FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

بے قراری سی بے قراری ہے

 

تیسرا حصہ

 

گوہر شہوار

Gohareshahwar07@gmail.com

 

 

 

مکمل حصہ پڑھنے کے لیے

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل 

 

حصہ سوئم: یہ نہ تھی ہماری قسمت

 

تیمور درانی کی کہانی الف لیلا جیسی تھی۔  میں اس کی کہانی میں کھو گئی۔  ہر کردار کے ساتھ میرے جذبات میں بھونچال آتا۔  میں شروع میں عنبر سے نفرت کرتی رہی۔ پر اس کی خود کشی پر روپڑی۔

کہانی کے دوران میں کئی بار روئی اور کئی بار اپنے آنسو روکے۔  میرا دل بہت ہی نازک ہے۔ میں تو کسی جانور کی تکلیف بھی نہیں دیکھ سکتی۔  کئی بار سوچا:  تیمور درانی سے کہوں کہ کہانی روک دے۔ مگر کہانی سننے کی چاہ نے مجھے روکے رکھا۔

میرے دل میں تیمور درانی کے بارے میں مکس سی فیلنگ آنے لگی۔  میں اس کی شخصیت کو اس کے کاموں سے دیکھوں یا اس کے ماضی کے الم ناک واقعات سے۔

مجھے اس سے شدید ہمدری محسوس ہوئی۔ مگراس کا خدا کو نہ ماننا مجھے بہت برا لگا۔  ایسا لگا جیسے کوئی ناپاک چیز میرے ساتھ بیٹھی ہوں۔

کہانی کے آخر میں بابا جی کی بتائی ہوئی بات مجھے یاد رہ گئی۔  یعنی تیمور درانی کو خدا کے راستے پر کوئی ایمان والی ہی لا سکتی ہے۔  مگر کون ایمان والی ہو گی جو اس کے دل میں سما جائے اور وہ لڑکی بھی اسے قبول کرے۔

اس جیسے شخص کو جانتے بھوجتے سچے دل سے پیار کرے گی۔

اللہ کرے اسے کوئی ایسی لڑکی مل جائے۔

مجھے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔  پتا نہیں کتنے گھنٹوں سے صوفے پر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہی۔  میرے سامنے پڑے کپ کی تہہ میں موجود کافی جم چکی تھی۔ لائبریری کی فضا میں ٹھنڈک مزید بڑھ گئی۔  مدھم سی لائٹوں میں لائبریری کی فضا مزید اداس ہو گئی۔

تیمور صاحب۔   آئی مین تیمور مجھے تمھاری کہانی سن کر بہت افسوس ہوا ہے۔

مجھے سمجھ نہ آئی کہ میں اور کیا کہوں۔

اس کے چہرے پر ایک ناپسندیدگی کی لہر اٹھی۔ میں نے یہ کہانی اس لیے نہیں سنائی کہ تم میرے ساتھ ہمدردی کرو۔

مجھے کسی کی ہمدردی نہیں چاہیے۔  اس نے خشک لہجے میں کہا۔

میں نے تمھارے تجسس کو ختم کرنے کے لیے تمھیں اپنے بارے میں بتا دیا۔  یہ ساری باتیں کوئی ایسا راز بھی نہیں ہیں۔  مگربہتر ہےم کہ تم کسی سے ان کا ذکر مت کرنا۔

میں اپنے صوفے پر سمٹ سی گئی۔ اس شخص کا کوئی بھروسہ بھی نہیں، جانے کب نقصان پہنچا دے۔

عبیر! میں نے تمھارے لیے اپنی ذات سے نقاب اتار دیا ہے۔  اب تمھاری باری ہے۔

میری باری؟ یہ مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ میں اپنے ذہن میں برے برے وسوسے اٹھنے لگے۔

تیمور۔  تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ میں نے تشویش زدہ لہجے میں کہا۔

میری پریشانی دیکھ کر وہ تھوڑا محظوظ ہوا۔  مجھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔

یہ شخص کیا کرنے والا ہے؟ اگر اس نے کوئی زور زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں کیسے خود کو بچاؤں گی۔

میرے ساتھ آؤ! یہ کہہ کر وہ اٹھ پڑا اور مجھے بھی صوفے سے اٹھنا پڑا۔

بیٹھے بیٹھے میری ٹانگیں سن سی ہو گئی۔

تیمور درانی اٹھ کر لائبریری کے ایک کونے میں گیا۔ اس کے ہاتھ کے ایک دھکے سے وہ جگہ کسی ریوالونگ ڈور کی طرح گھوم گئی۔ پیچھے ایک کمرہ دکھائی دیا۔

اچھا تو تیمور درانی نے ایک خفیہ کمرہ بھی بنا رکھا ہے۔  حیرت ہے اس لائبریری کی ڈیزائننگ کے دوران مجھے اس کا بالکل بھی پتا نہیں چلا۔  مجھے اس خفیہ کمرے کے بارے میں خوف آنے لگا۔  نہ جانے اس میں کیا ہو گا۔

میرے پاس چوائس ہی کیا تھی؟۔  میں بھاری قدموں سے اس کمرے میں داخل ہوئی، ہر قدم میرے دل کی دھڑکن بڑھادیتا۔

میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تیمور درانی نے دروازہ بند کر دیا۔  میری پریشانی مزید بڑھ گئی۔

کمرہ کشادہ اور ہوا دار تھا۔  حالانہ اس میں کوئی کھڑکی یا روشن دان دکھائی نہیں دی۔  کمرے کی فضا میں بہت بھینی بھینی خوشبو پھیلی تھی بالکل ہلکی بارش کے بعد گیلی مٹی کی خوشبو جیسی۔  کمرے میں فرش سمیت سار اکام خوبصورت لکڑی کا تھا۔  اس کمرے میں کونے میں بیڈ کے علاوہ کوئی فرنیچر نظر نہ آیا۔

مجھے اس کمرے میں ہونے والے کاموں کا سوچ کر ہی شرم آ گئی۔

میں یہاں کیا کر رہی ہوں؟

اگر یہ مجھے یہاں بند کر کے۔۔  کچھ بھی کر دے؟ میری امی اور بہنیں مجھے کہاں ڈھونڈیں گی۔

دیواروں پر پینٹنگز بھی بڑی خوفناک تھیں۔  ہر پینٹنگ میں لوگوں پر مختلف انداز سے تشدد ہوتے دکھایا گیا تھا۔  میں تو یہ سب دیکھ کر بہت ڈر گئی۔

جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ ڈرایا وہ سامنے دیوار کے ساتھ لمبی لوہے کی چینز اور ہتھکڑیاں تھیں۔  ساتھ والی دیوار پر مختلف ایسی چیزیں لٹکی نظر آئیں۔  جن کے نام تو کیا شکلیں بھی پہلی بار دیکھی ہے۔ صرف ایک کوڑے جیسے چیز کو میں پہچان پائی۔  باقی چیزیں بھی شاید اسی کیٹیگری کی ہیں۔

اس کمرے میں ایسا کیا ہوتا ہے؟

کچھ ہی لمحوں میں حقیقت مجھ پر واضح ہو گئی۔

میری کمر میں سرد لہر دوڑ گئی اور ذہن سائیں سائیں کرنے لگا۔

یہ۔  یہ سب کیا ہے تیمور؟ میں نے ڈرے ڈرے انداز سے پوچھا۔

وہ ہلکے سے طنزیہ لہجے میں بولا۔

یہ چینز اور ہتھکڑیاں ہیں جن سے باندھا جاتا ہے، یہ سامنے موجود سامان اسی لیے ہے کہ ہتھکڑی میں بندھے ہوئے کو ان سے مارا جائے۔  وہ کونے میں فرسٹ ایڈ باکس اس لیے ہے کہ اگر چوٹ شدید لگ جائے تو مرہم پٹی کی جا سکے۔

میرے تو پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ یعنی میرے بدترین خدشات درست تھے۔

ایک بھیڑیے مجھے گھیر کر اپنی کچھار تک لے آیا تھا۔  اتنے دن سے یہ سب ایک پلان کا حصہ تھا۔  میں اتنی بے وقوف ہوں کہ خود بخود جال میں پھنستی چلی گئی۔

اب یہ مجھے باندھ کر۔ ۔ ۔  اف میرے خدا ! میں کہاں پھنس گئی ہوں۔  میں نے بھاگنے کے لیے دروازے کی طرف دیکھا مگر آٹو میٹک دروازہ میرا منہ چڑانے لگا۔  میرا گلا خشک ہو گیا۔  میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھنا شروع کی۔  یا اللہ مجھے بچائیں۔

میں نے اپنے خوف پر تھوڑا سا قابو پاتے ہوئے۔ ۔ ۔  سہمے سے انداز میں پوچھا۔  تیمور ! تم مجھے یہ سب کیوں دکھا رہے ہو؟

دیکھو۔۔  تم۔  تم نے ایگریمنٹ کیا تھا:  کوئی ایسا ویسا کام نہیں کرواؤ گے۔  آخر میں میری آواز روہانسی ہو گئی۔

کیا میں تمھیں ایسا شخص لگتا ہوں جو کسی اصول کو مانتا ہو؟ اس کے لہجے میں سفاکی در آئی۔

میں سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔  یہ شخص تو واقعی سائیکوپاتھ ہے۔

میں نے ایک فلم دیکھی تھی جس میں ایک سائیکوپاتھ لڑکیوں کو اغوا کر کے قید کرتا ہے۔  یہ تمام لڑکیاں کمسن اور معصوم ہوتیں۔ وہ شخص ان کی بے بسی اور بیچارگی دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔  ان کی منتیں اور رونا دیکھ کر اسے سکون ملتا ہے۔  وہ لڑکیوں کو دھیرے دھیرے ذہنی اور جسمانی ٹارچر سے گزارتا۔  لڑکیاں خود کشی کی کوشش بھی کرتیں۔ پر کامیاب نہ ہوتیں۔  آخر میں وہ انھیں بھیانک طریقے سے مار دیتا۔  کیا میرا انجام بھی ایسا ہی ہو گا؟

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کوڑے کو ہلکے سے انداز سے مارا۔  ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔  کوڑا جیسے ہی اس کے جسم سے ٹچ ہوا ایک سسکی سنائی دی۔  اس کی آنکھوں میں عجیب سا سرور دکھا۔  عجیب شخص ہے جو تکلیف کو بھی انجوائے کر رہا ہے۔

میرا ڈر اس وقت حیرت میں بدل گیا جب تیمور درانی نے بتایا، یہ ہتھکڑیاں اور کوڑے مجھے باندھ کر تشدد کرنے کے لیے نہیں۔  بلکہ وہ چاہتا تھا میں عنبر کی طرح اسے باندھ کر اس کے اوپر تشدد کروں۔

میں بات کو سمجھ نہ سکی۔ اس نے سمجھانا بھی مناسب نہ سمجھا۔

یہ کہتے ہی اس نے اپنی شرٹ اتاردی۔  میں نے شرم سے نظریں جھکا لیں۔  یہ شخص کتنا بے شرم ہے۔

وہ میرے سامنے صرف پینٹ میں میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔

میں نے جھجکتے جھجکتے اس کی طرف ایک نگاہ ڈالی تو چونک گئی۔  اس کے جسم پر بے تحاشا زخموں کے نشان تھے، جیسے بہت زیادہ تشدد کیا گیا ہو۔ اس کی مضبوط مسلز دیکھ کر یہی لگتا کہ ریگولر ہارڈ ایکسرسائز کرتا ہے۔

میں کچھ لمحوں سے زیادہ اس کے جسم کو نہ دیکھ سکی اور شرم سے اپنی نظریں پھیر لیں۔

عبیر تم کیا کر رہی ہو؟ ایک غیر محرم بندے کے ساتھ، اکیلے اس حالت میں؟ فوراً یہاں سے نکل پڑو۔

میں ایسا نہ کر سکی۔  میرے تجسس نے مجھے ایک بہت ہی غیر اخلاقی صورتحال میں ڈال دیا تھا۔

میں نے اپنی شرمندگی، کنفیوژن اور گھبراہٹ دور کرنے کے لیے ان زخموں کے بارے میں پوچھا۔

تیمور یہ زخم کیسے ہیں؟تم کیوں چاہتے ہو میں تمھارے اوپر تشدد کروں۔

وہ میری بات کا جواب دیے بغیر اس نے کوڑا میرے ہاتھ میں پکڑایا اور اپنے آپ کو ہتھکڑیوں کے ساتھ باندھ کر بیٹھ گیا۔

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

عبیر اب یہ زخم ہی مجھے کچھ سکون دیتے ہیں۔ میں انھی زخموں کو تازہ رکھ کر خود کو انسان ہونے کا یقین دلاتا رہتا ہوں۔

یاد ہے ! میں نے تمھیں کہا تھا کہ کسی بھی طرح کا پلیژر ہو انسان بہت جلد اکتا جاتا ہے۔  پھر اسے کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔  میں نے بھی طاقت اور کامیابی کے نشے میں ہر چیز کی انتہا کو چھوا۔  مگر کچھ عرصہ بعد ہر چیز بے ذائقہ ہو گئی۔ مجھے درد اور غم کی کمی چھبنے لگی۔  میں جتنا طاقت ور ہوتا گیا میرے اندر ایک عجیب خواہشیں اٹھنے لگیں۔

کوئی مجھے اسی طرح بے عزت کرے جیسے مجھے مدرسے اور چچا کے گھر میں کیا جاتا تھا۔

جب مجھے لڑکیاں رشک اور محبت سے دیکھتیں، تو میرے اندر یہ خواہش اٹھتی:  کوئی لڑکی ہو جو عنبر کی طرح مجھے حقارت سے مارے۔

مجھے نہیں معلوم میرے اندر یہ خواہشیں کیوں اٹھنا شروع ہوئیں۔  نفسیات اس بارے میں کچھ کہتی ہے مگر مجھے اس کو جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

مجھے اس کام کے لیے خاص طرح کی لڑکیاں چاہیے ہوتی ہیں۔  ایسی لڑکیاں جو اندر سے خالی نہ ہوں۔ جن کی شخصیت ادھوری نہ ہو، جن کی موجودگی میرے اندر کچھ احساسات جگائے۔  جو مجھے رو بوٹ سے دوبارہ انسان بنادے۔

میں ایسی لڑکیوں سے محبت نہیں نفرت چاہیے ہوتی ہے۔  میں چاہتا ہوں یہ مجھے ماریں اور میری تذلیل کریں۔  یہ میرے جسم اور دل پر زخم لگائیں۔  یہ میرے پرانے زخموں کو بھرنے نہ دیں۔

یا اللہ تیرے کام نرالے ہیں۔ جو تجھے چھوڑتا ہے، تواسے کیسے کیسے امتحانات میں ڈالتا ہے۔

یہ شخص دنیا کے سارے سکون اور عزت چھوڑ کر چاہتا ہے، اس کو دکھ اور ذلت دی جائے۔  اسے سمجھ کیوں نہیں آتی؟ یہ بھی خدا کی طرف سے ایک سزا ہے۔

تیمور تو کیا تم اسی لیے لڑکیوں کے اندر کبوتریاں، مورنیاں اور شیرنیاں تلاش کرتے ہو؟

ہاں ! ایسی لڑکیاں جو پلاسٹک کی گڑیاں نہ ہوں۔  ایسی گڑیاں جن کے اندر کچھ نہیں ہے۔  بس باہر سے ہی سجی سنوری رہتی ہیں۔

تو تم اپنے اس کھیل کے لیے لڑکیوں کو مینوپلیٹ بھی کرتے ہو؟

ہاں کسی حد تک۔۔

میں ان کے ساتھ زور زبردستی نہیں کرتا اوراس کام میں ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔

میں چاہتا ہوں وہ یہ کام اپنی مرضی سے کریں ورنہ اس کام میں کوئی مزہ نہیں ہے۔

لڑکیاں اپنی مرضی سے ایسا کرنے پر کیوں تیار ہو جاتی ہیں۔

شاید ایک طاقت ور شخص کو یوں مارنے، دبانے اور ذلیل کرنے میں انھیں بھی مزہ آنے لگتا ہے۔  ہمارے معاشرے میں طاقت کا یہ احساس انھیں ساری زندگی نہیں مل سکتا۔  اوپر سے انھیں اس کام کے اچھے خاصے پیسے بھی ملتے ہیں۔

مجھے تیمور درانی پہلے سے بھی زیادہ عجیب لگا۔

تیمور میں تمھارے اس کھیل میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔

اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔  عبیر تمھارے پاس کچھ گھنٹے پہلے یہ چوائس تھی۔  اب نہیں ہے۔

میرے گلے میں کوئی چیز اٹک گئی، یہ میں کیا کربیٹھی ہوں؟

میں پھر بھی اصرار کروں گی۔  پلیز۔۔  تم مجھے اس کھیل میں مت گھسیٹو، مجھے یہ سوچنا بھی عجیب لگ رہا ہے۔

میں بے وجہ ایک انسان پر تشدد کیسے کر سکتی ہوں؟

عبیر ہم نہیں جانتے، کل ہمارے محسوسات کیا ہوں گے۔  مختلف حالات ہمارے اندر مختلف جذبات جگاتے ہیں۔  ہو سکتا ہے تم اس کام کو باقی لڑکیوں کی طرح انجوائے کرنا شروع کر دو۔

نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

میں تو ایک بلی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتی۔  ایک جیتا جاگتا انسان کو دور کی بات ہے۔

ایسا کرنے والے بیمار ذہن کے لوگ ہوتے ہیں۔

عبیر! اپنے محسوسات پر اتنا اعتبار نہ کرو۔

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی

سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم

تم ایک بار یہ تجربہ کر کے تو دیکھو تمھارے محسوسات تبدیل ہو جائیں گے۔

میرے بہت کنفیوز ہو گئی۔  کیا کروں، اسے کس طرح منع کروں؟

اسی دوران اس نے پھر کہا کہ اٹھاؤ کوڑا اور مارنا شروع کرو۔

میں بھی کیا کرتی۔ مجبوراً چمڑے کا کوڑا ٹھایا اور بھاری قدموں سے اس کے قریب گئی۔

یوں لگا میں اپنے خواب کو کی تعبیر دیکھ رہی ہوں۔  ایک بھیڑیا، میرے سامنے بندھا ہے۔  اور میں اسے کوڑے سے مارنے جا رہی ہوں۔  کتنی عجیب بات ہے۔ پر مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا۔

اس کے چہرے پر پہلی بار مجھے جذبات کی لہر نظر آئی۔  جیسے وہ اندر سے ایکسائیٹڈ ہو۔

میں نے بہت مجبوری اور بے دلی سے کوڑا مارا۔  ہلکی سی آواز کے ساتھ کوڑا جیسے ہی اس کی نشانات کے بھری کمر پر پڑا تو لگا جیسے یہ کوڑا میرے جسم پر پڑا ہے۔

اس نے ہلکی سی سسکی لی۔

زور سے مارو۔۔  اس نے سرور بھرے لہجے میں کہا۔

ذہنی توازن بگڑنے کی بھی حد ہے۔

میں نے اس بار ذرا زور سے مارا کوڑا مارا۔  اس کے درد کا سوچتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔  مگر اسے تو جیسے یہ تکلیف اچھی لگ رہی تھی۔  اگرچہ میں اپنی طرف سے آہستہ ہی مار تی، پھر بھی اس کی کمر پر لال نشان پڑ جاتے۔

ہر بار وہ اور زور سے مارنے کا کہتا۔  یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔

دس منٹ بعد اس کی کمر پر ہلکے ہلکے زخم دیکھ کر میں ہانپتے ہوئے رک گئی۔  وہ آنکھیں بند کیے سرور کی کیفیت میں بیٹھا رہا۔

اس نے مجھے ہتھکڑیاں کھولنے اور فرسٹ ایڈ کا سامان لانے کا کہا۔  اس کے زخموں پر کریم لگاتے ہوئے مجھے بہت عجیب لگا۔  زخم پر جیسے ہی ٹھنڈی کریم لگتی تو وہ ہل سا جاتا۔

تھوڑی دیر کے بعد ہم دوبارہ لائبریری میں آ کر بیٹھ گئے۔  میری گھٹن کچھ کم ہوئی۔  تیمور درانی کی حالت سے معلوم ہوتا جیسے نشہ کر کے آیا ہو۔  کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ نارمل ہو گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔  البتہ چہرے پر تازگی تھی۔ اس نے مجھ سے مزید کوئی بات نہیں کی۔  میں جلدی جلدی گھر سے باہر نکل آئی۔

شام ہو گئی، اور چڑیاں اپنے گھونسلوں کو جا رہی تھیں۔

سارا راستہ میں یہی سوچتی رہی:  یہ میں کیا کر کے آ رہی ہوں۔

شگفتہ نے بھی پوچھنے کی کوشش کی۔  میں نے کام کی پریشانی کا بہانہ بنا کر ٹال دیا۔  اپنی پسند کے دال چاول بھی تھوڑے سے کھائے۔  میں کس جال میں پھنس گئی ہوں؟

تیمور درانی میری زندگی کو غیر محسوس انداز سے کنٹرول کر رہا تھا۔  اس کی کمپنی کی جاب سے میرا اور میرے گھر والوں کا مستقبل وابستہ تھا۔  اسی نوکری کی خاطر میں ایکسٹرا فیور والی بات بھی مان چکی تھی۔  وہ بہانے بہانے سے مجھے اپنے گھر بلاتا ہے اور عجیب عجیب سے کام کرنے کو کہتا ہے۔  میں اسے انکار بھی نہیں کر سکتی۔

کیا مصیبت ہے۔  کاش کاشف جلدی سے آ جائے اور میں یہ نوکری چھوڑ کر اپنا گھر بساؤں۔

میرے گھر سے جانے کے بعد امی اور شگفتہ کا کیا بنے گا؟

کیا کاشف ان کی دیکھ بھال اور کفالت کا ذمہ اٹھائے گا؟

اگر وہ مجھے اپنے ساتھ امریکہ لے گیا تو میں کروں گی۔  انھی سوچوں کے ساتھ میں نیند کی وادیوں میں اترتی چلی گئی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

امی پریشان تھیں کہ میرے سسرال والے اتنے لاتعلق کیوں ہو گئے ہیں۔  نہ ان کا کوئی فون آتا ہے۔ نہ عید شب برات پر کوئی تحفہ۔  یہ سب کوئی خاندانی باتیں تو نہ ہوئیں۔ جب امی ان کے ہاں جاتیں، تو گھر کی عورتیں بھی روکھے روکھے انداز سے ملتیں۔

شمائلہ تو بالکل ہی اجنبیوں ہو گئی۔  ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے نکل جاتی۔

کہیں یہ لوگ منگنی توڑنے کے چکر میں تو نہیں؟

امی کہتیں، میرے سسرال والے لوگوں کی باتوں میں آ گئے ہیں۔  ڈاکے والی رات کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کو تو مرچ مصالہ لگا کر بات کرنے کا شوق ہے۔

مجھے کاشف پر اور اپنی محبت پر پورا اعتماد تھا۔  وہ جب واپس آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

کاشف سے اب دنوں کے بعد بات ہوتی۔ اس کی آواز میرے کانوں میں رس گھولتی۔  وہ میری باتیں سننے سے زیادہ بزنس سے متعلق باتیں کرتا۔  اس کی باتوں میں بس امریکہ میں سیٹل ہونا ہوتا۔

فیس بک پر اس کی اپنے نئے کولیگز کے ساتھ تصویریں ہوتیں۔ جہاں وہ کبھی ہائیکنگ کر رہا ہوتا، تو کبھی بنجی جمپنگ۔  ایڈونچر کا تو وہ ویسے ہی شوقین تھا۔  اس کی تصویروں پر کمنٹ کرنے والی لڑکیاں مجھے زہر لگتیں۔

بھلا تمھارا کیا کام ہے کسی کے ہونے والے شوہر سے اتنا فری ہونے کا؟

یہ کاشف بھی عجیب ہے ابھی تک اپنا ریلیشن شپ سٹیٹس تبدیل نہیں کیا۔

ان مردوں کو بھی کام کی باتوں کا خیال ہی نہیں رہتا۔

کئی بار سوچا اسے کہہ دوں۔ پربات چیت کے دوران ہمیشہ بھول جاتی۔  بھلا مذاق میں ایسی بات کہہ دینے میں کیا حرج ہے۔

میں اس کی فیس بک وال پر زیادہ لگاؤ نہیں دکھاتی۔  پتا نہیں لوگ کیا سوچیں گے۔

اس کی فرینڈ لسٹ میں شامل لڑکیوں بڑی بے حیا تھیں۔  ایسے ایسے کمنٹس کرتی ہیں جیسے کاشف ان کا بوائے فرینڈ ہو۔  یہاں ایسے لوگوں کے لیے ان لائیک کا آپشن بھی ہونا چاہیے۔

کاشف جب امریکہ سیٹل ہونے کی بات کرتا تو میں بھی کچھ دیر کے لیے خوابوں میں کھوجاتی۔ ایک نیا ملک اور ایک نئی زندگی نہ جانے کیسی ہو گی؟ میں وہاں کیسے ایڈجسٹ کروں گی؟ ہمارے خاندان میں آج تک کوئی لڑکی ایسے باہر نہیں گئی۔  میں تو کبھی کراچی سے باہر نہیں گئی۔  ملک سے باہر تو دور کی بات ہے۔ البتہ شگفتہ کے پلان کچھ عجیب تھے۔  وہ باہر سے ڈگری لینے اور جاب کرنے کی بات کرتی رہتی۔  شاید وہ کر بھی سکتی تھی۔  میرے اندر تو اتنی ہمت نہیں تھی۔

آفس میں ہمارے کام میں بہت تیزی آ گئی۔  صبح سے شام تک سر کھجانے کی فرصت نہ ملتی۔  مجھے اس کام میں مزا بھی خوب آتا۔ تخلیق سے زیادہ مزے کی چیز کوئی نہیں۔  میرے ارد گرد رنگ ہی رنگ ہوتے اور میں رنگوں میں ڈوب جاتی۔

میرے آفس میں لٹکتی امپریشنسٹ پینٹگز مجھے کچھ بڑا کام کرنے پر اکساتیں۔ ایک آرٹسٹ کیسے رنگوں سے دنیا کو مختلف طریقے سے دکھا دیتا ہے۔  آپ گھنٹوں ان تصویروں کو دیکھتے رہیں دل نہیں بھرتا۔  آپ جتنا غور سے دیکھیں، اتنی زیادہ باریکیاں نظر آتی ہیں۔  میرے نزدیک پینٹنگز زندگی کی خالص خوبصورتی کو دکھاتی ہیں۔

ایکسپریس کرنے کی تمنا بھی عجیب ہے۔  سب سے پرانی پینٹگز تیس چالیس ہزار سال پرانی ہیں۔ جنھیں غاروں میں رہنے والے انسانوں نے بنایا۔  اتنے سخت حالات میں بھی انسان کو اگر پینٹگ کا خیال آ سکتا ہے تو اس کا مطلب ہے:  انسان میں اظہار کی تمنا بہت شدید ہے۔

آرٹ ہمیشہ اپنی مٹی اور تہذیب سے جڑا ہوتا ہے۔ خوبصورتی کو ڈھونڈنے اور ایکسپریس کرنے کی تمنا تو تمام انسانوں میں ہے مگر بیوٹی کے پیمانے ہر قوم اور ہر دور میں مختلف رہے ہیں۔  انسانی جبلت تو ایک ہی رہی ہے مگر اس کے مظاہر بدلتے رہتے ہیں۔

مغربی لباس کی خوبصورتی مشرقی معاشروں میں مقبول نہیں ہو سکتی۔  ہمارے ہاں جینز بہت ہی دھیرے دھیرے آئی۔  وہ بھی شہروں میں۔  سکرٹ اور فراکس کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔  ہماری شرٹس کی لمبائی کم یا زیادہ ہوتی ہے۔  دوپٹے بڑے چھوٹے ہو جاتے ہیں، شلواروں کے پائنچے کھلے اور تنگ ہو جاتے ہیں۔ کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی۔  ہمارے سب سے مقبول لباس اب بھی روایتی ہی ہیں۔

حیا ہماری اسلامی تہذیب کا بنیادی جزو ہے۔  البتہ اس کے مظاہر ہر دور میں بدلتے ہیں۔  میں یہ مانتی ہوں کہ حیا آنکھ میں ہی ہوتی ہے مگر انسان کی نیت اور خیالات کو ٹھوس مادی اظہار بھی چاہیے ہوتا ہے۔  ورنہ ذہن کی بات ذہن میں ہی رہ جاتی ہے۔

اسی لیے پردہ ایک اہم چیز ہے۔  ہماری بڑی بوڑھیاں پالکیوں میں جاتی تھیں۔  میری امی کبھی برقع اور کبھی لمبی سی چادر سے خود کو ڈھانپتی ہیں۔  ہمارے دور تک آتے آتے بہت خوبصورت عبائے، سکارف اور نقاب آ گئے ہیں۔  اصل مقصد پردہ کرنا ہے وہ خوبصورت انداز سے ہو تو سونے پہ سہاگا۔

آج کے دور میں عبایہ، سکارف اور نقاب مسلم خواتین کی پہچان بن چکا ہے۔  یہ کسی مذہبی جبر یا کمزوری کا نتیجہ نہیں۔  بلکہ ایک طاقت کے اظہار کے طور پر ابھرا ہے۔  اب ساری دنیا کی مسلم خواتین ایک دوسرے کو دیکھتی اور فالو کرتی ہیں۔  ترکی اور مصر میں رہنے والی لڑکیاں اس بات سے بے خبر نہیں ہو سکتیں کہ پاکستانی لڑکیاں کیا پہن رہی ہیں۔۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے مسلم فیشن کسی ایک ملک تک محدود ہو کر نہیں رہ سکتا۔  حجاب مسلم خواتین میں ایک پہچان کے طور پر مزید مقبول ہو گا۔

ایلف کہتیں، فیشن کبھی بھی اپنی تہذیب سے کٹا ہوا نہیں ہو سکتا۔  ہم مغربی فیشن انڈیسٹری سے بہت متاثر ہو سکتے ہیں، مگر یہ متاثر ہونا ہمارے کسی کام نہیں آتا۔  ہم جب بھی ان کے جیسا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اسے کاپی پیسٹ، ان اوریجینل، اور سب سٹینڈرڈ کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔  اصل مسئلہ تہذیبی ہے۔  وہ ہمیں سیاسی اور معاشی شکست کے بعد تہذیبی شکست بھی دینا چاہتے ہیں۔  ہم جب تک اس بات کا ادراک نہیں کریں گے آگے نہیں بڑھ سکتے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دفتر میں کام کے دوران تو مجھے کوئی خیال نہ آتا۔ پر جب بھی فارغ ہوتی تو تیمور درانی کے بارے میں ہی سوچتی۔  اب وہ مجھے کب بلائے گا اور کیا کرنے کو کہے گا۔  آگے کیا ہو گا؟ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟

مجھے یہ بھی ڈر رہتا:  اگر دفتر میں یا میرے سسرال والوں میں سے کسی کو پتا چلا کہ میں تیمور درانی کے گھر جاتی ہوں تو کتنا برا ہو گا۔

میں تو کسی کو سمجھا بھی نہ پاؤں گی، میں وہاں کیا کرنے جاتی ہوں۔  میں نے چپکے چپکے دوسری نوکریوں کے لیے بھی اپلائی کرنا شروع کیا۔  ایک دو جگہ انٹرویو بھی دیے۔  مگر سیلری بہت کم ہوتی۔

تیمور درانی نے مجھے سونے کے پنجرے میں قید کر لیا تھا۔  کاش کاشف جلدی سے پاکستان آ جائے۔

کارپوریٹ سیکٹر کا ماحول عجیب ہوتا ہے۔  یہاں پر آئے دن پارٹیز، گیٹ ٹو گیدر، ٹرپس چلتے ہیں۔  شروع شروع میں تو میں ان سب کاموں سے دور رہتی، گھریلو مصروفیت کا بہانہ بنا دیتی۔  پھر مجھے احساس ہوا، لوگ میرے ساتھ روکھے روکھے سے رہتے۔  وہ سمجھتے: میں بہت پراؤڈی ہوں اسی لیے ایسا کرتی ہوں۔

میں ان پارٹیز اور گیٹ ٹو گیدرز میں بہت بور ہو جاتی، اوپر سے خرچہ بھی کافی ہو جاتا۔  ہر بار نیا سوٹ، عبایہ، میچنگ نقاب، جیولری، جوتے اور بیگز لینے پڑتے۔  میں اگر یہ سب نہ کرتی تو لوگ طنزیہ نظروں سے غریب کہتے۔  وہاں ماحول بھی کافی لبرل ہوتا جس میں ڈرنکس لازما سرو کی جاتیں۔  مجھے تو شراب دیکھ کر ہی متلی ہونے لگتی۔  وہاں سب لوگ شراب پینا معمولی بات سمجھتے۔

ان گیٹ ٹو گیدرز میں تیمور درانی بھی شریک ہوتا۔  تمام لوگ اس کی خوشامد اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔  وہ جذبات سے عاری چہرے کے ساتھ کسی کونے میں بیزار بیٹھا ہوتا۔  میں نے ان پارٹیز کے دوران اسے کبھی ہنستے نہیں دیکھا۔

مجھے اب اس پر ترس آنے لگا۔  یہ عجیب شخص ہے۔  نہ جانے اسے کس بات کی سزا ملی ہے۔

کیا کسی کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ طاقت ور شخص اندر سے ذلت اور درد کی خواہش رکھتا ہے؟

یہ نازک سی لڑکیوں کو بلاتا ہے اور ان کے ہاتھوں تشدد کروا نا پسند کرتا ہے۔

میں سارا وقت چھپ چھپ کر تیمور درانی کو دیکھتی رہتی۔ اس نے مجھ سے بات کرنے اور توجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔

شکر ہے۔   جتنا اس سے دور رہوں بہتر ہے

مگر چھپ چھپ کر کن اکھیوں سے دیکھتی بھی رہتی۔ کہیں وہ مجھے دیکھ تو نہیں رہا۔  کافی دیر بعد خیال آتا، آخر یہ مجھے دیکھ کیوں نہیں رہا۔  اتنا بھی کیا اگنور کرنا؟

کچھ دنوں بعد تیمور درانی کے گھر کی طرف جاتے ہوئے میرا خوف کم تھا۔  میں اس کے گھر سے آشنا ہو گئی تھی۔  اس کا جرمن شیفرڈ کتا مجھے دیکھ کر سکون سے بیٹھا رہتا۔  میں البتہ پھر بھی ڈرتی۔  کتوں کا کیا بھروسا کب بھونکنا چھوڑ کر کاٹنا شروع کر دیں۔

گھر کے نوکر بہت فرمان بردرا تھے۔  وہ نظریں نیچی کر کے آتے اور اسی طرح چلے جاتے۔  مجھے اس گھر کے خانساماں سے ملنے کی خواہش تھی جو اتنے مزے کے کھانے اور کافی بناتا ہے۔  میں لائبریری میں موجود کتابوں کی بھی ورق گردانی کر لیتی۔  مجھے کتابوں کے آئیڈیاز سے زیادہ کتابوں کی خوشبو اچھی لگتی۔  کئی کتابیں تو میں نے صرف ان کی خوشبو کی وجہ سے پڑھیں۔

ہماری اس طرح کی دوسری ملاقات تھی۔  اس نے گرین پولو شرٹ اور خاکی کاٹن ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔  لگتا تو یہ ینگ اور ہینڈسم ہے۔ پر اس کے خیالات ستر سال کے بوڑھوں جیسے ہیں۔ زندگی سے یوں مایوس پھرتا ہے جیسے کل ہی قیامت آنے والی ہو۔

اس کے چہرے پر وہ پرانی والی سختی نظر نہ آئی جو وہ باقی لوگوں کے ساتھ رکھتا تھا۔  شاید وہ یہاں کسی قسم کی ایکٹنگ نہیں کرنا چاہتا۔  میں نے کافی پیتے پیتے اس سے پوچھا۔

تم نے ان ساری کتابوں میں سے کتنی کتابیں پڑھی ہوں گی۔

کوئی آٹھ سو نو سو کتابیں تو پڑھی ہوں گی۔ لیکن گن کون رہا ہے۔

نو سو کتابیں ! تم اپنی مصروفیت سے اتنا ٹائم نکال کیسے لیتے ہو؟

بزنس اب میرا اتنا ٹائم نہیں لیتا، زیادہ کام تو میری ٹیم ہی کرتی ہے، میں صرف اوور ویو کرتا ہوں۔  میری نیند بہت تھوڑی ہے۔ رات گئے تک میں ہوتا ہوں اور کتابیں ہوتی ہیں۔

کتابیں مجھے کچھ دیر کے لیے کسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں۔  میں کہانیوں کے کرداروں کی زندگی بسر کرتا ہوں اور اپنے اندر کے خلا کو بھول جاتا ہوں۔

میں کسی حد تک اس کی بات سمجھ سکتی ہوں کیوں کہ میں نے بھی کئی بار ایسا محسوس کیا ہے۔  ہمیں ایک نامعلوم دنیا کا احساس صرف کتابوں سے ہی ملتا ہے۔

تمھیں کس طرح کی کتابیں پسند ہیں۔

میں نے خود پر کوئی قید نہیں لگائی کہ کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں پڑھنا۔  جو موضوع بھی دلچسپ لگے اس پر کتاب پڑھ لیتا ہوں۔  اچھا ادب اور تاریخ میرے پسند کے مضامین ہیں۔  کسی بھی اچھے شعر، افسانہ اور ناول میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ زندگی کی خوبصورتی اور بدصورتی کو بالکل نئے زاویے سے دکھا دیتا ہے۔  ایک اچھی کتاب میں ایسا جادو ہوتا ہے کہ آپ چاہ کر بھی اسے چھوڑ نہیں سکتے۔

تم شعر بہت پڑھتے ہو۔ تمھیں کس قسم کی شاعری اچھی لگتی ہے؟

مجھے اردو کلاسیکی شاعری زیادہ پسند ہے جس میں جدائی، غم، مقدر کا جبر اور حزن کی کیفیت ہوتی ہے۔  میر، غالب اور جون ایلیا کے ہاں یہ کیفیت اپنے عروج پر ہے۔  جون مجھے اس لیے زیادہ پسند ہے۔  اس کی ساری شاعری چلا چلا کر کہتی ہے:  وہ بھی میری طرح ایک رائیگاں شخص تھا۔

اپنا خاکہ لگتا ہوں

ایک تماشا لگتا ہوں

اب میں کوئی شخص نہیں

اس کا سایہ لگتا ہوں

میں نے سہے ہیں مکر اپنے

اب بیچارہ لگتا ہوں

جون بھی خدا کو بھلا بیٹھے تھے

ہم وہ ہیں جو خدا کو بھلا بیٹھے ہیں

تو میری جان کس گمان میں ہے

کون سے اردوافسانے اور ناول تمھیں اچھے لگتے ہیں؟

مجھے منٹو اور غلام عباس کے افسانے ہیں۔ ان دونوں کی حقیقت نگاری آپ کا دل چیز دیتی ہے۔  میں منٹو کے کردار وں کو سمجھ سکتا ہوں۔  اس نے اپنے کرداروں کی نفسیات کو جس گہرائی سے بیان کیا ہے، وہ آرٹ کا ایک ماسٹر پیس ہے۔

ناولوں میں قراۃ العین حیدر کے ناول مجھے ڈبو دیتے ہیں۔  عینی آپا کی تحریریوں کے علاوہ اگر کوئی ناول اچھا لگا ہے تو وہ مستنصر حسین تاڑڑ صاحب کا "راکھ” ہے۔

پھر وہ بڑی دیر تک ادب، شاعری اور پینٹنگز کے بارے میں بات کرتا رہا۔  ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کا انداز بڑا دلچسپ ہوتا جیسے اسے خود بھی اچھا لگ رہا ہو۔  ویسے تو اس کے چہرے سے ہر دم بیزاری ہی نظر آتی تھیمگر یہاں معاملہ الٹ ہوتا۔

یہ موضوعات میرے بھی پسندیدہ تھے اسی لیے میں بھی اپنی رائے بتاتی رہی۔  ہم دونوں کی پسند کافی حد تک ایک ہی تھی مگر مجھے ادب میں زندگی اور خوشی کی تلاش ہوتی تھی۔  جبکہ اسے موت اور غم کی۔

ایک جیسی بات سے ہم دونوں مختلف مطلب لیتے تھے۔  کہیں خدا کو ماننے کے متعلق بھی یہی بات تو نہیں؟

جب اس نے پینٹنگز کے بارے میں بات کرنا شروع کی تو مجھے لائبریری اور گھر میں موجود مختلف پینٹگز دکھانے لے گیا۔  وہ ہر پینٹنگ کے پاسرک کر اس کی گہرائی بیان کرتا۔

وہاں خطاطی کے اعلیٰ نمونے بھی موجود تھے۔  عجیب بندہ ہے اللہ کو نہیں مانتا مگر اس کے پاک ناموں کو اپنے گھر میں خوبصورتی سے سجایا ہوا ہے۔

ہماری دلچسپ گفتگو کو ایک کال نے انٹرپٹ کیا۔  کال ختم کرتے ہی اس نے مجھ سے کہا کہ اسے ایک ایمرجنسی میں کہیں جانا ہے اس نے تفصیل تو نہیں بتائی اس کے چہرے کی ناگواری سے یہیلگا، جیسے اسے اپنی پسندیدہ ایکٹیوٹی چھوڑ کر جانا پڑا ہو۔

میں نے شکر ادا کیا کہ آج مجھے اس خوفناک کمرے میں نہیں جانا پڑا۔

تیمور درانی بھی تضادات سے بھرپور شخصیت تھا۔  ظاہری طور پر اسے طاقت اور پیسہ حاصل کرنے سے دلچسپی تھی اسی لیے وہ آئے دن نئے بزنس کھولتا ہے۔  مگر یہی طاقت ور شخص اپنی تنہائی میں معصوم لڑکیوں کے ہاتھوں تشدد کروا نا پسند کرتا تھا۔

اپنی باتوں اور خیالات سے خدا کو ریجیکٹ کرتا تھامگر اس کے پاک ناموں کو خوبصورتی کے طور پر گھر میں سجا کر بھی رکھتا تھا۔

مادہ پرست تھا لیکن اسے شعر و ادب سے اسے ایک روحانی خوشی ملتی تھی۔

زندگی کی تلخیوں نے بیچارے کو تضادات کا مجموعہ بنا دیا تھا۔  کوئی ایمان والی لڑکی اسے کیسے ٹھیک کر سکتی ہے؟ ٹھیک ہے محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے پھر بھی یہ شخص ناقابل اصلاح لگتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

شگفتہ خدا کے لیے آہستہ گاڑی چلاؤ، تم ایکسیڈینٹ کروا ؤ گی۔  میں نے پریشانی سے کہا۔  میری پریشانی دیکھ کر شگفتہ ہنسنے لگی۔

آپی آپ بھی ویسے ہی پریشان ہوتیں ہیں۔  دیکھیں میری گرپ کتنی اچھی ہو گئی ہے۔  یہ کہتے ہی اس نے ایک خطرناک کٹ مار کر ایک گاڑی کو اوور ٹیک کیا۔

شگفتہ کی بچی ابھی تمھار الائسنس نہیں بنا اگر کسی گاڑی کو ہلکا سے بھی ٹچ ہو گیا تو تمھارا ہی قصور ہو گا۔  میں نے غصے سے کہا۔

شگفتہ نے گاڑی کی سپیڈ تھوڑی کم کر لی۔

اس کے ذہن سے گاڑی لے کر یونیورسٹی جانے کا بھوت ابھی تک نہیں اترا کہتی وہ مجھے خود آفس ڈراپ کر دیا کرے گی۔  پہلے تو میں نہ مانی۔  لیکن اس کی منتوں اور پھر جذباتی بلیک میلنگ نے مجھے ماننے پر مجبور کر دیا۔  اس کے بقول میں نے تو سارا دن آفس سے نکلنا نہیں ہوتا۔ گھر میں سو کام پڑتے ہیں۔

اس کی باتدل کو لگی چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بھی شگفتہ کوہی جانا پڑتا تھا تو گاڑی میں جانا اس کے لیے سیف تھا۔  یونیورسٹی سے آتے ہوئے بھی اسے کوئی تنگ نہیں کرے گا۔

اس کی ڈرائیونگ دیکھ کر مجھے بہت ڈر لگتا۔ وہ میری لڑکیوں والی چھوٹی سی گاڑی کو بھی ریسنگ کار کی طرح چلانے کی کوشش کرتی۔  کبھی کبھی میں سوچتی کہ اس کے اندر کسی لڑکے کی روح گھسی ہوئی ہے۔  یونیورسٹی میں بھی وہ ہر کام میں آگے آگے ہوتی کبھی فنکشنز آرگنائز کروا رہی ہوتی۔  کبھی گیموں میں حصہ لیتی۔  ٹیبل ٹینس اور بیڈ مینٹن کا تو اسے بچپن سے ہی شوق تھا۔  سکول کالج میں کئی مقابلوں میں انعام بھی لیتی رہی۔  اب کچھ عرصے سے شطرنج کا شوق بھی چڑھ گیا تھا۔

کہتی ہے دماغ کے لیے بہت اچھا کھیل ہے۔

اتنے دماغ کا اس نے اچار ڈالنا ہے۔

آپی، ہمارے معاشرے کی لڑکیوں نے خود کو ویسے ہی چھوئی موئی بنایا ہوا ہے۔  وہ ہر کام کے لیے مردوں کی محتاج ہیں۔  مرد ان کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔  اب اگر آپ ابا کی بات مان کر اپنی تعلیم چھوڑ دیتیں تو آج ہمارا کیا حال ہوتا۔  ابا اور اماں کے خاندان میں سے کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آیا۔  سب لوگ زبانی تسلیاں دے کر چلے جاتے تھے۔ ابا کے دوستوں نے بھی قرضہ کی ادائیگی کے لیے کتنا پریشر ڈالا۔

اسی لیے میں مانتی ہوں، لڑکیوں کو شادی سے پہلے اور بعد میں انڈیپینڈنٹ ہونا چاہیے۔  اس کے لیے انھیں تعلیم یا ہنر سیکھنا چاہیے۔

اس کی باتوں میں وزن تھا۔  پھر بھی شوق اور مجبوری میں تو یہ سب ٹھیک ہے۔  اگر ساری لڑکیاں ہی یہ کرنے لگیں تو گھروں کا نظام کیسے چلے گا؟ بچوں کا کیا ہو گا؟ مجھے اپنا کام پسند ہے پھر بھی جب میرے بچے ہوں گے تو میں زیادہ وقت ان کے ساتھ بتانا چاہوں گی۔ میں انھیں سارا دن کسی آیا کے پاس چھوڑ کر کیسے کام کر سکتی ہوں۔

شام کو میں نے فیس بک کھولی۔  سب سے پہلے کاشف کی اپ ڈیٹس کے بارے میں دیکھا۔  وہ اسلامک سینٹر میں کسی شادی میں شریک ہوا تھا۔  شادی میں مختلف ممالک کے مسلمان نظر آئے۔  لڑکیاں نے بہت خوبصورت عبایوں میں تھیں۔  یہ تصویریں کاشف نے اپ لوڈ نہیں کیں تھیں بلکہ کاشف کو صرف ٹیگ کیا گیا تھا۔  کاشف ان تصویروں میں کافی خوش نظر آیا۔  اس کی خوشی دیکھ کر میں اداس ہو گئی۔

یعنی وہ وہاں ہماری جدائی کو انجوائے کر رہا تھا۔  میں نے غور کیا تو کئی تصویروں میں کاشف ایک ہی حجاب والی لڑکی کے ساتھ تھا۔ سائیڈ سے لی گئی تصویر میں تو دونوں ہنس بھی رہے تھے۔  مجھے شدید جلن ہوئی۔

میں نے غصے میں لیپ ٹاپ ہی بند کر دیا۔  پھر تھوڑی دیر بعد بے چینی ہوئی۔ دیکھوں تو سہی یہ لڑکی کون ہے۔

میں نے ٹیگز والی پروفائلز دیکھنا شروع کیں تو امیرہ نام کی لڑکی نظر آئی۔  وہ لڑکی ہر تصویر میں عبایہ میں تھی۔  اس کے چہرے کی خوبصورتی دیکھ کر میرے منہ سے سبحان اللہ نکل گیا۔  اللہ تعالیٰ نے بھی کیسا کیسا حسن بنایا ہے۔  اس کے چہرے پر نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔  دودھ جیسا سفید رنگ، نیلی آنکھیں۔

میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔

یا اللہ کاشف کو بچائیں۔  اس حسن پر کون نہ قربان جائے۔

میں نے فوراً کاشف کو کال ملائی۔  اس کی آواز میں وہ پہلے جیسی تازگی نہیں تھی۔  جیسے اسے اس وقت کال کرنا برا لگا ہو۔  حالانکہ آج تو چھٹی کا دن تھا۔  ہمارے درمیاں بھی زمینی فاصلوں نے کیسی دوریاں پیدا کر دی تھیں۔

اس کی بے رخی مجھے بہت چھبی۔ میں نے بھی روٹھنے کی کوشش کی۔  اس نے بھی لاپرواہی دکھائی۔ اس نے وہی اپنی ٹریننگ اور مصروفیت والی رسمی باتیں کرنا شروع کیں۔  میرا دل بالکل اچاٹ ہو گیا۔  میں چاہتی وہ ہماری زندگی اور مستقبل کی باتیں کرے۔  میری زندگی کے بارے میں پوچھے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔  میں کیا محسوس کرتی ہوں۔  وہ الٹا ان خشک سی باتوں کو لے کر بیٹھ گیا۔

میں نے شادی میں اس کی شرکت کا پوچھا تو اس کے لہجے میں تھوڑی سی خوشی چھلکی۔  وہ ایکامیریکن نومسلم لڑکی اور ٹرکش لڑکے کی شادی تھی۔  دونوں کے مسلم فرینڈز نے شرکت کی۔

عبیر یہاں کی مسلم کمیونٹی بہت متحد ہے۔  یہاں مسلمان ہونے والے لڑکے لڑکیاں اسلام کو خوب سوچ سمجھ کر اپناتے اور عمل کرتے ہیں۔  یہ ہماری طرح پیدائشی اور روایات کے غلام مسلمانوں نہیں ہیں۔

ان مسلمانوں کو کسی روایت اور رسم کی پروا نہیں ہے۔  یہ لوگ ہماری طرح کسی کنفیوژن کا شکار نہیں ہیں۔  وہ سمجھتے ہیں:  اسلام ایک جدید مذہب ہے جو آج کے دور کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔

میں نے ظاہری لاپرواہی سے امیرہ کا پوچھا۔

امیرہ کا ذکر کرتے ہوئے کاشف کا لہجہ بدل گیا۔  اس نے امیرہ کے بارے میں یوں بتایا، جیسے وہ سالوں سے اسے جانتا ہوں۔

مجھے کاشف کا کسی اور لڑکی کو اتنا جاننا اچھا نہ لگا۔

امیرہ نومسلم تھی۔  اس کا پرانا نام کیرن تھا۔ اس کے پردادا 1850 آئیرلینڈ سے امریکہ مزدوری کرنے آئے اور یہی سیٹل ہو گئے۔  امیرہ کا باپ پہلی گلف وار میں مارا گیا۔ اس کی ماں نے اکیلے ہی اسے پالا۔  امیرہ نے سائیکالوجی پڑھنے کے بعد اپنی پریکٹس شروع کی۔  امیرہ کی ماں ایتھسٹ تھی۔  اسی لیے اس نے گھر میں خدا کا ذکر نہیں سنا۔  اسے ہمیشہ سے ہی انسانیت کو اپنا مذہب ماننے کی تربیت دی گئی۔ یونیورسٹی میں اس کی دوستی عربی لڑکیوں سے ہوئی۔ ان کے لباس، تہوار، کھانے، اور فیملی ویلیوز اسے بہت اچھی لگیں۔  اس نے مڈل ایسٹ کے کئی چکر لگائے۔  وہاں اپنی دوستوں کے گھروں میں گئی۔  اس نے ہمیشہ سنا تھا مسلمان بہت بیک ورڈ ہوتے ہیں۔ مسلم عورتیں بیچاری بے بسی کی تصویر ہیں۔  جب اس نے خود عرب ملکوں میں جا کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا:  مسائل تو ہیں، مگر مسلم تہذیب میں ایک عجیب گہرائی اور کشش ہے۔  لوگ بے تحاشہ مسائل اور غربت کے باوجود خوش ہیں۔  وہ اپنے مسائل کو عارضی اور اس دنیا تک سمجھتے ہیں۔

اللہ پر ایمان انھیں مسائل سے نبٹنے کی طاقت دیتا ہے۔  اس کا اسلام کے بارے میں انٹرسٹ پیدا۔ اس کئی سال سنجیدہ انداز سے اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔  جس کے بعد اس کا کامل یقین ہو گیا:  خدا موجود ہے، اور اسلام ہی سچا دین ہے۔  کیرن نے اپنے پاکستان کے ٹور کے دوران اسلام قبول کر لیا۔

اپنی ٹریننگ کی دوران کاشف پر ورک لوڈ اتنا پڑا کہ اسے ڈپریشن ہو گیا۔  کانسلنگ کے سلسلے میں اس کی ملاقات امیرہ سے ہوئی۔  امیرہ مسلم کمیونٹی سینٹر کے کاموں میں بھی کافی ایکٹیو ہے اسی لیے کاشف کی ملاقات اس سے رہتی تھی۔

مجھے امیرہ کی ایمان افروز کہانی تو اچھی لگی۔  لیکن اس کا کاشف کے ساتھ انٹیریکشن میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگا۔

میں نے پو چھا، وہ پاکستان کب واپس آئے گا۔

ابھی تین مہینے ہیں۔  اس کے بعد ہی کچھ پتا چلے گا۔

کیا مطلب اس کے بعد کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تم واپس نہ آؤ؟ میں نے پریشانی سے پوچھا۔

اس کے بعد میری پرفارمنس دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جائے گا:  مجھے پاکستان میں بھیجنا ہے یا امریکہ آفس میں ہی سیٹل کرنا ہے۔

مگر تم انھیں بتا کیوں نہیں دیتے، تم پاکستان میں ہی اپنی فیملی کے ساتھ رہنا چاہتے ہو۔  میں نے تھوڑا جذباتی انداز سے کہا

عبیر میں انھیں کیسے کہہ دوں، یہ ونس ان آ لائف ٹائم آپرٹیونٹی ہے۔  یہاں میں نے اگر کچھ سال بھی لگا لیے تو میرے کیرئیر کو پر لگ جائیں گے۔  دوسرا مجھے یہاں کا ماحول بہت اچھا لگا ہے۔  یہاں وہ مسائل نہیں ہیں جو پاکستان میں ہیں۔  وہاں مذہبی منافقت، دہشت گردی اور فساد اتنا زیادہ ہے، کہ انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کی خراب ہوتی ہیں۔

میرے دل پر چوٹ لگی۔  اس نے ایک لمحے کے لیے بھی مجھے سے میری پسند نہیں پوچھی۔ آیا میں امریکہ میں سیٹل ہونا چاہتی بھی ہوں؟۔

اس کی باتوں سے میرا ذکر بہت ہی کم ہو گیا۔

اسی دوران اس نے کسی ضروری کام کا بہانہ کر کے فون کال ختم کر دی۔  مجھے بہت دکھ ہوا۔ پہلی تو وہ ایسا کبھی نہیں کیا۔  کہیں اس کے دل میں میری محبت ختم تو نہیں ہو گی؟ اللہ نہ کرے۔

شکوک و شبہات کے سانپ سر اٹھانے لگے۔ اگر امیرہ نے کاشف کو مجھ سے چھین لیا تو میں کیا کروں گی۔  اگر کاشف نے شادی کو کچھ سال مزید روک دیا تو کیا ہو گا۔

او میرے خدا میں یہ برداشت نہیں کرپاؤں گی۔

وہ کون سا لمحہ تھا جب میں نے کاشف کو امریکہ جانے کی اجازت دی!

کاش میں اسے اس وقت روک لیتی۔

مجھے پتا ہوتامرد کی چاہت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی تو کبھی اسے جانے نہ دیتی۔ میں بھی کتنی سٹوپڈ ہوں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے جیسے ہی زور دار ضرب لگائی، تیمور کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔  یوں محسوس ہوا اسے تکلیف ہوئی ہو۔  اس کے منہ اسے ہلکی سی آہ نکلی جس میں درد زیادہ تھا۔ اس کی کمر پر گہرا لال نشان پڑ گیا۔

کیا رک جاؤں؟؟

اس نے کہا کہ مارنا جاری رکھو۔ میں نے پہلے سے زیادہ زور سے مارا۔

کاشف کی بے رخی نے کئی دن تک میرا موڈ خراب کیے رکھا۔  میں نے رابطہ نہ کیا تو اس نے بھی بے رخی دکھائی۔  میری بے بسی اور بے چینی بہت بڑھ گئی۔

مجھے ہر وقت برے برے خیالات آتے۔  اس وقت وہ امیرہ کے ساتھ ہو گا۔ دونوں کی محبت بڑھ رہی ہو گی۔  اللہ میں اڑ کراس کے کیوں نہیں پہنچ جاتی۔

دفتر میں بھی کام میں میرا دل نہ لگتا۔  ہر وقت بے بسی اور غصہ طاری رہتا۔  جب ویک اینڈ پر تیمور درانی نے مجھے بلایا تو میرا پارہ چڑھ گیا۔  میں اپنے کمرے میں بند ہو کر وقت گزارنا چاہتی تھی۔  مجبوراً مجھے تیمور درانی کے پاس جانا پڑا۔

میں نے چھڑی جیسے ہی پکڑی مجھے طاقت کا احساس ہوا۔  کاشف کی بے رخی اور ویک اینڈ خراب ہونا میرے ذہن میں گھومنے لگے۔  میں کسی پر اپنا غصہ اتارنا چاہتی۔

میں نے بہت ہی غصے سے تیمور درانی کو مارنا شروع کیا، میرا غصہ مزید بڑھ گیا۔  میں نے آنکھیں بند کر کے زور زور سے چھڑی چلانا شروع کی۔  تیمور درانی شروع میں تو چپ رہا لیکن میرے مارنے کی شدت میں اضافہ ہوتے ہیں اس کی تکلیف بھری آہوں میں اضافہ ہونے لگا۔

میری اس حالت کا ذمہ دار یہ بھی ہے۔  اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔

ہر چوٹ کے ساتھ میری بے چینی میں کمی ہوتی گئی۔  کچھ منٹوں بعد تیمور درانی کی چیخیں کمرے میں سنائی دینے لگیں۔

غصہ ٹھنڈا ہوا تو دیکھا، تیمور درانی نیم بے ہوش ہے اور اس کی کمر پر زخموں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔

او میرے خدا ! یہ میں نے کیا کر دیا۔۔

میں نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ ہوش میں ہے اور اس نے مجھے صرف اتنا کہا کہ پریشان نہ ہو۔   ایسا ہوتا ہے۔

مرہم پٹی کرنے کے کچھ دیر بعد ہی وہ یوں اٹھ کر بیٹھ گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔  اس کے چہرے پر تھوڑی سی تکلیف کے ساتھ تازگی نظر آئی جیسے اپنی مرضی کی چیز اسے حاصل ہو گئی ہو۔

اس کے چہرے میں آسودگی دیکھ کر مجھے شدید شرم آئی۔ آج میں نے یہ کیا کر دیا۔  میں ایسی تو نہیں تھی کہ اپنا غصہ اتارنے کے لیے کسی کو پیٹنا شروع کر دوں۔

کیا تیمور درانی کی میرے بارے میں پیشن گوئی ٹھیک ہو گئی؟ کیا میں نے اس کام کو انجوائے کرنا شروع کر دیا تھا۔

نہیں ! میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی چاہے جو مرضی ہو۔

تیمور میں سمجھ نہیں سکی کہ تمھیں اس کام میں کیسے سکون ملتا ہے۔  میں نے اپنی ذہنی کشمکش کو دباتے ہوئے کہا۔

اس نے ایک آہ بھری۔

معلوم نہیں، عبیر !

انسانی نفسیات بڑی کمپلیکس ہے۔  میں خود کو بھی سمجھ نہیں پایا۔  ہر کچھ عرصہ بعد مجھے عنبر کا زندگی سے محروم چہرہ بہت شدت سے یاد آتا ہے۔  میرے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگتی ہیں۔  جب میرے جسم سے تشدد کے بعد خون نکلتا ہے، تو یہ چیونٹیاں بند ہوتی ہیں۔ عنبر کو یوں نہیں مرنا چاہیے تھا۔

یہ درد مجھے واپس انسانوں کی دنیا میں لے آتا ہے۔  میں بھی خود کو مدرسے کا مار کھاتا بے سہارا بچہ سمجھتا ہوں۔ میں جس کا اس دنیا میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔  درد کے اس رشتے سے بہت سے لوگوں سے جڑ جاتا ہوں۔ میں کچھ دیر کے کے لیے زندہ ہو جاتا ہوں۔

میرے اندر کا خالی پن کم ہو جاتا ہے۔

عبیر! جب زندگی میں کسی چیز کا کوئی مقصد ہی نہیں، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں خود پر کیوں تشدد کروا تا ہوں؟

میری اس حرکت کے پیچھے بھی کوئی مطلب و مقصد نہیں ہے۔  یہ ایسے ہی بے مقصد ہے جیسے میری ماں کا مجھے چھوڑ کر جانا، جیسے میری ماں کا پاگل ہو کر روتے رہنا، جیسے میرے باپ کا نشہ کرنا، جیسے عنبر کی خود کشی، جیسے گلاب خان کا اندھا ہو جانا، جیسے شنو کا رونق بازار بن جانا، جیسے چچا کا قیدیوں کو مارنا، جیسے میرا خدا مجھ سے چھن جانا۔  یہ کہتے ہوئے تیمور درانی کی آواز میں اداسی اتر آئی۔

میں جانتا ہوں کہ میری یہ حرکتیں پاگل پن ہیں۔  نارمل لوگ ایسا نہیں کرتے۔  مگر کیا اپنے سکون اور خوشی کے لیے دنیا سے سرٹیفیکیٹ لینا ضروری ہے۔ کیا سائیکالوجی کا بنایا ہوا نارمل انسان بننا ضروری ہے؟

یہ دنیا عقل مندوں کی وجہ سے نہیں بلکہ پاگلوں، مجذو بوں، باغیوں، جنونیوں، عاشقوں، انقلابیوں، آئیڈلسٹوں کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے۔ یہی لوگ نئے نظام، نئے خیالات، نئی دریافتیں اور نئی دنیائیاں دریافت کرتے ہیں۔  اسی لیے ہر دور میں مقتدر طبقے ان کی مخالفت کرتے ہیں۔

انھی کے فیض سے بازار عقل روشن ہے

جو گاہے گاہے جنوں اختیار کرتے رہے

تم جدید عربی شاعری کے امام نزار قبانی کی ہی مثال لو۔  وہ بھی ایک ایسا باغی تھا۔  اس نے مذہب و سماج سے بغاوت کی۔  مقدر نے اسے ایک کے بعد ایک غم دیا۔۔  زندگی میں پہلی محبت بلقیس سے ہوئی، مگر سماج نے ملنے نہ دیا۔  مجبوراً اپنی کزن سے شادی کی۔  جوان بیٹا ایک حادثے میں مارا گیا۔  پہلی بیوی بہت جلد ایک مہلک عارضے کے باعث چل بسی۔  کافی عرصہ بعد بلقیس سے شادی ہوئی۔ خوشی کے یہ لمحے بھی مختصر نکلے۔  کچھ ہی سالوں بعد بلقیس بمباری میں ماری گئی۔  ایک کے بعد ایک فتوی اس کا نصیب بنا۔  ہر رنج و غم کے بعد اس کے قلم سے شاعری کے موتی نکلے۔  اپنے ذاتی غم کو اس خوبصورتی سے کائناتی بنایا کہ زندگی میں ہی امر ہو گیا۔

اس کے لہجے کی اداسی دیکھ کر مجھے اس سے ہمدردی ہوئی۔

اب میں کیا کہہ سکتی تھی۔ اس شخص کے پاس زندگی کی ہر بدصورتی اور بے معنویت کے بارے میں دلیل موجود تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

تیمور درانی کی بات ٹھیک ثابت ہوئی۔  مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک عجیب سی طاقت اور سرور محسوس ہونے لگا۔  میں نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیا: ہ اگر تیمور درانی کو اس طرح انسان ہونے کا احساس ہوتا ہے تو مجھے افسردہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔

مجھے یوں لگتا جیسے میں مالکن ہوں اور وہ غلام۔  میں اسے جیسے مرضی سزا دوں۔  میں اس کام کو ایک کھیل سمجھنا شروع ہو گئی۔  مجھے یہ پرواہ نہ رہی کہ تیمور درانی کیا سوچتا اور محسوس کرتا ہے۔ میں تو اپنے ذہن میں اسے کاشف سمجھ کر سزار دے رہی ہوتی۔

میں نے اسے کھلے عام کاشف کہنا شروع کر دیا

کاشف! بتاؤ تم میرے ساتھ بے رخی کیوں برتتے ہو؟

کیا تمھیں مجھ سے بہتر کوئی مل گئی ہے؟

تیمور درانی بھی اس رول پلے کو برا نہ مناتا۔  وہ مجھے اکسانے کی کوشش کرتا

ہاں۔۔ ہاں۔۔  میں تمھیں بھول گیا ہوں۔

مجھے تم سے بہتر کوئی مل گئی ہے۔

کون ہے وہ؟ میں نے غصے سے ایک کوڑا اس کی کمر پر لگایا۔

وہ خاموشی رہا۔۔

میں کہتی ہوں نام بتاؤ اس کا؟ میں نے مزید غصے سے کوڑا مارا

نہیں بتاؤں گا ورنہ تم اسے تنگ کرنا شروع کر دو گی

میں کہتی ہوں، نام بتاؤ مجھے اس حرافہ کا، جو میرا منگیتر مجھ سے چھین رہی ہے۔  میں نے ایک اور کوڑا لگایا۔

آہ۔   میں کتنی بار تمھیں بتاؤں کہ میر اتم سے دل بھر چکا ہے،

مجھے تمھاری جیسی سیدھی سادھی لڑکی نہیں چاہیے۔  مجھے ایک قاتلہ چاہیے۔

اک قاتلہ چاہیے ہم کو

ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیں

تم اپنی قاتلہ کو ملنے سے پہلے میرے ہاتھ سے قتل ہو جاؤ گے سمجھے، میں نے شدید غصے سے اسے ایک اور کوڑا مارا۔

دھیان سے سن لو، تم صرف میرے ہو۔

اگر تم نے کسی اور کی طرف دیکھنے کی بھی کوشش کی تو میں تمھاری اور اس لڑکی دونوں کی جان لے لوں گی۔

ہر رول پلے کے بعد میں شرمندہ ہوتی۔

یہ میں کیا کر رہی ہوں؟

مگر ہر بار خود پر کنٹرول کھول دیتی۔

کیا سیچیوشن انسان پر اتنا زیادہ اثر کرتی ہے؟

جیسے ڈرامے اور موویز ہوتی ہیں۔  ہم سب جانتے ہیں، یہ سچ نہیں ہوتیں۔  پر ان کی بنیاد گہرے سچ پر ہوتی ہے۔  ہم ڈرامے میں ایک معصوم لڑکی کے ساتھ برا ہوتے دیکھتے ہیں اور رو پڑتے ہیں۔  کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد ہر روز ایسا ہوتا ہے۔  وہ ڈرامے والی ایکٹرس ہمارے ہی جذبات کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے۔

ہمارا غم ذاتی اور چھپا ہوا ہوتا ہے۔  ڈرامہ اور فلم بننے کے بعد لاکھوں لوگوں تک ہمارا غم کمیونیکیٹ ہو جاتا ہے۔

زندگی کے ہر لمحے ہم کوئی نہ کوئی رول ہی تو پلے کر رہے ہوتے ہیں۔  بیٹی، بہن، ماں، ساس، اور نند وغیرہ یہ رول ہی تو ہیں جو ہمیں نبھانے پڑتے ہیں۔  ان رولز کے بیچ ہمارا اصلی روپ کیا ہے یہ بھی ایک سوال ہے؟

شیکسپئیر نے بھی اسی لیے کہا کہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب ایکٹر ہیں۔

میرے رول پلے مجھے کچھ دیر کے لیے اپنی زندگی سے دور لے جاتے۔ میں کچھ دیر کے لیے آزادی سے وہ باتیں کہہ پاتی جو ہمیشہ سینے میں ہی دفن رہ جاتی تھیں۔  میں کاشف کی بے رخی کی بھڑاس کبھی نہ نکال پاتی۔

ہر ہفتے کی ہمارے ملاقات ایک نیا رول پلے ہوتی۔

ایک دفعہ میں نے اسے ایسا ڈاکو سمجھ کر بھی مارا جس نے میرے باپ کی جان لی تھی۔  ایسا کرتے ہوئے میں زار و قطار رونے لگی۔  کاش میں ابا کا بدلہ لے سکتی۔

یہ میرا نفسیاتی کیتھارسس بن گیا۔  میں سارے ہفتے کی ٹینشنز اور غصے کو تیمور درانی پر نکالتی۔  کبھی کبھار کھل کر اسے بھی برا بھلا کہتی۔

تم بھی کتنے کمینے ہو مجھ جیسی معصوم لڑکی کو اس طرح کے فضول کاموں میں انوالو کر لیا ہے۔  جب وہ میرے پیروں میں سر رکھ کر معافی مانگتا تو مجھے عجیب سا سکون آتا۔  جیسے میرے اندر کچھ مکمل ہو گیا ہو۔

اس کمرے سے باہر آتے ہی ہم دونوں اپنے پرانے رولز میں واپس آ جاتے۔  اس کے چہرے پر وہی سنجیدگی لوٹ آتی اور میں وہی چھوئی موئی سی لڑکی بن جاتی۔

شروع میں لگا کچھ ہی ہفتوں بعد اس کا مجھ سے دل بھر جائے گا۔  مگر ایسا نہ ہوا، وہ ہر ہفتے شدت سے میرا انتظار کرتا۔

اس کے علاوہ ہماری ساری باتیں کتابوں، فلموں، گانوں اور پینٹنگز کے بارے میں ہوتیں۔  ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وقت رک جاتا۔

اس نے مجھ سے میری پسندیدہ فلم کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے بتایا۔  مجھے گلزار کی بنائی ہوئی لو سٹوری ” اجازت” بہت پسند ہے۔  نصیر الدین شاہ اور ریکھا کی یہ فلم اپنی کہانی اور موسیقی سے میرا دل چیر دیتی۔  شادی کے بعد کی محبت اور پھر جدائی جیسے اس فلم میں دکھائی گئی ہے وہ کمال ہے۔  مجھے تو ہر بار رونا آ جاتا۔

میرا کچھ سامان تمھارے پاس پڑا ہے

ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں

میرے اک خط میں لپٹی رات پڑی ہے

وہ رات بجھا دو، میرا وہ سامان بھجوا دو

تیمور درانی کو ہالی وڈ کی سائنس فکش فلم "Inception” بہت پسند تھی۔  یہ آئیڈیا کتنا زبردست ہے، کہ آپ کسی کے ذہن میں ایک چھوٹا سا آئیڈیا بیج کی طرح لگاتے ہو اور وہ خیال وقت کے ساتھ اتنا مضبوط ہوتا جاتا ہے، کہ آپ کی پوری شخصیت کو تبدیل کر دیتا ہے۔

میں اور تیمور درانی آپس میں کس رشتے سے جڑے تھے۔  نفرت کے رشتے سے؟

نہیں ہمارا آپس میں کوئی رشتہ نہیں۔  اس نے میری مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے وہ سب کرنے پر مجبور کیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔

یہ سب جاننے کے باوجود مجھے اس کھیل میں اتنا مزہ کیوں آ رہا ہے؟ میں خوشی خوشی ہر ہفتے اس کے گھر کیوں جاتی ہوں؟ مجھے اس کے ساتھ کتابوں اور فلموں کی باتیں کرنا کیوں اچھا لگتا ہے۔

ہماری موجودگی میں کمرے میں ہلکی آواز میں جو کلاسیکی غزلیں چل رہی ہوتیں

دیکھ کے دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک

شعلہ ایک صبح یاں سے اٹھتا ہے

مجھے نہیں معلوم تھا اب یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

میں پراگندہ ذہن کے ساتھ گھر پہنچی تو شمائلہ کی گاڑی کھڑی دیکھ کر چونک گئی۔  آج وہ کئی مہینوں بعد ہمارے گھر آئی تھی۔  شاید وہ شادی کی تاریخ کے بارے میں ڈسکس کرنا چاہتی ہو۔  میں خوشی خوشی اندر داخل ہوئی تو گھر کی فضا ٹینس تھی۔  اماں کے چہرے پر شدید پریشانی تھی اور شگفتہ کی آنکھوں میں غصہ اور بے بسی۔

اللہ خیر کرے ایسا کیا ہو گیا۔

شمائلہ کے چہرے پر بیزاری اورلاتعلقی تھی۔  اس نے میرے سلام کا بے رخی سے جواب دیا، اٹھ کر گلے بھی نہ ملی۔ شمائلہ کے سامنے چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی۔

اللہ خیر کرے۔۔ کس کی فوتگی ہو گئی؟

میرے حال احوال پوچھنے پر بھی روکھا سا جواب ملا۔  کچھ تو خرابی تھی۔

اس دوران اماں کے چہرے پر بے چینی بہت بڑھ گئی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن کہہ نہ پارہی ہوں۔

میں نے شگفتہ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں سے بھی کچھ نہ سمجھ پائی کہ بات کیا ہے۔

عبیر۔  شمائلہ منگنی کی انگوٹھی واپس کرنے آئی ہے۔  یہ کہتے ہی اماں رونے لگیں۔

کیا! میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔

لیکن کیوں؟ میں نے پلٹ کر شمائلہ کی طرف دیکھا۔ اس نے فوراً کوئی جواب نہ دیا۔

شمائلہ نے ہمیں بھی وجہ نہیں بتائی۔  کہتی ہے، آپ عبیر سے خود پوچھیں۔

کہیں کاشف اور امیرہ! او میرے خدا مجھے پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا۔

مجھے شدید غصہ آیا۔  کاشف اتنی چچھوری حرکت کرے گا۔  ہماری اتنے عرصے کی محبت کو ختم کر دے گا۔  یہ مرد سارے ہوتے ہی ایسے ہیں۔  پہلے محبت کے بڑے بڑے دعوے اور جیسے ہی کوئی دوسری ملی پرانی کو بھول گئے۔

اچھا تو کاشف نے امیرہ کی وجہ سے مجھے چھوڑ دیا ہے۔  میں نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کیے۔

امیرہ کا نام سن کر شمائلہ چونکی۔  کون امیرہ؟

وہی جس کے ساتھ کاشف امریکہ میں رنگ رلیاں منا رہا ہے۔

اماں اور شگفتہ بھی میری جانب دیکھنے لگیں۔

تم کیا بات کر رہی ہو عبیر؟ کاشف کوئی رنگ رلیاں نہیں منا رہا بلکہ تم منارہی ہو۔  کاشف کو تو ابھی ہم نے تمھاری حرکتوں کے بارے میں بتایا بھی نہیں۔  جب اسے پتا چلے گا تو بیچارہ کتنا دکھی ہو گا۔  اسے ہمیشہ ہی بے وفا لڑکیاں ملتی ہیں۔

تم پیسہ دیکھ کر اتنی جلدی بہک جاؤ گی، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔  نوکری کرنا تو ٹھیک ہے، پر اس حد تک گر جانا، یہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔  مجھے اپنی چوائس پر افسوس ہے۔

شمائلہ پتا نہیں کیا کیا بولتی رہی۔  مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔ میں تو یہی سمجھی کہ منگنی کاشف نے توڑی ہے

یہ آپ کیا بات کر رہی ہیں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔  میں نے کنفیوژن سے پوچھا۔

تم سب جانتی ہوں کہ میں کیا بات کر رہی ہوں۔  نوکری کے نام پر تم جو کر رہی ہو۔ ۔ ۔

چھی۔۔  وہ شریف گھروں کی لڑکیاں ایسا سوچ بھی نہیں سکتیں۔

میں مزید کنفیوز ہو گئی۔  آپ کھل کر بات کریں آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں۔ ؟

اچھا یہ بتاؤ تم چھٹی والے دن کہاں سے اور کیا کر کے آ رہی ہو؟

اس کا ڈائیریکٹ ایسا سوال سن کر تو میرے ہوش اڑ گئے۔  مجھ سے تو کوئی بہانہ نہ بن پایا اور میں خاموشی سے شمائلہ کا منہ تکنے لگی۔

جواب دو عبیر شمائلہ کیا پوچھ رہی ہے؟ اسے بتاؤ کہ تم کام کا لوڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے دفتر گئی تھیں۔  بڑی محنت کر رہی ہے میری بچی۔  اماں نے میری سائیڈ لیتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

میں نے شمائلہ کی نظروں میں طنز کو پڑھ لیا، جیسے وہ جانتی ہو میں کہاں سے آ رہی ہوں۔

مگر وہ کیا جانتی تھی؟

آج کل کام زیادہ ہے تو کبھی کبھار ویک اینڈ پر بھی آفس جانا پڑتا ہے۔ میری ٹیم کے سب لوگ ہی آتے ہیں۔  میں نے اپنی طرف سے پورے یقین سے جھوٹ بولا۔

پر جب آپ نے کبھی جھوٹ بولا نہ ہو تو آپ کو لہجہ آپ کا ساتھ نہیں دیتا۔

میری بات ختم بھی نہ ہوئی کہ شمائلہ بولی۔

جھوٹ مت بولو عبیر، میرے پاس ثبوت ہیں۔  کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمھاری ماں اور بہن کے سامنے وہ دکھاؤں۔ اس نے غصے سے کہا۔

میں پریشان ہو گئی۔ ایسا کیا کر دیا میں نے جس کا اس کے پاس ثبوت ہے؟ میں نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔

آپ کیا بات کر رہی ہیں شمائلہ۔  ایسا کیا کر دیا ہے عبیر نے؟ اماں کی پریشانی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

کہیں کسی نے مجھے تیمور درانی کے گھر جاتے اور وہاں سے آتے تو نہیں دیکھ لیا؟ صرف یہی ہو سکتا ہے۔  اس کا جواب بھی میں یہ دے سکتی ہوں:  وہاں انٹیرئر ڈیزائننگ کا کام ہو رہا ہے۔

شمائلہ کی آواز کا کانفیڈنس مجھے چبھنے لگا۔

دیکھو عبیر میں تمھیں واقعی پسند کرتی تھی۔  میں نے منگنی سے پہلے تمھارے بارے میں ہر ذریعے سے پتا کروا یا۔  حتکہ کہ تمھارا موبائل اور انٹرنیٹ ڈیٹا بھی چیک کروا یا۔  تمھارا کردار بالکل ٹھیک تھا۔ کاشف کے نزدیک صرف کردار کی اہمیت ہے۔  ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے خاندان میں کوئی ایسی لڑکی آئے جس کے کردار پر کوئی ایک انگلی بھی اٹھا سکے۔

اس رات مجھے نہیں معلوم تمھارے اور ڈاکوؤں کے بیچ کیا ہوا۔  مگر لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ منظور نہیں ہے کہ ہمارے گھر کے لڑکیوں کے بارے میں لوگ ایسی باتیں کریں۔

لیکن شمائلہ آپ جانتیں ہیں اس رات کچھ نہیں ہوا، اسی عزت کو بچانے کی خاطر تو ابا اپنی جان پر کھیل گئے۔  کم از کم آپ تو ایسی باتیں نہ کریں۔  میں نے غصے سے کہا۔

شمائلہ خود کو کیا سمجھتی ہے، شادی سے پہلے پوری یونیورسٹی کے سامنے ڈانس کرنا اورکھلم کھلا لڑکوں کے ساتھ دوستی۔  یہ سب ان کے خاندان کو قبول ہے، اور مجھ جیسی معصوم لڑکی کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں۔  میں نے بڑی مشکل سے خود کو یہ سب کہنے سے روکا۔

شمائلہ نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا مگر اسے میرا غصہ برا لگا۔

چلو اس رات کو چھوڑوں اس کے بعد تم کیا کرتی رہی ہو۔

میں کیا کرتی رہی ہوں؟ میں نے بھی ذرا ڈٹ کر پوچھا۔

یہ سنتے ہی شمائلہ نے اپنا موبائل نکالا اور ایک وڈیو چلا کر اماں کو دکھائی۔  ساتھ ہی اس نے موبائل کو لاؤڈ سپیکر پر لگا دیا۔  مجھے وڈیو تو نظر نہ آئی لیکن معلوم ہو گیا کہ یہ میری اور تیمور درانی کی بزنس میٹنگ والے دن کی خفیہ وڈیو تھی۔

لیکن کسی نے چھپ کر ہماری وڈیو کیوں بنائی؟ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری حیرانگی شرمندگی میں بدلنے لگی۔  ایسے جیسے کسی نے مجھے چوری کرتے پکڑ لیا ہو۔ میں شمائلہ، اماں اور شگفتہ کو کیسے سمجھاتی کہ یہ وڈیو اور آڈیو آؤٹ آف کنٹیکسٹ ہے۔  مجھے تو زبردستی بزنس میٹنگ میں لے جایا گیا تھا۔  میں نے وہاں جو باتیں کیں ان کا مطلب وہ نہیں ہے جو سمجھا جا رہا ہے۔  ہر بات کے ساتھ اماں کا چہرہ شرم سے لال ہوتا گیا۔

شگفتہ بے یقینی سے کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی وڈیو کو۔  شمائلہ کے چہرے پر غصے کے ساتھ ہلکی سی فاتحانہ مسکراہٹ نظر آئی جیسے اس نے میری بدتمیزی کا جواب دے دیا ہو۔  کمرے میں صرف میری اور تیمور درانی کی آواز گونج رہی تھی۔

تیمور درانی:  ” مس عبیر آپ میری شخصیت اور میرے ماضی کے بارے اتنی متجسس کیوں ہیں۔ کچھ چیزوں کا ناجاننا ہی بہتر ہے؟

عبیر: سوری سر اگر آپ کو برا لگا ہے، میں تو بس آپ کی انوکھی شخصیت اور انوکھے خیالات کو سمجھنا چاہتی تھی، شاید آپ کی اتنی کامیابی کی سمجھ آ سکے۔

تیمور درانی:  چلیں فرض کریں میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں، بدلے میں آپ مجھے کیا دے سکتی ہیں؟؟کیا آپ بدلے میں اپنا چہرہ دکھا سکتی ہیں؟

عبیر:  اپنا چہرہ !۔ میں۔۔  میں کیسے دکھا سکتی ہوں۔

تیمور درانی: بات تو ایک ہی ہے مس عبیر آپ مجھ سے میری شخصیت اور ماضی پر اسے نقاب اٹھانے کا کہہ رہی ہیں۔ یعنی آپ بھی میرا اصل چہرہ دیکھنا چاہتی ہیں۔  اگر یہی چیز میں آپ سے ایکسپیکٹ کروں تو حیرانگی کیسی؟

عبیر:  سر! میں۔   میں آپ کو کیا دے سکتی ہوں؟

تیمور درانی:  ٹھیک ہے مس عبیر میں آپ کو آپ کے چہرے کا نقاب اٹھانے کا نہیں کہتا کیوں کہ آپ نے اپنی دادی سے وعدہ لیا ہے۔ پر آپ کی نیچر کے بارے میں میں ضرور جاننا چاہوں گا؟

عبیر:  کیا مطلب میری اصل نیچر؟

تیمور درانی: جیسے میری شخصیت اور ماضی کے بارے میں جاننا آپ کی دلچسپی ہے اسی طرح آپ کے اندر کے جانور یا نیچر کے بارے میں جاننا میری دلچسپی ہے۔

خاموشی۔ ۔ ۔

تیمور درانی:  مس عبیر میں کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ آغاز آپ نے کیا تھا اسی لیے میں نے کہہ دیا۔

عبیر: تو مجھے کیا کرنا پڑے گا؟

تیمور درانی: کچھ خاص نہیں، بس کچھ وقت ساتھ بتانا پڑے گا جس میں آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر آپ تیار ہیں تو ویک اینڈ پر میرے گھر آ جائیں۔

عبیر:  سر میں سوچ کر بتاؤں گی۔

خاموشی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

ٹیپ ختم ہوتے تک اماں تقریباً بے ہوش ہو گئیں۔  میں نے آگے بڑ ھ کر اماں کو سنھالنا چاہا تو انھوں نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔  مجھے تو 11000 ولٹ کا جھٹکا لگا۔  اماں کے چہرے پر نفرت کے آثار ایسے تھے جیسے میں کوئی ناپاک چیز ہوں۔

اماں ! شمائلہ، آپ لوگ جو کچھ سمجھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔  میں کبھی تیمور درانی کے گھر ایسے ویسے کام سے نہیں گئی۔  میں تو صرف۔ ۔

میرے لہجے میں شدید بے بسی آ گئی۔

میں ان لوگوں کو کیسے سمجھاؤں کے جو کچھ دکھائی اور سنائی دے رہا ہے وہ سب ویسا نہیں ہے۔

شمائلہ کے چہرے پر طنز مزید بڑھ گیا۔

عبیر تم جتنا جھوٹ بولو گی اتنا پھنستی جاؤ گے۔  میں یہ سب تمھیں اور تمھارے گھر والوں کو بتاکر شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔  اسی لیے میں نے خاموشی سے منگنی توڑ دی۔ تم خاموشی سے سب سمجھ جاتیں تو بہتر تھا۔

میں خاموشی سے کیسے سمجھتی۔۔  میرے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا، آپ کیا کہنے والی ہیں۔

شمائلہ آپ میرا یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہی ہیں۔  میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں؟ میں تقریباً رو پڑی۔

میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا، مجھے کبھی ایسی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔  سب سے افسوس ناک بات اماں اور شگفتہ کے چہروں پر شرمندگی تھی۔  جیسے یہ سب میں نے نہیں انھوں نے کیا ہے۔

میں التجا بھری نظروں سے کبھی اماں کو اور کبھی شگفتہ کو دیکھتی۔  دونوں نے تو میرے ساتھ آنکھیں ملانے سے انکار کر دیا۔

شمائلہ پلیز سمجھنے کی کوشش کریں۔ ۔

اچھا تم ہی بتاؤ کے اس دن کے بعد تم اتنی بار تیمور درانی کے گھر کیا کرنے گئی تھیں؟ شمائلہ نے بے زاری سے کہا جیسے اسے پہلے سے ہی جواب معلوم ہو۔

میں۔۔  میں اس کے گھر لائبریری ڈیزائن کرنے جاتی ہوں۔  میں نے ہلکی سی شرمندگی سے کہا۔  اب میں کیسے بتاؤں کہ میں وہاں تیمور درانی پر تشدد کرنے جاتی ہوں۔  کیا بتاؤں کہ میں نے اپنے کنٹریکٹ میں ایکسڑا فیور دینے کا ایگریمینٹ کیا ہوا ہے۔

مزید جھوٹ بول کر مجھے غصہ مت دلاؤ عبیر، کہ میں ساری باتیں بتاکر تمھیں مزید شرمندہ کروں۔

آپ میرا یقین کریں شمائلہ۔  میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتی ہوں۔ میں نے ایسا ویسا کوئی کام نہیں کیا۔  یہ کہہ کر میں رونے لگی۔

میرے رونے کا شمائلہ پر الٹا اثر ہوا اور اسے مزید غصہ آ گیا۔

ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی۔

تو پھر تم بھی سنو، اور آنٹی آپ بھی سنیں۔  تاکہ بعد میں آپ لوگ لوگوں کو یہ نہ کہتے پھریں کہ ہم نے کسی اور وجہ سے منگنی توڑی ہے۔  مجھے کئی مہینوں سے اس بات کا علم تھا۔ پر میں ششو پنج کا شکار رہی۔

میں تیز دھڑکن کے ساتھ شمائلہ کی بات سننے لگی۔  پتا نہیں وہ کیا انکشاف کرنے والی ہے۔  میں اپنی صفائی پیش بھی کرپاؤں گی یا نہیں؟

عبیر نے جب نوکری کرنا شروع کی تو مجھے بہت اچھا لگا۔ چلو اسی بہانے اس کا دل بھی بہل جائے گا، اور گھر کو بھی سپورٹ کرے گی۔  اگر آپ لوگ ہم سے بات کرتے تو ہم آپ کا خرچہ بھی اٹھا لیتے۔ آپ نے خود درای کا مظاہرہ کیا جو کہ اچھے خاندانوں کی نشانی ہے۔

کاشف کی تمھارے ساتھ منگنی کا ہمارے سوشل سرکل میں سب لوگوں کو پتا ہے۔ کئی لوگ جیلس بھی ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے ان کی بیٹیوں کو ٹھکرا کر اپنے سے نیچے لوگوں میں رشتہ جوڑ لیا ہے۔  پر ہمیں لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔  ہمارے نزدیک صرف کردار کی اہمیت ہے۔

ایک سوشل گیدرنگ میں میری ایک فرینڈ نے بتایا: عبیر کچھ ہفتوں سے اس کے پڑوس میں آتی ہے اور سارا دن وہیں گزراتی ہے۔ پہلے تو میں نے اس بات کو اہمیت نہ دی۔  جب اس نے عبیر کی اور اس کی گاڑی کی فوٹو بھیجی تو میں چونک گئی۔  میری فرینڈ کے بقول یہ گھر تیمور درانی نام کے کسی شخص کا ہے۔  شوشل حلقوں میں اس شخص کی شہرت اچھی نہیں ہے۔  بری شہرت کی لڑکیاں اس کے گھر ریگولر آتی جاتی ہیں۔  سنا ہے وہ اپنی پسند کی لڑکیوں پر خوب پیسے لٹاتا ہے۔

اب عبیر کا ایسے شخص کے گھر میں یوں جانا مجھے بالکل سمجھ نہ آیا۔  میں نے تمھارے ساتھ بات کرنے سے پہلے بات کی مکمل تحقیق کرانے کا سوچا۔  آج کل کے دور میں کسی کے بارے میں کچھ معلوم کروا نا زیادہ مشکل نہیں۔  میں یہ کام انتہائی رازداری سے کرنا چاہتی تھی۔  تاکہ یہ بات لوگوں میں نہ پھیلے۔

کچھ ہفتوں بعد مجھے تمھارا موبائل ڈیٹا، تمھاری آفس، پارٹیزاور ویک اینڈ کی مصروفیات کی وڈیوز اور تصویریں مل گئیں۔ تیمور درانی جیسی بری شہرت کا شخص تمھاری کمپنی کا مالک ہے۔  اس کا تمھیں اتنی زیادہ تنخواہ پر نوکری دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔  تیمور درانی اکثر تمھیں اپنے کمرے میں بلاتا ہے جس کا تمھارے کام سے کوئی لینا دینا نہیں۔  کام کے بہانے وہ تمھیں ڈیٹ پر لے کر جاتا ہے۔  اس ڈیٹ پر جو باتیں ہوئیں وہ میں نے آپ لوگوں کو سنوا دی ہیں۔

تم اکثر ویک اینڈ پر بار تیمور درانی کے گھر جاتی ہو۔  یہ کہہ کر اس نے موبائل پر تصویریں کھول کر دکھائیں۔  اماں کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔  جیسے انھیں یقین ہی نہ آ رہا ہو، وہ کیا سن رہی ہیں۔  انھوں نے موبائل کو یوں دیکھا جیسے کوئی سانپ ہو۔

شگفتہ نے مجبوراً موبائل پکڑا اور تصویروں کو دیکھنے لگی۔  اماں کی تصویروں کو دیکھنے کی ہمت نہ پڑی۔  وہ دوپٹا منہ پر رکھ کر رونے لگیں۔  ان کا رونا دیکھ کر میرے بھی آنسو نکل پڑے۔

میں اماں کو کیسے سمجھاؤں؟۔

کہیں کسی نے تیمور درانی کے گھر کے اندر کی وڈیوز تو نہیں بنالیں؟

اللہ نہ کرے ایسا ہو۔

شگفتہ نے تصویریں دیکھنے کے بعد موبائل میری طرف بڑھا دیا۔  میں نے جلدی سے موبائل پکڑا۔

دیکھوں تو سہی، ان میں ایسا کیا ہے۔

ایک آفس پارٹی میں میرے ٹیبل پر شراب کی بوتلیں پڑیں تھیں۔  جنھیں میں نے چکھنا تو دور کی بات دیکھا بھی نہیں تھا۔  میں تو اپنا اورینج جوس پی رہی تھی۔  تصویر سے یہی لگا کہ میں بھی ڈرنک کر رہی ہوں۔  پھر مختلف ڈیٹس پر مجھے تیمور درانی کے گھر جاتے دکھایا گیا۔  ایک تصویر میں وہی انٹیرئر ڈیزائنگ والی ٹیم کے ساتھ میری تصویر تھی جہاں لڑکے لڑکیاں بریک میں سگریٹ پی رہے تھے۔  اب میں تو صرف ان کے ساتھ کھڑی تھی۔  اس منظر کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوا:  ہم سب سموکنگ بڈی ہیں۔

ایک تصویر جو ساتھ والے کسی گھر کی چھت سے لی گئی تھی۔  اس میں مجھے تیمور درانی کے ساتھ لان میں کافی پیتے دکھایا گیا۔

حیرت انگیز طور پر آج شام، جب تیمور درانی کھلی شرٹ کے ساتھ مجھے باہر چھوڑنے آیا تو وہ تصویر بھی موجود تھی۔  اپنے زخموں کی وجہ سے اس نے ٹی شرٹ نہیں پہنی۔  بلکہ بٹنوں والی کیژول شرٹ پہنی تھی۔ جس کے سامنے کے آدھے بٹن کھلے تھے۔ اب دیکھنے والا اس منظر سے کیا مطلب لیتا۔

ہر تصویر کے ساتھ میرا دل ڈوبتا گیا۔  ہر منظر آوٹ آف کنٹیکسٹ تھا۔  میں اگر تفصیل بتاتی بھی تو میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔

میں نے بولنا چاہا، پر جیسے مجھ سے بولنے کی صلاحیت ہی چھن گئی ہو۔  مجھ پر شدید بے بسی اور شرمندگی چھاگئی۔  خیالات گنجل ہو گئے۔  مجھے کچھ سمجھ نہ آئی، کیا کروں۔

میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

او میرے خدا! یہ کیا ہو گیا ہے۔ ۔  میں تو بس عزت سے نوکری کرنا چاہتی تھی۔

میری عزت اور محبت دونوں ایک ہی دن چھن گئے۔

شمائلہ نے کچھ کہنا سننا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے خاموشی سی انگوٹھی میرے حوالے کی اور گھر سے نکل گئی۔  میں خالی نظروں سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔  اماں سکتے میں چلیں گئیں۔  ان کی آنکھیں کھلی اور چہرہ پتھرایا ہوا تھا۔

یہ ضرور کوئی ڈراونا خواب تھا۔

مگر یہ خواب طویل ہی ہوتا گیا۔  گھر میں ایسی خاموشی رہتی، جیسے کسی کا جنازہ اٹھا ہو۔

میرے ساتھ ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جب بھی معاملات ٹھیک ہونے لگتے ہیں، یا تھوڑی خوشی ملنے لگتی ہے۔  ساتھ ہی غم کا ایک جھٹکا لگتا ہے۔

یا اللہ تیری حکمتیں نرالی ہیں۔

ہم کمزور بندوں سے یہ کس چیز کی آزمائش ہے؟

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کئی دن تک ہمارے گھر میں سوگ رہا۔  اماں نے تو میری طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔  میں دو ہفتے آفس نہیں گئی۔ سارا دن کمرے میں پڑی روتی رہتی۔  میں نے کئی بار کاشف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار آٹو ریپلائے آتا، ڈونٹ ڈسٹرب آئی ایم بزی۔

شاید اس کی مصروفیت کافی بڑھ گئی ہے۔  ایک بار اس سے رابطہ ہو جائے میں اسے سب کچھ بتا کر سمجا لوں گی۔

صرف کاشف تھا جو میری بات کو سمجھ سکتا تھا۔

کہیں ایسا تو نہیں شمائلہ نے اسے بھی سب بتا دیا ہو۔   اور اس نے غصے میں میری کالز اور میسیجز کا ریپلائے کرنا چھوڑ ریا ہو۔

میں سارا دن وسوسوں اور خدشات میں گھری رہتی۔

زندگی میں پہلی بار مجھے ٹوٹ کر محبت ہوئی، میرے لیے یہ تصور کرنا بھی محال تھا، کہ میں کاشف کے علاوہ کسی کے ساتھ زندگی گزاروں گی۔  میں نے تو کبھی کسی اور کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔

مجھے شدید بے چینی ہونا شروع ہو گئی۔ نہ کھانے کا دل کرتا، نہ کچھ کرنے۔  خیالات و جذبات کا طوفان میرے ذہن میں برپا رہتا۔  نظر ہر وقت فون پر رہتی کہ شاید کاشف کو ترس آ جائے اور وہ میری بات سن تو لے۔

میری جذباتی حالت ایسی نہیں رہی کہ میں مستقبل کے بارے میں کچھ سوچتی یا پلاننگ کرتی۔  مگر شگفتہ کا پریکٹیکل ذہن آگے کے بارے میں سوچنا شروع ہو گیا۔

اس نے مجھ سے صرف ایک شکوہ کیا۔  آپی مجھے نہیں معلوم آپ وہاں کیا کرنے جاتیں تھیں۔ کم از کم یہ تو سوچ لیتیں کہ آپ کے کسی ایکشن کا لوگ کیا مطلب لے سکتے ہیں۔

شگفتہ تم بھی مجھے قصور وار سمجھتی ہو؟۔۔  میرے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی۔

تمھیں اپنی آپی پر اعتبار نہیں ہے۔  میری ساری زندگی تمھارے سامنے ہے۔

آپی مجھے آپ پر یقین ہے۔ پر لوگ تو ثبوتوں کو دیکھتے ہیں۔  سارے شواہد آپ کے خلاف جاتے ہیں۔

یہ سن کر میں رونے لگی۔

اب میں اپنی بے گناہی کیسے ثابت کروں۔

آپی اب کسی پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  جو ہونا تھا ہو گیا۔  اب آگے کی سوچیں۔

آگے کیا سوچنا ہے؟ زندگی تو ختم ہو گئی ہے۔  میں نے مایوسی سے کہا۔

آپی ذرا خود کو سنبھالیں اور زیادہ بڑے مسائل کی طرف توجہ دیں۔

اب اور کون سا بڑا مسئلہ آنا رہ گیا ہے؟ مجھے تو دنیا پورہ تباہ ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔

شگفتہ نے افسوس کے ساتھ میری طرف دیکھا اور بولی۔

میں نے شمائلہ کی منت کی ہے کہ۔ ۔ ہماری عزت رکھ لیں۔

کیا مطلب ہماری عزت رکھ لیں؟ میں چونگ گئی۔

شمائلہ وہ تمام تصویریں اور وڈیوز کو ڈیلیٹ کر دے گی۔  اور ان ساری باتوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے سینے میں دفن کر لے گی۔  ابھی کچھ عرصہ تک منگنی ٹوٹنے کا ذکر ہم دونوں خاندان کسی سے نہیں کریں گے۔

کچھ عرصہ بعد ہم لوگوں کو یہی بتائیں گے کہ منگنی ہم نے توڑی ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ عبیر گھر کی اکیلی کما نے والی ہے جس کے چلے جانے سے گھر کا نظام دھرم بھرم ہو جائے گا۔

منگنی توڑنے کا سار الزام ہم پر آئے گا۔ ہم شمائلہ اور کاشف کے خاندان کی کوئی برائی نہیں کریں گے۔  بدلے میں وہ ہماری عزت بچائیں گے۔

نہیں مجھے یہ منظور نہیں ہے۔

ہم کیوں جھوٹ بولیں۔  جبکہ انھوں نے مجھ پر بے بنیاد لگا کر منگنی توڑی ہے۔۔ مجھے اپنی صفائی کا موقع بھی نہیں دیا۔  کیا صرف شک کی بنیاد کر کسی کی زندگی تباہ کر دینا کونسا انصاف ہے۔  میں نے تڑپ کر کہا۔

شگفتہ نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میرے بچگانہ پن پر افسوس کر رہی ہو۔

آپی! آپ شاید معاملے کی نزاکت نہیں سمجھ رہیں۔

آپ صرف اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے معاملے کو اچھالنا چاہتی ہیں۔  جبکہ یہ بھول رہی ہیں، ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔

شکر کریں !ابا یہ سب دیکھنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔  ورنہ وہ آپ کی بات بعد میں سنتے، کو غیرت کے نام پر قتل پہلے کرتے۔

میں سہم گئی۔

آپی میں آپ کا دکھ سمجھتی ہوں۔

مگر جذباتیت سے باہر آ کر یہ سوچیں۔  آپ کی وہ وڈیو اور تصویریں غلطی سے بھی کسی کے ہاتھ چڑھ گئیں تو۔ ۔ ۔۔

ہم کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

لوگ پتا نہیں کیسی کیسی غلیظ باتیں کریں گے۔ ان کی دیدہ دلیری بڑھ جائے گی۔  ہم اکیلی عورتوں کو پہلے ہی کوئی بچانے والا نہیں ہے، اس کے بعد کیا ہو گا؟

منگنی ٹوٹنے کی خبر بہت بری ہے۔  لوگ طرح طرح کی افواہیں اڑائیں گے۔  لیکن کچھ عرصہ بعد بھول جائیں گے۔

خاندان اور محلے کے لوگ یہی کہیں گے نہ ہم نے آپ کو قربانی کی بکری بنایا ہے۔  اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہو گا، کمی نہیں۔

میں نے اماں کو بھی سختی سے کہہ دیا ہے:  وہ کسی سے بھی کچھ مت کہیہں۔  سب کچھ یوں چلتا رہنے دیں جیسے چل رہا ہے۔

دوسری طرح سے دیکھیں تو، لاکھ کوشش کے باوجود شمائلہ آپ کو قبول نہیں کرے گی۔

فرض محال، انھوں نے قبول کر بھی لیا تو بھی آپ کی اپنے سسرال میں کوئی عزت نہیں ہو گی۔  آُ کو ساری عمر لوگوں کی نظروں کی حقارت اور طعنے سننے پڑیں گے۔  آپ کے بچوں تک کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔

میں مردوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ پر اتنا پتا ہے، مرد اس معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ ایک بار شک اس کے ذہن میں آ جائے تو ساری دلیلیں بے اثر ہیں۔  اس کے دل میں پہلی جیسی محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔

اگر بات پھیل گئی تو۔   آپ کی کہیں بھی شادی ہونا نا ممکن ہو جائے گا۔۔

ذرا سوچیں آپ بدنامی کا داغ لے کر ساری زندگی اکیلی کیسے گزاریں گی۔  اسی لیے بہتر ہے، ہم بات کو اس طریقے سے دبائیں کہ لوگوں کا دھیان اصل بات کی طرف سے ہٹ جائے۔

میں کافی سوچنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچی ہوں۔ ہمیں جلد از جلد یہ گھر اور محلہ چھوڑ کر کسی پوش علاقے میں شفٹ ہو جانا چاہیے۔  جہاں کے لوگوں کو ہماری ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کا شوق نہ ہو۔  یہاں کے لوگ جتنے ہمارے خیر خواہ اور چاہنے والے ہیں اس کا اندازہ ہمیں ابا کی فوتگی کے بعد ہو گیا تھا۔

میں ہر روز ایک عذاب سے گزرتی ہوں۔  جتنا چھوٹا علاقہ اتنی چھوٹی سوچ۔

میں حیرت سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ میں نے تو اس اینگل سے سوچا ہی نہیں۔  یہ چھوٹی سی بچی کتنی سمجھدار ہو گئی ہے۔

میری ایک دوست کا بھائی پراپرٹی ڈیلر ہے۔  اس نے کلفٹن میں ایک بہت مناسب فلیٹ دیکھ لیا ہے۔  قیمت تھوڑی زیادہ ہے مگر اس مکان، اور اماں کے زیوروں کو بیچ کر کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔

کیا مطلب ہے؟

تم نے اس مکان کو بھی بیچنے کی بات کر لی، جسے ابا نے اتنی محبت سے بنایا، جہاں دادی اور ابا کی یادیں ہیں۔  ہم اس مکان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟

آپی آپ اور امی صورتحال کا صحیح ادراک نہیں کر رہیں۔

وہی عورتوں والی مخصوص باتیں کر رہی ہیں۔  وہی مکان گھر کہلاتا ہے جو آپ کو تحفظ اور خوشیاں فراہم کرے۔  ہم اکیلی عورتیں اگر ایسے محلے میں رہیں گی تو یہاں کے لوگ ہمیں کبھی بھی چین سے جینے نہیں دیں گے۔  ہمارا یوں مردوں کے تحفظ کے بغیر جینا ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔  وہ یہی سمجھتے ہیں، ہماری یہ آزادی ان کی عورتوں کو بھی شہہ دے گی کہ وہ بھی مردوں کی برابری کا سوچیں۔

بہت جلد یہ ہمیں رسوا کر کے مثال بنانے کی کوشش کریں گے۔  ہمارے معاشرے میں یہ مان لیا گیا ہے:  باہر کی دنیا مرد کی ہے اور گھر کے اندرکی دنیا عورت کی۔  جو عورت بھی گھر سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔  اسے مردوں کی دنیا میں در اندازی کرنے والی سمجھا جاتا ہے۔  اسی لیے ایسی عورتوں کو ہراساں کر کے، نیچا دکھا کر، اور ڈرا دھمکا کر واپس گھروں کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔  یوں لگتا ہے عورت کا خوف مرد کے دماغ پر سوار ہے۔  ہمیشہ سے ہمیں بہکانے والی، سازشی اور مکار کہا گیا۔

میں اس چیز کے خلاف ہوں۔  میں مرد کی برابری چاہتی ہوں، محبت میں بھی، گھر میں بھی، اور نوکری میں بھی۔  مجھے کسی کی ہمدردی اور محتاجی نہیں چاہیے۔  اور میں یہ بات دنیا پر ثابت کر کے رہوں گی۔

ابا کی فوتگی کے بعد اس محلے میں ہم پر زندگی تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔  مشکل ترین وقت میں بھی کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا۔  بلکہ انھوں نے بری بری باتیں پھیلا کر ہمارے لیے مزید مسائل کھڑے کرنا شروع کر دیے۔

آپ کی منگنی ٹوٹنے کی خبر اگر یہاں رہتے ہوئے لوگوں کو ملی تو پتا نہیں کیا کیا باتیں کریں گے۔ مجھے تو ڈر ہے، اگر شمائلہ کے سسرال سے کوئی افواہ اڑ گئی تو پتا نہیں کیا ہو گا۔ بہتر ہے کہ ہم خاموشی سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔

اس کی باتوں نے دماغ کو تو متاثر کیامگر دل نہیں مان رہا۔  پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟

فی الحال تو ہم فوری طور پر اس مکان کو بیچ کر کرائے کے مکان میں شفٹ ہو رہے ہیں۔  کچھ ہی مہینوں میں اپنا مکان بھی خرید لیں گے۔

شگفتہ پتا نہیں کیا کیا بولتی رہی۔ میرا ذہن اس کی باتوں سے ہٹ کر ابھی بھی اپنی منگنی ٹوٹنے اور کاشف کی جدائی پر اٹکا ہوا ہے۔

میں اسے کس طرح بھول جاؤں؟

کیا ہماری محبت اتنی کمزور تھی کہ حالات کا ایک جھٹکا بھی برداشت نہ کر سکی؟

کیا میں اسے حقیقت بتاؤں گی تو پھر بھی وہ میری بات کا یقین نہیں کرے گا؟

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مکمل حصہ پڑھنے کے لیے

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل