FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اے دلِ راز داں

 

 

 

 

مصباح مشتاق

 

مکمل کتاب پڑھنے کے لیے

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

انتساب

 

 

ہر اس شخص کے نام

’’جو رشتوں کو نیک نیتی سے نبھاتا ہے اور دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے۔۔ کیونکہ جذبات تو سب ہی رکھتے ہیں مگر احساس ہر کوئی نہیں کرتا۔۔ ‘‘

 

 

 

پیش لفظ

 

 

الحمد للہ ! اپنے پہلے ناول ’ پتھر کر دو آنکھ میں آنسو ‘ کی کامیابی کے بعد اور اپنے ریڈرز کی حوصلہ افزائی سے میرے اندر لکھنے کا جنون اور تقویت پاتا گیا اور بالآخر رب تعالیٰ کی مہربانی سے ’ اے دلِ راز داں‘ ناول اپنی تکمیل کو پہنچا۔

 

الفاظ کبھی بھی پوری طرح سے دل کے جذبات کے ترجماں نہیں ہوتے، کہیں نہ کہیں وہ سچائیاں جو دل میں پنہاں ہوتی ہیں لفظوں میں ڈھل کے بھی کچھ تشنگی دل میں چھوڑ جاتی ہیں … ’ اے دلِ راز داں‘  ناول بھی انھی جذبات کی عکاسی کرتا ہے جو بیاں ہو کر بھی، دل میں رہ جاتے ہیں …‘

 

یہ ایک ایسی کہانی ہے جو حقیقت پہ مبنی ہے کیوں کہ مجھے فرضی کہانیاں لکھنے سے زیادہ وہ کہانی لکھنا اچھا لگتا ہے جس کا تعلق حقیقت سے ہو … ’ پتھر کر دو آنکھ میں آنسو ‘ بھی حقیقی کہانی تھی اور اب ’اے دلِ راز داں‘  میں نے خود ان کرداروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے زندگی کی حقیقتوں سے لڑتے دیکھا ہے … شب و روز ان کی تکلیف کی شدت کو ان کے ان کہے لفظوں سے محسوس کیا ہے … وہ خاموشیاں سنی ہیں جس میں کوئی درد کی شدت سے سسک سسک کر زندگی سے رحم کی بھیک مانگتا ہے … اور پھر تقدیر کے سب اتار چڑھاؤ کس طرح انسان کو بے بس کر دیتے ہیں … ’ اے دلِ راز داں‘  ان سب کی کہانی ہے جو جذبات میں بہتے ہوئے ڈوبتے بھی ہیں مگر کنارے پا ہی لیتے ہیں …

 

نشیب و فراز ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے اچھے برے حالات سے ہم سب ہی گزرتے ہیں مگر فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ برے سے برے حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارتے اور کچھ لوگ سہاروں کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ مشکلات کا تنہا مقابلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے اور ایسے لوگ ہر تکلیف میں ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جاتے ہیں کیوں کہ کسی انسان کا سہارا اتنا ہی عارضی ہوتا ہے جتنا وہ مشکل وقت … دونوں کبھی دیر پا نہیں ہوتے اور یہی سیکھا ہے میں نے اپنی زندگی میں کہ دکھ چاہے کتنا بھی بڑا اور جان لیوا کیوں نہ ہو، اپنے آنسو خود پونچھو اور جب بہتر محسوس کرو، تو لوگوں میں گھل مل جاؤ … تکلیف سہنے کے لیے خود کو کسی دوسرے شخص کی تسلی اور دلاسے کا عادی کبھی نہیں بنانا چاہیے … یہ بالکل ایک طرح سے سلو پوئیزنگ سا کام کرتا ہے … آپ رفتہ رفتہ دوسرے کے ہاتھ میں اپنی کمزوریاں رکھتے جاتے ہیں اور وہ دھیرے دھیرے ان سے فائدہ اٹھا کے آپ کے اعتبار کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا جاتا ہے اور پھر ایک دن ایسے کھوکھلے رشتوں کا ملبہ بالآخر انسان کے اپنے ہی شکستہ سے وجود پہ گر جاتا ہے … عادتیں ادھوری رہ جائیں، تو اندر ہی اندر کھا جاتی ہیں انسان کو، اس لیے ہمیشہ اچھی عادتوں کا عادی ہونا چاہیے …

 

محبت، نفرت سب کچھ فطری ہے انسان چاہے یا نا چاہے ہر جذبے سے واسطہ کہیں نہ کہیں پڑتا ضرور ہے کبھی کوئی جذبہ اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے تو کوئی ادھورا رہ جاتا ہے اور اکثر ادھورے رہ جانے والے جذبات ہمارے دل میں دفن ہو جاتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ دل میں چبھتے بھی ہیں تکلیف بھی دیتے ہیں اور کبھی غیر محسوس طریقے سے تمام تر احساسات پر چھا جاتے ہیں اور اس وقت ایک انجانا سا درد زندگی کی ہر خوشی پہ حاوی ہونے لگتا ہے اور یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب درد لفظوں میں ڈھل کے کہانی بن جاتا ہے … غزلیں تخلیق ہوتی ہیں … نظمیں لکھی جاتی ہیں …

 

مگر اسے محسوس بس وہ شخص کر سکتا ہے جو اپنے دل میں بھی کسی ادھورے جذبے کا درد لیے پھرتا ہے …

 

یہ تحریریں، یہ سب کہانیاں سحر انگیز تبھی بنتی ہیں جب پڑھنے والے کے تمام تر احساسات کو اپنی گرفت میں کرتی ہیں … اسے ہر کردار کے کسی نہ کسی پہلو میں اپنا عکس دکھائی دیتا ہے … ’اے دل راز داں‘ جو کہ حقیقت پر مبنی کہانی ہے آپ کے احساسات کو ضرور چھو کے گزرے گی … اس کہانی نے مجھے کئی بار اشک بار کیا … لکھتے ہوئے دل کانپ جاتا تھا کہ جو لوگ حقیقت میں زندگی کی ان تلخیوں سے گزرے ہیں … ان کا صبر واقع ہی قابل ستائش ہے …

 

میرے لکھنے میں وہ پختگی وہ تجربہ نہ سہی، لیکن ایک بات کے لیے اپنے رب کی ہمیشہ شکر گزار رہوں گی کہ اس نے مجھے احساس کی دولت دی ہے … مجھے ان کہے جذبات کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں تحریر کرنے کا، الفاظ میں ڈھالنے کا ہنر دیا … اتنی صلاحیت دی کہ میں قلم اٹھاؤں، تو محسوس ہونے والا ہر احساس لفظ در لفظ تحریر کر سکوں اور میں اپنے رب تعالیٰ کی بے حد شکرگزار اس لیے بھی ہوں کہ اس نے مجھے آپ سب پیار کرنے والے … اتنی عزت دینے والے ریڈرز دیے … خاص کر کہ اس وقت جب میں اپنی پہچان بنانے کے عمل سے گزر رہی ہوں … میرے پاس تجربہ نہیں، مگر میرے پاس وہ سب حوصلے ہیں، وہ سب پذیرائی ہے، جو مجھے آپ سب سے ملی … میرے پاس میرے ماں باپ کی دعائیں ہیں … میرے بہن بھائیوں کا پیار ہے اور سب سے بڑھ کر میرے پاس میرا رب ہے، جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے … جسے چاہے عزت دے … جسے چاہے ذلت دے …

 

اور میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے فیس بک آفیشل پیج کی ایڈمینز عائشہ سدوزئی (فائزہ)، امامہ مغل، اقراء دلاور، چوہدری ارسلان (اقراء)، مونا افتخار کو شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ سب نے جس طرح سے پیج مینج کیا اقتباس اتنی خوبصورتی سے ایڈٹ کیئے۔۔ آپ سب کے پیار اور تعاون کے بغیر میں کچھ بھی نہیں۔۔ اللہ آپ سب کو اپنے خاص کرم سے نوازے۔

 

اور میری کچھ قریبی دوستیں جنہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور مجھے سپورٹ کیا بشرہ بخاری، مروا شیخ، مدیحہ عابد، رخسانہ یونس میں آپ سب کی بہت مشکور ہوں۔۔

 

اب جب یہ قلم میرے ہاتھوں میں میری پہچان اور میری طاقت بن کر آ ہی چکا ہے تو میرا آپ سب سے وعدہ ہے کہ میری تحریریں ہماری معاشرتی برائیوں کی اصلاح کے لیے ہوں گی … میں اس قلم کے ذریعے وہی پیغام سب کو دوں گی، جو ہماری باہمی نفرتوں کو محبت میں بدل دے گا… بشرطیکہ ہم سب اپنی اپنی اصلاح کریں … اپنی غلطیوں کو سدھاریں …

 

محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے … وہ ہر تلخ لہجے کو اپنے رنگ میں ڈھال سکتی ہے … ہم کئی کہانیاں پڑھتے ہیں … کرداروں سے متاثر ہوتے ہیں … یہ کردار قطعاً فرضی نہیں ہوتے … یہ سب ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں … کچھ اپنی اچھائیوں سے پہچانے جاتے ہیں، تو کوئی اپنی بری عادات اور بد اخلاقی سے نمایاں ہوتے ہیں … ایک چیز جو میں نے ہمیشہ سے سیکھی اور اپنی زندگی میں عادت بنا کے شامل کی … وہ یہ کہ نیک نیتی سے رشتے جوڑے اور نبھائے … کبھی یہ پرواہ نہیں کی کہ محبت کے بدلے تلخ لہجہ مل رہا ہے … یا بے حساب تکلیفیں … جو ملا۔۔ بس لے لیا …

 

ظلم کرنے والا اپنی عادت سے مجبور بھی ہو، تو بھی یک طرفہ دکھ دے دے کر بھی ایک روز تھک ہی جائے گا … جن لوگوں پہ محبت اثر نہیں کرتی …وہ اپنے اندر پلنے والے حسد اور نفرت سے ہی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور جو لوگ محبتیں بانٹتے ہیں، وہ کبھی نہیں بکھرتے …

 

یہی پیغام ہے آپ سب کے لیے اور یہی التجا بھی …

 

’ محبت بانٹنے والے بنیں اور تلخ لہجوں کو تسخیر کر لیں … ‘

 

اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا … اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو …(آمین)

 

آپ کی قیمتی آراء کی منتظر

 

مصباح مشتاق

misbahmushtaq21@gmail.com

 

 

 

 

باب ۱

 

 

صبح کے سات بج چکے تھے اور مایا ابھی تک اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اتنے میں اس کی امی اس کے کمرے میں داخل ہوئیں اور اس کے منہ سے لحاف ہٹا کر بولیں۔

 

’’ مایا ! کالج نہیں جانا کیا ؟ تمھاری گاڑی آنے میں آدھا گھنٹا نہیں رہتا۔ کتنی بار تمھاری آپی تمھیں جگا کر گئی ہیں۔ حد ہوتی ہے ہر بات کی۔ اٹھ جاؤ اب جلدی سے۔ ‘‘

 

مایا ہڑ بڑا کر اٹھی۔ لحاف ایک طرف ہٹا کر سامنے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

 

’’ امی ! حد میری ہو گئی ہے یا آپ لوگوں کی۔ ہزار بار کہا ہے کہ جب تک میں اٹھ کر بیٹھ نہ جاؤں، مجھے جگاتے رہا کریں۔ مجھے نہیں پتا چلتا، آپ کو تو پتا ہی ہے کہ صبح بہت گہری نیند آتی ہے۔ ‘‘

 

’’ واہ … بیٹی ! واہ … کیا بات ہے تمھاری۔ ایسا کرو کہ ایک نوکر رکھ لو، جو صبح پانچ بجے تمھارے بستر کے پاس آ کر کھڑا ہو جائے اور مسلسل تمھیں جگاتا رہے، صبح ہم لوگ گھر کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ یہ ڈیوٹی بھی سر انجام دیں۔ ‘‘

 

یہ سن کر مایا بڑ بڑ اتی ہوئی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہاں سے فارغ ہو کر وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے گھنے بالوں کی چٹیا بنانے میں مصروف تھی۔ دبلی پتلی سی، لمبے قد والی مایا کالج کے سفید یونی فارم میں اور بھی کھل اٹھتی تھی۔ صبح اٹھتے ہی فریش ہو کر اپنی آنکھوں میں کاجل لگانا اس کا روز کا معمول تھا۔ وہ آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اپنے آپ سے ڈھیروں باتیں کرتی رہتی۔

 

پھر وہ بلیک عبایا پہن کر اپنا اسکارف ٹھیک کرتی ہوئی کچن میں آ گئی۔

 

’’ امی ! جلدی سے کھانے کو کچھ دے دیں، ورنہ ! انکل طاہر ابھی ہارن پر ہارن بجانا شروع کر دیں گے۔ ‘‘

 

مایا سکینڈ ایئر کی اسٹوڈنٹ تھی اور کالج میں اپنی شرارتوں کی وجہ سے بہت مشہور تھی۔ اس کی تقریباً سبھی سہیلیوں کی اس کی شرارتوں کی وجہ سے پرنسپل کے ہاتھوں عزت افزائی ہو چکی تھی۔ کبھی ٹیچرز کی پیروڈی اور کبھی فرسٹ ایئر کی لڑکیوں سے چھیڑ خانی۔ مایا کے لیے اس کا کالج کسی انٹرٹینمنٹ کی دنیا سے کم نہیں تھا۔ موج مستی، ہلا گلا، یہی سب زندگی کی خوشیوں کا سبب تھا۔ بھلے وہ جتنی بھی شرارتی تھی، مگر اپنی پڑھائی کے لحاظ سے بھی کالج کی ایک نمایاں استوڈنٹ تھی، اس لیے اکثر اس کی ٹیچرز اس کا لحاظ کر جاتی تھیں۔

 

مایا کی ایک ہی بہن تھی، نیہا۔ وہ عمر میں مایا سے پانچ سال بڑی تھی۔ نیہا سے ایک بڑا بھائی تھا، اسد، جو کہ شادی شدہ تھا اور اس کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ اسد کی بیوی کا نام ردا تھا اور اس کی مایا اور نیہا سے کم ہی بنتی تھی۔۔ نیہا تو پھر بھی کچھ بچ بچاؤ کر لیتی تھی، مگر مایا ہر وقت ردا کی روک ٹوک کا نشانہ بنتی۔ عبید سب بہن بھائیوں میں چھوٹا تھا، لیکن مایا اور عبید کا چوں کہ عمروں میں صرف دو سال کا فرق تھا، اس لیے ان دونوں کی آپس میں لڑائی بھی خوب ہوتی اور دوستی بھی خوب تھی۔ اسد کافی سخت طبیعت کا مالک تھا اور گھر میں تقریباً ہر فرد اس کے موڈ کے حساب سے ہی بات کرتا تھا۔ ورنہ اس کی سب سے بڑی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ اس کے سامنے خاموش رہے۔

 

مایا کے ابا افضل صاحب ایک فرنیچر کی دکان پر کام کرتے تھے۔ اکثر فرنیچر کی پالش اور معمولی سی ریپیئرنگ کے لیے لوگوں کے گھر میں بھی کام کرنے کے لیے چلے جایا کرتے تھے، کافی محنتی انسان تھے، جب کہ مایا کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ مایا کا گھر راولپنڈی کے ایک گنجان آباد علاقے میں تھا۔ ان کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ گھر کے صرف دو افراد کماتے تھے۔ اسد ریلوے ڈیپارٹمنٹ میں اکاؤنٹینٹ تھا۔ سرکاری نوکری ہونے کی وجہ سے اسے سرکاری مکان کا بڑا فائدہ تھا۔ ورنہ کرائے کے گھروں کا انسان کرایا دے یا گھر کا خرچہ چلائے۔ جب کبھی شادیوں کا سیزن ہوتا تو افضل صاحب کا فرنیچر کا کام بہت عروج پر ہوتا۔ وہ کم سے کم اتنا کما لیتے تھے کہ ان سے کچھ ماہ آرام سے گزر جاتے تھے۔ مگر اب وہ کافی بچت کرنے لگے تھے، کیوں کہ نیہا کی شادی کی فکر انھیں لگی رہتی۔ نیہا نے میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی، کیوں کہ اسے پڑھنے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ گھر کے کاموں میں زیادہ دل چسپی لیتی تھی۔ کبھی وہ کوئی کڑھائی سلائی کا کام، تو کبھی وہ نئی ڈش بنانے کی کوشش کرتی۔ پڑھائی کا شوق نہ ہونے کی وجہ سے اس نے بہت مشکل سے میٹرک کیا تھا۔ نیہا کی منگنی اس کے ماموں کے بیٹے رمیل سے ہو چکی تھی اور اگلے ماہ اس کی شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی۔

 

عبید کا میٹرک کا آخری سال تھا اور آگے اس کا پرائیویٹ تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ تھا۔ مایا بھی اس کام میں اس کی ہم خیال تھی۔ وہ دونوں اپنی تعلیم کے اخراجات خود اٹھانا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ کوئی پارٹ ٹائم چھوٹی موٹی جاب کر کے ابا جان اور اسد کا ہاتھ بٹائیں۔ اسد پارٹ ٹائم ایک نجی ٹریول ایجنسی کے اکاؤنٹس بھی دیکھتا تھا۔ اس طرح کافی محنت کر کے کہیں گھر کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کا مزاج زہر کی حد تک کڑوا ہو چکا تھا۔ ردا بھابھی بھی کافی بار کوشش کر چکی تھی کہ وہ الگ ہو جائیں۔ وہ اسد اور اپنے بچوں کو لے کر کہیں اور گھر لے لے، مگر چوں کہ سرکاری تھا اور اسد بھائی کو ملا ہوا تھا، اس لیے وہ خاموش ہو جاتی تھی، ورنہ اگر اس کے بس میں ہوتا، تو وہ کب کی اسد بھائی اور بچوں کو لے کر کہیں اور جا چکی ہوتی۔

 

ہنستی کھیلتی مایا زندگی کے ہر لمحے کو جینے والی لڑکی تھی اور اس کی اپنی ہی ایک الگ دنیا تھی۔ وہ اپنے خوابوں میں رہتی، اپنے دل سے باتیں کرتی اور اتنے یقین سے ہر راز کو اپنے دل کو سونپتی، جیسے وہ اسے سن کر جواب دے گا اور اکثر ایسا ہوتا بھی تھا۔

 

مایا کے بڑے بڑے خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو اتنا مستحکم کر لے کہ اسے زندگی میں چھوٹی بڑی ضرورتوں کے لیے کبھی بھی کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ اس قابل ہو جائے کہ اپنی زندگی میں وہ ان لوگوں کی مدد کر سکے، جو ضرورت مند ہوں۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ایسا وسیلہ بن جائے کہ لوگوں کی زندگیوں میں سے اندھیرا دور کر کے روشنی کا سبب بن جائے، خواہ وہ اندھیرے غربت و افلاس کے ہوں یا گمراہی کے۔ وہ زندہ دل لڑکی ہر مایوس انسان میں زندگی بھرنا چاہتی تھی۔ کبھی کبھی کچھ چیزوں کا عطا ہونا ہماری نیتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسان اپنی نیت صاف رکھے، تو راستے خود بخود اللہ تعالیٰ کی طرف سے بننے لگتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو کوشش تو کرتے ہیں، لیکن اپنی نیت صاف نہیں رکھتے، کہیں نہ کہیں ذرا برابر میل ان کی نیتوں میں آ جاتا ہے اور وہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہزار ہا کوششوں کے باوجود بھی وہ کبھی اپنی منزل سے ہم کنار نہیں ہوتے۔

 

سائیکالوجی کی کلاس میں سب لڑکیاں بیٹھی مسز عفت کے آنے کی منتظر تھی کہ مایا اٹھی اور مار کر اٹھا کر بورڈ پر کچھ لکھنے لگی۔ جیسے ہی اس نے لکھ کر پیچھے کلاس کی طرف دیکھا، تو لیکچر روم میں موجود پوری کلاس زور زور سے ہنسنے لگی۔ مایا کھلکھلا کر ہنسی۔ اتنے میں مسز عفت کمرے میں داخل ہو گئیں اور سب کو بورڈ کی طرف دیکھ کر ہنستے دیکھا، تو ادھر متوجہ ہو گئیں۔ مایا نے جھٹ سے ڈسٹر پکڑ کر تحریر مٹانے کی کوشش کی، تو مسز عفت نے اسے زبردستی سے جھڑک دیا۔

 

’’ مایا ! ٹھہر جاؤ۔ ‘‘

 

اور وہ تحریر پڑھنے لگیں۔

 

’’ سائیکالوجی کے آدھے سے زیادہ اساتذہ سیدھے ٹریٹمنٹ سے فارغ ہو کر لیکچر شپ جوائن کرتے ہیں۔ آر یو ایگری گرلز ؟ ؟ ؟ ‘‘

 

مسز عفت یہ پڑھتے ہی بہت عجیب نظروں سے مایا کو دیکھتے ہوئے بولیں۔

 

’’ مایا ! آج تک کی تمھارسی سب شرارتیں اس لیے نظر انداز کر دی جاتی تھیں، کیوں کہ تم نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی تھی، مگر اب جو تم نے یہ لکھا ہے ناں ! میں تمھیں ایک ہی بات کہوں گی، جو لوگ اپنے اساتذہ کا کا احترام نہیں کرتے، وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ اگر تمھارے کوئی خواب نہیں ہیں، زندگی کا کوئی نصب العین نہیں ہے، تو تم یہ سب کچھ جاری رکھو، لیکن میری کلاس میں، میں تمھیں دوبارہ اس چیز کی اجازت نہیں دے سکتی۔ آپ سیکنڈ ایئر میں ہیں اور اس عمر میں بچیاں اس قابل تو ہو جاتی ہیں کہ استاد کے رتبے کو پہچان سکیں۔ تمھاری اس حرکت سے پوری کلاس میں مسکراہٹیں تو بکھر گئیں، مگر تم نے اپنی ٹیچر کا دل دکھایا۔ میں آج تمھاری کلاس نہیں لے سکتی۔ ‘‘

 

اتنا کہہ کر وہ چلی گئیں۔

 

مایا کا دل چاہا کہ وہ مسز عفت کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لے۔ اسے آج تک اپنی شرارتوں سے اتنا بڑا سبق نہیں ملا تھا، جو اسے آج ملا تھا۔ وہ آنسو پونچھتی ہوئی مسز عفت کے پیچھے بھاگی، جو کوریڈور عبور کرتے ہوئے اسٹاف روم کی طرف جا رہی تھیں۔

 

’’ میڈم ! پلیز ! میری بات سنیں۔ ‘‘

 

مایا بھاگتی ہوئی ان تک پہنچی۔ مسز عفت رک گئیں۔

 

’’ میڈم ! میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں۔ پلیز ! مجھے معاف کر دیں۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ آیندہ کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ ‘‘

 

وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے مسز عفت کو التجائیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

 

مسز عفت نے اسے بے اختیار گلے لگا لیا اور بولیں۔

 

’’ بیٹا ! تم ہمارے کالج کی برائٹ اسٹارز میں سے ایک ہو۔ اگر تم رول ماڈل ہوتے ہوئے ایسا نمونہ پیش کرو گی، تو تم خود بتاؤ، باقی اسٹوڈنٹس کیا کریں گی ؟ اور مایا ! تمھاری آنکھوں میں جو خواب ہیں، انھیں پورا کرنے کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہے۔ تم کوشش کرو کہ آج کے بعد وہ شرارتیں کرو کہ جو بل واسطہ یا بلا واسطہ کسی دوسرے کی دل آزاری نہ کرے۔ ‘‘

 

اس کے لیے مسز عفت کی با توں میں بہت گہرا سبق تھا۔ وہ بریک کے دوران میں نا چاہتے ہوئے بھی ان با توں کو سوچتی رہی۔

 

کمپیوٹر بلاک سے پیچھے ایک بیڈ منٹن کورٹ تھا۔ وہاں سیدھے ہاتھ پر ایک چھوٹا سا گراؤنڈ تھا۔ اس گراؤنڈ میں ایک مخصوص بنچ تھا، جو کہ مایا کی پسندیدہ اور پوشیدہ جگہ تھی، جہاں وہ تب آ کر بیٹھتی تھی، جب اسے باتیں کرنے کے لیے صرف اور صرف اپنا دل چاہیے ہوتا۔ اس کی سب سہیلیاں جانتی تھیں کہ جب بھی مایا کو کوئی فکر لاحق ہوتی تھی، تو وہ سب سے الگ تھلگ رہ کر جلد ہی اپنی خوش گوار موڈ میں آ جاتی ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت ہوتی ہے کہ وہ اپنے دکھ اپنے اندر رکھ کر انھیں بہتر طور پر حل کر سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ دس اور لوگوں کو بتائیں اور اپنی پریشانی میں مزید اضافہ کریں۔

 

’’ دل ! تمھیں تو پتا ہی ہے کہ وہ جو کچھ بھی مسز عفت کی کلاس میں ہوا، اس کے بارے میں میری یہ نیت نہیں تھی کہ میری وجہ سے ان کا دل دکھے۔ میں نے تو سوچا تھا کہ سب کو ہنساتی ہوں اور بعد میں جلدی سے مٹا دوں گی، مگر … پتا نہیں، وہ سب کیوں ہوا ؟ ‘‘

 

وہ سب سے الگ تھلگ اکثر حالات و واقعات کا یوں ہی تجزیہ کرتی۔ وہ اپنے ہر ہر مسئلے اور ہر ہر پریشانی کو یوں ہی اپنے دل کے سامنے کھول کر رکھ دیتی اور پھر اپنی غلطی پر اپنی سچائی اس صفائی سے دیتی کہ اس کا کوئی راز راز نہ رہتا …

 

وہ اپنے دل کے ساتھ یوں باتیں شیئر کرتی، جیسے وہ اس کی گہری سہیلی ہو اور حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ اس طرح اپنے دل سے باتیں کر کے اپنے مسائل کا حل بھی نکال لیتی۔ کافی دیر اپنے دل سے باتیں کرنے کے بعد وہ مطمئن ہو کر اس نتیجے پر پہنچی کہ آج کے بعد جو وہ وقت اپنے اس نٹ کھٹ پن میں گزارتی ہے، وہی وقت اپنی پڑھائی کو دے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ ایک اچھا مشورہ تھا، جو مایا کے دل نے اسے دیا تھا۔

 

اتنے میں چھٹے پریڈ کی گھنٹی بجی، اور مایا تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی فلاسفی کی کلاس کی طرف چلی گئی۔

 

یوں تو مایا کی بہت سی سہیلیاں تھیں، مگر آمنہ اس کی سب سے گہری سہیلی تھی اور اسے اچھی طرح سے سمجھتی تھی۔ اس کے اور آمنہ کے مضمون ایک سے تھے، اس کے علاوہ وہ ایک ہی وین پر گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر جاتی تھیں، اس لیے ان دونوں کی دوستی بھی گہری تھی اور آمنہ اکثر مایا کے گھر آتی جاتی رہتی تھی۔ آمنہ دو سال مایا کے ساتھ رہ کر اتنا تو جان چکی تھی کہ جب وہ کسی مسئلے کا شکار ہوتی ہے، یا کوئی گہری پریشانی اس کے ذہن پر مسلط ہو جاتی ہے، تو اس لمحے اسے صرف اس کا دل ہی بہتر طور پر سمجھا سکتا ہے، اس لیے وہ ایسے وقت میں وہ مایا کا انتظار کرتی کہ وہ جب بھی بہتر محسوس کرے اور اسے لگے کہ اب اسے واقعی اس کی ضرورت ہے، تو وہ خوشی خوشی اس کا حوصلہ بڑھاتی۔

 

ٹھیک دو ہفتے بعد مایا کے دو کمپلسری مضامین کے ٹیسٹ تھے، جس کے لیے وہ ضرورت سے زیادہ پریشان تھی، کیوں کہ نیہا کی شادی کی تاریخ ٹھیک اس کے دو ہفتے بعد کی تھی۔ ساتھ ساتھ ساری تیاریاں دیکھنی اور ساتھ پڑھائی کی فکر۔ مایا کو ماں اور بہن کے ساتھ بازار کے کئی چکر بھی لگانا پڑتے، گو کہ شادی بڑے پیمانے پر نہیں تھی، مگر بہت ہی سادگی سے ہوتے ہوئے بھی کافی کام تھا، جن کا کرنا بے حد ضروری تھا۔ مایا کا گھرانا بہت مذہبی گھرانا تو نہیں تھا، مگر ان کے گھر کی ہر عورت پردے کا خاص خیال رکھتی۔ مایا اور نیہا دونوں ہی حجاب کے ساتھ عبایا پہنتیں۔ مایا کی والدہ بھی لمبی چادر اوڑھ لیتیں۔ نماز کی پابندی اتنی زیادہ تو ان کے گھر میں نہیں تھی، لیکن گھر کا ہر فرد سوائے ردا بھابھی اور اسد بھائی کے، دن میں پانچ نمازوں میں سے دو تین نمازیں تو ضرور پڑھ لیتا تھا۔ شروع میں ایک دو بار مایا کی والدہ نے ردا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کر لیا کرو، لیکن با توں کے بتنگڑ بن کر باتیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں اور ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا سوائے بدنامی کے۔ لہٰذا اس کے بعد انھوں نے کہنا ہی چھوڑ دیا۔

 

مایا کالج سے آ کر کھانا کھانے بیٹھی، تو نیہا نے مایا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

 

’’ مایا ! تمھیں پتا ہے کہ کل شام کو عاطف بھائی کی اپنی بیوی سے لڑائی ہوئی ہے۔ وہ کوثر بتا رہی تھی کہ نوبت مار پیٹ تک آ گئی تھی۔ ‘‘

 

’’ نہیں … آپی ! مجھے تو نہیں پتا اور ویسے بھی آپ کو پتا ہے کہ میرا دھیان لڑائی جھگڑے والی با توں کی طرف نہیں ہوتا ہے۔ ‘‘

 

وہ یہ کہہ کر برتن کچن میں رکھنے چلی گئی۔ نیہا جو اس کے ساتھ صحن میں رکھی چار پائی پر بیٹھی، اس کی لاتعلقی سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ورنہ ! لڑکیاں تو ایسی باتیں، بے شک پرائے گھر کی ہی کیوں نہ ہوں، نہیں چھوڑتیں۔ چسکے لے لے کر سنتی ہیں اور عاطف تو پھر بھی ان کا خالہ زاد بھائی تھا۔ نیہا سے چھے سال بڑا تھا اور الیکٹریکل انجینیئر تھا۔ چار ماہ پہلے اس نے خاندان سے باہر پسند کی شادی کی تھی اور دو تین ماہ سے ان کے چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے خاندان میں مشہور تھے۔

 

عاطف کے والد چند سال پہلے دل کے دورے سے وفات پا چکے تھے اور عاطف اپنی والدہ کا اس دنیا میں واحد سہارا تھا۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے بچپن ہی سے اسے اپنے والدین کا بے پناہ لاڈ پیار ملا تھا۔ جسے اس نے کبھی مثبت لیا، تو کبھی منفی۔ خوش ہوتا، تو اپنے دوستوں کے ساتھ حد سے زیادہ سیلیبریٹ کرتا۔ گھومنا پھرنا اور انجوائے کرنا اس کے شوق تھے۔ جو کماتا تھا، وہ اپنے دوستوں پر اڑا دیتا تھا، مگر اپنے والد کی وفات کے بعد اس نے اپنی زندگی کو قدرے سنجیدگی کے ساتھ گزارنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنی شادی کے لیے اپنی ماں کی پسند کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی پسند کی دلہن لے کر آیا تھا، جو اس کے آفس سے قریب ایک بنک میں کسٹمر سروس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی۔ کچھ عرصہ تو عاطف اور اس کے افئیر کا خاندان میں خوب چرچا ہوا، لیکن یہ بات زیادہ عرصہ چل نہ سکی، کیوں کہ خالہ صغریٰ کو اپنے بیٹے کی مرضی کی بہو بیاہ کر لانا ہی پڑی۔ خالہ صغریٰ چاہتی تھیں کہ وہ کوئی اپنے خاندان کی لڑکی بیاہ کر لاتیں۔ یوں بیٹا تو ان کے ہاتھ میں رہتا۔ کہتے ہیں ناں کہ جب تک دل میں نیت اور گمان اچھا نہ ہو، تو نتائج بھی اپنی مرضی کے نہیں نکلتے۔ یہی خواہش اگر خالہ اپنے خاندان میں سے کسی گھر کو بھائی سوچ کر دل میں لاتیں، تو کیا پتا رب پوری بھی کر دیتا۔ در اصل ہم لوگ اتنے خود غرض ہیں کہ اپنے فائدہ کے علاوہ کبھی اپنے ذہن میں کچھ لاتے ہی نہیں ہیں۔ جہاں ہمیں اپنا مفاد دکھائی دیتا ہے، وہاں رشتے داری جوڑنے کی ہماری اولین خواہش بن جاتی ہے۔

 

اور پھر بری نیت کا برا نتیجہ سامنے جلد ہی آ جاتا ہے۔ عاطف اور اس کی بیوی کے آئے دن کے لڑائی جھگڑے جلد ہی خالہ صضریٰ کے گھر کی سنسنی خیز بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہونے لگے۔ جس کا مظاہرہ نیہا نے ابھی ابھی کر دیا تھا۔

 

’’ اچھا ! سنو ! زارا سے بات ہوئی تھی۔ وہ نکاح والے دن اپنی سہیلی کو لے کر آئے گی، لیکن کہہ رہی تھی کہ میک اپ کا سامان آپ کو اپنا دیں، تو پھر وہ گھر آ کر تیار کر جائے گی، مگر میک اپ کٹ اور باقی سامان کا بندوبست کرنا ہو گا۔ میں تو یہی سوچ رہی ہوں۔ ‘‘

 

’’ آپی ! آپ کیوں فکر کرتی ہیں، ہو جائے گا سارا بندوبست۔ میں کچھ آمنہ سے پتا کر لوں گی۔ ویسے بھی امی کہہ رہی تھیں کہ میک اپ کے لیے کچھ چھوٹی موٹی چیزیں خریدنی ہیں۔ آپ یہ ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں۔ ‘‘

 

مایا یہ کہہ کر اپنی کتابیں کھول کر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی اور ان کی امی اندر داخل ہوئیں۔

 

’’ امی ! غالباً آپ تو بازار گئی تھیں، پھر اتنی دیر کہاں لگ گئی۔ ‘‘ نیہا نے قدرے تشویش سے اپنی امی سے پوچھا۔

 

’’ ارے بیٹا ! کیا بتاؤں، گئی تو میں بازار ہی تھی، لیکن راستے میں کوثر مل گئی، اس نے بتایا ہے کہ صغریٰ کے گھر میں طوفان برپا ہو گیا ہے۔ ‘‘

 

’’ آئے ہائے … امی ! کیا ہو گیا ہے خالہ صغریٰ کے گھر میں ؟ ‘‘

 

نیہا مزید پریشان ہو گئی۔

 

’’ نیہا ! کیا بتاؤں، وہ عاطف کی بیوی ہے ناں ! اسکا چکر ہے کسی اور لڑکے کے ساتھ، اس لیے تو وہ عاطف کے ساتھ روزانہ لڑائی جھگڑا کرتی رہتی ہے۔ بے چارے عاطف کا تو ذرا سا منہ نکلا ہوا تھا۔ صغریٰ آپا تو الگ رو رو کر خود کو ہلکان کیے جا رہی تھیں۔ وہ کیا نام ہے اس بد بخت کا … ہاں ! انیتا، وہ تو بے شرم ایسے بنی پھرتی تھی کہ مت پوچھو، بے چارہ لڑکا خود منہ چھپاتا پھر رہا تھا، میرے سامنے تو آیا ہی نہیں، اپنے کمرے میں بند رہتا ہے۔ تمھاری خالہ بتا رہی تھیں کہ دو دن سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے۔ بے وفائی ہوتی ہی بڑی بری شے ہے، جس کے ساتھ ہوتی ہے، وہی جانتا ہے کہ اس پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے … ‘‘

 

’’ امی ! عاطف بھائی کو بھی تو خاندان بھر میں سے کوئی لڑکی نہیں ملی تھی۔ لے دے کر ایسی ویسی پسند آ گئی اور اسے بیاہ کر بھی لائے، اب بھگتیں ناں ! خالہ سکینہ کی بچیاں کتنی اچھی ہیں، سحر کتنی پیاری لڑکی ہے اور ہم عمر بھی تھی۔ خوش شکل بھی تھی اور اب تو اس کا ایم۔ اے بھی مکمل ہو چکا ہے۔ بس چھوڑیں امی ! آپ کیوں ٹینشن لیتی ہیں۔ جس نے جس طرح کا کیا ہے، اسے ویسا ہی بھرنا ہے۔ ‘‘

 

نیہا لگاتار بولتی چلی گئی تھی۔

 

’’ آپی ! مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ بھلا یہ بات خاندان بھر میں بتانے والی تھی۔ ان لوگوں کو اپنی عزت اور بے عزتی کا کچھ خیال نہیں ہے۔ ‘‘

 

’’ مایا بیٹا ! وہ کوثر جو ہے ناں ! وہ ان کے گھر کا بھیدی ہے، اس نے پورے محلے میں انیتا کے لچھنوں کا ڈنکا بجایا ہے۔ ورنہ ! وہ خود کہاں کسی کو بتاتے ہیں۔ ‘‘

 

’’ امی ! توبہ کریں ایسی کام والیوں سے۔ خالہ صغریٰ بھی اسے ہی گھر میں اسے رکھ کر بیٹھی ہیں، کوئی اور رکھ لیں۔ ‘‘

 

مایا نے اتنا کہہ کر کتابیں سمیٹیں اور کمرے کی طرف چلی گئی۔

 

اب نیہا کافی دیر تک اپنی امی سے اس قصے کی مزید تفصیلات پوچھتی رہی۔

 

مایا کتابیں کھولے پڑھنے کی کوشش کرتی رہی، لیکن ساتھ ساتھ اپنے دل سے بھی ہم کلام رہی۔

 

’’ پتا نہیں کیسے لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے دل کے جذبات ہر نئے شخص کے لیے بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ پرانے کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔ یہی انیتا تھی، جس نے کئی ماہ تک عاطف بھائی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسائے رکھا اور جب گھر بس گیا، تو پھر کہیں اور … اللہ تعالیٰ ہی بچائے ایسے لوگوں سے … پتا نہیں کیا مجبوری ہوتی ہے ایسے لوگوں کی کہ وہ اپنی وفاؤں کو کسی ایک کے نام نہیں کرتے … بھٹکتے ہی پھرتے ہیں۔ خیر چھوڑو ! ہمیں کیا۔ ‘‘

 

اب اس نے دل ہی دل میں موضوع بدلتے ہوئے کتابوں کی طرف دھیان دیا۔

 

اگلے کچھ دنوں تک اس قصے کے بارے میں کوئی نئی اطلاع نہ ملی۔ مایا، نیہا اور امی کے ساتھ کئی بار بازار کے چکر لگاتی رہی تا کہ شادی کی تیاریاں مقر رہ وقت تک مکمل ہو سکیں۔ افضل صاحب جو کچھ کماتے، اپنی بیوی کے ہاتھ میں تھما دیتے، لیکن اسد نے کبھی اپنے ماں باپ سے یہ تک نہ پوچھا کہ کیا انتظامات کرنے ہیں اور کیسے ہو گا یہ سارا بندوبست ؟ آخر کار رات کے کھانے پر افضل صاحب نے اپنی بیوی کے کہنے پر اسد سے بات شروع کی۔

 

’’ اسد بیٹا ! نیہا کے فرنیچر کا تو میں نے بندوبست کر دیا ہے اور وہ ان شا ء اللہ اگلے ہفتے تک تیار ہو جائے گا۔ باقی جو جہیز کا چھوٹا موٹا سامان ہے، وہ تمھاری امی ساتھ ساتھ تیار کر رہی ہیں، لیکن بیٹا !میں سوچ رہا تھا کہ سب کچھ کر کرا کر بھی ایک بڑی ذمے داری تمھارے کندھوں پر آ ہی جائے گی … ‘‘

 

اس سے پہلے کہ افضل صاحب تفصیل بتاتے، اسد تیزی سے بول اٹھا۔

 

’’ ابو جی ! بتائیں کہ باقی کیا رہ گیا ہے، جو آپ کو میری قلیل تنخواہ میں پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے ؟ ‘‘

 

بیٹے کی بات سنتے ہی ان کا دل کٹ کر رہ گیا۔

 

’’ نہیں … بیٹا ! کچھ نہیں رہتا، اللہ تعالیٰ وارث ہے، وہ پورے کر دے گا۔ ‘‘

 

اتنا کہہ کر وہ اپنا نڈھال سا وجود لیے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

 

نیہا، مایا اور عبید تینوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر وہ افسردہ سے ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔

 

مایا اپنی والدہ سے مخاطب ہوئی، جو کچن میں روٹی بنانے میں مصروف تھیں۔

 

’’ امی جان ! ایک بات تو بتائیے کہ آپ نے ابو سے کہا تھا کہ وہ بھیا سے بات کریں ؟ ‘‘

 

’’ ہاں … بیٹا ! کیوں کیا ہوا ؟ میں تو بس اتنا سا کہا تھا کہ شادی کے کھانے کی ذمہ داری اسد پر ڈال دیں … مایا ! اب ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں کہ ہم کھانے کا بندوبست کر سکیں، لیکن ہوا کیا ہے ؟ ‘‘

 

’’ امی جان ! اسد بھیا ہم میں سے کسی بھی ذمہ داری اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے، حالاں کہ وہ اس قابل ہیں۔ آپ یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ وہ ہم سب کا وجود اس گھر میں برداشت کر کے بیٹھے ہیں اور کبھی تھوڑا بہت گھر کے خرچے میں مدد کرتے ہیں، ورنہ ! آپ کو تو ان کے بارے میں سب پتا ہے۔ پلیز ! آیندہ ابو کو مت تنگ کیجیے گا۔ آپ کے مان، آپ کے بھروسے سے قائم ہیں۔ اسد بھیا سے آپ خود بات کیا کریں۔ ‘‘

 

مایا یہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ وہاں نیہا پہلے سے ہی اپنے گھٹنوں میں سر دے کر روئے جا رہی تھی۔

 

’’ ارے آپی ! یہ کیا بات ہوئی ؟ یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟ پلیز ! اٹھیں … ‘‘

 

مایا نے اپنی بہن کا سر اوپر اٹھا کر اسے دلاسا دینے کی کوشش کی، تو نیہا بے اختیار اس کے گلے لگ گئی۔

 

’’ مایا ! تمھیں پتا ہے ناں ! کہ میں نہیں چاہتی کہ ابو جان پر کوئی ذرا برابر بھی اضافی بوجھ پڑے۔ وہ پہلے سے ہی اتنا کچھ کر رہے ہیں اور اوپر سے آج اسد بھیا کی اتنی بے حسی۔ مجھے نہیں کرنی یہ شادی وادی، تم جا کر امی کو منع کر دو۔ ‘‘

 

’’ آپی ! کیا ہو گیا ہے آپ کو ؟ کیا آپ اسد بھیا کی عادت سے واقف نہیں ہیں ؟ اور آپ نے سوچ کیسے لیا کہ آپ شادی نہیں کریں گی ؟ اگر آپ شادی نہیں کریں گی، تو میری باری کیسے آئے گی ؟ خدا کے لیے کچھ میرا ہی خیال کر لیں۔ ‘‘

 

یہ سن کر نیہا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ مایا نے اپنی بہن کا موڈ خاصا خوش گوار کر دیا تھا۔ مگر وہ دل ہی دل میں بہت پریشان تھی کہ اگر وہ آج کسی قابل ہوتی، تو آج اپنے باپ کا کچھ نہ کچھ بوجھ ہی بانٹ لیتی۔

 

ادھر ردا بھابھی کافی دیر تک اسد بھیا کے ساتھ بڑے سکون سے باتیں کرتی رہیں، پھر کھانا کھا کر دونوں اپنے کمرے میں سونے چلے گئے۔ کچن کے ساتھ والا کمرا اسد بھیا کا تھا جب کہ باقی دو کمرے باقی لوگوں کے استعمال میں تھے۔ نیہا اور مایا کا کمرا مشترکہ تھا جب کہ عبید امی ابو کے کمرے کے ایک کونے میں ایک سنگل بیڈ پر سوتا تھا۔ گھر چوں کہ سرکاری تھا، اس لیے نارمل سائز کے کمرے تھے اور وہ بھی پرانی طرز کے بنے ہوئے تھے۔ بڑا سا ایک صحن تھا، جو کہ پوری طرح سے پختہ نہیں تھا، کہیں کہیں سے ٹوٹا اکھڑا ہوا سیمنٹ جس میں سے کچی مٹی نکل آئی تھی۔ گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے تھے، اس لیے مکان کی مرمت کرانے کی نوبت نہ آ سکی تھی۔ لہٰذا جیسا بھی تھا، گزارہ کر رہا تھا۔

 

اسد کے اس رویے کے بعد افضل صاحب اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئے تھے اور سونے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ ظاہری بات ہے، جب بیٹی کی شادی سر پر ہو، اور پیسے کا بھی کوئی خاص انتظام نہ ہو، تو باپ کو کہاں نیند آتی ہے اور ماں کے لیے بھی سکون کی کوئی گھڑی نہیں ہوتی۔ وہ رات انھوں نے کروٹیں بدل بدل کر سے سکونی اور بے چینی سے گزاری۔

 

اگلے دو دن مایا اپنے امتحانوں کی تیاری میں مصروف رہی۔ ٹھیک چار دن بعد اس کا انگلش کا پیپر تھا، مگر وہ چاہتے ہوئے بھی اپنا دھیان کتاب پر رکھ نہ پائی۔ اسے مسلسل یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ اب کس سے ادھار مانگا جائے۔ لے دے کر خالہ صغریٰ کا نام ذہن میں آتا رہا۔ پھر وہ اٹھ کر سیدھا اپنی امی کے پاس چلی گئی، جو کہ اس وقت کچن میں ہنڈیا پکا رہی تھیں۔

 

’’ امی ! وہ میں سوچ رہی تھی کہ کیوں ناں ! خالہ صغریٰ سے کچھ پیسے ادھار لے لیتے ہیں اور بعد میں انھیں لوٹا دیں گے۔ ‘‘

 

’’ مایا ! تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، ہم نے بندوبست کر لیا ہے۔ ‘‘

 

’’ اچھا امی ! لیکن وہ کیسے، آپ نے تو مجھے بتایا ہی نہیں۔ ‘‘

 

’’ بیٹا ! وہ تمھارے چچا حارث ہیں ناں ؟ انھیں فون کیا تمھارے ابو نے۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ کچھ دن کے بعد وہ پیسے منی آرڈر کر دیں گے۔ ‘‘

 

’’ امی ! چچا حارث کا وہ سلوک آپ کیوں بھول جاتی ہیں، جو انھوں نے پہلے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ آپ یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ یہ لوگ کبھی بھی مشکل وقت میں ہمارے کام نہیں آئے۔ چچا کی ڈیڑھ لاکھ سے اوپر تنخواہ ہے، آج تک کبھی انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کے حالات جھوٹے منہ بھی پوچھے ؟ اب بیٹی کی شادی ہے، کبھی انھوں نے ہمارے گھر میں ایک بار بھی خود فون کیا ہے اور تایا سکند کا بھی مجھے پتا ہے کہ وہ کتنے ہمارے خیر خواہ ہیں۔ ‘‘

 

’’ مایا بیٹا ! میری بات سنو ! کیا تم یہ نہیں چاہتی کہ تمھاری بہن کی شادی کسی شرمندگی کے بغیر ہو جائے ؟ اور یہ تو خوشیوں کا موقع ہے، کیا ہوا، جو انھوں نے تھوڑی بہت مدد کر دی ہے، ہماری خوشیاں دو بالا ہو جائیں گی۔ ‘‘

 

’’ امی ! آپ سے ایک بات کہوں ؟ یہ جو خوشیاں اپنی عزت نفس مجروح کروانے کے بعد حاصل ہوتی ہیں ناں ! وہ خوشیاں کبھی بھی دیر پا نہیں ہوتیں۔ ان کا احساس اندر ہی اندر دم گھٹنے جیسا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے انسان ان خوشیوں کو اپنے دل کے اندر محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے، ویسے ویسے وہ اندر ہی اندر جنگل کی آگ کی طرح پھیل کر تباہی کا سبب بنتی ہیں اور اسی لیے میرے نزدیک اپنے وقار اور اپنی عزت نفس کو برقرار رکھنا بذات خود بہت بڑی خوشی ہے۔ باقی لوگوں کا تو مجھے نہیں پتا، لیکن چچا حارث کی اس امداد کے بعد میں قطعاً خوش نہیں ہوں گی۔ ‘‘

 

یہ کہہ کر مایا واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کر کے اپنی کتابوں کو دیکھنے لگی۔

 

کبھی کبھی ایک مشکل سدھارنے لگو، تو چار ہزار فکریں اور لاحق ہو جاتی ہیں۔ اب وہ دل ہی دل میں جانے کس کس کو کوسنے لگی۔

 

’’ پتا ہے، سارا قصور اسد بھیا کا ہی ہے، وہ اچھے بیٹے نہیں بن سکے، تو اچھے بھائی کیسے بنتے ؟ بھائیوں کو اتنا شوق ہوتا ہے بہنوں کی شادیوں کا، لیکن … ‘‘

 

مایا کا دل اس کی تکلیف میں مسلسل اس کے ساتھ تڑپے جا رہا تھا۔ وہ باتی کرتی جاتی، وہ سنتا جاتا، کسی راز داں کی طرح سارے راز اپنے اندر سمو لیتا۔ یہی بات مایا کے لیے سکون کا سبب بنتی کہ سب کڑوی کسیلی باتیں اس کی اپنی ذات تک محدود تھیں۔ وہ کسی اور کو اپنے جذبات اور خیالات سے آگاہ نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ شاید لڑکیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ جب راز دل کی چار دیواری سے باہر نکلتے ہیں، تو لوگ وہی راز ہمارے ہی پاؤں کی زنجیریں بنا ڈالتے ہیں۔ پھر انسان ان ہی نام نہاد راز داروں کے قدموں میں لڑکھڑاتا ہوا گر ہی جاتا ہے۔ در اصل ہماری کمزوریوں کو جاننے کا تجسس ہی لوگوں کو ہمارے قریب لاتا ہے اور جب ہم اپنا آپ کھول کر ان کے آگے رکھ دیتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں اپنی دکھتی ہوئی رگیں تھما دیتے ہیں، تو پھر یہ ان کی مرضی کہ وہ ہمیں اس غلطی پر کس نوعیت کی موت سے کتنی بار گزارتے ہیں، کیوں کہ آج کے دور میں شاید بھروسا کرنا ناقابل تلافی جرم ہے۔

 

مایا ایک ایسی لڑکی تھی، جو لوگوں کے تجربات سے ہی سبق سیکھ لیتی تھی۔ خود پر لوگوں کی چیزوں کو اثر انداز ہونے سے پہلے ہی ان کا ایسا تجزیہ کر لیتی کہ نتیجہ ہمیشہ اپنے حق میں ہی نکالتی۔ وہ واقعات کو اپنے طور پر ہی حل کرتی۔ شاید مشاہدہ کرنے والوں کو سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے تجربات سے سبق سیکھ کر اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکتے ہیں۔

 

مایا کمرا امتحان میں بیٹھی تیز تیز لکھنے میں مصروف تھی کہ ایک دم اسے آمنہ کی سرگوشی سنائی دی۔

 

’’ مایا کی بچی ! میری بھی سن لو۔ سوال نمبر پانچ کا جواب جلدی سے بتاؤ۔ ‘‘

 

مایا نے فوراً سوالیہ پیپر کے ایک کونے میں جواب لکھ کرا کی طرف موڑ دیا۔ آمنہ نے ایک نظر اس کے سوالیہ پیپر پر ڈالی اور پھر جلدی سے لکھنے میں مصروف ہو گئی۔ اس طرح جس چیز کی اسے سمجھ نہ آئی، وہ مایا سے پوچھتی رہی۔ تین گھنٹے کا پیپر مایا دو گھنٹے اور بیس منٹ میں کر کے فارغ ہو چکی تھی، لیکن آمنہ کی وجہ سے آخر تک کمرا امتحان میں بیٹھی رہی اور اپنے پیپر کو بار بار پڑھ کر وقت گزارتی رہی۔

 

اب پیپر دینے کے بعد وہ دونوں باقی کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر اپنے جوابات پر تبصرے کرے لگیں۔ مایا قدرے مطمئن تھی کہ جو جوابات اس نے اپنی جوابی کاپی پر لکھے تھے، وہ درست تھے۔ اسی طرح باقی کے دو پیپرز بھی بہت اچھے ہو گئے۔ اب مایا مکمل طور پر نیہا کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔

 

’’ امی ! وہ چچا حارث نے رقم بھجوا دی تھی ؟ ‘‘ مایا نے اپنی امی سے استفسار کیا۔

 

’’ نہیں … مایا ! ‘‘ وہ جھجھکتے ہوئے بولیں۔ ’’ ان کا کل کا وعدہ تھا، مگر کل تو نہیں ملے۔ اب آج تمھارے ابو انھیں فون کرتے رہے ہیں، ان کا فون بھی بند جا رہا ہے۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر دوبارہ فون کرتے ہیں۔ ‘‘

 

’’ واہ … امی ! دیکھ لیا آپ نے ! کیا کہا تھا میں نے آپ سے ؟ یہ وہی لوگ ہیں، جو اسد بھیا کی شادی پر کہتے تھے کہ آپ لوگ بے فکر ہو جائیں، ہم سب انتظامات دیکھ لیں گے، لیکن انتظامات دیکھنا تو ایک طرف رہا، وہ رسماً شادی پر بھی نہیں آئے تھے، حالاں کہ ہمارے گھر کی پہلی شادی تھی۔ ‘‘

 

’’ مایا ! تم چپ کرو، امی ابو کو جو بہتر لگتا ہے، وہ انھیں کرنے دو۔ تم کیوں بڑی بن جاتی ہو ؟ ‘‘ نیہا نے مایا کو جلدی سے ٹوکتے ہوئے کہا۔

 

’’ آپی ! میں بڑی اس لیے بن جاتی ہوں، کیوں کہ آپ لوگ چھوٹے بن جاتے ہیں۔ ایک معمولی سی عقل و فہم رکھنے والا انسان بھی بار بار ایک گڑھے میں نہیں گرتا۔ مگر آپ لوگ بار بار اسی کھائی میں گرنا چاہتے ہیں، جہاں سے کئی بار لہو لہو ہو کر نکلے ہیں۔ مرضی ہے آپ لوگوں کی ! لیکن میری ایک بات یاد رکھیے گا کہ یہ ہمارے چچا اور تایا لوگ ہمارے ساتھ اس بار بھی کوئی انوکھا سلوک نہیں کرنے والے۔ غلط فہمی ہے آپ لوگوں کی وہ … ‘‘

 

’’ مایا ! بس بھی کرو۔ جاؤ جا کر اپنے کپڑے استری کرو۔ ‘‘ اس کی امی نے اسے سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا۔

 

وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے ایک دم چلی گئی۔

 

’’ نیہا ! اس لڑکی نے تو حد کر دی ہے۔ یہ لڑکی کچھ زیادہ ہی بڑی بڑی باتیں نہیں کرنے لگی اپنی عمر سے۔ انسے سال کی ہے ابھی، لیکن باتیں بڑی بوڑھی عورتوں کی طرح کرنے لگی ہے۔ تم بھی تو ہو کہ مجال ہے، کبھی یوں ٹر ٹر کی ہو۔ ‘‘

 

’’ اوہ ہو … امی ! یہ سب کالج جانے کا کمال ہے۔ وہاں طرح طرح کی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ وہاں سے ایسی باتیں سیکھ کر آتی ہے۔ چھوڑیے آپ ! وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی سدھر جائے گی۔ ‘‘

 

شاید اسی لیے ہم ابھی تک ترقی نہیں کر سکے، کیوں کہ جوں ہی لڑکی اپنے حق حقوق کے بارے میں بات کرنے لگی، وہیں تعلیمی اداروں کو مورد الزام ٹھہرانا شروع ہو جاتا ہے۔ جو ادارے شعور پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں، وہی ادارے مختلف الٹے سیدھے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔

 

نیہا کی شادی میں چار دن رہ گئے تھے۔ اب تک چچا حارث نے پیسوں کا انتظام تو دور کی بات، فون پر خبر تک نہ لی تھی۔ بھائی کا نمبر دیکھتے ہی فون بزی کر دیتے یا موبائل پاورڈ آف کر دیتے۔ اب افضل صاحب کو شدید فکر لاحق ہوئی۔ رمیل کے ابا عنایت ماموں کئی بار گھر آئے کہ کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً گھر آ کر دیکھتے کہ کسی مدد کی تو ضرورت ہو، تو وہ کر سکیں۔ آخر بہن بھائی اسی لیے تو ہوتے ہیں کہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آ سکیں۔

 

اور پھر آخر کار وہی کرنا پڑا، جس کی تجویز مایا نے دی تھی اور اسے بری طرح سے رد کر دیا گیا تھا۔ اب اسی پر عمل درآمد کیا گیا۔ یوں خالہ صغریٰ سے پچاس ہزار کی بھاری رقم بطور قرضہ لی گئی، جو کہ ان کے لیے زیادہ مسئلہ نہیں تھی۔ عاطف کے بنک بیلینس کے ساتھ ساتھ خالہ صغریٰ کی اپنی کافی سیونگ تھی، جو کہ ان کے شوہر کی طرف سے ان کے حصے میں آئی تھی۔ اسد بھیا نے ایک بار بھی جھوٹے منہ سے اپنے والدین سے نہ پوچھا۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر امداد کا مطلب روپیا پیسا ہو بلکہ اپنوں کے دیے ہوئے حوصلے بھی کبھی کبھی ہر چیز سے بڑھ کر تقویت دیتے ہیں۔ انسان میں وہ قوت بھی آ جاتی ہے، جو تھوڑے پر قناعت کرنا سکھا دیتی ہے اور وہ بھی خوشی سے۔ مگر شاید افضل صاحب کی اپنی قسمت میں ان کے بڑے بیٹے کی طرف سے وہ آسرا اور سہارا لکھا ہی نہیں تھا اور پھر وقت کون سا ایک جیسا رہتا ہے اگر آج کانٹوں کے بچھونے ہیں، تو کل کو پھول بھی کھلیں گے۔ ہر موسم ہمیشہ نہیں رہتا۔ والدین کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتے ہوئے اولاد اپنے آنے والے کل کے بارے میں سوچ لے، تو وہ اس خوف سے ضرور لرز جائیں گے کہ کل کو ان کا وقت بھی ان کے والدین جیسا آنا ہے۔ ان کا موجودہ کردار ان کے بچے نبھا رہے ہوں گے۔ ایسے تو نہیں کہتے کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے۔

 

آخر کار نیہا کی شادی بڑے اچھے طریقے اور خوش اسلوبی سے طے پا گئی۔ وہ خیر سے اپنے گھر کی ہو گئی۔ رمیل انتہائی شریف لڑکا تھا اور ماموں زاد ہونے کے باوجود وہ نیہا کے گھر کے چکر بار بار نہیں لگاتا تھا۔ چھچھورے لڑکوں کی طرح پیغام رسانیاں بھی کبھی نہ کیں۔ اس کی منگنی تقریباً چھے ماہ پہلے ہو چکی تھی۔ اس دوران وہ کوئی چیز نیہا کے لیے پسند کرتا، تو کسی خوشی کے موقع پر اپنی امی کے ہاتھ نیہا کو بھجوا دیتا اور شادی کے بعد وہ نیہا کا خیال یوں رکھ رہا تھا جیسے کوئی محبت کرنے والا شوہر اپنی بیوی کا رکھتا ہے۔

 

رمیل کا پنا ویب ڈیزاننگ کا بزنس تھا اور اس میں وہ ہر ماہ اچھا خاصا کما لیتا تھا۔ باہر کی کمپنیوں سے کنٹریکٹ مل جاتے، تو وہ گھر بیٹھ کر بھی اکثر کام کرتا رہتا تھا۔ ماموں عنایت کی اپنی کپڑے کی دکان تھی اور کافی منافع بخش تھی۔ رمیل کی دو بہنیں تھیں، جو کہ اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھیں۔ ماہ نور نے میٹرک کا امتحان دے رکھا تھا اور علیشا پری میڈیکل کے فائنل ایئر میں تھی۔ وہ دونوں اپنی بھابھی کا دل و جان سے خیال رکھتی تھیں۔ ٭ ٭ ٭

 

’’ میری فلائٹ E 716 ٹرمینل تھری پر لینڈ کرے گی اور میں دوبئی کے وقت کے مطابق دن ٹھیک 2: 15 پر وہاں پہنچ جاؤں گا۔ ‘‘

 

’’ ٹھیک ہے دانیال ! باقی باتیں ملاقات ہونے پر ہوں گی ان شا ء اللہ۔ ‘‘

 

’’ جی ٹھیک ہے شاویز صاحب ! میں ٹرمینل تھری کے باہر آپ کا ویٹ کروں گا۔ ‘‘

 

شاویز مرزا راولپنڈی ڈی ایچ اے کا رہائشی تھا۔ اٹھائیس سالہ شاویز ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد سے ہی پراپرٹی کے بزنس میں آ گیا تھا، جو کہ اس کا فیملی بزنس تھا۔ شاویز کے والد نے اس بزنس کو چھوٹے پیمانے پر شروع کیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ پورے پنڈی اور اسلام آباد کی مشہور جگہوں کی رہائشی اور کمرشل پراپرٹی ان کی Exclusive پراپرٹی بن گئی۔ تین سال پہلے ایک کار ایکسیڈینٹ میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ شاویز کے دو بڑے بھائی ریحان اور شامیر اسی بزنس سے منسلک تھے، مگر وہ پچھلے دو سال سے انگلینڈ میں مقیم تھے اور وہ وہاں پراپرٹی کا بزنس بہت اچھی طرح سے چلا رہے تھے۔ برمنگھم شہر کے مختلف علاقوں میں ان کی کافی پراپرٹی تھی۔ اب ان تینوں بھائیوں نے دوبئی میں جائیداد خریدنے اور بیچنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ وہ وہاں اپارٹمنٹ خریدتے اور کچھ عرصے کے بعد اچھے خاصے منافع کے ساتھ بیچ دیتے۔ دوبئی کی پراپرٹی کا سارا کاغذی کام شامیر کے ذمے تھا۔ وہ مہینے میں کم سے کم دو چکر تو لازمی دوبئی کے لگاتا تھا۔ ان کی تین بڑی بہنیں تھیں، جو کہ شادی شدہ تھیں۔ ایک بہن ارمینہ شادی کے بعد بھی اپنی ماں کے پاس رہ رہی تھی، کیوں کہ اس کا شوہر بیرون ملک مقیم تھا۔ اصل میں ارمینہ کا کنیڈا کا ویزا دو بار ریجیکٹ ہو چکا تھا۔ اس کی شادی کو ایک سال بیت چکا تھا، لیکن ابھی تک اس کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ باقی دو بہنیں شفق اور آرزو لاہور میں مقیم تھیں۔ ان کی شادی ہوئے چھے سات سال بیت چکے تھے۔ شفق کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی جب کہ آرزو کی دو بیٹیاں تھیں۔ آرزو کا شوہر عمیر ایک نجی بنک کا برانچ منیجر تھا جب کہ شفق کا شوہر اپنی ڈاکٹری کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ ہاؤس جاب کرتا رہا، پھر اس نے بطور جنرل فزیشن کے اپنا نجی کلینک کھول لیا تھا۔ شاویز کی والدہ گھریلو خاتون تھیں اور شوہر کی وفات کی بعد سے کبھی کبھی فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں۔

 

’’ ارمینہ ! ماما کہاں ہیں ؟ ‘‘

 

ارمینہ شاویز سے دو سال بڑی تھی، اس لیے وہ شروع سے ہی اس کا نام پکارا کرتا تھا۔

 

’’ شاویز ! میرا خیال ہے کہ ماما باہر لان میں ہوں گی۔ ‘‘

 

’’ اچھا ! میں خود دیکھ لیتا ہوں، میری فلائیٹ کا وقت ہو رہا ہے۔ ‘‘

 

’’ ماما جانی ! کہاں ہیں آپ ؟ ‘‘ شاویز کار پورچ سے گزرتا ہوا لان میں ہوا، تو وہ منی پلانٹ کی بیل کی سیٹنگ کر رہی تھیں۔

 

’’ ماما جانی ! میری بارہ بج کر پندرہ منٹ پر دوبئی کے لیے فلائیٹ ہے۔ میں بس آدھے گھنٹے تک نکل رہا ہوں۔ ‘‘

 

’’ اچھا شاویز بیٹا ! اللہ تمھیں وہاں خیریت سے لے جائے۔ وہاں کتنے دن کا اسٹے ہے ؟ ‘‘

 

’’ ماما ! ابھی تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن جتنا ممکن ہو سکا، میں جمیرا والے اپارٹمنٹ کے کاغذات مکمل کر کے دانیال کے ہینڈ اوور کر کے واپس آ جاؤں گا۔ کچھ ضروری دستخط کرنے ہیں اور ایک دو اور پراپرٹیز ہیں، جو کہ بیلو مارکیٹ پرائس ہیں، ہو سکتا ہے کہ میں وہ خرید لوں۔ وہاں جا کر مکمل معلومات حاصل کروں گا اور شامیر اور ریحان بھائی سے مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہو گا۔ بس ! آپ دعا کیجیے گا۔ ‘‘

 

’’ کیوں نہیں بیٹا ! میری دعائیں تو ہمیشہ تم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت کامیابیاں دے … آمین ! خیر سے جاؤ اور خیر سے ہی واپس آؤ۔ ‘‘

 

فلائٹ مقر رہ وقت سے پندرہ منٹ پہلے دوبئی کے ٹرمینل تھری پر لینڈ ہوئی تھی۔ شاویز اپنا ہینڈ کیری ( لیپ ٹاپ ٹرالی ) اٹھا کر باہر امیگریشن کاؤنٹر پر لگی لمبی لائن میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ تقریباً پندرہ منٹ کے بعد وہاں سے کلیئرنس کے بعد اس نے دانیال کو کال کی۔

 

’’ دانیال ! آپ کہاں ہیں ؟ ‘‘

 

’’ سر ! میں باہر ہی ہوں اور آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘

 

شاویز نے اپنا میڈیم سائز بیگ کلیکٹ کیا اور تیزی سے ایگزٹ کے سائن فالوو کرتا ہوا باہر نکل گیا۔

 

کچھ ہی دیر کے بعد وہ جمیرا لیک ٹاور میں واقع پلیڈیم ٹاور کی بلڈنگ میں موجود تھا۔ تیسویں فلور پر واقع دو بیڈ روم والا اپارٹمنٹ شاویز مرزا کی اپنی پراپرٹی تھی، جہاں وہ دوبئی آنے پر ٹھہرتا تھا یا پھر کبھی ریحان یا شامیر کا دوبئی چکر لگتا، تو یہ ان سب کا مشترکہ فلیٹ ہوتا۔

 

اس فلیٹ سے ویو بہت ہی خوب صورت تھا۔ ایک تو یہ اپارٹمنٹ پینتیس منزلہ عمارت کے تیسویں فلور پر تھا، جہاں سے آدھے سے زیادہ دوبئی دکھائی دیتا تھا۔ مرینہ کی ساری بلڈنگز ہی تقریباً اپنی تمام تر خوب صورتیوں کے ساتھ اس اپارٹمنٹ کے بیڈ روم اور لاؤنج میں شیشے والے سلائیڈنگ ڈور سے دکھائی دیتیں۔ ان سلائیڈنگ ڈورز کو کھول کر باہر چھوٹا سا ٹیرس تھا جہاں سے یہ محسوس ہوا تاکہ دنیا کی ساری خوب صورتی سمیٹ کر آرکیٹیکچرز نے اس چھوٹے سے شہر کو بلند و بالا عمارتوں کا شہر بنا دیا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک عمارت اور ہر عمارت اپنے منفرد ڈیزائن اور ساخت کے لحاظ سے دنیا کی خوب صورت ترین عمارت تھی۔ مرینہ میں مصنوعی طور پر بنائی جانے والی کنال اپنی مثال آپ تھی۔ گہرے سبز رنگ کا پانی اس علاقے کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کرتا تھا۔ عمارتوں کے بیچوں بیچ یہ کنال لا تعداد کشتیوں اور بڑے بڑے بحری جہازوں سے مزین سیاحوں کا من پسند سپاٹ تھا، جہاں اکثر لوگ نہر کے ساتھ ساتھ لمبی واک کرتے نظر آتے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ارد گرد واقع دیو قامت عمارتوں کی روشنیوں سے دل لبھاتے، کچھ لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر پانی کے ٹھنڈے قطروں سے اپنے چہروں کو ترو تازہ کرتے اور پانی میں موجود لا تعداد چھوٹی بڑی مچھلیوں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے۔ متحدہ عرب عمارات کی سات ریاستوں میں سے دوبئی ہی وہ میں علاقہ ہے، جو کاروبار کے لحاظ سے میں علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں آ کر انویسٹمنٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گو کہ موسم کے لحاظ سے دوبئی اتنا قابل قبول علاقہ نہیں ہے مگر پیسے کمانے اور بزنس کرنے کے لیے آئیڈیل علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

 

اب شاویز فریش ہو کر چائے کا کپ لیے بالکونی میں کھڑا ہو کر باہر کا ویو دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ہیڈ فونز میں ایک کے بعد ایک گانا سن رہا تھا۔ دانیال سے میٹنگ شام سات بجے کی طے ہوئی تھی، اس لیے وہ کچھ دیر آرام کر کے فریش ہونا چاہتا تھا۔ کچھ وقت بالکونی میں گزار کر وہ اب لیپ ٹاپ کھول کر کام کرنے لگا۔ ٹھوڑی دیر کے بعد ڈور بیل ہوئی اور اس کا پسندیدہ ہاٹ اینڈ سپائسی کا مخصوص چائنیز کھانا لیے ڈیلوری والا باہر کھڑا تھا۔ اس نے کچھ اضافی رقم بطور ٹپ دی اور کھانا لے کر کچن میں چلا گیا، جو کہ لاؤنج کے ایک طرف فرانسیسی طرز کا اوپن تھا، وہ پاکستانی روایتی کچن سے بالکل مختلف تھا۔ وہ کاؤنٹر پر ایک ڈیش میں کھانا رکھ کر پھر سے اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ گیا۔

٭ ٭ ٭

 

 

 

باب ۲

 

 

’’ ارے آمنہ ! تم یہاں بیٹھی ہو اور میں تمھیں پورے کالج میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی ہوں اور میڈم جی ! آپ فلاسفی کلاس میں کیوں نہیں آئیں ؟ مس فوزیہ کاظم خاص طور پر تمھارے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ بچو ! اگر تم پکڑی گئیں، تو پریڈ چھوڑنا تمھیں بہت مہنگا پڑے گا۔ ‘‘

 

’’ مایا یار ! یہ فلاسفی کا مضمون مجھے انتہائی بورنگ لگتا ہے۔ ‘‘

 

’’ واٹ … ! ! ! تو پھر اسے منتخب کیوں کیا تھا ؟ ‘‘

 

’’ وہ تو میں نے سنا تھا کہ اس کا سائیکالوجی کے ساتھ بہت اچھا میچ ہے، مجھے تو ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔ ‘‘

 

’’ آمنہ ! فلاسفی اور منطق میرے پسندیدہ مضمون ہیں اور پارٹ فرسٹ میں جس طرح مس فوزیہ نے یونانی فلاسفرز کو Explain کیا تھا، ارسطو، افلاطون، ان سب نے دانائی کی وہ باتیں بتائی ہیں کہ عام بندہ ان کے نظریات کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ پارٹ ٹو منطق میں مسلم فلاسفرز ابن سینا اور … ‘‘

 

’’ بس … بس … بس ارسطو کی دادی ! میں نے تو فلاسفی کی کلاس چھوڑی تھی، لیکن نے تو میری آؤٹ ڈور کلاس لینے لگیں۔ ‘‘

 

’’ آمنہ ! حکمت اور دانائی ہماری روز مرہ زندگی میں ہمارے بہت کام آتی ہے۔ اس سے اپنے ذہن کی گرہیں کھولو۔ بائے دا وے ! یہ سائیکالوجی پڑھی جا رہی ہے، دکھاؤ، تو کون سا ٹاپک ہے … ‘‘

 

مایا نے آمنہ سے کتاب چھینتے ہوئے اپنی گود میں رکھ کر کھولی۔

 

’’ واہ، واہ ! کیا بات ہے آپ کی۔ آمنہ جی ! تو یہ پڑھائی ہو رہی ہے۔ اتنی دور گراؤنڈ میں آ کر تن تنہا دنیا سے دور بیٹھ کر ڈائجسٹ پڑھا جا رہا ہے۔ ویسے مجھے آج تک اتفاق نہیں ہوا ڈائجسٹ پڑھنے کا … اس میں ہوتا کیا ہے ؟ ‘‘

 

’’ مایا ! کیا واقعی ہی ڈائجسٹ نہیں پڑھا کبھی … اف ! کیسی لڑکی ہو ؟ ان میں بہت اچھی کہانیاں ہوتی ہیں، اصلاحی بھی اور جذباتی بھی … محبتوں کی کہانیاں … سحر انگیز اور گہرے لفظوں میں لکھی گئی کہانیاں ! ! ! ‘‘

 

’’ ویسے ایک بات ہے … کہانیاں لکھنے والوں کی اپنی کہانی بھی تو ہوتی ہو گی آمنہ ! ایسے کیسے اتنے بڑے بڑے لفظ لکھے اور پڑھے جاتے ہوں گے اور پڑھنے والے کس طرح سمجھ لیتے ہوں گے ؟ یقین مانو ! محبت کا پنچھی ان کے دل کی منڈیروں پر کبھی نہ کبھی تو آ کر بیٹھا ہو گا۔ رشتوں کی حقیقتوں سے یہ لوگ بھی گزرتے ہوں گے۔ زندگی کی تلخیوں کے کڑوے میٹھے زہر انھوں نے بھی چکھے ہوں گے۔ یہ سب کہانیاں سب کی مشترکہ کہانیاں ہیں۔ کسی کو چھوڑ جانے کا دکھ ہو گا، تو کسی کو چھوٹ جانے کا۔ کوئی بے وفائی پر تڑپتا ہو گا۔ تو کوئی اپنی تنہائی پے … شاید سب ڈسے ہوئے ہیں اور سب کچھ دکھ درد ایک ہی مدار کے گرد گھومتے ہیں اور وہ ہے محبت … ‘‘

 

’’ ارے واہ مایا ! تم نے تو بغیر پڑھے ہی ان کہانیوں کی کیا عمدہ تشریح کر دی ہے۔ ‘‘

 

’’ آداب عرض ہے جناب ! یہ سب میں نے منطقی انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ منطق جسے آپ بورنگ کہہ کر چھوڑ آئی ہیں۔ ‘‘

 

’’ اف ! اب جانے بھی دو۔ مایا ! ویسے ایک بات ہے۔ تم بالکل صحیح کہہ رہی ہو۔ کہانیاں لکھنے اور پڑھنے والوں کی اپنی ہی کہانیاں ہوتی ہیں۔ ‘‘

 

’’ اچھا جی … ریڈر صاحبہ ! سب سے پہلے آپ ہمیں اپنی کہانی سنائیں۔ ‘‘

 

آمنہ نے شرماتے ہوئے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔

 

’’ اوہ ہو … ! ایسی کوئی بات نہیں … بس ویسے ہی … ‘‘

 

’’ اچھا ! بس ویسے ہی … چلو ! ٹھیک ہے، مان لیتے ہیں۔ ‘‘

 

مایا نے اپنی نگاہیں ڈائجسٹ پر جمائیں، تو آمنہ سے رہا نہ گیا اور اپنے دل کا حال کھول کر مایا کے آگے رکھ دیا۔

 

’’ مایا ! وہ ایشل آپا کا دیور … نیہال ہے ناں ! ‘‘

 

’’ تمھاری ایشل آپا، جو فیصل آباد میں رہتی ہیں ؟ جن کے دو بچے ہیں۔ ‘‘

 

’’ ہاں ! وہی۔ میری اور کتنی آپائیں ہیں۔ وہی ایشل آپا۔ ان کا دیور نیہال مجھے اچھا لگتا ہے … ‘‘

 

’’ اور تم اسے … ‘‘ مایا نے ڈائجسٹ بند کرتے ہوئے شرارتی سے مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

 

’’ تو ہاں ناں ! میں بھی اسے … آف کورس … یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ‘‘

 

’’ اور کتنے عرصے سے چل رہا ہے یہ سلسلہ ؟ ‘‘ مایا نے ایک اور سوال کیا۔

 

’’ تقریباً تین سال تو ہونے والے ہیں۔ آپا کو بھی اس بات کا پتا نہیں ہے۔ ‘‘

 

’’ میں بھی سوچوں کہ ادھر کالج سے ہفتے کی چھٹی ہوئی نہیں اور آمنہ میڈم فیصل آباد پہنچی نہیں۔ اب مجھے سمجھ آئی۔ ‘‘

 

’’ مایا ! میرے تو سب راز پوچھ لیتی ہو، کبھی اپنے دل کی بات بھی بتا دیا کرو۔ ‘‘

 

مایا نے بڑی مشکل سے اپنے حلق سے ابلنے والے قہقہے کو روکا۔ پھر اس نے آمنہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

 

’’ آمنہ ! ادھر دیکھو ! محبت کرنے والوں کے چہرے ایسے ہوتے ہیں، اتنے کھلے کھلے اور زندگی سے بھرپور … ‘‘

 

’’ مایا ! کیا مطلب ہے تمھارا ؟ کیا تمھیں میرا چہرہ مرجھایا ہوا لگتا ہے۔ ‘‘

 

مایا نے اس بار زور دار قہقہہ لگایا اور بولی۔

 

’’ اف … میرے اللہ ! میرا مطلب ہے کہ … میں لوگوں پر اس لیے بھروسا نہیں کرتی، کیوں کہ مجھے اپنے کمرے میں سکون سے سونے کی عادت ہے آمنہ ! میں رات بھر تکیے بھگو بھگو کر رت جگے نہیں کاٹ سکتی اور یہ تو پھر محبت کا روگ ہے … جان لیوا … جس میں رت جگے کاٹ کر، آنسو بہا کر … ایک عمر بھی گزار لو، تو لگتا ہے … بس ! ابھی آغاز ہوا ہے … نہیں آمنہ ! ڈیئر … ! میں ایسے ہی ٹھیک ہوں … ‘‘

 

’’ اچھا ! ضروری تو نہیں ہوتا کہ سب کو رت جگے کاٹنے پڑیں یا آنسو بہانے پڑیں … مجھے تو تین سال ہو گئے ہیں … نیہال سے پیار کرتے ہوئے … میں تو نہیں روئی ہوں … ‘‘

 

’’ محبت میں یہ وقت ہر کسی پر ایک نا ایک دن ضرور آتا ہے، جب وہ اپنی ہنسی کا، اپنی خوشی کا ہرجانہ ادا کرتا ہے، وہ بھی سود سمیت … پھر محبت یہ نہیں دیکھتی کہ تین سال ہوئے ہیں یا چھے سال ہوئے ہیں … پھر تو بس ! وصولی کرتی ہے … ‘‘

 

’’ اف ! تم اور تمھاری یہ فلاسفی … جاؤ بی بی ! ڈراؤ تو ناں … ! ‘‘

 

’’ ہا ہا ہا ہا ہا … ‘‘

 

مایا ایک زور دار قہقہہ لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

 

’’ آ جاؤ ! اب مسز عفت کی کلاس کا وقت ہو رہا ہے … اس سائیکالوجی کی کتاب سے یاد سے ڈائجسٹ نکال لینا … یہ نہ ہو کہ شیزو فرینک کو محبت کی کہانی کا ہیرو بن جائے کہیں … ‘‘

 

اب وہ بے تحاشا ہنستے ہنستے کلاس روم کی طرف چل دیں۔

 

’’ بھابھی ! امی کہاں ہیں … ؟ ‘‘

 

مایا کالج سے گھر میں پہنچیں، تو امی گھر پر موجود نہ تھیں۔

 

’’ مجھے تو پتا نہیں۔ مجھے بھلا کون سا بتا کر جاتی ہیں ؟ ‘‘ ردا نے بڑی ناگواری سے مایا کو جواب دیتے ہوئے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

 

کچھ ہی دیر کے بعد اس کی والدہ گھر میں داخل ہوئیں، تو وہ اس وقت صحن میں بیٹھی ان کا انتظار کر رہی تھی۔

 

’’ اوہ ہو … امی ! آپ کہاں گئی ہوئی تھیں ؟ ‘‘

 

’’ مایا ! تمھاری خالہ صغریٰ کی طرف گئی ہوئی تھی۔ مجھے عاطف کے طلاق دینے کے بارے میں سن کر بہت افسوس ہوا۔ یہ سنتے ہی میں آپا کے گھر کی طرف بھاگ اٹھی۔ ‘‘

 

’’ اوہ ہو … امی ! تو بات یہاں تک پہنچ گئی۔ ‘‘

 

’’ مایا ! وہ لڑکی انیتا کہاں گھر بسانے والی تھی بھلا … ہر دن تو لڑائی جھگڑے ہوتے تھے اور پھر اسکا چکر کسی اور لڑکے سے تھا … اس نے خود طلاق کا تقاضا کیا … تمھاری خالہ بتا رہی تھیں کہ عاطف تو اسے کسی صورت میں اسے چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، مگر جانے اس لڑکی نے کیا بات کی کہ وہ اگلے ایک گھنٹے میں کاغذات بنوا کر لے آیا۔ اسی دن انیتا گھر سے چلی گئی اپنے کپڑوں کا اٹیچی کیس اٹھا کر اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسے لینے بھی وہی لڑکا آیا تھا۔ میں تو کہتی ہوں کہ اس لڑکی کی ہمت دیکھو اور پھر عاطف کی شرافت دیکھو کہ اف تک نہ کی۔ ‘‘

 

’’ امی ! مجھے تو یہ سن کر بہت افسوس ہوا … بچارے عاطف بھیا … انسان کتنی چاہ سے کتنے مان سے اپنا گھر بساتا ہے اور پھر وہی گھر اسی طرح ٹوٹ کر بکھر جائے، تو انسان بہت مشکل سے پھر کسی پر بھروسا کر پاتا ہے … اچھا امی ! یہ بتائیں کہ خالہ صغریٰ نے پیسوں کا مطالبہ تو نہیں کیا … قرض کی رقم کے بارے میں تو کوئی بات نہیں کی ؟ ‘‘

 

’’ نہیں … ان بے چاروں کو اپنا ہوش نہیں ہے … وہ بھلا کیوں پوچھیں گے … ابھی تو ایک ہی ماہ ہوا ہے۔ دے دیں گے انھیں، ہم بھلا کون سے بھاگے جا رہے ہیں۔ آج کل ویسے بھی تمھارے ابو جان کا کام ذرا ٹھنڈا ہے۔ نیہا کی شادی کے لیے انھوں نے کچھ ایڈوانس پکڑ لیا تھا، آج کل اسی کام کو مکمل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ میں تو پریشان ہوں کہ اگلے دو تین ماہ میں گھر کا خرچا پورا کرنا بھی ایک مسئلہ بن جائے گا۔ ‘‘

 

’’ امی ! چار ماہ کے بعد میرے پارٹ ٹو کے سالانہ امتحان ہیں۔ آپ دعا کیجیے، میں امتحان دینے کے فوراً بعد ہی کوئی نوکری کرنا چاہوں گی اور عبید بھی اپنے میٹرک کے پیپرز کے فوراً بعد کوئی نہ کوئی ملازمت کرنا چاہے گا۔ وہ کوئی چھوٹا موٹا سیلزمین بن جائے گا یا مارکیٹنگ کا کام کرنا شروع کر دے گا۔ یوں ابو کا کچھ تو بوجھ ہلکا ہو گا۔ ‘‘

 

’’ اللہ تعالیٰ تم دونوں کو کامیاب کرے۔ میں تو دل سے تم دونوں کی کامیابی کی دعا کرتی ہوں … اچھا ! یہ بتاؤ کہ کیا تم نے کھانا کھا لیا ہے ؟ ‘‘

 

’’ امی ! میں تو آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ میں ابھی لے کر آتی ہوں اور دونوں مل کر کھاتے ہیں۔ ‘‘

 

پھر مایا اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔

 

’’ مایا ! ذرا دیکھو، تو باہر کون ہے ؟ ‘‘

 

’’ جی امی ! دیکھتی ہوں۔ ‘‘

 

’’ زہے نصیب … زہے نصیب ! آنٹی جی آج کیسے ہمارے گھر کا راستا بھول کر آ گئی ہیں۔ آئیے ناں ! اندر تشریف لائیے۔ امی ! دیکھیے، تو کون آیا ہے … آنٹی فاطمہ آئی ہیں۔ ‘‘

 

’’ السلام علیکم ! بہن ! کیسی ہیں آپ ؟ ‘‘

 

’’ فاطمہ بہن ! آپ نے مکان کیا بدلا کہ اس محلے کا رخ کرنا ہی بھول گئیں۔ ارے ! ہم اتنے بھی برے نہیں تھے۔ ‘‘

 

’’ ارے … نہیں، نہیں صفیہ بہن ! آپ کو تو پتا ہے کہ گھر شفٹ کرنے کے بعد ہزار طرح کے کام ہوتے ہیں۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میری بیٹی فریحہ کے بعد میری بہو سنبل نے گھر کو بڑے اچھے طریقے سے سنبھال رکھا ہے، مگر وہ پھر بھی کہتی ہے کہ امی آپ تھوڑی دیر کے لیے بھی گھر سے باہر جائیں، تو میرا دل نہیں لگتا۔ بڑے کرموں والی بچی ہے۔ فریحہ کی طرح میرا خیال رکھتی ہے … ‘‘

 

’’ اچھا … آنٹی ! حسن بھیا کی شادی کر دی ہے آپ ؟ ‘‘

 

’’ ہاں بیٹا ! الحمد اللہ … اپنوں ہی میں کی ہے … بہت اچھے لوگ ہیں۔ اس کے ابو کے کزن کی بیٹی ہے۔ اب بس افعان رہ گیا ہے، مگر اس کا ارادہ آگے پڑھنے کا ہے۔ مایا اور عبید کو اکثر یاد کرتا رہتا ہے۔ جب یہ چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے، تو اسی گلی میں سب مل کر کھیلا کرتے تھے۔ ‘‘

 

’’ بالکل فاطمہ بہن ! وقت کا تو پتا ہی نہیں چلتا۔ نیہا کی بھی شادی ہو گئی ہے۔ میرے بھائی کا بیٹا رمیل ہے۔ نیہا پر جان چھڑکتا ہے … ما شا ء اللہ … بس ! اللہ جی بچیوں کے نصیب اچھے کریں۔ جاؤ مایا ! اپنی آنٹی کے لیے چائے بنا کر لاؤ۔ ‘‘

 

’’ ارے نہیں … نہیں بہن ! میں تو کھڑے کھڑے آپ سے ملنے آئی تھی۔ ہماری فلایٹ شام سات بجے کی ہے۔ مدینہ منورہ میں حرم شریف کے اندر افعان کے ابو کی ڈیوٹی لگ گئی ہے۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ ہم سب کتنا خوش ہیں۔ ہماری تو قسمت جاگ اٹھی ہے۔ ہم پر تو اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا ہے۔ بہن ! ورنہ ! ہم کس قابل تھے۔ ہمارے اعمال نامہ میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے … ‘‘

 

’’ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے فاطمہ بہن ! یقین کیجیے کہ یہ سن کر دل خوش ہو گیا۔ ہمیں بھی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ ‘‘

 

’’ ضرور کیوں نہیں بہن ! ‘‘

 

’’ افعان بھی جا رہے ہے ؟ ‘‘

 

’’ نہیں وہ حسن کے پاس رکے گا، اس کے ایف ایسی پارٹ ٹو کے امتحان ہونے والے ہیں۔ ویسے بھی ابھی ویزا میرا اور اس کے ابو کا نکلا ہے۔ ان شا ء اللہ ! افعان کو بھی وہیں بلا لیں گے، پہلے وہ اپنی تعلیم مکمل کر لے یہاں۔ چلیں ! اب میں چلتی ہوں مایا بیٹا ! ان شا ء اللہ پھر ملاقات ہو گی۔ نیہا کو میری طرف سے شادی کی مبارک باد دینا۔ ‘‘

 

’’ اچھا بہن ! اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ ‘‘

 

مایا دروازہ بند کرنے کے بعد اپنی امی سے مخاطب ہوئی۔

 

’’ ماشا ء اللہ … امی ! دیکھیں، تو کیسی قسمت جاگی ہے ان کی۔ ‘‘

 

’’ ہاں بیٹی ! ساری نصیب کی بات ہے۔ انسان کو پتا بھی نہیں چلتا اور اس کی کوئی بات اللہ تعالیٰ کو پسند آ جاتی ہے۔ پھر تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول کر دیتا ہے۔ میرا رب بہت ہی رحیم ہے۔ ‘‘

 

’’ بے شک امی ! ‘‘

 

مایا گہری سانس لے کر اٹھی اور کچن سے کھانا لے کر آ گئی۔

 

’’ امی ! آپ نے ایک بات نوٹ کی ہے ؟ ‘‘

 

’’ کیا ؟ ‘‘

 

’’ امی ! ابو جانے کیوں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ بہت کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ‘‘

 

’’ ہاں مایا ! کام بھی تو بہت کرتے ہیں۔ پورا دن کام کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

 

’’ امی ! پتا ہے جب ہماری گاڑی، ین مری روڈ سے گزرتی ہے، تو سامنے ابو کی دکان ہے ناں ! کئی بار دیکھا ہے کہ وہ کام میں لگے ہوتے ہیں۔ پتا نہیں آرام کب کرتے ہیں۔ کب کھانا کھاتے ہیں، کل ابو روڈ کراس کرنے کے لیے کھڑے تھے، تو آمنہ کی نظر پڑی، تو اس نے کہا، مایا ! تمھارے ابو تو کافی کمزور ہو گئے ہیں … ‘‘

 

’’ میں نے کہا، نہیں یار ! اصل میں ان پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ ‘‘

 

مایا افسردہ سی ہو گئی تھی۔

 

’’ امی ! نیہا آپی کافی دنوں سے نہیں آئی۔ ‘‘

 

’’ نیہا اور رمیل کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے گئے ہوئے ہیں۔ تمھارے ماموں کا فون آیا تھا، وہ بتا رہے تھے۔ ‘‘

 

’’ واو ! نیہا آپی کے تو مزے ہو گئے۔ چلو ! اچھا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ہمیشہ خوش رکھے۔ ویسے گئے کہاں ہیں گھومنے ؟ ‘‘

 

’’ روالا کوٹ … ‘‘

 

’’ اچھا ! تو وہ ٹولی پیر گئے ہوں گے، وہ اتنی خوب صورت جگہ ہے۔ امی ! میں نے ہی ایک بار بتایا تھا نیہا آپی کو۔ بڑی چھپی رستم نکلیں، وہ تو۔ اکیلی اکیلی چلی گئی۔ ‘‘

 

’’ تم وہاں کیا کرتیں ؟ میاں بیوی کو گھومنے دو … جب تمھارا وقت آئے، تو تم بھی چلے جانا۔ ‘‘

 

’’ ہا ہا ہا ہا ہا … ‘‘

 

مایا نے زور دار قہقہہ لگایا اور شرارتی نگاہوں سے اپنی امی کو دیکھنے لگی۔

 

’’ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے ایسی سیریں کرنے کی۔ مجھے تو اپنے امی ابو کے پاس رہنا ہے بس ! ‘‘

 

مایا نے اپنی امی کے گلے میں بانہیں ڈالیں اور ان کے ماتھے پر بوسہ کیا۔

 

’’ ایسا کہاں ہوتا ہے میری بچی ! ریت رواج دیکھنے پڑتے ہیں۔ بیٹیاں تو پیغمبروں نے بھی وداع کی ہیں۔ ‘‘

 

’’ اچھا … اچھا ! کر لیجیے گا آپ بھی۔ ‘‘

 

مایا برتن اٹھا کر کچن میں رکھ کر آئی اور پھر ماں کی گود میں سر رکھ کر چارپائی پر لیٹ گئی۔

 

’’ پھوپھو !باہر قلفی والا آیا ہے، پیسے دیں ناں ! ‘‘

 

اسامہ اسد بھائی کا پانچ سالہ بیٹا تھا، جو کہ اکثر مایا سے اپنی چھوٹی موٹی چیزوں کے لیے پیسے مانگ لیتا تھا۔ وہ مایا کا لاڈلا بھتیجا بھی تھا۔ اس کی باقی دو چھوٹی بہنیں رمنا اور رمشہ نیہا اور اپنی دادی سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔ مایا نے کسی شرارت پر انھیں ٹوک دیا تھا، تب سے وہ دونوں مایا سے ذرا دور دور ہی رہتی تھیں، حالاں کہ کبھی کبھی بچوں کو ان کی اصلاح کی خاطر ڈانٹنا بھی ضروری ہوتا ہے، مگر مائیں یہ بات نہیں سمجھتیں اور اس دن مایا نے بھی ردا بھابھی کے ہاتھوں اپنی کافی بے عزتی کروائی تھی۔ باقی جو کسر رہ گئی تھی، وہ شام کے وقت اسد نے آ کر پوری کر دی، اس لیے تب سے مایا خود بھی رمنا اور رمشہ سے اجتناب برتتی تھی۔ ورنہ ! دو سال اور تین سال کی بچیاں تو معصوم فرشتوں کی مانند ہوتی ہیں۔ بس ! کبھی کبھی بڑوں کے رویے بھی بچوں سے دوری کا سبب بن جاتے ہیں۔

 

مایا اٹھی اور اس نے اپنے کالج بیگ کی جیب سے دس روپے نکال کر اسامہ کو تھما دیے۔

 

یوں ہی دن گزرتے چلے گئے۔ مایا جان لڑا کر اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔ کبھی کبھی عبید بھی اس کے ساتھ کتابیں لے کر بیٹھ جاتا اور وہ دونوں خوب دل چسپی سے پڑھائی کرتے۔

 

نیہا کا سسرال اچھا تھا۔ گھر کا ہر فرد اس کا بہت خیال رکھتا تھا، اس لیے وہ بھی سب کی جی جان سے خدمت کرتی۔ اپنے میکے میں کم ہی چکر لگاتی، لیکن جب بھی آتی، اپنے سسرال کی خوب ساری باتیں سناتی۔ یہ بھی بتاتی کہ گھر میں کس طرح سے اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بچیاں اپنے گھر میں خوش ہوں، تو ماں باپ کو اور کیا چاہیے ہوتا ہے۔ نیہا کو سکھی دیکھ کر اس کے ماں باپ قرض کا بوجھ بھول جاتے اور ڈھیر ساری دعائیں اپنی بچی کے حق میں کرتے۔

 

٭ ٭ ٭

 

’’ ماما ! آپ نے شاویز کی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟ اب تو ماشا ء اللہ سے وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا ہے۔ اپنا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ ‘‘ ارمینہ اپنی ماما سے شاویز کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے مخاطب ہوئی۔

 

’’ ارمینہ ! بات تو تمھاری ٹھیک ہے۔ الحمد اللہ ! میرا بچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قابل ہو گیا ہے اور شکر ہے میرے رب کا کہ شاویز میرا سب سے تابعدار بچہ ہے۔ آج تک اس نے میری کوئی بات بھی نہیں ٹالی ہے۔ ایسی اولاد قسمت والوں کو ملتی ہے خاص طور پر ایسے بیٹے … میں سوچ رہی تھی کہ شاویز کے لیے شفق کی نند زِمل کا رشتہ لے لیں۔ اچھی خاصی خوش شکل بچی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے اور عمر میں بھی شاویز سے تین چار سال چھوٹی ہے۔ میرے خیال میں شفق اس سلسلے میں ہماری مدد بھی کر سکتی ہے زِمل کی رضا مندی جاننے میں … ‘‘

 

’’ ماما ! آپ نے بہت اچھا سوچا ہے، مگر کیا مرتضیٰ بھائی مان جائیں گے اور ان کے والدین، کیوں کہ وٹے سٹے کی شادی کچھ مناسب نہیں لگتی۔ ایک گھرکی لڑائی سے خواہ مخواہ دوسرے کا گھر بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘

 

’’ ارمینہ ! میں شاویز کو جانتی ہوں، وہ نباہ کرنے والا بچہ ہے میرا۔ پھر وہ بھلا زِمل سے کس بات پر جھگڑا کرے گا۔ پڑھی لکھی بچی ہے، اچھے خاندان کی ہے۔ مرتضیٰ کو دیکھ لو کہ کبھی اس نے شفق کو اونچی آواز میں ڈانٹا بھی ہو۔ رہی بات وٹے سٹے کی، تو ایک بات تو یہ کہ وہ دور اب نہیں ہے اور دوسرا یہ پرانی اور دقیانوسی باتیں ہیں۔ اب ہر بندہ اپنے گھر کا ماحول دوسروں کی وجہ سے نہیں بگاڑتا۔ ‘‘

 

’’ ماما ! اچھا ہی ہے، اللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو۔ ‘‘

 

ارمینہ نے چائے میں چینی ہلاتے ہوئے کپ اپنی ماما کی طرف بڑھایا اور پھر اپنا کپ اٹھا کر ریموٹ سے ٹی وی کے چینل بدلنے لگی۔

 

پھر وہ کچھ دیر کے بعد اپنی ماں سے مخاطب ہوئی۔

 

’’ تو پھر آپ کب بات کریں گی شاویز سے ؟ جلدی بات کر لیجیے کہ اس سے پہلے کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی لا کر ہمارے سامنے کھڑی کر دے۔ ‘‘

 

یہ سن کر اس کی ماں زور سے ہنستے ہوئے بولیں۔

 

’’ ماں ہوں میں شاویز کی، اس لیے مجھے پتا ہے کہ وہ ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔ بہر حال اس بار وہ دوبئی سے واپس آ جائے، تو بیٹھا کر بات کروں گی، لیکن میں اس کا جواب جانتی ہوں، وہ یہی کہے گا کہ ماما ! جیسے آپ کی مرضی … ‘‘

 

’’ ماما ! یہ تو ہے۔ شاویز آپ کی ہر بات میں راضی ہوتا ہے۔ ‘‘

٭ ٭ ٭

 

 

مکمل کتاب پڑھنے کے لیے

ڈاؤن لوڈ کریں