FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

بغداد آشوب

(شہر آشوب)

 

 

 

 

               خالد علیم

 

 

 

انتساب

 

عراق کے اُن حریت پسندوں کے نام

جو سرزمین انبیاء کی حفاظت کے لیے اہل جبر و ستم کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور بالآخر وطن کی عظمت و حرمت پر کٹ گئے

عراق کی ان ماؤں کے نام

جن کے جواں سال بیٹے اس معرکہ خیر و شر میں شہید ہوئے

عراق کے ان معصوم بچوں اور بہنوں کے نام

جن کا جرم صرف یہی تھا کہاُن کا وجود اس خطہ ارض پر تھا جو صدیوں سے اُن

اہل جبر و ستم کی نگاہ میں ہے جن کی پیاس صرف معصوموں کے لہو سے بجھتی ہے

اور

عراق کے ان بزرگوں کے نام

جن کی نئی نسل اپنے وطن کی حرمت پر قربان ہو گئی

 

 

 

امن کو خون کے دریا سے گزار آئی ہے

دیکھ! کیسے چمنستاں میں بہار آئی ہے

دیکھ اے چشم نگوں بخت کہ پھر صبح وطن

اپنا پیراہن زرتار، اُتار آئی ہے

 

 

چند آنسو

 

سرزمین دجلہ و فرات ایک بار پھر لہو رنگ ہے۔ عالم اسلام سسک رہا ہے۔ مگر اس سسکار میں ایک نئے دور کی صبح کی انگڑائی نے احساس کی روشنی کو آفاق گیر ہونے کا مژدہ جاں فزا بھی سنا دیا ہے۔ جذبوں کی سرد توانائیاں کھولتے لہو کی حرارت سے تپنے لگی ہیں۔ ناتواں ہاتھوں میں یورپ کے تباہ کن اسلحے کی قوت تو نہیں مگر ارادوں کی قوت جاگنے لگی ہے۔ ذلت و رسوائی کے داغ کیسے دھُلیں۔۔۔ یہ سوال ہر مسلمان کی زبان پر کھولتے لاوے کی طرح دہکنے لگا ہے۔ غیرت کا آتش گیر مادہ تن بدن میں آگ کے شعلوں کی طرح بھڑکنے لگا ہے۔

ایک ایسا طوفان، ایک ایسا سیلاب جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے اس وقت صرف مسلمان ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے صدر دفتر سے جو کاغذ جاری ہوا تھا، اسے ریزہ ریزہ کر کے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا ہے۔۔۔ اور اقوام متحدہ کے بازوؤں میں تو کیا، زبان میں بھی اتنا دم نہیں کہ اس پر عالمی امن عامہ کے منشور کے حوالے سے آوازہ احتجاج ہی بلند کر سکے۔ شاید وہ کمزور ممالک کی شکست و ریخت کے بعد اپنی صدائے احتجاج کو بلند کرنے میں کامیاب ہو سکے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ۔۔۔۔

اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے بخیے ادھڑ گئے ہیں اور اس کی عزت کا جامہ چاک چاک ہو چکا ہے۔ وہ چارٹر جو دوسری جنگ عظیم کے بعد علاقائی حدود و قیود کی حفاظت کے لیے پوری دنیا پر نافذ کیا گیا تھا، وقت کی سب سے بڑی زمینی طاقت کے اژدھے نے اپنی ایک ہی جست میں ہڑپ کر لیا ہے، اور اب وہ کمزور ممالک کی حدوں کو توڑ کر باری باری انھیں نگلنے کے لیے آگے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔۔۔ ہر چند اس پر، امن پسند اقوام کا کمزور ترین ہتھیار ’’احتجاج‘‘ بھی بلند ہوا اور شاید اب بھی وقت کے منظر نامے پر کہیں کہیں موجود ہے، لیکن اس سے طاقت کے اژدھے پر رتی بھر اثر نہیں ہوا، اور نہ ہو سکتا ہے کہ طاقت کا نشہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اور اب سوال یہ ہے کہ ۔۔۔

کیا یہ اژدہا پوری زمین کو نگل جائے گا ، یا صرف انھیں ہڑپ کرنا چاہتا ہے جو اس کو اپنا دیوتا اور نجات دہندہ تسلیم نہیں کرتے اور اس کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے۔

لگتا تو یوں ہے کہ دونوں امکان موجود ہیں۔ فی الوقت تو اس کے شکار وہی ہیں جو اس کے آگے بند باندھے کھڑے ہیں، وہ نہیں جو اس کے خاموش حلیف بن کر تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔۔۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کی جوع الارضی فطرت آخر کار انھیں بھی نگل لے گی کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والے تیل کے بھکاری ہی اچھے لگتے ہیں۔

آئندہ دنوں میں کھلنے والی حقیقتوں کے آثار اس وقت بھی صفحہ ہستی پر موجود ہیں۔ ماہرین سیاست بلکہ عالمی سیاست کا مدو جزر سمجھنے والے دانشور کچھ بھی کہیں، اس تلخ سچائی کا ادراک تو انھیں بھی ہو چکا ہے جو اس کی عظمت کے قصیدے کہتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ دنیا میں پناہ صرف اُسے ملے گی جو اپنے زور بازو سے زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کرے گا۔

اب یورپ و امریکہ کی تہذیب کا دلکش طلسم بھی ٹوٹ چکا ہے۔ اس مہذب دنیا کی سحر طرازی کا بت پاش پاش ہو چکا ہے۔انسانیت کے یہ مدعی وقت کے سب سے بڑے چنگیز و ہلاکو بن کر روئے زمیں کو روندنے کے لیے بیتاب پھر رہے ہیں۔۔۔ کیسی تہذیب اور کہاں کی انسانیت کہ پالتو کتوں کو سونے کی رکابیوں میں کھانا کھلایا جاتا ہے اور اس کے مقابل محکوم ممالک کے کروڑوں بچوں کو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے ترسایا جاتا ہے۔ اپنے پاؤں میں ایک تنکے کی پھانس بھی لگ جائے تو بڑی بڑی علاج گاہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ، لیکن محکوم و مظلوم اقوام کے نوجوانوں کو آتش و آہن کا مینہ برسا کر ان کے بوڑھوں ، عورتوں اور معصوم بچوں سمیت زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے اس نام نہاد انسانیت پرست تہذیب کی تباہ کاریوں کا ادنیٰ کرشمہ۔ اس تہذیب کا کرشمہ، جو جہاد کو دہشت گردی قرار دے چکی ہے لیکن خود کمزوروں اور نہتوں پر دہشت گردی کے ہر امکان سے گزر چکی ہے۔ اس کی پاکیِ داماں کی حکایت کچھ اتنی طویل ہو چکی ہے کہ اپنے دامن اور بند قبا کو دیکھ کر بھی شرمندگی اور تہذیبی خجالت کا ایک قطرہ تک اس کے ماتھے پر نظر نہیں آتا۔ شاید

خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد

بقول شخصے، (آف دی ریکارڈ) اسی تہذیب کا ایک کرشمہ پچھلے دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ واشنگٹن میں غالباً ستر عورتوں نے عراق پر تباہ کاری کے خلاف ننگ دھڑنگ احتجاج کا نمونہ بھی پیش کیا۔ اس مصنوعی نمائش کا تجزیہ کسی نے کیا یا نہیں، معلوم نہیں ، لیکن جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور کئی دوسرے ممالک میں بھی بڑی بڑی احتجاجی ریلیاں آندھی کی طرح اٹھیں اور گرد کی طرح بیٹھ گئیں۔ چند ایک اسلامی ممالک میں بھی احتجاجی جلوسوں کی شکل میں اس تباہ کاری کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ مگر یہ سب آوازیں نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ حیثیت حاصل نہ کر سکیں، اور آخر کار وہ بڑا سانحہ رونما ہو گیا، جسے تاریخ دوسرے سقوط بغداد کے نام سے یاد کرے گی۔ بغداد تو صرف ایک علامت ہے ، پورے کا پورا عراق تباہ ہو گیا۔ انبیائے کرام کی اس سرزمین پر قتل و غارت کا وہ کھیل کھیلا گیا جسے تاریخ سیاہ دنوں کی تاریخ سے یاد کرے گی۔ ہلاکو خاں کی ظالمانہ یورش نے مسلمانوں کے قتل عام اور علمی خزانوں کی ہلاکت سے دجلہ و فرات کا پانی سرخ و سیاہ کر دیا تھا اور پھر لوٹ مار کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں کو دوڑاتا ہوا واپس اسی صحرا میں پلٹ گیا تھا جو اس کی فطرت اصلی کا غماز تھا۔ مہذب دنیا کا یہ فاشسٹ تو اس سے کہیں زیادہ ظالم اور تند خو ہے کہ جب تک وہ اس سرزمین سے لہو کے ساتھ تیل کا ایک ایک قطرہ نہ نچوڑ لے، واپس جانے کا نام نہیں لے گا۔ اس کے قدم مضبوط ہو گئے تو اردگرد کے دوسرے ممالک پر جہاں کی زمین تیل اگلتی ہے پوری طرح اپنے پنجے گاڑ دے گا اور پھر ۔۔۔۔

ہمارے پاس صرف احتجاج کا وہی کمزور ہتھیار ہوگا۔ مہذب دنیا کی اقوام بھی اپنی احتجاجی ریلیوں کا خراج پیش کریں گی۔۔۔۔ لیکن نہیں !

مجھے یقین ہے، ہماری قوت و حمیت جاگ جائے گی کہ ہماری غیرت کو وہ دھچکا لگا ہے جو اس سے پہلے شاید کبھی نہ لگا تھا۔

اس وقت یقین کی قوت ہمیں دلاسا ہی نہیں دے سکتی بلکہ عالم اسلام کی فضا میں پھیلی ہوئی گمان کی وہ گرد بھی صاف کر سکتی ہے، جو عالمی سیاست کے ماہرین نے اپنے زہریلے پروپیگنڈے سے پھیلا رکھی ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو اسلامی معاشرے کی رگ رگ میں اتارا جا رہا ہے ۔ مہذب دنیا کے پروپیگنڈے کا یہ ہتھیار اتنا مہلک ہے کہ بڑے سے بڑا کیمیائی ہتھیار بھی اس کی تاب نہیں لا سکتا۔ عراق پر آتش و آہن کی بارش کے بعد اسی ہتھیار نے عراق کی حریت پسند تحریک کو بے موت مار دیا ہے۔ صدام حسین اور اس کا ہراول دستہ یک لخت وقت کے منظر نامے سے یوں غائب ہو گیا ہے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ صدام حسین زندہ ہے یا شہادت کے رتبے کو پہنچ گیا؟ ۔۔۔ اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں۔ تاہم ممکنہ اطلاعات کے مطابق آغاز ہی میں جس قیامت خیز بمباری سے عراق کی تین ڈویژن فوج کو جلا کر راکھ کر دیا گیا، اور پھر ایک ہزار پاؤنڈ وزنی گائیڈڈ میزائل، لیزر گائیڈڈ میزائل اور آخر تک ٹام ہاک کروز میزائل کی تباہ کاری نے بغداد پر جو قیامت برسائی، ذہن میں کتنے ہی حوصلہ شکن امکانات پیدا ہونے لگتے ہیں۔جبکہ یہ سوال بھی اپنی جگہ ہمارا منہ چڑا رہا ہے کہ اگر صدام حسین زندہ ہے تو پھر اپنے پُر عزم ہراول دستے سمیت آخر کہاں چھپ گیا ۔ کیا اس کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ پوری کی پوری فوج (اگر قیامت خیز بمباری سے بچ گئی ہے تو) آخر کس کرہ ارض پر پناہ گزیں ہے؟۔۔۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس کی للکار محض دیوانے کی ایک بڑ تھی۔ ایسی بڑ جس کی وجہ سے پوری عراقی قوم امریکی غارت گری کا شکار ہو گئی۔ یہی وہ پروپیگنڈے کا زہریلا ہتھیار ہے جس کے مہلک استعمال کے بعد صدام حسین کے حامی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ صدام نے عراقی قوم کے نہتے جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور معصوم بچوں کو مروا دیا۔ اور امریکہ نے جو کچھ کیا ٹھیک ہی کیا کہ جو زندہ ہیں انہیں تو سکھ کا سانس نصیب ہو۔ بے شک غیر اقوام کا غلام بن کر ہی سہی کہ یہ غلامی صدام جیسے ’’ڈکٹیٹر،، کے عہد حکومت کی آزادی سے کہیں بہتر ہوگی۔ صدام جیسا ڈکٹیٹر اگر جنگ سے پہلے اور پھر جنگ کے دنوں میں بھی اپنی قوم کے ساتھ گھل مل کر رہا تو یہ اس کی شاطرانہ سیاست کا ایک پہلو تھا۔ وہ ڈکٹیٹر تھا اور آئندہ بھی ڈکٹیٹر ہی کہلائے گا۔ اس نے پوری قوم کے ساتھ دو مرتبہ مذاق کیا۔ حریت کا نعرہ لگا کر روئے زمیں کی سب سے بڑی طاقت کو اپنا دشمن بنا لیا جس کے نتیجے میں نہتے عوام کو موت کا شکار ہونا پڑا۔ وائیٹ ہاؤس سے اٹھنے والی آوازیں عراقی عوام کے حق میں یونہی نہیں اٹھیں۔ اپنی امریکی قوم سے کہیں زیادہ امریکہ کو صدام کے پنجہ ظلم میں دبے ہوئے عراقی عوام کا خیال رہا ہے۔ اسی لیے اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔ اب صرف امریکہ ہی ان کا نجات دہندہ ہے۔ اس معرکے میں اگر کچھ زخم لگے بھی ہیں تو تعمیر نو کے بعد سب زخم مندمل ہو جائیں گے۔ نئی کونپلیں کھلیں گی تو تازہ پھولوں کے خوشنما رنگوں سے امن و اماں کی نئی خوشبو بکھر جائے گی۔

اب آپ ہی سوچیں کہ پروپیگنڈے کا یہ ہتھیار ان کیمیائی ہتھیاروں سے کتنا مہلک ہے جو مہذب دنیا کے نام نہاد انسانیت دوست نے اپنے سمندروں کی تہوں میں چھپا رکھے ہیں اور جس کے استعمال سے تین بار دنیا کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے استعمال کی نوبت کیوں آئے کہ اس سے بھی بڑا ہتھیار ان کے پاس ’’پروپیگنڈے کا ہتھیار،، ہے جس کے بل بوتے پر وہ شہیدان ملت کو بھی ملت کے دشمن اور غدار ثابت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وقت بعد میں جو بھی ثابت کرے لیکن یہ امر واقعی ہے کہ امریکہ کے پروپیگنڈے کا یہ ہتھیار کیمیائی ہتھیاروں سے زیادہ مہلک ثابت ہو کر چل چکا ہے۔اور اس کے مہلک اثرات تمام دنیا ہی پر نہیں، اسلامی معاشرے پر بھی نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ اثرات کب ختم ہوں گے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن پھر وہی امید کی ایک کرن نہ جانے کہاں سے گمان کے اندھیروں میں اترنے لگتی ہے کہ سورج جو مشرق ہی سے طلوع ہوتا ہے، مشرق کے مسلمان محکوم ممالک کو ذلت و رسوائی کے اندھیروں سے نکال کر ایک دن ان پر بھی آزادی و خود مختاری اور امن و خوش حالی کے اجالے بکھیر دے گا۔

 

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

 

سرزمین عراق پر امریکی جارحیت (جو تا حال جاری ہے) کے دوران یہ چند نظمیں جو اَب ایک مجموعے کی صورت میں شائع ہو رہی ہیں، میری گزشتہ چند بے خواب راتوں کے محسوسات کا حاصل ہیں۔ سرزمین عراق پر ہر روز گزرنے والے ایک نئے سانحے، ہر لمحہ ایک نئی واردات نے سینہ و دل پر زخموں کی تعداد میں اضافہ ہی کیا۔ یہ زخم احساس کی زبان اور لفظوں کے پیکر میں ڈھل کر کاغذ پر عکس فشاں ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ایک مختصر مجموعہ ترتیب پا چکا ہے۔ سو اَب اسے ایک شعری حوالے سے نہیں، عراق کے شہیدوں ، بے گناہ اور معصوم بچوں پر امریکی جارحیت کے خلاف پیدا ہونے والے احساس اور حریت پسندوں کے جذبوں کی ترجمانی کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔مجموعے کے آغاز میں تین نظمیں اگرچہ عراق کی قیامت خیز تباہ کاری سے قبل لکھی گئیں ، تاہم اس لیے شامل کر لی گئی ہیں کہ ان کا موضوعاتی تسلسل بھی وہی ہے جو اِس تباہ کاری کے دوران میں مسلسل تخلیق ہونے والی ان نظموں کا ہے۔ اِن کے معیار سے قطع نظر اس امر کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ میری بعض نظموں میں اسلامی نظریہ و فکر کا پہلو ضرور شامل ہے، اور بعض میں کسی حد تک کیفیاتی اور تخلیقی عنصر بھی نظر آئے گا۔ امریکی جارحیت کا شکار ہونے والے (تصوراتی نہیں بلکہ) زندہ کرداروں پر بھی آپ کو دو تین نظمیں ملیں گی۔ علی اسماعیل عباس پر تین نظموں کا تسلسل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان میں کسی حد تک داستانی عنصر بھی شامل ہو گیا ہے کہ یہ سرزمین بغداد کا ایک تہذیبی پہلو بھی رہا ہے، تاہم یہ محض اسلوب اور طرزِ اظہار کی حد تک ہے کہ میرے لیے علی اسماعیل عباس کا زندہ وجود پورے عراقی عوام کی مظلومیت کا استعارہ بن چکا ہے۔

کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جبر و ستم کی ابھی کتنی راتیں باقی ہیں۔ عراقی عوام پر قہر و غضب کے کون کون سے حربے آزمائے جائیں گے۔ تعمیر نو کے لیے ابھی کتنے بے گناہوں کے سر قلم کیے جائیں گے، اس خطہ ارض کا نقشہ کیا ہوگا، مسلمانوں کا خوابیدہ ضمیر کب جاگے گا اور کب یک جان و یک قالب ہو کر یہ امت محکوم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کر سکے گی۔۔۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جہاد جیسے مقدس لفظ کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے صلیب کے پرستاروں نے اگر اسے دہشت گردی کا نام دے دیا ہے، (اور ہمارا ہمسایہ ملک بھی ’’حق ہمسائیگی‘‘ ادا کرتے ہوئے صلیبیوں کے اس حربے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی بنیادوں کو ڈھانے کے ناپاک عزائم رکھتا ہے) تو ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ جس کی جو زبان ہے، اسی زبان میں بات کرے گا۔ اگر وہ جہاد کے مقدس عمل کو دہشت گردی کہتا ہے تو ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی ناپاک زبان میں ہمیں جہاد سے روکنے کا حربہ استعمال کر رہا ہے۔ اگر وہ اسلام کی اصل بنیاد کو بنیاد پرستی (Fundamentalism) کہتے ہوئے ہمیں غیر ترقی یافتہ قرار دینے پر تلا ہوا ہے تو ہمیں کیوں تسلیم نہیں کہ ہماری ترقی اور عظمت کا راز اسی بنیاد پرستی میں ہے۔ بنیاد کے بغیر تو ایک معمولی سی عمارت کا وجود بھی ممکن نہیں۔

جہاد کے مقدس عمل کے لیے اسے اپنی زبان میں ’’دہشت گردی،، کے الفاظ ملے ہیں۔

اسلام کی اصل اساس کے لیے اس کے پاس ’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح ہے۔

سو، اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم

اپنی نگاہ میں ہیں کیا؟ اس کی نظر میں کون ہیں؟

 

خالد علیم

16 اپریل 2003ء

 

 

 

نعتیہ

 

ترے فراق کا غم ہے مجھے نشاط انگیز

یہی ہے راہرو شوق کے لیے مہمیز

 

اِسی کے نم سے ہے باقی مری نگاہ کا نور

اِسی کے سوز سے ہے ساز دل نوا آمیز

 

اِسی کا جذب خوش آہنگ ہے نظر میں کہ آج

مرا کدو ہے مئے سلسبیل سے لبریز

 

یہی ہے نغمہ، دل افروز ساز جاں کے لیے

اِسی سرود سے پیدا ہے جوہر تبریز

 

اِسی کی ضرب سے تارِ ربابِ جاں میں سرور

اِسی کا لحن ہے دل کے لیے سکوں آمیز

 

مرے کلام میں تاثیر اِسی کے دم سے ہے

اِسی سے فکر کی بنجر زمین ہے زرخیز

 

یہ آرزو ہے بہشت حجاز میں پہنچے

یہی زمین ہے خالد کو خلد عنبر بیز

 

مرے کریم! کرم ہو کہ پھر زمانے میں

حریف ملت اسلام ہے جہان ستیز

 

ہو کوئی چارہ کہ غارت گری ہے شیوہ کفر

بپا ہے ارض مقدس پہ فتنہ چنگیز

 

اسی سے لرزہ بر اندام خاک بوسنیا

اسی کے شر سے دل سرب تھا شرار انگیز

 

نظر فروز ہو آئینہ نگاہ ترا

کہ کھا گئی ہے بصارت کو دانش انگریز

 

جہان کفر اسی کی عطا سے زندہ ہے

اسی کے فیض سے اب تک ہے جام جم لبریز

 

اُدھر یہود و نصاریٰ کے بڑھ رہے ہیں قدم

اِدھر ہوئی تری امت کے دل کی دھڑکن تیز

 

یہ تیرے چاہنے والے، یہ تیرے اہل صفا

کریں گے اور کہاں تک جہاد حق سے گریز

 

 

تا حال شہادتوں کا جاری ہے سفر

ہیں آج بھی اہل دیں کے سر نیزوں پر

شمشیر ستم کہ بے نیام آج بھی ہے

ہے آج بھی خاکِ کربلا خون میں تر

 

اک پنجہ ظلم ہے رگِ ہستی پر

ظلمات بدوش ہے یزیدی لشکر

اک معرکہ خیر و شر برپا ہے

عالم ہے تمام کربلا کا منظر

 

 

 

کروں تو کیا کوئی حرف نشاط رنگ رقم

بہت دنوں سے چراغ حرم کی ہے ضو کم

 

بہت دنوں سے دہکنے لگی ہے آتش دیر

بہت دنوں سے ہوا کا مزاج ہے برہم

 

بہت دنوں سے اندھیرے مرا مقدر ہیں

بہت دنوں سے دنوں پر ہے رات کا عالم

 

رگوں میں آگ نہ بھر دیں کہیں لہو کی جگہ

کف وجود پہ رکھے ہوئے شرار عدم

 

کچھ اہل دل کی اُدھر لوح آسماں کی طرف

کھلی ہے درد کی چشم ہزار قطرۂ یم

 

امیر شہر کی جاتی نہیں پریشانی

کچھ اہل شہر کا شیرازۂ جنوں ہے بہم

 

بجھا دیے ہیں ستارے کہ دن نکل آئے

مگر یہ کیا کہ ہے سورج کی روشنی مدھم

 

شبوں کے جاگنے والوں پہ اب بھی جاگتا ہے

چمکتے دن میں فسردہ سحر کی آنکھ کا نم

 

کچھ اہل درد کو اب بھی سنائی دیتا ہے

ہوا کے دوش پہ گزری بہار کا ماتم

 

ستم کہ ہے مرے خنجر کی دھار کند ابھی

نیام کفر سے نکلی ہوئی ہے تیغ دو دم

 

مگر یہ ہے کہ سروں پر ہے آسمان ابھی

ابھی یہ ہے کہ زمیں پر ٹکے ہوئے ہیں قدم

 

ہزار ہاتھ گریباں پہ پڑنے والے ہیں

مگر عجب کہ ابھی پاؤں میں ہے جرأت رم

 

لہو لہو ہے ابھی پیرہن خیالوں کا

مرے ہی زخم سے تر ہے مری زبان قلم

 

میں ایک عمر رہا خواب خوش گماں کا اسیر

میں ایک عمر سمجھتا رہا ہوں شہد کو سم

 

مری نگاہ میں پیدا نہیں ابھی وہ نیاز

زباں سے رشتۂ دل کو کرے جو مستحکم

 

میں کیا کروں کہ مجھے تابِ عرضِ حال نہیں

میں کیا کروں کہ مرے دوش پر ہے بار اَلَم

 

اٹھا رہا ہوں زباں سے میں اعتراف کا بار

مگر یہ ڈر ہے کہیں ڈگمگا نہ جائیں قدم

 

 

 

امن اور جنگ

 

 

امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں

کس کا بہتا ہے لہو، کون بہاتا ہے لہو

کس کی گردن پہ ہے شمشیر کی نوک اور یہ شمشیر کہاں سے آئی

پاؤں کس کا ہے تو زنجیر کہاں سے آئی

کس کو دکھلایا گیا امن کا خواب

اور پھر اس خواب کی تعبیر کہاں سے آئی

بے گناہوں کے لیے جبر کی تعزیر کہاں سے آئی

کس کے ہاتھوں سے ہوئی قتل گہوں کی تعمیر

اور درپردہ تعمیر یہ تخریب کی تدبیر کہاں سے آئی

امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں

کس نے انسان کو پابند سلاسل رکھا

کس نے منزل کا دیا کس کو فریب اور کسے آوارہ منزل رکھا

کس نے زرخیز زمینوں کو بنایا بنجر

کس نے شاداب، مہکتے ہوئے قریوں کے مکینوں کو کفن پہنائے

کس نے محکوم کی رگ رگ میں اتارے خنجر

اور تہمت ہے لہو کی کس پر

کس کی دہشت نے کسے لرزہ بر اندام کیا

اور پھر الزام بھی کس پر آیا

امن کے نام پہ جنگوں کا یہ دستور نکالا کس نے

ہاتھ کس کا ہے، گریباں کس کا

دھجیاں کس کی اڑیں کس کا بدن چاک ہوا

اور لہو کس کا، اچھالا کس نے

کس کے سرسبز دیاروں کو لہو رولتے آفاق میں ڈھالا کس نے

امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں

امن عالم کے خداوندوں کا یہ فلسفہ ہے

کہ جو باشندہ مغرب ہے وہ باشندہ آفاق بھی ہے

اس کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، وہی زندگیوں کا ہے خداوند

کہ سورج جو یہ مشرق سے نکلتا ہے

تو اس پر بھی اسی کا حق ہے

روشنی ساری زمیں پر جو بکھرتی ہے تو کیا

صبح مشرق سے اترتی ہے تو کیا

کرہ خاک کے ہر قریے میں

ایک ایک کرن لے کے ابھرتی ہے تو کیا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا ہے،

وہی سورج کا خداوند بھی ہے

امن عالم کے خداوندوں کا یہ فلسفہ درپردہ امن

خطہ شرق کے دم توڑتے انسانوں سے اک جنگ کا اعلان بھی ہے

امن کے نام پہ اس جنگ کا اعلان مگر

برتر اقوام کے مغرور خداؤں کی عنایات کا تاوان بھی ہے

اور منطق ہے یہ کچھ مصلحت اندیشوں کی

امن غیرت کے بدل میں بھی جو مل جائے تو یہ جنگ سے بہتر ہوگا

لیکن ان حیلہ گروں سے کوئی یہ تو پوچھے

امن کے نام پہ ہر معرکہ جنگ و جدال

کس نے برپا کیا اور کس کا لہو کس کی زمیں پر ٹپکا؟

کون اس معرکہ جبر میں آخر تہ شمشیر ہوا اور یہ شمشیر کہاں سے آئی؟

پاؤں کس کا ہے تو زنجیر کہاں سے آئی؟

 

 

 

تضاد

 

 

اک طرف رقص پہ آمادہ سیہ کار بدن

قریہ ارض پہ کہرام بپا ایک طرف

اک طرف زور پہ طوفان ہے بدمستی کا

اک طرف لشکر ابلیس، خدا ایک طرف

 

اک طرف محفل نغمات ہے سرگرم نشاط

نسل انساں ہے اُدھر خون میں تر ایک طرف

اک طرف رونق بازار وہی ہے کہ جو تھی

کٹ گئے ماؤں کے سب لخت جگر ایک طرف

 

اک طرف گرگ ستم پیشہ کی یورش ہے وہی

خطہ ارض پہ ہے ایک طرف جشن بہار

اک طرف سلسلہ آہ و فغاں جاری ہے

اک طرف موج پہ ہے اپنے مغنی کا خمار

 

اک طرف عیش ہی عیش، ایک طرف آگ ہی آگ

کرہ ارض پہ آخر یہ تماشا کیا ہے

جل گیا شہر وہاں اور یہاں ایک وہی!

’’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے،،

 

 

 

یہ خاک زادوں نے کیسا ستم اٹھایا ہوا ہے

مری زمین کو بھی آسماں بنایا ہوا ہے

 

جہاں کبھی وہ بہتر سروں کی فصل کٹی تھی

سر فرات وہ مقتل تو پھر سجایا ہوا ہے

 

نہیں کچھ اور تو ایماں کی خیر ہو مرے مولا!

کہ رزمگاہ میں ابلیس ساتھ آیا ہوا ہے

 

بس ایک میری صدا جبر کے خلاف اُٹھی تھی

بس ایک مجھ پہ ہی اس نے ستم اٹھایا ہوا ہے

 

ابھی رُکی نہ تھی میرے لہو کی دھار کہ اس نے

اک اور دجلہ خوں شہر میں بہایا ہوا ہے

 

میں اس زمین پہ کس طرح سر اٹھا کے چلوں گا

ہر ایک شخص جہاں خون میں نہایا ہوا ہے

 

ہر ایک غنچہ و گل جل کے راکھ ہونے لگا ہے

مری زمین پہ کیسا عذاب آیا ہوا ہے

 

جو دل پہ وار پڑے، ان کی ٹیس کم نہیں ہوگی

جو زخم تن پہ لگے ہیں، انہیں بھلایا ہوا ہے

 

اسی امید پہ میری طرف وہ آیا ہوا ہے

کہ اس نے کچھ مجھے پہلے بھی آزمایا ہوا ہے

 

اُسی فریب سے میدان ہار دوں گا میں آخر

وہی فریب، جو پہلے بھی میں نے کھایا ہوا ہے

 

مجھے خبر ہے وہ اب بھی پرانی چال چلے گا

نئی بساط پہ مہرے تو اور لایا ہوا ہے

 

میں جانتا ہوں کہ بے دست و پا اسی میں گروں گا

وہ ایک جال جو چاروں طرف بچھایا ہوا ہے

 

نہ جل اٹھیں کہیں کچھ اور بھی چراغ کہ اس نے

اِس احتمال پہ میرا دیا بجھایا ہوا ہے

 

دکھا رہا ہے مجھے اس کی تیز دھار ابھی وہ

جو خنجر اس نے مرے واسطے بنایا ہوا ہے

 

ابھی رکھا نہیں میری رگ گلو پہ وہ خنجر

ابھی تو اس نے زمیں پر مجھے گرایا ہوا ہے

 

 

 

 

تعمیر نو

 

 

زمین انبیاء پر آج کیا پڑی اُفتاد

کہ پھر سے لٹ گیا بصرہ، اجڑ گیا بغداد

 

میں سوچتا ہوں کہ ذلت کے داغ کیسے دھُلیں

ہزار زندہ ہے اہل یقیں کا عزم جہاد

 

مسل کے رکھ دیا ہر ایک غنچہ نورس

کمین گاہ سے نکلا کچھ اس طرح صیاد

 

بنامِ امن بساطِ جہاں الٹنے لگی

عجیب رنگ بدلتا ہے عالم ایجاد

 

اُٹھو اور اُٹھ کے ذرا خم کرو سر تعظیم

نوید امن و اماں لا رہا ہے کارِ فساد

 

جہاں کے مدعیانِ ثقافت و تہذیب

خمیر ظلم سے سینچیں گے شہر کی بنیاد

 

دیارِ غرب کے اے بے مثال انسانو!

کرو گے شہر کی تعمیر نو، مبارک باد!

 

وہ شہر جس کو جلایا ہے اپنے ہاتھوں سے

اب اس پہ کاشت کرو گے تم اپنی فصل عناد

 

بہ رنگِ نو کھلا مجھ پر یہ گفتہ اقبال

’’کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد‘‘

٭٭٭

 

 

 

علی اسماعیل ۔۔۔ 2

 

علی اسماعیل آج بغداد کی جلتی گلیوں سے

اجڑی ہوئی شاہراہوں سے آخر گزرتا ہوا

اک نئی سر زمیں کی طرف آ گیا ہے،

مگر اس کو یہ تو خبر ہی نہیں ہے

کہ یہ سر زمیں بھی تو محکوم ہے

جانے کیوں اس نے وہ سر زمیں چھوڑ دی

جس پہ خود اس کے معصوم بچپن کے کتنے ہی سال

آئنوں کی طرح اس کی آنکھوں میں روشن رہے ہیں

نہ جانے اسے کیوں نہیں یہ خبر

ان گنت داستانوں، طلسمی حکایات،

دلکش روایات کی سر زمیں

شہرزادانِ بغداد کی سر زمیں

اس کے آباء و اجداد کی سر زمیں

اُن لٹیروں کے قبضے میں ہے

جو کبھی اُس کے اجداد کے سامنے دست بستہ کھڑے

گڑگڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے

کہ بس ان کو اس شہر بغداد میں ایک دن کی اماں چاہیے

جب اماں مل گئی تو

الف لیلہ کی داستانوں، علی بابا کی سب حکایات

اور اس کے اجداد کی ساری دلکش روایات کو

ایک صندوق میں بند کر کے، نگاہیں چراتے ہوئے

اپنے قدموں کے سارے نشاں بھی مٹاتے ہوئے

اتنی تیزی سے اپنی پنہ گاہ کی سمت لوٹے

کہ کتنی ہی صدیوں تک اُن کی ہوا تک نہ پائی

مگر ایک دن گرد بادِ جہاں کا جو طوفان اُٹھا

تو پھر اُس کے اجداد کی

(کتنی صدیوں کے بعد آنے والی ) نئی نسل پر یہ کھلا

اُس کی ارضِ مقدس سے اک دن چرائی ہوئیں

وہ الف لیلہ کی داستانیں،

علی بابا کی سب حکایات اور اس کے اجداد کی ساری دلکش روایات

میں کیمیائی طلسمات کا کس قدر زہر آمیز ہو کر

فضاؤں کو آلودہ کرنے لگا ہے

لٹیروں نے اس سر زمیں سے چرائے ہوئے

اُن روایات کے سب خزانے کو اپنی سیہ کار فطرت سے

کتنا سیہ کر دیا ہے

علی اسماعیل اپنی جلتی ہوئی شاہراہوں سے چپ چاپ

اک اور محکوم خطے کی جانب نکل آیا ہے،

اس کا معصوم ذہن اپنے اجداد کی سر زمیں کے

المناک انجام پر سوچ سکتا نہیں

اُس کو بس یہ خبر ہے کہ اُس کے وہ بازو

وہ شاخِ بریدہ کی مانند اُس کے کٹے ہاتھ

اُس سر زمیں پر کہیں کھو گئے ہیں

 

 

 

علی اسماعیل ۔۔۔ 3

 

ابھی رات باقی ہے لیکن علی اسماعیل

اپنی آنکھوں میں اک اَن کہا خوف لے کر

نئی سر زمیں پر نئے شہر میں شاہراہِ خزاں رنگ پر

اک شفا خانے میں اپنے بستر پہ چپ چاپ

کھڑکی کے اس پار برقی اجالوں میں

بکھری ہوئی رات کی سمت یوں دیکھتا ہے

کہ جیسے ابھی رات برقی اجالوں سے باہر نکل کر

شفق رنگ آندھی میں ڈھل جائے گی اور شفا خانے میں

اس کے بستر کی ساری سفیدی سیہ راکھ بن جائے گی

اپنے بستر پہ چاپ چاپ آئندہ کے خوف سے

کتنا سہما ہوا ہے علی اسماعیل

اس کی آنکھوں میں ہر چند

گزرے دنوں کے اجالے بھی ہیں

یاد ہیں اس کو بغداد کی وہ سحر تاب گلیاں

شفق رنگ دجلہ کا دلکش کنارہ

وہ گلیاں جہاں اس کے معصوم بچپن کے دن جاگتے تھے

وہ دجلہ کا دلکش کنارہ ،جہاں اس نے اپنے لڑکپن کا پہلا قدم

یوں رکھا تھا

کہ جس طرح کوئی خزاں بار موسم کے آخر پہ

گل بار موسم کی آمد سے پہلے ہی

نو زائیدہ برگ و گل کے تصور میں خوشبو کو

اپنے خیالوں میں بھر لے

وہ اس کے لڑکپن کا پہلا قدم اپنے آئندہ موسم کی

خوشبوئے گل بار کے خیر مقدم کو آگے بڑھا تھا

کہ دجلہ کے دلکش کنارے پہ

آفاق سے آندھیوں کی شفق رنگ یلغار نے

ایسا اودھم مچایا کہ خوشبو تو کیا، وہ کنارہ

وہ دجلہ کا دلکش کنارہ جھلس کر سیہ رنگ ہونے لگا

اور آخر کنارے کے اک سمت آباد شہر اور

اس کی سحر تاب گلیاں بھی جل کر سیہ راکھ میں ڈھل گئیں

آسماں سے شفق رنگ یلغار نے

اس کے جلتے ہوئے گھر کے دیوار و در کو

سیہ راکھ سے بھر دیا تھا

 

علی اسماعیل اپنے بستر پہ چپ چاپ لیٹا ہوا ہے

ابھی رات باقی ہے

برقی اجالوں میں بکھری ہوئی یہ سیہ رات باقی ہے

اور اس کے بستر کی ساری سفیدی سیہ راکھ میں ڈھل رہی ہے

مگر یاد ہیں اس کو بغداد کی وہ سحر تاب گلیاں

شفق رنگ دجلہ کا دلکش کنارہ

 

 

 

مناجات

 

اے ربِّ کائنات !

دجلہ کے ایک سمت، سر وادیِ ممات

تن کر کھڑی ہے ایک مہیب و سیاہ رات

کب سے غزالِ جاں مرا وحشت خرام ہے

طے ہوگا کتنے دن میں ترا دشتِ ممکنات؟

زخمی ہوں میں بھی عرصۂ ایماں شکار کا

کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی واردات

جاؤں کہاں کہ اب تری ارضِ بسیط پر

ہر صبح سانحات، بہر شام حادثات

آخر ملے گی کب مجھے اس رات سے نجات

جو رات بہہ رہی ہے سرِ دجلہ و فرات

طورِ کرم سے ، پھر ترے سینائے لطف سے

اترے تری زمیں پہ تری روشنی کا ہات

گر یہ نہیں تو مجھ کو عطا ہو عصائے صبر

اور اس کے بعد بخش مرے صبر کو ثبات

اے ربِّ کائنات !

٭٭٭

نا مکمل

 

٭٭٭

تشکرَ:شاعر اور نوید صادق جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین، پروف ریڈنگ، اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید