FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بہرام کا گھر

اور دوسری کہانیاں

 

                شموئل احمد

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

اب آنگن میں پتّے نہیں سرسراتے تھے۔ درو دیوار پر کسی سائے کا گمان نہیں گزرتا تھا۔ بڑھیا کے آنسو اب خشک ہو چکے تھے۔ وہ روتی نہیں تھی۔ بیٹے کا ذکر بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ اب دور خلا میں کہیں تکتی رہتی تھی۔ کبھی کبھی اس کے دل میں ہوک سی اٹھتی تو ہائے مولا کہہ کر چیخ اٹھتی اور پھر خاموش ہو جاتی۔ پاس پڑوس والے بھی اب بیٹے کی بابت کچھ پوچھتے نہیں تھے۔

اس دن بھی وہ ہائے مولا کہہ کر چیخ اٹھی تھی۔ پھر دو ہتھڑ سینے پر مارا تھا اور بیہوش ہو گئی تھی۔ شہر میں دنگا اسی دن بھڑکا تھا اور بیٹا گھر لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ جب دوسرے دن بھی گھر نہیں لوٹا تو بڑھیا بے تحاشہ نیک نام شا ہ کے مزار کی طرف دوڑ پڑی تھی۔

بیٹے کو جب بھی کچھ ہوتا وہ نیک نام شاہ کا مزار پکڑ لیتی۔ یہ نیک نام شاہ کا ہی ’’فیض‘‘ تھا کہ بیس سال پہلے اس کی گود بھری تھی۔ ورنہ کہاں کہاں نہیں بھٹکی تھی، کس کس مزار پر چلّہ نہیں کھینچا تھا۔ کیسی کیسی منّتیں نہیں مانی تھیں۔ آخر کار نیک نام شاہ کی بندگی راس آ گئی تھی اور اس کی گود میں چاند اتر آیا تھا۔ تب سے بلا ناغہ ہر جمعرات کو مزار پر اگر بتّی جلاتی آئی تھی اور بیٹے کی خیر و عافیت کی دعائیں مانگتی رہتی تھی۔

لیکن اس دن آسمان کا رنگ گہرا سرخ تھا اور زمین تنگ ہو گئی تھی۔ وہ مزار تک پہنچ نہیں سکی۔ دنگائیوں نے راستے میں گھیر لیا تھا۔ اس پر نیزے سے حملے ہوئے تھے۔ بڑھیا سخت جان تھی، مری نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیزے کھا کر بھی زندہ رہی۔ عین وقت پر پولیس کا گشتی دل پہنچ گیا اور وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچا دی گئی تھی۔

بڑھیا اسپتال سے اچھی ہو کر آ گئی، لیکن بیٹا نہیں آیا۔ وہ دیوانوں کی طرح سب سے اس کا پتہ پوچھتی رہی۔ محلے کی عورتوں سے لپٹ کر روتی رہی۔ مزار پر سر پٹکتی رہی۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔

تلاش مرتی نہیں ہے۔ ۔ ۔ تلاش آنکھوں میں رہتی ہے۔ ۔ ۔ آنکھوں سے گزرتی ہوئی دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ ۔ ۔ تب آنکھیں دور خلا میں کہیں تکتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ اور بڑھیا کی آنکھیں۔ ۔ ۔

محلّے ٹولے کو فکر تھی کہ بڑھیا کا کیا ہو گا۔ ۔ ۔ ؟ ایک ہی بیٹا تھا۔ ۔ ۔ بھری جوانی میں اٹھ گیا۔ ۔ ۔ کم سے کم لاش بھی مل جاتی تو صبر آ جاتا۔ ۔ ۔ اور اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی کہ دنگے میں مارا گیا ہے تو ہرجانے کی رقم بھی مل جاتی۔ رقم کثیر تھی۔ ۔ ۔ ایک لاکھ روپے۔ ۔ ۔ رشتہ داروں کو فکر ہوئی کہ لاش کا کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟

ماموں نے تھانے میں سانحہ درج کرا دیا۔ سانحہ میں بتایا گیا کہ اس دن وہ گھر سے بانکا کے لئے روانہ ہوا تھا۔ سرخ رنگ کی شرٹ اور سیاہ پتلون پہنے ہوئے تھا۔ دائیں ہاتھ کی انگلی میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی جس میں انگریزی کا حروف ’’اے‘‘ کندہ تھا۔

شہر میں جیسے جیسے امن لوٹنے لگا اُڑتی پڑتی خبریں بھی ملنے لگیں۔ کسی نے بتایا کہ اُس دن وہ علی گنج میں دیکھا گیا تھا۔ دوستوں نے بہت روکا مت جاؤ۔ خطرہ ہے۔ ۔ ۔ لیکن وہ یہی کہتا تھا کہ کچھ نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ وہ رات بہرام کے ہاں رک جائے گا اور صبح تڑکے اپنے گھر چلا جائے گا۔ ۔ ۔

پھر خبر ملی کہ ڈی وی سی چوک کے قریب موب نے اس کو گھیر لیا تھا۔ محلے والے بھاگ کر بہرام کے ہاں چھپ گئے تھے، لیکن وہ۔ ۔ ۔

بتانے والے نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ سرخ رنگ کی شرٹ میں ملبوس تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بریف کیس بھی تھا۔ ۔ ۔ پھر یہ کہتے کہتے رکا تھا کہ لاش چوک کے قریب ہی ایک کنوئیں میں۔ ۔ ۔

ماموں نے علاقہ کا چکر کاٹا۔ ڈی وی سی چوک سے شمال کی طرف جانے والی سڑک پر دور تک گئے۔ ایک جگہ ان کا ماتھا ٹھنکا۔ آم کے باغیچہ کے قریب ایک کنویں کی منڈیر پر دوچار گدھ منڈلا رہے تھے۔ قریب جا کر کنویں میں جھانکا تو بدبو کا ایک بھبھکا سا آیا۔ ایک گدھ اڑ کر پیڑ پر بیٹھ گیا۔ آس پاس کے مکانوں کی کھڑکیاں کھل گئیں راہ گیر رک رک کر دیکھنے لگے۔ پھر ان میں چہ میگوئیاں بھی ہونے لگیں تو ماموں کو محسوس ہوا کہ فضا میں تناؤ پھیلنے لگا ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ گئے۔

محلّے میں خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ لاش مل گئی ہے۔ عورتیں بڑھیا کے گھر جمع ہو گئیں۔ ممانی چیخ چیخ کر روئی۔ سر کے بال نوچے، گریباں پھاڑا۔ بڑھیا ایک ٹک خلا میں کہیں تکتی رہی۔

ماموں نے تھانے میں عرضی دی کہ لاش کا پتہ چل گیا ہے اور یہ کہ لاش بر آمد ہونے پر علاقہ میں تناؤ پھیل سکتا ہے۔ اس لئے پولیس کی ایک ٹولی ساتھ کی جائے گی تاکہ لاش کنویں سے باہر نکالی جا سکے۔ ایس پی نے ایک دن ٹال مٹول کیا اور پھر اجازت دے دی اور ایک حوالدار اور چند کانسٹیبل ساتھ کر دیئے۔

ماموں کنویں پر پہنچے۔ ساتھ میں کچھ رشتہ دار اور محلے کے چند نوجوان بھی تھے۔ مزدوروں کو بھی ساتھ لیا گیا ٹھرے کی بوتلیں بھی لی گئیں۔

کنویں پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ اندر جھانکا۔

’’بہت بدبو ہے ‘‘

’’صاحب۔ ۔ ۔ ٹھرا منگائیں۔ ۔ ۔ ‘‘ ایک مزدور بولا۔

ماموں نے جھولے سے ٹھرے کی بوتل نکالی۔

’’موب نے اس چوک پر گھیرا تھا۔ ‘‘ ایک رشتہ دار نے سامنے اشارہ کیا۔

’’دوستوں نے بہت روکا لیکن۔ ۔ ۔ ‘‘

’’وہ گھر سے باہر کیوں نکلا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’بانکا جانے کی کیا ضرورت تھی۔ ۔ ۔ ؟‘‘

مزدور ٹھرا پی کر کنویں میں اترے۔

’’جنابر ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ ایک مزدور وہاں سے چلّایا۔

’’جناور کہاں سے آ گیا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

ماموں جھلّا اٹھے۔ ایک بار پھر سب نے ایک ساتھ کنویں میں جھانکا۔

’’کوئی بیگا ہو گا صاحب۔ ‘‘دوسرا مزدور بولا۔

’’جانور ہی ہے۔ ‘‘

’’سور مرل با۔ ۔ ۔ ‘‘

ماموں نے غور سے دیکھا۔ سور ہی تھا۔

’’یہ تو سراسر بدمعاشی ہے۔ ‘‘

ایک رشتہ دار نے آس پاس مکانوں کی طرف دیکھا۔

’’یہ لوگ نہیں چاہتے کہ لاش نکالی جائے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’لاش نکل گئی تو سب پھنس جائیں گے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کوئی پھنستا وستا نہیں ہے۔ آج تک نہیں سنا کہ کسی دنگائی کو پھانسی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’صاحب۔ ۔ ۔ پہلے سور نکالے کے پڑی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’سور نہیں۔ ۔ ۔ پہلے لاش نکالو۔ ۔ ۔ ‘‘

’’لاش کا کچھ پتہ با۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ایک مزدور نے رسی نیچے لٹکائی۔ عورتیں چھت پر چڑھ کر دیکھنے لگیں۔ ایک سپاہی کھینی ملنے لگا۔

’’بیچارے کی حال میں منگنی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’وہ گھر سے باہر کیوں نکلا؟‘‘

’’جب جانتا تھا کہ شہر میں تناؤ ہے تو۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کیا معلوم تھا دنگا اسی دن بھڑکے گا۔ ‘‘

’’موت تھی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’قسمت کا لکھا۔ ۔ ۔ بڑھیا بچ گئی۔ اکلوتا جوان بیٹا اٹھ گیا۔ ‘‘ ماموں نے سرد آہ بھری۔

’’بہت کچرا ہے اندر۔ ۔ ۔ ‘‘مزدور کنویں کے اندر سے چلّایا۔

ماموں کنویں کے قریب گئے۔ محلے کے ایک نوجوان نے آہستہ سے پوچھا۔

’’ٹھیک پتہ ہے کہ لاش اسی کنویں میں۔ ۔ ۔ ‘‘

ماموں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر آہ بھرتے ہوئے بولے :

’’ظالموں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینکا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’علی گنج میں رک جاتا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’موت کھینچ کر لائی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کہتا تھا بہرام کے گھر جاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ بیچارہ چوک پر ہی پکڑا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

سپاہی نے کھینی کو تال دیاتو ایک کوّا پیڑ سے اڑ کر سامنے ایک مکان کی چھت پر لگے اینٹا پر بیٹھ گیا۔

نیچے جو مزدور تھا اس نے سور کی ٹانگوں کو رسی سے باندھا لیکن اوپر سے کھینچنے میں نہیں بن پڑا، تب ایک اور مزدور نیچے اترا۔ دونوں نے مل کر سور کو اوپر اٹھایا۔ باقی مزدوروں نے کنویں کی منڈیر پر کھڑے ہو کر رسّی اوپر کی طرف کھینچی۔ ۔ ۔ سور کی لاش باہر آئی تو پیڑ پر کوؤں کا شور بڑھ گیا۔ سور کا پیٹ پھولا ہوا تھا۔

سڑک کی طرف سے ایک کتا بھاگتا ہوا آیا اور قریب آ کر بھونکنے لگا۔

’’ہش‘‘ سپاہی نے زور سے ایک پاؤں زمین پر پٹکا۔ کتّا کچھ دور پیچھے بھاگا اور پھر بھونکنے لگا۔ سپاہی نے جھک کر پتھر اٹھا یا تو کتّا بھاگ کر سڑک پر چلا گیا اور وہاں سے زور زور سے بھونکنے لگا۔

کچرا باہر نکالنے کے لئے ایک ٹوکری نیچے لٹکائی گئی۔ ماموں نے بیڑی سلگائی اور زمین پر بیٹھ کر دم مارنے لگا۔

کچرے کی صفائی میں یکایک قمیص برآمد ہوئی۔ قمیص کے ساتھ لپٹا ہوا ہاتھ کا ایک بازو بھی تھا، سبھی چونک کر دیکھنے لگے۔ قمیص کیچڑ میں لت پت تھی، خون کے دھبے جگہ جگہ سیاہ ہو گئے تھے۔ ماموں نے غور سے دیکھا۔ قمیص کا رنگ سرخ معلوم ہوا۔

’’پتلون بھی ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ایک رشتہ دار بولا۔

’’پنجہ دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنجہ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’بازو کے ساتھ پنجہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ماموں نے کنویں میں جھانک کر کہا۔ حولدار نے ہدایت دی کہ بازو اور قمیص کو کچرے سے الگ رکھا جائے ماموں نے چادر بچھائی اور لکڑی کے ایک ٹکرے سے قمیض کو بازو سمیت اٹھا کر چادر پر رکھا۔

کچرے کی ٹوکری پھر باہر آئی تو ایک کٹی ہوئی ٹانگ بر آمد ہوئی۔

’’پنجہ کہاں گیا ؟‘‘ ماموں نے پھر کنویں میں جھانکا۔

’’اندر دھنس گیا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’تھوڑی اور صفائی کی ضرورت ہے۔ ‘‘

’’تھوڑا اور کچرا باہر نکالو۔ ۔ ۔ ‘‘

اس بار کچرے کے ساتھ پنجہ بر آمد ہوا۔ ماموں نے دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ پنجہ ہی تھا۔ لیکن انگوٹھی نہیں تھی۔ انگلیاں مڑی ہوئی بالکل سیاہ ہو رہی تھیں۔

’’انگوٹھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ماموں آہستہ سے بڑ بڑائے۔ پھر غور سے دیکھا۔

’’یہ تو بائیں ہاتھ کا پنجہ ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’دائیں ہاتھ کا پنجہ کہاں ہے ؟‘‘

’’اندر سجھائی نہیں دیتا صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ماموں نے بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ شام ہو چلی تھی۔ سارا وقت تو سور نکالنے میں لگ گیا تھا۔

’’دیکھو۔ ۔ ۔ کوشش کرو۔ دائیں ہاتھ کا پنجہ چاہئے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اب چلئے۔ ۔ ۔ ‘‘حولدار نے ڈنڈے سے اشارہ کیا۔

’’حولدار صاحب۔ ۔ ۔ تھوڑی اور کوشش کر لینے دیجئے۔ ۔ ۔ ‘‘

ماموں نے پھر کنویں میں جھانکا۔ مزدور باہر نکل رہے تھے۔

’’کیا ہوا؟‘‘

’’اب ٹائم نہیں ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’پنجہ ضروری ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اندر سجھائی نہیں دیتا ہے تو کیا کریں۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’چلئے۔ ۔ ۔ ‘‘ حولدار نے زمین پر ڈنڈا کھٹکھٹایا۔

ماموں نے چادر سمیٹی۔ ۔ ۔ سب جیپ پر بیٹھے۔ جیپ آگے بڑھی۔ یکایک چوک پر بڑھیا نظر آئی۔ ماموں کو حیرت ہوئی۔ جیپ رکوائی اور جھنجھلاتے ہوئے نیچے اترے۔ بڑھیا کسی سے کچھ پوچھ رہی تھی۔

’’تم یہاں کیا کررہی ہو بوا ؟‘‘ ماموں قریب جاکر بولے۔

’’بہرام کا گھر دیکھتی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اب بہرام کا گھر دیکھ کر کیا ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘‘ ماموں کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی۔

’’ بچّہ کہتا تھا بہرام کے گھر جاؤں گا۔ سب بہرام کے گھر میں چھپے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ذرا دیکھتی۔ کتنی دور اس کا گھر رہ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

ماموں نے چہرہ کا پسینہ پونچھا۔ بڑھیا حسرت سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی اور دفعتاً اس کی آنکھوں میں بجھی ہوئی لَو کا دھواں تیرنے لگا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

سراب

 

 

بدرالدین جیلانی لیڈی عاطفہ حسین کی میّت سے لوٹے تو اداس تھے۔ اچانک احساس ہوا کہ موت بر حق ہے۔ ان کے ہمعصر ایک ایک کر کے گذر رہے تھے، پہلے جسٹس امام اثر کا انتقال ہوا۔ پھر احمد علی کا اور اب لیڈی عاطفہ حسین بھی دنیائے فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ جیلانی کو خدشہ تھا کہ پتہ نہیں خود ان کی روح کہاں پرواز کرے گی۔ ۔ ۔ ؟وہ کالونی میں مرنا نہیں چا ہتے تھے۔ وہ اپنے آبائی وطن میں ایک پر سکون موت کے خواہش مند تھے، لیکن وہاں تک جانے کا راستہ معدوم تھا۔ وقت کے ساتھ راہ میں خاردار جھاڑیاں اُگ آئی تھیں۔

جیلانی ریٹائرڈ آئی۔ اے۔ اس۔ تھے کمشنر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے سال بھر کا عرصہ ہوا تھا، بہت چاہا کہ زندگی کے باقی دن آبائی وطن میں گذاریں، لیکن میڈم جیلانی کو وہاں کا ماحول ہمیشہ دقیانوسی لگا تھا۔ اصل میں جیلانی کے والد اسکول ماسٹر تھے اور میڈم آئی۔ اے۔ اس۔ گھرانے سے آتی تھیں۔ انہوں نے آئی اے اس کالونی میں ہی مکان بنوانا پسند کیا تھا۔

جیلانی کو کالونی ہمیشہ سے منحوس لگی تھی۔ یہاں سب اپنے خول میں بند نظر آتے تھے۔ ان کو زیادہ چڑ اس بات کی تھی کہ کسی سے ملنے جاؤ تو پہلے فون کرو۔ کوئی کھل کر ملتا نہیں تھا۔ وہ بات نہیں تھی وطن والی کہ پیٹھ پر ایک دھپ لگایا۔

’’کیوں بے صبح سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ارے سالا۔ ۔ ۔ ۔ جیلانی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کب آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

کالونی میں کون تھا جو انہیں سالا کہہ کر مخاطب کرتا اور جیلانی بھی پیٹھ پر دھب لگاتے۔ ۔ ۔ ؟لوگ ہاتھ ملاتے تھے لیکن دل نہیں ملتے تھے۔ یہاں کبھی محلے پن کا احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ جو ایک قربت ہوتی ہے محلے میں۔ ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ۔ ۔ ۔ ۔ کالونی میں ایسا کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ جیلانی کو لگتا یہاں لوگ مہاجر کی طرح زندگی گذاررہے ہیں۔

کالونی کی بیگمات بھی جیلانی کو ایک جیسی نظر آتی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ وہی اقلیدیسی شکل اور بیضہ نما ہونٹ۔ ۔ ۔ ۔ ! دن بھر سوئیٹر بنتیں اور سیکس کی باتیں کرتیں۔ انگریزی الفاظ کے تلفظ میں ان کے بیضوی ہونٹ دائرہ نما ہو جاتے۔

انسانی رشتوں میں انا کی کیل جڑی ہوتی ہے۔ سب میں بھاری ہوتی ہے باپ کی انا۔ ۔ ۔ ۔ ! باپ کا رول اکثر ویلن کا بھی ہو تا ہے۔

جیلانی نے نے آئی۔ ای۔ اس۔ کا امتحان پاس کیا تو برادری میں شور مچ گیا۔ ۔ ۔ خلیل کا لڑکا آئی۔ اے۔ اس۔ ہو گیا۔ ۔ ۔ باپ کا بھی سینہ پھول گیا۔ میرا بیٹا آئی۔ اے۔ اس۔ ہے۔ ۔ ۔ ! میرا بیٹا۔ ۔ ۔ انا کو تقویت ملی۔ ایک بیٹا اور تھا، افتخار جیلانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !والد محترم اس کا نام نہیں لیتے تھے۔ انا مجروح ہوتی تھی۔ افتخار ڈھنگ سے پڑھ نہیں سکا۔ پارچون کی دوکان کھول لی۔ کریلے پر نیم چڑھا کہ انصاری لڑکی سے شادی کر لی۔ ۔ ۔ ۔ ! برادری میں شور مچ گیا۔ ۔ ۔ ۔ سید لڑکا انصاری لڑکی سے پھنسا۔ ۔ ۔ سینہ سکڑ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ! لیکن زخم تو لگ ہی چکا تھا اور روح کے زخم جلدی نہیں بھرتے۔ پھر بھی مرہم جیلانی نے لگایا۔ سارے امتحان میں امتیازی درجہ حاصل کیا۔ جب آئی۔ اے۔ اس۔ کے امتحان میں بھی کامیابی ملی تو باپ کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے تھے۔ ۔ ۔ یہاں ماسٹر نے اپنے طالب علم کے ساتھ محنت کی تھی۔ شروع میں محسوس کر لیا کہ لڑکے میں چنگاری ہے اس کی پرداخت ہونی چاہئے۔ وہ جیلانی کو ہر وقت لے کر بیٹھے رہتے۔ ۔ ۔ ۔ بدر۔ یہ پڑھو۔ ۔ ۔ وہ پڑھو۔ ۔ ۔ ۔ اخبار کا اداریہ تو ضرور پڑھنا چاہئے۔ ۔ ۔ ۔ بدر تمہیں کرنٹ افیرز میں ماہر ہونا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مضامین تو رٹ لو۔ ۔ ۔ ۔ لفظوں کا استعمال کرنا سیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جیلانی میں اطاعت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ ہر حکم بجا لاتے۔ پھر بھی ماسٹر خلیل کی ڈانٹ پڑتی تھی۔ ان کا بید مشہور تھا۔ ۔ ۔ ۔ تلفظ بگڑا نہیں کہ بید لہرایا۔ ۔ ۔ ۔ سڑاک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سڑاک۔ ۔ ۔ ۔ ! کمینہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاہل مطلق۔ ۔ ۔ ۔ تلفّظ بگاڑتا ہے۔ ۔ ۔ ؟

جو ٹک جاتا وہ کندن بن کر نکلتا۔ کمبخت افتخار ہی ہونق نکلا۔ پڑھتے وقت اونگھنے لگتا۔ ۔ ۔ ۔ بید لگاؤ تو چیخنے لگتا۔ ۔ ۔ ۔ بیہودہ پھنسا بھی تو انصاری گھرانے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

باپ اکثر بھول جاتے ہیں کہ بیٹوں کے پہلو میں بھی دل ہوتا ہے۔ باپ کی انا دل کی دھڑکنوں پر قابض ہوتی ہے۔ جیلانی کے پہلو میں بھی دل تھا۔ جب دسویں جماعت پاس کی تو اس میں حسن بانو کا دل دھڑکنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ سرخ سرخ ہونٹ۔ ۔ ۔ گلابی رخسار۔ ۔ ۔ ۔ جھکی جھکی سی آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ !

استانی کی اس لڑکی کو جیلانی چھپ چھپ کر دیکھتے۔ چوری حیات نے پکڑ ی۔ حیات کلو مولوی کا لڑکا تھا۔ ۔ ۔ اس نے ملنے کے اوپائے سجھائے۔

’’عید میں ملو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’عید میں۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں۔ ! اور رومال مانگنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

حسن بانو نے عطر میں ڈوبا ہوا رومال دیا۔ رومال کے کونے میں نام کے دو حروف ریشم سے کشیدہ تھے۔ بی اور جے۔ ۔ ۔ ۔

جیلانی نے غور سے دیکھا تو درمیان میں ایچ بھی نظر آیا۔ بی اور جے کے ساتھ ایچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حسن بانو! جیلانی کو لگا کوئی پھول میں لپٹی انگلیوں سے ان کے لب و رخسار چھو رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ۔ ۔ ۔ دونوں دھیمی دھیمی سی آگ میں سلگنے لگے۔ آنچ وقت کے ساتھ تیز ہونے لگی۔ حسن بانو کے بغیر جیلانی کے لئے زندگی کا تصور بھی محال تھا۔ اس سے باتیں کرتے ہوئے انہیں لگتا کہ باہر برف باری کا سلسلہ ہے اور وہ آتش دان کے قریب بند کمرے میں بیٹھے ہیں۔ حیات اس محبت کا اکیلا راز دار تھا۔ یہاں تک کہ جیلانی آئی۔ اے۔ اس۔ بھی ہو گئے، لیکن زبان کھلی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ مگر ہر راز کے مقدر میں ہے افشا ہونا۔ ۔ ۔ !

رحیمن بوا نے دونوں کو حیات کے گھر ایک ہی پلیٹ میں کھاتے ہوئے دیکھا۔

ہر طرف شور۔ ۔ ۔ ۔

’’ماسٹر کا لڑکا استانی کی لڑکی سے پھنسا۔ ‘‘

ایک پھنس چکا تھا۔ ۔ ۔ ۔ دوسرے کی گنجائش نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو خاک تھا۔ ۔ ۔ ۔ خاک میں ملا۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو آفتاب تھا۔ ۔ ۔ بھلا دو کوڑی کی استانی اور جھولی میں آفتاب و مہتاب۔ ۔ ۔ ویلن غصّے سے پا گل ہو گیا۔ ہسٹریائی انداز میں گلا پھاڑ کر چیخا۔

حرامزادی۔ ۔ ۔ چھنال میرے بیٹے کو پھانستی ہے۔ ۔ ۔ آ مجھے پھانس۔ ۔ ۔ کر مجھ سے عشق۔ ۔ ۔ ۔ !!

بید لہرایا۔ ۔ ۔ ۔

’’خبردار بدر جو ادھر کا رخ کیا۔ ۔ ۔ ۔ خبردار۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

جیلانی بیمار ہو گئے۔ حسن بانو بد نام ہو گئی۔ اس کا رشتہ جہاں سے بھی آتا منسوخ ہو جاتا۔ آخر جبریہ اسکول میں استانی ہو گئی۔ اطاعت لکیر پر چلاتی ہے اپنی راہ خود نہیں بناتی۔ جیلانی آئی۔ اے۔ اس۔ تھے آئی۔ اے۔ اس۔ کی جھولی میں گرے۔ ۔ ۔ ۔ کمشنر رحیم صمدانی نے ’’آمڈاری ہاؤس‘‘ میں اپنی لڑکی کا رشتہ بھیجا۔

ماسٹر خلیل نے اپنے کھپریل مکان کا نام آمڈاری ہاؤس رکھا تھا۔ یہ آبائی مکان تھا۔ کسی طرح دالان پختہ کرا لیا تھا اور اس کی پیشانی پر جلی حرفوں میں کھدوایا۔ ۔ ۔ ۔ ’’آمڈاری ہاؤس‘‘ اس سے مفلسی ظاہر نہیں ہوتی تھی، نہ ہی مکان کی اصلیت کا پتہ چلتا تھا، بلکہ رعب ٹپکتا تھا۔ ۔ ۔

ایسالگتا تھا کوئی انگریز اپنی حویلی چھوڑ کر انگلستان لوٹ گیا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

اصل میں وہ انگریزی کے استاد تھے۔ اردو کے ہوتے تو مکان کا امیر نشاں یا بیت الفردوس قسم کانام رکھ سکتے تھے، لیکن انگریزی کے اسکول ماسٹر کی الگ سائیکی ہوتی ہے۔ وہ اپنا تشخص بورژوا طبقے سے قائم کرنا چاہتا ہے۔ رحیم صمدانی نے جب رشتہ بھیجا تو ماسٹر خلیل آمڈاری ہاوس کے دالان میں بیٹھے چروٹ پی رہے تھے۔

آئی۔ اے۔ اس۔ سمدھی۔ ۔ ۔ ۔ ؟سینہ پھول کر کپّہ ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔

جیلانی جس کمرے میں رہتے تھے وہ کھپر پوش تھا اس میں چوہے دوڑتے تھے۔ شادی کے موقع پر جب مکان کی سفیدی ہونے لگی تو ماسٹر نے کمرے میں کپڑے کی سیلنگ لگوادی۔

دلہن اسی کمرے میں اتاری گئی۔ ۔ ۔ ۔ !

وہی اقلیدیسی شکل۔ ۔ ۔ ۔ اور بیضہ نما ہونٹ۔ ۔ ۔ ۔ !اس کے بال بوائے کٹ تھے۔ وہ سرخ جوڑے میں ملبوس زیور سے لدی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیلانی بغل میں خاموش بیٹھے تھے۔ ان کو محسوس ہو رہا تھا وہ ایسے کمرے میں بند ہیں جہاں دریچوں میں ان گنت سوراخ ہیں۔ باہر برف باری کا سلسلہ ہے اور آتش دان سرد ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟اچانک دلہن نے نتھنے پھلائے اور اس کے ہونٹ دائرہ نما ہو گئے۔

’’اٹ اسمیلس۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

جیلانی نے ادھر اُدھر دیکھا۔ ۔ ۔ کس چیز کی بو۔ ۔ ۔ ۔ ؟

’’اٹ اسمیل لائک رَیٹ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’رَیٹ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’دھبڑ۔ ۔ ۔ ۔ دھبڑ۔ ۔ ۔ ۔ دھبڑ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘ کمبخت چوہوں کو بھی اسی وقت دوڑنا تھا۔

’’مائی گڈ نیس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ دلہن نے چونک کر سیلنگ کی طرف دیکھا۔

’’یہ کمرہ ہے یا تمبو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

جیلانی ضلع مجسٹریٹ ہو گئے۔ دلہن بدا ہوئی تو میڈم جیلانی بن گئی۔ لیکن مہک نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ جیلانی کسی تقریب میں آمڈاری ہاؤس آنا چاہتے تو میڈم نتھنے سکوڑتیں۔

’’ہاری بل۔ ۔ ۔ ۔ ! ویر از اسمیل ان ایوری کارنر آف دی ہاؤس۔ ۔ ۔ !‘‘

اصل میں مسلمانوں کے بعض کھپریل مکانوں میں بکریاں بھی ہوتی ہیں۔ آمڈاری ہاؤس میں بکریاں بھی تھیں اور مرغیاں بھی۔ کہیں بھناڑی۔ ۔ ۔ ۔ کہیں پیشاب۔ ۔ ۔ ۔ کہیں لاہی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ایک بار بکری نے میڈم کی ٹانگوں کے قریب بھناڑی کر دی۔ پائینچوں پر پیشاب کے چھینٹے پڑ گئے۔ ۔ ۔ ۔ میڈم پاؤں پٹختی ہوئی تمبو میں گھسیں تو دوسرے دن باہر نکلیں۔ گھر بھر شرمندہ تھا۔ خاص کر ماسٹر خلیل۔ ۔ ۔ ۔ اس دن بکری کو باندھ کر رکھا گیا، لیکن مرغیوں کو باندھنا مشکل تھا۔ وہ ڈربے سے نکلتیں تو کٹ کٹ کٹاس کرتیں اور لاہی بکھیرتیں۔ میڈم کو حیرت تھی کہ کس قدر کلچرل گیپ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ یہاں فرش پر پونچھا تک نہیں لگاتے۔ ۔ ۔ ۔ ! اور جیلانی حسرت سے سوچتے تھے کہ اگر حسن بانو ہوتی۔ ۔ ۔ ؟حسن بانو تو ہونٹوں کو دائرہ نہیں بنا تی۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسے اپنا گھر سمجھتی۔ لاہی پر راکھ ڈالتی اور بٹور کر صاف کرتی۔ ۔ ۔ ۔ !

کلچرل گیپ کا احساس اس وقت جاتا رہتا جب فضا میں بارود کی مہک ہوتی۔ پناہ تو کھپریل مکانوں میں ہی ملتی تھی ایک بار میڈم کو بھی اپنے رشتے داروں کے ساتھ عا لم گنج شفٹ کرنا پڑا تھا۔ ان دنوں جیلانی ٹریننگ کے لئے بڑودہ گئے ہوئے تھے۔ میڈم اپنے میکے میں تھیں۔ ۔ ۔ شہر میں اڈوانی کا رتھ گھوم رہا تھا اور فضاؤں میں سانپ اڑ رہے تھے۔ مسلم فیملی محفوظ جگہوں پر شفٹ کر رہی تھی۔ رحیم صمدانی تب ریٹائر کر چکے تھے۔ سب کے ساتھ عالم گنج چلے آئے۔

’’کرایہ پانچ ہزار۔ ۔ ۔ !‘‘

’’پانچ ہزار۔ ۔ ۔ ۔ ؟ اس کھپریل کا کرایہ پانچ ہزار۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’حضور یہی تو موقع ہے، جب آپ ہمارے قریب آتے ہیں۔ ‘‘ مالک مکان مسکرایا۔

’’دس از ایکسپلائٹیشن۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

لیکن کیا کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ جان بچانی تھی۔ ۔ ۔ ۔ پندرہ دنوں تک پیشاب سونگھنا پڑا۔ فضا سازگار ہوئی تو کالونی لوٹے۔

جیلانی افسر تھے لیکن میڈم افسری کرتی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ میڈم نے آنکھیں ہی آئی۔ اے۔ اس۔ گھرانے میں کھولی تھیں۔ ان کی نظروں میں جیلانی ہمیشہ اسکول ماسٹر کے بیٹے رہے۔ بات بات پر ان کی ترجنی لہراتی۔ ۔ ۔ ۔ نو۔ ۔ ۔ ۔ !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیور۔ ۔ ۔ ۔ ! دس از ناٹ دی وے۔ ۔ ۔ ۔ !

کبھی کبھی تو انگلی کی نوک جیلانی کی پیشانی پر سیدھی عمود سا بناتی۔ ۔ ۔ ۔ دس از ناٹ فیئر مسٹر جیلانی۔ ۔ ۔ ڈونٹ ڈو لائک دس۔ ۔ ۔ ۔ ! جیلانی کی نگاہوں میں ماسٹر خلیل کا بید لہراتا۔ ان کو محسوس ہوتا جیسے تلفّظ بگڑ رہا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتیں۔ ۔ ۔ ۔ طور طریقہ کہاں سے آئے گا۔ ۔ ۔ ؟ یہ خاندانی ہوتا ہے۔ میڈم کو کوفت اس وقت ہوتی جب محلے سے کوئی ملنے چلا آتا۔ ایک بار حیات کو جیلانی نے بیڈ روم میں بیٹھا دیا۔ میڈم اس وقت تو خاموش رہیں، لیکن حیات کے جانے پر انگلی عمود بن گئی۔

’’آئندہ محلے والوں کو بیڈ روم میں نہیں بٹھائیے گا، طور طریقہ سیکھئے۔ آپ میں او۔ ایل، کیو تو ہے نہیں۔ ‘‘

’’او۔ ایل۔ کیو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ جیلانی کو ماسٹر خلیل یاد آتے۔ وہ کہا کرتے تھے۔ ’’بدر۔ ۔ ۔ او ایل کیو پیدا کرو۔ ۔ ۔ ۔ آفیسر لائک کوالیٹی۔ ۔ ۔ ‘‘

حیات پھر بنگلے پر نہیں آیا۔ وہ ان سے دفتر میں مل کر چلا جاتا۔ ایک بار جیلانی نے اس کو سرکٹ ہاؤس میں ٹھیرا دیا اس کی خبر میڈم کو ہو گئی۔ کمبخت ڈرائیور جاسوس نکلا۔ جیلانی دفتر سے لوٹے تو میڈم نے نشتر لگایا۔

’’آپ آئی۔ اے۔ اس کیا ہوئے کہ گنگوا تیلی کے دن بھی پھر گئے۔ ‘‘

جیلانی خاموش رہے تو میڈم نے کندھے اچکائے۔

’’ربش۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

جیلانی چپ چاپ کمرے میں آ کر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کر لیں۔ ۔ ۔ اگر حسن بانو ہوتی تو۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ان کو ایسے ہی موقع پر حسن بانو یاد آتی تھی اور دل درد کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے لگتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک بات یاد آتی۔ ۔ ۔ ۔ اس کا شرمانا۔ ۔ ۔ ۔ اس کا مسکرانا۔ ۔ ۔ اس کا ہنسنا۔ ۔ ۔ ! جیلانی کبھی بوسہ لینے کی کوشش کرتے تو دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیتی۔ ۔ ۔ ۔ چہرے سے اس کا ہاتھ الگ کرنا چاہتے تو منتیں کرتی۔

’’نہیں۔ ۔ ۔ اللہ قسم نہیں۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’کیوں۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’گناہ ہے۔ ۔ ۔ !‘‘

’’گناہ وناہ کچھ نہیں۔ ‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں ؟‘‘

’’یہ پیار ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’شادی کے بعد۔ ۔ ۔ ‘‘

’’نہیں۔ ۔ ۔ ابھی۔ ۔ ۔ !‘‘

’’پلیز جیلانی۔ ۔ ۔ ۔ پلیز۔ ۔ ۔ !‘‘

جیلانی پگھل جاتے۔ پلیز کا لفظ کانوں میں رس گھولتا۔ ۔ ۔ !

اور الفاظ پگھل کر سیسہ بھی بنتے ہیں۔

’’حرام زادی۔ ۔ ۔ ۔ چھنال۔ ۔ ۔ ! میرے بیٹے کو۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

جیلانی خود کو کوستے تھے۔ ۔ ۔ کیوں آئی۔ اے۔ اس ہوئے۔ ۔ ۔ ؟‘‘ پارچون کی دکان کھولی ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ !

آہستہ آہستہ دوستوں کا آنا کم ہونے لگا تھا۔ جیلانی کا بہت دل چاہتا کہ چھٹیوں میں وطن جائیں اور سب سے ملیں۔ وہاں کی گلیاں اور چوبارے وہ کیسے بھول جاتے جہاں بچپن گذرا تھا۔ ہر وقت نگاہوں میں منظر گھومتا۔ ۔ ۔ وہ میدان میں بیٹھ کر شطرنج کھیلنا۔ ۔ ۔ ۔ الفت میاں کے پکوڑے۔ ۔ ۔ ۔ محرم کا میلہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقیم کی قوالی۔ ۔ ۔ ۔ رومانس کے قصے۔ ۔ ۔ ۔ وکیل صاحب کا اپنی نوکرانی سے عشق اور گلی کے نکڑ پر وہ چائے کی دکان جہاں سے حسن بانو کا گھر نظر آتا تھا۔ جیلانی کہیں نظر نہیں آتے تو چائے کی دکان میں ضرور مل جاتے۔

وہ سب کے پیارے تھے۔ دوستوں نے ان کا نام جینئس رکھا تھا۔

ایک بار شاکر ان کو ڈھونڈتا ہوا آیا۔

’’یار جینیئس! محلے کی عزت کا سوال ہے۔ ‘‘

’’کیا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’سیسلین ڈیفنس کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’ایک طرح کی قلعہ بندی جو شطرنج میں ہوتی ہے۔ ‘‘

’’سالا ہانک رہا ہے۔ ‘‘

’’کون؟‘‘

’’میدان میں شطرنج کھیل رہا ہے۔ اس نے حیات کو مات دے دی۔ ‘‘

’’ہے کون؟‘‘

’’باہر سے آیا ہے یار۔ ۔ ۔ ۔ عباس بھائی کا سسرالی ہے۔ ‘‘

’’چلو دیکھتے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو جینئس ہارے گا نہیں۔ ‘‘

’’کیا فرق پڑتا ہے۔ کھیل میں تو ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں ایک دم نہیں۔ ۔ ۔ ۔ سالے کو ہرانا ضروری ہے۔ ‘‘

’’اچھا تو چلو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہیرو بن رہا ہے۔ بات بات پر انگریزی جھاڑ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا اپنے جیلانی سے کھیل کر دکھاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

وہ واقعی ہیرو لگ رہا تھا۔ سفید سفاری میں ملبوس۔ ۔ ۔ ۔ پاؤں میں چمکتے ہوئے جوتے۔ ۔ ۔ ۔ سیاہ چشمہ اور اور گلے میں گولڈن چین۔ ۔ ۔ وہ روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔ جیلانی نے محسوس کیا کہ اس کی انگریزی سب کو گراں گذر رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ کھیل شروع ہوا تو ہیرو نے سگریٹ سلگائی۔ ۔ ۔ وہ ہر چال پر کش لگاتا، کوئی چال اچھی پڑجاتی تو زور زور سے سر ہلاتا اور مصرع گنگناتا۔ ۔ ۔ ۔ ’’قیامت آئی یوں۔ ۔ ۔ ۔ قیامت آئی یوں۔ ۔ ۔ !‘‘ جیلانی کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ہار گئے تو بے عزتی ہو جائے گی۔ وہ سنبھل سنبھل کر کھیل رہے تھے۔ آخر بھاری پڑا گئے اور مات دے دی۔ دوستوں نے زور دار نعرہ لگایا۔ جینئس زندہ باد۔ ۔ ۔ زندہ باد۔ ۔ ۔ ۔ ! ہیرو جب جانے لگا تو شاکر بولا :’’حضور۔ ۔ ۔ ! پینٹ میں پیچھے سوراخ ہو گیا ہے۔ گھر پہنچ کر رفو کروا لیجئے گا۔

حیات نے مصرع مکمل کیا۔

’’قیامت آئی یوں۔ ۔ ۔ ۔ پینٹ بولا چوں۔ ‘‘

زوردار قہقہہ پڑا۔ جیلانی بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکے۔

جیلانی آئی۔ اے۔ اس۔ ہو گئے، لیکن محلے میں اسی طرح گھومتے۔ ۔ ۔ ۔ میدان میں شطرنج کھیلتے اور نکڑ کی دکان پر چائے پیتے۔ الفت ان سے پیسے نہیں لیتا تھا۔ وہ پیسہ دینا چاہتے تو الفت بڑے فخر سے کہتا :

’’تمہارے لئے چائے فری۔ تم ہماری شان ہو۔ ۔ ۔ محلے کی جان ہو۔ ۔ ۔ !‘‘

محلے کی جان کالونی میں آکر بے جان ہو گئی تھی۔

ماسٹر خلیل بھی شروع شروع میں بیٹے کے یہاں جاتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ ان کا بھی جانا کم ہو گیا۔ اصل میں وہ لنگی پہن کر ڈرائنگ روم بیٹھ جاتے اور چروٹ پیتے۔ لنگی اور چروٹ میں فاصلہ ہے جو ماسٹر خلیل طے نہیں کرسکتے تھے۔ لنگی ان کی اوقات تھی اور چروٹ ان کی وہ پہچان تھی جو وہ نہیں تھے۔ میڈم نے پہلے دبی زبان میں ٹوکا، لیکن ایک دن کھل کر اعتراض کر بیٹھیں۔

’’آپ ڈرائنگ روم میں لنگی پہن کر کیوں چلے آتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘‘ میرے ملاقاتی آخر کیا سوچیں گے۔ ۔ ۔ ؟ میرا ایک اسٹیٹس ہے۔ ‘‘

جیلانی اس وقت موجود تھے۔ انہوں نے ایک لمحے کے لئے والد محترم کی آنکھوں میں جھانکا۔ جیلانی کی آنکھیں صاف کہہ رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ’’بھگتو۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

ماسٹر خلیل اٹھ گئے۔ جیلانی بھی اپنے کمرے میں آکر چپ چاپ لیٹ گئے اور آنکھیں بند کر لیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جیلانی تنہا ہو گئے۔ کالونی میں کہیں آنا جانا کم تھا۔ ایک ہی بیٹا تھا جو امریکہ میں بس گیا تھا۔ میڈم مہیلا آیوگ کی ممبر تھیں۔ ان کی اپنی مصروفیات تھیں۔ ۔ ۔ ۔ جیلانی کے والد فوت کرچکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ آمڈاری ہاؤس پر افتخار کا قبضہ تھا۔

میڈم نے کالونی میں اپنی کوٹھی بنا لی تھی۔ جیلانی کی نظروں میں کوٹھی کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ بیٹا امریکہ سے واپس آنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے بعد آخر رہنے والا کون تھا۔ ۔ ؟

مذہب بڑھاپے کا لباس ہے۔ جیلانی کا زیادہ وقت مذہبیات کے مطالعہ میں گذرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ امام غزالی کے بارے میں پڑھا کہ ان کو موت کی آگاہی ہو گئی تھی۔ امام نے اسی وقت وضو کیا اور انّا للہ پڑھتے ہوئے چادر اوڑھ کر سو گئے۔ جیلانی بہت متاثر ہوئے۔ بے ساختہ دل سے دعا نکلی۔ ۔ ۔ ۔ یا معبود۔ ۔ ۔ ! مجھے بھی ایسی موت دے۔ ۔ ۔ ۔ ! اپنے وطن لے چل۔ ۔ !

اصل میں کالونی میں مرنے کے خیال سے ہی ان کو وحشت ہوتی تھی۔ یہاں مرنے والوں کا حشر انہوں نے دیکھا تھا۔ تجہیز و تکفین کے لئے کرایے کے آدمی آتے تھے۔ لیڈی عاطفہ حسین کو کوئی غسل دینے والا نہیں تھا۔ کسی طرح پیسے دے کر عالم گنج سے عورتیں منگوائی گئی تھیں۔ جسٹس امام کا لڑکا تو گورکن سے الجھ گیا تھا۔ قبر کھودنے کے ہزار روپے مانگتا تھا۔ آخر سودا ساڑھے سات سو پر طؤ ہوا۔ جیلانی کو اس بات سے صدمہ پہنچا کہ کالونی میں آدمی سکون سے دفن بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بات وطن میں نہیں تھی۔ محلے میں کسی کے گھر غمی ہو جاتی تو کرایے کے آدمیوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ سبھی جٹ جاتے۔ کوئی کفن سیتا، کوئی غسل دیتا۔ صرف گورکن دو سو روپے لیتا تھا۔ قبرستان بھی نزدیک تھا۔ جنازہ کندھوں پر جاتا تھا۔ یہاں تو میت ٹرک پر ڈھوئی جاتی تھی۔ قبرستان ایئرپورٹ کے قریب تھا۔ ۔ ۔ وہاں تک کندھا کون دیتا۔ ۔ ۔ ؟ سبھی اپنی اپنی گاڑیوں سے سیدھا قبرستان پہنچ جاتے اور سیاسی گفتگو کرتے۔ جیلانی کو کوفت ہوتی۔ اگر برسات میں موت ہو گئی۔ ۔ ۔ ؟ جیلانی اس خیال سے کانپ اٹھتے تھے۔ برسات میں پورا شہر تالاب بن جاتا۔ جھم جھم بارش میں قبرستان تک پہنچنا دشوار ہوتا۔ گاڑی کہیں نہ کہیں گڈھے میں پھنس جاتی اور ٹرک بھی کون لاتا۔ ۔ ۔ ؟ اور میت کو غسل دینے والے لوگ۔ ۔ ۔ ؟ زیادہ الجھن اس بات کی تھی۔ اگر کوئی نہیں ملا تو غسل کون دے گا۔ ۔ ۔ ؟ کیا پتہ میڈم مول تول کریں اور میّت پڑی رہے۔ ۔ ۔ ۔

 

ایک دن نماز میں دیر تک سجدے میں پڑے رہے۔ گڑ گڑا کر دعا مانگی:

’’یا معبود۔ ۔ ۔ ۔ ! کوئی صورت نکال۔ ۔ ۔ ۔ وطن لے چل۔ ۔ ۔ ۔ یا میرے مولا۔ ۔ ۔ ۔ یا پروردگار۔ ۔ ۔ !‘‘

ایک بار آمڈی ہاؤس جانے کا موقع ملا۔ افتخار کی لڑکی کی شادی تھی۔ وہ خود بلانے آیا تھا۔ میڈم نے گھٹنے میں درد کا بہانہ بنا یا، لیکن جیلانی نے شادی میں شرکت کی۔ محلے میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ میدان میں جہاں شطرنج کھیلتے تھے وہا ں سرکاری پمپ ہاؤس بن گیا تھا۔ کھپریل مکان پختہ عمارتوں میں بدل گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ الفت کی دکان پر اس کا لڑکا بیٹھتا تھا۔ وہاں اب بریانی بھی بنتی تھی۔ افتخار کی دکان بھی اب ترقی کر گئی تھی۔ اس کا لڑکا آمڈاری ہاؤس میں سائبر کیفے چلا رہا تھا۔ حیات کو شکایت تھی کہ محلے میں اب وہ بات نہیں تھی۔ باہر کے لوگ آ کر بس گئے تھے، لیکن حق درزی زندہ تھے اور اسی طرح کفن سیتے تھے اور روتے تھے کہ سب کا کفن سینے کے لئے ایک وہی زندہ ہیں۔ حسن بانو کا مکان جوں کا توں تھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ ابھی تک جبریہ اسکول میں پڑھا رہی تھی۔ حیات نے بتایا کہ فنڈ کی کمی کی وجہ سے سال بھر سے اسے تنخواہ نہیں ملی۔ محلے کے بچوں کو قرآن پڑھا کر گذارا کر رہی تھی۔ جیلانی نے پوچھا تھا کہ گھر میں اس کے ساتھ اور کون ہے؟

’’اس کی بیوہ بھانجی اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ ‘‘ حیات نے کہا تھا۔

اور جیلانی نے حسن بانو کو دیکھا۔ ۔ ۔ وہ حیات کے ساتھ الفت کی دکان سے چائے پی کر نکلے تھے۔ حسن بانو گھر کی دہلیز پر لاٹھی ٹیک کر کھڑی تھی۔ ۔ ۔ ۔ سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ایک پل کے لئے ان کی نگاہیں ملیں۔ ۔ ۔ ۔ جیلانی ٹھٹھک گئے۔ ۔ ۔ حسن بانو بھی چونک گئی۔ ۔ ۔ ۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور چہرے پر حجاب کا نور چھا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! جیلانی کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے حیات کا ہاتھ تھام لیا۔ حسن بانو اندر چلی گئی۔

’’پلیز جیلانی۔ ۔ ۔ ۔ پلیز۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’میں اس کا گناہگار ہوں۔ ‘‘ جیلانی کمزور لہجے میں بولے۔

حیات خاموش رہا۔

’’مجھے اس کی سزا بھی مل گئی۔ میں جلا وطن ہو گیا۔ ‘‘

’’جانتے ہو تمہارا قصور کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘حیات نے پوچھا۔

’’کیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’اطاعت گذاری۔ ۔ ۔ !‘‘

جیلانی دل پر بوجھ لئے اسی دن لوٹ گئے۔

دوسرے دن صبح صبح حیات کا فون آیا۔

’’حسن بانو گذر گئی۔ ۔ ۔ !‘‘

’’گذر گئی۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ جیلانی تقریباً چیخ پڑے۔

’’ایسا کیسے ہوا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’اس دن جب تمہارا دیدار ہوا۔ بستر پر لیٹی۔ ۔ ۔ پھر نہیں اٹھی۔ ‘‘

جیلانی پرسکتہ ساچھا گیا۔

’’وہ جیسے تمہاری ہی راہ تک رہی تھی۔ ‘‘

جیلانی نے فون رکھ دیا۔

’’کس کا فون تھا ؟‘‘میڈم نے پوچھا۔

جیلانی خاموش رہے، آنسوؤں کو ضبط کرنے کی کوشش کی۔

’’مائی فٹ!‘‘ میڈم منھ بچکاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔

جیلانی نے تکیے کو سینے سے دبایا اور آنکھیں بند کر لیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

آنگن کا پیڑ

 

 

گرد سامنے کا دروازہ توڑ کرگھسے تھے اور وہ عقبی دروازے کی طرف بھاگا تھا۔ گھر کا عقبی دروازہ آنگن کے دوسرے چھور پر تھا اور باہر گلی میں کھلتا تھا، لیکن وہاں تک پہنچ نہیں پایا۔ ۔ ۔ ۔ آنگن سے بھاگتے ہوئے اس کا دامن پیڑ کی اس شاخ سے اُلجھ گیا جو ایک دم نیچے تک جھک آئی تھی۔ ۔ ۔ ۔

یہ وہی پیڑ تھا جو اس کے آنگن میں اُگا تھا اور اس نے مدتوں جس کی آبیاری کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بہت پہلے۔ ۔ ۔ ۔

بہت پہلے پیڑ وہا ں نہیں تھا۔ وہ بچپن کے دن تھے اور اس کی ماں آنگن کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھتی تھی اور جنگل جھاڑ اُگنے نہیں دیتی تھی۔ لیکن ایک دن صبح صبح اس نے اچانک ایک پودا اگا ہوا دیکھا۔ پودا رات کی بوندوں سے نم تھا۔ اس کی پتیاں باریک تھیں اور ان کا رنگ ہلکا عنابی تھا۔ اوپر والی پتّی پر اوس کا ایک موٹا سا قطرہ منجمد تھا۔ اس نے بے اختیار چاہا اُس قطرے کو چھو کر دیکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ بڑھایا تو انگلیوں کے لمس سے قطرہ پتّی پر لڑھک گیا۔ ۔ ۔ ۔ اس نے حیرت سے انگلی کی پور کی طرف دیکھا جہانمی لگ گئی تھی۔ پھر بھاگتا ہوا ماں کے پاس پہنچا تھا۔ ماں اس وقت آٹا گوندھ رہی تھی اور اس کے کان کی بالیاں آہستہ آہستہ ہل رہی تھیں۔ اس نے ماں کو بتایا کہ آنگن میں ایک پودا اُگا ہے تو وہ آہستہ سے مسکرائی تھی اور پھر آٹا گوندھنے میں لگ گئی تھی۔

ماں نے پودے کو دیکھا۔ اس کو لگا کوئی پھل دار درخت ہے۔ باپ کو وہ شیشم کا پودا معلوم ہوا اور موروثی مکان کے دروازے پرانے ہو گئے تھے۔ باپ اکثر سوچتا اس میں شیشم کے تختے لگائے گا۔

وہ صبح شام پودے کی آبیاری کرنے لگا۔ اسکول سے واپسی کے بعد تھوڑی دیر پودے کے قریب بیٹھتا، اس کی پتیاں چھوتا اور خوش ہوتا۔

ایک بار پڑوسی کی بکری آنگن کے پچھلے دروازے سے اندر گھس آئی۔ وہ اس وقت اسکول جانے کی تیاری کررہا تھا۔ پہلے تو اس نے توجہ نہیں دی لیکن جب بکری پودے کے قریب پہنچی اور ایک دو پتیاں چر گئی تو بستہ پھینک کر بکری کو مارنے دوڑا۔ بکری ممیاتی ہوئی بھاگی۔ غم و غصے سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے آنگن کا دروازہ بند کیا اور روتا ہوا ماں کے پاس پہنچا۔ ماں نے دلاسہ دیا باپ نے پودے کی چاروں طرف حد بندی کر دی۔

اس دن سے وہ بکری کی تاک میں رہنے لگا کہ پھر گھسے گی تو ٹانگیں توڑ دے گا۔ وہ اکثر گلی میں جھانک کر دیکھتا کہ بکری کہیں ہے کہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟اگر نظر آتی تو چھڑی لے کر دروازے کی اوٹ میں ہو جاتا اور دم سادھے بکری کے گھسنے کا انتظار کرتا رہتا۔ ۔ ۔ ۔

ایک بار باپ نے اس کی اس حرکت پر سختی سے ڈانٹا تھا۔

پیڑ سے اس کا یہ لگاؤ دیکھ کر ماں ہنستی تھی اور کہتی تھی :

’’جیسے جیسے تو بڑھے گا پیڑ بھی بڑھے گا۔ ‘‘

ماں پودے کا خیال رکھنے لگی تھی۔ آنگن کی صفائی کے وقت اکثر پانی ڈال دیتی۔ پودا آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھتے دیکھتے اس کی ٹہنیاں پھوٹ آئیں اور پتّے ہرے ہو گئے، لیکن پھر بھی پہچان نہیں ہوسکی کہ کس چیز کا پیڑ ہے۔ باپ کو شک تھا کہ وہ شیشم ہے۔ ماں اس کو اب پھل دار درخت ماننے کو تیار نہیں تھی، لیکن پودا اپنی جڑیں جما چکا تھا اور ایک ننھے سے پیڑ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اب پتوں پر خوش رنگ تتلیاں بیٹھنے لگی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ انہیں پکڑنے کی کوشش کرتا۔ ایک بار تتلی کے پر ٹوٹ کر اس کی انگلیوں میں رہ گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کو افسوس ہوا۔ اس نے پھر تتلی پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بس تتلی کو دیکھتا رہتا اور جب اڑتی تو اس کے پیچھے بھاگتا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن آنگن میں گرگٹ کا سرسرانا اس کو قطعی پسند نہیں تھا۔ اس کے سر ہلانے کا انداز اس کو مکروہ لگتا۔ ایک بار ایک گرگٹ پیڑ کی پھنگی پر چڑھ گیا اور زور زور سے سر ہلانے لگا۔ اس کو کراہیت محسوس ہوئی۔ اس نے پتھر اُٹھایا۔ ۔ ۔ ۔ پھر سوچا پتّے جھڑ جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ تب اس نے پاؤں کو زمین پر زور سے پٹکا۔ ۔ ۔ ۔

’’دھپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

گرگٹ سرک کر نیچے بھاگا تو اس نے پتھر چلا دیا۔ پتھر زمین پر اچھل کر آنگن میں رکھی کوڑے کی بالٹی سے ٹکرایا اور ڈھن کی آواز ہوئی تو ماں نے کھڑکی سے آنگن میں جھانکا اور اس کو دھوپ میں دیکھ کر ڈانٹنے لگی۔ وہ صبح شام پیڑ کی رکھوالی کر نے لگا۔ وقت کے ساتھ پیڑ بڑا ہو گیا اور اس نے بھی دسویں جماعت پاس کر لی۔

وہ اب عمر کی ان سیڑھیوں پر تھا جہاں چیونٹیاں بے سبب نہیں رینگتیں اور خوشبوئیں نئے نئے بھید کھولتی ہیں۔ پیڑ کے تنے پر چیونٹیوں کی قطار چڑھنے لگی تھی اور اس کی جواں سال شاخوں میں ہوائیں سرسراتیں اور پتّے لہراتے اور وہ اچک کر کسی شاخ پر بیٹھ جاتا اور کوئی گیت گنگنانے لگتا۔

پیڑ کی جس شاخ پر وہ بیٹھتا تھا، وہاں سے پڑوس کا آنگن نظر آتا تھا۔ ایک دن اچانک ایک لڑکی نظر آئی جو تار پر گیلے کپڑے پساررہی تھی۔ لڑکی کو اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اس کے نقوش تیکھے لگے۔ کپڑے پسارتی ہوئی وہ آنگن میں کونے کی طرف بڑھ گئی اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ وہ فوراً اوپر والی شاخ پر چڑھ گیا جہاں سے آنگن کا کونا صاف نظر آتا تھا۔ لڑکی کا دوپٹہ ہوا میں لہرا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ یکایک دوپٹّہ کندھے سے سرک گیا اور اس کی چھا تیاں نمایاں ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناگہاں لڑ کی کی نظر پیڑ کی طرف اٹھ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایک لمحے کے لئے ٹھٹھکی۔ ۔ ۔ ۔ دوپٹّہ سنبھالا اور ستون کی اوٹ میں ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ لڑکی صاف چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اس کا ایک پیر اور سر کا نصف حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ لڑکی نے ایک دو بار پائے کی اوٹ سے جھانک کر اس کی طرف دیکھا تو پیڑ کی جواں سال شاخوں میں ہوا کی سرسراہٹ تیز ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب وہ خواہ مخواہ بھی شاخ پر بیٹھنے لگا تھا اور لڑکی بھی پائے کی اوٹ میں ہوتی تھی۔ کبھی کبھی وہ بیچ آنگن میں کھڑی ہو جاتی اور اس کا دوپٹہ ہوا میں لہرانے لگتا اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور آخر ایک دن اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ لڑکی کو خفیف سا اشارہ کیا۔ ۔ ۔ ۔ لڑکی مسکرائی اور بھاگ کر ستوں کی اوٹ میں ہو گئی۔ وہاں سے لڑکی نے کئی بار مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چیونٹیوں کی ایک قطار پیڑ پر چڑھنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور وہ گرمی سے السائی ہوئی دوپہر تھی جب لڑکی نے ایک دن عقبی دروازے سے آنگن میں جھانکا۔ وہ بکری کے لئے پتّے مانگنے آئی تھی۔ وہ پیڑ کے پاس آئی تو اس نے پہلی بار لڑکی کو قریب سے دیکھا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جمع تھیں۔ ہونٹوں کا بالائی حصہ نم تھا اور آنکھوں میں بسنتی دورے لہرا رہے تھے۔

وہ پتّے توڑنے لگا۔ اس کا ہاتھ بار بار لڑکی کے بدن سے چھو جاتا۔ لڑکی خوش نظر آ رہی تھی۔ وہ بھی خوشی سے سرشار تھا۔ یکایک ہوا کا ایک جھونکا آیا اور لڑکی کا دوپٹّہ۔ ۔ ۔ ۔

لڑکی کی آنکھوں میں بسنتی ڈورے گلابی ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ہونٹوں کے بالائی حصے پر پسینے کی بوندیں دھوپ کی روشنی میں چمکنے لگیں۔ اس کا ہاتھ ایک بار پھر لڑکی کے بدن سے چھو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دوپٹہ ایک بار پھر ہوا میں لہرایا اور کچے انار جیسی چھاتیا ں نمایاں ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ کچھ سمجھ نہیں سکا کہ کب وہ لڑکی کی طرف ایک دم کھِنچ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اپنے ہونٹوں پر اس کے بھیگے ہونٹوں کا لمس محسوس کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے بوسے کا پہلا لمس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر بے خودی طاری ہونے لگی۔

لڑکی اس کے سینے سے لگی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہونٹ پر ہونٹ ثبت تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پیڑ کی جواں سال شاخوں میں ہوا کی سرسراہٹ تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی کے آتشیں لمحوں کا پہلا نشہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ دل کی پہلی دھڑکن تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کے آ جانے کا خوف تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پیڑ پر چڑھتی چیونٹیوں کی قطار تھی۔ ۔ ۔ ۔

لمحہ لمحہ لمس کی لذّت ہوا میں برف کی طرح اس کی روح میں گھل رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور شاخیں ہوا میں جھوم رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے خودی کے ان لمحوں میں پیڑ اس کا ہم راز تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہ شجر ممنوعہ نہیں تھا جو جنت میں اگا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس کے وجود کا پیڑ تھا جو اس کے آنگن میں اگا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اس کا ہم دم۔ ۔ ۔ ۔ اس کا ہم راز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے معصوم گناہوں میں برابر کا شریک۔ ۔ ۔ ۔

اچانک لڑ کی اس سے الگ ہوئی۔ اس کا چہرہ گلنار ہو گیا تھا اور بدن آہستہ آہستہ کانپ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھاگتی ہوئی آنگن سے باہر چلی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے پتّے بھی نہیں لئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دم بہ خود اس کو دیکھتا رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس بار پیڑ پر پہلی بار پھول آئے۔

وقت کے ساتھ پیڑ کچھ اور گھنا ہوا۔ وہ بھی جوان اور تنومند ہو گیا اور باپ کے دھندے میں ہاتھ بٹانے لگا۔ پیڑ کی موٹی موٹی شاخیں نکل آئیں اور پتّے بڑے بڑے ہو گئے، لیکن پیڑ پھل دار نہیں تھا۔ صرف پھول اگتے تھے جن کا رنگ ہلکا عنابی تھا۔ ہوا چلتی تو پھول ٹوٹ کر آنگن میں بکھر جاتے۔ آنگن اور اوسارا زرد پتّوں اور عنابی پھولوں سے بھر جاتا۔ ماں کو صفائی میں اب زیادہ محنت کرنی پڑتی۔ شام کو اس کا باپ پیڑ کے نیچے کھاٹ بچھا کر بیٹھتا تھا۔ وہ ہمیشہ آلتی پالتی مارکر بیٹھتا اور جامے کو گھٹنے کے اوپر چڑھا لیتا اور آہستہ آہستہ بیڑی کے کش لگاتا رہتا۔ اس کی ماں پاس بیٹھ کر سبزی کاٹتی اور گھر کے مسائل پر بات چیت کرتی۔

اور ایک دن ماں نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی۔ باپ نے بیڑی کے دوچار کش لگائے اور ان رشتوں پر غور کیا جو اس کے لئے آنے لگے تھے۔

اور پھر وہ دن آ گیا جب ماں نے آنگن میں مڑوا کھینچا اور محلّے کی عورتیں رات بھر ڈھول بجاتی رہیں اور گیت گاتی رہیں اور گیت کی لَئے میں پتّوں کی سرسراہٹ گھلتی رہی۔ ۔ ۔ ۔ اس سال پیڑ پر بہت پھول آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کی بیوی خوبصورت اور ہنس مکھ تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے گھر کا کام سنبھال لیا تھا، لیکن پیڑ سے اس کی دل چسپی نہیں تھی۔ آنگن کی صفائی پر ناک بھوں چڑھاتی۔ پتّے بھی اب بہت ٹوٹتے تھے۔ اس کی ماں آنگن کے کونے میں پتّوں کے ڈھیر لگاتی اور انہیں آگ دکھاتی رہتی۔

بیوی نے چار بچے جنے۔ بچوں کو بھی پیڑ سے دل چسپی نہیں تھی۔ وہ اس کے سائے میں کھیلتے تک نہیں تھے۔ نہ ہی کوئی اچک کر شاخ پر بیٹھتا تھا۔ بڑا بیٹا تو پیڑ کو کاٹنے کے درپے تھا۔ پیڑ اس کو بھدا اور بدصورت لگتا۔ شاخیں اینٹھ کر اوپر چلی گئی تھیں۔ ایک شاخ اوپر سے بل کھاتی ہوئی نیچے جھک آئی تھی۔ تنے کی چاروں طرف کی زمین عموماً گیلی رہتی۔ بارش ہوتی تو وہاں بہت سا کیچڑ ہو جاتا، جس میں پھول دھنسے ہوتے۔ سوکھے پتّوں کا بھی ڈھیر ہونے لگا تھا۔ اس کی بیوی صفائی سے عاجز تھی۔ پیڑ بڑھ کر چھتنار ہو گیا تھا۔

گھر کی ساری مہ داریاں اس پر آ گئی تھیں۔ باپ بوڑھا اور کمزور ہو چلا تھا اور زیادہ تر گھر پر ہی رہتا تھا، لیکن وہ اب بھی پیڑ کے سائے میں کھاٹ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تھا اور بیڑی پھونکتا رہتا تھا۔ اس کو اب کھانسی رہنے لگی تھی۔ وہ اکثر کھانستے کھانستے بے دم ہو جاتا۔ آنکھیں حلقوں سے باہر اُبلنے لگتیں۔ اور بہت سا بلغم کھاٹ کے نیچے تھوکتا۔ پھر بھی اس کا بیڑی پھونکنا بند نہیں ہوتا۔

آخر ایک دن اس کا باپ چل بسا۔ ماں بین کر کے روئی۔ ۔ ۔ ۔ وہ مغموم اور اداس پیڑ کے نیچے بیٹھا رہا۔ ۔ ۔ ۔ زندگی میں پہلی بار کچھ کھونے کا شدت سے احساس ہوا تھا۔

 

باپ کے مرنے کے بعد ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں۔ وہ اب خود باپ تھا اور بچے بڑے ہو گئے تھے، جو کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ وہ اب نسبتاً خوش حال تھا۔ اس کا دھندہ جم گیا تھا۔ اس نے موروثی مکان کی جہاں تہاں مرمت کروائی تھی اور دروازوں میں شیشم کے تختے لگوائے تھے۔ ایک پختہ دالان بھی بنوالیا تھا۔ اس کی بیوی نئے کمرے میں رہتی تھی جس سے ملحق غسل خانہ بھی تھا، وہ ماں کو بھی نئے کمرے میں رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ راضی نہیں تھی۔ باپ کے گذر جانے کے بعد وہ ٹوٹ گئی تھی اور دن بھر اپنے کمرے میں پڑی کھانستی رہتی تھی۔ دیواروں کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ گیا تھا اور شہتیر کو دیمک چاٹنے لگی تھی۔ وہ اس کی مرمت بھی نہیں چاہتی تھی۔ مرمت میں تھوڑی بہت توڑ پھوڑ ہوتی جو اس کو گوارہ نہیں تھا۔ وہ جب بھی دوسرے کمرے میں رہنے کے لئے زور دیتا تو ماں کہتی تھی کہ اپنی جگہ چھوڑ کر کہاں جائے گی۔ ۔ ۔ ؟ دولی سے اتر کر کمرے میں آئی۔ اب کمرے سے نکل کر ارتھی میں جائے گی۔ ماں کی ان باتوں سے وہ کوفت محسوس کرتا تھا۔

وہ گرچہ خوش حال تھا، لیکن بہت پر سکون نہیں تھا۔ اب آسمان کا رنگ سیاہی مائل تھا اور تتلیاں نہیں اڑتی تھیں۔ اب چیل اور کوّے منڈلاتے تھے اور فضا مسموم تھی۔ پہلے جب اس کا باپ زندہ تھا تو رات دس بجے بھی شہر میں چہل پہل رہتی تھی۔ اب علاقے میں دہشت گرد گھومتے تھے اور سر شام ہی دکانیں بند ہو جاتی تھیں۔ شہر میں آئے دن کرفیو رہتا اور سپاہی بکتر بند گاڑیوں میں گھوما کرتے۔

پیڑ پر اب کوّے بیٹھتے تھے اور دن بھر کاوں کاوں کرتے۔ کوّے کی آواز اس کو منحوس لگتی۔ وہ چاہتا تھا اس کا آنگن چیل اور کوّوں سے پاک رہے لیکن اس کو احساس تھا کہ ان کو اڑانا مشکل ہے۔ وہ آنکھوں میں بے بسی لئے انہیں تکتا رہتا۔

پیڑ کے سائے میں اب بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ پرندے بیٹ کرتے تھے اور آنگن گندہ رہتا تھا۔ ماں میں اب صفائی کرنے کی سکت بھی نہیں تھی اور بیوی کو یہ سب گوارہ نہیں تھا۔ وہ کبھی کبھی مزدور رکھ کر آنگن کی صفائی کرا دیتا۔

آئے دن کے ہنگاموں سے اس کی بیوی خوف زدہ رہنے لگی تھی۔ وہ کسی محفوظ علاقے میں رہنا چاہتی تھی۔ اس کے بچے بھی یہاں سے ہٹنا چاہتے تھے اور وہ دکھ کے ساتھ سوچتا کہ آخر اپنی موروثی جگہ چھوڑ کر کوئی کہاں جائے۔ ۔ ۔ ؟ اور پھر ماں کا کیا ہوتا۔ ۔ ۔ ؟ ماں اپنا کمرہ بدلنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ بھلا زمین جگہ کیسے چھوڑ دیتی۔ ۔ ۔ ؟

لیکن ایک دن وہ اپنا خیال بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ اس دن وہ نشانہ بنتے بنتے بچا تھا۔ بیوی کے ساتھ سودا سلف لینے بازار نکلا تھا کہ دہشت گردوں کی ٹولی آ گئی اور دیکھتے دیکھتے گولیاں چلنے لگیں۔ ہر طرف بھگدڑ مچ گئی۔ ۔ ۔ اس کی بیوی خوف سے بے ہوش ہو گئی اور وہ جیسے سکتے میں آ گیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے کھوپڑیوں میں تڑا تڑ سوراخ ہو رہے تھے۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ پولیس کا حفاظتی دستہ وہاں پہنچتا کئی جانیں تلف ہو گئی تھیں۔ ۔ ۔

دہشت گرد آناً فاناً اڑن چھو ہو گئے۔ ۔ ۔ شہر میں کرفیو نافذ ہو گیا۔

وہ کسی طرح بیوی کو اٹھا کر گھر لایا۔ ہوش آنے کے بعد بھی وہ رہ رہ کر چونک اٹھتی تھی اور اس سے لپٹ جاتی۔ وہ خود بھی اس حادثے سے ڈر گیا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ علاقہ چھوڑ دے گا، لیکن ماں اب بھی گھر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس کو بس ایک بات کی رٹ تھی کہ کوئی موروثی جگہ چھوڑ کر کہاں جائے۔ ۔ ۔ ؟

وہ بھی اپنی وراثت سے محروم ہونا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ کس طرح انسان کی چھاتیوں میں سوراخ ہوتے ہیں اور خون کا فوّارہ چھوٹتا ہے۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ بس شہر میں کرفیو ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اور بکتر بند گاڑیاں ہوتی ہیں۔

اس نے سوچ لیا کہ کہیں دور دراز علاقے میں پھر سے بسے گا۔ ۔ ۔ لیکن ماں۔ ۔ ۔

ماں زار زار روتی تھی اور حسرت سے درو دیوار کو تکتی تھی۔ آخر ایک دن اس کی بیوی ہذیانی انداز میں چیخ چیخ کر کہنے لگی۔

’’بڑھیا سب کو مروا دے گی۔ ۔ ۔ ‘‘

ماں چپ ہو گئی۔ ۔ ۔ پھر نہیں روئی۔ ۔ ۔ اور کمرے سے باہر نہیں نکلی۔ ۔ ۔ کھانا بھی نہیں کھایا۔ ۔ ۔

وہ اداس اور مغموم پیڑ کے پاس بیٹھ گیا۔ پیڑ جیسے دم سادھے کھڑا تھا۔ پتّوں میں جنبش تک نہیں تھی۔ شاخوں پر بیٹھے ہوئے چیل اور کوّے بھی خاموش تھے۔ صرف ماں کے کھانسنے کی آواز سنائی سے رہی تھی۔ کبھی کبھی کسی بکتر بند گاڑی کی گھوں گھوں سنائی دیتی اور پھر سنّاٹا چھا جاتا۔ ایک گدھ پیڑ سے اڑا اور چھت کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ ایک لمحہ کے لئے اس کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ فضا میں ابھری اور ڈوب گئی۔ ۔ ۔ اور اس نے جھر جھری سی محسوس کی۔ ۔ ۔ جیسے گھات میں بیٹھا ہوا دشمن اچانک سامنے آ گیا ہو۔ ۔ ۔ اس کو لگا گدھ، بکتر بند گاڑی اور بیمار ماں ایک نظام ہے جس میں ہر اس آدمی کا چہرہ زرد ہے جو اپنی وراثت بچانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔

ماں اچانک زور زور سے کھانسنے لگی۔ وہ جلدی سے کمرے میں آیا۔ ماں سینے پر ہاتھ رکھے مسلسل کھانس رہی تھی۔ وہ سرہانے بیٹھ گیا اور ماں کو سہارا دینا چاہا تو اس کی کہنی دیوار سے لگ گئی، جس سے پلستر بھربھرا کر نیچے گر گیا اور وہاں پر اینٹ کی دراریں نمایاں ہو گئیں۔ دیوار پر چپکی ہوئی ایک چھپکلی شہتیر کے پیچھے رینگ گئی۔

وہ ماں کی پیٹھ سہلانے لگا۔ کھانسی کسی طرح رکی تو گھڑونچی سے پانی ڈھال کر پلایا اور سہارا دے کر لٹا دیا۔ ۔ ۔ ماں نے ایک بار دعا گو نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔

وہ کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا۔ پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا۔ بیوی چادر اوڑھ کر پڑی تھی۔ اس کے قدموں کی آہٹ پر چادر سے سر نکال کر تیکھے لہجے میں بولی:

’’تم کو ماں کے ساتھ مرنا ہے تو مرو۔ ۔ ۔ میں ایک پل یہاں نہیں رہوں گی۔ ‘‘

وہ خاموش رہا۔ بیوی پھر چادر سے منھ ڈھک کر سو گئی۔

وہ رات بھر بستر پر کروٹ بدلتا رہا اور کچھ وقفے پر ماں کے کھانسنے کی آواز سنتا رہا۔ ۔ ۔ آدھی رات کے بعد آواز بند ہو گئی۔ ۔ ۔ سنّاٹا اور گہرا ہو گیا۔ ۔ ۔

اچانک صبح صبح ماں کے کمرے سے بیوی کے رونے پیٹنے کی آواز آئی۔ وہ دوڑ کر کمرے میں گیا۔ ماں گٹھری بنی پڑی تھی۔ اس کا بے جان جسم برف کی طرح سرد تھا۔ ۔ ۔ وہ سکتے میں آ گیا۔ ۔ ۔ بیوی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ۔ ۔

ماں کے مرنے کے بعد اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا۔ کچھ دنوں کے لئے اس نے بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا اور نئے شہر میں بسنے کے منصوبے بنانے لگا۔

وہ اداس آنگن میں بیٹھا تھا۔ آنگن میں خشک پتّوں کا ڈھیر تھا۔ ہر طرف گہرا سنّاٹا تھا۔ ہوا ساکت تھی۔ پتّوں میں کھڑ کھڑاہٹ تک نہیں تھی۔ یکایک گلی میں کسی کتّے کے رونے کی آواز گونجی۔ سنّاٹا اور بھیانک ہو گیا۔ اس کا دل دہل گیا۔ اس نے کانپتی نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔ پیڑ اسی طرح گم صم کھڑا تھا۔ ۔ ۔ چیل اور کوّے بھی چپ تھے۔ ۔ ۔ اور دفعتاً اس کو محسوس ہوا کہ یہ خاموشی ایک سازش ہے جو چیل کوّوں نے رچی ہے اور پیڑ اس سازش میں برابر کا شریک ہے۔ ۔ ۔ تب شام کے بڑھتے ہوئے سایے میں اس نے ایک بار غور سے پیڑ کو دیکھا۔ ۔ ۔ پیڑ اس کو بھدا لگا۔ ۔ ۔ ’’وہ اس کو کٹوا دے گا۔ ۔ ۔ ‘‘ اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا۔ ۔ ۔ تب ہی پتّوں میں ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی اور ایک کوّے نے اس کے سر پر بیٹ کر دیا۔ اس نے غصّے سے اوپر کی طرف دیکھا۔ کچھ گدھ پیڑسے اڑ کر چھت پر منڈلانے لگے اور اچانک دروازے پر دہشت گردوں کا شور بلند ہوا اور گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ۔ ۔

وہ اچھل کر آنگن کے عقبی دروازے کی طرف بھاگا۔ ۔ ۔ لیکن اچانک کسی نے جیسے کَس کر پکڑ لیا۔ ۔ ۔ اس کو ایک اور جھٹکا لگا اور اس کا دامن پیڑ کی اس شاخ سے الجھ گیا جو ایک دم نیچے تک جھک آئی تھی۔ ۔ ۔ اس نے اسی پل دامن چھڑانا چاہا لیکن شاخ کی ٹہنی دامن میں سوراخ کرتی ہوئی نکل گئی تھی جس کو فوراً چھڑا لینا دشوار تھا۔ ۔ ۔

دہشت گرد دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ دامن چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔ ۔ اس پر کپکپی طاری تھی۔ ۔ ۔ حلق خشک ہو رہا تھا۔ ۔ ۔ اور دل کنپٹیوں میں دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

اور پیڑ جو اس کا ہم دم تھا۔ ۔ ۔ اس کا ہم راز کسی جلّاد کی طرح شکنجے میں لئے کھڑا تھا۔ ۔ ۔ ایک دم ساکت۔ ۔ ۔ اس کے پتّوں میں جنبش تک نہیں تھی۔ ۔ ۔ اور پھر دروازہ ٹوٹا اور دہشت گرد دھڑ دھڑاتے ہوئے اندر گھس آئے۔ ۔ ۔ کوّے کاوں کاوں کرتے ہوئے اڑے اور آنگن میں روئے زمین کا سب سے کریہہ منظر چھا گیا۔ ۔ ۔

کاوں۔ ۔ ۔ کاوں۔ ۔ ۔ کرتے کوّے۔ ۔ ۔ منڈلاتے گدھ۔ ۔ ۔ اور آدمی کا پھنسا ہوا دامن۔ ۔ ۔

اس نے بے بسی سے عقبی دروازے کی طرف دیکھا، جہاں تک پہنچنے کی کوشش کررہا تھا۔ ۔ ۔ اور پھر حسرت سے یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا تھا کہ اگر وہ آنگن کے کنارے سے بھاگتا تو شاید۔ ۔ ۔ تب تک دہشت گرد اس کو دبوچ چکے تھے۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

مر گھٹ

 

 

اٹھا لی گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اونٹ کے گھٹنے کی شکل کا وہ آدمی اب بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں اور گال قبر کی طرح اندر دھنسے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کسی نے چہرے کی جگہ ہڈیاں رکھ کر چمڑی لپیٹ دی ہو۔ آنکھیں حلقوں میں دھنسی ہوئی تھیں اور کنپٹیوں کے قریب آنکھ کے گوشے کی طرف کوّوں کے پنجوں جیسا نشان بنا ہوا تھا۔ وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ایک ٹک خلا میں کہیں گھور رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے گھر چلنے کی بات کی تو اس نے مری ہوئی آنکھوں سے ایک بار میری طرف دیکھا اور ایک لمبی سی سانس لی جیسے تازہ ہواؤں کو پھیپھڑوں میں بھرنا چاہتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بارود کی بو اس کے نتھنوں میں سرائت کر گئی اور بارود کے ذرّات جیسے حلق میں پھنس سے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کھانسنے لگا اور مسلسل کھانسنے لگا، یہاں تک کہ گلے کی رگیں پھول گئیں۔ آنکھیں حلقوں سے باہر ابلنے لگیں۔ چہرہ کانوں تک سرخ ہو گیا۔ میں جلدی جلدی اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔ مسلسل کھانسنے سے اس کے منھ میں بلغم بھر آیا تھا۔ کسی طرح کھانسی رُکی تو آستین سے منھ پونچھتے ہوئے اس نے کہا:

’’اب تو سانس لینا بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

تب میں نے پوچھا کہ مرنے والا اس کا رشتہ دار تو نہیں تھا۔ میری اس بات پر اس کی مُردہ آنکھوں میں ایک لمحہ کے لئے چنگاری سی سلگی تو مجھے لگا میرا یہ سوال یقیناً بے تکا تھا۔ جہاں روز کا یہ معمول ہو وہاں یہ بات واقعی کیا معنی رکھتی تھی کہ کون کس کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دراصل اس علاقہ میں ایک مدت سے آسمان کا رنگ گہرا سرخ ہے۔ ہر طرف آگ برستی ہے۔ ہواؤں میں سانپ اڑتے ہیں۔ ان کا سر کچلنے کے لئے راجہ کے سنتری بکتر بند گاڑیوں میں گھومتے رہتے ہیں، لیکن زمین سخت اور آسمان دور ہے اور کب کون کس موڑ پر زد میں آ جائے کہنا مشکل ہے۔

ابھی ابھی ایک آدمی زد میں آ گیا تھا۔ اورسب کچھ حسب معمول چشم زدن میں ہوا تھا۔ کچھ دیر پہلے وہ ایک دکان سے سبزیاں خرید رہا تھا کہ ایک گاڑی رکی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو سوار اترے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دھماکہ ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور سبزیاں خریدنے والا اسی پل۔ ۔ ۔ ۔

دونوں سوار دیکھتے دیکھتے نگاہوں سے کہیں اوجھل ہو گئے تھے۔ تب گشت لگاتے ہوئے راجہ کے سنتری بکتربند گاڑیوں میں آئے تھے اور لاش اٹھا لی گئی تھی۔ وہاں پر گرا ہوا خون دھوپ کی پیلی روشنی میں اب بھی کہیں کہیں جم کر تازہ کلیجی کی مانند چمک رہا تھا۔

اور بھیڑ چھٹنے لگی تھی، دکانوں کے شٹر گرنے لگے تھے اور دیکھتے دیکھتے سنّاٹا چھا گیا تھا۔

ہم خاموشی سے سر جھکائے ایک طرف چلنے لگے۔ سڑک دور تک سنسان تھی۔ دونوں طرف وحشت زدہ عمارتیں گم سم سی خاموش کھڑی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ یکایک دور کہیں کسی کتے کی رونے کی آواز ایک لمحہ کے لئے فضا میں چیخ بن کر ابھری اور ڈوب گئی۔ اس نے وحشت زدہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔

پھر اس نے آہستہ سے کہا تھا:

’’یہ مرگھٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم مرگھٹ کے لوگ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مرگھٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سب اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے بھی جواب میں ٹھنڈی سانس لی۔

ایک بکتر بند گاڑی زنّاٹے بھرتی ہوئی قریب سے گذر گئی۔

’’بچارے راجہ کے سنتری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ ہنسنے لگا۔

’’راجہ کیا کرے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’وہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’راجہ خود جانتا ہے وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اس طرح جینے کا کیا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ اور اس طرح مرنے کا بھی کیا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

ہم نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا اور پھر خاموشی چھا گئی۔

سامنے الکٹرک پول کے قریب ایک خارش زدہ کتا پیٹ میں منھ چھپائے سورہا تھا۔ ناگہاں کسی مکان میں زندگی کے آثار نظر آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک کھڑکی کھلی۔ کسی نے باہر تھوکا اور کھڑکی بند ہو گئی۔ کتّے نے ایک بار سر اٹھا کر آواز کی سمت دیکھا اور پھر سوگیا۔

سنّاٹا یکایک پُرہول ہو گیا تھا، ہوائیں سہمی سہمی سی گذر رہی تھیں۔ درختوں کے پتّے کسی مریض کی طرح کروٹ بدل رہے تھے۔ سنتری کی گشت لگاتی ہوئی گاڑیاں کبھی پاس معلوم ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی دور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مستقل گھوں گھوں کی ان کی آواز سنّاٹے کا حصہ سی بن گئی تھی۔

یکایک وہ چلتے چلتے رک گیا اور خوف زدہ نگاہوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ پھر اس نے اپنی مُردہ نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں اور اپنی کانپتی ہوئی سرد انگلیوں سے مجھے چھوا تو میں سہم گیا۔ مجھے ایک جھرجھری سی محسوس ہوئی۔

’’کتنا کریہہ اور بھدّا ہے یہ منظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوف سے کانپتے ہوئے ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کیا ہم موت سے لڑ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہم ہر لمحہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر پل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دونوں میں فرق ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

پھر اس نے اپنی سرد انگلیوں کی گرفت میرے بازوؤں پر سخت کرتے ہوئے کہا:

’’جانتے ہو کیا ہوتا ہے جب موت منھ پر تھوک کر زندگی بخش دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

میں خوف اور حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا۔

لمحہ بھر توقف کے بعد دور جیسے خلا میں گھورتے ہوئے کہنے لگا۔

’’میرے ساتھ یہی ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔

’’ کیا۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

’’۔ اُس بس میں میں بھی سوار تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔

وہ خاموش ہو گیا اور تھکی تھکی سی سانسیں لینے لگا۔ ۔ ۔ ۔ جیسے دور سے چل کر آ رہا ہو۔ ۔ اس نے اپنی بے جان نگاہوں سے ایک بار پھر مجھے گھور کر دیکھا۔ ۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ کچھ کہتے ہوئے وہ بے حد اذیت سے گذر رہا ہے۔ آواز اس کے گلے میں پھنس رہی ہے۔

کچھ دیر مجھے اسی طرح گھورتا رہا پھر پھنسی پھنسی سی آواز میں گو یا ہوا۔

’’۔ سب کچھ اچانک ہوا تھا۔ ایک موڑ پر بس رکی تھی اور انھوں نے بندوقیں تان لی تھیں۔ میں اپنی سیٹ میں دبک گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تڑاتڑ کھوپڑیوں میں سوراخ کر رہے تھے۔ موت بالکل میرے سامنے کھڑی تھی اور میں کونے میں دبکا ہوا موت سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ اور تم بچ گئے۔ ۔ ۔ ! ‘‘

۔ ’’۔ اور میں بچ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت میرے منھ پر تھوک کر چلی گئی۔ اس کی نظر مجھ پر نہیں پڑ سکی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہم کیوں نہیں یہ علاقہ چھوڑ دیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے خوف سے کانپتے ہوئے کہا۔

’’اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

اس نے ایک لمحہ کے لئے میری آنکھوں میں جھانکا۔

’’کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ ابھی ابھی اس موڑ پر جو آدمی مرا ہے وہ کوئی اور نہیں خود تم ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

میں خاموش رہا۔

’’تم نہیں سمجھوگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے کہ تم ان لوگوں میں ہو جو علاقہ چھوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

تب میں نے ایک تلخ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’اور مارنے والا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا مارنے والا دوسرا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’آہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘ وہ تڑپ کر خاموش ہو گیا۔

’’یہی بنیادی فرق ہے میرے دوست۔ ۔ ۔ ۔

’’ ہاں یہی بنیادی فرق ہے۔ ۔ ۔ ہم یہی نہیں سمجھتے۔ ‘‘

’’ مرنے والے بھی ہم ہیں اور مارنے والے بھی ہم ہیں۔ ‘‘

’’پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’پھر کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہم کیا کریں۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’اور راجہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’راجہ بھی کیا کرسکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں راجہ بھی کیا کرسکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔

’’شاید ہماری طرف آسمان کا رنگ اسی طرح سرخ رہے گا۔ ‘‘

’’اور ہواؤں میں سانپ ا ڑتے رہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اور فضا میں بارود کی بو رچی رہے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اور راجہ کے سنتری بکتر بند گاڑیوں میں گھوما کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہم روئے زمین کے انتہائی کریہہ اور بھدّے لوگ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’خوف سے کانپتے ہوئے لوگ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہر لمحہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر پل زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہماری باری کب آئے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہماری باری۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اس نے چونک کر میری طرف دیکھا اور اس کے چہرے پر زہریلی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’کبھی بھی آسکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی اس وقت بھی۔ ۔ ۔ ۔ یہ مرگھٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سب اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

یکایک سامنے سے ایک گاڑی آتی دکھائی دی۔ دو سوار تھے۔ گاڑی قریب رکی تو میں سکتے میں آ گیا۔ یہ وہی لوگ تھے، ان کے کندھے سے بندوقیں لٹک رہی تھیں۔ مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ مجھے لگا اب یہ بندوق تان لیں گے۔ ۔ ۔ ۔ میں خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ خون کی گردش تیز ہو گئی دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ حلق خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ ۔ ۔ ۔

یکایک ایک دھماکہ ہوا اور ایک گولی سنسناتی ہوئی میرے کان کے قریب سے گذر گئی۔ میں اچھل کر دور ہٹ گیا۔ موت میرے منھ پر تھوک کر چلی گئی تھی۔ خوف سے کانپتے ہوئے ان لمحوں میں میں نے محسوس کیا کہ میری ہیئت تیزی سے بدل رہی ہے اور خود میں بھی جیسے اونٹ کے گھٹنے میں۔ ۔ ۔ ۔

پھر دوسرا دھماکہ ہوا اور اور اونٹ کے گھٹنے کی شکل کا وہ آدمی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لاش اٹھا لی گئی تھی وہاں پر گرا ہوا خون دھوپ کی مری ہوئی روشنی میں کہیں کہیں جم کر تازہ کلیجی کی مانند چمک رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔

بھیڑ چھٹنے لگی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دکانوں کے شٹر گرنے لگے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تب کسی نے آہستہ سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے گھر چلنے کی بات کی تھی اور پوچھا تھا کہ مرنے والا میرا رشتہ دار تو نہیں تھا۔ ؟

٭٭٭

 

 

 

 

جھاگ

 

وہ اچانک راہ چلتے مل گئی تھی۔

اور جس طرح گڈھے کا پانی پاؤں رکھتے ہی میلا ہو جاتا ہے اسی طرح…

.اُسی طرح اس کے چہرے کا رنگ بھی ایک لمحے کے لئے بدلا تھا۔ مجھے اچانک سامنے دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی تھی اور میں بھی حیرت میں پڑ گیا تھا ….. اور تب ہمارے منہ سے ….ارے تم…..! کے تقریباً ایک جیسے الفاظ ادا ہوئے تھے۔ پھر اس نے آنچل کو گردن کے قریب برابر کیا تو میں نے اس پر سرسری سی نگاہ ڈالی تھی۔ وہ یقیناً عمر کے اس حصّے میں تھی، جہاں عورت پہلے گردن پر پڑتی جھریاں چھپانا چاہتی ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ کمہلایا ہوا لگا اور اس کے لباس سے میں نے فوراً تاڑ لیا کہ بہت خوش حال نہیں ہے۔ اس کی چپل بھی پرانی معلوم ہوئی جو اس کی ساری سے بالکل میچ نہیں کر رہی تھی۔ چپل کا رنگ انگوٹھے کے قریب کثرت استعمال سے اڑ گیا تھا۔ دفعتاً مجھے اس وقت اپنے خوش لباس ہونے کا گمان ہوا اور ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ اس کی زبوں حالی پر میں ایک طرح سے خوش ہو رہا ہوں۔ اس کی خستہ حالی پر میرا اس طرح خوش ہونا یقیناً ایک غیر مناسب فعل تھا۔ لیکن میں یہ محسوس کئے بنا نہیں رہ سکا کہ جو رشتہ میرے اور اس کے درمیان استوار نہیں ہوسکا تھا، اس کی یہ نادیدہ سی خلش تھی جو احساس محرومی کی صورت میرے دل کے نہاں خانوں میں گذشتہ بیس سالوں سے پل رہی تھی۔

مجھے لگا وہ میری نظروں کو بھانپ رہی ہے۔ تب اس نے ایک بار پھر گردن کے قریب آنچل کو برابر کیا اور آہستہ سے مسکرائی تو یہ مسکراہٹ مجھے خشک پتّے کی طرح بے کیف لگی ….اس نے پوچھا تھا کہ کیا میں ان دنوں اسی شہر میں رہ رہا ہوں۔ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے میں نے بھی اس سے تقریباً یہی سوال کیا تھا جس کا جواب اس نے بھی میری طرح اثبات میں دیا تھا۔ لیکن……ہاں….. کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کسی غیر مانوس کرب کی ہلکی سی جھلک بہت نمایاں تھی۔ شاید وہ تذبذب میں تھی کہ اس طرح اچانک ملاقات کی اس کو توقع نہیں ہو گی یا یہ بات اس کو مناسب نہیں معلوم ہوئی ہو کہ میں اس کے بارے میں جان لوں کہ وہ بھی اسی شہر میں رہ رہی ہے۔ لیکن خود مجھے یہ سب غیر متوقع معلوم ہوا تھا۔ میں اعتراف کروں گا کہ مدتوں اس کی ٹوہ میں رہا ہوں کہ کہاں ہے….؟ اور کیسی ہے….؟ اور یہ کہ اس کی ازدواجی زندگی….؟

شاید رشتے مر جھا جاتے ہیں …مرتے نہیں ہیں ….!!

وہ خاموشی سے آنچل کا پلّو مروڑ رہی تھی اور میں بھی چپ تھا۔ مجھے اپنی اس خاموشی پر حیرت ہوئی۔ کم سے کم ہم رسمی گفتگو تو کر ہی سکتے تھے …..مثلاً گھر اور بچوں سے متعلق….لیکن میرے لب سلے تھے اور وہ بھی خاموش تھی …. دفعتاً میرے جی میں آیا کسی ریستوراں میں چائے کی دعوت دوں لیکن سوچا شاید وہ پسند نہیں کرے گی۔

دراصل ریستوراں میری کمزوری رہی ہے۔ راہ چلتے کسی دوست سے ملاقات ہو جائے تو میں ایسی پیش کش ضرور کرتا ہوں۔ کسی خوبصورت ریستوراں کے نیم تاریک گوشے میں مشروبات کی ہلکی ہلکی چسکیوں کے ساتھ گفتگو کالطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے درمیان خاموشی اسی طرح بنی رہی اور تب سڑکوں پر یونہی بے مقصد کھڑے رہنا مجھے ایک پل کے لئے عجیب لگا تھا …..شاید میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس طرح بے مقصد کھڑے رہنا ایک خوشگوار احساس کو جنم دے رہا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود وہ کسی بیزاری کے احساس سے گذر رہی ہو، لیکن ایک دو بار اس نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا تو مجھے لگا میرے ساتھ کچھ وقت گذارنے کی وہ بھی خواہش مند ہے ۔ تب میں نے ریستوراں کی بات کہہ ڈالی تھی۔ اس نے فوراً ہاں نہیں کہا۔ پہلے ادھر ادھر دیکھا تھا، آہستہ سے مسکرائی تھی اور پوچھنے لگی تھی کہ کہاں چلنا ہو گا تو میں نے ایک دم پاس والے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا تھا۔

ہم ریستوراں میں آئے۔ کونے والی میز خالی تھی۔ وہاں بیٹھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر گرچہ بیزاری کے آثار نہیں ہیں، لیکن ایک قسم کی جھجھک ضرور نمایاں تھی۔ اس درمیان اس کا پاؤں میرے پاؤں سے چھو گیا….میری یہ حرکت دانستہ نہیں تھی…..لیکن مجھے یاد ہے ایک بار بہت پہلے …..

تب وہ شروع شروع کے دن تھے جب کلیاں چٹکتی تھیں اور خوشبوؤں میں اسرار تھا اور ندی کی کَل کَل سمندر کے ہونے کا پتہ دیتی تھی ….مجھے یاد ہے ان دنوں ریستوراں میں ایک بار اس کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر میز کے نیچے اپنا پاؤں بڑھایا تھا اور اس کے پاؤں کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی……وہ یکایک سکڑ گئی تھی اور آنکھوں میں دھنک کا رنگ گہرا گیا تھا پھر زیر لب مسکرائی تھی اور میری طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا تھا ….لیکن اب ….

اب ہم بیس سال کی لمبی خلیج سے گذرے تھے اور زندگی کے اس موڑ پر تھے جہاں میز کے نیچے پاؤں کا چھو جانا دانستہ حرکت نہیں ہوتی محض اتفاق ہوتا ہے اور یہ محض اتّفاق تھا اور میری یہ نیّت قطعی نہیں تھی کہ اس کے بدن کے لمس کو محسوس کروں….. بس انجانے میں میرا پاؤں اس کے پاؤں سے چھو گیا تھا اور کسی احساس سے گذرے بغیر ہم محض ایک بیکار سے لمس کو ایک دم غیر ارادی طور سے محسوس کر رہے تھے۔ اس نے اپنا پاؤں ہٹایا نہیں تھا اور میں بھی اسی پوزیشن میں بیٹھا رہ گیا تھا۔ اور نہ کلیاں ہی چٹکی تھیں نہ چیونٹیاں ہی سرسرائی تھیں نہ اس کی دزدیدہ نگاہوں نے کوئی فسوں بکھیرا تھا۔ ہم بیس سال کی لمبی خلیج سے گذر کر جس موڑ پر پہنچے تھے وہاں قدموں کے نیچے سوکھے پتّوں کی چرمراہٹ تک باقی نہیں تھی۔

بیرا آیا تو میں نے پوچھا۔ وہ چائے لینا پسند کرے گی یا کافی …..جواب میں اس نے میری پسند کے اسنیکس کے نام لئے تھے اور مجھے حیرت ہوئی تھی کہ اس کو یاد تھا کہ میں….

کافی آئی تو ہم ہلکی ہلکی چسکیاں لینے لگے ….. وہ نظریں نیچی کئے میز کو تک رہی تھی اور میں یونہی سامنے خلا میں گھور رہا تھا۔ اس درمیان میں نے اس کو غور سے دیکھا۔ اس نے کنگھی اس طرح کی تھی کہ کہیں کہیں چاندی کے اکا دکا تار بالوں میں چھپ گئے تھے۔ آنکھیں حلقوں میں دھنسی ہوئی تھیں اور گوشے کی طرف کنپٹیوں کے قریب چڑیوں کے پنجوں جیسا نشان بننے لگا تھا۔ وہ مجھے گھورتا دیکھ کر تھوڑی سمٹی پھر اس کے ہونٹو ں کے گوشوں میں ایک خفیف سی مسکراہٹ پانی میں لکیر کی طرح ابھری اور ڈوب گئی۔

مجھے یہ سب اچھا لگا ….پاس پاس بیٹھ کر خاموشی سے کافی کی چسکیاں لینا ….ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھنے کی کوشش…. اور چہرے پر ابھرتی ڈوبتی مسکراہٹ کی دھندلی سی تحریر….

ہمارے پاؤں اب بھی آپس میں مَس تھے۔ کسی نے سنبھل کر بیٹھنے کی شعوری کوشش نہیں کی تھی۔ مجھے لگا ہمارا ماضی پاؤں کے درمیان مردہ لمس کی صورت پھنسا ہوا ہے …..اور چاہ کر بھی ہم اپنا پاؤں ہٹا نہیں پا رہے ہیں …..جیسے ہمیں ضرورت تھی اس لمس کی ….اس مردہ بے جان لمس کی جو ہمارا ماضی تھا …..اس میں لذّت نہیں تھی اسرار نہیں تھا …..ایک بھرم تھا …..ماضی میں ہونے کا بھرم …..ان لمحوں کو پھر سے جینے کا بھرم …..اس رشتے کا بھرم جو میرے اور اس کے درمیان کبھی استوار نہیں ہوا تھا۔ میری نظر کافی کی پیالی پر پڑی۔ تھوڑی سی کافی بچی ہو ئی تھی …..دوچار گھونٹ پھر قصہ ختم ….ہوٹل کا بل ادا کر کے ہم اٹھ جائیں گے اور میز کے نیچے ہمارا ماضی مردہ پرندے کی صورت گرے گا اور دفن ہو جائے گا ….بس دوچار گھونٹ……

ان لمحوں کو پھر سے جینے کا بھرم بس اتنی ہی دیر قائم تھا…..

کافی کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے اس نے پوچھا کہ اس ہوٹل میں کمرے بھی تو ملتے ہوں گے ….؟ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہو کہا کہ یہ صرف ریستوراں ہے ….اور میرا فلیٹ یہاں سے نزدیک ہے ….!

اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں نے بے تکا سا جواب دیا ہے۔ وہ پوچھ بھی نہیں رہی تھی کہ میں کہاں رہتاہوں ….؟ اس نے بس یہ جاننا چاہا تھا کہ کہ یہاں کمرے ملتے ہیں یا نہیں اور میں فلیٹ کا ذکر کر بیٹھا تھا۔ ان دنوں میں اپنے فلیٹ میں تنہا تھا۔ بیوی میکے گئی ہوئی تھی اور تینوں لڑکے ہاسٹل میں رہتے تھے۔

مجھے یاد آیا شروع شروع کی ملاقاتوں میں ایک دن ریستوراں میں کافی پیتے ہوئے جب میں نے پاؤں بڑھا کر اس کے بدن کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی تو میں نے بیرے کو بلاکر پوچھا تھا کہ یہاں کمرے ملتے ہیں یا نہیں ….؟ لیکن یہ بات میں نے یوں ہی پوچھ لی تھی اور اس کے پیچھے میرا کوئی مقصد نہیں تھا اور آج اس نے یہ بات دہرائی تھی اور میں نے برجستہ اپنی فلیٹ کی بابت بتایا تھا …..شاید اس کا تعلق کچھ نہ کچھ ماضی سے تھا اور ہمارے لاشعور کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں ایک نادیدہ سی خلش پل رہی تھی …. مجھے لگا ہوٹل کا کمرہ اور تنہا فلیٹ ایک ڈور کے دو سرے ہیں اور اس سے قریب تر ہونے کی میری فرسودہ سی خواہش اس ڈور پر اب بھی کسی میلے کپڑے کی طرح ٹنگی ہوئی ہے ….

مجھے حیرت ہوئی کہ ماضی کی ایک ایک بات اس کے دل پر نقش ہے۔ بیس سال کے طویل عرصے میں وہ کچھ بھی نہیں بھولی تھی۔ بلکہ ہم دونوں ہی نہیں بھول پائے تھے۔ ہوٹل کا بل ادا کر کے ہم باہر آئے تو اس نے پوچھا گھر میں کون کون رہتا ہے …؟ میں نے بتایا ان دنوں تنہا رہتا ہوں ….میرا فلیٹ دور نہیں ہے …اگر وہ دیکھنا چاہے تو…

وہ راضی ہو گئی…

ہم اوٹو پر بیٹھے۔ وہ ایک طرف کھسک کر بیٹھی تھی اور میں نے بھی فاصلے کا خیال رکھا تھا۔ تب یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ ہوٹل کے صوفے پر ہم کتنے سہج تھے اور اب دوری بنائے رکھنے کی ایک شعوری کوشش سے گذر رہے تھے۔ اگلے چوک پر ایک اور آدمی اوٹو میں آ گیا تو مجھے اپنی جگہ سے تھوڑا سرک کر بیٹھنا پڑا اور اب پھر میرا بدن اس کے بدن کو چھونے لگا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ لمس بے معنی نہیں ہے بلکہ تیسرے کی موجودگی ہم دونوں کے لئے ہی نیک فال ثابت ہوئی تھی۔

اوٹو آگے رکا تو میں نے پیسے ادا کئے۔ فلیٹ وہاں سے چند قدم پر ہی تھا۔ ہم چہل قدمی کرتے ہوئے فلیٹ تک آئے۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اس نے ایک طائرانہ سی نظر چاروں طرف ڈالی۔ کیبنٹ میں ایک چھوٹے سے اسٹیل فریم میں میری بیوی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گئی تصویر کس کی ہو سکتی ہے۔ اس نے اشارے سے پوچھا بھی….میں نے اثبات میں سر ہلا یا اور اس کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔

ہمارے درمیان خاموشی چھا گئی….

وہ چپ چاپ صوفے پر انگلیوں سے آڑی ترچھی سی لکیریں کھینچ رہی تھی۔ اچانک اس کا آنچل کندھے سے سرک گیا جس سے سینے کا بالائی حصہ نمایاں ہو گیا۔ اس کا سینہ اوپر کی طرف دھنسا ہوا تھا اور گردن کی ہڈی ابھر گئی تھی جس سے وہاں پر گڈھا سا بن گیا تھا۔ گردن کے کنارے ایک دو جھریاں نمایاں تھیں۔ مجھے اس کی گردن بھدی اور بدصورت لگی….. مجھے عجیب لگا ….میں نے اسے بلایا کیوں …؟ اور وہ بھی چلی آئی …. اور اب ہم دونوں ایک غیر ضروری اور بے مقصد خاموشی کو جھیل رہے تھے۔

آخر میں نے خاموشی توڑنے میں پہل کی اور پوچھا وہ چائے لینا پسند کرے گی یا کافی…؟میرا لہجہ خلوص سے عاری تھا … ایک دم سپاٹ….مجھے لگا میں چائے کے لئے نہیں پوچھ رہا ہوں، اپنی بیزاری کا اظہار کر رہا ہوں۔ اس نے نفی میں گردن ہلائی تو میری جھنجھلاہٹ بڑھ گئی۔ میں نے اسے فلیٹ کا باقی حصہ دیکھنے کے لئے کہا۔ وہ صوفے سے اٹھ گئی۔ میں اسے کچن میں لے گیا۔ پھر بالکنی دکھائی ….پھر بیڈ روم….

بیڈ روم میں اس نے طائرانہ سی نظر ڈالی ….سنگار میز کی سامنے والی دیوار پر ایک کیل جڑی تھی۔ کیل پر ایک چوڑی آویزاں تھی جس سے ایک چھوٹا سا کالا دھاگہ بندھا ہوا تھا۔ اس نے چوڑی کو غور سے دیکھا اور پوچھا کہ دھاگہ کیسا ہے ….؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بیوی کا ٹوٹکا ہے۔

وہ جب بھی گھر سے باہر جاتی ہے اپنی کلائی سے ایک چوڑی نکال کر لٹکا دیتی ہے اور کالا دھاگہ باندھ دیتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس سے غیر عورت کا گھر میں گذر نہیں ہوتا اور میری نظر بھی چوڑی پر پڑے گی تو مجھے اس کی یاد آتی رہے گی۔

وہ ہنسنے لگی اور طنزیہ لہجے میں بولی کہ عقیدے کا مطلب ہے خوف….میری بیوی کے دل میں خوف ہے کہ میں ایسا کروں گا ….اس خوف سے بچنے کے لئے اس نے اس عقیدے کو جگہ دی ہے کہ چوڑی میں کالا دھاگہ باندھنے سے…..

مجھے اس کی یہ دانشورانہ باتیں بالکل اچھی نہیں لگیں۔ لیکن میں خاموش رہا۔ تب اس نے ایک انگڑائی لی اور بستر پر نیم دراز ہو گئی۔ پھر کیل پر آویزاں چوڑی کی طرف دیکھتی ہوئی طعنہ زن ہوئی کہ میری بیوی مجھے عورتوں کی نگاہ بد سے کیا بچائے گی …؟ بچاری کو کیا معلوم کہ میں کتنا فلرٹ ہوں۔ مجھے طیش آ گیا۔ میں نے احتجاج کیا کہ وہ مجھے فلرٹ کیوں کہہ رہی ہے۔ وہ تیکھے لہجے میں بولی کہ میں نے اس کی سہیلی کے ساتھ کیا کیا تھا ….؟ اس نے مجھے یاد دلایا کہ اس رات پارٹی میں جب اچانک روشنی گل ہو گئی تھی تو….

میں چپ رہا۔ دراصل میری ایک کمزوری ہے۔ عورت کے کولھے مجھے مشتعل کرتے ہیں ….ایک ذرا اوپر کمر کے گرد گوشت کی جو تہہ ہوتی ہے….

اُس رات یکایک روشنی گل ہو گئی تھی اور اس کی سہیلی میرے پاس ہی بیٹھی تھی۔ میرا ہاتھ اچانک اس کی کمر سے چھو گیا تھا۔ میں نے ہاتھ ہٹایا نہیں تھا اور وہ بھی وہا ں بیٹھی رہ گئی تھی ….اور ہاتھ اگر اس جگہ مسلسل چھوتے رہیں اور عورت مزاحمت نہیں کرے تو…

مجھے عجیب لگا۔ اس کی سہیلی نے یہ بات اس کو بتا دی تھی۔ میں اس سے آنکھیں نہیں ملا پا رہا تھا۔

میں نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ پھر اچانک وہ مجھ پر جھک آئی اور ایک ہاتھ پیچھے لے جا کر میری پتلون کی پچھلی جیب سے کنگھی نکالی۔ اس طرح جھکنے سے اس کی چھاتیاں میرے کندھے سے چھو گئیں۔ تب وہ ہنستی ہوئی بولی کہ میں پہلے دائیں طرف مانگ نکالتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ یہ میری انفرادیت تھی اور یہ کہ ہٹلر بھی اسی طرح مانگ نکالتا تھا …. مجھے حیرت ہوئی کہ اس کو ایک ایک بات یاد تھی۔

وہ میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔ اس کی انگلیاں میری پیشانی کو چھو رہی تھیں۔ مجھے اچھا لگا۔ اُس کا جھک کر میری جیب سے کنگھی نکالنا اور میرے بالوں میں پھیرنا ….وہ ایک دم میرے قریب کھڑی تھی۔ اس کے سینے کی مرکزی لکیر میری نگاہوں کے عین سامنے تھی اور اس کی سانسوں کو میں اپنے رخسار پر محسوس کر رہا تھا۔ اس کے کندھے میرے سینے کو مستقل چھو رہے تھے۔ پھر اس نے اسی طرح کنگھی واپس میری جیب میں رکھی اور آئینے کی طرف اشارہ کیا ….میں نے گھوم کر دیکھا …. مجھے اپنی شکل بدلی سی نظر آئی۔ مانگ دائیں طرف نکلی ہوئی تھی۔ میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔ وہ ہنسنے لگی اور تب اس کی ہنسی مجھے دل کش لگی …..اچانک مجھے محسوس ہوا کہ زندگی ابھی ہاتھ سے پھسلی نہیں ہے …. دائیں طرف نکلی ہوئی مانگ ….ہنستی ہوئی عورت .ا.ور سینے کی ہلتی ہوئی مرکزی لکیر ….ہم یقیناًاس وقت ماضی سے گر رہے تھے …..ان دل فریب لمحوں سے گذر رہے تھے جہاں ندی کی کَل کَل تھی اور سمندر کا زیر لب شور تھا …. وہ خوش تھی….میں بھی شادماں تھا ….

سرور کے عالم میں میرا ہاتھ اچانک اس کی کمر کے گرد رینگ گیا اور وہ بھی بے اختیار میرے سینے سے لگ گئی….اس کے ہونٹ نیم وا ہو گئے….اور یہی چیز مجھے بے حال کرتی ہے ……کولھے پر ہتھیلیوں کا لمس اور نیم وا ہونٹ….!

میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا…. وہ مجھ سے لپٹی ہوئی بستر تک آئی …..میں نے بلوز کے بٹن …..اس کی آنکھیں بند تھیں ….اور میں بھی ہوش کھونے لگا تھا …..آہستہ آہستہ اس کی سانسیں تیز ہونے لگیں ….اور وہ اچانک میری طرف متحرک ہوئی میرے بازوؤں کو اپنی گرفت میں لیا اور آہستہ آہستہ پھسپھساکر کچھ بولی جو میں سمجھ نہیں سکا ….اس کی یہ پھسپھساہٹ مجھے مکروہ لگی ….سرشاری کی ساری کیفیت زائل ہو گئی۔ میری نظر اس کے بدن کی جھریوں پر پڑی جو اس وقت زیادہ نمایاں ہو گئی تھیں …. مجھے کراہیت کا احساس ہوا …..گردن کے نیچے ابھری ہوئی ہڈیوں کا درمیانی گڈھا…. سینے کا دھنسا ہوا بالائی حصہ ….اور نیم پچکے ہوئے بیلون کی طرح لٹکی ہوئی چھاتیاں….مجھے لگا اس کا جسم ایک ملبہ ہے جس پر میں کیکڑے کی طرح پڑا ہوں …..میں نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ میری انگلیاں اس کی چھاتیوں سے جونک کی طرح لپٹی ہوئی تھیں….میں کراہیت سے بھر اٹھا اور خود کو اس سے الگ کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔

اس نے آنکھیں کھولیں اور کیل پر آویزاں چوڑی کی طرف دیکھا۔ چوڑی سے لٹکا ہوا دھاگہ ہوا میں آہستہ آہستہ ہل رہا تھا …..اس کے ہونٹوں پر ایک پر اسرار مسکراہٹ رینگ گئی۔ کچھ وہ بستر پر لیٹی رہی۔ پھر کپڑے درست کرتی ہوئی اٹھی اور شیشے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ میرے اندر اداسی کسی کہاسے کی طرح پھیلنے لگی۔ میں ندامت کے احساس سے گذر رہا تھا۔ میں اس کو اپنے فلیٹ میں اس نیت سے لایا بھی نہیں تھا۔ وہ بس میرے ساتھ آ گئی تھی اور جب تک ہم صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے اس بات کا شائبہ تک نہیں تھا کہ بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی ہم فوراً….

شاید عمر کا یہ حصہ کھائی دار موڑ سے گذرتا ہے۔ چالیس کی لپیٹ میں آئی ہوئی عورت اور بچپن کی سرحدوں سے گذرتا ہوا مرد دونوں ہی اس حقیقت سے فرار چاہتے ہیں کہ زندگی ہاتھ سے پھسلنے لگی ہے۔ ہم نے بھی فرار کا راستہ اختیار کیا تھا جو دائیں مانگ سے ہوتا ہوا سینے کی مرکزی لکیر سے گذرا تھا۔ میرے ہاتھ پشیمانی آئی تھی اور وہ آسودہ تھی۔ اس کی آسودگی پر مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے نفرت سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے بال سنواررہی تھی اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اسی طرح رینگ رہی تھی۔ پھر اس نے ماتھے سے بندی اتاری اور شیشے میں چپکا دی۔ مجھے غصہ آ گیا….اس کی یہ حرکت مجھے بری لگی۔ گویا جانے کے بعد بھی وہ اپنے وجود کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ وہ جتانا چاہتی تھی کہ مرد کی ذات ہی آوارہ ہے، کوئی دھاگہ اس کو باندھ نہیں سکتا۔ میں نے حسرت سے دھاگے کی طرف دیکھا جس میں میری وفا شعار بیوی کی معصومیت پروئی ہوئی تھی۔ مجھے لگا میرے ساتھ سازش ہوئی ہے۔ اس حاسد عورت نے مجھے ایک مکروہ عمل میں ملوث کیا اور ایک معصوم عقیدے پر ضرب لگائی۔ اب ساری عمروہ دل ہی دل میں ہنسے گی۔ یقیناًاس دھاگے کی بے حرمتی کا میں اتنا ہی ذمہ دار تھا….

پچھتاوے کی ایک دکھ بھری لہر میرے اندر اٹھنے لگی۔ شاید پچھتاوا زندگی کا دوسرا پہلو ہے….. پانی میں لہر کی طرح زندگی کے ہر عمل میں کہیں نہ کہیں موجود…..ان گناہوں پر بھی ہم پچھتاتے ہیں جو سرزد ہوئے اور ان گناہوں پر بھی جو ناکردہ رہے….. گذشتہ بیس سالوں سے میرے دل کے نہاں خانوں میں یہ خلش پل رہی تھی کہ اس سے رشتہ استوار نہیں ہوا اور آج اس کی مکمل سپردگی کے بعد یہ پچھتاوا ہو رہا تھا کہ میں نے مقدس دھاگے کی بے حرمتی کی ….ایک وفا شعار عورت کے عقیدے کو مسمار کیا…

وہ جانے کے لئے تیار تھی اور اسی طرح مسکرا رہی تھی۔ میں بھی چاہتا تھا کہ وہ جلد از جلد یہاں سے دفع ہو …میں نے نہیں پوچھا کہ کہاں رہ رہی ہے …..؟ اس نے خود ہی بتایا کہ ایک رشتے دار کے یہاں کسی تقریب میں آئی تھی اور کل صبح لوٹ جائے گی۔

اس کے جانے کے بعد سنّاٹا اچانک بڑھ گیا۔ میں بستر پر پژمردہ سا لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں …..مجھے اپنی بیوی کی یاد آئی ….اتنی شدت سے میں نے اس کو پہلے کبھی یاد نہیں کیا تھا ….اس وقت مجھے اس کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔

میں نے کسی ایذ زدہ مریض کی طرح آنکھیں کھولیں اور کیل پر آویزاں چوڑی کی طرف دیکھا….چوڑی سے بندھا ہوا دھاگہ ہوا میں اسی طرح ہل رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

کایا کلپ

 

اس کی بیوی پہلے غسل کرتی تھی ….

اور یہ بات اسے ہمیشہ ہی عجیب لگی تھی کہ ایک عورت اس نیّت سے غسل کرے ۔

بیوی کے بال لمبے تھے جو کمر تک آتے تھے . غسل کے بعد انہیں کھلا رکھتی۔ بستر پر آتی تو تکیے پر سر ٹکا کر زلفوں کو فرش تک لٹکا دیتی ۔ پانی بوند بوند کر ٹپکتا اور فرش گیلا ہو جاتا۔ گریباں اور آستین کا حصّہ بھی پانی سے تر رہتا ۔ایک دو بار ہاتھ پیچھے لے جا کر زلفوں کو آہستہ سے جھٹکتی اور اس کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھتی ۔ اس کی آنکھوں میں آتشیں لمحوں کی تحریر وہ صاف پڑھ لیتا۔

شروع شروع میں وہ لطف اندوز ہوتا تھا ۔بیوی جب غسل خانے کا رخ کرتی تو وہ بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیتا اور پانی گرنے کی آوازیں سنتا رہتا ۔ اسے سہرن سی محسوس ہوتی کہ غسل اسی کام کے لیے ہو رہا ہے۔ لیکن اب ….

اب عمر کی دہلیز پر خزاں کا موسم آ کر ٹھیر گیا تھا اور پرندے سر نگوں تھے ۔

جنس کا تعلّق اگر رنگوں سے ہے تو کاسنی رنگ سے ہوگا . یہ رنگ اس کی زندگی میں کبھی گہرا نہیں تھا بلکہ پچاس کی سرحدوں سے گذرتے ہی پھیکا پڑ گیا تھا۔ اس پر ساری زندگی ایک گمنام سی قوت مسلّظ رہی تھی ۔ آزادی اگر شخصیت کی معمار ہے تو وہ ساری عمر آزادی سے ہراساں رہا تھا۔ بچپن سے اپنی داخلیت کے نہاں خانے میں ایک ہی آواز سن رہا تھا۔ . یہ مت کرو….وہ مت کرو …‘‘ اور جب شادی ہوئی تو یہ آواز نئے سئر میں سنائی دینے لگی تھی ۔

اور بیوی باتیں اس طرح کرتی تھی جیسے کوّے ہنکا رہی ہو ۔ اس کے ہونٹ دائرہ نما تھے جو بات بات پر بیضوی ہو جاتے ۔ آنکھوں میں ہر وقت ایک حیرت سی گھلی رہتی جس کا اظہار ہونٹوں کے بدلتے خم سے ہوتا تھا ۔الفاظ کی ادائیگی میں ہونٹ پھیلتے اور سکڑتے ۔

’’ اچھا….؟ ‘‘

’’ واقع

٭٭و ہ کچھ کہتے ہوئے وہ بے حد ازلقرآن

ی’جاں بیچنے کو آئے‘ راج مینرا، ھی کا ہی رسالی ہے۔ی….؟‘‘

’’ اوہ۔۔۔! ‘‘

اس کی ہنسی بھی جداگانہ تھی ۔ وہ ہو ہو کر ہنستی تھی اور منھ پر ہاتھ رکھ لیتی . پہلی قربت میں وہ چھٹک کر دور ہو گئی تھی اور اسی طرح ہنسنے لگی تھی ۔ تب یہ ہنسی دلکش تھی کہ وہ شب عروسی تھی جب بجھا ہوا چاند بھی خوش نما لگتا ہے لیکن اب شادی کو تیس سا ل ہو گئے تھے۔ چاند کا منھ اب ٹیڑھا تھا اور سمندر شریانوں میں سر نہیں اٹھا تے تھے اور وہ کوفت سی محسوس کرتا تھا ۔ بیوی کے پھیلتے اور سکڑتے ہونٹ …. بیوی کی باتوں میں اسے تصنع کی جھلک ملتی ۔ لیکن اس کا غسل کرنا اصلی تھا اور عمر کے اس حصّے میں زندگی اجیرن تھی ۔خصوصاً اس دن تو اس کو بے حد ندامت ہوئی تھی جب وہ ایک قریبی رشتے دار کے گھر شادی کی تقریب میں گیا تھا ۔ اس دن اس کے جی میں آیا تھا چھت سے نیچے کود پڑے۔

تقریب میں شرکت سے بیوی بہت خوش تھی ۔ مدت بعد گھر سے باہر نکلنے کا موقع ملا تھا۔ ماحول میں اچانک تبدیلی ہوئی تھی ۔ انہیں ایک ہوٹل میں ٹھیرایا گیا تھا۔ ہوٹل کی فضا مخملی تھی ۔ اعلی قسم کا گدّے دار بستر ۔۔۔ ماربل کا صاف شفّاف فرش ….. دیوار پر آویزاں ٹی وی اور خو شبو سے معطّر کمرہ…. کمرے کی پر کیف فضا میں بستر پر آتے ہی اسے نیند آنے لگی تھی لیکن بیوی کی آنکھوں میں کاسنی رنگ لہرا گیا تھا ۔ اس نے غسل خانے کا رخ کیا ۔وہ غسل کر کے بستر پر آئی تھی تو حسب معمول دو تین بار اپنی زلفوں کو جھٹکا دیا تھا اور پاوں کو اس طرح جنبش دی تھی کہ پاوں کی انگلیاں اس کے تلوے سے مس ہو گئی تھیں ۔ لیکن وہ ایک کروٹ خاموش پڑا رہا کہ بے بال و پر تھا اور موسم گل کا دور دور تک پتہ نہیں تھا .

بیوی کچھ اور آگے کی طرف کھسک آئی اور اس کی پیٹھ سے لگ گئی ۔ اس کے بھیگے بدن سے آ نچ سی نکلتی محسوس ہو رہی تھی ۔بیوی نے ایک بار پھر جنبش کی اور ا س کا ہاتھ اس کے پیٹ کو چھونے لگا ۔ اسے کوفت ہوئی ….خواہ مخواہ بجھے ہوئے آتش دان میں راکھ کرید رہی ہے ۔ ۔وہ دم سادھے پڑا رہا اور بیوی بھی راکھ کریدتی رہی ۔۔ آخر اس کی طرف مڑا۔ اس کو بازوؤں میں بھینچنے کی کوشش کی ۔ ہونٹوں پر ہونٹ بھی ثبت کیئے ۔ لیکن کوئی حرارت محسوس نہیں کر سکا ۔ کہیں کوئی چنگاری نہیں تھی ۔ کچھ دیر اس کے سلگتے جسم کو اپنی سرد بانہوں میں لیئے رہا پھر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ بیوی نے اس کی طر ف دھند آمیز نگاہوں سے دیکھا ۔اس کے ہونٹ بیضوی ہو گئے۔

اس نے ندامت سی محسوس کی اور بالکنی میں آ کر کھڑا ہو گیا ۔بیوی نے بھی ٹی وی آن کیا اور کوئی سیریل دیکھنے لگی ۔ وہ بار بار چینل بدل رہی تھی ۔ریموٹ دباتے ہوئے ہونٹ بھینچتی اور ہاتھ کو جھٹکا دیتی۔ وہ محسوس کیئے بغیر نہیں رہا کہ بیوی اس کا غصّہ ریموٹ پر اتار رہی ہے ۔

وہ دیر تک بالکنی میں کھڑا رہا۔سامنے سڑک کی دوسری طرف ایک لنڈ منڈ پیڑ کھڑا تھا ۔اس کی نگاہیں پیڑ پر جمی تھیں ۔ کچھ دیر

بعد بیوی بھی بالکنی میں آ کر کھڑی ہو گئی ۔ اس کی نظر پیڑ پر گئی تو منھ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی .

’’ ہو….ہو….ہو… ایک دم ٹھوٹھ ہو رہا ہے…..؟ ‘‘

اس کو لگا وہ اس پر ہنس رہی ہے ۔۔جیسے وہ خود بھی ایک ٹھوٹھ ہے۔

وہ ندامت سے بھرا بستر پر آ کر لیٹ گیا ۔ اس کے دل میں دھواں سا اٹھ رہا تھا ۔ اس نے ایک بار کنکھیوں سے بیوی کی طرف دیکھا. ا اس کے بال ابھی بھی نم تھے۔ وہ بار بار ہاتھ پیچھے لے جا کر انہیں لہرا رہی تھی ۔ اس کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ عمر میں اس سے دس سال چھوٹی ہے ۔

وہ ٹی وی آن کیئے بیٹھی رہی پھر اونگھتی اونگھتی کرسی پر ہی سو گئی ۔ وہ بھی رات بھر مردے کی طرح ایک کروٹ پڑا رہا ۔

انسان بہت دنوں تک خالی پن کی حالت میں نہیں رہ سکتا ۔….

وہ اپنے لیئے کہیں راحت کا سبب ڈھونڈھ رہا تھا ۔ سون پور کے میلے میں اس نے ایک چھوٹا سا پامیرین کتّا خریدا ۔اس کا نام رکھا گلفام ۔ گلفام اس سے جلد ہی مانوس ہو گیا ۔ اس کا زیادہ وقت گلفام کے ساتھ گزرنے لگا۔ صبح کی سیر کو نکلتا تو زنجیر ہاتھ میں ہوتی سیٹی بجاتا تو گلفام دوڑتا ہوا آتا اور دم ہلانے لگتا۔۔۔اور وہ خوش ہوتا کہ کوئی تو ہے جو اس کا تابع دار ہے ۔گلفام کے ساتھ ایک طرح کی آزادی کا احساس ہوتا تھا . وہ اس کا با الکل اپنا تھا….اس کے ساتھ من مانی کر سکتا تھا ۔کوئی جبر نہیں تھا کہ یہ مت کرو…وہ مت کرو۔۔۔لیکن بیوی اسے شوق فضول سمجھتی تھی ۔ کتّا اس کی نظروں میں نجس تھا ۔ ..جہاں اس کا رواں پڑ جائے وہاں فرشتے نہیں آتے ۔ ۔۔ وہ کتّے کی زنجیر چھوتا اور بیوی کے ہونٹ بیضوی ہو جاتے . …نا پاک ہے …نا پاک ہے .۔ہاتھ دھویئے….ہاتھ دھویئے۔

اس کو کئی بار ہاتھ دھونا پڑتا ۔لیکن ساری کوفت اس وقت راحت میں بدل جاتی جب گلفام اس کی ٹانگوں سے لپٹتا اور اچھل اچھل کر منھ چومنے کی کوشش کرتا ۔وہ ادھر ادھر نظریں دوڑاتا کہ کہیں بیوی تو نہیں دیکھ رہی ۔۔۔؟ ایک بار نظر پڑ گئی ۔وہ گلفام کو گود میں لیئے بیٹھا تھا اور وہ گردن اٹھا کر اس کے رخسار چوم رہا تھا ۔

’’ یا اللہ۔۔۔یا اللہ۔۔! ‘‘ بیوی زور سے چلّائی … دو ہتھّڑ کلیجے پر مارا اور بے ہوش ہو گئی۔

وہ گھبرا گیا اور گلفام کو ہمیشہ کے لیئے ایک دوست کے گھر چھوڑ آیا ۔پھر کبھی کوئی کتّا نہیں رکھا ۔لیکن باغبانی شروع کی ۔گھر کے احاطے میں پھول پتّیاں لگانے لگا۔صبح صبح اٹھ کر دیکھتا کہ کوئی کلی پھوٹی یا نہیں۔۔۔۔؟ پھول کی پتّیوں کو آہستہ سے چھوتا اور خوش ہوتا ۔بیوی نے بھی دل چسپی لی . اس نے بگیا میں گوبھی کے پھول اگائے ۔

آدمی اگر بڑھاپے میں مذہبی زندگی جینے کے لیئے مجبور ہے تو اس نے بھی مذہب کی چادر اوڑھی اور پنچ گانہ نماز ادا کرنے لگا ۔ لیکن چادر آہستہ آہستہ کندھے سے سرکنے لگی ۔اور نماز قضا ہونے لگی۔ پھر بھی فجر کی نماز پڑھتا اور کلام پاک کی تلاوت کرتا ۔ا صل میں وہ آدمی طریقت کا تھا ۔وہ اپنے طریقے سے قرب الہی کا متمنیّ تھا ۔ کوئی افتاد آ پڑتی تو سیدھا خدا سے رجوع کرتا۔ایک ہی بیٹی تھی۔ کہیں شادی نہیں ہو رہی تھی تو گھر کا کونہ پکڑ لیا۔۔۔یا اللہ۔۔۔تیرے حوالے کیا۔۔۔اور رشتہ آناً فاناً طے ہو گیا ۔بیٹی اب لاکھوں میں کھیل رہی تھی ۔ریٹائر ہونے کو آئے تو دعا مانگی ۔ یا خدا۔۔۔پنشن کے کاغذات مجھ سے درست ہونے کو رہے۔۔۔ٹیبل ٹیبل کہاں تک دوڑوں ۔۔۔؟ اور یہ معجزہ ہی تھا کہ تیس تاریخ کو ریٹائر ہوئے اور پہلی کو پنشن طے ہو گئی ۔ لیکن بیوی مزار مزار دوڑتی تھی۔ ہر جمعرات کو فاتحہ پڑھتی ۔ جب بھی وہاں جاتی شلوار جمپر پہن کر جاتی۔ مجاور نے سمجھایا تھا کہ مزار پر بزرگ لیٹے رہتے ہیں ۔عورتوں کا ساری میں طواف معیوب ہے ۔پچھلی بار جمعرات کے روز ہی اس کو میکے جانا پڑ گیا تو فاتحہ کی ذمّہ داری اس کو سونپی گئی ۔ وہ اس کو وداع کرنے اسٹیشن گیا تو گاڑی میں سوار ہوتے ہوتے بیوی نے تاکید کی۔

زیادہ دیر گھر سے باہر نہیں رہیئے گا ۔ آج سے آدھ لیٹر ہی دودھ لینا ہے اور دیکھیئے مزار پر فاتحہ پڑھنا مت بھولیئے گا۔‘‘

بیوی کچھ دنوں کے لیئے میکے جاتی تو اسے لگتا کھلی فضا میں سانس لے رہا ہے ۔لیکن چاندنی چار دنوں کی ہوتی . دو تین دنوں بعد وہ پھر حصار میں ہوتا ۔ پھر بھی دو دن ہی سہی وہ اپنی زندگی جی لیتا تھا ۔ اس کا معمول بدل جاتا۔ صبح دیر سے اٹھتا اور اٹھتے ہی دو چار سگریٹ پھونکتا ۔شکّر والی چائے بنا کر پیتا ۔دن بھر مٹر گشتی کرتا اور کھانا کسی ریستوراں میں کھاتا ۔سگریٹ کے ٹکڑے گھر سے باہر پھینکنا نہیں بھولتا تھا ۔اس کو احساس تھا کہ بیوی نہیں ہے لیکن اس کا آسیب گھر میں موجود ہے ۔ وہ جب مائکے سے آتی تو گھر کا کونہ کھدرا سونگھتی تھی ۔ بیوی کو لگتا کہیں کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے ۔وہ اکثر بستر کے نیچے بھی جھانک کر اطمینان کر لیتی تھی ۔ ایک بار سگریٹ کے ٹکڑے ایش ٹرے میں رہ گئے تھے ۔ بیوی مائکے سے لوٹی تو سب سے پہلے ایش ٹرے پر نظر گئی ۔

’’ اللہ رے اللہ …قبر میں پاوں ہے لیکن علّت چھوٹتی نہیں ہے ۔ ‘‘

وہ خاموش رہتا لیکن بیوی مسلسل کوّے ہنکاتی رہتی۔ وہ شکّر کی شیشی کا بھی معائنہ کرتی ۔

اللہ رے اللہ ….شیشی آدھی ہو گئی ۔ ‘‘

’’ شوگر بڑھا کر کیوں موت کو دعوت دے رہے ہیں ۔ ؟ ‘‘

ایک بار وہ جواب دے بیٹھا تھا ۔

’’ موت بر حق ہے۔ ‘‘

بیوی بر جستہ بولی تھی ۔ ’’ اسی لیئے تو ٹھوٹھ ہو گئے ہیں۔‘‘

اس کو ٹھیس سی لگی لیکن کیا کہتا۔…؟ ٹھوٹھ ہوں تو سٹتی ہے کیوں بے شرم ۔۔۔؟

قدرت بے نیاز ہے۔ سب کی سنتی ہے۔

اس بار بیوی دس دنوں کے لیئے مائکے گئی ۔ وہ اسٹیشن پر وداع کر باہر آیا توسڑک پر چلنا مشکل تھا ۔ دور تک مالے کا لمبا جلوس تھا ۔ کسی طرح بھیڑ میں اپنے لیئے راستہ بنا رہا تھا کہ ایک رضا کار نے آنکھیں دکھائیں .. لائن میں چلو۔۔۔لائن میں ۔۔۔‘‘ وہ کچھ دور قطار میں چلتا رہا ۔ اسے بھوک لگ گئی تھی فریزر روڈ پر ایک ریستوراں نظر آیا تو جلدی سے اس میں گھس گیا ۔ یہاں مکمّل اندھیرا تھا ۔ ۔۔ کسی کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ صرف آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ یا کدھر جائے …؟ ۔وہ اندھے کی طرح کرسیاں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا تو ایک بیرے نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک خالی میز پر لے گیا۔ ریستوراں کی فضا اسے پراسرار لگی ۔ہر میز پر ایک لیمپ آویزاں تھا ۔۔ لیمپ صرف بل کی ادائگی کے وقت روشن ہوتا تھا ۔ اس کی روشنی مدھم تھی۔ لیمپ کا زاویہ ایسا تھا کہ روشنی چہرے پر نہیں پڑتی تھی۔ صرف بل ادا کرتے ہوئے ہاتھ نظر آتے تھے ۔کونے والی میز سے چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز آ رہی تھی جس میں دبی دبی سی ہنسی بھی شامل تھی ۔کبھی کوئی زور سے ہنستا اور کبھی سرگوشیاں سی سنائی دیتیں ۔

اس نے چاومنگ کا آرڈر دیا ۔ بیرے نے سرگوشیوں میں پوچھا تھا کہ کیا وہ راحت بھی اٹھانا چاہتا ہے ۔ ؟

راحت ….؟ اسے بیرے کی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہاں آ کر وہ ایک طرح کی راحت محسوس کر رہا تھا ۔ ا یہ بات چھی لگی تھی کہ چہرے نظر نہیں آتے تھے ۔ پتہ لگانا مشکل تھا کہ کس میز پر کون کیا کر رہا ہےَ ؟ رستوراں کی پراسرار آوازوں میں پاپ موسیقی کا مدھم شور بھی شامل تھا ۔

وہ ریستوراں سے باہر آیا تو گرمی شباب پر تھی۔وہ مزار پر جانا نہیں بھولا ورنہ بیوی مستقل کوّے ہنکاتی کہ کیوں نہیں گئے۔۔۔؟ میری طرف سے حاضری دے دیتے تو کیا بگڑ جاتا۔۔۔۔؟

دوسرے دن وہ پھر ریستوراں پہنچ گیا ۔اس بار اندھیرا اور گہرا تھا ۔بیرے نے بتایا کہ کوئی میز خالی نہیں ہے لیکن وہ کونے والی میز شئیر کر سکتا ہے لیکن پارٹنر کے پانچ سو روپے لگ جائیں گے ۔ بیرے نے مزید کہا کہ یہاں کسی طرح کا کوئی رسک نہیں ہے….وہ جب تک چاہے راحت اٹھا سکتا ہے ۔ وہ سمجھ نہیں سکا کہ پارٹنر کے پانچ سو روپے سے بیرے کی مراد کیا ہے ۔۔ لیکن وہ کچھ دیر سکون سے بیٹھنا چاہتا تھا ۔ اس نے حامی بھر لی ۔ بیرا اسے کونے والی میز پر لے گیا۔ اس میز پر کوئی موجود تھا یہ ایک تنگ سی میز تھی۔صوفے پر مشکل سے دو آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی ۔ بیٹھنے میں گھٹنے میز سے ٹکراتے تھے .

اس نے پنیر کٹ لیٹ کا آرڈر دیا اور ایک بار اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی کہ بغل میں کون ہے ۔؟ چہرہ تو نظر نہیں آیا لیکن کانوں میں بندے سے چمکتے نظر آئے۔ اور وہ چونکے بغیر نہیں رہ سکا .. کوئی عورت تو نہیں۔۔۔؟ عورت ہی

تھی …. ا اور ہنس کر بولی ۔

’’ بہت کم جگہ ہے سر بیٹھنے کی ۔‘‘

اس کا شانہ عورت کے شانے سے مس ہو رہا تھا ۔ اس طرح بیٹھنا اسے عجیب لگا یہ پہلا اتفاق تھا کہ ایک اندھیرے ریستوراں میں وہ کسی نامحرم کے ساتھ تھا ۔ جی میں آیا اٹھ کر چلا جائے لیکن شائد عورت اسے جانے کا کوئی موقع دینا نہیں چاہ رہی تھی ۔

’’ سر میں راجہ بازار میں رہتی ہوں ۔ آپ کہاں رہتے ہو ۔ ‘‘ عورت کی آواز میں کھنک تھی۔

’’ بورنگ روڈ . ‘‘ اس نے مرے مرے سے لہجے میں جواب دیا ۔

’’ واہ سرْ…آپ میرے گھر سے نزدیک رہتے ہو۔‘‘

و ہ اب اندھیرے میں کچھ کچھ دیکھنے لگا تھا۔میز پر گلاس اور پلیٹ نظر آرہے تھے ۔ اس نے عورت کا چہرہ بھی دیکھنے کی کوشش کی لیکن خدوخال بہت واضح نہیں تھے پھر بھی اس نے انداز ہ لگایا کہ عمر زیادہ نہیں تھی ۔

’’ سر آپ جب تک پکوڑے لیجیئے ….‘‘ عورت نے اس کی طرف اپنی پلیٹ سرکائی ۔

گلے پڑ رہی ہے۔۔۔اس نے سوچا لیکن خاموش رہا ۔

.’’ لیجیئے نہ سر …‘‘ وہ اس کی طرف جھکی اور اس نے شانے کے قریب اس کی چھاتیوں کا ہلکا سا دباو محسوس کیا۔

بیرا دو پلیٹ کٹ لیٹ لے آیا .

’’ واو سر…آپ نے میرے لیئے بھی منگایا . ‘‘ وہ چہک کر بولی . وہ مسکرایا . اس کا چہکنا اس کو اچھا لگا ۔

سر …آپ کون سا ساس لیں گے ۔۔۔؟ ٹومیٹو یا چلّی ساس۔۔۔؟

جواب کا انتظار کیئے بغیر اس کی پلیٹ میں ساس انڈیلنے لگی ۔ پھر کٹ لیٹ کا ایک ٹکڑا ساس میں بھگویا اور اس کے منھ کے قریب لے جا کر بولی

’’ سر….پہلا نوالہ میری طرف سے ۔ ‘‘

’’ ارے نہیں ۔۔۔‘‘ اس نے مزاحمت کی

’’ ہم اب دوست ہیں سر ۔۔۔ہماری دوستی کے نام ۔۔۔‘‘ وہ اور سٹ گئی۔…ا

عورت کی بے تکلّفی پر اسے حیرت ہو رہی تھی ۔

کوئی چھنال معلوم ہوتی ہے ۔۔۔وہ سوچے بغیر نہیں رہا ۔

’’ لیجیئے نہ سر ۔۔۔؟ ‘‘

اور وہ سمجھ نہیں سکا کہ کس طرح اس نے نوالہ منھ میں لے لیا ۔

’’ سر۔۔۔ہم اب دوست ہیں ۔ ‘‘

’’ میں بوڑھا ہوں ۔ تمہارا دوست کیسے ہو سکتا ہوں ۔ ‘‘

مرد کبھی بوڑھا ہوتا ہے سر۔۔۔آسا رام کو دیکھیئے ۔۔۔؟ عورت ھنسنے لگی۔ ..وہ بھی مسکرائے بغیر نہیں رہا بیرے کی بات اب اس کی سمجھ میں آ رہی تھی کہ پانچ سو روپے ۔۔۔

اسکو پہلی بار احساس ہوا کہ ریستوراں میں کاسنی رنگ کا پہرہ ہے ۔

’’ سر ۔۔۔۔آپ بہت اچھے ہیں ۔۔۔‘‘ وہ اس پر لد گئی

وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا تو عورت نے ہنستے ہوے سرگو شی کی .

’’ گھبرایئے نہیں سر …یہ اندھیرے کی جنّت ہے۔ یہاں کوئی کسی کو نہیں دیکھتا ہے ۔ ‘‘

وہ مسکرایا۔ اسے کیا پتہ کہ وہ ایک دم ٹھوٹھ ہے ۔

۔ عورت کے خد و خال کچھ کچھ واضح ہو گئے تھے ۔ ۔ وہ اب سہج محسوس کر رہا تھا ۔

’’ تم مجھے کیا جانتی ہو…؟ ہم پہلے کبھی ملے تو نہیں ۔۔۔؟

’’ آپ جیسے بھی ہیں مجھے پسند ہیں . ‘‘ عورت کچھ اور سٹ گئی اور کندھے پر رخسار ٹکا دیئے .

عورت کی یہ ادا اس کو اچھی لگی ۔ اس کے بھی جی میں آیا کہ اس کے سر پر بوسہ ثبت کرے لیکن ہچکچاہٹ مانع تھی وہ اپنے سینے کے قریب اس کی چھاتیوں کا نرم لمس محسوس کر رہا تھا …

ریستوراں کا اندھیرا اب اچھا معلوم ہو رہا تھا…یہاں رات تھی اور رات گناہوں کو چھپا لیتی ہے ۔

’’ آپ ڈرنک نہیں کرتے ۔۔؟ ‘‘ اس نے پو چھا .

’’ نہیں ! ‘‘

’’ میں بھی نہیں کرتی …. ‘‘

’’ سر یہ جگہ بہت مہنگی ہے۔ہم فیملی ریستوراں میں ملیں گے ۔ ‘‘ ’’ فیملی ریستوراں ۔۔۔؟ ‘‘

راجستھان ہوٹل کی سامنے والی گلی میں ہے سر۔ میں آپ کو وہاں لے چلوں گی ۔

میں گھر سے کم نکلتا ہوں ۔ ‘‘

’’ میں جانتی ہوں سر۔ آپ اور لوگوں سے الگ ہیں ۔ ‘‘

’’ مجھے دیکھو گی تو بھاگ جاؤ گی ۔ ‘

’’ کیوں سر ۔۔۔؟ آپ کوئی بھوت ہیں ؟ ‘‘

’’ بڈھا کھوسٹ ….! ‘‘ وہ مسکرایا ۔

’’ مرد کبھی بوڑھا ہوتا ہے …۔۔! ‘‘ عورت نے اآہستہ سے اس کی جانگھ سہلائی …پھر .اس کی گردن پر ہونٹوں سے برش کیا تو دور کہیں پتّوں میں ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی ۔۔۔.. اور دوسرے ہی لمحے عورت نے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ بھی ثبت کر دیئے۔۔۔ اس کی گرم سانسوں کی آ نچ .. . اور جانگھ پر ہتھیلیوں کا لمس ۔۔۔اس نے سرہن سی محسوس کی …….اور ریستوراں میں رات گہری ہو گئی …. موسیقی کا شور بڑھ گیا … پتّوں میں سرسراہٹ تیز ہو گئی …سانسوں میں سمندر کا زیر لب شور گھلنے لگا..۔.ر خوابیدہ پرندے چونک پڑے … اور وہ دم بہ خود تھا ….. موسم گل جیسے لوٹ رہا تھا …اس پر خنک آمیز سی دھند چھا رہی تھی……

اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ بیرا کس وقت آ گیا اور وہ اس سے کب الگ ہوئی ۔

’’ سر آپ کو ایک گھنٹہ ہو گیا۔ ایک گھنٹے سے زیادہ بیٹھنے پر دو سو روپے اکسٹرا لگیں گے ۔ ‘‘

وہ خاموش رہا . موسم گل کا طلسم ابھی ٹوٹا نہیں تھا۔ ۔بیرے نے اپنی بات دہرائی تو وہ جیسے دھند کی دبیز تہوں سے باہر آیا ۔

وہ کچھ دیر اور راحت اٹھانا چاہتا تھا ۔ لیکن جیب میں زیادہ پیسے نہیں تھے . اس نے بل لانے کے لیے کہا .

’’ ہم فیملی ریستوران میں ملیں گے سر۔۔۔یہاں فضول پیسے کیوں دیجیے گا ۔؟ ‘‘

عورت نے اس کا موبائل نمبر نوٹ کیا۔

’’ کل دو پہر میں فون کروں گی ۔ راجستھان ہوٹل کے پاس آ جایئے گا ۔ ‘‘

’’ ایک بات اور کہوں سر..؛؟ پانچ سو روپے جو آپ یہاں بیرا کو دیں گے وہ آپ مجھے دے دیجیئے گا.‘‘

بل ادا کر کے وہ باہر آیا تو سرور میں تھا ۔ لبوں پر مسکراہٹ تھی اور ڈھلتی دو پہر کی مری مری سی دھوپ بھی سہانی

لگ رہی تھی ۔ گھر پہنچ کر اس کا سرور بڑھ گیا ۔اسے حیرت تھی کہ کس طرح پا بستہ پرندے ۔۔۔

اس کے جی میں آیا اس کو فون لگائے۔ اس نے نمبر ملایا ۔ ادھر سے آواز آئی ۔

’’ ہیلو سر …آپ گھر پہنچ گئے…کل ملتے ہیں سر ۔۔۔!‘‘ اور اس نے سلسلہ منقطع کر دیا ۔

وہ مسکرایا … ’’ سالی …..پوری چھنال ہے۔۔۔۔پانچ سو روپے لیگی… کیا پتہ کوئی دوسرا پہلو میں بیٹھا ہو …؟ ‘‘

دوسرے دن ٹھیک دو بجے اس کا فون آیا اور ….

اور ملاقاتیں ہوتی رہیں. گل کھلتے رہے.پرندے پر تولتے رہے ….

وہ اب توا نائی سی محسوس کرتا تھا ۔ چہرے کی رنگت بدل گئی تھی. آنکھوں میں چمک بڑھ گئی تھی ۔ہونٹوں پر پر اسرار سی مسکراہٹ رینگتی تھی . لیکن بیوی اس میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کر سکی۔ آتے ہی اس نے حسب معمول گھر کا کونہ کھدرا سونگھا ۔ایش ٹرے کی راکھ جھاڑی۔ شکّر کی شیشی کا معائنہ کیا اور تھک کر بیٹھ گئی تو وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔

’’ جاؤ۔۔۔غسل کر لو ….! ‘‘ یہ جملہ غیر متوقع تھا۔ وہ شرما گئی.

’’ .سٹھیا گئے ہیں کیا ….؟۔ اس کے ہونٹ بیضوی ہو گئے۔ اور اس کو بیوی کے بیضوی ہونٹ خوش نما لگے ۔

بیوی نے غسل خانے کا رخ کیا تو وہ بستر پر لیٹ گیا…… آنکھیں بند کر لیں اور پانی گرنے کی آوازیں سننے لگا ۔۔۔!

٭٭٭

مآخذ: انٹر نیٹ کی مختلف ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید