FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تقریباً ہر شے  کی مختصر تاریخ

(اے بریف ہسٹری آف نیئرلی ایوری تھنگ)

 

                   بل برائسن (Bill Bryson)

 

حصہ سوم

 

اردو ترجمہ

 

                   منصور محمد قیصرانی

 

 

 

                   حصہ پنجم: زندگی بذاتِ خود

 

میں اس کائنات کو جتنا پرکھتا اور اس کی تفصیلات کو جانتا ہوں، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا جاتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طور ہمارے آنے کا علم تھا۔

فری مین ڈائسن

 

 

 

 

 

16 تنہا سیارہ

 

جاندار ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ پوری کائنات میں ہمارے علم کے مطابق اس وقت ملکی وے کہکشاں میں انتہائی دور دراز واقع ایک کونے میں موجود زمین پر ہی زندگی ملتی ہے۔ اس زمین پر ہی آپ اور میں رہتے ہیں، اگرچہ زمین ہمارے ہونے پر اتنی خوش نہیں۔

سمندر کی گہری ترین کھائی سے لے کر فلک بوس پہاڑوں تک، زندگی کے لیے سازگار ماحول محض 20 کلومیٹر موٹا ہے۔ اگر اسے کائنات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کچھ بھی نہیں۔

انسانوں کے لیے اور بھی مسئلہ ہے کہ انسانوں کے جدِ امجد نے لگ بھگ 40 کروڑ سال قبل سمندر کو چھوڑ کر خشکی کا رخ کر لیا تھا۔ نتیجتاً ایک سروے کے مطابق حجم کے اعتبار سے ہماری زمین کے قابلِ رہائش حصے کا 99.5 فیصد حصہ ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہا۔

مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں کہ ہم پانی میں سانس نہیں لے سکتے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم اتنا دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پانی ہوا کی نسبت 1,300 گنا زیادہ بھاری ہے اور جوں جوں آپ پانی کی گہرائی میں اترتے جائیں، ہر دس میٹر کے بعد پانی کا دباؤ دو گنا بڑھ جاتا ہے۔ اگر آپ خشکی پر 150 میٹر کی اونچائی پر چڑھیں تو آپ کو شاید ہی کوئی فرق محسوس ہو۔ لیکن پانی کے اندر اتنی گہرائی میں جانے کا مطلب ہے کہ آپ کے پھیپھڑے پچک کر کوک کے ایک کین کے برابر ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض لوگوں کو یہ بہت پسند ہے اس لیے وہ گہرے پانی میں بغیر اضافی آکسیجن کے غوطہ خوری کرتے ہیں۔ خیر، سطح پر واپسی پر آپ کے اندرونی اعضاء واپس اپنی اصل شکل میں لوٹ آتے ہیں۔ تاہم اتنی گہرائیوں تک پہنچنے کے لیے غوطہ خوروں کو مختلف بھاری اوزان استعمال کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ تیزی سے مطلوبہ گہرائی تک پہنچ سکیں۔ بغیر کسی سہارے کے آج تک سب سے گہرائی تک جا کر صحیح سلامت واپس لوٹنے والے فرد کا ریکارڈ 72 میٹر ہے (اس کتاب کے چھپنے کے بعد یہ ریکارڈ نیوزی لینڈ کے ایک بندے نے توڑا ہے جس کا نام ولیم ٹروبرج ہے اور وہ اپریل 2008 میں 86 میٹر کی گہرائی تک گیا تھا)۔ اس ریکارڈ کو ایک اطالوی امبرٹو پلیزاری نے 1992 میں قائم کیا تھا جو اس گہرائی پر انتہائی مختصر وقفے کو رک کر واپس سطح آب پر لوٹا۔ خشکی پر دیکھیں تو فٹبال کا میدان 72 میٹر سے زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ اب اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہمیں سمندروں پر کتنا کنٹرول ہے۔

تاہم دیگر جاندار پتہ نہیں کیسے سمندری گہرائیوں میں زندہ رہ لیتے ہیں۔ سمندر میں سب سے گہرا مقام آج تک جو دریافت ہوا ہے، وہ ماریانا ٹرنچ کہلاتا ہے۔ اس کی گہرائی تقریباً 11.3 کلومیٹر ہے۔ اس جگہ پانی کا دباؤ 16٫000 پاونڈ فی مربع انچ ہوتا ہے۔ آج تک اتنی گہرائی میں صرف ایک بار تھوڑی دیر کے لیے انسان انتہائی سخت مشین میں سوار ہو کر گیا ہے۔ تاہم یہاں چپٹے جسم والے سمندری حشرات پائے جاتے ہیں جن پر کوئی حفاظی خول نہیں ہوتا۔ اگرچہ زیادہ تر سمندر اتنے گہرے نہیں ہوتے لیکن پھر بھی 4 کلومیٹر نیچے پانی کا دباؤ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے سیمنٹ سے لدے 14 ٹرکوں کے نیچے دب جائیں۔

زیادہ تر لوگ بشمول سمندری علوم پر کتابوں کے مصنف بھی یہ سوچتے ہیں کہ اتنے زیادہ دباؤ کے نیچے انسانی جسم پچک کر رہ جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے جسم کا زیادہ تر حصہ پانی سے بنا ہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے فرانسس ایش کرافٹ کے بقول، ‘پانی کو پچکایا نہیں جا سکتا اور ہمارا جسم انتہائی گہرائی میں بھی اس دباؤ یعنی بیرونی پانی کے برابر ہی رہے گا’۔ تاہم اصل مسئلہ گیسوں کا ہوتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں میں موجود گیسیں دباؤ کے تحت پچک سکتی ہیں، تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ کس دباؤ پر یہ پچکاؤ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل تک یہ عام تصور تھا کہ 100 میٹر سے زیادہ گہرائی تک جانے والے بندے کے پھیپھڑے پھٹ جائیں گے یا سینے کی دیوار پھٹ جائے گی اور وہ مر جائے گا۔ تاہم فری ڈائیورز اکثر اس سے زیادہ گہرائی تک جاتے رہتے ہیں۔ ایش کرافٹ کے بقول، ‘انسان وہیل اور ڈولفن سے غیر متوقع حد تک مماثل ہیں ‘۔

تاہم اور بہت کچھ خراب ہو سکتا ہے۔ جب غوطہ خوری کے لباس ہوتے تھے تو انہیں سطح آب پر پائپ کے ذریعے جوڑا جاتا تھا۔ بعض اوقات گڑبڑ ہو جاتی تھی۔ اگر سطح پر موجود پمپ خراب ہو جائے تو غوطہ خوری کے لباس سے ہوا انتہائی شدت سے نکلتی اور بدقسمت غوطہ خور ہوا کی شدت کے ساتھ کھینچ کر ہیلمٹ اور پائپ میں چلا جاتا۔ جب انہیں باہر نکالا جاتا تو ‘لباس کے اندر محض ہڈیاں اور گوشت کے چند لوتھڑے ہی بچتے تھے۔ 1947 میں ماہرِ حیاتیات جے بی ایس ہالڈین نے لکھا کہ، ‘ایسا حقیقت میں کئی بار ہو چکا ہے ‘۔

(اصلی ہیلمٹ جو کہ 1823 میں انگریز موجد چارلس ڈین نے ایجاد کیا، کو غوطہ خوری کے لیے نہیں بلکہ آگ بجھانے کے عملے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ اسے سموک ہیلمٹ کہا جاتا تھا۔ دھاتی ہونے کی وجہ سے یہ گرم اور بھاری تھا اور جلد ہی ڈین کو علم ہو گیا کہ آگ بجھانے والے افراد کو ہرگز ایسے ہیلمٹ سے کوئی دلچسپی نہیں کہ جسے پہن کر وہ جلتی ہوئی عمارات میں داخل ہوں تو گرمی کے مارے ان کا اپنا دماغ کھولنے لگے۔ اپنے سرمائے کو بچانے کے لیے اس نے اس ہیلمٹ کو زیرِ آب آزمایا تو اسے کامیاب پایا۔ )

گہرائی کا اصل خطرہ در اصل مروڑ تھے، اس وجہ سے نہیں کہ وہ تکلیف دہ تھے بلکہ اس وجہ سے بھی وہ بکثرت ہوتے تھے۔ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، اس میں 80 فیصد نائٹروجن ہوتی ہے۔ جب انسانی جسم پر دباؤ پڑتا ہے تو یہ نائٹروجن بلبلوں کی شکل میں تبدیل ہو کر دورانِ خون کے راستے عضلات تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ دباؤ بہت تیزی سے بدلا جائے جیسا کہ غوطہ خور انتہائی تیزی سے سطح کو واپس لوٹے تو جسم کے اندر موجود یہ بلبلے پھٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شریانیں بند ہو جاتی ہیں اور خلیوں کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے۔ نیتجتاً اتنا سخت درد ہوتا ہے کہ جیسے انسان کو کوئی نچوڑ رہا ہو۔

اس کیفیت کا سامنا موتیوں کو نکالنے والے غوطہ خور عرصہ قدیم سے کر رہے تھے لیکن مغربی دنیا کو اس بارے 19ویں صدی میں علم ہوا۔ یہ لوگ زیرِ آب جا کر پلوں کے ستون تعمیر کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہوا بند خانے بنائے جاتے تھے جن سے پانی کو نکال دیا جاتا تھا اور دباؤ والی ہوا ڈال دی جاتی تھی۔ جب یہ لوگ واپس سطح آب پر لوٹتے تو انہیں اکثر جلد پر ہلکی سی گدگدی یا خارش سی محسوس ہوتی۔ تاہم بعض افراد ایسے بھی تھے کہ جنہیں جوڑوں میں شدید درد ہوتا اور بعض اوقات وہ درد کی شدت سے گر جاتے اور کبھی نہ اٹھ پاتے۔

یہ باتیں بہت حیران کن تھیں۔ بعض اوقات جب مزدور سونے جاتے تو بالکل ٹھیک ہوتے اور جب اٹھتے تو مفلوج ہوتے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ وہ بیدار ہی نہ ہوتے۔ ایش کرافٹ نے ایک بار لکھا کہ دریائے تھیمز کے نیچے ایک زیرِ آب سرنگ کی تعمیر کے بعد جب کمپنی کے افسران نے جا کر ایک رسمی تقریب منائی۔ تاہم جب انہوں نے شیمپئن کی بوتل کھولی تو جھاگ نہ بنی۔ لوگ اس پر کافی متعجب ہوئے۔ تاہم جب وہ سرنگ سے نکل کر بیرونی فضاء میں پہنچے تو جھاگ بننے کا عمل اچانک شروع ہو گیا اور ان کے نظامِ انہضام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔

اگر بلند دباؤ والے ماحول سے یکسر کنارہ کرنا ممکن نہ ہو تو پھر مروڑ سے بچنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گہرائی میں انتہائی کم وقت گزارا جائے تاکہ دباؤ میں آنے والی تبدیلی زیادہ دیر نہ رہ سکے۔ اسی وجہ سے فری ڈائیورز پانی کے اندر ڈیڑھ سو میٹر کی گہرائی تک بھی چلے جاتے ہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی کہ ان کا قیام اتنے مختصر وقت کو ہوتا ہے کہ خون میں موجود نائٹروجن کو بلبلے بننے اور پھٹنے کا وقت نہیں ملتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ واپسی کے سفر میں جگہ جگہ رک کر دباؤ کو سہا جائے۔ اس طرح جو بلبلے تھوڑی مقدار میں بنتے بھی ہیں، وہ آسانی سے پھٹتے ہیں اور تکلیف کا سبب نہیں بنتے۔

آج بھی انتہائی دباؤ میں زندہ رہنے کے لیے ہمارے زیادہ تر علم کا سہرا دو غیر معمولی سائنس دان باپ بیٹے کو جاتا ہے۔ برطانوی اعتبار سے بھی یہ دونوں انتہائی سنکی تھے۔ باپ 1860 میں سکاٹش نواب کے ہاں پیدا ہوا۔ تاہم اس نے زیادہ تر وقت آکسفورڈ میں علم الابدان کے پروفیسر کے طور پر گزارا۔ اس کی غائب دماغی مشہور تھی۔ ایک بار اس کی بیوی نے دعوت کی خاطر اسے اوپری منزل پر لباس تبدیل کرنے بھیجا تو موصوف اوپر بستر پر جا کر سو گئے۔ جب بیدار کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ چونکہ اوپر پہنچ کر اس نے خیال کیا کہ وہ کپڑے اتار رہا تھا تو اس لیے سونے کا وقت ہو گیا ہو گا۔ تعطیلات کے بارے اس کا خیال تھا کہ یہ وقت کارنوال جا کر کان کنوں میں پھٹنے کا وقت پیٹ کے کیڑوں پر تحقیق کرنے پر لگانا چاہیے۔ آلڈس ہکسلے جو کہ مشہورِ زمانہ ٹی ایچ ہکسلے کا پوتا تھا، ان دنوں ان باپ بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اکثر ان کی نقلیں اتارتا تھا اور اپنے ایک ناول میں اس کا مضحکہ اڑایا تھا۔

غوطہ خوری پر اس کا احسان یہ تھا کہ اس نے وہ وقفے دریافت کیے کہ جن پر رکتے ہوئے اگر غوطہ خور سطح کو پہنچیں تو وہ مروڑ سے بچ جائیں گے۔ تاہم ہالڈین کے مشاغل علم الابدان سے متعلق تھے جو کوہ پیماؤں کو بلندی پر ہونے والی بیماری سے لے کر صحرائی علاقوں میں لوگوں کو لُو لگنے تک محیط تھے۔ اس کا خاص مشغلہ زہریلی گیسوں کے انسانی جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کا مطالعہ کرنا بھی تھا۔ کانوں میں کاربن مونو آکسائیڈ کے پھیلنے سے کان کنوں کے مرنے کی وجوہات کا مطالعہ کرنے کے لیے اس نے خود کو منظم طریقے سے اس گیس کا عادی کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ خون میں گیس کی مقدار چیک کرتا رہا۔ جب تک اس کے تمام عضلات جواب دینے کے مرحلے پر نہ پہنچتے، اس کا تجربہ جاری رہتا۔ ٹریور نارٹن نے اپنی کتاب Stars beneath the Sea میں لکھا ہے کہ اس وقت خون میں کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار 56 فیصد تک پہنچ جاتی تھی جو یقینی مہلک مقدار سے انتہائی معمولی سی کم ہوتی تھی۔

ہیلڈن کا بیٹا جیک عجیب انسان تھا۔ اس نے اپنے والد کی تحقیقات میں بچپن سے ہی دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ تین سال کی عمر میں ایک بار اسے اپنے باپ سے یہ کہتے سنا گیا، ‘کیا یہ آکسی ہیموگلوبن ہے یا کارباکسی ہیموگلوبن؟’ کم عمری میں اس نے اپنے باپ کے تجربات میں مدد کی۔ لڑکپن میں باپ بیٹا گیس کی ٹیسٹنگ میں باریاں لیتے کہ کون کتنی دیر میں بیہوش ہوتا ہے۔

جیک نے کبھی سائنسی تعلیم تو نہیں حاصل کی (اس نے آکسفورڈ سے کلاسیکس کی ڈگری لی تھی)، تاہم وہ ایک بہترین سائنس دان بنا۔ اس کا زیادہ تر کام حکومت کے لیے اور کیمبرج میں ہوتا تھا۔ حیاتیات دان پیٹر میڈیور نے ساری زندگی انتہائی ذہین افراد کے درمیان گزاری، کے خیال میں، ‘زندگی بھر ہالیڈین سے زیادہ چالاک انسان نہیں دیکھا’۔ ہکسلے نے اپنے ناول Antic Hay میں اس کا بھی مضحکہ اڑایا۔ تاہم اس نے اپنے نئے ناول Brave New World کی بنیاد کے لیے اس کے نظریات بھی استعمال کیے۔ دیگر کارناموں کے علاوہ اس کا اہم کارنامہ ڈارون کے ارتقائی نظریہ کو گریگر مینڈل کے کام سے ملا کر ‘ماڈرن سنتھیسز’ بنانا تھا۔

انسانی نکتہ نظر سے یہ بات شاید بہت عجیب لگے، لیکن شاید نوجوان ہالڈین واحد انسان تھا جس نے پہلی جنگِ عظیم سے بہت حِظ اٹھایا اور کھلے عام اقرار کیا کہ ‘انسانوں کو قتل کرنے میں بہت مزہ آیا۔ ‘ دو بار وہ خود بھی زخمی ہوا۔ جنگ سے فارغ ہو کر اس نے خود کو سائنس کی ترویج کے لیے وقف کر دیا اور کل 23 کتب اور 400 سے زیادہ مقالے بھی لکھے۔ آج بھی اس کی کتب بہت دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں اور مشکل سے ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے مارکسی نظریات کو اپنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ سوویت یونین میں پیدا ہوا ہوتا تو کٹر مونارکسٹ ہوتا۔ عموماً اس کے مضامین سب سے پہلے کمیونسٹ ڈیلی ورکر میں چھپتے۔

جہاں باپ کی دلچسپی کا محور کان کنی اور اس سے متعلق زہریلے واقعات تھے، بیٹے کو آبدوزوں اور غوطہ خوروں کو ان کے کام سے متعلق مشکلات دور کرنے کا جنون تھا۔ بحریہ کے پیسوں سے اس نے ایک ڈی کمپریشن چیمبر خریدا اور اسے ‘پریشر پاٹ’ کا نام دیا۔ اس دھاتی سلنڈر میں بیک وقت تین افراد بیٹھ سکتے تھے اور انہیں وہاں قید کر کے ان پر مختلف تجربات کیے جاتے تھے۔ یہ تجربات ہمیشہ تکلیف دہ اور تقریباً ہمیشہ ہی خطرناک ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر رضاکاروں کو برفاب پانی میں بٹھا کر خاص ہوا میں سانس لینے کو کہا جاتا یا پھر دباؤ کو تیزی سے تبدیل کیا جاتا۔ ایک تجربے میں ہالڈین نے خود پر اس طرح کا تجربہ کیا کہ اگر وہ بہت تیزی سے سمندر کی گہرائی سے اوپر اٹھے تو کیا ہو گا۔ اس کے دانتوں میں بھرا ہوا سکہ پھٹ گیا۔ نارٹن کے مطابق ‘تقریباً ہر تجربے کے بعد کسی نہ کسی کو یا تو دورہ پڑتا، جریانِ خون ہوتا یا پھر الٹی کرتے نکلتے۔ چونکہ یہ خانہ ہوا بند تھا اس لیے کسی بھی مشکل کے لیے اندر موجود افراد کو چھوٹی سی کھڑکی کے تحریر لکھ کر لگانی ہوتی یا پھر اندرونی دیوار کو مسلسل بجا کر اشارہ کرنا ہوتا۔

ایک اور موقعے پر ہالڈین نے آکسیجن کی اونچی مقدار میں سانس لینے کی کوشش کی اور نتیجتاً پڑنے والا دورہ اتنا شدید تھا کہ اس کی کمر کے کئی مہرے پچک گئے اور چھ سال تک اس کا نچلا دھڑ بیکار رہا۔

ہالڈین کے مشاغل میں سے ایک نائٹروجن کے مضر اثرات کو سمجھنے کی کوشش بھی تھا۔ ابھی تک ان وجوہات کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکا لیکن لگ بھگ 30 میٹر سے زیادہ گہرائی پر نائٹروجن نشہ آور بن جاتی ہے۔ اسی وجہ سے گہرائیوں میں پہنچ کر غوطہ خور مچھلیوں کو گیس ماسک دینے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر سگریٹ پینے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کا مزاج اچانک بدلنے لگ جاتا ہے۔ ایک ٹیسٹ میں ہالڈین نے دیکھا کہ ‘متعلقہ فرد مسلسل خوشی اور یاس کی کیفیات سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایک لمحے اگر وہ اس ٹیسٹ کو ختم کرنے کے لیے درخواست کر رہا تھا کہ اسے بہت برا محسوس ہو رہا ہے تو دوسرے لمحے خوشی سے قہقہے لگاتے ہوئے وہ اپنے ساتھی کے کام کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ متعلقہ فرد پر ہونے والے اثر کی پیمائش کرنے کے لیے ممتحن کو بھی ساتھ ہی چیمبر میں جانا پڑتا تھا اور چند ہی منٹ بعد متعلقہ فرد اور اس کا ممتحن، دونوں ہی ہوش کھو بیٹھتے اور ممتحن کبھی سٹاپ واچ کو چلانا یا روکنا بھول جاتا یا پھر اس کی لکھی ہوئی یاداشتیں بیکار ہوتیں۔ اس عجیب صورتحال کی وضاحت ابھی تک نہیں کی جا سکی۔ اندازہ ہے کہ نائٹروجن اسی طرح مدہوشی طاری کرتی ہے جیسے شراب، تاہم اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو پائی۔ انتہائی احتیاط کے بغیر اگر آپ خشکی چھوڑتے ہیں تو آپ کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس طرح ہم واپس اس جگہ لوٹتے ہیں جہاں ہم پہلے بھی اشارتاً بتا چکے ہیں کہ اگرچہ زمین واحد معلوم مقام ہے کہ جہاں حیات پائی جاتی ہے لیکن یہ بھی کہ زمین حیات کی نشو و نما کے لیے بہترین جگہ نہیں۔ کرہ ارض پر خشکی کی مقدار پانی سے کم ہے اور اس جگہ پر بھی اکثر جگہیں یا تو بہت گرم ہیں یا پھر بہت سرد، بہت ڈھلوان یا پھر بہت اونچی، اس لیے ہم وہاں نہیں رہ پاتے۔ اس میں زیادہ تر قصور ہمارا ہی ہے۔ ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت کی بات کی جائے تو بنی نوع انسان انتہائی نکمی ہے۔ بہت گرم جگہوں پر رہنے کے قابل نہیں ہیں کہ ہمیں پسینہ بہت آتا ہے اور جلد ہی لُو لگ سکتی ہے۔ بدترین حالات میں اگر انسان گرم صحرا میں چلا جائے تو محض سات یا آٹھ گھنٹوں میں لوگ ذہنی طور پر بہک کر گر جاتے ہیں کبھی دوبارہ نہیں اٹھ پاتے۔ اسی طرح سردی کا سامنا بھی نہیں کر پاتے۔ دیگر ممالیہ جانوروں کی مانند انسان بھی حرارت تو پیدا کرنے کے ماہر ہیں لیکن چونکہ انسانی جسم پر بال زیادہ نہیں ہوتے، اس لیے ہم اس حرارت کو محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ ہلکی سی سردی کے وقت بھی ہمارے جسم کے آدھے سے زیادہ حرارے ہمیں گرم رکھنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گرم کپڑے پہن کر اور کسی عمارت میں چھپ کر ہم اس مقدار کو کم کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود زمین کے وہ مقامات جہاں ہم رہنے کو تیار ہیں یا رہ سکتے ہیں، بہت معمولی مقدار میں ہیں۔ خشکی کا محض بارہ فیصد اور پورے کرہ ارض کا محض چار فیصد رقبہ ایسا ہے جہاں ہم رہنے کے قابل ہیں۔

معلوم کائنات میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا حالات ہیں تو ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ ہم اپنے سیارے کا کتنا معمولی حصہ استعمال کرتے ہیں بلکہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمیں ایسا سیارہ مل کیسے گیا کہ جس کا کچھ حصہ ہمارے لیے قابلِ استعمال ہے۔ اگر ہم اپنے نظامِ شمسی میں ہی دیکھیں یا بلکہ زمین کے ماضی کے کچھ ادوار کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر مقامات ہماری زمین کے برعکس زندگی کے انتہائی مخالف ہیں۔

تا دمِ تحریر سائنس دانوں نے ہمارے نظامِ شمسی سے باہر 250 سے زیادہ سیارے تلاش کیے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے اربوں کھربوں سیارے اور بھی موجود ہوں گے لیکن اس بارے یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ تاہم ایسا سمجھا جاتا ہے کہ حیات کے لیے مناسب سیارہ انتہائی نایاب ہوتا ہے اور حیات جتنی ترقی یافتہ ہو گی، ایسا سیارہ اتنی ہی مشکل سے ملے گا۔ بہت سارے محققین نے لگ بھگ دو درجن اہم ترین واقعات کو ہمارے سیارے سے منسلک کیا ہے تاہم ذیل میں اس کو چار حصوں میں منقسم کر دیا گیا ہے۔

بہترین مقام۔ انتہائی خوش قسمتی سے ہم بالکل درست قسم کے ستارے سے بالکل درست قسم کے فاصلے پر موجود ہیں۔ یہ سیارہ اتنا بڑا تو ہے کہ بہت ساری حرارت پیدا کرتا ہے لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ اپنا سارا ایندھن مختصر وقت میں صرف کر لیتا۔ طبعیات کا یہ عجیب پہلو ہے کہ جتنا بڑا ستارہ ہو گا، اتنی جلدی اپنا ایندھن خرچ کر جائے گا۔ اگر ہمارا سورج اپنے حجم سے دس گنا زیادہ بڑا ہوتا تو دس ارب سال کی بجائے محض ایک کروڑ سال میں اپنا ایندھن خرچ کر چکا ہوتا اور حیات اتنی ترقی نہ کر پاتی۔ اگر سورج اور زمین کا فاصلہ بہت کم ہوتا تو پورا کرہ ارض ابل کر مر جاتا۔ اگر ہم بہت دور ہوتے تو ہر چیز جم کر مر جاتی۔

1978 میں ایک فلکیات دان مائیکل ہارٹ نے تحقیق کر کے بتایا کہ اگر زمین اور سورج کا فاصلہ محض ایک فیصد زیادہ یا پانچ فیصد کم ہوتا تو یہاں حیات نہ پنپ سکتی۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی معمولی سی مقدار ہے۔ بعد میں اس تحقیق کو مزید بہتر بنا کر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ فاصلہ پانچ فیصد قریب یا پندرہ فیصد دور ہوتا تو حیات نہ پنپ سکتی۔ تاہم یہ فاصلہ انتہائی محدود ہے (ییلو سٹون کے ابلتے چشموں میں موجود ایکسٹریموفائلز کی دریافت سے سائنس دانوں نے یہ بات جان لی ہے کہ حیات کے لیے کوئی بھی چیز مشکل نہیں۔ عین ممکن ہے کہ پلوٹو کی یخ بستہ سطح کے نیچے بھی حیات موجود ہو؟ تاہم ہم یہاں ان شرائط کی بات کر رہے ہیں جن کی موجودگی پیچیدہ حیات کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے )۔

یہ فاصلہ کتنا کم ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہم زہرہ کو دیکھتے ہیں۔ زہرہ ہماری نسبت سورج سے اڑھائی کروڑ میل قریب ہے۔ سورج کی روشنی اور حرارت ہم تک زہرہ کی نسبت دو منٹ دیر سے پہنچتی ہے۔ اس کا حجم اور ساخت زمین سے مماثل ہے لیکن مدار کا فرق ہی اصل میں اہم ہے۔ بظاہر نظامِ شمسی کے اوائل میں زہرہ پر درجہ حرارت زمین سے ذرا سا زیادہ گرم تھا اور وہاں شاید سمندر بھی تھے۔ لیکن چند ڈگری کی اضافی حدت سے زہرہ پر پانی نہ رک سکا اور بخارات کی شکل میں اڑ گیا اور زہرہ کا کرہ ہوائی تباہ ہو گیا۔ ہائیڈروجن کے ایٹم خلاء میں نکل گئے اور آکسیجن نے کاربن سے مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا بنائی جو سبز مکانی گیس ہے۔ یہاں سے زہرہ کی تباہی شروع ہو گئی۔ میرے ہم عمر افراد کو یاد ہو گا کہ ہمارے بچپن میں سائنس دان توقع رکھتے تھے کہ زہرہ پر گہرے بادلوں کے نیچے حیات مل جائے گی۔ تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ زہرہ کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی جاندار شاید وہاں زندہ نہیں رہ پائے گا۔ زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت 470 ڈگری سیلسیس ہے۔ اس حدت پر سیسہ بھی پگھل جاتا ہے۔ اس کی سطح پر ہوا کا دباؤ زمین سے 90 گنا زیادہ ہے جو انسانی جسم برداشت نہیں کر سکتا۔ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے مطابق ایسے خلائی لباس یا خلائی جہاز بنانا ممکن نہیں جو زہرہ پر اتر سکیں۔ زہرہ کی سطح کے بارے ہماری معلومات دور سے لیے گئے ریڈار کے مطالعے پر مشتمل ہیں یا پھر 1972 میں زہرہ کی سطح پر اترنے والے روسی خلائی جہاز کے چند مشاہدات ہیں جو سطح پر اترنے کے ایک گھنٹے کے اندر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا تھا۔

جب آپ سورج سے روشنی کی رفتار کے حساب سے دو منٹ قریب ہوں تو یہ ہوتا ہے۔ جتنے دور ہوتے جائیں، مسئلہ گرمی کی بجائے ٹھنڈ کا بن جاتا ہے۔ مریخ یخ بستہ سیارہ ہے۔ کبھی یہاں بھی موسم مناسب حد تک گرم ہوتا تھا لیکن اپنا کرہ فضائی کھو دینے کے بعد یہ محض ایک یخ بستہ اور بیکار ہو کر رہ گیا ہے۔

تاہم سورج سے فاصلہ ہی اہم نہیں، ورنہ تو چاند پر بھی اس وقت جنگلات ہوتے۔ اس کے لیے ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے :

درست قسم کا سیارہ۔ پتہ نہیں کہ جب جیو فزسٹ سے پوچھا جائے کہ ہمیں کون کون سی نعمتیں ملی ہوئی ہیں تو آیا وہ اس چیز کو بھی شمار کرتے ہیں کہ ہمارے سیارے کا اندرونی حصہ پگھلے ہوئے مادے پر مشتمل ہے۔ تاہم مرکزے میں گردش کرتے ہوئے میگما کے بغیر ہمارے سیارے پر حیات ممکن نہیں تھی۔ دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے اسی میگما سے نکل کر قشرِ ارض تک پہنچنے والی گیسوں نے ہمارے سیارے کے کرہ فضائی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہی کرہ فضائی ہمیں کاسمک تابکاری سے بچاتا ہے۔ اس کے علاوہ پلیٹ ٹیکٹانکس بھی اسی کی وجہ سے ہیں جس سے زمین کی سطح مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ اگر زمین بالکل مسطح ہوتی تو ہر جگہ پانی کی بلندی چار کلومیٹر ہوتی۔ سمندر میں زندگی تو ممکن ہوتی لیکن فٹ بال تو نہ کھیلی جا سکتی۔

مفید مرکزے کے علاوہ بھی ہمیں درست عناصر کی درست مقدار درکار ہوتی ہے۔ لغوی معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم بالکل ٹھیک عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات اتنی اہم ہے کہ کچھ آگے چل کر ہم اس پر تفصیل سے بات کریں گے لیکن ابھی ہم باقی کے دور اہم عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن میں سے پہلے کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے :

ہم جڑواں سیارہ ہیں۔ ہم میں سے کم ہی کوئی چاند کو ہمارا ساتھی سیارہ سمجھتا ہے جبکہ چاند ہمارا ساتھی سیارہ ہے۔ عموماً سیارے کے حجم کے مقابلے میں ان کے چاند بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مریخ کے چاند فوبوس اور ڈیموس کا قطر محض دس کلومیٹر ہے۔ ہمارا چاند زمین کے قطر کے چوتھائی سے بھی زیادہ بڑا ہے اور اس وجہ سے کرہ ارض ہمارے نظامِ شمسی میں اپنے حجم کے تناسب اتنا بڑا چاند رکھنے والا سیارہ ہے۔ یہاں ہم پلوٹو کو شمار نہیں کر رہے کہ پلوٹو بذاتِ خود انتہائی ننھا سا ہے۔ اس کے علاوہ چاند کے کافی اثرات ہمارے کرہ ارض پر پڑتے ہیں۔

چاند کے استحکام بخش اثر کے بناء زمین ایسے گھومتی جیسے رفتار کم ہوتا ہوا لٹو گھومتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہمارے موسموں اور ہمارے ماحول پر اس کے کیا اثرات ہوتے۔ چاند کی کشش کے باعث زمین کی اپنے محور پر گردش اور رفتار درست رہتی ہے جس کی وجہ سے زمین پر حیات کی پیدائش ہوئی ہے اور اسی کی وجہ سے ہی حیات موجودہ ترقی یافتہ شکل تک پہنچ پائی ہے۔ تاہم ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ چاند ہر سال چار سینٹی میٹر کی رفتار سے ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اگلے دو ارب سالوں میں چاند ہم سے اتنی دور جا چکا ہو گا کہ اس کے اثرات زمین تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ تب ہمیں شاید کوئی اور حل نکالنا پڑے گا۔ تاہم تب تک آپ اسے آسمان پر موجود ایک خوبصورت جرمِ فلکی سمجھ سکتے ہیں۔

بہت عرصے تک فلکیات دان یہ سمجھتے رہے تھے کہ چاند یا تو زمین کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا یا پھر پاس سے گزرتے ہوئے چاند کو زمین کی کشش نے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 4.4 ارب سال قبل مریخ کے حجم کا ایک جرمِ فلکی زمین سے ٹکرایا اور اس سے نکلنے والا مادہ چاند کی شکل اختیار کر گیا۔ پہلے ایک باب میں ہم اس پر بات کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے حساب سے یہ اچھا ہی ہوا تھا اور مزید اچھا پہلو یہ ہے کہ ایسا بہت عرصہ قبل ہوا۔ اگر یہ واقعہ پچھلی صدی یا پچھلے ہفتے ہوا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس میں ہمیں کیا اچھائی دکھائی دینی تھی۔ اب وقت ہے چوتھے اور سب سے اہم عنصر کو دیکھنے کا:

بروقت۔ ہماری کائنات انتہائی تیزی سے بدلتی رہتی ہے اور ہر طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر انتہائی طویل اور ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ واقعات کا سلسلہ پچھلے 4.6 ارب سال سے اس خاص طریقے سے اور بروقت نہ ہوتا آیا ہوتا تو ہم آج یہاں نہ ہوتے۔ اب سوچیے کہ اگر شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسارز ختم نہ ہوئے ہوتے تو آج ہم محض چند سینٹی میٹر حجم کے ہوتے اور دم بھی ہوتی اور ہم کسی بِل میں گھسے سو رہے ہوتے۔

ہمیں یہ تو پوری طرح علم نہیں کیونکہ کسی اور چیز سے اپنے وجود کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ایسا لگتا ہے اگر آپ غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ موجودہ ترقی یافتہ مہذب معاشرے تک پہنچنے کے لیے آپ کو انتہائی زیادہ مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچنا ہو گا اور اس کے علاوہ ہمیں سکون اور پھر دباؤ کے مرحلوں سے بھی مسلسل گزرنا پڑا ہو گا (برفانی دور اس ضمن میں بہت مفید ہیں ) اور شدید تباہی کا نہ آنا خصوصاً فائدہ مند رہا ہو گا۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ پہنچنے میں ہماری خوش نصیبی کتنی ہے۔

اب ہم ان عناصر کو دیکھتے ہیں جو ہمارے وجود کے لیے لازمی ہیں۔

قدرتی طور پر کل 94 عناصر پائے جاتے ہیں۔ لگ بھگ دو درجن مزید عناصر تجربہ گاہ میں تیار کیے جاتے ہیں لیکن ابھی ہم ان کے بارے بات نہیں کریں گے۔ زیادہ تر عناصر کے بارے ہماری معلومات انتہائی محدود ہیں۔ ایسٹاٹین کی مثال لیتے ہیں۔ اس کے بارے آج تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ عناصر کے دوری جدول پر ماری کیوری والے پلونیم کے ساتھ اس کا نام اور مقام تو موجود ہے لیکن اس کے علاوہ شاید ہی اس کے بارے ہمیں کچھ علم ہو۔ مسئلہ یہ نہیں کہ سائنس دان اس سے بے توجہی برتتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عنصر انتہائی نایاب ہے۔ تاہم سب سے عجیب عنصر شاید فرانشیم ہے۔ یہ عنصر اتنا نایاب ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پورے کرہ ارض پر ایک وقت میں اس عنصر کے 20 سے کم ایٹم پائے جاتے ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے کل عناصر میں سے شاید 30 عناصر ایسے ہیں جو ہماری زمین پر بکثرت پائے جاتے ہیں اور ان میں سے بمشکل نصف درجن ہی حیات کے لیے لازمی ہیں۔

آپ کو اندازہ تو ہو گا ہی کہ زمین پر سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر آکسیجن ہے جو قشرِ ارض کے تقریباً نصف کے برابر ہے۔ تاہم یہ بہت بڑی مقدار ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ زمین پر دوسرا سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر سیلیکان ہے اور ٹائٹینیم دسویں نمبر پر ہے۔ کسی بھی عنصر کی کثرت کا اس کے بارے معلومات یا اس کی افادیت کا اندازہ نہیں لگ سکتا۔ بہت کم پائے جانے والے عناصر کے بارے شاید ہم بہت زیادہ جانتے ہوں گے۔ زمین پر تانبے کی نسبت سیریئم زیادہ پایا جاتا ہے، کوبالٹ اور نائٹروجن کی نسبت نیوڈائمیم اور لنتھانم زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جست بمشکل ہی پہلے پچاس میں جگہ پاتا ہے جبکہ پراسیوڈیمم، سماریم، گڈولینیئم اور ڈائسپروسیم اس سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔

بکثرت پایا جانا اور اس کی تلاش میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔ المونیم چوتھا بکثرت عنصر ہے ہمارے قدموں تلے موجود زمین کا دسواں حصہ اسی سے بنا ہے لیکن اس کے بارے سب سے پہلے ہمفری ڈیوی نے انیسویں صدی میں انکشاف کیا۔ طویل عرصے تک اسے نایاب اور قیمتی دھات سمجھا جاتا رہا۔ ایک بار امریکی کانگریس نے تو فیصلہ کر لیا تھا کہ واشنگٹن کی یادگار کے اوپر المونیم کی تہہ چڑھا دی جائے تاکہ دنیا کو امریکہ کی امارت پر کوئی شبہ نہ رہے۔ اسی دور میں فرانسیسی شاہی خاندان نے چاندی کے برتنوں اور چھری کانٹوں کو پھینک کر المونیم کا سامان اپنا لیا۔ فیشن کتنا ہی جدید کیوں نہ رہا ہو، چھریاں چاقو بالکل کند ہو کر رہ گئے تھے۔

کسی چیز کی کثرت سے بھی اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ کاربن پندرھواں کثیر عنصر ہے اور قشرِ ارض کا محض 0.048 فیصد حصہ کاربن سے بنا ہے۔ تاہم کاربن کے بناء حیات کا تصور بھی ممکن نہیں۔ کاربن کی خوبی کا ہرجائی پن ہے کہ یہ ہمیشہ بہت سارے دوسرے عناصر کے ساتھ ملنے کو تیار رہتا ہے۔ کاربن کا ہر ایٹم بے شمار دیگر ایٹموں اور اپنے جیسے دوسرے کاربن کے ایٹموں سے جڑ کر انتہائی پیچیدہ اشکال اختیار کرتا ہے اور یہی چیز پروٹین اور ڈی این اے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ پال ڈیویز نے لکھا، ‘اگر کاربن نہ ہوتی تو حیات کی موجودہ شکل ممکن نہیں تھی۔ شاید کسی قسم کی زندگی بھی ممکن نہیں۔ ‘ کاربن اتنا بھی عام نہیں حالانکہ ہمارا سارا انحصار اسی پر ہے۔ ہمارے جسم کے ہر 200 ایٹموں میں سے 126 ہائیڈروجن، 51 آکسیجن اور باقی میں سے محض 19 کاربن کے ایٹم ہوتے ہیں (بقیہ 4 ایٹموں میں سے 3 نائٹروجن اور باقی ایک ایٹم تمام دیگر عناصر کے لیے بچتا ہے )۔

دیگر کچھ عناصر حیات کی تخلیق کی بجائے اس کو دوام بخشنے کے کام آتے ہیں۔ ہمیں ہیموگلوبن بنانے کے لیے فولاد درکار ہے اور اس کے بناء ہم زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ کوبالٹ ہمیں حیاتینب 12 کے لیے درکار ہوتا ہے۔ پوٹاشیم اور معمولی مقدار میں سوڈیم ہمارے اعصاب کے لیے لازمی ہیں۔ مولبڈیم، مینگانیز اور وینیڈیم کی مدد سے ہمارے خامرے پیدا ہوتے ہیں۔ جست کی مدد سے شراب کا اثر ختم ہوتا ہے۔

ہم نے مختلف اشیاء کو مفید بنانا یا انہیں برداشت کرنا سیکھ لیا ہے۔ ورنہ ہمارے لیے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ اس کے باوجود بھی ہماری حیات انتہائی تنگ حدوں میں رہ رہی ہے۔ سیلینیم ہمارے لیے لازمی ہے لیکن اگر آپ اس کی زیادہ مقدار کھا لیں تو موت بھی آ سکتی ہے۔ کوئی جاندار کس چیز کو کتنی حد تک برداشت کر سکتا ہے، وہ اس کے ارتقائی مراحل پر منحصر ہے۔ بھیڑ اور مویشی بظاہر ایک ہی جیسی خوراک کھاتے ہیں لیکن دونوں کی غذائی ضروریات ایک دوسرے سے بہت فرق ہیں۔ موجودہ مویشیوں کو بہت زیادہ مقدار میں تانبہ درکار ہوتا ہے کہ ان کا ارتقاء یورپ اور افریقہ میں ہوا ہے جہاں تانبہ عام ملتا ہے۔ بھیڑیں ایشیائے کوچک سے آئی ہیں جہاں تانبے کی قلت ہوتی ہے۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ کسی عنصر کو برداشت کرنے کی صلاحیت اس عنصر کی کثرت سے منسلک ہوتی ہے۔ بہت سارے عناصر کو معمولی مقدار میں برداشت کرنا ہماری ارتقائی مجبوری ہے کہ جو گوشت ہم کھاتے ہیں، ان میں ان عناصر کی معمولی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اکثر تو یہ عناصر ہمارے لیے مفید بھی ہوتے ہیں۔ تاہم انتہائی معمولی مقدار سے اگر ہم تھوڑا سا بھی تجاوز کر جائیں تو موت سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں ان کے بارے زیادہ علم بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آرسینک کی معمولی سی مقدار ہماری بقا کے لیے ضروری ہے یا نہیں۔ بعض سائنس دان ہاں کہتے ہیں تو کچھ کا جواب نہ میں ہوتا ہے۔ تاہم ہر ایک کا اتفاق ہے کہ آرسینک کی زیادہ مقدار مہلک ہوتی ہے۔

عناصر کو جب دوسرے عناصر سے ملایا جاتا ہے تو ان کی خصوصیات بدل جاتی ہیں۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کی مثال لے لیں۔ دونوں آگ لگانے اور اسے جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دونوں کو ملائیں تو آگ بجھانے والا پانی بن جاتا ہے (آکسیجن خود تو آتش گیر نہیں لیکن دیگر چیزوں کو جلنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر آکسیجن آتش گیر ہوتی تو ماچس جلاتے ہی ہمارے ارد گرد فضاء کو آگ لگ جاتی۔ ہائیڈروجن بلا شبہ آتش گیر ہے جیسا کہ 6 مئی 1937 کے روز ہنڈن برگ کے حادثے سے ہمیں پتہ چلا تھا اور 36 آدمی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے )۔ سوڈیم کے جوڑ اور بھی عجیب تر ہوتے ہیں۔ سوڈیم قدرتی طور پر پائے جانے والے عناصر میں سے انتہائی غیر مستحکم سمجھا جاتا ہے اور جب اسے انتہائی زہریلی کلورین سے ملایا جائے تو ہمارے کھانے کا نمک بنتا ہے۔ خالص سوڈیم کے ٹکڑے کو پانی میں پھینک دیں تو دھماکے سے پھٹے گا۔ کلورین انتہائی خطرناک گیس ہے۔ بہت کم مقدار میں اس کی مدد سے پانی میں موجود خورد بینی جاندار مارے جا سکتے ہیں (بلیچ سے آنے والی بو کلورین کی ہوتی ہے )، زیادہ مقدار میں کلورین ہمارے لیے مہلک ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں کیمیائی ہتھیاروں میں کلورین کو بہت زیادہ استعمال کیا گیا تھا۔ پانی کے تالاب میں نہانے جائیں تو آنکھیں جلتی ہیں کیونکہ پانی میں انتہائی معمولی مقدار میں کلورین ملی ہوتی ہے۔

موٹا اصول یہ سمجھ لیں کہ اگر کوئی عنصر قدرتی طور پر ہمارے اندر نہیں پہنچتا یا یوں کہہ لیں کہ وہ پانی میں نہیں گھلتا تو ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ سیسے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سیسے کو پانی کے پائپوں اور خوراک کے ڈبوں میں استعمال کرنا شروع ہوئے ہیں (سیسے کو لاطینی مخفف Pb یعنی plumbum سے ظاہر کیا جاتا ہے اور اسے لفظ Plumbing نکلا ہے )۔ رومن اپنی شراب میں سیسہ ملاتے تھے۔ اس کے علاوہ پارہ، کیڈمیم اور دیگر صنعتی آلودگیوں سے ہم روزانہ اپنے آپ کو زہر کھلاتے ہیں۔ اگر کوئی عنصر قدرتی طور پر زمین پر نہیں ملتا تو ہم اس کو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے اور وہ انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔ پلوٹونیم کی کوئی بھی مقدار ایسی نہیں جو آپ کو بیمار نہ کر دے۔

مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے لیے زمین اتنی فائدے مند اس لیے ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ارتقاء کے عمل سے گزرے ہیں۔ یعنی زمین زندگی کے لیے نہیں بنی بلکہ زندگی نے زمین پر جینا سیکھ لیا ہے۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن سے زندگی کا وجود ممکن ہوا ہے، چاہے وہ مناسب فاصلے پر موجود مناسب حجم کا سورج ہو، چاند ہو، ہرجائی کاربن ہو کہ زمین کے اندر موجود پگھلا ہوا لاوا، ہم ان سب سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ دیگر دنیاؤں میں پارے کی سنہری جھیلیں ہوں اور مخلوقات امونیا کے بادلوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں۔ ان کی زمین میں کوئی پلیٹ ٹیکٹانکس نہیں اور نہ ہی لاوا اگلتے آتش فشاں ہیں۔ بلکہ ان کی زندگی انتہائی امن اور سکون سے گزرتی ہے۔ اگر ایسی کوئی مخلوق زمین پر آئی تو شاید یہ دیکھ کر حیران رہ جائے کہ نائٹروجن جیسی بے ضر ر گیس سے بنی فضاء میں ہم کیسے رہ لیتے ہیں اور جہاں آکسیجن جیسی آگ جلانے میں مدد دینے والی گیس بھی پائی جاتی ہے؟ اس سے زیادہ حیرت انہیں شاید آکسیجن میں سانس لینے والی مخلوق کو دیکھ کر ہو کہ جو خریداری اور فلموں کی شوقین ہے۔ ہمارے کھانے اس مخلوق کے لیے زہر کا درجہ رکھتے ہوں گے کہ زمین کے عناصر ان کے لیے نئے ہوں گے۔ ان کے لیے زمین پر رہنا عذاب سے کم نہیں ہو گا۔

مشہور طبعیات دان رچرڈ فین مین جانی ہوئی حقیقت سے ممکنہ صورتحال کی طرف جانے کا لطیفہ سناتے تھے۔ مثال کے طور پر ‘آج میں نے ایک کار دیکھی جس کی نمبر پلیٹ ARW 357 تھی۔ اس ریاست میں موجود لاکھوں کاروں میں سے مجھے یہ کار کیسے دکھائی دے گئی؟ ہے نا معجزہ؟’ ان کا مقصد یہ تھا کہ عام سی بات کو بھی چاہیں تو بڑھا چڑھا کر پیش کر سکتے ہیں۔

یعنی یہ بات عین ممکن ہے کہ جن وجوہات اور شرائط کے تحت زمین پر حیات وجود میں آئی، شاید وہ اتنی عجیب نہ ہوں۔ چاہے وہ وجوہات عجیب ہوں یا نہ ہوں، جب تک بہتر متبادل نہ ملے، ہمیں انہی پر گزارا کرنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

17 بالائی فضاء میں

 

شکر ہے کہ فضا موجود ہے جو ہمیں گرم رکھتی ہے۔ اس کے بغیر ہمارا کرہ ارض بے جان اور برف ہوتا اور اس کا اوسط درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسیس ہوتا۔ اس کے علاوہ ہماری فضا کائناتی شعاعوں، بار دار ذرات، بالائے بنفشی شعاعوں وغیرہ کو بھی روکتی ہے۔ سارے کرہ فضائی کی موٹائی تقریباً ساڑھے چار میٹر موٹی کنکریٹ کی تہہ کے برابر حفاظتی تہہ بناتی ہے۔ اس کے بغیر یہ نادیدہ ذرات ہمارے جسموں کو ننھے منے خنجروں کی طرح چھیدتے ہوئے گزر جاتے۔ اگر فضا سے گزرتے ہوئے بارش کے قطرے بھی سُست نہ پڑتے تو ان کی چوٹ سے ہم بے ہوش ہو سکتے تھے۔

ہماری فضا کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بہت ہی معمولی سی مقدار میں ہے۔ زمین کی سطح سے 190 کلومیٹر بلندی تک یہ پھیلی ہوئی ہے۔ اگر ہم زمین پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ موٹائی کافی زیادہ دکھائی دیتی ہے مگر دور سے دیکھا جائے جب زمین ایک عام گلوب کے برابر ہو تو یہ موٹائی پینٹ کی محض دو تہوں کے برابر ہے۔

سائنسی اعتبار سے ہماری فضا کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے : ٹروپوسفیئر، سٹریٹوسفیئر، میسوسفیئر اور آئنوسفیئر (اسے اب تھرموسفیئر بھی کہا جاتا ہے )۔

ٹروپوسفیئر ہمارے لیے سب سے اہم ہے کیونکہ اسی سے ہمیں حدت اور آکسیجن ملتی ہے جس سے ہم سانس لیتے اور اپنے کام کرتے ہیں۔ تاہم جب ہم اوپر کی طرف حرکت کرتے ہیں تو یہی تہہ زندگی کے لیے ناموافق ہوتی جاتی ہے۔ زمین سے اس کی انتہائی بلندی خطِ استوا پر لگ بھگ 16 کلومیٹر جبکہ معتدل علاقوں پر جہاں زیادہ تر انسانی آبادی بستی ہے، اس کی موٹائی 10 سے 11 کلومیٹر ہوتی ہے۔ اس تہہ کو گھومتی تہہ بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری فضا کی کمیت کا 80 فیصد حصہ اسی تہہ میں موجود ہے۔ تمام تر آبی بخارات اور موسم سے متعلق تمام چیزیں اسی تہہ میں موجود ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ معدومیت اور ہمارے درمیان موجود فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ٹروپوسفیئر کے بعد والی تہہ سٹریٹوسفیئر کہلاتی ہے۔ جب طوفان کے اٹھتے ہوئے بادل بلندی پر جا کر اچانک پھیل جاتے ہیں تو وہ مقام در اصل ان دونوں تہوں کی درمیانی حد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس غیر مرئی تہہ کو Stratopause کہتے ہیں اور اسے 1902 میں ایک فرانسیسی de Bort نے غبارے میں پرواز کرتے ہوئے دریافت کیا تھا۔ Pause کا مطلب عارضی طور پر رکنا نہیں بلکہ یہ مستقل حد ہوتی ہے۔ اس لفظ کی جڑیں لاطینی کے menopause سے نکلی ہیں۔ ٹروپوسفیئر کوئی بہت موٹی تہہ نہیں بلکہ اگر جدید لفٹ میں بیٹھ کر اوپر کو جانا ممکن ہو تو بیس منٹ میں آپ وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ تاہم ایسے سفر کے لیے آپ کو بہت محتاط رہنا ہو گا۔ بغیر دباؤ کے اگر آپ اتنی بلندی کا سفر اتنی تیزی سے طے کریں گے تو پھیپھڑوں اور دماغ میں سوجن ہو سکتی ہے یعنی ان میں خطرناک حد تک مائعات جمع ہو جائیں گے۔ جب اوپر پہنچ کر لفٹ کے دروازے کھلیں گے تو لفٹ میں موجود ہر انسان یا تو مر چکا ہو گا یا پھر مرنے ہی والا ہو گا۔ اگر آپ آہستہ آہستہ بھی اوپر جائیں تو بھی کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا کہ سطح سے دس کلومیٹر بلندی کا درجہ حرارت منفی 57 ڈگری سیلسیس ہو گا۔ اس وقت آپ کو اضافی آکسیجن کی بھی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہو گی۔

جب آپ ٹروپوسفیئر سے نکلتے ہیں تو درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے اور چار ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جو اوزون کے حرارت جذب کرنے کے عمل سے ہوتا ہے۔ یہ بھی مندرجہ بالا فرانسیسی سائنس دان نے دریافت کیا تھا۔ پھر درجہ حرارت دوبارہ منفی 90 ڈگری سیلسیس تک گرتا ہے اور پھر تھرموسفیئر میں یہ درجہ حرارت اچانک 1500 ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ اس جگہ دن اور رات میں درجہ حرارت کا فرق 500 ڈگری سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اتنی بلندی پر درجہ حرارت کی محض علامتی اہمیت رہ جاتی ہے۔ درجہ حرارت بنیادی طور پر مالیکیولوں کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے۔ سطح سمندر پر ہوا کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مالیکیول کو حرکت کرنے کے لیے انتہائی معمولی جگہ ملتی ہے جو ایک سینٹی میٹر کے اسی لاکھویں حصے کے برابر ہوتی ہے، اور پھر وہ دوسرے مالیکیول سے ٹکرا جاتا ہے۔ چونکہ کھربوں کی تعداد میں مالیکیول ہر وقت ٹکرا رہے ہوتے ہیں، اس لیے بہت ساری توانائی منتقل ہوتی ہے۔ تھرموسفیئر کی انتہائی بلندی پر، جو کہ 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ بلندی پر ہوتی ہے، ہوا اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ مالیکیولوں کا درمیانی فاصلہ کئی کلومیٹر پر محیط ہوتا ہے۔ اس لیے چاہے مالیکیول کتنے ہی گرم کیوں نہ ہوں، حرارت کو ایک مالیکیول سے دوسرے میں منتقلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ بات مصنوعی سیاروں اور خلائی جہازوں کے لیئے بہت مفید ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو مدار میں موجود خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کو گردش کی وجہ سے آگ لگ جاتی۔

اس کے باوجود بھی مدار سے زمین کو لوٹتے وقت خلائی جہازوں کو انتہائی احتیاط کرنی پڑتی ہے جیسا کہ فروری 2003 میں کولمبیا خلائی شٹل کی تباہی سے ظاہر ہے۔ اگرچہ اس جگہ فضا انتہائی ہلکی ہے، مگر اس میں داخل ہوتے وقت اگر خلائی جہاز کا زاویہ بہت ڈھلوان ہو یعنی چھ ڈگری سے زیادہ ہو تو اس سے ٹکرانے والے مالیکیول اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ خلائی جہاز کو آگ لگ سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ زاویہ چھ ڈگری سے کافی کم ہو تو خلائی جہاز ایسے اچٹ جائے گا جیسے پانی پر پتھر پھینکا جائے تو وہ اچھلتا جاتا ہے۔

تاہم زمین سے اپنی قربت کے بارے جاننے کے لیئے آپ کو خلا تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہمیں زمین سے بہت بلندی پر جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارا جسم مشکلات کا شکار ہونے لگ جاتا ہے۔ تجربہ کار کوہ پیما انتہائی صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اور اضافی آکسیجن کے باوجود بھی بلندی پر جاتے ہی الجھن، متلی، تھکاوٹ، فراسٹ بائٹ، ہائپو تھرمیا، سردرد، بھوک نہ لگنا اور دیگر بے شمار مسائل کا شکار ہونے لگ جاتے ہیں۔ ہر ممکن طریقے سے ہمارا جسم ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں سطح سمندر سے بہت زیادہ اوپر نہیں جانا چاہیے۔

تجربہ کار کوہ پیما پیٹر ہیبلر نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چڑھائی کے بارے لکھا، ‘انتہائی سازگار حالات میں بھی اتنی بلندی پر ہر قدم انتہائی سخت عزم مانگتا ہے۔ ہر حرکت کے لیے آپ خود کو مجبور کرتے ہیں۔ ہر وقت انتہائی شدید تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘ اپنی کتاب The Other Side of Everest میں برطانوی کوہ پیما اور فلم ساز میٹ ڈکنسن نے 1924کی برطانوی مہم کے دوران ہاورڈ سمرویل کے بارے لکھا ہے کہ ‘اچانک اس کی سانس رک گئی اور انتہائی شدید کوشش کے بعد اس نے جو چیز کھانس کر نکالی، وہ اس کے گلے کی میوکس ممبرین تھی۔ ‘

7500 میٹر کی بلندی پر جسمانی دباؤ مشہور ہے۔ کوہ پیما اس علاقے کو ‘موت کا علاقہ’ کہتے ہیں۔ تاہم 4500 میٹر کی بلندی پر ہی بے شمار لوگ انتہائی شدید بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس چیز کا صحت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ بوڑھے افراد جن بلندیوں پر کدکڑے مارتے پھر رہے ہوتے ہیں، ان کے پوتے پوتیاں اسی بلندی پر لاچار اور بے بس ہو کر حرکت کرنے سے معذور ہو جاتے ہیں اور انہیں اٹھا کر نیچے کم بلندی پر لانا پڑتا ہے اور پھر جا کر وہ ٹھیک ہوتے ہیں۔

جس انتہائی بلندی پر انسانوں کے لیئے مستقل طور پر قیام پذیر ہونا ممکن ہے، وہ 5٫500 میٹر سمجھی جاتی ہے۔ تاہم اس جگہ رہنے والے افراد بھی اس بلندی پر بہت زیادہ وقت نہیں گزار سکتے۔ فرانسز ایش کرافٹ نے اپنی کتاب Life at the Extremes میں لکھا ہے کہ انڈیز میں گندھک کی کانیں 5٫800 میٹر کی بلندی پر ہیں لیکن کان کن ہر روز 460 میٹر کی بلندی طے کر کے کام کرنے جاتے ہیں اور سونے کے لیے پھر واپس 460 میٹر نیچے اترتے ہیں تاکہ اس بلندی پر مستقل نہ رہنا پڑے۔ بلندی پر رہنے والے لوگوں کی بے شمار نسلیں ہزاروں سال سے اتنی بلندی پر رہنے کے لیے ارتقا کے عمل سے گزرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے سینے چوڑے اور پھیپھڑے بڑے ہوتے ہیں اور خون کے سرخ خلیات کی تعداد عام انسانوں سے تقریباً ایک تہائی زیادہ ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ مقدار میں اگر سرخ خلیے ہوں تو خون اتنا گاڑھا ہو جائے گا کہ اس کی گردش میں مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ 5٫500 میٹر سے زیادہ بلندی پر عورت چاہے جتنی بھی صحت مند کیوں نہ ہو، اپنے پیٹ میں موجود بچے کو اتنی آکسیجن نہیں دے پاتی کہ بچہ حمل کا دورانیہ پورا کر کے پیدا ہو سکے۔

1780 کی دہائی سے جب سے لوگوں نے یورپ میں گیس کے غباروں کی مدد سے بلندی کا سفر طے کرنا شروع کیا، تب سے انہیں ایک مستقل مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جتنی بلندی پر آپ جائیں گے، درجہ حرارت اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔ ہر 1٫000 میٹر کی بلندی پر درجہ حرارت 1.6 ڈگری کم ہو جاتا ہے۔ عقل تو یہ کہتی ہے کہ آپ جتنا زیادہ حرارت کے منبع کے نزدیک ہوتے جائیں گے، اتنا ہی آپ کو گرمی لگنی چاہیے۔ تاہم اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس طرح حرارت کے منبع کے نزدیک نہیں ہو رہے ہوتے۔ سورج اور زمین کا فاصلہ 9 کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر ہے۔ اگر آپ چند سو یا چند ہزار میٹر قریب تر ہو بھی جائیں تو بھی یہ ایسا ہی ہے کہ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا دھواں آپ امریکہ میں چند قدم اس سمت میں چل کر سونگھنے کی کوشش کریں۔ دوسرا یہ بھی ہے کہ حرارت کا انحصار فضا میں موجود مالیکیولوں کی کثافت پر بھی ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی جب ایٹموں پر پڑتی ہے تو ان کو توانائی ملتی ہے اور پھر ایٹم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے یہ توانائی ایک دوسرے کو منتقل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب ہمارے جسم پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ہمیں حدت سی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم جتنا بلندی پر جائیں تو وہاں ایٹموں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہاں ایٹموں کے ٹکراؤ میں بھی کمی ہوتی جاتی ہے۔ ہوا بہت دھوکے باز ہے۔ سطح سمندر پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہوا کا کوئی وزن نہیں۔ در حقیقت ہوا کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس کا اثر بھی وقتاً فوقتاً محسوس ہوتا رہتا ہے۔ بحری سائنس دان ویوائل تھامسن نے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل لکھا تھا: ‘صبح کو جب ہم اٹھتے ہیں تو بیرو میٹر پر ایک انچ کا اضافہ بتا رہا ہوتا ہے کہ رات بھر میں ہمارے اوپر 500 کلو جتنا ہوا کا وزن بڑھ چکا ہے۔ تاہم اس سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ہمیں کثیف ہوا میں حرکت کرنے میں کم محنت کرنی پڑتی ہے۔ ‘ ہمیں اس لیے دباؤ نہیں محسوس ہوتا کہ ہمارے جسم کا زیادہ تر حصہ مائع پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے سمندر کا دباؤ اسے نہیں پچکا سکتا۔

تاہم اگر اسی ہوا کو حرکت دی جائے، جیسا کہ ہری کین یا تیز جھکڑ میں ہوتا ہے تو آپ کو ہوا کے وزن کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے کرہ ارض پر فی مربع میل کل اڑھائی کروڑ ٹن وزنی ہوا موجود ہے۔ پوری دنیا پر کل وزن 5٫200 ملین ملین ٹن ہو جاتا ہے۔ جب کئی کروڑ ٹن وزنی ہوا کو 50 یا 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت دی جائے تو گھروں کی چھتیں اور درخت کی شاخیں ٹوٹنا عام سی بات ہے۔ انتھونی سمتھ نے لکھا ہے کہ عام طوفان میں 75 کروڑ ٹن سرد ہوا پر دس ارب ٹن جتنی گرم ہوا کا دباؤ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔

ہمارے ارد گرد توانائی کی کوئی کمی نہیں۔ ایک عام طوفان کے بارے حساب لگایا گیا ہے کہ اس میں چھپی ہوئی توانائی پورے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی چار روز کی توانائی کے برابر ہے۔ مناسب حالات میں طوفانی بادل دس سے پندرہ کلومیٹر کی بلندی تک اٹھتے ہیں اور ان میں ہوا کے لہریں اوپر نیچے ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے پیدا ہوتی ہیں۔ اکثر اوپر اور نیچے جانے والی لہریں پہلو بہ پہلو ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے پائلٹ ان میں سے جہاز کو نہیں گزارنا چاہتے۔ بادلوں کے اندر موجود مختلف ذرات برقی بار جمع کرتے جاتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر ہلکے ذرات مثبت اور بھاری ذرات منفی بار والے بن جاتے ہیں۔ مثبت بار والے ذرات اوپر کی جانب جبکہ منفی بار والے ذرات بادلوں کے نچلے سرے پر جمع ہو جاتے ہیں۔ منفی ذرات مثبت بار والی زمین کو لپکنے کو بے تاب ہوتے ہیں اور ان کے درمیان آنے والی ہر چیز کا برا حشر ہوتا ہے۔ آسمانی بجلی زمین کی طرف لگ بھگ 4٫35٫000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتی ہے۔ اس بجلی کے آس پاس کا درجہ حرارت 28٫000 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جو سورج کی سطح کے درجہ حرارت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بیک وقت کرہ ارض پر کم از کم 1٫800 طوفان بنتے ہیں جو روزانہ 40٫000 کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ دن رات، ہر سیکنڈ میں کم از کم سو مرتبہ آسمانی بجلی گرتی ہے۔ آسمان اتنا بھی پرسکون نہیں۔

فضا کی بلندی کے بارے ہمیں حال ہی میں پتہ چلا ہے۔ مثال کے طور پر جیٹ سٹریم جو کہ 9 سے 10 کلومیٹر کی بلندی پر ملتی ہیں، کی رفتار لگ بھگ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور پورے پورے براعظموں کے موسم پر اثر انداز ہوتی ہیں، کے بارے ہمیں تب پتہ چلا جب دوسری جنگِ عظیم میں جنگی پائلٹوں نے اس بلندی پر جہاز اڑانے شروع کیے۔ آج بھی فضائی عوامل کے بارے ہم بہت کم جانتے ہیں۔ صاف موسم میں ہونے والی فضائی ٹربولینس بعض اوقات پروازوں کو پریشان کرتی ہے۔ سالانہ کم از کم 20 اتنے شدید واقعات ہوتے ہیں جن کے بارے رپورٹ کرنی پڑتی ہے۔ یہ ٹربولینس نہ تو کسی بادل کی وجہ سے ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کسی ریڈار پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بہترین موسم میں اچانک ہی یہ پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسے ہی واقعے میں سنگاپور سے سڈنی کو جانے والی پرواز جب وسط آسٹریلیا پر پہنچی تو اسی وجہ سے 90 میٹر نیچے گری۔ جو افراد حفاظتی بند کے بغیر تھے، وہ اڑ کر چھت سے جا ٹکرائے۔ بارہ افراد زخمی ہوئے جن میں سے ایک شدید زخمی تھا۔ کسی کو بھی علم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

ہوا کو فضا میں گردش دینے کا عمل وہی ہے جو زمین کے اندر موجود مرکزے کو گردش دینے کا کام کرتا ہے۔ اس عمل کو کنوکشن کہتے ہیں۔ اس عمل میں گرم مادہ اوپر کو اٹھتا ہے اور نسبتاً ٹھنڈا مادہ سکڑ کر نیچے کو جاتا ہے۔ مرطوب اور گرم ہوا استوائی علاقوں سے اوپر کو اٹھتی ہے اور اوپر ٹروپو پاز پر پہنچ کر پھیل جاتی ہے۔ جوں جوں یہ ہوا خطِ استوا سے دور ہوتی جاتی ہے، سرد ہوتی جاتی ہے اور نیچے کو گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ جب سطح زمین پر پہنچتی ہے تو ہوا کے کم دباؤ کو تلاش کر کے واپس خطِ استوا کو لوٹ جاتی ہے جس سے یہ سلسلہ پورا ہو جاتا ہے۔

خطِ استوا پر کنوکشن کا عمل مستحکم ہوتا ہے اور موسم کی پیشین گوئی کرنا بھی سہل ہوتا ہے۔ لیکن معتدل علاقوں میں موسم کی مناسبت سے یہ عمل بدلتا رہتا ہے اور ہوا کے کم دباؤ اور زیادہ دباؤ کے درمیان مستقل جد و جہد جاری رہتی ہے۔ ہوا کا کم دباؤ اوپر اٹھنے والی ہوا سے پیدا ہوتا ہے اور اپنے ساتھ آبی بخارات لے جاتا ہے جس سے بادل بنتے ہیں اور پھر بارش ہوتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کی نسبت گرم ہوا زیادہ بخارات جذب کر سکتی ہے اور اسی وجہ سے استوائی علاقے اور گرمیوں کے طوفان زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے ہوا کے کم دباؤ والے علاقوں پر بادل بنتے اور بارش کا سبب بنتے ہیں۔ ہوا کے زیادہ دباؤ کا مطلب صاف مطلع اور اچھا موسم ہوتا ہے۔ جب ایسے دو دباؤ والے مقامات ملتے ہیں تو بادل بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر سٹریٹس بادل جن سے مطلع ابر آلود ہوتا ہے، اس وقت پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا سبب وہ مرطوب ہوا ہوتی ہے جو اپنے اوپر ہوا کی مستحکم تہہ کو توڑنے میں ناکام رہتی ہے اور وہیں پھیل جاتی ہے۔ اگر آپ کسی کو کمرے میں سگریٹ پیتے دیکھیں تو دھوئیں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پہلے پہل دھواں سیدھا اوپر کو اٹھتا ہے اور پھر لہروں کی شکل میں اِدھر اُدھر پھیلنے لگ جاتا ہے۔ انتہائی محتاط پیمائش کے بعد دنیا کا طاقتور ترین کمپیوٹر بھی سو فیصد یقین سے یہ نہیں بتا سکتا کہ اوپر اٹھنے کے بعد دھواں کس طرح کی شکل اختیار کرے گا۔ اب اندازہ کریں کہ ماہرینِ موسمیات کو دنیا کے موسم کے بارے پیشین گوئی کرنی ہو تو یہ کام کتنا مشکل ہو جائے گا۔

ہمیں یہ علم ہے کہ سورج کی روشنی زمین پر بے ترتیبی سے پڑتی ہے اور مختلف جگہوں پر ہوا کا دباؤ مختلف ہوتا ہے۔ ہوا اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتی۔ ہوا اس لیے چلتی ہے کہ زیادہ دباؤ والی جگہ سے کم دباؤ والی جگہ پر پہنچ کر اس فرق کو ختم کر سکے (سلنڈر سے نکلنے والی گیس، غبارے سے نکلتی ہوئی گیس اور بلندی پر اڑتے ہوئے جہاز کی کھڑکی یا دروازہ کھول دیا جائے تو تیزی سے ہوا باہر نکلنا شروع ہو جاتی ہے )۔ ہوا کے دباؤ میں جتنا زیادہ فرق ہو گا، چلنے والی ہوا اتنی ہی تیز ہو گی۔

یہ بات واضح رہے کہ مختلف چیزوں کی طرح ہوا کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ جو ہوا 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہو، وہ 30 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار والی ہوا سے دس گنا نہیں بلکہ سو گنا زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہو گی۔ کئی کروڑ ٹن وزنی ہوا جب تیزی سے چلتی ہے تو نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ عام استوائی طوفان میں جتنی توانائی 24 گھنٹہ میں خارج ہوتی ہے، اتنی توانائی برطانیہ یا فرانس ایک سال میں استعمال کرتے ہیں۔

ہوا کی جانب سے ہر جگہ دباؤ برابر رکھنے کے بارے سب سے پہلے ایڈمنڈ ہیلی نے بتایا۔ یہ وہی مشہور ایڈمنڈ ہیلی ہے جو ان دنوں ہر جگہ موجود ہوتا تھا۔ اس کا ساتھی جارج ہیڈلے تھا جس نے سب سے پہلے بتایا کہ ہوا کے اٹھتے اور گرتے ستونوں کی وجہ سے سیل یعنی خانے بنتے ہیں (اس وقت سے انہیں ہیڈلے سیل کہا جاتا ہے )۔ پیشے کے لحاظ سے تو ہیڈلے وکیل تھا لیکن اس کی اصل دلچسپی کا محور موسم تھا۔ اس نے سب سے پہلے تجویز پیش کی کہ ان خانوں، زمین کی گردش اور ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے تجارتی ہوائیں جنم لیتی ہیں۔ تاہم ان ہواؤں کے بارے اصل تحقیق 1835 میں ایک فرانسیسی انجینئرنگ پروفیسر نے کی تھی جس کا نام گستاؤ گیسپرڈ ڈی کوریولس تھا۔ اسی وجہ سے ہم انہیں کوریولس افیکٹ کہتے ہیں۔ (کوریولس کا دوسرا کارنامہ ٹھنڈے پانی کے کولر ایجاد کرنا تھا، جنہیں کوریوس کہا جاتا ہے )۔ زمین خطِ استوا پر لگ بھگ 1٫675 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کرتی ہے۔ تاہم قطبین کی طرف گردش کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے اور لندن اور پیرس میں یہ رفتار 900 کلومیٹر کے لگ بھگ رہ جاتی ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ جب آپ خطِ استوا پر کھڑے ہوتے ہیں تو زمین کی ایک گردش پوری ہونے کے لیے 40٫000 کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہو گا، تبھی آپ واپس اپنی اصل مقام پر پہنچیں گے۔ اور اگر آپ قطب شمالی پر کھڑے ہوں تو چکر پورا کرنے کے لیے آپ کو محض چند میٹر جتنی حرکت کرنی ہو گی۔ تاہم دونوں جگہوں پر یہ چکر پورا کرنے میں چوبیس گھنٹے ہی لگیں گے۔ اس وجہ سے آپ جتنا بھی خطِ استوا کے قریب ہوں گے، اتنا ہی تیز تر حرکت کریں گے۔

کوریولس افیکٹ ہمیں بتاتا ہے کہ جب شمالی نصف کرے میں کوئی چیز سیدھی حرکت کرے اور اس کی حرکت مناسب وقت تک جاری رہے تو وہ دائیں جانب مڑنے لگ جائے گی۔ جنوبی نصف کرے پر اس حرکت کا رخ بائیں جانب ہو گا۔ اس کو کچھ ایسے سمجھیے کہ اگر آپ بڑے سے جھولے پر کھڑے ہیں اور جھولا چل رہا ہے۔ جب آپ کسی بندے کی طرف گیند پھینکتے ہیں تو وہ بندہ تو اسی جگہ کھڑا ہوتا ہے لیکن جھولے کی حرکت کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ بندہ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔ گیند اس سے دور جا کر گرے گی اور آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے گیند نے قوس سی بنائی ہو۔ یہی چیز کوریولس افیکٹ کہلاتی ہے اور اسی کی وجہ سے سمندری طوفان کسی لٹو کی طرح گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے بحری جہاز کی توپ سے چلایا جانے والا گولہ ہمیشہ دائیں یا بائیں طرف کر کے پھینکا جاتا ہے۔ ورنہ 15 میل کے فاصلے پر داغا گیا یہ گولہ اپنے نشانے سے سو گز دائیں یا بائیں جا گرے گا۔

ہر انسان کے لیے موسم کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ موسمیات کو سائنس کا درجہ اٹھارہویں صدی میں آن کر ملا، حالانکہ موسمیات یعنی meteorology کا لفظ 1626 میں پہلی بار ٹی گرینگر نے اپنی کتاب میں استعمال کیا۔

موسم سے متعلق کامیاب پیشین گوئی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ درجہ حرارت کی بالکل درست پیمائش کی جائے اور عرصہ دراز تک تھرما میٹر بنانا کارِ دارد سمجھا جاتا تھا۔ پیمائش کے لیے شیشے کی نالی میں بالکل یکساں قطر کا سوراخ کرنا لازمی تھا جو آسان کام نہیں تھا۔ اس مسئلے پر سب سے پہلے ولندیزی سائنس دان گیبرئیل فارن ہائیٹ نے 1717 میں قابو پایا۔ تاہم بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس نے 32 ڈگری کو نقطہ انجماد اور 212 ڈگری کو پانی کے ابلنے کے لیے مقر ر کیا۔ اس چیز سے بہت سارے لوگوں کو الجھن ہوئی اور آخرکار 1742 میں اینڈرس سیلسیس، جو سوئیڈش ماہرِ فلکیات تھا، نے متبادل پیمانہ بنایا۔ اکثر موجد کچھ نہ کچھ کھسکے ہوئے ہوتے ہیں، اسی لیے سیلسیس نے نقطہ ابال کو صفر اور نقطہ انجماد کو 100 ڈگری رکھا تاہم جلد ہی ان کے مقامات بدل دیے۔

جدید موسمیات کا بانی برطانوی فارماسسٹ لیوک ہوارڈ کو مانا جاتا ہے جس نے اٹھارہویں صدی میں اپنی پہچان آپ بنائی۔ اس کا اصل کارنامہ 1803 میں بادلوں کی اقسام کو ان کے نام دینا ہے۔ لنیان سوسائٹی کا سرگرم رکن ہونے کے باوجود بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہوارڈ نے ایسکیشین سوسائٹی میں اپنی سکیم پیش کی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ یہ سوسائٹی نائٹرس آکسائیڈ کی دیوانی تھی۔

ہوارڈ نے بادلوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا: سٹریٹس بادل وہ ہیں جو تہہ دار ہوتے ہیں، کمولوس (اگر آپ کو دیگر بادلوں کے برعکس کمولوس بادلوں کے انتہائی واضح کناروں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہو تواس کا جواب یہ ہے کہ ان بادلوں کی مرطوبیت اور اس کے باہر کی خشک ہوا ایسا ممکن بناتی ہے۔ نمی کا جو بھی مالیکیول بادلوں سے باہر نکلتا ہے، اسے خشک ہوا لے اڑتی ہے۔ اس کے برعکس سیرس بادل کے اوپر موجود ہوا میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کے کنارے اتنے واضح نہیں ہو پاتے ) وہ بادل جو روئی کے گالوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں اور سیرئس بادل وہ جو پنکھ جیسے ہوتے ہیں اور عموماً سرد موسم کی نشانی ہوتے ہیں۔ بعد میں اس نے چوتھی قسم نیمبس کا اضافہ کیا جو بارش والے بادل تھے۔ ہوارڈ کے نظام کی انفرادیت یہ ہے کہ کسی بھی دو قسم کے بادلوں کو ملا کر نئی قسم بنائی جا سکتی ہے اور اس کی مدد سے تمام بادلوں کی شناخت ہو سکتی ہے جیسا کہ سٹریٹو کومولس، سیروسٹریٹس، کمولونیمبس وغیرہ۔ یہ نیا نظام انگلستان میں بھی اور انگلستان سے باہر بھی فوری مقبول ہو گیا۔ جرمن شاعر گوئٹے نے اس پر چار نظمیں ہوارڈ سے منسوب کیں۔

ہوارڈ کے نظام میں مسلسل تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔ انٹرنیشنل کلاؤڈ اٹلس جو دو جلدوں میں چھپاتا ہے، میں ہوارڈ کے نظام کے علاوہ بھی بہت سے اضافے کیے گئے ہیں لیکن انہیں ماہرینِ موسمیات کے علاوہ تو کیا، ماہرین موسمیات سے بھی انتہائی کم توجہ مل پائی ہے۔ اس اٹلس کا پہلا ایڈیشن جو کہ بہت مختصر تھا، میں بادلوں کی دس بنیادی اقسام بتائی گئی تھیں۔

بہت بڑے حجم کے باوجود طوفانی بادل حقیقت میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ایک بادل کے کئی سو میٹر چوڑے ٹکڑے میں بمشکل سو سے ڈیڑھ سو لیٹر جتنا پانی ہوتا ہے جو جیمز ٹریفل کے بقول، ‘نہانے کے ٹب کو ہی بھر پائے گا’۔ جب آپ دھند میں چلتے ہیں تو در حقیقت آپ بادلوں میں ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ دھند بادل ہی ہے جو اوپر اٹھنے میں ناکام رہتا ہے۔ جیمز ٹریفل کے بقول، ‘اگر آپ عام دھند میں سو میٹر چلیں تو آپ کے جسم سے ٹکرانے والے پانی کی مقدار محض نصف کیوبک انچ ہو گی، جو آپ کی پیاس بھی نہیں بجھا سکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بادلوں میں پانی کا کوئی بڑا ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی زمین کے میٹھے پانی کا محض 0.035 فیصد حصہ بادلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

پانی کا مالیکیول جہاں گرتا ہے، اس کی مناسبت سے اس کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ قطرہ زرخیز زمین پر گرے تو پودوں میں جذب ہو کر یا براہ راست بخارات میں تبدیل ہو کر چند گھنٹوں یا چند دنوں میں واپس بادلوں تک پہنچ جائے گا۔ تاہم اگر یہ پانی ہوتا ہوا زیرِ زمین آبی ذخائر تک پہنچ جائے تو پھر کئی سال سے کئی ہزار سال تک سورج کی روشنی نہیں دیکھ پائے گا۔ جب آپ کسی جھیل کو دیکھتے ہیں تو پانی کے ان مالیکیولوں کی اوسط عمر دس سال ہوتی ہے۔ سمندر میں موجود مالیکیولوں کی عمر صدیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر بارش کے پانی کا 60 فیصد حصہ ایک یا دو دن میں بخارات کی شکل میں واپس فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ بخارات بننے کے بعد یہی پانی ہفتے یا دو ہفتوں میں پھر بارش کی شکل میں زمین پر لوٹ آتا ہے۔

عملِ تبخیر بہت تیز ہے۔ گرم دن میں کسی چھوٹے سے گڑھے میں بھرے پانی سے آپ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ بحیرہ روم میں اگر مسلسل پانی نہ جمع ہوتا رہے تو ہزار سال میں خشک ہو جائے گا۔ آج سے تقریباً ساٹھ لاکھ سال قبل ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا جسے Messinian Salinity Crisis کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دوران جبرالٹر کے مقام پر زمین کی حرکت سے آبنائے بند ہو گئی تھی۔ جب یہ سمندر خشک ہوا تو بخارات بادلوں کی شکل میں دیگر سمندروں پر گرے اور ان کے نمکیات کی مقدار معمولی سی کم ہو گئی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سمندر زیادہ بڑے رقبے پر جمنا شروع ہو گئے۔ اس طرح زمین پر آنے والی سورج کی روشنی کا زیادہ حصہ منعکس ہو کر واپس جانے لگا اور زمین پر برفانی دور شروع ہو گیا۔ کم از کم نظریہ یہی کہتا ہے۔

تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ زمین کے نظام میں آنے والی معمولی سی تبدیلی کے اثرات بھی ہمارے وہم و گمان سے باہر ہو سکتے ہیں۔ آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ شاید ایسے ہی کسی واقعے کی وجہ سے ہم وجود میں آئے۔

ہماری زمین کی سطح پر اثر انداز ہونے والے اہم عوامل میں سمندر اہم ترین ہیں۔ اسی وجہ سے ماہرینِ موسمیات سمندروں اور فضا کو ایک ہی نظام شمار کرتے ہیں۔ اس لیے ہم ابھی اس بارے کچھ مزید دیکھتے ہیں۔ حرارت کو جذب کرنے اور منتقل کرنے میں پانی بہت تیز ہے۔ خلیجی بحری رو ہر روز جتنی مقدار میں حرارت یورپ کی طرف لاتی ہے، وہ دس سال میں دنیا بھر کے کوئلے کی پیداوار کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے برطانیہ اور آئرلینڈ میں موسمِ سرما روس اور کینیڈا کی نسبت کہیں معتدل رہتا ہے۔ تاہم پانی آہستہ آہستہ گرم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انتہائی گرم دن میں بھی پانی کے تالاب اور جھیلوں کا پانی ہمیں ٹھنڈا لگتا ہے۔ اسی وجہ سے موسم کیلنڈر پر تو جلدی بدل جاتے ہیں لیکن یہ تبدیلی انسانوں کو دیر سے محسوس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شمالی نصف کرے میں موسمِ بہار کا رسمی آغاز تو مارچ سے ہوتا ہے لیکن اپریل میں جا کر ہمیں اصل میں موسمِ بہار محسوس ہوتا ہے۔

سمندر میں ہر جگہ درجہ حرارت، نمکینی اور کثافت وغیرہ ہر جگہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ان کے حرارت منتقل کرنے میں بھی فرق ہوتا ہے اور موسم پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ بحرِ اوقیانوس کا پانی بحر الکاہل کی نسبت زیادہ نمکین ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ نمکین پانی زیادہ بھاری ہوتا ہے اور نیچے کو بیٹھتا ہے۔ اس اضافی نمک کے بوجھ کے بناء سمندری روئیں سیدھی قطب شمالی تک جاتیں اور یورپ کو حرارت نہ مل پاتی۔ یہ عمل اصل میں سمندری گہرائیوں پر ہوتا ہے اور اس کے بارے سب سے پہلے کاؤنٹ وون رمفورڈ نے 1797 میں بتایا۔ زمین پر حرارت کی منتقلی کے اصل عمل کا نام Thermohaline گردش ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب گرم بحری رو یورپ کے پاس پہنچتی ہے تو بھاری اور کثیف ہو کر انتہائی گہرائی کو ڈوبنا شروع ہو جاتی ہے۔ ڈوبتے ہوئے اس کا واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب یہ پانی انٹارکٹکا پہنچتے ہیں تو سرکمپولر رو میں پھنس کر اوپر کو اور بحر الکاہل کی جانب بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ عمل بہت سست ہے اور شمالی بحرِ اوقیانوس سے بحر الکاہل کے وسط تک پہنچنے میں اسے ڈیڑھ ہزار سال لگ سکتے ہیں، لیکن جتنی مقدار میں پانی اور حرارت اس عمل سے منتقل ہوتی ہے، وہ بہت زیادہ ہے اور ماحول پر پڑنے والے اثرات بھی اسی حساب سے ہوتے ہیں۔

(اگر آپ کو یہ سوال پریشان کر رہا ہو کہ سائنسدانوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ ایک سمندر سے پانی کا قطرہ دوسرے سمندر تک کیسے پہنچتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سائنس دان پانی میں موجود مختلف کیمیائی اجزاء جیسا کہ کلوروفلوروکاربن وغیرہ کی مقدار کو مختلف جگہوں پر پیمائش کر کے پانی کی حرکت تقریباً ٹھیک ٹھیک ماپ سکتے ہیں۔ )

تھرموہیلائن گردش سے نہ صرف حرارت منتقل ہوتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہروں سے غذائی اجزاء بھی اوپر نیچے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے سمندروں کا بڑا حصہ مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کے لیے سازگار رہتا ہے۔ تاہم یہ عمل بہت نازک ہے اور آسانی سے اسے متاثر ہو سکتا ہے۔ کمپیوٹر پر بنائے گئے ماڈلوں کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ سمندر کی نمکینی میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی سے بھی یہ سارا عمل تباہ ہو سکتا ہے۔ اس معمولی سی تبدیلی کے لیے گرین لینڈ کی برف کا پگھلنا کافی رہے گا۔

ہمیں سمندروں کا ایک اور بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ سمندر فضائی کاربن کی بہت بڑی مقدار جذب کر کے اسے طویل عرصے کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ ہمارے نظامِ شمسی کی عجیب بات ہے کہ ابتداء میں سورج آج کی نسبت 25 فیصد زیادہ روشن تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ برطانوی ماہرِ ارضیات آبرے میننگ کے مطابق ‘یہ بہت بڑی تبدیلی کرہ ارض کے لیے تباہ کن تھی مگر بظاہر ہماری زمین پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ ‘

تو پھر زمین کیسے مستحکم اور ٹھنڈی رہ پاتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ کھربوں کی تعداد میں پائے جانے والے ننھے سمندری جاندار، مثلاً فوراً منی فیرانس، کو کولتھس اور کالکیروس الجی وغیرہ بارش کے پانی میں جذب ہو کر آنے والی فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر چیزوں کو ملا کر اپنے ننھے ننھے خول بناتے ہیں۔ اس طرح ان کے خول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ طویل عرصے کے لیے قید ہو جاتی ہے اور سبز مکانی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ جب یہ جاندار مرتے ہیں تو سمندر کی تہہ میں ڈوب کر دباؤ سے چونا بن جاتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ انگلینڈ میں ڈوور کے مقام پر موجود سفید چٹانیں در اصل انہی مردہ جانداروں کے بیرونی خولوں سے بنی ہیں۔ اب سوچیے کہ اس عمل سے کتنی بڑی مقدار میں کاربن کو کتنے طویل عرصے کے لیے قید کر دیا گیا ہے۔ چھ مکعب انچ جتنی چٹان میں لگ بھگ ایک ہزار لٹر جتنی مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دبا کر قید کر دیا گیا ہے۔ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 80,000 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس طرح ارضی چٹانوں میں قید کر دی گئی ہے۔ زیادہ تر چونا جلد یا بدیر آتش فشانی عمل سے گزرے گا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پہنچ کر بارش کے پانی میں حل ہو کر پھر سمندر تک پہنچے گی۔ اسے طویل مدتی کاربن چکر کہا جاتا ہے۔ یہ عمل بہت طویل ہے اور ایک مالیکیول عموماً 5 لاکھ سال میں یہ چکر مکمل کرتا ہے۔ لیکن اگر مداخلت نہ کی جائے تو یہ عمل کرہ ارض پر کاربن کی مقدار کو قابو میں رکھنے کے قابل ہے۔

بدقسمتی سے حضرتِ انسان اس کاربن کے چکر سے بے پروائی برتتا ہے اور یہ سوچے بنا ڈھیروں کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کرتا رہتا ہے کہ آیا سمندری خورد بینی جاندار اس مقدار کو استعمال بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1850 سے اب تک فضا میں لگ بھگ 100 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہو چکا ہے جو سالانہ 7 ارب ٹن بنتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی یہ کوئی خاص اضافہ نہیں کیونکہ 200 ارب ٹن سالانہ کے برابر کاربن ڈائی آکسائیڈ آتش فشانوں اور مردہ نباتات کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم بڑے شہروں پر چھائی ہوئی زہریلی دھند کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اس نظام کو کس طرح برباد کر رہے ہیں۔

قدیم برفانی نمونوں سے ہم جانتے ہیں کہ مختلف اوقات میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کیا مقدار رہی ہو گی۔ صنعتی دور سے قبل یہ مقدار دس لاکھ میں 280 ذرات تھی۔ 1958 میں جب اس مسئلے پر پہلی بار توجہ دی گئی تو اس وقت 315 ذرات تک بات پہنچ چکی تھی۔ آج یہ مقدار 360 ذرات فی دس لاکھ ہے اور ہر چار سال بعد اس میں ایک فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام تک یہ مقدار شاید 560 ذرات تک پہنچ چکی ہو۔

ابھی تک تو زمین کے جنگلات اور سمندروں نے کاربن کی بہت بڑی مقدار سے ہماری جان بچائے رکھی ہے۔ برطانوی محکمہ موسمیات کے پیٹر کوکس کے مطابق, ‘جلد ہی وہ مرحلہ آنے والا ہے جب سمندر اور جنگلات ہمیں کاربن سے بچانے کا کام چھوڑ کر حقیقت میں کاربن میں اضافے کا کام شروع کر دیں گے۔ ‘ اندیشہ ہے کہ اس وقت زمین کے درجہ حرارت میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس کو نہ اپنا سکنے کی وجہ سے جنگلات اور نباتات مرنے لگیں گے اور اس سے مزید کاربن پیدا ہو گی۔ ایسے کئی بار ماضی میں انسان کے بغیر بھی ہو چکا ہے۔ تاہم فطرت بہت عجیب شئے ہے اور کاربن کا چکر کچھ عرصے بعد خود کو دوبارہ عام سطح پر لے آئے گا اور صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ یہ کام آج سے 60,000 سال قبل آخری بار ہوا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                   حصہ پنجم: زندگی بذاتِ خود

 

میں اس کائنات کو جتنا پرکھتا اور اس کی تفصیلات کو جانتا ہوں، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا جاتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طور ہمارے آنے کا علم تھا۔

فری مین ڈائسن

 

 

 

 

 

16 تنہا سیارہ

 

جاندار ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ پوری کائنات میں ہمارے علم کے مطابق اس وقت ملکی وے کہکشاں میں انتہائی دور دراز واقع ایک کونے میں موجود زمین پر ہی زندگی ملتی ہے۔ اس زمین پر ہی آپ اور میں رہتے ہیں، اگرچہ زمین ہمارے ہونے پر اتنی خوش نہیں۔

سمندر کی گہری ترین کھائی سے لے کر فلک بوس پہاڑوں تک، زندگی کے لیے سازگار ماحول محض 20 کلومیٹر موٹا ہے۔ اگر اسے کائنات کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کچھ بھی نہیں۔

انسانوں کے لیے اور بھی مسئلہ ہے کہ انسانوں کے جدِ امجد نے لگ بھگ 40 کروڑ سال قبل سمندر کو چھوڑ کر خشکی کا رخ کر لیا تھا۔ نتیجتاً ایک سروے کے مطابق حجم کے اعتبار سے ہماری زمین کے قابلِ رہائش حصے کا 99.5 فیصد حصہ ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہا۔

مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں کہ ہم پانی میں سانس نہیں لے سکتے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم اتنا دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پانی ہوا کی نسبت 1,300 گنا زیادہ بھاری ہے اور جوں جوں آپ پانی کی گہرائی میں اترتے جائیں، ہر دس میٹر کے بعد پانی کا دباؤ دو گنا بڑھ جاتا ہے۔ اگر آپ خشکی پر 150 میٹر کی اونچائی پر چڑھیں تو آپ کو شاید ہی کوئی فرق محسوس ہو۔ لیکن پانی کے اندر اتنی گہرائی میں جانے کا مطلب ہے کہ آپ کے پھیپھڑے پچک کر کوک کے ایک کین کے برابر ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض لوگوں کو یہ بہت پسند ہے اس لیے وہ گہرے پانی میں بغیر اضافی آکسیجن کے غوطہ خوری کرتے ہیں۔ خیر، سطح پر واپسی پر آپ کے اندرونی اعضاء واپس اپنی اصل شکل میں لوٹ آتے ہیں۔ تاہم اتنی گہرائیوں تک پہنچنے کے لیے غوطہ خوروں کو مختلف بھاری اوزان استعمال کرنے پڑتے ہیں تاکہ وہ تیزی سے مطلوبہ گہرائی تک پہنچ سکیں۔ بغیر کسی سہارے کے آج تک سب سے گہرائی تک جا کر صحیح سلامت واپس لوٹنے والے فرد کا ریکارڈ 72 میٹر ہے (اس کتاب کے چھپنے کے بعد یہ ریکارڈ نیوزی لینڈ کے ایک بندے نے توڑا ہے جس کا نام ولیم ٹروبرج ہے اور وہ اپریل 2008 میں 86 میٹر کی گہرائی تک گیا تھا)۔ اس ریکارڈ کو ایک اطالوی امبرٹو پلیزاری نے 1992 میں قائم کیا تھا جو اس گہرائی پر انتہائی مختصر وقفے کو رک کر واپس سطح آب پر لوٹا۔ خشکی پر دیکھیں تو فٹبال کا میدان 72 میٹر سے زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ اب اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہمیں سمندروں پر کتنا کنٹرول ہے۔

تاہم دیگر جاندار پتہ نہیں کیسے سمندری گہرائیوں میں زندہ رہ لیتے ہیں۔ سمندر میں سب سے گہرا مقام آج تک جو دریافت ہوا ہے، وہ ماریانا ٹرنچ کہلاتا ہے۔ اس کی گہرائی تقریباً 11.3 کلومیٹر ہے۔ اس جگہ پانی کا دباؤ 16٫000 پاونڈ فی مربع انچ ہوتا ہے۔ آج تک اتنی گہرائی میں صرف ایک بار تھوڑی دیر کے لیے انسان انتہائی سخت مشین میں سوار ہو کر گیا ہے۔ تاہم یہاں چپٹے جسم والے سمندری حشرات پائے جاتے ہیں جن پر کوئی حفاظی خول نہیں ہوتا۔ اگرچہ زیادہ تر سمندر اتنے گہرے نہیں ہوتے لیکن پھر بھی 4 کلومیٹر نیچے پانی کا دباؤ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے سیمنٹ سے لدے 14 ٹرکوں کے نیچے دب جائیں۔

زیادہ تر لوگ بشمول سمندری علوم پر کتابوں کے مصنف بھی یہ سوچتے ہیں کہ اتنے زیادہ دباؤ کے نیچے انسانی جسم پچک کر رہ جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے جسم کا زیادہ تر حصہ پانی سے بنا ہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے فرانسس ایش کرافٹ کے بقول، ‘پانی کو پچکایا نہیں جا سکتا اور ہمارا جسم انتہائی گہرائی میں بھی اس دباؤ یعنی بیرونی پانی کے برابر ہی رہے گا’۔ تاہم اصل مسئلہ گیسوں کا ہوتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں میں موجود گیسیں دباؤ کے تحت پچک سکتی ہیں، تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ کس دباؤ پر یہ پچکاؤ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل تک یہ عام تصور تھا کہ 100 میٹر سے زیادہ گہرائی تک جانے والے بندے کے پھیپھڑے پھٹ جائیں گے یا سینے کی دیوار پھٹ جائے گی اور وہ مر جائے گا۔ تاہم فری ڈائیورز اکثر اس سے زیادہ گہرائی تک جاتے رہتے ہیں۔ ایش کرافٹ کے بقول، ‘انسان وہیل اور ڈولفن سے غیر متوقع حد تک مماثل ہیں ‘۔

تاہم اور بہت کچھ خراب ہو سکتا ہے۔ جب غوطہ خوری کے لباس ہوتے تھے تو انہیں سطح آب پر پائپ کے ذریعے جوڑا جاتا تھا۔ بعض اوقات گڑبڑ ہو جاتی تھی۔ اگر سطح پر موجود پمپ خراب ہو جائے تو غوطہ خوری کے لباس سے ہوا انتہائی شدت سے نکلتی اور بدقسمت غوطہ خور ہوا کی شدت کے ساتھ کھینچ کر ہیلمٹ اور پائپ میں چلا جاتا۔ جب انہیں باہر نکالا جاتا تو ‘لباس کے اندر محض ہڈیاں اور گوشت کے چند لوتھڑے ہی بچتے تھے۔ 1947 میں ماہرِ حیاتیات جے بی ایس ہالڈین نے لکھا کہ، ‘ایسا حقیقت میں کئی بار ہو چکا ہے ‘۔

(اصلی ہیلمٹ جو کہ 1823 میں انگریز موجد چارلس ڈین نے ایجاد کیا، کو غوطہ خوری کے لیے نہیں بلکہ آگ بجھانے کے عملے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ اسے سموک ہیلمٹ کہا جاتا تھا۔ دھاتی ہونے کی وجہ سے یہ گرم اور بھاری تھا اور جلد ہی ڈین کو علم ہو گیا کہ آگ بجھانے والے افراد کو ہرگز ایسے ہیلمٹ سے کوئی دلچسپی نہیں کہ جسے پہن کر وہ جلتی ہوئی عمارات میں داخل ہوں تو گرمی کے مارے ان کا اپنا دماغ کھولنے لگے۔ اپنے سرمائے کو بچانے کے لیے اس نے اس ہیلمٹ کو زیرِ آب آزمایا تو اسے کامیاب پایا۔ )

گہرائی کا اصل خطرہ در اصل مروڑ تھے، اس وجہ سے نہیں کہ وہ تکلیف دہ تھے بلکہ اس وجہ سے بھی وہ بکثرت ہوتے تھے۔ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، اس میں 80 فیصد نائٹروجن ہوتی ہے۔ جب انسانی جسم پر دباؤ پڑتا ہے تو یہ نائٹروجن بلبلوں کی شکل میں تبدیل ہو کر دورانِ خون کے راستے عضلات تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ دباؤ بہت تیزی سے بدلا جائے جیسا کہ غوطہ خور انتہائی تیزی سے سطح کو واپس لوٹے تو جسم کے اندر موجود یہ بلبلے پھٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شریانیں بند ہو جاتی ہیں اور خلیوں کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے۔ نیتجتاً اتنا سخت درد ہوتا ہے کہ جیسے انسان کو کوئی نچوڑ رہا ہو۔

اس کیفیت کا سامنا موتیوں کو نکالنے والے غوطہ خور عرصہ قدیم سے کر رہے تھے لیکن مغربی دنیا کو اس بارے 19ویں صدی میں علم ہوا۔ یہ لوگ زیرِ آب جا کر پلوں کے ستون تعمیر کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ہوا بند خانے بنائے جاتے تھے جن سے پانی کو نکال دیا جاتا تھا اور دباؤ والی ہوا ڈال دی جاتی تھی۔ جب یہ لوگ واپس سطح آب پر لوٹتے تو انہیں اکثر جلد پر ہلکی سی گدگدی یا خارش سی محسوس ہوتی۔ تاہم بعض افراد ایسے بھی تھے کہ جنہیں جوڑوں میں شدید درد ہوتا اور بعض اوقات وہ درد کی شدت سے گر جاتے اور کبھی نہ اٹھ پاتے۔

یہ باتیں بہت حیران کن تھیں۔ بعض اوقات جب مزدور سونے جاتے تو بالکل ٹھیک ہوتے اور جب اٹھتے تو مفلوج ہوتے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ وہ بیدار ہی نہ ہوتے۔ ایش کرافٹ نے ایک بار لکھا کہ دریائے تھیمز کے نیچے ایک زیرِ آب سرنگ کی تعمیر کے بعد جب کمپنی کے افسران نے جا کر ایک رسمی تقریب منائی۔ تاہم جب انہوں نے شیمپئن کی بوتل کھولی تو جھاگ نہ بنی۔ لوگ اس پر کافی متعجب ہوئے۔ تاہم جب وہ سرنگ سے نکل کر بیرونی فضاء میں پہنچے تو جھاگ بننے کا عمل اچانک شروع ہو گیا اور ان کے نظامِ انہضام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔

اگر بلند دباؤ والے ماحول سے یکسر کنارہ کرنا ممکن نہ ہو تو پھر مروڑ سے بچنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گہرائی میں انتہائی کم وقت گزارا جائے تاکہ دباؤ میں آنے والی تبدیلی زیادہ دیر نہ رہ سکے۔ اسی وجہ سے فری ڈائیورز پانی کے اندر ڈیڑھ سو میٹر کی گہرائی تک بھی چلے جاتے ہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی کہ ان کا قیام اتنے مختصر وقت کو ہوتا ہے کہ خون میں موجود نائٹروجن کو بلبلے بننے اور پھٹنے کا وقت نہیں ملتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ واپسی کے سفر میں جگہ جگہ رک کر دباؤ کو سہا جائے۔ اس طرح جو بلبلے تھوڑی مقدار میں بنتے بھی ہیں، وہ آسانی سے پھٹتے ہیں اور تکلیف کا سبب نہیں بنتے۔

آج بھی انتہائی دباؤ میں زندہ رہنے کے لیے ہمارے زیادہ تر علم کا سہرا دو غیر معمولی سائنس دان باپ بیٹے کو جاتا ہے۔ برطانوی اعتبار سے بھی یہ دونوں انتہائی سنکی تھے۔ باپ 1860 میں سکاٹش نواب کے ہاں پیدا ہوا۔ تاہم اس نے زیادہ تر وقت آکسفورڈ میں علم الابدان کے پروفیسر کے طور پر گزارا۔ اس کی غائب دماغی مشہور تھی۔ ایک بار اس کی بیوی نے دعوت کی خاطر اسے اوپری منزل پر لباس تبدیل کرنے بھیجا تو موصوف اوپر بستر پر جا کر سو گئے۔ جب بیدار کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ چونکہ اوپر پہنچ کر اس نے خیال کیا کہ وہ کپڑے اتار رہا تھا تو اس لیے سونے کا وقت ہو گیا ہو گا۔ تعطیلات کے بارے اس کا خیال تھا کہ یہ وقت کارنوال جا کر کان کنوں میں پھٹنے کا وقت پیٹ کے کیڑوں پر تحقیق کرنے پر لگانا چاہیے۔ آلڈس ہکسلے جو کہ مشہورِ زمانہ ٹی ایچ ہکسلے کا پوتا تھا، ان دنوں ان باپ بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اکثر ان کی نقلیں اتارتا تھا اور اپنے ایک ناول میں اس کا مضحکہ اڑایا تھا۔

غوطہ خوری پر اس کا احسان یہ تھا کہ اس نے وہ وقفے دریافت کیے کہ جن پر رکتے ہوئے اگر غوطہ خور سطح کو پہنچیں تو وہ مروڑ سے بچ جائیں گے۔ تاہم ہالڈین کے مشاغل علم الابدان سے متعلق تھے جو کوہ پیماؤں کو بلندی پر ہونے والی بیماری سے لے کر صحرائی علاقوں میں لوگوں کو لُو لگنے تک محیط تھے۔ اس کا خاص مشغلہ زہریلی گیسوں کے انسانی جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کا مطالعہ کرنا بھی تھا۔ کانوں میں کاربن مونو آکسائیڈ کے پھیلنے سے کان کنوں کے مرنے کی وجوہات کا مطالعہ کرنے کے لیے اس نے خود کو منظم طریقے سے اس گیس کا عادی کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ خون میں گیس کی مقدار چیک کرتا رہا۔ جب تک اس کے تمام عضلات جواب دینے کے مرحلے پر نہ پہنچتے، اس کا تجربہ جاری رہتا۔ ٹریور نارٹن نے اپنی کتاب Stars beneath the Sea میں لکھا ہے کہ اس وقت خون میں کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار 56 فیصد تک پہنچ جاتی تھی جو یقینی مہلک مقدار سے انتہائی معمولی سی کم ہوتی تھی۔

ہیلڈن کا بیٹا جیک عجیب انسان تھا۔ اس نے اپنے والد کی تحقیقات میں بچپن سے ہی دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ تین سال کی عمر میں ایک بار اسے اپنے باپ سے یہ کہتے سنا گیا، ‘کیا یہ آکسی ہیموگلوبن ہے یا کارباکسی ہیموگلوبن؟’ کم عمری میں اس نے اپنے باپ کے تجربات میں مدد کی۔ لڑکپن میں باپ بیٹا گیس کی ٹیسٹنگ میں باریاں لیتے کہ کون کتنی دیر میں بیہوش ہوتا ہے۔

جیک نے کبھی سائنسی تعلیم تو نہیں حاصل کی (اس نے آکسفورڈ سے کلاسیکس کی ڈگری لی تھی)، تاہم وہ ایک بہترین سائنس دان بنا۔ اس کا زیادہ تر کام حکومت کے لیے اور کیمبرج میں ہوتا تھا۔ حیاتیات دان پیٹر میڈیور نے ساری زندگی انتہائی ذہین افراد کے درمیان گزاری، کے خیال میں، ‘زندگی بھر ہالیڈین سے زیادہ چالاک انسان نہیں دیکھا’۔ ہکسلے نے اپنے ناول Antic Hay میں اس کا بھی مضحکہ اڑایا۔ تاہم اس نے اپنے نئے ناول Brave New World کی بنیاد کے لیے اس کے نظریات بھی استعمال کیے۔ دیگر کارناموں کے علاوہ اس کا اہم کارنامہ ڈارون کے ارتقائی نظریہ کو گریگر مینڈل کے کام سے ملا کر ‘ماڈرن سنتھیسز’ بنانا تھا۔

انسانی نکتہ نظر سے یہ بات شاید بہت عجیب لگے، لیکن شاید نوجوان ہالڈین واحد انسان تھا جس نے پہلی جنگِ عظیم سے بہت حِظ اٹھایا اور کھلے عام اقرار کیا کہ ‘انسانوں کو قتل کرنے میں بہت مزہ آیا۔ ‘ دو بار وہ خود بھی زخمی ہوا۔ جنگ سے فارغ ہو کر اس نے خود کو سائنس کی ترویج کے لیے وقف کر دیا اور کل 23 کتب اور 400 سے زیادہ مقالے بھی لکھے۔ آج بھی اس کی کتب بہت دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں اور مشکل سے ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے مارکسی نظریات کو اپنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ سوویت یونین میں پیدا ہوا ہوتا تو کٹر مونارکسٹ ہوتا۔ عموماً اس کے مضامین سب سے پہلے کمیونسٹ ڈیلی ورکر میں چھپتے۔

جہاں باپ کی دلچسپی کا محور کان کنی اور اس سے متعلق زہریلے واقعات تھے، بیٹے کو آبدوزوں اور غوطہ خوروں کو ان کے کام سے متعلق مشکلات دور کرنے کا جنون تھا۔ بحریہ کے پیسوں سے اس نے ایک ڈی کمپریشن چیمبر خریدا اور اسے ‘پریشر پاٹ’ کا نام دیا۔ اس دھاتی سلنڈر میں بیک وقت تین افراد بیٹھ سکتے تھے اور انہیں وہاں قید کر کے ان پر مختلف تجربات کیے جاتے تھے۔ یہ تجربات ہمیشہ تکلیف دہ اور تقریباً ہمیشہ ہی خطرناک ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر رضاکاروں کو برفاب پانی میں بٹھا کر خاص ہوا میں سانس لینے کو کہا جاتا یا پھر دباؤ کو تیزی سے تبدیل کیا جاتا۔ ایک تجربے میں ہالڈین نے خود پر اس طرح کا تجربہ کیا کہ اگر وہ بہت تیزی سے سمندر کی گہرائی سے اوپر اٹھے تو کیا ہو گا۔ اس کے دانتوں میں بھرا ہوا سکہ پھٹ گیا۔ نارٹن کے مطابق ‘تقریباً ہر تجربے کے بعد کسی نہ کسی کو یا تو دورہ پڑتا، جریانِ خون ہوتا یا پھر الٹی کرتے نکلتے۔ چونکہ یہ خانہ ہوا بند تھا اس لیے کسی بھی مشکل کے لیے اندر موجود افراد کو چھوٹی سی کھڑکی کے تحریر لکھ کر لگانی ہوتی یا پھر اندرونی دیوار کو مسلسل بجا کر اشارہ کرنا ہوتا۔

ایک اور موقعے پر ہالڈین نے آکسیجن کی اونچی مقدار میں سانس لینے کی کوشش کی اور نتیجتاً پڑنے والا دورہ اتنا شدید تھا کہ اس کی کمر کے کئی مہرے پچک گئے اور چھ سال تک اس کا نچلا دھڑ بیکار رہا۔

ہالڈین کے مشاغل میں سے ایک نائٹروجن کے مضر اثرات کو سمجھنے کی کوشش بھی تھا۔ ابھی تک ان وجوہات کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکا لیکن لگ بھگ 30 میٹر سے زیادہ گہرائی پر نائٹروجن نشہ آور بن جاتی ہے۔ اسی وجہ سے گہرائیوں میں پہنچ کر غوطہ خور مچھلیوں کو گیس ماسک دینے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر سگریٹ پینے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کا مزاج اچانک بدلنے لگ جاتا ہے۔ ایک ٹیسٹ میں ہالڈین نے دیکھا کہ ‘متعلقہ فرد مسلسل خوشی اور یاس کی کیفیات سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایک لمحے اگر وہ اس ٹیسٹ کو ختم کرنے کے لیے درخواست کر رہا تھا کہ اسے بہت برا محسوس ہو رہا ہے تو دوسرے لمحے خوشی سے قہقہے لگاتے ہوئے وہ اپنے ساتھی کے کام کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ متعلقہ فرد پر ہونے والے اثر کی پیمائش کرنے کے لیے ممتحن کو بھی ساتھ ہی چیمبر میں جانا پڑتا تھا اور چند ہی منٹ بعد متعلقہ فرد اور اس کا ممتحن، دونوں ہی ہوش کھو بیٹھتے اور ممتحن کبھی سٹاپ واچ کو چلانا یا روکنا بھول جاتا یا پھر اس کی لکھی ہوئی یاداشتیں بیکار ہوتیں۔ اس عجیب صورتحال کی وضاحت ابھی تک نہیں کی جا سکی۔ اندازہ ہے کہ نائٹروجن اسی طرح مدہوشی طاری کرتی ہے جیسے شراب، تاہم اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو پائی۔ انتہائی احتیاط کے بغیر اگر آپ خشکی چھوڑتے ہیں تو آپ کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس طرح ہم واپس اس جگہ لوٹتے ہیں جہاں ہم پہلے بھی اشارتاً بتا چکے ہیں کہ اگرچہ زمین واحد معلوم مقام ہے کہ جہاں حیات پائی جاتی ہے لیکن یہ بھی کہ زمین حیات کی نشو و نما کے لیے بہترین جگہ نہیں۔ کرہ ارض پر خشکی کی مقدار پانی سے کم ہے اور اس جگہ پر بھی اکثر جگہیں یا تو بہت گرم ہیں یا پھر بہت سرد، بہت ڈھلوان یا پھر بہت اونچی، اس لیے ہم وہاں نہیں رہ پاتے۔ اس میں زیادہ تر قصور ہمارا ہی ہے۔ ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت کی بات کی جائے تو بنی نوع انسان انتہائی نکمی ہے۔ بہت گرم جگہوں پر رہنے کے قابل نہیں ہیں کہ ہمیں پسینہ بہت آتا ہے اور جلد ہی لُو لگ سکتی ہے۔ بدترین حالات میں اگر انسان گرم صحرا میں چلا جائے تو محض سات یا آٹھ گھنٹوں میں لوگ ذہنی طور پر بہک کر گر جاتے ہیں کبھی دوبارہ نہیں اٹھ پاتے۔ اسی طرح سردی کا سامنا بھی نہیں کر پاتے۔ دیگر ممالیہ جانوروں کی مانند انسان بھی حرارت تو پیدا کرنے کے ماہر ہیں لیکن چونکہ انسانی جسم پر بال زیادہ نہیں ہوتے، اس لیے ہم اس حرارت کو محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ ہلکی سی سردی کے وقت بھی ہمارے جسم کے آدھے سے زیادہ حرارے ہمیں گرم رکھنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گرم کپڑے پہن کر اور کسی عمارت میں چھپ کر ہم اس مقدار کو کم کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود زمین کے وہ مقامات جہاں ہم رہنے کو تیار ہیں یا رہ سکتے ہیں، بہت معمولی مقدار میں ہیں۔ خشکی کا محض بارہ فیصد اور پورے کرہ ارض کا محض چار فیصد رقبہ ایسا ہے جہاں ہم رہنے کے قابل ہیں۔

معلوم کائنات میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا حالات ہیں تو ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ ہم اپنے سیارے کا کتنا معمولی حصہ استعمال کرتے ہیں بلکہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمیں ایسا سیارہ مل کیسے گیا کہ جس کا کچھ حصہ ہمارے لیے قابلِ استعمال ہے۔ اگر ہم اپنے نظامِ شمسی میں ہی دیکھیں یا بلکہ زمین کے ماضی کے کچھ ادوار کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر مقامات ہماری زمین کے برعکس زندگی کے انتہائی مخالف ہیں۔

تا دمِ تحریر سائنس دانوں نے ہمارے نظامِ شمسی سے باہر 250 سے زیادہ سیارے تلاش کیے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے اربوں کھربوں سیارے اور بھی موجود ہوں گے لیکن اس بارے یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ تاہم ایسا سمجھا جاتا ہے کہ حیات کے لیے مناسب سیارہ انتہائی نایاب ہوتا ہے اور حیات جتنی ترقی یافتہ ہو گی، ایسا سیارہ اتنی ہی مشکل سے ملے گا۔ بہت سارے محققین نے لگ بھگ دو درجن اہم ترین واقعات کو ہمارے سیارے سے منسلک کیا ہے تاہم ذیل میں اس کو چار حصوں میں منقسم کر دیا گیا ہے۔

بہترین مقام۔ انتہائی خوش قسمتی سے ہم بالکل درست قسم کے ستارے سے بالکل درست قسم کے فاصلے پر موجود ہیں۔ یہ سیارہ اتنا بڑا تو ہے کہ بہت ساری حرارت پیدا کرتا ہے لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ اپنا سارا ایندھن مختصر وقت میں صرف کر لیتا۔ طبعیات کا یہ عجیب پہلو ہے کہ جتنا بڑا ستارہ ہو گا، اتنی جلدی اپنا ایندھن خرچ کر جائے گا۔ اگر ہمارا سورج اپنے حجم سے دس گنا زیادہ بڑا ہوتا تو دس ارب سال کی بجائے محض ایک کروڑ سال میں اپنا ایندھن خرچ کر چکا ہوتا اور حیات اتنی ترقی نہ کر پاتی۔ اگر سورج اور زمین کا فاصلہ بہت کم ہوتا تو پورا کرہ ارض ابل کر مر جاتا۔ اگر ہم بہت دور ہوتے تو ہر چیز جم کر مر جاتی۔

1978 میں ایک فلکیات دان مائیکل ہارٹ نے تحقیق کر کے بتایا کہ اگر زمین اور سورج کا فاصلہ محض ایک فیصد زیادہ یا پانچ فیصد کم ہوتا تو یہاں حیات نہ پنپ سکتی۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی معمولی سی مقدار ہے۔ بعد میں اس تحقیق کو مزید بہتر بنا کر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ فاصلہ پانچ فیصد قریب یا پندرہ فیصد دور ہوتا تو حیات نہ پنپ سکتی۔ تاہم یہ فاصلہ انتہائی محدود ہے (ییلو سٹون کے ابلتے چشموں میں موجود ایکسٹریموفائلز کی دریافت سے سائنس دانوں نے یہ بات جان لی ہے کہ حیات کے لیے کوئی بھی چیز مشکل نہیں۔ عین ممکن ہے کہ پلوٹو کی یخ بستہ سطح کے نیچے بھی حیات موجود ہو؟ تاہم ہم یہاں ان شرائط کی بات کر رہے ہیں جن کی موجودگی پیچیدہ حیات کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے )۔

یہ فاصلہ کتنا کم ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہم زہرہ کو دیکھتے ہیں۔ زہرہ ہماری نسبت سورج سے اڑھائی کروڑ میل قریب ہے۔ سورج کی روشنی اور حرارت ہم تک زہرہ کی نسبت دو منٹ دیر سے پہنچتی ہے۔ اس کا حجم اور ساخت زمین سے مماثل ہے لیکن مدار کا فرق ہی اصل میں اہم ہے۔ بظاہر نظامِ شمسی کے اوائل میں زہرہ پر درجہ حرارت زمین سے ذرا سا زیادہ گرم تھا اور وہاں شاید سمندر بھی تھے۔ لیکن چند ڈگری کی اضافی حدت سے زہرہ پر پانی نہ رک سکا اور بخارات کی شکل میں اڑ گیا اور زہرہ کا کرہ ہوائی تباہ ہو گیا۔ ہائیڈروجن کے ایٹم خلاء میں نکل گئے اور آکسیجن نے کاربن سے مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا بنائی جو سبز مکانی گیس ہے۔ یہاں سے زہرہ کی تباہی شروع ہو گئی۔ میرے ہم عمر افراد کو یاد ہو گا کہ ہمارے بچپن میں سائنس دان توقع رکھتے تھے کہ زہرہ پر گہرے بادلوں کے نیچے حیات مل جائے گی۔ تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ زہرہ کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی جاندار شاید وہاں زندہ نہیں رہ پائے گا۔ زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت 470 ڈگری سیلسیس ہے۔ اس حدت پر سیسہ بھی پگھل جاتا ہے۔ اس کی سطح پر ہوا کا دباؤ زمین سے 90 گنا زیادہ ہے جو انسانی جسم برداشت نہیں کر سکتا۔ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے مطابق ایسے خلائی لباس یا خلائی جہاز بنانا ممکن نہیں جو زہرہ پر اتر سکیں۔ زہرہ کی سطح کے بارے ہماری معلومات دور سے لیے گئے ریڈار کے مطالعے پر مشتمل ہیں یا پھر 1972 میں زہرہ کی سطح پر اترنے والے روسی خلائی جہاز کے چند مشاہدات ہیں جو سطح پر اترنے کے ایک گھنٹے کے اندر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا تھا۔

جب آپ سورج سے روشنی کی رفتار کے حساب سے دو منٹ قریب ہوں تو یہ ہوتا ہے۔ جتنے دور ہوتے جائیں، مسئلہ گرمی کی بجائے ٹھنڈ کا بن جاتا ہے۔ مریخ یخ بستہ سیارہ ہے۔ کبھی یہاں بھی موسم مناسب حد تک گرم ہوتا تھا لیکن اپنا کرہ فضائی کھو دینے کے بعد یہ محض ایک یخ بستہ اور بیکار ہو کر رہ گیا ہے۔

تاہم سورج سے فاصلہ ہی اہم نہیں، ورنہ تو چاند پر بھی اس وقت جنگلات ہوتے۔ اس کے لیے ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے :

درست قسم کا سیارہ۔ پتہ نہیں کہ جب جیو فزسٹ سے پوچھا جائے کہ ہمیں کون کون سی نعمتیں ملی ہوئی ہیں تو آیا وہ اس چیز کو بھی شمار کرتے ہیں کہ ہمارے سیارے کا اندرونی حصہ پگھلے ہوئے مادے پر مشتمل ہے۔ تاہم مرکزے میں گردش کرتے ہوئے میگما کے بغیر ہمارے سیارے پر حیات ممکن نہیں تھی۔ دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے اسی میگما سے نکل کر قشرِ ارض تک پہنچنے والی گیسوں نے ہمارے سیارے کے کرہ فضائی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہی کرہ فضائی ہمیں کاسمک تابکاری سے بچاتا ہے۔ اس کے علاوہ پلیٹ ٹیکٹانکس بھی اسی کی وجہ سے ہیں جس سے زمین کی سطح مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ اگر زمین بالکل مسطح ہوتی تو ہر جگہ پانی کی بلندی چار کلومیٹر ہوتی۔ سمندر میں زندگی تو ممکن ہوتی لیکن فٹ بال تو نہ کھیلی جا سکتی۔

مفید مرکزے کے علاوہ بھی ہمیں درست عناصر کی درست مقدار درکار ہوتی ہے۔ لغوی معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم بالکل ٹھیک عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات اتنی اہم ہے کہ کچھ آگے چل کر ہم اس پر تفصیل سے بات کریں گے لیکن ابھی ہم باقی کے دور اہم عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن میں سے پہلے کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے :

ہم جڑواں سیارہ ہیں۔ ہم میں سے کم ہی کوئی چاند کو ہمارا ساتھی سیارہ سمجھتا ہے جبکہ چاند ہمارا ساتھی سیارہ ہے۔ عموماً سیارے کے حجم کے مقابلے میں ان کے چاند بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مریخ کے چاند فوبوس اور ڈیموس کا قطر محض دس کلومیٹر ہے۔ ہمارا چاند زمین کے قطر کے چوتھائی سے بھی زیادہ بڑا ہے اور اس وجہ سے کرہ ارض ہمارے نظامِ شمسی میں اپنے حجم کے تناسب اتنا بڑا چاند رکھنے والا سیارہ ہے۔ یہاں ہم پلوٹو کو شمار نہیں کر رہے کہ پلوٹو بذاتِ خود انتہائی ننھا سا ہے۔ اس کے علاوہ چاند کے کافی اثرات ہمارے کرہ ارض پر پڑتے ہیں۔

چاند کے استحکام بخش اثر کے بناء زمین ایسے گھومتی جیسے رفتار کم ہوتا ہوا لٹو گھومتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہمارے موسموں اور ہمارے ماحول پر اس کے کیا اثرات ہوتے۔ چاند کی کشش کے باعث زمین کی اپنے محور پر گردش اور رفتار درست رہتی ہے جس کی وجہ سے زمین پر حیات کی پیدائش ہوئی ہے اور اسی کی وجہ سے ہی حیات موجودہ ترقی یافتہ شکل تک پہنچ پائی ہے۔ تاہم ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ چاند ہر سال چار سینٹی میٹر کی رفتار سے ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اگلے دو ارب سالوں میں چاند ہم سے اتنی دور جا چکا ہو گا کہ اس کے اثرات زمین تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ تب ہمیں شاید کوئی اور حل نکالنا پڑے گا۔ تاہم تب تک آپ اسے آسمان پر موجود ایک خوبصورت جرمِ فلکی سمجھ سکتے ہیں۔

بہت عرصے تک فلکیات دان یہ سمجھتے رہے تھے کہ چاند یا تو زمین کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا یا پھر پاس سے گزرتے ہوئے چاند کو زمین کی کشش نے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 4.4 ارب سال قبل مریخ کے حجم کا ایک جرمِ فلکی زمین سے ٹکرایا اور اس سے نکلنے والا مادہ چاند کی شکل اختیار کر گیا۔ پہلے ایک باب میں ہم اس پر بات کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے حساب سے یہ اچھا ہی ہوا تھا اور مزید اچھا پہلو یہ ہے کہ ایسا بہت عرصہ قبل ہوا۔ اگر یہ واقعہ پچھلی صدی یا پچھلے ہفتے ہوا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس میں ہمیں کیا اچھائی دکھائی دینی تھی۔ اب وقت ہے چوتھے اور سب سے اہم عنصر کو دیکھنے کا:

بروقت۔ ہماری کائنات انتہائی تیزی سے بدلتی رہتی ہے اور ہر طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اگر انتہائی طویل اور ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ واقعات کا سلسلہ پچھلے 4.6 ارب سال سے اس خاص طریقے سے اور بروقت نہ ہوتا آیا ہوتا تو ہم آج یہاں نہ ہوتے۔ اب سوچیے کہ اگر شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسارز ختم نہ ہوئے ہوتے تو آج ہم محض چند سینٹی میٹر حجم کے ہوتے اور دم بھی ہوتی اور ہم کسی بِل میں گھسے سو رہے ہوتے۔

ہمیں یہ تو پوری طرح علم نہیں کیونکہ کسی اور چیز سے اپنے وجود کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ایسا لگتا ہے اگر آپ غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ موجودہ ترقی یافتہ مہذب معاشرے تک پہنچنے کے لیے آپ کو انتہائی زیادہ مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچنا ہو گا اور اس کے علاوہ ہمیں سکون اور پھر دباؤ کے مرحلوں سے بھی مسلسل گزرنا پڑا ہو گا (برفانی دور اس ضمن میں بہت مفید ہیں ) اور شدید تباہی کا نہ آنا خصوصاً فائدہ مند رہا ہو گا۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ پہنچنے میں ہماری خوش نصیبی کتنی ہے۔

اب ہم ان عناصر کو دیکھتے ہیں جو ہمارے وجود کے لیے لازمی ہیں۔

قدرتی طور پر کل 94 عناصر پائے جاتے ہیں۔ لگ بھگ دو درجن مزید عناصر تجربہ گاہ میں تیار کیے جاتے ہیں لیکن ابھی ہم ان کے بارے بات نہیں کریں گے۔ زیادہ تر عناصر کے بارے ہماری معلومات انتہائی محدود ہیں۔ ایسٹاٹین کی مثال لیتے ہیں۔ اس کے بارے آج تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ عناصر کے دوری جدول پر ماری کیوری والے پلونیم کے ساتھ اس کا نام اور مقام تو موجود ہے لیکن اس کے علاوہ شاید ہی اس کے بارے ہمیں کچھ علم ہو۔ مسئلہ یہ نہیں کہ سائنس دان اس سے بے توجہی برتتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عنصر انتہائی نایاب ہے۔ تاہم سب سے عجیب عنصر شاید فرانشیم ہے۔ یہ عنصر اتنا نایاب ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پورے کرہ ارض پر ایک وقت میں اس عنصر کے 20 سے کم ایٹم پائے جاتے ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے کل عناصر میں سے شاید 30 عناصر ایسے ہیں جو ہماری زمین پر بکثرت پائے جاتے ہیں اور ان میں سے بمشکل نصف درجن ہی حیات کے لیے لازمی ہیں۔

آپ کو اندازہ تو ہو گا ہی کہ زمین پر سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر آکسیجن ہے جو قشرِ ارض کے تقریباً نصف کے برابر ہے۔ تاہم یہ بہت بڑی مقدار ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ زمین پر دوسرا سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر سیلیکان ہے اور ٹائٹینیم دسویں نمبر پر ہے۔ کسی بھی عنصر کی کثرت کا اس کے بارے معلومات یا اس کی افادیت کا اندازہ نہیں لگ سکتا۔ بہت کم پائے جانے والے عناصر کے بارے شاید ہم بہت زیادہ جانتے ہوں گے۔ زمین پر تانبے کی نسبت سیریئم زیادہ پایا جاتا ہے، کوبالٹ اور نائٹروجن کی نسبت نیوڈائمیم اور لنتھانم زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جست بمشکل ہی پہلے پچاس میں جگہ پاتا ہے جبکہ پراسیوڈیمم، سماریم، گڈولینیئم اور ڈائسپروسیم اس سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔

بکثرت پایا جانا اور اس کی تلاش میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔ المونیم چوتھا بکثرت عنصر ہے ہمارے قدموں تلے موجود زمین کا دسواں حصہ اسی سے بنا ہے لیکن اس کے بارے سب سے پہلے ہمفری ڈیوی نے انیسویں صدی میں انکشاف کیا۔ طویل عرصے تک اسے نایاب اور قیمتی دھات سمجھا جاتا رہا۔ ایک بار امریکی کانگریس نے تو فیصلہ کر لیا تھا کہ واشنگٹن کی یادگار کے اوپر المونیم کی تہہ چڑھا دی جائے تاکہ دنیا کو امریکہ کی امارت پر کوئی شبہ نہ رہے۔ اسی دور میں فرانسیسی شاہی خاندان نے چاندی کے برتنوں اور چھری کانٹوں کو پھینک کر المونیم کا سامان اپنا لیا۔ فیشن کتنا ہی جدید کیوں نہ رہا ہو، چھریاں چاقو بالکل کند ہو کر رہ گئے تھے۔

کسی چیز کی کثرت سے بھی اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ کاربن پندرھواں کثیر عنصر ہے اور قشرِ ارض کا محض 0.048 فیصد حصہ کاربن سے بنا ہے۔ تاہم کاربن کے بناء حیات کا تصور بھی ممکن نہیں۔ کاربن کی خوبی کا ہرجائی پن ہے کہ یہ ہمیشہ بہت سارے دوسرے عناصر کے ساتھ ملنے کو تیار رہتا ہے۔ کاربن کا ہر ایٹم بے شمار دیگر ایٹموں اور اپنے جیسے دوسرے کاربن کے ایٹموں سے جڑ کر انتہائی پیچیدہ اشکال اختیار کرتا ہے اور یہی چیز پروٹین اور ڈی این اے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ پال ڈیویز نے لکھا، ‘اگر کاربن نہ ہوتی تو حیات کی موجودہ شکل ممکن نہیں تھی۔ شاید کسی قسم کی زندگی بھی ممکن نہیں۔ ‘ کاربن اتنا بھی عام نہیں حالانکہ ہمارا سارا انحصار اسی پر ہے۔ ہمارے جسم کے ہر 200 ایٹموں میں سے 126 ہائیڈروجن، 51 آکسیجن اور باقی میں سے محض 19 کاربن کے ایٹم ہوتے ہیں (بقیہ 4 ایٹموں میں سے 3 نائٹروجن اور باقی ایک ایٹم تمام دیگر عناصر کے لیے بچتا ہے )۔

دیگر کچھ عناصر حیات کی تخلیق کی بجائے اس کو دوام بخشنے کے کام آتے ہیں۔ ہمیں ہیموگلوبن بنانے کے لیے فولاد درکار ہے اور اس کے بناء ہم زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ کوبالٹ ہمیں حیاتینب 12 کے لیے درکار ہوتا ہے۔ پوٹاشیم اور معمولی مقدار میں سوڈیم ہمارے اعصاب کے لیے لازمی ہیں۔ مولبڈیم، مینگانیز اور وینیڈیم کی مدد سے ہمارے خامرے پیدا ہوتے ہیں۔ جست کی مدد سے شراب کا اثر ختم ہوتا ہے۔

ہم نے مختلف اشیاء کو مفید بنانا یا انہیں برداشت کرنا سیکھ لیا ہے۔ ورنہ ہمارے لیے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ اس کے باوجود بھی ہماری حیات انتہائی تنگ حدوں میں رہ رہی ہے۔ سیلینیم ہمارے لیے لازمی ہے لیکن اگر آپ اس کی زیادہ مقدار کھا لیں تو موت بھی آ سکتی ہے۔ کوئی جاندار کس چیز کو کتنی حد تک برداشت کر سکتا ہے، وہ اس کے ارتقائی مراحل پر منحصر ہے۔ بھیڑ اور مویشی بظاہر ایک ہی جیسی خوراک کھاتے ہیں لیکن دونوں کی غذائی ضروریات ایک دوسرے سے بہت فرق ہیں۔ موجودہ مویشیوں کو بہت زیادہ مقدار میں تانبہ درکار ہوتا ہے کہ ان کا ارتقاء یورپ اور افریقہ میں ہوا ہے جہاں تانبہ عام ملتا ہے۔ بھیڑیں ایشیائے کوچک سے آئی ہیں جہاں تانبے کی قلت ہوتی ہے۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ کسی عنصر کو برداشت کرنے کی صلاحیت اس عنصر کی کثرت سے منسلک ہوتی ہے۔ بہت سارے عناصر کو معمولی مقدار میں برداشت کرنا ہماری ارتقائی مجبوری ہے کہ جو گوشت ہم کھاتے ہیں، ان میں ان عناصر کی معمولی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اکثر تو یہ عناصر ہمارے لیے مفید بھی ہوتے ہیں۔ تاہم انتہائی معمولی مقدار سے اگر ہم تھوڑا سا بھی تجاوز کر جائیں تو موت سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں ان کے بارے زیادہ علم بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آرسینک کی معمولی سی مقدار ہماری بقا کے لیے ضروری ہے یا نہیں۔ بعض سائنس دان ہاں کہتے ہیں تو کچھ کا جواب نہ میں ہوتا ہے۔ تاہم ہر ایک کا اتفاق ہے کہ آرسینک کی زیادہ مقدار مہلک ہوتی ہے۔

عناصر کو جب دوسرے عناصر سے ملایا جاتا ہے تو ان کی خصوصیات بدل جاتی ہیں۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کی مثال لے لیں۔ دونوں آگ لگانے اور اسے جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دونوں کو ملائیں تو آگ بجھانے والا پانی بن جاتا ہے (آکسیجن خود تو آتش گیر نہیں لیکن دیگر چیزوں کو جلنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر آکسیجن آتش گیر ہوتی تو ماچس جلاتے ہی ہمارے ارد گرد فضاء کو آگ لگ جاتی۔ ہائیڈروجن بلا شبہ آتش گیر ہے جیسا کہ 6 مئی 1937 کے روز ہنڈن برگ کے حادثے سے ہمیں پتہ چلا تھا اور 36 آدمی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے )۔ سوڈیم کے جوڑ اور بھی عجیب تر ہوتے ہیں۔ سوڈیم قدرتی طور پر پائے جانے والے عناصر میں سے انتہائی غیر مستحکم سمجھا جاتا ہے اور جب اسے انتہائی زہریلی کلورین سے ملایا جائے تو ہمارے کھانے کا نمک بنتا ہے۔ خالص سوڈیم کے ٹکڑے کو پانی میں پھینک دیں تو دھماکے سے پھٹے گا۔ کلورین انتہائی خطرناک گیس ہے۔ بہت کم مقدار میں اس کی مدد سے پانی میں موجود خورد بینی جاندار مارے جا سکتے ہیں (بلیچ سے آنے والی بو کلورین کی ہوتی ہے )، زیادہ مقدار میں کلورین ہمارے لیے مہلک ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں کیمیائی ہتھیاروں میں کلورین کو بہت زیادہ استعمال کیا گیا تھا۔ پانی کے تالاب میں نہانے جائیں تو آنکھیں جلتی ہیں کیونکہ پانی میں انتہائی معمولی مقدار میں کلورین ملی ہوتی ہے۔

موٹا اصول یہ سمجھ لیں کہ اگر کوئی عنصر قدرتی طور پر ہمارے اندر نہیں پہنچتا یا یوں کہہ لیں کہ وہ پانی میں نہیں گھلتا تو ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ سیسے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سیسے کو پانی کے پائپوں اور خوراک کے ڈبوں میں استعمال کرنا شروع ہوئے ہیں (سیسے کو لاطینی مخفف Pb یعنی plumbum سے ظاہر کیا جاتا ہے اور اسے لفظ Plumbing نکلا ہے )۔ رومن اپنی شراب میں سیسہ ملاتے تھے۔ اس کے علاوہ پارہ، کیڈمیم اور دیگر صنعتی آلودگیوں سے ہم روزانہ اپنے آپ کو زہر کھلاتے ہیں۔ اگر کوئی عنصر قدرتی طور پر زمین پر نہیں ملتا تو ہم اس کو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے اور وہ انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔ پلوٹونیم کی کوئی بھی مقدار ایسی نہیں جو آپ کو بیمار نہ کر دے۔

مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے لیے زمین اتنی فائدے مند اس لیے ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ارتقاء کے عمل سے گزرے ہیں۔ یعنی زمین زندگی کے لیے نہیں بنی بلکہ زندگی نے زمین پر جینا سیکھ لیا ہے۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن سے زندگی کا وجود ممکن ہوا ہے، چاہے وہ مناسب فاصلے پر موجود مناسب حجم کا سورج ہو، چاند ہو، ہرجائی کاربن ہو کہ زمین کے اندر موجود پگھلا ہوا لاوا، ہم ان سب سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ دیگر دنیاؤں میں پارے کی سنہری جھیلیں ہوں اور مخلوقات امونیا کے بادلوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں۔ ان کی زمین میں کوئی پلیٹ ٹیکٹانکس نہیں اور نہ ہی لاوا اگلتے آتش فشاں ہیں۔ بلکہ ان کی زندگی انتہائی امن اور سکون سے گزرتی ہے۔ اگر ایسی کوئی مخلوق زمین پر آئی تو شاید یہ دیکھ کر حیران رہ جائے کہ نائٹروجن جیسی بے ضر ر گیس سے بنی فضاء میں ہم کیسے رہ لیتے ہیں اور جہاں آکسیجن جیسی آگ جلانے میں مدد دینے والی گیس بھی پائی جاتی ہے؟ اس سے زیادہ حیرت انہیں شاید آکسیجن میں سانس لینے والی مخلوق کو دیکھ کر ہو کہ جو خریداری اور فلموں کی شوقین ہے۔ ہمارے کھانے اس مخلوق کے لیے زہر کا درجہ رکھتے ہوں گے کہ زمین کے عناصر ان کے لیے نئے ہوں گے۔ ان کے لیے زمین پر رہنا عذاب سے کم نہیں ہو گا۔

مشہور طبعیات دان رچرڈ فین مین جانی ہوئی حقیقت سے ممکنہ صورتحال کی طرف جانے کا لطیفہ سناتے تھے۔ مثال کے طور پر ‘آج میں نے ایک کار دیکھی جس کی نمبر پلیٹ ARW 357 تھی۔ اس ریاست میں موجود لاکھوں کاروں میں سے مجھے یہ کار کیسے دکھائی دے گئی؟ ہے نا معجزہ؟’ ان کا مقصد یہ تھا کہ عام سی بات کو بھی چاہیں تو بڑھا چڑھا کر پیش کر سکتے ہیں۔

یعنی یہ بات عین ممکن ہے کہ جن وجوہات اور شرائط کے تحت زمین پر حیات وجود میں آئی، شاید وہ اتنی عجیب نہ ہوں۔ چاہے وہ وجوہات عجیب ہوں یا نہ ہوں، جب تک بہتر متبادل نہ ملے، ہمیں انہی پر گزارا کرنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

17 بالائی فضاء میں

 

شکر ہے کہ فضا موجود ہے جو ہمیں گرم رکھتی ہے۔ اس کے بغیر ہمارا کرہ ارض بے جان اور برف ہوتا اور اس کا اوسط درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسیس ہوتا۔ اس کے علاوہ ہماری فضا کائناتی شعاعوں، بار دار ذرات، بالائے بنفشی شعاعوں وغیرہ کو بھی روکتی ہے۔ سارے کرہ فضائی کی موٹائی تقریباً ساڑھے چار میٹر موٹی کنکریٹ کی تہہ کے برابر حفاظتی تہہ بناتی ہے۔ اس کے بغیر یہ نادیدہ ذرات ہمارے جسموں کو ننھے منے خنجروں کی طرح چھیدتے ہوئے گزر جاتے۔ اگر فضا سے گزرتے ہوئے بارش کے قطرے بھی سُست نہ پڑتے تو ان کی چوٹ سے ہم بے ہوش ہو سکتے تھے۔

ہماری فضا کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بہت ہی معمولی سی مقدار میں ہے۔ زمین کی سطح سے 190 کلومیٹر بلندی تک یہ پھیلی ہوئی ہے۔ اگر ہم زمین پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ موٹائی کافی زیادہ دکھائی دیتی ہے مگر دور سے دیکھا جائے جب زمین ایک عام گلوب کے برابر ہو تو یہ موٹائی پینٹ کی محض دو تہوں کے برابر ہے۔

سائنسی اعتبار سے ہماری فضا کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے : ٹروپوسفیئر، سٹریٹوسفیئر، میسوسفیئر اور آئنوسفیئر (اسے اب تھرموسفیئر بھی کہا جاتا ہے )۔

ٹروپوسفیئر ہمارے لیے سب سے اہم ہے کیونکہ اسی سے ہمیں حدت اور آکسیجن ملتی ہے جس سے ہم سانس لیتے اور اپنے کام کرتے ہیں۔ تاہم جب ہم اوپر کی طرف حرکت کرتے ہیں تو یہی تہہ زندگی کے لیے ناموافق ہوتی جاتی ہے۔ زمین سے اس کی انتہائی بلندی خطِ استوا پر لگ بھگ 16 کلومیٹر جبکہ معتدل علاقوں پر جہاں زیادہ تر انسانی آبادی بستی ہے، اس کی موٹائی 10 سے 11 کلومیٹر ہوتی ہے۔ اس تہہ کو گھومتی تہہ بھی کہا جاتا ہے۔ ہماری فضا کی کمیت کا 80 فیصد حصہ اسی تہہ میں موجود ہے۔ تمام تر آبی بخارات اور موسم سے متعلق تمام چیزیں اسی تہہ میں موجود ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ معدومیت اور ہمارے درمیان موجود فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ٹروپوسفیئر کے بعد والی تہہ سٹریٹوسفیئر کہلاتی ہے۔ جب طوفان کے اٹھتے ہوئے بادل بلندی پر جا کر اچانک پھیل جاتے ہیں تو وہ مقام در اصل ان دونوں تہوں کی درمیانی حد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس غیر مرئی تہہ کو Stratopause کہتے ہیں اور اسے 1902 میں ایک فرانسیسی de Bort نے غبارے میں پرواز کرتے ہوئے دریافت کیا تھا۔ Pause کا مطلب عارضی طور پر رکنا نہیں بلکہ یہ مستقل حد ہوتی ہے۔ اس لفظ کی جڑیں لاطینی کے menopause سے نکلی ہیں۔ ٹروپوسفیئر کوئی بہت موٹی تہہ نہیں بلکہ اگر جدید لفٹ میں بیٹھ کر اوپر کو جانا ممکن ہو تو بیس منٹ میں آپ وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ تاہم ایسے سفر کے لیے آپ کو بہت محتاط رہنا ہو گا۔ بغیر دباؤ کے اگر آپ اتنی بلندی کا سفر اتنی تیزی سے طے کریں گے تو پھیپھڑوں اور دماغ میں سوجن ہو سکتی ہے یعنی ان میں خطرناک حد تک مائعات جمع ہو جائیں گے۔ جب اوپر پہنچ کر لفٹ کے دروازے کھلیں گے تو لفٹ میں موجود ہر انسان یا تو مر چکا ہو گا یا پھر مرنے ہی والا ہو گا۔ اگر آپ آہستہ آہستہ بھی اوپر جائیں تو بھی کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا کہ سطح سے دس کلومیٹر بلندی کا درجہ حرارت منفی 57 ڈگری سیلسیس ہو گا۔ اس وقت آپ کو اضافی آکسیجن کی بھی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہو گی۔

جب آپ ٹروپوسفیئر سے نکلتے ہیں تو درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے اور چار ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جو اوزون کے حرارت جذب کرنے کے عمل سے ہوتا ہے۔ یہ بھی مندرجہ بالا فرانسیسی سائنس دان نے دریافت کیا تھا۔ پھر درجہ حرارت دوبارہ منفی 90 ڈگری سیلسیس تک گرتا ہے اور پھر تھرموسفیئر میں یہ درجہ حرارت اچانک 1500 ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ اس جگہ دن اور رات میں درجہ حرارت کا فرق 500 ڈگری سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اتنی بلندی پر درجہ حرارت کی محض علامتی اہمیت رہ جاتی ہے۔ درجہ حرارت بنیادی طور پر مالیکیولوں کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے۔ سطح سمندر پر ہوا کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مالیکیول کو حرکت کرنے کے لیے انتہائی معمولی جگہ ملتی ہے جو ایک سینٹی میٹر کے اسی لاکھویں حصے کے برابر ہوتی ہے، اور پھر وہ دوسرے مالیکیول سے ٹکرا جاتا ہے۔ چونکہ کھربوں کی تعداد میں مالیکیول ہر وقت ٹکرا رہے ہوتے ہیں، اس لیے بہت ساری توانائی منتقل ہوتی ہے۔ تھرموسفیئر کی انتہائی بلندی پر، جو کہ 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ بلندی پر ہوتی ہے، ہوا اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ مالیکیولوں کا درمیانی فاصلہ کئی کلومیٹر پر محیط ہوتا ہے۔ اس لیے چاہے مالیکیول کتنے ہی گرم کیوں نہ ہوں، حرارت کو ایک مالیکیول سے دوسرے میں منتقلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یہ بات مصنوعی سیاروں اور خلائی جہازوں کے لیئے بہت مفید ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو مدار میں موجود خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کو گردش کی وجہ سے آگ لگ جاتی۔

اس کے باوجود بھی مدار سے زمین کو لوٹتے وقت خلائی جہازوں کو انتہائی احتیاط کرنی پڑتی ہے جیسا کہ فروری 2003 میں کولمبیا خلائی شٹل کی تباہی سے ظاہر ہے۔ اگرچہ اس جگہ فضا انتہائی ہلکی ہے، مگر اس میں داخل ہوتے وقت اگر خلائی جہاز کا زاویہ بہت ڈھلوان ہو یعنی چھ ڈگری سے زیادہ ہو تو اس سے ٹکرانے والے مالیکیول اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ خلائی جہاز کو آگ لگ سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ زاویہ چھ ڈگری سے کافی کم ہو تو خلائی جہاز ایسے اچٹ جائے گا جیسے پانی پر پتھر پھینکا جائے تو وہ اچھلتا جاتا ہے۔

تاہم زمین سے اپنی قربت کے بارے جاننے کے لیئے آپ کو خلا تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہمیں زمین سے بہت بلندی پر جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارا جسم مشکلات کا شکار ہونے لگ جاتا ہے۔ تجربہ کار کوہ پیما انتہائی صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اور اضافی آکسیجن کے باوجود بھی بلندی پر جاتے ہی الجھن، متلی، تھکاوٹ، فراسٹ بائٹ، ہائپو تھرمیا، سردرد، بھوک نہ لگنا اور دیگر بے شمار مسائل کا شکار ہونے لگ جاتے ہیں۔ ہر ممکن طریقے سے ہمارا جسم ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں سطح سمندر سے بہت زیادہ اوپر نہیں جانا چاہیے۔

تجربہ کار کوہ پیما پیٹر ہیبلر نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چڑھائی کے بارے لکھا، ‘انتہائی سازگار حالات میں بھی اتنی بلندی پر ہر قدم انتہائی سخت عزم مانگتا ہے۔ ہر حرکت کے لیے آپ خود کو مجبور کرتے ہیں۔ ہر وقت انتہائی شدید تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘ اپنی کتاب The Other Side of Everest میں برطانوی کوہ پیما اور فلم ساز میٹ ڈکنسن نے 1924کی برطانوی مہم کے دوران ہاورڈ سمرویل کے بارے لکھا ہے کہ ‘اچانک اس کی سانس رک گئی اور انتہائی شدید کوشش کے بعد اس نے جو چیز کھانس کر نکالی، وہ اس کے گلے کی میوکس ممبرین تھی۔ ‘

7500 میٹر کی بلندی پر جسمانی دباؤ مشہور ہے۔ کوہ پیما اس علاقے کو ‘موت کا علاقہ’ کہتے ہیں۔ تاہم 4500 میٹر کی بلندی پر ہی بے شمار لوگ انتہائی شدید بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس چیز کا صحت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ بوڑھے افراد جن بلندیوں پر کدکڑے مارتے پھر رہے ہوتے ہیں، ان کے پوتے پوتیاں اسی بلندی پر لاچار اور بے بس ہو کر حرکت کرنے سے معذور ہو جاتے ہیں اور انہیں اٹھا کر نیچے کم بلندی پر لانا پڑتا ہے اور پھر جا کر وہ ٹھیک ہوتے ہیں۔

جس انتہائی بلندی پر انسانوں کے لیئے مستقل طور پر قیام پذیر ہونا ممکن ہے، وہ 5٫500 میٹر سمجھی جاتی ہے۔ تاہم اس جگہ رہنے والے افراد بھی اس بلندی پر بہت زیادہ وقت نہیں گزار سکتے۔ فرانسز ایش کرافٹ نے اپنی کتاب Life at the Extremes میں لکھا ہے کہ انڈیز میں گندھک کی کانیں 5٫800 میٹر کی بلندی پر ہیں لیکن کان کن ہر روز 460 میٹر کی بلندی طے کر کے کام کرنے جاتے ہیں اور سونے کے لیے پھر واپس 460 میٹر نیچے اترتے ہیں تاکہ اس بلندی پر مستقل نہ رہنا پڑے۔ بلندی پر رہنے والے لوگوں کی بے شمار نسلیں ہزاروں سال سے اتنی بلندی پر رہنے کے لیے ارتقا کے عمل سے گزرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے سینے چوڑے اور پھیپھڑے بڑے ہوتے ہیں اور خون کے سرخ خلیات کی تعداد عام انسانوں سے تقریباً ایک تہائی زیادہ ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ مقدار میں اگر سرخ خلیے ہوں تو خون اتنا گاڑھا ہو جائے گا کہ اس کی گردش میں مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ 5٫500 میٹر سے زیادہ بلندی پر عورت چاہے جتنی بھی صحت مند کیوں نہ ہو، اپنے پیٹ میں موجود بچے کو اتنی آکسیجن نہیں دے پاتی کہ بچہ حمل کا دورانیہ پورا کر کے پیدا ہو سکے۔

1780 کی دہائی سے جب سے لوگوں نے یورپ میں گیس کے غباروں کی مدد سے بلندی کا سفر طے کرنا شروع کیا، تب سے انہیں ایک مستقل مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جتنی بلندی پر آپ جائیں گے، درجہ حرارت اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔ ہر 1٫000 میٹر کی بلندی پر درجہ حرارت 1.6 ڈگری کم ہو جاتا ہے۔ عقل تو یہ کہتی ہے کہ آپ جتنا زیادہ حرارت کے منبع کے نزدیک ہوتے جائیں گے، اتنا ہی آپ کو گرمی لگنی چاہیے۔ تاہم اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس طرح حرارت کے منبع کے نزدیک نہیں ہو رہے ہوتے۔ سورج اور زمین کا فاصلہ 9 کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر ہے۔ اگر آپ چند سو یا چند ہزار میٹر قریب تر ہو بھی جائیں تو بھی یہ ایسا ہی ہے کہ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا دھواں آپ امریکہ میں چند قدم اس سمت میں چل کر سونگھنے کی کوشش کریں۔ دوسرا یہ بھی ہے کہ حرارت کا انحصار فضا میں موجود مالیکیولوں کی کثافت پر بھی ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی جب ایٹموں پر پڑتی ہے تو ان کو توانائی ملتی ہے اور پھر ایٹم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے یہ توانائی ایک دوسرے کو منتقل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب ہمارے جسم پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ہمیں حدت سی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم جتنا بلندی پر جائیں تو وہاں ایٹموں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہاں ایٹموں کے ٹکراؤ میں بھی کمی ہوتی جاتی ہے۔ ہوا بہت دھوکے باز ہے۔ سطح سمندر پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہوا کا کوئی وزن نہیں۔ در حقیقت ہوا کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس کا اثر بھی وقتاً فوقتاً محسوس ہوتا رہتا ہے۔ بحری سائنس دان ویوائل تھامسن نے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل لکھا تھا: ‘صبح کو جب ہم اٹھتے ہیں تو بیرو میٹر پر ایک انچ کا اضافہ بتا رہا ہوتا ہے کہ رات بھر میں ہمارے اوپر 500 کلو جتنا ہوا کا وزن بڑھ چکا ہے۔ تاہم اس سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ہمیں کثیف ہوا میں حرکت کرنے میں کم محنت کرنی پڑتی ہے۔ ‘ ہمیں اس لیے دباؤ نہیں محسوس ہوتا کہ ہمارے جسم کا زیادہ تر حصہ مائع پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے سمندر کا دباؤ اسے نہیں پچکا سکتا۔

تاہم اگر اسی ہوا کو حرکت دی جائے، جیسا کہ ہری کین یا تیز جھکڑ میں ہوتا ہے تو آپ کو ہوا کے وزن کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے کرہ ارض پر فی مربع میل کل اڑھائی کروڑ ٹن وزنی ہوا موجود ہے۔ پوری دنیا پر کل وزن 5٫200 ملین ملین ٹن ہو جاتا ہے۔ جب کئی کروڑ ٹن وزنی ہوا کو 50 یا 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت دی جائے تو گھروں کی چھتیں اور درخت کی شاخیں ٹوٹنا عام سی بات ہے۔ انتھونی سمتھ نے لکھا ہے کہ عام طوفان میں 75 کروڑ ٹن سرد ہوا پر دس ارب ٹن جتنی گرم ہوا کا دباؤ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔

ہمارے ارد گرد توانائی کی کوئی کمی نہیں۔ ایک عام طوفان کے بارے حساب لگایا گیا ہے کہ اس میں چھپی ہوئی توانائی پورے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی چار روز کی توانائی کے برابر ہے۔ مناسب حالات میں طوفانی بادل دس سے پندرہ کلومیٹر کی بلندی تک اٹھتے ہیں اور ان میں ہوا کے لہریں اوپر نیچے ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے پیدا ہوتی ہیں۔ اکثر اوپر اور نیچے جانے والی لہریں پہلو بہ پہلو ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے پائلٹ ان میں سے جہاز کو نہیں گزارنا چاہتے۔ بادلوں کے اندر موجود مختلف ذرات برقی بار جمع کرتے جاتے ہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر ہلکے ذرات مثبت اور بھاری ذرات منفی بار والے بن جاتے ہیں۔ مثبت بار والے ذرات اوپر کی جانب جبکہ منفی بار والے ذرات بادلوں کے نچلے سرے پر جمع ہو جاتے ہیں۔ منفی ذرات مثبت بار والی زمین کو لپکنے کو بے تاب ہوتے ہیں اور ان کے درمیان آنے والی ہر چیز کا برا حشر ہوتا ہے۔ آسمانی بجلی زمین کی طرف لگ بھگ 4٫35٫000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتی ہے۔ اس بجلی کے آس پاس کا درجہ حرارت 28٫000 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جو سورج کی سطح کے درجہ حرارت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بیک وقت کرہ ارض پر کم از کم 1٫800 طوفان بنتے ہیں جو روزانہ 40٫000 کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ دن رات، ہر سیکنڈ میں کم از کم سو مرتبہ آسمانی بجلی گرتی ہے۔ آسمان اتنا بھی پرسکون نہیں۔

فضا کی بلندی کے بارے ہمیں حال ہی میں پتہ چلا ہے۔ مثال کے طور پر جیٹ سٹریم جو کہ 9 سے 10 کلومیٹر کی بلندی پر ملتی ہیں، کی رفتار لگ بھگ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور پورے پورے براعظموں کے موسم پر اثر انداز ہوتی ہیں، کے بارے ہمیں تب پتہ چلا جب دوسری جنگِ عظیم میں جنگی پائلٹوں نے اس بلندی پر جہاز اڑانے شروع کیے۔ آج بھی فضائی عوامل کے بارے ہم بہت کم جانتے ہیں۔ صاف موسم میں ہونے والی فضائی ٹربولینس بعض اوقات پروازوں کو پریشان کرتی ہے۔ سالانہ کم از کم 20 اتنے شدید واقعات ہوتے ہیں جن کے بارے رپورٹ کرنی پڑتی ہے۔ یہ ٹربولینس نہ تو کسی بادل کی وجہ سے ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کسی ریڈار پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بہترین موسم میں اچانک ہی یہ پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسے ہی واقعے میں سنگاپور سے سڈنی کو جانے والی پرواز جب وسط آسٹریلیا پر پہنچی تو اسی وجہ سے 90 میٹر نیچے گری۔ جو افراد حفاظتی بند کے بغیر تھے، وہ اڑ کر چھت سے جا ٹکرائے۔ بارہ افراد زخمی ہوئے جن میں سے ایک شدید زخمی تھا۔ کسی کو بھی علم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

ہوا کو فضا میں گردش دینے کا عمل وہی ہے جو زمین کے اندر موجود مرکزے کو گردش دینے کا کام کرتا ہے۔ اس عمل کو کنوکشن کہتے ہیں۔ اس عمل میں گرم مادہ اوپر کو اٹھتا ہے اور نسبتاً ٹھنڈا مادہ سکڑ کر نیچے کو جاتا ہے۔ مرطوب اور گرم ہوا استوائی علاقوں سے اوپر کو اٹھتی ہے اور اوپر ٹروپو پاز پر پہنچ کر پھیل جاتی ہے۔ جوں جوں یہ ہوا خطِ استوا سے دور ہوتی جاتی ہے، سرد ہوتی جاتی ہے اور نیچے کو گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ جب سطح زمین پر پہنچتی ہے تو ہوا کے کم دباؤ کو تلاش کر کے واپس خطِ استوا کو لوٹ جاتی ہے جس سے یہ سلسلہ پورا ہو جاتا ہے۔

خطِ استوا پر کنوکشن کا عمل مستحکم ہوتا ہے اور موسم کی پیشین گوئی کرنا بھی سہل ہوتا ہے۔ لیکن معتدل علاقوں میں موسم کی مناسبت سے یہ عمل بدلتا رہتا ہے اور ہوا کے کم دباؤ اور زیادہ دباؤ کے درمیان مستقل جد و جہد جاری رہتی ہے۔ ہوا کا کم دباؤ اوپر اٹھنے والی ہوا سے پیدا ہوتا ہے اور اپنے ساتھ آبی بخارات لے جاتا ہے جس سے بادل بنتے ہیں اور پھر بارش ہوتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کی نسبت گرم ہوا زیادہ بخارات جذب کر سکتی ہے اور اسی وجہ سے استوائی علاقے اور گرمیوں کے طوفان زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے ہوا کے کم دباؤ والے علاقوں پر بادل بنتے اور بارش کا سبب بنتے ہیں۔ ہوا کے زیادہ دباؤ کا مطلب صاف مطلع اور اچھا موسم ہوتا ہے۔ جب ایسے دو دباؤ والے مقامات ملتے ہیں تو بادل بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر سٹریٹس بادل جن سے مطلع ابر آلود ہوتا ہے، اس وقت پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا سبب وہ مرطوب ہوا ہوتی ہے جو اپنے اوپر ہوا کی مستحکم تہہ کو توڑنے میں ناکام رہتی ہے اور وہیں پھیل جاتی ہے۔ اگر آپ کسی کو کمرے میں سگریٹ پیتے دیکھیں تو دھوئیں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پہلے پہل دھواں سیدھا اوپر کو اٹھتا ہے اور پھر لہروں کی شکل میں اِدھر اُدھر پھیلنے لگ جاتا ہے۔ انتہائی محتاط پیمائش کے بعد دنیا کا طاقتور ترین کمپیوٹر بھی سو فیصد یقین سے یہ نہیں بتا سکتا کہ اوپر اٹھنے کے بعد دھواں کس طرح کی شکل اختیار کرے گا۔ اب اندازہ کریں کہ ماہرینِ موسمیات کو دنیا کے موسم کے بارے پیشین گوئی کرنی ہو تو یہ کام کتنا مشکل ہو جائے گا۔

ہمیں یہ علم ہے کہ سورج کی روشنی زمین پر بے ترتیبی سے پڑتی ہے اور مختلف جگہوں پر ہوا کا دباؤ مختلف ہوتا ہے۔ ہوا اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتی۔ ہوا اس لیے چلتی ہے کہ زیادہ دباؤ والی جگہ سے کم دباؤ والی جگہ پر پہنچ کر اس فرق کو ختم کر سکے (سلنڈر سے نکلنے والی گیس، غبارے سے نکلتی ہوئی گیس اور بلندی پر اڑتے ہوئے جہاز کی کھڑکی یا دروازہ کھول دیا جائے تو تیزی سے ہوا باہر نکلنا شروع ہو جاتی ہے )۔ ہوا کے دباؤ میں جتنا زیادہ فرق ہو گا، چلنے والی ہوا اتنی ہی تیز ہو گی۔

یہ بات واضح رہے کہ مختلف چیزوں کی طرح ہوا کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ جو ہوا 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہو، وہ 30 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار والی ہوا سے دس گنا نہیں بلکہ سو گنا زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہو گی۔ کئی کروڑ ٹن وزنی ہوا جب تیزی سے چلتی ہے تو نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ عام استوائی طوفان میں جتنی توانائی 24 گھنٹہ میں خارج ہوتی ہے، اتنی توانائی برطانیہ یا فرانس ایک سال میں استعمال کرتے ہیں۔

ہوا کی جانب سے ہر جگہ دباؤ برابر رکھنے کے بارے سب سے پہلے ایڈمنڈ ہیلی نے بتایا۔ یہ وہی مشہور ایڈمنڈ ہیلی ہے جو ان دنوں ہر جگہ موجود ہوتا تھا۔ اس کا ساتھی جارج ہیڈلے تھا جس نے سب سے پہلے بتایا کہ ہوا کے اٹھتے اور گرتے ستونوں کی وجہ سے سیل یعنی خانے بنتے ہیں (اس وقت سے انہیں ہیڈلے سیل کہا جاتا ہے )۔ پیشے کے لحاظ سے تو ہیڈلے وکیل تھا لیکن اس کی اصل دلچسپی کا محور موسم تھا۔ اس نے سب سے پہلے تجویز پیش کی کہ ان خانوں، زمین کی گردش اور ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے تجارتی ہوائیں جنم لیتی ہیں۔ تاہم ان ہواؤں کے بارے اصل تحقیق 1835 میں ایک فرانسیسی انجینئرنگ پروفیسر نے کی تھی جس کا نام گستاؤ گیسپرڈ ڈی کوریولس تھا۔ اسی وجہ سے ہم انہیں کوریولس افیکٹ کہتے ہیں۔ (کوریولس کا دوسرا کارنامہ ٹھنڈے پانی کے کولر ایجاد کرنا تھا، جنہیں کوریوس کہا جاتا ہے )۔ زمین خطِ استوا پر لگ بھگ 1٫675 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کرتی ہے۔ تاہم قطبین کی طرف گردش کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے اور لندن اور پیرس میں یہ رفتار 900 کلومیٹر کے لگ بھگ رہ جاتی ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ جب آپ خطِ استوا پر کھڑے ہوتے ہیں تو زمین کی ایک گردش پوری ہونے کے لیے 40٫000 کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہو گا، تبھی آپ واپس اپنی اصل مقام پر پہنچیں گے۔ اور اگر آپ قطب شمالی پر کھڑے ہوں تو چکر پورا کرنے کے لیے آپ کو محض چند میٹر جتنی حرکت کرنی ہو گی۔ تاہم دونوں جگہوں پر یہ چکر پورا کرنے میں چوبیس گھنٹے ہی لگیں گے۔ اس وجہ سے آپ جتنا بھی خطِ استوا کے قریب ہوں گے، اتنا ہی تیز تر حرکت کریں گے۔

کوریولس افیکٹ ہمیں بتاتا ہے کہ جب شمالی نصف کرے میں کوئی چیز سیدھی حرکت کرے اور اس کی حرکت مناسب وقت تک جاری رہے تو وہ دائیں جانب مڑنے لگ جائے گی۔ جنوبی نصف کرے پر اس حرکت کا رخ بائیں جانب ہو گا۔ اس کو کچھ ایسے سمجھیے کہ اگر آپ بڑے سے جھولے پر کھڑے ہیں اور جھولا چل رہا ہے۔ جب آپ کسی بندے کی طرف گیند پھینکتے ہیں تو وہ بندہ تو اسی جگہ کھڑا ہوتا ہے لیکن جھولے کی حرکت کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ بندہ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔ گیند اس سے دور جا کر گرے گی اور آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے گیند نے قوس سی بنائی ہو۔ یہی چیز کوریولس افیکٹ کہلاتی ہے اور اسی کی وجہ سے سمندری طوفان کسی لٹو کی طرح گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ہی وجہ سے بحری جہاز کی توپ سے چلایا جانے والا گولہ ہمیشہ دائیں یا بائیں طرف کر کے پھینکا جاتا ہے۔ ورنہ 15 میل کے فاصلے پر داغا گیا یہ گولہ اپنے نشانے سے سو گز دائیں یا بائیں جا گرے گا۔

ہر انسان کے لیے موسم کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ موسمیات کو سائنس کا درجہ اٹھارہویں صدی میں آن کر ملا، حالانکہ موسمیات یعنی meteorology کا لفظ 1626 میں پہلی بار ٹی گرینگر نے اپنی کتاب میں استعمال کیا۔

موسم سے متعلق کامیاب پیشین گوئی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ درجہ حرارت کی بالکل درست پیمائش کی جائے اور عرصہ دراز تک تھرما میٹر بنانا کارِ دارد سمجھا جاتا تھا۔ پیمائش کے لیے شیشے کی نالی میں بالکل یکساں قطر کا سوراخ کرنا لازمی تھا جو آسان کام نہیں تھا۔ اس مسئلے پر سب سے پہلے ولندیزی سائنس دان گیبرئیل فارن ہائیٹ نے 1717 میں قابو پایا۔ تاہم بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس نے 32 ڈگری کو نقطہ انجماد اور 212 ڈگری کو پانی کے ابلنے کے لیے مقر ر کیا۔ اس چیز سے بہت سارے لوگوں کو الجھن ہوئی اور آخرکار 1742 میں اینڈرس سیلسیس، جو سوئیڈش ماہرِ فلکیات تھا، نے متبادل پیمانہ بنایا۔ اکثر موجد کچھ نہ کچھ کھسکے ہوئے ہوتے ہیں، اسی لیے سیلسیس نے نقطہ ابال کو صفر اور نقطہ انجماد کو 100 ڈگری رکھا تاہم جلد ہی ان کے مقامات بدل دیے۔

جدید موسمیات کا بانی برطانوی فارماسسٹ لیوک ہوارڈ کو مانا جاتا ہے جس نے اٹھارہویں صدی میں اپنی پہچان آپ بنائی۔ اس کا اصل کارنامہ 1803 میں بادلوں کی اقسام کو ان کے نام دینا ہے۔ لنیان سوسائٹی کا سرگرم رکن ہونے کے باوجود بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہوارڈ نے ایسکیشین سوسائٹی میں اپنی سکیم پیش کی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ یہ سوسائٹی نائٹرس آکسائیڈ کی دیوانی تھی۔

ہوارڈ نے بادلوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا: سٹریٹس بادل وہ ہیں جو تہہ دار ہوتے ہیں، کمولوس (اگر آپ کو دیگر بادلوں کے برعکس کمولوس بادلوں کے انتہائی واضح کناروں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہو تواس کا جواب یہ ہے کہ ان بادلوں کی مرطوبیت اور اس کے باہر کی خشک ہوا ایسا ممکن بناتی ہے۔ نمی کا جو بھی مالیکیول بادلوں سے باہر نکلتا ہے، اسے خشک ہوا لے اڑتی ہے۔ اس کے برعکس سیرس بادل کے اوپر موجود ہوا میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کے کنارے اتنے واضح نہیں ہو پاتے ) وہ بادل جو روئی کے گالوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں اور سیرئس بادل وہ جو پنکھ جیسے ہوتے ہیں اور عموماً سرد موسم کی نشانی ہوتے ہیں۔ بعد میں اس نے چوتھی قسم نیمبس کا اضافہ کیا جو بارش والے بادل تھے۔ ہوارڈ کے نظام کی انفرادیت یہ ہے کہ کسی بھی دو قسم کے بادلوں کو ملا کر نئی قسم بنائی جا سکتی ہے اور اس کی مدد سے تمام بادلوں کی شناخت ہو سکتی ہے جیسا کہ سٹریٹو کومولس، سیروسٹریٹس، کمولونیمبس وغیرہ۔ یہ نیا نظام انگلستان میں بھی اور انگلستان سے باہر بھی فوری مقبول ہو گیا۔ جرمن شاعر گوئٹے نے اس پر چار نظمیں ہوارڈ سے منسوب کیں۔

ہوارڈ کے نظام میں مسلسل تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔ انٹرنیشنل کلاؤڈ اٹلس جو دو جلدوں میں چھپاتا ہے، میں ہوارڈ کے نظام کے علاوہ بھی بہت سے اضافے کیے گئے ہیں لیکن انہیں ماہرینِ موسمیات کے علاوہ تو کیا، ماہرین موسمیات سے بھی انتہائی کم توجہ مل پائی ہے۔ اس اٹلس کا پہلا ایڈیشن جو کہ بہت مختصر تھا، میں بادلوں کی دس بنیادی اقسام بتائی گئی تھیں۔

بہت بڑے حجم کے باوجود طوفانی بادل حقیقت میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ایک بادل کے کئی سو میٹر چوڑے ٹکڑے میں بمشکل سو سے ڈیڑھ سو لیٹر جتنا پانی ہوتا ہے جو جیمز ٹریفل کے بقول، ‘نہانے کے ٹب کو ہی بھر پائے گا’۔ جب آپ دھند میں چلتے ہیں تو در حقیقت آپ بادلوں میں ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ دھند بادل ہی ہے جو اوپر اٹھنے میں ناکام رہتا ہے۔ جیمز ٹریفل کے بقول، ‘اگر آپ عام دھند میں سو میٹر چلیں تو آپ کے جسم سے ٹکرانے والے پانی کی مقدار محض نصف کیوبک انچ ہو گی، جو آپ کی پیاس بھی نہیں بجھا سکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بادلوں میں پانی کا کوئی بڑا ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی زمین کے میٹھے پانی کا محض 0.035 فیصد حصہ بادلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

پانی کا مالیکیول جہاں گرتا ہے، اس کی مناسبت سے اس کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ قطرہ زرخیز زمین پر گرے تو پودوں میں جذب ہو کر یا براہ راست بخارات میں تبدیل ہو کر چند گھنٹوں یا چند دنوں میں واپس بادلوں تک پہنچ جائے گا۔ تاہم اگر یہ پانی ہوتا ہوا زیرِ زمین آبی ذخائر تک پہنچ جائے تو پھر کئی سال سے کئی ہزار سال تک سورج کی روشنی نہیں دیکھ پائے گا۔ جب آپ کسی جھیل کو دیکھتے ہیں تو پانی کے ان مالیکیولوں کی اوسط عمر دس سال ہوتی ہے۔ سمندر میں موجود مالیکیولوں کی عمر صدیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر بارش کے پانی کا 60 فیصد حصہ ایک یا دو دن میں بخارات کی شکل میں واپس فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ بخارات بننے کے بعد یہی پانی ہفتے یا دو ہفتوں میں پھر بارش کی شکل میں زمین پر لوٹ آتا ہے۔

عملِ تبخیر بہت تیز ہے۔ گرم دن میں کسی چھوٹے سے گڑھے میں بھرے پانی سے آپ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ بحیرہ روم میں اگر مسلسل پانی نہ جمع ہوتا رہے تو ہزار سال میں خشک ہو جائے گا۔ آج سے تقریباً ساٹھ لاکھ سال قبل ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا جسے Messinian Salinity Crisis کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دوران جبرالٹر کے مقام پر زمین کی حرکت سے آبنائے بند ہو گئی تھی۔ جب یہ سمندر خشک ہوا تو بخارات بادلوں کی شکل میں دیگر سمندروں پر گرے اور ان کے نمکیات کی مقدار معمولی سی کم ہو گئی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سمندر زیادہ بڑے رقبے پر جمنا شروع ہو گئے۔ اس طرح زمین پر آنے والی سورج کی روشنی کا زیادہ حصہ منعکس ہو کر واپس جانے لگا اور زمین پر برفانی دور شروع ہو گیا۔ کم از کم نظریہ یہی کہتا ہے۔

تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ زمین کے نظام میں آنے والی معمولی سی تبدیلی کے اثرات بھی ہمارے وہم و گمان سے باہر ہو سکتے ہیں۔ آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ شاید ایسے ہی کسی واقعے کی وجہ سے ہم وجود میں آئے۔

ہماری زمین کی سطح پر اثر انداز ہونے والے اہم عوامل میں سمندر اہم ترین ہیں۔ اسی وجہ سے ماہرینِ موسمیات سمندروں اور فضا کو ایک ہی نظام شمار کرتے ہیں۔ اس لیے ہم ابھی اس بارے کچھ مزید دیکھتے ہیں۔ حرارت کو جذب کرنے اور منتقل کرنے میں پانی بہت تیز ہے۔ خلیجی بحری رو ہر روز جتنی مقدار میں حرارت یورپ کی طرف لاتی ہے، وہ دس سال میں دنیا بھر کے کوئلے کی پیداوار کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے برطانیہ اور آئرلینڈ میں موسمِ سرما روس اور کینیڈا کی نسبت کہیں معتدل رہتا ہے۔ تاہم پانی آہستہ آہستہ گرم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انتہائی گرم دن میں بھی پانی کے تالاب اور جھیلوں کا پانی ہمیں ٹھنڈا لگتا ہے۔ اسی وجہ سے موسم کیلنڈر پر تو جلدی بدل جاتے ہیں لیکن یہ تبدیلی انسانوں کو دیر سے محسوس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شمالی نصف کرے میں موسمِ بہار کا رسمی آغاز تو مارچ سے ہوتا ہے لیکن اپریل میں جا کر ہمیں اصل میں موسمِ بہار محسوس ہوتا ہے۔

سمندر میں ہر جگہ درجہ حرارت، نمکینی اور کثافت وغیرہ ہر جگہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ان کے حرارت منتقل کرنے میں بھی فرق ہوتا ہے اور موسم پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ بحرِ اوقیانوس کا پانی بحر الکاہل کی نسبت زیادہ نمکین ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ نمکین پانی زیادہ بھاری ہوتا ہے اور نیچے کو بیٹھتا ہے۔ اس اضافی نمک کے بوجھ کے بناء سمندری روئیں سیدھی قطب شمالی تک جاتیں اور یورپ کو حرارت نہ مل پاتی۔ یہ عمل اصل میں سمندری گہرائیوں پر ہوتا ہے اور اس کے بارے سب سے پہلے کاؤنٹ وون رمفورڈ نے 1797 میں بتایا۔ زمین پر حرارت کی منتقلی کے اصل عمل کا نام Thermohaline گردش ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب گرم بحری رو یورپ کے پاس پہنچتی ہے تو بھاری اور کثیف ہو کر انتہائی گہرائی کو ڈوبنا شروع ہو جاتی ہے۔ ڈوبتے ہوئے اس کا واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب یہ پانی انٹارکٹکا پہنچتے ہیں تو سرکمپولر رو میں پھنس کر اوپر کو اور بحر الکاہل کی جانب بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ عمل بہت سست ہے اور شمالی بحرِ اوقیانوس سے بحر الکاہل کے وسط تک پہنچنے میں اسے ڈیڑھ ہزار سال لگ سکتے ہیں، لیکن جتنی مقدار میں پانی اور حرارت اس عمل سے منتقل ہوتی ہے، وہ بہت زیادہ ہے اور ماحول پر پڑنے والے اثرات بھی اسی حساب سے ہوتے ہیں۔

(اگر آپ کو یہ سوال پریشان کر رہا ہو کہ سائنسدانوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ ایک سمندر سے پانی کا قطرہ دوسرے سمندر تک کیسے پہنچتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سائنس دان پانی میں موجود مختلف کیمیائی اجزاء جیسا کہ کلوروفلوروکاربن وغیرہ کی مقدار کو مختلف جگہوں پر پیمائش کر کے پانی کی حرکت تقریباً ٹھیک ٹھیک ماپ سکتے ہیں۔ )

تھرموہیلائن گردش سے نہ صرف حرارت منتقل ہوتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہروں سے غذائی اجزاء بھی اوپر نیچے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے سمندروں کا بڑا حصہ مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کے لیے سازگار رہتا ہے۔ تاہم یہ عمل بہت نازک ہے اور آسانی سے اسے متاثر ہو سکتا ہے۔ کمپیوٹر پر بنائے گئے ماڈلوں کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ سمندر کی نمکینی میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی سے بھی یہ سارا عمل تباہ ہو سکتا ہے۔ اس معمولی سی تبدیلی کے لیے گرین لینڈ کی برف کا پگھلنا کافی رہے گا۔

ہمیں سمندروں کا ایک اور بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ سمندر فضائی کاربن کی بہت بڑی مقدار جذب کر کے اسے طویل عرصے کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ ہمارے نظامِ شمسی کی عجیب بات ہے کہ ابتداء میں سورج آج کی نسبت 25 فیصد زیادہ روشن تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ برطانوی ماہرِ ارضیات آبرے میننگ کے مطابق ‘یہ بہت بڑی تبدیلی کرہ ارض کے لیے تباہ کن تھی مگر بظاہر ہماری زمین پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ ‘

تو پھر زمین کیسے مستحکم اور ٹھنڈی رہ پاتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ کھربوں کی تعداد میں پائے جانے والے ننھے سمندری جاندار، مثلاً فوراً منی فیرانس، کو کولتھس اور کالکیروس الجی وغیرہ بارش کے پانی میں جذب ہو کر آنے والی فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر چیزوں کو ملا کر اپنے ننھے ننھے خول بناتے ہیں۔ اس طرح ان کے خول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ طویل عرصے کے لیے قید ہو جاتی ہے اور سبز مکانی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ جب یہ جاندار مرتے ہیں تو سمندر کی تہہ میں ڈوب کر دباؤ سے چونا بن جاتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ انگلینڈ میں ڈوور کے مقام پر موجود سفید چٹانیں در اصل انہی مردہ جانداروں کے بیرونی خولوں سے بنی ہیں۔ اب سوچیے کہ اس عمل سے کتنی بڑی مقدار میں کاربن کو کتنے طویل عرصے کے لیے قید کر دیا گیا ہے۔ چھ مکعب انچ جتنی چٹان میں لگ بھگ ایک ہزار لٹر جتنی مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دبا کر قید کر دیا گیا ہے۔ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 80,000 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس طرح ارضی چٹانوں میں قید کر دی گئی ہے۔ زیادہ تر چونا جلد یا بدیر آتش فشانی عمل سے گزرے گا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پہنچ کر بارش کے پانی میں حل ہو کر پھر سمندر تک پہنچے گی۔ اسے طویل مدتی کاربن چکر کہا جاتا ہے۔ یہ عمل بہت طویل ہے اور ایک مالیکیول عموماً 5 لاکھ سال میں یہ چکر مکمل کرتا ہے۔ لیکن اگر مداخلت نہ کی جائے تو یہ عمل کرہ ارض پر کاربن کی مقدار کو قابو میں رکھنے کے قابل ہے۔

بدقسمتی سے حضرتِ انسان اس کاربن کے چکر سے بے پروائی برتتا ہے اور یہ سوچے بنا ڈھیروں کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کرتا رہتا ہے کہ آیا سمندری خورد بینی جاندار اس مقدار کو استعمال بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1850 سے اب تک فضا میں لگ بھگ 100 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہو چکا ہے جو سالانہ 7 ارب ٹن بنتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی یہ کوئی خاص اضافہ نہیں کیونکہ 200 ارب ٹن سالانہ کے برابر کاربن ڈائی آکسائیڈ آتش فشانوں اور مردہ نباتات کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم بڑے شہروں پر چھائی ہوئی زہریلی دھند کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اس نظام کو کس طرح برباد کر رہے ہیں۔

قدیم برفانی نمونوں سے ہم جانتے ہیں کہ مختلف اوقات میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کیا مقدار رہی ہو گی۔ صنعتی دور سے قبل یہ مقدار دس لاکھ میں 280 ذرات تھی۔ 1958 میں جب اس مسئلے پر پہلی بار توجہ دی گئی تو اس وقت 315 ذرات تک بات پہنچ چکی تھی۔ آج یہ مقدار 360 ذرات فی دس لاکھ ہے اور ہر چار سال بعد اس میں ایک فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام تک یہ مقدار شاید 560 ذرات تک پہنچ چکی ہو۔

ابھی تک تو زمین کے جنگلات اور سمندروں نے کاربن کی بہت بڑی مقدار سے ہماری جان بچائے رکھی ہے۔ برطانوی محکمہ موسمیات کے پیٹر کوکس کے مطابق, ‘جلد ہی وہ مرحلہ آنے والا ہے جب سمندر اور جنگلات ہمیں کاربن سے بچانے کا کام چھوڑ کر حقیقت میں کاربن میں اضافے کا کام شروع کر دیں گے۔ ‘ اندیشہ ہے کہ اس وقت زمین کے درجہ حرارت میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس کو نہ اپنا سکنے کی وجہ سے جنگلات اور نباتات مرنے لگیں گے اور اس سے مزید کاربن پیدا ہو گی۔ ایسے کئی بار ماضی میں انسان کے بغیر بھی ہو چکا ہے۔ تاہم فطرت بہت عجیب شئے ہے اور کاربن کا چکر کچھ عرصے بعد خود کو دوبارہ عام سطح پر لے آئے گا اور صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ یہ کام آج سے 60,000 سال قبل آخری بار ہوا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

18 دی باؤنڈنگ مین

 

تصور کریں کہ آپ کسی ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر طرف ڈائی ہائیڈروجن آکسائیڈ موجود ہے جو ایسا کیمیائی مادہ ہے جس کی نہ تو کوئی بو ہے اور نہ ہی کوئی ذائقہ۔ اکثر اوقات یہ انتہائی مجہول سا رویہ اختیار کرتا ہے تو کبھی انتہائی مہلک بن جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں آپ کو جلا سکتا ہے تو بعض صورتوں میں آپ کو جما سکتا ہے۔ مخصوص نامیاتی سالموں کی موجودگی میں کاربونک ایسڈ بن جاتا ہے جو اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ درختوں کی چھال اور سنگی مجسموں کی اوپری سطح کو بھی خراب کر دیتا ہے۔ بڑی مقدار میں جب یہ حرکت کرنے لگے تو کوئی بھی انسانی چیز اسے نہیں روک سکتی۔ حتیٰ کہ جو جاندار اس میں رہنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں، ان کے لیے بھی اکثر مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ہم اسے پانی کے نام سے جانتے ہیں۔

پانی ہر جگہ ہے۔ آلو میں 80 فیصد، گائے میں 74 فیصد، بیکٹیریا کا 75 فیصد، ٹماٹر میں 95 تک پانی ہوتا ہے۔ انسانوں میں 65 فیصد پانی ہوتا ہے۔ یعنی ہم ٹھوس سے زیادہ مائع ہیں۔ پانی بہت عجیب چیز ہے۔ اس کی کوئی شکل نہیں اور شفاف ہوتا ہے مگر ہمیں پھر بھی اچھا لگتا ہے۔ پانی بے ذائقہ ہے لیکن ہمیں اس کا ذائقہ بہت پسند ہے۔ لمبے سفر کر کے اور اچھی خاصی رقم خرچ کر کے ہم سمندر کنارے چھٹیاں منانے جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی ہر سال پانی میں ڈوب کر ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، پھر بھی اس میں کھیلنے سے باز نہیں آتے۔

چونکہ پانی اتنا عام پایا جاتا ہے، اس لیے ہم اسے نظرانداز کر جاتے ہیں کہ یہ کتنا منفرد مائع ہے۔ اسے دیکھ کر دوسرے کسی بھی مائع کے رویے کے بارے پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی کسی دوسرے مائع کی خصوصیات اس پر منطبق ہوتی ہیں۔ اگر آپ پانی سے انجان ہوں اور اس سے ملتے جلتے کسی دوسرے مائع سے اس کی خصوصیات جاننا چاہیں، جیسا کہ ہائیڈروجن سیلینائڈ یا ہائیڈروجن سلفائیڈ، پانی منفی 93 ڈگری پر ابل کر گیس بنتا اور عام درجہ حرارت پر ہمیشہ گیس کی شکل میں ملتا۔

زیادہ تر مائعات جب ٹھنڈے ہوتے ہیں تو دس فیصد سکڑ جاتے ہیں۔ پانی بھی ایک خاص حد تک تو سکڑتا ہے، مگر پھر انتہائی عجیب بات کہ پھیلنے لگ جاتا ہے۔ جب یہ جمتا ہے تو اپنے اصل حجم سے تقریباً دس فیصد پھیل چکا ہوتا ہے۔ چونکہ پانی جم کر پھیلتا ہے، اس لیے برف ہمیشہ پانی کی سطح پر تیرتی ہے۔ جان گریبن نے اسے کو ‘انتہائی عجیب خاصیت’ قرار دیا ہے۔ اگر پانی میں یہ خاصیت نہ ہوتی تو جھیلیں اور سمندر کا پانی جم کر تہہ میں ڈوبتا جاتا اور سطح پر غیر موصل برف نہ ہونے کی وجہ سے حرارت اڑ جاتی اور پانی سرد تر ہوتا اور جمتا جاتا۔ اس طرح سمندر بھی پوری طرح جم جاتے اور بہت طویل عرصے تک، شاید ہمیشہ کے لیے جمے رہ جاتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں حیات تو پنپنے سے رہی۔ شکر ہے کہ پانی کیمیا یا طبعیات کے عمومی اصولوں سے مبرا ہے۔

عام فہم بات ہے کہ پانی کا فارمولا H20 ہے یعنی ایک بڑا آکسیجن کا ایٹم ہائیڈروجن کے دو چھوٹے ایٹموں سے جڑا ہوا ہے۔ ہائیڈروجن آکسیجن کے ایٹم سے مضبوطی سے جڑا ہونے کے علاوہ وقتاً فوقتاً پانی کے دیگر مالیکیولوں سے بھی جڑتا رہتا ہے۔ اس طرح مالیکیول حرکت کرتے ہوئے نت نئے جوڑے بناتا اور انہیں چھوڑ کر آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پانی کے ایک گلاس میں بظاہر تو کوئی حرکت نہیں ہو رہی ہوتی لیکن اس میں ہر مالیکیول ہر سیکنڈ میں اربہا مرتبہ جوڑے بدل رہا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کے مالیکیول ایک دوسرے سے جڑ کرتا لاب اور جھیلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ تاہم ضرورت پڑنے پر الگ بھی ہو جاتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ کسی معین وقت پر محض پندرہ فیصد مالیکیول ایک دوسرے کو چھو رہے ہوتے ہیں۔

ایک لحاظ سے تو یہ تعلق بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کے مالیکیول نلکی میں اوپر کو اٹھتے ہیں اور تیز رفتار کار کی ونڈ سکرین پر بارش کے دوران پانی کے قطرے اوپر کی جانب لکیروں کی شکل میں حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کا ہر مالیکیول ہوا کی نسبت اپنے نیچے اور آس پاس کے پانی کے دیگر مالیکیولوں سے زیادہ طاقت سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کی سطح قائم رہتی ہے جس پر کیڑے مکوڑے بھی چل سکتے ہیں اور ترچھے پھینکے گئے پتھر کئی بار اچٹ کر ڈوبتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب آپ پانی میں پیٹ کے بل چھلانگ لگائیں تو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

اب یہ کہنے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ پانی کے بناء ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ پانی کے بغیر ہمارے جسم میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ چند دنوں میں ہونٹ ایسے غائب ہو جائیں گے جیسے کسی نے کاٹ ڈالے ہوں، مسوڑھے کالے ہو جائیں گے، ناک آدھی رہ جائے گی اور پُتلیاں اتنی سکڑ جائیں گی کہ آنکھ جھپکانا ممکن نہیں رہے گا۔ اتنی اہمیت کے پیشِ نظر ہم اکثر یہ بات بھلا دیتے ہیں کہ کرہ ارض پر موجود پانی کی انتہائی کم مقدار کے سوا باقی تمام پانی ہمارے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سمندری پانی کی یہ خاصیت اس میں موجود نمکیات کی وجہ سے ہوتی ہے۔

ہمیں زندہ رہنے کے لیے نمک کی انتہائی معمولی مقدار کی ضرورت ہے۔ سمندری پانی میں موجود نمک کی مقدار ہماری ضروریات سے کہیں زیادہ، لگ بھگ ستر گنا زیادہ ہوتی ہے۔ عام سمندری پانی کے ایک لٹر میں تقریباً اڑھائی چائے کے چمچ جتنا کھانے کا نمک ہوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ دیگر معدنیات، مرکبات اور اجزاء کی بہت بڑی مقدار بھی شامل ہوتی ہے جنہیں محض ‘نمکیات’ کہا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے جسم میں سمندری پانی کئی جگہوں پر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے آنسو ہوں یا ہمارا پسینہ، سمندری پانی سے مماثل ہوتا ہے۔ لیکن جسم سے اخراج ہمارے لیے مفید ہے تو جسم میں اس کی آمد زہر۔ جب آپ بہت سارا نمک کھا لیں تو آپ کے جسم کا میٹا بولزم یعنی تحول اچانک بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر خلیے سے پانی کے مالیکیول اس طرح نکل کر بھاگتے ہیں جیسے آگ بجھانے کا عملہ آگ بجھانے کے لیے عجلت کرتا ہے تاکہ نمک کو اپنے اندر حل کر کے جسم سے باہر نکال سکے۔ اس طرح خلیوں میں پانی کی شدید کمی ہو جاتی ہے اور ان کے ضروری کام رکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یعنی خلیے خشک ہونے لگتے ہیں۔ شدید حالات میں پانی کی کمی سے دورے پڑتے ہیں جو بیہوشی اور انجام کار موت پر منتج ہوتے ہیں۔ اسی دوران خون کے خلیے اضافی نمک کو گردوں تک لے جاتے ہیں تاکہ پیشاپ کے راستے نمک نکل سکے۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے گردے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔ گردوں کے کام چھوڑنے کا مطلب یقینی موت ہے۔ اسی وجہ سے ہم سمندری پانی نہیں پی سکتے۔
کرہ ارض پر اس وقت کل 1.3 ارب مکعب کلومیٹر پانی ہے اور اس سے زیادہ ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ مزید پانی نہ تو آ سکتا ہے اور نہ ہی جا سکتا ہے۔ جو پانی آپ پیتے ہیں، وہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ قدیم دور میں زمین بننے کے بعد پیدا ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ لگ بھگ 3.8 ارب سال قبل سمندروں کا موجودہ حجم حاصل ہو گیا تھا۔
پانی کی دنیا کو ہائیڈروسفیئر کہا جاتا ہے اور تقریباً ساری کی ساری ہی سمندری ہے۔ کرہ ارض پر موجود پانی کا 97 فیصد حصہ سمندروں پر مشتمل ہے۔ اس کا بڑا حصہ بحر الکاہل میں پایا جاتا ہے جو باقی تمام سمندروں کے مجموعی حجم سے زیادہ ہے اور 51.6 فیصد بنتا ہے۔ بحرِ اوقیانوس میں 23.6 فیصد اور بحرِ ہند میں 21.2 فیصد ہے۔ باقی تمام سمندر مل ملا کر 3.6 فیصد بنتے ہیں۔ سمندروں کی اوسط گہرائی 3.86 کلومیٹر ہے تاہم بحر الکاہل کی اوسط گہرائی بحرِ اوقیانوس اور بحرِ ہند سے 300 میٹر زیادہ ہے۔ سمندروں کے 60 فیصد حصے کی گہرائی 1.6 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ فلپ بال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ‘ہمیں کرہ ارض کو زمین کی جگہ پانی کہنا چاہیے۔ ‘
زمین کے کل پانی کا محض 3 فیصد میٹھا ہے اور اس کی اکثریت برفانی تہوں میں پوشیدہ ہے۔ اس کا انتہائی قلیل حصہ جو کہ 0.036 فیصد ہے، جھیلوں، دریاؤں اور آبی ذخائر کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس کا مزید چھوٹا حصہ جو کہ 0.001 فیصد بنتا ہے، آبی بخارات اور بادلوں کی شکل میں ہے۔ کرہ ارض کی برف کا تقریباً 90 فیصد حصہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں پایا جاتا ہے اور باقی کی بڑی مقدار گرین لینڈ میں ہے۔ قطب جنوبی پر آپ جائیں تو آپ دو میل اونچی برف کی تہہ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر یہ تمام پگھل جائے تو تمام سمندروں کی سطح میں 200 فٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر تمام بادلوں کا پانی ایک ساتھ بارش کی شکل میں ہر جگہ ایک جیسی مقدار میں برسے تو سمندروں کی سطح میں محض دو سینٹی میٹر اضافہ ہو گا۔
سطح سمندر ایک علامتی اصطلاح ہے۔ سمندر کی سطح ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی۔ لہریں، ہوائیں اور کوریولس افیکٹ اور دیگر مل ملا کر مختلف سمندروں کے مابین اور حتیٰ کہ ایک ہی سمندر کی سطح میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ بحر الکاہل اپنے مغربی کنارے پر ڈیڑھ فٹ زیادہ اونچا ہے۔ ایسا زمین کی گردش سے پیدا ہونے والی مرکز گریز قوت کے تحت ہوتا ہے۔ جیسے پانی سے بھرے ٹب کو آپ اپنی طرف کھینچتے ہیں تو پانی دوسرے کنارے سے چھلکنے لگتا ہے، عین اسی طرح مشرق کی سمت زمین کی گردش سے پانی سمندر کے مغربی کنارے پر اونچا ہوتا ہے۔
ایک طرف سمندروں کی ہماری زندگی میں اتنی زیادہ اہمیت ہے تو دوسری طرف یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سائنس دانوں نے کتنی تاخیر سے ان کا مطالعہ شروع کیا۔ 18ویں صدی تک سمندر کے بارے ہمارا علم محض اس حد تک محدود تھا کہ لہروں کے ساتھ بہہ کر کیا چیز ساحل پر پہنچتی ہے یا ماہی گیری کے جالوں میں کیا پھسنتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر معلومات شواہد کے بناء اور محض سنی سنائی پر مبنی ہوتی تھیں۔ 1830 کی دہائی میں برطانوی نیچرلسٹ ایڈورڈ فوربس نے بحر اوقیانوس اور بحرِ روم کا سروے کیا اور بیان دیا کہ چھ سو میٹر سے زیادہ گہرائی پر کوئی حیات نہیں پائی جاتی۔ اس وقت یہ بیان کافی معقول سمجھا گیا۔ چونکہ اتنی گہرائی تک سورج کی روشنی نہیں پہنچتی، اس لیے وہاں نباتات نہیں پائی جاتیں اور پانی کا دباؤ یہاں ویسے بھی بے پناہ ہوتا تھا۔ 1860 میں جب پہلی بار بحرِ اوقیانوس کے پار بچھائی گئی ٹیلیگراف کی تاریں مرمت کی غرض سے تین کلومیٹر سے بھی زیادہ گہرائی سے نکالی گئیں تو ان پر مونگے، سیپیوں اور دیگر جاندار کی موٹی تہہ موجود تھی۔
1872 میں پہلی بار سمندر کی چھان بین پر نکلنے والی مہم برٹش میوزیم اور رائل سوسائٹی کے علاوہ برطانوی حکومت کے تعاون سے پورٹس ماؤتھ سے پرانے جنگی جہاز ایچ ایم ایس چیلنجر پر روانہ ہوا۔ ساڑھے تین سال تک یہ جہاز دنیا بھر کے سمندروں میں پھرتا رہا اور پانی کے نمونے لینے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری کے جال سے سمندروں کی تہہ بھی چھانتا رہا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بہت اُکتا دینے والا تھا۔ 240 سائنس دانوں اور عملے کے افراد میں سے ایک چوتھائی افراد نے مختلف مواقع پر جہاز اور نوکری چھوڑی دی جبکہ آٹھ افراد یا تو مر گئے یا پاگل ہو گئے۔ اندازاً اس جہاز نے 70٫000 بحری میل جتنا سمندر چھانا اور بحری جانداروں کی 4٫700 سے زائد نئی انواع دریافت کیں اور پچاس جلدوں پر مشتمل رپورٹ بنائی جسے جمع کرنے میں انیس سال لگے۔ اس سے ایک نئی سائنسی شاخ ایجاد ہوئی جسے اوشیانوگرافی کہتے ہیں۔ گہرائی ماپنے والے آلات کی مدد سے یہ بھی جانا گیا کہ بحرِ اوقیانوس کے وسط میں زیرِ آب پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ اس پر چند افراد نے بعجلت فیصلہ کر لیا کہ اٹلانٹس کا گمشدہ براعظم مل گیا ہے۔
چونکہ اداراتی سطح پر سمندروں کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اس لیے زیادہ تر اناڑی اور سر پھرے ہی ہوتے ہیں جو ہمیں سمندر کے اندر موجود چیزوں کے بارے بتاتے ہیں۔ جدید دور میں سمندر کی گہرائی کے بارے مہم جوئی کی ابتداء چارلس ولیم بیب اور اوٹس بارٹن نے 1930 میں کی۔ اگرچہ دونوں کا کردار یکساں تھا لیکن پھر بھی بیب کو ہمیشہ تحاریر میں زیادہ توجہ ملی ہے۔ بیب 1877 میں نیویارک شہر میں امیر گھر میں پیدا ہوا۔ اس نے کولمبیا یونیورسٹی سے علم الحیوانات یعنی زوالوجی کی تعلیم حاصل کی اور پھر نیویارک کے چڑیا گھر میں پرندوں کے نگران کے طور پر ملازمت شروع کر دی۔ تاہم اس ملازمت سے اکتا کر اس نے مہم جوئی اختیار کی اور اگلے پچیس برس اس نے ایشیا اور جنوبی امریکہ میں گزارے جہاں اس کے ساتھ خوبصورت لڑکیاں بطور نائب کام کرتی تھیں۔ ان مہمات کے اخراجات کے لیے اس نے مقبولِ عام کتب بھی لکھیں۔ تاہم اس نے پرندوں اور جنگلی حیات پر قابلِ قدر کتب بھی پیش کیں۔
1920 کی دہائی کے وسط میں گیلا پیگوس جزائر کی سیر کے دوران اس نے سمندر کی گہرائی میں غوطہ خوری شروع کی۔ جلد ہی اس کی ملاقات بارٹن سے ہوئی جس کا تعلق مزید امیر گھرانے سے تھا اور وہ بھی کولمبیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا اور اسے بھی مہم جوئی پسند تھی۔ اگرچہ بارٹن نے پہلی بار باتھی سفیئر کا نقشہ بنایا اور اس کو بنانے کے لیے 12٫000 ڈالر بھی اپنی جیب سے دیے مگر عموماً بیب کو ہی زیادہ تر باتوں کا سہرا ملا۔ یہ مشین ڈیڑھ انچ موٹے فولاد سے بنائی گئی تھی اور دونوں جانب دو چھوٹی کھڑکیاں تھیں جو تین انچ موٹے کوارٹز سے بنائی گئی تھیں۔ اس میں دو آدمیوں کے پھنس کر بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اُس وقت کے اعتبار سے بھی یہ مشین زیادہ جدید نہیں تھی۔ اس مشین کو خود سے حرکت نہیں دی جا سکتی تھی بلکہ اسے ایک لمبی تار سے نیچے پانی میں ڈبویا جاتا تھا اور عملِ تنفس کے لیے انتہائی بنیادی انتظام تھا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کے لیے چونے کے ڈبے کھولے جاتے اور نمی جذب کرنے کے لیے کیلشیم کلورائیڈ استعمال ہوتا۔
تاہم یہ بے نام مشین اپنے مقصد میں کامیاب رہی۔ 30 جون 1930 کو بہاماس میں پہلے غوطے کے دوران بارٹن اور بیب نے 183 میٹر کی گہرائی تک پہنچ کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ 1934 میں ان کا یہ ریکارڈ 900 میٹر سے زیادہ گہرائی تک پہنچ گیا اور دوسری جنگِ عظیم تک کوئی اسے نہ توڑ پایا۔ بارٹن کا خیال تھا کہ یہ مشین 1٫400 میٹر کی گہرائی تک کام کر سکتی ہے تاہم جوں جوں گہرائی تک مشین اترتی جاتی، اس کے ہر جوڑ اور ہر پیچ پر پڑنے والا دباؤ صاف سنائی دیتا تھا۔ کسی بھی گہرائی پر کیا جانا والا ہر تجربہ اپنی جگہ بہادری اور خطرے کی علامت تھا۔ 900 میٹر پر بیرونی مناظر دیکھنے کی خاطر بنائی جانے و الی کھڑکیوں پر فی مربع انچ پڑنے والے دباؤ کی شدت لگ بھگ 19 ٹن ہوتی تھی۔ اگر وہ اس مشین کی برداشت سے زیادہ دباؤ والی جگہ پہنچ جاتے تو اتنی گہرائی پر آنے والی موت فوری ہوتی۔ بیب نے اپنی بہت ساری کتب، مضامین اور ریڈیو پروگراموں میں اس خطرے کا ذکر کیا ہے۔ تاہم ان کی پریشانی کا اصل منبع وہ جرِ ثقیل یا کرین تھی جو بحری جہاز پر ان کی مشین کے علاوہ دو ٹن وزنی سٹیل کی تار کو بھی اٹھانے کا کام کرتی تھی۔ اگر یہ جرِ ثقیل ٹوٹ جاتی تو ان کی مشین سمندر کی گہرائیوں میں ڈوب جاتی اور انہیں کسی طرح بچانا ممکن نہ رہتا۔
ان کے غوطوں میں ہمیشہ ایک چیز کی کمی رہی ہے کہ اس سے سائنسی طور پر کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ اگرچہ انہوں نے بے شمار ایسی سمندری مخلوقات دیکھیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں لیکن کھڑکی کے مختصر ہونے اور دونوں کا ماہر اوشیانوگرافر نہ ہونا ہی وہ رکاوٹیں تھی کہ وہ اپنی اکثر دریافتوں کو درست طور پر بیان نہ کر پائے جبکہ سائنس دانوں کو اسی چیز کی ہی ضرورت تھی۔ اس مشین میں کوئی بیرونی روشنی نہیں لگی ہوتی تھی اور اندر بھی 250 واٹ کا ایک بلب تھا جسے پکڑ کر کھڑکی کے سامنے لایا جاتا۔ تاہم 150 میٹر کی گہرائی پر پانی شفاف نہیں رہتا اور کسی بھی مخلوق کو دیکھنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ مخلوق اس تین انچ جتنی کھڑکی کے بالکل قریب ہوتی۔ نتیجتاً ان کے بیان کردہ باتوں سے ایک ہی بات پتہ چلی کہ سمندر کی گہرائیوں میں کافی دلچسپ مخلوقات پائی جاتی ہیں۔ ایک بار ایسے ہی غوطے کے دوران 1934 میں بیب نے بتایا کہ ‘بیس فٹ سے زیادہ لمبا سمندری سانپ دکھائی دیا جو بہت چوڑا بھی تھا۔ ‘ سائے کی طرح یہ سانپ اس مشین کے قریب سے گزر گیا۔ چاہے یہ چیز کچھ بھی رہی ہو، نہ تو بیب سے قبل اور نہ ہی اس کے بعد کسی نے ایسی چیز دیکھی ہے۔ اس طرح کے مبہم بیانات کی وجہ سے تعلیمی اداروں نے ان کی دریافتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔
1934 کے ریکارڈ ساز غوطے کے بعد بیب کی توجہ غوطہ خوری سے ہٹ گئی اور اس نے دوسری قسم کی مہم جوئی اختیار کر لی جبکہ بارٹن نے اپنا کام جاری رکھا۔ بیب کی یہ خوبی اپنی جگہ کہ جو بھی اس سے پوچھتا، وہ بلا جھجھک بتا دیتا کہ اس منصوبے کا اصل محّرک بارٹن ہے، مگر بارٹن کبھی بھی سامنے نہ آ سکا۔ بارٹن نے بھی ان غوطوں کے بارے سنسنی خیز کتابیں لکھیں اور ہالی ووڈ کی فلم Titans of the Deep بھی اس کی کتاب پر بنائی گئی جس میں باتھی سفیئر کو بھی دکھایا گیا اور فلمی انداز میں دیو ہیکل سکوئیڈ سے اس کی لڑائی دکھائی گئی تھی۔ اس نے کیمل سگریٹ کے اشتہار میں بھی کام کیا۔ 1948 میں بارٹن نے اپنے ریکارڈ کو مزید بہتر کیا اور کیلیفورنیا کے قریب بحر الکاہل میں 1٫370 میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگایا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ایک اخباری تنقید نگار نے تو Titans of the Deep کے بارے سوچا کہ بیب ہی اس فلم کا ہیرو ہے۔ آج کل قسمت سے ہی کسی کو بارٹن کا نام یاد آ تا ہے۔
خیر، کچھ بھی ہو، بارٹن کا نام ویسے بھی گہنا جانا تھا کہ سوئٹزرلینڈ سے ایک باپ بیٹے آگسٹ اور جیکوئس پیکارڈ کی ٹیم نے ایک نئی باتھی سکیف (گہری کشتی) قسم کی مشین بنائی اور اسے ٹریسٹ کا نام دیا۔ یہ مشین در اصل اٹلی کے ٹریسٹ نامی شہر میں بنائی گئی تھی اور اس میں خود سے حرکت کرنے کی گنجائش بھی تھی۔ تاہم یہ کشتی اوپر نیچے جانے کے علاوہ کم ہی کوئی اور حرکت کر سکتی تھی۔ 1954 میں اپنے ابتدائی غوطوں میں یہ کشتی 4٫000 میٹر سے زیادہ گہرائی تک اتری جو کہ بارٹن کے چھ سال قبل کے ریکارڈ سے تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ تاہم سمندر کی گہرائی میں غوطہ لگانی والی مشین بنانا بہت مہنگا کام تھا اور پیکارڈ آہستہ آہستہ دیوالیہ ہو رہے تھے۔
1958 میں انہوں نے امریکی بحریہ سے معاہدہ کیا جس کے تحت ان کی مشین کی ملکیت تو امریکی بحریہ کے پاس چلی گئی لیکن مشین ان کے استعمال میں رہی۔ بہت زیادہ رقم ہاتھ آنے کے بعد باپ بیٹے نے نئی مشین بنائی جس کی دیواریں تقریباً 13 سینٹی میٹر موٹی اور 5 سینٹی میٹر چوڑی کھڑکیاں تھیں۔ تاہم اب مشین انتہائی مضبوط ہو گئی تھی اور بہت زیادہ دباؤ برداشت کرنے کے قابل تھی۔ جنوری 1960 میں جیکوئس پیکارڈ اور لیفٹننٹ ڈون والش (امریکی بحریہ) نے سمندر کے گہرے ترین مقام یعنی ماریانا کھائی کا رخ کیا جو گوام سے 400 کلومیٹر دور مغربی بحر الکاہل میں واقع ہے۔ چار گھنٹے بعد یہ لوگ 10٫918 میٹر کی گہرائی تک پہنچے جو تقریباًسات میل بنتی ہے۔ اس گہرائی پر فی مربع انچ پڑنے والا دباؤ تقریباً 17٫000 پاؤنڈ کے برابر ہوتا ہے، پھر بھی انہوں نے دیکھا کہ ان کی مشین کو سطح پر رکتا محسوس کر کے وہاں لیٹی ہوئی ایک چپٹی مچھلی ڈر کر ان سے دور ہو گئی۔ اس وقت ان کے پاس کیمرہ نہیں تھا، اس لیے اس کی تصاویر نہیں لی جا سکیں۔
اس مقام پر بیس منٹ رکنے کے بعد انہوں نے واپس سطحِ سمندر کا رخ کیا۔ یہ واحد موقع تھا جب انسان اتنی گہرائی تک پہنچا۔
چالیس سال بعد یہ سوال پھر سے اٹھا: انسان دوبارہ وہاں کیوں نہیں گیا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وائس ایڈمرل ہائمن جی رِک اوور نے سختی سے مزید غوطوں کی مخالفت کی۔ اسی کے پاس اختیار تھا اور رقم بھی اسی نے جاری کرنی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ زیرِ آب مہم جوئی کا فوج کو کوئی فائدہ نہیں اور بحریہ ویسے بھی کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر خلائی سفر کا جنون پیدا ہو چکا تھا اور انسان کو چاند پر بھیجنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں اور سمندر میں غوطہ خوری اب پرانی بات ہو گئی تھی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ٹریسٹ کے اس غوطے سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا تھا۔ کئی سال بعد بحریہ کے ایک افسر نے کچھ یوں تبصرہ کیا: ‘اس تجربے سے ہمیں کیا فائدہ پہنچا؟ محض یہ بات کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ تو پھر وہی کام دوبارہ کیوں کیا جائے؟’ یعنی اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اتنی رقم خرچ کر کے اتنا دور جا کر اگر محض ایک چپٹی مچھلی ہی دیکھنی ہے تو پھر کیا فائدہ؟ اگر یہی کام آج کے دور میں کیا جائے تو اس پر کم از کم 10 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔
جب محققینِ زیرِ آب کو پتہ چلا کہ بحریہ اپنے وعدے سے پھر رہی ہے تو انہوں نے بہت شور مچایا۔ انہیں چپ کرانے کی خاطر بحریہ نے ایک اور آبدوز بنانے کی منظوری دی جو ہر طرح سے حرکت کرنے کے قابل ہوتی مگر بہت زیادہ گہرائی تک نہ جا پاتی۔ اسے میسا چوسٹس کے ووڈز ہول اوشیانوگرافک انسٹی ٹیوشن نے چلانا تھا۔ اس کا نام ایلوِن رکھا گیا جو مشہور بحری محقق ایلن سی وائن سے منسوب تھا۔ اب صرف ایک مسئلہ رہ گیا تھا۔ اسے بنائے گا کون۔ ولیکم جے براڈ نے اپنی کتاب The Universe Below میں لکھا ہے : ‘جنرل ڈائنامکس جیسی بڑی کمپنی جو بحریہ کے لیے آبدوزیں بناتی تھی، کسی قیمت پر بھی بحریہ کے جہاز سازی کے ادارے اور ایڈمرل ریک اوور کی دشمنی نہیں مول لینا چاہتی تھی۔ ‘ آخرکار قرعہ فال جنرل ملز کے سر نکلا جو اس وقت تک ناشتے کے دلیے بنانے کی مشینیں تیار کرتی تھی۔
سمندر کی سطح کے نیچے کیا ہے، اس بارے ہماری معلومات انتہائی محدود ہیں۔ 1950 کی دہائی تک بحری محققین کے پاس موجود نقشوں میں موجود معلومات کا انتہائی کم حصہ 1929 کی مہم سے آیا تھا اور باقی سب اندازوں سے تیار کیا گیا تھا۔ بحریہ کے پاس انتہائی بہترین نقشے تھے کہ جن کی مدد سے اس کی آبدوزیں کھائیوں سے ہو کر اور چٹانوں سے بچ کر گزرتی تھیں لیکن روسیوں سے ان معلومات کو بچانے کی خاطر یہ تمام معلومات اور نقشے انتہائی راز داری سے رکھے جاتے تھے۔ اس لیے محققین کو یا تو قدیم نقشوں پر گزار کرنا تھا یا پھر اندازے لگاتے۔ آج بھی ہماری معلومات سمندر کی تہہ سے متعلق ادھوری ہیں۔ اگر آپ عام دوربین کی مدد سے چاند کو دیکھیں تو اس پر موجود گڑھوں کے نام اکثر شوقیہ فلکیات دانوں کو معلوم ہوتے ہیں۔ اگر یہی گڑھے زمین پر ہوتے تو شاید ہی ان کا نام کسی نے سنا ہوتا۔ ہمارے پاس اپنے سمندروں سے کہیں بہتر نقشے مریخ کے ہیں۔
سطحِ سمندر پر ہونے والی تحقیقات بھی کوئی خاص نہیں۔ 1994 میں بحرالکاہل میں آنے والے طوفان کے باعث کوریا کے ایک مال بردار بحری جہاز سے آئس ہاکی کے 34٫000 دستانے بہہ گئے۔ بعد میں یہ دستانے وینکوور سے ویتنام تک، ہر جگہ پہنچے۔ اس طرح سمندری ماہرین کو بحری روؤں کی حرکات کے بارے زیادہ بہتر پتہ چلا۔
آج ایلوِن کو بنے چالیس سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی اس کی اہمیت مسّلمہ ہے۔ تاہم آج بھی کوئی آبدوز نما ایسی مشین نہیں جو ماریانا گھاٹی تک پہنچ سکے۔ ایلوِن کو ملا کر آج محض پانچ مشینیں ایسی ہیں جو سمندر کی تہہ (3٫000 سے 6٫000 میٹر کی گہرائی) تک پہنچ سکیں، حالانکہ یہ تہہ کرہ ارض کے نصف سے زیادہ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس طرح کی مشینوں کو چلانے کا ایک روز کا خرچہ 25٫000 ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس لیے انہیں اوّل تو استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور جب کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے ٹھوس سائنسی مقاصد ہوتے ہیں۔ بغیر منصوبہ بندی کے انہیں بھیجنے کا مطلب ایسا ہی ہے کہ تاریکی میں پانچ افراد چھوٹے ٹریکٹر پر بیٹھ کر دنیا کا نقشہ بنانے نکلیں۔ رابرٹ کُنزیگ کے مطابق ‘انسان نے شاید سمندر کے ایک کروڑیں یا ایک اربویں حصے کو ہی دیکھا ہے۔ یا شاید اس سے بھی کہیں کم۔ ‘
تاہم سمندری ماہرین انتہائی مستقل مزاج ہوتے ہیں اور اپنے محدود وسائل سے بھی پوری طرح کام لینے کا گر جانتے ہیں۔ 1977 میں صدی کی اہم ترین حیاتیاتی دریافت کا سہرہ انہی کے سر ہے۔ اس سال ایلوِن نے گیلاپیگوس کے پاس سمندری گہرائی میں آتش فشانی سوراخوں کے پاس اتر کر دیکھا کہ وہاں تین میٹر لمبے کیڑے، ایک فٹ چوڑی سیپیاں، بے شمار گھونگھے اور جھیں گے موجود تھے۔ ان کا وجود ان آتش فشانی سوراخوں سے خارج ہونے والے ہائیڈروجن سلفائیڈ پر پلنے والے بیکٹیریا پر تھا جو اس سے توانائی حاصل کرتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سطحِ سمندر پر ہائیڈروجن سلفائیڈ جانداروں کے لیے سمِ قاتل ہے۔ ہائیڈروجن سلفائیڈ ان آتش فشانی سوراخوں سے مسلسل نکلتا رہتا ہے۔ اس جگہ زندگی کا انحصار سورج کی روشنی پر نہیں اور نہ ہی آکسیجن یا زندگی سے متعلق کسی بھی دیگر عام فہم وجہ پر۔ یہ پورا نظام ضیائی تالیف کی بجائے کیمیائی تالیف پر چل رہا تھا۔ اس دریافت سے قبل اگر ایسا کوئی نظریہ پیش بھی کیا جاتا تو سائنس دان اس پر ہنستے۔
ان سوراخوں سے نکلنے والی توانائی اور حرارت کی مقدار انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے دو درجن سوراخوں سے نکلنے والی توانائی ایک بڑے پاور سٹیشن کے برابر ہوتی ہے اور ان کے آس پاس موجود حرارت بھی بہت زیادہ۔ ان سوراخوں پر درجہ حرارت 400 ڈگری کے قریب ہوتا ہے اور دو میٹر کی دوری پر درجہ حرارت محض دو یا تین ڈگری رہ جاتا ہے۔ ایک قسم کے کیڑے جنہیں ایلوِنلائیڈز کہا جاتا ہے، عین اس کے کنارے پر پائے جاتے ہیں۔ ان کے سر اور دم والے پانیوں کے درجہ حرارت کا فرق لگ بھگ 78 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ اس سے قبل سوچا جاتا تھا کہ 54 ڈگری سے زیادہ گرم پانی پر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ پاتا۔ ان کیڑوں کے سر کی جگہ پر پانی 54 ڈگری سے کہیں زیادہ گرم اور ان کی دموں پر کہیں زیادہ سرد تھا۔ اس دریافت سے زندگی کی بنیادی ضروریات کے بارے ہمارے نظریات یکسر بدل گئے۔
اس نے سمندری سائنس کے سب سے بڑے معمّوں میں سے ایک کو بھی حل کیا۔ تاہم اس وقت تک کسی کو اس بارے اندازہ نہیں تھا کہ سمندر وقت کے ساتھ ساتھ نمکین سے نمکین تر کیوں نہیں ہو رہے؟ سمندروں میں موجود نمکیات کو اگر زمین کی خشک سطح پر پھیلایا جائے تو تمام تر زمین پر نمک کی لگ بھگ 150 میٹر اونچی تہہ چڑھ جائے گی۔ صدیوں سے یہ بات عام فہم سمجھی جاتی ہے کہ دریاؤں کے پانی سے بہہ کر بے شمار معدنیات سمندر تک پہنچتے ہیں اور سمندری پانی کے آئنوں سے مل کر نمکیات بناتے ہیں۔ یہاں تک تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ اتنے عرصے سے سمندری نمکیات کا تناسب یکساں ہے۔ روزانہ کروڑوں گیلن پانی سمندروں سے آبی بخارات کی شکل میں اڑتا ہے اور اپنے پیچھے نمکیات چھوڑ جاتا ہے۔ بظاہر تو عقل یہی کہتی ہے کہ اس وجہ سے سمندری پانی کو ہر سال زیادہ نمکین ہونا چاہیے، مگر ایسا ہوتا نہیں۔ ہر سال جتنے اضافی نمکیات پہنچتے ہیں، اتنا ہی سمندر سے کسی وجہ سے نکل جاتے ہیں۔ طویل عرصے تک کسی کو اس کی وجہ کا علم نہیں ہو پایا۔
ایلوِن کے دریافت کردہ سمندری سوراخ اس کا جواب تھے۔ جیو فزسٹس کو پتہ چلا کہ یہ سوراخ ایسے ہی سمندری پانی کی صفائی کرتے ہیں جیسے ایکوریم میں موجود فلٹر پانی کو صاف کرتا ہے۔ نمکین پانی سمندر کی تہہ میں جذب ہوتا ہے اور وہاں اس سے نمکیات نکال لیے جاتے ہیں اور صاف پانی پھر ان سوراخوں سے نکلتا ہے۔ یہ عمل زیادہ تیز نہیں اور پورے سمندر کی صفائی میں 1 کروڑ سال لگ سکتا ہے لیکن اگر جلدی نہ ہو تو یہ عمل بہترین کام کرتا ہے۔
سمندروں کی گہرائی کے بارے ہماری سائنسی جہالت کا اندازہ اس ایک بیان سے لگا لیجیے جو 1957/58 کے سال کے مقصد کے طور پر اوشیانوگرافرز کو دیا گیا: ‘سمندر کی گہرائیوں کو تابکاری فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔ ‘ واضح رہے کہ یہ کوئی خفیہ راز نہیں تھا بلکہ اسے فخر سے عوامی طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بات زیادہ کھلے عام نہیں بتائی گئی تھی لیکن اس سے ایک دہائی قبل سے ہی سمندروں میں کھلے عام تابکار فضلے کو ٹھکانے لگائے جانے کا کام پورے جوش و خروش سے جاری تھا۔ 1946 سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ 55 گیلن والے ڈرموں میں تابکار فاضل مادے بھر کر کیلیفورنیا سے 50 کلومیٹر دور ایک جزیرے کے ساحل کے پاس پھینک رہا تھا۔
یہ سارا سلسلہ ہی بے ڈھنگا تھا۔ زیادہ تر ڈرم عام استعمال والے تھے جن میں تابکاری سے بچاؤ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ جب یہ ڈرم پانی میں تیرنے لگ جاتے (جو کہ عام بات تھی) تو نیوی کے جوان مشین گنوں سے اس کو گولیوں سے چھلنی کرتے تھے تاکہ پانی اندر گھسے اور یہ ڈرم ڈوب جائیں (اور سارے تابکار مادے جیسا کہ پلوٹونیم، سٹرانشیم، یورینیم وغیرہ باہر نکل آئیں )۔ یہ سلسلہ 1990 کی دہائی میں جا کر رکا۔ اس دوران ایسے کئی لاکھ ڈرم پچاس مختلف سمندری مقامات پر پھینکے گئے تھے۔ پچاس ہزار کے قریب ڈرم تو مندرجہ بالا جزیرے کے پاس پھینکے گئے تھے جو کیلیفورنیا کے پاس ہے۔ تاہم یہ کام کرنے والا امریکہ واحد ملک نہیں تھا بلکہ روس، چین، جاپان، نیوزی لینڈ اور یورپ کی تقریباً تمام اقوام بھی اس عمل میں اپنے طور سے شامل تھیں۔
ان تابکار عناصر کا سمندری حیات پر کیا اثر ہوا ہو گا؟ امید ہے کہ نہ ہونے کے برابر۔ تاہم اس بارے کوئی یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ سمندری مخلوقات کے بارے ہمارا علم بہت مختصر ہے۔ نیلی وہیل جیسے عظیم الجثہ جانور کے بارے ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈیوڈ اٹینبرو کے الفاظ میں، ‘نیلی وہیل کی زبان کا وزن ہاتھی جتنا، اس کا دل کار کے برابر اور بعض شریانیں اتنی بڑی ہیں کہ آپ ان میں تیر سکتے ہیں۔ بشمول ڈائنوسارز، اس سے زیادہ بڑا جانور کرہ ارض پر کبھی نہیں پیدا ہوا۔ اس کے باوجود نیلی وہیل کی زندگی کا زیادہ تر وقت کہاں اور کیسے گزرتا ہے، ہم کچھ نہیں جانتے۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ افزائشِ نسل کے لیے یہ وہیل کہاں جاتی ہیں اور کن راستوں سے گزرتی ہیں۔ نیلی وہیل کے بارے ہمیں جتنی بھی معلومات ہیں، وہ ان کے گانوں کو سن کر اخذ کی گئی ہیں جس میں مزید اسرار پوشیدہ ہیں۔ نیلی وہیل بعض اوقات گانے کو ادھورا چھوڑ دیتی ہیں اور چھ ماہ بعد اسی جگہ لوٹ کر اسی گانے کو وہیں سے دوبارہ شروع کر دیتی ہیں۔ بعض اوقات وہ ایک بالکل ہی نیا گانا شروع کرتی ہیں جو اس خاندان کے کسی فرد نے پہلے نہیں سنا ہوتا، مگر سب اسے پہلے سے جانتے ہوتے ہیں۔ ایسا کیسے ممکن ہے، کے بارے ابھی تک کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ حالانکہ وہیل ایسا جانور ہے جسے سانس لینے کی خاطر متواتر سطح سمندر پر آنا پڑتا ہے۔
جو جانور سطح پر نہیں آتے، ان کا وجود ہمارے لیے مزید خفیہ ہے۔ مثال کے طور پر عظیم سکوئڈ دیکھیں۔ یہ جانور اگرچہ نیلی وہیل جتنا بڑا تو نہیں، مگر اس کی آنکھیں فٹبال جتنی بڑی اور لمبے بازوؤں کی لمبائی 18 میٹر اور وزن ایک ٹن تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ کرہ ارض پر پایا جانے والا سب سے بڑا غیر فقاریہ جانور ہے۔ اگر چھوٹے سوئمنگ پول میں ڈالا جائے تو مزید کسی چیز کی جگہ نہیں بچے گی۔ تاہم، آج تک کسی سائنس دان تو کجا، کسی انسان نے بھی اسے زندہ نہیں دیکھا۔ ماہرینِ حیوانات نے پوری زندگیاں اس جانور کی تلاش میں گزاری ہیں لیکن کبھی اسے پکڑ نہ پائے۔ ہمیں اس جانور کے بارے جب بھی اطلاع ملتی ہے، وہ یہی ہوتی ہے کہ یہ جانور مردہ حالت میں بہہ کر ساحل سمندر پر آن پہنچا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان جانوروں کی بھاری اکثریت نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے کے ساحل پر ملتی ہے۔ ان کی تعداد کافی زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ جانور سپرم وہیل کی خوراک کا بڑا حصہ ہیں اور سپرم وہیل بہت پر خور جانور ہے (اس عظیم سکوئڈ کے وہ اعضا جو ہضم نہیں ہو پاتے بالخصوص ان کی چونچ، سپرم وہیل کے معدوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں جہاں ان کی شکل ایمبرگریس کی ہوتی ہے۔ اسے پرفیوم میں بطور Fixative استعمال کیا جاتا ہے )۔
ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ سے زیادہ انواع کے جاندار سمندر میں رہتے ہیں لیکن ان کی اکثریت ابھی تک دریافت نہیں ہو پائی۔ سمندر کی تہہ چھاننے والی مشین کی ایجاد 1960 کی دہائی میں ہوئی۔ اس مشین کی مدد سے نہ صرف سمندر کی تہہ بلکہ اس کے نیچے چھپی ہوئی مخلوق بھی پکڑی جا سکتی تھی۔ ڈیڑھ کلومیٹر کی گہرائی پر بر اعظمی تہہ پر جب اسے چلایا گیا تو ایک گھنٹے کے اندر اس مشین نے 25٫000 جانور پکڑے جو 365 انواع سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں کیڑے، ستارہ مچھلیاں، سمندری کھیرے، سبھی شامل تھے۔ پانچ کلومیٹر کی گہرائی پر جب یہ مشین چلائی گئی تو 3٫700 جانور پکڑے گئے جو تقریباً 200 انواع سے تعلق رکھتے تھے۔ واضح رہے کہ یہ مشین محض ان جانوروں کو پکڑ سکتی تھی جو یا تو بہت سست رفتار تھے یا پھر اتنے احمق کہ اس مشین کے سامنے سے نہ ہٹتے۔ 1960 کی ہی دہائی میں بحری سائنس دان جان آئزاک نے چارہ لگا کر ایک کیمرہ سمندر کی گہرائی میں اتارا تو اس سے مزید جاندار دریافت ہوئے جن میں بام مچھلی سے ملتی جلتی مخلوق بھی تھی اور دیگر اقسام کی مچھلیوں کے غول بھی دکھائی دیے۔ جب اچھی تعداد میں خوراک ملے، جیسا کہ وہیل مر کر سمندر کی تہہ میں ڈوب جائے تو سمندر کی تہہ پر 390 مختلف انواع کے جانور بھی اس سے پیٹ بھرتے دیکھے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ ان کی اکثریت ایسی مخلوقات کی تھی جو 1٫600 کلومیٹر دور واقع سمندری سوراخ سے یہاں پہنچی تھی۔ ان میں ایسے گھونگھے اور سیپیاں بھی شامل تھے جو زیادہ طویل فاصلے کا سفر کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ شاید ان مخلوقات کے لاروے سمندری رو سے بہہ کر یہاں تک پہنچے ہوں اور کسی کیمیائی مادے کی موجودگی جان کر یہاں پیٹ بھرنے کو رک گئے ہوں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سمندر اتنے ہی وسیع ہیں تو پھر ہم اس کی مخلوقات کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ سمندروں میں ہر جگہ آبی مخلوقات کی تعداد یکساں نہیں۔ مل ملا کر سمندر کا محض 10 فیصد حصہ بھی زرخیز نہیں۔ زیادہ تر آبی مخلوقات کم گہرے پانی میں رہنا پسند کرتی ہیں جہاں سورج کی روشنی اور حرارت ملتی ہے اور اسی کی وجہ سے ہی غذائی چکر چلتا رہتا ہے۔ کورل ریف یا مونگے کی چٹانیں کل سمندروں کا محض ایک فیصد بھی نہیں، لیکن یہاں موجود مچھلیاں پورے سمندروں کی چوتھائی کے برابر ہیں۔
اس کے علاوہ سمندر میں ہر جگہ حیات کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا کو دیکھیں کہ اس کا ساحل 36٫735 کلومیٹر بنتا ہے اور دو کروڑ تیس لاکھ مربع کلومیٹر سمندری پانی بھی اس کی ملکیت ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود ٹم فلینری کے بقول ‘آسٹریلیا مچھلی پیدا کرنے والے پہلے پچاس ممالک میں بھی شامل نہیں۔ ‘ اس کی بجائے آسٹریلیا مچھلیاں وغیرہ درآمد کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کی سرزمین کی مانند اس کے سمندروں کا بڑا حصہ بنجر یا صحرائی ہے (تاہم کوئینز لینڈ کے پاس موجود گریٹ بیریئر ریف کا علاقہ انتہائی زرخیز ہے )۔ چونکہ آسٹریلیا کی سرزمین بنجر ہے اس لیے یہاں سے بہہ کر سمندر جانے والے نمکیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس کے علاوہ جہاں سمندری حیات پائی جاتی ہے، اس سے چھیڑ چھاڑ کرنا بہت آسان ہے۔ 1970 کی دہائی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کچھ ماہی گیروں کو 800 میٹر کی گہرائی میں رہنے والی ایک عجیب سی مچھلی کے بہت بڑے غول ملے۔ انہیں اورنج رفی کہا گیا اور ان کا ذائقہ اچھا تھا اور تعداد بھی بہت زیادہ۔ فوراً ہی ماہی گیری کے جہازوں نے سالانہ 40٫000 ٹن جتنی مچھلی پکڑنا شروع کر دی۔ پھر سمندری سائنس دانوں نے خطرناک چیز دریافت کی۔ یہ مچھلی بہت طویل عمر پاتی ہے اور آہستگی سے بڑی ہوتی ہے۔ چونکہ سمندر میں نمکیات کی کمی ہے، اس لیے اس کی بڑھوتری بہت سست ہوتی ہے۔ بعض مچھلیاں تو ڈیڑھ سو سال پرانی بھی ہو سکتی ہیں۔ یہاں موجود بعض مچھلیاں تو زندگی بھر میں ایک بار افزائش نسل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی مچھلیوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے جب اس بات کا انکشاف ہوا، ان کی تعداد بہت کم ہو چکی تھی۔ ابھی بھی اگر ان کی مناسب دیکھ بھال کی جائے اور تحفظ مہیا کیا جائے تو بھی تعداد کو خطرے کی سطح سے نکلنے میں کئی دہائیاں لگیں گی، اگر خطرے سے نکل پائی تو۔
دیگر جگہوں پر سمندری حیات کا استحصال غلطی سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سارے ماہی گیر شارک کے ‘پر’ کاٹ لیتے ہیں۔ یعنی زندہ شارک کو پکڑ کر اس کے پر کاٹے اور مچھلی کو واپس سمندر میں مرنے کے لیے ڈال دیا۔ 1998 میں مشرقِ بعید میں شارک کے پروں کی قیمت 110 ڈالر فی کلو تھی۔ ٹوکیو میں شارک کے پر سے بنا سوپ کا ایک پیالہ 100 ڈالر کا ملتا ہے۔ 1994 میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے اندازے کے مطابق سالانہ 4 کروڑ سے 7 کروڑ شارکوں کے پر کاٹے جاتے ہیں۔
1995 میں صنعتی پیمانے والے 37٫000 بحری جہاز اور لاکھوں چھوٹی کشتیاں مچھلیاں پکڑنے میں جٹی ہوئی تھیں۔ اس وقت پکڑی جانے والی مچھلی کی تعداد پچیس سال پہلے سے دو گنا تھی۔ بعض ٹرالر تو بڑے کروز جہازوں کے برابر ہوتے ہیں اور ان کے جال اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ دس بارہ جمبو جیٹ سما جائیں۔ بعض جہاز تو مچھلیوں کو تلاش کرنے کے لیے ہوائی جہاز بھی استعمال کرتے ہیں۔
تخمینے کے مطابق پکڑی جانے والی مچھلی کی ایک چوتھائی بیکار ہوتی ہے۔ یعنی ایسی مچھلی جو یا تو بہت چھوٹی ہے یا پھر غلط قسم کی ہے یا پھر غلط موسم میں پکڑی جاتی ہے۔ The Economist کو ایک مبصر نے بتایا کہ ‘ہم آج بھی تاریک دور میں رہتے ہیں۔ آج بھی ہم سمندر میں جال پھینک کر دیکھتے ہیں کہ نیچے کن اقسام کی مچھلیاں موجود ہیں۔ ہر سال 2 کروڑ 20 لاکھ ٹن ایسی فالتو مچھلی سمندر میں واپس ڈال دی جاتی ہے۔ اس کی اکثریت مردہ ہوتی ہے۔ ایک کلو جھیں گے کو پکڑنے کی خاطر 4 کلو مچھلی اور دیگر مخلوقات جان سے جاتی ہیں۔
شمالی سمندر کی تہہ کو ہر سال سات مرتبہ صاف کیا جاتا ہے، اتنی زیادہ مداخلت کوئی بھی ایکو سسٹم برداشت نہیں کر سکتا۔ شمالی سمندر کی دو تہائی انواع کی مچھلیوں کا ضرورت سے زیادہ شکار کیا جا چکا ہے۔ تاہم بحرِ اوقیانوس کے دوسرے کنارے پر بھی کوئی خاص بہتری نہیں۔ ہالی بٹ نامی مچھلی کسی زمانے میں نیو انگلینڈ کے پاس بے تحاشا پائی جاتی تھی اور ماہی گیروں کی کشتیاں 20٫000 پاؤنڈ روزانہ یہ مچھلی پکڑتی تھیں۔ آج امریکہ کے شمال مشرق ساحل پر یہ مچھلی ناپید ہو چکی ہے۔
تاہم کاڈ جیسی بد قسمت مچھلی اور کوئی نہیں۔ 15ویں صدی میں مہم جو جان کابٹ نے شمالی امریکہ کے مشرقی ساحل پر اس کی بے تحاشا تعداد دیکھی۔ یہاں پانی کم گہرا تھا اور کاڈ اس کی تہہ پر پائی جاتی تھی۔ کابٹ کے مطابق یہ مچھلی اتنی زیادہ تھی کہ مچھیرے اور ملاح ٹوکری ڈال کر پکڑ لیتے تھے۔ میساچوسٹس کی ریاست کا ساحل اور سمندری رقبہ ریاست سے بڑا ہے۔ نیو فاؤنڈ لینڈ اس سے بھی بڑا ہے۔ صدیوں تک سمجھا جاتا رہا کہ کاڈ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اب یہ غلط فہمی دور ہو چکی ہے۔
1960 میں شمالی بحرِ اوقیانوس میں افزائش نسل کے لیے آنے والی کاڈ کے بارے اندازہ لگایا گیا کہ اس کی تعداد سولہ لاکھ ٹن بچ گئی ہے۔ 1990 میں یہ تعداد 22٫000 ٹن رہ گئی تھی۔ تجارتی اعتبار سے کاڈ ناپید ہو چکی ہے۔ مغربی بحرِ اوقیانوس سے شاید کاڈ ہمیشہ کے لیے ناپید ہو چکی ہے۔ 1992 میں ان ساحلوں پر کاڈ کا شکار یکسر ختم ہو گیا تھا اور 2002 کے موسمِ خزاں میں نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق مچھلی کی تعداد ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ کر لانسکی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ‘فش فنگر میں اصل میں کاڈ مچھلی استعمال ہوتی تھی اور آج کل جو بھی مل جائے۔ ‘
دیگر سمندری خوراک کے بارے بھی یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ نیو انگلینڈ میں رہوڈ آئی لینڈ سے پرے کبھی 9 کلو وزنی لابسٹر پکڑنا عام سی بات تھی۔ بعض اوقات تو ان کا وزن 13 کلو تک پہنچ جاتا تھا۔ اگر لابسٹر کا شکار نہ کیا جائے تو ستر سال تک زندہ رہ سکتے ہیں اور ان کی نشو و نما کبھی نہیں رکتی۔ آج کل شاید ہی کوئی لابسٹر ایک کلو سے زیادہ وزنی ہوتا ہو۔ نیویارک کی رپورٹ کے مطابق ‘ماہرینِ حیاتیات کے اندازے کے مطابق 90 فیصد لابسٹر قانونی عمر کو پہنچتے ہی پکڑ لیے جاتے ہیں۔ یہ حد 6 سال ہے۔ ‘ کم ہوتے ہوئے شکار کے باوجود نیو انگلینڈ کے ماہی گیروں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ انہیں ایک طرح سے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ بڑی کشتیاں خرید کر مزید سمندروں کو چھانیں۔ آج کل میساچوسٹس کے ماہی گیروں کو بام مچھلی سے ملتی جلتی ایک مچھلی پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے کہ مشرقِ بعید میں اس کی کچھ طلب ہے۔ تاہم ان کی تعداد بھی اب کم ہوتی جا رہی ہے۔
ہمیں سمندری حیات کے دورانِ حیات کو چلانے والے تحرک کے بارے بہت کم معلومات ہیں۔ جن علاقوں میں ضرورت سے زیادہ مچھلی پکڑی گئی ہے، کہیں مچھلیوں کی تعداد شکار سے بہت کم ہے تو جہاں پانی بنجر ہیں، وہاں موجود بحری حیات کی مقدار اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ انٹارکٹکا کے جنوبی سمندر میں دنیا بھر کے پلانکٹون کا محض تین فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے جو کسی بھی قسم کے پیچیدہ نظامِ حیات کے لیے کافی نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کے باوجود وہاں ایسا نظام موجود ہے۔ اکثر لوگوں نے کبھی کیکڑے کھانے والی سیل کے بارے نہیں سنا ہو گا مگر انسانوں کے بعد کرہ ارض پر سب سے زیادہ پایا جانے والا جانور ہے۔ انٹارکٹکا کے برفزار پر ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہ جانور رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ 20 لاکھ ویڈل سیل، پانچ لاکھ شاہی پینگوئن اور شاید 40 لاکھ ایڈلی پینگوئن بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ شکاری جانوروں کے ہوتے ہوئے معلوم نہیں کہ یہ نظام کیسے چل رہا ہے۔
گھوم پھر کر یہی بات سامنے آتی ہے کہ ہم زمین کے سب سے بڑے نظام کے بارے کتنا کم جانتے ہیں۔ اب اگلے صفحات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں حیات کے بارے بہت کم علم ہے اور اس سے بھی کم معلومات اس کی ابتداء کے بارے ہمیں معلوم ہیں۔
19 زندگی کی ابتداء

1953 میں ایک طالبعلم مُلر نے یونیورسٹی آف شکاگو میں تجربہ کے لیے دو بوتلیں لیں۔ ایک میں اس نے ایسا پانی ڈالا جو سائنسی اندازے کے مطابق ابتدائی دور کے سمندر جیسا تھا جبکہ دوسرے میں اس نے میتھین، امونیا اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کا آمیزہ ڈالا جو ابتداء میں زمین کی فضاء میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ پھر اس نے دونوں بوتلوں کو ربر کی نلیوں سے جوڑا اور آسمانی بجلی کی نقل کرتے ہوئے بجلی کے جھٹکے دیے۔ چند دن بعد بوتلوں کا پانی سبز اور زرد ہو گیا اور اس میں امائینو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، شوگر اور دیگر آرگینک مرکبات پیدا ہو گئے۔ مُلر کے نگران اور نوبل انعام یافتہ سائنس دان ہیرلڈ اُرے نے خوشی کا اظہار کچھ ایسے کیا، ‘اگر خدا نے زندگی اس طرح نہیں بنائی تو حیرت کی بات ہو گی’۔
اس وقت کے صحافیوں نے اس تجربے کی کچھ ایسے تصویر کشی کی کہ جیسے ان بوتلوں کو ہلاتے ہی زندہ جاندار نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ بعد میں یہ بات واضح ہوئی کہ زندگی کی ابتداء اتنی بھی سادہ نہیں تھی۔ نصف صدی کے تجربات کے بعد بھی زندگی کی ابتداء کے تجربے میں کامیابی سے اتنے ہی دور ہیں جتنے 1953 میں تھے اور یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے ہم اس طرح زندگی نہیں پیدا کر سکتے۔ سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ زمین کی ابتداء میں مُلر اور اُرے کے تجربے والے مرکبات نہیں بلکہ ان کی جگہ نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مرکبات تھے جو کیمیائی تعامل میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔ ان مرکبات کو مُلر والے تجربے میں استعمال کرنے سے ہمیں ایک ہی امائینو ایسڈ ملا ہے۔ ویسے بھی امائینو ایسڈ پیدا کرنا کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ پروٹین کی تیاری ہے۔
پروٹین کی تیاری میں یوں سمجھیں کہ بہت زیادہ امائینو ایسڈ کو ایک لڑی میں پرونا پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انسانی جسم میں لگ بھگ 10 لاکھ اقسام کی پروٹین ہیں جن میں سے تقریباً ہر ایک کی تیاری ایک معجزہ ہے۔ شماریات کے کسی بھی قانون کے مطابق پروٹین کی تیاری ممکن نہیں۔ امائینو ایسڈ کو زندگی کی بنیادی اکائی کہا جاتا ہے۔ ایک پروٹین بنانے کے لیے آپ کو بہت سارے امائینو ایسڈ ایک خاص طور پر جوڑنے پڑتے ہیں۔ یہ عمل ویسے ہی ہے جیسے ہم حروف کو خاص ترتیب سے جوڑ کر الفاظ بناتے ہیں۔ لفظ کولاجن لکھنے کے لیے ہمیں 7 حروف درکار ہیں لیکن کولاجین بنانے کے لیے ہمیں 1٫055 امائینو ایسڈ مخصوص ترتیب سے رکھنے ہوں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ پروٹین کو نہیں بناتے بلکہ پروٹین خودبخود، اچانک اور بغیر کسی رہنمائی کے بنتی ہے۔
اب سوچیے کہ 1٫055 مختلف مالیکیولوں کا اچانک ہی ایک خاص ترتیب سے ایک وقت اور ایک ہی جگہ اکٹھا ہونا ناممکن ہے۔ اس سارے کام کو سمجھنے کے لیے ذرا ایک مثال دیکھیے۔ کسی قمار خانے والی جوئے کی مشین کا سوچیں جو 27 میٹر چوڑی ہو تاکہ اس پر 1٫055 وہیل لگ سکیں۔ ہر وہیل پر 20 مختلف نمبر ہوں جو 20 عام سے امائینو ایسڈ کو ظاہر کرتے ہوں (زمین پر اس وقت امائینو ایسڈ کی معلوم تعداد 22 ہے جو قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے صرف 20 ہی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ آخری امائینو ایسڈ 2002 میں اوہائیو یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا تھا جو محض ایک جاندار میں پایا جاتا ہے )۔ اب سوچیے کہ اگر آپ اس مشین پر جوا کھیلیں تو اس بات کے کیا امکانات ہیں کہ 1٫055 وہیل پر مخصوص نمبر ایک ہی وقت آئیں؟ اگر ہم ایک سادہ سی پروٹین بھی بنانا چاہیں تو بھی ہمیں 200 امائینو ایسڈ درکار ہیں جو 10260 میں سے ایک امکان ہے یعنی 1 کے بعد 260 صفریں۔ یہ تعداد پوری کائنات میں موجود ایٹموں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
مختصراً پروٹین بہت پیچیدہ چیزیں ہیں۔ ہموگلوبن جیسی سادہ پروٹین میں 146 امائینو ایسڈ ہوتے ہیں تاہم اس کے بننے کے امکانات 10190 میں سے ایک ہیں۔ اس لیے کیمبرج یونیورسٹی کے کیمسٹ میکس پیروٹز کو اس کا عقدہ حل کرنے میں 23 سال لگے۔ ایک پروٹین کے پیدا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا سمجھیے کہ طوفانی ہوا کا بگولا کسی کباڑ خانے میں گھس کر نکلے تو پیچھے پورا جمبو جیٹ تیار ہو۔
ایک پروٹین کی تیاری اتنی مشکل ہے جبکہ ہم کئی لاکھ اقسام کی پروٹین کی بات کر رہے ہیں جو شاید دس لاکھ اقسام ہو۔ ان میں سے ہر ایک پروٹین منفرد اور ہماری بقاء کے لیے لازمی ہے۔ پروٹین کا بننا تو ہم نے دیکھا، اب یہ بھی دیکھیے کہ پروٹین کو قابلِ استعمال ہونے کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ تیاری کے بعد پروٹین ایک انتہائی مخصوص شکل میں بھی ڈھل جائے۔ اس ناممکن امر کے پورا ہونے پر بھی پروٹین اگر اپنی نقل نہ تیار سکے تو بیکار ہے۔ کوئی بھی پروٹین اپنی نقل نہیں تیار کر سکتی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ڈی این اے درکار ہوتا ہے۔ نقل کے لیے ڈی این اے جادو جیسا کام کرتا ہے۔ اپنی نقل تیار کرنے میں ڈی این اے کو چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ڈی این اے اور کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اب ذرا سوچیے کہ پروٹین ڈی این اے کے بغیر بیکار ہیں اور پروٹین کے بغیر ڈی این اے بیکار ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ پروٹین اور ڈی این اے ایک ہی وقت میں ارتقاء کے مراحل سے گزرے تاکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کو تیار ہوں؟ اگر ایسا ہے تو کمال ہے۔
مزید دیکھیے۔ ڈی این اے، پروٹین اور زندگی کے لیے درکار دیگر اجزاء کو کسی جھلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی ایٹم یا مالیکیول اکیلا زندہ نہیں ہوتا۔ اپنے جسم سے آپ ایک ایٹم کو نوچ کر الگ کریں تو وہ ایٹم زندہ نہیں ہو گا۔ تاہم جب یہ سب ایٹم مل کر ایک خلیے کے اندر جمع ہوتے ہیں تو وہ خلیہ زندہ ہوتا ہے۔ اگر خلیہ نہ ہو تو یہ سب دلچسپ کیمیائی مرکبات ہی رہیں گے لیکن زندگی نہیں بن سکتے۔ ایک سائنس دان ڈیوس کا خیال ہے کہ اگر ہر چیز کو دیگر تمام چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ زندہ ہو سکیں تو پھر یہ سب اکٹھے کیسے ہوئے؟ یوں سمجھیے کہ آپ کے باورچی خانے میں موجود تمام تر اجزاء خود مل کر کیک بنے اور پھر جب ضرورت پڑی تو اس کیک نے تقسیم ہو کر مزید کیک پیدا کرنا شروع کر دیے۔ اسی معجزے کو ہم زندگی کا نام دیتے ہیں۔ اب آپ کو اندازہ ہوا ہو گا کہ زندگی کی ابتداء کو سمجھنا اتنا مشکل کیوں ہے۔
اس سارے معجزے کی وجہ کیا ہے؟ ایک امکان تو یہ ہے کہ شاید یہ اتنا بڑا معجزہ نہیں جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔ پروٹین بظاہر اتنی پیچیدہ لگتی ہیں۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ پروٹین یک بیک اس طرح نہ پیدا ہوئی ہوں بلکہ وقفے وقفے سے مختلف امائینو ایسڈ ملتے رہے ہوں اور آخر میں ایک پروٹین تیار ہو گئی ہو؟ یعنی پروٹین پیدا نہ ہوئی ہو بلکہ ارتقاء سے گزر کر بنی ہو؟
فرض کریں کہ آپ تمام ضروری اجزاء جیسا کہ کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور دیگر چیزیں لے کر ایک ڈبے میں پانی کے ساتھ ڈال کر ہلاتے ہیں تو انسان باہر نکل آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ناقابلِ یقین دکھائی دے گی۔ اکثر سائنس دان یہی کہتے ہیں۔ لیکن ‘اندھا گھڑی ساز’ میں رچرڈ ڈاکنز کا خیال ہے کہ پروٹین کی ابتداء بتدریج ہوئی۔ شاید کسی وجہ سے دو یا تین امائینو ایسڈ جمع ہوئے ہوں۔ کچھ عرصے بعد ان کے ساتھ ایک اور آن کر مل گیا ہو اور اس سے انہیں کوئی اضافی فائدہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ چلتا رہے؟
زندگی سے جڑے کیمیائی تعامل عام سی بات ہیں۔ شاید ان عوامل کو ہم مُلر اور اُرے کی مانند لیبارٹری میں تو نہ کر سکیں لیکن فطرت میں ہمیں یہ عوامل ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ بہت ساری اقسام کے مالیکیول آپس میں مل کر لمبی لمبی زنجیریں بناتے ہیں جنہیں پولیمر کہا جاتا ہے۔ شوگر مسلسل نشاستہ بناتی رہتی ہیں۔ کرسٹل یعنی قلمیں بہت سے ایسے کام کرتی ہیں جو زندگی سے متعلق سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ اپنی نقل تیار کرنا، آس پاس ہونے والے عوامل پر ردِ عمل ظاہر کرنا اور مخصوص ترتیب سے پیچیدہ تر ہوتے جانا۔ تاہم کرسٹل کبھی زندہ نہیں ہو پاتے۔ البتہ یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ پیچیدگی فطری اور اچانک وقوع پذیر ہونے والا کام ہے جو قدرتی طور پر اور مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ کائنات میں مختلف مقامات پر زندگی کا ہونا یا نہ ہونا الگ امر ہے لیکن خود بخود پیدا ہونے والا توازن ہمیں ہر جگہ ملتا ہے چاہے وہ انوکھے ڈیزائن والے برف کے گالے ہوں یا پھر زحل کے دائرے۔
توازن اور اجتماع کی یہ خوبیاں اتنی فطری ہیں کہ زندگی کا جنم لینا شاید ہماری توقع سے بھی زیادہ عام ہو۔ بیلجیم نژاد نوبل انعام یافتہ بائیو کیمسٹ کرسچیان ڈی ڈو کے خیال میں، ‘جہاں جہاں مناسب حالات ہوں، وہاں وہاں زندگی کا جنم لینا شاید ایک لازمی امر ہو’۔ اس کے خیال میں ہر کہکشاں میں ایسی صورتحال لاکھوں مرتبہ پیش آ سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمیں بنانے والے کیمیائی اجزاء میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ کسی بھی جاندار کو بنانے کے لیے آپ کو چار بنیادی اجزاء درکار ہوتے ہیں : کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن۔ اس کے علاوہ سلفر، فاسفورس، کیلشیم اور فولاد کی بھی معمولی سی مقداریں درکار ہوں گی۔ انہیں لگ بھگ تین درجن مختلف ترتیبوں سے ملائیں تو شوگر، ایسڈز اور دیگر بنیادی مرکبات بن جائیں گے جن سے آپ کوئی بھی زندہ چیز بنا سکتے ہیں۔ ڈاکنز کے خیال میں، ‘ہمیں بنانے والے اجزاء میں کوئی خاص بات نہیں۔ ہر جاندار چیز اسی طرح مالیکیولوں کا مجموعہ ہے جیسے بے جان چیزیں ‘۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زندگی بے شک جتنی بھی عجیب، اطمینان بخش اور معجزانہ کیوں نہ لگے، لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا اپنا وجود اسی بات کا ثبوت ہے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ زندگی کی ابتداء سے متعلق چھوٹی چھوٹی باتیں ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں۔ مثال کے طور پر زندگی کی ابتداء سے متعلق ہر نظریے کا لازمی جزو پانی ہے چاہے وہ ڈارون کا نظریہ ہو یا پھر موجودہ دور کا نظریہ کہ سمندر میں آتش فشانی گرم بھاپ کے سوراخوں سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ تاہم یہ سب نظریے اس امر کو بھول جاتے ہیں کہ مانومر کو پولی مر یعنی پروٹین بننے کے لیے جس عمل کی ضرورت ہوتی ہے، اسے عملِ تبخیر کہتے ہیں۔ ایک درسی کتاب میں اس کا ہلکا سا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے آپ پانی کے گلاس میں چینی کا چمچ ڈالیں اور وہ چینی کی ڈلی بن کر نکلے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تاہم فطرت میں ایسے بھی ہوتا ہے۔ اس سے متعلق کیمیائی عمل تو بہت پیچیدہ ہے جسے اس طرح سمجھیں کہ جب آپ مانومر کو گیلا کریں تو وہ پولی مر نہیں بن سکتے، تاہم جب زمین پر زندگی کی ابتداء ہو رہی تھی، تب ایسا ممکن تھا۔ اگرچہ تب ایسا ممکن کیسے تھا اور اب ممکن کیوں نہیں، یہ حیاتیات کا ابھی تک ناقابلِ حل معمہ ہے۔
موجودہ دہائیوں میں سائنس کے لیے سب سے بڑی حیرت کا سبب یہ امر تھا کہ زمین پر زندگی کی ابتداء کب ہوئی۔ 1950 کی دہائی تک یہ بات عام سمجھی جاتی تھی کہ زندگی کی ابتداء کو 60 کروڑ سال سے کم کا عرصہ ہوا ہے۔ 1970 تک بعض سائنس دانوں کا نظریہ اڑھائی ارب سال قبل تک پہنچ گیا تھا۔ تاہم موجودہ نظریہ 3.85 ارب سال زمین کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے کیونکہ زمین کی سطح آج سے لگ بھگ 3.9 ارب سال قبل ٹھوس بنی تھی۔
نیو یارک ٹائمز میں لکھے مضمون میں سٹیفن گولڈ نے کہا، ‘اس عجلت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مناسب ماحول والے سیاروں پر بیکٹیریا جیسے جانداروں کا پیدا ہونا کوئی مشکل نہیں ‘۔ ایک اور جگہ پر اس نے لکھا کہ، ‘زندگی کا اتنا جلدی شروع ہونا کیمیائی اعتبار سے لازمی امر تھا’۔
زندگی کی ابتداء میں اتنی عجلت سے بعض سائنس دانوں کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے زندگی کی ابتداء میں ہمیں بیرونی امداد حاصل تھی۔ طویل عرصے سے نظریہ موجود ہے کہ زمین پر زندگی باہر سے آئی ہے۔ 1871 میں لارڈ کیلون نے برٹش ایسوسی ایشن برائے ترقی سائنس میں یہ بات کہی کہ زندگی کے جراثیم شاید کسی شہابِ ثاقب کی مدد سے زمین پر پہنچے ہوں۔ تاہم 1969 تک اس بارے کم ہی لوگوں کو یقین تھا۔ اسی سال آسٹریلیا میں ہزاروں لوگوں نے بلند بانگ دھماکے سنے اور آسمان پر مغرب کی جانب آتشیں گولے کو حرکت کرتے دیکھا۔ اس گولے سے عجیب طرح کی آوازیں آ رہی تھیں اور اس سے پیدا ہونے والی بو کو بعض لوگوں نے میتھی لیٹڈ سپرٹ جبکہ کچھ لوگوں نے محض ناقابلِ برداشت بو کہا۔
یہ آتشیں گولہ میلبورن کے شمال میں موجود وادئ گولبرن کے قصبے مرچیسن کے اوپر پھٹا اور اس کے ٹکڑے زمین پر پہنچے۔ ان میں سے بعض تو پانچ کلو وزنی بھی تھے۔ خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اس قسم کا شہابِ ثاقب بہت نایاب ہے اور اسے کاربونیشیئس کونڈرائیٹ کہتے ہیں۔ قصبے کے رہائشیوں نے تقریباً 90 کلو پتھر جمع کیے۔ اتفاق دیکھیے کہ محض دو ماہ قبل ہی اپالو 11 کے خلاء باز چاند سے پتھروں کا تھیلا لائے تھے اور اب دنیا بھر سے چوٹی کی لیبارٹریاں خلائی پتھروں کی خواہش سے ہلکان ہو رہی تھیں۔
مرچیسن کا شہابِ ثاقب ساڑھے چار ارب سال پرانا نکلا اور اس میں 74 مختلف اقسام کے امائینو ایسڈ چپکے ہوئے تھے۔ ان میں سے 8 امائینو ایسڈ ارضی پروٹین کی تیاری میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ 2001 میں ایمس ریسرچ سینٹر، کیلیفورنیا کے محققین نے اعلان کیا کہ اس شہابِ ثاقب سے پیچیدہ شوگر کی ایسی لڑیاں بھی ملی ہیں جنہیں پولائل کہا جاتا ہے اور یہ آج تک زمین کے علاوہ اور کہیں دریافت نہیں ہوئیں۔
1969 کے بعد سے اب تک اس نوعیت کے اور بھی کئی شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرائے ہیں۔ ان میں سے ایک جنوری 2000 میں کینیڈا کی ریاست یوکون کی جھیل ٹیگش میں آن گرا اور اسے شمالی امریکہ کے زیادہ تر حصوں میں گزرتے دیکھا گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری کائنات میں آرگینک مرکبات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہیلی کا دمدار ستارہ بھی ایک چوتھائی آرگینک مالیکیول سے بنا ہے۔ ان کی مناسب مقدار کو آپ کسی بھی مناسب حالت والے سیارے جیسا کہ زمین سے ٹکرائیں تو زندگی کے ابتدائی اجزاء تیار ہو جائیں گے۔
خلاء سے زندگی کی زمین کو منتقلی کے نظریات کو ‘پین سپرمیا’ کہتے ہیں۔ ان میں دو بنیادی مشکلات ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ زندگی کی ابتداء اصل میں کیسے ہوئی بلکہ یہ نظریات محض یہ بتاتے ہیں کہ کہیں سے بنی بنائی زندگی زمین تک آن پہنچی۔ دوسرا یہ کہ اس نظریے کے ماننے والے انتہائی معزز اور قابلِ احترام سائنس دان اس طرح کے اندازے لگانا شروع ہو جاتے ہیں جو کسی بھی طور پر سائنس دان کو زیب نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر ڈی این کے دریافت کنندہ سائنس دانوں میں سے ایک فریڈرک کرک نے اعلان کیا کہ، ‘زمین پر زندگی باہر سے آئی ہے ‘۔ اگر نوبل انعام یافتہ سائنس دان کی بجائے کسی اور نے یہ جملہ کہا ہوتا تو اسے شاید خبطی قرار دے دیا جاتا۔ فریڈ ہوئل اور اس کے ساتھی چندرا وکرما سنگھے نے پین سپرمیا کے نظریے کو مزید مشکوک بناتے ہوئے کہا کہ نہ صرف زندگی بلکہ آج کل کی بہت ساری بیماریاں جیسا کہ ببونک طاعون اور نزلہ جیسی بیماریاں بھی خلاء سے ہی آئی ہیں۔ تاہم ان نظریات کو بائیو کیمسٹوں نے بہ آسانی غلط ثابت کیا۔
تاہم زندگی چاہے جیسے بھی شروع ہوئی ہو، محض ایک بار ہی شروع ہوئی۔ شاید یہ علمِ حیاتیات کی سب سے انوکھی حقیقت ہے۔ آج جتنے بھی جانور اور پودے اور دیگر جاندار زندہ ہیں، ایک ہی جاندار سے نکلے ہیں۔ انتہائی قدیم زمانے میں چند چھوٹے کیمیائی تھیلے زندہ ہو گئے۔ انہوں نے کچھ غذائی اجزاء جذب کیے اور پھر مر گئے۔ شاید بہت بار ایسا ہوا ہو۔ تاہم اس بار اس تھیلے نے ایک انوکھا کام کیا۔ اس نے اپنی اگلی نسل پیدا کی۔ ایک جاندار سے جینیاتی مواد دوسرے جاندار کو منتقل ہوا اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے چل پڑا۔ یہ لمحہ ہم سب کی تخلیق کا لمحہ تھا۔ حیاتیات دان اسے ‘بگ برتھ’ یعنی عظیم پیدائش بھی کہتے ہیں۔
آپ دنیا میں کسی بھی کونے پر چلے جائیں، کسی بھی پودے، جانور، یا کسی بھی جاندار کو دیکھیں تو اس کی جینیاتی ڈکشنری اور جینیاتی زبان ایک ہی ہو گی۔ میٹ رڈلی کے مطابق، ‘تمام جاندار ایک ہی ہیں ‘۔ ہم سب کے سب جاندار ایک ہی حیاتیاتی سلسلے سے منسلک ہیں جو چار ارب سال سے جاری و ساری ہے۔ اگر آپ انسان کے جینیاتی مواد کا ایک حصہ لے کر اسے پھپھوندی میں لگا دیں تو پھپھوندی اسے ویسے ہی استعمال کرنے لگے گی جیسا وہ بنا ہی اس کے لیے ہو۔ در حقیقت یہ اس کا اپنا ہی حصہ ہے۔
زندگی کی ابتداء یا اس سے ملتی جلتی کوئی شئے وکٹوریا بینیٹ کی الماری کے ایک خانے پر رکھی ہے۔ وکٹوریا آئسو ٹوپ جیو کیمسٹ ہے جو اس وقت آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی ان کینبرا کی ارضیاتی سائنس کے شعبے میں کام کر رہی ہے۔ یہ امریکی سائنس دان 1989 میں دو سال کے لیے آسٹریلیا آئی اور یہیں کی ہو رہی۔ 2001 کے اواخر میں جب میں نے ملاقات کی تو اس نے مجھے پتھر کا ایک موٹا سا ٹکڑا تھما دیا۔ یہ ٹکڑا سفید کوارٹز اور بھورے سبز رنگ کے کلائینو پاروکسین کی پتلی پتلی پٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ چٹان گرین لینڈ کے جزیرے اکالیا سے آئی تھی جہاں 1997 میں انتہائی قدیم چٹانیں ملی تھیں۔ یہ چٹان لگ بھگ 3.85 ارب سال پرانی ہے اور اس دور کے بحری گاد کو ظاہر کرتی ہے۔
بینٹ نے کہا، ‘ہم اس پتھر کو توڑے بغیر نہیں کہہ سکتے کہ اس میں قدیم جانداروں کی باقیات موجود ہیں یا نہیں لیکن جہاں سے اسے نکالا گیا ہے، وہاں قدیم ترین زندہ جاندار بھی نکالے گئے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس پتھر میں بھی کوئی نہ کوئی متحجر یعنی فاسل جاندار موجود ہوں گے۔ خورد بینی جانداروں کی موجودگی کو ان کے فاسلز سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ تاہم اس پتھر کو توڑ کر ہم ان کیمیائی مادوں کو جان سکتے ہیں جو ان جانداروں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہوں گے۔ اگرچہ یہ زندگی کی انتہائی قدیم حالت تھی لیکن بہرحال زندگی تو تھی۔ نہ صرف یہ جاندار زندہ رہے بلکہ انہوں نے دیگر جانداروں کو بھی جنم دیا’۔
یہی زندگی آخرکار موجودہ جانداروں کا سبب بنی۔
اگر آپ کو مس بینیٹ کی طرح قدیم چٹانوں سے دلچسپی ہے تو یہ جگہ آپ کے لیے جنت ثابت ہو گی۔ 1970 کی دہائی میں ایک سائنس دان بل کامپسٹن نے دنیا کی پہلی سینسیٹو ہائی ریزولیوشن آئن مائیکرو پروب یعنی شرمپ بنائی۔ یہ مشین زرکون کی انتہائی معمولی قلموں میں موجود یورینیم کی شرح انحطاط کو ناپتی ہے۔ بسالٹ کے علاوہ دیگر تمام چٹانوں میں زرکون پائی جاتی ہے اور انتہائی مستحکم ہونے کی وجہ سے سب ڈکشن کے علاوہ تمام تر قدرتی عوامل کو سہ سکتی ہے۔ سب ڈکشن کا عمل در اصل دو ٹیکٹانک پلیٹوں کے رگڑنے اور ایک تہہ کے دوسری کے نیچے گھس کر ختم ہو جانے کو کہتے ہیں۔ تاہم گرین لینڈ اور آسٹریلیا کے کچھ علاقوں کی چٹانیں ہمیشہ ہی اس قدرتی عمل سے بچی رہی ہیں۔ کامپٹن کی مشین انہی چٹانوں کی عمر کو حیرت انگیز درستگی سے ناپ سکتی ہے۔ پہلی شرمپ پرانے پرزوں سے بنائی گئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے کباڑی کی دکان سے نکلی ہو تاہم اس نے بہترین کام کیا۔ پہلے باقاعدہ ٹیسٹ میں اس مشین نے ایک چٹان کو 3.4 ارب سال پرانا بتایا۔ یہ چٹان مغربی آسٹریلیا سے آئی تھی۔
بینیٹ نے بتایا، ‘اس وقت بہت مسئلے پیدا ہوئے تھے کہ ایک بالکل ہی نئی مشین نے اتنے اہم موضوع پر اتنی جلدی کیسے نتیجہ نکال لیا’۔
پھر ہم نے ہال میں جا کر شرمپ دوم دیکھی۔ ساڑھے تین میٹر لمبی اور ڈیڑھ میٹر اونچی سٹین لیس سٹیل کی ٹھوس مشین تھی۔ اس کے ایک سرے پر ایک سکرین لگی ہوئی تھی جہاں ایک باب نامی ایک سائنس دان بیٹھا مختلف ہندسوں کو بدلتے دیکھ رہا تھا۔ صبح چار بجے سے دوپہر تک اس سائنس دان کو یہ مشین استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ بینیٹ نے بتایا کہ یہ کہ مشین 24 گھنٹے چلتی ہے اور اس پر وقت لینا آسان نہیں۔ کسی بھی جیو کیمسٹ سے پوچھیں کہ یہ مشین کیسے کام کرتی ہے تو وہ آپ کو انتہائی تفصیل سے اس کے بارے بتانے لگ جائے گا کہ آئسو ٹوپ کتنے عام ہوتے ہیں اور آئیونائزیشن کیسے کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ یہ مشین کسی بھی نمونے پر چارج ایٹموں کی بوچھاڑ کرتی ہے اور پھر سیسے اور یورینیم کی مقدار کے فرق کو انتہائی درستگی سے ناپ کر اس کی عمر کا درست تخمینہ دیتی ہے۔ بوب نے بتایا کہ ایک نمونے پر 17 منٹ لگتے ہیں اور ہر چٹان سے کم از کم بارہ نمونے چیک کرنے ہوتے ہیں تاکہ نتائج قابلِ بھروسہ ہوں۔ اس مشین پر کام کرنے کے لیے ہر سائنس دان کو تمام تر مرحلے خود ہی کرنے ہوتے ہیں۔
ارتھ سائنس کا شعبہ کافی عجیب سا تھا۔ کچھ کچھ دفتر، کچھ کچھ لیبارٹری اور کچھ کچھ مشین ورکشاپ جیسا۔ بینیٹ نے بتایا، ‘ہم ساری مشینیں خود ہی بناتے ہیں۔ شیشے والا کاریگر ابھی ریٹائر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پتھروں کو کاٹنے کے لیے دو ملازمین بھی ہیں ‘۔ میری آنکھوں میں حیرت دیکھ کر بینٹ نے وضاحت کی، ‘ہمارے ہاں بہت ساری چٹانیں اور پتھر آتے ہیں۔ انہیں ٹیسٹ کرنے سے قبل ہمیں پوری تسلی کرنی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی بیرونی ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہی اس سے پہلے والے نمونے کی باقیات اس سے مل جائیں۔ حتیٰ کہ گرد بھی نہیں۔ بہت طویل اور خشک کام ہے ‘۔ پھر ہم نے پتھر توڑنے والی مشینیں دیکھیں جن کے کاریگر شاید کافی پینے گئے ہوئے تھے۔ مشینوں کے ساتھ ہی بڑے بڑے ڈبے ہر سائز کے پتھروں سے بھرے ہوئے تھے۔
اس چکر کے بعد جب ہم بینٹ کے دفتر پہنچے تو دیوار پر مجھے ایک پینٹنگ لگی دکھائی دی جس میں آج سے ساڑھے تین ارب سال قبل کی زمین دکھائی گئی تھی۔ زندگی کا آغاز ہو چکا تھا اور اس دور کو ‘آرکیئن’ دور کہتے ہیں۔ انتہائی عجیب و غریب سرزمین تھی جس میں لاوا اگلتے آتش فشاں اور بھاپ اڑاتا ہوا تانبے کی رنگت کا سمندر بھی موجود تھا۔ زندگی کی ابتداء اور تسلسل کے لیے انتہائی ناسازگار ماحول لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا، ‘کیا یہ پینٹنگ حقیقت سے قریب تر ہو سکتی ہے؟’
بینٹ نے جواب دیا، ‘مفکرین کا ایک گروہ یہ سوچتا ہے کہ ابتداء میں سورج بہت مدھم تھا اور بالائی فضاء کے بغیر اس مدھم سورج کی بالائے بنفشی شعاعیں ہر طرح کے کیمیائی بانڈ کو توڑ دیتی تھیں۔ اس کے باوجود یہاں دیکھیں، جاندار تقریباً سطح سمندر تک پہنچ گئے تھے ‘۔
میں نے پوچھا، ‘کیا ہمیں واقعی معلوم نہیں کہ اس وقت زمین کیسی ہو گی؟’
بینٹ نے اثبات میں سر ہلایا۔

میں نے پھر پوچھا، ‘کچھ بھی ہو، اس وقت کی زمین پر زندگی کا تصور محال ہے ‘۔

بینٹ نے جواب دیا، ‘پھر بھی زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہو گا ہی، ورنہ زندگی کیسے شروع ہوتی’۔

یہ زمین تو واقعی ہمارے لیے مناسب نہیں تھی۔ اگر آپ آج ٹائم مشین کی مدد سے واپس آرکیئن دور میں چلے جائیں تو مشین سے قدم باہر رکھتے ہی آپ واپس لوٹ آئیں گے۔ آکسیجن کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہو گی اور زہریلے بخارات کی صورت میں ہائیڈروکلورک ایسڈ اور سلفیورک ایسڈ آپ کے کپڑے گلا کر آپ کی جلد پر آبلے ڈال دیں گے اور نہ ہی ہمیں مصوروں کی بنائی ہوئی قدیم زمین کے خوبصورت مناظر ملیں گے۔ کیمیائی بخارات سے سورج کی روشنی زمین کی سطح تک نہیں پہنچ پائے گی اور وقفے وقفے سے ہونے والے آسمانی بجلی کی چمک سے ہی آپ کچھ دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یعنی ایسی زمین جو تھی تو ہماری زمین لیکن اسے کوئی پہچان نہ سکتا۔

اس دور میں اہم واقعات کم ہی ہوتے تھے۔ دو ارب سال تک بیکٹیریا ہی زندگی کی واحد علامت تھے۔ وہ پیدا ہوتے، اپنی نسل بڑھاتے اور پھیلتے رہے لیکن انہوں نے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی۔ پہلے ارب سال کے دوران بیکٹیریا کی ایک قسم جسے ہم سائنو بیکٹیریا یا بلیو گرین الجی کہتے ہیں، نے اپنی خوراک کے لیے پانی میں موجود ہائیڈروجن کو استعمال کرنا سیکھ لیا۔ یہ بیکٹیریا پانی جذب کرتے اور ہائیڈروجن کشید کر کے آکسیجن کو بطور فضلہ خارج کر دیتے۔ یہ ضیائی تالیف کی قدیم ترین شکل تھی۔ ساگان اور مارگولیس کے مطابق، زمین کی تاریخ میں ضیائی تالیف سب سے اہم میٹابولک عمل ہے اور یہ عمل پودوں کی بجائے بیکٹیریا کی ایجاد ہے۔

سائنو بیکٹیریا نے پوری دنیا میں پھیل کر اسے آکسیجن سے بھرنا شروع کر دیا۔ تاہم وہ جاندار جو آکسیجن کے بغیر زندہ رہتے ہیں، یعنی اس دور کے تقریباً تمام جاندار، ان کے لیے یہ صورتحال تکلیف دہ تھی کہ آکسیجن ان کے لیے زہرِ قاتل تھی۔ ہمارے خون میں سفید خلیات بیکٹیریا کو مارنے کے لیے آکسیجن استعمال کرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے افراد آکسیجن کے اس پہلو سے ناواقف ہیں کہ ہم نے ارتقاء کے عمل سے آکسیجن کو اپنے لیے مفید بنا لیا ہے۔ یہ آکسیجن ہی ہے جو لوہے کو زنگ لگاتی اور مکھن کو سڑاتی ہے۔ تاہم ہمارے لیے بھی آکسیجن ایک حد تک مفید ہے۔ ہمارے خون میں آکسیجن کی مقدار ماحول میں موجود مقدار کا محض دس فیصد ہوتی ہے۔

آکسیجن استعمال کرنے والے نئے جانداروں کو دو فائدے ہوئے۔ ایک تو آکسیجن سے توانائی کی بڑی مقدار آسانی سے ملتی ہے تو دوسرا یہ بھی کہ دشمن جاندار پیچھا چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے کچھ جاندار دلدلی زمین اور جھیلوں کی تہہ میں چلے گئے تو دیگر نے بہت عرصے بعد ارتقاء کے عمل کے بعد زمینی جانوروں کے نظامِ انہضام کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ ہماری خوراک کو ہضم کرنے کے عمل میں ان کی مدد لازمی ہے جبکہ آکسیجن کی معمولی سی مقدار بھی انہیں مار سکتی ہے۔ بے شمار دیگر اقسام کے جاندار بدل نہ سکے اور معدوم ہو گئے۔

سائنو بیکٹیریا بہت مقبول تھے۔ پہلے پہل تو ان کی خارج کی ہوئی اضافی آکسیجن لوہے سے مل کر فیرک آکسائیڈ بناتی رہی جو پرانے سمندروں کی تہہ میں بیٹھ جاتے تھے۔ کروڑوں سال تک جاری اس عمل سے ہمارے آج کے دور کے لوہے کی معدنی ذخائر بنے۔ اگر آپ اس پروٹیروزوئک دور میں واپس چلے جائیں گے تو آپ کو اکا دکا ہی جاندار دکھائی دیں گے جو کہیں ڈھکے ہوئے تالابوں کے کنارے یا ساحلِ سمندر پر چٹانوں پر چپکے ہوں گے۔ دیگر تمام اقسام کی زندگی نظروں سے اوجھل تھی۔

تاہم ساڑھے تین ارب سال قبل کچھ خاص ہوا۔ جہاں جہاں سمندر کم گہرے تھے، مختلف اجسام نمودار ہونے لگ گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائنو بیکٹیریا لیسدار ہوتے گئے اور مختلف خورد بینی گرد و غبار ان سے چپکنے لگ گئے۔ اس طرح وہ عجیب اجسام بننے لگے جنہیں ہم سٹرومیٹولائٹس کہتے ہیں۔ ان کی اشکال اور حجم فرق ہوتے ہیں۔ بعض جگہ ان کی شکل گوبھی کے پھول جیسی تو کبھی گدے جیسی اور کبھی مینار نما ہوتی ہے۔ یہ مینار دس سے لے کر سو میٹر تک بلند ہوتے تھے۔ ایک طرح سے یہ زندہ چٹانیں تھیں۔ کچھ جاندار ان کی سطح پر تو کچھ سطح کے نیچے ایک دوسرے کی مدد سے زندہ رہتے تھے۔ اسے ہم دنیا کا پہلا ماحولیاتی نظام کہہ سکتے ہیں۔

بہت برسوں تک سائنس دان سٹرومیٹولائٹس کو فاسلز سے ہی سمجھتے رہے لیکن 1961 میں عجیب واقعہ رونما ہوا جب شمال مغربی آسٹریلیا کے ساحل پر شارک بے کے مقام پر زندہ سٹرومیٹولائٹس دکھائی دیے۔ یہ بات اتنی عجیب تھی کہ سائنس دانوں کو یہ حقیقت قبول کرنے میں کئی برس لگے۔ یہ جگہ انتہائی دور افتادہ ہونے کے باوجود سیاحوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔ حکومت نے اس جگہ پانی پر لکڑی کے تختوں سے راستے بنا دیے ہیں جہاں لوگ چل کر قریب سے انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا رنگ بھورا ہے اور دیکھنے میں گائے کے گوبر کے بہت بڑے ڈھیر پانی کی سطح سے ذرا نیچے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ساڑھے تین ارب سال پرانے زندہ اجسام کو دیکھنا اپنے میں ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘یہ وقت کے سفر کے مترادف ہے۔ اگر دنیا کو ان کی اصل قدر کا پتہ چلے تو یہ مصر کے اہراموں کی طرح مشہور ہو جائیں ‘۔ اندازہ ہے کہ ان چٹانوں کے ہر مربع گز میں تقریباً تین ارب انفرادی جاندار موجود ہیں۔ اگر آپ انہیں قریب سے دیکھیں تو بعض مساموں سے ہوا کے چھوٹے چھوٹے بلبلے نکلتے دکھائی دیتے ہیں جو آکسیجن پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دو ارب سال تک ایسی ہی کوششوں سے جا کر زمین کی فضاء میں آکسیجن کی مقدار 20 فیصد تک پہنچی ہے جس سے پیچیدہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا ہے۔

اندازہ ہے کہ یہ اجسام زمین پر سب سے سست رفتاری سے اگنے والے جاندار ہیں اور یہ بات کسی شک کے بناء کہی جا سکتی ہے کہ یہ جاندار سب سے نایاب بھی ہیں۔ پیچیدہ جانداروں کے وجود کو ممکن بنانے والے یہ جاندار انہی جانداروں کے ہاتھوں تقریباً ہر جگہ سے ناپید ہو گئے جن کے وجود کی راہ انہوں نے ہموار کی تھی۔ شارک بے میں ان کے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پانی انتہائی کھارا ہے اور کوئی ایسا جانور نہیں رہ سکتا جو سٹرومیٹولائٹس کو کھائے۔

حیات کی اتنی سست رفتاری شاید اسی وجہ سے تھی کہ پہلے سادہ جاندار فضاء میں مناسب مقدار میں آکسیجن پہنچا دیں۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘جانوروں کے پاس کام کرنے کی توانائی ہی نہیں تھی’۔ دو ارب سال یعنی زمین کی تاریخ کے 40 فیصد حصہ گزرنے کے بعد فضاء میں آکسیجن کی مقدار موجودہ سطح تک پہنچی۔ تاہم جب یہ مرحلہ سر ہوا تو اچانک ایک بالکل ہی نئی قسم کے خلیے نمودار ہوئے جن میں ایک مرکزہ اور چند دیگر چھوٹے چھوٹے حصے ایک جھلی میں جمع تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اتفاقی طور پر یا جان بوجھ کر کسی بیکٹیریا نے دوسرے کو اپنے اندر سمو لیا ہو گا اور یہ رشتہ دونوں کو ہی راس آ گیا۔ قیدی بیکٹیریا کو ہم مائٹو کونڈریا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس رشتے سے ہی پیچیدہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا۔ پودوں میں اسی طرح کا ایک اور عمل ہوا جس میں ضیائی تالیف والے کلوروپلاسٹ کا جنم ہوا۔

مائٹو کونڈریا کا کام آکسیجن کی مدد سے خوراک سے توانائی نکالنا ہے۔ اس کام کے بغیر یک خلوی جاندار کبھی بھی کثیر خلوی نہ بن سکتے۔ مائٹو کونڈریا انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں اور ریت کے ایک ذرے میں ایک ارب بھی سما جائیں۔ لیکن یہ بہت بھوکے ہوتے ہیں۔ آپ جو کچھ بھی کھاتے ہیں، انہی کی نظر ہوتا ہے۔

ان کے بغیر ہم دو منٹ بھی نہیں زندہ رہ سکتے۔ تاہم دو ارب سال کے تعلق کے باوجود بھی مائٹوکونڈریا ہمارے لیے آج بھی اجنبی ہیں۔ ان کا اپنا ڈی این اے، آر این اے اور رائبوسوم ہوتے ہیں۔ جس خلیے میں موجود ہوتے ہیں، اس سے قطع نظر ان کی افزائشِ نسل کا الگ وقت ہوتا ہے۔ ان کی شکل اور ان کا کام بیکٹیریا جیسا ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات اینٹی بائیوٹیکس ان پر بھی اسی طرح اثر کرتی ہے جیسے بیکٹیریا پر۔ ان کی اپنی جینیاتی زبان ان کے میزبان خلیے سے الگ ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ دو ارب سال گزرنے کے بعد بھی مہمان ہی ہیں۔

ان خلیوں کو یوکیریوٹ (حقیقی مرکزے والے ) کہا جاتا ہے۔ دوسری طرح کے خلیے پروکیریوٹ یعنی قبل از مرکزے والے کہلاتے ہیں۔ ان کا وجود ہماری متحجراتی تاریخ یعنی فاسل ریکارڈ میں اچانک ہی نمودار ہوتا ہے۔ سب سے پرانے یوکیریوٹ خلیے گرائیپینیا کہلاتے ہیں جو مشی گن میں 1992 میں دریافت ہوئے۔ ایسے فاسل ایک بار ملے اور اگلے 50 کروڑ سال تک ان کا کوئی وجود نہیں ملتا۔

زمین پر زندگی نے ایک قدم اور آگے بڑھا لیا تھا۔ پروکیریوٹ کی نسبت یوکیریوٹ دس ہزار گنا زیادہ بڑے اور ان کا ڈی این اے ہزار گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ پروکیریوٹ کو کیمیائی مادوں سے بھرے تھیلے سے ذرا زیادہ کچھ کہہ لیں تو یوکیریوٹ زندہ جاندار تھے۔ اسی طرح کے اہم واقعات کے بعد اب جانداروں کی دو اقسام بن چکی ہیں۔ ایک وہ جو آکسیجن خارج کرتے ہیں جیسا کہ پودے اور دوسرے وہ جو آکسیجن جذب کرتے ہیں، یعنی کہ انسان اور دیگر عام جانور۔

یک خلوی یوکیریوٹ کو پہلے پہل پروٹوزوا کہتے ہیں مگر آج کل پروٹسٹس کہلاتے ہیں۔ پروکیریوٹ کی بہ نسبت یوکیریوٹ ڈیزائن اور نفاست کے شاہکار ہیں۔ سادہ سا امیبا جس کی زندگی کا مقصد بظاہر صرف زندہ رہنا ہے، میں 40 کروڑ بٹ کے برابر ڈی این اے ہوتا ہے جو 500 صفحات کی 80 کتابوں کے برابر ہے۔

بالآخر یوکیریوٹ خلیوں نے ایک نیا کام سیکھا جس پر شاید ایک ارب سال لگے ہوں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے مل کر کثیر خلوی جاندار بنانا سیکھ لیے۔ اسی سے موجودہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا۔ کرہ ارض پر زندگی نے ایک اور قدم بڑھا لیا تھا۔

تاہم یہ بات واضح رہے کہ اس وقت تک زمین پر زندگی محض خورد بینی جانداروں تک ہی محدود تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

20 چھوٹی دنیا

 

خورد بینی جانداروں میں زیادہ دلچسپی لینا ہمارے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً عظیم فرانسیسی کیمیا دان اور بیکٹیریا کا ماہر لوئیس پاسچر اپنے کام میں اتنا مگن ہو گیا کہ اپنے سامنے رکھی ہوئی ہر تھالی کا محدب عد سے سے معائنہ کرتا تھا۔ لوگ اسے کھانے کی دعوت دینے سے کترانے لگے۔

حقیقت میں آپ بیکٹیریا سے چھپ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے اندر اور ہمارے اردگرد ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ صحت مند انسان ہیں اور حفظانِ صحت کے عمومی اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں تو آپ کے جسم پر ایک وقت میں تقریباً ایک کھرب بیکٹیریا کھا پی رہے ہوں گے۔ ہماری جلد کے ہر ایک مربع سینٹی میٹر پر ان کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ آپ کی جلد سے گرنے والے دس ارب ٹکڑوں، ہر مسام سے نکلنے والی چکنائی اور دیگر معدنیات پر یہ بیکٹیریا پلتے ہیں۔ آپ کا جسم ان کے لیے بہترین طعام گاہ ہے اور یہاں سے انہیں نہ صرف حدت ملتی ہے بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان ہو جاتی ہے۔ آپ کی جسم کی بو ان بیکٹیریا کی طرف سے شکریے کا اظہار ہوتی ہے۔

یہ تو تھے وہ بیکٹیریا جو آپ کی جلد پر رہتے ہیں۔ مزید کھربہا بیکٹیریا ہمارے نظامِ انہضام، نتھنوں، بالوں، پلکوں، آنکھوں کے اوپر تیرتے ہوئے اور دانتوں میں سوراخ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے نظامِ انہضام میں کم از کم 400 مختلف اقسام کے سو کھرب بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ ان کی کچھ اقسام شکر پر کام کرتی ہیں تو کچھ نشاستے پر تو کچھ دوسرے بیکٹیریا کو مارنے کا کام کرتی ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں بیکٹیریا ایسے بھی ہیں کہ ان کا بظاہر کوئی کام نہیں۔ شاید انہیں آپ کے اندر رہنا پسند ہو۔ ایک انسانی جسم میں کل 10 کواڈریلین خلیے ہوتے ہیں جبکہ سو کواڈریلین بیکٹیریا ہمارے اندر رہتے ہیں۔ بیکٹیریا ہمارے جسم کا بہت بڑا حصہ ہیں۔ شاید ان کے خیال میں انسان ان کا چھوٹا سا حصہ ہوں گے۔

ہم انسان اتنے بڑے اور اتنے چالاک ہیں کہ اینٹی بائیوٹکس اور عفونت کش مرکبات بنا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بیکٹیریا کو معدومیت کے کنارے تک پہنچا دیا ہے۔ مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ بیکٹیریا بظاہر شہر نہیں بناتے اور نہ ہی کوئی تقریبات کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر بیکٹیریا اس کرہ ارض پر تب بھی موجود رہیں گے جب سورج پھٹ جائے گا۔ یہ سیارہ بیکٹیریا کا ہے۔ ہم یہاں ان کی اجازت سے رہ رہے ہیں۔

یاد رکھیں کہ بیکٹیریا ہمارے بغیر اربوں سال سے اس کرہ ارض پر آباد ہیں۔ ان کے بغیر ہم ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہی ہمارے فاضل مادوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بناتے ہیں۔ ان کے بغیر کوئی بھی چیز گل سڑ نہیں سکتی۔ ان کی مدد سے ہمارا پانی صاف ہوتا ہے اور انہی کی مدد سے ہماری زمین پر نباتات اگتی ہیں۔ ہمارے نظامِ انہضام میں موجود بیکٹیریا حیاتین بناتے ہیں، ہماری کھائی ہوئی خوراک کو قابلِ استعمال شکر اور پولی سکرائیڈز میں تبدیل کرتے اور نگلے جانے والے نقصان دہ خورد بینی جانداروں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔

ہوا سے نائٹروجن کی مدد سے نیوکلیوٹائڈ اور امینو ایسڈ بنانے کے لیے ہم بیکٹیریا کے محتاج ہیں۔ یہ کام انتہائی مشکل اور خوبصورتی سے ہوتا ہے۔ مارگولس اور ساگان کے مطابق، ‘اگر ہم یہی کام صنعتی پیمانے پر (جیسا کہ مصنوعی کھاد کی تیاری)کرنا چاہیں تو ہمیں خام مادوں کو فضا سے 300 گنا زیادہ دباؤ پر اور 500 ڈگری سیلسیس پر گرم کرنا ہو گا۔ بیکٹیریا ہر وقت یہی کام بغیر کسی دقت کے کرتے رہتے ہیں۔ ‘ نائٹروجن کے بغیر بڑے جاندار زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ مزید برآں یہی خورد بینی جاندار ہمارے لیے ہوا پیدا کرتے ہیں اور ماحول کو مستحکم رکھتے ہیں۔ خورد بینی جاندار جن میں بڑا حصہ سائنو بیکٹیریا کا ہے، فضا کی زیادہ تر آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ الجی اور دیگر ننھے جاندار ہر سال کم از کم 150 ارب کلوگرام آکسیجن سالانہ پیدا کرتے ہیں۔

یہ جاندار انتہائی تیز ہیں۔ بعض اقسام محض دس منٹ میں نئی نسل پیدا کر لیتے ہیں۔ کلاسٹریڈیم پرفرنجس نامی بیکٹیریا، جو گینگرین پیدا کرتا ہے، محض نو منٹ میں نئی نسل پیدا کر سکتا ہے اور یہ سلسلہ ہر نو منٹ بعد دہراتا جاتا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے اس رفتار پر افزائش نسل کرتے ہوئے ایک بیکٹیریا دو دن میں پوری کائنات کے پروٹانوں سے زیادہ بچے پیدا کر سکتا ہے۔ بیلجیم کے بائیو کیمسٹ اور نوبل انعام یافتہ سائنس دان کرسچین ڈی ڈیو کے مطابق، ‘مناسب حالات مہیا ہونے پر ایک بیکٹیریا ایک دن میں 2٫80٫000 ارب بچے پیدا کر سکتا ہے۔ ‘ اس عرصے میں ایک انسانی خلیہ محض ایک بار تقسیم ہوتا ہے۔

تقریباً ہر دس لاکھ تقسیموں میں ایک بار تبدیلی آتی ہے۔ میوٹنٹ کے لیے تو یہ بات بری ہے کہ تبدیلی خطرناک ہو سکتی ہے۔ تاہم بعض اوقات یہ نیا تبدیل شدہ بیکٹیریا کچھ اضافی فوائد ساتھ لے کر آتا ہے جیسا کہ کسی اینٹی بائیوٹک دوائی کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کر لینا۔ اس طرح انہیں انتہائی خطرناک فائدہ مل جاتا ہے۔ بیکٹیریا ایسی معلومات ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ کوئی بھی بیکٹیریا جنیاتی مواد کا کچھ حصہ دوسرے سے لے سکتا ہے۔ مارگولس اور ساگان کے بقول، ‘تمام بیکٹیریا ایک ہی جینیاتی تالاب میں رہتے ہیں۔ ‘ ایک جگہ کے بیکٹیریا میں آنے والی تبدیلی بہت تیزی سے دوسرے کونے تک پھیل سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان کسی حشرے کے پاس جا کر اس سے جینیاتی معلومات لے کر اپنے پر اگا لے یا پھر چھت سے چمٹ جائے۔ اس اعتبار سے تمام بیکٹیریا ایک ہی جاندار ہیں، جو بہت چھوٹا، بہت دور دراز پھیلا ہوا مگر ناقابلِ شکست ہے۔

ہم سے بچ جانے والی ہر چیز پر بیکٹیریا پلتے ہیں۔ انہیں تھوڑی سی نمی مل جائے، جیسا کہ گیلا کپڑا خانے پر پھیرا جائے تو اس سے ملنے والی نمی سے بھی بیکٹیریا ایسے بڑھتے ہیں جیسے عدم سے وجود میں آئے ہوں۔ لکڑی، گوند اور پینٹ میں موجود دھاتیں بھی کھا لیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں سائنس دانوں نے ایسے بیکٹیریا Thiobacillus concertivorans دریافت کیے ہیں جو انتہائی تیز سلفیورک ایسڈ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، حالانکہ یہ تیزاب دھاتوں کو گلا سکتا ہے۔ ایک اور قسم کے بیکٹیریا Micrococcus radiophilus نیوکلیئر ری ایکٹروں کے فاضل مادوں کے تالاب میں ہنسی خوشی رہتے ہوئے پلوٹونیم اور دیگر خطرناک تابکار عناصر سے اپنا پیٹ بھر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بیکٹیریا دھاتوں کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں حالانکہ ہماری معلومات کے مطابق اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

ابلتی ہوئی مٹی کے تالابوں، کاسٹک سوڈے کے تالابوں، چٹانوں کے اندر، سمندر کی تہہ پر، انٹارکٹکا کی میک مرڈو ڈرائی ویلی کے یخ بستہ پانیوں میں، بحر الکاہل میں 11 کلومیٹر کی گہرائی پر کہ جہاں پانی کا دباؤ فضا سے ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے اور پچاس جمبو جیٹ کے نیچے کچلے جانے کے برابر ہوتا ہے، بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو غیر فانی محسوس ہوتے ہیں۔ The Economist کے مطابق Deinococcus radiodurans پر تابکاری کا نہ ہونے کے برابر اثر ہوتا ہے۔ آپ ان کے ڈی این اے کو تابکار شعاعوں سے تباہ کریں تو ڈی این اے پھر سے فوراً اصل شکل میں جُڑ جاتا ہے۔

سب سے حیرت انگیز بیکٹیریا Streptococcus ہے جو چاند پر دو سال تک موجود کیمرے کے لینز سے نکالا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ چند ہی جگہیں ایسی ہوں گی جہاں بیکٹیریا زندہ رہنے کو تیار نہ ہوں۔ وکٹوریا بینٹ نے مجھے بتایا، ‘جب سمندر کی گہرائیوں میں سمندری شگافوں پر زیرِ آب مشینیں بھیجی جاتی ہیں تو جہاں گرمی کی شدت سے یہ مشینیں پگھلنے لگتی ہیں، وہاں بھی بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ ‘

1920 کی دہائی میں جب یونیورسٹی آف شکاگو کے دو سائنس دانوں ایڈسن بیسٹن اور فرینگ گریئر نے اعلان کیا کہ انہوں نے 600 میٹر کی گہرائی پر تیل کے کنوؤں سے زندہ بیکٹیریا نکالے ہیں تو ہر کسی نے ان کا مذاق اڑایا کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ اگلے پچاس سال تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ ان کے نمونوں میں ملاوٹ ہو گئی ہو گی۔ اب ہمیں علم ہے کہ بیکٹیریا انتہائی گہرائی پر بھی زندہ رہتے ہیں جہاں ان کا روایتی نامیاتی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بیکٹیریا پتھروں میں موجود لوہا، سلفر، میگانیز اور دیگر اجزا کو کھاتے ہیں۔ ان کے سانس لینے کو آکسیجن نہیں بلکہ لوہا، کرومیم، کوبالٹ، حتیٰ کہ یورینیم بھی کام دیتی ہے۔ شاید ایسے یہ بیکٹیریا کی وجہ سے سونے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے علاوہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر بنے ہوں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ زمین کی بالائی سخت تہہ کو بنانے میں بھی بیکٹیریا کا ہاتھ ہے۔

چند سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہمارے قدموں تلے رہنے والے بیکٹیریا کا وزن 100 کھرب ٹن کے برابر ہے۔ اسے Subsurface lithoautotrophic microbial ecosystems یعنی SliME کا نام دیا جاتا ہے۔ کارنل یونیورسٹی کے تھامس گولڈ کے اندازے کے مطابق اگر ہم تمام بیکٹیریا نکال کر سطح زمین پر رکھ دیں تو وہ ساری زمین کو 15 میٹر یا 4 منزلہ عمارت کے برابر ڈھانک لیں گے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو پھر زمین کے اوپر موجود مخلوقات کی نسبت زمین کے اندر زیادہ جاندار ہوں گے۔

زمین کی گہرائی میں پائے جانے والے خورد بینی جاندار انتہائی سست رفتار ہوتے ہیں۔ ان میں سے سب سے چست جاندار بھی سو سال میں ایک بار تقسیم ہوتا ہو گا، بعض تو پانچ سو سال میں محض ایک مرتبہ تقسیم ہوتے ہیں۔ The Economist کے مطابق، ‘طویل عمر کا راز نکما رہنے میں پوشیدہ ہے۔ ‘ جب حالات انتہائی ناسازگار ہو جائیں تو بیکٹیریا اپنے تمام تر نظام بند کر کے اچھے وقت کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ 1997 میں سائنس دانوں نے ناروے کے ٹرونڈہیم عجائب گھر میں موجود ایسے اینتھراکس کے جراثیموں کو فعال بنایا ہے جو 80 سال سے نیم مردہ تھے۔ اس کے علاوہ 118 سال پرانے گوشت میں موجود جراثیم اور 166 سال پرانی بیئر کی بوتل کے جراثیم بھی زندہ کر لیے گئے ہیں۔ 1996 میں روسی سائنسی اکیڈمی کے سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے مستقل برف میں منجمد بیکٹیریا کو 30 لاکھ سال بعد فعال بنا لیا ہے۔ تاہم اس ضمن میں ویسٹ چیسٹر یونیورسٹی، پینسلوانیا کے رسل وری لینڈ نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے کہ اس نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر نیو میکسیکو میں نمک کی کان میں 600 میٹر کی گہرائی پر قید اڑھائی کروڑ سال پرانے بیکٹیریا کو فعال بنایا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ بیکٹیریا براعظموں سے بھی پرانے ہوں گے۔

اس رپورٹ پر ظاہر ہے کہ دنیا بھر سے شک ظاہر کیا گیا کہ اتنے طویل عرصے تک اگر بیکٹیریا غیر فعال رہا ہو تو اس کے اجزاء بیکار ہو جاتے۔ ظاہر ہے کہ بیکٹیریا وقتاً فوقتاً فعال ہوتا رہا ہو گا۔ تاہم بغیر کسی توانائی کے اتنے طویل عرصے تک ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کچھ سائنس دانوں نے شک ظاہر کیا کہ بے شک نمونوں کو نکالتے وقت ان میں ملاوٹ نہ ہوئی ہو مگر ممکن ہے کہ زیرِ زمین حالت میں ان میں ملاوٹ ہو گئی ہو گی۔ 2001میں تل ابیب یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے بتایا کہ بحرِ مردار میں پائے جانے والے بیکٹیریا اور مندرجہ بالا بیکٹیریا کے جینیاتی مواد میں صرف دو جگہ معمولی سا فرق ہے۔

انہوں نے شک ظاہر کیا کہ، ‘کیا یہ ممکن ہے یہ اڑھائی کروڑ سال میں ان بیکٹیریا میں جو فرق آیا ہے، وہ لیبارٹری میں محض تین سے سات دن میں ہونا عام سی بات ہے ‘؟ اس کے جواب میں ویرلینڈ نے کہا، ‘شاید لیبارٹری میں بیکٹیریا زیادہ رفتار سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوں’؟

کیا پتہ۔

عجیب بات دیکھیں کہ خلائی دور شروع ہو چکا ہے، مگر آج بھی زیادہ تر درسی کتب میں جانداروں کے دو گروہ درج ہیں، حیوانات اور نباتات۔ خورد بینی جاندار کا مشکل ہی کوئی تذکرہ ملتا ہے۔ امیبا اور اس جیسے دیگر یک خلوی جانداروں کو جانور نما جبکہ الجی کو پودا نما مانا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیکٹیریا اور پودوں میں کوئی تعلق نہیں، بیکٹیریا کو نباتات کے گروہ میں رکھا گیا ہے۔ 18ویں صدی میں ایک جرمن نیچرلسٹ ارنسٹ ہیکل نے تجویز دی تھی کہ بیکٹیریا کو علیحدہ کنگڈم میں رکھا جائے جسے مونیرا کا نام دیا گیا۔ 1960 کے عشرے میں انتہائی محدود ماہرین نے اس تجویز کو قبول کرنا شروع کیا (میری 1969 کی قابلِ بھروسہ امریکن ہیرٹیج ڈکشنری میں یہ لفظ موجود نہیں )۔

قابلِ مشاہدہ دنیا کے جانداروں کے بارے بھی ہماری غلط فہمیاں کم نہیں۔ مثال کے طور پر فنجائی کے گروہ کو، کہ جس میں کھمبیاں، ککر متے، خمیر اور دیگر چیزیں شامل ہیں، کو نباتات سمجھا جاتا ہے جبکہ ان میں کوئی بھی چیز، بشمول افزائشِ نسل، عمل تنفس یا ان کی بناوٹ، پودوں کی بجائے جانوروں سے ملتی ہے۔ ساخت کے اعتبار سے وہ جانوروں سے مماثل ہیں کہ ان کے جسم کائیٹن نامی مادے سے بنتے ہیں جو ممالیہ جانوروں میں ناخن اور حشرات میں خول بنانے کے کام آتا ہے، اگرچہ ان کا ذائقہ فرق ہوتا ہے۔ سب سے اہم فرق یہ ہے کہ پودوں کے برعکس فنجائی ضیائی تالیف کے قابل نہیں اور ان میں کلوروفل نہیں پایا جاتا اور ان کا رنگ بھی سبز نہیں ہوتا۔ فنجائی براہ راست اپنی خوراک پر اگتے ہیں جو کچھ بھی ہو سکتی ہے، چاہے وہ کنکریٹ میں موجود سلفر ہو یا آپ کے پیر کی انگلیوں کے درمیان سڑتا ہوا مادہ ہو۔ کسی قسم کی نباتات ایسا نہیں کر سکتی۔ ہاں، نباتات سے ان کی واحد مماثلت ان کی جڑ ہوتی ہے۔

ایک اور جاندار جسے ہم سلائم مولڈ کے نام سے جانتے ہیں، کو بھی اسی طرح غلط درجے میں رکھا گیا ہے۔ ان کا سائنسی نام مائکسو مائی سیٹس ہے۔ اس نام کی وجہ سے ان کی عمومی جائے رہائش ہے۔ عموماً گندے پانی کی نکاسی کے نل جب بند ہوں تو وہاں یہ دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ مخلوقات میں شاید یہ عجیب ترین مخلوق ہے۔ جب حالات سازگار ہوں تو یہ یک خلوی طور پر امیبا جیسی شکل میں پائے جاتے ہیں۔ جب حالات دشوار ہو جائیں تو سب ایک جگہ مل کر ایک گھونگھے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو زیادہ دور جانے کے قابل نہیں ہوتا۔ تاہم گلے سڑے پتوں کے نیچے سے نکل کر اوپر تک پہنچنا شاید ارتقا کی ایسی منزل ہے جو کروڑوں سال گزرنے کے باوجود فقید المثال ہے۔

تاہم قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ سازگار مقام پر پہنچ کر اس کی شکل پھر بدلتی ہے اور اس بار یہ پودا بن جاتا ہے۔ کسی عجیب عمل کی وجہ سے اس کے خلیے حرکت کرتے ہوئے ایک تنا اور پھر ایک بلب بناتے ہیں جو پھل پیدا کرتی ہے۔ اس کے اندر کروڑوں کی تعداد میں سپور ہوتے ہیں۔ جونہی مناسب وقت آتا ہے تو یہ سپور ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور ایک بار پھر سے یک خلوی دور شروع ہو جاتا ہے اور یہ عمل چلتا رہتا ہے۔

برسوں تک ماہرینِ حیوانات سلائم مولڈ کو پروٹوزوا یعنی یک خلوی جانور اور ماہرینِ فطریات یعنی مائیکولوجسٹس کے مطابق فنجائی سمجھتے رہے۔ حالانکہ اکثریت جانتی تھی کہ دونوں ہی غلط ہیں۔ جب جینیاتی ٹیسٹنگ کی سہولیت مہیا ہوئی تو ماہرین یہ جان کر حیران رہ گئے کہ سلائم مولڈ فطرت میں موجود ہر زندہ چیز سے تو براہِ راست مختلف ہیں ہی، بسا اوقات ایک دوسرے سے بھی نہیں ملتے۔

1969 میں درجہ بندی میں کچھ نظم لانے کے لیے کارنل کے ایک ایکالوجسٹ وٹیکر نے Science رسالے میں تجویز پیش کی کہ حیات کی پانچ شاخیں بنائی جائیں جو کنگڈم کہلائیں گی۔ ان کے نام Animalia, Plantae, Fungi, Protista اور Monera رکھے گئے۔ Protista ایک صدی پہلے سکاٹس ماہرِ حیاتیات جان ہاگ کے تجویز کردہ نام Protoctista کی نئی شکل تھی۔ اس شاخ میں ہر وہ چیز رکھی جانی تھی جو کہیں اور نہ سما سکے۔

وٹیکر کی یہ تجویز بہت فائدہ مند تھی مگر اس میں Protista کی وضاحت ادھوری رہ گئی تھی۔ بعض ماہرین یہ اصطلاح بڑے یک خلوی جانداروں کے لیے استعمال کرتے ہیں تو بعض ماہرین کے مطابق یہ محض بے جوڑ چیزوں کا نام ہے۔ یعنی ہر وہ جاندار جو کسی اور شاخ میں نہ سما سکے، اسے یہاں ڈال دیتے ہیں۔ اس شاخ میں سلائم مولڈ، امیبا، سمندری گھاس وغیرہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ در حقیقت اس شاخ میں لگ بھگ دو لاکھ مختلف انواع کے جاندار شامل کیے گئے ہیں۔

ابھی وٹیکر کی نئی تجویز درستی کتب میں اپنی جگہ بنانا شروع ہو رہی تھی کہ یونیورسٹی آف الینوائس کے ایک عام سے محقق کی دریافت نے سب کچھ اتھل پتھل کر دیا۔ اس کا نام کارل ووز تھا اور 1960 کی دہائی سے وہ بیکٹیریا کے جینیاتی مواد کا مطالعہ کر رہا تھا۔ جینیاتی تحقیق کے ابتدا میں یہ کام انتہائی دشوار تھا۔ ایک بیکٹیریا پر تحقیق پر پورا سال لگ جاتا تھا۔ ووز کے بقول، اس وقت بیکٹیریا کی کل پانچ سو انواع دریافت ہو چکی تھیں، جبکہ آپ کے منہ میں موجود بیکٹیریا کی انواع اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج یہ تعداد 5٫000 تک بڑھ چکی ہے تاہم پھر بھی یہ تعداد الجی کی 26٫900، فنجائی کی 70٫000 اور امیبا کی 30٫800 انواع سے کہیں کم ہے۔

بیکٹیریا کے بارے اتنی لاعلمی کی وجہ بے پروائی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیکٹیریا کو کیسے الگ کر کے ان کا مطالعہ کیا جائے۔ محض ایک فیصد بیکٹیریا لیبارٹری میں پروان چڑھتے ہیں۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ ایک طرف تو بیکٹیریا دنیا کے کسی بھی ماحول میں اگنے کو تیار ہیں تو دوسری جانب لیبارٹری میں پیٹری ڈش پر اگنا ان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ انہیں سمندری گھاس سے بنی جیلاٹن پر ڈالیں اور ان کی ہر ممکن ضرورت کا خیال رکھیں، مگر ان کی بھاری اکثریت محض عضوِ معطل کی مانند وہیں پڑی رہے گی۔ جو بیکٹیریا لیبارٹری میں پھلتا پھولتا ہے، ہر اعتبار سے غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔ مائیکرو بائیولوجسٹ کا زیادہ تر کام انہی کے مطالعے پر مبنی رہا۔ ووز کے الفاظ میں ‘ایسے ہی جیسے آپ چڑیا گھر کی سیر کرتے ہوئے علم الحیوانات سیکھنا چاہیں۔ ‘

تاہم جینیاتی مطالعے سے ووز کو خورد بینی جانداروں کے عام ڈگر سے ہٹ کر مطالعے کا موقع ملا۔ جوں جوں اس کا مطالعہ بڑھتا گیا، اسے پتہ چلتا گیا کہ خورد بینی دنیا میں توقع سے کہیں زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بہت سارے ایسے جاندار جو بیکٹیریا جیسے دکھائی دیتے اور بیکٹیریا کی طرح کام کرتے، در حقیقت بیکٹیریا نہیں تھے، جیسے زمانہ قدیم سے وہ بیکٹیریا سے الگ ہو چکے ہوں۔ ووز نے انہیں آرکی بیکٹیریا یا آرکیا کا نام دیا۔

آرکی اور بیکٹیریا کے مابین فرق محض ایک ماہرِ حیاتیات کے لیے ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ فرق ان کے لائپڈز میں اور پیپٹی گلائیکین کی عدم موجودگی ہیں۔ عملی اعتبار سے انتہائی وسیع فرق ہیں۔ آرکیا اور بیکٹیریا اس سے کہیں زیادہ مختلف ہیں جتنا کہ انسان مکڑی سے یا کیکڑے سے۔ ووز نے تن تنہا حیات کی ایسی تقسیم دریافت کر لی جو سب سے انوکھی تھی۔

1976 میں اس نے متعلقہ شعبے میں ہلچل مچا دی جب اس نے Tree of Life کی پانچ اہم شاخوں کی بجائے 23 ذیلی شاخیں بنا دیں جو تین شاخوں سے نکلی تھیں۔ ان کے نام بیکٹیریا، آرکیا اور یوکاریہ رکھے گئے۔ ان شاخوں کو اس نے ڈومین کہا۔ سو نئی ترتیب کچھ ایسے تھی:

بیکٹیریا: سائنو بیکٹیریا، جامنی بیکٹیرا، گرام مثبت بیکٹیریا، سبز نان سلفر بیکٹیریا، فلاوو بیکٹیریا اور تھرموٹگالیز

آرکیا: ہالوفیلیک آرکیانز، میتھانوسارکینا، میتھانوبیکٹیریم، میتھانوکوکس، تھرموسلیئر، تھرموپروٹیوس اور پائروڈکٹم

یوکاریہ:ڈپلومیڈ، مائیکروسپوریڈیا، ٹرائیکوموناڈز، فلیگلیٹس، اینٹامیبا، سلائم مولڈ، سیلیئٹ، نباتات، فنجائی اور جانور

ووز کی نئی ترتیب نے حیاتیات کی دنیا میں کوئی تہلکہ نہیں مچایا۔ کچھ سائنس دانوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ خورد بینی جانداروں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے تو کچھ سائنس دانوں نے اسے یکسر نظرانداز کر دیا۔ فرانسس ایشکرافٹ کے مطابق، ‘ووز کو سخت مایوسی ہوئی۔ ‘ تاہم آہستہ آہستہ مائیکروبیالوجسٹوں نے اس کی سکیم پر توجہ دینی شروع کر دی۔ تاہم ماہرینِ حیوانات اور ماہرینِ نباتات نے سب سے آخر میں اسے قبول کرنا شروع کیا جس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ووز کے ماڈل میں نباتات اور حیوانات کو یوکارین شاخ کے دور دراز کونے میں معمولی شاخ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ باقی ہر چیز یک خلوی دنیا سے متعلق ہے۔

ووز نے ایک انٹرویو میں بتایا، ‘یہ لوگ حیات کی تقسیم میں محض ظاہری فرق ملحوظ رکھتے تھے۔ میری تقسیم مالیکیولوں کی ترتیب پر مشتمل ہے جو ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ جو فرق انہیں دکھائی نہیں دیتا، وہ انہیں قبول نہیں۔ حالانکہ ان کے بنائے ہوئے پانچ شاخوں والے نظام کا کوئی فائدہ نہیں۔ طبعیات کی طرح حیاتیات بھی اب ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں مطلوبہ جانداروں اور ان کے افعال کو عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ‘

1998 میں ہارورڈ کے پرانے ماہرِ حیاتیات ارنسٹ مائیر (جو اس وقت 94 سال کا تھا اور اس کتاب کو تحریر کرتے وقت 100 عبور کرنے والا تھا) نے یہ کہہ کر مزید ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ حیات کی محض دو بڑی شاخیں کافی ہیں۔ Proceeding of the National Academy of Sciences میں لکھے گئے مضمون میں مائیر نے بتایا کہ ووز کی دریافت دلچسپ تو ہے لیکن اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں کیونکہ ‘ووز نے حیاتیات دان کے طور پر تربیت نہیں لی، اس وجہ سے وہ درجہ بندی کے اصولوں سے واقف نہیں۔ ‘ ایک اہم سائنس دان کی طرف سے دوسرے اہم سائنس دان کو نرم سے نرم الفاظ میں جاہل کہا جا رہا ہے۔

مائیر کے نکتہ نظر کی بنیاد انتہائی دقیق سائنسی پہلو ہیں جن میں میوٹک جنسیت، ہینیجن کلیڈیفکیشن اور کچھ دیگر متنازعہ امور ہیں۔ تاہم اس کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اس طرح Tree of Life کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس کے بقول عالمِ بیکٹیریا محض چند ہزار انواع پر مشتمل ہے جبکہ آرکیان میں محض 175 انواع ہیں اور شاید چند ہزار مزید، جو ابھی دریافت نہیں ہوئیں۔ دوسری جانب یوکیریوٹک عالم میں علیحدہ مرکزہ رکھنے والے کثیر خلوی جاندار ہیں جن کی انواع کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس لیے مائیر کے خیال میں بیکٹیریا اور اس جیسے دیگر جانداروں کو یک خلوی گروہ پروکیروٹا میں رکھا جائے اور ‘زیادہ ترقی یافتہ’ جانداروں کو یوکیریوٹا میں ساتھ رکھا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں ہر چیز جوں کی توں چھوڑ دی جائے۔ اس طرح یک خلوی اور کثیر خلوی جانداروں کا بنیادی فرق سامنے آتا ہے۔

ووز کی نئی ترتیب سے ہمیں ایک بات پتہ چلتی ہے کہ حیات بہت متنوع اور اکثر اتنی چھوٹی ہے کہ ہمیں دکھائی نہیں دیتی اور یک خلوی ہے۔ عام طور پر انسان ارتقا کے بارے یہی سوچتا ہے کہ بہت طویل عرصے سے ہونے والی اچھی اور اہم تبدیلیاں بڑے جانداروں تک یعنی ہم تک آئی ہیں۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں۔ تاہم ارتقا میں ہونے والی اہم ترین تبدیلیاں چھوٹے پیمانے پر ہوئی ہیں۔ ہم جیسے بڑے جاندار محض ایک استثنائی شاخ ہیں۔ زندگی کی 23 اہم شاخوں میں سے محض تین قسمیں، حیوانات، نباتات اور فنجائی کا حجم اتنا بڑا ہوتا ہے کہ عام انسان انہیں دیکھ پاتا ہے۔ تاہم ان میں بھی کئی انواع خورد بینی ہیں۔ ووز کے مطابق اگر ہم تمام تر جانداروں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کا وزن کریں تو خورد بینی جاندار کل وزن کا کم از کم 80 فیصد نکلیں گے۔ ہماری دنیا کے اصل مکین خورد بینی جاندار ہی ہیں جو بہت طویل عرصے سے بستے چلے آ رہے ہیں۔

***

سو، ہم اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آیا خورد بینی جاندار واقعی ہمیں اتنا نقصان پہنچاتے ہیں؟ ہمیں بیمار کر کے، کھانسی، بخار، زخم پہنچا کر یا مار کر انہیں کیا خوشی ملتی ہو گی؟ جب میزبان جاندار مر جائے تو طفیلیوں کی اپنی زندگی مختصر ہو جاتی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات یاد رہے کہ خورد بینی جانداروں کی بہت بڑی تعداد یا تو ہمیں نقصان نہیں پہنچاتی یا پھر ہمارے لیے مفید ہے۔ کرہ ارض کا سب سے مہلک بیکٹیریا Wolbachia انسان یا کسی بھی دوسرے فقاریہ جانور کے لیے کسی طور بھی نقصان دہ نہیں۔ لیکن اگر مکھی، کیڑے یا جھیں گے کی بات کی جائے تو یہ بیکٹیریا ان کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ نیشنل جیوگرافک کے مطابق، ‘ہر ہزار میں سے ایک جراثیم ہمارے لیے مضر ہوتا ہے ‘، اگرچہ جو مضر ہوتے ہیں، وہ بہت زیادہ مضر بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان کی بھاری اکثریت نقصان دہ نہیں، مگر آج بھی مغربی دنیا میں اموات کی تیسری بڑی وجہ یہی جراثیم ہیں۔ اگر ایسے جراثیم مہلک نہ بھی ہوں تو بھی ہمیں ان کے وجود سے نقصان ہوتا ہے۔

اپنے میزبان کو بیمار کر کے جراثیموں کو کچھ فوائد ملتے ہیں۔ بیماری کی علامات عموماً اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ الٹی کرنا، چھینکنا اور اسہال وغیرہ جراثیموں کے پھیلاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔ سب سے بہتر طریقہ تیسرے فریق کی مدد سے پھیلنا ہے۔ جراثیموں کو سب سے زیادہ رغبت مچھروں سے ہوتی ہے کہ مچھر کے ڈنگ سے جراثیم براہ راست دورانِ خون تک پہنچ جاتے ہیں اور میزبان کے مدافعتی نظام کے حرکت میں آنے سے قبل بیماری شروع ہو جاتی ہے۔ خطرناک بیماریوں کی اکثریت، بشمول ملیریا، زرد بخار، ڈینگی، گردن توڑ بخار اور سو کے قریب دیگر مشہور بیماریاں مچھروں سے ہی پھیلتی ہیں۔ یہ بات آپ کے لیے شاید اطمینان کا باعث ہو کہ ابھی تک ایڈز یا ایچ آئی وی مچھروں سے ابھی تک نہیں پھیلنے کے قابل ہوا۔ ایچ آئی وی کا کوئی بھی وائرس جب مچھر کے جسم میں پہنچتا ہے تو فوراً ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کبھی یہ وائرس اپنی شکل بدل کر مچھروں میں زندہ رہنے کے قابل ہو گیا تو ایڈز کی خوفناک عالمی وبا شروع ہو جائے گی۔

عقلی طور پر دیکھا جائے تو یہ خطرہ اتنا بڑا نہیں کہ خورد بینی جاندار میں انسانی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ جیسے آپ صابن سے نہاتے ہوئے یا ڈیوڈورنٹ سے کروڑوں جراثیم مارتے ہوئے ان کے بارے نہیں فکرمند ہوتے، اسی طرح انہیں بھی آپ کے بارے ایسی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ جراثیموں کو آپ کی زندگی کی اہمیت کا تب اندازہ ہوتا ہے جب وہ آگے منتقل ہونے سے قبل ہی آپ کو مار دیں۔ کیونکہ اس طرح ان کی اپنی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ جیرڈ ڈائمنڈ کے مطابق تاریخ میں، ‘ایسی بے شمار وباؤں کا تذکرہ ملتا ہے جو انتہائی مہلک تھیں لیکن پھر اچانک ختم ہو گئیں۔ ‘ اس بارے جیرڈ نے حوالہ دیا ہے کہ انگلستان کی پسینے والی بیماری جو کہ 1485 سے 1552 تک ہزاروں انسانوں کی جان لے چکی تھی، اچانک ختم ہو گئی۔ جراثیموں کے لیے حد سے زیادہ فعال ہونا فائدہ مند نہیں ہوتا۔

بیماری کی اہم ترین علامتیں اس وجہ سے نہیں پیدا ہوتیں کہ جراثیم آپ کو نقصان دے رہے ہیں بلکہ اس لیے کہ آپ کا جسم ان کا کیسے مقابلہ کر رہا ہے۔ اکثر جراثیموں کو مارتے ہوئے ہمارا مدافعتی نظام نہ صرف جراثیموں بلکہ جسم کے دیگر خلیوں اور بافتوں کو بھی تباہ کر سکتا ہے۔ اس لیے جب آپ بیمار ہوں تو یاد رہے کہ یہ علامات آپ کے مدافعتی نظام کی وجہ سے ہیں، نہ کہ جراثیم کی وجہ سے۔ بیماری کی علامات بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم ہیں کیونکہ بیمار بندے کی حرکت محدود ہو جاتی ہے اور دیگر افراد کو نقصان پہنچنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

چونکہ بے شمار اقسام کے جراثیم ہر وقت ہم پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں، اس لیے ہمارے خون میں مدافعتی سفید خلیوں کی تقریباً ایک کروڑ اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہر قسم ایک مخصوص قسم کے جرثومے سے نمٹنے کا کام کرتی ہے۔ اتنی زیادہ تعداد میں ہر قسم کے بے شمار خلیے ہر وقت موجود رہنا بیکار ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارا مدافعتی نظام ہر قسم کے چند خلیوں کو ہر طرف دوڑائے رکھتا ہے۔ جونہی جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو متعلقہ قسم کے دفاعی خلیے آگے بڑھ کر اس کی شناخت کر کے مطلوبہ قسم کے مدافعتی خلیوں کی فوج تیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جب یہ خلیے تیار ہونے لگتے ہیں تو آپ کو بیماری کا احساس ہوتا ہے۔ جب یہ خلیے اپنا کام شروع کرتے ہیں تو آپ کی صحت بہتر ہونے لگتی ہے۔

سفید خلیے انتہائی بے رحم اور سفاک ہوتے ہیں اور آخری جراثیم کی موجودگی تک انہیں تلاش کر کے ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ تباہی سے بچنے کے لیے جراثیموں نے دو مختلف حربے اپنائے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ انتہائی تیزی سے حملہ کر کے دوسرے شکار کی تلاش میں آگے بڑھ جاتے ہیں اور مدافعتی نظام کو فعال ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس کی عام مثال زکام ہے۔ دوسرے حربے میں جراثیم خود کو اس طرح چھپا لیتے ہیں کہ مدافعتی نظام نہیں تلاش ہی نہیں کر سکتا۔ ایچ آئی وی ایسے ہی کرتا ہے اور انسانی جسم میں برسوں تک چھپ کر آرام سے بیٹھنے کے بعد اچانک فعال ہو کر حملہ کر دیتا ہے۔

عفونت یعنی انفیکشن کا ایک اور عجیب پہلو یہ ہے کہ عام بے ضر ر جراثیم جب جسم کے کسی غلط حصے میں پہنچتے ہیں تو بے قابو ہو کر بیماری پھیلانے لگتے ہیں۔ لبنان، نیو ہمپشائر کے ڈارٹ ماؤتھ ہچکاک میڈیکل سینٹر کے عفونتی امراض کے ماہر ڈاکٹر برائن مارش کے مطابق ‘جراثیم بے قابو ہو جاتے ہیں۔ اکثر گاڑیوں کے حادثات میں اندرونی چوٹیں لگتی ہیں تو یہ مسئلہ سامنے آتا ہے۔ ہمارے نظامِ انہضام کے بے ضر ر بیکٹیریا جب دوسرے حصے مثلاً دورانِ خون میں پہنچتے ہیں تو تباہی پھیلا دیتے ہیں۔ ‘

اس طرح کی بے قابو بیماریوں میں سب سے خوفناک بیماری عضلات کی موت ہے۔ اسے انگریزی میں Necrotizing fasciitis کہتے ہیں۔ اس بیماری میں بیکٹیریا انسان کو اندر سے کھانا شروع کر دیتے ہیں اور آخر میں محض لجلجا سا بدبو دار مادہ رہ جاتا ہے۔ اکثر مریض معمولی علامات کے ساتھ آتے ہیں جیسے جلد پر پڑنے والے چھالے یا رگڑ اور بخار وغیرہ، مگر پھر ان کی حالت انتہائی تیزی سے بگڑنے لگتی ہے۔ جب انہیں عملِ جراحی سے گزارا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں اندر سے کھایا جا رہا ہے۔ واحد حل یہی ہے کہ متاثرہ عضو سے اس بیماری کی ہر ممکن باقیات کاٹ کر الگ کر دی جائیں۔ 70 فیصد مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں، ان میں زیادہ تر کی جسمانی ساخت انتہائی بگڑ چکی ہوتی ہے۔ اس بیماری کا اصل جرثومہ A Streptococcus بیکٹیریا ہے جو عام حالات میں محض گلا خراب کرتا ہے۔ تاہم انتہائی کم واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ یہ جراثیم گلے کی تہہ سے جسم میں پھیل جاتے ہیں اور پھر تباہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان پر اینٹی بایوٹکس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ امریکہ میں ہر سال ایک ہزار ایسے واقعات ہوتے ہیں اور کون جانے کب ان کی تعداد بڑھنا شروع ہو جائے۔

عین یہی بات گردن توڑ بخار پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ کم از کم دس فیصد بچے اور شاید تیس فیصد ٹین ایجرز میں اس کا مہلک بیکٹیریا موجود ہوتا ہے اور ان کے گلے میں بغیر کوئی تکلیف پہنچائے رہتا ہے۔ لاکھ میں سے ایک واقعہ ایسا ہوتا ہے کہ یہ بیکٹیریا دورانِ خون تک پہنچ جاتا ہے اور شدید بیماری شروع ہو جاتی ہے۔ شدید حملوں میں موت محض بارہ گھنٹے میں ہو سکتی ہے۔ مارش کے بقول، ‘صبح ناشتے پر ہر طرح سے صحت مند انسان رات کو مر چکا ہوتا ہے۔ ‘

اگر ہم بیکٹیریا کے خلاف اپنے بہترین ہتھیار یعنی اینٹی بایوٹکس کا انتہائی غلط استعمال نہ کرتے تو ان کے خلاف ہماری مدافعت کافی آسان ہوتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ستر فیصد اینٹی بایوٹکس ادویات مویشیوں کو خوراک میں ملا کر دی جاتی ہیں تاکہ ان کی نشو و نما تیز ہو سکے یا بیماریوں سے پیشگی بچاؤ ہو۔ اس طرح کی صورتحال میں بیکٹیریا کو مدافعت پیدا کرنے کے بے شمار مواقع مل جاتے ہیں۔ بیکٹیریا ایسے مواقع سے فوراً فائدہ اٹھاتے ہیں۔

1952 میں سٹیفلوکوکس بیکٹیریا کی تمام اقسام کے خلاف پینسلین اتنی موثر تھی کہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں امریکی سرجن جنرل ولیم سٹیوارٹ نے باقاعدہ اعلان کر دیا، ‘وقت آ گیا ہے کہ عفونتی بیماریوں کو بھلا دیا جائے۔ ہم نے ریاست ہائے متحدہ سے عفونت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ‘ تاہم جب یہ اعلان ہوا تو اسی وقت تقریباً نوے فیصد بیکٹیریا پینسلین کے خلاف مدافعت پیدا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ جلد ہی ہسپتالوں میں میتھائی سیلین کے خلاف مدافعت رکھنے والے سٹیفلوکوکس آریوس نامی بیکٹیریا نمودار ہونے لگے۔ اس پر صرف ایک اینٹی بایوٹک دوا وینومائی سین ہی موثر تھی۔ تاہم 1997 میں ٹوکیو کے ایک ہسپتال نے اعلان کیا کہ ان کے ہاں یہ دوا اب اس بیکٹیریا پر کارآمد نہیں رہی۔ چند ماہ میں یہ بیکٹیریا چھ دیگر ہسپتالوں تک پھیل گئے۔ آج خورد بینی جاندار ہمارے خلاف جنگ جیتنے کا آغاز کر چکے ہیں۔ ہر سال امریکی ہسپتالوں سے انفیکشن کا شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد 14٫000 سے زیادہ ہے۔ نیویارکر کی ایک رپورٹ کے مطابق، ‘اگر ایک ایسی اینٹی بایوٹک تیار کی جائے جو کہ لوگ دو ہفتے کے لیے استعمال کریں اور ایک ایسی دوا جو نفسیاتی علاج کے لیے انسان کو تا عمر لینی پڑے تو ظاہر ہے کہ ادویہ ساز کمپنیاں نفسیاتی دوا پر ہی کام کریں گی۔ چند اینٹی بایوٹکس کو کچھ بہتر بنایا تو گیا ہے مگر حقیقت میں ادویہ ساز صنعت نے 1970 کی دہائی کے بعد کوئی بھی یکسر نئی اینٹی بایوٹک دوا نہیں بنائی۔

اب ہماری لاپرواہی دیکھیے کہ بہت ساری بیماریوں کے بارے اب علم ہو رہا ہے کہ وہ بیکٹیریا سے پھیلتی ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز 1983 میں آسٹریلیا کے شہر پرتھ سے ہوا جب وہاں کے ایک ڈاکٹر بیری مارشل نے دیکھا کہ معدے کے کئی کینسر اور معدے کے زیادہ تر السر کی وجہ ہیلی کو بیکٹر پائلوری نامی ایک بیکٹیریا ہے۔ اگرچہ اس کی دریافت کو بہ آسانی آزمایا جا سکتا تھا مگر یہ معاملہ اتنا اچھوتا تھا کہ لگ بھگ ایک دہائی بعد اسے عام قبول کیا جانے لگا۔ امریکہ کے قومی ادارہ صحت نے اس دریافت کو 1994 میں سرکاری طور پر قبول کیا۔ مارشل نے 1999 میں فوربس کو بتایا کہ، ‘سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ان السروں سے مرے، حالانکہ انہیں بہ آسانی بچایا جا سکتا تھا۔ ‘

اس کے بعد سے ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ شاید ہر بیماری اور مسئلے کے پیچھے بیکٹیریا ہو سکتے ہیں جن میں امراضِ قلب، دمہ، گٹھیا، ملٹی پل سکلروسس، بہت سارے نفسیاتی مسائل، بہت ساری اقسام کے کینسر اور حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ شاید موٹاپے کی وجہ بھی بیکٹیریا ہو۔ ہمیں جلد ہی کارگر اینٹی بایوٹک کی ضرورت پڑنے والی ہے اور ہمارے پاس اس وقت ایسی کوئی بھی دوا موجود نہیں۔

شاید یہ سن کر آپ کو کچھ سکون ملے کہ بیکٹیریا بھی بیمار ہوتے ہیں۔ ان پر وائرس کا حملہ ہو سکتا ہے جو بیکٹیریو فیج یا فیج کہلاتے ہیں۔ وائرس بذاتِ خود ایک انتہائی عجیب اور بری چیز ہے۔ نوبل انعام یافتہ پیٹر میڈاور کے مطابق، ‘وائرس نیوکلیک ایسڈ کا ایک ٹکڑا ہے جس سے صرف بری خبر ملتی ہے۔ ‘ بیکٹیریا سے چھوٹے اور سادہ وائرس خود زندہ نہیں ہوتے۔ تنہائی میں وائرس بالکل بے حس و حرکت اور بے ضر ر ہوتے ہیں۔ تاہم مناسب حالات مہیا ہوتے ہی یہ زندہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی لگ بھگ 5٫000 اقسام دریافت ہو چکی ہیں اور ان سے پھیلنے والی بیماریاں سینکڑوں ہیں جو نزلہ زکام سے لے کر چیچک، ریبیز، زرد بخار، ایبولا، پولیو اور ایڈز بھی ہو سکتی ہیں۔

وائرس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ میزبان خلیے کے جینیاتی مواد پر قبضہ کر کے اسے اپنے جیسے نئے وائرس پیدا کرنے پر لگا دیتا ہے۔ ان کی تعداد میں بے پناہ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور جب جگہ نہ رہے تو خلیہ پھٹ جاتا ہے اور نئے وائرس یہی کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ چونکہ وائرس بذاتِ خود زندہ نہیں ہوتے، اس لیے ایڈز وغیرہ جیسے بہت سارے وائرس میں دس یا اس سے کم جین ہوتے ہیں جبکہ سادہ سے سادہ بیکٹیریا میں بھی یہ تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ ان کی جسامت بہت مختصر ہوتی ہے اور عام خورد بین سے نہیں دکھائی دیتے۔ 1943 میں الیکٹران مائیکروسکوپ کی دریافت کے بعد پہلی بار ان کا مشاہدہ کیا گیا۔ تاہم ان سے پہنچنے والا نقصان بے انتہا ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں چیچک سے لگ بھگ 30 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔

وائرس کی ایک انتہائی خطرناک خاصیت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی، کہیں بھی اچانک نمودار ہو کر پھر اسی طرح اچانک غائب ہو سکتے ہیں۔ 1916 میں یورپ اور امریکہ میں لوگوں میں سونے کی عجیب سی بیماری پھیل گئی جسے بعد میں Encephalitis Lethargica کا نام دیا گیا۔ مریض سو جاتے اور پھر نہ اٹھتے۔ ہاں، جب انہیں بیدار کیا جاتا تو وہ اٹھتے، کھانا وغیرہ کھاتے، حوائجِ ضروریہ پوری کرتے، انہیں اپنے اور اپنے اردگرد کے بارے پورا علم ہوتا اور پوچھے گئے سوالات کے درست جواب انتہائی لاپرواہی سے دیتے۔ تاہم جونہی انہیں سونے کی اجازت ملتی، فوراً اسی جگہ سو جاتے اور جب تک بیدار نہ کیا جاتا، سوئے ہی رہتے۔ بعض لوگ تو اس حالت میں مہینوں بعد جا کر مرے۔ بہت کم مریض صحت یاب ہوئے لیکن ان کی صحت بھی بالکل بجھی ہوئی تھی۔ دس سال میں اس بیماری سے 50 لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور پھر یہ بیماری اچانک غائب ہو گئی۔ تاہم اس پر لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی کہ اس وقت دنیا بھر میں اس سے کہیں زیادہ بلکہ انسانی تاریخ کی بدترین وبا پھیلی ہوئی تھی۔

اسے عظیم سوائن فلو کی وبا یا عظیم ہسپانوی فلو کی وبا کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری انتہائی مہلک تھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے 4 سال کے دوران دو کروڑ دس لاکھ افراد مارے گئے۔ اس بیماری سے محض چار ماہ میں اتنی ہلاکتیں ہوئیں۔ پہلی جنگِ عظیم میں ہونے والی امریکی ہلاکتوں کا 80 فیصد حصہ اس بیماری کا تھا۔ بعض جگہوں پر تو اس کے مریضوں کے مرنے کی شرح 80 فیصد بھی تھی۔

1918 کے موسمِ بہار میں سوائن فلو عام زکام کی طرح شروع ہوا اور پھر نہ جانے کب اور کیسے اس میں تبدیلی آئی اور اس کی شدت بڑھ گئی۔ بیس فیصد مریضوں کو معمولی علامات لاحق ہوتیں لیکن باقی شدید بیمار ہوتے اور ان کی اکثریت مر جاتی۔ بعض کو مرنے میں چند گھنٹے لگتے تو بعض کو چند دن۔

امریکہ میں پہلی اموات بوسٹن کے ماہی گیروں میں اگست 1918 کے اواخر میں ہوئیں اور پھر یہ بیماری پورے ملک میں پھیل گئی۔ سکول بند ہو گئے اور تفریح گاہیں بھی بند کر دی گئیں اور ہر جگہ لوگ ماسک پہننے لگے۔ تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اگلے موسمِ بہار تک ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ برطانیہ میں دو لاکھ بیس ہزار اور جرمنی اور فرانس میں بھی لگ بھگ اتنے افراد جان سے گئے۔ پوری دنیا سے اموات کی تعداد کا علم نہیں کہ غریب ممالک میں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ تاہم اندازہ ہے کہ دو کروڑ سے پانچ کروڑ کے لگ بھگ اموات ہوئیں۔ بعض ذرائع اسے دس کروڑ مانتے ہیں۔

تریاق تیار کرنے کے لیے طبی حکام نے بوسٹس کی بندرگاہ پر موجود ڈیر آئی لینڈ کی فوجی جیل سے رضاکار لیے۔ ان سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ تمام تر ٹیسٹ سے بچ گئے تو ان کی جان بخشی ہو جائے گی۔ یہ ٹیسٹ بہت ظالمانہ تھے۔ سب سے پہلے تو رضاکاروں کو اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کے پھیپھڑوں سے نکالے گئے مواد کے ٹیکے لگائے گئے۔ پھر متاثرہ مواد کو ان کی آنکھوں، ناک اور منہ پر چھڑکا گیا۔ اگر اس سے بھی ان میں علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں تو قریب المرگ مریضوں کے ناک اور منہ سے نکلنے والی رطوبتوں ان کے گلے میں لگائی گئیں۔ جب ہر طرح سے ناکامی ہوئی تو رضاکاروں کے منہ کھلوا کر قریب المرگ مریضوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان کے منہ پر کھانسیں۔

تین سو رضاکاروں میں سے کل 62 کو چنا گیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی بیمار نہ ہوا۔ اس بیماری سے ہونے والی واحد موت ان کے ڈاکٹر کی تھی جو بہت جلد ہوئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ چند ہفتے قبل وبا جیل میں پھیل گئی تھی اور جو افراد اس وبا سے بچ گئے، ان میں قدرتی مدافعت پیدا ہو گئی تھی۔

1918 کی فلو کی وبا کے بارے ہمیں کچھ خاص معلومات نہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ہی وقت میں کیسے تمام جگہوں پر بیماری کا آغاز ہوا جن کے درمیان سمندر، پہاڑ اور دیگر قدرتی رکاوٹیں تھیں۔ میزبان کے جسم کے باہر کوئی بھی وائرس چند گھنٹے سے زیادہ نہیں زندہ رہ سکتا۔ پھر ایک ہی ہفتے کے دوران میڈرڈ، بمبئی اور فلاڈلفیا میں یہ بیماری کیسے پہنچی؟

ایک ممکنہ جواب تو یہ ہے کہ شاید لوگ اس بیماری سے متاثر ہوئے لیکن علامات نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے انہیں احساس نہیں ہوا۔ عام طور پر وبا اس وقت پھیلتی ہے جب آبادی کے دس فیصد افراد اس بیماری کے شکار تو ہوتے ہیں لیکن ان میں کوئی علامات نہیں پائی جاتیں۔ ان کے متحرک رہنے کی وجہ سے وبا پھیلتی ہے۔

شاید اسی طرح 1918 کی وبا پھیلی ہو گی۔ تاہم یہ کہنا ممکن نہیں کہ کیسے یہ بیماری مہینوں تک دبے رہنے کے بعد ہر جگہ ایک ہی وقت میں شروع ہوئی؟ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ صحت مند لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ عام طور پر فلو شیرخوار بچوں اور معمر لوگوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے مگر 1918 کی وبا کے شکار لوگ تقریباً وہی تھے جو بیس سے چالیس کے درمیان اور بھرپور صحت مند تھے۔ معمر لوگ تو شاید اس وجہ سے بچ گئے ہوں کہ پہلے کبھی وہ اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اس سے مدافعت حاصل کر چکے ہوں۔ تاہم شیرخوار کیسے بچے ہوں گے؟ سب سے بڑا معمہ یہ ہے کہ 1918 کا فلو اتنا مہلک کیسے ہو گیا جبکہ عام طور پر فلو مہلک نہیں ہوتا؟ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بعض اقسام کے وائرس وقفے وقفے سے نمودار ہوتے ہیں۔ ایک خطرناک روسی H1N1 وائرس سے 1933، 1950 کی دہائی اور پھر 1970 کی دہائی میں وبائیں پھیلیں۔ تاہم ہر دو وباؤں کے درمیان یہ وائرس کہاں گیا، کچھ علم نہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ شاید یہ وائرس جنگلی جانوروں میں چھپ جاتا ہو اور پھر انسانوں کی اگلی نسل کو متاثر کرتا ہو۔ اس بارے کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عظیم سوائن فلو کی وبا پھر سے نمودار ہو جائے۔

اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی دوسری بیماریاں تو موجود ہیں ہی۔ نئے اور خطرناک وائرس ہر وقت نمودار ہو رہے ہیں۔ ایبولا، لاسا اور ماربرگ جیسے بخار وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے اور پھر غائب ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ درمیانی وقفے میں یہ بیماریاں کہاں جا کر چھپ جاتی ہیں، شاید انہیں بہتر مواقع کا انتظار ہو؟ یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ ایڈز کی بیماری ہمارے اندازوں سے زیادہ پرانی ہے۔ مانچسٹر کی رائل انفرمری کے محققین نے پتہ چلایا ہے کہ 1959 میں پراسرار اور ناقابلِ علاج بیماری سے مرنے والے بحری سپاہی کی وجہ موت ایڈز تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے بیس سال تک یہ بیماری کیسے چھپی رہی اور پھر اچانک وبا کی شکل میں پھوٹ پڑی۔

شکر ہے کہ ایسی دیگر بیماریاں قابو سے باہر نہیں ہوئیں۔ لاسا بخار کے بارے پہلی بار 1969 میں معلومات حاصل ہوئیں، مغربی افریقہ سے پھیلا اور اس کے بارے بہت کم معلومات ہیں جبکہ یہ بیماری انتہائی سرعت سے پھیلتی ہے۔ 1969 میں یےل یونیورسٹی لیب جو کہ نیو ہاون، کنکٹی کٹ میں تھی، کے ایک ڈاکٹر کو لاسا بخار ہوا جو اس پر تحقیق کر رہا تھا۔ ڈاکٹر تو بچ گیا لیکن عجیب تر بات یہ تھی کہ ساتھ موجود ایک اور لیب کے ٹیکنیشن کو یہ بیماری ہوئی اور وہ مر گیا۔ حالانکہ اس ٹیکنیشن کا اس کے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔

خوش قسمتی سے وبا یہیں رک گئی، لیکن ہم شاید ہمیشہ اتنے خوش قسمت نہ ثابت ہوں۔ ہمارا طرزِ زندگی وبا پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ ہوائی سفر سے بیماریاں انتہائی تیزی اور آسانی سے پھیل سکتی ہیں۔ افریقہ میں ایبولا کا وائرس ایک ہی دن میں جرمنی، امریکہ اور دنیا بھر کے دیگر حصوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح طبی ماہرین کو بھی ہر جگہ پائی جانے والی ہر متعدی بیماری کے بارے پوری معلومات ہونی چاہئیں جو کہ نہیں ہیں۔ 1990 میں امریکہ میں مقیم ایک نائجیرین اپنے وطن سے واپس آیا تو اسے لاسا بخار لاحق ہو چکا تھا۔ تاہم علامات امریکہ پہنچنے کے بعد شروع ہوئیں۔ اس کی موت شکاگو کے ہسپتال میں ہوئی اور کوئی ڈاکٹر نہ تو اس کی بیماری کو بروقت تشخیص کر سکا اور نہ ہی کوئی احتیاطی تدابیر کی جا سکیں حالانکہ یہ کرہ ارض پر پائی جانے والی مہلک ترین اور متعدی ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ معجزانہ طور پر کوئی اور بیمار نہ ہوا۔ شاید اگلی بار ایسا نہ ہو۔

اس کے ساتھ ہی ہم اب قابلِ مشاہدہ دنیا کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

21 زندگی چلتی رہتی ہے

 

فاسل یا متحجر بننا آسان نہیں۔ 99.9 فیصد جانداروں کی قسمت میں گل سڑ کر ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ جب جاندار کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے جسم کا ہر مالیکیول اس کے جسم سے الگ ہو کر کسی اور کام میں لگ جاتا ہے۔ تاہم اگر آپ باقی کے 0.1 فیصد سے بھی کم جانداروں میں شامل ہوں، تو بھی آپ کے فاسل بننے کے کا کام آسان نہیں۔

فاسل بننے کے لیے کچھ بنیادی شرائط ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے تو اس جاندار کو بالکل درست جگہ جا کر مرنا چاہیے۔ صرف 15 فیصد چٹانیں ہی فاسلز کو محفوظ کر سکتی ہیں۔ مردہ جانور کو عین اس جگہ ہونا چاہیے جہاں تلچھٹ پر اس کا جسم نشان چھوڑ سکے، مثلاً گیلی مٹی پر۔ اس کے علاوہ آکسیجن کے بغیر اسے سڑنا چاہیے تاکہ اس کے جسم کے سخت حصوں جیسا کہ ہڈیوں وغیرہ (اور بعض حالات میں نرم حصے بھی) کے مالیکیولوں کی جگہ حل شدہ معدنیات لے سکیں جس سے اصل جانور کی نقل نقش ہو جائے گی۔ پھر جب یہی نشان والی جگہ ارضیاتی تبدیلیوں سے گزرے تو اسے اپنی اصل شکل کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنی چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی بہت اہم ہے لاکھوں یا کروڑوں سال تک مناسب طور پر چھپے رہنے کے بعد اسے درست طور پر تلاش کر کے شناخت بھی کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ ہر دس ارب ہڈیوں میں سے محض ایک فاسل بنتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 27 کروڑ افراد جن میں سے ہر انسان کی کل 206 ہڈیاں ہیں، کی کل پچاس ہڈیاں فاسل بنیں گی جو ایک عام انسان کے ڈھانچے کے چوتھائی کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آیا یہ ہڈیاں کبھی تلاش بھی ہو پائیں گی یا نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ ہڈیاں پورے امریکہ کے رقبے یعنی 93 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوں گی اور اس پر بہت کم جگہوں پر آج تک ہڈیوں کی تلاش کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسے میں ہڈیوں کا دریافت ہونا معجزانہ ہو گا۔ ہر اعتبار سے فاسل انتہائی نایاب ہیں۔ زیادہ تر جاندار جو کرہ ارض پر موجود تھے، کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ اندازہ ہے کہ ہر دس ہزار سے زیادہ انواع میں سے محض ایک کے فاسل بچتے ہیں جو کہ انتہائی کم ہیں۔ رچرڈ لیکی اور راجر لیون کی کتاب The Sixth Extinction میں درج ہے کہ ہماری زمین پر لگ بھگ 3 کھرب انواع پیدا ہوئی ہیں اور ان میں سے محض اڑھائی لاکھ کے فاسل ملے ہیں۔ یعنی ہر 1٫20٫000 انواع میں سے محض ایک۔ اس محدود مقدار سے ہمیں زمین پر موجود تمام تر حیات کے بارے اندازے لگانے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے پاس جو ریکارڈ موجود ہے، وہ بھی انتہائی جانبدارانہ ہے۔ زیادہ تر خشکی کے جانور جو مرے، تلچھٹ میں نہیں مرے۔ ان کی موت کھلے آسمان تلے ہوئی اور انہیں مردار خوروں نے یا تو کھا لیا یا پھر وہیں پڑے پڑے گل کر ختم ہو گئے۔ اس لیے فاسل ریکارڈ کی بھاری تعداد محض آبی جاندار پر مشتمل ہے۔ آج ہمارے پاس فاسلز کی 95 فیصد تعداد اتھلے سمندر میں رہنے والے جانوروں کی ہے۔

جب میں یکم فروری کو لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں رچرڈ فورٹی سے ملا تو میں نے اسے یہی بات کہی۔

رچرڈ فورٹی کو بہت ساری چیزوں کے بارے بہت کچھ معلوم ہے۔ اس نے ایک بہت خوبصورت کتاب Life: An Unauthorised Biography لکھی ہے جس میں حیات کی ابتدا کے بارے انتہائی خوبصورت انداز سے بتایا گیا ہے۔ رچرڈ فورٹی کی اولین محبت ایک سمندری مخلوق ٹرائیلوبائیٹ ہے جو 51 کروڑ سے 43.9 کروڑ سال قبل بکثرت پائی جاتی تھی۔ تاہم اب یہ جانور محض فاسل کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس کی تمام اقسام میں جسمانی خاکہ تین حصوں پر مشتمل ہوتا تھا جو سر، دم اور جسم تھے۔ یہ حصے لوب کہلاتے تھے اور اسی سے نام نکلا ہے۔ فورٹی کو اس کا پہلا ٹرائیلوبائیٹ ویلز میں سینٹ ڈیوڈز بے سے ملا تھا۔ تب سے اس کی ساری زندگی اسی جانور کے ساتھ وقف ہو کر رہ گئی۔

پھر ہم دونوں گیلری میں گئے جہاں اونچی دھاتی الماریاں رکھی تھیں۔ ہر الماری میں درازیں پتھر بنے ٹرائیلوبائیٹس سے بھری ہوئی تھیں۔ کل نمونوں کی تعداد 20٫000 تھی۔

‘بظاہر 20٫000 اتنی بڑی تعداد لگتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اربہا سال تک اربہا ٹرائیلوبائیٹس سمندروں میں موجود تھے۔ سو 20٫000 نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر نمونے ادھورے ہیں۔ آج بھی مکمل ٹرائیلوبائیٹ پا لینا کسی بھی پیلنٹالوجسٹ کے لیے بڑی بات ہوتی ہے۔ ‘

بظاہر سب سے پہلے ٹرائیلوبائیٹس اچانک آج سے 54 کروڑ سال قبل پوری طرح بنے بنائے نمودار ہوئے۔ یہ وقت کیمبرین ایکپلوژن کے آغاز کے قریب تھا جو بڑے جانداروں کے نمودار ہونے کا وقت تھا۔ اس کے تیس کروڑ سال بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہونے والی پرمیئن معدومیت کے ساتھ ہی یہ بھی غائب ہو گئے۔ اس طرح کی معدومیت کا مطلب عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ معدوم ہونے والے جانور ناکام تھے مگر ٹرائیلوبائیٹس آج تک پیدا ہوئے کامیاب ترین جانداروں میں سے ایک تھے۔ ان کا دورانیہ 30 کروڑ سال پر مشتمل ہے جو ڈائنوساروں سے دگنا ہے۔ ڈائنوسار خود بھی کامیاب ترین جانوروں میں سے ایک تھے۔ رچرڈ فورٹی نے بتایا کہ انسان ابھی تک ان کے وجود کے ایک فیصد کے بھی نصف کے برابر وقت گزار پائے ہیں۔

اتنا زیادہ وقت ملنے کی وجہ سے ٹرائیلوبائیٹس ہر جگہ پھیل گئے۔ ان کی اکثریت چھوٹی تھی مگر بعض کی جسامت بڑھ کر تھالی جتنی بھی ہو گئی۔ کل مل ملا کر ان کے 5٫000 جنیرا اور 60٫000 انواع اب تک دریافت ہو چکی ہیں اور مزید دریافت ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں جب رچرڈ فورٹی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جنوبی امریکہ گیا تو وہاں، ‘ایک عالمہ ایک ڈبہ لائی جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ بہت سارے ایسے ٹرائیلوبائیٹس بھی تھے جو آج تک جنوبی امریکہ تو کیا، کہیں بھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس عالمہ کے پاس نہ تو تحقیق کے لیے پیسے تھے اور نہ ہی سہولیات، کہ مزید تلاش کی جا سکے۔ دنیا کے زیادہ تر حصے ابھی تک ان چھوئے ہیں۔ ‘

‘ٹرائیلو بائیٹس کے حوالے سے؟’

‘نہیں، ہر حوالے سے۔ ‘

اٹھارہویں صدی کے دوران ٹرائیلوبائیٹس اولین پیچیدہ حیات کے قدیم ترین نمونے سمجھے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے اسے جمع کیا جاتا رہا اور اس پر تحقیق بھی کی جاتی رہی۔ سب سے بڑا معمہ یہ تھا کہ اچانک یہ کیسے نمودار ہوئے۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، اگر آج بھی ہم مطلوبہ ساخت کی چٹانوں میں جائیں اور نیچے سے تہہ در تہہ اوپر کی طرف بڑھتے جائیں تو اچانک پوری طرح بنے بنائے ٹرائیلوبائیٹس نمودار ہوتے ہیں۔ ‘ان کے بازو، گلپھڑے، اعصابی نظام، انٹینا، ایک قسم کا دماغ اور انتہائی حیران کن آنکھیں بھی ہوتی ہیں ‘، رچرڈ فورٹی نے بتایا۔ یہ آنکھیں کیلسائیٹ سے بنی ہوتی تھیں جو چونے میں بھی پایا جاتا تھا۔ قدیم ترین بصری نظام اسی سے بنے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ابتدائی ٹرائیلوبائیٹس کی محض ایک نوع نہیں بلکہ درجنوں انواع ایک ساتھ ہی اور پوری دنیا میں ظاہر ہوئیں۔ اٹھارہویں صدی میں بہت سارے لوگوں نے اسے خدا کا کرشمہ سمجھا اور ڈارون کے نظریہ ارتقا کو جھٹلایا۔ ان کا نکتہ نظر تھا کہ اگر ارتقا آہستہ روی سے ہوتا ہے تو پھر یہ اچانک پورے بنے بنائے جانور کہاں سے آ گئے؟ ڈارون کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔

معاملہ اسی طرح لٹکا رہتا، مگر 1909 میں ڈارون کی کتاب On the Origin of Species کی پچاسویں سالگرہ سے تین ماہ قبل ایک پیلنٹالوجسٹ چارلس ڈولائیٹ نے کینیڈا کے راکی پہاڑوں میں حیرت انگیز دریافت کی۔

والکوٹ 1850 میں نیویارک کے پاس یوٹیکا میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ اس کا خاندان متوسط طبقے سے تھا اور اس کی شیر خواری کے زمانے میں ہی اس کے باپ کا انتقال ہوا تو خاندان غریب ہو گیا۔ لڑکپن میں اسے فاسلز کی تلاش کا خبط سوار ہوا اور ٹرائیلوبائیٹس اس کی خصوصیت بن گئے۔ اس کا محنت سے جمع شدہ مجموعہ اتنا اچھا تھا کہ لوئیس اگاسز نے اسے ہاوروڈ میں موجود اپنے عجائب گھر کے لیے خرید لیا اور اس کے لیے 45٫000 پاؤنڈ سکہ رائج الوقت دیے جو اس وقت کے اعتبار سے خزانے کے برابر تھا۔ بمشکل ہائی سکول تک تعلیم پانے کے باوجود والکوٹ نے خود سے سائنس پڑھی اور اسے ٹرائیلوبائیٹس پر حرفِ آخر مانا جانے لگا۔ اسی نے سب سے پہلے بتایا کہ ٹرائیلوبائیٹس آرتھروپاڈ یعنی حشرات ہیں جیسا کہ موجودہ ارضی اور سمندری حشرات۔

1879 میں والکاٹ نے نئے قائم ہونے والے امریکی جغرافیائی سروے میں فیلڈ ریسرچر کی ملازمت اختیار کی اور اتنے لگن اور محنت سے کام کیا کہ پندرہ سال میں اس محکمے کا سربراہ بن گیا۔ 1907 میں اسے سمتھسونین ادارے کا سیکریٹری بنایا گیا اور اپنی وفات تک یعنی 1927 تک اس نے وہیں کام جاری رکھا۔ سرکاری ذمہ داریوں کے علاوہ بھی اسے فیلڈ ورک کرنے کا وقت مل جاتا تھا اور اس نے لکھنے پڑھنے کا کام بھی جاری رکھا۔ اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ نیشنل ایڈوائزری کمیٹی فار ایروناٹکس کے بانی ممبران میں سے ایک تھا۔ آگے چل کر یہی ادارہ ناسا بنا۔ یعنی والکاٹ خلائی دور کا بانی بھی ہے۔

تاہم والکاٹ کی وجہ شہرت یہ ہے کہ برٹش کولمبیا میں فیلڈ نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے اوپر اس نے 1909 کے موسمِ گرما کے اواخر میں حیران کن دریافت کی۔ کہانی آج کل کچھ ایسے بیان کی جاتی ہے کہ والکاٹ اپنی بیوی کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ایک پہاڑی راستے پر چل رہا تھا کہ اس کی بیوی کا گھوڑا پتھروں سے پھسلا۔ والکاٹ اس کی مدد کرنے کے لیے اپنے گھوڑے سے اترا تو دیکھا کہ جس پتھر سے گھوڑا پھسلا ہے، اس کے الٹنے سے اس کی نچلی سطح پر موجود انتہائی نایاب اور پہلے سے نامعلوم دور کے سمندری جانور کا فاسل موجود تھا۔ برفباری شروع ہو چکی تھی کہ کینیڈا کے راکی پہاڑوں پر سردیاں قبل از وقت آ جاتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے رکنے کی بجائے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ اگلے سال پہلا موقع ملتے ہی والکاٹ اس جگہ واپس لوٹا۔ اس پتھر کے پھسلنے کے راستے کا اندازہ لگا کر وہ ساتھ موجود پہاڑ پر 750 میٹر اوپر چڑھا جہاں سے پہاڑ کی چوٹی قریب تھی۔ سطح سمندر سے 8٫000 فٹ کی بلندی پر اس نے ایک چھجا سا دیکھا جو ایک عام شہری بلاک کے برابر تھا۔ اس جگہ کیمبیرین ایکسپلوژن کے فوراً بعد کے جانداروں کا شاندار فاسل شدہ خزانہ موجود تھا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ والکاٹ نے پیلنٹالوجی کی مقدس ترین جگہ دریافت کر لی تھی۔ اس جگہ کو بعد میں برجیس شیل کا نام دیا گیا اور طویل عرصے تک موجودہ حیات کے بارے ہماری معلومات کا یہ واحد اور بہترین ذریعہ بنی رہی۔

سٹیفن جے گولڈ نے اپنی کتاب Wonderful Life میں لکھا ہے کہ اس نے والکاٹ کی یا د داشتیں پڑھی تھیں اور وہاں اسے گھوڑے کے پھسلنے یا برفباری کا کوئی ذکر نہیں ملا، لیکن اس گراں قدر دریافت کی اہمیت سے مفر نہیں۔

چونکہ آج کل انسان کی زندگی چند دہائیوں سے زیادہ نہیں ہوتی، اس لیے ہمیں یہ اندازہ کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے کہ یہ کیمبرین پھیلاؤ ہم سے کتنا پہلے واقع ہوا تھا۔ اگر ہم ماضی کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک سیکنڈ میں ایک سال جتنا پیچھے جائیں تو حضرت عیسیٰؑ تک پہنچنے میں ہمیں نصف گھنٹہ لگے گا اور تین ہفتے بعد ہم انسان کی ابتدا کو پہنچ جائیں گے۔ تاہم کیمبرین دور کے آغاز تک کا سفر کم از کم 20 سال میں طے ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعہ انتہائی قدیم دور میں اور انتہائی مختلف قسم کے کرہ ارض پر ہوا تھا۔

پہلے تو یہ یاد رہے کہ آج سے 50 کروڑ سال قبل جب برجیس شیل بنی تو یہ جگہ پہاڑ کی چوٹی پر نہیں بلکہ اس کے دامن میں واقع اتھلے سمندر کی تہہ تھی۔ اس دور کے سمندروں میں بہت زیادہ جاندار پائے جاتے تھے لیکن عموماً ان کے فاسلز نہیں بچتے تھے کہ ان کے نرم جسم مرتے ہی گل سڑ جاتے تھے۔ برجیس میں یہ ہوا کہ کسی وجہ سے پوری چٹان کھسک کر نیچے گری اور ہر چیز کو مٹی میں دفن کر دیا۔ عین اسی طرح یہ جانور محفوظ ہو گئے جیسے پھول کو کتاب میں رکھا جاتا ہے۔ تمام چھوٹی بڑی تفاصیل محفوظ ہو گئیں۔

1910 سے 1925 (اس وقت تک اس کی عمر 75 سال ہو چکی تھی) تک کے سالانہ دوروں کے موقع پر والکاٹ نے دسیوں ہزار نمونے نکال کر جمع کیے (گولڈ کے مطابق 80٫000 تاہم نیشنل جیوگرافک کے دعوے کے مطابق 60٫000) اور انہیں اپنے ساتھ واشنگٹن لاتا رہا تھا کہ ان کا تفصیل سے معائنہ کر سکے۔ معیار اور مقدار، دونوں حوالوں سے یہ مجموعہ لاثانی تھا۔ بعض فاسلز میں خول تھے اور بعض بنا کسی خول کے۔ بعض جانوروں کی آنکھیں تھیں تو بعض اندھے تھے۔ تنوع بے پناہ تھا اور ایک اندازے کے مطابق اس میں کل 140 انواع تھیں۔ برجیس شیل میں بعض ایسی جسمانی ساختیں بھی ملیں جن کو دوبارہ نہیں دیکھا جا سکا۔

گولڈ کے مطابق بدقسمتی دیکھیے کہ والکاٹ کو ان کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو پایا۔ گولڈ نے اس کے بارے کچھ یوں لکھا، ‘فتح کے جبڑوں سے شکست چھین لی۔ پھر اس نے ان نمونوں کے ہر ممکن انداز سے غلط تجزیے کرنا شروع کر دیے۔ ‘ اس نے ان جانوروں کو موجودہ گروہوں میں ڈال کر انہیں موجودہ دور کے کیڑوں، جیلی فش اور دیگر مخلوقات کے آباء و اجداد بنا کر ان کے تنوع کو بھلا دیا۔ گولڈ کے مطابق، ‘اس تجزیے کے مطابق زندگی انتہائی سادہ شکل سے شروع ہو کر آگے زیادہ اور پیچیدہ شکل کی جانب بڑھی۔ ‘

والکاٹ 1927 میں فوت ہوا اور برجیس کے فاسلز بھلا دیے گئے۔ نصف صدی تک انہیں واشنگٹن کے امیریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں ایک الماری میں رکھ دیا گیا۔ کبھی کبھار حوالہ کے طور پر انہیں دیکھا جاتا اور اس پر کبھی کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ 1973 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ طالبعلم سائمن کانوے موریس نے اس مجموعے کا معائنہ کیا۔ وہاں موجود چیزیں دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ والکاٹ کی تحاریر کی نسبت یہاں موجود جانوروں کے فاسل کہیں زیادہ متنوع تھے۔ ٹیکسانومی میں جسمانی ساخت سے فائلم کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ کونوے موریس نے فیصلہ کیا کہ ہر دراز میں ایسے منفرد جسمانی خصوصیات والے جانوروں کے فاسلز موجود ہیں کہ ان کا دریافت کنندہ ان سے لاعلم رہا۔

اپنے سپروائزر ہیری وٹنگٹن اور ساتھی طالبعلم ڈیریک برگز کے ساتھ مل کر اس نے اگلے کئی سال تک اس سارے مجموعے کو نئے سرے سے ترتیب دیا اور ہر نئی دریافت پر مقالے بھی لکھتا گیا۔ بہت ساری جسمانی ساختیں ایسی تھیں کہ انہیں پہلے یا بعد میں کبھی نہیں دیکھا گیا اور وہ اتنی منفرد تھیں کہ کسی کو یقین بھی نہ آتا۔ مثال کے طور پر ایک Opabinia کی پانچ آنکھیں اور سونڈ نما ناک تھی جس پر ناخن لگے ہوئے تھے۔ ایک اور طشتری نما مخلوق کا نام Peytoia رکھا گیا جس کی شکل ایسے تھی جیسے انناس کو درمیان سے کاٹ دیا ہو۔ تیسری میں لمبے ڈنڈے نما پیر تھے اور اس کی شکل اتنی عجیب تھی کہ اسے Hallucigenia کہا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مجموعے میں اتنی مختلف اقسام کے جانور پائے جاتے تھے کہ مشہور ہے کہ ایک بار جب کانوے موریس نے ایک دراز کھولی تو بڑبڑایا، ‘ایک اور فائلم۔ ‘

برطانوی ٹیم کی تدوین نے ثابت کیا کہ کیمبرین دور میں نت نئی جسمانی ساختیں آزمائی گئیں۔ لگ بھگ چار ارب سال تک حیات انتہائی سستی اور بے فکری سے پیچیدہ ساخت کی جانب بڑھتی رہی اور پھر اچانک پچاس لاکھ یا ایک کروڑ سال میں وہ تمام جسمانی ساختیں پیدا ہو گئیں جو آج تک کام دے رہی ہیں۔ کسی بھی قسم کے جانور کا نام لیں، چاہے وہ کیڑا ہو یا انسان، ان کی ساخت سب سے پہلے کیمبرین دور میں بنی تھی۔

تاہم حیرت کی بات یہ دیکھیے کہ بے شمار جسمانی ساختیں ایسی تھیں کہ وہ آگے نہ بڑھ پائیں۔ گولڈ کے مطابق ایسی 15 یا 20 ساختیں ہیں جو برجیس کے مجموعے میں تو موجود ہیں لیکن آج ان کا کوئی بھی ہم نسل باقی نہیں۔ (جلد ہی یہ تعداد سو تک جا پہنچی)۔ گولڈ کے مطابق، ‘حیات کی تاریخ میں بہت بڑی تعداد میں معدومیت اور پھر باقی بچنے والی نسلوں میں پیدا ہونے والے فرق پر مشتمل ہے جو روایتی کہانی سے بہت مختلف ہے جہاں حیات آہستہ آہستہ اور بتدریج پیچیدگی اور بہتری کی جانب ترقی کرتی جاتی ہے۔ ‘ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ارتقائی کامیابی لاٹری کی مانند ہے۔

ایک مخلوق جو کیمبرین دور سے آگے بڑھنے میں کامیاب رہی، چھوٹے کیڑے کی قسم کی مخلوق تھی جسے Pikaia gracilens کہا گیا۔ اس میں بہت سادہ قسم کی ریڑھ کی ہڈی موجود تھی۔ یہ خوبی اسے آج موجود تمام فقاریہ جانوروں بشمول انسان کا بھی جدِ امجد بناتی ہے۔ تاہم یہ جانور برجیس فوسلز میں بہت کم مقدار میں ملا ہے، یعنی ہمیں نہیں معلوم کہ ہم معدومیت کے کتنے قریب سے گزرے تھے۔ گولڈ نے اس بارے لکھا ہے کہ اس کے خیال میں ہمارا وجود زمانہ قدیم سے اب تک ہونے والی انتہائی نایاب قسم کی مسلسل کامیابی ہے۔ اس کے مطابق، ‘اگر ہم ارتقا کی تاریخ کو پیچھے لے جائیں اور پھر وہ آگے بڑھنا شروع ہو تو یہ بات تقریباً ناممکن دکھائی دیتی ہے کہ کبھی انسان جیسی ذہین مخلوق پھر زمین پر پائی جائے۔ ‘

1989 میں گولڈ کی کتاب Wonderful Life چھپی اور مقبولِ عام ہونے کے ساتھ ساتھ تجارتی اعتبار سے بہت کامیاب رہی۔ تاہم یہ بات اس وقت تک صیغہ راز میں رکھی گئی کہ بہت سارے سائنس دان اس کے اخذ کردہ نتائج سے متفق نہیں تھے اور جلد ہی معاملات ہاتھ سے نکلنے والے تھے۔

در حقیقت کیمبرین دور سے بھی کوئی 10 کروڑ سال قبل سے کثیر خلوی جاندار پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہمیں اس کے بارے پہلے پتہ چلنا چاہیے تھا۔ والکاٹ کی دریافت کے 40 سال بعد دنیا کے دوسرے کنارے یعنی آسٹریلیا میں ایک ماہرِ ارضیات ریگینالڈ سپرِگ نے اس سے بھی قدیم تر چیز ڈھونڈ نکالی۔

1946 میں نوجوان سپرِگ نائب سرکاری ماہرِ ارضیات کے طور پر جنوبی آسٹریلیا میں فائنڈرز پہاڑی سلسلے میں اڈیاکارن پہاڑیوں کی متروک شدہ کانوں کے سروے میں مصروف تھا۔ یہ پہاڑی سلسلہ ایڈیلڈ سے 500 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ اس سروے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ آیا کسی پرانی کان کو نئی ٹیکنالوجی سے دوبارہ قابلِ استعمال اور قابلِ منافع بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے وہ نہ تو چٹانی پتھر تلاش کر رہا تھا اور نہ ہی فاسلز۔ ایک دن دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے سپرِگ نے ریتلے پتھر کے ایک ٹکڑے کو الٹا تو اس پر موجود نفیس فوسلز کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ ایسے فوسلز جیسے گیلی مٹی پر پتہ نشان چھوڑتا ہے۔ یہ پتھر تو کیمبرین سے بھی پرانے تھے۔ عام آنکھ سے دکھائی دینے والے جانوروں کا آغاز دکھائی دے رہا تھا۔

سپرِگ نے Nature میں مضمون لکھا لیکن اسے رد کر دیا گیا۔ پھر اس نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سائنس کی ترقی کی انجمن کے سالانہ اجلاس میں یہ مضمون پڑھا لیکن انجمن کے سربراہ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ سربراہ کا خیال تھا کہ، ‘یہ محض غیر نامیاتی اتفاقی نشانات ہیں۔ ‘ تاہم ابھی امید کی ایک کرن باقی تھی۔ اس نے 1948 میں لندن کا رخ کیا جہاں اس نے انٹرنیشنل جیولاجیکل کانگریس میں اپنا مضمون پیش کیا۔ تاہم کسی نے توجہ یا دلچسپی نہیں لی۔ آخرکار اس نے اپنی دریافت کو Transactions of the Royal Society of South Australia میں اپنی دریافت چھپوائی۔ پھر اس نے سرکاری نوکری چھوڑ کر تیل کی تلاش شروع کر دی۔

1957 میں نو سال بعد، ایک لڑکے جان میسن نے انگلش مڈ لینڈز میں چارن ووڈ جنگل میں سیر کرتے ہوئے ایک عجیب سا فاسل دیکھا جس کی شکل نو سال قبل سپرِگ کے دریافت کردہ فاسل جیسی تھی۔ لڑکے نے یہ فاسل لیسیسٹر یونیورسٹی کے پیلنٹالوجسٹ کو دیا جس نے فوراً ہی جان لیا کہ یہ فاسل قبل از کیمبرین دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لڑکے کی دریافت اور اس کی اپنی تصویر بھی اخبارات میں چھپی اور اسے ہر جگہ اہمیت دی جانے لگی۔ ابھی تک بہت سی کتب میں اس کا نام ملتا ہے۔ اس فاسل کو اسی کے نام پر Charnia masoni کہا گیا۔

سپرِگ کے دریافت کردہ فاسل کے علاوہ اسی پہاڑی سلسلے سے بعد میں دریافت کردہ 1٫500 مزید فاسل بھی ایڈیلیڈ کے عجائب گھر کی ایک الماری میں رکھے ہوئے ہیں تاہم ان پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ انتہائی نفیس نشانات جو اتنے واضح نہیں، عام بندے کو دکھائی بھی نہیں دیتے۔ ان فاسلز کی اکثریت تھالی نما اور چھوٹی ہے اور کسی کسی پر دھجیاں نما عضو بھی دکھائی دیتے ہیں۔ فورٹی نے انہیں ‘نرم جسم والے عجائبات’ کہا ہے۔

ابھی اس بارے کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا جاندار تھے اور کیسے رہتے تھے۔ ان کے بارے ابھی تک بس اتنا ہی علم ہو سکا ہے کہ کھانے کے لیے منہ اور بول و براز کے اخراج کے لیے مقعد نہیں تھے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم میں کوئی بھی اندرونی اعضا نہیں تھے جو غذا کو ہضم کر سکتے۔ بقول فورٹی ‘ان کی اکثریت اپنی زندگی پانی کی ریتلی تہہ پر لیٹے ہوئے گزار دیتی تھی’ اور سب سے پیچیدہ شکل میں بھی یہ جیلی فش سے زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتے تھے۔ ایڈیا کارین مخلوقات دو مختلف قسم کی بافتوں سے مل کر بنتی تھیں۔ جیلی فش کے علاوہ آج موجود تمام تر جانور تین تہوں سے بنے ہیں۔

بعض ماہرین کے خیال میں یہ جانور کی بجائے فنجائی یا پودوں سے زیادہ مماثل تھے۔ موجودہ اسفنج اپنی ساری زندگی ایک ہی جگہ چپکے ہوئے گزار دیتے ہیں اور ان کی نہ تو آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی دھڑکتا ہوا دل یا دماغ۔ تاہم پھر بھی انہیں جانور شمار کرتے ہیں۔ فورٹی کے خیال میں ‘جب ہم کیمبرین دور سے بھی پیچھے جاتے ہیں تو جانوروں اور پودوں کا فرق اور بھی معمولی ہوتا ہو گا۔ ایسا کوئی اصول نہیں کہ جانور یا پودا ہونے کے لیے کیا لازمی خصوصیات ہوں گی۔ ‘

اس کے علاوہ یہ بھی عجیب بات ہے کہ آج کل ایڈیا کارین جانداروں کی کوئی بھی نسل باقی نہیں (شاید چند جیلی فش ہوں )۔ اکثر ماہرین انہیں ناکام تجربہ قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ان کی سست رفتار کی وجہ سے کیمبرین دور کے زیادہ تیز اور بہتر جانور انہیں کھا گئے ہوں۔

بقول فورٹی ‘آج ان سے مماثل کوئی بھی چیز زندہ نہیں۔ ان کی اگلی نسلوں کے بارے جاننا بہت مشکل ہے۔ ‘

ایسا سمجھا جاتا ہے کہ زمین پر حیات کی ترقی کے لیے شاید ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ماہرین کی اکثریت کے خیال میں کیمبرین دور سے قبل اور کیمبرین دور کی حد پر بہت بڑے پیمانے پر معدومیت ہوئی تھی جس سے تمام ایڈیا کارین مخلوقات (ماسوائے مشکوک جیلی فش کے ) اگلے مرحلے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ پیچیدہ حیات کا اصل آغاز کیمبرین دور سے ہوا۔ کم از کم گولڈ نے اس طرح سے اسے دیکھا۔

برجیس شیل فوسلوں کی گولڈ کی تشریح کے بارے لوگوں نے فوراً ہی سوالات اٹھانا شروع کر دیے۔ فورٹی نے Life میں لکھا، ‘ابتدا سے کافی سائنس دان ایسے تھے جنہوں نے سٹیو گولڈ کے پیش کردہ نظریے پر شکوک کا اظہار کیا چاہے گولڈ نے اسے کتنا ہی اچھے طریقے سے پیش کیا ہو۔ ‘

آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ رچرڈ ڈاکنز نے Wonderful Life میں لکھا، ‘کاش گولڈ اتنا بہتر سوچ سکتا جتنا کہ وہ لکھ سکتا ہے۔ ‘ ڈاکنز نے اس کتاب اور اس کے لکھنے کے طریقے کی تعریف کی ہے مگر بتایا ہے کہ اس میں بیان کردہ حقائق کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔

ڈھکے چھپے الفاظ میں کی گئی تنقید عام تنقیدوں میں چھُپ گئی۔ ایک نے تو New York Times Book Review میں لکھ مارا کہ گولڈ کی کتاب پڑھ کر سائنس دان ایسے مفروضے پیش کرنے لگ گئے ہیں جن پر کئی نسلوں سے کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ جھجھک کر یا پر جوش انداز سے، وہ اس خیال کو اپنا رہے ہیں کہ انسان کا وجود فطرت میں ہونے والا حادثہ بھی ہو سکتا ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے کی گئی بہترین تخلیق بھی۔ ‘

تاہم گولڈ پر کی جانے والی تنقید کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس کے بیان کردہ بہت سارے نتائج کو یا تو غلط سمجھا یا پھر انہیں بے توجہی سے رد کر دیا گیا۔ Evolution میں ڈاکنز نے گولڈ کے نتائج یعنی ‘کیمبرین دور میں نت نئے جسمانی ساختوں کے تجربات کیے گئے جن میں سے کامیاب ہونے والی جسمانی ساختیں آگے بڑھیں اور اس وقت ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں نت نئی جسمانی ساختیں بنیں۔ آج کل ارتقا محض پرانی جسمانی ساختوں پر بحث کرتی ہے۔ کیمبرین دور میں نت نئے فائلم اور کلاسز پیدا ہو رہی تھیں، آج کل ہم محض نئی انواع پر گزارا کرتے ہیں۔ ‘

جب ڈاکنز نے دیکھا کہ یہ نظریہ کہ آج کل کوئی نئی جسمانی ساخت نہیں بن رہی، کو قبولیت مل رہی ہے تو کہا: ‘جیسے باغبان بلوط کے درخت کو دیکھ کر حیران ہو کر کہے، ‘کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہے کہ آج کل اس درخت پر کوئی بھی نئی بڑی شاخ نہیں پیدا ہو رہی۔ ساری تبدیلیاں محض ٹہنیوں کے سروں پر ہوتی ہیں۔ ‘

فورٹی نے موجودہ وقت میں بتایا کہ، ‘وہ وقت بہت عجیب تھا، خصوصاً اس لیے بھی کہ وہ سب تبدیلیاں آج سے لگ بھگ 50 کروڑ سال قبل ہوئی تھیں۔ تاہم جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی ایک کتاب میں مذاق کے طور پر لکھا ہے کہ کیمبرین دور پر لکھنے سے قبل مجھے حفاظتی ہیلمٹ پہن لینا چاہیئے، بعض اوقات سچ میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ‘

Wonderful Life کے اہم کرداروں میں سے ایک Simon Conway Morris نے اپنی کتاب The Cruicible of Creation میں لکھا کہ ‘میں نے آج تک کسی بھی ماہرِ فن کی لکھی ہوئی کتاب میں ایسی اوچھی چیزیں نہیں دیکھیں۔ ‘ فورٹی نے بعد میں بتایا، ‘The Crucible of Creation کے عام قاری کو شاید احساس بھی نہ ہو پائے گا کہ کبھی Morris اور گولڈ کے نظریات تقریباً ایک تھے۔ ‘

جب میں نے فورٹی سے اس بارے پوچھا تو جواب ملا: ‘یہ بہت عجیب لگتا ہے نا، کہ گولڈ نے اس کی تعریف میں اتنے مبالغے سے کام لیا تھا۔ شاید سائمن کو شرمندگی ہوئی ہو۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سائنس بدلتی رہتی ہے مگر کتب تبدیل نہیں ہوتیں۔ کون برداشت کرے گا کہ اس کے بارے کتاب میں ایسی باتیں لکھی ہوں جن کے بارے ان کے خیالات یکسر بدل چکے ہوں۔ ‘خدایا، ایک اور فائلم’ جیسے فقرے ہمیشہ کے لیے وجہ شہرت بن کر پچھتاوے کا سبب بن جاتے ہیں۔ سائمن کی کتاب پڑھ کر آپ کو نہیں محسوس ہو گا کہ اس کے نظریات عین وہی تھے جو گولڈ کے تھے۔ ‘

اصل میں ہوا یہ کہ ابتدائی کیمبرین دور والے فاسلز کا کڑا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ فورٹی اور ڈیریک برگس نے ایک نئی تکنیک جسے Cladistics کے نام سے جانا جاتا ہے، کو استعمال کر کے برجیس شیل کے مختلف فاسلز کا مقابلہ کیا۔ اس تکنیک میں بنیادی طور پر جانوروں کو ان کے مشترکہ خواص کی بنا پر ترتیب دی جاتی ہے۔ فورٹی کی دی ہوئی مثال کے مطابق آپ چھچھوندر اور ہاتھی کا مقابلہ کریں۔ اگر آپ ہاتھی کے عظیم الجثہ حجم کو دیکھیں تو ایسا لگے گا کہ چھچھوندر سے اس کی کوئی مشابہت نہیں ہو سکتی۔ تاہم اگر ان دونوں کا مقابلہ چھپکلی سے کیا جائے تو آپ کو فوراً احساس ہو گا کہ ہاتھی اور چھچھوندر کی ساخت میں کافی کچھ مماثل ہے۔ یعنی گولڈ نے ہاتھی اور چھچھوندر دیکھے تو برگیس نے انہیں ممالیہ سمجھا۔ ان کے خیال میں برجیس والی مخلوقات اتنی بھی عجیب اور مختلف نہیں تھیں جتنی پہلی نظر میں لگیں۔ فورٹی کے بقول، ‘یہ مخلوقات ٹرائیلوبائیٹس سے زیادہ مختلف نہیں۔ ہمیں ٹرائیلوبائیٹس سے واقف ہونے میں لگ بھگ ایک صدی لگی۔ واقفیت سے واقفیت پیدا ہوتی ہے۔ ‘

تاہم یہ واضح کر دوں کہ اس میں کوئی نکما پن یا بے پرواہی نہیں تھی۔ قدیم جانوروں کی مختلف اقسام کا جائزہ لینا اور ان کا ایک دوسرے سے تعلق تلاش کرنا اور وہ بھی ان ٹوٹے پھوٹے اور بکھرے ہوئے شواہد کی روشنی میں، کافی پیچیدہ کام ہے۔ ایڈورڈ او ولسن نے لکھا کہ اگر آپ موجودہ دور کے حشرات کو برجس کے جانوروں کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو آپ کو گمان بھی نہیں ہو گا کہ دونوں ایک ہی فائلم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی جسمانی ساختیں اتنی زیادہ فرق ہیں۔ اس کے علاوہ تجزیے میں مزید مدد تب ملی جب ابتدائی کیمبرین دور کی دو مزید جگہیں دریافت ہوئیں جن میں سے ایک گرین لینڈ اور ایک چین میں ہے۔ اس کے علاوہ ادھر ادھر سے بھی کچھ نہ کچھ فاسل مل جاتے ہیں اور اس طرح تجزیے کی خاطر بہتر نمونے مل جاتے ہیں۔

خیر، نتیجہ یہ نکلا کہ برجیس شیل کے فاسلز اتنے بھی انوکھے نہیں تھے۔ Hallucigenia کو الٹا دکھایا گیا تھا۔ اس کی لمبی ڈنڈے نما ٹانگیں در اصل اس کی کمر پر موجود کانٹے تھے۔ Peytoia جو انناس کا کٹا ہوا حصہ لگتا تھا، ایک اور جانور Anomalocaris کا حصہ نکلا۔ برجیس کے بہت سارے جانداروں کو آج کے مختلف فائلم میں سمو دیا گیا ہے، عین وہی جگہیں، جہاں والکاٹ نے انہیں پہلے پہل رکھا تھا۔ Hallucigenia اور کئی دوسرے جانور کے بارے خیال ہے کہ وہ Onychophora کا حصہ ہیں، جس میں کیٹرپلر نما جانور پائے جاتے ہیں۔ دوسروں کو موجودہ دور کے Annelids کا آباء و اجداد مانا گیا ہے۔ فورٹی کے بقول، ‘ایسے جانور بہت کم ہیں جو یکسر نئے ہوں۔ ‘

برجیس شیل نمونے اتنے قابلِ دید نہیں۔ فورٹی کے بقول، ‘اس طرح ان کی اہمیت کسی طور کم نہیں ہوتی۔ ‘ ان کی عجیب شکلیں انوکھا تجربہ تھیں۔ ویسے ہی جیسے آج کل کے نوجوان کھڑے بالوں اور زبان پر دھاتی چیزیں ڈلواتے ہیں۔ آخرکار یہ سب چیزیں آرام کر گئیں۔

تاہم یہ سوال ابھی تک باقی ہے کہ یہ سب جانور آئے کہاں سے اور اچانک کیسے نمودار ہو گئے؟

شاید کیمبرین ایکسپلوژن اتنی دھماکہ خیز بھی نہیں تھی جتنی کہ ہمیں پہلے پہلے دکھائی دیتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ کیمبرین جانور اس سے قبل بھی موجود تھے مگر ان کا وجود اتنا مختصر ہوتا تھا کہ انہیں دیکھا جانا آسان نہیں تھا۔ ایک بار پھر ہمیں ٹرائیلوبائیٹس سے ثبوت ملا ہے کہ جیسے ٹرائیلوبائیٹس اچانک اتنی مختلف شکلوں والے اور تقریباً ایک ہی وقت میں پوری دنیا میں ہر جگہ پائے جانا شروع ہو گئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ اچانک بہت ساری اقسام کے بنے بنائے جانوروں کا پایا جانا اپنی جگہ ایک عجوبہ ہے جو کیمبرین دور سے منسلک ہے۔ جب ہمیں اچانک پوری طرح بنے بنائے ٹرائیلوبائیٹس ملتے ہیں جو ایک دوسرے سے مماثل ہیں اور انتہائی دور پائے گئے جیسا کہ چین اور نیویارک سے بیک وقت ان کے فوسلز ملے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ان کی تاریخ کے بارے بہت کچھ باتوں کا علم نہیں۔ یہ بات تو پکی ہے کہ ان کا آغاز کہیں پہلے کسی اور جانور سے ہوا ہو گا۔

در اصل خیال کیا جاتا ہے کہ ان قدیم جانوروں کا نہ ملنا اس وجہ سے ہے کہ یہ جانور اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے فاسل نہ بن پائے۔ فورٹی کے بقول، ‘ضروری نہیں کہ ہر فعال جانور بڑے حجم کا بھی ہو۔ سمندر میں حشرات کی بے شمار چھوٹی اقسام ہر جگہ موجود ہوتی تھیں، لیکن آج ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ‘ اس کے حوالے کے طور پر وہ Copepod کا نام لیتے ہیں جو آج کے دور میں سمندروں میں کھربوں کی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو سمندر کا بڑا حصہ اس کی وجہ سے سیاہ ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کے اجداد کے بارے ہماری معلومات محض ایک نمونے پر مشتمل ہیں جو ایک فاسل شدہ مچھلی کے پیٹ سے نکلا تھا۔

فورٹی کے خیال میں ‘کیمبرین ایکسپلوژن سے مراد شاید نت نئی جسمانی ساختیں نہیں بلکہ جانوروں کی جسامت میں اچانک ہونے والا اضافہ ہے۔ ممالیہ جانور تقریباً دس کروڑ سال سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اور جب ڈائنوسار معدوم ہوئے تو ان کی جگہ لینے کو ممالیہ جانوروں نے بہت پھرتی دکھائی اور اپنے حجم میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فورٹی نے بتایا، ‘ہمیں معلوم ہے کہ ڈائنورساروں کی معدومیت کے بعد ممالیہ جانوروں کے حجم میں اچانک بہت اضافہ ہوا۔ تاہم یہ ‘اچانک’ جغرافیائی اصطلاح ہے جو لاکھوں سالوں پر محیط ہے۔ ‘

اچھی بات یہ ہے کہ آخرکار ریگینالڈ سپرِگ کو بھی اس کا صلہ ملا۔ ایک قدیم اور ابتدائی جنرا کو اس کے نام پر Spriggina کہا گیا۔ اس دور کے سارے جانوروں کو Edicarian جانور کہا گیا کہ وہ اس پہاڑی علاقے سے ملے تھے۔ تاہم سپرِگ نے فاسلز کی تلاش کا کام عرصہ پہلے چھوڑ دیا تھا اور تیل کی تلاش میں بہت کامیاب رہا۔ ریٹائر ہونے کے بعد اس نے جنگلی حیات کے تحفظ کا ریزرو قائم کیا اور 1994 میں جب اس کا انتقال ہوا تو وہ بہت امیر انسان تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

22 آگے بڑھتے ہیں

 

جب آپ بطور انسان زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی بہت عجیب چیز ہے۔ اول تو اس کی ابتداء انتہائی سستی سے ہوتی ہے اور شروع ہو بھی جائے تو اسے آگے بڑھنے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی۔

لائکن کی ہی مثال لے لیں جو ایک قسم کی کائی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ مشکل کش جاندار زمین پر نہیں ملے گا۔ لیکن اس سے کم ہمت بھی کوئی جاندار تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ اگرچہ دھوپ میں آپ انہیں کسی بھی جگہ دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی پسندیدہ ترین جگہیں وہ ہوتی ہیں جہاں کوئی اور جاندار رہنے کی ہمت نہیں کر سکتا، چاہے وہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں، قطبین ہوں یا ایسی جگہ جہاں پتھر، بارش اور سردی ہو اور جہاں کوئی مقابلہ کرنے والا نہ ہو۔ قطب جنوبی میں ایسی جگہیں جہاں کوئی اور جاندار زندہ نہیں رہ سکتا، وہاں آپ کو لائکن کے بڑے بڑے قطعے ملیں گے جن میں 400 سے زیادہ اقسام موجود ہوں گی۔

طویل عرصے تک لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ محض پتھر یا چٹان پر لائکن کیسے زندہ رہتی ہے جبکہ انہیں کوئی غذائیت بھی نہیں ملتی؟ نتیجتاً بہت سارے لوگ، حتیٰ کہ پڑھے لکھے لوگ بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ پتھر زندہ ہو رہے ہیں۔

قریب سے دیکھا جائے تو لائکن کی حیرت انگیز خصوصیات دکھائی دیتی ہیں۔ لائکن در اصل الجی اور فنجائی کی دوستی سے بنتے ہیں۔ فنجائی ایسے تیزاب پیدا کرتی ہے جو پتھروں کو آہستہ آہستہ گلاتا ہے اور اس طرح نمکیات خارج ہوتے ہیں۔ الجی ان نمکیات کو خوراک میں بدلتی ہے جو الجی اور فنجائی، دونوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ دوستی انتہائی کامیاب ہے۔ دنیا میں لائکن کی 20,000 سے زیادہ اقسام ہیں۔

سخت ناموافق ماحول میں رہنے والے دیگر جانداروں کی مانند لائکن بھی انتہائی سستی سے بڑی ہوتی ہے۔ ایک چھوٹے سے بٹن کے حجم کو پہنچنے کے لیے لائکن کو شاید نصف صدی لگے اور تھالی کے برابر ہونے میں سینکڑوں یا ہزاروں سال لگتے ہیں۔ اس سے کم تر درجے کی حیات کا سوچنا بھی محال ہے۔ شاید ان کا وجود اس بات کی گواہی ہے کہ زندگی یا حیات کسی بھی سطح پر ہو، محض زندہ رہنے کو زندہ رہتی ہے۔

زندگی کا یہ پہلو اکثر اوجھل رہتا ہے۔ بطور انسان ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے۔ اپنے آس پاس کی ہر چیز کو ہم اپنے وجود کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم لائکن کا کیا مقصدِ حیات ہو گا؟ اس کے باوجود نہ صرف لائکن زندہ رہتی ہے بلکہ اس کی زندہ رہنے کی خواہش ہم سے کہیں مضبوط ہے۔ اگر مجھے علم ہو کہ مجھے اگلی کئی دہائیوں تک جنگل میں ایک پتھر پر اگی ہوئی معمولی سی کائی بن کر رہنا ہو تو میرے لیے زندگی بیکار ہو جائے گی۔ تاہم لائکن ایسا نہیں سوچتی۔ ہر جاندار کی مانند لائکن بھی اپنی زندگی بڑھانے کے لیے ہر قسم کی سختی اور بے عزتی برداشت کر لے گی۔ زندگی کا مقصد شاید ہونا ہے۔ لائکن کو اس سے زیادہ شاید ہی کچھ چاہیے ہو۔

عجیب بات ہے کہ زندگی کے پاس مقصد بنانے کے لیے بہت سارا وقت تو ہوتا ہے لیکن شاید ہی وہ اس سے فائدہ اٹھاتی ہو۔ اگر آپ زمین کی زندگی کے ساڑھے چار ارب سالوں کو اگر آپ ایک عام دن میں تقسیم کریں تو زندگی کی ابتداء صبح چار بجے ہوئی جب پہلے یک خلوی جاندار پیدا ہوئے اور اگلے سولہ گھنٹے تک یہی چلتے رہے۔ شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب زمین پر خورد بینی جاندار نمودار ہونے لگے۔ پھر پہلے سمندری پودے پیدا ہوئے اور پھر بیس منٹ بعد جیلی فش اور دیگر سمندری جاندار پیدا ہوئے۔ 9 بج کر 4 منٹ پر ٹرائیلو بائٹس آئے۔ دس بجے سے ذرا قبل پودوں نے خشکی پر بھی اگنا شروع کر دیا۔ دن دو گھنٹے سے بھی کم بچا تھا کہ خشکی کے پہلے جانور نمودار ہوئے۔

لگ بھگ دس منٹ کے اچھے موسم کی وجہ سے کاربونیفیرس جنگلات اگنے لگے جن کے بچے کھچے حصے آج بھی ہمارے کوئلے کے ذخائر کی شکل میں ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ اڑنے والے حشرات بھی پیدا ہو گئے۔ 11 بجے سے ذرا قبل ڈائنوسار آئے اور 45 منٹ بعد صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ رات بارہ بجے سے 21 منٹ قبل ممالیہ جانوروں کا دور شروع ہوا۔ نصف شب سے ایک منٹ اور سترہ سیکنڈ قبل انسان پیدا ہوئے۔ ہماری معلوم تاریخ محض چند سیکنڈ طویل ہے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں پہاڑ ابھرے اور ختم ہوئے، براعظموں نے جگہیں اور شکلیں بدلیں، سمندر بنے اور مٹے، برفانی تہیں آئیں اور گئیں۔ اس سارے عرصے میں ہر ایک منٹ میں تین بار مینسن کے برابر کے شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرائے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس طرح کے سیارے پر بھی حیات ممکن ہوئی۔ تاہم جاندار کی انواع زیادہ دیر زندہ نہیں رہتیں۔

ہمارے وجود کا وقت دیکھنے کا ایک اور پیمانہ بھی ہے۔ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیں جو زمین کی تاریخ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ہاتھ کے ناخنوں سے لے کر دوسرے ہاتھ کی کلائی تک کا وقت پری کیمبریئن کہلاتا ہے۔ ساری پیچیدہ زندگی دوسرے ہاتھ کی کلائی سے شروع ہوتی ہے۔ نیل فائلر سے ایک بار ناخن رگڑیں تو ساری انسانی تاریخ سمجھیں گم ہو جائے گی۔

خوش قسمتی سے ابھی تک ایسا ہوا تو نہیں لیکن اس کے امکانات بکثرت ہیں۔ میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا لیکن زمین پر زندگی کی ایک اور امتیازی خاصیت ہے کہ یہ وقتاً فوقتاً اور باقاعدگی سے معدوم ہوتی رہتی ہے۔ اپنے وجود اور بقاء کی ہر ممکن کاوش کے باوجود انواع معدوم ہوتی رہتی ہیں۔ جو نوع جتنی پیچیدہ ہوتی ہے، اس کے مٹنے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے حیات کو کم ہی جلدی ہوتی ہے۔

حیات سمندر سے نکل کر خشکی پر پہنچی جو ہماری داستان کا انتہائی ڈرامائی موڑ ہے۔

خشکی کا ماحول بہت مشکل، خشک، گرم، بالائے بنفشی شعاعوں سے بھرا اور پانی کے برعکس اچھال کی قوت سے خالی جس سے حرکت مشکل ہو گئی۔ خشکی پر رہنے کے لیے جانداروں کو بہت بڑی جسمانی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا۔ آپ مچھلی کو دم اور سر سے پکڑیں تو درمیان سے لٹک جائے گی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی اتنی نرم ہوتی ہے کہ اس کا وزن نہیں سہار سکتی۔ سمندری جانداروں کو پانی سے خشکی پر آنے کے لیے جن عظیم جسمانی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا، وہ آسانی اور تیز رفتاری سے نہیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ خشکی پر زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کو براہ راست جذب کرنا بھی ضروری تھا۔ دوسری جانب پانی کو چھوڑنے کی بہت اہم وجہ بھی تھی۔ براعظم مل کر ایک بڑی خشکی بنا رہے تھے جو پنجائیا کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ساحل کم ہو گئے۔ مقابلہ بہت بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ ایک نیا شکاری منظرِ عام پر آیا جو انتہائی ماہر تھا۔ اس نے اپنی شکل ابھی تک نہیں بدلی۔ یہ شارک تھی۔ پانی کو چھوڑ کر خشکی پر جانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں تھا۔

پودوں نے 45 کروڑ سال قبل خشکی کا رخ کیا تو ان کے ساتھ کچھ چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی تھے جن کا کام آرگینک مواد کو ری سائیکل کرنا تھا۔ بڑے جانور کچھ عرصے بعد یعنی 40 کروڑ سال قبل خشکی پر نمودار ہوئے۔ سائنس دانوں کی بتائی ہوئی تفصیلات اور تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ خشکی کے پہلے جاندار مچھلی نما یا جل تھلیے تھے۔ تاہم حقیقت میں یہ چھوٹی چھوٹی جوئیں تھیں۔

ہوا سے آکسیجن جذب کرنے والے جانداروں کے لیے زندگی آسان تھی۔ ڈیونین اور کاربونیفیرس دور میں آکسیجن کی مقدار آج کی نسبت زیادہ تھی، یعنی 35 فیصد کے لگ بھگ۔ اس سے جانداروں کا حجم بہت کم وقت میں بہت بڑھ گیا۔

اب آپ شاید اس بات پر حیران ہو رہے ہوں کہ سائنس دانوں کو کیسے پتہ کہ آج سے کروڑوں سال قبل کی دنیا میں آکسیجن کی مقدار کیا تھی؟ اس کا جواب آئسو ٹوپ جیو کیمسٹری کی شاخ سے ملتا ہے۔ کاربونیفیرس اور ڈیونین دور کے سمندروں میں چھوٹے چھوٹے پلینکٹن بھرے ہوئے تھے جن کے گرد سخت خول ہوتے تھے۔ پلینکٹن ماحول سے آکسیجن کشید کر کے دیگر عناصر جیسا کہ کاربن وغیرہ سے ملا کر اپنے لیے سخت خول بناتے ہیں۔ یہی عمل کاربن سائیکل میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے جو زیادہ دلچسپ تو نہیں لیکن ہماری زمین کو حیات کے قابل بناتا ہے۔

اس عمل میں تمام جاندار مرتے اور سمندر کی تہہ میں جمع ہوتے جاتے ہیں جہاں بتدریج چونے میں بدل جاتے ہیں۔ پلینکٹن کے خول میں دو اہم اور مستحکم آئسوٹوپ یا ہم جاء ہوتے ہیں۔ ایک آکسیجن 16 اور دوسرا آکسیجن 18 ہے۔ یاد رہے کہ ہم جا ایسے ایٹم ہوتے ہیں جن میں نیوٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ اب انہی آئسو ٹوپ کا جائزہ لے کر جیو کیمسٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس وقت کی فضاء میں آکسیجن کی مقدار کیا رہی ہو گی۔ اسی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فضاء اور زمین کے درجہ حرارت، برفانی دور کی ابتداء اور اختتام وغیرہ کب ہوئے۔ اس کے علاوہ دیگر فاسلز سے پولن کی مقدار وغیرہ کا بھی جائزہ لے کر سائنس دان اس وقت کے ماحول کی تقریباً درست تصویر کشی کر سکتے ہیں۔

اُس دور میں آکسیجن کی غیر معمولی مقدار کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ سطح زمین پر دیو قامت فرن اور دوسرا بے شمار دلدلیں۔ ان دلدلوں کی وجہ سے کاربن سائیکل متاثر ہوا اور جب بھی فرن مر کر نیچے گرتے تو گلنے سڑنے کی بجائے وہ دلدل کا حصہ بن جاتے۔ اس سے دلدلیں مختلف معدنی عناصر سے بھر گئیں اور آخرکار انہی دلدلوں سے ہمارے کوئلے کے ذخائر بنے۔

آکسیجن کی زیادہ مقدار سے جانداروں کا حجم بڑا ہوا۔ ابھی تک کے قدیم جانوروں کا ریکارڈ 35 کروڑ سال قبل کا ملتا ہے جب ہزار پایہ جیسی مخلوق ایک میٹر لمبی ہوتی تھی۔ اس کے فاسل سکاٹ لینڈ سے ملے تھے۔ اس سے پہلے کے دور میں شاید ہزار پائے اس سے بھی دو گنا بڑے ہوتے ہوں۔

اس دور میں جب اتنے بڑے شکاری پھرتے ہوں تو حشرات کو اپنے بچاؤ کا نیا راستہ ڈھونڈنا پڑا۔ انہوں نے اڑنا سیکھ لیا۔ ان میں سے بعض حشرات تو اتنے ماہر ہو گئے کہ آج تک انہوں نے اپنی شکل نہیں بدلی۔ بھنبھیری کو ہی لے لیں جو 50 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اڑتے اڑتے اچانک ہوا میں ساکت ہو کر اور پھر پیچھے کو اڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ آج تک انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی اڑنے والی مشین اس سے بہتر نہیں بن سکی۔ امریکی فضائیہ کے سائنس دانوں نے ونڈ ٹنل میں بھنبھیری کا مطالعہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ قدیم دور کی آکسیجن سے ان کا حجم بھی بڑا ہوا۔ درخت اور دیگر سبزہ بھی اسی حساب سے بڑا ہوا۔ ہارس ٹیل اور ٹری فرن 15 میٹر جبکہ کلب موس 40 میٹر تک اونچے ہوتے تھے۔

پہلے زمینی فقاریہ جانور جو کہ پہلے زمینی جانور بھی تھے، کے بارے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ تو متعلقہ فاسلز کی کمی ہو۔ لیکن اس کی ایک وجہ ایک خبطی سوئیڈش سائنس دان ایرک یَروک ہے۔ اس شخص نے تحقیق کو غلط معلومات وغیرہ کے ذریعے تقریباً نصف صدی تک روکے رکھا۔ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں سکینڈے نیوین سائنس دانوں کی مہم گرین لینڈ گئی تاکہ وہاں سے پرانے جانوروں کے فاسلز جمع کر سکیں۔ ان کا اصل مقصد ایسی مچھلی تلاش کرنا تھا جو موجودہ دور کے چوپایوں کی جد ہو۔

زیادہ تر جانور چوپائے ہیں اور آج کے تمام زندہ چوپایوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کے چار ہاتھ اور ٹانگیں ہوتی ہیں اور ہر ایک کے اختتام پر زیادہ سے زیادہ 5 انگلیاں۔ ڈائنوسار، وہیل، پرندے، انسان، حتیٰ کہ مچھلیاں بھی چوپایہ ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان سب کی ابتداء ایک ہی جاندار سے ہوئی۔ اندازہ ہے کہ وہ جاندار آج سے 40 کروڑ سال قبل ڈیونین دور سے تھا۔ اس سے قبل خشکی پر چلنے والے جانور نہیں تھے۔ تاہم اس کے بعد بہت کچھ نیا ہوا۔ خوش قسمتی سے مندرجہ بالا مہم کو ایک میٹر لمبے ایک ایسے ہی جانور کا فاسل ملا جسے اکتھیوسٹیگا کا نام دیا گیا۔ اس فاسل کا جائزہ لینے کا کام یَروک کے ذمے لگایا گیا جس نے 1948 میں اپنا کام شروع کیا اور اگلے 48 سال تک کام جاری ہی رکھا۔ بدقسمتی سے یَروک نے کسی اور کو اس فاسل کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں کو دو مختلف ادھورے مضامین میں اس جانور کا خاکہ ہی پڑھنے کو ملا کہ اس جانور کے چار ہاتھ پاؤں اور ہر ہاتھ پاؤں میں پانچ پانچ انگلیاں تھیں، یعنی سائنس دانوں کا نظریہ درست ثابت ہوا۔

یَروک کا انتقال 1998 میں ہوا۔ اس کے بعد سائنس دانوں نے تجسس سے جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ اس جانور کے ہر ہاتھ پیر میں انگلیوں کی تعداد آٹھ آٹھ تھی اور یہ بھی کہ یہ جانور خشکی پر چلنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے اعضاء کی ساخت ایسی تھی کہ اپنے ہی وزن تلے دب جاتا۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ‘دریافت’ سے خشکی پر جانوروں کی ابتداء کے بارے کام کتنا آگے بڑھا ہو گا۔ آج ہمارے پاس تین ایسے ابتدائی چوپائے ہیں لیکن کسی کی بھی پانچ انگلیاں نہیں۔ یعنی ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔

تاہم نہ صرف ہم پیدا ہوئے بلکہ موجودہ دور تک بھی پہنچ گئے ہیں جو کہ کوئی سیدھا سادا کام نہیں تھا۔ جب سے خشکی پر زندگی شروع ہوئی ہے، اس وقت سے آج تک کے دور کو ہم چار مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے دور میں بالکل ابتدائی قسم کے جانور تھے جو جل تھلیے تھے۔ اس دور کی بہترین مثال ڈیمیٹروڈن تھا۔ اکثر لوگ اسے ڈائنو سار سمجھ لیتے ہیں۔ اس دور کے جانوروں کے چار گروہ تھے جن کے نام Synapsids, anapsids, euryapsids اور Diaspids ہیں۔ ان کے نام ان کی کھوپڑی پر موجود سوراخوں اور ان کے مقام کے مطابق رکھے گئے تھے۔

ان گروہوں کی نسلیں آگے چلیں۔ کچھ شاخیں معدوم ہوئیں تو کچھ نے خود کو بہتر بنایا۔ اس میں سے ایک گروہ anapsids کچھوے بنا اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب پوری دنیا پر کچھووں کا راج تھا۔ تاہم ان کا دور زیادہ نہیں چلا اور اب کچھوے سست جانور شمار ہوتے ہیں۔ Synapsids کی آگے چل کر چار شاخیں ہوئیں جن میں صرف ایک شاخ پرمیئن دور سے آگے بڑھ پائی۔ ہمارا تعلق اسی شاخ سے تھا اور اسی سے پروٹو میملز بنے جنہیں ہم Therapsids کہتے ہیں۔ یہ دوسرا دور تھا۔

Theraspids کی بدقسمتی کہ ان کے ساتھ ساتھ Diapsids بھی ترقی کرتے کرتے ڈائنو سار اور دیگر جانور بنے جنہوں نے Theraspids کا ناطقہ بند کر دیا۔ جب براہ راست مقابلہ ممکن نہ رہا تو Theraspids کی اکثریت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ تاہم ان کی بہت معمولی سی تعداد نے ارتقاء سے گزر کر بالدار اور بلوں میں چھپنے والی مخلوق کا روپ دھار لیا۔ بہت طویل عرصے تک یہ چھوٹے ممالیہ جانور بنے رہے۔ اکثریت تو چوہوں جتنی اور شاید کوئی کوئی بلی جتنا بڑا ہو۔ اس طرح ان کا وجود برقرار رہ پایا تاہم انہیں 15 کروڑ سال انتظار کرنا پڑا جب تیسرا دور یعنی ڈائنو ساروں کا دور ختم ہوا اور چوتھا دور شروع ہوا جسے ہم ممالیہ دور کہتے ہیں۔

یہ تمام دور ترقی کا زینہ اور معدومیت کا شاہکار تھے۔ شاید حیرت کی بات لگے کہ کسی کی موت کسی کی زندگی کا سبب بنتی ہے۔ کہنا مشکل ہے کہ شروع سے اب تک کتنی انواع کے جاندار زمین پر پیدا ہوئے۔ کچھ سائنس دان یہ تعداد 30 ارب تو کچھ سائنس دان 4000 ارب مانتے ہیں۔ اصل تعداد چاہے جو بھی ہو، لیکن 99.99 فیصد جانوروں کی انواع اب معدوم ہو چکی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈیوڈ راپ کے مطابق ایک طرح سے تمام انواع ہی معدوم ہو چکی ہیں۔ پیچیدہ جانوروں کی انواع کا اوسط دورانِ حیات 40 لاکھ سال ہے۔ بنی نوع انسان کو پیدا ہوئے تقریباً اتنا ہی عرصہ ہو چکا ہے۔

معدوم ہونے والے جانوروں کے لیے تو یہ خبر منحوس ہوتی ہی ہے لیکن زندہ سیارے کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ معدومیت کا متضاد ٹھہراؤ ہے۔ کسی بھی سیارے میں ٹھہراؤ اچھی علامت نہیں۔ تاہم واضح رہے کہ یہ معدومیت قدرتی ہوتی ہے، انسانی غفلت سے نہیں۔

ارضی تاریخ میں بحرانوں کے فوراً بعد بہتری آتی ہے۔ ایڈیاکاران جانوروں کے خاتمے پر کیمبرین دور شروع ہوا۔ اور ڈویشین دور کا خاتمہ 44 کروڑ سال قبل ہوا اور اس سے سمندروں میں مچھلیوں اور عظیم الجثہ بحری جانوروں کی راہ ہموار ہوئی۔ انہی جانوروں سے پھر کچھ خشکی پر آئے اور اس دور کا بھی خاتمہ ہوا۔ اگر ان میں سے زیادہ تر واقعات عین اسی وقت اور اسی طرح نہ ہوئے ہوتے جیسا کہ وہ ہوئے، تو ہم یہاں نہ ہوتے۔

زمین پر انواع کی اجتماعی معدومیت کے پانچ بڑے ادوار ہیں۔ انہیں Ordovician, devonian, permian triassic اور cretaceous کہتے ہیں۔ چھوٹے موٹے ادوار کی گنتی ممکن نہیں۔ Ordovician دور 44 کروڑ سال قبل، devonian ساڑھے 36 کروڑ سال قبل ہوئے اور اندازہ ہے کہ 80 سے 85 فیصد انواع ختم ہو گئیں۔ triassic کوئی 21 کروڑ سال قبل اور cretaceous ساڑھے چھ کروڑ سال قبل واقع ہوئیں اور اس وقت کی 70 سے 75 فیصد انواع کا صفایا کر گئیں۔ تاہم سب سے بڑی معدومیت permian تھی جو آج سے ساڑھے 24 کروڑ قبل ہوئی اور ڈائنو ساروں کا صفایا کرنے کے علاوہ دیگر 95 فیصد انواع بھی ختم کر گئی۔ یہ واحد موقع تھا جب حشرات کی ایک تہائی انواع ختم ہوئیں۔ ایک طرح سے زمین پر سے زندگی کا تقریباً صفایا ہو گیا تھا۔

رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘اسے مرگِ انبوہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے قبل یا اس کے بعد زمین کو اتنی بڑی آفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا’۔ پرمیئن دور سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بحری جانور تھے۔ ٹریلوبائٹس بالکل صاف ہو گئے، سیپیاں اور سی ارچن تقریباً ہی ختم ہو گئے۔ اندازے کے مطابق خشکی اور بحری کے جانوروں کے 52 فیصد خاندان اور 96 فیصد انواع ختم ہو گئیں۔ یاد رہے کہ خاندان نوع سے بڑا درجہ ہے۔ 8 کروڑ سال بعد جانوروں کی انواع واپس اصل تعداد کو پہنچی۔

دو باتیں یاد رکھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ سب محض اندازے ہیں۔ پرمیئن دور کے جانوروں کی انواع کے بارے اندازہ 45,000 سے 2,40,000 کے درمیان ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم انواع کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں، جانوروں کی تعداد کے بارے نہیں۔ جو نوع معدومیت سے بچی، اس کے آگے چلنے کا انحصار شاید ان چند جانوروں پر ہو جو کسی نہ کسی طرح بچ گئے تھے۔

ان بڑی اموات کے علاوہ نسبتاً چھوٹی بھی ہیں جن میں سے Hemphellian, frasnian, famennian, rancholabrean اور درجن بھر اور بھی اہم ہیں۔ ان سے جانوروں کی کل انواع کی نسبت مخصوص انواع کو زیادہ نقصان پہنچا۔ چرندے بشمول گھوڑے 50 لاکھ سال قبل Hemphillian میں تقریباً صاف ہو گئے۔ گھوڑوں کی محض ایک نوع باقی بچی۔ اب اندازہ کیجیے کہ گھوڑوں اور چرندوں کے بغیر انسانی تاریخ کیا ہوتی؟

عجیب بات یہ ہے کہ چاہے بڑا خاتمہ ہو یا چھوٹا، ہمیں ان کی وجوہات کے بارے نہ ہونے کے برابر علم ہے۔ انتہائی مضحکہ خیز وجوہات کو باہر نکالنے کے باوجود بھی بے شمار وجوہات باقی بچتی ہیں۔ کم از کم 20 سے زیادہ ممکن وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں گلوبل وارمنگ، گلوبل کولنگ، سمندری سطح میں اضافہ، سمندروں میں آکسیجن کا خاتمہ، وبائیں، سمندری تہہ سے میتھین کی بہت بڑی مقدار کا اخراج، شہابِ ثاقب اور دم دار ستاروں کا زمین سے ٹکرانا، ہریکین کی ایک قسم جسے ہائپرکین کہتے ہیں، عظیم آتش فشاں کا پھٹنا اور شمسی اخراج اہم ترین ہیں۔

شمسی اخراج اس لیے بھی عجیب ہے کہ اس کی شدت کے بارے ہمیں کوئی علم نہیں۔ سورج کے بارے ہماری معلومات خلائی دور شروع ہونے کے وقت سے ہیں لیکن سورج انتہائی بڑا اور اس کے طوفان انتہائی شدید ہوتے ہیں۔ ایک عام سا شمسی اخراج جس کے بارے زمین پر لوگ کبھی نہیں جان پاتے، ایک ارب ہائیڈروجن بموں کے برابر توانائی خارج کرتا ہے اور پاس کی خلاء میں 100 ارب ٹن جتنی قاتل شعاعیں پھینکتا ہے۔ زمین کے مقناطیسی غلاف اور فضاء یا تو ان ذرات کو واپس خلاء میں یا قطبین پر بھیج دیتے ہیں جو انوارِ قطبی کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ خیال ہے کہ عام اخراج سے 100 گنا بڑا طوفان ہماری زمین کے دفاع کو ختم کر سکتا ہے۔ اس وقت کے انوارِ قطبی خوبصورت تو بہت دکھائی دیں گے لیکن اس وقت دھوپ میں موجود تمام تر جاندار جل بھُن جائیں گے۔ مزید یہ بھی کہ تاریخ میں اس کی کوئی معلومات نہیں ہوں گی۔

ایک محقق کے خیال میں ہمارے پاس اندازوں کے پہاڑ موجود ہیں لیکن شواہد نہ ہونے کے برابر۔ زمین کا ٹھنڈا ہونا کم از کم تین بڑے ادوار کے خاتمے کا سبب رہا ہے جو Ordovician, devonian اور permian ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ کسی بات پر اتفاق ممکن نہیں۔ یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ یہ خاتمے کئی لاکھ سال پر مشتمل طویل عمل تھے کہ چند ہزار سال یا کہ محض ایک دن؟

ان بڑی اموات کی وضاحت میں ایک اور مشکل بھی پیش آتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جانوروں کی ایک وقت میں ہلاکت کیسے ممکن ہو گی۔ مینسن والے شہابِ ثاقب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زمین کو کتنا بڑا صدمہ پہنچا لیکن پھر بھی حیات نہ صرف برقرار رہی بلکہ کچھ عرصے بعد اپنی پرانی حالت پر بھی آنا شروع ہو گئی۔ اب زمین پر ہزاروں ایسے شہابِ ثاقب ٹکرائے ہیں تو کے ٹی ہی ایسا واقعہ کیوں تھا کہ جس میں ساڑھے چھ کروڑ سال قبل ڈائنو سار فنا ہو گئے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حادثہ واقعی انتہائی عظیم تھا۔ اس کی شدت 10 کروڑ میگا ٹن کے برابر تھی۔ اس شدت کو یوں سمجھیں کہ آج دنیا میں موجود ہر انسان کے مقابلے میں ایک ہیروشیما والا ایک ایٹم بم پھاڑا جائے اور تو پھر بھی اسی طرح کے ایک ارب مزید بم درکار ہوں گے، جو اس دھماکے کی شدت کو ظاہر کریں گے۔ پھر بھی یہ واقعہ اکیلے زمین کے 70 فیصد جانوروں اور ڈائنو ساروں کو ختم نہ کر سکتا۔

کے ٹی شہابِ ثاقب کا ممالیہ جانوروں کو ایک اضافی فائدہ یہ پہنچا کہ یہ شہابِ ثاقب محض دس میٹر گہرے سمندر میں گرا اور اس وقت دنیا میں آکسیجن کی مقدار آج سے 10 فیصد زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ جہاں یہ گرا، اس جگہ سمندر کی تہہ سلفر کی چٹانوں سے بنی تھی۔ نتیجتاً بیلجیم کے حجم کے برابر سمندر کی تہہ نے سلفیورک ایسڈ کا روپ دھار کر ہوا کا رخ کیا اور تیزابی بارش شروع ہو گئی۔

70 فیصد انواع کی معدومیت سے زیادہ اہم یہ سوال ہے کہ باقی کی 30 فیصد انواع کیسے زندہ بچیں۔ یہ واقعے سے سارے ڈائنو سار ہی کیوں ہلاک ہوئے جبکہ دیگر خزندے جیسا کہ سانپ اور مگرمچھ وغیرہ زندہ بچ گئے؟ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مینڈک، سیلیمنڈر یا دیگر جل تھلیوں کی کوئی بھی نوع شمالی امریکہ میں معدوم نہیں ہوئی۔ اتنے عظیم حادثے سے ایسی نازک انواع کیسے بچ گئیں؟

سمندروں میں یہ یہی مسئلہ سامنے آیا کہ Ammonites تو معدوم ہو گئے جبکہ ان کے قریبی رشتہ دار Nautiloids جو کہ انہی کی طرح زندگی گزارتے ہیں، کو کوئی نقصان نہیں پہنچا؟ اسی طرح پلینکٹن کی کئی اقسام تو سرے سے ہی صاف ہو گئیں جبکہ دیگر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا؟

ظاہر ہے کہ ایسی بے قاعدگیوں کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘محض یہ کہنا کافی نہیں کہ بچ نکلنے والے جانور خوش قسمت تھے ‘۔ ظاہر ہے کہ اس ٹکراؤ کے بعد مہینوں تک آسمان پر گرد چھائی رہی ہو گی اور اندھیرے کے علاوہ سانس کے مسائل بھی ہوئے ہوں۔ حشرات کا بچنا معجزہ لگتا ہے کہ ان کی اکثریت زمین کی سطح پر پڑی لکڑی وغیرہ پر زندہ رہتی ہے۔ شہد کی مکھیاں سورج کی روشنی سے راستہ تلاش کرتی ہیں اور پولن پر زندہ رہتی ہیں۔ ان کے بچنے کی وضاحت ممکن نہیں۔

سب سے منفرد کورل یا مونگے ہیں۔ مونگے کو زندہ رہنے کے لیے الجی کی ضرورت ہوتی ہے اور الجی کو سورج کی روشنی درکار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں کو سمندری پانی کا ایک خاص درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ کافی عرصے سے آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ہر جگہ مونگوں کے مرنے کی بات ہو رہی ہے جبکہ سمندری درجہ حرارت محض ایک ڈگری بڑھا ہے۔ اگر مونگوں کو درکار درجہ حرارت اتنا ہی اہمیت رکھتا ہے تو پھر طویل سردیوں سے وہ کیسے بچ پائے؟

اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں پائے جانے والے تفاوت کو بھی نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ معدومیت کا اثر جنوبی نصف کرے کی بجائے شمالی نصف کرے پر زیادہ تھا۔ مثلاً نیوزی لینڈ میں زیرِ زمین کوئی جانور نہیں رہتے لیکن پھر بھی وہاں کوئی نوع معدوم نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ نیوزی لینڈ کی نباتات پر بھی کوئی ایسا اثر نہیں پڑا۔ تاہم دیگر جگہوں پر ہونے والی تباہی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عالمگیر نوعیت کی تباہی تھی۔ یعنی ابھی بھی ہمیں بہت کچھ معلوم نہیں۔

بعض جانور مثلاً کچھوے تو اس صورتحال میں بہت زیادہ پھلے پھولے۔ ڈائنوسار کے خاتمے کے بعد کا دور کچھووں کا دور کہا جا سکتا ہے۔ شمالی امریکہ میں کچھووں کی 16 انواع تھیں اور 3 اس واقعے کے فوری بعد پیدا ہوئیں۔

ظاہر ہے کہ پانی میں رہنے والے جانوروں کا اس کا فائدہ پہنچا۔ کے ٹی کے واقعے میں خشکی پر رہنے والے جانوروں کی تعداد کا 90 فیصد ہلاک ہوا جبکہ میٹھے پانی میں رہنے والے جانوروں کی تعداد کا محض 10 فیصد ہلاک ہوا۔ ظاہر ہے کہ پانی میں آگ اور حرارت سے بچاؤ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ بعد کے مشکل دور سے گزرنے میں بھی آسانی دی ہو گی۔ خشکی پر بچنے والے جانور بھی وہ تھے جو خطرے کے وقت زیرِ زمین یا پانی میں پناہ لیتے تھے۔ مردار خور جانوروں کے تو وارے نیارے ہو گئے ہوں گے۔ چھپکلیاں گلے سڑے گوشت کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کی توجہ عموماً گلے سڑے جانوروں کی طرف زیادہ مبذول ہوتی ہے۔

اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کے ٹی واقعے میں صرف چھوٹے جانور ہی بچے۔ تاہم اس دور کے مگرمچھ آج سے تین گنا بڑے ہوتے تھے اور ان پر کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ تاہم بحیثیتِ مجموعی، چھوٹے جانوروں کی بڑی تعداد باقی بچ گئی۔ اس وقت کی دنیا تاریک اور مشکل تھی اور اس وقت چھوٹی جسامت، گرم خون، شب بیدار، ہمہ خور اور فطری طور پر محتاط رہنے والے جانور درکار تھے اور یہ سب خصوصیات اس وقت کے ممالیہ جانوروں میں پائی جاتی تھیں۔ اگر ممالیہ زیادہ ارتقاء کر چکے ہوتے تو شاید وہ بھی معدوم ہو جاتے۔ تاہم اس دور کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے اس دور کے ممالیہ جانور ہی بہترین تھے۔

تاہم ہر جگہ پیدا ہونے والے خلاء کو پورا کرنے کو ممالیہ جانور ہی آگے نہیں آئے۔ سٹیون ایم سٹینلے کے مطابق، ‘ارتقاء کے عمل میں خلاء تو پیدا ہوتا ہے لیکن اس کو بھرنا اتنا آسان نہیں ہوتا’۔ شاید ایک کروڑ سال تک ممالیہ جانور اسی طرح محتاط اور مختصر جسامت والے رہے۔ ابتدائی ٹرشری دور میں سیاہ گوش کی جسامت والے جانور بے تاج بادشاہ ہوتے تھے۔

تاہم جب ممالیہ جانوروں نے بڑھنا شروع کیا تو پھر یہ سلسلہ بہت آگے چلا۔ گنی پگ کا حجم گینڈے کے برابر جبکہ گینڈے دو منزلہ مکان جتنے ہو گئے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں گوشت خور جانوروں کی کمی پیدا ہوئی تھی، وہاں بھی ممالیہ جانوروں نے جگہ پوری کی۔ ریکون کے خاندان کے جانور جنوبی امریکہ ہجرت کر گئے اور موقع کی مناسبت سے ریچھ جتنے بڑے اور خونخوار ہو گئے۔ پرندے بھی اسی حساب سے بڑے ہوئے۔ لاکھوں سال تک ٹائیٹانس نامی بڑا اور نہ اڑ سکنے والا پرندہ شاید شمالی امریکہ کا سب سے خونخوار جانور رہا ہو۔ یہ شاید آج تک کا سب سے خطرناک پرندہ ہو۔ اس کا قد تین میٹر اور وزن 350 کلو رہا ہو گا۔ اس کی چونچ کسی بھی جانور کا سر شانوں سے نوچ سکتی تھی۔ یہ پرندہ 5 کروڑ سال تک زندہ رہا لیکن 1963 میں اس کا فاسل ملنے سے قبل تک اس کے وجود کا کسی کو علم تک نہ تھا۔

فاسل ریکارڈ کی انتہائی قلت بھی معدومیت کے بارے ہماری لاعلمی کی ایک وجہ ہے۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ کسی ڈھانچے کا فاسل بننا کتنا مشکل کام ہے۔ ڈائنور ساروں کے ڈھانچے تقریباً ہر مشہور عجائب گھر میں دکھائی دیتے ہیں۔ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں داخل ہوتے ہی جو بڑا Diplodocus کا ڈھانچہ دکھائی دیتا ہے، وہ سارے کا سارا ہی پلاسٹر کا بنا ہوا ہے۔ 1903 میں اینڈریو کارنیگی نے پٹس برگ میں اسے بنا کر اس میوزیم کو عطیہ کیا تھا۔ امریکہ میں نیو یارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے داخلے کے مقام پر ایک 9 میٹر اونچا ڈائنو سار دوسرے ڈائنو سار سے اپنے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ بھی پلاسٹر کا بنا ہے۔ نمائش پر موجود سینکڑوں ہڈیاں تمام کی تمام ہی نقلی ہیں۔ دنیا بھر میں آپ کسی بھی عجائب گھر کا دورہ کریں، چاہے وہ پیرس میں ہو، وی آنا، فرینکفرٹ، بیونس آئرس، میکسیکو سٹی ہو یا کہیں بھی، ہر جگہ نمائش پر نقلی نمونے ہی دکھائی دیں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ڈائنو ساروں کے بارے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ آج تک ڈائنو سار کی 1000 قسمیں بھی نہیں دریافت ہوئیں۔ ان میں سے نصف کا محض ایک نمونہ ہی ملا ہے۔ یہ تعداد آج کے دور میں ممالیہ جانوروں کی انواع کے چوتھائی سے بھی کم ہے۔ ممالیہ جانوروں سے تین گنا لمبا عرصہ زندہ رہنے والے ڈائنو ساروں کی اتنی کم اقسام ہوں، یا تو ڈائنو سار انتہائی نکمے تھے یا پھر ہمیں ان کے بارے کچھ بھی معلومات نہیں۔

کروڑوں سال تک زندہ رہنے والے ڈائنو ساروں کے ابتدائی کئی لاکھ سال کے بارے تو ہمیں کوئی معلومات نہیں۔ Cretaceous دور جس کا سب سے زیادہ مطالعہ کیا گیا ہے، میں پائے جانے والے ڈائنو ساروں کی تین چوتھائی تعداد شاید آج بھی دریافت نہیں ہوئی۔ Diplodocus سے بھی عظیم الجثہ اور Tyrannosaurus سے بھی خونخوار جانور ہزاروں کی تعداد میں بھی ہوں تو بھی ہمیں ان کے بارے کوئی علم نہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ڈائنو ساروں کے اس دور کے بارے ہماری معلومات محض 300 ڈھانچوں تک محدود تھیں جو 16 انواع سے تعلق رکھتے تھے۔ شواہد کی کمی کی وجہ سے ہی یہ سمجھا جاتا تھا کہ کے ٹی واقعے کے وقت ڈائنو سار ویسے بھی معدوم ہونے کے قریب تھے۔

1980 کے اواخر میں پیٹر شیہان نامی ایک ماہرِ متحجرات یعنی پیلنٹالوجسٹ نے ایک تجربہ کرنے کا سوچا۔ 200 رضاکاروں کی مدد سے اس نے مونٹانا ریاست میں ہیل کریک کا باریک بینی سے معائنہ کرنے کا سوچا۔ یہ جگہ فاسلز کے بارے بہت مشہور لیکن بہت بار تلاشی کے عمل سے گزر چکی تھی۔ رضاکاروں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ چھلنیوں کی مدد سے بچے ہوئے تمام دانت، ہڈیاں، مہرے وغیرہ سب کچھ جمع کیے۔ اس کام پر کل تین سال خرچ ہوئے۔ تاہم جب ان کا کام ختم ہوا تو پتہ چلا کہ وہ Cretaceous دور کے اواخر والے ڈائنوساروں کے فاسل کی تعداد کو تین گنا بڑھا چکے ہیں۔ اس سروے سے پتہ چلا کہ کے ٹی واقعے تک ڈائنو سار نہ صرف موجود تھے بلکہ خوب پھل پھول رہے تھے۔ شیہان نے نتیجہ نکالا، ‘یہ کہنا غلط ہے کہ اس دور کے آخری 30 لاکھ سالوں میں ڈائنو سار معدوم ہونا شروع ہو گئے تھے ‘۔

ہم اپنی موجودگی اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ آج ہمارا وجود بروقت ہونے والے شہابِ ثاقب کے دھماکوں اور دیگر حادثات کا نتیجہ ہے۔ یوں کہہ لیں کہ آج تمام زندہ جانوروں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کے آباء و اجداد چار ارب سالوں سے جب بھی ضرورت پڑی، بند ہوتے دروازوں سے بروقت گزرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سٹیفن جے گولڈ کے مطابق، ‘نسلِ انسانی کا آج یہاں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی وراثتی شاخ آج تک کہیں ناکام نہیں رہی۔ اگر ناکام رہی ہوتی تو آج ان کا وجود ممکن نہ ہوتا’۔

اس باب کے شروع میں تین اہم نکات تھے کہ ‘زندگی اپنا وجود چاہتی ہے، زندگی کچھ زیادہ نہیں مانگتی اور یہ کہ وقتاً فوقتاً زندگی معدوم بھی ہوتی رہتی ہے ‘۔ اس میں ایک چوتھا نکتہ بھی شامل کر لیتے ہیں کہ ‘زندگی جاری و ساری رہتی ہے ‘۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ زندگی کا تسلسل کتنا منفرد ہے۔

٭٭٭

 

 

23 وجود کے فائدے

 

لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی نیم تاریک راہداریوں میں شیشے کی الماریوں میں بھرے شترمرغ کے انڈوں، معدنیات اور دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ خفیہ دروازے بھی موجود ہیں۔ خفیہ اس لیے کہ عموماً یہاں آنے والے افراد کو ان کے وجود کا علم کم ہی ہو پاتا ہے۔ کبھی کبھار ان دروازوں سے بکھرے بالوں والے محققین بعجلت نکل کر دوسرے دروازے میں گم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ تر یہ دروازے بند رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے کسی کو بھی علم نہیں ہو پاتا کہ اس نیچرل ہسٹری میوزیم کے ساتھ ساتھ ایک اور میوزیم بھی ہے جو عوامی میوزیم کے برابر بڑا اور وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے کہیں زیادہ دلچسپ بھی ہے۔

نیچرل ہسٹری میوزیم میں ہر قسم کے لگ بھگ 7 کروڑ نمونے موجود ہیں جو دنیا کے ہر کونے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ہر سال ایک لاکھ جتنے نئے نمونوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ تاہم ان ‘خزینوں ‘ کی اہمیت کے بارے آپ کو تبھی علم ہوتا ہے جب آپ ان دروازے کے پیچھے پہنچ سکیں۔ ان دروازوں کے پیچھے وسیع و عریض کمروں میں الماریوں کی الماریوں میں بوتلوں میں بند ہزاروں اقسام کے جانور، کروڑوں حشرات پن سوئیوں سے اٹکے ہوئے ہیں، چمکدار سیپیاں، ڈائنوساروں کی ہڈیاں، قدیم انسانی کھوپڑیاں اور ان گنت فولڈر ہیں جن میں پودے تہہ کر کے رکھے گئے ہیں۔ جیسا کہ ڈارون کا دماغ کھول کر رکھ دیا گیا ہو۔ سپرٹ والے کمرے میں کل 15 میل طویل الماریاں ہیں جن میں میتھیلیٹڈ سپرٹ میں محفوظ کیے گئے جانور موجود ہیں۔

اس جگہ آسٹریلیا سے جمع کیے گئے جوزف بینکس کے نمونے بھی ہیں اور ایموزونیا سے لائے گئے الیکزنڈر وون ہمبولڈٹ کے نمونوں کے علاوہ ڈارون کے بیگل کے سفر والے نمونے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بہت کچھ نایاب اور تاریخی اعتبار سے مشہور چیزیں موجود ہیں۔ بہت سارے لوگ انہیں چرانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بعض افراد تو سچ مچ چوری بھی کر چکے ہیں۔ 1954 میں میوزیم کو پرندوں کے ایک بہت مشہور مصنف اور نمونے جمع کرنے والے ماہر کا مجموعہ بھیجا گیا۔ یہ مصنف برسوں تک اپنی کتب اور مقالوں کی خاطر پرندوں کا مطالعہ کرنے میوزیم آتا تھا اور اس نے ایک کتاب Birds of Arabia بھی لکھی تھی۔ جب اس کی وفات کے بعد اس کے میوزیم کے نام چھوڑے ہوئے نمونوں سے بھرے ڈبے میوزیم پہنچے تو اہلکاروں نے خوشی خوشی انہیں کھول کر دیکھا تو ان میں سے اکثریت پر میوزیم کی چٹیں لگی ہوئی تھیں جو وہ سائنس دان برسوں سے چرا رہا تھا۔ اس طرح سب کو علم ہو گیا کہ یہ سائنس دان گرمیوں میں بھی لمبا اوور کوٹ کیوں پہن کر آتا تھا۔

مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ کئی سال بعد ایک اور انتہائی معزز مہمان جو اکثر آتا تھا، کو سمندری حشرات کے خول اپنی کھوکھلی بیساکھیوں میں ڈالتے ہوئے پکڑا گیا۔

میوزیم کے انہی پوشیدہ حصوں کی سیر کراتے ہوئے رچرڈ فورٹی نے سوچتے ہوئے بتایا، ‘یہاں موجود ہر چیز کسی نہ کسی شخص کو لبھاتی ہے۔ ‘ ہر جگہ لوگ بڑی بڑی میزوں کے اردگرد بیٹھے سمندری جانوروں، پیلی ہڈیوں سے بھرے ڈبوں اور دیگر چیزوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ یہ تمام لوگ انتہائی اطمینان سے کبھی نہ ختم ہونے والے کام کر رہے تھے۔ 1967 میں میوزیم نے بحرِ ہند کے سفر پر مبنی جان مرے کی مہم ختم ہونے کے 44 سال بعد اس کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی۔ یہ دنیا کا ایسا کونا ہے جہاں ہر چیز اپنی مرضی سے کام کرتی ہے۔ پھر ہم ایک اور بوڑھے آدمی کے ساتھ انتہائی سست رفتار لفٹ پر سوار ہو کر اوپر کو روانہ ہوئے اور رچرڈ فورٹی اس کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے بات کر رہا تھا۔

جب وہ آدمی چلا گیا تو فورٹی نے بتایا، ‘یہ آدمی پچھلے 42 سال سے ایک پودے پر تحقیق کر رہا ہے جو St. John’s wort کہلاتا ہے۔ 1989 میں ریٹائر ہونے کے بعد بھی یہ بندہ ہر ہفتے اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے آتا ہے۔ ‘

‘ایک پودے پر تحقیق پر بیالیس سال کیسے لگ سکتے ہیں؟’ میں نے فورٹی سے پوچھا۔

‘ہوتا ہے۔ یہ بندہ بہت تفصیلی تحقیق کر رہا ہے۔ ‘ فورٹی نے بتایا۔ پھر جب لفٹ رکی تو رچرڈ فورٹی بہت حیران ہوا کہ سامنے ایک دروازہ تیغا گیا تھا۔ فورٹی نے بتایا کہ پہلے اس راستے سے وہ باٹنی کے شعبے کو جاتا تھا، پتہ نہیں یہ کب اور کیسے بند کر دیا گیا۔ خیر پھر ہم لمبا چکر کاٹ کر متعلقہ جگہ پہنچے جہاں برائیو فائٹس پر کام ہوتا ہے۔ ہم اسے کائی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں میرا تعارف لِن ایلیئس سے کرایا گیا۔

پہلے عام سمجھا جاتا تھا کہ موس جنگل میں درختوں کے شمالی جانب اگتے ہیں اور اس سے قطب نما کی طرح درست رہنمائی ہو سکتی ہے۔ اصل میں یہ لائکن ہوتے ہیں مگر واضح رہے کہ 18ویں صدی تک لائکن اور موس کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا تھا۔ اصل موس تو جہاں بھی موقع ملے، اگ آتے ہیں۔ اس لیے ان سے سمت جاننا ممکن نہیں ہوتا۔ عجیب بات دیکھیے کہ موس کسی بھی کام نہیں آتے۔ ہنری ایس کونارڈ نے اپنی کتاب How to Know the Mosses and Liverworts میں لکھا، ‘دنیا میں کوئی اور نباتاتی گروہ اتنا بڑا اور کسی بھی لحاظ سے اتنا بیکار نہیں، جتنا کہ موس ہیں۔ ‘ 1956 میں چھپنے والی یہ کتاب اپنے موضوع پر شاید واحد کتاب ہے جو آج بھی دستیاب ہے۔

تاہم موس بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم لائکن کو نکال بھی دیں تو بھی برائیوفائٹس میں 10٫000 سے زیادہ انواع پائی جاتی ہیں جو 700 جنرا میں منقسم ہیں۔ اے جے ای سمتھ کی لکھی ہوئی ضخیم کتاب Moss Flora of Britian and Ireland کے صفحات کی تعداد 700 ہے اور اس میں برطانیہ اور آئرلینڈ کے موسز پر لکھا گیا ہے۔ دونوں ہی جگہوں پر کوئی بہت زیادہ موس نہیں پائے جاتے۔ لِن ایلیئس نے مجھے بتایا، ‘استوائی علاقوں میں موس کی اصل تعداد ملتی ہے۔ آپ ملائیشیا کے برساتی جنگلوں میں نکل جائیں تو آسانی سے نئی اقسام مل جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے بھی یہی کیا تھا۔ میں نے محض نیچے دیکھا اور فوراً ہی مجھے ایک نئی قسم کا موس مل گیا۔ ‘ خاموش طبعیت یہ بندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں 27 سال سے کام کر رہا ہے اور 1990 سے شعبے کا سربراہ بھی ہے۔

‘یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ اندازاً کتنی انواع ابھی تک دریافت نہیں ہو سکیں؟’

‘بالکل بھی نہیں۔ ‘

موس جیسے بیزار موضوع پر محققین کی کوئی کمی نہیں اور اس شعبے کے ماہرین کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو اس سے جذباتیت کی حد تک لگاؤ محسوس کرتے ہیں۔ ایلس نے بتایا ‘بعض اوقات تو لڑائی تک ہو جاتی ہے۔ ‘

میں نے ‘لڑائی’ کی مثال مانگی۔

‘دیکھیں، آپ کے ملک کے ایک سائنس دان نے یہ مسئلہ کھڑا کیا۔ ‘ اس نے ایک بہت موٹی کتاب کھول کر اس میں موجود تصاویر دکھاتے ہوئے ایک پر انگلی رکھی۔ میرے خیال تو یہ تمام تر تصاویر ایک ہی جیسی تھیں۔ اس نے بتایا، ‘یہ پہلے ایک جینس سے متعلق تھے۔ تاہم اب انہیں تین میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ‘

‘اس بات پر مار کٹائی ہوئی؟’ میں نے شوق سے پوچھا۔

‘بات تو درست تھی۔ لیکن اس سے یہ نقصان ہوا کہ بہت ساری کتب میں اور بہت ساری جگہوں پر نمونوں کو بدلنا پڑا اور یہ ساری کتب تبدیلیاں پوری ہونے تک بیکار ہو کر رہ گئیں۔ ظاہر ہے کہ سائنس دانوں کو برا تو لگا۔ ‘ جواب ملا۔

اس نے بتایا کہ موسز بعض اوقات بہت حیران کر دیتے ہیں۔ اس نے ایک موس کی مثال دی کہ وہ سب سے پہلے سٹین فورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا میں ملا اور دوسری مرتبہ کارن وال میں ایک راستے پر، مگر درمیان میں کسی جگہ نہیں ملتا۔

ہم نے پر خیال انداز میں سر ہلائے۔

جب ایک نیا موس ملتا ہے تو سب سے پہلے اسے پہلے سے معلوم تمام موسز کے ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اطمینان کر سکیں کہ یہ واقعی نیا ہے۔ پھر اس کی باقاعدہ تفصیل لکھی جاتی ہے اور تصویر بنائی جاتی ہے اور پھر اسے کسی اچھے مجلے میں چھپنے کو بھیجا جاتا ہے۔ اس سارے عمل پر کم از کم چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ انیسویں صدی میں موسز کی درجہ بندی پر زیادہ کام نہیں ہوا۔ اس صدی کا اصل کام پچھلی صدی میں درج کی گئی چیزوں کی درستگی تھی۔

یہ دور موس جمع کرنے کے حوالے سے سنہری دور کہلاتا ہے (یاد رہے کہ چارلس لائل کا باپ موس جمع کرنے کے لیے بہت مشہور تھا)۔ ایک مشہور انگریز جارج ہنٹ نے تو اتنے ذوق و شوق سے برطانوی موس جمع کیے کہ شاید کئی انواع اسی کی وجہ سے معدوم ہو گئی ہیں۔ لیکن اس جیسے دیوانوں کا شکریہ کہ آج لِن ایلس کے مجموعے کو بلا مبالغہ دنیا کا بہترین مجموعہ شمار کیا جا سکتا ہے۔ تمام 7٫80٫000 نمونے موٹے کاغذوں میں نفاست سے دبا کر رکھے گئے ہیں اور ان میں سے بعض پر بہت پرانے انداز کی تحاریر بھی موجود ہیں۔ بعض لکھائی تو شاید رابرٹ براؤن کی ہو گی جس نے سب سے پہلے خلیے کا مرکزہ اور براؤنین حرکت دریافت کی تھیں۔ یہ سب مجموعے مہاگنی سے بنی بہترین الماریوں میں رکھے ہیں۔

‘اوہ، یہ سر جوزف بینکس کی الماریاں ہیں جو ان کے سوہو چوک والے گھر سے لائی گئی ہیں۔ یہ الماریاں اینڈیور والی مہم کے نمونوں کو جمع کرنے کی خاطر انہوں نے بنوائی تھیں، مگر پتہ نہیں یہ اس جگہ کیسے آ گئیں؟’ ایلیئس نے جواب دیا۔

مجھے یہ سن کر بہت حیرت ہوئی۔ جوزف بینکس برطانیہ کا سب سے عظیم ماہرِ نباتات تھا اور اس نے اینڈیور پر سفر بھی کیا۔ یاد رہے کہ یہ سفر 1769 کے سورج کے سامنے زہرہ گزرنے کے مشاہدے کی نیت سے بھیجا گیا تھا اور اسی چکر پر ہی کیپٹن جیمز کُک نے آسٹریلیا کو دریافت کر کے برطانیہ سے منسوب کیا۔ اس سفر پر جانے کی خاطر بینکس نے اُس وقت کی رقم میں کل 10٫000 پاؤنڈ ادا کیے تاکہ وہ اور اس کے ساتھ 9 دیگر افراد جن میں ایک نیچرلسٹ، ایک سیکریٹری، 3 مصور اور 4 ملازمین تھے، ساتھ جائیں۔ یہ مہم تین سال پر مبنی تھی اور دنیا کے گرد چکر لگاتی۔ کیپٹن کُک نے پتہ نہیں اس مہم سے کیا سوچا ہو گا مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس دور میں ماہرینِ نباتات کی بہت مانگ تھی اور انہیں شرفا بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

اتنی کامیاب مہم پھر کبھی نہیں جا سکی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ مہم پہلے سے نامعلوم علاقوں جیسا کہ ٹیرا ڈل فیوگو، تاہیتی، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور نیو گنی سے ہو کر گزری بلکہ یہ بھی کہ اس میں بینکس کی ہنر مندی اور محنت کا زیادہ عمل دخل تھا۔ ریو ڈی جنیرو میں جب قرنطینہ کی وجہ سے بینکس زمین پر نہ اتر سکا تو اس نے جہاز کے مویشیوں کے لیے آئے چارے کی گانٹھیں چھاننا شروع کر دیں اور نئی چیزیں دریافت کیں۔ کوئی بھی نئی چیز اس کی نظروں سے نہ بچ سکتی تھی۔ واپسی پراس کے پاس 30٫000 نباتاتی نمونے تھے جن میں سے 1٫400 پہلے نامعلوم تھے۔ اس وقت کے معلوم پودوں کی تعداد اس کی وجہ سے ایک چوتھائی بڑھی۔

اس دور میں لوگوں کو پودے جمع کرنے کا جنون ہوتا تھا۔ یہ جنون بین الاقوامی تھا۔ ہر اس بندے کو دولت اور شہرت ملتی تھی جو نئی اقسام کے پودے متعارف کرا سکتا۔ تھامس نٹال جب امریکہ آیا تو بالکل ان پڑھ تھا لیکن اس نے جلد ہی پودوں کے جنون کو جان لیا۔ اس نے نصف امریکہ کا پیدل سفر کیا اور سینکڑوں نئی اقسام کے پودے دریافت کیے۔ جان فریزر، جس کے نام پر فریزر فر رکھا گیا ہے، نے برسوں جنگل میں گزارے اور روسی ملکہ کیتھرین کے لیے پودے جمع کیے۔ جب وہ واپس لوٹا تو روس میں نیا زار بادشاہ بن چکا تھا اور اس نے سوچا کہ شاید فریزر دیوانہ ہو گیا ہے اور اسے معاہدے کی رقم دینے سے انکار کر دیا۔ فریزر اپنے مجموعے سمیت چیلسی آ گیا۔ یہاں اس نے نرسری کھولی اور انگلستانی شرفا کو قسم قسم کے پودے بیچ کر خوب رقم کمانے لگا۔

ان دنوں اچھی مجموعوں کے بدلے اچھی رقم مل سکتی تھی۔ جان لیون نے شوقیہ پودے جمع کرنا شروع کیے اور دو سال کی محنت کے بدلے اسے آج کی رقم میں سوا لاکھ پاؤنڈ ملے۔ بہت سارے لوگوں نے محض اپنے شوق کی تسکین کے لیے کام کیا۔ نٹال نے اپنی زیادہ تر دریافتیں لیور پول کے باغوں کو دے دیں۔ آخرکار اسے ہارورڈ کے باغ کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور اس نے Genera of North American Plants نامی انسائیکلوپیڈیا لکھا۔

اور یہ سب تو محض پودے تھے۔ جانوروں کے بارے لوگ الگ دیوانے تھے، چاہے وہ کنگرو ہوں، کیوی، ریکون، باب کیٹ، مچھر یا کوئی بھی اور جانور۔ دنیا عجیب و غریب جانداروں سے بھری ہوئی ہے۔

ان تمام نئے جانوروں اور پودوں کو ترتیب دینے، ان کا مطالعہ کرنے اور تحقیق کرنے پر بھی وقت لگتا رہا۔ دنیا بھر میں ایسے نظام کی شدت سے کمی محسوس کی جاتی رہی کہ جو اس کام میں مدد کرتا۔ خوش قسمتی سے سوئیڈن سے ایسا ہی ایک انسان اس کام کے لیے تیار تھا۔

اس کا نام کارل لِنّے تھا۔ تاہم اب اسے عرفِ عام میں کارلوس لنیاؤس کہا جاتا ہے۔ اس کی پیدائش 1707 میں جنوبی سوئیڈن کے گاؤں روشالٹ میں ہوئی۔ اس کا باپ غریب مگر محنتی مذہبی رہنما تھا۔ تاہم کارلوس اتنا نالائق طالب علم تھا کہ اس کے باپ نے اسے دھمکی دی کہ وہ اسے موچی کے پاس کام سکھانے کو بٹھا دے گا۔ اس دھمکی نے کام دکھایا اور اس نے پڑھائی میں خوب دل لگایا۔ اس نے سوئیڈن اور ہالینڈ میں طب کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اس کی دلچسپی فطرت کی طرف ہو گئی۔ 1730 کی دہائی، جب وہ ابھی تیس سال کا بھی نہیں ہوا تھا، اس نے پودوں اور جانوروں کے بارے فہرستیں بنانا شروع کر دیں اور اس نے اپنا ایک نیا نظام بنایا۔ بتدریج اس کی شہرت ہونے لگی۔

شاید ہی کوئی اور انسان اپنی شہرت سے اتنا خوش ہوا ہو۔ زیادہ تر وقت وہ اپنی تعریفیں لکھتا کہ اس سے زیادہ ماہرِ نباتات اور ماہرِ حیوانات آج تک پیدا نہیں ہوا اور یہ بھی کہ اس کا درجہ بندی کا نظام دنیا کا بہترین نظام تھا۔ ایک بار تو از راہ انکساری، اس نے اپنی قبر کے کتبے پر ماہرینِ نباتات کا شہزادہ لکھوانے کی تجویز بھی دی۔ جس نے بھی ان باتوں پر اعتراض کیا، ان کے نام سے گھاس اور فضول جڑی بوٹیاں منسوب ہو گئیں۔

لنیاؤس کی سب سے عجیب خاصیت جنسیت سے اس کا شغف تھا۔ پودوں کے مختلف حصوں اور زنانہ جنسی اعضا میں تعلق دریافت کرنا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ بے شمار پودوں کو اس نے عورتوں اور مردوں کے جنسی اعضاء سے منسوب کیا۔ اس نے پودوں کے جنسی اعضا کو انسانی جنسی خواہشات سے وابستہ نام دیے جن میں بکثرت مباشرت، بنجر طوائف اور بسترِ سہاگ وغیرہ عام ہیں۔ ایک بار موسمِ بہار میں اس نے یہ قطعہ لکھا:

پودوں پر بھی محبت کا موسم آتا ہے۔ نر اور مادہ اپنے اپنے جنسی اعضا کو دکھاتے ہیں کہ کون نر ہے اور کون مادہ۔ پھولوں کی پتیاں بسترِ سہاگ کا کام دیتی ہیں جو خالق نے اتنی خوبصورتی سے جوڑی ہیں، اس پر جیسے پردے لگے ہوں اور اس پر عطر چھڑکا ہوا ہو اور وہاں نر اور مادہ اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتے ہوں۔ جب یہ بستر تیار ہوتا ہے تو دلہا اپنی مادہ کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے۔

اس نے پودوں کے ایک جنرا کو Clitoria کا نام دیا۔ انہی عادتوں کی وجہ سے لوگ اسے عجیب سمجھتے تھے۔ لیکن اس کا درجہ بندی کا نظام بہت عمدہ تھا۔ لیناؤس سے قبل درجہ بندی میں ایسے ایسے نام دیے جاتے تھے جو انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہوتے تھے۔ عام چیری کو Physalis amno ramosissime ramis angulosis glabris foliis dentoserratis کہا جاتا تھا۔ لیناؤس نے اسے Physalis angulata کا نام دیا۔ اس دور کے ماہرینِ نباتات اس بات پر مشکوک ہوتے تھے کہ آیا Rosa sylvestris alba cum rubore, folio glabro اور Rosa sylvestris inodora seu canina ایک ہی پودے کے دو نام ہیں۔ لیناؤس نے اسے Rosa canina کا نام دیا۔ تاہم ان ناموں کو قابلِ قبول بنانے کی خاطر ان کا سادہ ہونا کافی نہیں تھا بلکہ ان کو عام فہم بھی ہونا چاہیے تھا کہ نام سے ہی اس پودے کی نوع کا علم ہو جائے۔

لینائین نظام اتنا عمدہ ہے کہ اس کا متبادل سوچنا بھی ممکن نہیں۔ مگر اس سے قبل درجہ بندی اتنی مشکل اور پیچیدہ تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ جانوروں کو کبھی ان کے جنگلی یا پالتو ہونے کے اعتبار سے تو کبھی بری یا بحری، بڑے یا چھوٹے، خوبصورت اور شریف یا بیکار ہونے کے حوالے سے درجہ بندی کی جاتی تھی۔ بفن نے جانوروں کو انسانوں کو پہنچنے والے فائدے کے اعتبار سے تقسیم کیا۔ جسمانی ساخت پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ لیناؤس نے اپنا مقصدِ حیات ہی اس طرح کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے جانوروں کو ان کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے تقسیم کرنا بنا لیا۔ درجہ بندی کی سائنس اس کے بعد سے ہمیشہ بہتری کی جانب مائل ہے۔

اس سارے عمل پر بہت وقت لگا۔ لیناؤس کے شائع کردہ پہلی جلد 1735 میں چھپی اور اس میں محض 14 صفحات تھے۔ لیناؤس کی زندگی میں چھپنے والا آخری یعنی 12ویں ایڈیشن میں 3 کتب تھیں جو 2٫300 صفحات پر مشتمل تھیں اور ان میں پودوں اور جانوروں کی کل 13٫000 اقسام کے بارے بتایا گیا تھا۔ اس سے کافی عرصہ قبل جان رائے کی تین جلدوں پر مشتمل کتاب Historia Generalis Plantarum برطانیہ میں چھپی اور اس میں محض پودوں کی 18٫625 انواع تھیں۔ تاہم لیناؤس کے کام کی اہمیت ترتیب، یکسانیت، سادگی اور خوبصورتی کی وجہ سے تھی۔ اس کے 1730 کی دہائی کے کام کو 1760 کی دہائی میں جا کر مقبولیت ملی اور اسے برطانیہ میں ماہرینِ نباتات کا جدِ امجد مانا جانے لگا۔ شاید اسی وجہ سے اسے سٹاک ہوم کی نسبت لندن میں زیادہ پذیرائی ملی اور وہاں لینائن سوسائٹی وجود میں آئی۔

تاہم لیناؤس کے کام میں اپنی خامیاں تھیں۔ اس نے دیومالائی جانوروں اور فرضی انسانوں کے لیے کافی جگہ چھوڑ دی تھی۔ اس نے ان مخلوقات کے بارے ماہی گیروں اور جہاز رانوں سے داستانیں سنی تھیں۔ مثلاً اس نے Homo ferus کا بتایا جو ابھی تک چاروں ہاتھ پیر پر چلتا ہے اور بولنا نہیں سیکھا، Homo caudatus یعنی دم والا انسان۔ تاہم یاد رہے کہ اس دور میں یہ باتیں عام تھیں۔ جوزف بینکس جیسا ماہر بھی ان داستانوں پر یقین رکھتا تھا کہ سکاٹ لینڈ کے ساحل سے پرے جل پریاں دیکھی گئی ہیں۔ تاہم لیناؤس کی خوبیاں اس کی ان خامیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ دیگر کامیابیوں کے علاوہ اس نے سب سے پہلے محسوس کیا کہ وہیل کا تعلق گائے، چوہوں اور دیگر بری جانوروں سے ہے جو quadrupedia نامی آرڈر سے متعلق ہیں (اسے بعد میں ممالیہ کہا گیا)۔ اس سے قبل کسی نے یہ بات نہیں محسوس کی تھی۔

شروع میں لیناؤس نے سوچا کہ ہر پودے کو اس کی جینس کا نام اور ایک نمبر مثلاً Convolvulus 1, Convolvulus 2 وغیرہ کہا جائے۔ مگر اس نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ اس سے زیادہ فائدہ مند دو حصوں والا نام رہے گا۔ یہی اصول اب تک چلا آ رہا ہے۔ ابتدا میں اس کا ارادہ تھا کہ قدرت میں پائی جانے والی ہر چیز چاہے وہ بیماری ہو، چٹانیں، معدنیات یا ہوا وغیرہ، ہر چیز کو دو حصوں والا نام دیا جائے۔ تاہم اس نظام کو عام قبولیت نہ مل پائی۔ لیناؤس کے دیے ہوئے بعض فحش ناموں سے کچھ لوگ بہت پریشان ہوتے تھے حالانکہ اس سے قبل پودوں اور جانوروں کے بہت فحش نام ملنا عام سی بات تھی۔ Dandelion کو بہت طویل عرصے تک Pissabed کہا جاتا رہا کہ وہ پیشاب آور خاصیت کا حامل ہے۔ چند دیگر نام mare’s fart, naked ladies, twitch-ballock, hound’s piss, open arse اور bum-towl تھے۔ ابھی بھی شاید ایک دو ایسے نام انگریزی زبان کا حصہ ہیں۔ Maidenhair نامی موس نہ تو زلفوں سے مشابہ ہے اور نہ ہی کسی دوشیزہ سے۔ تاہم یہ بات عام سمجھی جاتی تھی کہ جانداروں کو نئے سرے سے نام دیے جانے چاہئیں۔ تاہم اب لوگوں کی مایوسی دیکھیے کہ اس کام کا بیڑا خود ساختہ ماہرینِ نباتات کے شہزادے نے اٹھا لیا تھا جس کی اپنی کتب میں Clitoria, Fornicata اور Vulva جیسے نام عام پائے جاتے تھے۔

گزرتے ہوئے برسوں کے ساتھ ساتھ ایسے نام چپکے سے بدلے جاتے رہے (بعض نام ابھی تک باقی ہیں ) اور دیگر ضروری تبدیلیاں بھی متعارف کرائی جاتی رہیں تاکہ کام آگے بڑھتا رہے۔ اس میں بہتری کی خاطر مزید تقسیم متعارف کرائی جاتی رہیں۔ جینس اور انواع کی اصطلاحات لیناؤس سے سو برس قبل سے چل رہی تھیں اور 1750 کی دہائی میں آرڈر، کلاس اور فیملی کے تصورات پیش ہوئے۔ فائلم کا ذکر پہلی بار 1876 میں ہوا اور فیملی اور آرڈر کو انیسویں صدی کے اوائل تک ایک دوسرے کے مترادف سمجھا جاتا رہا۔ ماہرینِ حیوانات جہاں فیملی کا لفظ استعمال کرتے، وہاں ماہرینِ نباتات اس چیز کو آرڈر (انسان کو ڈومین یوکاریا، کنگڈم انیمالیا، فائلم کارڈیٹا، سب فائلم ورٹریبریٹا، کلاس ممالیا، آرڈر پرائیمیٹ، فیملی ہومینائڈ، جینس ہومو، سپیشیز یا نوع سیپی اینز میں رکھا جاتا ہے ) کہتے۔

لیناؤس نے عالمِ حیوانات کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جو میمالیہ، خزندے، پرندے، مچھلیاں، حشرات اور کیڑے کہلائے۔ جو جانور پہلی پانچ میں سے کسی شاخ پر پورا نہ آتا، اسے کیڑوں میں ڈال دیتے۔ ابتدا سے ہی بات واضح ہو گئی کہ یہ نظام ٹھیک نہیں کیونکہ لابسٹر اور جھینگوں کو کیڑے کے درجے پر رکھا گیا جو درست نہیں تھا۔ اس لیے کئی نئی شاخیں مثلاً مولسک اور کرسٹیشن وغیرہ متعارف کرائی گئیں۔ بدقسمتی سے اسے ہر جگہ قبولیت نہ مل سکی۔ جب 1842 میں برطانویوں نے Stricklandian Code اپنایا تو فرانسیسیوں نے اس کے مدِ مقابل اپنے نئے اصول بنا لیے۔ اس دوران American Ornithological Society نے بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر Systema Naturae کے 1758 والے ایڈیشن کو نام دینے کے لیے استعمال کیا جبکہ باقی پوری دنیا میں اس کا 1766 والا ایڈیشن استعمال ہوا۔ سو 18ویں صدی میں امریکی پرندے اور یورپی پرندے الگ الگ شاخوں میں منقسم رہے۔ 1902 میں ماہرینِ حیوانات کی بین الاقوامی کانگریس میں یکساں اصولوں پر اتفاق شروع ہوا۔

ٹیکسانومی کو بعض اوقات سائنس کہا جاتا ہے اور بعض اوقات آرٹ، جبکہ حقیقت میں یہ محض میدانِ جنگ ہے۔ آج بھی اس نظام میں اتنی بے ترتیبی ہے کہ عام لوگوں کو اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں۔ مثال کے طور پر فائلم کو دیکھیے جو جانداروں کی بنیادی جسمانی ساخت کی وضاحت کرتا ہے۔ چند فائلا ہی واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مولسک (سیپیاں اور گھونگھے )، آرتھرو پاڈ (حشرات اور کرسٹیشن) اور کارڈیٹس (تمام جاندار جن میں ریڑھ کی ہڈی یا اس سے ملتا جلتا عضو پایا جاتا ہو)۔ اس سے آگے محض الجھنیں شروع ہو جاتی ہیں۔ فائلم بنیادی شاخوں میں سے ایک ہے اور اس پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا کہ کل کتنے فائلم ہیں۔ زیادہ تر ماہرین کے خیال میں کل 30 فائلم ہیں تو بعض کے خیال میں بیس اور بعض کے خیال میں 89۔

کتابی دنیا سے نکل کر عملی دنیا میں مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں۔ گھاس کی ایک قسم کے بارے ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا یہ Aegilops incurva ہے یا Aegilops ovata۔ اگرچہ یہ بات بہت معمولی سی لگتی ہے مگر ماہرین میں یہ بحث لڑائی تک پہنچ سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گھاس کی کل 5٫000 اقسام ہیں اور ان میں سے بہت ساری ایسی ہیں جو ماہرین کو بھی بالکل ایک جیسی لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان میں سے بعض اقسام تو 20 مرتبہ دریافت ہو کر الگ الگ ناموں سے مشہور ہو چکی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی قسم ہو جو کم از کم دو بار دریافت ہو کر الگ الگ ناموں سے مشہور نہ ہو چکی ہو۔ دو جلدوں والے Manual of the Grasses of the United States کے دو سو صفحات پر باریک لکھائی میں ہر گھاس کے لیے مستعمل تمام نام دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ محض ایک ملک کی گھاس کی اقسام ہیں۔

اس طرح کے اختلافات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی طور پر International Association of Plant Taxonomy بنائی گئی ہے جو حتمی رائے دیتی ہے۔ وقتاً فوقتاً اس کی جانب سے فیصلے جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن ان پر بھی بحث ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ فیصلے بدلے بھی جا سکتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں Chrysanthemum کو اسی نام کے جینس سے نکال کر Dendranthema میں ڈال دیا گیا جو سائنسی اعتبار سے بالکل ٹھیک فیصلہ تھا۔

Chrysanthemum اگانے والے افراد بہت زیادہ ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بہت احتجاج کیا۔ اگرچہ درجہ بندی کے اصول بہت سخت ہوتے ہیں مگر 1995 میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اس طرح کے واقعات بکثرت ہوتے رہتے ہیں۔ چارلس ایلیٹ نے اپنی کتاب The Potting-Shed Papers میں ایسے واقعات کا دلچسپ انداز میں تذکرہ کیا ہے۔

اس طرح کے جھگڑے اور نئے سرے سے ترتیب دینے کے کام پودوں تک محدود نہیں بلکہ ہر قسم کے جانداروں کے ساتھ یہی مسائل پیش آتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں معمولی سا بھی اندازہ نہیں ہے کہ اس وقت دنیا میں کل کتنی اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں۔ اندازے 30 لاکھ سے 20 کروڑ تک ہو سکتے ہیں۔ The Economist کے اندازے کے مطابق شاید کرہ ارض کے 97 فیصد حیوانات اور نباتات ابھی تک دریافت نہیں ہو پائے۔

جن جانوروں کے بارے ہمیں معلوم ہے، ان میں سے 100 میں سے 99 ایسے ہیں کہ ان کے بارے معمولی تفصیل، چند نمونے جو مختلف عجائب گھروں میں ہیں اور سائنسی مجلوں میں چھپے چند مضامین تک ہماری معلومات محدود ہیں۔ ولسن نے اپنی کتاب The Diversity of Life میں لکھا ہے کہ تمام تر نباتات، حشرات، خورد بینی جاندار، الجی وغیرہ، سب کو ملا کر ان کی معلوم انواع 14 لاکھ بنتی ہیں۔ بعض سائنس دان اسے 15 سے 18 لاکھ تک مانتے ہیں۔ تاہم ہر جگہ واضح لکھا ہوتا ہے کہ یہ محض ایک اندازہ ہے۔ چونکہ ایسی معلومات کسی ایک جگہ نہیں جمع ہوتیں، اس لیے اسے ثابت کرنا ممکن نہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمیں کیا معلوم ہے۔

اب بظاہر یہ بات معقول لگتی ہے کہ آپ ہر شعبے کے ماہر کے پاس جائیں اور ان سے ان کے شعبے میں موجود انواع کی تعداد معلوم کرتے جائیں اور اس طرح کل تعداد حاصل ہو جائے گی۔ بہت سے لوگوں نے ایسا کیا بھی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی دو افراد اس تحقیق کے بعد ایک نتیجے پر نہیں پہنچتے۔ بعض ذرائع کے مطابق فنجائی کی 70٫000 انواع ہیں تو بعض کے خیال میں 1٫00٫000۔ حشرات میں یہ تعداد 7٫50٫000 سے 9٫50٫000 مانی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ معلوم انواع کی بات ہو رہی ہے۔ پودوں کی انواع کا اندازہ 2٫48٫000 سے 2٫65٫000 کے درمیان کا ہے۔ دونوں کا فرق براعظم شمالی امریکہ کے پھولدار پودوں کی کل تعداد کے بیس گنا سے بھی زیادہ ہے۔

ترتیب دینا کوئی آسان کام نہیں۔ 1960 کی دہائی میں آسٹریلوی نیشنل یونیورسٹی کے سائنس دان کولن گرووز نے سوچا کہ پرائمیٹس کی 250 سے زیادہ اقسام کو ترتیب دی جائے۔ اکثر پتہ چلا کہ ایک نوع کو دو یا دو سے زیادہ مرتبہ ‘دریافت’ کیا گیا ہے۔ اس سارے مسئلے کو حل کرنے پر اسے 40 سال لگے۔ یہ جانوروں کے ایک ایسے گروہ کی بات ہو رہی ہے جو بہت چھوٹا ہے اور بہ آسانی شناخت ہو سکتا ہے۔ اب سوچیے کہ اگر یہی کام لائکن کی 20٫000 انواع، مولسک کی 50٫000 انواع یا بیٹلوں کی 4٫00٫000 سے زیادہ انواع سے متعلق ہو تو اس پر کتنا وقت اور کتنی محنت لگے گی۔

یہ بات تو یقینی ہے کہ اس دنیا میں جانداروں کی بے شمار اقسام موجود ہیں، مگر ان کی تعداد کے بارے ہم محض اپنے اپنے تخیل کی بنیاد پر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں سمتھسونین انسٹی ٹیوٹ کے ٹیری اروِن نے پانامہ کے برساتی جنگل کے صرف 19 درختوں کو کرم کُش ادویہ سے نہلایا اور پھر ان درختوں کے پتوں سے گرنے والے تمام حشرات اور کیڑوں کو جمع کیا (اس نے یہ تجربہ بہت مرتبہ دہرایا تاکہ موسمی مہاجر کیڑوں اور حشرات کا درست اندازہ ہو سکے )۔ ان جمع شدہ جانوروں میں 1٫200 اقسام کے صرف بیٹل تھے۔ اب سوچیے کہ اس جنگل میں موجود درختوں کی تعداد اور اسی جیسے دنیا بھر کے دیگر جنگلات اور ان میں موجود بیٹلز کی انواع کتنی ہوں گی۔ ان متغیرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نے دنیا میں حشرات کی کل 3 کروڑ اقسام کا اندازہ لگایا۔ بعد میں اس نے خود تسلیم کیا کہ یہ اندازہ بہت محدود تھا۔ اسی طرح کے طریقہ کار سے دیگر محققین کے اندازے ایک کروڑ تیس لاکھ، 8 کروڑ اور 10 کروڑ تک جاتے ہیں۔

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق، پوری دنیا میں اس وقت کل 10٫000 ٹیکسانومسٹ کام کر رہے ہیں۔ تاہم سوچیے کہ ان کے کرنے کا کام کتنا زیادہ ہے۔ جرنل میں یہ بھی لکھا تھا کہ ایک نئی نوع کی درجہ بندی پر لگنے والے اخراجات (1٫250 پاؤنڈ) اور کاغذی کاروائی کی وجہ سے ہر سال محض 15٫000 نئی انواع رجسٹر ہو پاتی ہیں۔

‘یہ حیاتیاتی تغیر کا مسئلہ نہیں، ٹیکسانومسٹ کی تعداد کا مسئلہ ہے ‘، بیلجین نژاد اور کینیا کے نیروبی کے قومی عجائب گھر میں غیر فقاریہ جانوروں کے شعبے کے سربراہ کوئن مائس نے مایوسی سے کہا۔ میری ملاقات اس سے 2002 کے موسمِ خزاں میں ہوئی۔ اس نے بتایا کہ ‘پورے افریقہ میں ایک بھی تربیت یافتہ ٹیکسانومسٹ نہیں، آئیوری کوسٹ میں ایک تھا، مگر شاید وہ ریٹائر ہو چکا ہے۔ ‘ ایک ٹیکسانومسٹ کی تربیت میں لگ بھگ دس سال لگتے ہیں لیکن کوئی بھی افریقہ نہیں آنا چاہتا۔ وہ خود سال کے اختتام پر واپس جا رہا تھا کہ اس کے سات سالہ معاہدے کی تجدید نہیں ہو پائی کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے۔

برطانوی حیاتات دان جی ایچ گاڈفری نے نیچر جرنل کو بتایا کہ ٹیکسانومسٹ کو مستقل بنیادوں پر وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ نتیجتاً ‘نئی انواع اِدھر اُدھر چھپتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے پہلے سے موجود انواع کے لیے کوئی نئی درجہ بندی ہونا ممکن نہیں (زوآلوجیکل درجہ بندی کے لیے اصل اصطلاح فائلم یا جینس استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع ٹیکسا ہے )۔ ‘ ماہرین کا زیادہ تر وقت نئے جانوروں کی درجہ بندی کی بجائے پہلے سے موجود جانوروں کی غلط درجہ بندی کی درستگی پر لگتا ہے۔ ‘زیادہ تر ماہرین کی زندگی کا بڑا حصہ 18ویں صدی کے ماہرین کی اغلاط کو درست کرنے اور دوسرے عجائب گھروں میں موجود جانوروں کے نمونوں کی تلاش میں گزر جاتا ہے جبکہ یہ نمونے عموماً بہت بری حالت میں ہوتے ہیں۔ ‘ گاڈفری کو اس بات کا شکوہ ہے کہ اس سلسلے میں انٹرنیٹ کو بالکل ہی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ٹیکسانومی کا سارا کام ہی کاغذوں پر چل رہا ہے۔

اس سلسلے کو عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی نیت سے کیون کیلی نے 2001 میں All Species Foundation کی بنیاد رکھی جس کا مقصد تمام جانداروں کو ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں محفوظ کرنا تھا۔ اس منصوبے کی لاگت کا اندازہ 1.3 ارب سے 30 ارب پاؤنڈ کے درمیان لگایا گیا ہے۔ تاہم 2002 کے موسمِ بہار میں ادارے کے پاس محض 7٫50٫000 پاؤنڈ جتنی رقم اور چار کُل وقتی ملازمین تھے۔

جیسا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں، حشرات کی لگ بھگ ایک لاکھ انواع ابھی دریافت ہونی باقی ہیں۔ جس رفتار سے انہیں دریافت کیا جا رہا ہے، اس حساب سے تقریباً 15٫000 سال میں ہم تمام حشرات کو دریافت کر لیں گے اور باقی جانوروں پر اسی حساب سے مزید وقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ہمارا علم اتنا محدود کیوں ہے؟ اس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ تاہم ہم یہاں ان میں سے چند اہم ترین وجوہات کو دیکھتے ہیں :

زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور آسانی سے نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کوئی بری بات نہیں۔ اگر آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے بستر پر کم از کم 20 لاکھ چھوٹے چھوٹے پسو موجود ہیں تو شاید آپ اس پر دوبارہ نہ سو سکیں۔ جونہی آپ سوتے ہیں تو یہ پسو آپ کے پسینے اور جلد کے جھڑ جانے والے مردہ حصوں سے اپنا پیٹ بھرنے نکل آتے ہیں۔ آپ کے تکیے پر ان کی اوسط تعداد 40٫000 ہے۔ اس پر حیران نہ ہوں کہ ہمارے بستر کی چادر کی ایک تار ان پسوؤں کے لیے بہت موٹے رسے کے برابر ہوتی ہے۔ ‘اگر آپ کا تکیہ چھ سال پرانا ہے تو اس کے وزن کا دسواں حصہ آپ کی کھال کے مردہ حصوں، زندہ پسو، مردہ پسو اور ان کے فضلے پر مشتمل ہوتا ہے ‘، برٹش میڈیکل انٹامالوجیکل سینٹر کے ڈاکٹر جان مانڈر نے بتایا (یہ تو وہ پسو ہیں جو آپ کے ‘ذاتی’ ہیں۔ سوچیے کہ جب آپ کسی ہوٹل میں تکیے پر اپنا سر رکھتے ہیں تو۔ ۔ ۔ )(حفظانِ صحت کے بعض معاملات میں ہم مزید پیچھے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مانڈر کا خیال ہے کہ جوں جوں کپڑے دھونے کی مشینیں کم درجہ حرارت والے پاؤڈر استعمال کرتی جا رہی ہیں، ویسے ویسے پسو پھیلتے جا رہے ہیں۔ اس نے لکھا، ‘جب آپ کپڑوں کو کم گرم پانی سے دھوتے ہیں تو اس کا نتیجہ محض اچھی طرح دھلی ہوئی جوئیں ہو گا’)۔ یہ پسو ازل سے ہمارے ساتھ ہیں مگر ہمیں ان کی موجودگی کا پہلی بار علم 1965 میں ہوا۔

اگر پسو جیسی ہم سے قریب مخلوق اتنا عرصہ ہماری نظروں سے چھپی رہی تو سوچیے کہ باقی دنیا میں ایسے جانداروں کی کیا تعداد ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی مخلوقات کی بھاری اکثریت کا ہمیں ابھی تک علم نہیں۔ آپ کسی بھی جنگل میں جائیں اور مٹھی بھر مٹی کھودیں تو اس میں 10 ارب بیکٹیریا ہوں گے جن کی اکثریت سائنس کے لیے نئی ہو گی۔ اسی مٹی میں تقریباً 10 لاکھ خمیر، 2 لاکھ فنجائی یعنی پھپھوندیاں، 10٫000 پروٹوزوا (امیبا جیسے جاندار) کے علاوہ بے شمار خورد بینی کیڑے بھی ہوں گے۔ ان کی بھاری اکثریت بھی سائنس کے لیے نامعلوم ہو گی۔

اس وقت دنیا بھر میں بیکٹیریا کے موضوع پر سب سے جامع کتاب کا نام Bergey’s Manual of Systematic Bacteriology ہے جس میں بیکٹیریا کی 4٫000 اقسام پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ 1980 کی دہائی میں دو نارویجئن سائنس دانوں جسٹین گوکسوئر اور وگدیس ٹورسوِک نے اپنی لیبارٹری کے پاس ساحل سے ایک گرام مٹی کا نمونہ لیا اور اس میں موجود بیکٹیریا کا احتیاط سے تجزیہ کیا۔ اس محض ایک گرام مٹی میں بیکٹیریا کی 4٫000 سے 5٫000 مختلف انواع تھیں۔ پھر انہوں نے چند کلومیٹر دور سے ایک اور جگہ سے ایک گرام مٹی نکالی اور اس میں پہلے سے مختلف 4٫000 سے 5٫000 نئی اقسام کے بیکٹیریا موجود تھے۔ ایڈورڈ او ولسن نے تبصرہ کیا، ‘اگر ناروے کے دو مقامات پر چٹکی بھر مٹی سے 9٫000 نئی انواع مل سکتی ہیں تو دنیا بھر کے علاقوں سے ملنے والے بیکٹیریا کی تعداد کیا ہو گی’؟ ایک اندازے کے مطابق 40 کروڑ انواع۔

ہم درست جگہ تلاش نہیں کرتے۔ The Diversity of Life میں ولسن نے لکھا ہے کہ کس طرح ایک ماہرِ نباتات چند دن بورنیو کے جنگلات میں دس ہیکٹر رقبے میں پھرتا رہا اور اس نے 1٫000 اقسام کے نئے پھولدار پودے دریافت کر لیے۔ یہ تعداد شمالی امریکہ میں پائے جانے والے تمام تر پھولدار پودوں سے زیادہ ہے۔ ان کی تلاش کوئی مشکل کام نہیں تھا، مگر کسی نے اس جگہ تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اسی طرح کوئن مائس نے بتایا کہ ایک بار وہ ایک بادلی جنگل (کینیا میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر پائے جانے والے جنگلات) میں گیا تو نصف گھنٹے محض پھرتے رہنے کے بعد اس نے 4 نئے کنکھجورے دیکھے جن میں سے تین کا تعلق ایک نئے جنرا سے تھا۔ اس کے علاوہ ایک نئی قسم کا درخت دیکھا جو بہت بڑا تھا۔ بادلی جنگلات بہت اونچائی پر ہوتے ہیں اور اکثر وہ لاکھوں سالوں سے الگ تھلگ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ‘یہاں حیاتیات کے لیے بہترین ماحول ہوتا ہے مگر شاید ہی کبھی کسی نے توجہ دی ہو۔ ‘ اس نے بتایا۔

استوائی برساتی جنگل کل زمینی رقبے کا محض 6 فیصد ہیں مگر یہاں جانوروں کی کل تعداد کا نصف اور پھولدار پودوں کی دو تہائی تعداد پائی جاتی ہے۔ مگر جنگلی حیات کی بہت بڑی تعداد ہم سے پوشیدہ ہے کہ محض چند محققین ہی جانے کی زحمت کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت ہمارے لیے بہت قیمتی ثابت ہو سکتی ہے۔ پودوں میں سے 99 فیصد کی ادویاتی خصوصیات کا کبھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ چونکہ پودے شکاریوں سے بچ کر بھاگ نہیں سکتے، اس لیے یہ اپنے دفاع کے لیے مختلف کیمیائی مواد پیدا کرتے ہیں۔ آج بھی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات کی ایک چوتھائی محض 40 پودوں سے کشید کی جاتی ہیں۔ مزید 16 فیصد جانوروں اور خورد بینی جانداروں سے آتی ہیں۔ اب سوچیے کہ برساتی جنگلات کے کم ہوتے ہوئے ہر ہیکٹر کے ساتھ طبی اہمیت کے اعتبار سے کتنی چیزیں غائب ہو رہی ہیں۔ کیمیا میں مختلف کیمیائی مرکبات بنانے کی تکنیک کی مدد سے اس وقت کل 40٫000 کیمیائی مرکبات لیبارٹری میں بنائے جا سکتے ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت اتفاقی اور بیکار ہوتی ہے۔ دوسری جانب فطرت میں پایا جانے والا ہر کیمیائی مرکب جس عمل سے گزر چکا ہے، اسے The Economist کے مطابق ‘ساڑھے تین ارب سال کی ارتقا پر مشتمل بہترین چھلنی’ کہا جا سکتا ہے۔

نامعلوم حیات کی تلاش کے لیے آپ کو لازمی نہیں کہ بہت دور دراز جانا پڑے۔ رچرڈ فورٹی نے اپنی کتاب Life: An Unauthorised Biography میں لکھا ہے کہ کیسے ایک قدیم بیکٹیریا مقامی شراب خانے کی دیوار سے مل گیا تھا۔ اس دیوار پر بہت عرصے سے شرابی پیشاب کرتے آ رہے تھے۔

ماہرین کی کم تعداد۔ نئے جاندار جن کو دریافت کر کے مطالعہ کرنا اور پھر ان کو قلم بند کرنا ہو، ان کی تعداد کی نسبت یہ کام کرنے والے ماہرین کی تعداد بہت کم ہے۔ اب ذرا انتہائی سخت جان Bdelloid rotfers کی مثال دیکھیے۔ یہ خورد بینی جانور تقریباً ہر مشکل کا سامنا کر لیتے ہیں۔ جونہی حالات ناسازگار ہوتے ہیں تو یہ جانور سکڑ کر گول ہو جاتے ہیں اور اپنا میٹابولزم روک دیتے ہیں۔ اس کیفیت میں آپ انہیں ابلتے پانی میں ڈال دیں یا مطلق صفر درجے کے قریب تک لے جائیں (جہاں ایٹم بھی کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں )، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جونہی حالات سازگار ہوں گے تو یہ پھر سے متحرک ہو جائیں گے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ان کی تقریباً 500 (کچھ اندازوں کے مطابق 360) اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ تاہم ابھی یہ اندازہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ان کی کتنی مزید اقسام ابھی تک دریافت نہیں ہو پائیں۔ برسوں تک ان پر ہونے والا تمام تر کام ایک شوقیہ بندے کا تھا جو لندن سے تعلق رکھنے والا کلرک تھا جو ان جانوروں پر اپنے فارغ وقت میں توجہ دیتا تھا۔ اگر آپ ان جانوروں کے ماہرین کو دنیا بھر سے جمع کریں تو ان کی تعداد دس بارہ سے زیادہ نہیں ہو گی۔

فنجائی جیسی بکثرت اور عام مخلوق پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ فنجائی ہر جگہ اور بہت ساری شکلوں میں پائی جاتی ہے، کھمبیاں، ککرمتے، پھپھوندی، خمیر وغیرہ سبھی فنجائی ہیں۔ ان کے مجموعی حجم کے بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ایک ہیکٹر جتنے رقبے پر موجود گھاس کے میدان میں موجود تمام تر فنجائی جمع کی جائے تو اس کا وزن 2٫800 کلو بنے گا۔ یہ کوئی معمولی جاندار نہیں ہیں۔ فنجائی کے بنا آلو کی بیماری، ڈچ ایلم بیماری، ایتھلیٹس فٹ جیسی بیماریاں تو غائب ہو جائیں گی مگر یاد رہے کہ دہی، بیئر اور پنیر بھی گم ہو جائیں گے۔ اب تک فنجائی کی لگ بھگ 70٫000 انواع دریافت کی جا چکی ہیں لیکن اندازہ ہے کہ ان کی اصل تعداد 18 لاکھ کے لگ بھگ ہو گی۔ فنجائی کے ماہرین کی بہت بڑی تعداد صنعتوں میں کام کرتی ہے جہاں وہ پنیر اور دہی بنانے کا کام بخوبی سرانجام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق میں بہت کم ماہرین پائے جاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ فنجائی کی جتنی اقسام ابھی دریافت ہونی ہیں، اس تعداد سے کہیں کم ان پر تحقیق کر رہی ہے۔

دنیا بہت وسیع ہے۔ ہوائی جہاز اور دیگر ذرائع نقل و حمل کی وجہ سے ہمیں دنیا بہت مختصر لگتی ہے لیکن زمین پر رہتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت ہی وسیع ہے۔ محققین کو زمین پر رہتے ہوئے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ زرافے کا قریبی رشتہ دار اوکاپی ہے، زائر میں پایا جاتا ہے اور وہاں کے جنگلات میں اس کی تعداد کم از کم 30٫000 ہے، کے بارے 19ویں صدی کے وسط میں جا کر پتہ چلا۔ نیوزی لینڈ کا بہت بڑا اور نہ اڑ سکنے والا پرندہ تاکاہی کہلاتا ہے، کے بارے مانا جاتا تھا کہ وہ دو سو سال قبل ناپید ہو گیا تھا، نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے پر ابھی تک پایا جاتا ہے۔ 1995 میں برطانیہ اور فرانس کے سائنس دانوں کی ٹیم تبت گئی اور طوفان کی وجہ سے اپنا راستہ بھول کر ایک دور افتادہ وادی میں پہنچ گئی۔ اس جگہ انہوں نے گھوڑوں کی وہ نسل دیکھی جس کے بارے محض قبل از تاریخ غاروں میں بنی تصاویر سے پتہ چلتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو یہ جان کر بہت عجیب لگا کہ باقی دنیا میں ان کے گھوڑوں کو اتنا نایاب سمجھا جاتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے کہیں زیادہ بڑے انکشافات ہمارے منتظر ہیں۔ The Economist نے 1995 میں لکھا کہ ‘ایک برطانوی سائنس دان کے خیال میں ایک میگاتھیرم نامی جانور، جو سلاتھ نسل سے تعلق رکھتا ہو گا اور جس کی اونچائی شاید زرافے سے بھی زیادہ ہو، شاید ایمیزن کے جنگل میں ہماری نظروں سے اوجھل ہو۔ ‘ اگرچہ اس جانور کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں مگر اصولی طور پر اس کے وجود سے تبھی انکار کیا جا سکتا ہے جب اس جنگل کا چپہ چپہ چھان مارا جائے۔ ابھی اس کام میں بہت عرصہ لگے گا۔

اگر ہم ہزاروں کارکنوں کو تربیت دے کر دنیا بھر کے کونے کونے میں بھیجیں بھی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی زندگی پائی جا سکتی ہے، وہاں پائی جاتی ہے۔ زندگی کی غیر معمولی خوبی یہ ہے کہ یہ بہت حیران کن ہے۔ اس کی تمام شکلوں کو دیکھنے کے لیے آپ کو دنیا کے ہر گوشے میں جانا ہو گا، جنگل میں گرے پتوں کے ہر ڈھیر کی تلاشی لینی ہو گی، ریت اور مٹی کی بہت زیادہ مقدار چھاننی ہو گی، ہر جنگل میں جا کر بالائی سطح سے جاندار اکٹھے کرنے ہوں گے اور سمندروں کی تلاشی کے لیے کوئی طریقہ وضع کرنا ہو گا۔ اس کے باوجود بھی کہیں کہیں پورے ایکو سسٹم ہماری نظروں سے بچے رہ جائیں گے۔ 1980 کی دہائی میں کچھ شوقیہ مہم جوؤں نے رومانیہ کی ایک غار کا چکر لگایا جو بیرونی دنیا سے طویل عرصے سے کٹا ہوا تھا۔ اس جگہ انہیں حشرات کی 33 اقسام کے علاوہ دیگر جاندار بھی ملے جو تمام کے تمام اندھے اور بے رنگ تھے۔ تمام جاندار پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ ان کی زندگی کا دارومدار تالابوں کے کنارے پر موجود خورد بینی حیات پر تھا۔ اس خورد بینی حیات کا دارومدار گرم چشموں میں پائے جانے والے ہائیڈروجن سلفائیڈ پر تھا۔

اگرچہ ہمیں پہلی نظر میں تمام جانداروں کی تلاش کا کام انتہائی بیزار کن اور مشکل لگے گا لیکن یہ انتہائی دلچسپ بھی ہو گا۔ ہم جس سیارے پر رہتے ہیں، اس پر بے شمار عجائبات موجود ہیں۔

حیران کن بات دیکھیے کہ سائنس کی دنیا کے بے شمار افراد اپنی زندگیاں ایسے کاموں پر خرچ کرنے کو تیار ہیں کہ جنہیں شاید بہت کم لوگ سمجھ سکیں گے۔ سٹیفن نے گولڈ نے اپنے پسندیدہ سائنس دان ہنری ایڈورڈ کرافٹن کے بارے لکھا ہے کہ اس نے 1906 سے اپنی وفات 1956 تک کیسے پولی نیشیا کے گھونگھے کی ایک نسل کا مطالعہ جاری رکھا۔ بار بار ہر سال وہ ان بے شمار گھونگھوں کے خولوں کی پیمائش کرتا اور اس پیمائش کو آٹھویں کسر تک لکھتا۔ اس کے جدولوں کی ایک ایک سطر کئی ہفتوں کے مشاہدات اور حساب کتاب پر مشتمل ہوتی تھی۔

ایک اور اسی طرح کی مثال الفریڈ سی کینزی کی ہے جو 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں انسانی جنسیات پر تحقیق کی وجہ سے مشہور ہوا۔ جنسیات سے شغف سے قبل وہ ایک ماہرِ حشریات یعنی Entomologist تھا۔ ایک بار ایک دو سالہ مہم پر وہ 4٫000 کلومیٹر کے طویل پیدل سفر پر نکلا اور اس نے 3 لاکھ بھڑ جمع کیے۔ اس دوران اسے کتنے ڈنک سہنے پڑے، تاریخ خاموش ہے۔

مجھے ایک بات پر ہمیشہ حیرت رہی ہے کہ تحقیق کا تسلسل کیسے چلتا رہتا ہے؟ جب میں نیچرل ہسٹری میوزیم سے نکلنے لگا تو میں نے رچرڈ فورٹی سے پوچھا کہ سائنس میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایک بندے کے کام چھوڑنے یا مر جانے پر دوسرا اس کی جگہ لینے کو تیار ہو گا۔

فورٹی میری سادگی پر جی بھر کر ہنسا اور بولا، ‘ایسا نہیں ہوتا کہ ہر ماہر کا متبادل ہمارے پاس بیٹھا انتظار کر رہا ہو کہ اسے کب بلایا جاتا ہے۔ جب کوئی ماہر ریٹائر ہوتا ہے یا اس دنیا سے گزر جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ پورا عمل ہی رک جائے۔ بعض اوقات تو اس شعبے میں تحقیق بہت طویل عرصے تک رک جاتی ہے۔

‘شاید اسی وجہ سے آپ ایسے لوگوں کی بہت قدر کرتے ہیں کہ جو پودے کی ایک نوع پر 42 سال تک تحقیق کرتے ہیں، اگرچہ اس سے کچھ زیادہ فائدہ نہ بھی ہو’؟

‘بے شک۔ ‘ فورٹی نے جواب دیا۔

٭٭٭

 

 

 

24 خلیے

 

ہماری ابتداء محض ایک خلیے سے ہوتی ہے۔ پہلا خلیہ تقسیم ہو کر دو بناتا ہے اور دو سے چار اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کل 47 تقسیم کے بعد ہمارے جسم میں خلیوں کی مجموعی تعداد 1,40,000 کھرب خلیے ہو جاتی ہے (بڑھوتری کے اس عمل میں بہت سارے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ محض ایک اندازہ ہے۔ مختلف سائنس دان اسے مختلف مانتے ہیں۔ یہ والا ہندسہ ہم نے ساگان اور مارگولس کی کتاب ‘مائیکرو کاسموس’ سے لیا ہے ) اور ہم بطور انسان متعارف ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ بار آوری سے ہماری وفات تک بخوبی جانتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔

آپ کے خلیے آپ کی ہر بات کو جانتے ہیں۔ انہیں آپ کے بارے آپ سے زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔ ہر خلیے میں آپ کے جینیاتی کوڈ کی مکمل نقل موجود ہوتی ہے جو ہدایتی کتابچے کا کام کرتی ہے۔ اسے نہ صرف یہ علم ہوتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے بلکہ یہ بھی کہ جسم کے دیگر حصے کیسے اور کیا کام کرتے ہیں۔ ساری زندگی میں آپ کو ایک بار بھی اپنے خلیوں کو یہ نہیں یاد کرانا پڑتا کہ ایڈینو سین ٹرائی فاسفیٹ کی مقدار پر نظر رکھے یا یہ کہ فرولک ایسڈ کی اضافی مقدار کہاں محفوظ کرنی ہے۔ یہ سارے کام آپ کے خلیے آپ کی خاطر کرتے ہیں۔

ہر خلیہ اپنی جگہ ایک عجوبہ ہے۔ انتہائی سادہ قسم کے خلیے بھی انسانی عقل سے ماوراء ہیں۔ انتہائی بنیادی قسم کے خمیر کے خلیے کو تیار کرنے کے لیے آپ کو بوئنگ 777 میں استعمال ہونے والے پرزوں کی تعداد کے برابر چیزوں کو انتہائی چھوٹی محض 5 مائیکران جتنی جگہ میں سکیڑ کر سمونا ہو گا۔ پھر کسی نہ کسی طرح اسے اپنی نسل آگے چلانے کو بھی مجبور کرنا پڑے گا۔

تاہم خمیر کے خلیے انسانی خلیوں کی نسبت کچھ بھی نہیں۔ انسانی خلیے نہ صرف انتہائی پیچیدہ بلکہ ان کے اندر ہونے والے کیمیائی تعاملات بھی انتہائی حیرت انگیز ہوتے ہیں۔

آپ کا جسم 10,000 کھرب آبادی والا ملک ہے جن میں سے ہر ایک خلیہ آپ کی بھلائی اور فلاح کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہتا ہے۔ ان کے بغیر آپ نہ تو خوش ہو سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کی سوچ پیدا ہو سکتی ہے۔ انہی کی مدد سے آپ کھڑے ہوتے ہیں اور حرکت کرتے ہیں۔ جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو کھانے سے متعلقہ غذائی اجزاء کو نکالنا، توانائی کی تقسیم اور فاضل مادوں کو خارج کرنے کا کام، غرض سکول میں حیاتیات کی کتاب میں موجود ہر کام یہی خلیے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب آپ کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تو خلیے آپ کو بھوک کا احساس دلاتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ پیٹ بھر گیا ہے تاکہ آپ دوبارہ کھانا کھانا بھول نہ جائیں۔ آپ کے بالوں کی بڑھوتری، کانوں کو چکنا رکھنا یا جو بھی کام ہو، آپ کا دماغ مسلسل کرتا رہتا ہے۔ آپ کے جسم کا ہر گوشہ ان کی ذمہ داری ہے۔ جونہی خطرہ سامنے آئے تو یہی خلیے آپ کے دفاع کے لیے اسی وقت آگے بڑھتے ہیں۔ آپ کو بچانے کے لیے وہ اپنی قربانی دیتے ہیں اور روزانہ اربوں کی تعداد میں خلیے آپ کے لیے اپنی جان دیتے ہیں۔ پھر بھی آج تک آپ نے ان خلیوں کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ شاید ابھی آپ چند منٹ کا وقفہ لے کر خلیوں کا شکریہ ادا کریں؟

ہمیں اس بارے زیادہ علم نہیں کہ خلیے جو کام بھی کرتے ہیں، وہ کیسے کرتے ہیں، چاہے وہ چربی بنانا ہو، انسولین بنانا ہو یا ہماری زندگی کے لیے ضروری کوئی بھی کام۔ ہمارے جسم میں قریب قریب 2 لاکھ مختلف پروٹین ہوتی ہیں اور ہمیں ان میں سے ابھی شاید 4,000 کے بارے بھی علم نہیں کہ وہ کیا کرتی ہیں۔

خلوی پیمانے پر مسلسل عجوبے سامنے آتے رہتے ہیں۔ قدرتی طور پر نائٹرک ایسڈ انتہائی زہریلا مادہ ہے اور فضائی آلودگی کا اہم جزو۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں جب سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ نائٹرک ایسڈ ہمارے خلیوں میں مسلسل پیدا ہوتا رہتا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ پہلے پہل تو کسی کو سمجھ نہ آئی لیکن بعض میں پتہ چلا کہ اس کا مقصد خون کے بہاؤ کو قابو میں رکھنا، خلیوں میں توانائی کی سطح برقرار رکھنا، کینسر اور دیگر بیماریوں کے جراثیموں کو مارنا، ہماری سونگھنے کی حس کو برقرار رکھنا اور عضوِ تناسل کا ایستادہ ہونا بھی اسی کا مرہونِ منت ہے۔ اسی سے پتہ چلا کہ نائٹرو گلیسرین جیسی دھماکے دار شئے دل کے درد یعنی انجائنا میں سکون پہنچاتی ہے۔ ہمارے خون میں یہ نائٹرک آکسائیڈ میں بدل کر خون کی نالیوں کی دیواروں کو سکون پہنچاتی ہے تاکہ خون کا بہاؤ باقاعدہ ہو سکے۔ محض دس سال میں ایک زہریلا مادہ انتہائی ضروری دوا بن گیا۔

ہمارے جسم میں محض چند سو مختلف خلیے ہوتے ہیں۔ ان کی شکل اور ان کا حجم بہت فرق ہوتا ہے۔ اعصابی خلیے جو ایک میٹر طویل بھی ہو سکتے ہیں اور خون کے سرخ تھالی نما چھوٹے چھوٹے خلیے یا ہماری بصارت کا سبب بنے والے راڈ نما فوٹو سیل۔ ان کے حجم میں اتنا زیادہ تفاوت ہوتا ہے کہ جب بار آوری کا لمحہ آتا ہے تو سپرم کے سامنے اس سے 85,000 گنا بڑا بیضہ موجود ہوتا ہے۔ تاہم اوسطاً انسانی خلیے کا حجم 20 مائیکران ہوتا ہے جو ایک ملی میٹر کے 200ویں حصے کے برابر ہے اور اسے ہم عام طور پر دیکھ نہیں سکتے۔ تاہم ہر ایک خلیے کے اندر ہزاروں کی تعداد میں اجسام جیسا کہ مائیٹو کونڈریا وغیرہ اور کروڑوں کی تعداد میں مالیکیول ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہماری کھال میں سطح پر موجود سارے کے سارے خلیے ہی مردہ ہوتے ہیں۔ عام قامت کے انسان میں تقریباً دو کلو جتنی مردہ کھال موجود ہوتی ہے جس سے اربوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے روزانہ گرتے رہتے ہیں۔ گھر میں گرد آلود تختے پر انگلی پھیریں تو انگلی پر لگنے والے زیادہ تر یہی ٹکڑے ہوتے ہیں۔

زیادہ تر خلیے ایک ماہ کے لگ بھگ زندہ رہتے ہیں۔ تاہم استثنائی صورت بھی ہے جیسا کہ جگر کے خلیے برسوں زندہ رہتے ہیں تاہم ان کے اندر کے اجزاء ہر چند روز بعد بدل جاتے ہیں۔ اعصابی خلیے آپ کی عمر جتنے ہوتے ہیں۔ پیدائش کے وقت آپ کے دماغ میں ایک سو ارب خلیے ہوتے ہیں جو بار آوری سے مرتے دم تک آپ کے کام آتے ہیں۔ کوئی نیا خلیہ دماغ میں نہیں پیدا ہوتا۔ اندازہ ہے کہ ہر گھنٹے میں ایسے 500 خلیے مرتے ہیں۔ تاہم دماغی خلیوں کے اجزاء مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور ایک ماہ میں سارے کے سارے اجزاء بدل جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نو سال کے عرصے میں ہمارے جسم میں ایک بھی مالیکیول ایسا نہیں ہوتا جو تبدیل نہ ہوا ہو۔ چاہے ہماری عمر جو بھی ہو جائے، خلوی پیمانے پر ہم ہمیشہ ہی کم عمر رہتے ہیں۔

خلیے کے بارے تفصیل دینے والا پہلا شخص رابرٹ ہُک تھا۔ یہ وہی سائنس دان ہے جس نے Inverse square law کی دریافت پر آئزک نیوٹن سے لڑائی کی تھی۔ ہُک نے 68 سالہ زندگی میں بہت سارے کام کیے۔ نہ صرف وہ نظریاتی سائنس دان تھا بلکہ اس نے بہت سارے نئے اوزار بھی بنائے۔ تاہم اس کی کتاب Micrographia: or Some Physiological Descriptions of Miniature Bodies Made by Magnifying Glasses جو 1665 میں شائع ہوئی، اس کی وجہ شہرت بنی۔ اسی کتاب سے عوام کو پہلی بار پتہ چلا کہ ہماری جسمانی ساخت کتنی پیچیدہ اور خوب بنی ہوئی ہے۔

ہُک نے سب سے پہلے خورد بین کی مدد سے پودوں کے خلیے دیکھے جو چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی شکل کے تھے۔ اس نے تخمینہ لگایا کہ ایک انچ کارک میں موجود خلیوں کی تعداد 1,25,97,12,000 ہے۔ سائنس کی دنیا میں پہلی بار کسی نے اتنا بڑا ہندسہ استعمال کیا تھا۔ اس وقت خورد بین کو ایجاد ہوئے ایک نسل بیت چکی تھی لیکن ہُک سے قبل کسی نے بھی اتنی طاقتور خورد بین نہیں بنائی تھی۔ سترہویں صدی میں 30 گنا بڑا کر کے دکھانے والی ہُک کی خورد بین اس وقت کی سائنس میں حرفِ آخر مانی جاتی تھی۔

اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک دہائی بعد جب ہُک اور لندن کی رائل سوسائٹی کے دیگر اراکین کو کپڑے کے ایک ان پڑھ تاجر کی طرف سے ولندیزی شہر سے روانہ شدہ تصاویر ملنے لگیں جو 275 گنا بڑا کر کے دکھاتی تھیں تو انہیں کتنی حیرت ہوئی ہو گی۔ یہ بندہ انٹونی وان لیووین ہُک تھا۔ اگرچہ اس کی رسمی تعلیم تو بہت معمولی تھی لیکن مشاہدہ کرنے اور تکنیکی اعتبار سے انتہائی ذہین شخص تھا۔

آج تک یہ بات معمہ ہے کہ کیسے اس دور میں اس شخص نے عام گھریلو استعمال کی چیزوں میں چھوٹے چھوٹے عد سے لگا کر اتنی طاقتور خورد بین کیسے بنا لی ہو گی۔ لیووین ہُک نے ہر تجربے کے لیے نیا آلہ بنایا اور بنانے کا طریقہ ہمیشہ راز رکھا۔ تاہم بعض اوقات اس نے برطانوی سائنس دانوں کو مشورے بھی دیئے کہ وہ اپنے آلات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں (لیووین ہُک ایک اور ولندیزی فنکار جان ورمیئر کا دوست تھا۔ اوسط درجے کا فنکار ہونے کے باوجود 17ویں صدی کے وسط میں اچانک ہی اس نے روشنی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر مہارت حاصل کر لی جس کی وجہ سے آج تک اس کی تعریف ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ بات ثابت نہیں ہوئی لیکن اندازہ ہے کہ اس نے سوئی چھید کیمرے کے عدسے کی مدد سے عکس کو پردے پر منتقل کرنا سیکھ لیا تھا۔ بعد از مرگ اس کے سامان سے کوئی عدسہ نہیں نکلا۔ تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مرنے کے بعد اس کے سامان کی دیکھ بھال اور فروخت کی ذمہ داری لیووین ہُک پر آ گئی تھی)۔

40 سال کی عمر سے شروع کرتے ہوئے اگلے پچاس برس تک لیووین ہُک نے رائل سوسائٹی کو ادنیٰ ولندیزی زبان میں 200 کے قریب رپورٹیں بھیجیں کیونکہ اسے محض یہی زبان آتی تھی۔ اس نے جو کچھ دیکھا، خوبصورت ڈرائنگ کی شکل میں سوسائٹی کو بھیج دیا لیکن اپنی طرف سے کچھ وضاحت نہ کی۔ اس کی بھیجی ہوئی رپورٹیں روزمرہ زندگی سے تھیں جن میں ڈبل روٹی پر لگنے والی پھپھوندی، شہد کی مکھی کا ڈنک، خون کے خلیے، دانت، بال، اس کی اپنی تھوک، پاخانہ، مادہ منویہ وغیرہ (جن کے بارے اس نے انتہائی شرمندگی کا اظہار بھی کیا)، تاہم ان میں سے کوئی بھی چیز اس سے قبل خورد بین سے نہ دیکھی گئی تھی۔

1676 میں اس نے پانی کے نمونے میں موجود ننھے جانوروں کا تذکرہ کیا۔ رائل سوسائٹی کے سائنس دانوں کو پورا ایک سال لگا تب کہیں جا کر ان کی خورد بین اس مشاہدے کے قابل ہو سکی۔ لیووین ہُک نے پروٹوزوا دیکھے تھے۔ اس نے پانی کے ایک قطرے میں ان کی تعداد بھی شمار کی جو 82,80,000 تھی۔ اس وقت ہالینڈ میں اس سے کم تعداد میں انسان رہتے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خورد بینی اعتبار سے حیات کتنی وسیع ہے۔

لیووین ہُک کے کام سے متاثر ہو کر بہت سارے لوگوں نے خورد بین سے مشاہدے شروع کر دیے اور جوش کے مارے انہوں نے ایسی چیزیں بھی دیکھنا شروع کر دیں جو سرے سے تھیں ہی نہیں۔ مثلاً ایک مشہور ولندیزی سائنس دان نے دیکھا کہ مادہ منویہ کے اندر چھوٹے چھوٹے انسان ہیں۔ اس دور کے اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ ہم انسان انہی چھوٹے انسانوں کے بہت بڑے نمونے ہیں۔ لیووین ہُک نے ایک بار بارود کا مشاہدہ کرنے کی خاطر چھوٹا سا دھماکہ کیا اور خورد بین کی مدد سے مشاہدہ کرتے ہوئے بینائی کھونے سے بال بال بچا۔

1683 میں اس نے بیکٹیریا دریافت کیے۔ تاہم اگلے ڈیڑھ سو برس تک خورد بین کی تکنیک میں مسائل کی وجہ سے یہ ترقی یہیں تک محدود رہی۔ 1831 میں خلیے کے مرکزے کو پہلی بار سکاٹش ماہرِ نباتات رابرٹ براؤن نے دیکھا۔ براؤن 1773 میں پیدا ہوا اور 1858 میں وفات پائی۔ اس نے خلیے کے مرکزے کو نیوکلیس کہا جو لاطینی زبان کے لفظ نیوکلیا سے نکلا تھا۔ نیوکلیا بیج کو کہتے ہیں۔ 1839 میں پہلی بار جرمن سائنس دان تھیوڈور شوان نے جانا کہ ہر جاندار شئے خلیوں سے بنی ہے۔ تاہم اس نظریے کو 1860 کی دہائی میں اس وقت قبولیت ملی جب فرانس کے لوئیس پاسچر نے یہ بات تجربات سے ثابت کی کہ زندگی پہلے سے موجود زندگی سے ہی آتی ہے، بے جان چیزوں سے نہیں۔ اس نظریے کو خلوی نظریہ یعنی سیل تھیوری کہا جاتا ہے جو جدید حیاتیات کی بنیاد ہے۔

خلیے کو بے شمار تشبیہات دی جاتی ہیں۔ ایک سائنس دان کے خیال میں خلیہ ایک کیمیائی فیکٹری ہے تو دوسرے کے خیال میں ایک انتہائی گنجان آباد شہر۔ خلیہ دونوں بھی ہے اور کوئی بھی نہیں۔ آپ اسے ایک ریفائنری کہہ سکتے ہیں جو انتہائی بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور شہر کی مانند بھی کہ جو بہت گنجان آباد ہے اور مختلف قسم کے کاموں سے بھرا ہوا ہے جن کا بظاہر تو کوئی مقصد نظر نہیں آتا ہے لیکن یہ سارے کام ایک خاص نظام کے تحت ہو رہے ہوتے ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ پریشان کن جگہ آپ نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ پہلی بات تو یہ کہ خلیے کے اندر اوپر یا نیچے کا کوئی تصور نہیں کیونکہ کششِ ثقل کا خلوی پیمانے پر کوئی وجود نہیں۔ خلیے کے اندر ایک ایٹم جتنی جگہ بھی خالی نہیں ہوتی۔ ہر جگہ کام ہو رہے ہوتے ہیں اور بجلی گزر رہی ہوتی ہے۔ انسان کے اندر بہت ساری برقی توانائی چھپی ہوتی ہے۔ ہمارے کھائی ہوئی خوراک اور ہماری سانس سے آکسیجن کو ملا کر ہمارے خلیے بجلی بناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھوتے وقت اس لیے بجلی کا جھٹکا نہیں لگتا کہ یہ بجلی انتہائی چھوٹے پیمانے پر یعنی 0.1 وولٹ اور محض نینو میٹروں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے۔ تاہم اس سب بجلی کو جمع کریں تو فی میٹر اس کی مقدار 2 کروڑ وولٹ بنتی ہے جو ایک عام طوفان میں چھپی ہوتی ہے۔

شکل اور حجم سے قطع نظر، ہر خلیہ ایک ہی طور سے بنا ہوتا ہے۔ ان کے باہر ایک جھلی ہوتی ہے، ایک مرکزہ جہاں جینیاتی مواد جمع رہتا ہے اور ان دونوں کے درمیان سائٹو پلازم ہوتا ہے۔ جھلی کوئی ربڑ جیسی اور مضبوط جھلی نہیں ہوتی بلکہ یہ جھلی ایک خاص قسم کے لائیپڈ سے بنی ہوتی ہے جو عام موٹر آئل جتنی گاڑھی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو حیرت ہو رہی ہے تو یاد رہے کہ خلوی پیمانے پر چیزیں انتہائی مختلف طور سے کام کرتی ہیں۔ مالیکیولی پیمانے پر پانی انتہائی کثیف جیل اور لائیپڈ فولاد کی مانند سخت ہو جاتے ہیں۔

اگر آپ کبھی خلیے کی سیر کرنے کے قابل ہوں تو آپ کو ہرگز پسند نہیں آئے گا۔ اگر ایٹم مٹر کے دانے کے برابر ہوں تو خلیے کا قطر نصف میل کے برابر ہو گا جس کو سہارنے کے لیے سائیٹو سکیلٹن نامی ڈھانچہ موجود ہو گا۔ اس کے اندر کروڑوں کی تعداد میں مختلف اجسام جن کا حجم باسکٹ بال سے لے کر کار جتنا ہو سکتا ہے، گولی کی رفتار سے حرکت کر رہے ہوں گے۔ کوئی بھی ایسی جگہ آپ کو نہیں ملے گی جہاں ہر سیکنڈ کئی ہزار بار مختلف سمتوں سے آنے والی مختلف چیزیں آپ سے نہ ٹکرا رہی ہوں۔ خلیے کے اپنے اندرونی اجزاء کے لیے یہ خطرناک جگہ ہوتی ہے۔ ڈی این اے کی ہر لڑی کو اوسطاً 4 سے 8 سیکنڈ میں ایک بار نقصان پہنچتا ہے جو ہر روز 10,000 مرتبہ بنتا ہے۔ یہ نقصان کیمیائی یا دیگر مواد سے ہوتا ہے جو لاپروائی سے گزرتے ہیں۔ ایسا ہر نقصان فوری طور پر مرمت کرنا ہوتا ہے ورنہ سیل کے مرنے میں دیر نہیں لگے گی۔

پروٹین یعنی لحمیات بہت متحرک ہوتی ہیں۔ گھومتے، تھرکتے، اڑتے ہوئے یہ ایک دوسرے سے ایک سیکنڈ میں اربوں مرتبہ ٹکراتی ہیں۔ خامرے یعنی اینزائمز پروٹین ہی ہوتے ہیں اور ہر سیکنڈ میں ایک ہزار تک کام کرتے رہتے ہیں۔ انتہائی تیزی سے کام کرتے ہوئے یہ مالیکیولوں کو بار بار بناتے رہتے ہیں اور ایک سے ٹکڑا لیا تو دوسرے میں لگا دیا۔ ایک جگہ کھڑے رہ کر آنے جانے والوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور جو پروٹین ناقابلِ مرمت حد تک خراب ہو جائے، اس پر ایک کیمیائی نشان لگا دیتے ہیں تاکہ اسے تباہ کیا جا سکے۔ جب کسی پروٹین پر یہ مہر لگ جائے تو اس کا رخ پروٹیاسوم کی طرف ہو جاتا ہے جو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس سے نئی پروٹین بنائے گا۔ بعض پروٹین نصف گھنٹہ بھی نہیں رہتیں تو بعض پروٹین ہفتوں تک کام کرتی رہتی ہیں۔ تاہم ان کا وجود پاگل پن کی حد تک تیز ہوتا ہے۔ ایک سائنس دان کے مطابق، ‘مالیکیولی پیمانے پر ہونے والی سرگرمیاں ہم سے اوجھل ہی رہنی چاہئیں کیونکہ ہم ان کی رفتار کا تصور بھی نہیں کر سکتے ‘۔

تاہم اگر آپ ان کی رفتار کو کم کر دیں تو پھر سمجھ آنے لگ جاتی ہے۔ اس طرح آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر خلیے کے اندر لاکھوں کی تعداد میں لائسو سوم، اینڈو سوم، رائبو سوم، لائگینڈ، پرآکسو سوم، ہر شکل اور ہر حجم کی پروٹین وغیرہ مختلف کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کہیں وہ غذائی اجزاء سے توانائی نکال رہے ہوتے ہیں تو کہیں مختلف چیزیں تیار ہو رہی ہوتی ہیں تو کہیں فضلہ خارج ہو رہا ہوتا ہے تو کہیں بیرونی حملہ آوروں کو نکالا جا رہا ہوتا ہے تو کہیں پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہوتی ہے تو کہیں مرمت۔ عموماً ہر خلیے میں 20,000 اقسام کی مختلف پروٹین ہوتی ہیں اور ان میں سے کم از کم 2,000 پروٹین میں سے ہر ایک مزید 50,000 مالیکیول سے بنتی ہے۔ یعنی اگر ہم محض ان پروٹین کے مالیکیول شمار کریں جن میں 50,000 سے زیادہ مالیکیول ہوں تو بھی ایک خلیے میں پروٹین کے مالیکیول کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس پیمانے کی بائیو کیمیکل سرگرمیاں ہمارے اندر جاری و ساری ہوتی ہیں۔

یہ ساری سرگرمیاں انتہائی مشکل ہوتی ہیں۔ آپ کے دل کو ہر گھنٹے میں 343 لیٹر خون پمپ کرنا ہوتا ہے جو 24 گھنٹے میں 8,000 اور سال میں 30 لاکھ لیٹر بنتا ہے جو اولمپک کے لیے درکار چار سوئمنگ پول بھرنے کو کافی ہے۔ اس کا مقصد تمام خلیوں کو آکسیجن سے بھرپور خون کی مسلسل فراہمی ہے۔ یہ محض آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ اگر آپ ورزش کر رہے ہوں تو دل کی دھڑکن 6 گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ یہ آکسیجن مائٹو کونڈریا وصول کرتے ہیں۔ انہیں خلیے کا پاور سٹیشن بھی کہا جاتا ہے اور ہر خلیے میں ان کی اوسط مقدار ایک ہزار ہوتی ہے تاہم خلیے کی قسم اور توانائی کی ضرورت کے مطابق ان کی تعداد کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ مائٹو کونڈریا کے بارے ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہ شاید آزاد پھرنے والا بیکٹیریا تھا جو خلیوں میں قید ہو گیا ہے۔ اس وقت اس کا اپنا جینیاتی کوڈ ہے، تقسیم کے اپنے اوقاتِ کار اور اپنی زبان ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ ہم ان کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی کھائی ہوئی تمام تر خوراک اور آکسیجن انہی کی نظر ہوتی ہے اور یہ اسے اے ٹی پی یعنی ایڈینو سین ٹرائی فاسفیٹ مالیکیول کی شکل میں ڈھالتا ہے۔

آپ نے کبھی اے ٹی پی کا شاید نام بھی نہ سنا ہو گا لیکن یہی توانائی ہے جو آپ کو زندہ اور متحرک رکھتی ہے۔ اے ٹی پی کو یوں سمجھیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے سیل ہیں جو خلیوں کو ان کی مطلوبہ توانائی مہیا کرتے ہیں اور آپ کو ان کی بہت بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ ایک خلیے میں ایک وقت میں تقریباً ایک ارب اے ٹی پی مالیکیول موجود ہوتے ہیں جو محض دو منٹ میں ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے ایک ارب مالیکیول آ جاتے ہیں۔ ہر روز آپ کے جسم میں آپ کے وزن کے نصف کے برابر اے ٹی پی کے مالیکیول پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی جلد کی حرارت کو محسوس کیجیے، یہ اے ٹی پی ہی کا کام ہے۔

جب خلیوں کا کام تمام پورا ہو جاتا ہے تو انہیں مار دیا جاتا ہے اور ان کے اجزاء آگے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو ایپپ ٹوسس کہتے ہیں۔ ہر روز اربوں خلیے آپ کی بہتری کی خاطر اپنی جان دیتے ہیں۔ تاہم خلیوں کی موت اچانک بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ کسی قسم کی عفونت یعنی انفیکشن۔ تاہم ان کی اکثریت تب مرتی ہے جب انہیں مرنے کا حکم ملتا ہے۔ اگر خلیے کو یہ ہدایت نہ ملے کہ اسے زندہ رہنا ہے اور دوسرے خلیے بھی اسے کوئی ہدایات نہ دیں تو خلیے کی موت لازمی ہو جاتی ہے۔ خلیوں کو تسلی بھی درکار ہوتی ہے۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خلیے کی مطلوبہ طور پر موت نہیں ہوتی اور خلیہ تقسیم ہونا اور پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسے کینسر یعنی سرطان کہتے ہیں۔ کینسر کے خلیے محض گم گشتہ خلیے ہوتے ہیں۔ خلیوں میں ایسی غلطی اکثر ہوتی ہے لیکن جسم کے اندر موجود مختلف عوامل اسے بروقت روک دیتے ہیں۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ خلیے کو قابو کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اوسطاً ہر 10 کروڑ ارب مرتبہ خلوی تقسیم میں سے ایک بار ہی ایسا واقعہ پیش آتا ہے۔ کینسر ہر طرح سے بدقسمتی ہے۔

یہ بات عجیب نہیں کہ خلیوں میں کبھی کبھار ایسی گڑبڑ ہو جاتی ہے بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ خلیے کیسے اتنے طویل عرصے تک بالکل درست کام کرتے رہتے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ راز چھپا ہے کہ خلیے مسلسل پیغامات بھیجتے اور دیگر خلیوں کے پیغامات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں جن میں ہدایات، سوالات، تصحیح، مدد کی درخواست، تازہ ترین صورتحال کے بارے معلومات، تقسیم ہونے یا مرنے کے بارے ہدایات وغیرہ اہم ہیں۔ زیادہ تر پیغامات ہارمون یعنی غدودی رطوبتوں کی شکل میں ہوتے ہیں جو کیمیائی مادے ہیں۔ یہ ہارمون انسولین، ایڈرینالین، ایسٹروجن، ٹیسٹاسٹیرون کہیں دور موجود غدودی نظام سے آتے ہیں۔ دیگر پیغامات دماغ سے برقی لہروں کی شکل میں موصول ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلیے اپنے آس پاس موجود دیگر خلیوں سے بھی رابطہ رکھتے ہیں تاکہ کام تسلی بخش انداز سے جاری رہے۔

حیرت کی بات دیکھیے کہ یہ سب کام بے ہنگم طور پر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ دوسرے کو ہدایات دے اور اس سے ہدایات لے رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خلیوں کے افعال کے پیچھے ان کی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ تاہم ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ تاہم یہ تمام افعال نہ صرف خلیے کے اندر بلکہ جاندار کے اندر موجود تمام خلیوں کو ایک تسلسل سے جاری رہتے ہیں۔ ابھی ہم اس عمل کو سمجھنا شروع ہی ہوئے ہیں کہ کیسے ارب ہا ارب انفرادی افعال مل کر انسان کو بناتے ہیں۔ یہی تمام افعال نسبتاً چھوٹے پیمانے پر کیڑے مکوڑوں میں بھی انجام پاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہر زندہ چیز ایٹمی انجینئرنگ کا شاہکار ہوتی ہے۔

بے شک بعض چھوٹے جاندار ایسے بھی ہیں جن کے سامنے ہماری خلوی تنظیم بہت چھوٹی لگتی ہے۔ مثلاً اسفنج کے خلیوں کو الگ الگ کر کے کسی مائع میں ڈالیں تو وہ تمام کے تمام کچھ دیر بعد واپس اپنی اصل شکل میں جُڑ جائیں گے۔ بے شک آپ یہ عمل بار بار دہراتے رہیں، ہر بار خلیے دوبارہ اسفنج بن جائیں گے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہر جاندار کی مانند اسفنج بھی زندہ رہنا چاہتی ہے۔

زندگی کی یہ سب خصوصیات انتہائی دلچسپ اور پُر عزم محسوس ہوتی ہیں کہ جن کو ہم ابھی سمجھنا شروع ہوئے ہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک بے جان مالیکیول ہوتا ہے جسے ڈی این اے کہتے ہیں جس کو سمجھنے کے لیے ہمیں 160 سال پیچھے برطانوی سائنس دان چارلس ڈارون کے دور میں جانا ہو گا۔ اس کے نظریے کو انسانی تاریخ کا سب سے بہترین خیال مانا گیا ہے لیکن ڈارون نے اس خیال کو لاپرواہی سے 15 سال تک چھپائے رکھا۔

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید