فہرست مضامین
- استقبالِ رمضان المبارک
- انسان کی فطرت کے اندر دو جبلتیں
- رمضان المبارک ماہ نزولِ قرآن
- رمضان المبارک سعادتوں کا مہینہ
- معرفتِ ماہِ رمضان کی ضرورت
- سحری
- استقبال رمضان کے متعلق رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کا خطبہ
- روزوں کی فرضیت کا مقصد
- ماہِ رمضان، ماہِ قرآن مجید
- سالکینِ الی اللّٰہ کے سال کا آغاز
- روزہ، ادبِ ماہِ رمضان
- رسومات کے ذریعے مواقع کو ضائع کرنا
- خلاصہ
- ۱۔ ماہِ مبارکِ رمضان، ایک عظیم موقع
- ۲۔ ماہِ ضیافۃ اللّٰہ
- ۳۔ ماہِ دعا
- ۴۔ فلسفۂ روزہ
- ۵۔ ماہِ قرآن مجید
- ۶۔ صدقے کی اہمیت
- ۷۔ حقو ق العباد کا خیال
- ۸۔ با فضیلت ترین گھڑیاں
- ۹۔ اللّٰہ کی طرف سجدہ کرنا
- ۱۰۔ افطار کرانے کی فضیلت
- ۱۱۔ اخلاقِ حسنہ کا حکم
- ۱۲۔ اطاعت بذریعۂ نماز
- ۱۳۔ رحمت کے دروازوں کا کھلنا
- ۱۴۔ شہادتِ امیر المومنینؑ کی خبر
- ۱۵۔ امیر المومنینؑ کے فضائل
- ہماری کوشش جان بچانا
- شیاطین سے آزادی
- اصل استقبالِ رمضان کا طریقہ
- ماہِ رمضان اور عام مسلمان کی کیفیت
- رمضان المبارک کا لائحہ عمل
- احتساب نفس کا مہینہ
- رمضان توبہ کا مہینہ
- رمضان المبارک تقویٰ اور قربِ الہیٰ کا مہینہ ہے
- رمضان المبارک روحانیت کی فصلِ بہار
- رمضان المبارک صبر کا مہینہ ہے
- اعتکاف
- شب قدر
- رمضان المبارک کے یہ تین واقعات
- عمدہ نصیحتیں
- رمضان۔ ۔ ۔ باطنی اصلاح اور تبدیلی نظام
- رمضان المبارک اور ہماری محرومیاں
استقبالِ رمضان المبارک
مرتبہ: نسیم عباس نسیمی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانہ پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔ فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کر رہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ امت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے رمضان المبارک کی آمد رحمت کی سوغات لا تی ہے، مسلم دنیا میں خوشیو ں اور مسرتوں کے ساتھ اس کا استقبال ہو تا ہے،استقبال رمضان کے عنوان سے مجالس منعقد ہو تی ہیں، استقبال دو طرح سے ہو تا ہے،ایک ظاہری، دوسرے معنوی،ظاہری استقبال کے اہتمام کا رواج جہاں زیادہ ہو جاتا ہے وہاں سے معنوی استقبال میں کمی آ جا تی ہے، اسی لئے ظاہری استقبال سے زیادہ معنوی استقبال کی اہمیت ہے، معنوی استقبال ہی در اصل اس کی روح اور جان ہے، اسلاف کے ہاں ظاہری استقبال سے زیادہ اسی معنوی استقبال کی روح کارفرما تھی،اس دور ترقی میں باطن سے زیادہ ظاہر کی طرف ہر ایک کی توجہ ہے، کا میا بی کا راستہ یہی ہے کہ معنوی استقبال کی فکر کی جائے.۔
رمضان المبارک کی آمد ہے،جس کے استقبال کے لئے آپ اور ہم سب تیارہیں،دلی اضطرابی کیفیت کے ساتھ اُمنگوں اور خواہشات کے درمیان رب العالمین کی رحمت کے منتظر بھی ہیں۔
سابقہ تمام اَدیان میں روزہ معروف رہا ہے، قدیم مصری تہذیب،یونانی،رومن اور ہندومت میں روزہ رکھا جاتا تھا اور اب بھی رکھا جاتا ہے۔ یہودی یروشلم کی تباہی کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ہفتہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ علامہ علاؤالدین حصکفی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ:’’ ہجرت کے ڈیڑھ سال اور تحویلِ قبلہ کے بعد دس شعبان کو روزہ فرض کیا گیا، (حاشیہ ابن عابدین شامی،جلد 6،ص:178، دمشق)‘‘۔ ترتیب کے اعتبار سے پہلے نماز،پھر زکوٰۃ اور پھر روزہ فرض کیا گیا۔
اللہ کے خصوصی کرم سے ایک بار پھر ہم رمضان المبارک کے مقدس لمحوں سے نوازے جا رہے ہیں، انشاءاللہ اس ماہِ مبارک کا ہر ہر لمحہ رحمتیں لئے ہوئے ہے۔ آئیے ان مبارک لمحوں کو یوں گزاریں کہ ہم زیادہ سے رحمتیں لوٹ سکیں (آمین) رمضان میں رحمتِ خداوندی پورے جوبن پر ہوتی ہے مانگنے والے کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے زندگی کو ایک نیا رخ دینے والا ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرنے والا صرف اللہ ہے۔ نئی زندگی کے لئے آغاز ہم نے خود کرنا ہے۔ بسم اللہ کہہ کر ہم نے اللہ پر پورے بھروسے سے قدم بڑھانا ہے دستگیری، رہنمائی اور برکت اس کی مہربانی سے ہو گی انشاءاللہ۔ اس مہینے میں خیر و برکت کے خزانوں کی بارش ہوتی ہے جنت کے دروازے کھول اور دوزخ کے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ شیطان پابند کر دیا جاتا ہے نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک مختلف قسم کی عبادات کا موسم ہے۔ صیام و قیام، تلاوت قرآن، صدقہ و احسان، ذکر و دعا و استغفار، جنت کا سوال اور آگ سے نجات وغیرہ۔ اﷲ رب العالمین نے عظمت والی کتاب قرآن پاک کو رمضان المبارک میں رحمۃ للعالمین پر نازل کر کے امت رسول مکرمﷺ پر احسانِ عظیم کیا۔ رمضان کی آمد ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہم ایک مخصوص وقت تک کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں یعنی فاقہ کرتے ہیں۔ فاقہ کرنا اچھی بات ہے۔
اس سے معدہ صحیح رہتا ہے۔ فاقہ کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ان غریبوں سے ہم دردی پیدا ہوتی ہے جو فاقہ پر مجبور ہیں، یہ ہم دردی انسانیت کا جوہر ہے۔ فاقہ سے روحانیت میں بھی تازگی پیدا ہوتی ہے، یادِ خدا میں دل لگتا ہے اسی لیے ہر ایک مذہب کے اچھے لوگ فاقہ کرتے ہیں، بلکہ فاقہ کی عادت ڈالتے ہیں۔ اسلام نے اس عمل کی تعریف کی ہے مگر اس کی تعلیم یہ ہے کہ جو کچھ ہو اﷲ کے لیے ہو، فاقہ بھی ہو تو اﷲ کے لیے اور اس کے حکم کے مطابق اور آنحضرتﷺ کے طریق پر ہو۔ رمضان المبارک میں اس عظیم کام کو امیر اور غریب سبھی کرتے ہیں اور اس کے فضائل نبی پاکﷺ نے بتائے ہیں اسی عظیم عمل کو ہم روزہ کہتے ہیں۔ رمضان المبارک… سعادتوں، برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور پوری امت مسلمہ کو اس مہینہ کا حق ادا کرنے اور وہ عبادت جو اللہ کو پسند ہو۔ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ اس رمضان المبارک کو پاکستان اور امت مسلمہ کیلئے برکتوں، سعادتوںاور کامیابیوں والا بنا دے۔ آمین
انسان کی فطرت کے اندر دو جبلتیں
قدرت نے انسان کی فطرت کے اندر دو جبلتیں ایسی رکھی ہیں کہ ان کی شدت انسان کو جانوروں کی صف میںلا کھڑا کرتی ہے۔ پہلی جبلت پیٹ کی خواہش ہے جبکہ جبلت ثانیہ پیٹ سے نیچے کی خواہش ہے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ ان دونوں خواہشات کو پوری کرتے کرتے انسان نے جہاں حلال و حرام اور جائزو نا جائز کی حدود توڑی ہیں وہاں بعض اوقات مقدس رشتوں کی حرمت کو بھی تار تار کیا ہے۔ ان دو طاقت ور جذبوں سے کبھی مذہب نے شکست کھائی ہے تو کبھی تہذیب و تمدن بھی ان کے سامنے ماند پڑے ہیں اور کہیں شرم و حیا داغ داغ ہوئی ہے تو کہیں عفت و پاکدامنی کی چاندنی چھلنی چھلنی ہوئی۔ تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور کہیں کہیں تو مورخ کا قلم تھک ہار کر سپر ڈال دیتا ہے کہ ان دونوں جذبوں کی مکروہ و مذموم وارداتیں ناقابل تحریر ٹھہرتی ہیں اور بے باک قلم کار بھی کہتا ہے زمانے کے مظالم کے زندہ رکھنے کا ذمہ مجھ پر نہ آن پڑے۔ قرآن مجید نے انسان کی اس بد عملی پر کیا خوبصورت تبصرہ کیا ہے ” وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْب لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اَعْیُن لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اٰذَان لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلّ اُولٰئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ(٧:١٧٩)”ترجمہ:اور حقیقت یہی ہے کہ بہت سے جن وانسان ایسے ہیں جنہیں ہم نے جہنم ہی کے لیے پیداکیا ہے،ان کے پاس دل ہیں لیکن وہ سوچتے نہیں،ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں،ان کے پاس کان ہیں لیکن وہ سنتے ہی نہیں،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گزرے ہوئے،یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔
جملہ کل انسانی معاملات کی مانند،اسلام نے یہاں بھی انسانیت کو بے سہاراو تنہا نہیں چھوڑ دیا بلکہ ایک ایسا نظام العمل دیا ہے جو ان دونوں جبلتوں یعنی،پیٹ اور پیٹ کی نیچے کی خواہشات کو باگیں ڈال دیتا ہے اور جانوروں سے گرا ہوا انسان ایک بار پھر دائرہ انسانیت میں پناہ گزین ہو جا تا ہے۔ ”روزہ”اسی نظام العمل کا نام ہے۔ طلوع فجر سے دن کے اختتام تک پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی جائز خواہشات سے بھی دستبردارہو جا نا ”صوم”یا روزہ کہلاتا ہے۔ لیکن یہ ”روزہ”کا ظاہری ڈھانچہ ہے۔ قرآن مجید انسان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ جس نے ان دو بڑی بڑی حیوانی جبلتوں پر قابو پالیا ہے اس کے لیے ان سے چھوٹی عادات پر قابو پانا چنداں مشکل نہ ہو گا،پس زبان،آنکھ،کان،ہاتھ،پاؤں اور دیگر خواہشات پر قابو پا لینا کچھ دشوار نہیں اگر ان دو بڑے منہ زور گھوڑوں کو قابو پا لیا جا سکے۔ ”روزہ”تمام مذاہب میں اپنا وجود رکھتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی کتب کا ایک قانون ”قانون نسخ”کے نام جانا جاتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت میں نازل شدہ احکام بعد کے اوقات میں کلی یا جزوی طور پر منسوخ کر دیے جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی شریعت میں مغرب سے مغرب تک روزہ ہوتا تھا اور کل مہینے کے لیے بیویوں کے پاس جانا منع تھا۔ جو شخص مغرب کے وقت میں کچھ کھانے پینے سے قاصر رہ جاتاتواس کا روزہ اڑتالیس گھنٹے کا ہو جاتا تھا۔ ہجرت کے دوسرے سال ”روزہ”انہیں شرائط کے ساتھ امت مسلمہ پر بھی فرض کر دیا گیا۔ لیکن کچھ مسلمان حالت روزہ میں بیویوں کے پاس جانے کی شکایت لے کر حاضر خدمت اقدسؐ ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ ان نفوس قدسیہ پر اپنی دائمی رحمتوں کا نزول فرمائے جن کے سبب و طفیل اﷲ تعالی نے اپنے اس قانون میں ”نسخ”فرمایا اور امت مسلمہ کے لیے روزہ کا دورانیہ مغرب سے مغرب تک کی بجائے طلوع فجر سے مغرب تک کر دیا گیا اور رات کے اوقات میں کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔
رمضان المبارک ماہ نزولِ قرآن
ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے،تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمتِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبہ حمیت اور جذبہ اتحاد،اللہ اور رسول سے بے انتہا لو‘ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اْس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہو گی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں :قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شبِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اس کے عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ ضروری ہے کہ ہم اِس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس کے لیے یکسوکر لیں۔
رمضان المبارک سعادتوں کا مہینہ
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے جو بہت ہی برکتوں، رحمتوں اور سعادتوں کا مہینہ ہے۔ اسی ماہ میں تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئیں اور اسی ماہ میں آخری آسمانی کتاب قرآن مجید بھی نازل ہوا۔ اسی ماہ کی ایک رات یعنی لیلۃ القدر کو سارا قرآن مجید لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا تک نازل ہوا اور پھر اسی ماہ میں غارِ حرا ء میں رسول اللہﷺ پر قرآن مجید کی پہلی وحی نازل ہوئی۔
ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اللہﷺ نے خطبۂ استقبالِ ماہِ مبارکِ رمضان دیتے ہوئے فرمایا:۔
أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّہُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْکُمْ شَھْرُاﷲِ بِالْبَرَکَۃِ وَالرَّحْمَۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ
اے لوگو! تمہاری طرف برکت، مغفرت اور رحمت کیساتھ اللہ تعالیٰ کا مہینہ آ رہا ہے پس تم اس کا استقبال کرو۔ آپؐ ہر ماہِ مبارکِ رمضان کا خاص استقبال فرماتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیتے تھے۔ دیگر آئمہ اطہار بالخصوص حضرت سید الساجدین۔ کی روش یہ تھی کہ جب ماہِ مبارکِ رمضان قریب ہوتا تو اس کیلئے اس طرح سے آمادہ ہوتے جس طرح شادی کے وقت دلہن کے آنے کی تیاریاں کی جاتی ہیں پھر جب ماہِ مبارکِ رُخصت ہوتا تو آپؑ اس طرح آنسوؤں، گریہ و بقاء اور نالہ و فریاد کیساتھ ماہِ رمضان کو رخصت کرتے جس طرح گھر سے کوئی جنازہ نکل رہا ہو۔ یہ اُس وقت ممکن ہے کہ جب انسان کو ماہِ رمضان کے بارے میں معرفت، شناخت اور آشنائی ہو اُسی وقت انسان اس کا صحیح استقبال کرتا ہے۔
نبیِ کریمﷺ دوماہ پہلے ہی رجب کا چاند دیکھ کر فرما رہے ہیں:۔
{ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَانَ }
پہلے سے اشتیاق ہے،انتظار ہے، اور اشتیاق کے عالم میں یہ دُعا فرما رہے ہیں کہ یا اللہ! ہماری عمر اِتنی کر دیجئے کہ ہم رمضان تک پہنچ جائیں،رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ہمیں نصیب ہو جائیں۔
معرفتِ ماہِ رمضان کی ضرورت
رمضان ’’رَمْضٌ‘‘ سے مُشتق ہے،معنی ہیں :’’جلا دینا ‘‘۔ مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:’’ رمضان ایک بھٹی ہے،جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے،سونے کو زیور بنا کر استعمال کے لائق کر دیتی ہے،ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو پاک کرتا ہے اور نیک لوگوں کے درجے بڑھاتا ہے،(تفسیرِ نعیمی،جلد2،ص:208)‘‘۔ کیا وجہ ہے کہ ہم پورے ماہ کے روزے رکھنے کے باوجود بھی اَخلاقی اَقدار کی پاکیزگی اور بلندی کے حامل نہیں ہوتے بلکہ صفاتِ رذیلہ،حرص و طمع اور دولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔
ہم اُس وقت تک کسی چیز سے استفادہ نہیں کرسکتے جب تک ہمیں اُس کی معرفت نہ ہو یا مثلاً جب تک دین کی معرفت نہ ہو انسان دین پر عمل نہیں کر سکتا، اسی طرح جب تک انسان کو قرآن و اہلبیت کی معرفت حاصل نہ ہو انسان اِن سے کوئی استفادہ نہیں کرسکتا۔ پس سارا دارومدار معرفت پر ہے لہٰذا ہر عمل معرفت کیساتھ مشروط ہے۔ معرفت سے مراد صرف معلومات نہیں ہیں بلکہ ایسی آگاہی، شعور اور بیداری ہے جس کے نتیجے میں ہمارے سامنے اُس کی حقیقت کھل کر واضح ہو جائے اور ہم اُس سے آشنا ہو جائیں اور اُس کے اندر چھپے ہوئے راز پالیں۔ وہ آگاہی جو انسان میں حرکت کا باعث بنے اُسے معرفت کہتے ہیں۔ معرفت اور معلومات میں فرق ہے۔ ہمیں بہت ساری چیزوں کی معلومات ہیں لیکن وہ معلومات جن اُمور کے متعلق ہیں ہم اُن پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ پس معرفت یا حقیقت کو جاننے سے ہی انسان کے اندر آمادگی پیدا ہوتی ہے۔ ماہِ مبارکِ رمضان کی معرفت کو رسول اللہﷺ نے اس خطبہ میں بیان فرمایا ہے۔
سحری
سحری کرنا خود ایک سنت عمل ہے اور کھجور اور پانی سے سحری کرنا بھی سنتوں میں شامل ہے۔ کیونکہ کھجور سے سحری کرنے کی تو ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ترغیب بھی دلائی ہے۔ سیدنا صائب دین یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :’’کہ کھجور بہترین سحری ہے‘‘۔ عربی کی مشہور کتاب ’’ قاموس میں ’’ سحر ‘‘ کے سلسلے میں لکھا ہے کہ سحر ایسے کھانے کو کہتے ہیں جو صبح کے وقت کھایا جائے۔ فقہ حنفی کے پیشوا حضرت مولانا ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، بعضوں کے نزدیک سحری کا وقت آدھی رات سے شروع ہو جاتا ہے۔ (مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح، صفحہ 477)
حضرت سہیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام باب ریان ہے، اور قیامت کے روز روزہ دار اسی دروازے سے داخل ہوں گے۔ روزہ دار کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے سے داخل نہ سکے گا۔ اعلان ہو گا کہ کہاں ہیں روزہ دار؟ پھر روزہ دار کھڑے ہو جائیں گے۔ روزے داروں کے گزر جانے کے بعد اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ (بخاری 2541)
استقبال رمضان کے متعلق رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کا خطبہ
نبی کریم (ص) کے استقبالِ رمضان سے متعلق ایک خطبے کا تذکرہ ہمیں بیہقی کی درج ذیل روایت میں ملتا ہے۔ اس خطبے سے استقبالِ رمضان کے نبوی معمول پر روشنی پڑتی ہے، حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا، اے لوگو! تمہارے اوپر ایک بڑا بزرگ مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ﴿ایسی ہے کہ﴾ ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ﴿اس کے﴾ روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام کو تطوع ﴿یعنی نفل﴾ قرار دیا ہے۔ جس شخص نے اس مہینے میں کوئی نیکی کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس شخص کے مانند ہے، جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا ﴿یعنی اُسے ایسا اجر ملے گا جیسا کہ دوسرے دنوں میں فرض ادا کرنے پر ملتا ہے﴾۔ اور جس نے اس مہینے میں فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں اُس نے ستّر فرض ادا کیے اور رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اُس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔
حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ ہم نے ﴿یعنی صحابہ کرام نے﴾ عرض کی، یا رسول اللہ (ص)! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق میسر نہیں ہے کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے۔ نبی (ص ) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ یہ اجر اُس شخص کو ﴿بھی﴾ دے گا جو کسی روزہ دار کا دودھ کی لسّی سے روزہ کھلوا دے یا ایک کھجور کھلا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے۔ اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اللہ تعالیٰ اُس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ ﴿اِس حوض سے پانی پی کر﴾ پھر اُسے پیاس محسوس نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے اور جس نے رمضان کے زمانے میں اپنے غلام سے ہلکی خدمت لی، اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اُس کو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ ‘‘
روزوں کی فرضیت کا مقصد
اسی طرح قرآنِ کریم میں تمام روزوں کی علت،غایت،حکمت اور فائدہ یہ بیان فرمایا:
{ یٰـأَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (بقرۃ: ۱۸۳)
روزہ کے ذریعے تقویٰ پیدا کرنے کی تربیت دی جا رہی ہے،اس کی مشق اس طرح کروائی جا رہی ہے کہ دل میں خواہش ہو رہی تھی کہ کھاؤں اور پئوں اور شدید گرمی کا موسم ہے،پیاس کے مارے حلق میں کانٹے پڑے ہوئے ہیں،ٹھنڈاپانی گھر میں موجود ہے،آدمی کمرے میں اکیلا ہے،کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے،مگراس وقت وہ پانی نہیں پیتا۔ کوئی روزے دارمسلمان جس کے دل میں ایمان ہے،کیساہی گیا گزرا ہو، غفلت کا مارا اور نادان ہو وہ پانی نہیں پئے گا،صرف اس لئے نہیں پئے گا کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے صبح کو وعد ہ کر لیا تھا کہ آج میں روزہ رکھ رہا ہوں،لہٰذا کچھ کھاؤں اور پیوں گا نہیں۔ اب اگر کچھ کھا پی لیا تو میرا عہد ٹوٹ جائے گا،پھر میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا؟اس پانی پینے کے تقاضے کواس نے اللہ تعالیٰ کی وجہ سے دبا دیا،بس اسی کا نام تقویٰ ہے،اسی کو فرمایا:
{ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیO فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْویٰ} (النّٰزعٰت: ۴۰،۴۱)
جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے کا دل میں خوف رکھتا ہو اور اس خوف کی وجہ سے اپنے نفس کو خواہشات سے روک دے تو پھر جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔
رسول اللہﷺ نے (روزے کی فضیلت اور قدر و منزلت بیان کرتے ہوئے ) ارشاد فرمایا: ’’مومن کے ہر عمل کا ثواب (اس کی کیفیت، حقیقت اور معیار کے مطابق ) دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ کر کے دیا جاتا ہے، (یعنی باقی سب عبادات کے لئے سنتِ الٰہی یہی ہے ) مگر ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ روزہ عطاء اجر کے اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ روزہ صرف اور صرف میرے لئے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا، کیونکہ وہ اپنی خواہشِ نفس اور طعام کو صرف میری رضا کے لئے چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لئے دو مسرتیں ہیں، مسرت کا ایک لمحہ تو اسے افطار کے وقت نصیب ہوتا ہے اور روحانی مسرت کا نقطۂ عروج اس وقت ہو گا جب آخرت میں اسے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کے حضور شرفِ باریابی نصیب ہو گا، اور روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو مشک سے بھی زیادہ پیاری ہے،(صحیح مسلم:2705)‘‘۔
اگر ہم نے اپنے روزوں کو محض بھوک اور پیاس کی مَشقَّت تک محدود رکھا، ان کی روح کو نہ سمجھا، روحِ صوم پر عمل نہ کیا اور نہ اسے اپنے اوپر طاری کیا، حقیقت صوم کو بھول کر محض صورت کو اپنا لیا تو ایسے روزے داروں کے لئے فرمانِ رسولﷺ ہے ’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے بھوک (وپیاس ) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قائم اللّیل ایسے ہیں، جنہیں رات کے قیام سے شب سے بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا،(سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث:1690)‘‘۔
ماہِ رمضان، ماہِ قرآن مجید
قرآنِ کریم میں ماہِ رمضان کو روزوں کا نہیں بلکہ خود قرآن کا مہینہ قرار دیا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہوتا ہے:
’’شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدیٰ وَالْفُرْقَانِ۔ ۔ ۔ ‘‘ (سورہ بقرہ، آیت ۱۸۵)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خداوند تعالیٰ نے قرآن نازل کیا یعنی یہ ماہِ نزولِ قرآن ہے۔ نزولِ قرآن باران یا بارش کے نزول کی طرح نہیں ہے بلکہ نزولِ قرآن کا مطلب مومنین کے دلوں میں معرفتِ قرآن کا اُترنا، سمجھ میں آنا اور قابلِ فہم ہونا ہے۔ اس مہینے کو ربیع القلوب، ربیع المومنین اور ربیع القرآن بھی کہا گیا ہے۔ مثلاً جب برسات کا موسم آتا ہے تو زمین میں کھڑی ہوئی خشک لکڑیاں بھی ہری ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ماہِ رمضان میں بھی یہ قوت و طاقت موجود ہے کہ یہ مہینہ مردہ دل کو زندہ کر دیتا ہے اور اُس میں بہار آ جاتی ہے۔ ماہِ رمضان، قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے مناسب ترین موقع و فرصت ہے جو ہمیں نصیب ہوئی ہے۔
سالکینِ الی اللّٰہ کے سال کا آغاز
پاکستان میں مالی سال جولائی میں شروع ہوتا ہے اور جون میں ختم ہو جاتا ہے۔ پس جن کا تعلق مالیات سے ہو انھیں پتہ ہوتا ہے کہ مالی سال کب شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح سالکینِ الیٰ اللہ کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ اُن کا عبادی سال کب شروع ہوتا ہے؟ ماہِ مبارکِ رمضان اہل سیر و سلوک کے عبادی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ قرآنِ مجید نے ہمیں متوجہ کیا ہے:
ٰٓیاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِح’‘ اِلیٰ رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ
(سورہ انشقاق، آیت۶)
’’اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف زحمت اور کوشش سے جا رہا ہے اور آخرکار اپنے پروردگار سے جا ملے گا لیکن تیار ہو کر جا۔ ‘‘ قربِ الٰہی کے اس سفر میں جو سال شروع ہوتا ہے وہ ماہِ مبارکِ رمضان سے شروع ہوتا ہے۔ انسان پچھلے ماہِ رمضان سے لے کر موجودہ ماہِ رمضان تک محاسبہ کرے کہ اس دورانیہ میں خداوند تعالیٰ کے قریب ہوا ہے یا نہیں؟ اگر قریب ہوا ہے تو دیکھے کتنا آگے بڑھا ہے اور اپنے پروردگار کا قرب حاصل کیا ہے؟ عظیم علمائے اہل سیر و سلوک جیسے سید ابن طاؤس، سید ابن فہد حلی اور اس طرح کے بزرگ علماء جو خدا کی طرف ہمارے رہنما و مربّی و معلم ہیں، انہوں نے خود بھی یہ راہ طے کی ہے اور اپنے شاگردوں اور دوسروں کی بھی رہنمائی کرتے ہیں کہ کس طرح آپ نے خداوند تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ یہ بزرگان رمضان المبارک کو اپنے عبادی سال کا پہلا مہینہ تصور کرتے ہیں کہ یہاں سے سالک کے سال کا آغاز ہوتا ہے۔
روزہ، ادبِ ماہِ رمضان
ماہِ مبارکِ رمضان میں روزے ہیں اور روزہ، ماہِ رمضان کا ادب ہے۔ روزے سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی گرمی کے خوف سے روزہ ترک کریں کیونکہ روزہ اپنے اندر بہت ساری حکمتیں رکھتا ہے۔ روزہ مردہ انسان کو زندہ کرنے کیلئے ہے۔ حتیٰ المقدور جہاں تک روزہ رکھنے کی طاقت و قدرت ہے روزہ رکھیں تاکہ روزے کے اثرات و برکات حاصل ہو سکیں۔ ماہِ مبارکِ رمضان جو قرآن کے نزول یعنی فہمِ قرآن کا مہینہ ہے اس میں مومنین کو چاہئے کہ وہ قرآن کیساتھ محشور ہوں اور خدمتِ قرآن میں رہیں۔ روزہ داروں کیلئے اﷲ تعالیٰ نے الگ انتظام کیا ہے اور روزہ خوروں کیلئے الگ۔ روزہ خوروں کیلئے وہی دوزخ ہے جس کا نام جہنم ہے جہاں روزہ خوروں کیلئے عذاب اور جلنے کا بہترین انتظام ہے جس کو انسان تحمل نہیں کرسکے گا اور نہ ہی مرے گا۔ اس معصیتِ خداوند سے پناہ مانگو کہ روزہ کھانا معصیتِ الٰہی ہے۔ معمولی لوگوں کے مشورے سے روزہ نہ چھوڑیں کیونکہ یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ جن لڑکوں کے عیسوی سال کے حساب سے چودہ سال مکمل ہو جاتے ہیں وہ قمری لحاظ سے پندرہ سال کے ہو جاتے ہیں یعنی بالغ ہو جاتے ہیں پس ان پر روزہ واجب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح لڑکیاں جو عیسوی سال کے حساب سے نو سال کی ہو گئی ہیں وہ قمری حساب سے دس سال کی ہو جاتی ہیں۔ نو سال کی بچی جب روزہ رکھتی ہے تو نڈھال ہو جاتی ہے چونکہ سحری اچھی طرح نہیں کھاتی اور پورا دن جھومتی رہتی ہے، اس پر ماں کا دل دُکھتا ہے اور فوراً اُسے زبردستی کچھ کھلانا چاہتی ہے۔ ابھی تو اس ماں کا دل دُکھا ہے لیکن یہ گناہ ماں نے بھی کیا ہے اور اُس بچی سے بھی کروایا ہے۔ لہٰذا ماؤں کو چاہئے کہ یہ کام نہ کریں بلکہ اُس کی بجائے اُس کو ایک اچھی سحری کرائیں۔ بچوں کو سحری سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے جگانا چاہئے تاکہ وہ اچھی طرح سے سحری کرسکیں کیونکہ بستر سے اٹھ کر فوراً کسی کا بھی کھانے کو دل نہیں کرتا لہٰذا پہلے جگائیں اور قرآن پڑھیں، نمازِ تہجد پڑھیں یا کوئی کام کریں تاکہ کھانے کیلئے اُن کی طبیعت مائل ہو جائے۔ جس گھر میں بچوں کیلئے مناسب اہتمام ہوتا ہے اُس خاندان کے بچے معصیت کے بغیر بلوغ کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی جان بوجھ کر روزے کو باطل کرتا ہے تو اُس پر کفارہ ہے چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا۔ روایات میں ہے کہ ایک روزہ کے بدلے ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے یا پھر ایک غلام کو آزاد کرنا ہے یا پھر ساٹھ روزے مسلسل رکھنے ہیں اور ساتھ ساتھ استغفار بھی کرنا ہے۔ اگر یہ کفارہ ادا نہ کیا تو اُس کیلئے سخت عذاب ہے۔
رسومات کے ذریعے مواقع کو ضائع کرنا
ہماری ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم مواقع کو رسومات کے ذریعے ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ بہت اہم مواقع ہیں لیکن اُن موقعوں کیلئے بزرگوں نے خاص رسومات بتائی ہوئی ہیں اور ہم اُن رسومات میں سارا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔ مثلاً اگر فرض کریں کہ کسی کو ایک اہم کالج میں ایڈمیشن کا موقع مل جائے اور وہ انٹرویو دینے کی بجائے انٹرویو کے وقت بازار جا کر مٹھائیاں اور سموسے لے آئے اور سارے رشتہ داروں میں تقسیم کرنا شروع کر دے تو اس نے موقعے کو ضائع کر دیا۔ ہماری زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آتے ہیں لیکن ہم اُنہیں سستی یا رسومات کی وجہ سے ضائع کر دیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں ماہِ رمضان کی خاص رسومات ہیں جس میں پورا مہینہ ضائع ہو جاتا ہے اور بعض سستی سے ضائع کر دیتے ہیں مثلاً خواتین پورے ماہِ رمضان کو کچن میں طرح طرح کے کھانے تیار کرنے میں ضائع کر دیتی ہیں جبکہ ایک وقت کا کھانا کم ہو گیا ہے پھر بھی وہ ماہِ مبارکِ رمضان سے فائدہ نہیں اٹھاتیں اور اس موقع سے وہ قربِ خداوند تعالیٰ حاصل نہیں کرتیں، یہ رسومات ہیں۔ افطار اور سحری سادہ طریقے سے کریں تاکہ خرچہ بھی کم ہو، وقت بھی بچ جائے اور اصل کام بھی کرسکیں۔ افطاری کے وقت مومنین اتنا کھاتے ہیں کہ معدے میں بوجھ کی وجہ سے ان میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہیں رہتی۔ اب اگر اُنہیں کہا جائے کہ اُٹھو قرآن کا درس یا مجلس ہے تو کہتے ہیں کہ ہم سے تو اُٹھا بھی نہیں جا رہا اور حقیقتاً نہیں اُٹھا جاتا۔ لہٰذا افطاری اور سحری سادہ طریقے سے کریں تاکہ ہلکے رہیں اور معرفت و فہمِ قرآن کے مہینے سے مستفید ہوسکیں۔ ماہِ رمضان میں اکثر تلی ہوئی چیزیں کھائی جاتی ہیں جن سے پیاس لگتی ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ مریض ہوں لیکن بیماری کی وجہ سے اُس وقت تک روزہ نہیں چھوڑ سکتے جب تک بیماری بڑھنے یا ہلاک ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
خلاصہ
۱۔ ماہِ مبارکِ رمضان، ایک عظیم موقع
استقبالِ ماہِ رمضان کے خطبہ میں رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:
اَیُّھَا النَّاس إِنَّہُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْکُمْ شَھْرُاﷲِ بِالْبَرَکَۃِ وَالرَّحْمَۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ شَھْرٌ ھُوَعِنْدَاﷲِ أَفْضَلُ الشُّھُورِ وَأَیَّامُہُ أَفْضَلُ الْأَیَّامِ
اے لوگو! یہ مہینہ تمہاری طرف برکتیں، رحمتیں، بخششیں اور مغفرت لے کر آ رہا ہے، یہ سید الشہور یعنی تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اس کا ایک ایک لمحہ عظیم اور اس کی ایک رات ہزار مہینوں سے برتر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ہر رات کو ہزار مہینوں سے برتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے ایام بہت با فضیلت ہیں، جس میں گناہ، معصیت اور حرام کام انجام نہیں دینے چاہئیں۔ حضرت سیدہ فرماتی ہیں کہ پیٹ کا روزہ کافی نہیں ہے بلکہ یہ روزہ ہی نہیں ہے، روزہ پورے وجود کا ہوتا ہے۔ سماعت، بصیرت، تکلم، فکر، سوچ اور ہر چیز پر کنٹرول کا نام روزہ ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے کہ رات کا عالم قربِ خدا کیلئے سب سے زیادہ مناسب ہے۔ رسول اللہﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا فرمانا ہے:
یاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ * قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً‘‘ (سورہ مزمل، آیت ۱،۲)
اے رسولؐ! آپؐ راتوں کو قیام کریں لیکن تھوڑا قیام کریں چونکہ دن میں آپؐ نے بہت زحمتیں اور کوششیں کرنی ہیں۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اِنَّ نَاشِءَۃَ الَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا‘‘ (سورہ مزمل، آیت۶)
رات کا عالم قربِ خدا کیلئے بہت مناسب وقت ہے۔ جب ساری دُنیا سو رہی ہو، سناٹا اور تاریکی ہو اور کوئی دیکھنے والا نہ ہو تو یہ وقت اپنے پروردگار کیساتھ اظہارِ بندگی کیلئے بہترین وقت ہے۔
۲۔ ماہِ ضیافۃ اللّٰہ
رسول اللہﷺ مزید فرماتے ہیں:
’’وَسَاعَاتُہُ أَفْضَلُ السَّاعَات ھُوَ شَھْرٌدُعِیتُمْ فِیہِ إِلَی ضِیَافَۃِاﷲِ‘‘
ماہِ مبارکِ رمضان کے لمحے، سیکنڈ اور گھڑیاں بھی بہت عظیم ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تم اللہ تعالیٰ کی مہمانی کی طرف بلائے گئے ہو، تمہیں دعوت دی گئی ہے اور ضیافت اللہ میں بلائے گئے ہو اور اللہ تعالیٰ کی ذات تمہاری میزبان ہے لہٰذا اس ماہِ مبارک میں تم لوگ مہمانِ خداوند تعالیٰ بنو۔ روایات میں وارد ہوا ہے:
’’القرآن معدبۃ اﷲ‘‘
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا دسترخوان ہے، خداوند تعالیٰ نے اس دسترخوان کو بچھایا ہے تاکہ انسان اپنی فطرت کی غذا نوش کریں۔ اسی خطبے میں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
’’وَجُعِلْتُمْ فِیہِ مِنْ أَھْلِ کَرَامَۃٍ أَنْفَاسُکُمْ فِیہِ تَسْبِیحٌ وَنَوْمُکُمْ فِیہِ عِبَادَۃٌ وَعَمَلُکُمْ فِیہِ مَقْبُولٌ وَدُعَاؤُکُمْ فِیہِ مُسْتَجَابٌ‘‘
اس ماہ میں خداوند تعالیٰ نے تمہیں اہلِ شرف، اہلِ عظمت اور اہلِ کرامت قرار دیا ہے، پس کوئی ایسا کام نہ کرو کہ تم پست ہو جاؤ۔ تمہاری سانسیں تسبیح شمار ہوں گی اور تمہارے نامۂ عمل میں یہ لکھا ہو گا کہ تم نے اتنی تسبیحات پڑھی ہیں۔ اس ماہ میں تمہارا سو جانا بھی عبادت ہے اور اس ماہ میں جو عمل بھی کرو گے وہ قبول ہو جائے گا اور تمہاری دُعائیں مستجاب ہوں گی۔
۳۔ ماہِ دعا
ہم اکثر خداوند تعالیٰ سے دُعائیں نہیں مانگتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو تجاویز دیتے ہیں جبکہ تجاویز اور ہوتی ہیں اور دُعا اور ہوتی ہے۔ خداوند تعالیٰ دُعا سنتا ہے لیکن تجاویز نہیں سنتا چونکہ وہ علیم، خبیر، قدیر اور قادرِ متعال ہے، لہٰذا اسے اپنے بندوں کی تجاویز کی ضرورت نہیں ہے۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس ماہ میں خداوند تعالیٰ کو پکارے اور پھر اسے اس کا جواب بھی ملے۔
’’فَاسْأَلُوا اللَّہَ ربَّکُمْ بِنِیَّاتٍ صَادِقَۃٍ وَقُلُوبٍ طَاھِرَۃٍ‘‘
پس اللہ تعالیٰ کو سچی نیتوں اور پاک دلوں سے بلاؤ۔ دلوں کو پاک کرنا اور نیتوں کو صاف کرنا تیاری کا حصہ ہے، ہماری نیتیں آلودہ ہو چکی ہیں لہٰذا ان نیتوں کو پاک کریں، یہ ماہِ تزکیہ و تطہیر ہے، اس میں افکار اور دل کی طہارت کرنا ضروری ہے کیونکہ قرآنِ مجید اور اللہ کی رحمت پاک دلوں کو نصیب ہوتی ہے۔ پس اگر ہمارے دل پاک نہیں ہوں گے تو ہم رحمتِ الٰہی سے محروم رہ جائیں گے۔
’’أَنْ یُوَفِّقَکُمْ لِصِیَامِہ‘‘
تمہیں خدا اس مہینے کے روزوں کی توفیق عطا فرمائے۔
۴۔ فلسفۂ روزہ
روزہ انسان ساز ہے اور مُردہ انسانوں کو زندہ کرتا ہے۔ اس وقت اکثر مسلمان مُردہ ہیں، جن کے اندر بہت ساری چیزیں مر چکی ہیں۔ خصوصاً آج پاکستانی قوم کے اندر ہمدردی کے جذبے مر چکے ہیں مثلاً کوئٹہ میں مسلسل دھماکے کیے جاتے ہیں لیکن باقی قوم آرام سے بیٹھی ہوئی ہے، یہ مُردہ لوگ ہیں۔ ملکی، قومی اور عالمی حالات کے مقابلے میں ہمارے رویے اور ردِ عمل ہماری موت کی واضح علامت ہیں۔ اس مردہ قوم کو ماہِ مبارکِ رمضان میں رکھے جانے والے روزے زندہ کرسکیں گے۔ بھوک کاٹو تاکہ بھوکوں کیساتھ ہمدردی کی جو حِس مر چکی ہے وہ زندہ ہو جائے اور مظلوموں کیساتھ ہمدردی کی جو حِس مر چکی ہے وہ زندہ ہو جائے۔
آج پاکستانی مسلمان بہت بڑے المیے کا شکار ہیں، حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب کے ضمیر مردہ ہیں۔ اگر ضمیر زندہ ہوتے تو آج اس ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اگر انسان زندہ ہو اور انسان کی آنکھ میں مچھر آنا چاہے تو آنکھ خود ہی مزاحمت کرتی ہے اور مچھر کو اپنے اندر نہیں آنے دیتی۔ جس قوم کے اندر لشکروں کے حساب سے دہشت گرد پیدا ہو جائیں اور کاروائیاں کر کے سب ذمہ داریاں قبول بھی کر رہے ہوں اور پھر بھی میڈیا پر کنفیوز لوگوں کو بٹھا کر ان سے پوچھا جائے کہ یہ کون کر رہا ہے؟ ان سے زیادہ مُردہ دل اور مُردہ ضمیر کہاں ہوں گے؟ پس یہ ضمیر کی موت کی علامت ہے جسے ماہِ رمضان ہی زندہ کریگا۔ اﷲ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کو ہمیں تکلیف پہنچانے کیلئے نہیں بلکہ ہمیں زندہ کرنے کیلئے مقرر کیا ہے۔ مثلاً اسپتالوں میں بہت سارے مریضوں کا کھانا بند ہوتا ہے جس کا مقصد اُن کا علاج ہوتا ہے اسی طرح ماہِ رمضان میں بھی انسانوں کا علاج ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں ہمارے اندر کم ہو گئی ہیں اور کچھ چیزیں بڑھ گئی ہیں۔ جیسے فسق و فجور بڑھ گیا ہے اُسے کم کرنا ہے اور تقویٰ کم ہو گیا ہے اُسے زیادہ کرنا ہے۔ روزہ تقویٰ بڑھانے کے عمل کا نام ہے۔
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ (سورہ بقرہ، آیت ۱۸۳)
روزہ ہمیں متقی بنانے اور تقوی تک پہنچانے کیلئے ہے۔ قرآن مجید متقین کی کتاب ہے اور اس کا غیر متقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علی۔ امام المتقین ہیں اب باقی جتنا مرضی اپنے آپ کو علی۔ سے منسوب کریں لیکن آپ ؑ فقط متقیوں کے امام ہیں اور حقیقی روزہ ہی تقویٰ تک پہنچاتا ہے۔
۵۔ ماہِ قرآن مجید
’’وَتِلَاوَۃِ کِتَابِہِ‘‘
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ تمہیں ماہِ رمضان میں تلاوتِ قرآن مجید کی توفیق دے۔ ماہِ رمضان بنیادی طور پر روزوں کا مہینہ نہیں بلکہ قرآن مجید کا مہینہ ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عبدِ خدا اپنے رب کے کلام کو پڑھنا بھی نہ جانتا ہو۔
’’فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللّٰہِ فِي ھَذَا الشَّھْرِ الْعَظِیمِ‘‘
شقی و بدبخت انسان وہ ہے جو اس مہینے میں خداوند تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔
’’وَذْکُرُوا بِجُوعِکُمْ وَعَطَشِکُمْ فِیہِ جُوعَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَعَطَشَہ‘‘
جب روزہ رکھو گے تو بھوک بھی لگے گی اور پیاس بھی لگے گی پس اس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔
۶۔ صدقے کی اہمیت
’’وَتَصَدَّقُوا عَلَی فُقَرَاءِکُمْ وَمَسَاکِینِکُمْ‘‘
ماہِ رمضان میں صدقہ دو کیونکہ یہ مہینہ صدقہ دینے کیلئے بہترین فرصت ہے۔ ہمارے ذہنوں میں صدقہ، مالی صدقے میں منحصر ہو گیا ہے۔ اپنی صداقت کی گواہی کیلئے کچھ کرنا صدقہ کہلاتا ہے۔ ہم مدعی ہیں کہ ہم مومن ہیں پس ہم سے صداقت کی گواہی مانگی جائے گی اور اسی سچائی کی گواہی کا نام صدقہ ہے۔ اگر پیسہ دیتے ہیں تو یہ بھی ہماری صداقت کی گواہی ہے کیونکہ یہ مال اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے پس ہم نے اپنے رب کی طرف ہی اسے لوٹا دیا۔ مثلاً ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ میرے پاس سب کچھ مولا کا دیا ہوا ہے، اس دعویٰ میں ہم اس وقت سچے ہوں گے جب اس مال سے راہِ خدا میں خرچ کریں گے اور یہ ہمارے ایمان کے صادق ہونے کی گواہی بن جائے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ بچے مولا کے دئیے ہوئے ہیں، اگر ہم سچ میں مان رہے ہوں کہ یہ بچے مولا کے ہی دئیے ہوئے ہیں تو پھر ان بچوں کو تربیت کیلئے برطانیہ، امریکہ، یورپی ممالک اور طاغوتوں کی طرف کیوں بھیج رہے ہیں؟ اگر سچے ہوتے تو مولا کے دئیے ہوئے بچے کو مولا کی راہ میں ہی ڈالتے۔
۷۔ حقو ق العباد کا خیال
’’وَوَقِّرُوا کِبَارَکُمْ وَارْحَمُوا صِغَارَکُمْ وَصِلُوا أَرْحَامَکُمْ وَاحْفَظُوأَلْسِنَتَکُمْ‘‘
رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ اس مہینے میں بڑوں کا احترام کرو، چھوٹوں پر رحم کھاؤ، صلۂ رحمی کرو، رشتہ داروں سے تعلق جوڑو اور اپنی زبانوں کی حفاظت کرو۔
’’وَغُضُّوا عَمَّا لَایحِلُّ النَّظَرُ إِلَیْہِ أَبْصَارَکُم وَ عَمَّا لَا یَحِلُّ الِاسْتِمَاعُ إِلَیْہِ أَسْمَاعَکُمْ‘‘
اپنی نگاہیں نیچی کر لو، وہ چیزیں نہ دیکھو جن کا دیکھنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے اور وہ چیزیں جنہیں سننا جائز نہیں ہے انھیں مت سنو
’’وَتَحَنَّنُوا عَلَی أَیتَامِ النَّاسِ یُتَحَنَّنْ عَلَی أَیْتَامِکُمْ وَتُوبُوا إِلَی اﷲِ مِنْ ذُنُوبِکُمْ‘‘
یتیموں پر رحم کرو تاکہ تمہارے یتیموں پر بھی رحم کیا جائے اور خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو کہ یہ توبہ کا مہینہ ہے۔
۸۔ با فضیلت ترین گھڑیاں
’’وَارْفَعُوا إِلَیْہِ أَیْدِیَکُمْ بِالدُّعَاءِ فِي أَوْقَاتِ صَلَاتِکُمْ فَإِنَّھَا أَفْضَلُ السَّاعَاتِ یَنْظُرُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیھَا بِالرَّحْمَۃِ إِلَی عِبَادِہِ یُجِیبُھُمْ إِذَا نَاجَوہُ یُلَبِّیھِمْ إِذَا نَادَوہُوَیَسْتَجِیبُ لَھُمْ إِذَا دَعَوْہُ‘‘
ماہِ مبارکِ رمضان کے اوقات بہت قیمتی ہیں۔ خصوصاً نمازِ صبح، نمازِ ظہر، نمازِ عصر اور نمازِ مغرب و عشاء کے اوقات بہت ہی اہم ہیں۔ ان اوقات میں خدا سے دُعا مانگو، یہ سب سے عالی ترین و با فضیلت ترین گھڑیاں ہیں اور خداوند تعالیٰ ان گھڑیوں میں یعنی نماز کے اوقات میں سب کو رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جب خدا کے بندے اللہ کو پکارتے ہیں تو خدا ان کو جواب بھی دیتا ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کو ندا دیتے ہیں تو خداوند تعالیٰ لبیک کہتا ہے اور جب اللہ کو پکارتے ہیں تو خداوند تعالیٰ اجابت کرتا ہے۔
۹۔ اللّٰہ کی طرف سجدہ کرنا
’’أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّ أَنْفُسَکُمْ مَرْھُونَۃٌ بِأَعْمَالِکُمْ فَفُکُّوھَا بِاسْتِغْفَارِکُمْ وَ ظُہُورَکُمْ ثَقِیلَۃٌ مِنْ أَوْزَارِکُمْ فَخَفِّفُوا عَنھَا بِطُولِ سُجُودِکُمْ‘‘
آپؐ فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! تمہارے نفوس اور تمہاری جانیں مرہون ہیں، اپنے نفوس کو طلبِ مغفرت کے ذریعے آزاد کرو اور ذرا اپنی پشت پر نگاہ کرو اُس کے اوپر بہت بوجھ ہے یعنی فرائض کا بوجھ ہے لہٰذا لمبے سجدے کرو تاکہ تمہاری کمر کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔
’’وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ أَقْسَمَ بِعِزَّتِہِ أَنْ لَا یُعَذِّبَ الْمُصَلِّینَ وَالسَّاجِدِیْنَ وَ أَنْ لَایُرَوِّعَھُمْ بِالنَّارِیَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘
آپؐ فرما رہے ہیں کہ خداوند تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ میں نمازی اور سجدہ کرنے والے کو عذاب نہیں دوں گا اور خداوند تعالیٰ اہل سجدہ کو جہنم کی آگ کے قریب بھی نہیں جانے دیگا۔
۱۰۔ افطار کرانے کی فضیلت
’’أَیُّھَا النَّاس مَنْ فَطَّرَ مِنْکُمْ صَاءِماً مُؤْمِناً فِي ھَذَا الشَّھْرِکَانَ لُہُ بِذَالِکَ عِنْدَاﷲِ عِتْقُ نَسَمَۃٍ وَمَغْفِرَۃٌ لِمَا مَضَی مِنْ ذُنُوبِہ‘‘
اے لوگو! مومنوں کو افطار کراؤ کیونکہ ایک افطار دینا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔ پس مومنوں کو افطار دے کر اپنی گردنوں کو اپنے گناہوں سے آزاد کراؤ۔ رسول اللہﷺ سے لوگوں نے عرض کیا:
’’قِیلَ یَارَسُولَ اﷲِ فَلَیْسَ کُلُّنَا یَقْدِرُعَلَی ذَلِک‘‘
ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم افطار کا انتظام کریں، لوگوں کو بلائیں اور سب کو افطاری دیں۔
’’اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ وَلَوْ بِشَرْبَۃٍ مِنْ مَاءٍ‘‘
آپؐ نے فرمایا اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ اگرچہ آدھی کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی کیوں نہ ہو اور اگر ایک کھجور کا ٹکڑا بھی نہ ہو تو ایک گھونٹ پانی تو پلا سکتے ہو پس ایک گھونٹ پانی ہی پلا کر افطار کراؤ تاکہ تمہیں جہنم سے نجات مل جائے۔
۱۱۔ اخلاقِ حسنہ کا حکم
’’أَیُّھَا النَّاس مَنْ حَسَّنَ مِنْکُمْ فِي ھَذَا الشَّھْرِ خُلُقَہُ کَانَ لَہُ جَوازاًعَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیہِ الْأَقْدَامُ‘‘
یومِ قیامت صراط سے وہ شخص گزر سکے گا جس کا اخلاق ماہِ رمضان میں سب سے بہتر ہو گا۔ ہمارے ہاں بد اخلاقی روزے کا لازمہ ہے۔ یہاں بداخلاقی سے پتہ چلتا ہے کہ آج حاجی صاحب کا روزہ ہے۔ روزے میں اخلاق عالی ہو جانا چاہیے۔ ماہِ مبارکِ رمضان میں جس کا اخلاق بہت اچھا ہو گا یہ قیامت کے دن صراط سے گزرنے کے قابل ہو گا۔ ہمارے ہاں آج کل بداخلاقی، بدتمیزی، بیہودگی، ہتاکی، گستاخی اور بڑوں کی بے حرمتی کرکے خود کو بڑا دلیر انسان سمجھتے ہیں جبکہ درحقیقت یہ بداخلاقی ہے۔
’’وَمَنْ کَفَّ فِیہِ شَرَّہُ کَفَّ اللَّہُ عَنْہُ غَضَبَہُ یَوْمَ یَلْقَاہُ‘‘
ماہِ مبارکِ رمضان میں جس نے اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچایا تو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن اُس کو تمام تکلیفوں سے محفوظ رکھے گا۔
’’وَمَنْ أَکْرَمَ فِیہِ یَتِیماً أَکْرَمَہُ اللّٰہُ یَوْمَ یَلْقَاہُ وَمَنْ وَصَلَ فِیہِ رَحِمَہُ وَصَلَہُ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہِ یَوْمَ یَلْقَاہُ‘‘
جس نے ماہِ رمضان میں صلۂ رحمی کی اور اُن کے حقوق پورے کئے تو یومِ لقاء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر خاص کرامات ہوں گی۔ ماہِ رمضان صلۂ رحمی کیلئے ہے پس جن جن رشتہ داروں سے تمہارے رشتے ناتے کٹ چکے ہوں انھیں دوبارہ جوڑ لیا کرو اور جو بھی تمہارے ساتھ برائی کرے اُس کا جواب اچھائی کیساتھ دو اور جس نے ماہِ رمضان میں قطع رحم کیا خداوند تعالیٰ قیامت کے دن اپنی رحمت سے اُسے دور کریگا۔
۱۲۔ اطاعت بذریعۂ نماز
’’وَمَنْ تَطَوَّعَ فِیہِ بِصَلَاۃٍ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ بَرَاءَ ۃً مِنَ النَّارِ‘‘
جس نے ماہِ رمضان المبارک میں نماز کے ذریعے اطاعت کی اُسے جہنم سے آزادی مل گئی۔
’’وَمَنْ أَدَّی فِیہِ فَرْضاً کَانَ لَہُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّی سَبْعِینَ فَریضۃً فِیمَاسِوَاہُ مِنَ الشُّھُورِ‘‘
جو فریضہ ماہِ رمضان میں ادا کرو گے اس کا ستر فریضوں کے برابر آپ کو اجر ملے گا۔
’’وَ مَنْ أَکْثَرَ فِیہِ مِنَ الصَّلَاۃِ عَلَيَّ ثَقَّلَ اللّٰہُ مِیزَانَہُ یَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِیْن‘‘
آپؐ فرماتے ہیں کہ ’’اور جو ماہِ رمضان میں مجھ پر زیادہ درود پڑھے گا خداوند تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے نامۂ اعمال کا وزن بڑھا دے گا۔
’’وَمَنْ تَلَا فِیہِ آیَۃٌ مِنَ الْقُرْآنِ کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَیْرِہِ مِنَ الشُّھُور‘‘
اور جس نے ماہِ رمضان میں ایک آیتِ قرآن کی تلاوت کی گویا اُس نے پورا قرآن مجید ختم کیا۔
۱۳۔ رحمت کے دروازوں کا کھلنا
’’أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِي ھَذَا الشَّھْرِ مُفَتَّحَۃٌ فَاسْأَلُوا رَبَّکُمْ أَنْ لَا یُغَلِّقَھَا عَنْکُمْ‘‘
اے لوگو! جنت کے دروازے اس مہینے میں کھول دئیے گئے ہیں۔ عام دنوں میں جنت کے دروازے بند کر کے تالے لگا کر چابیاں مومنوں کو دے دی گئی ہیں کہ ان چابیوں سے بند دروازے کھول لو۔ جس نے چابیاں استعمال کیں اُس نے اپنے لئے جنت کے دروازے کھول لیے لیکن جس نے چابیاں استعمال نہ کیں اُس نے دروازے نہیں کھولے۔ ماہِ مبارکِ رمضان میں اللہ نے بہشت کے تمام دروازے کھول دئیے ہیں حتیٰ اس مہینے میں کوئی تالا بھی نہیں کھولنا فقط اُس راہ پر جانا ہے اور دروازے سے اندر داخل ہو جانا ہے۔ پس ایسا کام نہ کرو کہ کھلے دروازے بھی تمہارے لئے بند ہو جائیں۔
’’وَأَبْوَابَ النِّیرَانِ مُغَلَّقَۃٌ فَاسْأَلُوا رَبَّکُمْ أَنْ لَا یُفَتِّحَھَا عَلَیْکُم‘‘
اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں، پس خدا سے طلب کرو اور چاہو کہ جہنم کے یہ بند دروازے ہمیشہ بند ہی رہیں اور کبھی نہ کھلیں۔
’’وَ الشَّیَاطِینَ مَغْلُولَۃٌ فَاسْأَلُوا رَبَّکُمْ أَنْ لَا یُسَلِّطَھَا عَلَیکُمْ‘‘
اور شیاطین باندھ کر جکڑ دئیے گئے ہیں پس خداوند تعالیٰ سے مانگو کہ پروردگارا! یہ شیطان اسی طرح بندھے رہیں اور ہم پر کبھی مسلط نہ ہوں۔ جب رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہاں پہنچے تو امیرالمومنین۔ کھڑے ہوئے اور عرض کی:
’’قَالَ أَمِیرُ الْمُومِنِینْ ع فَقُمْتَ فَقُلْتَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِي ہَذَا الشَّھْرِ‘‘
اس شہر میں، اس مہینے میں سب سے افضل عمل کونسا ہے؟
’’فَقَالَ یَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِي ھَذَا الشَّھْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے ابا الحسن ؑ ! اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں، جن اُمور اور جن کاموں کو حرام قرار دیا ہے اُن سے دوری سب سے افضل عمل ہے۔
۱۴۔ شہادتِ امیر المومنینؑ کی خبر
’’ثم بکی فقلت یا رسول اللہ ما یبکیک فقال یا علي أبکي لما یستحل منک في ھذا الشھرکأنی بک و انت تصلي لربک و قد انبعث أشقی الأولین شقیق عاقر ناقۃ ثمود فضربک ضربۃ علی قرنک فخضب منھا لحیتک‘‘
امیرالمومنین۔ کے سوال کا جواب دے کر رسول اللہﷺ رونے لگے، آپؑ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! آپ کو کس چیز نے رُلا دیا؟ آپؐ نے فرمایا اے علی ؑ ! اس مہینے میں تیرے اوپر ہونے والے ظلم نے مجھے رُلا دیا ہے، اے علی ؑ ! اسی ماہ میں ایک شقی ترین انسان نماز کی حالت میں آئے گا اور جس طرح ناقۂ حضرت صالح ؑ کو کاٹنے والا وہ شقی آیا تھا جس کو قرآن نے اشقی اولین قرار دیا تھا، یہاں اُس سے بھی بڑا شقی آئے گا اور تیرے سر پر ضربت لگائے گا اور آپ ؑ کی داڑھی خون سے خضاب ہو جائے گی۔
’’قال أمیر المؤمنین ع فقلت یا رسول اللہ وذلک في سلامۃ من دینی فقال ص في سلامۃ من دینک‘‘
جب آپ ؑ نے یہ خبر سنی تو فرمایا کہ یارسول اللہؐ! میں تو زخمی ہو جاؤں گا اور شہید ہو جاؤں گا لیکن کیا اُس دن میرا دین محفوظ ہو گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے علی ؑ ! اُس دن آپ کا دین سالم و محفوظ ہو گا۔
۱۵۔ امیر المومنینؑ کے فضائل
’’ثم قال یا علي من قتلک فقد قتلنی ومن ابغضک فقد ابغضنی و من سبک فقد سبنی أنک مني کنفسي روحک من روحي و طینتک من طینتي‘‘
اے علی ؑ ! جس نے تجھے قتل کیا اُس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تجھے غضبناک کیا اُس نے مجھے غضبناک کیا، اے علی ؑ ! جس نے تجھے برا بھلا کہا اُس نے مجھے برا بھلا کہا۔ اے علی ؑ ! میرے ساتھ تمہارا ایسا تعلق ہے جیسے میرا نفس ہو، تو میرا نفس ہے، تیری روح میری روح ہے اور تیری طینت میری طینت ہے۔
’’إن اللہ تبارک وتعالیٰ خلقني وإیاک واختارني لنبوۃ واختارک للإمامۃ ومن أنکر إمامتک فقد أنکر نبوتي یا علي أنت وصیي وأبو ولدي و زوج ابنتي و خلیفتي علی أمتي فی حیاتي و بعد موتي أمرک أمري و نھیک نھیي أقسم بالذی بعثني بالنبوۃ و جعلني خیر البریۃ إنک لحجۃ اللہ علی خلقہ و أمینہ علی سرہ و خلیفتہ علی عبادہ‘‘
اے علی ؑ ! خداوند تعالیٰ نے مجھے اور تجھے چن لیا ہے۔ خداوند تعالیٰ نے مجھے نبوت کیلئے اور تجھے امامت کیلئے اختیار کیا ہے، پس جس نے تیری امامت کا انکار کیا اُس نے میری نبوت کا انکار کیا۔ اے علی ؑ ! آپ میرے وصی، میرے جانشین اور میرے بچوں یعنی حسن۔ و حسینؓ کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو اور تم میری اُمت کے اندر میرے جانشین اور میرے خلیفہ ہو، تیرا امر کرنا میرا امر کرنا ہے اور تیرا روک دینا میرا روک دینا ہے۔ یہ ایسے ہے کہ جس کو تو نے امر کیا اُسے میں نے امر کیا اور جس کو تو نے روکا اُس کو میں نے روکا۔ میں اُس اللہ کی قسم کھاتا ہوں جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا اور مجھے خیر المخلوق و خیر البریہ قرار دیا، اے علی ؑ ! تو خلقِ خدا پر اللہ کی حجت، امانتدار اور عبادِ خدا پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ و جانشین ہے۔ یہ اس خطبے کا سادہ سا ترجمہ ہے لیکن درحقیقت یہ بہت ہی گہرا اور عظیم خطبہ ہے۔
ہماری کوشش جان بچانا
امیرالمومنین۔ کے سوال کے جواب میں رسول اللہﷺ نے جب آپؑ کو شہادت کی خبر دی تو آپؑ نے رسول اللہﷺ سے یہ نہیں پوچھا کہ میں اس ضربت سے کسی طرح بچ سکتا ہوں؟ بلکہ آپؑ نے یہ پوچھا کہ اُس دن میرا دین محفوظ ہو گا یا نہیں؟ اور واقعاً جب یہ ضربت آپؑ پر لگی تو آپؑ نے فرمایا ’فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘
ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ امیرالمومنین۔ کا ہم و غم دین کی حفاظت کرنا تھا اور ہماری نجات بھی اسی کے اندر ہے۔ آج پاکستانیوں کی پوری کوشش اپنی جان بچانے کیلئے ہوتی ہے جس کی وجہ سے آج کسی کی بھی جان محفوظ نہیں ہے۔ اس قوم نے جسے قربان کرنا ہے اُسے بچانا چاہ رہی ہے لیکن پھر بھی وہ نہیں بچ پا رہی اور جس کو بچانا چاہئے اُسے بچانے کی کوشش نہیں کی جا رہی لہٰذا وہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہم ہر سال امیرالمومنین۔ کی عزا برپا کرتے ہیں، جلسے جلوس کرتے ہیں اور عزاداری و ماتم کرتے ہیں پھر بھی ہمیں امیرالمومنین ؑ کی شہادت سے یہ درس کیوں نہیں ملتا کہ دین کے تحفظ میں ہی ہماری بقاء ہے؟
شیاطین سے آزادی
اس وقت ہم پر شیاطینِ جن و انس مسلط ہیں اور ماہِ رمضان ان شیاطین سے آزادی کا مہینہ ہے۔ امام خمینیؒ نے اسی لئے قدس کی آزادی کا دن ماہِ رمضان کے آخری جمعے کو اعلان کیا ہے۔ آپؒ نے ماہِ رمضان کا آخری جمعہ قبلۂ اول کو شیاطین سے آزاد کرانے کیلئے مقرر فرمایا ہے۔ آپؒ کو پتہ تھا کہ ہر چیز ماہِ رمضان میں آزاد ہو گی۔ ہمیں چاہئے کہ ہم سب سے پہلے اپنے نفوس کو آزاد کرائیں کیونکہ جو خود آزاد نہ ہو وہ کسی اور کو کیسے آزاد کروا سکتا ہے؟ کوئی بھی غلام کسی دوسرے غلام کو آزاد نہیں کروا سکتا۔ عرب مسلمان اسرائیل سے کیوں شکست کھا گئے؟ اسلئے کہ جو خود امریکہ، برطانیہ اور دوسرے شیاطین کے غلام ہیں وہ بھلا کیسے کسی اور کو آزاد کروا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان اور پاکستانی ملت ہزار شیطانوں کے غلام ہیں، انہوں نے طوق و زنجیر سے باندھ رکھا ہے اور اُنہیں اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا ہے۔ ہمارے سیاسی، معیشتی، حکومتی، محکماتی اور مذہبی سارے افراد شیاطین ہیں اور پھر خود سے بڑے شیاطین کے غلام ہیں۔ جہاں پر حکمران اور اُن کے چیلے بھی شیطان ہوں جس طرح حضرت سلیمان ؑ کی جنوں اور عفریتوں کے اوپر حکومت تھی اور اُن پر آپؑ کا حکم چلتا تھا اب یہ کام اُلٹ ہو رہا ہے۔ عفریتوں کا انسانوں پر فرمان چلتا ہے۔ انسان رعایا اور شیاطین حاکم ہیں، پس ان شیاطین سے آزادی ضروری ہے۔ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ شیاطین سے تعلقات بہتر ہو جائیں جو کہ عقلمندی نہیں ہے کیونکہ شیاطین سے تعلقات کبھی بھی بہتر نہیں ہوسکتے۔
اصل استقبالِ رمضان کا طریقہ
یہ سارے اعمال کروا کر اللہ تعالیٰ سے ہماری دوری کو ختم کر کے ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب لانا منظور ہے،تواس رمضان کی تیاری اور اس کا استقبال یہ ہے کہ اس کو اپنی ظاہری،باطنی میل چیل دور کرنے کا مہینہ سمجھوکہ گیارہ ماہ میں ہم پر جو دنیا کا گرد و غبار چڑھ گیا ہے،اس سے ہمیں پاک وصاف کرنا مقصود ہے کہ کم از کم اس ماہ کے اندر اپنی سوچ کا رُخ آخرت کی طرف کر لیں تاکہ اللہ تعالیٰ سے جو دوری ہو گئی ہے وہ قرب میں بدل جائے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اصل عبادت میں کہ جس کیلئے ہم پیدا کئے گئے ہیں،صَرف کیا جائے، ایک عبادت براہِ راست عبادت ہے اور ایک بالواسطہ عبادت ہے، بالواسطہ عبادت کرتے ہوئے تو گیارہ ماہ ہو گئے،اب اس مہینے کے اندر براہِ راست اور بلاواسطہ عبادتوں کی طرف زیادہ توجہ کریں،خاص طور پر نفلی عبادتوں میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں،ان کا اہتمام عام دنوں سے زیادہ کیا جائے،پہلے سے اپنا نظامُ الاوقات ایسابنائیں کہ ہماری دنیاوی مصروفیات کم سے کم ہوں اور آخرت کی مصروفیات زیادہ ہوں،جیسے کوئی آدمی جب سفرپرجاتا ہے تو پیچھے گھر والوں کا انتظام کر کے جاتا ہے،اسی طرح اس ماہ میں اپنی دنیاوی مصروفیات کم سے کم کر کے آخرت کی طرف رغبت زیادہ کرنی چاہئے۔
رمضان المبارک کی تیاری کا طریقہ
تیاری یہ ہے کہ سال کے گیارہ مہینے ہم اس طرح گذارتے ہیں کہ ہمارے صبح و شام کے زیادہ تر اوقات دنیاوی کاموں مثلاً تجارت،ملازمت،زراعت،روزگار کی تلاش میں گذرتے ہیں،اپنے لئے جسمانی لذّتیں حاصل کرنے کی فکر میں گذرتے ہیں اور اگر کوئی آدمی فرائضِ شرعیہ کا پابند بھی ہو تو وہ ان فرائض اور دنیاوی کاموں میں مشغولیت کاتناسب دیکھے کہ کتنا وقت کس طرف لگ رہا ہے؟اگر وہ پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہے توساری نمازوں میں صرف ہونے والا وقت گھنٹہ دو گھنٹہ بنتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ دل کہیں ہے اور دماغ کہیں ہے،خشوع کا تقاضا بھی پورا نہیں ہوتا۔ دل و دماغ دنیا کے اُنہی مشاغل میں اُلجھے ہوئے ہیں جن کو چھوڑ کر نماز کیلئے آئے تھے اور نماز کے بعد جن کی طرف دوبارہ جانا ہے۔ جبکہ باقی سارا وقت اپنے جسم کیلئے راحت و لذّت مہیا کرنے اور اس کیلئے غذا فراہم کرنے کی خاطر گذرتا ہے۔
اس مہینے سے صحیح فائدہ اُٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں ہم اپنی عبادتوں کی مقدار بڑھا دیں اور دنیاوی مصروفیات کی تعداد کم کر دیں۔ گیارہ مہینے جسم کی پرورش کی، اب اس مہینے میں اپنی روح کی پرورش کی طرف دھیان دیں۔ روحانی ترقی حاصل کریں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ اسی لئے اس ماہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزے کے ذریعے کھانے پینے کی مقدار کم فرما دی اور نوافل کوسنت قرار دے کر پانچوں نمازوں جتنا وقت اس میں صرف فرما دیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقصود بندوں سے یہ ہے کہ بندے اس مہینے کی قدر کر کے اس میں اپنے جسم کے تقاضوں کو کم کریں اور روح کے تقاضوں کو غالب کریں،وہ کام زیادہ کریں جو اُن کی روح کو نشو و نما دینے والا ہو،اس کو پروان چڑھانے والا ہو، لہٰذا اس مہینے میں اپنی دنیاوی مصروفیات کم سے کم کی جائیں۔ دوستیوں اور میل جول سے پرہیز کریں،مجلس آرائیوں کے مشغلوں سے بچیں،اپنی ذاتی مصروفیات کوجس حد تک کم کرسکتے ہوں،کم کر کے زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کریں۔
ماہِ رمضان اور عام مسلمان کی کیفیت
اس وقت ماہِ مبارکِ رمضان کے بارے میں ہماری ذہنی کیفیت یہ ہے کہ یہ روزوں کا مہینہ ہے اور روزہ ایک سختی، عذاب، تکلیف، پریشانی اور بھوک و پیاس کا نام ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ذہن تیار نہیں ہیں بلکہ جونہی ماہِ رمضان آتا ہے تو مومن پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے کسی طریقے سے چھوٹ جائیں۔ کسی نیم ملّا یا کسی عالمِ دین سے کوئی ایسا فتویٰ و جواز نکالنے کی کوشش کرتا ہے جس سے انسان روزہ نہ رکھ سکے جبکہ رسول اللہﷺ اور آئمہ اطہار ماہِ مبارکِ رمضان کیلئے استقبال کا اہتمام اس طرح سے کرتے تھے کہ ایک بہت ہی عظیم فرصت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیں نصیب ہو رہی ہے اور شاید زندگی میں اس کے بعد ہمیں نصیب نہ ہو۔ یہ فرق معرفت اور ذہنیت کا ہے۔ اس مبارک ماہ کے بارے میں ہماری پہچان یہ ہے کہ اُس نے ہمارے اوپر گھبراہٹ طاری کر دی ہے جبکہ رسول اللہﷺ کی جو معرفت ہے اُس نے آپؐ کو اس کی آمد پر مسرور اور اس کے استقبال کیلئے آمادہ کیا ہوا ہے۔ لہٰذا آپؐ بھی اس خطبۂ شریفہ میں معرفت و شناخت عطا کر کے اُمت کو آمادہ کر رہے ہیں۔
لوگ دنیوی اعتبار سے رمضان المبارک کی آمد کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ گھروں میں مہینے بھر کی اشیاء خوردونوش کی لمبی چوڑی لسٹیں بنتی ہیں، بھرپور خریداری کی جاتی ہے، بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے، حکومت بھی لوگوں کی سہولت کی خاطر سستے رمضان بازار لگاتی ہے۔ ان سب باتوں کی اہمیت اپنی جگہ … ان سے انکار ممکن نہیں۔ رمضان المبارک بطریق احسن گزارنے کیلئے ان ضروریات زندگی کا ہونا ضروری ہے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ کچھ ضروریات اور لوازمات ان سے بھی زیادہ ضروری ہیں۔ وہ یہ کہ رمضان المبارک میں عبادات کی ترتیب کیا ہو گی؟ گھر میں روز کتنے سیپارے پڑھے جائیں گے؟ نوافل کتنے ادا کئے جائیں گے؟ قیام اللیل کا اہتمام کیسے ہو گا؟ بچوں کی اصلاح کیسے ہو گی؟ گھر کا ماحول کیسے اسلامی بنایا جائے گا؟ ان کو روزہ رکھنے کی ترغیب کیسے دلائی جائے گی؟ رب کو کیسے منایا جائے گا؟ گناہوں کو کیسے بخشوایا جائے گا؟ رمضان کا حق کیسے ادا ہو گا اور روزہ کو با مقصد کیسے بنایا جائے گا؟ ہر شخص اپنے انداز، اپنے حساب اور اپنے طور طریقے کے مطابق رمضان المبارک کا اہتمام و استقبال کرتا اور اس کے فائدے سمیٹتا ہے۔ ذخیرہ اندوز‘ ذخیرہ اندوزی کر کے اشیاء خورد و نوش کی مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے۔ دکاندار قیمتیں بڑھا کر مالی فائدے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، کپڑے کا کاروبار کرنے والا سال بھر کی کمائی ایک مہینے میں کر لینے کی فکر میں رہتا ہے، خواتین چاہتی ہیں کہ سحروافطار میں کھانے پینے کا پر تکلف انتظام ہو۔ ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی رمضان المبارک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کیا ہم نے رمضان کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تزکیہ نفس اور اپنا محاسبہ کیا… یا نہیں؟ کیا کسی نے سوچا اور اس بات کا جائزہ لیا کہ اس کے ایمان کا لیول کتنا بڑھا؟ ایمان کتنا مضبوط ہوا؟ رب کے ساتھ تعلق کتنا بڑھا؟ بیوی بچوں کی کتنی اصلاح ہوئی؟ اور اہل خانہ کو رب کا کتنا قرب حاصل ہوا؟رمضان المبارک کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تزکیہ ہو، معاشرہ کی اصلاح ہو، اللہ کا قرب حاصل ہو، عبادات میں پختگی ہو، جنت کی طلب ہو، جہنم سے نفرت ہو، تلاوت میں باقاعدگی ہو، رزق حلال کی چاہت ہو، رزق حرام سے اعراض ہو، تقویٰ کے حصول کا جذبہ ہو، ایمان کی لذت و حلاوت ہو، ہاتھ میں سخاوت ہو، سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہو، مسجد سے الفت ہو اس لئے کہ رمضان کے مہینے میں کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کو تلاش کرتے ہیں کہ کون نماز پڑھ رہا ہے؟ کون تلاوت کر رہا ہے؟ کون جہاد کر رہا ہے؟ کون صدقہ و خیرات کر رہا ہے؟ کون امر بالمعروف اور کون نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہے؟ کون اپنے گھروں کی اور معاشرے کی اصلاح کر رہا ہے؟ کون اپنے بچوں کو نیکی کی تلقین کر رہا اور کون روزے رکھ رہا ہے…؟
رمضان المبارک کا لائحہ عمل
رمضان المبارک کے مہینے میں دو تین باتوں کا خصوصی اہتمام ہونا چاہئے۔ عام دنوں میں نفلی عبادتوں کا موقع نہیں ملتا یا توفیق نہیں ہوتی،کم از کم رمضان المبارک میں ان کا اہتمام کر لیں،مثلاً تہجد ہے،یہ اتنی عظیم عبادت ہے اور اس کے اتنے عظیم فوائد ہیں اور اس کے ذریعے انسان کی روح کو اتنی ترقی ملتی ہے کہ جوکسی اور نفلی عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ عام دنوں میں ہم لوگ بکثرت اس عبادت سے محروم رہتے ہیں،کیونکہ ہماری معاشرتی زندگی اس ڈھب پر چل پڑی ہے کہ جو رات اللہ تبارک و تعالیٰ نے سونے کیلئے بنائی ہے وہ آدھی سے زیادہ جاگنے میں گزر جاتی ہے،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آخر شب میں اُٹھنا تو کجا فجر کی نماز کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔
تہجد کا اہتمام
عام دنوں میں آخیر رات میں اُٹھنے کی توفیق نہیں ہوتی لیکن رمضان المبارک میں پیٹ کی خاطر ہی سہی مگر اُٹھنا ہی پڑتا ہے،جب اُٹھنا ہی ہے تو ذرا کچھ پہلے اُٹھ جائیں اور وضوکرکے آٹھ رکعات تہجد پڑھ لیں۔ دعا کی قبولیت کیلئے وہ وقت بھی بڑا قیمتی وقت ہے۔ اس میں رمضان کے بعد بھی یہ معمول جاری رہنے کی دعا کر لیں۔
نوافل کا اہتمام
اگر عام دنوں میں نوافل کی توفیق نہیں ہوتی تو رمضان میں نوافل کا اہتمام کر لیں۔
تلاوت قرآنِ کریم کا معمول
دوسری بات یہ کہ رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص معمول بنائیں،کیونکہ قرآنِ کریم کو رمضان المبارک سے خاص نسبت حاصل ہے،شروع میں جو آیت تلاوت کی گئی تھی،اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کی عظمت کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہم نے اس مہینے میں قرآنِ کریم نازل کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو نازل کرنے کیلئے اس مہینے کا انتخاب فرمایا، اس لئے اس مہینے کی قرآنِ کریم سے خاص نسبت ہے۔ نبیِ اکرمﷺ ہر رمضان میں حضرت جبرئیلِ امین علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور کیا کرتے تھے۔ اس لئے اس ماہ میں جتنا زیادہ ہوسکے تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔
جن لوگوں کو تلاوت کا صحیح طریقہ نہیں آتا وہ اس عرصہ میں کسی صحیح تلاوت کرنے والے سے تلاوت کاصحیح طریقہ سیکھ لیں۔ الف سے لے کر یاء تک (۲۹) حروف ہیں،ان میں سے بیشتر وہ ہیں جن کو صحیح طور پر ادا کرنے کیلئے کسی خاص مشق کی ضرورت نہیں پڑتی،ذراسی کوشش ادا ہو جاتے ہیں،چند حروف ہیں جن میں قدرے محنت کرنا پڑتی ہے،مثلاً ہم لوگ ث،س اور ص بولتے ہوئے اردو میں کوئی فرق نہیں کرتے،لیکن قرآنِ کریم میں یہ الگ الگ پڑھے جاتے ہیں۔ اسی طرح ذ،ز،ظ اور ض میں فرق بھی قرآنِ کریم کی تلاوت میں ملحوظ رکھا جاتا ہے،ہرمسلمان کے ذمہ اس کوسیکھنافرضِ عین ہے۔
کثرتِ ذِکر اللہ کا اہتمام
تیسری بات یہ کہ یہ مہینہ اللہ جل جلالہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا مہینہ ہے، لہٰذا اس ماہ میں جتنا زیادہ ہوسکے،ذکر کریں،
{ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ }
رمضان المبارک میں جتنا زیادہ ہوسکے،اس کا اہتمام کیا جائے۔
دعا کا خاص اہتمام
چوتھی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ بنایا ہے،اس مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دعاؤں کی قبولیت کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں،اس لئے ہمیں کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت یہ ہے کہ اگر بندہ اپنی دنیاوی ضرورت کیلئے بھی دعا کرتا ہے تووہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادت میں شمار ہوتی ہے،ایک حدیث میں فرمایا گیا{ اَلدُّعَآئُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ}دعا خود ایک عبادت ہے،کوئی اپنے قرض کی ادائیگی کیلئے دعا مانگ رہا ہے،کوئی اپنے روزگار کیلئے اور کوئی اپنی معاشی خوشحالی کیلئے دعا مانگ رہا ہے، تب بھی یہ دعا بذاتِ خود عبادت لکھی جاتی ہے۔
بزرگوں کا ایک معمول رہا ہے کہ اگر کوئی آدمی عصر کی نماز پڑھنے کیلئے مسجدمیں جائے اور وہیں پر مغرب تک اعتکاف کی نیت کر کے بیٹھ جائے،پھر جو کچھ تلاوت و ذکر کی توفیق ہو وہ کرے اور پھر باقی وقت اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات مانگنے میں گزار دے، یہاں تک کہ افطار ہو جائے تواس کے بڑے انوار و برکات ہیں۔
کوشش کی جائے کہ اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ فارغ کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے اُمید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کیلئے خیر و برکت کا ذریعہ بنے گا،ہمارے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا،ان شاء اللہ ہمارے لئے ترقیِ درجات کا ذریعہ ہو گا۔
احتساب نفس کا مہینہ
رمضان احتساب نفس کا مہینہ ہے۔ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے سچے دل سے معافی مانگنے کا مہینہ ہے اور سچے دل سے کیا مراد ہے؟یہ کہ جس گناہ کی معافی مانگی جا رہی ہو اس کو نہ کرنے کا ذہن میں پختہ عہد ہو۔ اب اگرکوئی زبان سے تو یہ کہہ رہا ہو کہ اے اللہ معاف کر دے اور ہاتھ کم تول رہا ہو،دل کسی کے کینے سے بھرا ہو،ذاتی کام پر سرکاری وسائل خرچ ہو رہے ہوں،حق دار کا حق مارا جا رہا ہو، نا جائز منافع خوری ہو رہی ہو تو ایسی تو بہ بھلا وہ پروردگار کیسے قبول کرے گا جو صرف زبانوں کے الفاظ ہی نہیں دلوں کے حال اور دماغوں کے فتور بھی جانتا ہے ؟ معافی مانگنے والے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے انتہائی سچائی سے ان لوگو ں کی فہرست بنائی، جن کا حق مارا گیا،جن کو نقصان پہنچایا گیا اور پھر یہ ارادہ اور عزم کیا کہ اس کا جہاں تک ممکن ہو ازالہ کیا جائے گا۔ کتنے ایسے ہیں جنھوں نے اپنی شخصیت کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے اپنی اخلاقی اور وصفی کمزوریوں کی فہرست بنائی اور پھر اپنے آپ سے عہد کیا کہ آج کے بعد وعدہ خلافی نہیں کریں گے،جھوٹ نہیں بولیں گے،غیبت سے باز رہیں گے،بے ہودگی اور فحش کاموں سے اجتناب کریں گے۔ بد تمیزی، دل دکھانے، اشتعال میں آکر حد سے تجاوز کرنے کی عادت کو سچے دل اور مضبوط ارادے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیا ہم نے ایسی کسی فہرست میں درج کسی خامی اور کسی کوتاہی کو نشان زد کر کے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس خرابی سے تو نجات حاصل ہوئی؟اور اگر ایسا نہیں تو بتائیے دلوں کے راز جاننے والا،ارادوں کو بھانپ لینے والا علیم الصدور خدا،رحمان و رحیم ہوتے ہوئے بھی ہمارا یہ کہنا کیسے مان لے گا کہ اے اللہ مجھے معاف کر دے،میں توبہ کرتا ہوں !واضح رہے کہ کسی کا حق اگر مارا گیا، کسی کا دل اگر دکھایا گیا تو یہ گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہو گیا جب تک مظلوم کی داد رسی نہ ہو گئی ہو۔
رمضان المبارک ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے
اسی مہینے کورسول اللہﷺ نے فرمایا {شَھْرُ الْمُوَاسَاۃِ}یہ غم خواری کا مہینہ ہے،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات کو فروغ دینے کا مہینہ ہے، اس میں جتنا ہوسکے دوسروں سے ہمدردی کی جائے،حدیث میں فرمایا ہے کہ رمضان میں اپنے خادموں کا بوجھ ہلکا کر دو،ان پرایسی مشقت نہ ڈالو کہ جو اُن کیلئے دُشواری کاسبب بنے اور اگر کوئی دُشوار کام اُن کو کہا ہے تو خود اُن کی مدد کرو۔
اپنے اِردگرد اور ملنے جلنے والے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی کا سلوک رکھو۔ نبیِ کریمﷺ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ رمضان کے اندر آپﷺ اتنے سخی ہوتے تھے کہ جیسے چلتی ہوئی ہوا ہوتی ہے کہ وہ ہرانسان کوسیراب کرتی ہے۔
’’ یہ مہینہ تو دکھوں کو بانٹنے اور دوسروں کے احوال سے باخبر ہو کر ان کی غمخواری کر نے کا مہینہ ہے ‘‘، اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہر ایک کے کفیل و کار ساز اور روزی رساں ہیں، روٹی روزی ہر ایک کی مقدر ہے،کس کو کتنی دی جائے اس کے ہاں پہلے ہی سے مقدر اور مبنی بر مصلحت ہے،لیکن ’’یہ مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالی ایمان والے بندوں کے رزق و روزی میں اضافہ فرما دیتے ہیں‘‘اس سے مادی رزق میں بھی اضافہ مراد ہو سکتا ہے اور روحانی رزق میں بھی، مادی رزق و روزی میں اضافہ تو سر کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، اپنے اور پرائے سب ہی اس کا مشاہدہ کر تے ہیں، افطار و سحر میں کھانے پینے کے جو عمدہ اہتمامات ہو تے ہیں وہ کسی اور مہینہ میں نہیں دیکھے جا تے، رزق میں لذت و ذائقہ کا احسا س بھی بڑی نعمت ہے جو اللہ کی دین ہے،اور مہینوں سے زیادہ غذائی ذائقہ و لذت کا احساس سحرا ور خاص طور پر افطار میں بڑھ جاتا ہے، ان مادی فوائد کے ساتھ روحانی فوائد تو وہ ہیں جو اس مادی عالم میں دیکھے اور محسوس نہیں کئے جا سکتے،’’ ألصوم لی و انا اجزی بہ‘‘ میں اس حقیقت کو سمو یا گیا ہے، یعنی روزہ تو بس میرے ہی لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دینے والا ہوں، جزاء جب حق تعالی دیں گے تو بندے اس کے فضل کا کیا اندازہ کر سکتے ہیں، یوں تو کھانا کھلانا بڑی نیکی ہے، جب چاہے کھلا یا جائے اس کی کوئی تخصیص نہیں،
ہاں مگر رمضان پاک میں کھلانے کا ثواب تو کچھ اور ہی ہے، آپﷺ نے فرمایا’’ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروا دینے کا ثواب تو یہ ہے کہ اللہ سبحانہ اس کے گناہو ں کو معاف فر ما دیتے ہیں، اور جہنم کی آگ سے اس کو نجات کا پروانہ عطا ہو تا ہے ‘‘ اور کمال یہ ہے کہ’’ افطار کرانے والے کو بھی روزہ کا ثواب دیا جا تا ہے، جب کہ روزہ دار کے روزہ کے ثواب میں کسی طرح کی کوئی کمی بھی نہیں کی جاتی ‘‘ اس فضیلت و ثواب کا بیان سن کر غریب صحابہ اپنی غربت کی وجہ اس عظیم ثواب کی محرومی کے احساس سے بے چین ہو گئے،اور دل کی تڑپ کے ساتھ’’ عرض پرداز ہوئے یا رسو ل اللہ ہم میں سے ہر کوئی وہ اسباب نہیں رکھتا کہ جس سے وہ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروا سکے‘‘ آپﷺ جو ساری انسانیت کے ہمدرد سب پر شفیق و مہر بان لیکن غریبوں اور مسکینوں کے تو بڑے بہی خواہ ان کو چاہنے والے اور ان سے بے پناہ محبت کر نے والے اور خوش حالوں سے زیادہ ان کمزوروں پر خوب نظر رحمت فرمانے والے آقائے دو عالم انسانیت کے غمخوار مسکینوں غریبوں کے تو خاص ماویٰ و ملجاء سید العالمینﷺ نے ان کے درد کو محسوس کیا اور ان کے احسا س غم کو دور فرما کر ان کے دلوں کو مسرت و شادمانی سے بھر دیا، اور ان کو تسلی دیتے ہوئے فر مایا، کہ’’ حق سبحا نہ و تعالی تو یہ ثواب ان کو عطا فر مائیں گے جو کسی رو زہ دار کو ایک گھونٹ پانی سے یا تھوڑے سے دودھ سے افطار کرا دے، جن کو حق سبحانہ نے بہت کچھ نوازہ ہے اور وہ کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے شکم سیر کر دیں ان کیلئے مزید اجر و ثواب کا وعدہ ہے، فر مایا کہ جو کوئی روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلا دے اس کیلئے تو یہ عمل آخرت میں سیرابی کا باعث بنے گا جب کہ تشنہ لبی اپنے عروج پر ہو گی،حق سبحانہ ان کو نبی رحمت صاحب حوض کو ثرﷺ کے دست مبارک سے ایسے سیراب کرے گا کہ جنت میں جانے تک اب اسے تشنگی کا احساس نہیں ہو گا ‘‘۔
رمضان توبہ کا مہینہ
حدیثِ قدسی میں وارد ہے
{ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَ مَنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً }
یعنی اللہ جلّ جلالہ فرماتے ہیں کہ
’’جو شخص میری طرف ایک بالشت چل کر آتا ہے،میں اس کی طرف ایک ہاتھ چل کر جاتا ہوں اور جو میری طرف ایک ہاتھ چلتا ہے، میں اس کی طرف کھلے ہوئے دو ہاتھ چل کر جاتا ہوں اور جو میری طرف آہستہ چل کر جاتا ہے،میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔ ‘‘
نفلی عبادات اور تلاوتِ کلامِ پاک کی کثرت
اس ماہ میں فرائض اور سننِ مؤکدہ کے علاوہ نفلی عبادتوں کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔ اہلِ علم اور عام مسلمان بھی اس مہینے میں قرآنِ کریم کی تفسیرکیلئے کچھ وقت نکالیں کہ تلاوت کے ساتھ ساتھ مستندترجمہ اور تفسیرسے اس کوسمجھنے کی کوشش کریں، کیونکہ قرآنِ کریم ایسی چیز ہے کہ اگر کوئی اس کو ڈھنگ سے پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور قرب میں اضافہ کا بہترین ذریعہ ہے۔
عبادتوں کے ساتھ گناہوں سے پرہیز
ان سب کاموں کے کرنے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بھی پرہیز ضروری ہے، آنکھوں،کانوں اور زبان کی حفاظت بھی ضروری ہے،اس اہتمام کے ساتھ پہلے سے تیاری کی جائے اور اس اہتمام کے ساتھ یہ مہینہ گزارا جائے،اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُمید ہے کہ اس مہینے کا جو مقصد ہے،وہ حاصل ہو گا۔
نبیِ کریمﷺ نے فرمایا:
{ مَنْ سَلِمَ لَہٗ رَمَضَانُ سَلِمَتْ لَہٗ سَنَۃٌ }
جس شخص کا رمضان سلامتی سے گزر جائے تو اِن شاء اللہ تعالیٰ پوراسال سلامتی سے گزرے گا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوٹی سی نیکی کی توفیق کو بھی حقیر نہ سمجھیں
اس لئے اس نقطۂنظرسے رمضان کا مہینہ گزارنے کی توفیق مانگنی چاہئے کہ ہم تربیت کے کورس سے گزر رہے ہیں،لہٰذا اس ماہ میں ہم اپنی ہمت کو کچھ بڑھاتے ہیں، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کی توفیق دے دیتے ہیں،اکثر و بیشتر مسلمان ایسے ہیں جنہیں گیارہ مہینے کبھی تہجد کی توفیق نہیں ہوتی، اس مہینے میں بہت سوں کو یہ توفیق مل جاتی ہے،اسی طر ح عام دنوں میں قرآن شریف کی تلاوت کا اہتمام نہیں ہوتا،جبکہ اس مہینے میں ہو جاتا ہے،یہ سب اسی دھیان، توجہ اور تھوڑے سے ارادے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی توفیق سے ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے حدیث میں نبیِ کریمﷺ کا ارشاد ہے :
{ لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا }
نیکی کی کسی بات کو بھی ہر گز حقیر نہ سمجھنا
اگرکسی وقت بظاہر معمولی سی نیکی کرنے کا دل میں کچھ خیال آ گیاتواس کو حقیرسمجھ کر چھوڑنا نہیں۔ بعض اوقات کوئی چھوٹی سی نیکی کرنے کا خیال آ گیا مثلاً راستے سے گزر رہے تھے،راستے میں کوئی کانٹا وغیرہ پڑا ہوا تھا،خیال ہوا کہ چلواس کوراستے سے ہٹا دوں تاکہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ شیطان بعض اوقات دل میں ڈالتا ہے کہ ارے یار! اتنے سے کام سے کون سی جنت مل جائے گی؟میرے گناہوں کا بوجھ اتنا ہے کہ یہ چھوٹاساکانٹاہٹاکرمیں کیا کروں گا؟سرکارِدوعالمﷺ فرماتے ہیں کہ یہ جو نیکی کا خیال دل میں آیا ہے اس کو ہرگز حقیر مت سمجھنا اور حقیرسمجھ کر نہ چھوڑنا۔ اس لئے کہ یہ چھوٹا ساخیال جو دل میں آیا ہے،درحقیقت تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک بالشت یا آدھی بالشت سفرشروع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ تم ایک بالشت میری طرف آؤ گے تومیں ایک ذراع بڑھ کر آؤں گا،اگر تم نے اس ایک بالشت کوچھوڑدیاتواس سے تم اللہ تعالیٰ کی طرف ایک ذراع کی پیش قدمی سے محروم ہو جاؤ گے۔
اسی طرح مسجدمیں پہنچے،جماعت میں کچھ وقت ہے،دل میں خیال آیا کہ چلو اتنا تحیۃ المسجدپڑھ لیتا ہوں،شیطان کہتا ہے کہ ساری زندگی تم نے پڑھی نہیں،ایک مرتبہ پڑھنے سے کیا ہو جائے گا؟چھوڑو!تھوڑی دیر بیٹھ کر آرام کرو!دل میں اس نیکی کا خیال آیا، اس کو کر گزرو،کچھ پتہ نہیں کہ اس وقت یہ نیکی کس جذبے اور کس اخلاص کے ساتھ انجام پا جائے جس کی بناء پر بیڑا ہی پار ہو جائے۔ بعض اوقات ایساہی ہوتا ہے کہ چھوٹاساعمل پتہ نہیں کس اخلاص کے ساتھ انجام پاتا ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسی پر مغفرت فرما دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میری طرف ایک بالشت بڑھو تو میں تمہاری طرف ایک ذراع بڑھ کر آؤں گا،اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچتی ہے،یعنی ایک نیکی کی توفیق ہو گئی تواس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کسی اور نیکی کی بھی توفیق دے دیں گے۔
اسی طرح گناہ گناہ کو کھینچتا ہے،ایک گناہ (اللہ بچائے!) ہو جائے تودوسرے گناہ کی بھی جرأت پیدا ہونے لگتی ہے۔
رمضان میں ذکر کا خصوصی اہتمام کریں
ہمیں کوشش اس بات کی کرنی چاہئے کہ رمضان المبارک میں ہمارے زیادہ سے زیادہ اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف پیش قدمی میں گزریں۔
اللہ جل جلالہ کا ذکر چاہے زبان سے ہو یا دل سے یا دونوں سے ہو،زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔
ذکر کی خاص تعداد ہی مطلوب نہیں
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ذکر کی خاص تعداد ہی مطلوب ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ {سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ} سومرتبہ پڑھنا حدیث میں آیا ہے، یا{ لَآاِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ}اس کی دس مرتبہ،چالیس مرتبہ اور سومرتبہ کی فضیلت آئی ہے۔ اپنے معمول میں ایک عدد مقرر کر کے اس کے مطابق اس معمول کو پورا کرنا چاہئے لیکن اس معمول کے بعد ذکر کی کوئی حد نہیں،چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، زبان سے، دل سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے رہنے کی عادت ڈالنی چاہئے،خاص طور سے رمضان المبارک میں اس کا اہتمام بہت زیادہ کرنا چاہئے،ان شاء اللہ اس کے اثرات رمضان المبارک کے بعد بھی باقی رہیں گے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے دلوں میں فضول خیالات ختم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر جا گزیں ہو جائے۔ دماغ کسی وقت خیال سے خالی نہیں ہوتا،اب چاہوتواس کو غلط رُخ پر یعنی فضول باتیں،گناہ کی باتیں،نا جائز باتیں، بے فائدہ اُمور میں لگا دو اور چاہو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں لگا دو۔ حضور اکرمﷺ نے دعا مانگی ہے:
{اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ}
اے اللہ! میرے دل کو خیالات کو اپنی خشیت اور ذکر بنا دیجئے۔
یعنی دل میں یہ خیال آتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسی کیسی نعمتیں عطا فرمائیں!آنکھ، کان،زبان غرض ہر عضو بہت بڑی نعمت ہے،گھر میں جاتا ہوں تو گھر والے نعمت ہیں،کھانا پینا نعمت ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کیلئے جو جنتیں بنا رکھی ہیں،ان کا تصور کرتے رہیں۔ خلاصہ یہ کہ تصور اور خیالات کو بے مہار چھوڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں لگاؤ،اور کچھ نہیں تو{سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ}دل ہی دل میں کہتے رہو۔ غرض چلتے پھرتے،اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت زبان و دل سے اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کچھ نہ کچھ ہم نے لڑھکتے پھڑکتے آگے بڑھنا شروع کیا،اس طرح سے بھی آگے بڑھیں گے تو ان کی طرف سے ان شاء اللہ تعالیٰ سنبھالاہو گا۔
رمضان المبارک تقویٰ اور قربِ الہیٰ کا مہینہ ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ ہرسال یہ ایک مہینہ بھیجتے ہیں کہ کہاں بھٹک رہے ہو، چلو لوٹ آؤ،گیارہ مہینے کی دنیا کی محنت نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی یادسے غافل کر دیا،دنیا کی فکر غالب آ گئی ہے اور آخرت کی فکر مغلوب ہو گئی ہے،تمہارے شوق،سوچ اور اُمنگ کا مرکز کوئی اور چیز بن گئی ہے،لوٹ کر آؤ،اس ماہ میں ہم تمہارے رُخ کوسیدھا کریں،ہم تمہیں قریب لے کر آئیں۔ فرمایا:
{ یٰٓأَیُّہَا الَّذِینَ ٰامَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ }
رمضان کا مہینہ بھیجنے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے کہ دنیا کی فکر میں لگ کر تقویٰ کمزور ہو گیا ہے،آخرت کی فکر مغلوب ہو گئی ہے،ہم تمہیں ا س مہینے میں اپنے پاس بلا رہے ہیں،یہ اس مہینے کا مقصود ہے۔
چنانچہ پہلے ضبطِ نفس کی تربیت دی جا رہی ہے کہ گیارہ مہینے بہت کھا پی لیا،اب ہماری خاطراس طرح دن گذارو کہ نہ کھاؤ اور نہ پیو،اب کھانے پینے کا تقاضا دل میں پیدا ہو رہا ہو گا لیکن ہماری خاطر تم کھانے پینے کو چھوڑے ہوئے ہو گے تو{ اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ }یہ روزہ خالص میرے لئے ہو گا،اس میں رِیا کاری کا احتمال نہیں،اس میں دِکھاوے کا احتمال نہیں،لہٰذا اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔
دیگر اعمال کی جزاء اللہ تعالیٰ نے بتلا دی لیکن روزے کی جزا نہیں بتلائی،بلکہ فرمایا کہ اس کی جزا میں دوں گا،اس سے روزے کی جزا کی عظمت بیان ہوئی،ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی دیں گے تو اپنے قرب کی دولت عطا فرمائیں گے،اپنے سے تعلق کی دولت عطا فرمائیں،یہ اجر یہیں دنیا میں ملے گا،حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ جب کسی نیک کام کے کرنے میں سستی ہو،اس سستی کا مقابلہ کر کے وہ کام کرو اور جب کسی گناہ سے بچنے میں سستی ہو تو اس سستی کا مقابلہ کر کے اس گناہ سے بچو،اسی سے تعلق مع اللہ پیدا ہوتا ہے،اسی سے باقی رہتا ہے اور اسی سے ترقی کرتا ہے۔
رمضان المبارک روحانیت کی فصلِ بہار
شعبان کی آخری تاریخ میں آپﷺ نے فرمایا: وہ مہینہ آ گیا جو مستحق تعظیم ہے جس کی عظمت ضروری ہے، یہ برکتوں والا مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی آتی ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اﷲ پاک نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں رات کی نفلیں اگرچہ فرض نہیں مگر ان کا ثواب بے شمار رکھا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا اس مہینہ میں نفل کا ثواب ایسا ہے جیسے عام دنوں میں فرض کا ثواب ہوتا ہے اور اس مہینہ میں فرض کا ثواب دوسرے دنوں سے ستر گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اس میں کھانے پینے اور تمام بری باتوں سے رکنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ صبر کا ثواب جنت ہے، یہ صبر اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص دوسر ے روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کو برابر کا ثواب ملتا ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی۔
آپﷺ نے فرمایا، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا آغاز اﷲ کی رحمتوں سے ہوتا ہے، اس کے وسط میں گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور اس کے آخری حصہ میں دوزخ سے نجات ملتی ہے۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: اس مبارک مہینہ میں جو شخص اپنے نوکر چاکر، اپنے غلام یا باندی کا کام ہلکا کرتا ہے، اﷲ اس کو آتش دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ منبر پر تشریف فرما تھے آپ نے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ فرمایا آمین۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ ! یہ آمین کیسی؟ آپﷺ نے فرمایا: جبرائیل ؑ نے تین باتیں کہیں، میں نے ہر ایک کے جواب میں کہا آمین۔
حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ، جس کو رمضان کا مہینہ میسر آیا اور اُس نے اس مہینہ میں عبادت کر کے اپنے گناہ نہ بخشوائے، اس کے جواب میں میں نے کہا آمین۔ پھر حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ شخص جس کو ماں باپ کی خدمت کا موقع ملا اور اس نے ان کی خدمت کر کے اپنے گناہ نہ بخشوائے۔ میں نے کہا آمین۔ پھر حضرت جبرائیل ؑ نے کہا: برباد ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا گیا اور اس نے مجھ (آنحضرتﷺ ) پر درود نہیں پڑھا۔ میں نے کہا آمین۔
رمضان المبارک صبر کا مہینہ ہے
پھر فرمایاکہ یہ {شَھْرُ الصَّبَرِ} یعنی صبر کا مہینہ ہے،ایک صبر تو یہی ہے کہ کھانے پینے سے رُک رہے ہیں،اور دوسراصبریہ کہ دل میں جو بری خواہشات پیدا ہو رہی ہوں ان کے اُوپر صبر کرو،ان کے تقاضوں پر صبر کرو، زبان کو روکو، اگر کوئی لڑنے پر آمادہ ہو تو کہہ دوکہ میں روزے سے ہوں،اس وقت اگرچہ طبیعت کی خواہش مقابلے کی ہوتی ہے کہ جتنی گالیاں یہ دے رہا ہے میں اس سے دس زیادہ دیدوں،اس نے ایک مارا تو میں دس ماردوں،لیکن اس وقت اپنے آپ کو روکنے کا اور صبر کرنے کا حکم ہے۔
اسی طرح عام حالات میں بھی غیبت کرنا،جھوٹ بولنا حرام ہے،لیکن رمضان کے مہینے میں گناہ کی شناعت اور برائی اور زیادہ بڑھ جاتی ہے،ایک مرتبہ نبیِ کریمﷺ تشریف لے جا رہے تھے،دو آدمی کو دیکھا کہ ایک دوسرے کی حجامت (پچھنے لگانا) کر رہا تھا اور آپس کی باتوں میں غیبت کر رہے تھے،نبیِ کریمﷺ نے فرمایا کہ {اَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَ الْمَحْجُوْمُ }کہ پچھنے لگانے والا اور جس کو لگائے جا رہے ہیں دونوں کا روزہ تو ٹوٹ گیا،بعض فقہائؒاس طرف گئے کہ حجامت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،لیکن اکثر فقہاء فرماتے ہیں کہ حجامت سے روزہ ٹوٹنا مراد نہیں،مطلب یہ ہے کہ روزے کا مقصد تھا کہ انسان اپنے اُوپر ضبط کرتا اور کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالتا،وہ انہوں نے غیبت کر کے فوت کر دیا۔
اعتکاف
اعتکاف بہت بڑی فضیلت کا عمل ہے۔ آپؐ ہر سال رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے،عمر مبارک کے آخری رمضان بیس دنوں کا اعتکاف ادا کیا۔ اعتکاف کے دوران روزے کے علاوہ بھی بیوی کے پاس جانا منع ہو جاتا ہے۔ اعتکاف میں خاص طور پر اور پورے رمضان میں عام طور پر قرآن مجید کو سمجھ کر یعنی ترجمہ سے پڑھ لینا اس لیے مفید ہے کہ یہ مہینہ قرآن سے ہی وابسطہ ہے۔ اگر ایسی جگہ تراویح اور اعتکاف کا موقع مل جائے جہاں قرآن فہمی کے مواقع میسر ہوں تو اسے رب کی خصوصی عنایت سمجھا جائے،محض تلاوت کر لینے سے قرآن کا حق ادانہ ہو گا اور قرآن سے راہنمائی حاصل نہیں کی جا سکے گی۔ عیدالفطر میں خرافات کے اندر غرق ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے بہت اچھے طبیب سے بڑی موثر اور مہنگی دوائی حاصل کی اور کھا کر ہضم ہونے سے پہلے حلق میں انگلی ڈال کر اگل دی۔ روزے جیسامشقت بھرا عمل زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ فطرانہ ادانہ کر دیا جائے۔ ڈھائی سیر گندم کے برابر قیمت کو گھر میں موجود تمام افراد کی تعداد سے ضرب دے کر اتنی رقم ادا کی جائے۔ یکم شوال کو طلوع آفتاب سے قبل پیدا ہونے والا بچہ بھی اس تعداد میں شامل ہے۔ رمضان کے اگرچہ بہت سے مستحب اعمال ہیں لیکن کثرت سے دعائیں مانگنا،ہر وقت دعا مانگتے رہنا،دوسروں سے دعاؤں کی درخواست کرنا اور اپنی دعاؤں میں زندوں اور مردوں سب کو یاد رکھنا بہت ضروری عمل ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ان دس دنوں میں تم اسی آقا اور مالک کی ڈیوڑھی پر پڑ جاؤ، جس کے حکم سے روزے رکھ رہے ہو، جس نے روزوں پر بہت بڑا اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے اسی پڑ جانے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ دن رات مسجد ہی میں رہو، گویا اپنے تمام بدن اور وقت کو اﷲ کی عبادت کے لیے وقف کر دو۔
1۔ اس کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ بہت سے گناہ جو ملنے جلنے، بازار جانے آنے میں ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہو گے۔
2۔ اپنے مالک اور مولا کی رضامندی کے لیے اسی مولا کے گھر میں قیام کرنا خود عبادت ہے، بس اعتکاف کے دنوں میں ہر لمحے کا تم کو ثواب ملتا رہے گا اگر تم سوگئے تو یہ وقت بھی عبادت میں صرف ہوا اس کا بھی تمہیں ثواب ملے گا کیوں کہ تم اسی کی ڈیوڑھی پر پڑے ہوئے ہو۔
3۔ تم یہاں جماعت اور نماز کے اشتیاق میں بیٹھے ہو لہذا ہر لمحہ تمہیں نماز کا ثواب مل رہا ہے۔
4۔ مسجد اﷲ کا گھر ہے۔ تم اس کے گھر میں پڑے ہو تو اس کے پڑوسی اور اس کے مہمان ہو۔
5۔ تم فرشتوں سے مشابہت پیدا کر رہے ہو کہ فرشتوں کی طرح ہر وقت عباد ت اور اﷲ کی یاد میں لگے ہوئے ہو۔
6۔ کسی پڑوسی کا سودا سلف لا دینا، کسی بیمار کی مزاج پُرسی کے لیے جانا، جنازے میں شرکت کرنا اور ایسے بہت سے نیک کام جس کے لیے مسجد سے جانا پڑتا ہے وہ اعتکاف کے دنوں میں نہیں کرسکو گے، لیکن اگر تم یہ کام کیا کرتے تھے تو زمانہ اعتکاف میں بغیر کیے ہی ان کا ثواب تم کو ملتا رہے گا۔
7۔ آنحضرتﷺ کی سنت مبارکہ پر عمل ہو گا کیوں کہ آپ نے اگرچہ کبھی پورے مہینہ اور آخری سال میں بیس روز کا بھی اعتکاف کیا ہے مگر دس روز کا اعتکاف تو آپ ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔
8۔ جب اعتکاف کا ہر لمحہ عبادت ہے تو اگر ان دس دنوں میں شب قدر ہوئی تو خود بخود اس کا عظیم الشان اجر و ثواب بھی تمہارے حصہ میں آئے گا۔
9۔ جماعت کی بڑی فضیلت ہے تو معتکف کے لیے ضروری ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں کرے جس میں نماز پنج گانہ کی جماعت کا انتظام ہو۔
شب قدر
رب العزت قادر مطلق نے جس طرح ہفتے میں جمعہ کے دن کو، مہینوں میں ماہ رمضان المبارک کو بے شمار فضیلتیں بخشیں، اسی طرح راتوں میں ایک رات بنائی جسے شبِ قدر یعنی قدر والی رات کہتے ہیں۔ جو شروع شام سے لے کر طلوعِ فجر تک رحمت اور سلامتی ہے۔ جس میں اﷲ پاک کے فرشتے اﷲ کے حکم سے خیر و برکت لے کر زمین پر آتے ہیں۔ خصوصاً حضرت روح الامینؑ جو رحمت اور برکت کے فرشتوں کے سرتاج ہیں، ان کا نزول ہوتا ہے جس سے اﷲ والوں کے دلوں میں نور اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔ اسی کو یہ خصوصیت حاصل ہے اس مبارک رات میں قرآن پاک کا نزول ہوا۔ ہمارے لیے اس میں یہ سعادت ہے کہ فرشتوں کے لشکر اہل ایمان کو ہدیہ سلام پیش کرتے ہیں۔ یاد رہے یہ سلسلہ ساری رات جاری رہتا ہے نصیب والے ہیں وہ لوگ جنہیں فرشتے سلام کرتے ہیں۔ قلب مومن پر ان برکتوں کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے، گریہ کی کیفیت طاری ہوتی ہے، عبادت میں دل زیادہ لگتا ہے۔ اس رات میں دعا قبول ہوتی ہے آنحضرتﷺ نے حضرت عائشہؓ کو ہدایت فرمائی تھی کہ شب قدر میں اس دعا کا ورد رکھیں
ترجمہ: اے اﷲ تو بہت معاف کرنے والا ہے، معاف کر دینے ہی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے بھی معاف کر دے (آمین)
رمضان المبارک کے یہ تین واقعات
رمضان المبارک کے یہ وہ تین واقعات ہیں جنھوں نے دنیا کی صورت یکسر تبدیل کر دی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تدابیر وضع کرنے کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارہ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امتِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہمکنار ہو۔ لہذا کامیابی کے حصول کے مراحل میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ پہلا واقعہ نزولِ قرآن ہے: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیاتِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی،گمراہی اور شرک کی جڑوں سے نجات دلائی۔ لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب و روز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔ اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔ اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کر دے۔ دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے:یہ واقعہ اْس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبرداراِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں،جو اس نے عطا کی ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ جس کے ذریعہ انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہونا چاہیے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے جانے چاہیں۔ اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت،گمراہی اور باطل نظریہ ہائے افکار سے چھٹکارا پایا اور دلایا جانا چاہیے۔ اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا نا چاہیے۔ اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔ لیکن اس آخری انتہا سے قبل لازم ہے کہ وہ کام انجام دیئے جائیں جن کا آغاز ہر شخص اپنی ذات سے کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہو گا اور یہ اْسی وقت ہو گا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس کی ضرورت ملکِ عزیز میں محسوس نہیں ہوتی۔ تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے :یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخ رو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔ یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور اسلامی فکر میں اجتماعی روح پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جائیں، ان کی کمر غرور و تکبر کے محرکات سے اکڑیں نہیں بلکہ مزید وہ اللہ کے آگے جھک جانے والا بن جائیں۔ فائدہ یہ ہو گا کہ اْن میں انسانوں سے مزید خیر خواہی کے جذبات ابھریں گے جس کی آج شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ یہ تین واقعات اس جانب بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال،اس سے استفادہ اور اس کے بعد کے ایام میں،ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینے چاہیں جن کے اختیار کے نتیجہ میں اللہ اور اس کے بندوں کے ہم محبوب بن جائیں۔
یکسو ہو جائیے
آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہو گی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔ علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر کمندیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں۔ ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں۔ حاصل؟؟۔ حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دُور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی آ جائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور میسر آ جائیں۔ لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آ جائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔ پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو ان ہی بنیادوں پر قائم رہے، مگر اخلاق، معاشرت،معیشت،نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ کامل پروگرام کیا ہے؟اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بتا تے چلیں کہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارا نظام حیات بنا ہوا ہے،زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی!
داعی حق بن جائیے
انسان جب کسی کا غلام بن جائے تو لازم ہے کہ اس کو غلامی سے نکالا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہرسطح پر غلامی سے نجات دلانا اولین فریضہ ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ فکر و قلب کہہ سکتے ہیں،یہ عمل انسان کو ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔ لیکن یہ عمل انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جن میں یہ خواہش موجود ہو۔ جس شخص میں یہ جذبہ ہی نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل یا تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو داعی الالخیر کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔ اور یہی ا وقت کا تقاضہ بھی ہے کہ ہم داعی حق بن جائیں۔ لیکن داعی حق کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پر جوش داعی خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطہ نظر قبول کر لے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ داعی حق کے لیے اخلاصِ نیت پہلی شرط ہے تو وہیں دوسری یہ کہ کارِ دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطہ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ داعی کا کام صرف اتنا ہے کہ جس بات کو وہ حق سمجھتا ہے،اسے احسن طریقہ سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی اپنے مخاطب کوراست یا بلاواسطہ ایسی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجہ میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو۔ کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی راہنمائی نہیں کر سکتے۔ لہذا رمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقصد کیا تھا؟
پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی کریم کی آمد کا مقصد کیا تھا تواستقبال کریں رمضان المبارک کا اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اسلامی نظریہ حیات کو عام کر کے اور ان طریقوں کو اختیار کر کے جو ہم پر لازم آتے ہیں۔ استقبال کریں رمضان المبارک کا اِس عہد و پیمان کے ساتھ جس کے نتیجہ میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سود مند ثابت ہوں اور استقبال کریں رمضان المبارک کا کہ یہ استقبال امت کے عروج کا ذریعہ بن جائے۔ سلمان فارسی رض سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریم نے خطبہ دیا جس میں فرمایا:\’’اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آ گیا ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینہ کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے(یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے)۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خواشی سے بطور خود کرے گا تو وہ ایسا ہو گا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہو گا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینہ میں کسی نے ستّر(70)فرض ادا کیے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب او حاجتمندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے\’’(بیہقی فی شعبان الایمان)۔ پس یہ وہ عبادات ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ پھر یہی استقبال ہے اور یہی استفادہ !
مساجد میں بھی جہاں افطار کا اہتمام ہوتا ہے وہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ اکثر اوباش قسم کے لوگ، بے روزہ دار، بے نمازی افطار کرتے ہیں اور جب نماز کا وقت ہوتا ہے، تو منہ صاف کرتے ہوئے یہ مسجدوں سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔ اکثر فٹ پاتھوں اور چوراہوں پر لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، یہ رَوِش یوں بھی اَخلاقی طور پر درست نہیں کہ آپ لوگوں کے اندر سے خود داری ختم کر کے اُنہیں بھکاری بنا رہے ہیں۔
یہی رقم آپ اُن ضرورت مندوں تک،جو سفید پوش بھی ہیں اور اپنی ضرورتوں کے لئے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز بھی نہیں کرتے،اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے :’’(خیرات) اُن فقراء کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ(امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث زمین میں چل پھر نہیں سکتے،اُس کے (زہداً )طمع سے باز رہنے کے باعث نادان انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے،تم اُنہیں اُن کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال نہیں کرتے کہ کہیں(مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے،تم جو مال بھی خرچ کرو،تو بے شک اللہ اُسے خوب جانتا ہے، (البقرہ:273)‘‘۔
مختلف شعبوں سے وابستہ مالکان کے لئے بہتر تو یہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہوئے اُنہیں مراعات دیں،اُن کے لئے افطار وسحری کا اہتمام کریں،راشن وغیرہ کی تقسیم سڑکوں،فٹ پاتھوں پر کرنے کے بجائے اپنے مستحق ملازمین کو دیں،تاکہ اُن کی ضروریات پوری ہوں اور وہ مالک کے ساتھ اَخلاص اور وفاداری نبھائیں۔ یہی حال زکوٰۃ کی تقسیم کا ہے،اسلام نے تو پہلا حق اُن رشتے داروں کا بیان کیا،جو محتاج اور مسکین ہیں،اُنہیں دینے کا دوہرا ثواب ہے،جبکہ ہمارے یہاں سیٹھ صاحبان نمود و نمائش کی خاطر زکوٰۃ کی مَد میں راشن تقسیم کرتے ہیں،یہ نظام شفاف نظر نہیں آتا،آپ دیکھیں گے کہ اُن لائنوں میں پیشہ وَر بھکاری ہی نظر آتے ہیں، کوئی مُعزز یا سفید پوش آدمی نظر نہیں آتا،اِس نظام میں اِصلاح کی ضرورت ہے۔ گذشتہ سالوں میں راشن تقسیم کرتے ہوئے بھگڈر کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں قابلِ توجہ اور لمحۂ فکریہ ہیں۔
گھر،بازار،دفاتر،سڑکوں اور عوامی اجتماعات کے مقامات پر صبر،برداشت،حوصلہ و ہمت سے عاری،بات بات پر جھگڑنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ ایسے روزے اور ایسے روزے دار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔ حدیث پاک میں ہے : ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے جھوٹی بات کو نہیں چھوڑا اور اس کے تقاضے پر عمل کرنے کو نہیں چھوڑا اور جہل (کے تقاضے پرعمل کرنے) کو نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے،(صحیح بخاری :6057)‘‘۔
ہماری معاشرتی پستی کا یہ عالم ہے کہ اِس مہینے میں ہم اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں،ہر طرف لوٹ مار،ذخیرہ اندوزی اور گرانی کا سماں نظر آتا ہے اور معاشرے کے ہر فرد کی یہی سوچ نظر آتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روپے کمانا ہے، نیکیاں کمانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی، یہ سوچ اتنی عام ہو چکی ہے کہ دینی مزاج کے حامل افراد بھی اِسی رَوِش پر چلتے نظر آتے ہیں جبکہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب کسی غیر مسلم کمیونٹی کا مذہبی تہوار آتا ہے تو غیر مسلم کمیونٹی کے لوگ اپنے ہم مذہبوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور سستی اشیاء فراہم کرتے ہیں۔ کرسمس کے موقع پر عیسائی کمیونٹی کے خصوصی سیل اسٹال لگتے ہیں،جہاں کم قیمتوں پر خصوصی ڈسکاؤنٹ دیئے جاتے ہیں۔ کیا مسلم کمیونٹی ہی دنیا کی دولت کے پیچھے اندھی ہے،یاد رکھئے رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:(دنیا مردار کی مانند ہے اور اس کا طالب کتا ہے )،(کشف الخفا للعجلونی:1313)‘‘۔
اِس مہینے کو غمخواری کا مہینہ بنا کر معاشرے کے پسماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کو ڈھارس و ہمت بندھائی کہ غم نہ کرو۔ روزے کی فرضیت کا دوسرا بنیادی مقصد معاشرے کے متمول اور کثیر المال طبقے کو یہ احساس دلانا ہے کہ تمہارے اطراف تمہارے وہ بھائی بھی ہیں جو تمہاری توجہ کے منتظر ہیں، اُن کی آزمائش کے ساتھ تمہاری آزمائش کا مرحلہ بھی ہے کہ تم ہمارے ہی دیئے ہوئے مال سے کس قدر ہماری راہ میں خرچ کرتے ہو۔ بھوک واَفلاس دنیاوی عارضی کیفیات ہیں،لیکن حدیث پاک میں مُفلس کی تعریف یوں فرمائی ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (صحابہ کرام سے) دریافت فرمایا: جانتے ہو !مفلس کسے کہتے ہیں؟،صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ ! جس کے پاس درہم یا مال و دولت نہ ہو،آپﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے،جسے روزِ قیامت (اِس حال میں ) لایا جائے گا کہ اُس کے (نامۂ اعمال میں)،نماز،روزے بھی ہوں گے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب بھی درج ہو گا،لیکن اُس نے مخلوق پر ظلم و زیادتی کی ہو گی،کسی کو گالی دی ہو گی،کسی پر بہتان لگایا ہو گا،کسی کا مال ہڑپ لیا ہو گا،کسی کا (ناحق)خون بہایا ہو گا،پس اُس کی یہ نیکیاں اُس سے لے کر متاثرہ شخص کو دے دی جائیں گی،جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی،تو اُس شخص کے گناہ اِس کے کھاتے میں ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اِس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا،(سنن ترمذی،رقم الحدیث: 2418) ‘‘۔
نماز،زکوٰۃ،روزے،حج اور دیگر تمام عبادات اللہ وحدہٗ لاشریک کے لئے ہیں،لیکن اِن کی صحت ودرستگی کی بنیاد پر اُخروی معاملات کا مَدَار ہے، ہمیں اپنے ہر عمل کا محاسبہ کرنا ہو گا،یوں نہ ہو کہ ہم اپنی غفلت و کوتاہی کے سبب اُخروی مُفلسین کی صف میں شامل ہو چکے ہوں،جس کا ہمیں احساس بھی نہیں اور بعد کو اِس کے تدارک کی کوئی سبیل بھی باقی نہ رہے۔
عمدہ نصیحتیں
اے میرے مسلمان بھائی !
ہمارے لیے باعث مسرت ہے کہ ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے آپ کی خدمت میں عمدہ نصیحتوں کا مجموعہ بطور ہدیہ پیش کریں اور ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو ان لوگوں میں کر دے جو بات سن کر اچھے انداز میں اس کی پیروی کرتے ہیں۔
1 اس بات کا حریص ہو جا کہ یہ ماہ مبارک تیرے اعمال کی درستگی و مراجعت اور تیری زندگی کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے محاسبہ کا نقطہ آغاز ثابت ہو۔
2 نوافل پابندی کے ساتھ پڑھنے کی طمع کر۔
3 مال اور اس کے علاوہ فضول خرچی سے بچ کیونکہ فضول خرچی حرام ہے اور اس سے صدقات کرنے پر تیرے حصے کے اجر میں کمی ہو جاتی ہے۔
4 رمضان میں جن کاموں کی عادت اپنائی تھی اس کے بعد بھی ان کو جاری رکھنے کا عزم پختہ کر۔
5 عمر گزرنے کے ساتھ ماضی کو دیکھ اور مستقبل کا سوچ۔
6 یہ مہینہ عبادت کا مہینہ ہے نہ کہ سونے اور سستی کرنے کا۔
7 اپنی زبان کو ذکر کا عادی بنا اور ان لوگوں میں سے نہ ہو جا جو بہت تھوڑا ذکر کرتے ہیں۔
8 جب تجھے بھوک لگے تو سوچ کہ تو کمزور ہے کھانے اور اس کے علاوہ دوسری نعمتوں سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔
9 اس مہینے کے اوقات کو غنیمت جان اور ہمیشہ کے گناہوں سے رک جا جو تجھے نفع نہیں بلکہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
10 یہ جان لے کہ عمل امانت ہے۔ پس اپنا محاسبہ کر کہ تو نے اس کا حق ادا کیا ہے کہ جس طرح کرنا چاہئیے تھا۔
11 اپنی لغزشوں کی جلدی معافی طلب کر قبل اس کے کہ تیری نیکیوں کو لے لیا جائے۔
12 روزے دار کا روزہ افطار کرانے کی حرص کر پس تجھے اس جتنا ہی اجر ملے گا۔
13 جان لے کہ اللہ بہت زیادہ کرم کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ وہ پاک سخت سزا والا ہے۔ وہ مہلت دیتا ہے اور لا پرواہ نہیں ہے۔
14 جب تجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور اللہ اس کی پردہ پوشی کرے تو آئندہ یہ گناہ نہ کرنے کا پکا عہد کر۔
15 یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے آرام کرنا ہمارے لیے جائز قرار دیا ہے، بغیر حرام کے، اور سارا وقت ہی آرام کے لیے ہے۔ لیکن آرام کے لمحات کو لمبا کرنے سے زیادہ خیر حاصل کرنے کے لمحات فوت ہو جائیں گے۔
16 تفسیر قرآن، احادیث رسول، سیرت طیبہ اور دینی علوم کی زیادہ سے زیادہ معرفت حاصل کرنے کی حرص کر۔ پس طلب علم عبادت ہے۔
17 برے لوگوں کی صحبت سے دور رہ اور اچھے و نیک لوگوں کی صحبت اختیار کر۔
18 علی الصبح مسجد جانے کی عادت اپنانا خالق کے ساتھ مناجات اور شوق و محبت سے عبادت کرنے کی دلیل ہے۔ ( اپنے ماتحت لوگوں کی تربیت کی طرف توجہ دے جو ان کو ان کے دین میں نفع دے کیونکہ وہ تیرے علاوہ کسی دوسرے کی بات کو اتنا زیادہ قبول نہیں کریں گے۔ ) افطاری کے وقت کھانے کی زیادہ اقسام نہ کر کیونکہ اس سے اہل خانہ دن میں تلاوت قرآن اور دوسری عبادات سے کماحقہ استفادہ نہیں کر پاتے۔
19 خاص طور پر رمضان کی آخری راتوں کو بازاروں میں کم جا تا کہ تیرے یہ قیمتی اوقات ضائع نہ ہوں۔
20 آخری عشرہ کی راتوں کو قیام کی حرص کر یہ بڑی فضیلت والی راتیں ہیں ان میں قدر والی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔
21 یہ جان لے کہ عید کا دن اللہ کے شکر کا دن ہے۔ پس اس کو ان پابندیوں سے آزادی کا دن نہ سمجھو جن سے تو نے اپنے آپ کو اس مہینے میں روکے رکھا تھا۔
22 عید کا دن تو بڑا شاداں و فرحاں ہوتا ہے پس اپنے یتامیٰ، فقیر اور گم شدہ بھائیوں کو یاد کر۔ اور جان لے کہ جس نے تجھ پر فضل کیا ہے وہ تیری اس حالت کو بدلنے پر بھی قادر ہے۔ پس نعمتوں کا شکر اور ان کی غم خواری کے لیے جلدی کر۔
23 بغیر عذر روزہ چھوڑنے سے ڈر پس جس نے رمضان کا ایک روزہ چھوڑا اگر وہ ساری زندگی روزے رکھتا رہے تو اس کی قضا نہیں دے سکتا۔
24 اپنے لیے اعتکاف سے حصہ وصول کر اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
25 عید کی رات اور دن کو نماز عید کی ادائیگی تک بلند آواز سے تکبیرات پڑھنا سنت ہے۔
26 نفل روزوں کے ذریعے بھی اپنے لیے حصہ حاصل کر صرف رمضان کے روزوں پر ہی اکتفا نہ کر۔
27 اپنے تمام امور میں اپنے آپ کا محاسبہ کرنا۔
یہ امور درج ذیل ہیں :
1 نماز با جماعت کی پابندی کرنا۔
2 زکوٰۃ ادا کرنا۔
3 صلہ رحمی کرنا۔
4 والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔
5 پڑوسیوں کا خیال رکھنا۔
6 اگر کسی کے ساتھ رنجش ہے اس کو ختم کرنا۔
7 فضول خرچی سے بچنا۔
8 اپنے ماتحتوں کی تربیت کرنا۔
9 مسلمان بھائیوں کے امور میں دلچسپی لینا۔
10 نصیحت قبول کرنا اور اس پر خوش ہونا۔
11 جو اپنے بھائی لیے پسند کرنا وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرنا۔
12 اصلاح کی کوشش کرنا۔
13 اپنے بھائیوں کی غیبت نہ کرنا۔
14 قرآن کی تلاوت کرنا اور اس کے معانی میں غور و خوض کرنا۔
15 تلاوت قرآن کو خشوع کے ساتھ سننا۔
رمضان۔ ۔ ۔ باطنی اصلاح اور تبدیلی نظام
ماہ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں اہل اسلام کے لئے رضائے الہیٰ کے حصول کا بہترین موقع لئے موجود ہیں۔ سحری و افطاری کے اوقات میں خاندان کا ہر فرد عجب طرح کی کیفیات کے انوار سے اپنا دامن سمیٹنے کو بے تاب نظر آتا ہے۔ بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور وہ رمضان کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ ماہ مقدس کے حوالے سے ان کے ذہن کی تختیوں پر ابھرنے والے متعدد سوالات گھر کے بڑوں، بزرگوں کو تربیت کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ مہینہ اپنے معمولات اعمال صالح اور اہل اسلام کے باطن میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کے حوالے سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ نماز پنجگانہ، تراویح، نوافل، تلاوت قرآن، درود شریف اور اور اد و وظائف کی کثرت سے من کی دنیا کو سیرابی ملتی ہے اور اخلاق حسنہ کی کونپلیں دل کی وادی میں پھوٹ کر افعال میں کمال بہتری کا موجب بن رہی ہوتی ہیں ایسے ماحول میں گناہگاروں کے لئے امید کے پھول کھلتے ہیں اور وہ اپنے رب کو منانے کے لئے نیک صحبتوں اور مساجد کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گلیوں، بازاروں کی رونقوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، گھر ایسے پکوانوں کی خوشبوؤں سے مہکتے دکھائی دیتے ہیں جو عموماً سال کے دیگر مہینوں میں خال خال ہی پکتے ہیں۔ ہر کوئی پورے دن کی پیاس کے بعد افطاری کے وقت انواع و اقسام کے مشروبات اور کھانوں سے لطف اندوز ہو کر اللہ کی نعمتوں پر شکر گزاری کے احساس کے ساتھ نماز مغرب کے لئے سجدہ ریز ہو رہا ہوتا ہے۔
اللہ کی بے پایاں نعمتوں کو اپنے حصار میں لئے ماہ رمضان المبارک امت مسلمہ کے ہر فرد کے لئے اصلاح احوال کا بہترین موقع لے کر آتا ہے۔ نفس کی آلائشوں سے چھٹکارا پانے کے لئے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ دل کے تخت پر نفسانی خواہشات کا قبضہ چھڑانے اور مضمحل روح کو توانا کر کے اسے نفس کے خلاف دوبارہ صف آراء کرنے کے لئے رمضان المبارک سے بہتر اور کوئی مہینہ نہیں ہے۔ ہزاروں لاکھوں ایسے خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جو ان مبارک دنوں میں دل کی بادشاہت پر دوبارہ روح کو قبضہ دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کی زندگی کی ترجیحات میں مثبت تبدیلی آ جاتی ہے اور وہ اعلیٰ اخلاق اور محاسن سے آراستہ ہو کر معاشرے اور انسانیت کے لئے خیر، فلاح اور امن و سلامتی کا پیکر بن جاتے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک جہاں برکتوں، نعمتوں، سعادتوں اور باطنی نور کو سمیٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے وہاں فرد اور معاشرے پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے ان ذمہ داریوں کی نوعیت دو قسم کی ہے ایک انفرادی اصلاح تاکہ اس فرد کا وجود اس کے گھر، خاندان کے لئے سود مند بنے اس کے بچے اور خاندان کے دیگر افراد کے کردار میں مثبت تبدیلیاں آئیں اور وہ بھی رضائے الٰہی کے حصول کو مقصد حیات بنا لیں۔ دوسرا وہ شخص معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ کے لئے ہونے والی جدوجہد میں شامل ہو کر معاشرے کے ہر فرد تک دعوت دین پہنچانے کی ذمہ داری لے۔ معاشرے کے افراد کو ان کے معاشی، سیاسی حقوق کا شعور دے اور معاشرے میں منفی رویوں کے خاتمے، انتہاء پسندی اور نفرت کو اعتدال اور محبت سے بدلنے میں معاون ہو جائے۔ عوام کے شعور کو بیدار کرے انہیں ان کے حقوق کی آگاہی دینے اور مقتدر طبقات کی طرف سے معاشرے کو دی جانے والی اذیت، نا انصافی اور ظلم کے خلاف اٹھنے کی ترغیب دے۔ عوام کو احساس دلائے کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں سحری و افطاری کے اوقات میں بھی بجلی سے محروم کرنے والے طبقات ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام کو سہولت و آسودگی دینا نہیں بلکہ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پیس کر انہیں جانوروں سے بدتر زندگی دینا ہے۔
رمضان المبارک اور ہماری محرومیاں
یہ عام مشاہدہ ہے کہ رمضان المبارک میں مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ جمعہ کے اجتماعات میں ہر بستی کی مسجد زبانِ حال سے یہ دہائی دے رہی ہوتی ہے کہ اہل ایمان بہت زیادہ ہیں اور ان کے مقابلے میں اس کا دامن بہت تنگ۔ غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے ٹریفک کے بے پناہ رش،کھانے پینے کی دکانوں میں گاہکوں کا ہجوم اور عین افطاری کے وقت کاروبارِ زندگی کا کم و بیش رک جانا بظاہراس با ت کی علامت ہے کہ روزہ داروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس سے محروم رہنے والے بد نصیب بہت کم۔ بیسویں رمضان کے بعد ہر مسجد میں نوجوان،بوڑھے،اور ادھیڑ عمر، غرض ہر عمر کے لوگوں کی خاصی تعداد معتکف نظر آئے گی۔ رمضان المبارک میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی چونکا دینے والی ہے۔ یہ حقائق ایک طرف تو اطمینان کا باعث ہیں لیکن دوسری طرف یہ بہت ہی خوفناک سوالات اور انتہائی تلخ حقائق کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرے کے ہر طبقے میں نمازیوں،روزہ داروں،معتکفین،سخاوت اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے تو اس کا اثر اجتماعی رویوں میں کیوں نظر نہیں آتا؟ اگر نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی،روزہ خدا خوفی پیدا کرتا، محروموں اور غریبوں کے لیے دل میں جگہ بناتا، اعتکاف و عمرہ اللہ سے محبت،دین سے لگاؤ اور مذہب سے متعلق حمیت و حمایت پیدا کرتے ہیں تو،کم از کم رمضان المبارک ہی میں سہی، جرائم میں کمی کیوں نہیں ہوتی؟ حکمرانوں میں عوام کے لیے ’’حقیقی ‘‘دوستی اور معاشرے میں استحکام کے جذبات کو مہمیز کیوں نہیں ملتی؟ نا جائز منافع خوری کے نتیجے میں مہنگائی کا عفریت جگہ جگہ ڈیرے ڈالے کیوں نظر آتا ہے ؟سرکاری دفاتر میں احساس ذمہ داری،ایمانداری اور تن دہی کے بجائے وہی روایتی انداز کی غیر ذمہ داری،رشوت ستانی،کاہلی اور غفلت کی بیماریوں میں کوئی افاقہ کیوں نظر نہیں آتا؟
کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ وہ مہینہ جس میں انسان اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگتا،اپنا محاسبہ کرتا، خدا خوفی کا مزاج پیدا کرتا ہے، اس میں ہمارا رویہ، عوام ہوں یا خواص، مجموعی لحاظ سے بالکل الٹ ہو جاتا ہے۔ حکمرانوں ہی کو لے لیجیے۔ وہ عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور اپنے حلف سے کی گئی غداریوں پر نادم ہونے کے بجائے اس پر پوری منافقت اور ڈھٹائی سے پردے ڈالتے نظر آتے ہیں۔ بڑی بڑی اشتہاری مہموں کے ذریعے سے عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم تمھاری خوشحالی کی خاطر اپنا دن رات ایک کیے ہوئے،ہر وقت ایسی سکیموں اور منصوبوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے غریب عوام کے مسائل میں کمی اور اس کے وسائل میں اضافہ ہو۔
اب ذرا تصور کیجیے کہ ہمارے حکمران جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوں گے تو کیا کہتے ہوں گے ؟اگر تو اشتہاری مہموں،اخباری بیانات،ٹی وی مذاکرے ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ کر رہے ہیں تو وہ پروردگار کائنات کو یہ کہہ رہے ہوں گے کہ جس طرح عوام ہمارے دعووں پر ایمان لے آتے ہیں اسی طرح اے اللہ تو بھی مان لے کہ ہم نے مہنگائی کم کر دی ہے، اپنی جیب سے روپیہ ڈال کر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اعتدال پیدا کر دیا ہے،اپنے آرام و سکون کو تج کر کے امن و امان کو برقرار رکھا ہوا ہے، نا جائز منافع خوروں کو لگام دے کر اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہ احساس کیا ہے، جن سیاستدانوں کے کرتوتوں پر پردہ ڈال کر ان کو اپنے ساتھ ملایا تھا، انھیں ان کے کیے کی سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم نے ذاتی دشمنی اور مخالفت سے بالاتر ہو کر سیاست میں غیر جانب داری اور اصول پسندی کو بنیاد بنا کر جمہوریت کی گاڑی کو دوبارہ سے پٹری پر لانے کا اہم ترین فیصلہ کر لیا ہے۔ اس لیے اے اللہ! ہماری حکومت کو استحکام بخش ! ہم تیری خلقت کے لیے رحمت کا سایہ ہیں، اس لیے اس سایہ عاطفت کو قائم رکھ! ہم امت مسلمہ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم اور جذبہ رکھتے ہیں اس لیے زمانے میں ہماری ساکھ قائم رکھ ! وطن عزیز جس کڑے امتحان سے گزر رہا ہے،اس میں ہمیں سرخرو کر!
ذرا انصاف سے بتائیے کہ اگر پروردگارِ کائنات غافل نہیں،حی و قیوم ہے،بے خبر نہیں علیم و خبیر ہے،ظالم و سفاک نہیں عادلِ مطلق اور رحیم و رحمان ہے تو وہ یہ دعائیں کیسے قبول کرے گا ؟ حکمرانوں کو ان کی نمازوں،روزوں، افطاریوں، سخاوتوں، عمروں، اعتکافوں کے باوجود کیا ملے گا؟ ان کے لیے اس رمضان کی برکت کیا ہوئی؟
یہ تو حکمرانوں کا حال ہے،اب ذرا عوام الناس کی عبادتوں اور ریا ضتوں کا جائزہ لیجیے۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر ایک اہم پہلو ہی پر غور کر لیتے ہیں۔ ا س مہینے کروڑوں مسلمان نمازِ تراویح میں اور انفرادی طور پر قرآن مجید کی تلاوت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ اگر قرآن کا طوطے کی طرح بغیر سوچے سمجھے پڑھنا اور سنناباعث ثواب بھی مان لیں تو کتنے فیصد لوگوں کو قرآن کی حکمت، ہدایت اور تذکیر حاصل ہوتی ہے یعنی وہ نعمت جو اس کے نزول کا اصل باعث ہے۔ ایسے سلیم الفطرت اور کامن سنس رکھنے والے افراد کیا آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہیں جنھوں نے قرآن کی چاہے ایک سورہ ہی پڑھی، لیکن اس کا مطلب جانا،اس سے نصیحت حاصل کی،قرآن کی حکمت و دانش کو اپنے قلب و روح کا حصہ بنایا ! اس پہلو سے اگر مساجد میں تلاوت کرنے والوں،تراویح سننے والے نمازیوں،حسن قرات کے مقابلوں کی وجد آفرین محفلوں اور شبینوں کی پر شکوہ تقاریب کا جائزہ لیں تو قرآن زبانِ حال سے یہ دہائی دیتا نظر آتا ہے۔
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں،کس عرس میں میری دھوم نہیں
میں پھر بھی اکیلا رہتا ہوں،مجھ سا کوئی مظلوم نہیں!!
انسانی زندگی کا سب سے خطرناک مرحلہ:۔
یاد رکھئے! انسانی زندگی کا سب سے خطرناک مرحلہ اور لمحہ وہ ہوتا ہے … جب کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں بھری زندگی انسان کا معمول بن جائے، انسان نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت کا احساس و شعور کھو بیٹھے اور گناہ… کو گناہ سمجھنا چھوڑ دے۔ یہ صورتحال یقینی طور پر انسان کی تباہی و بربادی اور جہنم کی سوداگری کا باعث بنتی ہے لیکن جب انسان غلطی کو غلطی اور گناہ… کو گناہ سمجھے تو اس کو تائب ہونے اور اصلاح کی توفیق بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ روزہ صرف اس شخص کا اللہ کے ہاں قابل قبول ہے جو رمضان المبارک میں اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے بیوی بچوں، کاروبار، معاملات اور معمولات کی اصلاح کر لے۔ اصلاح کیلئے رمضان سے زیادہ اچھا اور بہتر مہینہ کوئی نہیں۔ رمضان المبارک جہاں نزول قرآن اور گناہوں کی بخشش کا مہینہ ہے وہاں یہ اسلامی تہذیب کا مظہر، اخوت و ہمدردی، ایثار و قربانی، جود و کرم، صبر و تحمل، جہاد و قتال اور افرادو معاشرہ کی اصلاح کا مہینہ بھی ہے۔ جب انسان سحری سے افطاری تک کھانے پینے اور فواحش و منکرات سے بچتا ہے تو اس میں صبر و تحمل پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں روزے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔ رمضان میں گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ معمولی نیکی کا اجر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ نیکی کرنا اور گناہ سے بچنا … یہ عمل افراد اور معاشرہ کی اصلاح کی بنیاد ہے۔ یاد رکھئے! جو بندہ اپنی، اپنے گھر اور اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو نیکی کے بڑے بڑے کام کرنے کی توفیق عطا کرتا اور اسے اپنے دین کیلئے منتخب کر لیتا ہے۔ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام رمضان میں ہر رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیلئے آتے اور قرآن کا دور کرتے تھے۔ جب قرآن کا دور مکمل ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوتے۔ خوشی و مسرت کا اظہار آپ کے چہرہ اقدس پر نمایاں ہوتا۔ تلاوت قرآن مجید کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں صدقہ بھی کثرت سے کرتے۔ یاد رکھئے! رمضان صدقے کا مہینہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جفت (دو دو چیزیں) صدقہ کرتا ہے جنت کے فرشتے اسے آٹھوں دروازوں سے آواز دیں گے کہ تو ہمارے دروازے سے داخل ہو جا۔ سبحان اللہ…! کیا فضیلت اور برکت ہے رمضان کے مہینے کی اور موسموں کی شدت کو برداشت کرنے کی۔ مشقت جتنی زیادہ ہو اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزہ رکھنا زیادہ مشقت اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ دنیا کی گرمی جہنم کی گرمی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ بھائیو یاد رکھو! اگر دنیا کی گرمی جھیل کر آخرت کی گرمی سے نجات مل جائے تو یقینا یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس مضمون میں کہیں کوئی کوتاہی، غلطی سر زد ہو گئی ہو تو مجھے معاف فرمائے۔ اور اس مہینے کی برکتوں کو حاصل کرنے کا مجھ سمیت ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، اللہ عز و جل اس ماہ کے تمام عبادات کو حاصل کرنے کا شرف بخش دے، اس ماہ کے تمام فیوض و برکات سے ہمیں بہر مند فرمائے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمارے روزے، ہمارے عبادات کو قبول و منظور فرمائے۔ (آمین ثم آمین)۔ ۔ ۔ ۔
مآخذ:
1.www.urdumajlis.net
- http://muftitaqiusmani.com/ur/
- nawaiwaqt.com.pk
- http://shiastudies.net/article/urdu/Article.php?
- http://www.zindgienau.com/Issues/2013/july2013/images/unicode_file
- http://www.mubassir.com/urdu/islam/16-06-2015/news116html#.VYZXSj_I
- http://srinagartoday.net
- http://www.pakistanipoint.com/showthread.php?
- http://siasitv.com
- http://fqdupdates.com/?p=670
- http://www.tehreekebedari.com/news.jhtml?id=148
- http://www.siasat.com/urdu/news
- minhaj.info
- http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq
- express.pk/story/
٭٭٭
تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید