FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 اسلام میں تعقّل و تفقہ  کا مقام و دائرہ کار

 

 

 

                ڈاکٹر مقبول حسن

 

 

 

اس کتاب کے مباحث راقم کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا حصہ ہیں اور ’’دار المصنفین شبلی اکیڈمی‘‘، اعظم گڑھ، انڈیا کے علمی و تحقیقی مجلہ ’’معارف‘‘ کے شمارہ۔ مارچ، ۲۰۱۳ء میں،ص ۲۱۵ تا ۲۲۹، بعنوان: ’’شریعتِ اسلامیہ میں عقل کا مقام ‘‘ چھپ چکے ہیں۔ اب جب کہ کچھ اضافے کے ساتھ نئے عنوان سے کتابی صورت میں حاضر ہیں۔

 

مقبول حسن

 

 

 

 

                ’’عقل ‘‘ کی لغوی تحقیق

 

’’عقل‘‘ کا مادہ ع ق ل ہے جو کہ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ لغات میں عقل کی مندرجہ ذیل تعریفیں ملتی ہیں۔

۱:      ’’العقل‘‘ کے معنیٰ سمجھ، قوتِ تمیز، حافظہ، دِل، قلعہ، حفاظت، پناہ گاہ، بندش، گِرہ اور قوتِ ادراکیہ جِس سے غیرمحسوسات کا ادراک کیا جاتا ہے (۳)۔

۲:     دانش، خرد، بدھ، دانائی، گیان، فہم، ادراک، فراست، زیرکی، شعور، سمجھ، انسان کے دل کی وہ قوت جس کے باعث وہ حیوانات پر ممتاز ہے (۴)۔

۳: اَلعَقْل

الف۔ اس قوت کو کہتے ہیں جو قبولِ علم کے لئے تیار رہتی ہے۔

ب۔ وہ علم جو اس قوت کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں (۵)۔

’’مفردات القرآن ‘‘کے مطابق، عقل کے پہلے مفہوم کے حوالے سے فرمانِ نبویﷺ ہے :

مَا خَلَقَ اللّٰہُ خَلْقاً اَکْرَمَ عَلَیْہِ مِنَ الْعَقْلِ (۶)۔

’’اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو اس کے نزدیک عقل سے زیادہ با عزت ہو۔ ‘‘

عقل کے دوسرے مفہوم کے حوالے سے فرمانِ نبویﷺ ہے کہ:

مَا کَسَبَ أَخَدُٗ شَیئًا افْضَلَ مِنْ عَقْلٍ یَّھدِیہٖ اٖلیٰ ھُدَیً اَوْ یَرُدُّ ہُ عَنْ رَدیً۔

’’ کسی شخص نے اُس عقل سے بڑھ کر کوئی چیز حاصل نہیں کی جو انسان کی راہنمائی کرے یا اُسے ہلاکت سے بچائے ‘‘ (۷)۔

۴:     ’’لسان العرب ‘‘کے مطابق:

لفظ ’’عقل‘‘ عَقَلَ یَعقِلُ کے باب سے مصدر صیغہ ہے جس کے معنی روکنا، باندھنا اور بچانا کے ہیں۔ اسی طرح اونٹ کے باندھنے کو بھی ’’عقل البعیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح قلعہ کو ’’معقل‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دشمن کے حملوں سی بچ کر پناہ لینے کا مقام ہوتا ہے۔ (۸)

 

                عقل کی حقیقت اور علمائے اسلام

 

علمائےاسلام نے عقل کی تعریف میں جو کچھ لکھا اس میں سے چند اہم بیانات یہ ہیں :

امام ابوالحسن اشعریؒ کے نزدیک:

’’العقل و تمیز و کیاسۃ واصلاح معیشۃٍ

و فراسۃ و بہ یتوجہ الخطاب الشرعی۔ ‘‘(۹)

’’عقل، تمیز اور دانش کا نام ہے، (عقل) ایسی فراست اور زیرکی ہے کہ جس کی وجہ سے زندگی کی اصلاحReformation ہوتی ہے اور شرعی حکمLegal injunction متوجّہ ہوا کرتا ہے۔ ‘‘

مولانا روم متوفی ۶۷۲؁ھ فرماتے ہیں :

’’عقل سے مراد ایسی قوت جو اطمینان و سکون کا ذریعہ، نفسانی  غلامی سے آزادی اور دل کی نگرانی کرنے والی ہوتی ہے۔ ‘‘(۱۰)

؎       عقل ایمانی چو شخنہ عادل است

پاسباں و حاکمِ شہر دل است

عقل در تنِ حاکمِا یمان بود،

کہ زبمیش نفس در زنداں بود!

امام غزالیؒ کے مطابق:

’’عقل ایسا علم ہے جس کے حصول کے لیے گہرے غور و خوض کی ضرورت نہیں۔ ‘‘(۱۱)

حارث ابن اسد محاسبیؒ کے مطابق:

’’عقل اس فطری قوت کا نام ہے جو فکری علوم کے فہم و ادراک  کی استعداد و ملکہ کا ذریعہ ہے، یہ ایک ایسی روشنی ہے جو انسان کے دل میں (قدرت کی طرف سے ) ڈالی جاتی ہے جس کی  بنا پر انسان میں معرفتِ اشیاء کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘(۱۲)

حضرت حکم بن عبداللہ الازرق کے مطابق:

آپ نے فرمایا ’’ اہلِ عرب کہا کرتے تھے کہ عقل تجربات اور حزم و احتیاط سوئے ظن(بد گمانی) کا نام ہے، فرمایا حضرت اعمش نے کیا تم نہیں دیکھتے کہ انسان جب کسی چیز کے بارے بد گمانی رکھتا ہے تو اس سے بچتا ہے۔ ‘‘(۱۳)

ابنِ منظور افریقی کے مطابق:

’’۔ ۔ ۔ عقل پر قلب کا اطلاق ہوتا ہے اور قلب پر عقل کا  اطلاق ہوتا ہے۔ عقل کا اطلاق غور و فکر اور سمجھ بوجھ کی

اس قوتِ عاقلہ پر ہوتا ہے جو اللہ نے فطری طور پر قلبِ  انسانی میں پیدا فرمائی ہے۔ ‘‘(۱۴)

چنانچہ اسی تناظر میں نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا فرمان ملتا ہے کہ:

العقل عقال من الجہل

’عقل جہالت سے باز رکھتی ہے (۱۵)۔ ‘‘

حضور اکرمﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں عقل کا بُنیادی کام روشنی فراہم کرنا، حقیقت سے آگاہ کرنا اور انسان کو عقائد، اعمال اور اخلاق میں نیکی کے راستے پر گامزن کرنا ہے۔

٭      عقل کا ہم معنی ایک اور لفظ ’’قلب‘‘ ہے جو قرآنِ مجید میں ۱۳۵ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ (۱۶) ’’قَلب‘‘ کے معنی دل کے ہیں اور یہ لفظ ’’عقل‘‘ کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ (۱۷) اس کے معنی اُلٹنا، پلٹنا کے بھی ہیں۔ (۱۸)

پس عقل در اصل فطرتِ انسانی کا ایک اہم ملکہ اور حصہ اور خالق کی عطا کی ہوئی ایک باطنی قوت، دانش، خِرد، سمجھ، فہم، قوتِ تمیز و ادراک کا نام ہے جو اُسے سوچ و فکر کی کَجرَوِی، رویّے کی منفیت اور جہل سے روکتی ہے۔ اور جس کی مدد سے انسان کسی دقیق معاملے کو حل اور بُرے و بھلے کی تمیز کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں قلب و ذہن اورسارے انسانی حواس اس کے مددگار ہوتے ہیں۔ سوچ، غور و فکر، تجزیہ و تدبّر، تعقّل کے ہی مختلف انداز ہوتے ہیں۔

تجربات بھی انسان کی عقل میں اضافہ کرتے ہیں۔ یعنی اُسے عقلمند بناتے ہیں۔ جب تجربات کی مدد سے کسی چیز یا فعل کی افادیت یا مضرت اُس پر ظاہر ہوتی ہے تو وہ اسی بنا پر آئندہ اس کے متعلق ارتکاب و اجتناب کا فیصلہ کرتا ہے۔

علماء کرام نے مختلف بنیادوں پر عقل کی مختلف اقسام بیان کی ہیں، مثلاً؛ عقلِ فطری(عقلِ مطبوع)، عقلِ تجربی یا اکتسابی(عقلِ مسموع)، عقلِ نظری، عقلِ عملی، عقلِ سلیم    اور عقلِ سقیم۔

 

                 تعقّل اور تفقّہ

 

تعقّل اور تفقّہ کا فرق بیان کرتے ہوئے حضرت علّامہ سید مناظر احسن گیلانی(سابق صدر شعبۂ دینیات جامعہ عثمانیہ) اپنی کتاب ’’تدوینِ فقہ و اصولِ فقہ‘‘ میں رقم طراز ہیں :

’’ معلومات جب حواس کی راہ سے معلوم ہوئے ہیں  اور عقل جب ان معلومات پر کام کرتی ہے، ان کی روشنی

میں جزئیات سے کلیات تیار کرتی ہے، تو اس کا اصطلاحی نام ’’تعقّل ‘‘ ہے۔ لیکن بجائے حواس کے یہی معلومات

جب وحی و نبوت کی راہ سے عقل کو میسّر آتے ہیں، اور اپنے فطری فرائض کے ساتھ جب ان میں ڈوبتی ہے، اور ان معلومات سے نتائج و نظریات، تفریعات و جزئیات پیدا کرتی ہے، تو اس کا اصطلاحی نام ’’تفقّہ‘‘ ہے ورنہ تعقل و تفقہ میں نفسِ عقلی کی حیثیت سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ‘‘ (۱۹)

شریعتِ اسلامیہ کوئی جامد(STATIC) قسم کی شریعت نہیں کہ جس میں غور و فکر اور عقل کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ بلکہ دیگر ادیان و شرائع کے بر عکس اس میں قدم قدم پر غور و فکر اور تعقل و تدبّر پر ابھارا گیا ہے، اور اس کی حوصلہ افزائی و تحسین کی گئی ہے۔ کیونکہ شریعتِ اسلامی تا قیامت انسانیت کے لیے ہدایت و راہنمائی ہے۔ قرآن مجید کے نزدیک عقلی قوتوں کو معطل رکھ کر غور و فکر سے کام نہ لینا، اندھا دھند کسی کی پیروی کرنا اور اوہام و خرافات کے پیچھے پڑنا انسان کا عیب گردانا گیا ہے۔ اور عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترنے والا مذہب جھوٹا قرار پاتا ہے۔ اسلام نے تو وجودِ الٰہی کی تفہیم و  تیقن کے لیے عقل کو مدار و ذریعہ قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَاف الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَایٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۔ (سورہ آل عمران :آیت نمبر: ۱۹۰ )

’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں  اہلِ عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ‘‘

قرآنِ مجید میں بارہا غور و فکر، تدبّر و تعقّل کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور خود قرآن نے قرآنی تعلیم کو سمجھنے کے لئے عقلی استدلال سے کام لینے کا کہا ہے۔ قرآن مجید میں تعقل و غور و فکر جیسے الفاظ کی تعداد کچھ یوں ہے (۲۰):

عقل۔ ۔ ۔ ۴۹ مرتبہ، اولوالاباب۔ ۔ ۱۶ مرتبہ، تفکر۔ ۔ ۔ ۱۸ مرتبہ ، فقہ و تفقہ۔ ۔ ۔ ۱۹ مرتبہ، یقین۔ ۔ ۔ ۲۸ مرتبہ، حکمت۔ ۔ ۔ ۲۰۴، حق۔ ۔ ۔ ۲۶۱مرتبہ، علم ۹۰۲ مرتبہ، قلب۔ ۔ ۔ ۱۳۵ مرتبہ طوالت سے بچتے ہوئے دو حوالے پیش ہیں :

۱۔ اللہ ربُ العزت نے اپنے حبیب کی زبان اطہر سے مخاطبین کو کہلوایا:  اَفلا یَتدَبرون القراٰنَ ولَو کَانَ مِن عِند غَیراللہ لَوَجَدُوا فِیہِ اِختلافاً کَثِیراَ ۔ ( سورۃالنساء ۴، آیت:۸۲)

’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے ؟اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔ ‘‘

چنانچہ قرآن مجید میں شرعی احکام کے بیان کے بعد اللہ ربُ العزت نے انسان کی عقل کومنعطف کیا ہے اور احکام کی عقلی بُنیاد کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ اس سلسلے کا ایک ارشادِ الٰہی ہے :

۲۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہَ لَکُمُ الآیٰتِ لَعَلَّکُم تَعقِلُوُنَ۔ ( سورہ نور۲۴،    آیت نمبر:۶۱ )

’’اسی طرح اللہ تمہارے لئے احکام بیان کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔

معروف اہلِ تشیع عالم و محقق، مرتضیٰ مطہریؒ قرآن مجید میں عقل کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’۔ ۔ ۔ قرآن میں ہمیں ایک دو جگہوں کے سواکہیں بھی کوئی تلخ اور سخت لفظ دکھائی نہیں دیتا۔ (سخت) لفظ ایک جگہ ان افراد کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے :(ارشادِ باری تعالیٰ ہے ) وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْن۔   وہ ان لوگوں کو خباثت میں مبتلا کر دیتا ہے جو عقل سے   کام نہیں لیتے۔ [سورہ یونس ۱۰، آیت:۱۰۰]۔ ‘‘(۲۱)

حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’تمہیں کسی شخص کا اسلام اُس وقت تک تعجب میں نہ ڈالے   جب تک تم اس کی عقل کی گرفت کا اندازہ نہ کر لو۔ ‘‘ (۲۲)

یعنی انسان کی عقل اسے نیکیوں پر ابھارتی اور فسق و فجور سے روکتی ہے اور انسان کا اسلام اسے عقل کے صحیح استعمال پر ابھارتا ہے۔

حضرت ابو الدردائؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کو جب اپنے کسی صحابی کی عبادت کے بارے میں اطلاع ملتی تو آپ ﷺ دریافت فرماتے :

’’ اس کی عقل کیسی ہے ؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ وہ عقلمند ہے تو فرماتے کہ تمہارا ساتھی اس لائق ہے کہ منزلِ مقصود کو پہنچ  جائے، اور اگر یہ بتایا جاتا کہ وہ عقلمند نہیں ہے تو فرماتے  وہ اس لائق ہے کہ منزلِ مقصود کو نہ پہنچے۔ ‘‘(۲۳)

یہ اس لئے کہ اگر وہ عقلِ صحیح کا مالک ہو گا تو اللہ کی عبادت کا صحیح حق ادا کرے گا اور دین کے تقاضوں کو درست سمجھ کر اُنھیں صحیح مقام پر رکھے گا وگرنہ افراط و تفریط کا شکار ہو کر اُلٹا گمراہ ہو جائے گا۔

امام غزالی فرماتے ہیں :

’’اس کو بھی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ شریعت کے تمام احکام عقلی مصالح پر مبنی ہیں اور یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ محض عقلی مصالح کسی چیز کے فرض کرنے یا حرام کرنے کے لئے کافی نہیں (۲۴)۔ ‘‘

امام غزالی مزید عقل و نقل کے باہمی تعلق کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’(ترجمہ)۔ نہ عقل کو نقل سے استغناء، نہ نقل عقل سے بے نیاز ہے جیسا کہ عقل کو معزول کر کے محض تقلید کی طرف بلانے والا جاہل ہے۔ اسی طرح وہ شخص بھی دھوکہ میں ہے، جو قرآن و سنّت کے انوار سے علیحدہ ہو کر صرف اپنی عقل پر بھروسہ کرے تو تم کو ان دونوں گروہوں میں  سے کسی میں بھی داخل نہ ہونا چاہیے، کیونکہ علومِ عقلیہ،  عقل کی غذاء اور علومِ شریعہ اس کی دوا ہیں، اور جو مریض دوا  کو استعمال نہ کرے اسے (محض) غذاء کے استعمال سے نقصان پہنچ جاتا ہے (۲۵)۔ ‘‘

 

                عقل اور استناد و صحتِ حدیث

 

احادیث کے استناد و صحت میں بھی ’’ عقل‘‘ ایک کسوٹی اور معیار کے طور پر مانا جاتا ہے۔ روایات کی سَنَد کی صحت اور متونِ احادیث کی صحت و استناد کی دَرک کا ایک اہم ذریعہ یقیناً عقل اور انسانی غور و فکر اور تعقل ہے۔ جیسا کہ مسندِ احمد میں حضرت ابو اسید الساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

اذا سمعتم الحدیث تعرفہ قلوبکم وتلین لہ اشعارکم وابشارکم وترون انہ منکم قریب فانا اولاکم بہ واذا سمعتم الحدیث عنی تنکرہ قلوبکم وتنفر منہ اشعار  کم وابشارکم وترون انہ منکم بعید فانا ابعدکم منہ۔ (۲۶)

’’ جب تم کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمھارے دل مانوس ہوں اور تمھارے بال و کھال اس سے متاثر ہوں اور تم اس کو اپنے سے قریب سمجھوتو میں اس کا تم سے زیادہ حق دار ہوں اور جب کوئی ایسی حدیث سنو جس کو تمھارے دل قبول نہ کریں  اور تمھارے بال و کھال اس سے متواحش ہوں اور تم اس کو اپنے  سے دور سمجھو تو میں تم سے بڑھ کر اس سے دور ہوں۔ ‘‘

مولانا شاہ محمد جعفر پھلواری ندویؒ نے اپنے مقالے ’’صحتِ احادیث کا ایک خاص معیار‘‘ میں یہی حدیث ’’عنی‘‘ اور ’’منہ‘‘ کے بروایت احمد و بزاز، دو الفاظ کے اضافے کے ساتھ اس طرح لکھی ہے :(۲۷)

اذا سمعتم الحدیث عنی تعرفہ قلوبکم وتلین لہ اشعارکم وابشارکم وترون انہ منکم قریب فانا اولاکم بہ واذا سمعتم الحدیث عنی تنکرہ قلوبکم وتنفر منہ اشعارکم منہ وابشارکم وترون انہ منکم بعید فانا ابعدکم منہ۔

مولانا موصوف نے اپنے اس مقالے میں حدیث میں وارد کلمات ’’تعرفہ قلوبکم‘‘، ’’تلین لہ اشعارکم‘‘ اور ’’ انہ منکم قریب‘‘ کی الگ سے خصوصی وضاحت کی ہے۔ آپؒ کلمات ’’انہ منکم قریب‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ وہ تم سے قریب ہے لیکن یہ بھی ایک نفسی کیفیت کا اظہار ہے۔ قرب سے مکانی قرب مراد نہیں بلکہ ذوقی قرب مقصود ہے۔ ، یعنی ذوقِ سلیم اس بات کو اپنے آپ سے قریب محسوس کرے۔ یہ ذوق علم، عقل، تدبر، ایمان اور تقویٰ کی ایک مجموعی کیفیت سے پیدا ہوتا ہے۔ (۲۸)

مولانا موصوف اپنے ایک دوسرے مقالے میں اصولِ روایت و درایت کی بحث میں لکھتے ہیں :

’’۔ ۔ ۔ دوسرا اصول درایت ہے جس کا مقصد یہ دیکھنا ہے

کہ ایک سَنَد یعنی سلسلہ رواۃ کی وساطت سے جو بات بیان

کی جا رہی ہے وہ عقلی کسوٹی پر بھی پوری اُترتی ہے یا نہیں ؟

ہمارے خیال میں اصل چیز درایت ہی ہے۔ راویوں کو قبول

و رَد کرنے کے جو اصول وضع کیے گئے ہیں وہ بھی در اصل

درایت و عقل ہی کے تقاضے ہیں، یہ کوئی الگ چیز نہیں۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اصل کسوٹی درایت

و عقل ہی ہے جو ایک طرف سَنَد کو پرکھتی ہے اور دوسری

طرف متن کو۔ ‘‘(۲۹)

یعنی محولہ بالا فرمانِ پیغمبرﷺ کی مدد سے، آپ ﷺ سے منسوب روایات کو سمجھنے، ان کی سنَد اور علمی مقام کے تعین اور ان کی صحت کو پرکھنے میں عقل و شعور اور تعقل و تدبر کی بنا پر کوشش کی حیثیت اظہر من الشمس ہے۔ کسی خبر اورروایت کی تصدیق اوراس کی تحقیق کرتے ہوئے حالات وقرائن کی روشنی میں اس کے مختلف پہلووں پر غور کرنے کی تعلیم توخود قرآنِ مجید نے دی ہے (۳۰)۔

قرآنی حکم واضح کرتا ہے کہ انسانی عقل بعض خبروں اور روایتوں کو سنتے ہی فوراً چوکنا ہو جاتی ہے اور بھانپ جاتی ہے کہ یہ قابلِ قبول ہیں یا قابلِ رَد۔ یہی وجہ ہے کہ ابن کثیر، سورہ نور میں واقعہ افک کے ضمن لکھتے ہیں :

’’۔ ۔ ۔ جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے واقعہ

افک کی بابت سنا تو اپنی اہلیہ سے فرمایا: ’’یہ سراسر جھوٹ

ہے۔ اے ام ایوب، کیا تم ایسا کر سکتی ہو؟‘‘ انھوں نے کہا :

’’بخدا نہیں۔ ‘‘ تو فرمایا: ’’اللہ کی قسم، عائشہ رضی اللہ عنھا تم

سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ ‘‘

بعض نے اسے حضرت ابی بن کعبؓ کا قول بھی کہا ہے۔ ( ۳۱)]

عقل اور ماخذِ شریعت۔ عقل و نقل کی کشمکش

دنیا کے تمام مذاہب و شرائع ہمیشہ اس عقدہ کے حل میں ناکام رہے ہیں کہ مذہب وشَرع میں عقل کا کیا مقام مقرر کریں ؟ اور انھوں نے بالآخر عقل کا یہ مقام و مصرف طے کیا کہ تمام دُنیاوی معاملات عقل کے سپُرد کر دیے اور روحانی و معادی معاملات مذہب کے حصے میں رکھے۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انسانی معاشرہ شدید فکری، اخلاقی اور تہذیبی بگاڑ۔ عدم توازن اور بے راہ روی کا شکار ہو گیا اور دین و دُنیا کی تفریق کا تباہ کُن تصور سامنے آ گیا۔

لیکن اس کے بر عکس محمدِ مصطفٰے ﷺ کی لائی ہوئی شریعت نے الہام و عقل کے درمیان توازن کا تصور دیا اور فقہ اسلامی اس عقلی و نقلی توازن کا زندہ ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلیات و منطق میں امامت کا سہرا بھی مسلمانوں کے سَر سجتا ہے۔ عقلیات کے سر خیل ہمیں علم اصولِ فقہ اور شرعی امور میں بھی قائدانہ مرتبے پر فائز نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں امام غزالیؒ اور امام رازیؒ کا نام بڑے فخر سے بطورِ مثال لیا جا سکتا ہے۔

اسلامی شریعت کے بنیادی ماخذ و مصادر قرآن و سُنّت ہیں۔ اور ان دو بُنیادی مصادر ہی سے ماخوذ دو مزید مصادر اجماع اور قیاس ہیں۔ جنھیں ہم ’’ اجتہاد‘‘ کا نام دیتے ہیں اور یہ دونوں ثانوی مصادر در اصل اجتہاد ہی کے دو اُسلوب ہیں۔ اور اجتہاد در اصل منصوص احکامِ شریعت کی بُنیاد پر کسی غیر منصوص نئے مسئلے کا شرعی حل و حکم معلوم کرنے اور کسی تعبیر طلب منصوص مسئلے کی تعبیر کرنے کا نام ہے، جو کہ سرا سر ’’ انسانی تعقُل‘‘ کی صورت ہے۔ اور اسلامی شریعت کا یہ امتیاز و خاصیت ہے جو دوسری شرائع سے اسے ممتاز بناتا ہے۔ یعنی اسلامی شریعت میں انسان کی اِس خدا داد صلاحیت ’’عقل‘‘ کی خاص رعایت کی گئی ہے اور اسے بھی دوسرے بنیادی و منصوص احکام کی طرح حجت تسلیم کیا گیا ہے۔ البتہ شریعت کا یہ مسَلّمہ مصدر و ماخذ غیر محدود و غیر مشروط نہیں بلکہ محدود و مشروط ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی’ محاضراتِ فقہ ‘میں فرماتے ہیں :

’’ شریعت کے بنیادی احکام تو قرآن و سُنّت سے معلوم ہوتے ہیں اور شریعت کے اصل ماخذ بھی یہی دو ہیں۔ دو ثانوی ماخذ اور ہیں جو براہ راست قرآن و سُنت سے ماخوذ ہیں، وہ اجماع اور اجتہاد ہیں۔ اجتہاد تو خود حدیث سے ثابت ہے      اور قرآنِ مجید سے اس کی بالواسطہ طور پر تائید ہوتی ہے۔ اسلئے اجتہاد کو ایک مستقل بالذات ماخذِ فقہ یا ماخذِ شریعت مانا گیا ہے۔ فقہائے اسلام نے اس کو تسلیم کیا۔ حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے  (۳۲ )۔ ‘‘

اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے مصادر شریعتِ اسلامی کی ترتیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :

’’ اجتہاد یوں تو چوتھے نمبر پر بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن تاریخی  ترتیب کے اعتبار سے اس کا نمبر تیسرا ہونا چاہیے۔ یہ وہ ماخذ ہے جس کی خود رسول اللہ ﷺ نے منظوری دی تھی۔ قرآن مجید میں بالواسطہ اجتہاد کی طرف اشارات ہیں اور رسول اللہﷺ نے واضح طور پراس کی اجازت عطا فرمائی (۳۳ )۔ ‘‘

مثلاً جب نبی اکرمﷺ نے سعد بن معاذؓ کو قبیلہ بنو قریظہ کے معاملے میں ثالث بنایا تو انھوں نے اپنی رائے و اجتہاد کے مطابق فیصلہ کیا۔ اور فرمایا:

[۔ . میری رائے یہ ہے کہ ان کے جنگ جُو افراد کو قتل کیا جائے اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال، غنیمت میں شامل کر لیا جائے۔ ۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’در حقیقت تم نے اس اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا جو سات آسمانوں کے اوپر ہے۔ ] (۳۴)۔

 

                مصالحِ احکام اور تعقّل

 

بندۂ مومن تو احکاماتِ شریعت پر بلا چُون و چرا عمل کرتا ہے اُسے پہلے کسی حکم کی مصلحت جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر جیسا کہ سطورِ بالا میں بھی ہم نے کہا ہے کہ اسلام خود ہوش و حواس سے کام لینے کی تلقین و نصیحت اور ترغیب دیتا ہے، اس لئے بندگان خدا نے شریعت کے اسرار و رموز اور مصالح جاننے کی ہر دور میں شعوری کوشش بھی کی ہے۔ چاہے وہ معزّز طبقۂ انبیاء میں سے ہوں یا بعد کے علمائے اُمّت۔ حضرت ابراہیم ؑ کا اللہ تعالیٰ سے بچشمِ سَرمُردوں کو زندہ کرنے کے عمل کو دیکھنے کی دُعا اور موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کا واقعہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ اسی طرح علمائے اُمّت نے شرعی احکام کی مصلحتوں پر بہت کام کیا اور تعقل و تدبر سے کام لے کر احکاماتِ شریعت کے مصالح معلوم کئے اور اُمّت کی راہنمائی کے لئے بڑی ضخیم کتب بھی تصنیف فرمائیں۔

 

                عقل کا دائرۂ کار و مَصرف

 

عقلِ انسانی، اللہ عظیم الشان کا عظیم شاہکار اور انسانیت کے لئے گراں بہا عطیہ ہے۔ مگر اس کا بھی اپنا ایک دائرہ کار اور مخصوصو محدود مصرف ہے اور اس کا حُسن اسی کے اندر رہنے میں ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا اور اس کی فطرت میں اپنی یہ نعمت (عقلِ نظری و طبعی )ودیعت کر دی اور دوسرا اس کی ابدی راہنمائی کے لئے اپنی جانب سے خصوصی علم (وحی) عطا فرمایا۔ عقل کا مصرف اور دائرہ یہاں کی نظر آنے والی ’’محسوسات‘‘ کی دُنیا ہے اور ’’وحی و الٰہیات‘‘ اس کی مزید تکمیل و راہنمائی کا سامان ہے جس کی روشنی میں عقلِ انسانی نے کام کرنا ہے۔

                عقل کا دائرۂ کار و مَصرف، علمائے اسلام کی نظر میں

 

٭     امام ابنِ تیمیہؒ عقل کے دائرہ کار کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’ہمارے نزدیک اُس(عقل)کو اس بات کا حق بھی ہے کہ حکمرانی اور سطوت کے نئے نئے نقشے تجویز کرے اور بتائے کہ جہانبانی اور کشور کشائی کے اصول کیا ہیں۔ اسی طرح اس کو اس بات کی بھی کھلی اجازت ہے کہ حالات و ظروف کے تحت اقتصادیات و اجتماعیات کے نئے نئے انداز مقرر کرے۔ مگر الٰہیات کے دائرے میں اس کو اپنے حدود سے متجاوز ہونے  کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس اقلیم میں صرف وحی و کتاب اللہ اور اللہ کے برگزیدہ انبیاء و رسُل ہی کی حکمرانی ہے اور اُن ہی کا سکہ چلتا ہے (۳۵)۔ ‘‘

٭     مولانا رومؒ ’’ عقلِ جزوی ‘‘کے مقابلے میں ’’عقلِ ایمانی‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

۔ ۔ ۔ کہ یہ تعلیماتِ انبیاء کی روشنی میں ہی غور و فکر کرتی ہے  اور اس کا دائرہ صرف حیوانی اور مادی اغراض و مقاصد نہیں ہوتے بل کہ اس کا اصل میدان روح، اخلاق اور معاد ہوتا ہے یہ انسان کی دائمی فوز و فلاح چاہتی ہے اور ہر قسم کی نفسانی اغراض سے دور رہ کر قلب و ذہن کی نگرانی کرتی ہے۔ (۳۶)

٭     مولانا یوسف لدھیانویؒ نے ادارہ تحقیقات اسلامی راولپنڈی کی بین الاقوامی کانفرنس ۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی القعدہ، ۱۳۸۷ ھ کے موقع پر اپنے مقالے میں عقل کے دائرہ کار کے متعلق فرمایا:

’’۔ ۔ ۔ بلاشبہ عقل، نور فروزاں ہے مگر اس کے لیے ایک خاص دائرہ ہے جس سے آگے قدم بڑھانا اس کے لیے

ممکن نہیں، اور جہاں عقل کی پرواز ختم ہو تی ہے وہاں سے عقل سے بالا تر ایک دائرہ شروع ہوتا ہے، اور وہ وحی الٰہی اور نبوت الٰہیہ کا دائرہ ہے، لاریب کہ عقل ان امور کا ادراک نہیں کر سکتی جو وحی کی آنکھ سے نظر آتے ہیں عقل کے لیے یہی فخر کیا کم ہے کہ وہ، وحی کے بیان کردہ حقائق کا ٹھیک ٹھیک ادراک کر لے اور اپنے نور خداداد سے ان حقائق کی بلند حکمتوں، گہری مصلحتوں اور باریک اسرار و علل کا سراغ لگانے میں  وہ کامیاب ہو جائے۔ اس سے واضح ہو کہ کتاب وسنت، شرائع الٰہیہ اور احکام منصوصہ کے سامنے سر جھکانے اور ادب و وقار اور تسلیم و انقیاد کے ساتھ ان کے سامنے کھڑا ہونے کے سواعقل کو کوئی چارہ نہیں اور اگر حقائق وحی تک اس کی رسائی نہ ہو سکے تو اسے اپنی تنگ دامنی کا اعتراف کرنا ہو گا۔ مختصر یہ کہ منصوص وحی کے ہوتے ہوئے بھی عقل کو ہر چیز میں مقدم رکھنا بڑی گھناؤنی جسارت ہے اور نصوص وحی کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اس سے کام نہ لینا نِری حماقت اور کوتاہی ہے، صحیح راستہ ان دونوں  کے درمیان سے گزرتا ہے اور وہی صراط مستقیم ہے۔ ۔ ۔ ‘‘(۳۷)

٭     پاکستان کے ایک معروف عالمِ دین، مولانا گوہر رحمٰن ؒ نے عقل کے دائرہ کار کے حوالے سے لکھا ہے :

’’عقل کا صحیح دائرہ کار یہ ہے کہ وہ وحی الٰہی کی روشنی میں غور و فکر کرے۔ اگر عقل خود کفیل ہوتی تو اللہ تعالیٰ نہ انبیاء بھیجتے اور نہ کتابیں نازل فرماتے۔ قرآنِ کریم میں اس کی یہی حیثیت بیان ہوئی ہے کہ وحی الٰہی سے آزاد ہو کر عقلِ انسانی معتدل، متوازن اور مفید قانون معلوم نہیں کر سکتی۔ عقل کا اصل کام یہ ہے کہ وہ حدود اللہ کے اندر رہ کر غور و فکر کرے، بلکہ وحی الٰہی اور تعلیماتِ انبیاء سے آزاد ہو کر سوچنے والوں اور اپنی جانب سے کوئی راستہ تلاش کرنے والوں کو قرآنِ کریم میں ’’سفہائ‘‘ یعنی نادان کہا گیا ہے (البقرۃ: آیات ۱۳، ۱۳۰، ۱۴۲)

۔ ۔ ۔ ’’طبیعات‘‘ میں تو عقل و تجربے سے حقائق کسی حد تک معلوم کیے جا سکتے ہیں لیکن ’’الٰہیات ‘‘ اور ’’ اخلاقیات‘‘ کے  دائرے میں عقلِ انسانی کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتی بل کہ اس سے غلطی کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے۔ ‘‘(۳۸)

 

                عقل کی اقسام

 

(الف) بنفسہِ عقل دو طرح کی ہے۔

۱۔ عقلِ فطری(عقلِ مطبوع)

۲۔ عقلِ تجربی یا اکتسابی(عقلِ مسموع)

 

۱۔ عقلِ فطری(عقلِ مطبوع)

 

اس سے مراد وہ دانش، سوجھ بوجھ، قوت و صلاحیتِ فہم اور فراست ہے جو قدرت نے کسی انسان کو عطا کی ہو اور اس کے حاصل کرنے میں اُس کا اپنا کوئی کردار نہ ہو۔ ہمارے نزدیک اسے ’’ عقلِ اصلی ‘‘بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور اسے وجدان و بصیرت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے یہ خالصتاً نعمت و ہدیہِ الٰہی ہے۔ در اصل یہ وہ معارف ہوتے ہیں جن کی بدولت و راہنمائی میں انسان اپنے مقصدِ حیات سے آشنا بھی ہوتا ہے اس طرح وہ اپنی انسانیت کی تکمیل بھی کر سکتا ہے اور تقویٰ و پاکیزگی حاصل کر کے اُخروی نجات کا مستحق بن سکتا ہے۔

چنانچہ اسی بات کو قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا گیا:

و نفس و ما سواھا فالھمھا فجور ھا وتقواھا۔

’’قسم ہے نفس کی اور اس کی جسے اُس نے سنوارا ہے، اور اسے  بدی و نیکی (کے فرق )کی سوجھ بوجھ (عقلِ طبعی) دی(۳۹)۔ ‘‘

 

۲۔ عقلِ تجربی یا اکتسابی(عقلِ مسموع)

 

اس سے مراد وہ دانش، سوجھ بوجھ، قوت و صلاحیتِ فہم اور فراست ہے جو کسی انسان کو اپنے علم اور تجرباتِ زندگی کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا:

’’عقل کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو تجربات کی پیداوار ہو اور ایک وہ عقل جو فطری اور طبعی ہو۔ جب یہ دونوں کسی شخص میں جمع ہو جائیں تو وہ ایسا شخص ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور اگر یہ دونوں الگ الگ ہوں تو ان میں سے فطری عقل زیادہ بہتر اور افضل (۴۰)۔

حضرت عبیداللہ بن سعد فرماتے ہیں کہ:

’’ میں نے اپنے والد کو اُن کے والد سے نقل کرتے ہوئے  سُنافرمایا کہ کسی عربی سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا تو اُس نے کہا وہ عقل (کَسبی)جس کی امانت تجربوں کی گئی ہو(۴۱)۔ ‘‘

حضرت حکم بن عبداللہ الازرق نے فرمایا کہ:

’ اہلِ عرب کہا کرتے تھے کہ عقل تجربات اور حزم و احتیاط سوء ظن کا نام ہے، فرمایا حضرت اعمش نے کہ کیا تم نہیں  دیکھتے کہ انسان جب کسی چیز کے بارے میں بدگمانی رکھتا ہے تو اس سے بچتا ہے (۴۲)۔

 

عقلِ تجربی، عقلِ فطری کی رہینِ منت ہے

 

انسان کی اکتسابی عقل در اصل عقلِ اصلی/ عقلِ فطری ہی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اور یہ اُس کے لئے بمنزلہ جڑ اور بنیاد ہوتی ہے وہی اس کے برگ و بار اور حُسن و کمال کا ذریعہ بنتی ہے۔

اسی طرح حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا:

رایت العقل عقلین فالمطبوع و المسموع ولا ینفع مسموع اذا لم یک مطبوع کما تنفع الشمس و ضوءا لعین ممنوع (۴۳)۔

’’میں نے عقل کی دو قسمیں دیکھیں فطری و اکتسابی۔ اگر عقلِ فطری نہ ہو تو عقلِ اکتسابی نفع بخش نہیں ہو سکتی، جیسا

آنکھ میں روشنی نہ ہو تو سورج کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ ‘‘ شیخ محی الدین ابن عربی نے ’’فتوحاتِ مکیہ ‘‘میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مثال دی ہے کہ:

’’لیس فی قوۃ العقل من حیث ذاتہ ادراک شئی فلا یعرف الحضرہ والصفرہ ولا الزرقۃ ولا البیاض ولا ما بینھما من الالوان ما لم ینعم البصر علیٰ العقل بھا(۴۴)۔ ‘‘

’’بذاتِ خود عقل میں کسی چیز کے دریافت کرنے کی قوت نہیں ہے۔ عقل نہ سبز رنگ کو جان سکتی ہے نہ زرد اور نہ نیلے کو نہ سفید کو نہ سیاہی کو، نہ ان رنگوں کو جو سفیدی اور سیاہ کے درمیانی مدارج سے پیدا ہوتے ہیں جب تک کہ قوت بینائی کی طرف سے ان  چیزوں کے علم کا عقل کو انعام نہ ملے۔ ‘‘

(ب) بلحاظِ مقصدیت عقل دو طرح کی ہے :

۱۔     عقلِ نظری     ۲۔      عقلِ عملی

 

۱۔     عقلِ نظری

 

اگر کسی چیز کے دَرک و فہم کا مقصد اس کی حقیقت جاننا ہو تو اسے عقلِ نظری کہیں گے۔

 

۲۔    عقلِ عملی

 

اگر کسی چیز کے دَرک و فہم کا مقصد عمل ہو تو اسے عقلِ عملی کہیں گے۔ ایرانی اس کالر محمد رَے شہری اپنی کتاب ’’عقل و جہَل قرآن و حدیث کی روشنی میں ‘‘ میں لکھتے ہیں :

[ عقلِ عملی و عقل نظری کے سلسلے میں دو نظریے موجود ہیں :

۱۔     پہلا نظریہ، یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہی؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمۂ ادراک کو عقلِ نظری کہتے ہیں ؛جیسے حقائق وجود کا ادراک، اور اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سرچشمۂ ادراک کو عقلِ عملی کہتے ہیں ؛جیسے عدل کے حسن ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور بے تابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ۔ ۔ ۔ اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بِنا پر عقلِ عملی، ادراک کاسرچشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔

۲۔      دوسرا نظریہ یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بُنیادی فرق ہے، یعنی ان دونوں کے سرچشمہ ہائے ادراک میں فرق ہے۔ عقلِ نظری۔ ۔ ۔ سرچشمہِ ادراک، بے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارنے کا سرچشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔ عقل عملی کا فریضہ، عقلِ نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے۔ سب سے پہلے اس نظریہ کو جس نے مشہور کے مقابلے میں اختیار کیا ہے، وہ ابنِ سینا ہیں اور اُن کے بعد صاحبِ محاکمات قطب الدین رازی ہیں (۴۵)۔ ]

 

                (ج)بلحاظِ صحت و عدم صحت عقل کی دو اقسام ہیں

 

۱۔      عقلِ سلیم      ۲۔      عقلِ سقیم

عقل کی یہ تقسیم در اصل معرکۂ خیر و شر اور نیکی و بدی کے تصوّر کی بُنیاد پر ہے۔ دینِ اسلام ہمیں خیر کو قائم و مروّج کرنے اور شر کو مٹانے کا حکم دیتا ہے۔

      ۱۔     عقلِ سلیم

 

عقلِ سلیم در اصل وہ اصلی اور فطری عقل ہے جو بغیر کسی بیرونی داعیے و اثر سے متاثر و مرعوب ہوئے فیصلہ دے اور اس کا فیصلہ ہر زاویے سے دلائلِ قویّہ کے مطابق، بے لاگ، مبنی بر عدل و خیر اور مثبت ہو۔

امام غزالی نے عقلِ سلیم کو ’’ عقلِ دور اندیش‘‘ کہا ہے اور اس سے آپ کی مراد ایسی پختہ عقل ہے جو وقتی منفعت و لذت کے برعکس انجام کو پیشِ نظر رکھے اور خواہشات کی غلام نہ ہو بل کہ ان پر غالب ہو۔ (۴۶)

 

۲۔    عقلِ سقیم

 

عقلِ سقیم بُنیادی طور پر عقلِ اکتسابی و مسموع عقل ہوتی ہے، یہ عقلِ اصلی و فطری کو بنیاد بنائے بغیر فطری داعیات سے عاری ہو کر اور بیرونی داعیات و اثرات سے متاثر و مرعوب ہو کر فیصلہ کرتی ہے اور اس کا فیصلہ مبنی بر شر ّ و فساد ہوتا ہے۔ اور یہ بیمار عقل کی نشانی ہے۔

 

                خلاصہ بحث

 

مندرجہ بالا معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اسلام کی نظر میں انسان کا شَرف و کمال، اس کے عمل و کردار کو جانچنے کی کسوٹی اور معیار، عقل ہے اور تعقل اسلام کا بُنیادی تقاضا ہے۔ البتہ شریعتِ اسلامیہ عقل کے بے لگام استعمال کی اجازت ہر گِز نہیں دیتی اور اسے ’’ وحی‘‘ کی حدود کا پابند رکھتی ہے۔ اسی معتدل و محدود تعقُل میں ہی اُس کی شخصیت کا حُسن اور اس کی نجات و کامیابی کا راز مضمر ہے۔ وہ شخص دھوکہ میں رہتا ہے، جو قرآن و سنّت کے انوار سے علیحدہ ہو کر صرف اپنی عقل پر بھروسہ کرے۔

چونکہ شریعتِ اسلامیہ میں دیگر ادیان و شرائع کے بر عکس قدم قدم پر غور و فکر اور تعقل و تدبّر پر ابھارا گیا ہے، اور اس کی حوصلہ افزائی و تحسین کی گئی ہے۔ قرآن و سُنّت میں با رہا غور و فکر، تدبّر و تعقّل کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور عقلی قوتوں کو معطل رکھ کر غور و فکر سے کام نہ لینا، اندھا دھند کسی کی پیروی کرنا اور اوہام و خرافات کے پیچھے پڑنا انسان کا عیب گردانا گیا ہے۔ اور عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترنے والے  مذاہب کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی شریعت میں انسان کی اِس خدا داد صلاحیت ’’عقل‘‘ کی خاص رعایت کی گئی ہے اور اسے بھی دوسرے بنیادی و منصوص احکام کی طرح حجت تسلیم کیا گیا ہے۔

علمائے اسلام نے اللہ کی عطا کی ہوئی اس صلاحیتِ عقل و شعور کو استعمال کرتے ہوئے شریعت کے اسرار و رموز اور مصالح جاننے کی ہر دور میں شعوری کوشش بھی کی ہے، اور احکامات شریعت کے مصالح جاننے کے حوالے سے اُمّت کی راہنمائی کے لئے گِراں بہا کُتب بھی تصنیف فرمائی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مراجع و حواشی

 

۱۔      گوہر رحمٰن، مولانا۔ اسلامی سیاست، ص۲۶۰، مطبوعہ، المنار  بُک سینٹر، لاہور، مارچ، ۱۹۸۲ئ۔

۲۔      شہری، محمد رے۔ ’’عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں‘‘ ، مشمولہ ;

Quran.al-shia.com,Retrieved from; http://quran.al-shia.org/urd/maqalat/19.htm

۳۔     کیرانوی، وحید الزماں قاسمی، مولانا۔ القاموس الوحید۔ ،ص ۱۱۰۸ ، مطبوعہ ادارہ اسلامیات، لاہور، کراچی۔ جون۲۰۰۱ء۔

۴۔      دہلوی، سید احمد، مولوی۔ فرہنگِ آصفیہ، ج۳، ص۷۶، مطبوعہ ، مطبع رفاہ عام پریس لاہور، مئی ۱۹۰۶ء۔

۵۔     راغب اصفہانی، امام۔ مفردات القرآن(مترجم اردو)، ص ۷۱۳، ۷۱۴، مطبوعہ، شیخ شمس الحق، اقبال ٹاؤن لاہور،پاکستان،س ن۔

۶۔      راغب اصفہانی، امام۔ ( اخرجہ الترمذی الحکیم فی نوادِ رِہٖ باسنادِ ضعیف)، مشمولہ ایضاً۔

۷۔      المتقی، علی، علاؤالدین۔ کنزالعمال۔ ،ج ۳، رقم ۱۹۱۰، مطبوعہ ، دائرۃ المعارف النظامیہ، حیدر آباد، ۱۳۱۲ھ۔

۸۔     ابن منظور، جمال الدین محمد بن مکرم الافریقی ابو فضل، علامہ۔ لسان العرب، ، باب العین، ج۱۱، ص۴۵۸، مطبع، دار صادر، بیروت،س ن۔

۹۔      السامی، ابو شکور۔ التمہید فی بیان التوحید، ص۴، مطبوعہ، دہلی، ۱۳۰۹ھ۔

۱۰۔     رومی، محمد بلخی، جلال الدین، مولانا۔ مثنوی رومی;

Retrieved from: http://rumiurdu.blogspot.com/

۱۱۔     الغزالی۔ احیاء العلوم، مطبوعہ، مصر، باب، سابع، العلم، ج۱،ص ۶۴، ۱۳۲۲ھ۔

۱۲۔     الغزالی۔ ایضاً، ج۱، ص۶۴

۱۳۔     ابن ابی دنیا، علامہ حافظ ابو بکر، ــعقل اور اس کا مقام(مترجمہ ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار)، ص۴۵، مطبوعہ دار التصنیف، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، ۱۹۹۶ء۔

۱۴۔    ابن منظور، جمال الدین محمد بن مکرم الافریقی ابو فضل، علامہ۔لسان العرب، ج۱۱،ص ۴۵۸، ۴۵۹، مطبع، دار صادر، بیروت،س ن۔

۱۵۔    شہری، محمد رے۔ عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں، ایضاً

۱۶۔     گوہر رحمٰن، مولانا۔ ایضاً، ص۲۶۰

۱۷۔    رازی، محمد بن ابی بکربن عبدالقادر۔ مختار الصحاح(مترجمہ، عبدالرزاق، پروفیسر)، ص۷۵۷، مطبوعہ، دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی، ۲۰۰۳ء۔

۱۸۔    بنارسی، شہید الدین، مولانا۔ آسان لغات قرآن،ص ۲۶۰، مطبوعہ، حدیث پبلیکیشنز، لاہور،س ن۔

۱۹۔     گیلانی، سید مناظر احسن۔ تدوینِ فقہ و اصولِ فقہ، ص۱۷۰، مطبوعہ الصدف پبلشرز، کراچی پاکستان، ۱۴۲۸ھ

۲۰۔    شہری، محمد رے۔ ایضاً

۲۱۔     مظہری، مرتضیٰ۔ اسلام اور عصرِ حاضر کی ضروریات، ص۲۹، مطبوعہ، دارالثقلین، کراچی، پاکستان، مارچ، ۲۰۰۶ء

۲۲۔    ابن ابی دنیا، حافظ ابو بکر،علّامہ۔ عقل اور اس کا مقام(مترجمہ ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار)، ص۲۱، مطبوعہ دار التصنیف، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، ۱۹۹۶ء

۲۳۔     ابن ابی دنیا، حافظ ابو بکر، علّامہ۔ ایضاً۔ ص۲۱، ۲۲

۲۴۔     عثمانی، شبیر احمد، مولانا۔ کتاب العقل والنقل، ص۳۸، مطبوعہادارہ اسلامیات لاہور۔ (س ن)

۲۵۔     عثمانی، شبیر احمد، مولانا۔ ایضاً۔ ص۴۶

۲۶۔    احمد بن حنبلؒ۔ المسند، ج۴،ص ۵، مطبع، دار المعارف، مصر، ۱۳۷۰ھ

۲۷۔    ندوی، شاہ محمد جعفر پھلواری، مولانا۔ مقالات ، ص۴۰۷، طبع، مکتبہ امتیاز، راولپنڈی، ۲۰۰۷ء

۲۸۔    ندوی، شاہ محمد جعفر پھلواری، مولانا۔ ایضاً، ص۴۰۸

۲۹۔    ندوی، شاہ محمد جعفر پھلواری، مولانا۔ ایضاً، ۲۰۰۷ئ، ص۳۲۱

۳۰۔    النور۴ ۲، آیت: ۱۶، ۱۷[ ’’تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں، اے اللہ تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان اور تہمت ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو۔ ‘‘]

۳۱۔    ابنِ کثیرؒ، عماد الدین ابوالفداء، حافظ۔ تفسیر القرآن العظیم(المعروف بہ تفسیر ابنِ کثیر۔ مترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھیؒ)ج  ۱۸(پارہ ۱۸)، ص۳۷۰، ۳۷۱، مکتبہ قدوسیہ، لاہور، ۲۰۰۶ء،

۳۲۔ غازی، محمود احمد، ڈاکٹر۔ ’’محاضراتِ فقہ ‘‘، ص۳۳۰، مطبوعہالفیصل ناشران و تاجرانِ کُتب لاہور۔ ۲۰۰۵

۳۳۔ ایضاً۔ ص۹۵

۳۴۔     الخظیب، حسن۔ ’’فقہ الاسلام‘‘، مشمولہ۔ ص۴۹۸، مطبوعہ، نفیس اکیڈمی، اردو بازار، کراچی۔ اگست ۱۹۸۲ء۔

۳۵۔    ابنِ تیمیہؒ ، اما م۔ (مشمولہ) عقلیاتِ ابنِ تیمیہ از محمد حنیف ندوی، ص۱۵۹، ۱۶۰، مطبوعہ ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ،لاہور، ۲۰۰۱ء

۳۶۔    رومی، محمد بلخی، جلال الدین، مولانا۔ مثنوی رومی

Retrieved from: http://rumiurdu.blogspot.com/

۳۷۔    یوسف لدھیانوی، مولانا۔ اسلامی قوانین میں اجتہاد و عقل کا مقام،

Retrieved from: http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/ghair-muqallidyiat/2075-islamic-qawaneen-mein-ijtihad-o-aqal-ka-muqam

۳۸۔    گوہر رحمٰن، مولانا۔ ایضاً، ص۲۶۵، ۲۶۶

۳۹۔    سورۃ الشمس:آیت نمبر۔ ۸

۴۰۔     ابن ابی دنیا، علامہ حافظ ابو بکر۔ ایضاً، ص۴۲

۴۱۔     ابن ابی دنیا، علامہ حافظ ابو بکر۔ ایضاً

۴۲۔     ابن ابی دنیا، علامہ حافظ ابو بکر۔ ایضاً۔ ص۴۵

۴۳۔    شہری، محمد رے۔ ’’عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں،ایضاً

۴۴۔    شیخ اکبر محی الدین ابن عربی۔ فتوحات مکیہ، ( اردو ترجمہ، علامہ  صائم چشتی)، علی برادران جھنگ بازار، فیصل آباد، 1986ء،ص ۲۸۸، ۲۸۹

۴۵۔    شہری، محمد رے۔ ’’عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں،ایضاً

۴۶۔    الغزالی۔ ایضاً، ج۱، ص۶۴

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید