FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

بنات الصلیب

 

 

 

                   قمر الدین احمد

 

 

 

 

 

                   پیش لفظ

 

Daughters of The Cross

 

بنات الصلیب

 

ان اوراق میں ان عیسائی عورتوں کا تذکرہ ہے جو مسلمانوں کے حرم میں داخل ہو کر یا باہر رہ کر قرونِ اولیٰ سے اسلام اور اہلِ اسلام کی تباہی کا باعث بنی رہیں اور آج بھی صدیوں پرانی کلیسائی منصوبہ بندی کے تحت ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے گھروں میں اڈہ جمائے نہ صرف مالی منفعت اندوزی اور دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروف ہیں بلکہ جاسوسی کی ایسی ہی سرگرمیوں میں منہمک ہیں جن کی بدولت مسلمانوں کا قبلہ اوّل جون 1967ء میں 14سو برس کے تسلط کے بعد ان کے قبضہ سے نکل گیا۔

 

 

از رشحات قلم

قمر الدین احمد

 

 

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمان الرحیم

 

بنات الصلیب

 

مئی ۱۴۵۳ء کو سلطان محمد ثانی رحمہ اللہ کی زیرِ سرکردگی مسلمانوں نے قسطنطنیہ کو مملکت اسلامیہ کا جزو بنایا، یہ ایک مقدس اور عظیم الشان فتح تھی، جس کے نتیجے میں یہ مقدس فاتح لشکر اور اس کا زعیم مجاہد رسول پاکﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق جنتِ ارضی کا حقدار ٹھہرا۔ یہی وہ کامرانی تھی کہ جس کے نتیجے میں سلطان محمد ثانی سلطان محمد الفاتح کے نام سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا اور یہی وہ فتح تھی جو صلیبیوں کے دلوں کو حسرت و نامرادی کے داغ دے گئی۔ ان کی ہمتیں پست اور ان کے عزائم خاک آلود کر گئی۔ ’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘کے بعد صلیبیوں نے ہمیشہ کے لیے ’’صلیبی جہاد‘‘ کا عزم ترک کر دیا، مگر ۱۴۶۴ء میں ’’ولولۂ ایمانی‘‘سے لبریز بوڑھے پوپ پالیس ثانی ( Pope Plus-II )نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے ذاتی اخراجات پر ’’صلیبی جہاد‘‘ کا بیڑا اٹھایا۔ ۸ جولائی ۱۴۶۴ء کو سینٹ پٹر کی ایک تقریب میں صلیب برداری کی مذہبی رسم ادا کی اور بڑی مشکل سے بحری بیڑے کا اہتمام کیا، پوپ کے رفقاء نے جب یہ محسوس کر لیا کہ وہ جاں بلب چند گھڑیوں کا مہمان ہے تو اسے باور کروایا کہ اس کے ساتھ نہ یورپ کے عوام ہیں اور نہ بادشاہ اور شہزادے، حتیٰ کہ جو لوگ اس ’’مقدس جہاد‘‘ میں شریک ہونے کے لیے شامل ہوئے تھے، ان کی ایک نمایاں اکثریت بھی بھاگ چکی ہے۔ بایں ہَمہ ۱۴ اگست ۱۴۶۴ء کو پوپ پالیس ثانی کی شمع حیات بھی گل ہوئی۔ ’’صلیبی جہاد‘‘ کا شوق بھی اہلِ یورپ نے دل سے نکال پھینکا۔

مسلمانوں نے یہی سمجھا، تاریخ نے یہی دیکھا، مگر حقیقت کیا تھی؟حقیقت کو دیکھنے کے لیے سرمۂ بصیرت، رعنائی وجدان اور گیرائیِ فکر کی ضرورت تھی، جن کے پاس یہ کچھ تھا انہوں نے حقیقت کو دیکھا مگر آہ!ایسے افراد کی تعداد ہی کتنی ہے ؟اور پھر جو کچھ دنیا کو میسر آئے ہیں دنیا نے ان کی قدر ہی کتنی کی ہے۔ اہلِ صلیب نے ’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘کے بعد غیرت مندانہ طریقے سے مسلمانوں سے لڑنے کا شوق ضرور دل سے نکال پھینکا تھا مگر عیّاری، مکاری اور شاطرانہ چالوں کے چلنے سے ذہن کو معذور اور ہاتھوں کو دستِ کش نہیں کیا تھا، انہیں جب موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کے پشت پر خنجر گھونپنے میں تاخیر نہیں کی۔

اہلِ صلیب کی شاطرانہ چالوں اور مکارانہ حربوں میں سب سے کامیاب چال اور سب تیر بہدف حربہ اپنی لڑکیوں کا مسلمانوں کے عقد میں دینا ہے۔ انہوں نے اپنے طبقۂ اناث کی ذہین و فطین، خوبصورت دوشیزاؤں کو اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر تربیت دی اور ’’آفرین‘‘ ہے اس بے غیرت قوم کی بے غیرت بیٹی پر جو اپنے قوم کی لٹی ہوئی ناموس پر اپنے عصمت و عفت کو لٹانے کے لیے بآسانی تیار ہو گئی۔ یہ سلسلہ ’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘سے قبل چلا آ رہا تھا مگر ’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘کے بعد تو گویا صرف یہی راہ رہ گئی۔ خود قیصر قسطنطنیہ نے بھی اسی حربے کو استعمال کیا، چنانچہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی رقمطراز ہیں :

’’قیصر قسطنطنیہ نے اپنی تین خوبصورت لڑکیاں اس توقع میں پیش کیں کہ ایک سے سلطان مراد خان خود نکاح کرے اور دو اس کے دونوں بڑے بیٹوں کی بیویوں میں شامل کی جائیں، اس لڑائی کے بعد قیصر قسطنطنیہ سلطان مراد خان کے یورپ سے بے دخل اور واپس کرنے سے مایوس ہو کر اس کوشش میں مصروف رہنے لگا کہ سلطان سے اس کی صلح رہے اور وہ اپنے مقبوضہ ملک اور قسطنطنیہ کے تخت پر حکمران رہنے دیا جائے۔ ‘‘[تاریخ اسلام:۳/۳۳۰]

قیصر قسطنطنیہ کا یہ حربہ تو کامیاب نہ رہا اور بالآخر سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کو تسخیر کر لیا۔

بہرحال ایک طرف صلیبیوں کی مکاریاں بھی جاری رہیں اور دوسری طرف مسلمان بھی چراغِ عدو کی کرنوں سے شکار ہوتے رہے۔ وقت گزرتا گیا، ایمان و یقین کی جگہ مادیّت پرستی پروان چڑھتی چلی گئی۔ یہ امت مسلمہ کا المیہ ہے کہ اب اس کی کوکھ سے صلاح الدین ایوبی جیسے جری کی بجائے انو السادات جیسے مصلحت کیش جنم لیتے ہیں، محمد الفاتح جیسے مدبر کی بجائے انور کمال پاشا(اتاترک)جیسے ملحد و دہریے جنم لیتے ہیں، فتح علی خاں ٹیپو جیسے اصول پرست مجاہد کی بجائے یحییٰ خاں جیسے عقل و فہم سے کور فرد جنم لیتے ہیں۔

عیسائی دوشیزاؤں کا مسلم معاشرے میں اختلاط کیا رنگ لایا؟

٭ہمارے سیاسی زوال کا سبب بنا۔

٭کتنی ہی مضبوط مملکتیں فنا کا جام پینے پر مجبور ہوئیں۔

٭فحاشی و عریانیت اور قحبہ گری کو فروغ ملا۔

٭مردوں کی نظر میں ان کی غیرت اور عورتوں کی نظر میں ان کی عصمت بے توقیر ہوتی چلی گئی۔

گو آج ایک مسلمان لڑکی نے بھی ’’دوپٹہ پالیسی‘‘ترک کر کے مغرب کی نقالی کی طرف ایک قدم مزید بڑھا دیا ہے، گو آج نامعلوم کتنی ہی مسلمان لڑکیاں اپنی سب سے قیمتی متاع کو دامنِ اعمال کی سیاہیوں کا سبب بنا رہی ہیں فیاسفاعلیٰ ھذا۔ مگر جان لینا چاہیے کہ اس سے اہلِ صلیب کے کلیجے ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے۔ ..۔ ..۔ ..۔

اہلِ صلیب کو مسلمانوں پر در آئے کم از کم ڈیڑھ صدیاں گزر چکی ہیں مگر یہاں تو لڑے بغیر ہی سپر ڈال دی گئی ہے، کیونکہ فہم و ادراک کا استعمال تو یہاں ممنوع ہے۔ ’’دجالِ عصر‘‘ کی زبان سے گو ’’صلیبی جنگ‘‘ کی طبل بجانے کا اظہار ہو چکا ہے مگر ہمارے کانوں میں تو روئیاں ٹھسی ہوئی ہیں، جو کچھ ’’اگلے وقتوں ‘‘کے ہمارے درمیان موجود ہیں انہیں اب ’’آقا‘‘ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسلمان بھی ’’بنیاد پرست‘‘ اور ’’انتہاپسند‘‘کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ امّتِ مسلمہ کی باگ اب ان ہاتھوں میں ہے جو ’’فرعونِ عصر‘‘ کے درباری ہیں ؎

مجھے ان سے ہے وفا کی امید         جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ؟

بہر حال جو لوگ اپنی نسبتیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب کرتے ہیں کاش وہ اب اس غفلت ومساہلت کی فضا سے باہر نکلیں و اللّٰہ ولی التوفیق۔

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن دردمند دل مصنف نے تقریباً ۱۹۷۰ء کو شائع کروایا تھا پھر اس کی تلخیص بھی خود ہی کی تھی۔ یہ(معلوم ذرائع کے مطابق)اس تلخیص کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ معلوم نہیں اس کتاب کے مصنفِ گرامی بقیدِ حیات ہیں یا اپنے محبوب بارگاہِ ایزدی جا چکے ہیں۔ اگر بقیدِ حیات ہیں تو ان سے ہزار بار معذرت، اس لیے کہ یہ طباعت ان کی اجازت کے بغیر ہو رہی ہے اور اگر وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں تو وہ ایسا مقام ہے جہاں تمام حقائق آشکار ہو جاتے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ اس مقام پر وہ کتاب کے اس گنہگار ناشر کے لیے درگزر کی راہ اختیار فرما کر بلندیِ درجات کے لیے دعاگو ہوں گے۔

میرے لیے یہ بہت آسان تھا کہ میں محترم قمر الدین احمد صاحب کی تحریر کو اپنے انداز میں مرتّب کر کے کسی عنوان کی بناء ڈال دیتا۔ مگر تحقیق و کاوش کے میدان میں داخلے کے بغیر ایسی حرکت کرنا میرے روح و لب پر ایک بوجھ ہوتا، جسے با حمیّت طبیعت نے گوارا نہیں کیا۔ اس وقت تحقیق و کاوش کے لیے حالات سازگار اور ذہن و فکر تیار نہیں اور دوسری مذکورہ صورت کسی طور گوارا نہیں لہٰذا مناسب یہی سمجھا کہ مصنف کی کتاب جوں کی توں پیش کر دی جائے۔ اس مقام پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مصنف نے اُمّ المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا اور میصون زوجہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہٗ کا ذکر بھی عیسائی عورتوں کے ضمن میں کیا تھا، جس سے راقم متفق نہیں۔ یہ مقام طوالت کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا وگرنہ مستند تاریخی حقائق سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ان پاکیزہ کردار خواتین پر ایسا گمان بھی جائز نہیں۔ بایں ہَمہ عرض یہ کرنا ہے کہ اس حصے کو حذف کر دیا گیا اور بقیہ پوری تحریر مِن و عَن موجود ہے۔

ممکن ہے بعض احباب پر بحیثیت ناشر میرا عدم اظہار کچھ خلجان کا باعث ہو، مگر ایسا صرف اس ندامت کی وجہ سے کیا گیا ہے جو ناشرِ کتاب ہذا کو مصنف سے ہے، جیسا کہ گزشتہ سطور میں اس کا ا ظہار کیا گیا ہے۔ بہرحال

کہے گا ہر شخص بے نشاں ہم کو

نشاں اپنا بھی یہ کیا کم رہے گا

دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہم سب کو صحیح معنوں میں ملّت اسلامیہ کا غمخوار اور شریک بنائے اور اہلِ صلیب کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرما کر ہمیں ان کے مد مقابل کامیابی سے ہمکنار فرمائے آمین۔

از طرف

ناشر

 

 

 

سببِ تالیف

 

حکومتِ انگلشیہ کے دور میں فنِ ’’میر منشی‘‘ یعنی انگریزی کے توسط سے غیر ملکی حضرات کو زبانِ اردو سکھانے کا طریقہ ایک مستقل پیشہ تھا۔ مرورِ زمانہ سے وہ فنِ شریف حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا اور اس کے جاننے والے پیوندِ خاک ہو گئے۔ جو بچے کھچے چند بد نصیب باقی ہیں وہ چراغِ سحری ہیں اور لفظ ’’میر منشی‘‘ اب داستانِ پارینہ ہے۔ راقم الحروف ان بچے کھچے افراد میں سے ایک ہے۔ پاکستان آ کر کچھ تو طبعی مناسبت، کچھ خدمتِ اردو اور کچھ ضروریاتِ زندگی میں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور اردو کے غیر ملکی شائقین کو درسِ زبان دیتا رہا۔ میرے شاگردوں میں بیشتر تعداد ان عیسائی خواتین کی ہے جو اونچے گھرانے کے متمول پاکستانی نوجوانوں کی مناکحت میں ہیں ہمارے ہاں جو بھی نوجوان ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کر لیتا ہے اسے ایک مغربی نصرانی دوشیزہ دبوچ لیتی ہے۔ اس قسم کی یورپین خواتین صرف کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ دوسرے پاکستان کے شہر اس کے علاوہ ہیں دوسری طرف میں نے یہ دیکھا کہ ہماری قوم کی بیشتر لڑکیاں جو خود کو مروّجہ تعلیم سے بہرہ اندوز کرنے کے لیے شب و روز محنتِ شاقّہ میں مصروف ہیں رات رات بھر کتابوں میں اپنے سر کھپاتی ہیں اور دن کو سواری کے انتظار میں گھنٹوں بس اسٹینڈ پر کڑکتی دھوپ میں کھڑی رہتی ہیں۔ ان کے والدین خود تکلیفیں اٹھا کر اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ان کی تعلیم پر صرف کر ڈالتے ہیں تاکہ ان کی بچیوں کا مستقبل بہتر ہو سکے۔ لیکن ہمارے نوجوان اپنی شریکِ حیات کے لیے مغرب کی ملمع کی چمکتی پھڑکتی حسیناؤں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کی ان بے زبان بیٹیوں کے حق پر ڈاکہ ہے جو ہماری قوم کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں جن سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے جو اچھی بیٹی، اچھی رفیقِ زندگی اور اچھی ماں بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کمی ہے تو صرف یہ کہ ان کی روایتی شرم اور عزت نفس انہیں ان عیسائی جادوگرنیوں کی عشوہ طرازیوں کو اختیار نہیں کرنے دیتی(۱)۔ اگر ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یونہی مغربی حسن کی دلفریبیوں کا شکار ہوتی رہی۔ تو ہماری پاکستانی بیٹیوں کو کیا بنے گا یہ امر ان تمام حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو سنّتِ رسول کے مطابق لڑکیوں کے والدین ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ ان غیر ملکی نصرانی ساحراؤں کے بھیس میں C-I-Aکی ایجنٹ بھی ہیں جو اپنے پاکستانی شوہروں کی زیرِ حفاظت بے خوف و خطر اپنے جاسوسانہ فرائض انجام دے رہی ہیں اور ہمارے دین و ایمان اور تہذیب و تمدّن کے لیے بھی چھپا ہوا زہر ہیں۔ سارامعاشرہ ان سے گندہ ہو رہا ہے، اسی قسم کی اہلِ کتاب (یہودی)لڑکیاں ہی تو تھیں جن کی جاسوسی کی بدولت ہمارا قبلۂ اوّل ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور مسلمانوں کی گردن ندامت سے جھک گئی۔ ہم نے اپنے دین و مذہب اور تہذیب و تمدّن کے تحفظ کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی قربانی دے کر اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان بنایا تھا آج وہ متاع چھیننے کے لیے ہمارے دشمن وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جو انہوں نے مصر میں استعمال کر کے ۶۷ء میں بیت المقدس ہم سے چھینا تھا ایسا نہ کہ وقت گزر جانے کے بعد ہمیں پچھتانا پڑے اور متحدہ عرب جمہوریہ کی طرح کفِ افسوس ملنا پڑے۔

سر چشمہ شاید گرفتن یہ بیل چو پر شد نہ شاید گرفتن بہ بیل

ہماری حکومت نے بہت پہلے اس خطرہ کا احساس کر لیا تھا اور حکومت کے عمّال پر پابندی عائد کر دی تھی جو حکومت کے امکان میں تھا لیکن سرکاری افسران کے علاوہ لاکھوں دوسرے سرمایہ دار پاکستانیوں پر اس قسم کی بندش نہیں لگاسکتی۔ خود قوم کے افراد کو اس حل تلاش کرنا پڑے گا اگر انگلستان میں پاکستانیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے غیر سرکاری ادارے وجود میں لائے جا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی ایسے عوامی ادارے تشکیل نہ دیئے جا سکیں۔ یہ تھے وہ محرکات جنہوں نے ناچیز کو ان واقعات کے اظہار پر آمادہ کیا جن پر ابھی تک قوم کے راہنماؤں کی توجہ نہیں پڑی۔

میں جانتا ہوں کہ میری اس جسارت کا پہلا شاخسانہ یہ ہو گا کہ وہ تمام یورپین خواتین مجھ سے یہ درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کر لیں گی جو میرا ذریعہ معاش ہے دوسرے یہ کہ یہ خواتین بے پایاں دولت اور اثر و رسوخ کی مالک ہیں حتیٰ کہ ہمارے ملک کی بعض نسوانہ انجمنوں میں اس قسم کی خواتین اسلامی نام رکھے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں یہ فطری بات ہے کہ میری اس تحریک کو ناکامیاب بنانے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گی اور مجھے خاک میں ملانے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑیں گی ہم میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دولت کے لالچ میں ملک اور مذہب دونوں کو بیچ ڈالیں اور ایسے علماء بھی موجود ہیں جو چند رو پہلی ٹکلیوں کے عوض ہر قسم کے جھوٹے سچے فتوے دینے میں عار نہیں سمجھتے راقم الحروف کو اس قسم کے حادثات سے سابقہ پڑ چکا ہے۔

میں نے اپنے قومی فرض کی ادائیگی کے لیے پاکستان میں بسنے والے ایک ہندو بھارتی جاسوس کی سرگرمیاں طشت از بام کی تھیں وہ ہندو خود تو دور رہا چند مسلمانوں کو کرایہ پر خرید کر ان کے توسط سے مجھ پر قیامت توڑنی شروع کی اور مزے کی بات یہ کہ ایک مولوی صاحب جن کی دہلی میں ۳۶ روپے ماہانہ آمدنی تھی اور یہاں آ کر دو کروڑ کے مالک ہو گئے تھے، ان کی سرگرمیاں میں منظرِ عام پر لایا تھا وہ بھی بالواسطہ اور بلا واسطہ اس ہندو کے ساتھ مل کر میرے در پہ آزار ہو گئے کیا تماشہ ہے کہ ایک محب وطن مسلمان کو مٹانے کے لیے ایک عالم دین نے ایک وطن دشمن کافر کے ساتھ اشتراک جائز سمجھا۔ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے حب الوطنی کے جوش میں جان کی بازی لگا دی تھی۔ اب پھر وہی نقشہ میرے سامنے ہے۔ میں ان حالات کا انکشاف کر کے ملک کے با ثروت طبقۂ اناث کی دشمنی مول لے رہا ہوں یعنی جان بوجھ کر اوکھلی میں سر دے رہا ہوں لیکن میں کیا کروں بناتِ پاک کی بھولی بھالی صورتیں میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی ہیں اور میرے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں میں بہ ثباتِ ہوش و عقل انجام کے پورے ادراک کے ساتھ وہ کر رہا ہوں جو میری حسِ قوم پرستی اور فرضِ دینی کو تسکین دے سکتا ہے لیکن اس کا بے پناہ خمیازہ بھی مجھے بھگتنا پڑے گا۔

ملے حیات کا انعام سر کٹا کے سہی

ہمارے نام سے روشن چراغِ دار تو ہو

 

 

 

پوشیدہ حربہ

 

قارئین آپ نے کبھی غور فرمایا کہ ظہورِ اسلام سے اب تک چودہ سو برس میں لاکھوں عیسائی عورتیں مسلمانوں کے حبالۂ عقد میں آئیں اور آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ان صلیب کی بیٹیوں کی مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اس کے برعکس کوئی مسلمان عورت شاذ و نادر ہی کسی مسیحی کی زوجیت میں گئی ہو گی (۱)، تو تنہا یہ ناقابلِ ان کار حقیقت فی نفسہٖ اس امر پر دلالت کر رہی ہے کہ یک طرفہ عورتوں کی یہ پیشکش جو چودہ سو سال سے آج تک نہایت کامیابی کے ساتھ عالمگیر پیمانہ پر چل رہی ہے۔ ’’کامیابی ‘‘  اپنی ’’فعالیّت ‘‘  کے اعتبار سے بھی اور تا حال ایک ’’ غیر منکشف راز ‘‘ رہنے کے اعتبار سے بھی۔ وہ یقیناً کسی گہری سازش اور مضبوط تنظیم کے تحت جاری رہ سکتی تھی۔ بایں ہَمہ شاید اسے اتفاق پر مبنی قیاس کہا جائے، اس کا بھی تجزیہ کر دیکھیے۔

۱۹۵۵ء میں جرمنی کے ڈاکٹر جے -ڈبلیو -فیوک Dr. J-W-Fuck نے اپنی کتاب بزبان جرمنی Die Arabischen Studien in Europa میں یہ الفاظ کہے : Auch Europaische madchen welche sich spater mit fuhrenden Orientalen verheiraten werden ” یعنی یہ کہ ’’ یورپ کی لڑکیوں کو ایسی تعلیم دی جائے جو آئندہ چل کر ایشیا کے بڑے لوگوں کو اس مقصد کے لیے منسوب کی جائیں۔ ‘‘

اب سے سات سو برس پہلے یعنی ۱۲۷۳ء میں جبکہ صلیبی جنگیں مسلمانوں کو ناپید کرنے میں ناکام ہو چکی تھیں اس زمانہ کے مشہور دوراں مسیحی راہب ولیم آف ٹریپولی Williams, Bishop of Tripol نے اپنی لاطینی کتاب Tractus du Saracenorum statu de ( مسلمانوں کے ملک فتح کرنے کا طریقہ ) میں اپنی قوم کو مشورہ دیا تھا کہ ’’ مسلمان بزورِ شمشیر فتح نہ ہوں گے اس مقصد کے لیے دوسرے طریقے استعمال کیے جائیں۔ ‘‘  پھر ایسی ہی چیز ایک دوسرے عیسائی پادری پیٹر دی وینریبل Peter the Venerable ( ۱۱۵۷ء -۱۱۹۲ء) نے کہی پھر یہی موضوع ریمنڈلولوس ( ۱۳۱۶ء -۱۲۳۰ء) ایک تیسرے عیسائی عالم نے دہرایا اور پھر بصورت قرار داد ویانا کی مشہور کونسل ۱۳۱۱ء میں یہی چیز پیش ہوئی۔

اب اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ زمانۂ قدیم سے جو عیسائی حسینائیں مسلمانوں کی زوجیت میں ڈھلی چلی آ رہی ہیں وہ عیسائی دنیا کے بہترین دماغوں کے غور و فکر کا نتیجہ اور ایک سوچے سمجھے طویل المیعاد منصوبہ کے تحت ہے۔

تاریخ پر نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ ظہورِ اسلام سے پہلے کوئی دوسرا مذہب ایسا نہ تھا جو تبلیغی سرگرمیوں میں عیسائی مذہب کا مدّمقابل ہوتا عیسائی مشنریوں کا بلا شرکتِ غیرے اور بلا روک ٹوک دنیا کے پورے تبلیغی میدان پر قبضہ تھا جب اسلام عالم وجود میں آیا تو یہ اجارہ داری ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور نتیجۃً وہ مسلمانوں سے حسد و رقابت رکھنے لگے چنانچہ فوجی، سیاسی، نشری، نفسیاتی، سازشی کوئی بھی ایسی حکمت عملی نہ تھی جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی بھیڑوں نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے استعمال نہ کی ہو اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

قیصرِ روم کے ساتھ غزوات، صلیبی جنگیں، اسپین میں مسلمانوں کے خون کا سیلاب اور بعد میں ترکی کے خلاف تمام عیسائی دنیا کا اتحاد اور پھر لیپانٹو Lepanto کی بحری جنگ میں ترکی بحری بیڑے کی تباہی، یہ تو تھیں براہِ راست جنگی کوششیں۔ زارِ روس کے ساتھ خفیہ معاہدہ کی رُو سے ترکی کے حصہ بخرے، ہندوؤں کو ملا کر ہندوستان سے اسلامی حکومت کا خاتمہ، یہودیوں کو سامنے رکھ کر بیت المقدس پر جابرانہ قبضہ، یہ ہیں سیاسی چالیں۔ اسلام اور شارع اسلام پر اخبارات اور کتب کے ذریعہ رکیک حملے جو ہر روز سامنے آتے رہتے ہیں یہ ہے پروپیگنڈہ محاذ۔ عیسائی دنیا کی اسلام کو ختم کرنے کے لیے یہ تحریکات ہیں جس کا علم عام طور پر لوگوں کو ہے۔ بہت سی ایسی تحریکات بھی ہیں جو منظرِ عام پر نہیں آئیں مثلاً اوائلِ اسلام کے زمانے میں بقول جی -ایف -ہڈسن G-F-Hudson مصنف کتاب Oldest Relation between China & Europe عیسائی دنیا نے ایک گروہ نسطوری راہبوں کا ملک تاتار کو بھیجا تھا کہ وہ انہیں عیسائیت کی تبلیغ کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اکساکر جنگ پر آمادہ کرے چنانچہ کئی سو برس کے بعد چنگیز خان کے پیشرو تاوانگ خان Ta Wang Khan نے جو ترکوں کے کرائتKiraet قبیلے کا سردار تھا بادشاہ Emanuel I اوّل شاہ یونان کے پاس اپنے سفیر بھیجے تھے اور یہ پیغام بھیجا تھا کہ ’’ میری فوج کے سامنے ۱۳ صلیبیں ہوتی ہیں ہر صلیب کے پیچھے ایک لاکھ پیادہ فوج اور دس ہزار شہسوار ہوتے ہیں میں یہ سب صلیب کے دشمنوں ( مسلمانوں ) کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘  یہ واقعہ Encyclopedia of Religions & Ethics کی دسویں جلد میں مذکور ہے۔

تاوانگ خان کی اس پالیسی پر چنگیز خان اور دوسرے منگول خاقان کار بند  نشر ہمان ہے تو اسے بآرہے، اور لاکھوں مسلمانوں کو خاک میں ملایا گیا۔ دیکھا آپ نے عیسائیوں کی اس دور رَس پالیسی کا نتیجہ، اسی قسم کی گہری چالیں تثلیث پرستوں کی اسلام دشمنی کے ضمن میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ کولمبس جس کے سر نئی دریافت کرنے کا سہرا ہے اسے اسپین کی اسلام دشمن ملکہ ازابیلا نے اس واسطے سرمایہ لگا کر بھیجا تھا کہ وہ مشرق میں منگول خاقان سے رابطہ قائم کر کے اس سے مسلمانوں پر حملہ کرائے یہ حقیقت John Bartalet Brener نے اپنی کتاب موسومہ بہ The Explorers of North America میں منکشف کی ہے۔ ایسی صدہا مثالیں دی جا سکتی ہیں جو اس بات کا نا قابلِ تردید ثبوت ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی بھیڑیں روزِ اوّل سے ہمیں اور ہمارے مذہب کو مٹانے پر تلی ہوئی ہیں اور انہوں نے کوئی کسر کوئی دقیقہ اپنی اس کوشش میں جو ان کے لیے بمنزلہ عبادت کے ہے اٹھا نہیں رکھا۔

دوسری طرف عیسائیوں کے لیے مسلمانوں کے طرزِ عمل پر نگاہ ڈالیے انہوں نے شروع سے اپنے قول و عمل سے یہ واضح کیا کہ تمہارا خدا ہمارا خدا ہے، تمہارے انبیاء ہمارے انبیاء، تمہارا قبلہ ہمارا قبلہ اور تمہاری کتاب ہماری کتاب ہے۔ تم اہلِ کتاب ہو حتیٰ کہ ان کے ساتھ شادی بھی جائز قرار دیدی۔ اصحابِ کہف کا واقعہ اسلام سے پہلے کا اسے قرآن میں جگہ ملی۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ عیسائی مذہب کے پیرو تھے۔ نصرانی قبیلہ طے کے حاتم کو مسلمان ہیرو سمجھا گیا۔ عہدِ عتیق کے شاعر امرۃ القیس کو باوجود عیسائی ہونے کے وہی مرتبہ دیا جاتا ہے جو کسی مسلمان کو۔ یہاں تک ہوا کہ بی بی ماریہ قبطیہ کو جو عیسائی فرقہ Jacobite سے تعلق رکھتی تھیں وہ درجہ دیا گیا جو دوسری امّہات المؤمنین کو۔ یہ رسول اکرمﷺ کی شانِ کریمی تھی کہ اہلِ کتاب سے عملاً یگانگی کا ثبوت پیش کیا اور کوئی غیریت نہ برتی۔ مسلمانوں کی نیت نیک تھی اس فراخ دلی کا نتیجہ یہ تو ضرور نکلا کہ عیسائیوں کے پورے پورے قبیلے مسلمان ہو گئے ( یہ قول لاہور کے ریورنٹ ڈبلیو-پی-ہیرس Rev W.P. Hares کی تصنیف A History of the Christian Church سے منقول ہے۔ لیکن عیسائیت کے پرستاروں نے ہمارے اس حسنِ سلوک سے ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھایا اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔

منجملہ اور چالوں کے جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے صلیب کے علم برداروں نے اہلِ اسلام کو زک دینے کے لیے ایک نہایت پُر اثر حربہ تیار کیا جس کی کوئی شکل و صورت نہ تھی لیکن وہ قیامت سامانی میں جدید دور کے ایٹم بم سے زیادہ مہلک ثابت ہوا۔ وہ ایک طریقہ کار تھا جس کی تباہ کاری کے سامنے بڑی سے بڑی جنگی تدبیر گوئے طفل سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی اس لیے کہ جنگی چال کا حیطۂ کار ایک محدود قوت اور وسعت ارضی تک پُر اثر رہتا ہے اور زیرِ نظر نصرانی شاطرانہ چال کا پھیلاؤ لا متناہی مکان اور زمان پر محیط ہے۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر جون ۱۹۶۷ء کے عرب یہودی محاربہ تک مسلمانوں پر جتنی بھی قیامتیں ٹوٹیں ان سب کو وہی ایک تیر بیندھتا چلا گیا۔ اور نہ جانے کب تک اور ہماری بدبختی کا باعث بنا لے عملرہے اور وہ بے پناہ حربہ یہ ہے۔

صنفِ لطیف کی فطرت کا یہ پہلو اظہر من الشمس ہے کہ وہ جس مسلک اور مذہب سے وابستہ ہو اس پر نہایت پختہ عقیدہ اور شدت کے ساتھ عمل کرتی ہے ادھر مسلمانوں کی آزاد خیالی کہ اہلِ کتاب میں شادی جائز قرار دیدی۔ بس پھر کیا تھا ان دونوں اجزا کو مرکب کر کے بہت چابکدستی سے مسیحی دانشوروں نے ایک ایسا زہرِ ہلاہل تلاش کیا جس کا تریاق ناممکن تھا انہوں نے اپنی قوم کو مشورہ دیا کہ اپنی لڑکیاں مسلمانوں سے منسوب کریں اور ان کے ذریعہ ریشہ دوانیوں کا جال بچھا دیں۔ بارھویں صدی سے ۱۹۵۵ء تک عیسائی مدبرین اپنی قوم کو اس نسخہ کے استعمال کی تاکید کرتے رہے ان چند اقتباسات کے علاوہ جو بیشتر سپردِ قلم کیے گئے نامعلوم اور کتنی جگہ اور کس پیرایے میں عیسائیوں کے بزرگوں نے یہ تلقین انہیں کی ہو گی اور ان کی صاحبزادیوں نے کیسی خوش اسلوبی، راز داری، وفا کیشی، استقلال اور مذہبی جذبہ کے ساتھ جو طبقۂ اناث کی فطرت کا خاص حصہ ہے اس حربہ کو استعمال کیا ہو گا۔ مندرجہ ذیل سطور میں اس کی تھوڑی سی جھلک ہے اس لیے کہ اس موضوع پر مستقل لٹریچر موجود نہیں خال خال کہیں اشارۃً تذکرہ آ گیا ہے اس لیے کہ کسی کو کیا معلوم کہ یہ عورتیں گھر کی چاردیواری میں اپنے مسلمان خاوندوں کی حفاظت میں بیٹھی کیا کرتی تھیں۔ مسلمان مؤرخوں نے اپنے نوشتوں میں صرف اہم واقعات جنگوں وغیرہ کا تذکرہ کیا، تفصیلات میں نہیں پڑے اور عیسائی مؤرخین اپنے باپ دادا کے بتائے ہوئے راز کو کیوں افشا کرتے۔ اس لیے تاریخ کا یہ پہلو منظرِ عام پر نہیں آیا مثلاً اندلس کے تقریباً تمام مسلمانوں نے نصرانی عورتوں سے شادیاں کیں لیکن اس کی تفصیل کہیں نہیں ملتی۔ بایں ہَمہ ایک تاریخی ترتیب سینکڑوں کتابوں کے مطالعے کے بعد پیشِ خدمت ہے۔

 

                   اُمّ عاصم (Um Asim Egilona 716 A.C)

 

موسیٰ بن نصیر کے صاحبزادے عبدالعزیز نے مفتوحہ اندلس کے مقتول حکمران راڈرک کی بیوہ کو جسے عربوں نے اُمّ عاصم کہہ کر پکارا، اپنے حبالۂ عقد میں لیا۔ اس نے عبد العزیز کو مشورہ دیا کہ تاج بنوا کر پہنیں انہوں نے عذر کیا کہ اوّل تو اس کے لیے بیت المال سے روپیہ نہیں لیا جا سکتا اور پھر اسلام میں اس کی ممانعت ہے۔ اُمّ عاصم نے کہا کہ میرے پہلے خاوند کے دیئے ہوئے جواہرات موجود ہیں آپ ان سے تاج بنوا لیں اور محل کے اندر اس کے پہننے میں کیا قباحت ہے اس لیے کہ کوئی باہر کا آدمی اسے نہ دیکھ سکے گا۔ چنانچہ تاج بنوا لیا گیا ایک روز تاج پہنے عبد العزیز اپنے مکان میں بیٹھے تھے کہ ایک اور نصرانیہ کہ وہ بھی مسلمان سے منسوب تھی ان کے یہاں آئی اس نے اپنے خاوند کو جا کر تاج پہننے کا مشورہ دیا۔ جب اس نے عذر کیا کہ اسلام میں تاج پہننے کی اجازت نہیں تو اس نے عبدالعزیز کے یہاں جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا کسی طرح یہ بات لشکر گاہ میں پھوٹ نکلی اور لوگوں میں مشہور  716 ہو گیا کہ عبد العزیز عیسائی ہو گئے ہیں کیونکہ تاج پہنتے ہیں۔ فوج میں بغاوت ہوئی اور وہ قتل کر دیئے گئے۔ دیکھا آپ نے اس چالاک نصرانیہ نے کس خوش اسلوبی سے اپنے خاوند کا بدلہ لینے کے ساتھ ایک مجاہد مسلمان کو ختم کرایا۔ جو عیسائیت کے لیے مستقل خطرہ تھا۔

 

                   خالد القسری کی ماں

 

خالد القسری ہشام بن عبدالملک کے عہد ۷۳۴ء تا ۷۴۲ء میں بہت با اختیار حاکم تھا۔ پہلے مکہ کا والی تھا بعد میں عراق کا حاکم اعلیٰ مقر ر ہوا اس نے پندرہ سال تک بڑے تزک و احتشام سے حکومت کی۔ اس کی ماں عیسائی تھی اس کے اثر سے اس نے عیسائیوں کے ساتھ بہت مراعات کیں اور بڑے عہدے دیئے، ماں کو خوش کرنے کے لیے اس نے کوفہ میں ایک گرجا تعمیر کرایا۔ ظاہر ہوا کہ وہ بیٹے کے جوان ہونے اور برسرِ اقتدار آنے کے دور تک عیسائی تھی اور پھر بیٹے کے ایسی ماں کی آغوش میں تربیت پانے کے بعد کیا خیالات اور کردار ہوں گے۔ اس کے پاس بے پناہ دولت تھی اس پر بددیانتی کے الزام میں مقدمہ چلا وہ قید ہو کر قتل کیا گیا۔

 

                   ملکہ حُل حُل ((Hulal 757 A.C.

 

پہلے اندلسی اموی خلیفہ عبدالرحمان کی بیوی اور خلیفہ ہشام اندلسی کی ماں تھیں۔ کاؤنٹس سارا والی اشبیلیہ ( 745 A-C ) ( Countess sara of sevite ) پہلے اموی اندلسی خلیفہ عبد الرحمان کی بیوی شاہزادہ ابراہیم اور اسحاق دو بیٹوں کی ماں تھیں۔

 

                   میری Marry

 

عبد الرحمان الناصر  الثالث کی ماں ان کا دورِ حکومت ۹۱۳ء ہے۔ لیمپاگی (733 A-C ) ( Lampagie ) ڈیوک آف ایکی ٹین کی لڑکی عثمان ابی نیزہ بربری سردار اسپین کے نکاح میں آئیں۔ عثمان نے عیسائیوں کی شہ پر اسلامی حکومت اسپین سے بغاوت کی، عبد الرحمان حاکمِ اسپین نے انہیں شکست دی اور وہ مارے گئے۔

 

                   عبد اللہ کی بیوی Wife of Abdullah

 

عمربن ابی ربیعہ کی ماں تھیں، ان کے حالات نہیں ملتے بس اتنا معلوم ہے کہ وہ نصرانی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔

 

                   سلطانہ صبح الشکنیۃ Sultana Aurora Basque

 

حکیم دویم خلیفۂ اندلس کی ملکہ، خلیفہ ہشام دویم اندلسی کی ماں۔ حکومت پر خاوند اور بیٹے کے دور میں پوری طرح حاوی رہیں اہلِ کلیسا کا ملک پر اقتدار رہا۔

 

                   المنذر کی بیوی ( (Wife of Al Manzar 857 A.C.

 

اندلسی سلطان محمد اوّل کے بیٹے المنصور جو بعدہٗ المنذر کہلائے۔ ابتداً عیسائیوں کی بہت سرکوبی کی اور ان پر قیامت کی طرح ٹوٹے لیکن بعد میں ایک عیسائی عورت سے عقد کر لیا اور یہاں تک اس سے متاثر ہوئے کہ کنواری مریم کے گرجا میں چادر چڑھائی نصرانیوں پر مہربان ہو کر الطاف اور اقتدار سے نوازا۔

                   ایک رومی سردار کی بیٹی Daughter of a Roman Lord

 

الف لیلیٰ کے مرکزی کردار خلیفہ ہارون الرشید ۷۷۶ء -۸۰۹ء کی محبوبہ۔ مشہور ہے کہ خلیفہ ہر جگہ اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔

 

                   فلورا ((Flora 850 A.C

 

عبد الرحمان دوم اندلسی کے دورِ حکومت میں ایک مسلمان سے بیاہی ہوئی ایک مسیحی خاتون کی صاحبزادی۔ ماں نے عیسائیت کی تعلیم دی وہ پادری کے چنگل میں پھنس گئی اس نے اسے مسلمانوں کے خلاف انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کیا گرفتار ہوئی رحم کیا گیا بجائے قتل کے صرف کوڑوں کی سزا دی گئی فرار ہو کر پھر پادری کے پاس پہنچی اور بغاوت پھیلانے کے الزام میں قتل کی گئی۔

 

                   ملکہ زہرا ( (Isabel de solis ( Zahra 82-1465 A,C.

 

قشتالیہ کے سردار ال کائیڈ آف بیدمار Castilian Alcayde of Bedmar کی دختر، ابوالحسن اندلسی کی بیوی تھی تفصیلی حالات پتہ نہیں چلتے۔

اسلامیانِ اندلس کے آخری دور میں ابو الحسن وہ تاجدار تھا جس نے ہر چہار جانب سے ہونے والے کلیسا کے حملوں کے سیلاب کا نہ صرف پامردی سے مقابلہ کیا بلکہ انہیں پے در پے شکستیں بھی دیں جب ازابیلا آوف کیسٹائل اور فرڈیسنینڈ شاہ ارغوان کی متحدہ حکومت نے غرناطہ کی اسلامی حکومت سے خراج طلب کیا تو اس شیر مرد ابو الحسن نے یہ جواب دیا کہ ’’ہماری ٹکسال اب سکے نہیں آلاتِ حرب ڈھالتی ہے۔ ‘‘  چنانچہ فرڈینسنڈ نے شہر لوشہ پر جو غرناطہ کو جانے والی سڑک پر واقع تھا بارہ ہزار پیادہ اور چار ہزار سوار کی معیت میں یلغار کی اسے ابو الحسن نے بقول Decisive Battle of the World کے مصنف ایسی شکستِ فاش دی کہ جنگِ اندلس کا وہیں آخری فیصلہ ہو گیا ہوتا، لیکن محلاتی سازشوں نے اس جنگ کا نقشہ بدل دیا تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ابو الحسن امیرِ غرناطہ کی دو بیویاں تھیں ایک مسلمان ملکہ عائشہ اور دوسری ملکہ زہرا۔ زہرا نصرانیہ کے غلبے سے بچنے کے لیے ملکہ عائشہ نے ابو الحسن کو اس کی عدم موجودگی میں معز ول کرا کے اپنے بیٹے ابو عبد اللہ کو بادشاہ بنوا دیا۔ ابو عبد اللہ بزدل اور نا تجربہ کار تھا اس نے عیسائیوں سے شکستیں کھائیں اور ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گیا۔ انجام کار اسلامی غرناطہ مفتوح ہو کرتا خت و تاراج ہوا اور وہاں مسلمانوں پر عورتوں اور بچوں سمیت وہ مظالم ڈھائے گئے جس کی نظیر روئے زمین پر نہیں ملتی جس جگہ سپین سے باہر نکلتے وقت ابو عبد اللہ نے اپنی کھوئی ہوئی میراث سلطنت پر آخری نگاہ ڈالی اس کا نام آج تک Last sigh of the Moors ’’اندلس کی آخری آہ‘‘ ہے۔ غرناطہ کی مثال اسپین میں بالکل ایسی ہی ہے جیسے سمندر میں ایک جزیرہ ہر چہار جانب سے یہ چھوٹی سی مملکت عیسائیوں کے ممالک میں محصور تھی جو سب کے سب مسلمانوں کو یہاں سے نکال دینے کو اپنا مذہبی اور قومی فریضہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے کوئی ہتھکنڈہ ’’جنگ اور محبت میں سب جائز ہے ‘‘  کے مصداق اس مقدس فرض کی تکمیل میں اٹھا نہ رکھا ہو گا اور یقیناً صنفِ لطیف سے بھی جو ان کا پرانا آزمودہ ہتھیار ہے ضرور کام لیا ہو گا، متذکرہ الصدر لڑکی فلورا کے سلسلے میں ایک مسلمان کی عیسائی بیوی کا اپنی لڑکی کو اسلام کے خلاف تعلیم اور مسلم حکومت کے خلاف تحریکات میں نمایاں کردار ایک مثال ہے کہ مسلمانوں کی عیسائی بیویوں نے مسلمانوں کی حکومت اکھاڑنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہو گا۔ ڈاکٹر محمد یوسف مصنف کتاب ’’ اندلس تاریخ و ادب ‘‘  نے لکھا ہے کہ ’’ خوبصورت نازک اندام لڑکیوں کو خلافِ اسلام تحریک میں پیش پیش رکھا جاتا تھا۔ ‘‘ اور پھر مسلمانوں کا اسپین سے اخراج عیسائی دنیا کی قومی تحریک بن گئی تھی اس میں صنفِ لطیف کا جذباتی کردار ایساہی تھا جیسا کانگریسی تحریک کے زمانے میں ہندو عورتیں شراب اور سگرٹ کی دُکانوں پر پیکٹنگ اور لاٹھی چارجنگ وغیرہ میں مقدمۃ الجیش کا کام کرتی تھیں یا جیسا خلافت کے زمانے میں مسلمان عورتوں نے جوش کے عالم میں اپنی سب سے عزیز ترین چیز زیورات اتار کر خلافت فنڈ میں پھینک دیئے تھے ایسی ہی صورت ان لاتعداد تثلیث کی پرستار خواتین کی بھی تھی جو اندلسی مسلمانوں کے گھروں میں بیٹھی تھیں حتیٰ کہ فرمانروائے مملکت ابو الحسن کی بھی ایک ملکہ نصرانی نژاد تھی۔ تاریخ اس باب میں خاموش ہے لیکن ملکہ اُمّ عاصم نے جس دور رَس چال سے اپنے خاوند عبد العزیز کو مروایا تھا اس کی روشنی میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس با  اقتدار مسیحی عورت ملکہ زہرا نے عیسائی دنیا کی ہَمہ گیر تحریک یعنی اسلامیوں کا اسپین سے اخراج میں کیا نہ کیا ہو گا یہ اسلام کے خلاف دنیائے عیسائیت کی جنگ تھی اور وہ عیسائی تھی اور عورت تھی جو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں جذباتی اور زیادہ سرگرم ہوتی ہیں جان تک سے گریز نہیں کرتی۔ کوئی عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں اپنے بیٹے کو جائیداد یا تخت و تاج کا وارث نہیں بناتی ملکہ عائشہ کا اپنے خاوند کو معز ول کرا کے اپنے بیٹے کو تخت نشیں بنوانے کا غیر فطری عمل یقیناً کسی سازش کا نتیجہ تھا۔ ملکہ زہرا کے پاس اقتدار بھی تھا حکومت کے اندرونی حلقے میں بھی وہ موجود تھی عیسائی ہونے کی وجہ سے عیسائی دنیا سے ساز باز میں بھی اسے آسانی تھی۔ مذہبی جنون میں دیوانے اور میدان جنگ ہارے ہوئے کلیسائی حکمرانوں نے بھی اس مُہرے کو استعمال کیا ہو گا۔ بادشاہ کی زوجہ تھی یقیناً عقل و خِرد رکھتی ہو گی۔ وہ سیاسی چال یقیناً اسلام دشمن نصرانی ملکہ زہرا ہی سے سرزد ہو سکتی ہے۔ آٹھ سو برس پرانی اندلس کی اسلامی سلطنت کو حرف غلط کرنے اور اسپین سے توحید کے علمبرداروں کا نام و نشان مٹانے میں صلیب کی اس بیٹی کا بہت بڑا ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔

 

                   ملکہ ازابیلا اوّل قشتالیہ (1451 – 1504 A-D)

 

یوں تو روزِ اوّل سے آٹھ سو برس تک اسپین کے عیسائی حکمران اور عوام مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش میں مصروف رہے لیکن جب ارغوان کے والی شاہ فرڈینسنڈ اور قشتالیہ کی ملکہ ازابیلا کی شادی ہوئی تو یہ دونوں حکومتیں متحد ہو کر ایک زبردست قوت بن گئیں تمام مؤرخین اس امر پر متفق ہیں کہ ملکہ سے زیادہ متعصب عورت شاید ہی کبھی ہوئی ہو اس نے برسراقتدار آتے ہی مسلمانوں کو اندلس سے نکالنے کی تیاریاں شروع کر دیں نہ صرف جزیرہ نمائے اسپین میں بلکہ مغرب کی دیگر تمام مسیحی طاقتوں کو مذہب کے نام پر اسلامیانِ اندلس کے قتل میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی اور انہوں نے اس صدا پر لبیک کہا۔ پاپائے روم نے اپنا پورا تقدس اور اقتدار اس تحریک کے کامیاب بنانے میں استعمال کیا۔ اک آگ تھی جس کے شعلے کلیسائی دنیا کے چپہ چپہ سے ابھر رہے تھے اور ایک چھوٹی سی آبادی اندلس کو تو وہ راکھ بنانے کے لیے تیز سے تیز تر کیے جا رہے تھے۔ تاریخ کے ورق پر اس سے زیادہ جانگداز واقعہ کوئی نہیں جس میں زندہ انسان صرف اس واسطے دہکتی آگ میں جھونک دیئے گئے ہوں اور ان کا گوشت کھایا گیا ہو کہ وہ مسلمان تھے، اس سب قیامت کی روح رواں ازابیلا تھی، اس کا مقصد صرف اپنی مذہبی دیوانگی کو تسکین دینا تھا۔ جب اسپین میں مسلمان ختم ہو گئے تو اس نے مشہور مہم جو کولمبس کو مغرب کی طرف جہاز رانی کے لیے بھیجا تاکہ ہلاکو اور چنگیز کی ذرّیت کو اکسا کر مشرق سے مسلمانوں پر حملہ کرانے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ واضح ہوا کہ صرف اسپین سے مسلمانوں کا اخراج اس عیسائنی کا نصب العین نہیں تھا بلکہ وہ تو یہ چاہتی تھی کہ دین اسلام صفحۂ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے کولمبس تاتار میں بسنے والے اس مفروضہ ( Saint Prestor John ) ولی پریسٹر جان سے رابطہ قائم کرنے کی نیت سے چلا تھا جسے عیسائی دنیا مدت سے مسیحیت کا مددگار اور مسلمانوں کی سرکوبی کرنے والا سمجھتی تھی۔ Encyclopedia of Religions & Ethics میں لکھا ہے کہ یہ شخص تاوانگ خان تھا جس کی پیروی اور تتبع میں عہدِ سابق کے منگول حملہ آوروں نے جن میں چنگیز خان اور ہلاکو شامل ہیں وسطِ ایشیا کی تمام مسلمان حکومتوں کو تاخت و تاراج اور ۵/۴ مسلم آبادی بشمول عروس البلاد بغداد خاک میں ملایا تھا۔ لاتعداد کتب موجود ہیں جن میں مرقوم ہے کہ منگولوں کی قیامت میں جو دنیائے اسلام پر ٹوٹی عیسائی عورتوں کا کافی ہاتھ تھا۔ بہر کیف یہ مذہبی جنون تھا جو کولمبس کے شوقِ مہم جوئی کو مہمیز کر رہا تھا اور یہی جذبہ تھا جس نے ملکہ ازابیلا کو ایک امید موہوم اور ظاہرانہ ناممکن مہم پر کثیر رقم خرچ کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ ان کے وہم وگُمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ درمیان میں ایک اور دنیا بھی حائل ہے اس عیسائی عورت کا کردار مسیحی عورتوں کا اسلام کے نام لیواؤں کے خلاف تعصب کی ایک بَیّن مثال پیش کرتا ہے۔ زمانہ بدل گیا وہ پہلے سے ظاہری تشدد آمیز طریقِ کار بدل گئے لیکن عیسائی عورت کی نفسیات اب بھی وہی ہے۔ صرف نیام بدلا۔ تلوار وہی ہے اس کا خم وہی ہے دھار وہی ہے کاٹ بھی وہی ہے۔ آج کی ازابیلا پرانی ازابیلا سے مختلف نہیں صرف اس نے تہذیب و تمدن کا لبادہ اوڑھ لیا ہے مسلمانوں سے کدورت اس کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اللہ محفوظ رکھے ہر بلا سے۔

 

                   شیر دل رچرڈ کی بہن

 

جس وقت تیسری جنگِ صلیبی میں سلطان صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیردل یروشلم ( بیت المقدس )کے لیے مصروفِ کار زار تھے اس وقت رچرڈ شاہِ انگلستان نے سلطان کے سامنے تجویز پیش کی کہ اس کی بہن ملک العادل سلطان کے بھائی سے منسوب کر دی جائے اور بیت المقدس اس کے جہیز کے طور پر دے دیا جائے تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے جنگ کے آخری فیصلے کے تذبذب اور مشکلات کو ترجیحاً پسند کیا لیکن شاہِ انگلستان کے ظاہر آسان اور دل خوش کن دامِ تزویر میں نہ آیا۔ مسلمانوں میں یہ پہلا شخص تھا جو عیسائیوں کے پرانے ہتھکنڈے سے محفوظ رہا ورنہ بیت المقدس گیارہویں صدی ہی میں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جاتا افسوس کے دوسرے اسلام کے نام لیواؤں نے اس تدبّر سے کام نہ لیا۔

 

                   سیر ککتیتی بیگی Syurruktiti Begi 1100 A-D

 

چنگیز خان منگول کا پیشرو جسے شاہِ چین نے تاوانگ خان کا خطاب دیا تھا، جس کی اسلام دشمنی کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ عیسائیوں کے نسطوری فرقے کا پیرو اور نہایت کٹّر متعصب تھا متذکرۃ الصدر اس کی بھتیجی تھی۔ عقل و خِرد میں ایسی یکتا کہ اس نے آگے چل کر فاتحین عالم منگولوں کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچایا اور اپنے چار لڑکوں کو شہنشاہ بنوایا۔ اس نے چونکہ سخت قسم کے اسلام دشمن ماحول میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے خود بھی مسلمانوں سے بغض و عناد رکھتی تھی یہ چنگیز خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تلوئی خان کے عقد میں آئی۔ چھوٹا بیٹا ہونے کے سبب یہ شاہزادہ چنگیز خان کا منظورِ نظر تھا اور خود اس کی طبیعت پر سیر ککتیتی بیگی اس کی بیوی حاوی تھی اس طرح مسلمانوں کے قتل و غارتگری میں جسے صرف منگول وحشت و بربریت کہا جاتا ہے اس عیسائی عورت کی عیاریاں کارفرما تھیں جسے وہ اپنے پورے تدبر اور پوشیدہ وسیع اختیارات کے ساتھ اللہ کے پرستاروں کے مٹانے کے لیے صرف کرتی تھیں۔

 

                   چنگیز خان کی بیویاں

 

تثلیث کے پرستاروں نے روزِ اوّل سے تاتاریوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی ٹھانی تھی اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی لڑکیوں سے نہایت پُر اثر کردار ادا کرایا چین کی شمالی حدود پر بسنے والے کرائت Kiraet ترک مدتوں پہلے دینِ مسیحی کو قبول کر چکے تھے۔ اوغور Uighar ایک دوسرا تاتاری قبیلہ بھی عیسائی تھا۔ منگولوں میں اور قبیلے بھی اپنے ہم زبان، ہم تہذیب، ہم نسل اور رات دن روابط رکھنے والے ان ترک قبائل سے متاثر تھے۔ تاوانگ خان اعظم کی مثال اورمسلمانوں کو مفتوح کرنے کا پروگرام چنگیز خان کو اپنے اس پیشرو سے ملا تھا ادھر پڑوسی ملکوں کے عیسائی فرمانرؤاں نے اپنی لڑکیاں منگول خاقان کو بیاہ دی تھیں۔ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کو جس میں مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالنا شامل تھا پوری تندہی کے ساتھ ادا کر رہی تھیں چنگیز خان کا مسلمانوں پر ناقابلِ مثال تشدد ان عیسائی دوشیزاؤں کی کوششوں کا رہینِ منت ہے۔

 

                   آرمینیا کے بادشاہ ہتین کی بیٹیاں Daughters of King Hayton Armenia

 

Preaching of Islam کے مصنف W-T-Arnold کے قول کے مطابق آرمینیا کے بادشاہ کی دو بیٹیاں چنگیز خان کے پوتے اور تلوئی خان Tului Khan کے بیٹے منگو خان کے عقد میں تھیں۔ اوّل تو یہ خود متعصب سیر ککتیتی بیگی کا بیٹا تھا اور پھر اس کی یہ دونوں بیگمات اس خاقان کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانے میں کوئی موقع جانے نہ دیتی تھیں۔ منگولوں کے ہاتھوں اہلِ اسلام کی تباہی کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا۔

دوکوز خاتون Dokuz Khatoon

 

یہ مسلمانوں کے مشہور قاتل ہلاکو خان کی بیوی تھی کٹّر ایسی کہ فوج کے ساتھ اس کا گرجا Taber Nacle بھی ایک خیمے میں اس کے ساتھ چلتا تھا۔ ہلاکو خان کو ایران اور بغداد کی مہم پر روانہ کرتے وقت خاقان کی ہدایت تھی کہ شاہزادی دوکوز خاتون کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہ کیا جائے اس کے مشورہ پر منگول فوج میں کلیدی عہدے عیسائیوں کے پاس تھے۔ ہمسایہ ملکوں کے عیسائی حکمرانوں کی بھیجی ہوئی آرمنی، یونانی، کاکیشی، رومی عیسائیوں پر مشتمل افواج منگول میں شامل تھیں۔ مشہور کت بوغا Kit Bogha عیسائی سردار ایک اہم فوجی حصہ کی کمان کر رہا تھا اسلام کا نام لینے والوں کے لیے سخت عذاب کا سامان تھا اور یہ سب کچھ اپنے مذہب پر دیوانی دوکوز خاتون کے حکم پر ہو رہا تھا۔ ایران اور بغداد کی تباہی کا ذمہ دار ہلاکو خان تھا لیکن یہ سب اسی دوکوز خاتون کے اشارے پر اس کے مذہبی جنون کی تسکین کے لیے کیا گیا اور لاکھوں مسلمان نہایت بے دردی کے ساتھ تہہ تیغ کیے گئے سینکڑوں بستیاں جن میں عروس البلاد بغداد شامل ہے پیوندِ خاک کی گئیں۔ اس عیسائی شاہزادی سے مسیحی دنیا کو بہت توقعات وابستہ تھیں وہ اسے صلیب کا سب سے بڑا علمبردار سمجھ رہے تھے جب دوکوز خاتون کا انتقال ہوا تو تمام مسیحی دنیا میں صفِ ماتم بچھ گئی کہ آج مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا آخری اور سب سے زبردست سہارا ختم ہو گیا اس کے بعد مشرق میں عیسائیت کے فروغ اور بیت المقدس کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے لینے کی کوششیں ماند پڑ گئیں۔

 

                   ماریا Maria

 

قسطنطنیہ کے رومی شہنشاہ کی بیٹی ہلاکو خان کے بیٹے اباکا خان کے عقد میں آئی اباکا خان بعد میں ایران اور بغداد وغیرہ میں خاقان کا نائب الخان Al-Khan مقر ر ہوا۔ اس نے تمام عیسائی ملکوں میں سفارتیں بھیج کر کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اس سے تعاون کریں اور مدد دیں۔ وہ ۱۲۸۱ء میں اسلامی دنیا کی واحد بچی کھچی حکومت مصر پر حملہ آور ہوا اس کی فوج میں آرمنی، جارجیائی سپاہ جو عیسائی ملکوں سے آئیں موجود تھیں۔ ان تمام محاربات میں بادشاہ کی عیسائی بیوی متذکرہ الصدر ماریا نے محمدﷺ کے متبعین کے خلاف کچھ کم کوششیں نہ کی ہوں گی۔

 

                   نوگائی کی بیوی Nogai’s Wife

 

تاتاریوں میں جو پہلا شخص حلقہ بگوشِ اسلام ہو اوہ روس کا فرمانروا برکائی خان تھا یہی برکائی خان تھا جس نے اسلامیانِ عالم کی بچی ہوئی سلطنت مصر کو جو اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی ہلاکو خان کے قہر و غضب سے محفوظ رکھا اور عملاً مصر کی مدد یوں کی کہ ہلاکو خان پر جس وقت وہ مصر کی طرف یلغار کر رہا تھا پشت سے حملہ کیا اور شکست دی۔ اب اگر مصر بھی ختم ہو جاتا تو دنیا میں کوئی اسلامی سلطنت باقی نہ رہتی اس طرح برکائی خان نے دنیائے اسلام پر احسانِ عظیم کیا اس محسنِ اسلام کا انتقال ۱۴۷۶ء میں ہو گیا۔ اس کا وہ سپہ سالار جس نے ہلاکو خان کو کوہِ قاف Caucasus میں شکست دے کر پیچھے دھکیل دیا تھا اس کا نام نوگائی تھا اس کی بیوی ایک بازنطینی دوشیزہ تھی اس کے مشورہ پر سردار روسی اسلامی سلطنت سے ٹوٹ گیا اور اپنی خودمختار سلطنت قائم کر لی۔ بس یہیں سے اسلامی روس کی حکومت کا زوال شروع ہو گیا۔ یوں آئندہ چل کر یہ اسلامی سلطنت کمزور ہو گئی اور عاقبت کار زارِ روس نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اس طرح وسطِ ایشیا کی مسلمان حکومتیں اپنے زیرِ نگیں کر کے اور ٹرکی پر خفیہ معاہدوں کے ذریعہ دستِ تصرف دراز کر کے زارِ روس اسلام کا نام صفحۂ ہستی سے مٹانے والا تھا کہ لینن کی کمیونسٹ حکومت نے وہ خفیہ معاہدات شائع کر دیے۔ دیکھا آپ نے اس نصرانیہ نے اسلام کو زک دینے کے لیے کیسی پالیسی چلی تھی۔

 

                   [سلطنت عثمانیہ کے زوال کا باعث بننے والی نصرانی خواتین]

 

اس کے بعد سلطنتِ عثمانی ترکیہ میں لا تعداد نصرانی خواتین حرمِ سلطانی میں داخل ہوئیں ان کی سرگرمیاں منظرِ عام پر نہ آ سکیں لیکن سابقہ عیسائی عورتوں کے کرتوت اور ان کے عمائدین کے منصوبہ سامنے رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کیا کچھ گل نہ کھلائے ہوں گے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ دور سے پہلے جو ترکی یورپ کے مردِ بیمار کے نام سے موسوم اور دنیا کی ایک بڑی سلطنت سے گھٹ کر اب صرف ایشیائے کوچک کے جزیرہ نما تک محدود ہوا، وہ ان عیسیٰ( علیہ السلام ) کی بھیڑوں کی ساحرانہ ترکیبوں کا نتیجہ ہو۔ ذیل میں ان صلیب کی پرستار خواتین کی فہرست ہے جو ترکی سلاطین کے حرم میں آئیں وہ یورپ کے شاہی خاندانوں کی شاہزادیاں تھیں۔

 

نام سلطان نام حرم آخر الذکر کے والدین کا نام
ادر خان ۱۴۸۸ء نیلوفر لارڈ آف ہر حصار
تھیڈورا اسٹیفن اوروش چہارم
تھیوڈورا ماریا جان چہارم کانٹا کازینس
خلیل ۱۳۴۷ء آرین جان پنجم پیلالوگس
مراد ۱۳۲۶ء لڑکی جان پنجم پیلالوگس
تمارامارا جان الیگزنڈر دویم
لڑکی قسطنطین لارڈ آف کوسٹنسڈل
یعقوب۱۳۸۹ء لڑکی قسطنطین فادریق
لڑکی جان بلالوگس
بایزید اوّل ۱۳۶۰ء انجلینا
ماریا لوئیس فادریق
لڑکی قسطیطین
ڈسپنا ماریا اولیویرا لازارِ اوّل
ماریا لوئیس فادریق کاؤنٹ آف سالونا
لڑکی جان پنجم پیلالوگس
عیسیٰ امیر ۱۴۰۴ء لڑکی جان ٹینٹرس
موسیٰ امیر ۱۴۱۳ء لڑکی مرچیا گریٹ آف ویلانچیا
سلیمان امیر ۱۴۱۱ء لڑکی جان تھیوڈور پیلالوگس
مراد دویم ۱۴۰۴ء مارا جارج برانکووچ
محمد پاشا ۱۴۶۰ء انناکمیئس
محمد دویم ۱۴۳۲ء اننا پاؤلواریزد
آیرین
اننا ڈیوڈ کمیئس
ہیلن ڈیمٹریس پیلالوگس
ماریا ڈور ینو اوّل گائیلوزیو
لڑکی ڈور ینو اوّل گائیلوزیو
تمارا جارج فرانٹزز
اکیدی
سلیمان اوّل ۱۴۹۴ء حوریم دخسانہ لاروزا روسی
سلیمان دویم ۱۵۲۴ء نوربانو ونیر بانو
محمد چہارم ۱۶۴۴ء رابعہ گلنوس امت اللہ ورزیزی
مصطفی دوم ۱۶۶۴ء اننا صوفیہ دیپاچ
عبد الحمید اوّل نقش ول
عبد الحمید اوّل گل استو مرچم آباذا
جم اوّل ۱۷۷۲ء ہیلن ڈی ساسے ناگ فرانسیسی
عبد الحمید اوّل پیتر مژگاں
امیر موسیٰ مرچیا آف والانجیبا

 

مندرجہ ذیل فہرست ان نصرانی خواتین کی ہے جن کے بطن سے ترکی پر حکومت کرنے والے سلاطین پیدا ہوئے :

نیلوفر والدہ مراد اوّل۔ گل چیچک والدہ بایزید اوّل۔ حریم والدہ سلیم دویم۔ نور بانو والدہ مراد سوم۔ ماہ فیروز والدہ عثمان دویم۔ کوسم پاہ بیکر والدہ مراد چہارم۔ کوسم ماہ پیکر والدہ ابراہیم۔ ترخان خدیجہ والدہ محمد چہارم۔ رابعہ گلنوس والدہ مصطفی دویم۔ رابعہ گلنوس والدہ احمد سوم۔ شہسوار والدہ عثمان۔ مہر شاہ والدہ سلیم سوم۔ بزم عالم والدہ عبد المجید اوّل۔ سیوک افزا والدہ مراد پنجم۔ تیز مژگاں والدہ عبد المجید دویم۔ گلستو والدہ محمد چہارم۔

 

                   اکبرِ اعظم کی عیسائی بیوی

 

پُرتگال والوں نے پندرہویں صدی میں اپنے مفتوحہ علاقے کے مسلمانوں پر جو کچھ مظالم ڈھائے اور انہیں کس طرح زبردستی بزورِ شمشیر عیسائی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا اور خانۂ کعبہ کو فتح کرنے کے کیسے کیسے منصوبے بنائے وہ اس موضوع سے باہر ہیں ایسے لوگ جو مذہبی عصبیت میں اتنے بڑھ گئے ہوں کہ عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بڑے سے بڑا ظلم ذریعۂ نجات سمجھتے ہوں اور جن کا مشرق کے ممالک کو دریافت کرنے کا محرک صرف جذبۂ تبلیغ ہو یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے اکبرِ اعظم کو اپنے ایک شاہی خاندان کی بیٹی کس نیت سے دی ہو گی۔ ایسی ہی عورتوں نے اکبر کو بے دین بنایا تھا۔

 

                   ملکہ وکٹوریہ Queen Victoria

 

انگریز جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو یہاں کی درباری اور تہذیبی زبان فارسی تھی یہ مسلمانوں کی زبان تھی، اس میں ان کا مذہبی سرمایہ تھا نہ صرف یہاں بلکہ ٹرکی، ایران، افغانستان، بخارا، تاشقند، سمر قند، بارقند غرضیکہ پورے وسطِ ایشیا میں فارسی رائج تھی یعنی یہ کہ فارسی نصف اسلامی دنیا کی لنگوافرنیکا تھی اس کے ذریعہ ہمارا اسلام اور اسلامی دنیا سے رابطہ قائم تھا اور پھر یہ زبان شیرینی اور وسعت میں آج کی ترقی یافتہ اردو سے بھی زیادہ تھی اور اس وقت تو اردو نے اچھی طرح جنم بھی نہ لیا تھا۔ مسلمان فارسی سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ ابھی کل تک غالبؔ اور اقبالؔ کے دواوین فارسی میں لکھے گئے اس پر انہیں فخر بھی تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھی ان پر صرف کیا ایک ترقی یافتہ زبان کو ترک کر کے نئی زبان تشکیل کرنے کی مسلمانوں کو کیا ضرورت پڑی تھی۔ آئیے دیکھیں کہ یہ ضرورت کس کی تھی اورکس نے کوشش کر کے نئی زبان کی بنیاد ڈالی اور ترقی دی کوئی زبان اس وقت زبان کہلانے کی مستحق ہوتی ہے جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے بول چال میں استعمال کرے اور اگر یہ نہ ہو تو سنسکرت کی طرح مردہ زبان شمار ہوتی ہے۔ بول چال کی زبان کے لیے اس زبان کی نثر کا ہونا ضروری ہے صرف نظم کا کتابوں میں تحریر ہونا کافی نہیں۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے اردو زبان میں نظم کی کتابیں تو تھیں نثر کی نہ تھیں اور یہ اس وقت تک تعلیم یافتہ طبقے کی زبان بھی نہ تھی۔ انگریز افسر جان گلکرسٹ نے قلعہ فورٹ ولیم کلکتہ میں پہلی اردو کی نثر کی کتاب ’’ باغ و بَہار‘‘  میر امّن سے لکھوائی اور یہ اندازہ کیا کہ اس نئی زبان میں مقبولِ عام ہونے کی کتنی صلاحیت ہے۔ نتیجہ ہمّت افزا نکلا تو فوراً انجیل مقدس کا ترجمہ اس نئی زبان میں کرایا گیا یہی ان کا مطمحِ نظر تھا، عیسائیت کی تبلیغ کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ کہتے ہیں ملکہ وکٹوریہ کی سلطنت میں کبھی سورج نہ چھپتا تھا یعنی یہ کہ اس کی سلطنت پورے کرۂ ارض پر پھیلی ہوئی تھی اور بات بھی صحیح ہے اس وسیع مملکت میں تقریباً پانچ سو زبانیں بولی جاتی تھیں، اس میں علمی اور ترقی یافتہ بھی کئی زبانیں تھیں۔ لیکن ملکہ وکٹوریہ نے ان پانچ سو زبانوں کو چھوڑ کر اس نئی ایجاد کردہ زبان کو جس کا دامن ابھی بالکل خالی تھا سیکھنے کے لیے انتخاب کیا۔ آگرہ سے مولوی عبد الکریم کو صرفِ کثیر کے بعد بلوایا گیا۔ میں نے ایک تصویر دیکھی جس میں ملکہ معظمہ مولوی صاحب کو انجیلِ مقدس تحفہ میں دے رہی ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ کسی فرمانروائے ملک کا ہر فعل ذاتی شوق کے لیے نہیں سیاسی ضرورت کے لیے ہوتا ہے زبان اردو سیکھ کر انگلستان میں رہتے ہوئے اظہارِ خیال کے لیے یا مصاحبین سے تبادلۂ خیال کے لیے تو ملکہ موصوفہ کو اردو کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یہ زبان علمی بھی نہ تھی صاف ظاہر ہے کہ مقصد سیاسی تھا، اس کو سیکھنے کی لوگوں کو ترغیب دینی تھی۔ آخر کیوں ؟

۱۸۳۷ء میں ملکہ وکٹوریہ تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہوئیں اسی سن میں برّصغیر پاک و ہند سے فارسی کا دیش نکالا شروع ہوا یعنی ہندوستان کی حکومت انگلشیہ کی عدالتوں سے فارسی زبان کا اخراج اور اردو کی ترویج عمل میں لائی گئی۔ تمام دنیا کے مؤرخین بشمول ماجمدار، جواہر لعل نہرو اور سر مارٹیمبر وہیلر اس امر پر متفق ہیں کہ تیرہویں صدی سے پیشتر ہندوؤں کی کوئی تاریخ نہیں۔ ہندوستان کی صحیح تاریخ مسلمانوں کی آمد کے بعد کی ہے اس سے پہلے یہاں جو کچھ تھا وہ ہندوؤں کی دیو مالا تھی۔ انسائیکلوپیڈیا آف انڈیا Encyclopedia of India کے مصنف ایڈورڈ بالفور Edward Balfour کی تحقیق کے مطابق اس دور میں غیر مسلم اقوام گھیٹو Ghetoo کہلاتی تھیں۔ ’’ہندو‘‘ نام مسلمانوں کا آوردہ تھا اور کسی مذہب یا قوم کا نام نہ تھا۔ انگریزوں نے ہندو قوم کی تخلیق کی، اٹھارویں صدی کے اختتام پر سر ولیم جونز Sir William Jones ہائی کورٹ کا جج تھا وہ پہلا شخص ہے جس نے ’’ آریہ قوم ‘‘  کے متعلق اپنی دریافت شائع کی ( یہ نظریہ اب سندِ قبول سے محروم ہے )اور ہندو قوم کو یورپی قوموں کا نسلاً رشتہ دار قرار دے کر انہیں ممتاز اور دنیا سے روشناس کرایا اس سر ولیم جونز کو جو ہندوؤں کی تہذیب کا دلدادہ تھا مسلم قوم اور اردو سے کیا نسبت لیکن اس کی کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے اردو کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بابو لعل سکسینہ کی تصنیف ’’ اردو کے یورپین شعراء‘‘  اس امر پر دلالت کر رہی ہے کہ انگریزوں نے اردو کے پروان چڑھانے میں کافی جد و جہد کی۔ ظاہر ہے کہ مسلمان دشمن انگریزوں کو اردو کی ترقی سے کافی دلچسپی تھی اور مسلمان با الفاظ غالبؔ

فارسی بیں تابینی نقش ہائے رنگارنگ

بگدازِ مجموعہ اردو کہ بے رنگ من است

اردو کو آخری وقت تک نیچی نظروں سے دیکھتے رہے اور جب وہ رائج ہوہی گئی تو بقول مصحفیؔ

مصحفیؔ فارسی کو طاق پہ رکھ

اب ہے اشعار ہندوی کا رواج

کے مصداق مجبوراً اردو کی طرف توجہ دینے پر مجبور ہوئے یہ حقائق پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ فارسی کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک نئی زبان ( اردو) کی ضرورت انگریزوں اور ہندوؤں کو تھی مسلمانوں کو نہیں۔ انگریزی حکومت کے قیام میں مدد دینے والے ہندو صاحبان تھے جنہوں نے اردو زبان کے تمام ابتدائی اخبارات کا اجراء کیا اردو کی کتب سب کی سب ابتداً مطبع منشی نولکشور لکھنؤ نے چھاپیں جنہیں بعد میں انگریزوں نے رائے بَہادر کا خطاب دیا اب یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ مسلمانوں کے دشمن انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ سے فارسی کو مٹا کر ملکہ وکٹوریہ نے کچھ ایسی خوبی سے ڈسا تھا کہ جس کے نتیجہ میں اسلامیانِ ہند کی ثقافت اور مذہب کی موت یقینی تھی جس کے بعد ہماری حیثیت بھارت کے قدیم حکمران گونڈ اور بھیل قبائل سے بہتر نہ ہوتی کیونکہ اپنا لٹریچر نہ ہونے کے باعث وہ آج وحشی اور جنگلی ہیں جو کبھی اس پورے برّصغیر کے تاجدار تھے وہ تو کہیے کہ اللہ پاک نے اپنے کرمِ خاص سے مسلمانوں کو ہوش دیا اور انہوں نے لاشعوری طور پر اپنا دینی سرمایہ اردو میں منتقل کر لیا ورنہ اسلامی دنیا سے توہم کٹ ہی گئے تھے مذہب سے بھی بیگانہ ہو جاتے اور پھر نہ مذہب ہوتا نہ ہماری علیحدہ انفرادیّت ہوتی نہ پاکستان بنتا۔

 

                   میر ہمل کلماتی

 

بیان کیا جا چکا ہے کہ پندرہویں صدی کے اواخر اور سولہویں صدی کے آغاز میں یورپ کی عیسائی قوموں کو یہ خبط پیدا ہو گیا تھا کہ مشرقی ایشیا میں تاتاریوں سے رابطہ قائم کر کے مشرق سے مسلمانوں پر حملے کرائے جائیں اور بزورِ قوت عیسائیت کو فروغ دیا جائے جس زمانے میں کولمبس نے ملکہ ازابیلا کے ایما پر بحرِ اوقیانوس میں جہاز رانی اور پُر خطر سفر اختیار کیا تھا انہیں دنوں ملک پرتگال کے فرمانروا ہنری ملّقب بہ جہاز راں Henry The Navigator نے اسی نظریہ کے تحت ماہر جہاز رانوں کی سرکردگی میں بر اعظم افریقہ کے ساحل کے گرد بحری مہمات شروع کرائیں ان مسیحیت کے جنون میں سرشار پرتگالیوں نے افریقہ کے جنوبی حصہ راس امید Cape of Good Hope کو دریافت کرنے کے بعد بحرِ ہند کے ساحلی مقامات اور خلیجِ فارس کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر اپنے زیادہ ترقی یافتہ سامانِ حرب کے بل بوتے پر حملے کر کے جور تشدد سے لوگوں پر مسیحی مذہب مسلط کیا۔ گوا، ڈامن اور ڈیو پر پرتگالی مقبوضات کا قیام اور یہاں کے باشندوں پر کلیسائی دین کا تسلط اسی دورِ استبداد کی یادگار ہے۔ پرتگال والوں نے حبشہ کے عیسائی حکمران کو ملا کر مصر اور دیگر اسلامی ریاستوں کے امن کو تباہ کیا اور منصوبہ بنایا کہ ان سمندروں پر اڈے قائم کر کے اور اپنی قوت کو مجتمع کر کے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کے قبضہ سے نکالا جائے تاکہ مرکزِ اسلام کا خاتمہ اور مسلمانوں کا نام و نشان دنیا میں باقی نہ رہے۔ اسی زمانے میں مکران کے ساحل پر بندرگاہ کلمات واقع تھی جس پر ایک کلمہ گو میر ہمل کی حکمرانی تھی۔ میر ہمل نہایت جری اور خوبرو نوجوان تھا۔ وہ ایک روز اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ سمندر میں شکار کھیلنے کو گیا تھا کہ طوفان میں اس کی کشتی پھنس گئی اور کہیں سے کہیں جا نکلی۔ جب طوفان تھما تو اس نے خود کو ساحل عمان پر پر تگالیوں کے ایک فوجی اڈے کی زد میں پایا۔ جہاں اسے پرتگالیوں کی ایک بڑی جمعیت نے گھیر لیا اور گرفتار کر کے اپنے سردار کے روبرو پیش کیا گرفتاری کے دوران سردار کی لڑکی نے ہمل سے معاشقہ کا اظہار کیا سردار کو اس کے حسب و نسب کا علم ہوا تو وہ اپنی لڑکی کو ہمل کے عقد میں دے کر اور اسے اپنا آلہ کار بنا کر ساحل مکران پر حملے کرانا چاہتا تھا میر ہمل ایک با ایمان اور قوم پرست نوجوان تھا اس نے اس یکطرفہ معاشقہ کو ٹھکرادیا اور پرتگالی عزائم میں ساتھ دینے سے ان کار کر دیا۔ اب سردار کی بیٹی اس کے خلاف ہو گئی اور اسے مرواڈالا۔ اوپر مذکور ہو چکا ہے کہ پرتگالی عیسائی اکبر اعظم کو بیٹی دے چکے تھے دوسرے عیسائیوں کی مثل پرتگال والوں نے بھی اس حربے کے استعمال میں دریغ نہ کیا۔

 

                   امرتسر کے بیرسٹر کی عیسائی بیوی

 

ہندوستان میں دور انگلشیہ کی بات ہے کہ امرتسر کے ایک مسلمان بیرسٹر صاحب نے ایک فرنگی عیسائی عورت کو مسلمان کر کے اس سے شادی کر لی جب اس عورت کا انتقال ہوا تو مسلمانوں نے اسے اپنے طریق پر دفن کرنا چاہا ضلع کے انگریز کلکٹر نے لاش پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کو ان میم صاحبہ کا خط دکھایا جسے اس نے اپنے مرنے سے پہلے لکھا تھا اور کلکٹر صاحب سے استدعا کی تھی کہ اس کی تجہیز و تکفین دینِ مسیحی کے عقاید کے مطابق کی جائے۔ چنانچہ کلکٹر صاحب بہادر نے متوفیہ کی وصیت کا احترام کیا اور وہ فرنگیہ عیسائیوں کے گورستان میں مدفون کر دی گئی یوں یہ صلیب کی بیٹی زندگی بھر مسلمانوں کو دھوکے میں ڈالے رہی۔

 

                   بنارس کے مشنری ہسپتال کا واقعہ

 

اسی دور انگلشیہ میں بنارس میں ایک مسلمان نے اپنی نوجوان لڑکی کو مشنری ہسپتال میں بغرضِ علاج داخل کرایا کچھ روز بعد وہ شفایاب ہو گئی تو مشنری ہسپتال کے اربابِ بست و کشاد نے اس لڑکی کو اس کے والدین کے سپرد کرنے سے ان کار کیا اور حکام کو اس لڑکی کا دستخطی خط دکھایا جس میں اس نے اپنے عیسائی ہونے کا اعلان اور اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے والدین کے پاس نہیں جانا چاہتی انگریز کے جانبدار انہ قانون نے مشنری کے مؤقف کو صحیح گردانا اور وہ مسلمان لڑکی پتہ نہیں کہاں بھیج دی گئی۔ یہ تھی کارگزاری ان نصرانی مشنری عورتوں کی جن کے چنگل میں پھنس کر وہ کم سمجھ مسلمان لڑکی اپنے دین و ایمان اور والدین اور عزیز و اقارب سے چھین لی گئی۔

کرنل کی مطلقہ

دہرہ دون کے ایک صاحب جو آج کل کراچی میں بہت ممتاز عہدہ پر فائز ہیں۔ انہوں نے ایک انگریز کرنل کی مطلقہ سے شادی کر لی اس بوڑھی حسینہ نے کچھ ایسا جادو ان صاحب پر کیا کہ یہ اپنے ضعیف والدین اور کم سن بہن بھائیوں کو خیر باد کہہ کر اس فرنگن کی خدمت میں مصروف ہو گئے، ادھر ان میم صاحبہ نے یہ کیا کہ ان صاحب کے ہوتے ہوئے ایک اور معاشقہ کر ڈالا چونکہ ان صاحب میں ابھی مشرقی غیرت کی تھوڑی سی رمق باقی تھی انہوں نے اپنے رقیب کو گولی کا نشانہ بنا ڈالا اور نتیجۃً جیل کی ہوا کھائی، پیسہ کافی صرف ہوا قید سے چھوٹ گئے لیکن اس عیسائنی سے اتنا بڑا واقعہ ہونے کے بعد بھی لپٹے رہے۔ پتہ نہیں اس سے زیادہ شرمناک اور کیا قصہ ہوا ہو گا کہ اب آ کر انہیں میم صاحبہ سے جدائی اختیار کرنی پڑی۔

مشترکہ بیوی

ابھی چند سال پہلے کا مشہور واقعہ ہے جو ہمارے ملک کے ایک ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت رہا اور چونکہ عدالت میں کیس چل چکا ہے اسے قانوناً یہاں زیرِ بحث لانے کی اجازت نہیں ایک جرمن نصرانیہ نے پاکستان کے ایک افسر کے نکاح میں رہتے ہوئے ایک مسلمان فوجی کرنل سے شادی کر لی اور بقول خود مسلمان بھی ہو گئی۔ بھر عدالت میں اس نے کھلم کھلا بیان دیتے ہوئے کرنل صاحب سے اپنے معاشقہ کا اعلان کیا اوراس معاشقہ کو پہلی شادی ہوتے ہوئے دوسری شادی کے لیے بطورِ وجہ جواز پیش کیا۔ کیا کوئی مومنہ ایسی بے حیائی کا رتکاب کر سکتی ہے۔

سقّہ کی میم

یہ بھی دہرہ دون کا انگریزی دور کا واقعہ ہے کہ ایک نصرانیہ نے اپنے انگریز خاوند اور جوان لڑکے کے ہوتے ہوئے اپنے گھر میں پانی بھرنے والے مسلمان سقّہ کے یہاں آن بیٹھی اور جب وہ سقّہ بوڑھا ہو گیا تو اسے چھوڑ کر علیحدہ ہٹ گئی۔ ان عورتوں کے لیے بس مادّی لذّت اندوزی ہی اصل زندگی ہے زندگی کی اعلیٰ اقدار سے کوئی سروکار نہیں۔ شرم اور غیرت مشرقی عورتوں کی فرسودہ چیزیں ہیں نئی تہذیب میں ان کی گنجائش نہیں۔

شہشاہ کی مطلقہ

ہمارے قریبی زمانے میں ایران کی ایک ملکہ جسے شاہ نے ولی عہد نہ ہونے کے سلسلے میں طلاق دے دی تھی وہ ایک جرمن عیسائی عورت کے بطن سے تھی اب اس نے ایکٹریس کا پیشہ اختیار کیا ہے۔

عاقبت گرگ زادہ گرگ شود

اگرچہ با آدمی بزرگ شود

عربوں کی عیسائی اور یہودی بیویاں

یہ چیز کسی سے پوشیدہ نہیں کہ باوجود اسرائیل سے کئی گنا زیادہ سامانِ جنگ، ذرائع، آبادی، وسعتِ ملک ہونے کے عربوں نے جو جون ۱۹۶۷ء میں شرمناک شکست کھائی اس کا بڑا سبب وہ غیر مسلمان یہودی اور عیسائی عورتیں تھیں جو مصری فوجی افسران سے گھلی ملی رہتی تھیں اور ان کے دل میں گھس کر مصری حکومت اور فوج کے سربستہ راز اسرائیل کو بہم پہنچایا کرتی تھیں انہوں نے اپنے ملک و قوم کی اس خدمت کی انجام دہی میں گوہرِ عصمت جیسی گرانمایہ متاع کو لٹانے میں بھی گریز نہ کیا لیکن ہمارے بھائیوں کی آنکھیں ہنوز نہ کھلیں وہ بشمول چند سربراہانِ مملکت ابھی تک ان سفید جاسوسوں کو اپنے مہمانخانۂ دل میں جگہ دیئے آستین میں سانپ پالے ہوئے ہیں باہر بھی دشمن اور اندر بھی دشمن خود کردہ را عِلاجےنیست۔ یہ اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر چشمِ بینا ہو تو دیکھیے کہ یہ بالکل اندلس کا نقشہ ہے۔

کتنی باریک ہیں تثلیث کے علمبرداروں کی چالیں۔ کاش کہ مسلمان اب بھی عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بھیڑوں کی زدباہ بازیوں سے آگاہ ہو جائیں۔ قرآن کا حکم صاف ہے کہ یہودی اور نصرانی کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ تاریخ پکار پکار کر اس حقیقت کا اعلان کر رہی ہے۔ اللہ مسلمانوں کو ہوش دے۔ (آمین)

 

 

 

                   BIBLIOGRAPHY

 

Preachings of Islam, Arnold, W.T

Encyclopedia of India, Balfour, Edward

The Explorers of North America, Brener, John Bartlett

Encyclopedia of Religion & Ethics Die Arabischen Studien in Europa, Fuck, Dr. J.W

Europe & China, Survey of their Relations from the Oldest Times, Hudson, G.F

History of Christian Church, Hares, The Rev. W.P

Work of Sir William Jones, Jones, Sir William

Moors in Spain, Lanepoole, S. Stanley

Vedic Age, Majamdar, R.C

Glimpses of World History, Nehru, Jawaharlal

Tractus du Statu de Saracenorum, Williams of Tripoli,

Undulus Tarikh-o-Adab, Yousuf, Dr. Syed Mohammad

٭٭٭

تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبہ جبرئیل۔ جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید