FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ایک اور گنجا فرشتہ

 

 

                اکبر علی خاں عرشی زادہ

(ماخذ: ’شاد عارفی، حیات و جہات‘، مرتبہ فیروز مظفر)

 

 

 

 

’’ میں ایسی دنیا پر، ایسے مہذب ملک پر، ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں جہاں یہ اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کا کردار اور تشخص لانڈری میں بھیج دیا جائے جہاں سے وہ دھل دھلا کر آئے اور رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا جائے۔ ‘‘    (منٹو)

سنہ تو ٹھیک سے یاد نہیں۔ نقوش نیا نیا جاری ہوا تھا، احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کرتا دھرتا تھے۔ اس میں شادؔ عارفی نام کے ایک شاعر کے چند قطعات شائع ہوئے تھے۔ کہنے کا ڈھنگ الگ تھلگ سا نیا نیا سا اور یہ نام دماغ میں محفوظ ہو گیا۔ قریب قریب ۱۸ سال ہونے کو آئے آج تک ایک مصرع یاد ہے ’’ مسافت کوس بھر کی بچ گئی ہے ‘‘۔ میری عمر ۱۲۔ ۱۳ کی ہو گی۔ شاد صاحب کی شاعری اور چھپنے چھپانے کی عمر اس وقت میری عمر کے دوگنے سے کیا کم ہو گی مگر میرے لیے یہ نام نیا تھا۔ اسی سے میری بساط کا اندازہ ہو سکتا ہے، مگر میں شاید عمر کے تقاضے سے قابل معافی سمجھا جاؤں گا۔ تو اس زمانے میں شاعر بننے کا بڑا شوق تھا۔ ترقی پسندوں کی صورت بنانا، لمبے لمبے اُلجھے بال رکھنا اور یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے، ابھی چلتا ہوں ذرا ہوش میں آلوں تو چلوں، اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں، او دیس سے آنے والے بتا، یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی اور بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنھیں دہراتی ہے، سُنا سُنا کر اپنے ہم عمروں پر رعب جمانا سب اچھا معلوم ہوتا تھا۔ خود بھی اُلٹے سیدھے مصرعے کہنا آ گئے تھے، مگر کسی کی قلمی بیاض ہاتھ آ جاتی تو اُس سے ایسے اشعار نقل کر لیے جاتے تھے جن کا مطلب سمجھ میں آ گیا ہو اور پھر انھیں موقعہ محل سے اپنے نام سے سُنا کر برتری جتائی جاتی تھی۔

اسکول میں ایک استاد تھے جو بنتے تو ترقی پسند تھے لیکن میرا خیال ہے کہ سی آئی ڈی تھے اس لیے کہ اُس زمانے میں جب سارے ہی کمیونسٹ معتوب ہوئے اور جیلیں کاٹیں اُن سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ آپ کے منہ میں کَے دانت ہیں۔ ایک بار وہ مسعود اشعر صاحب سے جو آج کل روزنامہ امروز کے ملتان ایڈیشن کو ایڈٹ کرتے ہیں ایک نظم لکھوا لائے اور مجھ سے اسکول کے ایک جلسے میں پڑھوا دی نظم میں وہی داغ داغ اجالے اور سحر کی شب گزیدہ کیفیت کا رونا تھا۔ کچھ یہ رنگ تھا ’’بھگت سنگھ ابھی چڑھائے جا رہے ہیں دار پر۔ ‘‘ ہیڈ ماسٹر اُس وقت تو بے بس تھے سنتے رہے لیکن بعد کو بہت برہم ہوئے، انھیں کیا معلوم تھا کہ میں کیا پڑھنے والا ہوں۔ ابّا تک شکایت گئی۔ اگرچہ پڑھنے والا اس وقت یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ بھگت سنگھ کون تھا مگر جب نظم پرلے دے ہوئی تو بڑا مزا آیا گردن اور اکڑ گئی اور معلوم ہوا کہ ہم بھی کچھ اہمیت رکھتے ہیں مفت میں ترقی پسندی کی ایسی جیتی جاگتی سند مل گئی غرض اُس زمانے میں ترقی پسندند چیزیں سمجھ میں تو کیا خاک آتی ہوں گی مگر میں پڑھتا ضرور تھا۔ یہ معلوم تھا کہ نقوش ترقی پسندوں کا پرچہ ہے اور اس میں جو لوگ لکھتے ہیں وہ ترقی پسند ہوتے ہیں تو پھر شادؔ عارفی بھی ترقی پسند تھے اس لیے اُن سے دلچسپی قدرتی بات تھی اپنی برادری کے جو ٹھہرے ایک لفظ کامریڈ بھی سیکھ لیا تھا گویا شادؔ صاحب اپنے کامریڈ تھے۔

اس کے بعد یہ نام اور دوسرے رسالوں اور اخباروں میں بھی نظر سے گزرتا اور برابر میرے لیے پُر کشش بنا رہا۔ مگر یہ بات عرصے تک معلوم نہیں ہوئی کہ شادؔ صاحب رام پور ہی کے رہنے والے ہیں اور یہیں رہتے ہیں۔ اس زمانے میں کچھ ایسا تصور تھا کہ ابّا کے علاوہ ہر وہ نام جو رسالے یا اخبار میں چھپتا ہے رام پور کے باہر کا ہو گا۔

رام پور کی سالانہ زراعتی نمائش کا کل ہند مشاعرہ خاصے اہتمام سے ہوتا تھا۔ جوشؔ، جگرؔ اور فراقؔ تو جیسے بُک ہو کر رہ گئے تھے۔ اس کی یہ آن بان سنہ پچاس اکیاون تک قائم رہی شاید انھیں دوسِنوں میں سے کسی ایک سنہ کا مشاعرہ ہو گا۔ رات کا آخری وقت تھا پانچ ساڑھے پانچ کے قریب۔ استادوں کے پڑھنے کا وقت۔ محشرؔ عنایتی تعارف کرا رہے تھے انھوں نے پکارا ’’رام پور کے اُستاد شاعر شادؔ عارفی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور ایک منحنی سا حقیر سا شخص ڈائس سے اُٹھ کر مائک کی طرف آیا۔ ارے یہ ہیں شاد صاحب! انھیں تو میں پہلے سے جانتا تھا۔ یاد آیا میرا لڑکپن بھی نہیں بچپن تھا۔ چھ سات سال کی عمر ہو گی کہ میں نے انھیں صاحب کو ’’ عوام کا کالج‘‘ کی رسم افتتاح پر ایک نظم پڑھتے سنا تھا۔ وہ دھندلا دھندلا منظر ابھرنے لگا۔ سیدین صاحب، سرور صاحب کھدر کے لباس میں جامعہ ملیہ کے شفیق صاحب، کتابوں کی نمائش، دف پرچار بیتوں کا الاپ۔ اور یہی صاحب تو ہمارے محلے میں ایک پڑوسی سے ملنے کبھی کبھی شام کو آیا کرتے تھے۔ اُن بیچارے کے یہاں بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ٹوٹے ہوئے مونڈھے گھر میں سے نکال لاتے تھے، حقہ آ جاتا اور گھنٹے پون گھنٹے ان صاحب سے گھٹتی رہتی ان کے ہاتھ میں بٹیر ہوتی جسے یہ مسلسل پان کی پیک سے رنگتے رہتے۔ اس حرکت سے بڑی گھن آتی تھی مگر جی یہی چاہتا تھا کہ بٹیر ذرا دیر کو میرے ہاتھ میں بھی آ جاتی، اور انھیں کو تو میں نے محلے کے بازار میں لگنے والی کبوتروں کی پینٹھ میں ایک کابک سے دوسری کابک کی طرف جاتے دیکھا کرتا تھا۔ کبھی ایک سے کبوتر لے رہے ہیں کبھی دوسرے سے اور اُس کی گردن ناپ رہے ہیں، کبوتر بیچارہ ہاتھوں میں تلملا رہا ہے اور یہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گڑ دئے دیتے ہیں۔ کبوتر کے حسب نسب معلوم کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے، یہ بات بہت عرصے بعد معلوم ہوئی۔ ہفتے کے ہفتے پینٹھ ہوتی تھی اور یہ اس میں لازماً ہوتے تھے۔

مشاعرے میں انھیں دیکھا تو حیرت بھی ہوئی خوشی بھی اور اپنی کم علمی پر غصہ بھی آیا۔ شادؔ عارفی ایسے نکل جائیں گے جیسے وہ نکل گئے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، سوکھا مریل سا جسم، پچکے گال، ٹوپی میں سے گنج نمایاں، بال خورے کا شکار، ڈاڑھی مونچھ کیا بھنویں تک غائب۔ پڑھنا شروع کیا تو اور بھی چوپٹ، لٹیا ہی ڈبو دی۔ پہلے دو تین قطعے پڑھے پھر طویل بحر کی ایک غزل پڑھی، شعر اچھے بھلے ہوں گے مگر نہایت پھسپھسے اور بے تاثیر لگے، پڑھنے والا گھاس کاٹ رہا تھا۔ بڑے گھبرائے ہوئے، ڈرے ہوئے، آواز بھنبھرائی ہوئی، حلق سے نکلنے کا نام ہی نہ لے۔ پہلو پہ پہلو بدلے جائیں مگر جب چل پڑے تو چل پڑے کچھ ہوش نہیں کہ سننے والے کس شعر پر داد بھی دے رہے ہیں، کسے مکرر سننا چاہتے ہیں۔ اس شعر پر ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کر دیا جس پر داد نہیں ملی تھی اور جس پر داد ملی تھی اسے بغیر تکرار کیے آگے بڑھ گئے، معلوم ہوتا تھا کسی مصیبت میں پھنس گئے ہیں اور جیسے تیسے اپنا پنڈ چھڑانا چاہتے ہیں۔ جیسا حال علی گڑھ میں جونیروں کا انٹروڈکشن نائٹ میں ہوتا ہے ہو بہو وہی نقشہ۔ ایک خیالی پیکر جو رسالوں میں انھیں پڑھ پڑھ کر بنا تھا ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گیا۔ لا حول ولا قوۃ یہ بھی کوئی بڑا شاعر ہوا جو ایک مجمع کا اور وہ بھی اپنے شہر کے، سامنا نہ کر سکے۔ شخصیت ہی کچھ ہوتی تو صبر آ جاتا۔ پڑھنا نہیں آتا تھا نہ سہی کچھ تو کس بل ہوتا۔ کسی بھی طرح شادؔ عارفی ماننے کو جی نہیں چاہتا تھا اور کیسے چاہتا، ایک شخص اپنے بارے میں کہتا ہو کہ ’’ غزل کے رام پور میں پٹھان ہیں تو آپ ہیں، وہ بجائے دبنگ اور قد آور ہونے کے ایسا جھاکا مارا جھینپو بزدل نکل جائے۔

ظاہر ہے کہ یہ تاثر بڑا نا پائیدار تھا اور ایک کچے ذہن کی پیداوار جو کچھ ہی دنوں میں زائل ہو گیا۔ ایک روز میں اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر پوچھتا پاچھتا ان کے گھر جا پہنچا۔ ان دنوں چند ساتھیوں نے مل کر ادارہ ادبیات اردو کے نام سے ایک اردو مہر بنو الی تھی۔ ذہنی مفلسی، اور کم مائیگی کا یہ عالم تھا کہ کوئی نیا نام بھی نہیں سوجھا، حیدر آباد کے اسی نام کے مشہور ادارے کا ذکر کہیں پڑھ لیا ہو گا وہی کام میں لے آئے۔ ہمیں تخلص تک تو نئے ملتے نہیں تھے اور ولیؔ سے اقبال تک سارے اساتذہ کے تخلص تختۂ مشق بنے رہتے تھے۔ ایک ساتھی کو میر محمدی بیدار کا تخلص بھا گیا دوسرے شاکر میرٹھی کا تخلص لے اڑے خود میں نے اقبال، پطرس اور پھر وقار عظیم سے وقارؔ تخلص چرایا۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ شادؔ صاحب  کے پاس ہم دو دوست پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر میں وہ باہر آئے ہم نے عرض مدعا بڑے اعتماد کے ساتھ کیا۔ ’’ مشاعرہ کر رہے ہیں آپ بھی تشریف لائیں۔ ‘‘ ادھر سے بڑا روکھا سا جواب ملا۔ ہم انکار سننے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے اس لیے بہت ناگوار ہوا یہ آخر سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو، کچھ اس قسم کا تاثر تھا گویا ہم لوگ شادؔ صاحب پر کوئی احسان کرنے گئے تھے۔ ہم لوگوں کی عمریں ہی ابھی کیا تھیں۔ جیسی عمریں ویسی ہی اڑانیں۔ دوستیوں کی بنیادیں عجیب عجیب انداز سے پڑتی تھیں۔ بیدار صاحب پہلی بار جب آئے تو میری زیارت کرنے آئے تھے۔ وقار عظیم صاحب ماہ نو ایڈٹ کیا کرتے تھے میں نے انھیں غالب کی ایک مطبوعہ تصویر مکاتیب غالب سے کاٹ کر اور اس پر مختصر سا نوٹ لکھ کر فروری میں شائع ہونے والے غالب نمبر کے لیے بھیج دی جو انھیں تاخیر سے ملی اس لیے شریک اشاعت نہ ہو سکی ہاں انھوں نے اپنے اداریے میں تصویر کے حوالے سے میرا ذکر کیا۔ بیدار صاحب یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ رام پور میں ایسی اہم شخصیت کون سی ہے جس کا تذکرہ ماہ نو جیسے رسالے کے اداریے میں کیا جائے۔ ایسے مرعوب ہوتے تھے ایک دوسرے سے۔ پھر ان لونڈوں کو شاد صاحب کیا خاطر میں لاتے۔

لیکن شادؔ صاحب کا یہ ظاہر جو بڑا مایوس کن تھا ان کے اس تاثر میں آڑے نہیں آیا جو بحیثیت شاعر کے وہ مجھ پر ڈال رہے تھے اس لیے جب باقاعدہ شاعری سوجھی اور شاعری کے روایات میں سے ایک روایت استاد کا سوال سامنے آیا تو شادؔ صاحب کے علاوہ اور کوئی نہیں جچا معلوم ہوا دن بھر شاد صاحب حامداسکول کے سامنے ایک اسٹوڈیو پر بیٹھے ملتے ہیں۔ اُن کے ایک عزیز اشفاق صاحب کو فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا کلکٹریٹ میں نوکر تھے مگر یہ اسٹوڈیو بھی کھول لیا تھا۔ ان کے دفتر کے اوقات میں نگرانی کا کام شادؔ صاحب انجام دیتے تھے۔ ہمت نہیں پڑتی تھی کہ شادؔ صاحب کے پاس جاؤں ان کا اکھل کھرا انداز سامنے آ جاتا تھا۔ خدا جانے کس طرح پیش آئیں۔ پھر بھی ایک دن دل پکّا کر کے پہنچ گیا اور اُن سے شاگردی کی درخواست کی۔ چھوٹتے ہی پوچھنے لگے ’’کچھ عشق وشق کیا ہے ؟‘‘ یہ کِسے توقع تھی کہ وہ ایسا بے تکلف سوال کریں گے۔ میں نے کہا :نہیں تو۔ پھر بولے شاعری تمھارے بس کی نہیں، اُن کے اس سوال سے اتنا ضرور ہوا کہ میں جو سہما سہما بیٹھا تھا اور منھ سے بات نہیں نکل رہی تھی وہ کیفیت ختم ہو گئی انھوں نے بھی وہ قصے چھیڑ دیے جب آتش جوان تھا اور پہلی بار مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ تو بڑے ہی دلچسپ آدمی ہیں۔

رخصت ہوتے ہوئے غزل اُن کے پاس چھوڑ آیا جسے انھوں نے دو ایک روز میں دیکھ کر واپس کر دیا۔ ایسی غزل جس پر شادؔ صاحب جیسا شاعر اصلاح کر چکا ہو وہ میرے پاس غیر مطبوعہ کیسے رکھی رہ سکتی تھی۔ میں نے اُسے نقل کر کے افکار کراچی کو بھیج دیا۔ دوسرے تیسرے مہینے شائع ہو گئی۔ تو شادؔ صاحب کی نظر پڑی اُنھیں میرا نام کھٹکا، ملاقات ہوئی کہنے لگے۔ ’’ یہ آپ نے اپنے تخلص کے ساتھ عارفی کیوں نہیں لگایا؟ میرے سارے شاگرد لکھتے ہیں۔ ‘‘ میں نے پوچھا ’’ عارف کون تھے ؟‘‘

’’ میرے والد۔ ‘‘

’’ مگر میں تو آپ کا شاگرد ہوں اس رعایت سے ’’ شادی‘‘ لکھتا لیکن یہ مجھے کچھ آپ کے ساتھ مذاق سا لگا۔ میں نے مسکرا کر کہا اور وہ بھی مسکرا دیے اور بات کسی اور طرف موڑ دی۔

اصلاحوں میں چونکہ وہ اپنا مخصوص مزاج برتتے تھے اس لیے میں اُن سے اس معاملے میں مطمئن نہیں ہوا اور دو ایک تخلیقات انھیں دکھانے کے بعد سلسلہ ختم کر دیا۔ مگر ان کے پاس چوتھے پانچویں آتا جاتا رہا۔

شاد صاحب ایک ایسے فرشتے تھے جس کا خمیر ناری تھا۔ یعنی ذرا سی دیر میں بھڑک جاتے تھے ان کا ایک مصرعہ ہے کہ  :    ’’ ترے مزاج سے پارہ بھی قول ہار گیا‘‘

یہاں ترے کی جگہ مرے زیادہ صحیح ہے۔ نحیف جثے کے آدمی اس لیے بے حد کمزور اعصاب کے مالک ایسے لوگ قوت برداشت سے گویا محروم ہوتے ہیں۔ پھر شادؔ صاحب تو شاعر بھی تھے اس لیے حساس بھی۔ چھوٹی سی بات کو ضرب پر ضرب دیتے چلے جاتے۔ خراش اُن کے لیے گھاؤ بن جایا کرتی تھی۔ انھوں نے کبھی اپنے کانوں کی طرف نہیں دیکھا ہمیشہ کوّے کی طرف دوڑ پڑتے۔ اس مزاج سے بہت سے لوگ مزا لینے لگے تھے اور اُن کے سامنے آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا شگوفہ چھوڑ دیتے جس پر وہ بارود کی طرح بھک سے اُڑ جائیں۔

خود میرے ساتھدو تین بار یہی ہوا۔ ایک صاحب نے اُن سے جا لگایا کہ اکبرؔ آپ کے پاس رسالے ہتھیانے آتا ہے اب جو میں ایک روز ملنے گیا تو مجھے دیکھ کر مُنہ پھلا لیا اور ذرا ٹیڑھے ہو کر اس طرح بیٹھ گئے کہ مجھ سے آنکھیں چار نہ ہوں۔ سلام کا جواب نہیں دیا اور کہنے لگے میں ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا جو مجھے بیوقوف بنانے آتے ہوں۔ میں نے کہا آخر کچھ میں بھی تو سنوں بڑی اُکھیڑ پچھاڑ کے بعد ساری بات بتائی۔ میں نے کہا شادؔ صاحب آپ کو معلوم ہے کہ وہ سارے رسالے جو آپ کے پاس آتے ہیں میرے گھر بھی آتے ہیں اور پھر آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں اب تک آپ سے کوئی ایک پُرزہ بھی پڑھنے کے لیے نہیں لے گیا۔ ایسی صورت میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں شادؔ صاحب سے رسالے ہتھیانے کے لیے ملتا ہوں۔ بات کی معقولیت پر ذرا جھنجھلائے اس لیے کہ اتنی جلدی وہ موڈ بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر بولے ’’ ہاں ٹھیک ہے نہ معلوم مجھے لوگ کیوں اس طرح پریشان کرتے ہیں۔ ‘‘

ایک اور کرم فرما نے خدا انھیں خوش رکھے بمبئی سے شادؔ صاحب کو لکھ بھیجا کہ یہاں کے ایک اخبار میں اکبرؔ نے آپ کے خلاف خطوط شائع کرائے ہیں اور ’’ بندہ عبداللہ‘‘ اپنا نام ظاہر کیا ہے ( بندہ جیسے خط کے آخر میں احقر یا نیاز مند لکھ دیتے ہیں ) شاد صاحب کو یقین کرنے میں کبھی زحمت نہیں ہوئی۔ اطلاع دینے والے سے یہ بھی نہیں کہا کہ کم از کم اخبار سے تراشے ہی انھیں بھیج دے، بس ناراض ہو گئے۔ وہ کرم فرما بھی اتنے عقلمند تھے کہ قطعاً ہوائی اطلاع دے ڈالی۔ پہلے اپنے آپ ایک آدھ خط اس انداز کا عبد اللہ کے نام سے چھپوا ہی دیتے پھر انھیں لکھتے معاملہ بس یونہی تھا بمبئی کے کسی اخبار یا کسی رسالے میں شادؔ صاحب کے خلاف نہ فرضی نہ اصلی کوئی خط سرے سے شائع ہی نہیں ہوا تھا۔ مہینوں گزر گئے اور وہ مجھ سے ناراض رہے جن صاحب نے مجھ تک یہ خبر پہنچائی کہ شاد صاحب اس وجہ سے تم سے ناراض ہیں میں نے انھیں جواب دیا کہ میں نے کسی نام سے ایسا کوئی خط لکھا ہی نہیں اور اگر کوئی خط میرے ہی نام سے چھپ جاتا تب بھی اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ میں نے لکھا ہے۔ شاد صاحب خبر رساں ایجنسی کی بدطینتی سے پہلے ہی واقف ہیں اس لیے انھوں نے دوسروں کے سامنے اظہار کرنے سے پیشتر مجھ سے معلوم تو کیا ہوتا۔

میں شادؔ صاحب کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھا اس لیے اس بار جان بوجھ کر اُن سے ملنے نہیں گیا۔ کچھ دنوں بعد میرے کسی خوش گمان نے آپ ہی اُن سے وکالت کی اور شاد صاحب کی غلط فہمی دور ہو گئی۔

میرا اُن سے ملنا جلنا اُن کے بہت سے شاگردوں کو پسند نہیں تھا۔ روز روز کی لگائی بجھائی سے تنگ آ کر میں نے بھی اسی میں عافیت جانی کہ اُن کے پاس کم جاؤں۔ مگر یار لوگوں کو اس پر بھی چین نہیں آتا تھا اور شادؔ صاحب کو پڑھاتے تھے کہ اکبر کو آپ کا کوئی خیال نہیں ورنہ وہ یوں ہفتوں کیوں غائب رہتے۔

شادؔ صاحب کی ہٹیلی طبیعت انھیں معقول سے معقول بات ماننے سے روکتی تھی جو کچھ اُن کے اپنے نظریے یا عقیدے یا بیان کے خلاف ہوتا اُسے تسلیم کرنے میں شادؔ صاحب کو بڑا تامل اور پس و پیش ہوتا شکر یہی ہے کہ وہ دیر سے سہی مگر حقیقت کو آخر کار مان لیا کرتے تھے۔ صبا حیدرآباد میں کسی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے غالب کا یہ شعر مثال میں پیش کیا :

خامے نے پائی طبیعت سے مدد

بادباں کے اٹھتے ہی لنگر کھلا

میں نے ایک خط ایڈیٹر صبا کو لکھا جس میں صرف اتنی بات کہی گئی تھی کہ شاد صاحب نے شعر کا دوسرا مصرع غلط لکھا ہے اور اس لیے شعر قطعاً مہمل ہو گیا ہے۔ شعر کی منقولہ صورت میں خامے کی مدد طبیعت نہیں کر سکتی اس لیے کہ اگر ایک طرف بادبان اُٹھا ہے تو دوسری طرف لنگر کھلا ہے ان دونوں کے تقاضے علیحدہ علیحدہ ہیں یعنی لنگر کھلنے سے کشتی رُک جائے گی اور بادبان اُٹھنے سے اُن میں ہوا کا زور ہو گا جس سے کشتی میں تحریک پیدا ہو گی اس کشاکش میں کشتی الٹ تو سکتی ہے لیکن اس کی روانی میں مدد نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ موجودہ قرأت میں زبان کی غلطی بھی ہے۔ اس لیے کہ بادبان کے لیے اٹھانا اور لنگر کے لیے کھولنا نہیں بولا جاتا بلکہ بادبان کے لیے کھولنا اور لنگر کے لیے ڈالنا استعمال کیا جاتا ہے معنی اور بیان میں یہ مہملیت در اصل کاتبوں کی کرامت کا نتیجہ ہے جس کا پتا غالب کی زندگی میں لکھے اور چھپے دیوان کے نسخوں سے چلتا ہے۔ ان سب میں مصرع کی یہ شکل ملتی ہے :   ’’ بادباں بھی اٹھتے ہی لنگر کھلا‘‘

اس کے معنی یہ ہوئے کہ غالبؔ نے اس مصرع میں ’’ کے ‘‘ کی جگہ ’’ بھی ‘‘ لکھا تھا اور یہی با معنی بھی ہے اور درست بھی، اس لیے کہ لنگر اٹھائے جائیں اور بادبان کھولے جائیں تو کشتی رواں ہو گی۔

میری یہ صراحت ’صبا‘ میں شائع ہوئی تو شاد صاحب بہت بگڑے، ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ’’ اب تم میرے خلاف بھی لکھنے لگے۔ ‘‘میں نے کہا ’’ یہ آپ کے خلاف کب ہوا میں نے تو صحیح قرأت لکھ بھیجی تھی۔ ‘‘ وہ دلیل میں دیوان غالبؔ طبع جرمنی اور طبع نظامی بدایوں کا حوالہ دینے لگے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کا فرمانا بجا یہ دونوں ایڈیشن اچھے ایڈیشن ہیں مگر حسن کے لحاظ سے صحت کے لحاظ سے نہیں۔ معتبر وہی ہے جو غالبؔ کی زندگی میں لکھا گیا۔

شاد صاحب مطمئن ہو گئے ہوں گے مگر اقرار نہیں کیا اور بڑبڑاتے ہوئے زنانخانے میں چلے گئے۔ مہینوں اسی بات پر خفا رہے۔ ایک بار میں یہ سوچ کر اُن سے ملنے گیا کہ غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہو گا۔ بات چیت میں طنزیہ جملے استعمال کرتے رہے جس پر میں نے یوں ظاہر کیا کہ وہ جملے ضائع جا رہے ہیں اور میرے لیے بے ضرر ہیں۔ تھوڑی دیر میں شاد صاحب نارمل ہو گئے اور ایسے گویا کبھی شاکی ہی نہیں تھے۔

شادؔ صاحب کا نام اُردو ادب کا معمولی سا ذوق رکھنے والا بھی جانتا تھا اس لیے کہ وہ ہندوستان پاکستان کے تمام اخبارات اور رسائل میں اپنا کلام چھپواتے تھے اور یہ اخبار اور رسالے ہر قسم کے ہوتے تھے۔ معیاری بھی اور حد درجہ گھانسلیٹ بھی ( یہ لفظ خدا بخشے شادؔ صاحب کو بہت پسند تھا اور کسی چیز یا شخص کو غیر معیاری بتانے کا بھرپور ذریعہ) وہ پکی روشنائی سے چھپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے دینا نہیں چاہتے تھے۔ بالکل وہی عالم جو کسی مبتدی کا ہوتا ہے اپنی تخلیقات کو بلا مبالغہ پندرہ پندرہ بیس بیس جگہ چھپواتے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ چھپواتے ہی رہتے تھے یعنی تیرہ چودہ سال اُدھر کی چھپی ہوئی تخلیقات بھی نقل کر کے کسی تازہ فرمائش کے حساب میں ٹانک دیتے تھے۔ اللہ کا کلام تو یاد نہیں رہتا یہ کیسے یاد رہتا کہ شادؔ صاحب اسی تخلیق کو برسوں پہلے بھی کہیں شائع کرا چکے ہیں اس لیے دوبارہ، سہ بارہ اور نہ جانے ’’ کتنی بار‘‘ ایک ایک تخلیق چھپتی رہتی۔ کلام میں تازگی بلا کی تھی اس لیے اور بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ پرانا مال ہے۔ اس طرح ایک طویل عرصے پر محیط ان کا نام رسائل پر چھایا رہا۔ ان کے بہت سے ہم عصر گوشۂ گمنامی میں چلے گئے۔ شاد صاحب زندہ رہے اور انھیں زندہ رہنا بھی چاہیے تھا۔ تیس پینتیس سال کے شاعروں میں کتنوں کو یہ حق پہنچتا ہے بس دو چار کو اور شاد صاحب کو سب سے زیادہ۔

لیکن ا س شہرت کے باوجود اُن کی نازک طبیعت اور بظاہر چڑچڑے مزاج نے انھیں رام پور میں، جو اُن کا گھر تھا، بڑی حد تک اجنبی رکھا۔ کئی سال کی بات ہے ایک صاحب ہمارے ہاں لائبریری میں تحقیقی کام کرنے آئے ہوئے تھے شاد صاحب کے شیدائی تھے اور اُن سے ملنے کے بے حد مشتاق۔ ان دنوں شادؔ صاحب ایک محلے سے دوسرے محلے میں نئے نئے منتقل ہوئے تھے اور مجھے ابھی ان کی نئی قیام گاہ کا محل وقوع معلوم نہیں تھا۔ اُن صاحب کو لے کر میں شادؔ صاحب کی طرف گیا۔ محلے میں ان کا اتا پتا معلوم کرنا چاہا۔

’’ احمد علی خاں شاد عارفی کس مکان میں آ کر رہے ہیں ؟‘‘

’’ کون احمد علی خاں ؟ شرنارتھی؟‘‘

’’ نہیں صاحب، شادؔ عارفی‘‘

’’معلوم نہیں ‘‘۔

کوئی اور ملا…

’’ آپ کو پتا ہے یہاں شادؔ صاحب کدھر رہتے ہیں ؟

’’یہاں تو نہیں رہتے۔ ‘‘

’’ ارے صاحب یہاں احمد علی خاں شاد عارفی کہیں رہتے ہیں ؟ آپ کو معلوم ہے۔ ‘‘

’’ کون احمد علی خان!۔ انچارج؟‘‘

انچارج ( بکسرِ را) رامپور کے عوامی لہجے میں، اس سب انسپکٹر پولس کو کہتے ہیں جو کسی تھانے کا انچارج ہو۔ غرض بڑی مشکل سے پتا چلا۔

ابّا سے شادؔ صاحب کا تذکرہ اکثر آتا رہتا تھا۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا کہ میں کچھ عرصے تک ان کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا تو ابّا مجھ سے پوچھتے ’’ کیا آج کل شادؔ صاحب سے کچھ ناراض ہو؟‘‘ اس جملے میں شاد صاحب کے لیے ہمدردی بھی ہے اور میرے لیے فہمائش بھی۔ یعنی نہ تو شادؔ صاحب کے حالات ایسے ہیں کہ اُن سے کوئی روٹھ کر بیٹھ جائے اور نہ یہ بات مجھے زیب دیتی ہے کہ چھوٹا ہوتے ہوئے شاد صاحب کی کسی بات پر قطع مراسم کر لوں۔

ایک بار ابّا نے مجھ سے شادؔ صاحب کے بارے میں کہا تھا کہ انھیں مریض اور خود کو معالج سمجھ کرملو تو اُن سے نبھا سکتے ہو۔ مریض سے نہ کوئی لڑتا ہے نہ اُس کے چڑچڑے پن پر جھنجھلاتا ہے۔ مریض کی سنتا ہے اور اس کے دُکھ کی دوا کرتا ہے۔

شادؔ صاحب اس معاملے میں خوش نصیب نہیں تھے اس لیے کہ اُن کے معدودے چند عقیدت مندوں کو چھوڑ کر جو اُن سے نبھانے کی قسم کھا چکے تھے کسی نے اُن کی دلداری اور دلدہی ہی نہیں کی۔

شاد صاحب کا جتنا کلام اُن کے نام سے شائع ہوا اُس سے کم از کم دو گنا وہ ہے جو انھوں نے اپنے شاگردوں کے لیے لکھ لکھ کر دیا۔ لیکن ان کے شاگردوں کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ شادؔ صاحب کی بیماری کے زمانے میں یا جب وہ مالی اعتبار سے زیادہ پریشان حال ہوتے ( پریشان تو ہمیشہ ہی رہے ) شادؔ صاحب سے دور دور رہتے تھے۔ انھوں نے ایک خط میں اپنے ایک مخلص و ہمدرد کو لکھا تھا:

’’میرا کام خدا کے فضل سے چل رہا ہے اور ایسے لوگوں کے ذریعہ چل رہا ہے جن سے توقع نہ تھی۔ شاگرد سب پیٹھ دکھا گئے، مرنے دو۔ ‘‘

میرا معاملہ مختلف تھا میں چاہے عام حالت میں جاؤں یا نہ جاؤں لیکن اُن کی بیماری کے زمانے میں ضرور جایا کرتا تھا۔ شاید ۵۳ء کا رمضان ہو گا کہ وہ شدید بیمار پڑے میرا دن دن بھر ان کے ساتھ گزرتا۔ وہ اشفاق صاحب کی بیٹھک میں رہتے تھے سخت گرمی کا زمانہ تھا۔ ایک چھوٹا سا پلنگ پڑا تھا۔ زمین پر ریت بچھی تھی جسے پانی سے خوب تر کر دیا جاتا تھا۔ لو‘ کے تھپیڑے جب اُس پر سے گزرتے تو ٹھنڈے ہو جاتے، وہ بے چین پلنگ پر کروٹیں بدلتے۔ لمبی لمبی سانسیں لیتے اور ایسے باہر نکالتے جیسے پھونکیں مار رہے ہیں۔ اس بے چینی کے باوجود میں نے دیکھا وہ گفتگو بڑی دلچسپ کرتے، اپنے معاشقے سُناتے۔ داؤں پیچ بتاتے اور یہ ظاہر نہ ہو پاتا کہ وہ کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔ درمیان میں کبھی کبھی تلخی آتی تھی مگر ان شاگردوں ہی کے ذکر سے جو اُن سے کنّی کاٹے ہوئے تھے اور شادؔ صاحب ان سے متوقع تھے کہ وہ بیماری کے عالم میں اُن کی خدمت کریں گے۔ یا پھر کبھی کبھی اشفاق صاحب کی بیوی کے رویے کی شکایت کرتے اگرچہ شادؔ صاحب اس معاملے میں حق بجانب نہ تھے اس لیے کہ وہ اس وقت بھی دماغی توازن نہیں رکھتی تھیں اور کچھ عرصے بعد تو بالکل ہی پاگل ہو گئیں۔

اس زمانے میں مجھے شادؔ صاحب کی طبیعت کا صحیح اندازہ ہوا۔ شاد صاحب کی تلخ مزاجی اور اکھل کھرا پن بڑی حد تک اُن کی بناوٹ تھی وہ یہ آزمانا چاہتے تھے کہ اُن سے ملنے والا انھیں سچ مچ اہمیت دیتا ہے یا اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے۔ اگر وہ ان کی بد مزاجی کو جھیل گیا تو شادؔ صاحب نے سمجھ لیا کہ اس سے نبھ سکتی ہے۔ دوسری صورت میں تووہ خود ہی بھاگ جاتا تھا۔ شادؔ صاحب فطرتاً خوش مزاج تھے روز روز کی بیماری اچھے بھلے مزاج والے کو بدل دیتی ہے، یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ شادؔ صاحب پر تکالیف جن کی اقسام تک نہیں گنائی جا سکتیں کوئی اثر ہی نہ کرتیں۔

شادؔ صاحب سے نبھانے کے لیے تھوڑی فنکاری درکار ہوتی تھی۔ وہ پہلے بندر بھپکیوں سے کام لیتے تھے۔ ہٹ دھرمی جتاتے تھے اور کوئی بات سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تھے لیکن اگر مذ مقابل بھی اکڑ جاتا تو وہ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے تھے۔ اُن کے شاگرد جاوید کمال اپنی شادی کے کئی دن بعد ہنگاموں سے نبٹ کر اُن سے ملنے مٹھائی لے کر گئے۔ شادؔ صاحب نے مٹھائی لینے سے انکار کر دیا اور کہا یہ شادی کی مٹھائی نہیں ہے تم ابھی تازہ بازار سے خرید کے لائے ہو میں نہیں لوں گا۔ جاوید کمال نے کہا جی ہاں لایا تو بازار ہی سے ہوں آپ کے لیے باسی تباسی مٹھائی کیا لاتا۔ وہ جتنا مناتے جاتے شادؔ صاحب اُتنے ہی اینٹھتے چلے جاتے۔ جاوید نے آخر میں تنگ آ کر کہا کہ اچھا نہیں لیتے تو مت لیجیے میں خود ہی کھائے لیتا ہوں اور یہ کہہ کر اُن کے سامنے بیٹھے بیٹھے ساری مٹھائی کھا لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شادؔ صاحب اتنی ہی دیر میں ٹھیک ہو گئے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ اُن کا داؤں بے کار گیا۔ یقیناً جاوید کمال خوشامد میں لگے رہتے تو شادؔ صاحب کے پاس سے ناکام واپس آتے۔

علی گڑھ میں شادؔ صاحب جاوید کمال کے ساتھ ٹھہرا کرتے تھے۔ ہفتوں رہتے مگر اچانک گھبراہٹ طاری ہو جاتی اور اسٹیشن جانے کی تیاری کرنے لگتے۔ ایسے موقعہ پر اُن سے ایک آدھ بار رُکنے کے لیے کہا جاتا وہ نہ مانتے تو جاوید اپنے چھوٹے بھائی سے کہتے کہ رکشا لے آؤ، اور رکشا منگانے کی نوبت نہ آتی۔ شاد صاحب پھر ہفتوں کے لیے رُک چکے ہوتے۔

شادؔ صاحب کی بد مزاجی کے مظاہرے دو قسم کے تھے۔ ایک تو اُن لوگوں سے جن سے اُن کا سامنا نہیں ہوتا تھا یعنی وہ رام پور کے باہر ہوتے تھے، دوسرے وہ جن سے بار بار واسطہ پڑتا رہتا تھا، ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ پہلی قسم کے لوگوں سے اُن کی قلمی جنگ ہوتی تھی۔ اُن میں نیازؔ فتحپوری، مجروح سلطان پوری، لاہور کا مشہور ناشر چودھری گھرانا، محمد طفیل مدیر نقوش اور بے شمار رسالوں کے ایڈیٹر آتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی انھیں کبھی تحریر سے مطمئن نہیں کر سکا الّا یہ کہ اس نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے ہوں، دوسری قسم کے حضرات سے اُن کی چھیڑ چھاڑ قلم سے بھی ہوتی تھی اور زبانی بھی۔ مقامی اخبارات میں بحثیں چلتی تھیں، مختلف ملنے والوں کے سامنے وہ اپنے مخالف کو خوب خوب سناتے تھے اور یہ ساری باتیں مخالف تک پہنچا کرتی تھیں۔ مہینوں رنجش رہتی تھی۔ ان مقامی لڑائیوں کا بندوبست اُن کے شاگرد کرتے تھے لیکن جب بھی مخالف اُن سے ملا تھوڑی دیر تک کٹ حجتی کرتے رہے اور پھر معتدل ہو گئے۔ وہ بے مروت اُس وقت تک رہتے تھے جب تک اُن کی آنکھیں چار نہیں ہوتی تھیں جہاں بات رو در رو ہوئی اور انھوں نے ہتھیار ڈالے اس کے معنی یہ نہیں تھے کہ وہ ڈر جاتے تھے بلکہ اُن کی مروّت جو مشرقی معاشرے کی دین ہے اُنھیں زیادہ دیر تک جمنے نہیں دیتی تھی۔

شادؔ صاحب کے معاصرین میں راز یزدانی مرحوم شاعری اور نثر نگاری دونوں میں ممتاز تھے۔ وہ بے حد مرنجان مرنج قسم کے آدمی تھے، شاد صاحب کے دل سے معترف تھے۔ یہ اُن کی بلند حوصلگی تھی کہ شاد صاحب سے اکثر مخالفتوں کے باوجود انھوں نے میرے سامنے ہی نہیں بہت سے لوگوں کے سامنے شاد صاحب کی شاعرانہ عظمت کا از خود اظہار کیا۔ مگر لگائی بجھائی کرنے والے کب مانتے ہیں۔ چنانچہ رازؔ صاحب کے حوالے سے کوئی نہ کوئی الٹی سیدھی شادؔ صاحب کے سامنے جڑ دیتے اور شاد صاحب بے قابو ہو جاتے۔

ایک روز راز صاحب، جو ہمیشہ متبسم رہا کرتے تھے۔ خلاف معمول اور خلاف مزاج بڑے برہم میرے پاس لائبریری آئے اور ایک کارڈ میری طرف بڑھا کر بولے ’’لیجیے اپنے استاد کی حرکت ملاحظہ کیجیے ‘‘۔ میں نے دیکھا شادؔ صاحب کا خط تھا جس میں انھوں نے رازؔ صاحب کو دھمکایا تھا کہ میں نے بہت سے ال سیشین پال رکھے ہیں انھیں تمھارے اوپر چھوڑ دوں گا۔ تم نے فلاں موقعہ پر میرے بارے میں فلاں بات کہی ہے۔ یہاں ال سیشین سے شادؔ صاحب کی مراد اُن کے شاگرد تھے۔ اس دھمکی سے قطع نظر شادؔ صاحب کا یہ خطاب اپنے شاگردوں کی طرف ان کے دل کے غبار کو بھی ظاہر کرتا ہے، اور اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو کس صف میں رکھتے تھے۔

خط پڑھ چکا تومیں نے راز صاحب کی طرف منھ اُٹھا کر دیکھا اُنھوں نے ایک اور کارڈ میرے ہاتھ میں تھما دیا اور کہنے لگے کہ اس میں میں نے لکھ دیا ہے کہ میں بھی رام پور ہی کا ہوں ڈرتا نہیں، جو بگاڑ سکو بگاڑ لو۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ بات طول کھینچے اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ ابّا تک بات پہنچے گی تو وہ رازؔ صاحب کے غصے کو ٹھنڈا کر دیں گے۔ اس لیے میں نے راز صاحب سے کہا کہ آپ یہ دونوں خط ابّا کو بھی دکھا دیجیے وہ ویسے ہی اٹھ کر ابّا کے پاس چلے گئے۔ تھوڑی دیر میں واپس آئے تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ انھوں نے تو میرا جواب پھاڑ کر ردّی میں پھینک دیا۔ انھوں نے کہا اب آپ ہی سوچیے کہ یہ عمر آپ کی اس طرح لڑنے جھگڑنے کی ہے۔

شادؔ صاحب کے شاگردوں کو بے پَر کی اڑانے اور آپس میں لڑانے کی نئی نئی تدبیریں سوجھتی رہتی تھیں۔ ایک روز ایک شاگرد ملے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ شاد صاحب نے رازؔ صاحب کو بُری طرح ذلیل کر دیا، میں نے پوچھا خیر تو ہے۔ انھوں نے بڑی معصومیت سے مجھے من گھڑت سنانا شروع کیں کہ رازؔ صاحب اپنی ایک غزل لے کر شادؔ صاحب کے پاس پہنچے تھے اور چاہتے تھے کہ شادؔ صاحب اپنی سفارش کے ساتھ کسی معیاری رسالے میں چھپنے کے لیے بھیج دیں۔ شادؔ صاحب نے راز صاحب سے کہا کہ میں سفارش تو کر دوں گا مگر پہلے غزل پر اصلاح دوں گا اس پر راز صاحب اُٹھ کر چلے آئے۔ میں نے اُن صاحب سے عرض کیا کہ جی بالکل بجا ارشاد ہوا، اس لیے کہ رازؔ صاحب جو آج سے نہیں تیس پینتیس برس ادھر سے ادبی دنیا، ہمایوں، شاہکار، نگار اور آج کل میں چھپ رہے ہیں۔ انھیں یکایک شادؔ صاحب کی سفارش کی ضرورت یقیناً پیش آئی ہو گی۔ کہنے والا میرے سامنے تو چپ ہو گیا لیکن یہ بات راز صاحب تک بھی پہنچی اور انھوں نے مجھ سے تذکرہ کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ فلاں صاحب کے خشت باطن کی اختراع ہے اور بس، شاد صاحب ایسی احمقانہ اور ناقابل یقین بات کبھی نہیں کہہ سکتے۔ رازؔ صاحب کو پہلے ہی شک تھا اس لیے بات آئی گئی ہو گئی۔

رازؔ صاحب کے انتقال کے بعد میں نے نگار کا راز نمبر نکالنا چاہا تو شاد صاحب نے اُن کے بارے میں اپنے اچھے تاثرات کا اظہار کیا اور انھیں قلم بند کر کے مجھے دینے کا وعدہ بھی کیا۔ رازؔ صاحب کی طبیعت کا اندازہ بھی اس بات سے ہو گا کہ انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ شادؔ صاحب کے لیے سرکاری وظیفے کی تحریک کی جانا چاہیے تاکہ وہ اطمینان کی سانس لے سکیں۔

شادؔ صاحب نے اپنے معاصرین کے کلام پر بڑی سخت گرفت کی ہے اُن کی اس انداز کی تنقیدیں بے حد دلچسپ ہوتی تھیں اور وہ ان میں اکثر و بیشتر بات کو بے انتہا الجھا دیا کرتے تھے۔ اس طرح کہ پڑھنے والے کا ذہن اصل اعتراض سے ہٹ کر ادھر ادھر بھٹکنے لگتا تھا۔ پھر وہ صرف اپنی کہتے تھے۔ دوسروں کی نہیں سنتے تھے۔ پے در پے اتنے جائز اور ناجائز اعتراضات کرتے کہ اُن کا شکار گھبرا جاتا اور یہ سب کچھ وہ حفظ ما تقدم کے طور پر اپنے بچاؤ میں کرتے تھے اس لیے کہ خود شادؔ صاحب کے کلام میں بھی غلطیاں ہوتی تھیں اور بعض تو فحش قسم کی مثلاً یہ شعر دیکھیے :

تغافل کمال فن مزاج رامپور ہے

تو مجھ سے بے رخی میں بزم دوست بے قصور ہے

باعث شدت جنون شوق

آپ کی واعدہ خلافی ہے

تا کجا پوشیدہ رکھ سکتا ہے دو عملی کا عیب

تیری گردن توڑ ڈالے گا کسی دن دست غیب

اس دو عملی کی لاج شاید رہ جائے

گھر کا بھیدی جو ڈھا رہا ہے لنکا

پہلے شعر میں انھوں نے کہنا چاہا ہے کہ کمال فن سے تغافل برتنا رام پور کا مزاج ہے لیکن انھوں نے تغافل کمال فن میں اضافت در اضافت کا کام لیا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ کمال فن تغافل برتنے والا ہوا نہ کہ رام پور شادؔ صاحب کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے مصرع یوں ہونا چاہیے تھا:    ’’ تغافل از کمال فن مزاج رام پور ہے ‘‘

دوسرے شعر میں انھوں نے وعدہ کو واعدہ نظم کیا ہے جو قطعی غلط ہے واعدہ کوئی لفظ ہی نہیں۔ تیسرے اور چوتھے شعر میں دو عملی کی م ساکن نظم ہوئی ہے جب کہ اسے متحرک ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح ایک نظم میں انھوں نے یہ مصرع لکھا ہے :

دکھاتے ہیں اگر جد و جہد بھی

اور مدد سند قوافی استعمال کیے ہیں۔ مذکورہ غلطیاں بغیر کسی تلاش و کاوش کے میں نے نوٹ کر لی تھیں اس طرح کی بہت سی مثالیں شادؔ صاحب کے کلام میں مل جائیں گی۔

شادؔ صاحب نے تقریباً چالیس سال کی عمر میں شادی کی۔ لیکن بیوی ان کا زیادہ ساتھ نہ دے سکیں اور ڈیڑھ سال ہی میں انتقال کر گئیں۔ تپ دق کا علاج اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ شادؔ صاحب کی ناداری اس کو برداشت نہیں کر سکتی تھی مالی پریشانیوں کا اکثر و بیشتر گھریلو زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ پھر شادؔ صاحب تو اپنے دو معاشقوں میں ناکام بھی رہ چکے تھے۔ اس کا بھی کچھ نہ کچھ نفسیاتی اثر مرتب ہونا چاہیے اس لیے ان کی گھریلو زندگی پرسکون نہیں رہی۔ بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، ممکن ہے اس میں بھی زندگی کی تلخیوں کو دخل ہو، ورنہ شادؔ صاحب کے لیے بن ماں کے بچے کی پرورش کچھ مزید آلام و مصائب کا باعث بنتی۔

اپنی ازدواجی، رومانی، معاشی ناکامیوں کو بھلانے کے لیے انھوں نے بہت سے نسخے آزمائے۔ انھوں نے گھبرا کر شراب تو نہیں پی، مذہب آڑے آ گیا ہو گا، ویسے پچیسی، شطرنج، پتنگ اور کبوتر وغیرہ سے انھوں نے اپنا دل بہلایا۔ حقے کے بہت شوقین تھے اور سانس کی تکلیف کے باوجود اس کو اپنا رفیق بنائے رہے۔

شاد صاحب درمیانہ قد اور منحنی جسم کے آدمی تھے، چہرہ کتابی تھا، تن و توش کے تو وہ کبھی بھی نہیں رہے لیکن اتنے کمزور بھی نہیں تھے جتنے بے روزگاری اور بیماری کی شدائد سے ہو گئے تھے۔ پچکے گال، سوکھی ہڈیاں جن پر کھال ہی کھال باقی رہ گئی تھی۔ جوانی میں آنکھوں پر سُنہرے فریم کی عینک لگاتے تھے۔ اب عرصے سے گول شیشوں اور موٹے کالے فریم کی عینک استعمال کرتے تھے۔ وہ سیدھے سادے لباس پہنتے تھے۔ بہت ہی مخصوص موقعوں پر شیروانی۔ عام طور پر قمیص پاجامہ، قمیص کے کالر پر ایک رومال لگا ہوا۔ گرمیوں میں جواہر کٹ، جاڑوں میں مرزئی اور گلے میں رومال کی جگہ اونی مفلر، سر پر رام پوری ٹوپی جوموسم کے لحاظ سے کبھی اونی کپڑے کی ہوتی کبھی سوتی کپڑے کی۔ سوٹ بوٹ میں میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا مگر فوٹو کھنچواتے وقت کبھی کبھی قمیص پر ٹائی باندھ لیا کرتے تھے۔ بالوں کی بیماری کا احساس بہت تھا۔ میرے دوست طاہر ایم سید نے ان کے Bustبنانا شروع کیا تو شادؔ صاحب نے سر کے بالوں اور بھنووں کو گھنا بنوایا اور اُن سے بڑے خوبصورت انداز میں اپنے مدعا کا اظہار کرنے کے لیے کہا:’’ سید صاحب ! میرے یہ جو بال دیکھ رہے ہیں، یہ بیماری سے خراب ہو گئے ہیں اس کا خیال رکھیے گا۔ ‘‘ شادؔ صاحب ان حالات میں نہیں تھے کہ کوئی ملنے آئے تو اُس کی خاطر مدارات کھانے پلانے سے کر سکیں۔ لیکن طاہر صاحب کی تواضع میں انھوں نے اہتمام کیا اور جتنے دن بھی وہ مجسمہ بناتے رہے۔ شاد صاحب چائے سگریٹ پان سے تواضع کرتے رہے۔

اپنے معاشقے بڑے اشتیاق اور پوری تفصیلات سے سناتے تھے، میں نے دو عشق کیے ہیں کہتے ہوئے دو پر زور دیتے تھے۔ ان کی موجودہ ہیئت کو دیکھتے ہوئے یقین نہیں آتا تھا کہ ان سے ایک نہیں دو دو لڑکیوں نے عشق کیا ہو گا مگر اُن کے عشقیہ اشعار کا مزاج، سنی سنائی سے الگ ہے اور ان کی تجربہ کاری کا شاہد۔ متوسط گھرانوں میں چوری چھپے کا معصوم رومان ان کے بہت سے شعروں میں مل جاتا ہے۔ مثلاً

سانولا رنگ کشیدہ قامت

نہ پری ہے نہ کوئی حور ہے وہ

 

ستارہے ہیں ماجرائے دل ہم اس خیال سے

اگر وہ سن کے مسکرا دیے تو داستان ہے

 

ہلکا ساتبسم ترے لب ہائے حسیں پر

مجبور نہ کر مجھ کو محبت کے یقیں پر

 

بدلی ایسی زلف کی لٹ میں شامل کر کے الجھن کوئی

میری خاطر بال سکھانے ناپ رہا ہے آنگن کوئی

 

مستقبل میں رفتہ رفتہ گھل مل کر افسانے ہوں گے

اب تک چلتے پھرتے جملے وہ بھی رسماً ضمناً کوئی

 

چھپا ئی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں

مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں

 

جو ہے وہ کہتا ہے اوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی

کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں

 

جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا

میں نے جب اُسے دیکھا دیکھتا ہوا پایا

 

میں اس کو دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ

ابھی تو جیسے محبت کی ابتدا ہی نہیں

 

مرا قاصد تقاضے پر تقاضے کر رہا ہو گا

وہی لیکن جوابِ شوق لکھتے ڈر رہا ہو گا

 

خط غلط تقسم ہو جاتے ہیں اکثر تم نے بھی

کہہ دیا ہوتا یہ کس کا خط مرے نام آ گیا؟

 

رات کو آئی ہے تکیوں پر دلائی ڈال کر

حسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے

 

ہمارے خاندان کے بزرگ جب جوان تھے

تو کیا بزرگ اُن کے اُن سے یونہی بد گمان تھے

 

حق ہے کہ ستاؤ مگر اتنا نہ ستاؤ

پڑ جائے مری آنکھ کسی اور حسیں پر

 

ایسے بھرپور ایک چھوڑ دو معاشقوں میں ناکامی کے ساتھ مالی پریشانیاں اور ناقدری فن کا احساس مستزاد، شادؔ صاحب کے حصّے میں آیا اور وہ اپنے ماحول اور اپنے حالات سے چڑ گئے، اُن کے قلم کا رُخ رومان کی رنگینوں سے ہٹ کر حقائق کی تلخیوں کی طرف مڑ گیا۔ ایسی تلخیوں کی طرف، جنھوں نے اُن کا سُکھ چین لوٹ لیا تھا اور جن سے وہ اپنی موت تک دست و گریباں رہے، ایسے کہ پھر اُن کے ہاتھ جس کا گریبان آ گیا اور اُردو شاعری کو غزل میں ایک پٹھان کی آواز سنائی دی منفرد اور گرجدار لہجے میں :

جو چاہتے ہیں ہمیں بے قرار فرمائیں

کہیں وہ خود نہ ستارے شمار فرمائیں

 

اُس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

 

ان غم کی گھٹاؤں میں پپیہے کی صدا پر

محسوس یہ ہوتا ہے کہ جھک مار رہا ہے

 

وقت کیا شے ہے پتا آپ کو چل جائے گا

ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھّیں گے تو جل جائے گا

 

جلال کو بھی وقت نے سمو دیا ہے شعر میں

غزل کا مطمحِ نظر جمال ہی نہیں رہا

 

کہیں جھپٹ نہ پڑیں دن میں مشعلیں لے کر

عوام کو نہ سجھاؤ کہ روشنی کم ہے

 

یہاں چراغ تلے لوٹ ہے اندھیرا ہے

کہاں چراغ جلانے کی بات کرتا ہوں

 

وہ باغبان جو پودوں سے بیر رکھتا ہے

یہ آپ ہی کے زمانے کی بات کرتا ہوں

 

جن مسائل میں وطن الجھا ہے

ہاتھ لکھتا ہوں اگر سُلجھا دو

 

ہے تو احمق چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اس کا فرمانے میں ہے

 

عمر بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اٹھا دیں

بتائیے ان کی اس روش پر جو سر نہ پٹیں تو مسکرا دیں

 

اگر ہمارا یقیں نہیں ہے تو آئیے آپ کو گنا دیں

بہار میں جن کے آشیانے لٹے ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھا دیں

 

آپ کے تیور بتاتے ہیں برا مت مانیے

آپ سے کوئی اصولی کام ہونے سے رہا

 

وہ ہمیں تلقین فرماتے ہیں ایسے مشورے

جیسے اندھے سے کہا جائے کہ بائیں ہاتھ کو

 

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

 

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابر گوہر بار کا

 

نفاق باہمی ہی آدمی پر اک دلیل ہے

ہم آدمی کہاں اگر نفاق باہمی نہیں

 

تمھاری فرزانگی سے کچھ کم نہیں ہے دیوانہ پن ہمارا

تمھیں مبارک تمھاری ہجرت ہمیں مبارک وطن ہمارا

 

دھنگنا دے کر چھوڑ دیا ہے

یوں بھی ملتی ہے آزادی

 

ہمسایوں کو ذہن میں رکھ کر

اپنے گھر میں آگ لگا دی

 

وقت کے تیور سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں ہم

چین سے ڈرتے نہیں ہیں چین سے ڈرتے ہیں ہم

 

اب تک کوئی مثال ملی ہے نہ مل سکے

جتنا وطن کے کام مسلمان آ گیا

شادؔ صاحب نے اپنی نئی آواز اور اپنی انفرادیت کا خود بھی جگہ جگہ تذکرہ کیا ہے :

تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں

نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں

 

شراب و شاہد کے تذکرے ان سے چھین لیجے تو کیا کریں گے

شراب و شاہد کے تذکروں تک ہی جن کی جادو بیانیاں ہیں

 

شادؔ ہجر و وصل تک محدود تھی میری نظر اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے سوچنے کی بات ہے

 

گیت افسانہ رباعی داستاں نغمہ غزل

سیکڑوں سانچوں میں ڈھالا ہے غمِ حالات کو

 

سخن سرایانِ عارض و لب کے مُنہ پہ اس وقت کیا رہے گا

کہیں جو اے شاد سننے والے کلام پڑھیے زٹل نہ کہیے

 

مخالفینِ تغزل بھی مانتے ہیں شادؔ

ادب میں سیکڑوں امکان ہیں غزل کے لیے

شادؔ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اتنے امکانات پیدا کر لیے تھے کہ وہ کتنی ہی ناگفتنی باتوں کو گفتنی کر کے دکھا گئے یہ ان کی قدرت بیان کا کرشمہ ہے۔ اپنی اسی قدرت کی طرف انھوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:

شادؔ وہ لوگ بہر حال بڑے شاعر ہیں

جن کو قانون میں آتا ہے غزل خواں ہونا

میں نے عرض کیا تھا کہ شادؔ صاحب کی تخلیقات عرصۂ دراز تک ادب کے نمائندہ رسالوں پر چھائی رہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی میں نہ تو اُن پر مضامین شائع ہوئے اور نہ اُن کے کلام کے مجموعے۔ ان پر لکھنے کی پہلی کوشش علی حماد عباسی نے کی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے عباسی صاحب کا مضمون ادب لطیف میں شائع ہوا تھا یا پھر شادؔ صاحب کی ایک عزیزہ طاہرہ اختر نے شخصیت پر ایک مضمون نقوش میں لکھا تھا۔ بڑے سرسری سے دو ایک مضمون ان کے مرنے سے پہلے اِدھر اُدھر اور آ گئے ہوں گے مگر جس طرح آئے دن بہت سے چھٹ بھیّوں پر طومار باندھے جاتے ہیں، ہمارے دور کے اس اہم ترین شاعر کو لکھنے والے نہ ملے، شخصیت پر لکھنے والے تو اس لیے میسر نہ آئے کہ شادؔ صاحب  رام پور کی دنیا سے باہر نہیں نکلے اور شخصیت ایسی چیز نہیں کہ سُنی سنائی سے کام چلا لیا جائے۔ رہا فن، تو چونکہ مجموعے سامنے نہیں تھے اس لیے نقاد لکھے تو کاہے کو سامنے رکھ کر لکھے۔ جگہ جگہ بکھری نظموں غزلوں اور قطعوں سے نوٹس تیار کرنا آسان کام نہیں۔ ممکن ہے کسی نے سوچا بھی ہو مگر شاد صاحب کے ہاتھوں دوسروں کی جو درگت بنتی رہتی تھی وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ ان پر لکھنے کے معنی پُل صراط پر چلنے کے تھے، یا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دینے کے۔ اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کون آمادہ ہوتا اس لیے بات چھتّوں تک ہی رہی جستہ جستہ مضامین میں اُن کا ذکر آتا رہا کسی صاحب نے سالانہ ادبی جائزہ لیا تو اُن کا نام سرسری طور پر لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ کہیں اور اہم شاعروں کا شمار کیا گیا تو شادؔ صاحب کا نام آ گیا مگر ان چھینٹوں سے شادؔ صاحب جیسے شاعر کا حق تھوڑا ہی ادا ہو جاتا ہے۔

شاد صاحب یقیناً اس بات کو محسوس کرتے تھے اس لیے ان میں عجیب عجیب Complexesپیدا ہوتے رہتے تھے۔ وہ فارسی کام چلانے کے لائق اور عربی برائے نام جانتے تھے۔ ان کے معاشی حالات نے انھیں اتنا موقع ہی نہیں دیا کہ وہ تکمیل کر سکتے۔ چونکہ خلاق ذہن کے مالک تھے اس لیے شاعری میں ا پنا الگ رنگ ایجاد کر گئے اور یہی اُن کی بڑائی ہے مگر احساس کمتری میں ایسا مبتلا رہے کہ عربی فارسی ادب پر عبور کا دعویٰ کرنا ضروری جانتے تھے۔ عربی دانی کا لوہا منوانے کے لیے ایسے الفاظ جو اردو میں اجنبی اور انجانے ہیں جیسے صرعت اعائق، اعطالہ وغیرہ استعمال کرتے تھے۔ سبعہ معلقہ اور امراء القیس کے حوالے دیتے ہیں تو تا (طوطا)اور حضّت ( حضرت) لکھ کر فٹ نوٹ لگاتے تھے کہ ان کا لکھا ہوا املا صحیح ہے اور یہ سب وہ اپنے پڑھنے والوں کی توجہ حاصل کرنے اور انھیں مرعوب کرنے کے لیے کیا کرتے تھے۔ قوسین کا بے حدو حساب استعمال کرنے میں بھی وہ اتنے سخی تھے کہ بعض جگہ واقعی یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ان سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔

شادؔ صاحب کے پاس جو رسالے آتے تھے اُن پر وہ کئی کئی جگہ اپنا نام لکھتے تھے اردو میں بھی انگریزی میں بھی اور پھر مختلف انداز سے یعنی ایک جگہ احمد علی خاں شادؔ عارفی مع تاریخ دوسری جگہ یہی انگریزی رسم الخط میں تیسری جگہ صرف شادؔ عارفی چوتھی جگہA.A.K. Shaad Arfiاور پانچویں جگہShad Arfi، علیٰ ہذا القیاس۔ جی نہیں بھرتا تھا مرحوم کا اپنا نام لکھتے لکھتے دوسروں کی کسر بھی اپنے ہی آپ پوری کر لیتے تھے، وہ اس بات کے متمنی اور بلا شبہ اس کے مستحق تھے کہ اُن پر مضامین لکھے جاتے۔ ان کے مقام کا تعین واضح طور سے کیا جاتا مگر اس معاملہ میں اُن کی پیاس بجھانے والا کوئی نہ تھا یہی نفسیاتی وجہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے نام کو اتنی بار اور اتنے مختلف انداز سے لکھا ہے کہ اپنی انفرادیت قائم کر گئے۔

کئی ناشروں نے شادؔ صاحب سے اُن کے مجموعے چھاپنے کی خواہش کی۔ شروع شروع میں تو انھوں نے خود ہی گھاس نہیں ڈالی اس کے بعد جب شادؔ صاحب کو معلوم ہوا کہ تاجرانہ ذہنیت کیا ہوتی ہے تو وہ کچھ نرم پڑے لیکن تاجروں کی سودے بازی اور رقم کی ادائیگی میں لیت و لعل نے یہ موقع ہی نہ آنے دیا کہ شادؔ صاحب کی زندگی میں اُن کی آرزو پوری ہوتی مجموعہ ناشر کے پاس پہنچ جاتا تھا مگر رائلٹی اشاعت کے بعد تک کے لیے اٹھا دی جاتی تھی اور یہ وہ ناشر تھے جن کے لیے پانچ چھ سو روپے کی معمولی رقم پیشگی دے دینا کوئی دشوار بات نہ تھی۔ شاد صاحب کا ایک مجموعہ سماج کے نام سے کوئی بیس برس ہوئے چھپا تھا مگر صرف چھپا تھا شائع نہیں ہوا، کچھ کاپیاں چند دوستوں اور شاگردوں کو پہنچ گئیں باقی ردی میں گیا، اور دیمک کی نذر ہو گیا۔ چھاپنے والے شادؔ صاحب کے ایک دوست اور شاگرد رشید احمد خاں مخمور تھے جنھیں کتاب کی فروخت کا تجربہ نہ تھا اس لیے مجموعے کی تشہیر نہ ہو سکی اور تشہیر کے بغیر کتاب نکل نہیں سکتی اس لیے اس مجموعے کے چھپنے سے شادؔ صاحب کی تسکین بھی نہیں ہوئی۔ ایک مختصر انتخاب خلیل الرحمن اعظمی اور جاوید کمال کی کوششوں سے انجمن ترقی اردو نے چھاپ دیا لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ بھی شاد صاحب کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس بار شادؔ صاحب خودکنجوسی دکھا گئے اور اس بات پر انھوں نے زور دیا کہ سماج میں جو کلام ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہ شریک کیا جائے۔ بڑی مشکل سے چار پانچ تازہ تخلیقات دینے پر آمادہ ہوئے۔ شادؔ صاحب کا خیال تھا کہ اگر ان کا تازہ کلام انتخاب میں آ جائے گا تو آئندہ مجموعوں کی ترتیب پر برا اثر پڑے گا اور اس طرح یہ ایک موقعہ بھی اپنے آپ کو پہچنوانے کا انھوں نے کھو دیا تو پھر دوسرا کوئی بھی کیا کرے جب ایک شخص خود ہی اس حد تک اپنا خیر اندیش ہو جائے۔

شادؔ صاحب کی مصیبتیں بڑی حد تک ان کی اپنی بلائی ہوتی تھیں۔ اس میں ان کی غیر محتاط طبیعت کو دخل تھا۔ ان کی معاشی پریشانیاں ہوں یا ان کی جسمانی بیماریاں، وہ ان کو دعوت دیتے تھے۔ کتنی ہی جگہ نوکریاں کیں اور چھوڑ دیں۔ زمانہ نا قدر شناس سہی مگر قصور شاد صاحب کے ٹنّی ہونے کا بھی تھا اُن کے بڑا شاعر ہونے میں کلام نہیں مگر پہلی بات تو یہ کہ وہ بتدریج اس مقام تک پہنچے ہوں گے دوسرے اُن کا تقرر بحیثیت شاعر نہیں ہوتا تھا اس لیے یہ کیا ضرور تھا  کہ دوران کار اُن کی شاعرانہ حیثیت کو محکمے کے افسران مد نظر رکھیں، تیسرے اچھے شاعر کے لیے یہ بالکل لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے فرائض منصبی پر بھی اسی طرح حاوی ہو جس طرح شعر پر۔ مگر شادؔ صاحب نے یہ کبھی نہ بھلا یا کہ وہ شاعر ہیں اس لیے  افسران کی وہ گرفت جو عام ملازم کے لیے معمولی ہوتی شادؔ صاحب کے لیے ہتک ہو جاتی تھی اور اُن کی زندگی کے راستے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے گئے۔

یہ تو مالی مشکلات کی بات ہوئی۔ وہ کھانے پینے کے معاملے میں بھی بلا کے بد پرہیز تھے، برسوں سے سانس کے مریض تھے۔ پھیپھڑے کمزور، معدہ کمزور، جگر خراب، مگر جاڑوں میں رساول کھائے بغیر نہیں رہتے تھے۔ برسات میں آموں کا زور شور ہوتا تھا، بیمار پڑتے تھے سانس بے قابو ہو جاتی تھی، پیٹ پھول جاتا تھا مگر وہ نہیں مانتے تھے اور ذائقے کی خاطر سال میں کم سے کم دو بار ضرور قبر میں پاؤں لٹکا دیتے تھے۔ ان کے خیر خواہ دوڑ بھاگ کرتے اور دوا دارو ہوتی، دو ڈھائی مہینے میں کہیں وہ قابو میں آتے۔ کتنے ہی برسوں سے یہ ہو رہا تھا۔

عصمت کے انداز میں اگر لکھا جائے تو گویا وہ ہر بار مرنے کے معاملے میں دھوکا دے جاتے تھے اور اس لیے اُن کے مرض موت تک تو کم از کم میں نے یہ نہیں سمجھا کہ وہ چل ہی دیں گے۔ ممکن ہے چونکہ یہ جی نہیں چاہتا تھا کہ وہ مر جائیں اس لیے خود فریبی نے یہ نہ سمجھنے دیا کہ الوداع کہہ رہے ہیں۔ شادؔ صاحب خود بھی مجموعہ امراض و آلام ہونے کے باوجود جینے کے بڑے خواہشمند تھے۔ مرنے سے چند ہی روز پہلے انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں یقین ہے وہ ابھی نہیں مریں گے اور اب تو اُن کے جینے کا وقت آیا ہے لیکن یہ کہتے کہتے ایک بار آخر چوٹ دے ہی گئے ممکن ہے خود چوٹ کھا گئے ہوں۔

شادؔ صاحب کی زندگی میں اُن کا جشن منایا گیا، اُن کے نام پر چندے اکٹھے کیے گئے، ان کے کلام کی اشاعت کا اعلان کیا گیا۔ اس زمانے میں بھی وہ لب گور تھے۔ جگر جواب دے چکا تھا، ہاتھ پاؤں پر سوجن تھی، دمے نے بے حال کر رکھا تھا مگر کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس نام و نمود سے ہٹ کر دیکھتا اور یہ سوچتا کہ اس ہنگامہ آرائی سے شادؔ عارفی غریب کے حصے میں کیا آیا وہ اُسی طرح بستر پر ایڑیاں رگڑ تا رہا اسی طرح دوا کی ایک ایک خوراک کو ترستا رہا، ہاں اگر ہوا تو اتنا ہوا کہ اس بہانے کچھ اداکار اسٹیج پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا گئے، اپنی سماجی خدمتوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر واہ واہ  اپنے دامن میں سمیٹ کر لے گئے اور بس اور یہی قدر دان، جب شاعر مر گیا تو اس کے یہی قدردان جنازے سے بھی مُنہ پھیر گئے اس لیے کہ مٹی کا ڈھیر ان خدائی خدمت گاروں کو کیا دے سکتا تھا۔

چندہ وصول کرنے کچھ لوگ ڈاکٹر ضمیر احمد صاحب کے پاس بھی پہنچے باتوں میں شاد صاحب کی بیماری کا بھی ذکر آیا۔ ضمیر صاحب، صاحبِ ذوق آدمی ہیں۔ پھر شادؔ صاحب کے استاد شفق صاحب کے پوتے بھی، ان دو رشتوں کی وجہ سے انھیں شادؔ صاحب سے ہمدردی پیدا ہو گئی اور وہ شاد صاحب کو دیکھنے پہنچے دو ایک بار میں بھی انھیں پکڑ کر لے گیا۔ ضمیر صاحب نے بڑی توجہ سے علاج کیا، دواؤں کی قیمت میں بھی رعایت برتی، شاد صاحب کو افاقہ ہو گیا۔

شادؔ صاحب اس جشن سے بہت خوش ہوئے۔ اس جشن میں جو مزاج کار فرما تھا، اُس تک ان کی نظر نہیں گئی اور یہ اچھا ہی ہوا ورنہ مرتے مرتے وہ ہمدردی کے روپ میں ایک اور داغ اپنے سینے پر لے جاتے۔ لیکن جب مستقبل کا مورخ لکھنے بیٹھے گا تو وہ ان ظاہر داروں کو نہیں بخشے گا جنھوں نے جشن برپا کیے لیکن جنازے پر نہ پھٹکے اور بجائے ندامت کے الٹی اس بات کی تشہیر کرنے بیٹھ گئے کہ ہائے شادؔ عارفی کو کاندھا دینے والے گنتی کے تھے اور وہ مؤرخ پوچھے گا کہ کیا شاد عارفی کے یہ ماتم گزار خود بھی جنازے پر موجود تھے تو اُسے کوئی جواب نہ ملے گا۔ اور وہ بغیر انتظار کیے اپنے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ نام کے آگے غیر حاضری درج کر چکا ہو گا۔

ہائے ہم بھی کہاں کہاں فریب دیتے ہیں !

شادؔ صاحب نے اپنی آخری زندگی میں بڑی جرأت اور بے خوفی کا ثبوت دیا ہے مگر وہ موت سے بہت ڈرتے تھے، میں نے اُن کے مرض موت میں سول سرجن سے مشورہ کیا انھوں نے ہر چوتھے روز لگائے جانے والے انجکشن تجویز کیے۔ میں یہی نسخہ لے کر ڈاکٹر ضمیر صاحب سے ملا انھوں نے بھی سول سرجن سے اتفاق کیا، میں نے انجکشن خریدے اور یہ طے ہوا کہ ڈاکٹر ضمیر رات کو اپنے مطب سے اٹھیں تو شادؔ صاحب کو دیکھ لیں اور انجکشن لگا دیں۔ لیکن جب ہم دونوں پہنچے تو شاد صاحبؔ نے انجکشن لگوانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ انھیں وہم آتا ہے وہ یہ انجکشن برداشت نہیں کر سکیں گے اور مر جائیں گے۔ ضمیر صاحب لاکھ سمجھاتے رہے کہ یہ انجکشن آپ کی سکت کو باقی رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں، نہیں لگے گا تو بھی آپ مر جائیں گے مگر شادؔ صاحب کسی طرح نہیں مانے اور سچ مچ چیخ پڑے کہ اُن پر یہ ظلم نہ کیا جائے ہمیں ہتھیار ڈال دینے پڑے اور دوسرے دن وہی انجکشن یہ کہہ کر لگایا گیا کہ یہ دمے کے سلسلے کا ہے۔

ان کی پُر اذیت زندگی پر میں بہت کڑھا ہوں لیکن آج جبکہ وہ سب کچھ جھیل کر گزر چکے ہیں میں سوچتا ہوں کیا آرام و آسائش کی زندگی گزار کر وہ طنز پر ایسی بے پناہ قدرت حاصل کر سکتے تھے جس نے انھیں اکبر الٰہ آبادی کے بعد اردو ادب میں سب سے بڑا طنز گو شاعر بنا دیا اگر وہ ہر ہر بات پر نہ بگڑتے، اپنا خون نہ جلاتے چھوٹی چھوٹی باتوں کو ضرب دے دے کر نہ بڑھا لیا کرتے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے بیٹھ جاتے تو کیا اُن کا قلم ہمارے ادب کو لازوال شاہکار دے سکتا تھا۔

شاد صاحب کے طنز کا نشتر اپنے بیگانوں سب پر چلتا تھا۔ اُن کا تخلص خود اُن پر طنز تھا۔ اُن کی زد میں جو آ گیا انھوں نے لگے ہاتھوں اُسے نپٹا دیا۔ اُن کی طنز یہ نظموں کی بڑی تعداد ایسی ہے جس میں اُن کے آس پاس کے لوگوں پر چوٹیں ہیں مثلاً ایک نظم ’’ یہ میرے زن مرید بھتیجے کی ساس ہے ‘‘ اپنی بھتیج بہو اور ان کی ماں سے بدگمان ہو کر لکھی تھی۔ مقامی عزیزوں اور ملاقاتیوں میں صرف دو نام ایسے ہیں جن سے وہ نہ بد گمان ہوئے اور نہ ناراض ہوئے اور وہ ہیں طاہرہ اختر صاحبہ اور ان کے شوہر قیصر شاہ خان صاحب، غیر مقامی میں شاید مظفر حنفی کا استثنا ہے۔ مظفر کو شاد صاحب سے تعلق نہیں عشق تھا۔ شاد صاحب کے مرنے کو جتنا انھوں نے محسوس کیا بس اتنا ہی شادؔ صاحب کا کوئی قریب سے قریب رشتے والا محسوس کر سکتا تھا۔ مظفر صاحب نے ’ بزدلی‘ کے عنوان سے شادؔ صاحب کا مرثیہ کیا لکھا ہے ہمارے عہد کا مرثیہ لکھا ہے، حالی کے مرثیہ غالبؔ کے بعد یہ دوسرا مرثیہ ہے جس میں دل کو زبان مل گئی ہے، میں نے جب جب اُسے پڑھا مجھ پر رقت طاری ہو گئی۔ اس کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس میں طنز یہ انداز بیان اختیار کرنے کے باوجود مرثیے کا تاثر موجود ہے۔

شاد صاحب مذہبی آدمی تھے ان کا ایک شعر ہے :

عقل کونے جھانکنے لگتی ہے جن حالات میں

روح کو تسکین ملتی ہے خدا کی ذات میں

وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن الحاد کی طرف کبھی مائل نہیں ہوئے نہ انھوں نے اشتراکیت کو غیر اخلاقی خرافات کے لیے پروانہ راہ داری بنایا وہ اسلام کے حقوق العباد کو اشتراکی برابری سے کہیں بڑھ چڑھ کر جانتے تھے اور اُن کی بہت سی تحریروں میں اس کا اظہار ہوا ہے، ترقی پسند ایک زمانے میں اپنے مصنفین پر بے حد کڑا احتساب کرنے لگے تھے جس کی زد میں منٹو، عسکری، ممتاز شیریں اور بہت سے آئے اور رجعت پسند قرار دے کر برادری سے خارج کر دیے گئے۔ مگر شادؔ صاحب برابر ترقی پسند رسائل اور انتخابات میں شریک کیے جاتے رہے۔

وہ نماز کے حتی الامکان پابند تھے اوراد و وظائف بھی جاری رہتے تھے، مولانا مودودی کی بصیرت کے معترف تھے۔ میں نے شادؔ صاحب کے زیر مطالعہ مولانا مودودی کی کئی مشہور تصانیف دیکھی ہیں جن میں تفہیم القرآن بھی ہے۔ راہی عارفی کو انھوں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ جماعت اسلامی سے ڈرو مت اس میں کوئی بات قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے اور مولانا مودودی کی کتاب سود پڑھنے کا پُر زور مشورہ دیا تھا، ایک زمانے میں وہ اسلام پسند ادیبوں کی نشستوں میں بھی شریک ہوتے تھے لیکن یہ سلسلہ دیر تک نہیں چل سکا۔ ممکن ہے کسی بات پر ناراض ہو گئے ہوں مگر یہ ناراضگی کسی فرد یا چند افراد سے ہو گی مولانا مودودی کی بصیرت اور ان کی Approachکے وہ ہمیشہ مداح رہے۔

ایک خط میں انھوں نے قیصر صاحب سے مالی امداد چاہی ہے اور بات کو یوں ختم کیا ہے :’’ تم جب تک منع نہیں کرو گے خدائے برتر کوئی اور دروازہ نہیں کھولے گا۔ ‘‘ اس سے بڑھ کر اور کن لفظوں میں خدا کی شان رزّاقی پر یقین کا ثبوت مل سکتا ہے۔

ابّا نے ایک صاحب کو جو کسی شاعر پر تحقیقی کام کر رہے تھے یہ مشورہ دیا تھا کہ ’’ آپ جس شخص پر کام کریں اُسے ہیرو نہ بنائیں نہ فن کے معاملے میں نہ شخصیت کے معاملے میں۔ فن اور شخصیت کی خوبیاں اور خامیاں دونوں زیر بحث آنا چاہئیں اگر ایسا نہ ہوا تو آپ کا کام غیر معتبر بھی ہو گا اور گمراہ کن بھی۔ ‘‘

ابھی تک ہم لوگ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے ہیں کہ کوئی بھی فن کار آدم زاد پہلے ہوتا ہے کچھ اور بعد کو۔ ہم اپنے فنکاروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اُن کی زندگیاں اس کی سچی تصویر ہوں یہ ہمارا مزاج بن گیا ہے۔ آج سے تیرہ سو سال پہلے کی کھلی شہادت ہمارے سامنے ہے کہ شاعر جو کچھ کہتا ہے وہ کرتا نہیں مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کو ننگا بھوکا نہ دیکھ سکنے کا دعویدار غالبؔ اپنے محسن دوست آزردہؔ کی بیوہ کا وظیفہ مقرر ہوتے نہیں دیکھ سکتا، یا خودی کا منبع اقبال مہاراجہ کشن پرشاد کے وسیلے سے حیدر آباد سرکار سے آس لگاتا ہے تو ہمارے جذبات اور عقیدت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ قصور دوسرے کا نہیں ہوتا ہماری خوش عقیدگی کا ہوتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے یہ اُس کی تمنائیں ہیں، یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ جن برائیوں کے خلاف وہ آواز اٹھا رہا ہے اُن سے خود بھی عاری ہو۔ اقبالؔ نے ایسے ہی کسی موقعہ پر از راہِ تفنن کہا تھا کہ ’’ قوال کو حال نہیں آتا۔ ‘‘

خود میں بھی اپنے معاشرے سے علیٰحدہ نہیں اور یہ سطریں لکھنے کے باوجود میرا بھی جی چاہنا ہے کہ ہمارے پسندیدہ فنکاروں کی ذات میں کسی کمزوری کو دخل نہ ہو اس لیے جب جب میں نے یہ محسوس کیا کہ شادؔ صاحب اپنی زندگی کے بارے میں اپنے سوانح نگارسے کچھ چھپا رہے ہیں یا اُن کے قول و فعل میں کوئی تضاد ہے تو مجھے دُکھ ہوا۔ میں شادؔ صاحب کے بڑے بڑے معترف سے زیادہ معترف ان کا ہوں لیکن میں اندھی محبت اور نری عقیدت کا قائل نہیں اور سچی دوستی اس کو جانتا ہوں کہ شاد صاحب نے اگر دوسروں کے بارے میں سچ سے گریز نہیں کیا تو میں بھی نہ کروں گا اس لیے کہ اُن کی عظمت سچ پر قائم ہے۔ اُن کے شیدائی میں بھی وہی جرأت اظہار ہونا چاہیے جس کی خاطر انھوں نے اپنی زندگی اجیرن کر لی۔

شادؔ صاحب کی زندگی میں ایسے کئی نشیب و فراز ہیں جو ہمارے عقیدوں پر ضرب لگائیں گے لیکن وہ شاد صاحبؔ کی شاعرانہ عظمت کے لیے بے ضرر ہیں، ہاں اُن کا ذکر ایک طرح ہماری آپ کی آزمائش ضرور ہے کیا حرج ہے اگر ہم شادؔ صاحب کے طفیل آج اپنا امتحان لیں اور دیکھیں کہ ہم اُن کے بارے میں کس حد تک جذبات سے علیٰحدہ ہو کر سوچ سکتے ہیں۔

شادؔ صاحب ہمارے ہی سماج کے فرد تھے وہ جن خامیوں پر گرفت کرتے تھے جس طرح وہ سب ان کے اندر موجود نہیں تھیں اُسی طرح وہ اُن سب سے مبرّا بھی نہیں تھے۔ مجھے ایک بار شادؔ صاحب کے ایک ایسے ہمدرد اور مخلص نے جو اُن کی امداد اور دلدہی کو فریضے کی طرح انجام دیتے رہے اور جن کی انسانیت اور انسان دوستی کے شادؔ صاحب بے حد مداح تھے یہ لکھا:

’’ شاد صاحب اچھے بیٹے اور اچھے بھائی نہ تھے۔ ‘‘

میں راوی کو معتبر جاننے کے باوجود اس منفی پہلو پر جھنجھلایا۔

مجھے یہ معلوم تھا کہ شادؔ صاحب کی زندگی، رومانی اور معاشی دونوں طرح تلخ رہی، شہرت انھیں ملی مگر اس کے ساتھ ساتھ اُن کے شب و روز افکار و مصائب سے خالی نہیں رہے، اس کا اثر گھریلو زندگی پر بھی یقیناً پڑتا ہے پھر بھی میں یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ ان تلخیوں کی زد میں وہ اتنے بے قابو ہو سکتے ہیں کہ ماں کا احترام اور محبت وقتی طور پر سہی اُن کی نظروں سے الگ ہو جائے۔

مجھے یقین نہیں آیا جب میں نے یہ سنا کہ شاد صاحب نے اپنا ذاتی مکان جس کے بارے میں اُن کا بیان ہے کہ ماں کے انتقال پر انھیں فروخت کرنا پڑا تھا، مان کے انتقال کے عرصے بعد اپنی دوسری ضرورتوں کے لیے فروخت کیا تھا۔

مجھے اپنے کانوں پر دھوکا ہوا جب شادؔ صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ شہر کے فلاں رئیس سے مکان کی تعمیر سے متعلق ایفائے وعدہ کے منتظر ہیں۔ اس لیے کہ مجھے معلوم تھا وہ اسی شخص کی ہجو اپنی مشہور نظموں ’’ آپ کی تعریف‘‘ اور ’’ ٹکڑ گدے ‘‘ میں کر چکے ہیں۔

مجھے باور کرنے میں بڑی پس و پیش تھی کہ شاد صاحب نے مولانا ابو الکلام کو رام پور کے جلاہے خاندان کا فرد اور امیر مینائی کو نظام رام پوری کے کلام کا چور کیسے بتا دیا۔

مجھے اس راز دار کی حق گوئی مشتبہ نظر آئی جس نے مجھ سے کہا کہ شادؔ صاحب کے فلاں فلاں اشعار اور ان کی مشہور نظم ’’ مرے محلے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘‘ میں مذکور ایک گھرانے سے مراد فلاں گھرانا ہے اور اس گھرانے کی جن لڑکیوں کو شاد صاحب نے طوائف کا درجہ دیا ہے اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ ایسی ماں کی بیٹیاں ہیں جن سے شاد صاحب شادی کے خواہش مند تھے اور شاد نے اپنے رقیب کا بدلہ اُس کی اولاد کو طنز کا نشانہ بنا کر لیا۔

میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ حکمراں خاندان جس کی مدح سرائی کرتے ہوئے شاد صاحب نے مبارک بادیاں اور سہرے لکھے اپنا اقتدار کھوتے ہی اتنا بُرا کیسے ہو گیا کہ شادؔ صاحب کو اس کی منقصت میں صفحے کے صفحے سیاہ کرنا پڑے۔

انھیں کے ساتھ ساتھ میرے علم میں یہ بھی تھا کہ:

انھوں نے اپنی ناداری میں ہزار تکلیفیں جھیل کر اپنی بھتیجی اور بھتیجے کی پرورش کی بھتیجے کی تعلیم کا معقول انتظام کیا، معلمی کی ٹریننگ دلائی اس کے پاؤں پر کھڑا کیا، اس کی شادی کی اس کی بہن کی شادی کی لیکن جب وہ اس قابل ہوا کہ شاد صاحب کا سہارا بن سکے تو شاد صاحب نے علیحدگی اختیار کر لی اور اس بھتیجی کی بیوگی کا ایک بار پھر سہارا بن گئے جس کی یتیمی کا سہارا کبھی بنے تھے۔

وہ اپنا احتساب کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے انھوں نے اپنے ایک شاگرد کو لکھا تھا:

’’ مجھے قبلہ مت لکھا کرو میں بہت گنہ گار قسم کا آدمی ہوں، مجھے تو حضرت بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ ‘‘

ان کی جرأت رندانہ قاتل کی تلوار کا بوسہ لے سکتی تھی۔ کم از کم آزادی کے بعد انھوں نے بڑی بے جگری کا ثبوت دیا اور نڈر ہو کر فرقہ واریت کے دیو کے خلاف ’’ابھی جبل پور جل رہا ہے ‘‘ جیسی نظم لکھی۔

انھوں نے مرنے سے پہلے اپنی نظموں کے معاوضے کی رقم تجہیز و تکفین کے لیے الگ مخصوص کر کے رکھ دی اور اپنے غیرت مند لاشے کو کسی بھی اپنے پرائے کی رحم دلی کا احسان مند ہونے سے بچا لے گئے۔

شاید یہ آدم زاد فرشتہ اپنے نوشتے کو بے داغ رکھ کر اس بستی کے رہنے والوں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جن میں وہ آن بسا تھا۔

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر، جنہوں نے اصل کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید