تحریک آزادی نسواں محض ایک ڈھونگ
مشتاق احمد كریمی
عورت کا وجود کائنات کے رنگ و بو میں ایک حسین اضافہ ہے، انسانی زندگی کا کون سا موڑ ہے جہاں عورت کی حصہ داری نہ ہو، حیات انسانی کا کون سا دور ہے جس کی تعمیر و ترقی میں عورت نے اپنی ساجھے داری درج نہ کرائی ہو، کون سا علم و فن ہے جس میں عورت نے قابل قدر کارنامہ انجام نہ دیا ہو، کون سا شعبہ حیات ہے جس میں عورت کا نمایاں کردار نہ ہو، کون سا معاشرہ ہے جس کو بام عروج تک پہنچانے میں عورت نے ہاتھ نہ بٹایا ہو اور کون سا ملک ہے جس کی سماجی و اجتماعی، اقتصادی و معاشی، علمی وسائنسی، دینی و اخلاقی ترقی و فروغ میں صنف نازک نے اپنی شراکت کی دھوم نہ مچائی ہو، یہاں تک کہ وہ شعبہ جو مردوں کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے، اس میں بھی عورتوں نے قابل قدر مہارت و صلاحیت پیدا کر کے اپنی تابناک تاریخ درج کرائی ہے، کون سا تاریخ کا طالب علم ہے جو میدان جہاد کی خنساء، دلی کی تاجدار رضیہ سلطان اور عدل جہانگیری کی کردار نور جہاں سے نا واقف ہے۔
اسلام کے زیر سایہ حجاب کی پابندی کر کے صنف نازک نے ہر وہ کارنامہ انجام دیا جو صرف اسی کا حصہ تھا، اسلام عورت کو میدان جہاد میں تلوار چلانے سے منع کیا ہے، نہ مسجد میں جانے سے، غزوہ احد میں ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے ابن قمئہ پر تلوار سے وار کا کون انکار کرسکتا ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید کرنے کی خبر اڑا دی تھی اور مسجد نبوی میں انصار و مہاجر عورتوں کی حاضری ناقابل تردید حقیقت ہے۔ خنساء رضی اللہ عنہا اور جہاں گیر کی بہن زیب النساء کی شاعری کی داد نہ دینے والا آپ بے بہرہ ہے۔ اندلس کی مشہور محدثہ ام سعد علم حدیث میں با کمال تھیں، قرطبہ کی لبانہ علم حساب وہندسہ کی بڑی ماہر تھیں، الجبرا اور مساحت و پیمائش کے نہایت پیچیدہ مسائل وہ چٹکیوں میں حل کر دیتی تھیں۔ اسلام عورت کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کرتا ہے نہ تجارت و دکان داری کرنے سے، مسجد نبوی میں ہر جمعرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم و تربیت کے لئے عورتوں کا خصوصی حلقہ درس قائم کرتے تھے اور بنی قینقاع کے بازار میں صحابیہ عورت کا دکان داری کے لئے جانا اور ان کے ساتھ یہودیوں کی شر انگیزی اور ان کی پکار پر یہودی کا قتل تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ اسلام صنف نازک کو زراعت سے روکتا ہے نہ جانور پالنے سے، اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کا اپنے شوہر زبیر بن العوام کے گھوڑے کے لئے گھاس کاٹنے کے لئے جانا اور صحابیات کا اپنے شوہروں کے باغ میں آبپاشی و سینچائی کرنا مشہور واقعات ہیں۔ ہنگامی ، ایمرجنسی اور انتہائی نا گزیر حالت میں عورت کسی بھی معاملہ کی قیادت کرسکتی ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی جنگ جمل میں فوج کی قیادت تاریخ اسلام کا ایک اہم روشن باب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوڑ کے مقابلہ کا واقعہ تو جہاں آشکارا ہے۔سردار دو جہاں محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صلح حدیبیہ کے موقع پر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو قبول کر کے اس پر عمل کرنا، عورتوں کی عزت و تکریم کا زریں باب ہے، غرض کہ کون سے شعبہ ہائے حیات ہیں کہ اسلام نے عورت کو ان کے اپنے دائرے میں رہ کر کار ہائے نمایاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی ہے۔
جہاں تک عورتوں کے حقوق کا تعلق ہے تو اسلام نے عورتوں کو بحیثیت لڑکی یہ حق عطا کیا ہے کہ باپ اس کی پرورش و پرداخت کرے اور جس باپ نے تین لڑکیوں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کی اس کو جنت کا مژدہ سنایا گیا ہے (ابو داود: 4481) ، جس بھائی نے اپنی دو بہنوں کی پرورش و پرداخت کی وہ بھی جنت کا مستحق ہے (حوالہ مذکور)، باپ یا بھائی یا کوئی بھی قریبی رشتہ دار ولی بالغ لڑکی کی مرضی کے بغیر دوسری جگہ اس کی شادی نہیں کرسکتا، (بخاری: 4741) ، وہ بھی اپنی پسند کا حق مہر لے کر، (النساء: 4)، بحیثیت بیوی اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور اس کے شوہر کو کائنات کا بہترین انسان اس وقت قرار دیا ہے جب وہ بیوی کے ساتھ بہتر شوہر ثابت ہو (ترمذی: 3830، ابن ماجہ: 1967) ، بحیثیت ماں عورتوں کے قدموں تلے جنت ہونے کی بشارت دی گئی ہے (نسائی: 3053) ، اور بحیثیت ایک عام عورت ہونے کے عورتیں مردوں کی مثل ہیں (ابوداود: 204) ، عورت اور مرد میں چند مخصوص مسائل کو چھوڑ کر کوئی فرق و امتیاز نہیں، وہ بھی عورتوں کی عفت و عصمت کے مفادات اور جسمانی ساخت کے پیش نظر ہیں، مثلاً حجاب ، سفر میں محرم کی معیت کی شرط وغیرہ ، تاکہ عورت کسی درندہ صفت انسان کے جنسی ہوس کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ اور وہ بھی اسلام کے عورت پر رحم و شفقت کی علامت کے طور پر ہے، (مسند احمد: 12300) ، اسلام نے عورت کو ماں ، باپ، شوہر، بیٹے اور بھائی کی جائیداد میں وراثت کا حق دار بنایا ہے، کائنات کے پورے تاریخی ادوار میں اسلام ہی نے سب سے پہلے عورتوں کے حقوق کی آواز بلند کی ہے اور ان کو ان کا حق دیا ہے۔ یہ ہے وہ عزت و تکریم اور مقام و مرتبہ جو اسلام نے عورت کو دی جس کی مثال نہ کسی اور مذہب میں اور نہ ہی کسی قانون میں مل سکتی ہے ۔عورتوں کی ذلت ورسوائی، بے وقعتی و ناقدری اور زبوں حالی وکسمپرسی کی حالت زمانہ جاہلیت میں اور آج کے نام نہاد روشن اور ماڈرن جاہلیت میں دیکھنا ہو تو ذیل کا بیان نہایت غور سے پڑھئے ان شاء اللہ پوری تسلی ہو جائے گی:
زمانہ جاہلیت میں عورت پوری دنیا میں عموماً اور عرب معاشرہ میں خصوصاً نہایت سخت آزمائشی دور سے گزر رہی تھی، عرب سوسائٹی میں لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، اگر لڑکی زندہ در گور کئے جانے سے کسی طرح بچ جاتی تو اسے نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنی پڑتی تھی، حالت عدت وفات میں بیوہ عورت کو ایک سال کے لئے الگ کمرے میں بند کر دیا جاتا، اسے غسل کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور جب وہ اس قید سے ایک سال کے بعد باہر آتی تو اس کی شرمگاہ ایسی بدبو دار اور زہر آلود ہو جاتی کہ اگر اس کی غلاظت کو مینگنی یا پتھر سے پونچھ کر کسی بکری پر مل دیا جاتا تو اس کی زہر ناکی سے بکری مر جاتی تھی، اس کو اپنے قریبی لوگوں کے ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا، خواہ وہ کتنی ہی غربت ومفلسی کی زندگی نہ گزار رہی ہو، اس سے بھی دو قدم آگے وہ خود اپنے متوفی شوہر کے مال میراث کی طرح اس کے وارثین میں تقسیم کر دی جاتی تھی، عورت کو ایذا دینے کی غرض سے شوہر دسیوں مرتبہ طلاق دیتا اور رجوع کر لیا کرتا تھا، طلاق کی کوئی حد بندی نہ تھی ، نیز جتنی مرضی ہوتی دسیوں عورتوں کو بلا تحدید اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور جانوروں کی طرح استعمال کرتا تھا۔ جاہلیت میں عورت کی جانوروں اور تجارتی سامانوں کی طرح بلکہ اس سے بھی بدتر بازاروں میں خرید و فروخت ہوتی تھی۔
بر صغیر ہند میں عورتوں کی اس سے بھی زیادہ بری حالت تھی، عورت کو اقرباء کے میراث میں کوئی حق نہ تھا اور نہ آج جدید دور میں ہے، قدیم ہندوستانی قوانین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وبائیں اور موت، جہنم اور آگ اورسانپوں کا زہر عورت سے بدرجہا بہتر ہے،اسے شوہر کی درازی عمر کے لئے ہر سال 36 گھنٹوں کا برت (روزہ) رکھنا پڑتا ہے، شوہر کے مر جانے پر اسے اس کی چتا میں ستی (جل جانا) ہو جانا پڑتا تھا، سن 1829ء میں ہندو سماج کے عظیم مصلح راجہ رام موہن رائے کی کوششوں سے قانوناً یہ رسم ممنوع قرار دیئے جانے کے بعد آج بھی گاہے بگاہے اس رسم کے احیاء کی بات روپ کنور کی شکل میں عملاً دکھائی دیتی ہے، اب جو عورت شوہر کی چتا پر ستی نہیں ہوتی ، اسے ہندو معاشرہ میں آج بھی ڈائن اور چڑیل سمجھاجاتا ہے اور دوسری شادی کرنا تو بہت دور کی بات ہے کبھی اپنے دل میں اس کا خیال بھی نہیں لا سکتی اور بسا آرزو کہ خاک شد کے مصداق بقیہ زندگی ذلت وکسمپرسی کے ساتھ اپنے سینے میں تمناؤں کو دفن کئے موت کی نیند سوجاتی ہے۔
عصر حاضر میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے والا مذہب عیسائیت کے عقیدہ کے مطابق عورت تمام گناہوں کا سر چشمہ اور ساری برائیوں اور فسق و فجور کی جڑ ہے، عورت ایسی نا پاک جنس ہے کہ اس سے اجتناب ضروری ہے، عورت خواہ ماں یا بہن جیسی پاکیزہ رشتہ دار کیوں نہ ہو تمام نیک اعمال کو تباہ و برباد کر دیتی ہے، بلکہ رومن ( اٹلی ) کے جدت پسندوںنے تو یہ قانون پاس کیا ہے کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوئے اس کی غلام ہے اوراس کے مطلقاً کوئی حقوق نہیں۔
اٹلی ہی میں ایک بڑے اجتماع میں عورت کے متعلق بحث وتمحیص کے بعد یہ پاس کیا گیا کہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ بھی اہمیت حاصل نہیں ، اور عورت اخروی زندگی کی وارث نہیں بنے گی اور یہ کہ عورت پلید اور نجس ہے ۔
یہودیت میں یہودی عورت کا کیا حال تھا اس کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں ، یہودیوں کی مقدس کتاب”عہد قدیم”میں لاکھ تحریف و تبدیل کے باوجود آج بھی مندرجہ ذیل بات موجود ہے :
"میں اور میرا دل حکمت و عقل کے علم اوراسے حاصل اور تلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تاکہ میں شر کو جو کہ جہالت ہے اور حماقت کو جو کہ جنوں ہے، معلوم کرسکوں ، تومیں نے موت کو پایا عورت جو کہ کھڑکی اوراس کا دل تسمہ اوراس کے ہاتھ بیڑیاں ہیں ۔ سفر الجامعۃ الاصحاح ( 7 : 25 – 26 ) ۔
یہ تو معلوم ہی ہے کہ عہد قدیم پر یہودی اورعیسائی دونوں کا ایمان ہے اور وہ اسےمقدس سمجھتے ہیں ۔
زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اور موجودہ و ماضی قریب کے دور میں عورت کو کیا کچھ حاصل تھا اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کرتے ہیں :
ڈنمارک کا ایک مصنف (wieth kordsten) عورت کے بارے میں کیتھولک چرچ کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے :
"دوروسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لئے کہ کیتھولک چرچ کے مذہب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمار ہوتی ہے”۔
سن 586 عیسوی کو فرانس میں عورت کے بارے میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جسمیں اس بات پر غور و خوض کیا گیا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا نہیں ؟
مذکورہ کانفرنس میں بحث و تمحیص کے بعد یہ قرار پایا کہ عورت انسان تو ہے لیکن وہ مرد کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔
فرانسیسی قانون کی شق نمبر (217217 ) میں مندرجہ ذیل بات کہی گئی ہے :
"شادی شدہ عورت ( اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پر ہوئی ہو کہ اس کی اوراس کے خاوند کی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی) کا کسی کو کچھ ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کے لئے اپنی ملکیت کو منتقل کرنا روا ہے اور نہ ہی اسے کسی کے پاس رہن رکھنا درست ، اور نہ ہی وہ عوض یا بغیر عوض اپنے خاوند کی معاہدے میں شرکت کے بغیر یا پھر شوہر کی لکھی ہوئی موافقت کے بغیر مالک بن سکتی ہے”۔
انگلینڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پر کتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا تھا ، حتی کہ ( 1850 1850) عیسوی تک عورتوں کو شہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اور ان کے لئے( 1882)عیسوی تک کوئی کسی قسم کے حقوق شخصی نہیں تھے ۔ سلسلۃ مقارنۃالادیان ،تالیف احمد شلبی جلد ( 333) صفحہ (210 -213213 ) ۔
دور حاضر میں یورپ و امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جو صرف اور صرف تجارتی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے ، وہ اشتہاری کمپنیوں کا جز ء لا ینفک ہے ، بلکہ یہاں حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیئے گئے ہیں اوراس کے جسم کو تجارتی اشیاء کے لیے مباح کر لیا گیا ہے، اور مردوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون سے اسے اپنے لئے ہر جگہ پراس کے ساتھ کھیلنا ہی مقصد بنا لیا ہے ۔ (الاسلام اصولہ ومبادئہ: ڈاکٹر محمد السحیم) ۔
عصر حاضر میں عورت جب گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا تو اسے ہوٹلوں میں ریسیپشنمیں، ہسپتالوں میں بطور نرس، ہوائی جہازوں میں بحیثیت ایئر ہوسٹس، مخلوط تعلیم گاہوں میں بحیثیت طالبات اور ٹیچرس، تھیٹروں میں بحیثیت اداکارہ یا گلوکارہ، مختلف ذرائع ابلاغ میں بحیثیت اناؤنسر بٹھا دیا گیا، جہاں وہ اپنی خوبروئی ، دلفریب ادا اور شیریں آواز سے لوگوں کی ہوس نگاہ کا مرکز بن گئی، فحش رسائل و اخبارات میں ان کی ہیجان انگیز عریاں تصویر چسپاں کر کے مارکیٹنگ کا وسیلہ بنایا گیا تو تاجروں اور صنعتی کمپنیوں نے اسی نوعیت کی فحش تصویر اپنے سامان تجارت اور مصنوعات میں آویزاں کر کے انہیں فروغ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔یہی نہیں بلکہ جس کی نظر آج کی فحاشی و عریانیت پر ہے وہ اچھی طرح واقف ہے کہ مس ورلڈ، مس یونیورس اور مس ارتھ کے انتخابی مراحل میں عورت کے ساتھ کیا کھلواڑ نہیں ہوتا ، نیز فلموں میں اداکاری کے نام پر اور انٹرنیٹ کے مخصوص سائٹ پر اس کی عریانیت کے کون سے رسواکن مناظر ہیں جو پیش نہیں کئے جاتے، اگر یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق پانے کی علامت ہے تو انسانیت کو اپنے پیمانہ عزت و آنر پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔
یاد رہے کہ یہ سب معاملہ عورت کے ساتھ اس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک اس میں مردوں کی کشش ، ابھرتی جوانی کی بہار ، دل ربا دوشیزگی کا جوبن اور شباب و کباب کی رونق رہتی ہے ، لیکن جب اس کے جوبن میں پژ مردگی آ جاتی ہے، اس کی کشش میں گھن لگ جاتا ہے ، بازاروں میں اس کی قیمت لگنا بند ہو جاتا ہے، اس کے ڈیمانڈ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اس کی ساری مادی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے تو یہ کافر معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے ،وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے اس کو چھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیں اور وہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے یا پھر پاگل خانوں میں۔
یہ ہے آزادی نسواں کی موجودہ کڑوی حقیقت اور یہ ہے اس کا حتمی برا انجام ، آزادی نسواں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مغربی مصنف یوں رقم طراز ہے:
"وہ نظام جس میں عورت کے میدان عمل میں اترنے اور کارخانوں میں کام کرنے کو ضروری قرار دیا گیا، اس سے ملک کو چاہے کتنی بھی دولت و ثروت مہیا ہو جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے گھریلو زندگی کی عمارت زمیں بوس ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ اس نظام نے گھر کے ڈھانچہ پر حملہ کر کے خاندانی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرتی تعلقات و روابط کے سلسلہ کو درہم برہم کر دیا ہے”۔
ایک دوسری مغربی مصنفہ جو کہ پیشہ سے ڈاکٹر بھی ہے، وہ اپنے مغربی معاشرے کے اندر رونما ہونے والے بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں خامہ فرسا ہے:
"خاندانی زندگی میں رونما ہو نے والے بحرانوں کا سبب اور معاشرے میں جرائم کے بکثرت بڑھ جانے کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ عورت نے گھر کی چار دیواری کو الوداع کہا، تاکہ خاندان کی آمدنی دوگنی ہو” …… اور واقعی آمدنی تو بہت بڑھ گئی مگر اس سے معیار اخلاق انتہائی نچلی سطح تک گر گیا، تجربات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ آج نسل نو جس بحران میں مبتلا ہے، اسے اس سے بچانے اور نکالنے کا صرف ایک ہی راستہ اور طریقہ ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ عورت کو دوبارہ اس کے اصل مقام یعنی گھر میں واپس لایا جائے”۔ (خطبہ حرم، شیخ حسین بن عبد العزیز آل الشیخ بتاریخ 30/8/2002 ء مطابق 21/6/1423ھ) ۔
یہ تو مغربی عورت کو ملی آزادی اور اس کی حالت زار کی ایک جھلک ہے، مسلم عورت کو مسٹر پیر کریٹس اس طرح خراج پیش کرتا ہے:
"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے برقعہ پوش مسلم خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں وہ حقوق حاصل ہو گئے ہیں جو بیسویں صدی میں ایک تعلیم یافتہ عیسائی عورت کو حاصل نہیں”۔ (اعتراف حق ص 209)
یہاں پہنچ کر بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ زبان پر آ جاتا ہے:
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلو بند
یہ سب حقائق و نتائج دیکھ لینے کے بعد کیا کسی مسلمان عورت کو مغربی تہذیب و ثقافت اور اس کی چمک دمک کی طرف حسرت بھری اور للچائی نگاہوں سے دیکھنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟؟؟
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید