فہرست مضامین
- انتخاب عدیم ہاشمی
- عدیم ہاشمی
- انتخاب : حسنین حیدر
- سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
- بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
- جو دیا تو نے ہمیں وہ صورتِ زر رکھ لیا
- کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
- اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا
- ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
- مل گئی آپ کو فرصت کیسے
- بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
- کچھ ہجر کے موسم نے ستایا نہیں اتنا
- جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے
- اداس شام دلِ سوگوار تنہائی
- جب جب رات کا آنچل بھیگے
- یوں دل میں تری یاد اتر آتی ہے جیسے
- انتخاب : حسنین حیدر
- عدیم ہاشمی
- مرے راستے میں پڑاؤ ہے
- بے کلی
- محبت
- تیری تصویر
- کوئی اک خوشی بھی نہ مل سکی
- خواہش
- انجان پن
- کتنا حسین پھر سے نظارہ بنا دیا
- آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
- اسی ایک شخص کے واسطے میرے دل میں درد ہے کس لیے
- ایسے تری لکھی ہوئی تحریر کھو گئی
- آ کے دیکھو تو کبھی تم میری ویرانی میں
- نظریں ملیں تو پیار کا اظہار کر گیا
- فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
- کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
- غم کا راہ اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
- وہ ابر تھے کہ برس کر بھی رات بھر نہ کھلے
- تیری آواز چلی آتی ہے
- شہرِ برباد میں
- تلاشِ گمشدہ
- جب بیاں کرو گے تم، ہم بیاں میں نکلیں گے
- تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
- کیسی بھلا یہ برہمی کیسا یہ پیچ و تاب ہے
- آغوشِ ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر
- یک صدمہ سا ہوا اشک جو اس بار گرے
- اسے تشبیہ کا دوں آسرا کیا
- بتا کہ راہِ وفا میں کوئی سوار دیکھا
- حیراں ہوں زندگی کی انوکھی اڑان پر
- تمہارے وہاں سے یہاں آتے آتے
- اڑ کر کبوتر ایک سرِ بام آ گیا
- جب ترا دامنِ تر یاد آیا
- خدا بھی اور سمندر میں ناخدا بھی ہے
- سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے ؟
- پھر جدائی، پھر جئے، پھر مر چلے
- تر بہ تر اے چشم تجھ کو کر چلے
- تُو نے پھینکا عدیم جال کہاں
- اور ہے اپنی کہانی اور ہے
- ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
- میں جی رہا ہوں صرف ترے اعتبار تک
- کون بدلے گا تغزل کی فضا میرے بعد
- وہ دریچے میں کب نہیں آتا
- شامل تھا یہ ستم بھی کسی کے نصاب میں
- اک جھلک اُس کفِ حنائی کی
- دیا اس نے محبت کا جواب، آہستہ آہستہ
- اب کرو گے بھی کیا وفا کر کے
- اپنے ہی دست و پا مرے اپنے رقیب ہو گئے
- پھولوں کی اور چاند ستاروں کی کیا کمی
- نہ کوئی رنگ، نہ ہاتھوں میں حنا، میرے بعد
- منزلوں کا پتہ لگانا کیوں ؟
- کچھ لوگ جن کو فکرِ زیاں دے دیا گیا
- بتا کہ راہِ وفا میں کوئی سوار دیکھا
- کر کے وفا، پلٹ کے وفا مانگنے لگا
- کہا، ساتھی کوئی دکھ درد کا تیار کرنا ہے
- پلٹ کے آنکھ نم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
- ادھر بھی دیکھ کبھی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے
- اگر پوچھا کہ مجھ سے کام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
- پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے
- جھومتی ٹہنی پر اس کا ہمنوا ہو جاؤں میں
- زندگی پاؤں نہ دھر جانب انجام ابھی
- ہوا نہیں کہ جسے دیکھ ہی نہ پاؤں گا
- غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
- تعلق اپنی جگہ تجھ سے بر قرار بھی ہے
- شور سا ایک، ہر اک سمت بپا لگتا ہے
- اسی ایک فرد کے واسطے مرے دل میں درد ہے کس لئے
- اس کی نظر کو داد دو جس نے یہ حال کر دیا
- Related
انتخاب عدیم ہاشمی
عدیم ہاشمی
انتخاب : حسنین حیدر
سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جا تی ہے
ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے
محبت اور نفرت اور تلخی اور شیرینی
کسی نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے
محبت میں جو ڈوبا ہوا سے ساحل سے کیا لینا
کسے اس بحر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے
بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے
یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ہے
صدائیں ایک سی، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے
میں کس تیزی سے زندہ ہوں، میں یہ تو بھول جاتا ہوں
نہیں آنا ہے دنیا میں دوبارہ یاد رہتا ہے
٭٭٭
بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی
کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر رہگزر میں رہ گئی
گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی
آ رہی ہے اب بھی دروازے سے ان ہاتھوں کی باس
جذب ہو کر جن کی ہر دستک ہی در میں رہ گئی
اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس زرا سی برف ہر سوکھے شجر میں رہ گئی
رات در یا میں پھر اک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی
رات بھر ہوتا رہا ہے کن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگِ تر میں رہ گئی
لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدؔیم
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی
دل کھنچا رہتا ہے کیوں اس شہر کی جانب عدیم
جانے کیا شے اس کی گلیوں کے سفر میں رہ گئی
٭٭٭
جو دیا تو نے ہمیں وہ صورتِ زر رکھ لیا
تو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر رکھ لیا
سسکیوں نے چار سو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا
گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا
میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دھول
اپنی آنکھوں کے لیے اس نے سمندر رکھ لیا
درز تک سے اب نہ پھوٹے گی تمنا کی پھوار
چشمۂ خواہش پہ ہم نے دل کا پتھر رکھ لیا
وہ جو اڑ کر جا چکا ہے دور میرے ہاتھ سے
اس کی اک بچھڑی نشانی، طاق میں پر رکھ لیا
دید کی جھولی کہیں خالی نہ رہ جائے عدؔیم
ہم نے آنکھوں میں تیرے جانے کا منظر رکھ لیا
پھینک دیں گلیاں برونِ صحن سب اس نے عدیم
گھر کہ جو مانگا تھا میں نے، وہ پسِ در رکھ لیا
٭٭٭
کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اسے خود ہی خیال آ جائے
ہجر کی شام بھی سینے سے لگا لیتا ہوں
کیا خبر یونہی کبھی شامِ وصال آ جائے
گھر اسی واسطے جنگل میں بدل ڈالا ہے
شاید ایسے ہی ادھر میرا غزال آ جائے
دھنک ابھرے سرِ افلاک کڑی دھوپ میں بھی
دشتِ وحشت میں اگر تیرا خیال آ جائے
کوئی تو اڑ کے دہکتا ہوا سورج ڈھانپے
گرد ہی سر پہ گھٹاؤں کی مثال آ جائے
چھوڑ دے وہ مجھے تکلیف میں ممکن تو نہیں
اور اگر ایسی کبھی صورتِ حال آ جائے
اس گھڑی پوچھوں گا تجھ سے یہ جہاں کیسا ہے
جب تیرے حسن پہ تھوڑا سا زوال آ جائے
کچھ نہیں ہے تو بھلانا ہی اسے سیکھ عدیم
زندگی میں تجھے کوئی تو کمال آ جائے
٭٭٭
اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا
میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا
بھاگتا ہوں ہر طرف ایسے ہوا کے ساتھ ساتھ
جس طرح سچ مچ مجھے اس کا پتا مل جائے گا
کس طرح روکو گے اشکوں کو پسِ دیوار چشم
یہ تو پانی ہے، اسے تو راستہ مل جائے گا
ایک دن تو ختم ہو گی لفظ و معنی کی تلاش
ایک دن تو مجھ کو میرا مدعا مل جائے گا
ایک دن تو اپنے جھوٹے خول کو توڑے گا وہ
ایک دن تو اس کا دروازہ کھلا مل جائے گا
جا رہا ہوں اس یقیں سے اس کے چھوڑے گھر کی سمت
جیسے وہ باہر گلی میں جھانکتا مل جائے گا
چھوڑ خالی گھر کو، آ باہر چلیں گھر سے عدیم
کچھ نہیں تو کوئی چہرہ چاند سا مل جائے گا
تیز ہوتی جا رہی ہیں دھڑکنیں ایسے عدیم
جیسے اگلے موڑ پر وہ بے وفا مل جائے گا
٭٭٭
ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے
خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو زمانے سے چھپاؤں کیسے
تیری صورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے
تو ہی بتلا میری یادوں کو بھلانے والے
میں تیری یاد کو اس دل سے بھلاؤں کیسے
پھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی رہتا
زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے
آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیم
اتنا نازک ہو تعلق تو نبھاؤں کیسے
وہ رلاتا ہے رلائے مجھے جی بھر کے عدیم
میری آنکھیں ہے وہ میں اس کو رلاؤں کیسے
٭٭٭
مل گئی آپ کو فرصت کیسے
یاد آئی میری صورت کیسے
پوچھ ان سے جو بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں
میں بھلا دوں تیری صورت کیسے
اب تو سب کچھ ہی میسر ہے اسے
اب اسے میری ضرورت کیسے
تجھ سے اب کوئی تعلق ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی شکایت کیسے
کاش ہم کو بھی بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں محبت کیسے
تیرے دل میں میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری قسمت کیسے
وہ تو خود اپنی تمنا ہے عدیم
اس کے دل میں کوئی چاہت کیسے
٭٭٭
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہمارا دل کسی گہری جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
میرے ہمراہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
اندھیری رات کی گہری خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لَو بھی مدھم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہارے روٹھ کے جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہواؤں اور پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ہے
تیرے آنے کا موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
٭٭٭
کچھ ہجر کے موسم نے ستایا نہیں اتنا
کچھ ہم نے تیرا سوگ منایا نہیں اتنا
کچھ تیری جدائی کی اذیت بھی کڑی تھی
کچھ دل نے بھی غم تیرا منایا نہیں اتنا
کیوں سب کی طرح بھیگ گئی ہیں تیری پلکیں
ہم نے تجھے حال سنایا نہیں اتنا
کچھ روز سے دل نے تیری راہیں نہیں دیکھیں
کیا بات ہے تو یاد بھی آیا نہیں اتنا
کیا جانیئے اس بے سر و سامانئی دل نے
پہلے تو کبھی ہم کو رلایا نہیں اتنا
٭٭٭
جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے
پھر کسی اور کی کچھ بات نہ مانی دل نے
ایک وحشت سے کسی دوسری وحشت کی طرف
اب کے پھر کی ہے کوئی نقل مکانی دل نے
اب بھی نوحے ہیں جدائی کے وہی ماتم ہے
ترک کب کی ہے کوئی رسم پرانی دل نے
بات بے بات جو بھر آتی ہیں آنکھیں اپنی
یاد رکھی ہے کسی دکھ کی کہانی دل نے
ڈوبتی شام کے ویران سمے کی صورت
تھام رکھی ہے تیری ایک نشانی دل نے
٭٭٭
اداس شام دلِ سوگوار تنہائی
ہر ایک سمت ہوئی بے کنار تنہائی
بچھڑ گئے ہیں سبھی برگ و بار پیڑوں سے
سسک رہی ہے لبِ شاخسار تنہائی
تمہارے نقشِ قدم پر جبین رکھ رکھ کر
رہی ہے دیر تلک اشکبار تنہائی
پکارتا ہے یہ کس لَے میں ڈوبتا ہوا دل
جو لوٹ آتی ہے پھر بار بار تنہائی
میرے وجود سے مانوس اسقدر ہے کہ اب
تمھارے بغیر رہے بے قرار تنہائی
بچی ہے جتنی اداسی بھی تیرے دامن میں
اسے بھی میرے لہو میں اتار تنہائی
ہمارا ربط کہاں بستیوں کی رونق سے
ہمارا تم پہ بھی کب اختیار تنہائی
تمہارا مان بجا اپنی وحشتوں پہ مگر
ہمارے ساتھ بھی کچھ دن گزار تنہائی
دل تباہ، تیری یاد، شب کا ویرانہ
دھوئیں میں لپٹا ہوا ہے مزار تنہائی
٭٭٭
جب جب رات کا آنچل بھیگے
یاد کا سونا جنگل بھیگے
سب کی یخ بستہ بارش میں
سڑکوں پر اک پاگل بھیگے
دکھ کے پیڑ پہ تیرے میرے
نینوں کی اک کوئل بھیگے
رقص گہوں میں چاند ڈھلے تو
درد کی لَے میں پائل بھیگے
کبھی کبھی تو بے موسم بھی
پیاسے صحرا جل تھل بھیگے
٭٭٭
یوں دل میں تری یاد اتر آتی ہے جیسے
پردیس میں غم ناک خبر آتی ہے جیسے
آتی ہے تیرے بعد خوشی بھی تو کچھ ایسے
ویران درختوں پہ سحر آتی ہے جیسے
لگتا ہے ابھی دل نے تعلق نہیں توڑا
یہ آنکھ تیرے نام پہ بھر آتی ہے جیسے
خود آپ ہوا روز اٹھاتی ہے دعائیں
اور آپ کہیں دفن بھی کر آتی ہے جیسے
اک قافلۂ ہجر گزرتا ہے نظر سے
اور روح تلک گرد سفر آتی ہے جیسے
جلتا ہے کوئی شہر کبھی دامن دل میں
سانسوں میں کبھی راکھ اتر آتی ہے جیسے
٭٭٭
مرے راستے میں پڑاؤ ہے
میرے راستے میں پڑاؤ ہے
کسی رائے گانی کے درد کا
کئی گہری گہری اداسیاں
مجھے ڈھونڈ لائی ہیں شہر سے
تیرے بعد دہر میں زندگی
کئی ہجرتوں کی اسیر ہے
میرے زخم زخم کو ڈھانپ دے
کسی پچھلی یاد کا پیرہن
تجھے کس طرح سے خوشی ملی
مجھے قریہ قریہ میں بانٹ کر
بھی گرد جھاڑ کے ہے اٹھا
سرِ صحنِ دل کوئی گورکن
کبھی دردِ شہرِ فراق میں
تیرا نام لکھتا ہے جا بجا
ابھی خواب عمر کٹا نہیں
کوئی راستہ بھی اٹا نہیں
٭٭٭
بے کلی
سمے کی بے کلی بڑھنے لگی ہے
لہو میں درد پیچ و تاب کھاتا ہے
کواڑوں پر اگی خاموشیوں کے لب کھلے ہیں
اور درختوں پر جمی شاموں میں کوئی مضطرب کروٹ بدلتا ہے
بڑی مدت سے بچھڑی آرزو
پردیس سے واپس سیہ ملبوس اوڑھے لوٹ آئی ہے
پرانے راستے پھر سے ہمارا دل مسلتے ہیں
نگاہیں آس سے اکثر گلے لگ لگ کے روتی ہیں
اور اب تو خواب بھی ہم سے گریزاں ہیں
سمے کی بے کلی بڑھنے لگی ہے
دل پریشاں ہے
٭٭٭
محبت
محبت ایک آوارہ تمنا ہے
جو روحوں میں بھٹکتی ہے
قدیم اور اصل
موت اور زندگی سے ماوراء
اور اس میں پنہاں بھی
نہ جانے کتنے جنموں سے
کسی دل کی بیابانی میں افتادہ
کبھی اشکوں میں ڈھلتی شام کی لو میں تھرکتی ہے
کسی انجام سے پہلے اجڑ کر
اک نیا آغاز بنتی ہے
زوال اور رفعتوں کی داستانیں
اور تغیر کی فراوانی
فقط اک صورت آلام
ہر لمحہ بدلتی ہے
کوئی عالم ہو
ہر ” شے ” اور ” لاشے ” میں
کہیں افسردگی اور سوگواری سی مچلتی ہے
محبت ساتھ چلتی ہے
٭٭٭
تیری تصویر
تیری تصویر
سکھ انگیز سویرا تیرا
کومل شام تیری
پنچھی تیری اپنی دنیا
ہر رستہ، ہر خوشبو، موسم
سب تیرے ساماں
نہ تو اپنے دکھ کا قیدی
نہ رت کا اور سمتوں کا زندان
درد سے انجان ہے
سردی، گرمی آنکھ مچولی
پت جھڑ اک سنگیت
اڑ جانے کا گیت
دور سمندر پار کی نگری
سب تیری جاگیر
میں اک دکھ کا مارا راہی
جنم جنم سے دیکھ رہا ہوں
آوارہ پنچھی کی دنیا
اور تیری تصویر
جیون کی تفسیر
٭٭٭
کوئی اک خوشی بھی نہ مل سکی
مری جان
شہر وجود میں
ابھی قریہ قریہ ملال ہے
ترے ہجر کا
ترا نام خواب کی راکھ سے ہے اٹا ہوا
ترا درد روح کی طاق پر ہے دھرا ہوا
کسی رائیگانیِ وقت کا
کوئی اندمال تھا دل کی زرد ڈھلان پر
جو نہ سو سکا لب خواب آنکھ کی سیج پر
لب تشنہ تجھ کو نہ پا سکے
تجھے اپنے دل کی ہتھیلیوں میں سمیٹنے کی جو آرزو تھی نہ کھل سکی
مجھے اتنی صدیوں کے بعد بھی
کوئی اک خوشی بھی نہ مل سکی
٭٭٭
خواہش
کوئی جو ہوتا
یہاں نہیں تو کہیں کسی اور دیس کی بے قراریوں میں
کوئی جو ہوتا
کبھی میں اپنی اداس سوچوں میں اس کا بے نام تصور سجا کے
پہروں اداس لہجے میں باتیں کرتا
اسے سناتا عذابِ جاں کے سفر کے قصے
قدم قدم پہ بچھی ہوئی اک نظر کے قصے
محبتوں اور ہجرتوں کے
جدائیوں اور اداسیوں کے
سبھی فسانے اسے سناتا
کئی زمانے اسے سناتا جو دل پہ گذرے
کبھی میں اپنے اداس جیون کی تنگ گلیوں کے حبس سے
اور دکھ سے گھبرا کے
اس کی جانب پیام لکھتا
ہواؤں پہ اس کے نام لکھتا
میں اس کو لکھتا کہ میری بستی کے سارے موسم تھکن زدہ ہیں
ہماری صبحیں، ہماری شامیں، ہمارے سپنے، ہماری چاہت
ہمارا سب کچھ نجانے کن بے نشاں ٹھکانوں میں جابسا ہے
اور آج کل ہم بغیر روحوں کے سنگ آسا بدن زدہ ہیں
میں اس کو لکھتا
کہ اب تو ہم سب مہیب نیندوں سے چیخ اٹھتے ہیں
جیسے دیکھ آئے ہوں کسی خواب جاں بلب کو
کبھی میں خوابوں میں اس سے ملتا
وہ خواب کی زرد چاندنی میں
مرے بدن کے قریب ہوتا
میں اس کے مانوس لمس کو اپنی دھڑکنوں میں اتار لیتا
مکان دل کو سنوار لیتا
میں اس کو اپنا سمجھ کے اس سے سوال کرتا
یہ کیسا دکھ ہے کہ خواب تک میں بھی روشنی کا حصول ممکن نہیں رہا ہے
میں دیر تک اپنی دھن میں اس سے سوال کرتا
مگر مرے ہر سوال پر وہ خموش رہتا
میں اس کی خاموشیوں پہ دھیرے سے چونک اٹھتا
مجھے یہ لگتا کہ وہ میرے درد سے بے خبر کہیں
اپنی زرد آنکھوں سے دور گہرے خلا کو تکتا ہو
اور خلا جیسے دور سے دور تک سسکتا ہو
لمبی خاموشی اس کی پھرسے مجھے خود اپنے وجود میں قید کر کے
مجھ کو اجاڑ دیتی
میں پھر سے خود میں بکھر سا جاتا
اور اپنی بیمار روح کی دھڑکنوں سے کہتا
کوئی جو ہوتا
یہاں نہیں تو کہیں کسی اور دیس کی بے قراریوں میں
کوئی جو ہوتا
٭٭٭
انجان پن
لیے پھرو تم ہم کو جہاں بھی لیے پھرو
ہم دکھیارے
ہم بنجارے
درد کے مارے
گلی گلی کی خاک پہن کر
صدا لگائیں
لیے پھرو تم ہم کو جہاں بھی لیے پھرو
بستی بستی کرب کے مارے موسم کا سندیس
ہر بستی کی ایک کہانی
ہر نگری کا اپنا روگ
ہر اک روگ، کہانی، موسم
سب کا ایک وجود
اس بستی سے اس بستی تک
بچھی ہوئی ہے
لمبی کالی رات
کیسی کیسی گھات
تنہا اپنی ذات
جانے کس کے ہاتھ لکھی ہے
جیون کی سوغات
٭٭٭
کتنا حسین پھر سے نظارہ بنا دیا
جیسے خدا نے اس کو دوبارہ بنا دیا
آیا تھا امتحان میں مضمون حسن پر
پرچے میں سب نے چہرہ تمہارا بنا دیا
کشتی کو آسرا کوئی تھوڑا سا تو رہے
رنگوں سے بادباں پہ کنارہ بنا دیا
یوسف کے حسن کی ذرا تانیث پوچھ لی
چہرہ ہر ایک نے ہی تمہارا بنا دیا
احسان لے سکا نہ خود اپنا ہی میں عدؔیم
خود کو بھی دوسروں کا سہارا بنا دیا
٭٭٭
آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
خوف آ رہا ہے سایۂ دیوار دیکھ کر
آنکھیں کھلی رہی ہیں مری انتظار میں
آئے نہ خواب دیدۂ بیدار دیکھ کر
غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں
آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر
کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے میرے قدم
میں تو چلا تھا راہ کو ہموار دیکھ کر
ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا
دل خوش ہوا ہے ایک گنہگار دیکھ کر
بے حسی بھی وقت مدد دیکھ لی عدؔیم
کترا گیا ہے یار کو بھی یار دیکھ کر
٭٭٭
اسی ایک شخص کے واسطے میرے دل میں درد ہے کس لیے
میری زندگی کا مطالبہ وہی ایک فرد ہے کس لیے
تو جو شہر میں مقیم ہے تو مسافرت کی فضا ہے کیوں
تیرا کارواں جو نہیں گیا تو ہوا میں گرد ہے کس لیے
نہ جمال و حسن کی بزم ہے نہ جنون و عشق کا عزم
سرِ دشت رقص میں ہر گھڑی کوئی باد گرد ہے کس لیے
جو لکھا ہے میرے نصیب میں، کہیں تو نے پڑھ تو نہیں لیا
تیرا ہاتھ سرد ہے کس لیے، تیرا رنگ زرد ہے کس لیے
وہ جو ترک ربط کا عہد تھا، کہیں ٹوٹنے تو نہیں لگا
تیرے دل کے درد کو دیکھ کر، میرے دل میں درد ہے کس لیے
کوئی واسطہ جو نہیں رہا، تیری آنکھ میں یہ نمی ہے کیوں
میرے غم کی آگ کو دیکھ کر، تیری آہ سرد ہے کس لیے
٭٭٭
ایسے تری لکھی ہوئی تحریر کھو گئی
جیسے جبیں کی لوح سے تقدیر کھو گئی
پلکوں پہ آنسوؤں کے دئیے ڈھونڈتے رہے
آنکھوں سے پھر بھی خواب کی تعبیر کھو گئی
کیا تھا شکوۂ قصر پتہ ہی نہ چل سکا
ملبے کے ڈھیر میں کہیں تعمیر کھو گئی
دن رات کی تہوں میں خد و خال دب گئے
اوراق وقت میں تیری تصویر کھو گئی
زندان تعلقات کا قائم نہ رہ سکا
قیدی ملا تو پاؤں کی زنجیر کھو گئی
یہ غم نہیں جبین شکن در شکن ہے کیوں
شکنوں کے بیچ میں میری تقدیر کھو گئی
حالانکہ یہ دعا تھی مگر مانگتے ہوئے
ایسے لگا کے ہاتھ کی توقیر کھو گئی
بندھن بندھے ہوئے تھے سبھی کھل گئے عدیمؔ
مجھ سے تعلقات کی زنجیر کھو گئی
٭٭٭
آ کے دیکھو تو کبھی تم میری ویرانی میں
کتنے سامان ہیں اس بے سر و سامانی میں
آج بھی دیکھ لیا اس نے کہ میں زندہ ہوں
چھوڑ آیا ہوں اسے آج بھی حیرانی میں
رات پھر تا بہ سحر شاخ افق خالی تھی
چاند پھر ڈوب گیا تیری پیشانی میں
ساتھ دینا ہے تو دے چھوڑ کے جانا ہے تو جا
تو اضافہ تو نہ کر میری پریشانی میں
آسمانوں کی طرف جیسے الٹ جائیں مکان
عکس ایسے ہی نظر آئے مجھے پانی میں
یوں تو بچھنے کو بچھی چادر سیلاب مگر
لہر کچھ اور بھی عریاں ہوئی طغیانی میں
خلعت گرد اتاری تو مقابل میں تھا
آئینہ ڈوب گیا پردۂ حیرانی میں
دھوپ نکلے گی تو کہسار ہی پگھلیں گے عدؔیم
برف جتنی تھی وہ سب بہ گئی طغیانی میں
جی میں جاد و ہی جگاتی چلی جاتی ہے عدؔیم
جانے کیا شے ہے نہاں صورتِ انسانی میں
٭٭٭
نظریں ملیں تو پیار کا اظہار کر گیا
بولا تو بات بات سےا نکار کر گیا
آنکھوں نے خشت خشت چنی رات کی فصیل
خورشید صبح پھرا سے مسمار کر گیا
جتنا اڑا ہوں اتنا فلک بھی ہوا بلند
کون اس قفس میں مجھ کو گرفتار کر گیا
بن بن کے پانیوں کے بھنور ٹوٹتے گئے
میں ڈوبتا ہوا بھی ندی پار کر گیا
ورنہ یہ بوجھ کون اٹھاتا تمام عمر
اچھا ہوا کہ پہلے وہی وار کر گیا
میں لفظ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک بھی گیا عدؔیم
وہ پھول دے کے بات کا اظہار کر گیا
٭٭٭
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا
یہ بھی سب ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا
محفلِ اہلِ و فا میں ہر طرح کے لوگ تھے
یا تیرے جیسا نہیں تھا یا میرے جیسا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدؔیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدؔیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
٭٭٭
کٹ ہی گئی جدائی بھی یہ کب ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے
وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے
اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدؔیم ڈر گیا ہم بھی عدؔیم ڈر گئے
اس کے سلوک پر عدؔیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے
٭٭٭
غم کا راہ اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
وہ میرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیا
گھورتا تھا میں خلا میں تو سجی تھیں محفلیں
میرا آنکھوں کا جھپکنا، مجھ کو تنہا کر گیا
ہر طرف اڑنے لگا تاریک سایوں کا غبار
شام کا جھونکا، چمکتا شہر میلا کر گیا
چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری نمی
میں سمندر تھا، وہ سورج مجھ کو صحرا کر گیا
ایک لمحے میں بھرے بازار سونے ہو گئے
ایک چہرہ سب پرانے زخم تازہ کر گیا
میں اسی کے رابطے میں جس طرح ملبوس تھا
یوں وہ دامن کھینچ کر مجھ کو برہنہ کر گیا
رات بھر ہم روشنی کی آس میں جاگے عدؔیم
اور دن آیا تو آنکھوں میں اندھیرا کر گیا
٭٭٭
وہ ابر تھے کہ برس کر بھی رات بھر نہ کھلے
سحر ہوئی بھی مگر روشنی کے در نہ کھلے
میں موج موج سے لپکا بھی ساحلوں کی طرف
بندھے ہوئے تھے بدن سے جو وہ بھنور نہ کھلے
بھرے ہجوم میں تنہا بس ایک میں ہی تو تھا
میرے ہی ساتھ فقط میرے ہم سفر نہ کھلے
میں جان کر بھی اسے بڑھ رہا ہوں اس کی طرف
سراب دیکھ کے بھی چشمِ بے خبر نہ کھلے
بدن جلاتیر ہی خشک شاخ کی چھاؤں
بہار بیت گئی، جوہرِ شجر نہ کھلے
عقاب دیکھ کے پتھرا گیا میں اڑتے ہوئے
زمیں پہ ٹوٹ گیا، گر کے میرے پر نہ کھلے
زمیں پہ بیٹھ گیا ہوں میں آشیاں لے کر
میرے لیے تو کہیں بازوئے شجر نہ کھلے
مگر بندھی ہی رہی کوہِ سبز کی گٹھڑی
جھلستے پاؤں چھاؤں کے یہ سفر نہ کھلے
وہ سامنے میرے بھیگا ہوا کھڑا ہے عدیم
کچھ اور دیر ابھی کاش چشمِ تر نہ کھلے
٭٭٭
تیری آواز چلی آتی ہے
رات چپ چاپ سفر کرتی ہے
دل کی وحشت کا تلاطم بھی ٹھہر جاتا ہے
نیند تاریک ہیولے کی طرح
آنکھ سے دور فضاؤں میں اٹک جاتی ہے
اور پھر روح کے ویران زمانوں سے کہیں
تیری آواز چلی آتی ہے
پھیلتا جاتا ہے لفظوں کا فسوں
سرسراتے ہوئے پتوں کی صدا
کہیں آوارہ ہوا کی دستک
تیرگی میں کسی مٹی کے دیئے کی دھڑکن
خواب کی چاپ
سر شب کسی بھٹکے ہوئے بے خواب مسافر کا گماں
اور پھر ساری صدائیں سبھی غم
تیری آواز میں ڈھل جاتے ہیں
ڈھونڈتی پھرتی صدائیں سر بربادی دل
شہر در شہر سفر کرتی ہیں
اور پھر ٹھہر بھی جائیں کہیں اک دو پل
غمزدہ شہر میں برباد مسافر کی طرح
بے نوا عمر کے زندانوں میں
رات چپ چاپ سفر کرتی ہے
ہم جہاں بھی ہوں
تیری آواز چلی آتی ہے
٭٭٭
گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی
پہلو میں رہ کے دل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اس کو یاد بھلانے کے بعد بھی
وہ حسن ہے کسی میں نہیں تاب دید کی
پنہاں ہے وہ نقاب اٹھانے کے بعد بھی
قربت کے بعد اور بھی قربت کی ہے تلاش
دل مطمئن نہیں ترے آنے کے بعد بھی
گو تو یہاں نہیں ہے مگر تو یہیں پہ ہے
تیرا ہی ذکر ہے ترے جانے کے بعد بھی
ساری زمیں کا نور بھی سورج نہ بن سکا
شب ہی رہی چراغ جلانے کے بعد بھی
نارِ حسد نے دل کو جلایا ہے یوں عدیمؔ
یہ تو نشاں رہے گا مٹانے کے بعد بھی
لگتا ہے کچھ کہا ہی نہیں ہے اسے عدیمؔ
دل کا تمام حال سنانے کے بعد بھی
٭٭٭
درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لئے
سب کے سب آنسو نہیں * ہوتے بہانے کے لئے
عمر تنہا کاٹ دی وعدہ نِبھانے کے لئے
عہد باندھا تھا کسی نے آزمانے کے لئے
یہ قفس ہے گھر کی زیبائش بڑھانے کے لئے
یہ پرندے تو نہیں ہیں آشیانے کے لئے
کچھ دیئے دیوار پر رکھنے ہیں وقتِ انتظار
کچھ دیئے لایا ہوں پلکوں پر جلانے کے لئے
وہ بظاہر تو ملا تھا ایک لمحے بھر کو عدیم
عمر چاہیئے اس کو بھُلانے کے لئے
لوگ زیرِ خاک بھی تو ڈوب جاتے ہیں عدیم
اک سمندر ہی نہیں ہے ڈوب جانے کے لئے
تو پسِ خندہ لبی آہوں کی آوازیں تو سن
یہ ہنسی تو آئی ہے آنسو چھپانے کے لئے
کوئی غم ہو کوئی دکھ ہو درد کوئی ہو عدیم
مسکرانا پڑ ہی جاتا ہے زمانے کے لئے
٭٭٭
راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا، ترا حال اچھا ہے
ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
ترے آنے سے کوئی ہوش رہے یا نہ رہے
اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جائے کوئی
اسے دے دے کوئی اچھی سی مثال اچھا ہے
دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال
بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے
سخت غصہ میں بھی یہ سوچ کے ہنس دیتا ہوں
یہ وہی شخص ہے جو وقت وصال اچھا ہے
آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی، وہی مچھلی، وہی جال اچھا ہے
چھوڑیئے اتنی دلیلوں کی ضرورت کیا ہے
ہم ہی گاہک ہیں برے آپ کا مال اچھا ہے
کوئی دینار نہ درہم نہ ریال اچھا ہے
جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیم
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
٭٭٭
کیا خبر تھی پھر نیا وقتِ سفر آ جائے گا
میں تو سمجھا تھا سفر کے بعد گھر آ جائے گا
اس غلط فہمی میں تنہا منزلیں طے ہو گئیں
چل پڑوں گا میں تو کوئی ہم سفر آ جائے گا
اتنی بے پروائیوں سے بھولنا ا چھا نہیں
یہ ہنر ہے تو ہمیں بھی یہ ہنر آ جائے گا
جب نصیبوں میں نہیں ملنا تو یوں ہو گا عدؔیم
وہ اُدھر جاؤں گا جس دن وہ اِدھر آ جائے گا
اٹھ بدل ہی ڈال کپڑے اور منہ دھو لے عدؔیم
تو نے جب سوچا نہیں، اس دن وہ گھر آ جائے گا
٭٭٭
شہرِ برباد میں
شہرِ برباد میں
ایک وحشت کھڑی ہے ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
ہمارے دلوں کی اداسی
یونہی بے سبب تو نہ تھی
تم نے سمجھا جو ہوتا کسی آرزو کے شکستہ دریچے کی اجڑی ہوئی
داستاں کو کبھی
ہم کو مدت ہوئی
راستہ راستہ
خار و خس کی طرح
گردشیں کاٹتے
اس سے بڑھ کر بھی ہو گا کوئی خواب صد چاک
ظلمت کا مارا ہوا
کیا دکھوں کی یہ ساری کہانی بھلا خواب ہے ؟
ہم تو باز آئے
ایسی کسی خوش گمانی
یا امید سے
خوش گمانی میں ہم تو
اذیت کی ساری فصیلوں کو چھو آئے
صدیوں کی ساری اداسی کو
لمحوں میں ہم نے سمیٹا
مگر
اب بھی وحشت کھڑی ہے
ہر اک موڑ پر
گرد ناکامیِ عمر کی کوئی سوغات لے کر
مسافت کے مارے دلوں کے لیے
٭٭٭
کیوں نہ ہم اس کو اسی کا آئینہ ہو کر ملیں
بے وفا ہے وہ تو اس کو بے وفا ہو کر ملیں
تلخیوں میں ڈھل نہ جائیں وصل کی اکتاہٹیں
تھک گئے ہو تو چلو پھر سے جدا ہو کر ملیں
پہلی پہلی قربتوں کی پھر اٹھائیں لذتیں
آشنا آ پھر ذرا نا آشنا ہو کر ملیں
ایک تو ہے سر سے پا تک سراپا انکسار
لوگ وہ بھی ہیں جو بندوں سے خدا ہو کر ملیں
معذرت بن کر بھی اس کو مل ہی سکتے ہیں عدؔیم
یہ ضروری تو نہیں اس کو سزا ہو کر ملیں
٭٭٭
تلاشِ گمشدہ
اب تو گھر آ جاؤ
دل کے چین
تجھے کچھ کیا کہنا ہے
ہم نے مانا
تیرے روٹھ جانے میں تو
سارا دوش ہمارا تھا
لیکن اب تو تیری راہیں
تکتے تکتے عمر ہوئی
وہ بیمار ہے
اور ہر شخص پہ ویرانی کا سایہ
تیری ساری چیزوں سے
اب گرد ہٹانا مشکل ہے
اور یہ عمر بھی
ہجر کے آنسو رونے کو
ناکافی ہے
٭٭٭
جب بیاں کرو گے تم، ہم بیاں میں نکلیں گے
ہم ہی داستاں بن کر، داستاں میں نکلیں گے
عشق ہو، محبت ہو، پیار ہو کہ چاہت ہو
ہم تو ہر سمندر کے درمیاں میں نکلیں گے
رات کا اندھیرا ہی رات میں نہیں ہوتا
چاند اور ستارے بھی آسماں میں نکلیں گے
بولیاں زمانے کی مختلف تو ہوتی ہیں
لفظ پیار کے لیکن ہر زباں میں نکلیں گے
خاک کا سمندر بھی اک عجب سمندر ہے
اس جہاں میں ڈوبیں گے، اس جہاں میں نکلیں گے
صرف سبز پتے ہی پیڑ پر نہیں ہوتے
کچھ نہ کچھ پرندے بھی آشیاں میں نکلیں گے
قصۂ سخن کوئی جب عدیم آئے گا
ہم بھی واقعہ بن کر داستاں میں نکلیں گے
٭٭٭
تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
تڑپ اٹھا میرا منصف بھی فیصلہ دے کر
میرے خدا، یہ برہنہ لباس پوش ہیں کون
عذاب کیا یہ دیا مجھ کو چشم وا دے کر
میں اب مروں کہ جیوں مجھ کو یہ خوشی ہے بہت
اسے سکوں تو ملا مجھ کو بد دعا دے کر
کیا پھر اس نے وہی جو خود اس نے سوچا تھا
برا تو میں بھی بنا اس کو مشورہ دے کر
میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں
جو سو گیا میری آنکھوں کو رتجگا دے کر
وہ رات رات کا مہماں تو عمر بھر کے لیے
چلا گیا مجھے یادوں کا سلسلہ دے کر
جو وا کیا بھی دریچہ تو آج موسم نے
پہاڑ ڈھانپ دیا ابر کی ردا دے کر
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
چٹخ چٹخ کے جلی شاخ شاخ جنگل کی
بہت سرور ملا آگ کو ہوا دے کر
پھر اس کے بعد پہاڑ اس کو خود پکاریں گے
تو لوٹ آ، اسے وادی میں اک صدا دے کر
ستون ریگ نہ ٹھہرا عدؔیم چھت کے تلے
میں ڈھے گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر
٭٭٭
کیسی بھلا یہ برہمی کیسا یہ پیچ و تاب ہے
جیسا ترا سوال ہے ویسا مرا جواب ہے
تو ہے فلک تو میں زمیں یہ تو نہیں کہ میں نہیں
ذرۂ خاک میں بھی ہوں تو اگر آفتاب ہے
گھر سے چلی ہے خوبرو ایک ہجوم چار سو
رنگ ہے یا سزا کوئی حسن ہے یا عذاب ہے
ملتے رہیں تو زندگی گنتی کی چار ساعتیں
بچھڑیں تو ایک ایک پل عرصہ بے حساب ہے
پھول وہی چمن وہی سارا ہی بانکپن وہی
ایک ہی شاخ ہر کوئی کانٹا کوئی گلاب ہے
ایک سا ہے مقابلہ دونوں میں کوئی کم نہیں
جیسی حسین آنکھ ہے ویسا حسین خواب ہے
دنیا میں کون کون ہے یہ تو ذرا بتایئے
سارے جہاں کے لب پہ ہے دنیا بڑی خراب ہے
شاخ گلاب پر عدیم لگتے ہیں دل کھلے ہوئے
صحن بدن میں دل عدیم لگتا ہے اک گلاب ہے
اشکوں کی اک طرف عدیم ڈوبی ہوئی ہے چشم تر
اشکوں کی دوسری طرف ہر کوئی زیر آب ہے
٭٭٭
آغوشِ ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر
تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آ کر
صحرا میں اُگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے
ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آ کر
بِکتا تو نہیں ہوں، نہ مرے دام بہت ہیں
رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آ کر
کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے
طوفاں کے ہی کر جائے حوا لے کوئی آ کر
میرے کسی احسان کا بدلہ نہ چکائے
اپنی ہی وفاؤں کا صلہ لے کوئی آ کر
اتنا تو ہو، پتھرائے ہوئے اشک پگھل جائیں
اپنا ہی مجھے درد سنا لے کوئی آ کر
گر جائیں نہ جاگی ہوئی راتیں مرے سرسے
تھوڑا سا تو یہ بوجھ اٹھا لے کوئی آ کر
سر کو نہ عدیم آ کے کوئی شخص سنبھالے
دیوار ہی کو گرنے سے بچا لے کوئی آ کر
٭٭٭
یک صدمہ سا ہوا اشک جو اس بار گرے
گھر کے آنسو تھے مگر بر سر بازار گرے
ہم ہی آہوں سے نہیں ہار کے ناچار گرے
آندھیاں جب بھی چلی ہیں کئی اشجار گرے
پھر وہی خواب، وہی طوفاں وہی دو آوازیں
جیسے در پہلے گرے بعد میں دیوار گرے
ایسی آواز سے دل ٹوٹ کے سینے میں گرا
جیسے منجدھار میں بھونچال سے کہسار گرے
جیسے نوبت ہی معالج کی نہیں آئے کوئی
جیسے رستے میں ہی دم توڑ کے بیمار گرے
صرف میں نے ہی تو گجرے نہیں بھیجے اس کو
میرے آنگن میں بھی پھولوں کے کئی ہار گرے
ایک تم ہی نہیں پھسلے ہو یہاں آ کے عدیم
بارش زر میں کئی صاحب کردار گرے
دھوپ بارش میں اچانک جو نکل آئی عدیم
زیر اشجار کئی سایۂ اشجار گرے
٭٭٭
اسے تشبیہ کا دوں آسرا کیا
وہ خود اک چاند ہے پھر چاند سا کیا
قیامت ہو گیا چلنا بھی مجھ کو
پلٹ کر دیکھنا بھی تھا ترا کیا
الٹ جاتی ہے صورت آئینے میں
دکھائے گا حقیقت آئینہ کیا
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
بچھڑ جانے کا سودا کر لیا کیا
بڑے محتاط ہوتے جا رہے ہو
زمانے نے تمہیں سمجھا دیا کیا
تہی محسوس آنکھیں ہو رہی ہیں
نہ جانے آنسوؤں میں بہہ گیا کیا
کسے تکتے ہوئے پتھرا گئے ہو
خلاؤں میں تمہارا کھو گیا کیا
بڑے رنگین سپنے آ رہے ہیں
عدیم اس نیند سے اب جاگنا کیا
٭٭٭
بتا کہ راہِ وفا میں کوئی سوار دیکھا
کہا کہ میں نے تو صرف اُڑتا غبار دیکھا
بتاؤ پتھر بنے ہو دیکھے گا کون تم کو
کہا کہ جس نے چٹان میں شاہکار دیکھا
بتاؤ نشّہ جو سب کو نشّے میں چُور کر دے
کہا محبت میں صرف ایسا خمار دیکھا
بتا کہ آنکھوں میں شکل کیوں ایک ہی بسی ہے
کہا کہ چہرہ جو ایک ہی بار بار دیکھا
بتا پسِ چشمِ نیلگوں کا کوئی نظارہ
کہا لگا جیسے آسمانوں کے پار دیکھا
بتا کہ اُس کی نظر جھکی تو عدیم کیسے
کہا کہ اُس کی شکست میں بھی وقار دیکھا
٭٭٭
حیراں ہوں زندگی کی انوکھی اڑان پر
پاؤں زمیں پر ہیں، مزاج آسمان پر
آتا نہیں یقین کسی کی زبان پر
بادل کا ہو رہا ہے گماں بادبان پر
کرنوں کے تیر چلنے لگے ہیں جہان پر
بیٹھا ہوا ہے کون فلک کی مچان پر
یہ زخم تو ملا تھا کسی اور سے مجھے
کیوں شکل تیری بننے لگی ہے نشان پر
اتنے ستم اٹھا کے تُو زندہ ہے کس طرح
کتنا یقیں کروں میں تری داستان پر
تصویر اس کی میں نے سجانے کی بھول کی
سارا جہان ٹوٹ پڑا ہے دکان پر
چھوٹا سا اک چراغ بُجھانے کے واسطے
ٹھہری رہی ہے رات مرے سائبان پر
گھر سے نکل رہا ہے کوئی اور ہی عدیم
تختی لگی ہوئی ہے کسی کی مکان پر
٭٭٭
جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر
سورج تھا جیسے، چاند نہ تھا آسمان پر
اک روگ ہے کہ جاں کو لگا ہے اڑان کا
ٹوٹا ہوا پڑا ہوں پروں کی دکان پر
میں راستوں میں اس کا لگاؤں کہاں سراغ
سو سو قدم ہیں، ایک قدم کے نشان پر
بادل کو چومتی رہیں پختہ عمارتیں
بجلی گری تو شہر کے کچے مکان پر
اُس تند خُو کو راہ میں ٹھہرا لیا ہے کیا
دریا عدیم روک لیا ہے ڈھلان پر
٭٭٭
تمہارے وہاں سے یہاں آتے آتے
بہار آ گئی ہے خزاں آتے آتے
قدم دو قدم کا تو رستہ ہے سارا
کہاں کھو گئے ہو یہاں آتے آتے
کوئی شوق، کوئی تمنا تھی اس کو
سنی راہ میں داستاں آتے آتے
تری صورتیں، تیرے سائے فلک پر
یہ کیا بن گئیں بدلیاں آتے آتے
بھٹکنے کے دن ہیں، بھٹکنے کی راتیں
کہیں کھو نہ جانا یہاں آتے آتے
یہ رنگت، یہ حالت، یہ چہرہ، یہ مہرہ
یہ کیا کر لیا مہرباں آتے آتے
تعاقب عدیم اس کا کر لے نہ کوئی
مٹاتا گیا وہ نشاں آتے آتے
بلایا تھا دو چار یاروں کو میں نے
عدیم آ گیا اک جہاں آتے آتے
٭٭٭
اڑ کر کبوتر ایک سرِ بام آ گیا
مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیا
میں گن رہا تھا آج پرانی محبتیں
ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیا
رکھا تھا ہاتھ نبض پہ چھونے کے واسطے
اُس نے یہ کہہ دیا مجھے آرام آ گیا
احساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز
جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیا
وہ اک نظر عدیم جو بیمار کر گئی
اُس اک نظر ہی سے مجھے آرام آ گیا
٭٭٭
جب ترا دامنِ تر یاد آیا
اپنی آہوں کا اثر یاد آیا
جب بھی صحرا میں بگولا دیکھا
تیرے آنگن کا شجر یاد آیا
شب کے ساتھی تو بہت سارے تھے
اک دیا وقتِ سحر یاد آیا
جس گھڑی شمع کے آنسُو پگھلے
مجھے اک دیدۂ تر یاد آیا
بے بسی کی مجھے دینا تھی مثال
ایک ٹوٹا ہوا پَر یاد آیا
حادثہ بھول چکا تھا سب کو
ناؤ دیکھی تو بھنور یاد آیا
ایک لمحہ تھا فقط خوشیوں کا
وہ بھی با دیدۂ تر یاد آیا
چاند دو بار گھٹا سے نکلا
تُو مجھے بارِ دگر یاد آیا
ایک تو حسن ترا اپنا تھا
اک ترا حسنِ نظر یاد آیا
اپنے گھر کی نہ کبھی یاد آئی
جب بھی آیا ترا گھر یاد آیا
٭٭٭
خدا بھی اور سمندر میں ناخدا بھی ہے
ستم تو یہ ہے کہ کشتی کو ڈوبنا بھی ہے
کڑکتی رعد بھی، بارش بھی ہے، ہوا بھی ہے
شجر کی شاخ پہ چھوٹا سا گھونسلا بھی ہے
ہزار بار چھپی لو دیئے کی آندھی سے
ہوا سے پوچھ، دِیا آج تک بُجھا بھی ہے
ہے آفتاب تو جُگنو بھی ہے ذرا سا کہیں
جہاں ہے دن کا وہاں شب کا آسرا بھی ہے
یہ امتزاجِ تضادات ہی تو دنیا ہے
اگر جفا ہے زمانے میں تو وفا بھی ہے
تعلقات میں یہ اُونچ نیچ رہتی ہے
کبھی خوشی ہے اُسے تو کبھی گِلہ بھی ہے
ہوا جلی نہ دِیا ہی بُجھا ہے آج تلک
عدیم ازل سے ہوا بھی ہے اور دِیا بھی ہے
٭٭٭
سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے ؟
آج کچھ درد میں کمی کیا ہے ؟
دیکھ لو! رنگِ روئے ناکامی!
یہ نہ پوچھو، کہ بے بسی کیا ہے
اپنی ناکامیِ طلب کی قسم!!
عین دریا ہے، تشنگی کیا ہے
جسم محدود، روح لا محدود
پھر یہ اک ربطِ باہمی کیا ہے
اے فلک! اب تجھے تو دکھلا دوں
زورِ بازوئے بے کسی کیا ہے
ہم نہیں جانتے محبت میں !
رنج کیا چیز ہے، خوشی کیا ہے
اک نفس خلد، اک نفس دوزخ
کوئی پوچھے یہ زندگی کیا ہے ؟
٭٭٭
پھر جدائی، پھر جئے، پھر مر چلے
ہم بھی کیا کیا منزلیں سر کر چلے
دامنِ ملبوس خالی کر چلے
لیکن اپنے دل کی جھولی بھر چلے
بڑھ رہی ہیں خواہشیں دل کی طرف
جیسے حملے کے لیے لشکر چلے
انتظار اور انتظار اور انتظار
کیسے کیسے مرحلے سر کر چلے
زندگی ساری گزاری اس طرح
جس طرح رسی پہ بازی گر چلے
وہ مَسل دے یا اٹھا کر چوم لے
پھول اس دہلیز پر ہم دھر چلے
ہے کوئی ایسا مرے جیسا عدیم
اپنے دل کو مار کر ٹھوکر چلے
چال اس کی موچ سے بدلی عدیم
سب حسیں ہلکا سا لنگڑا کر چلے
تند خُو کا وہ رویہ تھا عدیم
دل پہ جیسے کند سا خنجر چلے
٭٭٭
تر بہ تر اے چشم تجھ کو کر چلے
کم سے کم تیرا تو دامن بھر چلے
ساتھ اپنے کچھ نہیں لے کر چلے
سب یہاں کا تھا، یہیں پر دھر چلے
ہوتے ہوتے اور ہی کچھ ہو گیا
کرتے کرتے اور ہی کچھ کر چلے
رہ گیا باقی چراغوں کا دھواں
لوگ اٹھ کر اپنے اپنے گھر چلے
پانچویں تو سمت ہی کوئی نہیں
تِیر چاروں سمت سے دل پر چلے
پانچویں سمت اس گھڑی ہم پر کھلی
جس گھڑی ہم خاک کے اندر چلے
اک وفا رسمِ وفا ہوتی نہیں
رسم وہ ہوتی ہے جو گھر گھر چلے
یہ زمیں اس وقت تک موجود ہے
اِس زمین کا جب تلک چکر چلے
آخری لمحے لگا ایسے عدیم
جیسے ہم رک جائیں اور منظر چلے
خاک تھی دنیا کی جھولی میں عدیم
خاک سے ہم اپنا دامن بھر چلے
٭٭٭
تُو نے پھینکا عدیم جال کہاں
جال میں آئے گا غزال کہاں
جہاں جلتے ہیں پَر محبت کے
کر دیا وصل کا سوال کہاں
زاویئے ہی بدل گئے سارے
اب وہ معصوم سے وصال کہاں
تُو کسی اور کی طرف دیکھے
جان من یہ تری مجال کہاں
آ ہی جاؤ گے تم تو سال کے بعد
آئے گا یہ پلٹ کے سال کہاں
کاش ہم دن حنوط کر سکتے
مل سکا یہ ہمیں کمال کہاں
نہ ترا راستہ نہ تیرے قدم
دل ہوا بھی تو پائمال کہاں
کوئی اگلے جہاں میں ہو تو ہو
اِس جہاں میں تری مثال کہاں
ایک چہرہ گیا تو اک آیا
حسن کو مل سکا زوال کہاں
٭٭٭
اور ہے اپنی کہانی اور ہے
داستاں اس کو سنانی اور ہے
میں تو سویا تھا ستارے اوڑھ کر
یہ ردائے آسمانی اور ہے
ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اس سمندر کا تو پانی اور ہے
پھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اس کی اک عادت پرانی اور ہے
اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے
اس کے گھر کی اک نشانی اور ہے
یوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اک عہدِ جوانی اور ہے
پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے
٭٭٭
ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے
عکس پانی میں محبت کے اتارے ہوتے
ہم جو بیٹھے ہوئے دریا کے کنارے ہوتے
جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے
کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
کونسا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے
آپ تو آپ ہیں، خالق بھی ہمارا ہوتا
ہم ضرورت میں کسی کو نہ پکارے ہوتے
ساتھ احباب کے حاسد بھی ضروری ہیں عدیم
ہم سخن اپنا سناتے جہاں سارے ہوتے
٭٭٭
میں جی رہا ہوں صرف ترے اعتبار تک
اب آ گئی ہے بات ترے اختیار تک
کس نے کہا تھا اتنی محبت کے واسطے
تُو نے تو چھُو لیا ہے دلِ بے قرار تک
تُو آج آ، کہ موت کے بعد آ، یہ تُجھ پہ ہے
آنکھیں مری کھلی ہیں ترے انتظار تک
منسوب ہو گئے تری آنکھوں کے کیف سے
چڑھتے نشے سے لے کے اُترتے خمار تک
رخصت کے بعد کا بھی سماں ختم ہو چکا
باقی نہیں ہے اب تو ہوا میں غبار تک
تیری تمام وعدہ خلافی کے باوجود
میں نے تو کر لیا ہے ترا اعتبار تک
وعدے جو ٹوٹتے ہیں، وہ قسمت میں ہیں عدیم
لکھے ہوئے ہیں بخت میں قول و قرار تک
٭٭٭
کون بدلے گا تغزل کی فضا میرے بعد
کون آندھی میں جلائے گا دیا میرے بعد
مجھ سے بہتر تو ہوئے شعلہ نوا میرے بعد
میرے جیسا نہ کوئی اور ہوا میرے بعد
کون ہونٹوں سے کرئے گا تری راہوں کو سلام
کون چومے گا یہ نقشِ کفِ پا میرے بعد
کون بن جائے گا مہتابِ برہنہ پہ گھٹا
کون ڈھانپے گا تجھے مثلِ قبا میرے بعد
کون سمجھے گا تجھے اپنے سخن کا الہام
کون دے گا تجھے تعظیمِ حرا میرے بعد
فیصلہ لکھ کے قلم توڑ دیا منصف نے
پھر محبت کی نہ دی کوئی سزا میرے بعد
ہاتھ پھیلا کہ یہی وقت مناسب ہے عدیم
کیا کرئے گی ترے ہونٹوں کی دعا میرے بعد
٭٭٭
وہ دریچے میں کب نہیں آتا
جب ضرورت ہو تب نہیں آتا
کوئی تو بات اس میں ہے موجود
یاد وہ بے سبب نہیں آتا
اس کی بے اعتنائی پر رونا
پہلے آتا تھا، اب نہیں آتا
پیار میں یاد ہے جدائی مجھے
یہ سبق سب کا سب نہیں آتا
آپ جینے کی بات کرتے ہیں
ہم کو مرنے کا ڈھب نہیں آتا
با ادب! بارگاہِ حسن ہے یہ
یاں کوئی بے ادب نہیں اتا
حسن اُس کی بڑی نشانی ہے
اُس کا نام و نسب نہیں آتا
بات اُس کو عدیم آتی ہے
بات کرنے کا ڈھب نہیں آتا
٭٭٭
شامل تھا یہ ستم بھی کسی کے نصاب میں
تتلی ملی حنوط پرانی کتاب میں
دیکھوں گا کس طرح سے کسی کو عذاب میں
سب کے گناہ ڈال دے میرے حساب میں
پھر بے وفا کو بحرِ محبت سمجھ لیا
پھر دل کی ناؤ ڈوب گئی ہے سراب میں
پہلے گلاب اس میں دکھائی دیا مجھے
اب وہ مجھے دکھائی دیا ہے گلاب میں
وہ رنگِ آتشیں، وہ دہکتا ہوا شباب
چہرے نے جیسے آگ لگا دی نقاب میں
بارش نے اپنا عکس کہیں دیکھنا نہ ہو
کیوں آئینے ابھرنے لگے ہیں حباب میں
گردش کی تیزیوں نے اسے نور کر دیا
مٹی چمک رہی ہے یہی آفتاب میں
اس سنگدل کو میں نے پکارا تو تھا عدیم
اپنی صدا ہی لوٹ کر آئی جواب میں
٭٭٭
اک جھلک اُس کفِ حنائی کی
نام اُس کے سبھی خدائی کی
کتنی ہمدردیاں ملیں مجھ کو
خیر ہو تیری بے وفائی کی
پوچھ بیٹھا میں اُس کے گھر کا پتہ
ساری دنیا نے رہنمائی کی
کس قدر لازوال سنگت ہے
حسن کی اور بے وفائی کی
وہ وفادار ہے یہ خود دیکھیں
بات میں نے سُنی سُنائی کی
کیا خبر کب وہ سامنے آ جائے
کیا قسم کھائیں پارسائی کی
ذکر لکھا ہے اک قیامت کا
رات پھر آ گئی جدائی کی
جس سے تھوڑی سی بھی بھلائی کی
اُس نے بدلے میں وہ برائی کی!
٭٭٭
دیا اس نے محبت کا جواب، آہستہ آہستہ
کھلے ہونٹوں کی ٹہنی پر گلاب، آہستہ آہستہ
بڑھا مہتاب کی جانب سحاب، آہستہ آہستہ
عدیم اس نے بھی ڈھلکایا نقاب، آہستہ آہستہ
سبق پڑھنا نہیں صاحب سبق محسوس کرنا ہے
سمجھ میں ائے گی دل کی کتاب، آہستہ آہستہ
کہیں تیری طرف عجلت میں کچھ شامیں نہ رہ جائیں
چُکا دینا محبت کا حساب، آہستہ آہستہ
وہ سارے لمس چاہت کے، ضرورت میں جو مانگے تھے
وہ واپس بھی تو کرنے ہیں جناب، آہستہ آہستہ
ابھی کچھ دن لگیں گے دید کی تکمیل ہونے میں
بنے گا چاند پورا ماہتاب، آہستہ آہستہ
وہی پھولوں کی لڑیاں، نیلگوں سی نیم تاریکی
سنایا مجھ کو پھر اس نے وہ خواب، آہستہ آہستہ
وہ چہرہ صحن کی دیوار کے پیچھے سے یوں ابھرا
سحر کے وقت جیسے آفتاب، آہستہ آہستہ
عدیم آہستہ آہستہ جوانی سب پر آتی ہے
مگر جاتا نہیں عہدِ شباب، آہستہ آہستہ
٭٭٭
اب کرو گے بھی کیا وفا کر کے
جا چکا وہ تو فیصلہ کر کے
کچھ نہیں ہے تو تجربہ ہی سہی
دیکھ ہی لے کبھی وفا کر کے
اتنی جلدی قبولیت ہو گی
ابھی بیٹھا تھا میں دُعا کر کے
کتنے مومن نما لُٹیرے ہیں
لُوٹتے ہیں خدا خدا کر کے
حکم کر کے کہ التجا کر کے
تجھے چھوڑوں گا با وفا کر کے
کاسۂ دل میں دل تو لے جاؤ
جا رہے ہو کہاں صدا کر کے
لڑکھڑاتے ہیں کیوں قدم اتنے
آ رہے ہو عدیم کیا کر کے
٭٭٭
اپنے ہی دست و پا مرے اپنے رقیب ہو گئے
تیرے بغیر پھیل کر بازو صلیب ہو گئے
کوئی ہنسا تو رو پڑے رویا تو مسکرا دیئے
اب کے تیری جدائی میں ہم تو عجیب ہو گئے
آج بھی دیکھ دیکھ کر وعدے کا دن گزر گیا
آج بھی پھیل پھیل کر سائے مہیب ہو گئے
لوح جبیں پہ جس طرح لکھی گئیں مسافتیں
اتنا چلے کہ راستے اپنا نصیب ہو گئے
شدت غم کو دیکھ کر غم کو بھی رحم آ گیا
وہ جو کبھی رقیب تھے وہ بھی حبیب ہو گئے
اس کی رفاقتوں سے ہم کتنے امیر تھے عدیم
وہ جو بچھڑ گیا تو ہم کتنے غریب ہو گئے
٭٭٭
پھولوں کی اور چاند ستاروں کی کیا کمی
آنکھوں میں نور ہو تو ستاروں کی کیا کمی
تجھ کو چمن سے کیا ہے، تُو آئینہ دیکھ لے
جو خود ہو پھول، اس کو بہاروں کی کیا کمی
تجھ حسن کے لئے تو خدا بھی تڑپ اٹھے
تجھ کو غموں میں غم کے سہاروں کی کیا کمی
آنسو نہیں خلا میں محبت کے پھول پھینک
اب آسماں کو چاند ستاروں کی کیا کمی
"چاروں طرف سے آتشِ دوزخ ہو جلوہ گر”
حاسد کی زندگی میں شراروں کی کیا کمی
تُو بن سنور کے نصف گھڑی کے لیے نکل
دنیا میں حسن و عشق کے ماروں کی کیا کمی
یہ کشتیاں ہیں جن کو طلب ساحلوں کی ہے
دریاؤں کو عدیم کناروں کی کیا کمی
٭٭٭
نہ کوئی رنگ، نہ ہاتھوں میں حنا، میرے بعد
وہ مکمل ہی سیہ پوش ہوا میرے بعد
لے کے جاتا رہا ہر شام وہ پھول اور چراغ
بس یہی اس نے کیا، جتنا جیا میرے بعد
روز جا کر وہ سمندر کے کنارے چپ چاپ
ناؤ کاغذ کی بہاتا ہی رہا میرے بعد
اس کے ہونٹوں سے مرا نام نکل جاتا تھا
جس نے اپنایا اسے، چھوڑ دیا میرے بعد
اک پرندہ جو بلاتا تھا اسے میری طرح
وہ پرندہ بھی قفس میں نہ رہا میرے بعد
میں نے گرنے نہ دیئے تھے کبھی آنسو اس کے
شاید اس واسطے وہ رو نہ سکا میرے بعد
میں بھی ویسا نہ رہا اس کے بچھڑ جانے سے
کوئی اس کو بھی نہ پہچان سکا میرے بعد
ساری دنیا نے اسے مالِ غنیمت سمجھا
جو نہ سوچا تھا کبھی، وہ بھی ہوا میرے بعد
اس کا ہنسنا مجھے بھاتا تھا سو وہ شخص عدیم
بال کھولے ہوئے ہنستا ہی رہا میرے بعد
٭٭٭
منزلوں کا پتہ لگانا کیوں ؟
ہے مسافر تو پھر ٹھکانہ کیوں ؟
راستے میں اگر بچھڑنا ہے
پھر قدم سے قدم ملانا کیوں ؟
جسے احساس ہی نہیں کوئی
حال دل کا اسے سنانا کیوں ؟
کیوں کسی نے کسی کو چھوڑ دیا
پھر وہی واقعہ پرانا کیوں ؟
اجنبیت میں یہ تڑپ تو نہ تھی
سوچتا ہوں کہ اس کو جانا کیوں ؟
اب تو اس کا کوئی علاج نہیں
تو نے دل کا کہا ہی مانا کیوں ؟
قربتیں کیوں نہ تھیں مقدر میں
لے گیا دور آب و دانہ کیوں ؟
٭٭٭
کچھ لوگ جن کو فکرِ زیاں دے دیا گیا
کچھ وہ ہیں جن کو سارا جہاں دے دیا گیا
دل کی محبتوں کا بہاؤ ہے جس طرح
دریا ہے جس کو آبِ رواں دے دیا گیا
آنکھوں کو سامنے کے علاقے دیئے گئے
دل کو چھُپا ہوا بھی جہاں دے دیا گیا
جیسے ہرے شجر کو لگا دی گئی ہو آگ
کچھ اس طرح کا دل کو دھواں دے دیا گیا
رہتا کِسے عدیم بہاروں کا انتظار
اچھا ہوا کہ عہدِ خزاں دے دیا گیا
روزِ حساب، خوفِ حساب اس کو ہے عدیم
وہ جس کو فکرِ سُود و زیاں دے دیا گیا
٭٭٭
بتا کہ راہِ وفا میں کوئی سوار دیکھا
کہا کہ میں نے تو صرف اُڑتا غبار دیکھا
بتاؤ، پتھر بنے ہو دیکھے گا کون تم کو
کہا کہ جس نے چٹان میں شاہکار دیکھا
بتاؤ، نشّہ جو سب کو نشّے میں چُور کر دے
کہا، محبت میں صرف ایسا خمار دیکھا
بتا کہ آنکھوں میں شکل کیوں ایک ہی بسی ہے
کہا کہ چہرہ جو ایک ہی بار بار دیکھا
بتا، پسِ چشمِ نیلگوں کا کوئی نظارہ
کہا، لگا جیسے آسمانوں کے پار دیکھا
بتا کہ اُس کی نظر جھکی تو عدیم کیسے
کہا کہ اُس کی شکست میں بھی وقار دیکھا
٭٭٭
کر کے وفا، پلٹ کے وفا مانگنے لگا
کیا ظرف تھا گھڑی میں صلہ مانگنے لگا
یہ قحطِ حُسن تھا کہ عنایت تھی حُسن کی
ہر شخص اس حسیں کا پتہ مانگنے لگا
جب سے اُسے عزیز ہوئی میری زندگی
میں اپنی زندگی کی دعا مانگنے لگا
سینے سے آہ، آنکھ سے آنسُو طلب کئے
غم کا شجر بھی آب و ہوا مانگنے لگا
ہمدردیاں وہ بعدِ سزا اس نے کیں عدیم
جو بے خطا تھا وہ بھی سزا مانگنے لگا
٭٭٭
کہا، ساتھی کوئی دکھ درد کا تیار کرنا ہے
جواب آیا کہ یہ دریا اکیلے پار کرنا ہے
کہا، ہر راستہ بخشا ناہموار کیوں مجھ کو
جواب آیا کہ ہر رستہ تجھے ہموار کرنا ہے
کہا، کیوں سامنے چمکا دیا اتنا بڑا سورج
جواب آیا ہمیں سایہ پسِ دیوار کرنا ہے
کہا، لفظوں سے پھولوں کی مہک آنے لگی کیسے ؟
جواب آیا محبت کا تجھے اظہار کرنا ہے
کہا، مجھ کو بنایا ہے تو پھر یہ دوسرے کیوں ہیں ؟
جواب آیا کہ تجھ کو دوسروں سے پیار کرنا ہے
کہا، میں لاڈلا تیرا ہوں میں مٹی میں کیوں اتروں
جواب آیا کہ سب کو یہ سمندر پار کرنا ہے
٭٭٭
پلٹ کے آنکھ نم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
گئے لمحوں کا غم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
سر تسلیمِ خم کر کے بہت کچھ مل تو سکتا ہے
سر تسلیمِ خم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
محبت ہو تو بے حد ہو، جو نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
میں دہشت گرد ہوتا تو اسے برباد کر دیتا
مگر اس پر ستم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
میں اک اک بوند کے پیچھے، نہ بھاگا ہوں نہ بھاگوں گا
سمندر یوں بہم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
عدیم انساں کی آنکھوں میں تو دنیا دیکھ سکتا ہوں
سبو کو جامِ جم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
٭٭٭
ادھر بھی دیکھ کبھی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے
ہم آج بھی ہیں تیری رہگذر میں بیٹھے ہوئے
عجیب شکلیں بناتی رہی ہے تنہائی!
میں ڈر گیا تھا خود اپنے ہی گھر میں بیٹھے ہوئے
کھلی ہے آنکھ مگر نیند ٹوٹتی ہی نہیں
وہ خواب تھے کہ ہیں اب تک نظر میں بیٹھے ہوئے
چمک رہا ہے تیرا شہر جگنوؤں کی طرح
کہ ہیں ستارے میری چشمِ تر میں بیٹھے ہوئے
بچھڑ کے تجھ سے، نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے، شجر میں بیٹھے ہوئے
چھپا ہوا ہوں کہ سب شغل پوچھتے ہیں میرا
وگرنہ کٹتا ہے کب وقت، گھر میں بیٹھے ہوئے
ازل سے گھوم رہا ہوں بس ایک محور پر
میں تھک گیا ہوں زمیں کے بھنور میں بیٹھے ہوئے
کروں بھی کام کہاں اپنی سطح سے گر کر
کہ آشنا ہیں مرے، شہر بھر میں بیٹھے ہوئے
٭٭٭
اگر پوچھا کہ مجھ سے کام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
کہا اس کام کا انجام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
مجھے پہچاننے سے اس نے گر انکار کر ڈالا
اگر پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
پیامی بن کے جاؤں میں بچھڑنے کا تو کیا بولوں
اگر پوچھا ترا پیغام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
خوشی کا دن کسے کہتے ہیں یہ تو میں بتا دوں گا
اگر پوچھا غموں کی شام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
میں اس کے منہ پہ اس کو بے وفا کہنے کو تو کہہ دوں
اگر پوچھا ترا انجام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
عدیم اس کو برا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
اگر پوچھا ترا الزام کیا ہے، کیا کہوں گا میں
٭٭٭
پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے
جب تو قبول ہے، تیرا سب کچھ قبول ہے
پھر تو نے دے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھول ہے
تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے
تو یار ہے تو اتنی کڑی گفتگو نہ کر
تیرا اصول ہے تو میرا بھی اصول ہے
لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیم
جو مانتا نہیں، اسے کہنا فضول ہے
یہ وقت وہ ہے جب کہ انا موم ہو چکی
اس وقت کوئی آئے، کوئی بھی، قبول ہے
آ کے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیم
جانے زیاں ہے یہ کہ خوشی کا حصول ہے
٭٭٭
جھومتی ٹہنی پر اس کا ہمنوا ہو جاؤں میں
وہ اگر ہے پھول تو بادِ صبا ہو جاؤں میں
اس کے چہرے پر بکھیروں اپنی کرنیں رات بھر
اس کے آنگن میں کوئی جلتا دیا ہو جاؤں میں
ہرکسی کا ایک سا کردار تو ہوتا نہیں
بے وفا ہے وہ تو کیسے بے وفا ہو جاؤں میں
واد یوں میں جھومتی گاتی گھٹا ہو جائے وہ
لہلہاتے کھیت کی تازہ ہوا ہو جاؤں میں
انکسار اک میرا اخلاقی فریضہ ہے عدیم!!
اس کا مطلب یہ نہیں ہے گردِ پا ہو جاؤں میں
وہ پجارن بن کے کیا گذری پہاڑوں سے عدیم
ہر کوئی پتھر پکارا، دیوتا ہو جاؤں میں
٭٭٭
زندگی پاؤں نہ دھر جانب انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادھورے سے کئی کام ابھی
ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سر شام ابھی
اک نظر اور ادھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
رات آئی ہے تو کیا تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لکھا ہے آرام ابھی
جان دینے میں کروں دیر یہ ممکن ہے کہاں
مجھ تک آیا ہے مری جاں ترا پیغام ابھی
طائر دل کے ذرا پر تو نکل لینے دو
اس پرندے کو بھی آنا ہے تہ دام ابھی
توڑ سکتا ہے مرا دل یہ زمانہ کیسے
میرے سینے میں دھڑکتا ہے ترا نام ابھی
میرے ہاتھوں میں ہے موجود ترے ہاتھ کا لمس
دل میں برپا ہے اسی شام کا کہرام ابھی
میں ترا حسن سخن میں ابھی ڈھالوں کیسے
میرے اشعار بنے ہیں کہاں الہام ابھی
مری نظریں کریں کیسے ترے چہرے کا طواف
مری آنکھوں نے تو باندھے نہیں احرام ابھی
یاد کے ابر سے آنکھیں مری بھیگی ہیں عدیم
اک دھندلکا سا ہے بھیگی تو نہیں شام ابھی
٭٭٭
ہوا نہیں کہ جسے دیکھ ہی نہ پاؤں گا
وہ جسم ہے تو اسے ہاتھ بھی لگاؤں گا
شجر شجر سے لپٹ کر مجھے پکارو گے
جب آئی دھوپ سروں پر، میں یاد آؤں گا
جو خواہشیں تھیں مٹا کر حنوط کر لی ہیں
اب اہتمام سے اہرام دل سجاؤں گا
بہت پسند ہیں پھول اور تتلیاں اس کو
میں اب گیا تو پرندوں کے پر بھی لاؤں گا
نباہنے کے تصور سے شرمسار نہ ہو!
میں صرف اپنے تعلق کو آزماؤں گا
وہ مل گیا تو اسے گالیاں بھی دوں گا عدیم
گلے لگا کے اسے حال بھی سناؤں گا
٭٭٭
غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
وہ میرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیا
گھورتا تھا میں خلا میں تو سجی تھیں محفلیں
میرا آنکھوں کا جھپکنا، مجھ کو تنہا کر گیا
ہر طرف اڑنے لگا تاریک سایوں کا غبار
شام کا جھونکا، چمکتا شہر میلا کر گیا
چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری نمی
میں سمندر تھا، وہ سورج مجھ کو صحرا کر گیا
ایک لمحے میں بھرے بازار سونے ہو گئے
ایک چہرہ سب پرانے زخم تازہ کر گیا
میں اسی کے رابطے میں جس طرح ملبوس تھا
یوں وہ دامن کھینچ کر مجھ کو برہنہ کر گیا
رات بھر ہم روشنی کی آس میں جاگے عدیم
اور دن آیا تو آنکھوں میں اندھیرا کر گیا
٭٭٭
تعلق اپنی جگہ تجھ سے بر قرار بھی ہے
مگر یہ کیا کہ ترے قرب سے فرار بھی ہے
کرید اور زمیں، موسموں کے متلاشی!
یہیں کہیں مری کھوئی ہوئی بہار بھی ہے
یہی نہ ہو تری منزل، ذرا ٹھہر اے دل
وہی مکاں ہے، دیوں کی وہی قطار بھی ہے
یونہی تو روح نہیں توڑتی حصار بدن
ضرور اپنا کوئی بادلوں کے پار بھی ہے
میں پتھروں سے ہی سر کو پٹخ کے لوٹ آیا
چٹان کہتی رہی مجھ میں شاہکار بھی ہے
یہ کیا کہ روک کے بیٹھا ہوا ہوں سیل ہوس
مچان پر بھی ہوں اور سامنے شکار بھی ہے
چھپا ہوا بھی ہوں جینے کی آرزو لے کے
پناہ گاہ مری، شیر کی کچھار بھی ہے
٭٭٭
شور سا ایک، ہر اک سمت بپا لگتا ہے
وہ خموشی ہے کہ لمحہ بھی صدا لگتا ہے
کتنا سا کت نظر آتا ہے ہواؤں کا بدن
شاخ پر پھول بھی پتھرایا ہوا لگتا ہے
چیخ اٹھتی ہوئی ہر گھر سے نظر آتی ہے
ہر مکاں شہر کا، آسیب زدہ لگتا ہے
آنکھ ہر راہ سے چپکی ہی چلی جاتی ہے
دل کو ہر موڑ پہ کچھ کھویا ہوا لگتا ہے
کتنا حاسد ہوں کہ اک تو ہی مرا اپنا ہے
اور تو ٹھیک سے ہنستا بھی برا لگتا ہے
میرے احساس نے ساون میں گنوائی ہے نظر
مجھ کو سوکھا ہوا جنگل بھی ہرا لگتا ہے
٭٭٭
اسی ایک فرد کے واسطے مرے دل میں درد ہے کس لئے
مری زندگی کا مطالبہ وہی ایک فرد ہے کس لئے
تو جو شہر میں ہی مقیم ہے تو مسافرت کی فضا ہے کیوں
ترا کارواں جو نہیں گیا تو ہوا میں گرد ہے کس لئے
نہ جمال و حسن کی بزم ہے نہ جنون و عشق کا عزم ہے
سرِ دشت رقص میں ہر گھڑی کوئی بادِ گرد ہے کس لئے
ترے حسن سے یہ پتہ چلا تجھے دیکھ کر یہ خبر ہوئی
جہاں راستہ ہی نہیں کوئی وہاں رہ نورد ہے کس لئے
جو لکھا ہے میرے نصیب میں کہیں تو نے پڑھ تو نہیں لیا
ترا ہاتھ سرد ہے کس لئے ترا رنگ زرد ہے کس لئے
وہ جو ترکِ ربط کا عہد تھا کہیں ٹوٹنے تو نہیں لگا
ترے دل کے درد کو دیکھ کر مرے دل میں درد ہے کس لئے
کوئی واسطہ جو نہیں رہا تری آنکھ میں یہ نمی ہے کیوں
مرے غم کی آگ کو دیکھ کر تری آہ سرد ہے کس لئے
٭٭٭
اس کی نظر کو داد دو جس نے یہ حال کر دیا
میرا کمال کچھ نہیں اس نے کمال کر دیا
ایک نگاہ کا اثر ظرف بہ ظرف مختلف
اِس کو نڈھال کر دیا اُس کو نہال کر دیا
آگ کی شہ پہ رات بھر نور بہت بنے دیے
صبح کی ایک پھونک نے سب کو سفال کر دیا
یہ تو ہوا ہتھیلیاں گنبدِ سرخ بن گئیں
ہاتھوں کی اوٹ نے مگر رکھا سنبھال کر دیا
شمع بھی تھی چراغ بھی دونوں ہوا سے بجھ گئے
میں نے جلا لیا مگر دل کا نکال کر ’’دیا‘‘
موت سے ایک پل ادھر پھر سے حیات مل گئی
اس نے تعلقات کو پھر سے بحال کر دیا
اوک بنا بنا کے ہم دستِ دعا کو تھک گئے
جو بھی ہمیں دیا گیا کاسے میں ڈال کر دیا
کوئی تو اس کی قدر کر کوئی تو اس کو اجر دے
اُس نے عدیمؔ تجھ کو دل کتنوں کو ٹال کر دیا
بات سخن میں چل پڑی اُس نے عدیمؔ مان لی
میں نے فراق کاٹ کر اس کو وصال کر دیا
٭٭٭
ماخذ:
http://raikhtablog.blogspot.com/2015/02/blog-post_732.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید