تصوف اور خوف کی نفسیات
حیات عامر حسینی
عام بول چال میں جب ہم خوف کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے سامنے محض ایک کیفیت یا اس کیفیت کا تصور ہوتا ہے اور اس سے مراد کسی شے کا ڈر ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے اس کے مختلف معانی، وجوہات و اثرات، مدعا و مقصد اور ان کا حاصل یا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کبھی ایسا ہوتا بھی ہے تو اس کی حیثیت محض ایک موہوم اور ہلکے ذہنی یا جذباتی اثر، خیال یا نقش کی سی ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارے سامنے اس کے مختلف گہرے معانی، اثرات و کیفیات، تعلقات، وجوہ اور نتائج و مضمرات نہیں ہوتے۔
خوف ایک یک رخی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں اور علوم سے ہے۔ اس کی جڑیں بہت گہری اور اس کے مضمرات بہت وسیع ہیں، جن کا رشتہ مابعد الطبیعیات، اخلاقیات، مذہبیات، سماجیات، قانون اور سماجی، معاشی اور تعلیمی شعبوں سے ہے۔ اسے محض ایک نفسیاتی مسئلہ، قضیہ اور رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وسیع تر فہم کے لیے ہمیں انسان کی ما بعد الطبیعی بنیادوں، اس کے وجودی قضایا، اور اس کی جسمانی و روحانی کشمکش، روحانی و نفسیاتی اتھل پتھل اور ارتقا کی گہرائیوں میں جانا پڑے گا۔
زندگی اور زندگی کے حقائق اور اسرار و رموز جتنے پیچیدہ اور گہرے ہیں اتنا ہی پیچیدہ اور گہرا یہ تصور بھی ہے۔ محض یہ کہنے سے کہ خوف (۱) ایک اتفاقی اور اچانک تباہی کا ڈر ہے (۲) کسی خطرے کا احساس ہے (۳) کسی تکلیف دہ جذبہ جو کسی قریب الوقوع خطرے یا شر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کا نام ہے۔ (۴) ایک دہشتناک حالت یا دہشت کا احساس ہے (۵) ایک ایسی خوف زدہ کر دینے والی دہشت ہے جس میں خوف و دہشت اور خدا یا کسی قانونی اور اعلیٰ قوت اختیار کی تعظیم و تکریم ملی جلی ہو (۶) ایک شے یا شخص کی حفاظت کے لیے تشویش یا فکر ہے (۷) کسی وقوع الپذیر حادثہ یا واقعہ کا احساس و ادراک (۸) یا دہشت، ہیبت، یا الہامی و تخلیقی تکریم کا نام ہے۔ اس کی مختلف جہتوں کی نشاندہی تو ہوتی ہے لیکن اس کی کلی حیثیت کا ادراک نہیں ہوتا۔ خوف تو ایک کلی احساس و عمل کا نام ہے جو انسانی وجود کو جھنجوڑکے رکھ دیتا ہے اور اسے مختلف نفسیاتی، انسانی، عملی اور روحانی عوامل، اعمال اور کیفیات اور ان کے ممکنہ مضمرات سے جوڑ دیتا ہے۔
اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کا ادراک و احساس ہونا ضروری ہے کہ انسانی برتاؤ کی تہ میں محض بنیادی حیاتیاتی طریق عمل کی اساسی اہمیت نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے بھی کچھ ایسے حقائق اور رموز ہیں جنھیں محض یہ کَہ کر کہ یہ انتہائی پراسرار، مشکل و مبہم اور ناقابل ادراک یا دریافت یا ناقابل فہم ہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی فہم کے لیے ہمیں مابعد الطبیعیات، مذہبیات، روحانیات، فنون لطیفہ، ادب اور شاعری اور تہذیب انسانی کے جملہ ارتقائی پہلوؤں کو نظر میں رکھنا پڑے گا۔
انسان کو کہانیاں کہنے اور سننے کا بڑا شوق ہے اور یہ شوق اس کے تخلیقی کرب کا نہیں بلکہ اس کی مابعد الطبیعی بنیادوں کی تلاش کی نشاندہی کرتا ہے۔ میں کہانی اور اسطور کو ایک ہی چیز اور حقیقت نہیں مانتا کیونکہ یہ دو مختلف چیزیں اور حقائق سے متعلق دو مختلف رویوں کے عکاس ہیں۔ کہانی محض ایک تخلیقی عمل ہے، جب کہ اسطور کہانی کے پردے میں شرک اور انسانی و کائناتی تخریب کی سیاہ داستان ہے۔ تخلیقی عمل اور منفی اسطور گری دونوں کے ساتھ خوف کا تصور بھی جڑا ہوا ہے جو مختلف انسانی اور نفسیاتی حقائق کو سامنے لاتا ہے۔
خوف کی سائنسی تحلیل و تشریح کے لیے جدید نفسیات نے دو طریقے اختیار کر لیے ہیں یا یوں کہیے کہ جدید نفسیات میں ان کا استعمال ہوتا ہے:
(الف)اس طور و طریق، برتاؤ یا کردار جس کا اظہار انسان کرتا ہے کی تاریخی بنیادوں اور وجوہ کی تلاش و تحلیل۔
(ب) اور اس برتاؤ یا کردار کی حقیقی تنظیم کی تحقیق۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں طریقے ایک دوسرے سے وابستہ وپیوستہ ہیں اور انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حالات یا وجوہ ہیں جو خوف کو پیدا کرتے ہیں اور ان حالات کی وجہ سے جو خوف کی حالت پیدا ہو جاتی ہے وہ کس طرح کے کوائف اور کردار کو سامنے لاتی ہے۔ یہ حالات، کوائف اور کردار، مابعدی، اخلاقی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور روحانی ہو سکتے ہیں جن کا ادراک سائنسی منہاج سے ممکن نہیں، کیونکہ سائنس کا عملی دائرہ کار محض مشاہدات ہیں اور اس کے علمیاتی حدود محض حواس، عقل اور لیبارٹری کے تجربات تک محدود ہیں۔ اور ایسے کوائف جو مابعدی، مذہبی، اخلاقی، وجودی یا نظریاتی ہوں کا کسی سائنسی رصد گاہ میں مشاہدہ نہیں ہو سکتا اور نہ سائنس ان کے مشاہدات کی متحمل ہو سکتی ہے۔
اس بات کا تذکرہ میں نے اس لیے کیا کہ میں خوف کو محض ایک رویہ اور حالت نہیں سمجھتا اور نہ میرے لیے خوف کی وجوہات محض مادی، حیاتیاتی، حسی یا اسطوری عوامل ہیں۔ خوف کا ان سے پرے اور ان سے اعلیٰ ایک درجہ ہے، جو تمام خوف کو ختم کر دیتا ہے اور وہ وجود اعلیٰ یا واجب الوجود کا خوف یا اس کی محبت ہے جو ایک حرکی وجودی اخلاقیات اور اقدار کو تعمیر کرتے ہوئے نفسیات کے جملہ عوامل یا ایک انسان کی کلی نفسیات، یا اس کی ذہنی و عملی دنیا کو یکسر بدل دیتی ہے۔ اس انسانی رویے اور حالت کی ایک کلی طور پر بدلی ہوئی اعلیٰ حیثیت کا ادراک تصوف کے مقام اور حال سے کیا جا سکتا ہے جو محض نفسیاتی کیفیات نہیں ہیں، کیونکہ یہ انسان کی کل نفسیات کو متغیر کر دیتے ہیں۔
یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک رویے کو بنانے میں ماحول کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن جس خوف کا میں نے تذکرہ کیا اس میں ماحول کوئی کردار ادا کرتا ہی نہیں، کیونکہ یہ تو ماحول کو از خود بدل دیتا ہے اور اس کی طرف آنے والی تمام رکاوٹوں یا کیفیتوں کو بھی مٹا دیتا ہے۔ اس کی سب سے اعلیٰ اور بہترین مثال اسوۂ پیغمبرؐ ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ خوف ایک منفی پہلو لیے ہوئے ہے۔ یا یوں کہیے کہ خوف ایک منفی قدر ہے، یا یوں کہیے کہ خوف ایک ایسا منفی مانع ہے، جو ایک انسان کو حالت مجبوری میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔ لیکن جس خوف کی ہم بات کر رہے ہیں وہ تو ایک کلی مثبت تعمیری مانع ہے، جو از خود تمام امتناعات کو نظر انداز کر دیتا ہے اور اسوۂ پیغمبر کو گلے لگاتا ہے۔ اس کی تفصیلی کیفیات کا آگے تصوف کے حوالے سے تذکرہ ہو گا۔
خوف کی شدت اور گہرائی کو کسی میکانیکی طریقے سے نہیں ناپا جا سکتا اور وہ بھی وہ خوف جس کا محرک کوئی مادی وجود نہ ہو بلکہ ایک ایسا وجود یا تصور ہو جو اپنے آپ میں لا حد و لا فانی ہے۔ ہم تھرمامیٹر کا استعمال بخار کی شدت ناپنے کے لیے کر سکتے ہیں، لیکن کیا کوئی ایسا آلہ ہے جو محبت کی شدت کو ناپ سکے یا اس آرام یا تکلیف کی شدت کو ناپ سکے جو انسان کو کسی آرام یا تکلیف کی حالت میں ہوتی ہے۔
بنیادی طور پر ہمارا مفروضہ hypothesis ہی غلط ہے۔ ہم کسی حیوان، پرند یا درند پر ہوئے تجربات کو ایک کل یا حتمی نتیجہ مان کر چلتے ہیں، جن کے احساسات کی سطح کا انسانی احساسات کی سطح سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ان کی کوئی وجودی، مابعد الطبیعی، اخلاقی، سماجی، مذہبی اور تہذیبی سطح ہی نہیں اور نہ ان کے پاس حواس کے سوا کوئی دوسرے اعلیٰ علمی ذرائع ہیں اور نہ ان کی طبیعی ساخت ایسی ہے، جیسی کہ انسان کی۔ ایک مشرک یا اوا گون اور اسطور کے قائل اس طرح کی لغویات کا شکار تو ہو سکتے ہیں اور ایسا ہونا ان کے لیے ضروری ہے کیونکہ وہ ہر شے میں ایک مخصوص روح کی موجودگی کے قائل ہیں۔ حد تو یہ کہ وہ مختلف جانوروں اور انسانوں میں خدا کی روح کی موجودگی یا ’اوتار‘ کے قائل ہیں۔ یہ تجسیمیت کا فلسفہ خدا کو جو واجب الوجود اور تمام آلائشوں اور کمزوریوں سے منزہ ہے ایک مذاق بنا دیتا ہے۔ یہ بات ماننے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ حیوانوں کے کچھ حسی قویٰ تیز ہو سکتے ہیں یا ہو تے ہیں، جیسا، کتے کی حس شامہ، چیتے یا شیر کی حس بصارت، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان کی کوئی علمیاتی سطح اور ڈھانچا ہی نہیں ہوتا اور نہ ان کی کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ وہ تو محض جاندار معروض ہیں، روحانی معروض نہیں۔ یہ حیثیت یا مذکورہ بالا حیثیتیں ان میں قطعی و حتمی طور پر مفقود ہیں۔ اسی لیے ان کے خوف کا احساس بھی ان کے حواس تک محدود ہے، اس سے آگے انھیں کسی خوف کا کوئی احساس ہی نہیں اور نہ وہ کسی تجربے کے اہل ہیں۔
میں اس مقالے میں خوف کی توجیہ اللہ کے مقدس کلام اور صوفیہ کی تعبیرات سے کرنے کی کوشش کروں گا، تا کہ اس کی بنیادی، اور اعلیٰ حیثیتوں کو سمجھا جا سکے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ قرآن پاک کی یک رخی یا سطحی فہم و تعبیر کے بجائے اس کی آیات کے مختلف تناظرات اور پہلوؤں کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ تصوف اور اسلام کی نفسیات اور ان کی انسانی نفسیات کو سمجھنے اور بنانے اور اسے بدلنے کے پورے عمل کو سمجھا جا سکے۔
خوف انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے اور تصور بھی۔ انسانی زندگی، انسانی نفسیات اور رویوں اور طریق زندگی سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ یہ انسان کو زندگی کے مختلف شعبہ جات، صلاحیات، فطری و موروثی ذہنی رویوں سے جوڑتا بھی ہے اور ان سے الگ بھی کرتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ خوف ایک وجودی، نفسیاتی، سماجی، سیاسی، قانونی، مذہبی اور تہذیبی قضیہ ہے۔ یہ انسانی زندگی کے کلی طور پر مختلف حقائق کو نہ صرف توڑنے بلکہ جوڑنے کا بھی کام کرتا ہے۔ ان حقائق یا قضایا کے بغیر نہ صرف زندگی بلکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور حقائق کا تصور ہی نا ممکن ہے جیسے جھوٹ کے بغیر سچ، بدی کے بغیر نیکی، برائی کے بغیر اچھائی، بدصورتی کے بغیر خوبصورتی، خاموشی کے بغیر شور یا آواز، اندھیرے کے بغیر روشنی، ٹھنڈ کے بغیر گرمی کا ادر اک ہی ناممکن ہے۔
قلب ماہیت یا اچانک تبدیلی و تغیر، یا ایک شے کا دوسری شے میں تبدیل ہونا، یا ایک ترتیب و کیفیت کا دوسری ترتیب و کیفیت، یا موقف و حیثیت میں تبدیلی خوف کے بغیر ناممکن ہے۔ یوں خوف محض ایک نری حقیقت نہیں رہتا بلکہ تبدیلی کا ایک استعارہ بن جاتا ہے، جس کے مختلف رنگ، روپ اور کوائف ہیں، اور یہی انسانی زندگی، نفسیات اور رویوں اور لطائف کا گہرا راز بھی ہے اور قول متناقض Paradox بھی۔
اولین صوفیہ نے اپنے نظریات و فلسفہ کی بنیاد تصورِ خوف پر ہی استوار کی۔ ان حضرات میں حسن بصری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بعد کے صوفیہ اس کی مختلف جہتوں اور تشریحات کو سامنے لائے۔ امام غزالی نے اس تصور کو ایک فلسفیانہ اصول و تصور میں محکم کر دیا۔
اس تصور کو سامنے لانے میں ان کی غایت، مقصد و مدعا اور نیت یہ تھی کہ قلب انسانی میں اس کو اس طرح اتار دیا جائے تاکہ وہ تمام برائیوں سے اجتناب کر کے اعلیٰ حقائق کے ادراک کے قابل ہو سکے۔ حقیقت اعلیٰ یا حقائق اعلیٰ کا ادراک تصفیہ و تزکیۂ قلب کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کی بنیاد ایک وسیع روحانی و اخلاقی نظام ہے۔ یہ روحانی نظام یا روحانیت توحید میں پیوستہ ہے۔ توحید کا عملی اطلاق ایک اخلاقی نظام یا نظام اقدار کو سامنے لاتا ہے۔ یوں توحید جو اسلام کی کلی مابعد الطبیعیات کی بنیاد ہے ایک حرکی اور پر زور سماجی، سیاسی، تعلیمی، مذہبی، روحانی اور اقتصادی نظام یا کلی طور پر ایک تہذیب کو پیدا کرتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کو جانور کی طرح آزادانہ چھوڑ کر اسے بدی کے بھنور میں نہ دھکیلا جائے۔
اپنے مربوط تہذیبی نظام کے قیام، نفاذ اور دوام کی لیے قرآن انسان کے اندر نہ صرف اس کی داخلی یعنی ضمیر یا وجود کی آواز کو حرکی اور تخلیقی طور پر زندہ رکھنے کے اصول فراہم کرتا ہے۔ بلکہ تمام انحرافات سے بچنے کے لیے ایک تادیبی قانونی نظام کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں اللہ قادر مطلق کے سامنے جوابدہی اور اس کے عذاب سے بچنے کے لیے، اس کے خوف کو اس کے دل میں جاگزیں کرتا ہے۔
یوں خوف کا یہ تصور اس کی مذہبیت، فن، فکر و فہم اور زندگی کو کلی طور پر محکم حرکی اصولوں پر چلانے کے لیے اُسے ایک خارجی و داخلی قوت فراہم کرتا ہے۔ یہ محض ایک قوت نہیں بلکہ ایک تخلیقی قوت بھی ہے، کیونکہ اس خوف کی محض کوئی خارجی بنیاد ہی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مضبوط داخلی بنیاد بھی ہے جو محبت الٰہی، کہلاتی ہے۔
یہ خوف یک رنگ نہیں متنوع ہے اور اس کا تنوع ان اثرات کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے جو انسانی روح کی تابانی و درخشانی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ روح کی تابانی اسی وقت ممکن ہے، جب اس کا تعلق اللہ سے جڑ جائے جو تمام روحوں کا خالق و مالک ہے۔ اس تعلق کی بنیاد اس کی محبت ہے جس میں اس کا خوف یعنی اس سے علیحدگی اور دوری کا خوف بھی پوشیدہ ہے۔
خوف الٰہی وہ آگ ہے جو قلب کی تمام کثافتوں کو جلا دیتی ہے اور اسے اس نور کے حصول کے قابل بناتا ہے جو محبت الہٰی میں پوشیدہ ہے۔ یہ محبت جتنی گہری ہوتی جائے گی، اللہ کا خوف بھی اتنا ہی گہرا اور متنوع ہوتا جائے گا۔ اس حقیقت کا اظہار حضور کی حیات طیبہ سے ملتا ہے۔ آپ کے خوف پر اللہ کی محبت غالب آتی تھی اور محبت پر خوف۔ یوں یہ دونوں چیزیں یکساں و مماثل ہیں۔ حضرت حسن البصری نے جب خوف کا تصور دیا تو انھوں نے دراصل قلب انسانی کی تطہیر کے بیج بوئے، یہ الگ بات ہے کہ اپنے زمانے کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھوں نے محبت پر زیادہ زور نہیں دیا، اور ایسا کرنا ضروری تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ کام حضرت رابعہ بصری نے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں لالچ یا خوف سے اللہ کی عبادت نہیں کرتی بلکہ اس کی محبت کی وجہ سے اس کی عبادت کرتی ہوں۔
علماء اور صوفیہ کی ان دو تصورات کی توضیح و تشریح میں بعد الطرفین کا فاصلہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زندگی کو سمجھنے اور برتنے میں دونوں طبقوں کی سوچ، فکر، رویوں اور توضیحات و اطلاقات میں کلی فرق ہے۔ ایک الفاظ کے ظاہری معانی پر زور دیتا ہے اور دوسرا ان کے مختلف الجہت معانی اور اعمال پر زور دیتا ہے۔ ظاہر بینی ایک کا شیوہ ہے اور درون بینی دوسرے کا وصف۔
علماء جس خوف کو دلوں میں پیدا کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر جسم کو عذاب ملنے کا خوف ہے اور یہ عذاب مختلف اشیاء جیسے جہنم، سانپ، آگ یا کھولتے ہوئے پانی کے ذریعے دیا جائے گا۔ یہ آرام اور عزت کے چھن جانے کا بھی خوف ہے۔ لیکن بنیادی طور پر اس خوف کا تعلق جسم اور اس کے متعلقات کی تباہی سے ہے یوں یہ خوف ایک پست درجے کا خوف ہے۔
لیکن صوفیہ جس خوف کا ذکر کرتے ہیں اس میں اشیاء Objects یا جسم کی تکلیف کوئی مسئلہ ہی نہیں اور نہ اسے کوئی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بلکہ اس خوف کا تعلق روح سے ہے، روح کی ناآسودگی اس کا معروض ہے جسم کی تکلیف نہیں۔ یوں یہ خوف معروضی کے بجائے موضوعی ہے۔ یہ خدا سے دوری کا خوف ہے۔ مادی، جسمانی اور فانی لذات سے محرومی یا سزاؤں سے اس خوف کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق اس واحد و یکتا ذات سے ہے جو کمال اور حسن و جمال و جلال کا منبع اور تمام نعمتوں کو عطا کرنے والی ہے۔ خوف اس سے مہجوری کا نام ہے۔ اس سے بڑا درد ناک عذاب کیا ہے کہ ایک روح اس سے دور جا پڑے۔ یہی دوری سب سے بڑی رسوائی ہے۔ جو لوگ اس کی محبت میں ڈوب جاتے ہیں، یا جن کا وجود اس کی محبت کا مرکز بن جاتا ہے ان کے لیے تمام چیزیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔
قرآن حکیم کے یہ الفاظ کہ ان کے لیے کوئی غم اور حزن نہیں، اس حقیقت کو سامنے لاتی ہیں۔ خوف اور حزن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوف کی عام سطح کسی دنیا وی شے یا دنیاوی لذات کے چھن جانے اور اس کا تعلق کسی طاقتور شخص یا ادارے کے جبر سے ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ ہے جنسی اور ذہنی لذات و عیاشیوں کا چھن جانا یا ان کے غیر قانونی و غیر اخلاقی حصول کے نتیجے میں ذلت و رسوائی اور سزا کا ڈر۔
لیکن جس خوف کا ذکر یہ آیت کرتی ہے اس کا تعلق اولیاء سے ہے۔ ایمان اور ولایت کا پہلا زینہ ہی دنیاوی لذات سے دور ی ہے۔ اس لیے ان کا چھن جانا ان کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ جب ان چیزوں کے چھن جانے کا کوئی غم ہی نہیں ہے تو لازماً کسی مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مایوسی اور غم تو ذہنی و روحانی کیفیات ہیں، ان کا جسم سے کوئی تعلق نہیں۔ اولیاء تو خدا کی محبت میں ہر شے کی محبت کو تج دیتے ہیں اور ان کا یہ فیصلہ کسی جبر یا خوف کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ان کا وجودی و مذہبی فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ انھیں ہر غم اور مایوسی سے بلند کر دیتا ہے اور اسی فیصلہ کے نتیجے میں ان کا ہر عمل خدا کے لیے ہوتا ہے، یا بالفاظ دیگر خدا کا عمل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی اس کی مرضی ہوتی ہے اور جس کی مرضی اور جس کا عمل خدا کی مرضی اور عمل ہے اس کے لیے کسی چیز کا کیا ڈر اور کیسی مایوسی۔
خوف اور مسرت دو حالتیں ہیں، قرآن حکیم کسی شے یا عمل کے حالات و کوائف و نتائج کی توجیہ اس کی دو مختلف جہتوں یعنی خیر اور شر یا منفی و مثبت پہلوؤں سے کرتا ہے۔
خوف یا شر کا تعلق محض برے اعمال یا اشیاء سے ہی نہیں، اچھے اعمال اور اچھی اشیاء سے بھی ہے اور ان کی کسوٹی نیت ہے۔ جیسے کسی مسکین یا بھوکے کو کھانا کھلانا اک عمل خیر ہے جو وجہ مسرت ہے لیکن اگر یہ عمل کوئی اس نیت سے کرے کہ لوگ اسے نیک سمجھیں اور اس کی عزت و توقیر کریں تو یہ برا اور قبیح عمل ہے اور غم و حزن کا مخزن ہے۔ لیکن اگر یہی عمل خدا کی رضا کے لیے کیا جائے تو یہ ایک نیک عمل ہے۔ اس کا مقصد خدا کی رضا کا حصول ہے جو تمام مسرتوں اور سعادتوں سے بڑھ کر ہے۔ لیکن اس عمل میں خوف کا ایک نازک سا عنصر ہمیشہ موجود رہتا ہے اور وہ اس بات کا خوف ہے کہ نیت یا عمل میں کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہو جائے جو خدا کی ناراضی اور اس سے دوری کی وجہ بن جائے۔
مسرت کا جو عنصر برے کاموں میں موجود ہوتا ہے، وہ محض ایک دھوکہ اور واہمہ ہے۔ وہ عارضی ہے اور ایک بڑے خوف، سزا اور ذلت ورسوائی کی بنیاد ہے۔ جیسے زنا کاری میں جو لذت ہے وہ ایک کریہہ عمل کی عارضی لذت ہے۔ اسی طرح کسی کے مال یا عزت پر ڈاکا زنی سے ایک مسرت یا فتح یابی کا جو احساس ہو جاتا ہے وہ بہت ہی عارضی ہے۔ اس احساس و عمل کو ہمیشہ خوف، مایوسی، غم اور افسوس گھیرے رہتے ہیں۔
وجودِ انسانی اور اس کے مختلف رو یے ایک بہت ہی مربوط مگر پیچیدہ اور مختلف الجہت نظام فکر و عمل ہے کوئی نرا حیاتیاتی یا مشینی نظام نہیں۔ ایک انسان زندگی جیتا ہے، وہ احساسات و اعمال کا مجموعہ ہے، وہ محبت کرتا ہے، نفرت کرتا ہے، وہ پسند و ناپسند کرتا ہے، وہ اشیاء و اعمال میں انتخاب کرتا ہے، وہ خوش ہو تا ہے اور رنجیدہ بھی۔ اس کے مختلف اعمال اور رویوں کے پیچھے اس کے فیصلے ہوتے ہیں … اور یہی فیصلے اور یہی اعمال اور رویے اس کی امیدوں، آرزوؤں، خوف اور مسرت، نفرت و محبت اور امید و نامیدی اور رنج و غم کو پیدا بھی کرتے ہیں اور ان کی پرورش بھی۔ امید، خوف اور محبت انسانی زندگی کے تین غیر معمولی پہلو ہیں جو ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے ایک دوسرے کو سنوارتے ہیں یا زائل کر دیتے ہیں۔ تینوں کی سطح بہت پست بھی ہو سکتی ہے اور بہت شدید اور اعلیٰ بھی اور تینوں کے درمیان کبھی کبھی بعد الطرفین کا فاصلہ بھی ہو جاتا ہے۔
عام یا سطحی خوف کسی شے کے چھن جانے یا کسی معمولی سزا یا تکلیف یا غم کا خوف ہے۔ اسی طرح ایک چھوٹی سی امید کسی معمولی شے کے حصول کے متعلق ہوتی ہے۔ اور ادنی محبت کسی معمولی شے، مسرت یا لذت سے ہوتی ہے۔
محبت کے معنی ہیں وابستگی، وارفتگی اور کشش، دلکشی، گرویدگی، قوت تسخیر و جذب کے بھی، وابستگی اور گروید گی جتنی گہری ہو گی، وارفتگی بھی اتنی ہی گہری ہو گی۔ جس شے یا تصور یا حقیقت نے انسان کو اپنی طرف کھینچا، اس جیسا ہونے، اور اس کے قریب رہنے کے شوق کو بھی محبت کہتے ہیں۔ اس سے دوری یا اس کو پانے میں ناکامی کا نام خوف ہے، یہی احساس محرومی و ناکامی، تکلیف، رنج و غم اور روحانی وجسمانی انتشار اور پراگندگی اور نتیجتاً تباہی کو پیدا کرتی ہے۔
لیکن تصور یا حقیقت اعلیٰ کی محبت ایک ایسی دلکشی، وابستگی اور وارفتگی کو پیدا کرتی ہے کہ جس کی ہر سطح پر اور ہر پہلو میں ایک خوف کا عنصر ہمیشہ قائم رہتا ہے لیکن یہ خوف کا عنصر مثبت وجود کا حامل ہے۔ یہ تباہی و بربادی اور پراگندگی پیدا نہیں کرتا، بلکہ ایک مہمیز کا کام کرتے ہوئے محبوب سے اور زیادہ نزدیک کر دیتا ہے۔
یوں ہم کَہہ سکتے ہیں کہ محبت اپنے اندر خوف کو پالتی ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک منہج ہے اور یہ عنصر اس سے کبھی الگ نہیں ہو سکتا، سوائے مرحلہ دیدار خداوندی کے۔ اس طرح ہم محبت کے بارے میں یہ کَہ سکتے ہیں کہ اس کے وجود اور اس کی بنیاد میں خوف موجود ہے، جسے ہم ’فطری خوف کَہ سکتے ہیں اور وہ خوف جو محبت کے ساتھ مزید گہرا اور طاقتور ہوتا جاتا ہے اسے ہم فروعی یا دوسرے درجے کا خوف کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ ہمیشہ محبت کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔
فلسفیانہ مکاتب فکر میں وجودیت نے تصورِ خوف پر توجہ کی لیکن وجودی مفکرین کا تصور خوف اس مذکورہ ’فطری خوف‘ کے مماثل نہیں ہے۔ اسے ہم فروعی خوف کے درجے میں ڈال سکتے ہیں۔ وجود یین کے تصور خوف کی دو جہتیں ہیں۔ (الف) و ہ خوف جس کا تعلق اشیا یا دنیا سے محرومی سے ہے۔ اسے وجودیین خوف fear کہتے ہیں۔ اور (ب) موت کا خوف، یا موت کے نتیجے میں انسانی وجود کے خاتمے کا شدید احساس اور خوف۔ اسے وجودیین بے نام خوف Angst یا Dread کہتے ہیں۔ ہیڈیگراسی خوف کے حوالے سے اپنے فلسفہ وجود Dasein اور تاریخیت Historicity کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں طرح کے خوف کسی روحانی تابانی و تابندگی کو نہ تو افزوں کر سکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے انسان اپنی روحانی بنیاد یا خدا سے رابطہ قائم کر سکتا ہے، کیوں کہ ان ہر دو میں محرومیِ دنیا اور محرومیِ جان کے سواکچھ نظر نہیں آتا۔ خوف الٰہی کے پیچھے جو بنیادی مقصد اور تصور کار فرما ہے وہ ہے خدا کی طرف سفر، یا خوف الٰہی کے ذریعے خدا سے اپنے آپ کو جوڑنا اور اس کی رضا یا موت کے بعد ایک نئی زندگی میں روحانی ارتفاع و کامیابی اور دیدار خداوندی کا حصول، لیکن وجودیین کے تصور خوف میں ایسی کوئی شے نہیں ملتی۔ عیسائی عقائد ان کے کل فلسفہ کی بنیاد یا ان کا فلسفہ ان عقائد کی نئی تشریح ہے جیسا کہ کیر کے گارڈ، ٹلچ اور دوسرے مفکرین کے فلسفے میں نظر آتا ہے۔ اس فلسفہ و تشریح کی کل اساس انسان کا ازلی گنہگار ہونا ہے۔ یہ نظریہ قرآن پاک کے تصور خلافتِ انسانی اور اس کی عظمت و آزادی سے کلی طور پر ٹکراتا ہے۔ یوں وجود یین کے ہاں اس خوف یا محبت کی کہیں کوئی رمق نظر نہیں آتی جو صوفیہ کے تمام فکر اور اعمال کی جان ہے اور جس کی اصل قرآن پاک کی تعلیمات ہیں۔ رہا مشرکانہ مذاہب اور دیومالا کا معاملہ تو ان کا کل وجود جنس اور جنسی اعمال اور جنسی آوارگی میں پیوستہ ہے۔ اس لیے ان میں پاکیزہ اور لطیف تصورات کا تصور کرنا ہی عبث ہے۔
قرآن پاک کا تصور خوف و محبت اس کے اساسی اصولِ توحید میں پیوستہ ہے۔ ویسے بھی قرآن پاک کا ہر حکم کسی نہ کسی صورت میں اسی تصور سے وابستہ ہے۔ توحید کا اساسی اصول اسلامی ما بعد الطبیعیات کو چار بنیادی اصولوں رسالت، معاد، وحدت انسان اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر استوار کرتے ہوئے ایک واضح نظریۂ حیات اور انسانی تہذیب کی پرداخت کرتا ہے، جسے ہم توحیدی یا پیغمبرانہ تہذیب کہتے ہیں۔
قرآن کے ’تصور خوف‘ کو سمجھنے کے لیے کئی حقائق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
(الف)اللہ تمام کائنات کا خالق و مالک، رزاق، حاکم اور ربّ ہے۔ وہ تمام علم، حکمت، قوت، عزت اور شرف کا مالک ہے۔ اس سے زیادہ تمام اشیاء کے حقائق و رموز اور کیفیات سے کون واقف ہو سکتا ہے؟ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اُسے تمام علم کے ذرائع سے نوازا۔ وہ علیم و خبیر ہے اور دل کی انتہائی تہوں میں اٹھنے والے خیالات، جذبات و احساسات سے واقف ہے۔ اس سے زیادہ انسان کی نفسیات سے کون واقف ہو سکتا ہے؟
(ب) تمام اسماء و صفات اسی کو زیب دیتے ہیں۔ وہ رحیم و کریم بھی ہے اور غفور و ودود بھی، علیم و خبیر بھی ہے اور بصیر بھی، تمام جہانوں کا مالک بھی ہے اور پالن ہار بھی۔
(ت) وہ کوئی ظالم و جابر حکمران نہیں۔ اس کی ہر بات میں حکمتوں کا خزانہ موج زن ہے۔ اس کی سزا بھی اس کے لطف و کرم کا ہی حصہ ہے۔ اس لیے یہ اسی کا حق ہے کہ اس سے محبت بھی کی جائے اور اسی سے ڈرا بھی جائے۔ اس کا خوف اس کی محبت اور اس کی محبت اس کی خوف کا لازمہ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ محبت نہ تو لایعنی باتوں اور حرکتوں کا مجموعہ ہے اور نہ خوف کسی ایسے وجود کا خوف جو محض ایک واہمہ ہے۔
(ث)اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بڑے ہی رحیم و کریم اور شفیق پیغمبر بھیجے اور سب عظیم و شفیق پیغمبر ختمی مرتبت حضرت احمد مجتبیٰ ﷺ ہیں جو رحمت للعالمین بھی ہیں او ر شفیع المذنبین بھی، قاسم بھی ہیں اور جواد بھی۔ پیغمبرانِ کرام کا یہ سلسلہ بھی اللہ کی رحمت و رحیمیت کا حصہ ہے۔
(ج)کتاب الٰہی کی مختلف آیات میں جہاں انسان کو اللہ سے ڈرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہیں اس ہدایت سے پہلے جو بات بڑی ہی حکمت کے ساتھ بیان ہوئی ہے وہ اس کی مختلف صفات جیسے ربوبیت، نور، علم، انصاف و عدل، دانش و حکمت، انعامات، ہدایت اور احسان کا ذکر ہے۔
(ح) اسی لیے دین حق کے اخلاقی نظام کی بنیاد بے دیکھے اللہ کا خوف ہے۔ جو جبار و قہار ہی نہیں رحمن و رحیم بھی ہے اور اس کا رحم و کرم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے۔ ایمان اور ہدایت ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔
’’یہ کتاب (الٰہی) اس میں ذرا بھی شبہہ نہیں ! ہدایت ہے (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے۔ ‘‘(۲:۲)
اور ہدایت، مغفرت اور اجر ان لوگوں کو عطا ہوتے ہیں جو بے دیکھے ربّ پر ایمان لاتے ہیں۔
’’جو لوگ بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں۔ یقیناً ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر۔ ‘‘ (۲۷:۱۲)
’’اور اللہ سے ڈرو ! جان لو کہ اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔ ‘‘ (۲:۲۳۱)
’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سب کاموں کو جو تم کرتے ہو دیکھ رہا ہے۔ ‘‘ (۲:۲۳۳)
اللہ کے فرمان عالی شان یعنی قرآن پاک کی حقیقت، ماہیت اور فطرت صرف ہدایت ہے۔ یہ نور، رہنما اور حق کو واضح کرنے والی کتاب ہے۔ ایمان کی اصل اور شناخت تقویٰ یعنی خوف خدا ہے۔ اسی خوف سے دل کے تالے کھل جاتے ہیں اور اس کی سیاہی دور ہو جاتی ہے۔ اور یہی تقویٰ دل کو کتاب الٰہی کی ہدایت کے حصول کے لیے تیار کرتا ہے۔ دل کی صفائی کے معنی ضمیر اور شعور کا صاف و شفاف ہونا ہے اور تقویٰ کے معنی اس دائمی خوف کے ہیں جو دل کو تزکیہ و تطہیر سے منور کرتا ہے اور انسان کو پاکیزہ زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے۔
(خ) متقین کی پہلی علامت شعوری، ایجابی، عملی اور فعلی وحدت ہے۔ ایسی وحدت جو ان کے نفوس میں ایمان بالغیب، فرائض کی ادائیگی، تمام رسولوں پر ایمان اور آخرت پر ایمان کو یکجا کر دیتی ہے۔ متقین محسوسات پر ست نہیں ہوتے۔ وہ خدا پر بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور یہی ایمان بالغیب حیوانات اور انسانی ارتقا کے درمیان حد فاصل ہے۔
(د) ایمان کی پہلی شرط یہ ہے کہ تمام شرائط کے بغیر خدا پر ایمان لایا جائے۔ اور اسی کو محبت بھی کہتے ہیں، کیونکہ محبت میں کوئی شرط نہیں ہوتی۔ شرطیں توسودا بازی کا خاصہ ہیں ایمان و محبت کا نہیں، یہی تقویٰ بھی ہے، کیونکہ تقویٰ یعنی خوف الٰہی قلب کا ایک شعور اور وجدان کا ایک احساس ہے۔ اسی سے تمام صالح افکار پھوٹتے ہیں۔ باطنی احساسات اور ظاہری اعمال و حرکات کے مابین وحدت رونما ہوتی ہے۔ ظاہر و باطن میں اللہ سے انسان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے اور روح ہلکی ہو جاتی ہے اور اس پر سے تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ یہ اسے اطمینان عطا کرتا ہے۔ جس کی آخری صورت راضیہ المرضیہ ہے۔
(ذ) تقویٰ ہی متقین میں اتفاق پیدا کرتا ہے اور اسی سے ان میں بہترین انسانی روابط اور انسانی اخوت اور انسانی ہمدردی کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ یوں تقویٰ بہترین انسانی سماج کی تعمیرو ترویج کرتا ہے۔ انفاق کی جڑ تقویٰ ہے اور تقویٰ کی بنیاد ایمان۔ یوں یہ تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایمان نور ہے، تقویٰ اس کا ارتکاز اور انفاق اس کا اظہار اور پھیلاؤ اور قلب ان کا مقام، مصدر و ارتکاز و انتشار۔ ’’ایمان وہ نور ہے جب یہ نور مومن کے دل سے پھوٹتا ہے تو اس سے مومن کا پورا وجود منور ہو جاتا ہے۔ اس کی روح منور اور شفاف ہو جاتی ہے اور وہ اپنے گرد و پیش روشنی بکھیرتی ہے۔ اس نور سے اشیا، اقدار، پیمانوں اور تصورات کے حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ اور مومن کا دل کسی پردے اور اشتباہ کے بغیر انھیں واضح طور پر دیکھتا ہے۔ ان میں سے جس حقیقت کا جو مقام ہوتا ہے کسی فرق کے بغیر اسے وہی مقام دیتا ہے اور ان میں سے جن حقائق کو چاہتا ہے سہولت، طمانیت، اعتماد اور سکون و قرار کے ساتھ لیتا ہے اور جنھیں چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ نور کائنات میں جاری قانون کی طرف مومن کی رہنمائی کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مومن کی حرکت و اعمال اور اس کے گرد و پیش اور خود اس میں نافذ کائناتی قوانین کے عمل میں پوری مطابقت ہو جاتی ہے۔ وہ راہ خدا پر بہت ہی سہولت اور نرم روی کے ساتھ گامزن ہوتا ہے۔ نہ وہ راہ سے بھٹکتا ہے اور نہ اس کا راہ کی رکاوٹوں سے تصادم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا راستہ اسے معلوم اور اس کے لیے واضح ہے‘‘۔ (فی ظلال القرآن جلد اول، دوم)
(ر) اس نور کے مقابل قوت کفر و شرک ہے جو مجسم تاریکی ہے جو مختلف صورتوں اور شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس تاریکی کی پہلی صفت خدا سے سرکشی اور بغاوت ہے اور یہی حجاب قلب ہے جو انسان کی فطرت کو مسخ کر کے اُ سے حد درجہ سرکش بنا دیتی ہے اور وہ زمین پر فساد پھیلا دیتا ہے۔ اللہ سے بے خوفی اور سرکشی انسان کو ہزاروں خداؤں کا غلام بنا دیتی ہے اور اسے انتہا درجہ بزدل، کم مایہ، دروغ گو، بخیل، حاسد، کینہ پرور، شکست خوردہ اور کمینہ اور ارزل یعنی جملہ سیئات یا شقاوتوں اور برائیوں کا مجموعہ بنا دیتی ہے۔ کفر و شرک کی واضح صفت جھوٹ ہے۔ کیونکہ ان سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں۔ اسی جھوٹ کے زعم میں ایک کافر و مشرک ہر شقاوت اور سیاہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ قلب کی سیاہی اسے ہدایت سے محروم کر دیتی ہے اور اس کے حواس و عقل پر مہر لگ جاتی ہے۔ یعنی وہ حقیقت کو سمجھنے اور پرکھنے کی شدبد کھو دیتا ہے۔ اسی لیے وہ حکمت و دانش اور بصیرت سے محروم ہو جاتا ہے اور ایسا ہونا ضروری ہے کیونکہ حکمت اعلیٰ اخلاق اور دانش مندی، فیاضی، نیک خوئی، نرم روی، فراخ دستی، بردباری، عفو درگزر، شکر گزاری، صبر، توکل اور انصاف پسندی یعنی جملہ حسنات و اخلاق و اقدار عالیہ تو مومن کا زیور ہے۔
’’پس (اے نبی) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی دانش مند ہیں۔ ‘‘ (۳۹:۱۸)
’’سنو جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف و رنج کا موقع نہیں۔ ‘‘ (۱۰:۶۳، ۶۲)
اللہ کا خوف حکمت، دانش مندی، اعتدال، تدبر و تفکر، بصیرت اور فہم و ادراک اور امورات کی صالح انجام دہی کی بنیاد ہے۔ قرآن حکیم میں حکمت کا لفظ گہری بصیرت و دانائی اور اعلیٰ اخلاق و کردار دونوں کے لیے آیا ہے۔ اسی لیے اللہ کے پیغمبر کی ایک واضح صفت حکمت ہے۔ اسی لیے اس کا ایک نام حکیم بھی ہے۔ اس لیے جو بھی لوگ آپ کا اتباع کرتے ہیں صاحب حکمت و فراست ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی غفلت میں نہیں پڑتے اور نہ وہ کسی گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ تاریخ اور دنیا کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں اسی لیے وہ صاحب بصیرت ہیں۔
ان مباحث اور تصوف کے ابتدائی دور علی الخصوص حضرت حسن بصری اور حضرت رابعہ بصری کے فلسفہ خوف و محبت کو سمجھنے کے لیے ہمیں امام غزالی کے تصور خوف و رجا کی طرف مراجعت کرنی پڑے گی۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ امام غزالی سے پہلے اور آپ کے بعد بھی کسی مفکر یا صوفی نے ان تصورات کی فلسفیانہ تشکیل و تحلیل نہیں کی۔ امام غزالی کے تصور خو ف و رجا کی صحیح فہم کے لیے اس کے تصور علم اور محبت الٰہی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا اور بندے کے درمیان محبت کا کوئی تعلق یا رشتہ ہو سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے کلام پاک کی ان آیات کریمہ کو ذرا سا ذہن میں رکھ کر آگے بڑھیں تو بہت سی گتھیاں خود بخود سلجھتی نظر آئیں گی۔ ارشاد خداوندی ہے :
’’یقیناً اللہ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو زیادہ سے زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہنے والے ہیں۔ ‘‘ (۲:۲۲۲)
’’اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔ ‘‘ (۳۰:۲۱)
’’تمھارے رفیق تو حقیقت میں صر ف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ ‘‘ (۵:۵۵)
’’اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ ‘‘ (۲:۲۲۲)
’’اور خاص اپنے پاس سے (حنان) سوزو گذار اور پاکیزگی۔ ‘‘ (۹۱:۵۱)
کئی مفکرین و علماء کا یہ خیال کہ محبت کا تعلق ایک جیسی نوع کے افراد کے درمیان ہی ممکن ہے اور یہ کہ خدا کی محبت کے معنی محض اس کی اطاعت کے ہیں، اپنے آپ میں ایک عملی مغالطہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انسانوں اور جانوروں کے درمیان کسی قسم کا تعلق ہی ممکن نہ ہوتا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان جانوروں، پرندوں، پھولوں اور ہزاروں قسم کی نباتات اور جمادات کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ کتنے ہی جانور ایسے ہیں جو اپنے پالن ہار کی محبت و حفاظت میں اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک سطحی دلیل ہے۔ معاملہ ایک جیسی نوع کا نہیں تعلق و کشش و انجذاب کا ہے۔ ایک ہی نوع کے افراد ایک دوسرے سے انتہائی حد تک نفرت بھی کرتے ہیں۔ خدا اور بندوں کے درمیان محبت اسی تعلق و کشش و انجذاب کی وجہ سے ہے۔ انسان کے دل میں ان اشیاء کی طرف ایک فطری میلان ہے جو اسے خوشی و مسرت دیتی ہیں۔ یا جوا سے پسند آتی ہیں۔ یا جن کا وہ گردیدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے نفرت اس فطری میلان کا نام ہے جو چیزوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتا یا پھینکتا ہے۔ وہ چیزیں جو انسان کو تکلیف پہنچاتی ہیں وہ ان سے فطری طور پر دور بھاگتا ہے لیکن اس فطری تعلق کو سمجھنے کے لیے جیسا کہ ہم نے پہلے ہی ذکر کیا ہے ان اشیاء کے خواص کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ سانپ کی کھال بہت ہی جاذب نظر ہوتی ہے لیکن اس کا زہر قاتل ہوتا ہے۔ اگر انسان کو سانپ کے زہر کا علم نہ ہو تو وہ اس کے زہر کا شکار بن سکتا ہے۔ مخبوط الحواس یا معصوم بچوں کو چونکہ اشیاء اور ان کے خواص کا علم ہی نہیں ہوتا لہٰذا وہ ان سے نہیں ڈرتے اور ان کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح خدا کی محبت خدا کے علم میں پیوستہ ہے۔ اگر کسی شخص کو خدا کا علم یا اس کی صفات کا ادراک ہی نہ ہو تو وہ اس سے محبت کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن اس علم کے حصول کے لیے تصفیہ قلب بنیادی شرط ہے۔ جس طرح جب تک ایک سلیٹ صاف ستھری نہ ہو اس پر لکھا نہیں جا سکتا، یا اس پر الفاظ واضح ہو کر ابھر نہیں سکتے، ٹھیک اسی طرح جب تک قلب تمام آلائشوں اور شہوات سے پاک نہ ہو اس پر خدا کے علم کا پر تو تک نہیں پڑ سکتامحبت تو بہت دور کی بات ہے، لیکن جس طرح خدا کی محبت کوئی عام محبت نہیں، ٹھیک اسی طرح اس کا علم بھی کوئی عام علم نہیں ہے۔ قلب انسانی جتنا صاف ہوتا جائے گا، علم خداوندی کی شعاعیں اتنی ہی اس پر اثر انداز ہوں گی، اور علم خداوندی کی گرفت قلب پر جتنی مضبوط ہو گی، محبت خداوندی بھی اتنی ہی گہری ہوتی جائے گی۔
انسانوں اور انسانوں یا حیوانوں اور دیگر چیزوں کے درمیان محبت کی بنیاد حواس کے ادراک یا علم پر منحصر ہے۔ لیکن خدا کا علم ماورائے ادراک حسی ہے۔ اس کا تعلق عام عقل یا منطق سے بھی نہیں۔ اس علم کا حصول علم المکاشفہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ علم المکاشفہ کی بنیاد تصفیہ و تزکیہ قلب کے ساتھ ساتھ صفاتِ خداوندی پر غور فکر بھی ہے۔ اس علم کو ہم وجدان کہتے ہیں۔ اس کی صفت فوری، صریح، قطعی اور بلاواسطہ آگہی و ادراک ہے۔
خدا ہماری محبت کا انتہائی مطلوب ہے کیونکہ وہی ان تمام اشیاء، اور ان تمام وجوہ کا خالق ہے جن سے محبت پیدا ہوتی ہے، یا جن سے محبت ہوتی ہے۔ غزالی نے چار علتوں کو محبت کی وجہ بیان کیا ہے (الف) محبت ذات (ب) محبت محسن و مربی (ج) محبت حسن (د) دو روحوں کے درمیان انسیت۔
انسان ہر قیمت پر اپنا تحفظ اور اپنی بقا چاہتا ہے۔
انسان اپنے آپ یا اپنے وجود سے محبت کرتا ہے۔ وہ ہر سطح اور ہر قیمت پر اپنے تحفظ، بقا اور کمال کا خواہاں ہے اسی لیے وہ اس ہر شے سے محبت کرتا ہے جوا س عمل میں اس کی ممد د معاون ہے، جیسے اپنے اعضاء، اپنی قوت، دولت، اولاد، خاندان، دوست و احباب وغیرہ۔ اسی لیے وہ ہر اس شے سے محبت کرتا ہے جو اسے فائدہ پہنچاتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ بھی ایک طرح کی محبت ذات ہی ہے۔ کیونکہ وہ کسی شے سے اسی لیے محبت کرتا ہے کہ اس سے اس کی ذات کو فائدہ اور استحکام مل رہا ہے۔
محبت حسن و فوائد سے مبرا ہے۔ حسن اپنے آپ میں محبت کا مرکز ہے۔ یہ انسانی وجود کو جمالیاتی احساسات کے ذریعے مسرت سے سرشار کر دیتا ہے۔ حسن کے معنی ہیں اجزاء میں حسن ترتیب اور ہم آہنگی۔ یہی ہم آہنگی چیزوں کو کمال سے آراستہ کر دیتی ہے۔ حسن محض اشیاء میں نہیں ہوتا۔ یہ تصورات و احساسات میں بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے جتنے بھی تصوراتی تشکیلات یا اقدار ہیں، جیسے اخلاق و کردار، نیکی، علم وہ بھی حسن ہی ہیں۔ اسی لیے ہم ان صفات کی حامل اشیاء اور شخصیات سے بھی محبت کرتے ہیں جو حسین ہوں۔
ان چار وجوہ کی صحیح معرفت انسان کو معرفت حقیقی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ کیونکہ ان چاروں علل کو خدا نے پیدا کیا۔ وہی سب سے بہترین حفاظت اور زندگی عطا کرنے والا بھی ہے اور سب سے بہترین منعم بھی۔ وہی جمیل و حسین ہے اور تمام جمال اسی کی تخلیق ہے۔ اسی نے تمام ارواح کو پیدا کیا اور ان کے درمیان محبت ڈال دی۔ وہ اپنی ذات میں خالق کل، منعم اور حسن کل ہے۔ تمام کائنات اسی کی پیدا کردہ ہے۔ لہٰذا اس کی ذات حقیقت میں اس لائق ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ انسان کے لیے صحیح راہ یہی ہے کہ وہ اللہ کے رنگ میں رنگ جائے، یعنی اس کی صفات کو ایک ممکنہ حد تک اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ نے ارواح کو پیدا کیا۔ انسان کے اندر روح پھونکی اور اسے اپنا خلیفہ بنایا۔ لہٰذا اللہ اور انسان (یعنی بندوں ) کے درمیان ایک فطری تعلق ہے، لیکن اس تعلق کو صرف علم المکاشفہ یا وجدان کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
لیکن اللہ اور بندوں کے درمیان محبت کے معنی وہ نہیں جس کا اطلاق بندوں کے درمیان محبت یا بندوں اور کائنات کی دیگر اشیا کے درمیان محبت پر ہے۔ کیونکہ اللہ کا مل ذات ہے وہ تمام ضرورتوں اور مجبوریوں سے بالا و ماوریٰ ہے۔ جب کہ تمام اشیاء محض مخلوق اور محتاج ہیں۔ اللہ کی محبت کی دو جہتیں ہیں (الف) اللہ کی اپنے بندوں سے محبت (ب) بندے کی اللہ سے محبت۔ اللہ کی محبت کے معنی اپنی تخلیق سے محبت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی ایک واجب الوجود ذات حقیقی ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ فانی اور اس کی مخلوق ہے۔ محبت الہی کے معنی انسان کے قلب پر سے تمام سیاہی کے پردوں کو ہٹا کر اسے اللہ کا قرب اس کی معرفت اور رضا و دیدار عطا کرنا ہے۔ اللہ کی محبت اس کی مرضی ہے جو ازلی و ابدی ہے۔ اللہ تمام تغیرات سے معریٰ ہے۔ تغیر کائنات کی صفت ہے خدا کی نہیں۔ تصفیہ قلب سے انسان کے اعمال اور اس کے علم و معرفت کی سطحیں بدل جاتی ہیں اور جتنا اس کا علم کمال کی طرف بڑھتا ہے اتنا ہی اس کی معرفت ذات میں شفافیت آ جاتی ہے۔ اور جتنا اس کا دل جملہ شہوات و خواہشات سے پاک ہوتا ہے، اتنا ہی وہ خدا کی حفاظت و نگرانی میں آ جاتا ہے اور جتنا یہ رشتہ مضبوط ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کی مرضی اور اعمال اللہ کی مرضی کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ اور اس عمل کا انتہائی نقطہ یہ ہے کہ اس کی مرضی اللہ کی مرضی بن جاتی ہے۔ جب وہ اللہ کے جلال و جمال و کمال کا علم المکا شفہ کے ذریعے مشاہدہ کرنے لگتا ہے تو اس کے دل میں اس سے مہجوری کے تصور سے ہی خوف پیدا ہونے لگتا ہے۔ اللہ کی رضا اور اس کے انس اور شوق کی بنیاد اللہ کا علم یا معرفت ہے۔
لوگوں کے درجات اللہ کی معرفت یا اس کے علم اور ان کے تصفیۂ قلب اور محبت کی شدت و گہرائی کے مطابق ہیں۔ غزالی نے لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ (الف) اصحاب یمین وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے اسماء و صفات کے متعلق سُنایا پڑھا۔ انھیں ان کی معرفت نہیں ہوتی۔ (ب) گمراہ لوگ جو راہ مستقیم پر نہیں اور جن کا علم جھوٹا اور گمراہ کن ہے۔ (ج) صدیقون، جن کا علم سچا اور جن کی معرفت گہری ہے وہ اللہ کے قریب ہیں۔ امام غزالی سے بہت پہلے ذوالنون مصری نے لوگوں کی درجہ بندی علم کی بنیاد پر کی، لیکن یہ درجہ بندی غزالی سے ذرا مختلف ہے۔ ذوالنون کے خیال میں لوگوں کے تین درجے ہیں جن کا تعلق ان کے درجہ علم اور ایمان سے ہے (الف) عام لوگ جو خدا پر اس لیے ایمان لاتے ہیں کہ انھوں نے خدا کے بارے میں سنا۔ یا وہ اس ماحول میں پیدا ہوئے جہاں خدا کو مانا جاتا ہے۔ (ب) علما و مفکرین جو منطقی دلائل اور علمی معلومات و استدلال کی بنا پر خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ (ج) عرفاء، جن کا ایمان معرفت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ایک شخص کے علم اور معرفت میں جتنی گہرائی، شدت اور کمال آتا جائے گا، اتنا ہی اللہ سے اس کا تعلق گہرا ہوتا جائے گا۔
تعلق اور قربت جتنی بڑھتی جائے گی، اللہ کے خوف میں اتنی ہی شدت پیدا ہو گی۔ اللہ کا خوف انسان کے علم کے مطابق ہے۔ معرفت الٰہی انسان کی محبت کو مضبوط کرتی جاتی ہے اور محبت جتنی گہری ہو گی، خوف بھی اتنا ہی شدید ہو گا۔ غزالی کے خیال میں کمال کے لیے، علم خداوندی اولین شرط ہے، کیونکہ اس کے بغیر خدا کی محبت ممکن نہیں۔ لیکن خدا کا علم ہر حال میں خدا کی محبت نہیں ہوتا۔ محبت علم سے زیادہ اعلی و ارفع معیار مطلوب ہے۔ شہاب الدین سہروردی مقتول نے کہا ہے کہ محبت خاص اور منفرد ہے۔ یہ انسیت سے بہت ارفع ہے۔ کیونکہ جملہ محبت انسیت ہے لیکن ہر انسیت محبت نہیں ہوتی۔ لیکن انسیت علم سے اعلیٰ ہے کیونکہ کل انسیت علم ہے لیکن سارا علم انسیت نہیں۔ علم کا تعلق جسم یا روح سے موافقت سے ہے۔ جب اس کا تعلق روح سے ہوتو یہ خیرا علیٰ کہلاتا ہے اور خیر اعلیٰ کی بنیاد علم اور انسیت ہے۔
خوف خدا کا تعلق جہالت سے نہیں کیونکہ جہل یا لا علمی خوف خدا پیدا نہیں کرتی۔ خوف علم سے پیدا ہوتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ علم خوف کی بنیاد ہے۔ علم جتنا وسیع اور گہرا ہو گا خوف کی شدت بھی اتنی ہی ہو گی۔ محبت کا انتہائی مطلوب ذات خداوندی ہے کیونکہ وہ ان تمام علل کا منبع ہے جو محبت کی بنیاد ہیں۔ محبتِ خدا ہی سے تمام اخلاقی و سماجی اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ انتہائی خوف کا تعلق عرفانِ ذات الٰہی سے ہے۔ اس لیے یہ اس کی محبت سے جڑا ہوا ہے۔
غزالی نے مسئلہ خوف پر بہت طویل بحث کی ہے۔ اس کے معانی اور حقیقت کا بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ خوف درد دل اور سوز درونی کا نام ہے جو زمان آئندہ کی کسی بری توقع کے سبب ہوتا ہے۔ واسطے کے حوالے سے وہ اسے خدا اور بندے کے درمیان حجاب کہتے ہیں۔ خوف کی حالت اور شدت کا احساس کسی شے کی خاصیت کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس قدر یہ خاصیتیں اور ان کا علم کم ہو، خوف بھی اتنا ہی کم ہو گا۔ برے اسباب کے علم سے دل میں جو سوزش اور درد پیدا ہوتا ہے، وہ خوف ہے۔ خدا کا خوف اس کی معرفت اور اس کی صفات کے علم سے پیدا ہوتا ہے۔ احساس گناہ سے بھی خوف پیدا ہوتا ہے۔
کائنات کی ہر شے اپنے خواص اور قوت میں یکساں نہیں۔ ہر شے اپنے آپ میں اپنے خواص اور قوت میں محدود ہے۔ اس لیے ان کا خوف بھی مطلق نہیں ہوتا۔ مطلق خوف کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذات جس کی وجہ سے یہ خوف پیدا ہو جائے مطلق قوت کی حامل اور کامل ہو۔ لیکن ایسی کوئی شے ہے ہی نہیں، صرف اللہ کی ذات ہے جو اپنے آپ میں مطلق اور کامل ہے۔ لہٰذا اس کا خوف بھی انتہائی شدید ہو گا۔ اور یہ خوف صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک شخص کو اپنے نفس اور خدائے تعالیٰ کی کامل صفات کا علم ہو۔ عرفانِ نفس اور خدا کی ذات و صفات کا علم، انسان کو گناہوں سے روکتا ہے اور یہی خوف اسے نیک اعمال کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان کے نیک اعمال، مراقبہ، محاسبہ اور مجاہدہ اسی قدر قوی ہوں گے جتنا قوی اور شدید خوف ہو گا۔ اسی علم اور خوف کی وجہ سے انسان نہ صرف گناہوں سے رکتا ہے، بلکہ ان تمام اعمال سے بھی رک جاتا ہے جس میں حرمت کا امکان پیدا ہو جائے۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ ورع حرام چیزوں سے باز رہنے کو کہتے ہیں۔ شبہات کے خوف سے حلال چیزوں کو چھوڑ دینے کا نام صدق فی التقویٰ ہے اور دنیا سے التفات نہ کرنے اور اس سے علیحدہ ہونے کو صدق کہا جاتا ہے۔ یہ روحانی مراتب ہیں، جو خوف کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
غزالی نے خوف کی جو تطبیق اور درجہ بندی کی ہے اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے۔
(الف) ایسی شے کا علم جو بذاتہ خوف زدہ کرنے والی ہو جیسے درندوں کی صفات و قوت کا علم۔
(ب) اپنے اعمال اور گناہوں کا شعور یا معرفت اور نتیجتاً خدا کی ناراضی کا خوف۔
(ت) خدا سے مہجوری کا خوف۔
غزالی کے خیال میں تیسرا درجہ یعنی خدا سے مہجوری کا خوف صرف صدیقین کو ہوتا ہے۔ انسان کے دل میں خدا کے خوف کی شدت و گہرائی اس کے علم و آگہی کے مرتبے کے مطابق ہوتی ہے۔ خوف اس وقت مذموم اور ناپسندیدہ کیفیت اور عمل بن جاتا ہے جب اس کی شدت انسان کو اعمال صالحہ سے روک دے۔ خوف کی اعلیٰ اور پسندیدہ قسم وہ ہے جس سے کمال معرفت پیدا ہو جائے۔ غزالی کے خیال میں وہ خوف سب سے اعلیٰ ہے جس کا مصداق خدائے کریم ہے۔ گناہ سے ڈرنا صالحین کا خوف ہے، لیکن خدا سے ڈرنا موحدین اور صدیقین کا خوف ہے اور یہ خوف معرفت ذات الٰہی اور معرفت صفات الٰہی سے پید ا ہوتا ہے۔ خوف کے مختلف احوال اور اس کی مختلف کیفیات اور درجے ہیں، لیکن سب سے اعلیٰ درجہ عارفین کا ہے جن کو خوف فراق یعنی خدا تعالیٰ سے محجوب رہنے کا خوف ہو۔
انسان کا منتہائے مطلوب سعادت یعنی رضا و دیدار خداوندی ہے۔ ہر شے کی فضیلت اس کے منتہائے مطلوب سے قربت سے ہے۔ جو چیز اس کے حصول میں جتنی مددگار ہو وہ اتنی ہی افضل ہے۔ خوف چونکہ شہوات کو جلاتا، گناہوں سے بچاتا اور طاعات کی ترغیب دیتا ہے اس لیے یہ افضل بھی ہے اور مطلوب بھی۔ اسی کی وجہ سے عفت، ورع، تقویٰ اور مجاہدہ حاصل ہوتے ہیں جو منتہائے مطلوب کے حصول میں مدد کرتے ہیں۔
اہل جنت کے چار مقام ہیں، ہدایت، رحمت، علم اور رضا۔ یہ چاروں مقام خائفین کے ہیں جس کا خوف الٰہی جتنا شدید ہو گا، اتنا ہی وہ اپنے ربّ کے قریب ہو گا۔ اسی لیے ان کو علماء یعنی علم والے بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی مومن کا دل خوف سے خالی نہیں ہوتا۔ خوف کی شدت، ایمان و معرفت کی شدت کو ظاہر کرتی ہے اور خوف کی کمی ایمان اور معرفت کی کمی کو ثابت کرتی ہے۔ امن اور بے خوفی صرف ان کو حاصل ہوتی ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اس کا دل نرم، محبت پختہ اور عقل درست ہو جاتی ہے۔
خوف خدا کے ساتھ رجا کا ہونا لازمی ہے، کیونکہ رجا وہ حالت نفسی ہے جو انسان کو رحمت خداوندی کے قریب کر دیتی ہے۔ رجا کا منبع خدا کی رحمت ہے جو محبت خداوندی کو پیدا کرتی اور جلا بخشتی ہے۔ نہ تو مطلق رجا اچھی شے ہے اور نہ مطلق خوف۔ دونوں کے درمیان تطبیق لازمی ہے۔ خوف نیک اعمال کی ترغیب دیتا ہے اور رجا ان کے نتیجے میں خدائے قدوس کی رضا و دیدار کی اُمید ہے۔ قرآن کی آیات کریمہ کے مطابق خدا کی رحمت سے نا اُمیدی کافروں کا شیوہ ہے، اُمید دل کو تقویت دیتی ہے۔ اور اللہ کی محبت کو دل میں راسخ کرتی ہے۔ یوں خوف، رجا اور محبت ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ معرفت الٰہی کی بنیاد محبت الٰہی اور دنیا سے دوری ہے۔ ان تینوں سے مختلف روحانی مراتب کا حصول ہوتا ہے۔ مقام صبر خوف ورجا سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے مقام مجاہدہ، ذکر الٰہی اور فکر دائمی کا حصول ہوتا ہے۔ دوام ذکر سے انس اور دوام فکر سے کمال معرفت ملتی ہے اور کمال معرفت وانس سے محبت کا مقام ملتا ہے اور یہی سالک کو مقام رضا و توکل پر لے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی مقام نہیں کیونکہ محبت کے لیے ضروری ہے کہ محبوب کے فعل پر راضی رہے اور اس کی عنایت پر اعتماد رکھے۔ جبھی تو اس کا ہر عمل خدا کی مرضی کے مطابق اور اسی کا عمل بن جاتا ہے۔ خوف و رجا قلب انسانی سے تمام کثافتوں کو دور کرتے ہیں اور اسے معرفت ذات کے لیے تیار کرتے ہیں۔
رجا کا مرتبہ خوف سے بلند ہے، کیونکہ اس کا منبع خدا کی رحمت ہے۔ جبکہ خوف کا منبع خدا کی صفت غضب ہے۔ لہٰذا مرتبہ اس کا بلند ہے جو خدا کی محبت میں نہ کہ اس کے خوف سے اعمال صالحہ انجام دیتا ہے۔ رجا یا امید انسان کی محبت کو گہری اور مضبوط کرتی ہے اور اسے اس قابل بناتی ہے کہ اسے معرفت خداوندی حاصل ہو۔ اس لیے محبت سب سے بلند ہے، لیکن محبت محبوب کے خوف کو اپنے اندر پالتی ہے۔ کیونکہ عاشق کے لیے سب سے بڑا عذاب اس کے محبوب سے دوری کا خوف ہے۔ یوں خوف وہ مہمیز ہے جو اس کی محبت کو جلا بخشتی ہے اور اسے اس کے اور قریب کرتی ہے۔
تخلیق کائنات کو اللہ نے ایک با مقصد عمل بتایا ہے۔ کوئی کھیل یا لیلا نہیں۔ اس کائنات میں اللہ نے انسان کو سب سے معزز تخلیق بنایا۔ اللہ نے ان دونوں کے مقصد تخلیق کا بیان قرآن پاک میں کئی جگہ پر فرمایا۔ ان تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ :
(۱) یہ ساری تخلیق ایک مقصد کے تحت بنائی گئی، یہ کوئی کھیل نہیں۔
(۲) انسان کو اللہ نے سب سے اعلیٰ مرتبہ عطا کیا۔ اسے عزت و شرف سے نوازا۔ اسے اپنا خلیفہ بنایا اور اسے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
(۳) ساری کائنات اس کا میدان عمل ہے۔ اس کی تسخیر اور اس کی حقیقت اور اسرار اور رموز کو سمجھنے کے لیے اسے علم عطا کیا۔
(۴) اسے حواس خمسہ، عقل، وجدان اور وحی کی قوتیں عطا کیں۔
(۵) ان ہی قوتوں کے جائز اور تخلیقی عمل اور استعمال کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔
(۶) اللہ کے قرب کے معنی اس کی عبادت کے ذریعے اس کی رضا کا حصول ہے۔
(۷) اور عبادت کے معنی محض فرائض کی ادائیگی نہیں بلکہ اللہ، کائنات اور انسان کے حقوق کی فہم اور ان کی ادائیگی ہے۔
(۸) اور اس کے معنی ایک ایسے تہذیبی و انسانی نظام کی پرداخت اور اس کا نفاذ ہے، جسے اللہ نے اپنے پیغامبروں کے ذریعے بھیجا۔
(۹) یہ تعلیمات اقدار اعلیٰ کا وہ مجموعہ ہے جو انسان کو تمام مخلوق میں احسن بناتی ہیں اور اسے اللہ کی صفات کی فہم عطا کرتی ہیں۔
(۱۰) ان تمام اعلیٰ اقدار کا سب سے اعلیٰ نمونہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ ہیں جنھیں رہتی دنیا تک انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا۔
(۱۱) انسان کو آزادی کی قوت دی گئی تاکہ وہ اپنے اعمال انجام دے سکے۔
(۱۲) اسی آزادی اور اعمال کی بنیاد پر اسے قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب دینا ہو گا۔
(۱۳) اس کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار، رسول کی غیر مشروط اطاعت اور محبت پر ہے۔
(۴ا) اللہ کی رضا اسے دائمی کامیابی یعنی سعادت یا دیدار و قرب خداوندی اور ناکامی یعنی شقاوت یا خدا سے دوری یعنی عذاب خداوندی سے ہم کنار کر دے گی۔
جنت و ہ مقام ہے جہاں پہ اسے دیدار خداوندی ہو گا اور جہنم وہ جگہ ہے جہاں وہ ہمیشہ خدا کی ناراضی اور اس سے مہجوری اور دوری کی آگ میں جلتا رہے گا اور اسے کبھی دیدار خداوندی نصیب نہیں ہو گا۔ صوفیہ کرام کی تمام تعلیمات کا نچوڑ اور مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے۔
(۵ا) تصوف کے ایک مکتبہ عملی و فکری کی حیثیت سے اس کی نشوونما پر بحث ہمارے دائرہ کار سے خارج ہے۔ ہم صرف اس نقطے پر بحث کریں گے کہ ابتدائی صوفیہ علی الخصوص حضرت حسن بصری نے خوف کے تصور کو بنیادی فکری و عملی اصول کے طور پر آگے کیوں بڑھایا۔ اور اسے حجت الاسلام امام غزالی نے کیوں اسلام کے فلسفۂ اخلاق و تصوف کا ایک کلیدی اصول مان کر اس کی فلسفیانہ و فکری جہتوں کی تدوین و ترویج و تشریح کی اور اسے ایک کلی قضیہ کے طور پر پیش کیا۔
صوفیۂ کاملین نے ملت اسلامیہ کی صورت حال پر غور کیا اور امت مرحومہ کو خرابیِ حالات، ظالم و جابر بادشاہوں، فوجی قوتوں اور معاشی و سماجی استحصال کرنے والی قوتوں اور دین و مذہب کے جھوٹے ٹھیکیداروں اور علمائے سوء سے نجات دلانے کے لیے انھوں نے ’خوف خدا‘ کا تصور و فلسفہ پیش کیا اور اسے اپنی تعلیمات و تبلیغ کے ذریعے دلوں میں بہت گہرا اتار نے کی کوششیں کیں کیونکہ خوف خدا کے سوا اب اور کوئی مزاحم قوت تھی ہی نہیں جو انسانیت کو ظالموں اور جابروں سے بچا سکتی۔ اس فلسفہ و تصور کو پیش کرنے والے پہلے صوفی حضرت حسن بصری تھے، جن کی مذہب، فقہ، تفسیر، سیاست، حدیث اور امت کے تمام حالات پر گہری نظر تھی۔ ان کی بے باک آواز جبر کے فلسفہ کے رد میں اٹھی اور ان کے درد مند دل نے انسانیت کو بچانے اور اسے خدا کے نزدیک لانے اور اس سے اپنا رشتہ استوار کرنے کے لیے ’خوف‘ کا تصور پیش کیا۔
یوں اسلامی تصوف اور روحانیت جبر کے خلاف ایک منظم آواز تھی اور اس کا مقصد انسانوں کو تمام استحصالی قوتوں سے آزاد کر کے خدا سے اس کا تعلق قائم کرنا تھا۔ جبر جملہ، اخلاقی، روحانی، سماجی، سیاسی بگاڑ، تشدد اور مطلق العنان حکمرانی اور استحصال کا دوسرا نام ہے۔ یہ ایک غیر اخلاقی، غیر جمہوری، غیر اسلامی اور ظالمانہ رویہ ہے جو زندگی کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور انسان سے اس کی اخلاقیت، عظمت و وقار وشرف اور آزادی کو چھین کر اسے بہت ہی غلیظ و ادنی سطح پر گرا دیتا ہے۔ جبر کی ہر شکل فساد و مفاد کی ترجمان ہوتی ہے۔
ظاہر ہے کہ خوفِ خدا کے سوا اب کوئی اور چیز بچی ہی نہ تھی جو انسانی قلوب اور نفسیات کو بدل سکتی۔ خوف کے اس تصور اور فلسفے کی بنیاد قرآن پاک کی آیات بینات ہی تھیں۔
قرآن پاک نے بار بار انسانی نفسیاتی کو تبدیل کرنے کے لیے ’خوف‘ کا تصور پیش کیا۔ اس خوف کی انتہا خدا کی ناراضی اور اس سے دوری و مہجوری ہے۔ انسان کی عارضی زندگی، جس کے بعداسے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، اگر وہ برائیوں سے نہ بچا اور ان سے توبہ نہ کی۔
دائمی رسوائی و عذاب کا خوف بجائے خود ایک ایسی مزاحم قوت ہے جو بڑے بڑے جابروں کے دلوں کو بدل دیتی ہے، سوائے ان کے جن کے قلوب پر اللہ نے سیاہی و بدنصیبی کی مہر کر دی۔
حضرت حسن بصری نے ’خوف‘ کی تبلیغ کر کے انسانی دلوں کو جھنجھوڑ دیا، انھیں اس عارضی دنیا اور یہاں کی عیاشیوں اور مظالم کی حقیقت سمجھا دی اور انھیں یہ بتا دیا کہ اگر وہ اس سے نہ ہٹے تو دائمی تباہی و ذلت ان کا انتظار کر رہی ہے۔
خوف انسانی سماج کے تانے بانے کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ حکومت کا خوف، قانون کا خوف، سزا کا خوف، ماں باپ کا خوف وغیرہ، اگر خوف کی یہ مزاحم قوت یا تصور نہ ہو تو شاید انسانی سماج اور وجود بکھر کے رہ جائے۔ یہ تمام خوف تو عارضی اور کم پایہ ہیں اور یہ کسی شخص کو دائمی زندگی کی رسوائی سے نہیں ڈرا سکتے اور نہ کسی ایسے ظالم و جابر کا ہاتھ روک سکتے ہیں، جو خود ایک جھوٹا اور خود ساختہ قانون ہوتا ہے اور جس کی ہر بات حتمی ہوتی ہے۔ اس لیے ایک ایسے ‘خوف’ کی ضرورت ہے جو ان تمام قوتوں سے بڑھ کر ہو اور یہ خوف ایک ایسی ذات ہی کا ہو سکتا ہے جو تمام کائنات کی خالق و مالک و حکمران ہے، جسے ذرے ذرے کی دھڑکنوں کا علم ہے اور جس کی گرفت سے کوئی نہ بچ سکے۔
یہی خدا کا خوف ہے۔
لیکن خدا کے خوف میں ایک بہت قیمتی موتی پوشیدہ ہے وہ ہے خد ا کی ربوبیت و رحیمیت کا احساس، جسے محبت کہہ سکتے ہیں۔
انسان خدا کی محبت میں ہر شے سے خوف کھاتا ہے تا کہ خدا اس سے ناراض نہ ہو جائے اور وہ اس سے دور نہ جا پڑے اوریوں ایک دائمی مہجوری و ذلت کا شکار نہ بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ حسن بصری اپنے زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ’محبت‘ کے تصور کو سامنے نہیں لائے۔ ورنہ وہ تو ہر عظیم صوفی کی طرح اس سے واقف بھی تھے اور سرشار بھی۔ یہ کام اس عظیم صوفیہ نے کیا، جس کے مرتبہ کی دوسری ولیہ عالم اسلام آج تک پیدا نہ کر سکا۔ یہ تھیں جناب رابعہ بصری، جس نے خوف و لالچ سے مبرا و منزہ ’محبت خداوندی‘ کے تصور کو پیش کیا، آپ نے فرمایا کہ خدا ہی محبت کے لائق ہے اور میں اس کی عبادت اس کی محبت میں کرتی ہوں نہ کہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے۔
یہ تو پاکیزگی قلب اور محبت کی انتہا ہے لیکن عام انسانیت کی نفسیات بدلنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ا س کے دل میں خوف و محبت کو بسا دیا جائے اور کبھی خوف کے تصور کو آگے بڑھا دیا جائے اور کبھی محبت کے تصور کو۔ ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جاہل صوفیہ کی طرح وہ محبت کا کوئی ایسا کھیل رچائے جو اُسے خدا اور اس کی محبت سے ہی دور کر دے۔ انسانی نفسیات اور اعمال کو بدلنے کے دو ہی طریقے ہیں یا تو اس پر خوف مسلط کر دیا جائے اور اسے طاقت کے ذریعے دبا دیا جائے یا غلط اعمال و حرکات سے رکنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ یا اس کے دل میں اچھے کاموں، اصولوں اور شخصیات کی محبت پیدا کی جائے، تا کہ وہ برے اعمال سے دور رہے۔
یہی کام صوفیۂ کرام نے کیا۔ انھوں نے خوف کا تصور پیش کیا، اس کی تبلیغ کی اور قلوب و اذہان میں خوف ڈال دیا اور یوں انھیں برائیوں سے اجتناب کرنے پر مجبور کیا اور جب ان کی عادتیں بدل گئیں اور ان کی نفسیات میں ایک مضبوط تبدیلی آ گئی تواس میں محبت کے بیج بو دیے تا کہ وہ محض خوف سے دبے نہ رہیں، بلکہ اس ذات عظیم و کریم کی محبت میں اس کا قرب بھی حاصل کریں اور تمام برائیوں سے اجتناب بھی کریں۔
انسانی نفسیات کا ایک لازمی پہلو یہ ہے کہ جب انسان کسی سے محبت کرنے لگتا ہے تواس کی مرضی کے خلاف جانے کی سوچ بھی نہیں پاتا، چہ جائے کہ اس سے دوری و مہجوری کو برداشت کر لے۔ صوفیہ کے فلسفہ و تعلیمات میں یہ دونوں تصورات پہلو بہ پہلو چلتے رہے لیکن ان کی مربوط و مضبوط فکری بنیاد، تحلیل اور توضیح و تشریح، امام غزالی نے اپنی عظیم کتاب احیاء علوم الدین میں پیش کی۔ آپ نے ان دونوں اصولوں کو صرف مزاحم قوتوں کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ انھیں مابعد الطبیعیا تی، مذہبی، سماجی، اخلاقی، روحانی اور علمی اصولوں کی حیثیت سے وسیع فلسفیانہ تناظرات میں پیش کیا۔ آپ کے بعد تمام آنے والے صوفیہ و حکماء کی تعلیمات میں غزالی کا تتبع واضح نظر آتا ہے اور اس حقیقت سے کسی صوفی نے انکار بھی نہیں کیا۔ غزالی کی عظمت اور جملہ فلاسفہ پر اس کی فوقیت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اس نے جملہ نظریات و تصورات کو پیش کرنے، ان کی صحیح تصویر کشی اور ان کی توضیح و تشریح کے لیے واضح علمی بنیادیں یا علمیاتی طریقہ کار اور ڈھانچا فراہم کیا۔ ہر تصور کو علمیات کے چوکھٹے میں ڈالا اور اس کی علمیاتی بنیادیں تشکیل دیں اور حدود واضح کیے۔
یوں اس کی مابعد الطبیعیات، سماجیات اور اخلاقیات اور روحانیت کی بنیادیں علمیات میں پیوستہ ہیں اور اس سے ہٹ کر ان کی تشریح و توضیح ایک منطقی و فلسفیانہ مغالطہ سازی ہو گی۔
غزالی نے خوف و رجا کو ایک عنوان کے تحت لا کر ان کے تعلق اور کوائف کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ خوف کی حقیقت، حدود اور نتائج پر بھرپور بحث کی ہے۔ یہ ساری بحث فلسفیانہ سے زیادہ نفسیاتی اور علمیاتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کا فلسفہ خوف وجودیین کے فلسفۂ خوف سے زیادہ مربوط، منظم، واضح اور بصیرت افروز ہے اور اس حیثیت سے کہ اس نے خوف کو مستقبل سے جوڑ دیا ہے اور اس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں اور تعلقات کو واضح کیا ہے۔ وہ بہت ہی ارفع فلسفیانہ طرازی سے وجودیین سے سبقت لے گئے ہیں۔ خوف کی اس علمیات کی بنیاد قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور حدیث مبارکہ ہیں، جن کا حوالہ بار بار غزالی نے خوف پر بحث میں دیا ہے۔ غزالی نے رجا کے ساتھ خوف کو مربوط کر دیا اور اس کی بنیا دبھی قرآن پاک کی آیات ہیں، جن میں اللہ کی رحمت سے نا امیدی سے منع کیا گیا ہے۔
کسی بھی شے یا کیفیت کا ادراک و حصول علم کے بغیر ناممکن ہے خوف و رجا کے وجود یا ان کے کوائف کا ادراک بھی علم کے بغیر ناممکن ہے۔
خوف کسی شے کی مختلف کیفیات، حالات اور قوتوں اور ان کے مطلوبہ نتائج کے علم سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ایک شخص جانتا ہے کہ آگ جلاتی ہے، زہر مارتا ہے، زلزلہ زمین کو ہلا دیتا ہے، پانی ڈبو دیتا ہے وغیرہ وغیرہ، اسی لیے وہ ان سے خوف کھاتا ہے۔ کسی مخبوط الحواس شخص یا بہت ہی چھوٹے بچے کو کسی شے کا خوف ہی نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اشیاء کے خواص سے واقف نہیں ہوتے۔ خوف کی پہلی شرط حواس و عقل کا قائم ہونا اور دوسری شرط اشیاء کے خواص کا علم ہے۔ ہم جس ان دیکھے اور مختلف الجہت خوف کو کبھی کبھی محسوس کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے حواس اور عقل و فہم کے مختلف ادراکات کی کارفرمائی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارا ذہن مختلف حالات اور صورتوں کو ملا کر ایک نئی کیفیت یا کیفیات کی شکلیں ترتیب دیتا ہے یا ان کا تصور کرتا ہے لیکن محض تصور ہی کسی خوف کی وجہ نہیں بنتا، بلکہ اس کے پیچھے مختلف حالات و کیفیات اور عوامل و عوالم خوف کی وجہ بن جاتے ہیں۔
تصوف کی نظریاتی تشکیل میں حضرت رابعہ بصری کو ایک کلیدی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ ان نظریات اور عقائد سے ہو سکتا ہے جن کے حوالے ابوطالب مکی، القشیری اور امام غزالی ایسے صوفیہ و مفکرین نے اپنی تحریروں میں دیے ہیں۔
تصوف تطہیر قلب و نفس اور زہد ہے۔ اس راہ میں مختلف مقامات آتے ہیں۔ تمام خواہشات اور گناہوں کو مٹانے کے بعد سالک مختلف مقامات و احوال سے گزرتا ہے۔ یہ روحانی ارتقا کی ایک طویل اور مشکل داستان ہے جس کی انتہا معرفت الٰہی ہے۔ ان مقامات و احوال پر ابو طالب مکی نے رسالہ قشیریہ اور امام غزالی نے احیاء میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ توبہ اس کی ابتدا اور رضا اس کی انتہا ہے۔ صبر، شکر، فقر، زہد، توحید، توکل، محبت اور رضا اس کے مختلف مقامات ہیں۔ کچھ صوفیہ بشمول غزالی نے فکر، ذکر، مراقبہ اور احتساب نفس کو بھی ان مقامات میں شامل کیا ہے۔ محبت الٰہی ان مقامات کی انتہا اور مغز ہے۔ محبت میں سالک خدا کے سوا ہر شے اور ہر حال و مقام کو بھلا دیتا ہے اور یوں خدا ہی اس کے ہر عمل کی ابتدا اور انتہا بن جاتا ہے۔ توبہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ ہر شے سے منہ موڑ کر خدا سے لو لگائی جائے۔ حسن بصری اور رابعہ بصری کو گناہوں کے نتائج کا شدید احساس تھا اسی لیے ان کی تعلیمات میں توبہ کو ایک بنیادی مقام حاصل ہے۔ رابعہ کے بارے میں عطا ء کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ مغموم اور گریہ کی حالت میں ہوتی تھی اور جب اس سے اس بارے میں پوچھا گیا، تو اس نے جواب دیا کہ میں اس چیز سے ڈرتی ہوں کہ میں اس سے الگ اور دور نہ جا پڑوں جس سے میں بندھی ہوئی ہوں اور وقت مرگ کہیں یہ آواز نہ آئے کہ میں کسی لائق نہیں۔ محبت کا یہی تصور توبہ، توجہ اور خوف سے مربوط ہے، گناہ ہر وہ عمل ہے جو بندے کو خدا سے الگ کر دے، جو روح اور اس کے محبوب (یعنی خدا) میں تفریق ڈال دے۔ رابعہ اسی لیے گناہ سے نفرت کرتی تھی کہ یہ اسے خدا سے دور کرتا ہے، نہ کہ اس لیے کہ اس پر سزا دی جائے گی۔ ایک سالک یا معشوق کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا عاشق اس سے نظریں پھیر لے اور اسے اپنے سے الگ اور دور کر دے۔ توبہ اس کے خیال میں عنایت خدا یا اس کا تحفہ ہے، نہ کہ کو ئی ایسی شے جو انسان اپنی محنت سے حاصل کر سکے، ہر انعام اور ہر کمال اسی کی عطا ہے۔ یہی معاملہ شکر کا بھی ہے۔ رابعہ کی زبان پر ہر وقت اللہ کا شکر ہوتا تھا اور شکر کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہر حال میں اس کا شکر ادا کیا جائے۔ خوف اور مصائب و آلام سے شکر کی کیفیت اور زیادہ مستحکم ہونی چاہیے کیونکہ یہ بھی اسی کے عطا کردہ ہیں۔
خوف اور رجا ایمان کی دو بنیادیں اور ایمان کی عمارت کے ستون ہیں۔ ہجویری کے خیال میں سالک جو خدا سے ڈرتا ہے وہ محض اس وجہ سے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ خدا سے دور نہ جا پڑے اور جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور امید لگائے رہتے ہیں ان کی آرزو اس سے اتحاد ہے۔ ابو علی رودباری کا خیال ہے کہ خوف اور رضا ایک پرندے (سالک) کے دو پر ہیں۔ اگر ان میں ایک ٹوٹ جائے تو پرندہ گر جاتا ہے اور اڑنے سے قاصر رہ جاتا ہے اور اگر دونوں ٹوٹ جائیں تو وہ مر جاتا ہے۔ خوف کے معنی یہ ہیں کہ خوفِ خدا سالک کے نفس کو ہر شے اور ہر خوف سے آزاد کر دے۔ ایک صوفی کا قول ہے کہ خدا سے ڈرنے والا مجسم خوف بن جاتا ہے۔ ہر شے اسے ڈراتی ہے، لیکن یہ خوف اسے برباد نہیں کرتا بلکہ یہ اس کے قلب کا تزکیہ کر کے اسے اس کے خالق و مالک و محبوب کی رضا و قرب عطا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جسے کوئی آگ جلا نہیں سکتی۔ خوف حکمت کی روح ہے اور حکیم وہ ہے جو حکیم میں مل جائے نہ کہ اس سے دور جا پڑے۔ امام غزالی نے بھی خوف کو مہمیز قرار دیا جو سالک کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ خوف خدا کا ایک عطیہ ہے جس کا ارشاد ہے کہ سالک اس سے ڈریں۔ یہ روح کو جلا بخشتا ہے کیونکہ یہ خدا کی صفت عدل پر فکر کا نتیجہ ہے۔
خوف، امید اور محبت ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ محبت خوف کے بغیر خالص اور مکمل نہیں اور نہ خوف امید کے بغیر اور نہ امید خوف کے بغیر۔
خوف اور امید صوفیہ کی معادی تعلیمات اور تصور جنت و جہنم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں جہنم ایک دار العذاب کے بجائے خدا سے دوری اور جدائی ہے اور جنت جائے مسرت کے بجائے دیدار خداوندی اور اس کے ساتھ اتصال کا نام ہے۔
رابعہ بصری کی تعلیمات میں خوف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے چالیس سال عظمت خدا کے احترام میں آسمان کی طرف آنکھیں نہیں اٹھائیں۔ اکثر یہ فرمایا کرتیں کہ جب میں اذان کی آواز سنتی ہوں مجھے روز محشر کی آواز یاد آتی ہے اور جب برف دیکھتی ہوں تو مجھے نامۂ اعمال کے اوراق سر سراتے ہوئے نظر آتے ہیں خوف اور محبت کے متعلق اس کی تعلیمات کا نچوڑ ہے کہ جہنم کے خوف سے یا جنت کی امید میں خدا کی عبادت اولیاء کے لیے بے معنی عمل ہے۔ اس کے خیال میں صرف خدا کی مکرم اور تقدیس مآب ذات اس لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ تمام امید وں کا مرکز بھی اسی کی ذات اقدس ہے۔ اس کے خیال میں جنت حسی مسرتوں کے حصول کی جگہ نہیں بلکہ یہ خدا کے دیدار کی حالت ہے۔ جب اس سے جنت کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے کہا پہلے ہمسایہ، یعنی خدا اس کے بعد رہنے کی جگہ۔ امام غزالی کے مطابق اس کے دل میں محبت خدا کے سوا کسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی تعلیمات کا نچوڑ خدا کی بے لوث محبت ہے۔ اور بے لوث محبت کے معنی ہیں مکمل خود سپردگی۔ کیونکہ خودسپردگی نہ ہو تو محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ جو شخص محبت کرتا ہے وہ اپنے محبوب سے محبت کے لیے شرائط طے نہیں کرتا، بلکہ اس کے رنگ میں رنگ جانا چاہتا ہے۔ اس کی کسی بات یا حکم سے انحراف کرنے کا خیال بھی اس کے دل میں نہیں آ سکتا، اس کے لیے اس کے محبوب کے سوا سب کچھ بے کار و بے معنی ہے۔
یہی حقیقت ’زہد‘ سے بھی سامنے آتی ہے۔ زہد انسان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ پاکیزگی انسان کو زہد کی طرف لے جاتی ہے اور زہد محبت خدا کی طرف۔ القشیری نے زہد کے معنی ہر اس شے کو جو روح کو خدا سے الگ کر دے، بیان کیے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ زہد دنیا اور اس کی ہر شے سے نفرت ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ زہد کی تین قسمیں ہیں (الف) حرام کو چھوڑ دینا (ب) حلال کو چھوڑ دینا (ج) اور ہر اس شے کو خدا کے لیے چھوڑ دینا جو روح کو خدا سے دور کر دے۔ ترکِ دنیا توحید کی متقاضی ہے۔ کیونکہ خدا کے بغیر کسی بھی شے کو حقیقی ماننا یا اسے دل میں جگہ دینا ہی شرک ہے جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ توحید کے معنی محض خدا کو ایک ماننے کے نہیں ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک توحید کے معنی اپنی ذات اور مرضی کو خدا کی مرضی میں گم کر دینا ہے۔ یہی محبت بھی ہے، کیونکہ ہر عاشق اپنی مرضی کو معشوق کی مرضی میں ڈھال دیتا ہے اور اس کا ہر عمل وہی ہوتا ہے جو محبوب چاہتا ہے اور یہی تو بہ کی روح ہے کیونکہ سالک اس کے ذریعے اپنے قلب سے ہر شے کو مٹا دیتا ہے۔ طہارت کے معنی بھی یہی ہیں کہ انسان اپنے جسم اور روح سے ہر گندگی کو دور کر دے۔ اور وہ لوگ جن کے جسم اور دل نجاست سے آلودہ ہیں، وہ توحید، زہد، توبہ اور خوف و محبت خدا سے محروم ہیں۔ اسی لیے اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔
یہی حقیقت توکل ہے۔ اسی لیے صوفی توکل کو توحید کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ یہی حضرت رابعہ بصری کی زندگی اور تعلیمات کی اصل ہے۔ اس نے دنیا کو مکمل طور پر تج دیا تھا۔ اس کے خیال میں یہ انتہائی حقیر ہے۔ سفیان نے جب اس سے پوچھا کہ خدا سے قربت کے لیے کیا عمل کیا جائے۔ اس نے فرمایا کہ دونوں جہانوں سے کنارہ کش ہو کر خدا کے ہو جاؤ۔ اس نے فرمایا کہ اگر ساری دنیا کی دولت ایک انسان کو دی جائے جب بھی وہ دولت مند نہیں، کیونکہ دنیا کی ہر شے فانی ہے۔ خدا کی محبت میں وہ اس بات سے بھی خائف تھی کہ اس کا شہرہ بزرگ یا ولیہ کی حیثیت سے ہو جائے، کیونکہ اس سے اس کے دل میں خدا کے سوا یہ دوسری شے بھی سما جائے گی۔ وہ فرماتی تھیں کہ اپنی نیکیوں کو برائیوں کی طرح چھپا دو ورنہ یہ تمھارے دل کو آلودہ کر دیں گی۔ یہی حقیقی محبت ہے اور اس کی انتہا خدا کی ذات سے اتصال ہے۔ اسی لیے صوفیہ کے نزدیک محبت سب مقامات میں سے انتہا درجے کی غایت اور سب میں بلند مرتبے کی حامل ہے۔ باقی سب مقامات اس کے مقدمات ہیں۔ محبت ہی شرط ایمان ہے اور محبت ہی انتہائے ایمان۔ اسی لیے ہرم بن حیان نے فرمایا کہ صاحب ایمان جب اپنے ربّ کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے اور جب محبت کرتا ہے تو اسی کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور جب اس توجہ کا مزہ پاتا ہے تو دنیا کی طرف خواہش کی نظرسے نہیں دیکھتا نہ آخرت کی طرف کاہلی کی نظر سے۔ اپنے جسم سے تو دنیا میں رہتا ہے اور روح سے آخرت میں۔ اسی لیے حضرت رابعہ بصری نے ایمان کو خدا کی بے لوث محبت سے مشروط کر دیا۔ جب آپ سے جنت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا الجارثم الدار، یعنی اول صاحب خانہ پھر خانہ۔ یعنی میری محبت مالک جنت سے ہے جنت سے نہیں اور مالکِ جنت سے محبت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے سوا ہر شے دل سے معدوم ہو جائے۔ یہ خوف کی وہ باریک شکل ہے جو محبت کی روح ہے۔
تصوف کے نظری ارتقا پہ بہت ہی سنجیدگی، متانت، غیر جانبداری اور گہرائی سے غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اسلام کی روحانی تعلیمات کے تحفظ، انسانیت کے بقا اور جبر کے خلاف ایک مربوط آواز تھی اور تمام حقیقی صوفیہ کی انسانی تاریخ اور نفسیات پر بہت ہی گہری نظر تھی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوفی نفسیات کی جڑیں قرآن اور سنت نبوی میں بہت گہرے طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے انسانی نفسیات کو سمجھنے اور برتنے اور اسے صحیح نہج پر ڈالنے کے لیے جو بھی رویہ اختیار کیا وہ قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی سے مربوط ہے۔ حضرت حسن بصری نے خوف کی نفسیات اور حضرت رابعہ بصری نے محبت کی نفسیات کو پیش کیا اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ خوف کی بنیاد ہمیشہ محبت میں پیوستہ ہوتی ہے اور محبت ہمیشہ خوف کو پیدا کرتی ہے اور اسے بڑھاوا دیتی ہے۔
اس زمانے کی اسلامی دنیا کے سیاسی و سماجی حالات، تہذیبی رفتار اور اس کی تنظیم و اقدار جو اسلام کی روح اور اساسی اصولوں سے بہت دور جا پڑے تھے میں ایک مثبت اور حرکی تبدیلی کے لیے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ اسلامی فلسفۂ حیات، اس کی اقدار اور تصورات کی از سر نو ایک زندہ فلسفیانہ اور نفسیاتی توجیہ و تشریح کی جائے، تاکہ اسلامی تہذیب کو اس تباہی سے بچا یا جا سکے جومسلمان حکمرانوں اور امت کی بداعمالیوں کا نتیجہ تھی اور جرائم و مظالم کی اس لمبی اور تاریک داستان پر قدغن لگائی جا سکے، جو عذاب الٰہی کو دعوت دے رہی تھی۔
اس عظیم کام کا سہراحسن بصری کے سر ہے، جنھوں نے اسلامی دنیا کے حکمرانوں اور ان کے کارندوں کو جو اپنے حقیر سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کے لیے انسانیت اور اسلامی اقدار کو روند رہے تھے اور فلسفۂ جبر جس کی تبلیغ کے ذریعے وہ اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، کو روکنے کے لیے، اللہ کے خوف کا تصور پیش کیا تا کہ اس کے ذریعے ان کی روح کو جھنجھوڑ ا جا سکے اور انھیں ان کی بد اعمالیوں سے بچایا جا سکے۔ حضرت رابعہ بصری کا کردار اس حیثیت سے بڑا اہم ہے کہ انھوں نے محبت کے تصور کو پیش کر کے، خوف کی نفسیات کو نئی زندگی، گہرائی اور جہتیں عطا کیں۔ کیونکہ یہ محبت ہی ہے جو ابراہیمؑ کو آگ میں کودنے، محمدؐ کو بدر میں جانے اور حسینؓ کو اپنے اہل بیت کے ساتھ کربلا میں اتار دیتی ہے۔ محض خوف انسان کو حتمی اقدامات اٹھانے پر مجبور نہیں کرتا لیکن جس خوف کی جڑیں محبت الٰہی میں پیوستہ ہوتی ہیں وہ محبت کی ایک نئی، قوی اور مثبت شکل ہوتی ہے۔ بقول اقبال:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
صوفیہ کی انسانی نفسیات پر بڑی ہی گہری نظر تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ انسانوں کے قلوب کی تسخیر نہ کرتے۔ کیونکہ ایک انسان کو بڑے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کے لیے تیار کرنا، اسے تمام برائیوں سے روکنا اور نیکیوں کی طرف راغب کرنا کسی ایسے شخص کے لیے ممکن ہی نہیں جس کی انسانی نفسیات اور زمانے کے حالات پر گہری نظر نہ ہو اور جو انھیں اپنے نظریات کے مطابق ڈھال نہ سکے۔
تصوف کے بنیادی تصورات میں خوف اور محبت کو ایک کلیدی اور اساسی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تصورات حضرت حسن بصری اور حضرت رابعہ بصری جیسی عبقری شخصیات نے پیش کیے۔ ان کو یوں ہی نہیں لیا جا سکتا جیسا کہ اب تک کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں تصورات کی اپنی دینیاتی، الہٰیاتی، مابعد الطبیعی، اخلاقی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی اہمیت ہے۔ ان کا تعلق انسان کی بنیادی نفسیات سے بھی ہے اور نفسیاتی کوائف و عوالم سے بھی۔ ان تصورات کو سطحی طور پر دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام غزالی کی محبت اور خوف سے متعلق فلسفیانہ آراء پر اب تک گہرائی سے غور ہی نہیں ہوا۔
ان دونوں تصورات کی جڑیں کلام الٰہی اور حدیث نبوی میں پیوستہ ہیں۔ کلام پاک کا سارا ابتدائی یا مکی حصہ خوف اور مدنی دور کا محبت اور خوف کے تصور کو نہ صرف ایمان اور دین کی بنیاد بنا کر پیش کر رہا ہے، بلکہ انھیں انسان کی دونوں جہانوں میں کامیابی کی شرائط کے طور پر سامنے لا رہا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ تصورات محض فرد یا انفرادی زندگی کی تطہیر و تزئین نہیں کرتے بلکہ اس کی پوری مدنی زندگی کو آراستہ اور ایک فلاحی اور تخلیقی تہذیب کی صورت گری کرتے ہیں اور اس طرح اس کے خدا کا حقیقی خلیفہ بننے کی راہ استوار و متعین کر دیتے ہیں۔
ماخذ:
http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/iqbaliyat/jan12/3.htm
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید