FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بابل کا کتب خانہ اور دوسری تخلیقات

 

 

 

                خورخے لوئس بورخیس (بورکز)

                JORGE LUIS BORGES

ترجمہ: عاصم بخشی

 

 

 

 

محل کی کہانی

 

زرد شہنشاہ [1] نے شاعر کو اپنے محل کی سیر کروائی۔ آہستہ آہستہ، قدم بہ قدم ایک لمبے جلوس کی شکل میں وہ اپنے پیچھے مغربی جانب کھلے ہوئے Parable of Palaceہوئے اولین بالاخانے چھوڑتے چلے گئے جیسے کسی لامحدود بیضوی اکھاڑے کے نیم دائروی کنگرے ہوں، جو ایک جنت میں اتر رہے تھے، ایک باغ جس کے آہنی آئینے اور باہم پیوست صنوبری باڑھیں کسی آنے والی بھول بھلیاں کی پیش بینی کر رہی تھیں۔ وہ خوشی خوشی اس میں کھو گئے، پہلے پہل جیسے کسی کھیل میں انکساری سے شامل ہو رہے ہوں، مگر پھر بعد میں بغیر کسی تردد کے کیوں کہ اس کی سیدھی گلیاں بہت دھیمے سے، مگر مسلسل   گولائی میں گھوم رہی تھیں ، لہٰذا بہت ہی نامحسوس طریقے سے یہ گزرگاہیں دائروں میں تھیں۔ نصف شب کے قریب سیاروں کے مشاہدے اور ایک کچھوے کی بروقت قربانی نے انہیں اس علاقے کے طلسمی بندھن سے فرار کا موقع فراہم کیا جس پر زیرِ سحر ہونے کا گمان ہوتا تھا، حالانکہ وہ اس کھو جانے کے احساس سے پھر بھی آزاد نہیں ہوئے جو ان کے ساتھ آخر تک رہا۔ پھر وہ پیش دالانوں، برآمدوں اور کتب خانوں میں گھومتے پھرتے ایک ایسے مسدسی کمرے سے گزرے جہاں ایک آبی گھڑی نصب تھی، پھر ایک صبح ایک مینار پر کھڑے انہیں ایک پتھر کا آدمی نظر آیا جو کچھ دیر میں ہمیشہ کے لئے ان کی نگاہ سے غائب ہو گیا۔ صندل کی لکڑی سے بنی ڈونگیوں میں انہوں   نے کئی دمکتی ندیاں پار کیں ، یا شاید ایک ہی ندی کئی بار۔ شاہی قافلہ گزرتا اور لوگ گھٹنوں پر گر کر ماتھے زمین پر ٹیک دیتے، مگر ایک دن درباری ایک ایسے جزیرے پر پہنچے جہاں ایک آدمی نے ایسا نہ کیا کیوں کہ اس نے پہلے کبھی آسمانوں کے بیٹے کو نہ دیکھا تھا، نتیجتاً جلاد کو اس کا سر قلم کرنا پڑا۔ بادشاہ اور شاعر لاتعلقی سے سیاہ زلفوں، سیاہ فام رقاصاؤں اور سنہرے نقابوں کی جانب دیکھتے رہے، حقیقت خواب کے ساتھ گھل مل گئی اور اس میں پیوست ہو گئی، بلکہ حقیقت اب خواب ہی ایک صورت تھی۔ یہ ناممکن لگتا تھا کہ زمین اب باغات، فواروں، اور عالی شان تعمیرات کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی تھی۔ ہر ایک سو قدم کے بعد ایک مینار جیسے فضا کو چیر رہا تھا، آنکھ کے لئے یہ رنگ ایک جیسے تھے لیکن ان میں پہلا زرد تھا اور آخری قرمزی، یعنی ان کے درجات اتنے لطیف تھے اور سلسلہ اتنا لمبا۔

 

وہ آخری سے پچھلے مینار کے نیچے کھڑے تھے جب شاعر نے (جو ان تمام نظاروں سے جن پر دوسرے رشک کر رہے تھے متاثر نہ لگتا تھا) وہ مختصر سی نظم سنائی جو ہم آج اس کے نام سے بالاستحکام منسوب کرتے ہیں، وہ الفاظ جیسا کہ عظیم ترین مؤرخین تکرار کرتے نہیں تھکتے ،اس شاعر کی بقا اور موت کا باعث بنے۔ وہ متن اب گم چکا ہے، کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ بس ایک تنہا سطر پر ہی مشتمل تھا، اور دوسروں کے خیال میں ایک لفظ۔

 

ہمیں صرف اتنا معلوم ہے( چاہے وہ کتنا ہی ناقابلِ یقین کیوں نہ ہو) کہ اُس نظم میں وہ کشادہ و عالیشان محل، اپنی کم سے کم تفصیلات کے ساتھ،چینی مٹی کے وہ تمام واجب التعظیم ظروف جو اس میں موجود تھے، ہر برتن پر موجود ایک ایک منظر، تمام قمقمے اور ان کی ملگجی روشنیوں سے بننے والا ایک ایک سایہ،اور سورماؤں، دیوتاؤں اور آتشیں دیو پیکر اژدہوں کے ان تمام عالیشان شاہی سلسلوں کے تمام افسردہ اور مسرت آمیز لمحے جو اس کی لا انتہا تاریخ کا حصہ تھے، سما گیا تھا۔

 

ہر کوئی دم بخود، چپ سادھے کھڑا تھا کہ آخر کار شہنشاہ بول اٹھا۔ ’’تم نے میرا محل چرا لیا!‘‘، وہ چیخا، اور جلاد کی آہنی درانتی نے شاعر کے خرمنِ حیات کو کاٹ ڈالا۔

 

دوسرے یہی کہانی مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی دو چیزیں یکساں نہیں ہو سکتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی شاعر نے اپنی نظم سنائی محل کسی دھوئیں کے مرغولے کی طرح فضا میں غائب ہو گیا، اور آخری صوتی اکائی کے ادا ہوتے ہی زمین سے مٹ گیا۔

 

ظاہر ہے کہ اس قسم کی تمام روایات محض ادبی افسانے ہیں۔ شاعر بادشاہ کا غلام تھا اور ایک غلام کی حیثیت سے ہی مرا۔ اس کی نظم کا مستقبل گوشۂ گمنامی ٹھہرا کیوں کہ وہ اسی قابل تھی۔ آنے والی نسلیں آج بھی اس کی تلاش میں ہیں لیکن وہ کبھی کائنات کے متبادل لفظ تلاش نہیں کر سکیں گے۔

 

__________________________________________

 

[1] خورخیس کا اشارہ شاید ہوانگ ڈی کی جانب ہے جو چینی سلسلہ سلاطین کا ایک اہم ہیرو گنا جاتا ہے۔ اس کا زمانہ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل مسیح کے قریب ہے۔اسے چینی تہذیب کے اولین معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

خدائی تحریر

 

 

زندان بہت گہرا ہے، اور پتھر کا بنا ہے۔ یہ واقعہ کہ اس کی ہئیت تقریباً ایک مکمل نصف کرہ کی سی ہے، گو کہ تہہ (جو پتھر ہی کی بنی ہے) ایک عظیم دائرے سے کچھ کم ہی ہے، ایک لحاظ سے جبرو استبداد اور وسعت کے احساسات کو مزید ابھارتا ہے۔ ایک دیواراس کے مرکز کو نصف میں تقسیم کرتی ہے، اور یہ دیوار کافی بلند ہونے کے باوجود قید خانے کے بالائی حصے تک نہیں پہنچتی۔ یہاں ایک کال کوٹھری کے اندر میں، یعنی زیناکان اہرامِ کاہولوم کا جادوگر، جسے پیڈرو ڈی الورادو نے آگ سے تباہ و برباد کر ڈالا قید ہوں، اور دوسرے میں ایک تیندوا جو لگاتار دبے دبے قدموں سے قید کی زمانی اور مکانی نوعیت جانچ رہا ہے۔ مرکزی دیوار کے بیچ ایک لمبی کھڑکی ہے جس کی سلاخیں زمین سے لگی ہیں۔ نصف النہار کے وقت جب سایہ نہیں ہوتا، اوپر چھت میں ایک شگاف کھلتا ہے اور داروغۂ زنداں جس کو ماہ و سال بتدریج مٹا رہے ہیں ایک فولادی چرخی گھما کر ہمارے لئے رسی کے ذریعے پانی سے بھرے جگ اور گوشت کے پارچے اتارتا ہے۔ اس سمے کوٹھری میں روشنی در آتی ہے اور یہی وہ ساعت ہے جب میں اُس تیندوے کو دیکھ سکتا ہوں۔

 

میں اُن سالوں کی گنتی یکسر بھول چکا ہوں جو میں نے تاریکی میں لیٹے لیٹے بسر کئے۔ میں جو کبھی توانا جوان تھا اور زنداں میں چہل قدمی کر سکتا تھا، اب موت کا آسن جمائے محض انتظار سےزیادہ اور کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں، یعنی وہ اختتام جو دیوتاؤں نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے۔میں جو برکانی شیشے سے ڈھلے خنجر سے اپنے شکاروں کے سینے چاق کر دیا کرتا تھا آج طلسم کا سہارا لئے بغیر اپنا آپ مٹی سے اوپر نہیں اٹھا سکتا۔

 

اہرام کے جلائے جانے کی رات اُن طویل القامت گھوڑوں سے اترنے والے افراد نے مجھے آتشیں دھاتوں سے اذیت دے دے کر چھپے ہوئے خزانے کا پتہ اگلنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے خدا کے مجسمے کو میری نگاہوں کے سامنے زمین پر گرا دیا مگراس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا اور میں نے خاموشی سے مظالم برداشت کئے۔ انہوں نے مجھ پر چابک برسائے، مجھے توڑ پھوڑ دیا، میرا حلیہ بگاڑ دیا، اور پھر میں نے اس قید خانے میں آنکھ کھولی جس سے اس حیاتِ فانی میں تو باہر آنا ناممکن ہے۔

 

کسی بھی صورت مصروفِ عمل رہنے اور وقت کا خلا پر کرنے کی جبریت کے ہاتھوں میں نے سیاہ تاریکی میں وہ سب کچھ جو میں جانتا تھا یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے لا انتہا راتیں پتھروں پر منقش ناگوں کی تعداد اور ترتیب یا کسی ادویاتی درخت کی درست شکل کی یاد آوری میں صرف کر دیں۔ اسی طرح بتدریج، میں نے گزرتے ہوئے سالوں کو زیرِ نگیں کر لیا۔ اسی طرح بتدریج میں اس شے کا مالک بن گیا جو پہلے ہی سے میری تھی۔ پھر ایک رات مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک انتہائی باطنی یاداشت کے سرے پر پہنچنے والا ہوں۔ سمندر پر نظر پڑتے ہی مسافرکو اپنی رگوں میں خون کی گردش تیز ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ کئی گھنٹوں بعد میں اس یاداشت کے خدوخال کے ادراک کے قابل ہوا۔ وہ خدا سے متعلق ایک روایت تھی۔ یہ پیش بینی کرتے ہوئے کہ زمانۂ آخر میں تباہی و بربادی ہو گی، خدا نے تخلیق کے پہلے ہی دن ایک جادوئی فقرہ تحریر کیا، جس میں ان برائیوں کا اثر زائل کرنے کی طاقت تھی۔ خدا نے یہ فقرہ کچھ اس طور لکھا کہ وہ یقیناً بعید ترین نسلوں تک پہنچ جائے اور امکانات پر منحصر نہ ہو۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ فقرہ کہاں لکھا گیا اور حروف کیا تھے، مگر یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اب بھی کسی خفیہ جگہ موجود ہے اور آخر کوئی برگزیدہ انسان اسے پڑھے گا۔ مجھے خیال آیا کہ ہم ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی زمانۂ آخر میں ہیں اور خدا کا آخری پروہت ہونے کی تقدیر کے ناطے میرا یہ استحقاق ہے کہ میں اس تحریر کا کشف حاصل کر لوں۔ یہ واقعہ کہ میں ایک زنداں میں قید ہوں میری امید کے آڑے نہیں آیا۔ کاہولوم کی تحریر شاید ہزاروں بار میری نگاہ سے گزری ہو لہٰذا میں نے محض اس مشاہدے کی گہرائی ہی میں ہی جانا تھا۔

 

اس خیال نے میری ہمت تو بندھائی لیکن میں جیسے چکرا سا گیا۔ پوری زمین پر قدیم اشکال موجود ہیں، اشکال جو ناقابلِ فنا اور دائمی ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی وہ علامت ہو سکتی ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔ ایک پہاڑ بھی خدائی بیان ہو سکتا ہے، یا کوئی ندی یا سلطنت، یا ستاروں کا کوئی جھرمٹ۔ مگر صدیاں گزر جانے کے بعد پہاڑ مسطح ہو جاتے ہیں، دریا اپنے بہاؤ کا راستہ بدل لیتے ہیں، سلطنتیں تغیر پذیر ہیں اور تاراج ہو جاتی ہیں، اور ستاروں کے جھرمٹ بدل جاتے ہیں کیوں کہ کرۂ سماوی میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ پہاڑ اور ستارے انفرادی ہیں اور انفرادی اشیاء مٹ جاتی ہیں۔ میں کسی مزید محکم، مزید ناقابلِ تسخیر شے کی تلاش میں تھا۔ میں اناجوں ، سبزہ زاروں، پرندوں اور انسانوں کی نسلوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ شاید وہ طلسم میرے چہرے پر ہی تحریر ہو، شاید میں خود ہی اپنی تلاش کی انتہا تھا۔ فکر مجھے کھائے جا رہی تھی جس سمے مجھے یاد آیا کہ وہ تیندوا بھی تو آخر خدا کی صفات ہی میں سے ایک صفت تھا۔

 

اس یاداشت کے ساتھ ہی میری روح جیسے رحم سے لبریز ہو گئی۔ میں نے زمانے کی اولین صبح کا تصور کیا، میں نے تصور کیا کہ میرا خدا تیندووں کی زندہ کھال کو اپنا پیغام تفویض کر رہا تھا جو غاروں، بانس کے کھیتوں، جزیروں میں ناقابلِ اختتام محبت اور تولیدِ نسل کریں گے تاکہ آخری انسانوں تک یہ پیغام پہنچ سکے۔ میں نے تصور کیا کہ شیروں کے یہ حلقے، شیروں کے یہ بھرے پُرے پُر پیچ غول، اس واسطے چراہگاہوں اور ریوڑوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں کہ ایک تقدیری خاکے کو جاری رکھا جا سکے۔ ساتھ والی کوٹھڑی میں ایک تیندوا تھا اور اس کے قرب کو میں نے اپنے مفروضے کی توثیق اور ایک خفیہ انعام سمجھا۔ میں نے اس کی کھال پر موجود نشانوں کی ترتیب اور تشکیلی ساخت کو سمجھنے میں کئی سال وقف کر دئیے۔ تاریکی کا ہر وقفہ روشنی کی ایک ساعت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا اور اسی ایک لمحے میں مجھے یہ موقع مل جاتا کہ میں زرد سنجاب میں چلتی سیاہ شکلوں پر اپنا ذہن مرکوز کر سکوں۔ ان میں سے کچھ نقاط پر مشتمل ہوتیں، دوسری ٹانگوں کے اندرونی حصے پر ایک دوسرے کو کاٹتیں، اور کچھ حلقوں کی شکل میں بار بار اپنے آپ کو دہراتی رہتیں۔ شاید وہ ایک تنہا صوتی اکائی تھیں یا تنہا لفظ۔ اُن میں سے کئی کے کنارے سرخ تھے۔

 

میں اپنی مشقت کی تکالیف کا تذکرہ نہیں کروں گا۔ میں اپنی کوٹھڑی میں ایک سے زیادہ دفعہ چلا اٹھا کہ اس تحریر کی رمز کشائی ناممکن ہے۔ بتدریج یہ ٹھوس معما جسے سلجھانے کے لئے میں سرگرم تھا میرے لئے اس عمومی معمے سے کم پریشان کن ثابت ہونے لگا جو خدا کے تحریر کردہ فقرے کی وجہ سے تھا۔ ایک ذہنِ مطلق کس قسم کا فقرہ (میں نے اپنے آپ سے پوچھا) وضع کرے گا؟ میں نے سوچا کہ انسانی زبانوں میں ایسا کوئی عمومی قضیہ نہیں جو مکمل کائنات پر دلالت نہ کرتا ہو، کسی خاص شیر کی بابت ذکر کے مفہوم میں وہ شیر شامل ہیں جنہوں نے اسے پیدا کیا، وہ ہرن اور کچھوے جو اس نے شوق سے نگلے، وہ گھاس جو ہرن کی خوراک تھی، زمین جو اس گھاس کی ماں تھی، آسمان جس نے اس زمین کو جنم دیا۔ میں نے سوچا کہ خدائی لغت میں ہر لفظ واقعات کی ایک لامتناہی سلسلہ بندی ادا کرتا ہے، مضمراً نہیں بلکہ صریحاً ، بتدریج نہیں بلکہ یک دم۔ پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد خدائی فقرے کا تصور ہی طفلانہ یا گستاخانہ لگنے لگا۔ میں نے سوچا کہ خدا کو تو بس ایک لفظ ہی ادا کرنے کی ضرورت ہے جس میں مطلق کاملیت ہو۔ اس کا ادا کیا ہوا کوئی بھی لفظ کائنات سے حقیر نہیں ہو سکتا یا کل مجموعۂ زمان سے کم نہیں ہو سکتا۔ اس ایک لفظ کے سائے یا مماثلتیں جو کسی زبان کے برابر ہوں یا وہ سب کچھ جس کا کوئی زبان احاطہ کر سکے، آخر کچھ لاچار اور حاجت مند انسانی الفاظ ہیں یعنی ’کل‘، ’دنیا‘، ’کائنات‘ وغیرہ۔

 

ایک دن یا ایک رات! میرے دنوں اور راتوں میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ میں نے خواب دیکھا کہ قید خانے کی زمین پر ریت کا ایک ذرہ پڑا ہے۔ کوئی پروا کئے بغیر میں دوبارہ سو گیا۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں جاگ گیا ہوں اور زمین پر ریت کے دو ذرات موجود ہیں۔ اب ایک بار پھر سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ اب تین ذرات ہیں۔ وہ اسی طرح بڑھتے رہے یہاں تک کہ قید خانہ ان سے بھر گیا اور میں ریت کے اس کرے کے نیچے دفن ہو گیا۔ مجھے خیال آیا کہ میں تو خواب دیکھ رہا ہوں اور بہت کوشش کے بعد میں نے اپنے آپ کو جگایا اور اٹھ بیٹھا۔ جاگنا بے فائدہ تھا اور ریت کے لاتعداد ذرات کی وجہ سے میرا دم گھٹ رہا تھا۔ کسی نے مجھے کہا:’’تم ابھی نیند سے باہر نہیں آئے بلکہ ایک پچھلی حالتِ خواب میں ہو۔ یہ خواب ایک اور خواب میں بند ہے اور اسی طرح خوابوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ریت کے ذروں کی تعداد کے برابر ہے۔ یہ راہ جس پر الٹے قدموں واپس جانا تمہارے لئے ناگزیر ہے، نہ ختم ہونے والی ہے اور اس سے قبل کہ تم جاگو تمہاری موت واقع ہو جائے گی۔‘‘

 

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کھو چکا ہوں۔ ریت سے میرا منہ پھٹ رہا تھا مگر میں چلایا: ’’خوابوں کی بنی ریت مجھے قتل نہیں کر سکتی اور نہ ہی خوابوں کے اندر خواب بستے ہیں۔‘‘ روشنی کی ایک چندھیا دینے والی شعاع نے مجھے جگا دیا۔ اوپر تاریکی میں روشنی کا ایک دائرہ بن چکا تھا۔ مجھے داروغۂ زنداں کا چہرہ اور ہاتھ، چرخی، رسی، گوشت کے پارچے اور پانی کے جگ نظر آئے۔

 

ایک انسان آہستہ آہستہ اپنی تقدیر کے متعلق ابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کم و بیش اپنے حالات ہی کا عکس ہوتا ہے۔ میں کسی بھی رمز کشا یا بدلہ جُو سے زیادہ، کسی بھی پروہتِ خدا سے زیادہ محبوس شخص تھا۔ میں خوابوں کی ایک انتھک بھول بھلیاں سے ایسے لوٹا جیسے اپنے گھر یعنی اس کٹھن قید خانے میں۔ میں نےاس کی حبس کو دعا دی، اس میں موجود شیر کو دعا دی، روشنی کی اس روزن کو دعا دی، اپنے لاغر اور مبتلائے اذیت جسم کو دعا دی، اس تاریکی اور پتھر کو دعا دی۔

 

پھر وہ ہوا جو ناقابلِ بیان اور ناقابلِ فراموش ہے۔ میں الٰہیت کے ساتھ باہم متصل ہو گیا، کائنات میں پیوست ہو گیا (میں نہیں جانتا کہ کیا یہ دونوں الفاظ مختلف معانی رکھتے ہیں)۔ سرمستی اپنی علامات کو نہیں دہراتی، خدا کو دمکتی روشنی میں، کسی تلوار میں یا کسی گلاب پر موجود دائروں میں دیکھا گیا ہے۔ میں نے ایک بہت ہی زیادہ اونچا پہیہ دیکھا، جو میری نظروں کے سامنے نہ تھا، نہ ہی عقب یا اطراف میں، بلکہ ہر جگہ ایک ہی وقت موجود تھا۔ وہ پہیہ پانی کا بنا تھا، مگر آگ کا بھی، اور وہ (گو کہ اس کا کنارہ دیکھا جا سکتا تھا) لامتناہی تھا۔ تمام اشیاء جو موجود ہیں، کبھی تھیں اور کبھی ہوں گی، اس سے منسلک تھیں، اور میں اس مکمل کپڑے کا ایک ریشہ تھا، اور پیڈرو ڈی الورادو جس نے مجھے اذیت دی ایک دوسرا ریشہ تھا۔ یہاں علت و معلول واضح تھے اور پہیے کو دیکھنے سے مجھے کسی اختتام کے بغیر فہمِ کامل کا سا اطمینان ہو گیا۔ آہ! کہ نعمتِ فہم، نعمتِ تصور یا نعمتِ احساس سے عظیم تر ہے۔ میں نے کائنات کو دیکھا اور اس میں پنہاں گہرے خاکوں کو دیکھا۔ میں نے کتابِ عامہ میں بیان کردہ ابتدائیات کو دیکھا۔ میں نے وہ پہاڑ دیکھے جو پانی میں سے نمودار ہوئے تھے، میں نے اولین لکڑہاروں کو دیکھا، ان حوضوں کو جو انسانوں کے خلاف چھلک اٹھے،ا ن کتوں کو جنہوں نے ان کے چہروں کو پامال کیا۔ میں نے بے چہرہ خدا کو دوسرے خداؤں کے اوٹ میں چھپے دیکھا۔ میں نے وہ لامتناہی سلسلے دیکھے جنہوں نے ایک واحد فرحت و اطمینان کو جنم دیا، اور پھر یہ سب کچھ سمجھنے کی وجہ سے میں شیر پر موجود تحریر کے فہم کے قابل ہوا۔ یہ چودہ بے ترتیب (وہ بے ترتیب نظر آتے ہیں) الفاظ پر مشتمل ایک طلسمی فارمولا ہے اور اسے بلند آواز میں ادا کر دینے سے میں ایک عظیم طاقت حاصل کر لوں گا۔ ان کی ملفوظ ادائیگی اس پتھر کے قید خانے کو ڈھا دینے کے لئے، میری رات کو دن کی روشنی سے منور کرنے کے لئے، جوان ہونے کے لئے، لافانی ہونے کے لئے، شیر کے جبڑوں میں الورادو کو بھینچ دینے کے لئے، مقدس خنجر ہسپانویوں کے سینوں میں گھونپ دینے کے لئے، اہرام کی تعمیرِ نو کے لئے اور سلطنت کی تشکیلِ نو کے لئے کافی ہے۔ صرف چالیس صوتی پیکر، چودہ الفاظ، اور میں، زیناکان، ان تمام علاقوں پر حکومت کروں گا جن پر موکتیزوما حکومت کرتا تھا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ میں کبھی یہ الفاظ ادا نہیں کروں گا کیوں کہ میں اب مزید نہیں جانتا کہ زیناکان کو ن ہے۔

 

کاش کہ شیروں پر موجود یہ رمزی حروف میرے ساتھ ہی مر جائیں۔ جس کسی نے بھی کائنات دیکھی ہے، جس کسی نے بھی کائنات کے آتشیں خاکوں کا مشاہدہ کیا ہے، وہ ایک انسان کے طور پر نہیں سوچ سکتا، اس ایک انسان کی معمولی خوش نصیبی یا بدنصیبی کے طور پر، جب کہ وہ خود وہی انسان ہو۔وہ انسان ’وہ خود ہی ہے‘ اور ’اب ‘ اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اُس دوسرے کی زندگی اُس کے لئے کیا ہے، اُس دوسرے کی قوم اُس کے لئے کیا ہے، جب وہ ابھی کوئی بھی نہیں۔ یہ ہے وہ وجہ کہ میں طلسمی فارمولا زبان سے نہیں نکالتا، یہ ہے وہ وجہ کہ میں یہاں تاریکی میں پڑے پڑے انتظار کر رہا ہوں کہ یہ سلسلہِ ایام مجھے مٹا ڈالے۔

٭٭٭

 

 

 

خفیہ معجزہ

 

 

اور خدا نے اسے سو سال کے لئے موت دے دی،

 

پھر اسے زندہ کیا اور کہا: ’’تم یہاں کتنے دن رہے؟‘‘

 

’’ایک دن یا اس کا کچھ حصہ‘‘، اس نے جواب دیا۔

 

(القرآن:البقرۃ ،۲۵۹)

firingsquad2 نامکمل ڈرامے ’’دشمن‘‘، ایک کتاب ’’ابدیت کا دفاع‘‘ اور جیکب بوہم کے بالواسطہ یہودی مآخذ پر مشتمل ایک مطالعے کے مصنف جیرومیر ہلادک نے۱۴ مارچ، ۱۹۴۳ءکی رات پراگ کی ایک گلی زیلٹرنر گاسے کے ایک مکان میں خواب میں شطرنج کی ایک طویل بازی دیکھی۔کھلاڑی دو افراد نہ تھے بلکہ دو ممتاز خاندان، اور کھیل صدیوں سے جاری تھا۔ کسی کو نہیں یاد کہ کیا شرطیں باندھی گئیں، مگر وہ غیر معمولی تھیں، شاید لامتناہی۔ مہرے اور بساط ایک خفیہ مینار میں موجود تھے۔جیرومیر(اپنے خواب میں) مقابلے میں مشغول ایک خاندان کا پہلا چشم و چراغ تھا۔گھڑی نے اگلی چال چلنے کا گھنٹہ بجایا جسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔خواب دیکھنے والا ایک بارانی صحرا میں سرپٹ بھاگتا چلا جا رہا تھا اور شطرنج کے مہرے اور کھیل کے قوانین فراموش کر چکا تھا۔اسی اثناء میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ بارش اور ہولناک گھڑیوں کی جھنکار تھم گئی۔زیلٹرنرگاسے سے ایک ہم آہنگ، یکساں شور اٹھا جس میں وقفے وقفے سے احکامات کی صدائیں بھی شامل تھیں۔ یہ صبح کاذب کی گھڑی تھی اور نازی ٹینکوں کا ہراول دستہ پراگ میں داخل ہو رہا تھا۔

 

انیس تاریخ کو شہر کے حکام کو بین الاقوامی معاہدے کے کالعدم ہونے کی اطلاع دی گئی، اسی دن انیس ہی کی شام جیرومیر ہلادک کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے عفونتی مواد سے پاک کرنے کی ایک جگہ لے جایا گیا ، یہ دریائے ولٹاوا کے دوسرے کنارے پر واقع سفید بیرکیں تھیں۔وہ نازی خفیہ پولیس گسٹاپو کے لگائے ہوئے کسی بھی الزام کو رد نہیں کر سکا، اس کی ماں کا خاندانی نام جیروسلاوسکی تھا، وہ یہودی النسل تھا، اس کے مطالعۂ بوہم پر واضح یہودی رجحان کے نقوش تھے، آنشلوس (Anschluss) یعنی آسٹریا کے نازی جرمنی کے ساتھ جبری الحاق کے خلاف اس کے ایک سے زیادہ دستخط موجود تھے۔ ۱۹۲۸ میں اس نے ہرمن بارسڈورف نامی اشاعتی ادارے کے لئے یہودی عرفانی ادب کی اولین کتاب سفر یتزیرا (Sepher Yezirah) کا ترجمہ کیا ۔ اشاعتی ادارے کی ناگوار فہرست نے اشتہاری مقاصد کے لئے مترجم کی شہرت میں مبالغہ آرائی کی، اور فہرست کا معائنہ جولیس روتھ نامی ایک اہلکار نے کیا جس کے باتھ میں ہلادک کا مقدر تھا۔ اس کے اپنے شعبۂ تخصص سے باہر شاید ہی کوئی فرد ہو گا جو سریع الاعتقاد نہ ہو، فقط دو یا تین اسمائے صفات کا گوتھک طرزِ تحریر میں استعمال ہی جولیس روتھ کو ہلادک کی اہمیت جتانے کے لئے کافی تھا، اور اس نے دوسروں کو عبرت کی خاطر اسے موت کی سزا سنا دی۔ ۲۹ مارچ کو صبح نو بجے سزا پر عمل درآمد ہونا تھا۔اس تاخیر (جس کی اہمیت قاری کو بعد میں سمجھ آئے گی) کی وجہ یہ تھی کہ حکام سبزیوں اور پودوں کی طرز پر غیر شخصی انداز میں سست رفتاری سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔

 

ہلادک کا پہلا ردِ عمل محض دہشت تھی۔وہ پھانسی کے تختے، (مذبح کے )پتھر یا خنجر سے اتنا زیادہ خوفزدہ نہیں تھا مگر بندوقوں سے مسلح دستہ کی گولیوں کا سامنا ناقابلِ برداشت تھا۔با دلِ نخواستہ اس نے اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ باعثِ خوف موت کا بس واقع ہو جانا تھا اس کے خاص حالات نہیں۔وہ انتھک طریقے سے یہ سب حالات تصور میں لاتا رہا اور احمقانہ طور پران کے تمام ممکن تغیرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ بے خواب صبح صادق سے لے کر پراسرار شام کے ڈھلنے تک اپنے مرنے کے عمل کے متعلق پیش بینی کرتا رہا۔دن کے اختتام تک وہ ہندسی احتمالات سے متجاوز شکلوں اور زاویوں والے احاطوں میں جولیس روتھ کے ہاتھوں ہزاروں دفعہ مر چکا تھا، مختلف تعداد رکھنے والے مختلف سپاہیوں کی گولیوں سے جنہوں نے کبھی اسے کچھ فاصلے سے مارا اور کبھی قریب سے۔اس نے ان تخیلاتی سزاؤں کا سامنا حقیقی دہشت (شاید حقیقی دلیری سے بھی) سے کیا، ہر شبیہ کا دورانیہ کچھ ہی سیکنڈ تھا۔جب یہ تخیلاتی دائرہ اختتام کو پہنچا تو جیرومیر ایک بار پھر، اور اس دفعہ ناقابلِ اختتام طور پر ،اپنی موت کی لرزاں گھڑیوں میں لوٹ آیا۔ پھر اس نے سوچا کہ حقیقت اوراس کے متعلق ہماری توقعات عمومی طور پر ایک دوسرے سے موافقت نہیں رکھتیں۔ اپنی خود ساختہ منطق کے ذریعے اس نے یہ استنباط کیا کہ کسی اتفاقی واقعہ کی پیش بینی اُس کو وقوع پذیر ہونے سے روک سکتی ہے۔ اِس کمزور طلسم پر انحصار کرتے ہوئے اُس نے خود اُنہیں کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لئے ہولناک ترین واقعات ایجاد کئے۔ بالآخر فطری طور پر اسے یہ خدشہ لاحق ہونا ہی تھا کہ یہ پیشین گوئیاں برحق ہیں ۔خستہ حال راتوں میں وہ وقت کے عارضی جوہر سے چمٹے رہنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ وقت انتیس تاریخ کا سورج طلوع ہونے کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔اس نے بآوازِ بلند استدلال کیا:’’میں اِس وقت بائیس کی رات گزار رہا ہوں، جب تک یہ رات باقی ہے (اور چھ مزید راتیں) میں ناقابل تسخیر اور لافانی ہوں۔‘‘ شب خوابی کے اوقات اسے ایسے گہرے سیاہ تالاب محسوس ہوتے تھے جن میں وہ اپنا آپ غرقاب کر سکتا تھا۔ایسی ساعتیں بھی گزریں جب وہ گولی کی اس آخری آواز کا شدت سے منتظر تھا، جو اسے اچھے یا برے انجام سے قطع نظر، اپنے تخیلات کے لاحاصل جبر سے آزاد کر دے۔ اٹھائیسویں کی شام جب آخری غروبِ آفتاب سلاخوں والی کھڑکیوں سے منعکس ہو رہا تھا، اپنے ڈرامے ’’دشمن‘‘ کے خیال نے اس کی توجہ ان پست حال تفکرات سے ہٹائی۔

 

ہلادک اپنی عمر کے چالیسویں سال میں تھا۔کچھ رفاقتوں اور کئی عادات سے قطع نظر، اس کی زندگی کا حاصل اد بی تجربات سے متعلق مسائل تھے۔ تمام لکھاریوں کی طرح اس کے نزدیک دوسروں کی کامیابیوں کا پیمانہ ان کے تکمیل یافتہ کارہائے نمایاں تھے ،جبکہ اپنے متعلق اس کا مطالبہ یہ تھا کہ کامیابی کا معیار اس کے تخیلاتی نقشوں اور منصوبوں کو گردانا جائے۔ اس کی تمام چھپی ہوئی کتابوں نے اسے ندامت کے ایک پیچیدہ احساس سے دوچار کیا تھا۔اس کے ابراہیم ابن عذرا، بوہن اور رابرٹ فلڈ کے مطالعات کی نوعیت لازمی طور پر محض اطلاقی تھی، اوراس کا سفر یتزیرا کا ترجمہ بے احتیاطی، کسل مندی اور ظن سے پُر تھا۔ ’’ابدیت کے دفاع‘‘ میں شاید کچھ کم خامیاں تھیں۔ جلد اول ابدیت کے متعلق مختلف انسانی تصورات کی تاریخ پر مشتمل تھی، اور پارمنیدس کی غیرمنقلب ہستی سے شروع ہو کر جیمز ہِنٹن کے قابلِ اصلاح ماضی پر تمام ہوتی تھی۔ دوسری جلد(فرانسس براڈلے کے ساتھ) اس قضیے کے رد پر مشتمل تھی کہ کائنات کے تمام واقعات ایک زمانی سلسلہ سے جڑے ہیں، اس استدلال کے ساتھ کہ ممکنہ انسانی تجربات کی تعداد لامتناہی نہیں ہے اور ایک واحد ’’تکرار‘‘ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ زمان ایک مغالطہ ہے۔۔۔بدقسمتی سے وہ دلائل جو اس مغالطے کی وضاحت کرتے ہیں بدرجہ مساوی مغالطہ آمیز ہیں۔ایک حقارت آمیز تذبذب سےان دلائل کا جائزہ لینا ہلادک کی عادت تھی۔ اس نے کچھ اظہاریت پسند نظمیں بھی لکھیں تھیں، اور شاعر کے لئے یہ واقعہ باعث خجالت تھا کہ ۱۹۲۴ میں ایک منتخب شعراء کی ایک بیاض کا حصہ بننے کے بعد بعد میں آنے والے کسی مجموعے نے انہیں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ہلادک کو امید تھی کہ اس کا منظوم ڈرامہ ’’دشمن‘‘ اس تمام غیر تسلی بخش اور بے کیف ماضی کی تلافی کر سکے گا۔(ہلادک کے خیال میں نظم کی صنف ناگزیر تھی کیوں کہ یہ تماشائیوں کی نگاہِ تخیل کو کمزور نہیں پڑنے دیتی ، جو فنون لطیفہ کا ایک ناگزیر امر ہے۔ )

 

اس ڈرامے کا موضوع زمان، مکان اور عمل کی اکائیوں کا مشاہدہ تھا۔ڈرامے کا پس منظر ہرادشانی (Hradčany) میں بارون فان روئمرشتادت کی لائبریری میں انیسویں صدی کی آخری دوپہروں میں سے ایک دوپہر تھی۔ پہلے سین کے پہلے ایکٹ میں ایک عجیب و غریب آدمی روئمرشتادت سے ملاقات کے لئے آتا ہے۔(ایک گھڑی پرسات بجے کا وقت ہے، ڈوبتے ہوئے سورج کی شعاعیں پوری سر گرمی سے کھڑکیوں کو نور سے معمور کر رہی ہیں، ایک دل سوز، جانی پہچانی ہنگری کی موسیقی فضا میں تیر رہی ہے۔)اس ملاقات کے بعد مزید ملاقاتی آنا شروع ہو جاتے ہیں، روئمرشتادت ان لوگوں کو نہیں جانتا جو اس سے ملنے آ رہے ہیں، مگر اس کو یہ بے چین کر دینے والا احساس ہے کہ اس نے انہیں پہلے کہیں دیکھا ہے، شاید کسی خواب میں۔ ویسے تو وہ اس کے سامنے ٹوڈی پن کا مظاہرہ کر تے ہیں ، مگر پہلے ناظرین ،اور بعد میں بارون پر یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ خفیہ دشمن ہیں جو اس کی تباہی کے لئے اکٹھے ہیں۔ روئمرشتادت ان کی چالوں کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مکالمے میں اس کی محبوب جولیا فان ویڈیناؤ اور ایک آدمی جاروسلاو کیوبن کا ذکر ہوتا ہے جس نے ماضی میں کبھی اس کی طرف اپنے التفات کا اظہار کیا تھا۔کیوبن اب اپنی یاداشت کھو چکا ہے اور اپنے آپ کو روئمرشتادت سمجھتا ہے۔خطرات بڑھتے جاتے ہیں اور روئمرشتادت دوسرے ایکٹ کے اختتام پر سازشیوں میں سے ایک کو قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تیسرے اور آخری ایکٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ بے ربطگیاں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں، اداکار جو کھیل سے خارج ہو چکے ہیں ایک بار پھر ظاہر ہو جاتے ہیں، وہ آدمی جسے روئمرشتادت قتل کر چکا تھا ایک لمحے کے لئے واپس آ جاتا ہے۔ کوئی نشاندہی کرتا ہے کہ شام ابھی نہیں ڈھلی، گھڑی سات بجاتی ہے، اونچی کھڑکیوں میں مغربی سورج لرزاں ہے، فضا ہنگری کی دھنوں سے برانگیختہ ہے۔پہلا اداکار واپس نمودار ہوتا ہے اور پہلے سین کے اولین ایکٹ کی ادا کی گئی سطریں دہراتا ہے۔ روئمرشتاد ت کسی حیرت کے بغیر اس سے بات کرتا ہے۔ ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ روئمرشتادت اصل میں بے چارہ جاروسلاو کیوبن ہے۔ ڈرامہ تو کبھی پیش ہی نہیں کیا گیا، یہ تو وہ دائروی سراسیمگی کا عالم ہے جس میں کیوبن لا انتہا طور پر بار بار زندہ ہوتا ہے۔

 

ہلادک نے کبھی خود سے یہ سوال نہیں کیا اس کی غلطیوں کا الم طربیہ مضحکہ خیز تھا یا قابلِ تعریف، سوچا سمجھا تھا یا بے سروپا۔اس نے محسوس کیا کہ یہ پورا خاکہ اس کے کوتاہیوں کو چھپانے اور قابلیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے بہترین طور پر بُنا گیا تھا، اور امکان تھا کہ وہ اپنی زندگی کے معانی کو (علامتی طور)دوبارہ حاصل کر سکے۔ اس نے پہلے ایکٹ اور تیسرےکے ایک یا دو سین کا اختتام کیا، شاعرانہ بحر کے باعث اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ مسودہ سامنے رکھے بغیر بحرِ مسدس میں رد و بدل کی مددسے اپنا کام دہراتا رہے۔اس نے سوچا کہ اب بھی دو ایکٹ باقی ہیں اور وہ عنقریب مر جائے گا۔وہ اندھیرے میں خدا سے یوں گویا ہوا:’’اگر میں کسی طور موجود ہوں، اگر میں تیری تکرار یا غلطیوں میں سےایک نہیں ہوں، تو میری ہستی ’’دشمن‘‘ کے مصنف کی حیثیت ہے۔مجھے اس ڈرامے کے اختتام کے لئے جو میرا اور تیرا جواز ہے ایک سال مزید درکار ہے۔تو جس کی گرفت صدیوں اور زمان پر ہے مجھے یہ مدت بخش دے۔‘‘ یہ آخری رات تھی، سب سے زیادہ دہشت ناک، مگر دس منٹ بعد نیند گہرے سیاہ پانی کی طرح اسے اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔

 

سحر کے قریب اس نے خواب دیکھا کہ وہ کتب خانہء کلمانتین کے وسط میں بغلی راستوں کی بیچ چھپا بیٹھا ہے۔ ایک سیاہ شیشوں والی عینک پہنے کتابدار اس سے سوال کرتا ہے:’’تم کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘ ہلادک جوب دیتا ہے:’’میں خدا کی تلاش میں ہوں۔‘‘ کتابدار اس سے کہتا ہے:’’خدا کلمانتین میں موجود چار لاکھ جلدوں کے کسی ایک صفحے پر لکھا کوئی ایک حرف ہے۔ میرے آباؤ اجداد اور ان کے آباؤ اجداد اس حرف کو تلاش کرتے رہیں ہیں، میں اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے نابینا ہو چکا ہوں۔‘‘ وہ اپنی عینک اتار دیتا ہے اور ہلادک اس کی بجھی ہوئی آنکھیں دیکھ لیتا ہے۔اتنے میں ایک قاری ایک اطلس واپس کرنے آتا ہے۔ ’’یہ اطلس کسی کام کا نہیں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اسے ہلادک کو پکڑا دیتا ہے جو اسے ایسے ہی بے قاعدگی سے کسی بھی جگہ سے کھول لیتا ہے۔ اس کے سامنے ہندوستان کا نقشہ ہے اور حالت ایسی ہے جیسے اوسان خطا ہو گئے ہوں۔ پھر اچانک اس کی حالت سنبھلتی ہے اور وہ سب سے ننھے حرف کو چھوتا ہے۔ سارے میں چھائی ہوئی ایک آواز اس سےکہتی ہے:’’تمہاری محنت کی مدت تمہیں عطا کی جاتی ہے۔‘‘ اسی وقت ہلادک کی آنکھ کھل گئی۔

 

اسے یاد آیا کہ انسانوں کے خواب خدا کی ملکیت ہوتے ہیں، اور یہ کہ موسی بن میمون نے لکھا ہے کہ خواب میں سنے گئے الفاظ، اگر وہ واضح اور غیر مبہم ہوں اور ان کا بولنے والا نہ دیکھا جا سکے،تو وہ ملکوتی ہوتے ہیں۔اس نے کپڑے پہنے، دو سپاہی اس کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔

 

دروازے کے پیچھے سے ہلادک گزر گاہوں، زینوں اور مختلف عمارتوں پر مشتمل بھول بھلیوں کی خیالی تصویریں بُنتا رہا۔ مگر حقیقت کم شاندار تھی: وہ تنگ آہنی زینوں سے ہوتے ہوئے ایک اندرونی عدالتی احاطے میں پہنچے۔ کئی سپاہی ،جن میں سے کچھ کی وردیوں کے بٹن کھلے تھے، ایک موٹر سائیکل کا معائنہ کر تے ہوئے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ حوالدار نے گھڑی کی جانب دیکھا، آٹھ بج کر چوالیس منٹ ہو رہے تھے۔ انہیں نو بجے کا انتظار تھا۔ہلادک جس کی حالت قابلِ ترس ہونے سے زیادہ غیر اہم تھی لکڑی کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ سپاہیوں کی آنکھیں اس سے نظر چُرا رہی ہیں۔ انتظار کی گھڑیاں آسان کرنے کے لئے حوالدار نے اسے ایک سگریٹ دیا۔ہلادک سگریٹ نہیں پیتا تھا مگر عاجزی اور شائستگی کی خاطر قبول کر لیا۔ سگریٹ سلگاتے وقت اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ آسمان پر بادل چھا رہے ، سپاہی اس طرح سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے جیسے وہ پہلے ہی مر چکا ہو۔اس نے اس عورت کو یاد کرنے کی ایک لاحاصل کوشش کی جس کی علامت جولیا ویڈیناؤ تھی۔

 

دستہ تشکیل ہوا اور ہوشیار کھڑا ہو گیا۔ بیرک کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہلادک گولیوں کی بوچھاڑ کا انتظار کرتا رہا۔ کسی نے نشاندہی کی کہ دیوار خون کی دھبوں سے آلودہ ہو جائے گی اور مجرم کو چند قدم آگے ہونے کا حکم دے دیا گیا۔اس ساری بے سروپائی میں ہلادک کو فوٹوگرافروں کی نا تجربہ کار تیاریاں یاد آ گئیں۔ بارش کا ایک بڑا قطرہ ہلادک کی پیشانی پر ٹپکا اور پھسلتے ہوئے آہستہ آہستہ گال تک آ پہنچا۔ حوالدار نے چلا کر آخری حکم دیا۔

 

طبعی کائنات ساکن ہو گئی۔

 

بندوقوں کی نالیاں ہلادک کی سمت ہو گئیں، مگر جو آدمی اسے قتل کرنے پر مامور تھے وہ ساکت رہے۔ حوالدار کا بازو ابدی طور پر معلق حالت میں تھا۔صحن کے پختہ فرش پر ایک مکھی کا غیر متغیر سایہ پڑ رہا تھا۔ہوا تھم چکی تھی جیسے کسی تصویر میں ہو۔ہلادک نے چیخنے کی کوشش کی، ایک لفظ، ہاتھ کی ایک حرکت۔ اس احساس ہوا کہ وہ مفلوج ہو چکا ہے۔ ساکن کائنات سے کوئی صدا بھی اس تک نہیں پہنچ رہی تھی۔اس نے سوچا:’’میں جہنم میں ہوں، میں مر چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’میں پاگل ہو چکا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا:’’وقت تھم چکا ہے۔‘‘ پھر اس نے غور کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیتا۔وہ اسے پرکھنا چاہتا تھا، اس نے ورجل کےپراسرار چوتھے قصیدۃ رعویۃ (Eclogue) کو ہونٹ ہلائے بغیر دہرانا شروع کیا۔اس نے تصور کیا کہ اب دور کھڑے سپاہی بھی اس کی پریشانی میں حصہ دار ہیں، وہ ان سے تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا تھا۔ تھکن کے قلیل ترین احساس ،یہاں تک کے حرکت کی غیرموجودگی میں اعضاء کا سُن تک نہ ہونا، اس کے لئے حیران کن تھا۔ کچھ غیر متعین وقت کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ اٹھا تو کائنات بدستور ساکن اور گنگ تھی۔ پانی کا قطرہ اب بھی اس کی گال سے چپکا ہوا تھا، اور مکھی کا سایہ فرش سے۔سگریٹ کا دھواں جو اس نے اگلا تھا ابھی تک فضا میں منتشر نہیں ہوا تھا۔ہلادک کے سمجھنے سے پہلے ہی ایک اور ’’دن‘‘ گزر گیا۔

 

اس نے خدا سے التجا کی تھی کہ اپنا کام ختم کرنے کے لئے ایک سال دیا جائے، قدرت مطلقہ نے اسے یہ مدت عطا کی۔ خدا نے اس کی خاطر ایک خفیہ معجزے کا اہتمام کیا، اس نے مقررہ گھنٹے پر جرمن سیسے کے ہاتھوں مرنا تھا، مگر اس کے ذہن میں حکم اور اس کی تعمیل کے درمیان ایک سال نے گزرنا تھا۔وہ اضطراب کی کیفیت سے سکتے کی حالت میں پہنچا، سکتے سے تسلیم و رضا اوردستبرداری، اور دستبرداری سے ایک اچانک تشکر کی کیفیت۔

 

اپنی یاداشت کے سوا اس کے پاس کوئی دستاویز نہ تھا۔ ہر اضافی بحرِ مسدس کے ساتھ حاصل کردہ تربیت نے اسے ایک ایسا نظم و ضبط بخشا تھا جو ان کے گمان سے باہر تھا جو عارضی ، نامکمل عبارات کو فراموش کرنے کا قصد کرتے ہیں۔اس کی محنت اپنی آنے والی نسل کی خاطر نہ تھی، نہ ہی خدا کے لئے جس کے ادبی ذوق سے وہ ناواقف تھا۔بہت ہی باریک بین، بے حرکت اور خفیہ طریقے پر اس نے اپنی پُر شوکت اور غیر مرئی بھول بھلیاں تخلیق کی تھیں۔ تیسرے ایکٹ پر اس نے دو بار کام کیا۔ اس نے کچھ علامات کو ضرورت سے زیادہ واضح سمجھتے ہوئے حذف کر دیا تھا، جیسے گھڑیال کا بار بار بجنا اور موسیقی۔ اسے کوئی عجلت نہیں تھی۔اس نے خارج کیا، تلخیص کی اور وضاحت کی۔ کچھ معاملات میں وہ اصل کی طرف لوٹ آیا۔وہ صحن اور بیرکوں میں ایک اپناپن محسوس کرنے لگا، اپنے سامنے موجود چہروں میں سے ایک نے اس کے ذہن میں موجود روئمرشتاد ت کے تصور کو بدل دیا۔ اس نے دریافت کیا کہ وہ تھکا دینے والا کریہہ الصوتی شور جس نے فلوبیر کو اتنا پریشان کیا تھا زبان کے ذریعے ادا کئے گئے لفظ کی بجائے محض تحریر شدہ لفظ کے بصری توہمات، کمزوریاں اور حدود تھیں۔۔۔اس نے اپنے ڈرامے کا اختتام کر دیا۔ اب اس کے سامنے صرف ایک واحد عبارت کا مسئلہ تھا۔وہ اسے مل گئی۔ پانی کا قطرہ اس کے گال سے نیچے پھسلا۔اس نے ایک دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور منہ کھولا، اپنے چہرے کو حرکت دی اور ایک چوگنا دھماکے کے آواز کے ساتھ ہی زمین پر گر پڑا۔

 

جیرومیرہلادک کا انتقال انتیس مارچ کی صبح نو بج کر دو منٹ پر ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

سب کچھ اور کچھ بھی نہیں

 

 

 

اس میں کوئی بھی موجود نہ تھا، اس کے چہرے (جو اس زمانے کی ناقص تصاویر کے ذریعے منقش ہونے کے باوجود کسی دوسرے کے hqdefaultمماثل نہ تھا) اور الفاظ کے پیچھے جو فراواں، نرالے اور جذباتی ہیں، صرف ایک طرح کی سرد مہری تھی، ایک ایسا خواب جو کسی نے نہ دیکھا تھا۔ پہلے پہل اس نے سوچا کہ تمام لوگ اس جیسے ہی ہیں، مگر ایک ایسے دوست کی حیرانی نے ،جس سے اس نے اپنے اندر موجود اس خلا کی بابت بات چیت شروع کی، اسے اپنی غلطی باور کرائی اور ہمیشہ یہ احساس دلایا کہ ایک فرد کو اپنے خارجی مظہر کے بارے میں اختلاف کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ایک زمانے میں اس کا گمان تھا کہ اس کے مرض کا علاج کتابوں میں ہے لہٰذا اس نے عصری استعمال کی حد تک کچھ کچھ لاطینی اور یونانی سیکھی ، بعد میں اس نے سوچا کہ جو کچھ وہ تلاش کر رہا ہے شاید انسانیت کی بنیادی رسومات میں موجود ہو، لہٰذا جون کی ایک طویل دوپہر اس نے این ہیتھ وے کو خود سے روشناس ہونے دیا۔ بائیس سال کی عمر میں وہ لندن چلا گیا۔ وہ جبلی طور پر خود کو کسی طور ظاہر کرنے کی عادت میں ملِکہ حاصل کر چکا تھا تاکہ دوسرے اس کی کچھ نہ ہونے کی حالت کو دریافت نہ کر سکیں۔ لندن میں وہ اس پیشے سے منسلک ہوا جو اس کی تقدیر میں تھا، یعنی کہ ایک اداکار ، جو اسٹیج پر کسی اور کا کردار ادا کرتا ہے اور سامنے بیٹھے تماشائی اسے کوئی اور سمجھنے کا کردار نبھاتے ہیں۔ اس کے سوانگی تماشوں نے اسے ایک مخصوص اطمینان دیا ، شاید اپنی قسم کا ایک اولین نادر تجربہ جو اسے آج تک پیش آیا، مگر جیسے ہی آخری مردہ آدمی کو اسٹیج سے ہٹایا گیا، موہومیت کا نفرت زدہ ذائقہ دوبارہ لوٹ آیا۔ وہ فیریکس یا تیمورلنگ بننا ترک کر کے ایک بار پھر’’ کوئی نہیں‘‘ بن گیا۔ پس یونہی تعاقب کرتے کرتے وہ دوسرے سورماؤں اور المیاتی داستانوں کے تصورات بنتا رہا۔اور یوں جہاں اس کا گوشت پوست کا وجود لندن کے مے خانوں اور قحبہ خانوں میں اپنے مقدر کی تکمیل کرتا رہا، اس کی روح کبھی سیزر تھی جو اوگر کی تنبیہات کو جھٹلاتی رہی ، کبھی جولیئٹ جو چنڈول سے نفرت کرتی ہے، اور کبھی میکبتھ جو میدان میں جادوگرنیوں سے، جو تقدیر کی صدائیں بھی ہیں، مکالمہ کرتا ہے ۔ آج تک کوئی اس آدمی جتنے آدمیوں کا روپ نہیں دھار سکا، جو مصری پروتئوس کی طرح حقیقت کے تمام سوانگ رچا سکے۔ کئی دفعہ وہ اپنے فن کے کسی کونے میں ایک ایسا اعتراف چھپا رکھتا جس کی رمز کشائی قطعی ناممکن تھی، رچرڈ توثیق کرتا ہے کہ اس انسان میں اس نے کئی کردار نبھائے اور ایاگو کا پرتجسس دعویٰ یہ ہے کہ ’’میں وہ نہیں جو کہ میں ہوں۔‘‘ ہستی، خواب اور اداکاری کی بنیادی شناخت نےاس کی مشہور عبارات کو فیضان بخشا۔

 

بیس سال وہ اس باضابطہ فریبِ نظر میں مبتلا رہا، مگر ایک صبح وہ تلوار کا لقمہ بننے والے اتنے بہت سے بادشاہوں اور اتنے بہت سےمرتکز، منتشر اور پھر نغمگیں طور پر ختم ہونے والے اذیت زدہ عشاق بننے کی تھکاوٹ اور دہشت کے ہاتھوں اچانک جکڑ ا گیا۔ اسی دن اس نے اپنا تھیٹر فروخت کر ڈالا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر وہ اپنے آبائی گاؤں لوٹ چکا تھا، جہاں اس نے اپنے بچپن کے درخت اور ندیوں کو پھر سے حاصل کیا، اور ان کا تعلق معروف اساطیری تلمیحات اور لاطینی اصطلاحات سے لبریز شاعرانہ فیضانات سے نہیں جوڑا۔ اسے کچھ نہ کچھ بننا تھا، وہ عوامی منظر نامہ سے علیٰحدہ ایک ایسا ناظم تفریحات تھا جس نے ایک جائیداد بنائی اور اب قرضوں، عدالتی رٹوں اور چھوٹے موٹے سودوں میں جکڑا ہو ا تھا۔ یہ وہ حالات تھے جس میں اس نے وہ بنجر وصیت نامہ املاء کروایا جو ہمارے علم میں ہے، جس میں سے اس نے رقت انگیز جذبات اور ادب کے تمام نشانات حذف کر دیئے۔اس کے لندن کے دوست اس کے گوشہء تنہائی میں ملاقات کو آتے اور ان کی خاطر وہ ایک مرتبہ پھر شاعر کا کردار نبھا دیتا۔

 

تاریخ یہ مزید بتلاتی ہے کہ موت سے پہلے اس نے اپنے آپ کو خدا کے حضور پایا اور کہا:’’میں جو لا حاصل طور پر اتنے بہت سے انسان بن چکا ہوں، اب یکتا اور خود اپنا آپ بننا چاہتا ہوں۔‘‘ ایک بگولے کے اندر سےپروردگار کی آواز آئی:’’نہ ہی میں کوئی ہوں، میرے شیکسپئیر ، میں نے دنیا کو اسی طرح اپنے تخیل میں پایا جیسے تم نے اپنی تخلیقات کو، اور میرے تخیل میں موجود امثال میں سے ایک تم ہو، جو میری ہی طرح بہت کچھ ہو اور کوئی نہیں ہو۔‘‘

 

ایک اور شخص جس کے ساتھ واقعات پیش آتے ہیں بورخیس ہے۔میں بیونس آئرس سے گزرتے ہوئے ، شاید کسی ڈیوڑھی یا اس کے اندرونی دروازے میں جھانکنے کے لئے، ٹھٹک کر رک جاتا ہوں ۔بورخیس کی خبر مجھے بذریعہ ڈاک ملتی ہے یا پھر کسی سوانحی لغت میں درج ادیبوں کی فہرست میں اس کا نام نظر آجاتا ہے۔میرےذوق کا دائرہ ریت گھڑیوں، نقشوں، اٹھارویں صدی کے رسم الخط، اشتقاقیات، کافی کے ذائقے اور اور رابرٹ لوئی اسٹیفن سن کی نثر تک پھیلا ہوا ہے۔ بورخیس ان ترجیحات میں حصہ رکھتا ہے مگر ایک بے کارطریقے سے، جس کی وجہ سے وہ ایک اداکار کی صفات میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ کہنا کہ ہمارا رشتہ معاندانہ ہے مبالغہ آرائی ہو گی۔ میں اپنے آپ کو زندہ رکھتا ہوں تاکہ بورخیس داستان گوئی کر سکے اور اس کایہ ادب ہی میرا جواز ہے۔میں دانستہ اقرار کرتا ہوں کہ اس نے متعدد بہترین صفحات تحریر کئے ہیں مگر وہ صفحات مجھے بچانے سے قاصر ہیں، شاید اس لئے کہ ان میں موجود سچائی اب کسی ایک فرد کی جاگیر نہیں ، نہ ہی ُاس دوسرے آدمی کی ، بلکہ بذاتِ خود زبان یا روایت کی میراث ہے۔اس سے آگے فنا میرا مقدر ہے، گوشہء گمنامی کی طرف کامل اور ناگزیر فنا، اوراس دوسرے انسان میں محفوظ بس چند عارضی ساعتیں میرا نشان ہیں۔ آہستہ آہستہ میں سب کچھ اس کے حوالے کر رہا ہوں گو کہ میں اس کی مسخ اور مبالغہ کرنے کی ہٹ دھرم روش سے خوب واقف ہوں۔اسپینوزا کا اعتقاد تھا کہ اشیاء وہی بنے رہنا چاہتی ہیں جو وہ ہیں، پتھر ہمیشہ پتھر اور شیر ہمیشہ شیر ہی رہنا چاہتا ہے۔میں (اگر میں واقعتاً کوئی ہوں بھی)خود میں نہیں بلکہ بورخیس میں باقی رہوں گا،مگر میں اپنے آپ کو اس کی کتابوں سے زیادہ کئی دوسری کتابوں میں شناخت کرتا ہوں، یا پھر کسی گٹار کی مسلسل سروں میں۔کئی سال پہلے میں نے خود کو اس سے آزاد کرانے کی سعی کی اور کچی آبادیوں کی اساطیریات اور شہر کے گردونواح سے آگے بڑھ کر زمان اور لامتناہیت سے کھیلنے میں مشغول ہو گیا، مگر یہ شغل اب بورخیس کے ہیں اور مجھے اور کچھ سوچنا پڑے گا۔لہٰذا میری زندگی ایک دعوٰی- جوابِ دعوٰی ہے، ایک طرح کا طویل نسیانی دورہ، ایک خلا میں ڈوب جانے کی کیفیت، اب ہرشے مجھے گمشدہ محسوس ہوتی ہے اور سب کچھ فراموشی کے قریب ہے یا دوسرے انسانوں کے ہاتھ لگنے والا ہے۔

 

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ صفحہ ہم میں سے کون لکھ رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بابل کا کتب خانہ

 

 

 

تعارف: خالص فلسفیانہ مباحث اور تراجم پیش کرنے کے ساتھ اشارات کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ نادر ادبی فن پاروں تک اردو قارئین کی رسائی ممکن بنائی جائے۔ اس سلسلے میں مشہور آرجنٹینی ادیب اور شاعر ہورہے لوئس بورکز (Jorges Luis Borges) کی کہانی ’’بابل کا کتب خانہ (The Library of Babel )‘‘ کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ بین الاقوامی ادب کے شائقین جانتے ہیں کہ بورکز کے موضوعات معانی کا ایک سمندر ہیں اور وہ تاریخ، اساطیر، فلسفہ، مذہب اور ریاضی وغیرہ سے تصورات مستعار لیتے ہوئے عمومی طور پر طلسماتی حقیقت نگاری (magical realism) کی ادبی روایت میں کہانی اور کردار تخلیق کرتے ہیں۔ادبی نقادوں کے نزدیک ان کی شاعری اسپینوزا(Spinoza) اور ورجل (Vergil)سے ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ وجودیاتی فلسفے میں بورکزین معمّہ (Borgesian Conundrum) ان سے منسوب ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ادیب کہانی تخلیق کرتا ہے یا پھر کہانی اسے تخلیق کرتی ہے؟ مگر معانی کے اس سمندر میں ایک قاری کی حیثیت سے غواصی ایک مترجم کی رسائی سے کہیں مختلف ہے۔ محمد حسن عسکری نے ترجمے کے باب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ترجمہ بعینہٖ ایک دوسری روایت کی ترجمانی شاید ہی کر سکتا ہے لہٰذا وہ اصل کی نسبت ایک اور تخلیق کو جنم دیتا ہے اور کم سے کم درجے میں اسے اس نئی روایت میں کچھ نہ کچھ تو بن ہی جانا چاہئے۔ ہماری ناقص رائے میں ہماری یہ پیش کش بورکز کی طلسماتی حقیقت نگاری کو اردو روایت میں کچھ نہ کچھ بنانے کی ایک کاوش ہے۔ پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا فیصلہ اب آپ کو اس کتب خانے کی سیر کے بعد کرنا ہے۔ کتب خانے کی تعبیرات پر ایک مختصر نوٹ پس تحریر درج ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کہانی کے مطالعے کے بعد ہی اس کی طرف رجوع کریں۔

 

اس فن کے ذریعے تم تئیس حروف کے تغیرات پر غور کر سکتے ہو۔۔۔ تشریحِ افسردہ خیالی از رابرٹ برٹن

 

کائنات (جسے دوسرے کتب خانہ کہتے ہیں) ایک لاتعداد بلکہ شاید لامتناہی گردشی راہداریوں پر مشتمل ہے۔ہر راہداری کے وسط میں ایک ہوا دان ہے جو ایک پست احاطے پر ختم ہوتا ہے۔کسی بھی مسدس سے اوپر اور نیچے جاتی یکے بعد دیگرے لا انتہا منزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔راہداریوں کی ترتیب ہمیشہ سے یکساں ہے: کتابوں کی بیس الماریاں، مسدس کی چھ اطراف میں چوتھی قطار کے ہر طرف پانچ ، الماریوں کی اونچائی زمین تا چھت ایک عام کتابدار کے قد سے شاید کچھ ہی زیادہ۔ مسدس کے آزاد اضلاع میں سے ایک ضلع تنگ سی ڈیوڑھی میں کھلتا ہے، جو ایک اور راہداری میں کھلتی ہے جو بعینہٖ پہلی ، بلکہ ہر ایک جیسی ہے۔ڈیوڑھی کے دائیں اوربائیں دو ننھی سی کوٹھڑیاں ہیں۔ ایک سونے کے لئے، بالکل سیدھے اور دوسری رفع حاجت کیلئے۔یہاں سے بھی ایک مرغولہ نما زینہ گزرتا ہے جو اوپر نیچے دور تک چکر کھاتا چلا جاتا ہے۔ڈیوڑھی میں ایک آئینہ وفاداری سے تمام منظر کی عکاسی کرتا ہے۔انسان اکثر اس آئینے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کتب خانہ لامتناہی نہیں کیونکہ اگر وہ ایسا ہوتا تو اِس پُر فریب عکاسی کی کیا ضرورت ؟ میں اس تصور کو ترجیح دیتا ہوں کہ صیقل سطحیں لا متناہیت کا خاکہ اور امید ہیں۔۔۔روشنی کچھ ایسے کرّوی پھلوں سے فراہم کی جاتی ہے جنہیں ’’بلب‘‘ کہتے ہیں۔ ہر مسدس میں ایسے دو بلب آر پار آویزاں ہیں۔ ان کی فراہم کردہ روشنی ناکافی اور دائمی ہے۔

 

کتب خانے کے تمام باشندوں کی طرح میں نے بھی اپنی جوانی میں سفر کیا۔ میں کتاب کی تلاش میں منزلوں پر منزلیں،یا شاید فہرستوں پر فہرستیں طے کرتا رہا۔ اب جب کہ میری آنکھیں میری اپنی تحریر بھی بمشکل پڑھ سکتی ہیں ، میں اس مسدس سے، جو میری جائے پیدائش ہے، کچھ ہی کوس دور مرنے کی تیاری کر رہا ہوں۔میری موت واقع ہونے پر ہمدرد ہاتھ مجھے احاطے سے نیچے پھینک دیں گے، اتھاہ ہوا میرا مقبرہ ہو گی، میرا جسم زمانوں ڈوبتا رہے گا اور آخر کار میرے گرنے سے وجود میں آتی لامتناہی ہوا میں گل سڑ کے گھل جائے گا۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ کتب خانہ بے انت ہے۔مثالیت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسدس کمرے مکانِ مطلق کی ناگزیر صورت ہیں یا کم از کم ہمارے ادراکِ مکان کی۔ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ایک تکون یا مخمس کمرہ ناقابل تصور ہے۔ (عارفوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا وجد ایک دائری کمرے کا وجود افشا کرتا ہے جس میں ایک ضخیم گول کتاب موجود ہے جوجس کا مسلسل پشتہ دیواروں کے دائرے کا چکر مکمل کرتا ہے ۔مگر ان کی شہادت مشتبہ ہے اور ان کے الفاظ مبہم۔یہ دائرو ی کتاب خدا ہے۔) ایک لمحے کے لئے اس مستند اظہار پر اکتفا ء کیجئے جسے میں یوں دہراتا ہوں: کتب خانہ ایک کرّہ ہے جس کا مرکز کوئی بھی مسدس ہے اور جس کا محیط ناقابلِ رسائی۔

 

ہر ایک مسدس کی ہر دیوار پانچ کتابی الماریوں سے مزین ہے، ہر کتابی الماری میں یکساں وضع کی بتیس کتابیں موجود ہیں، ہر کتاب کے چار سو دس صفحات ہیں، ہر صفحہ پر چالیس سطریں اور ہر سطر میں تقریباً اسی سیاہ حروف۔ ہر کتاب کے سرورق پر بھی حروف کندہ ہیں۔ یہ حروف نہ تو نشاندہی کرتے ہیں اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ اندر کے صفحات میں کیا ہے۔مجھے علم ہے کہ تبادلہ و ابلاغ کا فقدان کبھی انسانوں کو پر اسرار لگتا تھا۔ اس راز کے حل کا خلاصہ پیش کرنے سے قبل (جس کی دریافت المناک نتائج کے باوجود شاید تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے) میں کچھ بدیہی مسلمات دہرانا چاہتا ہوں۔

 

اول: کتب خانہ ازل سے موجود ہے۔یہ صداقت جس کا لازمی نتیجہ دنیا کی آنے والی ابدیت ہے کوئی معقول ذہن نہیں جھٹلا سکتا۔انسان، ایک غیر کامل کتابدار، یا تو شاید اتفاقات کا حاصل یا پھر بد باطن دیوتاؤں کی تخلیق ہوسکتا ہے ، مگر کائنات اپنی شاندار ترتیب ، یعنی اپنی کتابی الماریوں، چیستانی کتب،مسافر کے لئے اپنے بے تکان زینوں، اور براجمان کتابدار کے لئے اپنی آبی طہارت گاہوں کے ساتھ ، کسی خدا ہی کی صناعی ہو سکتی ہے۔ اگر انسان اور ہستئ مطلق کے درمیان فاصلے کو ذہن کی گرفت میں لانا مقصود ہو تو صرف ان تھرتھراتی ہوئی خام علامتوں کا موازنہ کر لیجئے جنہیں میرے مائل بہ خطا ہاتھ بد خطی سے ایک کتاب کے سرورق پر لکھ رہے ہیں جس کے اندر نامیاتی حروف موجود ہیں، صاف ستھرے، نازک، گہرے سیاہ اور بے نظیر تناسب کے ساتھ۔

 

دوم: ابجدی علامات پچیس ہیں[1]۔تین سو سال قبل اس دریافت نے انسانیت کو ایک عمومی نظریہ ء کتب خانہ تشکیل دینے کے قابل کیا اور اس طرح اس پہیلی کو حل کر دیا جس کا بھید آج تک کوئی قیاسی مفروضہ نہ کھول سکا تھا یعنی تقریباً تمام کتب کی ایک بے شکل اور منتشر ہئیت۔ایک کتاب جسے ایک دفعہ میرے والد نے ۹۴۔۱۵ نمبر گردش کی ایک مسدس میں دیکھا تھا صرف حروف’’ م۔ک۔و ‘‘ پر مشتمل تھی جو پہلی سے آخری سطر تک کج روی سے دہرائے گئے تھے۔ایک اور (جس سے اس حلقے میں کافی راہنمائی لی جاتی ہے) فقط حروف کی بھول بھلیوں پر مشتمل ہے جس کے آخری سے پہلے صفحے پر یہ عبارت درج ہے: ’’اے وقت تیرے مزار‘‘۔اتنا معلوم ہے کہ ہر معقول سطر یا بے باک بیان کے عوض بے معنی کریہہ الصوتی، لفظی لغویات اور بے ربطی کے مجموعے ہیں۔(میں ایک ایسے نیم وحشی حلقے سے باخبر ہوں جہاں کے کتابدار کتابوں میں مفہوم تلاش کرنے کی ’’بے ثمر اور ضعیف الاعتقاد‘‘ عادت کو مسترد کرتے ہیں اور ایسی کسی بھی جستجو کو خوابوں اور کسی ہاتھ کی منتشر لکیروں میں معانی ڈھونڈنے کے برابر سمجھتے ہیں۔وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ تحریر کے موجدین نے پچیس فطری علامات کی نقل کی مگر ان کا دعویٰ ہے کہ اپنانے کا یہ عمل بے سبب اور اتفاقیہ تھا اور یہ کہ کتابیں فی نفسہٖ معانی نہیں رکھتیں۔یہ دلیل جیسا کہ ہم دیکھیں گے مکمل طور پر مغالطہ آمیز نہیں ہے۔)

 

کئی سال تک یہ مانا جاتا رہا کہ یہ ناقابل نفوذ کتابیں قدیمی یا دور دراز کی زبانوں میں ہیں۔یہ سچ ہے کہ کئی قدیم لوگ یعنی کہ اولین کتابدار ہماری رائج بولی سے بہت مختلف زبان استعمال کرتے تھے، یہ بھی سچ ہے کہ یہاں سے کچھ کوس دائیں ہماری زبان لہجوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے اور نوے منزلیں اوپر یہ بالکل ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ یہ سب سچ ہے لیکن چار سو دس غیر متغیر ’’ م۔ک۔و ‘‘ کسی بھی زبان سے تعلق نہیں رکھ سکتے، چاہے لہجہ کتنا ہی مختلف یا غیر متمدن کیوں نہ ہو۔کچھ لوگوں کی تجویز یہ ہے ہر حرف اگلے پر اثر ڈالتا ہے اور ’’ م۔ک۔و ‘‘ کی جو قیمت صفحہ ۷۱سطر۳ پر ہے وہ کسی اور صفحہ اور سطر پر اسی سلسلے کی قیمت سے مختلف ہے، مگر یہ مبہم نظریہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔ اس کے برعکس دوسروں نے کسی خفیہ لغت کا امکان ظاہر کیا ہے اور یہ قیاسی مفروضہ بالاتفاق تسلیم کر لیا گیا ہے، گو اس تاثر میں نہیں جس میں اس کے بانیوں نے اولین تشکیل کی تھی۔

 

لگ بھگ پانچ صد سال قبل کسی مسدسِ بالا[2] کے ایک مہتمم کے ہاتھ ایک ایسی کتاب لگی جو باقیوں کی طرح گڈ مڈ تو تھی مگر اس کے تقریباً دو صفحات یکساں سطروں پر مشتمل تھے۔اس نے اپنی یہ دریافت ایک رمز شناس مسافر کو دکھلائی جس کی رائے میں وہ سطریں پرتگالی زبان میں تحریر کردہ تھیں، کچھ دوسروں نے کہا کہ یہ یہودی زبان تھی۔ایک صدی کے اندر ہی ماہرین یہ متعین کر دیا کہ وہ زبان اصل میں کونسی تھی: کلاسیکی عربی کی تصریف کے ساتھ گوارانی کا ایک سامویائی لیتھوانی لہجہ[3]۔اس کے ساتھ ہی مشمولات کا تعین بھی کر دیا گیا: لا انتہا متواتر تغیرات کی مثالوں سے مزین مبادیٕ علم اتصال۔ان مثالوں کی مدد سے ایک نابغہ کتابدار نے کتب خانے کا بنیادی قانون دریافت کر لیا۔اِس فلسفی نے مشاہدہ کیا کہ تمام کتب چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں یکساں عناصر پر مشتمل ہیں: فاصلہ، وقفہ ، علامتِ وقف اور ابجد کے بائیس حروف۔اس نے مفروضے کے طور یہ واقعہ بھی پیش کیا جس کی توثیق اس دن سے تمام مسافر کرتے آئے ہیں: سارے کتب خانہ میں کوئی دو کتابیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ ان غیر متنازعہ مقدمات سے کتابدار نے یہ نتیجہ نکالا کہ کتب خانہ ’’کل‘‘ یعنی بے عیب ، مکمل اور پورا ہے ، اور اس کی کتابی الماریاں بائیس (ایک ایسا عدد جو ناقابل تصور ہونے کے باوجود لامتناہی نہیں ہے ) حروفی علامات کی تمام ممکنہ ترکیبوں پر مشتمل ہیں، یعنی وہ سب کچھ جو ہر ایک زبان میں قابلِ بیان ہے۔سب کچھ۔۔۔مستقبل کی تفصیلی تاریخ، رؤسائے ملائکہ کی سوانح، کتب خانہ کی قابلِ اعتماد اور ہزاروں ناقابلِ اعتماد فہرستیں، ان ناقابلِ اعتماد فہرستوں کے کذب کے ثبوت، درست فہرست کے کذب کا ایک ثبوت، اسکندریہ کے مدرس باسیلیدی (Basilides)سے منسوب غناسطی انجیل(Gnostic Gospel)، اس انجیل کی شرح، اس شرح کے حواشی، آپ کی موت کی سچی کہانی، ہر کتاب کا ہر ایک زبان میں ترجمہ، ہر ایک کتاب کا باقی تمام کتب میں ادراج، سیکسن اقوام کی اساطیری روایت سے متعلق وہ رسالہ جو سینٹ بیڈ(Saint Bede) لکھ سکتا تھا (مگر اس نے نہ لکھا)، رومن مؤرخ تیکیطوس کی گمشدہ کتابیں۔

 

جب یہ اعلان کیا گیا کہ کتب خانے میں ہر کتاب پائی جاتی ہے تو پہلا رد عمل بے پایاں مسرت کا تھا۔ لوگوں نے اپنے آپ کو ایک محفوظ اور خفیہ خزانے کا مالک سمجھا۔ایسا کوئی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ نہ تھا جس کا فصیح و بلیغ حل کہیں کسی مسدس میں نہ پایا جاتا۔ کائنات کا جواز مل گیا، وہ یک لخت انسانی آدرشوں کے غیر محدود طول و عرض سے موافق ٹھہری۔اس وقت ایک ’’مجموعہ برأت‘‘ کا ذکر زبان زدِ عام تھا یعنی غیب گوئی اور بریت کی وہ کتب جو آنے والے ہر زمانے کے لئے کائنات کے ہر انسان کو بری قرار دیں۔انسانوں کے مستقبل کے واسطے یہ ایک حیرت انگیز اکسیرِ اعظم تھا۔ ہزاروں حریص افراد ، اپنی اپنی’’ کتاب برأت‘‘ کو تلاش کرنے کی ایک لاحاصل خواہش سے مغلوب، اپنے پر سکون مسدس چھوڑ کر بالائی اور زیریں منزلوں کی طرف بھاگے۔یہ زائرین تنگ غلام گردشوں میں ایک دوسرے سے جھگڑتے، بدترین لعنتیں بڑبڑاتے، مقدس زینوں میں ایک دوسر ے کا گلا گھونٹتے، پُر فریب جلدیں ہوا دانوں سے نیچے پھینکتے، دور دراز علاقوں کے انسانوں کے ہاتھوں اپنی موت سے جا ملے۔ دوسرے اپنے حواس کھو بیٹھے۔۔۔۔’’مجموعہ برأت‘‘ موجود ہے (میں نے اس میں شامل دو کتابیں دیکھی ہیں جومستقبل کے دو ایسےافراد کا ذکر کرتی ہیں جو شاید فرضی نہیں ہیں) مگر اس کی کھوج میں نکلنے والے مہم جو یہ بھلا بیٹھے کہ انسان کے ہاتھ اس کی اپنی ’’کتاب برأت‘‘ یا اس کی کسی جعلی نقل لگ جانے کا امکان صفر تھا۔

 

اسی زمانے میں یہ امید بھی قائم تھی کہ بنی نوع انسان کے بنیادی اسرار یعنی کتب خانہ اور زمان کی ابتداء بھی شاید ظاہر ہو جائیں۔آثار قوی ہیں کہ یہ عمیق راز واقعتاً الفاظ میں بیان کئے جا سکیں ۔ اگر اس کے لئے فلاسفہ کی زبان کافی نہ ہو تو عظیم الہیئت کتب خانے نے یقیناً ایسی کسی غیر معمولی زبان کو بمع اس کی لغت اور قواعد کے جنم ضرور دیا ہوگا۔ چار صدیاں لوگ پھرتی کے ساتھ مسدسوں کے چکر کاٹتے رہے۔۔۔سرکاری’’تفتیش کار‘‘ آج بھی موجود ہیں۔ میں نے انہیں اپنے کام میں مصروف دیکھا ہے: وہ تھکے ہارے ، ایک زینے کی بابت بڑبڑاتے ہوئے جس نے چند سیڑھیاں نہ ہونے کے باعث انہیں قریباً مارڈالا کسی مسدس پر پہنچتے ہیں ، کتابدار سے احاطوں اور زینوں کے بارے میں بات چیت میں مشغول رہتے ہیں، اور کبھی کبھار کوئی قریبی کتاب اٹھا کر شرمناک اور ذلت آمیز الفاظ ڈھونڈنے کی نیت سے ورق گردانی کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی ان سے کسی دریافت کی امید نہیں رکھتا۔

 

اس بے لگام امید کے بعد فطری طور پر ایک ویسی ہی غیر متناسب مایوسی نے آ لیا۔ یہ یقین کہ کہیں کسی مسدس میں کوئی کتابی الماری قیمتی کتابوں پر مشتمل ہے مگر ان قیمتی کتابوں تک رسائی دائماً ناممکن ، تقریباً ناقابل برداشت تھا۔ ایک گستاخانہ فرقے نے تجویز دی کہ تلاش ترک کر دی جائے اور تمام لوگ حروف اور علامات کی ترتیب بدلتے رہیں یہاں تک کہ وہ تفویض کردہ کتابیں حادثاتی طور پر متشکل ہو جائیں۔حکام کو سخت احکامات صادر کرنے پڑے۔فرقہ تو معدوم ہو گیا مگر میں نے اپنے بچپن میں دھاتی طبق اور پانسے کی ڈبیا لئے کئی بوڑھے آدمیوں کو بیت الخلاء میں چھپے، خدائی بے ترتیبی کی دھیمی نقالی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

دوسروں نے بالکل الٹ سمت اپناتے ہوئے یہ سوچا کہ پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام بے مصرف کتابوں کو تلف کر دیا جائے۔وہ مسدسوں پر آ دھمکتے، اپنے وثیقۂ تقرر دکھاتے جو ہمیشہ غلط نہیں ہوتے تھے، نفرت سے ایک جلد کے صفحے پلٹتے اور کتابوں کی پوری دیوار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیتے۔لاکھوں جلدوں کا احمقانہ ضیاع انہی کے صحت بخش اور زاہدانہ طیش کا مرہونِ منت ہے۔ان کا نام آج مطعون ہے مگر وہ جو ان ’’خزانوں‘‘ کی اس جنونی تباہی کے غم میں الم زدہ ہیں، دو عمومی طور پر تسلیم شدہ واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہیں: اول کہ کتب خانہ اتنا وسیع ہے کہ انسانی ہاتھوں کسی بھی قسم کی کمی بے وقعت ہے۔اور دوم یہ کہ گو ہر کتاب بے مثل اور بے بدل ہے، لیکن (چوں کہ کتب خانہ کل ہے) ہمیشہ کچھ لاکھ ناقص ہو بہو نقلیں موجود ہوتی ہیں جو اصل سے ایک حرف یا ایک علامت وقف سے زیادہ مختلف نہیں۔ عمومی رائے کے باوجود میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ ’’مخلصین‘‘ کی غارت گری کے اثرات میں مبالغہ کی وجہ وہ دہشت ہے جو انہی جنونیوں کا فیضان ہے۔ایک مقدس اشتیاق سے متحرک وہ اس کوشش میں سرگرم تھے کسی دن انتھک کوشش سے وہ’’ ارغوانی مسدس ‘‘ کی کتابوں تک پہنچ جائیں گے یعنی قدرتی کتابوں سے چھوٹی ، قادرِ مطلق، منقش اور طلسماتی کتابیں۔

 

ہمیں اس زمانے کی ایک اور ضعیف الاعتقادی کا بھی علم ہے یعنی ایک ’’کتابی انسان‘‘ نامی ہستی پر اعتقاد۔یہ مفروضہ پیش کیا گیا کسی مسدس کی کسی الماری میں کہیں ایک کتاب ایسی ہونی چاہیئے جو بقیہ تمام کتابوں کی کنجی اور بے عیب تلخیص ہو اور کسی کتابدار نے ضرور اس کا معائنہ کیا ہو گا۔ یہ کتابدار خدا کا مثیل مانا جاتا تھا۔اس حلقے کی زبان میں آج بھی اس فرقے کی سراغ مل جاتے ہیں جو اس دور دراز کتابدار کو پوجتا تھا۔کئی لوگ اس کی تلاش میں نکلے ۔پورے سو سال لوگوں نے لا حاصل تلاش میں ہر ممکن راستے اور ہر ایک راستے کی خاک چھانی۔ کسی ایسی مقدس خفیہ مسدس کو کوئی کیسے تلاش کر سکتا ہے جس نے متلاشی ہی کو اوٹ دے رکھی ہو؟کچھ نے تلاش کے لئے بتدریج تنزلی کا طریقہ تجویز کیا: کتاب’’ الف‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ب‘‘ سے رجوع کیا جائے جو کتاب’’ الف‘‘ تک راہنمائی کرے، کتاب ’’ب‘‘ تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’ج‘‘ سے رجوع کیا جائے، اور اس طرح لا انتہا۔۔۔اسی قسم کے جوکھم ہیں جن میں پراگندہ حال ، میں نے اپنے ماہ و سال صرف کئے۔میں اسے خلاف قیاس نہیں سمجھتا کہ ایسی کو ئی ’’کل کتاب‘‘[4] کائنات میں کسی الماری میں موجود ہو۔میں نامعلوم خداؤں سے دعاگو ہوں کہ کوئی انسان، بے شک صرف ایک انسان ایسا ہو جس نے بیسیوں صدیاں پہلے احتیاط سے جانچ کر اُس کتاب کا مطالعہ کیا ہو۔اگر ایسے کسی مطالعے سے حاصل ہونے وا لی عزت، حکمت اور مسرت میری قسمت میں نہیں تو دوسروں کے لئے تو ہو۔جنت موجود ہونی چاہئے بھلے میرا ٹھکانہ جہنم ہو۔چاہے تعذیب، اذیت اور نیست و نابود ہونا میرا مقدر ٹھہرے مگر فقط ایک ساعت، ایک مخلوق ایسی ہو جس میں تیرا ضخیم و جسیم کتب خانہ اپنا جواز پا سکے۔

 

بے اعتقادوں کا دعویٰ ہے کہ کتب خانے کا قاعدہ ’’ معنی‘‘ نہیں بلکہ ’’بے معنی‘‘ ہے اور معقولیت (یہاں تک کہ عاجز، خالص مطابقت) تقریباً معجزانہ استثناء ہے۔ مجھے علم ہے کہ وہ ’’ایک بے چین کتب خانے ‘‘ کے متعلق بات کرتے ہیں ’’جس کی بے قاعدہ جلدیں مسلسل دوسری جلدوں کی ہئیت میں ڈھل جانے کی دھمکی دیتی رہتی ہیں تاکہ تمام اشیاء کا رد ّو اثبات کیا جا سکے اور انہیں درہم برہم ، منتشر اور مبہم کیا جا سکے، جیسے کوئی دیوانی اور پراگندہ الوہیت ہو۔‘‘ یہ الفاظ جو نہ صرف بے ترتیبی کو مشتہر کرتے بلکہ اس کی نظیر بھی پیش کرتے ہیں، بے اعتقادوں کے تأسف انگیز ذوق اور یاسیت انگیز جہالت کا بیّن ثبوت ہیں۔کیوں کہ کتب خانہ میں گو تمام لفظی ڈھانچے موجود ہیں، یعنی پچیس حروفی علامات کے تمام ممکنہ تغیرات، اس میں کوئی ایک بھی مطلقاً نامعقول نمونہ موجود نہیں۔یہ مشاہدہ بے معنی ہے کہ میری زیر نگرانی تمام مسدسوں میں موجود بہترین جلد کا عنوان ’’بل کھاتی گرج‘‘ ہے، یا ایک اور کا عنوان ’’پلستر زدہ شکنجہ‘‘ یا ایک اور ’’ایکساایکساایکساز ملو‘‘ ہے۔یہ عبارتیں جو کہ پہلی نظر میں مہمل لگتی ہیں بلا شک و شبہ ایک رمزی یا تمثیلی ’’مطالعہ‘‘ کا موضوع بن سکتی ہیں۔ وہ مطالعہ یعنی کہ لفظوں کی ترتیب اور وجود کا وہ جواز ، بذاتِ خود لفظی اور فرضی ہے اور کتب خانے کے اندر ہی کہیں موجود ہے۔حرفی علامتوں کی کوئی ممکنہ ترکیب مثلاً ’’دحکمرلکھتدج‘‘ تخلیق نہیں کی جا سکتی جو مقدس کتب خانے کی پیش بینی سے بعید ہو اور جو اپنے ایک یا ایک سے زیادہ خفیہ لہجوں میں کوئی ہولناک مفہوم نہ رکھتی ہو۔ایسا کوئی صوتی پیکر منہ سے نہیں اگلا جا سکتا جو نزاکت یا دہشت سے لبریز نہ ہو، جو ان میں سے کسی بھی زبان میں خدا کا اسمِ اعظم نہ ہو۔ بات کرنا ایسے ہی ہے جیسےتکرار معنی ۔یہ بے معنی لفّاظ مراسلہ پہلے ہی سے لاتعداد مسدسوں میں سے کسی ایک کی پانچ الماریوں میں رکھی گئی تیس میں سےکسی ایک جلد میں موجود ہے۔(تمام ممکنہ زبانوں کی کوئی ایک تعداد ’’لا‘‘ یکساں ذخیرۂ الفاظ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند کے اندر علامت ’’کتب خانہ‘‘درست تعریف رکھتی ہے یعنی ’’ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود مسدس راہداریوں کا ایک لازوال نظام‘‘، جبکہ کتب خانہ ایک شے کی حیثیت میں روٹی کا ایک ٹکڑا ہے ، یا کوئی مقبرہ یا کچھ اور، اور وہ چھ حروف جو اس کی تعریف کرتے ہیں آ پ اپنی مزید تعریفیں رکھتے ہیں۔تم جو میری تحریر میں غوطہ زن ہو، کیا تمھیں یقین ہے کہ تم میری زبان سمجھتے ہو؟)

 

باضابطہ تصنیف نگاری میرا رخ انسانیت کی موجودہ حالت کی طرف سے پھیر دیتی ہے۔ یہ یقین کہ ہر چیز پہلے ہی ضابطۂ تحریر میں لائی جا چکی ہے ہمیں موقوف کر دیتا ہے یا پھر محض ایک پیکرِ خیالی بنا چھوڑتا ہے۔مجھے ایسے اضلاع معلوم ہیں جہاں جوان لوگ کتابوں کے آگے سر بسجود ہیں اور گو کہ وہ ایک لفظ بھی پڑھنے سے قاصر ہیں، غیر مہذب وحشیوں کی طرح ان کے صفحات کو چومتے ہیں۔ وبائی امراض، ملحدانہ تنازعات، اور ناگزیر طور پر بگڑ کر قزّاقی میں ڈھل چکی زیارتیں، آبادی کو نابود کر چکی ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے خود کشیوں کا ذکر کیا تھا جو ہر سال پہلے سے زیادہ کثیر الوقوع ہوتی جاتی ہیں۔ شاید میں بڑھاپے اور خوف کے ہاتھوں بھٹک چکا ہوں مگر مجھے گمان ہے کہ بنی نوع انسان (اکلوتی نوع ) معدومی کے کنارے پر جھول رہی ہے اور فنا کے قریب ہے پھر بھی کتب خانہ — روشن خیال، خلوت پسند، لامتناہی، بدرجہ کامل غیر متحرک، قیمتی جلدوں سے لیس، بے معنی، ناقابل تحلیل اور خفیہ — ہمیشہ قائم رہے گا۔

 

میں نے صرف لفظ ’’لامتناہی ‘‘ لکھا ہے۔ میں نے یہ صفت محض خطیبانہ عادت کے زیر اثر استعمال نہیں کی، بلکہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ عالم کو لامتناہی سمجھنا غیر منطقی نہیں ہے۔ اس کو محدود جاننے والے یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ شایدکسی دور دراز مقام یا مقامات پر غلام گردشوں اور زینوں اور مسدسوں کا اختتام ممکن ہے ، جو کہ ناقابل تصور اور لایعنی ہے۔اور پھر بھی عالم کو لامحدود گرداننے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ممکنہ کتابوں کی تعداد لامحدود نہیں ہے۔میں جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے اس قدیم مسئلے کا یہ حل تجویز کروں گا: کتب خانہ لامحدود مگر تکراری ہے۔ اگر ایک دائمی مسافر کسی بھی سمت میں سفر کرتا رہے تو وہ ناقابلِ بیان صدیوں کے بعد انہی جلدوں کو یکساں بے ترتیبی کے ساتھ دہراتے ہوئے پائے گا جو اس تسلسل کے باعث، ایک ترتیب ہے: ایک ترتیب۔ میری تنہائیاں اس حوصلہ افزا امید سے پر مسرت ہیں ۔[5]

 

***

 

پسِ تحریر: یوں تو بورکز کی تمام تحریروں کی متعدد تعبیرات موجود ہیں لیکن ’’بابل کا کتب خانہ ‘‘ اس لئے ممتاز ہے کہ اس نے سائنس ، فلسفے، فلم اور آرٹ میں جا بجا اپنے تأثرات چھوڑے ہیں اور ثانوی نوعیت کے مستقل مباحث کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک کہانی کی حیثیت میں اس کا موضوع بورکز ہی کے مضمون ’’ کتب خانۂ کل (۱۹۳۹) The Total Library‘‘ سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے اس مضمون کا ابتدائی محرک جرمن کہانی نگار کرڈ لاسوٹز کی ۱۹۰۱ میں لکھی گئی ایک کہانی کو قرار دیا ہے۔بورکز کے کہانیوں اور مضامین میں استعمال شدہ مخصوص تصورات جیسے کہ حقیقت، لامتناہیت، مذہبی نفسیات، سری استدلال (cabalistic reasoning) اور بھول بھلیاں وغیرہ اس کہانی میں بھی موجود ہیں۔

 

کتب خانے کے تصور کی کئی تعبیرات پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً اسے کائنات کے ایک ایسے تصور کی تمثیل سمجھا جا سکتا ہے جو کروّی ہے اور جس کا مرکز ہر نقطہ ہے اور محیط لامتناہی۔ سترھویں صدی کے ماہر ریاضیات اور فلسفی بلز پاسکال (Blaise Pascal) نے کائنات کے لئے ایک ایسا استعارہ ہی استعمال کیا تھا اور بورکز نے اپنے کسی مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔مزید برآں یہ تصور بھی وزن رکھتا ہے کہ ایک ایسے کتب خانہ میں کوئی کتاب موجود نہیں جس میں تمام ممکنہ کتابیں موجود ہوں اور بے ترتیبی سے رکھی ہوئی ہوں کیوں کہ ایسے کتب خانے سے کوئی معانی درآمد کرنا نظری طور پر ناممکن ہے۔ اس نظریہ کو بورکز کے کئی شارحین نے مختلف کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے واضح کیا ہے۔کتب خانے کی ایک اور دلچسپ ترین جہت ریاضیات سے تعلق رکھتی ہے جس کے باب میں کچھ ریاضی دانوں نے کتب خانے کی کتابوں کا ایک تخمینہ لگانے کی کوشش کی ہے اور ان کے نزدیک اس کی ایک کتاب معلوم کائنات جتنی جگہ کا احاطہ کر لے گی۔ ایک لامتناہی کتب خانے سے کئی فلسفیانہ مسائل بھی جڑے ہیں۔ کانٹ (Kant) کے مطابق ذہن ہمارے حقیقت کے متعلق تجربے کو متشکل کرتا ہے لہٰذا قواعدِ حقیقت ذہن سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر ہم ان قواعد کو جان لیں تو ہم حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرز پر چوں کہ کتب خانے کی ہر کتاب کی کنجی کسی دوسری کتاب میں ہے، لہٰذا ’’ارغوانی مسدس‘‘ میں شاید کوئی ایسا ہی مجموعہ قواعد پوشیدہ ہے جو دوسری تمام مسدسوں میں موجود کتابوں کے لئے کنجیوں کا کام کر سکتا ہے۔کتب خانہ کو پورے طور پر سمجھناا صل میں حقیقتِ مطلق تک مکمل رسائی ہے اور اس کوشش کی نفسیاتی جہت یہ ہے کہ معلومات کا لامتناہی خزانہ اپنے اندر اتنی بے انتہا کشش رکھتا ہے کہ انسان اس جستجو میں کھو کر اپنی کتاب زندگی لکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ کیوں کہ آخر جو بھی وہ لکھے گا وہ تو پہلے ہی سے کسی نہ کسی مسدس کی کتاب الماری میں کہیں موجود ہے۔ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اگر ایک مصنف ارب ہا ارب سال کتب خانہ کی مختلف کتابو ں سے حروفی علامات جمع کرتا رہے تو آخرکار وہ متن تشکیل پا جائے گا جو اس کے تصور میں ہے۔ مزید ایک تعبیر وہ جوابی دلیل ہے جو خدا کی ہستی کے اثبات میں دلائل کے خلاف ڈیوڈ ہیوم (David Hume)نے ایک فکری تجربے کے طور پر پیش کی ہے جس میں ایک اسی طرز کے فطری کتب خانے کا ذکر ہے۔آخر میں اس انوکھی تعبیر کا ذکر ضروری ہے جس کے مطابق کتب خانہ متناہی ہے کیوں کہ ہم نظری طور پر تاریخ میں ایک ایسی ساعت پر ضرور پہنچیں گے جب سب کچھ تحریر میں آ چکا ہو گا اور یہ کہ مورس علامتی نظام (Morse Code)اور ثنائی ضابطہ (Binary Code) کی ایجادات کے بعد پورا کتب خانہ صرف دو علامات یعنی نقطے اور وقفے کی مدد سے تعمیر کیا جا سکتا ہے اور کائنات کی ہر صداقت اور ہر قابل بیان شے انہیں دو نشانات کی مسلسل ترتیب بدلنے سے بیان کی جا سکتی ہے۔

 

 

حواشی:

 

[1] اصل مسودے میں نہ تو اعداد ہیں اور نہ ہی حروف جلی، رموز اوقاف واوین اور وقفوں تک محدود ہیں۔یہ دو نشانات، فاصلہ اور بایئس حروف ابجد وہ پچیس علامات ہیں جن کی طرف ہمارا نامعلوم مصنف اشارہ کر رہا ہے۔(مدیر)

 

[2] قدیم وقتوں میں ہر تین مسدسوں کی جگہ ایک آدمی تھا۔ خود کشی اور پھیپھڑوں کے امراض نے اس تناسب کو بگاڑ کے رکھ دیا۔ایک ناگفتہ بہ پر ملال یاداشت: میں نے بعض اوقات ایک بھی کتابدار سے مڈبھیڑ ہوئے بغیر، لمبی غلام گردشوں اور صیقل زینوں کے سفرمیں راتیں گزاریں ہیں۔

 

[3] ارجنٹائن کے ایک صوبے میں بولی جانے والی ایک جنوبی امریکی زبان۔

 

[4] میں دہراتا ہوں: ایک کتاب کے موجود ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ممکن ہو۔ صرف ناممکن مستثنٰی ہے۔مثال کے طور پر کوئی کتاب ایسی نہیں جو زینہ بھی ہو گو بے شک ایسی کتابیں موجود ہیں جو اس امکان کے بارے میں بحث کرتی ہیں اوراس کا رد و اثبات کرتی ہیں ، علاوہ ازیں دوسری ہیں جن کی ساخت ایک زینے سے مشابہ ہے۔

 

[5] لیٹیزیا ایلواریز ڈی ٹولیڈو نے یہ مشاہدہ کیا کہ وسیع کتب خانہ بے معنی ہے، دقّت نظر سے کام لیں تو عام جسامت کی نو یا دس ٹائپ میں تحریر کردہ ایک جلد کافی ہے جو لامتناہی تعداد میں لامتناہی رقاقت کے حامل صفحات پر مشتمل ہو۔(سترھویں صدی کی اوائل میں کیویلیئری نے یہ دعوی کیا کہ ہر ٹھوس جسم لامتناہی مسطحات کا انطباق ہے۔)اس نفیس دستور العمل کااستعمال آسان نہیں ہے: ہر ظاہری صفحہ دوسرے اسی طرح کے صفحات میں کھلے گا اور ناقابل تصور وسطی صفحے کا کوئی ’’عقب‘‘ نہیں ہو گا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.isharaat.com/category/%D8%A7%D8%AF%D8%A8/%D8%A7%D9%81%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%81/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید