FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تفہیم القرآن

 

۲۰۔ سورۂ دہر  تا  سورۂ التکویر

 

                   مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

 

 

 

۷۶۔سورة الدھر

 

 

نام

 

اس  سورۃ کا نام ’’الدَّہر‘‘ بھی ہے اور’’ الانسان‘‘بھی۔  دونوں  نام پہلی ہی آیت کے الفاظ ھَلْ اَتیٰ عَلَی الْاِنْسَانِ اور حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ سے ماخوذ ہیں۔

 

زمانۂ نزول

 

اکثر مفسرین اس کو مکّی  قرار دیتے ہیں۔ علامہ زمحشری، امام رازی،  قاضی بَیضاوی، علامہ نظام الدین نَیسا بوری، حافظ ابن کثیر اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اسے مکی ہی لکھا ہے،  اور علامہ آلوسی کہتے ہیں  کہ یہی جمہور کا قول ہے۔  لیکن بعض دوسرے مفسرین نے پوری سُورہ کو مدنی کہا ہے،  اور بعض  کا قول یہ ہے کہ یہ سُورہ ہے تو مکّی، مگر آیات۸تا۱۰ مدینے میں  نازل ہوئی ہیں۔

جہاں  تک اِس سورۃ کے مضامین اور اندازِ بیان کا تعلق ہے،  وہ مدنی سُورتوں  کے مضامین اور اندازِ بیان سے بہت مختلف ہے،  بلکہ اس پر غور کرنے سے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف مکّی ہے بلکہ مکّہ معظمہ کے بھی اُس دور میں  نازل ہوئی ہے جو سورہ مُدَّثِّر کی ابتدائی سات آیا ت کے بعد شروع ہوا تھا۔ رہیں  آیات ۸ تا ۱۰(وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ سے لے کر یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْراً تک) تو وہ پُوری سُورۃ کے سلسلہ میں  بیان میں  اِس طرح پیوست ہیں  کہ سیاق وسباق کے ساتھ کوئی  اُن کو پڑھے تو ہر گز یہ محسوس نہیں  کر سکتا  کہ اِن سے پہلے اور بعد کا مضمون تو ۱۵۔۱۶ سال پہلے نازل ہوا تھا اور اُس کے کئی سال بعد نازل ہونے والی یہ تین آیتیں  یہاں  لا کر ثبت کر دی گئیں۔

دراصل جس بنا پر اِس سورۃ کے،  یا اس کے بعض آیات کے مدنی ہونے کا خیال پیدا ہوا ہے وہ ایک روایت ہے جو عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔  وہ کہتے ہیں  کہ ایک مرتبہ حضرات حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہما بیمار ہو گئے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور بہت سے  صحابہ ؓ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔  بعض صحابہؓ نے حضرت علیؓ کو مشورہ دیا کہ آپ دونوں  بچوں  کی شفا کے لیے اللہ تعالیٰ سے کوئی نذر مانیں۔  چنانچہ حضرت علی ؓ، حضرت فاطمہ ؓ اور ان کی خادمہ فِضّہؓ نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے دونوں  بچوں  کو شفاء عطا فرما دی تو یہ سب شُکرانے کے طور پر تین دن کے روزے رکھیں  گے۔  اللہ فضل ہوا کہ دونوں  دتندرست ہو گئے اور تینوں  صاحبوں  نے نذر کے روزے رکھنے شروع کر دیے۔  حضرت علی ؓ کے گھر میں  کھانے کو کچھ نہ تھا۔ انہوں  نے تین صاع جَو قرض لیے ( اور ایک روایت میں  ہے کہ محنت مزدوری کر کے حاصل کیے )۔ پہلا روزہ کھول کر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک مسکین نے کھانا مانگا۔ گھر والوں  نے سارا کھانا اسے دے دیا اور خود پانی پی کر سو رہے۔  دوسرے دن پھر افطار کے بعد کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک یتیم آ گیا اور اس نے سوال کیا۔ اُس روز بھی سارا کھانا انہوں  نے  اُس کو دے دیا اور پانی پی کر سو رہے۔  تیسرے دن روزہ کھول کر ابھی کھانے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ ایک قیدی نے آ کر وہی سوال کر دیا اور اُس روز  کا بھی پُورا کھانا اسے دے دیا گیا۔ چوتھے روز حضرت علیؓ دونوں  بچوں   کو لیے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے تو حضور ؐ نے دیکھا کہ بھُوک کی شدّت سے تینوں  باپ بیٹوں  کا بُرا حال ہو رہا ہے۔  آپؐ اُٹھ کر اُن کے ساتھ حضرت فاطمہؓ کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بھی ایک کونے میں  بھوک سے نڈھال پڑی ہیں۔  یہ حال دیکھ کر حضورؐ پر رقت طاری ہو گئی۔ اتنے میں  جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور انہوں  نے عرض کیا کہ لیجیے،  اللہ تعالیٰ نے آپ کے اہلِ بیت کے معاملہ میں  آپ کو مبارک باد دی ہے۔  حضورؐ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ انہوں  نے جواب میں  یہ پوری سورۃ آپ کو پڑھ کر سنائی (ابن مہران کی روایت  میں  ہے کہ آیت اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ سے لے کر آخر تک کی آیات سنائیں۔  مگر ابن مَرْ دُویہ نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس میں  صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آیت  وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ….. حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی ٰ عنہما کے بارے میں  نازل ہوئی ہے،  اِس قصّے کا اُس میں  کوئی ذکر نہیں  ہے۔  یہ پُورا قصّہ علی بن احمد الواحِدی نے اپنی تفسیر البسیط میں  بیان کیا ہے اور غالباً اُسی سے زَمَخْشَری، رازی اور نَیسا بوری وغیر ہم  نے اس سے نقل کیا ہے۔

یہ روایت اوّل تو سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے۔  پھر درایت کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسکین، ایک یتیم اور ایک قیدی اگر آ کر کھانا مانگتا ہے تو گھر کے پانچوں  افراد کا پُورا کھانا اس کو دے دینے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے ؟ ایک آدمی کا کھانا اس کو دے کر گھر کے پانچ افراد چار آدمیوں  کے کھانے پر اکتفا کر سکتے تھے۔  پھر یہ بھی باور کرنا مشکل ہے کہ دو بچے جو ابھی ابھی بیماری سے اٹھے تھے اور کمزوری کی حالت میں  تھے،  انہیں  بھی تین دن بھوکا رکھنے کو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہؓ جیسی کامل فہیم دین رکھنے والی ہستیوں  نے نیکی کا کام سمجھا ہو گا۔ اِس کے علاوہ قیدیوں  کے معاملہ میں  طریقہ اسلامی حکومت کے دَور میں  کبھی نہیں  رہا کہ انہیں  بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔  وہ اگر حکومت کی قید میں  ہوتے تو حکومت ان کی خوراک اور لباس کا انتظام کرتی تھی، اور کسی شخص کے سُپرد کیے جاتے تو وہ شخص انہیں  کھلانے پلانے کا ذمّہ دار ہوتا تھا۔ اس لیے مدینہ طیبہ میں  یہ بات ممکن نہ تھی کہ کوئی قیدی بھیک مانگنے کے لیے نکلتا۔ تاہم اِن تمام نقلی اور عقلی کمزوریوں  کو نظر انداز کر کے اگر اِس قصّے کو بالکل صحیح ہی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اِس سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے اِس نیک عمل کا صُدُور ہوا تو جبریلؑ نے آ کر  حضورؐ کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں   آپ کے اہلِ بیت کا یہ فعل بہت مقبول ہوا ہے،  کیونکہ اُنہوں  نے ٹھیک وہی پسندیدہ کام کیا ہے جس کی تعریف اللہ تعالی  ٰ نے سُورہ دہر کی اِن آیات میں  فرمائی ہے۔  اِس سے یہ لازم نہیں  آتا کہ یہ آیات نازل بھی اِسی موقع پر ہوئی تھیں۔

شانِ نزول کے بارے میں  بہت سی روایات کا حال یہی ہے کہ کسی آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں  موقع پر نازل ہوئی تھی تو دراصل اس سے مُراد یہ نہیں  ہوتی کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اُسی وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ آیت اِس واقعہ پر ٹھیک چسپاں  ہوتی ہے۔  امام سُیُوطیِ نے اِتقان میں  حافظ ابنِ تَیِمیہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’راوی جب یہ کہتے ہیں  کہ یہ آیت فلاں  معاملہ میں  نازل ہوئی ہے تو کبھی اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہی معاملہ اس کے نزول کا سبب ہے،  اور کبھی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملہ اس آیت کے حکم میں  داخل ہے اگرچہ وہ اس کے نزول کا سبب نہ ہو‘‘۔ آگے چل کر وہ امام بدر الدین زَرْکَشِی کا قول اُن کی کتاب البُرہان فی علوم القرآن سے نقل کرتے ہیں  کہ ’’صحابہؓ اور تابعین کی یہ عادت معروف ہے کہ ان میں  سے کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ یہ آیت فلاں  معاملہ میں  نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آیت کا حکم  اس معاملہ پر چسپاں  ہوتا ہے،  نہ یہ ک وہی اِس واقعہ کے نزول کا سبب ہے۔ پس دراصل اُس کی نوعیت آیت کے حکم سے استدلال کی ہوتی ہے نہ کہ بیانِ واقعہ کی‘‘(الاِتقان فی علوم القرآن، جلد اوّل، صفحہ ۳۱، طبع۱۹۲۹ء)۔

 

موضوع اور مضمون

 

اِس سُورہ کا موضوع انسان کو دنیا میں  اُس کی حقیقی حیثیت سے آگاہ کرنا اور یہ بتا نا ہے کہ اگر وہ اپنی اِس حیثیت کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر شکر کا رَویّہ اختیار کر ے تو اس کا انجام کیا ہو گا اور کفر کی راہ چلے تو کس انجام سے وہ  دو چار ہو گا۔ قرآن کی بڑی سُورتوں  میں  تو یہ مضمون بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،  لیکن ابتدائی مکّی دور کی سُورتوں  کا یہ خاص اندازِ بیان ہے کہ جو باتیں  بعد کے دَور میں  مفصّل ارشاد ہوئی ہیں،  وہی اِس دور میں  بڑے مختصر مگر انتہائی مؤثر طریقے سے ذہن نشین کرائی گئی ہیں  اور ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت فقرے استعمال کیے گئے ہیں  جو سننے والوں  کی زبان پر خود بخود چڑھ جائیں۔

اس میں  سب سے پہلے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب وہ کچھ نہ تھا، پھر ایک مخلوط نطفے سے اُس کی ایسی حقیر سی ابتدا کی گئی کہ اُس کی ماں  تک کو خبر نہ تھی کہ اُس کے وجود کی بنا پڑ گئی ہے اور کوئی اُس خورد بینی وجود کو دیکھ کر یہ نہیں  کہہ سکتا تھا کہ یہ کوئی انسان ہے جو آگے چل کر اِس زمین پر اشرف المخلوقات بننے والا ہے۔  اس کے بعد انسان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ تیری تخلیق اِس طرح کر کے تجھے یہ کچھ ہم نے اس لیے بنایا ہے کہ ہم دنیا میں  رکھ کر تیرا امتحان لینا چاہتے ہیں۔  اسی لیے دوسری مخلوقات کے بر عکس تجھے ہوش گوش رکھنے والا بنایا گیا اور تیرے سامنے شُکر اور کُفر کے دونوں  راستے کھول کر رکھ دیے گئے تا کہ یہاں  کام کرنے کا جو وقت تجھے دیا گیا ہے اس میں  تو دکھا دے کہ اس امتحان سے تو شاکر بندہ بن کر نکلا ہے یا کافر بندہ بن کر۔

پھر صرف ایک آیت میں  دو ٹوک طریقہ سے بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ اِس امتحان سے کافرین کر نکلیں  گے اُنہیں  آخرت میں  کیا انجام دیکھنا ہو گا۔

اس کے بعد آیت نمبر ۵ سے ۲۲ تک مسلسل اُن انعامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے جن سے وہ لوگ اپنے رب کے ہاں  نوازے جائیں  گے جنہوں  نے یہاں   بندگی کا حق ادا کیا ہے۔  اِن آیات میں  صرف اُن کی بہترین جزاء بتا نے ہی پر اکتفا نہیں  کیا گیا ہے بلکہ مختصراً یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اُن کے وہ کیا اعمال ہیں  جن کی بنا پر وہ اِس جزا کے مستحق ہوں  گے۔  مکی دور کی ابتدائی سورتوں  کی خصوصیات میں  سے ایک نمایاں  خصوصیت یہ بھی ہے کہ اُن میں  اسلام کے بنیادی عقائد اور تصورات کا مختصر تعارف کرنے کے ساتھ ساتھ کہیں  وہ اخلاقی اوصاف اور نیک اعمال بیان کیے گئے ہیں  جو اسلام کی نگاہ میں   قابلِ قدر ہیں،  اور کہیں  اعمال و اخلاق کی اُن برائیوں  کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اسلام انسان کو پاک کرنا چاہتا ہے۔  اور یہ دونوں  چیزیں  اِس لحاظ سے بیان نہیں  کی گئی ہیں  کہ ان کا کیا اچھا یا بُرا نتیجہ دنیا کی اِس عارضی زندگی میں  نکلتا ہے،  بلکہ صرف اِس حیثیت سے  اُن کا ذکر کیا گیا ہے کہ آخرت کی ابدی اور پائیدار زندگی میں  اُن کا مستقل نتیجہ کیا ہو گا قطع نظر اس سے کہ دنیا میں  کوئی بُری صفت مفید  ہو یا کوئی اچھی صفت نقصان دہ ثابت ہو۔

یہ پہلے رکوع کا مضمون ہے۔  اس کے بعد دوسرے رکوع میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو مخاطب کر کے تین باتیں  ارشاد فرمائی گئی ہیں۔  ایک یہ کہ دراصل یہ ہم ہی ہیں  جو اِ س قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے تم پر نازل کر رہے ہیں،  اور اس سے مقصود حضورؐ کو نہیں  بلکہ کفار کو خبر دار کرنا ہے کہ یہ قرآں  محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم خود اپنے دل سے  نہیں  گھڑ رہے ہیں  بلکہ اس کے نازل کرنے والے ’’ہم‘‘ ہیں  اور ہماری حکمت ہی اِس کے مقتضی ہے کہ اسے یک بار گی  نہیں  بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کریں۔  دوسری بات حضورؐ سے یہ فرمائی گئی ہے کہ تمہارے رب کا فیصلہ صادر ہونے  میں  خواہ کتنی ہی دیر لگے،  اور اس دوران میں  تم پر خواہ کچھ ہی گزر جائے،  بہر حال تم صبر کے ساتھ اپنا فریضہ رسالت انجام دیے چلے جا ؤ  اور کبھی اِن بد عمل اور مُنکرِ حق لوگوں  میں  سے کسی کے دبا ؤ میں  نہ آ ؤ۔ تیسری بات آپ  سے یہ فرمائی گئی ہے کہ شب و روز اللہ کو یاد کرو، نماز پڑھو اور راتیں  اللہ کی عبادت میں  گزار رو، کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس سے کفر کی طغیانی کے مقابلہ میں  اللہ کی طرف بلانے والوں  کو ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے۔

پھر ایک فقرے میں  کُفّار کے غَلَط رَویّے کی اصل وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ آخرت کو بھُول کر دنیا پر فریفتہ ہو گئے ہیں ،  اور دوسرے فقرے میں  اُن کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم خود نہیں  بن گئے ہو، ہم نے تمہیں  بنایا ہے،  یہ چوڑے چکلے سینے اور مضبوط ہاتھ پاؤں  تم نے خود اپنے لیے نہیں  بنا لیے ہیں،  ان کے بنا نے والے بھی ہم ہی ہیں،  اور یہ بات ہر وقت ہماری قدرت میں  ہے کہ جو کچھ ہم تمہارے ساتھ کرنا چاہیں  کر سکتے ہیں۔  تمہاری شکلیں  بگاڑ سکتے ہیں۔  تمہیں  ہلاک کر کے کوئی دوسری قوم تمہاری جگہ لا سکتے ہیں۔  تمہیں  مار کر دوبارہ جس شکل میں  چاہیں  تمہیں  پیدا کر سکتے ہیں۔

آخر میں  کلام اس بات پر ختم کیا گیا ہے یہ کہ ایک کلمہ نصیحت ہے،  اب جس کا جی چاہے اسے قبول کر کے اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔  مگر دنیا میں  انسان کی چاہت ہی سکب کچھ نہیں  ہے۔  کسی کی چاہت بھی پوری نہیں  ہو سکتی جب تک اللہ نہ چاہے،  اور اللہ کی چاہت اندھا دھُند نہیں  ہے،  وہ جو کچھ بھی چاہتا ہے اپنے علم اور اپنی حکمت کی بنا پر چاہتا ہے۔  اِس علم اور حکمت کی بنا پر جسے وہ اپنی رحمت کا مستحق سمجھتا ہے اسے اپنی رحمت میں  داخل کر لیتا ہے،  اور جسے وہ ظالم پاتا ہے اس کے لیے درد ناک عذاب کا انتظام  اس نے کر رکھا ہے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ ۱ ہم نے انسان کو ایک مخلُوط نُطفے سے پیدا کیا ۲ تاکہ اس کا امتحان لیں  ۳ اور اِس غرض کے لیے ہم نے  اسے سُننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ۴ ہم نے اُسے راستہ دکھایا،  خواہ شُکر کرنے والا بنے یا کُفر کرنے والا۔ ۵

کُفر کرنے والوں  کے ہم  نے زنجیریں  اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیّا کر رکھی ہے۔ نیک لوگ ۶ (جنّت میں  )شراب کے ایسے ساغر پئیں  گے جن میں  آبِ کافور کی آمیزش ہو گی، یہ ایک بہتا چشمہ ہو گا ۷ جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے ۸ شراب پئیں  گے اور جہاں  چاہیں  گے بسہُولت اس کی شاخیں  نکال لیں  گے۔  ۹ یہ وہ لوگ ہوں گے جو (دُنیا میں )نذر پُوری کرتے ہیں،  ۱۰ اور اُس دن سے ڈرتے ہیں  جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی، اور اللہ کی محبت ۱۱ میں  مسکین اور یتیم اور قیدی ۱۲ کو کھانا کھلاتے ہیں  ۱۳ (اور اُن سے کہتے ہیں  کہ)ہم تمہیں  صرف اللہ کی خاطر کھِلا رہے ہیں،  ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں  نہ شکریہ، ۱۴ ہمیں  تو اپنے ربّ سے اُس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا۔  پس اللہ تعالیٰ انہیں  اُس دن کے شر سے بچالے گا اور انہیں  تازگی اور سُرور بخشے گا ۱۵ اور اُن کے صبر کے بدلے میں  ۱۶ اُنہیں  جنّت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ وہاں  وہ اُونچی مسندوں  پر تکے ے لگائے بیٹھے ہوں  گے۔  نہ اُنہیں  دھُوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھِر۔ جنّت کی چھاؤں  ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہو گی، اور اُس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں  ہوں  گے (کہ جس طرح چاہیں  اُنہیں  توڑ لیں )۔ اُن کے آگے چاندی کے برتن ۱۷ اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جا رہے ہوں  گے،  شیشے بھی وہ جو چاندی کی قِسم کے ہوں گے،  ۱۸ اور ان کو( منتظمینِ جنّت نے )ٹھیک اندازے کے مطابق بھرا ہو گا۔ ۱۹ ان کو وہاں  ایسی شراب کے جام پلائیں  جائیں  گے جس میں  سُونٹھ کی آمیزش ہو گی،  یہ جنّت کا ایک چشمہ ہو گا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔  ۲۰  ان کے خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں  گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں  گے۔  تم انہیں  دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں  جو بکھیر دیے گئے ہیں۔  ۲۱ وہاں  جِدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں  ہی نعمتیں  اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان تمہیں  نظر آئے گا۔ ۲۲ اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں  گے، ۲۳ ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں  گے،  ۲۴ اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ ۲۵ یہ ہے تمہاری جزا اور تمہاری کارگزاری قابلِ قدر ٹھہری ہے۔  ۲۶ ؏۱

 

تفسیر

 

۱: پہلا فقرہ ہے ھَلْ اَتیٰ عَلَی الْاِنْسَانِ۔ اکثر مفسرین  و مترجمین نے یہاں  ھَلْ کو قَدْ کے معنی میں  لیا ہے اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں  کہ بے شک یا بلا شُبہ انسان پر ایسا وقت آیا ہے۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھَلْ عربی زبان میں  ’’کیا‘‘ کے معنی ہی میں  استعمال ہوتا ہے،  اور اس سے مقصود ہر حال میں  سوال ہی نہیں  ہوتا، بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اِس انداز میں  کرتے ہیں  کہ ’’کیا یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے ‘‘؟ کبھی ہم ایک شخص سے کسی بات کا اقرار کرانا چاہتے ہیں  اور اِس غرض کے لیے اس سے پوچھتے ہیں  کہ ’’کیا میں  نے تمہاری رقم ادا کر دی‘‘؟ اور کب؟ ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں  ہوتا بلکہ سوال ہم اِس غرض کے لیے کرتے ہیں  کہ مخاطب کے ذہن  کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کر دیں  جو لازماً اُس کے اقرار سے بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔  مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں  ’’کیا میں  نے تمہارے ساتھ کوئی بُرائی نہیں  کی ہے،  بلکہ اُسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی مقصود ہوتا ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بُرائی نہیں  کی ہے اس کے ساتھ میں  بُرائی کرنے میں  کہاں  تک  حق بجانب ہوں ۔  آیت زیر بحث میں  سوالیہ فقرہ دراصل اِسی آ کری معنی میں  ارشاد ہوا ہے۔  اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرار کرانا نہیں  ہے کہ فی الواقع اُس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے،  بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے  اُس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پُورا انسان بنا کھڑا کیا وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں  عاجز ہو گا؟ دوسرا فقرہ ہے حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ۔ دھر سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسا ن کو معلوم ہے نہ انتہا، اور حین سے مراد ہو خاص وقت ہے جو اِس لا متنا ہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ اِس لامتناہی زمانے کے اندر ایک طویل مدت تو ایسی گزری ہے جب سرے سے نوعِ انسانی ہی  موجود نہ تھی۔ پھر اُس میں  ایک وقت ایسا آیا جب انسان نام کی ایک نوع کا آغاز کیا گیا۔ اور  اسی زمانے کے اندر ہر شخص پر ایک ایسا وقت آیا ہے جب اسے عدم سے وجود میں  لانے کی ابتدا کی گئی۔           تیسرا فقرہ ہے لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْ کُوْ راً، یعنی اُس وقت وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ اُس کا ایک حصّہ بات کے نُطفے میں  ایک خورد بینی کیڑے کی شکل میں  اور دوسرا حصّہ مان کے نطفے میں  ایک خورد بینی بَیضے کی شکل میں  موجود تھا۔ مدتہارے دراز تک تو انسان یہ بھی نہیں  جانتا تھا کہ دراصل وہ اِس کیڑے اور بیضے کے ملنے سے  وجود میں  آتا ہے۔  اب طاقت ور خورد بینوں  سے اِن دونوں  کو دیکھ تو لیا گیا ہے لیکن اب بھی کوئی شخص یہ نہیں  کہہ سکتا کہ کتنا انسان باپ کے اِس کیڑے میں  اور کتنا ماں  کے اس بیضے میں  موجود ہوتا ہے۔  پھر استقرارِ حمل کے وقت  اِن دونوں  کے ملنے سے جو ابتدائی خَلِیَّہ( (cell وجود میں  آتا ہے وہ ایک ایسا ذرہ بے مقدار  ہوتا ہے کہ بہت طاقت ور خوردبین ہی سے نظر آ سکتا ہے اور اسے دیکھ کر بھی بادی النظر میں  کوئی یہ نہیں  کہہ سکتا کہ یہ کوئی انسان بن رہا ہے،  نہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اِس حقیر سی ابتداء سے نشو نما پا کر کوئی انسان اگر بنے گا بھی تو وہ کس قد و قامت،  کس شکل و صورت، کس قابلیت اور شخصیت کا انسان ہو گا۔ یہ مطلب ہے اِس ارشاد کا کہ اُس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا اگر چہ انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے وجود کا آغاز ہو گیا تھا۔

۲: ’’ایک مخلوط نُطفے ‘‘سے مراد یہ ہے کہ انسان کی پیدائش مرد اور عورت کے دو الگ الگ نطفوں  سے نہیں  ہوئی ہے بلکہ دونوں  نُطفے مل کر جب ایک ہو گئے تب اُس مُرکّب نُطفے سے انسان پیدا ہوا۔

۳: یہ ہے دنیا میں  انسان کی، اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت۔ وہ درختوں  اور جانوروں  کی طرح نہیں  ہے کہ اس کا مقصدِ تخلیق یہیں  پُورا ہو جائے۔   اور قانون فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں  مر کر فنا ہو جائے۔  نیز یہ دنیا اُس کے لیے نہ  دارالعذاب ہے،  جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں،  نہ دارالجزا ہے جیسا کہ تَناسُخ کے قائلین سمجھتے ہیں،  نہ چراگاہ اور تفریح گاہ ہے،  جیسا کہ ما دّہ پرست سمجھتے ہیں،  اور نہ رزم گاہ،  جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیرو سمجھتے ہیں،  بلکہ دراصل یہ اُس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔  وہ جس چیز کو عُمر سمجھتا ہے حقیقت وہ امتحان کا وقت ہے جو اُسے یہاں  دیا گیا ہے۔  دنیا میں  قُوّ تیں  اور صلاحیتیں  بھی اس کو دی گئی ہیں،  جن چیزوں   پر بھی اس کو تصرُّف کے مواقع دیے گئے ہیں،  جن  حیثیتوں  میں  بھی وہ یہاں  کام کر رہا ہے،  اور جو تعلقات بھی اُس کے اور دوسرے انسانوں  کے درمیان ہیں،  وہ سب اصل  میں   امتحان کے بے شمار پرچے ہیں،  اور زندگی کے آخری سانس تک اِس امتحان کا سلسلہ جاری ہے۔  نتیجہ اس کا دنیا میں  نہیں  نکلنا ہے بلکہ آخرت میں  اُس کے تمام پر چوں  کو جانچ کر یہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام۔ اور اُس کی کامیابی و ناکامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ اُس نے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہوئے یہاں  کام کیا، اور کس طرح امتحان کے وہ پرچے کیے جو اُسے یہاں  دیے گئے تھے۔  اگر اس نے اپنے آپ کو بے خدایا بہت سے خداؤں  کا بندہ سمجھا، اور سارے پرچے یہ سمجھتے ہوئے کیے کہ آخرت میں  اسے اپنے خالق کے سامنے کوئی جو ابد ہی نہیں  کر ی ہے،  تو اس کا سارا کارنامہ زندگی غلط ہو گیا۔ اور اگر اس نے اپنے  آپ کو خدائے واحد کا بندہ سمجھ کر اُس طریقے پر کام کیا جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو اور آخرت کی جوابدہی کو پیش نظر رکھا تو وہ امتحان  میں  کامیاب ہو گیا، (یہ مضمون قرآن مجید میں  اس کثرت کے ساتھ اور اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اُن سب مقامات کا حوالہ دینا یہاں  مشکل ہے۔  جو حضرات اسے پُوری طرح سمجھنا چاہتے ہوں  وہ  تفہیم القرآن کی ہر جلد  کے آخر میں  فہرست موضوعات کے اندر لفظ ’’آزمائش‘‘ نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیں  جہاں  قرآن میں  مختلف پہلوؤں  سے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔  قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں  ہے جس میں  یہ حقیقت اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہو)۔

۴: اصل میں  فرمایا گیا ہے ’’ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا‘‘۔ اِس کا مفہوم صحیح طور پر ’’ہوش گوش رکھنے والا بنایا‘‘ سے ادا ہوتا ہے،  لیکن ہم نے ترجمے کی رعایت سے سمیع کے معنی’’سننے والا‘‘ اور بصیر کے معنی ’’دیکھنے والا‘‘ کیے ہیں۔  اگرچہ عربی زبان کے اِن الفاظ کا لفظی ترجمہ یہی ہے مگر ہر عربی داں  جانتا ہے کہ حیوان کے لیے سمیع اور بصیر کے الفاظ کبھی استعمال نہیں  ہوتے،  حالانکہ وہ بھی سُننے اور دیکھنے والا ہوتا ہے۔  پس سُننے اور دیکھنے سے مراد یہاں  سماعت اور بینائی کی وہ قوتیں  نہیں  ہیں  جو حیوانات کو بھی دی گئی ہیں،  بلکہ اس سے مراد وہ ذرائع ہیں  جن سے انسان علم حاصل کرتا اور پھر اس سے نتائج اخذ کرتا ہے۔  علاوہ بریں  سماعت اور بصارت انسان کے ذرائع علم میں  چونکہ سب سے زیادہ اہم ہیں   اس لیے اختصار کے طور پر صرف انہی کا ذکر کیا گیا ہے،  ورنہ اصل مراد انسان کو  وہ تمام حواس عطا کرنا ہے جن کے ذریعہ سے وہ معلومات حاصل کرتا ہے۔  پھر انسان کو جو حواس دیے گئے ہیں  وہ اپنی نوعیت میں  اُن حواس سے بالکل مختلف ہیں  جو حیوانات کو دیے گئے ہیں   کیونکہ اس کے ہر حاسّہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر اُن سے نتائج نکالتا ہے،  رائے قائم کرتا ہے،  اور پھر کچھ فیصلوں  پر پہنچتا ہے جن پر اس کا رویہ زندگی مبنی ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنے کے بعد کہ انسان کو پیدا کر کے ہم اس کا امتحان لینا چاہتے تھے یہ ارشاد فرمانا کہ اِسی غرض کے لیے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے علم اور عقل کی طاقتیں  دیں  تا کہ وہ امتحان دینے کے قابل ہو سکے۔  ظاہر ہے کہ اگر مقصودِ  کلام یہ نہ ہو اور سمیع اور بصیر بنانے کا مطلب محض سماعت و بینائی کی قوتیں  رکھنے والا ہی ہو تو ایک اندھا اور بہرا آدمی تو پھر امتحان سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے،  حالانکہ جب تک کوئی علم و عقل سے بالکل محروم نہ ہو، امتحان سے اس کے مستثنیٰ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں  ہوتا۔

۵: یعنی ہم نے اسے محض علم و عقل کی قوتیں  دے کر ہی نہیں  چھوڑ دیا،  بلکہ ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی بھی کہ تا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ شُکر کا راستہ کون سا ہے اور کُفر کا راستہ کون سا، اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے اس کا ذمّہ دار وہ خود ہو۔ سُورہ بَلَد میں  یہی مضمون اِن الفاظ میں  بیان کیا گیا ہے وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۔’’اور ہم نے اسے دونوں  راستے (یعنی خیر و شر کے راستے )نمایاں  کر کے بتا دیے۔ ‘‘اور سوری شمس  میں  یہی بات اِسطرح بیان کی گئی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰ ھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا، ’’اور قسم ہے (انسان کے )نفس کی اور اُس ذات کی جس نے اُسے (تمام ظاہری و باطنی قوتوں  کے ساتھ) اُستوار کیا، پھر اُس کا فُجور اور اُس کا تقویٰ دونوں  اُس پر الہام کر دیے ‘‘۔ اِن تمام تصریحات کو نگاہ میں  رکھ کر دیکھا جائے،  اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے اُن تفصیلی بیانات کو بھی نگاہ میں  رکھا جائے جن میں  بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے انسان کو  ہدایت کے لیے دنیا میں  کیا کیا انتظامات کیے ہیں،  تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اِس آیت میں  ’’راستہ دکھانے ‘‘سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں  ہے بلکہ بہت سی صورتیں  ہیں  جن کی کوئی حدّ و نہایت نہیں  ہے۔  مثال کے طور پر: (۱)      ہر انسان کو علم و عقل کی صلاحیتیں  دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حِس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور بُرائی میں  امتیاز کرتا ہے،  بعض افعال اور اوصاف کو بُرا جانتا ہے اگر چہ وہ خود ان میں  مبتلا ہو، اور بعض افعال و اوصاف کو اچھا جانتا ہے۔  اگرچہ وہ خود اُن سے اجتناب کر رہا ہو۔حتیٰ کہ جِن لوگوں  نے اپنی اغراض و خواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں  جن کی بنا پر بہت سی برائیوں  کو  اُنہوں  نے اپنے لیے حلال کر لیا ہے،  اُن کا حال بھی یہ ہے کہ وہی بُرائیاں  اگر کوئی دوسرا اُن کے ساتھ کر ے تو وہ اُس پر چیخ اُٹھتے ہیں  اور اُس وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے جھُوٹے فلسفوں   کے باوجود حقیقت میں  وہ اُن کو بُرا ہی سمجھتے  ہیں ۔  اِس طرح نیک  اعمال و اوصاف کو خواہ کسی نے جہالت اور حماقت اور دقیانوسیت ہی قرار دے رکھا ہو، لیکن جب کسی انسان سے خود اُس کی ذات کو کسی نیک سلوک کا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی فطرت قابل قدر سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔  (۲)      ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ضمیر (نفس لوّامہ) نام کی ایک  چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اُس موقع پر ٹوکتی ہے جو وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کر رہا ہو یا کر چکا ہو۔ اِس ضمیر  کو خواہ انسان کتنی ہی تھپکیاں  دے کر سُلاے،  اور اس کو بے حِس بنا نے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لے،  لیکن وہ اسے بالکل فنا کر دینے پر قادر نہیں  ہے،  وہ دنیا میں  ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بے ضمیر ثابت کر سکتا ہے،  وہ حجّتیں  بگھار کر دنیا کو دھوکا دینے کی بھی ہر کوشش کر سکتا ہے،  وہ اپنے نفس کو بھی فریب دینے کے لیے اپنے افعال کے لیے بیشمار عذرات تراش سکتا ہے،  مگر اس کے باوجود اللہ نے اس کی فطرت میں  جو مُحاسِب بِٹھا رکھا ہے وہ اتنا جاندار ہے کہ کسی بُرے انسان سے یہ بات چھُپی نہیں  رہتی  کہ وہ حقیقت میں  کیا ہے۔  یہی بات ہے جو سورہ قیامہ میں  فرمائی گئی ہے کہ ’’انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے  خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں  پیش کرے ‘‘(آیت۱۵)۔ (۳)     انسان کے اپنے وجود میں  اور اُس کے گرد و پیش زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات میں ہر طرف ایسی بے شمار نشانیاں  پھیلی ہوئی ہیں  جو خبر دے رہی ہیں  کہ یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر نہیں  ہو سکتا،  نہ بہت سے  خدا اِس کارخانہ ہستی کے بنانے والے اور چلانے والے ہو سکتے ہیں۔  اسی طرح آفاق اور  اَنْفُس کی یہی نشانیاں   قیامت اور آخرت پر بھی صریح دلالت کر ہی ہیں۔  انسان اگر ان سے آنکھیں  بند کر لے،  یا اپنی عقل سے کام لے کر اِن پر غور نہ کرے،  یا جن حقائق کی نشان دہی یہ کر رہی ہیں  اُن کو تسلیم کرنے سے جی چُرائے تو یہ اس کا اپنا قصُور ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تو حقیقت  کی خبر دینے والے نشانات اس کے سامنے رکھ دینے میں  کوئی کسر نہیں  اٹھا رکھی ہے۔  (۴)     انسان کی اپنی زندگی میں ، اُس کی ہم عصر دنیا میں،  اور اس سے پہلے گزری ہوئی تاریخ کے تجربات میں  بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں  اور آتے رہے ہیں  جو یہ ثابت کرتے ہیں  کہ ایک بالا تر حکومت اُس پر اور ساری کائنات پر فرمانروا ئی کر رہی ہے،  جس کے آگے وہ بالکل بے بس ہے،  جس کی مشیت پر چیز پر غالب ہے،  اور جس کی مدد کا وہ محتاج ہے۔  یہ تجربات و مشاہدات صرف خارج ہی ہیں  اِس حقیقت کی خبر دینے والے نہیں  ہیں،  بلکہ انسان کی اپنی فطرت میں  بھی اُس بالا تر حکومت کے وجود کی شہادت موجود ہے جس کی بنا پر بڑے سے بڑا دہر یہ بھی بُرا وقت آنے پر خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے،  اور سخت سے سخت مشرک بھی سارے جھوٹے خدا ؤں  کو چھوڑ کر ایک خدا کو پکارنے لگتا ہے۔  (۵)      انسان کی عقل اور اس کی فطرت قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ جُرم کی سزا اور عمدہ خدمات کا صلہ ملنا ضروری ہے اِسی بنا پر تو دنیا کے ہر معاشرے میں  عدالت کا نظام کسی نہ کسی صورت میں  قائم کیا جاتا ہے اور جن خدمات کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے ان کا صلہ دینے کی بھی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی جاتی ہے۔  یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اخلاق اور قانونِ  مُکافات کے درمیان ایک ایسا لازمی تعلق ہے جس سے انکار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں  ہے۔  اب اگر یہ مسلم ہے کہ اس دنیا میں  بے شمار جرائم  ایسے ہیں  جن کی پُوری سزا تو درکنار سرے سے کوئی سزا ہی نہیں  دی جا سکتی، اور بے شمار خدمات بھی ایسی ہیں  جن کا پورا صلہ تو کیا، کوئی صلہ بھی خدمت کرنے والے کو نہیں  مل سکتا، تو آخرت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں  ہے،  الّا یہ کہ کوئی بے وقوف یہ فرض کر لے،  یا کوئی ہٹ دھرم یہ رائے قائم کرنے سے خالی ہے۔  اور پھر اس سوال کا جواب اُس کے ذمّہ رہ جاتا ہے کہ ایسی دنیا میں  پیدا ہونے والے انسان کے اندر یہ انصاف کا تصوّر آخر آ کہاں  سے گیا؟ (۶)      ان تمام ذرائع رہنمائی کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی صریح اور واضح رہنمائی کے لیے دنیا میں  انبیاء بھیجے اور کتابیں  نازل کیں  جن میں  صاف صاف بتا دیا گیا  کہ شُکر کی راہ کون سی ہے اور کُفر کی راہ کون سی اور ان دونوں  راہوں  پر چلنے کے نتائج کیا ہیں۔  انبیاء اور کتابوں  کی لائی ہوئی یہ تعلیمات،  بے شمار محسوس اور غیر محسوس طریقوں  سے اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں  پھیلی ہیں  کہ کوئی انسانی آبادی بھی خدا کے تصور، آخرت کے تصوّر، نیکی اور بدی کے فرق،  اور اُن کے پیش کردہ اخلاقی اصولوں  اور قانونی احکام سے ناواقف نہیں  رہ گئی ہے،  خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ علم اُسے انبیاء اور کتابوں  کی لائی ہوئی تعلیمات ہی سے حاصل ہوا ہے۔  آج جو لوگ انبیاء اور کتابوں  کے منکر ہیں،  یا ان سے بالکل بے خبر ہیں ،  وہ بھی اُن بہت سی چیزوں  کی پیروی کر رہے ہیں  جو دراصل اُنہی کی تعلیمات سے چَھن چَھن کر اُن تک پہنچتی ہیں  اور وہ نہیں  جانتے کہ اِن چیزوں  کا اصل ماخذ کون سا ہے۔

۶: اصل میں  لفظ ابرار استعمال ہوا ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنے رب کی اطاعت کا حق ادا کیا ہو، اُس کے عائد کیے ہوئے فرائض بجا لائے ہوں ،  اور اُس کے منع کیے ہوئے افعال سے اجتناب کیا ہو۔

۷: یعنی وہ کافور ملا ہوا  پانی نہ ہو گا بلکہ ایسا قدرتی چشمہ ہو گا جس کے پانی کی صفائی اور ٹھنڈک اور خوشبو کافور سے ملتی جُلتی ہو گی۔

۸: عباد اللہ (اللہ کے بندے ) یا عباد الرحمٰن(رحمٰن کے بندے ) کے الفاظ اگر چہ لُغوی طور پر تمام انسانوں  کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں،  کیونکہ سب ہی خدا کے بندے ہیں،  لیکن قرآن میں  جہاں  بھی یہ الفاظ آئے ہیں  ان سے نیک بندے ہی مراد ہیں۔  گویا کہ بد لوگ جنہوں  نے اپنے آپ کو بندگی سے خارج کر رکھا ہو، اِس قابل نہیں  ہیں  کہ اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے اسمِ گرامی کی طرف منسوب کرتے ہوئے عباد اللہ یا عباد الرحمٰن کے معزز خطاب سے نوازے۔

۹: یہ مطلب نہیں  ہے کہ وہاں  وہ کداں  پھاوڑے لے کر نالیاں  کھودیں  گے اور اس طرح چشمے کا پانی جہاں  لے جانا چاہیں  گے لے جائیں  گے،  بلکہ ان کا ایک حکم اور اشارہ اس کے لیے کافی ہو گا کہ جنت میں  جہاں  وہ چاہیں  اُسی جگہ وہ چشمہ پھُوٹ لے۔  بسہولت نکال لینے کے الفاظ اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

۱۰: نظر پوری کرنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب کیا گیا ہوا سے وہ پُورا کر ے۔  دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے خود اپنے اوپر واجب کر لیا ہو۔ یا بالفاظِ دیگر جس کام کے کرنے کا  اس نے عہد کیا ہو، اُسے وہ پُورا کرے۔  تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب ہو، خواہ وہ اُس پر واجب کیا گیا ہو یا اس نے خود اپنے اوپر واجب کر لیا ہو، اسے وہ پُورا کرے۔  اِن تینوں  مفہومات میں  سے زیادہ معروف مفہوم دوسرا ہے اور عام طور پر لفظ نذر سے وہی مراد لیا جاتا ہے۔  بہر حال یہاں  اُن لوگوں  کی تعریف یا تو اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ واجبات کو  پُورا کرتے ہیں،  یا اِس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ ایسے نیک لوگ ہیں  کہ جو خیر اور بھلائی کے کام اللہ نے ان پر واجب نہیں  کیے ہیں  ان کو بھی انجام دینے کا جب وہ اللہ سے عہد کر لیتے ہیں  تو اسے پورا کرتے ہیں،  کجا کہ اُن واجبات کو ادا کرنے میں  کسی قسم کی کوتاہی کریں  جو اللہ نے ان پر عائد فرمائے ہیں۔  جہاں  تک نذر کے احکام کا تعلق ہے،  اُن کو مختصر طور پر ہم تفہیم القرآن،  جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۳۱۰ میں  بیان کر چکے ہیں ۔  لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں  اُن کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا جائے تا کہ لوگ نذر کے معاملہ میں  جو غلطیاں  کرتے ہیں  یا جو غلط فہمیاں  لوگوں  میں  پائی جاتی ہیں  ان سے بچ سکیں  اور نذر کے صحیح قواعد سے واقف ہو جائیں۔  (۱)      فقہاء نے نذر کی چار قسمیں  بیان کی ہیں۔  ایک یہ کہ ایک آدمی اللہ سے یہ عہد کرے کہ وہ اُس کی رضا کی خاطر فلاں  نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اِس بات کی نذر مانے کہ اگر اللہ نے میری فلاں  حاجت پوری کر دی تو میں  شُکرانے میں  فلاں  نیک کام کر دوں  گا، اِن دونوں  قسم کی نذروں   کو فقہاء کی اصطلاح میں  نذر تَبَرُّر (نیکی کی نذر) کہتے ہیں  اور اس پر اتفاق ہے کہ اسے پُورا کر نا واجب ہے۔  تیسرے یہ کہ آدمی کوئی ناجائز کام کرنے  یا کوئی واجب کام نہ کرنے کا عہد کر لے۔  چوتھے یہ کہ آدمی کوئی مُباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لے،  یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا یا کوئی خلافِ اَولیٰ کام کرنے کا عہد کر لے۔  ان دونوں  قسموں  کی نذروں  کو فقہاء کی اصطلاح میں  نذر لَجاج  (جہالت اور جھگڑالو پن اور ضِد کی نذر) کہتے ہیں۔  ان میں  تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں  ہوتی۔ اور چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں  اختلاف ہے۔  بعض فقہاء کہتے ہیں  کہ اسے پُورا کرنا چاہیے۔  اور بعض کہتے ہیں  کہ قسم توڑنے کا کفّارہ ادا کر دینا  چاہیے۔  اور بعض کہتے ہیں  کہ آدمی کو اختیار ہے،  خواہ نذر پوری کر دے،  یا کفارہ ادا کر دے۔  شافعیوں  اور مالکیوں  کے نزدیک یہ نذر بھی سرے سے منعقد نہیں  ہوتی۔ اور حنفیوں  کے نزدیک دونوں  قسموں  کی نذروں  پر کفارہ لازم آتا ہے۔ (عمدہ القاری)۔ (۲)      متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے ایسی نذر ماننے سے منع فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہوئے مانی جائے کہ اُس سے تقدیر بدل جائے گی، یا جس میں  کوئی نیک کام اللہ کی رضا کے لیے بطورِ  شکر کرنے کے بجائے آدمی اللہ تعالیٰ کو بطورِ معاوضہ یہ پیشکش کرے کہ آپ میرا یہ کام کر دیں  تو میں  آپ کے لیے فلاں  نیک کام کر دوں  گا۔ حدیث میں  حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ اَخَذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  ینھیٰ عن النذر و یقول انہٗ لا یردّ شیئاً و انما یُسْتَخْرَجُ بہ من البخیل۔’’ رسوال اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں  سکتی، البتہ اُس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے۔ ‘‘( مُسلم۔ابو داؤد)۔ حدیث کے آخری فقرے کا مطلب  یہ ہے کہ بخیل یُوں  تو راہِ خدا میں  مال نکالنے والا نہ تھا، نذر کے ذریعہ سے اِس لالچ میں  وہ کچھ خیرات کر دیتا ہے کہ شاید یہ معاوضہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقدیر بدل دے۔  دوسری روایت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، النّذرُ لا یُقَدِّ مُ شیئاً ولا یُؤَخِّرُہٗ و انما یُسْتَخْرَجُ بہٖ من البخیل۔’’نذر نہ کوئی کام پہلے کرا سکتی ہے،  نہ کسی ہوتے کام میں   تاخیر کر ا سکتی ہے۔  البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل کے ہاتھ سے نکلوا لیا جاتا ہے ‘‘(بخاری ومسلم)۔ ایک اور روایت میں  وہ کہتے ہیں  کہ حضورؐ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا انہ لا یاتی بخیر و انما یستخرج بہ من البخیل’’ اس سے کوئی کام بنتا نہیں  ہے،  البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے ‘‘(بخاری ومسلم)۔ تقریباً اسی مضمون کی متعدد روایات مُسلم نے حضرت ابو ہُریرہ سے نقل کی ہیں،  اور ایک روایت بخاری و مسلم دونوں  نے نقل کی ہے جس میں  وہ بیان کرتے ہیں  کہ حضور ؐ نے فرمایا ان النذر لا یقرِّب من ابن اٰدم َ شیئاً لم یکن اللہ  قدرہ لہٗ ولٰکِن النذر یوافقُ القدر فُیخرجُ بذالک من البخیل مالم یکن البخیل یرید ان یُّخْرِجَ۔’’درحقیقت نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں  دلوا سکتی جو اللہ نے اس کے لیے مقدَّر نہ فرمائی ہو، لیکن نذر ہوتی تقدیر کے مطابق ہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تقدیر الہیٰ وہ چیز بخیل کے پاس سے نکال لاتی ہے جسے وہ کسی اور طرح نکالنے والا نہ تھا‘‘۔ اسی مضمون پر مزید روشنی حضرت عبداللہ بن عَمْرو بن عاص کی اس روایت سے پڑتی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انما النذر ما ابتُغییَ بہٖ وجہُ اللہ۔ ’’اصل نذر تو وہ ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو‘‘۔(طَحاوِی)۔ (۳)     نذر کے معاملہ میں  ایک اور قاعدہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ صرف وہ نذر پُوری کرنی چاہیے جو اللہ کی اطاعت میں  ہو۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر ہر گز پُوری نہیں  کرنی چاہیے۔  اسی طرح ایسی چیز میں  کوئی نذر نہیں  ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو، یا ایسے کام میں  کوئی نذر نہیں  ہے جو انسان کے بس میں  نہ ہو۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من نذر ان یطیع اللہ فَلْیُطِعْہُ ومن نذر ان یعص اللہ فلا یعصِہٖ۔’’جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے،  اور جس نے یہ نذر مانی  ہو کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے نافرمانی نہیں  کرنی چاہیے ‘‘۔(بخاری،  ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، طحاوی)۔ ثابن بن ضَحّاک کہتے ہیں  کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا لا وفاء لنذرِ فی معصیۃ اللہ ولا فیما لا یملک ابن اٰدم۔’’ اللہ کی نافرمانی میں  کسی نذر کے پُور کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں  ہوتا، نہ کسی ایسی چیز میں  جو آدمی کی ملکیت میں  نہ ہو‘‘(ابو داؤد)۔ مسلم نے اسی مضمون  کی روایت حضرت عمران بن حُصین سے نقل کی ہے۔  اور ابو داؤد میں  حضرت عبد اللہ بن عَمْرو بن عاص کی روایت اس سے زیادہ مفصل ہے جس میں  وہ حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں  کہ لا نذر و لایمین فی ما لا یملک ابن اٰدم، ولا فی معصیۃ اللہ، ولا فی قطیعۃ رحم’’ کوئی نذر او کوئی قسم کسی ایسے کام میں  نہیں  ہے جو آدمی کے بس میں  نہ ہو، یا اللہ کی نافرمانی میں  ہو، یا قطع رحمی کے لیے ہو۔‘‘ (۴)     جس کام میں  بجائے خود نیکی نہیں  ہے اور آدمی نے خواہ مخواہ کسی فضول کام، یا نا قبلِ برداشت مشقت یا محض تعذیبِ نفس کو نیکی سمجھ کر اپنے اوپر لازم کر لیا ہو اُس کی نذر پُوری نہیں  کرنی چاہیے۔  اس معاملہ میں  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے ارشادات بالکل واضح ہیں ،  حضر ت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں  کہ ایک مرتبہ حضورؐ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک صاحب دھوپ میں  کھڑے ہیں۔  آپ نے پوچھا  یہ کون ہیں  اور کیسے کھڑے ہیں ؟ عرض کیا گیا یہ ابو اسرائیل ہیں،  انہوں  نے نذر مانی ہے کہ کھڑے رہیں  گے،  بیٹھیں  گے نہیں،  نہ سایہ کریں  گے،  نہ کسی سے بات کریں  گے،  اور روزہ رکھیں  گے۔  اس پر آپ نے فرمایا مُرُوْہُ فلیکلّم وَلْیَسْتَظِل وَلْیَقْعُدْ، وَلْیُتِمَّ صوم۔’’ ان سے کہو بات کریں،  سایہ میں  آئیں،  بیٹھیں ،  البتہ روزہ پُورا کریں ‘‘(بخاری، ابو داؤد،ابن ماجہ، مُؤطَا)۔ حضرت عُقْبہ بن عامر جُہنَیِ کہتے ہیں  کہ میری بہن ننگے پاؤں  پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور یہ نذر بھی مانی کہ اس سفر میں  سر پر کپڑا بھی نہ ڈالیں  گی۔ حضورؐ نے فرمایا اُس سے کہو کہ سواری پر جائے اور سر ڈھانکے (ابوداؤد۔مسلم نے اِس مضمون کی متعدد روایات سے نقل کی ہیں  جن میں  کچھ لفظی اختلاف ہے )۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے عُقْبہ بن عامی کی بہن کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضورؐ کے جو الفاظ نقل کیے ہیں  وہ یہ ہیں :اِنَّ اللہَ لَغنیٌّ عن نذرھا، مُرْھا فَلْتَرْکَبْ۔’’اللہ کو اس کی اِس نذر کی کوئی ضرورت نہیں  ہے۔  اس سے کہو کہ سواری پر جائے ‘‘(ابو داؤد)۔ ایک ور روایت  میں  حضرت ابن عباس کہتے ہیں  کہ ایک شخص نے عرض کیا، میری بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے۔  حضور ؐ نے فرمایا انّ اللہ لا یصنع بشقاء اختک شیئاً فلتحُجَّ رَا کبۃ۔ ’’تیری بہن کے مشقت میں   پڑنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں  پڑی ہے۔  اسے سواری پر حج کرنا چاہیے ‘‘۔(ابو داؤد)۔ حضرت اَنَس بن مالک کی روایت ہے کہ حضورؐ نے (غالباً سفر حج) میں  دیکھا کہ ایک بڑے میاں  کو ان کے دو بیٹے سنبھالے لیے چل رہے ہیں۔  آپ نے پوچھا یہ کیا معاملہ  ہے ؟ عرض کیا گیا انہوں  نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔  اس پر آپ نے فرمایا اِنَّ اللہَ لغنیٌ عن تعذیب ھٰذا نفسہٗ و امرہٗ ان یرکَبَ۔ ’’اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ شخص اپنے نفس  کو عذاب میں  ڈالے ‘‘۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا سوار ہو(بخاری، مسلم، ابوداؤد۔مسلم میں  اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی مر وی ہے )۔ (۵)      اگر کسی نذر کو پُورا کرنا عملاً ممکن نہ ہو تو اسے کسی دوسری صورت میں    پُورا کیا جا سکتا ہے۔  حضرت جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں  کہ فتح مکہ کے روز ایک شخص نے اُٹھ کر عرض کیا،  یا رسول اللہ،  میں  نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح کر دیا تو میں  بیت المقدس میں  دو رکعت نماز پڑھوں  گا۔ حضورؐ نے فرمایا یہیں  پڑھ لے اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے  پھر وہی جواب دیا۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے فرمایا شَأ نک اذًا، ’’اچھا تو تیری مرضی‘‘۔ دوسری ایک روایت میں  ہے کہ حضورؐ نے فرمایا۔ والذی بعث محمدًا بالْحق، لوصلَّیت ھٰھنا لاجزأ عنک صلوٰ ۃً فی بیت المقدس ’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے محمدؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے،  اگر تو یہیں  نماز پڑھ لے تو بیت المقدس میں  نماز پڑھنے کے بدلے یہ تیرے لیے کافی ہو گی‘‘(ابو داؤد)۔ (۶)      اگر کسی نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں  دے دینے کی نذر مان لی ہو تو اس کے بارے میں  فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔  امام مالکؓ کہتے ہیں  کہ اسے ایک تہائی مال دے دینا چاہیے،  اور مالکیہ میں  سے سَحْنُون کا قول ہے کہ اسے اتنا مال دے دینا چاہیے جسے دینے کے بعد وہ تکلیف میں   نہ پڑ جائے۔  امام شافعی کہتے ہیں  کہ اگر یہ نذر تُبرُّر کی نوعیت کی ہو تو اسے سارا مال دے دینا چاہیے،  اور اگر یہ نذرِ لَجاج ہو تو اُسے اختیار ہے کہ نذر پُوری کرے یا قسم کا کفارہ ادا کر دے۔  امام ابو حنفیہ کہتے ہیں  کہ  اسے اپنا وہ سب مال دے دنیا چاہیے جس میں  زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، لیکن جس مال میں  زکوٰۃ نہیں  ہے،  مثلاً مکان یا ایسی ہی دوسری  اَملاک، اس پر اس نذر کا اطلاق نہ ہو گا۔ حنفیہ میں  سے امام زُفَر کا قول ہے کہ اپنے اہل و عیال کے لیے دو مہینے کا نفقہ رکھ کر باقی سب صدقہ کر دے (عمدۃ القاری۔ شرح مؤطاء از شاہ ولی اللہ صاحب)۔  حدیث میں  اس مسئلے کے متعلق جو روایات آئی ہیں  وہ یہ ہیں : حضرت کعبؓ بن مالک کہتے ہیں  کہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے کی وجہ سے جو عتاب مجھ پر ہوا تھا اس کی جب معافی مل گئی تو میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں  عرض کیا کہ میری توبہ میں  یہ بات بھی شامل تھی کہ میں  اپنے سارے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کی راہ میں  صدقہ کر دُوں  گا۔ حضورؐ نے فرمایا نہیں  ایسا نہ کرو۔ میں  نے عرض کیا، پھر آدھا مال؟ فرمایا، نہیں۔  میں  نے عرض کیا، پھر ایک تہائی؟ فرمایا ہاں (ابو داؤد)۔ دوسری روایت میں  ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تم اپنا کچھ مال اپنے لیے روک رکھو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے (بخاری)۔ امام زُہری کہتے ہیں  کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابو لُبابہؓ  نے (جن پر اِسی غزوہ تبوک کے معاملہ میں  عتاب ہوا تھا، حضورؐ سے عرض کیا، میں  اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں  صدقہ کے طور پر اپنے سارے مال سے دست بر دار ہوتا ہوں۔  حضورؐ نے جواب دیا تمہارے لیے اُس میں  صرف ایک تہائی دے دینا کافی ہے (مؤطّا)۔ (۷)     اسلام قبول کرنے سے پہلے اگر کسی شخص نے کسی نیک کام کی نذر مانی ہو تو کیا اسلام قُبول کرنے کے بعد اسے پورا کیا جائے ؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا فتویٰ اس بارے میں  یہ ہے کہ اسے پُورا کیا جائے۔  بخاری، ابو داؤد اور طَحاوی میں  حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ انہوں  نے زمانہ جاہلیت میں  نذر مانی تھی کہ ایک رات (اور بروایتِ بعض ایک دن) مسجد حرام میں  اعتکاف کریں  گے۔  اسلام لانے کے بعد انہوں  نے حضورؐ سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا اوفِ بنذرک ’’اپنی  نذر پوری کرو‘‘۔ بعض فقہاء نے حضورؐ کے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ ایسا کر نا واجب ہے،  اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ یہ مُستحب  ہے۔  (۸)     میت کے ذمہ اگر کوئی نذر رہ گئی ہو تو اسے پُورا کرنا وارثوں  پر واجب ہے یا نہیں  ؟ اس مسئلے میں  فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔  امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور اور ظاہر یہ کہتے ہیں  کہ میّت کے ذمّہ اگر روزے یا نماز کی نذر رہ گئی ہو تو وارثوں  پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔  حنفیہ کہتے ہیں  کہ نذر اگر بدنی عبادت(نماز یا روزہ) کی ہو تو وارثوں  پر اُس کا پُورا کرنا واجب نہیں  ہے،  اور اگر مالی عبادت کی ہو اور مرنے والے نے اپنے وارثوں  کو اُسے پورا کرنے کی وصیت نہ کی ہو تو اسے بھی پورا کرنا واجب نہیں ،  البتہ اگر اس  نے وصیّت کی ہو تو اس کے بعد  تر کے میں  سے ایک تہائی کی حد تک نذر پُوری کرنی واجب ہو گی۔ مالکیہ کا مذہب بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔  اور شافعیہ کہتے ہیں  کہ نذر اگر غیر مالی عبادت کی ہو، یا مالی عبادت کی ہو اور میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو، تو اسے پُورا کرنا  وارثوں  پر واجب نہیں  ہے،  اور اگر میت نے ترکہ چھوڑا  ہو تو وارثوں  پر مالی عبادت کی نذر پُوری کرنا واجب ہے،  خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو(شرح مُسلم لِنَّوَوِی)۔ بذل المجہود (شرح ابی داؤد)۔ حدیث میں  اس مسئلے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں  کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے ذمّہ ایک نذر تھی جو انہوں  نے پُوری نہیں  کی تھی۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ تم اس کی طرف سے پُوری کر دو(ابو داؤد۔ مُسلم)۔ دوسری روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ایک عورت نے بحری سفر کیا اور نذر مانی کہ اگر میں  زندہ سلامت واپس گھر پہنچ گئی تو ایک مہینے کے روزے رکھوں  گی۔ واپس آنے کے بعد اس کا انتقال ہو گا اور وہ مر گئی۔ اس کی بہن یا بیٹی نے آ کر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے مسئلہ پُوچھا اور آپ ؐ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تُو روزے رکھ لے (ابو داؤد)۔ ایسی ہی ایک روایت ابو داؤد نے حضرت بُریدہ نے نقل کی ہے کہ ایک عورت نے حضورؐ سے اسی طرح کا مسئلہ پوچھا اور آپ نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہوا ہے۔  ان روایات میں  چونکہ یہ بات صاف نہیں  ہے کہ حضورؐ کے یہ ارشادات و جواب کے معنی میں  تھے یا استحباب کے معنی میں،  اور حضرت سعد بن عُبادہ کی والدہ کی نذر  کے معاملہ میں  یہ واضح نہیں  ہے کہ وہ مالی عبادت کے بارے میں  تھی یا بدنی عبادت کے بارے میں،  اسی بنا پر فقہاء کے درمیان اِس مسئلے میں  اختلافات ہوئے ہیں۔  (۹)      غلط اور نا جائز نوعیت کی نذر  کے معاملہ میں  یہ بات تو صاف ہے کہ اسے پُورا نہیں  کرنا چاہیے۔  البتہ اس مسئلے میں  اختلاف ہے کہ اس پر کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں ۔  اس مسئلے میں  چونکہ روایات مختلف ہیں  اس لیے فقہاء کے مسالک بھی مختلف ہیں۔  ایک قسم کی روایات میں  یہ آیا  ہے کہ حضور ؐ نے ایسی صورت میں  کفارہ کا حکم دیا ہے مثلاً، حضرت عائشہؓ کی یہ روایت کہ حضورؐ نے فرمایا لانذر جی معصیۃ وکفارتُہٗ کفّارۃ یمین، ’’معصیت میں  کوئی نذر نہیں  ہے اور اس کاکفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے ‘‘(ابو داؤد)۔ عُقبہ بن عامر جُہَنی کی بہن کے معاملہ میں  (جس کا ذکر اُوپر نمبر ۴ میں  گزر چکا ہے ) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے حکم دیا کہ وہ اپنی نذر توڑ دیں  اور تین دن کے روزے رکھیں (مسلم۔ ابوداؤد)۔ ایک اور عورت کے معاملہ میں  بھی جس نے پیدل حج کی نذر مانی تھی، حضورؐ نے حکم دیا کہ وہ سواری پر حج کے لیے جائے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے (ابو داؤد)۔ ابن عباس کی روایت  ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من نذر نذرًا لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ یمین، ومن نذر نذرا فی معصیۃ فکفارتۃ کفارۃ یمین، ومن نذر نذرًا لا یطیقہ فکفارتۃ کفّارۃ یمین، ومن نذر نذرًا اطاقہ فلیفِ بِہٖ۔’’جس نے ایک نذر مان لی اور اس بات کا تعین نہ کیا کہ کس بات کی نذر مانی ہے وہ قسم کا کفارہ دے۔  اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ  پورا کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو وہ قسم کا کفارہ دے۔  اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ پُورا کر سکتا ہو  وہ اسے پورا کرے ‘‘( ابو داؤد)۔ دوسری طرف وہ احادیث ہیں  جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس صورت میں  کفارہ نہیں   ہے۔  اوپر نمبر ۴ میں  جن صاحب کا ذکر آیا ہے کہ انہوں  نے دھوپ میں  کھڑے رہنے اور کسی سے بات نہ کرنے کی نذر مانی تھی، اُن کا قصّہ نقل کر کے امام مالکؒ نے مؤطّا میں  لکھا ہے کہ مجھے کسی ذریعہ سے بھی یہ معلوم نہیں  ہوا کہ حضورؐ نے ان کو نذر توڑنے کا حکم دینے کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہو کہ وہ کفارہ ادا کریں۔  حضرت عبد اللہ بن عَمْر و بن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا من حلف علیٰ یمین فرایٰ غیرھا خیرًا منھا فلید عھا ولیاتِ الذی ھو خیرٌ فان ترکھا کفارتھا، ’’جس  نے کسی بات کی قسم کھائی ہوا ور بعد میں  وہ دیکھے کہ اس سے بہتر بات دوسری ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہو اور اسے چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ‘‘(ابو داؤ بیقہی کہتے ہیں  کہ یہ حدیث اور حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت کہ ’’جو کام بہتر ہے وہ کرے اور یہی اس کا کفارہ ہے ‘‘ ثابت نہیں  ہے )۔ امام نَودِی اِن احادیث پر بحث کرتے ہوئے شرح مسلم میں  لکھتے ہیں  کہ امام مالکؒ، شافعیؒ، ابوحنفیہؒ، داؤد ظاہری اور جمہور علماء کہتے ہیں  کہ معصیت کی نذر باطل ہے اور اسے پُورا نہ کرنے پر کفارہ لازم نہیں  آتا۔ اور امام احمد کہتے ہیں  کہ کفارہ لازم آتا ہے۔

۱۱:  اصل الفاظ ہیں  عَلیٰ حُبِّہٖ۔ اکثر مفسرین نے حُبِّہٖ کی ضمیر کا مرجع کھانے کو قرار دیا ہے،  اور وہ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں  کہ وہ کھانے کے محبوب اور دل پسند ہونے اور خود اُس کے حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں  کو  کھلا دیتے ہیں۔  ابن عباس ؓ اور مجاہد کہتے ہیں  کہ اس کا مطلب ہے عَلیٰ حُبِّ الاِطعام، یعنی غریبوں  کو کھانا کھلانے کے شوق میں  وہ ایسا کرتے ہیں۔  اور حضرت فُضَیل بن عیاض اور ابو سلیمان الدّرانی کہتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں  وہ یہ کام کرتے ہیں۔  ہمارے نزدیک بعد کا یہ فقرہ کہ اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ (ہم تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر تمہیں  کھلا رہے ہیں )، اسی معنی کی تائید کرتا ہے۔

۱۲: قدیم زمانے میں  دستور یہ تھا کہ قیدیوں  کو ہتھکڑی اور بیڑیاں  لگا کر روزانہ باہر نکالا جاتا تھا اور وہ سڑکوں  پر یا محلّوں  میں  بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے تھے۔  بعد میں  اسلامی حکومت نے یہ طریقہ بند کیا(کتاب الخراج، امام ابو یوسف، صفحہ۱۵۰۔طبع۱۳۸۲ھ۔ اِس آیت میں  قیدی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قید میں  ہو، خواہ کافر ہو یا مسلمان، خواہ جنگی قیدی ہو، یا کسی جُرم میں  قید کیا گیا ہو، خواہ اسے قید کی حالت میں  کھانا دیا جاتا ہو یا بھیک منگوائی جاتی ہو، ہر حالت میں  ایک بے بس آدمی کو جو اپنی روزی کے یے خود کوئی کوشش نہ کر سکتا ہو، کھانا کھلانا ایک بڑی نیکی کا کام ہے۔

۱۳: اگرچہ بجائے خود کسی غریب کو کھانا کھلانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے، لیکن کسی حاجت مند کی دوسری حاجتیں  پوری کرنا بھی ویسا ہی نیک کام ہے جیسا بھوکے کو کھانا کھلانا۔ مثلاً کوئی کپڑے کا محتاج ہے،  یا کوئی بیمار ہے اور علاج کا محتاج ہے،  یا کوئی قرضدار ہے اور قرض خواہ اسے پریشان کر رہا ہے،  تو اس کی مدد کرنا کھانا کھلانے سے کم درجے کہ نیکی نہیں  ہے۔  اس لیے اس آیت میں  نیکی کی ایک خاص صورت کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیا گیا ہے،  ورنہ اصل مقصود حاجت مندوں  کی مدد کرنا ہے۔

۱۴: ضروری نہیں  ہے کہ غریب کو کھانا کھلاتے ہوئے زبان ہی سے یہ بات کہی جائے۔  دل میں  بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے اور اللہ کے ہاں  اِس کی بھی وہی حیثیت ہے جو زبان سے کہنے کہ ہے۔  لیکن زبان سے یہ بات کہنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ جس کی مدد کی جائے اُس کو یہ اطمینان دلا دیا جائے کہ ہم اس سے کسی قسم کا شکریہ یا بدلہ نہیں  چاہتے،  تا کہ وہ بے فکر ہو کر کھائے۔

۱۵: یعنی چہروں  کی تازگی اور دل کا سرور۔ دوسرے الفاظ میں  روزِ قیامت کی ساری  سختیاں  اور ہولناکیاں  صرف کفّار و مجرمین کے لیے ہوں گی، لوگ اُس دن ہر تکلیف سے محفوظ اور نہایت خوش و خرم ہوں  گے۔  یہی بات سُورہ انبیاء میں  بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں  ہاتھ لیں  گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘(آیت۱۰۳)۔ اور اسی کی صراحت سورہ نَمل میں  کی گئی ہے کہ ’’جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اُسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اُس دن کے ہوَل سے محفوظ ہوں  گے ‘‘(آیت۸۹)

۱۶: یہاں  صبر بڑے وسیع معنی میں  استعمال ہوا ہے،  بلکہ درحقیقت صالح اہلِ ایمان کی پُوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔  ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی نا جا ئز خواہشوں  کو دبانا، اللہ باندھی ہوئی حدوں  کی پابندی کرنا،  اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال، اپنی محنتیں،  اپنی قوتیں  اور قابلیتیں،  حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کر دینا، ہر اُس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے،  ہر اُس خطرے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جو راہِ راست پر چلنے میں  پیش آئے،  ہر اُس فائدے اور لذت سے دست بردار ہو جانا جو حرم طریقوں  سے حاصل ہو، ہر اُس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کر جانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے،  اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اِ س وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اِس نیک رویّے کی ثمرات اِس دنیا میں  نہیں  بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں  ملیں  گے،  ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے۔  یہ ہر وقت کا صبر ہے،  دائمی صبر ہے،  ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل ، البقرہ، حاشیہ۶۰۔ آلِ عمران، حواشی۱۳۱، ۱۰۷، ۱۳۔ الانعام، حاشیہ۲۳۔ جلد دوم، الانفال، حواشی۴۷، ۳۷، یونس، حاشیہ، ۹۔ہود، حاشیہ۱۱۔الرعد، حاشیہ۳۹۔النحل، حاشیہ۹۸۔جلد سوم، مریم، حاشیہ۴۰۔ الفرقان، حاشیہ۹۴۔ القصص، حواشی۱۰۰، ۷۵۔العنکبوت، حاشیہ۹۸۔جلد چہارم، لقمان، حواشی۵۶، ۲۹۔ السجَّدہ، حاشیہ۳۷۔ الاَحزاب، حاشیہ۵۷۔ الزُّمَر، حاشیہ۳۲۔حٰم السجّدہ، حاشیہ۳۸۔ الشّوریٰ، حاشیہ۵۳)۔

۱۷: سورہ زُخْرُف آیت ۷۱ میں  ارشاد ہوا ہے کہ ان کے آگے سونے کے برتن گردش کرائے جا رہے ہوں  گے۔  اس سے معلوم ہوا کہ کبھی وہاں  سونے کے برتن استعمال ہوں  گے اور کبھی چاندی کے۔

۱۸: یعنی وہ ہو گی تو چاندی مگر شیشے کی طرح شفاف ہو گی۔  چاندی کی یہ قسم اِس دنیا میں  نہیں  پائی جاتی۔  یہ صرف جنّت کی خصوصیت ہو گی کہ وہاں  شیشے جیسی شفاف چاندی کے برتن اہلِ جنت کے دستر خوان پر پیش کیے جائی گے۔

۱۹: یعنی ہر شخص کے لیے اس کی خواہش کے ٹھیک اندازے کے مطابق ساغر بھر بھر کر دیے جائیں  گے۔  نہ وہ اُس کی خواہش سے کم ہوں  گے نہ زیادہ۔ بالفاظ دیگر اہلِ جنت کے خُدّام اس قدر ہوشیار اور تمیز دار ہوں گے کہ وہ جس کی خدمت میں  جامِ شراب پیش کریں  گے اس کے متعلق ان کو پُورا اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی شراب پینا چاہتا ہے۔ (جنت کی شراب کی خصوصیات کے متعلق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  الصّافات، آیات ۴۵تا۴۷، حواشی۲۴تا۲۷۔ جلد پنجم، سورہ محمد، آیت۱۵، حاشیہ۲۲۔الطُّور، آیت۲۳، حاشیہ۱۸۔الواقعہ، آیت۱۹، حاشیہ۱۰)۔

۲۰: اہلِ عرب چونکہ شراب کے ساتھ سُونٹھ ملے ہوئے پانی کی آمیزش کو پسند کرتے تھے،  اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں  اُن و ہ شراب پلائی جائے گی جس میں  سونٹھ کی آمیزش ہو گی۔ لیکن اس آمیزش کی صورت یہ نہ  ہو گی یہ اس کے اندر سونٹھ ملا کر پانی ڈالا جائے گا، بلکہ یہ ایک قدرتی چشمہ ہو گا جس میں  سونٹھ کی خوشبو تو ہو گی مگر اس کی تلخی نہ ہو گی، اس لیے اُس کا نام سلسبیل ہو گا۔سلسبیل سے مراد ایسا پانی ہے جو میٹھا، ہلکا اور خوش ذائقہ ہونے کی بنا پر حلق سے بسہولت گزر جائے۔  مفسرین کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ یہاں  سلسبیل کا لفظ اُس چشمے کے لیے بطورِ صفت استعمال ہوا ہے نہ کہ بطورِ اسم۔

۲۱: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الصّٰفّٰت، حاشیہ۲۶۔جلد پنجم، الطُّور، حاشیہ ۱۹، الواقعہ، حاشیہ۹۔

۲۲: یعنی دنیا میں  خواہ کوئی شخص فقیر بے نواہی کیوں  نہ رہا ہو، جب وہ اپنے اعمال خیر کی بنا پر جنت میں  جائے گا تو وہاں  اِس شان سے رہے گا کہ گویا وہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مالک ہے۔

۲۳: یہی مضمون سورہ کہف آیت ۳۱ میں  گزر چکا ہے کہ وَیَلْبَسُوْنَ ثِیَا باً خُضْراً مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّکِئِیْنَ فِیْھَاعَلَی الْاَرَآئِکِ۔  ’’وہ یعنی (اہل جنت) باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں  گے،  اونچی مسندوں  پر تکیے لگا کر بیٹھیں  گے ‘‘۔  اس بنا پر اُن مفسرین کی رائے صحیح نہیں  معلوم ہوتی جنہوں  نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں  جو اُن کی مسندوں  یا مسہریوں  کے اوپر لٹکے ہوئے ہوں گے،  یا یہ اُن لڑکوں  کا لباس ہو گا جو اُن کی خدمت میں  دوڑے پھر رہے ہوں  گے۔

۲۴: سورہ کہف آیت ۳۱ میں  فرمایا گیا ہے یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَا وِرَمِنْ ذَھَبٍ۔’’وہ وہاں  سونے کے کنگنوں  سے آراستہ کیے جائیں  گے ‘‘۔ یہی مضمون سورہ حج آیت۲۳، اور سورہ فاطر آیت ۳۳ میں  بھی ارشاد ہوا ہے۔  ان سب آیتوں  کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں  ممکن محسوس ہوتی ہیں۔  ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں  گے تو  سونے کے کنگن پہنیں  گے اور کبھی چاہیں  گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں  گے۔  دونوں  چیزیں  ان کے حسبِ خواہش موجود ہوں  گی۔ دوسرے یہ کہ سونے اور چاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں  گے،  کیونکہ دونوں  کے ملا دینے سے حسن دوبالا ہو جاتا ہے،  تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہے گا سونے کے کنگن پہنے گا اور جو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔ رہا یہ سوال کہ زیور تو عورتیں  پہنتی ہیں،  مردوں  کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں  بادشاہوں  اور رئیسوں  کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں  اور گلے اور سر کے تاجوں  میں  طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے،  بلکہ ہمارے زمانے میں  برطانوی ہند کے راجاؤں  ور نوابوں  تک میں  یہ  دستور رائج رہا ہے۔  سورہ زَخْرُف میں   بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ جب اپنے سادہ لباس میں  بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں  پہنچے اور اس سے کہا کہ میں  اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں  تو اس نے اپنے درباریوں  سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں  میرے سامنے آیا ہے،  فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَھَبٍ اَوْجَآ ءَ مَعَہُ الْمَلٰئکِۃُ مُقْتَرِنِیْنَ    (آیت۵۳)۔یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کی طر ف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں  نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر ہی اس کی اردلی میں  آتا۔

۲۵: پہلے دو شرابوں   کا ذکر گزر چکا ہے۔  ایک وہ جس میں  آبِ چشمۂ کافور کی آمیزش ہو گی۔ دوسری وہ جس میں  آبِ چشمہ زنجیل کی آمیزش ہو گی۔ ان دونوں  شرابوں  کے بعد اب پھر ایک شراب کا ذکر کرنا اور یہ فرمانا کہ ان کا رب انہیں  نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ کوئی اور بہترین نوعیت کی شراب ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضلِ خاص کے طور پر انہیں  پلائی جائے گی۔

۲۶: اصل الفاظ ہیں  کَانَ سَعْیَکُمْ مَّشْکُوْرًا۔ یعنی تمہاری سعی مشکور ہوئی۔ سَعی سے مراد وہ پُورا کارنامہ حیات ہے جو بندے نے دنیا میں  انجام دیا۔ جن کاموں  میں  اس نے اپنی محنتیں  اور جن مقاصد کے لیے اس نے اپنی کوشش صرف کیں  اُن سب کا مجموعہ اُ س کی سعی ہے اور اس کے مشکور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں  وہ قابلِ قرار پائی۔  شُکریہ جب بندے کی طرف سے خدا کے لیے ہو تو اس سے مراد اس کی نعمتوں  پر احسان مندی ہوتی ہے،  اور جب خدا کی طرف سے بندے کے لیے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خدمات کی قدر فرمائی۔ آقا کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ بندہ جب اس کی مرضی کے مطابق اپنا فرض انجام دے تو وہ اس کا شکر یہ ادا کرے۔

 

ترجمہ

 

اے نبی ؐ،  ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے،  ۲۷ لہٰذا تم اپنے ربّ کے حکم پر صبر کرو، ۲۸ اور اِن میں  سے کسی بد عمل یا منکرِ حق کی بات نہ مانو۔ ۲۹ اپنے ربّ کا نام صبح و شام یاد کرو، رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو، اور رات کے طویل اوقات میں  اُس کی تسبیح کرتے رہو۔ ۳۰ یہ لوگ تو جلدی حاصل ہونے والی  چیز (دُنیا)سے محبت رکھتے ہیں  اور آگے جو بھاری دن آنے والا ہے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔  ۳۱ ہم نے ہی اِن کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں،  اور ہم جب چاہیں  اِن کی شکلوں  کو بدل کر رکھ دیں۔  ۳۲ یہ ایک نصیحت ہے،  اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔  اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں  ہوتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔  ۳۳ یقیناً اللہ بڑا علیم و حکیم ہے،  اپنی رحمت میں  جس کو چاہتا ہے داخل کرتا ہے،  اور ظالموں  کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔  ۳۴  ؏۲

 

تفسیر

 

۲۷: یہاں  مخاطب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ہیں،  لیکن دراصل رُوئے سخن کفار کی طرف ہے۔  کفار مکہ کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یہ قرآن خود سوچ سوچ کر بنا رہے ہیں،  ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرمان آتا تو اکٹھا ایک ہی مرتبہ آ جاتا۔ قرآن مجدل میں  بعض مقامات پر  اُن کا یہ اعتراض نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے،  (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حواشی۱۰۲۔۱۰۴۔۱۰۵۔۱۰۶۔بنی اسرائیل۱۱۹)، اور یہاں  اسے نقل کیے بغیر اللہ تعالیٰ نے پُورے زور کے ساتھ فرمایا ہے کہ اِس  کے نازل کرنے والے ہم ہیں،  یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم اِس کے مصنّف نہیں  ہیں،  اور ہم ہی اس کو بتدریج نازل کر رہے ہیں،  یعنی یہ ہماری حکمت کا تقاضہ ہے کہ اپنا پیغام بیک وقت ایک کتاب کی شکل میں  نازل نہ کر دیں،  بلکہ اسے تھوڑا تھوڑا کر کے بھیجیں۔

۲۸: یعنی تمہارے  رب نے جس کارِ عظیم پر تمہیں  مامور کیا ہے اس کی سختیوں  اور مشکلات پر صبر کرو،  جو  کچھ بھی تم پر گزر جائے اسے پا مردی کے ساتھ برداشت کرتے چلے جاؤ اور پائے ثبات میں  لغزش نہ آنے دو۔

۲۹: یعنی ان میں  سے کسی سے دب کر دینِ حق کی تبلیغ سے باز نہ آؤ، اور کسی بد عملی کی خاطر دین کی اخلاقی تعلیمات میں ،  یا کسی منکرِ حق کی خاطر دین کے عقائد میں  ذرّہ برابر بھی ترمیم و تغیُّر کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ جو کچھ حرام و ناجائز ہے اسے بر ملا حرام و ناجائز کہو، خواہ کوئی بد کار کتنا ہی زور لگائے کہ تم اس کی مذمت میں  ذرا سی نرمی ہی برت لو۔ اور جو عقائد باطل ہیں  انہیں  کھلم کھلا باطل اور جو حق ہیں  انہیں  علانیہ حق کہو، چاہے کہ کفار تمہارا منہ بند کرنے،  یا اس معاملہ میں  کچھ نرمی اختیار کر لینے کے لیے تم پر کتنا ہی دباؤ ڈالیں۔

۳۰: قرآن کا قاعدہ ہے کہ جہاں  بھی کفار کے مقابلہ میں  صبر  ثبات کی تلقین کی گئی ہے وہاں  اُس کے معاً بعد  اللہ کے ذکر اور نماز کا حکم دیا گیا ہے،  جس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دینِ حق  کی راہ میں  دشمنانِ حق کی مزاحمتوں  کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہے وہ اسی چیز سے حاصل ہوتی ہے۔  صبح و شام اللہ کا ذکر کرنے سے مراد ہمیشہ اللہ کو یاد کرنا بھی ہو سکتا ہے، مگر جب اللہ کی یاد کا حکم اوقات کے تعین کے ساتھ دیا جائے تو پھر اس سے مراد نماز ہوتی ہے اس آیت میں  سب سے پہلے فرمایا وَاِذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً۔ بُکرہ عربی زبان میں  صبح کو کہتے ہیں۔  اور اصیل کا لفظ زوال کے وقت سے غروب تک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں  ظہر اور عصر کے اوقات آ جاتے ہیں۔  پھر فرمایا وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہُ۔ رات کا وقت غروب آفتاب کے بعد شروع ہو جاتا ہے،  اس لیے رات کو سجدہ کرنے کے حکم میں  مغرب اور عشاء، دونوں  وقتوں  کی نمازیں  شامل ہو جاتی ہیں۔  اس کے بعد یہ ارشاد کہ رات کے طویل اوقات میں   اس کی تسبیح کرتے رہو، نمازِ تہجّد کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے۔  (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، بنی اسرائیل، حواشی۹۲تا ۹۷۔جلد ششم، المزمل، حاشیہ۲)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے یہی اوقات ابتدا سے اسلام میں  تھے،  البتہ اوقاتِ رکعتوں  کے تعیُّن کے ساتھ پنچ وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم معراج کے موقع پر دیا گیا۔

۳۱: یعنی یہ کفّارِ قریش جس وجہ سے اخلاق اور عقائد کی گمراہیوں  پر مصر ہیں ،  اور جس بنا پر آپ کی دعوتِ  حق کے لیے ان کے کان بہرے ہو گئے  ہیں،  وہ دراصل اِن کی دنیا پرستی اور آخرت سے بے فکری و بے نیازی ہے۔  اس لیے ایک سچّے خدا پرست انسان کا راستہ ان کے راستے سے اتنا الگ ہے کہ دونوں  کے درمیان کسی مصالحت کا سرے سے کوئی سوال پیدا نہیں  ہوتا۔

۳۲: اصل الفاظ ہیں  اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَا لَھُمْ تَبْدَیْلًا۔ اِس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔  ایک یہ کہ ہم جب چاہیں  انہیں  ہلاک کر کے اِنہی کی جنس کے دوسرے لوگ اِن کی جگہ لا سکتے ہیں  جو اپنے کردار میں  اِن سے مختلف ہوں۔  دوسرے یہ کہ ہم جب چاہیں  اِن کی شکلیں  تبدیل کر سکتے ہیں،  یعنی جس طرح ہم کسی کو تندرست اور سلیم الاعضاء بنا سکتے ہیں  اُسی طرح ہم اِس پر بھی قادر ہیں  کہ کسی کو مفلوج کر دیں،  کسی کو لقوہ مار جائے،  اور کوئی کسی بیماری یا حادثے کا شکار ہو کر اپاہج ہو جائے۔  تیسرے یہ کہ ہم جب چاہیں  موت کے بعد اِن کو دوبارہ کسی اور شکل میں  پیدا کر سکتے ہیں۔

۳۳: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد ششم، المُدَّثِّر، حاشیہ۴۱۔(نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۱، صفحہ نمبر۵۷۶)۔

۳۴: ’’اس کی تشریح ہم اِسی سورۃ کے دیباچہ میں  کر چکے ہیں۔ (نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۲، صفحہ نمبر۵۷۷)۔

٭٭٭

 

 

 

۷۷۔سورة المرسلٰت

 

نام

 

پہلی آیت کے لفظ والمُرسَلٰتِ کو اس  سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول     اس سورۃ کا پُورا مضمون یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ  مکہ معظمہ کے ابتدائی دَور میں  نازل ہوئی ہے۔  اس سے پہلے کی دو سُورتیں   سورۂ قیامہ، اور سورہ دہر، اور اس کے بعد کی دو سورتیں،  سورہ نبأ اور سورۂ نازِعات اگر ملا کر پڑھی جائیں  تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی دور کی نازل شدہ سورتیں  ہیں  اور ایک ہی مضمون ہے جس کو اِن میں  مختلف پیرایوں  سے اہل مکہ ذہن نشین کرایا گیا ہے۔ موضوع اور مضمون      اس   کا موضوع قیامت اور آخرت کا اثبات،  اور اُن نتائج سے لوگوں  کو خبر دار کرنا ہے جو اِن حقائق کے انکار اور اقرار سے آخر کار بر آمد ہوں گے۔

پہلی سات آیتوں  میں  ہواؤں  کے انتظام کو اِس حقیقت پر گواہ قرار دیا گیا ہے کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم جس قیامت کے آنے کی خبر دے رہے ہیں  وہ ضرور واقع ہو کر رہے گی۔ ان میں  استدلال یہ ہے کہ جس قادرِ  مطلق نے زمین پر یہ حیرت انگیز انتظام قائم کیا ہے اُس کی قدرت قیامت بر پا کرنے سے عاجز نہیں  ہو سکتی، اور جو صریح حکمت اِس انتظام میں  کار فرما نظر آ رہی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آخرت ضرور ہونی چاہیے،  کیونکہ حکیم کا کوئی فعل عبث اور بے مقصد نہیں  ہو سکتا،  اور آخرت نہ ہو تو اِس کے معنی یہ ہیں  کہ یہ سارا کارخانہ ہستی سراسر فضول ہے۔

اہلِ مکہ بار بار کہتے تھے کہ جس قیامت سے تم ہم کو ڈرا رہے ہو اسے لا کر دکھاؤ تب ہم اسے مانیں  گے۔  آیت ۸ سے ۱۵ تک اُن کے اِس مطالبے کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ کوئی کھیل یا تماشا تو نہیں  ہے کہ جب کوئی مسخر ا اسے دکھانے کا مطالبہ کر ے اسی وقت وہ فوراً دکھا دیا جائے۔  وہ تو تمام نوعِ انسانی، اور س کے تمام افراد کے مقدمے کے فیصلے کا دن ہے۔  اُس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت مقرر کر رکھا ہے۔  اُسی وقت پر وہ آئے گا۔ اور جب آئے گا تو ایسی ہولناک شکل میں  آئے گا کہ آج جو لوگ مذاق کے طور پر اس کا مطالبہ کر رہے ہیں  اس وقت اُن کے حواس باختہ ہو جائیں  گے۔  اُس وقت اُنہی رسولوں  کی شہادت پر ان کے مقدمے کا فیصلہ ہو گا جن کی دی ہوئی خبر کو یہ منکرین آج بڑی بے باکی کے ساتھ جھُٹلا رہے ہیں،  پھر انہیں  خود پتہ چل جائے گا کہ انہوں  نے کس طرح خود اپنے ہاتھوں  اپنی تباہی کا سامان کیا ہے۔

آیت ۱۶ سے ۲۸ تک مسلسل قیامت اور آخرت کے وقوع اور وجوب کے دلائل دیے گئے ہیں۔  ان میں  بتایا گیا ہے کہ انسان کی اپنی تاریخ، اس کی اپنی پیدائش،  اور جس زمین پر  وہ زندگی بسر کر رہا ہے اس کی اپنی ساخت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ قیامت کا آنا اور عالمِ آخرت کا بر پا ہو نا  ممکن بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا بھی۔  انسانی تاریخ بتا رہی ہے کہ جن قوموں  نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ آخر کار بگڑیں  اور تباہی سے دو چار ہوئیں۔  اس کے معنی یہ ہیں  کہ آخرت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی قوم کا رویہ اگر متصادم ہو تو اُس کا انجام وہی ہوتا ہے جو اُس اندھے کا انجام ہوتا ہے جو سامنے آتی ہوئی گاڑی کے مقابلے میں  بگ ٹُٹ چلا رہا ہو۔ اور اس کے معنی یہ بھی ہیں  کہ کائنات کی سلطنت میں  صرف قوانین طبیعی (Physical Law) ہی کار فرما نہیں  ہیں  بلکہ ایک قانونِ اخلاقی (Moral Law) بھی کام کر رہا ہے جس کے تحت خود اس دنیا میں   بھی مُکافاتِ  عمل کا سلسلہ جاری ہے۔  لیکن دنیا کی موجودہ زندگی میں  یہ مُکافات  چونکہ اپنی کامل و مکمل صورت میں  واقع نہیں  ہو رہی ہے اس لیے کائنات کا اخلاقی قانون لازماً یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جب یہ بھر پُور طریقے سے واقع ہو اور اُن تمام بھلائیوں  اور بُرائیوں  کی پُوری جزا وسزا دی جائے جو یہاں  جزا سے محروم رہ گئی ہیں  یا سزا سے بچ نکلی ہیں ۔  اس کے لیے  نا گزیر ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو، اور انسان  کی پیدائش دنیا میں   جس طرح ہوتی ہے اس پر اگر انسان غور کرے تو اس کی عقل۔۔۔۔بشرطیکہ وہ سلیم ہو۔۔۔۔ اس بات کو ماننے سے انکار نہیں  کر سکتی کہ جس خدا نے یک حقیر نطفہ سے ابتداء کر کے اُسے پُورا آدمی بنایا ہے اُس کے لیے اُسی آدمی کو پھر پید کر دینا یقیناً ممکن ہے۔  زندگی بھر انسان جس زمین پر رہتا ہے،  مرنے کے بعد اس کے اجزائے جسم کہیں  غائب نہیں  ہو جاتے،  اسی زمین پر اُن کا ایک ایک ذرہ موجود رہتا ہے۔  اسی زمین کے خزانوں  سے وہ بنتا اور پھلتا اور پھولتا اور پر ورش پاتا ہے،  اور پھر اسی زمین کے خزانوں  میں  واپس جمع ہو جا تا ہے۔  جس خدا نے اُسے پہلے زمین کے ان خزانوں  سے نکالا  تھا وہی اُن میں  جمع ہو جانے کے بعد اُسے پھر اُن سے نکال لا سکتا ہے۔  اُس کی قدرت پر غور کرو تو تم اِس سے انکار نہیں  کر سکتے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔  اور اس کی حکمت پر غور کرو تو تم اس سے بھی انکار نہیں  کر سکتے کہ زمین پر جو اختیارات اُس نے تمہیں  دیے ہیں  اُن کے صحیح اور غلط استعمال کا حساب لینا یقیناً اُس کی حکمت کا تقاضا ہے اور بلا حساب چھوڑ دینا سراسر حکمت کے خلاف ہے۔

اس کے بعد آیات۲۸تا۴۰ تک آخرت کے منکرین کا، اور ۴۱ سے ۴۵ تک اُن لوگوں  کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں  نے اُس پر ایمان لا کر دنیا میں  اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی ہے،  اور عقائد و افکار، اخلاق و اعمال، اور سیرت و کردار کی اُن بُرائیوں  سے اجتناب کیا ہے  جو چاہے  آدمی کی دنیا بناتی ہوں  مگر اس کی عاقبت خراب کر دینے والی ہوں۔

آخر میں  منکرینِ  آخرت اور خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والوں  کو متنبہ کیا گیا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں  جو کچھ مزے اڑانے  ہیں  اڑا لو، آخر کار تمہارا انجام سخت تباہ کن ہو گا۔ اور بات اس پر ختم کی گئی ہے کہ اس قرآن سے بھی جو شخص ہدایت نہ پائے اسے پھر دنیا میں  کوئی چیز ہدایت نہیں  دے سکتی۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

قسم ہے اُن (ہواؤں ) کی جو پے درپے بھیجی جاتی ہیں،  پھر طوفانی رفتار سے چلتی ہیں  اور (بادلوں  کو )اُٹھا کر پھیلاتی ہیں،  پھر ( اُن کو)پھاڑ کر جُدا کرتی ہیں،  پھر (دلوں  میں  خدا کی)یاد ڈالتی ہیں،  عُذر کے طور پر یا ڈراوے کے طور پر، ۱ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۲ وہ ضرور واقع ہونے والی ہے۔  ۳

پھر جب ستارے ماند پڑ جائیں  گے،  ۴ اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا، ۵ اور پہاڑ دھُنَک ڈالے جائیں  گے،  اور رسُولوں  کی حاضری کا وقت آ پہنچے گا ۶ (اس روز وہ چیز واقع ہو جائے گی)۔ کِس روز کے لیے کام اُٹھا رکھا گیا ہے ؟ فیصلے کے روز کے لیے۔  اور تمہیں  کیا خبر کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے ؟ تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  ۷

کیا ہم نے اگلوں  کو ہلاک نہیں  کیا؟ ۸ پھر اُنہی کے پیچھے ہم بعد والوں  کو چلتا کریں  گے۔  ۱۰ مجرموں  کے ساتھ ہم یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔  تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  ۱۱

کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں  پیدا نہیں  کیا اور ایک مقرر مدت تک۱۲ اُسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا؟ تو دیکھو، ہم اِس پر قادر تھے،  پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں ۔  ۱۳ تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  ۱۴

کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں  بنایا، زندوں  کے لیے بھی اور مُردوں  کے لیے بھی، اور اس میں  بلند و بالا پہاڑ جمائے،  اور تمہیں  میٹھا پانی پلایا؟ ۱۵ تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  ۱۶

۱۷ چلو اب اُسی چیز کی طرف جسے تم جھُٹلایا کرتے تھے۔  چلو اُس سائے کی طرف جو تین شاخوں  والا ہے،  ۱۸ نہ ٹھنڈک پہنچانے والا اور نہ آگ کی لَپَٹ سے بچانے والا۔ وہ آگ محل جیسی بڑی بڑی چِنگاریاں  پھینکے گی(جو اُچھلتی ہوئی یُوں  محسُوس ہوں  گی) گویا کہ وہ زرد اُونٹ ہں۔ ۔ ۱۹ تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔

یہ وہ دن ہے جس میں  وہ نہ کچھ بولیں  گے اور نہ اُنہیں  موقع دیا جائے گا کہ کوئی عُذر پیش کریں۔  ۲۰ تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  یہ فیصلے کا دن ہے۔  ہم نے تمہیں  اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں  کو جمع کر دیا ہے۔  اب اگر کوئی چال تم چل سکتے ہو تو میرے مقابلہ میں  چل دیکھو۔ ۲۱ تباہی ہے اُس دن جھُٹلانے والوں  کے لیے۔   ؏۱

 

تفسیر

 

۱: یعنی کبھی تو ان کی آمد کے رُکنے اور قحط کا خطرہ پیدا ہونے ے دل گداز ہوتے ہیں  اور لوگ اللہ سے تو بہ و استغفار کرنے لگتے ہیں۔  کبھی اُن کے باران رحمت لانے پر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔  اور کبھی ان کی طوفانی سختی دلوں  میں  خوف پیدا کرتی ہے اور تباہی کے ڈر سے لوگ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (نیز  ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۳۔صفحہ ۵۷۹)۔

۲: دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا  ہے کہ ’’جس چیز کا تمہیں  خوف دلایا جا رہا ہے ‘‘۔ مراد ہے قیامت اور آخرت۔

۳: یہاں  قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں  کی قسم کھائی  گئی ہے۔  ایک  اَلْمُرْ سَلٰتِ عُرْفًا ’’پے در پے،  یا بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں ‘‘۔ دوسرے۔  العَاصِفَاتِ عَصْفًا۔’’بہت تیزی اور شدّت کے ساتھ چلنے والیاں ‘‘۔ تیسرے،  اَلنَّا شِرَاتِ نَشْرًا۔’’ خوب پھیلانے والیاں ‘‘۔ چوتھے،  اَلفَارِ تَاتِ فَرْقًا۔’’الگ الگ کرنے والیاں ‘‘۔ پانچویں،  اَلْمُلْقِیَاتِ ذِکْرًا۔’’ یاد کا اِتقا کرنے والیاں ‘‘۔ چونکہ اِن الفاظ میں  صرف  صفات بیان کی گئی ہیں،  اور یہ صراحت نہیں  کی گئی ہے کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں  کی صفات ہیں،  اس لیے  مفسرین کے درمیان اس امر میں  اختلاف ہوا ہے کہ آیا یہ پانچوں  صفات ایک  ہی چیز کی ہیں،  یا الگ الگ چیزوں  کی، اور وہ چیز یا چیزیں  کیا ہیں۔   ایک وہ گروہ  کہتا ہے کہ پانچوں  سے مراد ہوائیں  ہیں۔  دوسرا کہتا ہے پانچوں  سے مراد فرشتے ہیں۔  تیسرا کہتا ہے پہلے تین سے مراد ہوائیں  ہیں  اور باقی دوسے مراد فرشتے۔  چوتھا کہتا ہے کہ پہلے دو سے مراد ہوائیں  اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں۔  اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت، دورے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔  ہمارے نزدیک پہلی بات تو قابلِ غور ہے جب ایک ہی سلسلہ کلام میں  پانچ صفات کا مسلسل ذکر کیا گیا ہے اور کوئی علامت بیچ میں  ایسی نہیں  پائی جاتی جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ کہاں  تک ایک چیز کی صفات کا ذکر ہے اور کہاں  سے دوسری چیز کی صفات کا ذکر شروع ہوا ہے،  تو یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ محض کسی بے بنیا د قیاس کی بنا پر ہم یہ سمجھ لیں  کہ یہاں  دو یا تین مختلف چیزوں  کی قسمیں  کھائی گئی ہیں،  بلکہ اس صور ت میں  نظمِ کلام خود اس بات کا  تقاضا کرتا ہے کہ پوری عبارت کو کسی ایک ہی چیز کی صفات سے متعلق مانا جائے۔  دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں  جہاں  بھی شک یا انکار کرنے والوں  کو کسی حقیقتِ غیب محسوس کا یقین دلانے کے لیے کسی چیز،  یا بعض چیزوں  کی قسم کھائی گئی ہے وہاں  قسم د اصل استدلال کی ہم معنی ہوتی ہے،  یعنی اس سے مقصود یہ  بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز یا چیزیں   اس حقیقت کے صحیح و بر حق ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔  اس غرض کے لیے ظاہر ہے کہ ایک غیر مخصوص شے کے حق میں  کسی دوسری  غیر محسوس شے کو بطورِ استدلال پیش کرنا درست نہیں  ہو سکتا، بلکہ غیر محسوس پر محسوس سے دلیل لانا ہی موزوں  اور منا سب ہو سکتا ہے۔  اس لیے ہماری رائے میں  صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس سے مراد ہوائیں  ہیں،  اور ان لوگوں  کی تفسیر قابلِ قبول نہیں  ہیں  جنہوں  نے ان پانچوں  چیزوں  سے مراد فرشتے لیے ہیں،  کیونکہ وہ بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں  جس طرح قیامت کا وقوع غیر محسوس ہے۔             اب غور کیجیے کہ قیامت کے وقوع  پر ہواؤں  کی یہ کیفیات کس طرح دلالت کرتی ہیں۔  زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں  سے ایک نہایت اہم سبب ہوا ہے۔  ہر نوع کی زندگی سے  اس کی صفات کا جو تعلق ہے وہ بجائے خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق اور صانِع حکیم ہے جس نے اس کُرہ خاکی پر زندگی کو وجود میں  لانے کا ارادہ کیا اور اس غرض کے لیے یہاں  ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ  مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔  پھر اس نے صرف اتنا ہی نہیں  کیا ہے کہ زمین کو ہوا کا ایک لبادہ اوڑھا کر  چھوڑ دیا ہو، بلکہ اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں  اس نے بے شمار مختلف کیفیات پیدا کی ہیں  جن کا انتظام لاکھوں  کروڑوں  برس سے اس طرح ہو رہا ہے کہ  انہی کی بدولت موسم پیدا ہوتے ہیں،  کبھی حبس ہوتا ہے اور کبھی بادِ نسیم چلتی ہے،  کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی،  کبھی بادل آتے ہیں  اور کبھی آتے ہوئے اڑ جاتے ہیں،  کبھی نہایت خوشگوار جھونکے چلتے ہیں  اور کبھی انتہائی تباہ کن طوفان آ جاتے ہیں،  کبھی نہایت نفع بخش  بارش ہوتی ہے اور کبھی کال  پڑ جاتا ہے۔  غرض ایک ہوا نہیں  بلکہ طرح طرح کی ہوائیں  ہیں  جو اپنے اپنے وقت پر چلتی  ہیں  اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہیں۔  یہ انتظام ایک غالب قدرت کا ثبوت ہے جس کے لیے نہ زندگی کو وجود میں  خارج از امکان ہو سکتا ہے،  نہ اسے مٹا دینا،  اور نہ مٹا کر دوبارہ وجود میں  لے آنا۔ اسی طرح یہ انتظام کمال درجہ حکمت و دانائی کا ثبوت بھی ہے،  جس سے صرف ایک نادان آدمی ہی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ سارا کاروبار محض کھیل کے طور پر کیا جا رہا ہو اور اس کا کوئی عظیم تر مقصد نہ ہو۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں   انسان اتنا بے بس ہے کہ کبھی  وہ نہ  اپنے لیے مفید طالب ہوا چلا سکتا ہے نہ اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے کو روک سکتا ہے۔  وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی اور بے شعوری اور ضد اور ہٹ دھرمی کلام لے،  کبھی نہ کبھی  یہی ہوا اس کو یاد دلا دیتی ہے کہ اوپر کوئی زبر دست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعہ کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے،  اور انسان اس کے کسی فیصلے کو بھی روک دینے کی طاقت نہیں  رکھتا۔  )مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، الجا ثیہ، حاشیہ، ۷۔حواشی ۱ تا۴)۔

۴: یعنی  بے نور ہو جائیں  گے اور ان کی روشنی ختم ہو جائے گی۔

۵: ُحکَم پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔  ’’آیاتِ محکمات‘‘ سے مراد وہ آیات  ہیں،  جن کی زبان بالکل صاف ہے،  جن کا مفہوم متعین کرنے میں  کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں  ہے،  جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں،  جنہیں  تاویلات کا تختۂ    مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔  یہ آیات ’’کتاب کی اصل بنیاد ہیں ‘‘، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے،  اُس غرض کو یہی آیتیں  پُورا کرتی ہیں۔  اُنہی میں  اسلام کی طرف دُنیا کی دعوت دی گئی ہے،  اُنہی میں  عبرت اور نصیحت کی باتیں  فرمائی گئی ہیں،  اُنہی میں  گمراہیوں  کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔  اُنہی میں  دین کے بُنیادی اُصُول بیان کیے گئے ہیں۔  اُنہی میں  عقائد،  عبادات، اخلاق،  فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔  پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رُجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے،  اس کی پیاس بُجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں  اور فطرةً اُنہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر اُنہی سے فائدہ اُٹھانے میں  مشغول رہے گا۔

۶: قرآن کریم میں  متعدد مقامات پر یہ بات بیان کی گئ ہے کہ میدانِ حشر میں  جب نوعِ انسانی کا مقدمہ پیش ہو گا تو ہر قوم کے رسول کو شہادت کے لیے پیش کیا جائے گا تا کہ وہ اِس امر کی گواہی دے کہ اُ س نے اللہ کا پیغام اُن لوگوں  تک پہنچا دیا تھا۔ یہ گمراہوں  اور مجرموں  کے خلاف اللہ کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی حجّت ہو گی جس سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ وہ اپنی غلط روش کے خود ذمہ دار ہیں  ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خبردار کرنے میں  کوئی کسر اٹھا نہیں  رکھی گئی تھی۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں  : تفہیم القرآن،  جلد دو۔، الاعراف، آیات ۱۷۲، ۱۷۳۔ حواشی ۱۳۵، ۱۳۴۔جلد چہارم، الزُمر، آیت۶۹، حاشیہ ۸۰۔ جلد ششم، الملک، آیت۸، حاشیہ۱۴۔

۷: یعنی کبھی تو ان کی آمد کے رُکنے اور قحط کا خطرہ پیدا ہونے ے دل گداز ہوتے ہیں  اور لوگ اللہ سے تو بہ و استغفار کرنے لگتے ہیں۔  کبھی اُن کے باران رحمت لانے پر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔  اور کبھی ان کی طوفانی سختی دلوں  میں  خوف پیدا کرتی ہے اور تباہی کے ڈر سے لوگ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۳۔صفحہ ۵۷۹)۔

۸: یہ آخرت کے حق میں  تاریخی استدلال ہے۔  مطلب یہ ہے کہ خود اِسی دنیا میں  اپنی تاریخ کو دیکھ لو۔ جن قوموں  نے بھی آخرت کا انکار کر کے اِسی دنیا کو اصل زندگی سمجھا اور اسی دنیا میں  ظاہر ہونے والے نتائج کو خیر و شر کا معیار سمجھ کر اپنا اخلاقی رویّہ متعیّن کیا، بلا استثناء وہ سب آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔  یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جسے نظر انداز کر کے کام کرنے والا اُسی طرح نقصان اٹھاتا ہے جس طرح ہر اُس شخص کو نقصان اٹھا نا پڑتا ہے جو حقائق سے آنکھیں  بند کر کے چلے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ۱۲۔جدل سوم، النمل، حاشیہ ۸۶۔ الرّوم، حاشیہ۸۔جلد چہارم، سبا، حاشیہ۲۵)۔

۱۰: یہاں  فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ دنیا میں  اُن کا جو انجام ہوا ہے یا آئندہ ہو گا وہ  اُن کی اصل سزا نہیں  ہے،  بلکہ اصلی تباہی تو اُن پر فیصلے کے دن نازل ہو گی۔ یہاں  کی پکڑ تو صرف یہ حیثیت رکھتی ہے کہ جب کوئی شخص مسلسل جرائم کرتا چلا جائے اور کسی طرح اپنی بگڑی ہوئی روش سے باز نہ آئے تو آخر کار اسے گرفتار کر لیا جائے۔  عدالت، جہاں  اس کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے اور اسے اس کے تمام کرتوتوں  کی سز ا دی جانی ہے،  اس دنیا میں  قائم نہیں  ہو گی بلکہ آخرت میں  ہو گی، اور وہی اُس کی تباہی کا اصل دن ہو گا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حواشی۵۔۶۔ ہود،  حاشیہ۱، ۵)۔۱۱:  اصل الفاظ ہیں  قَدَرٍمَّعْلُوْمٍ۔ اس کا صرف یہی مطلب نہیں  ہے کہ وہ مدّت مُقَرّر ہے،  بلکہ اس میں  یہ مفہوم بھی شال ے کہ اس کی مُدّت اللہ ہی کو معلوم ہے۔  کسی بچے کے متعلق کسی ذریعہ سے بھی انسان کو یہ معلوم نہیں  ہو سکتا کہ وہ کتنے مہینے،  کتنے دن، کتنے گھنٹے  اور کتنے منٹ اور سکنڈ ماں  کے پیٹ میں  رہے گا، اور اس کا ٹھیک وقت ولادت کیا ہو گا۔ اللہ ہی نے ہر بچے کے لیے ایک خاص مدّت مقرر کی ہے اور وہی اس کو جانتا ہے۔

۱۲: یعنی رحمِ مادر، جس میں  استقرارِ حمل ہوتے ہی بچے کو اتنی مضبوطی کے ساتھ جما دیا جاتا ہے اور اتنے انتظامات اس کی حفاظت اور پرورش کے کیے جاتے ہیں  کہ کسی شدید حادثے کے بغیر اس کا اسقاط نہیں  ہو سکتا، اور مصنوعی اسقاط کے لیے بھی غیر معمولی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں  جو فنِّ طب کی جدید ترقیات کے باوجود خطرے اور نقصان سے خالی نہیں  ہیں۔

۱۳: یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی صریح دلیل ہے۔  اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم ایک حقیر نطفے سے تمہاری ابتدا کر کے تمہیں  پُورا انسان بنانے پر قادر تھے،  تو آخر دوبارہ تمہیں  کسی اور طرح پیدا کر دینے پر کیوں  قادر نہ ہوں  گے ؟ ہماری یہ تخلیق، جس کے نتیجے میں  تم آج زندہ موجود ہو، خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں،  ایسے عاجز نہیں  ہیں  کہ ایک دفعہ پیدا کر کے پھر تمہیں  پیدا نہ کر سکیں۔

۱۴: یہاں  فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ حیات بعدِ موت کے امکان کی یہ صریح دلیل سامنے موجود ہوتے ہوئے بھی جو لوگ اُس کو جھٹلا رہے ہیں،  وہ آج اُس کا جتنا چاہیں  مذاق اڑا لیں،  اور جس قدر چاہیں  اس کے ماننے والوں  کو دقیا نوسی، تاریک خیال اور اوہام پرست قرار د یتے رہیں،  مگر جب وہ دن آ جائے گا جسے یہ جھٹلا رہے ہیں  تو انہیں  خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ ان کے لیے تباہی کا دن ہے۔

۱۵: یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پر ایک اور دلیل ہے۔  یہی ایک کُرہ زمین ہے جو کروڑوں  اور اربوں  سال سے  بت حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں  لیے ہوئے ہے،  ہر قسم کی نبا تات، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں،  اور سب کی ضروریات پُوری کرنے کے لیے اِس کے پیٹ میں  سے طرح طرح کے اَتھاہ خزانے نکلتے چلے آرہے ہیں۔  پھر یہی زمین ہے جس پر اِن تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں،  مگر ایسا بے نظیر انتظام کر دیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں  ٹھکانے لگ جاتے ہیں  اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔  اِس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں  رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں  یہ جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں  جن کا موسموں  کے تغیرات میں،  بارشوں  کے برسنے میں،  دریاؤں  کی پیدائش میں ،  زرخیز وادیوں  کے وجود میں ،  بڑے بڑے شہتیر فراہم کر نے والے درختوں  کے اُگنے میں ،  قسم قسم کے معدنیات اور طرح طرح کے پھتروں  کی فراہمی میں   بہت بڑا دخل ہے۔  پھر اس زمین کے پیٹ میں   میٹھا پانی پیدا کیا گیا  ہے،  اِس کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں  بہا دی گئی ہیں،  اور سمندر کے کھارے پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھرا ہوا پانی آسمان سے بر سانے کا انتظام کیا گیا ہے۔  کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں  ہے کہ ایک قادرِ مطلق نے یہ سب کچھ بنا یا ہے،  اور وہ محض قادر ہی نہیں  ہے بلکہ علیم و حکیم بھی ہے ؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور اِن حکمتوں  کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں  کیوں  مشکل پیش آتی ہے کہ اُسی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے،  اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تا کہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں   کیے ہیں ؟

۱۶: یہاں  یہ فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ جو لوگ خدا کی قدرت اور حکمت کے یہ کرشمے دیکھ کر بھی آخرت کے ممکن اور معقول ہونے کا انکار کر رہے ہیں  اور اس بات کو جھُٹلا رہے ہیں  کہ خدا اِس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا پیدا کرے گا اور اُس میں  انسان سے اُس کے اعمال کا حساب لے گا، وہ اپنی اِس خام خیالی میں  مگن رہنا چاہتا ہیں  تو رہیں۔  جس روز یہ سب کچھ اُن کی توقعات کے خلاف پیش آ جائے گا اس روز اُنہیں  پتہ چل جائے گا کہ انہوں  نے یہ حماقت کر کے خود اپنے لیے تباہی مول لی ہے۔

۱۷: اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد  یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ واقع ہو جائے گی تو وہاں  اِن منکرین کا حشر کیا ہو گا۔

۱۸: ساَئے سے مراد دھوئیں  کا سایہ ہے۔  اور تین شاخوں  کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بہت بڑا دھواں  اٹھتا ہے تو اوپر جا کر وہ کئی شاخوں  میں  تقسیم ہو جاتا ہے۔

۱۹: یعنی ہر چنگاری ایک قَصر جیسی بڑی ہو گی، اور جب یہ بڑی بڑی چنگاریاں  اٹھ کر پھٹیں  گی اور چاروں  طرف اُڑنے لگیں  گی تو یُوں  محسوس ہو گا جیسے زرد رنگ کے اونٹ اُچھل کود  کر رہے ہیں۔

۲۰: یہ اُن کی آخری حالت ہو گی جو جہنم میں  داخلہ کے وقت اُ ن پر طاری ہو گی۔ اُس سے پہلے میدانِ حشر میں  تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں  گے،  بہت سی معذرتیں  پیش کریں  گے،  ایک دوسرے پر اپنے قصوروں  کا الزام ڈال کر خود بے قُصور بننے کی کوشش کریں  گے،  اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں  اور پیشواؤں  کو گالیاں  دیں  گے،  حتیٰ کہ  بعض لوگ پوری ڈھِٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار تک کر گزریں  گے،  جیسا کہ قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔  مگر جب تمام شہادتوں  سے اُن کا مجرم ہونا پُوری طرح ثابت کر دیا جائے گا، اور جب ان کے اپنے ہاتھ پاؤں  اور اُن کے اعضاء تک اُن کے خلاف گواہی دے کر ثبوتِ جرم میں  کوئی کسر نہ چھوڑیں  گے،  اور جب بالکل بجا اور بر حق طریقے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے انہیں  سزا سنادی جائے گی تو وہ دم بخود رہ جائیں  گے اور ان کے لیے اپنی معذرت میں  کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ عذر پیش کرنے کا موقع نہ دینے یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اِس طرح قطعی ناقابلِ انکار حد تک ثابت کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی معذرت میں  کچھ نہ کہہ سکیں  گے۔  یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں  کہ میں  نے اُس کو بولنے نہیں  دیا، میں  نے اس کی زبان بند کر دی، او راس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں  نے اس پر ایسی حجّت تمام کی  کہ اُس کے لیے زبان کھولنے یا کچھ بولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا۔

۲۱ یعنی دنیا میں  تو تم بہت مکّاریاں  اور چالبازیاں  کرتے رہے،  اب یہاں  کوئی چال چل کر میری پکڑ سے بچ سکتے ہو تو ذرا بچ دکھاؤ۔

 

ترجمہ

 

۲۲ متقی لوگ آج سایوں  اور چشموں  میں  ہیں  اور جو پھل وہ چاہیں  ( اُن کے لیے حاضر ہیں )۔ کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں  جو تم کرتے رہے ہو۔ ہم نیک لوگوں  کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔  تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  ۲۳

۲۴ کھالو اور مزے کر لو تھوڑے دن۔ ۲۵ حقیقت میں  تم لوگ مجرم ہو۔ تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ (اللہ کے آگے ) جھُکو تو نہیں  جھُکتے۔  ۲۶ تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں  کے لیے۔  اب اِس (قرآن)کے بعد اورکون سا کلام ایسا ہو سکتا ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟۲۷ ؏۲

 

تفسیر

 

۲۲: چونکہ یہ لفظ یہاں  مُکذِّ بین(جھٹلانے والوں ) کے مقابلہ میں  استعمال ہوا ہے اس لیے متقیوں  سے مراد اس جگہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے آخرت کو جھُٹلانے سے پرہیز کیا اور اُس کو مان کر دنیا میں  یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ ہمیں  آخرت میں  اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق و کردار کی جواب دہی کرنی ہو گی۔

۲۳: یہاں  یہ فقرہ اس معنی میں  ارشاد ہوا ہے کہ اُن کے لیے ایک مصیبت تو وہ ہو گی جو اوپر بیان ہو چکی ہے کہ میدانِ حشر میں  وہ مجرموں  کی حیثیت سے کھڑے ہوں  گے،  علی الاعلان ان کے جرائم اِس طرح ثابت کر دیے جائیں  گے کہ ان کے لے د زبان کھولنے تک کا یارانہ رہے گے،  اور آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہیں  گے۔  دوسری مصیبت بالائے مصیبت یہ ہو گی کہ وہی ایمان لانے والے جن سے اُن کی عمر بھی لڑائی رہی، جنہیں  وہ بیوقوف اور تنگ خیال اور رجعت پسند کرتے رہے،  جن کا وہ مذاق اُڑاتے رہے  اور جنہیں  اپنے نزدیک حقیر و ذلیل سمجھتے رہے،  انہی کو وہ جنت میں  مزے اڑاتے دیکھیں  گے۔

۲۴: اب کلام ختم  کرتے ہوئے نہ صرف کفّار مکّہ کو بلکہ دنیا کے تمام کفّار کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔

۲۵: یعنی دنیا  کی اِس چند روزہ زندگی میں۔

۲۶: اللہ کے آگے جھکنے سے مراد صرف اس کی عبادت کرنا ہی نہیں  ہے،  بلکہ  اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی نازل کر دہ کتاب  کو ماننا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا بھی اس میں  شامل ہے۔

۲۷: یہ اُن کی آخری حالت ہو گی جو جہنم میں  داخلہ کے وقت اُ ن پر طاری ہو گی۔ اُس سے پہلے میدانِ حشر میں  تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں  گے،  بہت سی معذرتیں  پیش کریں  گے،  ایک دوسرے پر اپنے قصوروں  کا الزام ڈال کر خود بے قُصور بننے کی کوشش کریں  گے،  اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں  اور پیشواؤں  کو گالیاں  دیں  گے،  حتیٰ کہ  بعض لوگ پوری ڈھِٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار تک کر گزریں  گے،  جیسا کہ قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔  مگر جب تمام شہادتوں  سے اُن کا مجرم ہونا پُوری طرح ثابت کر دیا جائے گا، اور جب ان کے اپنے ہاتھ پاؤں  اور اُن کے اعضاء تک اُن کے خلاف گواہی دے کر ثبوتِ جرم میں  کوئی کسر نہ چھوڑیں  گے،  اور جب بالکل بجا اور بر حق طریقے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے انہیں  سزا سنادی جائے گی تو وہ دم بخود رہ جائیں  گے اور ان کے لیے اپنی معذرت میں  کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ عذر پیش کرنے کا موقع نہ دینے یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اِس طرح قطعی ناقابلِ انکار حد تک ثابت کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی معذرت میں  کچھ نہ کہہ سکیں  گے۔  یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں  کہ میں  نے اُس کو بولنے نہیں  دیا، میں  نے اس کی زبان بند کر دی، او راس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں  نے اس پر ایسی حجّت تمام کی  کہ اُس کے لیے زبان کھولنے یا کچھ بولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

۷۸۔سورة النبا

 

نام

 

دوسری  آیت  کے فقرے عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ کے لفظ اَلنَّبَا کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے،  اور یہ صرف نام ہی نہیں  ہے بلکہ اس سُورۃ کے مضامین کا عنوان بھی ہے،  کیونکہ نَبا سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے اور سُورۃ میں  ساری بحث اسی پر کی گئی ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

جیسا کہ ہم سُورہ مُرْسَلات کے دیباچے میں  بیان کر چکے ہیں،  سورہ قیامت سے سورہ نازعات تک سب کا مضمون ایک دوسرے سے مشابہ ہے اور یہ سب مکہ معظمہ کے ابتدائی دَور کے نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس کا مضمون  بھی وہی ہے جو سُورہ مُرسَلات کا ہے،  یعنی قیامت اور آخرت کا اِثبات،  اور اُس کو ماننے یا نہ ماننے کے نتاَئج سے لوگوں  کو خبر دار کرنا۔

مکہ معظمہ میں  جب اوّل اوّل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو اس کی بنیاد تین چیزیں  تھیں۔  ایک یہ بات کہ اللہ کے ساتھ کسی  کو خدائی میں  شریک نہ مانا جائے۔  دوسری یہ کہ آپؐ کو اللہ نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔  تیسری یہ کہ اِس دنیا کا ایک روز خاتمہ ہو جائے گا اور اس کے بعد ایک دوسرا عالم بر پا ہو گا جس میں  تمام اوّلین و آخرین دوبارہ زندہ کر کے اُسی جسم کے ساتھ اُٹھائے جائیں  گے جس میں  رہ کر انہوں  نے دنیا میں  کام کیا تھا، پھر ان کے عقائد اور اعمال کا  حساب لیا جائے گا اور اس محاسبہ میں  جو لوگ مومن و صالح ثابت ہوں گے وہ ہمیشہ کے لیے جنت میں  جائیں  گے اور جو کافر و فاسق ہوں  گے وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں  رہیں  گے۔

ان تینوں  باتوں  میں  سے پہلی بات اگرچہ اہلِ مکہ کو سخت نا گوار تھی، لیکن بہر حال وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے،  اُس کے ربِّ اعلیٰ اور خالق و رازق ہونے کو بھی مانتے تھے،  اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ دوسری جن جن ہستیوں  کو وہ معبُود قرار دیتے ہیں  وہ اللہ ہی کی مخلوق ہیں،  اِس لیے جھگڑا صرف اِس امر میں  تھا کہ خدائی کی صفات و اختیارات میں  اور الُو ہیت کی ذات میں  اُن کی کوئی شرکت ہے یا نہیں ۔

دوسری بات کو مکے کے لوگ ماننے کے لیے تیار نہ تھے،  مگر اس امر سے انکار کرنا اُن کے لیے ممکن نہ تھا کہ چالیس سال تک جو زندگی حضورؐ نے دعوائے رسالت سے پہلے اُنہی کے درمیان گزار ی تھی، اس میں  انہوں  نے کبھی آپ کو جھُوٹا یا فریب کار، یا نفسانی اغراض کے لیے ناجائز طریقے اختیار کرنے والا نہ پایا تھا۔ وہ خود آپ کی دانائی و فرزانگی، سلامت روی اور اخلاق کی بلندی کے قائل و معترف تھے۔  اس لیے ہزار بہانے اور الزامات تراشنے کے با وجود اُنہیں  دوسروں  کو باور کرانا تو درکنار اپنی جگہ خود بھی یہ باور کرنے میں  سخت مشکل پیش آ رہی تھی کہ حضورؐ سارے معاملات میں  تو راستباز ہیں  مگر صرف رسالت کے دعوے میں  معاذ اللہ جھُوٹے ہیں۔

اس طرح پہلی دو باتیں  اہلِ مکہ کے لیے  دراصل اُتنی زیادہ اُلجھن کی مُوجب نہ تھیں  جتنی تیسری بات تھی۔ اُس کو جب اُن کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں  نے سب سے زیادہ اُسی کا مذاق اُڑایا، اُسی پر سب سے بڑھ کر حیرانی اور تعجب کا اظہار کیا، اور اُسے بالکل بعید از عقل و امکان سمجھ کر جگہ جگہ اس کے ناقابلِ یقین بلکہ نا قابلِ تصوّر ہونے کے چرچے شروع کر دیے۔  مگر اسلام کی راہ پر  اُن کو لانے کے لیے یہ قطعی ناگزیر تھا کہ آخرت کا  عقیدہ اُن کے ذہن میں  اُتار ا جائے،  کیونکہ اِس عقیدے کو مانے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حق اور باطل کے معاملہ میں  اُن کے طرزِ فکر سنجیدہ ہو سکتا، خیر وشر کے معاملہ میں  اُن کا معیارِ اقدار بدل سکتا، اور وہ دنیا پرستی کی راہ چھوڑ کر اُس راہ پر ایک قدم بھی چل سکتے جس پر اسلام اُن کو چلانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مکّہ معظمہ کے ابتدائی دور کی سُورتوں  میں  زیادہ تر روز آخرت کا  عقیدہ دلوں  میں  بٹھانے پر صرف کیا گیا ہے،  البتہ اس کے لیے دلائل ایسے انداز سے دیے گئے ہیں  جن سے توحید کا تصور بھی  خود بخود ذہن نشین ہو تا چلا جاتا ہے،  اور بیچ بیچ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اور قرآن کے بر حق ہونے کے دلائل بھی مختصراً دے دیے گئے ہیں۔

اِس دور کی سُورتوں  میں  آخرت کے مضمون کی اِس تکرار کا سبب اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد اب اِس سُورۃ کے مضامین پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔  اس میں  سب سے پہلے اُن چرچوں  اور چہ میگوئیوں  کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو قیامت کی خبر سُن کر مکّہ کے ہر کوچہ و بازار اور اہلِ مکہ کی ہر محفل میں  ہو رہی تھیں۔  اس کے بعد انکار کرنے والوں  سے پوچھا گیا ہے کہ کیا تمہیں  یہ زمین نظر نہیں  اتی جسے ہم نے تمہارے لیے فرش بنا رکھا ہے ؟ کیا یہ بلند و بالا پہاڑ تمہیں  نظر نہیں  آتے جنہیں  ہم نے زمین میں  گاڑ رکھا ہے ؟ کیا تم اپنے آپ کو نہیں   دیکھتے کہ کس طرح ہم نے تمہیں  مردوں  اور عورتوں  کے جوڑوں  کی شکل میں  پیدا کیا ہے ؟ کیا تم اپنی نیند کو نہیں  دیکھتے جس کے ذریعہ سے ہم نے تم کو دنیا میں  کام کرنے کے قابل بنائے رکھنے کے لیے ہر چند گھنٹوں  کی محنت کے بعد ہر چند گھنٹے آرام لینے پر مجبور کر رکھا ہے ؟ کیا تم رات اور دن کی آمد ورفت کو نہیں  دیکھتے جسے ٹھیک تمہاری ضرورت کے مطابق ہم باقاعدگی کے ساتھ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں ؟ کیا تم اپنے اوپر آسمانوں  کے مضبوط بندھے ہوئے نظام کو نہیں  دیکھتے ؟ کیا یہ سُورج تمہیں  نظر نہیں  آتا جس کی بدولت تمہیں  روشنی اور حرارت میسر آ رہی ہے ؟ کیا تم اُن بارشوں  کو نہیں  دیکھتے جو بادلوں  سے برس رہی ہیں  اور اُن کے ذریعہ سے غلّے اور سبزیاں  اور گھنے باغ اگ رہے ہیں ؟ یہ ساری چیزیں  کیا  تمہیں  یہی بتا رہی ہیں  کہ جس قادرِ مطلق نے اِن کو پیدا کیا ہے اُس کی قدرت قیامت لانے  اور آخرت بر پا کرنے سے عاجز ہے ؟ اور  اِس پُورے کارخانے میں  جو کمال درجے کی حکمت و دانائی صریحاً کار فرما ہے کیا اس کو دیکھتے ہوئے تمہاری سمجھ میں  یہی آتا  ہے کہ اِس کارخانے کا  ایک ایک جُز اور ایک ایک فعل تو  با مقصد ہے مگر بجائے خود پُورا کارخانے بے مقصد ہے ؟ آخر اس سے زیادہ لغو اور بے معنی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اس کارخانے میں  انسان کو پیش دست(Foreman ) کے منصب پر مامور کر کے اسے یہاں   بڑے وسیع اختیارات تو دے دیے جائیں  مگر جب وہ اپنا کام پورا کر کے یہاں  سے رخصت ہو تو اسے یونہی چھوڑ دیا جائے ؟ نہ کام بنا نے  پر  پنشن اور انعام،  نہ کام بگاڑنے پر باز پُرس  اور سزا؟

یہ دلائل دینے کے بعد پُورے زور کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ فیصلے  کا  دن یقیناً اپنے مقرر وقت پر آ کر رہے گا۔صُور میں  بس ایک پھُونک مارنے کی دیر ہے،  وہ سب کچھ جس کی تمہیں  خبر دی جا رہی ہے سامنے آ جائے گا اور تم آج چاہے مانو یا نہ مانو، اُس وقت جہاں  جہاں  بھی تم مرے پڑے ہو گے وہاں  سے فوج در فوج اپنا حساب دینے کے لیے نکل آؤ گے۔  تمہارا انکار اس  واقعہ کو پیش آنے سے نہیں  روک سکتا۔

اس کے بعد آیت ۲۱ سے ۳۰ تک بتا یا گیا ہے کہ جو لوگ حساب کتاب کی توقع نہیں  رکھتے اور جنہوں  نے ہماری آیات کو جھُٹلا دیا ہے،  ان کا ایک ایک کرتوت گن گن کر ہمارے ہاں  لکھا ہوا ہے،  اور ان کو خبر لینے کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے تیار ہے جہاں  ان کے اعمال کا بھر پور بدلہ انہیں  دے دیا جائے گا۔ پھر آیات ۳۱ سے ۳۲ تک ان لوگوں  کی بہترین جزا بتائی گئی ہے جنہوں  نے اپنے آپ کو ذمہ دار و جواب وہ سمجھ کر دنیا میں  اپنی آخرت درست کرنے کی پہلے ہی فکر کر لی ہے،  اور انہیں  اطمینان دلایا گیا ہے کہ انہیں   ان کی خدمات کا صرف اجر ہی نہیں  دیا جائے گا بلکہ اس سے زیادہ کافی انعام بھی دیا جائے گا۔

آخر میں  خدا کی عدالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہاں  کسی کے  اَڑ کر بیٹھ جانے اور اپنے تنوسلین کو بخشوا کر چھوڑ نے کا کیا سوال، کوئی بلا اجازت زبا ن تک نہ کھول سکے گا، اور اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ملے گی کہ جس کے حق میں  سفارش کا اِذن ہو صرف اس کے لیے سفارش کرے اور سفارشی میں  کوئی بے جا بات نہ کہے۔  نیز سفارش کی اجازت صرف ان لوگوں  کے حق میں  دی جائے گی جو دنیا میں  کلمہ حق کے قائل رہے ہیں  اور محض گناہ گار ہیں۔  خدا کے باغی اور حق کے منکر کسی سفارشی کے مستحق نہ ہوں  گے۔

پھر کلام کو اس تنبیہ پر ختم کیا گیا ہے کہ جس دن کے آنے کی خبر دی جا رہی ہے اس کا آنا بر حق ہے،  اسے دور نہ سمجھو، وہ قریب ہی آئے گا،  اب جس کا جی چاہے اسے مان کر اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔  لیکن اس تنبیہ  کے باوجود جو اس کا انکار کرے گا اس کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آ جائے گا اور پھر وہ پچھتا پچھتا کر کہے گا کہ کاش میں  دنیا میں  پیدا ہی نہ ہوتا اس وقت اس کا یہ احساس اس دنیا کے بارے میں  ہو گا جس پر وہ آج لٹو ہو رہا ہے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

۱ ہر گز نہیں،  ۲ عنقریب اِنہیں  معلوم ہو جائے گا۔ ہاں،  ہر گز نہیں،  عنقریب انہیں  معلوم ہو جائے گا۔ ۳

کیا یہ واقعہ نہیں  ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا، ۴ اور پہاڑوں  کو میخوں  کی طرح گاڑ دیا، ۵ اور تمہیں (مَردوں  اور عورتوں  کے ) جوڑوں  کی شکل میں  پیدا کیا، ۶ اور تمہاری نیند کو باعثِ سکون بنایا، ۷ اور رات کو پردہ پوش  اور دن کو معاش کا وقت بنایا، ۸ اور تمہارے اوپر سات مضبُوط آسمان قائم کیے،  ۹ اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا، ۱۰ اور بادلوں  سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعہ سے غلّہ اور سبزی اور گھنے باغ اُگائیں ؟ ۱۱

بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے،  جس روز صور میں  پھُونک مار دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔  ۱۲ اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا، اور پہاڑ چلائے جائیں  گے یہاں  تک کہ وہ سراب ہو جائیں  گے۔  ۱۳

در حقیقت جہنّم ایک گھات ہے،  ۱۴ سرکشوں  کا ٹھکانا،  جس میں  وہ مُدّتوں  پڑے رہیں  گے۔  ۱۵ اُس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں  گے،  کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں  کا دھوون، ۱۶ (اُن کے کرتُوتوں )کا بھر پُور بدلہ۔ وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور ہماری آیات کو انہوں  نے بالکل جھُٹلا دیا تھا، ۱۷ اور حال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز گِن گِن کر لکھ رکھی تھی۔ ۱۸ اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں  ہر گز اضافہ نہ کریں  گے۔    ؏۱

 

تفسیر

 

۱: بڑی خبر سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے جس کو اَہلِ مکہ آنکھیں  پھاڑ پھاڑ کر سنتے تھے،  پھر ہر محفل میں  اس پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں  ہوتی تھیں۔  پُوچھ گچھ سے مُراد یہی چہ میگوئیاں  ہیں۔  لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو کہتے تھے کہ بھائی، کبھی پہلے بھی تم  نے سُنا ہے کہ مر کے کوئی دوبارہ زندہ ہو گا؟ کیا یہ ماننے کے قابل بات ہے کہ گل سڑکر جو ہڈیاں  ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں  ان میں  نئے سرے سے جان پڑے گی؟ کیا عقل میں  یہ بات سماتی ہے کہ اگلی پچھلی ساری نسلیں  اُٹھ کر ایک جگہ جمع ہوں  گی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ بڑے بڑے جمے ہوئے پہاڑ ہوا میں  روئی  کے گالوں  کی طرح اُڑنے لگیں  گے ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سورج اور تارے سب بُجھ کر رہ جائیں  اور دنیا کا یہ سارا جما جما یا نظام اُلٹ پلٹ ہو جائے ؟ یہ صاحب جو کل تک اچھے خاصے دانا آدمی تھے آج انہیں  یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہمیں  ایسی عجیب اَنہونی خبریں  سُنارہے ہیں ۔  یہ جنّت  اور یہ دوزخ آخر پہلے کہاں  تھیں   جن کا ذکر ہم نے کبھی اِن کی زبان سے نہ سُنا تھا؟ اب یہ ایک دم کہاں  سے نکل آئی ہیں  کہ اِنہوں  نے اُن کو عجیب و غریب نقشے ہمارے سامنے کھینچنے شروع کر دیے ہیں ؟           ھُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ’’وہ اس کے بارے میں  مختلف چہ میگوئیاں  کر رہے ہیں ‘‘، دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کے انجام کے بارے میں  یہ لوگ خود بھی کوئی ایک متفق علیہ عقیدہ نہیں  رکھتے بلکہ’’ ان کے درمیان اس کے متعلق مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ‘‘۔ اُن میں  سے کوئی عیسائیوں  کے خیالات سے متاثر تھا اور زندگی بعدِ موت کو مانتا تھا مگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ دوسری زندگی جسمانی نہیں  بلکہ روحانی ہو گی۔کوئی آخرت کا قطعی مُنکر نہ تھا مگر اسے شک تھا کہ وہ ہو سکتی ہے یا نہیں ،  چنانچہ قرآن مجید ہی میں  اس خیال کے لوگوں  کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اِنْ نّظُنَّ اِلّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ، ’’ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ،  یقین ہم کو نہیں  ہے ‘‘(الجاثیہ آیت۳۱)، اور کوئی بالکل صاف صاف کہتا تھا کہ اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ، ’’جو کچھ بھی ہے بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم ہر گز مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں  گے ‘‘(الانعام۔آیت۲۹)۔ پھر کچھ لوگ ان میں  سے دہریے تھے اور کہتے تھے کہ مَا ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَمَا یھُْلِکْنَا اِلَّا الدَّھْرُ، ’’زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے،  یہیں  ہم مرتے اور جیتے ہیں  اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیز نہیں  جو ہمیں  ہلاک کر تی ہو‘‘(الجاثیہ۔۲۴)۔ اور کچھ دوسرے لوگ دہریے تو نہ تھے مگر دوسری زندگی کو نا ممکن قرار دیتے تھے،  یعنی ان کے نزدیک یہ خدا کی قدرت سے خارج تھا کہ وہ مرے ہوئے انسانوں  کو پھر سے زندہ کر سکے۔  ان کا قول تھا مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ، ’’کون اِن ہڈیوں  کو زندہ کر ے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں ؟‘‘(یٰس۔۷۸)۔ یہ اُن کے مختلف اقوال خود ہی اس بات کا ثبوت تھے کہ ان کے پاس اِس مسئلے میں  کوئی علم نہ تھا، بلکہ وہ محض گمان و قیاس کے تیر تُکّے چلا رہے تھے، ورنہ علم ہوتا تو سب کسی ایک بات کے قائل ہوتے (مزید تشریح  کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد پنجم، الذاریات، حاشیہ۶)۔

۲: یعنی آخرت کے متعلق جو باتیں  یہ لوگ بنا رہے ہیں  سب غلط ہیں ۔  جو کچھ انہوں  سے سمجھ رکھا ہے وہ ہر گز صحیح نہیں  ہے۔

۳: یعنی وہ وقت دُور نہیں  ہے جب وہی چیز حقیقت بن کر اِن کے سامنے آ جائے گی جس کے بارے میں  یہ فضول چہ میگوئیاں  کر رہے ہیں۔  اُس وقت انہیں  پتہ چل جائے گا کہ رسُول نے جو خبر ان کو دی تھی وہی صحیح تھی اور قیاس و گمان سے جو باتیں  یہ بنا رہے تھے ان کی کوئی حقیقت نہ تھی۔

۴: زمین کو انسان کے لیے فرش، یعنی ایک پُرسکون قیام گاہ بنانے میں  قدرت و حکمت کے جو کمالات کار فرما ہیں  ان پر اس سے پہلے تفہیم القرآن متعدد مقامات پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔  مثال کے طور پر مقاماتِ ذیل ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی۷۳۔۷۴۔۸۱۔ جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۲۹۔المؤمن، حواشی۹۰۔۹۱۔ الزُّخْرُف، حاشیہ۷۔الجاثیہ، حاشیہ۷، جلد پنجم، ق، حاشیہ۱۸۔

۵: زمین پر پہاڑ پیدا کرنے کی حکمتوں  کے متعلق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، النحل، حاشیہ۱۲، جلد سوم، النمل، حاشیہ۷۴۔جلد ششم، المُرسلات، حاشیہ۱۵۔

۶: انسان کو مردوں  اور عورتوں  کے جوڑوں  کی شکل میں  پیدا کرنا اپنے اندر جو عظیم حکمتیں  رکھتا ہے ان کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو  تفہیم القرآن، جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۶۹، الروم، حواشی۲۸تا۳۰۔ جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۳۱۔ الشُّوریٰ، حاشیہ۷۷۔ الزُّخْرُف، حاشیہ۱۲۔ جلد ششم، القیامہ، حاشیہ۲۵۔

۷: انسان کو دنیا میں  کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس حکمت کے ساتھ اس کی فطرت میں  نیند کا ایک ایسا داعیہ رکھ دیا ہے جو ہر چند گھنٹوں  کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹے سونے پر مجبُور کر دیتا ہے اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد سوم۔ الروم، حاشیہ۳۳ میں  کر چکے ہیں۔

۸: یعنی رات کو اِس غرض کے لیے تاریک بنا دیا کہ اس میں  تم روشنی سے محفوظ رہ کر زیادہ آسانی کے ساتھ نیند کا سکون حاصل کر سکو، اور دن کو اِس مقصد سے روشن بنا یا کہ اس میں  تم زیادہ سہولت کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کام کر سکو، زمین پر با قاعدگی کے ساتھ مسلسل رات اور دن کا اُلٹ پھیر کرتے رہنے کے لیے بے شمار فوائد میں  سے صرف اِس ایک فائدے کی طرف اشارہ یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بے مقصد،  یا اتفاقاً نہیں  ہو رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی حکمت کام کر رہی ہے جس کا براہ راست تمہارے اپنے مفاد سے گہرا تعلق ہے۔  تمہارے وجود کی ساخت اپنے سکون و راحت کے لیے جس تاریکی کی طالب تھی وہ رات کو،  اور اپنی معیشت کے لیے جس روشنی کی طالب تھی وہ دن کو مہیّا کی گئی ہے۔  تمہاری ضروریات کے عین مطابق یہ انتظام خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ کسی حکیم کی حکمت کے بغیر نہیں  ہوا ہے۔  (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ۶۵۔جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۳۲۔المومن، حاشیہ۸۵۔الزُخْرُف، حاشیہ۴)۔

۹: مضبوط کا لفظ اِس معنی میں  استعمال کیا گیا ہے کہ اُن کی سرحدیں  اتنی مستحکم ہیں  کہ ان میں  ذرہ برابر تغیّر و تبدل نہیں  ہونے پاتا اور ان سرحدوں  کو پار کر کے عالمِ بالا کے بے شمار ستاروں  اور سیاروں  میں  سے کوئی نہ ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے نہ تمہاری زمین پر آ گرتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۳۴۔جلد دو۔، الرعد، حاشیہ۲۔۱۔الحجر، حواشی۱۲، ۸۔جلد سوم، المومنون، حاشیہ۱۵۔جلد چہارم، لقمان، حاشیہ۱۳۔یٰس، حاشیہ۳۷۔الصّافّات، حواشی۵۔۶۔المومن، حاشیہ۹۰۔جلد پنجم، ق، حواشی۷۔۸)۔

۱۰: مُراد ہے سورج۔ اصل میں  لفظ وَھَّاج استعمال ہوا ہے جس کے معنی نہایت گرم کے بھی ہیں  اور نہایت روشن کے بھی، اس لیے ترجمہ میں  ہم نے دونوں  معنی درج کر دیے ہیں۔  اس مختصر سے فقرے میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے جس عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُس کا قُطر زمین کے قُطر سے ۱۰۹ گنا اور اس کا حجم زمین کے حجم سے ۳لاکھ۳۳ ہزار گنا زیادہ بڑا ہے۔  س کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔  زمین سے ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل دُور ہونے کے باوجود اُس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرتے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے،  اور اس کی گرمی کا حال یہ ہے کہ زمین کے بعض حصوں  میں  اس کی تپش  کی وجہ سے درجہ حرارت ۱۴۰ ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔  یہ اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اُس سے ٹھیک ایسے فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اُس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بے انتہا گرم ہے اور نہ بہت دُور ہونے کے باعث بے انتہا سرد، اسی وجہ سے یہاں  انسان، حیوان اور نباتات کی زندگی ممکن ہوئی ہے۔  اُسی سے قوّت کے بے حساب خزانے نکل کر زمین پر پہنچ رہے ہیں  جو ہمارے لیے سببِ حیات بنے ہوئے ہیں۔  اُسی سے ہماری فصلیں  پک رہی ہیں  اور ہر مخلوق کو غذا بہم پہنچ رہی ہے۔  اُسی کی حرارت سمندروں  کے پانی کو گرم کر کے وہ بھاپیں  اُٹھاتی ہے جو ہواؤں  کے ذریعہ سے  زمین کے مختلف حصوں  پر پھیلتی اور بارش کی شکل میں  برستی ہیں۔  اس سُورج میں  اللہ نے ایسی زبردست بھٹی سُلگا رکھی ہے جو اربوں  سال سے روشنی،  حرارت اور مختلف اقسام کی شعاعیں  سارے نظامِ شمسی میں  پھینکے چل رہی ہے۔

۱۱:  زمین پر بارش کے انتظام اور نباتات کی روئیدگی میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کے جو جو حیرت انگیز کمالات کار فرما ہیں  ان پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کے حسبِ ذیل مقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ : جلد دوم، النحل، حاشیہ۵۳الف۔جلد سوم، المومنون، حاشیہ۱۱۷۔الشعراء، حاشیہ۵۔الروم، حاشیہ۳۵۔جلد چہارم، فاطر، حاشیہ۱۹۔یٰس، حاشیہ۲۹۔ المومن، حاشیہ۲۰۔الزُّخرف، حواشی۱۰۔ ۱۱۔جلد پنجم، الواقعہ، حواشی۲۸تا۳۰۔           اِن آیات میں  پے درپے بہت آثار و شواہد کو پیش کر کے قیامت اور آخرت کے منکرین کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم آنکھیں  کھول کر زمین اور پہاڑوں  اور خود اپنی پیدائش اور اپنی نیند اور بیداری اور روز و شب کے اِس انتظام کو دیکھو، کائنات کے بندھے ہوئے نظام اور آسمان کے چمکتے ہوئے سورج کو دیکھو، بادلوں  سے برسنے والی بارش اور اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھو، تو تمہیں  دو باتیں  ان میں  نمایاں  نظر آئے گی۔ ایک یہ کہ یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت کے بغیر نہ وجود میں  آ سکتا ہے،  نہ اِس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔  دوسرے یہ کہ ان میں  سے ہر چیز کے اندر ایک عظیم حکمت کام کر رہی ہے اور کوئی کام بھی بے مقصد نہیں  ہو رہا ہے۔  اب یہ بات صرف ایک نادان ہی کہہ سکتا  ہے کہ جو قدرت اِن ساری چیزوں  کو وجود میں  لانے پر قادر ہے وہ انہیں  فنا کر دینے اور دوبارہ اور کسی صورت میں  پیدا کر دینے پر قادر نہیں  ہے۔  اور یہ بات بھی صرف ایک بے عقل  ہی کہہ سکتا ہے کہ جس حکیم نے اس کائنات میں  کوئی کام بھی بے مقصد نہیں  کیا ہے اس نے اپنی دنیا میں  انسان کو سمجھ بوجھ،  خیر و شر کی تمیز، طاعت و عصیان کی آزادی، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرّف کے اختیارات بے مقصد ہی دے ڈالے ہیں،  انسان اُس کی دی ہوئی اِن چیزوں  کو اچھی طرح استعمال کر ے  یا بری طرح،  دونوں صورتوں  میں  اس کا کوئی تمیز نہیں  نکلتا،  کوئی بھلائیاں  کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی میں  مل کر ختم ہو جائے گا اور بُرائیاں  کرتے  کرتے مر جائے تو بھی مٹی ہی میں  مل کر ختم ہو جائے گا، نہ بھلے کوا س کی بھلائی کا کوئی اجر ملے گا، نہ بُرے سے اس کی بُرائی پر کوئی باز پرس ہو گی۔ زندگی بعد موت اور قیامت و آخرت پر یہی دلائل ہیں  جو جگہ جگہ قرآن مجید میں  بیان کیے گئے ہیں۔  مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں  :تفہیم القرآن، جلد دوم، الرعد، حاشیہ۷۔جلد سوم۔الحج، حاشیہ۹۔ الروم، حاشیہ۶۔جلد چہارم، سبا،  حواشی۱۰و۱۲۔ الصّافات، حواشی۸۔۹۔

۱۲: اس سے مراد وہ آخری نفخِ صور ہے جس کا آوازہ بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان یکا یک جی اٹھیں  گے،  اور تم سے مراد صرف وہی لوگ نہیں  ہیں  جو اس وقت مخاطب تھے،  بلکہ وہ تمام انسان ہیں  جو آغاز  آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہیں (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہم القرآن، جلد دوم، ابراہیم، حاشیہ ۵۷۔جلد سوم، الحج، حاشیہ ۱۔ جلد چہارم، یٰس،  حواشی۴۶۔۴۷۔الزمر، حاشیہ۷۹)۔

۱۳: اس مقام پر یہ بات ذہن میں  رہنی چاہیے کہ یہاں  بھی قرآن کے دوسرے بہت سی مقامات کی طرح قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔  پہلی آیت میں  اس کیفیت کا ذکر ہے جو آخری نفخِ صور کے وقت پیش آئے گی،  اور بعد کی دو آیتوں  میں  وہ حالت بیان کی گئی ہے جو دوسرے نفخِ صور کے موقع پر رونما ہو گی۔ اس کی وضاحت ہم تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیر سورہ الحاقہ، حاشیہ۱۰۔میں  کر چکے ہیں۔  ’’آسمان کھول دیا جائے گا‘‘سے مراد یہ ہے کہ  عالمِ بالا میں  کوئی بندش اور رکاوٹ باقی نہ رہے گی  اور ہر طرف سے  ہر آفتِ سمادی اس طرح ٹوٹی پڑے ہو گی کہ معلوم ہو گا گویا اس کے آنے کے لیے سارے دروازے کھلے ہیں  اور اس کو روکنے کے لیے کوئی دروازہ بھی بند نہیں  رہا ہے۔  پہاڑوں  کے چلنے اور سراب بن کر رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اڑیں  گے اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر اس طرح پھیل جائیں  گے کہ جہاں  پہلے کبھی پہاڑ تھے وہاں  ریت کے وسیع میدانوں  کے سوا اور کچھ نہ ہو گا۔  اسی کیفیت کو سورہ طٰہٰ میں  یوں  بیان کیا گیا ہے :’’یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے ؟ اس سے کہو میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار  چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ تک نہ دیکھو گے ‘‘(آیت ۱۰۵تا۱۰۷ مع حاشیہ۸۳ )۔

۱۴: گھات اس جگہ کو کہتے ہیں  جو شکار پھانسنے کے لیے بنائی جاتی ہے تا کہ وہ بے خبری کی حالت میں  آئے اور اچانک اس میں  پھنس جائے۔  جہنم کے لیے یہ لفظ اس لیے استعمال کی گیا ہے کہ خدا کے باغی اس سے بے خوف ہو کر دنیا میں  یہ سمجھتے ہوئے اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں  کہ خدا کی خدائی ان کے لیے ایک کھلی  آماجگاہ ہے،  اور یہاں  کسی پکڑ کا خطرہ نہیں  ہے،  لیکن جہنم ان کے لیے ایک چھپی ہوئی گھات ہے جس میں  وہ یکایک پھنسیں  گے اور بس پھنس کر ہی  رہ جائیں  گے۔

۱۵: ’’اصل میں  لفظ احقاب استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں  پے در پے آنے والے طویل زمانے،  ایسے مسلسل ادوار کے ایک دور ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہو جائے۔  اس لفظ سے بعض لوگوں  نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ  جنت کی زندگی میں  تو ہمیشگی ہو گی مگر جہنم میں  ہمیشگی نہیں  ہو گی کیونکہ یہ مدتیں  خواہ کتنی ہی طویل ہوں،  بہر حال جب مدتوں  کا استعمال کیا گیا ہے تو اس سے یہی مقصود ہو تا ہے کہ  وہ لا متناہی نہ ہوں  گی بلکہ کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہو جائیں  گی۔ لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔  ایک یہ کہ عربی  لغت کے لحاظ سے  حقب کے لفظ ہی میں  یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو،  اس لیے ا حقاب لازما ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے در پے ایک دوسرے کے بعد آتے  چلے جائیں  گے اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے۔  دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت میں  سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولا غلط ہے جو اسی موضوع  کے بارے میں  قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہوتا ہو۔ قرآن میں  ۳۴ مقامات پر  اہل جہنم کے لیے خلود(ہمیشگی )کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،  تین جگہ صرف لفظ خُلُوْد ہی پر اکتفا نہیں  کیا گیا ہے بلکہ اس پر  ابداً(ہمیشہ ہمیشہ)کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے،  اور ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ ’’وہ چاہیں  گے کہ جہنم سے نکل جائیں،  مگر وہ اس سے ہر گز نکلنے والے نہیں  ہیں  اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے ‘‘ (المائدہ، آیت۳۷)۔ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ ’’اسی حالت میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہے الّا یہ کہ تیرا رب کچھ نہ چاہے ‘‘۔اور یہی بات اہلِ  جنت کے متعلق بھی فرمائی گئی ہے کہ ’’جنت میں  وہ ہمیشہ رہں ا گے جب تک زمین و آسمان قائم  ہیں   اِلّا یہ کہ  تیرا رب کچھ نہ چاہے ‘‘۔(ہود، آیات۱۰۷۔۱۰۸)۔ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی آخر کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں  خدا کے باغیوں  کا قیام دائمی نہیں  ہو گا بلکہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گا؟

۱۶: اصل میں  لفظ غَسّاق استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق پیپ، لہو، کچ لہو، اور آنکھوں  اور کھالوں  سے پینے والی اُن تمام رطوبتوں  پر ہوتا ہے جو شدید تعذیب کی وجہ سے بہ نکلتی ہوں۔  اس کے علاوہ یہ لفظ ایسی چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس میں  سخت تعفُّن اور سڑا ند ہو۔

۱۷: یہ ہے وہ سبب جس کی بنا پر وہ جہنم کے اس خوفناک عذاب کے مستحق ہوں  گے۔  ایک یہ کہ دنیا میں  وہ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے کہ کبھی وہ وقت آنا ہے جب انہیں  خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے اُن کی ہدایت کے لیے جو آیات بھیجی تھیں  انہیں  ماننے سے انہوں  نے قطعی انکار کر دیا اور ان کو جھوٹ قرار دیا۔

۱۸: یعنی اُن کے اقوال و افعال، ان کی حرکات و سکنات، حتیٰ کہ ان کی نیتوں  اور خیالات اور مقاصد تک کا مکمل ریکارڈ ہم تیار کرتے جا رہے تھے جس سے کوئی چیز چھوٹی ہوئی نہ تھی، اور وہ بے وقوف اِس سے بے خبر اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ کسی اندھیر نگری میں  جی رہے ہیں  جہاں  وہ اپنی مرضی اور خواہش سے جو کچھ چاہیں  کرتے رہیں ،  اُس کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں  ہے۔

 

ترجمہ

 

یقیناً متّقیوں  ۱۹ کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے،  باغ اور انگور، اور نوخیز ہم سن لڑکیاں،  ۲۰ اور چھلکتے ہوئے جام۔ وہاں  کوئی لغو اور جھُوٹی بات وہ نہ سُنیں  گے۔  ۲۱ جزا ء اور کافی انعام ۲۲ تمہارے ربّ کی طرف سے،  اُس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں  کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں۔ ۲۳

جس روز رُوح ۲۴ اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں  گے،  کوئی نہ بولے گا سوائے اُس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔  ۲۵ وہ دن بر حق ہے،  اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کر لے۔

ہم نے تم لوگوں  کو اُس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آ لگا ہے۔  ۲۶ جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں  نے آگے بھیجا ہے،  اور کافر پکار اُٹھے گا کہ کاش میں  خاک ہوتا۔ ۲۷ ؏۲

 

تفسیر

 

۱۹: یہاں  متقیوں  کا لفظ اُن لوگوں  کے مقابلے میں  استعمال کیا گیا ہے جو کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور جنہوں  نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ اس لیے لا محالہ اس لفظ سے مراد وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اللہ کی آیات کو مانا اور دنیا میں  یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ اُنہیں  اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

۲۰: اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں  ہم سن ہوں  گی، اور یہ بھی کہ وہ اُن لوگوں  کی ہم سن ہوں  گی جن کی زوجیت میں  وہ دی جائیں  گی۔ سُورہ ص، آیت ۵۲، اور سورہ واقعہ آیت۳۷ میں  بھی یہ مضمون گزر چکا ہے۔

۲۱: قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر اس بات کو جنت کی بڑی نعمتوں  میں  شمار کیا گیا ہے کہ آدمی کے کان وہاں  بیہودہ اور جھوٹی اور گندی باتیں  سننے سے محفوظ رہیں  گے۔  وہاں  کوئی یا وہ گوئی اور فضول گپ بازی نہ ہو گی، کوئی کسی سے نہ جھوٹ بولے گا نہ کسی کو جھٹلائے گا، دنیا میں  گالم گلوچ،  بہتان، اِفترا، تُہمت اور الزام تراشیوں  کا جو طوفان برپا ہے،  اس کا کوئی نام و نشان وہاں  نہ ہو گا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، مریم حاشیہ۳۸۔جلد پنجم، الواقعہ، حواشی۱۳۔۱۴)۔

۲۲: جزا کے بعد کافی انعام دینے کا ذکر یہ معنی رکھتا ہے کہ اُن کو صرف وہی جزا نہیں  دی جائے گی جس کے وہ اپنے نیک اعمال کی بنا پر مستحق ہوں  گے،  بلکہ اس پر مزید انعام اور کافی انعام بھی انہیں  دیا جائے گا۔ اس کے بر عکس اہلِ جہنم کے بارے میں  صرف اتنا فرمایا گیا ہے کہ انہیں  ان کے کرتوتوں  کا بھر پور بدلہ دے دیا جائے گا، یعنی نہ ان کے جرائم سے کم سزا دی جائے گی، نہ اس سے زیادہ۔ یہ بات قرآن مجید میں  بہت سے مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔  مثلاً یونس، آیات۲۶۔۲۷۔ النمل، آیات۸۹۔۹۰۔ القصص، آیت۸۴۔ سبا، آیات۳۳ تا۳۸۔المومن، آیت۴۰۔

۲۳: یعنی میدانِ حشر میں  دربارِ الٰہی کے رُعب کا یہ عالم ہو گا کہ اہلِ زمین ہوں  یا اہلِ آسمان، کسی کی بھی یہ مجال نہ ہو گی کہ از خود اللہ تعالیٰ کے حضور زبان کھول سکے،  یا عدالت کے کام میں  مداخلت کر سکے۔

۲۴: اہلِ تفسیر کی اکثریت کا خیال یہی ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں  اور ان کا جو بلند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں  ہے اس کی وجہ سے ملائکہ سے الگ ان کا ذکر کیا گیا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المعارج، حاشیہ۳)۔

۲۵: بولنے سے مراد شفاعت ہے،  اور فرمایا گیا ہے کہ وہ صرف دو شرطوں  کے ساتھ ممکن ہو گی۔ ایک شرط یہ کہ جس شخص کو جس گنہگار کے حق میں  شفاعت کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی صرف وہی شخص اُسی کے حق میں  شفاعت کر سکے گا۔ دوسری شرط یہ کہ شفاعت  کرنے والا بجا اور درست کہے،  بے جا نوعیت کی سفارش نہ کرے،  اور جس کے معاملہ میں  وہ سفارش کر رہا ہو وہ دنیا میں  کم از کم کلمہ حق کا قائل رہا ہو، یعنی محض گناہ کار ہو، کافر نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  البقرہ، حاشیہ۲۸۱۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ۵۔ہود، حاشیہ۱۰۶۔جلد سوم، مریم، حاشیہ۵۲۔طٰہٰ، حواشی۸۵۔۸۶۔الانبیاء، حاشیہ۲۷۔ جلد چہارم، سبا، حواشی۴۰۔۴۱۔ المومن، حاشیہ۳۲۔الزّخرف، حاشیہ۶۸۔جلد پنجم، النجم، حاشیہ۲۱۔جلد ششم، المدّثّر، حاشیہ۳۶)۔

۲۶: بظاہر ایک آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ جن لوگوں  کو خطاب کر  کے یہ بات کہی گئی تھی ان کو مرے ہوئے اب ۱۴ سو سال گزر چکے ہیں،  اور اب بھی یہ نہیں  کہا جا سکتا کہ قیامت آئندہ کتنے سو، یا کتنے ہزار،  یا کتنے لاکھ برس بعد آئے گی۔ پھر یہ بات کس معنی میں  کہی ی ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے و ہ قریب آ لگا ہے ؟ اور سورہ کے آغاز میں  یہ کیسے کہا گیا ہے کہ عنقریب انہیں  معلوم ہو جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو وقت کا احساس صرف اُسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اِس دنیا میں  زمان و مکان کی حدود کے اندر جسمانی طور پر زندگی بسر کر رہا ہے۔  مرنے کے بعد جب صرف روح باقی رہ جائے گی، وقت کا احساس و شُعور باقی نہ رہے گا، اور قیامت کے روز جب انسان دوبارہ زندہ ہو کر اٹھے گا اس وقت اسے یوں  محسوس ہو گا کہ ابھی سوتے سوتے اسے کسی نے جگا دیا ہے۔  اس کو یہ احساس بالکل نہیں  ہو گا کہ وہ ہزار ہا سال کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حاشیہ۲۶۔بنی اسرائیل، حاشیہ۵۶۔جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ۸۰۔جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۴۸)۔

۲۷: یعنی دنیا میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا، یا مر کر مٹی میں مل جاتا اور دو بارہ زندہ ہو کر اٹھنے کی نوبت نہ آتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۷۹۔سورة النٰزعٰت

 

نام

 

پہلے ہی لفظ  وَ النّٰزِعٰتِ   سے ماخوذ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ  یہ سُورہ نبا،  ( عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ ) کے بعد نازل ہوئی ہے۔  اس کا مضمون بھی یہ بتا رہا ہے کہ یہ ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں  میں  سے ہے۔

 

موضوع اور مضمون

 

اس کا موضوع قیامت اور زندگی بعد موت کا اثبات ہے اور ساتھ ساتھ اس بات پر تنبیہ بھی  کہ خدا کے رسول کو جھُٹلانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

آغازِ کلام میں  موت کے وقت جان نکالنے والے،  اور اللہ کے احکام کو بلا تا خیر بجا لانے والے،  اور حکمِ الٰہی کے مطابق ساری کائنات کا انتظام کرنے والے فرشتوں  کی قسم کھا کر یہ یقین دلایا گیا ہے کہ قیامت ضرور واقع ہو گی اور موت کے بعد دوسری زندگی ضرور پیش آ کر رہے گی۔ کیونکہ جن فرشتوں  کے ہاتھوں  آج جان نکالی جاتی ہے،  اُنہی کے ہاتھوں  دوبارہ جان ڈالی بھی جا سکتی ہے،  اور جو فرشتے آج اللہ کے حکم کی تعمیل بلا تاخیر بجا لاتے اور کائنات کا انتظام چلاتے ہیں،  وہی فرشتے کل اُسی خدا کے حکم سے کائنات کا یہ نظام درہم برہم بھی کر سکتے ہیں  اور ایک دوسرا نظام قائم بھی کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد لوگوں  کو یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ کام،  جسے تم بالکل نا ممکن سمجھتے ہو ،  اللہ تعالیٰ کے لیے سرے سے  کوئی دشوار کام ہی نہیں  ہے جس کے لیے کسی بڑی تیاری کی ضرورت ہو۔ بس ایک جھٹکا دنیا کے اِس نظام کو درہم بر ہم کر دے گا،  اور ایک دوسرا جھٹکا اِس کے لے ب بالکل کافی ہو گا کہ دوسری دنیا میں  یکایک تم اپنے آپ کو زندہ موجود پاؤ۔ اُس وقت وہی لوگ جو اس کا انکار کر رہے تھے،  خوف سے کانپ رہے ہوں  گے اور سہمی ہوئی نگاہوں  سے وہ سب کچھ ہوتے دیکھ رہے ہوں گے جس کو وہ اپنے نزدیک نا ممکن سمجھتے تھے۔

پھر حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصّہ مختصراً بیان کر کے لوگوں  کو خبر دار کیا گیا ہے کہ رسول کو جھٹلانے اور اس کی ہدایت و رہنمائی کو رد کرنے اور چالبازیوں  سے اس کو شکست دینے کی کوشش کا کیا انجام فرعون دیکھ چکا ہے۔  اُس سے عبرت حاصل کر کے اِس روش سے باز نہ آؤ گے تو وہی انجام تمہیں  بھی دیکھنا پڑے گا۔

اس کے بعد آیت ۲۷ سے ۲۳ تک آخرت اور حیات بعد الموت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں۔  اس سلسلے میں  پہلے منکرین سے پوچھا گیا ہے کہ تمہیں  دوبارہ پیدا کر دینا زیادہ سخت کام ہے یا اِس عظیم کائنات کو پیدا کر نا جو عالمِ بالا میں  اپنے بے حدو حساب ستاروں  اور سیاروں  کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے ؟ جس خدا کے لیے یہ کام مشکل نہ تھا اس کے لیے تمہاری بارِ د گر تخلیق آخر کیوں   مشکل ہو گی؟ صرف ایک فقرے میں  امکانِ آخرت کی یہ مُیکت دلیل پیش کرنے کے بعد زمین  اور اُس سرو سامان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو زمین میں  انسان  اور حیوان کی زیست کے لیے فراہم کیا گیا ہے اور جس کی ہر چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ وہ بڑی حکمت کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کو پُورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔  یہ اشارہ کر کے اس سوال کو انسان کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جگہ سوچ کر رائے قائم کر دے کہ آیا اس حکیمانہ نظام میں  انسان جیسی مخلوق کو اختیارات اور ذمہ داریاں  سونپ کر اُس کا محاسبہ کرنا زیادہ مقتضائے حکمت نظر آتا ہے،  یا یہ کہ وہ زمین میں  ہر طرح کے کام کر کے مر جائے اور خاک میں  مل کر  ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے اور کبھی اُس سے حساب نہ لیا جائے کہ اِن اختیارات کو اس نے کیسے استعمال کیا اور اِن ذمہ داریوں  کو  کس طرح ادا کیا؟ اس سوال  پر بحث کرنے کے بجائے آیات۳۴۔۴۱ میں  یہ بتایا گیا ہے کہ جب آخرت بر پا ہو گی تو انسان کے  دائمی اور ابدی مستقبل کا فیصلہ اِس بنیاد پر ہو گا کہ کس نے دنیا میں  حدِّ بندگی سے تجاوز کر کے اپنے خدا سے سر کشی کی  اور دنیا ہی کے فائدوں  اور لذّتوں  کو مقصود بنا لیا، اور کس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے سے احتراز کیا۔ یہ بات خود بخود اوپر کے سوال کا صحیح جوب ہر اُس شخص کو بتا دیتی ہے جو ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر ایمانداری کے ساتھ اُس پر غور کرے۔  کیونکہ انسان کو دنیا میں  اختیارات اور ذمّہ داریاں  سونپنے کا بالکل عقلی، منطقی اور اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ اِسی بنیاد پر آخر کار اُس کا محاسبہ کیا جائے اور اسے جزا یا سزا دی جائے۔

آخر میں  کفّارِ مکہ کے اِس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ قیامت آئے گی کب؟ یہ سوال وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے بار بار کرتے تھے۔  جواب میں  فرمایا گیا ہے کہ اُس وقت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں  ہے۔  رسول کا کام صرف خبر دار کر دینا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور۔۔ اب جس کا جی چاہے اس کے آنے کا خوف کر کے  اپنا رویّہ درست کر لے،  اور جس کا جی چاہے بے خوف ہو کر شتر بے مہار کی  طرح چلتا رہے۔  جب وہ وقت  آ جائے گا تو وہی لوگ جو اس دنیا کی زندگی  پر مرے مٹتے تھے اور اسی کو سب کچھ سمجھتے تھے،  یہ محسوس کریں  گے کہ دنیا میں  وہ صرف گھڑی بھر ٹھیر ے تھے۔  اُس وقت انہیں  معلوم ہو گا کہ اس چند روزہ زندگی کی خاطر انہوں  نے کس طرح ہمیشہ کے لیے اپنا مستقبل بر باد کر لیا۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

قسم ہے اُن (فرشتوں )کی جو ڈُوب کر کھینچتے ہیں،  اور آہستگی سے نکال لے جاتے ہیں،  اور ( اُن فرشتوں  کی جو کائنات میں)تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں،  پھر (حکم بجا لانے میں)سبقت کرتے ہیں،  پھر (احکامِ الٰہی کے مطابق)معاملات کا انتظام چلاتے ہیں۔  ۱ جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا، ۲ کچھ دل ہوں  گے جو اُس روز خوف سے کانپ رہے ہوں  گے،  ۳ نگاہیں  اُن کی سہمی ہوئی ہوں  گی۔

یہ لوگ کہتے ہیں ’’ کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں  گے ؟ کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں  بن چکے ہوں  گے ؟‘‘ کہنے لگے ’’ یہ واپسی تو پھر بڑے گھاٹے کی ہو گی!‘‘ ۴ حالانکہ یہ بس اِتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی اور یکایک یہ کھُلے میدان میں  موجود ہوں  گے۔  ۵

۶ کیا تمہیں  مُوسیٰؑ کے قصّے کی خبر پہنچی ہے ؟ جب اس کے ربّ نے اُسے طُویٰ کی مقدّس وادی ۷ میں  پُکارا تھا کہ’’ فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے،  اور اس سے کہہ کیا تُو اِس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں  تیرے ربّ کی طرف تیری رہنمائی کروں  تو (اُس کا )خوف تیرے اندر پیدا ہو؟‘‘ ۸ پھر موسیٰؑ نے (فرعون کے پاس جا کر)اُس کی بڑی نشانی دکھائی، ۹ مگر اُس نے جھُٹلا دیا اور  نہ مانا، پھر چالبازیاں  کرنے کے لیے پلٹا ۱۰ اور لوگوں  کو جمع کر کے اُس نے پکار کر کہا’’ میں  تمہارا سب سے بڑا ربّ ہوں ‘‘ ۱۱ آخرِ کار اللہ نے اُسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں  پکڑ لیا۔ در حقیقت اِس میں  بڑی عبرت ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔   ۱۲ ؏۱

 

تفسیر

 

۱: یہاں  پانچ اَوصاف رکھنے والی ہستیوں  کا قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں  کی گئی۔  لیکن بعد کا مضمون اِس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے۔  اِس کی وضاحت بھی نہیں  کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں  کے ہیں،  لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، مسرق، سعید بن جُبَیر، ابو صالح، ابو الضُّحیٰ اور سُدِّی کہتے ہیں  کہ ڈوب کر کھینچنے والوں  اور آہستگی سے نکال لے جانے والوں  سے مُراد وہ فرشتے ہیں  جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرائیوں  تک اُتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔  تیزی سے تیرتے  پھرنے والوں  سے مراد بھی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، مجاہد، سعید بن جُبَیر اور ابو صالح نے فرشتے ہی لیے ہیں  جو احکامِ الٰہی کی تعمیل میں  اِس طرح تیزی سے رواں  دواں  رہتے ہیں  جیسے کہ وہ فضا میں  تیر رہے ہوں۔  یہی مفہوم’’ سبقت کرنے والوں ‘‘کا حضرت علی، مجاہد، مسروق،  ابو صالح اور حسن بصری نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی اُن میں  سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ ’’معاملات کا انتظام چلانے والوں ‘‘ سے مراد بھی فرشتے ہیں،  جیسا کہ حضرت علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قَتادَہ، ربیع بن انس، اور سُدِّی سے منقول ہے۔  بالفاظِ دیگر یہ سلطنتِ کائنات کے وہ کارکن ہیں  جن کے ہاتھوں  دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔  اِن آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے منقول نہیں  ہوئے ہیں،  لیکن چند اکابر صحابہ نے،  اور اُن تابعین نے جو صحابہ ہی کے شاگرد تھے،  جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ علم حضورؐ ہی سے حاصل کیا گیا ہو گا۔           اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اِن فرشتوں  کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اُسی طرح غیر محسوس ہیں  جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطورِ استدلال پیش کیا گیا ہے۔  ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے،  واللہ اعلم، کہ اہلِ عرب فرشتوں  کی ہستی کے منکر نہ تھے۔  وہ خود اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔  ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں  کی حرکت انتہائی تیز ہے،  زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں  اور ہر کام جس کا انہیں  حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں۔  وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الٰہی کے تابع ہیں  اور کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے چلاتے  ہیں،  خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں  ہیں۔  جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں  ضرور کہتے  تھے اور اُن کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے،  لیکن اُن کا یہ عقیدہ نہیں  تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں  ہیں۔  اس لیے یہاں  وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اُن کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں  اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان  ڈال بھی سکتے ہیں۔  اور جس خدا کے حکم سے  وہ کائنات کا انتظام چلا رہے  ہیں  اسی کے حکم سے،  جب بھی اُس کا حکم ہو، اِس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کر سکتے ہیں،  اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں۔  اُس کے حکم کی تعمیل میں  ان کی طرف سے ذرّہ برابر بھی سُستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں  ہو سکتی۔

۲: پہلے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جو زمین اور اس کی ہر چیز کو تباہ کر دے گا اور دوسرے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جس  کے بعد تمام مُردے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئیں  گے۔  اِسی کیفیت کو سُورہ زُمَر میں  یوں  بیان کیا گیا ہے ’’اور صور پھُونکا جائے گا تو زمین اور آسمان میں  جو بھی ہیں  وہ سب مر کر گر جائیں  گے سوائے اُن  کے جنہیں   اللہ(زندہ رکھنا)چاہے۔  پھر ایک دوسرا صُور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ سب اُٹھ کر دیکھنے لگیں  گے ‘‘۔(آیت۶۸)

۳: ’’کچھ دل‘‘ کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں  کہ قرآن مجید کی رو سے  صرف کفار و فُجّار اور منافقین ہی پر قیامت کے روز ہوَل طاری ہو گا۔ مومنینِ صالحین اُس ہول سے محفوظ ہوں  گے۔  سورہ انبیاء میں  ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ’’وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں  ہاتھ لیں  گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘(آیت۱۰۳)

۴: یعنی جب اُن کو جواب دیا گیا کہ ہاں  ا یسا ہی ہو گا تو وہ مذاق کے طور پر آپس میں  ایک دوسرے سے کہنے لگے یا رو، اگر واقعی ہمیں  پلٹ کر دوبارہ زندگی کی حالت میں  واپس آنا پڑا تب تو ہم مارے گئے،  اس کے بعد تو پھر ہماری خیر نہیں  ہے۔

۵: یعنی یہ لوگ اسے ایک امِر محال سمجھ کر اس کی ہنسی اڑا رہے ہیں،  حالانکہ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں  ہے جس کو  انجام دینے کے لیے کچھ بڑی لمبی چوڑی تیاریوں  کی ضرورت ہو۔ اِس کے لیے صرف ایک ڈانٹ یا جھڑ کی کافی ہے جس کے ساتھ ہی تمہاری خاک یا راکھ، خواہ کہیں  پڑی ہو،  ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ  جمع ہو جائے گی اور تم یکایک اپنے آپ کو زمین کی پیٹھ پر زندہ موجود پاؤ گے۔  اِس واپسی کو گھاٹے کی واپسی سمجھ کر چاہے تم اِس سے کتنا ہی فرار کرنے کی کوشش کرو، یہ تو ہو کر رہنی ہے ،  تمہارے انکار یا فرار یا تمسخر سے یہ رُک نہیں  سکتی۔

۶: چونکہ کفّارِ  مکّہ کا قیامت اور آخرت کو نہ ماننا اور اس کا مذاق اُڑانا در اصل کسی فلسفے کو رد کرنا نہیں  تھا بلکہ اللہ کے رسول کو جھٹلانا تھا، اور جو چالیں  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے خلاف چل رہے تھے وہ کسی عام آدمی کے خلاف نہیں  بلکہ اللہ کے رسول کی دعوت کو زک دینے کے لیے تھیں،  اس لیے وقوعِ آخرت کے مزید دلائل دینے سے پہلے اُن کو حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصّہ سنا یا جا رہا ہے تا کہ وہ خبر دار ہو جائیں  کہ رسالت سے ٹکرانے اور رسول کے بھیجنے والے خدا کے مقابلے میں  سر اٹھانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

۷: وادی مقدّسِ طُویٰ کے معنی بالعموم مفسّرین نے یہ بیان کیے ہیں  کہ ’’وہ مقدّس وادی جس کا نام طُویٰ تھا ‘‘۔ لیکن اس کے علاوہ اس کے دو منی اور بھی بیان کیے گئے ہیں ۔  ایک یہ کہ ’’وہ وادی جو دوم رتبہ مقدّس کی گئی‘‘، کیونکہ ایک دفعہ اُسے اُس وقت مقدس کیا گیا جب پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے وہاں  حضرت موسیٰ کو مخاطب فرمایا، اور دوسری دفعہ اسے تقدیس کا شرف اُس وقت بخشا گیا جب حضرت موسیٰ مصر سے بنی اسرائیل کو نکال کر اس وادی میں  لائے۔  دوسرے یہ کہ ’’رات کے وقت وادی مقدس میں  پُکارا‘‘۔ عربی میں  محاورہ ہے جاءَ بعد طُوی، یعنی فلاں  شخص میرے پا س رات کا کچھ حصّہ گزرنے کے بعد آیا۔

۸: یہاں  چند باتیں  اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں :

(۱)      حضرت موسیٰ کو منصبِ نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں  اُن کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوئی تھیں  اُن کو قرآن مجید میں  حسبِ موقع کہیں  مختصر اور کہیں  مفصّل بیان کیا گیا ہے۔  یہاں  موقع اختصار کا طالب تھا، اس لیے اُن کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔  سورہ طٰہٰ، آیات۹ تا ۴۸، سورہ شعراء،  آیات۱۰تا۱۷، سورہ نمل، آیات۷تا ۱۲، اور سورہ قصص، آیات۲۹تا ۳۵ میں  ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

(۲)      فرعون کی جس سرکشی کا یہاں  ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق، دونوں  کے مقابلے میں  سرکشی کرنا ہے۔  خالق کے مقابلے میں  اُس سرکشی کا ذکر تو آگے آ رہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کے اعلان کیا کہ’’ میں  تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔ ‘‘۔ اور خلق کے مقابلے میں  اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں  کو مختلف گروہوں  اور طبقوں  میں  بانٹ رکھا تھا، کمزور طبقوں  پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا،  جیسا کہ سُورہ قصص آیت۴ اور سُورہ زُخْرُف آیت ۵۴ میں  بیان کیا گیا ہے۔

(۳)     حضرت موسیٰ ؑ کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فَقُوْ لَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشیٰ، ’’تم اور ہارون دونو ں  بھائی اُس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ،  شاید کہ وہ نصیحت قبول کر ے او خدا سے ڈرے ‘‘(القَصَص، آیت۴۴) اِس نرم کلام کا ایک نمونہ تو اِن آیات میں  دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلّغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے۔  دوسرے نمونے سورہ طٰہٰ، آیات۴۹تا۵۲، الشعراء، ۲۳تا۲۸، اور القصص، آیت ۳۷ میں  دیے گئے ہیں۔  یہ منجملہ اُن آیات کے ہیں  جن میں  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  حکمتِ  تبلیغ کی تعلیم دی ہے۔

(۴)     حضرت موسیٰ صرف بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ہی فرعون کے پاس نہیں  بھیجے گئے تھے،  جیسا کہ بعض لوگوں  کا خیال ہے،  بلکہ ان کی بِعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا، اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو ( جو اصل میں  ایک مسلمان قوم تھے ) اُس کی غلامی سے چھُڑا کر مصر سے  نکال لائیں۔  یہ بات اِن آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے،  کیونکہ اِن میں  سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں  ہے بلکہ  حضرت موسیٰ کو فرعون کے سامنے سے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے،  اور اُن مقامات سے بھی ا س کا ثبوت ملتا ہے جہاں  حضرت موسیٰ نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے۔  مثلاً ملاحظہ ہو ( الاَعراف، آیات۱۰۴۔۱۰۵۔طٰہٰ، آیات۴۷ تا ۵۲۔ الشعراء، آیات۱۶۔۱۷و۲۳ تا۲۸۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، یونس، حاشیہ۷۴)۔

(۵)      یہاں  پاکیزگی (تَزَ کِّی) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کانا، یا دوسرے الفاظ میں  اسلام قبول کر لینا ہے۔  ابن زید کہتے ہیں  کہ قرآن مجید جہاں  بھی تز کِّی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں  اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔  چنانچہ وہ مثال میں  قرآن مجید کی حسبِ ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں۔

وَ ذٰ لِکَ جَزَآ ؤُ مَنْ تَزَکّٰی، ’’ اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے ‘‘۔ یعنی اسلام لے آئے۔

 وَمَا یُدْ رِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّٰی، اور ’’تمہیں  کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے ‘‘، یعنی مسلمان اسلام لے آئے۔

  وَمَا  عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی، ’’ اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے ‘‘یعنی مسلمان نہ ہو(ابن جریر)۔

(۶)      یہ ارشاد کہ ’’میں  تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں  تو (اس کا خوف)تیرے دل میں  پیدا ہو‘‘، اس کا مطلب یہ  ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لے گا اور تجھے معلوم ہو جائے گا تو  اُس کا بندہ ہے،  مردِ آزاد نہیں  ہے،  تو لازماً تیرے دل میں  اُس کا خوف پیدا ہو گا، اور خوفِ خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں  آدمی کے رویّے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے۔  خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصوّر نہیں  کیا جا سکتا۔

۹: بڑی نشانی سے مراد عصا کا اژدہا بن جانا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔  ظاہر ہے کہ اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک بیجان لاٹھی سب دیکھنے والوں  کی آنکھوں  کے سامنے عَلانیہ اژدہا بن جائے،  جادوگر اُس کے مقابلے میں  لاٹھیوں  اور رسیّوں  کے جو مصنوعی اژدھے بنا کر دکھائیں  ان سب کو وہ نگل جائے،  اور پھر حضرت موسیٰ جب اس کو پکڑ کر اٹھا لیں  تو وہ پھر لاٹھی کی لاٹھی بن کر رہ جائے۔  یہ اس بات کی صریح علامت تھی کہ وہ اللہ رب العالمین ہی ہے جس کی طرف سے حضرت موسیٰ بھیجے گئے ہیں۔

۱۰: اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں  یہ بیان کی گئی ہے کہ اس نے تمام مصر سے ماہر جادوگروں  کو بلوایا اور ایک مجمع عام میں  ان سے لاٹھیوں  اور رسیّوں  کے اژدہے بنوا کر دکھائے تا کہ لوگوں  کو یقین آ جائے کہ موسیٰ علیہ السلام کوئی نبی نہیں  بلکہ ایک جادوگر ہیں،  اور لاٹھی کا اژدہا بنانے کو جو کرشمہ انہوں  نے دکھایا ہے وہ دوسرے جادوگر بھی دکھا سکتے ہیں۔  لیکن اس کی یہ چال اُلٹی پڑی اور جادوگروں  نے شکست کھا کر خود تسلیم   کر لیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ دکھا یا ہے وہ جادو نہیں  بلکہ معجزہ ہے۔

۱۱:  فرعون کا یہ دعویٰ کئی مقامات پر قرآن مجید میں  بیان کیا گیا ہے۔  ایک موقع پر اس نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ’’اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا بنا یا تو میں  تمہیں  قید کر دوں  گا‘‘(الشعراء، آیت۲۹)۔ ایک اور موقع پر اس نے اپنے دربار میں  لوگوں  کو خطاب کر کے کہا’’ اے سردارانِ قوم،  میں  نہیں  جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا بھی ہے ‘‘(القصص، آیت۳۸)۔ ان ساری باتوں  سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا، اور نہیں  ہو سکتا تھا کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔  یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی  کا منکر اور خود رب العالمین ہونے کا مدعی تھا۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں  میں  لوگوں  کا معبود قرار دیتا تھا۔قرآن مجید ہی میں  اِس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں  تک مذہب کا تعلق ہے وہ خود دوسرے معبُودوں  کی پرستش کرتا تھا، چنانچہ اس کے اہلِ دربار ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں  کہ ’’کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں  گے کہ وہ ملک میں  فساد پھیلائیں  اور آپ کو  اور آپ کے معبودوں  کو چھوڑ دیں ‘‘؟ (الاعراف، آیت۱۲۷)۔ اور قرآن میں  فرعون کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر موسیٰ خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو کیوں  نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا اس کے ساتھ ملائکہ اس کی اردلی میں  کیوں  نہ آئے ؟(الزخرف، آیت۵۳)۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں  میں  بلکہ سیاسی معنی میں  اپنے آپ کو الٰہ اور ربِّ اعلیٰ کہتا تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک میں  ہوں،  میرے سوا کسی کو میری مملکت میں  حکم چلانے کا حق نہیں  ہے،  اور میرے اوپر کوئی بالا تر طاقت نہیں  ہے جس کا فرمان یہاں  جاری ہو سکتا ہو(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ۸۵۔جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ۲۱۔الشعراء، حواشی۲۶، ۲۴۔القصص، حواشی۵۲۔۵۳۔جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ۴۹)۔

۱۲: یعنی خدا کے رسول کو جھُٹلانے کے اُس انجام سے ڈر ے جو فرعون دیکھ چکا ہے۔

 

ترجمہ

 

۱۳ کیا تم لوگوں  کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ ۱۴ اللہ نے اُس کو بنایا، اُس کی چھت خُوب اُونچی اُٹھائی پھر اُس کا توازن قائم کیا، اور اُس کی رات ڈھانکی اور اُس کا دن نکالا۔ ۱۵ اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا، ۱۶ اُس کے اندر اُس کا پانی اور چارہ نکالا، ۱۷ اور پہاڑ اس میں  گاڑ دیے سامانِ زیست کے طور پر تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں  کے لیے۔  ۱۸

پھر جب وہ ہنگامۂ عظیم برپا ہو گا، ۱۹ جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا، ۲۰ اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی، تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گی۔ اور جس نے اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا تھا،  جنّت اس کا ٹھکانا ہو گی۔ ۲۱

یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ ’’آخر وہ گھڑی کب آ کر ٹھہرے گی؟‘‘ ۲۲ تمہارا کیا کام کہ اُس کا وقت بتاؤ۔ اس کا علم تو اللہ پر ختم ہے۔  تم صرف خبردار کرنے والے ہو ہر اُس شخص کو جو اُس کا خوف کرے۔ جس ۲۳ روز یہ لوگ اُسے دیکھ لیں  گے تو انہیں  یوں  محسوس ہو گا کہ (یہ دنیا میں  یا حالتِ موت میں ) بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں۔ ۲۴ ؏۲

 

تفسیر

 

۱۳: اب قیامت  اور حیات بعد الموت کے ممکن اور مقتضائے حکمت ہونے کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔

۱۴: تخلیق سے مراد انسانوں  کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پُورا عالمِ بالا ہے جس میں  بے شمار ستارے اور سیّارے،  بے حدوحساب شمسی نظام اور اَن گنت کہکشاں  پائے جاتے ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑا ہی امرِ محال سمجھتے ہو، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں  تک بوسیدہ ہو چکی ہوں  گی اُس حالت میں  ہمارے پراگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کر دیے جائیں  اور ان میں  جان ڈال دی جائے،  کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اِس عظیم کائنات کا بنا نا زیادہ سخت کام ہے یا تمہیں  ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اِسی شکل میں  پیدا کر دینا؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے آخر یہ کیوں  ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اِس پر قادر نہ ہو سکے ؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر دی گئی ہے۔  مثلاً سورہ یٰس میں  ہے ’’اور کیا وہ جس نے آسمانوں  اور زمین کو بنایا اِس پر قادر نہیں  ہے کہ اِن جیسوں  کو (پھر سے ) پیدا کر دے ؟ کیوں  نہیں ،  وہ تو بڑا زبردست خالق ہے،  تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے ‘‘(آیت۸۱)۔ اور سُورہ مومن میں  فرمایا۔’’یقیناً آسمانوں  اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں  کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے،  مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں ‘‘(آیت۵۷)۔

۱۵: رات اور دن کو آسمان کی طرف منسوب  کیا گیا ہے،  کیونکہ آسمان کا سورج غروب ہونے سے ہی رات آتی ہے اور اسی کے طُلوع ہونے سے  دن نکلتا ہے۔  رات کے لیے ڈھانکنے کا لفظ اس معنی میں   استعمال کیا گیا ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد رات کی  تاریکی اس طرح زمین پر چھا جاتی ہے جیسے اُوپر سے اس پر پردہ ڈال کر ڈھانک دیا گیا ہو۔

۱۶: ’’اس کے بعد زمین کو بچھانے ‘‘کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں ’’پھر یہ بات غور طلب ہے ‘‘۔اس سے مقصود ان دونوں  باتوں  کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں  ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات، بلکہ مقصود ایک بات  کے بعد دوسری بات کی توجہ دلا نا ہوتا ہے اگر چہ دونوں  ایک ساتھ پائی جاتی  ہوں۔  اِس طرز بیان کی متعدد نظیریں  خود قرآن میں  موجود ہیں۔  مثلاً سُورہ قلم میں  فرمایا عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰ لِکَ زَنِیْمٌ’’جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بد اصل ہوا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے۔  اسی طرح سورہ بلد میں  فرمایا فَکُ رَقَبَۃٍ…..ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ۔’’ غلام آزاد کرے …… پھر ایمان لانے والوں  میں  سے ہو‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں  ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے،  پھر ایمان لائے،  بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُن نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں  مومن ہونے کی صفت بھی ہو۔ اِ س مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں  کہیں  زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں،  جیسے سورہ بقرہ آیت۲۹ میں  ہے،  اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں  کیا گیا ہے،  جیسے اِن آیات میں  دیکھ رہے ہیں۔  یہ دراصل تضاد نہیں  ہے۔  اِن  مقامات میں  سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں  ہے کہ کسے پہلے بنا یا گیا اور کسے بعد میں  بلکہ جہاں  موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  کی قدرت کے کمالات کو نمایاں  کیا جائے وہاں  آسمانوں  کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں ،  اور جہاں  سلسلہ کلام  اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں  کو اُن نعمتوں  کا احساس دلایا جائے جو انہیں  زمین پر حاصل ہو رہی ہیں  وہاں  زمین کے ذکر کو آسمانوں  کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجّدہ، حواشی۱۳۔۱۴)۔

۱۷: چارہ سے مراد اِس جگہ صرف جانوروں  کا چارہ نہیں  ہے بلکہ وہ تمام نباتات مراد ہیں  جو انسان اور حیوان دونوں  کی غذا کے کام آتے ہیں۔  رَعی اور تُع اگرچہ بالعموم عربی زبان میں  جانوروں  کے چَرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں  مگر کبھی کبھی انسان کے لیے بھی استعمال کر لیے جاتے ہیں،  مثلاً سورہ یوسف میں  آیا ہے کہ حضرت یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دیں   کہ کچھ چَر چُگ لے اور کھیلے ‘‘(آیت۱۲)۔یہاں  بچے کے لیے چَرنے (رَتُع) کا لفظ جنگل میں  چل پھر کر پھل توڑنے اور کھانے کے معنی میں  استعمال کیا گیا ہے۔

۱۸: ان آیات میں  قیامت اور حیات بعد الموت کے لیے دو حیثیتوں  سے استد لال کیا گیا ہے۔  ایک یہ کہ اُس خدا کی قدرت سے اِن کا برپا کرنا ہر گز بعید نہیں  ہے جس نے یہ وسیع و عظیم کائنات اِس حیرت انگیز توازن کے ساتھ اور یہ زمین اِس سرو سامان کے ساتھ بنائی ہے۔  دوسرے یہ کہ اللہ کے کمالِ حکمت کے جو آثار اِس کائنات اور اِس زمین میں  صریحاً نظر آرہے ہیں  وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں  کہ یہاں  کوئی کام بے مقصد نہیں  ہو رہا ہے۔  عالمِ بالا میں  بے شمار ستاروں  اور سیاروں  اور کہکشانوں  کے درمیان جو توازُن قائم ہے وہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ الل ٹب نہیں  ہو گیا ہے بلکہ کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ اِس کے پیچھے کار فرما ہے۔  یہ رات اور دن کا باقاعدگی سے آنا اس بات پر گواہ ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے لیے یہ نظم کمال درجہ دانائی کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔  خود اسی زمین پر وہ خطے بھی موجود ہیں۔  جہاں  ۲۴ گھنٹے کے اندر دن اور رات کا الٹ پھیر ہو جاتا ہے اور وہ خطّے بھی موجود ہیں  جہاں  بہت لمبی راتیں  ہوتی ہیں۔  زمین کی آبادی کا بہت بڑ ا حصّہ پہلی قسم کے  خطّوں  میں  ہے،  اور جہاں  رات اور دن جتنے زیادہ لمبے ہوتے جاتے ہیں  وہاں  زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار اور آبادی کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے،  یہاں  تک کہ ۶ مہینے کے دن اور ۶ مہینے کی راتیں رکھنے والے علاقے آبادی کے بالکل قابل نہیں  ہیں۔  یہ دونوں  نمونے اِسی زمین پر دکھا کر اللہ تعالیٰ نے اِس حقیقت کی شہادت پیش کر دی ہے کہ رات اور دن کی آمد و رفت کا یہ باقاعدہ انتظام کچھ اتفاقاً نہیں  ہو گیا ہے بلکہ یہ زمین کو آبادی کے قابل بنانے کے لیے بڑی حکمت کے ساتھ ٹھکی ٹھیک ایک اندازے کے مطابق کیا گیا ہے۔  اِسی طرح زمین کو اس طرح بچھانا کہ وہ قابلِ سکونت بن سکے،  اِس میں   وہ پانی پیدا کرنا جو انسان اور حیوان کے لیے پینے کے قابل اور نباتات کے لیے روئیدگی کے قابل ہو، اِس میں  پہاڑوں  کا جمانا اور وہ تمام چیزیں  پیدا کرنا جو انسان اور ہر قسم کے حیوانات کے لیے زندگی بسر کرنے کے ذریعہ بن سکیں، یہ سارے کام اس بات کی صریح علامت ہیں  کہ یہ اتفاقی حوادث یا کسی کھلنڈرے کے بے مقصد کام نہیں  ہیں،  بلکہ ان میں  سے ہر کام ایک بہت بڑی حکیم و دانا ہستی نے با مقصد کیا ہے۔  اب یہ ہر صاحبِ عقل آدمی کے خود سوچنے کی بات ہے کہ آیا آخرت کا ہونا حکمت کا تقاضا ہے یا نہ ہونا؟ جو شخص اِن ساری چیزوں  کو دیکھنے کے با وجود یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں  ہو گی وہ گویا یہ کہتا ہے کہ یہاں  اور سب کچھ تو حکمت اور مقصدیت کے ساتھ ہو رہا ہے،  مگر زمین پر انسان کو ذی ہوش اور با اختیار بنا کر پیدا کرنا بے مقصد اور بے حکمت بات نہیں  ہو سکتی کہ اِس زمین میں  تصرّف کے وسیع اختیارات دے کر انسان کو یہاں  ہر طرح کے اچھے اور برے کام کرنے کا موقع تو دے دیا جائے مگر کبھی اس کا محاسبہ نہ کیا جائے۔

۱۹: اس سے مراد ہے قیامت اس کے لیے الطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔  طامّہ بجائے خود کسی ایسی بڑی آفت کو کہتے ہیں  جو سب پر چھا جائے۔  اس کے بعد اس کے لیے کُبّریٰ کا لفظ مزید استعمال کیا گیا ہے جس سے خود بخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے محض لفظ طامّہ بھی کافی نہیں  ہے۔

۲۰: یعنی جب انسان دیکھ لے گا وہی محاسبہ کا دن آ گیا ہے جس کی اُسے دنیا میں  خبر دی جا رہی تھی، تو قبل اس کے کہ اُس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں  دیا جائے،  اسے ایک ایک کر کے اپنی وہ سب حرکتیں  یاد آنے لگیں  گی جو وہ دنیا میں  کر کے آیا ہے۔  بعض لوگوں  کو یہ  تجربہ خود اِس دنیا میں  بھی ہوتا ہے کہ اگر یکایک کسی وقت وہ کسی ایسے خطرے سے دو چار ہو جاتے ہیں  جس میں  مَوت ان کو بالکل قریب کھڑی نظر آ نے لگتی ہے تو اپنی پُوری زندگی کی فلم اُن کی چشمِ تصوّر کے سامنے یک لخت پھر جاتی ہے۔ ۱: یہاں  پانچ اَوصاف رکھنے والی ہستیوں  کا قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں  کی گئی۔  لیکن بعد کا مضمون اِس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے۔  اِس کی وضاحت بھی نہیں  کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں  کے ہیں،  لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، مسرق، سعید بن جُبَیر، ابو صالح، ابو الضُّحیٰ اور سُدِّی کہتے ہیں  کہ ڈوب کر کھینچنے والوں  اور آہستگی سے نکال لے جانے والوں  سے مُراد وہ فرشتے ہیں  جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرائیوں  تک اُتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔  تیزی سے تیرتے  پھرنے والوں  سے مراد بھی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، مجاہد، سعید بن جُبَیر اور ابو صالح نے فرشتے ہی لیے ہیں  جو احکامِ الٰہی کی تعمیل میں  اِس طرح تیزی سے رواں  دواں  رہتے ہیں  جیسے کہ وہ فضا میں  تیر رہے ہوں۔  یہی مفہوم’’ سبقت کرنے والوں ‘‘کا حضرت علی، مجاہد، مسروق،  ابو صالح اور حسن بصری نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی اُن میں  سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ ’’معاملات کا انتظام چلانے والوں ‘‘ سے مراد بھی فرشتے ہیں،  جیسا کہ حضرت علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قَتادَہ، ربیع بن انس، اور سُدِّی سے منقول ہے۔  بالفاظِ دیگر یہ سلطنتِ کائنات کے وہ کارکن ہیں  جن کے ہاتھوں  دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔  اِن آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے منقول نہیں  ہوئے ہیں،  لیکن چند اکابر صحابہ نے،  اور اُن تابعین نے جو صحابہ ہی کے شاگرد تھے،  جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ علم حضورؐ ہی سے حاصل کیا گیا ہو گا۔           اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اِن فرشتوں  کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اُسی طرح غیر محسوس ہیں  جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطورِ استدلال پیش کیا گیا ہے۔  ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے،  واللہ اعلم، کہ اہلِ عرب فرشتوں  کی ہستی کے منکر نہ تھے۔  وہ خود اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔  ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں  کی حرکت انتہائی تیز ہے،  زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں  اور ہر کام جس کا انہیں  حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں۔  وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الٰہی کے تابع ہیں  اور کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے چلاتے  ہیں،  خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں  ہیں۔  جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں  ضرور کہتے  تھے اور اُن کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے،  لیکن اُن کا یہ عقیدہ نہیں  تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں  ہیں۔  اس لیے یہاں  وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اُن کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں  اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان  ڈال بھی سکتے ہیں۔  اور جس خدا کے حکم سے  وہ کائنات کا انتظام چلا رہے  ہیں  اسی کے حکم سے،  جب بھی اُس کا حکم ہو، اِس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کر سکتے ہیں،  اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں۔  اُس کے حکم کی تعمیل میں  ان کی طرف سے ذرّہ برابر بھی سُستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں  ہو سکتی۔

۲۲: کُفّار مکّہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے یہ سوال بار بار کرتے تھے اور اس سے مقصود قیامت کی آمد کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا نہیں  ہوتا تھا بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیرسورہ ملک، حاشیہ۳۵)۔

۲۳: اِس کی تشریح بھی ہم تفسیر سُورہ ملک، حاشیہ ۳۶ میں  کر چکے ہیں۔  رہا یہ ارشاد کہ تم ہر اُس شخص کو خبر دار کر دینے والے ہو جو اس کا خوف کر ے،  تو اس کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ خوف نہ کرنے والوں  کو خبر دار کرنا تمہارا کام نہیں  ہے،  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے خبر درا کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچے گا جو اُس دن کے آنے کا خوف کرے۔

۲۴:یہ مضمون اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں بیان ہو چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ ۵۳، بنی اسرائیل حاشیہ ۵۶، جلد سوم طٰہٰ حاشیہ ۸۰، المومنون، حاشیہ ۱۰۱، الروم حواشی ۸۱۔۸۲، جلد چہارم، یٰس، حاشیہ ۴۸، اس کے علاوہ یہ مضمون سورہ احقاف آیت ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے جس کی تشریح ہم نے وہاں نہیں کی کیونکہ پہلے کئی جگہ تشریح ہو چکی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

۸۰۔سورۃ عَبَس

 

 

نام

 

پہلے ہی لفظ عَبَسَ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزولمفسرین  و محدّثین نے بالاتفاق اِس سُورہ کا سببِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی مجلس میں  مکّہ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضورؐ اُن کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرما رہے تھے۔  اتنے میں  ابنِ اُمِّ مکتوم نامی ایک نابینا حضورؐ کی خدمت میں  حاضر ہوئے اور انہوں  نے آپ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضورؐ کو ان کی یہ مداخلت ناگوار ہوئی اور آپؐ نے اُن سے بے رُخی برتی۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سُورہ نازل ہوئی۔ اِس تاریخی واقعہ سے اِس سُورہ کا زمانہ نزول بآسانی متعیّن ہو جاتا ہے۔

اوّلاً یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم بالکل ابتدائی دور کے اسلام لانے والوں  میں  سے ہیں۔  حافظ ابنِ حَجَر اور حافظ ابن کثیر تصریح کرتے ہیں  اَسْلَمَ بِمَکَّۃَ قَدِیْماً، اور ھُوَ مِمَّنْ اَسْلَمَ قَدِیْماً، یعنی یہ اُن لوگوں  میں  سے تھے جو مکّہ معظمہ میں  بہت پہلے اسلام لائے تھے۔

ثانیاً حدیث کی جن روایات میں  یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ان میں  سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت وہ اسلام لا چکے تھے اور بعض سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی طرف مائل ہو چکے تھے اور تلاشِ حق میں  حضورؐ کے پاس آئے تھے۔  حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اُنہوں  نے آ کر عرض کیا تھا: یارسول اللہ،  ارشدنی، ’’یارسول  اللہ، مجھے سیدھا راستہ بتائے ‘‘(ترمذی، حاکم، ابن حبان، ابن جریر، ابو یعلیٰ)۔ حضرت عبداللہ بن عابس کی روایت ہے کہ وہ آ کر قرآن کی  ایک آیت  کا مطلب پوچھنے لگے اور حضورؐ سے عرض کیا یارسول اللہ علّمنی ممّا علّمک اللہ، ’’ یارسول اللہ، مجھے وہ علم سکھائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے ‘‘(ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔ اِن بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضورؐ کو خدا کا رسول اور قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کر چکے تھے۔  دوسری طرف ابنِ زید آیت کے ۳ الفاظ لَعَلَّہٗ یَزَّکّیٰ کا مطلب لَعَلَّہٗ یُسْلم ’’ شاید کہ وہ اسلام قبول کر لے ‘‘بیان کرتے ہیں  (ابن جریر)۔ اور اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ ارشاد بھی کہ ’’تمہیں  کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اُس کے لیے نافع ہو‘‘؟ اور یہ کہ ’’جو خود تمہارے پاس دوڑ آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے،  اُس سے تم بے رُخی برتتے ہو‘‘ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اُس وقت اُن کے اندر طلبِ  حق کا گہرا جذبہ پیدا ہو چکا تھا، وہ حضورؐ ہی کو ہدایت کا منبع سمجھ کر آپ کی خدمت میں  اس لیے حاضر ہوئے تھے کہ اُن کی یہ طلب یہیں  سے پُوری ہو گی، اور یہ بات ان کی حالت سے ظاہر ہو رہی تھی کہ انہیں  ہدایت دی جائے تو وہ اس سے مستفید ہوں  گے۔

ثالثاً حضورؐ کی مجلس میں  جو لوگ اُس وقت بیٹھے تھے،  مختلف روایات میں  اُن کے ناموں  کی صراحت کی گئی ہے۔ اس فہرست میں  ہمیں  عُتْبہ، شَیْبہ، ابو جہل،  اُمیَّہ،  اُبَیّ بن خلف جیسے بد ترین دشمنانِ اسلام کے نام ملتے ہیں ۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ اُس زمانے میں  پیش  آیا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے ساتھ اِن لوگوں  کا میل جول ابھی باقی تھا اور کشمکش اتنی بڑھی تھی کہ آپ کے ہاں  اُن کی آمد و رفت اور آپ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں  کا سلسلہ بند ہو گیا ہو۔ یہ سب امور اس پر دلالت کرتے ہیں  کہ یہ سُورہ بہت ابتدائی زمانے کی نازل شُدہ سُورتوں  میں  سے ہے۔

 

موضوع اور مضمون

 

بظاہر کلام کے آغاز کا اندازِ بیان دیکھ کر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ نا بینا سے بے رُخی برتنے اور بڑے بڑے سرداروں  کی طرف توجہ کرنے کی بنا پر اِس سورہ میں  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر عتاب فرمایا گیا ہے۔  لیکن پُوری سُورۃ پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل عِتاب کفارِ قریش کے اُن سرداروں  پر کیا گیا ہے جو اپنے تکبُّر اور ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے نیازی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی تبلیغِ حق کو حقارت کے ساتھ رد کر رہے تھے،  اور حضورؐ کو تبلیغ کا صحیح طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ اُس طریقے کی غلطی سمجھائی گئی ہے جو اپنی رسالت کے کام کی ابتدا میں  آپ کو اختیار فرما رہے تھے۔  آپ کا ایک نابینا سے بے رُخی بر تنا اور سردارانِ قریش کی طرف توجہ کرنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ آپ بڑے لوگوں  کا معزّز اور ایک بیچارے نابینا کو حقیر سمجھتے تھے،  اور معاذ اللہ یہ کوئی کج خُلقی آپؐ کے  اندر پائی جاتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ بلکہ معاملہ کی اصل نوعیت یہ ہے کہ ایک داعی جب اپنی عورت کا آغاز کرنے لگتا ہے تو فطری طور پر  اس کا رُجحان اِس طرف ہوتا ہے کہ قوم کے با ثر لوگ اس کی دعوت قبول کر لیں  تا کہ کام آسان ہو جائے،  ورنہ عام بے اثر، معذور یا کمزور لوگوں  میں  دعوت پھیل بھی جائے تو اس  سے کوئی  بڑا فرق نہیں  پڑ سکتا۔ قریب قریب یہی  طرز عمل ابتدا میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے بھی اختیار فرمایا تھا جس کا محرّک سراسر اخلاص اور دعوتِ  حق کو فروغ دینے کا جذبہ تھا نہ کہ بڑے لوگو ں  کو تعظیم اور چھوٹے لوگوں  کی تحقیر کا تخیُّل۔ لیکن اللہ تعالی ٰ نے آپ کو سمجھا یا کہ اسلامی دعوت کو صحیح طریقہ یہ نہیں  ہے،  بلکہ اِس دعوت کے نقطۂ نظر سے ہر وہ انسا ن اہمیت رکھتا ہے جو طالبِ حق ہو، چاہے وہ کیسا ہی کمزور،  بے اثر، یا معذور ہو، اور ہر وہ شخص غیر اہم ہے جو حق سے بے نیازی برتے،  خواہ وہ معاشرے  میں  کتنا ہی بڑا مقام رکھتا ہو۔ اس لیے آپ اسلام کی تعلیمات تو ہانکے پکارے سب کو سنائیں ،  مگر آپ کی توجہ کے  اصل مستحق وہ لوگ ہیں  جن میں  قبولِ حق کی آمادگی پائی جاتی ہو، اور آپ کی بلند پایہ دعوت کے مقام سے یہ بات فروتر ہے کہ آپ اِسے  اُن مغرور لوگوں  کے آگے پیش کریں  جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں  یہ سمجھتے ہوں  کہ اُن کو آپ کی  نہیں  بلکہ آپ کو اُن کی ضرورت ہے۔

یہ آغاز سورہ سے آیت ۱۶ تک کا مضمون ہے۔  اس کے بعد آیت ۱۷ سے اسے براہِ راست عتاب کا رُخ ان کفار کی طرف پھر جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو رد کر رہے تھے۔  اس میں  پہلے اُس رویّے پر اُنہیں  ملامت کی گئی ہے جو وہ اپنے خالق و رازق پروردگار کے مقابلے میں  برت رہے تھے،  اور آخر میں  ان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ قیامت کے روز وہ اپنی اس روش کا کیسا ہولناک انجام دیکھنے والے ہیں۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

تُرش رُو ہوا اور بے رُخی برتی اِس با ت پر کہ وہ اندھا اُس کے پاس آ گیا۔۱ تمہیں  کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟  جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سُدھرے تو تم پر اُس کی کیا ذمّہ داری ہے ؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے،  اس سے تم بے رُخی برتتے ہو۔ ۲ ہر گز نہیں،  ۳ یہ تو ایک نصیحت ہے،  ۴ جس کا جی چاہے اِسے قبول کر ے۔  یہ ایسے صحیفوں  میں  درج ہے جو مکرَّم ہیں،  بلند مرتبہ ہیں،  پاکیزہ ہیں،  ۵ معزّز اور نیک کاتبوں  ۶ کے ہاتھوں  میں  رہتے ہیں۔  ۷

لعنت ہو ۸ انسان پر، ۹ کیسا سخت مُنکرِ حق ہے یہ۔ ۱۰ کس چیز سے اللہ نے اِسے پیدا کیا ہے ؟ نُطفہ کی ایک بُوند سے۔  ۱۱ اللہ نے اِسے پیدا کیا، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی، ۱۲ پھر اِس کے لیے زندگی کی راہ آسان کی، ۱۳ پھر اِسے موت دی اور قبر میں  پہنچایا۔ ۱۴ پھر جب چاہے وہ اِسے دوبارہ اُٹھا کھڑا کرے۔  ۱۵ ہر گز نہیں،  اِس نے وہ فرض ادا نہیں  کیا جس کا اللہ نے اِسے حکم دیا تھا۔ ۱۶ پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے۔  ۱۷ ہم نے خُوب پانی لُنڈھایا، ۱۸ پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا، ۱۹ پھر اُس کے اندر اُگائے غلّے اور انگور اور ترکاریاں  اور زیتون اور کھجوریں  اور گھنے باغ اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں  کے لیے سامانِ زیست کے طور پر۔ ۲۰

آخر کار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہو گی ۲۱۔ ۔۔۔ اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں  اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ۲۲ ان میں  سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا۔ ۲۳ کچھ چہرے اُس روز دَمَک رہے ہوں  گے ہشّاش بشّاش اور خوش و خرّم ہوں  گے۔  اور کچھ چہروں  پر اُس روز خاک اُڑ رہی ہو گی اور کَلَونس چھائی ہوئی ہو گی۔ یہی کافرو فاجر لوگ ہیں ۔  ؏۱

 

تفسیر

 

۱: اس پہلے فقرے کا اندازِ بیان عجیب لُطف اپنے اندر رکھتا ہے۔  اگر چہ بعد کے فقروں  میں  براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو خطاب فرمایا گیا ہے جس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ ترش روئی اور بے رُخی برتنے کا یہ فعل حضورؐ ہی سے صادر ہوا تھا، لیکن کلام کی ابتداء اِس طرح کی گئی ہے کہ گویا حضورؐ نہیں  بلکہ کوئی اور شخص ہے جس سے اس فعل کا صدور ہوا ہے۔  اِس طرز بیان سے ایک نہایت لطیف طریقے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو احساس دلایا گیا ہے کہ یہ ایسا کام تھا  جو آپ کے کرنے کا نہ تھا۔ آپ کے اخلاقِ عالیہ کو جاننے والا اِسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ یہ آپ نہیں   ہیں  بلکہ کوئی اور ہے جو اس رویّے کا مرتکب ہو رہا ہے۔            جن نابینا کا یہاں  ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد،  جیسا کہ ہم دیباچے میں  بیان کرآئے ہیں،  مشہور صحابی حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم ہیں ۔  حافظ ابن عبد الُبَرّ نے اَلْاِ ستیداب میں  اور حافظ ابن حَجَر نے اَلْاِ صابَہ میں  بیان کیا ہے کہ یہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے،  ان کی ماں  امِّ مکتوم اور حضرت خدیجہ کے والد خُو یَلْدِ آپس میں  بہن بھائی تھے۔  حضورؐ کے ساتھ ان کا یہ رشتہ معلوم ہو جانے کے بعد اس شبہ کی کوئی گنجائش  باقی نہیں  رہتی کہ آپ نے اُن غریب یا کم حیثیت آدمی سمجھ کر ان سے بے رُخی برتی اور بڑے آدمیوں  کی طرف توجہ فرمائی تھی،  کیونکہ یہ حضورؐ کے اپنے برادر نسبتی تھے،  خاندانی آدمی تھے،  کوئی گِرے پڑے آدمی نہ  تھے۔  اصل وجہ جس کی بنا پر آپؐ نے ان کے ساتھ یہ رویّہ اختیار کیا، لفظ اعمیٰ (نابینا) سے معلوم ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کی بے اعتنائی کے سبب کی حیثیت سے خود بیان فرما دیا ہے۔  یعنی حضورؐ کا خیال یہ تھا کہ میں  اس وقت جن لوگوں  کو راہ راست پر لانے  کی کوشش کر رہا ہوں  اُ  ن میں  سے کوئی ایک آدمی بھی ہدایت پا لے تو اسلام کی تقویت کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے،  بخلاف اس کے ابنِ  مکتوم ایک نابینا آدمی ہیں،  اپنی معذوری کے باعث یہ اسلام کے لیے اُس قدر مفید ثابت نہیں  ہو سکتے جس قدر اِن سرداروں  میں  سے کوئی مسلمان ہو کر مفید ہو سکتا ہے،  اِس لیے اِن کو اِس موقع پر گفتگو میں  مداخلت نہیں  کرنی چاہیے یہ جو کچھ سمجھنا یا معلوم کرنا  چاہتے ہیں  اُسے بعد میں  کسی وقت بھی دریافت کر سکتے ہیں۔

۲: یہی ہے وہ اصل نکتہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے تبلیغ دین کے معاملہ میں  اِس موقع پر نظر انداز کر دیا تھا، اور اسی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ابن امّ مکتوم ؓ کے ساتھ آپ کے طرزِ عمل پر گرفت فرمائی، پھر آپ کو بتایا کہ داعیِ حق کی نگاہ میں  حقیقی اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے اور کس کی نہ ہونی چاہیے۔  ایک وہ شخص ہے جس کی ظاہری حالت صاف بتا رہی ہے کہ وہ طالبِ  حق ہے،  اِس بات سے ڈر رہا ہے کہ کہیں  وہ باطل کی پیروی کر کے خدا کے غضب میں  مبتلا نہ ہو جائے،  اس لیے وہ راہ راست کا علم حاصل کرنے کی خاطر خود چل کر آتا ہے ۔  دوسرا وہ شخص ہے جس کا رویّہ صریحاً یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں  حق کی کوئی طلب نہیں  پائی جاتی، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتا ہے کہ اُسے راہ راست بتائی جائے۔  اِن دونوں  قسم کے آدمیوں  کے درمیان دیکھنے کی چیز یہ نہیں  ہے کہ کون ایمان لے آئے تو دین کے لیے مفید ہو سکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے فروغ میں  کچھ زیادہ مفید نہیں  ہو سکتا۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ہدایت کو قبول کر کے سُدھرنے کے لیے تیار ہے اور کون اِس متاعِ گراں  ما یہ  کا سرے سے قدر دان ہی نہیں  ہے۔  پہلی قسم کا آدمی، خواہ اندھا ہو، لنگڑا ہو،  لُولا ہو، فقیر بے نوا ہو، بظاہر دین کے فروغ میں  کوئی بڑی خدمت انجام دینے کے قابل نظر نہ آتا ہو، بہر حال داعی حق کے لیے وہی قیمتی آدمی ہے،  اُسی کی طرف اُسے توجہ کرنی چاہیے،  کیونکہ اِس دعوت کا اصل مقصد بندگانِ خدا کی اصلاح ہے،  اور اُس شخص کا حال یہ بتا رہا ہے کہ اُسے نصیحت کی جائے گی تو وہ اصلاح قبول کر لے گا۔ رہا دوسری قسم کا آدمی، تو خواہ وہ معاشرے میں  کتنا ہی با اثر ہو، اُس کے پیچھے پڑنے کی داعی حق کو کوئی ضرورت نہیں  ہے۔  کیونکہ اس کی روش علانیہ یہ بتا رہی ہے کہ سدھرنا نہیں  چاہتا، اس لیے اس کی اصلاح کی کوشش میں  وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع ہے،  وہ اگر نہ سُدھرنا چاہے تو نہ سُدھرے،  نقصان اس کا اپنا ہو گا، داعی حق پر اس کی کوئی ذمّہ داری نہیں۔

۳: یعنی ایسا ہر گز نہ کرو۔ خدا کو بھولے ہوئے اور اپنی دنیوی وجاہت پر پھُولے ہوئے لوگوں  کو بے جا اہمیت نہ دو۔ نہ اسلام کی تعلیم ایسی چیز ہے کہ جو اِس سے مُنہ موڑے اُس کے سامنے اِسے بَالْحِاح پیش کیا جائے،  اور نہ تمہاری یہ شان ہے کہ ان مغرور لوگوں  کو اسلامی کی طرف لانے کے لیے کسی ایسے انداز سے کوشش کرو جس سے یہ اس غلط فہمی میں  پڑ جائیں  کہ تمہاری کوئی غرض اِن سے  اٹکی ہوئی ہے،  یہ مان لیں  گے تو تمہاری دعوت فروغ پا سکے گی ورنہ ناکام ہو جائے گی۔ حق اِن سے اُتنا ہی بے نیاز ہے جتنے یہ حق سے بے نیاز ہیں۔

۴: مراد ہے قرآن۔

۵: یعنی ہر قسم کی آمیزشوں  سے پاک ہیں۔  ان میں  خالص حق کی تعلیم پیش کی گئی ہے۔  کسی نوعیت کے باطل اور فاسد افکار و نظریات اِن میں  راہ نہیں  پا سکے ہیں۔  جن گندگیوں  سے دنیا کی دوسری مذہبی کتابیں  آلودہ کر دی گئی ہیں  اُن کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی ان کے اندر داخل نہیں  ہو سکا ہے۔  انسانی تخیّلات ہوں،  یا شیطانی و ساوِس، اُن سب سے یہ  پاک رکھے گئے ہیں۔

۶: ان سے مراد وہ فرشتے ہیں  جو قرآن کے اِن صحیفوں  کو اللہ تعالیٰ کی براہ راست ہدایت کے مطابق لکھ رہے تھے،  اُن کی حفاظت کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم تک انہیں  جوں  کا توں  پہنچا رہے تھے۔  ان کی تعریف میں  دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔  ایک کِرام، یعنی مُعزّز۔ دوسرے بار، یعنی نیک۔ پہلے لفظ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اتنے ذی عزّت ہیں  کہ جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں  ذرّہ برابر خیانت کا صدور بھی اُن جیسی بلند پا یہ ہستیوں  سے ہونا ممکن نہیں  ہے۔  اور دوسرا لفظ یہ بتانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ ان صحیفوں  کے لکھنے،  ان کی حفاظت کرنے اور رسول تک ان کو پہنچانے کی جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے اُن کا حق وہ پوری دیانت کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔

۷: جس سلسلہ بیان میں  یہ آیات ارشاد ہوئی ہیں  ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ قرآن مجید کی یہ تعریف محض اُس کی عظمت بیان کرنے کے لیے نہیں  کی گئی ہے بلکہ اصل مقصود اُن تمام مُتکبّروں  لوگوں  کو،  جو حقارت کے ساتھ اِس کی دعوت سے مُنہ موڑ رہے ہیں،  صاف صاف جتا دینا ہے کہ یہ عظیم الشان کتاب اِس سے بدر جہا بلند و بر تر ہے کہ تمہاری حضور ی میں  اِسے پیش کیا جائے اور تم سے یہ چاہا جائے کہ تم اسے شرفِ قبولیت عطا کرو۔ یہ تمہاری محتاج نہیں  ہے بلکہ تم اِس کے محتاج ہو۔ اپنی بھلائی چاہتے ہو تو جا خنّاس تمہارے دماغ میں  بھرا ہوا ہے اسے نکال کر سیدھی طرح اِس کی دعوت کے آگے سرِ تسلیم خم کر دو۔ ورنہ جس قدر تم اس سے بے نیا ز بنتے ہو اُ س سے بہت زیادہ یہ تم سے بے نیازہے تمہاری تحقیر سے اس کی عظمت میں  ذرّہ برابر فرق نہ آئے گا، البتہ تمہاری بڑائی کا سارا گھمنڈ خاک میں  ملا کر رکھ دیا جائے گا۔

۸: یہاں  سے عتاب کا رُخ براہ راست اُن کفار کی طرف پھرتا ہے جو حق سے بے نیازی برت رہے تھے۔  اس سے پہلے آغازِ سُورہ سے آیت ۱۶ تک خطاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے تھا اور عتاب در پردہ کفار پر فرمایا جا رہا تھا۔ اُس کے اندازِ بیان یہ تھا کہ اَے نبی، ایک طالبِ حق کو چھوڑ کو آپ یہ کن لوگوں  پر اپنی توجہ صرف کر رہے ہیں  جو دعوت حق کے نقطۂ نظر سے بالکل بے قدرو قیمت ہیں  اور جن کی یہ حیثیت نہیں  ہے کہ آپ جیسا عظیم القدر پیغمبر قرآن جیسی بلند مرتبہ چیز کو ان کے آگے پیش کرے۔

۹: قرآن مجید  میں  ایسے تمام مقامات پر انسان سے مراد نوعِ انسانی کا ہر فرد نہیں   ہوتا بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں  جن کی ناپسندیدہ صفات کی مذّمت کرنا مقصود ہوتا ہے ’’انسان‘‘کا لفظ کہیں  تو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ نوعِ انسانی کے اکثر افراد میں  وہ مذموم صفات پائی جاتی ہیں،  اور کہیں  اِس کے استعمال کی وجیہ یہ ہوتی ہے کہ مخصوص لوگوں  کو تعیُّن کے ساتھ اگر ملامت کی جائے تو ان میں  ضد پیدا ہو جاتی ہے۔  اس لیے نصیحت کا یہ طریقہ زیادہ موثر ہوتا ہے کہ عمومی انداز میں  بات کہی جائے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  حٰم السجدہ، حاشیہ ۶۵۔ الشوریٰ، حاشیہ۷۵)۔

۱۰: دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ’’کس چیز نے اسے کفر پر آمادہ کیا‘‘؟یعنی بالفاظ دیگر کس بل بوتے پر یہ کفر کرتا ہے ؟ کفر سے مراد  اس جگہ حق کا انکار بھی ہے،  اپنے مُحسن کے احسانات کی ناشکری بھی، اور اپنے خالق و رزاق اور مالک کے مقابلہ میں  باغیانہ روش بھی۔۱۱:  یعنی پہلے تو ذرا یہ اپنی حقیقت پر غور کرے کہ کس چیز سے یہ وجود میں  آیا؟ کس جگہ اِس نے پر ورش پائی ؟ کس راستے سے یہ دنیا میں  آیا؟ اور کس بے بسی کی حالت میں  دنیا میں  اِس کی زندگی کی ابتدا ہوئی؟ اپنی اِس اصل کو بھول کر یہ ہمچو ماد یگر ے نیست کی غلط فہمی میں  کیسے مبتلا ہو جاتا ہے اور کہاں  سے اِس کے دماغ میں  یہ ہوا بھر تی ہے کہ اپنے خالق کے منہ آئے ؟(یہی بات ہے جو سورہ یٰس، آیات۷۷۔۷۸ میں  فرمائی گئی ہے )۔

۱۲: یعنی یہ ابھی ماں  کے پیٹ ہی میں  بن رہا تھا کہ اس کی تقدیر طے کر دی گئی۔  اِس کی جنس کیا ہو گی۔ اس کا رنگ کیا ہو گا۔ اِس کا قد کتنا ہو گا۔ اس کی جسامت کیسی اور کس قدر ہو گی۔ اس کے اعضاء کس حد تک صحیح و سالم اور کس حد تک ناقص ہوں  گے۔  اس کی شکل صورت اور آواز کیسی ہو گی۔ اس کے جسم کی طاقت کتنی ہو گی۔ اس کے ذہن کی صلاحیتیں  کیا ہوں گی۔ کس سر زمین، کس خاندان، کن حالات اور کس  ماحول میں  یہ پیدا ہو گا، پرورش اور تربیت پائے گا اور کیا بن کر اٹھے گا۔ اِ س کی شخصیت کی تعمیر میں  موروثی اثرات، ماحول کے اثرات اور اس کی اپنی خودی کا کیا اور کتنا اثر ہو گا۔ کیا کردار یہ دنیا کی زندگی میں ادا کرے گا، اور کتنا وقت اسے زمین پر کام کرنے کے لیے دیا جائے گا۔ اِس تقدیر سے یہ بال برابر بھی ہٹ نہیں  سکتا، نہ اس میں  ذرّہ برابر ردّ و بدل کر سکتا ہے۔  پھر کیسی عجیب ہے اِس کی یہ جرأت کہ جس خالق کی بنائی ہوئی تقدیر کے آگے یہ اتنا بے بس ہے اُس کے مقابلہ میں  کفر کرتا ہے۔

۱۳: یعنی دنیا میں  وہ تمام اسباب و وسائل فراہم کیے جن سے یہ کام لے سکے،  ورنہ اِس کے جسم اور ذہن کی ساری قوتیں  بے کار ثابت ہوتیں  اگر خالق نے اُن کو استعمال کرنے کے لیے زمین پر یہ سرو سامان مہیّا نہ کر دیا ہوتا اور یہ امکانات پیدا نہ کر دیے ہوتے۔  مزید بر اں  خالق نے اِ س کو یہ موقع بھی دے دیا کہ اپنے لیے خیر یا شر، شکُر یا کفر، طاعت یا عصیان کی جو راہ بھی یہ اختیار کرنا چاہے کر سکے۔  اُس نے دونوں  راستے اس کے سامنے کھول کر رکھ دیے اور ہر راہ اس کے لیے ہموار کر دی کہ جس پر بھی یہ چلنا چاہے چلے۔

۱۴: یعنی اپنی پیدائش اور اپنی تقدیر کے معاملہ ہی میں  نہیں  بلکہ اپنی موت کے معاملہ میں  بھی یہ اپنے خالق کے آگے بالکل  بے بس ہے۔  نہ اپنے اختیار سے پیدا ہو سکتا ہے،  نہ اپنے اختیار سے مر سکتا ہے،  اور نہ اپنی موت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ٹال سکتا ہے۔  جس وقت، جہاں ،  جس حال میں  بھی اِس کی موت کا فیصلہ کر دیا گیا ہے اُسی وقت، اُسی جگہ اور اُسی حال میں  یہ مر کر رہتا ہے،  اور جس نوعیت کی قبر بھی اس کے لیے طے کر دی گئی ہے اُسی نوعیت کی قبر میں  ودیعت ہو جاتا ہے،  خواہ وہ زمین کا پیٹ ہو،  یا سمندر کی گہرائیاں،  یا آگ کا الاؤ، یا کسی درندے کا معدہ انسان خود تو درکنار،  ساری دنیا مل کر بھی اگر چاہے تو کسی شخص کے معاملہ میں  خالق کے اِس فیصلے کو بدل نہیں  سکتی۔

۱۵: یعنی اِس کی یہ مجال بھی نہیں  ہے کہ خالق جب اِسے موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا چاہے تو یہ اٹھنے سے انکار کر سکے۔  پہلے جب اِسے پیدا کیا گیا تھا تو اِس سے پوچھ کر پیدا نہیں  کیا گیا تھا۔ اِس سے رائے نہیں  لی گئی تھی کہ تو پیدا ہو نا چاہتا ہے یا نہیں۔  یہ انکار بھی کر دیتا تو پیدا ہو کر رہتا۔ اِسی طرح اب دوبارہ پیدائش بھی اِس کی مرضی پر موقوف نہیں  ہے کہ یہ مر کر اٹھنا چاہے تو اُٹھے اور اُٹھنے سے انکار کر دے تو نہ اٹھے۔  خالق کی مرضی کے آگے اِس معاملہ میں  بھی یہ قطعی بے بس ہے۔  جب بھی وہ چاہے گا اِسے اٹھا کھڑا کرے گا اور اِس کو اٹھنا ہو گا، خواہ یہ راضی ہو یا نہ ہو۔

۱۶: حکم سے مراد وہ حکم بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فطری ہدایت کی صورت میں  ہر انسان کے اندر ودیعت کر دیا ہے،  وہ حکم بھی جس کی طرف انسان کا اپنا وجود اور زمین سے لے کر آسمان تک کائنات کا ہر ذرہ اور قدرتِ الٰہی کا ہر مظہر اشارہ کر رہا ہے،  اور وہ حکم بھی جو ہر  زمانے میں  اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں  کے  ذریعہ سے بھیجا اور ہر دور کے صالحین کے ذریعہ سے پھیلایا ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیر سُورہ دہر،  حاشیہ۵)۔ اِس سلسلہ بیان میں  یہ بات اِس معنی میں  ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جو حقائق اوپر کی آیتوں  میں  بیان ہوئے ہیں  اُن کی بنا پر فرض تو یہ تھا کہ انسان اپنے خالق کی فرمانبرداری کرتا، مگر اس نے الٹی نا فرمانی کی راہ اختیار کی اور بندہ مخلوق ہونے کا جو تقاضا تھا اسے پُورا نہ کیا۔

۱۷: یعنی جس خوراک کو وہ ایک معمولی چیز سمجھتا ہے،  اُس پر ذرا غور تو کرے کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے۔  اگر خدا نے اِس کے اسباب فراہم نہ کیے ہوتے تو کیا انسان کے بس میں  یہ تھا کہ زمین پر یہ غذا وہ خود پیدا کر لیتا؟

۱۸: اِس سے مُراد بارش ہے۔  سُورج کی حرارت سے بے حدو حساب مقدار میں  سمندروں  سے پانی بھاپ بنا کر اٹھایا جاتا ہے،  پھر اِس سے کثیف بادل بنتے ہیں،  پھر ہوائیں  ان کے لے کر دنیا کے مختلف حصوں  میں  پھیلاتی ہیں،  پھر عالمِ بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپیں  از سرِ نو پانی کی شکل اختیار کر تی اور ہر علاقے میں  ایک خاص حساب سے برستی ہیں،  پھر وہ پانی براہِ  راست بھی زمین پر برستا ہے،  زیرِ زمین کنوؤں  اور چشموں  کی شکل بھی اختیار کرتا ہے،  دریاؤں  اور ندی نالوں  کی شکل میں  بھی بہتا ہے،  اور پہاڑوں  پر برف کی شکل میں  جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے سوا دوسرے موسموں  میں  بھی دریاؤں  کے اندر رواں  ہوتا ہے۔  کیا یہ سارے انتظامات انسان نے خود کیے ہیں ؟ اُس کا خالق اُس کی رزق رسانی کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا  انسان زمین پر جی سکتا تھا؟

۱۹: زمین کو پھاڑنے سے مراد اُس کو  اِس طرح پھاڑنا ہے کہ جو بیج یا گٹھلیاں  یا نباتات کی پنیریاں  انسان اُس کے اندر بوئے،  یا جو ہواؤں  اور پرندوں  کے ذریعہ سے،  یا کسی اور طریقے سے اُس کے اندر پہنچ جائیں،  وہ کونپلیں  نکال سکیں ۔  انسان اِس سے زیادہ کچھ نہیں  کر سکتا کہ زمین کو کھودتا ہے یا اس میں  ہل چلاتا ہے،  اور جو تخم خدا نے پیدا کر دیے ہیں،  انہیں  زمین کے اندر اُتار دیتا ہے۔  اس کے سوا سب کچھ خدا کا کام ہے۔  اُسی نے بے شمار اقسام کی نباتات کے تخم پیدا کیے ہیں۔  اُسی نے اِن تخموں  میں  یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ زمین میں  پہنچ کر وہ پھُوٹیں  اور ہر تخم سے اُسی کی جنس کی نباتات اُگے۔  اور اُسی نے زمین میں  یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ پانی سے مل کر وہ ان تخموں  کو کھولے اور ہر جنس کی نباتات کے لیے اِس کے مناسب حال غذا بہم پہنچا کر  اسے نشو و نما دے۔  یہ تخم اِ ن خاصیتوں  کے ساتھ، اور زمین کی یہ بالائی تہیں  اِن صلاحیتوں  کے ساتھ خدا نے پیدا نہ کی ہوتیں  تو کیا  انسان کو ئی غذا بھی یہاں  پا سکتا تھا؟

۲۰: یعنی تمہارے ہی لیے نہیں  بلکہ اُن جانوروں  کے لیے بھی جن سے تم کو گوشت، چربی، دودھ، مکھن وغیرہ سامانِ خوراک حاصل ہوتا ہے اور جو تمہاری معیشت کے لیے بے  شمار دوسری خدمات بھی انجام دیتے ہیں۔  کیا یہ سب کچھ اسی لیے ہے کہ اِس سرو سمان سے مُتَمَتِّع ہو اور جس خدا کے رزق پر پل رہے ہو اُسی سے کفر کرو؟

۲۱: مُراد ہے آخری نفخِ صور کی قیامت خیز آواز جس کے بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان جی اٹھیں  گے۔

۲۲: اس سے ملتا جُلتا مضمون سُورہ معارِج آیات۱۰تا ۱۴ میں  گزر چکا ہے۔  بھاگنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اِن عزیزوں  کو،  جو دنیا میں  اُسے سب سے زیادہ پیارے تھے،  مصیبت میں  مبتلا دیکھ کر بجائے اِس کے کہ اُن کی مدد کو دوڑے،  اُلٹا ان سے بھاگے گا  کہ کہیں  وہ اسے مدد کے لیے پکار نہ بیٹھیں۔  اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں  خدا سے بے خوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے،  اُس کے بُرے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں   سے ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں  وہ اپنی گمراہیوں  اور گناہ گاریوں  کی ذمہ داری اُس پر نہ ڈالنے لگے۔  بھائی کو بھائی سے،  اولاد کو ماں  باپ سے،  شوہر کو بیوی سے،  اور ماں  باپ کو اولاد سے خطرہ ہو گا کہ یہ کم بخت اب ہمارے خلاف مقدمے کے گواہ بننے والے ہیں۔

۲۳: احادیث میں  مختلف طریقوں  اور سندوں  سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’قیامت کے روز سب لوگ ننگے بُچّے اٹھیں  گے ‘‘۔ آپ کی ازواجِ مطہرات میں  سے کسی نے (بروایتِ بعض حضرت عائشہؓ نے ،  اور بروایتِ بعض حضرت سَودہؓ نے اور بروایتِ بعض ایک خاتون نے ) گھبرا کر پوچھا، یا رسول اللہ  کیا ہمارے سَتر اُس روز سب کے سامنے کھُلے ہوں  گے ؟ حضورؐ نے یہی آیت تلاوت فرما کر بتایا کہ اُس روز کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہ ہو گا(نَسائی، ترمذی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، طبرانی، ابن مردُویہ، بَیْقَہی، حاکم)۔

٭٭٭

 

 

 

 

۸۱۔سورة التکویر

 

 

نام

 

پہلی ہی آیت کے لفظ کُوِّرَتْ سے ماخوذ ہے۔  کُوِّرَتْ تکویر سے صیغہ ماضی مجہول ہے جس کے معنی ہیں  لپیٹی گئی۔ اس نام سے مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں  لپیٹنے کا ذکر آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضمون اور اندازِ بیان سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ مکّہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں  میں  سے ہے۔ موضوع اور مضمون اس کے دو موضوع ہیں۔  ایک آخرت، دوسرے رسالت۔

پہلی چھ آیتوں  میں  قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جب سورج بے نور ہو جائے گا، ستارے بکھر جائیں  گے،  پہاڑی زمین سے اکھڑ کر اڑنے لگیں  گے،  لوگوں  کو اپنی عزیز ترین چیزوں  تک کا ہوش نہ رہے گا، جنگلوں  کے جانور بد حواس ہو کر اکھٹے ہو جائی گے اور سمندر بھڑک اٹھیں  گے۔  پھر سات آیتوں  میں  دوسرے مرحلے کا ذکر ہے جب روحیں  از سر نو جسموں  کے ساتھ جودی جائیں  گی، نامہ اعمال کھولے جائیں  گے،  جرائم کی باز پرس ہو گی، آسمان کے سارے پردے ہٹ جائیں  گے اور دوزخ جنّت سب چیزیں  نگاہوں  کے سامنے عیاں  ہو جائیں  گی۔ آخرت کا یہ سارا نقشہ کہہ چکنے  کے بعد یہ کہہ کر انسان کو سوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ اُس وقت ہر شخص کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔

اس کے بعد رسالت کا مضمون لیا گیا ہے۔  اس میں  اہلِ مکّہ سے کہا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں  وہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں  ہے،  نہ کسی شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ ہے،  بلکہ خدا کے بھیجے ہوئے ایک بزرگ، عالی مقام اور امانت دار پیغام بر کا بیان ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے کھلے آسمان کے اُفق پر دن کی روشنی میں  اپنی آنکھوں  سے دیکھا ہے۔  اِ س تعلیم سے منہ موڑ کر آخر تم کدھر چلے جا رہے ہو؟

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا، ۱ اور جب تارے بکھر جائیں  گے، ۲ اور جب پہاڑ چلائے جائیں  گے، ۳ اور جب دس مہینے کی حاملہ اُونٹنیاں  اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں  گی، ۴ اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں  گے،  ۵ اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں  گے،  ۶ اور جب ۷ جانیں  (جسموں  سے ) جوڑ دی جائیں  گی، ۸ اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قُصور میں  مار ی گئی؟ ۹ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں  گے،  اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا، ۱۰ اور جب جہنّم دہکائی جائے گی، اور جب جنّت قریب لے آئی جائے گی، ۱۱ اُس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔

پس نہیں،  ۱۲ میں  قسم کھاتا ہوں  پلٹنے اور چھُپ جانے والے تاروں  کی، اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہوئی اور صبح کی جبکہ اس نے سانس لیا، ۱۳ یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر کا قول ہے ۱۴ جو بڑی توانائی رکھتا ہے،  ۱۵ عرش والے کے ہاں  بلند مرتبہ ہے،  وہاں  اُس کا حکم مانا جاتا ہے،  ۱۶ وہ با اعتماد ہے۔  ۱۷ اور (اے اہلِ مکّہ) تمہارا رفیق ۱۸ مجنون نہیں  ہے،  اُس نے اُس پیغام بر کو روشن اُفق پر دیکھا ہے۔  ۱۹   اور وہ غَیب (کے اِس علم کو لوگوں  تک پہنچانے ) کے معاملہ میں  بخیل نہیں  ہے۔  ۲۰ اور یہ کسی شیطانِ  مردُود کا قول نہیں  ہے۔  ۲۱ پھر تم لوگ کِدھر چلے جا رہے ہو؟ یہ تو سارے جہان والوں  کے لیے ایک نصیحت ہے،  تم میں  سے ہر اُس شخص کے لیے جو راہِ راست پر چلنا چاہتا ہو۔ ۲۲ اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں  ہوتا جب تک اللہ ربّ العالمین  نہ چاہے۔  ۲۳ ؏۱

 

تفسیر

 

۱: سورج کے بے نور کر دیے جانے کے لیے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے۔  عربی زبان میں  تکویر کے معنی میں  لپیٹنے کے ہیں۔  سر پر عمامہ باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں  کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے۔  اسی مناسبت سے اُس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں  پھیلتی ہے عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج لپیٹ دیا جائے گا، اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا۔

۲: یعنی وہ بندش جس نے اُن کو اپنے اپنے مدار اور مقام پر باندھ رکھا ہے،  کھل جائے گی اور سب تارے سیّارے کائنات میں  منتشر ہو جائیں  گے۔  اس کے علاوہ اِنکدار میں  کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں  ہو ں  گے بلکہ تاریک بھی ہو جائیں  گے۔

۳: دوسرے الفاظ میں  مین کی وہ کشش بھی ختم ہو جائے گی جس کی بدولت پہاڑ وزنی ہیں  اور جمے ہوئے ہیں۔  پس جس وہ باقی نہ رہے گی تو سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں  گے اور بے وزن ہو کر زمین  پر اِس طرح چلنے لگیں  گے جیسے فضا میں  بادل چلتے ہیں۔

۴: عربوں  کو قیامت کی سخیش کا تصور دلانے کے لیے یہ بہترین طرز بیان تھا۔ موجودہ زمانے کے ٹرک اور بسیں  چلنے سے پہلے اہلِ عرب کے لیے اُس اونٹنی سے زیادہ قیمتی مال اور کوئی نہ تھا جو بچہ جننے کے قریب ہو۔ اِ س حالت میں  اس کی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی تا کہ وہ کھوئی  نہ جائے،  کوئی اسے چرا نہ لے،  یا اور کسی طرح وہ ضائع نہ ہو جائے۔  ایسی اونٹنیوں  سے لوگوں  کا غافل ہو جانا گویا یہ معنی رکھتا تھا کہ اُس وقت کچھ ایسی سخت افتاد لوگوں  پر پڑے گی کہ انہیں  اپنے اِس عزیز ترین مال کی حفاظت کا بھی ہوش نہ رہے گا۔

۵: دنیا میں  جب کوئی عام مصیبت کا موقع آتا ہے تو ہر قسم کے جانور بھاگ کر ایک جگہ اکھٹے ہو جاتے ہیں۔  اُس وقت نہ سانپ ڈستا ہے،  نہ شیر پھاڑتا ہے۔

۶: اصل میں  لفظ سُجِّرَتْ استعمال کیا گیا ہے جو تَسجیر سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے۔  تَسجیر عربی زبان میں  تنور کے اندر آگ دہکانے کے لیے بولا جاتا ہے۔  بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے روز سمندروں  میں  آگ بھڑک اٹھے گی۔ لیکن اگر پانی کی حقیقت لوگو ں  کی نگاہ میں  ہو تو اس میں  کوئی بھی قابل تعجب محسوس نہ ہو گی۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ اس نے آکسیجن اور ہائیڈ روجن،  دو ایسی گیسوں  کو باہم ملایا جن میں  سے ایک آگ بھڑ کانے والی اور دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے،  اور ان دونو ں  کی ترکیب سے پانی جیسا مادہ پیدا کرا جو آگ بجھانے والا ہے۔  اللہ کی قدرت کا ایک اشارہ اِس بات کے لیے بالکل کای ہے کہ وہ پانی کی اِس ترکیب کو بدل ڈالے اور یہ دونوں  گیسیں  ایک دوسرے سے الگ ہو کر بھڑکنے اور بھڑکانے میں  مشغول ہو جائیں   جو ان کی اصل بنیادی خاصیت ہے۔

۷: یہاں  سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے۔

۸: یعنی انسان ازسر نوا ُسی طرح زندہ کیے جائیں  گے جس طرح وہ دنیا میں  مرنے سے پہلے  جسم و روح کے ساتھ زندہ تھے۔

۹: اس آیت کے اندازِ بیان میں  ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبناکی کا تصوّر نہیں  کیا جا سکتا۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں  باپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں  ایسے قابل نفرت ہوں  گے کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اِس معصوم کو کیوں  قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بے چاری آخر کس قصور میں  ماری گئی، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں  باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کر دیا۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں  دو بہت بڑے مضمون سمیٹ دیے گئے ہیں  جو الفاظ میں  بیان کیے بغیر خود بخود اس کے فَحویٰ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔  ایک یہ کہ اس میں  اہل عرب کو یہ  احساس دلا یا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں  زندہ در گور کرتے ہیں،  پھر بھی انہیں  اصرار ہے کہ اپنی اِسی جاہلیت پر قائم رہیں  گے اور اُس اصلاح کو قبول نہ کریں  گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں  کرنا چاہتے ہیں۔  دوسرے یہ کہ اِس میں  آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے۔  جس لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا، آخر اس کی کہیں  تو دادرسی ہونی چاہیے،  اور جن ظالموں  نے یہ ظلم کیا،  آخر کبھی تو وہ وقت آنا چاہیے جب ان سے اِس بے دردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے۔  دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد دنیا میں  تو کوئی سننے والا نہ تھا۔ جاہلیت کے معاشرے میں  اِس فعل کو بالکل جائز کر رکھا گیا تھا۔ نہ ماں  باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی۔ نہ خاندان میں  کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا۔ نہ معاشرے میں  کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا۔ پھر کیا خدا کی خدائی میں  یہ ظلمِ عظیم بالکل ہی بے داد رہ جانا چاہیے ؟           عرب میں  لڑکیوں  کو زندہ دفن کر نے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں  مختلف وجوہ سے رائج ہو گیا تھا۔ ایک، معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں  اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار اُن پر نہ پڑے۔  بیٹوں  کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں  وہ حصول معیشت میں  ہاتھ بٹائیں  گے،  مگر بیٹیوں  کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ انہیں  جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انہیں  بیاہ دینا ہو گا۔ دوسرے، عام بد امنی جس کی وجہ سے بیٹوں   کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں  گے اس کے اتنے ہی حامی و مدد گار ہوں  گے،  مگر بیٹیوں  کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں  میں  الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع میں  وہ کسی کام نہ آ سکتی تھی۔ تیسرے عام بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں  بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں  انہیں  لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں  بنا کر رکھتے تھے یا کہیں  بیچ ڈالتے  تھے۔  ان وجوہ سے عرب میں  یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے گڑھا کھود رکھا جاتا تھا کہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں  پھینک کر مٹی ڈال دی جائے۔  اور کبھی اگر ماں  اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں  مانع ہوتے تو باپ با دلِ نا خواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں  لے جا کر زندہ دفن کر  دیتا۔ اس معاملہ میں  جو شقاوت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے ایک مرتبہ  بیان کیا۔ سُنَنِ دارِمی کے پہلے ہی باب میں  یہ حدیث  منقول ہے کہ ایک شخص نے حضورؐ سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا  کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں  اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں  نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں  ایک کنواں  آیا۔ میں  نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں  میں  دھکا دے دیا۔آخری آواز جو اس کی میرے کانوں  میں  آئی  وہ تھی ہائے ابّا۔ ہائے ابّا۔ یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم رو دیے اور آپ کے آنسو بہنے لگے۔  حاضرین میں  سے ایک نے کہا اے شخص تو نے حضورؐ کو غمگین کر دیا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اسے مت روکو، جس چیز کا اِسے سخت احساس ہے اُس کے بارے میں  اِسے سوال کرنے دو۔ پھر آپ نے اس سے فرما یا کہ اپنا قصہ پھر بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسووں  سے تر ہو گئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں  جو کچھ ہو گیا اللہ نے اسے معا ف کر دیا، اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔           یہ خیال کرنا صحیح نہیں  ہے کہ اہلِ عرب اِس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہ رکھتے تھے۔  ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو،  وہ ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں  ہو سکتا۔ اسی وجہ سے قرآن پا ک میں  اِس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں  کی گئی ہے،  بلکہ رونگٹے کھرے کر دینے والے الفاظ میں  صرف اتنی بات کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا۔ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں  ماری گئی۔ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں  کو  زمانہ جاہلیت میں  اس رسم کی قباحت کا احساس تھا۔ طَبرانی کی روایت ہے  کہ فَرَزْدَق شاعر کے دادا صَعْصَعہ بن ناجیتہ المُجاشعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ، میں  نے جاہلیت کے زمانے میں  جو کچھ اچھے اعمال بھی کیے ہیں  جن میں  سے ایک یہ ہے کہ میں  نے ۳۶۰ لڑکیوں  کو زندہ دفن ہونے سے بچا لیا اور ہر ایک کی جان  بچانے کے لیے دو دو اونٹ فدیے میں  دیے۔  کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟حضورؐ نے فرمایا ہاں  تیرے لیے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی۔           درحقیقت یہ اسلام کی برکتوں  میں  سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا، بلکہ اِس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے با دلِ ناخواستہ برداشت کیا جائے۔  اس کے بر عکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں  کو پرورش کرنا،  انہیں  عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انہیں  اس قابل بنا نا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں،  بہت بڑا نیکی  کا کام ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے اس معاملہ میں  لڑکیوں  کے متعلق لوگوں  کے عام تصوُّر کو جس طرح بدلا ہے اس کا اندازہ آپؐ کے ان بہت سے ارشادات سے ہو سکتا ہے جس احادیث میں  منقول ہیں۔  مثال کے طور پر ذیل میں  ہم آپؐ کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں :

مَن ابتُلِیَ من ھٰذہ البنات بِشیٍٔ فاحسن الیھنّ کن لہٗ سِتْرًا من النّار۔ (بخاری۔ مسلم) جو شخص اِن لڑکیوں  کی پیدائش سے آزمائش میں  ڈالا جائے اور پھر وہ اِن سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آ گ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں  گی۔

من عال حاریتین حتّیٰ تبلُغَا جاء یوم القیٰمۃ اناو ھٰکذا وضم اصابعہٗ       (مسلم) جس نے دو لڑکیوں  کو پرورش کیا یہاں  تک کہ وہ بالغ ہو گئیں  تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضورؐ نے اپنی انگلیوں  کو جوڑ کر بتایا۔

 من عال ثلٰث بنات او مثلھن من الا خوات فا دّ بھن و رحمھن حتّیٰ یغیْھن اللہ اوجب اللہ لہ الجنّۃ۔ فقال رجل یا رسول اللہ او اثنتین ۹ قال او اثنتین حتّی لو قالو او واحدۃ لقال واحدۃ۔ (شرح السّنۃ) جس شخص نے تین بیٹیوں ،  یا بہنوں  کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کا یہاں  تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں  تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اور دو۔ حضورؐ نے فرمایا اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں  کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضورؐ اس کے بارے میں  بھی یہی فرماتے۔

 من کانت لہ انثیٰ فلم یئد ھا ولم یھنھا ولم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجِنّۃ۔ (ابو داؤد) جس کے ہاں  لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے،  نہ ذلیل کر کے رکھے،  نہ بیٹے کو اُس پر ترجیح دے اللہ اسے جنّت میں  داخل کرے گا۔

 من کان لہ ثلاث بنات و صبر علیھنّ وکسا ھُن من جِدَتِہٖ کن لہ حِجاَ بًا مّن النار (بخاری فی الادب المفرد۔ ابن ماجہ) جس کے ہاں  تین بیٹیاں  ہوں  اور ہو ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں  گی۔

ما من مسْلم تد رکہ ابنتان فیحسن صحبتھما الا اد خلتا ہ الجنّۃ۔ (بخاری، ادب المفرد) جس مسلمان کے ہاں  دو بیٹیاں  ہوں  اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں  پہنچائیں  گی۔

 انّ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم قال لسُر ا قۃ بن جُعْشم الا اد لک علی اعظم الصدقۃ او من اعظم الصد قۃ قال بلیٰ یا رسول اللہ قال ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کا سب غیرک۔ (ابن ماجہ۔ بخاری فی الادب المفرد) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے سُراقہ بن جُعْشم سے فرمایا میں  تمہیں  بتاؤں  کہ سب سے بڑا صدقہ (یا فرمایا بڑے صدقوں  میں  سے ایک) کیا ہے ؟ انہوں  نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو

یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں  کے متعلق لوگوں  کا نقطۂ نظر صرف عرب ہی میں  نہیں  بلکہ دنیا کی اُن تمام قوموں  میں  بد ل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔

۱۰: یعنی جو کچھ اب نگاہوں  سے پوشیدہ ہے وہ سب عیاں  ہو جائے گا۔ اب تو صرف خلا نظر آتا ہے یا پھر بادل،  گرد و غبار،  چاند،  سورج اور تارے۔  لیکن اُس وقت خدا کی  خدائی اپنی اصل حقیقت کے ساتھ سب کے سامنے بے پر دہ ہو جائے گی۔

۱۱:  یعنی میدان حشر میں  لوگوں  کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو گی اُس وقت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ بھی سب کو نظر آ رہی ہو گی اور جنت بھی اپنی ساری نعمتوں  کے ساتھ سب کے سامنے موجود ہو گی تا کہ بد بھی جان لیں  کہ وہ کس چیز سے محروم ہو کر کہاں  جانے والے ہیں،  اور نیک بھی جان لیں  کہ وہ کس چیز سے بچ کر کن نعمتوں  سے سرفراز ہونے والے ہیں۔

۱۲: یعنی تم لوگوں  کا یہ گمان صحیح نہیں  ہے کہ یہ  جو کچھ قرآن میں  بیان کیا جا رہا ہے یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یا کوئی شیطانی وسوسہ ہے۔

۱۳: یہ قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ آگے کی آیات میں  بیان کی گئی ہے۔  مطلب  اِس قسم کا یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے تاریکی میں  کوئی خواب نہیں  دیکھا ہے بلکہ جب تارے چھپ گئے تھے،  رات رخصت ہو گئی تھی اور صبح روشن نمو دار ہو گئی تھی، اُس وقت کھلے آسمان پر اُنہوں  نے خدا کے فرشتے کو دیکھا تھا۔ اس لیے وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں  وہ اُن کے آنکھوں  دیکھے مشاہدے اور پورے ہو ش گوش کے ساتھ دن کی روشنی میں  پیش آنے والے تجربے پر مبنی ہے۔

۱۴: اس مقام پر بزرگ پیغامبر (رسول کریم) سے مراد وحی لانے والا فرشتہ ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے بصراحت معلوم ہو رہا ہے۔  اور قرآن کو پیغام بر کا قول کہنے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ یہ اس فرشتے کا اپنا کلام ہے،  بلکہ ’’قولِ  پیغامبر‘‘ کے الفاظ خود ہی یہ ظاہر کر رہے ہیں  کہ یہ اُس ہستی کا کلام ہے جس نے اسے پیغامبر بنا کر بھیجا ہے۔  سورہ الحاقّہ آیت ۴۰ میں  اِسی  طرح قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا قول کہا گیا ہے اور وہاں  بھی مراد یہ نہیں  ہے کہ یہ حضورؐ کا اپنا تصنیف کر دہ ہے بلکہ اسے ’’ رسولِ کریم‘‘ کا قول کہہ کر وضاحت کر دی گئی ہے کہ اس چیز کو حضورؐ خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں  نہ کہ محمدؐ بن عبداللہ کی حیثیت سے دونوں  جگہ قول کو فرشتے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی طرف منسوب اس بنا پر کیا گیا ہے کہ اللہ کا پیغام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے سامنے پیغام لانے والے فرشتے کی زبان سے،  اور لوگوں  کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی زبان سے ادا ہو رہا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن،  جلد ششم، الحاقّہ، حاشیہ ۲۲)۔

۱۵: سورہ نجم آیات۴۔۵ میں  اِسی مضمون کو یوں  ادا کیا گیا ہے کہ اِنْ ھُرَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْ حٰی۔ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقَویٰ ’’یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے،  اُس زبردست قوتوں  والے نے تعلیم دی ہے ‘‘۔ یہ بات درحقیقت متشابہات میں  سے ہے کہ جبریل علیہ السلام کی اِن زبردست قوتوں  اور ان کی اِس عظیم توانائی سے کیا مراد ہے۔  بہر حال اس سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں  میں  بھی وہ اپنی غیر معمولی طاقتوں  کے اعتبار سے ممتاز ہیں۔  مسلم، کتاب الایمان میں  حضرت عائشہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا یہ قول نقل کرتی ہیں  کہ میں  نے دومرتبہ جبریل کو ان کی اصلی صورت میں  دیکھا ہے،  اُن کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ بخاری، مسلم،  ترمذی، اور مُسند احمد میں  حضرت عبد اللہؓ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اِس شان میں  دیکھا کہ ان کے چھ سو پَر تھے۔  اس سے کچھ ان کی زبردست طاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

۱۶: یعنی وہ فرشتوں  کا افسر ہے۔  تمام فرشتے اُس کے حکم کے تحت کام کرتے ہیں۔

۱۷: یعنی وہ اپنی طرف سے کوئی بات خدا کی وحی میں  ملا دینے والا نہیں  ہے،  بلکہ ایسا امانت دار ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے اُسے جوں  کا توں  پہنچا دیتا ہے۔

۱۸: رفیق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ہیں ،  اور آپ کو اہلِ  مکّہ کا رفیق کہہ کر دراصل اُنہیں  اس بات کا احساس دلایا گا  ہے کہ آپؐ اُن کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں  ہیں،  بلکہ اُنہی کے ہم قوم اور ہم قبیلہ ہیں۔  اُنہی کے درمیان ایسے شخص کو جانتے بوجھتے مجنون کہتے ہوئے اُنہیں  کچھ تو شرم آنی چاہیے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد پنجم، النجم، حواشی۲۔۳)۔

۱۹: سورہ نجم آیات۷ تا ۹ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے اِس مشاہدے کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو،  تفہیم القرآن، جلد پنجم، النجم، حواشی۷۔۸)۔

۲۰: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم تم سے کوئی بات چھپا کر نہیں  رکھتے۔  غیب کے جو حقائق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کھولے گئے ہیں ،  خواہ وہ اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں  ہوں ،  یا فرشتوں  کے بارے میں،  یا زندگی بعدِ موت اور قیامت اور آخرت اور جنّت اور دوزخ کے بارے میں،  سب کچھ تمہارے سامنے بے کم و کاست بیان کر دیتے ہیں۔

۲۱: یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی شیطان آ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے کان میں   یہ باتیں  پھونک دیتا ہے۔  شیطان کا آخر یہ کام کب ہو سکتا ہے کہ انسان کو شرک اور بد پرستی اور دہریت و الحاد سے ہٹا کر خدا پرستی اور توحید کی تعلیم دے۔  انسان کو شتر بے مہار بن کر رہنے کے بجائے خدا کے حضور ذمّہ داری اور جواب دہی کا احساس دلائے۔  جاہلانہ رسموں  اور ظلم اور بد اخلاقی اور بد کر داری سے منع کر کے پاکیزہ زندگی، عدل اور تقویٰ اور اخلاقِ فاضلہ کی طرف رہنمائی کرے۔  (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشُعَراء، آیات ۲۱۰- تا ۲۱۲ مع حواشی ۱۳۰ تا ۱۳۳، اور آیات۲۲۱ تا ۲۲۳ مع حواشی۱۴۰تا۱۴۱)۔

۲۲: بالفاظ دیگر یہ کلام نصیحت ہے تو ساری نوع انسانی کے لیے مگر اس سے فائدہ وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو خود راست روی اختیار کر نا چاہتا ہو۔ انسان کا طالبِ حق اور راستی پسند ہونا اِس سے فائدہ اٹھانے کے لیے شرطِ اول ہے۔

۲۳: یہ مضمون اِس سے پہلے سورہ مدّثّر آیت ۵۶، اور سورہ دَھر آیت۳۰ میں  گزر چکا ہے۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المدّثّر، حاشیہ ۴۱۔

٭٭٭

 

 

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین،  عبد الحمید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید