FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بینائی

 

               رفیع الدین راز

 

اشاعت :  جولائی ۱۹۹۷ء

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

 

اپنے محترم والدین کے نام

 

جن کی خدمت کے

شرف سے میں محروم رہا

 

اک کسک چٹکیاں لیتی ہے ازل سے دل میں

اک خلش ہے کہ جو بڑھتی ہے نہ کم ہوتی ہے

 

 

رفیع الدین راز:  ایک منظر نگار شاعر

 

                پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم

 

 

 

رفیع الدین راز کی شاعری ایک ایسا منظرنامہ اور انسانیت کے درمیان تمام ممکنہ قربتوں اور دوریوں کے خدّ و خال روشن دن کی رح سامنے لے آتا ہے۔ ہم سب انہی منظروں کا حصّہ میں اور کہیں اُبھرتے کہیں معدوم ہوتے نظر آتے ہیں ۔ انہی میں بنجر بھی ہیں اور نمو نصیب ساعتیں بھی۔

 

رفیع الدین راز نے سب کا احوال لکھّا ہے اور ایسی فکری نمود اور شعری خوشنمائی کے ساتھ کہ اُنہیں اُنکے طرزِ احساس‘ فکری سچائی اور سخن طرازی کی داد دینے کے لئے مناسب الفاظ ڈھونڈ نکالنا آسان نہیں ۔ یہی ایک بہت اچھے اور سچّے تخلیق کار کی خوبی ہے۔ رفیع الدین راز کے پیکر میں موجود تخلیق کا رمیں تین صفتیں جلوہ نمائی کرتی نظر آتی ہیں ۔ ایک سچائی کی فضیلت پر ایمان‘ دوسری با ضمیر اور تیسری درویشی۔ ان سب کے امتزاج نے ہی رفیع الدین راز کو ’’دیدۂ خوش خواب‘‘ عطا کیا تھا اور اسی نے اب ’’بینائی‘‘ بھی بخشی ہے جو ان کی اس تازہ کتاب کا عنوان ٹھہری۔

 

رفیع الدین کی شاعری کو اپنی فکر و سعت کے اظہار کے لئے جو بیکرانی چاہیئے اس کے تقاضے اپنی جگہ مگر راز نے اپنے اظہار کے لئے غزل کا انتخاب کیا ہے اور حیرت انگیز طور پر ایسی کامیابی سے غزل کے اشعار کہے ہیں جو کامیاب اور علیٰ فکری پیکر کہے جا سکتے ہیں ۔ مگر اس عمل میں ایک سّچے فنکار کی طرح رفیع الدین راز کو جس کرب سے گزرنا پڑا اور حرفِ سخ میں ڈھل جانے تک جو کیفیتیں گزرتی رہیں اس کا اندازہ حسنِ سماعت اور حسنِ نظر کو بھلا کب ہوسکے گا۔ ایک بہت قیمتی شعر کی قیمت سکۂرائج الوقت میں کبھی ایک واہ یا ایک آہ سے زیادہ نہیں ٹھہری۔ خواہشِ دارے کے کاسے میں ایسے ہی سکّے کھنکتے ہیں لیکن رفیع الدین راز نے یہ کاسہ تو نہ جانے کب کا توڑ رکھا ہے۔

 

میں بہت خوش ہوں کہ وہ ایک بہت با وقار بے نیازی سے اپنا شعری سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی منزل بے نشان نہیں لیکن منزل سے زیادہ اُسے اپنی سفر نصیبی کا پاس ہے۔

 

رفیع الدین راز کے اس شعری مجموعے میں قدم قدم پر ایسے اشعار تو ملتے ہیں جو دامنِ دل کو کھینچ لیتے ہیں لیکن وہ اشعار بھی کم نہیں جو روح کی پنہائیوں میں سماجانے اور گونج اٹھنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں ۔ رفیع الدین راز کی سادہ مزاجی، بے لوثی اور شرافتِ نفس کو تو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ ہمارے زمانے اور گروہِ آئندگاں کے بھی کِتنے اہم تخلیق کار ہیں ۔

 

اگر زمانہ بلند خیالی، سجیدہ نگاری اور خوش انداز اظہار کو اہمیت دیتا ہے تو رفیع الدین راز کا نام نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ میں یہ بات مکمّل ذمہ داری سے اور بلند آہنگ کے ساتھ کہہ رہا ہوں ۔ راز کی تازہ غزلوں سے گزر کر آپ بھی میرے ہم خیال ہو سکیں گے مگر یہ بھی جانتا ہوں کہ رفیع الدین راز ایسی باتوں کو اپنی سماعتوں کا حصّہ بنانے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہا ۔ وہ اپنے پروردگار کی عطا کردہ صلاحیتوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے یہی سبب ہے کہ اس کی شاعری میں زندگی اور بھرپور اثر انگیز اپنا اظہار کرتی ہیں ۔ میری اور آپ کی واہ اور تائید سے بے پرواز رفیع الدین راز اپنے سفر پر گامزن ہے اور شاید یہی بے نیازی اور تخلیقی لگن اس کی کاوشوں کا سچا انعام بھی ہے۔

 

 

 

مسافت

 

 

 

رفیع الدین راز

 

 

 

میرا دوسرا شعری مجموعہ ’’بینائی‘‘ آپ کے سامنے ہے پہلا شعری مجموعہ ’’دیدۂ خوش خواب‘‘ اور ’’بینائی‘‘ میں آٹھ سال کا وقفہ ہے۔ اس سُست روی کی وجہ غالباً

’’ننگے پاؤں کا سفر ہے وہ بھی نوکِ خار پر‘‘

زندگی کا ہر لمحہ سوچنے والے ذہن کے لئے نئے اضطراب اور نئے سوالات لیکر آتا ہے اس حساب سے گزشتہ آٹھ سال کا عرصہ مجھے کن صحراؤں میں لئے پھرتا رہا۔ ٹوٹ پھوٹ‘ اضطراب اور ردّ و قبول کی کیسی کیسی گفتنی اور ناگفتنی ساعتیں گزریں ان کی وضاحتوں کا نہ یہاں موقع ہے اور نہ میری خواہش۔ ہر چند کہ صدیوں تک پیشۂ آبا سپہ گری رہا لیکن وقت اور حالات نے اندر کی دُنیا کو کچھ زیادہ ہی گداز کر دیا ہے اپنے بزرگوں سے اپنی نسل کا موازنہ کرتا ہُوں تو رابطے کی کوئی کڑی بھی نظر نہیں آتی تہذیبی روایت کی زنجیر کا پایا جانا تو دُور کی بات ہے۔ دونسلوں کے زاویۂ نظر میں اس نمایاں فرق کی وجہ شاید ’’تنگیِ دل کا کثرتِ نظّارہ سے وا ہو جانا‘‘ ہے۔ لیکن اس تنگیِ دل کے واہو جانے کہ وجہ سے زندگی پر کچھ ایسے شدید منفی اثرات بھی مرتب ہوں گے اس کا مجھے گمان بھی نہ تھا۔

بارہا یہ محسوس ہوتا ہے جیسے

’’زندگی بھر کی مسافت اِک طوافِ رائیگاں ‘‘

کیا رائیگاں ہو جانا ہی مقصدِ حیات ہے۔ کیا شکست ہی حاصلِ زندگی۔

 

میں نے ’’دیدۂ خوش خواب‘‘ میں لکھ دیا تھا کہ میرا آبائی وطن دربھنگہ، بہار ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ آج سے تقریباً ڈھائی سو سال قبل اٹھارویں صدی کے وسط میرے دادا کے پر دادا جو نسلاً ترک تھے انہیں حاکمِ وقت نے کسی کا رہائے نمایاں کی انجام دہی پر انعام کے طور پر پچاس بیگھہ زمین اور تعریفی اسناد کے ساتھ دربھنگہ میں آباد کر دیا تھا۔ یہ عہد مغلیہ سلطنت کے زوال کا عہد تھا۔ جب سے آج تک یہ خاندان اُسی زمین کے ٹکڑے پر آباد ہے۔ شجرہ کی تفصیل مجھ تک یوں ہے

 

دادا کے دادا                           درگاہی بیگ

دادا کے والد                            بہادر بیگ

دادا                                     جوہر بیگ

میرے والد                             فرید الدین بیگ

 

میں اور میرے بچّے تو پاکستان میں ہیں لیکن میرے بھائی بہنیں اور خاندان کے دیگر افراد آج بھی وہاں آباد ہیں ۔

 

اب چند سطور اپنی شاعری کے بارے میں بھی۔ میں پورے یقین کے ساتھ اپنے آپ کو شاعر سمجھتا ہوں ۔ شاعری کی صلاحیّت من جانب اﷲ ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اس عنایت کا مجھے مکمّل ادراک ہے۔ وجدانی اور شعوری دونوں طرح سے۔ اﷲ تعالیٰ کی اس بخشس پر مجھے ناز ہے اور میں پوری دیانت داری سے جو محسوس کرتا ہوں اس لکھ رہا ہوں ۔

 

اس عمر میں بھی یہ محسوس کرتا ہُوں کہ ابھی کہنے کو بہت کچھ ہے۔ رہی بات شعری قد و قامت کی تو نہ یہ پہلے میرا مسئلہ تھا نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ یہ فیصلہ تو قارئین کو کرنا ہے۔ ’’دیدۂ خوش خواب‘‘ اور’’ بینائی‘‘ کو جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے شاعری کرنے کا جواز مل جاتا ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ کم و بیش پورا ادبی حلقہ نہ صرف یہ کہ مجھ سے محبت کرتا ہے بلکہ میری شاعری کو پسند بھی کرتا ہے

 

اس کتاب کی ابتدا سے تکمیل تک کے مراحل میں امتیاز ساغر نے جس محنت اور محبت کا ثبوت دیا ہے اس کے لئے میں ان کا مشکور ہوں ’ امتیاز ساغر صرف میرے دوست ہی نہیں بلکہ سگے بھائی کی طرح ہیں ۔ میں اس کتاب کے سلسلے میں محترم جناب انجم جاوید، محترم خالد محمود، برادر ضیاء خاں ضیاء اور شارق بلیاوی صاحب کا بھی شکر گزار ہوں ۔

 

رفیع الدین راز

 

 

 

غزلیں

 

آگ لَو دینے لگی سایۂغم خوار کے پاس

مہرِ نادیدہ کوئی ہے درو دیوار کے پاس

 

جانے کیا سوچ کے کل اپنا پسندیدہ قلم

رکھ گیا ہے مرا بچّہ مری تلوار کے پاس

 

کس حوالے سے وہ دیکھے قد و قامت اپنا

اپنی صورت ہی نہیں آئینہ بردار کے پاس

 

پھول کی ضرب سے زخمی تھا سراپا شاید

دیر تک بیٹھا رہا آبلہ پار خار کے پاس

 

موتی اِس طرح لٹاتی ہے صدف ہو گویا

کیا خزانہ ہے کوئی چشمِ گُہر بار کے پاس

 

جانبِ دشتِ کماں دیکھ رہے ہو کیا راز

کیا کبھی مہر بھی جاتا ہے شبِ تار کے پاس

 

 

 

 

خانۂ دل میں مکیں آخر یہ کس کی ذات ہے

ایک احساسِ رفاقت ہر نفس کے ساتھ ہے

 

پرتوِ خندہ لبی ہویا ضیائے چشمِ تر

زندگی کی گفتگو ہے زندگی کی بات ہے

 

میں نفس کا ہم سفر ہوں یا نفس میرا رفیق

اس مسافت میں نہ جانے کون کس کے ساتھ ہے

 

کوئی بھی موسم ہو لیکن مطمئن رہتا ہے دل

میری جو بھی سانس ہے وہ محرمِ حالات ہے

 

کل رفاقت کی طلب تھی آج تنہائی کا شوق

و شعورِ آگہی تھا یہ شعورِ ذات ہے

 

کون مجھ کو ساتھ لے کر پھر رہا ہے کو بہ کو

راز کس کے ہاتھ میں آخر یہ میرا ہاتھ ہے

 

 

 

ایک اِک زخمِ دل گلاب ہوا

راز میں صاحب اِنصاف ہوا

 

آئینے پر نگاہ کیا ٹھری

خود فریبی کا سدِّ باب ہوا

 

سینۂشب میں کیوں یہ، ہلچل ہے

کیا کہیں ذکرِ آفتاب ہوا

 

جس طرف دیکھئے  سمندر ہے

دشت کا دشت ہی سراب ہوا

 

زخم مہکا تو رشکِ گل ٹھرا

داغ نکھر ا تو ماہتاب ہوا

 

اس کے قدموں کی آہٹیں سن کر

نطق شائستہ خطاب ہوا

 

خواہشِ انقلابِ نو میں راز

آدمی نذرِ انقلاب ہوا

 

 

 

 

 

جنوں کے رستے پہ چل پڑا ہُوں سُرور چھایا ہے بے خودی کا

سُبک ہوا زندگی کا شانہ اُتر گیا بوجھ آگہی کا

 

بجُھا دیا کیوں چراغِ امکاں نہ آتی صبحِ طلب نہ آتی

کرن تو باقی تھی آرزو کی بھرم تو قائم تھا روشنی کا

 

شناساہیں ہوں نہ آئینہ ہے یہ گفتگو رسم و راہ تک ہے

ابھی تعارف کرا رہا ہوں اجنبی سے اک اجنبی کا

 

یہی نہیں کہ گمان ہی تک ہمارے قدموں کی دسترس ہے

مِلے گا نقشِ یقین بھی تم کو ہمارے پائے خیال ہی کا

 

برنگِ  رقصِ غبارِ صحرا، بشکلِ صحنِ خزاں رسیدہ

یہ کسِ کے ہونٹوں تک آتے آتے بکھر گیا رنگ تشنگی کا

 

یہ ہے وہ عہدِ سخن کہ جس میں نہ پاسِ خامہ نہ لب کی حُرمت

نہ صوت اپنی نہ حرف اپنا زباں کسی کی دہن کِسی کا

 

دیارِ وہم و گماں میں ہر سو ہزاروں قزاّق ساعتیں تھیں

کسی نے چھینی یقیں کی دولت کسی نے لُوٹا قرار جی کا

 

میں راز جس کو سمجھ رہا تھا حکایتِ دو جہاں اَزل سے

وہ ساری باتیں تھیں آدمی کی وہ سارا قصّہ تھا آدمی کا

 

 

 

رہ گزارِ شوق میں کیا دشت و دریا دیکھنا

عشق کا احرام باندھا ہے تو پھر کیا دیکھنا

 

شوقِ دیدہ زندگی کا استعارہ دیکھنا

دن میں سورج دیکھنا شب میں ستارہ دیکھنا

 

اس تماشہ گاہ میں کیا ار ہائے روز و شب

یا تماشہ بن کے رہنا یا تماشہ دیکھنا

 

جاگنے تو دو شعورِ عاشقی کو روح میں

قطرۂ خونِ تمنّا کا تقاضہ دیکھا

 

کِتنا روشن کس قدر شفّاف ہے اِس کا وجود

طفل ہے یا روشنی کا استعارہ دیکھنا

 

مانتا ہوں فیل، فرزیں ،اسپ سب نظروں میں ہیں

مات کا باعث نہ بن جائے پیادہ دیکھنا

 

راز مشکل ہے بہت اِس جگمگاتی بزم میں

سادگی کے ساتھ رہنا خواب سادہ دیکھنا

 

 

 

ابھی تک رو برو سچّا کوئی منظر نہیں آیا

مرا دشمن بھی میرے سامنے کھُل کر نہیں آیا

 

بھرم تا دیر رکھا ہم نے زنداں کی روایت کا

کہیں بھی گفتگو میں ذکرِ بال و پر نہیں آیا

 

عبارت ایک اِک چہرے کی روشن ہو گئی لیکن

وہ شیشہ گر ابھی تک آئینہ لے کر نہیں آیا

 

خدا کا شکر ہے دشمن مرے دشمن صفت نکلے

بشکلِ گل مری جانب کوئی پتھر نہیں آیا

 

ندامت کا وہ قطرہ باعثِ تّسکینِ جاں ٹھہرا

وہ اِک قطرہ جو میری آنکھ سے باہر نہیں آیا

 

میانِ گفتگو ترکِ تعلّق کا وہ اک جذبہ

پسِ منظر تو اُبھر اتھاسرِ منظر نہیں آیا

 

میں اس حرفِ یقیں کو راز کیسے معتبر جانوں

جو مجھ تک خار زارِ و ہم سے بچ کر نہیں آیا

 

 

زہر پینا ہماری خُو میں ہے

نشّۂ زندگی لہو میں ہے

 

چرخ چھونے کی جستجو میں ہے

موجِ خود سر جو آبجو میں

 

نقش اُبھرے تو کس طرح اُبھرے

خوفِ کم مائیگی نمو میں ہے

 

اے مری منزلِ مراد اب تک

تو مری چشمِ با وضو میں ہے

 

سانس نشتر صفت ہے کیوں میری

کیا پھپھولا کفِ گلو میں ہے

 

گھول دیتی ہے خون میں خوشبو

کیسی سرمستی حرَ ہُو میں ہے

 

حدِ بغض، شُعلۂ  نفرت

راز ہم سب کی گفتگو میں ہے

 

 

 

بھولے بسرے کچھ چہرے یوں بھی یاد آتے ہیں

جیسے لوگ بے مقصد تیلیاں جلاتے ہیں

 

خود ہی چل کے جاتے ہیں قریۂ ہزیمت تک

لوگ اپنی چالوں سے آپ مات کھاتے ہیں

 

خال و خد کے شیدائی اپنے آپ کو اکثر

روشنی بجھا کر ہی آئینہ دکھا تے ہیں

 

سایہ دینے والے کو سائے کی طلب کیوں ہو

پیڑ کب بدن اپنا دھوپ سے چراتے ہیں

 

ہجر کی مسافت سے کب نجات مِلتی ہے

اُس کو یاد کرتے ہی خود کو بھول جاتے ہیں

 

اِک تعلّقِ خاطر اُس سے عمر بھر کا ہے

دل کے ٹوٹنے سے کیا رشتے ٹوٹ جاتے ہیں

 

جسم و جاں کو مل جَائے دامنِ اماں کوئی

ہم اسی تصوّر میں دائرے بنا تے ہیں

 

عہد کی کثافت میں نسلِ نو کو مت پھینکو

لوگ اُجلے پیرا ہن داغ سے بچاتے ہیں

 

راز بے خیالی میں بارہا یہ ہوتا ہے

عکس آئینے پر ہم رکھ کے بھول جاتے ہیں

 

 

 

 

تا دیر کڑی دھوپ میں یہ جسم جلے آج

جی چاہ رہا ہے کہ یہ سورج نہ ڈھلے آج

 

اب جا کے بدن رقص سے مانوس ہوا ہے

ٹھہری ہے یہ بے چین زمیں پاؤں تلے آج

 

ایسا نہ ہو یہ کہہ کے دیئے لوگ بجھا دیں

یہ رات نہ مِل پائے گی سورج سے گلے آج

 

وہ جس کو بہت زعم ہے اعصاب پہ اپنے

دوچار قدم میری رفاقت میں چلے آج

 

خلقت جسے سُننے کیلئے بیٹھی ہے کب سے

وہ بات چھڑے بزم میں وہ ذکر چلے آج

 

آیا ہے نہ آئے گا پلٹ کر کوئی لمحہ

آنکھوں کو ملَے چاہے کوئی بات ملَے آج

 

اک اجنبی رستے کا سفر پیشِ نظر ہے

اے راز رگوں میں نہ کوئی وہم پلے آج

 

 

 

شاید کہ تمازت سے بچا لے یہ ترا عکس

کہتے ہیں گھنے پیڑ کا ہوتا ہے گھنا عکس

 

بے وجہ نہیں دیکھتے ہم غور سے شکلیں

ہر ساعتِ نو دیتی ہے چہرے کو نیا عکس

 

لو ختم ہوا محویتِ ذات کا منظر

اک سنگ گرا آب پہ اور ٹوٹ گیا عکس

 

ممکن نہیں اس عالمِ تشہیر میں چھینا

رقصاں ہے فضاؤں میں ہر اک سمت مراعکس

 

سورج کی طرف دیکھنا اور دیکھتے رہنا

ہو جائے مسافت میں اگر قدسے سواعکس

 

بہتر ہے اِس دھوپ میں سرگرمِ سفر رہ

دامانِ شجر راز مٹا دے گا تراعکس

 

 

 

رہِ حیات میں آتے ہیں کیسے کیسے دن

ہوا کے دوش پہ صدیاں پہاڑ جیسے دن

 

کبھی بچھاتے ہیں راہِ نفس میں ہم پلکیں

کبھی گزارنا پڑتا ہے جیسے تیسے دن

 

بصارتوں کو گزرنا ہی تھا اذیّت سے

نگاہِ شوق سے منسوب تھے کچھ ایسے دن

 

تمام رات لٹا تا رہا ضیا اپنی

نگاہِ رندسے، رنگِ سبو سے، مے سے، دن

 

یہ راہِ عشق ہے اس میں کبھی نہیں آتی

نہ ایسی ویسی کوئی شب نہ ایسے ویسے دن

 

غمِ حیات سے کرتا ہے کسب کچھ کرنیں

جب اپنی لَے کو ملاتا ہے میری لَے سے دن

 

مکیں ہیں دونوں ہی دل میں مگر یہ فرق ہے راز

گمان رات کی صورت، یقین جیسے دن

 

 

 

 

 

رنگ کہتے ہی فضا کھِل اُٹُھے گی ایسا نہیں

روشنی کاغذ پہ لکھ دینے سے دن ہوتا نہیں

 

آپ یہ کہہ کر نہ خود کو امتحاں میں ڈالئے

مہر کیا پلٹا نہیں ہے وقت کیا ٹھہر انہیں

 

فکر بھی پابندِ زنداں شوق بھی زنجیر پا

اب کُھلا مجھ پر کہ میرا خواب بھی میرا نہیں

 

شورشِ طوفاں ہے یا اہلِ جنوں کا قحط ہے

دشت میں حدِّ نظر تک کوئی نقشِ پا نہیں

 

کیوں گریزاں اس قدر ہو تم ہماری ذات سے

ابرِ بے باراں نہیں ہم، نخلِ بے سایہ نہیں

 

چہروں پر الزام کیا دھرنا کہ راہِ شوق میں

اب تو شاید آئینہ بھی آئینہ جیسا نہیں

 

ہو چلا ہے اب ثمر آور میرا نخلِ یقیں

اب درونِ جسم و جاں آسیب کا چرچا نہیں

 

اندھی خواہش کا اندھیرا راز دورانِ سفر

جسم میں اتر تھا لیکن روح تک پہنچا نہیں

 

 

ماضی کا تجسّس ہے نہ فردا کی خبر ہے

اک لمحۂ موجود ہے اور اپنا سفر ہے

 

قابو میں ہیں اعصاب، نہ جذبات، نہ انفاس

بکھری ہوئی ہر چیز ہے پھیلا ہوا گھر ہے

 

ہر ثابت و سیار کی اک حد ہے مقرر

افلاک کی وسعت میں بھی دیواریں ہیں در ہے

 

کیا لمحۂ تشکیک کوئی ذہن میں اترا

کیا بات ہے کیوں فکر مری زیرو زبر ہے

 

آئینہ گری سیکھ تولی شہر میں سب نے

کیا آئینہ اوصاف کوئی آئینہ گر ہے

 

مربوط ہے تہذیبِ کہن سے مرا رشتہ

لہجے میں بزرگوں کی دعاؤں کا اثر ہے

 

کچھ اتنا بڑھا بوجھ سبک ہو گیا شانہ

یہ عشق بھی اے راز عجب بارِ دگر ہے

 

 

 

رُخِ حیات پہ رنگِ ملال اب بھی ہے

کسی کو بھولنا کارِ محال اب بھی ہے

 

نہ جانے کب سے ہے صحراؤں کا سفر در پیش

مگر یہ دل ہے کہ دریا مثال اب بھی ہے

 

نبھا رہا ہے تعلّق رفیقِ دیرینہ

غمِ نفس کو ہمارا خیال اب بھی ہے

 

ردائے زخم سے کل بھی دمک رہا تھا بدن

نگارخانۂہستی نہال اب بھی ہے

 

دراز دستی شامِ فراق سے کہہ دو

کہ میری روح میں کیفِ وصال اب بھی ہے

 

ملا تو ہے وہ بظاہر تپاک سے لیکن

نگاہ کہتی ہے شیشے میں بال اب بھی ہے

 

زباں بریدوں کے تیور بتا رہے ہیں راز

نگاہ و لب پہ وہ حرفِ سوال اب بھی ہے

 

 

 

 

 

کتابِ زندگی کے باب بدلو

مرے خوابوں سے اپنے خواب بدلو

 

نہ دیکھو اس طرح سائے کی جانب

تھکن کو پھینک دو اعصاب بدلو

 

اسیری میں بھی لازم ہے تنّوع

کبھی دریا کبھی گرداب بدلو

 

بہت بے رحم ہے یہ خواب نگری

خیالِ اطلس و کم خواب بدلو

 

کہاں تک اور یہ رطبُ الِلّسانی

امیر شہر کے القاب بدلو

 

اگر خوں روتے روتے تھک گئے ہو

تو پھر اپنا دلِ نایاب بدلو

 

یہاں کے روز و شب ہی مختلف ہیں

سفر کے سارے ہی آداب بدلو

 

غمِ ہستی میں اب لذّت نہیں ہے

یہ دریا ہو گیا پایاب، بدلو

 

 

 

جانے کیسی رُت دیارِ جاں میں ہے آئی ہوئی

رات بھی خائف، دیئے کی کوئی بھی ہے سہمی ہوئی

 

روشنی، محوِ تکلّم نکہتیں بھی ہمکلام

آشناکس انجمن سے میری تنہائی ہوئی

 

میں اکیلا تو نہیں ہوں دشت میں محوِ سفر

نقشِ پا بکھرے ہوئے ہیں آہٹیں پھیلی ہوئی

 

ساعتِ عزم و یقیں آتی نہیں دل کی طرف

اور آتی ہے تو دشتِ خوف سے ہوتی ہوئی

 

میری آنکھیں سن رہی ہیں اس کے قامت کی صدا

لوسماعت آشنا بھی میری بینائی ہوئی

 

یہ کنارے کا سکوں تو اک فریبِ چشم ہے

راز ساحل پر تو لاکھوں موجیں ہیں ٹھری ہوئی

 

 

نظمیں

 

عجز

 

میں سوچتا ہوں

یہ حیرت کدہ ہے

یا مقتل

ٹپک رہا ہے مسلسل لہو

اِن آنکھوں سے

نکل رہی ہے

مرے پاؤں سے

زمین پیہم

رگوں میں

خوف کی دیوی کا

رقص جاری ہے

شکستہ ہو گئیں

اُمیدّ کی

طنابیں سب

اب اس سے بڑھ کے ادا

بندگی کا حق کیا ہو

جو پوچھتا ہے کوئی

راز خیریت سے ہو

بڑے خلوص سے کہتا ہوں

اُس کی رحمت ہے

 

 

 

ابراہیم کی تلاش

 

گاؤں کی ہر پگڈنڈی پر

شہر کی چوڑی سڑکوں پر

کھیتوں پر، کھلیانوں پر

جوہڑ پر تالابوں پر

صحرا، نخلستانوں پر

گلیوں اور بازاروں پر

آنگن پر۔۔۔ چو باروں پر

خوف میں ڈوبے شہروں پر

وادی اور کہساروں پر

نمر ودوں کا قبضہ ہے۔۔۔۔ نمرودوں کا قبضہ ہے

بُو ہے جلتے جسموں کی

ہر سُوگُونج ہے چیخوں کی

کلیاں آگ کا لقمہ ہیں

گل خوراک انگاروں کے

برگ و بار بھی ایندھن ہیں

عہد کے اِن انگاروں کا

ہر سو آگ برستے ہیں

ہر سو شعلے رقصاں ہیں

لیکن

اک آواز مسلسل

آتی ہے انگاروں سے

نمرودوں کی بستی میں

کوئی ابراہیم نہیں ۔۔۔۔؟

کیا۔۔۔۔۔

کوئی ابراہیم نہیں ؟

 

 

 

خواب سے تعبیر تک

 

میں اس انسان سے

واقف ہوں

جس نے

مدینے کی زمینِ پاک سے

کچھ خاک لا کر

بنائی تھیں

کنھیّا کی شبیہیں

رام اور لچھمن کی تصویریں

سرِچشمِ عقیدت

شوق کی مورت تھی

کہیں اَرجُن کی صورت

جلو میں ان بتوں کے

تھا وہاں

راون کا بھی پیکر

وہ گاگر

جس میں وہ

کچھ آبِ زم زم

بھرکے لایا تھا

تبرّک کی طرح

اس نے ملایا

گنگا جل اس میں

دیئے پھر غسل اس نے

ان بتوں کو

اسی پانی سے

جس میں روح کی

خوشبو مہکتی تھی

محبت گنگناتی تھی

ہوا پھر یہ

یکایک

سارے ہی بُت

جاگ اُٹّھے

آدمی کا رُوپ لے کر

پھر اس کے بعد

مری آنکھوں نے دیکھا

کہ اس کی لاش تھی

اور خونی پنجے

دیوتاؤں کے

 

٭٭٭

تشکر: کتابیں ڈاٹ نیٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید