FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اللہ کو راضی کر لو

 

 

                مولانا طارق جمیل

پیشکش: ظفر احمد، اردو محفل

 

 

 

اللہ کا تعارف

 

میرے محترم بھائیوں اور دوستو! اللہ تعالی اس کائنات کا تنہا خالق وحدہٗ لا شریک اور مالک بھی ہے۔ اللہ اپنی ذات میں ابتدا سے پاک ہے۔ اللھم انت الا ول فلیس قبلک شئی الاول بلا بدایہ۔

اللہ وہ ذات ایسا اول ایسا پہلا جس کی ابتدا کوئی نہیں ابتداء تک دیکھنا چاہیں۔ آخر آخر کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ وہ آ کر بھی ہے دائم بھی۔ بلا انتہا اس کی انتہائی کوئی نہیں۔ کہیں جا کر اس کا آخری کنارہ کوئی نہیں۔ تو اللہ وہ ذات ہے کہ جو دوکان میں سماتا ہے نہ مکان میں ، ماضی حال مستقبل کی بندشوں میں بندھا ہوا ہے نہ اسے زمین کی ضرورت ہے نہ آسمانوں کی ضرورت ہے۔ نہ انسانوں کا محتاج، نہ فرشتوں کا محتاج، نہ نبیوں اور رسولوں کا محتاج، نہ جنت اور جہنم کا محتاج، اپنی ذات میں اپنی بقاء کے لئے نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج ، تھکن سے پاک، نیند سے پاک، اونگھ سے پاک، غفلت سے پاک بیوی سے پاک ، اولاد سے پاک رشتوں سے پاک، وزارت مشاورت سے پاک، اکیلا تن تنہا اتنے بڑے نظام کا خالق مالک علم قدرت اتنا کامل اتنی پھیلی ہوئی کائنات جلتی ہوئی اڑتی ہوئی تیرتی ہوئی سے ذرہ برابر نہ غافل ہے اور نہ جاہل ہے۔ ایک دور تھا اس کائنات اور اس دھرتی پہ ایسا تھا کہ کچھ نہ تھا۔ اس سے اگلا دور آیا اس نے زمین کو بچھانا شروع کر دیا۔ ولارض مددنھا زمین بچھائی۔ والارض فرشنھا فنعم الماھدون۔ اللہ نے فرمایا میں نے فرش بچھایا کوئی میرے جیسا ہے جو بنا کے دکھا دے۔

 

 

 

   قدرت الٰہی کے کرشمے

 

بنانے میں اللہ کی قدرت یہ ہے کہ ایک ذرہ مٹی کا نہ تھا اور یہ زمیں اتنا بڑا گولہ مٹی کا بنایا۔ ایک پتھر نہیں تھا اتنے بڑے بڑے پہاڑ بنائے۔ ایک تنکا نہ تھا کیسے کیسے درخت اگائے۔ ہوا کا ذرہ نہ تھا ٹھنڈی اور گرم ہواؤں کا نظام چلایا۔ بادل کا کوئی ذرہ نہ تھا کوئی وجود نہ تھا، ایسے کالے اور سفید سرخ بادل بنائے اور پانی کا قطرہ نہ تھا دریا چلائے سمندر بنائے چشمے پیدا فرمائے۔ میٹھا پانی بنایا کڑوا پانی بنایا۔ ھٰذا عذب فرات وھٰذا ملح اجاج۔یہ میٹھا پانی، یہ کڑوا پانی۔ بینھما بر زخ لا یبغیٰن۔ درمیان میں پردہ لگا دیا، نہ میٹھا پانی کڑوے میں جائے نہ کڑوا پانی میٹھے میں جا سکے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔ رفع السمٰوٰت۔ آسمان بلند کر دئئ الشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ۔ سورج چاند ستاروں کا نظام بنایا اور چلایا ان سب کو اپنا غلام بنایا۔یغشی الل النھا۔ر دن اور رات کا نظام چلا یا۔ دن کو اجالا دیا رات کو اندھیرا دے دیا، ستاروں کو نیلاہٹ دے دی چاند کو روشنی دے دی۔ سورج کو اجالا، آگ کو تپش اور حرارت دے دی۔ زمین کو گردش دے دی پانی کو چلنا دے دیا پہاڑوں کو ٹھہراؤ دے دیا۔ ہواؤں کو گرم اور ٹھنڈا لطیف بنایا۔ آسمانوں کو بلند کر دیا زمین کو پست کر دیا فرشتوں کو نور بنایا، ہمیں خاک سے بنایا جنات کو آک سے بنایا ساری کائنات کے اتنے بڑے نظام بنائے اور چلائے۔ان میں اللہ نہ تھکا، نہ غافل ہوا، نہ خطا کھائی۔

صرف ایک نظام کو ہی لے لو۔ مور کے انڈے سے مرغی نہ نکلی ، مرغی کے انڈے سے کوئل نہ نکلی۔ کوئل کے انڈے سے کوا نہ نکلا،کوے کے انڈے سے فاختہ نہ نکلی۔ فاختہ کے انڈے سے مگرمچھ نہ نکلا مگر مچھ کے انڈے سے کچھوا نہ نکلا۔ کچھوے کے انڈے سے مچھلی نہ نکلی۔ مچھلی کے انڈے سے مچھر نہ نکلا، مچھر کے انڈے سے مکھی نہ نکلی، مکھی کے انڈے سے پسو نہ نکلا۔ دنیا میں کتنی کائنات ہے جو انڈے دے رہی ہے کبھی اللہ خطا کھا جاتا ، تو مور کے انڈے سے شتر مرغ نکلتا، شتر مرغ کے انڈے سے مرغابی نکلتی مرغابی کے انڈے سے کوا نکلتا اوہو! میں بھول ہی گیا۔ کھرب ہی کھرب انڈے بکھرے پڑے ہیں ایک مادہ مچھر کئی ہزار انڈے دے دیتی ہے ایک شہد کی مادہ مکھی تیس ہزار انڈے دے دیتی ہے اور ان سے کیا نکالنا ہے؟ نر یا مادہ! اور اس نے کیا بننا ہے؟ اس انڈے کو انسان کو کھانا ہے کہ اس سے بچہ نکالنا ہے، مرغی نکلنی ہے مرغا نکالنا ہے۔ یہ اللہ کا نظام تخلیق ہے۔ بغیر کسی چیز کے سب کچھ بنایا یہ نظام بھی بنایا اور پھر ہمیں بھی بنایا۔ سارے دنیا کے نظام کو تو قابو کر کے دکھایا اور ہمیں تھوڑی سی آزادی دے دی۔

 

   امتحان کی گھڑی

 

اللہ نے کہا تم کو آزادی دے رہا ہوں موت تک پھر تم سے نبٹ لوں گا۔ سنفرغ لکم ایھا الثقلٰن۔ تمھاری مرضی ہے ان ٹھنڈی ہواؤں کو محسوس کر کے میر ا شکر ادا کرو، یا ان ٹھنڈی ہواؤں میں مست ہو کر گانے کی محفلیں سجاؤ۔ میں دیکھوں گا دونوں کو مگر فیصلہ کروں گا فیصلے کے دن۔ یہ نہیں کہ ہم اللہ کی طاقت سے باہر ہو گئے ہیں۔ یہ سورج زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا ہے نو کروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلے پر ہے۔ چھ سو سولہ ارب ٹن ہائیڈروجن کو اللہ تعالیٰ ایک سیکنڈ میں چھ سو بارہ ارب ٹن ملیم گیس سے تبدیل کرتا ہے۔ جس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ پانچ کروڑ ہائیڈروجن بم اکٹھے پھٹیں تو ان سے جتنی آگ اور حرارت پیدا ہوتی ہے اتنی سورج ایک سیکنڈ میں پھینک رہا ہے۔

جو اللہ سورج جیسی آگ کو قابو میں کرے اور اس کے پانچ کروڑ ہائیڈروجن بموں جتنی آگ کو کنٹرول کرے اور زمین کی طرف جب وہ آگ سفر شروع کرے تو اس کا بیس کروڑواں حصہ نیچے پہنچے اور باقی سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے۔

جو اللہ اتنی طاقت رکھتا ہو کہ زمین ، سورج کے گرد گھومی، ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہماری جو گولی پستول سے یا کاشنکوف سے نکلتی ہے اس کی رفتار کوئی اٹھارہ سو کلو میٹرفی گھنٹہ ہے

توجو زمین اتنی تیز گھومے کبھی اللہ نے آپ کو چکر آنے دئے ؟۔ کبھی آپ کے شہر کو الٹنے دیا؟۔ کبھی پہاڑوں کو الٹنے دیا؟۔ اتنی تیز رفتار گھومنے والی چیز جس کی رفتار گولی کی رفتار کے قریب ہے اس کو قابو کرنا مشکل ہے یا ہمیں (انسان) کو قابو کرنا مشکل ہے۔ پھر زمین سورج کے گرد ساڑے انیس کروڑ میل کے دائرے میں گھومتی ہے۔ سورج بھی گھوم رہا ہے زمین بھی گھوم رہی ہے۔ سورج کی رفتار چھ لاکھ میل فی گھنٹہ ہے۔ زمین کی رفتار ساٹھ ہزار میل فی گھنٹہ ہے اور ہر اٹھارہ میل کے بعد دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سے ہٹ جاتی ہے۔ ملی میڑ کتنا ہوتا ہے۔ ایک سینٹی میٹر کا ہزارواں حصہ۔ ہر سال زمیں پیچھے ہٹ رہی ہے سورج آگے دوڑ رہا ہے ان میں فاصلہ پانچ سو ملین میل ہر سال بڑھتا جارہا ہے۔ سورج بھی دوڑ رہا ہے زمیں بھی دوڑ رہی ہے یہ زمین ہر سال دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سے ہٹتی ہے یہ اگر دو اشاریہ پانج ملی میٹر ہے یعنی تین مائکرو میٹر ہزارواں حسہ ملی میٹر کا مائکرو میٹر ہوتا ہے۔ تو یہ زمین تین مائکرو میٹر زیادہ ہٹ جائے سورج سے یا کم ہٹ جائے۔ تین مائکرو میٹر تو نظر بھی نہیں آتا بہت بڑی دور بین لگا کر دیکھا جائے تو تب جا کر نظر آ جائے گا، تو تین مائکرو میٹر کی کمی زیادتی چند ہفتوں کے اندر ساری کائنات کو تباہ و برباد کر سکتی ہے۔

 

اللہ کا علم کامل

 

تو میرے بھائیو! یہ بارش ہو رہی ہے یہ قطرے گر ہرے ہیں۔ تقریباً بارہ سو میٹر اونچا بادل ہوتا ہے جو بارش بر ساتا ہے ان بارش کے قطروں کا حجم اور وزن ہے اس وزن و حجم کی کسی چیز کو اگر بارہ سو میٹر کی بلندی سے نیچے پھینکا جائے تو اس کی رفتار ہو گی پانچ سو اٹھاون کلو میٹر فی گھنٹہ۔ جو قطرے آپ پر برس رہے ہیں اب یہ سامنے آپ کو نظر آ رہے ہیں ان کی زمین پر آنے کی رفتار ہے دس سے بارہ کلو میٹر فی گھنٹہ اللہ اس پانی کے قطرے کو ایسی شکل دیتا ہے کہ جس سے اس کی رفتار ٹوٹتی ہے پھر ہوا میں اللہ نے ایسے مادے رکھے ہیں جو اس سے رگڑ کھاتے ہیں اور اس کی رفتار کو توڑتے ہیں۔ جب یہ قطرہ زمین کو چومتا ہے تو اس کی رفتار دس سے بارہ کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اگر یہ رفتار دس بارہ کلو میٹر کی بجائے سو کلو میٹر ہو جائے تو۔ نہ کوئی سر سلامت رہے گا نہ کوئی چھت سلامت رہے گی، نہ کوئی پہاڑ سلامت رہے گا۔ نہ کوئی سڑک سلامت رہے۔ نہ کوئی انسان سلامت رہے۔

اب زمین پر جتنی بھی بارش ہو رہی ہے اس کی رفتار کو کنٹرول کرنا ایک ایک قطرے کو کنٹرول کرنا یہ رب کا کام ہے۔ یہ ہے میر ا اور آپ کا رب جو اتنا کچھ کر کے نہ تھکتا ہے نہ چوکتا ہے ( چوکنا یعنی غلطی کرنا) پھر یہ کتنے قطرے برس رہے ہیں کون جانتا ہے ؟ اللہ فرماتا ہے۔ یعلم عدد قطر الامطار میں تمھارا رب ہوں جو بارش کے سارے قطروں کی تعداد کو جانتا ہوں۔

تو میرے بھائیو! یہ سب نظام اس بادشاہ نے بنایا ہے اسی نے چلایا اس پر قابو رکھا۔ کیا وہ ہمیں نہیں قابو کر سکتا؟ کہ دنیا میں کوئی نا فرمانی نہ کرے۔ کوئی عورت بے پردہ نہ پھرے ، کوئی نوجوان مستی نہ کرے ، کسی ہوٹل میں شراب نہ پی جائے ، کہیں زنا نہ ہو۔ کہیں جوا نہ ہو۔کوئی بے نمازی نہ ہو، کیا مشکل ہے اللہ کے لئے ؟

ا ء نتم اشد خلقا ام السمآء۔ ترجمہ تو یہ ہے۔ کہ تمھارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا بنانا مشکل ہے۔ لیکن اللہ کہ رہا ہے ؟ تمھیں قابو کرنا مشکل ہے یا آسمان کو قابو کرنا مشکل ہے ؟ تمھیں قابو کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو قابو کرنا زیادہ مشکل ہے ؟

بنا ھا میں نے اس کو بنایا۔ رفع سمکھا چھت کو اٹھایا۔فسواھا برابر کیا۔ و اغطش لیلھا رات کو لایا و اخر ج ضحھا دن کو لایا۔

والارض بمد ذلک دحھا زمین کو بچھایا۔ اخرج منھا ماء ھا ومرعٰھا زمین سے پانی نکالا چارا نکالا۔ والجبال ارسٰھا پہاڑوں کو گاڑا۔ متاعالکم والانعامکم تمھارے لئے اور تمھارے جانوروں کے لئے۔جو اللہ پہاڑوں کو گاڑ کے قابو رکھے۔ بارش کے قطروں پر اپنی طاقت کو ظاہر کر کے دکھائے۔ آسمان جیسی بڑی مخلوق کو قابو کر کے دکھائے۔ وہ اس چھ فٹ کے آدمی کو کیسے قابو نہیں کر سکتا؟

 

لمحہ فکریہ

 

تو میرے بھائیو! ہمارے لئے امتحان ہے بڑا زبردست بڑا خوفناک ہمارے ایک ایک قول فعل پر اللہ کی نظر ہے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اللہ ہمیں اپنے سامنے کھڑا کر دے گا۔ بتاؤ آسمان کو قابو کرنا مشکل ہے یا انسان کو؟ یہ اللہ پاک ہمیں متوجہ فرما رہا ہے۔ قل کل یعمل عٰلی شاکلتہ۔ کہ کرو کرو راستے کھلے ہوئے ہیں۔ گناہوں کے بھی، اچھائی کے بھی ، برائی کے بھی ، ایمان کے بھی ، کفر کے بھی ، سارے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ تمھیں اختیار دے دیا ہے جو چاہے ایما ن لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ فمن شاء فلیومن و من شاء فلیکفر لیکن یہ بتایا کہ: لاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون۔ کہ اپنے رب کو غافل مت سمجھو وہ غافل نہیں ہے۔ تو میرے بھائیو! ہم موت سے پہلے پہلے اپنے آپ کو غفلت سے نکالیں اور ساری دنیا کے انسانوں کو بھی غفلت سے نکالیں کیونکہ ہمارا مسئلہ صرف اپنی ذات کے ساتھ متعلق نہیں ہے۔ ساری دنیا کے انسانوں کا مسئلہ ہے اور خاص طور پر اس امت کا مسئلہ ہے جب اکثریت میں نا فرمانی آئے گی تو عذاب کے دروازے کھلیں گے او جب اکثریت میں فرمانبرداری آئے گی تو اللہ پاک کے رحم و کرم سے فضل کے دروازے کھلیں گے۔ اسی لے ہم ہی عرض کر ہے ہیں کہ بھائیو! اپنی ذات کے لئے بھی توبہ کریں اور لوگوں سے بھی توبہ کروائیں۔ اپنے شہر کا ماحول ایسا بنائیں کہ کوئی بھی یہاں آ کر گناہ کی جرات نہ کر سکے۔

 

انسان محتاج ہے

 

میرے بھائیو! اور دوستو! انسان کمزور ہے۔ خلق الانسان ضعیفا۔ یہ سہاروں کے بغیر چل نہیں سکتا۔ جسم کے نظام کے لئے غذا کا، پانی کا اور ہوا کا محتاج ہے۔ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے ساری کائنات کا محتاج ہے۔ ایک ایک چیز سے اس کی ضروریات وابستہ ہیں۔ اتنا کوئی بھی محتاج نہیں ہے جتنا انسان محتاج ہے۔ جانور، پتنگے ، پرندے ان کی کیا ضرویات ہیں کچھ نہیں ، بہت تھوڑی ، جو تھوڑی دیر میں ہی پوری ہو جاتی ہیں۔ لیکن انسان قدم قدم پر محتاج ہے پھر جتنا مالدار بنتا جاتا ہے انتا محتاج ہوتا جاتا ہے۔ جتنا عہدوں میں ترقی کرتا ہے اتنا وہ محتاج ہوتا جاتا ہے۔

ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہزاروں آدمیوں کا محتاج بنتا ہے چاہے وہ جھاڑو دینے والا ہے یا کسی ملک کا صدر اور بادشاہ ہے یا بازار میں ریڑی لگاتا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ یاایھاالناس انتم الفقرآء۔ اے انسانوں ! تم فقیر ہو اور محتاج ہو۔اب مشکل یہ ہے کہ جن سے ہم امیدیں رکھتے ہیں وہ بھی ہماری طرح محتاج ہیں۔ ہماری طرح ان میں طمع ہے ، ہماری طرح لالچ ہے ، ہماری طرح ان کی بھی ضروریات ہیں اور انسان میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا جذبی بھی ہے لہٰذا جب محتاج نے محتاج پر سہارا کیا ، کمزور نے کمزور پر اعتماد کیا تووہ بنیاد ٹوٹ گئی، عمارت ٹوٹ گئی کھنڈر بن گئی۔

 

پہلا سبق

 

تو سب سے پہلا سبق جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سکھاتا ہے وہ ہے لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ۔ یہ پہلا سبق اللہ دیتا ہے اور سارے نبیوں کی پہلی دعوت یہی ہے کہ تم اس کائنات میں اللہ جیسا نہیں پا سکتے۔ لیس کمثلہ شی۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا تم اللہ کو اپنے ساتھ لے لو اور اس کے سامنے ہر ضروریات رکھنے کی عادت بنالو اور اس کے محتاج بن جاؤ ( جو کسی کا محتاج نہیں )تو وہ تمھاری دنیا اور آخرت کی ساری ضرورتوں کو پورا کر دے گا۔

 

اللہ کے ساتھ اپنا تعلق بناؤ

 

لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے۔ اور وہ تعلق قائم کیسے ہو گا؟ یہ جتناتبلیغ کا کام ہو رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ ساتھ تعلق کو ٹھیک کرنے کی محنت ہو رہی ہے ، اگر کسی سے تعلق بنانا ہو تو کتنا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ صرف تھانیدار یا ایس پی ہے یا کمشنر یہ سارے چھوٹے چھوٹے آفیسر ہیں ان سے اگر تعلق بنانا ہو تو کس طرح آدمی گردش کرتا ہے ، راستے تلاش کرتا ہے ، خوشامد کرتا ہے۔ جھوٹ سچ ان کے سامنے بولتا ہے تب جا کر ان سے تعلق قائم ہوتا ہے تو اللہ سے تعلق پیدا کرنا جو زمین اور آسمان کا بادشاہ ہے ، ان سب سے آسان ہے جتنے آپ انسان سے تعلق قائم کرنے میں تھکتے ہیں۔ اس سے کم اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے میں تھکا جائے تو سارے مسئلے حل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے دنیا والوں سے تو یہ معاملہ ہے کہ نہیں۔ ہمیں روٹی کی ضرورت ہے تو جس پر امید ہے وہ بھی روٹی کھاتا ہے اور ہمیں خوف سے امن کی ضرورت ہے اور جس پر ہماری امید ہے وہ خود بھی خوفزدہ ہے۔ ہماری طمع ہے کہ دولت بڑھ جائے اور جن لوگوں سے ہم دولت نکالنا چاہتے ہیں ان میں بھی طمع لالچ ہے کہ ہماری دولت اور مال بڑھ جائے اور ہم اپنے گھر کو روشن کر نا چاہتے ہیں۔اور جن جن راستوں سے ہم کوششیں کر رہے ہیں جن کی جیبوں سے روپے نکال رہے ہیں وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بھی محل کھڑے ہو جائیں۔

لیکن اگر ہم اللہ سے تعلق قائم کر لیں تو اللہ تعالیٰ کسی ایک بھی چیز کا محتاج نہیں ، نہ وہ کھائے ،نہ پئے ، نہ سوئے نہ تھکے نہ وہ پریشان ہو اور نہ اس کے خزانوں میں کوئی کمی آئے۔ کائنات کے اس نظام کو چلا کے نہیں تھکا کہ یہ کہنے لگے کہ میں تھک گیا ہوں اب کل دربار لگے گا ہم اپنی اپنی ضرورتیں اس کے پاس لے کر آئیں گے کیونکہ نہ سوتا ہے نہ گھبراتا ہے نہ جاہل ہے نہ عاجز ہے بلکہ وہ غالب ہے غیرالمغلوب اس پر کوئی غالب نہیں سب پر اس کی طاقت چھائی ہوئی ہے اس سے طاقت ور کوئی نہیں جو اس پر چھا جائے۔ وہ جائر ہے مجبور نہیں وہ غیرالمخلوق ہے وہ خالق ہے محلوق نہیں۔ مالک غیر الملوک، وہ مالک ہے مملوک نہیں۔ ناصر غیر المنصور ، وہ مدد کرتا ہے مددکا محتاج نہیں۔ حافظ غیر محفوظ وہ حفاظفت کرتا ہے اپنی حفاظت کراتا نہیں۔

رب غیر مربوب وہ پالتا ہے اور پرورش کرتا ہے اور خود اپنی پرورش میں کسی کا محتاج نہیں۔ شاہد غیر مشہور، وہ سب کو دیکھتا ہے اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ،

سب چیزیں اس کی نظروں میں ہیں۔ لا تدرکہ الابصار۔ اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ وھو یدرک الا بصار۔ ہم سب کو دیکھتا ہے۔ کتنی دور ہے۔ لا تراہ العیون۔ آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ آنکھ تو ستارے بھی نہیں دیکھ سکتی ، اللہ کو کیسے دیکھ سے گی۔ ولا تخالطوہ الظنون۔ دنیا میں انسانی خیال سب سے تیز رفتار سواری ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تک خیال بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ساری دنیا کے انسانوں کے خیالوں کو اکھٹا کیا جائے تو وہ ان سے بھی اوپر ہے۔ خیال کی پرواز تخیل کی پرواز اڑتے اڑتے تھک جائے اور اللہ کو نہ پہنچ سکے۔ ولا یصفوہ الواصفون۔ سارا جہاں مل کر اس کی تعریف کرنا چاہے۔ تو سب مل کر اس کی تعریف نہ کرسکیں۔ اتنے دور اور اتنا اونچا ہے لیکن اس کی عجیب صفت ہے۔ بل ھواقرب الیہ من حبل الورید۔ یہاں پر دو متضاد چیزیں آپس میں مل گئی ہیں دو ناممکن ، ممکن ہو گئے اتنا دور اتنا دور ہے کہ خیالات بھی اس تک نہ پہنچ سکے ، اور اتنا زیادہ قریب ہے کہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی فوقیت اور اوپر ہونا۔ فویتہ ما اکثر ملکہ کما اعلیٰ مکانہ۔ کیا عظیم الشان اس کی ملک ہے اعلیٰ اس کا مکان ہے۔ ما اعظم شانہ۔ کیا عظیم اس کی شان ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ یا اللہ سب کچھ تیرا ہے ملک تیرا ہے کبریا ئی تیری جبروت تیری قدرت تیری جمال و جلال تیرا۔ اس ذات کو ہم ساتھ لے لیں تو کام بن گیا۔ پھر وہ ایسا بادشاہ ہے جو کسی کا محتاج نہیں دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ سب محتاج ہیں اسمبلیاں پاس کریں سینٹ پاس کریں تب کہیں جا کے ان کا حکم چلے پھر ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہو جائے تو کرسی الٹ جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا بادشاہ نہیں ہے۔ احد اکیلا صمد بے نیاز الملک لا شریک لہ اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں اس کا کوئی مثل نہیں۔ العالی اونچا لا ثانیہ اس کے برابر کوئی نہیں۔وہ غنی ہے اس کا مدد گار کوئی نہیں۔ اسکو کسی چیز سے نفع نہیں پہنچتا۔ اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اس پر کوئی غالب نہیں۔ اسکو کوئی چیز تھکاتی نہیں۔ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس سے پہلے کچھ نہیں اسکے بعد کچھ نہیں۔ کوئی چیز اس سے اوپر نہیں کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں۔ اگر ایسا بادشاہ ہماری پشت پر آ جائے تو ہم سے طاقت ور دنیا میں کون ہو گا۔ ہم سے بڑا عزت والا کون ہو گا؟ آج ساری دنیا میں غلط ذہین بن گیا ہے کہ پیسہ ہو گا تو کام چلے گا پیسہ نہیں ہو گا تو کام نہیں چلے گا۔

 

میرے بھائیو! ہم پوری دنیا کو بتائیں کہ اللہ ساتھ ہو گا تو کام چلیں گے اور اللہ ساتھ نہیں ہو گا تو کام نہیں چلیں گے اور بعض کہتے ہیں کہ بہت سارے کام چلتے ہیں لیکن اللہ ساتھ نہیں تو یہ ان کی ڈھیل ہے اور یہ ان کو مہلت ہے کب تک ؟ موت تک۔ اللہ کی کتاب کا اعلان ہے ہم نے اپنے نا فرمانوں کو ڈھیل دی ہوئی ہے وہ جھوٹ بول کر کما رہے ہیں اور ان کو رزق آتا ہے وہ لوگوں کے پیسے مار رہے ہیں۔ دبا رہے ہیں حق مار رہے ہیں خیانت کر رہے ہیں غلط کو صحیح کی شکل میں بیچ رہے ہیں۔ اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ تو کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب کہتی ہے کہ ہم نے ان کو مہلت دی ہوئی ہے اور ان سب کو آپ بتائے۔ و املی لھم ان کیدی متین۔ جب تمھارا رب ان کو پکڑے گا تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہے ایک اور جگہ اللہ فرماتا ہے یہی تیرے رب کی پکڑ کا حال ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ اور اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔ جس کو آخرت کے عذاب کا ڈر ہے وہ اس سے سبق حاصل کرے گا اور آخرت کا خوف نہیں وہ بہک جائے گا بھٹک جائے گا۔ آخرت کو جاننے والوں کے لئے اتنی ہی نشانیاں اس میں کافی ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی ڈھیل میں ہیں یہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے غالب ہو کر کما رہے ہیں۔ میرے بھائیو! ہم اللہ تعالیٰ کو ساتھ لے لیں وہ کھاتا نہیں کہ اس کو طمع ہو کہ میں پہلے خود کھاؤں پھر تمھیں کھلاؤں ماں کو بھی سخت بھوک لگی ہوتی ہے تو پہلے خود کھا لیتی ہے پھر بچوں کو کھلاتی ہے تو اللہ تعالیٰ نہ گھر کا محتاج ہے کہ پہلے اپنے لئے گھر بنائے پھر آپ کو دے نہ آرام کا محتاج ہے کہ پہلے خود آرام کرے پھر آپ کو آرام کرائے ہر چیز سے ہر عیب سے پاک ذات اللہ کی ہے۔

 

اللہ بھی ہو اور کوئی بھی

 

اللہ کو اپنے فیصلوں میں اسکو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا وہ حکیم ذات ہے اگر وہ ذات اکیلی ہمیں مل گئی ہمیں سب کچھ مل گیا۔ اللہ فرماتا ہے الیس اللہ بکاف عبدہ۔ میرے بندے کافی نہیں ہوں میں ؟ اللہ بھی اور کوئی بھی اسی کو تو شرک کہتے ہیں اللہ بھی ہے یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے یہیں سے شرک کے دروازے کھلتے ہیں۔ ابو طالب کے گرد قریش کا گھیرا ہے وہ اصرار کر رہے ہیں کہ بھتیجے کو روک لو ورنہ ہم اسے قتل کر دیں گے انہوں نے بلا یا آپ تشریف لائے اور چار پائی کے پاؤں کی طرف بیٹھ گئے کہا بھتیجے تیری قوم آئی ہے آپ ان کو کچھ کہنا چھوڑ دیں اور یہ تجھے کچھ نہیں کہیں گے آپ نے فرمایا۔ اے چچا میں ایک بات ان سے کرتا ہوں۔ ایک بول میرا مان لیں تو عرب سارا ان کاتابع ہو گا اور سارا جہاں ان کی حکومت کے نیچے آ جائے گا۔ تو یہ سب اچھل پڑے ابو جہل نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا تیرے باپ کی قسم دس دفعہ بھی تیرے بول ماننے کو تیار ہوں وہ بول کیا ہے جس سے پورا عرب ہمارے تابع ہو جائی؟ وہ کیا ہے جس سے عرب اور عجم ہمارا غلام ہو جائی؟ تو آپ نے فرمایا۔ لا الہ اللہ بس یہ ہے یہ مان لو۔ اس نے کہا تو کئی خداؤں کو ایک بناتا ہے یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہی آج ہماری سمجھ میں بھی نہیں آ رہا ہے میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ کو ساتھ لے لو تو بحر و بر فرش و عرش لوح و قلم کرسی زمین مکان ہوا فضا سب اللہ کی ہیں اور اللہ کے تابع ہیں یہ عالم کچھ نہ تھا اللہ نے آدم کے ساتھ اس کو بنایا اور اس کو شکل دی ہر چیز کو بنایا اور اس کا اندازہ لگایا۔ پھر آسمان کو اٹھایا۔ آسمان کے لئے ستون نہیں لگایا پھر زمین کو بچھایا پھر اس میں سے پانی کو نکالا پھر چارا نکالا پھر پہاڑ لگائے رات اور دن کا نظام بنایا۔ پھر کبھی دن کو لمبا کیا کبھی رات کو لمبا کیا۔ پھر سورج کو دہکایا۔ پھر اللہ نے چاند کی چاندنی کو ٹھنڈا کر کے زمین میں بکھیر دیا۔اللہ فرماتا ہے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے ہو تمھارے رب نے زمین اور آسمان کو کیسے بنایا؟ تم کو جوڑا جوڑا بنایا۔ ہمیں ساری چیزوں سے کاٹ دیتی ہے نیند۔ رات کو اللہ نے سب کے لئے تمام مخلوقات کے لئے آرام کی چیز بنائی۔

 

اللہ سے بنا کر رکھو

 

اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ ہوا کا نظام پانی کا نظام پہاڑوں کا دریاؤں کا نظام اور زمین کا نظام ہمارے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں۔ تو اللہ ہی سے بنا کر رکھو ایس پی سے میئر سے کمشنر سے بنا کے رکھو اور زمین و آسمان کے بادشاہ سے بگاڑ کے رکھو تو کیسی حماقت ہے؟ لوگ تو بدمعاشوں سے بنا کر رکھتے ہیں جن کو کام پڑتے ہیں تو کام آئیں گے۔ تو ہم زمین اور آسمان کے بادشاہ سے بگاڑ کر چلیں تو ہماری زندگی کیسی سکھی ہو گی ہم کیسے چین پائیں گے ؟ تو اس کے لئے میرے بھائیو! اپنے اللہ سے تعلق قائم کر لو ہر کام میں ساتھ لے لو سب سے زیادہ آسان اللہ کو ساتھ لینا ہے بڑا آسان بادشاہ ہے اس کی قدرت اتنی بڑی ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔

 

اللہ کو اپنے بندے کی توبہ کا انظار ہے

 

اپنے بندوں سے تعلق اتنا ہے کہ کائنات کی ہر چیز نے اجازت مانگی ہے کہ اے اللہ نافرمانوں کو ہلاک کر دوں ؟تو اللہ کہتا ہے کہ نہیں چھوڑ دو میں ان کی توبہ کا انتظار کر تا ہوں۔ تو پہلے کام کرنے کا یہ ہے کہ اپنے اللہ کو ساتھ لینا ہے تو اس کے لئے توبہ کر لیں تبلیغ کوئی جماعت نہیں یہ ایک محنت ہے کہ ہر مسلمان اپنے اللہ سے جڑ جائے اور تعلق بنا لے۔ مسئلے حل کروانا ہے تو اللہ سے حل کر والے۔ سارے اپنی اپنی زبانوں میں مانگ لو سب اکھٹے ایک ہی آواز میں مانگ لو تو اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گا ارے بھائی کیا کر رہے ہو اتنا شور میں کن کن کی سنوباری باری مانگو۔ اللہ کہتا ہے کہ جتنا جی میں آتا ہے مانگو۔ فاتیٰت کل انسان مسئلہ میں تم سب کا مانگا تم سب کو دے دوں۔ میرے خزانے میں اتنی بھی کمی نہیں آتی جتنا سوئی کو سمندر میں ڈال کر باہر نکالا جاتا ہے۔ جس طرح سمندر میں کمی نہیں آتی اسی طرح تیرے رب کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی۔ تو میرے بھائیو ایسے اللہ میرے اور آپ کے ہو جائیں تو کیا خیال ہے ہمارے کام بنیں گے یا نہیں ؟

 

ایک صحابی کا واقعہ

 

ایک صحابی اپنے گھر میں آئے تو پوچھا کچھ کھانے کو ہے ؟ بیوی نے کہا نہیں فاقہ ہے تو پریشان ہو گئے گھر میں بیٹھا نہیں جا رہا تھا نہ بھوک کا حال دیکھا جائے اس لئے باہر نکل گئی۔ بیوی نے سوچا کہ میں اپنا فاقہ کیسے چھپاؤں پڑوس سے کہ ہمارے گھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس نے تنور میں آگ جلائی کہ پڑوسیوں کو پتہ چل جائے کہ اس نے روٹی پکانے کے لئے تنور گرم کیا ہے اور ادھر خالی چکی چلانا شروع کر دی یوں اپنے قافہ کو چھپایا اس دوران اللہ تعالیٰ سے دعا کی یا اللہ آپ جانتے ہیں کہ ہم بھوکے ہیں اللہ ھما ارزقنا آپ ہمیں رزق کھلا دیں۔ صرف جملہ یا اللہ ہمیں کھلا دے ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ تنور سے خوشبوئیں اٹھنے لگیں اور اتنے میں دروازے پر خاوند آیا تو خاوند کو لینے گئی میاں اور بیوی نے تنور میں جھانک کے دیکھا تو تنور میں رانیں بھنی جارہی ہیں اور چکی پر جا کے دیکھا تو اس سے آٹا نکل رہا ہے سارے برتن بھر لئے جب چکی اٹھا کر دیکھا تو کچھ نہیں تھا۔ اب وہ حضور کی خدمت میں کہ یا رسول اللہ یہ واقعہ ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اٹھا کر نہ دیکھتا تو قیامت تک یہ چکی چلتی رہتی۔ میرے بھائیو! ایسا تعلق اللہ سے بنا لیں تو، پھر سودے میں جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر ہمیں سود پر سودا کرنا نہیں پڑے گا۔ پھر ادھار کا ریٹ الگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق بنا لیں اس سے مانگنا آ جائے۔ یا اللہ ! خدا کی قسم اس میں جو طاقت ہے اس سے عرش کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

 

 

 

ا   للہ کی مدد کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔

 

سب سے پہلا معرکہ جس میں حق و باطل ٹکرائے جنگ بدر ہے بدر اسلام کا ایک بنیادی سنگ میل ہے۔ جہاں سے اسلام کی تاریخ بنی ایک طرف پوری مسلح فوج کھڑی ہوئی ہے ہزار آدمی ہیں تیں سو گھڑ سوار ہیں سات سو تلوار سے لیس باقی نیزے والے ہیں ادھر کل تین سو تیرا آدمی کھڑے ہیں یہ تین سو تیرہ بغیر تیاری کے نکلے ہیں لڑائی کے لے نہ ذہنی طور پر تیار ہیں نہ تھیار ہیں سارے لشکر میں آٹھ تلوار یں ہیں سات سو تلوار اور آٹھ سو تلوار کیا مقابلہ ہے تین سو گھوڑے اور دو گھڑ سوار کیا مقابلہ ہے۔ ساٹھ اونٹنیاں یہ کل سامان جنگ ہے بدر کی لڑائی کا کل سامان جنگ اور ایک ہزار مسلح ہے اس زمانے کے سارے ہتھیار وں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہیں۔ اور دعا کر رہے ہیں کہ ان کو تو نے مار دیا تو پھر تیرا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ یہ الفاظ بدر کے صحابہ کی عظمت کو بتاتے ہیں کہ اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اتنا اونچا مقام دے رہا ہے کہ اگر یہ مٹ گئے تو تیرا نام بھی دنیا سے مٹ جائے گا یہ ایسے بنیادی لوگ تھے اس دن جو روئے ہیں اور اللہ سے مانگا ہے کچھ بھی نہیں ہاتھ میں اور ادھر سب نے مانگا۔ سب مانگ رہے ہیں یا اللہ تو ہی کرے گا تو ہی کرے گا۔ تو اللہ نے کہا میرے ہزار فرشتے آ رہے ہیں کافر ایک ہزار ، فرشتے بھی ایک ہزار ایک بات سمجھائی کہا فرشتوں کو نہ سمجھنا کہ فرشتوں کا کام ہوتا ہے۔ کام اللہ ہی کرتا ہے۔

وما النصر الا من عنداللہ کام اللہ ہی بناتا ہے دوسری مدد آئی۔ اذ یغشیکم النعاس امنة منہ۔ اللہ نے نیند دے دی سب سو گئے تھکے ہوئے تھے سو گئے تھکاوٹ دور ہو گئی۔ تیسری مدد آئی۔ ایک تو اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیجے شیطان کے وسوسے دور ہو ئے اور استقامت ہو گئی قدم جم گئے اور اللہ تعالیٰ نے دلوں کو مضبوط کر دیا۔ پھر پانچویں مد آئی۔ اللہ نے فرشتوں کو لڑنے کا حکم دے دیا فرشتے آتے تو تھے پر ہمیشہ ، لیکن لڑتے نہیں تھے جنگ بدر میں فرشتے لڑے ہیں یہ پہلی جنگ تھی جس میں فرشتوں نے آ کے لڑائی کی اور اللہ نے ان کو بتایا۔ ان کی گردنیں کاٹنا اور ان کے ہاتھ کاٹنا۔ تو کہا ں تین سو تیرہ اور کہاں ایک ہزار جب لشکر آمنے سامنے ہونے لگے تو ایک ہوا چلی ایک زور سے ہوا آئی۔ حضرت علی نے پوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جبرائیل آ گئے فرشتوں کے ساتھ۔ پھر ایک دوسری ہو چلی حضرت علی نے پوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جبرائیل آ گئے فرشتوں کے ساتھ پھردوسری ہوا چلی حضرت علی نے پوچھا یا رسول اللہ یہ کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میکائیل گئے فرشتوں کے ساتھ۔ اللہ نے منٹوں میں پانسہ پلٹ کے دکھا دیا۔ اللہ کی مدد کے بغیر کامیابی نا ممکن ہے۔ حضرت شرابیل ابن حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک پتلے دبلے سے صحابی ہیں وحی کے کاتب تھے وحی لکھتے تھے مصر میں ایک قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا کچھ دن زیادہ گزر گئے ایک دن حضرت شرابیل کو جوش آیا گھوڑے کو ایڑ لگا کے آگے ہوئے اور فصیل کے قریب جا کر فرمایا : اے قبتیو سنو! ہم ایک ایسے اللہ کی طرف تمھیں بلا رہے ہیں اگر اس کا ارادہ ہو جائے تو تمھیں اس قلعے کی آن کی آن توڑ سکتا ہے۔ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہ کر جو شہادت کی انگلی اٹھائی۔ سارا قلعہ زمین پر آ گرا یہ کلمہ سیکھا ہوا تھا ہم گدھے ہیں جنہوں نے ابھی تک کلمہ سیکھا نہیں ہے جب کلمہ اندر آتا ہے تو باطل ایسے ٹوٹتا ہے جیسے تم انڈے کے چھلکے کو توڑتے ہو۔

 

تو بھائیو! آج اللہ کی محبت دلوں سے نکل گئی ہے۔ اللہ پر اعتماد اور یقین اٹھ گیا ہے وہ ہمارے تمام مسائل حل کر دے گا اس کا علم تو ہے اس کا یقین ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ اس امت کا کام ہے کہ اللہ کی عظمت کبریائی جبروت جلال کے قسے سنا سنا کر لوگوں کے دلوں میں جتنے بت ہیں ان کو توڑتے ہیں اندر کے بتوں کو بھی توڑ کر لا الہ کا نقش دلوں میں راسخ کرتے ہیں کہ لا الہ الااللہ دل میں اتر جائے ایک حدیث سے آپ اندازہ لگایئے۔ والذی نفسی بیدہ۔ اس ذات کی قسم جو میری جان کا مالک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اتنا بڑا ترازو ہو کہ اس کے ایک پلڑے میں سات آسمان اور سات زمین رکھ دیئے جائیں اور ان کے درمیان میں جو کچھ بھی ہے ان سب کو رکھ دیا جائے اور دوسری طرف لا الہ الااللہ رکھ دیا جائے تو لا الہ الااللہ سب کو ہوا میں اٹھا دے گا اور وزنی ہو جائے گا اور ہماری محنت یہ ہے کہ ہم اس کو دل اتاریں اس کو سیکھیں اور اس کی دعوت دیں۔

 

لا الہ الااللہ میں کائنات کی طاقت نہیں اللہ کی طاقت چھپی ہوئی ہے اللہ وہ ذات ہے نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ اس کا کوئی آخر۔

 

اللہ تعالیٰ کا انسان سے شکوہ

 

حدیث میں آتا ہے کہ۔ میرے بندے جب تو کوئی گناہ کرتا ہے یہ نہ دیکھا کر کہ چھوٹا ہے کہ بڑا ہے۔ یہ دیکھا کر کہ نا فرمانی کس کی ہو رہی ہے۔

نا فرمانی تو بہت بڑے رب کی ہو رہی ہے۔

اس کی ذات سے اثر لے کر چلنا یہ ایمان ہے۔

آپ میں سے بہت سارے مجھے جانتے ہیں نام سے نہیں جانتے ہیں تو شکل سے تو پہچان رہے ہیں تعارف تو اس کو بھی کہتے ہیں۔ تعارف اور تعلق کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اس کے دروازے پر آئیں تو وہ آپ کا کام ضرور کرے اگر وہ کر سکتا ہے۔ آپ کو وہ لوٹا نہ سکے۔ ایسا اللہ کے ساتھ تعلق بنا لیں اور اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ اپنے بندے کا ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ اس کا نام تعلق ہے اس تعلق کو اللہ پاک کے ساتھ آپ بنا لیں۔

 

جب اللہ کی روشنی اندر داخل ہوتی ہے تو اندر سینہ کھل جاتا ہے۔ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اے رسول اللہ اس نور کی کوئی نشانی ہے ؟ ہم سارے ایمان والے بیٹھے ہیں ہم سارے دعا کرتے ہیں ہمارے اندر ایمان کا نور ہے دیکھو اور اس کی نشانی کیا ہے ؟

اللہ پوچھنے والے کا بھلا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نشانی تین چیزیں ہیں۔

1دنیا سے بے رغبتی

2جنت کا شوق

3موت سے پہلے موت کی فکر کرنے والا۔

یہ تین باتیں ہیں تو ایمان کا نور دل کے اندر آ چکا ہے۔ اگر تین باتیں نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ ایمان ہے لیکن نور سے خالی ہے۔ جیسے لائن ہے اندر بتی بھی ہے اور جلانے والی کوئی نہیں ہے۔ ایمان نے مگر اس کو چمکانے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید