FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اینٹ کا جواب

 

کلیات بھولی بسری کہانیاں کا حصہ اول

 

                مظفّرؔ حنفی

 

تہذیب و تدوین:فیروزؔ مظفر

 

 

 

 

 

 

شرمندہ و خفیف جفا گر بہت ہوا

اب قصّہ کر تمام، مظفرؔ بہت ہوا

 

مظفّرؔ حنفی

 

 

 

 

 

انتساب

 

خدائے عزّ و جل تو جاوداں کرتا ہے لفظوں کو

مظفرؔ اپنی ہر تخلیق تیرے نام کرتا ہے

 

 

ابتدائیہ

 

’’بھولی بسری کہانیاں ‘‘ میں شامل سبھی افسانے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۲ء کے دوران لکھے گئے ہیں اور اسی درمیان مختلف ادبی رسائل میں شائع بھی ہوئے۔ یادش بخیر! یہ وہ دَور تھا جب آج کا جدید افسانہ وجود میں نہ آیا تھا اور افسانہ نگاروں میں رام لعل، ذکی انور، اقبال فرحت اعجازی، غیاث احمد گدی، ستیہ پال آنند اور راقم الحروف وغیرہ کی گنتی جدید افسانہ نگاروں میں ہوتی تھی پھر کچھ ایسا ہوا کہ میں شادؔ عارفی مرحوم کا شاگرد ہو کر شاعری کے چکر میں افسانہ نگاری کے کام کا نہ رہا۔ اسی اثناء میں دوسری زبانوں کی طرح اُردو افسانے کا مزاج بھی یک لخت بدل گیا اور آج رام لعل تو کجا اس کے بہت بعد کی پود جس میں جوگیندر پال اور قاضی عبد الستار جیسے اہم نام شامل ہیں، پُرانی سمجھی جانے لگی۔ اس وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی کہ میرے سابقہ افسانوی مجموعوں ’’ اینٹ کا جواب ‘‘اور ’’دو غنڈے‘‘ پر جو تبصرے اور تنقیدیں کی گئیں ان میں زمانۂ تصنیف کو نظر انداز کر کے موجودہ افسانوی روش کے پیمانے پر ناپ تول کے بعد ردّ و قبول کے فیصلے لیے گئے، جبکہ کسی تخلیق کی صحیح قدر و قیمت اس کے زمانۂ تصنیف کو ذہن میں رکھ کر آنکی جانی چاہیے۔ مختصر یہ کہ میں جدید شاعر تو ضرور ہوں، جدید افسانہ نگار ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، بس اتنا ہی عرض کرنا تھا۔

D/40بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی ۱۹۲۵ء                            مظفرؔ حنفی

یکم جنوری ۲۰۱۵ء

 

 

                اینٹ کا جواب

 

 

پیش لفظ

 

مظفر حنفی کے یہ افسانے اردو کے کئی اچھے رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان افسانوں کو ہزار ہا شائقین ادب کی مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ مطالعۂ زندگی میں جیسی اور جتنی مدد افسانوی ادب سے ملتی ہے اتنی مدد اور اس قسم کی مدد دوسری اصنافِ سخن سے نہیں ملتی۔ اگر کافی تعداد میں اچھے افسانے ہمارے ہزارہا ہم وطن پڑھیں اور پڑھتے رہیں تو ہمارے معاشرے اور ہماری زندگی کے مصائب اور انکی پیچیدگی کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ ایسا مطالعہ حقیقی تعلیم ہے اور یہ قومی ذہنیت کی تخلیق اور تعمیر میں غیر معمولی طور پر کار آمد ثابت ہو گا۔

مظفر حنفی صاحب ہمارے نئے افسانہ نگاروں میں ایک ہونہار ادیب ہیں۔ یہ ان کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے کئی پہلوؤں کی عکاسی ہے۔ بیان نہایت سلجھا ہوا ہے۔ ان میں نیا پن ہے۔ ان کا انداز دلکش ہے، مکالمے فطری ہیں اور پلاٹ میں جدّت ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ افسانے کہیں سے گراں نہیں گزریں گے۔ ان افسانوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر نوجوان مصنف نے اپنے کوششیں جاری رکھیں تو وہ ترقی کی نئی منزلیں کامیابی سے طے کرتے جائیں گے۔ ایسی مختصر افسانہ نگاری جسے ہم حقیقت نگاری بھی کہہ سکیں دنیائے ادب میں سب سے نئی صنفِ ادب ہے۔ یوں تو افسانہ نگاری کا فن ہزارہا سال پرانا ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی کتاب ’’ رگ وید‘‘ میں فطرت کی قوتوں کو دیوی اور دیوتاؤں کی شکل میں پیش کر کے افسانہ نما طریقے سے کائنات میں انھیں کار فرما دکھایا گیا ہے۔ ہندوستان کی دیومالا قدیم ترین افسانہ نگاری ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پرانی اور ایسی کتابیں جیسے کہ کتھا سرت ساگر ’ہتویدیش‘، ’ سنگھاسن بتیسی‘، ’ بیتال پچیسی‘، ’ پنچ تنتر‘، ’ رامائن‘ اور ’مہا بھارت‘ آفاقی افسانوی ادب کا بہت بڑی حد تک سرچشمہ رہی ہیں۔ حکیم افلاطون نے کہا ہے کہ افسانے مثالوں اور تمثیلوں کے ذریعے ہمیں فلسفہ سکھلاتے ہیں۔

افسانہ نگاری کی جدید ہیئت اور شکل اور اس کے درو بست مغربی ادب سے ہم تک پہنچے ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے جدید افسانہ نگاری کی ابتداء پریم چند کے ہاتھوں اردو میں ہوئی۔ ہندوستان کی کئی زبانوں میں مختصر افسانہ نگاری کے لیے پریم چند کے اردو افسانے چراغِ راہ ثابت ہوئے۔ فنِ افسانہ نگاری کی تیز رفتار نشو و نما کی مصوری جس طرح ہمارے افسانوں میں نظر آتی ہے، اس کا بالواسطہ اثر ہماری شاعری اور دوسری اصنافِ سخن پر بھی پڑا ہے کیونکہ گزشتہ چالیس پچاس برس میں اردو شاعری میں بھی جیسا انقلاب آیا ہے اس کی مثال اٹھارویں اور انیسویں صدی کی اردو شاعری میں نہیں ملتی۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ یہ چند سطور مظفر حنفی کے افسانوں کے پہلے مجموعہ کے پیش لفظ ہیں۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ روشن خیال شائقین ادب اس مجموعے کی خوبیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بحیثیت مجموعی ہمارے قومی شعور کی نئی بیداری اور ہمارے ادب کی نئی رنگا رنگی کا تصور کر کے اپنے ذوقِ ادب کی تربیت کریں۔

 

الٰہ آباد یونیورسٹی

۱۵؍ جولائی ۱۹۵۷ء                             فراقؔ گورکھپوری

 

 

 

 

مولانا منّے

 

ان کی عمر تو کچھ اتنی زیادہ نہ تھی کہ بڑھتی ہوئی پرہیز گاری اور دن بدن زہد و اتقا میں اضافہ کے لیے انھیں معاف کیا جا سکتا!بمشکل مجھ سے دو ایک سال بڑے ہوں گے۔ یہی چھبیس ستائیس سال کی عمروں میں تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بندۂ خدا کو یادِ خدا کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہ ہو۔

اس گاؤں میں ہم تین ہی تو ماسٹر تھے۔ پرائمری اسکول میں لڑکوں کی تعداد بھی پندرہ سے زیادہ نہ تھی۔ لہٰذا ایک گھنٹہ پڑھانے کے بعد یہ ہوتا تھا کہ میں اور مدن لال تاش لے کر رمی کھیلنے بیٹھ جاتے اور جب رمی سے دل بھر جاتا تو ایک اور ساتھی کی ضرورت محسوس ہوتی تاکہ تین پارٹنر والا کھیل کھیلا جائے۔ لیکن وہاں ماسٹر اویس کو اس قسم کی فضولیات کے لیے فرصت کہاں۔ جب ہمیں تیسرے ساتھی کی ضرورت محسوس ہوتی اس وقت وہ تعویذ لکھنے یا کوئی تازہ ترین دعا یاد کرنے میں مصروف پائے جاتے۔ اب آپ لاکھ جتن کر ڈالیے ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگ سکتی۔

’’ ارے بھئی کیوں پریشان کرتے ہو! کلّو دھوبی کی بیوی پر اب تک آسیب کا خلل ہے۔ نیا تعویذ لکھ رہا ہوں !‘‘

’’ بابا تعویذ لکھ لینا۔ ابھی تو۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ نہیں۔ اس تعویذ کی تیاری کا یہی وقت ہے۔ !‘‘

’’ تمھارے تعویذ کی ایسی کی تیسی! ‘‘ ہم چلّا کر کہتے۔ ’’ آج تک کسی کو فائدہ بھی ہوا ہے ان سے۔ ‘‘

اس پر وہ جھنجھلا کر لڑنے مرنے پر تل جاتے۔ کم از کم مجھے تو یاد نہیں آتا کہ اس گاؤں میں کبھی کوئی ان کے تعویذوں کی بدولت اچھا ہوا ہو۔ لیکن پھر بھی گاؤں والوں کے اعتقاد کا یہ عالم تھا کہ کسی کو کھانسی آئی یا زکام کی شکایت ہوئی اور وہ تعویذ لینے کے لیے ماسٹر اویس کی طرف دوڑا۔ اب یہ اور بات ہے کہ ماسٹر اویس تعویذ بازو پر باندھنے کی ہدایت کرتے ہوئے یہ نصیحت بھی کر دیتے کہ احتیاطاً حکیم صاحب کے پاس بھی چلے جانا۔ ‘‘

اسکول سے چھوٹنے کے بعد بھی اگر چاہو کہ ماسٹر اویس سے دو چار منٹ ہنس بول لو تو ناممکن تھا۔ گاؤں شہر سے بہت دور تھا لہٰذا ہم لوگوں کے لیے جو مختلف شہروں کی پختہ سڑکوں پر پچیس پچیس سال چہل قدمیاں کر چکے تھے، وہاں تفریح اور وقت گزاری کے لیے جگہ سوائے اس کے اور کہاں ہو سکتی تھی کہ بقیہ دو ساتھیوں کے گھروں پر چلے جائیں۔ گو کہ اس گاؤں میں پانچ چھ سو انسان اور بھی بستے تھے اور ان کے لیے وہی گاؤں رشکِ فردوس تھا لیکن بات ہماری اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا گاؤں والوں کا ذکر ہی فضول ہے۔ تو ایسے موقعہ پر جب کبھی میں ماسٹر اویس کے یہاں پہنچا انھیں ذکرِ خدا میں مشغول پایا۔

ان کا دن بھر کا پروگرام کچھ اس قسم کا تھا۔

صبح ساڑھے تین بجے اٹھنا، حوائجِ ضروری سے فراغت حاصل کرنا، فجر کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا، ناشتہ تیار کر کے پیٹ پوجا کرنا، چھ بجے صبح سے دس بجے تک گھر پر آئے ہوئے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینا، دس بجے سے پانچ بجے تک اسکول، وہاں سے چھوٹتے ہی عصر کی نماز با جماعت، ظہر کی نماز وہ اسکول میں تنہا پڑھ لیتے تھے، پھر مغرب کی نماز سے پہلے پہلے کھانا تیار کرنا، مغرب کی نماز پڑھ کر عشاء کے وقت تک حکیم صاحب کی بچی کو ٹیوشن پڑھانا۔ ، نماز عشاء کے بعد کھانا اور پھر وظائف کا وِرد جو نہ معلوم کب ختم ہوتا تھا کیونکہ عشاء کے بعد ان کے گھر جانے کا اب تک ہمیں اتفاق نہ ہوا تھا۔

اب آپ ہی بتلائیے! ایسے کمسن زاہد کو ہم لوگ مولانا منّے کا خطاب نہ دیتے تو اور کیا کرتے؟مولانا منّے کی موجودہ عمر وہ تھی جسے انسان کی زندگی کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ میرے اور مدن کے اس گاؤں میں بور ہوتے رہنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اتفاق سے ہم تینوں ہی کنوارے تھے اور نئے نئے شہروں سے آئے تھے جہاں شام کے وقت سڑکوں، پارکوں، ہوٹلوں اور سنیماگھروں کے سامنے بھانت بھانت کی لڑکیوں کے پرے کے پرے نظر آتے ہیں۔ دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہ بھی بہت تھا آنکھیں سینک لیتے تھے۔ وصل نہیں حسرت تو قائم رہتی تھی لیکن یہاں گاؤں کی رہائش نے تو اس سے بھی محروم کر دیا تھا اگر اتفاق سے راہ چلتے کوئی الہّڑ دوشیزہ دکھلائی دے جاتی تو مولانا منّے اس طرح گردن جھکا لیتے تھے جیسے دنیا بھر کا سارا حسن سمٹ کر ان کے پیروں میں آ گیا ہو۔ مجبوراً ہمیں بھی ان کی پیروی کرنی پڑتی تھی کیوں کہ دیکھتے تھے اسی قسم کی پاکیزہ حرکتوں کی وجہ سے گاؤں والے انھیں پوجنے لگے تھے۔ دوسرے مدن ایک گوجر کی لڑکی کو چھیڑنے پر پٹتے پٹتے بچا تھا اور خیریت بھی اس میں تھی کہ اپنے پیروں کے ناخن ہی کو سامنے سے آتی ہوئی حسینہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تصور کر لیا جائے۔

شاید یہ گاؤں والے نگاہوں کے بہترین نباض بھی ہوتے ہیں ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ مولانا منّے کو تو محض دو روپیے ماہوار پر عین پنگھٹ کے سامنے والے مکان کے دو کمروں میں جگہ مل جائے اور مجھے اور مدن کو دس روپیے ماہوار ادا کرنے پر بھی پٹیل کے کھیت میں واقع وہ سڑی ہوئی سی کٹیا ملے جس کے آس پاس دور دور تک کوئی ایسا مکان نہ دکھلائی دے جس میں کسی لڑکی کا وجود ہو!

صبح جب مولانا منّے بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے اور شام کو جب وہ اپنا کھانا پکا رہے ہوتے پنگھٹ پروہ رونق رہتی کہ خدا کی پناہ۔ گاؤں بھر کا حسن پانی بھرنے مولانا منے کے مکان کے سامنے آ جمع ہوتا۔ ایک سے ایک حسین دوشیزہ گاگر لیے جھومتی مٹکتی کنویں پر آتی اور پانی بھر کر لچکتی ہوئی چلی جاتی۔ ان اوقات میں ہم ہزار کوشش کرتے کہ مولانا منّے کے مکان میں بیٹھنا ہی ’’ ٹیڑھی کھیر‘ تھی۔ وہ کسی طرح ہماری دال ہی نہ گلنے دیتے تھے جس وقت وہ قرآن شریف پڑھاتے ہوتے تب ہمارا بیٹھنا یوں دو بھر ہو جاتا کہ وہ بار بار اعتراض کرتے۔۔

’’ ارے بھئی مدن!، وہاں کہاں جا بیٹھے! وہ جگہ اونچی پڑتی ہے۔ کتاب مقدس کی بے ادبی ہو گی!‘‘

مدن مجبوراً نیچے بیٹھ جاتا جہاں سے پنگھٹ پر پانی بھرتی ہوئی لڑکیوں کے سر پر رکھے ہوئے صرف گاگر ہی دکھائی دیتے۔ میں کسی مناسب جگہ بیٹھتا تو مولانا منّے ارشاد فرماتے۔۔

’’ دیکھیے مسٹر جلیل! منہ ادھر کیجیے۔ اس طرح آپ کی پیٹھ کلام مجید کی طرف پڑتی ہے۔ ‘‘

لیجیے صاحب! مدن نیچے بیٹھ گیا، میں نے اپنا منہ مولانا محترم کی طرف کر لیا۔ اب ان کی چگّی داڑھی کا حسن دیکھیے اور خدا کی کاریگری پر مرحبا کہیے۔ یا اللہ! یہ مولانا منّے انسان کب بنیں گے؟

باقی رہی بات اس وقت کی جب عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مغرب کی نماز کا انتظار کرتے ہوئے مولانا منے اپنا رات کا کھانا پکاتے تھے، شام کا وقت ہوتا تھا اور پنگھٹ پر حسین الھڑ کنواریوں کا مجمع ہوتا تھا تو اس وقت جیسے ہی ہم لوگ ان کے مکان پر پہنچتے اور ان کے کمرے میں بیٹھتے جہاں سے پنگھٹ کا منظر صاف دکھلائی دیتا تھا، مولانا منے چولھے میں گیلی لکڑیاں اس کثرت سے جھونک دیتے کہ ہمارا سانس لینا وبالِ جان ہو جاتا اور آنکھیں مل مل کر دیکھنے پر لڑکیوں کے اچھے خاصے حسین چہرے بد نما نظر آنے لگتے۔

’’ ارے مولانا منے! تمھیں خدا کا واسطہ، دھواں ذرا کم کرو!‘‘

’’ اوہ! کیا کروں بھائی۔ !‘‘ وہ عذر پیش کرتے۔ ’’ لکڑیاں ہی گیلی ہیں۔ لیجیے آپ ہی جلا لیجیے۔ ‘‘

چلیے قصہ ختم ہوا۔ جب تک گیلی لکڑیاں سلگیں گی تب تک مولانا منّے کی مغرب کی نماز کا وقت آ جائے گا اور پنگھٹ پربھی ویرانی برسنے لگے گی۔

ایک دن جب ہماری آمد پر مولانا منّے نے گیلی لکڑیاں چولھے میں کھونسیں تو میں نے رومال آنکھوں پر رکھ لیا اور پھر جرأت کر کے باہر برآمدے میں چلا آیا۔ واللہ طبیعت خوش ہو گئی۔ اتنے دلفریب چہرے ایک جگہ بہت کم اکٹھا نظر آتے ہیں۔ جی چاہا ابھی مولانا سے سیکھ کر دو رکعت نماز شکرانہ ادا کر ڈالوں لیکن تب تک مولانا منے آ کر میرا ہاتھ کھینچنے لگے۔۔

’’ جلیل صاحب! اگر آپ کو اپنے وقار اور پیشے کی عزت کا لحاظ نہیں ہے تو کم از کم میری شرافت کا خیال کیجیے۔ چلیے!‘‘

’’ لیکن میرے پیارے منّے مولانا!‘‘ میں صدائے احتجاج بلند کی ’’ وہاں تو دھواں ہے۔ ‘‘

’’ تب پھر مجبوری ہے۔ ‘‘ انھوں نے سرد مہری کے ساتھ جواب دیا۔ ’’ اگر پنگھٹ کی طرف ہی دیکھنا ہے تو باہر جا کر دیکھیے۔ ‘‘ مگر میری کھوپڑی اتنی مضبوط نہیں تھے اس لیے مدن کو ساتھ لے کر اپنی کٹیا پر چلا آیا۔ با دلِ نا خواستہ۔ !

وہ شاید اتوار کا دن تھا۔ میں اپنی کتاب مولانا منّے کے گھر بھول آیا تھا اور ضرورت ایک بحث کے دوران اس کتاب کی پڑ گئی لہٰذا مدن کو بھیجا کہ جا کر جلدی سے کتاب لے آئے۔ تقریباً نصف گھنٹے بعد وہ ہانپتا کانپتا واپس آیا۔

’’ کیوں کیا بات ہے؟‘‘

’’ ارے جلیل! یہ منے مولانا تو بڑے چھپے رستم نکلے!‘‘

’’ ہوا کیا۔۔ ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

وہ کہنے لگا۔

’’میں یہاں سے کتاب لینے پہنچا تو دیکھتا کیا ہوں مولانا منے اپنے کمرے میں جس کی دیواریں لکڑی کی ہیں۔ جن میں جگہ جگہ دراڑیں ہیں بس انھیں میں سے ایک سوراخ سے مولانا جھانک رہے تھے۔ میں چپکے چپکے پہنچا اور انھیں تیزی سے ایک طرف دھکیل کر سوراخ سے دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ ‘‘

’’کیوں ۔۔ ؟‘‘ میری سانس جیسے رک سی گئی ہو۔

’’ارے یار! دوسری طرف ایک ننگ دھڑنگ عورت نہا رہی تھی!‘‘

’’ کیا سچ؟‘‘

’’ کیوں ۔۔ ‘‘ مدن نے کہا’’ عورتوں کے نہانے میں تعجب کی کیا بات ہے!‘‘

’’ نہیں یار!‘‘میں نے جواب دیا۔ ’’ مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ مولنا منّے اُسے جھانک کر دیکھ رہے تھے۔ یقین نہیں آتا۔ ‘‘

’’ بھگوان کی قسم جلیل بھائی!‘‘ مدن نے زور دے کر کہا۔ ’’ وہ سوراخ سے جھانک رہے تھے جب میں جھانکنے لگا تو لاحول پڑھ کر مجھے ہٹا دیا اور ننگی نہانے والی عورت پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنی ٹوپی اس سوراخ میں ٹھونس دی۔ اب بھی تم جا کر دیکھ لو مکان کے سب سوروخوں میں کپڑے ٹھونستے پھر رہے ہیں۔ مجھے سو فی صدی یقین ہے کہ ان کے پڑوس میں حسن ہی حسن ہے۔ ‘‘

مجھے یقین نہ آیا۔ دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ مولانا منے کے بارے میں اس قسم کا شک بھی کروں۔ اسی دن شام کو ان کی پاکبازی کا سو فیصدی یقین ہو گیا جب انھوں نے بہت لجاجت کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر ہم لوگوں سے درخواست کی ہم لوگ صبح اور شام کے وقت جب پنگھٹ پر نوجوان لڑکیاں جمع ہوتی ہیں ان کے مکان پر نہ آیا کریں ورنہ اپنے ساتھ ہی ہم انھیں بھی بد نام کر دیں گے۔

اب اتنی بے غیرتی بھی نہیں لادی جا سکتی تھی کہ صاف صاف نکالے جانے کے بعد بھی ہم ان کے گھر جاتے۔ دوسری طرف تین دن لگاتار جب کوئی لڑکی دیکھنے کو نہ ملی تو نگاہیں ترس گئیں جی چاہتا تھا فوراً استعفیٰ دے کر شہر چلے جائیں لیکن تب آنکھوں کی بھوک مٹتی تو پیٹ کی بھوک کا سوال کھڑا ہو جاتا اس لیے بہت سوچ بچار کے بعد ایک ترکیب نکالی گئی اور جرأت کر کے اس پر عمل بھی کر ڈالا۔

اس گاؤں میں صرف دو کنوئیں تھے ایک مولانا منّے کے مکان کے سامنے والا اور دوسرا ہماری کٹیا کے قریب۔ ہمارا کنواں گاؤں سے دور پڑتا تھا اس لیے گاؤں والے مولا منّے والے کنویں سے ہی پانی بھرتے تھے۔ اس رات ہم نے ایک خارش زدہ کتّا پکڑا اور رات کے بارہ بجے سناٹے میں اسے مولانا منّے والے کنویں میں ڈال آئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ دوسرے دن گاؤں میں شہرہ ہو گیا کہ کنویں میں کتا گر گیا۔

اور پھر خدا کی قدرت کا کرشمہ اس وقت نظر آیا جب بارہ اور بارہ چوبیس برس کے بعد ہمارے دن پھرے۔ ہماری ویران کٹیا کے سامنے گاؤں کا حسن پانی بھرتا نظر آیا۔ اس دن ہم نے اسکول سے چھٹی لی اور خوب جی بھرکر آنکھوں کی پیاس بجھائی۔ مولانا منّے نے اس دن گاؤں والوں کو یہ مسئلہ بہت سمجھایا کہ گندے پانی کو نکال کر کنواں صاف کر لیا جائے تو نیا پانی پاک ہو گا لیکن اتنی محنت کرنے پر کوئی رضا مند نہ ہوا کیونکہ ایک فرلانگ دور جا کر آسانی سے دوسرا کنواں مل جاتا تھا۔ ہم لوگ دل ہی دل میں بہت خوش ہوئے۔

رات ہوئی تو مدن اور میں مختلف لڑکیوں کے حسن پر نکتہ چینیوں اور بحث و مباحثہ میں دیر تک مشغول رہے کیوں کہ اتنا پیارا موضوع بڑی مدت کے بعد ہاتھ آیا تھا۔ کافی رات گزرنے پر ہم لوگ سونے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ کنویں کی طرف سے ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا۔ میں کنوئیں کی طرف دوڑا، مدن میرے پیچھے تھا۔ کچھ دور پر ہی کسی کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ کنوئیں میں ڈوبتا ہوا کتّا کیاؤں کیاؤں کر رہا تھا۔ اس طرف متوجہ ہوئے بغیر پہلے میں نے بھاگنے والے کی طرف ٹارچ کی روشنی ڈالی اور دوسرے لمحے ہمارے اوپر گھڑوں پانی پڑ گیا۔

مولانا منّے شیروانی پھڑکاتے ہوئے بھاگے جا رہے تھے۔ !!

( ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

غبار آئینہ دل

 

گپتا دل ہی دل میں بری طرح کھول رہا تھا۔

پچھلے دس پندرہ دنوں سے دفتر میں طوفانِ بد تمیزی برپا تھا۔ بات یوں تھی کہ مصرا صاحب کا تبادلہ ہو گیا تھا اور ان کی جگہ نئے آفیسر کوئی جوشی صاحب تشریف لا رہے تھے۔ مصرا صاحب کام میں بہت باقاعدگی کے قائل تھے اور چاہتے تھے کہ جوشی صاحب کو چارج منتقل کرنے سے قبل دفتر میں رکا ہوا کام صاف ہو جائے۔ چنانچہ اہلکاروں کی شامت سی آ گئی تھی۔

دن میں دس پندرہ مرتبہ کسی نہ کسی کی پیشی ہوتی اور کام میں سستی کی شکایت کرتے ہوئے بُری طرح ڈانٹ پلائی جاتی۔ البتہ گپتا کا معاملہ دوسرا تھا۔ مصرا صاحب شروع ہی سے اس پر مہربان تھے اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ گپتا میں دوسرے کلرکوں کے روایتی اوصاف مفقود تھے۔ زبردستی پریشان کر کے کچھ روپیے حاصل کرنے کے لیے اس نے کبھی کسی چھوٹے ماتحت کے کاغذات غیر ضروری طور پر نہ روکے تھے، دس سے ساڑھے پانچ بجے تک کے درمیان مشینی انداز میں بے دلی کے ساتھ کام کرتے رہنے کا بھی وہ قائل نہ تھا اسے کام سے شغف تھا۔ دفتر کے دیوار گیر کلاک نے کبھی اس کی عدم موجودگی میں دن کے دس یا ساڑھے پانچ نہ بجائے تھے۔ وہ مقررہ وقت سے بہت پہلے دفتر پہنچتا اور ساڑھے پانچ بجے جب تمام اہلکاروں کی نظریں گھڑی کی سوئیوں پر ہوتیں وہ وقت سے بے نیاز اپنے کام میں مگن نظر آتا۔ دفتر سے روانگی پر بھی ہمیشہ اس کی بغل میں فائیلوں کے بستے دبے نظر آتے، جنھیں وہ اپنے ساتھ گھر لے جا کر رات کو مکمل کرتا مصرا صاحب بذاتِ خود بیحد محنتی اور لائق افسر تھے اور کام کرنے والے کی دل کھول کر قدر کرتے تھے۔ ہر وہ اہم کیس جسے فوری طور پر مکمل کرنا ہوتا خواہ کسی صیغے سے متعلق ہو، گپتا کے سپرد کیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ دوسرے کلرکوں کی بہ نسبت گپتا کی میز پر دو گنے کاغذات نظر آتے لیکن کبھی حرفِ شکایت اس کی زبان سے نہیں سنا گیا۔ اپنی انھی صفات کی بنا پر وہ لوئر ڈیویژن کلرک ہونے کے باوجود مصرا صاحب کا پرائیویٹ سکریٹری بن کر رہ گیا تھا۔ ان دس پندرہ دنوں کے ہنگامی عرصے میں جب دوسرے اہلکاروں کی شامت آئی ہوئی تھی گپتا کے مطمئن چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کی لکیریں نمایاں دیکھی گئیں۔ کام بہر صورت اپنا معاوضہ خود ہوتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مصرا صاحب نے بھولے سے بھی اس سے تنک مزاجی کے ساتھ بات کی ہو۔ البتہ یوں ہوتا تھا اور اکثر ہوتا تھا کہ مصرا صاحب نے کسی کلرک کی پیش کی ہوئی فائل دیکھی اور پھینکتے ہوئے بولے:

’’ سارے کیس کا ستیاناس کر دیا تم نے ! جاؤ گپتا سے مدد لے کر درست کرو۔ ‘‘ یا پھر فائل پر مختصر سا حکم لگا دیتے۔

لاکھ مصرا صاحب کا چہیتا سہی۔ یہ جوشی صاحب تو بڑے بد مزاج معلوم ہوتے ہیں۔

’’ صاحب کیا کہتے ہیں تم نے سنا نہیں !‘‘مصرا صاحب نے پوری افسرانہ شان کے ساتھ اس سے کہا۔ ’’ کھڑے کھڑے منہ کیا تک رہے ہو۔ ؟‘‘

’’ہے بھگوان! یہ کون سا مصرا چھپا ہوا تھا ا ن مصرا صاحب کے اندر!‘‘ گپتا سے اس کے بلکتے ہوئے دل نے پوچھا۔ آج مصرا صاحب پہلی بار اس انداز میں مخاطب ہوئے تھے۔

وہ جیسے فرطِ غم سے پیروں کے پاس پڑی ہوئے فائلوں کے انبار پر جھک گیا۔

’’ وہ نہیں، وہ نہیں۔ ‘ ‘جوشی صاحب نے میز پر گھونسا مارتے ہوئے آنکھیں گھما کر کہا۔ ’’مجھ سے چالاکی چلنے کی ضرورت نہیں۔ پہلے وہ فائلیں پیش کرو جو تمہارے اپنے صیغے کی ہیں۔ ‘‘

تو میں چالاکی چلتا رہا ہوں اب تک۔ گپتا بلبلا گیا۔ دل ہی دل میں خون کے گھونٹ پی کر اس نے کمرے پر سرسری نگاہ ڈالی اور کونے میں پڑی ہوئی صیغہ راز کی فائیلوں کو کریدنے لگا۔

’’ ہاں ! یہی اوپر والی فائیل ادھر لاؤ۔ ‘‘ جوشی صاحب نے فرمایا۔ اس نے تعمیل کی۔ جوشی صاحب کچھ دیر فائل الٹ پلٹ کرتے رہے پھر فائیل مصرا صاحب کے سامنے پھینک کر بولے۔

’’دیکھیے اپنے معتمد اہلکار کی کار گزاری۔۔ دیکھیے، دیکھیے۔ ‘‘

اس کیس میں تمام کارروائی گپتا کے اپنے ہاتھ کی تھی۔ اپنے طور پر اسے یقین تھا کہ کیس میں کوئی خامی نہیں ہے تاہم متجسس طبیعت نے اسے مصرا صاحب کے سامنے میز پر جھک کر فائل دیکھنے پر مجبور کر دیا اور دوسرے لمحے اس کے دل پر تیر سا چل گیا۔

’’ تم کو اب تک افسروں کے سامنے ادب سے کھڑے ہونے کی تمیز تک نہیں آئی۔ ؟‘‘ مصرا صاحب اس پر آنکھیں نکال رہے تھے۔ اس کی نظریں بوکھلاہٹ میں جوشی صاحب کی نظروں سے چار ہو گئیں اور اسے وہ مسکراتی ہوئی سی جان پڑیں !۔

’’ کیوں گپتا۔ یہ کیا ہے؟‘‘ مصرا صاحب نے فائل اس کے منہ پر پھینک ماری۔ ’’اتنا اہم کیس اور تم نے فیصلے کی آفس کاپی میرے دستخط کے بغیر ہی فائل میں ٹھونس رکھی ہے۔ دو قدم چل کر دستخط لینے میں تمہارے پیر گھستے تھے۔ تم کلرکوں پر بھروسہ کرنا ہی حماقت ہے۔ ‘‘

جوشی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’ بالکل سچ فرمایا آپ نے۔ مجھے اس سلسلے میں بڑے تلخ تجربات ہیں ایک بار ایسا ہوا کہ۔۔ ۔۔ ‘‘ وہ ایک طویل قصہ بیان کرتے رہے اور گپتا دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔ در اصل جوشی صاحب نے اس کہانی کی آڑ میں اسے دغا باز، نا لائق، بے ایمان، کام چور اور نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالا تھا اور کہانی اب تک جاری تھی۔ اس کے جی میں آئی کہ فائیلوں کا گٹھر اٹھا کر دونوں افسروں کے منہ پر دے مارے اور کہے کہ اے دستخط کرنے والی مشینو! یہ جو فیصلے لکھے جاتے ہیں اور تحقیقات ہوتی اور احکامات صادر ہوتے ہیں اور جرمانے وصول ہوتے ہیں اور فائیلیں آگے بڑھتی ہیں یہ سب ہم کلرک کرتے ہیں اور تم لوگ دماغ پر کوئی زور دیے بغیر صرف دستخط کرتے ہو تم ہفتے بھر میں صرف اتنا کام کرتے ہو جتنا ایک کام چور کلرک ایک دن میں کرتا ہے لیکن تمھیں تنخواہ دس کلرکوں کی ملتی ہے اور پھر میں تو اس دفتر کا سب سے محنتی کلرک ہوں۔ میں۔ جس کی عدم موجودگی میں کبھی دفتر کے کلاک نے دن کے دس یا شام کے ساڑھے پانچ نہیں بجائے۔ میں جو دفتر کے مشکل ترین کیس خود نپٹاتا ہوں۔ میں جسے ایک پیسے کی رشوت سے واسطہ نہیں۔ شام کے سات بجے تک دفتر میں بھگتنے کے بعد گھر جاتا ہوں تو فائیلوں کا ایک بستہ میرے ساتھ جوتا ہے۔ تم مجھے نالائق کہتے ہو، دغا باز کہتے ہو، کام چور کہتے ہو، بے ایمان کہتے ہو۔ تم گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی چابک سے ہانکتے ہو۔ ارے کام چور تو تم ہو۔ دغا بازی تو تم نے کی ہے میرے ساتھ۔ تمھاری نالائقی کا ثبوت تمھاری یہ اوچھی حرکتیں ہیں۔ تم دونوں صریحاً میرے ساتھ بے ایمانی کر رہے ہو۔ خدا تم سے سمجھے۔ یہ لو میرا استعفیٰ!

اُس نے بیباکی کے ساتھ میز پر پڑا ہوا سادہ کاغذ جوشی صاحب کے سامنے سے کھینچا، مصرا صاحب کا قلم میز سے اٹھایا اور جلدی جلدی کاغذ پر کچھ لکھنے لگا۔ جوشی صاحب کی کہانی ادھوری چھوٹ گئی پہلے تو دونوں بہت غصّے کے ساتھ گپتا کو دیکھتے رہے پھر آہستہ آہستہ یہ غصّہ حیرت میں تبدیل ہو گیا۔

’’ کیوں کیا بات ہے؟ ’’ مصرا صاحب نے دبی ہوئی زبان سے کہا۔ ’’ غلطی بھی کرتے ہو اور بُرا بھی مانتے ہو۔ ‘‘

’’ میں نے کہا نا مسٹر مصرا! کہ یہ بابو لوگ۔۔ ‘‘ جوشی صاحب کا بیان ادھورا رہ گیا۔

’’ یہ میری درخواست ہے۔ ‘‘ گپتا کاغذ میز پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل آیا۔

اپنی میز پر آ کر اس نے جلدی جلدی کاغذات سمیٹ کر الماری میں ڈالے، تالا لگایا اور کنجی آفس سپرنٹنڈنٹ کی ٹیبل پر ڈال کے تمام اہلکاروں کو حیران ششدر چھوڑ کر چلا آیا۔ !

گھر آ کر وہ خاموشی سے ایک کونے میں پڑا رہا۔ اُسے اپنے رویّے پر حیرت ہو رہی تھی کاغذ اس نے استعفیٰ لکھنے کی غرض سے اٹھایا تھا لیکن اس پر لکھ آیا تین دن رخصت اتفاقیہ کی درخواست۔ اس چند منٹ کے وقفے میں اس کے دماغ نے گھر کی بگڑی ہوئی معاشی حالت، باپ کی علالت، بہن کی بیوگی اور بچے کی تعلیم وغیرہ کی نہ معلوم کتنی بھیانک تصویریں نظر کے سامنے کھینچ کر رکھ دی تھیں اور اسے مجبوراً قلم کی باگ ایک نسبتاً محفوظ سمت میں کھینچنی پڑی تھی لیکن اب۔۔

دل کا آئینہ غبار آلود ہو چکا تھا لیکن رسماً اُس دن شام کو اسے ریلوے اسٹیشن پر مصرا صاحب کو رخصت کرنے کے لیے جانا پڑا۔ تمام اہلکاروں سے الوداعی ہار لیتے ہوئے جب گپتا کا نمبر آیا تو مصرا صاحب نے جھک کر اپنے ہاتھ سے اس کا لایا ہوا ہار گلے میں پہن لیا اور اس کی بانہہ کھینچتے ہوئے ایک طرف لے جا کر بولے۔

’’ مجھے اپنے صبح والے رویّے پر بیحد افسوس ہے گپتا جی! یہ جوشی صاحب بیحد واہیات قسم کے آدمی ہیں زبردستی معاملات کو یوں الجھا دیا کہ مجھے تاؤ آ گیا۔۔ ۔۔ ‘‘ وہ نہ معلوم کیا کیا کہتے رہے اور گپتا کی پلکیں نم ہو گئیں۔

پھر ٹرین بھی چلی گئی اور ساتھ ہی مصرا صاحب بھی۔ گپتا اپنے خیالات کی رو میں بہتا رہا۔ خاموش، ملول و دل گرفتہ۔ مصرا صاحب کی گفتگو بہت صاف اور پر خلوص تھی لیکن گپتا نے محسوس کیا کہ اس کے آئینۂ دل پر غبار کچھ اور بھی کثیف ہو گیا ہے!

پھر واپسی میں تنہا دیکھ کر جوشی صاحب نے اسے بلا کر مسکراتے ہوئے کہا ’’بھئی گپتا! میں نیا آدمی ہوں۔ تم سمجھتے ہو گے بہت بد مزاج افسر ملا ہے۔ لیکن یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘ انھوں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ ’’ میں صدر دفتر میں ہی تمہارے کام کی تعریف سن چکا تھا۔ وہ تو در اصل مصرا صاحب کچھ اتنی لن ترانی اڑا رہے تھے اپنے کام کے بارے میں کہ میں نے انھیں سبق دینا ضروری سمجھا۔ پھر تم جانو جب دو افسر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا چاہیں تو درمیان میں کلرک کا پردہ تو لٹکانا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

’’ جی دیکھیے۔۔ ‘‘ گپتا نے کچھ کہنا چاہا۔

’’ نہیں۔ ‘‘ جوشی صاحب بولے۔ ’’ تم وہ سب بھول جاؤ۔ میری نظروں میں تمہاری بے حد عزت ہے اور ہاں۔ سنا ہے تم رخصت بڑھانے کی سوچ رہے ہو۔ چھی! اپنے افسروں کی اتنی اتنی سی باتوں کا برا نہیں مانا کرتے۔ تم رخصت ختم ہوتے ہی کام پر آ جاؤ۔ اور کوئی ضرورت ہو تو مجھ سے بے تکلف کہنا۔ !‘‘

گپتا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنے دل میں جھانک کر دیکھا۔ آئینے پر غبار کی تہہ کچھ اور بھی دبیز ہو گئی تھی۔

آج اس کی رخصت ختم ہو رہی تھی۔ کل صبح یا تو اسے کام پر حاضر ہونا تھا یا پھر استعفیٰ داخل کر دینا تھا۔ رہ رہ کر اسے مصرا صاحب کا رویّہ یاد آتا رہا۔ مصرا صاحب! جو اسے دفتر کا سب سے محنتی اہلکار سمجھتے تھے۔ جوشی صاحب کی قہر آلود نظریں یاد آتی تھیں۔ جوشی صاحب! جو صدر دفتر سے اس کے کام کی تعریف سن کر چلے تھے۔ دفتر کے اہلکاروں اور آفس سپرنٹنڈنٹ کی طنز آلود نگاہیں اس کا تمسخر اڑاتی ہوئی لا شعور کے گوشوں سے ابھر کر اسے اپنے رگ و پے میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں اور وہ تلملا کر رہ گیا۔ نہیں اسے استعفیٰ بھیجنا ہی ہو گا۔

آئینۂ دل انتہائی غبار آلود ہو چکا تھا!

چھوٹی بہن آئی یہ امید لے کر کہ اس کا بھیا اس کے سر پر پیار سے چپت مارے گا لیکن بھیا منہ بسورے بیٹھا رہا۔ شیلا آئی اور مایوس گئی۔ موہن پیارے نے رادھا کی بیّاں مروڑنا پسند نہیں کیا اور موہن پیارا بلکتا رہا۔ دل ہی دل میں کڑھتا رہا۔ ان حالات میں کیسے کام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، لیکن پھر گھر کی گاڑی کیسے چلے گی!

’’ بابو جی! دیکھیے۔ ‘‘گپتا کا بیٹا کمرے میں داخل ہو کر منہ بسورتا ہوا بولا۔ ’’ یہ میری پتنگ راجو نے پھاڑ ڈالی۔ ‘‘ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ کمل کھڑا تھا۔ پیروں میں کیچڑ سنی ہوئی، قمیص کی آستین پھٹ کر سامنے جھول رہی تھی۔ بال اس طرح الجھے ہوئے تھے جیسے گپتا کے خیالات۔ اور پھر اچانک گپتا کے اندر بھی سنسنی دوڑ گئی۔

اس نے لپک کر بچے کو بالوں سے پکڑ لیا۔ اس کے کان پکڑ کر زور زور سے ہلا ڈالے۔ پوری طاقت سے گالوں پر آٹھ دس طمانچے رسید کیے، بچہ بوکھلا کر گھوما تو پیٹھ پر لگاتار گھونسے مارتے ہوئے وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔

’’ کیوں بے! نالائق! دغا باز! کام چور! کمینے! ‘‘اب وہ ہاتھ کے بجائے جوتے استعمال کر رہا تھا۔ ’’میں تم لوگوں کے لیے خون پسینہ ایک کرتا ہوں، دنیا بھر کی باتیں سنتا ہوں، ذلیل ہوتا ہوں اور تم۔ اور تم۔۔ ۔۔ ‘‘

اور پھر تھوڑی دیر بعد جذبات پر قابو پا کر اس نے نظریں اٹھائیں تو دیکھا علیل باپ، گھونگھٹ کاڑھے ہوئے شیلا اور ننگے سراس کی چھوٹی بہن ڈیوڑھی پر منہ پھلائے کھڑے تھے، بچہ کونے میں کھڑا بسور رہا تھا۔ اس کے زرد میلے گالوں پر موٹے موٹے آنسو سرسربہہ رہے تھے۔ گالوں پر طمانچوں کے نشان ابھر آئے تھے۔ آنسو وہاں ذرا سی دیر کو رکتے اور پھر لڑھک پڑتے۔ ٹپ ٹپ ٹپ ٹپ۔ اچانک گپتا نے محسوس کیا جیسے یہ آنسو اس کے اپنے دل پر ٹپک رہے ہیں اور آئینۂ دل سے غبار دھُلتا جا رہا ہے۔

وہ جلدی جلدی دوسرے دن ڈیوٹی پر حاضر ہونے کی رپورٹ لکھنے لگا۔

(۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

دل کے آئینے میں ہے۔۔ !

 

سات آدمی اس نیلگوں تنگ چٹان پر کھڑے تھے۔

منظر واقعی مر جانے کی حد تک حسین تھا۔ ایک جانب سرسبز و شاداب گھاس سے لدی ہوئی پہاڑ کی چوٹی سر بلند کیے کھڑی تھی اور اس کی آغوش میں یہ چٹان واقع تھی۔ ایک پتلی سی نیلی لکیر جیسی پگڈنڈی اسے وادی سے ملاتی تھی۔ دائیں طرف چھوٹا سا آبشار گر کر وادی میں بہنے والی ندی سے ملتا تھا اور ندی کی دوسری جانب گھنے چیڑ کے درختوں کی گود میں چھوٹا سا گاؤں بسا ہوا تھا۔ کچھ تو جنگلی پھولوں نے ہی منظر کو گلگوں بنا رکھا تھا اوپر سے ڈھلتے ہوئے سورج کی سرخ شعاعیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے قدرت نے قوس قزح کے تمام رنگ اسی جگہ انڈیل دیے ہیں۔

ان سات میں دو عورتیں تھیں۔ ایک نوجوان اور دوسری کی عمر ڈھکنے لگی تھی۔ ایک تیرہ سال کا لڑکا جس کی بغل میں کیمرہ لٹک رہا تھا۔ تین نوجوان مرد اور ایک ادھیڑ عمر کا پستہ قامت شخص۔ لڑکا اسی پستہ قامت شخص سے ضد کر رہا تھا۔

’’ میرے اچھے چچا جان! ایک گروپ آپ کھینچ دیجیے۔ ‘‘

’’ بھئی سلیم پریشان تو نہ کرو۔ ‘‘

لڑکا مچل گیا۔

’’ نہیں چچا جان! ہم تو ایک گروپ آپ سے کھنچوائیں گے!‘‘

’’ اب تم پِٹو گے۔ ‘‘

لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بڑی عمر والی عورت بولی۔

’’ اے اللہ! جاوید بھائی میں کہتی ہوں بچے کا دل رکھنے کے لیے کیمرہ لے کر بٹن دبا دو گے تو کیا ہو جائے گا۔ ؟‘‘

’’ میں سچ کہتا ہوں، رعنا! اب مجھے اس چیز سے الجھن ہوتی ہے اور پھر مجھ سے تصویر اچھی اترتی بھی تو نہیں۔ ‘‘

’’ خیر یہ تو نہ کہیے بھائی صاحب نوجوان میں سے ایک نے کہا۔ ’’ ہم لوگ آپ کے البم دیکھ چکے ہیں۔ ماشاء اللہ فوٹو گرافی میں آپ کو خاصی مہارت ہے۔ ‘‘

’’ یہ خبط میں عرصہ ہوا چھوڑ چکا ہوں ‘‘۔

’’ پھر بھی جیسا آپ سے بنے، ایک گروپ لے ہی دیجیے۔ ’’ سلیم نے اصرار کیا، بقیہ لوگوں نے بھی تائید کی۔ مجبوراً جاوید کو کیمرہ ہاتھ میں لینا پڑا۔

’’ سلیم تم سامنے بیٹھ جاؤ۔ رعنا تم ان کے بائیں طرف آ جاؤ ہاں سلمیٰ وہاں بائیں جانب ٹھیک رہیں گی۔ قمر تم نے تو آنکھیں بالکل ہی پھاڑ دیں۔ نگاہ بہت نرم رکھو، گرتے ہوے آبشار کی طرف۔۔ رستم تم وہاں کیا دیکھ رہے ہو۔ نگاہ ادھر رکھو، شاہد چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرو بھلے آدمی۔ یس۔ ریڈی۔ ‘‘

’’ وہ بٹن دبانا ہی چاہتا تھا کہ اچانک اُسے اپنے کان بجتے ہوئے محسوس ہوئے اور وہی جانی پہچانی بھرّائی ہوئی ملتجیانہ آواز۔۔

’’ بابو جی! خدا کے لیے وہ تصویر۔ بابو جی میں آپ کے پاؤں پڑتا ہوں، وہ تصویر مجھے دے دیجیے۔ ‘‘ اسے اپنے بدن میں کپکپی کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہاتھ کسی شاخِ نازک کی طرح لرزنے لگے اور دوسرے لمحے کیمرہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے ندی میں جا پڑا۔ !

تقریباً دس منٹ بعد جاوید کی بے ہوشی دور ہوئی تو اس نے بقیہ چھ افراد کو بد حواسی کے عالم میں اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا۔ زبردستی چہرے پر مسکراہٹ لانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا۔

’’ اب کیسی طبیعت ہے عمّو جان۔ ! ‘‘ سلمیٰ نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پوچھا۔

’’ کچھ نہیں بیٹی! ٹھیک ہوں۔ ‘‘

’’ مجھے معاف کر دیجئے چچا جان!‘‘ سلیم گڑگڑایا۔

’’ ارے پگلے!‘‘ جاوید کھوکھلی ہنسی ہنس کر بولا۔ ’’ اس میں تیری کیا غلطی تھی!‘‘

’’ ہائے اللہ!‘‘ رعنا نے کہا۔ ’’ آپ کہتے ہیں اس کی کوئی غلطی ہی نہ تھی۔ یہی شریر تو آپ کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ اگر راشد نے لپک کر تھام نہ لیا ہوتا تو جاوید بھائی آپ اس وقت ندی میں ہوتے۔ ساری پکنک دھری رہ جاتی ہم لوگوں کی۔ ‘‘

جاوید کے لبوں پر پھیکی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

’’ لیکن بھائی جان! بات کیا ہے۔ ؟‘‘ قدرے توقف کے بعد رستم پوچھ بیٹھا اور جاوید کا چہرہ فق ہو گیا۔ تھوڑی دیر تک وہ گم سم اپنی جگہ پر بیٹھا رہا پھر جیب سے پاؤچ نکال کر پائپ میں تمباکو بھرتے ہوئے آہستہ آہستہ کہنے لگا۔

’’ بات بہت پرانی ہے۔ شاید پچیس سال گزر گئے۔ اس وقت میں تمھاری ہی عمروں کا تھا۔ فوٹو گرافی کا نیا نیا خبط سر پر سوار ہوا تھا۔ ہر وقت کیمرہ بغل میں لٹکا رہتا تھا۔ تالاب میں تیرتی ہوئی مچھلیوں سے لے کر مینڈکوں اور کتوں تک کی تصویریں کھینچتا پھرتا تھا۔ دیہات میں میری ایک رشتے کی خالہ رہتی تھیں، یہ شوق شروع ہوا تو میں مہینے میں ایک آدھ بار ان کے ہاں ضرور جانے لگا کیونکہ اس گاؤں میں حسین قدرتی مناظر کی افراط تھی۔ ‘‘

جاوید نے رک کر پُر خیال انداز میں پائپ کا ایک طویل کش لیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنی داستان پھر شروع کی۔

’’ جمال پور چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہی کوئی تیس چالیس گھروں کی بستی تھی۔ میں نے اولین تین چار دوروں میں ہی وہاں کے قابلِ دید مناظر فلموں میں محفوظ کر لیے۔ پھر آدمیوں کی باری آئی۔ پردہ نشین عورتوں کی تو خیر بات ہی جدا ہے۔ ورنہ جمال پور میں مشکل ہی سے کوئی فرد بشر ایسا رہ گیا ہو گا جس کی تصویر نہ کھینچ ہو میں نے۔ ایک دن اپنی انھیں خالہ کے گھر میں پالتو کتے کو بیٹھا کر تصویر لینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ کمبخت کیمرے کی طرف دیکھتا ہی نہ تھا۔ بار بار اس کا منہ گھما کر ایک خاص پوز لینے کے کوشش کرتا لیکن عین موقع پر وہ دم گھما کر کیمرے کی طرف کر دیتا ایک لمحے کے لیے اس نے میرا پسندیدہ پوز دیا اور میں بٹن دبانا ہی چاہتا تھا کہ نکہت نے آ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ‘‘

’’ یہ نکہت کون تھی بھائی صاحب!‘‘ شاہد نے اس امید پر دریافت کیا کہ شاید کہانی یہاں سے رومانٹک موڑ لے گی۔

’’ میری انھیں رشتے کی خالہ کی لڑکی۔ ‘‘ جاوید نے سرسری انداز میں جواب دیا اور کہتا چلا گیا۔ ’’ تو اس نے عین موقع پر میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں نے جھنجھلا کر کہا۔ کیا بات ہے نکہت! کیوں پریشان کرتی ہو۔ میں خالہ جان سے کہہ دوں گا۔ ‘‘

’’ اے لو! آپ تو بگڑنے لگے۔ ‘‘ وہ بولی’’ میں نے سوچا آپ کی ریل کی آخری فلم ہے کتے پر کیوں ضائع ہو۔ نجمی کا پوز نہ لے لیجیے۔ ‘‘

’’کون نجمی۔۔ ؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔

’’ ارے اپنے شکور کا لڑکا۔ ‘‘ نکہت نے جواب دیا۔ ’’ وہی جو اپنے یہاں کام کرتا ہے۔ ‘‘

’’ کہاں ہے لے آؤ، دیکھوں۔ ‘‘ میں نے اس سے کہا۔ وہ کمرے میں جا کر ایک پانچ سالہ بچے کو لے آئی۔ بچہ واقعی بہت حسین تھا۔ بھولا بھالا۔ بھولے پھولے سرخ گال، چھوٹا سا منہ، پتلے پتلے لال لال ہونٹ، گھنگھریالے سنہرے بال جو اس وقت الجھے ہوئے تھے۔ کشادہ پیشانی۔ کپڑے گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ میں نے اسے ناقدانہ نظروں سے دیکھا اور ایک کرسی پر مناسب انداز میں بٹھا کر تصویر لینا چاہتا تھا کہ میرا ہاتھ پھر پکڑ لیا گیا۔

جھنجھلا کر میں نے کیمرہ قریب پڑے ہوئے پلنگ پر ڈال دیا۔ اس بار میرا ہاتھ شکور، یعنی اس بچے کے باپ نے پکڑا تھا۔ وہ مجھے ناراض دیکھ کر کچھ سہم سا گیا۔

’’ بابو جی! نا خوش ہو گئے کیا۔ ؟‘‘

’’ ناراض ہونے کی بات ہی ہے۔ ‘‘ میں نے غرا کر جواب دیا۔ ’’ ہر بار عین موقع پر کوئی نہ کوئی ہاتھ پکڑ لیتا ہے آ کر۔۔ یہ کوئی تُک ہے؟‘‘

’’ جی بات یہ کہ۔ ‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’ میرے نجمی کی یہ پہلی تصویر کھینچی جا رہی ہے کیا معلوم پھر اس کی نوبت آئے یا نہیں۔ میں نے سوچا ذرا سلیقے سے کھنچ جائے۔ اس کے کپڑے میلے ہو رہے ہیں۔ بال بھی الجھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ پانچ منٹ ٹھہر جائیں تو میں منہ ہاتھ دھلا کر اور کپڑے بدلا کر اسے لیے آتا ہوں۔ ‘‘

میں اس کے بھولے پن پر دل ہی دل میں مسکرا کر بولا۔

’’ اچھا لے جاؤ بھائی۔ لیکن ذرا جلدی کرنا۔ ‘‘

وہ بچے کو گود میں لے کر چلا گیا۔ نگہت سے معلوم ہوا کہ اس کی شادی کو سات سال ہو گئے لیکن نجمی کے بعد اور کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دونوں میاں بیوی بچے پر جان چھڑکتے ہیں۔ ‘‘

جاوید نے رک کر پائپ کا ایک کش لیا لیکن وہ بجھ چکا تھا۔ راکھ جھاڑتے ہوئے اس نے پھر کہا۔

’’ ہاں تو میں پانچ کے بجائے پندرہ منٹ انتظار کرتا رہا، لیکن شکور نجمی کو لے کر نہ آیا۔ میں نے تنگ آ کر اپنی توجہ پھر کتے کی طرف مبذول کی اور وہ حرامزادہ اس بار پہلی ہی کوشش میں دونوں ٹانگیں کرسی کے ہتھے پر رکھ کر کیمرے کی طرف نیم باز آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ میں نے پوز لے لیا اور ٹھیک اسی وقت شکور نجمی کو گود میں لیے ہوئے اندر آ گیا۔

’’ تم نے بہت دیر کر دی شکور!‘‘ میں نے سرد مہری سے کہا۔

’’ جی وہ۔ ‘‘ شکور نے اداس ہو کر کہا۔ ’’ اس کی ماں بش شرٹ میں بٹن ٹانکنے لگی تھی۔ ‘‘

’’ مجھے افسوس ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ یہ میری آخری فلم تھی۔ جو ختم ہو گئی۔ ‘‘

وہ منہ لٹکا کر پلنگ کا پایہ کریدنے لگا مجھے رحم آ گیا۔

’’ خیر کوئی بات نہیں۔ ‘‘ میں نے اسے تشفی دی۔ ’’ اگلے ہفتے پھر آؤں گا اور اس بار تمہارے نجمی کی بہت سی تصویریں لوں گا۔ ‘‘

’’ شکریہ بابو جی! بڑی مہربانی ہو گی آپ کی۔ ‘‘ شکور کا چہرہ پھول کی طرح کھل گیا۔

لیکن حالات کچھ ایسے پیش آئے کہ میں مکمل تین ماہ تک جمال پور نہ جا سکا۔ میرے سالانہ امتحانات شروع ہو گئے تھے۔ اُن سے فراغت پا کر جمال پور پہنچا تو میرے پاس کوڈ ک فلم کی تین ریلیں تھیں لیکن اسے شکور کی بد قسمتی سمجھو یا میری حماقت کہ نجمی کی تصویر کھینچنے کی نوبت پھر بھی نہ آئی اور تینوں ریلیں ختم ہو گئیں۔ در اصل ان دنوں گھر میں نگہت کی شادی کا ہنگامہ برپا تھا۔ نئی نئی دلچسپ شکلیں دیکھ کر طبیعت ہی نہ مانی اور میں نے الٹی سیدھی تمام ریلیں ختم کر دیں۔

اسی دن شام کو شکور نے مجھے آ گھیرا۔

’’ بابو جی! آپ نے پچھلی بار وعدہ کیا تھا۔ نجمی کو لاؤں کیا؟ تصویر کھینچیے گا۔ ؟‘‘ مجھے بڑی شرم محسوس ہوئی۔ بولا؛

’’ بھئی اس بار نگہت کی شادی کے جھمیلے میں ہی سب فلمیں ختم ہو گئیں۔ اب اگلی بار ضرور کھینچوں گا۔ ‘‘

’’ جی آپ ہی نے کہا تھا کہ۔ ‘‘ اس کی آواز بھرّا گئی اور آنکھیں نم ہو گئیں۔ میں نے سوچا دیکھو پاگل کو۔ بھولے پن کی انتہا ہے۔ بچے کی تصویر کے لیے اتنا اتاؤلا ہو رہا ہے۔

’’ اس بار اطمینان رکھو شکور۔ ! بہت جلد آؤں گا اور نجمی کی بہت سی اچھی اچھی تصویریں کھینچوں گا۔ ‘‘

’’ ضرور۔ ؟‘‘ اس نے مزید اطمینان کے لیے پوچھا۔

’’ ضرور۔ ضرور۔ مجھ پر یقین کرو۔ ‘‘

اور اس بار میں واقعی ایک ہفتہ بعد ہی جمال پور جا پہنچا لیکن ساتھ میں فلم کی صرف ایک ہی ریل تھی کیوں کہ اس دوران میں پیسوں سے تنگ تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا جب میں خالہ کے گھر پہنچا۔ اتفاق سے شکور اس وقت نجمی کے ہمراہ گھر میں موجود تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کا چہرہ پھول کی طرح کھل گیا۔ میرے مکان میں داخل ہوتے ہی نہ سلام نہ دعا اس نے چھوٹتے ہی کہا۔

’’ بس بابو جی! آپ اسی وقت نجمی کی تصویر لے لیجیے ورنہ صبح پھر فلم ختم ہو جائے گی۔ ‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔

’’یہ بھی کوئی وقت ہے تصویر کھینچنے کا؟ سورج غروب ہو چکا ہے۔ صبح نجمی کی تصویر لوں گا، اسی لیے آیا ہوں تم اطمینان رکھو۔ ‘‘

میں تھوڑی دیر تک خالہ سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا پھر شکور نے مجھے اشارے سے باہر چلنے کو کہا۔ ایک بار تو جی میں آئی کہ گھڑک دوں۔ نچلے طبقے کے لوگوں کو زیادہ منہ لگانے سے وقار کو دھکا پہنچتا ہے۔ پھراس کے چہرے سے ٹپکنے والی معصومیت دیکھ کر دل پسیج گیا۔ اُٹھ کر اس کے ساتھ باہر چلا گیا۔

کہنے لگا۔ ’’ بابو جی ایک بات کہوں ؟‘‘

’’ ہاں ہاں۔ کہو۔ ‘‘

’’ آپ خالہ جان سے تو نہیں کہیے گا؟‘‘

’’ ایسی کیا خاص بات ہے بھئی۔ ؟‘‘

اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

’’ در اصل میں یہ چاہتا ہوں کہ صبح نجمی کے ساتھ میں اور اس کی ماں بھی تصویر میں شریک ہو جائیں۔ ‘‘

’’ خیال تو نیک ہے۔ ‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔

’’ جی۔ ؟‘‘ وہ بوکھلا کر میرا منہ تاکنے لگا۔

’’ ہاں ہاں۔ کوئی حرج نہیں، کھینچ دوں گا۔ ‘‘

اس رات میں نے کیمرہ کھول کر اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ اس میں کوئی خامی نہیں ہے۔ پھر فلم لوڈ کی اور سرہانے کھونٹی پر لٹکا کر سو گیا۔

صبح بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کیمرہ غائب ہے!

’’ خالہ جان! میرا کیمرہ کہاں گیا۔ ‘‘

’’ افوہ رے لڑکے!تجھے کیمرے کے علاوہ اور بھی کچھ کام ہے۔ رات کو خواب بھی کیمرے کے ہی دیکھتا ہو گا!‘‘

’’نہیں واقعی۔ ‘‘ میں نے انھیں معاملے کی سنجیدگی کا احساس دلایا۔ ’’ میں نے رات کو فلم چڑھا کر کیمرہ کھونٹی پر لٹکا دیا تھا۔ اب وہاں نہیں ہے۔ ‘‘

’’ تو اتنا گھبرائے کیوں جاتے ہو؟ ‘‘ انھوں نے ہنس کر کہا۔ ’’ وہ ذرا اپنا خالد اٹھا لے گیا ہے۔ دالان میں کھیل رہا ہے۔ ‘‘

میری جان ہے تو نکل گئی۔ خالد نکہت کا چھوٹا بھائی تھا۔ بلا کا شیطان۔ لپکا ہوا دالان میں گیا تو دیکھتا ہوں کہ حضرت آئینہ سامنے رکھے کیمرہ ہاتھ میں لیے اپنی تصویر کھینچ رہے ہیں۔ جھپٹ کر کیمرہ ہاتھ سے چھینا لیکن افسوس وقت گزر چکا تھا تمام فلمیں ختم تھیں۔

’’ جی چاہا خالد کو پکڑ کر زمین پر پٹک دوں اور ناک پر اتنے گھونسے ماروں کہ کمبخت کا دم نکل جائے۔ لیکن افسوس کہ وہ میرا سگا بھائی نہ تھا۔ پھر بھی چند چپت تو ضرور رسید کرتا لیکن یہ حسرت بھی دل ہی میں رہ گئی کیوں کہ اسی وقت شکور بلانے کے لیے آ گیا اب اسے کیا جواب دیتا۔ بار بار انکار کرتے ہوئے شرم آتی تھی۔ اس بار یقیناً وہ یہی سمجھتا کہ میں تصویر لینا ہی نہیں چاہتا۔ اسے یونہی ٹرخا دیتا ہوں۔ سوچا چلو اس مرتبہ اسے یونہی بہلا دو۔ کیمرے کے سامنے ان لوگوں کر کھڑا کر کے تصویر کھینچنے کا بہانہ کروں گا بعد میں آ کر کہہ دوں گا کہ وہ تصویر خراب ہو گئی اور دوسری تصویر کھینچ لوں گا۔ دل میں یہ منصوبہ گڑھ کر میں نے اس سے کہا۔

’’ ذرا ٹھہرو۔ میں ناشتہ کر لوں پھر چلتا ہوں۔ ‘‘

’’ جی وہ۔ ‘‘ وہ ہکلانے لگا اور پھر یہ اطمینان کر کے کہ خالہ جان ہماری گفتگو نہیں سن سکیں، بولا۔ ’’ در اصل ناشتے کا انتظام تو نجمی کی ماں نے کر لیا ہے۔ ‘‘

’’ اچھا۔ ‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’ تو چلو۔ ‘‘

میں اپنا کیمرہ، جس کی فلم ختم ہو چکی تھی، بغل میں لٹکا کر اس کے ہمراہ ہو لیا۔ اس نے اپنے شکستہ مکان کی ڈیوڑھی پر مجھے رکتا ہوا دیکھ کر ایک معصوم مسکراہٹ کے ساتھ کہا

’’ آ جائیے بابو جی! اب آپ سے کیسے پردہ کرے گی؟ آپ تصویر جو کھینچیں گے اس کی۔ ‘‘ میں اندر چلا گیا۔ مکان چھوٹا سا تھا لیکن بہت صاف ستھرا ہر چیز اپنی جگہ سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ آنگن میں ایک ٹوٹی پھوٹی کرسی پر نجمی دولھا بنا سرخ ساٹن کا بش شرٹ پہنے، آنکھوں میں گہرا کاجل لگائے ہوئے بیٹھا تھا۔

میں نے ناشتے میں جلدی جلدی دو چار لقمے الٹے سیدھے حلق سے اتارے اور چائے پینے لگا۔ اس بھولے بھالے کنبے کو اس طرح فریب دیتے ہوئے میرا ضمیر بھی ملامت کر رہا تھا لیکن اور کرتا بھی کیا، مجبوری تھی۔ چائے پی چکا تو شکور نے کہا۔

’’پھر بابو جی! اب تصویر کھینچنے کی تیاری کریں ؟‘‘

’’تیاری کیا کرنی ہے؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’ کوئی دو چار گھنٹے کا کام تھوڑی ہے۔ ‘‘

اس کی بیوی باورچی خانے میں گھسی بیٹھی تھی وہ جا کر اسے پکڑ لایا۔ وہ بیس سالہ خوش شکل معصوم حسینہ تھی۔ سمٹی سمٹائی لجاتی ہوئی آ گئی اور کرسی پکڑ کر کھڑی ہو گئی دوسری طرف ہتھا پکڑ کر شکور کھڑا ہوا۔ میں نے کہا۔

’’ شکور ان سے کہو کیمرے کی طرف دیکھیں۔ ‘‘

عورت نے نگاہیں اوپر اٹھائیں۔ بڑی بڑی بوجھل اور شرمائی ہوئی آنکھیں۔ مجھے وہ اپنے دل پر پھسلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ شکور گردن اکڑائے چلا جاتا تھا لیکن مجھے سچ مچ تصویر تو لینی نہ تھی۔ محض رسماً ان لوگوں کو ٹھیک طرح کھڑے ہونے کی ہدایات دیں ریڈی کہا اور بٹن دبا دیا۔

تینوں کے چہرے پھول کی طرح کھلے ہوئے تھے! باہر آ کر شکور نے کہا۔

’’با بو جی تصویر کب دھل جائے گی۔ ‘‘

’’میں اگلے ہفتے تیار کروا کر ساتھ لیتا آؤں گا۔ ‘‘ اس نے دو روپیہ کا نوٹ میرے ہاتھ میں دے کر کہا۔

’’ فریم بھی کرواتے لانا بابو جی۔ ‘‘’’

’’ اچھی بات ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ لیکن یہ پیسے تم اپنے پاس رکھو واپس آ کر لے لوں گا۔ ‘‘لیکن روپیے اس نے نہیں لیے۔

اس بار مجھے سات دن شہر میں گزارنے محال ہو گئے۔ بے چینی سے اتوار کا منتظر تھا۔ بار بار نگاہوں کے سامنے چھوٹے سے کنبے کے تین افراد کے بشاش و شگفتہ چہرے گھوم جاتے سوچتا تھا اس بار قرض لے کر ہی سہی۔ چار پانچ فلمیں لے کر جاؤں گا اور اُن تینوں کی بہت سی تصویریں کھینچوں گا۔

اتوار کو جمال پور پہنچا۔ دن بھر شکور گھر میں نظر نہ آیا تو میں نے خالہ سے دریافت کیا۔ ’’کیا بات ہے خالہ جان؟ آج شکور کام پر نہیں آیا؟‘‘

’’ بیچارہ شکور! ‘‘خالہ جان نے سرد آہ بھری۔ میرے کان کھڑے ہو گئے۔

’’ کیوں کیا ہوا اسے؟‘‘

’’ اُسے تو کچھ نہیں ہوا۔ ‘‘ خالہ جان نے دوسری سرد آہ بھر کر کہا۔ ’’ لیکن اس کی بیوی بیچاری پرسوں مر گئی۔ !‘‘

’’ ارے!‘‘ جیسے کسی نے میرے دل میں خنجر بھونک دیا ہو۔

’’ ہاں بیچاری کسی کام سے کوٹھری میں گئی تھی۔ وہیں سانپ نے ڈس لیا۔ شکور بیچارہ بہت دوڑا دھوپا لیکن دو گھنٹے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ ‘‘

اسی وقت کسی نے شکور کو میری آمد کی اطلاع دے دی اور وہ روتا ہوا میرے پیروں سے لپٹ گیا۔

’’ ہاں بابو جی! وہ مر گئی۔ نجمی کی ماں مر گئی۔ اپنی تصویر اپنے نجمی کی تصویر دیکھنے کا ارمان دل میں لیے ہوئے چل بسی۔ روز رات کو مجھ سے دیر تک تصویر کی باتیں کرتی تھی۔ اب وہی تصویر اس کی اکلوتی یادگار میرے پاس رہ جائے گی۔ آپ لے آئے ہیں نا اسے۔ ؟‘‘

میرے دل پر چھریاں چل رہی تھیں۔ آواز پر قابو پا کر میں نے کہا۔

’’ ابھی دھُلی نہیں تھی میں اگلے ہفتے اسے ضرور لیتا آؤں گا۔ ‘‘شکور نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں بابو جی! ضرور لیتے آیئے گا۔ اب وہی آخری نشانی ہے اس کی دیکھ کر دل کو تسکین ہو گی۔ خیال رکھنا میلی نہ ہونے پائے۔ ہو سکے تو بڑی کروا لیجیے گا۔ ‘‘

’’ اچھی بات ہے۔ ‘‘ میں نے رندھے ہوئے گلے سے جواب دیا۔

دوسرے دن صبح ہی میں جمال پور کو آخری سلام کر کے رخصت ہو گیا اب دوبارہ شکور کو منہ دکھانے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔

تین سال تک میں جمال پور نہیں گیا۔ اس دوران میں رہ رہ کر مجھے شکور والا واقعہ یاد آتا رہا۔ میں دل ہی دل میں قدرت کی ستم ظریفی پر کڑھتا رہا اور جب وقت کی رفتار سے یہ زخم مندمل ہو چلا تھا کہ اچانک اس پر ایک ایسا بھرپور وار پڑا جس نے اس زخم کو زندگی بھر کے لیے ہرا کر دیا اور تبھی سے میں نے کیمرہ نہ چھونے کی قسم کھا رکھی تھی۔

ایک طویل آہ بھر کر جاوید خاموش ہو گیا اور زمین کریدنے لگا اس کی پلکوں پر ستارے جگمگا رہے تھے۔

’’ کیوں۔ ؟ پھر کیا ہوا عمّو جان۔ ؟‘‘ سلمیٰ نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’ ہوا یہ کہ ایک رات میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ ملازم نے آ کر مجھے بیدار کیا۔

’’ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے دریافت کیا۔

’’ کوئی بڑی دیر سے آپ کا نام لے لے کر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ ‘‘

’’ بلا لاؤ اندر۔ ‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد ملازم ایک شکستہ حال شخص کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ لیکن اُف۔ وہ تو شکور تھا۔ پہلے شکور سے بالکل مختلف شکور۔ داڑھی بڑھی ہوئی، کپڑے تار تار، الجھے ہوئے بال، لال لال آنکھیں۔ بالکل مجنونانہ کیفیت تھی۔ میں نے کہا۔

’’ شکور! یہ تم ہو! کیا حالت بنا رکھی ہے اپنی تم نے؟‘‘وہ پچھاڑ کھا کر زمین پر گر پڑا۔

’’ بابو جی خدا کے لیے وہ تصویر۔ بابو جی آپ کے پاؤں پڑتا ہوں وہ تصویر مجھے دے دیجیے۔ ‘‘میں ہکا بکااسے دیکھتا رہا۔ آخر جواب بھی کیا دیتا۔ وہ گھگھیانے لگا۔

’’ خدا کے لیے وہ تصویر مجھے دے دیجیے بابو جی! وہ میرے بھرے پُرے کنبے کی آخری یادگار ہے بابو جی! بابو جی میری پیاری بیوی کی یادگار جو تین سال پہلے مر گئی۔ میرے لاڈلے نجمی کی یادگار جو۔۔ ‘‘

میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ ’’ کیوں کیا ہوا نجمی کو۔ ؟‘‘

شکور نے سینہ پیٹ کر کہا۔ ’’ وہ پرسوں ہیضے کا شکار ہو گیا۔ !!!‘‘

(۱۹۵۷ء)

٭٭٭

 

 

 

 

موڑ۔۔ !

 

اور آج جب وہ پھر حسب معمول دس بجے لانڈری کے مالک سے ملا تو اس نے وہی رٹا رٹایا جملہ دہرایا۔

’’ بھائی کچھ دن اور انتظار کرو۔ جیسے ہی ہمارے یہاں کے منیجر سے کوئی بد عنوانی ہو گی، ہم اسے ہٹا کر تمھیں رکھ لیں گے!‘‘

اس نے عاجزانہ لہجے میں ایک بار پھر موٹے بوڑھے کو جس کی عقل بھی موٹی تھی، سمجھانے کی کوشش کی۔

’’ سیٹھ صاحب! آپ یہ بھی تو سوچیے کہ وہ سالا آپ کا منیجر صرف مڈل پاس ہے اور میں ایم۔ اے ہوں اور پھر میں اس سے بیس روپیہ کم تنخواہ پر ملازمت کے لیے آمادہ ہوں۔ وہ صرف آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے، میں دن رات آپ ہی کی دوکان پر رہوں گا اور میرے آنے سے آپ کی لانڈری چمک اٹھے گی سیٹھ! بالکل نیشنل لانڈری کی طرح۔ جی ہاں !‘‘

شاید اس کی ترغیب کام کرتی جا رہی تھی کیوں کہ اسے بوڑھے سیٹھ کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں حرص و طمع کی واضح جھلک نظر آنے لگی تھی۔ وہ سیٹھ کی لالچ میں اضافہ کرنے کی غرض سے خوشامدانہ بھڑکیلے جملے سوچ ہی رہا تھا کہ وہ کمبخت لمبی لمبی مونچھوں والا منیجر اپنا لمبا سا ڈنڈا لیے آ ٹپکا تھا اور اسے اپنی سُرخ سُرخ آنکھوں سے گھورنا شروع کر دیا تھا اور اس نے ان نگاہوں میں اپنے لیے یہ پیغام پا لیا۔

’’ لڑکے! کیوں اپنی جان کا گاہک ہوا ہے؟ اگر تو میرے پیٹ پر لات مارے گا تو میں تیرے سر پر اپنا ڈنڈا مار دوں گا؟‘‘ اور جب منیجر نے زور سے کھنکھارتے ہوئے اپنا موٹا ڈنڈا فرش پر پٹکا تو اس کے لیے چپ چاپ کھسک لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہ گیا!

وہ واپسی میں راستے بھر ملک کی بڑھتی ہوئی بے روز گاری کے متعلق سوچتا رہا۔ بیکاری بڑھتی جا رہی تھی۔ نجانے کتنے نوجوان اس کی طرح قابلیت اور اہلیت کے باوجود مایوسی کے عمیق غاروں میں پڑے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انھیں ملازمتیں نہیں مل رہی تھیں۔

پھر اسے یاد آیا کتنی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔ ہر ماہ کی تیرہ تاریخ سے ہی اس کے گھر میں باہمی نزاع کی صورتیں پیدا ہو جاتی تھیں۔ اس کا بوڑھا باپ جو مقامی اسکول میں ہیڈماسٹر تھا اپنی محدود تنخواہ لا کر اس کی ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا اور پھر وہ اس میں سے تقریباً آدھی تنخواہ اسے دے دیتی۔ یہ اس کے کالج کے اخراجات تھے۔ باقی ماندہ نصف تنخواہ میں گھر کا خرچ وہ کس طرح پورا کر لیتی تھی، یہ اس کی سمجھ میں آج تک نہ آیا جب کہ اپنے حصے کے نصف میں وہ صرف اپنا ہی خرچ بڑی مشکلوں سے رو پیٹ کر چلا پاتا تھا۔ !

پھر اس نے ایم۔ اے کر لیا۔ کچھ دنوں تک وہ اپنے چھوٹے سے شہر میں ہی ملازمت کی کوشش کرتا رہا اور پھر یہاں اس بڑے شہر میں چلا آیا۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ طرح طرح کے خوش آئند سپنے دیکھا کرتا تھا۔ نہ جانے کتنی سُنہری آشاؤں نے اس کے دل میں گھر کر رکھا تھا۔ لیکن اب جو اس نے کالج کی رنگین چہار دیواری سے باہر نکل کر حقیقی زندگی کے زینے پر پہلا ہی قدم رکھا تو اسے معلوم ہوا کہ ملازمت نام کی چیز ملک میں عنقا ہو رہی ہے۔ اسے بہت تلخ حقائق سے دوچار ہونا پڑا۔ ملازمتیں کہیں چلی نہیں گئی تھیں۔ ہاں اب وہ بکنے لگی تھیں نااہلوں کے ہاتھ۔ رشوت دے کر یا بہت اونچی سفارشیں بہم پہنچانے پر۔ اور وہ تو بیچارہ ایک معمولی ہیڈماسٹر کا بیٹا تھا۔ یہاں اس عظیم الشان شہر میں بڑی سفارش تو در کنار وہ کسی ٹکے کے کلرک کی یہ تصدیق بھی تو پیش نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس سے واقف ہے اور رشوت دینے کے لیے روپیہ !

’’ ہونہہ۔ ‘‘ وہ بڑبڑانے لگا۔ ‘‘ روپیہ ہی پاس ہوتا تو کیا میرا سر پھرا تھا کہ ملازمت تلاش کرتا پھرتا۔ ‘‘

اور اسی طرح بھٹکتے ہوئے ذہن اور بوجھل قدموں کے ساتھ اس نے سات مہینے گزار دیے تھے۔ وہ تو اس کے اوپر ترس کھا کر ایک رئیس نے اپنی بلڈنگ کے نچلے حصّے میں اسے ایک چھوٹی سی کوٹھری دے رکھی تھی اور نہ جانے ترحم کے طور پر یا کسی اور مقصد کے تحت وہ اسے بیس روپیہ ماہوار بھی دیتا تھا اور وہ اس کے عوض اس رئیس کے لا تعداد مکانوں کا کرایہ وصول کرنے میں کبھی کبھی اس کے منشی کی مدد کر دیا کرتا تھا۔ اگر شہر میں اس کے لیے یہ تنکے جیسا سہارا بھی نہ ہوتا تو وہاں ٹھہرنا اس کے لیے تقریباً ناممکن تھا۔

بوڑھے باپ کے خط اس کے پاس برابر آتے رہتے تھے جن میں ہر بار وہ ایک ہی قسم کے اکتا دینے والے لہجے میں معاشی اور خانگی مشکلات کا رونا رویا کرتا تھا گو کہ واضح طور پر اس نے اپنے جوان ڈگری یافتہ بیٹے کی امداد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی پھر بھی وہ خطوط، زبان خموشی سے اسے یہی نصیحت کرتے محسوس ہوتے کہ کنبے کی گاڑی کا جوا اُسے اپنے بوڑھے باپ کے کمزور شانوں سے اپنے جوان اور قوی کاندھے پر لے لینا چاہیے۔ اس کے بازوؤں کی مچھلیاں یہ مقدس بوجھ سنبھالنے کے لیے تڑپنے لگتیں لیکن وہ دل مسوس کر رہ جاتا۔ اس کی ماں اور بہنیں ہمیشہ خطوں میں لکھا کرتی تھیں کہ اس کی ملازمت کے لیے وہ دن رات خدا سے دعا مانگتی ہیں لیکن شاید اس حاکم اعلیٰ کے یہاں بھی سفارش اور رشوت کی ضرورت ہوتی ہو گی ورنہ کیا وجہ تھی کہ معصوم دلوں سے نکلی ہوئی پاک دعائیں بامِ قبولیت کو نہیں پہنچ پاتی تھیں !!

اور وہ اپنے جوابی خطوں میں طرح طرح کی طفل تسلیاں انھیں لکھ بھیجتا اور اس کے بوڑھے تجربہ کار والدین جانے کیسے ان پربھروسہ بھی کر لیتے۔ اپنے خطوں میں وہ کچھ اس قسم کے جملے لکھا کرتا۔

’’ چند روز اور صبر کیجیے پھر راوی چین لکھتا ہے۔ ‘‘

’’ بس بس چند ہی دنوں کی بات اور ہے۔ پھر آپ کا بیٹا لانڈری کا منیجر ہو جائے گا!‘‘

’’ کچھ دن مصیبت کے اور باقی ہیں، ملازمت مل جانے پر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

لیکن ادھر چند دنوں سے نہ جانے کیا خبط اس کے باپ کے سر پر سوار تھا کہ وہ ہر خط میں اسے گھر چلے آنے کو لکھا کرتا تھا۔ کبھی لکھتا۔

’’ بیٹا! تمھیں گئے ہوئے بہت دن ہو گئے۔ اب کچھ دنوں کے لیے گھر آ جاؤ۔ ‘‘

کبھی لکھتا۔ ’’ تمھاری بہنیں روز تمھاری آمد کی راہ دیکھتی ہیں۔ تم کب تک آ رہے ہو؟‘‘

اور کسی خط میں ہوتا۔ ’’ ماں کی آنکھیں تمھیں دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ بس اب آ جاؤ۔ پھر چلے جانا۔ ‘‘

اور جب آج وہ پھر اپنے ڈربے نما کوٹھری میں پہنچا تو دروازے کی دراز میں ایک خط کھونسا ہوا تھا اس نے اسے نکال کر لا پرواہی سے بغیر پڑھے ہی نمک کے ڈبے پر رکھ دیا اور اپنے میلے بستر پر، جس پر کسی معمر بوڑھے کے چہرے کی طرح لا تعداد شکنیں کروٹیں لے رہی تھیں، دراز ہو گیا۔ کچھ دیر بستر پر لیٹے لیٹے وہ ماضی اور حال کی یادوں میں غوطے کھاتا رہا۔ اس کا ماضی بھی کوئی شاندار نہ تھا۔ کالج میں ہمیشہ اسے تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اپنی کلاس میں پڑھنے والے امیر ساتھیوں پر اسے ہمیشہ رشک آیا کرتا جو نوابوں کی سی زندگی گزرتے تھے اور محض تفریحاً کالج چلے آتے تھے۔ پھر بھی اس کا ماضی، حال کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔ اس وقت کم از کم اس کے ساتھ یہ سیکڑوں فکریں تو نہ تھیں سوا اس کے وہ وقت پر کالج چلا جائے امتحانات کی تیاری کرے۔ خوش آئند خواب دیکھے اور بس! لیکن اب تو اسے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا تھا۔ سرکاری دفتروں میں نوکری تلاش کرتے کرتے وہ تھک چکا تھا۔ نجی اداروں اور فرموں کے مالکوں کی پھٹکاریں بھی وہ کافی سن چکا تھا۔ کہیں ملازمت ملنے کی امید نظر نہ آتی تھی۔ جانفزا امید کی کوئی ایک کرن بھی تو اسے دکھائی نہیں پڑتی تھی۔ وہ اکثر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرتا لیکن وہاں تاریکی میں اسے کچھ بھی نظر نہ آتا اور وہ اپنے دل کو یہ سوچ کر تسلی دینے کی کوشش کرتا کہ ہو سکتا ہے حال کے مصائب کے کالے بادلوں نے شعاعِ امید کو چھپا رکھا ہو اور ان بادلوں کے چھٹنے کے بعد اس کی اجاڑ زندگی میں مسرت کی نورانی کرنیں اپنی تابانیاں بکھیر دیں۔

کوٹھری کے کونے میں بنے ہوئے چولھے پر ایک چوہا کودا اور اس کی محویت ٹوٹ گئی اور پھر اسے اپنے پیٹ میں بھی چوہے کودتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس نے اٹھ کر رات کی پس خوردہ روٹی چھینکے پر سے اتاری اور الماری سے کھلا ہوا سالن کا کٹورہ اٹھا کر کھانے بیٹھ گیا۔ سالن میں نمک کچھ کم تھا اس نے نمک کا ڈبہ اٹھایا تو اس پر رکھا ہوا خط اس کی آغوش میں آ رہا۔ ڈبہ واپس اپنی جگہ رکھ کر وہ خط پڑھنے لگا۔ اور پھر وہ بوکھلا سا گیا۔ خط اس کی بہن نے لکھا تھا۔ اس کے باپ کی طبیعت اچانک بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ آگے بھی نجانے کیا کیا لکھا تھا جو اس کی سمجھ میں قطعاً نہ آیا۔ اسے صرف اتنا ہی خیال تھا کہ اس نازک موقع پر اس کی موجودگی گھر پر اشد ضروری ہے۔ لیکن اس کے پاس تو کرائے تک کے پیسے نہ تھے۔

وہ پاگلوں کی طرح باہر بھاگا۔ سالن کا کٹورہ اس کی ٹھوکر سے دور جا گرا۔ اور دوسرے لمحے وہ اپنے پرانے مربی مالک مکان کے سامنے کھڑا تھا۔

’’ کہیے جناب!‘‘ مالک مکان نے ہنس کر پوچھا۔ ’’ ملازمت ملی کہیں ؟‘‘

’’ اب تک کوئی صورت نہیں نکلی۔ شاید آئندہ کچھ دنوں میں ۔۔ ‘‘

مالک مکان نے جلدی سے اس کی بات کاٹ دی۔۔ ’’ تو تم ابھی کچھ دنوں کے ہی پھیر میں پڑے ہوئے ہو۔ ؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘ اس نے کہنا چاہا۔۔

’’کہ کچھ دنوں کے بعد وہ سالا تمھیں اپنی لانڈری کا مالک بنا دے گا۔ ‘‘ چالاک سرمایہ دار نے ایک چبھتا ہوا قہقہہ لگایا اور پھر یکلخت سنجیدہ ہو کر کہنے لگا ’’ برخوردار ! مجھے تمھاری حالت پر ترس آتا ہے۔ کیوں اپنی زندگی برباد کر رہے ہو؟ یہ لانڈری کے مالک یا ایمپلائمنٹ ایکس چینج کے آفیسر تمھاری مدد نہیں کر سکتے۔ بالفرض اگر یہ تمھیں کوئی ملازمت دیں گے بھی تو سو روپیہ ماہوار سے زیادہ کی نہ ہو گی اور میں نے تمھارے سامنے جو پیش کش رکھی ہے وہ اپنے قسم کی واحد چیز ہے۔ محنت مشقت کچھ بھی نہیں اور دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ بڑے بڑے لوگ خوشامدیں کریں اور ہزاروں کی آمدنی مفت میں۔ اب بھی مان جاؤ۔ میں ایک برانچ کا کام تمھارے سپرد کر دوں گا۔ پڑھے لکھے آدمی ہو، حالات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس شہر میں بیکاروں کی کمی نہیں۔ تم نہیں تمھارا کوئی دوسرا ساتھی آمادہ ہو جائے گا پھر پچھتاتے رہو گے۔ ‘‘

وہ خاموش کھڑا سنتا رہا۔ الفاظ اس کی سمجھ ہی میں نہ آ رہے تھے۔ اس کا دماغ تو اپنے بوڑھے بیمار باپ میں لگا ہوا تھا۔ مالک مکان بڑی دیر تک اسے دنیاوی نشیب و فراز سے آگاہ کرتا رہا۔ اور پھر اس نے اپنی تقریر کو ختم کرنے کی غرض سے کہا۔

’’ تم اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لو۔ اگر تم کو اس سے سود مند کوئی دوسرا راستہ دکھائی دے تو بے شک اسے اختیار کر لو۔ مجھے خوشی ہو گی۔ لیکن اپنا آخری فیصلہ جلدی کر لو بھئی۔ اور ہاں یہ لو بیس روپیے مہینہ قریب الختم ہے تمہیں ضرورت ہو گی۔ ‘‘

اور اسے اس وقت وہ گھناؤنی صورت والا مکّار رئیس بالکل دیوتا سا محسوس ہوا، اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے نوٹ لے لیے ممنون نگاہوں سے اس کا شکریہ ادا کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

اپنی کوٹھری میں واپس پہنچ کر میلے کپڑے اس نے ایک جھولے میں ٹھونس لیے، بستر لپیٹ کر بغل میں دابا اور اسٹیشن کی طرف ہو لیا۔ پھر وہ ٹرین میں بھی اپنے خیالوں کی دنیا میں کھویا رہا۔ در اصل باپ کی بیماری کی خبر نے اس کا دماغ ماؤف سا کر دیا تھا۔ اس سے قبل بھی اس کا باپ بیمار پڑا تھا لیکن تب اسے اتنی گھبراہٹ نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس وقت اسے دنیا کا کوئی تجربہ نہ تھا لیکن اب تو وہ اس معاملہ میں جتنا زیادہ سوچتا اس کے اندرونی اضطراب میں اضافہ ہوتا جاتا۔ وہ خود اپنی کفالت نہیں کر پا رہا تھا۔ اگر کچھ ہو گیا تو کنبے کو روٹی کیسے ملے گی؟ اب اسے اپنے لاغر بدن نحیف و ضعیف باپ پر ترس آ رہا تھا اس کے دل میں نجانے کہاں سے باپ کے لیے ہمدردی کا سوتا سا پھوٹ نکلا۔ آج اسے چند گھنٹوں کی فکر نے ہی اتنا پریشان کر دیا تھا۔ اس نے سوچا اس بوڑھے کا کلیجہ کتنا بڑا ہو گا جو اس قسم کے افکار سے دبا ہوا خاندان کے چھکڑے کو ایک لا متناہی مدت سے کھینچ رہا ہے۔ بوڑھے باپ کی عزت عظمت اس کے دل میں دو چند ہو گئی۔ کالج میں داخلے کے وقت وہ اپنے باپ سے کئی دن تک ناراض رہا تھا۔ بوڑھے باپ سے اسے ایک قسم کی نفرت سی ہو گئی تھی۔ وہ سوچتا جو کند ذہن لڑکے پڑھنا نہیں چاہتے اُن کے سرپرست کتنی کوششوں اور سرمائے سے انھیں پڑھاتے ہیں اور ایک اس کا باپ ہے جو اس کی تعلیم میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اپنی ضد کے آگے اس وقت اس نے باپ کو جھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

لیکن آج ریل کے اس ڈبے میں شور و غل سے بے نیاز اپنی محویت میں غرق، اس نے محسوس کیا کہ اس نے بوڑھے کے ساتھ بے انصافی کی تھی۔

پھر اس کا شہر آ گیا۔ وہ رات کے دس بجے سائیں سائیں کرتی ہوئی برفانی ہواؤں میں ٹھٹھرتا، انت کٹکٹا تا، جھولا کاندھے پر رکھے، بستر بغل میں دبائے اپنے شکستہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس کا دل بڑے زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ نہ جانے کیسی خبر سننے کو ملے۔

وہ بڑی دیر تک چپ چاپ دروازے پر کھڑا رہا۔ آخر ہمت کر کے اس نے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد کواڑ کھلے۔ اس نے دیکھا چھوٹی بہن لالٹین لیے دروازے پر کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ ایک انجانے خوف سے اس کا دل لرز سا رہا تھا وہ بہن سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا نہ جانے وہ کیا جواب دے۔ اور کہیں خدانخواستہ۔۔

اتنی سردی میں بھی اپنی پیشانی پر اسے نمی محسوس ہوئی۔ اس نے آستین سے پسینہ پونچھا، مڑ کر دروازہ بند کیا اور اندر چلا گیا۔

اپنے بوڑھے باپ کو انگیٹھی کے پاس بیٹھا ہوا دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ اسے یہ دیکھ کر افسوس بھی ہوا کہ اس کا باپ اب بیحد لاغر اور نحیف ہو گیا ہے۔ اسے سردی میں کانپتا ہوا پا کر باپ نے پیار سے کہا۔

’’بیٹا! اتنی سردی میں آئے ہو۔ کوٹ تو ڈال لیتے بدن پر۔ !‘‘ اور اس نے جواب دیا۔

’’درزی کے پاس سلنے کے لیے پڑا ہے، جب لینے جاتا ہوں آج کل کر کے ٹال دیتا ہے۔ ‘‘ اسے افسوس ہوا کہ وہ اپنے باپ سے بھی جھوٹ بول رہا ہے پھر وہ کرتا بھی کیا۔ کیا کہہ دیتا کہ ۔۔

’’ابّا جان! کوٹ تو میں نے کباڑیے کے ہاتھ بیچ دیا کیونکہ مجھے ریلوے میں درخواست دینے کے لیے فارم خریدنا تھا جو مفت نہیں ملتا۔۔ ‘‘

اور اس رات وہ بستر پر پڑا خاموشی سے جاگتا رہا۔ اپنی بوڑھی ماں، بہن اور بیمار باپ کی کھُسر پھسر سنتا رہا۔ معاشی حالات نے انھیں بیحد پریشان کر رکھا تھا۔ بوڑھے کو پنشن مل گئی تھی اور یہی اس کی اصل بیماری تھی۔

اور اس رات اس نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ جلد ہی حالات پر قابو پا لے گا اور آرام کی نیند سو گیا۔ رات بھر وہ سنہرے سپنے دیکھتا رہا۔ صبح اٹھا تو وہ تازہ دم اور بشاش تھا۔ پچھلے دن کی تمام کوفت اور اضطراب زائل ہو چکا تھا۔ اس نے بھانجے کو پاس بلا کر پوچھا۔

’’ بیٹا! چپل کیا ہوئے تمھارے؟‘‘

’’ پھٹ گئے۔۔ ‘‘

’’ اور کوٹ۔۔ ؟‘‘

’’ تنگ ہو گیا۔ چھوٹی بہن پہنتی ہے۔ ‘‘

’’ اچھی بات ہے۔ ہم جا کر تمھارے لیے نیا کوٹ اور جوتے بھیجیں گے۔ اور بہت سے کھلونے بھی۔ اچھا۔ ‘‘

اور پھر اس نے اپنے باپ کو جو دھوپ سینکنے کے لیے آنگن میں بیٹھا تھا، خوش کرنے کے لیے کہا۔

’’ ابّا جان! آپ کی شیروانی تو بالکل شکستہ ہو گئی ہے۔ اب جا کر آپ کے لیے شیر وانی کا کپڑا بھیج دوں گا۔ ‘‘

اس طرح وہ تمام دن ہنستا اور خوش ہوتا رہا۔ اس کی بڑھی ہوئی مسرت اور بذلہ سنجی دیکھ کر اس کے والدین کو یقین ہو گیا کہ اُن کا بیٹا جلد ہی کسی اچھی جگہ ملازم ہونے والا ہے۔ اس دن اس نے نجانے کتنے وعدے کیے۔ بہنوں سے نئے کپڑے اور زیور بنوانے کے، باپ سے قرض ادا کر دینے کے، ماں سے مکان پختہ بنوا دینے کے اور پھر اس نے سب کی نظریں بچا کر اپنی منگیتر سے بھی ملاقات کی اور اس کی پتلی کمر میں ہاتھ ڈال کر سیاہ نرم زلفوں سے کھیلتے ہوئے، جھومتے ہوئے اس نے وعدہ کیا۔

’’ ’’ پگلی تو رنجیدہ کیوں ہوتی ہے! میں اس بار تیرے لیے بُندے اور کنگن نہیں لا سکا تو کیا ہوا؟ اگلی بار میں بڑی شان کے ساتھ آؤں گا۔ تجھے سونے سے پیلا کر دوں گا۔ پھر تجھے بیاہ کر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ سمجھی!‘‘

اور اس بار جب وہ شہر پلٹا تو اپنی ڈگری اور نیک چال چلن کا سر ٹیفکیٹ گھر ہی پر چھوڑ آیا۔ راستے میں اسے وہی لانڈری دکھائی دی جس کے منیجر ہونے کے وہ خواب دیکھتا رہا تھا۔ وہ اس میں داخل ہوا تو سیٹھ بڑی مونچھ والے منیجر پر برس رہا تھا۔

’’تو اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ وہ سانولا سا چھوکرا کب سے میری جان کھایا کرتا ہے۔ معلوم ہے ایم اے ہے، ایم اے۔ اور تجھ سے کم تنخواہ پر کام کرنے کو رضامند ہے۔ وہ تو میں تجھ پر رحم کھا کر رکھے ہوئے تھا اب تک، ورنہ کب کا اسے منیجر بنا دیا ہوتا۔ ہونہہ!‘‘

اور جب اس نے منیجر کی مسکین صورت دیکھی تو اسے بہت غصہ آیا۔ وہ لپک کر لانڈری میں داخل ہو گیا اور بولا: ’’ موٹے سیٹھ! مجھے تمھاری نوکری کی بالکل ضرورت نہیں۔ سمجھے! کیوں بیچارے منیجر کو ڈانٹ رہے ہو۔ ؟‘‘

منیجر نے اسے ممنون عقیدتمندانہ نظروں سے دیکھا، موٹے سیٹھ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے گھور ا اور وہ جھومتا ہوا باہر آ گیا۔

اور تھوڑی دیر بعد رئیس مالک مکان کے سامنے کھڑا مسکراتا ہوا کہہ رہا تھا۔

’’ جی ہاں ! مجھے آپ کے قمار بازی اور خلافِ قانون شراب فروشی کے اڈّے کا منتظم بننا منظور ہے۔ آپ کی اپنی شرائط پر۔ ‘‘

(۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

سنگ دِل

 

اب کہ تم سینی ٹوریم کے اس بیڈ پر پڑی ہوئی خون تھوک رہی ہو سوچتا ہوں کیا میں واقعی سنگدل ہوں !!

ساتھ کھیل کر بچپن گزارا، کئی سال ایک ساتھ اسکول میں بھی پڑھتے رہے، لیکن کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ تم کچھ اتنی خوبصورت بھی تو نہ تھیں۔ بھرے بھرے چہرے اور پھولے پھولے گالوں والی ایک تیز طرار لڑکی جو یتیم ہونے کے باوجود صورت سے یتیم نہیں معلوم ہوتی تھی! میرے جسم کے مختلف حصوں پر آج بھی تمہارے ناخنوں کے خفیف سے نشانات ہیں۔ کافی جھگڑالو تھیں تم۔ ذرا سی بات پر تمھیں شدید غصہ آیا کرتا تھا اور پھر تم مجھے نوچ کھسوٹ کر رکھ دیتیں۔ میں نے بھی تمھاری خاصی پٹائی کی ہے لیکن مجھے یاد ہے کہ روہانسا پہلے میں ہی ہوتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ تم میں سنجیدگی آتی گئی اور میں بھی اپنے آپ کو جوان سا محسوس کرنے لگا۔ وقت کی طنابیں کھنچتی رہیں میں نے کالج چھوڑا اور ملازمت کے سلسلے میں تم سے دور ہو گیا۔ لیکن بخدا مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے کبھی یہ بھی محسوس نہیں کیا کہ شاید تم ہی مجھ سے محبت کرتی ہو۔ مجھ میں کوئی ایسی خوبی تھی بھی کہاں جو کسی کو اپنی طرف راغب کر سکتی۔ سوکھا ہوا جسم، سیاہی مائل رنگت، شرمیلا مزاج، ٹھکانے سے بات بھی تو نہ کر سکتا تھا۔ سچ جانو مجھے یہ معلوم کر کے سخت حیرت ہوئی تھی کہ تم نے بھائی جان کو خط لکھ کر اس ڈاکٹر کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے ساتھ انھوں نے تمھاری بات چیت طے کی تھی۔ بھائی جان کتنا چاہتے تھے تمھیں ! بچپن میں جب کبھی میں نے ان سے تمھاری شکایت کی، الٹا مجھے ہی لتاڑ پڑی حالانکہ میں ان کا سگا بھائی تھا اور تم محض ایک یتیم لڑکی جس کی از راہِ ہمدردی وہ پرورش کر رہے تھے۔ تمھاری اس حرکت کی خبر مجھے بھائی جان کے خط ہی سے ملی تھی اور میری سمجھ میں نہ آیا تھا کہ تمھیں ہوا کیا ہے؟

پھر ایک دن بھائی جان کے تار سے مجھے معلوم ہوا کہ تمھاری شادی کسی تمباکو والے سیٹھ سے ہو رہی ہے۔ جو کئی کاروں کا مالک ہے۔ میں تمھاری شادی میں شرکت کے لیے اس یقین کے ساتھ وطن لوٹا کہ تم اس رشتے سے مطمئن ہو گی کیونکہ گھرانا کافی دولتمند تھا اور لڑکے سے میں ذاتی طور پر واقف تھا۔ وہ میرا کلاس فیلو رہ چکا تھا، خاصہ وجیہہ اور منہ لگتا نوجوان تھا، شریف اور با اخلاق۔ میں تمھاری شادی سے تین دن قبل گھر پہنچا تھا۔ بھائی جان کافی بپھرے ہوئے نظر آتے تھے اور بھابی جان کا منھ بھی پھولا ہوا تھا گھر میں شادی کے شادیانے بج رہے تھے اور بہ ظاہر خوشی کے تمام اسباب مہیا تھے لیکن میں نے محسوس کیا کہ دل بجھے بجھے سے ہیں۔ پھر تھوڑی سی تفتیش کے بعد ہی معلوم ہو گیا کہ وجہ کیا ہے۔ تم نے دبے دبے الفاظ میں اس بار بھی شادی سے انکار کرنے کی کوشش کی تھی جس پر برافروختہ ہو کر بھائی جان نے زہر کھا لینے کی اور بھابی جان نے تمھیں گھر سے نکال دینے کی دھمکی دی تھی اور شاید تم نیم رضا مند سی ہو گئی تھیں لیکن نکاح سے ایک دن قبل رات کو دو بجے تم نے میرے کمرے میں آ کر تو غضب ہی ڈھا دیا تھا۔

’’ جاوید۔۔ ! ‘‘تم نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تھا۔ ’’مجھ پر ظلم ہو رہا ہے جاوید! تم میرے بچپن کے ساتھی ہو، مجھ بد نصیب پر رحم کرو۔ ‘‘

میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا تمھیں کیسے سمجھاؤں۔ تمھیں سمجھانے کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا۔ بارات دروازے پر لگنے ہی والی تھی اور تمھارے انکار کی کوئی معقول وجہ بھی میری سمجھ میں نہ آتی تھی۔

’’ بچپنا چھوڑو کوثر! یہ بچپنے کا وقت نہیں ہے۔ نایاب، جس کے ساتھ تم بیاہی جا رہی ہو، بہت اچھا لڑکا ہے، میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ میں اسے خوب جانتا ہوں۔ ‘‘

’’ یہ بچپنا نہیں ہے جاوید۔۔ یہ بچپنا نہیں ہے‘‘۔ تم نے میرے شانے پر سر رکھ کر سسکتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ یہ میری زندگی کا سوال ہے۔ میں کہیں اور خوش نہیں رہ سکتی۔ ‘‘

میں نے بڑی جرأت کے بعد تمھارے آنسو پونچھے اور اس وقت ابٹن سے مہکتے ہوئے پیلے پیلے بدن، روتی ہوئی سرخ سرخ سی آنکھوں اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ تم مجھے ہمیشہ سے کچھ زیادہ اچھی معلوم ہوئی تھیں، میں نے تمھاری پیٹھ تھپکتے ہوئے تمھیں سمجھانا چاہا تھا۔

’’کوثر! لڑکیاں ہمیشہ اسی گھر میں نہیں رہا کرتیں جہاں وہ پیدا ہوتی اور پرورش پاتی ہیں۔ ایک نہ ایک دن انھیں کسی اجنبی کے ساتھ جانا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

’’ نہیں، نہیں۔ ‘‘ تمھاری آنکھوں سے آنسوؤں کے سوتے ابل پڑے تھے۔ ’’ میں کسی اجنبی کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔ میں اس گھر سے باہر نکل کر زندہ نہیں رہوں گی۔ مجھے بچاؤ۔ خدا کے لیے مجھے اس جہنم میں جھونکے جانے سے بچاؤ جاوید!‘‘

میں چکرا سا گیا۔

’’ کوثر!‘‘ میں نے کہا تھا۔ ’’یہ کیا پاگل پن ہے؟ بالفرض میں کل یہ بارات واپس بھی کر دوں تو جلد ہی کوئی دوسری بارات آئے گی اور تمھیں یہاں سے لے جائے گی اور پھر ہم مر تو نہیں گئے۔ میں ہوں۔ بھائی جان ہیں۔ ہم ہمیشہ تمھاری خبر گیری کرتے رہیں گے۔ اس گھر کے دروازے تمھارے لیے ہمیشہ کھلے ہوں گے۔ ‘‘

’’ مجھے بہلانے کی کوشش نہ کرو۔ ‘‘ تم نے آنسو پونچھ کر سیدھے میری آنکھوں میں جھانک کر کہا اور میں نے محسوس کیا تھا جیسے تم میرے اندر ہی اندر سماتی چلی گئی تھیں۔ ’’ میں نے کہہ جو دیا کہ میں جیتے جی اس گھر سے رخصت ہونا نہیں چاہتی۔ ‘‘

’’ شادی کے بعد ہر لڑکی کو رخصت ہو کر ایک دوسرے گھر جانا ہوتا ہے اور در اصل یہی دوسرا گھر اس کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ آج نہیں تو کل، تمھاری شادی کہیں تو ہو گی نا کوثر! بالآخر تمھیں یہاں سے جانا ہو گا۔ پھر اس طرح اپنی، بھائی جان کی اور ہمارے خاندان کی بدنامی کرانے سے فائدہ؟ کہیں ایسا تو نہیں تم کبھی شادی ہی نہ کرنا چاہتی ہو۔ ‘‘

’’ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ‘‘ تم نے لجا کر آنچل مروڑتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ میں شادی کے بعد بھی اسی گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

میں نے ہنس کر کہا تھا۔ ’’ کتنی بھولی ہو تم کوثر! نایاب گھر کا لکھپتی آدمی ہے۔ گھر داماد بن کر رہنا پسند نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’ ہونہہ!‘‘ تم نے پیر پٹک کر اپنے مزاج کی فطری تیزی کا اظہار کیا تھا۔ ’’ آخر تم جان بوجھ کر انجان کیوں بن رہے ہو جاوید؟ میں نے کہا نا کہ میں شادی کے بعد بھی اسی گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

بات کچھ کچھ میری سمجھ میں آ رہی تھی لیکن پھر بھی میں نے کہا تھا۔

’’ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تم کیا کہنا چاہتی ہو۔ ؟‘‘

’’ میں، میں، تم۔ میں کہنا چاہتی ہوں۔ میں کہنا چاہتی ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ ‘‘

ایک بار تو یوں محسوس ہوا جیسے آسمان کے تارے ٹوٹ کر میرے قدموں میں آ گرے ہوں لیکن معاملات کی سنجیدگی کا احساس ہوتے ہی وہ تارے قدموں سے اڑ کر میری نظروں کے سامنے ناچنے لگے تھے۔ میں گم سم کھڑا رہ گیا تھا۔

’’تم کچھ بولتے کیوں نہیں جاوید۔ ؟‘‘

’’ کیا بولوں ؟‘‘ میں نے اپنی کنپٹیاں دباتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ میں نے معاملے کے اس پہلو پر کبھی غور نہیں کیا۔ مجھے تم سے انس ہے، گہری ہمدردی ہے، میں اپنے آپ کو تم سے قریب بھی محسوس کرتا ہوں لیکن میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تم سے محبت بھی ہے۔ ‘‘

’’ لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہتی ہوں جاوید! کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ ‘‘تم نے جواب دیا تھا۔

’’ کوثر ! یہ ایک بیحد فرسودہ اور کافی گھسا پٹا جملہ ہے۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں تمھیں پسند نہیں کرتا لیکن۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ لیکن میں تم سے الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ‘‘ تم مجھ سے لپٹ گئی تھیں ۔۔ ’’ خدا کے لیے جاوید مجھے اپنے قدموں سے الگ نہ کرو۔ یہ زندگی میرے لیے جہنم بن جائے گی۔ ‘‘

’’ یہ بات تم بعد از وقت کہہ رہی ہو کوثر!‘‘ میں نے تمھیں بتلانا چاہا تھا۔ ’’ اب کہ شادی کی تمام تیاریاں ہو چکی ہیں اور صبح تمھارا نکاح ہونے والا ہے کیا کیا جا سکتا ہے۔ تمھیں یہ باتیں مجھے کافی پہلے بتلا دینی چاہیے تھیں۔ ‘‘

’’ لڑکیاں اپنی محبت کا اظہار عام حالات میں نہیں کیا کرتیں۔ ‘‘ تم نے کہا تھا اور پھر مجھے رو رو کر بتلایا تھا کہ کس طرح پہلی مرتبہ شادی سے انکار کرتے وقت بھابی جان کو اشارتاً تم نے میری بابت بتلایا تھا اور موجودہ شادی کے طے ہونے کے وقت بھی تم نے تمام باتیں بھائی جان سے کہی تھیں اور تب تمھیں معلوم ہوا تھا کہ ان لوگوں کا ارادہ میری شادی بھابی جان کی چھوٹی بہن کے ساتھ کرنے کا ہے جو اپنے ساتھ کافی جہیز لائے گی۔ ‘‘

’’ لیکن تمھیں یہ تمام باتیں مجھے بتلانی تھیں۔ ‘‘ میں نے مضطرب ہو کر کہا۔

’’ تم اتنی دور اپنی ملازمت پر پردیس میں تھے۔ دو تین بار تمھیں خط بھی لکھے جو بعد میں مجھے بھابی جان کے کمرے میں ملے تم تک کوئی خط پہنچنے ہی نہ دیا گیا۔ ‘‘

’’ کوثر ! مجھے معلوم نہیں۔ شاید مجھے تم سے محبت ہو۔ شاید نہ بھی ہو لیکن میں پورے خلوص کے ساتھ تم سے ہمدردی رکھتا ہوں۔ مگر اب اس حالت میں کیا ہو سکتا ہے۔ ؟‘‘

’’ تم اپنے بھائی جان سے کیوں نہیں کہتے؟‘‘ تم نے صلاح دی تھی۔

’’ غضب ہو جائے گا۔ ‘‘میں نے تمھیں بتلایا تھا۔ ’’ اس قسم کی باتوں میں میری دخل اندازی وہ کبھی برداشت نہ کریں گے۔ لیکن ٹھہرو۔ مجھے ذرا سوچنے دو۔ ‘‘

اور پھر میں نے ایک حل نکال لیا تھا۔ میں نے تم سے کہا تھا۔

’’ راتوں رات میرے ساتھ نکل چلو۔ ہم کشمیر، مدراس یا کلکتہ کہیں بھی دور چلے جائیں گے اور طوفان تھم جانے پر گھر خبر بھیج دیں گے۔ ‘‘

تم اس بات پر رضا مند نہ ہوئیں۔ تمھیں وہ تمام احسانات یاد آئے جو میرے خاندان نے تمھاری ذات پر کیے تھے۔ تمھیں خیال آیا کہ جو بھائی محض اپنے خاندان میں پرورش پائی ہوئی ایک لڑکی کے صرف شادی سے انکار کر دینے پر زہر کھا لینے پر تل گئے تھے وہ اپنے سگے بھائی کے ایک لڑکی کے ساتھ فرار ہو جانے پر کیا اس سے بھی بد تر کسی انجام کو نہیں پہنچیں گے۔ اور تم نے اسی قسم کے دوسرے سیکڑوں واقعات کا حوالہ دے کہ چوری چوری میرے ساتھ بھاگ جانے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ میں کوئی اور حل نہ نکال سکا اور دوسری صبح تم کو نایاب سے بیاہ دیا گیا۔ رخصت سے قبل تمام عورتوں کی موجودگی میں تم میرے قدموں سے لپٹ لپٹ کر کس طرح روئی تھیں اس کی یاد سے ہی میری روح کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ عورتوں میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں، تم روتی رہی تھیں اور میں غش کھا کر گر پڑا تھا۔

اسی واقعہ کو لے کر تمھاری ازدواجی زندگی میں ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا سہاگ رات کو نایاب نے تم سے پوچھا کہ رخصت ہوتے ہوئے تمھیں میرے قدموں سے لپٹ کر رونے کی کیا ضرورت تھی اور میں ( جاوید) بے ہوش کیوں ہو گیا تھا اور تم نے کمال بے باکی کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے رہے ہیں اور نتیجے کے طور پر دوسرے ہی دن تمھاری ڈولی ہمارے گھر پر پہنچا دی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے تم کتنی خوش خوش واپس لوٹی تھیں اور بھابی جان نے کس طرح اپنا سر پیٹ لیا تھا وہ تو بھائی جان کی حمایت تمھارے آڑے آئی تھی ورنہ شاید تمھیں ٹھکانہ بھی نہ ملتا۔

پھر مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کس طرح بھائی جان نے ملازمت سے استعفیٰ دلوا کر مجھے کاروبار میں ہاتھ بٹانے پر مجبور کیا۔ کس طرح تم ہر رات میرے کمرے میں آ کر میرے سینے پر سر رکھ کر رویا کرتیں اور کیسے میں ہمدردی کے امنڈتے ہوئے جذبات کے تحت تمھاری بد قسمتی پر آنسو بہایا کرتا تھا۔ اور پھر مجھے وہ قسم بھی یاد ہے جو میں نے کبھی شادی نہ کرنے کے سلسلے میں تمھارے سر پر ہاتھ رکھ کر کھائی تھی۔

اور پھر ایک دن وہ بھی آ گیا جب میں اپنی یہ قسم برقرار نہ رکھ سکا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے جہیز وغیرہ کی لالچ میں آ کر بھابی جان کی بہن سے شادی ہرگز نہیں کی۔ لیکن سات سال تک مسلسل انکار کرتے رہنے کے بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ شگفتہ کی شادی اب کہیں اور نہیں ہو سکتی کیونکہ میرے ساتھ اس کی نسبت ٹوٹ جانے کو دنیا والوں نے مختلف رنگ دے دے کر اسے خاصا بدنام کر دیا ہے اور پھر اچانک میں نے محسوس کیا کہ تم تو محض اپنی حماقت کا خمیازہ بھگت رہی ہو۔ میں نے تو تمھیں ہر طرح سہارا دینا چاہا لیکن تم نے خود ہی موقعہ کو ٹھکرا دیا تھا۔ پھر مجھے تم سے محبت نہیں صرف ہمدردی تھی اور اب اس ہمدردی پر شگفتہ جیسی معصوم اور بے گناہ لڑکی کو قربان کر دینا کوئی انسانیت نہیں کہلائے گی۔ چنانچہ میں نے شگفتہ کے ساتھ شادی پر آمادگی کا اعلان کر دیا تھا۔

اور مجھے یاد کر کے سخت افسوس ہوتا ہے کہ میری شادی کے ایک دن قبل تم نے کس طرح میرے پیروں سے لپٹ لپٹ کر التجا کی تھی کہ میں تمھیں لیکر کہیں دور چلا جاؤں اور میں نے کس طرح سمجھایا تھا تمھیں کہ ایک شادی شدہ عورت کو خواہ وہ کوثر ہی کیوں نہ ہو، یہ حرکت زیب نہیں دیتی۔ اس طرح میری، میرے خاندان کی، نایاب کی اور اس کے خاندان کی عزت تباہ ہو جائے گی۔ شاید وہ لوگ اس صدمے کو برداشت ہی نہ کر سکیں اور شگفتہ کی زندگی تو تباہ ہی ہو جائے گی۔

’’نہیں کوثر‘‘ میں نے آخری فیصلہ سنا دیا تھا تمھیں۔ ’’ برائی ہر حالت میں برائی ہوا کرتی ہے۔ میں تمھارا احسان مند ہوں کہ ایک بار تم نے میرے اس احمقانہ مشورے کو ٹھکرا دیا تھا۔ میں تمھارا عمر بھر احسان مند رہوں گا اگر تم مجھے اس بار بھی اس برائی کے لیے مجبور نہ کرو۔ ‘‘

تم نے مجھے سنگدل کہا تھا اور تم روتے روتے بے ہوش ہو گئی تھیں اور میں نے اپنے آپ کو ہیرو محسوس کیا تھا۔

لیکن اب کہ تم سینی ٹوریم کے اس بیڈ پر پڑی خون تھوک رہی ہو اور ڈاکٹر نے تمھارے صحت یاب ہونے کے بارے میں جواب دے دیا ہے اور تم دونوں ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھامے ویران نظروں سے مجھے دیکھ دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہی ہو۔ سوچتا ہوں کیا میں واقعی سنگدل ہوں ؟

تمہی بتاؤ کیا میں واقعی سنگ دل ہوں !

(۱۹۵۶ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہتے ہیں جس کو عشق!

 

’’ کہیے حنفی جی! آپ نے مکمل کر لیا میرا افسانہ؟‘‘

میں نے کتاب پلٹ کر تکیے پر ڈال دی اور اس طرف دیکھا۔ کوئی چاتک دروازے سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ پونے پانچ فیٹ کے گول مٹول آدمی جو قد آور بھی ہوتے تو محض صحتمند کہے جاتے لیکن بحالت موجودہ ٹھگنے پن اور ڈھیلے دوہرے بدن کی وجہ سے بطخ کی طرح مٹک کر چلنے پر مجبور تھے۔ خون کی زیادتی سے سرخ گول مٹول طباق سا چہرہ جس پر اکا دکا چیچک کے داغ تھے۔ باریک سریلی آواز جیسی عام طور پر نابالغ لڑکوں کی ہوتی ہے اور چہرے پر ویسا ہی بھولا پن۔ !

تو یہ تھے ہمارے چاتکؔ جی! آپ کہیں گے یہ نام کیسا ہے؟

وضاحت کے لیے جان لیجیے کہ یہ ان کے ادبی ذوق کی دین تھی جس نے اچھے خاصے بن ویر سنگھ ورما کو چاتکؔ بنا کر رکھ دیا تھا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہی ادبی ذوق پونے پانچ فٹ کے گول مٹول خون کی زیادتی سے سرخ پڑ جانے والے بن ویر سنگھ کو پونے چھ فیٹ لمبے بانس کی طرح سوکھے اور سیاہ رنگت کے مجھ جیسے شخص کے قریب کھینچ لایا تھا۔ ضروری نہیں کہ یہاں میں وہ اسباب و علل بیان کرنے بیٹھوں جو ہم دونوں کی قربت کا باعث ہوئے کیونکہ ان کا اس واقعے سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

وہ تو محض حماقت تھی کہ اب جس کے خمیازہ میں مجھے یہ افسانہ لکھنا پڑ رہا ہے۔ ورنہ بھلا کوئی پوچھے کہ اے حضّت! تم کون ہوتے ہو بن ویر سنگھ سے یہ پوچھنے والے کہ بھیا تم چاتک تخلص کیوں کرتے ہو۔ ارے ہاں ! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات تھی۔ پوچھنا ہی تھا تو یہ پوچھا ہوتا کہ مجھے بھی موٹا ہونے کی دوا بتلاؤ تاکہ دور سے مجھے آتا دیکھ کر کلو چچا یہ نہ سمجھا کریں کہ یہ انھیں کے کھیت سے بانس کا وہ ڈھانچہ اکھڑ کر چلا آ رہا ہے جسے کپڑے پہنا کر اور سر پر اُلٹی ہانڈی ٹانگ کر انھوں نے جانوروں کو خائف کرنے کے لیے کھڑا کیا تھا۔ یا یہ بھی نہیں تو پھر یہ معلوم کیا ہوتا کہ بھیا ذرا یہ بتانا۔۔ مگر کیوں ؟ سوال تو ہزاروں کیے جا سکتے تھے۔ صرف یہی کیوں دریافت کیا کہ تم چاتک تخلص کیوں کرتے ہو؟

اب اپنی ہی حماقت کا جواب کیا دوں بھلا! سوائے اس کے کہ دل ہی دل میں خود کو ہزاروں صلواتیں سُنا ڈالوں، اپنے آپ کو کوس لوں، اور پھر زبردستی اوندھا پڑ کر افسانہ لکھنے کی کوشش میں کاغذ کا لے کرتا رہوں۔ اور انھیں چاک کرتا بیٹھوں ! سوچتا ہوں میں تو احمق تھا ہی لیکن کیا ضروری تھا کہ وہ بھی حماقت کا جواب حماقت ہی سے دیتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے تم اچھے خاصے مظفر کے ساتھ حنفی کا دم چھلّا لگا کر ہسوی کا لٹھ کیوں گھماتے پھرتے ہو؟ کاش کہ وہ یہ جواب دے کر خاموش ہو رہتے، میں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا اور اس طرح یہ بلا رومانی افسانہ لکھنے کی، جس سے میں بُری طرح بچکتا ہوں، پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے نہ پڑتی۔ لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ہونی ہو کر رہتی ہے، تو غلط نہیں کہا۔ ہونی ہوئی اور بُری طرح ہو کر رہی۔

ان کی پیش کردہ سگریٹ کا تگڑا سا کش لے کر میں نے پوچھا۔ ’’ کیوں بھیّا آپ چاتک تخلص کیوں کرتے ہیں ؟ جواب میں وہ کچھ اس طرح پھوٹ بہے کہ مجھے شبہ ہوا کہیں غبارے کی طرح پھولا ہوا ان کا جسم اس غبار کے نکل جانے پر مجھ جیسا نہ رہ جائے۔

’’ مظفر بھائی! چاتک ہندی میں پپیہے کو کہتے ہیں جو ایک حسین رومان پرور پرندہ ہوتا ہے جس کے لیے مشہور ہے کہ سوانی نام کے تارے سے برسنے والے جل ہی کو پیتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہیں پیتا!‘‘

میں اتنے ہی میں گھبرا گیا تھا۔ دن رات زندگی کے تلخ حقائق سے دوچار رہنے والے ادیب کے لیے حسین رومان پرور پرندے کا ذکر کرنا ہی گفتگو کو ختم کرنے کا معقول سبب تھا۔ سو جلدی سے کہا۔

’’ چاتک جی! آپ بہت گہرائی میں چلے گئے۔ میں نے صرف وجہ پوچھی ہے۔ ‘‘

’’وہی تو بیان کر رہا ہوں۔ ‘‘ وہ میرا ہاتھ دبا کر بولے۔ ’’ آپ ذرا سنتے جائیے، دراصل پپیہے اور میرے جذبات میں بہت مماثلت ہے۔ دو سواتی نام کے تارے سے ٹپکنے والے جل کے علاوہ اور کوئی پانی نہیں پیتا اور میں ۔۔ میں بھی اپنی تارا سے جدا رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یا یوں کہیے اس کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کر سکتا۔ ‘‘

محبت! جدائی!! میں بد حواس ہو گیا۔ یہ تو سراسر شیطان کے سامنے لاحول پڑھی جا رہی تھی۔ بات کا رُخ بدلنے کے لیے بوکھلاہٹ میں ایک دو حماقت خرچ کی۔

’’ پھر بھی آپ اپنا تخلص پپیہا رکھ سکتے تھے! بھلا چاتک! یوں معلوم ہوتا ہے مہارانا پرتاپ بہ نفس نفیس اپنے گھوڑے پر تشریف لے آئے ہوں۔ ‘‘

وہ ناراض ہو کر بولے۔ ’’ واہ بھائی صاحب! آپ تو ہماری محبت کا مذاق اڑانے لگے۔ رانا پرتاپ کے گھوڑے کا نام چاتک نہیں چیتک تھا اور بھلا پپیہا بھی تخلص ہوتا ہے کسی شاعر کا چاتک اسی کا مترادف ہے۔ دیکھیے کتنا رومانی نام ہے۔ دل میں سوچیے تو منہ میں مصری کی ڈلی سی گھوم جاتی ہے اور بولیے تو ہونٹوں سے پھلجھڑی سی چھوٹ پڑتی ہے!‘‘

اٹھ کر بھاگ جانے کے لیے اتنا ہی کافی تھا لیکن کوشش ناکام رہی۔ انھوں نے دبوچ لیا مجھے۔

’’ کہاں بھاگے جاتے ہو بیٹا! اب زخم کریدا ہے تو ٹیس بھی دیکھو۔ ‘‘ مجھے مجبوراً سننا پڑا۔

’’ ساگون کے درختوں سے لدی پھندی، نیلی اور سبز پہاڑیوں سے گھری ہوئی حسین وادی میں حدِ نگاہ تک گیہوں کے لہلہاتے ہوئے کھیت اور دودھیا دانوں سے لدی ہوئی جھومتی سنہری بالیں اور سامنے گہرا سرخ آفتاب ایک پہاڑی کی پشت پر غروب ہو رہا تھا۔ فضا میں ہر طرف قوسِ قزح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ سامنے کنوئیں پر گاؤں کی لجیلی دوشیزائیں پانی بھرتی نظر آتی تھیں۔ گاؤں میں میٹھے پانی کا وہی ایک کنواں تھا اس لیے مجبوراً پینے کا پانی بھرنے کے لیے بھی گو گاؤں سے چند فرلانگ باہر کھیتوں کے درمیان واقع اس کنوئیں تک آنا پڑتا تھا۔ کنوئیں اور گاؤں کے بیچوں بیچ پڑتے تھے میرے کھیت۔ جن کی نگرانی کے لیے دن میں دو ایک چکر مجھے بھی لگانے پڑتے تھے۔ میرا کھیتوں سے گزر عام طور پر اسی وقت ہوتا تھا جب شام کے وقت لڑکیاں پانی بھرنے کے لیے کنوئیں پر جمع ہوتی تھیں۔ اس دن کھیت پر پہنچا تو دیکھتا ہوں منڈیر پر دو گاگریں پانی سے بھری ہوئی رکھی ہیں اور وہیں قریب ایک لڑکی میری طرف پیٹھ کیے کھیت میں سے چھانٹ چھانٹ کر گیہوں کی پکی ہوئی بالیں توڑ رہی ہے۔ ۔۔ ۔۔ کچھ دیر ہونے پر تھوڑی تھوڑی دیر سے دو تین بار کھانسا بھی کہ لڑکی جان لے اس کی چوری پکڑی گئی ہے۔ لیکن یا تو اس نے کھیتوں کو بالکل ہی لا وارث سمجھ رکھا تھا یا پھر خوشہ چینی میں اتنی منہمک تھی بہر طور میری طرف متوجہ ہوئے بغیر جب اس نے وہ کارِ خیر جاری رکھا تو مجبوراً مجھے زور سے کہنا پڑا۔

’’ ارے اب بس بھی کرے گی یا پورا کھیت اجاڑنے کا ارادہ کیا ہے؟‘‘

وہ چونک کر کھڑی ہو گئی اور کسی وحشی ہرنی کی طرح میری طرف دیکھنے لگی۔ بس ایسا معلوم ہوا ایک بجلی تھی جو آنکھوں کے راستے میرے دل میں اترتی چلی گئی۔ مظفرؔ صاحب! سچ کہتا ہوں خواہ آپ جاگیردار کا لڑکا ہونے کا طعنہ ہی کیوں نہ دیں، زندگی میں مجھے ان گنت لڑکیوں سے پالا پڑا ہے لیکن ویسا حسن ویسی کشش میں نے کہیں محسوس نہ کی تھی۔ خصوساً اس کی آنکھوں سے ٹپکنے والی معصومیت۔ اس کے انگ انگ سے جوانی یوں جھلک رہی تھی جیسے پکے ہوئے انگور سے رس ٹپکنے ہی والا ہے۔ لیکن بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کی وہ معصومیت اور چہرے کا وہ بھولاپن۔ معلوم ہوتا تھا بچہ ہے جسے ابھی دنیا کے نشیب و فراز سے کوئی واقفیت نہیں ۔۔

نہ جانے ہم کب تک ایک دوسرے کو تاکتے کھڑے رہے۔ بجلی دل میں اترتی رہی اچانک کنوئیں کی طرف سے پائیلوں کے چھنکنے کی آواز کان میں پڑی کچھ عورتیں پانی بھر کر واپس لوٹ رہی تھیں میں نے سوچا اب اس طرح ایک دوسرے کو تاکتے کھڑے رہنے میں بدنامی کا خدشہ ہے اس لیے یونہی پوچھا۔

’’ کیوں جی۔ یہ بالیاں کیوں توڑ رہی تھیں تم۔ ؟‘‘

’’ بھون کر کھانے کے لیے!‘‘

آواز نقرئی گھنٹوں کی طرح ترنم میں رچی بسی تھی۔

’’ وہ تو میں جانتا ہوں۔ لیکن پوچھا تھا کسی سے؟‘‘

’’ ہونہہ!‘‘ اس نے تنک کر بالیں کھیت کی منڈیر پر پٹک دیں، لچک کر ایک گاگر سر پر رکھی۔ دوسری کمر پر اور شاخِ گل کی طرح لچکتی جھومتی ہوئی پگڈنڈی پر ہو لی۔ میں نے ایک نظر سبز گھانس پر پڑی ہوئی سنہری بالیوں کو دیکھا اور پھر اسے پکار کر کہا۔

’’ خیر اب توڑ لی ہیں تو لیتی جاؤ۔ ‘‘

اس نے مڑ کر ایک نظر مجھے دیکھا اور ناک سکوڑ کر منہ پھیر لیا۔ تب تک دوسری عورت بھی سامنے آ گئی کچھ اور کہنے کی مجھے ہمّت نہ ہوئی۔ وہیں مورت کی طرح کھڑا اسے گاؤں کی طرف جاتے دیکھتا رہا اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو تو دل میں عجیب سرور اور دماغ میں نا معلوم سا کیف لیے ہوئے میں بھی واپس آ گیا۔ اسی رات پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ بعض اوقات راتوں کو نیندیں اڑ جانے میں بھی لطف آتا ہے۔ سینے میں مختلف قسم کے خوشگوار جذبات کا طوفان سا موجزن تھا اور یہ جذبات ان احساسات سے قطعاً مختلف تھے جو میرے آغاز شباب سے اب تک مختلف لڑکیوں سے ملاقات ہونے پر میرے دل میں پیدا ہوئے تھے۔ اس رات میں نے جانا کہ عشق اور ہوس میں کیا فرق ہے؟ رہ رہ کر نگاہوں میں اس کھیت والی لڑکی کا عکس ہاتھوں میں گندم کی سُنہری بالیں لیے ہوئے لہراتا تھا اور پھر میرے اندر کے بن ویر سنگھ نے کہا کہ اب بھی اگر تم شاعری نہ کرو گے تو اپنی ذات پر ظلم کرو گے۔ اور مجھے اس وقت تک نیند نہ آئی جب تک میں نے اپنی پہلا گیت نہ لکھ لیا جس کے بول ہیں :

اے پنگھٹ کی سندر بالا     تم نے کیا جادو کر ڈالا

دوسرے دن صبح اٹھ کر میں نے پوشیدہ طور پر پتہ چلایا تو معلوم ہوا وہ رام سنگھ کسان کی لڑکی تارا ہے جو ابھی چند دن قبل ہی ہمارے گاؤں میں آ کر بسا تھا، اس سے قبل قریب ہی کے ایک دوسرے گاؤں میں رہتا تھا جہاں کے جاگیر دار نے کئی سال متواتر لگان ادا نہ کرنے کے جرم میں زمین سے بے دخل کر کے اسے نکال دیا تھا اور اس سے پہلے بھی اس کا باپ کسی دوسرے گاؤں سے آ کر وہاں بسا تھا اور یہ کہ اس کا دادا۔۔ مختصراً یہ کہ بار بار بسنے اور بے دخل ہونے کا یہ سلسلہ اس کے آباء و اجداد سے چلا آ رہا تھا۔ معاف کیجیے گا حنفی صاحب! میں آپ کے سامنے نجانے کیوں غلط بیانی کی جرأت نہیں کرسکتا۔ بہر طور اتنی تفصیل معلوم ہو جانے کے بعد میں نے اس نظام اور ان جاگیر داروں کو دل ہی دل میں ہزاروں دعائیں دیں جن کی مہربانی سے مجھے تارا جیسی رشکِ حور کے دیدار کا موقع نصیب ہوا تھا۔ اسی دن میں نے گندم کی بالیوں کا ایک بڑا بوجھ کھیت سے کٹوا کر رام سنگھ کے یہاں بھجوا دیا۔ لطف دیکھیے۔ جو گندم کبھی آدم اور حوّا کی طویل جدائی کا پیش خیمہ بنا تھا وہی میری اور تارا کی قربت کا ذریعہ بنا۔ قربت کا غلط مطلب نہ لیجیے گا۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ دوسرے دن جب شام کو تارا کھیت پر پانی لے کر لوٹتے ہوئے ملی تو ناک سکڑنے کے بجائے اس کے ہونٹ مسکرا رہے تھے۔ وہ تبسم جسے دیکھ کر دل کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں اور ارمان مہکنے لگتے ہیں۔ آس پاس کوئی نہ تھا، اطمینان کر لینے کے بعد کہ اس وقت ایسی کم حیثیت لڑکی سے گفتگو کرنے میں جاگیر داری کے ناموس کو کوئی خطرہ نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا۔۔

’’ کیوں جی! آج بالیاں نہیں لے جاؤ گی گیہوں کی؟‘‘

’’ کل تو آپ نے اس طرح ٹوک دیا تھا جیسے ہم کوئی چور ہوں۔ !‘‘ وہ مسکرا کر بولی۔

’’ ارے وہ تو مذاق کیا تھا ہم نے۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’ کیوں برا مان گئی تھیں کیا؟‘‘

’’ ارے نہیں دادا!‘‘ وہ جلدی سے بولی۔ ’’ ہم گریب آپ کی بات کا برا مان کر کہاں رہیں گے؟‘‘

’’ تو پھر آج بھی بھجوا دوں گھر پر؟‘‘

وہ خاموش ہو رہی۔ میں نے کہا۔

’’ بولتی کیوں نہیں ؟‘‘

کہنے لگی۔

کہاں تک بھجواؤ گے دادا؟ کوئی ایک دن کی بات تھوڑی ہے۔ پیٹ کا گڑھا ایک بار میں نہیں بھر جاتا۔ ‘‘

پھر وہ چلی گئی۔ اس رات میں نے شاعری نہیں کی۔ تلخ حقیقتوں پر غور کرتا رہا۔ دوسری صبح میں نے رام سنگھ کو اپنے کھیتوں پر کام کرنے کے لیے نوکر رکھ گیا۔ اس طرح میرے لیے بہت سے دروازے کھل گئے۔ اب میرے ایک غریب کسان کی جھونپڑی پر بار بار جانے میں کسی کے شک و شبہ کرنے کا خدشہ نہ رہ گیا تھا کیونکہ وہ میرا ملازم تھا۔ اکثر میں اپنے رچے ہوئے گیت رام سنگھ کو سنایا کرتا حالانکہ اصل مقصد تارا کو سنانا ہوتا اور یونہی دن بیتتے گئے۔ میں نے اس کے ساتھ کھیتوں کی سیر کی، نیلی جھیل کے کنارے بیٹھ کر سرخ آفتاب کے غروب ہونے کا منظر دیکھا، کھیت کے منڈوے سے بنفشی چاند کے پہاڑی کے پیچھے سے بلند ہونے کا نظارہ دیکھا اور ساتھ ساتھ فصلیں کاٹیں، آم چوسے اور بہت کچھ کیا لیکن اظہارِ محبت نہ کر سکا۔ یا یوں کہیے کہ اس کا موقعہ ہی نہ ملا۔ اکثر رام سنگھ ہمراہ ہوتا اور اگر کبھی اتفاق سے اکیلے میں ملنے کا موقع نصیب ہوتا تو رعبِ حسن سے زیادہ تارا کی معصومیت آڑے آتی اور میری زبان اٹک اٹک کر رہ جاتی۔ لیکن وہ جو مثل مشہور ہے کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے، وہ غلط نہیں ہے۔ اس کی حرکات و سکنات اور طرزِ عمل سے میرے لیے احترام و محبت ٹپکتی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس نے اس سلسلے میں ہمیشہ زبان بند رکھی۔ جب میں ہی مرد ہو کر اظہارِ محبت نہ کر سکا تو پھر وہ تو عورت تھی یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ میری جاگیرداری سے مرعوب رہی ہو۔ بہر طور اور اور زیادہ طویل واقعہ بیان کر کے میں آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ واقعات تھے جنھوں نے مجھے شاعر بنا دیا اور چاتک تخلص کرنے پر مجبور کیا۔ اب آپ سے استدعا ہے کہ ہم پر ایک افسانہ لکھ کر ہماری محبت کو جاوداں بنا دیجیے!‘‘

’’ افسانہ!‘‘ میں جو چاتک جی کے قصے کو مجبوراً اونگھتا ہوا سن رہا تھا۔ راگ کو اس تان پر ٹوٹتے ہوئے دیکھ کر بوکھلایا۔ ’’ جی ہاں ! اور کیا مجھے کتّے نے کاٹا تھا جو آپ کے کان کھانے کو بیٹھتا۔ ‘‘

’’ آپ یہ کیا کہتے ہیں چاتک جی! میرے ساٹھ ستر افسانے تو آپ بھی پڑھ چکے ہیں، آپ نے بھلا کسی میں محبت والی خرافات پائی؟‘‘

’’ تبھی تو میں کہتا ہوں۔ ‘‘ وہ بولے۔ ’’ میرا افسانہ لکھ کر آپ یہ کمی بھی پوری کر ڈالیے۔ ‘‘

’’ لیکن پھر بھی۔ ‘‘ میں نے ٹالنا چاہا۔ ’’ محض ان واقعات کے تانے بانے پر میں افسانہ کس طرح بُن سکتا ہوں۔ ‘‘

’’ کیا مطلب!‘‘ وہ آسانی سے ہار ماننے والے نہ تھے۔

’’ مطلب یہ کہ اس قسم کے واقعات تو ہر زید و بکر کی زندگی میں ہوا کرتے ہیں ان میں وہ بنیادی نکتہ کہاں جس پر افسانے کا ڈھانچہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ ‘‘

انھوں نے بڑی زور سے میز پر ہاتھ پٹکا۔

’’ انھیں عام واقعات کہتے ہیں آپ! بھلا ایک نظر مجھے غور سے دیکھیے۔ عام حالات میں میرا مضحکہ اڑایا جا سکتا ہے، مجھ سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ عام طور پر جن لڑکیوں سے بھی میرا واسطہ رہا۔ انھوں نے میری اپنی ذات سے نہیں، ایک جاگیر دار سے تعلق رکھا، لیکن تارا میں مجھے سچی محبت ملی۔ میں نے اس سے سچی محبت کی۔ ہماری محبت گونگی تھی۔ اس افسانے کا عنوان بھی ’’ گونگی محبت‘‘ رکھیے گا۔

محبت جدائی اور اس سے متعلق تمام تفصیلات آپ کے سامنے ہیں۔ آپ کو افسانہ لکھنا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’ جدائی۔ ؟ اس سلسلے میں تم نے کچھ نہیں بتایا۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ اوہ! آپ کو نہیں معلوم۔ ‘‘ وہ منہ لٹکا کر کہنے لگے۔ ’’ میری اور اس کی شادی گزشتہ سال ساتھ ساتھ ہو چکی ہے۔ ‘‘

’’ ارے!‘‘ میں سن کر اچھل پڑا۔ ’’ پھر جدائی سے کیا مطلب؟‘‘

’’ اُف! آپ بھی کیا سمجھ بیٹھے؟‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’ اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر کیا تھا۔ وہاں تو سوال میرے جاگیردار اور اس کے کسان مزدور لڑکی ہونے کا تھا لہٰذا اس کی شادی ایک کسان کے لڑکے سے ہو ئی ار میری ایک جاگیر دار کی لڑکی کے ساتھ۔ ‘‘

’’ ہوں۔ ‘‘ میں نے مختصر سا جواب دیا کہ شاید اس طرح بلا ٹل جائے۔

’’ پھر افسانہ لکھیے گا نا۔ ؟‘‘

’’ دیکھو بھئی۔ ! کوشش کروں گا۔ ‘‘

’’ نہیں وعدہ کیجیے مظفر بھائی! یہ کام آپ کو کرنا ہی ہو گا۔ ‘‘ وہ باقاعدہ مجھ سے لپٹ گئے۔ میں ویسے ہی ڈیڑھ پسلی کا آدمی ہوں ان میں سے بھی ایک آدھ کم کرانے کی ہمت نہ تھی مجبوراً وعدہ کر لیا۔

اس دن سے انھوں نے ایک کے بجائے دن میں تین تین چکر لگانے شروع کر دیے اور ہر بار یہ وعدہ لے کر رخصت ہوتے کہ میں ان کا افسانہ جلد مکمل کر دوں گا۔ کچھ ایسی بات نہیں کہ میں محض وعدہ ہی کر لیتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ میں نے ہر ممکن کوشش ان کا افسانہ لکھنے کی کر ڈالی لیکن انجام وہی ٹائیں ٹائیں فش۔ کئی بار یوں ہوا کہ چند صفحے لکھے لیکن پڑھنے پر معلوم ہوا کہ احمد ندیم قاسمی کی کہانی اور نیاز فتحپوری کی انشا بے لطیف کی ناجائز اولاد ہے یا کرشن چندر کے قلم نے قے کر دی ہے۔ ادھر ہمارے چاتک جی ناک میں دم کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ آج بھی اس فکر میں اختر شیرانی کی طیور آوارہ اور حجاب امتیاز علی کی صنوبر کے سائے، لیے پڑا تھا کہ شاید اس کے اشعار اور اس کے ڈائلاگس ملا کر گوندھنے سے چاتک جی کا رومانی افسانہ برآمد ہو کہ وہ خود ہی آ گئے اور دروازے سے ٹیک لگا کر دریافت کیا۔ فرمایا۔ تیر چلایا۔

کہیے حنفی جی! آپ نے مکمل کر لیا ہمارا افسانہ؟‘‘

میں نے کتاب پلٹ دی اور ان کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھوں میں آشاؤں کے دیپ روشن کیے، مجسم سوالیہ نشان بنے کھڑے تھے میں نے نفی میں گردن ہلائی تو انھوں نے اتنی زور سے سرد آہ چھوڑی کہ مجھے اڑنے سے بچنے کے لیے پلنگ کا پایہ تھامنا پڑا۔ اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے میں نے ان ساٹھ صفحات کا پلندہ ان کی طرف بڑھا دیا جو اس کوشش میں رائیگاں ہوئے تھے۔

’’ انھیں کیا کروں گا میں۔ ؟‘‘ وہ کاغذ پھینکتے ہوئے بولے۔ ’’ مجھے تو آپ سے بڑی امید تھی مظفر صاحب!‘‘

’’ بھیا میں قطعاً بے گناہ ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’ تم لوہار سے ہیرا ترشوانے پر کیوں تلے ہوئے ہو میرے بھائی!‘‘

’’ دیکھیے حنفی جی! اگر آپ کو نہیں لکھنا ہے تو صاف صاف کہہ دیجیے!‘‘ وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر بولے۔

میں نے ان سے زیادہ سنجیدہ ہو کر کہا۔ ’’بھائی جان! کیوں اس خرافات میں اپنا اور میرا وقت ضائع کرتے ہو اب سانپ نکل چکا تو لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ! اگر ایسی ہی سچی محبت تھی تو اپنی جاگیر داری اور اس کی غریبی کے خیال کو پس پشت ڈال کر اس ے شادی کر لیتے۔ ‘‘

’’ ہونہہ!‘‘ انھوں نے گمبھیرتا سے کہا۔ ’’ لیکن سوال پیدا ہوا پتا جی کے زہر کھا لینے اور ماتا جی کے خود کشی کر لینے کا!‘‘

میں پھر چکر میں پڑ گیا۔ بولا۔

’’پھر اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ ان قصوں کو ذہن سے جھاڑ دو اور اپنی بیوی میں وہی محبت پانے کی کوشش کرو۔ ‘‘

وہ بڑی پُر اسراریت سے ہنس کر بولے۔ ’’ ہونہہ۔ !‘‘

میں نے کہا۔ ’’ جی۔ ؟‘‘

انھوں نے مسکرا کر فرمایا۔ ’’ اسے تو میں نے شادی کے ایک ماہ بعد ہی مائکے بھجوا دیا تھا۔ ‘‘

’’ آں۔ ؟‘‘میں چونک گیا۔

’’ جی ہاں ! اب آپ ہم جاگیرداروں کو نِرا حیوان بھی نہ سمجھیے۔ ہم لوگوں کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے، ہم بھی محبت کرنا جانتے ہیں، جس دل میں ایک بار تارا کو جگہ دے چکے وہاں اب کسی کے لیے جگہ نہیں۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے وہ نہیں مل سکتی تو اس کی یاد بہت ہے اور اسی یاد کو امر بنانے کے لیے میں آپ سے یہ افسانہ لکھوانا چاہتا ہوں۔ ‘‘

دل لرز کر رہ گیا۔ اف۔ الٰہی یہ کیسی محبت ہے۔ یہ کیا اندھیرا ہے؟ اس نامعقول جذبے کو لے کر شاعروں اور ادیبوں نے کتابوں پر کتابیں رنگ ڈالی ہیں۔ میں بڑی دیر تک ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں سوچتا رہا۔ چاتک جی نے میری اتنی گہری محویت سے متاثر ہو کر پوچھا۔

’’ کیا سوچنے لگے آپ؟‘‘

’’مرکزی نقطہ تلاش کر رہا ہوں آپ کے افسانے کے لیے۔ ‘‘ میں نے طنز آلود مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’ میری بات مانیے۔ ‘‘ انھوں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’ میرے ساتھ سلکن پور کے میلے میں چلے چلیے۔ تارا اسی گاؤں میں بیاہی گئی ہے۔ آپ اسے ایک نظر دیکھیں تو شاید دماغ کام کرنے لگے۔ افسانہ بہر حال آپ کو لکھنا پڑے گا۔ ‘‘

میں نے حامی بھر لی۔ دوسرے دن ہم لوگ سلکن پور کے میلے میں پہنچے۔ تارا ہی کے یہاں قیام کیا۔ لڑکی واقعی حسین اور بھولی تھی۔ اس کے شوہر سے بھی ملاقات ہوئی عجیب چمرخ سا بھوندو آدمی تھا اور دمے کا مریض بھی تھا۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بن دیر کی آمد پر تارا کے چہرے پر عجیب سی رونق آ گئی تھی۔ مسرت تو تبسم در تبسم بن کر اس کے ہونٹوں سے پھوٹ نکلی تھی۔

دو دن تک میں نے اونچے پہاڑ کی چوٹی پر کالی دیوی کے مندر سے سرسبز وادی کے دامن میں جھیل کے آس پاس پھیلے ہوئے میلے میں دیہاتیوں کا ہجوم اور ریل پیل دیکھی۔ کافی دھول پھانکی اور وادی سے چوٹی تک تین بار چکر لگا کر اپنے پاؤں بوجھل کر لیے۔ اس کے بعد بھی جب دیکھا کہ چاتک مہاراج کا ارادہ واپس چلنے کا نہیں ہے تو مجبور ہو کر یاد دہانی کی۔

’’بھائی جان! مجھے ڈیوٹی پر حاضر ہونا ہے۔ محض دو دن کی رخصت لایا تھا، اب اجازت دیجیے۔ ‘‘

انھوں نے بڑی لجاجت سے کہا۔

’’ آپ گاڑی پر واپس چلے جائیے میں دو تین دن بعد آؤں گا۔ ‘‘

’’مجھے اکیلے جانے میں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن آپ کیوں رک رہے ہیں۔ ‘‘

’’ سچ کہہ دوں !‘‘ وہ راز دارانہ لہجے میں بولے۔ ’’ ابھی ہجوم کی وجہ سے اکیلے میں تارا سے ملنے کا موقعہ نہیں ہاتھ لگا۔ میں ایک بار اس سے مل کر اظہارِ محبت کرنا چاہتا ہوں !‘‘

’’ ارے! کہیں ایسا غضب نہ کر بیٹھنا، ‘‘ میں نے انھیں سمجھانا چاہا۔

’’ اوہ! آپ مجھے اتنا نیچ کیوں سمجھتے ہیں مظفر صاحب؟‘‘ وہ جھنجھلا کر کہنے لگے۔ ’’ کوئی نازیبا حرکت نہیں کروں گا میرے دل میں یہی ایک ارمان ہے کہ اس کے سامنے اپنے بے لوث محبت کا کم از کم ایک بار اظہار کروں۔ شاید اس طرح دل کی خلش مٹ جائے۔ ‘‘

میں نے کچھ اور کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ چپ چاپ میلے سے لوٹ آیا۔

وہ سات دن بعد لوٹے اور دوسرے دن مجھ سے ملنے آئے۔ مجھے تعجب ہوا کہ انھوں نے آ کر مجھ سے افسانے کا تقاضہ نہیں کیا۔ میں نے پوچھنا ضروری سمجھا۔

’’ کہیے! اظہارِ محبت کیا آپ نے؟‘‘

کہنے لگے۔ ’’ جی ہاں ! بڑی مشکل کے بعد اس سے تنہائی میں ملاقات ہوئی اور تنہائی بھی کیا وہاں تو اچھا خاصہ ہجوم تھا البتہ ہمیں پہچاننے والا کوئی نہ تھا میں اس کے اور اس کے مریض شوہر کے ساتھ دیوی کی پہاڑی پر چڑھ رہا تھا کہ راستے میں اسے دمے کا دورہ پڑ گیا۔ اسے بیچ میں کھانستا چھوڑ کر ہم آگے بڑھے۔ کچھ اوپر چڑھ کر ہم ایک درخت کے نیچے رک گئے۔ اور میں نے اس کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔ اظہار کیا کیا صاحب! اچھی خاصی مصیبت مول لے لی۔ ‘‘

’’ کیوں کیا ہوا؟ کہیں دھول دھپے کے نوبت تو نہیں آئی۔ ‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔

’’ نہیں جی! وہ تو زور زور سے رونے لگی۔ بولی بن دیر دادا میں تو آپ کو اپنا بڑا بھائی سمجھتی تھی۔ اتنے بڑے ہجوم میں اسے چپ کرانے میں بڑی خفت اٹھانی پڑی۔ ‘‘

میرے ذہن میں بجلی سی کوند گئی۔ میرا دل خوشی سے مچلنے لگا۔ افسانے کا مرکزی نقطہ مجھے مل گیا تھا جس پر میں پوری عمارت کھڑی کر سکتا تھا۔

’’ چاتک جی!‘‘ میں انھیں جھنجھوڑ کر بولا۔ ’’ اب آپ کا افسانہ مکمل ہو جائے گا۔ ‘‘

’’ گولی ماریے افسانہ کو!‘‘ انھوں نے ہنس کر کہا۔ ’’ مجھے جیتا جاگتا افسانہ مل گیا ہے۔ ‘‘ میں نے غصہ سے پاگل ہو کر پوچھا:

’’ کیا مطلب؟‘‘

انھوں نے بڑے پیار سے مسکرا کر کہا:

’’ میں نے اپنے بیوی کو مائیکے سے بلوا لیا ہے!!‘‘

(۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈائرکٹر بولا کٹ!

 

ٹارزن

وہ دونوں آگے بھاگ رہے تھے اور دس بارہ وحشی ان کے تعاقب میں تھے۔

مرد نے شیر کی کھال بدن کے گرد لپیٹ رکھی تھی۔ اس کے قویٰ کافی مضبوط اور چہرہ جاذب نظر تھا۔ لڑکی بلا کی حسین تھی۔ اس کے بدن پر چست ریشمی جرسی اور برجیس تھی جس نے اس کے جسم کی دلآویزی کو اور دو بالا کر دیا تھا۔ سانس کے ساتھ اس کے سینے کا اتار چڑھاؤ اپنے اندر بڑی سیکس اپیل رکھتا تھا۔ وہ لوگ بڑی دیر تک پہاڑی جنگل کے اس دشوار گزار راستے پر ٹھوکریں کھاتے بھاگتے رہے۔ وحشی برابر تعاقب میں تھے۔

اچانک کسی غار سے ایک بھیانک شیر غراتا ہوا نکل آیا۔ مرد نے اپنی کمر میں لگا ہوا چمچماتا خنجر کھینچ لیا اور پیترا بدل کر کھڑا ہو گیا مگر شیر دم ہلاتا ہوا پھر غار میں گھس گیا۔ مرد نے لڑکی کو اٹھا کر کاندھے پر ڈالا اور پھر بھاگنے لگا۔ اگلی کھائی پار کرتے ہی مرد کے چہرے پر دہشت عظیم کے آثار نمایاں ہو گئے اور لڑکی کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وحشی بتدریج قریب آ رہے تھے اور ان کے سامنے پہاڑی ندی اپنی پُر شور آواز میں بہہ رہی تھی۔

’’ اب کیا ہو گا؟‘‘ لڑکی نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔

مرد نے جلدی جلدی اپنی چمکیلی آنکھیں اِدھر اُدھر گھمائیں اور ایک طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

’’ وہ دیکھو۔ ‘‘

سامنے ایک درخت کے تنے سے رسّہ بندھا ہوا تھا جو ندی کے پار کسی چٹان سے کس دیا گیا تھا۔ لڑکی نے پوچھا۔ ’’ پھر۔ ؟‘‘

’’ ہم اس کے ذریعے ندی کو پار کر لیں گے۔ ‘‘

لڑکی سہم کر زمین پر بیٹھ گئی۔ مرد نے پلٹ کر دیکھا، وحشی اب اس سے چند ہی قدم کے فاصلے پر رہ گئے۔ اس نے لڑکی کو اپنی پیٹھ پر ڈال لیا اور لپک کر رسّے پر لٹک گیا۔ اب وہ دونوں رسّے پر جھولتے ہوئے ندی پار کر رہے تھے۔ بیچ میں پہنچ کر لڑکی نے نیچے دیکھا تو فرطِ خوف سے اس کی چیخ نکل گئی۔

’’ کیا بات ہے۔ ؟‘‘ مرد نے سوال کیا۔

لڑکی نے کہا۔ ‘‘ مجھے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘

’’ ڈرنے کی کیا بات ہے۔ ‘‘ مرد نے دھیرے سے کہا۔ ’’ نیچے جال تنا ہوا ہے۔ ‘‘

ڈائرکٹر زور سے بولا۔ ’’ کٹ!‘‘

نولکھا ہار

’’ تخلیہ۔۔ !‘‘ شہزادی قاف نے اپنی کٹیلی آنکھیں گھما کر سریلی آواز میں کہا۔ چشم زدن میں دربار شاہی خواصوں اور مصاحبوں سے خالی ہو گیا شہزادی معتمد خاص سے مخاطب ہوئی۔

’’ کہو۔ کیا بات ہے۔ ‘‘

’’ شہزادہ مصر باریابی کی اجازت چاہتا ہے۔ ‘‘ معتمد خاص خمیدہ ہو کر بولا۔

’’ اجازت ہے۔ !‘‘

معتمدِ خاص چلا گیا۔ چند لمحے بعد دربار میں ایک خوبصورت نوجوان داخل ہوا۔

’’ عشق ملکۂ حسن کی بارگاہ میں ایک حقیر تحفہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘

’’ کون سا تحفہ شاہزادے!!‘‘ شہزادی قاف نے کمر لچکا کر دریافت کیا۔

’’ آپ کو یاد ہو گا شہزادی صاحبہ! جشنِ نو روز کے موقع پر آپ نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ جو نوجوان پرستان سے نو لکھا ہار لے کر آئے گا وہی آپ کا شوہر ہو سکے گا۔ !!

شہزادی نے دوپٹے کا پلّو دانتوں میں دبا کر لجاتے ہوئے کہا۔ ’’ ہمیں اپنا وعدہ یاد ہے۔ ‘‘

شہزادے کا سینہ فخر سے تن گیا۔

’’ آپ کا یہ خادم ہفت استخوان پار کر کے دیوتا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اور کالے دیو کو جہنم رسید کر کے وہ نو لکھا ہار حاصل کر چکا ہے۔ ‘‘

’’کیا سچ۔ ‘‘ شاہزادی خوشی سے اچھل پڑی۔ ’’ لائیے دیکھیں۔ ‘‘

شہزادے نے جھوم کر عبا کی جیب سے ایک سنہری تھیلی بر آمد کی اور شہزادی قاف کے ہاتھوں میں اچھال دی۔ شہزادی نے بے تابی سے تھیلی کھول کر اندر جھانکا۔ اور پھر بُرا سا منہ بنا کر بولی۔

’’ ہونہہ! ہمیں دھوکا دینے چلے ہو۔ یہ سب ہیرے نقلی ہیں !‘‘

ڈائرکٹر نے چیخ کر ہاتھ ہلایا

’’ کٹ۔ کٹ!!‘‘

اصلی باپ

نوجوان بوڑھے کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔

’’ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا پتا جی۔ !‘‘

’’ میں مجبور ہوں۔ ‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’ میں تمھاری شادی بچپن ہی میں دوسری جگہ طے کر چکا ہوں۔ ‘‘

’’ کس کے ساتھ؟‘‘

’’ رائے صاحب کی بیٹی شیلا کے ساتھ!‘‘

’’ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں، پتا جی!۔ میں شیلا سے نفرت کرتا ہوں۔ ‘‘

’’ تو کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمھاری شادی اس پنچ خاندان کی لڑکی چمپا سے کر دوں۔ ! اپنی ناک کٹوا لوں۔ برادری کے سامنے منہ دکھلانے کے قابل نہ رہوں ؟‘‘

’’محبت ذات پات نہیں دیکھتی پتا جی! میری شادی ہو گی تو چمپا سے ہو گی ورنہ میں عمر بھر شادی نہیں کروں گا۔ ‘‘

’’ خاموش۔ بد تمیز۔ !‘‘

’’ آپ مجھے قید کر سکتے ہیں میری زبان نہیں بند کر سکتے۔ ‘‘

’’ اپنے باپ کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم نہیں آئی تجھے۔ ‘‘بوڑھے نے بھنّا کر نوجوان کے گال پر زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔

نوجوان کے منہ سے خون بہنے لگا۔ اس نے دانت پیس کر کہا۔

’’ کاش تم میرے فلمی باپ نہ ہوتے۔ اصلی باپ ہوتے۔ ‘‘

ڈائرکٹر اپنا سر پیٹ کر گرجا۔

’’ کٹ۔ کٹ۔ کٹ!!!‘‘

جام تھام لے

طبلے کی ٹھنک پر ٹھمکتے ہوئے حسین طوائف اس کے قریب آئی۔

’’ جام تھام لے۔ ‘‘

اس نے شرما کر گردن جھکا لی۔ طوائف اس کے بالکل قریب سٹ کر بیٹھ گئی اور گلاس اس کے ہونٹوں کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔

’’ پیجئے۔ !‘‘

’’ نہیں۔ ‘‘

’’ اپنے ہاتھوں سے پلا دے ساقی۔ ‘‘ اس کے دوست نے کہا۔ ’’ چلو اب پی بھی لو!‘‘

’’ کیسی باتیں کرتے ہو جی!‘‘ اس نے اُبکائی لیتے ہوئے کہا۔

’’ میں شراب کو زہر سمجھتا ہوں۔ ‘‘

دوست نے مسکرا کر شعر پڑھا۔

’’ مگر جب کوئی اپنے ہاتھوں پلائے     تو اس وقت انکار کرنا بُرا ہے۔ ‘‘

’’ جان بوجھ کر زہر کیسے پی لوں۔ !‘‘ اس نے بُرا سا منہ بنایا۔

ایک گھونٹ تو تم کو پینا ہی پڑے گا۔ ‘‘ طوائف باقاعدہ اس پر سوار ہو گئی۔ ’’ تمھیں میری قسم۔ ‘‘

’’ نہیں۔ ‘‘

’’ پی بھی لو میرے یار!‘‘ اس کا دوست بولا۔ ’’ اتنی ضد نہیں کیا کرتے۔ ‘‘

’’ نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔ !‘‘

’’ فلم کا ستیاناس کرے گا سالا۔ اس دن تو پینے کے لیے گوا گیا تھا۔ آج پاکباز بننے چلا ہے۔ ‘‘ دوست کو طیش آ گیا۔

ڈائرکٹر اپنے کپڑے پھاڑنے لگا۔

’’ کٹ۔ کٹ۔ کٹ۔ کٹ۔ !‘‘

چلیں گا

نئی لڑکی ناچ رہی تھی اور اس کے ہونٹ بے آواز ہل رہے تھے۔ اچانک اس نے جھرجھری لی اور جھکولا کھا کر آگے آ گئی۔

’’اب مجھ سے نہیں ناچا جاتا۔ ‘‘ اس نے کہا لیکن پیر برابر تھرک رہے تھے۔

’’ میرے پیر شل ہو گئے ہیں۔ ‘‘ اس نے ایک اور جھکولا کھایا۔

رقص برابر جاری رہا۔

’’ میں کہتی ہوں۔ ‘‘ وہ لہراتے ہوئے بولی۔ ’’ اب میں بہت تھک گئی ہوں۔ ‘‘رقص پھر بھی نہ تھما۔

’’ میرا معاوضہ آج مجھے مل جانا چاہیے۔ ‘‘ وہ ڈگمگائی لیکن رقص کرتی رہی۔

’’ میں بہت بھوکی ہوں۔ میرا معاوضہ۔۔ ۔۔ ‘‘ وہ جھوم کر فرش پر ڈھیر ہو گئی۔

’’ یہ گانا پلے بیک میں تھا۔ ‘‘ڈائرکٹر نے مسکرا کر کیمرہ مین کی طرف دیکھا ’’چلیں گا۔ !‘‘

(۱۹۶۱ء)

٭٭٭

 

 

 

 

ہم شریف ہیں !

 

’’ ہر طرف تباہیاں ‘‘

’’چار سو خزاں کا دور‘‘

’’اور مجھے یہ فکر تھی‘‘

’ ’میں ربابِ زیست سے‘‘

’’ درد کے سوا کوئی‘‘

’’ اور سر نکال لوں ‘‘

’’ ان معاملات میں زندگی تمام ہوئی۔ ‘‘

’’ چھن۔ چھنانک۔ دھڑام!‘‘

ماچس کی ڈبیا جعفری کی انگلیوں سے چھوٹ کر زمین پر آ رہی۔ عباس کی ہتھیلیاں جیسے آبنوسی میز کی چمکیلی سطح سے چپکی رہ گئیں اور پرویز کے لبوں سے ابلتا ہوا شاعری کا فوارہ یکلخت رُک گیا۔ میں ہکا بکا منہ کھولے ان تینوں کو تاکنے لگا۔

چند لمحوں تک ہم سب مجسموں کی طرح جمیل ہوٹل کے اس کیبن میں بیٹھے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہے۔ اس اثناء میں باہر ہوٹل کے ہال میں کرسیوں کے ٹوٹنے اور میزوں کے الٹنے کی آوازیں، چینی کے برتنوں کے چھناکے دور گندی گندی گالیوں کا ملا جلا شور بتدریج بڑھتا گیا۔ جعفری دبے پاؤں کھڑکی کے پاس جا کر جھانکنے لگا اور پھر بڑی پھرتی سے نیچے جھک گیا۔ ایک گلدان کھڑکی کے نیلے شیشے کو توڑ کر کیبن میں آ گرا۔ جعفری میز کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

’’ وہی امان اور عزیز ہیں۔ بائی گاڈ! اس ایریا میں تو ان غنڈوں نے شریف لوگوں کی جان ضیق میں کر رکھی ہے۔ ‘‘ عباس اور پرویز بھی کرسیوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

’’ چلیے صاحب!‘‘ عباس نے مجھے اب تک نقطے ہوا دیکھ کر کہا۔ ’’ اس جگہ سے ہٹ جانا ہی اچھا ہے۔ تھوڑی دیر میں پولیس آتی ہو گی۔ ‘‘

ہم چاروں سہمے سہمے سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کیبن سے باہر نکلے۔ ہوٹل کے وسیع ہال میں ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ ہم لوگ میزوں کی آڑ میں دیوار کے ساتھ لگے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ ایک کونے میں بڑا سا چمکدار چاقو دانتوں کے درمیان دبائے ہوئے ایک دبلا پتلا سا نوجوان، جس کے چہرے پر چیچک کے داغ نمایاں تھے اور نچلے ہونٹوں سے خون رس رہا تھا، کرسیاں اور اسٹول وغیرہ اٹھا اٹھا کر دوسرے کونے کی طرف پھینک رہا تھا۔ جہاں سے جوابی حملے کے طور پر اس کی جانب گلدان، طشتریاں اور پیالے وغیرہ پھینکے جا رہے تھے۔ درمیانی دروازے کی آڑ سے کبھی کبھی ہوٹل کا توندیل مالک جھانک کر گڑ گڑا لیتا۔

’’ اے بھیا! عزیز۔ میں غریب آدمی ہوں۔ رحم کرو۔ ‘‘

’’ چپ بے!‘‘ دوسرے کونے سے آواز آتی اور ساتھ ہی ساتھ ایک طشتری بھی۔ مالک ہوٹل گھبرا کر سر آڑ میں کر لیتا۔ ہم موقع پا کر کچھ اور آگے سرکے۔ اس بار مالک ہوٹل دوسری کھڑکی کے پاس آ کر گھگیانے لگا۔

’’ یار امان! میرا تو دیوالہ پٹ جائے گا۔ ‘‘

’’ ہٹ یہاں سے۔ ‘‘ اس بار ایک پیالی اس کے سر پر پڑ ہی گئی اور وہ ہائے کر کے وہیں بیٹھ گیا۔ ٹھیک اسی وقت ایک اسٹول آ کر اس سانولے پستہ قامت نوجوان کے کولھے پر پڑا جسے مالک ہوٹل نے امان کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ وہ ایک آہ کے ساتھ گندی گندی گالیاں بکتا ہوا دوسرے کونے کی طرف جھپٹا۔

’’ ٹھہر بیٹا! آج تیری آنتیں ڈھیر نہ کر دیں تو امان کو دادا نہیں چمار کہنا۔ ‘‘ دوسرے لمحے عزیز کے بھڑکیلے بش شرٹ کا کالر اس کے بائیں ہاتھ میں تھا۔ اور دائیں ہاتھ سے وہ چاقو کا پھل کھول رہا تھا۔ تھوڑی دیر تک ان دونوں میں ہا تھا پائی ہوتی رہی اور پھر کرکراہٹ کی آواز کے ساتھ رامپور چاقو کا بڑا سا چمچماتا ہوا پھل کھل گیا اور برقی روشنی سے اس میں شعاعیں سی پھوٹنے لگیں اگر میں جھپٹ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑ لیتا تو دوسرے لمحے اس نے وار کر ہی دیا ہوتا۔ دونوں نے گھور کر مجھے دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے نگل جانا چاہتے ہوں پھر وہ چیچک رو نوجوان جسے میں نے زخمی ہونے سے بچایا تھا، غرّا کر بولا۔

’’ تو کیوں بیچ میں ٹانگ اڑاتا ہے بے!‘‘

میرے دبلے پتلے جسم کا خون بھی کھول سا گیا۔ جی چاہا اس احسان فراموش کو بچانے کے بجائے خود چاقو مار دوں۔

’’ مجھے کیا کرنا ہے بھئی! لڑو۔ !‘‘

میں نے امان کا ہاتھ چھوڑ دیا لیکن اسی وقت عزیز نے اس کے ہاتھ کو اس زور کا جھٹکا دیا کہ چاقو اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا پڑا۔ ان دونوں میں دھینگا مشتی ہونے لگی اور میں میدان صاف دیکھ کر ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ میرے تینوں ساتھی طنزیہ مسکراہٹوں کے ساتھ میرے استقبال کو موجود تھے۔

’’ کیوں صاحب!‘‘ جعفری نے طعن آمیز لہجے میں پوچھا۔ ’’ یہ کیا عقلمندی سوجھی تھی آپ کو؟‘‘

’’ شکر ادا کیجئے جناب خدا کا۔ ‘‘ عباس نے کہا۔ ’’ وہ کہیں پلٹ کر چاقو کا ایک ہاتھ آپ کو رسید کر دیتا تو۔ ؟‘‘

میں نے سوچا تو اس سلسلے میں سراسر اپنی حماقت ہی نظر آئی۔

’’ لیکن یہ لوگ لڑکیوں رہے تھے بھئی۔ ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

پرویز نے کہا۔ ’’ کیا بتایا جائے آپ کو! ہو گئی ہو گی کوئی بات۔ تفریحاً لڑ بیٹھے ہوں گے۔ انھیں اس کے علاوہ اور کام بھی کیا ہے۔ ‘‘

نوندیل مالک ہوٹل کاؤنٹر سے جھک کر کہنے لگا۔

’’اجی صاحب! ناک میں دم ہے ان لوگوں کی وجہ سے۔ جب آئے کوئی نہ کوئی فساد ہی کھڑا کیا۔ تاش کھیلتے کھیلتے آپ ہی آپ جھگڑ پڑے۔ ‘‘ پھر وہ وہیں سے چلّانے لگا۔

’’ عزیز بھیّا۔ ! امان دادا۔ ! ارے بھئی اب بس بھی کرو، کیا مجھے فقیر بنا کر ہی چھوڑو گے۔ ؟‘‘

ہم لوگ وہاں سے ایسے لوگوں کو آزاد چھوڑ رکھنے پر پولیس کو برا بھلا کہتے ہوئے چلے آئے۔

٭٭

 

یوں تو شہر میں کئی لوگوں سے میری جان پہچان ہے لیکن سلام علیکم و علیکم السلام، خیریت ہے، مہربانی آپ کی، اور بس یہیں تک محدود تھی۔ گنتی کے چند ہی افراد ایسے ہیں جنھیں میرے دوستوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ عباس، جعفری اور پرویز ان میں خاص الخاص تھے۔ عباس میرے رشتے کے خالو کا بڑا لڑکا تھا۔ حال ہی میں پینٹنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پلٹا تھا لیکن ہنوز بیکار تھا اور ملازمت تلاش کر رہا تھا۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھتا تھا لیکن محض اس حد تک کہ دوستوں سے پرچے مانگ کر خاس خاص رومانی غزلیں پڑھ لیں اور بس! اسی سلسلے میں مجھ سے بھی تعلقات بڑھ گئے۔ پرویز بھی ادب ہی سے متعلق تھا یعنی ایک عدد رسالہ ’’ زاویے‘‘ کا ایڈیٹر جس میں اس کی ایک آدھ فحش کہانی، معموں کی تشریحات، سوال جواب اور اشتہارات شائع ہوتے تھے۔ مجھ سے معموں پر بحث کرنے کے لیے اکثر آیا کرتا تھا، رفتہ رفتہ بے تکلفی ہو گئی۔ جعفری میرا پڑوسی تھا اور ایم کام فائنل کا طالب علم۔ سستی ادبی شہرت کا دلدادہ، ہر دوسرے تیسرے انگریزی ہندی کے کسی افسانے کا ترجمہ بغرض اصلاح اور حصولِ داد مجھے سنایا کرتا تھا لیکن حق بات یہ تھی کہ ان ترجمہ کردہ افسانوں میں بھی بہت کم معیاری ہوتے تھے اور ان کے ترجمے سے اردو ادب میں کوئی ایسا خاص اضافہ نہ ہوتا تھا۔

اس ہوٹل والے واقعہ سے تین چار دن بعد کی بات ہے۔ صبح ہی صبح جعفری کی چھوٹی بہن کاغذ کا ایک پیکٹ لے کر آئی۔

’’ بھیا نے کہا ہے اسے دیکھ لیجیے۔ ‘‘

میں نے لے کر رکھ لیا۔ دوپہر میں فرصت کے وقت کھول کر دیکھا تو ایک افسانے کا مسودہ تھا، کچھ غمِ جاناں۔ مصنفہ عائشہ فرحت۔

اب تک تو جعفری صرف اپنے ہی ترجمہ کر دہ مسودوں پر مجھ سے اصلاح لیتا تھا۔ اب یہ ایک اور علتِ عائشہ فرحت والی گلے منڈھتی نظر آئی۔ یعنی اب یہ حضرت دوسروں کے مسودے لے کر مجھ سے درست کرائیں گے اور ان لوگوں پر احسان اپنا جتائیں گے۔ بھئی واہ۔ یعنی میں اسی اصلاح بھر کا ہو کر رہ گیا۔ نہیں صاحب! یہ سلسلہ روک دینا چاہیے ورنہ ابھی انگلی پکڑی ہے پھر کلائی پکڑیں گے۔ ایک آزمودہ ترکیب یاد آ گئی۔ افسانہ جیسی کہ امید تھی، محبت کے فلسفے کا بگھار تھا۔ بڑی سختی سے قطع و برید کی اور ساتھ ہی ساتھ عائشہ فرحت کے نام ایک مختصر سی ہدایت لکھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ وہ افسانے لکھنے کی لت کو خیر باد کہیں کیوں کہ بات ان کے بس کی نظر نہیں آتی۔

مسودہ جب جعفری کو واپس بھیجا تو جناب بہت جز بز ہوئے۔ ایک طویل رقعہ میرے نام لکھا جس میں افسانہ ’’ کچھ غمِ جاناں ‘‘ کو وقت کا بہترین شاہکار ثابت کیا اور ساتھ ہی مجھے لکھا کہ افسانے پر اصلاح دینے کا مجھے کوئی حق نہ تھا؟‘‘

میں نے رقعہ لکھ کر پوچھا۔

’’ کیوں صاحب؟‘‘ اصلاح دینے کا حق مجھے کیوں نہیں تھا؟ آپ نے مسودہ مجھے اور کاہے کو بھیجا تھا؟‘‘

’’ محض پڑھنے کے لیے!‘‘ تحریری جواب ملا۔

’’ میں ایسی تھرڈ کلاس چیزیں نہیں پڑھا کرتا۔ ‘‘ میں نے لکھ بھیجا۔ اس پرچہ کا کوئی جواب نہیں ملا۔ جعفری کی چھوٹی بہن نے آ کر کہا۔

’’ بھیّا نے منٹو کے ڈرامے اور اپنی دوسری کتابیں مانگی ہیں !‘‘

میرا خون کھول گیا۔ الماری سے تلاش کر کے جعفری کی تمام کتابیں لڑکی کو دیں اور کہلا بھیجا۔ ’’ میرے رسالے بھی بھجوا دیجیے۔ ‘‘

اسی وقت رسالے بھی واپس آ گئے۔ چلیے صاحب! تعلقات ختم ہو گئے جعفری سے۔ خس کم، جہاں پاک!۔۔

دوسرے دن پرویز شمع معموں پر میری رائے پوچھنے آیا تو میں نے اسے جعفری کی حرکت سے مطلع کیا۔

’’ بھئی میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جواب میں کہا۔

بس پھر کیا تھا۔ یک نہ شد دو شد، میرا ایک دوست مجھے اس معاملے میں حق بجانب سمجھتا تھا۔ دل پھول کی طرح کھل گیا یادوں کے دریچے کھل گئے۔ کرید کرید کر پچھلے واقعات کی یاد تازہ کی گئی، اور پھر ہر معاملے میں گھوم پھر کر جعفری خطا کار پایا گیا۔ اب وہ واقعات بھی اسی روشنی میں دیکھنے پر مختلف نظر آئے جنھیں اس شکر رنجی سے قبل جعفری کے اوصاف میں گنا جاتا تھا۔ بڑی دیر تک ہم دونوں اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے اور آخر کار یہ تان یوں ٹوٹی کہ پرویز نے کہا۔

’’ جعفری نے آپ کے رسائل کی فائلیں واپس کر دیں ؟‘‘

’’ ہاں ! میں نے افسردگی سے کہا۔ ’’ لیکن اچھے اچھے تمام مضامین اور تصاویر نکال لینے کے بعد۔ !‘‘

میں نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھ کہ جعفری کی نئی کتابوں پر میں نے اور میرے گھر والوں نے جا بجا ہر ہر ورق پر نوٹ لکھ کر ان کا ستیاناس کر دیا ہے۔ پرویز بولا۔

’’ بس آپ ایسے ہی لوگوں سے خوش رہتے ہیں۔ ایک مجھے دیکھیے۔ کب سے جناب کی خوشامد کر رہا ہوں کہ بھئی آپ کی جان پہچان کئی مدیران سے ہے ’’ زاویے‘‘ کے ٹائٹل پیج کے لیے کسی سے کسی فلم ایکٹرس کا اچھا سا بلاک منگوا دیجئے اپنا ٹائیٹل بلاک میکر کے پاس پڑا ہے اس کا بلاک تیار ہو جائے تو ان کا بلاک واپس بھیج دیں گے۔ لیکن میری درخواستوں پر آپ نے کوئی توجہ نہیں دی اور ان حضرت جعفری پر۔۔ ۔۔ ‘‘

اس نے پھر جعفری کی برائیوں میں زمین آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیے۔ حربہ کار گر ہوا۔ ایک رسالے کے مدیر کو جن سے میری زیادہ بنتی تھے اور اسی وجہ سے میں انھیں اپنی تخالیق بغیر معاوضہ بھیجتا رہتا تھا۔ اسی وقت خط لکھا گیا کہ وہ عاریتاً کچھ مہینوں کے لیے تین چار خوبصورت بلاک فلم ایکٹرسوں کے بھیج دیں۔

چند دن بعد بلاک آ گئے اور پرویز کے حوالے کر دیے گئے۔

اب ہم تینوں کے درمیان موضوع گفتگو کے لیے جعفری اور اس کی برائیاں ہی رہ گئی تھیں۔ میرے گھر پر، ریستوران میں، عباس کی نشست گاہ پر اور دفتر ماہنامہ ’’ زاویے‘‘ میں ہر جگہ جہاں ہماری بیٹھک جمتی، بس یہی تذکرے ہوتے۔ نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا لیکن ایک دن ان مدیر صاحب کا خط آ گیا جنھوں نے بلاک بھجوائے تھے۔ انھوں نے ان کی واپسی کے لیے یاد دہانی کی تھی۔ میں نے پرویز سے تذکرہ کیا تو وہ ہنس کر ٹال گیا۔ پھر یہ معمول ہو گیا کہ ہر تیسرے، چوتھے دن بلاک کی واپسی کے لیے میرے پاس خط آتا جس میں تقاضہ بتدریج سخت لہجہ اختیار کرتا جاتا اور اسی مناسبت سے میں پرویز کے ساتھ پیش آتا۔ پھر آخر ایک دن ان مدیر صاحب نے ساری مروّت بالائے طاق رکھ کر کھرا کھرا خط مجھے لکھا کہ یا تو میں ایک ہفتے کے اندر اندر ان کے بلاک واپس بھیج دوں یا پھر ان کی قیمت سوا دو سو روپیہ بذریعہ منی آرڈر فوراً ارسال کروں۔ خط پڑھ کر تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔ میں بھناتا ہوا ’’ زادیے ‘‘ کے دفتر میں پہنچا اور پرویز کے سامنے خط پٹک کر ترش لیجے میں بولا۔

’’ واہ صاحب! یہ خوب رہی۔ یعنی آپ کی وجہ سے میں دوسروں کی باتیں سنتا بیٹھوں۔ لائیے بلاک دیجیے۔ !‘‘

’’ ابھی ٹائیٹل تیار نہیں ہوئے۔ ‘‘ اس نے روکھا سا جواب دیا۔

تو کیا میں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے آپ کے ٹائیٹل کی تیاری کا۔ ‘‘ میں نے گرم ہو کر کہا۔

’’ اچھا تو اب آپ ان حرکتوں پر اتر آئے فاروقی صاحب!‘‘اس نے جل کر جواب دیا۔ ’’ اور اتنے دنوں سے میرے پیچھے کون پڑا تھا کہ زادیے کو سلیقے سے نکالا جائے۔ اب میں اتنے روپیے اس کام میں پھنسا چکا ہوں تو آپ کنی کاٹنا چاہتے ہیں۔ !‘‘

’’ افوہ ری مکاری!‘‘ میں تلخ لہجے میں بولا۔ ’’یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اجی حضرت! کیا میرے بل بوتے پر آپ نے ’’ زاویے‘‘ کو سلیقے سے نکالنے کا تہیہ کیا تھا؟ بس آپ سیدھے سیدھے بلاک واپس کیجیے ورنہ۔۔ ‘‘

’’ بھئی بلاک ابھی تو نہیں مل سکتے مسٹر فاروقی!‘‘ اس نے بے حیائی سے کہا۔

میں نے غرّا کر پوچھا۔ ’’ آخر کیوں ؟‘‘

’’ پریس والوں کو پرنٹنگ کے دام نہیں چکائے گئے اس لیے انھوں نے بلاک روک رکھے ہیں !‘‘

لاچار واپس لوٹا۔ پریس جا کر کوشش کی تو معلوم ہوا جب تک ان کے مبلغ ساٹھ روپیے وصول نہ ہو جائیں گے بلاک کی واپسی ناممکن ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مجبوراً عباس سے امداد چاہی کیونکہ مجھے اپنی تنخواہ نہ ملی تھی۔ پریس والوں کا حساب بے باق کر کے بلاک حاصل کیے اور ان مدیر صاحب کو ایک بہت سخت خط کے ساتھ پارسل کرا دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پرویز کے ساتھ ان دوسرے مدیر صاحب سے بھی تعلقات منقطع ہو گئے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔

چند دن بعد کی بات ہے۔

عباسی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ میرے مطالعہ کے کمرہ میں بیٹھا تھا۔ جعفری اور پرویز کی بے وفائیوں اور بے مروتیوں کا ذکر چل رہا تھا کہ عباس کی نظر اپنے چھوٹے بھائی پر پڑ گئی جس کے ہاتھوں میں ایک تفریحی امریکن رسالہ تھا۔ اس نے ملامت آمیز لہجے میں کہا۔

’’کیوں حضرت! ایسی کتابوں سے آپ کب سے شوق فرمانے لگے؟‘‘ لڑکے نے شرمندہ ہو کر رسالہ شیلف میں رکھ دیا۔ میں نے پوچھا۔

’’ کیوں بھئی عباس ! پڑھنے کیوں نہیں دیا بیچارے کو؟‘‘

’’ ایسی گندی کتابیں پڑھنے والے بیحد پست مذاق ہوتے ہیں !‘‘ اس نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا۔

رسالہ میرا تھا۔ یہ تو صریحاًاس بات کا ثبوت تھا کہ عباس مجھے پست مذاق سمجھتا ہے۔ بحث ہونی لازمی تھی جو ہوئی لیکن اس لہجہ میں کہ بات بہت بڑھ گئی۔ اس نے میز پرگھونسہ مار کر کہا۔

’’ اچھی بات ہے! میں صاف صاف کیوں نہ کہہ دوں کہ آپ کی ذہنیت گندی ہے فاروقی صاحب۔ ‘‘

میرے لیے ایک ہی چارہ رہ گیا تھا چیخ کر بولا۔

’’نکل جاؤ میرے مکان سے۔ !‘‘

’’ لاؤ میرے ساٹھ روپیے!‘‘

’’ کیسے روپیے۔ ؟‘‘

’’ وہی جو کہ پریس والوں سے بلاک واپس لینے کے لیے مجھ سے قرض لیے تھے۔

’’ میں نے کوئی روپیے تم سے ادھار نہیں لیے۔ کیا ثبوت ہے تمھارے پاس؟‘‘

’’ لعنت ہے تم پر! دغا باز۔ مکار۔ کمینے!‘‘

بخدا میں مجبور تھا اسے دھکے دے کر مکان سے باہر نکلوا دینے پر!

۔۔ ۔۔ ۔۔

اور آج میں بڑی دیر سے جمیل ہوٹل کے وسیع ہال میں بیٹھا ہوں۔ میری داہنی طرف دو تین ٹیبل چھوڑ کر جعفری اپنے تین نئے دوستوں کے ساتھ بیٹھا کسی افسانے کا اردو ترجمہ انھیں سنا رہا ہے اور درمیان میں وہ چائے کی چسکیاں لیتے جاتے ہیں پھر جانے وہ کیا بات ان سے کہتا ہے اور وہ تینوں کھلکھلا کر ہنس پڑتے ہیں اور معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھنے لگتے ہیں ان سے نظریں چُرا کر کپکپاتی ہوئی انگلیوں سے سگریٹ جلانے کی کوشش کرتا ہوں۔

بائیں جانب چوتھی میز پر پرویز کسی سنیما کے مالک سے رسالہ کے لیے اشتہار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوران گفتگو میں وہ لوگ کنکھیوں سے میری طرف دیکھ لیتے ہیں اور پھر مسکرا مسکرا کر باتیں کرتے ہیں پھر اچانک ان کی میز سے ایک زور دار قہقہہ بلند ہوتا ہے اور میں منہ بنا کر دانت پیسنے لگتا ہوں۔

میرے بالکل سامنے والی میز کے کنارے عباس اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا ہے۔ باتیں کیا ہیں تیر ہیں جو میرے دل میں پیوست ہوتے جاتے ہیں۔ ڈالڈا قسم کے ادب اور فحش لٹریچر پڑھنے والوں کو وہ لوگ جی بھر کر گالیاں دے رہے ہیں، میں کھنکار کر گلا صاف کرتا ہوں، تھوکتا ہوں اور بیرے کو کافی لانے کا آرڈر دیتا ہوں۔

اسی وقت عزیز اور امان ہوٹل میں داخل ہوتے ہیں۔ امان کے سر پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور عزیز کے گال پر زخم کا نشان ہے۔ وہ ایک میز پر آ بیٹھتے ہیں اور ان میں شریفوں پر بحث چھڑ جاتی ہے۔

’’ دادا!‘‘ یہ لوگ کھسکے کیوں جا رہے ہیں ؟ عزیز پوچھتا ہے۔

’’بیٹا!‘‘ امان بزرگانہ انداز میں جواب دیتا ہے۔ ‘‘ یہ شریف لوگ ہیں ہم سے بچتے ہیں !‘‘

’’شریف۔ !‘‘ عزیز بُرا سا منہ بناتا ہے جیسے کونین کی گولی اس کے منہ میں پھنس گئی ہو۔

’’ ابے! یہ تو بتا۔ ‘‘ امان پوچھتا ہے۔ ’’تو نے میرے لیے نقد ضمانت کا انتظام کہاں سے کر لیا؟‘‘

’’ جیسے تم نے مجھے چھڑانے کے لیے پچھلے سال رشوت کا انتظام کیا تھا۔ ‘‘ عزیز کہتا ہے۔ ’’اپنے باپ کا کیا گیا، ایک سیٹھیے کو پکڑ لیا تھا۔ ‘‘

اس اثناء میں میرا دماغ لفظ شریف کی گردان کرتا رہتا ہے اور آنکھیں جعفری، پرویز اور عباس کی میزوں کا طواف کرتی ہیں۔

امان کہتا ہے۔

’’ ابے عزیز! تو نے تو میری آنکھ ہی پھوڑ دی تھی، ذرا سا بچ گئی۔ ‘‘

’’ دادا! یہ بھی محبت کی نشانی ہے۔ ‘‘ عزیز گال کا زخم سہلاتے ہوئے جواب دیتا ہے۔ ’’میری کمر بھی اب تک درد کر رہی ہے۔ ‘‘ پھر امان میز پر تال دینے لگتا ہے۔ اور عزیز میز پر ٹانگ رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور بھونڈی آواز الاپتا ہے۔

’’ ہم دلّی کے دادے ہیں۔ دادے کیا پردادے ہیں۔ ‘‘

جی چاہتا ہے شرافت کا لبادہ اتار پھینکوں اور میں بھی ان کے ساتھ مل کر خرمستیاں کروں، لڑوں اور لڑ کر ایک ہو جاؤں اور بھونڈی آواز میں الاپوں اور۔۔

پھر سوچتا ہوں میں تو شریف ہوں۔ !

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

بجیا تم کیوں روتی ہو؟

 

 

چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

للّی بابا سمجھا کر ہار گئے۔ مولانا قادر کی عمر بھر منہ نہ دیکھنے والی دھمکی بھی کارگر نہ ہوئی۔ آپا نے جو فیصلہ کر لیا تھا اس سے ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ ان دنوں گھر میں آئے دن ایک ہنگامہ برپا رہتا تھا۔

’’ بی بی۔ !‘‘

’’اے ہے۔ کچھ کہو گی بھی۔ ؟‘‘

’’ میں کہتی بی بی! تم یہ تو سوچو‘‘یہ بیٹا کی جندگی بھر کا سوال ہے۔ جمال میاں میں ایسے کہاں کے لعل ٹکے ہیں جو ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ اے بی بی! اب بس کرو۔ ‘‘ آپا فوراً بھڑک اٹھتیں۔ ’’ قاضی جی دبلے کیوں، شہر کے اندیشے میں۔ لڑکی میری ہے۔ مجھے تم سے زیادہ اس کی بہتری کی فکر ہے۔ میں سب سمجھتی ہوں تم لوگوں کی چالیں۔ چاہتے ہیں کسی طرح یہ شادی نہ ہونے پائے۔ لڑکا اچھا ہے تو بُرا ہے تو، اب یہ شادی تو ہو کر رہے گی!‘‘

’’ لیکن میری بھی تو سنو۔ ‘‘

’’نا رجبن بہن! اس معاملے میں کسی کی نہیں سننے کی ہیں۔ بھلا تم ہی سوچو۔ تین سال سے تم سے کسی بھلے گھر کے لڑکے کے لیے کوشش کرنے کو کہتی تھیں اس وقت تو کسی کے کان پر جوں نہ رینگی اور اب جو ایک بڑے گھر سے پیغام آ گیا ہے تو سب کی چھاتی پر سانپ لوٹنے لگے۔ ‘‘

’’اے بہن! مجھے کیا کرنا ہے۔ ‘‘رجبن کو بھی تاؤ آ جاتا۔ ’’ میں نے سوچا تم ہی بعد میں کہو گی کہ کسی نے بتایا نہیں سو آج فرض ادا کر دیا۔ اب تم جانو تمھارا کام جانے۔ ‘‘

وہ اپنی شلوار سنبھالتی چل دیتیں۔

’’ ممانی سنتی ہو۔ ؟‘‘

’’ کیا ہے بھئی۔ ؟‘‘

’’ ممانی! سارے گاؤں میں اسی بات کا چرچا ہے۔ تم کو سوجھی کیا ہے۔ ؟‘‘

اور آپا دوپٹے میں گوٹا ٹانکنا چھوڑ کر اپنا ما تھا ٹھونکنے لگیں۔

’’ ہائے اللہ! میں کیا کروں ؟جس کو دیکھو بد شگونی کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب لوگو میں پوچھتی ہوں کیا کوئی مجھ سے زیادہ میری لڑکی کو چاہتا ہو گا؟ یا میں جان بوجھ کر اپنی لڑکی کو کنوئیں میں دھکیل دوں گی۔ ؟‘‘

’’ بس تم اسی طرح بگڑنے لگتی ہو۔ ‘‘ شاکرہ باجی کہتیں۔ ’’ ٹھنڈے دل سے سوچو کہ اتنے لوگ منع کرتے ہیں اس شادی سے تو آخر کچھ تو بات ہو گی۔ ‘‘

’’ ہاں ہاں میں سب سمجھتی ہوں۔ ‘‘ آپا کی آواز بتدریج بلند ہوتی جاتی۔ ‘‘ ڈاکٹر سلیم کے گھرانے کو کون نہیں جانتا۔ خالص سید ہیں، اپنے گھر کے کھاتے پیتے ہیں۔ رہی بات لڑکے کی تو میری سمجھ میں نہیں آتا اس میں کیا کج ہو سکتا ہے؟پڑھا لکھا ہے۔ فوج میں نوکر ہے۔ خدا نخواستہ اگر کوئی جسمانی کج ہوتا تو سرکار اندھی نہیں کہ بھرتی کر لیتی۔ نوکری سے پہلے ڈاکٹری معائنہ ہوتا ہے۔ ہاں۔ ‘‘

’’ بھئی ہم نے تو سب سے یہی سنا ہے کہ لڑکا ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘

’’ اے ہے! اس لڑکی کو کیسے سمجھاؤں ؟ بیٹی آج کل اچھے لڑکے بہت کم ملتے ہیں لڑکیوں کی بھرمار ہے اس لیے ایک اچھی جگہ رشتہ ہوتے ہوئے دیکھ کر سبھی کو جلن ہوتی ہے۔ چاہتے ہیں کہ بھیڑ مار کر کسی طرح شادی رکوا دیں۔ اب سے دور پار اگر میں آج اُن کو جواب دے دوں تو یہی لوگ جن کو آج لڑکے میں کیڑے نظر آتے ہیں، کل کو شہد کی مکھیوں کی طرح لپکیں گے اپنی اپنی چھوکریاں لے کر۔ ‘‘ اور ایک دن تو میری بھی شامت آ گئی۔

’’ آپا۔ !‘‘

’’ یا خدا۔ ‘‘ وہ پھر اپنا سر ٹھونکنے لگیں۔ اس لڑکی کا چت کام میں نہیں لگتا۔ شادی کے دس دن رہ گئے ہیں سارا انتظام کرنا ہے اور اس سے اب تک ایک دسترخوان نہیں تیار کیا گیا۔ آپا آپا کر کے میرا دھیان الگ بٹاتی ہے۔ ‘‘

’’ ٹانک تو رہی ہوں ستارے اس میں۔ ‘‘ میں روندھی ہو کر کہتی۔ ‘‘ تم تو چاہتی ہو منہ میں ٹانکے لگائے بیٹھی رہوں۔ ‘‘

’’ اے لو! یہ پگلی ٹسوے بہانے بیٹھ گئی۔ بول نا، کیا کہتی ہے؟ ‘‘ وہ کچھ پگھلتیں۔

’’ یہ طرح طرح کی افواہیں کیسی سنائی پڑتی ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں جمال بھائی کے پاؤں میں رعشہ ہے!‘‘

’’ اے چپ لڑکی! تیرے منہ میں خاک۔ ‘‘ اور اسی پر بس نہ کر کے وہ پیٹھ پر ایک ہتھڑ جما دیتیں اور میں اوئی اللہ کر کے رہ جاتی پھر میں اور میری سہیلیاں بجیا کو سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ بجیا مجھ سے وہ ہی سال بڑی تھیں اس لیے کوئی جھجک ایسی بات کرنے میں محسوس نہ ہوتی۔

’’ بجیا! بجیا! تم نہیں کر دینا اچھا! جب وکیل پوچھنے آئیں۔ ‘‘ اور بجیا سر جھکائے یہ بڑے بڑے آنسو روئے جاتیں۔ لوگ باگ جنھیں بجیا سے ایک معصوم و مظلوم لڑکی سے ہمدردی تھی، آپا کو سمجھا کر ہار گئے۔ لیکن وہاں تو دل میں یہی خیال گھر کر گیا تھا کہ حاسد لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی لڑکی اتنے اچھے خاندان میں بیاہی جائے اس لیے بہکاتے ہیں۔ ہزار باتیں کہتیں اپنے فیصلے کے جواز ہیں۔

’’ نا بہن!شریفوں کی زبان ایک ہوتی ہے۔ ایک بار ہاں کہہ دی سو کہہ دی۔ ‘‘

کبھی کہتیں۔ ‘‘ وہ تو لڑکے والے پہلے ہی کہتے تھے کہ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے کسی کی باتوں میں نہ آنا۔ میں کانوں کی اتنی کچی نہیں ہوں۔ یہ شادی ہو گی۔ ہو گی ہو گی!‘‘

اور ہمارے ابّو میاں پر دیس میں تھے۔ اپنی تجارت میں مشغول۔ کارو بار چھوڑ کر وہ لڑکی کی شادی جیسے حقیر مسئلے میں اپنا قیمتی وقت کیسے برباد کرتے؟ پھر ان کی وضعداری بھی تو کوئی چیز تھی۔ مثالیں دیتے تھے لوگ انھوں نے صاف صاف لکھ دیا لڑکی آپا کی ہے جو چاہیں کریں۔ فرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ جوان جہان لڑکی کو زیادہ دن بٹھائے رکھنا معیوب بات ہے۔ نکاح کے دن وہ بھی آ جائیں گے۔

اور اس طرح یہ گاڑی اس عمیق غار کی طرف بڑھتی رہی جس میں گرا کر بجیا کو سسکا سسکا کر زندہ رکھنا تھا۔ اور میں نے اور میری سہیلیوں نے روتی بلکتی بجیا کے کان کھا ڈالے۔

’’ بجیا نہیں کر دینا اچھا!‘‘

’’ شرم کی کیا بات ہے بجیا۔ تم کو ہماری قسم!‘‘

’’ تم ذرا سی گردن بھر ہلا دینا ہم لوگ کہہ دیں گے بجیا کو منظور نہیں۔ ‘‘

’’ یہ عمر بھر کا سودا ہے بجیا۔ ! عمر بھر کا!‘‘

اور بجیا کی سسکیاں اور بڑھ جاتیں اور ہمارے ننھے ننھے دل اور زور سے دھڑکنے لگتے۔ ہائے اللہ کیا ہو گا اب؟

چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ مہدی بھیا اور جنو چچا جب نکاح کے وقت بجیا کی منظوری لینے آئے تو انھوں نے سر ہلا دیا۔ نہیں، میں نہیں۔ ہاں کہہ کر!

اور ہم سب سہیلیاں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ میراثنیں کاہے کو دینی بدیس دردناک لے میں گاتی رہیں اور بجیا شہنائیوں کے غمناک سروں کے درمیان ڈولی میں سوار کر دی گئیں اور سب نے دروازوں اور جھروکوں سے جھانک جھانک کر دیکھا گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے دولھا کے پیر بُری طرح ڈگمگا رہے تھے۔ اور آپا نے چمکتی ہوئی آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ کہا۔

’’ میں نے نے پہلے ہی رمضان سے کہا تھا کہ نگوڑے جوتے چھوٹے پڑیں گے دولھا میں کے پاؤں میں !‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔

اور اب تین سال بعد گھر میں میری شادی کے ہنگامے برپا ہیں بجیا حیران ہیں کہ کیا کریں ؟ شادی کے چند ماہ بعد ہی وہ گھر واپس آ گئی تھیں۔ کبھی واپس نہ جانے کے لیے۔ ہمارے دولھا بھائی کے نہ صرف پیر ہی میں رعشہ تھا بلکہ دماغ بھی کچھ ڈھیلا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع میں ان کے بھائی ڈاکٹر سلیم نے سفارش کر کے انھیں فوج میں بھرتی کروا دیا تھا۔ شاید کسی افسر کے ویٹر تھے۔ ڈسچارج ہونے پر ان کی اماں اور بھائی کو شادی کی فکر ہوئی چنانچہ جال میں بے چاری بجیا پھنسیں۔ پھر کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ڈاکٹر سلیم کی پہلی بیوی مر گئیں اور دوسری جگہ جہاں ان کی شادی ہوئی وہ محترمہ ایک ہی چالاک تھیں لہٰذا انھوں نے کان بھر بھر کر ڈاکٹر صاحب کو بھائی اور اماں سے الگ کر دیا دولھا بھائی پیروں اور دماغ کی کمزوری کے باعث کسی کام کے نہ تھے خرچ چلتا تو کیسے؟

دوسرے تیسرے ماہ ڈاکٹر صاحب کو رحم آتا تو کچھ دے دیتے جس میں رو رو کر گزر ہوتی۔ ایسے سرد ماحول میں نزلہ عضو ضعیف بجیا پر ہی گرا اور وہ میکے پہنچا دی گئیں۔

’’ابو میاں !کیا انسان صرف کھانے پہننے کے لیے پیدا ہوا ہے؟‘‘

’’ اے بوا! ہم نے صبر کیا۔ اللہ بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ ‘‘

آپا تم اب صبر کے سوا کر ہی کیا سکتی ہو۔ ؟ لیکن بجیا بے چاری کیا کریں ؟لیکن فی الحال تو بجیا کی حیرانی ان کی اپنی نہیں، میری وجہ سے ہے کل ہی تو انھوں نے مجھے کلیجے سے چمٹا کر اور رو رو کر برا حال کر لیا تھا۔

’’ شمو آپا کو کیا ہو گیا ہے؟ اور شمو یہ ابو میاں نے کانوں میں تیل کیوں ڈال رکھا ہے؟‘‘

’’ بجیا کچھ بتلاؤ تو؟میرا جی ہولتا ہے!‘‘

’’ کچھ نہیں۔ ‘‘ وہ آنسو پونچھ کر سسکیاں لیتی ہوئی مانجھے خانے سے باہر چلی گئی تھیں اور آج پھر صبح سے مانجھے خانے میں بیٹھی سسک رہی ہیں۔ میں جانتی ہوں ان کے دل کا چور۔ کتنا ظلم ہے کہ وہ مجھے چمٹا کر تسکین بھی نہیں دے سکتیں اپنے دل کو۔

اس بار آپا نے پچھلے تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوئے تمام پیش بندیاں کر لی ہیں۔ میرے لیے بر تلاش کرتے ہوئے انھوں نے جو احتیاط برتی ہے اس کی بھنک میرے کانوں میں پڑ چکی ہے۔ انھوں نے خاص طور پر ایسا بر ڈھونڈھا ہے جس کے پیروں میں رعشہ اور دماغ میں خلل نہ ہو، جو دولتمند ہو، جس کی دولت میں حصہ بٹانے کے لیے کوئی بھائی یا رشتہ دار نہ ہو۔ جس سے شادی کے بعد مجھے مائکے نہ بیٹھنا پڑے۔ جو مجھے بڑے لاڈ پیار سے رکھے۔

اور بجیا پھر بھی بلک بلک کر رو رہی ہیں۔ مجھے اُن کے رونے پر ہنسی آتی ہے۔ بجیا تم کیوں روتی ہو۔ یقین رکھو بجیا! تمھاری شمو رونے اور سسکنے کے لیے نہیں پیدا ہوئی۔ بجیا یہ تو تمھاری اپنی کمزوری تھی۔ ایک بار سر ہلا کر ہاں کہنے کا خمیازہ تم اب تک رو رو کر بھگت رہی ہو اور شاید عمر بھر بھگتو گی۔ لیکن میری طرف سے مطمئن رہو بجیا۔ چپ رہو بجیا۔ تم نہ روؤ۔ میں تمھارے ان مقدس اور مظلوم آنسوؤں کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ مجھے رونا پسند نہیں ہے۔

یقین رکھو جب نکاح خوانی کے وقت لوگ میری منظوری لینے آئیں گے تو میں صرف سر ہلا کر نہیں کہہ دینے پر ہی اکتفا نہیں کروں گی بلکہ سب کے سامنے صاف صاف کہہ دوں گی کہ لوگو مجھے اس دمہ کے مریض، ساٹھ سالہ لکھ پتی سے شادی کرنا منظور نہیں، جس کے ساتھ میری سوتیلی ماں مجھے مارنا چاہتی ہے۔

ہنسو بجیا! ہنسو!

ہائے اللہ! بجیا تو اب بھی رو رہی ہیں !!

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

ایمان کی بات

 

بابا نذیر خاصے بھیانک خد و خال کے آدمی تھے۔ !

قد چھ فٹ کے قریب، بدن پر گوشت برائے نام ہی رہ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ہڈیاں کچھ اتنی چوڑی تھیں کہ دیکھنے میں دبلے نہ معلوم ہوتے تھے۔ چوڑے چکلے شانوں پر اتنا بڑا سر جو کاندھوں کی تقریباً تمام چوڑائی گھیرتا تھا۔ جبڑے کافی اٹھے ہوئے، جن کے درمیان پھولی پھولی موٹی سی ناک، جس کے نتھنے دور ہی سے کھلے ہوئے نظر آتے تھے، عجیب کریہہ المنظر سی معلوم ہوتی تھی۔ ہونٹ کافی موٹے، جن میں سے بالائی، جوانی کے کسی ہنگامے کی یادگار کے طور پر کٹا ہوا اور نچلا تقریباً ٹھوڑی تک لٹکتا ہوا۔ سر انڈے کی طرح منڈا ہوا۔ رہی سہی کسر دو ٹوٹے ہوئے دانت اور دو لمبے لمبے کان پوری کرتے تھے جن کی لویں بدن کی ذرا سی حرکت پر گوشواروں کی طرح لرزنے لگتی تھیں۔

چنانچہ یہ تھے بابا نذیر جو بچپن میں ہمارے لیے کسی ہوّا سے کم نہ تھے۔ مجھے یاد ہے اس وقت ہسوہ میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جس کے بچوں کے دل پر نذیر بابا کی ہیبت کا سکہ نہ بیٹھا ہوا ہو۔ ہم لوگ گولیاں کھیل رہے ہوتے اور اچانک نذیر بابا کہیں سے الٰہ دین کے طلسماتی دیو کی طرح برآمد ہوتے۔ کیوں بچو! یہ کیا ہو رہا ہے۔ ؟ کہہ کر کچھ ایسے خوفناک انداز میں قدم رکھتے ہوئے ہماری طرف بڑھتے کہ ہم لوگ سٹی پٹی بھول جاتے اور گولیاں وغیرہ چھوڑ چھاڑ کر اپنی جان لے کر بھاگتے، بعد میں وہی گولیاں ان زمیندار صاحب کے بچوں کے پاس دیکھی جاتیں جن کے امام باڑے میں بابا نذیر رات کو بسیرا لیتے تھے، اکثر ایسا ہوتا کہ میں کوئی کام کرنے کے موڈ میں نہ ہوتا اور امی کی۔ بلاؤں نذیر بابا کو۔ والی دھمکی بازار سے مٹی کا تیل خرید کر لانے پر مجبور کرتی اور بے ساختہ جی چاہتا کہ تیل کی وہی آدھی بوتل رات کو سوتے میں نذیر بابا پر چھڑک کر ماچس دکھلا دی جائے، نہ رہیں گے یہ کمبخت نذیر بابا نہ رہے گی ان کی دھونس!

لیکن اس بار پڑھ لکھ کر بے کاری کے دن گزارنے کے لیے جب شہر سے ہسوہ پہنچا تو ساتھ میں افسانہ نگاری کا خبط بھی پال لایا تھا۔ چنانچہ وہ نذیر بابا کی بچپن والی دھونس کے بجائے دل میں ان کے متعلق جاننے پہچاننے کا خیال پیدا ہوا۔ اس درمیانی پندرہ سال کی مدت میں ان میں کوئی بھی تو تبدیلی نہ پیدا ہوئی تھی۔ ایک میرے چچا میاں ہیں جو اس وقت خوب سینہ تان کر چلا کرتے تھے اور اب کمر جھکا کر پھونک پھونک کر قدم رکھنے لگے ہیں لیکن نذیر بابا تو بالکل وہی پرانے نذیر بابا ہیں ہاں اتنا فرق ضرور ہو گیا ہے کہ پہلے گیروے رنگ کا کھادی کا لمبا سا کرتہ پہنا کرتے تھے اور سر پر اسی رنگ کا رومال بندھا ہوتا تھا اور اب رومال سے بے نیاز چکنی چندیا لیے گھومتے ہیں اور بدن پر کمبل کا چوغہ سا جھولا کرتا ہے۔ میں چونکہ اب بچہ نہ رہ کر مظفر حنفی ہسوی ہو گیا تھا اس لیے لوگوں سے گفتگو کے خاصے مواقع ملنے لگے تھے۔ نذیر بابا کے متعلق جذبۂ تجسس نے بہت جلد اپنے لیے راہیں پیدا کر لیں اور بہت قلیل سی مدت میں مجھے ان کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہو گئیں۔

وہ ہسوہ کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے اکلوتے چشم و چراغ تھے۔ بچپن میں شریر ضرور تھے لیکن صرف معصوم شرارتیں کرتے تھے۔ جوانی میں ہمیشہ لنگوٹ کے پکے اور بات کے سچے رہے۔ سیدھی سادی زندگی گزارتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ ٹھاکر جگت پال سنگھ کی بھینس نذیر بابا کے چچا کے کھیت میں گھس گئی۔ بڑے میاں اکڑ باز آدمی تھے، بھینس کو گھیر کر کانجی ہاؤس لے جانے لگے۔ ٹھاکر مانع ہوا۔ نوبت تو تو میں میں سے بڑھ کر لٹھ بازی تک پہنچی۔ دو چار حمایتی ادھر سے کھڑے ہوئے دو چار اّدھر سے نکلے۔ جم کر تین چار گھنٹے تک لاٹھیاں چلتی رہیں اور یہ ہنگامہ جگت پال کی پارٹی کے ایک آدمی کی موت پر ختم ہوا اب ٹھاکر کے آدمی تو بلوے کی رپورٹ لکھوانے کے لیے تھریاؤں ( معلقہ تھانہ) لپکے اور نذیر بابا کے چچا فتحپور کسی وکیل سے مشورہ لینے کے لیے اِکّے پر روانہ ہوئے۔ خدشہ تھا کہ راستے میں کہیں ٹھاکر کے آدمی گھیر کر بڑے میاں کو گھاٹ نہ لگا دیں اس لیے نذیر بابا لٹھ لے کر بحیثیت باڈی گارڈ ساتھ ہوئے۔ راستے میں تو خیر کوئی بات نہ ہوئی۔ لیکن فتحپور میں جب وکیل نے معاملہ کی نزاکت سے آگاہ کیا تو نذیر بابا اور ان کے چچا کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے کے بجائے پھڑپھڑانے لگے۔

وکیل نے پوچھا۔

’’ کیوں بھئی! اور تو سب ٹھیک ہے، جگت پال کی بھینس تمھارے کھیت میں گھس گئی تم اسے کانجی ہاؤس لے جانے میں حق بجانب تھے اس نے تم پر پہلے لاٹھی تان لی یہ بھی ٹھیک۔ اس کا ایک آدمی مارا گیا، یہ بھی چلے گا کہ یہ تم نے حفاظتِ خود اختیاری کے طور پر کیا۔ لیکن یہ بتاؤ تمھاری طرف کا کوئی آدمی بھی زخمی ہوا۔ ؟‘‘

نذیر بابا کے چچا نے کہا۔

’’ صاحب! معمولی خراشوں کی بات تو الگ ہے لیکن کوئی خاص چوٹ ہمارے کسی آدمی کو نہیں آئی۔ ‘‘

’’ یہ کیوں۔ ؟‘‘

’’ میری طرف سب مشاق لاٹھی باز تھے!‘‘

’’ تب تو عدالت تمھیں ہی قصور وار گردانے گی کہ تم ہی پہلے سب جھگڑے کی تیاری کر رہے تھے اور موقع پر مشاق لاٹھی بازوں کی موجودگی اس کا ثبوت ہے۔ ‘‘

’’ تو پھر وکیل صاحب! اب کیا کیا جائے؟‘‘ بڑے میاں نے منہ پھاڑ دیا۔

’’ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے میں کیس لڑوں گا لیکن دس بیس سال کی سزا تمھاری طرف والوں کو جرور ہو گی۔ البتہ اگر تمھاری طرف کا کائی آدمی ضربِ شدید کے تحت سرکاری اسپتال میں داخل کیا جاتا تو بات الگ تھی۔ ‘‘

بابا نذیر اپنے چچا کا ہاتھ پکڑ کر انھیں اندرونی کمرے میں لے گئے وکیل صاحب نے آنا چاہا تو انھیں روک دیا کہ ہم ذرا نجی گفتگو کریں گے۔ اندر جا کر لاٹھی انھوں نے بڑے میاں کو تھمائی اور خود اپنا چکنا سر کھول کر زمین پر بیٹھ گئے کہ مجھے مارو۔ بڑے میاں نے چوں و چرا کی تو ان کی گردن دھر دبائی کہ یہیں کھود کر گاڑ دوں گا، گھر کی عزت کا سوال ہے مقدمہ ہار گئے اور دو چار سال کی بھی سزا ہو گئی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔ مجبوراً بڈھے نے نذیر بابا کے انڈے کی طرح گھٹے ہوئے سر پر پینترے بدل بدل کر لاٹھی کے ہاتھ دکھلانے شروع کیے۔ کہتے ہیں پندرہ بیس وار تو یوں ہی اچٹ اچٹ کر رہ گئے لیکن جب نذیر بابا نے بوڑھے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تو مجبوراً اس نے یا علی کا نعرہ لگا کر ایک ایسا ہاتھ جمایا کہ ادھر تو لاٹھی دو ٹکڑے ہو کر گری اور ادھر نذیر بابا کا سر پکے ہوئے خربزے کی طرح پھٹ گیا۔

وکیل کی ہدایت کے مطابق نذیر بابا کو سرکاری اسپتال میں اس رپورٹ کے ساتھ داخل کیا گیا کہ ٹھاکر جگت پال سنگھ نے جھگڑے میں ان کی کھوپڑی توڑ دی ہے اور اپنی مدافعت کرتے ہوئے ان کی لاٹھی سے ایک آدمی مارا گیا ہے۔

مقدمہ چلا، نذیر بابا ہار گئے۔ اپیل کی۔ اس میں بھی ہارے۔ مجسٹریٹ اور سشن جج دونوں نے ہی نذیر بابا کو مجرم قرار دیا۔ ان کے وکیل نے کہا۔

’’بھئی میں کیا کروں ؟ اس جوان کی صورت ہی کچھ ایسی ہولناک ہے کہ میری لاکھ کوششوں کے باوجود جج اور جیوری اسے معصوم نہیں تصور کر پاتے۔ ‘‘

پھر بھی کھوپڑی تڑوا کر نذیر بابا نے کوئی حماقت نہ کی تھی۔ انھیں دس سال قید با مشقت کی سزا دے کر زندہ چھوڑ دیا گیا۔ باہر آئے تو گھر میں کوئی زندہ نہ رہا تھا۔ جائداد اور اثاثہ پہلے ہی اس طویل مقدمہ بازی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ چنانچہ جیل کے ساتھیوں کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نذیر بابا نے شروع میں چھوٹی چھوٹی چوریاں کرنے کا دھندہ اپنایا جو بعد میں کچھ اتنا چمکا کہ پانچ چھ نوجوان ان کے شاگرد ہو گئے۔ دو سال کے اندر اندر ہی ہسوہ کے قرب و جوار میں نذیر بابا سے بڑا کوئی ڈاکو نہ تھا۔ اس فن میں بھی ان کے متعلق عجیب عجیب قصے سننے کو ملے۔ وہ کمرے کی شہتیروں سے اس طرح چھپکلی کی مانند چپک جاتے کہ لوگ بار بارا اسی کمرے کی تلاشی لیتے اور انھیں کھوج نہ پاتے۔ پیدل اتنا تیز بھاگ لیتے کہ گھوڑ سوار بھی انھیں نہ پا سکتے۔ ارنڈی کا تیل مل کر بدن کو کچھ اتنا چکنا بنا لیتے اور ایسے ایسے داؤ پیچ دکھاتے کہ دس دس بیس بیس جوانوں کے نرغے میں سے صاف بچ نکلتے۔ پچاسوں صندوقوں میں سے مال والے صندوق کو پہلے ہی تاڑ لیتے اور دو من وزنی سامان لے کر پندرہ پندرہ بیس بیس میل متواتر بھاگتے رہتے اور کوئی انھیں پکڑ نہ پاتا۔ پندرہ سال انھوں نے اسی آن بان سے گزارے۔

ایک بار وہ ریلوے مال گودام سے کپڑے کی گانٹھ لے کر بھاگ رہے تھے۔ پانچ چھ واچ مینوں نے پیچھا کیا۔ یہ ہاتھ نہ آئے تو ایک نے بندوق داغ دی، یہ کنّی کاٹ کر بچ رہے تھے کہ دوسرے نے جو قریب پہنچ چکا تھا۔ ٹھیک سینے میں سنگین بھونک دی۔ انھوں نے گانٹھ اس کے منہ پر کھینچ ماری اور یہ جا وہ جا۔ پناہ گاہ پر پہنچ کر ان کے ساتھی تو زخم کی مرہم پٹی میں مصروف رہے اور یہ گالیاں بکتے رہے کہ ہاتھ آیا ہوا مال زندگی میں پہلی بار ساتھ نہ لا سکے۔

سینے کا زخم ابھی انگور ہی لایا تھا کہ انھوں نے دوسری مہمات سر کرنی شروع کر دیں۔ دو چار دن میں ہی زخم کھل گیا۔ پھر کچھ آرام کیا اور زخم مندمل ہونا شروع ہوا تھا کہ ڈکیتی کا سلسلہ جاری۔ بار بار زخم کھلتا اور بھرتا رہا۔ یہ لا پرواہی برتتے رہے۔ چھ مہینے میں ہی سینے پر ایک بیحد خطرناک ناسور پڑ گیا۔ بہت دنوں تک پٹیاں باندھ باندھ کر گزارہ کرتے رہے لیکن ساتھیوں نے معاملے کو بھانپ لیا۔ بولے۔

’’ استاد! اب آپ کے آرام کرنے کا وقت آ گیا ہے، ہم سے جو کچھ بن پڑے گا۔ بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ ‘‘

نذیر بابا نے تیور بدل کر کہا۔

’’ کیا مطلب؟ میں کام کا نہیں رہا کیا۔ ؟‘‘

شاگرد بولے۔ ’’ لیکن یہ آپ کا زخم۔۔ ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ زخم سالے کی ایسی کی تیسی۔ میں اس حالت میں بھی تم جیسے دس بیس پر بھاری ہوں۔ بیٹھ کر تمھاری خیرات مجھ سے نہ کھائی جائے گی۔ ‘‘

ساتھیوں نے سمجھایا کہ خیرات نہیں وہ تو ان کا حق ہو گا جو باقاعدہ انھیں ملتا رہے گا وہ صرف بیٹھے بیٹھے داؤں پیچ بتلاتے رہیں مالِ غنیمت میں سے برابر کا حصہ انھیں پہنچایا جائے گا، بمشکل نذیر بابا رضا مند ہوئے۔

تیس برس سے نذیر بابا اس علاقے کے چار اچکوں اور ڈاکوؤں کے استاد چلے آ رہے ہیں۔ اب وہ پہلی سی بات تو نہیں رہی پھر بھی وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ ان کی بھینٹ چڑھتا ہی رہتا ہے۔ زمیندار کے امام باڑے میں پڑے رہتے ہیں، صبح و شام جھاڑو لگاتے ہیں، علم اور پنجے صاف کرتے ہیں اور اگر بتی سلگا کر دو چار الٹی سیدھی آیتیں جو انھیں یاد ہیں بدبدایا کرتے ہیں۔ دو شنبہ اور جمعرات کو جب ہسوہ میں بازار بھرتا ہے ہر دوکاندار سے تعزیے کے نام پر چونگی وصول کرتے ہیں کسی کے ہاتھ سے دینے کی نوبت بہت ہی کم آتی ہے۔ جتنا جی چاہتا ہے دوکان سے خود اٹھا لیتے ہیں البتہ یہ خیال ہمیشہ رکھتے ہیں کہ کون کتنا برداشت کر سکتا ہے۔ تمام وصول شدہ سامان اپنے محلے کی ایک قصائن کو دو چار آنوں میں دے دیتے ہیں جن سے چرس کی چلم گرم ہوتی ہے۔ محرّم میں بڑے ٹھاٹھ کا ماتم کرتے ہیں۔ آپ نے زنجیریں، چھریوں اور آگ کے ماتم بہت دیکھے ہوں گے، ناسور زدہ سینے پر موسلوں کا ماتم دیکھنا ہو تو ہسوہ میں نذیر بابا کا ماتم دیکھیے۔ یوں دھما دھم ہاتھ چلاتے ہیں جیسے مہوہ کوٹ رہے ہوں۔ اکثر اپنی سابقہ معصیت آلودہ زندگی پر کفِ افسوس ملتے ہیں۔ ہر ملنے جلنے والے شخص سے جسے وہ پارسا سمجھتے ہیں کہتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد مجھے دفن نہ کرنا۔ ایک لنگوٹ پہنا کر منہ پر کالک مل دینا اور ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جا کر کسی گھورے پر پھینک آنا!

لیکن اس کے باوجود جاننے والے جانتے ہیں کہ ہسوہ اور قرب و جوار میں کوئی ایسی چوری نہیں ہوتی جس کا پتہ نذیر بابا کو نہ ہو یا مالِ غنیمت کہاں رکھا گیا ہے وہ ان کے علم میں نہ ہو۔ پولیس اکثر ان سے پوچھ تاچھ کرتی ہے لیکن وہ علم پر ہاتھ رکھ کر ناواقف ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں بُری طرح پیٹے جاتے ہیں لیکن دیوار کی طرح گم سم کھڑے رہتے ہیں البتہ جب انھیں باندھ کر لٹا دیا جاتا ہے اور تلوؤں پر بھیگی ہوئی بیدیں لگائی جاتی ہیں تو وہ بلبلا اٹھتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے اپنے چور ساتھیوں کا راز فاش کیا ہو۔ بدلے میں انھیں کچھ ملتا ہی رہتا ہے۔ اسی لیے ہسوہ کے بنیوں میں بھی ان کی خاص وقعت ہے سیکڑوں کا مال کوڑیاں کے دام اُن کے ذریعے ملتا رہتا ہے۔ ان کی اس ساکھ پر بھی ایک خاصہ لطیفہ ہے۔

ایک بار وہ رات کے بارہ بجے رامانند بنیے کی دوکان پر پہنچے۔ سوتے ہوئے بنیے کو جگا کر ایک مٹکا اس کے حوالے کیا کہ یہ آج انھیں حصے میں ملا ہے اور شکر سے بھرا ہوا ہے۔ بنیے نے دیکھا مٹکا شکر سے لبالب پُر تھا کم از کم تیس سیر تھی۔ دس روپیے پر معاملہ طے ہوا دوسرے دن بنیے کو معلوم ہوا کہ اوپر اوپر صرف آدھ سیر کے قریب شکر تھی نیچے راکھ اور ریت بھری ہوئی تھی۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اتنا کچھ جان لینے کے بعد میں نے سوچا کہ اپنے افسانے کے اس ہیرو کی ہیروئن کا بھی پتہ لگانا چاہیے ورنہ کہانی پھیکی پھیکی سی رہے گی۔ چنانچہ ایک دن میں دوپہر میں ان کے پاس امام باڑے پہنچا اور سلام کر کے بیٹھ گیا۔ کہنے لگے۔ ’’تم مجّو بھائی کے لڑکے ہو نا۔ ؟‘‘

’’ ہاں بابا!‘‘ میں نے جواب دیا۔ ‘‘ میں آپ کے پاس ایک کام سے آیا ہوں۔ ‘‘

’’ کیا نام ہے تمہارا۔ ؟‘‘

’’ مظفر حنفی۔ !‘‘

’’ یہ انٹی کیا ہوتا ہے۔ ؟‘‘

’’ جی انٹی نہیں مظفر حنفی۔ افسانے وغیرہ لکھتا ہوں خالی خالی مظفر اچھا نہیں لگتا اس لیے ساتھ میں حنفی لکھ دیتا ہوں۔ ‘‘ اس کے علاوہ میں انھیں اور کیا سمجھاتا۔

’’ اچھا اچھا۔ کہو کیا کام ہے۔ ؟‘‘

’’ جی در اصل میں۔ ‘‘ میں نے احتیاط کے ساتھ مطلب پر آتے ہوئے کہا۔

’’ میں آپ پر ایک کہانی لکھ رہا ہوں۔ ‘‘

’’ اچھا۔ ‘‘ انھوں نے فخر سے سینہ تان کر کہا۔ ‘‘ تو کیا میں تمھیں اپنی زندگی کے حالات سناؤں۔ ؟‘‘

’’ جی ہاں ۔۔ ‘‘

انھوں نے کھانس کر اپنی کہانی شروع کی تقریباً وہی جو میں مندرجہ بالا سطور میں لکھ چکا ہوں اپنے سینے کا ناسور دکھایا جسے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور بس! انھوں نے کہیں کسی ہیروئن کا تذکرہ نہیں کیا تو مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔

میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔

’’ بابا! ایک بات پوچھوں۔ بُرا تو نہ مانو گے؟‘‘

’’ ہاں ہاں۔ پوچھو بیٹے پوچھو۔ ارے تمھاری بات کا کیا برا مانوں گا۔ ارے اپنے مجو بھیا کے ہی تو بچے ہو سو میرے بچے بھی ہوئے۔ ابھی کل تک تو میرے سامنے گولیاں کھیلا کرتے تھے۔ ‘‘

’’ کیا آپ نے کبھی محبت کی ہے۔ ؟‘‘

’’ محبت۔ !‘‘ وہ اپنے موٹے ہونٹ کھول کر پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولے۔ ’’میں تمام عمر محبت ہی تو کرتا رہا ہوں۔ پہلے گلی ڈنڈے سے محبت تھی، جوانی میں لنگوٹ اور لاٹھی سے۔ آج کل سینے کا یہ ناسور محبت کا مرکز ہے!‘‘

میں نے کہا۔

’’انسانوں سے محبت نہیں تو کیا نفرت بھی کی جاتی ہے؟‘‘

انھوں نے سرد آہ بھری۔ ’’ مجھے ان چھوکروں سے محبت ہے جو لمبے لمبے ہاتھ مارتے ہیں اور چوری کے مال سے میرا حصہ نہیں نکالتے۔ البتہ کبھی کبھار خیرات کے طور پر دو چار آنے پھینک جاتے ہیں۔ مجھے تم سے محبت ہے کہ مجھ جیسے کمینے آدمی پر کہانی لکھ رہے ہو۔ ‘‘

’’ بابا۔ !‘‘ میں نے صاف صاف بات کرنا مناسب جانا۔ ’’ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کبھی آپ نے کسی عورت سے محبت کی ہے یا نہیں ؟‘‘

میرے اس سوال پر پہلے تو وہ ہکا بکا مجھے دیکھتے رہ گئے پھر ایک سر د آہ بھری، کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بے خیالی میں چلم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اور دوبارہ اسے اپنی جگہ رکھتے ہوئے بولے۔

’’ کمبخت دو دن سے چرس بھی نصیب نہیں ہوئی۔ ‘‘

میں سمجھا شاید وہ اپنی محبت کی قیمت مجھ سے وصول کرنا چاہتے ہیں جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی بچھو نے انھیں ڈنک مار دیا ہو، ان کی آنکھوں سے چنگاریاں سی جھڑنے لگیں۔ فرطِ غضب میں تقریباً ہکلاتے ہوئے انھوں نے کہا۔

’’ تم کل کے چھوکرے مجھے خیرات دینے چلے ہو۔ نذیر نے اب تک کوئی خیرات قبول نہیں کی، یہاں کے چور اچکے جو کچھ دے جاتے ہیں وہ بھی میں حلال کی کمائی سمجھ کر لیتا ہوں ان کے راز کو جان سے زیادہ عزیز سمجھ کر چھپائے رکھتا ہوں، پولیس کی مار پڑتی ہے۔ طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں لیکن میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہتا۔ ابھی کل ہی تھانیدار کپور چند کے یہاں ہونے والی چوری کی بات جاننے کے لیے پچیس روپیے مجھے دے رہا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس میں کس کا ہاتھ ہے، چوری کا مال کہاں رکھا ہے لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ خاصی مار کھائی۔ حالانکہ ان حرام زادوں نے جنھوں نے چوری کی ہے، صرف دو روپیے مجھے دیے تھے۔ سنبھالو اپنا نوٹ۔ !‘‘

میں نے بوکھلا کر کہا۔

’’ بابا، میرا یہ مطلب نہ تھا۔ میں تو آپ کی محبت کی داستان جاننے کی قیمت آپ کو دے رہا ہوں۔ ‘‘

’’ اچھا تو یہ بات ہے۔ ‘‘ انھوں نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور اپنی انگلی میں پڑی ہوئی انگوٹھی نکال کر مجھے تھماتے ہوئے بولے۔

’’ یہ میری محبت کی آخری نشانی ہے۔ اگر اسے اپنے پاس رکھ سکتے ہو تو میں تمھارا نوٹ رکھ لیتا ہوں۔ ‘‘

میں نے سوچا بوڑھا جذباتی ہو رہا ہے اس کے اصول کو توڑنا اچھی بات نہیں ہے فی الحال انگوٹھی رکھ لینے میں کوئی ہرج نہیں، پھر کسی بہانے سے واپس کر دوں گا چنانچہ انگوٹھی اپنی انگلی میں داخل کرتے ہوئے پوچھا۔

’’ پھر آپ نے وہ محبت والی بات نہیں بتائی۔ ؟‘‘

نوٹ احتیاط کے ساتھ تہہ کر کے جیب میں رکھتے ہوئے انھوں نے بہت رک رک کر کہا۔

’’ ارے بیٹا۔ یہ بھی کوئی محبت ہوئی بھلا۔ ؟ کشن پور کے زمیندار کی لڑکی سے آنکھ لڑ گئی تھی۔ چھپ چھپ کر ملنے جاتا تھا اس نے نشانی کے طور پر یہ ہیرے کی انگوٹھی ایک دن زبردستی میری انگلی میں ڈال دی۔ ‘‘

’’ پھر۔۔ ؟‘‘

’’ پھر کیا؟۔ میں ٹھہرا ڈاکو آدمی۔ گھر گرہستی کے چکر میں پڑ نا اپنے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے کچھ دنوں بعد کنّی کاٹ گیا۔ اس کی کہیں شادی کر دی گئی اور شادی کے چھ مہینے بعد ہی بے چاری مر گئی۔ ‘‘

’’ ارے۔ !‘‘ میں نے کہا اور سوچنے لگا یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔

گھر آ کر میں نے وہ انگوٹھی اپنے ملازم کے ہاتھ سے نذیر بابا کے پاس بھجوا دی اور کہلایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے وہ اپنے پاس ہی رکھیں۔

ملازم نے آ کر کہا۔

’’ نذیر بابا نے انگوٹھی تو رکھ لی ہے لیکن بیحد ناراض ہو رہے تھے کہ انھوں نے وہ دس روپے خرچ کر ڈالے ہیں ورنہ ابھی واپس بھیج دیتے۔ کل ضرور لوٹا دیں گے۔ ‘‘

دوسرے دن دوپہر کو ہی نذیر بابا میرے گھر پر آئے اور دس روپے کا نوٹ میری جیب میں ڈال کر رونے لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ روتے ہوئے ان کا بھیانک چہرہ بڑا معصوم معصوم سا بہت پیارا پیاراسا نکل آیا۔ پوچھا۔

’’ نذیر بابا! تم روتے کیوں ہو۔ ؟‘‘

آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے جواب دیا۔

’’ مجھے کیا علم تھا کہ تمھیں اتنی جلد معلوم ہو جائے گا کہ وہ انگوٹھی ہیرے کی نہیں بلکہ نقلی ہے اور میری داستانِ محبت من گھڑت ہے ورنہ تمھارے دس روپیے میں ہرگز نہ لیتا۔ ‘‘

ان کی داستان محبت کے من گھڑت ہونے کی بات سن کر میں سکتے میں آ گیا۔ وہ کہتے گئے۔

’’ چرس والے کے پندرہ روپیے ادھار ہو گئے تھے اور ادھار وہ نہیں دیتا تھا۔ تمھارے روپیے میں نے اسے دے دیے پھر تم نے انگوٹھی واپس بھیج دی۔ بڑی فکر تھی کہ تمھارے پیسے کیسے واپس کروں اس لیے۔۔ ۔۔ ‘‘

وہ اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’ آخر اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ نذیر بابا۔ !‘‘

’’ رونے کی نہیں ڈوب مرنے کی بات ہے۔ میں نے تھانیدار سے پچیس روپیے لے لیے ہیں۔ میں اپنے ایمان سے پھر گیا ہوں۔ میں نے اسے بتلا دیا ہے کہ کپور چند کے یہاں چوری ننھے لال لوہار نے کی ہے!!!‘‘

( ۱۹۵۶ء)

٭٭٭

 

 

 

 

مہمان

 

کافی دلچسپ جوڑا تھا۔

نکلتا قد، سانولی رنگت اور بڑی گہری گہری آنکھیں بیوی کی تھیں جو عمر کی کم از کم تیس بہاریں ضرور دیکھ چکی تھیں۔ بھڑکیلے کپڑوں کی شوقین معلوم ہوتی تھیں یا شاید یہ کپڑے مہمانی کے لیے ہی مخصوص رہے ہوں۔ !

میاں مرنجان مرنج قسم کے آدمی تھے۔ بدن سے گوشت نام کی چیز شاید مدتوں قبل داغِ مفارقت دے گئی تھے۔ ہڈیوں پر کھال منڈھی ہوئی جس پر وہ بنگالی کرتا، کھدر کا پاجامہ اور واسکٹ ٹانگتے تھے! آنکھوں پر ریز شیشوں اور پرانے فریم کا چشمہ اپنی بہار دکھاتا تھا۔ عمر کے اس حصے کو پہنچے ہوئے تھے جہاں دن رات انسان کو پنشن مل جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔

منصور نے پہلے انھیں کبھی دیکھا تو نہ تھا لیکن اتنا جانتا تھا کہ وہ اس کے ماموں کے بڑے سالے کے کچھ لگتے ہیں۔ تین دن سے وہ بہ حیثیت مہمان براجمان تھے اور مکان کو زعفران زار بنا رکھا تھا۔ جانے کہاں کہاں کے لطیفے یاد تھے بھائی کو۔

’’ ایک بار یوں ہوا۔ ‘‘ انھوں نے اپنے مخصوص انداز تجسس ابھارنے کے لیے جملہ ادھورا چھوڑ دیا ناک سے چشمہ اتارا، بڑی نفاست سے اس کے شیشوں پر منہ سے بھاپ چھوڑی اور کرتے کے دامن سے صاف کرنے میں مشغول ہو گئے۔

’’ اے ! میں کہتی ہوں یہ تم بیچ میں بات ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو۔ ‘‘

’’ ارے۔۔ ہاں !‘‘ انھوں نے جلدی سے چشمہ ناک پر چڑھا لیا۔ ’’ میں کہہ رہا تھا کہ ایک مرتبہ بڑا لطف آیا۔ اپنے حاجی رحیم بخش کو تو تم جانتی ہی ہو۔ ارے وہی جو پان والے چوراہے پر بزازی کرتے ہیں اور ہر سال حج کو جاتے ہیں۔ ‘‘

’’ ہاں ہاں جانتی ہوں لیکن تم کچھ کہو بھی تو۔ ‘‘

’’ کہوں کیا۔ در اصل وہ حاجی نہیں ہیں۔ !‘‘

’’ جی کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ منصور کی دلچسپی بڑھ گئی۔ ’’ وہ ہر سال حج کو بھی جاتے ہیں اور حاجی بھی نہیں ہیں ! یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

’’ ممکن ہے میاں !‘‘ انھوں نے ٹھنڈی سانس لی۔ ’’ آج کل سب ممکن ہے۔ جن حاجی رحیم بخش کا میں تذکرہ کر رہا ہوں وہ اسی قسم کے حاجی ہیں۔ جنھوں نے کوئی حج نہیں کیا۔ ہر سال حج پر جانے کے لیے چندہ اکٹھا کرتے ہیں، حاجیوں کے ساتھ بمبئی تک جاتے ہیں وہاں اسی پیسے سے اپنی دوکان کے لیے مال خریدتے ہیں اور واپسی میں حاجیوں کے ساتھ ہی لوٹتے ہیں۔ پھر سال بھر تک اپنے گاہکوں کو دیندار بننے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

منصور نے کہا۔

’’ آپ کو کیا معلوم کہ وہ حج پر نہیں جاتے؟‘‘

’’ اتفاقاً معلوم ہو گیا۔ ‘‘ انھوں نے مسکرا کر کہا۔ ’’ ایک بار میں ان کی دوکان سے کپڑا خرید رہا تھا اور وہ زیارت مکہ معظمہ کے فضائل بیان فرما رہے تھے کہ میں غیر ارادی طور پر پوچھ بیٹھا۔

’’ حاجی صاحب قبلہ! آپ نے سنگِ اسود کے دیدار تو ضرور کیے ہوں گے۔ ‘‘

فرمایا: ’’ میاں تم دیدار کی بات کرتے ہو وہ بھلا آدمی تو روزانہ مجھ سے ملنے میرے ڈیرے پر آتا تھا، بیسوں بار میں نے اس کے ساتھ قہوہ پیا ہے۔ بڑا با اخلاق آدمی ہے۔ یہاں ہندستان میں ایسی ہستیاں کہاں اور ہاں ! تم اسے کب سے اور کیسے جانتے ہو۔ ؟‘‘

میں نے حیران ہو کر کہا۔ ’’ حضرت! یہ کس سنگِ اسود کی بات کر رہے ہیں ؟‘‘

’’ اے میاں !‘‘ انھوں نے اینٹھ کر کہا۔ ’’ ایسے کیا دسبیس سنگِ اسود ہیں مکہ شریف میں !میں انھیں حاجی سنگِ اسود کی بات کرتا ہوں جو وہاں بڑے چوک میں پان کی دوکان لگاتے ہیں۔ ‘‘

میں نے ہنس کر کہا۔ ’’ قبلہ! میں تو اس پتھر کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو حرمِ پاک میں نصب ہے۔ ‘‘

’’ میں حاجی ہوں۔ ‘‘ انھوں نے جھنجھلا کر فرمایا‘‘ وہاں کے بارے میں تم سے بہتر جانتا ہوں۔ گئے ہو کبھی مکے شریف؟ بولو جواب دو!‘‘

میں نے قدرے قائل ہوتے ہوئے عرض کیا۔

’’ جی گیا تو نہیں لیکن کتابوں میں ضرور پڑھا ہے اور اللہ بخشے ہمارے دادا جان بھی حاجی تھے وہ بھی یہی کہتے تھے کہ سنگِ اسود۔ ‘‘

’’پتھر ہے۔ ‘‘ میرا جملہ انھوں نے مکمل کیا۔ ’’ رہا ہو گا ان کے زمانے میں۔ جب مجھ سے ملا تو اچھا خاصہ آدمی بن چکا تھا!‘‘

منصور ہنس ہنس کر دوہرا ہا گیا۔ بیوی مسکراتی رہیں اور بڑے میاں چشمہ صاف کرنے میں منہمک ہو گئے تبھی دوسرے کمرے کے دروازے سے عطیہ نے منصور کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور وہ انھیں ڈرائنگ روم میں چھوڑ کر اٹھ گیا۔

’’ کیوں ؟‘‘

’’ ذرا آہستہ بولیے۔ عطیہ سرگوشی میں بولی۔ ’’ مہمان نہ سن لیں کہیں ورنہ بڑی ناموسی ہو گی۔ ‘‘

’’ بات کیا ہے؟‘‘

’’ گھی اور ٹوسٹ ختم ہو گئے ہیں۔ کچھ پیسے ہوں گے آپ کے پاس؟‘‘

’’ جانتی ہو کہ ہفتے کی آخری تاریخیں ہیں۔ یہی چالیس پچاس روپے بچ رہے ہیں۔ لے لو۔ ‘‘

اور پھر اگلے چار دنوں میں وہ روپے بھی ختم ہو گئے لیکن مہمان اب تک برقرار تھے اور ان کے لطیفوں کا اسٹاک بھی ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔

’’ ایک شخص نے اپنی زندگی کا نیا نیا بیمہ کروایا تھا۔ کسی دوکاندار سے جھگڑا ہو گیا کہنے لگا بیٹا! بیم کی قسط نہیں داخل کی ہے ورنہ تجھ سے نپٹ لیتا۔ ‘‘

منصور نے بڑے خلوص کے ساتھ ہنستے ہنستے دوہرا ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا کیونکہ عطیہ پھر اسے اشارے سے بلا رہی تھی۔ وہ اٹھ گیا۔

’’ کیوں بھئی کیا بات ہے! اب میرے پاس پیسے ویسے نہیں ہیں۔ ‘‘ اس نے دبے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’ پھر میں کیا کروں۔ ؟‘‘ عطیہ روہانسی آواز میں بولی۔ ’’ باورچی خانے میں تقریباً سبھی سامان ختم ہے۔ مہمانوں کے سامنے بڑی سبکی ہو گی۔ ‘‘

’’ دیکھو کوشش کرتا ہوں شاید دوکاندار قرض دے دے۔ اب تک تو ایسا سابقہ ہی نہیں پڑا۔ ‘‘

منصور باہر آیا تو بڑے میاں نے آواز دے کر کہا۔

’’ میاں سنو تو! کہاں جا رہے ہو؟ بڑا شاندار قصہ ہے۔ ‘‘

’’ جی ! فرمائیے۔ ‘‘

’’ ہماری بیگم کے ایک چچا زاد بھائی ہیں۔ ‘‘ انھوں نے شوخ نظروں سے بیوی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ ان کا بکرا ایک بار مسجد میں گھس گیا۔ لوگوں نے پکڑ کر پٹائی شروع کر دی بیچارے بچانے پہنچے تو ان پر بھی لعن طعن شروع ہو گئی۔ سنتے سنتے تنگ آ گئے تو ہاتھ جوڑ کر بولے۔

’’ بھائیو! بے زبان جانور ہے۔ بیچارے کے عقل تو ہے نہیں ورنہ مسجد میں کیوں گھستا۔ مجھے دیکھیے چالیس سال سے مسجد کی بغل میں رہتا ہوں کبھی ایسی غلطی کی ہے۔ ؟ نہیں نہیں انصاف سے آپ ہی بتلائیے‘‘

منصور نے ایک فرمائشی قہقہہ جبراً صادر کیا اور قرض لینے چلا گیا پھر قرض سے حاصل کیا ہوا سامان بھی ختم ہو گیا اور نئی تنخواہ بھی جواب دے گئی لیکن مہمان کے لطیفے ڈرائنگ روم میں گونجتے رہے۔

’’ ۔۔ پھر کیا؟ بڑے میاں نے سمجھایا کہ نیا نیا خون ہے اور بنواؤ مسجد اپنے گاؤں میں۔ آخر تمھارے آبا و اجداد بھی تو تھے وہ کیوں بغیر مسجد کے گزر کرتے رہے۔ ارے بھئی! یہ اپنا گاؤں اللہ میاں کے بھول کھاتے میں پڑا تھا اسی لیے لوگ بہت کم مرتے تھے اب تم نوجوانوں نے مسجد بنوا لی ہے صبح ہی صبح اٹھ کر چلاّتے ہو یہ رہا گاؤں، یہ رہا گاؤں، موت کے فرشتے نے سُن لیا۔ پلیگ کا تو صرف بہانہ ہے۔ ‘‘

’’ آخر یہ لوگ کب تک براجمان رہیں گے۔ ‘‘ عطیہ نے تشویشناک لہجے میں دریافت کیا۔

’’ اب میں کیا بتاؤں۔ ؟‘‘ شانے سکوڑتے ہوئے منصور نے جواب دیا۔

’’ آئے تھے تو کہتے تھے بیوی کو ڈاکٹر اکبر علی کو دکھانا ہے، دو تین دن قیام کریں گے۔ ‘‘

’’ ڈاکٹر واکٹر کا تو بہانہ ہے جی!‘‘ منصور نے منہ بنا کر کہا۔ ’’ ابھی کل ہی ڈاکٹر کے پاس جانے کو کہہ کر نکلے تھے لیکن اپنا بدھو کہہ رہا تھا کہ یہاں سے سیدھے ناولٹی ٹاکیز پہنچے اور ٹکٹ لے کر اندر۔۔ ‘‘

’’ آپ کے کوئی قریبی عزیز ہیں کیا؟ میں نے پہلے تو کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘

’’ اجی توبہ کرو!‘‘ منصور بولا۔ ’’ ماموں جان کے سالے کے کوئی شناسا ہیں۔ میں نے خود کبھی نہ دیکھا تھا۔ ‘‘

عطیہ نے ما تھا پیٹ لیا۔

’’ تو پھر گھر میں گھسائے کیوں بیٹھے ہو؟ یہ لوگ ہمیں چوپٹ کرنے پر تلے ہیں۔ کمبختوں کے پیٹ ہیں یا کوٹ دن بھر چرتے ہیں !‘‘

’’ کیا کروں ؟‘‘ منصور نے غرّا کر کہا۔ ’’ ہاتھ پکڑ کر نکال باہر کروں مکان سے؟ مہمانوں کے ساتھ یہ بھی تو نہیں کیا جاتا۔ ‘‘

’’ عذاب جان کہو جی! مہمان کہاں کے ‘‘ عطیہ نے زور سے کہا۔ منصور نے جلدی سے اس کا منہ بند کر دیا اور دونوں ایک دوسرے کو پریشان نظروں سے تاکنے لگے۔

اسی دن رات کو عطیہ نے جھنجھوڑ کر منصور کو جگایا۔

’’ اٹھیے تو! بڑے میاں اپنی بیوی کو بڑا شاندار لطیفہ سنا رہے ہیں۔ ‘‘

’’ساڑھے تین بج رہے ہیں۔ ‘‘ منصور نے ٹائم پیس دیکھ کر کہا۔ ’’ یہ بھی کوئی لطیفے سننے کا وقت ہے؟‘‘

’’ ذرا دھیرے بولیے نا!‘‘ عطیہ نے کہا۔ ’’ سن لیں گے تو غضب ہو جائے گا۔ ‘‘

’’ اجی اب تو سن ہی لینے دو۔ ‘‘ منصور نے بے باکی سے کہا۔ ’’ میں اس تکلف بازی سے عاجز آ چکا ہوں۔ انھوں نے اپنا باوا کا مکان سمجھ رکھا ہے کیا؟ مہینے بھر سے دھرنا دے کر بیٹھے ہیں میں تو ایسی میزبانی سے عاجز آ چکا ہوں۔ ‘‘

’’ لیکن سنیے تو۔ ‘‘ عطیہ نے اسے پچکارا۔ ’’ وہ بیچارے تو خود اس مرض کا علاج کرانے ہمارے یہاں آئے ہیں۔ ‘‘

’’ کیا بکتی ہو؟ میں اس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔ ‘‘

’’ اے اللہ! میں مذاق کب کر رہی ہوں۔ یہی لطیفہ سنانے کے لیے تو آپ کو جگایا تھا۔ ان بیچاروں کے گھر پر خود دو مہینے سے ایک مہمان صاحب بمعہ چار عدد بچوں کے براجمان ہیں جن سے جان بچا کر یہ ہمارے یہاں بھاگ آئے ہیں !‘‘

’’ یہ خوب رہی!‘‘ منصور دل کھول کر ہنسا اور اچانک رک کر بولا۔

’’ عطیہ! سنو ! تم بھی تو بہت دنوں سے اپنے بھائی جان کے یہاں نہیں گئی ہو۔ ‘‘

’’ ہاں تو پھر۔ ؟‘‘

’’ کل جب بڑے میاں ڈاکٹر کے یہاں سے پلٹیں گے تو ہمارے مکان میں تالا لگا ہو گا اور ہم دونوں تمھارے بھائی جان کے مہمان ہوں گے۔ ‘‘

عطیہ ہنسنے لگی۔

لیکن جب صبح ہوئی تو بڑے میاں نے منصور کو بلا کر کہا۔

’’ میاں یہ لطیفہ اب کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے میں نے رات کو تم لوگوں کی گفتگو سن لی ہے۔ معاف کرنا۔ کیا کریں برخوردار زمانہ ہی کچھ ایسا آ لگا ہے، کہ ذرائع آمدنی تو بہت کم ہیں اور تکلفاتِ زندگی کا شمار نہیں۔ بہر حال تمھیں کہیں مہمان ہو کر جانے کی ضرورت نہیں ہے آج ہم لوگ گھر واپس جا رہے ہیں۔ دعا کرنا کہ اب ہمارے مہمان وہاں استقبال کرنے کے لیے اب تک موجود نہ ہوں۔ !‘‘

منصور اس بار واقعی روح کی تمام تر شگفتگی کے ساتھ ہنسا، عطیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا لیکن جانے کیوں ساتھ ہی ساتھ سب کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔

(۱۹۵۸ء)

٭٭٭

 

 

 

 

اینٹ کا جواب

 

یکلخت سارا چلبلا پن اور زندہ دلی اس کے چہرے سے یوں مفقود ہو گئی جیسے اس نے اپنے چہرے پر چڑھا ہوا مصنوعی نقاب اتار پھینکا ہو۔ اور اب اس کی حرکات و سکنات اور طرزِ گفتگو میں بلا کی سنجیدگی تھی۔ ایک سرد آہ اس کے لبوں سے نکلی۔ دور آسمان پر ایک تارا ٹوٹا اور سنسان تاریک رات میں ہواؤں کے جھکڑوں پر فطرت کے کراہنے کا گمان ہونے لگا۔

’’ یہ تم نے کیا کہہ دیا دوست، یہ تم نے کیا کہہ دیا؟‘‘اس کے لہجے میں بلا کا درد اور جذباتیت تھی۔ ’’ کیسے سمجھ لیا تم نے کہ میری زندگی غم کی آندھیوں سے محفوظ رہی ہے۔ یہ تم نے کیسے جان لیا کہ میں محبت اور قربانی کے جذبات سے نا آشنا ہوں، یہ تم نے نادانستگی میں کیسا تیر چلا دیا۔ میرے مجروح دل پر۔ وہ آگ جسے میں مصنوعی زندہ دلی کی راکھ سے ڈھکتا دباتا چلا آ رہا ہوں، تم نے پھر دہکا دی۔ آہ تم۔۔ تم۔۔ ‘‘

میں کچھ حیران و ششدر، کچھ پریشان و سراسیمہ اس کے چہرے کی طرف تاکتا رہا۔ میرے خدا، یہ کون سا چوہان چھپا ہوا تھا۔ اس مصنوعی چوہان کے خلاف ہیں جس کے مسخرہ پن، دن رات کے قہقہوں اور چمکیلی نگاہوں کی بنا پر میں اسے دینا کا مسرور ترین انسان سمجھتا تھا۔ محبت قربانی اور انسانیت قسم کے موضوعات اس کے دائرۂ گفتگو سے پرے رہتے تھے۔ وہ انھیں محض بکواس اور دل کے بہلانے کا سامان سمجھتا تھا۔ لیکن آج رات جب سلیم عباسی کے معاشقے پر بحث کرتے ہوئے میں نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ وہ غم سے قطعاً نا آشنا انسان، محبت اور قربانی جیسے نازک جذبات کو کیا سمجھ سکتا ہے تو ایک لمحہ کے لیے تو وہ مبہوت سا رہ گیا اور پھر اس کی شخصیت کا یہ بالکل دوسرا روپ جو اب تک میری نظروں سے پنہاں تھا، سامنے آیا۔ میں نے کہا۔

’’ چوہان! چوہان! یہ کیا ہو رہا ہے تمھیں ؟ اتنے جذباتی نہ بنو میرے یار! تم ہی تو کہتے تھے کہ محبت انسانیت اور ایثار یہ تمام باتیں محض بے بس انسانوں کے دل بہلانے کے لیے ہیں۔ ‘‘

جواب میں اس نے ایسی سرد آہ کھینچی کہ میں دہل گیا۔

’’ہاں دوست!وہ باتیں بھی محض دل بہلانے کو تھیں ورنہ لوگ سینے میں چھپے ہوئے اس غم کے شعلے کو نہ دیکھ لیتے جسے میں دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’ میری سمجھ میں نہیں آتا تم کیا کہہ رہے ہو۔ ‘‘ میں واقعی سمجھ نہ سکا تھا کہ اسے ہوا کیا ہے۔

’’ ہاں !‘‘ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔ ’’یوں تمھاری سمجھ میں کچھ نہ آئے گا۔ لو ایک کہانی سنو۔ ‘‘

ہوا کا ایک تیز جھونکا ٹمٹماتی ہوئی شمع کو گل کر گیا۔ دور کسی درخت پر الّو اپنی بھیانک آواز میں چیخا اور کئی گیدڑوں کے ایک ساتھ مل کر رونے کی بھیانک آوازیں سُنائی دینے لگیں اور پھر ہوا یکلخت رک گئی۔ فضا میں سنّاٹا گھل گیا۔ جیسے فطرت نے دم سادھ لیا ہو!

باہر رنگین قمقموں سے جگمگاتے ہوئے آنگن میں شہنائی کے میٹھے سر فضا کو گدگدا رہے تھے اور اندر کمرے میں ایک ادھیڑ عمر کا ٹھنگنا آدمی ایک کبڑے بوڑھے کا گریبان پکڑے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔

’’ بتا او کھوسٹ! میں کیا ناک لے کر جاؤں گا برادری کے سامنے؟ بولتا کیوں نہیں کمینے!‘‘

’’ ٹھاکر صاحب !سمجھ سے کام لو۔ کبڑا مری ہوئی آواز میں بولا۔ ’’ کچھ تو صبر کر و ٹھاکر صاحب! ہے ہے بھگوان، ہے دیا ندھان، یہ کیا ہو گیا، یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

ٹھنگنے نے کبڑے کو ایک زور کا جھٹکا دیا۔

’’ ابے کس منہ سے صبر کروں ؟ یہ بھی کوئی صبر کرنے والی بات ہے۔ پوتر اگنی کے گرد پھیرے لینے کے بعد تیری لڑکی نے میرے بچے کی جیون سنگنی بننے کا عہد کیا اور اب جو بارات کے رخصت ہونے کا وقت آیا تو بی دلہن ندارد! بول میں کیا بتاؤں گا لوگوں کو؟ یہ کہ شادی کے بعد میرے لڑکے کی دلہن فرار ہو گئی۔ بول نا بے! گردن کیوں جھکا لی؟‘‘

مارے طیش کے ٹھنگنے آدمی کے منہ سے کف نکلنے لگا۔ کبڑا آنکھوں میں آنسو بھرے سر جھکائے کھڑا تھا، اسی وقت باہر سے نائی ایک پرچہ ہاتھ میں لیے بھاگتا ہوا اندر آیا۔

ججمان جی۔ اس نے پرچہ ٹھگنے آدمی کو دیتے ہوئے کہا۔ دولھے میاں پرچہ دے کر ابھی ابھی چلے گئے اپنی موٹر پر۔ ‘‘

کبڑے بوڑھے کا دامن چھوڑ کر ٹھنگنا تھر تھراتی ہوئی آواز میں رقعہ پڑھنے لگا۔

’’ پتاجی! بھگوان کی قسم دلہن کے فرار ہونے سے آپ کو دکھ ہو تو ہو، مجھے کوئی قلق نہیں ہے، میں آپ سے پہلے بھی کہتا تھا کہ ابھی بیاہ کے جنجال میں مجھے نہ پھنسائیے لیکن آپ نہیں مانتے۔ میں بھی آپ کی خود کشی کی دھمکی سے مجبور ہو گیا۔ لیکن اب تو میں سمجھتا ہوں کہ بھگوان بھی خود یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی بزدلی کا کفارہ ادا کروں میری مانیے تو آپ چپ چاپ گاؤں لوٹ جائیے۔ زیادہ شور و غل کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لیے چنتا نہ کیجیے۔ میں اپنی ملازمت پر واپس جا رہا ہوں۔           آپ کا سپوت۔۔ ۔۔ راج

۔۔ ۔۔ ۔۔

لیلا مسیح نے جھک کر بیلے کا وہ شگوفہ بڑی نفاست سے توڑ لیا۔ کمار نے بڑے فخر سے چاروں طرف دیکھا۔ باغ طرح طرح کے پودوں اور پھولوں کے تختوں سے اٹا پڑا تھا لیکن کوئی سرو یا شمشاد اسے لیلا مسیح کے مانند خوش قد نظر نہ آیا۔ گلاب کے کسی پھول میں لیلا کے رخسار سی تازگی نہ تھی۔ کوئی شاخِ گل اس کی محبوبہ سے بڑھ کر مستانہ انداز میں نہ جھومتی تھی۔ لیلا کے آنچل کی سی رنگینی کسی غنچے کے بس میں نہ تھی اور اس کا وہ مہکا ہوا سا تنفس۔ اونہہ چنبیلی میں وہ بات کہاں ؟ اس نے پیار بھری نظروں سے لیلا کی طرف دیکھا وہ بیلے کے شگوفے کو اپنے معطر رومال سے بڑی نرمی کے ساتھ صاف کر رہی تھی کہ شبنم کی نمی سے کمار کا کوٹ نہ خراب ہو جائے۔

کمار کا دل ہمکنے لگا۔

’’ لیلا۔۔ ‘‘ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں پکارا۔ لیلا نے اُسے شوخ نظروں سے دیکھا اور ادا سے لچک کر بیلے کا شگوفہ اس کے کوٹ میں سجانے لگی۔ اور پھر نسیم محبت کا ایک جھونکا انھیں جھکولے دے گیا دو شاخیں لہرائیں، جھومیں اور جھک کر ایک دوسرے سے مل گئیں۔

کمار اپنے ہونٹوں سے لپ اسٹک پونچھنے لگا اور لیلا نے دوبارہ لپ اسٹک لگائی۔ پھر دونوں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے نزدیک ہی سنگ مرمر کے حوض پر جا کر بیٹھ گئے۔ حوض میں نقرئی مچھلیاں چہلیں کر رہی تھیں۔ شام رنگین ہوتی جا رہی تھی۔ ایک بلبل اڑتا ہوا آیا اور گلاب کی شاخ پر چمکنے لگا۔

’’ ڈارلنگ!‘‘لیلا نے کمار کا شانہ تھپک کر کہا۔ ’’ سال بھر تک اسپتال میں تیمار داری کرتے ہوئے کیا معلوم تھا کہ تم میرے اتنے قریب آ جاؤ گے۔ ‘‘

’’ اب بھی تو تم میری تیمار داری ہی کر رہی ہو ڈیر!‘‘ کمار نے حوض میں ایک پھول تیراتے ہوئے کہا۔ ’’ پہلے ہاتھ کا زخم زیر علاج تھا اور اب زخمِ دل۔۔ ‘‘

پھول آہستگی سے تیر رہا تھا۔ کمار نے پانی کو ذرا سا ہلکورا دیا اور لہروں کے جھکولے کھا کر پھول پانی میں بیٹھنے لگا۔ لیلا نے کمار کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ ڈیر! آج تو تمھیں فیصلہ کرنا ہی ہو گا، تم نے رات کو میرے سوال پر غور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ‘‘

’’ ہوں ۔۔ ۔۔ !‘‘ کمار کسی گہری سوچ میں پڑ گیا۔

’’ پھر کیا سوچا۔۔ ۔۔ ؟‘‘ لیلا مضطرب لہجے میں بولی۔

’’ یہی کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے نزدیک آ چکے ہیں کہ اب دوری ممکن نہیں۔ ‘‘

لیلا کے چہرے پر شگفتگی کی ایک اور لہر دوڑ گئی اور وہ فرط جذبات سے مغلوب ہو کر کمار کے گلے سے لپٹ گئی۔

’’ تو پھر تو پھر۔۔ ۔۔ ‘‘ اس نے کپکپائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ’’ہم لوگ کب ایک دوسرے کے ہونے جا رہے ہیں ؟‘‘

’’ یوں کیوں نہیں کہتیں کہ ہم ایک دوسرے کے ہو چکے ہیں ۔۔ ‘‘ کمار سنجیدگی سے بولا

’’ اوہ میرا مطلب تھا۔۔ میرا مطلب ہمارا بیاہ۔۔ ۔۔ ‘‘ شفق کی ساری سرخی سمٹ کر لیلا کے چہرے پر آ گئی۔

’’بیاہ۔۔ !‘‘کمار نے چونک کر کہا۔ ’’ لیلا مائی ڈارلنگ! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میری روح تمھاری روح سے محبت کرتی ہے اور ان کے لیے پریم کا ناطہ ہی کافی ہے۔ ‘‘

’’ کیا۔۔ ۔۔ کیا کہا تم نے۔۔ ۔۔ ‘‘ لیلا لرز گئی۔

’’ یہی کہ میں نے کبھی تم سے جنسی قربت کی خواہش نہیں کی۔ میں نے ہمیشہ تمھیں روح کی گہرائیوں سے چاہا ہے۔ سال سے زائد ہونے کو آیا۔ کوئی ایک واقعہ بھی تمھیں ایسا یاد ہے جب مجھ میں ہوس جاگی ہو۔ ؟‘‘

’’ نہیں پیارے۔ نہیں ۔۔ ‘‘ لیلا جلدی سے بولی۔ ’’ مجھے غلط نہ سمجھو لیکن سوچو تو بیاہ کا بندھن ہی تو دو پریمی روحوں کی دائمی قربت کا ضامن ہے۔ ۔۔ ‘‘

کمار اور زیادہ سنجیدہ ہو گیا۔

’’ سچ کہتی ہو لیلا! یہ بھی نہ سمجھو کہ میں تم سے شادی کرنے سے کتراتا ہوں، لیکن حالات، کاش وہ ہمارا ساتھ دیتے۔ میں نے بہت غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ مجھے اپنی محبت کی قربانی دینی ہو گی۔ ‘‘

’’’’ کیسے حالات ہیں وہ؟ کیا تم حالات سے ڈر کر محبت کا گلا گھونٹ دو گے؟‘‘

’’ نہیں ڈیر! پھر سوچو۔ محض بیاہ کا نام محبت نہیں ہے شادی تو صرف دو جسموں کی قربت کا ذریعہ ہے اور محبت دو روحوں کو ملاتی ہے۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے محبت کرتے رہیں گے۔ ہماری روحیں ایک دوسرے کے قریب رہیں گی۔ ‘‘

’’ آخر وہ کون سی مجبوریاں ہیں جنھوں نے تمھیں اتنا بزدل بنا دیا ہے؟ ‘‘ لیلا نے سسکتے ہوئے پوچھا۔

’’ میں جس سوسائٹی میں رہتا ہوں۔ ’’ کمار نے دھیرے سے کہا۔ ’’ وہ ابھی اتنی روشن خیال نہیں جتنے ہم ہیں۔ اُن کی نظروں میں ہم ایک روح کے دو قالب نہیں بلکہ اب بھی وہ تمھیں ایک عیسائی نرس اور مجھے ایک راجپوت افسرسمجھتے ہیں۔ میرا تم سے شادی کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ میں اپنے والدین کو خود کشی پر مجبور کروں اور اپنی دو چھوٹی بہنوں کی شادی کے تمام امکانات منقطع کر دوں۔ کتنی خود غرضی ہو گی۔ سوچو نا لیلا۔ کیا ہم محض اپنی خوشی کے لیے اتنے لوگوں کی حسرتیں لوٹ لیں۔ کیوں میں غلط کہتا ہوں کیا لیلا۔ !‘‘

جواب میں لیلا کی سسکیاں اور تیز ہو گئیں۔

’’پھر التجا کرتا ہوں لیلا!‘‘ کمار بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’ مجھے غلط نہ سمجھنا کہیں میں نے تمھیں پورے خلوص اور روح کی تمامتر گہرائی سے چاہا ہے اور ساری عمر تمھاری یاد کو سینے سے لگا رکھوں گا۔ اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد یقین دلاتا ہوں کہ اگر کبھی میری شادی ہوئی تو تم سے ہو گی ورنہ۔ ‘‘

کمار اپنے جذبات صحیح طور پر ظاہر کرنے سے قاصر رہا۔ لیلا کی سسکیاں فضا میں ابھرتی رہیں وہ خلا میں تاکتا رہا اور شام کی سرخی تاریکی میں تبدیل ہوتی رہی۔

۔۔ ۔۔ ۔۔

’’ کلب میں تاش کے پتے پھینٹتے ہوئے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ مسٹر ریاض صدیقی نے سپرنٹنڈنٹ پولیس سے کہا۔

’’ کیا زمانہ آ لگا ہے یارو! اب لوگوں میں غیرت نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہ گئی۔ انسان حیوان بن رہا ہے۔ ‘‘

’’ کیا بات ہوئی؟ ہے کیا کوئی چٹ پٹی خبر؟‘‘ وہسکی کی چسکی لگا کر ایس پی نے پوچھا۔

’’ ہاں تم نے کبھی سنا ہے کہ شوہر نے اپنی بیوی دوسرے کے حوالے کر دی ہو؟‘‘

’’ آں ۔۔ !‘‘ ایس۔ پی نے چونک کر گلاس میز پر رکھ دیا۔

’’ جی۔۔ !‘‘ تجسس ابھارنے کے لیے مجسٹریٹ نے الفاظ چبا چبا کر کہے۔۔ ’’اور شوہر بھی کوئی جاہل نہیں۔ محکمہ آبکاری کا اچھا اور تعلیم یافتہ افسر۔۔ ‘‘

’’بھئی کھل کر کہو۔۔ ‘‘ سپرنٹنڈنٹ پولیس کا تجسس بڑھ گیا۔

’’ آج عدالت میں محکمہ آبکاری کا ایک افسر جس نے اپنا نام غالباً راج کمار بتلایا تھا، اپنی بیوی سمرتی اور ایک مل کے معمولی کاریگر موہن سنگھ کو لے کر حاضر ہوا تھا۔ گواہ ثبوت پختہ تھے نیز لڑکی بالغ تھی۔ اس لیے مجھے ضابطے کی تکمیل کرنی پڑی۔ ‘‘

مجسٹریٹ خاموش ہو کر پتے تقسیم کرنے لگا۔

’’ اجی تم اپنا قصہ پورا کرو۔ ‘‘ ایس۔ پی بے چینی سے بولا۔ ’’ کھیل تو ہوتا ہی رہے گا۔ ‘‘

’’ ہاں۔ راج کمار نے اپنی بیوی سمرتی کو جس سے پرسوں اس کا بیاہ ہوا تھا طلاق دے دی اور پھر موہن سنگھ کے ساتھ اس کی سول میرج کر ڈالی۔ ‘‘

’’ اور ان دونوں کو کوئی اعتراض نہ ہوا؟‘‘ ایس۔ پی نے الجھ کر پوچھا۔

’’ کیسی بات کرتے ہو؟ وہ دونوں تو بچپن سے ہی ایک دوسرے کو پیار کرتے ہیں اور غالباً اسی وجہ سے راج کمار نے سمرتی کو طلاق دی۔ لیکن دونوں اسے ایسے احترام سے دیکھتے تھے جسے وہ انسان نہیں فرشتہ ہو۔ یا اللہ۔ انسان کتنا گر گیا ہے!‘‘

وہ دونوں نوٹوں کی سرسراہت میں رمی کھیلنے میں مشغول ہو گئے۔

جھینگروں کی ریں ریں اورساتھ ہی ساتھ دریا کے بہنے کا شور اور تاریکی، لیکن پچھلے چار دن سے کوئی رات کو چوری سے بھُٹے کاٹ لے جاتا تھا۔ اس لیے کالے خاں نے طے کر لیا تھا کہ وہ فصل کٹے تک رات کو کھیت پر ہی سو جایا کرے گا۔ کالے خاں دل کا مضبوط آدمی تھا۔ دوسرے اس نے مولانا صاحب سے دافع آسیب کا تعویذ بھی خرید لیا تھا۔ اس لیے جب رات کو بارہ بجے دریا کے پل پر گھڑ گھڑ ہٹ کی آواز کے ساتھ بہت تیز روشنی ہوئی اور دو ایک منٹ بعد بجھ گئی تو وہ جی کڑا کر کے حقیقت کا علم لینے کے لیے اس طرف دوڑ پڑا۔ دو تین کھیت پار کر کے پل پر پہنچا تو دور سے دیکھا ایک سایہ پل کے ریلنگ پر جھکا ہوا ہے۔ اس کے قریب پہنچنے پہنچتے سایہ دریا میں کود گیا پھر ایک اور سایہ تاریکی میں سے ابھرا اور دوسرے لمحے وہ بھی دریا میں کود گیا۔ کالے خاں کا دل کئی ہاتھ بڑھ گیا۔ یہ سب اسی کی تو برکت تھی کہ بھوت پریت کالے خاں سے ڈر کر دریا میں کودنے لگے تھے۔ دل میں کچھ سہما سا لیکن اپنی ہی نظروں میں خود کو بہادر ثابت کرنے کے لیے تیز تیز چلتا جب وہ پل پر پہنچا تو دیکھا کہ سڑک پر ایک خالی جیپ کھڑی ہے۔ کیسے بھوت تھے بھئی یہ؟ جو موٹر پر چڑھ کر دریا میں کودنے آئے تھے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا۔ اچانک کالے خاں کو نیچے پانی کھلبلانے کی آواز سنائی دی۔ جھانک کر دیکھنے پر اُسے دو سائے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے دریا کے کنارے پل پر بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ کالے خاں نے لاحول پڑھی لیکن سائے پھر بھی بڑھتے ہی رہے اب تو کالے خاں بالکل گھبرا گیا اور دوڑ کر ایک کھمبے کے پیچھے چھپ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اُسے موٹر کے قریب دو سائے نظر آئے غورسے دیکھا تو ایک مرد تھا۔ دوسری عورت دونوں پانی میں شرابور تھے۔ پھر اس نے سنا، مرد کہہ رہا تھا۔

’’میں تو پہلے ہی اس شادی کے خلاف تھا۔ تمھارے بھاگ جانے کی خبر سے مجھے خوشی ہوئی تھی۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ تم خود کشی کے لیے فرار ہوئی ہو۔ اچھا ہوا کہ میں اسی طرف سے ہو کر نکلا۔ ‘‘

’’ لیکن آپ نے میری جان بچا کر اچھا نہیں کیا۔ ‘‘ عورت بولی۔

’’ کیوں ۔۔ ؟‘‘ مرد نے کہا۔۔ ’’ اتنی نفرت ہے مجھ سے؟‘‘

عورت خاموشی سے اپنے کپڑے نچوڑتی رہی۔ کالے خاں نے ان لوگوں کی ایڑیاں دیکھ کر پورا اطمینان کر لیا کہ وہ بھوت نہیں ہیں تو کھمبے کے پیچھے سے نکل کر ان کے قریب آ گیا۔ لیکن یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ عورت اسی کے گاؤں کے ساتھ زمیندار کرپال سنگھ کی بیٹی سمرتی ہے۔ ‘‘

’’ سمرتی بٹیا! تم یہاں کہاں ۔۔ ! ‘‘ اس نے پوچھا لیکن سمرتی خاموش رہی۔ عورت نے کہا۔

’’ خود کشی کرنے آئی تھیں تمھاری بٹیا! آج ان کی شادی میرے ساتھ ہوئی ہے اور اسی کا غم۔۔ ۔۔ ‘‘مرد اپنا جملہ مکمل نہ کر سکا۔ سمرتی زور زور سے رونے لگی۔

’’ نہ رو بیٹی! چپ رہ! قسمت کی بات کو کون ٹال سکتا ہے بھلا؟ میں نے بھیا کرپال سنگھ کو بہت سمجھایا کہ دیکھو بِٹیا کی جندگی برباد نہ کرو۔ اب دیکھتا کون ہے اونچ نیچ کو۔ موہن سنگھ کو چاہتی ہے تو اسی سے بیاہ کر دو۔ گریب ہونا کوئی پاپ تھوڑی ہے۔ ارے ہاں بچپن سے ساتھ رہے۔ کھیلے کودے۔ پیار ہو ہی جاتا ہے۔ ‘‘

پھر وہ مرد کو سمرتی کی داستانِ محبت سنانے لگا۔

۔۔ ۔۔ ۔۔

میں نے راجکمار چوہان سے کہا۔

دوست معاف کرنا۔ میں تمھیں پہچان نہ سکا تھا۔ ‘‘

وہ ہنسنے لگا۔ میں نے پوچھا۔

’’ یہ تو بتاؤ۔۔ تم نے لیلا سے شادی کرنے سے تو اس لیے انکار کر دیا کہ سماج کا ڈر تھا۔ پھر اپنی بیوی کو طلاق دے کر موہن سنگھ سے بیاہتے ہوئے تم اس سماج سے خوفزدہ کیوں نہیں ہوئے؟‘‘

تب تک اس کی زندہ دلی اور چلبلا پن پھر عود کر آیا تھا۔ میری ران پر چپت مار کر ہنستے ہوئے بولا۔

’’ صبح کا بھولا اگر شام کو راہِ راست پر آ گیا تو تمھارے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے؟ اور پھر مجھے اپنی اس بزدلی کا کچھ کفارہ بھی تو ادا کرنا تھا جس نے لیلا مسیح کو گھل گھل کر جان دینے پر مجبور کیا تھا۔ ‘‘

اور خنک ہوا۔ اس طرح تیز تیز چلنے لگی جیسے قدرت آہیں بھر رہی ہو۔ !

(۱۹۵۷ء)

٭٭٭

 

 

 

دل خانہ!

 

’’ یار دلشاد! میں تو اس مسلسل بے کاری اور آفسوں کے چکر لگا لگا کر تنگ آ گیا ہوں۔ ‘‘

’’ تو پھر ایسا کرو نا۔ ‘‘ گفتگو کو صیغۂ راز میں رکھنے کے لیے اس نے مزید احتیاط کے طور پر بقیہ جملہ میرے کان سے ہونٹ لگا کر مکمل کیا۔ میں ترکیب سن کر پھڑک اٹھا۔

اور چند دنوں بعد شہر کی سب سے عالی شان سڑک پر ایک بڑی عمارت کے شاندار فلیٹ کے سامنے ہمارا سائن بورڈ لٹک رہا تھا۔

دل خانہ!

ہمارے یہاں انسانی دل فروخت ہوتے ہیں ۔۔

۔۔ میسرز دل دار خاں دل شاد خاں اینڈ کو

نہایت زور دار طریقوں پر پبلسٹی کی گئی۔ اخبارات اور رسالوں میں کچھ اس قسم کے اشتہار دیے گئے۔

دل شکنی، مردہ دلی وغیرہ وغیرہ کا قلع قمع

عاشقوں کو مبارکباد۔ تازہ دل خرید فرمائیے۔

مضبوط اور پائیدار دلوں کے لیے دل دار خاں دلشاد خاں اینڈ کمپنی کو یاد رکھیے!

موٹروں اور تانگوں پر لاؤڈ اسپیکروں سے شہر خاص اور مضافات شہر میں اعلان کر وایا گیا۔

’’ کھل گئی، دلوں کی دکان کھل گئی!

دل کے ہاتھوں پریشان پبلک کو اطلاع دی جاتی ہے کہ کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک دل کسی کو دے دینے کے بعد خالی سینہ لیے پھرنے کی مجبوری نہیں رہی۔ ہر قسم کے دلوں کے لیے دلدوز روڈ پر میسرز دلدار خاں دلشاد خاں اینڈ کو کی دوکان پر تشریف لائیے۔ ‘‘

پبلسٹی کے جتنے کامیاب طریقے تھے سب آزمائے گئے اور کامیاب رہے۔ دوکان خوب دھڑاکے سے چل نکلی۔ ہزاروں ایسے لوگوں نے جو اپنے اپنے دل دوسروں کو دے چکے تھے، ہماری دوکان پر آ کر منہ مانگے دام ادا کیے اور اپنے کھوکھلے سینوں میں نئے دل فِٹ کروائے۔

ایک دن صبح دوکان کھولتے ہی ایک چمرخ سا آدمی پھدک کر اندر آ گیا۔

’’ سنیے۔ !‘‘ اس نے ایسی آواز میں جو جھینگر کی چیخ سے مشابہ تھی، مجھ سے کہا۔

’’ فرمایئے! ‘‘ میں گوش بر آواز ہو گیا۔

’’ صاحب! ول ملتجیانہ لہجے میں بولا۔ ’’ میں اپنے اس دل کے ہاتھوں پریشان ہوں۔ اب آپ سے کیا پردہ، جیبیں کترنا اپنا خاندانی دھندا ہے، خدا بخشے باپ دادا اس فن کے استاد مانے جاتے تھے لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ ذرا کسی کی جیب پر للچائی ہوئی نگاہ ڈالی اور یہ کمبخت دل گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے لگتا ہے۔۔ ابے کیا کرتا ہے۔۔ دیکھ پکڑا جائے گا۔۔ ارے ارے بُری بات ہے۔۔ بھیّا دل دار خاں یا دلشاد خان، جو کچھ بھی تمہارا نام ہو مجھے اس بکّی دل سے نجات دلاؤ۔‘‘

مجھے بہت رحم آیا بیچارے پر۔ مشورے کی فیس کے روپے اس سے وصول کر کے جیب کے حوالے کر تے ہوئے میں نے اسے صلاح دی۔

’’ ہمیں آپ سے پوری پوری ہمدردی ہے۔ لیکن صاحب! ایک دل کی موجودگی میں دوسرا دل اور وہ بھی اتنے چھوٹے سینے میں کس طرح سما سکتا ہے؟‘‘

’’ تو پھر میں کیا کروں جناب؟‘‘ اس نے تقریباً روتے ہوئے پوچھا۔

میں نے دوبارہ مشورے کی فیس لے کر اسے تیر بہدف نسخہ بتایا۔

’’ بہت آسان بات ہے۔ یہ ناکارہ دل دے ڈالیے کسی کو!‘‘

اس نے صدق دل سے میرا شکریہ ادا کیا اور دوکان سے باہر نکل گیا۔

شکریے کو ردّی کی ٹوکری میں ڈال کر میں نے باہر دیکھا۔ جیب کترا بیچارہ سڑک پر کھڑا ہوا ہر آنے جانے والی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر کہتا پھرتا۔

’’ او موٹر والی چھوری

دل لے جا کھلّم کھلّا۔۔ للّ للّ للّ للہ لا!‘‘

اور تھوڑی دیر بعد وہ لپکتا ہوا میری دوکان پر آیا۔

ذرا دیکھیے تو!‘‘ وہ پُر مسرت لہجے میں بولا۔ ’’ ابھی ابھی ایک بھینگی لونڈیا نے موٹر پر سے ہنس کر مجھے دیکھا تھا کیا دل لے گئی میرا۔ ؟‘‘

میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا۔ دل کمبخت اپنی جگہ اسی طرح دھڑک رہا تھا۔ میں نے مایوس نظروں سے جیب کترے کی طرف دیکھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔

’’ بھیّا! مجھے اس مصیبت سے نجات دلاؤ۔ ورنہ میں بھوکوں مر جاؤں گا۔ کل ایک موٹی مرغی پھنس گئی تھی اس لیے فی الحال پیسے بھی پاس ہیں ورنہ پھر ایسا موقع مجھے مشکل سے ملے گا۔ ‘‘

اس نے چوگنی فیس میری مٹھی میں ٹھونس دی تو مجبوراً مجھے سنجیدگی سے سوچنا پڑا۔ غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پر خیال انداز میں میں نے کہا۔

’’مسٹر! تمھارا چوکھٹا کچھ اس قسم کا ہے کہ کوئی تم میں دلچسپی نہیں لیتا۔ بہر طور آؤ کوشش کر دیکھیں۔ ‘‘ اسے ساتھ لے کر میں ایک ادھیڑ اور نادار طوائف کے یہاں پہنچا۔ میری سمجھائی بجھائی اسکیم پر عمل کرتے ہوئے جیب کترے نے اس سے کہا۔

’’ اے جان! میں اپنا دل نادان سو روپیوں کے ساتھ تیرے حوالے کرتا ہوں۔ تجھے قبول ہے؟‘‘

’’ قبول ہے۔ ‘‘ طوائف نے للچائی ہوئی نگاہوں سے نیلے سو کے نوٹ کو دیکھتے ہوئے جلدی سے کہا۔

’’ کیا سچ؟‘‘

’’ ہاں قبول ہے۔ ‘‘

’’ تیسری بار پھر کہہ دو۔ ‘‘

’’ قبول ہے۔ قبول ہے۔ ‘‘ طوائف نے جھپٹ کر نوٹ اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔ میں نے کان لگا کر سنا، جیب کترے کا سینہ خالی پڑا تھا۔ اپنی دوکان پر لا کر میں نے ایک بہت سیدھاسادا گونگا دل اس کے سینے میں کھونس دیا اور وہ اپنی جیب خالی کر کے چلا گیا۔ لیکن تفتیش پر پتہ چلا کہ اس طرح میں نقصان میں رہا تھا۔ اس دوران میں دلوں کے بہت سے خریدار دوکان پر آ کر واپس چلے گئے تھے۔ میں نے سوچا اگر اس طرح ہر خریدار کے خراب دل کو سینے سے نکالنے کے لیے میں خود بھاگتا پھروں گا تو پھر یہ دھندا چل چکا۔ فوراً دل شاد کو فون کیا۔

’’ بھیّا دلشاد۔۔ ؟‘‘

’’ کیا ہے بھائی دل دار۔ ؟‘‘ اس نے دوسرے سرے سے پوچھا۔ ‘‘

میں نے اسے ساری روئداد کہہ سنائی۔

’’ بات تو تم ٹھیک کہتے ہو۔۔ ‘‘ اس نے میری داستان سُن کر پر تشویش لہجے میں کہا۔ ’’اچھا دوکان بند کر کے میرے پاس چلے آنا۔ ‘‘

اس دن کام پر دل بالکل نہ لگ رہا تھا۔ اس لیے دوکان وقت سے پہلے ہی بند کر دی۔

رات کو دلشاد اور میں دونوں سائنسداں کے یہاں پہنچے وہ اس وقت بھی دل پر تجربہ کر رہا تھا۔ میں اس کے قدموں پر گر پڑا۔

’’ بھیّا سائنسداں۔ !‘‘

اس نے کوئی اندرونی سوئچ دبا کر اپنے چہرے پر سوالیہ نشان ابھارا۔ میں نے مسئلہ اس کے سامنے تفصیل سے بیان کیا۔

’’ اوہ! سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں اس سلسلے میں تجربے کر رہا ہوں۔ ‘‘

ہم دونوں اُچھل پڑے اور ساتھ ساتھ نعرہ بلند کیا۔

’’ ہمارا سائنسداں۔ !‘‘

’’ زندہ باد۔ پائندہ باد!‘‘

دو دن بعد نئے سیل بند ڈبوں کا بڑا اسٹاک میری دوکان پر پہنچ گیا۔ سائنسداں نے سینے میں دل فٹ کرنے کی ترکیب بھی لکھ بھیجی تھی۔ اب دل فٹ کرنے کے لیے کھوکھلے سینے کی چنداں حاجت نہ رہی تھی۔ دلوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ حسب ضرورت تمغوں کی طرح سینے کے اوپر بھی آویزاں کیے جا سکتے تھے۔

اس نئی ایجاد کی بھی خاطر خواہ پبلسٹی کی گئی۔

اب تو کاروبار اتنا چل نکلا کہ ہم سے مال سپلائی کرتے نہ بن پڑتا تھا۔ روزانہ دلوں کا جتنا اسٹاک آتا چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتا۔ لوگوں کو کیو لگا کر دل خریدنے پڑتے تھے۔ قیمت چوگنی کر دینے پر بھی مانگ میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ لوگوں میں اس بات کے مقابلے ہونے لگے کہ کس کے پاس زیادہ دل ہیں۔ لڑکیوں کی خوبصورتی اور ہر دلعزیزی کا اندازہ لوگ کچھ اس طرح لگاتے تھے۔

’’ اجی کس پھیر میں ہیں جناب؟ جمیلہ اور شاہدہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاہدہ کو تین درجن سے کم دل تو کسی دن ملتے ہی نہیں ہیں۔ ‘‘

ایک اعلیٰ افسر جو رشوت دل کھول کر لیتے تھے۔ ایک دن جھنجھلائے ہوئے ہماری دوکان پر آئے اور اپنے پرانے دل کی شکایت کرنے لگے۔

’’جناب! یہ ہمیشہ عین وقت پر ملامت کرنے لگتا ہے!‘‘

’’ ذرا مفصل بیان کیجیے۔ ‘‘ میرے اسسٹنٹ نے کہا۔

’’ مثلاً آج ہی کا واقعہ لے لیجیے۔ ایک صاحب کسی بیوہ کی جائیداد کو اپنے نام منتقل کروانا چاہتے تھے میں نے پانچ ہزار کا مطالبہ رکھا اور وہ رضا مند بھی ہو گئے لیکن خدا اس دل کا بیڑہ غرق کرے سارا معاملہ چوپٹ کر کے رکھ دیا۔

اسسٹنٹ نے پوچھا۔

’’ وہ کیسے۔ ؟‘‘

’’ عین وقت پر چیخنے لگا صاحب!‘‘

’’ یہ گناہ ہے! یہ گناہ ہے!‘‘

’’ اوہ! ‘‘ میرا اسسٹنٹ مسکرایا۔ ’’ آپ ہمارے یہاں سے ایک درجن دل سخت قسم کے لگوا لیجیے۔ ہر اس طرح کے نازک موقع پر مل کر چیخیں گے۔ شاباش! بڑا نیک کام ہے یہ۔ ارے! پانچ ہزار میں کیا ہو گا۔ وغیرہ ‘‘ اور ان سب کی زور دار آوازوں میں آپ کے اس ننھے سے حقیر دل کی آواز دب کر رہ جائے گی۔ ‘‘

افسر صاحب کھل گئے اسی وقت منہ مانگے داموں پر ایک درجن دل خرید فرمائے۔

اور اسی واقعے پر کیا منحصر ہے۔ روز ہی عجیب و غریب واقعات پیش آتے تھے۔ ایک صاحب نے تین دل خرید کر ہر ایک پر اس قسم کے نوٹس درج کیے۔

دل نمبر۱ ۔۔ برائے غمِ جاناں

دل نمبر۲ ۔۔ برائے غمِ دوراں

دل نمبر ۳۔۔ اپنے دل کا آپ مالک

ایک دن ایک بوڑھا آ کر بگڑنے لگا۔

’’ واہ صاحب! یہ کیا دھاندلی ہے! کیسا پھسپھسادل دیا تھا آپ نے کہ ایک چہیتی بلّی کی موت کا غم بھی نہ سہہ سکا۔ بھربھری مٹی کی طرح ٹوٹ کر رہ گیا۔ ‘‘

بہت سی غریب اور حسین لڑکیاں، جنھیں دل جمع کرنے کی ہابی نہ تھی ان دلوں کے بنڈل لے کر ہمارے پاس آتی تھیں جو ان کے ان گنت عاشقوں نے انھیں دیے تھے۔ یہ دل وہ اونے پونے داموں میں ہمارے ہاتھوں فروخت کر جاتی تھیں جنھیں ہم نئے کہہ کر پھر بیچ لیتے تھے۔

طوائفوں اور اسی قسم کی دوسری عورتوں سے ہمیں باقاعدہ کنٹریکٹ کرنے پڑے۔ بسااوقات خوبرو لڑکے بھی سیکنڈ ہینڈ دل فروخت کرتے پائے گئے۔

ایک بار پکچر دیکھتے ہوئے میں نے سنا تاریکی میں پچھلی نشستوں پر کوئی نو جوان اپنی محبوبہ سے کہہ رہا تھا۔

’’ ڈارلنگ۔ نہ جانے کیوں تمھیں دیکھ کر میرا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ ‘‘

’’ کون سا دل ڈیر!؟‘‘

’’ دل نمبر سات!‘‘

اس کی محبوبہ تنک کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر میں نے تڑاخ کی آواز سنی۔

اس نے اپنے عاشق جانباز کو چپل مار دیا تھا اور اب چیخ رہی تھی۔

’’ تم نے مجھے تین ہی تو دل دیے ہیں۔ ساتویں کی باری کیسے آ گئی۔ !‘‘

’’ ڈارلنگ میری بھی تو سنو۔ !‘‘ نوجوان گڑگڑایا۔

’’ میں پوچھتی ہوں باقی تین دل کس حرامزادی کو دیے ہیں تم نے؟‘‘

’’ یہ کیا لٹک رہے پیاری ! دیکھ لو نا۔ ! ‘‘ نوجوان نے سسکتے ہوئے ٹارچ روشن کر کے محبوبہ کو اپنے دل دکھا دیے اور وہ اطمینان کا سانس لے کر بیٹھتے ہوئے بولی۔

’’ تو کیا مجھے دیکھ کر یہ تین بالکل نہیں دھڑکتے پیارے!؟‘‘

اور ایک دن میں نے اپنے اسسٹنٹ کو اسٹینو گرل سے سرگوشی کرتے ہوئے سنا۔

’’ انجم ڈارلنگ! میں بیک وقت اپنے اکیسوں دلوں کی عمیق ترین گہرائیوں سے تم سے محبت کرتا ہوں !‘‘

اور انجم ٹھنک کر بولی۔

’’ تو ڈارلنگ! سب اکٹھے دے ڈالو نا ہمیں تم تو ایک ایک کر کے دیتے ہو اور مجھے بہت سا سامان خریدنا ہے۔ ‘‘ ٹھیک اسی وقت ایک شکستہ حال نوجوان جس نے نجانے کن وقتوں سے پیسے جمع کیے تھے ہماری دوکان سے دل خرید کر فخریہ گاتا ہوا نکلا:

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

جام جم سے تو ہمارا دلِ زار اچھا ہے

نوبت یہاں تک پہنچی کہ مالکان سنیما کو پردۂ سیمیں کے سامنے سے دل اکٹھے کرنے کے لیے علیحدہ اسٹاف رکھنے پڑے کیوں کہ تماشائی کھیل دیکھتے ہوئے خوش ہو ہو کر اپنی پسندیدہ ایکٹریس کے سین پر دلوں کے ڈھیر لگا دیتے تھے۔ اس طرح سنیما والوں کو کافی آمدنی ہو جاتی تھی۔

اخباروں میں آئے دن اس قسم کے اشتہار نکلنے لگے۔

’’ اگر کسی کو دلکشا روڈ پر دل نمبر ۴۲۰ پڑا ہوا ملے تو دلاور خاں، دلکش، دل پور کے پتے پر ارسال کرے دل کھول کر انعام دیا جائے گا۔ ( نوٹ : اگر دل پانے والی کوئی محترمہ ہوں تو دل رکھ لیں اور اپنی تصویر بھیج دیں )

غرض کہ بزنس بہت ہی دھڑا کے سے چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن دلشاد کا فون آیا۔

’’ اماں دلدار! سنتے ہو۔ ؟‘‘

’’ کیا ہے دلشاد بھّیا۔ ؟‘‘

اس نے دوسرے سرے سے یہ خبر سنائی۔

’’ وہ سائنسداں جو ہماری فرم کے لیے دل تیار کرتا تھا نا۔ ؟ وہ آن صبح مر گیا۔ ‘‘

’’ کیسے۔ ؟ ‘‘ میں دل تھام کر چیخا۔

’’ دل کی حرکت بند ہو جانے سے!‘‘

اسی دن مجھے دوکان بند کر کے روپوش ہو جانا پڑا۔

(۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

منت کی چادریں

 

موٹر سے اتر کر لکھپتی نے جوتے دروازے پر اتار دیے اور روضے میں داخل ہوا۔ اس کا سر فرطِ عقیدت سے جھکا جا رہا تھا۔ عرصے سے اُس کی قسمت گردش میں تھی۔ لوگ اُسے لکھپتی سمجھتے تھے جبکہ در پردہ وہ دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اس کی تمام جائداد مکانات اور ملیں ایک مہاجن کے پاس رہن ہو چکی تھیں۔ حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ وہ وہسکی کے بجائے دیسی ٹھرّا استعمال کرنے لگا تھا۔ اسے پیروں اور مزاروں پر قطعاً اعتقاد نہ تھا لیکن اپنی بیوی کے اصرار پر وہ پچھلی جمعرات کو یہاں چلا آیا تھا اور یہاں آ کر اس نے دادا میاں سے التجا کی تھی۔

’’ دادا میاں ! میری مدد کیجیے۔ اگر میں قرض سے سبکدوش ہو گیا تو آپ کے مزار پر پانچ ہزار روپیے کی چادر چڑھاؤں گا۔ ‘‘

اور پھر ان چھ درمیانی دنوں میں ہی کایا پلٹ ہو گئی۔ سیٹھ کی دیوالیہ فرم پھر چل نکلی۔ صرف پچاس ہزار روپیہ رشوت دے کر اس نے اپنا وہ ٹینڈر منظور کروا لیا جس میں آٹھ لاکھ کا منافع تھا۔ چاندی کا بھاؤ ایک دم ڈیڑھ گنا بڑھ جانے سے اسے سٹے میں ساڑے چار لاکھ کا نفع ہوا۔ کسٹوڈین نے اس کے سالے کے خسر کی بھتیجی کی جائداد کو جس پر شرنارتھی غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے تھے سیٹھ کی وراثت تسلیم کر لیا اور اس طرح وہ نہ صرف قرض ہی سے سبکدوش ہو گیا بلکہ تیرہ لاکھ روپیہ دس فیصد سود در سود پر ایک دوسرے سیٹھ کو قرض بھی دے دیے۔

اور اب وہ صدق دل سے دادا میاں کا معتقد ہو چکا تھا اور ساڑھے پانچ ہزار روپیہ کی چادر چڑھانے آیا تھا۔ نوکر نے آ کر جگمگاتی ہوئی مقیشی چادر سے دادا میاں کا مزار ڈھک دیا۔ سیٹھ نے پھولوں کا دونا کتبہ کے پاس انڈیل دیا۔ مزار کوبوسہ دیا اور اُلٹے پاؤں چل کر دروازے سے باہر نکل گیا۔

’’ نئے آنے والے نے اپنے جھولے میں سے ایک ریشمی چادر نکالی اور اُسے مزار پر ڈال کر کچھ پھول بکھیر دیے ار پھر دیوانہ وار مزار کو بوسے دینے لگا وہ ایک گرہ کٹ تھا۔ تین دن پہلے وہ قلاش تھا۔ جتنی جیبیں وہ کترتا تھا سب اُسے دھوکا دیتیں۔ بہترین قیمتی سوٹ والے بابو کی جیب کتر کر اس سے جو منی بیگ حاصل کیا تھا اس میں بہت سی نوکری کی درخواستوں کے ساتھ صرف ایک کھوٹی چونی نکلی تھی۔ پھر اس نے ایک بڑے سیٹھ کو تاڑا اور جب اسے اس کی جیب سے چند ہنڈیوں اور چیک بک کے علاوہ کچھ نہ ملا تو اس نے جھنجھلا کر سیٹھ کو موٹی موٹی گالیاں دی تھیں اور پھر جب تنگ آ کر اس نے ایک میم کا پرس اچک کر بھاگنے کی کوشش کی تو ہجوم نے اسے پکڑ کر اس بری طرح پیٹا تھا کہ اس کا بند بند ڈھیلا پڑ گیا تھا اور جب رات کو یہ تمام حالات اس نے اپنی آٹھ سو روپے والی داشتہ کو سنائے تو اس نے اسے دادا میاں کے مزار پر آنے کی صلاح دی تھی اور پھر وہ کل ہی رات یہاں آ کر مزار پر گھنٹوں گڑگڑاتا اور منتیں مانگتا رہا تھا۔

پھر آج صبح اُسے خود پولیس سپرنٹنڈنٹ نے بلوا کر ایک وکیل صفائی کی جیب سے وہ کاغذات اڑا لانے کو کہا جن کی بنا پر ایک بے گناہ ملزم کے پھانسی سے بچ جانے اور عہدیداران پولیس کے معتوب ہونے کا اندیشہ تھا۔ وہ وکیل کی جیب سے مطلوبہ کاغذات اڑا لانے میں کامیاب ہو گیا تو ایس پی صاحب نے فرطِ مسرت میں اسے جی ہاں ایک گرہ کٹ کو گلے سے لگا لیا اور مدعی کے نذر کردہ تین ہزار روپیوں میں سے پانچ سو روپے انھوں نے زبردستی اس کی جیب میں ٹھونس دیے تھے۔ اب وہ انھیں روپیوں میں سے ایک بھڑک دار و قیمتی چادر لے کر دادا میاں کے حضور میں حاضر ہوا تھا۔ چادر چڑھا کر وہ بھی اُلٹے قدموں چلتا ہوا روضے سے باہر نکل گیا۔

اب ایک برقعہ پوش خاتون اندر آئی۔ یہ ایک بڈھے تاجر کی کمسن بیوی تھی۔ اسے اولاد کی تمنا تھی۔ سال بھر پہلے اس نے دادا میاں کے مزار پر منت مانی تھی۔

’’ دادا حضور! مجھے گھر کا چراغ بخش دو۔ میں آپ کے مزار پر گھی کے چراغ جلاؤں گی، چادر چڑھاؤں گی۔ ‘‘

اور منت ماننے کے دو ماہ بعد ہی اس کے سوتیلے داماد کی نظرِ التفات اس پر ہو گئی۔ اب اس کی گود میں ایک ہنستا کھیلتا تندرست بچہ تھا۔

اس نے سبز رنگ کی ایک چادر نکال کر مزار پر پھیلا دی، پھر تانبے کی چار کٹوریاں نکال کر ان میں گھی بھرا، روئی کی بتیاں بنائیں اور مزار کے چاروں کونوں پر رکھ کر انھیں روشن کر دیا۔ عود و عنبر کے دھوئیں میں چار چراغ اس طرح ٹمٹما نے لگے جیسے فاسد خیالات کے ہجوم میں انسان کا ضمیر!عورت نے مزار پر پڑے ہوئے پھول کی ایک پنکھڑی نوچ کر کھائی، عود دان میں سے کچھ خاک نکال کر اپنے اور بچے کے منہ پر ملی اور مزار کی طرف منہ کر کے الٹا چلتی ہوئی روضے سے نکل گئی۔

پھر ایک با مراد عاشق نے آ کر مزار پر پھول کی چادر چڑھائی۔ اس کی محبوبہ اپنے شوہر کی تمام جمع پونجی اور زیورات لے کر اس کے ساتھ بھاگ آئی تھی۔

ایک طالب علم نے بھی چادر چڑھائی۔ اسے امتحان میں پاس ہونے کی قطعاً امید نہ تھی وہ بھی دادا میاں کے مزار پر منّت مان گیا تھا پھر امتحان کے دوران کسی نے اسے نقل کرتے ہوئے نہیں ٹوکا اور وہ سیکنڈ ڈیویژن میں پاس ہو گیا تھا!

ایک بیوہ ماں آئی۔ اس کی تیس سالہ بیٹی کو کوئی شوہر نہ ملتا تھا۔ اس نے دادا میاں سے لڑکی کے فرض سے ادا ہونے کی منت مانگی تھی۔ اور آج دادا میاں کے طفیل اس کی مراد پوری ہو گئی تھی۔ اس کی لڑکی نے دق کی تیسری اسٹیج کو پھلانگ کر قبر میں دم لیا اور وہ اس کے فرض سے ادا ہو گئی۔

گھی کے چراغ بجھ چکے تھے۔ ایک شخص جوتے پہنے ہوئے کھٹ پٹ کرتا بے باکی سے دادا میاں کے روضے میں داخل ہوا اور مزار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔

’’ دادا! آج میں آخری بار تیرے مزار پر آیا ہوں۔ میں نے کئی لمبی لمبی راتیں تیرے مزار پر رونے اور گڑگڑا نے میں گذاری ہیں۔ میں نے تجھے بتایا ہے کہ میری حالت بہت خراب ہے، تعلیم یافتہ ہونے پر بھی مجھے ملازمت نہیں مل رہی ہے دیہات میں میرے بوڑھے ماں باپ میری تنخواہ کے منتظر ہیں اور میں یہاں بھوکوں مر رہا ہوں۔ میں نے تجھے سب کچھ بتایا ہے۔ یہ بھی کہ مجھے ملازمت اس لیے نہیں ملتی کہ میں اعلیٰ افسران کی سفارش یا رشوت نہیں فراہم کر سکتا پھر بھی تجھے مجھ پر رحم نہیں آیا۔ میں جانتا ہوں تجھے اس طرح رحم نہیں آئے گا مجھ پر۔ مجھے بغاوت کرنی پڑے گی۔ میں انھیں رشوت دوں گا۔ ہاں میں انھیں نوکری کے لیے رشوت دوں گا۔ تیری یہ چادریں تجھ سے زیادہ میری مدد کر سکتی ہیں۔ !‘‘

اس نے جھپٹ جھپٹ کر مزار سے چادریں اتار نا شروع کیں۔ تمام پھول ادھر ادھر بکھر گئے۔ سب چادریں جمع کر کے اس نے گٹھری بنائی اور مزار کی طرف پیٹھ کر کے جوتے پھٹپھٹاتا ہوا روضے سے باہر نکل گیا۔

اور ٹھیک تین ماہ بعد وہی شخص گٹھری لیے ہوئے پھر واپس آیا۔

اب وہ ریلوے میں پارسل کلرک ہو گیا تھا۔ اس نے تمام چادریں دوبارہ مزار پر چڑھا دیں اور ایک دوسری چادر ندامت کے آنسوؤں کی چڑھا کر جب وہ الٹے پاؤں واپس جا رہا تھا تو پہرہ دینے والے سپاہی نے اس کے قبضے سے مال مسروقہ برآمد ہونے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔

اور دادا میاں کے مزار پر جلتے ہوئے تمام چراغ بھڑک کر اس طرح بجھ گئے جیسے دادا میاں نے چادروں کے نیچے سے ایک زور دار قہقہہ لگایا ہو۔

(۱۹۵۳ء)

٭٭٭

 

 

 

دو ٹکے کا آدمی

 

اس صبح آنند نے پھر تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا تو روپے غائب تھے۔ پہلے تو دل دھک سے رہ گیا، اپنی لا پرواہی پر اس نے دل ہی میں خود کو ہزاروں صلواتیں سنا ڈالیں۔ پھر ٹمپریچر بتدریج بڑھ گیا۔ نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر کچکچاتے ہوئے اس نے سوچا۔ واہ اس میں لاپرواہی اور با خبری کا کیا سوال ہے اگر اپنے ہی گھر میں اس طرح چوکنّا رہنا ہو تو پھر وہ اپنا گھر کیسا؟ سرائے، جنگل اور گھر میں فرق کیا رہ گیا؟اور یوں بھی اسے جنگل میں کوئی چیز گنوانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ ہزاروں روپے کی سرکاری آمدنی وصول کر کے وہ جس گاؤں میں بھی پڑا رہا جان و مال سے محفوظ رہا۔ ہاں سرائے میں البتہ ایک بار اس کے کپڑوں کی اٹیچی غائب ہو گئی تھی رہتی تھی۔ اس کے دماغ میں غیض و غضب کا لاوا سا ابلنے لگا۔ اگر یہی عالم رہا تو بہت جلد وہ قلاش ہو جائے گا اور یوں بھی وہ گھر کا لکھپتی نہ تھا لے دے کر ایک ملازمت کا سہارا تھا جس کی تنخواہ تو اس کے جیب خرچ کی بھی کفیل نہ تھی۔ محض ساڑھے تین سو روپے، سفری بھتوں کو ملا کر پانچ سو کے قریب سمجھ لیجیے۔ سو پانچ سو روپیوں میں کیا ہوتا ہے۔ روزانہ یار دوستوں کی پارٹیاں، ہر دسویں پندرہویں اعلیٰ افسران کی ضیافتیں، کلب میں برج اور رمی کی بازیاں ریس کورس اور پھر بمبئی جیسے غدار شہر کے مصارف، پانچ سو روپے تو یوں اڑتے ہیں جیسے تیز بگولے میں خشک پتے۔ ہاں جنگل کے ٹھیکیداروں سے آڑے وقتوں میں البتہ کچھ مل جاتا تھا، رشوت نہیں، یہ تو بہت کریہہ لفظ ہے، نذرانہ سمجھیے، تو بس اس نذرانے کی بدولت تمام ٹھاٹ ہوتے تھے۔

لیکن اب پچھلے چند ماہ سے اس میں بھی کوئی شیئر ہولڈر پیدا ہو گیا تھا۔ رات کو پچاس روپے سرہانے رکھ کر سویا، صبح بیس ہی ملتے ہیں۔ ٹیبل کی دراز میں ڈیڑھ سو رکھ کر، حفاظت کے خیال سے تالا لگا کر دورے پر گیا لوٹا تو تالا اسی طرح لٹک رہا ہے اور دراز صاف! بینک میں اکاؤنٹ کھولنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ محکمے کی طرف سے سیکڑوں اعتراضات اٹھ کھڑے ہوتے کہ اتنا روپیہ کہاں سے آیا۔ یار دوستوں کے پاس جمع کرانے میں بھی پول کھلنے کا خدشہ کہ نذرانے کو رشوت نہ سمجھ بیٹھیں۔ اور پھر جمع کرنے کی ضرورت بھی کیا تھی۔ کھاؤ پیو اور مست رہو، اس کا مقولہ تھا۔ روپیہ خرچ کرنے کے لیے ہوتا ہے، جمع کرنے سے بہتر تو یہ ہے کہ لیا ہی نہ جائے۔ لیکن یہ روز روز کی چوریاں۔ اس کے خیالات گھوم پھر کر پھر اسی نکتے پر مرکوز ہو گئے اور غصّے کا پارہ آخری حدوں کو چھونے لگا۔

’’ منو لال! اس نے نوکر کو آواز دی۔

ایک منٹ بعد منّو لال اپنی چکٹ دھوتی لٹکائے ٹھوڑی کھجاتا ہوا باورچی خانے سے نکل کر اس کے پاس آ پہنچا۔

’’ جی حضور! ۔۔ حکم۔ !‘‘

’’ آج پھر تیس روپے غائب ہیں۔ ‘‘ آنند نے کہا اور غور سے منّو لال کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھنے لگا۔

’’ آں ۔۔ !‘‘ حیرت سے منّو لال کا منہ پھیل گیا۔

آنند نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اندر ہی اندر اتر تا چلا گیا۔ کہیں کوئی جھجک کوئی خلش نہیں۔ صاف ستھری معصوم آتما۔ آنند خجل ہو کر باہر آ گیا۔ نہیں، منو لال چور نہیں ہو سکتا۔ پھر غریب کا کوئی خرچ بھی تو نہیں ہے۔ آنند کی نگاہیں منو لال کی چکٹ دھوتی سے الجھ کر رہ گئیں۔

’’ صاحب! اپن تو سویرے سے ہی رسوئی میں ہیں۔ ‘‘ منّو لال نے صفائی پیش کی۔

’’ ارے نہیں منّو لال!‘‘ آنند نے جلدی سے کہا۔ ’’ میں تم پر شک تھوڑی کرتا ہوں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ۔ اچھا یہ بتاؤ صبح جب میں غسل خانے میں تھا اس وقت میرے کمرے میں کون آیا تھا؟‘‘

’’ آپ کا اردلی ’عزیز‘ آیا تھا صاحب، اخبار رکھنے کے لیے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے۔ ‘‘ آنند نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ رات کو کمرے کا دروازہ بند تھا، صبح میری موجودگی میں کون نکال سکتا تھا۔ غسل کرنے کے بعد سے اب تک میں یہیں ہوں۔ بس روپے اسی اثناء میں غائب ہوئے ہیں۔ جب میں غسل کر رہا تھا۔

اچھا جاؤ منّو لال تم اپنا کام کرو۔ ہاں عزیز کو بھیجتے جانا۔

تھوڑی دیر بعد عزیز اردلی کمرے میں داخل ہوا۔

’’ تم صبح اس کمرے میں آئے تھے۔ ؟‘‘ آنند نے اس سے دریافت کیا۔

’’ جی ہاں۔ !‘‘ اردلی کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔

’’کیوں۔ ؟‘‘ آنند نے غرّا کر سوال کیا۔

عزیز گھبرا گیا۔ ہکلاتے ہوئے اس نے کہا۔

’’ جی اخبار رکھنے کے لیے۔ ‘‘

’’کہاں رکھا تھا؟‘‘

’’ تکیے کے اوپر صاحب!‘‘

’’ ہوں۔ ‘‘ آنند گہری آواز میں بولا جیسے سب کچھ سمجھ گیا ہو۔ پھر اس نے عزیز کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ اس کی پلکیں جلدی جلدی جھپکنے لگیں۔ آنند کو عزیز کی آتما ندامت کے بار سے دبی، سکڑی سمٹی ایک کونے میں دبکی نظر آئی۔ اس نے عزیز کے لباس پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی۔

’’ کتنی تنخواہ ملتی ہے تمھیں۔ ؟‘‘

’ جی آپ ہی تو دیتے ہیں۔ ‘‘ وہ تقریباً ہکلا کر بولا۔

’’میں جو پوچھتا ہوں اس کا جواب دو۔ ‘‘

’’اکتالیس روپے حضور۔ !‘‘

اور تم ساٹھ روپے کا اونی سوٹ پہنتے ہو۔ ‘‘

’’ جی۔ جی۔۔ ! ‘‘ اردلی ایک دم بوکھلا گیا

’’میں تمھیں برخاست کرتا ہوں۔ ‘‘

’’ صاحب میرا قصور۔۔ ! ‘‘ روتے ہوئے عزیز نے دریافت کیا۔ آنند کو ایک دم تاؤ آ گیا۔

’’ کیوں کہ تو نے اخبار تکیے پر رکھا تھا! بھول گیا وہ وقت کمینے! جب پھٹے حالوں نوکری کے لیے گڑ گڑاتا ہوا آیا تھا۔ اکتالیس روپے تنخواہ پا کر ساٹھ روپے کا کوٹ پہننے لگا ہے سور۔ دور ہو جا میری نظروں کے سامنے سے۔۔ چل ہٹ!‘‘

’’ میں نے کہا آج شام تک تو تیار ہو جاؤ گے نا!‘‘ طنزیہ لہجے میں مسٹر قریشی نے اُسے پُکارا۔ واقعی دیر کافی ہو گئی تھی۔ کلب کا وقت ہو چکا تھا۔ جلدی سے تیار ہو کر آنند نکل آیا۔

’’بڑی دیر کر دی یار۔ !‘‘ قریشی نے شکایتاً کہا۔ ’’ آج تو بڑے بڑے کھلاڑی ہوں گے۔ ‘‘

’’ ہم کس بڑے کھلاڑی سے کم ہیں۔ !‘‘ آنند نے جواب دیا۔

’’ وہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں۔ انھیں انتظار ہو گا ہم لوگوں گا۔ ‘‘

قریشی کی کار پر دونوں کلب کی طرف ہو لیے۔ راہ میں قریشی نے دریافت کیا۔

’’ مسٹر آنند یہ تو بتائیے آپ کا سابق اردلی عزیز کیسا آدمی ہے؟‘‘

’’ کیوں ۔۔ !‘‘

’’ یونہی پوچھ رہا ہوں ۔۔ کل آپ کا خانساماں۔ کیا نام ہے اس کا۔ منّو لال، ہاں منو لال اسے لے کر میرے پاس آیا تھا کہ میں اسے اپنے یہاں نوکر رکھ لوں۔ ‘‘

’’ آدمی تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ آنند کہتے کہتے رک گیا۔ اگر قریشی سے چوری کی بات بتاتا ہے تو بات سے بات نکلے گی۔ بتلانا پڑے گا کہ ٹھیکیدار وں سے نذرانے میں ملنے والا روپیہ عزیز اکثر غائب کر دیتا تھا۔ اور پھر وہی خدشہ سامنے تھا کہ قریشی نذرانے کو رشوت نہ سمجھ لے۔ اونہہ۔ مرنے دو کمبخت کو، آپ مزا چکھے گا۔

’’ بھئی وہ ذرا اکھڑ قسم کا آدمی ہے، اسی لیے نکال دیا میں نے، ویسے کوئی خاص برا نہیں ہے۔ ‘‘ ٹالنے کی غرض سے آنند نے کہہ دیا۔

’’ تو پھر ٹھیک رہے گا۔ مجھے مزدوروں سے کام لینے کے لیے ایک میٹ کی ضرورت بھی ہے اس جگہ کے لیے ایسا ہی آدمی ٹھیک رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کا ٹھیکہ لیا ہے نا میں نے۔ ‘‘

اس طرح گفتگو کا رخ دوسرے معاملات کی طرف مڑ گیا۔ قریشی اور آنند کلب پہنچے تو واقعی وہاں بڑے بڑے کھلاڑی جمع تھے۔ کپور برج کا مانا ہوا استاد، آنند سے شیک ہینڈ کرتے ہوئے ایسے پر اسرار انداز میں مسکرایا کہ آنند کو پوچھنا پڑا۔

’’ کیوں بھئی؟ کیا بات ہے؟بڑے شگفتہ نظر آتے ہو آج تو۔ ‘‘

’’ یہ بھی تم نے ایک ہی کہا۔ ‘‘ کپور قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔ ’’ کیا تم نے کبھی پژمردہ بھی دیکھا ہے مجھے۔ ؟‘‘

’’ وہ تو ٹھیک ہے۔ ‘‘ آنند نے کہا۔ ’’ پھر بھی آج کوئی خاص بات ہے ضرور۔ ‘‘

’’ اجی ویسے ہی۔ ابھی تھوڑی دیر قبل جوشی جی برج میں بُری طرح ہار کر گئے ہیں۔ انھیں کی بوکھلاہٹ کے تصور سے ہنسی آ گئی۔ ‘‘

’’ تو یہ بات ہے۔ ‘‘ آنند نے بھی قہقہہ بلند کیا۔ ساتھ ہی اسے اپنی شبِ گذشتہ کی شکست یاد آ گئی۔ پچھلی رات کپور نے اس سے تقریباً دو سو روپے اینٹھے تھے۔ اس نے یکلخت سنجیدہ ہو کر کہا۔

’’ برج تو نہیں، رمی میں، میں تمھیں چیلنج کرتا ہوں۔ ‘‘

’’ یہ دم خم ہیں ؟‘‘کپور نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ رمی میں ہی سہی۔ میں ہر طرح خدمت کو تیار ہوں۔ مگر ایک بات پوچھوں بُرا تو نہ مانو گے۔ ؟‘‘

’’ پوچھ کر دیکھو۔ ‘‘

’’ کس ٹھیکیدار نے مٹھی گرم کر دی آج۔ ؟‘‘

’’ کیا بکتے ہو۔ ! آنند سچ مچ گرم ہو گیا۔

’’ خیر نہیں بتاتے تو جانے دو، ‘‘ کپور بدستور مسکراتا رہا۔ ’’ آؤ کھیل جمے۔ ‘‘

جھنجھلایا ہوا آنند کھیلنے بیٹھ گیا اور پہلی ہی رینک پر کافی پوائنٹ سے ہارا۔

’’ لائیے جناب داہنے ہاتھ سے مبلغ ایک سو بارہ روپے آٹھ آنے۔ ‘‘ کپور نے ہنس کر کہا۔

’’ ہاں ہاں۔ یہ لو!‘‘ کھسیانی ہنسی ہنس کر آنند نے کوٹ کی داہنی جیب میں ہاتھ داخل کیا، اور پھر جلدی سے بائیں جیب میں۔ پھر باری باری اس نے کوٹ اور پینٹ کی تمام جیبیں دیکھ ڈالیں۔ اس کی پیشانی عرق آلود ہو گئی اور چہرہ شرم و ندامت کی وجہ سے چقندر کی طرح لال پڑ گیا۔ کل ہی شام بہاری ٹھیکیدار سے اسے تین سو روپیے ملے تھے اور اس نے نوٹ کوٹ کی جیب میں ڈال لیے تھے لیکن اب۔۔

’’ کیوں صاحب؟ کیا بات ہے؟ بیٹھے تو بڑے دم خم سے تھے، جیب میں کچھ نہیں کیا؟‘‘ کپور نے تیر چلایا۔

’’ ساری مسٹر کپور؟‘‘ آنند نے شرم سے کپکپائی ہوئی آواز میں کہا۔ آج روپیے لانا ہی بھول گیا۔ ‘‘

’’ خیر۔ کوئی بات نہیں مل جائیں گے۔ ‘‘کپور نے بہ ظاہر دلاسہ دیتے ہوئے دوسرا تیر چھوڑا۔ ’’ اپنا تو بس اتنا کہنا ہے کہ انسان کو کھیلتے وقت پاکٹ سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ ‘‘

اس فقرے پر پاس بیٹھے ہوئے تماشائیوں نے قہقہے بلند کیے اور آنند شرم سے سر جھکائے کلب سے باہر نکل آیا۔ گھر پہنچا تو شرم کی جگہ غصّہ لے چکا تھا۔ آخر گئے کہاں وہ تین سو روپیے۔ عزیز کو نکال دینے کے بعد تین چار دن کے لیے کچھ سکون ملا تھا کہ پھر وہی بلا گلے آ پڑی۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے منّو لال کر بلایا۔

’’ منّو! پھر وہی حرکتیں شروع ہو گئیں۔ !‘‘

’’کیسی حرکتیں حضور۔ ؟‘‘

’’ میری جیب سے پھر تین سو روپیے نکال لیے کسی نے!‘‘ اس نے شک و شبہ کے ساتھ منّو لال کے چہرے کی طرف دیکھا۔ کہیں کچھ نہیں۔ ندامت کی کوئی شکن، پسینے کی کوئی بوند اس کی پیشانی پر نظر نہ آئی۔ وہی بھولا پن، بے باکی اور معصومیت جو ضمیر کی پاکیزگی کی ضامن تھی۔ آنند نے سوچا یہ شخص تو چور ہو ہی نہیں سکتا۔ کس طرح معصوم نظروں سے تاکتا ہے۔ ضمیر میں کہیں کوئی کسک ہو تو نظریں خود بخود جھک جاتی ہیں۔ چھی۔ میں بھی کیسے سیدھے سادے آدمی پر شک کرتا ہوں۔

’’ ارے ہاں منّو!‘‘ اُس نے یاد آنے پر اچانک دریافت کیا۔ ’’ کیا تم مسٹر قریشی سے عزیز کی سفارش کرنے گئے تھے؟‘‘

’’جی ہاں۔ کیوں۔ ؟‘‘

’’ کیوں۔ ؟ کیا تمھیں معلوم نہ تھا کہ میں نے اسے ملازمت سے علیحدہ کیا ہے؟‘‘

’’ معلوم تو تھا سرکار۔ ‘‘منّو لال نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔ ’’ لیکن اس کے گھرانے کی دشا بہت خراب تھی وہ لوگ بھوکوں مر جاتے اور پھر یقین کے ساتھ کہا بھی تو نہیں جا سکتا کہ چور وہی تھا۔ ‘‘

’’ چور نہیں تھا تو ۔۔ ۔۔ ‘‘ آنند نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’اکتالیس روپے تنخواہ پا کر ساٹھ روپے کا کوٹ کیسے پہنتا تھا۔ ؟‘‘

’’ ارے صاحب! وہ کوٹ؟‘‘منّو لال جلدی سے بولا۔ ’’وہ تو ٹھیکیدار اسلم خاں نے بنوا دیا تھا اسے۔ ‘‘

’’آں۔ !‘‘ آنند سوچ میں پڑ گیا۔ ’’ تو یہ بات تھی۔ تبھی تو میں حیران تھا کہ اردلی تبدیل کر دینے پر بھی یہ چوریوں کا سلسلہ کیوں جاری ہے۔ اور یہاں اب ہر اردلی چور تھوڑے ہی ہو گا۔ ‘‘

’’ ٹھیک فرمایا حضور نے۔ ‘‘ منو لالا نے گرہ لگائی۔

’’ خیر تو پھر میں خود ہی قریشی سے عزیز کے لیے سفارش کر دوں گا۔ آنند نے کہا۔ ’’ لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ چوریاں کون کر رہا ہے؟آج مجھے کلب میں شرمندگی اٹھانی پڑی۔ ڈوب مرنے کی بات تھی۔ خیر تم تو جاؤ۔ ‘‘

منو لال کے جانے کے بعد آنند بڑی دیر تک سوچتا رہا۔ دوسرے دن اس نے جھاڑو دینے والی مہترانی سے لے کر پانی بھرنے والے بوڑھے تک تمام ملازم تبدیل کر دیے!

۔۔ ۔۔ ۔۔

پندرہ روز تک اطمینان کی زندگی گزارنے کے بعد پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ آنند کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ معاملہ وہی نذرانوں کے روپیوں کی صفائی کا تھا۔ لیکن گزشتہ تمام واقعات سے سنجیدہ تر۔ اس کی مرحوم بیوی کی بیوہ بہن نے، جسے وہ اپنی بیوی سے کم نہ سمجھتا تھا۔ اپنی سالگرہ کے موقع پر اس سے ایک جڑاؤ نیکلس کا مطالبہ کیا تھا اور اب اس کی سالگرہ کا دن بالکل قریب آ گیا تھا۔

آنند نے گزشتہ دس پندرہ دن کی آمدنی روک کر تقریباً ڈیڑھ ہزار روپیے جمع کیے تھے لیکن اُس دن جب وہ نکلس خریدنے کی غرض سے نکلا تو للی جیولرس کے یہاں سے ناکام و نادم ہو کر واپس لوٹنا پڑا کیونکہ بکس سے نکال کر وہ جو پھولا ہوا منی بیگ ہمراہ لایا تھا وہ محض ردّی اخبار کے تراشوں سے پُر تھا۔

افسوس، شرمندگی، حیرت، غصّہ اور نہ جانے کن کن جذبات میں ڈوبتا ابھرتا وہ اپنے کوارٹر کے دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا کہ سمتِ مخالف سے جھپٹا ہوا آنے والا شخص اس سے ٹکرا گیا۔ ہڑبڑا کر آنند نے سامنے دیکھا تو محلے کا نادار، لنگڑا اور بوڑھا برہمن برج موہن ایک سُرخ رنگ کی تھیلی داہنے ہاتھ میں تھامے، بوکھلایا ہوا، پیٹھ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ آنند کو اچانک جیسے بجلی کا جھٹکا سا لگا تو یہ ہے وہ چور۔ !

اس نے لپک کر ایک ہاتھ سے لنگڑے کا گلا دبوچ لیا اور دوسرے سے تھیلی چھین لی۔ برہمن نے چھٹکارہ پانے کی بہت کوشش کی، لیکن ضعیف اور پھر لنگرا۔ جھکولے کھا کھا کر رہ گیا۔ آنند نے تھیلی میں جھانک کر اطمینان کر لیا نکلس کے لیے جمع کیے ہوئے روپیے اس میں موجود تھے، چنگاریاں برساتی ہوئی آنکھوں سے بوڑھے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر وہ چلایا۔

’’کیوں بے!کھوسٹ! سالے! یہ کہاں ملے تجھ کو؟‘‘

’’ ایس۔ ڈی او صاحب! ‘‘ بوڑھے کے منہ سے فرطِ دہشت میں آواز نہ نکل رہی تھی۔ ’’ میں نے چوری نہیں کی ہے!‘‘

’’ تو پھر کیا ساہو کاری کی ہے؟‘‘ آنند نے ایک بھرپور چپت اس کے گال پر رسید کیا۔

’’ جواب میں منّو لال نے آ کر اس کے ہاتھوں سے روپیوں کی تھیلی جھپٹ لی اور دہاڑ کر بولا۔

’’ ہاں ساہوکاری کی ہے۔ میں نے دیے ہیں یہ روپیے اس کو!‘‘

بوڑھے کی گردن سے آنند کی گرفت یوں ڈھیلی پڑ گئی جیسے اس کی ساری نسیں بے سکت ہو کر جھول گئی ہوں۔

’’ کیا۔ ؟ کیا کہا تم نے منّو۔ ؟‘‘

’’ ہاں صاحب میں نے دیے یہ روپیے برج موہن کو۔۔ اس بوڑھے نادار برہمن کو اس لنگڑے آدمی کو۔۔ دو کنواری لڑکیوں کو چتا میں پھونکنے کے بعد اب یہ اپنی تیسری بیٹی کو شادی کی پالکی میں بٹھلا کر وداع کرنا چاہتا ہے۔ سمجھے صاحب اور اس کے لیے اسے جہیز دینا پڑے گا۔ اور آپ کے رشوت کے روپیوں کا اس سے اچھا اور کیا مصرف ہو سکتا ہے کہ ایک لنگڑے، غریب، بوڑھے، اپاہج برہمن دیوتا کے کام آئیں۔ ‘‘

اب تک آنند مورت کی طرح ہکّا بکّا کھڑا یہ بکواس یوں سن رہا تھا جیسے اسے لقوہ مار گیا ہو لیکن رشوت کا نام سن کر اس کا خون سا کھول گیا۔ اُف! اتنی جرأت اس کمبخت کی۔ نذرانے کو رشوت کہتا ہے حرامزادہ۔ چور کہیں کا۔ دو ٹکے کا آدمی۔

منّو لال کو ناک پر مارنے کے لیے اس نے پوری قوت سے گھونسہ تانا اور اور پھر سر کھجلانے لگا۔

ہے بھگوان! اقبال جرم کے بعد بھی وہی معصومیت، وہی ضمیر کی لعنت سے آزاد آتما۔ دیکھو تو سور کو کس طرح آنکھ ملائے بے باکی سے تنا کھڑا ہے!!

( مطبوعہ ’’نکہت‘‘ الٰہ آباد)

(۱۸۵۷ء)

٭٭٭

 

 

 

کُتّے

 

نئی سڑک سے داہنی طرف روٹی والی گلی میں مڑ کر دس بارہ قدم چلنے کے بعد بائیں طرف گھوم جائیے بس سامنے نکڑ پر آپ کو میری پان کی دوکان دکھلائی دے گی۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میری دوکان اس شہر کی سب سے مشہور، خوش گلو اور حسین طوائفوں، نسرین اور پروین کے مکان کے عین پچھواڑے ہے اور اسی رعایت سے میری کافی بکری ہو جاتی ہے۔ !

بات یہ ہے کہ ان طوائفوں کے مکان کا صدر دروازہ مول گنج کی شاندار سڑک مسٹن روڈ پر ہے جو ہر اس خاص و عام کے لیے کھلا رہتا ہے جو بائی جی کا مقررہ نذرانہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو لیکن اس دروازے سے عام طور پر بگڑے دل نوجوان رئیس زادے ہی آتے ہیں جنھیں اپنی عزت و ناموس کی چنداں پروا نہیں ہوتی اور جن کی لمبی لمبی جیبوں میں باپ کی بے ایمانی سے کمائی ہوئی دولت ٹھونسی ہوتی ہے، جسے خرچ کرنے کے لیے وہ ان طوائفوں کے کوٹھوں کے چکر لگاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کر کے موذی امراض خرید کر لے جاتے ہیں اور پھر ان کے علاج کے سلسلے میں خوب دریا دلی سے روپیہ صرف کرتے ہیں۔ آخر کوئی تو صورت ہونی ہی چاہیے دن دونی رات چوگنی ہو جانے والی دولت کو کم کرنے کے لیے۔

ہاں تو وہ مسٹن روڈ پر کھلنے والا دروازہ انھیں رنگین مزاج نوجوانوں کے لیے ہے لیکن اس کے علاوہ اس تنگ اور متعفن گلی میں بھی اس مکان کا ایک دروازہ ہے۔ اس چور دروازے سے مکان میں وہ رنگے سیار اور چھپے رستم داخل ہوتے ہیں جن کی پاکیزگی اور پارسائی کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ اس دروازے سے میں نے ایسے ایسے بزرگوں، پنڈتوں اور مولویوں کو اندر جاتے دیکھا ہے جن کی ساری عمر انسانیت کے تحفظ میں گزری ہے۔ جو تمام دن لوگوں کو خدا کی طرف راغب ہونے کے مشورے دیتے رہتے ہیں، جن کے لبوں پر ہمیشہ زمانے کی بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ کی شکایات ہوتی ہیں۔ !

وہ یہاں اس گلی میں دبکتے سہمتے داخل ہوتے ہیں، مجھ سے پان خرید کر کھاتے ہیں اور ایک کے بجائے چار دے جاتے ہیں تاکہ میں ان کی پارسائی کا بھانڈا نہ پھوڑوں۔ پھر وہ اس چور دروازے پر جا کر چوکنی اور محتاط نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتے ہیں اور یہ اطمینان ہو جانے پر کہ کوئی غیر ان کی حرکات و سکنات کی نگرانی نہیں کر رہا ہے، وہ اندر چلے جاتے ہیں۔ جانے تب انھیں اس خدا کا خیال کیوں نہیں آتا جس کے بارے میں خود بڑے تیقن اور دعوے کے ساتھ لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ وہ ہر جگہ موجود ہے اور اپنی ہزاروں آنکھوں سے بندوں کے ڈھکے چھپے اعمال بلکہ ان کے خیالات تک معلوم کر لیتا ہے۔

لیکن مجھے ان باتوں سے کوئی غرض نہیں، مطلق واسطہ نہیں۔ اس قسم کے ہزاروں راز میرے سینے میں دفن ہیں۔ میرے حافظے میں اس طرح کے بیسیوں پارسا موجود ہیں کہ جن کی عزت اگر میں چاہوں تو پل پھر میں خاک میں مل سکتی ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں چاہتا۔ کیوں چاہوں ؟۔۔ اپنی روزی پر جان بوجھ کر کیوں لات ماروں ؟ اس سے زیادہ منفعت بخش اور کوئی دوسرا کام نہیں۔ مجھے پیٹ بھر کھانے کو ملتا ہے۔ شاندار، پر ہجوم سڑکوں پر بڑی بڑی پان کی دوکانوں پر دن بھر میں جتنی آمدنی ہوتی ہے اس سے کچھ زیادہ ہی میں رات کے صرف چند گھنٹوں میں کما لیتا ہوں۔ زندگی آرام سے گزر رہی ہے پھر مجھے کسی سے کیا لینا ہے۔ اگر واقعی ایک دن میدانِ حشر میں سب کو اپنے اپنے اعمال کے لیے خدا کے سامنے جوابدہ ہونا ہے تو پھر یہ لوگ خود ہی اپنی صفائی پیش کریں گے۔ مجھے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔

اکثر اسی قسم کی طفل تسلیوں سے میں اپنے دل کو بہلاوے دیا کرتا ہوں لیکن یہ نادان کسی طرح نہیں سمجھتا کاش کہ یہ دل میرے سینے میں نہ ہوتا اور اگر انسان کے سینے میں دل کا ہونا کچھ ایسا ہی ضروری ہے تو پھر کم از کم اس کمبخت دل میں وہ نازک گوشہ نہ ہوتا جس میں انسانیت کے لیے درد مچلتا ہے۔

ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے، بمشکل دو ہفتے گزرے ہوں گے اسی روٹی والی گلی میں ایک موٹی توند اور نورانی ڈاڑھی والے مولانا دبے پاؤں داخل ہوئے۔ یہ شہر کے مشہور عالم شرافت اللہ تھے۔ میری دوکان کے سامنے سے یونہی نکلے جا رہے تھے کہ میں نے آواز دی۔

’’ مولانا صاحب قبلہ! پان نہ کھائیے گا کیا۔ ؟‘‘

وہ چونک کر مڑے، اپنی قیمتی عینک کے شیشوں سے مجھے گھوڑا، اس وقت ان کے چہرے پر غضب کا جلال تھا۔ قومی جلسوں کے اسٹیج پر اس عالم میں انھیں دیکھ کر اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ جاتے تھے، لیکن میرا تو روز ہی کا یہ دھندا ہے، اگر اسی طرح سب سے مرعوب ہو جایا کروں تو بھوکوں ہی مر جاؤں۔ میں نے جلدی سے ایک گلوری تیار کی اور دوکان سے اتر کر ان کے پاس گیا۔ پان انھیں دیتے ہوئے دبی آواز میں، میں نے ان سے کہہ دیا۔

’’ محترم! پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، میں تو آپ کا خادم ہوں انھوں نے گلوری لے کر منہ میں داب لی اور میری مٹھی میں دو روپیے کا نوٹ تھماتے ہوئے دھیرے سے بولے۔

’’ دیکھو کسی سے کچھ بتانا نہیں !‘‘

میں نے جواب دینے کی ضرورت نہ سمجھی، روپیے جیب میں ڈال کر مسکراتا ہوا اپنی دوکان پر آ بیٹھا۔ مولانا شرافت مکان میں داخل ہو چکے تھے، چند ہی لمحے بعد وہ مجھے اوپر نسرین کے بالا خانے پر نظر آئے جس کی ایک کھڑکی میری دوکان کے عین سامنے کھلتی تھی میں دوکان میں بیٹھا ہوا سب کچھ دیکھتا رہا۔ نسرین نے مسکرا کر مولانا کا استقبال کیا اور انھیں مسند پر بٹھلایا۔ تھوڑی دیر بعد گلوریاں بنا کر خاصدان مولانا کے سامنے پیش کیا گیا اور میں نے دیکھا گلوری مولانا کے منہ میں تھی۔ اور طشت میں دس کا ایک ہرا ہرا نوٹ پھڑپھڑا رہا تھا۔ پھر اوپر گانا شروع ہو گیا۔

دیکھ کر شیخ کو رند بولے ۔۔ خیریت! کیسے تشریف لائے؟

اور میرے کاروباری ذہن میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ یہ کیسی دنیا ہے؟ ایک پان عام دوکان دار بیچتا ہے تو اسے پانچ ہی نئے پیسے ملتے ہیں۔ میں اس تنگ و متعفن روٹی والی گلی میں اس پان کے دو روپے تک وصول کر لیتا ہوں۔ نسرین کے بالا خانے پر پہنچ کر اسی پان کی قیمت دس روپے ہو جاتی ہے۔ آخر کیوں ہے یہ تفریق؟ پان سپاری۔ چونا، کتھا، الائچی اور تمباکو سب کچھ وہی ہوتا ہے، صرف مقامات مختلف ہوتے ہیں اور قیمتیں گھٹ بڑھ جاتی ہیں ! لیکن یہ تفریق کہاں نہیں ہے؟ عام انسانوں میں تو خیر یہ ہے ہی۔ لیکن اس روٹی والی گلی میں مولگنج کی طوائفوں کے بالا خانوں پر بھی تفریق موجود ہے۔ سنا ہے نسرین اور پروین تو سو روپے سے نیچے گاہک سے بات ہی نہیں کرتیں، اس کشمیری لونڈیا کو جسے شیر و صرف پچیس روپیوں میں خرید کر لایا تھا، رات بھر کے پچیس روپے ملتے ہیں۔ لیلا دس روپیوں پربھی رضا مند ہو جاتی ہے۔ ڈھلتی ہوئی سرداراں کو پانچ پر ٹرخا یا جاتا ہے اور وہ بیچاری نیپالی چھوکری جو اس تاریک کوٹھری میں رہتی ہے، اسے تو کوئی ایک روپیہ میں بھی نہیں پوچھتا۔ شاید اس لیے کہ اس کی ناک چپٹی ہے، آنکھیں ویران ہیں اور چہرے پر چیچک کے داغ ہیں ! لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟ ہے تو وہ نیپالن بھی ایک عورت ہی، عورت نہ کہیے رنڈی کہہ لیجیے۔ بہر حال اصل مقصد تو شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے پھر اس کے لیے بھی الگ الگ نرخ کیوں مقرر ہیں ؟ انسان نے ہر شعبے میں اتنی قدریں کیوں مقرر کر لی ہیں ؟

میں نجانے کب تک اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں سوچتا رہا، خیالات ذہن میں چمگادڑوں کی طرح چکر کاٹتے رہے پھر اچانک اوپر بالا خانے پر ایک بتی بجھ گئی اس سے متصل روشن کمرے میں اب شرافت مولانا نہیں تھے، نسرین بھی غائب تھی اور پروین چند نوجوانوں کے سامنے ناچ رہی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد بغلی کمرے کی بتیاں جگمگا اٹھیں۔ مولانا نسرین کے ساتھ پہلے کمرے میں آتے نظر پڑے اور پروین ایک نوجوان کے ساتھ بازو والے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد مولانا شرافت پچھلے دروازے سے جھانک کر اطمینان کر لینے کے بعد گلی میں آ گئے۔ میں نے ایک پان پھر پیش کیا جسے چباتے ہوئے انھوں نے جیب ٹٹولی اور پھر مسکرا کر مجھے جھینپی ہوئی نظروں سے دیکھ کر بولے۔ ’’ بھئی تمھارا یہ روپیہ اُدھار رہا۔ پھر لے لینا!‘‘

تین دن بعد مولانا پھر تشریف لائے، پان کھا کر دو روپیے مجھے دیے۔ معاوضے میں راز داری کا وعدہ لیا اور اوپر چلے گئے۔ بالا خانے پر ایک کمرے کے قمقمے پھر بجھ گئے اس بار مولانا نے پروین کو پسند فرمایا تھا۔

پروین کو جو نسرین کی بڑی بہن تھی۔ سگی بہن۔ ابھی تین دن قبل ہی مولانا نسرین کے ساتھ دادِ عیش دے رہے تھے، اور آج اس کی بہن سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ خدایا یہ کیسا اندھیر ہے! میرا دل اس طرح مچلتا رہا۔ اور اوپر کمرے کی تاریکی میں دبی دبی سسکیاں ابھرتی رہیں۔ چوڑیوں کی کھنک میرے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلتی رہی اور جب مجھ سے برداشت نہ ہو سکا تو میں دوکان بند کر کے گھر چلا آیا۔

دو دن بعد جب گھر میں کچھ کھانے کو نہ رہا تو مجبوراً پھر دوکان کھولنی پڑی دیر تک بیٹھا انتظار کرتا رہا لیکن اس چور دروازے سے کوئی گاہک بالا خانے پر نہ گیا۔ اوپر بالا خانے پر محفل رقص و سرود گرم تھی تقریباً ایک بجے رات کو مجھے مولانا شرافت کی نورانی شکل نظر آئی۔ پان کھا کر انھوں نے میری مقررہ فیس ادا کی اور کوٹھے پر چلے گئے لیکن پانچ منٹ کے اندر ہی وہ گھبرائے ہوئے دوبارہ پچھلے دروازے سے باہر نکلے۔ میں حیران تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ پان پیش کرنے کے بعد بہت ادب سے پوچھا۔ ’’ کہیے قبلہ! کیا بات ہے؟بھیڑ زیادہ ہے کیا اوپر؟‘‘

انھوں نے پانچ کا ایک نوٹ دیتے ہوئے الجھن کے ساتھ کہا۔

’’ کچھ نہیں بھئی! کچھ نہیں۔ ‘‘

وہ بڑھنے ہی لگے تھے کہ میں نے ٹوک دیا۔

’’مولانا قبلہ ! کیا اب آپ کو خادم پر اعتبار نہیں رہا۔ ؟‘‘

انھوں نے مجھے مغموم نگاہوں سے گھورا اور پھر بولے۔

’’ کیا بتاؤں ؟ دو دن سے موقعہ ہی نہیں ملتا۔ کل آیا تھا لیکن لوٹ جانا پڑا۔ میرا چھوٹا بھائی موجود تھا اور آج پھر لوٹا جاتا ہوں۔ ‘‘

’’ میرا جیسے کسی نے د ل نوچ لیا ہو، ہمت کر کے پوچھ بیٹھا۔

’’ اور آج کیوں لوٹ رہے ہیں آپ؟‘‘

’’ آج کمبخت میرا بڑا لڑکا حاضر ہے! اب صبح سمجھوں گا دونوں سے۔ آوارہ ہوتے جا رہے ہیں حرامزادے!‘‘

وہ بڑبڑا تے ہوئے چلے گئے۔ بالا خانے پر ایک کمرے کی بتی بجھ چکی تھی۔ پروین ہولے ہولے کہہ رہی تھی۔

’’ ارے توبہ! میرا ہاتھ ٹوٹا جا رہا ہے۔ ‘‘

’’ اور قریب سرک آؤ میری جان!‘‘

میں نے محسوس کیا جیسے زور سے دھڑکتا ہوا دل اب سینے سے باہر آ رہے گا۔ کیا انسان اس حد تک گر چکا ہے، باپ، بیٹے، بھائی، ماں، بہن سب کی تمیز اٹھ چکی ہے کیا؟ جنسی لذّت حاصل کرنے کی دھن میں یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ جنس مخالف رشتے میں ہے کیوں ؟

یا اللہ ! یہ اشرف المخلوقات ہیں یا کتّے؟

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

مِس فلاں۔ مسٹر فلاں

 

جانِ تمنّا!

آخر کئی دن تک ذہنی کوفت میں مبتلا رہنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ اس خط میں تمام باتیں تم پر ظاہر کر دوں۔ آج میں تم سے کچھ نہیں چھپاؤں گا۔

تمھیں معلوم نہیں کہ مجھے قریب سے جاننے والے، لڑکیوں سے شناسائی پیدا کرنے میں ماہر سمجھتے ہیں چنانچہ اس دن کالج کے گیٹ سے نکلتے ہوئے جب میں تمھاری سائیکل سے ٹکرا گیا تھا اور تم مجھ سے بڑی دیر تک معذرت طلب کرتے رہی تھیں تو یہ میری سوچی سمجھی اسکیم کا افتتاح تھا، میری جس بوکھلاہٹ کو تم نے معصومیت سے تعبیر کیا ہو گا، وہ محض ایکٹنگ تھی۔ اگر تم کبھی رضیہ، سلطانہ، اوشا، سلمیٰ اور پشپا کے زیادہ قریب رہی ہوتیں تو وہ سب تمھیں بتلاتیں کہ میں کس طرح پہلے پہل ان کی سائیکلوں اور بعد میں ان کی زندگیوں سے ٹکرایا تھا چنانچہ نتیجے میں دولتمند باپ کی بیٹی رضیہ قبل از وقت بیاہ دی گئی، سلمیٰ اپنے ڈرائیور کے ساتھ غائب ہو گئی، اوشا وہاں ہے جہاں شریف جاتے ہوئے شرماتے ہیں اور پشپا سورگباش ہو گئی، سلطانہ آج بھی ٹی۔ بی سینی ٹوریم میں خون تھوک رہی ہے اور آج جب میں دل کھول کر سچ بولنے پر اتر آیا ہوں تو یہ بھی بتلا دوں کہ یہ لڑکیوں سے سائیکلوں کی ٹکر سے جان پہچان پیدا کرنے والا نسخہ میرے چند تیر بہدف نسخوں میں سے ایک ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، صرف اسی ایک نسخے سے اندازہ کر لو میری زندگی میں کتنی لڑکیاں آئی ہوں گی۔

چنانچہ میں تمھاری سائیکل سے ٹکرایا تھا تو تم بڑی دیر تک معذرت طلب کرتے رہنے کے بعد چلی گئی تھیں اور مجھے واقعی بڑی مسرت ہوئی تھی۔ لیکن یہ مسرت اس پہلی نظر والے تیر نیم کش کی خلش سے جس کا چرچا اردو شاعری میں عام ہے، قطعی جداگانہ چیز تھی۔ زیادہ سے زیادہ اسے اس بچے کی خوشی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس کے جال میں ایک اور خوبصورت تتلی آ پھنسی ہو اور پھر اسی دن شام کو میں نے تمھارے ملازم کے ہاتھ سے ایک کتاب، مجھے تم سے محبت ہے‘‘ یہ کہہ کر تمھارے پاس بھجوائی تھی کہ یہ تمھارے سائیکل کے کیریر سے گر پڑی تھی حالانکہ میں نے وہ کتاب اسی دن ایک کباڑیے کی دوکان سے تین آنے میں خریدی تھی۔

دوسرے دن شام کو جب تم پھر کالج کے گیٹ سے نکل رہی تھیں میں نے دور ہی سے اس طرح ڈگمگانا شروع کر دیا جیسے واقعی تم مجھ پر سائیکل چڑھانے آ رہی ہو۔ تم بڑے پیارے انداز میں مسکرا کر سائیکل سے اتر پڑیں۔ عام لوگ ایسے حالات میں پٹ سے عاشق ہو جاتے ہیں لیکن تم یقین کرو مجھے تمہارا مسکرانا تو اچھا لگا، تم سے محبت نہیں ہوئی۔

’’ آپ سائیکل سے بہت ڈرتے ہیں ؟‘‘ تم نے ذرا جھجکتے ہوئے پوچھا۔

’’جج۔ جی۔ ‘‘ میں نے جان بوجھ کر ہکلاتے ہوئے کہا۔ ’’ ایسی کوئی بات نہیں صرف آپ کی سائیکل سے ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’ اوہ۔ !‘‘ تم کچھ بے تکلف ہو کر ہنسیں۔ میں گردن جھکا کر آگے بڑھ گیا۔ لیکن مجھے یقین تھا تم مجھے پکارو گی۔

وہی ہوا بھی۔

’’ جی ذرا سنیے۔ !‘‘ تم نے مجھے آواز دی۔ میں پلٹ کر کھڑا ہو گیا تھوڑی دیر تک تم میرے بڑھنے کا انتظار کرتی رہیں پھر خود ہی میرے قریب آ گئیں۔

’’ یہ کتاب شامو کو آپ نے دی تھی؟‘‘ تم نے ’’ مجھے تم سے محبت ہے‘‘ کیریر سے کھینچتے ہوئے پوچھا۔

’’ جی ہاں۔ ‘‘

’’ لیکن میں ایسی لغو کتابیں نہیں پڑھا کرتی۔ ‘‘

’’ یہ مجھے اس جگہ ملی تھی جہاں کل ہمارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ ‘‘

’’ اوہ ایکسیڈنٹ!‘‘ تم خفیف سا مسکرائیں۔ ’’ تو یہ میری نہیں ہے۔ لیجیے۔ ‘‘ تم نے کتاب میری طرف بڑھائی اور میں نے اپنا ہاتھ اس طرح چونک کر کھینچا جیسے زاہد پاکباز جامِ شراب سے بچکتا ہے۔

’’ نہیں مس۔۔ ۔۔ ؟‘‘

تم نے اپنا نام بتلایا ( جو میں یہاں نہیں لکھوں گا) میں نے کہا۔

’’ نہیں مِس فلاں ! یہ کتاب میں نہیں رکھ سکتا۔ میرے ساتھی مجھے چھیڑیں گے۔ ‘‘ تم نے میری معصومیت پر ایک قہقہہ بلند کیا اور کتاب کیریئر میں دبا لی۔ اچھی طرح یاد ہے رخصت ہوتے ہوئے تم نے زیر لب کہا تھا۔

’’ کتنے عجیب ہیں آپ۔۔ ‘‘

اور میں نے بہ ظاہر شرما کر گردن جھکاتے ہوئے دل میں سوچا تھا۔ ’’ کتنی معصوم ہو تم مِس فلاں !‘‘

پھر تم میرے قریب آتی گئیں اور میں روز بروز انٹلکچوئیل ہوتا گیا۔ میرے بالوں سے تیل غائب ہوتا گیا اور کپڑوں سے کریز معدوم ہوتی رہی لیکن اس حالت میں بھی میں نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ داڑھی ہمیشہ چکنی رہے اور کپڑے قیمتی استعمال کیے جائیں۔ اس زمانہ میں رضیہ ہونے والے بچے کا حوالہ دے کر بری طرح میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور مجھے شادی سے بچنے کے نت نئے بہانے تراشنے پڑتے تھے لہٰذا ہر ایسے موقعہ پر جب کوئی نیا حیلہ تلاش کرنا ہوتا، میں کلاس میں تمھاری طرف ٹکٹکی لگا کر محویت میں غرق ہو جاتا اور تم اپنی جگہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتیں کہ میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر نظارۂ جمالِ رخِ یار میں محو ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ کب میں نے تم سے محبت کا اظہار کیا تھا لیکن یقین ہے وہ دن اور اس کی ہر ساعت تمھارے حافظے میں محفوظ ہو گی کیونکہ لڑکیاں اس قسم کے معاملات میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوتی ہیں۔

شاید تم اندازہ نہ کر سکو کہ میں نے تمھارے قریب رہتے ہوئے اپنے دل پر کتنا جبر کیا ہے۔ میری تشنگی بجھانے کے لیے پانی کی بھی کبھی کمی نہیں رہی لیکن یہ وہ کافر مے ہے جو منہ سے ایک بار لگ جائے تو چھٹتی ہی نہیں۔ نہ جانے کتنی بار بے اختیار میرا جی چاہا ہے کہ تمھیں اپنے بازوؤں میں سمیٹ لوں اور تمھاری زلفوں کو بکھرا دوں اور۔۔ ۔۔ اور بھی کئی جانی پہچانی خواہشیں تھیں جو ایک نوجوان کے دل میں کسی دوشیزہ کے قریب جا کر سر ابھارتی ہیں لیکن میں تم پر ایک دوسرا ہی تجربہ کر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ تم مجھے واقعی فرشتہ سیرت سمجھتی رہو۔ تیل آگ کے قریب رہے گا تو کسی دن خود بخود آگ پکڑ لے گا۔ آگ خود کیوں بدنام ہو پہل کر کے۔

اور وہ دن بھی آ گیا۔

اس دن شاید تمھارے والدین کسی پارٹی میں گئے ہوئے تھے اور تم نے مجھے اپنے گھر مدعا کیا تھا اور ہم بڑی دیر تک تاریخی عاشقوں اور معشوقوں کے حالات پر تبصرے کرتے رہے تھے اور تم سرکتے سرکتے میرے بالکل قریب آ گئی تھیں اور میں جان بوجھ کر تم سے دور دور سرکتا رہا تھا اور جب صوفے کے بالکل آخری سرے پر آ کر میں نے اور بھی سرکنا شروع کیا تو تم نے میرے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا تھا۔

’’ بس مسٹر فلاں ! ورنہ گر پڑو گے۔ ‘‘

’’ مجھے اٹھنے دو مس فلاں !‘‘ میں نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ ’’ کہیں میں تمھاری نگاہوں سے نہ گر جاؤں۔ ‘‘

’’ کیوں۔ ؟‘‘ تم نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا تھا۔

’’تمھارا جسم مجھے دعوت دے رہا ہے اور میرا دل پتھر کا نہیں ہے۔ ‘‘

غضب ہوا کہ تم نے کہہ دیا۔

’’ کتنے عجیب ہو تم۔۔ ‘‘

اور شاید اسی ایک جملے نے اس دن مجھے تمھاری نگاہوں سے گرنے سے بچا لیا۔ میں اپنے آپ کو عجیب تر ثابت کرنے کے لیے تم سے دامن بچا کر دل میں ارمان لیے واپس چلا آیا اور پھر میں نے اس احساس برتری کو زندہ رکھنے کے لیے یہ وضع داری آخر تک نباہی۔ تو مختصر یہ کہ مس فلاں میں تمھارا عاشق زار کبھی نہیں رہا۔ جب تم مجھے مکمل ایک ہفتے کے بعد ملی تھیں اور میں نے تمھاری زلفِ خمدار کی قسم کھا کر یقین دلایا تھا کہ یہ ایک ہفتہ میرے لیے سات سال قید با مشقت سے کم نہ تھا تو وہ بات قطعی غلط تھی اور وہ سات دن میں نے شیلا کی پر لطف صحبت میں بِتائے تھے جو منٹوں میں تمھاری یاد کے بغیر گزر گئے تھے اور جب بھی میں نے تم سے چاند ستارے توڑ لانے کے دعوے کیے تو یقین جانو مجھے معلوم تھا تم اتنی پاگل نہیں کہ ان کو طلب کرو۔ اگر تم اس وقت مثال کے طور پر میرا پارکر ۵۱ ہی مانگ لیتیں تو شاید میں بہانہ کر جاتا۔ لیکن ایک بات یہ ضرور تھی کہ دوسری لڑکیوں کی طرح میں تم سے بور کبھی نہیں ہوا۔ کیونکہ ان کی طرح تم نے کبھی مجھ سے جلدی شادی کر لینے کا وعدہ نہیں لیا۔ کبھی ہونے والے بچے کی فکر سے مجھے پریشان نہیں کیا۔

لیکن مس فلاں !آج جب شہنائیوں کی لہروں پر تمھاری ڈولی کسی ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح ہلکورے لیتے ہوئے تمھاری سسرال کی طرف جا رہی ہے اور تم مس فلاں سے مسٹر فلاں بن چکی ہو اور میرے ہاتھ میں تمھارا وہ خط ہے جو تم نے نہ معلوم کتنے جذباتی انداز میں لکھا ہے اور جس میں تم نے اپنی پارسائی کی قسمیں کھا کر مجھے یقین دلایا ہے کہ محض حالات تمھیں مجھ سے دور لے جا رہے ہیں ورنہ تم بے وفا نہیں ہو۔ تو مس یا مسز فلاں ! آج شہنائی کی یہ سریلی آوازیں مجھے تمھارے سسکنے کی آوازیں محسوس ہو رہی ہیں اور میرے جذبات پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے اور دل میں ایک طوفان سا بپا ہے مجھے ڈر سا لگ رہا ہے مس فلاں ! کہ کہیں واقعی مجھے تم سے محبت تو نہیں ہے!

اور اسی لیے مس فلاں میں یہ مفصل خط تمھیں لکھ رہا ہوں۔ اگر واقعی یہ محبت ہی ہے تو بہت جلد تم میرے مرنے کی خبر سنوگی۔

تمھارا کوئی بھی نہیں

ارمان( بی۔ اے)

میری بہت پیاری سہیلی!

میں خیریت سے ہوں۔ اللہ کرے تم بھی خیریت سے ہو۔ تمھارا خط ملا، چوما، کلیجے سے لگایا، بار بار مزے لے لے کر پڑھا۔

رابعہ تم بہت شریر ہو۔ کاش میرے پر ہوتے اور میں اڑ کر تم تک پہنچ سکتی پھر تم دیکھتیں کہ تمھارے کانوں کا کیا حشر ہوتا۔

خیر۔ تم نے میرے سرتاج کے بارے میں بڑی میٹھی میٹھی چٹکیاں لی ہیں۔ لیکن وہ روایتی رقیب کی طرح نہ بد صورت ہیں نہ ہی جاہل۔ عمر میں تو مجھ سے ایک آدھ سال چھوٹے ہی نکلیں گے۔ ماشاء اللہ تندرست اور وجیہہ ہیں اور ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہیں۔ مجھ پر جان چھڑکتے ہیں میں بھی انھیں خلوص دل سے چاہتی ہوں۔

نہیں رابو! تم میری فکر میں جان نہ گھلاؤ۔ میں بہت ہی خوش ہوں۔

میرا خیال ہے یہ تمام باتیں تم نے محض اس لیے دریافت کی ہیں کہ تم میرے اور ارمان کے تعلقات سے واقف ہو۔ لیکن تم یقین کرو رابو! ہمارے تعلقات کبھی اتنے سنجیدہ نہیں ہوئے تھے کہ آج وہ میری ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہو سکے۔ یہ ضرور تھا کہ وہ انٹلکچوئیل سا لڑکا اپنی عجیب و غریب حرکات کی وجہ سے میری دلچسپی کا مرکز بن گیا تھا۔ لیکن یہ بات یہیں تک محدود رہی۔ بخدا میں نے اس سے کبھی محبت نہیں کی اور وہ میرے سر تاج کے مقابلے میں تھا بھی کیا؟ دبلا پتلا سانولا سا، انٹلکچوئیل سا ایک عام نوجوان۔ جو آج کل سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ متوسط گھرانوں کے اوپری طبقوں کی لڑکیاں جو تعلیم یافتہ بھی ہوتی ہیں، بہر حال اتنی شرمیلی اور ڈرپوک تو نہیں ہو سکتیں جتنی تم ہو۔ لہٰذا میں ارمان سے ملتی تھی اور تم راز دار تھیں اس لیے تمام حالات تم سے کہتی رہتی تھی۔ وہ مجھ سے کھنچتا تھا اور میں محض اُسے مغلوب و مرعوب کرنے کے لیے اس کے قریب جاتی تھی۔ لیکن سچ جانو اس نے کبھی مجھ سے کوئی نا زیبا حرکت نہیں کی۔ اگر کبھی ایسی جرأت کرتا تو تمھاری قسم میں اس کے ساتھ بری طرح پیش آتی۔

لیکن یہ تمام باتیں معلوم ہی ہیں تمھیں۔ ایک نئی خبر سنو۔ کچھ دن قبل اسی ارمان کا ایک بڑا سا خط آیا تھا معلوم نہیں کیا کیا الٹی سیدھی باتیں لکھی ہیں کئی بار پڑھ چکی ہوں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کہیں ثابت کرنا چاہا ہے کہ اسے مجھ سے محبت نہ تھی بے وقوف بناتا رہا ہے کہیں یہ کہ انہیں محبت تھی اور ہے آخر میں لکھا تھا کہ اگر میں اس کے مرنے کی خبر سنوں تو کوئی تعجب نہیں۔ آج اخبار میں خبر پڑھی وہاں کسی نوجوان نے خود کشی کر لی۔ نام کسی کا نہیں ہے اخبار میں۔ کہیں یہ وہی حضرت تو نہ تھے۔ وہ نکلے تو مزا آ جائے ذرا پتہ تو لگانا۔

تمہاری اپنی

شکیلہ

رابعہ صاحبہ!

بڑے افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ میری اہلیہ شکیلہ خاتون کا انتقال ہو گیا۔ پرسوں شام کو اچھی خاصی سوئی تھیں کل صبح کمرے سے ان کی لاش برآمد ہوئی۔ تمام بدن نیلا پڑ گیا ہے غالباً کھانے میں کوئی زہریلی چیز آ گئی۔ لاش پوسٹ مارٹم کے لیے گئی ہوئی ہے۔ ان کے سرہانے آپ کا خط رکھا پایا گیا جس میں آپ نے کسی مسٹر فلاں کے انتقال کی خبر دی ہے۔ ذرا تفصیل سے لکھیے گا یہ کیا ماجرا ہے؟ مرحومہ کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے گا۔ میں تو لٹ گیا۔ برباد ہو گیا۔

رنجور

عبد الشکور

(۱۹۶۰ء)

٭٭٭

 

 

 

اندر سے چھوٹا۔ !

 

اردلی سے معلوم ہوا کہ کمشنر صاحب کسی محکمے کے افسرِ اعلیٰ سے مصروفِ گفتگو ہیں اور ساڑھے دس بجے رات کو فرصت پائیں گے تو میرا یقین اور پختہ ہو گیا۔

میں ابھی پندرہ دن قبل ہی لیڈی ٹائپسٹ سے ترقی پا کر اسٹینو ہوئی ہوں اور کلکٹریٹ سے کمشنر صاحب کے آفس میں منتقل کر دی گئی ہوں۔ نئے دفتر میں پہلے دن کمشنر صاحب کے متعلق میں نے اپنے دل میں جو رائے قائم کی تھی وہ کتنی حسین اور کتنی نازک تھی! کسے خبر تھی کہ یہ حسین اور نازک سی رائے اتنی جلد پاش پاش ہو جائے گی۔ آہ ہم لڑکیاں بھی خوش فہمیاں قائم کرنے میں کتنی عجلت پسند ہوتی ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔ ڈکٹیشن لینے کے لیے کمشنر صاحب نے مجھے طلب فرمایا تو میں کس طرح دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ان کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ زندگی میں پہلی بار میں اتنے بڑے افسر سے ڈکٹیشن لینے جا رہی تھی۔ گھبراہٹ کی وجہ سے میرے قدموں کا توازن بگڑ سا گیا تھا پھر وہ تھے بھی خاصے وجیہ اور با وقار شخصیت کے مالک چھ فیٹ کو پہنچتا ہوا قد، دوہرا بدن، قدرے نکلا ہوا پیٹ، کشادہ پیشانی، عینک کے شیشوں کی اوٹ سے جھلملاتی ہوئی پر خیال آنکھیں، دوہری ٹھوڑی اور سفید بال۔ کھدر کی معمولی پوشاک میں بھی وہ کتنے با رعب نظر آ رہے تھے۔ میں کمرے میں داخل ہوئی تو انھوں نے کچھ اتنی چبھتی ہوئی نگاہوں سے مجھے دیکھا کہ میرے قدموں کا توازن قطعی لڑکھڑاہٹ کی شکل اختیار کر گیا وہ شاید خفیف سا مسکرائے لیکن جلد ہی اس مسکراہٹ پر قابو پا کر با رعب آواز میں بولے۔

’’ بیٹھ جاؤ۔ !‘‘

اُن کا وہ قطعی قسم کا تحکمانہ انداز کچھ اتنا مرعوب کن تھا کہ میں یہ سوچے بغیر بے ساختہ بیٹھنے پر مجبور ہو گئی کہ کمشنر صاحب کھڑے ہوں تو اسٹینو گرل کا بیٹھنا ڈسپلن کے خلاف ہوتا ہے۔ پھر جب میں نے اپنی حماقت کے بارے میں سوچنا ہی شروع کیا تھا کہ انھوں نے دوسرا سوال داغ دیا۔

’’ کیا اسپیڈ ہے تمھاری۔۔ ؟‘‘

’’ جی۔۔ جی۔۔ ‘‘ مجھے حلق میں کچھ اٹکتا سا محسوس ہوا اور میں بوکھلاہٹ کو چھپانے کے لیے جلدی سے کھانسنے لگی۔

’’ میں نے پوچھا تھا تمھارے لکھنے کی رفتار کیا ہے؟‘‘ انھوں نے آواز میں قدرے ملائمت پیدا کیا۔

’’ اسّی۔ ! ‘‘ میں بوکھلاہٹ میں جی، اور سر وغیرہ قسم کے رسمی الفاظ بھی نہ لگا سکی ساتھ میں۔

’’ گُڈ!‘‘ انھوں نے اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ ’’ ایک نیم سرکاری خط (D.O.) لکھنا ہے۔ ‘‘

میں نے نوٹ بک کھول کر ڈسک پر رکھی اور اپنی پنسل سنبھال کر انھیں دیکھنے لگی۔

’’ ریڈی۔ ؟‘‘

’’ یس سر۔ !‘‘

’’ ڈیر شری مصرا۔۔ ‘‘وہ ساتھ ہی ساتھ خود بھی کچھ لکھتے جا رہے تھے۔

’’ آپ کے ڈی۔ او نمبر ایف۔ یو۔ سی سات سو پینتالیس مؤرخہ ۱۳؍ جون ۶۳ء کے سلسلے میں کئی باتیں غور طلب ہیں مثلاً وہ ایکسائز ڈیوٹی والا کیس نظر ثانی کا محتاج۔۔ ۔۔ ‘‘

میں نے پریشان ہو کر انھیں دیکھا میری انگلیاں ان کے بولنے کی رفتار کا ساتھ نہ دے پا رہی تھیں لیکن وہ کوئی لحاظ کیے بغیر اپنی میز پر جھکے ہوئے لکھنے اور بولنے میں مصروف تھے۔

’’۔۔ ۔۔ سر۔ ‘‘ میں نے انھیں متوجہ کرنا چاہا۔

’’۔۔ ۔۔ لیکن میں آپ کے خیال سے متفق نہیں ہوں۔ ‘‘ وہ اپنی دھن میں کھوئے ہوئے کم از کم دو سو الفاظ فی منٹ کی رفتار سے بولتے گئے۔ ’’ یہ کیس موجودہ صورت میں ہرگز اس قابل نہیں کہ بورڈ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ میری رائے میں ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ سر میں لکھ نہیں پا رہی۔۔ ‘‘ میں نے قدرے جرأت سے کام لیا۔

’’ لکھو۔۔ ! وہ سر جھکائے مشینی انداز میں اسی رفتار سے بولتے رہے اور جب پانچ منٹ بعد انھوں نے ڈی۔ او۔ ختم کیا تو میں صرف ابتدائی تین سطریں لکھ پائی تھی۔

’’ کاغذات جلدی سے ٹائپ کر کے دستخط کے لیے پیش کرو۔ ‘‘ انھوں نے حکم صادر فرمایا’’ آدھ گھنٹے بعد مجھے بورڈ آف ریونیو کی میٹنگ میں شرکت کرنی ہے۔ ‘‘

میں نے ڈرتے ڈرتے ایک بار ان کی صورت دیکھی، کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے سادہ نوٹ بک لے کر متعلقہ کمرے میں اپنی ٹائپ مشین پر آ گئی۔ ملازمت کا معاملہ کچھ نازک نظر آ رہا تھا۔ میں جانے کب تک مشین پر سر ٹکائے سہمی بیٹھی رہی۔ حیران سراسیمہ، سہمی ہوئی۔ اچانک کسی نے سرپر بہت شفقت سے ہاتھ پھیرا، اچانک پلٹی تو کمشنر صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے۔

’’ مجھے معلوم تھا تم تیزی سے نہیں لکھ سکیں۔ ’’ انھوں نے میرا شانہ تھپکا اور میز پر ایک کاغذ ڈالتے ہوئے بولے۔

’’ میں میٹنگ میں جا رہا ہوں کافی وقت ملے گا۔ میری واپسی تک اطمینان سے ٹائپ کر لینا!‘‘

وہ چلے گئے، میں میرے میز پر پڑے ہوئے کاغذ کو دیکھتی رہی جس پر شارٹ ہینڈ میں وہی نیم سرکاری خط مکمل تحریر تھا۔

اس دن واپسی پر میں نے ان باتوں کا تذکرہ دیدی سے کیا تو وہ بری طرح فکر میں مبتلا ہو گئیں۔ کہنے لگیں

’’ کمل! مجھے آثار اچھے نظر نہیں آتے، تمھارے کمشنر صاحب کی نیت۔۔ ؟‘‘

’’ نہیں نہیں دیدی!‘‘ میں نے جلدی سے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’ ایسا نہ کہو۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ ‘‘

’’ تو نہیں جانتی پگلی!‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ ’’ یہ بڑے لوگ اندر سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ !‘‘

’’ تم بھی کیا بات کرتی ہو دیدی۔ ‘‘ میں نے سمجھانا چاہا۔ وہ بڑے نیک نام افسر ہیں میں کیا ایسی دودھ پیتی بچی ہوں کہ مردوں کی نگاہ نہ پہچان سکوں اور پھر ان کی عمر، یہ سمجھیے تین سال قبل پنشن مل جانی تھی انھیں، توسیع پر چل رہے ہیں۔ ‘‘

’’ خیر۔ تو جان۔ ‘‘ دیدی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ لیکن احتیاط کو ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ ‘‘

میں غیر محتاط ہی کب تھی جو احتیاط کو ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔ کمشنر صاحب کے سامنے بہت کم بولتی، اپنے کام سے کام رکھتی اور بغیر ضرورت ان کے کمرے میں کبھی نہ جاتی لیکن ملازمت میں یہ سب کہیں چل پاتا ہے؟ خصوصاً اسٹینو گرل کے ساتھ۔ ہر دس پانچ منٹ پر میری طلبی ہوتی۔ ، کوئی کام دیا جاتا۔ گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہونے کی نصیحت ملتی اور قدم قدم پر وہی شفیق سی مسکراہٹ استقبال کرتی نظر آتی۔ پہلے دن لکھواتے ہوئے بولنے کی رفتار جو اتنی تیز تھی، دوسرے دن اتنی مدھم ہوئی کہ میں چاہتی تو شارٹ ہینڈ کے بجائے محض سن کر بآسانی ٹائپ کرتی جاتی۔ تیسرے دن مجھے متعلقہ کمرے کے بجائے کمشنر صاحب کے اپنے روم میں ایک گوشے میں میز اور ٹائپ رائٹر لے کر بیٹھنے کا حکم ہوا کیوں کہ بار بار آنے جانے میں مجھے زحمت ہو سکتی تھی اور چوتھے دن جب آفس چھوٹنے پر میں گھر آنے کے لیے تیار ہو رہی تھے تو کمشنر صاحب نے دو سو روپیے کے نوٹ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔

’’ اپنے لیے نئی ساڑیاں اور سینڈل خرید لینا، ان پھٹے کپڑوں میں تم اچھی نہیں لگتیں !‘‘

’’ ہے بھگوان! توبہ کمشنر صاحب بھی۔۔ ۔۔ دیدی سچ کہتی تھی۔ ‘‘ میں نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سوچا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن تب تک وہ اپنی کار اسٹارٹ کر چکے تھے۔ میں نے آفس سے باہر نکل کر سو سو کے دونوں نوٹ پرزے پرزے کر کے نالی میں ڈال دیے۔ !

’’ کیا سمجھتا ہے یہ کمینہ آدمی اپنے آپ کو؟ میں کوئی بازاری لڑکی ہوں کیاَ ہونہہ!‘‘

گھر پر دیدی سے ڈرتے ڈرتے اس بات کا تذکرہ کیا تو وہ سکتے میں آ گئیں۔

’’ میں نے پہلے ہی تجھ سے کہا تھا کمل!‘‘ انھوں نے بڑے اداس لہجے میں کہا۔ ’’ یہ بڑے لوگ اندر سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ بہت ہی چھوٹے۔ ‘‘

’’ لیکن دیدی!‘‘ میں ان کے شانے لگ کر سسکنے لگی۔ ’’ میں اتنی چھوٹی نہیں ہوں دیدی! میں اس کمینے کو بتلا دوں گی کہ ایک اسٹینو گرل کی بھی عزت ہوتی ہے۔ دیدی میں۔ میں اس سے ہار ماننے والی نہیں۔ ‘‘

دیدی بولیں۔

’’ میں تو پہلے دن ہی کھٹک گئی تھی کہ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔ ایک کمشنر کا اسٹینو گرل سے اتنا بے تکلف ہونا اور کیا معنی رکھتا ہے؟۔۔ ان چار دنوں میں اس کے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا ہے میں نے۔ اپنی موسی کی لڑکی ہے نا مینو!اس کی کلاس فیلو ریحانہ پہلے کمشنر آفس میں اسٹینو تھی اس کمینے نے اس بیچاری کے ساتھ بھی یہی چال کھیلنی چاہی تھی لیکن اس نے دوسرے دن ہی استعفیٰ دے دیا۔ اے ہاں ! پیسہ کیا عزت سے بڑھ کر ہوتا ہے؟‘‘

میں نے آنسو پونچھ لیے۔

’’ آپ گھبراتی کیوں ہیں دیدی! اگر موقعہ آیا تو میں بھی استعفیٰ دے دوں گی چاہے محنت مزدوری کرنی پڑے یا فاقہ کشی کی نوبت آ جائے۔ ‘‘

’’ ہاں بہن! بھلے گھر کی بیٹیوں کا یہی دستور ہے۔ ‘‘ دیدی نے میری پیشانی چوم لی۔

چنانچہ پانچویں دن میں ایک گھنٹہ قبل ہی دفتر پہنچ گئی اور کمشنر صاحب کے آنے سے پہلے ہی ان کے روم سے اپنی میز اور ٹائپ رائٹر وغیرہ ملحقہ کمرے میں اٹھوا لے گئی۔ درمیانی دروازہ بند کر کے میں نے اپنی طرف سے اس میں تالا ڈال دیا اور آمد و رفت کے لیے عقبی دروازہ کھول دیا جو اس ہال میں کھلتا تھا جہاں عام کلرک بیٹھتے تھے۔

اسی دن کمشنر صاحب نے مجھے طلب کیا تو میں گھوم کر ہال میں سے ہوتی ہوئی ان کے کمرے میں گئی ہال سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا ٹائپسٹ لڑکیاں میرے بارے میں کانا پھوسی کر رہی تھیں اور کلرک میری طرف دیکھ دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرا رہے تھے۔ اندر پہنچی تو کمشنر صاحب نے اپنی مغموم سی محجوب محجوب مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا اور کہنے لگے۔

’’ کمل! یہ تم اپنی میز وغیرہ یہاں سے کیوں اٹھوا لے گئیں ؟ اور یہ درمیانی دروازہ کیوں بند ہے؟‘‘

نجانے بھگوان نے مجھ میں اتنی شکتی کہاں سے پیدا کر دی، میں نے بڑے بے باک انداز میں کہا۔

’’ سر! آپ نے مجھے ڈکٹیشن دینے کے لیے بلایا ہے شاید!‘‘

’’ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے‘‘ وہ بہت نرم لہجے میں بولے۔ ‘‘ لیکن تم اتنی۔۔ ‘‘

’’دیکھیے سر!‘‘ میں نے تن کر کہا۔ ’’ آپ کے کمرے میں بیٹھنا میری ڈیوٹی میں شامل نہیں ہے یہ ملحقہ کمرہ شروع سے آپ کے اسٹینو کے لیے مخصوص رہا ہے۔ اور آپ مجھ سے صرف سرکاری معاملات پر گفتگو کیا کیجیے۔ پلیز۔ !‘‘

معلوم ہوا جیسے انھیں بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ اچھل کر کرسی سے کھڑے ہو گئے۔ آنکھیں نکل پڑیں چہرہ سر خ ہو گیا۔ ایک لمحے کو تو میں بھی سنّاٹے میں رہ گئی لیکن پھر وہ بہت آہستگی سے کرسی پر بیٹھ گئے جیسے بیٹھے نہ ہوں گر پڑے ہوں اور بولے۔

’’ اسٹینو! ریڈی فار ڈکٹیشن۔ کیا تم تیار ہو؟‘‘

میں نے نوٹ بک پر نوکدار پنسل اس طرح جمائی جیسے سیدھے ان کے سینے پر سنگین رکھ دی ہو۔

’’ یس سر!‘‘

’’ آرڈر۔۔ شری مختار علی تحصیلدار صاحب گنج کو رشوت ستانی کا الزام ثابت ہو جانے کی بنا پر ملازمت سے برخواست کیا جاتا ہے۔ ‘‘ وہ دو سو الفاظ فی منٹ کی رفتار سے بول رہے تھے اور مجھے تعجب تھا کہ آج میری انگلیاں ان کی آواز کا ساتھ دے رہی تھیں۔

’’ آرڈر۔ شری وی۔ آر۔ ساکلے اکاؤنٹنٹ کلکٹریٹ آمبا پور سرکاری کام میں لا پرواہی برتنے کے الزام میں معطل کیے جاتے ہیں۔ کیس کی انکوائری صاحب کمشنر بذات خود کریں گے۔ ‘‘

میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ بدستور تیزی سے بولتے گئے۔

’’ آرڈر۔ شری فرگوسن ڈپٹی کلکٹر حسن آباد کی تنزلی کا حکم برقرار رکھا جاتا ہے سابقہ احکامات بحالی تا وصولیابی منظوری منسوخ سمجھے جائیں۔ ‘‘

’’ سر۔ سر یہ تو بہت ہی سخت۔۔ ۔۔ ‘‘ میں بھول گئی کہ میری ان سے چل چکی ہے۔

’’ اسٹینو! ‘‘ انھوں نے میز پر گھونسہ مارا۔ آواز بیحد با رعب تھی لیکن زیادہ اونچی نہیں ۔۔ ’’ آرڈر دینا میرا کام ہے تمھارا نہیں۔ ‘‘

’’ یس سر۔ !‘‘ میرے اندر کی مثالی ہندوستانی لڑکی پھر جاگ گئی اس دن میں دن بھر معزولی، معطلی اور تنزّلی اور اسی قسم کے ڈھیروں ناخوشگوار احکامات لکھتی اور ٹائپ کرتی رہی افسر کے وقار کو ٹھیس لگے تو مقدمات کتنی جلدی فیصل ہوتے ہیں یہ میں نے اسی دن جانا۔

دفتر کا تمام عملہ سنّاٹے میں تھا۔ میری ایک سہیلی ٹائپسٹ نے بتلایا کہ سپرنٹنڈنٹ کہتے تھے کمل کی برخواستگی کے آرڈر ٹائپ کرنے کے لیے تیار رہو۔

’’ ہونہہ!‘‘ میں نے دل میں سوچا ’’ جیسے کاتبِ تقدیر یہی کمشنر کا بچہ تو ہے۔ ایک نہیں ہزار نوکریاں لے لے، میں اپنی عزت نہیں جانے دوں گی۔ ‘‘

اس دن گھر آ کر میں نے دیدی کو جملہ حالات سنائے تو وہ بہت خوش ہوئیں مجھے خوب پیار کیا، ہمت بندھائی کہ گھبرانا نہیں بھگوان کمزوروں کی رکشا کرتا ہے۔

پھر جب میں آج دفتر پہنچی تو معلوم ہوا کہ کمشنر صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور وہ سرکاری کام اپنے بنگلے پر ہی دیکھیں گے۔ میرے لیے حکم تھا کہ ضروری کاغذات لے کر بنگلے پر حاضری دوں۔

’’ اچھا تو یہ بات ہے؟‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا۔ ’’ میں ان چالوں میں آنے والی نہیں۔ ‘‘

میں نے وہیں بیٹھ کر درخواست لکھی کہ میری دیدی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ آج کی رخصت منظور فرمائی جائے اور سپرنٹنڈنٹ کی میز پر ڈال کر چلی آئی۔ وہ چیختا رہا کہ بغیر پیشگی منظوری کے درخواست قبول نہ ہو گی لیکن میں نے کہہ دیا کہ ضرورت پڑنے پر میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کر دوں گی جو جی میں آئے کر لے!

دفتر سے اتنی جلدی گھر پہنچی تو دیدی گھبرا گئیں، سمجھی میں استعفیٰ دیکر آئی ہوں۔ میں نے انھیں حالات کی موجودہ صورت سے آگاہ کیا تو پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں

’’ بھگوان جانے کیا ہونے والا ہے؟ پِتا جی چل بسے، تیرے جیجا جی بھی نہیں رہے، ہم غریبوں کا کوئی سرپرست نہیں اتنی بڑی دنیا میں جو اس انیائے پر ہماری حمایت میں آواز بلند کرے۔

میں نے کہا۔

’’ دیدی! ہماری آواز جو ہے۔ ہم خود ہی اُسے بلند کریں گے لیکن کسی انیائے کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ ‘‘ یہ جملے ادا کرتے ہوئے میں نے اپنی آپ کو کسی انقلابی فلم کی ہیروئن جیسا محسوس کیا۔

یہ دن اتنا لمبا ہو گیا تھا کہ کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ تمام دن دیدی چاول بینتی رہیں اور میں پریم چند کے ناول پڑھتی رہی۔ شام کو کمشنر صاحب کا اردلی کار لے کر آیا۔ انھوں نے میرے نام ایک رقعہ بھیجا تھا، غیر سرکاری رقعہ۔

’’ کمل!

مجھے تم سے کچھ نجی معاملات طے کرنے ہیں۔ کار بھجوا رہا ہوں ضرور آؤ۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں، چاہو تو اپنے گھرکے کسی آدمی کو بھی ساتھ لا سکتی ہو۔

تمھارا مخلص

وی۔ کے۔ رائے

دیدی نے پرچہ پڑھ کر مجھے اپنے سینے میں چھپا لیا جیسے میں کوئی کبوتری تھی جسے عقاب جھپٹ لے جانا چاہتا ہو۔

’’ نہیں جائے گی کمل!‘‘ انھوں نے اردلی سے کہا۔ ’’ کہہ دو جا کر اپنے کمشنر کے بچے سے کہ میری کمل اس کے باپ کی نوکر نہیں ہے سرکاری ملازم ہے اور وہ چاہے تو ملازمت بھی۔۔ ‘‘

’’ بی بی جی! آپ مجھ پر کیوں بگڑتی ہیں ؟‘‘ اردلی نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا۔ ’’ آپ نے جو کہا ہے میں کمشنر صاحب سے جا کر کہہ دیتا ہوں۔ ‘‘

’’ ہاں ہاں کہہ دے جا کر۔ ‘‘ دیدی غرّا کر بولیں۔ ’’ ہم کیا اس سے ڈرتے ہیں۔ ‘‘

وہ جانے لگا تو بھگوان جانے میرے دل میں کیا آئی، اسے پیچھے سے آواز دے کر روک لیا۔

’’ ٹھہرو ! میں چل رہی ہوں۔ !‘‘

دیدی مجھے روکتی رہیں اور میں جانے کے لیے تیاری کرتی رہی۔ کپڑے تبدیل کیے، پیاز کاٹنے کی چھری بلاؤز میں چھپائی اور دیدی کو سمجھاتی بھی گئی۔

’’ نہیں دیدی! تم گھبراؤ مت۔ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ وہاں بہت سے اردلی رہتے ہیں اور ان میں سے سبھی اندر سے چھوٹے تو نہ ہوں گے۔ میری اچھی دیدی تو۔ ‘‘

وہ میرے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوئیں لیکن میں روتی ہوئی چھوڑ کر بڑی دلیری سے بنگلے پر آ گئی۔ اردلی سے معلوم ہوا کہ کمشنر صاحب کسی محکمے کے افسرِ اعلیٰ سے مصروفِ گفتگو ہیں اور ساڑھے دس بجے رات کو فرصت پائیں گے تو میرا یقین اور پختہ ہو گیا۔

ایک بار جی میں آئی واپس چلی جاؤں۔ پھر خیال آیا اس طرح تو تذبذب کے عالم میں زندگی دوبھر ہو جائے گی۔ آج دو ٹوک فیصلہ کر کے لوٹنا ہی مناسب ہے۔ گھڑی دیکھی۔ ابھی صرف نو بجے تھے۔ کچھ دیر تک ملاقاتی کمرے میں بیٹھی رسالے دیکھتی رہی لیکن کان آہٹ پر لگے ہوئے تھے۔ جی نہ لگا تو اٹھ کر کھڑکی تک آئی باہر سول لائن کی سڑک سنسان پڑی تھی اور ٹھنڈی ہوا سسکیاں سی بھر رہی تھی۔ دل ڈوبنے سا لگا پھر خود ہی اپنی بزدلی پر ہنسی آ گئی۔ واپس آ کر صوفے پر بیٹھ گئی، سامنے رائٹنگ پیڈ پڑا تھا اسے سرکا کر میں نے بہت سوچ بچار کے بعد لکھا۔

محترم کمشنر صاحب!

میں ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور اسٹینو گرل ہونے کے باوجود میں نے اپنی عزت کو برقرار رکھا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے میں محسوس کرتی رہی ہوں کہ اب مجھے عزت اور ملازمت، دو میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا۔ جو شخص میری عزت کے در پے ہے اسے آپ خوب جانتے ہیں اس لیے نام لکھنا نہیں چاہتی نہ اس سلسلے میں مزید کوئی کارروائی چاہتی ہوں۔ از راہِ کرم کل سے میرا غیر مشروط استعفیٰ منظور فرمایا جائے۔

آپ کی فرمانبردار

کملا سہائے

ابھی یہ مضمون مکمل ہی کیا تھا کہ کلاک نے ساڑھے گیارہ بجائے۔ یا تو دن اتنی آہستگی سے رینگ رہا تھا کہ جی اوب گیا تھا یا اب رات اتنی تیزی سے گزری جا رہی تھی۔ کیا انسان کی ذہنی کیفیت وقت کی طنابیں ڈھیلی اور تنگ کر سکنے پر قادر ہے؟ میں نے استعفیٰ تہہ کر کے مٹھی میں دبا لیا تبھی چپراسی نے آ کر اطلاع دی کہ صاحب مجھے اپنی خوابگاہ میں یاد فرماتے ہیں۔ آخری بار جی میں آیا کہ انکار کر دوں اور یہاں سے بھاگ نکلوں لیکن پیاز کاٹنے والی چھری نے بلاؤز کے اندر سے ڈھارس بندھائی اور میں چپراسی کے ساتھ کمشنر صاحب کی خوابگاہ میں پہنچ گئی۔

وہ اپنی مسہری پر نیم دراز تھے۔

’’ اب تم جا سکتے ہو۔ ‘‘ انھوں نے تحکمانہ لہجے میں چپراسی سے کہا اور وہ سلام کر کے جانے لگا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ وہ خوابگاہ کا دروازہ تو نہیں بند کر رہا۔ لیکن خیر گزری۔ پھر میں پلٹ کر کمشنر صاحب سے کچھ کہنے ہی جا رہی تھی کہ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے۔

’’ ایک قصّہ سنوگی کمل!؟‘‘ انھوں نے بالکل میرے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔

’’ جی نہیں۔ ‘‘ میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’ میں یہاں کوئی داستانِ محبت سننے نہیں آئی ہوں۔ آپ یہ دیکھ لیجیے۔

میں نے استعفیٰ ان کی جانب بڑھایا۔

’’ فی الحال اسے اپنے ہی پاس رکھو۔ ‘‘ انھوں نے اب قطعی تحکمانہ لہجہ اختیار کر لیا اور تمھیں یہ داستانِ محبت بھی سننی پڑے گی۔ میں کوشش کروں گا کہ مختصر سے مختصر الفاظ میں تمھیں مکمل داستان سنا سکوں۔ ‘‘

’’ خیر سنائیے۔ ‘‘ میں نے دروازے اور ان کے درمیان ایک محفوظ جگہ پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن آپ کا کوئی حربہ مجھ پر کارگر نہ ہو گا۔ ‘‘

بڑی گمبھیرتا کے ساتھ بہت آہستہ آہستہ لیکن واضح الفاظ میں کہنے لگے۔

میں اس وقت صرف ڈپٹی کلکٹر تھا جب میری پتنی کا دیہانت ہو گیا اپنے پیچھے وہ ایک لڑکی چھوڑ کر مری تھی۔ سرلا نام تھا میری بیٹی کا۔ میں اُسے بہت چاہتا تھا۔ میں نے اسے اعلیٰ تعلیم دلوائی، بڑے لاڈ پیار سے رکھا اور اونچی سوسائٹی میں اٹھنا بیٹھنا سکھایا۔ جب جوان ہوئی تو میں ڈپٹی کمشنر ہو چکا تھا۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ میرے ہی دفتر کے ایک کلرک سے محبت کرتی ہے۔ میں نے اسی دن اس کلرک کو ملازمت سے برخواست کر دیا اور سرلا کو نصیحت کی کہ ایسے نچلے طبقے کے لوگوں سے میل جول ٹھیک نہیں۔ جانتی ہو کمل اس کا انجام کیا ہوا؟‘‘

’’ میری سمجھ میں نہیں آتا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ؟‘‘میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا لیکن ایسا جان پڑا جیسے وہ میری بات ہی نہ سن رہے ہوں۔

’’ میری اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کمل! کہ سرلا اسی دن اس کلرک کے ساتھ چلی گئی اور اس سے شادی کر لی۔ چونکہ میں نے اس کو سخت الزام کے ساتھ ملازمت سے برخواست کیا تھا اس لیے غریب کلرک کو دوبارہ کوئی اچھی نوکری نہ مل سکی اور کنبے کا پیٹ پالنے کے لیے میری سرلا کو ملازمت کرنی پڑی۔ وہ بھی اسٹینو گرل تھی!‘‘

وہ آنسو پونچھنے لگے۔ میں ہکّا بکّا انھیں دیکھ رہی تھی۔

’’ نہ جانے تب اُس کے لیے میری محبت کہاں مر گئی تھی مجھے رحم نہ آیا اور آخر وہ چند سال میں ہی ٹی۔ بی کی مریض ہو کر پرلوک سدھار گئی۔ تب سے نہ جانے کیوں مجھے ہر اسٹینو گرل میں اپنی سرلا ہی کا روپ دکھائی دیتا ہے۔ کمشنر ہونے کی حیثیت سے اپنی اس کمزوری کا اظہار بھی نہیں کر سکتا اور اسے دبا بھی نہیں پاتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب میں نے غلطی کی تھی تو سب نے مجھے صحیح راستے پر سمجھا تھا اور اب کہ میں صحیح راستے پر ہوں لوگ مجھے غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ تم سے پہلے ایک لڑکی ریحانہ میری اسٹینو تھی، میں نے اس کے ساتھ متواتر سلوک کیے لیکن وہ جانے کیوں پندرہ بیس دن بعد ہی استعفیٰ دے کر چلی گئی۔ اب تم بھی اس طرح اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے لگی ہو۔ ڈرتا ہوں کل کو تم بھی استعفیٰ دینے کا خیال دل میں نہ لاؤ اس لیے صاف صاف بتلا دینا مناسب سمجھا۔ ‘‘‘

انھوں نے اپنے آنسو پونچھنے کے لیے چشمہ اتارا تو میں نے موقعہ پا کر جلدی سے اپنا استعفیٰ پیاز کاٹنے والی چھری کے ساتھ بلاؤز میں چھپا لیا۔ چشمہ پونچھ کر ناک پر چڑھاتے ہوئے انھوں نے مسکرا کر کہا۔

’’ لاؤ وہ کاغذ کہاں ہے! دیکھوں میری یہ بیٹی بھی تو استعفیٰ دینے نہیں آئی ہے؟‘‘

’’ جی نہیں تو پتا جی!‘‘

میں نے جلدی جلدی پلکیں جھپکا کر بدقت تمام امڈتے ہوئے آنسوؤں کو روکا اور ان کے چرنوں پر جھک گئی۔

(۱۹۵۸ء)

٭٭٭

 

 

 

 

عشق پر زور۔ !

 

’’ ارے حافظ جی! اب تک رو رہے ہو تم؟‘‘

’’ آں ۔۔ ! نہیں ۔۔ نہیں تو۔۔ کہاں رو رہا ہوں میں ؟‘‘ حافظ جی نے بوکھلا کر جلدی سے اپنی بے نور آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو پونچھ ڈالے۔ ’’ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دو گھنٹے سے متواتر بلک بلک کر رونے کا راز کسی پر ظاہر ہو۔ ‘‘

طاہرہ دل ہی دل میں مسکرائی اور حافظ جی کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھتی ہوئی کوٹھری سے باہر چلی گئی۔ حافظ جی اپنی تمام تر قوتِ سامعہ سے اس کے قدموں کی آہٹ سنتے رہے جو بتدریج ہلکی پڑتی گئی اور بالآخر عمار ت کے کسی گوشے میں تحلیل ہو گئی۔ پھر یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ اب کسی اور کے آنے کی امید نہیں۔ وہ پھر رونے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ دوبارہ قدموں کی چاپ سنائی دی اور تھوڑی دیر بعد انھیں پھر طاہرہ کی آواز سنائی دی۔

’’ تم کو چھوٹی بی بی بلا رہی ہیں حافظ جی۔۔ !‘‘

’’ اچھا۔۔ ‘‘ کہہ کر حافظ جی پلنگ سے اٹھے، دیوار سے ٹکے ہوئے عصا کو اٹھایا اور یوں جھپٹ کر کوٹھری سے نکلے جیسے وہ پیدائشی اندھے ہی نہ ہوں۔ عمارت کے چپّے چپّے اور ہر نشیب و فراز سے انھیں بخوبی واقفیت تھی، بڑی بٹیا کے کمرے کی دہلیز کے سامنے جو گڈھا ہے اس سے بچنے کے لیے کتنا لمبا قدم اٹھانا چاہیے، چھوٹے بابو کی نشست گاہ سے باہر نکلتے ہوئے جو بے ڈھنگی سیڑھیاں ہیں ان میں تیسری سیڑھی پر کیسے سنبھال کر پاؤں رکھنا چاہیے، بڑے سرکار کی خوابگاہ کے سامنے سے جب چھوٹی بی بی گزرتی ہیں تو کیسی مدھم سی آہٹ ہوتی ہے اور اچھے میاں کالج سے پڑھ کر لوٹتے ہیں تو ان کے بوجھل قدموں سے فرش پر کس قسم کی مخصوص دھمک ہوتی ہے۔ فلاں چبوترہ کتنا چوڑا ہے، کہاں کی زمین چکنی اور کیچڑ دار ہے، ان تمام باتوں کی خفیف ترین خصوصیات جنھیں کوئی آنکھوں والا بھی نہ جانتا ہو، حافظ جی کے علم میں تھیں۔

اور یہ تو محض عمار ت تھی، حافظ جی تو اس کے مکینوں کی جسامت، عادات اور اطوار کی بھی مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ ہاتھ پیر اور سر وغیرہ دبانے کے فن میں وہ طاق تھے اور غالباً یہی وہ سب سے اہم خوبی ان میں تھی جس کے باعث اس گھرانے میں رہتے ہوئے کوئی انھیں بارِ گراں یا اناج کا دشمن نہیں سمجھتا تھا۔ انھیں قطعاً یاد نہ تھا کہ کب ان کے والدین انھیں بے سہارا چھوڑ کر مر گئے اور کیسے وہ اس گھر میں پہنچے۔ انھوں نے آنکھ کھولی تو چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور کان کھولے تو احکامات سنے جن کی تعمیل کرتے ہوئے وہ لڑکپن تو کیا اب جوانی کی منزل بھی پار کرنے کی تیاری کر رہے تھے اور ان تیس سالہ خدمات کا صلہ تھیں وہ عظیم معلومات جو حافظ جی ذہن میں محفوظ کیے ہوئے تھے کہ چھوٹے بابو کے گھٹنے پر جو چکنا سا تین چار انگل کا دائرہ ہے وہ ایک ہی لڑکی سے عشق کرنے کی وجہ سے وہ اور ان کے ایک جگری دوست کے درمیان ہونے والے تنازعہ کا انجام ہے اور بڑی بٹیا کا سر دباتے ہوئے جس گڈھے سے ان کی انگلیاں ٹکرایا کرتی ہیں وہ ان کے شوہر کے ظلم کا دائمی ثبوت ہے جس نے شادی سے چند ماہ بعد ہی انھیں طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے حافظ جی پر حکومت کرنے مائیکے بھیج دیا تھا۔ گھر کی خادمہ نے ایک دن دورانِ گفتگو میں چپکے سے حافظ جی کو بتلایا تھا کہ بڑی بٹیا کی سسرال میں کسی مالی کے چھوکرے سے آنکھ لڑ گئی تھی۔ ! اور کہاں تک بتلایا جائے؟مختصر یہ کہ اس نوعیت کی معلومات کے بارے میں ان کا دائرہ بہت وسیع تھا اور ان کی یاد داشت میں ایسی نہ جانے کتنی اوٹ پٹانگ باتیں جمع تھیں۔ چھوٹی بی بی کی شادی تیس سال کی ہو جانے کے بعد بھی اب تک کیوں نہیں ہوئی۔ بڑے سرکار نے مرنے سے قبل جس کمسن دیہاتی لڑکی سے شادی کی تھی وہ ان کے انتقال کے فوراً بعد اپنے نا معلوم رشتہ داروں کے پاس کبھی واپس نہ پلٹنے کے لیے کس طرح پہنچائی گئی، چھوٹے سرکار کے کمرے سے رات گئے دبے پاؤں کون نکلا کرتا ہے اور یہ ۔۔ اور وہ۔۔

اور اب آج ان کے تنہا کمرے میں بیٹھ کر دو گھنٹے تک بلک بلک کر رونے کا سبب بھی سنیے۔

واقعہ کی داغ بیل گزشتہ ماہ پڑی تھی۔ حافظ جی اچھے میاں کے کمرے میں ان کے پیر داب رہے تھے اور اپنی تمام تر مہارت اس فن میں صرف کر رہے تھے کیوں کہ اچھے میاں کے خوش ہو جانے پر انھیں ایک خوشبو دار سگریٹ انعام میں ملنے کی توقع تھی۔ اچھے میاں کے آہستہ آہستہ لذّت لے لے کر کراہنے کی آواز بھی ظاہر کرتی تھی کہ انگلیاں دکھتی رگوں پر پڑ رہی ہیں۔ اچانک حافظ جی کو کمرے کے باہر کسی کے دبے پاؤں آ کر رکنے کی آہٹ سنائی دی۔ انھوں نے کان کھڑے کر لیے اور ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔ خلافِ توقع کوئی اندر نہ آیا۔

’’ کون ہے اچھے میاں ؟‘‘ انھوں نے دریافت کیا۔

’’ کون۔۔ کوئی بھی تو نہیں ہے۔ ‘‘ اچھے میاں نے جواب دیا لیکن حافظ جی نے ان کے لہجے میں پوشیدہ خفیف سی لرزش محسوس کر لی اور خاموشی سے پھر پیر دبانے لگے۔ جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ اچھے میاں کو اب کوئی لطف نہیں مل رہا ہے۔ انھوں نے ہاتھ اور تیزی سے چلائے، دکھتی ہوئی رگیں دبائیں لیکن سب بے سود! پہلے تو اچھے میاں نے دو تین بار بے چینی سے کروٹیں لیں اور پھر اُکتا کر بولے۔

’’ اچھا! اب جاؤ حافظ جی! رات کافی ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’ لیکن اچھے میاں ۔۔ ۔۔ ‘‘ حافظ جی کو سگریٹ کی لطیف خوشبو اور ہلکا سا خمار یاد آیا۔

’’ کہا نا تم سے کہ اب جاؤ۔ ‘‘ اچھے میاں جھنجھلا کر بولے۔ حافظ جی کی امیدوں پر اوس سی پڑ گئی اور وہ با دلِ ناخواستہ عصا ٹیکتے ہوئے تھکے تھکے قدموں سے کمرے کے باہر نکل گئے۔

اپنی کوٹھری میں پہنچ کر حافظ جی پلنگ پر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ بڑی بٹیا نے بہت دن سے انھیں پیسے نہیں دیے تھے جن سے وہ بیڑیاں لاتے اور طلب تھی کہ سراٹھائے کھڑی تھی۔ نجانے بڑی بٹیا کیوں ناراض ہو گئی تھیں۔ ان سے ان کا رویہ اسی دن سے تبدیل ہو گیا تھا جب حافظ جی نے سر دباتے ہوئے بڑی معصومیت کے ساتھ ان سے پوچھ لیا تھا کہ پچھلی رات شوفر ان کے کمرے میں کیوں گیا تھا؟ بات معمولی تھی بڑی بٹیا کے سسرال سے واپس آنے کے بعد سے عام طور پر راتوں کو ان کے کمرے میں خاموشی طاری رہتی تھی اس لیے اس رات اپنی کوٹھری میں پڑے ہوئے حافظ جی کو شوفر کے ساتھ بڑی بٹیا کی سرگوشیاں کرنے کی آواز سن کر از حد تعجب ہوا تھا اور اسی لیے انھوں نے بڑے بھولپن کے ساتھ وہ سوال بھی کر ڈالا تھا۔ جانے کون سا زہر ملا تھا اس بے ضرر سے سوال میں جس نے غریب حافظ جی کو بیڑیوں تک سے محروم کر ڈالا تھا۔ لے دے کر سہارا رہ گیا تھا اچھے میاں کی عطا کردہ سگرٹوں کا تو انھوں نے بھی آج سوکھا ٹرخا دیا۔

حافظ جی نے اپنے نتھنے سکوڑے اور زور سے سانس کھینچی۔ طلب نے زور مارا، ذہن نے گشت لگایا اور حافظ جی کو یاد آیا کہ بسا اوقات سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑے اچھے میاں کے کمرے کے باہر پڑے ہوئے ملا کرتے ہیں۔ شاید آج رات بھی قسمت ان کا ساتھ دے یا اگر موقعہ لگ جائے اور اچھے میاں ہی دے نکلیں۔ بہر طور کوشش تو کرنی چاہیے۔

حافظ جی خاموشی سے اٹھے اور اچھے میاں کے کمرے کی طرف بڑی آہستگی کے ساتھ ساتھ بڑھے، احتیاطاً اپنا عصا انھوں نے کوٹھری ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ اس سے آہٹ پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ جب وہ چھوٹے بابو کی خوابگاہ کے سامنے سے گزرے تو بڑی احتیاط کے دبکتے ہوئے کہ چھوٹے بابو سورہے ہوں تو ان کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ لیکن چھوٹے بابو سو نہیں رہے تھے۔ حافظ جی کو ان کے گنگنانے کی آواز صاف سنائی دی۔

’’ عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

حافظ جی نے رک کر غور سے سنا اور جب انھیں یقین ہو گیا کہ اب وہ اس شعر کو نہیں بھولیں گے تو آگے بڑھ آئے اور اچھے میاں کے کمرے کے قریب پہنچے۔ پھر وہ زمین پر بیٹھ کر دھیرے دھیرے سگریٹ ٹٹولتے ہوئے دہلیز کی طرف سرکنے ہی لگے تھے کہ اندر کمرے میں مسہری چرچرانے کی آہٹ سنائی دی۔ حافظ جی ٹھٹک کر دیوار سے چپک گئے اور اپنے کان انھوں نے دروازے سے بھڑا دیے۔

’’ مجھے بھی تم سے بیحد محبت ہے اچھے میاں۔ !‘‘

آواز نسوانی تھی، حافظ جی سن سے رہ گئے اور پوری طرح کان کھول کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔

’’ تمھارے یہ سیاہ گیسو، ناگن سی لٹیں۔ اور۔ اور۔ ‘‘ خدا جانے اچھے میاں کیا کہنا چاہتے تھے۔

’’ ارے! پاگل ہوئے ہو کیا۔ ؟ چھوڑو۔ میری کلائی ٹوٹی جا رہی ہے۔ ‘‘ باپ رے ! آواز تو گھر کی خادمہ طاہرہ کی تھی۔ حافظ جی چونکے غضب خدا کا۔ اس لہجے میں بات کرتی ہے یہ کمبخت اچھے میاں سے۔ منہ پر پاگل کہتی ہے انھیں لیکن، لیکن اچھے میاں نے اسے ٹھوکر کیوں نہیں ماری؟ اور یہ اتنی رات گئے اس کمرے میں کیا کر رہی ہے؟ پھر اچانک ان کا جسم لرزنے لگا۔ انھیں محسوس ہوا جیسے خون جسم میں دس گنا تیز رفتار سے گردش کرنے لگا ہے، شریانیں جلنے لگی ہیں اور دل گھڑی کے پنڈولم کی طرح ہل رہا ہے۔ انھوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ٹٹول کر بند دروازے کے سامنے سے سگریٹ کے دو تین ادھ جلے ٹکڑے تلاش کیے اور ڈگمگاتے ہوئے لیکن بیحد محتاط قدموں کے ساتھ واپس آ کر اپنی کوٹھری میں ٹوٹے ہوئے پلنگ پر پڑ رہے۔

لیکن اس رات انھیں سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں میں کوئی لطف نہ آیا۔ معلوم نہیں ان کی لطیف خوشبو اور ہلکا ہلکا سرور کس نے چوس لیا تھا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے تمام ٹکڑے سلگائے اور بے دلی کے ساتھ ایک دو کش لے کر پھینک پھینک دیے۔ ان کا جسم بری طرح ٹوٹ رہا تھا اور خون کی روانی تو اتنی تیز ہو چکی تھی کہ انھیں خطرہ تھا کہیں رگیں نہ پھٹ پڑیں۔

’’یہ سب کیا ہے؟ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟‘‘ حافظ جی نے سوچا اور بجلی کی سی سرعت کے ساتھ یہ خیال اُن کے ذہن میں کوندا کہ انھیں عشق ہو گیا ہے۔ ضرور اسی کا نام عشق ہے۔ یہ عشق نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ بخار یا زکام میں خون میں روانی میں اتنی تیزی کہاں ہوتی ہے دل کی دھڑکن اور شریانوں میں جلن کا دوسرا سبب اور ہو بھی کیا ہو سکتا ہے؟ پھر انھیں چھوٹے بابو کا وہ مصرعہ یاد آیا:

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

ٹھیک ہی کہا ہے چھوٹے بابو نے۔ بڑی بُری بیماری معلوم ہوتی ہے۔ یہ عشق بھی، ارے باپ رے باپ! انھیں اچانک بُرے بُرے وسوسوں نے آ گھیرا۔ اور جب انھوں نے اپنے حافظے کے مقفل دریچے کھولے تو ان میں سے عشق عجیب عجیب چولے بدل کر نکلنے لگا۔ کبھی چھوٹے بابو کے گھٹنے کا چکنا دائرہ تو کبھی بڑی بٹیا کے سر کا زخم۔ دونوں کے سلسلے میں انھوں نے عشق کا نام سنا تھا۔ پھر انھیں مرحوم بڑے سرکار کی چوتھی کمسن اور دیہاتی بیوی یاد آئی۔ شاید اس بیچاری کو بھی عشق ہو گیا تھا جبھی غریب کو اس کے نا معلوم رشتہ داروں کے پاس بھیج دیا گیا شاید ان لوگوں نے اس کا اچھی طرح علاج بھی نہیں کیا ایسی گئی کہ بیچاری کو پلٹ کر آنا بھی نصیب نہ ہوا۔ معلوم نہیں غریب زندہ ہے یا مر گئی۔۔

حافظ جی کا ذہن عشق کی بھول بھلیوں سے نکل کر دوسری سمتوں میں بھٹکنے لگا اور رفتہ رفتہ ان پر نیند غالب آتی گئی۔ دوسرے دن صبح جب طاہرہ انھیں جگانے آئی تو انھوں نے کراہتے ہوئے کہا۔

’’ سونے دو مجھے! میری طبیعت خراب ہے۔ ‘‘

’’ ایں۔ طبیعت خراب ہے؟‘‘ طاہرہ نے حرارت دیکھنے کے لیے حافظ جی کی کلائی پکڑی تو حافظ جی کو بجلی کا جھٹکا سا محسوس ہوا ویسا ہی جیسا ایک بار دھوکے سے استری کے اوپر ہاتھ پڑ جانے سے لگا تھا۔ لیکن نہیں دونوں جھٹکوں میں نمایاں فرق تھا۔ وہ جھٹکا بیڑی کے کڑوے کش جیسا تھا اور یہ۔۔ یہ تو بالکل اچھے میاں کی سگرٹوں کا سا کیف آگیں ہے۔

’’ کیوں بنتے ہو؟‘‘ طاہرہ کہہ رہی تھی۔ ’’بخار وخار کہیں کچھ بھی تو نہیں ہے۔ ‘‘

’’ میں نے کب کہا کہ بخار چڑھا ہے۔ ‘‘ حافظ جی تنک کر بولے۔

’’ پھر کیا ہوا ہے؟ کچھ بتاؤ بھی تو‘‘

’’ مجھے جان پڑتا ہے کہ عشق ہو گیا ہے۔ ‘‘ حافظ جی نے سادگی سے کہا۔

’’ اخاہ! اندھے کو دیکھو۔ اب اس کے بھی پر نکل رہے ہیں۔ ‘‘ طاہرہ پیر پٹکتی ہوئی چلی گئی۔

قبل ازیں اگر طاہرہ یا کوئی اور مذاق میں بھی حافظ جی کو اندھا کہہ دیتا تھا تو جان کو آ جاتے تھے لیکن آج انھیں بالکل غصّہ نہیں آیا بلکہ ایک عجیب سے سکون کا احساس ہوا جیسے ان کے نامعلوم مرض کا علاج ہو رہا ہو اور وہ زیرِ لب گنگنانے لگے:

’’ عشق پر زور نہیں ۔۔ ۔۔ ۔۔ ‘‘

لیکن مرض اچھا نہیں ہوا بلکہ دن بدن جڑ پکڑتا گیا، شباب کے جذبات رفتہ رفتہ عود کر آئے اور حافظ جی اپنے اندر نت نئی تبدیلیاں محسوس کرنے لگے، ان کا یہ وہم یقین میں بدل گیا کہ انھیں عشق ہو گیا ہے۔

اب انھیں ہر نسوانی آواز میں کشش محسوس ہونے لگی چھوٹی بٹیا کا سر اور پیر دباتے ہوئے انھیں تکان کا کوئی احساس نہ ہوتا تھا۔ طاہرہ کی آواز سن کر ان کا دل بری طرح دھڑکنے لگتا تھا وہ اُسے گھنٹوں برتن مانجھتے ہوئے سنا کرتے، برآمدے میں آدھ آدھ گھنٹہ اس انتظار میں کھڑے رہتے کہ طاہرہ ادھر سے نکلے اور اس کے قدموں کی آہٹ سنتے ہی ان کے دل کی کلی کھل اٹھتی تھی۔ دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا اور پھر نفسیاتی خلفشار سے ان کی حالت غیر ہونے لگتی تھی۔

رفتہ رفتہ جذبات تپ کر سُرخ ہو گئے اور ایک رات جب گھر میں ہر طرف سناٹا چھا گیا تو حافظ جی اٹھ کر طاہرہ کی کوٹھری کی طرف چلے کہ اسے جگا کر اطمینان سے دریافت کریں کہ مرضِ عشق کی دوا کیا ہے یقیناً اسے معلوم ہو گا کیونکہ انھوں نے اسے اچھے میاں کے ساتھ عشق کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سنا تھا۔ شاید ان کی قسمت بھی زور پر تھی۔ تھوڑی ہی دور جانے پر انھیں برآمدے میں اپنی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کی آہٹ ملی۔ قدم نہایت ملائمت کے ساتھ پڑ رہے تھے حافظ جی کو اپنی قوت سامعہ اور شناخت پر یقین کامل تھا کہ وہ کسی مرد کے قدم نہیں ہو سکتے پھر طاہرہ کے علاوہ اور کون عورت اتنی رات گئے اس شاگرد پیشہ کی طرف آئے گی۔ وہ برآمدے کے موڑ پر ہی رک گئے قدموں کی چاپ قریب آتی گئی۔ حافظ جی تلے ہوئے کھڑے تھے۔ قدم ان کے قریب آ کر رک گئے۔ غالباً آنے والے نے انھیں دیکھ لیا تھا۔ حافظ جی نے لپک کر اسے پکڑ لیا اور کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی کوٹھری کی طرف کھینچنے لگے۔ انھیں کوئی خاص دقت محسوس نہ ہوئی۔ جسم بہت نازک تھا اور فریق مخالف بھی بالکل مخالفت پر آمادہ نہ تھا!

کوٹھری میں لے جا کر حافظ جی نے اسے بتلایا کہ انھیں عشق نے کس بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے پھر انھوں نے اس کے بال ٹٹول کر اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور طوطے کی طرح بولے۔

’’ تمھارے یہ گیسو۔۔ یہ ناگن سی لٹیں اور۔۔ اور۔۔ ‘‘بس اس کے آگے انھیں کچھ معلوم نہ تھا کیونکہ اچھے میاں سے انھوں نے اتنا ہی سنا تھا۔ وہ تھوڑی دیر اس کے نرم نرم جسم پر ہاتھ پھیر کر لطف اندوز ہوتے رہے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ان کے سامنے روئی کے گالوں یا مکھن سے بنی ہوئی مورت لیٹی ہے پھر انھوں نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے چھوٹے بابو کا شعر دہرایا۔

’ عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ     جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے‘‘

نسخہ کامیاب رہا۔ انھیں عورت کے شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر ہانپنے کی آواز سنائی دی اور اس کے بعد حافظ جی کے مرضِ عشق کا علاج شروع ہوا۔

آپ کہیں گے اس واقعہ کا حافظ جی کے بلک بلک کر رونے سے بھلا کیا تعلق ہے! لیکن عجلت نہیں ذرا ٹھہریے مجھے بھی تسلیم ہے کہ اس واقعہ اور حافظ جی کے رونے میں کوئی خاص تعلق نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ بندر کو ادرک کا مزا مل گیا تھا اور حافظ جی نے آج رات بھی مرضِ عشق کا علاج کرنا چاہا تھا چنانچہ وہ رات کو تقریباً نو بجے ہی طاہرہ کی کوٹھری میں گئے وہ شاید کہیں جانے کی تیاری میں کنگھی چوٹی کر رہی تھی، آہٹ کا اندازہ لگا کر حافظ جی نے اسے پشت سے پکڑ لیا اور لپک کر بولے۔

’’ عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ‘‘

مصرعہ مکمل کرنے سے پہلے ہی انھیں طاہرہ کی چیخ سنائی دی۔ حافظ جی نے حیران ہو کر اُسے اورسختی سے پکڑ لیا اور جھنجھوڑ کر کہنے لگے۔

’’ تمھارے یہ گیسو، یہ ناگن سی لٹیں اور۔ اور۔ ‘‘

طاہرہ اور زور سے چلّائی۔ چھوٹے بابو اور اچھے میاں لپکتے ہوئے آئے اور حافظ جی پر خوب طبع آزمائی کی گئی دونوں کی پر خلوص کوشش یہ تھی کہ طاہرہ پر اپنا حق زیادہ جتانے کے لیے حافظ جی کو وہ ددسرے سے زیادہ نوازے۔

چنانچہ گیارہ بجے رات تک حافظ جی بلک بلک کر روتے رہے اور مرضِ عشق کو کوستے رہے اور طاہرہ کے رویہ پر حیران ہوتے رہے۔ اس رات کی طاہرہ اور آج کی طاہرہ میں اتنا فرق کیسے ہو گیا۔ یہ معمہ ان کی سمجھ سے باہر تھا اور دیکھو کمبخت کو زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے کیسا پوچھ رہی تھی حافظ جی رو کیوں رہے ہو؟ شاید چھوٹی بی بی سے بھی کہہ دیا ہو جبھی انھوں نے خبر لینے کے لیے بلوایا ہے۔ وہ ہانپتے کانپتے چھوٹی بی بی کے کمرے میں پہنچے۔

’’ کیا ہے بی بی جی۔۔ ؟‘‘ انھوں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

’’ سر میں درد ہے تھوڑی دیر دبا دو۔ ‘‘ چھوٹی بی بی بولیں۔

حافظ جی نے اطمینان کی سانس لی اور سر دبانے لگے۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک وہ چھوٹی بی بی کا سر اور پیر دباتے رہے اور پھر جب گھر بھر میں سناٹا چھا گیا تو چھوٹی بی بی نے اٹھ کر چپکے سے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور لیمپ گل کرتی ہوئی بولیں۔

’’ کیوں حافظ جی! اتنی بے وفائی۔ ؟‘‘

’’ جی۔۔ ۔ ‘‘ حافظ جی بالکل بوکھلا گئے۔

’’ میں کہتی ہوں اس رات تو مجھ سے عشق جتلا رہے تھے اور آج طاہرہ سے جا لپٹے۔ کیا وہ نگوڑی مجھ سے زیادہ حسین ہے؟‘‘

’’ بی بی جی! میں۔ میں۔ ‘‘ حافظ جی کو جیسے کسی بہت گہرے غار میں دھکیل دیا گیا ہو۔

’’ چلو اب مجھ سے بہانے نہ بناؤ۔ ‘‘ چھوٹی بی بی نے سسکتے ہوئے کہا۔ ’’بھاگ جاؤں تو خاندان کی ناک کٹتی ہے۔ بھائی نگوڑے جائداد کی لالچ میں شادی نہیں کرتے کہ میری شادی پر بٹوارہ کرنا پڑے گا ورنہ تم میں کوئی سرخاب کے پر نہیں ٹکے ہیں۔ اندھے نہ ہوتے تو اور۔۔ ‘‘

وہ حافظ جی کے پیر دبانے لگیں۔

(۱۹۵۹ء)

٭٭٭

 

 

 

وہ لوگ !

 

ڈنڈا پوری طاقت سے پڑا اور گلی چکر کاٹتی ہوا کو چیرتی نزدیکی تالاب میں جا پڑی۔ سطح آب پر ایک بڑی سی لہر دائرے کی شکل میں پیدا ہوئی۔ پھیلی اور معدوم ہو گئی لیکن کھلاڑیوں کے ننھے ذہنوں میں ابھرنے والی کھلبلی اتنی آسانی سے دور ہونے والی چیز نہیں تھی۔ اچھے خاصے کھیل کا سارا مزا کرکرا ہو گیا تھا۔

’’ابے گدھے!‘‘ ایک لڑکا ہاتھ ہلا کر چیخا۔ اس طرف گھوم کر مارنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’ دیکھ بے! زبان سنبھال کر بات کر‘‘ مجرم لڑکا اکڑ کر بولا۔ ’’میں نے جان بوجھ کر پھینکی ہے کیا تالاب میں ؟‘‘

’’ ہاں ہاں جان بوجھ کر پھینکی ہے‘‘ ایک دوسرا لڑکا بولا۔ اب تمھاری پارٹی کی باری تھی نا داؤ دینے کی۔ ‘‘

’’ ہاں سلیم ٹھیک کہتا ہے۔ ‘‘ دو تین لڑکے اور بھی حامی ہو گئے۔ ’’ تو نے اس طرف پھینکی تھی گلی؟‘‘

’’ بولتا کیوں نہیں بے شاہد کے بچے!‘‘

شاہد کا بچہ اور اکڑنے لگا، ننھے ذہنوں کا پارہ چڑھ گیا اور شاہد کے سر پر اس وقت تک دھپ پڑتے رہے جب تک کہ اس کی چیخ پکار سن کر ایک قریبی کھیت میں کام کرنے والے مزدور نے آ کر انھیں الگ الگ نہ کر دیا۔

شاہد روتا ہوا اپنے گھرکی طرف چلا، مزدور نے دوسرے لڑکوں سے کہا بہت شریر ہو گئے ہو تم لوگ۔ اب مزا ملے گا اسے پیٹنے کا۔ جب اس کی نانی نصیبن آ کر سب کی خبر لے گی۔

نانی نصیبن کا نام سنتے ہی سب لڑکوں کو سانپ سونگھ گیا۔ انھیں وہ بڑھیا زہر کی پڑیا یاد آئی جو بد قسمتی سے شاہد کی نانی تھی اور ہر بار جب شاہد سے ان لوگوں کا جھگڑا ہوتا تھا تو بغیر یہ پوچھے ہوئے کہ زیادتی کس کی تھی۔ ان کی بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی بھی حالت خراب کر دیتی تھی۔

اور جب شاہد محلے کی گلی سے گذر رہا تھا تو ایک عورت نے اسے روتا ہوا دیکھ لیا۔

’’ ارے شاہد میاں۔ ‘‘ اس نے پکار کر پوچھا۔ ’’کیوں روتے ہو تم؟‘‘

’’ سلیم نے مارا ہے ہم کو! ‘‘ شاہد نے روتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ اس کے ساتھ اور بھی لڑکے تھے۔ ‘‘ ایک قریبی مکان سے دوسری عورت گھڑا لیے ہوئے باہر نکل رہی تھی، پہلی عورت نے اُسے پکار کر کہا۔

’’ صفیہ بوا! ادھر آنا ذرا۔ ‘‘

’’ کیا بات ہے رابعہ؟‘‘ اس نے قریب آ کر پہلی عورت سے دریافت کیا۔ ’’ ارے یہ شاہد کیوں رو رہا ہے؟‘‘

’’ تمھارے سلیم نے مارا ہے اس کو۔ ‘‘ پہلی عورت بولی۔ ’’ میرا عزیز بھی کہیں ساتھ نہ رہا ہو۔ ‘‘

’’ہائے اللہ۔۔ ‘‘ گھڑا چبوترے پر رکھ کر صفیہ نے ما تھا پیٹا۔ ’’ اب آئی مصیبت، نانی نصیبن سارا محلہ سرپر اٹھا لیں گی ابھی۔۔ ‘‘

’’تو پھر کھڑی کھڑی دیکھ کیا رہی ہو۔ ‘‘ پہلی نے کہا۔۔ ’’ وہ روتا ہوا جا رہا ہے روک کر بہلا لو یہیں ورنہ واقعی جھمیلے میں پڑو گی۔ ‘‘

’’ کم بخت سلیم کو بار بار منع کیا کہ اس کے ساتھ نہ کھیلا کر، لیکن بچے کہیں باز آتے ہیں۔ ‘‘ ان دونوں نے لپک کر شاہد کو روک لیا۔ پہلی عورت پیار سے بولی۔

’’ شاہد بیٹے! چپ رہو۔ آنے دو سلیم کو۔ اسے خوب ماریں گے۔ ‘‘

لڑکا بدستور رو رہا تھا، عورتوں کے چہروں سے پریشانی ٹپک رہی تھی۔

’’ چپ رہو بیٹے!‘‘ صفیہ نے اسے بہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ بہادر لڑکے اتنی اتنی سی باتوں پر رویا نہیں کرتے۔ کھیر کھاؤ گے۔۔ ؟ بولو۔۔ ۔ ‘‘

’’ نانی اماں ناراض ہوں گی۔ ‘‘ لڑکا چپ ہو کر اس مسئلہ پر غور کرنے لگا۔

’’ نہیں ۔۔ !‘‘ صفیہ نے اس کی کلائی پکڑ کر اپنے گھر کی طرف لے جاتے ہوئے کہا۔ ’’ ان کو نہیں بتائیں گے۔ آؤ۔ ‘‘

وہ اسے لے کر مکان کے اندر داخل ہو رہی تھی کہ سامنے والے مکان سے جو تقریباً کھنڈر ہو چکا تھا۔ ایک تقریباً ستّر سالہ بوڑھی عورت جس کے بدن سے چیتھڑے لٹک رہے تھے، عصا ٹیکتی ہوئی باہر نکلی۔

’’ اری صفیہ!‘‘ کہاں لے جا رہی ہو شاہد میاں کو؟‘‘ صفیہ ٹھٹک کر کھڑی ہو گئی۔ شاہد نے اپنی کلائی جھٹکا دے کر اس کے ہاتھ سے چھڑا لی۔ ‘‘

’’ شاہد میاں۔ ادھر آؤ بیٹے!‘‘ بڑھیا نے لڑکے کو بلایا۔ ’’ کیا بات ہے؟‘‘

شاہد اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ بڑھیا نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

’’بولتے کیوں نہیں میرے لال۔ ! میرا کلیجہ ڈول رہا ہے۔۔ ‘‘

نانی اماں، ہم کو سلیم۔۔ ۔۔ ‘‘ لڑکا کہنے والا تھا کہ صفیہ نے گھبرا کر بات کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔

’’ نہیں نصیبن نانی!‘‘ وہ بڑھیا کے قریب آتے ہوئے بولی۔ ‘‘ آج سلیم کے ابا نے کھیر پکوائی تھی، میں نے کہا دو لقمے شاہد میاں کو بھی کھلا دوں۔ ‘‘

’’ اری واہ ری نواب زادی!‘‘ بڑھیا تنک کر بولی۔ ’’ شاہد میاں کو تم نے فقیر کا بچہ سمجھ رکھا ہے کہ دو لقمے کھیر کھلانے لے چلیں۔ ہونہہ۔ کھیر کھلائیں گی یہ میرے بچے کو۔ اللہ کا دیا ہمارے گھر میں سب کچھ ہے۔۔ اپنی نعمت اپنے ہی پاس رکھو۔ سمجھیں !‘‘

پھر وہ شاہد سے مخاطب ہو کر بولی۔

آؤ میرے راجہ بیٹے، تم کتنی کھیر کھاؤ گے۔ ؟ میں۔ میں ابھی پکاتی ہوں ۔۔ ‘‘

بڑھیا شاہد کا ہاتھ پکڑے کھنڈر نما مکان کے اندر چلی گئی۔ صفیہ تھوڑی دیر تک کھڑی ہوئی سوچتی رہی پھر ناک چڑھا کر بڑبڑاتی ہوئی کنوئیں کی طرف بڑھی۔

’’ ہونہہ۔۔ ‘‘ ٹکا پاس نہیں اور بڑھیا کے مزاج رانیوں جیسے ہیں۔ واہ ری دنیا۔ ‘‘

پہلی عورت جھاڑو دے رہی تھی، پوچھنے لگی۔

’’ کیوں بوا۔۔ کیا ہوا۔۔ ‘‘

’’ نصیبن نانی کو کہہ رہی تھی۔ ‘‘ صفیہ نے گھڑا اٹھاتے ہوئے کہا۔۔ ’’ اُن کے دماغ ہی ڈھونڈھے نہیں ملتے!‘‘

’’ تو یہ کون سی نئی بات ہے بوا؟ خیر مناؤ کہ بات اتنی آسانی سے ٹل گئی۔ ‘‘ دونوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مسکرانے لگیں۔

رام سیوک مہاجن کی دوکان پر کافی بھیڑ تھی۔ اس قصبہ کا سب سے بڑا مہاجن وہی تھا۔ آج کل فصل بونے کا زمانہ تھا۔ اس لیے ڈیوڑھے اور دُگنے پر بھی لوگ قرض لینے کے لیے ٹوٹے پڑتے تھے۔ اس طرح کچھ تو پیدا ہونے کی امید تھی۔ ورنہ کہیں کھیت بن بوئے رہ گئے تو۔۔ غرض لین دین کا بازار گرم تھا۔

نصیبن نانی عصا ٹیکتی ہوئی دوکان پر پہنچیں۔

’’ اخاہ! نانی آئی ہیں ۔۔ ‘‘ مہاجن انھیں دیکھ کر تپاک سے جو طنز آلود بھی تھا بولا ’’ کہو ۔۔ کیا اپنے کڑے چھڑانے آئی ہو نانی!؟‘‘

’’ نہیں بیٹا!‘‘ نصیبن نانی نے کہا۔۔ ’’ ابھی کڑے چھڑانے کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ لیکن تم گھبراتے کیوں ہو؟ میرے شاہد کو پڑھ کر جوان ہو جانے دو کڑے تو کیا اپنی آبائی زمین تک تم سے چھڑا لے گا۔ ‘‘بڑھیا کی آنکھ میں آشاؤں کے دیپ جگمگانے لگے۔

’’ ہاں وہ تو سب ٹھیک ہے۔ ‘‘ رام سیوک نے گھبرا کر کہا اور دوسرے آسامیوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ نصیبن نانی نے عصا ایک کونے میں ٹیک دیا اور قریبی بنچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’ بچہ ہے، کبھی کبھی ضد کرنے لگتا ہے۔ ‘‘

پنچ پر بیٹھے ہوئے بھگو کسان نے ایک بار رام سیوک کی موٹی توند اور کرخت چہرے کو دیکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنے سے قطعاً انکار کر دیا کہ وہ ابھی بچہ ہے رہی بات ضد کی سو اس کا اسے کافی تجربہ تھا۔ اس نے نانی سے جو اب کسی طرف سے جواب نہ پا کر کچھ مایوس نظر آنے لگی تھیں، دریافت کیا۔

’’ کس کے بارے میں کہہ رہی ہو نصیبن نانی؟‘‘

’’ وہی اپنے شاہد میاں ۔۔ ‘‘ تنک کر نصیبن نانی نے کہا۔ ’’ میں بھی کہتی ہوں بچے کا دل نہ ٹوٹے۔ جانتے ہو کہ یہ میری اکلوتی بچی کا لڑکا ہے۔ وہ اللہ کو پیاری ہوئی تو باپ نے دوسری شادی کر لی۔ میں اس کو اپنے ہاں لے آئی۔ ارے ہاں۔ وہاں سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر پڑا رہتا۔ دوسرے اس کا ارادہ اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر پاکستان جانے کا تھا۔ میں کیسے اپنے لال کا چہرہ دیکھ سکتی اب اللہ رکھے پانچویں کلاس میں پڑھتا ہے، اچھا کھاتا ہے، اچھا پہنتا ہے۔۔ ‘‘

’’ ٹھیک تو کہتی ہے نانی۔ ‘‘ رام سیوک، بھگّو سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’ پچھلی عید پر مجھ سے پچاس روپے ادھار لے کر شاہد میاں کے لیے اسی کپڑے کا جوڑا سلوایا جو چودھری الطاف کے لڑکے نے پہنا تھا۔ ‘‘

’’ طعنے مارتے ہو مہاجن!‘‘ نانی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ ’’پچاس روپے ادھر سے لے گئی ہوں تو چوکھے سونے کی بالیاں نہیں رکھی ہیں تمھارے پاس؟ ایک تولہ سے بیشی ہی ہوں گی اللہ بخشے شاہد میاں کے نانا ہوتے تو۔ اس کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے نانی ٹھیک ہے۔ ‘‘ مہاجن تیر و نشتر سے گھبرایا۔ ’’ آج اس وقت کیسے کشٹ کیا۔ ‘‘

’’کچھ نہیں، شاہد میاں آج ضد کر رہے ہیں۔ ‘‘نصیبن نانی نے جواب دیا۔ ’’ کہتے ہیں اب کتابیں پُرانی ہو گئی ہیں۔ نئی لوں گا۔ میں نے سوچا بچے کا دل کیوں چھوٹا کروں۔ لاؤ دس روپے دے دو۔ پانچ چھ کتابیں آ جائیں گی باقی کا اس کے لیے حلوہ بنا دوں گی ناشتہ کے واسطے۔ ‘‘

’’ لیکن نانی اب۔۔ ‘‘

’’ دیکھو رامو۔۔ ‘‘ بڑھیا تنک کر کہنے لگی۔۔ ’’ تم مجھ سے تین پانچ تو نہ کرو۔ کیا کبھی ویسے ہی روپے لے گئی ہوں۔ تمھارے یہاں سے۔ دس لیے ہیں تو بیس کا زیور رکھا ہے۔ میرا سب کچھ تمھارے ہی یہاں تو آ گیا گھوم پھر کر۔ لیکن اس کی کوئی شکایت نہیں ہے۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ کبھی ہمارا بھی وقت پھرے گا۔ مجھے تو لڑکے کی فکر ہے ورنہ اپنا کیا ہے۔ کپڑے کی سلائی اور محنت مزدوری میں اتنا مل ہی جاتا ہے کہ پیٹ کا دوزخ بھر جائے۔ ‘‘

’’ نانی! بالیاں جو تم نے عید پر گروی رکھی تھیں وہ پون تولے کی تھیں اس میں بھی دو ماشہ کھوٹ، اب ان میں تو میں کچھ بھی نہیں دے سکتا، پچاس ہی بہت تھے۔ ‘‘

’’ اچھا۔ اچھا نہ دو اس میں ’’ نصیبن نانی نے جھنجھلا کر کہا۔۔ ’’ یہ لو انگوٹھی، پورے آدھے تولے کی ہے۔ ‘‘ انگوٹھی لے کر مہاجن نے غور سے دیکھی۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’’ نہیں نانی! یہ میں نہیں لوں گا۔ وہ انگوٹھی واپس کرتا ہوا بولا۔ روپئے تم ویسے ہی لے جاؤ۔ انگوٹھی تو شاہد میاں کے نانا کی نشانی ہے تمھارے پاس۔ مجھے معلوم ہے تم اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہو۔ ‘‘

’’ مجھ نگوڑی کی جان بھلا کیا قیمت رکھتی ہے پگلے۔۔ ‘‘ بڑھیا کی آنکھوں میں آنسو جھلک آئے۔ بھگّو نے کہا۔

’’ رکھ کیوں نہیں لیتے سیٹھ! تمھیں اس سے کیا غرض ہے؟‘‘

’’نہیں جی! تم نہیں سمجھ سکتے۔ ‘‘ مہاجن کے اندر انسانیت کی ایک رمق جو باقی تھی جگمگانے لگی۔ ’’ یہ انگوٹھی نانی کو بہت پیاری ہے۔ مجھے یاد ہے کہ شاہد میاں کے ختنے میں بھی انھوں نے یہ انگوٹھی بیچنا منظور نہیں کیا۔ اس کے بدلے اپنی زمین اور مکان گروی رکھ دیا تھا۔

اس نے منیم سے کہا۔۔

’’ سکھ لال! نانی کو دس روپے دے دو۔ ‘‘

’’ کس کھاتے میں لکھوں سیٹھ جی۔۔ !؟‘‘

’’ دان کھاتے میں ۔۔ ‘‘ رام سیوک نے آواز دبا کر کہا۔

نانی نے اس کی بات سنی نہیں تھی۔ پھر بھی نوٹ واپس پھینک کر بولی۔ رکھ لو مہاجن اپنے روپے! نہیں چاہئیں ہم کو۔ کیا کوئی فقیر سمجھ رکھا ہے تم نے ہمیں ؟ ان خیرات کے روپیوں سے میں اپنے بچے کی کتابیں خریدوں گی! ہونہہ!‘‘

وہ کھڑی ہو کر دوکان سے باہر جانے لگیں۔

’’ لاؤ نانی! اب تمھارے مزاج کو کیا کہوں۔ ؟‘‘ مہاجن مجبور ہو کر بولا۔

نانی نے انگوٹھی اس کی طرف پھینک دی۔ نوٹ لے کر پھٹے ہوئے ڈوپٹے کے پلّو میں باندھا اور باہر نکل آئی۔ آنسو کا ایک قطرہ ہزار ضبط کے باوجود اس کے خشک جھری دار گالوں پر لڑھک آیا جسے اس نے گھبرا کر جلدی سے پونچھ لیا اور مسکرا کر بولی۔ ’’ ہونہہ!‘‘

۔۔ ۔۔ ۔۔

’’نانی اماں ! ‘‘ شاہد نے اسے جھنجوڑ ڈالا۔

’’ کیا ہے میرے لال۔ ؟‘‘ وہ کراہتے ہوئے بولی۔

’’ لاؤ کھانا مجھے اسکول جانے کو دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘

نصیبن نانی تین ہفتوں سے مسلسل بخار میں پھنک رہی تھی۔ علالت نے کپڑے سینے سے بھی معذور کر رکھا تھا۔ اس بیماری کے عالم میں بھی وہ گھر کا تمام اثاثہ فروخت کر کے خود فاقہ پر فاقہ کرتی رہی۔ لیکن شاہد کو تکلیف نہ ہونے دی۔ لیکن آج۔ !

’’ بیٹا ابھی ایسے ہی چلے جاؤ۔ دو بجے کی چھٹی میں آ کر کھا جانا میں تیار رکھوں گی۔ ‘‘ وہ اپنا دل تھام کر کراہی جسمانی کرب کی اس نے کبھی پرواہ نہ کی تھی لیکن یہ تو روحانی کوفت تھی۔

’’ نہیں نہیں ہم کو زور سے بھوک لگی ہے نانی اماں !‘‘ شاہد مچل کر بسورنے لگا۔

’’ ضد نہیں کرتے میرے لال۔ ‘‘

’’ نہیں نہیں، بھوک لگی ہے ہم کو۔ ‘‘ وہ اور مچل گیا۔

’’ اچھا جا کر صفیہ کو بلا لاؤ۔ ‘‘ بڑھیا نے مجبور ہو کر کہا۔

شاہد لپکا ہوا گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد صفیہ کے ہمراہ واپس آیا۔

’’ کیا ہے نصیبن نانی؟‘‘ صفیہ نے ہمدردی سے دریافت کیا بڑھیا نے اسے جھکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے سے کچھ کہا۔

بات سن کر صفیہ جلدی سے سر ہلا کر باہر چلی گئی۔ شاہد نے تنک کر کہا۔

’’ نانی اماں ! دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘

’’ صبر کرو بیٹے، تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ۔ ذرا ا، دھر آ میرے لال۔ میرے ہیرا بیٹے! ‘‘ اس نے شاہد کو قریب بلایا اور لرزتے ہوئے اس کے سر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

تھوڑی دیر بعد صفیہ ایک تھالی میں کھانا لے کر آ گئی۔

’’کھا لو بیٹھ کر۔ ‘‘ نصیبن نانی نے شاہد سے کہا اور عجیب سی نگاہوں سے اُسے دیکھتی رہی۔ ایسے عمدہ لذیذ کھانے شاہد کو عرصہ سے میسر نہ آئے تھے۔ دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ جلدی سے ہاتھ دھو کر آیا اور کھانے بیٹھ گیا۔

لیکن ابھی پہلا ہی لقمہ اس کے منہ میں گیا تھا کہ نصیبن نانی بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور پوری طاقت سے چیخی۔

’’ خیرات کا کھاتا ہے۔۔ حرام کے جنے!‘‘

اس نے پوری طاقت سے ایک لات شاہد کی پیٹھ پر ماری اور خیرات کا لقمہ شاہد کے منہ سے باہر نکل پڑا۔ اس نے بوکھلا کر نصیبن نانی کی طرف دیکھا جو بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی تھی!

دوسرے دن چندے کے پیسوں سے نصیبن نانی کی تجہیز و تکفین ہوئی اور شاہد کو قریبی شہر کے یتیم خانے میں داخل کر دیا گیا۔

(۱۹۶۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

نقش فریادی

 

سوچتا ہوں یہ کہانی میں کیسے لکھ سکوں گا؟

در اصل میں بیحد اداس ہوں۔ پریشانیوں نے مجھے بری طرح سے گھیر رکھا ہے۔ مجھ پر بہت ذمہ داریاں ہیں اس بھری دنیا میں اپنے آپ کو یکہ و تنہا پاتا ہوں۔ کوئی مونس نہیں کوئی غمخوار نہیں۔ غیرت مند اور حساس بھی بہت ہوں ذرا سی بات کو گھنٹوں محسوس کرتا ہوں۔ وہ معمولی سی تکلیف جو دوسروں کو قطعی متاثر نہیں کرتی میرے دل میں عرصہ تک کسکتی رہتی ہے۔ مجھے روپیوں کی ضرورت ہے میری بیوی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے، میرا بھانجہ ذہین ہے اس کی تعلیم کے لیے، میرے والدین ضعیف ہیں ان کی ضروریات کے لیے، میں ادیب ہوں اپنی عزت بنائے رکھنے کے لیے۔ واقعی مجھے روپیوں کی سخت ضرورت ہے۔

ہر طرف خیال دوڑاتا ہوں۔ اپنے کسی دوست سے مانگ لوں لیکن وہ لوگ تو بیچارے خود ہی اپنے حالات سے پریشان ہیں، ایک نادار ادیب کے ایسے بے تکلف دوست، جن سے وہ امداد طلب کرنے میں غیریت محسوس نہ کرے، اس کے اپنے جیسے ہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ پھر کیا افسرِ اعلیٰ سے درخواست کروں ؟ لیکن وہ کس قانون کے تحت مجھے پیشگی رقم دے سکیں گے؟نجی طور پر وہ میری کوئی مدد کر نہیں سکتے ان کے اپنے ذاتی اخراجات ہی اس قدر زائد ہیں کہ تنخواہ کفیل نہیں ہوتی۔ ضمیر کے خلاف رشوت لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

ہر طرف تاریکی ہے۔ امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ صرف ایک راستہ ہے، واحد ذریعہ جس کے توسط سے کچھ روپے مل سکتے ہیں۔ اس رسالے کے لیے ایک افسانہ لکھوں جس کے مدیر اعلیٰ نے گزشتہ ہفتہ لکھ بھیجا تھا۔

محترمی!

آپ کا افسانہ’ موڑ‘ بھی ہم نہ چھاپ سکیں گے۔ اسے آپ کسی ایسے رسالہ میں بھیجئے جو بغیر معاوضہ ادا کیے ہوئے آپ کے افسانے چھاپتا ہو۔ ہمارے لیے آپ کوئی رومانی کہانی لکھیے جس میں کیف ہو۔ سرور ہو۔ کردار ہنستے کھیلتے ہوں اور انجام نشاطیہ ہو۔ آج کا انسان مسرت اور خوشی چاہتا ہے۔۔ ۔۔

لیکن میں اپنے فن کے ساتھ غداری کیسے کروں ؟مجھے اپنے ماحول میں تو حقیقی مسرت کہیں نظر نہیں آتی۔ ہر فرد اپنی جگہ مضطرب ہے اور رنجور آنسو نہیں نکلتے تو بیچارگی سے ہنستے ہیں اور ہنسی نہیں آتی تو رونے لگتے ہیں۔ سرور کیا ہے؟ کیف کیا چیز ہے؟ نشاط کس چڑیا کا نام ہے۔ پھر میں کیسے لکھوں جیتی جاگتی دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر کے حقیقت پسندی کا گلا کیسے گھونٹ دوں۔ لیکن ساتھ ہی مجھے روپیوں کی فوری اور اشد ضرورت ہے کوشش کر رہا ہوں اس قسم کی کوئی کہانی لکھ ہی ڈالوں لیکن سوچتا ہوں یہ کہانی میں کیسے لکھ سکوں گا۔ ؟

اب میں نے بیڑی بجھا کر پھینک دی اور آنکھیں بند کر کے بالوں میں انگلیاں پھنسا لی ہیں۔ سوچو۔ سوچو۔ کہیں کچھ نہیں۔ تاریکیوں نے ذہن پر پردے ڈال رکھے ہیں۔ نشاط و مسرت، کیف وسرور کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں لگتا۔ اچانک تحت الشعور سے ایک تاریک سایہ رینگ کر سامنے آ جاتا ہے۔ دبلا پتلا مٹیالی رنگت کا نوجوان ہے، پچکے ہوئے گال، الجھے ہوئے بال، لباس صاف ستھرا اور بے شکن ہے اور ہونٹوں پر بڑی معصوم سی مسکراہٹ۔

’’ پہچانتے ہو مجھے۔ ؟‘‘

میں انکار میں سر ہلا دیتا ہوں۔

’’ کیسے ادیب ہو جی تم؟ ان لوگوں کو نہیں پہچان سکتے۔ جنھیں تم نے جنم دیا ہے جن کی رگوں میں تمھارا خونِ جگر گردش کرتا ہے جو تمھاری انگلیوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں، جن کی موت اور زندگی تمھارے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘

’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو بھائی؟‘‘ میں زہر خند کے ساتھ اس سے سرگوشی کرتا ہوں۔ ‘‘ میں خود ہی دوسروں کے اشاروں پر گردش کرتا ہوں۔ غریب جو ہوں ایک معمولی سا افسانہ نگار جسے خود ہی زندہ رہنے کے وسیلے حاصل نہیں، تمھاری زندگی اور موت کا مالک کس طرح ہو سکتا ہوں میں ؟‘‘

وہ بڑے زور سے قہقہہ لگاتا ہے۔

’’ یہی تو لطف کی بات ہے مظفر صاحب! تم غریب ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ افسانہ نگار بھی ہو، تمھارے قلم میں طاقت ہے، تم اپنے کرداروں کو جنم دیتے ہو، انھیں انگلیوں پر نچاتے ہو، جب تک جی چاہتا ہے انھیں زندہ رکھتے ہو اور جب جی میں آتا ہے انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہو۔ میری طرف غور سے دیکھو۔ کیا واقعی تم نے مجھے نہیں پہچانا۔ ؟‘‘

میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہوں لیکن تھکا ہوا مضمحل دماغ ساتھ نہیں دے رہا ہے۔

’’ نہیں پہچانا۔ میں رمیش ہوں، رمیش !تمھارے افسانے’ موڑ‘ کا ہیرو۔ ‘‘

’’ اوہ رمیش!‘‘ میں حیرت سے چیخ پڑتا ہوں۔ ’’تم اب تک زندہ ہو۔ ؟‘‘

’’ کیوں !حیرت کی کیا بات ہے اس میں ؟ تم نے مجھے زندہ جاوید جو بنا دیا ہے۔ تم نے مجھے متوسط گھرانے میں جنم دیا، اعلیٰ تعلیم دلوائی اور پھر میرے سرپر مجبوریوں کا پہاڑ لا کھڑا کیا۔ میں نے در در کی ٹھوکریں کھائیں لیکن مجھے ملازمت نہ مل سکی کیونکہ تم مجھے خوش و خرم نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ آخر کار تم نے مجھے اتنا پریشان اور اتنا مجبور کیا کہ میں زندگی سے بیزار ہو گیا اور جب میں خود کشی کرنا چاہتا تھا تم نے مجھے کافی اچھی تنخواہ پر ملازم رکھوا دیا۔ شراب کی ناجائز تجارت کرنے والے اور قمارخانہ چلانے والے سرمایہ دار کے ہاں۔ میں مجبور تھا کیونکہ تم نے میرے ساتھ مجبوریاں لگا دی تھیں۔ اب اتنی اچھی ملازمت چھوڑ کر میں مر بھی کیسے سکتا ہوں ؟‘‘

میں رونی صورت بنا کر کہتا ہوں۔

’’ ہٹ جاؤ رمیش میرے سامنے سے!مجھے سوچنے دو، میں بہت پریشان ہوں، مجھے ایک نشاطیہ رومانی کہانی لکھنی ہے۔

وہ زور زور قہقہے لگانے لگتا ہے۔

’’ تم نہیں لکھ سکتے۔ تم نہیں لکھ سکتے۔ تم قنوطی ہو۔ یاسیت نے تمھارے ذہن پر اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ تم صرف زندگی کا تاریک پہلو دیکھ سکتے ہو۔ تم نے اپنے غم کو سارے زمانے کا سمجھ رکھا ہے۔ اس لیے تمھیں کہیں مسرت نظر نہیں آتی، تمھارے مخصوص حالات کے تحت جب تمھیں کہیں ملازمت نہیں ملتی تو تم مجھے شراب کی تجارت اور قمار خانے کا منیجر بنا دیتے ہو۔ جب تمہاری قنوطیت اور اداس فطرت سے تنگ آ کر تمھاری محبوبہ تم سے بے اعتنائی برتتی ہے تو تم جھنجھلا کر اپنے معصوم فطرت کرداروں کو بالا خانے کی زینت بنا دیتے ہو۔ خود کسی کی مدد کرنے سے مجبور ہو۔ اس لیے تمھارے کردار ہمیشہ ایسے مواقع پر مجبور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مظفرؔ حنفی! تم کبھی رومانی افسانہ نہیں لکھ سکتے۔ تم میں اتنی جرأت ہی نہیں کہ مسکرا کر مصیبتوں کا سامنا کر سکو۔ تم اپنے غم کو سارے زمانے کا غم سمجھتے ہو۔ ‘‘

’’ ہٹ جاؤ رمیش!۔۔ ورنہ۔۔ ‘‘

’’ ورنہ تم مجھے مار ڈالو گے، یہی نا۔۔ ؟‘‘‘

’’‘ہاں میں تمھیں ما ر ڈالوں گا۔ ‘‘

’’ مجھے نہیں مار سکتے تم۔ میں قمار خانے کا منیجر ہوں، ایک ہزار روپیہ ماہوار کماتا ہوں۔ تم دو ٹکے کے افسانہ نگار! تم مجھے کیا مارو گے۔ ؟‘‘

’’ نہیں مانتے تو لو۔۔ !‘‘

میں جوش میں آ کر آنکھیں کھول دیتا ہوں۔ میز کی دراز سے اپنے افسانے ’ موڑ‘ کا مسودہ نکال کر چاک کر دیتا ہوں ! پھر یکایک میرے ذہن میں بجلیاں سی کوند نے لگتی ہیں اور میں تیزی سے نئے صفحے پر لکھنے لگتا ہوں۔

’’میں نے سارے جہاں کی مسرتوں کو اپنے دامن میں بھر لیا ہے۔ ہر زید ہر بکر کی خوشی میری اپنی خوشی ہے۔ ‘‘ میں ایک نشاطیہ کہانی لکھ رہا ہوں ایک رومانی افسانہ۔ لیکن لا شعور میں اب بھی ایک سوال رہ رہ کر لہرا رہا ہے۔

کیا میں یہ کہانی لکھ سکوں گا۔ ؟

(۱۹۵۹ء)

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید