فہرست مضامین
- امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی کچھ نعتیں
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
- واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
- اے شافع امم شہِ ذی جاہ لے خبر
- بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا
- نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
- پاٹ وہ کچھ دھَار یہ کچھ زار ہم
- تمہارے ذرّے کے پر تو ستارے ہائے فلک
- چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
- حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
- خراب حال کیا دِل کو پُر ملال کیا
- رونق بزم جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ
- زمین و زماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے
- سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیﷺ
- طوبیٰ میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ
- لَم یَأتِ نَظِیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
- مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مرے دل سے
- نہ آسماں کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا
- یادِ وطن سِتم کیا دشت حرم سے لائی کیوں
- Related
امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی کچھ نعتیں
ماخذ: کلام ڈی بی ڈاٹ کام
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
خاکی تو وہ آدم جد اعلیٰ ہے ہمارا
اللہ ہمیں خاک کرے اپنی طلب میں
یہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم
اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا
خم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ کہ وہ رتبہ ہے ہمارا
اس نے لقبِ خاک شہنشاہ سے پایا
جو حیدرِ کرار کہ مَولے ٰ ہے ہمارا
اے مدّعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا
ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونین
معمور اسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا
ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی
آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا
٭٭٭
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے، پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی قاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا
ابن زہریٰ کو مبارک ہو عروس قدرت
قادری پائیں تصدق مرے دولہا تیرا
بدسہی، چور سہی، مجرم و ناکارہ سہی
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
فخر آقا میں رضا اور بھی اک نظم رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرہ تیرا
٭٭٭
اے شافع امم شہِ ذی جاہ لے خبر
لِلّٰہ لے خبر مری لِلّٰہ لے خبر
دریا کا جوش، ناؤ نہ بیڑا نہ ناخدا
میں ڈوبا، تُو کہاں ہے مرے شاہ لے خبر
منزل کڑی ہے رات اندھیری میں نابلد
اے خضر لے خبر مری اے ماہ لے خبر
پہنچے پہنچنے والے تو منزل مگر شہا
ان کی جو تھک کے بیٹھے سرِ راہ لے خبر
جنگل درندوں کا ہے میں بے یار شب قریب
گھیرے ہیں چار سمت سے بدخواہ لے خبر
منزل نئی عزیر جُدا لوگ ناشناس
ٹوٹا ہے کوہِ غم میں پرِ کاہ لے خبر
وہ سختیاں سوال کی وہ صورتیں مہیب
اے غمزدوں کے حال سے آگاہ لے خبر
مجرم کو بارگاہِ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل عمل کو ان کے عمل کام آئیں گے
میرا ہے کون تیرے سِوا آہ لے خبر
پُر خار راہ برہنہ پا تِشنہ آب دور
مَولیٰ پڑی ہے آفتِ جانکاہ لے خبر
باہر زبانیں پیاس سے ہیں آفتاب گرم
کوثر کے شاہ کثرت اللہ لے خبر
ما نا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندۂ درگاہ لے خبر
٭٭٭
بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا
لمعۂ باطن میں گمنے جلوۂ ظاہر گیا
تیری مرضی پا گیا سوٗرج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چِر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیرا عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
بندھ گئی تیری ہوا سادہ میں خاک اڑنے لگی
بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھر گیا
تیری رحمتس صفی اللہ کا بیڑا پار تھا
تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بُت تھر تھرا کر گر گیا
مومن اُن کا کیا ہوا للہ اس کا ہو گیا
کافر اُن سے کیا پھرا اللہ ہی سے پھر گیا
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اس در سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا
مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں
پاؤں جب طوفِ حرم میں تھک گئے سر پرگیا
رحمۃ اللعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں
میرے مولیٰ میں تو اِس دل سے بلا میں گھر گیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیس کنکریاں تھیں وہ
جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منھ پھر گیا
واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنّی مرے
یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا
فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب و طاہر گیا
اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا
بندہ ملنے کو قریبِ حضرت قادر گیا
ٹھوکریں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضا اوّل گیا آخر گیا
٭٭٭
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشی رحمت کا قلم دان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولا مِرے آقا ترے قربان گیا
آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پُر اَرمان گیا
دل ہے وہ جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّٰہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصّب آ کر
بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا
جان و دل ہوش و خِرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
٭٭٭
پاٹ وہ کچھ دھَار یہ کچھ زار ہم
یا الٰہی کیوں کر اتریں پار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم
دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم
تم کرم سے مشتری ہر عیب کے
جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم
دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم
گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صَدقہ اپنے بازوؤں کا المدد
کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح
در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور
جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند
مر مِٹے پیا سے ادھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو
ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم
ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی
آؤ دیکھیں سیر طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں
بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم شاہ تم مختار تم
بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیر دیں
ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ ہوں
نہ رسوا بر سرِ دربار ہم
اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی
ناؤ ٹوٹی آ پڑے منجدھار ہم
منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا
دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجیے
توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عِشق
اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں
پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے
نقشِ پائے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں
اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
قِسمت ثور و حرا کی حرص ہے
چاہتے ہیں دل میں گہرا غار ہم
چشم پوشی و کرم شانِ شما
کارِ ما بے با کی و اصرار ہم
فصلِ گل سبزہ صبا مستی شباب
چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
میکدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ ساقیا
اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائیں
اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک
ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم
لطفِ از خود رفتگی یارب نصیب
ہوں شہید جلوۂ رفتار ہم
اُن کے آگے دعویِ ہستی رضا
کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم
٭٭٭
تمہارے ذرّے کے پر تو ستارے ہائے فلک
تمہارے فعل کی ناقِص مثل ضیائے فلک
اگر چہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں
مگر تمہاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک
سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک
یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُن کی روِش
کہ نقشِ پا ہے زمیں پر نہ صوتِ پائے فلک
تمہاری یاد میں گزری تھی جاگتے شب بھر
چلی نسیم ہوئے بند دید ہائے فلک
نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند
چلا یہ نرم نہ نِکلی صَدائے پائے فلک
یہ اُن کے جلوہ نے کیں گرمیاں شبِ اسرا
کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک
مرے غنی نے جواہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک
رہا جو قانِع یک نانِ سوختہ دن بھر
ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک
تجمل شب اسرا ابھی سمٹ نہ چکا
کہ جب سے ویسی ہی کوتل میں سبز ہائے فلک
خطاب حق بھی ہے در بابِ خلق مِنْ اَجَلکْ
اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک
یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے
رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک
رضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں
لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک
٭٭٭
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
میرا دل بھی چمکا دے اے چمکانے والے
برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بَدوں پر بھی برسا دے برسانے والے
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مِرے چشمِ عالم سے چھپ جانے والے
رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
رضاؔ نفس دشمن ہے دَم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چَندرانے والے
٭٭٭
حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے، کعبے کا کعبہ دیکھو
آب زم زم تو پیا خوب بجھائیں پیاسیں
آؤ جود شہِ کوثر کا بھی دریا دیکھو
زیر میز اب ملے خوب کرم کے چھینٹے
ابر رحمت کا یہاں زورِ برسنا دیکھو
دھوم دیکھی ہے درِ کعبہ پہ بے تابوں کی
ان کے مشتاقوں میں حسرت کا تڑپنا دیکھو
خوب آنکھوں سے لگایا ہے غلافِ کعبہ
قصر محبوب کے پر دے کا بھی جلوہ دیکھو
واں مطیعوں کا جگر خوف سے پانی پایا
یاں سیہ کاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو
غور سے سن تو رؔضا کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مِرے پیا رے کا روضہ دیکھو
٭٭٭
خراب حال کیا دِل کو پُر ملال کیا
تمہارے کوچہ سے رخصت کیا نہال کیا
نہ روئے گل ابھی دیکھا نہ بوئے گل سونگھی
قضائے لا کے قفس میں شکست بال کیا
وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جس میں مل ڈالا
فغاں کہ گورِ شہیداں کو پائمال کیا
یہ رائے کیا تھی وہاں سے پٹنے کی اے نفس
ستم گر الٹی چھری سے ہمیں حلال کیا
یہ کب کی مجھ سے عداوت تھی تجھ کو اے ظالم
چھڑا کے سنگِ در پاک سو بال کیا
چمن سے پھینک دیا آشیانۂ بلبُل
اُجاڑا خانۂ بے کس بڑا کمال کیا
تِرا ستم زدہ آنکھوں نے کیا بگاڑا تھا
یہ کیا سمائی کہ دُور ان سے وہ جمال کیا
حُضور اُن کے خیالِ وطن مٹا نا تھا
ہم آپ مِٹ گئے اچھا فراغ بال کیا
نہ گھر کا رکھا نہ اس در کا ہائے ناکامی
ہماری بے بسی پر بھی نہ کچھ خیال کیا
جو دل نے مر کے جلایا تھا منّتوں کا چراغ
ستم کہ عرض رہِ صر صرِ زوال کیا
مدینہ چھوڑ کے ویرانہ ہند کا چھایا
یہ کیسا ہائے حواسوں نے اختلال کیا
تو جس کے واسطے چھوڑ آیا طیبہ سا محبوب
بتا تو اس ستم آرا نے کیا نہال کیا
ابھی ابھی تو چمن میں تھے چہچہے ناگاہ
یہ درد کیسا اٹھا جس نے جی نڈھال کیا
الٰہی سن لے رضا جیتے جی مولے ٰ نے
سگامَ چہ میں چہرہ مرا بحال کیا
٭٭٭
رونق بزم جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ
کہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ
جس کو قرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو!
اُن کے خوان جود سے ہے ایک نانِ سوختہ
ماہِ من یہ نیّر محشر کی گرمی تابکے
آتش عصیاں میں خود جلتی ہے جان سوختہ
برق انگشت نبی چمکی تھی اس پر ایک بار
آج تک ہے سینۂ مہ میں نشانِ سوختہ
مہر عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روز
پیش ذرّات مزارِ بیدلانِ سوختہ
کوچۂ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم
بال و پر افشاں ہوں یارب بلبلانِ سوختہ
بہر حق اے بحرِ رحمت اک نگاہ لطف بار
تابکے بے آپ تڑپیں ماہیانِ سوختہ
روکش خورشید محشر ہو تمہارے فیض سے
اِک شرارِ سینۂ شیدائیانِ سوختہ
آتش تر دامنی نے دل کیے کیا کیا کباب
خضر کی جاں ہو جِلا دو ماہیانِ سوختہ
آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ
لطفِ برق جلوۂ معراج لایا وجد میں
شعلۂ جوّالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ
٭٭٭
زمین و زماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے
چنین و چناں تمہارے لیے بنے دو جہاں تمہارے لیے
دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے اُٹھے بھی وہاں تمہارے لیے
فرشتے خِدَم رسولِ حِشم تمام اُمم غُلام کرم
وجود و عدم حُدوث و قِدم جہاں میں عیاں تمہارے لیے
کلیم و نجی مسیح و صفی خلیل و رضی رسول و نبی
عتیق و وصی غنی و علی ثنا کی زباں تمہارے لیے
اصالتِ کل امامتِ کل سیادتِ کل امارتِ کل
امامتِ کل ولایتِ کل خدا کے یہاں تمھارے لیے
تمہاری چمک تمہاری دمک تمہاری جھلک تمہاری مہک
زمین و فلک سماک و سمک میں سکّہ نشاں تمہارے لیے
یہ شمس و قمر شام و سحر یہ برگ و شجر یہ باغ ثمر
یہ تیغ و سپر یہ تاج و قمر یہ حکم رواں تمہارے لیے
نہ روح امیں نہ عرش و بریں نہ لوح میں کوئی بھی کہیں
خبر ہی نہیں جو رمزیں کھلیں ازل کی نہاں تمہارے لیے
٭٭٭
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیﷺ
سب سے بالا و اعلیٰ ہمارا نبیﷺ
اپنے مولیٰ کا پیارا ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولہا ہمارا نبیﷺ
بزم آخر کا شمعِ فروزاں ہوا
نورِ اول کا جلوہ ہمارا نبیﷺ
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبیﷺ
جن کے تلوؤں کا دھُوَن ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبیﷺ
خلق سے اولیاء، اولیاء سے رُسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبیﷺ
جیسے سب کا خدا یک ہے ویسے ہی
اِن کا، اُن کا تمہارا ہمارا نبیﷺ
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبیﷺ
غمزدوں کو رضاؔ مژدہ دیجے کے ہے
بیکسوں کا سہارا ہمارا نبیﷺ
٭٭٭
طوبیٰ میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ
مانگوں نعتِ نبی لکھنے کو روحِ قدس سے ایسی شاخ
مولیٰ گلبن رحمت زہرا سبطین اس کی کلیاں پھول
صدّیق و فاروق و عثمان، حیدر ہر اِک اُس کی شاخ
شاخِ قامت شہ میں زلف و چشم و رخسار و لب ہیں
سنبل نرگس گل پنکھڑیاں قدرت کی کیا پھولی شاخ
اپنے اِن باغوں کا صدقہ وہ رحمت کا پانی دے
جس سے نخلِ دل میں ہو پیدا پیارے تیری ولا کی شاخ
یادِ رخ میں آہیں کر کے بن میں میں رویا آئی بہار
جھومیں نسیمیں نیساں برسا کلیاں چٹکیں مہکی شاخ
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروغ و زینِ اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑپتی شاخ
آل احمد خذ بیدی یا سَیّد حمزہ کن مددی
وقتِ خزانِ عمرِ رضا ہو برگ ہدیٰ سے نہ عاری شاخ
٭٭٭
لَم یَأتِ نَظِیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو، ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا
اَلبَحرُ عَلَا وَالمَوجُ طَغیٰ، من بیکس و طوفاں ہو شربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا
یَا شَمسُ نَظَرت اِلیٰ لَیلی، چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی، مِری شب نے نہ دن ہو نا جانا
اَنَا فِی عَطشٍ وَّ سَخَاکَ اَتَم،اے گیسوئے پاکاے ابر کرم !
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند اِدھر بھی گرا جانا
یَا قَافِلَتِی زِیدِی اَجَلَک، رحمے بر حسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک، طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
اَلقَلبُ شَجٍ وَّالھَمَّ شُجَوں،د ل زار چناں جان زیر چنوں
پَت اپنی بِتَے میں کا سے کہوں، مورا کون ہے تیرے سوا جانا ؟
اَلرُّوحُ فِدَاکَ فَزِد حَرقًا یک شعلہ دِگر بَرزَن عِشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا، یہ جان بھی پیارے جلا جانا
بس خامۂ خامِ نوائے رضاؔ، نہ یہ طرز مِری، نہ یہ رنگ مِرا
ارشادِ احبّا ناطق تھا نا چار اس راہ پر پڑا جانا
٭٭٭
مومن وہ ہے جو اُن کی عزّت پہ مرے دل سے
تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے
واللہ وہ سن لیں گے فریاد کہ پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے
بچھڑی ہے گلی کیسی بگڑی ہے بنی کیسی
پوچھو کوئی یہ صَدمہ ارمان بھرے دل سے
کیا اس کو گرائے دہر جس پَر تو نظر رکھے
خاک اُس کو اٹھائے حشر جو تیرے گرے دل سے
بہکا ہے کہاں مجنوں لے ڈالی بنوں کی خاک
دم بھر نہ کیا خیمہ لیلی نے پَرے دل سے
سونے کو تپائیں جب کچھ مِیل ہو یا کچھ مَیل
کیا کام جہنم کے دھرے کو کھرے دل سے
آتا ہے درِ ولا یوں ذوقِ طواف آنا
دلِ جان سے صدقے ہو سرگِرد پھرے دل سے
اے ابرِ کرم فریاد فریاد جلا ڈالا
اس سوزشِ غم کو ہے ضِد میرے ہرے دل سے
دریا ہے چڑھا تیرا کِتنی ہی اُڑائیں خاک
اتریں گے کہاں مجرم اے عفو ترے دل سے
کیا جانیں ہم غم میں دِل ڈوب گیا کیسا
کِس تہ کو گئے ارماں اب تک نہ ترے دل سے
کرتا تو ہے یاد اُن کی غفلت کو ذرا روکے
لِلہ رضا دل سے ہاں دل سے ارے دل سے
٭٭٭
نہ آسماں کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا
حضورِ پاک مدینہ خمیدہ ہونا تھا
اگر گلوں کو خزاں نا رسیدہ ہونا تھا
کنار خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا
حضور اُن کے خلاف ادب تھی بیتابی
مِری امید تجھے آرمیدہ ہونا تھا
نظارہ خاکِ مدینہ کا اور تیری آنکھ
نہ اسقدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا
کنارِ خاکِ مدینہ میں راحتیں ملتیں
دلِ حزیں تجھے اشک چکیدہ ہونا تھا
پناہ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتا
نہ صبر دل کو غزال رمیدہ ہونا تھا
یہ کیسے کھلتا کہ ان کے سوا شفیع نہیں
عبث نہ اوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا
ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کو
سلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا
لَاً مْلئَن َّ جہَنَّم تھا و عدۂ ازلی
نہ منکروں کا عبث بدعقیدہ ہونا تھا
نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طیبہ سے لاتی
کہ صبح گل کو گریباں دریدہ ہونا تھا
ٹپکتا رنگِ جنوں عشقِ شہ میں ہر گل سے
رگِ بَہار کو نشتر رسیدہ ہونا تھا
بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ناز کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا
گزرتے جان سے اِک شور ’’یا حبیب ‘‘کے ساتھ
فغاں کو نالۂ حلق بریدہ ہونا تھا
مِرے کریم گنہ زہر ہے مگر آخر
کوئی تو شہد شفاعت چشیدہ ہونا تھا
جو سنگ در پہ جبیں سائیوں میں تھا مِٹنا
تو میری جان شرارِ جہیدہ ہونا تھا
تری قبا کے نہ کیوں نیچے نیچے دامن ہوں
کہ خاکساروں سے یاں کب کشیدہ ہونا تھا
رضا جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہِ حبیب
تو پیارے قیدِ خودی سے رہیدہ ہونا تھا
٭٭٭
یادِ وطن سِتم کیا دشت حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بدنصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں
دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئی
پوچھو تو آہِ سرد سے ٹھنڈی ہوا چلائی کیوں
چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بن میں ٹھگوں کے آبسو
پھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں
باغ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آج
قمری جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں
نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم خلد
سوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں
کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں
نرگسِ مَست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں
تو نے تو کر دیا طبیب آتش سینہ کا علاج
آج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں
فکرِ معاش بد بلا ہول معاد جاں گزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں
ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حضور میں ہوا
ورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں
حور جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا
چھیڑ کے پَردۂ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں
غفلت شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفل شیر خوار
کرنے کو گد گدی عبث آنے لگی بہائی کیوں
عرض کروں حضور سے دل کی تو میرے خیر ہے
پیٹتی سر کو آرزو دشتِ حَرم سے آئی کیوں
حسرتِ نو کا سانحہ سنتے ہی دل بگڑ گیا
ایسے مریض کو رضا مرگِ جواں سنائی کیوں
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید