہ کہ اس مقام پر زیادہ کھلی سڑک ممکن نہیں ہوتی۔ گرمیوں کے دوران پارک سے گزرنے میں نصف دن لگ جاتا ہے اور پارک کے اندر ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ ‘لوگوں کو جہاں بھی جنگلی حیات دکھائی دیتی ہے، وہ وہیں رک جاتے ہیں۔ کبھی ریچھ کی وجہ سے، کبھی جنگلی بھینسوں کی وجہ سے تو کبھی بھیڑیوں کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ ‘ ڈوس نے بتایا۔
2000 کی خزاں میں امریکی محکمہ ارضیات اور نیشنل پارک سروسز کے نمائندوں نے بعض تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر ییلو سٹون وولکینک آبزرویٹری بنائی۔ ہوائی، کیلیفورنیا اور الاس کا میں ایسے ادارے پہلے سے موجود ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے آتش فشاں پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ تاہم یہ آبزرویٹری کوئی باقاعدہ محکمہ نہیں بلکہ ایک معاہدہ ہے کہ یہ سب افراد مل کر پارک کی متنوع جیالوجی پر نگاہ رکھیں گے۔ ان کا پہلا کام یہ تھا کہ پارک میں زلزلوں اور آتش فشانی صورتحال میں کام کرنے کے لیے پلان بنانا تھا کہ ایسے کسی حالات سے کیسے نمٹا جائے۔
‘کیا ایسا کچھ پہلے سے موجود نہیں تھا’؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
‘نہیں۔ لیکن امید ہے کہ جلد ہی ہو جائے گا’۔
‘کچھ زیادہ تاخیر سے نہیں بن رہا’؟
اس نے مسکرا کر جواب دیا، ‘یوں کہہ لیں کہ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی’۔
جب پلان بن جائے گا تو تین لوگ، جن میں سے کیلیفورنیا کے مینلو پارک سے کرسچیئنسن، یونیورسٹی آف یوٹاہ سے پروفیسر رابرٹ بی سمتھ اور پارک سے ڈوس، تینوں مل کر کسی بھی ہنگامی صورتحال کی شدت کا جائزہ لیں گے کہ خطرے کی نوعیت اور شدت کیا ہے اور پھر پارک کے سپرنٹنڈنٹ کو مشورہ دیں گے۔ سپرنٹنڈنٹ فیصلہ کرے گا کہ آیا پارک کو خالی کرنا ہے یا نہیں۔ تاہم آس پاس کے علاقوں کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ جب کسی ہنگامی صورتحال میں پارک کے گیٹ سے نکلیں گے تو اپنی صوابدید پر ہوں گے۔ تاہم اگر ییلو سٹون پوری شدت سے پھٹا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔
عین ممکن ہے کہ ایسی صورتحال کئی ہزار سال بعد پیش آئے۔ ڈوس کے خیال میں ایسا دن کبھی نہیں آئے گا۔ ‘اگر یہ آتش فشاں ماضی میں ایک ترتیب سے پھٹتا رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آئندہ بھی ایسے ہی ہو گا۔ ایسے شواہد ہیں کہ بہت مرتبہ تباہ کن انداز سے پھٹنے کے بعد آتش فشاں لمبے عرصے کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ابھی ایسا ہی کوئی وقفہ چل رہا ہو۔ اس بات کے شواہد ہیں کہ میگما چیمبر ٹھنڈا ہوتے ہوئے قلمی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس کے بخارات استعمال ہو رہے ہیں۔ پھٹنے کے لیے بخارات کو جمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ‘۔
اس کے علاوہ بھی ییلو سٹون کے اندر اور آس پاس دیگر کئی خطرات بھی ہیں۔ 17 اگست 1959 کی رات کو ہیبگن جھیل پر اچانک شدید زلزلہ آیا۔ اس کی شدت 7.5 تھی۔ اگرچہ یہ زلزلہ مقامی نوعیت کا تھا لیکن اس سے پہاڑ کی ایک پوری جانب گر گئی۔ اس وقت گرمیوں کا موسم تھا لیکن خوش قسمتی سے زیادہ سیاح نہیں تھے۔ 8 کروڑ ٹن پتھر اور چٹانیں 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑ سے گرے اور اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ یہ ملبہ درمیانی وادی عبور کر کے دوسرے کنارے کے پہاڑ پر 120 میٹر تک جا چڑھا۔ اس کے راستے میں راک کریک کیمپنگ کی جگہ آئی تھی۔ 28 کیمپر ہلاک ہوئے جن میں 19 اتنے گہرے دفن ہوئے کہ آج تک ان کی لاشیں نہیں مل پائیں۔ تباہی انتہائی سریع سہی لیکن کسی وقت بھی دوبارہ رونما ہو سکتی ہے۔ تین بھائی ایک خیمے میں سو رہے تھے جو بچ گئے لیکن دوسرے خیمے میں ان کے والدین ملبے میں بہہ گئے اور ان کی لاشیں کبھی نہیں مل پائیں۔
‘ایک بڑا، حقیقت میں بہت بڑا زلزلہ کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔ یقین کریں۔ یہ جگہ بہت بڑی فالٹ زون پر واقع ہے۔ ‘ ڈوس نے بتایا۔
ہیبگن جھیل اور اس جیسے دیگر واقعات اور خطرات کے باوجود ییلو سٹون میں مستقل سائزمومیٹر 1970 کی دہائی میں نصب کیے گئے۔
جغرافیائی عوامل کتنے طاقتور ہوتے ہیں، اس کی مثال ییلو سٹون نیشنل پارک کے باہر جنوبی سمت موجود ٹیٹون پہاڑی سلسلہ دیکھیں۔ آج سے 90 لاکھ سال قبل اس جگہ گھاس کے میدان تھے۔ پھر اچانک زمین کے اندر 64 کلومیٹر لمبا فالٹ نمودار ہوا اور اس کے بعد اوسطاً ہر نو سو سال بعد بہت بڑا زلزلہ آتا ہے جو ان پہاڑوں کو دو میٹر جتنا مزید بلند کر دیتا ہے۔ اس طویل عرصے میں انہی جھٹکوں کی وجہ سے یہ پہاڑ موجودہ بلندی تک پہنچے ہیں جو 2,000 میٹر کے لگ بھگ ہے۔
دو ماہرین رابرٹ بی سمتھ اور لی جے سیگل نے اپنی کتاب Windows into the Earth میں لکھا ہے کہ یہ 900 سال محض ایک اوسط ہے۔ پچھلی بار اس جگہ بہت بڑا زلزلہ 5,000 سے 7,000 سال پہلے آیا تھا۔ آج دنیا میں یہ سب سے زیادہ تاخیر کا شکار زلزلہ ہے۔
شدید گرم پانی کا اچانک اخراج بھی ایک خطرہ ہے جو بغیر اطلاع دیے کہیں بھی اور کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہم اولڈ فیتھ فل کو دیکھ کر فارغ ہوئے تو ڈوس نے بتایا, ‘ہم جان بوجھ کر سیاحوں کو تھرمل بیسن میں جمع کرتے ہیں۔ وہ لوگ یہی چیزیں دیکھنے آتے ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ ییلو سٹون کے گیزر اور گرم پانی کے چشموں کی تعداد باقی دنیا بھر کے گیزروں اور گرم پانی کے چشموں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے ‘؟
‘مجھے علم نہیں تھا’۔
‘دس ہزار۔ اور آج بھی کوئی نہیں جانتا کہ کہاں نیا سوراخ کھل جائے ‘۔
پھر ہم گاڑی پر سوار ہو کر ڈک لیک پہنچے۔ اس جگہ دو سو میٹر چوڑی جھیل تھی۔ ‘یہ بالکل سادہ سی جھیل لگتی ہے لیکن پندرہ ہزار سال قبل یہ یہاں نہیں تھی۔ یہاں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس میں کروڑوں ٹن وزنی پتھر اور مٹی کے علاوہ شدید گرم پانی آواز سے بھی تیز رفتار سے نکلا ہو گا۔ اب سوچیں کہ اگر یہی واقعہ آج پارک کی پارکنگ کے نیچے ہو جائے تو۔ ‘ اس نے اداسی سے کہا۔
‘بغیر کسی تنبیہ کے ‘؟
‘ہمم۔ پارک میں آخری بار ایسا دھماکہ پورک چاپ گیزر میں 1989 میں ہوا۔ نتیجے کے طور پر پانچ میٹر چوڑا گڑھا بنا۔ اگر آپ اس کے پاس کھڑے ہوتے تو جان بھی جا سکتی تھی۔ خوش قسمتی سے اس وقت کوئی پاس نہیں تھا تاہم یہ دھماکہ بغیر کسی انتباہ کے ہوا۔ ماضی قدیم میں ایسے دھماکے بھی ہوئے تھے کہ جن کے نتیجے میں بننے والے گڑھے ایک میل چوڑے تھے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلی بار یہ دھماکہ کب اور کہاں ہو گا۔ دعا کیجیے کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہ ہوں ‘۔
بڑی چٹانوں کے گرنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ ایک ایسی چٹان 1999 میں گارڈینر کینین میں گری لیکن خوش قسمتی سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ سہہ پہر کو ڈوس اور میں ایک جگہ رکے جہاں پارک کی مصروف سڑک کے عین اوپر ایک بڑی چٹان جھکی ہوئی تھی۔ ڈوس نے کہا، ‘یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے ‘۔
‘مذاق نہ کریں ‘ میں ںے کہا کیونکہ اس کے نیچے سے مسلسل کاریں گزر رہی تھیں اور ہر کار میں لوگ ٹھنسے ہوئے تھے۔
‘ارے نہیں۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ایسا ہو گا، یہ محض ایک امکان کی بات تھی۔ عین ممکن ہے کہ کئی دہائیوں تک نہ گرے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ لوگوں کو اپنی مرضی سے یہ خطرہ قبول کرنا ہوتا ہے ‘۔
جب ہم واپس اس کی گاڑی کو لوٹے تاکہ پارک کے دفتر جا سکیں تو اس نے بتایا، ‘اصل بات یہ ہے کہ عام طور پر کوئی حادثہ نہیں ہوتا۔ پتھر نہیں گرتے۔ زلزلے نہیں آتے۔ زمین میں نئے سوراخ نہیں ہوتے۔ تمام تر عدم استحکام کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہوتا، کہنا مشکل ہے ‘۔
میں نے کہا، ‘زمین کی مانند’؟
اس نے جواب دیا، ‘بالکل’۔
یہ خطرات سیاحوں کے لیے اور پارک کے عملے کے لیے بھی یکساں ہوتے ہیں۔ پانچ سال قبل ڈوس کو اس پارک میں آتے ہی پہلے ہفتے میں ایک خوفناک واقعہ سننے کو ملا۔ تین عارضی ملازمین رات گئے گرم چشموں میں نہانے جیسی غیر قانونی حرکت کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ پارک والے کبھی کسی سیاح کو یہ تو نہیں بتاتے کہ ہر چشمہ خطرناک حد تک گرم نہیں ہوتا۔ بعض تو انتہائی خوشگوار حد تک گرم ہوتے ہیں۔ بعض عارضی ملازمین کا یہ معمول تھا کہ رات گئے وہ لوگ ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان چشموں پر نہانے جاتے تھے۔ بدقسمتی سے ایک روز وہ اپنے ساتھ ٹارچ لانا بھول گئے جو کہ انتہائی خطرناک بات تھی کیونکہ اکثر گرم چشموں کے کناروں کی مٹی انتہائی بھربھری ہوتی ہے اور اگر ٹوٹ جائے تو بندہ سیدھا انتہائی گرم چشمے میں جا گرتا ہے۔ خیر یہ لوگ مطلوبہ چشمے تک پہنچ تو گئے لیکن واپسی کے سفر میں انہیں وہ چھوٹی ندی دکھائی دی جسے پھلانگ کر وہ آئے تھے۔ تینوں تھوڑا سا پیچھے ہٹے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تینوں نے بھاگ کر ندی عبور کرنے کے لیے چھلانگ لگائی۔ ان کے سامنے چھوٹی سی ندی نہیں بلکہ ابلتے ہوئے پانی کا تالاب تھا۔ شاید اندھیرے کی وجہ سے وہ راستہ بھول گئے تھے۔ تینوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔
اگلے روز اپر گیزر بیسن میں واقع ایمارلڈ پول کو فون کرتے وقت میں اسی واقعے کے بارے سوچ رہا تھا۔ وقت کی کمی کے باعث ڈوس مجھے وہاں نہ لے جا سکا تھا۔ تاریخی مقام ہونے کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ ایک چکر لگاتا جاؤں۔
1965 میں میاں بیوی ماہرینِ حیاتیات تھامس اور لوئیز بروک نے اپنے گرمائی تحقیقاتی دورے میں ایک عجیب کام کیا۔ انہوں نے اس تالاب کے کنارے جمی ہوئی زرد رنگ کی تہہ کو کھرچا تاکہ اس میں کسی زندہ جاندار کو تلاش کر سکیں۔ پہلے ان کی اور پھر پوری دنیا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہیں اس میں زندہ خورد بینی جاندار ملے۔ انہوں نے دنیا کے پہلے Extremophiles تلاش کر لیے تھے۔ ایسے جاندار جو ایسے پانی میں رہتے ہوں جنہیں بہت زیادہ گرم یا تیزابی یا گندھک سے بھرپور سمجھا جاتا ہے اور جہاں زندگی ممکن نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ایمارلڈ پول میں کم از کم دو مختلف بیکٹیریا ملے جو Sulpholobus acidocaldarius اور Thermophilus aquaticus تھے۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوئی بھی جانور 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ گرم ماحول میں زندہ نہیں رہ پاتا۔ یہاں موجود بیکٹیریا اس سے تقریباً دو گنا گرم پانی میں زندہ اور خوش تھے جبکہ پانی کافی تیزابی بھی تھا۔
تقریباً بیس سال تک بروکس کے دریافت کردہ بیکٹیریا میں سے ایک Thermophilus aquaticus لیبارٹری کی حد تک معمہ بنا رہا۔ ایک دن کیلیفورنیا کے ایک سائنس دان کیری بی مولیس نے کو پتہ چلا کہ اس کے اندر موجود خامروں کی مدد سے ایک انوکھا کام کیا جا سکتا ہے۔ اس خامرے کی مدد سے انتہائی کم مقدار میں موجود ڈی این اے کو بہت بڑی مقدار میں بڑھایا جا سکتا ہے۔ بعض حالات میں تو محض ایک مالیکیول سے بھی یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو ایک طرح سے جینیاتی فوٹو کاپی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر جینیاتی سائنس نے ترقی کی ہے اور تعلیمی اداروں سے لے کر پولیس کے فورنزک کاموں تک اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی دریافت کی وجہ سے مولیس کو 1993 میں کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔
اس دوران سائنس دان اس طرح کے مزید جاندار تلاش کر رہے تھے جو 80 ڈگری یا اس سے زیادہ درجہ حرارت پر زندہ رہ سکتے ہوں۔ ابھی تک سب سے زیادہ درجہ حرارت پر زندہ رہنے والے جو جاندار ملے ہیں، انہیں Pyrolobus fumarii کہا جاتا ہے۔ ان کے بارے فرانسز ایش کرافٹ نے اپنی کتاب Life at the Extremes میں ذکر کیا ہے۔ یہ جاندار سمندری حرارتی شگافوں یعنی تھرمل وینٹس کے کناروں پر چپکے ہوتے ہیں جہاں درجہ حرارت 113 ڈگری رہتا ہے۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ 120 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت پر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا تاہم یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ تاہم بروکس کی دریافت سے زندگی کے بارے ہمارے نظریات مکمل طور پر بدل کر رہ گئے ہیں۔ ناسا کے ایک سائنس دان جے برگ سٹارل کے مطابق، ‘دنیا میں ہم جہاں بھی مائع پانی اور کسی قسم کی کیمیائی توانائی کے ذریعے کو پاتے ہیں تو زندگی اس سے زیادہ دور نہیں ہوتی’۔
زندگی ناممکن حد تک نہ صرف ذہین ہے بلکہ مختلف حالات میں رہنے کے قابل بھی ہوتی ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، وہ ہرگز ہمیں نہیں رکھنا چاہتی۔
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید