FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

رنگ باتیں کریں

 

ریڈیو ڈرامے

 

 

محمد یعقوب آسیؔ

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل 

 

 

 

 

 

ڈرامے باز (دیباچہ)

 

کھبّل خودرُو گھاس کی ایک قسم، جسے ہم اپنے لہجے میں تَلّا بھی کہتے ہیں، دنیا کے ہر خطے میں پائی جاتی ہے اور ہر قسم کے موسم کو برداشت کر لیتی ہے۔ گرم اور مرطوب فضا میں بہت پھیلتی پھالتی ہے کہ پھلنا پھولنا اس پر صادق نہیں آتا۔ اس کے پکنے کا موسم آتا ہے تو ہر شاخ کے سرے پر تین چار باریک ڈنٹھلوں کا ایک ’’پنجہ‘‘ سا نکل آتا ہے اس پر بور لگ کر جھڑ جاتا ہے۔ اسے کوئی ستم ظریف پھول کا نام دیتا ہے تو دے لے! سردیوں کے دو تین مہینے چھوڑ کر سال بھر پھوٹتی رہتی ہے، ان تین مہینوں میں اس کی شاخوں میں سختی آ جاتی ہے پتے سوکھ جاتے ہیں مگر شاخوں کی گانٹھوں سے نکلتی ہوئی جڑیں زمین کے اندر پھیلتی رہتی ہیں۔ یوں ایک پودے کے کئی پودے بن جاتے ہیں۔

ریڈیو کو مواصلاتی دنیا کا کھبّل کہہ لینے میں چنداں حرج نہیں۔ اپنی ایجاد سے اب تک اس پر بار ہا خزاں وارد ہوئی، ایسی کہ اس کے سوکھ جانے کا گمان ہونے لگا مگر اس کی جڑیں زمین میں پھیلتی رہیں۔ کبھی یہ لانگ ویو ہوتا تھا، پھر میڈیم ویو اور شارٹ ویو پر آ گیا اور زمانہ بدلا تو یہ ایف ایم ہو گیا۔ ادھر خلائی دنیا (انٹرنیٹ) کی ’’زمین‘‘ بہت زرخیز ہے۔ ریڈیو کی کہئے اور بھی موج لگ گئی جب اس کی جڑوں کے گچھے ویب کی ہر چوتھی گانٹھ پر بننے لگے۔ پھر اس نے، یوں کہئے کہ، کسی کی نہیں سنی۔

ریڈیو کا تو خاصہ ہے کہ کسی کی نہیں سنتا، صرف اپنی کہتا ہے اور بے تکان کہتا ہے۔ الماس شبی کے بارے میں بھی اپنا گمان یہی ہے کہ ایک تو خاتون اور اوپر سے ریڈیو والی! یعنی یک نہ شد، چہار شد! انہوں نے الپاسو (امریکا) میں ایک انٹرنیٹ ریڈیو چلا دیا اور نام رکھا: ’’پنج ریڈیو‘‘ ایک نہ دو، اکٹھے پانچ۔ یہ تو طے ہے کہ وہ بھی صرف اپنی کہتی ہیں کسی کی نہیں سنتیں، اُن کو سنانی پڑ جائے تو اور بات ہے! اور یہ جرأت کم کم کسی میں ہوتی ہے کہ وہ کسی ’’ریڈیو والی‘‘ کو سنا سکے۔

الماس شبی خود بھی لکھتی ہیں، اس لئے پنج ریڈیو کی سرگرمیوں کا ادب کی طرف میلان بہت فطری بات ہے۔ میرا اُن کا تعارف اسی پنج ریڈیو کی وساطت سے ہوا۔ انہوں نے ایک طرز یہ بھی نکالی ہوئی تھی کہ عام آدمی کی رسائی میں میسر مواصلاتی حربوں، مثلاً: اسکائیپ، میسینجر، وہاٹس ایپ، فیس بک، وغیرہ کے ذریعے اہلِ قلم کو ’’ایک جگہ‘‘ جمع کر لیتیں اور ایسی محفل کا سماں بندھ جاتا کہ سارے دوست رُو دَر رُو محو گفتگو ہیں۔ کھبل کی نئی جڑیں بنیں تو آن لائن گپ شپ کے ساتھ آن لائن مشاعروں اور نثری نشستوں کا آغاز ہو گیا۔ ایک دن کہنے لگیں: آئیے ڈراما کرتے ہیں۔ لیجئے! تو پہلے بھلا کیا ہو رہا ہے؟ پشاور سے خالق داد امید کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈرامے پنج ریڈیو نے تیار کر کے نشر بھی کئے تھے۔ غیر پیشہ ور صداکار اِن ڈراموں کا جزوِ خاص ہیں اور یہ بات بھی کہ سب چلتا ہے! میرے پاس اپنی لکھی ہوئی ایک کہانی رکھی ہے: ’’بارش کب ہو گی‘‘، اسی کو مکالمات میں ڈھالا اور پیش کر دیا۔ ہری بتی جل پڑی تو اگلا قدم اٹھا۔ الماس نے پنچ ریڈیو کے دوستوں سے ایسے لوگوں کو ڈھونڈا جو تھوڑی بہت ڈائیلاگ ڈیلیوری کر سکتے ہوں۔ ڈرامے کا مرکزی کردار ’’چاچا رفیق‘‘ جو کہانی کا مشکل ترین کردار ہے، وہی مجھ پر ڈال دیا گیا۔

ان سب ڈراموں کی ریکارڈنگ بھی کچھ ایسے ہوئی کہ ایک صدا کار الپاسو میں بیٹھا ہے، ایک کینیڈا میں، ایک بحرین میں، ایک ٹیکسلا میں، ایک لاہور میں، ایک میاں والی میں اور سکائپ پر ریکارڈنگ ہو رہی ہے، اس پر طرہ یہ کہ پیشہ ور کوئی بھی نہیں! بہ این ہمہ میری زندگی کا پہلا ریڈیو ڈراما جسے میں نے لکھا بھی اور اس میں صدا کاری بھی کی، ’’ناراض ہوائیں‘‘ کے عنوان سے نومبر ۲۰۱۵ء کے اواخر میں نشر ہو گیا۔ اچھی پذیرائی ہوئی تو اناڑی ہوتے ہوئے بھی کچھ اور لکھنے، کچھ اور کرنے کی جرأت پیدا ہو گئی۔ تا دمِ تحریر چھوٹے بڑے چھ کھیل لکھ چکا ہوں، یہ سارے پنج ریڈیو کے لئے لکھے گئے، سارے نشر بھی ہو چکے ہیں۔ ان سب میں اپنے اناڑی پن کی حد تک صدا کاری بھی کی ہے۔ اپنے لکھے پر البتہ مجھے پہلے بھی اعتماد تھا، اب بھی ہے۔

مہربانوں نے اس تناظر میں مجھے ایک عرفیت بھی عنایت کر دی: ’’ڈرامے باز‘‘۔ یوں بھی سہی! احباب کے تحفے کو قبول تو کرنا ہوتا ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات، مکالمہ نگاری، کرداروں اور اسالیب پر اگر کچھ کہنا ہے تو آپ کو کہنا ہے، مجھے کچھ نہیں کہنا۔ میں نے چھ کے چھ سکرپٹ یک جا کر دئے ہیں، توجہ فرمائیے گا۔

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان

جمعۃ المبارک ۱۱ جنوری ۲۰۱۹ء

 

 مہا لکھاری

(ادب کے نام نہاد سرپرست)

 

 

پہلا منظر

 

ماجد: یہ دیکھئے بابو جی۔ یہ رسالہ صاحب نے ردی میں ڈالا ہوا ہے۔ اس کا کیا کروں؟۔

نوید بابو: کیا کرنا ہے؟ صاحب کو پسند نہیں آیا ہو گا، ردی میں ڈال دیا۔ تمہیں چاہئے؟ تو لے جاؤ، انہوں نے تو پھینک دیا سمجھو۔

ماجد: یہ اچھا ہے بابو جی! میرے ایک دوست کی بڑی بہن کہانیاں لکھتی ہیں، میں انہیں باجی کہتا ہوں، انہیں لے جا کے دوں گا، بہت خوش ہوں گی۔

نوید بابو: ذرا دکھانا، ایک منٹ! کام نمٹا کر جانے لگو تو لے جانا۔

ماجد: یہ لیں بابو جی۔ پر، خود ہی قبضہ نہ کر لینا۔

نوید بابو: ارے نہیں یار، بس ایک نظر دیکھوں گا۔

۔ (نوید بابو پرچے کی ورق گردانی کرتا ہے)۔

نوید بابو: اچھا پرچہ ہے یار، ماجد۔ اس میں کہانیاں بھی ہیں، شعر بھی ہیں، زبان و بیان اور اغلاط و صحیح کی باتیں بھی ہیں، عربی فارسی ہندی ترکیب سازی پر ایک مضمون بھی ہے؟ اس میں بہت اچھی بات یہ ہے کہ مزید مطالعہ کے لئے انٹرنیٹ کے لنک دئے ہوئے ہیں۔

ماجد: اچھا جی!؟ یہ تو اچھی بات ہے۔ پر بابو جی! یہ رسالہ میرے ہاتھ سے گیا؟ یا گیا شریڈر میں؟

نوید بابو: بہت بے اعتبارا ہے تو ماجد! یہ لے، اپنا رسالہ بغل میں دبا اور چلتا بن۔

ماجد: ( شرمندہ سی ہنسی ہنستا ہے) میں کھانا کھا آؤں بابو جی؟

نوید بابو: ہاں جاؤ۔ جلدی آ جانا، مجھے شعبہ اشتہارات میں بھی جانا ہے۔

۔ (ماجد کے جاتے قدموں کی چاپ اور کمپیوٹر کی بورڈ پر انگلیاں چلنے کی ٹک ٹک … فون کی گھنٹی)۔

نوید بابو: یس مَیم

میڈم: ہیلو نوید، مصروف ہو؟ بزمی صاحب آ گئے؟

نوید بابو: تھوڑا سا کام ہے، ابھی نمٹا کے حاضر ہوتا ہوں۔ بزمی صاحب ابھی نہیں پہنچے۔

میڈم: ٹھیک ہے، ایک دو اَیڈ ہیں، میرے کمپیوٹر سے اٹھا لو، اور فائنل کر کے مجھے بھیج دو۔

نوید بابو: یس مَیم۔

۔ (کی بورڈ پر انگلیاں چلنے کی ٹک ٹک … آتے ہوئے قدموں کی آواز)۔

 

دوسرا منظر

 

ماجد کے ساتھ ایک خاتون دفتر میں داخل ہوتی ہے۔

خاتون (نفیسہ): السلام علیکم جی! آپ یقیناً نوید بابو ہیں۔

نوید: جی میں نوید ہوں، و علیکم السلام، اور آپ؟

ماجد: یہ نفیسہ ہیں بابو جی! میری باجی۔ انہی کا میں بتا رہا تھا کہ کہانیاں لکھتی ہیں۔ ان کا چھوٹا بھائی میرا دوست ہے۔ ابھی کل پرسوں کہنے لگیں مجھے بزمی صاحب سے ملواؤ۔

نوید: پتہ نہیں یار، بزمی صاحب ملنا پسند بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ ویسے … خیر! آپ آ گئی ہیں تو دیکھ لیتے ہیں۔ … پوچھ لو، نا بھائی! پھر کہیں نکل جائیں گے۔

نفیسہ: بہت شکریہ نوید صاحب۔

نوید: ارے نہیں، اس میں شکریے کی بات تو کوئی نہیں۔ آپ کہانیاں لکھتی ہیں، ماجد بتا رہا تھا۔ شاید کل یا پرسوں ایک پرچہ ماجد لے گیا تھا، وہ دیکھا آپ نے؟

نفیسہ: جی، میں نے دیکھا ہے، اچھا پرچہ ہے۔ ان کو اپنی کہانیاں بھیجی جا سکتی ہیں۔

نوید: ہاں، بھیج دیں! حرج بھی کیا ہے۔

ماجد: آئیے باجی! مل لیجئے بزمی صاحب سے!

نوید: کیا ہوا؟ بہت اکتائے ہوئے ہو، خیریت تو ہے۔

ماجد: جائیے باجی حضور!

۔ (نفیسہ کے جاتے قدموں کی آواز)۔

ماجد: صاحب لوگ پتہ نہیں کیوں آج اکھڑے اکھڑے سے ہیں۔ اُن کا رویہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔

 

تیسرا منظر

 

بزمی صاحب: ہاں! تو بی بی آپ کہانیاں لکھدے اوں؟ کوئی پڑھدا بھی ہے آپ کیاں کہانیاںنوں؟ کس پرچے میں چھپدیاں ایں، یا آپ ای پڑھ کے خوش ہو لیندے او آپ؟

نفیسہ: چھپتی ہیں سر! دو تین پرچوں میں۔ کچھ ایک دو شمارے بعد چھپ جاتی ہیں اور کچھ میں دیر بھی ہو جاتی ہے۔

بزمی صاحب: اچھی بات ہے پھر تاں! کتنا کچھ لکھیا ویا اے آپ نے؟ کد سے لکھ رہی ہیں؟

نفیسہ: باقاعدہ لکھنا، وہ تو کوئی تین سال سے ہے۔ تیس کے قریب شائع ہو چکی ہیں، سر۔ تقریباً اتنی ہی ان کے علاوہ بھی ہیں۔

بزمی صاحب: تد … اب تیکر کتاب آ جانی چاہی دی سی، ہیں؟

نفیسہ: جی سر، مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ ہوں بھی اور کتاب چھاپ بھی لوں تو بیچے گا کون!

بزمی صاحب: کسے پبلشر کو ڈھونڈ لؤ تاں، اس میں کیا ہے۔ وہ آپ کو کچھ دے گا تو نہیں پر آپ کی کتاب چھاپ دے گا۔

نفیسہ: میری بات ہوئی تھی سر، ایک دو لوگوں سے۔ وہ کہتے ہیں جی خرچہ آپ کا، کتاب ہم چھاپ دیتے ہیں۔ آپ کی ہمت ہے، بیچ لیں۔ کچھ ہم بھی رکھوا دیں گے، ادھر ادھر بک سنٹروں پر۔ میرا کون بیچے گا سر؟ بات تو وہی ہے کہ اگر خرچہ اپنا ہے تو پبلشر کا کیا کام ہے؟

بزمی صاحب: بات تو تیری ٹھیک ہے کڑے، کیا نام بتایا تھا تیں نے؟

نفیسہ: نفیسہ، سر! کتاب تو بعد کی بات ہے سر، میں چاہتی ہوں میری کہانیاں آپ کے اخبار میں بھی شائع ہوں۔

بزمی صاحب (ہنستے ہوئے): لَو جی! بات وہیں اپڑ گئی نا۔ میرے پاس گنتی کا اک صفحہ ہے، میں اس میں کیا کچھ چھاپاں لؤ بتاؤ۔ خیر، آپ لِکھدی کیسا او؟ بتاؤ تاں!

۔ (نفیسہ ایک ماہانہ پرچے کی تین کاپیاں پیش کرتی ہے)۔

نفیسہ: فوری طور پر یہ پرچہ پیش کر سکتی ہوں سر، ماہنامہ ’شناخت‘۔ یہ تین مختلف شمارے ہیں سر، اِن میں میری کہانیاں شامل ہیں۔

بزمی صاحب: اپنے اصلی نام تے لکھدی ہیں آپ یا وہ کوئی قلمی اَمب جیسا؟

نفیسہ: اپنے اصلی نام سے لکھتی ہوں سر، نفیسہ قیصر۔

بزمی صاحب: ایہ قیصر صاحب کیا ہیں؟ کچھ ایہناں کا تعارف؟

نفیسہ: میرے میاں ہیں، سر۔ میں لاہور کے نواح میں رہتی ہوں۔ امی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، ان سے ملنے آئی ہوں۔ کل نہیں، پرسوں واپسی ہے۔

بزمی صاحب: لاہور کا نواح تو بڑا وڈا اے کڑے۔ کوئی تھاں ٹکانا، کوئی ناؤں تھیہ؟

نفیسہ: گوہاوا نام کا گاؤں ہے سر، جلو پارک سے کچھ ہٹ کے۔ میرے میاں وہاں ایک فیکٹری میں کاری گر ہیں۔

بزمی صاحب: پنڈ میں فیکٹری؟ کیا بناندے ہیں اوہ؟

نفیسہ: گاؤں میں نہیں سر، جلو موڑ کے قریب ہے۔ وہ اصلی اور مصنوعی چمڑے کی چیزیں بناتے ہیں۔

بزمی صاحب: مثلاً کیا بناندے ایں؟ جُتیاں؟ بیگ؟ سوٹ کیس؟ وہ جونسا سیمسونائٹ قسم کا کچھ کہندے ایں اسنوں؟ کڑیاں کے ہینڈ بیگ بھی بناندے ہیں؟ یہ تیرا بیگ وی اونہاں کا بنیا ویا اے؟

نفیسہ: یہ پرس ہے سر، بیگ نہیں! یہ اس فیکٹری کا نہیں ہے۔

بزمی صاحب: چل جو کچھ وی ہے، بیگ نہ سہی پرس سہی۔

نفیسہ: وہ لوگ پہلے جوتے بناتے تھے، اب نہیں بناتے۔ تفصیل کا مجھے نہیں پتہ سر۔

بزمی صاحب: چلو ٹھیک ہے۔

نفیسہ: سر، میں ایک آدھ کہانی آج ماجد بھائی کو دے دوں گی۔

بزمی صاحب: بڑی تاؤلی آں کڑے مینوں دیکھن تاں دے۔ ایتھے معیار کا وی مقابلہ ہے اور اثر و رسوخ کا وی۔

نفیسہ: جی بہتر۔ مجھے اجازت دیجئے۔

بزمی صاحب: ہاں ہاں ضرور، اپنے بھائی تے پچھ لئیں بعد میں۔

نفیسہ کے جاتے قدموں کی چاپ

 

 

چوتھا منظر

 

خواجہ صاحب: اِدھر سے گزر رہا تھا، سوچا تم سے مل لوں۔ کیسے ہو؟

بزمی صاحب: فرسٹ کلاس! تیں سنا! کم کم دِسدا ایں اج کل، کھوجے!

خواجہ صاحب: بہت کام کر رہے ہو آج کل! ان پرچوں کا تعارف وغیرہ لکھنا ہے کیا؟

بزمی صاحب: چُلھے میں گیا تعارف۔ کل ایک کڑی آئی تھی، جی میں کہانیاں لکھتی ہوں۔ یار کھوجے! میں نے کوئی مرغی خانہ کھولیا ویا اے؟ چوچے پالدے رہو۔ بڑا شوق ہے ایہناں نویاں لکھارناںنوں اخبار میں چھپن کا۔

خواجہ صاحب: تمہارے معیار کو نہیں پہنچتا تو نہ چھاپو، مِرچیں کیوں چبا رہے ہو؟

بزمی صاحب: منہ توڑ کر نہیں کہہ سکدا! ایہ میرا آفس بوائے ہے نا، کاکا ماجد؟ اس کی وڈی بہن اے۔

خواجہ صاحب: تو پھر چھاپ دو، ایک آدھی چیز!

بزمی صاحب: ناں، ایسے ای چھاپ دوں؟ یہ جو پرچہ ہے ’شناخت‘، اس دی تاں اپنی کوئی شناخت نہیں ہے اب تیکر۔ اے، یہ لو! گیا ردی کی ٹوکری میں۔ (تینوں شمارے باسکٹ میں پھینک دیتا ہے)۔ چاہ پئیں گا؟ (گھنٹی بجاتا ہے)۔

ماجد: (فوراً حاضر ہو جاتا ہے)۔ جی سر؟

بزمی صاحب: کھوجے نوں چاہ بنا دے فٹافٹ۔ اور سُن! ایہ تیں کیا کندھاں کے ساتھ کھلو کے کنسوئیاں لیا کردا ایں؟

ماجد: نہیں سر! میں تو باہر سے آ رہا ہوں۔ عین آپ کے دروازے کے سامنے پہنچا تو بیل بجی۔

بزمی صاحب: نہ تیرے آن کا پتہ نہ جان کا، نہ تیرے نوید بابو کا۔ وہ بھی نہیں بیٹھا ویا۔

ماجد: سر، نوید بابو گئے ہوئے ہیں کسی دوسرے دفتر میں۔ کہہ گئے ہیں کہ واپسی میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔

بزمی صاحب: سجی وکھا کر کھبی ماردے ہیں اج کل دے چھوکرے۔

۔ (ماجد خاموشی سے چلا جاتا ہے)۔

خواجہ صاحب: تمہاری اپنی کوئی تخلیق میں نے کبھی نہیں دیکھی اس صفحے میں۔ نام سے تو اچھے خاصے شاعر لگتے ہو! کچھ لکھتے بھی ہو، یا نام ہی بسمل بزمی رکھا ہے بس؟

بزمی صاحب: لکھدا ہوں یار، پر ایس اک صفحے کے ایڈیشن میں کنے لوکاں کو شامل کرنا ہوندا ہے، پتہ ہے تیںنوں۔ میری کوئی تحریر نہیں بھی ہوئے گی تاں کیا ہے! میرا ای تاں ہے ایہ ایڈیشن۔

خواجہ صاحب: اور وہ کون ذات شریف ہیں؟ استاد چٹکی؟ جن کی کوئی کتاب ہے چُٹکیاں؟ جس سے تم ہر ہفتے ایک آئٹم شامل کرتے ہو۔ ویسے وہ استاد چٹکی، زندہ ہے یا مر گیا ہے؟

بزمی صاحب: زندہ ہے یار، کیوں اس بے چارے نوں مارن تے تلیا ویا ایں؟ کبھی ملاندا ہوں اس کے ساتھ۔

خواجہ صاحب: تم صفحے کے انچارج ہو، جو بھی کرو۔ مگر مجھے اُس آئٹم میں کوئی کام کی بات دکھائی نہیں دی۔ پھکڑ بازیاں ہیں! اور اشاروں کنایوں میں تمہاری فرہادیوں کا ذکر ہوتا ہے۔

۔ (ماجد آتا ہے۔ چائے کی پیالیاں رکھنے کی آواز)۔

خواجہ صاحب: (بات جاری رکھتے ہوئے) ویسے ایک بات کہوں؟ (خود ہی ہنستا ہے) میں تو روز ملتا ہوں استاد چٹکی سے۔ روز نہیں تو دوسرے تیسرے دن ملاقات ہو جاتی ہے۔

بزمی صاحب: ہائیں، کتھے ملدا ایں اسنوں؟ کھوجے؟ (ماجد سے) تیں کاکا، چاہ رکھ دیئی اے نا؟ تے جا ہُن۔

۔ (ماجد کے جاتے قدموں کی چاپ)۔

خواجہ صاحب: میں تو اس وقت بھی تیرے ساتھ بیٹھا ہوں، استاد چٹکی۔

بزمی صاحب: اوئے کھوجے! ہولی بول! کندھاں کے بھی کن ہوندے ایں۔ پر، تیں کس طرح جانیا بھئی؟

خواجہ صاحب: چھوڑو اس بات کو، چائے کا مزا خراب نہ کرو۔

بزمی صاحب: مزا تو تو نے کوڑا کر دیا اے، تُو کھوجا ہیں کہ کھوجی؟

۔ (دونوں ہنستے ہیں)۔

 

پانچواں منظر

 

ماجد: بڑے دکھ کی بات ہے نوید بابو۔ یہ دیکھئے! (دو تین رسالے دکھاتا ہے) یہ مجھے بزمی صاحب کی ردی کی ٹوکری سے ملے ہیں۔

نوید بابو: تمہیں اچھے لگے، رکھ لو۔ اس میں دکھ کی کیا بات ہے؟

ماجد: یہ ’شناخت‘ کے وہ پرچے ہیں بابو، جو نفیسہ باجی نے بزمی صاحب کو دئے تھے۔ انہوں نے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ردی میں ڈال دئے۔

نوید بابو: یہ کوئی نئی بات نہیں یار! تمہیں پتہ تو ہے، وہ صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ یہ ان کے کام کے نہیں ہوں گے۔

ماجد: مگر نوید بابو! وہ نفیسہ باجی؟ وہ مشہور و معروف کہانی کار ہوتیں تو ہمارے صاحب ایسا نہ کرتے۔ کہتے ہیں جی ہم ادب کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ یہ ہے پروموٹ کرنا؟ کہ ایک کے لکھے کو دیکھا بھی نہ جائے اور ردی میں ڈال دیا جائے؟ دیکھ تو لیتے، پھر کہہ دیتے کہ بی بی ہم صرف ان کو پروموٹ کرتے ہیں جن کو پروموشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔

نوید بابو: کوئی کسی کو پروموٹ نہیں کرتا بھائی، یہ آپ کا ٹیلنٹ ہوتا ہے جسے آپ خود پروموٹ کرتے ہیں۔ دل میلا نہ کرو، بہن کو بتا دینا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ چائے بناؤ، خود بھی پیو، مجھے بھی پلاؤ۔ ادبی ایڈیشن آج فائنل کر کے دینا ہے۔

ماجد: (طنزیہ ہنسی ہنستا ہے) ہاہا! ادبی ایڈیشن!یا اپنا اشتہار؟ خیر چھوڑئیے، میں چائے بناتا ہوں۔ (برتنوں کی ملی جلی آوازیں) باجی تو چلی گئیں! ہاں وہ پرچہ کیا نام تھا اس کا؟ وہی جو میں نے اُس دن ردی سے اٹھایا تھا! وہ لے گئی ہیں۔ کہتی تھیں ان کو اپنی کہانی بھیجیں گی۔

نوید بابو: چلئے اچھا ہے۔ انسان میں ٹیلنٹ ہو، نا! تو اس کو اظہار کے کئی راستے مل جاتے ہیں۔ پریشان نہ ہوا کرو۔

ماجد: وہ تو ٹھیک ہے نوید بابو، مگر یہ کیا طریقہ ہے؟

نوید بابو: کہا ہے نا، پریشان نہ ہوا کرو۔ اُن کی کہانیاں چھپ رہی ہیں، معروف بھی ہو جائیں گی، وقت لگتا ہے۔ کھوکھلی سیڑھیوں کا سہارا کچھ نہیں ہوتا، بندہ انجانے میں گر بھی سکتا ہے۔

۔ (برتنوں کی کھنک)۔

ماجد: مجھے شک ہو رہا ہے نوید بابو، کہ آپ لکھتے ہوں گے، ضرور!

نوید بابو: اس شک کی وجہ؟

ماجد: آپ کی باتیں، بابوجی اور آپ کا انداز۔ آپ تخلیق کار ہیں! ہیں نا؟

نوید بابو: ہاں، میں لکھتا ہوں۔ تمہارا مشاہدہ درست ہے۔

ماجد: (چائے کی پیالیاں رکھتے ہوئے) لیجئے بابو، تازہ دم ہو جائیے!

 

چھٹا منظر

 

۔ (ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے)۔

بزمی صاحب: ہیلو! بزمی بول ریہا اوں۔

الماس: ہیلو سر! میں الماس ہوں پنج ریڈیو سے۔

بزمی صاحب: پنچ ریڈیو؟ اِک نہ دو، اکٹھے پنج؟ کہاں تے؟ اور آپ کیا کر دی ایں؟

الماس: پنچ ریڈیو، سر! یہ میں چلا رہی ہوں، الپاسو، امریکہ میں۔ آج کل پاکستان آئی ہوئی ہوں۔

بزمی صاحب: اچھا، اچھا، اچھا، کہاں کی ہیں آپ؟ ایتھے پاکستان میں!

الماس: میرے پیرنٹس گجرات سے ہیں سر۔ میں اس وقت لاہور میں ہوں، کل میری کتاب کا فنکشن تھا۔

بزمی صاحب: آپ نے کتاب تاں دیئی نہیں اور ٹیلیفون کر دیا اے۔

الماس: ایکسکیوز می سر۔ کل کسی نے ایک پرچہ مجھے دیا: ’’پسِ تحریر‘‘۔ اس میں آپ پر ایک آرٹیکل ہے، آپ کی ادبی خدمات کا ذکر ہے اور بھی خاصا کچھ ہے۔ اس سے پہلے تو … (جیسے کوئی بات کہتے کہتے روک لی ہو) کتاب آپ کو مل جائے گی سر!

بزمی صاحب: مہربانی اے جی، آپ دی۔ آپ نے زحمت کری۔ آپ دی کتاب ملدی اے تاں میں اس پر تبصرہ وی کراں گا۔

الماس: وہ آپ جیسے مناسب سمجھیں۔ اس وقت میرا مقصد آپ کو دعوت دینا ہے۔ آپ ہمیں پنج ریڈیو پر جائن کریں۔ روزانہ شام کو پنج ریڈیو سے ڈائریکٹ آن لائن پروگرام ہوتا ہے۔ آپ بھی شامل ہوں تو کتنا اچھا ہو۔

بزمی صاحب: اوہ کس طرح؟ میں ایتھے پنڈی میں بیٹھ کر؟

الماس: یس سر! فیس بک سے، اور اسکائپ پر۔ آپ کو ویب ایڈریس ابھی بھیج دیتی ہوں۔ اور ویکلی پروگرام آؤٹ لائن بھی۔ دنیا بھر سے ہمارے دوست شامل ہوتے ہیں۔ گپ شپ بھی ہوتی ہے، کسی موضوع پر گفتگو بھی ہوتی ہے، آن لائن ریکارڈنگ بھی ہو سکتی ہے۔ تفصیل آپ دیکھ لیجئے گا۔

بزمی صاحب: لو جی، سر متھے پر! میں اج ای کوشش کردا اوں۔ شامل ہون کا طریقہ کیا اے؟

الماس: سائٹ کھولیں، میسیج باکس ہے ادھر، وہاں مختصر سا پیغام لکھ دیں اور اپنا اسکائپ اور فیس بک آئی ڈی کاپی کر دیں۔ باقی کام میرا ہے۔

بزمی صاحب: یہ تو بہت بڑھیا ہو گیا۔ میں آپ دا شکریہ کیسے ادا کراں، کیا نام بتایا آپ نے؟الماس۔

الماس: آپ ہمارے ساتھ شامل ہوں یہ بہترین شکریہ ہو گا سر۔ (ہنستی ہے)۔

بزمی صاحب: آپ دی ہنسی بہت خوب صورت ہے، گھنٹیاں سی بج رہی ہیں سمجھو۔

الماس: (کھلکھلا کر ہنستی ہے) بہت شکریہ سر، اجازت چاہتی ہوں۔ میسیج کر دیجئے گا۔ (فون کال ختم ہو جاتی ہے)

بزمی صاحب: (خود کلامی کے انداز میں) اس ناؤں کا پرچہ ایک آیا تو تھا! … کتھے رکھ دیا میں نے؟ … ردی کی ٹوکری میں سَٹ دیا تا؟ … اور وہ بھی! وہ جونسے پرچے اوہ کڑی لیائی تھی، ماجد کی بہن … وہ بھی! … وہ تو چلے گئے ہون گے شریڈر میں! … ایہ میں نے کیا کریا … میں نے تو اس کو کھول کے وی نہیں ویکھیا … مینوں کیا پتہ اس میں کیا تھا … ایہ کڑی نہیں بتاندی تو مینوں پتہ بھی نہیں لگنا تا … میں سمجھیا تھا کسے نے گھل دیا جی تبصرہ کر دیو … مینوں کیا پتہ اس میں میرے اُپر مضمون چھپیا ویا اے … …۔

 

ساتواں منظر

 

بزمی صاحب: آپ دونوں یہ بتاؤ مینوں، یہ باسکٹ خالی کون کردا ہے روز؟

ماجد: میں کرتا ہوں سر۔

بزمی صاحب: پرسوں چوتھے میں نے رسالے سٹے تے اس میں، کتھے گئے وہ؟

ماجد: شریڈر میں چلے گئے ہوں گے، سر!

نوید بابو: رسالہ تو روز کوئی نہ کوئی آتا ہے۔ جو آپ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں، وہ تو گیا! جسے آپ الگ رکھ لیتے ہیں، وہ سب میرے پاس محفوظ ہیں۔

بزمی صاحب: بہت بولنا آندا اے جی نوید صاحب آپنوں۔ کل کہاں تے آپ؟ ساری دیہاڑی۔

نوید بابو: ادبی ایڈیشن تیار کر کے میں نے پرسوں آپ کو دے دیا تھا۔

بزمی صاحب: نہ! ایہ میرے سوال کا جواب نہیں اے! کل کہاں تے آپ؟

نوید بابو: میرے پاس کئی شعبوں کا کام ہوتا ہے سر، کہیں نہ کہیں جانا بھی ہوتا ہے۔ ویسے میں غیر حاضر نہیں تھا۔

بزمی صاحب: کوئی اگر مجھ تے پچھ لئے نوید بابو کہاں ہے، تاں؟

نوید بابو: آپ کہہ دیں کہ نہیں ہے۔

بزمی صاحب: خیر! وہ اک رسالہ آیا تھا۔ کوئی نواں ناؤں تھا اس دا، وہ بھی میں ردی کی ٹوکری میں ڈالیا تا۔ اس کی کوئی خبر ہے؟ تیں بتا ماجد کاکا۔ دیکھیا تاں ہوئے گا تیں نے۔ ٹوکری جو خالی کری اے۔

ماجد: جی، وہ میں گھر لے گیا تھا، باجی کو دے دیا۔ وہ کہانیاں وغیرہ لکھتی ہیں آپ سے ملی بھی تھیں۔

بزمی صاحب: گھر کیوں لے گیا تیں، کس تے پُچھ کے لے گیا۔

نوید بابو: وہ سر، آپ نے ردی میں ڈال دیا۔ آپ کے کام کا ہوتا تو نہ ڈالتے۔ وہاں سے شریڈر میں جائے یا کسی کے گھر، کیا فرق پڑتا ہے۔ کسی پڑھنے والے کے کام کا نکل آئے تو کیا برائی ہے؟

بزمی صاحب: تیں مینوں سبق پڑھائیں گا؟ تیں بتا اوئے!تیں کاہ تے لے گیا؟

نوید بابو: یہ نہیں بتا سکتا سر، یہ آپ کا ماتحت ہے۔ میں نے کہا تھا اسے، کہ لے جاؤ۔ اور وہ دو پرچے بھی جو اس کی بہن آپ کو دکھانے لائی تھی، ان کو آپ نے دیکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور وہیں ڈال دیا۔ وہ بھی میں نے کہا تھا کہ لے جاؤ۔ وہ بے چاری امید لگائے بیٹھی ہو گی کب بزمی صاحب پڑھیں گے اور ماجد سے کہیں گے اپنی بہن سے کہو کوئی کہانی دے دے۔

بزمی صاحب: تیرا تو کیبن میں کرواندا ہوں خالی۔

نوید بابو: مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا سر، اپنے ادبی ایڈیشن کا دیکھ لیں، اسے فرق پڑ بھی سکتا ہے۔

بزمی صاحب: اور جیہڑا ایڈیشن کل آنا اے، اوہ کہاں اے؟

نوید بابو: آپ نے اوکے کر کے ایم ای صاحب کو بھیج دیا ہے، وہ اسے دیکھ لیں تو میں فائل بھی بھیج دیتا ہوں۔۔ ۔۔ کیبن کب خالی کرنا ہے سر؟

بزمی صاحب: (ماجد سے) اب کہاں اے اوہ پرچہ؟

ماجد: وہ تو باجی لے گئیں سر! وہ کہہ رہی تھیں اچھا پرچہ ہے۔

بزمی صاحب: اوئے نامانیمو! اس پرچے میں مجھ پر ایک مضمون چھپیا تھا۔ نہ میں نے مضمون کا منہ ویکھیا، نہ لکھن والے کا۔ کہاں تے ڈھونڈاں میں اسنوں بتاؤ مینوں!

نوید بابو: پتہ مل جائے گا سر، بلکہ پرچہ مل جائے گا۔

بزمی صاحب: کیا مطلب! کیا کہہ رہیا ایں تیں؟

نوید بابو: بتاتا ہوں سر، مگر اس کی ایک شرط ہے۔

بزمی صاحب: کیا؟ اب تیں شرطیں منوائیں گا؟

نوید بابو: آئی ایم سوری سر، مجھے یوں نہیں کہنا چاہئے تھا۔ بھول جائیے اس پرچے کو بھی اور اس مضمون کو بھی۔ اور ان پرچوں کو بھی جو ایک لڑکی آپ کو اپنی کاوش دکھانے کے لئے لائی تھی اور آپ نے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔

بزمی صاحب: ایہ کیا کہہ رہیں او آپ، جناب نوید صاحب! میرے ککھ پلے نہیں پڑ ریہا۔

نوید بابو: استاد چٹکی سے پوچھ لیجئے گا سر!

بزمی صاحب: (دھاڑتے ہوئے) کیا ا ا ا ا؟

نوید بابو: جی، وہ مضمون میں نے لکھا تھا۔ اور پرچہ خواجہ خوشنود صاحب کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ ایڈیٹر کون ہے، اس سے کیا ہوتا ہے؟ آپ بتائیے مجھے کیبن کب خالی کرنا ہے۔ ماجد کی آپ فکر نہ کریں، اس کو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔

بزمی صاحب: مروا دیا تیں نے، نوید! سب کچھ ڈھاء کے رکھ دیا میرا۔

نوید بابو: نہیں سر! آپ کا کچھ نہیں گیا۔ ہو سکے تو چھوٹے لوگوں کے سر پر بھی ہاتھ رکھ دیا کریں۔ استاد چٹکی البتہ ہاتھ سے نکل گئے تو بہت کچھ جا سکتا ہے۔ ہاں سر! میڈم الماس نے مضمون خواجہ صاحب کے بتانے پر پڑھا تھا۔

۔ (دونوں جاتے ہیں)۔

بزمی صاحب: (رونی آواز میں) کہاں جا رہے او تسیں دوئیں؟ (خود کلامی کے انداز میں) یہ کیا کر دیا کھوجے نے؟ پر اس نے کیا کریا اے، میں نے آپ ای کریا اے۔ تیرا خانہ خراب اوئے استاد چٹکی! تیرا بیڑہ غرق! تیرا ستیاناس!

٭٭٭

 

 

 

 

بڑی بوا

(جہیز، ایک سدا بہار مسئلہ)

 

 

پہلا منظر

 

بڑی بوا: (گھر میں داخل ہوتے ہوئے) کوئی ہے؟ کریمن! عبدل بھیا! بھئی کوئی ہے؟

کریمن: (پکارتے ہوئے) میں یہاں ہوں، بڑی بوا! رسوئی میں۔ یہیں آ جائیے۔

بڑی بوا: لو بھئی، ہم آ گئے!

کریمن: آئیے بوا، یہاں بیٹھئے۔ کیسی ہیں آپ؟ کیسے آنا ہوا؟ چائے پئیں گی؟

بڑی بوا: ائے بوا، کیا پوچھتی ہو! کیا زمانہ آ گیا ہے! تم نے سنا کچھ؟

کریمن: کیا … کیا ہوا؟ کس کی بات کر رہی ہیں آپ۔

بڑی بوا: ارے، وہ مریم ہے نا! اس کا دماغ تو مانو، آسمان پر ٹکا ہے۔ لو، بتاؤ! اچھا بھلا رشتہ تھا۔ اماں نے انکار کر دیا، لو یہ کیا بات ہوئی بھلا؟

کریمن: کوئی بات تو رہی ہو گی بوا۔ بیٹیوں کے گھر بستے کسے برے لگتے ہیں۔ آپ جانتی ہیں لڑکے والوں کو؟

بڑی بوا: اے لو! کوئی غیر تھوڑی ہیں! کیا بھلا سا نام ہے اس کا؟

کریمن: رانی نام ہے اس کا، ایک دوجے کے ہوتے سوتے ہیں۔ ہم تو نہیں جان سکتے نا! برادری کی اپنی باتیں ہوتی ہیں۔

بڑی بوا: ارے جانے دو بوا! برادری کی باتیں تو جو ہوں گی سو ہوں گی، مریم نگوڑی نے تو سیدھے سبھاؤکہہ دیا کہ جہیز نہیں دوں گی۔ یہ کیا بات ہوئی؟ سب دیتے ہیں جہیز! میری اماں نے ٹرک بھر کے بھیجا تھا، پتہ ہے نا تمہیں۔

کریمن: آپ کی اماں جو ہوئیں! …. وہ لڑکا کیا کرتا ہے بوا؟

بڑی بوا: سنا ہے کباڑیا ہے۔ ایک بڑی سی کار پہ گھوما کرتا ہے۔ گھر بھی تو بھرا ہوا ہے ان کا لڑکیوں سے! سب سے بڑا ہے، چار چھوٹی بہنیں ہیں اس کی۔

کریمن: تو … وہ بھی تو جہیز دیں گے لڑکیوں کو؟ چار چار لڑکیوں کو جہیز دیں گے؟ کتنا دیں گے؟ جتنا بھی پیسہ ہو، گھر کباڑ خانہ بن جاتا ہے۔

بڑی بوا: ائے ہئے! کیسی باتیں کرتی ہو کریمن! اب جنی جو ہیں تو بیاہنا بھی ہے اور بیٹیوں کو خالی ہاتھ بھی تو نہیں بھیجا جاتا۔ اے! دنیا کیا کہے گی۔ سارے دیتے ہیں جہیز، اس میں دُوجی بات ہی کیا ہے؟ لڑکے کے ابا کی تو زمین بھی ہے، کسی گاؤں میں۔ یہ کوئی چار ٹھیکریاں دے دیں تو ….

کریمن: لیجئے بوا چائے پیجئے۔ اور … وہ، مریم کا میاں؟ اس کی تو دکان ہے کریانے کی۔ ہے نا؟

بڑی بوا: ہاں نا، دکان بیچ کے بیٹی کو بیاہ دے، کیا ہے! دکان بھلا بیٹی سے عزیز ہے؟

کریمن: ایک بات کہوں بوا؟ مریم نے بالکل ٹھیک کیا ہے، جو جہیز نہ دینے کا کہہ دیا۔

بڑی بوا: اے لو! باؤلی ہو رہی ہو کیا؟ کل تم بیٹیوں کو بیا ہو گی تو نہیں دو گی کیا۔

کریمن: بیٹیوں سے بڑھ کے کوئی نہیں، پر بوا! دیکھ لینا، جہیز کے نام پر ایک چمچ بھی نہیں دوں گی! ہاں۔ میں مر گئی تو لڑکیوں کا بابا جانے۔

بڑی بوا: ائے ہئے۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ وہ موا منشی بھی ایسی ہی الٹی سیدھی باتیں کیا کرتا ہے۔

کریمن: یہی تو بات ہے بڑی بوا۔ گھر اور گھر کا سامان وہ بنائے نا جو بیوی لا رہا ہے۔ باپ کو کیا چَٹی پڑی ہے؟ کہ بیٹی تو دے، اگلوں کا گھر بھی بھرے۔

بڑی بوا: اے لو، تم نے بھی ایک ہی کہی! لگتا ہے مریم کو انکار کا مشورہ بھی تم نے دیا ہے۔

کریمن: مشورہ میں نے نہیں دیا، بوا! … پر، وہ مشورہ کرتیں تو میں یہی مشورہ دیتی۔

 

دوسرا منظر

 

قمر میاں: کچھ سنا تم نے؟

مریم: ہاں، سنا۔ یہی کہ انہوں نے رشتہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔

قمر میاں: صاف انکار تو نہیں کیا انہوں نے، کر دیں تو پتہ بھی نہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟

مریم: کوئی بات نہیں! میرا اللہ ہے نا، وہ مجھے اور میری بیٹی کو رسوا نہیں ہونے دے گا۔ ان لوگوں کو کپڑا لتا، میزیں کرسیاں، چمچ اور پیالیاں چاہئیں۔ بازار سے لے لیں۔

قمر میاں: کچھ کر کرا دو یار! ہماری ایک ہی تو بیٹی ہے۔ دکان بیچ دیتا ہوں، بیٹے کما رہے ہیں گھر چلتا رہے گا۔

مریم: یہ آپ صلح جوئی کی بات کر رہے ہیں یا مجبوری کی؟

قمر میاں: دونوں ہی باتیں ہیں۔ وہ لوگ ایک غلط بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ لڑکے کا کیا ہے دو چار کیا، پانچ دس سال بھی اور گزر جائیں تو کیا ہے۔ ادھر لوگ باتیں بناتے پھر رہے ہیں، کل اور باتیں بنیں گی کہ رشتہ ٹوٹ گیا، یہ رہا ہو گا، وہ رہا ہو گا۔

مریم: یہ بھی تو کہیں نا، کہ ہماری تو بیٹی ہے، بالوں میں سفیدی جھلنے لگی تو مشکل ہو جائے گا۔

قمر میاں: بات تو یہ بھی بے جا نہیں۔

مریم: ایک بات بتائیے مجھے۔ آپ بیٹی کو جہیز کتنے کا دے سکتے ہیں؟

قمر میاں: یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ چار پانچ لاکھ، یہ کوئی کم تو نہیں ہے! اس سے زیادہ نہیں دے سکتا۔

مریم: اور بیٹی کو پانچ لاکھ دینے کے بعد آپ کے پاس کیا بچے گا؟

قمر میاں: پہیلیاں بجھوا رہی ہو مریم، کھل کر بات کرو۔

مریم: پانچ کا تو جہیز ہوا، مہمانوں کو کھانا بھی تو کھلانا ہے اور سارے خرچے ملا کر نہ نہ کرتے بھی اتنا ہی اور چاہئے۔ دکان تو، جان لیجئے کہ، گئی جہیز میں، اور باقی؟

قمر میاں: قرض لے لیں گے کہیں سے!

مریم: آپ کی صرف ایک بیٹی ہے؟ اور کوئی نہیں؟

قمر میاں: تین بیٹے ہیں! کیوں نہیں ہیں؟ تمہارا سوال بہت عجیب ہے۔

مریم: تینوں بیٹوں کے لئے بھی دس دس لاکھ بینک میں رکھوا دیں۔ یہ تو ان کا وراثت میں حصہ بنتا ہے۔ آپ کا تو سارا مکان بھی اتنے کا نہیں۔ دوسرے کا گھر بھرنے کے لئے بیٹوں کا حق ماریں گے آپ؟ اور وہ سامان؟ وہ گل سڑ جائے گا، ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔

قمر میاں: نہیں تو … مگر … وہ … شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو … مگر …۔

مریم: میں تو اس ظلم میں شریک نہیں ہوتی، آپ کر لیجئے۔ بھیج دیجئے پیغام ان کو، کہ جہیز کے سامان کی فہرست دے دیں۔

قمر میاں: (اشتیاق اور بے یقینی کی کیفیت میں) سچی؟ کہہ دوں؟

مریم: کہہ دیجئے۔ اور یہ بھی کہہ دیجئے گا کہ انہیں سامان چاہئے لے جائیں، میں ان کے ساتھ بیٹی کو نہیں بھیجنے کی۔

قمر میاں: (دھاڑتے ہوئے) مریم! تمہیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟ باتیں کرنا آسان ہے بیٹیوں کو گھر میں بٹھانا آسان نہیں ہے۔ تم عورت ہو کر اپنی بیٹی کی زندگی ویران کرنے پر تلی ہوئی ہو۔ تمہاری بات اصولی طور پر ٹھیک بھی ہے تو یہ دنیا ہے مریم!

 

تیسرا منظر

 

بڑی بوا: اے میں کہتی ہوں، بیٹی کو سامان بھی نہیں دے سکتے بھلا؟ مار دیتے گلا گھونٹ کے، جب پیدا ہوئی تھی! اے بوا، بیٹی تو آپ بھی پرایا دھن ہوتی ہے۔ یہ کوئی انہونی بات ہے کیا؟

رانی: میرے بیٹے کو رشتوں کی کمی ہے کیا؟ خیر سے کماتا ہے، خوبرو ہے، اکلوتا ہے، ایک سے ایک بڑھ کے لڑکی پڑی ہے۔ رکھ لیں اپنا سامان بھی اور بیٹی بھی۔ مکھی چوس کہیں کے!

بڑی بوا: ٹھیک کہتی ہو۔ ایک ہی تو بیٹی ہے، دکان بڑھا بھی دے اس کا باپ، تو کیا ہے! پھر بن جائے گی۔ بیٹی کے ہاتھ تو روز روز پیلے نہیں ہوں گے۔ ایک ہی بار ہے نا۔ کون سی قطار لگی ہے بیٹیوں کی! اے اس کے چاؤ لاڈ تو پورے کریں!

کریمن: ( داخل ہوتی ہے) السلام علیکم۔ ارے واہ! بڑی بوا بھی یہاں ہیں خیر سے۔ کیسی ہیں آپ، بڑی بوا!؟

رانی: و علیکم السلام، آؤ کریمن کیسی ہو؟ بیٹھو۔

بڑی بوا: (کریمن کو نظر انداز کرتے ہوئے) میرے ابا نے ٹرک بھر کے سامان کا دیا تھا۔

کریمن: اور بڑی بوا! وہ سامان کیا ہوا پھر؟

بڑی بوا: ائے ہونا کیا تھا! کچھ تو نندوں نے توڑا پھوڑا۔ اماں نے جو تھان کے تھان کپڑے کے دئے تھے، سی سلا کے خود پہن لئے اور برتن! ہائے کیا کہوں بوا! نصیبوں جلی ساس نے توڑ تاڑ کے رکھ دئے۔ کچھ خدا کی مار پڑے ان ٹڈیوں اور چوہوں پر، فرنیچر کو گھن اور دیمک نے مٹی کر دیا۔ سب خاک ہو گیا۔

کریمن: اے رانی بہن، بوا نے بات پتے کی کی ہے۔ سامان بنا کے اگلوں کے گھر میں پھینک دیا، بیٹی کے تو کچھ کام نہیں آیا۔ کام آیا تو ساس اور نندوں اور ٹڈیوں، چوہوں، گھن اور دیمک کے۔ واہ بڑی بوا۔ یہ ہوئی نا بات! آپ کے ابا کو اگر دینا ہی تھا تو داماد کو اتنی نقد رقم دے دیتے کہ میاں کوئی کام وام کر لو۔

رانی: دنیا کا دستور ہے کریمن! سب دیتے ہیں، یہ کوئی نئی بات ہے۔ اکلوتی بیٹی ہے ان کی! مرے کیوں جا رہے ہیں؟

کریمن: اللہ برکت دے، آپ کی تو خیر سے چار ہیں۔ اللہ سب کو خوشیاں دے، سب کے چاؤ لاڈ پورے کرنے ہیں۔ ابھی سے تیاری کیجئے آخر چار بیٹیوں کا جہیز بنانا ہے۔ کون جانے میاں کو بھی اور بیٹے کو بھی گروی رکھنا پڑے۔

رانی: بہت چڑھ کے بات کر رہی ہو کریمن!

کریمن: دکھ کی بات ہے، تلخ تو ہو گی! میں آئی تو کسی کام سے تھی، خیر چھوڑئیے۔ میں چلی، ویسے سوچئے گا، ضرور۔ کہ ہم اپنی بیٹیوں کا جائز حق، وراثت میں ان کا حصہ تو دیتے نہیں، جہیز کے نام پر دوسروں کو دے دیتے ہیں۔

بڑی بوا: ایک ہی تو بیٹی ہے، لو بتاؤ! جہیز بھی نہیں دیں گے تو کیا بیٹی کو رسوا کریں گے؟ بیٹی بھر کے جائے سو سکھ پائے۔

کریمن: غضب خدا کا، ایک تو دوہرا دوہرا ظلم اور پھر اس پر اتنا اصرار؟ کہ جی، نہ کیا تو ناک کٹ جائے گی! اور ہاں، اس محلے کی ہر چوتھی عورت بڑی بوا ہے۔ ہر سوراخ پر ناک رکھ کر سونگھتی پھرتی ہیں۔

بڑی بوا: آئے ہائے! خصم سے جھگڑ کر آئی ہے کیا؟ جو سارا غصہ مجھ غریب پر جھاڑ رہی ہے۔ اے بوا، ایک اُن کی بیٹی ہے چار اِن کی بیٹیاں ہیں، وہ جانے اُن کا کام جانے، یہ جانیں اِن کا کام، مجھے کیا۔

کریمن: کاش اللہ نے آپ کی گود بھی ہری کی ہوتی، بڑی بوا۔ میں چلی بہن، میرے کہے پر سوچنا ضرور، مرضی تو ظاہر ہے آپ کی ہے۔

بڑی بوا: میں بھی چلتی ہوں بوا!

رانی: (ٹھنڈی سانس بھر کر) خدا حافظ۔

 

چوتھا منظر

 

رانی: ایک بات کہوں جمال! کل وہ آئی تھیں، کریمن، اور بڑی بوا۔

جمال: یہ کیسے ممکن ہے؟

رانی: کیا مطلب؟

جمال: وہ دونوں اکٹھی کہیں نہیں آ جا سکتیں۔ بھئی، ان کا تو آگ اور پانی کا بیر ہے۔

رانی: وہ تو ہے! خیر۔ کریمن نے ایک بات کہی ہے، میں تو سوچ میں پڑ گئی ہوں۔

جمال: کیا کہا اس نے؟

رانی: یہ جہیز کا معاملہ کچھ ٹیڑھا نہیں ہے کیا؟

جمال: ہاں، ہے تو! مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟

رانی: میں سوچ میں پڑ گئی ہوں۔ وہ مریم کی تو ایک بیٹی ہے، جیسے تیسے جہیز دے بھی دیں گے جتنا بھی دے دیں۔ ہماری تو چار ہیں۔ آج آپ جہیز لینے پر بضد ہیں تو ہماری بیٹیوں کے سسرال بھی بضد ہو سکتے ہیں۔

جمال: بھئی یہ تو دو طرفہ کھیل ہے۔ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے۔ ہماری بہو جہیز لائے گی، تو بیٹیاں لے جائیں گی بھی۔

رانی: مہنگائی ہے کہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آج جو کچھ ایک لاکھ میں ملتا ہے، دس برس بعد کتنے میں پڑے گا؟ چار چار بیٹیوں کا جہیز بنانا کوئی کھیل ہے کیا! بارات کا کھانا الگ، اور اوپر سے یہ الٹی سیدھی رسمیں!

جمال: تو پھر ہمت کرو، مریم سے کہو ہمیں نہیں چاہئے، جہیز وغیرہ۔ ہمیں بیٹے کا گھر بسانا ہے ایک اور کباڑ خانہ نہیں بنانا۔

رانی: مگر جمال … دنیا کیا کہے گی؟ ناک کٹ جائے گی ہماری کہ کن کنگلوں کی لڑکی لائے ہیں۔

جمال: ہاں یہ بھی ہے، ایک رسم صدیوں سے چل رہی ہے، اس کو نبھانا تو ہے نا!

رانی: یہی نا! میں نہیں سمجھتی کہ کوئی اس کو روک سکے گا۔ سب دیتے ہیں، نہ دیں تو ساسیں بہوؤں کا جینا حرام کر دیتی ہیں۔

جمال: میرے ایک جاننے والے ہیں، منشی صدر الدین۔ انہوں نے تو کامیابی سے روک دیا اس رسم کو!۔

رانی: ہائیں! وہ کیسے؟یہ وہی صدر الدین ہیں؟ وہ آخری گلی کا پہلا گھر۔

جمال: ہاں ہاں بالکل وہی۔ تم جانتی ہو انہیں؟

رانی: ان کی بیگم فوت ہوئیں تو بڑی بوا کے ساتھ گئی تھی ان کے ہاں۔ سنتے ہیں بہت اچھی خاتون تھیں۔

جمال: انہوں نے نہ کسی سے جہیز لیا، نہ کسی کو دیا۔ اور بات پہلے سے صاف کر دی کہ جہیز نہ لینا ہے نہ دینا ہے۔

رانی: ان کی بیٹیوں کو طعنے تو ملتے ہوں گے۔

جمال: نہیں! بالکل نہیں۔ سب کے گھر آباد ہیں، سب راضی خوشی ہیں۔ میں نے کوئی کھچاؤ نہیں دیکھا، واللہ اَعلم۔

رانی: اچھا؟

جمال: میں ان کے ایک بیٹے سے ملا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کو مثال بنا کر اس کے چھوٹے ہم زلف نے جہیز لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے سسر کھاتے پیتے شخص تھے، بڑی بیٹی کو بیاہا تو اچھا خاصا سامان بنا کے دیا تھا مگر وہ بھی انہی کے گھر میں پڑا ہے۔ منشی جی کے بیٹے نے اپنی ساس سے کہہ دیا تھا، جہیز پر پیسے ضائع نہ کریں۔

رانی: اچھا!!!

جمال: ہاں، اور بیٹیوں کے معاملے میں منشی جی نے خود اعلان کر دیا کہ بھئی جسے برتن اور بستر چاہئیں وہ ہمارے ہاں نہ آئے۔ ہمارے ہاں وہ آئے جو ہماری بیٹی کو اپنی بیٹی بنا سکتا ہو۔

رانی: اور ان کی بیوی؟ دوسرے رشتے دار، کسی نے اعتراض نہیں کیا؟

جمال: بھئی ہمارے سامنے کی بات ہے، ہم نے ایسی کوئی بات نہیں سنی، نہ کسی اعتراض کی نہ جھگڑے کی۔

رانی: بڑے سخت ہیں، یہ منشی صدر الدین۔ ان کا مؤقف بھی کوئی رہا ہو گا؟

جمال: ہاں! کہہ سکتی ہو۔ اولادیں سب برابر ہیں، وراثت میں جو حصے مقرر ہیں وہ روکو نہیں!

رانی: اچھا!!!

جمال: اور کسی کو زائد کچھ دے سکو تو اس کی ایک حد مقرر ہے، اس سے باہر نہ نکلو۔ اب یہ کیا؟ کہ بیٹی کو وراثت سے محروم کر دیں۔ کسی نے اس کا توڑ نکالا ہو گا کہ جب بیٹی کو بیا ہو تو خاصا کچھ دے کر رخصت کرو۔

رانی: بات تو ایک ہی ہو گئی نا۔

جمال: ایک بات نہیں ہے، رانی! بیٹی کو وراثت کے حق سے محروم ہی نہ کرو، توڑ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ باپ تھوڑا چھوڑ کر مرے، زیادہ چھوڑ کر مرے، اسی میں سب کا حصہ ہے۔ امتیاز تو نہیں ہونا چاہئے نا! اور … چھوڑو، لمبی بات ہے، پھر سہی۔ اس وقت چائے پلوا دو۔

رانی: آپ کیا کہتے ہیں، بیٹا کیا کہتا ہے۔

جمال: میں نے اس سے بات نہیں کی، تم کر لینا کسی وقت۔ میرے سامنے ہو سکتا ہے وہ جھجک جائے، تم سے کھل کر بات کر لے گا۔ ماں اور باپ میں اتنا فرق تو ہوتا ہی ہے۔

 

 

پانچواں منظر

 

بڑی بوا: بہت بنے ٹھنے کھڑے ہو، منشی! کہاں کی تیاری ہے۔ کوئی نیا سسرال ڈھونڈنے چلے ہو؟

منشی جی: نیا سسرال اب کیا ڈھونڈنا! تمہارے اماں بابا زندہ ہوتے تو …….۔

بڑی بوا: ائے ہئے! منہ دیکھا ہے اپنا؟

منشی جی: بالکل تمہارے منہ جیسا ہے بوا، بس ایک داڑھی مونچھوں کا فرق ہے۔

بڑی بوا: شرم تو نہیں آتی!؟ مجھے بوا کہتے ہو، بڈھے!

منشی جی: تو کیا کہوں؟ خود ہی بتا دو، کیا کہلوانا چاہو گی۔

بڑی بوا: ویسے … تم جا کہاں رہے ہو؟ اور یہاں گھر کے باہر کیوں کھڑے ہو؟

منشی جی: بیٹے کو بلایا ہے، وہ گاڑی لے کر آتا ہو گا، اور جا رہا ہوں جمال میاں کے ہاں۔ ان کے بیٹے کا ولیمہ ہے۔

بڑی بوا: ہائیں! کب کہاں؟ … میرا مطلب ہے اس کی شادی ہو گئی؟

منشی جی: تم اتنی بھولی نہیں ہو بوا، مجھے بناؤ نہیں۔ محلے میں دو دو شادیاں ہوں اور تمہیں خبر نہ ہو! عقل نہیں مانتی۔

بڑی بوا: دو دو شادیاں؟ دوسری کس کی؟

منشی جی: قمر الدین کی بیٹی کی، اور کس کی؟ جمال کی بہو وہی تو بنی ہے۔

بڑی بوا: آئے ہائے میں مر گئی!

منشی جی: تمہیں کیا ہوا بوا؟ تم اس عمر میں اُس چھوکرے کی دلہن تو بن نہیں سکتی۔ ہاں البتہ ….

بڑی بوا: تمہارے منہ میں کیڑے پڑیں منشی! میں نے تو سنا تھا ان کے بیچ جہیز کا مسئلہ آن پڑا ہے۔

منشی جی: یہ بتاؤ، تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟

بڑی بوا: کیا بتاؤں منشی! تین دن سے بستر پر پڑی پھُنک رہی ہوں، کوئی پانی دینے والا بھی نہیں۔ اولاد میرے نصیب میں نہیں تھی۔ ہائے تم کیا جانو، منشی! یہ تنہائی اور وہ بھی اس عمر کی!

منشی جی: اسی لئے تو کہا تھا کہ تمہارے اماں بابا زندہ ہوتے تو ….

بڑی بوا: پھر وہی! تمہارا کچھ کرنا پڑے گا منشی!

منشی جی: مثلاً کیا کرنا پڑے گا؟ ہم تو راضی ہیں، ایک دَم۔

بڑی بوا: یہ بتاؤ، کہ قمر الدین نے آخر کار جہیز دینا مان لیا نا؟ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ پرکھوں کی رسم توڑنا ممکن نہیں۔ بہت باتیں بنا رہی تھی، مریم بھی اور وہ نگوڑی کریمن بھی۔

منشی جی: نہیں۔ بلکہ، جمال اور اس کی بیگم اپنے مطالبے سے دست بردار ہو گئے۔

بڑی بوا: جھوٹ بک رہے ہو منشی! میں نہیں مان سکتی۔

منشی جی: میں جھوٹ کیوں بولوں گا بوا، خود جا کر دیکھ لو، کون سا کہیں جانا ہے۔ محلے میں تمہیں کون نہیں جانتا بوا؟ اور تم کسے نہیں جانتیں۔ (گاڑی کا ہارن بجتا ہے) لو بوا، بیٹا آ گیا، میں تو چلا۔

بڑی بوا: (خود کلامی کے انداز میں) اے لو! کیا زمانہ آ گیا ہے! یہ سب اسی کلموہی کریمن کا کیا دھرا ہے۔ بڑوں کی رسموں کو روند دیا! لو، کوئی بات ہے بھلا؟ اب شادیاں جہیز کے بغیر ہونے لگیں! خبر لیتی ہوں کریمن کی ابھی! ابھی خبر لیتی ہوں۔ وہ چمرخ بھی کیا یاد کرے گی کہ بڑی بوا سے پالا پڑا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھوٹی دمڑی

 

پہلا بیان

 

قصہ گو: دوپہر ڈھل رہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں ایک نابینا فقیر کشکول سامنے رکھے چُپکا بیٹھا تھا۔ اس نے کچھ گھوڑوں کی ٹاپ سنی اور کچھ لوگوں کی آوازیں، کان ادھر لگائے ہی تھے کہ ’’چھنن ن‘‘ ایک سکہ اس کے کشکول میں گرا۔ فقیر نے اپنی بے نور آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا اور:

فقیر: (خود کلامی کے انداز میں) ’’واہ بادشاہ! ایک دمڑی دی فقیر کو اور وہ بھی کھوٹی!!‘‘۔

قصہ گو: کشکول میں دمڑی پھینکنے والا واقعی اس راجدھانی کا راجا تھا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ اندھے فقیر نے یہ کیسے جان لیا کہ میں راجا ہوں اور یہ دمڑی کھوٹی ہے۔ اس نے فقیر سے پوچھا:

راجا: ’’تو نے کیوں کر جان لیا، اندھے؟‘‘۔

فقیر: ’’ابھی تو جا، اکیلے میں بتاؤں گا‘‘۔

 

دوسرا بیان

 

قصہ گو: راجا کے حکم پر فقیر کو محل میں لے جا کر ایک کھولی میں بٹھا دیا گیا۔ راجا اپنے چوبدار کے ساتھ کھولی میں داخل ہوا اور کہا:

راجا: ’’اب بول اندھے! تو مجھے اکیلے میں کیا بتانے والا تھا‘‘۔

فقیر: ’’اپنے اس چوبدار کو چلتا کر، پھر بتاتا ہوں‘‘۔

قصہ گو: راجا کو شک گزرا کہ فقیر اندھا نہیں ہے بنا ہوا ہے۔ چپکے واپس مڑا تو فقیر بولا:

فقیر: ’’تجھے شک گزرا، نا؟ جب یقین ہو جائے تب آ جائیو‘‘۔

قصہ گو: وہ بہت تلملایا، فقیر پر ایک نگران مقرر کیا، تین چار دن تک فقیر کو نہ ملا، نہ دربار میں طلب کیا۔ اسے بتایا گیا کہ فقیر سچ مچ نابینا ہے تو وہ اکیلا کھولی میں آیا۔ فقیر نے کہا:

فقیر: ’’ سُن! کوئی فوجدار یا کوئی ریاست کا بڑا ہی ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ لاؤ لشکر اور لگامیں ہوں، سو میں جان گیا کہ تو کوئی بڑا طاقت والا ہے۔ تو نے میرے سامنے کھوڑا روکا اور سکہ کشکول میں پھینکا، سو میں جان گیا کہ تو بہت گھمنڈی بھی ہے، طاقت اور گھمنڈ آج کے بادشاہوں کا خاصہ ہے، سو میں جان گیا کہ تو بادشاہ ہے۔ میری عمر گزری ہے لوگ میرے کشکول میں سکے ڈالتے ہیں، میں سکوں کی آوازوں سے بہت کچھ جان لیتا ہوں، سو میں جان گیا کہ یہ دمڑی ہے اور وہ بھی کھوٹی۔ بس اب جا اور لوگوں کو ڈراتا رہ، کہ تجھے یہی ایک کام آتا ہے‘‘۔

راجا: ’’تُو تو اندھا ہے۔ تجھے کیسے پتہ کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں؟‘‘۔

فقیر: ’’جب تو سڑک پر رکا تھا تو سب رک گئے تھے، کسی نے ایک حرف نہیں بولا، تیرے ساتھ تیرا چوبدار تھا، سو چپ۔ مجھ پہ جو نگران تو نے رکھا، وہ جب بھی بولا، ڈرا سہما بولا۔ برتن تیرے گھر کے کھانا کسی اور کے گھر کا‘‘۔

راجا: ’’تو نے کیسے جانا؟‘‘

فقیر: ’’اب کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میں کیسے جان گیا، تو اپنے کام میں لگا رہ اور مجھے جانے دے‘‘۔

راجا: ’’اندھے! تو مجھے کام کا آدمی لگتا ہے، میں تجھ سے کوئی مشورہ مانگوں تو صحیح مشورہ دے گا؟‘‘۔

فقیر: ’’ہاں، چاہے تجھے برا لگے۔‘‘

قصہ گو: راجا نے فقیر کا پانچ روپلی مہینہ وظیفہ لگا دیا اور اس کو دربار میں بٹھایا۔ سارا دن وہ بیٹھا لوگوں کی باتیں سنتا اور رات کو کھولی میں آ جاتا۔ راجا اُس سے پوچھتا تو وہ بتا دیتا کہ فلاں نے سچ بولا، فلاں نے جھوٹ کہا۔ فقیر کی بہت باتیں سچی نکلتیں۔ راجا جس نے کبھی کسی سگے پر اعتبار نہ کیا تھا، فقیر کی بات کو جھٹک نہیں پاتا تھا، اندر ہی اندر ڈرتا بھی تھا۔

 

تیسرا بیان

 

قصہ گو: ایک دن راجا کو ایک گھوڑی پیش کی گئی، گھوڑی راجا کو بھا گئی، وہ اسے لے لینا چاہتا تھا، سوچا فقیر سے پوچھ لوں۔ بولا:

راجا: ’’اندھے! بتا میں یہ گھوڑی لے لوں کہ نہ لوں؟‘‘

فقیر: ’’مجھے گھوڑی تک لے چل‘‘۔

قصہ گو: اسے گھوڑی تک لے جایا گیا، اس نے گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور بولا:

فقیر: ’’بادشاہ! یہ گھوڑی میدان میں دغا دے گی۔ لینی ہے تو لے لے۔‘‘

راجا: ’’آنکھوں والوں کو دِکھی نہیں کیا؟ تو کہتا ہے دغا دے گی! مجھے تیری بات کا ثبوت چاہئے!‘‘۔

فقیر: ’’ایک حوض میں پانی بھر، کہ وہ گھوڑی کے پیٹ کو لگے، پھر گھوڑی کو اس میں اتار دے‘‘۔

قصہ گو: گھوڑی کو حوض میں اتارا گیا تو اُس نے پانی سے نکلنے سے انکار کر دیا۔

راجا: ’’یہ اَڑ کیوں گئی اندھے!‘‘

فقیر: ’’میں نے کہا تھا نہیں بتاؤں گا، پر چل! بتا دیتا ہوں۔ تیری طرح ناز نخرے میں پلی ہے۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا تو اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا، میدان کی ہوتی تو کھال کو چھانٹتی! اَڑے گی نہیں تو کیا کرے گی؟‘‘۔

راجا: (خوش ہو کر) ’’آدھی روپلی بڑھا دو اِس کا وظیفہ!‘‘

قصہ گو: راجا کو ایک لڑکی پسند آ گئی وہ اسے محل سرا میں لانا چاہتا تھا۔ فقیر سے پوچھا، فقیر کہنے لگا:

فقیر: ’’اُس لونڈیا سے کہہ میرے آگے سے گزر جائے۔‘‘

راجا: ’’تجھے کون سا دِکھتا ہے، اندھے! کہ تو دیکھ کے بتائے گا۔‘‘

فقیر: ’’جو میں نے کہا وہ کر، نہیں تو جا اپنی مرضی کر‘‘۔

قصہ گو: لڑکی کو فقیر کے آگے سے گزارا گیا۔ لڑکی چلی گئی تو فقیر نے بتایا:

فقیر: ’’یہ ڈومنی کی چھوکری ہے، ساری عمر کوٹھے پہ گزری ہے اس کی، چاہے تو بیاہ لے چاہے تو ویسے رکھ لے، یہ کچھ برا نہیں منائے گی‘‘۔

قصہ گو: راجا نے لڑکی کو آزمایا تو وہ سو جان سے قربان ہونے پہ تیار۔ تحقیق کرائی پتہ چلا، فقیر نے جو بتایا وہ سب سچ تھا۔ راجا نے پوچھا:

راجا: ’’تو کن لوگوں کے پیچھے پھرتا ہے اندھے! تو پہلے سے اس لڑکی کو جانتا تھا؟ پر نہیں تو کیسے جان سکتا ہے۔ پر یہ تو نے کیسے جانا کہ وہ ڈومنی کی بیٹی ہے؟‘‘

فقیر: ’’اب ایک آخری سوال رہ گیا ہے، جو تو مجھ سے پوچھے گا، اس لئے بتا دیتا ہوں۔ کہ وہ لونڈیا زمین پر ایڑی مار کے چلتی ہے، ساری عمر کے ناچ کی لت کہاں جائے گی‘‘۔

قصہ گو: راجا نے اس کا وظیفہ آدھی روپلی اور بڑھا دیا۔ وہ فقیر سے سچ مچ خوف زدہ رہنے لگا تھا۔

 

 

چوتھا بیان

 

قصہ گو: فقیر بہت کچھ بھانپ چکا تھا، ایک دن اس نے راجا سے کہا:

فقیر: ’’بادشاہ میں ایک بات کہتا ہوں پر مجھے پتہ ہے تو مانے گا نہیں۔‘‘

راجا: ’’بول‘‘

فقیر: ’’مجھے جانے دے نہیں تو تُو میری جان کو آ جائے گا اور میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔

قصہ گو: راجا گھمنڈ سے ہنسا اور کہا:

راجا: ’’تو نے ٹھیک کہا اندھے! تو آنکھ کا اندھا ہے پر تیری عقل کام کرتی ہے۔ میں نے تیری یہ بات نہیں مانی! تو یہیں رہے گا، اور بھاگنے کی سوچے گا تو مارا جائے گا۔‘‘

فقیر: ’’یہی تو میں نے کہا کہ میں تو بھاگ کے بھی کہیں نہیں جا سکتا‘‘۔

قصہ گو: قسمت کا لکھا ہو کے رہتا ہے۔ ایک دن راجا کو سوچ آئی کہ میرا باپ کون تھا۔ اُس نے فقیر سے پوچھا:

راجا: ’’میری حقیقت کیا ہے‘‘۔

قصہ گو: فقیر ذرا دیر کو چپ رہا، پھر بولا:

فقیر: ’’یہی سوال ہے جس کا مجھے ڈر تھا۔ خیر، میں تجھے بتاؤں گا ضرور، پر میری ایک شرط ہے۔ مجھے اُسی ٹاہلی کے نیچے لے چل، اور صرف تو میرے ساتھ جائے گا‘‘۔

قصہ گو: راجا کو مانتے ہی بنی۔ دوپہر ڈھل رہی تھی جب وہ ٹاہلی کے نیچے پہنچے۔ فقیر نے راجا کو سائے میں بیٹھنے کو کہا، اور خود ذرا ہٹ کے اپنے گرد حصار کھینچ لیا۔ پھر بولا:

فقیر: ’’میں جو کہوں گا، اُسے سن کے تو باؤلا ہو جائے گا، اس لئے میں نے اپنے گرد حصار کھینچا ہے۔ اس میں گھسنے کی کوشش نہ کرنا نہیں تو بھسم ہو جائے گا۔‘‘

راجا: ’’زیادہ بَڑ بَڑ نہ کر اندھے! مجھے بتا میرا باپ کون تھا‘‘۔

فقیر: ’’تو کسی چمار کا بیٹا ہے جو تیرے ظاہری باپ کا نمک خوار تھا۔ اب جا! پڑتال کر لے‘‘۔

قصہ گو: راجا غصے سے حصار کی طرف بڑھا مگر ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اور وہاں سے جاتے ہوئے کہنے لگا:

راجا: ’’تو نے جو کہا، جھوٹ نکلا تو جان کہ تو مارا گیا، اور سچ نکلا تو بھی مارا گیا‘‘۔

فقیر: ’’یہ تو میں جان گیا تھا کہ تو میری جان کو آئے گا، پر یہ کوئی نہیں جانتا کہ تو مجھ پر قابو بھی پا سکے گا کہ نہیں۔ اب جا!!‘‘۔

 

 

پانچواں بیان

 

قصہ گو: راجا نموشی کا بار کاندھوں پہ دھرے محل کو پلٹا اور اپنی ماں کی کوٹھڑی میں جا گھسا۔ پہلے تو اپنی ماں کو خوب مارا پیٹا، وہ دہائی دیتی رہی پر کون ہوتا جو راجا کے منہ لگتا۔ ماں ادھ موئی ہو کے گری پڑی تھی تب اُس نے پوچھا: ’’بول میرا باپ کون تھا‘‘۔ بڑھیا جان گئی تھی کہ اب کچھ چھپائے نہ چھپے گا۔ بولی: تو مَوجُو چمار کا بیج ہے جو مہاراجا کے زمانے میں اصطبل اور محل سرا کی صفائی کا نگران تھا۔ ایک بار مہاراجا جو شکار کو نکلا تو کئی دن لوٹ کے نہیں دیا۔ اُس پیچھے کچھ ایسا ہو گیا کہ موجو چمار کا۔۔‘‘۔ راجا اس سے آگے کچھ نہ سن سکا۔ اُس نے تلوار کے ایک ہی وار میں اپنی ماں کی گردن اڑا دی اور لہو سے لتھڑی تلوار لئے آندھی طوفان کی طرح ٹاہلی تک جا پہنچا۔ فقیر ابھی تک حصار میں بیٹھا تھا، راجا نے اسی تلوار کا وار کیا۔ تلوار حصار کے اندر نہیں گئی، ٹنن کی آواز سے واپس پلٹ آئی۔ راجا جھاگ اگل رہا تھا:

راجا: ’’میں اُس کو مار کے آیا ہوں، اب تو مرے گا!‘‘

فقیر: ’’وہ عورت تیری ماں تھی اور تو خود اس کا پاپ! ارے پاپ نے پاپن کو مارا تو کیا مارا!‘‘

قصہ گو: راجا جان گیا تھا کہ وہ فقیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہیں ڈھے گیا۔

راجا: (ہارے ہوئے لہجے میں) ’’اب تو بتا دے کہ تو نے کیسے جان لیا؟‘‘

فقیر: ’’ایک: تیرا وہ دان ایک کھوٹی دمڑی کا ایک اندھے فقیر کو، اور وہ بھی بڑے گھمنڈ سے،

دوجا: تیرا ہر بات پر مجھے اَندھا کہہ کے بلانا،

تیجا: تیرے لوگوں کا تجھ سے ڈرنا اور تیرا اُن پر اعتبار نہ کرنا،

چوتھا: تیرا خوش ہونے پر بجائے کوئی دھن دان کرنے کے وظیفہ بڑھانا، اور وہ بھی آدھی روپلی،

پانچواں: تجھے گھوڑی گدھی کی پہچان نہ ہونا،

چھٹا: بادشاہ ہو کے ڈومنیوں سے پیچ لگانا، اور

ساتواں: ایسی بات سوچنا جو کوئی سپوت سوچے تو اپنی سوچ سے مر جائے۔

یہ سارا کچھ کسی بادشاہ کا پوت نہیں کر سکتا۔ اور اُس کا ثبوت ہے تیرا اپنی ماں پر ہاتھ اٹھانا اور پھر اُس کو جان سے مار دینا جس نے تجھ حرامی کو اپنے لہو اور دودھ سے پالا۔ اب یہ کشکول تو لے لے کہ تو مجھ سے بڑھ کے ناچار ہے‘‘۔

قصہ گو: راجا تو جیسے زمین میں گڑ گیا ہو، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، ٹھوڈی سینے سے لگ گئی تھی۔ کتنے جتن سے اُس نے سر اٹھایا تو دیکھا، فقیر وہاں نہیں تھا، حصار سے باہر کشکول پڑا تھا، جس میں ایک دمڑی رکھی تھی، وہ بھی کھوٹی۔

 

چھٹا بیان

 

قصہ گو: سنا ہے اسی ٹاہلی کے نیچے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ہے، ہٹا کٹا، دیکھتا بھالتا، ہر ایک سے ایک کھوٹی دمڑی کا سوال کیا کرتا ہے۔ کوئی دے دے تو اس کی طرف گھورتا ہے، نہ دے تو اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے اور اپنی زنگ بھری اسی تلوار سے زمین پر وار کرنے لگتا ہے جس کی دھار نے اس کی ماں کا لہو پیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

صاعقہ

(عائلی زندگی کا رنگ)

 

منظر

 

میاں بیوی دونوں لاؤنج میں بیٹھے ہیں۔ جواد ایک مجلے کی ورق گردانی کر رہا ہے، صاعقہ اپنے سمارٹ فون سے کھیل رہی ہے۔

صاعقہ: کیا پڑھ رہے ہو؟

جواد: کچھ نہیں، ایسے ہی بس ورق گردانی کر رہا ہوں، میگزین کی۔ تم کیا کر رہی ہو۔

صاعقہ: ’’ کیا کر رہی ہو، کہاں جا رہی ہو، کون آ رہا ہے‘‘…. میں کہتی ہوں، جواد! یہ کیا طریقہ ہے؟ میں کوئی سکول گرل نہیں ہوں جو تم ہر لمحے میرے ٹیوٹر بنے رہو۔ اور سنو! یہ ٹوہ لگانے والی عادت بہت بری ہے تمہاری! زہر لگتے ہو کبھی کبھی۔ ہر وقت سوال، ہر وقت ٹوکنا، اور مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیتے! بات کرتی ہوں تو سنتے نہیں ہو، یا پھر ان سنی کر دیتے ہو۔ میں کہتی ہوں میں تمہاری بیگم ہوں یا … (جواد اس کی بات کاٹ دیتا ہے)

جواد: وہ طفیل کہاں ہے۔

صاعقہ: مر گیا ہو گا کہیں! … یہ گلی کی نکڑ تک بھیجا تھا، ہری مرچ لانے کو، گھنٹا بھر ہو گیا! …جہاں جاتا ہے بیٹھ جاتا ہے، نکما! … اے میں کہتی ہوں جواد! تم نے سر چڑھا رکھا ہے اسے! میں تو اسے کب کا چلتا کر چکی ہوتی! نکمے لوگ، سمجھتے ہیں گھریلو ملازموں کا کال پڑا ہے؟ ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں! تمہیں پتہ نہیں اُس میں کیا دکھائی دے گیا جو اُس کو اٹھا لائے! … جواد! … جواد! … میں تم سے بات کر رہی ہوں، بولتے نہیں ہو۔ … اپنے لاڈلے طفیل صاحب کا کام بھی خود ہی کر لیا کرو، … اسے کیوں رکھا ہے روٹیاں توڑنے کو؟ … پر، تم سے کیا ہو گا! نہیں تو اس طفیلے کو کیوں لاتے! سارا ہفتہ شام تک دفتر میں پڑے رہتے ہو اور … چھٹی کے دن بھی، اول تو کہیں باہر گئے ہوتے ہو، نہ بھی گئے ہو تو پلندوں کے پلندے گھر پر اٹھا لاتے ہو… اے، میں کہتی ہوں: کمپنی کا سارا کام کیا تمہارے کندھوں پر ہے؟ … کچھ پھوٹو گے بھی منہ سے؟ … میں پاگل ہوں کیا! باؤلی ہو گئی ہوں؟ جو خود سے باتیں کر رہی ہوں۔ (جواد سے مجلہ جھپٹ لیتی ہے)

جواد: آپ کا یہ خادم آپ کے خاموش ہو جانے کا منتظر تھا۔ فرمائیے!

صاعقہ: آئے ہائے! (جواد کی نقل اتارتی ہے) ’’فرمائیے‘‘ … تم مردوں میں یہی ایک تو خوبی ہے! … میرا سر دکھنے لگا ہے بول بول کے، … اور تم نے ایک لفظ بھی نہیں سنا! تم مجھے پاگل کر دو گے جواد! … بلکہ کر کیا دو گے کر دیا ہے! پاگل بنا رکھا ہے مجھے! … ہائے میرا سر! وہ کمینی بھی نہیں آئی آج، حرام خور کہیں کی۔ … نواب زادی نے گھر سے پیغام بھیج دیا کہ بیٹا بیمار ہو گیا ہے۔ … اے لو! تو بھئی ہم نے تو بیمار نہیں کیا اُس کو۔ آ کے ناشتہ وغیرہ بنا کے دے جاتی، تو کیا ہو جاتا! اب کل منہ بسورتی آئے گی، ٹسوے بہائے گی: … ’’بیگم صاحبہ دو سو روپے اٹھ گئے بیٹے کی دوائی پر، مجھے کچھ پیسے دے دیں، تنخواہ سے کاٹ لیجئے گا‘‘۔ … اے میں کہتی ہوں: ہم نے یتیم خانہ کھول رکھا ہے کیا؟ … میرا سر پھٹ رہا ہے جواد، اور تم پتھر کی طرح چپ بیٹھے ہو!

جواد: طفیل آتا ہے تو اس کے ہاتھ سردرد کی گولی منگوا لینا۔ تمہاری نان سٹاپ تقریر سے سردرد تو مجھے ہونا چاہئے تھا۔ ہو سکے تو کچھ دیر خاموش رہ لو، تھوڑا سا سکون مل جائے گا۔

صاعقہ: وہ تمہارا لاڈلا طفیلی کیڑا واپس آئے گا تب نا! تم جا کے کیوں نہیں لا دیتے سردرد کی دوا؟

جواد: یہ بھی ٹھیک ہے! اچھا میں لاتا ہوں دوائی، کچھ اور بھی منگانا ہے تو بتا دو، لیتا آؤں گا۔

صاعقہ: میں نے لسٹ نہیں بنا کے رکھی ہوئی! … دوائی لا دو، ڈاکٹر کا نسخہ میری دراز میں رکھا ہے، وہ ساتھ لیتے جانا … نہیں تو خالی ہاتھ لوٹ آؤ گے کہ دوائی کون سی لانی تھی … اے! یہ تم نے کہا کیا تھا؟ تھوڑا سا سکون مل جائے گا؟ کسے مل جائے گا سکون؟

جواد: دونوں کی بات کی ہے۔

صاعقہ: آئے ہائے جواد! مجھے سردرد کہتے ہو تم؟ … جواد! تم؟ بھول گئے اتنی جلدی؟ … ابھی تو بیس سال بھی نہیں ہوئے! میری ایک ایک ادا پر مرتے تھے تم! ڈرامے باز کہیں کے! ہر وقت ’’صاعقہ صاعقہ صاعقہ‘‘ … ( کچن میں کھٹ پٹ کی آواز آتی ہے، وہ بلند آواز میں پوچھتی ہے) … کون ہے ادھر

طفیل: (کچن ہی سے) میں ہوں بی بی جی! ہری مرچ یہاں رکھ دی ہے، ادرک بھی لے آیا ہوں، بریانی مسالہ بھی، مکھن کی ٹکیاں اور …

صاعقہ: (مزید بلند آواز میں) ادھر تو آؤ! احمق کہیں کے! (طفیل کے آتے قدموں کی چاپ)

طفیل: جی، جی بی بی جی۔

صاعقہ: میں نے تجھے ایک ہری مرچ لانے کو کہا تھا، تو اتنی ساری چیزیں اٹھا لایا! مفت میں بٹ رہی تھیں کیا!!؟

طفیل: (گھبرائے ہوئے لہجے میں) وہ جی۔ وہ، وہ، کچن میں یہ چیزیں نہیں تھیں جی۔ میں نے سوچا …

جواد: (بات کاٹتے ہوئے) طفیل! بیکری تک جاؤ ذرا، چار پانچ دوستوں کے لئے چائے کا سامان لانا ہے۔ یہ لو پیسے۔

طفیل: جی صاحب جی

جواد: نہیں! چائے نہیں، چائے بنانی پڑے گی۔ … کولڈ ڈرنک کا کر لینا، اوکے؟

طفیل: جی صاحب جی۔ (طفیل کے جاتے قدموں کی چاپ)

صاعقہ: میں یوں ہی نہیں کہتی جواد! تم نے اس کو ہزار کا نوٹ تھما دیا، بتایا کچھ بھی نہیں۔ پتہ نہیں کیا الا بلا اٹھا لائے گا، اور تم اسے پھر بھی شاباش دو گے۔ سر چڑھا رکھا ہے تم نے! میں کہتی ہوں کیوں منہ لگاتے ہو، اِن کو؟

جواد: (تلخی کے ساتھ) سنو صاعقہ بیگم! ہر وقت کڑکتی رہتی ہو، اپنے نام کی طرح۔ تمہیں پتہ ہے بجلی دور کڑک چمک رہی ہو تو اچھی لگتی ہے، میں وہ کہتا پھرتا تھا: ’’صاعقہ صاعقہ صاعقہ‘‘۔ اب جو ہمہ وقت عین میرے سر پر کڑکتی ہو، نا! تو …

صاعقہ: (تقریباً چیختے ہوئے) کیا، کیا، کیا، کیا! یہ تم ہو جواد؟ جواد یہ تم ہو؟!۔ یہ تم کہہ رہے ہو؟ … (جواد کے موبائیل فون پر کال آ جاتی ہے)

جواد: ہاں بھئی خواجے … ہاں، میں گھر پر ہوں … آ جاؤ یار، بس، اور کیا ہے! کون کون ہے تمہارے ساتھ؟ … انہیں بھی ساتھ لے آؤ، کوئی حرج نہیں، اگر وہ خود بور نہ ہوں تو … کس کی مہربانی؟ شٹ اپ خواجہ! … تم جانتے ہو یہ فارمل انداز مجھے اچھا نہیں لگتا، کم آن! …مجھے کہیں نہیں جانا، یار! … او کے۔

صاعقہ: کون آ رہا ہے؟ … وہی ہوں گے، ایک وہ کسی مَشروم اخبار کا ایڈیٹر، … ایک وہ نقاد کیا نام ہے اس کا، … اور، وہ کون ہے وہ؟ وہی جس کو ہنسنے کا بھی سلیقہ نہیں آتا (طنزیہ ہنسی ہنستی ہے) اور وہ ہو گا، تمہارا طوفان آبادی پاگل خانہ، اور … پتہ نہیں کون سارے نکمے اکٹھے ہو کر آ جاتے ہیں، تمہارے پاس۔

جواد: میرے دوستوں کا مذاق اڑا کر ہی سہی، شکر ہے تم ہنسی تو ہو!۔ (ہلکا سا قہقہہ لگاتا ہے) اپنے ویک اینڈ بھی کیا ہوتے ہیں، بجلی بیگم!

صاعقہ: ہو جاؤ شروع! … میں کہتی ہوں تم نے بیوی کی قدر کرنا سیکھا ہی نہیں! نام میرا تم نے بگاڑ دیا، بچے نہ ہوتے تو میں ٹھینگا دکھا جاتی تمہیں، … نکمے ہو تم! صرف باتیں بنانا جانتے ہو، اور کہتے مجھے ہو کہ بولتی بہت ہے۔ … میں شور نہ مچاؤں تو اس گھر کے کمروں میں گھاس اُگ آئے!… میں مر گئی نا، تو چل پتہ جائے گا سکون کہتے کسے ہیں۔ … پتہ نہیں امی کو تم میں کیا دکھائی دے گیا کہ تم پر صدقے واری گئیں اور مجھے تمہارے پلے باندھ دیا …(چونک کر) ارے! جواد! بچوں کو تو لے آؤ! امی کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ بلکہ چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔

جواد: (سرد لہجے میں) میرے دوست آ رہے ہیں، بھائی کو فون کر دو چھوڑ جائے۔

صاعقہ: بس!؟ چل گیا نا پتہ! تمہارے دوست آ رہے ہیں۔ سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ میرے ساتھ جانا تمہیں اچھا نہیں لگتا۔ … تم، تم جواد! ابھی تو میں کہتی کچھ نہیں، نہیں تو سمجھ آ جائے تمہیں! میری خاموشی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو تم۔ (طفیل کے آتے قدموں کی چاپ)

طفیل: صاحب جی! بڑی میز پر لگا دوں یا بیٹھک میں؟

جواد: ڈرائنگ روم میں لگا دو یار، تکلفات میں کیا پڑنا۔

صاعقہ: (طفیل سے) اے نکمے! آ گیا ہے تو پورا دن گزار کر۔ جہاں جاتا ہے مر جاتا ہے جا کر۔ .. . میں تمہاری چھٹی کرا دوں گی، بس یہ مہینہ پورا کر لو … (چونک کر) اے! سنو!

طفیل: جی بی بی جی

صاعقہ: وہ کام والی بھی آج مری ہوئی ہے، تمہاری طرح۔ … جلدی جلدی ڈش واشنگ کر دو، اور ہاں! برتنوں میں صابن رہ گیا تو میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گی۔ … اور وہ تم نے دیکھا تھا؟ مسالے وغیرہ کچھ ختم ہو رہے تھے، وہ بھی لانے ہیں، … اے! میں ہی بتاؤں گی سارا کچھ کیا!؟ تمہاری آنکھیں نہیں ہیں؟ خالی ٹین کے ڈبے ہو تم؟

طفیل: جی بی بی جی، وہ تو میں لے آیا تھا۔ اور آپ نے ……

صاعقہ: (ہنستے ہوئے) اچھا، اچھا! بہت سیانے ہو تم! اب زیادہ باتیں نہ بناؤ۔

(سب اکٹھے ہنستے ہیں)       ٭٭٭

 

 

 

ماں اور ماں

(ماں کے دو رُوپ)

 

 

بیوی: عورت کو عزت وہی مرد دے سکتا ہے، جس کی تربیت اچھی ہوئی ہو۔

میاں: بہت خوب! درست کہہ رہی ہیں آپ! اور یہ کام آپ کے کرنے کا ہے۔

بیوی: وہ کیسے؟ باپ تم ہو، میں نہیں۔

میاں: آپ ماں ہیں! اپنے بیٹوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کیجئے نا، تا کہ آپ کی بہوئیں عزت پا سکیں۔

بیوی: آئے ہائے! پتہ نہیں کون کون سی نگوڑی کہاں کہاں سے میرے بچوں کے پلے پڑیں گی! میں ان کے لئے ہلکان ہوتی رہوں کیا؟

میاں: یقین کیجئے میری اماں نے ایسے نہیں سوچا تھا جیسے آپ سوچ رہی ہیں۔

بیوی: تو کیسے سوچا تھا تمہاری اماں نے! مجھے اس سے کیا! مجھے تو اپنے بیٹوں کو سردار بنانا ہے۔

میاں: اور بہوؤں کو؟ سردارنیاں؟

بیوی: میری جوتی! میں لونڈیوں کو سردارنیاں بناؤں گی، بھلا؟ تم الٹا سوچ رہے ہو۔

میاں: آپ میں اور آپ کی سمدھن میں کچھ فرق نہیں ہے۔ وہ بھی ہماری بیٹی کو لونڈی ہی سمجھتی ہیں۔

بیوی: میں میں میں منہ نوچ لوں گی اُس کلموہی کا، میری بیٹی کو لونڈی بنائے گی وہ؟ میری بیٹی کو تو رانی بننا ہے، رانی! دیکھنا تم۔

میاں: آپ کے منہ میں گھی شکر، مگر ایسا ہو گا تبھی اگر انہوں نے بھی اپنے بیٹے کی تربیت اچھی کی ہو گی۔

بیوی: ہاں، نا! یہی تو میں کہتی ہوں، اب اس نکمے کی تربیت اچھی نہ ہوئی ہو تو؟ پتہ نہیں!

میاں: آپ تو اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں نا!

بیوی: پھر وہی! تمہیں ان پھاپھے کٹنیوں کا غم لگا ہوا ہے جو ابھی آئی بھی نہیں ہیں، اور میری بیٹی، میری شہزادی، میری ملکہ۔ تم نہیں سمجھ سکو گے، تم نے عورت کی قدر ہی کب جانی ہے! اب میری بیٹی پر آئی ہے تو تم بھی مجھے ہی جلی کٹی سنا رہے ہو۔

میاں: میں نے تو سب بیٹیوں کی بات کی ہے۔ اس بیٹی کی بھی جسے آپ نے جنا اور ان بیٹیوں کی بھی جنہیں چنیں گی اور وہ آپ کے پوتوں پوتیوں کو جنیں گی۔

بیوی: پتہ ہے؟ میرے پوتے پوتیاں فرشتے ہوں گے سب شہزادے اور شہزادیاں!

میاں: نگوڑیوں اور پھاپھے کٹنیوں کی اولادیں اور ہوں فرشتے حوریں شہزادے شہزادیاں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟

بیوی: اے، تم نے مجھے نگوڑی کہا؟ مجھے پھاپھے کٹنی کہا؟

میاں: نہ، نہ، نہ! میں نے بھی انہی کو کہا جنہیں آپ نے کہا۔ آپ یہ تو چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی جو کل پرائی ہونے والی ہے، وہ رانی بنے، اور وہ بیٹیاں جن کے ساتھ آپ کو ساری عمر رہنا ہے وہ نگوڑیاں پھاپھے کٹنیاں سب لونڈیاں بنی رہیں؟ اپنی اور اپنی سمدھنوں کی آرزوؤں کو متوازی نہیں برابر رکھ کر دیکھئے۔ اور ہاں! لونڈیوں کی گود میں شہزادے نہیں پلا کرتے! کیا فرماتی ہیں آپ؟

بیوی: پتہ نہیں کیا کہہ رہے ہو! تم نے مجھے چکرا کر رکھ دیا ہے۔

میاں: آپ درست نہیں کہہ رہیں، میں تو آپ کو چکر میں پڑنے سے بچانے کی بات کر رہا ہوں، کہ میری اماں نے مجھے یہی سکھایا تھا کہ بیٹا تمہاری بیوی تمہاری اولاد کی ماں ہے اور اولاد کی تربیت ماں کرتی ہے! آپ اپنے بیٹوں کو یہ سبق نہیں دیں گی کیا؟

بیوی: ہاں مگر وہ کلموہی میری رانی کی ساس!

میاں: اس کی آپ فکر مت کیجئے، اگر وہ یہ چاہتی ہے کہ جیسی عزت اسے ملی ہے اس سے اچھی اس کی بیٹی کو ملے تو وہ اپنے بیٹے کو غلط کچھ نہیں سکھائے گی۔

بیوی: تمہیں اس پر اتنا اعتماد ہے؟ اور مجھ پر نہیں؟

میاں: آپ پر تو ہے ہی! ساری عمر یوں ہی تو ساتھ نہیں بِتا دی۔ اور ان پر بھی ہے، کہ وہ بھی اپنے پوتوں پوتیوں کو فرشتے حوریں شہزادے شہزادیاں دیکھنا چاہتی ہیں۔ جیسے آپ چاہتی ہیں۔

بیوی: میں کیا کروں پھر؟ تم ہی بتاؤ۔

میاں: کچھ نہیں جتنا پیار ایک نانی کے روپ میں بانٹنا چاہتی ہیں آپ، اتنا ہی ایک دادی کے روپ میں بھی بانٹئے۔ شہزادہ شہزادی کوئی بھی ہو، اس کی ماں ملکہ ہوتی ہے۔ ملکہ کو ملکہ مانئے، لونڈی نہ بنائیے۔

بیوی: اے، میں کب بناتی ہوں وہ تو۔

میاں: سنئے میری اچھی بیگم! داماد وہ بیٹا ہوتا ہے جس کو آپ کی بیٹی آپ کا بیٹا بناتی ہے اور بہو وہ بیٹی ہوتی ہے جس کو آپ کا بیٹا آپ کی بیٹی بناتا ہے۔ مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ خود کو دونوں جگہ ماں کے مقام کی اہل ثابت کریں۔

بیوی: ارے، میں نے ایسے سوچا ہی نہیں تھا! یعنی میں اچھی ماں نہیں ہوں؟

میاں: آپ اچھی ماں ہیں! یقیناً بہت اچھی ماں ہیں، ایک ذرا سی چوک یہ ہو رہی تھی کہ آپ نے ماں کے اندر ایک ساس پیدا کر لی تھی۔ ہوتی ساس بھی ماں ہے، ہے نا؟

بیوی: ٹھیک کہہ رہے ہو۔ عورت کو عزت وہ مرد دیتا ہے جس کی تربیت اچھی ہوئی ہو اور تربیت اس کی اچھی ہوتی ہے جس کی ماں اچھی ہو۔

٭٭٭

 

 

 

ناراض ہوائیں

 

پہلا منظر

 

فصلوں اور درختوں سے گزرتی تیز ہوا کی سیٹیاں، بھینسوں کے ڈکرانے اور بکریوں کے ممیانے کی ملی جلی آوازیں جو کبھی بلند ہو جاتی ہیں اور کبھی مدھم، ایک عمر رسیدہ شخص کے کھانسنے کی آواز۔

پہلا لڑکا: دھوپ آ گئی ہے یار، اس ککری کا سایہ بھی تو اتنا سا ہے۔

دوسرا لڑکا: تھوڑا سا ادھر کھسک جاتے ہیں۔

پہلا لڑکا: چل یار، چال چل، چھوڑ چھاؤں کو! تو جل نہیں جائے گا۔

دوسرا لڑکا: یہ لے حکم کید کی! (پتہ پھینکنے کی آواز) اب تیری باری ہے۔

پہلا لڑکا: اے! یہ لے پھر! رَنگ!

پہلا لڑکا: وہ، اُدھر دیکھو اوئے، وہ ڈنگوری والا بابا۔۔ ۔۔

دوسرا لڑکا: وہ جو کھیت سے نکلا ہے، وہ چاچا رفیق ہے۔

پہلا لڑکا: اوئے پتے سمیٹ اوئے، چاچا کیا کہے گا، تاش کھیل رہے ہیں۔

چاچا رفیق کے کھانسنے کی آواز

دوسرا لڑکا: سلام! چاچا!

چاچا رفیق: وعلیکم السلام! کیسے ہو بھئی؟ کیا ہو رہا ہے؟

پہلا لڑکا: کچھ نہیں چاچا، بیٹھے ہیں گپ لگ رہی ہے۔

چاچا رفیق: اچھا ہے! مل جل کر رہا کرو بچو! اور بڑوں سے دعائیں لیا کرو۔

ہولے ہولے دور جاتے قدموں کی تھپ تھپ

 

دوسرا منظر

 

چاچا رفیق: (خود کلامی کے انداز میں) مٹی، گَرد! یہ سڑک، یہ سڑک بھی تو اب گرد کی پٹی لگتی ہے (کھانستا ہے) چوتھا برس لگ گیا، شمو کو بیوہ ہوئے! اب تک نہیں سنبھل پائی میری بچی۔ اس کی زندگی میں صرف وہی ہفتہ دس دن تھے خوشیوں کے؟ اللہ! وہ دونوں کتنے خوش تھے! مگر، یہ سُوکھا! یہ سُوکھا نہ پڑتا تو شاید سرفراز نہ مرتا۔ پر کیسے نہ جاتا وہ، وہ شمو پُتر کے ترلے، یوں ہی بس! میں نے سن لئے تھے۔ (ٹھنڈی سانس لیتا ہے) ہاں! سننا پڑتا ہے، دیکھنا پڑتا ہے، سہنا پڑتا ہے۔

گھڑی کی ٹِک ٹِک کی آواز

فلیش بیک

شمو: دیکھ سرفراز! مجھے ڈر لگتا ہے، نہ جا! جانا ہی ہے تو مجھے بھی ساتھ لے جا۔ بہت وسوسے بھرے ہیں میرے دل میں! سرفو! تو نہ جا! ہم فاقے کر لیں گے مگر۔۔ ۔ میرے ہاتھوں کو دیکھ سرفو!

سرفراز: کیا ہوا ہے تیرے ہاتھوں کو؟ اچھے بھلے تو ہیں! اور یہ مہندی!۔۔ ۔

شمو: تیرے لئے لگائی تھی سکھیوں نے، ڈولی والے دن! تجھے پسند آئی نا، تو اس کی لشک بڑھ گئی۔ تو کیوں جاتا ہے سرفراز مجھے اکیلی چھوڑ جائے گا۔ (لوچ دار آواز میں) ابھی تو دس دن بھی نہیں ہوئے۔

سرفراز: (ٹھہرے ہوئے لہجے میں) بانْوری ہو رہی ہو شمو! جانے کو کس کٹھور کا جی چاہتا ہے پر مجھے جانا ہے۔ یہاں تو کھیتوں میں فصلیں نہیں دھول اگتی ہے۔ شہر جاتا ہوں، کچھ دال روٹی کا بھی تو کرنا ہے! تو میرے ساتھ جائے گی، ہاں!

شمو: (مسرت آمیز حیرت کے ساتھ) سچی!؟ سچی، سرفراز! تو مجھے ساتھ لے جائے گا؟ (بے تابی کے ساتھ) کب جانا ہے؟ میں تیار ہو جاؤں؟ پر، سرفو! اماں اور ابا؟ وہ اُن کو روٹی کون پکا کے دے گا؟ کپڑے کون دھوئے گا۔

سرفراز: کل جانا ہے۔ تو اس طرح کر! آدھی میرے ساتھ چل اور آدھی یہاں رہ، اماں بابا کو بھی تو تیری ضرورت ہے۔

شمو: کیا؟! میں نہیں سمجھی تو کیا بجھارت ڈال رہا ہے۔

سرفراز: سیدھی سی بات ہے جھلئے! تیرا دل میرے ساتھ اور تو؟ اماں بابا کے ساتھ۔ یہاں تو اب مزدوری بھی نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے نا، اس پاپی پیٹ کے لئے! یوں سمجھ کہ آج بارش ہوئی اور کل میں آیا۔

شمو: پر کون جانے بارش کب ہو گی! اور ہو گی بھی کہ نہیں ہو گی (ٹھنڈی سانس بھرتی ہے)۔

سرفراز: ہَوکے کیوں بھر رہی ہے شمو! لا، ذرا اپنے ہاتھ تو مجھے دے۔

شمو: (محبت اور شکایت کے ملے جلے لہجے میں) کیا کرتا ہے! چھوڑ مجھے! کوئی دیکھ لے گا، کوئی سن لے گا، نہ کر!۔ (دونوں ہنستے ہیں پس منظر میں گھنٹیوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں اور ہنسی ان میں تحلیل ہو جاتی ہے۔)

فلیش فارورڈ

گھڑی کی ٹِک ٹِک کی آواز

چاچا رفیق: (خود کلامی کا سلسلہ جاری رہتا ہے) اور وہ چلا گیا۔ مگر اگلے ہی دن لوٹ آیا، ایک کٹی پھٹی لاش کی صورت میں! سڑک پر کام کرتے میں کوئی ٹرک اس کو کچل گیا تھا۔ (رونے پیٹنے اور بَین کرنے کی آوازیں جیسے کہیں دور سے آ رہی ہوں، چاچا رفیق کی آوازوں کو دبا دیتی ہیں اور پھر مدھم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہیں۔ چاچا کی خود کلامی جاری رہتی ہے) پھر میری بچی کو چپ لگ گئی تھی۔

 

تیسرا منظر

 

رات کی خاموشی، جھینگروں کی آوازیں مسلسل آ رہی ہیں، بیچ میں کہیں کہیں کسی ڈھور ڈنگر کے گلے میں بندھی گھنٹی کی ہلکی سی آواز آتی ہے یا پھر کسی الو کی گمبھیر ’’اُوووو‘‘ اور پھر جھینگروں کی آوازیں۔

جنتے: یہ روتی کیوں نہیں ہے! شمو کے ابا، اِس کو رلا! جیسے بھی رلا سکتا ہے! مجھ سے اس کی چُپ نہیں سہی جاتی۔ دل پھٹ جائے گا اس کا نہیں روئے گی تو۔

چاچا رفیق: ٹھیک کہتی ہے تو، پر تو اس کی ماں ہے، جنتے! ماں سے بہتر کون جان سکتا ہے بیٹی کو! بیٹا ہوتا تو۔۔ (ٹھنڈی سانس بھرتا ہے)۔ دَس دِن کا سہاگ اور پھر بیوہ! تجھے پتہ ہے نا! یہ تین برس، مجھے تیس برس اور بوڑھا کر گئے ہیں۔

جنتے: بارش بھی تو نہیں ہو رہی۔ شاید! مینہ برسے تو اس کی چپ ٹوٹ جائے۔

(تیز ہوا کی سیٹیاں سی بجتی ہیں اور اور دور کہیں بادل گرجنے کی آواز آتی ہے)

شمو: اماں! اماں! بادل گرجنے کی آواز! سنی تو نے! وہ، وہ آتا ہو گا! اماں میرے کپڑوں کا رنگ کیسا ہے اماں!

جنتے: سُوہا رنگ ہے بیٹی! مہندی سے بھی گاڑھا، جیسا سرخ جوڑا ہوتا ہے۔

شمو: نہیں اماں! سُوہا جوڑا ایسا نہیں ہوتا، یہ تو کالا رنگ ہے۔ سوہا ایسا نہیں ہوتا، یہ کالا ہے، کالا!

جنتے: نہیں بیٹی! اندھیرا ہے نا، رات ہے! اس لئے تجھے کالا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہے سُوہا رنگ۔

(بادل گرجنے کی آواز جیسے نزدیک سے آتی ہے)

شمو: ہاں، اماں! رات ہے نا، اندھیرا ہے۔ اندھیرا ہی تو ہے! اماں! بادل گرج رہے ہیں۔ پر پتہ نہیں! بارش کب ہو گی!؟

چاچا رفیق: سو جا میری بیٹی، بارش ہو گی! ضرور ہو گی۔ کبھی تو ہو گی ہی، تو سو جا میری بچی!

جنتے: میں کہتی ہوں رُلا، اِس کو! اور تو سُلا رہا ہے! پھیکے! رُلا اِس کو! ایک چپیڑ ہی مار دے!

چاچا رفیق: میں کیسے رُلاؤں اس کو، بھاگاں والئے! تو ماں ہے نا اس کی! تو اس کو سمجھتی ہے کیسے روئے گی یہ! تو کر کچھ۔

جنتے: میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ میں کیا کروں، ربا!

(ہواؤں کی سرسراہٹ بڑھ کر سیٹیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر ہولے ہولے خاموشی چھا جاتی ہے)

 

چوتھا منظر

نادر: السلام علیکم چاچا!

چاچا رفیق: و علیکم السلام، کیسے ہو نادر؟

نادر: ٹھیک ہوں چاچا، آپ کی صحت کیسی ہے؟

چاچا رفیق: ٹھیک ہے، (کھوکھلی ہنسی ہنستے ہوئے) جیسی اس عمر میں ہونی چاہئے۔ سناؤ، سلامتے بہن کا کیا حال ہے؟

نادر: ماں جی ٹھیک ہیں چاچا، بخار رہتا ہے ان کو بس۔

چاچا رفیق: ابھی کل پرسوں آئی تھیں ہمارے گھر۔

نادر: ہاں چاچا، مگر اُن کو بھائی چھیدے کی وجہ سے۔۔ ۔۔

چاچا رقیق: کیا ہوا چھیدے کو، بھلا چنگا تو ہے وہ!

نادر: وہ تو بھلا چنگا ہے چاچا، پر اس کی وجہ سے ماں دکھی ہیں۔ آپ تو اُس کو، پتہ ہی ہے آپ کو۔

چاچا رفیق: ہاں، نورے بھائی کو اللہ بخشے، اس کے مرنے پر چھیدا چوکیدار بنا، پر، خیر! پتہ ہے مجھے۔ وہ برا آدمی نہیں ہے، مگر۔۔ ۔ وہ موجو ملنگ ہے قبرستان کا چوکیدار۔

نادر: میں کیا کروں چاچا، مجھے تو خود شرم آتی ہے۔ کاش میں چھیدے کا بھائی نہ ہوتا!

چاچا رفیق: ایسے نہیں کہتے یار! وہ موجو کی یاری چھوڑ دے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔

نادر: چاچا، وہ! وہ باجی! ڈسپنسری سے نکلی ہے ابھی، دوائی ہے شاید اس کے پاس کوئی؟ لال رنگ کی شیشی میں۔

چاچا رفیق: (بلند آواز میں) شمو! شمو پتر! یہ کیا ہے؟

شمو: دوائی ہے ابا! اماں کے لئے لائی ہوں، اماں بیمار ہے نا!

چاچا رفیق: (ٹھہرے ہوئے لہجے میں) دوائی دے جا کر ماں کو! شاباش! میں آ رہا ہوں۔

شمو: ابا! وہ ڈاکٹر کہتا تھا ٹھیک ہو جائے گی۔ پر، ابا! وہ ڈاکٹر تو خود بھی پاگل ہے۔ کہتا ہے: اس گاؤں کی ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں، ان کو میرے پاس پکڑ کر لاؤ، ان کا علاج کروں گا۔ (ایک مجنونانہ قہقہہ) ابا! ہوائیں بھی بھلا کسی کے قابو آتی ہیں؟ کہتا ہے: میں ہواؤں کا علاج کروں گا۔ ابا! یہ ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں؟ کیا ہُوا ہے ہواؤں کو؟ یہ بارش کیوں نہیں لاتیں؟ ابا! بتا، نا … ابا! بارش کب ہو گی؟ (چیختے ہوئے) اماں! ابّا آ گیا ہے، اب دیکھوں گی تو کیسے دوائی نہیں پیتی، اماں! ابا آ گیا ہے۔ (اس کی آواز دور ہوتی جاتی ہے)۔

نادر: چاچا! آپ باجی کا علاج کروائیں یہ ٹھیک ہو جائے گی۔ یہ جو نیا ڈاکٹر آیا ہے نا، بہت سیانا ہے۔ ویسے بھی اچھا آدمی ہے۔ آپ اس سے مشورہ کریں، باجی ٹھیک ہو جائے گی۔ جب سے یہ ڈاکٹر آیا ہے نا، چاچا! لوگ دَم جھاڑے کی بجائے دوا دارُو کرانے لگے ہیں اور موجو ملنگ بھی بہت بل کھا رہا ہے۔ اس کے جھنڈے کی کمائی گھٹ گئی ہے۔ اور وہ، میرا بھائی!

چاچا رفیق: ہاں نادر پتر! ڈاکٹر واقعی اچھا آدمی ہے، پر یہ دنیا؟ اللہ خیر کرے یہ دنیا اچھے بندوں کو جَرتی نہیں۔

 

پانچواں منظر

 

پرندوں کا متواتر شور

ڈاکٹر: آؤ! شمو، آؤ! طبیعت کیسی ہے تمہاری؟

شمو: (لہجے میں نمایاں گھبراہٹ کے ساتھ) ڈاکٹر باؤ! بھاگ جا یہاں سے!لال آندھی آئے گی! جا، تُو بھاگ جا! تو ڈاکٹر ہے نا! پر، تو ہواؤں کا علاج نہیں کر سکتا۔ ہوائیں تجھ سے ناراض ہیں۔ ہاں باؤ! لال آندھی! لال سوہی آندھی آئے گی۔ تو ڈاکٹر ہے نا، پر تُو بھی تو پاگل ہے۔ کبھی کسی نے ہوا کو بھی پکڑا ہے؟ تو بھی نہیں پکڑ سکے گا، اور وہ لال آندھی تو آئے گی!جا، تو بھاگ جا! ہائے وے ربّا! پتہ نہیں بارش کب ہو گی۔

نادر: سلام ڈاکٹر صاحب!

ڈاکٹر: آؤ! آؤ نادر! کیسے ہو!

نادر: چلی گئی! بے چاری۔ پر ڈاکٹر صاحب! یہ پاگل نہیں ہے! لوگ غلط کہتے ہیں۔ اس کی باتیں ڈرا دیتی ہیں۔ اس کا علاج ہے کوئی؟

ڈاکٹر: ٹھیک کہتے ہو نادر۔ اس کے ذہن پر بہت کچھ مسلط ہے۔ شادی کے ہفتے عشرے میں بیوہ ہونے کا غم، بوڑھے والدین کی بے چارگی، ادھر معاشرے میں پھیلتا زہر، اوپر سے قحط۔ بارش کب ہو گی، یہ گرہ کھولنی بہت مشکل ہے۔ اس کا میاں جو کہہ گیا تھا کہ آج بارش ہوئی اور کل میں آیا، میں اس کو مایوسی نہیں کہتا، مگر۔۔

نادر: جی ڈاکٹر صاحب، میں سمجھ رہا ہوں۔

ڈاکٹر: اس نے اپنے گرد ایک بہت سخت خول چڑھا لیا ہے۔ اس کا علاج ہے! کہ یہ روئے! اور اتنا روئے کہ بکھر جائے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس کی ماں چاہتی ہے کوئی اس کو رلا دے۔ یہ مامتا بھی عجیب شے ہے! ایک ماں اپنی بیٹی کو کیسے رلا سکتی ہے! مگر جانتی ہے کہ اس کا علاج یہی ہے۔ ایسا نہ ہوا تو یہ سچ مچ پاگل ہو جائے گی۔ اور اگر یہ رو پڑی تو، ایسا نہ ہو اس کی ماں اسے دیکھ کر مر جائے!

نادر: جی، ڈاکٹر صاحب، ٹھیک کہا۔

ڈاکٹر: اور اس کا باپ! وہ فولادی اعصاب کا مالک ہے، سب یہی کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں۔ اس بوڑھے کی ہمت اور حوصلے کے پیچھے اسی کمزور، بیمار اور بے بس بڑھیا کی ذات ہے۔ وہ اسی کی محبتوں کی ہوا میں سانس لے رہا ہے، اور اسی کے مد و جذر سے توانائی پا رہا ہے۔

نادر: ایک بات کہوں؟ آپ مجھے ’’ڈاکٹر سے زیادہ کچھ‘‘ لگ رہے ہیں! بہت سوچتے ہیں آپ اس کے بارے میں؟

ڈاکٹر: کہہ سکتے ہو! مگر پتہ نہیں! خیر، لگتا ہے یہ گاؤں کے حالات کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے، مگر بیان نہیں کر پاتی۔ انسان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو تو ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ ہے نا؟

نادر: بارش کب ہو گی اور لال آندھی؟ ان کا کیا مطلب ہے ڈاکٹر صاحب؟

ڈاکٹر: کوئی واقفِ حال بتا سکتا ہے، نادر!

نادر: ہوائیں بیمار ہونا، کیا ہوا؟ وہ اکثر کہتی ہے یہ ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں۔

ڈاکٹر: مجھے لگتا ہے نادر! کہ ان بیمار اور ناراض ہواؤں کا رخ میری طرف ہے۔ سرخ آندھی کا خوف اب ختم ہونا چاہئے۔ ہوائیں لاکھ بیمار سہی، مجھے ان کا علاج کرنا ہے!بارش؟ بارش جانے کب ہو گی! ہو گی بھی تو کیسی ہو گی! کچھ تو ہو رہے گا۔۔ لال آندھی؟ دیکھا جائے گا! خیر، چھوڑو، نادر! کوئی اور بات کرو۔

 

چھٹا منظر

 

بیلوں گایوں کے ڈکرانے کی آوازیں، کووں کی کائیں کائیں، اور ان سب پر حاوی گھڑی کی ٹک ٹک آواز

پہلا لڑکا: تو روند مارتا ہے اوئے؟

دوسرا لڑکا: کس نے روند مارا ہے، جھوٹ بکتا ہے تو!

پہلا لڑکا: کسے کہہ رہا ہے؟ مجھے؟ میں جھوٹ بک رہا ہوں؟ اوئے میں تیری۔۔ ۔

دوسرا لڑکا: چل اوئے بدمعاشی بند کر! آیا ہے بڑا پھنے خان! پتہ پھینک!

پہلا لڑکا: اوئے! وہ۔۔ ۔ چاچا۔۔ ۔ چاچا آ رہا ہے۔

دوسرا لڑکا: تو پھر؟ ہم کیا کریں؟ آنے دے۔ چل پتہ سٹ!

دوسری آواز: ہاں (ہنستا ہے)۔

چاچا رفیق: (خود کلامی کے انداز میں) سب کچھ ٹوٹ رہا ہے، میرے ربا! ہوا ہی بیمار ہو گئی ہے۔ یہ دو تین برس میں ہوا بدل گئی! تیریاں تو جانے مالکا! پہلے تو ایسا نہیں تھا، رب رحم کرے۔ سانس کے ساتھ بھی مٹی چڑھنے لگی ہے۔ (اس کی آواز مدھم ہوتی جاتی ہے)۔

 

ساتواں منظر

 

جھینگروں کی آواز، ہوا کی سرسراہٹ کو گمبھیر بنائی ہوئی الو کی ہُوک، اور گیدڑوں کی اکا دکا آوازیں

موجو: (نشہ میں ڈوبے ہوئے لہجے میں) موجاں ای موجاں! جھنڈے دیاں موجاں۔۔ ۔

چھیدو: اوئے ناما نیما! تو نے پھر دھتورا چڑھا لیا ہے۔ اپنے آپ میں نہیں ہے تو، موجو!

موجو: ابھی تو دھتورا پیا ہے، ابھی مجھے اس چوزے کا خون پینا ہے۔ دیکھ لینا تو چھیدے!

چھیدو: گھُوکی کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی ہے، تیرے مغز کو، بدبختا! مت ماری گئی ہے تیری! ہے نا!؟

موجو: بھونک مت اوئے! میں تجھ سے زیادہ ہوش میں ہوں۔ وہ دو روپے کا لال شربت دیتا ہے، میرا دو سو روپے کا چڑھاوا مارا جاتا ہے۔ دھتورا بھی نشہ نہیں دیتا اب تو!

چھیدو: کوئی ایک نشہ کرتا ہے تو؟ پوڈر، گولی، ٹھرا جو گند ملا چڑھا لیا!

موجو: سیل بند بوتل تیرا باپ لا کے دے گا مجھے؟ اگر وہ دو روپے کا شربت لوگوں کے دکھ کاٹتا رہا۔ مسل کے رکھ دوں گا اس چوزے کو۔ (مکروہ ہنسی ہنستا ہے) تو ساتھ دیتا ہے میرا کہ نہیں؟ چوکیدارا تیرا کام ہے۔

چھیدا: کیا بکواس کر رہا ہے تو! گندے آدمی۔

موجو: اے، او! تو حاجی ہے نا بڑا؟ بول میرا ساتھ دے گا کہ۔ (دونوں کی مکروہ ہنسی)

 

آٹھواں منظر

 

جھینگروں کی آواز تیز ہو جاتی ہے، ہوا کی سرسراہٹ سیٹیوں میں بدل جاتی ہے۔ الو کی گمبھیر ہُوک، اور گیدڑوں کے بولنے کی اکا دکا آوازیں بڑھ جاتی ہیں، پھر یک دم خاموشی چھا جاتی ہے۔

جنتے: (بخار زدہ آواز میں) تو میرے سرہانے کیوں بیٹھا ہے، پھیکے؟ رات آدھی تو گزر گئی ہو گی۔

چاچا رفیق: ہاں، آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ دئے میں تیل ختم ہو گیا تھا، اور ڈالا ہے۔ تو ہوںگ رہی تھی نا، اس لئے چپکے سے تیرے سرہانے آ بیٹھا۔ تیرا ما تھا تپ رہا تھا، اب کچھ کم ہے تپش۔ جنتے! تجھے پانی دوں؟

جنتے: لا اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے، رہنے دے پانی۔ (حیرت اور پریشانی کا تاثر دیتے ہوئے) وے پھیکے!تیرا تو اپنا وجود تپ رہا ہے! کیا ہوا ہے تجھے؟

چاچا رفیق: سو جا بھاگاں والئے، سو جا! مجھے کیا ہو گا اب۔ مجھے تو تیری فکر ہے۔

جنتے: ہولے بول پھیکے! شمو کی شاید ابھی آنکھ لگی ہے۔ شکر ہے، اسے کچھ نیند آ جاتی ہے۔ نہیں تو! (ٹھنڈی سانس بھرتی ہے) مجھے پتہ ہے پھیکے! ان تین برسوں میں تجھ پر کیا کیا بیت گئی ہے۔ خیر چھوڑ! سو جا، جا کے اپنی چارپائی پر۔ میرا بخار اتر رہا ہے اب۔

چاچا رفیق: اچھا سو جاتا ہوں، پہلے تو سو جا۔ رات کو بھی تو نہیں سوئی تھی۔

جنتے: میری بچی، بے چاری۔ سوتے سے ایک دم جاگ اٹھتی ہے جیسے ڈر گئی ہو اور پھر وہی اماں بارش کب ہو گی۔ میں کیا بتاؤں اس کو؟ اس کا سرفو تو آنے سے رہا۔ اس کی دل دھرتی تو بنجر ہو گئی ہے۔ لاکھ بارشیں ہوں اسے کیا!

چاچا رفیق: دوائی پی لی تو نے؟ جنتے!نہیں پی ہو گی، جانتا ہوں میں۔

جنتے: یہ؟ لال شربت؟ نہیں تو! جی نہیں کرتا پھیکے۔

شمو: (ہڑبڑا کر) اماں! اماں! تو نے دوائی نہیں پی؟ ابا! تو نے بھی نہیں پلائی؟

جنتے: تو جاگ رہی ہے؟ میں سمجھی تو سو گئی ہے۔ چل تیرا دل رکھنے کو پی لیتی ہوں۔

ذرا دیر کو خاموشی چھا جاتی ہے، ہوا کی سرسراہٹ اور جھینگروں کی کبھی تیز کبھی مدھم آوازیں خاموشی کو قائم نہیں رہنے دیتیں۔

باہر ایک دم بہت سارے کتے بھونکتے ہیں اور کوئی بلند آواز سے پکارتا ہے۔

پکارنے والا: مار دیا! مار دیا! کسی نے ڈاکٹر کا خون کر دیا! گاؤں والو! کسی نے ڈاکٹر کو مار دیا۔

آواز دور چلی جاتی ہے۔

شمو: ہوئے ابا! ابا! (چیختے ہوئے) لال آندھی لے اڑی ڈاکٹر باؤ کو، لے اڑی نا! میں نے کہا تھا اس سے! میں نے کہا تھا کہ تو بھاگ جا، وہ نہیں بھاگا (اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے)۔

جنتے: شمو! شمو بیٹے! کیا ہوا، میری بچی رو رہی ہے! پھیکے چپ کرا، اسے! میرا کلیجہ کٹ رہا ہے! چپ کرو میری بچی!!!

چاچا رفیق: رو نے دے اس کو بھاگ وانے، رونے دے! خود ہی تو کہتی تھی اس کو رلائے کوئی! وہ ڈاکٹر باؤ، وہ رُلا گیا اِسے۔ بڑی مہنگی قیمت چکائی ہے اس نے! دعا دے اس کو (اُس کی آواز بھرا جاتی ہے) جو مر کر تیری بیٹی کو زندگی دے گیا۔ (وہ تینوں دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں)۔

ان کے رونے کی آواز جھینگروں کی آواز میں دب جاتی ہے، دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آتی ہیں۔ جھینگروں کی آوازیں تیز تر ہوتی جاتی ہیں، ہوا کی سرسراہٹ سیٹیوں میں بدل جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

الماس شبی۔۔ ایک بے چین روح

(ایک کھِلا کھِلا سا تأثر)

 

 

الماس شبی سے میرا تعارف پنج ریڈیو کے حوالے سے ہوا۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ الماس نے مجھے پنج ریڈیو پر متعارف کرایا، یہ 2015 کے نصفِ آخر کی بات ہے۔ اول اول تو شعر سننے سنانے کی بات چلی۔ پھر انہوں نے مجھے ریڈیو ڈراما لکھنے پر لگا دیا۔ کہنے لگیں: کوئی ڈراما لکھئے ہم ریڈیو پر چلاتے ہیں۔

میرے پاس بہت پہلے کی لکھی ہوئی ایک طبع زاد کہانی ہے: ’’بارش کب ہو گی‘‘ میں نے اسی کو ڈرامے کے مسودے میں ڈھالا اور پیش کر دیا، یہ اکتوبر 2015ء کے اوائل کی بات ہے۔ اسکائپ پر مل بیٹھ کر ریکارڈنگ ہوئی، اور پھر ایک دن ڈراما نشر بھی ہو گیا۔ میرا یہ پہلا ریڈیو ڈراما ہے۔ لطف کی بات یہ ہوئی کہ مجھے اس میں صدا کاری بھی کرنی پڑی۔ ڈرامے میں تین کردار مرکزی حیثیت رکھتے ہیں: شمو، اس کی اماں (جنتے) اور اس کا ابا (چاچا رفیق)۔ شمو کا کردار الماس نے خود کیا، جنتے کا لیلیٰ رانا نے اور چاچا رفیق کا کردار میرے حصے میں آیا۔ اس ڈرامے کو تحریر، ڈرامائی تشکیل اور صدا بندی، تینوں لحاظ سے ایک کامیاب ڈراما کہا جا سکتا ہے۔ بس پھر کیا تھا! اور لکھیں، اور لکھیں، اور لکھیں۔ ڈراما ’’صاعقہ‘‘ (مرکزی کردار: رعنا حسین)، اور ’’ماں اور ماں‘‘ (یعقوب آسی اور شہناز شازی) میں نے لکھے ہی پنج ریڈیو کے لئے، وہ تیار ہوئے، نشر ہوئے۔ ان تینوں میں مجھے صدا کاری کا موقع ملا۔ ایک اور ڈراما ’’مہا لکھاری‘‘، میرے حصے میں ’’بسمل بزمی‘‘ کا کردار آیا ہے جسے میں لہجے کے اعتبار سے بھی مختلف انداز دینے کی کوشش کی ہے۔ بات الماس شبی کی ہو رہی تھی۔ میری ایک غزل کا مطلع ہے:

بڑی باریک نظر رکھتے ہیں اچھے پاگل

پاگلو! بات کی تہہ کو نہیں پہنچے؟ پاگل

یوں کہئے کہ الماس کا شمار بھی اچھے پاگلوں میں ہوتا ہے۔ پنج ریڈیو کے لئے اس خاتون نے کیا کچھ نہیں کیا! فن کے تقریباً تمام شعبوں میں جہاں لفظ کا اور اسے بنانے سنوارنے پڑھنے گانے اور موسیقی سے ہم آہنگ کرنے کا تعلق ہے وہاں الماس کا وہی حساب ہے کہ: ’’اپنی سی کرو، بنے جہاں تک‘‘، یہ اپنا کام کر رہی ہیں اور بہت عمدگی سے کر رہی ہیں۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے ممکنہ فن کاروں کو ڈھونڈ لاتی ہیں اور بیچ چورا ہے کے لا کھڑا کرتی ہیں کہ صاحب! اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیجئے اور آگے بڑھئے۔ یہ یقیناً سنتِ قیس کو زندہ رکھنے اور لیلائے فن کو اجالنے کا کام ہے، کٹھن تو ہو گا۔ ایک بزرگ کہہ رہے تھے کہ ریڈیو ڈراما ایک رو بہ زوال فن تھا، اور الماس کا اس خارزار میں کودنا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے! ہمیں ایسے پاگلوں کی قدر کرنی چاہئے!

الماس کا کام کرنے کا طریقہ موجودہ تناظر میں کچھ لوگوں کو بڑا عجیب لگے گا۔ سب سے پہلے تو مجھے باضابطہ طور پر یہ تسلیم کرنا ہے کہ صلاحیتیں تو الماس میں ہیں! اور بہت ہیں! لگن شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ کام کرنے کا طریقہ! ایک بات کسی دوست نے سجھا دی، یا خود ہی ذہن میں آ گئی تو بس! جیسے بھی ہو، کر گزرو اور جتنی جلدی ہو اتنا ہی اچھا ہے! اور لطف کی بات ہے کہ وہ سب کچھ الماس کی جلد بازی کے باوجود ہو بھی جاتا ہے۔ ریڈیو کا سیشن چل رہا ہو تو الماس کی کیفیت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ اور ہم اس کو اپنے ’’کانوں سے دیکھتے ہیں‘‘۔ میسنجر چل رہا ہے، اسکائپ چل رہا ہے، فون ہو رہے ہیں، اور ان سب کے ساتھ ساتھ ریڈیو بھی چل رہا ہے۔ ان کی جلد بازی کی ایک مثال وہ بھی رہی، کہ ڈراما ریکارڈ ہو رہا ہے بلکہ مشق ہو رہی ہے ’’ماں اور ماں‘‘ کی۔ ان میڈم نے (آپ چاہیں تو دوسرا میم اتار دیں)، شہناز شازی اور میں سیٹ پر ہیں، براہِ راست نشر پر لگا دیا! ع: دل! نہ کر جلدی کہ جلدی کام ہے ’’الماس‘‘کا۔ ادھر شہناز کی صلاحیتوں کی بھی داد دینی پڑے گی کہ صدا کاری کا پہلا ہی تجربہ پہلے رن میں کامیاب قرار پایا۔

’’آن لائن فوری مشاعرے‘‘ کی طرح بھی الماس ہی نے تو ڈالی ہے! چار پانچ شاعر جمع ہو گئے، مشاعرہ شروع! ع: لوگ ساتھ آتے گئے اور ’’بزم گرماتے گئے‘‘۔ پروگراموں کی اس رنگا رنگی میں صاف طور پر نظر آتا ہے کہ چلئے ٹیم ورک ہی سہی مگر اس کے پیچھے ایک نہایت بے چین روح سرگرمِ عمل ہے۔

مجھے تو ڈر لگا ہے کہ یہ محترمہ اپنی عادت کے مطابق کہیں مرنے میں بھی جلد بازی سے کام نہ لے بیٹھیں۔ الماس نے بہت کام کیا ہے اور بہت سارے کاموں کی بنا ڈال دی ہے۔ ان میں سے مکمل ہونے والا کوئی بھی نہیں، کہ یہ سب تو جاری رہنے والے کام ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ جہاں اس نے الماس شبی کو ایسی نادر صلاحیتوں اور لگن سے نوازا ہے، وہی اس کے عزم و ہمت اور ذوق و شوق میں بھی برکات سے نوازے اور، ہم تو خیر چند روز کے مہمان ہیں، ہمارے بعد والے بھی الماس کی ان محنتوں کے ثمر سے بہرہ ور ہو سکیں۔

 

محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان منگل 4۔ اپریل 2017ء    ٭٭٭

 

 

اشاریہ

رنگ باتیں کریں (ریڈیو ڈرامے)۔

 

مصنف: محمد یعقوب آسیؔ

ہدایات: الماس شبی، پنج ریڈیو (یو ایس اے)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

 

مہا لکھاری

مرکزی خیال:

مرکزی کردار: بسمل بزمی، نوید بابو

صدا کار: محمد یعقوب آسیؔ، منیر انور، اور دوسرے

۔۔ ۔

 

بڑی بوا

مرکزی خیال: جہیز کا مسئلہ

مرکزی کردار: بڑی بوا، کریمن، منشی جی

صدا کار: شاہین کاظمی، الماس شبی، سلمان باسط، اور دوسرے

۔۔ ۔

 

کھوٹی دمڑی

مرکزی خیال: انسان کی اصلیت

مرکزی کردار: راجا، فقیر

صدا کار: محمد یعقوب آسیؔ، ریاض شاہد، منیر انور۔

۔۔ ۔

 

صاعقہ

مرکزی خیال: ہر گھر کی کہانی

مرکزی کردار: صاعقہ، جواد

صدا کار: رعنا حسین، شوکت علی ناز، محمد یعقوب آسیؔ۔

۔۔ ۔

 

ماں اور ماں

مرکزی خیال: ماں کے دو رُوپ

مرکزی کردار: بیوی، میاں

صدا کار: شہناز شازی، محمد یعقوب آسیؔ۔

۔۔ ۔

 

ناراض ہوائیں

مرکزی خیال: حالات کی ستم ظریفی

مرکزی کردار: چاچا رفیق، جنتے، شمو

صداکار: محمد یعقوب آسیؔ، لیلیٰ رانا، الماس شبی، اور دوسرے

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل