فہرست مضامین
- انتخابِ کلامِ منیرؔ شکوہ آبادی
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- آئینہ کے عکس سے گل سا بدن میلا ہوا
- بڑھ چلا عشق تو دل چھوڑ کے دنیا اٹھا
- بے وقت جو گھر سے وہ مسیحا نکل آیا
- تصویر زلف و عارض گلفام لے گیا
- تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا
- جب ہم بغل وہ سرو قبا پوش ہو گیا
- حلقہ حلقہ گھر بنا لخت دل بیتاب کا
- خاکساری سے جو غافل دل غماز ہوا
- دل تو پژمردہ ہے داغ گلستاں ہوں تو کیا
- دنیا سے داغ زلف سیہ فام لے گیا
- راہ کر کے اس بت گمراہ نے دھوکا دیا
- سبزہ تمہارے رخ کے لئے تنگ ہو گیا
- عکس رخ گلگوں سے تماشا نظر آیا
- غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا
- مضطرب عاشق بے جاں نہ ہوا تھا سو ہوا
- جو ذوق ہے کہ ہو دریافت آبروئے شراب
- ایسی ہوئی سرسبز شکایت کی کڑی بات
- کرتا ہے باغ دہر میں نیرنگیاں بسنت
- نازک ایسا نہیں کسی کا پیٹ
- حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر
- ہے عید لاؤ مے لالہ فام اٹھ اٹھ کر
- کچھ نہیں حاصل سپر کو چیر کو یا تلوار توڑ
- اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں
- پیچ فقرے پر کیا جاتا نہیں
- تیرے ہاتھوں سے مٹے گا نقش ہستی ایک دن
- جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں
- راہ میں صورت نقش کف پا رہتا ہوں
- کعبہ سے مجھ کو لائے سواد کنشت میں
- ہاتھ ملواتی ہیں حوروں کو تمہاری چوڑیاں
- ہوتی ہے ہار جیت پنہاں بات بات میں
- ابرو کی تیری ضرب دو دستی چلی گئی
- اثر کر کے آہ رسا پھر گئی
- آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے
- آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
- اے بت جو شب ہجر میں دل تھام نہ لیتے
- بتوں کے گھر کی طرف کعبہ کے سفر سے پھرے
- پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے
- ترچھی نظر سے دیکھیے تلوار چل گئی
- ثابت رہا فلک مرے نالوں کے سامنے
- جلسوں میں گزرنے لگی پھر رات تمہاری
- خوبان فسوں گر سے ہم الجھا نہیں کرتے
- دشمن کی ملامت بلا ہے
- روز دلہائے مے کشاں ٹوٹے
- زخمی نہ بھول جائیں مزے دل کی ٹیس کے
- سخت جانی کا سہی افسانہ ہے
- شب کے ہیں ماہ مہر ہیں دن کے
- عمر باقی راہ جاناں میں بسر ہونے کو ہے
- فصل بہار آئی ہے پیمانہ چاہئے
- فوج مژگاں کا کچھ ارادہ ہے
- قیدی ہوں سر زلف گرہ گیر سے پہلے
- میری شمع انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
- میں روتا ہوں آہ رسا بند ہے
- ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
- وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی
- Related
انتخابِ کلامِ منیرؔ شکوہ آبادی
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
آئینہ کے عکس سے گل سا بدن میلا ہوا
صبح کے پرتو سے رنگ یاسمن میلا ہوا
ہو گیا نام کدورت بھی لطافت کے خلاف
عطر مٹی کا لگایا پیرہن میلا ہوا
ہو گیا بٹنا غبار راہ جسم صاف پر
رنگ نکھرا اور بھی جتنا بدن میلا ہوا
مل گئی پوشاک لے جاتی ہیں جو زمیں مانگ کر
حلۂ جنت ہوا جو پیرہن میلا ہوا
صاف اے عریانیِ وحشت کہے دیتا ہوں میں
پوست کھینچوں گا اگر میرا بدن میلا ہوا
خاکساری سے ہوئے جزوِ زمیں ہم بعدِ مرگ
خاک کا پردا بنا ایسا کفن میلا ہوا
ملگجے کپڑے پسینے میں معطر ہو گئے
عطر میں دھویا گیا جو پیرہن میلا ہوا
بعد مردن بھی تکلف سے کدورت دل میں ہے
صحبت کافور سے اپنا بدن میلا ہوا
ہو گیا مسی کا دھوکا صاف اہل دید کو
دود قلیاں سے لب غنچہ دہن میلا ہوا
طبع رنگیں کو مکدر سرد آہوں نے کیا
دو نسیم صبح سے رنگ چمن میلا ہوا
شیشۂ ساعت کی کیفیت دکھائی یار نے
دل میں جب اس کے غبار آیا، بدن میلا ہوا
کیا تری تلوار بھی مجھ سے غبار آلود تھی
خون دل کا رنگ کیوں اے تیغ زن میلا ہوا
ہو گئی بے حس غبار آمد صیاد سے
خاک تودا لوگ سمجھے جو ہرن میلا ہوا
کیا کدورت لائیں جس پے نمک کی گرمیاں
شمع کافوری سے رنگ انجمن میلا ہوا
شاعروں میں گفتگو آئی کدورت کی بہم
صاف کہتا ہوں کہ اب رنگ سخن میلا ہوا
کیا لطافت ہے کہ غلطی میں مکدر ہو گیا
منہ لگاتے ہی ترا رنگ دہن میلا ہوا
سالک راہ بتاں آخر کو پتھر ہو گئے
ہو گیا بھاری جو رخت برہمن میلا ہوا
وصل کی شب باتوں باتوں میں مکدر ہو گئی
گفتگوئے بوسہ سے رنگ دہن میلا ہوا
خاک میں مل کر نہ چھوڑا بوسۂ دیوار یار
بن گیا روزن اگر رنگ دہن میلا ہوا
کوچۂ گیسو میں کس کی خاک اڑا لائی صبا
اے پری موباف جعد پر شکن میلا ہوا
صاف گوئی سے غبار آئینہ میں آیا منیرؔ
میری باتوں سے دل اہل سخن میلا ہوا
٭٭٭
بڑھ چلا عشق تو دل چھوڑ کے دنیا اٹھا
خود بخود جوش مے ناب سے شیشہ اٹھا
دست نازک سے زر گل کا بھی اٹھنا ہے محال
یہ تو فرمائیے کس وجہ سے توڑا اٹھا
جب پکارے لب جاں بخش سے وہ مر گئے ہم
نا توانوں سے نہ بار دم عیسیٰ اٹھا
خاکساروں میں نہیں ایسے کسی کی توقیر
قد آدم مری تعظیم کو سایا اٹھا
یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا
٭٭٭
بے وقت جو گھر سے وہ مسیحا نکل آیا
گھبرا کے مرے منہ سے کلیجہ نکل آیا
مدفون ہوا زیر زمیں کیا کوئی وحشی
کیوں خاک سے گھبرا کے بگولا نکل آیا
آئینہ میں منہ دیکھ کے مغرور ہوئے آپ
دو شکلوں سے کیسا یہ نتیجہ نکل آیا
زخمی جو کیا تم نے کھلے عشق کے اسرار
جو کچھ کہ مرے دل میں نہاں تھا نکل آیا
ٹھکرانے لگے دل کو تو برپا ہوئے طوفاں
قطرہ جو ہٹانے لگے دریا نکل آیا
اب رک نہیں سکتی ہے منیرؔ آہ جگر سوز
دم گھٹنے لگا منہ سے کلیجہ نکل آیا
٭٭٭
تصویر زلف و عارض گلفام لے گیا
مرغان قدس کے لئے گل دام لے گیا
دنیا سے داغ زلف سیہ فام لے گیا
میں گور میں چراغ سر شام لے گیا
کی ترک میں نے شیخ و برہمن کی پیروی
دیر و حرم میں مجھ کو ترا نام لے گیا
کیا کیا دکھائی سیر سفید و سیاہ دہر
کس کس طرف کو ابلق ایام لے گیا
اعجاز میں نے رجعت خورشید کا کیا
بالائے بام اس کو سر شام لے گیا
بھٹکے پھرے دو عملۂ دیر و حرم میں ہم
اس سمت کفر اس طرف اسلام لے گیا
چھلے کے گل چڑھائے کوئی میری قبر پر
میں آرزوئے وصل گل اندام لے گیا
پستان نو دمیدہ نے ملوائے خوب ہاتھ
میں داغ حسرت ثمر خام لے گیا
دیدار دوستان وطن کا دکھا دیا
مجھ کو عدم میں ابلق ایام لے گیا
پہنا کفن تو کوچۂ قاتل میں پائی راہ
کعبہ میں مجھ کو جامۂ احرام لے گیا
راہ عدم میں سیر چراغاں نظر پڑی
تربت میں داغ غم دل ناکام لے گیا
دوزخ میں جل گیا کبھی جنت میں خوش رہا
مر کر بھی ساتھ گردش ایام لے گیا
نفرت ہوئی دو رنگیِ لیل و نہار سے
میں صبح و شام اس کو لب بام لے گیا
زیر زمیں غروب ہوا آفتاب آج
تربت میں داغ بادۂ گلفام لے گیا
تیر ستم سے مل کے اڑا جانب عدم
پر آپ کے خدنگ سے میں دام لے گیا
میں جستجوئے کفر میں پہنچا خدا کے پاس
کعبہ تک ان بتوں کا مجھے نام لے گیا
ساقی کے پاس وسعت مشرب نے راہ دی
میں کاسۂ فلک عوض جام لے گیا
کچھ لطف عشق کا نہ ملا جیتے جی منیرؔ
ناحق کا رنج مفت کا الزام لے گیا
٭٭٭
تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا
بتاؤ آپ سے جاتا تو میں کدھر جاتا
نہیں ہے کوئی بھی ساتھی تمہارے مجرم کا
پکار اٹھتے سب اعضا جو میں مکر جاتا
اجل کے بھیس میں میری تلاش کر لیتے
وہ آپ ڈھونڈ کے خود لاتے میں جدھر جاتا
تکلفات محبت نے قید کر رکھا
ہر ایک سمت تھی دیوار میں کدھر جاتا
کبھی نہ سامنے آتا ذلیل کہلا کر
جو وہ بلاتے تو میں اپنے نام پر جاتا
بھلا چھپائے سے چھپتا لہو شہیدوں کا
یہ خون بول ہی اٹھتا جو تو مکر جاتا
٭٭٭
جب ہم بغل وہ سرو قبا پوش ہو گیا
قمری کا طوق حلقۂ آغوش ہو گیا
اشعار میرے سن کے وہ خاموش ہو گیا
غنچہ برنگ گل ہمہ تن گوش ہو گیا
پی غیر نے شراب مجھے بے خودی ہوئی
نشہ چڑھا کسی کو میں بے ہوش ہو گیا
اس درجہ بے خودی نے دکھائیں تعلیاں
گردوں غبار قافلۂ ہوش ہو گیا
تیغ اجل کی کاٹ سے ڈرتا نہیں ہوں میں
زخموں سے جسم زار زرہ پوش ہو گیا
اے بت خیال وصف دہن میں نہ پائی راہ
بھٹکا پھرا سخن جو میں خاموش ہو گیا
خوں خواروں کے حضور نہ آیا ہماری طرح
آئینہ جوہروں سے زرہ پوش ہو گیا
طالع جگائے آپ نے ارباب عشق کے
یوسف کا حسن خواب فراموش ہو گیا
پنہاں ہے زیر سبزۂ خط آتش عذار
شعلہ فسون حسن سے خس پوش ہو گیا
حوریں گلے لپٹتی ہیں آ آ کے رات دن
جنت کی راہ کوچۂ آغوش ہو گیا
اس مست حسن کی نگہ گرم کے حضور
آئینۂ جام بادۂ سرجوش ہو گیا
بے لطفیوں سے تم جو ملے میں نے جان دی
پھانسی گلے میں حلقۂ آغوش ہو گیا
ابر سیہ کے سایہ نے سرمہ کھلا دیا
سبزہ تمام طوطی خاموش ہو گیا
کاندھوں سے میرے کاتب اعمال گر پڑے
تڑپا میں اس قدر کہ سبک دوش ہو گیا
کانوں کا حسن جلوۂ عارض سے پڑ گیا
رخ آفتاب صبح بنا گوش ہو گیا
اڑتا ہوں عشق میں لب لعلیں کے اے منیرؔ
گویا شرار آتش خاموش ہو گیا
٭٭٭
حلقہ حلقہ گھر بنا لخت دل بیتاب کا
زلف جاناں میں ہے عالم سبحۂ سیماب کا
سونے میں نظارہ کر لوں روئے عالمتاب کا
خوف کیا دزد نگہ کو ہے شب مہتاب کا
کھیل بھی بیتاب تھا طفلی میں اس بیتاب کا
پر اڑاتا تھا ہوا پر ماہیِ بے آب کا
رک نہیں سکتا ہے دریا دیدۂ پر آب کا
پاٹ ہے رو مال میرا دامن سیلاب کا
خواب میں یاران رفتہ سے ملاقاتیں ہوئیں
ہم نے سمجھا خضر غفلت کو رہ احباب کا
کہتے ہیں سب دیکھ کر بیتاب میرا عضو عضو
آدمی اب تک نہیں دیکھا کہیں سیماب کا
نیند کی صورت نہیں دیکھا بہ جز داغ جگر
پردہ میری آنکھ میں شاید کہ ہے کمخواب کا
لگ گئی آگ آتش رخ سے نقاب یار میں
دیکھ لو جلتا ہے کونا چادر مہتاب کا
مجلس بے شمع وہ ہیں شمع بے مجلس ہوں میں
غم مرا احباب کو ہے مجھ کو غم احباب کا
ہجر جاناں کے الم میں ہم فرشتے بن گئے
دھیان مدت سے چھٹا آب طعام و خواب کا
اہل تسلیم و رضا سے سر بلندوں کی ہے زیب
خوش نما زیر منار و قرب ہے محراب کا
جھک کے ہم نے بوسۂ ابرو کی جب مانگی دعا
حلقۂ آغوش پر عالم ہوا محراب کا
اس قدر فریاد محشر خیز اے بلبل نہ کر
دیکھنا تختہ نہ الٹے گلشن شاداب کا
مہر دست آویز غم ہے ہر بشر کا داغ غم
دل ہے محضر صحبت گم کردۂ احباب کا
بے تکلف آ گیا وہ مہ دم فکر سخن
رہ گیا پاس ادب سے قافیہ آداب کا
پرورش تقدیر کرتی ہے مجھے بہر قضا
ذبح کو پروردہ کرنا کام ہے قصاب کا
نشہ جرات زیادہ ہو گیا اے مے کشو
ساغر مے بن گیا کاسہ سر سہراب کا
موئے آتش دید ساں بل کھائے وہ موئے کمر
میں جو لکھوں گرم مضموں اس طلائی ڈاب کا
ہو گیا ہوں میں نقاب روئے روشن پر فقیر
چاہیے تہ بند مجھ کو چادر مہتاب کا
خال و خط سے عیب اس کے روئے اقدس کو نہیں
حسن ہے مصحف میں ہونا نقطۂ اعراب کا
دوست دشمن سے زیادہ تیز رکھتے ہیں چھری
برہمن بھی پیشہ اب کرنے لگے قصاب کا
ہونٹ پر انگشت رنگیں رکھ کے وہ کہنے لگے
شاخ مرجاں نے ثمر پیدا کیا عناب کا
لاغری کے ساتھ بیتابی یہی اے بحر حسن
خار ہے یہ جسم لاغر ماہیِ بے آب کا
تیری فرقت میں جو آئے بھول کر آنکھوں میں نیند
مردمان چشم نے پھر منہ نہ دیکھا خواب کا
میرے مرغ دل کی بیتابی اڑائی کس طرح
حوصلہ ایسا نہیں ہے طائر سیماب کا
خدمت اقدس میں چل کر یہ غزل پڑھ اے منیرؔ
شہرہ سب اہل سخن میں ہے ترے نواب کا
٭٭٭
خاکساری سے جو غافل دل غماز ہوا
خاک کے پردے میں پوشیدہ مرا راز ہوا
لے گیا خط جو کبوتر کی طرح طائر دل
زلف کے جال میں پھنستے ہی گرہ باز ہوا
ساز کے پردے میں کی تو نے حکومت سب پر
نئے قانون سے تیار ترا ساز ہوا
حیرتی فصل چمن میں ہوئی سرسبز ایسی
سبزہ رخسارۂ تصویر سے آغاز ہوا
رات شرما کے ترے بالوں سے روپوش ہوئی
زاغ شب کے لئے گیسو پر پرواز ہوا
کوٹھے پر چہرۂ پر نور دکھایا سر شام
یار سے رجعت خورشید کا اعجاز ہوا
چمن دہر میں تھے دیدۂ عنقا نرگس
جب سے میں شیفتۂ چشم فسوں ساز ہوا
صفت آبلہ مینائے فلک ٹوٹ گیا
کیا قیامت تری رفتار کا انداز ہوا
جب ہوا محو ادا باغ میں وہ خسرو حسن
پھولوں کے عکس سے گلگوں فرس ناز ہوا
آپ منہ دیکھنے کو آئینۂ دل مانگا
تصفیہ اس بت کافر سے خدا ساز ہوا
عرصۂ دہر میں باندھا جو طلسم الفت
دشمن جاں فلک شعبدہ پرداز ہوا
جان لیتا ہے تری تیر نگہ سے سب کی
اے پری پیک قضا بھی قدر انداز ہوا
سنبل آہ ہوا طرۂ شمشاد بہشت
ہم بغل مجھ سے جو وہ سرو سرافراز ہوا
اس سے کچھ کہہ کے مجھے ذبح کیا باتوں میں
تیز تر تیغ اجل سے لب غماز ہوا
لوگ کرتے ہیں کمال رخ زیبا کا وصف
خلق کو یاد ترا مصحف اعجاز ہوا
اے مغنی دل ناداں نکل آیا باہر
آج بے پردہ زمانہ میں ترا ساز ہوا
روز فرقت نے کیا طائر دل کو ہیجان
گل خورشید مجھے جنگل شہباز ہوا
بوسہ مانگا نہ گیا ہونٹوں کا اے رشک پری
رنگ مسی کا مجھے سرمۂ آواز ہوا
نشۂ غمزہ و انداز سے سرشار ہوں میں
کاسۂ عمر رواں جام مے ناز ہوا
تر دماغی جو بڑھے نشۂ معنی کی منیرؔ
کاسۂ سر مجھے جام مے شیراز ہوا
٭٭٭
دل تو پژمردہ ہے داغ گلستاں ہوں تو کیا
آنکھیں روتی ہیں دہان زخم خنداں ہوں تو کیا
داغ غم دل پر اٹھا کر مرنے والے مر گئے
برج قبروں کے اگر سرو چراغاں ہوں تو کیا
بیگمیں شہزادیاں پھرنے لگیں خانہ خراب
اب چڑیلیں صاحبان قصر و دیواں ہوں تو کیا
فرش خاک اب اہل مسند کو نہیں ہوتا نصیب
بوریا باف آج زیب تخت سلطاں ہوں تو کیا
مسجدیں ٹوٹی پڑی ہیں صومعے ویران ہیں
یاد حق میں ایک دو دلہائے سوزاں ہوں تو کیا
صوفیان صاف طینت واصل حق ہو گئے
خود نما دو چار ننگ اہل عرفاں ہوں تو کیا
بجھ گئیں شمعیں جلیں پروانے تو کیا فائدہ
اڑ گئے پروانے شمعیں نور افشاں ہوں تو کیا
سخت جان و بے حیا دو چار ہم سے جو رہے
ہر گھڑی پابند خوف عزت و جاں ہوں تو کیا
کربلا میں یا نجف میں چل کے مر جائیں منیرؔ
ہند میں ہم پہلوئے گور غریباں ہوں تو کیا
٭٭٭
دنیا سے داغ زلف سیہ فام لے گیا
میں گور میں چراغ سر شام لے گیا
کی ترک میں نے شیخ و برہمن کی پیروی
دیر و حرم میں مجھ کو ترا نام لے گیا
دوزخ میں جل گیا کبھی جنت میں خوش رہا
مر کر بھی ساتھ گردش ایام لے گیا
میں جستجوئے کفر میں پہونچا خدا کے پاس
کعبہ تک ان بتوں کا مجھے نام لے گیا
پہنا کفن تو کوچۂ قاتل میں پائی راہ
کعبہ میں مجھ کو جامۂ احرام لے گیا
نفرت ہوئی دورنگیِ لیل و نہار سے
میں صبح و شام اس کو لب بام لے گیا
کچھ لطف عشق کا نہ ملا جیتے جی منیرؔ
ناحق کا رنج مفت کا الزام لے گیا
٭٭٭
راہ کر کے اس بت گمراہ نے دھوکا دیا
گر پڑے اندھے کنوئیں میں چاہ نے دھوکا دیا
ہو گئے مغرور مجھ کو عاشق اپنا جان کر
ہائے اس دل کا برا ہو آہ نے دھوکا دیا
جان کر اس بت کا گھر کعبہ کو سجدہ کر لیا
اے برہمن مجھ کو بیت اللہ نے دھوکا دیا
میں نے جانا بال منہ پر کھول کر آئے حضور
چھپ کر ابر تر میں قرص ماہ نے دھوکا دیا
شیح صاحب آپ کو بت خانے میں لایا منیرؔ
پیر و مرشد بندۂ درگاہ نے دھوکا دیا
٭٭٭
سبزہ تمہارے رخ کے لئے تنگ ہو گیا
طوطی کا عکس آئنے میں زنگ ہو گیا
پست و بلند دہر میں کھاتا ہوں ٹھوکریں
ایسا سمند عمر رواں لنگ ہو گیا
بسمل کو بھی تڑپنے کی ملتی نہیں جگہ
کیا عرصۂ حیات جہاں تنگ ہو گیا
ہم زاد سے بھی یہ تن لاغر ہوا سبک
تولا تو اپنے سایہ کا پاسنگ ہو گیا
جوش جنوں نے جسم کے پرزے اڑا دئیے
رخت برہنگی بھی مجھے تنگ ہو گیا
اس بت سے جسم زار جو لپٹا شب وصال
عالم کو احتمال رگ سنگ ہو گیا
مضمون آہ گرم نے جلوہ دکھا دیا
اڑ کر ہوا میں نامہ مرا چنگ ہو گیا
نالے کئے تصور گیسو میں رات بھر
دل ہم صفیر مرغ شب آہنگ ہو گیا
سر کٹ کے گر پڑا اسی قاتل کے پاؤں پر
جلاد سے ملاپ دم جنگ ہو گیا
اڑ اڑ کے میرے چہرہ پر اے شوخ رہ گیا
مرغ شکستہ بال مرا رنگ ہو گیا
کرتا رہا لغات کی تحقیق عمر بھر
اعمال نامہ نسخۂ فرہنگ ہو گیا
منہ تک بھی ضعف سے نہیں آ سکتی دل کی بات
دروازہ گھر سے سیکڑوں فرسنگ ہو گیا
محروم ہوں میں خدمت استاد سے منیرؔ
کلکتہ مجھ کو گور سے بھی تنگ ہو گیا
٭٭٭
عکس رخ گلگوں سے تماشا نظر آیا
آئینہ انہیں پھولوں کا دونا نظر آیا
خوبی میں دو بالا وہ سراپا نظر آیا
پر نور بدن پیکر جوزا نظر آیا
دل خوش گہروں کا ہمیں صحرا نظر آیا
کیا گرد یتیمی کا بگولا نظر آیا
نیرنگیِ حیرت سے رواں رہتے ہیں آنسو
تصویر کا دریا ہمیں بہتا نظر آیا
نکلا جو ہوا وار میں وہ رشک سلیماں
اڑتا سوئے افلاک فرشتہ نظر آیا
بالیدہ ہے ہر شیشۂ مے اب کی یہاں تک
ایک ایک فلک پنبۂ بینا نظر آیا
خلعت مجھے وحشت نے دیا وسعت دل کا
جامہ میں مرے دامن صحرا نظر آیا
نظروں میں یہ چھایا ہے غبار دل وحشی
ہر آنکھ میں آنسو مجھے ڈھیلا نظر آیا
وہ آئنہ سیما ہے دل سخت عدو میں
بوتل میں اترتے ہوئے شیشہ نظر آیا
عاشق ترے پلکوں کا ہوا زندۂ جاوید
سولی کا خریدار مسیحا نظر آیا
زاہد نے بھی عقد آج کیا بنت عنب سے
جفت بط مے مرغ مصلا نظر آیا
برگشتہ نصیبی صدف دل کی کہوں کیا
موتی کے عوض اس میں پھپھولا نظر آیا
آئینۂ گیتی میں وہی عکس ہے ہر سو
ہم نے جدھر اس شوخ کو دیکھا نظر آیا
کرتے ہو مرے پیکر وہمی کو نشانہ
ناوک میں تمہارے پر عنقا نظر آیا
اس بت کے نہانے سے ہوا صاف یہ پانی
موتی بھی صدف میں تہ دریا نظر آیا
اوس حور کی رنگت اڑی رونے سے ہمارے
رنگ گل فردوس بھی کچا نظر آیا
شیشہ مئے گلگوں کا انہیں مد نظر ہے
تیغ نگہ مست میں چھالا نظر آیا
ہو جائیں گے سب کوہ جہاں سنگ فلاخن
وحشت میں جو عالم تہ و بالا نظر آیا
شمعیں جو بجھیں بزم طلسمات کو دیکھا
آنکھیں جو ہوئیں بند تو کیا کیا نظر آیا
کیوں خوش نہ ہو تل بیٹھ کے میزان فلک میں
موزون قد یار کا پلا نظر آیا
مل مل گئے ہیں خاک میں لاکھوں دل روشن
ہر ذرہ مجھے عرش کا تارا نظر آیا
آنکھوں میں کھٹکتی ہے یہی دولت دنیا
ہر سکے کی مچھلی میں بھی کانٹا نظر آیا
ہے بود جہاں نقش سر آب نظر میں
یہ کھیل ہمیں بن کے بگڑتا نظر آیا
حیرت کدۂ دہر ہوا مجھ سے مکدر
آئینۂ ایجاد میں دھبا نظر آیا
خوش آتے نہیں دانت کسی حور کے مجھ کو
چاک گل فردوس میں بخیہ نظر آیا
مدت سے نظر دوختہ رہتے ہیں گرفتار
گیسو کی بھی زنجیر میں ٹانکا نظر آیا
چمپا کلی اس مست مئے حسن کی دیکھی
گردن کی صراحی کا یہ مینا نظر آیا
مدفون ہوا زیر زمیں آپ کا لاغر
چشم لحد تنگ میں جالا نظر آیا
کلکتہ میں ہر دم ہے منیرؔ آپ کو وحشت
ہر کوٹھی میں ہر بنگلے میں جنگلا نظر آیا
٭٭٭
غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا
مرتے ہیں مگر نازِ مسیحا نہیں اٹھتا
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا
بل پڑتے ہیں پہونچے میں لچکتی ہے کلائی
نازک ہیں بہت پھولوں کا گجرا نہیں اٹھتا
فرمائیے ارشاد پہاڑوں کو اٹھا لوں
پر رشک کا صدمہ نہیں اٹھتا نہیں اٹھنا
کوچہ میں منیرؔ ان کے میں بیٹھا تو وہ بولے
ہے ہے مرے دروازے سے پہرا نہیں اٹھتا
٭٭٭
مضطرب عاشق بے جاں نہ ہوا تھا سو ہوا
مرغ تصویر پر افشاں نہ ہوا تھا سو ہوا
شکر ہے جامہ سے باہر وہ ہوا غصّے میں
جو کہ پردے میں بھی عریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
عشق رخسار کتابی نے بڑھائی عزت
جزو دل پارۂ قرآں نہ ہوا تھا سو ہوا
جلوہ یاقوت کی بجلی کا ہوا بالوں میں
شب گیسو میں چراغاں نہ ہوا تھا سو ہوا
داغ پنہاں ترے آنے سے ہوا افسردہ
گل چراغ تہ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا
الفت اس عارض سمیں کی گلو گیر ہوئی
نقرئی طوق گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
لے گیا کون عقیق لب جاں بخش کی آب
خشک لب چشمۂ حیواں نہ ہوا تھا سو ہوا
دشت وحشت میں بہا خون کف پا کوسوں
سرخ دامان بیاباں نہ ہوا تھا سو ہوا
اپنی آتش قدمی بھی ہے طلسم تازہ
بیضہ آبلہ بریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
آپ نے مفت کیا خون جوانان چمن
زر گل گنج شہیداں نہ ہوا تھا سو ہوا
حکم والا سے منیرؔ ابر طبیعت اپنا
اس غزل میں گہر افشاں نہ ہوا تھا سو ہوا
٭٭٭
جو ذوق ہے کہ ہو دریافت آبروئے شراب
تو چشم جام سے اے شیخ دیکھ سوئے شراب
کبھی تو دے گل دستار شیخ بوئے شراب
قبا کی بیل میں یا رب لگے کدوئے شراب
وہ مست ہیں جو ہیں مجروح تیغ موجۂ مے
جگر کے چاک پہ اے گل بنے سبوئے شراب
جو عاشق لب بے گون یار ہو فرہاد
تو بے ستون سے بھی جائے شیر جوئے شراب
وہ مست ہیں کہ جو تیجا پس فنا ہو گا
ہمارے پھول بنیں گے گل کدوئے شراب
ہمیشہ مے کدہ میں خوش قدوں کا مجمع ہے
ہزاروں سرو لگے ہیں کنارے جوئے شراب
لگائیں تاک کے اس مست نے جو تلواریں
دہان زخم بدن سے بھی آئی بوئے شراب
ڈبو دیا مجھے طوفان مے نے اے ساقی
عمیق تر قد آدم سے نکلے جوئے شراب
نماز شکر کی پڑھتا ہے جام توڑ کے شیخ
وضو کے واسطے لیتا ہے ابروئے شراب
وہ رشک حور مے مشکبو کا خواہاں ہے
گل بہشت ہے مشتاق رنگ و بوئے شراب
صدائے قلقل مینا سے ہو گیا ثابت
کہ پیٹ بھر کے کریں مست گفتگوئے شراب
برنگ شیشۂ مے اب کی فصل بارش میں
کریں گے بیٹھ کے کشتی میں سیر جوئے شراب
کھلا یہ شیشوں کے جھکنے سے حال اے ساقی
کہ سرکشی نہیں لازم ہے روبروئے شراب
اسیر دام علائق ہوں کس طرح مے خوار
کہ رسیوں میں نہیں باندھتے سبوئے شراب
نہ ہو جو کشت عمل اپنی سبز اے ساقی
ریاض خلد سے ہم کاٹ لائیں جوئے شراب
علاج ضعف بصر نور مے ہے مستوں کو
ہماری آنکھوں کی چشمہ بنے گی جوئے شراب
پتا لگا کے گیا سوئے گلشن جنت
کہاں کہاں نہیں کی میں نے جستجوئے شراب
کسی نے ساغر مے سے گلوں کو دی تشبیہ
نسیم باغ سے آئی جو آج بوئے شراب
ملیں گے ساغر و مینا جو خالی اسے ساقی
کریں گے دیدہ و دل اپنی جستجوئے شراب
کیا جو میکشوں نے عزم سیر عالم آب
تو بدلے تونبوں کے ہاتھ آ گئی کدوئے شراب
خرید جنس شفاعت میں ہو گی کیفیت
ہماری گانٹھ میں ہے نقد آبروئے شراب
بہک کے جاؤں جو مستی میں جانب کوثر
تو مجھ کو دست سبو کھینچ لائے سوئے شراب
یہ کس کے آنے سے مے خانہ میں ہوئی شادی
دلہن کے عطر سے ملتی ہے آج بوئے شراب
بدن جو ٹوٹ رہا ہے ظروف مے کے ساتھ
بنا ہے کیا گل آدم سے ہر سبوئے شراب
وہ رشک مے کرے بالائے بام مے خواری
الٰہی آج خط کہکشاں ہو جوئے شراب
ظروف بادۂ گلگوں ہو میرے کاندھوں پر
فرشتوں سے بھی میں اٹھواؤں ہر سبوئے شراب
کھلا یہ پھولوں کے ہونے سے حال اے زاہد
پس فنا بھی ہے رندوں کو آرزوئے شراب
سنا ہے پاس مسیحا کے آفتاب بھی ہے
کریں گے موت کے حیلے سے جستجوئے شراب
نہ ہو سکی کوئی تعزیر مے کشی ثابت
زیادہ حد سے بڑھی آج گفتگوئے شراب
گدائے بادہ ہوں الفت میں چشم میگوں کے
ترے فقیر کا تونبا بنا کدوئے شراب
حضور دختر زر ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں
تمام مستوں کو رعشہ ہے روبروئے شراب
منیرؔ ساقیِ کوثر سے لوں شراب طہور
کبھی میں آنکھ اٹھا کر نہ دیکھوں سوئے شراب
٭٭٭
ایسی ہوئی سرسبز شکایت کی کڑی بات
سبزے کی طرح کان میں اس گل کی پڑی بات
کیوں کر دہن تنگ سے ظاہر ہو کڑی بات
منہ آپ کا چھوٹا ہے نہ نکلے گی بڑی بات
گل رنگ ترے ہونٹھ ہوے بار سخن سے
اے جان اڑا لے گئی مسی کی دھڑی بات
تیرے سخن سخت میں ہے حسن نزاکت
کانوں کو ہوئی پنبۂ مہتاب کڑی بات
اس پیچ سے تم مجھ کو اڑاتے ہو دم نطق
زنجیر رم ہوش کی بنتی ہے کڑی بات
تقریر تری شاخ گل تازہ ہے اے مست
دیتی ہے کف بادہ میں پھولوں کی چھڑی بات
وصف در دنداں سے یہ بڑھ جاتے ہیں رتبے
رگ رگ کو بنا دیتی ہے موتی کی لڑی بات
ہر کان ہوا ہے سبد گل سے زیادہ
کیا پھول کے مانند ترے منہ سے جھڑی بات
دھوتا ہے سخن دل سے غبار غم دنیا
ہے گرد الم کے لئے ساون کی جھڑی بات
کیا مہر بنائی ترے یاقوت سخن کی
مانند نگیں ہم نے انگوٹھی میں جڑی بات
نقد سخن پاک دیا گرد قلق میں
گنجینہ کے مانند تہ خاک گڑی بات
جس روز میں گنتا ہوں ترے آنے کی گھڑیاں
سورج کو بنا دیتی ہے سونے کی گھڑی بات
استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات
٭٭٭
کرتا ہے باغ دہر میں نیرنگیاں بسنت
آیا ہے لاکھ رنگ سے اے باغباں بسنت
ہم رنگ کی ہے دون نکل اشرفی کے ساتھ
پاتا ہے آ کے رنگ طلائی یہاں بسنت
جوبن پر ان دنوں ہے بہار نشاط باغ
لیتا ہے پھول بھر کے یہاں جھولیاں بسنت
موباف زرد رنگ ہے سنبل کی چوٹ میں
کھوتا ہے بوئے گل کی پریشانیاں بسنت
نواب نامدار ظفرؔ جنگ کے حضور
گاتی ہے آ کے زہرۂ گردوں مکاں بسنت
جام عقیق زرد ہے نرگس کے ہاتھ میں
تقسیم کر رہا ہے مے ارغواں بسنت
ہوتے ہیں طائران چمن نرگسی کباب
کہہ دو کہ اس قدر نہ کرے گرمیاں بسنت
چہرے تمام زرد ہیں دولت کے رنگ سے
کوٹھی میں ہو گیا ہے سراپا عیاں بسنت
نیلا ہوا ہے منہ گل سوسن کا باغ میں
لیتا ہے اختلاط میں کیا چٹکیاں بسنت
کڑوے دھرے ہوئے ہیں جو نواب کے حضور
باہر ہے اپنے جامہ سے اے باغباں بسنت
پکھراج کے گلاسوں میں ہے لالہ گوں شراب
سونے کا پانی پی کے ہے رطب اللساں بسنت
سرسوں جو پھولی دیدۂ جام شراب میں
بنت العنب سے کرنے لگا شوخیاں بسنت
زیر قدم ہے فرش بسنتی حضور کے
مصروف پائے بوس میں ہے ہر زماں بسنت
میں گرد پوش ہو کے بنا شاخ زعفراں
لپٹا ہوا ہے میرے بدن سے یہاں بسنت
کرتا ہوں اب تمام دعا پر یہ چند شعر
آیا پسند مجمع اہل زماں بسنت
جب تک کہ محو قہقہہ ہوں گل ہزار میں
رنگین تار ہے صفت زعفراں بسنت
یا رب ہزار سال سلامت رہیں حضور
ہو روز جشن عید یہاں جاوداں بسنت
احباب سرخ رو رہیں دشمن ہوں زرد رو
جب تک منائیں مردم ہندوستاں بسنت
زردی کی طرح بیضۂ بلبل میں چھپ رہے
اس باغ سے نہ جائے میان خزاں بسنت
تقدیر میں تھی فرقت یاران لکھنؤ
اس شہر میں منیرؔ کہاں تھا کہاں بسنت
٭٭٭
نازک ایسا نہیں کسی کا پیٹ
مخمل رنگ گل ہے گویا پیٹ
نظر آتا ہے عکس کرتی کا
آئنے سے بھی ہے مصفا پیٹ
درد سر کھو دیا صبیحوں کا
صندل صبح کا ہے تختہ پیٹ
یہ صباحت یہ حسن یہ جلوہ
ورق سیم مہ ہے سارا پیٹ
ناف ہے ساغر مراد اے گل
بادۂ حسن کا ہے مینا پیٹ
ڈر یہی ہے نہ چھلکے ساغر عمر
ہے مئے ناب کا قرابا پیٹ
جام خالی نہیں ہے چہرہ سے کم
آج ساقی نے مفت کاٹا پیٹ
تم نے دم دے کے جب ملایا پھول
خوب مثل حباب پھولا پیٹ
سیکڑوں نگلے آدمی اس نے
نہ بھرا اژدر زمیں کا پیٹ
سرخ کرتی سے ہو گیا معلوم
آفتاب سحر ہے ان کا پیٹ
دم نہیں سینہ میں سماتا ہے
یاد آتا ہے ان کا گورا پیٹ
دیکھنے والے کیوں نہ ہوں مجنوں
رنگ میں ہے عذار لیلیٰ پیٹ
چھاتیاں ہیں ترنج زر گویا
لوح سیمیں ہے اس پری کا پیٹ
لال نیفا دکھا کے گردوں کو
ہالۂ مہ کا رنگ لایا پیٹ
شاد ہوتے ہیں دیکھ کر عاشق
سحر عید کا ہے نقشہ پیٹ
موئے مژگاں ہیں بال سیلی کے
آنکھوں کے سامنے ہے تیرا پیٹ
بات مستی کی ہضم ہو نہ سکی
شیشۂ بادہ کا ہے ہلکا پیٹ
جان و دل سے منیرؔ صدقہ ہے
نہیں دیکھا ہے اب تک ایسا پیٹ
٭٭٭
حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر
پڑھ لیا قسمت کا لکھا لوح تربت دیکھ کر
اس قدر بے خود ہوا آثار وحشت دیکھ کر
آئینہ سے نام پوچھا اپنی صورت دیکھ کر
دیکھیے محشر میں بھی صورت دکھائے یا نہیں
صبح بھاگی ہے شب ہجراں کی ظلمت دیکھ کر
جام کوثر دست ساقی میں نظر آیا مجھے
اٹھ گیا آنکھوں کا پردہ ابر رحمت دیکھ کر
رات دن کے مخمصے سے اے جنوں پائی نجات
ابلق ایام بھاگا میری وحشت دیکھ کر
تیرے کوچے میں ترا جلوہ نظر آیا مجھے
صانع جنت کو دیکھا باغ جنت دیکھ کر
منہ ہمارا جلوۂ دیدار کے لائق کہاں
اپنی صورت دیکھتے ہیں تیری صورت دیکھ کر
چار دیوار عناصر پر سفیدی پھر گئی
آنکھیں روشن ہو گئیں تیری صباحت دیکھ کر
وحشت دل حشر کے دن بھی رہے کاؤس طلب
کانٹے ڈھونڈھے ہم نے صحرائے قیامت دیکھ کر
چہچہے بلبل کے آواز کف افسوس ہوں
رنگ گل اڑ جائے میرا داغ حسرت دیکھ کر
ابر ادھر آیا ادھر مے خواروں کا بیڑا ہے پار
کشتیِ مے مول کے دریائے رحمت دیکھ کر
آنسو پونچھے یاد آیا جب جوانی کا مزا
آنکھیں ملتے رہ گئے ہم خواب راحت دیکھ کر
برہمن کعبہ میں آیا شیخ پہونچا دیر میں
لوگ بے وحدت ہوئے ہیں تیری کثرت دیکھ کر
ہر گھڑی آتی ہے کانوں میں یہ آواز جرس
کون دنیا سے سفر کرتا ہے ساعت دیکھ کر
نشہ کے اسباب تزئیں میں بھی نشہ ہے ضرور
میری آنکھیں چڑھ گئیں مے خانہ کی چھت دیکھ کر
اب نہیں نازک مزاجی سے توجہ کا دماغ
اے اجل آنا کبھی ہنگام فرصت دیکھ کر
وہ موحد ہوں نہ رکھا دوسرے سے اتحاد
روح نے چھوڑا بدن کو ضد وحدت دیکھ کر
خون بلبل سے مگر سینچا ہے باغ دہر کو
ہم لہو برساتے ہیں پھولوں کی رنگت دیکھ کر
تیرے بندے سر جھکاتے ہیں بتوں کے سامنے
سجدے کرتا ہوں الٰہی تیری قدرت دیکھ کر
زخمیِ تیغ تغافل پر نظر جمتی نہیں
چشم سوزن بند ہوتی ہے جراحت دیکھ کر
جی لگا کر یہ غزل کس طرح کہئے اے منیرؔ
بجھ گیا دل کوچ منزل کی عزیمت دیکھ کر
٭٭٭
ہے عید لاؤ مے لالہ فام اٹھ اٹھ کر
گلے لگاتے ہیں شیشوں کو جام اٹھ اٹھ کر
ہوا چلی مری افتادگی کی اے ساقی
گریں گے نشہ میں سب خوش خرام اٹھ اٹھ کر
زمین و عرش و فلک پائمال ہوتے ہیں
نہ جاؤ صحن سے بالائے بام اٹھ اٹھ کر
کوئی بشر نہ ہو مغرور جسم خاکی پر
کہ بیٹھتے ہیں بہت قصر خام اٹھ اٹھ کر
دم سحر نظر آیا ہے کس کا منہ یا رب
صنم جو کرتے ہیں مجھ کو سلام اٹھ اٹھ کر
ذرا اٹھائیے تابوت اپنے عاشق کا
خدا کی راہ کا کرتے ہیں کام اٹھ اٹھ کر
قیامت آئی ہے ہلچل ہے آسمانوں پر
نہ پھریے بہر خدا بام بام اٹھ اٹھ کر
پڑے ہیں پاؤں کی صورت زبان میں گھٹے
یہ قاصدوں کو دئے ہیں پیام اٹھ اٹھ کر
بنے گی شعلۂ جوالہ گردش قسمت
تمہارے گرد پھرے گا غلام اٹھ اٹھ کر
بڑھے گی بات نہ بیٹھیں گے چپکے ہم اے بت
رقیب سے جو کرو گے کلام اٹھ اٹھ کر
رہے گی عاشقوں کے دست و پا میں جب تک حس
تمہاری لیں گے بلائیں مدام اٹھ اٹھ کر
خدا بٹھائے اگر کربلا میں مجھ کو منیرؔ
پھروں میں گرد مزار امام اٹھ اٹھ کر
٭٭٭
کچھ نہیں حاصل سپر کو چیر کو یا تلوار توڑ
ہے اگر طاقت تو میرے آنسوؤں کا تار توڑ
تیری چشم و زلف سے سودائے ہم چشمی کیا
اے صنم بادام چشم آہوئے تاتار توڑ
زلف میں موتی پرونا میرے حق میں زہر ہے
آج اے مشاطۂ دنداں دہان یار توڑ
سلسلہ گبرو مسلماں کی عداوت کا مٹا
اے پری بے پردہ ہو کر سبحہ و زنار توڑ
کبر بھی ہے شرک اے زاہد موحد کے حضور
لے کے تیشہ خاکساری کا بت پندار توڑ
آب گوہر سے بدن کی آب ہوتی ہے خراب
بوجھ ہے اے نازنیں یہ موتیوں کا ہار توڑ
شرم کب تک اے پری لا ہاتھ کر اقرار وصل
اپنے دل کو سخت کر کے رشتۂ انکار توڑ
صبر کب تک راہ پیدا ہو کہ اے دل جان جائے
ایک ٹکر مار کر سر پھوڑ یا دیوار توڑ
اے زلیخا نقد جاں ہم دیں لگا تو گنج زر
قیمت یوسف کا ہو جائے سر بازار توڑ
وصف چشم یار لکھنے کے لئے اے دست شوق
چل کسی گلشن میں شاخ نرگس بیمار توڑ
چڑھ کے کوٹھے پر دکھا دے اپنے ابرو میں شکن
اے پری پیکر ہلاک چرخ کی تلوار توڑ
آئنہ ہے مانع نظارۂ حسن و جمال
ہو سکے تو سد اسکندر کو اے دل دار توڑ
مانع مستی کو بد مستی دکھانا چاہئے
محتسب کا شیشۂ دل اے بت مے خوار توڑ
حسن پیشانی سے قصر چرخ کو برباد کر
لوح قرآں سے طلسم گنبد دوار توڑ
نام کو اے دل نہ رکھ اسباب اصلاح جنوں
وادئ وحشت میں چل کر نشتر ہر خار توڑ
آنکھیں پھوڑ اس کی جو دیکھے بے اجازت منہ ترا
شوق سے اے مست جام شربت دیدار توڑ
عشق زلف عنبر افشاں کا نہ ٹوٹے سلسلہ
پاؤں کی زنجیر اے دست جنوں سو بار توڑ
سائل بوسہ ہیں ان کو دیکھ چشم قہر سے
آنکھ کے ڈھیلوں سے اے بت خاطر اغیار توڑ
حِصن غم میں ایک مدت سے مقید ہے منیرؔ
فکر دنیا کا حصار اے حیدر کرار توڑ
٭٭٭
اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں
اس کا شیدائی ہوں جس کا کوئی شیدائی نہیں
صاف ہیں ہم گو تجھے میل خود آرائی نہیں
دل وہی آئینہ ہے پر تو تماشائی نہیں
قائل وحدت ہوں شرکت کا تمنائی نہیں
تو جو تنہا ہے تو مجھ کو فکر تنہائی نہیں
ناصحو کیوں صبر کرنے کے لئے کرتے ہو تنگ
اس قدر دل تنگ ہے جائے شکیبائی نہیں
ڈھونڈھنے پر میں کمر باندھوں تو پاؤں قصر یار
بے محل ہے لا مکاں کہنا وہ ہرجائی نہیں
سچ ہے حق نا حق نہیں ملتا کسی کو مرتبہ
دار پر منصور کو اوج مسیحائی نہیں
یا کرو اپنا کسی کو یا کسی کے ہو رہو
چار دن کی زندگی میں لطف تنہائی نہیں
زار ہوں طاقت سے مل جانے کو طاقت چاہئے
ناتوانی سے جدائی کی توانائی نہیں
دشت وحشت میں نہیں ملتا ہے سایہ کا پتا
میں ہوں سودائی مرا ہم زاد سودائی نہیں
آتشی شیشہ کی عینک ہو ہماری آنکھ میں
ہم تمہاری گرمیاں دیکھیں یہ بینائی نہیں
مصر کے بازار میں کیا بڑھ گئی یوسف کی قدر
حسن کو بے پردگی میں عیب رسوائی نہیں
بے مے و مے خانہ و ساقی جو آئی مجھ کو موت
حلقۂ ماتم ہے دور چرخ مینائی نہیں
ہو گیا خاموش جو شہر خموشاں کا ہوا
ہے دہان گور موجود اور گویائی نہیں
دونوں نشاؤں سے ہیں باہر مست صہبائے الست
اپنے مے خانہ میں دور چرخ مینائی نہیں
پائیں کیا دیوانۂ مژگاں بت ترسا میں لطف
سوزن عیسیٰ میں نوک خاک صحرائی نہیں
میرے دل کی تجھ کو بے جا ہے شکایت غیر سے
اپنے گھر کا حال کہنا طرز دانائی نہیں
نشہ میں زندہ ہیں ہے عیسیٰ نفس اپنا خمار
جان اعضا میں چلی آتی ہے انگڑائی نہیں
ہو گئے ٹیڑھے اگر ہم نے جگایا نیند سے
آپ در پردہ اکڑتے ہیں یہ انگڑائی نہیں
مے کدہ پر سقف ابر رحمت حق چاہئے
احتیاج سائبان چرخ مینائی نہیں
بے خطر ہیں سستیِ اندام سے نازک مزاج
جستجوئے بادہ میں شیشوں کی انگڑائی نہیں
سر کو ٹکرا کر مٹایا اپنی قسمت کا لکھا
دیر میں کعبہ میں اب فکر جبیں سائی نہیں
آپ سے یوسف ہزاروں ہم سے عاشق سیکڑوں
حسن کا توڑا نہیں قحط تماشائی نہیں
پیر گردوں سے ذرا انجم اچک کر چھین لیں
ہمتیں عالی ہیں فکر چرخ بالائی نہیں
ہے مرا دشت جنوں سات آسمانوں سے دو چند
ربع مسکوں وادئ وحشت کی چوتھائی نہیں
دختر رز مثل افلاطوں ہے جب تک خم میں ہے
نشہ میں اپنے سے باہر ہوں یہ دانائی نہیں
لکھنؤ کی آرزو میں جان دیتا ہے منیرؔ
سلطنت کا بھی زمانہ میں تمنائی نہیں
٭٭٭
پیچ فقرے پر کیا جاتا نہیں
کوئی دھاگا دو بٹا جاتا نہیں
بوسۂ لب غیر کو دیتے ہو تم
منہ مرا میٹھا کیا جاتا نہیں
ضعف نے یک دست توڑے پائے زیست
نبض مردہ ہوں ہلا جاتا نہیں
زلف سے سنبل کرے کیا ہم سری
پیچ چوٹی کا کیا جاتا نہیں
تیغ حسن یار سے مجروح ہے
طوطیِ خط سے اڑا جاتا نہیں
قبر کا طالب عبث ہے جسم زار
چشم دشمن میں سما جاتا نہیں
کیا کشیدہ صورت تصویر ہوں
ناتوانی سے کھنچا جاتا نہیں
ضعف سے پہنچیں گے کیوں کر آپ تک
آپ سے باہر ہوا جاتا نہیں
کھنچ سکے تصویر بیتابی میں کیا
ایک صورت پر رہا جاتا نہیں
روح کو بھی بوسۂ لب کی ہے چاٹ
مر گئے لیکن مرا جاتا نہیں
مردے سے بد تر ہوں گو جیتا ہوں میں
رنگ ہستی میں ملا جاتا نہیں
رنگ کیا قد خمیدہ کا کھلے
چھلے کے گل سے کھلا جاتا نہیں
روز انگیا ہوتی ہے آراستہ
کب نیا بنگلہ سجا جاتا نہیں
پیچ میں آنے کو طاقت چاہئے
تیرے دم پر بھی چڑھا جاتا نہیں
عطر کھنچتا ہے ہماری خاک کا
ہاتھ ملنے کا مزا جاتا نہیں
چٹکیاں میرے سراپے میں نہ لو
جامۂ ہستی چنا جاتا نہیں
کوئی کیا ہم کو بنائے گا منیرؔ
ایسے بگڑے ہیں بنا جاتا نہیں
٭٭٭
تیرے ہاتھوں سے مٹے گا نقش ہستی ایک دن
باڑھ رکھ دے گی چھری پر تیز دستی ایک دن
تیری آنکھوں سے دل نازک گرے گا نشہ میں
طاق سے شیشہ گرا دے گی یہ مستی ایک دن
زاہدو پوجا تمہاری خوب ہو گی حشر میں
بت بنا دے گی تمہیں یہ حق پرستی ایک دن
آنکھیں دوزخ میں بھی سینکے گا ترا دل سوختہ
آگ بن جائے گی یہ آتش پرستی ایک دن
خوبیِ شمشیر ابرو کا تماشا دیکھتے
دونوں باگوں آپ کی تلوار کستی ایک دن
خون میرا رائیگاں ناحق بہاتے ہیں حضور
کرنی ہے رنگ حنا کی پیش دستی ایک دن
جلد پستاں تک مرا کب تک نہ ہو گا دسترس
ان ترنجوں کی بھی قیمت ہو گی سستی ایک دن
زلف کافر کیش لپٹے گی قدم سے اے صنم
ہندوئے شب بھی کرے گا بت پرستی ایک دن
جان بخشو سر مرے لاشہ کا ٹھکراؤ کبھی
ساغر خالی میں بھر دو شہد ہستی ایک دن
نیل گوں کر دیں گے مل کر چھاتیاں اے رشک مہر
تیری انگیا کی کٹوری ہو گی جستی ایک دن
خوب کر تعریف نواب ظفر جنگ اے منیرؔ
کام آ جائے گی یہ آقا پرستی ایک دن
٭٭٭
جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں
چلے جاؤ ہم دل سنبھالے ہوئے ہیں
زمانے کی فکروں نے کھایا ہے ہم کو
ہزاروں کے منہ کے نوالے ہوئے ہیں
گزند اپنے ہاتھوں سے پہنچا ہے ہم کو
یہ سانپ آستینوں کے پالے ہوئے ہیں
نہیں نام کو ان میں بوئے مروت
یہ گل رو مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں
نہیں اعتبار ایک دم زندگی کا
ازل سے قضا کے حوالے ہوئے ہیں
ہزاروں کو تھے سرفروشی کے دعوے
تصدق فدا ہونے والے ہوئے ہیں
ہم آواز ہیں عیش و غم دونوں لیکن
ترانے یہ ٹھہرے وہ نالے ہوئے ہیں
منیرؔ اب رہ حق میں لغزش نہ ہو گی
ید اللہ مجھ کو سنبھالے ہوئے ہیں
٭٭٭
راہ میں صورت نقش کف پا رہتا ہوں
ہر گھڑی بننے بگڑنے کو پڑا رہتا ہوں
عمر رفتہ نہ کبھی آئے منانے کے لئے
مدتیں گزریں کہ جینے سے خفا رہتا ہوں
صفت کینہ مرا گھر ہے فلک کے دل میں
گرہ دشمن خاطر میں بندھا رہتا ہوں
فتنۂ حشر یہ کہتا ہے مجھے پوچھے کون
دامن یار کے گوشہ میں پڑا رہتا ہوں
قید ہوں پر ستم غفلت جوہر سے منیرؔ
غصہ بن کر دل زنداں میں بھرا رہتا ہوں
٭٭٭
کعبہ سے مجھ کو لائے سواد کنشت میں
اصلاح دی بتوں نے خط سر نوشت میں
پھرتے ہیں کوچۂ بت قدسی سرشت میں
دیوانے لاتیں مار رہے بہشت میں
کفارۂ شراب میں دیتا ہوں نقد ہوش
سرگرم ہوں تلافیِ اعمال زشت میں
اکثر جزائے سجدہ میں کھانی ہیں ٹھوکریں
لکھا ہے کیا خط کف پا سر نوشت میں
حوروں سے گرمیاں جو کہوں اس شریر کی
لگ جائے آگ آتش گل سے بہشت میں
سنتی ہے روز نغمۂ زنجیر عاشقاں
وہ زلف بھی ہے سلسلۂ اہل چشت میں
زنداں سے آنکھیں سینکنے اس گل کے گھر گئے
دوزخ سے آگ لینے چلے ہم بہشت میں
بیگانے اک ہمیں نظر آئے پس فنا
بے دردوں کا ہجوم ہے باغ بہشت میں
بت خانے میں سفیدیِ حسن فرنگ ہے
گرجے کی روشنی ہے سواد کنشت میں
جل جل کے خاک ہوتے ہیں بے اشک و آہ ہم
آب و ہوا نہیں ہے ہماری سرشت میں
گرمی میں تیرے کوچہ نشینوں کے واسطے
پنکھے ہیں قدسیوں کے پروں کے بہشت میں
سونا کساؤں اشرفی داغ سجدہ کا
سنگ محک لگاؤں بنائے کنشت میں
بجلی چمک گئی جو ہنسی میں پھڑک گئے
شوخی بھری ہوئی ہے تمہاری سرشت میں
تصویریں تیری دست حنائی کی لے گئے
چھاپے لہو کے ہم نے لگائے بہشت میں
کرتی ہیں خون چرخ بتوں کی تعلیاں
رنگ شفق لگاتی ہے سقف کنشت میں
ابر بہار جوہر شمشیر یار تھے
گلہائے زخم کھل گئے اردی بہشت میں
تقدیر میں ہے تیری دہان و کمر کا عشق
سر نہاں لکھا ہے مری سر نوشت میں
دی جان ایک حور کے بوسے کی چاٹ پر
قسمت نے مجھ کو زہر دیا ہے بہشت میں
چوروں سے گفتگوئے خط سبز یار ہے
طوطی کسی کا بول رہا ہے بہشت میں
ادنیٰ غلام شاہ ولایت ہوئے منیرؔ
دشت نجف کی خاک ہے میری سرشت میں
٭٭٭
ہاتھ ملواتی ہیں حوروں کو تمہاری چوڑیاں
پیاری پیاری ہے کلائی پیاری پیاری چوڑیاں
بند کر دیتی ہیں سب کو پیاری پیاری چوڑیاں
بولتی ہیں لاکھ میں بڑھ کر تمہاری چوڑیاں
اے بتو سرکش اگر ہو آتش رنگ حنا
شعلۂ جوالہ بن جائیں تمہاری چوڑیاں
برہمی حلقہ بگوشوں کی انہیں منظور ہے
پھوٹ ڈلواتی ہیں لاکھوں میں تمہاری چوڑیاں
حوروں کی آنکھوں کے حلقے اے پری موجود ہیں
ان بتانوں سے چڑھاؤ پیاری پیاری چوڑیاں
دل میں چھید کر خون کی بوندوں سے ہر ریزہ بھرے
ٹوٹ کر بن جائیں بوندے کی کٹاری چوڑیاں
سرو قامت ہیں ہزاروں دام الفت میں اسیر
طوق قمری ہیں تمہاری پیاری پیاری چوڑیاں
صدقے ہوتی ہیں برابر ان کلائی پہنچوں پر
گرد پھرتی ہیں خوشی سے باری باری چوڑیاں
دست نازک نے زمانے کو کیا حلقہ بگوش
کیا کھلے بندوں نظر آئیں تمہاری چوڑیاں
اے فلک ان کو نہیں بھاتا ستاروں کا بھی جوڑ
کہتے ہیں میری بلا پہنے کنواری چوڑیاں
روئے روشن پر جو تم نے ہاتھ رکھا ناز سے
چاند کا ہالہ نظر آئیں تمہاری چوڑیاں
حوریں بھیجیں گی تجھے اے رشک گل فردوس سے
لائے گی مشاطہ فصل بہاری چوڑیاں
کیوں نہ نکلے نوک خوں ریزی کے ہر انداز میں
لوٹ کر بھی دل میں چبھتی ہیں تمہاری چوڑیاں
بل نکالا سیکڑوں بانکوں کا دست ناز سے
بانک کے فن میں ہوئیں یکتا تمہاری چوڑیاں
خون کی بوندیں بنی ہیں چننیاں یاقوت کی
دل میں چبھ کر دے رہی ہیں زخم کاری چوڑیاں
کیوں نہ ہوں حلقہ بگوش آ کر حسینان بہشت
حوروں کے کانوں کی بالی ہیں تمہاری چوڑیاں
میں نے ہا تھا پائی جب کی سرد مہری سے کہا
گرم جوشی سے ہوئیں ٹھنڈی ہماری چوڑیاں
دیکھ لو اے گل رخو مرغان دل پابند ہیں
بال کے پھندے کی صورت ہیں تمہاری چوڑیاں
کرتے ہیں اپنے زبانوں میں ترے ہاتھوں کا وصف
بولتی ہیں ایک منہ ہو کر ستاری چوڑیاں
ہر ستارے کی چمک نور جہان حسن ہے
رکھتی ہیں حکم جہانگیری تمہاری چوڑیاں
جان پڑ جاتی ہے دست ناز سے ہر چیز میں
رنگ بن کر چڑھتی ہیں ہاتھوں میں ساری چوڑیاں
گو گہر ہو اے پری ناز نگاہ حور کا
عینک رضواں کی حلقہ ہیں تمہاری چوڑیاں
کر کے ہا تھا پائی ڈولی میں کیا ان کو سوار
صاف ٹھنڈی ہو گئیں وقت سواری چوڑیاں
بوندوں کے حلقے نہیں پڑتے ہیں اے گل نہر میں
ڈالتا ہے ہندوئے ابر بہاری چوڑیاں
خون لاکھوں کا کیا کرتے ہیں ہر جھنکار سے
خوب سچا جوڑ چلتی ہیں تمہاری چوڑیاں
غیر ڈیوڑھی پر کیا کرتے ہیں آرائش کا ذکر
حلقۂ بیرون در ٹھہری تمہاری چوڑیاں
ناز سے فرماتے ہیں لوں کس طرح تیرا سلام
ہاتھ اٹھ سکتے نہیں ایسی ہیں بھاری چوڑیاں
اتری پڑتی ہیں پھسل کر دست نازک سے مدام
کس طرح ٹھہریں کلائی میں تمہاری چوڑیاں
مار ڈالا آتش غم نے جلا کر اے منیرؔ
ٹھنڈی کر دیں سوگ میں اس گل نے ساری چوڑیاں
٭٭٭
ہوتی ہے ہار جیت پنہاں بات بات میں
چوپڑ بچھی ہے انجمن کائنات میں
رکھ فکر جسم عاریتی کائنات میں
چوری نہ جائیں مانگ کے کپڑے برات میں
پیاسے مری لہو کے ہیں سب کائنات میں
کشتی عمر چلتی ہے آب فرات میں
بے عقل ہو کے آ گئے ہستی کی گھات میں
دیوانے بن کے پھنس گئے قید حیات میں
ساقی سے کہہ دو سبزۂ تر میں بہا شراب
ٹانکے کدو کی بیل قبائے نبات میں
کی تلخ گفتگو لب جاں بخش سے مدام
افیون گھولی آپ نے آب حیات میں
قائم مزاجیوں میں بھی غفلت محیط ہے
ہے خواب مرگ مخمل رنگ ثبات میں
ہونٹوں کا عشق تھا یہ رہے آبرو کی بات
مردے کو غسل دیجئے آب حیات میں
پہنچا جو تیرے کوچہ میں خود رفتہ ہو گیا
جاتا رہا میں آپ سے راہ نجات میں
ملتے ہیں خوبرو ترے خیمے سے چھاتیاں
انگیا کی ڈوریاں ہیں مقرر قنات میں
ہستی میں ترک کیجئے زلفوں کے عشق کو
زنجیریں دوہری توڑیئے قید حیات میں
موسیٰ و خضر نے ترے بٹنے کے واسطے
گھولا ہے برق طور کو آب حیات میں
غارت کیا اخیر جوانی میں دہر کو
دنیا تمام لوٹ لی تھوڑی سی رات میں
جز داغ زندگی میں نہیں اور کچھ سرور
افیون کب ہے لالۂ رنگ ثبات میں
مدت سے ڈھیر جادۂ باک نجف میں ہے
تکیہ ہے اس فقیر کا راہ نجات میں
شادی ہوئی جو رات کو کھیلے وہ گنجفہ
روشن کیا غلام نے اکا برات میں
کوچہ میں رکھ کے عاشق مضطر کی ہڈیاں
مچھلی کے کانٹے بو دیے راہ نجات میں
دل کی صفا ہو جامۂ ہستی میں جلوہ گر
جیب سحر اگاؤں قبائے حیات میں
ساون کے بدلے گائیے حافظؔ کے شعر تر
جھولا ضرور ڈالیے شاخ نبات میں
ہستی کی قید سے دل بے تاب چھپ گیا
مچھلی نہ ٹھہری بازوئے شمع حیات میں
مردے جلائے سیکڑوں ٹھکرا کر اے صنم
دست مسیح کا ہے اثر تیری لات میں
شیریں ادائیاں بھی ہوں رفتار ناز بھی
کافور صبح حشر ہو قند و نبات میں
ہونٹوں کی مستی دور کی تو نے کھٹائی سے
لیموں کی چاشنی ہے تری میٹھی بات میں
اندھا بنائیں گے وہ رلا کر عتاب سے
رہتے ہیں روز آنکھ چرانے کی گھات میں
موت آئے مجھ کو ہجر میں احمدؐ کی اے منیرؔ
واللہ کچھ مزا نہیں ایسی حیات میں
٭٭٭
ابرو کی تیری ضرب دو دستی چلی گئی
جتنی کسائی سیف یہ کستی چلی گئی
پیش نظر حسینوں کی بستی چلی گئی
آئینہ کی بھی حسن پرستی چلی گئی
اچھا کیا شراب خدا نے حرام کی
رندوں کے ساتھ بادہ پرستی چلی گئی
کس شہر سے مثال دوں اقلیم عشق کو
جتنی یہ اجڑی اور بھی بستی چلی گئی
روزے مہ صیام میں توڑے شراب سے
ہم فاقہ مستوں کی وہی مستی چلی گئی
وحشت کدے سے رحمت حق نے بھی کی گریز
بدلے ہمارے گھر سے برستی چلی گئی
کھائیں خدا کی راہ میں لاکھوں ہی ٹھوکریں
تا لا مکاں بلندی و پستی چلی گئی
مستوں نے ترک مے کی قسم کھائی ہے تو کیا
توبہ کہاں وہ بات جو مستی چلی گئی
ان ابروؤں نے ایک اشارہ میں جان لی
یک دست تیری تیغ دو دستی چلی گئی
دل ہی گیا تو کون بتوں کا کرے خیال
کعبہ کے ساتھ سنگ پرستی چلی گئی
ہے آسمان تک ترے گریاں کا مضحکہ
بجلی بھی روتے دیکھ کے ہنستی چلی گئی
گو دل کے بدلے دولت دنیا و دیں ملی
تو بھی یہ جنس ہاتھ سے سستی چلی گئی
داغ شراب دامن تقویٰ میں رہ گیا
نشہ کو روح شیخ ترستی چلی گئی
تحت الثریٰ کو پہنچی ہماری فروتنی
ہم جتنے پست ہو گئے پستی چلی گئی
کیوں کر ہو اجتماع نقیضین اے منیرؔ
آتے ہی موت کے مری ہستی چلی گئی
٭٭٭
اثر کر کے آہ رسا پھر گئی
ہوا صاف مطلع ہوا پھر گئی
سواری تری آ کے کیا پھر گئی
ادھر کو ادھر کی ہوا پھر گئی
مرے سر سے تیغ جفا پھر گئی
کئی بار آئی قضا پھر گئی
گیا دیو غم جلوۂ یار سے
پری زاد آیا بلا پھر گئی
یہ جاں بخش اس جانستاں کی ہے چال
وہ آیا جو پھر کر قضا پھر گئی
گھڑی دو گھڑی کا ہے تیرا مریض
طبیب اٹھ گئے ہر دوا پھر گئی
تو آتا نہیں اس گلی میں منیرؔ
طبیعت تری ہم سے کیا پھر گئی
٭٭٭
آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے
مشکل میں ہاتھ پاؤں ہمارے نکل گئے
کس کس کو یاد کر کے کوئی روئے اے فلک
آنکھوں کے آگے لاکھ زمانے بدل گئے
عشاق لکھنؤ کی کشش دیکھ اے مسیح
لندن کے خوب رو بھی فرنگی محل گئے
اپنا سراغ پوچھتے پھرتے ہیں موت سے
آفت زدوں کے ہجر میں نقشے بدل گئے
بدلو ردیف اور پڑھو شعر اے منیرؔ
کیا فائدہ جو اس کے قوافی بدل گئے
٭٭٭
آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
دو کشتیاں ملی ہیں ڈبونے کے واسطے
عریاں چلوں میں قبر میں سونے کے واسطے
کافی ہے مجھ کو پوست بچھونے کے واسطے
کشتوں کے کھیت میں جو حضور آج ہنس پڑے
موتی کے دانے مل گئے بونے کے واسطے
نیند اڑ گئی ہے رنگ طلائی کی یاد میں
پارس کا سرمہ چاہیئے سونے کے واسطے
افسوں سے سامری کو جلاتے ہیں وصل میں
جادو جگا رہے ہیں وہ ٹونے کے واسطے
تڑپا میں خاک پر تو کیا چرخ نے کرم
بجلی گرائی میرے بچھونے کے واسطے
خوابیدگان خاک ہیں گریاں مزار پر
سوتوں کی آنکھیں کھل گئیں رونے کے واسطے
یہ گھل کے مر گیا ہوں کہ میرا کفن تمام
جالا بنا ہے قبر کے کونے کے واسطے
جینا ہے سب کو موت ہے تصویر کی طرح
نقشے جمے ہوئے ہیں نہ ہونے کے واسطے
سنگیں دلی سے چمپئی رنگوں کی ہے چمک
سنگ مہک ضرور ہے سونے کے واسطے
گویا زبان ہوں دہن روزگار میں
کیا کیا مزے ملے مجھے کھونے کے واسطے
نقش نگیں مہر مرا نقش آب ہے
پیدا ہوا ہوں نام ڈبونے کے واسطے
دانتوں کے عشق میں ہے یے اغراق لاغری
دوڑا ہوں موتیوں کے پرونے کے واسطے
چکی لگی ہے بوسۂ حسن ملیح کی
زخموں کے منہ کھلی ہیں سلونے کے واسطے
میلا ہے فرش پر تو مہ آج مے کشو
لاؤ شراب چاندنی دھونے کے واسطے
شاید کریں گے چشمۂ خورشید میں وہ غسل
شبنم چلی ہے پانی سمونے کے واسطے
اس حسن پر نمک میں عجب ہے نمود خط
دیکھا ہجوم مور سلونے کے واسطے
قاروں کا بھی خزانہ لٹا دیجئے منیرؔ
ممسک کا مال لوٹیے کھونے کے واسطے
٭٭٭
اے بت جو شب ہجر میں دل تھام نہ لیتے
کلمہ میں بھی ہوتا تو ترا نام نہ لیتے
ضد پر اگر آ جائیں ہم اے رشک مسیحا
مر جاتے مگر منہ سے ترا نام نہ لیتے
کامل کوئی ملتا جو خریدار دل و جاں
یہ جنس یونہی بیچتے ہم دام نہ لیتے
کیوں حشر میں دیوانہ ہمیں کہہ کے پکارا
نفرت تھی تو اب بھی وہ مرا نام نہ لیتے
وحشت کدۂ دہر میں چلتا جو بس اپنا
دشمن سے محبت کے سوا کام نہ لیتے
جاروب کشی ملتی اگر کرب و بلا کی
ہاتھوں سے منیرؔ اور کوئی کام نہ لیتے
٭٭٭
بتوں کے گھر کی طرف کعبہ کے سفر سے پھرے
ہزار شکر کہ جیتے خدا کے گھر سے پھرے
مریض ہجر کا کوئی علاج کر دیکھے
اثر دوا سے دوا حکم چارہ گر سے پھرے
مہینے بھر کا تو رستہ ہے پر دعا یہ ہے
کہ پیشتر وہ قمر دورۂ قمر سے پھرے
نگاہ لطف سے دیکھو شباب آ جائے
شب گزشتہ ابھی گردش نظر سے پھرے
وہ رشک مہر جو ساقی ہو عمر باقی ہو
زیادہ ساغر مے چرخ فتنہ گر سے پھرے
نگاہ پھیرنے میں لطف کیا ہے رہنے دو
یہ تیر کس لئے الٹا مرے جگر سے پھرے
کہیں گے بعد فنا ہم سے دوستان عدم
بھرے پرے کہ تہی دست اس سفر سے پھرے
نہ مانگیں بوسۂ رخسار چھاتیاں نہ چھوئیں
طبیعت اپنی جو اے بت گل و ثمر سے پھرے
فلک نے کوچۂ مقصد کی بند کی راہیں
بھلا بتاؤ کہ قسمت مری کدھر سے پھرے
دکھائے موج زنی بحر اشک اگر اپنا
ہر آسیائے فلک آب چشم تر سے پھرے
منیرؔ کو ہے وہ دوران سر معاذ اللہ
کہ سننے والوں کا سر ذکر درد سر سے پھرے
٭٭٭
پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے
کس سے ملا ہے شیشۂ دل ہم سے پھوٹ کے
حسن ملیح کا نہ کیا زخمیوں نے شکر
اے کردگار نکلے نمک پھوٹ پھوٹ کے
سر پھوڑ کر موے جو ترے سنگ در سے ہم
رہ رہ گئے حسین بھی ماتھوں کو کوٹ کے
بے نور ہونے پر بھی وہی جوش گریہ ہے
آنکھیں ہماری اور بہیں پھوٹ پھوٹ کے
اے رشک ماہ رات کو مٹھی نہ کھولنا
مہندی کا چور ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ کے
تدبیر زہر دینے کی ہے پائمالوں کو
ہیرے لگائے جاتے ہیں پنوں میں بوٹ کے
دل لے کے پلکیں پھر گئیں زلفوں کی آڑ میں
الٹی پھری یہ فوج سر شام لوٹ کے
موزوں کریں گے وصف دکھاؤ پھکیتیاں
جانے نہ پائیں ہاتھ سے مضمون چھوٹ کے
دیتے ہیں میرے سامنے غیروں کو خرپزے
باغ جہاں میں آپ ہیں مشتاق پھوٹ کے
کنگھی سے زلف الجھی تو دل ٹکڑے ہو گیا
آئینہ میں یہ بال پڑے ٹوٹ ٹوٹ کے
رفتار میں نہ کیوں ہو چمک رقص ناز کی
زہرہ بھی ہے شریک ستاروں میں لوٹ کے
اے رشک مہ جو زہرۂ گردوں کا بس چلے
توڑے تمہارے ناچ کے لے جائے لوٹ کے
نقد حیات و جامۂ تن چھینتی ہے کیوں
اے موت کیا کرے گی مسافر کو لوٹ کے
عنبر کے بدلے مشک ہے موج خرام میں
زلفوں کے بال مل گئے فیتے سے لوٹ کے
افشاں جو چھوٹی آپ کے ماتھے سے رات کو
تارے گرے زمیں پر اے ماہ ٹوٹ کے
رو رو کے روح جسم سے کہتی ہے وقت نزع
اے گھر ملیں گے دیکھیے کب تجھ سے چھوٹ کے
مجھ کو نہیں پسند یہ فرمائش اے منیرؔ
کیوں جھوٹ باندھوں قافیوں میں ٹوٹ پھوٹ کے
٭٭٭
ترچھی نظر سے دیکھیے تلوار چل گئی
زخم جگر کی راہ سے حسرت نکل گئی
مل دل سے وصل میں تری محرم نکل گئی
چٹکی سے اے پری بنت انگیا کی مل گئی
بلبل کو مست کرتی ہے خوشبو لباس کی
شاید نسیم عطر بہار آج مل گئی
کنگھی سے اتنی دیر میں سلجھائی ایک زلف
اے جان آدھی رات بکھیڑے میں ڈھل گئی
مضمون تیری زرد حنا کا نہ بندھ سکا
منہد کی مچھلی ہاتھ میں آ کر نکل گئی
اتنا نہ کیجئے گل رخسار پر غرور
دو دن کی یہ بہار ہے آج آئی کل گئی
انداز تیرے حال کی سیکھی جو رات کو
تیغ ہلال کبک پر اے ماہ چل گئی
سر سے ہمارے پھر گئی شمشیر برق دم
اے جان گرتے گرتے یہ بجلی سنبھل گئی
کیا صاف گال ہیں کہ نہ ٹھہرے نظر کہیں
بے ساختہ نگاہ ہماری پھسل گئی
رنگ وفا اڑا دل سخت رقیب سے
بوتل میں یہ شراب نہ ٹھہری ابل گئی
کیوں چشم مست ہو گئے جام شراب آج
کیا ہو گیا جو آنکھ تمہاری بدل گئی
مضمون گرم پر میرے طعنہ نہ کر سکے
انگشت اعتراض حریفوں کی چل گئی
مٹی مری خراب ہوئی راہ عشق میں
برباد کر کے ان کی سواری نکل گئی
مجھ سے ہی پوچھتا ہے مرا نامہ بر پتا
ایسی فراق یار میں صورت بدل گئی
اے شوخ تیری دست درازی سے نشہ میں
گردوں تک آفتاب کی پگڑی اچھل گئی
دے کر مئے دو آتشہ اس سے لپٹ گیا
دو آنچوں میں رقیب کی کیا دال گل گئی
جنت سے بہرہ ور ہوں ظفر گنج اے منیرؔ
جو جو تھی آرزو مرے دل میں نکل گئی
٭٭٭
ثابت رہا فلک مرے نالوں کے سامنے
ٹھہری سپر حباب کے بھالوں کے سامنے
موسیٰ ہیں غش میں گیسوؤں والوں کے سامنے
گل ہے چراغ طور بھی کالوں کے سامنے
پھولوں کا رنگ زرد ہے گالوں کے سامنے
سنبل میں بل نہیں ترے بالوں کے سامنے
رکھوائے جھاڑ اس نے نہالوں کے سامنے
قلمیں لگیں بلور کی ڈالوں کے سامنے
جاتا ہوں جب خزاں میں نہالوں کے سامنے
آنکھوں سے نہریں بہتی ہیں تھالوں کے سامنے
پھولے شفق تو زرد ہو گالوں کے سامنے
پانی بھرے گھٹا ترے بالوں کے سامنے
تارے ہوئے غروب خط و خال دیکھ کر
گوروں کے پاؤں اٹھ گئے گالوں کے سامنے
آنکھوں میں پھرتے ہیں نہیں آتے ہیں روبرو
پردے پڑے ہیں دیکھنے والوں کے سامنے
دیکھا ہے عاشقوں نے برہمن کی آنکھ سے
ہر بت خدا ہے چاہنے والوں کے سامنے
چھٹ جائیں گے اسیر چھپا زلف خم نجم
کٹتی ہیں بیڑیاں ترے بالوں کے سامنے
بیتاب دست شوق ہیں جوبن کے روبرو
بوسہ میں جاں بلب ترے گالوں کے سامنے
افراط مے سے مجھ کو یہ جوش سرور ہے
بجواؤں جل ترنگ میں پیالوں کے سامنے
جلد بدن ہے تختۂ مشق سپاہ غم
رہتی ہے یہ کتاب رسالوں کے سامنے
آنکھیں تمہاری دیکھ کے کچھ سوجھتا نہیں
بھولا ہوں چوکڑی میں غزالوں کے سامنے
دروازوں پر بتوں کے لگایا کئے الاؤ
ہولی جلائی ہم نے شوالوں کے سامنے
زلفوں میں دیکھتا ہوں ترا چہرۂ صبیح
لبریز جام شیر ہے کالوں کے سامنے
تیرے گدا سے بند ہے عالم کا ناطقہ
آتے نہیں جواب سوالوں کے سامنے
کھینچے بتوں نے اپنی طرف زاہدوں کے دل
قبلہ نما پھرے ہیں شوالوں کے سامنے
چوری سے بوسۂ کف پا لیں جو اے پری
ہونٹ اپنے چوم لوں ترے گالوں کے سامنے
پہنچا فلک کو فقر کا رتبہ حضور عیش
کمبل چڑھے ہیں چرخ دو شالوں کے سامنے
اہل کتاب ہیں صف مژگاں کے روبرو
کاغذ کے دستے آئے رسالوں کے سامنے
فیاض سائلوں سے نہیں کرتے سرکشی
شیشوں کے سر جھکے ہیں پیالوں کے سامنے
دست جفا اٹھائیں گے کیا جسم زار پر
کانٹا ہوں تیغ ناز کے چھالوں کے سامنے
شیشے کو حسن گرم نے پارہ بنا دیا
آئینے اڑ گئے ترے گالوں کے سامنے
تیغ نگہ کو موتیوں کی ڈاب چاہئے
آئینہ رکھ کے دیکھیے چھالوں کے سامنے
جلتے رہے بتوں کی حضوری میں شمع رو
پریاں ستی ہوئی ہیں شوالوں کے سامنے
ہم چشموں پر لگائی ہیں اس بت نے گولیاں
توڑے ہوئے ہیں شیر غزالوں کے سامنے
جادہ بنت بنا مری وحشت کے فیض سے
گوٹے کے گو کہر ہوئے چھالوں کے سامنے
میرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے
٭٭٭
جلسوں میں گزرنے لگی پھر رات تمہاری
اس بھیڑ میں جاتی نہ رہے بات تمہاری
ہے جلوہ گر دیر و حرم ذات تمہاری
ٹھہری ہے دو عملہ میں ملاقات تمہاری
جلوہ صفت شمع ہے گردن سے کمر تک
کس نور کے سانچے میں ڈھلی گات تمہاری
کھولے ہوئے گیسو نہ دکھائے مجھے صورت
مہمان مرے گھر نہ ہوئے رات تمہاری
پچیسی بہت کھیلتی ہو غیر سے اے جاں
کوڑی کی نہ ہو جائے کہیں بات تمہاری
آنکھوں میں نہیں سلسلۂ اشک شب و روز
تسبیح پڑھا کرتے ہیں دن رات تمہاری
کٹوا کے مرے دست تمنا کو وہ بولے
دو ہاتھ گھٹی آج ملاقات تمہاری
فرماتے ہیں ہنس ہنس کے مجھے دیکھ کے گریاں
لے ڈوبے گی آخر تمہیں برسات تمہاری
مستی جو لگا کر مجھے باتوں میں اڑاؤ
اڑ جائے دھواں بن کے یہ ظلمات تمہاری
پامالوں کی آنکھوں میں سبک مجھ کو نہ کرنا
ڈرتا ہوں کہ ہلکی نہ پڑے بات تمہاری
کہتے ہیں تغافل سے مجھے زہر کھلا کر
ان روزوں بہت تلخ ہے اوقات تمہاری
جو کچھ کہو برعکس کوئی کہہ نہیں سکتا
کیا تاب ہے الٹے جو کوئی بات تمہاری
کہتا ہوں کہ بوسہ بھی ملا جان بھی پائی
وعدہ نہ کرو خیر عنایات تمہاری
آنکھوں میں بھی سینہ میں بھی دل میں بھی تمہیں ہو
کس پردہ میں پوشیدہ نہیں ذات تمہاری
حوروں میں ہوا کرتی ہیں تقریر کی نقلیں
ڈر ہے نہ بگڑ جائے کہیں بات تمہاری
پہنا کے کفن خاک کے پردے میں چھپایا
دہرے دیے خلعت یہ عنایات تمہاری
ہونٹوں سے جو پھر جاتی ہے منہ کی طرف اے جان
کیا نشہ میں بہکی ہوئی ہے بات تمہاری
کی قطع عبث زلف نہ تھا کوئی گرفتار
تنہا رہے بے لطف کٹی رات تمہاری
بد گو ہو یہ افسانہ رہے اہل جہاں میں
قصہ ہو بگڑ جائے اگر بات تمہاری
زخم ایک کٹاری کا عنایت نہیں ہوتا
کوڑی کوئی ملتی نہیں خیرات تمہاری
الجھا ہے مگر زلف میں تقریر کا لچھا
سلجھی ہوئی ہم نے نہ سنی بات تمہاری
اللہ رے صفا منہ نظر آتا ہے بدن میں
آئینہ ہے اے جان کرامات تمہاری
فرمائشوں کا بوجھ رقیبوں سے نہ اٹھا
صد شکر کہ ہلکی نہ ہوئی بات تمہاری
شیریں سے نہ ہو دل کہیں فرہاد کا کھٹا
ڈرتا ہوں کہ شیریں ہے بہت بات تمہاری
کیا شعر مزے دار منیرؔ آج پڑھے ہیں
ہر بات میں اعجاز ہے کیا بات تمہاری
٭٭٭
خوبان فسوں گر سے ہم الجھا نہیں کرتے
جادو گروں کی زلف میں لٹکا نہیں کرتے
ڈرتے ہیں کہ نالوں سے قیامت نہ مچا دوں
اس خوف سے وہ وعدۂ فردا نہیں کرتے
برباد ہیں لیکن نہیں یاروں سے مکدر
گو خاک ہیں پر دل کبھی میلا نہیں کرتے
اقرار شفا کرتے ہیں پر رکھتے ہیں بیمار
اچھا جو وہ کہتے ہیں کچھ اچھا نہیں کرتے
سورج ہیں کبھی چاند کبھی شمع کبھی پھول
کس روز نئے روپ وہ بدلا نہیں کرتے
دل سے ہوں منیرؔ اپنے میں استاد کا عاشق
توقیر و رعایت مری کیا کیا نہیں کرتے
٭٭٭
دشمن کی ملامت بلا ہے
یہ موم کا سانپ کاٹتا ہے
وسواس حساب حشر کیا ہے
گمناموں کو کون پوچھتا ہے
عالم مشتاق دید کا ہے
وہ بت نہ دکھائے منہ خدا ہے
وہ سیم بدن مگر خفا ہے
سونا جو حرام ہو گیا ہے
سر تا پا ہوں برنگ تصویر
کیا ضعف کا رنگ جم گیا ہے
قشقہ کھنچا ہے ابروؤں میں
دو نیمچے ایک پر تلا ہے
محفوظ افتادگی نے رکھا
تعویذ میں نقش بوریا ہے
گردش سے ملی مجھے سعادت
ہر آبلہ بیضۂ ہما ہے
جھڑتے ہیں پھول منہ سے اے گل
باتوں کا جھاڑ موتیا ہے
٭٭٭
روز دلہائے مے کشاں ٹوٹے
اے خدا جام آسماں ٹوٹے
دشمنی اس زمین کی دیکھو
گنبد قبر دوستاں ٹوٹے
وصف ابروئے پر شکن جو نہ ہو
کیا عجب خنجر زباں ٹوٹے
رنگ لائے اگر شکستہ دلی
بلبلو شاخ آشیاں ٹوٹے
نکہت گل سے بس گیا گلشن
غنچہ کیا چٹکے عطر داں ٹوٹے
خوب پھیلی ہے بوئے بادۂ عشق
شیشۂ دل کہاں کہاں ٹوٹے
لے اڑے گی ہوائے بام ہمیں
نہ کریں گے جو نردباں ٹوٹے
قصد پرواز کا جو بوجھ پڑا
بازوئے مرغ ناتواں ٹوٹے
لکھنؤ چل کے جی لگاؤں منیرؔ
کس لئے دل مرا یہاں ٹوٹے
٭٭٭
زخمی نہ بھول جائیں مزے دل کی ٹیس کے
للہ چھڑکے جاؤ نمک پیس پیس کے
غصہ ہے زہر حق میں دل بے انیس کے
الماس پیستے ہو عبث دانت پیس کے
میلی نگاہ ہوتی ہے آئینہ دیکھ کر
نظارے مدتوں سے ہیں روئے نفیس کے
خلوت میں ہی تصور جاناں ندیم ہے
طالب جلیس کے ہیں نہ خواہاں انیس کے
معنی نہ پائے جوہر شمشیر یار کے
ٹکڑے جگر کے ہو گئے ٹکڑے کسیس کے
پھیکا ہی ذائقہ دہن زخم کا رہا
کیا بد مزا ہوا میں نمک پیس پیس کے
پیر فلک کسی کو نہ دے گا زر نجوم
یعنی درم ہیں یہ کف دست خسیس کے
کٹ کٹ گیا میں دیکھ کے مضمون قتل کو
اے بت قلم ہوں ہاتھ ترے خوش نویس کے
دس بیس ہر مہینے میں ابرو نظر پڑے
اس سال سارے چاند ہوئے تیس تیس کے
حرف آ گیا شکستگیِ دل کے لکھنے میں
ٹوٹے قلم ہزاروں شکستہ نویس کے
لکھتے ہیں چھپ کے کاتب اعمال سب کا حال
اعمال نامہ پرچہ ہیں خفیہ نویس کے
مکتوب میں عبارت رنگیں لکھو منیرؔ
فقرے نہیں پسند دقیق و سلیس کے
٭٭٭
سخت جانی کا سہی افسانہ ہے
شاہد تیغ زباں دندانہ ہے
مقتل عالم مرا ویرانہ ہے
دیدۂ بسمل چراغ خانہ ہے
شمع روشن عارض جانانہ ہے
خال مشکیں شمع کا پروانہ ہے
دل میں عکس چہرۂ جانانہ ہے
آئنے کا آئنے میں خانہ ہے
کون دنیا میں رہے دیوانہ ہے
ایک اجڑا سا مسافر خانہ ہے
تیری محفل کعبہ ہے اے شمع رو
طائر قبلہ نما پروانہ ہے
آنکھیں ملتا ہوں تمہاری زلف سے
پنجۂ مژگاں برنگ شانہ ہے
شمع رویوں کی تجلی دیکھیے
کرمک شب تاب ہر پروانہ ہے
آب خنجر کیا شراب ناب تھی
رقص بسمل لغزش مستانہ ہے
خلق عالم ہمیں پہنچتا ہے گزند
نفس امارہ سگ دیوانہ ہے
بادہ نوشان ازل ہیں سیر چشم
جس طرف دیکھیں ادھر مے خانہ ہے
ابر آتا ہے تو بکتی ہے شراب
نقد رحمت حاصل مے خانہ ہے
ایک تیرے نام کا کرتا ہوں ذکر
مجھ کو ورد سبحۂ یکدانہ ہے
کھاتے ہیں انگور پیتے ہیں شراب
بس یہی مستوں کا آب و دانہ ہے
کس طرف کرتے ہو سجدے زاہدو
کعبہ ایک اجڑا ہوا بت خانہ ہے
چشم موسیٰ کے ہوں پردے کان میں
لن ترانی کا بیان افسانہ ہے
ٹھنڈے ٹھنڈے سوتے ہیں زیر زمیں
گور اپنے واسطے تہہ خانہ ہے
کیا بنے سودا ترا اے خود فروش
مول جو ہم نے کہا بیعانہ ہے
دیکھتے ہیں بت مری بیتابیاں
سر بہکنا سجدۂ شکرانہ ہے
کیا ترا آئینۂ رو صاف ہے
نقد جاں لیتا یہاں جرمانہ ہے
گرم نالے سرد ہیں اے ہم صفیر
ظاہراً کنج قفس خس خانہ ہے
کی مے مفت آج قاضی نے حلال
فی سبیل اللہ ہر مے خانہ ہے
اختلاط اپنے عناصر میں نہیں
جو ہے میرے جسم میں بیگانہ ہے
کیا سمندر کو دکھائیں گرمیاں
دوزخ اپنا ایک آتش خانہ ہے
ہو گئے مثل سلیماں اہل عشق
اے پری کیا ہمت مردانہ ہے
دل ہے آئینہ تو اسکندر ہوں میں
حسن کی دولت مرا نذرانہ ہے
عرش تک گردوں سے دیکھا اے صنم
سات زینے کا یہ بالا خانہ ہے
کھیل جاتے ہیں ہزاروں جان پر
عشق بازی بازیِ طفلانہ ہے
جان دیتا ہوں مگر آتی نہیں
موت کو بھی ناز معشوقانہ ہے
پاتے ہیں نقد زر گل بے حساب
باغ عالم اس کا دولت خانہ ہے
آج ہے محو شنا وہ شمع رو
ہر پر ماہی پر پروانہ ہے
دل کہاں یہ نفس امارہ کہاں
آئنہ پیش سگ دیوانہ ہے
عفت مشاطہ کس سے ہو بیاں
پنجۂ مریم تمہارا شانہ ہے
مے کدہ کے کام دل سے لیجئے
خم کا خم پیمانہ کا پیمانہ ہے
لکھنؤ کا مجھ کو سودا ہے منیرؔ
دل حسین آباد پر دیوانہ ہے
٭٭٭
شب کے ہیں ماہ مہر ہیں دن کے
روپ دیکھے بتان کمسن کے
بوسے ہیں بے حساب ہر دن کے
وعدے کیوں ٹالتے ہو گن گن کے
ہیں وہ دیوانے جذب باطن کے
اتری ہے شیشہ میں پری جن کے
اہل دل دیکھتے ہیں آپ کا منہ
آئنے میں صفائی باطن کے
دل رواں ہو خیال یار کے ساتھ
جائے مسکن بھی ساتھ ساکن کے
لاغروں پر ہے ظلم جاں شکنی
اے اجل توڑتی ہے کیوں تنکے
رہے کلکتہ میں مخیر منیرؔ
صدقے اپنے امام ضامن کے
٭٭٭
عمر باقی راہ جاناں میں بسر ہونے کو ہے
آج اپنی سخت جانی سنگ در ہونے کو ہے
عالم پیری میں ہے داغ جوانی کا فروغ
یہ چراغ شام خورشید سحر ہونے کو ہے
آمد پیری میں غفلت ہے جوانی کی وہی
نیند سے آنکھیں نہیں کھلتیں سحر ہونے کو ہے
ہم کو رسوا کر کے رسوائی سے بچنا ہے محال
تو بھی تشہیر اے نگاہ فتنہ گر ہونے کو ہے
داغ عصیاں اک طرف اشک ندامت اک طرف
نوح کے طوفان سے جنگ شرر ہونے کو ہے
کون سی دھن ہو گئی دیکھیں دل صد پاش کو
یہ شکستہ ساز کس نغمہ کا گھر ہونے کو ہے
خلوت و کثرت میں مجھ سے پوچھتی ہے بیکسی
اس طرف ہو جاؤں میں بھی تو جدھر ہونے کو ہے
یوسف مضموں کو لائے فکر کہنہ اے منیرؔ
یہ زلیخا نوجواں بار دگر ہونے کو ہے
٭٭٭
فصل بہار آئی ہے پیمانہ چاہئے
بلبل کے ساتھ نعرۂ مستانہ چاہئے
عشاق شمع حسن کو کیا کیا نہ چاہئے
پرواز رنگ کو پر پروانہ چاہئے
پیری میں رات دن ہمیں پیمانہ چاہئے
رعشہ کے بدلے لغزش مستانہ چاہئے
وحشت میں بات عقل کی سننا نہ چاہئے
کانوں میں پنبۂ کف دیوانہ چاہئے
کنگھی بناؤں چوب عصائے کلیم کی
تسخیر مار گیسوئے جانانہ چاہئے
دریائے وحدت و چمن دہر سے ہمیں
در یگانہ سبزۂ بیگانہ چاہئے
آب و غذائے عاشق دنداں محال ہے
روز آب و دانۂ در یکدانہ چاہئے
میں سائل کمال جنوں ہوں مرے لئے
کشکول کاسۂ سر دیوانہ چاہئے
اسرار حق ہیں دل میں مگر دل ہے بے خبر
اس گنج کے لئے یہی ویرانہ چاہئے
سیر بہشت چاہتے ہیں نشہ میں مدام
مستوں کو چشم حور کا پیمانہ چاہئے
گو بے نقاب رہتے ہو پردے میں ہے حجاب
در پردہ ہم سے آپ کو چھپنا نہ چاہئے
عاشق بنا کے ہم کو جلاتے ہیں شمع رو
پروانہ چاہئے انہیں پروانہ چاہئے
اے پیر مے فروش در توبہ کی طرح
وا روز حشر تک در مے خانہ چاہئے
تا مرگ آشنا نہ ہوا ایک سبزہ رنگ
تربت پر اپنی سبزۂ بیگانہ چاہئے
دشمن ہے وہ تو تم بھی نہ ہو دوست اے منیرؔ
اپنا برا نہ چاہئے اچھا نہ چاہئے
٭٭٭
فوج مژگاں کا کچھ ارادہ ہے
زلف پیچاں نے لام باندھا ہے
لب رنگیں کو کس نے چوسا ہے
دیکھ لو یہ عقیق جھوٹا ہے
کون آیا چھڑی سواری سے
نے سواری کا کس کی شہرا ہے
دانت کھٹے ہوئے اناروں کے
ان کا سیب ذقن یہ میٹھا ہے
بوسۂ لب دیا جو بگڑے غیر
پھوٹ میں تم نے قند ڈالا ہے
کاٹتے ہو ہمارے نام کے حرف
خوب شوشہ ہے زور فقرا ہے
وصف قد کے دو چند ہیں مضموں
کوئی مصرع نہیں ہے دہرہ ہے
دانت کنگھی کا ہے مگر مجھ پر
مار گیسو جو کاٹے کھاتا ہے
خوب ہے وصل عاشق و معشوق
یہ بھی جوڑی کا ایک نسخہ ہے
زخم دل پر نمک چھڑکواؤ
ذائقہ میرے منہ کا پھیکا ہے
غیر کے گھر بجا رہے ہو ستار
تم نے در پردہ ٹھاٹ بدلا ہے
کوئی تازہ کنواں جھکائیں گے
ان دنوں اختلاط گہرا ہے
چٹکی انگیا میں تم نہ ٹکواؤ
گورے سینہ میں نیل پڑتا ہے
بوسہ ہونٹوں کا مل گیا کس کو
دل میں کچھ آج درد میٹھا ہے
چین سے ہیں فقیر بعد فنا
قبر کے بھی سرہانے تکیہ ہے
اے منیرؔ آپ کیوں ہیں آزردہ
یہ تو کہئے مزاج کیسا ہے
٭٭٭
قیدی ہوں سر زلف گرہ گیر سے پہلے
پابند ہوں پیدائش زنجیر سے پہلے
سرگشتہ ہوں دور فلک پیر سے پہلے
گردش میں ہوں میں گردش تقدیر سے پہلے
کیا لاتی ہے تیری نگہ قہر کا مژدہ
دوڑے ہوئے آتی ہے اجل تیر سے پہلے
نالوں سے انہیں ہوتی ہے نفرت عوض لطف
تقدیر بگڑ جاتی ہے تدبیر سے پہلے
مارا ہے مجھے خنجر ابرو سے کسی نے
نہلائیو آب دم شمشیر سے پہلے
گھر سے ترے دیوانے نے جب پاؤں نکالا
چھالوں نے قدم لے لئے زنجیر سے پہلے
کس طرح کہوں آپ کے ہونٹوں کی حلاوت
لب بند ہوئے جاتے ہیں تقریر سے پہلے
پابند غم زلف کا مرنا نہ چھپے گا
پہنچے گی خبر نالۂ زنجیر سے پہلے
کس حوصلہ پر طالب دیدار ہے عالم
آنکھیں تو لڑا لے کوئی تصویر سے پہلے
بے تاب ہوئے یار کی چٹکی سے نکل کر
تیر آپ تڑپنے لگے نخچیر سے پہلے
پانے کی نہیں دل کا ٹھکانا خلش غم
جب تک نہ پتا پوچھے ترے تیر سے پہلے
گھبرانے سے کیا کام منیرؔ جگر افکار
تو عرض تو کر حضرت شبیر سے پہلے
٭٭٭
میری شمع انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
داغ سینہ کے چمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
داغ دل کو خاکساروں کے لگایا تو نے منہ
غنچۂ تنگ دہن میں گل ہے گل میں خاک ہے
بعد ہر دن داغ ہے تیری کدورت کا مجھے
صحن داماں کفن میں گل ہے گل میں خاک ہے
یا مکدر ہو کے ڈوبا ہے مرا دل اے پری
یا تیری چاہ ذقن میں گل ہے گل میں خاک ہے
گرد غربت سے بھری ہے میرے مسکن کی بہار
دامن صبح وطن میں گل ہے گل میں خاک ہے
داغداروں نے کدورت سے بنا ان کا پلنگ
سنبل موج رسن میں گل ہے گل میں خاک ہے
وحشیِ گیسو نے داغا ہاتھ اڑائے گرد غم
شاخ آہوئے ختن میں گل ہے گل میں خاک ہے
داغ چھلے کا سراپے میں کدورت زا ہوا
گل رخوں نخل بدن میں گل ہے گل میں خاک ہے
بن گیا ہے شیشۂ ساعت مگر فانوس شمع
عکس شعلہ کا لگن میں گل ہے گل میں خاک ہے
ساگروں کی پھول پینے سے ہوئی مٹی خراب
جام مے باغ سخن میں گل ہے گل میں خاک ہے
گرد ظلمت ڈالی لالے پر خزاں نے اے فلک
چاند کے بدلے گہن میں گل ہے گل میں خاک ہے
بالوں میں چھپ کر کرن پھول ان کا مٹی ہو گیا
افعئ گیسو کے پھن میں گل ہے گل میں خاک ہے
داغ دے کر ملتے ہیں یہ شمع رو مٹی کا عطر
رخت اہل انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
عنصر خاکی ہوا برباد اہل داغ کا
ان دنوں وحشت کے بن میں گل ہے گل میں خاک ہے
زخم سر پر ڈالتا ہوں ان بتوں کی گرد راہ
اب کلاہ برہمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
پھول پی پی کر مکدر ہو رہا ہے وہ صبیح
دیکھ لو نخل سمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
ہے مکدر نور مہر اس رشک گل کے ہجر میں
گلشن چرخ کہن میں گل ہے گل میں خاک ہے
میرے دل میں داغ ہے ہر داغ میں ہے گرد غم
عندلیبو اس چمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
پردہ میں ہے پھول سا منہ اور منہ پہ گرد خط
اس سحر کے پیرہن میں گل ہے گل میں خاک ہے
ماتھے پر ہے داغ سجدہ داغ میں گرد سجود
خط قسمت کی شکن میں گل ہے گل میں خاک ہے
گرد کلفت لائے ہے فصل بہاری اپنے ساتھ
شاخ ہر نخل چمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
کیا کہوں اس مصرعہ فرمائشی میں اے منیرؔ
ہے ہرن گل میں ہرن میں گل ہے گل میں خاک ہے
٭٭٭
میں روتا ہوں آہ رسا بند ہے
برستا ہے پانی ہوا بند ہے
نہیں مرغ جان جسم صد چاک میں
ہمارے قفس میں ہما بند ہے
کہاں قافلہ تک رسائی مجھے
میں ہوں لنگ شور درا بند ہے
دل وحشی اپنا چھٹے کس طرح
کہ زنجیر گیسو کا پابند ہے
٭٭٭
ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
اجل کے صدقے میں یہ راہ دیکھ پائی ہے
وہاں پہنچ نہیں سکتیں تمہاری زلفیں بھی
ہمارے دست طلب کی جہاں رسائی ہے
لہو مرا تری تلوار سے ملا ایسا
کہ ناگوار پس ذبح بھی جدائی ہے
نہ پوچھئے کہ تو جلتا ہے کیوں رقیبوں سے
وہی یہ آگ ہے جو آپ نے لگائی ہے
نثار حضرت آغا علی حسنؔ خاں ہوں
زیادہ حد سے مری آبرو بڑھائی ہے
٭٭٭
وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی
اڑتی ہوئی ناگن قد آدم نظر آئی
ہے پنجۂ رنگیں میں ہمارا دل بے تاب
یہ آگ تو سیماب سے باہم نظر آئی
آغاز میں ہستی کی اجل آ گئی اے دل
جو چیز مؤخر تھی مقدم نظر آئی
شبنم کی ہے انگیا تلے انگیا کے پسینہ
کیا لطف ہے شبنم تہ شبنم نظر آئی
مجروح کیا الفت ابرو نے دم حج
محراب حرم ناخن ضیغم نظر آئی
ادنیٰ ہے یہ اے جان سراپے کی لطافت
پرچھائیں تری حور مجسم نظر آئی
زنجیر پہننے سے ہوا قیدیوں کا نام
ہر ایک کڑی حلقۂ خاتم نظر آئی
توبہ کی مگر نشہ سے اس حور شیم نے
کیوں آتش مے نار جہنم نظر آئی
تم بالوں کو کھولے ہوے گلشن میں جو آئے
ہر شاخ شجر زلف نمط خم نظر آئی
بد ظن نہ ہو کس طرح منیرؔ آج خدارا
مسکی ہوئی اے بت تری محرم نظر آئی
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں