فہرست مضامین
افسانے کی حمایت میں
شمس الرحمٰن فاروقی
نومبر کا مہینہ، شام کا وقت، اور غضب کی دھند۔ یا دھند نہیں کہرا کہیئے۔ بہار میں کہاسا کہتے ہیں، مجھے خیال آیا۔ چلئے کہاسا ہی سہی، لیکن نومبر کی شام میں اتنا کہرا /کہاسا کسی نے دیکھا نہ ایسی دھند دیکھی۔ نہیں، دھند تو ہو سکتی ہے۔ ہلکی گلابی سردی، زمین سے لپٹ کر دھیرے بہتی ہوئی کچھ ٹھنڈی ہوا، چولھوں سے اٹھتا اور فضا میں الجھتا ہوا دھواں، تیز یا سست آتی جاتی گاڑیوں کی اڑائی ہوئی گرد، اور کہیں کہیں، کبھی کبھی، واپس لوٹتے ہوئے ریوڑوں کے قدموں کی دھول، یہ سب مل کر دھند پیدا کر ہی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو کار چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ دیہات کہاں۔ ۔ ۔ یہ تو شہر ہے۔ مگر کون سا شہر؟ میں سر شام انجان گڈھ سے سراے میراں کے لئے نکلا تھا۔ بمشکل پچاس کلو میٹر کا فاصلہ ہو گا۔ پچاس کلومیٹر میں۔ ۔ ۔ کتنے میل ہوتے ہیں ؟ میں میل اور سنگ میل کے زمانے کا آدمی ہوں، مینار میل بھی جانتا ہوں، یہ کلومیٹر میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ ایک اعشاریہ چھ کلومیٹر برابر ایک میل ہوتا ہے۔ بھلا کون حساب لگا سکتا ہے کہ پچاس کلومیٹر میں کتنے میل ہوتے ہیں ؟تیس بتیس میل ہوں گے۔ میل کہہ دینے سے فاصلہ آسان تھوڑی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ راستے میں شہر کہاں آ ٹپکا؟ انجان گڈھ بھی قصباتی، سراے میراں بھی قصباتی۔ ۔ ۔
خوش نوا مرغ گلستاں رند قصباتی ہے میاں۔ ۔
مجھے میر کا مصرع یاد آیا۔ نہیں، لاحول ولا قوۃ، میرا حافظہ ابھی سے جواب دے رہا ہے۔ میر نے ’’قصباتی‘‘ نہیں ’’باغاتی‘‘ کہا ہے۔
تو بھلا ’’رند باغات‘‘ کیا ہوا؟
وہ رنگین مزاج لوگ جو باغوں میں گھومتے پھرتے تھے ؟
۔ ۔ ۔ نہیں احمق، ’’باغات‘‘ در اصل ایک محلہ تھا اصفہان میں۔ وہاں کے لوگ بڑے حسین مشہور تھے۔ ’’ان صحبتوں میں آخر‘‘ میں اسی مناسبت سے لبیبہ خانم کو اصفہان میں آباد دکھایا گیا ہے۔
مگر یہ شہر تو اصفہان نہیں۔ ۔ ۔
یہ میں بار بار شہر کیوں کہہ رہا ہوں ؟ یہ تو معمولی سی آبادی کا گاؤں ہونا چاہیئے۔ لیکن ابھی ایک دو میل۔ ۔ ۔ نہیں نہیں ایک دو یا تین کلومیٹر پہلے ایک بہت بڑے ہوائی اڈے کی روشنیاں نظر آئی تھیں۔ رن وے پر جھلملاتی، بڑی بڑی روشنیوں سے چشمکیں کرتی ہوئی ٹھنڈی سبزی مائل نیلی روشنیاں، کنٹرول ٹاور سے پرواز کرتی ہوئی طاقتور سرچ لائٹیں، ہوائی اڈے کی چہار دیواری چکا چوندھ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سورجوں کی طرح تمازت بھرے سوڈیم چراغوں کی آغوش میں مشغولیت سے بھری ہوئی ٹرمنل کی عمارت۔ ۔ ۔
اجی کہاں کا قصہ لے بیٹھے ہو، ہو گا، کوئی ہوائی اڈا ہی ہو گا۔
اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم جہاں سے گذر رہے ہو وہ کوئی شہر ہی ہے۔ گذر رہے ہو؟
کون مسخرا گذر رہا ہے ؟ گاڑی بمشکل ہی آگے بڑھ رہی ہے، کہرا۔ ۔ ۔ کہاسا ہی اتنا ہے کہ بس۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔
کیا فضول محاورہ ہے۔ ہاتھ میں کون سی آنکھیں لگی ہوئی ہیں کہ دوسرا ہاتھ دکھائی دے۔ مگر زبان تمھاری محکوم نہیں، تم زبان کے محکوم ہو۔ اور وہ جو کہتے ہیں کہ زبان تو فلاں استاد کے گھر کی لونڈی ہے ؟
ہونہہ، تو ذرا اس لونڈی کی اسی ادا کو ٹھیک کر دیں۔ ۔ ۔ حکم دے دیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینا غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے، اس لئے آج سے یہ محاورہ ہماری لونڈی کی زبان پر نہ آئے نہیں تو۔ ۔ ۔
نہیں تو کیا؟ واجب القتل ہو گی؟زبان کو قتل کر دو گے تو پھر تم بولو گے کیا ؟بھوک لگے گی تو روٹی کیسے مانگو گے۔ ۔ ؟
مگر گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ہے ؟ ظفر اقبال صاحب بھی عجب مسخرے تھے۔ کہہ گئے
گاڑی اتنی نہیں پرانی بھی
بات کیا ہے جو کھینچتی نہیں لوڈ
یہاں لوڈ کون سا ہے، یہاں تو میں اکیلی جان۔ ۔ ۔ اکیلی جان چوپایوں کے جنگل میں بھٹکتی ہے خدا جانے کس کا مصرع ہے۔ مگر ہے بڑا ڈراؤنا۔ اب تو لوگ کاروں اور اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں کے جنگل میں بھٹکتے نہیں، صرف قتل ہوتے ہیں۔
اماں موٹر سائیکل کو ہم لوگ پھٹ پھٹیا کہتے تھے، یا پھٹ پھٹی کہتے تھے۔ کیسے اچھے لفظ تھے۔ موٹر سائیکل کے لئے کئی زبانوں میں ایسے ہی لفظ ہیں۔ بعد میں موٹر سائیکل کہنے لگے، چلو اس میں بھی ایک شان تھی۔ مگر اب صرف بائک کہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی باتیں چھوٹی کیوں ہوتی جا رہی ہیں ؟
مگر یہ راستہ تو چھوٹا نہیں، لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے زمانے میں شہروں کو کنکریٹ جنگل concrete jungleکہتے تھے۔ اب تو چلتا ہوا جنگل rolling jungleکہنا چاہیئے، جیسے ہمارے یہاں ریگ رواں کا استعارہ یا مشاہدہ تھا، ایسے ریگستانوں کے لئے جہاں ریت ہر وقت اڑتی رہے، گویا آگے بڑھتی جا رہی ہو۔ ملا سابق کا کیا عمدہ شعر ہے
نفس کے بیاساید از ہرزہ گردی
کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را
یہ ملا سابق تھے کون؟
کوئی ہوں گے، سابق کے معنی ہیں آگے جانے والا۔ وہ تو آگے نکل گئے، یہاں میں مسبوق بلکہ مذبوح ہوا جا رہا ہوں۔
مگر دیکھئے استعارے میں کیا قوت ہے کہ منزل گہے نیست ریگ رواں را کس خوبی سے ہمارے جدید معاشرے پراس کا اطلاق ہوتا ہے۔ سڑکوں پر کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی اور جگہ مل بھی جائے تو فرصت کسے۔ موٹریں، بسیں، بائکیں، آٹو رکشے اس طرح بپھرے ہوئے اندھا دھند بھاگتے رہتے ہیں گویا انھیں کہیں رکنا ہی نہ ہو۔
اندھا دھند۔ دھند؟یہاں کی دھند کب ختم ہو گی؟
مجھے رات ڈھلے سراے میراں ضرور پہنچنا ہے۔ اچانک سامنے سرخ نیلی روشنیاں نظر آ رہی ہیں۔ دو سپاہی ہاتھ اٹھا کر راستہ روک رہے ہیں۔ میری جھنجھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے لیکن میں گاڑی کو سپاہیوں کے بالکل پاس لا کر روکتا ہوں۔ میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکا ہوں کہ سپاہی بتاتا ہے، آگے راستہ بند ہے صاحب۔
کیوں ؟میں چیں بجبیں ہو کر پوچھتا ہوں۔
اچانک باڑھ آ جانے کے سبب آگے سڑک کئی گز دھنس گئی ہے اور دو تین سو گز جگہ جگہ سے کٹ گئی ہے۔ مرمت کا کام جاری ہے۔
اس میں تو گھنٹوں لگیں گے۔ مجھے جانے دو جمعدار صاحب بہت ضروری کام ہے۔
راستہ بالکل نہیں ہے جناب۔ لیکن ایک سروس روڈ ہم بنا رہے ہیں، ایک دو گھنٹے میں بن جائے گی۔ اتنی دیر آپ ہمارے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرئیے، وہ سامنے نظر آ رہا ہے۔ وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہے، اسی ہاتھ سے جس میں وہ اے۔ کے۔ سینتالیس تھامے ہوئے ہے۔
لال نیلی روشنی میں پھیلا ہوا ہاتھ اور اس کی توسیع بہت بھیانک معلوم ہو رہے ہیں۔
میں بائیں طرف دیکھتا ہوں۔ ایک دھندلی سی عمارت نظر آتی ہے جس کے پورٹیکو میں زرد کمزور بلب جل رہا ہے۔ سپاہی کا ہاتھ ابھی تک ویسا ہی سخت اور سیدھا اشارہ کر رہا ہے۔ گیسٹ ہاؤس یا جیل خانہ؟ مگر بھلا مجھے کیوں قید کریں گے، میں تو ایک بالکل بے ضرر ادھیڑ عمر کا افسانہ نگار ہوں۔ اور۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔
یہ تو کچھ کسی افسانے کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔ تو کیا میں، میں نہیں ہوں، کسی افسانے کا کردار ہوں ؟افسانے کے کردار اور افسانوی کردار میں کیا فرق ہے ؟
میں اپنی گاڑی پورٹیکو میں لے جانا چاہتا ہوں لیکن ایک اور سپاہی کہیں سے نکل کر آتا ہے اور اشارہ کرتا ہے کہ گاڑی یہیں کھڑی کر دی جائے۔ میں دل ہی دل میں دانت بھینچتا ہوں لیکن گاڑی کھڑی کر کے بظاہر نہایت لا پروائی سے کمرے میں داخل ہو جاتا ہوں۔ وہاں کئی لوگ پہلے سے موجود ہیں، لیکن روشنی بہت کم ہے اس لئے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کتنے لوگ ہیں۔ کچھ پرانے زمانے کے ریلوے ویٹنگ روم جیسا سماں ہے۔ مگر یہ ماجرا کیا ہے کہ فوجیوں نے اچانک پہنچ کر سڑک بنانی شروع کر دی۔ یہاں تو ضلع حکام اور پولیس والے ہی کئی دن بعد ایسے موقعوں پر معائنے کے لئے آتے ہیں اور فوج تو تب بلائی جاتی ہے جب معاملہ سول حکام کے قابو کے بالکل باہر ہو گیا ہو اور یہ فوجی لوگ اتنے شریف کب سے ہو گئے کہ راہگیروں کے ٹھہرنے اور آرام کا انتظام کریں۔ ورنہ لوگ تو تین تین چار چار دن سڑک پر انتظار کرتے ہیں جب کہیں کسی راحت کی امید پیدا ہوتی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں اس بات پر افسانہ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے ؟ مگر نہیں، یہ افسانہ ابھی تو کچھ کہتا نہیں معلوم ہوتا۔ محض ایک اتفاقی اور بے معنی سا واقعہ ہے۔ نہیں ابھی نہیں، لیکن جب میں اس میں کوئی با معنی انجام داخل کروں تب تو افسانہ بن جائے گا؟اچھا مان لو میں اس میں یہ دکھاؤں کہ یہ لوگ فوجی نہیں اور نہ سڑک ہی آگے مخدوش ہے۔ یہ لوگ ڈاکو ہیں۔ ۔ ۔ نہیں ڈاکو اتنی دیر تک انتظار نہیں کرتے، وہ تو لوٹ مار کر جلد از جلد رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ اور یہ کچھ خاص دلچسپ بات بھی نہیں کہ ڈاکوؤں نے کچھ لوگوں کو۔ ۔ ۔ نہیں، ڈاکو ہی کیوں ؟ اگر یہ علاقہ انتہا پسندوں کا ہوتا۔ ۔ ۔ ہاں، انتہا پسندوں نے گھات لگائی تھی، سڑک کے مسافروں کو گولی۔ ۔ ۔ مگر انتہاپسندوں نے ہم لوگوں کو مار بھی دیا تو کیا؟ افسانہ تو پھر بھی نہ بن سکے گا۔ افسانے میں تو ہر واقعے کے، یا کم از کم مرکزی واقعے کے، کچھ معنی ضروری ہیں۔ تو کیا یہ معنی کافی نہیں کہ کچھ انتہا پسندوں نے۔ ۔ ۔ انتہا پسندی بھی تو ایک معنی رکھتی ہے۔ لیکن کوئی معنی نہ رکھنا بھی تو معنی کی ایک قسم ہے ؟بھلا کافکا کے افسانوں میں معنی ہیں کہ نہیں ؟ ہیں، لیکن کیا معنی ہیں ؟
تو کیا کافکا کے افسانے ہم سے کچھ بھی نہیں کہتے ؟پتہ نہیں یہ نقاد بھی عجب شے ہیں۔ اب تک تو یہ کہا جاتا تھا کہ کافکا کے افسانوں میں لگتا ہے کہ بہت کچھ ہو رہا ہے اور ایسا ہو رہا ہے جو معنی خیز اور اہم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ ٹھیک سے نہیں معلوم ہوتا کہ کون سی بات اہم ہے اور کون سی بات زیب داستاں کے لئے۔ ۔ ۔ تو کیا افسانے میں کچھ زیب داستاں کے لئے بھی ہو سکتا ہے ؟ ہو سکتا ہے کیا معنی، ہوتا ہی ہے۔ تو پھر افسانے میں معنی۔ ۔ ۔ اجی جو زیب داستاں کے لئے ہوتا ہے وہ بھی معنی کی تعمیر میں اپنا حصہ رکھتا ہے۔ بھلا وہ کیسے ؟پتہ نہیں، میں تو افسانہ نگار ہوں، گھٹیا ہی قسم کاسہی۔ یہ سب جاننا میرا کام نہیں میرا کام افسانہ لکھنا ہے۔ لیکن کافکا۔ ۔ ۔ بھائی دنیا میں کافکا ہی تو ایک افسانہ نگار ہی نہیں۔ مانا کہ اس کے افسانے میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے اور لگتا بھی ہے کہ یہ سب معنویت سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن معنویت کھلتی نہیں۔ ہم صرف قیاس لگا سکتے ہیں۔ لیکن اب بعض نقاد کہنے لگے ہیں کہ کافکا کے افسانے میں کچھ نہیں ہے۔ صرف اس کی نفسیاتی الجھنیں ہیں۔ ورنہ اسے انسان سے ہمدردی بھی نہیں۔
انسان سے ہمدردی، یہ ہوئی نہ بات۔ لہٰذا افسانے کا اولین کام ہے کہ وہ انسان کے تئیں ہمدرد نظر آئے۔ ل۔ ۔ ۔ لیکن کون سے انسان کے تئیں ؟ ظالم کے تئیں ہمدردی رکھنا۔ ۔ ۔ نہیں نہیں انسان سے مطلب ہے عالم انسانی، اور عالم انسانی سے مطلب ہے اس عالم کے وہ فرد جو زندگی میں معنی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی میں معنی؟ زندگی میں معنی کی بات بعد میں کریں گے۔ ابھی جو واقعہ پیش آ رہا ہے اور جس کے ہونے کا چشم دید گواہ میں ہوں، اس میں کوئی معنی، یا کچھ معنی ہیں کہ نہیں ؟پتہ نہیں۔ ۔ ۔
بھلا میں معنی کے چکر میں کہاں سے پڑ گیا۔ اچھا معنی نہ سہی، کسی افسانے میں کچھ تو ہونا چاہیئے۔ ہاں یہ بات تو پتے کی ہے۔ تو شیخ صاحب جس شعر کو پڑھ کر ملاقاتی کی سخن فہمی کا امتحان کرتے تھے اس میں کیا ہے ؟
ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں
مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں
چھوڑو یا ر کہاں کی بات لے بیٹھے۔ افسانے میں کچھ ہوتا ہے، کچھ واقع ہوتا ہے، اور وہ بامعنی ہوتا ہے۔ اس شعر میں تو کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ صرف چار الگ الگ بیانات ہیں۔ ۔ ۔ نہیں، ذرا ٹھہرو۔ وہ کیا تھا، کتا کھا گیا ڈھول نہ بجا۔ ۔ ۔ ہاں امیر خسرو سے منسوب شعر ہے
کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا چلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
یہاں بھی تو چار باتیں ہیں۔ ۔ ۔ نہیں تین باتیں ہیں جو ہو چکی ہیں اور ایک ایسی ہے جو ہونے والی ہے۔ تو شاید ایسا بیان زیادہ معنی خیز ہوتا ہے جس میں کچھ ہونے والا ہو؟ارے بھائی کچھ ہونے سے کیا ہوتا ہے ؟ کچھ ہونے کا مطلب بھی تو ہو۔
تو اس کے معنی ہیں کہ جو کچھ اس وقت مجھ پر گذر رہی ہے۔ ۔ ۔ چاہے تھوڑی دیر میں یہ فوجی سپاہی مجھے گولیوں کی باڑھ ہی پر کیوں نہ رکھ لیں، اس میں کچھ معنی نہیں ؟ معنی یہ ہیں کہ کچھ معنی نہیں ؟ لیکن یہ تو سچا واقعہ ہے اور پھر بھی بے معنی ہے۔ لہٰذا معنی کا ہونا نہ ہونا سچائی پر منحصر نہیں۔ ارے یہ میں کیا کہہ گیا؟سچائی بے معنی ہے ؟احمق انسان(شاید اسی لئے لوگ افسانہ نگاروں کو احمق کہتے ہیں) سچائی کو بے معنی کون کہتا ہے ؟ ہاں کوئی سچا واقعہ بے معنی ضرور ہو سکتا ہے۔
تو کیا یہ ہم انسانوں کا المیہ نہیں کہ جو ہم پر گذرتی ہے اس میں کوئی معنی نہیں ہوتے ؟ المیہ۔ ۔ ۔ کتنا اچھا لفظ ہے۔ ایک دن میری نظر ہندی کی ایک کتاب پر پڑی، عنوان کچھ ایسا تھا، فلاں شے کی تراسدی۔ میں تذبذب میں رہا کہ یہ تراسدی کیا بلا ہے ؟شاید قدر و قیمت، یا تاریخ، یا روایت کے معنی میں ہندی کا کوئی لفظ ہو گا۔ لیکن کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ Tragedyکی ہندی ’’تراسدی‘‘ ہے۔ ارے صاحب زبان میں ’’ٹ‘‘ اور ’’ڈ‘‘ اور ’’ج‘‘ تینوں موجود ہیں اور اول الذکر دونوں تو زبان کی خاص پہچان مانی جاتی ہیں۔ پھر ان کو ترک کر کے یہ ’’تراسدی‘‘ چہ بوالعجبی است؟ جیسے بعض اردو والے جوش ایمان سے مغلوب ہو کر ’’ٹیلیگراف‘‘ کو ’’تلغراف‘‘ اور پروپیگنڈا‘‘ کو ’’بروبا غندہ‘‘ لکھنے اور بولنے کی سفارش کرتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ہماری عورتوں نے ایک سے ایک معنی خیز گالیاں ایجاد کر رکھی تھیں۔ ۔ ۔ پھر وہی معنی کا چکر۔ مجھے خیال آتا ہے کہ کامیو(Camus)کے ڈرامے ’’کیلیگیولا‘‘(Caligula)میں کچھ ایسا ہی جھنجھٹ ہے کہ ایک سراے میں مقیم سارے مسافروں کا قتل ہو جاتا ہے۔ اور قتل بالکل بے وجہ ہے۔ باپ رے باپ، رونگٹے کھڑے کر دینے والی بات ہے، ہے نہ۔ اور میرا، بلکہ ہم لوگوں کا بھی تو کچھ ایسا ہی معاملہ ہونے جا رہا ہے ؟ اللہ بچائے، لیکن اگر ایساہوا تو کون ہمارا افسانہ لکھے گا اور یقین بھی کس کو آئے گا؟ روز ہی اخبار میں اور ٹی وی پر ایک سے ایک گھناؤنے ایک سے ایک لرزہ خیز ایک سے ایک دردناک قتل کی واردات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اور سماج میں سیاست میں، برائیاں ہی برائیاں ہیں۔ اور ہمارے افسانہ نگار ان کی روداد بھی اسی ٹی وی رپورٹ یا اخباری کہانی کی طرح بیان کرتے ہیں۔ انھیں افسانہ نگار کون کہتا ہے ؟ کم سے کم میں تو نہیں کہتا۔
افسانے میں کوئی بھی صورت حال اس وقت با معنی ہوتی ہے جب اسے متخیلہ کے رنگوں سے سرشار کیا جائے۔ یعنی ہر بات کو تصور کیا جائے کہ یہ یوں ہوئی ہو گی، یا یوں ہو سکتی ہے۔ پھر تصور کی آنکھ سے جو دیکھیں اسے تخیل کی زبان میں بیان کیا جائے۔ تخیل کی زبان، یعنی ؟اس وقت گھبراہٹ کے مارے حلق خشک ہوا جا رہا ہے مثالیں کہاں سے یاد کروں۔ لیکن دیکھو میاں، اسی بات کو لے لو کہ نذیر احمد نے ظاہر دار بیگ کا نقشہ کن لفظوں میں کھینچا ہے۔ لاحول ولا، مثال یاد بھی آئی تو ایسے متن سے جو کوئی سواڈیڑھ سو برس پرانا ہے اور ہمارے محمد احسن فاروقی مرحوم تو اسے ناول ہی نہیں مانتے تھے۔
وہ جو ایک لطیفہ ہے کہ ایک مولوی صاحب کہیں کھانے پر مدعو کئے گئے۔ کھانے میں ابھی ذرا دیر تھی، لہٰذا صاحب خانہ نے وقت گذاری، یا انتظار کی گھڑیوں کوآسان کرنے کے لئے کہا، ’’مولوی صاحب، وہ یوسف زلیخا ہے نہ۔ مولانا جامی کی مثنوی۔ ، تو اس کا قصہ ذرا بیان کر دیتے، وقت گذاری ہو جاتی۔ ‘‘
مولوی صاحب نے گول گول دیدے پھرائے اور کھنکھار کر فرمایا۔ ’’اجی کچھ نہیں۔ پیرے بود پسرے داشت گم کرد بازیافت۔ کھا نا منگوائیے۔ ‘‘
تو میاں افسانہ تو اتنا ہی ہے۔ پھر شاعر یا افسانہ نگار اسے تصور میں لاتا ہے کہ وہ بات کس طرح گذری ہو گی، اس کا رد عمل کیا ممکن تھا، اور کیا رد عمل ہوا ہو گا، وغیرہ۔ جامی کی مثنوی میں زلیخا صرف عاشق اور اپنے شوہر کے آگے رسوا ہی نہیں ہوتی، محلات، باغات، کنیز، باندیاں اور حکومت سب کچھ چھوڑ کر جوگن بلکہ بھکارن بن جاتی ہے۔ پھر مدتوں بعد حضرت یوسف اسے کہیں مل جاتے ہیں۔ اس وقت جو سوال جواب ان کے درمیان ہوتے ہیں وہ اس بات کی مثال ہیں کہ تصور کی آنکھ سے دیکھنے اور پھر تخیل کے رنگوں میں بیان کرنے کا کیا مطلب ہے۔ جامی پہلے تو تصور کی آنکھ سے تمام امکانات کو دیکھتے ہیں، پھر ایک امکان منتخب کرتے ہیں (زلیخا کا بھکارن بن جانا)۔ پھر وہ تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کی ملاقات یا عدم ملاقات کے امکانات کیا ہیں۔ ان میں سے ایک کو وہ اختیار کرتے ہیں اور پھر تخیل کا رنگ ملا کر دونوں کی ملاقات بیان کرتے ہیں۔
میں یوں ہی احمقوں کی طرح دروازے میں کھڑا ہوں اور کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھنے اور پہچاننے کی کوشش کر رہا ہوں اور یہ خیالات بھی میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ مجھے اجنبیوں کے درمیان یوں چلے آنے میں بہت تکلف محسوس ہو رہا ہے۔ میں طبعاً شرمیلا ہوں، لوگوں کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا نہیں۔ میں امید میں ہوں کہ یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔ ۔ ۔
یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔
شاید یہاں میرا شناسا کوئی نکل آئے۔
یہاں شاید کوئی میرا شناسا نکل آئے۔
شاید کوئی میرا شناسا یہاں نکل آئے۔
شاید میرا یہاں کوئی شناسا نکل آئے۔
میرا کوئی شناسا یہاں شاید نکل آئے۔
کوئی شاید یہاں میرا شناسا نکل آئے۔
یہاں کوئی شاید میرا شناسا نکل آئے۔
اس ایک جملے کو کئی کئی طرح سے لکھا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری زبان کی خوبی ہے، فارسی، عربی، انگریزی، فرانسیسی، کسی میں یہ بات نہیں۔ ایسا جملہ لکھنے کی نوبت آئے تو میں بار بار سوچتا ہوں کہ کون سا پیرایہ سب سے بہتر ہو گا۔ معنی کا تھوڑا تھوڑا سا فرق ہر ایک میں ہے۔ میں متبادل جملوں کو بار بار دل میں دہراتا ہوں، روانی، آہنگ، نشست معنی، ہر طرح سے پرکھتا جانچتا ہوں۔ پھر ایک پیرایہ اختیار کرتا ہوں۔ کیا اور لکھنے والے بھی اس طرح سوچتے ہیں ؟یا کیا افسانہ نگار کے لئے ضروری نہیں کہ وہ زبان کی فطرت اور جملوں کی ماہیئت کے بارے میں اتنا غور کرے، اس قدر غور کرے ؟کیا یہ ذمہ داری صرف شاعر کی ہے ؟ کیا افسانہ نگار کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ جوں توں کر کے بات بیان کر دے ؟ ہندی، انگریزی، خلاف محاورہ، بے محاورہ، کیا افسانے میں جو کچھ لکھو سب چلتا ہے ؟
نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ افسانے یعنی فکشن اور شاعری کی شعریات ایک ہے۔ جو چیز شاعری میں غلط ہے وہ افسانے میں بھی غلط ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی، کیونکہ افسانے کو عروضی وزن کا سہارا نیں ہوتا۔ تو میں کچھ بیوقوفوں کی طرح دروازے میں کھڑا دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہاں شاید میرا کوئی شناسا نکل آئے۔ اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور میں چونک کر لڑکھڑا جاتا ہوں۔ کیا یہ لوگ مسافروں کو گولی مار رہے ہیں؟ باہر کون سے مسافر ہیں ؟ میں سراسیمہا دھر ادھر دیکھتا ہوں وہیں اے کاش مر جاتا سراسیمہ نہ آتا یاں مجھے میر کا مصرع یاد آ گیا۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر کچھ فوجی آواز میں اعلان ہوتا ہے : Attention, Everybody.گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ باہر کچھ دور پر سڑک بنانے کے لئے blasting ہو رہی ہے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیئے۔ کوئی خطرہ نہیں۔
بھلا سروس روڈ بننے کے لئے blasting ؟ کیا مطلب؟ میں ابھی اپنے آپ سے یہ سوال کر ہی رہا ہوں کہ باہر کئی بھاری بھاری بوٹوں والوں کے دوڑنے اور کمپاؤنڈ سے باہر جانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ بلاسٹنگ ہو رہی ہے یا کہیں raidہو رہا ہے ؟ میں گھبرا کر دل میں پوچھتا ہوں۔ لیکن اب تک میری آنکھیں کمرے کی دھندلی روشنی کی عادی ہو چکی ہیں۔ حاضرین میں کئی غیر ملکی ہیں، کئی عورتیں ہیں۔ کچھ بچے بھی۔ سب کے چہرے پر بے اطمینانی کے آثار ہیں۔ لیکن خوف کے نہیں۔ آخر اس سب کے معنی کیا ہیں ؟ فرض کردم میں افسانہ لکھ رہا ہوں۔ اور یہی میرا افسانہ ہے۔ تو میں اسے کس طرح انجام تک پہنچا سکوں گا؟لیکن مجھے یہ معلوم تو ہونا چاہیئے کہ میں اس افسانے میں کیا دکھانا چاہتا ہوں۔ پریم چند کہتے تھے کہ جب تک کوئی نفسیاتی نکتہ، کوئی سبق آموز واقعہ ذہن میں نہ آئے میں افسانہ لکھتا ہی نہیں۔ لیکن ٹی۔ ایس۔ الیٹ تو کہتا تھا کہ میں نظم کے بارے میں پہلے سے کیسے بتا دوں کہ میں کیا کہنا چاہتا تھا؟ نظم مکمل ہو گی جبھی تو معلوم ہو گا کہ میں نے اس میں کہا کیا ہے ؟
تو اگر افسانے اور شعر کی بوطیقا ایک ہی ہے تو جو افسانہ میں اس وقت اپنے ذہن میں لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں کیا بتاؤں کہ میں اس میں کیا کہوں گا، کیا دکھاؤں گا۔ ۔ ۔ نہیں، پریم چند ہی کی رائے ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ پہلے سے کچھ تو طے ہو کہ افسانے میں کیا دکھایا جائے گا؟ لیکن میں اتنا افسانہ تو لکھ گیا ہوں، آخر کچھ تو پتہ لگنا چاہئیے کہ میں کیا لکھوں گا؟اچھا فرض کیا اور کچھ نہیں لکھنا ہے۔ افسانہ یہیں ختم ہو گیا ہے۔ یا بس اتنا اور ہوتا ہے کہ فوجیوں نے تھوڑی دیر میں سروس روڈ مکمل کر دی اور سب مسافروں کو آگے جانے دیا۔ میں بھی ذرا دیر سے سہی، لیکن سراے میراں پہنچ گیا۔ بس کہانی ختم پیسہ ہضم۔ مگر اس میں کہانی کہاں تھی؟نہیں، کہانی تو تھی لیکن اس میں کہا کیا گیا تھا؟
اچھا اگر میں سڑک کی دھند، شام کے پھیلتے ہوئے اندھیرے، فوجیوں کے لباس اور چہرے مہرے، اس عمارت کا پورا احوال، یہ سب کچھ اوپر سے ڈال دوں تو کیا افسانہ بن جائے گا؟ اے۔ ایس۔ بائٹ(A. S. Byatt)کے ناولوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جزئیات نگاری کی ملکہ ہے۔ اور جزئیات تو داستان میں بھی ہیں، لیکن اور طرح کی۔
میرا دماغ چکرانے لگا ہے۔ اتنی دیر سے یہاں کھڑا ہوں، یہ لوگ مجھے کیا سمجھ رہے ہوں گے۔ کو ئی شخص جو تہذیب اور مہذب ماحول سے بیگانہ ہے ؟ میں اٹک اٹک کر قدم آگے بڑھا کر کمرے میں آ جاتا ہوں، میری نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں کہ کوئی خالی کرسی ملے تو جا کر چپ چاپ وہیں بیٹھ جاؤں اچانک ایک کونے سے کسی نے خوش گوار لہجے میں آواز دی ہے :
’’ادھر آ جائیے فاروقی صاحب، یہاں جگہ ہے۔ ‘‘
میں چونک کر کچھ متشکرانہ، کچھ ہراساں، ادھر دیکھتا ہوں۔ جن صاحب نے مجھے آواز دی ہے وہ عمر رسیدہ لیکن تنومند ہیں۔ میں انھیں پہچانتا نہیں ہوں۔ مجھے تھوڑی سی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مجھ سے بہت تپاک سے ملتا ہے لیکن مجھے اس کا نام یاد آتا ہے نہ شکل یاد آتی ہے۔ میں پھر طرح طرح سے بات بنا کر، اٹکل لگا کر، اس ہی سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کون ہے اور میں اسے کیونکر جانتا ہوں۔ کبھی کبھی لوگ خود ہی پوچھ دیتے ہیں، ’’پہچانا آپ نے ؟‘‘تو میں دل میں اطمینان کی سانس لیتے ہوئے سچ میں کچھ جھوٹ ملا کر کہہ دیتا ہوں، ’’شکل تو پہچانی ہوئی ہے لیکن نام نہیں یاد آتا۔ ‘‘
میں آہستہ قدم رکھتا ہوا کمرے کے گوشے تک پہنچتا ہوں۔ ایک آرام کرسی، جسے انگریزی میں frog chairکہتے ہیں، ان صاحب کی بغل میں خالی ہے۔ میں ان صاحب کو سلام کر کے کرسی سنبھال لیتا ہوں۔ میں ان پر دوبارہ ہلکی سی دزدیدہ نگاہ ڈالتا ہوں لیکن ان کی صورت اب بھی پہلے کی طرح انجانی معلوم ہوتی ہے۔
’’تسلیمات عرض کرتا ہوں۔ ‘‘ میری آواز نہ جانے کیوں کچھ بھرائی ہوئی سی ہے۔ ’’خدا کا شکر ہے کہ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ ‘‘وہ خوش اخلاقی سے کہتا ہے۔ ’’میرا نام ملا علی قاری ہے۔ ‘‘
میں چونک کر اس کی طرف دیکھتا ہوں، پھر غور سے دیکھتا ہوں۔ کہیں وہ مذاق تو نہیں کر رہا ہے۔ لیکن اس کے چہرے پر مسخرگی کے کوئی آثار نہیں۔
میں تھوڑا سا گڑبڑا جاتا ہوں۔ ملا علی قاری تو فرضی نام لگتا ہے۔ سترہویں صدی میں ایک محدث اس نام کے تھے۔ یہاں اکیسویں صدی میں ملا علی قاری کہاں سے آ گئے۔ لیکن مجھے تو یہ ساری صورت حال ہی فرضی یاپراسرار طور پر فریب دماغ معلوم ہوتی ہے۔ ’’م۔ ۔ ۔ مگر میں۔ ۔ ۔ میں اب سے پہلے تو آپ سے نہیں ملا تھا۔ آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا؟‘‘
وہ ہنستا ہے۔ ’’یوں ہی سہی۔ لیکن ایک نام کے دو شخص ہو سکتے ہیں۔ ‘‘وہ گویا میرے دل کی بات جان کر کہتا ہے۔
’’جی ہاں۔ ‘‘ میں کچھ جز بز ہو کر کہتا ہوں۔ ’’مگر مجھے اپنا نام بے حد نا پسند ہے۔ مجھے یقین ہے کسی اور کا نام ایسا نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
وہ زور سے ہنستا ہے۔ مجھے لگتا ہے کمرے کے سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ میں اشارہ کرتا ہوں کہ آواز دھیمی رکھیں تو بہتر ہے۔ ’’کولرج کو بھی اپنا نام بہت نا پسند تھا۔ ‘‘
’’کاش میں کولرج ہوتا۔ ‘‘ میں کچھ تلخ لہجے میں کہتا ہوں۔ اب میرا جی چاہتا ہے یہ تنومند بوڑھا چپ رہے تو بہتر ہے، فضول بکواس بہت کرتا ہے۔
پھر مجھے خیال آتا ہے، اس شخص کو شاید کچھ زیادہ معلوم ہو کہ یہاں چکر کیا چل رہا ہے۔ لہٰذا میں ذرا سرگوشی کے لہجے میں پوچھتا ہوں : ’’سنئے، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے یا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’جی ہاں، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لیکن یہ فوجی اس وقت اس کی مرمت کے لئے کہاں سے دستیاب ہو گئے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ ‘‘ وہ ایک لمحہ ٹھہر کر کہتا ہے۔ ’’بہر کیف، کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ‘‘
میں کچھ اور پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن میرا مفروضہ افسانہ اب پھر میرے ذہن میں گردش کرنے لگا ہے۔ لیکن وہ دوسرا شخص، وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ قاری، شاید میرے دل کی ہر بات جانتا ہے۔ اس کے پہلے کہ میں کچھ کہوں، وہ بول اٹھتا ہے :
’’کیا کسی ایسی تحریر کو افسانہ کہا جائے گا جس میں کچھ بیان ہوا ہو اور جس سے کوئی بامعنی نتیجہ اخذ کر سکیں ؟‘‘میں اس کا منھ تکنے لگتا ہوں۔ ’’ میں آپ سے اس لئے پوچھتا ہوں کہ آپ ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ ‘‘
نہ جانے کیوں اس کے لہجے میں مجھے کچھ تمسخر دانت نکالے ہوئے ہنستا دکھائی دیتا ہے۔
’’بجا، ‘‘ میں کچھ تیز لہجے میں کہتا ہوں۔ ’’لیکن ’بامعنی‘ کسے کہتے ہیں اور’ نتیجہ‘ سے کیا مراد ہے ؟‘‘
’’مثلاًاسی بات کو لیجئے کہ ہم لوگ یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب جو کچھ بھی ہمارا انجام ہو۔ مان لیجئے۔ ۔ ۔ برا نہ مانئے گا، میں ایک مفروضہ بیان کر رہا ہوں۔ ‘‘
’’جی۔ ‘‘ میں نے خشک لہجے میں کہا۔
’’تو مان لیجئے یہ لوگ فوجی نہیں، ڈاکو ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘وہ ہاتھ اٹھا کر مجھے روکنے کے انداز میں کہتا ہے۔ ’’یقین کیجئے، یہ سب افسانوی معاملہ ہے۔ ۔ یا یہ لوگ انتہا پسند ہیں۔ اور یہ ڈاکو۔ ۔ ۔ یا انتہا پسند۔ ۔ ۔ ہم سب کو یہاں گولی مار دیں، تو کیا ان واقعات کا بیان کسی بامعنی نتیجے کا حامل ہو گا؟‘‘
’’مشکل ہی ہے۔ ‘‘ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’بشرطیکہ اس میں اور کچھ بات نہ ہو۔ مثلاً کوئی خفیہ بات، کوئی راز، یا شاید ہم میں سے کوئی شخص کوئی بڑا آدمی ہو۔ یا ان لوگوں نے کوئی شرطیں حکومت یا اہل اقتدار کے سامنے رکھی ہوں اور ان کی تکمیل پر ہی ہم لوگوں کی نجات ممکن ہو۔ ‘‘مجھے لرزہ سا آ گیا۔ یہ ہم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہیں ؟
’’لیکن اس سب سے کچھ بنتا نہیں۔ ‘‘ وہ کچھ زور دے کر کہتا ہے۔ ’’جب تک کچھ نتیجہ نہ بر آمد ہو۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ واقعے کا بامعنی ہونا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس سے کچھ اخذ کر سکیں۔ ‘‘
’’اخذ کرنے اور پریم چند کی سبق آموزی میں بھلا کیا فرق ہو سکتا ہے ؟ دونوں ایک ہی بات ہیں۔ ‘‘
’’جی نہیں۔ نتیجہ اس کو کہتے ہیں جو اپنی معنویت کے لئے کسی سبق، کسی عبرت، کسی تعلیم، کا محتاج نہ ہو۔ یعنی اگر افسانہ یہ کہے کہ دیکھو، فلاں شخص کی طرح نہ بننا، وہ بڑا خراب آدمی ہے۔ یا فلاں کام کرو گے تو اچھے انجام کو پہنچو گے، تو ان چیزوں کو میں ’سبق، عبرت، تعلیم‘ کہتا ہوں۔ اور اگر تحریر میں کوئی ایسی بات ہو جس میں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’جو ہمیں سوچنے پر مائل کرے۔ ‘‘ میں بھی اب اس کے ما فی الضمیر کو خود بخود سمجھنے لگا ہوں۔ ’’جو خود تو کوئی فیصلہ نہ کرے لیکن ہماری قوت فیصلہ کو بیدار کرے۔ جس میں افسانہ نگار، افسانہ نگار لگے۔ یعنی ایسا شخص جس کا اصل کام ہمیں کوئی ایسی چیز بنا کر دکھا نا ہے جسے ہم زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات اور سوانح کی طرح قبول کریں لیکن یہ بھی سمجھیں کہ ایسے واقعات کے ’’واقعی‘‘، یعنی ’’مطابق فطرت‘‘ ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’نہ۔ نہ۔ ایسا نہیں ہے۔ ‘‘ وہ کچھ بے صبری سے بولا۔ ’’فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم تو افسانے میں بیان کئے ہوئے واقعے کو حقیقی ہی سمجھ کر اس سے معاملہ کرتے ہیں۔ ‘‘
’’چاہے وہ غیر حقیقی یا خلاف فطرت کیوں نہ ہو؟‘‘
’’یقیناً۔ ورنہ افسانہ قائم کیسے ہو گا؟افسانہ پن یا کہانی پن جس کے ایک زمانے میں بہت شہرے تھے، در اصل ایک فرضی صورت حال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بعض طرح کے بیانات کو ہم افسانہ بھی سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی۔ یہی افسانہ پن ہے۔ یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ ‘‘
’’لیکن میں ایسا افسانہ لکھوں جس میں کچھ معنی نہ ہوں ؟‘‘
’’معنی ضرور ہوں گے، اگر افسانے سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو معنی بھی ہوں گے۔ ‘‘
’’تو ہم لوگ اگر یہاں مار دیئے گئے، ‘‘ میری آواز میں کچھ لرزہ سا آ گیا ہے۔
’’تو یہ بیکار ہی ہو گا، کیونکہ اس پورے واقعے میں نتیجہ تو کچھ ہے نہیں۔ ‘‘
’’لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پورا واقعہ ہی نتیجے کا حکم رکھتا ہو۔ ‘‘اس کے لہجے میں تھوڑی سی شرارت ہے۔
’’یہ تو آپ فلابیئر جیسی بات کہہ رہے ہیں قاری صاحب۔ ‘‘مجھے اس کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ ’’فلابیئر کی تمنا تھی کہ میں ایسا ناول لکھوں جس کے کچھ معنی نہ ہوں۔ ‘‘
’’جی نہیں۔ فلابیئر کا مطلب یہ تھا کہ میرے ناول کوکسی سبق یا عبرت یا تعلیم کا منبع نہ سمجھ لیا جائے۔ پریم چند جیسے لوگ فرانس میں بھی تھے۔ بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ پریم چند نے اپنی باتیں انھیں جیسوں سے سیکھی تھیں، کوئی روسی، کوئی انگریز، کوئی فرانسیسی، یہی لوگ تو ان دنوں ہمارے افسانہ نگاروں کے آدرش تھے۔ مگر میرا مطلب کچھ اور ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ افسانہ کسی صورت حال کو بیان کر دے ؟ افسانہ نگار اپنی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھ دے اور دنیا کو ویسی دکھائے جیسی کہ اسے نظر آتی ہے، نہ کہ ویسی جیسی وہ چاہتا ہے کہ اسے نظر آئے ؟‘‘
’’لیکن دنیا تو دیکھنے والے کی ہے۔ یعنی جیسے ہم ہیں ویسا دیکھتے ہیں۔ ‘‘
’’جناب، میری مراد افسانے کی دنیا سے ہے۔ افسانے کی دنیا افسانہ نگار کے دماغ میں ہوتی ہے۔ اس میں اچھے برے کے معیار عموماً وہی ہوتے ہیں جو عام دنیا میں ہیں۔ لیکن افسانے کی دنیا میں اچھے برے، عقل مند بے وقوف، وغیرہ کا حکم آسانی سے نہیں لگ سکتا۔ اچھے آدمی برے کام کرتے ہیں، یا غلطی کرتے ہیں۔ برے آدمیوں میں بھی کچھ ادا ایسی ہوتی ہے جس کی بنا پر ہمیں ان سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔ ‘‘
’’اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا ادراک حاوی نہیں ہوتا؟میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے بھی ہیں۔ ‘‘
’’افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا تخیل حاوی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ادراک کا کچھ بہت زیادہ کام نہیں رہ جاتا۔ ‘‘
’’آپ بھولتے ہیں کہ میں نے بھی افسانے لکھے ہیں۔ ‘‘
’’اسی لئے تو آپ سے ایسی بات کہہ سکتا ہوں۔ ‘‘قاری نے مسکرا کر کہا۔ ’’ہما شما اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ افسانہ نگار جس دنیا کو اپنے افسانے، یا فکشن کہہ لیجئے، فکشن میں بیان کرتا ہے، وہ اس کی اپنی ہوتی ہے، یعنی اس کے دماغ کی پیداوار ہوتی ہے۔ مانا کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر یہ خارجی مشاہدہ ہی سب کچھ ہوتا تو افسانہ یعنی فکشن بنتا کیسے ؟ سب لوگ اپنے اپنے طور پر دنیا کو دیکھ رہے ہیں، کسی کو معلوم نہیں کہ دوسرا کیا دیکھ رہا ہے۔ یہی بات افسانہ نگار کی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ افسانہ نگار اپنی دیکھی ہوئی دنیا کو تصور میں لاتا ہے، پھر اس پر اپنے تخیل کو جاری کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہمیں ایک اور طرح کی دنیا دکھاتا ہے۔ یہ کام وہ نہیں کر سکتا جو افسانہ نگار نہیں ہے۔ شاعر بھی نہیں کر سکتا۔ شاعر تو اپنی آواز میں گفتگو کرتا ہے، نئی دنیا بنانا اس کا کام نہیں۔ اور افسانہ نگار کی دنیا میں اچھائی برائی افسانہ نگار کی مرضی کی پابند نہیں ہوتی۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں اس کے تخیل کے رنگ رچ گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ افسانہ نگار کو حقیقی دنیا سے کچھ تقاضے، کچھ توقعات ہوں۔ لیکن وہ ان توقعات اور تقاضوں کو بھلا کر ہمیں اپنی دنیا دکھاتا ہے۔ ‘‘
’’لیکن ہمیں اس دنیا سے بھی توقعات اور تقاضے ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’بیشک، ‘‘ قاری نے کچھ فتح مندانہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’یہی وجہ ہے کہ ہم افسانے، یعنی فکشن، سے ہر وقت بر سر جدال رہتے ہیں۔ فلاں کردار نے یہ کیوں کیا، وہ کیوں نہیں کیا؟ فلاں بات اس طرح کیوں پیش آئی؟ وغیرہ۔ ‘‘
مجھے اچانک ایک بات سوجھتی ہے۔ ’’اور ہم لوگ افسانہ نگار سے بھی بر سر جدال رہتے ہیں کہ اس نے ایسی دنیا کیوں بنائی جس میں فلاں بات نہ ہوئی اور فلاں بات ہو گئی اور فلاں بات اس طرح کیوں ہوئی؟‘‘
’’یہ تو آپ نے میری بات کہہ دی۔ ‘‘قاری نے کہا۔ ’’ہم لوگ افسانہ نگار کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ کٹھ پتلی اپنے نچانے والے سے جھگڑتی نہیں، اور قاری ہمیشہ جھگڑتا ہے، یا جھگڑ سکتا ہے۔ ‘‘
’’شاید اسی کو افسانے یعنی فکشن کی سماجی قدر سے تعبیر کرتے ہیں۔ ‘‘ میں اپنی رو میں بولتا چلا جا رہا تھا۔ ’’یہ افسانے کی ہی طاقت ہے جو ہمیں افسانہ نگار کو خالق کا درجہ عطا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ‘‘
قاری کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا، ’’افسانے میں جس کر دار کو جیسا بنا دیا گیا، ویسا وہ بن گیا۔ افسانے میں جو واقعہ بیان کر دیا گیا وہ ہمیشہ کے لئے قائم ہو گیا۔ یہی افسانے کی قوت ہے۔ ہمیں وہ کردار ناپسند ہو، یا ہم اس کے بارے میں کچھ گو مگو میں رہیں، یا ہم کچھ بھی کر ڈالیں، لیکن معاملہ ہمیں اسی سے کرنا ہے۔ کوئی نیا کردار ہم نہیں خلق کر سکتے۔ ہاں اپنی دنیا میں اس نئے کردار کو شریک کرنے کے لئے ایک نیا افسانہ لکھ سکتے ہیں۔ ایک ہی کردار کو ایک شخص برا کہے گا اور دوسرا شخص اچھا کہے گا۔ یا کہے گا کہ اس کی اچھائی برائی کے بارے میں فیصلہ ممکن نہیں، وغیرہ۔ کسی کردار کے ایک ہی عمل کو ایک شخص اچھا اور دانشمندانہ بتائے گا تو دوسرا اس کے بر عکس کہے گا۔ اس سے بڑھ کر افسانے کی قوت کیا ممکن ہے کہ۔ ۔ ۔ ‘‘
اچانک باہر کچھ شور اٹھا۔ کئی فوجی، کئی پولیس والے لمبی لمبی ٹارچیں لئے کھٹ کھٹ اندر آ گئے۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے پہلو بدلا، کچھ نے شاید یہ سوچ کر اٹھنا چاہا کہ اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ پھر باہر کچھ گاڑیوں کے اسٹارٹ ہونے کی آوازیں آئیں۔ ٹارچ کی تیز روشنی مجھ پر پڑی اور ایک لحظے کے لئے میری آنکھیں جھپک گئیں۔ جب میری بینائی بحال ہوئی تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ملا علی قاری کی کرسی خالی تھی۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.adbiduniya.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید