FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اسوۂ نبویؐ برائے صحت و تندرستی

 

 

               ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

 

 

 

 

 

آج کا انسان گوناگوں مسائل کا شکار ہے، ان میں صحت و تن درستی کے مسائل بھی شامل ہیں ۔ صحت و تن درستی اللہ تعالیٰ کی نمایاں اور اہم ترین نعمتیں ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سارے لوگ نقصان اور خسارے میں رہتے ہیں ، ایک صحت اور دوسری فراغت۔

صحت اور عمر کی قدر تب معلوم ہوتی ہے، جب انسان بیماری اور موت کا شکار ہو جائے۔ تن درستی ایک عظیم نعمت ہے۔ ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن انسان سے جن انعامات کے بارے میں پوچھا جائے گا، ان میں صحت اور ٹھنڈا پانی سرفہرست ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تلقین کی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کا سوال کرو، کیوں کہ ایمان کے بعد اس سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں ۔

متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام نے حفظان صحت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ صحاح ستہ میں وارد اس بارے میں احادیث پڑھنے سے انسان یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسلام حفظان صحت کا کس قدر خواہاں ہے، اور وہ کس طرح روحانی ارتقا کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت اور تن درستی میں بھی دل چسپی لیتا ہے۔

تن درستی ایک عطیہ الٰہی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس بیش بہا نعمت کی کماحقہٗ قدر نہیں کی جاتی، اور لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں ۔ مال و دولت، جائداد اور دیگر املاک کی قدردانی سے تو ہر ایک واقف ہے، لیکن جس قوت کے ذریعے یہ تمام چیزیں میسر آتی ہیں اور جس کے ذریعے ان تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اس کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کے لیے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں ۔

ہم یہاں پیچیدہ مسائلِ طب و صحت زیر بحث نہیں لانا چاہتے بلکہ صحت کے وہ سیدھے سادے اصول ہیں ، جن پر عمل کر کے ہر انسان اپنے جسم اور دماغ کو آلودگیوں سے پاک و صاف رکھ سکتا ہے۔ روشنی، تازہ ہوا، عمدہ اور صاف پانی، متوازن اور سادہ خوراک، جسم، لباس، مکان اور ماحول کی صفائی، جسمانی اور دماغی وظائف میں اعتدال، محنت کے بعد آرام، ورزش اور صحت کے دیگر مسلمہ اصولوں پر کاربند رہنے سے انسان اپنے آپ کو صحت مند اور طاقتور بنا سکتا ہے۔ ان اصولوں پر عمل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ انسان اپنی عملی زندگی میں ان پر عمل کر کے اپنے جسم اور ذہن کو تن درست رکھ سکتا ہے۔ صرف تھوڑی سی توجہ اور سنت و سیرت کا اس قدر مطالعہ درکار ہے، جو اس معاملے میں ہمارے رہنمائی کرسکے۔

صحت و تن درستی کے بے شمار فوائد ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

1۔ دنیاوی زندگی خوش گوار گزرتی ہے۔

2 ۔ انسان بہت سے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔

3۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے بہ طریق احسن محظوظ ہوتا ہے۔

4۔ وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے، مشکلات کا مقابلہ کرسکتا ہے اور کبھی بھی مایوسی اور قنوطیت کا شکار نہیں ہوتا۔

5۔ تن درست جسم ہی تن درست دماغ رکھتا ہے، اس لیے ایسا شخص صحیح فیصلے صادر کرسکتا ہے اور کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس پر بعد میں اسے خود ندامت اٹھانی پڑے، سچ ہے کہ ’’تن درستی ہزار نعمت ہے۔‘‘

6۔ بیماری کی حالت میں بھی وہ مایوسی سے دور رہتا ہے۔

7۔ صحت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر اس کی قدر کرتا ہے۔

 

               اسلام کا فلسفہ

 

اس کائنات کی اٹھان ایسی ہے کہ اس دنیا میں جہاں زندگی ہے، وہاں موت ہے۔ جہاں صحت ہے وہاں بیماری ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے:

’’چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں ۔‘‘

بہار کی قدر تب معلوم ہوتی ہے جب اس پر خزاں آ جائے، اسی طرح انسان کو صحت کی قدر و قیمت بھی اس وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ امراض کے شکنجے میں پھنس جائے۔

بیماری کے بارے میں مختلف اقوام کے نظریات بھی مختلف ہیں ۔ بعض لوگ اس کو بد روحوں ، بھوتوں اور پریوں کا اثر سمجھتے ہیں ، بعض اس کو دیوتاؤں کی ناراضی کی علامت قرار دیتے ہیں ، اور بعض اس کو عذابِ الٰہی سے تعبیر کرتے ہیں ۔

اس کے برعکس اسلامی نقطہ نگاہ یہ ہے کہ صحت کی طرح بیماری بھی ایک نعمت ہے۔ گناہوں کا کفارہ ہے اور کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کے لیے ایک کسوٹی ہے۔ مریض میں صبر و شکر کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ صحت کی قدر و قیمت سے واقف ہوتا ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ ہر کسی سے گناہ سرزد ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اسے مختلف آزمائشوں میں ڈال کر استغفار اور توبہ کرنے کا موقع دیا جائے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پاک و صاف ہو کر حاضر ہو۔ معلوم ہوا کہ مرض معرفتِ الٰہی کا ذریعہ، کامیابی اور نجات کا وسیلہ اور جنت کا بہانہ ہے۔

ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ مریض کی دعائیں صرف اپنے لیے نہیں ، بلکہ دوسروں کے حق میں بھی مستجاب ہوتی ہیں ۔ مسلمان پر مصائب آتے رہتے ہیں ، اگر وہ ان پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور انابت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اور اسے سختی اور تنگ دستی کے بعد، وسعت اور فراخی سے نوازتا ہے، ارشاد خداوندی ہے:

’’بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، یقیناً ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے، اس پر مصائب آتے رہتے ہیں ۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مریض جب صحت یاب ہو جائے تو اس کی مثال اولے کی طرح ہے، جس طرح وہ آسمان سے صاف اور سفید برستا ہے، اس طرح وہ بھی گناہوں سے صاف اور پاک ہوتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے کسی بندے کا امتحان آنکھوں کے ذریعے لے لوں ، یعنی اس سے آنکھوں جیسی نعمت چھین لوں اور وہ اس پر صبر اختیار کرے تو اس کے عوض میں اسے جنت دوں گا۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، تھکاوٹ، مرض، غم و حزن یہاں تک کہ اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو بھی اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کرتا ہے۔‘‘

حضرت کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مومن کی مثال کچے پودے کی طرح ہے، ہوا اس کو کبھی ٹیڑھا اور کبھی سیدھا کرتی ہے۔ اور منافق کی مثال سرو کے درخت کی طرح ہے کہ وہ ہر وقت سیدھا کھڑا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اچانک جڑ سے اکھاڑا جائے۔

 

               مریض کی عیادت

 

اسلام کی نظر میں مریض کی عیادت ایک خوش گوار فریضہ بھی ہے اور اس سے بہت سے سبق بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ انسان میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والی نعمتوں کا احساس پیدا ہوتا ہے، اور ان کی حفاظت کا داعیہ جنم لیتا ہے۔ یہ عیادت کا ایک اہم سبق ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، مریض کی بیمار پرسی کرو، اور قیدیوں کو رہائی دلاؤ۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے اس حالت میں مریض کی بیمار پرسی کی کہ اس کی موت کا وقت نہ ہو، اگر وہ سات مرتبہ یہ دعا پڑھے (اور اس پر پھونکے) تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور اس بیماری سے شفا دے گا، دعا یہ ہے:

’’میں اللہ تعالیٰ سے جو عرش عظیم کا رب ہے، یہ سوال کرتا ہوں کہ وہ آپ کو صحت دے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنے صحابہ کی بیماری کی حالت میں عیادت فرماتے تھے، حضرت سعدؓ فرماتے ہیں :

’’میں مکہ مکرمہ میں بیمار پڑ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، آپؐ نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا، پھر میرے چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنے کے بعد فرمایا: اے اللہ! سعد کو شفا نصیب فرما، اور اس کو اپنی ہجرت کا کامل ثواب دے۔ حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں ابھی تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی ٹھنڈک اپنے جگر پر محسوس کرتا ہوں ۔

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب تم مریض کے پاس آ جاؤ تو اس کو تسلی دو اور کہو کہ ٹھیک ہو جاؤ گے، کیوں کہ اس سے اُس کی تقدیر تو نہیں بدلے گی اور اس کا دل خوش ہو جائے گا۔‘‘

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی بیمار پرسی کے لیے چلا جائے، وہ واپسی تک جنت کے باغیچوں میں رہتا ہے۔

ان احادیث سے بیمار پرسی کے مندرجہ ذیل آداب پر روشنی پڑتی ہے:

1۔ مریض کی تیمار داری سنتِ نبوی اور ضروری کام ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور جنت نصیب ہوتی ہے۔

2۔ بیمار پرسی کے وقت مریض کے لیے دعا کرنی چاہیے، اور اس سے بھی دعا لینی چاہیے، کیوں کہ مریض کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔

3۔ بیمار پرسی میں مریض کے اوقاتِ آرام کا بھی خیال رکھنا چاہیے، اس کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہیں ۔

4۔ ضرورت سے زیادہ ٹھیرنا اور مریض کو تنگ کرنا مناسب نہیں ۔ مریض کے ہاں شور و غوغا بھی نہیں کرنا چاہیے۔

5۔ بیمار پرسی کے وقت مریض کو تسلی دینی چاہیے اور ایسی باتیں کرنی چاہئیں جو اس کا مرض کم کرنے میں معاون ہوں ، مثلاً یہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ، ٹھیک ہو جاؤ گے، مرض اتنا شدید نہیں ، اِن شاء اللہ صحت یاب ہو جاؤ گے۔ مریض کے سامنے کوئی ایسی بات کرنا مناسب نہیں جس سے اُس کا حوصلہ پست ہو، مثلاً یہ کہ بہت سخت بخار ہے، نقطہ ہلاکت تک پہنچ گیا ہے، اس سے بچنا مشکل ہے۔ اس قسم کی باتوں سے مریض کی قوتِ مدافعت کمزور پڑتی ہے۔

6۔ اگر مریض کو تکلیف نہ ہو تو اس کے چہرے پر، ہاتھ وغیرہ پر ہاتھ پھیرنا اور مسنون دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔

7 ۔ مریض کی بیمار پرسی اس کا حق ہے۔ بیماری کے وقت دوستوں اور رشتے داروں کو دیکھنے سے مریض کا دل مضبوط ہوتا ہے، اور اس میں نفسیاتی طور پر قوتِ مدافعت پیدا ہوتی ہے۔

8۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مریض سے اس کی صحت کے بارے میں پوچھتے اور یہ پوچھتے کہ کس چیز کو جی چاہتا ہے؟ اس کے چہرے یا سینے پر دستِ مبارک رکھتے، دعا کرتے اور اس کو مفید اشیا یا ادویات کھانے کا مشورہ بھی دیا کرتے تھے۔

 

               خوراک کے سلسلے میں ہدایات

 

 

حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ متوازن خوراک سے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے۔ وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اور محنت کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹا ہوا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:

’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف:31)

یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ۔

کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں اعتدال سے کام لینا صحت کے لیے ضروری ہے۔ نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں ، جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کو صحت (صحیح خون) مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیمار پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑ جاتا ہے۔‘‘(طبرانی۔ المعجم الاوسط)

قدیم عربوں کے مشہور طبیب حارث بن کلدۃ کا قول ہے:

’’پرہیز دوا کا سر (بنیاد) ہے اور معدہ بیماری کا گھر ہے، ہر شخص کو وہ چیز کھانی چاہیے جو اس کے بدن کے مطابق ہو، اور کم خوراکی بہ ذاتِ خود ایک علاج ہے۔‘‘

اکثر امراض کا سبب ناقص غذا یا اس کا غیر مناسب طریقہ استعمال ہے۔ اگر غذا ضرورت کے مطابق اور انسانی مزاج کے مناسب ہو اور ضرورت سے زائد نہ ہو تو انسان زیادہ دیر تک بہت سارے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آدابِ طعام اور کھانے پینے کے سلسلے میں بھی بھرپور ہدایات فرمائی ہیں ، آپؐ کے بتائے ہوئے کھانے کے تمام طریقے حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق ہیں اور آپؐ کے ہر ارشاد میں طبی فلسفے مضمر ہیں ۔ احادیث کی کتابوں میں آداب الطعام پر مستقل عنوانات موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اصولِ صحت کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ارشادات اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا خلاصہ یہ ہے:

-1 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادہ، نرم، زود ہضم، مرغوب اور مانوس غذائیں کھاتے تھے۔ کدو، گوشت، مکھن، دودھ ، جو اور گندم کی بغیر چھنے آٹے کی روٹی، شہد، سرکہ، نمک، زیتون کا تیل اور کھجور وغیرہ آپؐ کی مرغوب غذائیں تھیں ۔ یہ وہ غذائیں ہیں جن کی افادیت پر تمام اقوام عالم متفق ہیں ۔ ہر ملک اور ہر موسم میں ان کا استعمال مفید اور صحت بخش ہے۔ آپؐ کی غذا حیوانی اور نباتی دونوں طرح کی تھی۔

-2 کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کھانا کھا کر یہ دعا پڑھے: (ترجمہ)’’اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا ہے۔‘‘ کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھو لیا کرتے تھے۔

-3 جب تک کھانے کی اشتہا نہ ہوتی، کبھی نہ کھاتے، اور ابھی اشتہا باقی ہوتی کہ کھانا ختم کر دیتے۔

-4 کھانے کے فوراً بعد سونا پسند نہیں فرماتے تھے، بلکہ چہل قدمی کرتے یا نماز پڑھتے۔

-5 تکیہ لگا کر کھانا کھانا پسند نہ فرماتے، کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تکیہ لگانے سے معدہ کی حالت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ کھانا اچھی طرح بہ آسانی اپنی جگہ نہیں پہنچتا اور ہضم ہونے میں دیر لگتی ہے۔

(جاری ہے)

-6 تین انگلیوں سے کھانا کھاتے۔

-7 گرم اور سرد اور دیگر متضاد اثر والی غذائیں جمع نہیں فرماتے تھے اور موسموں کے مطابق غذا میں تبدیلی لاتے تھے۔

-8 کئی دنوں تک مسلسل ایک ہی قسم کی غذا نہیں کھاتے تھے بلکہ اس میں مناسب تبدیلی لاتے تھے۔

-9 کھانا کھانے میں عجلت سے کام نہیں لیتے تھے، آہستہ آہستہ کھاتے تھے۔

-10 بیٹھ کر کھاتے تھے، بیٹھنے کا انداز عاجزانہ اور متواضعانہ تھا۔ آپؐ دو زانوں ہو کر تشریف رکھتے اور اپنے قدموں کی پشت پر بیٹھتے یا دایاں قدم کھڑا کر کے، بائیں قدم پر تشریف رکھتے تھے۔

-11 گرم کھانے میں پھونک نہیں مارتے تھے اور نہ گرم گرم کھاتے، بلکہ اس کے سرد ہونے تک انتظار فرماتے۔ گرم کھانا معدے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ٹھنڈا پانی پینے سے دانتوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔

-12 ہمیشہ آپؐ سامنے سے کھانا کھاتے تھے اور وہی کھاتے جو آپؐ کے قریب ہوتا۔

-13 آپؐ نے کبھی بھی طعام میں عیب نہیں نکالا اور نہ کبھی اس کی مذمت کی۔ کیونکہ یہ طعام کی بے عزتی اور توہین ہے۔ اگر کھانا طبیعت کے موافق ہوتا تو تناول فرماتے، ورنہ چھوڑ دیتے۔

-14 ان سبزیوں کے کھانے سے پرہیز کرتے جن کی بو سے دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو… مثلاً کچی پیاز، لہسن یا دیگر بدبو دار اشیاء۔ البتہ ان چیزوں کو پکا کر کھا لیتے یا کھانے کے بعد منہ اچھی طرح صاف کر لیتے یا کوئی ایسی چیز کھا لیتے جس سے اس کی بدبو ختم ہو جائے۔

علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ غذا استعمال فرماتے تھے جس میں مندرجہ ذیل تین اوصاف ہوں :

-1 قوائے جسمانی کے لیے مفید ہو۔

-2 معدے کے لیے خفیف اور نرم ہو۔

-3جلد ہضم ہونے والی ہو۔ (زاد المعاد، کتاب الطب)

ان تمام آداب سے خوراک کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نفاستِ طبع اور حسنِ انتخاب کا پتا چلتا ہے۔ ان کے اثرات جسمِ انسانی پر دوررس اور مفید ہیں اور صحت و صفائی کے ساتھ ان کا گہرا رابطہ ہے۔

 

               پینے کے آداب

 

خوراک کے ساتھ ساتھ پانی اور مشروبات بھی انسانی زندگی کا حصہ ہیں ، کیوں کہ ہوا کے بعد زندگی کو قائم رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ انسانی جسم میں اس کے کل وزن کا دو تہائی پانی ہوتا ہے اور ایک نوجوان اور تندرست آدمی کے جسم سے پسینہ، پیشاب اور دیگر فضلات کے ذریعے روزانہ تقریباً ڈھائی سیر پانی خارج ہوتا ہے۔ پانی ہی کے ذریعے غذا سے خون بنتا ہے اور زہریلے مواد پیشاب اور دیگر فضلات کے ذریعے خارج ہوتے ہیں ۔ لیکن وہی پانی مفید اور صحت بخش ہے جو صاف ستھرا اور ہر طرح کی گندگیوں ، غلاظتوں اور آلائشوں سے پاک و صاف ہو اور ضرورت کے وقت مناسب طریقے سے پیا جائے۔

اسی لیے پانی اور دیگر مشروبات کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایات دی ہیں اور اپنی عملی زندگی میں برت کر یہ اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے چھوڑا ہے:

-1 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سادہ پانی بھی پیتے اور کبھی اسے شہد، دودھ اور کھجور کے خمیرے کے ساتھ ملا کر بھی پیا کرتے تھے۔ سادہ پانی صرف پیاس بجھاتا ہے جبکہ دودھ، شہد اور دیگر میٹھی اشیاء کے ساتھ مخلوط پانی غذا اور مشروب دونوں کا کام دیتا ہے۔

خصوصاً شہد کے ساتھ ملا ہوا پانی تو کئی امراض کا علاج بھی ہے۔ اس سے بلغم نرم ہو کر ختم ہو جاتا ہے، معدہ صاف ہوتا ہے، جگر کو تقویت ملتی ہے اور صفرا کے مضر اثرات ختم ہو جاتے ہیں ۔

امام ترمذی نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے ، وہ فرماتی ہیں :

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مشروب پسند تھا جو میٹھا اور ٹھنڈا ہو۔‘‘(ترمذی)

اس سے معلوم ہوا کہ مشروب میں ان دو اوصاف کا موجود ہونا بہت ضروری ہے۔ یعنی میٹھا ہو اور مناسب حد تک ٹھنڈا بھی ہو۔ اس قسم کا مشروب بدن کے لیے بہت ہی مفید ہوتا ہے۔ روح کو فرحت اور سرور نصیب ہوتا ہے، جگر اور دل کو تقویت پہنچتی ہے اور تمام قوائے جسمانی خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں ۔ چشموں اور کنوؤں کا تازہ پانی اور ان مٹکوں اور برتنوں کا پانی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے جن سے مسام کے ذریعے پانی اور ہوا خارج ہوتی ہو۔

-2 حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبِ زم زم کے علاوہ دیگر پانی بیٹھ کر پینا پسند فرماتے تھے، کیونکہ کھڑے ہو کر پانی پینے سے پیاس اچھی طرح نہیں بجھتی اور پانی معدے میں قرار نہیں پاتا۔ بیٹھ کر پانی پینے کے بعد جگر اس کو تمام اعضا میں بہ قدرِ ضرورت تقسیم کرتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پینے سے پانی پوری سرعت اور تیزی کے ساتھ نیچے اترتا ہے، اس لیے دفعتاً معدہ اور دیگر اعضا گرم سے سرد پڑ جاتے ہیں ، جو اکثر بیماریوں کا سبب ہے۔ جبکہ بیٹھ کر پینے سے پانی تدریجاً اپنا عمل کرتا ہے۔

-3 حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشروب پیتے وقت تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ بہت ہی خوشگوار، مزے دار اور صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ پانی اور دیگر مشروبات پیتے وقت تین سانس لینے کے کئی طبی فوائد ہیں ، جن کی نشاندہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی ہے:

-1 پیاس اچھی طرح بجھتی ہے۔

-2 زود ہضم، خوشگوار اور لذیذ ہوتا ہے۔

-3 اس میں شفا بھی ہے، کیونکہ جب پیاس کی حرارت کو تدریجاً کم کیا جائے تو اس سے معدہ گرم سے سرد نہیں پڑتا۔ اس میں حرارت عطشی کو تدریجاً کم کرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے قوی سے ضعیف اور ضعیف تر بنا دیا جاتا ہے، اور یہی پیاس بجھانے کا بہترین فطری طریقہ ہے، کیونکہ اس سے معدہ پر بیک وقت زیادہ بوجھ نہیں پڑتا۔ سانس سے اس کو استراحت اور آرام ملتا ہے اور اس وقفے میں پیاس کی کمی کا اندازہ بہ آسانی لگ سکتا ہے۔

-4 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ برتنوں کو ڈھانپو اور مشکیزوں کو بند رکھو، کیونکہ سال میں ایک رات وباء اترتی ہے اور جس برتن یا مشکیزے کا منہ بند نہیں ہوتا اس میں یہ بیماری اتر جاتی ہے۔(مسلم)

مٹکوں اور مشروبات کے دیگر برتنوں پر ڈھکنا رکھنا طب و صحت کا ایک مانا ہوا اصول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عادت ڈالنے کے لیے یہاں تک تاکید کی ہے کہ اگر کوئی چیز میسر نہ آئے، تو اس پر ایک تنکا ہی رکھ دیں اور رکھتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیں ۔ ڈھکنا رکھنے سے برتن گرد و غبار، مکھی، مچھر اور دیگر زہریلے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہتا ہے۔

-5 کھانے کی طرح پینے سے پہلے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور دودھ کے علاوہ دیگر مشروبات پینے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے:

(ترجمہ) ’’اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور اس سے بہتر نعمت عنایت فرما۔‘‘

دودھ پینے کے بعد یہ دعا پڑھتے:

(ترجمہ) ’’اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور یہ نعمت ہمیں اور بھی زیادہ عنایت فرما‘‘۔ (یہ اس لیے کہ غذائی مواد میں دودھ سے بہتر نعمت کوئی نہیں )

-6 برتن میں سانس لینا بھی صحیح نہیں ، اس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف ارشاد ہے:

(ترجمہ) ’’پیالے کو اپنے منہ سے الگ کرو اور پھر سانس لو۔‘‘

-7 کوزے یا بند برتن سے بھی پانی پینا مناسب نہیں ، کیونکہ اس طرح پانی نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے اور کیڑے مکوڑے یا تنکے وغیرہ کے پیٹ میں جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مزید برآں پیٹ، پانی کی جگہ ہوا سے بھر جاتا ہے اور انسان مشروب سے اچھی طرح لطف اندوز نہیں ہوتا، اور اس سے پیٹ میں درد پیدا ہونے کا امکان بھی ہوتا ہے۔ ان ہدایات سے پتا چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مشروبات کے بارے میں کس قدر قیمتی ارشادات سے نوازا ہے اور صحت کی حفاظت کے لیے کسی معمولی نکتے سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا، جس سے آپؐ کے ارشادات و تعلیمات کی ہمہ گیریت کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ۔

 

               صفائی اور نفاست پسندی

 

گھر اور ماحول کی صفائی اور مزاج کی نفاست پسندی بھی اہم امر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’اللہ تعالیٰ پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں ) کو صاف ستھرا رکھو۔‘‘(البزاز فی سندہ)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس جہانِ فانی کو ایک سرائے سے زیادہ خیال نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو صاف الفاظ میں یہ بتایا:

’’دنیا میں ایسی زندگی بسر کرو، جیسا کہ تم ایک مسافر یا راہ گزر ہو۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے ہاں بلند محلات اور کوٹھیاں نہیں تھیں ، البتہ مسکن کے بارے میں آپؐ کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے:

1۔ جائے رہائش ایسی ہو جو گرمی، سردی اور موسمی سختیوں سے بچا سکے۔

2۔ اونچی اور بھاری نہ ہو، جس کے گرنے کا خطرہ ہو۔

3۔ ہواؤں اور آندھیوں کا مقابلہ کرسکے۔

4۔ موذی اشیا اور حشرات الارض سے محفوظ ہو۔

5۔ زیادہ بلند اور بہت زیادہ پست نہ ہو، بلکہ معتدل ہو۔

6۔ گھر میں ہر لحاظ سے صفائی کا معقول انتظام ہو، بدبو وغیرہ نہ ہو۔ بیت الخلا گھر کے ایک کونے میں ، اور بالکل الگ ہو۔

7۔ گھر معقول حد تک وسیع بھی ہو، تاکہ رہنے والے اس میں تنگی محسوس نہ کریں ۔

ظاہر ہے کہ جو گھر ان اوصاف سے متصف ہو، چاہے وہ سنگ مرمر یا پختہ اینٹوں کا نہ بھی ہو، تب بھی وہ حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق ہو گا اور انسان اس میں شادمانی اور مسرت محسوس کرے گا۔ اور اس سے بہتر، مفید اور معتدل مکان جسمانی ارتقا اور صحت کی بقا کے لیے نہیں ہوسکتا۔

 

               بدن کی صفائی

 

اسلام صفائی اور پاکیزگی کا مذہب ہے۔ طہارت اور نظافت ایمان کا جزو ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور صفائی پسند لوگوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(البقرہ:222)

اسلام میں طہارت اور صفائی کا ایک مؤثر اور فطری نظام ہے۔ ہر مسلمان پر دن رات میں پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ہے، جس کے لیے وضو کرنا فرض ہے۔ وضو میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ہاتھ، چہرہ اور پاؤں دھونا، سر، کانوں اور گردن پر مسح کرنا شامل ہے۔ اس سے تمام جسم چست اور چاق و چوبند ہوتا ہے۔ چوں کہ گرد و غبار اور آلودگیوں سے ان ہی اعضا کا واسطہ پڑتا ہے، اس لیے ان ہی پر اکتفا کرنا ایک فطری امر ہے۔

اس کے علاوہ غسلِ جنابت فرض قرار دیا گیا ہے اور ہر جمعہ کو غسل کرنا سنت ہے، تاکہ اعضائے وضو کے علاوہ ہفتے بھر کا میل کچیل دور ہو جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضا کی بدبو اور بدن پر پسینے وغیرہ کا جمع ہونا مذموم قرار دیا ہے۔ جو شخص بدبو دار سبزی کھائے، جس سے پڑوسی کو تکلیف ہو، اس کے لیے مسجد اور دیگر عوامی مجلسوں میں آنا بھی ناپسند فرمایا ہے۔

 

               ورزش

 

خوراک اُس وقت مفید ثابت ہوتی ہے جب وہ اچھی طرح ہضم ہو جائے۔ غذا ہضم کرنے کے لیے محنت اور ورزش کی ضرورت ہے۔ اسلام میں بے کار بیٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں ، مسلمان کو قدم قدم پر محنت کرنی پڑتی ہے، اس لیے اسے مصنوعی ورزش کی سرے سے ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا مشغلہ پڑھنا پڑھانا، یا اور کوئی ایسا پیشہ ہو جس میں اسے ورزش کا موقع نہیں ملتا اور وہ اسلامی فرائض و واجبات سے بہ طریق احسن عہدہ برآ ہوتا ہو، تب بھی اس کو ورزش کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی۔ صبح سویرے اٹھنے، وضو، غسل کرنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، حج اور جہاد کے لیے جانے اور دیگر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے سے اس کی یہ ضرورت خود بہ خود پوری ہوسکتی ہے۔

تاہم اسلام میں بعض مفید ورزشوں کا جواز بھی موجود ہے، جو دورِ جدید کے بے ہودہ مشاغل اور انگریزی طرز کے کھیل کود سے بہ درجہا بہتر ہے۔ یہ مشاغل کھیل کود اور ورزش کے ساتھ ساتھ ایک مفید فن اور ہنر بھی ہیں ، مثال کے طور پر:

شاہ سواری

شرط لگائے بغیر گھڑ دوڑ کا مقابلہ

تیر اندازی

نشانہ بازی

شکار کھیلنا

کبڈی

یہ مشاغل دورِ جدید کے یورپی کھیلوں فٹ بال، والی بال، ہاکی اور ٹیبل ٹینس وغیرہ سے کہیں بہتر ہیں ۔ مسلمان انگریزوں کی تقلید میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ان کے لایعنی کھیلوں کو اپنا کر انہوں نے اپنے اسلاف کے بہتر اور با مقصد کھیلوں کو بھلا دیا ہے، اور اب وہ ان کے ہجوں سے بھی اجنبی ہو چکے ہیں ۔

آج ہمارے قومی خزانے سے جتنی رقم انگریزی کھیلوں کو فروغ دینے پر خرچ ہوتی ہے، اگر اس کا عشر عشیر بھی اسلامی کھیلوں کو فروغ دینے پر خرچ کیا جائے تو ہر مسلمان وطن عزیز کے لیے ایک تربیت یافتہ سپاہی اور مستعد محافظ بن سکتا ہے۔ ان ریاضتوں کی بہ دولت انسان کے تمام اعضا، خصوصاً آنکھ، کان، زبان، پٹھوں ، گوشت پوست اور ہڈیوں وغیرہ کی ورزش ہوتی ہے۔ انسان فرحت وسرور محسوس کرتا ہے اور صبر و ثبات، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے، بہادری اور شجاعت کا سبق سیکھتا ہے۔

 

               نیند اور آرام

 

نیند بھی حفظانِ صحت کے لیے ضروری ہے۔ ایک صحت مند انسان کے لیے دن رات میں آٹھ گھنٹے نیند ضروری ہوتی ہے۔ محنت اور دن بھر کام کاج کرنے سے جسمانی قوتیں تھک جاتی ہیں اور آرام کی طالب ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دن، رات میں تقسیم کر کے اس فطری ضرورت کو پورا کیا ہے، ارشاد خداوندی ہے:

’’خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو)۔‘‘(المومن:61)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا نیند کا طریقہ بالکل فطری ہے اور حفظانِ صحت کے لیے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم با وضو ہو کر سوتے۔ سونے سے پہلے مسواک کرتے، منہ اچھی طرح صاف کرتے اور یہ دعا پڑھتے:

بِاسْمِکَ اللّٰھْمً اَحْیَاوَاَمُوْتُ

’’اے اللہ! میں تیرے نام پر زندگی گزارتا ہوں اور تیرے نام پر میری موت ہو گی۔‘‘

اس کے علاوہ سورۃ اخلاص، معوذتین، آیت الکرسی اور دیگر دعائیں بھی پڑھتے تھے، کیوں کہ اس طرح پاکیزہ خیالات کے ساتھ نیند آتی ہے اور انسان محوِ راحت ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ نماز عشا کے بعد بلا ضرورت باتیں نہیں کرتے تھے، بلکہ فوراً سوجاتے، اور رات کے آخری حصے کے نصف اول میں اٹھتے اور یہ دعا پڑھتے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَااَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ

’’اللہ تعالیٰ کے لیے حمد و ثنا ہے جس نے ہمیں موت کے بعد نئے سرے سے زندگی دی، اور اسی کے ہاں دوبارہ اٹھ کر پیش ہونا ہے۔‘‘

اس کے بعد وضو کرتے، مسواک کرتے اور نمازِ تہجد پڑھتے تھے، پھر دایاں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر خفیف نیند سوجاتے اور صبح ہوتے ہی اٹھتے، دو رکعت سنت پڑھتے اور پھر فرض نماز ادا کرنے کے لیے مسجد تشریف لے جاتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت سے زیادہ نہیں سوتے تھے اور بہ قدرِ ضرورت سونے سے گریز نہیں کرتے تھے، کیوں کہ جب فطری ضرورت پیش آتی ہے، اُس وقت اسے دبانا، اصولِ صحت کے منافی ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://fridayspecial.com.pk/20352

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید