FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

انتخاب کلام جرأت

 

 

 

قلندر بخش جرأت

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

 

میں کہا ایک ادا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

دیکھ ٹک آنکھ چرا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

سب سے ہنستا تھا وہ کل، رو کے جو میں بول اٹھا

ہم سے بھی ٹک تو ہنسا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

میں کہا دل کو میں لے جاؤں تو بولا وہ کہ ”ہوں ”

لے چلا جب میں اٹھا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

میں کہا صبر و دل و دیں نے وفا ہم سے نہ کی

بے وفا تو تو وفا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

میں کہا جام مے پیتے ہو تو بولا وہ کہ ”ہوں ”

جب کہا لاؤں چھپا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

میں کہا صحبت اغیار بری ہے پیارے

ان سے اتنا نہ ملا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

میں کہا عشق کو اظہار کروں بولا ”ہوں ”

جب کہا کہتا ہوں جا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

میں کہا سمجھے ہے آزار مرا بولا ”ہوں ”

جب کہا کچھ تو دوا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

 

میں کہا اب تری دوری سے ہے جرأتؔ بے تاب

کچھ تو کہہ پاس بلا کر تو لگا کہنے ”اوں ہوں ”

٭٭٭

 

 

 

 

اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا

جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا

 

کوچۂ دہر میں غافل نہ ہو پابند نشست

رہ گزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا

 

غم زدہ اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ

زانوئے غم سے ولیکن نہ اٹھا سر اپنا

 

دیکھیں کیا لہجۂ ہستی کو کہ جوں آب رواں

یاں ٹھہرنا نظر آتا نہیں دم بھر اپنا

 

گر ملوں میں کف افسوس تو ہنستا ہے وہ شوخ

ہاتھ میں ہاتھ کسی شخص کے دے کر اپنا

 

وائے قسمت کہ رہے لوگ بھی اس پاس نہ وہ

ذکر لاتے تھے کسی ڈھب سے جو اکثر اپنا

 

ذبح کرنا تھا تو پھر کیوں نہ مری گردن پر

زور سے پھیر دیا آپ نے خنجر اپنا

 

نیم بسمل ہی چلے چھوڑ کے تم کیوں پیارے

زور یہ تم نے دکھایا ہمیں جوہر اپنا

 

کیا کریں دل جو کہے میں ہو تو ہم اے جرأتؔ

نہ کہیں جائیں کہ ہے سب سے بھلا گھر اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

الفت سے ہو خاک ہم کو لہنا

قسمت میں تو ہے عذاب سہنا

 

دھیان اس کے میں ہم کو سر بہ زانو

آنکھیں کیے بند بیٹھے رہنا

 

منہ چاہئے چاہنے کو یوں جی

کیا تم نے کہا یہ پھر تو کہنا

 

اللہ رے سادگی کا عالم

درکار نہیں کچھ اس کو گہنہ

 

کر بند نہ اشک چشم تر کو

بہتر ناسور کا ہے بہنا

 

قائم رہے کیا عمارت دل

بنیاد میں تو پڑا ہے ڈھنا

 

شب گھر جو رہا مرے وہ مہماں

تھا صبح یہ کس ادا سے کہنا

 

طاقت نہ رہی بدن میں ہے ہے

قربان کیا تھا یاں کا رہنا

 

دل نے بھی دیا نہ ساتھ جرأتؔ

کیا دوش کسی کو دیجے لہنا

٭٭٭

 

 

 

برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا

گر نام ہمارا سر مکتوب نہ ہوتا

 

خوبان جہاں کی ہے ترے حسن سے خوبی

تو خوب نہ ہوتا تو کوئی خوب نہ ہوتا

 

اسلام سے برگشتہ نہ ہوتے بخدا ہم

گر عشق بتاں طبع کے مرغوب نہ ہوتا

 

کیوں پھیر وہ دیتا مجھے لے کر مرے بر سے

اتنا جو دل زار یہ معیوب نہ ہوتا

 

اس بت کو خدا لایا ہے ہم پاس وگرنہ

جینے کا ہمارے کوئی اسلوب نہ ہوتا

 

دل آج کے دن پاس جو ہوتا مرے تو آہ!

آنے سے میں اس شوخ کے محجوب نہ ہوتا

 

ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت

ہم ہوتے نہ طالب جو وہ مطلوب نہ ہوتا

 

سر اپنا رہ عشق میں دیتا جو نہ جرأتؔ

تو مجمع عشاق کا سرکوب نہ ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا

ڈر لگے نام لیے جس کا وہ آزار لگا

 

سب یہ کہتے ہیں مجھے تجھ سے جو دل یار لگا

ہائے کیا اس کو جوانی میں یہ آزار لگا

 

ہم دوانوں کا یہ ہے دشت جنوں میں رتبہ

کہ قدم رکھتے ہی آ پاؤں سے ہر خار لگا

 

کہیے کیوں کر نہ اسے بادشہ کشور حسن

کہ جہاں جا کے وہ بیٹھا وہیں دربار لگا

 

قدر پھر اپنی ہو کیا اس کے خریداروں میں

روز و شب جس کی گلی میں رہے بازار لگا

 

کون سا دن وہ کٹا مجھ پہ کہ اے تیغ فراق

زخم اک تازہ مرے دل پہ نہ ہر بار لگا

 

دل میں اب اس کے جو لہر آئی ہے گھر جانے کی

تو بھی رونے کی جھڑی دیدۂ خوں بار لگا

 

متصل تو جو مرا خون جگر پیتا ہے

کیوں غم عشق یہ کیا تجھ کو مزے دار لگا

 

تیز دستیِ جنوں آج ہے ایسی ہی کہ بس

نہ رہا اپنے گریباں میں کوئی تار لگا

 

اس زمیں میں غزل اک اور بھی پڑھ اے جرأتؔ

خوب انداز کے اب کہنے تو اشعار لگا

٭٭٭

 

 

 

 

بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھا

کہ ہزاروں دل میں تھیں حسرتیں اور اٹھانا آنکھ محال تھا

 

رہا شب جو ہم سے جدا کوئی تو کہے یہ واقعہ کیا کوئی

شب ہجر تھی کہ بلا کوئی جسے دیکھتے ہی وصال تھا

 

رخ یار تا نہ پڑا نظر رہے ہم الم سے یہ نوحہ گر

کہ ہمارے رنج و ملال پر تو ملال کو بھی ملال تھا

 

کرے کون اس سے برابری مہ و زہرہ سب کو تھی ہم سری

دم صبح دیکھ ستم گری رخ مہر ذرہ مثال تھا

 

شب وصل دیکھ کے خواب میں میں پڑا تھا سخت عذاب میں

تھے ہزار سوچ جواب میں عجب اس کا مجھ سے سوال تھا

 

مرے جوش اشک سے بہرہ ور ہوئے کل جہان کے بحر و بر

نہ برستی آج یہ چشم تر تو خدا نخواستہ کال تھا

 

جو نمود کرتے ہی آپ سے لگے بیٹھنے وہ شتاب سے

تو یہ پوچھے کوئی حباب سے کہ پھلائے اپنے یہ گال تھا

 

ہوا میں بھی داخل کشتگاں تو عبث تو ہووے ہے سر گراں

کہ مرے گلے کی طرف میاں ترے آب تیغ کا ڈھال تھا

 

دیا کھا کے آپ نے پان جو دل مبتلا ہوا سرخ رو

اسے سمجھا پیٹ کا بوجھ وہ جو تمہارے منہ کا اگال تھا

 

جو مریض تھا پڑا جاں بہ لب خبر اور کچھ نہیں اس کی اب

مگر اتنا کہتے ہیں لوگ سب کہ بڑا یہ نیک خصال تھا

 

جو چمن سے دور قفس ہوا تو میں اور اسیر ہوس ہوا

یہ جو ظلم اب کے برس ہوا یہی قہر اگلے بھی سال تھا

 

نہیں چاہتا ہے اب آسماں کہ ہم اور وہ ہوں بہ یک مکاں

کہیں آ گیا جو وہ شب کو یاں کہ بلانا جس کا محال تھا

 

 

تو یہ رنگ چنبر چرخ کا نظر آئے تھا مجھے برملا

کبھی تھا سیہ کبھی زرد تھا کبھی سبز تھا کبھی لال تھا

 

نہ کسی نے قدر کی جرأتؔ اب کہے شعر گرچہ عجب عجب

جو نہ ہوں گے ہم تو کہیں گے سب کہ بڑا یہ اہل کمال تھا

٭٭٭

 

 

 

 

تن میں دم روک میں بہ دیر رکھا

آؤ جی کس نے تم کو گھیر رکھا

 

ہم گئے واں تو یاں وہ آیا واہ

خوب قسمت نے ہیر پھیر رکھا

 

کر گیا وہ ہی راہ عشق کو طے

یاں قدم جس نے ہو دلیر رکھا

 

سب کو عاجز کیا فلک نے پر ایک

آہوئے دل پہ غم کو شیر رکھا

 

جا کے بیٹھے جو کوئے یار میں ہم

واں سے باہر قدم نہ پھیر رکھا

 

بعد مدت وہ دیکھ کر بولا

کس نے یاں خاک کا یہ ڈھیر رکھا

 

شکر اے درد عشق تو نے سدا

زندگانی سے ہم کو سیر رکھا

 

کیسا گھبرا گیا وہ کل ہم نے

ٹک جو رستے میں اس کو گھیر رکھا

 

خیر ہو یا الٰہی جرأتؔ نے

عاشقی میں قدم کو پھیر رکھا

٭٭٭

 

 

 

جب میں نے کہا اے بت خود کام ورے آ

تب کہنے لگا ”چل بے او بد نام پرے جا”

 

ہے صبح سے عاشق کا ترے حال نپٹ تنگ

معلوم یہ ہوتا ہے کہ تا شام مرے گا

 

ناصح مرے رونے کا نہ مانع ہو کہ عاشق

گر یہ نہ کرے کام تو پھر کام کرے کیا

 

آتا ہے گر اس ابر میں اے ساقیِ گلفام

تو بادۂ گل رنگ سے تو جام بھرے لا

 

یاں زیست کا خطرہ نہیں ہاں کھینچیے تلوار

وہ غیر تھا جو دیکھ کے صمصام ڈرے تھا

 

میں نے جو کہا ایک تو بوسہ تو مجھے دے

بولا وہ ”زباں اپنی کو تو تھام ارے ہا!”

 

گر دیدہ و دل فرش کروں راہ میں جرأتؔ

ممکن ہی نہیں جو وہ دلآرام دھرے پا

٭٭٭

 

 

 

جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا

منتظر ہم کو بٹھا خوب کہیں بیٹھ رہا

 

بس کہ لکھی تھی میں حالت دل گم گشتہ کی

کھو کے قاصد مرا مکتوب کہیں بیٹھ رہا

 

دیکھیں کیا آنکھ اٹھا کر کہ ہمیں تو ناحق

آنکھ دکھلا کے وہ محبوب کہیں بیٹھ رہا

 

شام سے جیسے نہاں مہر ہو سو وصل کی رات

منہ چھپا کر وہ اس اسلوب کہیں بیٹھ رہا

 

ہے مری خانہ نشینی سے یہ گھر گھر مذکور

خیل عشاق کا سرکوب کہیں بیٹھ رہا

 

جانا میں اس کا نہ آنا کہ سمجھ کر وہ شوخ

بیٹھنے کو مرے معیوب کہیں بیٹھ رہا

 

بود و باش اپنی کہیں کیا کہ اب اس بن یوں ہے

جس طرح سے کوئی مجذوب کہیں بیٹھ رہا

 

اول عشق میں صورت یہ بنی جرأتؔ کی

ہو کے آخر کو وہ محجوب کہیں بیٹھ رہا

٭٭٭

 

 

 

جگر خوں ہو کے باہر دیدۂ گریان آوے گا

یہی رونا رہا تو آج کل طوفان آوے گا

 

خبر آتے ہی پوچھے ہے ظالم بیٹھ جا یک دم

حقیقت سب کہوں گا مجھ میں جب اوسان آوے گا

 

نہ ہے اب خاک افشانی نہ حیرانی نہ عریانی

جنوں گر آ گیا تو لے کے سب سامان آوے گا

 

پڑھوں گا پیچھے نامہ میں خدا کے واسطے قاصد

یہ کہہ اول کہ یاں تک وہ کسی عنوان آوے گا

 

نہ جا اے جان ٹک تو اور بھی اک رات اس تن سے

سنا ہے کل کے دن وہ گھر مرے مہمان آوے گا

 

کسی کی قدر جیتے جی نہیں معلوم ہوتی ہے

کرے ہے قتل پر پیچھے تجھے ارمان آوے گا

 

گلی میں اس بت خوں خوار کی جرأتؔ چلا تو ہے

ولیکن واں سے خوں میں دیکھنا افشان آوے گا

٭٭٭

 

 

 

 

جہاں کچھ درد کا مذکور ہو گا

ہمارا شعر بھی مشہور ہو گا

 

جہاں میں حسن پر دو دن کے اے گل

کوئی تجھ سا بھی کم مغرور ہو گا

 

پڑیں گے یوں ہی سنگ تفرقہ گر

تو اک دن شیشۂ دل چور ہو گا

 

مجھے کل خاک افشاں دیکھ بولا

یہی عشاق کا دستور ہو گا

 

ہوا ہوں مرگ کے نزدیک غم سے

خدا جانے یہ کس دن دور ہو گا

 

وہی سمجھے گا میرے زخم دل کو

جگر پر جس کے اک ناسور ہو گا

 

ہمیں پیمانہ تب یہ دے گا ساقی

کہ جام عمر جب معمور ہو گا

 

جو یوں غم نیش زن ہر دم رہے گا

تو پھر دل خانۂ زنبور ہو گا

 

یہی رونا ہے گر منظور جرأتؔ

تو بینائی سے تو معذور ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چھیڑنے ہم کو یار آج آیا

بارے کچھ چہل پر مزاج آیا

 

تخت شاہی کا کس کو بھاتا ہے

خوش ہمیں فقر ہی کا تاج آیا

 

کشت دل فوج غم نے کی تاراج

تس پہ تو مانگنے خراج آیا

 

تو نے کیا کیا اسے بتنگ کیا

لے کے تجھ تک جو احتیاج آیا

 

کی دوا درد دل کی بہتیری

راس کوئی نہ پر علاج آیا

 

مر گیا کل ہی جرأتؔ بیمار

تو عیادت کو اس کی آج آیا

٭٭٭

 

 

 

 

حسن اے جان نہیں رہنے کا

پھر یہ احسان نہیں رہنے کا

 

نذر کی جیب تو اے جوش جنوں

اب یہ دامان نہیں رہنے کا

 

پردہ مت منہ سے اٹھانا یکبار

مجھ میں اوسان نہیں رہنے کا

 

تو چلا اور یہ جی اس تن میں

کسی عنوان نہیں رہنے کا

 

گل کو کیا روتی ہے تو اے بلبل

یہ گلستان نہیں رہنے کا

 

دم کا میہماں ہوں میں اب بھی تو

آ کے مہمان نہیں رہنے کا

 

نبڑی مے اور گلستان میں گل

تیرے قربان نہیں رہنے کا

 

اب بھی آنا ہے تو آ ورنہ میاں

یہ بھی سامان نہیں رہنے کا

 

دل کی درخواست جو کی تو نے تو یاں

اب یہ اک آن نہیں رہنے کا

 

ایسے میں اپنی امانت لے جا

پھر تجھے دھیان نہیں رہنے کا

 

ہجر کے غم سے نہ گھبرا جرأتؔ

اتنا حیران نہیں رہنے کا

٭٭٭

 

 

 

 

در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا

یا وہ را توں کو سدا بھیس بدل کر آنا

 

ہمدمو یہ کوئی رونا ہے کہ طوفان ہے آہ

دیکھیو چشم سے دریا کا ابل کر آنا

 

قصد جب جانے کا کرتا ہوں میں اس شوخ کے پاس

تیغ ابرو یہ کہے ہے کہ سنبھل کر آنا

 

حاصل اس کوچے میں جانے سے ہمیں ہے اور کیا

الٹے گھر اپنے مگر خاک میں رل کر آنا

 

واں سے اول دل بے تاب تو کب آتا ہے

اور آنا بھی تو سو جا پہ مچل کر آنا

 

ہمدمو میری سفارش کو تو جاتے ہو ولے

کہیں واں جا کے نہ کچھ اور خلل کر آنا

 

ڈوبے یوں بحر محبت میں کہ اب جیتے جی

اپنا دشوار ہے اوپر کو اچھل کر آنا

 

کوئے قاتل میں دم نزع کوئی لے جاؤ

جا کے اس جا ہمیں عقدہ ہے یہ حل کر آنا

 

اس کا بے وجہ نہیں ہے یہ چمن سے باہر

گل مرے سامنے ہاتھوں میں مسل کر آنا

 

بزم خوباں میں اگرچہ کوئی پرچائے ہزار

پر ترے پاس ہمیں واں سے بھی ٹل کر آنا

 

جی چلا تن سے مرے جلد ز راہ اشفاق

گھر سے دو چار قدم ایسے میں چل کر آنا

 

جرأتؔ اس کی کہوں کیا تجھ سے طرح داری میں

جانا جب اٹھ کے تب اک روپ بدل کر آنا

٭٭٭

 

 

 

 

دود آتش کی طرح یاں سے نہ ٹل جاؤں گا

شمع ساں محفل جاناں ہی میں جل جاؤں گا

 

دور سے بھی اسے دیکھوں تو یہ چتون میں کہے

آ کے دیدے ابھی تلووں تلے مل جاؤں گا

 

دل مضطر یہ کہے ہے وہیں لے چل ورنہ

توڑ چھاتی کے کواڑوں کو نکل جاؤں گا

 

میں ہوں خورشید سر کوہ یقیں ہے کہ وہ ماہ

آئے گا بام پہ تب جب کہ میں ڈھل جاؤں گا

 

آج بھی کوئی نہ لے جائے گا واں مجھ کو تو بس

کل نہیں ہے مجھے میں جی ہی سے کل جاؤں گا

 

واں سے اٹھتا ہوں تو کہتا ہے یہ پائے رفتار

جب زمیں پر تو رکھے گا میں پھسل جاؤں گا

 

بہ خدا حسن بتاں کا یہی سب سے ہے کلام

وہ چھلاوا ہوں کہ تم سب کو میں چھل جاؤں گا

 

آ کے برسوں میں وہ مجھ پاس یہ شب کہنے لگے

یاں ٹھہرنے میں بہت سے ہیں خلل جاؤں گا

 

تیغہ قاتل کا کہے ہے کہ دوالی بندو

موٹھ کی طرح سے تم سب پہ میں چل جاؤں گا

 

گو مزاج اس کا یہ بدلا کہ کہے ہے مجھے یوں

دیکھو تم آئے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا

 

پر رہا جائے گا کب ہے مری حالت تغییر

یوں نہ جاؤں گا تو میں بھیس بدل جاؤں گا

 

جرأتؔ اشعار جنوں خیز کہہ اب اور کہ میں

لے کے یہ تربت سودا پہ غزل جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گا

ہاں مگر دشت عدم ہی کو نکل جاؤں گا

 

طائر نامہ بر اپنا یہی کہتا ہے کہ آہ

رقم شوق کی گرمی سے میں جل جاؤں گا

 

جلد اے کاش جتاوے اسے جوبن اس کا

پھر ہو کس کام کے تم جب کہ میں ڈھل جاؤں گا

 

آج گو اس نے بہ رسوائی نکالا مجھ کو

گر یہی دل ہے تو پھر آپ سے کل جاؤں گا

 

 

مشورہ کر کے یہ دل کوچۂ جاناں کو چلا

عزم تو لانے کا کیجو میں مچل جاؤں گا

 

گر یہی آتش الفت ہے تو مانند سپند

آہ میں مجمر ہستی سے اچھل جاؤں گا

 

تو گرفتار محبت ہوں مری وضع سے تم

اتنا گھبراؤ نہ پیارے میں سنبھل جاؤں گا

 

وائے قسمت کہے جب صبر سا مونس یہ بات

تجھ پہ دیکھوں گا برا وقت تو ٹل جاؤں گا

 

جلد خو اپنی بدل ورنہ کوئی کر کے طلسم

آ کے دل اپنا ترے دل سے بدل جاؤں گا

 

جی کہیں تو نہ پھنسا ورنہ ترے دام سے میں

آب غربال کی مانند نکل جاؤں گا

 

جوں حنا اپنے وہ قدموں سے نہ لگنے دیں گے

اس تمنا میں اگر خاک میں رل جاؤں گا

 

جاتے جاتے کف افسوس اسی حسرت میں

اشک بھر لا کے دم نزع بھی مل جاؤں گا

 

جن کے نزدیک ہے انداز غزل میرؔ پہ ختم

ان کو جرأتؔ میں سنانے یہ غزل جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا

چتونوں میں ہے بھرا سارے زمانے کا مزا

 

کس مزے سے ہے عیاں دزدیِ دل ہے ظالم

لوں چرا کیونکہ ترے آنکھ چرانے کا مزا

 

لذت وصل کوئی پوچھے تو پی جاتا ہوں

کہہ کے ہونٹوں ہی میں ہونٹوں کے ملانے کا مزا

 

کیا ترے میکش الفت کا یہ کیفیت ہے

درد دل کر کے بیاں رونے رلانے کا مزا

 

دست بر دل ہو اٹھاتا ہوں عجب لذت درد

یاد کر ہجر میں وہ ہاتھ بڑھانے کا مزا

 

جو خموشی میں ہے لذت نہیں گویائی میں

بے خودی سا ہے کہاں آپ میں آنے کا مزا

 

اس کے لڑنے کے بھی صدقے کہ نظر آتا ہے

عین رنجش میں عجب آنکھ لڑانے کا مزا

 

خواب و خور سے ترے بیمار کو کیا کام کہ ہے

لذت خواب نہ کچھ اس کو نہ کھانے کا مزا

 

یاد آتا ہے تو جاتا ہوں خدا جانے کہاں

وہ لگاوٹ کی نگاہوں میں بلانے کا مزا

 

کیا کہوں وصل کی شب لے کے بلائیں اس کی

کیا اٹھاتا ہوں میں زانو پہ بٹھانے کا مزا

 

میں تو پھر آپ میں رہتا نہیں دل سے پوچھو

آگے پھر بھینچ کے چھاتی سے لگانے کا مزا

 

در پہ اس پردہ نشیں کے ہو تو با صوت بلند

شعر اس وقت ہے جرأتؔ سے پڑھانے کا مزا

٭٭٭

 

 

 

رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھا

دل کو مجھ سے مجھے کچھ دل سے سروکار نہ تھا

 

گرد اس کوچے کے کس دن یہ گناہ گار نہ تھا

وائے حسرت کہ کوئی رخنہ بہ دیوار نہ تھا

 

کل تو بیمار کو تھا تیرے نہ بستر پہ قرار

آج بستر تھا فقط اور وہ بیمار نہ تھا

 

شکر اے باد فنا جوں شجر سوختہ میں

تھا تو گلشن میں ولے قابل گل زار نہ تھا

 

نہیں تل دھرنے کی جاگہ جو بہ افزونیِ حسن

دیکھا شب اس کو تو اک خال بہ رخسار نہ تھا

 

رات کیا بات تھی بتلا ترے صدقے جاؤں

آہیں بھرنا وہ ترا خالی از اسرار نہ تھا

 

دل کو دھر نوک سناں پر وہ یہ بولا ہنس کے

ہم نے منصور کو دیکھا بہ سر دار نہ تھا

 

بحث میں چشم تر و ابر کی کل تھا جو سماں

کبھی اس شکل سے رونے کا بندھا تار نہ تھا

 

ذبح ہم سامنے ہوتے ہی ہوئے قاتل کے

باوجودیکہ کوئی ہاتھ میں ہتھیار نہ تھا

 

بعد مردن مرے تابوت پہ سب روتے تھے

چشم پر آب مگر اک وہ ستم گار نہ تھا

 

لیک کیا منہ کو چھپاتا تھا جو کہتے تھے یہ لوگ

اس کو ظاہر میں تو مرنے کا کچھ آزار نہ تھا

 

طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب

ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا

خواب کا تو کہیں خیال نہ تھا

 

آج کیا جانے کیا ہوا ہم کو

کل بھی ایسا تو جی نڈھال نہ تھا

 

بولے سب دیکھ میری جاں کاوی

یہ تو فرہاد کا بھی حال نہ تھا

 

جب تلک ہم نہ چاہتے تھے تجھے

تب تک ایسا ترا جمال نہ تھا

 

اب تو دل لگ گیا ہے کیوں کہ نہ آئیں

پہلے کہتے تو کچھ محال نہ تھا

 

ٹل گیا دیکھ یوں ترا ابرو

کہ گویا چرخ پر ہلال نہ تھا

 

ٹک نہ ٹھہرا مرے وہ پاس آ کر

کچھ تماشا تھا یہ وصال نہ تھا

 

دیکھ شب اپنے رشک لیلیٰ کو

دنگ تھا میں تو مجھ میں حال نہ تھا

 

سن کے بولا تمام قصۂ قیس

عشق کا اس کو بھی کمال نہ تھا

 

اتنا رویا لہو تو کب جرأتؔ

ابھی دامن ترا تو لال نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

سچ تو یہ ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا

سوچ ہے ہر دم یہی ہم کو کہ ہم نے کیا کیا

 

وہ گیا اٹھ کر جدھر کو میں ادھر حیران سا

اس کے جانے پر بھی کتنی دیر تک دیکھا کیا

 

میری اور اس شوخ کی صاحب سلامت جو ہوئی

صبر و طاقت نے کہا لو ہم نے تو مجرا کیا

 

سیر گل کرتا تھا وہ اور آہ بیتابی سے میں

ہر طرف گلشن میں جوں آب رواں دوڑا کیا

 

جب تلک کرتے رہے مذکورہ اس کا مجھ سے لوگ

جی میں کچھ سوچا کیا  میں اور دل دھڑکا کیا

 

درد دل کہنا مرا شاید کہ اس نے سن لیا

ورنہ کیوں مجھ کو دھراتا ہے بھلا اچھا کیا

 

دم بہ دم حسرت سے دیکھوں کیوں نہ سوئے چرخ میں

اس نے اوروں کا کیا اس کو ہمیں جس کا کیا

 

دل ملے پر بھی ملاپ ایسی جگہ ہوتے رہے

جو ادھر تڑپا کیے ہم وہ ادھر تڑپا کیا

 

مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب

عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیا

 

بس کہ ہے وہ شہرۂ آفاق اس کے واسطے

یہ دل دیوانہ کس کس شخص سے جھگڑا کیا

 

سوزش دل کیا کہوں میں جب تلک جیتا رہا

ایک انگارا سا پہلو میں مرے دہکا کیا

 

عشق بازی میں کہا جرأتؔ کو سب نے دیکھ کر

یہ عزیز اپنی ہمیشہ جان پر کھیلا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا

یہی بس خیال تھا دم بہ دم کہ ابھی تو پاس وہ یار تھا

 

جو نہ تھا وہ غیرت گلستاں تو کروں اب اس کا میں کیا بیاں

کہ الم جدائی کا ہر زماں مرے ایک دل پہ ہزار تھا

 

شب ہجر کے کہیں کیا الم نظر آئے صبح کو بہتے یم

کہ بہ جوش بارش ابر غم پہ بندھا سرشک کا تار تھا

 

تپ غم سے تھا جو جلا بلا مرے سینے میں دل مبتلا

سو دھواں ہو یوں وہ ہوا ہوا کہ نہ شعلہ تھا نہ شرار تھا

 

کبھی دست زلف سے تھے بہم کبھی رخ کے لیتے تھے بوسے ہم

شب و روز اب تو ہے درد و غم کبھی ووں بھی لیل و نہار تھا

 

جسے یاد اپنی لگائیے اسے صاف دل سے بھلائیے

ٹک ادھر تو آنکھ ملائیے یہی ہم سے قول و قرار تھا

 

شب ہجر اب یہ ستائے ہے کہ خزان مرگ دکھائے ہے

وہ رخ اب کہاں نظر آئے ہے کہ جو رشک صبح بہار تھا

 

مجھے شب جو نشۂ غم چڑھا تو پھرا کیا میں کھڑا کھڑا

رہا غش میں صبح کو جو پڑا اسی کیف کا یہ اتار تھا

 

ہوئی حیرت اب جو دو چند یاں کروں اور وجہ میں کیا بیاں

رخ یار صبح کو مہر ساں مگر آئنے سے دو چار تھا

 

مجھے ایک عاشق خستہ کی کہیں کل جو قبر نظر پڑی

نہ کسی سے کوئی لگائے جی یہ کھدا بہ لوح مزار تھا

 

دم قتل کوئی جو بول اٹھا تو خجل ہو کیا وہ خفا ہوا

اسے تم نے ذبح عبث کیا یہ تمہارا شکر گزار تھا

 

کوئی ناؤ بحر میں تھی رواں کئی اس میں بیٹھے تھے مہوشاں

کہیں اس گروہ کے درمیاں در ناز بھی وہ سوار تھا

 

تو بہ موج پرتو ماہ سا کہو اضطراب میں دل کا کیا

کبھی پار تھا کبھی وار تھا کبھی وار تھا کبھی پار تھا

 

غزل اور قافیے کو بدل میں سناؤں یاروں کو بر محل

ہوا مختصر نہ بہ یک غزل کہ بڑا فسانۂ یار تھا

٭٭٭

 

 

 

 

عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کہ عشق باہم لگا چھڑایا

الٰہی چھٹ جائیں اس کی نبضیں ملاپ جس نے مرا چھڑایا

 

نہ بیٹھے آرام سے وہ گاہے اٹھائے نت دکھ پہ دکھ خدایا

کہ جس نے ناحق اٹھا کے بہتان اپنا واں بیٹھنا چھڑایا

 

الٰہی محروم رکھیو اس کو مدام لذات دوجہاں سے

اسیر دام فراق کر مجھ کو جس نے میرا مزا چھڑایا

 

نہ دوستی کا اسے ملے پھل نہ کوئی مربوط ہووے اس سے

کہ جس نے کر دشمنی خدایا جو ربط آپس میں تھا چھڑایا

 

عروس گیتی سمجھ کے اس کو ذلیل ہرگز نہ منہ لگاوے

الٰہی عقد محبت اس سے یہ جس نے میرا بندھا چھڑایا

 

چھٹے گریبان اس کا گاہے نہ پنجۂ رنج سے خدایا

کہ دامن وصل ہاتھ اپنے سے جس نے اس شوخ کا چھڑایا

 

الٰہی زندان غم سے پاوے نہ جیتے جی وہ کبھی رہائی

کہ جس کے بہکائے سے اب اس نے دل اپنا ہم سے پھنسا چھڑایا

 

لہو جو مشتاق وصل کا تھا چھٹا نہ قدموں سے اس کے ہرگز

اگرچہ دھو دھو کے اس نے کتنا بہ شکل رنگ حنا چھڑایا

 

کہے ہے جرأتؔ یہی بہ تکرار درد ہجراں سے ہاتھ مل مل

الٰہی چھٹ جائیں اس کی نبضیں ملاپ جس نے مرا چھڑایا

٭٭٭

 

 

 

 

غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا

تو ہنس کے وہ بولے ہے ”میاں فکر کر اپنا”

 

رونے سے ترے کیا کہیں اے دیدۂ خوں بار

یہ خاک میں ملتا ہے دل اپنا جگر اپنا

 

گر بیٹھتے ہیں محفل خوباں میں ہم اس بن

سر زانو سے اٹھتا نہیں دو دو پہر اپنا

 

لانا ہے تو ہمدم اسے لا جلد کہ ہم کو

احوال نظر آئے ہے نوع دگر اپنا

 

با توں سے کٹے کس کی بھلا راہ ہماری

غربت کے سوا کوئی نہیں ہم سفر اپنا

 

عالم میں ہے گھر گھر خوشی و عیش پر اس بن

ماتم کدہ ہم کو نظر آتا ہے گھر اپنا

 

یا آنکھوں سے اک آن نہ ہوتا تھا وہ اوجھل

یا جلوہ دکھاتا نہیں اب اک نظر اپنا

 

ہر بات کا بہتر ہے چھپانا ہی کہ یہ بھی

ہے عیب کرے کوئی جو ظاہر ہنر اپنا

 

گر رو بہ رو اس کے کسی غم خوار کو چپکے

کچھ حال سناتا ہوں میں با چشم تر اپنا

 

تو کیا کہوں کہتا ہے عجب شکل سے مجھ کو

کچھ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں وہ منہ پھیر کر اپنا

 

کیا کیا اسے دیکھ آتی ہے جرأتؔ ہمیں حسرت

مایوس جو پھر آتا ہے پیغام بر اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

کب کوئی تجھ سا آئینہ رو یاں ہے دوسرا

ہے تو ترا ہی عکس نمایاں ہے دوسرا

 

پوچھ اس کی مت خبر جسے ناصح سیے تھا تو

وہ دھجیاں اڑا یہ گریباں ہے دوسرا

 

شکل ان کی یہ ہے جو کہ ہیں محو جمال یار

ششدر کھڑا ہے ایک تو حیراں ہے دوسرا

 

رخ اس کا دیکھیو شب مہتاب میں کوئی

گویا زمیں پہ یہ مہ تاباں ہے دوسرا

 

کیا دل جگر کی کہیے تمنائے وصل میں

حسرت بھرا ہے ایک پر ارماں ہے دوسرا

 

وادیِ عشق میں ہمیں برسوں یوں ہی کٹے

اک دشت طے کیا کہ بیاباں ہے دوسرا

 

تیرے خرام ناز کے صدقے کہ کب کوئی

ایسا چمن میں سرو خراماں ہے دوسرا

 

غم خوار و مونس اب ترے بیمار کے ہیں یوں

تسکین ایک دے تو ہراساں ہے دوسرا

 

جرأتؔ غزل پڑھ اور اک ایسی کہ سب کہیں

کب اس طرح کا کوئی غزل خواں ہے دوسرا

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ منہ سے دینے کہہ وہ بہانے سے اٹھ گیا

حرف سخاوت آہ زمانے سے اٹھ گیا

 

ہے اس کے دیکھنے کی ہوس کیا غضب کہ آہ

جو تند خو ٹک آنکھ اٹھانے سے اٹھ گیا

 

پوچھی جو اس سے میں دل صد چاک کی خبر

الجھا کے اپنی زلف وہ شانے سے اٹھ گیا

 

کہیو صبا جو ہووے گزر یار کی طرف

دل سب طرف سے آپ کے جانے سے اٹھ گیا

 

پایا جو مضطرب مجھے محفل میں تو وہیں

شرما کے کچھ وہ اپنے بیگانے سے اٹھ گیا

 

ہوتا تھا اپنے جانے سے جس کو قلق سو ہائے

گھبرا کے آج کیا مرے آنے سے اٹھ گیا

 

ہمدم نہ مجھ کو قصۂ عیش و طرب سنا

مدت سے دل کچھ ایسے فسانے سے اٹھ گیا

 

جب تک تو آئے آئے کہ دنیا ہی سے کوئی

لے جان تیرے دیر لگانے سے اٹھ گیا

 

جرأتؔ ہم اس زمین میں کہتے ہیں اور شعر

ہر چند جی سخن کے بڑھانے سے اٹھ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

کس جا نہ بے قراری سے میں خستہ تن گیا

پر دیکھنے کا اس کے کہیں ڈھب نہ بن گیا

 

کس کس طرح کی کی خفگی دل نے مجھ سے آہ

روٹھا کسی کا یار کسی سے جو من گیا

 

یارو جہاں میں اب کہیں دیکھی وفا کی چال

جانے دو یہ نہ ذکر کرو وہ چلن گیا

 

سوسن زباں نکالے جو نکلی تو زیر خاک

کیا جانیے کہ کون یہ تشنہ دہن گیا

 

اے عشق سچ تو یہ ہے کہ شیریں نے کچھ نہ کی

حسرت کا کوہ دل پہ لیے کوہ کن گیا

 

بس ناصحا یہ تیر ملامت کہاں تلک

با توں سے تیری آہ کلیجا تو چھن گیا

 

کل اس صنم کے کوچے سے نکلا جو شیخ وقت

کہتے تھے سب ادھر سے عجب برہمن گیا

 

پیدا یہ ہجر یار میں وحشت ہوئی کہ آہ

اس دل کا وصل میں بھی نہ دیوانہ پن گیا

 

حیراں ہے تجھ کو دیکھ کے جرأتؔ مری تو عقل

دو چار دن میں کیا یہ ترا حال بن گیا

٭٭٭

 

 

 

 

کل جو رونے پر مرے ٹک دھیان اس کا پڑ گیا

ہنس کے یوں کہنے لگا کچھ” آنکھ میں کیا پڑ گیا؟”

 

بیٹھے بیٹھے آپ سے کر بیٹھتا ہوں کچھ گناہ

پاؤں پڑنے کا جو اس کے مجھ کو چسکا پڑ گیا

 

جنگ جوئی کیا کہوں اس کی کہ کل پرسوں میں آہ

صلح ٹک ہونے نہ پائی تھی کہ جھگڑا پڑ گیا

 

سوزش دل کچھ نہ پوچھو تم کہ ٹک سینے پہ رات

ہاتھ رکھتے ہی ہتھیلی میں پھپھولا پڑ گیا

 

بس کہ تھا بے بال و پر میں دامن صیاد پر

خون بھی اڑ کر دم بسمل نہ میرا پڑ گیا

 

جو مرے بد گو ہیں تم ان کو سمجھتے ہو بھلا

واہ وا مجھ سے تمہیں یہ بیر اچھا پڑ گیا

 

کیوں پڑا دم توڑتا ہے بستر غم پر دلا

آہ کس بے درد کے ملنے میں توڑا پڑ گیا

 

بہتری کا منہ نہ دیکھا مر ہی کر پائی نجات

کڑھتے کڑھتے دل مرا بیمار ایسا پڑ گیا

 

باتیں کرتے کرتے پیارے دل دھڑکنے کیوں لگا

سن کے کچھ آہٹ کہو کیا دل میں کھٹکا پڑ گیا

 

رک گیا ایسا ہی وہ جو پھر نہ آیا کل جو ٹک

ہاتھ اس کے پاؤں پر بھولے سے میرا پڑ گیا

 

میں تو یاں اس بات پر اپنے پڑا ملتا ہوں ہاتھ

اور سارے شہر میں کچھ اور چرچا پڑ گیا

 

گرچہ ہوں میں نام کو جرأتؔ پر اب اس کی طرف

آنکھ اٹھا سکتا نہیں یہ دل میں خطرا پڑ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا

خواب میں آنے کی بھی تم نے قسم کھائی کیا

 

اس کا گھر چھوڑ کے ہم تو نہ کسی در پہ گئے

پر سمجھتا ہے اسے وہ بت ہرجائی کیا

 

سنتے ہی جس کے ہوئی جان ہوا تن سے مرے

اس گلی سے یہ خبر باد صبا لائی کیا

 

واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا توبہ

میں تو حیراں ہوں یہ بات آپ نے فرمائی کیا

 

بہہ چلا چشم سے یکبار جو اک دریا سا

بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا

 

حرف مطلب کو مرے سن کے بصد ناز کہا

ہم سمجھتے نہیں بکتا ہے تو سودائی کیا

 

شیخ جی ہم تو ہیں ناداں پر اسے آنے دو

ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا

 

کیفیت محفل خوباں کی نہ اس بن پوچھو

اس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دکھلائی کیا

 

آج دم اپنا ٹھہرتا نہیں کیا جانیے آہ

مصلحت لوگوں نے واں بیٹھ کے ٹھہرائی کیا

 

بر میں وہ شوخ تھا اور سیر شب ماہ تھی رات

اپنے گھر کیا کہیں تھی انجمن آرائی کیا

 

پر گیا صبح سے وہ گھر تو یہی دھڑکا ہے

دیکھیں آج اس کا عوض لے شب تنہائی کیا

 

دیکھنے کا جو کروں اس کے میں دعویٰ جرأتؔ

مجھ میں جرأت یہ کہاں اور مری بینائی کیا

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا

حسن مرقع ہے طلسمات کا

 

روؤں تو خوش ہو کے پیے ہے وہ مے

سمجھے ہے موسم اسے برسات کا

 

اٹھتی جوانی جو ہے تو دن بہ دن

اور ہی عالم ہے کچھ اس گات کا

 

گھر میں بلایا ہے تو کچھ منہ سے دو

سیکھو یہ ڈھب ہم سے مدارات کا

 

شیخ جواں ہو گا تو پی دیکھ اسے

شیشے میں پانی ہے کرامات کا

 

ہم نہ ملیں تم سے تو نکلے ہے جاں

اور تمہیں عالم ہے مساوات کا

 

اس نے کی اب کم سخنی اختیار

جس کو مزہ تھا مری ہر بات کا

 

آنکھ بھی ملتی ہے تو نا آشنا

اب وہ کہاں لطف اشارات کا

 

رونے کی جا ہے سن اسے ہم نشیں

تو تو ہے محرم مرے اوقات کا

 

حکم ہوا رات کو آؤ نہ یاں

دن کو رکھو طور ملاقات کا

 

دل کے اٹکتے ہی ہوا ہے ستم

فرق ملاقات میں دن رات کا

 

بات نئی سوجھے ہے جرأتؔ تجھے

میں تو ہوں عاشق تری اس بات کا

٭٭٭

 

 

 

 

گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا

کیا برا مان کے کہتا ہے بھلا تجھ کو کیا
سر اٹھانا تجھے بالیں سے جو دشوار ہے اب

کیوں دلا بیٹھے بٹھائے یہ ہوا تجھ کو کیا

 

پوچھوں رنجش کا سبب اس سے تو جھنجھلا کے کہے

”گر خفا ہوں تو میں ہوں آپ کو، جا تجھ کو کیا”

 

ہم اسیران قفس کیا کہیں خاموش ہیں کیوں

راہ لے اپنی چل اے باد صبا تجھ کو کیا

 

گر کیا اس سے جدا مجھ کو تو کہہ دے یہ فلک

میرے اور اس کے نہ ملنے سے ملا تجھ کو کیا

 

ہاتھ اٹھاتا نہیں گر عشق سے میں اے ناصح

تو نصیحت سے مری ہاتھ اٹھا تجھ کو کیا

 

گر کہو نام خدا لگتے ہو تم کیا ہی بھلے

تو یہ کہتا ہے ”بھلا ہوں تو بھلا، تجھ کو کیا”

 

کیوں دلا بستر غم پر ہے تو خاموش پڑا

کچھ تو کہہ مجھ سے کسی نے یہ کہا تجھ کو کیا

 

اب وہ موقوف ہوا نامہ و پیغام بھی آہ

حرف غیروں کا اثر کر ہی گیا تجھ کو کیا

 

میرے ملنے سے کیا منع کسی نے جو تجھے

تو نے اس بات کو سن کر نہ کہا تجھ کو کیا

 

پیک اشک آنکھوں سے چل نکلے جو خط پڑھتے ہی

جرأتؔ اب کچھ تو بتا اس نے لکھا تجھ کو کیا

٭٭٭

 

 

 

گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا

قید خانہ ہے عجب گنبد بے در اپنا

 

شکل رہنے کی ہے بستی میں یہ اس بن اپنی

جیسے جنگل میں بناتا ہے کوئی گھر اپنا

 

شب کی بے تابیاں کیا کہیے کہ دیکھا جو سحر

ٹکڑے ٹکڑے نظر آیا ہمیں بستر اپنا

 

ہم نشیں اس کو جو لانا ہے تو لا جلد کہ ہم

تھامے بیٹھے رہیں کب تک دل مضطر اپنا

 

وہ گئے دن کہ سدا مے کدۂ ہستی میں

بادۂ عیش سے لبریز تھا ساغر اپنا

 

تاب نظارہ تری لائے نہ خورشید ذرا

ہاتھ جب تک کہ نہ رکھ لے وہ جبیں پر اپنا

 

دیں گے سر عشق کے سودے میں اگرچہ ہم کو

اس میں نقصاں نظر آتا ہے سراسر اپنا

 

ہے زمیں خوب غزل در غزل اس کو کہیے

بس کہ معمول ہے جرأتؔ یہی اکثر اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا

رہتا ہوں روز و شب میں اسی گھات میں لگا

 

محفل میں مضطرب سا جو دیکھا مجھے تو بس

کہنے کسی سے کچھ وہ اشارات میں لگا

 

ہوتے ہی وصل کچھ خفقاں سا اسے ہوا

دھڑکا یہ بے طرح کا ملاقات میں لگا

 

کل رات ہم سے اس نے تو پوچھی نہ بات بھی

غیروں کی یاں تلک وہ مدارات میں لگا

 

آیا ہے ابر گھر کے اب آنے میں ساقیا

تو بھی نہ دیر موسم برسات میں لگا

 

مسجد میں سر بہ سجدہ ہوئے ہم تو کیا کہ ہے

کم بخت دل تو بزم خرابات میں لگا

 

گھٹے پہ اپنے ماتھے کہ نازاں جو اب ہوئے

یہ داغ شیخ جی کے کرامات میں لگا

 

گر مجھ کو کارخانۂ تقدیر میں ہو دخل

روز قیام وصل کی دوں رات میں لگا

 

پرواز تا بہ عرش اگر تو نے کی تو کیا

صیاد مرگ ہے تری نت گھات میں لگا

 

وقت اخیر آئے ترے کام جو دلا

اب دھیان گیان اپنا اس اوقات میں لگا

 

جرأتؔ ہماری بات پہ آیا نہ یاں تو آہ

کیا جانیے کسی کی وہ کس بات میں لگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نالۂ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا

زور یہ پر درد اپنا مطلع دیواں ہوا

 

جس نے دیکھا آ کے یہ آئینہ خانہ دہر کا

فی الحقیقت بس وہ اپنا آپ ہی حیراں ہوا

 

سب پہ ظاہر ہو گئی بیتابیِ دل شکل برق

وہ بھبھوکا اپنی نظروں سے جو ٹک پنہاں ہوا

 

اس کے جانے سے یہ دل میں آئے ہے رہ رہ کے ہائے

سب جہاں بستا ہے اک اپنا ہی گھر ویراں ہوا

 

 

کاش دل سے چشم تک آنے نہ پاتا طفل اشک

رفتہ رفتہ اب تو یہ لڑکا کوئی طوفاں ہوا

 

گر ہوئے وا اس کے لب تو دیکھیے کیا گل کھلے

ہو خفا جب بے طرح وہ رونق بستاں ہوا

 

آئے جو مرقد پہ میرے سو مکدر ہو گئے

خاک ہو کر بھی غبار خاطر یاراں ہوا

 

روز و شب رہنے لگے اس گھر میں یہ کافر صنم

کعبۂ دل صاف اپنا اب تو کفرستاں ہوا

 

جوش وحشت دیکھیو کوئی کہ ہر اک خار کے

دھجیاں ہو کر گلے کا ہار یہ داماں ہوا

 

اشک رنگیں نے جو اپنے کر دیا یاں فرش گل

رشک صد گلشن ہمیں یہ گوشۂ زنداں ہوا

 

بندھ گیا تیرا تصور جس کی آنکھوں کے حضور

اس کو بس عالم وصال و ہجر کا یکساں ہوا

 

یک بہ یک تو نے یہ کیسا رنگ بدلا اے فلک

تیری گردش سے کہیں کیا سخت جی ہلکاں ہوا

 

کل تلک جو گھر گھر اپنا تھا سو اس کے در پہ آج

نیلا پیلا دیکھ کر کیا کیا ہمیں درباں ہوا

 

گرچہ ہر قالب میں جرأتؔ صورتیں ڈھلتی رہیں

پر بنا جو درد کا پتلا وہ ہی انساں ہوا

٭٭٭

 

 

 

نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا

شرارت سے جی جس نے میرا جلایا

 

نہ بے چین ہو کوئی اب اس کی خاطر

مرا چاہنا جو نہ خاطر میں لایا

 

بہم دیکھ دو شخص ہو وہ بھی مضطر

اکیلا میں جس کے لیے تلملایا

 

پھرے جستجو میں نہ اب کوئی اس کی

مجھے جس نے گلیوں میں برسوں پھرایا

 

نہ بھولے سے یاد اب کرے کوئی اس کو

مرا یاد کرنا بھی جس نے بھلایا

 

نہ خوش ہو اب اس پاس بیٹھے سے کوئی

ہمیں کر کے آزردہ جس نے اٹھایا

 

خریدار پیدا نہ ہو کوئی اس کا

کہ دل بیچ کر ہم نے دکھ جس سے پایا

 

تحیر ہو دیکھ آئینہ اس کو جس نے

ہمیں کر کے حیراں نہ مکھڑا دکھایا

 

لگے لاگ اس سے کسی کی نہ یارب

ہماری لگی کو نہ جس نے بجھایا

 

کہوں داستاں میں گر اپنی اور اس کی

تو حیران ہو سن کے اپنا پرایا

 

کہ پہلے کی اظہار خود اس نے الفت

نہ آیا تو سو بار گھر سے بلایا

 

جتائیں وہ باتیں جنہیں سحر کہیے

دکھایا وہ عالم کہ وحشی بنایا

 

رکھی بے تکلف ملاقات چندے

بہ منت مجھے پاس پہروں بٹھایا

 

کسی کا نہ اک حرف خاطر میں گزرا

اسے گرچہ لوگوں نے کیا کیا پڑھایا

 

سو اب وہ جھلک تک دکھاتا نہیں ہے

گیا میں جو گھر سے تو در تک نہ آیا

 

لگاوٹ یہ کچھ کر کے پھر کیا غضب ہے

مرا لگ گیا دل تو پردہ لگایا

 

بہ تغییر بحر اور جرأتؔ غزل کہہ

کہ یہ طرفہ مضمون تو نے سنایا

٭٭٭

 

 

ہم تو کہتے تھے دم آخر ذرا سستا نہ جا

لے، چلے ہم جان سے، مختار ہے اب جا نہ جا

 

لے دل بے تاب آتا ہے وہ کر لے عرض حال

دیکھتے ہی اس کی صورت اس قدر گھبرا نہ جا

 

تنگ ہو کر کس ادا سے وصل کی شب کو وہ شوخ

مجھ سے کہتا تھا کہ ہے ہے اس قدر لپٹا نہ جا

 

پاس آنا گر نہیں منظور تو آ آ کے شکل

از رہ شوخی مجھے تو دور سے دکھلا نہ جا

 

جاؤں جاؤں کیا کہے ہے بس لڑائی ہو چکی

پیار سے میرے گلے اب جان جاں لگ جا نہ جا

 

کیا سماں رکھتا ہے وہ محفل سے اٹھنا یار کا

اور اشاروں سے مرا کہنا کہ آ جانا، نہ جا

 

کہتے ہیں آتا ہے وہ اے جان بر لب آمدہ

تو خدا کے واسطے ٹک اور بھی رہ جا نہ جا

 

روٹھ کر جب مجھ سے وہ جاتا ہے تو کر ضبط آہ

پہلے تو کہتا ہوں میں ”تو جان اب جا یا نہ جا”

 

لیک اٹھ کر جب وہ جاتا ہے تو بے تابی سے میں

ووں ہی کہتا ہوں ”ترے قربان جاؤں آ، نہ جا”

 

لوٹتا ہے جرأتؔ بیتاب جانے سے ترے

یوں اسے تڑپا کے تو اے شوخ بے پروا، نہ جا

٭٭٭

 

 

 

 

واں سے گھر آ کے کہاں سونا تھا

صبح تک یاد تھی اور رونا تھا

 

جب ہوئی صبح تو بستر سے پھر اٹھ

گریۂ خونی سے منہ دھونا تھا

 

دھو چکے منہ کو تو کشت دل میں

تخم غم کا ہمیں پھر بونا تھا

 

بو چکے تخم تو پایا یہ ثمر

کہ جگر کاوی تھی جی کھونا تھا

 

جی کے کھونے کے ہو در پئے یہ کہا

کہ نصیبوں میں یہی ہونا تھا

 

ہونا قسمت کا کہیں کیا تا شام

ہم تھے اور گھر کا بس اک کونا تھا

 

کونے لگ بیٹھے تو جرأتؔ اے وائے !

پھر وہی رات تھی اور رونا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا

چمپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا

 

بات ہی اول تو وہ کرتا نہیں مجھ سے کبھی

اور جو بولے ہے کچھ منہ سے تو شرمایا ہوا

 

جا کے پھر آؤں نہ جاؤں اس گلی میں دوڑ دوڑ

پر کروں کیا میں نہیں پھرتا ہے دل آیا ہوا

 

بے سبب جو مجھ سے ہے وہ شعلہ خو سرگرم جنگ

میں تو حیراں ہوں کہ یہ کس کا ہے بھڑکایا ہوا

 

وہ کرے عزم سفر تو کیجیے دنیا سے کوچ

یہ ارادہ ہم نے بھی دل میں ہے ٹھہرایا ہوا

 

نوک مژگاں پر دل پژمردہ ہے یوں سرنگوں

شاخ سے جھک آئے ہے جوں پھول مرجھایا ہوا

 

جاؤں جاؤں کیا لگایا ہے میاں بیٹھے رہو

ہوں میں اپنی زیست سے آگے ہی اکتایا ہوا

 

تیری دوری سے یہ حالت ہو گئی اپنی کہ آہ

عنقریب مرگ ہر اک اپنا ہمسایہ ہوا

 

کیا کہیں اب عشق کیا کیا ہم سے کرتا ہے سلوک

دل پہ بے تابی کا اک پیادہ ہے بٹھلایا ہوا

 

ہے قلق سے دل کی یہ حالت مری اب تو کہ میں

چار سو پھرتا ہوں اپنے گھر میں گھبرایا ہوا

 

چپکے چپکے اپنے اپنے دل میں سب کہتے ہیں لوگ

کیا بلا وحشت ہوئی ہے اس کو یا سایا ہوا

 

حکم بار مجلس اب جرأتؔ کو بھی ہو جائے جی

یہ بچارہ کب سے دروازے پہ ہے آیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

یاں اس گلی سا کب کوئی بستاں ہے دوسرا

ہاں کچھ جو ہے تو روضۂ رضواں ہے دوسرا

 

ہر دم یہ دو عدو ہیں پئے جان نا تواں

اک درد عشق ہے غم ہجراں ہے دوسرا

 

ہے طرفہ جان و دل کا دم اضطراب حال

روکیں جو ایک کو تو گریزاں ہے دوسرا

 

آئینہ جب وہ دیکھے تو کہتی ہیں چتونیں

سچ ہے کہ ہم سا کب کوئی انساں ہے دوسرا

 

وہ رک کے اٹھ چلا تو اسے کیونکہ روکئے

اک دست ہے بہ دل بہ گریباں ہے دوسرا

 

اس گھر کے در پہ جب ہوئے ہم خاک تب کھلا

دروازہ آنے جانے کو اور یاں ہے دوسرا

 

کیا دل جگر کی اس کی گلی میں کہیں خبر

اک مر گیا اک آن کا مہماں ہے دوسرا

 

رہیے ہمارے دل میں کہ لائق تمہارے کب

ایسا مکاں بہ کشور دوراں ہے دوسرا

 

ٹک سنیو زمزمے مرے دل کے کہ باغ میں

کب اس طرح کا مرغ خوش الحاں ہے دوسرا

 

ہے طرفہ قسمت اپنی کہ جس جا ہو ایک دوست

واں دیکھیے تو جان کا خواہاں ہے دوسرا

 

یعنی نشست ٹھہری کل اس در پہ تھی سو ہائے

دیکھا جو آج جا کے تو درباں ہے دوسرا

 

یکتا ہے دو جہان میں جرأتؔ علی کی ذات

ایسا نہ کوئی یاں نہ کوئی واں ہے دوسرا

٭٭٭

 

 

 

 

یاں ہم کو جس نے مارا معلوم ہو رہے گا

محشر میں خوں ہمارا معلوم ہو رہے گا

 

گو پھول پھول کر اب تو دیکھتی ہے بلبل

گلشن کا پر نظارا معلوم ہو رہے گا

 

جب بحر غم میں ڈوبا دے چھوڑ دست و پا کو

آخر تجھے کنارا معلوم ہو رہے گا

 

اے صبر دم بہ دم اب درد و الم فزوں ہے

جتنا ہے دل کا یارا معلوم ہو رہے گا

 

اے آفتاب محشر کھولوں ہوں داغ دل کا

چمکا اگر یہ تارا معلوم ہو رہے گا

 

صد شعر عاشقوں کا ہونے لگا وفور اب

سب حوصلہ تمہارا معلوم ہو رہے گا

 

نقش قدم سے آخر تیری گلی میں پیارے

جس کا ہوا گزارا معلوم ہو رہے گا

 

افسوس راز دل کا جاسوس سن گئے ہیں

قصہ اب اس کو سارا معلوم ہو رہے گا

 

پوشیدہ گو ہے تجھ پر احوال میرے دل کا

ہے یہ تو آشکارا معلوم ہو رہے گا

 

ناچار کو بہ کو اب تحقیق کرنے پھریے

کچھ درد دل کا چارا معلوم ہو رہے گا

 

پنہاں ہے اب تو لیکن مرنے کے بعد جرأتؔ

درد دروں ہمارا معلوم ہو رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا

اٹھ چلا دنیا سے کیوں تو تجھ کو اے دل کیا ہوا

 

شکل ہی ایسی بنائی ہے تری اللہ نے

مت خفا ہو گر ہوا میں تجھ پہ مائل کیا ہوا

 

ان دنوں حالت تری پاتا ہوں میں اپنی سی یار

خوبرو تجھ سا کوئی تیرے مقابل کیا ہوا

 

اے بت خونخوار اک زخمی ترے کوچے میں تھا

سو کئی دن سے خدا جانے وہ گھائل کیا ہوا

 

زنگ ہو کر قیس کا دل کارواں در کارواں

نت یہ کہتا ہے کہ وہ لیلیٰ کا محمل کیا ہوا

 

فکر مرہم مت کرو یارو یہ بتلاؤ مجھے

جس کے ہاتھوں میں ہوا زخمی وہ قاتل کیا ہوا

 

تھا جگر تو ٹکڑے ٹکڑے بر میں کیوں تڑپے ہے تو

کیوں دلا تیغ جفا سے تو بھی بسمل کیا ہوا

 

رنجشیں ایسی ہزار آپس میں ہوتی ہیں دلا

وہ اگر تجھ سے خفا ہے تو ہی جا مل کیا ہوا

 

اپنے بیگانے سبھی ہیں مت اٹھا محفل سے یار

گر کسی ڈھب سے ہوا یاں میں بھی داخل کیا ہوا

 

دیکھتے ہی تیری صورت مجھ کو اے آئینہ رو

سخت حیرت ہے کہ پہلو میں نہیں دل کیا ہو ا

 

سوچ رہ رہ کر یہی آتا ہے اے جرأتؔ مجھے

خلق کرنے سے مرے خالق کو حاصل کیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

تیغ بران نکالو صاحب

دل کے ارمان نکالو صاحب

 

گھر سے رکھتے ہو قدم کیوں باہر

نہ مری جان نکالو صاحب

 

دیکھ رہنے سے خفا ہو تو مری

چشم حیران نکالو صاحب

 

ہے یہ ناصور جگر کی بتی

تم نہ پیکان نکالو صاحب

 

رہنے دو گھر میں نہ مجھ پر ناحق

رکھ کے بہتان نکالو صاحب

 

بار اغیار کو خلوت میں نہ دو

ہیں بد انسان، نکالو صاحب

 

ہے مری طرح تمہارا کہیں دھیان

دل سے یہ دھیان نکالو صاحب

 

گالی ناحق نہ کسی کے حق میں

منہ سے ہر آن نکالو صاحب

 

ہائے یہ رنجش بے جا دل سے

کسی عنوان نکالو صاحب

 

سر بازار نہ بیٹھا کرو تم

کچھ تو اب شان نکالو صاحب

 

گرم بازاری کی خاطر سر راہ

تم نہ دوکان نکالو صاحب

 

حسرت وصل ہے جرأتؔ کو کمال

لو یہ ارمان نکالو صاحب

٭٭٭

 

 

 

 

در پئے عمر رفتہ ہوں یا رب

ہر دم از خود گزشتہ ہوں یا رب

 

کیا ہوں مقبول طبع اہل سخن

ایک مضمون بستہ ہوں یا رب

 

کیا دکھاؤں میں اپنے جوہر آہ

شکل تیغ شکستہ ہوں یا رب

 

اپنی کم فرصتی کہوں کیا آہ!

آہ از سینہ جستہ ہوں یا رب

 

پانی پانی ہوں جس کو دیکھ جحیم

سوز غم سے وہ تفتہ ہوں یا رب

 

دیکھو کیا ہو کہ واں ہے ناز غرور

میں یہ احوال خستہ ہوں یا رب

٭٭٭

 

 

 

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات

آوارۂ وطن کو لگے خوش وطن کی بات

 

مت پوچھ حال اپنے تو بیمار عشق کا

ہونے لگی اب اس کے تو گور و کفن کی بات

 

ہے موسم بہار میں با صد زباں خموش

غنچے نے کیا سنی تھی کسی کے دہن کی بات

 

عیش و طرب کا ذکر کروں کیا میں دوستو

مجھ غمزدہ سے پوچھئے رنج و محن کی بات

 

ناصح میں کیا کہوں کہ ہوا کس طرح سے چاک

دست جنوں سے پوچھو مرے پیرہن کی بات

 

تھا عاقل زمانہ پہ دیوانہ ہو گیا

جس شخص نے سنی مرے دیوانہ پن کی بات

 

سر دیجے راہ عشق میں پر منہ نہ موڑیئے

پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہ کن کی بات

 

بزم چمن بھی اس سے خجل ہے بہار میں

کیا پوچھنے ہے یار تری انجمن کی بات

 

یارو میں کیا کہوں کہ جلا کس طرح پتنگ

پوچھو زبان شمع سے اس کی لگن کی بات

 

شاید اسی کا ذکر ہو ہر رہ گزر میں میں

سنتا ہوں گوش دل سے ہر اک مرد و زن کی بات

 

وہ شے نہیں ہے ہم میں کہ جس سے ملے وہ یار

آتی ہے یوں تو ہم کو بھی ہر ایک فن کی بات

 

جرأتؔ خزاں کے آتے چمن میں رہا نہ کچھ

اک رہ گئی زباں پہ گل و یاسمن کی بات

٭٭٭

 

 

 

 

دل کو اے عشق سوئے زلف سیہ فام نہ بھیج

رہزنوں میں تو مسافر کو سر شام نہ بھیج

 

دیکھ ہو جاؤں گا غیروں کے گلے کا میں ہار

ہار پھولوں کے تو اے شوخ گل اندام نہ بھیج

 

بھر نظر صورت گل دیکھ تو لیں اے بے درد

ہائے صیاد ابھی ہم کو تہ دام نہ بھیج

 

جب وہ بھیجے ہے مجھے مے تو کہیں ہیں یوں غیر

یہ بہک جائے گا بس اور اسے جام نہ بھیج

 

بھیجوں اس پاس جو قاصد کو دوبارہ تو کہے

باز آیا، نہیں لینے کا میں انعام نہ بھیج

 

کوچۂ یار میں پہنچے ہیں تو بس رہنے دے

جیتے جی یاں سے کہیں گردش ایام نہ بھیج

 

دم بہ دم بھیجے ہے قلیاں ہی کو کیا منہ سے لگا

لب سے بھی لب کو ملا بوسہ بہ پیغام نہ بھیج

 

بعد مدت کے تجھے پایا ہے تنہا بخدا

آج تو کام کو یاں سے بت خود کام نہ بھیج

 

دے کبھی بوسۂ چشم و لب جاں بخش بھی جاں

صرف سوغات ہمیں بوسہ بہ پیغام نہ بھیج

 

گالیاں تو ہیں محبت کی عبارت پیارے

کب میں کہتا ہوں کہ لکھ کر مجھے دشنام نہ بھیج

 

پر یہ دھڑکا ہے کہ جاوے نہ کہیں خط پکڑا

کر کے سر نامے پہ تحریر مرا نام نہ بھیج

 

جرأتؔ اب تجھ سے وہ روٹھا تو منا کیونکہ میں لاؤں

تو ہی پھر دینے لگے گا مجھے الزام نہ بھیج

٭٭٭

 

 

 

 

اب خاک تو کیا ہے دل کو جلا جلا کر

کرتے ہو اتنی باتیں کیوں تم بنا بنا کر

 

عاشق کے گھر کی تم نے بنیاد کو بٹھایا

غیروں کو پاس اپنے ہر دم بٹھا بٹھا کر

 

یہ بھی کوئی ستم ہے یہ بھی کوئی کرم ہے

غیروں پہ لطف کرنا ہم کو دکھا دکھا کر

 

اے بت نہ مجھ کو ہرگز کوچے سے اب اٹھانا

آیا ہوں یاں تلک میں ظالم خدا خدا کر

 

دیتا ہوں میں ادھر جی اپنا تڑپ تڑپ کر

دیکھے ہے وہ ادھر کو آنکھیں چرا چرا کر

 

کوئی آشنا نہیں ہے ایسا کہ با وفا ہو

کہتے ہو تم یہ باتیں ہم کو سنا سنا کر

 

جلتا تھا سینہ میرا اے شمع تس پہ تو نے

دونی لگائی آتش آنسو بہا بہا کر

 

اک ہی نگاہ کر کر سینے سے لے گیا وہ

ہر چند دل کو رکھا ہم نے چھپا چھپا کر

 

جرأت نے آخر اپنے جی کو بھی اب گنوایا

ان بے مروتوں سے دل کو لگا لگا کر

٭٭٭

 

 

 

اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور

کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور

 

ناصح کی حماقت تو ذرا دیکھیو یارو

سمجھا ہوں میں کچھ اور مجھے سمجھائے ہے کچھ اور

 

کیا دیدۂ خوں بار سے نسبت ہے کہ یہ ابر

برسائے ہے کچھ اور وہ برسائے کچھ اور

 

رونے دے، ہنسا مجھ کو نہ ہمدم کہ تجھے اب

کچھ اور ہی بھاتا ہے مجھے بھائے کچھ اور

 

پیغام بر آیا ہے یہ اوسان گنوائے

پوچھوں ہوں میں کچھ اور مجھے بتلائے ہے کچھ اور

 

جرأتؔ کی طرح میرے حواس اب نہیں بر جا

کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور

٭٭٭

 

 

 

 

بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر

وہ خواب میں تو آوے پر آوے خواب کیوں کر

 

پاس اس نے جو بٹھایا دل اور تلملایا

اب جائے گا خدایا یہ اضطراب کیوں کر

 

وہ جب سے ہے سفر میں دل مضطرب ہے بر میں

بیٹھیں ہم اپنے گھر میں خانہ خراب کیوں کر

 

ساقی فراق جاناں حلق اپنے کا ہے درباں

اترے گلے سے پھر یاں قرط شراب کیوں کر

 

غمگیں ہیں جس کے غم سے واقف نہیں وہ ہم سے

یا رب پھر اس الم سے ہو صبر و تاب کیوں کر

 

واں ہے سوال ہر دم رکھیے ملاپ کم کم

حیران ہیں کہ دیں ہم اس کا جواب کیوں کر

 

چھوٹا ہے سن تمہارا مکھڑا ہے پیارا پیارا

پھر ہو بھلا گوارا شرم و حجاب کیوں کر

 

مجھ کو تو ہے یہ حیرت ایسی رہی جو عصمت

تو ہو گا صرف عشرت عہد شباب کیوں کر

 

اب طور کی تو اپنے جرأتؔ غزل سنا دے

دیکھیں تو اس کے ہوں گے شعر انتخاب کیوں کر

٭٭٭

 

 

 

 

بہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار

جلد اے پیک صبا گل کے یہ کر گوش گزار

 

نہیں معلوم کہاں جاتے ہیں جوں نشۂ مے

جدھر ان روزوں میں ہم کرتے ہیں مد ہوش گزار

 

بزم میں مجھ کو جو دیکھا تو یہ جھنجھلا کے کہا

ایسی محفل میں کرے ہے مری پاپوش گزار

 

سرنگوں کوچۂ رسوائی میں ہیں آج تلک

سو خرابی سے جو اس در پہ کیا دوش گزار

 

عاشق اس پردہ نشیں کے ہیں کہ گر سامنے سے

کبھی گزرے ہے تو کرتا ہے وہ روپوش گزار

 

چند روزہ ہے یہ مے خانۂ ہستی یاں تو

عمر غفلت میں نہ اے بے خرد و ہوش گزار

 

آ پھنسا عشوہ و انداز و ادا میں یوں دل

رہزنوں میں کرے جوں راہ فراموش گزار

 

ہم سفر ہیں تو یہ حسرت ہے کہ کیجے کوسوں

اک سواری میں ہوئے اس سے ہم آغوش گزار

 

قدر داں کوئی سخن کا نہ رہا اے جرأتؔ

کنج تنہائی میں اوقات تو خاموش گزار

٭٭٭

 

 

 

 

جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر

ابر جوشاں کا بندھا جیسے کہ تار آئے نظر

 

رنگ گل زار جہاں گرچہ ہزار آئے نظر

چین پر دل کو کہاں تاکہ نہ یار آئے نظر

 

اپنا جب کوئے تصور میں گزار آئے نظر

جس طرف دیکھیں ادھر صورت یار آئے نظر

 

ہوں میں کس غیرت گل زار کا زخمی کہ مرے

ہر بن مو پہ گل زخم ہزار آئے نظر

 

بن پڑھے پھاڑ کے خط رکھ دے جو وہ روزن میں

جوں قلم سینہ مرا کیوں نہ فگار آئے نظر

 

ہم سخن جس سے نہ ہو سکیے پھر اس شوخ سے آہ!

اور کچھ بات کا کب دار و مدار آئے نظر

 

ہو جہاں جنبش لب کا بھی نہ یارا اے وائے

منہ کہاں یہ کہ جو واں بوس و کنار آئے نظر

 

ہم دل افروختہ واں جوں شرر سنگ ہیں آہ

نہ جہاں پیک صبا کا بھی گزار آئے نظر

 

سر بلندی جنہیں دے چرخ نہ دے چین انہیں

کہ بہ گردش مہ و خور لیل و نہار آئے نظر

 

جب کہ ہر روز کٹیں وعدے پہ گھڑیاں گنتے

کیوں نہ ہر دن ہمیں پھر روز شمار آئے نظر

 

اس کے محرم پہ بھبوکا سی جو دیکھوں چڑیا

کیوں نہ جوں طائر سیماب قرار آئے نظر

 

ہو بہ صد رنگ شگفتہ لب دریا پہ وہ باغ

ہر روش جس میں کہ بس لطف ہزار آئے نظر

 

چار سو نغمہ سرائی میں ہوں مرغان چمن

شاخ در شاخ عجائب گل و بار آئے نظر

 

موج دریا ادھر اٹکھیلی کی چالیں دکھلائے

اور ادھر رقص کناں باد بہار آئے نظر

 

ہووے اطراف سے گھنگھور گھٹا گھر آئی

کوند بجلی کی ہو اور پڑتی پھوار آئے نظر

 

اک طرف مور منڈیروں پہ کریں کیا کیا شور

اک طرف ابر میں بگلوں کی قطار آئے نظر

 

گردش جام ہو جوں گردش چشمان بتاں

ہاتھ میں مطرب سر خوش کے ستار آئے نظر

 

لب بہ لب سینہ بہ سینہ جسے چاہیں وہ ہو

گلشن زیست کی تب ہم کو بہار آئے نظر

 

عاشقانہ غزل اب پڑھ کوئی جرأتؔ تہہ دار

معنیِ تازہ بھی تا یاروں کو یار آئے نظر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سب کہتے ہیں دیکھ اس کو سر راہ زمیں پر

”کس راہ سے آیا یہ اتر ماہ زمیں پر”

 

بیمار کی تیرے تو کہانی ہے بڑی پر

قصہ ہے اب اک دم میں ہی کوتاہ زمیں پر

 

تو چھت پہ چڑھا اس کے ہے ایسا کہ بس آخر

چھوڑے گی اتروا کے تری چاہ زمیں پر

 

یہ وہ دل مضطر ہے کہ جوں برق تپیدہ

گاہے بہ فلک آئے نظر گاہ زمیں پر

 

کچھ سوچ کے بس کانپنے لگتا ہوں میں جرأتؔ

پڑتا ہے قدم زور سے جب آہ زمیں پر

٭٭٭

 

 

 

 

لب و دنداں کا تمہارے جو ہے دھیاں آٹھ پہر

نہیں لگتی مری تالو سے زباں آٹھ پہر

 

روش سیر وہ گلشن میں جو ٹک جا بیٹھے

بلبلیں گل کے اٹھایا کریں کاں آٹھ پہر

 

در سے اب نکلے وہ کیوں اس کو تو یہ ہے منظور

کہ نکلتی ہی کسی کی رہے جاں آٹھ پہر

 

کیوں کہ خوں ریز رہے تیز نہ وہ تیغ نگاہ

سنگ سرمہ سے چڑھا کرتی ہے ساں آٹھ پہر

 

کہتے ہیں سب ترے عاشق کو کہ شاید اے واے

ہے گرفتار مصیبت یہ جواں آٹھ پہر

 

دل کے لگنے سے یہ دیکھا کہ لگے رہتے ہم آہ

خود بخود مضطرب الحال نداں آٹھ پہر

 

جس کا ہے دھیان ہمیں اس کو بھی اپنا ہے خیال

وائے غفلت کہ یہ ہم کو ہے گماں آٹھ پہر

 

حسن خوبی بتاں کچھ نہ ادا ہو بخدا

کیجے گر لاکھ برس تک یہ بیاں آٹھ پہر

 

طرفہ اس جنس محبت کا بھی سودا دیکھا

سود میں جس کے رہے خوف زیاں آٹھ پہر

 

جب سے ہے ہم سے جدا آہ وہ رشک مہ و مہر

منہ لپیٹے ہیں بس اور ہے یہی دھیاں آٹھ پہر

 

رات کو رات سمجھتے ہیں نہ ہم دن کو دن

اپنی آنکھوں میں ہے تاریک جہاں آٹھ پہر

 

ان دنوں آپ میں تجھ کو کبھی پاتے ہی نہیں

کس کا رہتا ہے یہ جرأتؔ تجھے دھیاں آٹھ پہر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر چند بھرے دل میں ہیں لاکھوں ہی گلے پر

کیا کہئے کہ کھلتا نہیں منہ وقت ملے پر

 

بے درد وہ ایسا ہے کہ مرہم کی جگہ ہائے

چھڑکے ہے نمک میرے ہر اک زخم چھلے پر

 

تا دل کو نہ واشد ہو تو کیا لطف ملے ہائے

کھلتی ہے جو بو غنچۂ گل کی تو کھلے پر

 

مشہور جوانی میں ہو وہ کیوں نہ جگت باز

میلان طبیعت تھا لڑکپن سے ضلے پر

 

ہم گلشن حیرت میں ہیں پرواز کہاں کی

جوں بلبل تصویر کبھی ٹک نہ ہلے پر

 

سن وصف دہن دیجئے کچھ منہ سے پیارے

مجھ شاعر مفلس کی ہے گزران صلے پر

 

کس منہ سے بیاں کیجئے وہ لطف کہ جرأتؔ

دشنام جو واں ملتی ہیں ٹک آنکھ ملے پر

٭٭٭

 

 

 

 

واں ہے یہ بد گمانی جاوے حجاب کیوں کر

دو دن کے واسطے ہو کوئی خراب کیوں کر

 

قاصد جواب خط ہم لکھ دیں شتاب کیوں کر

واں تو جواب مانگا لکھیے جواب کیوں کر

 

خواب و خیال سونا یاں ہو گیا ہے جس بن

حیراں ہوں میں کہ اس کو آوے ہے خواب کیوں کر

 

اس سبزہ رنگ کی ہے گرمی حسن گویا

چمکے ہے مہر دیکھو زیر سحاب کیوں کر

 

کہتی ہیں چتونیں یوں بن ٹھن کے جب وہ نکلے

اب دیکھنے کی دیکھیں لاوے گا تاب کیوں کر

 

وہ وصل میں بھی ہنس ہنس پوچھے ہے لو بتاؤ

کل روئیں گی تمہاری چشم پر آب کیوں کر

 

دل جس سے لگ گیا ہے وہ چھپ رہا ہے ہم سے

دوڑے پھریں نہ ہر سو پر اضطراب کیوں کر

 

اللہ رے بھلاپا منہ دھو کے خود وہ بولے

”سونگھو تو ہو گیا یہ پانی گلاب کیوں کر”

 

چالاکیوں کو سن کر اس غیرت پری کی

گر رک کے کہیے اس کی ہم لائیں تاب کیوں کر

 

تو یوں لگے جتانے ”میاں تم تو ہو دوانے

رہنے دے ہم کو نچلا عہد شباب کیوں کر”

 

اول بھی خاک ہی تھے آخر بھی خاک ہوں گے

ہر دم کہیں نہ جرأتؔ یا بو تراب کیوں کر

٭٭٭

 

 

 

 

سب چلے تیرے آستاں کو چھوڑ

بد زباں اب تو اس زباں کو چھوڑ
مت اٹھا یار تیرے کوچے میں

آن بیٹھے ہیں دو جہاں کو چھوڑ

 

وقت سختی کے آہ جاتی ہے

جان بھی جسم نا تواں کو چھوڑ

 

صحبت راست کب ہو کج سے برآر

تیر آخر چلا کماں کو چھوڑ

 

دست بیداد باغباں سے آہ

ہم چلے آخر آشیاں کو چھوڑ

 

باغ سے وہ پھرا تو مرغ چمن

لگ چلے ساتھ گلستاں کو چھوڑ

 

نا توانی سے مثل نقش قدم

رہے ناچار کارواں کو چھوڑ

 

ہم نشیں کہہ تمام قصۂ عشق

آج کل پر نہ داستاں کو چھوڑ

 

یہ مرا حال ہے جو وہ قاتل

اٹھ گیا دم کے میہماں کو چھوڑ

 

جس طرح پھیر حلق پر خنجر

دے کوئی مرغ نیم جاں کو چھوڑ

 

کر جوانی پہ رحم جرأتؔ کی

بس غم عشق اس جواں کو چھوڑ

٭٭٭

 

 

 

 

ہے یہ گل کی اور اس کی آب میں فرق

جیسے پانی میں اور گلاب میں فرق

 

لب خوباں کہاں وہ لعل کہاں

ہے بہت شربت اور شراب میں فرق

 

لاکھ گالی کہی ہے کم مت دے

میں گنوں گا نہ ہو حساب میں فرق

 

زاہدا زہد تو پڑھا، میں عشق

ہے مری اور تری کتاب میں فرق

 

اے شرابی گزک تو کرتا ہے

کچھ تو کر دل میں اور کباب میں فرق

 

آنکھ جب سے کھلی نہ دیکھا کچھ

زندگانی میں اور حباب میں فرق

 

کچھ نہیں کرتے تم جو شعلے میں

اور اس روئے پر عتاب میں فرق

 

ہے زمیں آسمان کا یارو

ذرے میں اور آفتاب میں فرق

 

کیونکہ جرأتؔ ہو شیخ تجھ سا کہ ہے

پیری اور عالم شباب میں فرق

٭٭٭

 

 

 

 

بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم

کہ کروٹ لے نہیں سکتے ہیں جوں تصویر قالی ہم

 

کوئی آتش کا پرکالہ جو وقت خواب یاد آوے

تو سمجھیں کیوں نہ انگارے یہ گل ہائے نہالی ہم

 

ارادہ گر کیا دشنام دینے کا اب اے پیارے

تو لب سے لب ملا کر بس تری کھا لیں گے گالی ہم

 

نہ ہو پہلو میں اپنے جب وہ سبزہ رنگ ہی ظالم

تو پھر کس رنگ کاٹیں یہ بلا سے رات کالی ہم

 

لڑی ہے آنکھ اس سے جو یہ چتون میں جتاتا ہے

کسی کی کیا ہمیں پروا ہیں اپنے لا ابالی ہم

 

نہ ہو وہ سیم تن پاس اپنے جب سیر شب مہ میں

کریں تو دیکھ کیا بس ایک پیتل کی سی تھالی ہم

 

جو ہو دور از خیال مانیؔ و بہزادؔ ہر صورت

بغیر از مو قلم کھینچیں وہ تصویر خیالی ہم

 

کریں وصف جمال یار میں اک شعر گر موزوں

تو سمجھیں انتخاب جملہ اشعار جمالی ہم

 

بہ کنج بے کسی پڑھتے ہیں جو ہم مرثیہ دل کا

تو ہیں آپ ہی جوابی اور آپ ہی ہیں سوالی ہم

 

وہ ڈوبا عطر میں ہو مست مئے مصروف سیر گل

اور اس کو اس روش دیکھیں درون باغ خالی ہم

 

گل امید تو شاید کہ اپنا بھی شگفتہ ہو

تعجب کچھ نہیں گر پائیں پھل پاتے سہالی ہم

 

زبس حالات عشق اب ہم پہ طاری ہے سدا جرأتؔ

بہ طرز عاشقانہ کہتے ہیں اشعار حالیؔ ہم

٭٭٭

 

 

 

پروا نہیں اس کو اور موئے ہم

کیوں ایسے پہ مبتلا ہوئے ہم

 

گو پیسے ہی ڈالے جوں حنا وہ

پر چھوڑیں نہ پاؤں بن چھوئے ہم

 

مژگان دراز اس کی کر یاد

سینے پہ گڑوتے ہیں سوئے ہم

 

رونے سے مکان خانہ بولے

بس لاکھ جگہ سے اب چوئے ہم

 

اک بازیِ عشق سے ہیں عاری

کھیلے ہیں وگرنہ سب جوئے ہم

 

خوباں کو بن اس کے دیکھیں کیا خاک

ماٹی کے سمجھتے ہیں تھوئے ہم

 

دم آنکھوں میں آ رہا ہے، لو جان

جلد آؤ وگرنہ اب موئے ہم

 

اٹھ جانے سے اس کے جرأتؔ اے وائے

معلوم نہیں کہ کیا ہوئے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہم

تو پھر کرتے ہیں آپ ہی آپ کیا کیا کچھ اشارے ہم

 

کہے ہے یوں دل مضطر سے اس بن جان غم دیدہ

چلو تم رفتہ رفتہ آتے ہیں پیچھے تمہارے ہم

 

کئی بار اس نے دیکھا آج چشم قہر سے ہم کو

سزا وار عقوبت تو ہوئے اے بخت بارے ہم

 

نہ مانی دل نے اپنی اور نہ ہم نے بات ناصح کی

ہمیں کہہ کہہ کے ہارا وہ اسے کہہ کے ہارے ہم

 

وہ جب آئینہ دیکھے ہے تو کیا کیا مسکراتا ہے

سمجھ کر یہ کہ یعنی ہیں قیامت پیارے پیارے ہم

 

ملا لطف سخن کیا خاک ہم کو اس کی محفل میں

کہ چپ بیٹھے رہے جوں نقش دیوار اک کنارے ہم

 

ہوئے ہیں چاہنے والے تمہارے سیکڑوں پیدا

یہ سچ ہے جی کہ کس گنتی میں ہیں یاں اب بچارے ہم

 

کسی مہوش کے غم نے کر دیا نا طاقت ایسا ہی

کہ چھٹتے دیکھتے ہیں اکثر آنکھوں آگے تارے ہم

 

اٹھا کر آنکھ تو تم دیکھ لو یاں کوئی دیکھے ہے

ذرا قربان ہونے دو ہمیں صدقے تمہارے ہم

 

کریں کیا آہ اور کس سے کہیں ہم اپنی بے چینی

کہیں چین اب ترے ہاتھوں نہیں پاتے ہیں پیارے ہم

 

قرار اک جا نظر آتا نہیں ہے بے قراری میں

گل بازی کی صورت پھرتے ہیں بس مارے مارے ہم

 

ہمیں کیا خطرۂ جاں ہے کہ ہم ہیں نام کو جرأتؔ

نہ ہوں پھر کیوں کہ میدان محبت میں اتارے ہم

٭٭٭

 

 

 

جو راہ ملاقات تھی سو جان گئے ہم

اے خضر تصور ترے قربان گئے ہم

 

جمعیت حسن آپ کی سب پر ہوئی ظاہر

جس بزم میں با حال پریشان گئے ہم

 

اس گھر کے تصور میں جوں ہی بند کیں آنکھیں

صد شکر کہ بے منت دربان گئے ہم

 

کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات

جرأتؔ کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم

 

کیا جانیے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر

جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

مثل آئینہ با صفا ہیں ہم

دیکھنے ہی کے آشنا ہیں ہم

 

نہیں دونوں جہاں سے کام ہمیں

اک فقط تیرے مبتلا ہیں ہم

 

دیکھ سائے کی طرح اے پیارے

ساتھ تیرے ہیں اور جدا ہیں ہم

 

ٹک تو کر رحم اے بت بے رحم

آخرش بندۂ خدا ہیں ہم

 

ظلم پر اور ظلم کرتے ہو

اس قدر قابل جفا ہیں ہم

 

جوں صبا نام کو تو ہیں ہم لوگ

لیک دیکھا تو جا بہ جا ہیں ہم

 

زلفیں کہتی ہیں اس کی، عاشق کے

مار لینے کو تو بلا ہیں ہم

 

جب سے پیدا ہوئے ہیں جوں افلاک

آہ گردش ہی میں سدا ہیں ہم

 

ہم بھی کچھ چیز ہیں میاں لیکن

یہ نہیں جانتے کہ کیا ہیں ہم

 

شعلۂ نا توان کی مانند

ہاتھ میں تیرے اے صبا ہیں ہم

 

گر یہی ہے ہوا یہاں کی تو آہ

اب کوئی آن میں ہوا ہیں ہم

 

تو جو کہتا ہے ہر گھڑی تیرے

دیکھنے سے بہت خفا ہیں ہم

 

کیا کریں یار تو ہی کر انصاف

تجھ پہ مائل نہیں ہیں یا ہیں ہم

 

دل کے ہاتھوں سے اے میاں جرأتؔ

زندگانی سے بھی خفا ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں

جی لگا ہے پہ ابھی ہاتھ لگا سکتے نہیں

 

دور سے دیکھ وہ لب کاٹتے ہیں اپنے ہونٹھ

ہے ابھی پاس ادب ہونٹھ ہلا سکتے نہیں

 

تکتے ہیں اس قد و رخسار کو حسرت سے اور آہ

بھینچ کر خوب سا چھاتی سے لگا سکتے نہیں

 

دل تو ان پاؤں پہ لوٹے ہے مرا وقت خرام

شب کو دزدی سے بھی پر ان کو دبا سکتے نہیں

 

چور سے رات کھڑے رہتے ہیں اس در سے لگے

پر جو مطلوب ہے وہ جنس چرا سکتے نہیں

 

ریجھتے ان کی اداؤں پہ ہیں کیا کیا لیکن

مارے اندیشے کے گردن بھی ہلا سکتے نہیں

 

دیکھ رہتے ہیں وہ آئینۂ زانو اس کا

پر کسی شکل سے زانو کو بھڑا سکتے نہیں

 

قاعدے کیا ہمیں معلوم نہیں الفت کے

بے کم و کاست مگر ان کو پڑھا سکتے نہیں

 

چپکے تک رہتے ہیں رنگ اس کا بھبوکا سا ہم

آہ پر دل کی لگی اپنی بجھا سکتے نہیں

 

کیا غضب ہے کہ وہی بولے تو بولے از خود

ہم انہیں کیوں کہ بلاویں کہ بلا سکتے نہیں

 

گرچہ ہم خانہ ہیں جرأتؔ پہ ہمارے ایسے

بخت سوئے کہ کہیں ساتھ سلا سکتے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں

اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں

 

بزم میں تکتے ہیں منہ اس کا کھڑے اور وہ شوخ

نہ اٹھاتا ہے کسی کو نہ بٹھاتا ہے ہمیں

 

کیا ستم ہے کہ طریق اپنا رہ عشق میں آہ

کوئی جس کو نہیں بھاتا وہ ہی بھاتا ہے ہمیں

 

اس ترقی میں تنزل میں ہے کہ جوں قامت طفل

آسماں عمر گھٹانے کو بڑھاتا ہے ہمیں

 

بند کر بیٹھے ہیں اب آنکھ جو ہم تو اللہ

نظر آتا جو نہیں سو نظر آتا ہے ہمیں

 

ٹھنڈے ہونے کا بھی تا سمجھیں مزا اتنے لیے

چرخ مانند چراغ آہ جلاتا ہے ہمیں

 

اے خوشا یہ کہ وہ ہنسنے کے لیے روتا ہے

اپنی خورسندیِ خاطر کو کڑھاتا ہے ہمیں

 

مل کے ہم اس سے جو ٹک سوویں تو دکھ دینے کو

بخت بد خواب جدائی کا دکھاتا ہے ہمیں

 

ہم ہیں وہ مرغ گرفتار کہ اپنے پر سے

وارنا جس کو کہ ہووے وہ چھڑاتا ہے ہمیں

 

لا کے اس شوخ ستم گر کے دو رنگی کے پیام

نہ ہنساتا ہے کوئی اب نہ رلاتا ہے ہمیں

 

سن سے جا بیٹھتے ہیں اس کے تصور میں ہم آہ

بزم خوباں میں کوئی پاس بلاتا ہے ہمیں

 

محو نظارہ ہوں کیا ہم کہ بہ قول جرأتؔ

اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

دام میں ہم کو لاتے ہو تم دل اٹکا ہے اور کہیں

شعر پڑھانے ہم سے اور مضمون گٹھا ہے اور کہیں

 

آنکھیں ذرا ملانا ادھر کو کیوں جی یہ کیا باتیں ہیں

بات کی ہم سے اٹھانی لذت جی کا مزا ہے اور کہیں

 

حق تو ہے کچھ حال دل اپنا کہتے ہیں جب تم سے ہم

کان لگائے سنتے ہو پر دھیان لگا ہے اور کہیں

 

دیکھیو یہ عیاری کوئی کیا کیا ہم کو لپیٹے میں

وہ بت پر فن لیتا ہے دل جس نے دیا ہے اور کہیں

 

ٹوک کے اس سے بات کروں تو یوں وہ کہے ہے چتون میں

مجھ کو نہ چھیڑو دھیان اجی اس وقت مرا ہے اور کہیں

 

ہم سے زبانی ملنے کو تم کہتے ہو ہم جانتے ہیں

دل سے پر آنے جانے کا اقرار کیا ہے اور کہیں

 

دیکھ کے ہم کو جو کہتے ہو تم آؤ بیٹھو بات کرو

باتیں یہ سب ظاہر کی ہیں انس ہوا ہے اور کہیں

 

اب تو کچھ ہمدرد سے میرے آتے ہو تم مجھ کو نظر

تم سا شاید کوئی پیارے تم کو ملا ہے اور کہیں

 

بیٹھے ہو مجھ پاس ولیکن گھبرانے سے نکلے ہے

آنکھ بچا کر اٹھ جانے کا دھیان بندھا ہے اور کہیں

 

ظاہر میں تم کہتے ہو مجھ کو بیٹھو ابھی تو جاؤ نہ گھر

مجھ کو تو معلوم ہے جو پیغام گیا ہے اور کہیں

 

باتیں کر کے لگاوٹ کی یہ کافر ہوں گر جھوٹ کہوں

دل کو مرے تم لیتے ہو جی نام خدا ہے اور کہیں

 

حیف ہے اس کے ہونے پر جو یاد کرو تم غیر کو جان

جرأتؔ میں جو نہیں سو ایسی بات وہ کیا ہے اور کہیں

٭٭٭

 

 

 

درد اپنا میں اسی طور جتا رہتا ہوں

حسب حال اس کو کئی شعر سنا رہتا ہوں

 

اک ہی جا رہنے کا ہے گھر پہ اسی گھر میں آہ

دل یہ رہتا ہے جدا اور میں جدا رہتا ہوں

 

بات میں کس کی سنوں آہ کہ اے مرغ چمن

شور میں اپنے ہی نالوں کے سدا رہتا ہوں

 

بارے اتنا ہے اثر درد کے افسانے میں

ایک دو شخص کو ہر روز رلا رہتا ہوں

 

بزم خوباں میں یہ سر گو کٹے رونے پہ مرا

شمع ساں اشک پر آنکھوں سے بہا رہتا ہوں

 

آہ و نالہ میں اگر کچھ بھی اثر ہے میرے

تو میں اس شوخ کو اک روز بلا رہتا ہوں

 

حسن اور عشق کا کیا ذکر کروں مت پوچھو

ان دنوں زیست سے بھی اپنی خفا رہتا ہوں

 

دل لگا جب سے مرا آہ تبھی سے جرأتؔ

کتنی ہی آفتیں ہر روز اٹھا رہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

سنو بات اس کی الفت کا بڑھانا اس کو کہتے ہیں

کہا شب خواب میں آ کر کہ آنا اس کو کہتے ہیں

 

قدم وادیِ وحشت ناک الفت میں رکھا ہم نے

ہزار آفات کا سر پر اٹھانا اس کو کہتے ہیں

 

ہماری بات کاٹی غیر کی تائید کی اس نے

گھٹانا اس کو کہتے ہیں بڑھانا اس کو کہتے ہیں

 

جو روٹھے ہم تو بولے بے دلی سے تم کہ آ مل جا

ادھر کو دیکھیو کیوں جی منانا اس کو کہتے ہیں

 

دل مضطر کے باعث روز و شب رہتے ہیں بس لرزاں

در و دیوار خانہ تلملانا اس کو کہتے ہیں

 

وہ دشمن اپنا سمجھے ہے بہ دل میں دوست ہوں جس کا

کہوں کیا اور پر الٹا زمانہ اس کو کہتے ہیں

 

یہ بولے دیکھ سب تصویر اس کی اور مری یکجا

پری رو اس کو کہتے ہیں دوانہ اس کو کہتے ہیں

 

کیا ہے شیفتہ عالم کو اپنا اس پری رو نے

دوانہ اک جہاں کو کر دکھانا اس کو کہتے ہیں

 

یہ چشم گوہر افشاں حضرت دل جلوہ فرما ہیں

نکل گھر سے در دولت پہ آنا اس کو کہتے ہیں

 

جو گلشن میں کسی نے دیکھ کھلنا غنچۂ گل کا

کہا بس آ کے یاں لذت اٹھانا اس کو کہتے ہیں

 

تبسم کر کے یوں مجھ سے کہا اس شوخ نے او بے

ادھر کو دیکھ ادا سے مسکرانا اس کو کہتے ہیں

 

غزل اور اس زمیں میں پڑھیے وہ جرأتؔ کہ سن جس کو

کہیں عاشق کلام عاشقانہ اس کو کہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شب ہجراں میں مت پوچھو کہ کن با توں میں رہتا ہوں

تصور باندھ اس کا صبح تک کچھ کچھ میں کہتا ہوں

 

جو دیکھو غور کر تو جز و کل بالکل مجھی میں ہے

کبھی ہوں اک حباب آسا کبھی دریا ہو بہتا ہوں

 

ترے رکنے سے پیارے بس مرا دم رکنے لگتا ہے

نہیں تو بولتا تو بولیاں کن کن کی سہتا ہوں

 

نہیں ملتی ہے فرصت غیر اسے گھیرے ہی رہتے ہیں

کہوں کچھ حال دل بس ڈھونڈھتا اتنا سبہتا ہوں

 

یہ جوش اشک نے طوفاں اٹھایا ہے کہ اے جرأتؔ

کہے ہے کشور تن میں تو کوئی دم کو ڈہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کب بیٹھتے ہیں چین سے ایذا اٹھائے بن

لگتا نہیں ہے جی کہیں لگا لگائے بن

 

جب تک نہ بے قرار ہوں پڑتا نہیں قرار

آتا نہیں ہے چین ہمیں تلملائے بن

 

بے آہ و نالہ منہ سے نکلتی نہیں ہے بات

حیران بیٹھے رہتے ہیں آنسو بہائے بن

 

زنداں لگے ہے گھر جو کسی کا نہ ہوں اسیر

آتے نہیں بہ خود کہیں ہم آئے جائے بن

 

دیوانے گر نہ ہوں تو پری رو نہ دیکھیں سیر

بگڑے ہے بات حال پریشاں بنائے بن

 

جنبش نہ دست و پا میں ہو بے شورش جنوں

افسردہ طبع رہتے ہیں دھومیں مچائے بن

 

گر ہو نہ درد عشق تو بے درد ہم کہائیں

کچھ لطف گفتگو ہی نہیں ہائے وائے بن

 

کیا جوش طبع ہو نہ مئے عشق گر پئیں

کچھ کیفیت نہیں ہے یہ پیالہ پلائے بن

 

گر بر میں ہو نہ کوئی تو پہلو تہی رہے

کیا بیٹھنا ہے زانو سے زانو بھڑائے بن

 

کوئی نہ دے دکھائی تو کیا خاک دیکھیے

رہتے اسیر غم ہیں کسی کے بلائے بن

 

افکار سیکڑوں ہوں اگر ہو نہ فکر عشق

وارستگی کہاں ہے کہیں جی پھنسائے بن

 

قاتل سے گر نہ ملیے تو جرأتؔ ہماری کیا

جوں گل شگفتہ ہو نہ کوئی زخم کھائے بن

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں کر گلی میں اس کی میں اے ہم رہاں رہوں

اس آرزوئے دل پہ ہے واں تو نہ ”ہاں ” نہ ”ہوں ”

 

پاتا ہوں میں جہاں اسے ہوتے ہیں واں مخل

حیراں ہوں اب کہ راز دل اس سے کہاں کہوں

 

بس بند کر زباں کہ سنے اے زباں دراز

کب تک تری زباں سے کوئی کم زباں زبوں

 

شہر طرب سے شکل گنہ گار دل مرا

آخر ہوا بہ دوستیِ دل براں بروں

 

ظاہر ہے قتل عاشق مضطر کہ خوں سے سرخ

ہے قصر خانہ کا ترے اے دل ستاں ستوں

 

قائل بہ دل ہوں تب عمل حب کا میں کہ جب

اس شوخ سے بہ جد و کد عاملاں ملوں

 

بے یار جب لگے مجھے زنداں سے گھر بتر

برباد کیونکہ عشق میں پھر خانداں نہ دوں

 

کیا خاک آب داریِ تیغ اس سے ہو کہ ہے

وہ چشم سرمہ سا جو بہ سنگ فساں فسوں

 

جرأتؔ ز  بس ہیں اہل جہاں حرف نا شنو

داخل سخن میں کیونکہ بہ گوش گراں کروں

٭٭٭

 

 

 

 

گرمی مرے کیوں نہ ہو سخن میں

اک آگ سی پھنک رہی ہے تن میں

 

وہ رشک گل آئے گر پس از مرگ

پھولا نہ سماؤں میں کفن میں

 

ہشیاری میں کب ہے ایسی لذت

جو کچھ ہے مزا دوانہ پن میں

 

خواری کا مری وہ لطف سمجھے

کامل ہو جو عاشقی کے فن میں

 

گردش جنہیں مثل آسیا ہے

دائم انہیں ہے سفر وطن میں

 

ناصح میں رفو کو تب کہوں آہ

حالت ہو جو کچھ بھی پیرہن میں

 

اے باد خزاں وہ کیا ہوئے گل

خاک اڑنے لگی ہے کیوں چمن میں

 

بیتابیِ دل کرے ہے رسوا

کیا جائیے اس کی انجمن میں

 

ہے ترا ہی دھیان اور کچھ اب

باقی نہیں تیرے خستہ تن میں

 

جلد اس کو دکھا دے شکل اے جاں

رہ جائے گی ورنہ من کی من میں

 

گھر میں جو نہیں وہ یار جرأتؔ

گھبرائے ہے اپنی جان تن میں

 

ہے جی میں کہ خانہ کر کے ویراں

جا بیٹھیے اک اجاڑ بن میں

٭٭٭

 

 

 

ہم کب از خود ترے گھر یار چلے آتے ہیں

رہ نہیں سکتے تو ناچار چلے آتے ہیں

 

لے خبر اس کی شتابی سے کہ عاشق کو ترے

غش پہ غش شوخ ستم گار چلے آتے ہیں

 

میں تو حیراں ہوں مطب ہے کہ در یار ہے یہ

یاں تو بیمار پہ بیمار چلے آتے ہیں

 

گھر میں گھبراتے ہیں بے یار تو ہم وحشی سے

سر برہنہ سر بازار چلے آتے ہیں

 

کھڑے رہ سکتے نہیں در پہ تو حیران سے واں

بیٹھ کر ہم پس دیوار چلے آتے ہیں

 

کس کے نالوں کی یہ آندھی ہے کہ شکل پر کاہ

آج اڑتے ہوئے کہسار چلے آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ہے تیری ہی کائنات جی میں

جی تجھ سے ہے تیری ذات جی میں

 

تو نے کیا قتل گو بہ ذلت

سمجھا میں اسے نجات جی میں

 

کیوں غم یہ مجھی پہ مہرباں ہے

سب شاد ہیں ذی حیات جی میں

 

اس تنگ دہان کے سخن پر

یاں گزرے ہیں سو نکات جی میں

 

ہر دم بہ ہزار جلوۂ نو

دیکھوں ہوں تری صفات جی میں

 

دم آنکھوں میں آ رہا ہے جرأتؔ

گزرے ہے یہ آج رات جی میں

 

آ جاوے تو حال دل سنا لیں

رہ جائے نہ جی کی بات جی میں

٭٭٭

 

 

 

 

وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں

واں لگا دل جہاں لگاؤ نہیں

 

پاؤں کیوں دابنے نہیں دیتے

گر کسی کا تمہیں دباؤ نہیں

 

زخم دل کا علاج کیا کیجے

قابل مرہم اپنا گھاؤ نہیں

 

ایسے دریا میں بہہ چلے ہیں کہ آہ!

جس میں ٹاپو نہیں ہے ناؤ نہیں

 

ہے بہت جلوہ گاہ یار بلند

دیکھیں کیا یاں سے کچھ دکھاؤ نہیں

 

بل بے تیری سجاوٹیں اللہ

کچھ قیامت ہے یہ بناؤ نہیں

 

دسترس واں ذرا نہیں اور ہائے

دل میں کیا کیا ہمارے چاؤ نہیں

 

لے کے دل یوں کہے ہے چتون میں

اب مری بزم میں تم آؤ نہیں

 

درد پنہاں سے جی ہی نکلے ہے

کیا کہیں تم سے کچھ چھپاؤ نہیں

 

گر سفر کو سدھارے ہو تو آؤ

جا کے واں چھاؤنی تو چھاؤ نہیں

 

کیونکہ جرأتؔ لگائیں ہم لگا

کہ فرشتے کا واں لگاؤ نہیں

 

اور تو اور چوری چوری سے

بات کر لینے کا بھی داؤ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاں

کاٹتے ہیں رو ہی رو ساون کی راتیں کالیاں

 

شب تصور باندھ کر اس جنبش مژگاں کا واہ

خود بخود کس کس مزے سے ہم نے چھڑیاں کھا لیاں

 

دیکھیں کیا ان کی لچک اس ساعد نازک بغیر

کھینچتی ہیں کیوں ہمیں کانٹوں میں گل کی ڈالیاں

 

کچھ نہ کچھ کر بیٹھتا ہوں بات اس کے بر خلاف

تا کسی صورت وہ دے جھنجھلا کے مجھ کو گالیاں

 

مہ اسیر ہالہ اس کا دیکھ بالا کیوں نہ ہو

خندہ زن ہوں مہر پر جس کی جڑاؤ بالیاں

 

شب کو جو اس کا تصور بندھ گیا تو ہم نے بس

اس کے مکھڑے کی بلائیں صبح تک کیا کیا لیاں

 

وقت اظہار وفا محفل میں اس کی جس سے آنکھ

مل گئی تو بس وہ سب باتیں اسی پر ڈھا لیاں

 

برگ گل ان کو کہوں یا پارۂ یاقوت واہ

دیکھیو بن پان کھائے ان لبوں کی لالیاں

 

کوچۂ قاتل کو گر مسلخ کہوں تو ہے بجا

جب نہ تب دیکھو تو بہتی ہیں لہو کی نالیاں

 

خون دل آنکھوں میں بھر آتا ہے جب آتی ہے یاد

وہ مئے گل رنگ کی بھر بھر کے دینی پیالیاں

 

تاک جھانک اس کی کہوں کیا میں کہ طفلی میں بھی تھیں

اس کے ہاتھوں گھر کی دیواروں میں ہر سو جالیاں

 

کاش جرأتؔ وصل کا دن ہووے جلدی سے نصیب

ہجر کی تو کھائے جاتی ہیں یہ راتیں کالیاں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیں

سو الفت ہی کے سب فسانے بندھے ہیں

 

قفس میں سنو لو اسیران کہنہ

بہ ہر شاخ نو آشیانے بندھے ہیں

 

خدا جانے اس گھر میں کیا ہے کہ جس کے

کئی در کے آگے دوانے بندھے ہیں

 

وہ آنسو ہیں اپنے کہ سب کی گرہ میں

کئی موتیوں کے خزانے بندھے ہیں

 

ہوا یہ دیار محبت کی بگڑی

کہ سب رہنے والوں کے شانے بندھے ہیں

 

ملاقات کیا ہو رہے ٹھور بس ہم

کہ جانے کے واں تو ٹھکانے بندھے ہیں

 

لگیں کیوں نہ تیر نگہ دل جگر پر

کہ اس چشم کے یہ نشانے بندھے ہیں

 

فلک تیرے ہاتھوں بڑے تھے جو دانا

سو اب ان کے پلوں میں دانے بندھے ہیں

 

غضب سادہ رویوں کی ہے سادگی بھی

کہ پھینٹے عجب صوفیا نے بندھے ہیں

 

ہوئی گھر میں شادی تمہارے تو ایسی

کہ جس کے جہاں میں فسانے بندھے ہیں

 

نہ بلوانے کا ہم کو شکوہ ہے دیکھو

بندھن وار اب تک پرانے بندھے ہیں

 

بخیل اب یہ منعم نہیں کیونکہ جرأتؔ

کسے جن کے خوانوں میں کھانے بندھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو

میں ہر اک شخص سے رکھتا ہوں سروکار کہ تو

 

کم ثباتی مری ہر دم ہے مخاطب بہ حباب

دیکھیں تو پہلے ہم اس بحر سے ہوں پار کہ تو

 

نا توانی مری گلشن میں یہ ہی بحثے ہے

دیکھیں اے نکہت گل ہم ہیں سبک بار کہ تو

 

دوستی کر کے جو دشمن ہوا تو جرأتؔ کا

بے وفا وہ ہے پھر اے شوخ ستم گار کہ تو

٭٭٭

 

 

اے دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو

اب اذیت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو

 

ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا

جا کے ہم روتے ہیں پہروں پس دیوار کہ تو

 

ہاتھ کیوں عشق بتاں سے نہ اٹھایا تو نے

کف افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو

 

وہی محفل ہے وہی لوگ وہی ہے چرچا

اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکل گنہ گار کہ تو

 

ہم تو کہتے تھے کہ لب سے نہ لگا ساغر عشق

مئے اندوہ سے اب ہم ہوئے سرشار کہ تو

 

بے جگہ جی کا پھنسانا تجھے کیا تھا درکار

طعن و تشنیع کے اب ہم ہیں سزا وار کہ تو

 

وحشت عشق بری ہوتی ہے دیکھا ناداں

ہم چلے دشت کو اب چھوڑ کے گھر بار کہ تو

 

آتش عشق کو سینے میں عبث بھڑکایا

اب بھلا کھینچوں ہوں میں آہ شرر بار کہ تو

 

ہم تو کہتے تھے نہ ہم راہ کسی کے لگ چل

اب بھلا ہم ہوئے رسوا سر بازار کہ تو

 

غور کیجے تو یہ مشکل ہے زمیں اے جرأتؔ

دیکھیں ہم اس میں کہیں اور بھی اشعار کہ تو

٭٭٭

 

 

 

صوت بلبل دل نالاں نے سنائی مج کو

سیر گل دیدۂ گریاں نے دکھائی مج کو

 

لاؤں خاطر میں نہ میں سلطنت ہفت اقلیم

اس گلی کی جو میسر ہو گدائی مج کو

 

وصل میں جس کی نہیں چین یہ اندیشہ ہے

آہ دکھلائے گی کیا اس کی لڑائی مج کو

 

وصل میں جس کے نہ تھا چین سو جرأتؔ افسوس

وہ گیا پاس سے اور موت نہ آئی مج کو

٭٭٭

 

 

ہمیں دیکھے سے وہ جیتا ہے اور ہم اس پہ مرتے تھے

یہی راتیں تھیں اور باتیں تھیں وہ دن کیا گزرتے تھے

 

وہ سوز دل سے بھر لاتا تھا اشک سرخ آنکھوں میں

اگر ہم جی کی بے چینی سے آہ سرد بھرتے تھے

 

کسی دھڑکے سے روتے تھے جو باہم وصل کی شب کو

وہ ہم کو منع کرتا تھا ہم اس کو منع کرتے تھے

 

ملی رہتی تھیں آنکھیں غلبۂ الفت سے آپس میں

نہ خوف اس کو کسی کا تھا نہ ہم لوگوں سے ڈرتے تھے

 

سو اب صد حیف اس خورشید رو کے ہجر میں جرأتؔ

یہی راتیں ہیں اور باتیں ہیں وہ دن کیا گزرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

امشب کسی کاکل کی حکایات ہیں واللہ

کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ

 

دل لوٹ لیا اس نے دکھا دست حنائی

کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے واللہ

 

عالم ہے جوانی کا اور ابھرا ہوا سینہ

کیا گھات ہے، کیا گھات ہے، کیا گھات ہے واللہ

 

جرات کی غزل جس نے سنی اس نے کہا واہ

کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ

٭٭٭

ماخذ: ریختہ، دوسری ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں