فہرست مضامین
الکندی اور رمز شناسی
پروفیسر خادم علی ہاشمی
ابتدائیہ
الکندی اولین مسلمان سائنس دان و فلسفی تھا اسے شماریات (statics) اور رمزشناسی (Cryptography) کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ ذیل میں اُس کے کام کے انہی پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔
الکندی 801 ء (185 ھ) میں کوفہ میں پیدا ہوا، اور 873 ء میں اُس کی وفات بغداد میں خلیفہ المعتمد کے عہد میں ہوئی۔ اُس کا پورا نام ابو یوسف یعقوب بن اسحٰق بن الصباح بن عمران بن اسمٰعیل بن اشعث بن قیس الکندی ہے۔اُس کا والد اسحٰق بن الصباح عباسی خلفاء المہدی اور الرشید کے عہد میں کوفہ کا گورنر تھا۔ الکندی ابھی کم عمر ہی تھا جب اُس کے والد کا 809 ء میں انتقال ہوا، تاہم اُس نے ورثے میں دولت اور معتبر نام پایا۔اُس زمانے میں بصرہ اور کوفہ تعلیم اور اسلامی کلچر کے اہم مراکز تھے چنانچہ اُس نے انہی شہروں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اُس نے مروجہ نصاب کے مطابق قرآن کریم حفظ کیا، عربی صرف و نحو، نیز ابتدائی ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔بعد ازاں اُس نے بغداد میں فقہ اور علم الکلا م میں دسترس حاصل کی۔تاہم اُس کا رجحان سائنس اور فلسفے کی جانب تھا اور اُس نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت انہی علوم کی ترویج و ترقی میں صرف کیا۔
الکندی کو عباسی خلیفہ مامون الرشید کے قائم کردہ بیت الحکمۃ میں ایک اہم عہدہ مل گیا جہاں اُس نے اپنی علمیت کی دھاک بٹھا دی۔اُس کے ہمعصروں میں بنو موسیٰ برادران، ابو معشر، الخوارزمی،الفرغانی، ابن ماسویہ ایسے علماء و فضلاء شامل تھے۔بیت الحکمۃ میں اہل علم و دانش دنیا کے گوشے گوشے سے اکٹھے ہو گئے تھے ، یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی محفل تھی جہاں بلا تفریق نسل و رنگ اور مذہب و ملت علماء، سائنس دان، ریاضی دان، ہیئت دان، فلسفی، اور منجم اپنی اپنی پسند کے موضوعات پر تحقیق و تدوین میں مصروف تھے۔ یہاں یونانی، سُریانی، چینی، ہندی،مصری اور دیگر ممالک کے علوم کو عربی میں ڈھالا جا رہا تھا، قدما کے خیالات کو پرکھا جاتا، ان پر تنقید و تبصرہ کیا جاتا، نئی دریافتیں کی جاتیں اور پرانے علوم کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا۔
الکندی ایک پُرنویس محقق تھا، اُس سے تقریباً 350 تصانیف منسوب کی جاتی ہیں جن میں سے صرف ساٹھ ستر دستیاب ہیں۔ اُس کی تصانیف فلسفہ، منطق، ما بعد الطبیعیات، حساب ، ہنسہ، موسیقی، فلکیات، طب، علم النجوم ، سیاست، اور دیگر متفرق موضوعات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ذیل میں ہم اُس کے رمزنویسی سے متعلق کام پر روشنی ڈالیں گے اور اس فن کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیں گے۔
رمز نگاری، رمز نویسی اور رمز شناسی
(Cryptography and Cryptoanalysis)
اقوامِ عالم کی تاریخ میں راز داری کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے ، حکومتیں اور عوام بعض پیغامات اور اہم معلومات کو ایسے انداز سے متعلقہ افراد یا اداروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اُن تک صرف وصول کنندہ ہی کی رسائی ہو اور وہ انہیں سمجھ بھی سکے۔معلومات کو راز میں رکھنے کی یہ ضرورت اقوام، قبیلوں، سرکاری احکامات، زمانۂ جنگ و امن میں پیغام رسانی سے لے کر محبوب کو پیغام بھیجنے تک الغرض زندگی کے اکثر معاملات میں رہی ہے۔ اور دورِ جدید میں تو اس کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔یہی ضرورت خفیہ تحریروں کے فن کی موجد بنی، یعنی کوڈ کے ذریعہ پیغامات کو مخفی کرنے اور کوڈ تیار کرنے کا فن ایجاد ہوا۔ اس کے مقابلہ میں جاسوسی اور معلومات کے حصول کی ضروریات کوڈ کا توڑ نکالنے یعنی رمز شناسی کی تکنیکیں بھی وجود میں آئیں۔مؤخر الذکر تکنیکیں کسی کوڈ یا مخفی رکھنے کے طریقے کی کسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہیں، اور مخفی معلومات کو آشکار کر نے اور سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ملٹری اور سفارتی امور میں رمز نگاری کی ایک طویل تاریخ ہے جو بابل کی تہذیب بلکہ اس سے بھی پہلے کی قبائلی زندگی کے دور سے چلی آ رہی ہے۔
پیغامات کو خفیہ رکھنے کی مثالیں انسانی تاریخ کے ہر دور میں ملتی ہیں۔ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے تاریخ پر نمایاں اثرات بھی مرتب ہوتے رہے ہیں، مثال کے طور پر پیغامات اور معلومات کو راز میں رکھنے سے جنگوں کے نتائج متأثر ہوتے رہے ہیں یا حکمرانوں اور سلطنتوں کے عروج و زوال کا باعث بنتے رہے ہیں۔دوسری عالمگیر جنگ(1939-45) میں جرمنی کے کوڈEnigma کو توڑنے کا اتحادیوں کا کارنامہ بالآخر مؤخر الذ کر کی جنگ میں فتح پر منتج ہوا۔آج کے دور میں الیکٹرانک تجارت (electronic business) ، مالیات مثلاً بنک اکونٹ کی راز داری وغیرہ میں رمزنویسی کا کمرشل اطلاق روز افزوں ہے۔حساس معطیات مثلاً کریڈٹ کارڈ نمبر(credit card numbers) اور پرسنل شناختی نمبر(personal identity numbers – PINs) کی عموماً رمزیہ طور پر ترسیل ہوتی ہے۔مماثل طور پر کمپیوٹر پروگرام کھولنے یا بعض فائیلوں کو کھولنے ، یا ٹیلی فون پر بیرونِ شہر یا بیرونِ ملک رابطہ قائم کرنے کے لیے رمزیہ کوڈ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔رمزنویسوں اور رمزشناسوں کے مابین ازلی مقابلے میں کوانٹم مکینکس (Quantum Mechanics)کا مضمون ایک نئے ہتھیار کے طور پر سامنے آیا ہے۔مگر پہلے ہم الکندی کے بطور اولین رمزشناس کام پر نظر دوڑاتے ہیں۔
کسی پیغام کو مخفی کرنا یا رمز نگاری (steganography) کے ذریعہ سے مؤثر طور پر دشمنوں کی نظر سے بچا کر کسی اہم پیغام کو منزل مقسود تک پہنچایا جا سکتا ہے۔تاہم رمز نگاری کے مؤثر ہونے کا انحصار اُس کوشش پر ہے جس کے ذریعہ پیغام یا معلومات کی رمز نگاری کی گئی ہے ، نیز اس کا انحصار دشمن کے جاسوسی نظام کی مہارت، فہم اور اُس کی پیغام رسانوں کی تلاش اور اور ترسیل کے ذریعوں کی کھوج میں ثابت قدمی پر بھی ہے۔
رمزنویسی کے قدیم طریقے :اکثر و بیشتر رمز نویسی کے ذریعہ پیغامات کو مخفی رکھنا کافی ہوتا ہے ، تاہم اس کی کامیابی کا انحصار بہت حد تک پیغام کے غنیم کو منکشف نہ ہونے پر بھی ہے ، رمز نویسی کی اس واضح خامی کے باعث رمز نگاری (cryptography) کی ایجاد لازمی ہو گئی۔ رمز نگاری ایک ایسا طریقہ یا تکنیک ہے جس کے ذریعہ سے کسی پیغام یا معلومات کو اس انداز سے تبدیل کیا جاتا ہے کہ وہ مخاطب کے علاوہ ہر کسی کے لیے بے معنیٰ ہو کر رہ جائے۔یہ بنیادی طور پر دو طریقوں سے کیا جاتا ہے :
اولاً حروف یا الفاظ کی جملے میں ترتیب یا مقام تبدیل کر دینے سے یعنی transposition کے ذریعہ سے ؛
ثانیاً حروف یا الفاظ کو دوسرے حروف یا الفاظ سے تبدیل کر کے ، اسے substitution کا طریقہ کہتے ہیں۔
جملے میں الفاظ یا حروف کی ترتیب یا مقام بدلنے کے عمل کو مؤثر اور محفوظ بنانے کے لیے الفاظ کے مقابلہ میں حروف کی ترتیب یا مقام کو بدلنا بہتر مانا ٗ ٭٭ Allama Iqbal’s presidentiallگیا ہے۔اس سے پیغام بے ربط ہو جاتا ہے ، اور ایک angram مرتب ہو جاتا ہے ، اس ترکیب سے رمز نگاری کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے حروف کی ترتیب کو کسی ایک لفظ کی بجائے جملوں اور مکمل تحریر میں بدلا جائے۔ایسی صورت میں 35 حروف کے پیغام کو مختلف انداز میں پیش کرنے کے لیے 50,000,000,000,000,000,000,000,000,000,000 مختلف ترتیبیں دی جا سکتی ہیں۔چنانچہ صحیح ترتیب کا پہچاننا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔لہٰذا transposition کے ذریعہ سے رمز نگاری کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسا طریقہ وضع کیا جائے جس پر پیغام بھیجنے والا اور وصول کرنے والا دونوں پہلے سے متفق ہوں۔
رمز نگاری کا دوسرا طریقہ ’’تبادلے ‘‘( substitution )کا ہے ، اس کے دو مختلف طریقے ہیں، اولاً پیغام کے الفاظ کو دوسرے ’’کوڈ الفاظ ‘‘سے تبدیل کر لیا جاتا ہے ، دوسری صورت میں پیغام کے حروف اور الفاظ کو دوسرے حروف یا علامات سے تبدیل کر لیا جاتا ہے۔substitution کے طریقہ کو قابلِ عمل بنانے کے لیے کسی مخصوص ’’کلید‘‘( "key” )پر انحصار کیا جاتا ہے۔ جو تبادلے کا مخصوص طریقہ طے کرتی ہے ، جسے کسی الغورزم (algorithm ) کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر کے ذریعہ سے مخصوص حروف یا علامات متعین کی جاتی ہیں جن کی روشنی میں تبادلے کے لیے طے شدہ ترتیب دی جاتی ہے۔ کلید اور الغورزم کے ذریعہ سے عام پیغام یا تحریر کے لیے رمزنویسی کی کلید("cipher” )مرتب ہوتی ہے۔عام انگریزی پیغام کو اس طریقے سے 4000,000,000,000,000,000,000,000,000 مختلف انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔اور اتنی ہی تعداد میں مختلف کلید بھی مرتب کیئے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعہ سے اعلیٰ درجہ کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس کے لیے صرف ایک شرط ہے کہ پیغام کا وصول کنندہ صرف کلیدکی حفاظت کر سکے۔
رمز نگاری کے سادہ تبادلہ کے طریقہ سے اہم اور حساس پیغامات اور معلومات دشمن کی نگاہوں سے صدیوں تک پوشیدہ رکھی جاتی رہیں ایسے رمزیہ پیغامات کو سمجھنے کی کوششیں لاحاصل ثابت ہوتیں بعض لوگ تو ان پیغامات کو منجاب الٰہی سمجھنے لگے تھے کہ نویں صدی عیسوی میں بغداد میں الکندی نے اس طریقے کا راز فاش کر کے رکھ دیا۔ عباسی دور میں عام خوشحالی تھی، علم و حکمت کے چرچے تھے ، دینی اور دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کرنے کا عام رجحان تھا، اکتسابِ علم کے مواقع وافر تھے۔ حکماء کی تصانیف کتابت کر کے لائبریریوں اور عام کتابوں کی دکانوں پر فروخت ہوتی تھیں، یونانی ، ایرانی اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ کتابوں کے ترجمے سرکاری اور نجی کاوشوں سے ہو رہے تھے ، جو عام قاری کی دسترس میں تھے۔ان حالات میں رمزشناسی cryptanalysis یا رمزیہ تحریروں کو پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اس میدان میں اولین کام فیلسوفِ عرب، الکندی نے کیا۔
رمزشناسی میں الکندی کا کام :الکندی 800 ء میں کوفہ میں پیدا ہوا، جہاں اُس کا باپ اور اُس سے پہلے اُسکا دادا گورنر تھے ،الکندی نے ابتدائی تعلیم کوفہ میں حاصل کرنے کے بعد دارالخلافہ بغداد کا رُخ کیا جہاں خلیفہ مامون الرشید نے اُسے اپنے نو قائم کردہ ’’بیت الحکمۃ‘‘ میں ایک اہم ذمہ داری سونپی۔ یہاں اُس نے الخوارزمی، نوموسیٰ برادران اور دوسرے ماہرین کے ساتھ مل کر عربی میں یونانی اور دوسری زبانوں سے تراجم کرنا، اُن کی تدوین و اصلاح کا کام کیا۔یونانی فلسفیوں، خصوصاً سقراط اور ارسطو سے الکندی بہت متاثر تھا، اُس نے اُن کی تصانیف کے تراجم استعمال کیے ، جس کا اظہار اُس کی فلسفیانہ تصانیف سے بھی ہوتا ہے ، فلسفے کے علاوہ اُس نے ریاضی، طب، بصریات، فلکیات، اور دوسرے علوم میں بھی قابلِ قدر کام کیا۔
رمزشناسی یعنیCryptanalysis کی بنا کے لیے ایسے معاشرے کی ضرورت تھی جو تین علمی میدانوں لسانیات، شماریات اور ریاضی میں ترقی کی اعلیٰ منازل طے کر چکا ہو، الکندی کے لیے ایسے سازگار حالات موجود تھے ، وہ خود ان تینوں میدانوں میں اعلیٰ مہارت کے علاوہ دوسرے متعدد میدانوں علوم پر بھی عبور رکھتا تھا۔یونانی اور رومیciphers اور encrypted پیغامات، اور اُس دور کے مستعمل cryptographic طریقوں پر کام کرتے ہوئے الکندی نے رمز شناسی cryptanalysis ) (کا فن ایجاد کیا جسے اُس نے اپنی شاہکار تصنیف ’’رسالۃ فی الحیل العددیۃ و علم اضمارھا‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے :
’’کسی رمزیہ encrypted) (پیغام کو حل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر ہم اُس کی زبان سے واقف ہیں تو اُس میں صفحہ دو صفحہ طویل ایک عام تحریر لیں اور اُس میں ہر حرف کی تعداد کا شمار کریں،سب سے زیادہ مستعمل حرف کو ’’پہلا‘‘ نمبر دیں، اُس سے کم تعداد میں استعمال ہونے والے حرف کو ’’دوسرا‘‘، بعد والا ’’تیسرا‘‘، اسی طرح گنتی کرتے چلے جائیں حتیٰ کہ سبھی حروف کا شمار اور اُن کی ترتیب تیار ہو جائے۔ اس کے بعد ہم زیر مطالعہ رمزیہ عبارت cipher text) (کو لیتے ہیں اِس میں مستعمل حروف کی بھی اُسی طرح درجہ بندی کرتے ہیں، اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والے حرف کو ’’پہلے حرف‘‘ سے تبدیل کرتے ہیں،اسی طرح ’’دوسرا‘‘، ’’تیسرا‘‘،۔۔۔حرف تبدیل کرتے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ سبھی حروف تبدیل ہو جائیں‘‘۔
الکندی کا طریقہ تعدد کے تجزیہ(frequency analysis) کا طریقہ کہلاتا ہے ، جس میں کسی مخصوص زبان کے حروف کا ایک عام تحریر میں مستعمل فیصد تعداد کا شمار کر کے ،خفیہ کوڈcipher) (میں استعمال ہونے والی علامات یا حروف کی تعداد سے بالترتیب تبدیل کرنے پر مبنی ہے۔تاہم بہتر نتائج کے لیے اس طریقے کے لیے نمونے کی ایک طویل عبارت درکار ہوتی ہے ، اس کے علاوہ بعض حالات میں عام تحریر و تقریر میں مستعمل حروف کا خفیہ پیغام میں صد فی صد استعمال ممکنہ طور پر یا عمداً مختلف بھی ہو سکتا ہے تاکہ خفیہ تحریر کے تجزیہ نگار کو گمراہ کیا جا سکے۔تجربہ، محنت، اور اندازوں کی مددسے ، نیز تجزیہ نگار کی لگن پیچیدہ ترین خفیہ تحریر کو پڑھنے میں کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔اس طرح صدیوں کا آزمودہ رمزنویسی) (cryptography کا نظام کمزور پڑ گیا، اوررمزنویسوں کو مجبوراً پیغامات کو محفوظ اور مخفی کرنے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرنا پڑے جنہیں رمزشناس تعدد کے تجزیہ، (frequency analysis)، کوڈ الفاظ (code words) ، او ر رمزیہ تحریر وغیرہ کے استعمال سے آشکار کرنے میں کامیاب ہو جاتے رہے۔موجودہ دور میں رمز نگاری (cryptography) ایک اہم سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے ، اور یہ جاسوسی، افراد یا اقوام کے راز ہائے پنہاں(privacy )،تجارتی، صنعتی رازوں کو محفوظ کرنے اور خصوصاً الیکٹرانک بنکنگ اور تجارت وغیرہ کی معلومات کو صیغۂ راز میں رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ رمز نگاری کے تجزیہ (cryptanalysis) کی ترویج نے رمز نگاری cryptography) (کو بھی آگے بڑھنے میں مدد دی ہے ، اور آج تک کی عظیم ایجاد کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اور ڈیجیٹل کی دنیا میں ترقی کے لیے راہ ہموار کی ہے۔
جدید رمزیات میں کوانٹم مکینکس کا کردار:جب کبھی کوئی رمزیہ پیغام ارسال کرنا ہو تو سب سے پہلے کلید کا تعین کرنا ہوتا ہے تاکہ پیغام کا وصول کنندہ ہی اُسے سمجھ سکے ، اور وہ دوسروں سے مخفی رہے۔پھر اُس کلید کے حوالے سے پیغام کی رمزنویسی کی جاتی ہے۔کوئی دشمن رمزیہ پیغام کو اچک کر اُسے پڑھنے کی کوشش کر سکتا ہے۔کلید کے بغیر پیغام مہمل ثابت ہوتا ہے۔جنگی نقطۂ نظر سے کسی ایک کلید کا دوبارہ استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔سویٹ روس کا کلیدوں کو دوبارہ استعمال کرنے کے باعث، جو بنانے والے کی غلطی سے ہوا، 1949 ء میں امریکی رمزشناسوں نے ایٹمی جاسوس کلاز فخس (Claus Fuchs) کا راز فاش کر دیا۔جب کوئی کلید ایک سے زیادہ مرتبہ استعمال کی جائے تو رمز شناس مختلف پیغامات میں رمزیہ تحریروں کے انداز سے رمزیہ پیغام کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ تاہم عمدہ رمز نگاری کے ایسے نظام مرتب کیئے جا چکے ہیں جو کامیابی کے ساتھ کلید کو بار بار استعمال میں لا سکتے ہیں۔کلید جس قدر طویل ہو گی اسی قدر رمزیہ نظام زیادہ محفوظ ہو گا۔مثال کے طور پر ایک وسیع استعمال ہونے والا نظام ’’ڈیٹا اینکرپشن سٹینڈرڈ‘‘ (Data Encryption Standard – DES)ہے۔ اس میں کلید 5 6bits طویل ہے۔چنانچہ کوئی اور ایسا طریقہ نہیں جس کے ذریعہ کوڈ کو توڑا جا سکے ما سوائے اس کے کہ کلید کی 2)5 6 (قیمتوں پر کوشش کر کے کلید کو توڑا جائے۔تاہم یہ ممکنات میں ہے کہ کوئی زیرک رمزشناس DES اور اس کی قبیل کے دوسرے رمز نگاری کلیدوں کا توڑ نکال لے۔چنانچہ انتہائی خفیہ پیغامات کے لیے یہ ضروری ہے کہ کلید صرف ایک مرتبہ ہی استعمال کی جائے ، دوسری مرتبہ دوسری کلید استعمال ہو۔تاہم اس مقصد کے لیے متعدد کلیدیں تیار کر کے پیغام بھیجنے اور وصول کرنے والے دونوں کو معلوم ہو کہ کب کون سی کلید استعمال ہو گی۔ جملہ تیار شدہ کلیدوں کے استعمال ہو جانے کے بعد اگر وصولندہ کو نئی کوڈ کسی بھی ذریعہ سے بھیجی جائے تو یہ بات یقینی نہیں کہ کلید راستے میں کہیں نقل نہ کر لی گئی ہو۔یہ مسئلہ ’’کلید کی فراہمی کا مسئلہ‘‘ (key distribution problem) کہلاتا ہے۔ اس کا ایک حل عوامی رمز نگاری کلید ہے۔ ارسال کنندہ اور وصولندہ کے مابین ایک طویل کلید کی بجائے عوامی رمز نگاری کلید میں دوقسموں کی کلیدیں استعمال ہوتی ہیں: ایک پبلک کلید، جو ہر کسی کو معلوم ہوتی ہے ، اور ایک پرائیویٹ کلید ًو مجبوراَجو صرف پیغام دہندہ اور وصول کنندہ ہی کو معلوم ہوتی ہے۔ پبلک کلید جاننے والا ہر شخص رمزیہ پیغام ارسال کر سکتا ہے ،لیکن صرف پرائیویٹ کلید جاننے والا ہی اُس پیغام کو سمجھ سکتا ہے۔پبلک کلید رمز نگاری کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ رمزنویسی کلید جاننے کے باوجود ایسا کوئی computationally efficient طریقہ نہیں جس سے رمزشناسی کلید (decryption key) معلوم کی جا سکے۔
پبلک کلید رمز نگاری ایک اور مقصد ،ڈیجیٹل سیگنیچرس (digital signatures) تیار کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل سگنیچر کے ذریعہ پبلک کلید رمز نگاری میں استعمال ہونے والی کلیدوں کے کردار کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔پرائیویٹ کلیدسگنیچر تیار کرتی ہے جس کی پبلک کلید توثیق کرتی ہے۔صرف پرائیویٹ کلید کا حامل شخص ہی یہ سگنیچر تیار کر سکتا ہے۔اور رمزیہ عبارت کو’’ پڑھ‘‘ سکتا ہے۔
کوانٹمی کوڈ کشائی
مروجہ رمزیہ پیغامات کا طریقۂ کار اس مفروضے پر کام کرتا ہے کہ کوئی بھی ایسا تیز الغورزم موجود نہیں جو اس قدر طویل رقموں کی تحسیب کر کے خفیہ کلید کا تعین کر سکے۔تاہم کوانٹم مکینکس نے اس تأثر کو تبدیل کر دیا ہے ، 1994 ء میں پیٹر شور (Peter Shor) نے بڑے اعداد کے فیکٹر بنانے (factoring) کے لیے ایک کوانٹمی الغورزم ایجاد کیا، اس نظام میں ایک کوانٹمی کمپیوٹر ایک مناسب دورانیئے میں ایسی طویل تحسیب کا اہل ہے جسے کلاسیکل کمپیوٹر بہت زیادہ وقت لیتا ہے۔ اگر مستقبل میں کبھی کوانٹمی کمپیوٹر تیار ہو گیا تو کلاسیکل رمز نگاری اُس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گی، اُسی درجے کا تحفظ دینے کے لیے کلید کی طوالت کو کم از کم دوگنا کرنا ہو گا۔ خواہ موزوں قسم کا کوانٹمی کمپیوٹر بنانے میں کئی دہائیاں کیوں نہ لگ جائیں، پھر بھی یہ موجودہ دور کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے ، کیونکہ بعض معلومات مثلاً نیوکلیائی اسلحہ کے ڈیزائین کو مخفی رکھنے کی ضرورت بہر حال رہے گی، اور اس امر کی ضرورت اور کوشش رہے گی کہ آج کے مخفی پیغامات کل منکشف نہ ہو سکیں۔
کوانٹمی رمز نگاری
خواہ Data Encryption Standard – DES اور RSA Public Key Cryptosystem ناکام ہی کیوں نہ ہو جائیں،کوانٹمی کمپیوٹر کی موجودگی میں بھی یکمرتبہ مستعمل کلید کلید ناقابلِ شکست ثابت ہو گی۔تاہم اس میں ’’کلید کی فراہمی‘‘ کی خامی رہے گی۔قابلِ اعتماد قاصد خریدے جا سکتے ہیں، یا اُن کے علم میں لائے بغیر کلید چوری کی جا سکتی ہے۔کلاسیکی طریقۂ پیغام رسانی کو مخالف پڑھ سکتے ہیں اور راز فاش کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ کلاسیکی فزکس میں فراہمیِ کلید کی راہ میں نقب لگانے کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے کوانٹمی میکانیات کوڈ بنانے اور کوڈ توڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ہائیزنبرگ کے اصول Uncertainty Principle کی رو سے دو تکمیلی متغیرات ( complementary variables) مثلاً کسی ذرے کی مومنٹم اور پوزیشن کی صحیح قیمتیں معلوم کرنا نا ممکن ہے۔ کوانٹم مکینکس کی یہ بظاہر تحدید رمز شناسوں کے خلاف ایک عمدہ ہتھیار ہے۔کوانٹمی رمز نگاری کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ معلومات کی رمز نگاری کے لیے non-orthogonal quantum states استعمال کی جائیں۔کوانٹمی رمز نگاری میں اگر ایک فوٹون چار ممکنہ تقطیب (پولارائزیشن) کی حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں ہو تو کیا اُس کی تقطیبی حالت کا تیقن کے ساتھ تعین کیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔اس طریقۂ کار میں ’’کوانٹمی کلید تقسیم‘‘ (quantum key distribution – QKD) کے ذریعہ کلید کی فراہمی کا مسئلہ بھی جزوی طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔اس طریقہ کے ذریعہ اولیں اور تا حال بہترین پروٹوکول "BB84” کہلاتا ہے کیونکہ اسے 1984 میں Charles Bennet and Gilles Brassard نے شائع کیا تھا۔تا حال 50 کلو میٹر تک کے فاصلے تک اس طریقِ کار کے ذریعہ پیغامات بھیجنے کے کامیاب تجربے کیے جا چکے ہیں۔
اس سب کے باوجود اگر کوانٹمی کلیدِتقسیم پر تجربات کامیاب ہو جاتے ہیں اور کوانٹمی رمز نگاری رائج ہو بھی جاتی ہے تو اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ کوانٹمی رمز نگاری کا توڑ نہ نکل آئے گا۔ اکثر تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ کوانٹمی کوڈ محفوظ ہے ، تاہم اس امر کے شواہد ملے ہیں کہ کلاسیکی احتمالیت(classical probability) نظریہ کے مطابق کوڈ کو توڑا جا سکے گا۔ممکنہ طور پر کوانٹمی کمپوٹیشن کے باوجود public key cryptosystem زیرِ استعمال رہے گا، یا ممکن ہے کہ نئے پبلیک کی سسٹم ایجاد ہو جائیں جو صرف کوانٹمی کمپیوٹر پر کام کریں۔ اس امر کا بھی امکان ہے کہ کوانٹمی کمپیوٹر بنانا ہی دشوار ثابت ہو، اور پبلک کی cryptography ہی مستعل رہے۔یہ وقت ہی بتائے گا کہ کوانٹمی cryptology سے کس کو زیادہ فائدہ ہو گا کوڈ بنانے والوں کو یا کوڈ توڑنے والوں کو! بہر نوع، الکندی سے شروع ہو کر رمزشناسی کا سفر کوانٹم کی دنیا تک آ پہنچا ہے ، دیکھیں مستقبل میں اس کی کیا شکل بنتی ہے !
٭٭٭
حوالہ جات
Gottesman, D. and Lo, Hoi-Kwong (2000) From Quantum Cheating to Quantum Security, Physics Today, November 2000, pp. 22-27.
Al-Tayeb, Tariq (2003) Al-Kindi Cryptography, Code Breaking and Ciphers, FSTC Limited, www.http. Muslim Heritage.com
٭٭٭
ماخذ: جریدہ جدید ادب، جرمنی، شمارہ ۱۴، مدیر: حیدر قریشی
تشکر: وقاص جنہوں نے جدید ادب کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید