فہرست مضامین
- ارمغانِ تبسم
- خانۂ خالی
- برسات سے پہلے برسات
- حکیم صاحب
- دہائی
- سفر نامۂ واش روم
- جوتا نامہ
- عظیم کرکٹر
- فیس بُکی شاعر
- رمضان روزے اور شیطان
- خدارا !دورانِ سحری و افطار لوڈ شیڈنگ کیجئے
- بڑھاپا اور جرم قبول کرنا آسان نہیں
- سنگین خان کا سفر نامۂ لاہور
- رکشہ
- کمینے کی کار
- عشق کل اور آج
- مجھے میرے شاگردوں سے بچاؤ
- عقل نیفے میں
- اختلافی موڑ
- جنریٹر
- مولویریا کے مریض
- ڈاکٹر مظہرؔعباس رضوی
- تنویر پھولؔ
- عبدالحکیم ناصفؔ
- عتیق الرّحمٰن صفیؔ
- ڈاکٹر عزیزؔ فیصل
- نویدؔ صدیقی
- امجد علی راجاؔ
- ہاشم علی خان ہمدمؔ
- عرفان قادرؔ
- مسعودؔ قاضی
- احمد علی برقی اعظمی
- روبینہ شاہین بیناؔ
- شاہین فصیح رباؔنی
- محمد قمر شہزاد آسیؔ
- احمد علویؔ
- عاجز سجادؔ
- اقبال شانہؔ
- نورؔ جمشید پوری
- خادم حسین مجاہدؔ
- سیّد فہیم الدین
- نوید ظفرؔ کیانی
- واٹر پمپ مارکیٹ
- جیون میں ایک بار
- اِس طرح تو ہوتا ہے
- تیسرا ایکٹ
- ارمغانِ ابتسام
- پیر جی
- الیکشن
- پانامہ لیکس
- ساقی
- الیکشن
- خالد عرفان کے نام
- آپریشن تھیٹر میں
- پری
- گیس
- کمربستہ
- میں
- زردہ
- پہلے اور بعد میں
- اچھا شوہر
- وہ
- دھو کے کھائیے
- ۔ ۔ ۔ تو کیا نام نہ ہو گا
- سیاست
- آزادیِ صحافت
- ضرورت
- اب
- انجم عثمانی
- سوال نامے کا کمال
- سویا ہوا محل
- چمچے اسٹیل کے
- دوسرا خط
- چھیڑ خوباں سے چلی جائے ۔۔۔
- یہ وسائلِ تبسم
- e شیطان
- کتاب میلے میں حُسن کے ٹھیلے اور گردن میں سریا
- یومِ تکبیر کا ہیرو
- عقرب ادیب شاعر اور صحافی دانشور
- سی ایل آئی
- شوہر اور جانور
- طفلِ شیر خواب کا جواب
- موٹر سائکل
- بابا لندن میں دل نہیں لگتا
- ساتویں شیروانی
- الل ٹپ
- ماڈرن دعا
- عقیقے کا گوشت
- بینگن
- بینگن
- رجعتِ قہقہری
- پلے پڑ گئی ہے
- ڈرائیورانہ انتباہ
- دانائے ڈانس
- آؤ ڈاکٹر خالد سہیل کو ڈھونڈیں
- ہمارے فقیر اللہ صاحب
- شاہ جی
- عبدالحکیم ناصفؔ۔ ایک عہد ساز مزاح نگار
- قلم آرائیاں یا قلمِ آرائیاں
- خادم حسین مجاہد کی فنی زندگی
- خادم حسین مجاہد کی مزاح نگاری
- شاعر
- قلم آرائیاں سے اقتباسات
- شکر گزاری
- سودا نقد ہے
- ایک ہی صف میں۔ ۔ ۔
- سیاست
- لوٹا ای اوئے۔ ۔ ۔
- اِس طرح تو ہوتا ہے
- پہلا ایکٹ
- دوسرا ایکٹ
- تیسرا ایکٹ
ارمغانِ تبسم
جولائی تا ستمبر ۲۰۱۶ء
حصّہ اول
مدیر: نوید ظفر کیانی
مشاورت
کے ایم خالد، روبینہ شاہین، محمد امین
اداریہ
شرگوشیاں
کوئی دور تھا جب سب کچھ ہی نیشنل تھا، ٹی وی سے لے کر سب اداروں سمیت سبھی تہوار بھی نیشنل محسوس ہوتے تھے، ایک ہی ٹی وی جو کہ عام حالات سے لے کر خاص حالات میں بھی تلاوت کلام پاک سے شروع ہو کر فرمان الٰہی پر اختتام پذیر ہوتا تھا، رمضان جیسے مقدس مہینے میں تو مزید پاکیزگی کی چادر اوڑھ لیتا تھا۔ چینل کو گھمانے والی ایک پھرکی جو گھمانے پر عجیب سی آواز دیتی ایک سوال بھی ذہنوں میں چھوڑ جاتی تھی کہ جب ایک ہی چینل کی نشریات آنی ہیں تو پھر اسے بارہ دفعہ گھمانے کا کیا فائدہ لیکن اس پھرکی میں جو شیطان قید تھے وہ سب کے سب آزاد ہو گئے۔
وہ مقدس مہینہ جب شیطان کو قید کرنے کی نوید سنائی گئی ہے اس مقدس مہینے میں کسی نہ کسی حوالے سے متنازعہ ’’شیطونگڑے ‘‘ اپنی اپنی دوکانداری مختلف چینلز پر سجا کر بیٹھ جاتے ہیں اور تو اور نیشنل ٹی وی بھی اب مقابلے کی اس ‘‘اڈاری ‘‘ میں شامل ہو گیا ہے۔ ان رمضان نشریات میں رنگین آنچلوں سے لے کر عجیب و غریب مقابلوں تک سب کچھ نظر آتا ہے اگر کچھ نظر نہیں آتا تو وہ رمضان المبارک کی پاکیزگی ہے۔
ڈاکٹر بھائی کے ’’فرمودات ‘‘ سے لے کر مایا خان کی ’’اداکاری ‘‘ جے جے کا ’’بھولپن ‘‘ جگن کی ’’ ریا کاری ‘‘ بادامی کی ’’اداکاری ‘‘ لودھی کی ’’شاہ رخی‘‘ سمیت بہت سے نئے پرانے ’’کاریگر ‘‘ اپنا اپنا ’’سودا ‘‘ ان چینلز پر سجے رمضان بازاروں میں بیچنے آ رہے ہیں۔ حتی کہ ندیم جعفری جیسے ’’پاپ ‘‘ سنگر بھی ایک اسلامی تاریخی پروگرام کی میزبانی کرتے پائے جا رہے ہیں جس میں وہ اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ اسلامی تاریخ پر عبور حاصل کرتے جا رہے ہیں جبکہ ان کے بار بار اٹکنے پر بیچارا مہمان بار بار ان کی تاریخ ٹھیک کرنے کوشش کرتا رہا۔
پیمرا کے ایک ڈرامہ ’’اڈاری ‘‘ پر نوٹس لینے کا فائدہ جب رمضان المبارک کے مقدس نام پر ’’ اڈایوں ‘‘ کا سلسلہ جاری ہے اور ایک بڑے چینل کی ’’اڈاری‘‘ پر تو تمام تر ثبوتوں کے باوجود پیمرا نوٹس لینے کے باوجود پابندی نہیں لگا سکا۔ شیطان مردود تو ہر رمضان المبارک ضرور پابند سلاسل ہوتا ہے لیکن یہ جو ہمارے دنیاوی شیطونگڑے ہیں، ان کو شاید پابند کرنا اب پیمرا کے بس کی بھی بات نہیں۔
ڈاکٹر بھائی پیمرا کی لگائی جانے والی تین روزہ پابندی کیسے برداشت کر سکتے تھے ابھی تو انہوں ستائیسویں شب کی خصوصی نشریات میں بغیر عینک کے شرکت کر کے اپنی آنکھوں سے لگی آنسووؤں کی ’’جھڑیوں ‘‘ کو کیمرے کے کلوز میں دکھانا ہے ابھی تو انہوں نے اپنے چینل پر سجائے گئے میلے کو تمام چینلز سے ریٹنگ کی دوڑ میں ایک نمبر دلوانا ہے۔
’’بابا جی‘‘ فرماتے ہیں ’’ افسوس صد افسوس، خدا اور بندے کے انتہائی راز داری کے لمحات کو بھی ہم نے روشنیوں، کیمروں اور ریٹنگ کے حوالے کر دیا ہے ‘‘۔
کے کے ایم خالد
پرانے چاول
خانۂ خالی
ڈاکٹر غلام شبیر رانا
کسی فلسفی نے کہا تھا کہ خالی گھر میں بھوتوں، چڑیلوں اور مافوق الفطرت عناصر کا بسیرا ہوتا ہے۔ اس قسم کے گھر میں آسیب اور پچھل پیری کی ریشہ دوانیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی غاصب اور مہم جو عناصر خانۂ خالی کو دیکھ کر اس پر دھاوا بول دیتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا نے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ بس ایک ہی تمنا ان کے دل میں چٹکیاں لیتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح خانۂ خالی پر اپنا تسلط قائم کر لیا جائے۔ فارسی کی ایک مثل ہے کہ ’’ خانۂ خالی را دیو می گیرد‘‘اس پر اب ہر شخص کو یقین ہو چلا ہے۔ جس کا عقل کا خانہ خالی ہو وہ بھی کسی نہ کسی خانے کو ہتھیانے، اس پر قبضہ جمانے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنی دھاک بٹھانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں دکھائی دیتا ہے۔ اپنا خالی خانہ بھرنے کے لیے مجبوروں کا خانہ خراب کرنا تو ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کا وتیرہ بن چکا ہے۔ مسلسل شکست دل سے اس قدر بے حسی بڑھ گئی ہے کہ سکوں ہی عنقا ہو گیا ہے۔ آج کا دور اپنے لیے خانہ بر انداز چمن کی تلاش میں ہے۔ اس کارخانۂ قدرت میں کار جہاں اس قدر دراز ہے کہ اس میں الجھ کر انسان اطمینان اور راحت کے حصول کی تمنا میں سر گرداں ہے مگر دہر میں اسے کہیں بھی آسودگی نہیں ملتی۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
خانۂ خالی آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ بن گیا ہے۔ یہ تمام مسائل کی جڑ ہے۔ قبضہ گروپ، انڈر ورلڈ، استحصالی مافیا اور ہوس جاہ و منصب سے مغلوب درندوں نے خانماں برباد انسانوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان کے تصور سے نہ صرف رونگٹے بلکہ کان بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ خرگوش اور خود خر بھی اپنے کان ہلا ہلا کر مگس رانی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ کئی خان جاناں آج بھی گل کی صباحت اور آرزو کی آرزو میں ہلکان ہوتے پھرتے ہیں۔ ان کو امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی امنگوں کا چمن شگفتہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کا مہمان خانہ اس قدر خالی ہو گیا ہے کہ اس کے درو دیوار سے حسرت و یاس ٹپک رہی ہے۔ ایام گزشتہ کی لٹی محفلوں کی دھول سے ان کا چہرہ دھندلا گیا ہے مگر ان کی سوچ کا خانہ اب بھی اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے میں مصروف ہے۔ کئی چربہ ساز، خفاش منش، بگلا بھگت اور جو فروش گندم نما متفنی ہر وقت کسی نہ کسی کا خانہ اپنی غاصبانہ دستبرد سے تلپٹ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس تصوف کے پیروکار ہر خانے میں توحید کے جلوے دیکھ لیتے ہیں۔ عشق حقیقی کا یہ ارفع معیار نہاں خانۂ دل کی تطہیر و تنویر کے امکاں کو یقینی بنا دیتا ہے اور زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مدرسہ یا دیر یا کعبہ یا بت خانہ تھا
ہم سبھی مہماں تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا
ہر حساس دل کے اندر بھی ایک خاص خانہ ہوتا ہے اس خانے میں کسی کی حسین یادیں رچ بس جاتی ہیں۔ محبت کرنے والے اسی خانے کی تعمیر و تزئین پر توجہ دیتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر یہ خانہ مکیں کے لیے شان شان انداز میں تیار و استوار کیا جائے تو مکینک اس میں بڑی عجلت کے ساتھ آ کر رین بسیرا کرے گا۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خانۂ دل کا مکیں اس کو خالی کر کے اجنبی منزلوں کی جانب رخت سفر باندھ لیتا ہے۔ رفتگاں کی یاد کا دکھ اس عبرت سرائے دہر میں پیمان وفا باندھنے والوں کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ ایسے حادثے کبھی پلک جھپکتے میں نہیں ہوتے بلکہ وقت سالہا سال اِن کی نمو کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ دل کی ویرانی کا اب کیا مذکور ہے۔ زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے مگر خانۂ دل کی ویرانی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیتی ہے۔ جب دکھی انسان کرچیوں میں بٹ جاتا ہے تو نالہ، فریاد، آہ اور زاری کا جو اعصاب شکن مرحلہ آتا ہے وہ حد درجہ لرزہ خیز ہوتا ہے۔ خانۂ دل میں ایک کہرام مچ جاتا ہے۔
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید ضعف پہنچا ہے۔ وقت کے ایسے حادثات سامنے آ رہے ہیں کہ انھیں کوئی نام دینا بھی ممکن نہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جامۂ ابو جہل میں ملبوس فاتر العقل، مخبوط الحواس، کندۂ نا تراش اور مشکوک نسب کا ابلہ بھی روقیت کا داعی بن کر اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایسے آستین کے سانپ بھی معاشرے میں عام ہیں جو دوستی کا سوانگ رچا کر رتیں بے ثمر، کلیاں شر ر، آہیں بے اثر اور زندگیاں پر خطر کر دیتے ہیں، وہی کردار کرتے ہیں جو برادران یوسف نے کیا تھا۔ ایسے نام نہاد رفیق کار جو مجبوروں اور سادہ لوح انسانوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو اہل کوفہ کی روایتی پیمان شکنی کی یاد دلاتا ہے۔ ایسے دوست تو دشمن سے بھی زیادہ تباہ کن اور ہولناک کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والے ایسے ننگ انسانیت بے ضمیروں کو معاشرتی زندگی کا ایک ایسا فتنہ سمجھا جاتا ہے جس نے کذب و افتر ا اور کینہ پروری کے باعث آدمیت کو گہرے چرکے لگائے ہیں۔ ان کی خباثت اور قبیح کردار کی وجہ سے امیدوں کی فصل غارت ہو جاتی ہے اور صبح و شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم تھا
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
خانہ ایک ایسا لاحقہ ہے جو آن کی آن میں لفظ کو کثیر المعنویت کی وسیع وادیوں میں پہنچا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر عقوبت خانہ، قحبہ خانہ، چنڈو خانہ، شراب خانہ، مے خانہ، صنم خانہ، نقار خانہ، بت خانہ، غریب خانہ، پاگل خانہ، دوا خانہ، خم خانہ، عزا خانہ، کتب خانہ، جیل خانہ اور مرغی خانہ وغیرہ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خانہ کو جو تکثیریت حاصل ہے وہ کسی اور لاحقے کی قسمت میں نہیں۔ گندے جوہڑ کے نواح میں رہنے والا ایک سادیت پسند فلسفہ زدہ شخص (ناصف کھبال)کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہو گیا۔ اسے کچھ عرصے کے لیے فاؤنٹین ہاؤس میں منتقل کیا گیا لیکن یار لوگوں کو تو ایک بہانہ چاہیے تھا اس کی تذلیل کا، جب وہ قدرے صحت یاب ہو کر واپس آیا تو ہر طرف سے یہ آواز آتی تھی کہ ناصف کھبال پاگل خانے کی یاترا کر کے واپس آیا ہے۔ کم سن بچے اسے دیکھتے ہی پاگل اوئے۔ ۔ ۔ پاگل ای اوئے۔ ۔ ۔ کا نعرہ مستانہ لگاتے اور بھاگ جاتے۔ ناصف کھبال اپنی فلسفیانہ مو شگافیوں کے باوجود اپنی ذہنی صحت کے بارے میں اپنے حلقۂ احباب کو قائل نہ کر سکا۔ وہ لوگوں کو کاٹنے کو دوڑتا، آخر کار اسے مستقل طور پر خانۂ زنجیر میں محبوس کر دیا گیا۔ اب تو اس کی تمام سرگرمیاں محض خانہ پری کی ایک صورت بن گئی ہیں۔ خانہ کو جو معنوی تنوع حاصل ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہر جگہ خانہ کے معانی دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں، ہر خانہ گنجینۂ معانی کا طلسم بن کر فکر و نظر کہ مہمیز کر رہا ہے۔ خانہ گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے اور اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی ایک حیران کن صورت سامنے لاتا ہے۔ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہو اکرتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو مختلف خانوں میں بانٹ کر بہت بڑی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وسائل کی بندر بانٹ نے عجب گل کھلائے ہیں۔ آج جاہ و منصب پر غاصبانہ طور پر قابض مافیا نے دستیاب وسائل کو اندھے کی ریوڑیوں کی طرح صرف اور صرف اپنوں ہی میں بانٹنے کا وتیرہ اپنا رکھا ہے۔ اغیار کے کاشانوں پر تو انعام و اکرام کی بارش ہو رہی مگر پیمان وفا باندھنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں انسان ہجومِ غم میں دل کو سنبھالنے کی سعی ٔ ناکام کے باوجود پکار اٹھتا ہے۔
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خانہ اپنے تمام کروفر اور انداز حجابانہ کے با وجود معاشرتی زندگی میں اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر سکا۔ خانہ کی رنگت در اصل خانہ ساز کی منشا اور نیت پر منحصر ہے۔ آپ جس خانے کو لے لیں وہاں طلسم ہوش ربا کی کیفیت جلوہ گر دیکھیں گے۔ ہر خانے کے اندر ایک جہان معانی آباد ہے۔ یہ دنیا ایک بت خانے کی صورت میں نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہے۔ ہمیں بتوں سے تو امیدیں ہیں مگر خدا سے نومیدی ہے اسی کا نام توبے یقینی اور تشکیک ہے جو کہ غلامی سے بھی بد تر ہے۔ بت خانے میں بتوں کے ناز و انداز دیکھ کر کئی جذباتی لوگ ہوش و خرد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جب بت خانے کے جامد و ساکت بتوں کے ناز برداشت سے باہر ہو جائیں تو سینہ و دل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور ہجوم یاس میں دل گھبرا جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آج کے بے حس معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حساس تخلیق کار کو جانداروں کے لرزہ خیز مسائل کا احوال سنگلاخ چٹانوں اور جامد بتوں کے سامنے بیان کرنا پڑتے ہیں۔ آج تو ریت کے گھروندے بنانے والوں نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ صدیوں کے تحیر سے نڈھال فکر انسانی اس سے تڑپ اٹھتی ہے جب اس کے سامنے سد سکندری حائل ہو اور اس کو کاٹنے کے لیے تیشۂ زر کی احتیاج ہو۔ اس تمام صورت حال سے انتہائی ملول اور دل برداشتہ ہو کر وہ پکار اٹھتا ہے کہ وہ تو شیشے کے گھر میں براجمان ہے اس کا بسیرا ایک ایسے گلشن میں ہے جس میں زاغ و زغن اور بوم و شپر نے ہر شاخ کو دبوچ رکھا ہے۔ بقول سید جعفر طاہر
میں نے جو تیرے تصور میں تراشے تھے کبھی
لے گئے وہ بھی میرے گھر سے پجاری پتھر
ناز ہر بت کے اٹھا پائے نہ جعفر طاہر
چوم کر رکھ دیئے ہم نے یہ بھاری پتھر
اس وسیع و عریض عالم آب و گل کے تمام مظاہر دیکھ کر یہ گماں گزرتا ہے کہ یہ کائنات ابھی شاید نا تمام ہے۔ اس کے کئی خانے تو ابھی خالی ہیں۔ اس دنیا میں پائے جانے والے تضادات بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے خانوں میں بٹے ہوئے معاشرے کی وہ کیفیت ہے جو ہر لمحہ اور ہر آن ہمارے سرمتضاد خانوں میں بٹ چکا ہے کہیں امیری ہے تو کہیں فقیری ہے۔ کہیں آمریت ہے تو کہیں جمہوریت کی داغ بیل دکھائی دیتی ہے۔ اپنے تمام تر تضادات، ارتعاشات، بے رنگینیوں، بے ہنگم کیفیات اور کجیوں کے باوجود زندگی کا یہ ساز بھی عجب ساز ہے جو مسلسل بج رہا ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ خالی خانے پر قبضہ ہو جانے کے بعد اسے واگزار کرانا تو اب دیوانے کا خواب بن گیا ہے۔ پولیس کے پاس خانہ تلاشی کے جو اختیارات ہیں، ان سے بعض اوقات ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے متعلقہ اہل کار اہل خانہ کو قیمتی سامان سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ یہاں عجیب افراط و تفریط کا عالم ہے۔ بے شمار خانے ہیں جن میں انسانیت کو بانٹ دیا گیا ہے۔ غریبی میں نام پیدا کرنے کی تمنا رکھنے والے اپنے اپنے جداگانہ خانوں میں رہتے ہوئے بھی ایک انداز دلبرانہ اور شان استغنا سے کام لیتے ہوئے پکار اٹھتے ہیں۔ بقول مجید امجد
تیرے فرق ناز پہ تاج ہے، میرے دوش غم پہ گلیم ہے
تیری داستاں بھی عظیم ہے میری داستاں بھی عظیم ہے
متعدد خانے ایسے بھی ہیں جو اپنی متنوع کیفیات کے باعث اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ یتیم خانوں ہی کو لے لیں جہاں ایک زمانے میں محض فاقہ کش کم سن بچوں کی اکثریت رہتی تھی اور ان کی کفالت مخیر افراد کیا کرتے تھے۔ آج کے دور میں سیاسی یتیموں کی فوج ظفر موج ہر طرف دندناتی پھرتی ہے اور ان کی نمو اور نشو ارتقا کی تمام ذمہ داری ووٹروں نے سنبھال رکھی ہے۔ تیسری دنیا کے ناخواندہ ووٹر سیاسی یتیموں کی رسد کو یقینی بنانے میں بڑے انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ جب جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہیں تو ہنستے بستے چمن کو کباڑ خانہ میں بدل دیتے ہیں، روم جل رہا ہوتا ہے اور وقت کے یہ نیرو دیپک راگ الاپ کر اپنے ذہنی افلاس کا ثبوت دیتے ہیں۔ تیسری دنیا کے غریب عوام جو غربت کی انتہائی سطح سے بھی نیچے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے سلسلے میں ایسے لگتا ہے کہ وہ پتھر کے زمانے کے ماحول کے اسیر ہیں۔ ان کے شفا خانوں میں دوا، علاج اور شفا عنقا ہے۔ ان شفا خانوں کے صدر دروازوں پر کتبہ سازوں کی دکانیں قائم ہیں۔ یہ کتبہ سازان عطائیوں کے پاس علاج کی غرض سے جانے والے مریضوں کی قبروں کے لیے کتبے تیار کرتے ہیں۔ ان عطائیوں کی وجہ سے موت کے سائے آبادیوں پر منڈلا رہے ہیں۔ اہلِ ہوس نے ہر سو دام بکھیرے ہیں۔ اِن عطائیوں کی وجہ سے یہ بے بس افراد زندگی کے خانے سے نکل کر قبر کے خانے میں تہہ ظلمات چلے جاتے ہیں۔
نہ مدعی نہ شکایت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
تیسری دنیا کے ممالک کے عوام کو سپر پاورز نے اپنی آہنی گرفت میں لینے کے لیے اُنہیں صبح و مسا قرض در قرض کی فکر میں الجھا رکھا ہے۔ ان کے گھروں کی دیواروں پر اداسی، مایوسی، محرومی، بے بسی، بے چارگی اور غربت و افلاس بال کھولے گریہ و زاری میں مصروف رہتی ہے۔ ان غریب ممالک کے نام نہاد حکمرانوں کو سپر طاقتیں اپنا خانہ زاد غلام تصور کرتی ہیں اور وہ ان بادشاہ گروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ قرض کی دلدل میں دھنسے تیسری دنیا کے غریب ممالک کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی کور مغزی، بے بصری اور عاقبت نا اندیشی نے ان ممالک کے بد قسمت اقوام کو اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا ہے۔ ان کی آزادی کی بے توقیری کا یہ عالم ہے کہ ان کے سر پر تو تاج ہے مگر ان کے پاؤں بیڑیوں سے فگار ہیں۔ واحسرتا کہ تیسری دنیا کے غریب ممالک کے بے بس و لاچار عوام تو ڈربہ نما جھونپڑوں پر مشتمل عقوبت خانوں میں زندہ درگور ہو گئے ہیں مگر ان ممالک کے مطلق العنان حکمران قیصر و کسریٰ جیسے ٹھاٹھ باٹھ سے اپنی عیاشیوں اور اللوں تللوں میں مصروف ہیں۔
گھریلو خواتین کی زندگی کا کوئی خانہ ایسا نہیں جو کہ خالی رہ جائے۔ خانہ داری کے جھنجھٹ ان کو ہمہ وقت الجھائے رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر کسی کو آٹے دال کا حقیقی بھاؤ معلوم ہے تو وہ خانہ دار خواتین ہیں۔ کمانے والے مرد اپنا پیٹ کاٹ کر ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں جب کہ خاتون خانہ تمام کھانے والوں کے لیے مزے مزے کے کھانے تیار کر کے لذت کام و دہن کا بھرپور اہتمام کرتی ہے۔ در اصل پیٹ بھی ایک خانہ ہی تو ہے جس کا خالی رہنا کسی کو گوارا ہے۔ اس دنیا کے تمام گورکھ دھندے اسی پیٹ کے خانے کی خالی جگہ پر کرنے کے لیے جاری و ساری ہیں۔ مطبخ یا باورچی خانہ اس کام کے لیے بہت مفید ہے، جہاں ہمہ وقت انواع و اقسام کے کھانے تیار ہوتے ہیں جن کی مہک سے منہ میں پانی بھر آتا ہے اور وہ آنتیں جو کہ قل ہو اللہ پڑھ رہی ہوتی ہیں وہ مطبخ سے من و سلویٰ کھا کر الحمد للہ کا ورد شروع کر دیتی ہیں۔ ایسے معجز نما کرشمے دیکھ کر قوت نامیہ کی افادیت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
ہمارے محلے میں پچھلے چند روز سے ایک بد خط شخص بڑے بھونڈے انداز میں ہر گھر کے دروازے پر ایک الٹا سیدھا نمبر درج کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ لکھے مو سا پڑھے خود آ۔ اس شخص سے جب نمبروں کے اندراج کے اجمال کی تفصیل دریافت کی تو وہ یوں گویا ہوا:
’’اب ملک بھر میں خانہ شماری کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس کے بعد مردم شماری کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ جب مردم شماری کا تمام کام پایۂ تکمیل کو پہنچے گا تو ووٹوں کے اندراج کا کام شروع ہو گا۔ جب ووٹر لسٹیں مکمل ہو جائیں گی تو ان پر اعتراضات طلب کیے جائیں گے۔ تمام اعتراضات دور کرنے کے بعد یہ ووٹر لسٹیں الیکشن کمیشن کے سپرد کر دی جائیں گی۔ اس کے بعد عام انتخاب ہوں گے اور پھر سلطانیِ جمہور کا زمانہ آ جائے گا۔ ‘‘
پاس ہی بیٹھے ہوئے نتھو خان نے ٹوکتے ہوئے کہا ’’جب جمہوری حکومت آئے گی تو اس کے ساتھ ہی اپنی ناکامی اور نا مرادی کے واقعات بھی دہرائے گی۔ اس کے بعد فوری طور پر جمہوریت کی بساط ہی لہیٹ دی جائے گی اور آمریت کے طویل اور صبر آزما دور کا آغاز ہو جائے گا۔ یہی تیسری دنیا کے ممالک کا دستور ہے۔ ‘‘
میں تو نتھو خان کو ایک جید جاہل سمجھتا تھا لیکن وہ تو رواقیت کے داعی بڑے بڑے نام نہاد دانش وروں سے بھی زیادہ ذکی الحس نکلا ایسے لوگ تو حالات کے نباض ہوتے ہیں۔ ان کی حسّاسیت کا خانہ تو اس قدر صداقت سے معمور ہے کہ ان کی فکری تونگری پر رشک آتا ہے۔ حبیب جالب نے کہا تھا :
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
میں دیر تک سو چتا رہا کہ ان چھوٹے لوگوں کا دل کتنا بڑا اور سوچ کتنی گہری ہوتی ہے۔ یہی طبقہ اپنے خانۂ دل میں وطن اور اہل وطن کے لیے سچی محبت، خلوص اور دردمندی کے جذبات کی دولت فراواں لیے ہوتا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ وطن محض چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں یہ تو محب وطن لوگوں کے جسم اور روح سے عبارت ہے۔ کاش ہم میں نام نہاد خود ساختہ مدبرون کے بجائے اس قسم کے نتھو خان کثرت سے پیدا ہوں جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے سب کی آنکھیں کھول دیں۔ مجھے سید ضمیر جعفری بے حساب یاد آئے انھوں نے کہا تھا :
بڑی مدت سے کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا
خواتین کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ فیشن اور مغربی تہذیب کی نقالی میں وہ حدِ اعتدال سے تجاوز کر جاتی ہیں۔ وہ خاتون جو پہلے چراغ خانہ ہوا کرتی تھی اب اسے شمع محفل بننے کا خبط ہو گیا ہے۔ اس رجحان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہمیں اپنی مٹی پر کچلنے کا قرینہ بہ ہر حال سیکھنا ہو گا اگر ہم درآمد شدہ سنگ مرمر پر چلنے پر بہ ضد رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہم پھسل کر منہ کے بل گریں گے اور ہماری ہڈی پسلی ایک ہو جائے گی۔ اس کے بعد ان بھونڈی نقالی کرنے والوں کو خانہ بدوشوں کی طرح در بہ در اور خاک بہ سر جوتیاں چٹخانے کے علاوہ کچھ نہ سوجھے گا۔
جدید دور نے نگار خانے، قمار خانے، نقار خانے اور پتا نہیں کتنی تعداد میں اور خانے اختراع کر لیے ہیں۔ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے نگار خانے بہت مرغوب ہیں۔ حسن پرست بھی جوق در جوق نگار خانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رنگ خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے مہ جبینوں کے خورشید جمال کے مرہون منت ہیں۔ ہر لو دینے والی شمع پر جل مرنے والے یہ پروانے اپنا سب کچھ حسن کے جلوؤں کی خاطر داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اور اس طرح ان کے خانماں برباد رہنے کی داستان اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ غربت، افلاس اور بے روزگاری نے قمار خانوں کی چکا چوند کو ماند کر دیا ہے۔ میں نے بارہا کوشش کی ہے کہ اہل درد کو تمام واقعات کے بارے میں کھل کر بتاؤں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
قندِ شیرین
برسات سے پہلے برسات
سید عارف مصطفیٰ
ہم عرصے سے تقویٰ اختیار کرنے کے چکر میں ہیں لیکن وہ ہمیں نجانے کیوں اختیار نہیں کرتا، حالانکہ ہم ایسا کوئی موقع یوں آسانی سے نہیں جانے دیتے کہ ہمارے زہد و اتقاء کے درجات کے بلند ہونے کا ذرا بھی امکان پیدا ہو اور یہ پاپی دنیا اس کے نظارے سے محروم رہ جائے۔
جب ہمیں کل اطلاع ملی کہ ناظم آباد عید گاہ میں اتوار کودس بجے خشک و گرم موسم سے پیدا ہونے ولی قلتِ آب کے خاتمے اور بارانِ رحمت کی التجاء کے لئے نماز استسقیٰ ادا کی جائے گی تو بھلا کون ایسا تھا ہمارے ملنے والوں میں کہ جسے ہم نے یہ نہ بتایا ہو کہ کل دس بجے ہم سے رابطہ نہ کرنا کیونکہ ہم اس وقت عیدگاہ میں اہلِ ایمان کی معیت میں نماز استسقیٰ کی ادائیگی میں مصروف ہوں گے اور ساتھ یہ بھی کہنا ضروری سمجھا کہ ’’میاں ذرا دیر ہی کے لئے سہی لیکن ان آلائشِ دنیاوی سے جان چھڑانے کی ہمت کر سکو تو تم بھی وہاں پہنچ جانا۔
اس موقع پہ ہم نے اکثر مخاطبین کے چہرے پہ رشک، حسد اور بیچارگی و ناز وغیرہ وغیرہ پہ مبنی کتنے ہی رنگ آتے جاتے دیکھے تاہم کئیوں سے یہ سننے کو بھی ملا کہ یار کتنی ہی بار بتا چکے ہو اب تو یہ سبق پکا یاد ہو چکا ہے لیکن ہم جلنے والوں کی بات کوئی دل پہ تھوڑا ہی لیتے ہیں۔
ایک جذبہ مگر ایک اور بھی تھا جو اس وارفتگی کے پیچھے موجزن تھا جسے میں اپنے ایک دوست کے نام کی نسبت سے یاد کرپاتا ہوں اور وہ ہے سید اشتیاق علی۔ ۔ ۔ اوہ، میں پورا نام لے بیٹھا جبکہ یہاں مراد صرف ’’اشتیاق‘‘ تک محدود ہے تو معاملہ یہ بھی تھا کہ ہمیں بہت اشتیاق تھا کہ آخر یہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے کیونکہ باقی اور طرح کی نمازیں تو پڑھتے ہی رہتے ہیں لیکن صلواۃ الخوف، کسوف، خسوف اور نمازاستسقاء پڑھنے کا موقع کبھی نہیں ملا، تاہم یہ بدگمانی ضرور ہے کہ کندھوں پہ سوار کراماً کاتبین نے امتحانات کے زمانے میں ’’خشوع و خضوع‘‘ سے پڑھی جانے والی نمازوں کو ’’صلواۃ الخوف‘‘ کے کھاتے میں ہی شمار کیا ہو گا۔
ہفتے کی شب بیگم کو بار بار پر زور تاکید کر کے سوئے کہ دیکھو صبح دس بجے ہمیں نماز استسقیٰ پڑھنی ہے اس لئے ہمیں وقت پر اٹھا دینا۔ اُن کے چہرے پہ حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھے تو الٹی چڑھائی کر دی ’’کیا تم نہیں چاہتیں کہ قلتِ آب کا یہ مسئلہ حل ہو، کیا تم کو ابرِ رحمت کے برسنے سے کوئی غرض نہیں ؟‘‘
ہمارا یہ بیان دو گھنٹے مزید چل سکتا تھا لیکن ہم کیا کریں، بیگم نے اقراریہ گردن ہلا نے ہی میں عافیت جانی اور ہمارے اندر کے مقر ر کو تسکین مزید کا موقع نہ دیا۔
صبح کس ڈھنگ سے اٹھے اور کس دھج سے گئے یہ پوچھنے نہیں اندازہ کرنے کی بات ہے۔ ہم سے زیادہ بیگم میں جذبۂ ایمانی بھڑکا ہوا تھا، یوں بھیجا گویا گھر سے دھکیلا ہو لیکن اِس سے قبل ہم نے جلدی جلدی ناشتہ کرنا ہرگز نہیں بھلایا اور اس سے قبل یہ طعنے مارنا بھی یاد رکھا۔ ۔ ۔ ’’ واہ!یونہی بھوکا بھیجنے پہ تلی ہو، خالی پیٹ نماز میں خشوع و خضوع کیسے آ سکتا ہے بھلا اور خشوع و خضوع نہ ہو تو کیسی نماز؟‘‘
بیگم نے جلدی جلدی میں نجانے کیا بنا کر دے دیا کہ بہت لذیذ لگا اور سمجھ نہیں آیا کہ ایمرجینسی میں چیزوں کے ذائقے بڑھ کیوں جاتے ہیں شاید اس لئے کہ خلش پیدا ہو اور آئندہ از خود کسی ایمرجینسی کو ’’دریافت‘‘ کریں۔ بڑے تام جھام سے باہر نکلے۔ اتوار کا دن تھا اور ہر طرف سناٹے کا عالم تھا۔ دنیا داروں کی کی غفلت پہ بہت رنج ہوا کہ پڑے گھروں میں سوتے تھے۔ ۔ یہ رنج اس لئے اور بھی بڑھا ہوا محسوس ہوا کہ کوئی ہمیں دیکھنے والا ہی موجود نہ تھا کہ دیکھ پائیں کہ ایک ہم ہیں کہ ’’صبح صبح‘‘ اُن غافلوں کی آبیاری و راحت کا سامان کرنے کا کشٹ اٹھا رہے ہیں تاہم آگے تین چار جو ملے تو ہم نے بہت زور لگا کر سلام کیا اور اُن کو یہ پوچھنے کی زحمت سے بھی بچا لیا کہ ہم اس وقت کہاں جا رہے ہیں اور خود ہی راہ تقویٰ کی اس مسافت کو کھول کر بیان کر دیا۔ اُن میں سے ایک نے تو وفور جذبات سے ہمارے کندھے پہ تھپکی بھی دی لیکن نجانے کیوں ہمیں یہ تھپکی ہمیں اس سے مشابہ معلوم ہوئی کہ جو دیر سے رکی کسی پبلک بس کا کوئی بیتاب مسافر اپنی بس کو دیتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے ’’جانے دو!‘‘
عیدگاہ ہمارے گھر سے بہت دور ہے اور وہاں پہنچتے پہنچتے ہماری چال میں تمکنت اس درجہ بڑھ گئی تھی کہ انجان دیکھتا تو سمجھتا کہ گویا عیدگاہ اپنے نام الاٹ کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور قبضہ لینے کو آئے ہیں۔ وہاں بہت سے اہل ایمان حاضر تھے، جلدی میں جائے نماز ساتھ لانا بھول گئے تھے لیکن وہاں جس طرح اکثر لوگ دوسرے کی جائے نماز پہ براجمان تھے اور مالکان مہمان معلوم تھے، ہم نے بھی ایسی ہی خوداعتمادی سے کام لیا اور پیر پسارلئے۔
کھلی جگہ، گرمی کا موسم اور کسی شامیانے یا سائبان کے نہ ہونے کی بے امانی، پھر مولوی صاحب کی طویل تقریر۔ ۔ ۔ مت پوچھیئے کہ چند ہی منٹوں میں ہمارے تقویٰ کو کیا کیا خطرات لاحق نہ ہوئے۔ دل کہتا تھا کہ بس مولوی صاحب تقریر موقوف کر کے جلدی سے نماز پڑھا دیں اور پھر جی بھرکے لمبی تقریر کریں، پھر ہم نے کون سا وہاں رکنا ہے لیکن میں نے مولوی صاحبان کو ہمیشہ ہی سامعین سے زیادہ سیانا پایا ہے، شیر اور مولوی کسی کے سامنے آ جائیں تو پھر جو کرتے ہیں، و ہی کرتے ہیں، سامنے والا تو صرف صبر ہی کرتا ہے، سو ہم نے بھی کیا اور پھر نماز شروع ہوئی جو دو رکعات کی تھی۔ بلاشبہ ایک ایسا جذبۂ ایمانی وہاں پایا کہ نماز بہت لطف دے گئی اور اس سے زیادہ دعا کہ نماز استسقاء کی دعا کے لئے ہاتھوں کی ہتھیلیاں نیچے کی جانب رکھی جاتی ہیں جو ایک بہت منفرد تجربہ بھی تھا اور تقدیر بنانے والے سے التجاء کر کے خشک موسم کی حالت پلٹ دینے کا استعارہ بھی۔ چھوٹے، بڑے، بوڑھے اور جوان سبھی نہایت عاجزی سے دست بدعا تھے۔ دعا کیا تھی گویا مخلوق اپنے خالق سے کلام کر رہی تھی، فریاد کناں تھی۔
عیدگاہ سے بہت دیر میں نکل سکے محض ایک چھوٹے سے گیٹ کو بس اتنا کھلا رکھا گیا تھا کہ گویا باہر پھرتی کسی گائے بھینس کو اندر آنے سے روکنا مقصود ہے۔ مقام تقویٰ پہ ان کا کیا کام لیکن یہ صاحبان توند کے لئے بہت بڑے امتحان کا وقت تھا جو اُنہوں نے سانس بھینچ کر , ترچھے ہو ہو کر پاس کیا تاہم باہر آنے کے بعد اُن کے چہروں سے جو سکون ہویدا تھا وہ بتاتا تھا کہ وہ اس مشقت کو پل صراط کے ٹریننگ پروگرام کے طور پہ لے چکے ہیں۔
ہم فاتحانہ طور پہ دائیں بائیں دیکھتے اور اہل دنیا کے ابھی تک خواب غفلت میں مبتلاء رہنے پہ کڑھتے ہوئے گھر پہنچے۔ صاف لگتا تھا کہ اہل محلہ نے تقویٰ کے معاملے میں سارا انحصار ہم ہی پہ کر رکھا ہے اور یہ شرف ایک ہمارے ہی نصیب میں آیا ہے لیکن ہم نے بھی اُنہیں مایوس قطعاً نہیں کیا۔ خیال یہ تھا گھر میں گھستے ہی بیگم کو اپنے تقویٰ کی حکایات کی باڑھ پہ رکھ لیں گے اور انہیں ب اور کرا چھوڑیں گے کہ ہماری بابت اُن کی بدگمانیاں کس قدر بے بنیاد ہیں لیکن اس کی نوبت ہی نہ آ سکی۔ بیگم کے چہرے ڈھیروں تشویش عیاں پائی اور انہوں نے برسات سے پہلے ہی برسنے کی باری لگا لی تھی ’’تو آپ پڑھ آئے نماز ؟‘‘
’’کیوں کیا یہ اجلی سی ٹوپی اور ہمارے چہرے پہ دمکتا ہوا یہ نور تمہیں ب اور نہیں کراتا کہ ہم کس مقدس مشن سے آ رہے ہیں ؟‘‘
’’نہیں ! یہ بات نہیں۔ ۔ ۔ میں تو یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ جب آپ جلدی جلدی میں گھر سے وضو کئے بغیر ہی بھاگ نکلے تھے اور عیدگاہ میدان میں وضو کا کوئی تو سلسلہ ہی نہیں ہے تو پھر آپ کیا کر کے آ رہے ہیں ؟‘‘
حکیم صاحب
کائنات بشیر، جرمنی
جناب عزت مآب قبلہ حکیم صاحب!
سوال
میرے بال گھنے اور سیاہ تھے، مگر اس شوق میں کہ بال خوبصورت ہو جائیں بھورے کرنے کے لیے ہائیڈروجن ا?کسائیڈ کا استعمال کر لیا۔ جس سے بال تو بھورے ہو گئے مگر اب بال گرنے لگے ہیں۔ کوئی مشورہ دیں کہ بال گرنے رک جائیں اور دوبارہ سیاہ ہو جائیں ؟
جواب
خیر سے بدھو گھر کو آئے، آپ کی مت ماری گئی تھی۔ بھلا آپ کو خوبصورت سیاہ اور گھنے بالوں کو بھورا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ فطرت سے جنگ انسان کے لیے سراسر خسارا ہے۔ نہ کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا کہ انسان فطرت سے جنگ جیت سکے۔ کالے سیاہ بال تو خوبصورتی کی علامت ہیں۔ شاعر کالی گھٹاؤں جیسے بالوں پر با جماعت مرتے ہیں۔ کبھی آپ نے بھوری گھٹائیں دیکھی سنی ہیں۔ خیر اب آپ کو صبر کا لمبا پارٹ پڑھنا پڑے گا۔ سو جب تک بال خود بخود دوبارہ کالے نہیں ہو جاتے، تب تک انتظار کریں، روز آئینہ دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھریں یا اتنا عرصہ سر پر کالی وگ استعمال کریں۔
سوال
مجھے بھوک بہت لگتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد بھی احساس ہوتا ہے کہ ابھی کچھ کھایا ہی نہیں۔ سوتھوڑی تھوڑی دیر بعد کھاتا رہتا ہوں۔ سمجھ لیں کہ ہر گھنٹے بعد کچھ نہ کچھ ضرور کھاتا ہوں۔ کوئی نسخہ مشورہ درکار ہے۔ ؟
جواب
ندیدے کہیں کے، آپ کو جو بھی تکلیف ہے اسے طبی زبان میں جوع البقر کہتے ہیں یعنی بکری کی طرح ہر وقت منہ مارتے رہنا۔ اور یہ اب آپ کی عادت بن چکا ہے جسے آپ روک نہیں سکتے۔ صرف کھانے کے وقت کھانا کھائیے۔ باقی ہر گھنٹے کے بعد چیونگم چبایا کریں۔ اور کھانے کے اوقات میں دوسروں کے ہاں جانے سے گریز کیجئے۔
سوال
جناب میری عمر بائیس سال ہے۔ ایم اے کر لیا ہے مگر ابھی تک داڑھی، مونچھوں کے بال نہیں آئے۔ جس کی وجہ سے دوست یار مذاق کرتے ہیں، اس لیئے دوستوں کی محفل میں جانے سے گریز کرتا ہوں۔ مہربانی فرمائیے ؟
جواب
احسان میرے دل پہ تمھارا ہے دوستو
یہ دل تمھارے پیار کا مارا ہے دوستو
آپ دوستوں کو یارِ غار سمجھ کر معاف کر دیں۔ وہ اپنی ٹانگ کھنچنے کی عادت سے مجبور ہیں۔ آپ تو بار بار شکر ادا کریں کہ آپ اس وقت یعنی فلموں کے کلاسک دور میں پیدا نہیں ہوئے۔ ورنہ کندن لال سہگل کی مونچھیں آپ کو چیلنج دیتیں۔ مغل اعظم میں دلیپ کمار کی مونچھیں اپنی جانب متوجہ کرتیں۔ مونچھوں کو تاؤ دینے کے زمانے سے بھی آپ کی بچت ہو گئی۔ امتابھ بچن، جانی واکر، کشور کمار، انیل کپور کی مونچھوں کو نظر انداز کر دیں۔ رتیک روشن اور فردین خان کی مونچھوں سے خائف ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ اگر پھر بھی یہ کمی محسوس کرتے ہیں تو کبھی کبھی نقلی مونچھ لگا کر شوق پورا کر سکتے ہیں۔ آخر عورتیں بھی تو نقلی بال لگا کر اپنا شوق پورا کر لیتی ہیں ناں۔ اور داڑھی کو تو بھول جائیں وہ کبھی فیشن میں ہوتی ہے کبھی نہیں۔ ویسے سر کے بالوں کی فکر رکھیے گا۔
سوال
مجھے دور کی اشیاء صاف نظر نہیں آتیں۔ حالانکہ صحت بہت اچھی ہے۔ کوئی علاج مشورہ دیجئے ؟
جواب
شکر کریں، کم از کم آپ کو قریب کی اشیاء تو ٹھیک نظر آتی ہیں نا، ناشکرے کہیں کے۔ ۔ !
سوال
جنابِ والا، میں غیر شادی شدہ ہوں۔ سال بھر سے سر میں سفید بال نظر آنے لگے ہیں۔ کئی نسخے آزمائے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، پلیز رہنمائی کریں ؟
جواب
مکھڑے پہ سہرا ڈالے آ جا اونے والے
آپ بالکل بھی فکر مت کریں۔ کیونکہ فکر کرنا آپ کے لیے تریاق کے برابر ہے۔ اس سے بال دن بدن نہیں، سیکنڈ بہ سکینڈ سفید ہوتے چلے جائیں گے۔ ویسے بھی آپ کو فکر، علاج معالجے کی کیا ضرورت؟ یقیناً آپ کو کوئی نہ کوئی سفید بالوں والی حسینہ مل ہی جائے گی۔
سوال
عزت مآب حکیم صاحب، سبزیاں کچی کھانی چائیں یا انھیں پکا کر کھانا چاہیئے ؟
جواب
او میرے اَرائیں بھرا! جب پیاز کو روٹی پہ رکھ کر مکی مار کر کھا لیتے ہو تو اس وقت تو یہ خیال نہیں آتا کہ اسے پکا کر کھانا چاہیئے یا کچی حالت میں۔ ۔ ! ناک کو چاہے سامنے سے پکڑو یا سر کے پیچھے سے ہاتھ گھما کر، تو اسی طرح سبزی، سبزی ہی رہے گی۔ اگر آج من و سلویٰ بھی اترتا رہتا تو لوگ یہی پوچھتے کہ حکیم صاحب، سیدھا پتے سے چاٹ لینے سے زیادہ فائدہ ہو گا یا پکا کر کھانے سے۔ ۔ !
سوال
میں ایک بنک میں کیشیئر ہوں۔ جب ڈیوٹی ختم کر کے اٹھتا ہوں تو سر چکراتا ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور اردگرد کی شے گھومتی محسوس ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو کھڑا رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کوئی مشورہ، نسخہ عنایت کیجیے ؟
جواب
ہوں، پکڑے گئے نا، جناب سارا دن تو بنک میں آپ کی طبیعت ٹھیک رہتی ہے۔ مگر چھٹی کے وقت ایسا ہونا۔ ۔ در اصل سارا دن آپ کے ہاتھ کڑکڑاتے کھڑکتے نوٹوں کی گنتی کرتے رہتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو ایک دولتمند انسان سمجھنے لگتے ہیں۔ گھر جاتے وقت یہ خزانہ آپ کے ہاتھوں سے چھٹنے لگتا ہے۔ سو اسی لیے آپ کی یہ کیفیات ہوتی ہیں۔ لالچی کہیں کے، اگر ممکن ہو سکے تو رات کے لیے وہیں بنک میں بستر لگوا لیں یا وہاں چوکیدار کی نوکری لے لیں۔ ورنہ گلوکوز کی ٹکیاں اپنی جیب میں رکھیں۔ بنک سے نکلتے ہوئے چھٹی کے وقت حسب منشاء ٹکی چوس لیا کریں۔
سوال
حکیم جی، مجھے نیند بہت کم آتی ہے۔ رات رات بھر جاگ جاگ کر وقت گزارنا پڑتا ہے۔ کچھ بتائیے گا کہ ایسا کیوں ہے ؟
جواب
کروٹیں بدلتے رہے ساری رات تم
آپ کی قسم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی قسم
پہلے تو یہ بتائیے کہ کہیں آپ شاعر تو نہیں یا آپ کو وہ تو نہیں ہو گئی جسے عاشقان برادری محبت وحبت، عشق وشق، پیار ویار کا نام دیتی ہے۔
اگر ایسا ہے پھر تو گئے کام سے۔ ۔ کچھ عرصے بعد آپ خود ہی گاتے پھریں گے،
سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری
سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی
یا پھر آپ نے کسی کا قرض تو نہیں دینا۔ ۔ ؟ بندہ بشر ہیں آخر کسی کے بھی مقروض ہو سکتے ہیں۔ ویسے کیا آپ کے گھر میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔ ؟ لوگ تو وہاں رات بھر مکھیوں کی طرح بیٹھے رہتے ہیں۔ نیند بھگا کر وقت گزاری کرتے ہیں۔ خیر، اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو میرے خیال سے آپ کے دماغ میں خشکی ہو گئی ہے۔ سو ہر پندرہ دن بعد سر پہ مہندی لگائیے، اس طرح سنتِ اسلامی بھی پوری ہوتی رہے گی۔ جانی انجانی نیکیوں کا ثواب بھی آپ کے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا۔ ورنہ رات کو سوتے وقت گرم گرم دودھ میں خشخاش کی پوٹلی جادو کی طرح دو چار بار گھما کر پی لیجئے۔ اتنی گہری نیند آئے گی کہ آپ کو سوتے میں اپنی ہی خبر نہیں رہے گی۔
سوال
مجھے خارش کی شکایت ہو گئی ہے۔ جسم دانوں سے پُر ہو گیا ہے۔ رات کو تو بہت زیادہ خارش ہوتی ہے۔ سو کھجاتے کھجاتے صبح ہو جاتی ہے۔ اس خارش کے ہاتھوں بہت پریشان ہوں۔ مشورہ درکار ہے۔ ؟
جواب
بُرے پھنسے نا، یاد رکھیے گا، خارش ایک اچھوتی بیماری ہے۔ جو آپ باقی گھر والوں کو بھی مفتو مفتی بانٹ سکتے ہیں۔ مگر ایسا کیجئے گا مت، بلکہ ناراض ہو کر ان سے اپنا بستر الگ کر لیں۔ ویسے بھیا کھجانے کے لیے تو آپ کے پاس سر موجود ہے اور ہتھیلی بھی، اب سیسہ فیشن ہے ورنہ حقے کے پانی سے اشنان آپ کے لیے بہت کارآمد تھا۔ خیر آپ سدا بہار درخت نیم کی پتیاں اُبال کر اس سے نہائیے۔ تب تک نہاتے رہیئے جب تک خارش ختم نہ ہو جائے۔ اس دوران کہیں مہمان بن کر مت چلے جائیے گا اور جلسے، جلوس میں بھی جانے سے پرہیز رکھیئے گا ورنہ ڈاکٹروں کو مصیبت پڑ جائے گی۔
سوال
جناب عزت مآب، چند دن ہوئے عجیب الجھن میں ہوں۔ جو بھی چیز کھاتا ہوں، اس کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ نمک والی چیز کھا لوں تو نمکین نہیں لگتی، کوئی میٹھی چیز کھاؤں تو مٹھاس محسوس نہیں ہوتی۔ کیا کروں ؟
جواب
اس مرض کو طبی زبان میں بطلانِ ذوق کہتے ہیں۔ اس میں چکھنے کی حس نہیں رہتی۔ خیر فکر کی بات نہیں۔ جب تک یہ بحال نہیں ہوتی۔ آپ کسی ڈائٹنگ پلان پرآسانی سے عمل کر سکتے ہیں۔ کریلے، نیم، کڑوی چیزوں کا استعمال بھی ٹھیک رہے گا۔ گھر والوں سے بخوشی کدو، بینگن، توری، ٹینڈے، حلوہ کدو پکوا کر کھا سکتے ہیں۔
سوال
مجھے پان کھانے کی عادت ہووت۔ گزشتہ روز پان میں چونا زیادہ پڑت۔ جس سے زبان پھٹت۔ اب پان کھانے میں دقت محسوس ہووت۔ کیا علاج ہووت؟
جواب
کھائیں کے پان بنارس والا
کھل جائے بند عقل کا تالا
لگتا ہے آپ کی عقل کا تالا تو جم گیا۔ اب فکر کرنے سے کیا ہووت، آپ کوئی پان کھانا تھوڑی چھوڑت۔ آخر زہر کو زہر مارت، آپ پان میں خوب سارا چونا، کتھا، تمباکو اور سپاری ڈال کے کھات رہت۔ آخر زبان کوکبھی نہ کبھی تو اس نئے ذائقے کی عادت ہووت۔
سوال
حکیم صاحب کیا یہ صحیح ہے کہ جڑی بوٹیوں سے بنی ہوئی دوائیاں یا جڑی بوٹیوں کے نسخے سب کو فائدہ نہیں دیتے ؟
جواب
(کملیو، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ) جی ہاں، بالکل صحیح بات ہے کہ دیسی ادویات ہر کسی کو فائدہ نہیں دیتیں کیونکہ ہر ایک کا مزاج الگ ہوتا ہے ورنہ طوطے کو چارہ کھلا دیکھئے اور بکری کو چُوری۔ ۔
سوال
میری بچی کی عمر دو سال ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے وہ چارپائی کے جنگلے سے سر ٹکراتی ہے۔ بعض دفعہ تو کافی بار سر ٹکراتی ہے۔ کیا کریں ؟
جواب
اونہوں بھولے بادشاہ، لگتا ہے آپ وقت اور زمانے کے ساتھ نہیں چلتے۔ ورنہ یہ مسئلہ کب کا خود ختم کر چکے ہوتے۔ بچی نئے دور کی نئی فصل ہے بلکہ نئی بوٹی ہے۔ اس کی مانگیں بھی مختلف ہیں۔ لگتا ہے آپ نے اسے ابھی تک موبائیل ہاتھ میں نہیں پکڑایا اور لیپ ٹاپ اس کی گود میں نہیں رکھا۔ سو جلد از جلد اس کی معصوم خواہشات پوری کریں۔ اسے یہ چیزیں لا کر دیں۔ ورنہ ابھی تو وہ چارپائی سے سر ٹکراتی ہے، آئندہ وہ زمین پر ٹکریں مارے گی اور ساتھ ساتھ ایڑیاں بھی رگڑ سکتی ہے۔
سوال
کھانا کھانے کے بعد میرا پیٹ پھول جاتا ہے۔ جیسے کسی نے غبارے میں ہوا بھر دی ہو۔ پیٹ میں کبھی بادل گرجتے محسوس ہوتے ہیں اور کبھی قر قر قر کی آواز آتی ہے اور کبھی گڑ گڑ گڑ کی، مشورہ چاہئیے ؟
جواب
بادل یوں گرجتا ہے ڈر کچھ ایسا لگتا ہے
بھیا، میں تو خود سن کر حیران ہوں کہ آپ کے پیٹ میں کوئی آرکسٹرا آرگنائز ہے۔ جہاں سے اتنے سروں کی موسیقی بجتی ہے۔ لگتا ہے آپ اپنے کھانے پر دھیان نہیں دے رہے۔ اور غذا کے ساتھ ساتھ بہت ساری ہوا بھی مفت میں نگل لیتے ہیں۔ یا آپ بادی چیزیں کھا رہے ہیں۔ جیسے گوبھی، ماش کی دال، چنے، لوبیے وغیرہ وغیرہ۔ اور ان سے ہوا بن کر مستی میں آ رہی ہے۔ سو اجوائن، سونف، گڑ، کالے نمک، کالی مرچ اور خصوصا مولیوں کا استعمال آپ کے لیے مفید رہے گا۔
سوال
جناب میری آنکھوں سے پانی آنسوؤں کی طرح بہتا ہے۔ آنکھوں میں نہ تو جلن ہے اور نہ ہی میں رو رہا ہوتا ہوں۔ کیا کروں ؟
جواب
نیناں برسے رم جھم رم جھم
لگتا ہے آپ بہت جذباتی انسان ہیں۔ اور آپ کے نین ہر وقت بھرے رہتے ہیں جو ذرا سی بات پر چھلک جاتے ہیں۔ کیا آپ زیادہ جذباتی فلمیں دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کی جگہ ایکشن فلمیں دیکھنی شروع کر دیجئے۔ یا آپ کی بیوی آپ سے روزانہ پیاز کٹواتی ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو کوئی حرج نہیں، آنسو بہنے سے آنکھیں نتھر کر صاف شفاف ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ کو پھر بھی اعتراض ہے تو آئندہ چشمہ لگا کر پیاز کاٹیے گا۔ بیوی بھی خوش رہے گی اور آپ کا مسئلہ بھی حل۔
سوال
جناب، مجھے ناخن چبانے کی عادت ہو گئی ہے۔ کئی بار احساسِ شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ کچھ بتائیے گا۔ ؟
جواب
میاں تم کیا سمجھتے ہو۔ اس عادت پر شرمندگی کی بجائے کوئی انعام ایوارڈ ملے۔ ناخنوں کو ہمیشہ کاٹ کر رکھو ورنہ تم تو ان کا کباڑہ کر دو گے۔ تمہارے دماغ میں یقیناً کوئی احساسِ محرومی ہے جس کا بدلہ ناخن چبا کر لیتے ہیں۔ لہذا طوطے کی طرح اپنے ناخن کترنے بند کرو اور کوئی مثبت کام کرو۔
سوال
حضورِ والا، میں ایک دوکاندار ہوں۔ میری صابن فروخت کرنے کی ایک دوکان ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری جلد خشک ہو گئی ہے اور اس میں خارش بھی ہوتی ہے۔ صابن استعمال کرنے سے خشکی اور خارش بڑھ جاتی ہے۔ کوئی مشورہ دیجیئے ؟
جواب
لو کر لو بات، جناب لوشن، شمپوز کے دور میں اگر آپ سارا دن مختلف صابن کے درمیان رہیں گے۔ صابن استعمال کریں گے تو ری ایکشن ری پلے تو ہو گا ہی۔ سو صابن کی جگہ اپنی دوکان پر شمپوز کی رنگین بوتلیں رکھیں۔ چمچماتے پرفیومز، لوشن، فیس واش، باڈی واش رکھیے۔ خود بھی یہی استعمال کیجیئے تو دیکھیے گا خشکی خارش دور اور جلد ملائم ہو جائے گی۔
سوال
حکیم جی، مجھے ایک ایسی لت پڑی ہے جسے سن کر شاید آپ بھی مجھ پر حکیمانہ ہنسی ہنس دیں۔ ۔ مجھے مٹی کھانے کی عادت ہے۔ بچپن کی عادت جوانی میں بھی چلی آئی ہے۔ اب پیچھا چھڑانے سے نہیں چھوٹ رہی۔ کوئی نسخہ عنایت فرمائیے گا۔ ؟
جواب
عادت ہو گئی ہے میرے مہربان کوکسی نامہرباں سے
او عقل کے اندھو، عادت سوچ سمجھ کر ڈالنی چاہیے تھی نا۔ ۔ میرے پاس حکمت ہے جادوگری نہیں۔ ۔ لگتا ہے مائیں بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں دیتیں، اسی لیے وہ مٹی کھانے لگتے ہیں۔ مٹی کا پتلا مٹی میں جا ملے گا۔ اتنا فکر نہ کریں۔ اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کریں یا جیب میں ہر وقت ملتانی مٹی کی گاچی رکھیں۔ جب طبیعت زیادہ ہی للچائے تو اسے تبرک کی طرح چاٹ لیا کریں۔
سوال
مجھے سر میں درد رہتا ہے۔ تھوڑی دیر مطالعہ کر لوں یا شور و غل ہو، اونچی آواز سے گفتگو کر لوں تو سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ اگر آرام سے لیٹ جاؤں یا نیند آ جائے تو درد ختم ہو جاتا ہے۔ ؟
جواب
مہربان لگتا ہے آپ بہت حساس شخصیت کے مالک ہیں۔ جو دوسروں کو سنتے ہی آپ کے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ یا آپ تنہائی پسند ہیں۔ دنیا سے بیزار، جی اچاٹ، یا آپ اپنی ہی کہنا چاہتے ہیں دوسروں کی سننا نہیں چاہتے۔ ویسے تو اس تالے کی چابی آپ ہی کے پاس ہے جب بھی سر درد ہو جا کرسو جائیے۔ یوں تو آپ درویش بھی بن سکتے ہیں۔ بیاباں کی خاک چھان سکتے ہیں۔ پر مجھے لگتا ہے کہ فطرت آپ کے لیے ممد و معاون ثابت ہو گی۔ آپ مستنصرحسین تارڑ کے ساتھ کوہ نوردی کیا کریں۔ ان کی سیاح پارٹی میں شمولیت کر لیں۔ وہ آپ کو ایسی ایسی جگہوں پر لے جائیں گے۔ جہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات، یوں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
سوال
بعض دفعہ میرا دل اچانک گھبرانے لگتا ہے۔ ہر شے ڈراؤنی لگتی ہے۔ کوئی بھی چیز سامنے آ جائے تو دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ جسم پر خوف کی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جو پندرہ بیس منٹ بعد خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کوئی علاج معالجہ ؟
جواب
ڈرپوک کہیں کے
دھک دھک کرنے لگا
او مورا جیا را ڈرنے لگا
لگتا ہے آپ مادھوری ڈکشٹ کا یہ گیت بہت سنتے ہیں۔ یا آپ کی پسندیدہ لسٹ میں ٹاپ پر ہے۔ بھیا یہ دنیا ہے جی داروں کی اور دلداروں کی، آپ نجانے کہاں کھوئے رہتے ہیں۔ کن خیالوں اور وسوسوں کو اپنے اوپر طاری رکھتے ہیں۔ اور سوچ سوچ کر دل کو دہلائے رہتے ہیں۔ ورنہ جب جب جو جو ہونا ہے تب تب وہ وہ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ وہم کا شکار ہیں۔ سو اسے دور کیجئے۔ کیونکہ دیکھیں ناں، بعد میں یہ خود بخود ٹھیک بھی تو ہو جاتا ہے نا۔ واقعی شکر خورے کو شکر راس نہیں آتی۔
٭٭٭
دہائی
شفیق زادہ ایس احمد
ہمارے گھر میں قدم رنجہ فرمانے والے نئے مہمان نے ہمیں بس’ شوہر ‘ بنا کر ہی رکھ دیا تھا۔ انگریزی میں پڑھیں تو ’’شو‘‘ یعنی دکھاؤ اور ’’ ہر‘‘ کا مطلب ’’وہ‘‘ ( صنف نازک ) بقلم خود، مطلب اس کا یہ کہ بس ہم ان کے لیے دکھاوے کی چیز ہی ہو کر رہ گئے جسے وہ بہت فخر سے اپنی ذاتی ملکیت کے طور پر ساتھ لیے پھرتیں۔ اور ہمارا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ ہم ہر دم انہیں عند الطلب اور عدم الطلب اور ان دونوں کی درمیانی کیفیت میں بھی اپنی وفاداری، دلداری، خدمات گاری وغیرہ وغیرہ کے جوہر ’’ شو‘‘ کراتے رہیں۔ اور وہ اپنی تصوراتی مونچھوں کو تاؤ دے دے کر ہمارے ( تابناک حد تک مخدوش ) مستقبل کے فیصلے کر سکیں۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ موصوفہ نے قبلہ والد صاحب کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ والد محترم پہلے ہی ہم پر شادی پر آمادہ ہونے کو ’’خاندانی اغلاط‘‘ کے تاریخی سلسلے کو بڑھاوا دینے کا الزام لگا کر ہم سے ناراض تھے، اوپر سے موصوفہ کی جانفشاں خدمتگاری اور خاموش تابعداری نے گھر میں اتنی جگہ بنا لی تھی، جتنی ہمیں ترکہ میں بھی نہ ملتی۔ تو جناب ڈائری بھیئے ! ’’شادی کے گیم چینجر‘ ‘ کے بعد ہم صرف اپنے کابک اور اپنی ہی بیگم کے ہو کر رہ گئے تھے۔ اس سسرالی پیٹھ تھپکائی کی آڑ میں دھڑّلے سے ہم کو جو دھمکیاں دی جاتیں وہ شاذ ہی کبھی ڈھکی چھپی ہوتیں مگر ہم انہیں دوسروں سے چھپائے پھرتے کہ ’’ کچھ تو میرے پندارِ وفا کا بھرم رکھ‘‘۔ ان کی طرف سے بہت ہی صاف وسلیس الفاظ میں سنگین نتائج کی ذمّہ داری اور ان کے کیے کا بھگتان ہمارے گلے ڈالا جاتا۔ حد تو یہ کہ ہم اُن تمام پوشیدہ اور مخفی وارداتوں کے مبیّنہ سزا کے حقدار ٹھہرائے جاتے جو ہم سے نہ کبھی سر زرد ہوئے یا جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی ہو۔ اکثر ہم ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ازدواجی معطلی کا شکار رہتے۔ ہماری والدہ محترمہ اور موجودہ ساسو ماں البتہ ہماری درپردہ حمایتی تھیں مگر توازنِ طاقت کا جھکاؤ موصوفہ کی طرف دیکھ کر وہ بھی گھریلو سیاسی حکمت عملی کے تحت اعلانیہ اِس حمایت کا اظہار نہیں کرتیں۔ خاص طور سے موصوفہ کے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد تو ممتا کا شہد ہمارے حلق تک پہنچتا ہی نہیں تھا۔ دبئی میں ڈرایؤنگ لائسنس حاصل کرنا کسی ’’کراچائٹ‘‘کے لیے سندھ دیہی کا جادوئی ڈومیسائل حاصل کرنے سے کم نہ تھا۔ لہٰذا ساس بہو ہم دو ہمارے دوکے مصداق آنکھ میچے سہیلی سہیلی کھیلنے میں مگن تھیں۔ اگر ہمیں جنّت کا لالچ نہ ہوتا یا والدہ سیاست دان ہوتیں تو سائڈ بدلنے پر ’’لوٹی‘‘ کا لقب پاتیں۔ ہم بھانپ رہے تھے کہ کہ چند سال اور گزریں گی اور ہم بھی قبلہ والد صاحب کی طرح آہنی، معاف فرمایئے گا ’’ آئینی ‘‘ صدر بن جائیں گے، یعنی اختیار سے محروم صرف دستخط کرنے کی مشین مگر پھر بھی ’’ممنون‘‘۔ وطن عزیز کے سیاست دان بہت با ہمت اور عوام خوش نصیب ہیں کہ بات اٹھارہویں ترمیم تک لے گئے، ہم نے تو اپنی ازدواجی حیثیت میں بھی کبھی دوسری ترمیم کے بارے میں سوچا تک نہیں ہے۔ ویسے بھی ہما را شادی شدہ ہو کر ختم شدہ ہونے کا تجربہ ایسا کچھ دلربا ہر گز نہ تھا کہ’ ’ ڈو مور ڈو مور‘‘ کی دعوتی صدائیں، نزلے سے بند ہمارے کانوں میں گونجتیں۔ اوپر سے بیگم نے حفظِ ماتقدم کے طور پر جو حفاظتی اقدامات کئے ہوئے تھے وہ ہمہ وقت ہمیں سہمانے اور دھمکانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ تھے۔ اس معاملے میں بیگم کی دور اندیشی امریکہ شریف کو بھی مات دیے جاتی ہے کہ ہمارے ارتکاب جرم سے پہلے ہی ہم پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہوتی ہے۔ یوسف زئی پٹھانی نے باتھ روم میں فِنائل کی تیز اثر بوتل، تنویمی طاقت والی سکون آور گولیاں اور ہمارے ائیر کنڈیشنڈ بیڈروم میں بغیر پنکھے کا قذّاقی پنجے جیسا ہُک دِکھا دِکھا کر ہماری جان آدھی کر رکھی تھی۔ آپ سب سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ ہماری پہلوٹھی کی تصنیف ’’م تماشا‘‘ میں بیان کردہ آسف قدر ٹھرکی والے معاملے کی جان کاری کے بعد وہ پہلے ہی ہم سے ہمارے زیرِ نگین ہونے کا خراج بائیس قیراط والی فسادی دھات کے کنگن کی صورت میں وصول کر چکی تھیں۔ اس وصولی کے ساتھ ہی وہ خوب اندازہ لگا چکی تھیں کہ ہمارا بریکنگ پوائنٹ کب آتا ہے، جس کے آنے میں انتظار کی گھڑیاں کبھی بھی طویل نہ ہوئیں۔ ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی گمان تھا کہ دھمکانا اور دہلانا اور بات ہے مگر وہ کبھی بھی کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گی جس پر وہ ہم پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھیں، چاہے ان کی اصلی یا بناؤٹی بیہوشی کے چند لمحوں کے لئے ہی صحیح۔ مگر پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ پٹھان بچّی ہے، نہ جانے کس وقت کیا کر بیٹھے، کوئی خوبرو یا پھر خود کش دھماکہ۔ ہمیں خوب جتا دیا گیا تھا کہ (یقینی) ناکام کوشش پر ہمارا کیا حال ہو سکتا ہے جس کا سب سے عبرت ناک پہلو یہ تھا کہ ہمیں اپنے ہاتھ کی بنی چائے خود نوش کرنا پڑے گی۔ وہ چودھری اور چودھرائن کی کہانی سے بہت متاثر ہوئیں، آنکھوں میں آنسو بھرکر ہمارا ہاتھ تھام لیا، کہنے لگیں ’ چودھرائن بہت عظیم عورت ہیں مگر میں ایسی بالکل نہیں ہوں۔ اسی لئے آپ کسی دھوکے میں مت رہیے گا، میرا نشانہ بہت پکّا ہے، اگر بیلن پھینک کر گھٹنے پر ماروں تو وہیں لگے لگا، اور اگر طبلے کی طرح سر پر بجاؤں تو گومڑ بھی آپ کے بے بال سر سے ہی نمو دار ہو گا‘۔ پھر روہانسی ہو کر بولیں ’’ لیکن کسی کی بھی قسم لے لیجئے، اگر آپ کی تیمار داری میں کوئی کوتاہی کروں تو بے فکر ہو کر چٹیا پکڑ لیجئے گا۔ چاہے چھوڑ آئیں مجھے نئے والے فلیٹ میں۔ میں اُف تک نہ کروں گی، بس آپ ہی کے اے ٹی ایم کارڈ سے خرچ کے پیسے نکال لیا کروں گی۔ اس وقت تک میری ساس نند یں وغیرہ حالات سنبھال ہی لیں گی‘‘۔ موصوفہ بیگم کو خِطّے (سسرال) میں اپنی ’’اسٹری ٹیجک ڈیپتھ‘‘ یعنی اہمیت کا خوب اندازہ تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے کی مہارت بھی تھی۔ ہماری جھکتی کمر میں آخری تنکا پرستانی پارلیمنٹ سے حال ہی میں پاس کیا گیا ‘ حقوقِ نسواں بہ مخالف تشددِنسواں بِل ’ ثابت ہوا۔ اب اس قانونی شکنجے کی مدد سے وہ بغیر کسی وجہ کے ہمیں تھانے میں بند کروانے کی مجاز تھیں اور اندھا ’’قنون‘‘ بھی ان کا ہی ساتھ دے گا۔ ہمیں یقین تھا وہ کچھ بھی کریں، تفتیش کے دائرے میں ہم ہی پھنس جائیں گے۔ پہلے داخلی طور پر سگے مائیکے والوں کے ہاتھوں اور پھر خارجی طور پر سسرائیلیوں کے چنگل میں۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی کہ جسے دلہن بنائے دل میں بسائے ناز برداریاں اُٹھانے کے چکر میں میں لائے تھے اس نے الٹا ہمارا ہی ’’دولہا‘ ‘ بنا کر باربرداریاں شروع کر وا دیں۔ ہمارے ہم عصر اور ہم پیالہ پیارے میاں گذری شام کہہ رہے تھے کہ ’’ نئی بیوی اور نئے رشتے، نئے جوتے کی طرح ہوتے ہیں، جب تک پاؤں میں اچھی طرح فِٹ نہ ہو جائیں، کاٹتے ہی رہتے ہیں ‘‘۔ ہم ان کی اس بات سے متفق ہیں، کلیّ طور سے، کیوں کہ ہماری با ہوش زندگی میں میں رشتوں کی کاٹ کو ہم سے بہتر اور کون جان سکتا ہے۔ ڈائری بھیّیے ! اب تو ہمارے شب و روز ذیل درج شعر کو گنگناتے گزرتے ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں تینتیس دانہ تسبیح رہتی ہے جس کے دانے اچھے دنوں کی آس میں گھماتے ہیں :
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
دعاگو: شفیق زادہ
٭٭٭
سفر نامۂ واش روم
عامر راہداری
آخرِ کار کافی دیر سوچنے کے بعد ہم نے فیصلہ کر ہی لیا کہ ہمیں واش روم کی سیر کو نکل ہی جانا چاہیئے آخر سب ہی جاتے ہیں ہم کیوں نہ جائیں۔ تو دوستو ہمارا پروگرام فائنل ہو گیا کہ ہم واقعی واش روم جا رہے ہیں ہم بستر پر فیس بک استعمال کرتے کرتے تھک چکے تھے سو ایک عجیب سی خوشی بھی ہو رہی تھی۔ فیصلہ ہوتے ہی تیاریوں میں لگ گئے۔ تھوڑا سا واش روم کا تعارف کروائے دیتے ہیں تاکہ آپ بھی سفر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ واش روم در اصل ایک ایسی جگہ ہے جہاں بعض لوگ سوچنے جاتے ہیں اور بعض لوگ نہ سوچنے۔ واش روم دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن پر بیٹھا جاتا ہے اور ایک وہ جن پر لیٹنے کے سٹائل میں بیٹھا جاتا ہے۔ موخرالذکر واش روم سیر کے لیے زیادہ آرام دہ تصور کیے جاتے ہیں۔ واش روم تقریباً ہر گھر میں موجود ہوتا ہے بلکہ اکثر گھروں میں تو گھر کے ہر فرد کے لیے علیحدہ علیحدہ ’’سیر پوائنٹ‘‘ بنوائے جاتے ہیں۔ دیہاتوں میں واش روم کی بجائے ’’جنگل پانی‘‘ ہوتے ہیں حالانکہ یہ تاریخ کی بہت بڑی بدیانتی ہے کہ ’’جنگل پانی‘‘ میں نہ تو جنگل ہوتا ہے نہ پانی، لیکن پھر بھی اسے جنگل پانی کہا جاتا ہے۔
واش روم کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ کسی ایسے ملک کی ایجاد لگتا ہے جہاں ٹیلے وغیرہ نہیں ہوتے ہوں گے۔ پھر جیسے جیسے دنیا اور خوراک ترقی کرتے گئے سہل پسندی اور اسہال پسندی بھی اسی طرح ساتھ ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے گئے اور واش روم گھر کے کونے سے کمرے کی کمر میں بنائے جانے لگے یعنی سیپرٹ سے اٹیچ ہوتے گئے بعید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں بستر بھی واش روم میں لگایا جائے۔
واش روم میں ویسے تو کئی چیزیں سکون پہچانے والی ہوتی ہیں لیکن سب سے مزیدار چیز واش روم کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس آئینے کی خاص بات یہ ہوتی ہے اس میں بندہ خود کو ننگا بھی دیکھ سکتا ہے، قومی سیاست کے ٹائلٹ میں تو ایسی سہولت میسر نہیں۔ اس کے علاوہ واش روم میں لوٹا بھی ہوتا ہے لیکن اس لوٹے کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمیشہ ایک ہی پارٹی کے ساتھ رہتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں سیاستدانوں کو لوٹا کہنا لوٹے کی توہین ہے کیونکہ لوٹے جیسی وفادار چیز میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ لوٹے کے علاوہ ٹشو، صابن، (ہاتھ دھونے کے لیے ) برش، تیزاب، اور اسی طرح کی کئی اہم چیزیں واش روم میں موجود ہوتی ہیں۔
تو دوستو آخر ہم نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور سیر کی سب سے اہم چیز یعنی موبائل ساتھ لیا اور بیڈ کی ایک سائڈ سے اترنے لگے، اگر آپ نے بھی واش روم کی سیر کی ہو تو آپ کو علم ہو گا کہ موبائل وہ واحد چیز ہے جسے واش روم میں ساتھ لے جایا جائے تو سفر بہت اچھا اور طویل گزرتا ہے۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ جو شخص بھی موبائل واش روم میں لے کر گیا ہے بیس منٹ تک واپس نہیں لوٹا، اس کے علاوہ تاریخ اس بات کی بھی گواہی دے گی کہ جب آپ واش روم کی سیر کی انتہا پر ہوتے ہیں یعنی حاجات ضروریہ کی پیک( Peak ) پر ہوتے ہیں اس وقت موبائل ضرور بج اٹھتا ہے۔
خیر ہم نے بھی موبائل اٹھایا اور رخت سفر باندھ لیا۔ پہلا قدم اٹھایا پھر دوسرا قدم اٹھایا اسی طرح کوئی دس بارہ قدم اٹھانے کے بعد ہم واش روم کے دروازے پر پہنچ گئے۔ راستے کے یہ دس بارہ قدم ہم سفر کو انجوائے کرتے رہے، کئی جگہوں پر موبائل سے نظر اٹھا کر کمرے کے دوسرے نظاروں پر بھی نظر پڑی لیکن چونکہ یہ سفر ہم کئی بار کر چکے تھے سو نظارے ہماری توجہ حاصل نہ کر پائے۔ خیر کیا خوبصورت دروازہ تھا، خالص کیکر کی لکڑی کا خوبصورت دروازہ جسے اندر کی طرف کھولا جاتا ہے۔ واش روم کا دروازہ عموماً سنگل ہی ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایک وقت میں ایک ہی بندہ جا سکتا ہے لیکن بعض گھروں میں دو بندے اکٹھے بھی جاتے ہیں لیکن تین ہو کر نکلتے ہیں۔ تیسرا بندہ تقریباً نو ماہ اندر رہتا ہے (واش روم کے اندر نہیں )۔ خیر ہم سنگل تھے سو ہمیں سنگل ہی اندر جانا تھا۔ پہلا قدم اندر رکھا تو آب و ہوا کی تبدیلی کا احساس ہوا۔ واش روم کا موسم، درجہ حرارت اور آب و ہوا عام کمروں سے مختلف ہوتی ہے بلکہ واش روم میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ بندا اندھا بھی ہو تو اسے پتا چل جاتا ہے کہ وہ واش روم پہنچ چکا ہے۔
ہم واش روم کے اندر سامنے رکھی کرسی نما بلا کو دیکھتے ہی جمپ مار کر اس پر سوار ہو گئے اور موبائل کھول کر سفر انجوائے کرنے لگے کوئی بیس منٹ کی سیر کے بعد ہمارا سفر اختتام کو پہنچا ( کرسی پر بیٹھنے سے لے کر اٹھنے تک کے درمیان کچھ اور واقعات بھی پیش آئے جن کا ذکر کرنا یہاں مناسب نہیں ) سیر کے دوران ہمارا سارا دھیان موبائل کی طرف رہا۔ پھر ہم نے ٹشو، فلش، لوٹے اور صابن( ہاتھ دھونے کے لیے ) کے لوازمات پوری ایمانداری کے ساتھ نبھائے اور سفر کے اختتام پر ایک نظر آئینے پر ڈالی اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔
٭٭٭
جوتا نامہ
حماد احمد، لاہور
جوتا انتہائی اہم چیز ہے اور اس کی اہمیت جاننے کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ سورۃ طہ میں اللہ رب العزت حضرت موسی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ:
اے موسیٰ! یقین سے جان لو کہ میں ہی تمہارا رب ہوں۔ اب تم اپنے جوتے اتار دو۔ تم اس وقت طوی کی مقدس وادی میں ہو۔ (آسان ترجمہ قرآن، سورۃ طٰہ آیت نمبر ۱۲، ۱۱)۔
مختلف زبانوں اور علاقوں میں جوتیوں کو مختلف ناموں اور القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ کوئی اسے شو (SHOE)کہتا ہے تو کوئی موجڑی، کوئی پاپوش کہتا ہے تو کوئی زیر پائی، کہیں کہیں اِسے کفش کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اہل عرب پہلے اسے نعل کے نام سے پکارتے تھے، آج کل حذا کے نام سے پکارتے ہیں۔ جوتے کی بے شمار اقسام ہیں مثال کے طور پر سلیم شاہی، بوٹس، گرگابی، مکیشنز، ہیلز، جاگرز، فلیٹس، پمپس، سینڈلز، سلیپرز، عام چپل، پشاوری چپل، کھڑاؤں وغیرہ وغیرہ۔ موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرنے کے لئے بھی جوتوں کی بہت سی اقسام ہیں جیسے کہ فارمل شوز، برائیڈل شوز، ایوننگ شوز، ڈریس شوز، آؤٹ ڈور شوز، اِن ڈور سلیپرز، واکنگ شوز اور رین اینڈ سنو شوز وغیرہ وغیرہ۔
کچھ ذہین فطین لوگ جوتوں کے حساب سے ہی انسان کی شخصیت بھی بخوبی پہچان لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلیٹ جوتیاں پہننے والوں کو فطرتاً خاموش طبیعت مانا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی صورتحال میں خود کو با آسانی ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔ چھوٹی ہیل والی جوتیاں زیب تن کرنے والی خواتین کے متعلق مشہور ہے کہ وہ سنجیدہ مزاج ہوتی ہیں، اپنے کام سے کام رکھتی ہیں اور انہیں ارد گرد کے حالات و واقعات کی زیادہ فکر نہیں ہوتی۔ لمبی یا ہائی ہیل جوتیاں زیب تن کرنے والی خواتین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں نہیں گھبراتیں اور کبھی بھی با آسانی اپنی شکست تسلیم نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی خواتین فطرتاً مغرور اور تنہائی پسند بھی ہوتی ہیں۔ کئی جوتیوں پر مختلف قسم کے پرنٹ بنتے ہوتے ہیں۔ ایسی پرنٹڈ جوتیاں زیب تن کرنے والے لوگ فطری طور پر خوش مزاج اور فیشن کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح رنگ برنگی جوتیاں زیب تن کرنے والے لوگوں کو اکثر اوقات فنون لطیفہ سے گہرا لگاؤ ہوتا ہے۔
اردو کے شعراء بھی جوتے کو مختلف ناموں اور صورتوں میں استعمال کرتے پائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ادب کا جانا پہچانا نام، مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں :۔
کمال کفش دوزی، علم افلاطوں سے بہتر ہے
اکبر الٰہ آبادی نے ہر چیز کی طرح جوتوں پر بھی بہت ہی کاری وار کیا۔ جیسے جوتوں کے دو مشہور برانڈز ’’ باٹا‘‘ اور ’’ سروس‘‘ آج کل مشہور ہیں، بالکل اسی طرح اکبر الہ آبادی کے زمانے میں ’’ڈاسن‘‘ کمپنی جوتے بنانے اور بیچنے میں ایک خاص پہچان رکھتی تھی۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنے ایک شعر میں ڈاسن کے جوتے کا تذکرہ کرتے ہوئے نہ صرف علم کی ناقدری کی طرف اشارہ کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ جوتے سے وابستہ ایک محاورے ’’جوتا چل گیا‘‘ کا بھی خوب استعمال کیا۔ یہ دلچسپ شعر ملاحظہ فرمائیں :۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا، میں نے اِک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
اکبر الہ آبادی کے نام سے ملتے جلتے نام کے ہی ایک اور معروف شاعر ’’نظیر اکبر آبادی‘‘ ہیں۔ ان کا شاعرانہ کلام ’’آدمی نامہ‘‘ بہت مشہور ہے، جس کے مندرجہ ذیل بند میں جوتی چوروں کی طرف جس عمدگی سے اشارہ کیا گیا وہ پڑھنے کے لائق ہے :۔
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی، امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی، قرآن اور نماز، یاں
اور آدمی ہی اُن کی چراتے ہیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
مسجد میں جوتیوں کا چوری ہو جانا کوئی معمولی نہیں بلکہ انتہائی اہم مسئلہ ہے، جس کے حل کے لئے شرفائے زمانہ ہمیشہ اپنی سی کوششیں کرتے چلے آئے ہیں۔ بقول شاعر:۔
یوں بولے کوئی دیکھ کے جوتا میرے آگے
گر سامنے جوتا ہو تو سجدہ نہیں ہوتا
میں نے کہا ارشاد بجا آپ کا لیکن
گر پیچھے رکھیں جوتا تو جوتا نہیں ہوتا
معاملہ کی حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات تو مسجد کے اندر انتہائی احتیاط سے ’’چھپائی گئی‘‘ چپل بھی غائب ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس کبھی کبھار مسجد کے بیرونی دروازے پر رکھی ہوئی چپل بھی اپنی جگہ پر صحیح سلامت موجود رہتی ہے۔
مسجد میں جوتی چوری ہونے سے بچانے کا مشہور طریقہ یہ ہے کہ جوتوں کا مکمل جوڑا ایک ہی جگہ رکھنے کی بجائے دائیں جوتی کو مسجد کے ایک کونے میں اور بائیں جوتی کو کسی دوسرے کونے میں رکھ دیا جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب جوتی چور بھی اس طریقے سے واقفیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ایسے ذہین چوروں کو اگر مسجد میں پڑی ہوئی کوئی ’’اکلوتی‘‘ جوتی پسند آ جائے تو وہ نماز کے بعد اس جوتی کے نزدیک ہی بیٹھ جاتے ہیں اور جوتی کے مالک کا انتظار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر جیسے ہی جوتی کا مالک اپنی جوتی اٹھانے آتا ہے تو اس کی شکل و صورت اچھی طرح نوٹ کر لیتے ہیں۔ یہ جوتی چور اگلی نماز کے لئے بروقت مسجد میں پہنچ کر اس نمازی کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اس کی جاسوسی کرتے ہوئے دوسری جوتی کا خفیہ مقام بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ یوں اگلی نماز ختم ہونے سے قبل ہی جوتی کے مالک کو ’’ایصال ثواب‘‘ پہنچ چکا ہوتا ہے۔
ایک چور نے تو نمازیوں کے جوتے چرانے کا عجیب و غریب انداز اپنایا۔ واردات کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ موصوف اپنے گھر سے طوطے والا پنجرہ لے کر مسجد پہنچ جاتے، جو کہ کپڑے سے ڈھکا ہوا ہوتا۔ مسجد میں جہاں بھی کوئی اچھا جوتا نظر آتا، اس کے قریب ہی پنجرہ رکھ کے نماز میں شریک ہو جاتے۔ جب نمازی حضرات سجدہ میں پہنچتے تو موصوف چپکے سے جوتا اٹھا کر پنجرے کے اندر گھسیڑ دیتے۔ صورتحال کچھ یوں بنتی کہ سر سجدہ میں ہوتا اور جوتا پنجرہ میں۔ کافی عرصے تک یہ خفیہ کاروائی چلتی رہی۔ آخر کار ایک دن موصوف پکڑے ہی گئے۔ پھر ان کے پسند کئے گئے ’’اجتماعی جوتوں ‘‘ سے ان کی جو ’’اجتماعی خاطر تواضع‘‘ ہوئی، وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ۔
جوتوں کو بہت سی سزاؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نمرود کا مشہور قصہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا۔ خدائی کا دعوی کرنے کی بدولت مالکِ دو جہاں کی طرف سے اس بد بخت کو یہ سزا ملی کہ ایک معمولی اور حقیر سے مچھر نے اس متکبر شخص کے ناک اور دماغ میں اچھی طرح دم کر کے رکھ دیا۔ اس مشکل وقت میں اپنی پریشانی کا حل بھی اس ’’ احمقِ اعظم‘‘ نے خود ہی تلاش کیا۔ حل یہ تھا کہ وہ نامراد (نمرود) اپنے غلاموں اور درباریوں کے ہاتھوں جتنی زیادہ جوتیاں کھاتا، اتنا ہی زیادہ اسے آرام و سکون محسوس ہوتا۔
برصغیر میں ’’کچھ مقامی عدالتیں ‘‘ مجرمان کو گدھے پر بٹھا کر جوتوں کا بنا ہوا ہار گلے میں ڈلواتی ہیں اور بعد ازاں جوتوں سے ہی ان معزز مہمانان گرامی سوری ’’مجرمان گرامی‘‘ کی تواضع بھی کرواتی ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کے جرائم کو دیکھتے ہوئے مقامی پنچائیت نے سزا سنائی کہ اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھایا جائے۔ اسی حالت میں اسے سارے شہر میں گھمایا جائے اور ساتھ ساتھ ’’چھترول‘‘ بھی کی جائے۔ جب وہ شخص ’’جوتا خوری‘‘ سے فارغ ہوا تو بہت سے لوگ از راہ ہمدردی (یا زخموں پر نمک چھڑکنے کی خاطر) اس کی تیمار داری کو چلے آئے۔ ایک بولا کہ ’’سنا ہے تمہیں جوتے پڑے ہیں ؟‘‘۔ موصوف فوری طور پر بولے کہ ’’کیا وہ جوتے تھے ؟ مجھے تو انتہائی چھوٹی چھوٹی سی جوتیاں معلوم ہو رہی تھیں ‘‘۔ دوسرے نے چوٹ لگائی کہ: ’’تمہیں تو گدھے پر بھی بٹھایا گیا تھا نا؟‘‘۔ انکار میں سر ہلاتے ہوئے بولے : ’’ ارے یار وہ گدھا تو نہیں تھا، بس ایک معمولی اور چھوٹی سی گدھی تھی، یقین جانو کہ میرے تو پاؤں بھی نیچے زمین پر لگ رہے تھے ‘‘۔ تیسرے نے لقمہ دیا کہ: ’’تمہارے گلے میں تو جوتوں کا ہار بھی پہنایا گیا تھا نا؟‘‘۔ انتہائی فخر سے جواب آیا کہ: ’’پھر کیا ہوا؟۔ یہ کونسا بڑی بات ہے۔ ان میں سے دو جوتیاں تو میری ذاتی تھیں۔ ابھی تک خریداری کی رسید میرے پاس محفوظ ہے ‘‘۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ: ’’ وہ جو تمہارا منہ کالا کیا گیا تھا، اس کے متعلق تو بتاؤ؟‘‘۔ ایک زور دار قہقہہ مارتے ہوئے جواب دیا گیا کہ : ’’ان لوگوں کو تو منہ پر کالک تک نہیں ملنی آئی۔ بہت سی جگہوں سے میرا منہ کالا ہوا ہی نہیں تھا۔ بعد ازاں پانی کے دو چھینٹے مارنے سے ہی سارا منہ با آسانی صاف بھی ہو گیا تھا‘‘۔ موصوف کے ان جوابات سے لوگوں کو ایک جانے پہچانے واشنگ پاؤڈر المعروف ’’نیلے ذرات والے سرف‘‘ کی مشہوری یاد آ گئی کہ ’’ داغ تو چلا جائے گا، مگر یہ وقت پھر نہیں آئے گا‘‘۔
جوتوں کو بہت سی مشہور و معروف ہستیوں کی کی طرف اچھالا گیا۔ اس معاملے میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش بہت زیادہ مشہور ہوئے۔ مؤرخ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس سلسلے کا آغاز بھٹو کے دور میں ہی ہونے کو تھا مگر وہ اپنی ذہانت کی بدولت بال بال بچ گئے۔ در اصل ہوا کچھ یوں کہ ایک بہت بڑے مجمع عام سے خطاب کے دوران جب لوگوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے بھٹو کو جوتیاں دکھائیں تو انہوں نے خطاب کے دوران ہی فوری طور پر اپنی بات کا رخ تبدیل کر لیا اور بولے ’’مجھے علم ہے کہ چمڑا بہت زیادہ مہنگا ہو گیا ہے، لہذا میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے سستا کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ ‘‘ مجمع اس لالی پاپ کی لالچ میں آ گیا اور بھٹو بچ گئے۔
جوتوں کے جدید سے جدید تر استعمال کے لئے بھی سائنسدانوں نے بہت سی تحقیقات کیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب جوتوں کو پاؤں میں پہننے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے کام لئے جا سکتے ہیں۔ ایک امریکی کمپنی نے حال ہی میں خواتین کے لئے سیلفی لینے والے جوتے متعارف کروا دئیے۔ ان جوتوں کے آگے خصوصی طور پر موبائل فون رکھنے کے لیے جگہ بنائی گئی ہے جہاں موبائل فون رکھنے کے بعد اپنا پاؤں اوپر اٹھا کر با آسانی سیلفی بنائی جا سکتی ہے۔ جرمن ماہرین ایسے جوتے بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جن سے آپ پیدل چل کر بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ چلنے کی سپیڈ جتنی تیز ہو گی اتنی ہی جلدی بجلی پیدا ہو گی اور جتنا زیادہ چلیں گے، اتنی ہی زیادہ بجلی پیدا ہو گی۔ اسی طرح ایک انڈین کمپنی نے ایسا ’’سمارٹ جوتا‘‘ تیار کیا، جس کے تلوں میں ایک اپلیکشن اور گوگل میپس کا امتزاج موجود ہے، جس کی بدولت نئی منزل کا حصول بھی با آسانی ممکن ہو جاتا ہے۔ آدمی کو منزل کی طرف نکلنے سے پہلے اپنی منزل مقصود کا مقام طے کرنا ہوتا ہے۔ بعد ازاں جوتا انسان کی خود بخود رہنمائی کرتا رہتا ہے کہ منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے فلاں موڑ سے دائیں طرف یا بائیں طرف مڑ جاؤ۔ ایک امریکی کسان نے تو تمام سائنسی ترقیوں اور دریافتوں کو مات دے دی۔ موصوف ایک سو گائے، دو سو مرغیوں، دو بکریوں، چار گھوڑوں اور دو گدھوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے تمام جانوروں کو جدید اقسام کے جوتے پہنا رکھے ہیں۔ ان کے بقول جوتے پہنانے کے بعد سے ان کی مرغیاں پہلے سے زیادہ انڈے دے رہی ہیں۔ گائے اور بکریاں پہلے سے زیادہ دودھ دیتی ہیں اور گھوڑے، گدھے پہلے سے زیادہ تیزی سے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ سست اور کاہل لوگوں کے لئے ایک امریکی کمپنی نے ’’ائیر میگ‘‘ کے نام سے ایسے جوتے بھی متعارف کروا دئیے ہیں جو کہ خود بخود ان کے تسمے تک باندھ دیتے ہیں۔
تسموں والے جوتوں کا خود بخود بند ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں، خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لئے، کیونکہ عام طور پر بچے باقی لباس جلدی زیب تن کرنا سیکھ جاتے ہیں مگر تسمے باندھنے کا کام آخر میں بھی بمشکل ہی سیکھ پاتے ہیں۔ یوں یہ بچے بڑے لوگوں کے لیے مسلسل مشکل و مشقت کا سبب بنے رہتے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ کھیلنے کودنے کے دوران عام طور پر ان ہی بچوں کے تسمے زیادہ کُھلتے ہیں جنہیں خود سے باندھنا نہیں آتے اور جن بچوں کو خود سے تسمے باندھنا آتے ہیں وہ ہمیشہ یہ احتیاط ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہی کھیلتے ہیں کہ اگر تسمے کھل گئے تو دوبارہ بھی خود ہی باندھنا پڑیں گے۔ اسی مناسبت سے ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک سکول میں جب چھٹی کا وقت ہوا تو نرسری کلاس کی ٹیچر اپنی کلاس کے بیس عدد بچوں کو اچھی طرح سے بوٹ پہنا کر تسمے باندھنے لگی۔ جھک جھک کر اس بیچاری کی کمر میں درد ہونے لگا۔ بیسواں اور آخری بچہ انتہائی شرمیلا اور خاموش طبیعت کا تھا، جب ٹیچر اسے جوتے پہنا چکی تو بچہ انتہائی اطمینان سے بولا: ’’ ٹیچر! یہ میرے جوتے نہیں ہیں ‘‘۔ ٹیچر کو بہت غصہ آیا، بے بسی کی وجہ سے اس کا دل چاہا کہ زار و قطار رو دے۔ مگر اس نے ہمت کر کے خود پر قابو پایا اور بچے کے جوتے اتارنے لگی۔ جوتے اتار کر ابھی اس نے اپنی کمر سیدھی کی ہی تھی کہ بچے کی پھر سے آواز آئی: ’’ٹیچر! پوری بات تو سن لیں۔ یہ جوتے میرے نہیں بلکہ میرے بھائی کے ہیں، مگر امی نے صبح کہا تھا کہ آج تم یہ پہن کر چلے جاؤ‘‘۔ اس کے بعد ٹیچر کی جو حالت ہوئی، وہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
جوتے کا جادو ہمارے معاشرے میں اس وقت بھی سر چڑھ کر بولتا ہے، جب دولہا میاں کے ساتھ ’’دودھ پلائی‘‘ کے بہانے ’’جوتا چھپائی‘‘ کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ کئی سمجھدار ’’اکاؤنٹنٹ دولہے ‘‘ تو اس صورتحال کا ایڈوانس میں ہی انتظام کر لیتے ہیں۔ اپنی شیروانی کے نیچے وہ ایک عدد خفیہ ’’سلوکا‘‘ زیب تن کر لیتے ہیں۔ اس ’’سلوکے ‘‘ کی دو جیبوں میں ہی ’’سٹپنی‘‘ یعنی اضافی جوتے رکھ لیتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکیں اور جرمانے کی ادائیگی کے دوران پیسوں کی بچت بھی ہو جائے۔ بات دولہے کی ہوئی ہے تو یہاں یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ کسی زمانے میں رشتوں کے حصول کے لئے لڑکے والے اپنی جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے اور لڑکی والوں کی طرف سے تب تک ہاں نہ ہوتی تھی جب تک لڑکے والوں کے جوتے اچھی طرح سے گھس نہ جاتے تھے۔ اب معاملہ الٹ ہو چکا ہے۔ رشتہ بعد میں طے ہوتا ہے، جوتے گھسانے کی زحمت بھی کم ہی کی جاتی ہے اور تو اور نئے جوتے بھی کافی پہلے سے ہی پسند کر کے رکھ لئے جاتے ہیں۔
استاد بشیر کو جوتوں سے متعلق بھی بہت زیادہ معلومات ہیں جو کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے شاگردوں کو سناتے رہتے ہیں۔ ایک لیکچر میں وہ فرمانے لگے کہ جب ہمیں اپنا پسندیدہ جوتوں کا جوڑا پہننے کا موقع مل جائے تو ہمارا دماغ بہت اچھا محسوس کرتا ہے، حالانکہ جوتا پاؤں میں ہوتا ہے اور دماغ کھوپڑی میں۔ لیکن ’’خیبر تا کراچی‘‘ جتنی طویل مسافت ہونے کے باوجود نئے جوتے کی خوشی جسم کے ہر کونے تک ’’گوگل‘‘ کی سپیڈ سے پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے جوتوں کے شوقین لوگ خوشیوں کے حصول کے لئے اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کاش میں اپنی پسند کے جوتے انٹرنیٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کر سکتا۔ مغربی معاشرے کی بد تہذیبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک دن استاد بشیر فرما نے لگے کہ مغرب میں ہر عورت کو سال میں سات مرتبہ پیار ہوتا ہے، چھ مرتبہ جوتوں سے اور ایک بار سوٹ سے۔ استاد بشیر نے یہ بھی بتایا کہ مغرب میں چالیس فیصد خواتین اپنے شوہروں کی طرف جوتا ضرور پھینکتی ہیں لیکن باقی ساٹھ فیصد خواتین اس طرح کی توہین بالکل بھی نہیں کرتیں ’’اپنے جوتوں کی۔ ‘‘ استاد بشیر کے بقول کسی کے غلط کام پر جائز تنقید کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس مقصد کے حصول کا سب سے آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ جس شخص پر تنقید کرنی ہو اس کے جوتے پہن کر کم سے کم ایک میل دور چلے جاؤ۔ وہاں پہنچ کر اسے موبائل فون پر کال ملاؤ اور بھرپور تنقید کر لو۔ یوں اس شخص کے جوابی رد عمل سے با آسانی بچت ہو جائے گی، کیونکہ مخالف شخص ننگے پاؤں ایک میل کی مسافت طے کر کے آپ کا ستیا ناس کرنے کے لئے بالکل بھی نہیں آئے گا۔
ایک دن دورانِ لیکچر استاد بشیر نے وائٹ بورڈ پر پوائنٹس کی صورت میں سمجھایا کہ درج ذیل تین چیزیں دنیا کی ہر عورت کا موڈ اچھا کر دیتی ہیں
نمبر ایک: شوہر کی طرف سے ملنے والا پیار
نمبر دو: شوہر کی طرف سے شاپنگ پر لے جانا
نمبر تین: شاپنگ پر جا کے یہ معلوم ہو جانا کہ جوتوں پر اسی فیصد سیل لگی ہوئی ہے
کئی خواتین کو اکثر اوقات یہی پریشانی لاحق رہتی ہے کہ ان کے پاس پہننے کے لئے بہت سے جوتے دستیاب ہیں مگر پاؤں صرف دو ہی ہیں۔ ایک عقل سے پیدل خاتون نے الٹے جوتے زیب تن کر رکھے تھے۔ میں نے ’’توجہ دلاؤ نوٹس‘‘ پر عرض کیا کہ محترمہ آپ نے غلط پاؤں پر جوتا پہن رکھا ہے۔ جواب دیا کہ میرے پاس تو محض دو ہی پاؤں ہیں، اگر یہ بھی غلط ہیں تو پھر درست پاؤں کہاں سے لاؤں ؟ یہ کہتے ہی زار و قطار رو پڑیں۔ ایسی خواتین خوش رہنے کے لئے آخر یہ کیوں نہیں سوچ لیتیں کہ انسان تو جوتوں کے بغیر بھی چل سکتا ہے مگر جوتے انسانوں کے بغیر بالکل نہیں چل سکتے۔ ( اور کئی بار تو چلتے بھی انسانوں پر ہی ہیں )۔ یہی سوال میں نے جب استاد بشیر سے پوچھا تو وہ فرمانے لگے کہ خواتین ایسا اس لئے نہیں سوچ سکتیں کیونکہ چاکلیٹس اور جوتوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں چیزیں خواتین کے پاس جس قدر زیادہ ہوں، فطرتاً وہ اتنی ہی زیادہ خوشی محسوس کرتی ہیں۔ ان دونوں چیزوں کی غیر موجودگی میں خواتین کا خوش رہنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔
٭٭٭
عظیم کرکٹر
احمد سعید
آٹھویں میں سکینڈ پوزیشن آئی تو بڑی شرمندگی ہوئی کہ دس نمبروں سے پہلی پوزیشن رہ گئی۔ میٹرک میں انتالیسویں پوزیشن آئی تو بہت خوشی ہوئی کہ دس نمبروں سے فیل ہونے سے رہ گیا۔
دونوں جماعتوں کے حوالے سے میں خاصہ معاملہ فہم ثابت ہوا تھا۔ اِس لئے میٹرک میں ہر ایک کے معاملات میں ٹانگ اڑانا شروع کر دی۔ بس کمیٹیوں والی مائی نہ بن سکا۔ لگائی بجھائی میں ماہر جو نہ تھا۔ آٹھویں میں سیکنڈپوزیشن پہ سب نے مبارکباد دی تو میں نے پوری پوری ہی وصول کی۔ میٹرک میں بھی میں نے مبارکباد وصول کی لیکن پوری گرمجوشی سے کہ شکر ہے بال بال بچ گئے۔ ’’ ہیڈ اینڈ شولڈر ‘‘جو استعمال کرتا تھا۔
نویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے بعد اگرکسی نے آٹھویں جماعت کے نمبر پوچھنے تو میری طرف غصے سے دیکھنا کہ یہ ہمارے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔ کئی اُساتذہ کو آٹھویں کا سرٹیفکیٹ دکھانا پھر کہیں جا کر اُن کا غصہ ٹھنڈا پڑنا، وہ بھی چند لمحوں کے لیے اور پھر غصہ چڑھ جانا کہ اگر آٹھویں میں اتنے نمبر لئے تھے تو اب اُس سے آدھے ہی لے لیتے۔ میں نے کہنا کہ انضمام الحق پہ ’’بیڈ پیچ ‘‘آیا یہاں تک کہ عمران خان پہ آیا اور کس کس کھلاڑی پہ نہیں آیا۔ انہوں نے کہنا کہ اچھے کھلاڑی ہو جو بات کو کہاں سے کہاں لے گئے۔
کھلاڑیوں سے یاد آیا کہ میں نویں جماعت میں تھا تو ’’انڈر 16‘‘ کے ٹرائل شروع ہوئے اقبال سٹیڈیم میں، اور میں اپنے آپ کو پہلے ہی ایک عالمی کھلاڑی تصور کرتا تھا، سو چل دیئے۔ ہارڈ بال کبھی کھیلی نہ تھی، اِس لئے لباس بھی نہ تھا۔ فوری طور پر کرکٹ کا لباس، بیٹ، پیڈ، ہیلمٹ اور انتہائی اہم گارڈ خریدنے کے لیے نکل پڑا۔ پھر سوچا کہ اگر سلیکٹ نہ ہوا تو بعد میں کھیلنا تو ’’ٹینس بال‘‘ سے ہی ہے تو لباس کے بغیر ہی سٹیڈیم چل پڑا۔ کرکٹ کے لباس کی بات کر رہا ہوں ویسے تو مختلف رنگوں کا ’’ ٹروزر‘‘ اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ بڑے بہنوئی مجھے اسٹیڈیم چھوڑنے آئے۔ اندر داخل ہوا اور بیٹنگ کی لائن میں لگ گیا۔ نہ ہاتھ میں بیٹ، نہ ٹانگوں پہ پیڈ، نہ سر پر ہیلمٹ، بس چالان ہونے ہی والا تھا کہ اِدھر اُدھر دیکھا کوئی جاننے والا پر کوئی نہ ملا تو کسی نہ کسی سے کسی نہ کسی طرح دوستی نکالنا شروع کر دی۔ بھئی لوگ رشتہ داریاں نکال لیتے ہیں کیا میں دوستی نہیں نکال سکتا تھا؟ اتنی جلدی میں جتنی دوستی ہو سکتی تھی اُس سے صرف پیڈ اور ہاتھوں کے دستانے ہی ہاتھ آئے اور لگارہا لائن میں۔ اب باری بہت قریب آ چکی تھی۔ بَلّا کسی صورت کوئی دینے کو تیار نہ تھا۔ باری سر پر تھی، مشکل بھی سر پر ہی۔ جب میرے آگے ایک بلے باز رہ گیا تو میں کبوتر باز بن گیا۔ جیسے کبوتر باز کبوتر پکڑنے کے لیے کبوتر کو ایک سیکنڈ کی مہلت نہیں دیتا۔ اِس طرح میں نے جب بلے باز اپنی باری لے کر ابھی سرزمین کرکٹ (پِچ) سے باہر نہیں آیا تھا کہ اُس پر ایسے جھپٹا جیسے بلی چھیچھڑوں پر۔ میرے پہلے ہی وار پہ وہ بوکھلا گیا دوسرا وار میں نے کیا نہیں بلکہ اُسے سمجھایا کہ یہ وار نہیں پیار ہے۔ آپ اِس قدر اچھا کھیلتے ہیں کہ آپ کی صلاحیتیں اِس بلّے میں بھی داخل ہو گئیں ہیں۔ جنابِ مَن! میں باری لے کر ابھی آیا۔ یہ دیکھیں بس میری باری بھی آئی کھڑی۔ اور اُسے مانگا کہاں ؟بلکہ چھین لیا اور شکریہ ادا کیا، اور مسلسل داد دیتا گیا کہ واہ کیا کھیل کر آئے ہیں ؟اب وہ بھی جانتا تھا کہ وہ کیا کھیل کر آیا ہے ؟ کیونکہ اُس سے کوئی ایک گیند بھی کھیل تک نہ ہو ئی تھی۔ بھئی یہ بھی تو کمال ہی تھا کہ بیس پچیس گیندیں کھیلیں اور کسی گیند کو بلے کے نیچے نہیں لگنے دیا۔ یہاں تو پورا بندہ ہی اپنی زوجہ کے تھلے (نیچے ) لگ جاتا ہے۔ اتنے میں اُسنے اپنا سازو سامان اُتارا تو میں پھر دوڑا دوڑا اُسکے پاس گیا۔ داد دی اور ساتھ میں اُس کا ’’گارڈ‘‘ بھی اُٹھا لایا اور ہاتھ کے اِشارے سے اُسے کہنے لگا کہ یار !یہ بہت ضروری تھا، بیٹ سے بھی زیادہ۔
میں ’’ ہیلمٹ ‘‘پہنے ہوئے نہ تھا اور پہلا باؤلر بھی شعیب اختر نما تھا۔ لمبے لمبے ہاتھ لمبے لمبے پاؤں، اب میں نے دو چیزیں بچانی تھیں ایک منہ اور ایک وِکٹ، خیر بچاتے چلے گئے۔ کوئی تین ’’اوورز‘‘ کے بعد ’’ سپن باؤلر‘‘ جسے گوگلی بھی کہتے ہیں گیند کروانے کے لیے آیا اور مجھے سُکھ کا سانس آیا پھر میں نے اِدھر اُدھر بلّا گھمانا شروع کر دیا۔ میری ففٹی نہیں ہوئی تھی۔ بلّا گھمانے سے مراد ’’ شارٹس‘‘ لگا رہا تھا۔ سلیکٹر سمجھ گیا کہ یہ شارٹ کٹ کھیل رہا ہے۔ وہ بھی اپنی طرف سے بڑے وقاریونس تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر تیز باؤلنگ لگائی، پر میں نے دوڑ نہ لگائی، ڈٹا رہا منہ اور وکٹ بچانے کے لیے۔ پھر ایک دم خیال آیا کہ عزت بھی بچانی ہے صرف منہ اور وکٹ ہی نہیں۔ اسی اثناء میں نظریں نیچے گئیں، باؤلر سر پہ تھا، نظر اوپر اُٹھائی تو وکٹ جا چکی تھی۔ جانے عزت کا کہاں سے خیال آ گیا؟ جبکہ ’’گارڈ‘‘ میں نے پہنا ہوا تھا۔ میں کلین بولڈ ہو چکا تھا بلکہ صرف بولڈ کیونکہ گھر سے میں نہا کر نہیں آیا تھا تو کلین (Clean) تو نہ ہوا اور بولڈ ویسے ہی بہت تھا۔
میں پچیس بلے بازوں میں شامل نہ ہو سکا تو باؤلنگ میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ سلیکٹر نے کہا کہ تم تو بیٹسمین ہو۔ میں نے کہا جی نہیں، میں آل راؤنڈر ہوں۔ سلیکٹر کہنے لگا :، بیٹا ایک ہی چیز کا ٹیسٹ دے سکتے تھے اور ویسے بھی کرکٹر ایک چیز میں ’’سپیشلسٹ‘‘ ہوتا ہے۔ میں نے کہا، جی غلطی ہو گئی میں نے تو دینا ہی باؤلنگ کاٹیسٹ تھا۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ کسی قسم کی غلطی ہے۔ ساتھ ہی میں نے عمران خان، وسیم اکرم، عبدالرزاق اور شاہد آفریدی کی مثالیں دیتے ہوئے اپنی مثال دی کہ میں بھی اِن کی طرح دونوں چیزوں میں سپیشلسٹ ہوں۔ وہ گھبرایا کہ اس نے تو اپنے آپ کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کھلاڑی بھی بنا لیا ہے۔ اِس سے پہلے کہ یہ بغیر ٹیسٹ دیئے اُس ٹیم میں حقیقتاً شامل ہو جائے اِس سے فوری باؤلنگ کا ٹیسٹ بھی لے ہی لیں۔
سلیکٹر صاحب نے مجھے بھی گیند تھمادی اور کہا کہ شروع ہو جاؤ۔ میں نے سوچاکہ دو چار ’’ اوورز ‘‘کروائیں گے پر کہاں جی، میں لگا رہا اور بس لگا ہی رہا۔ آٹھ نو اوورز لگاتار کروا کر مجھے کوئی جوس بھی نہ پلایا بلکہ نمک والا پانی پلادیا اور پھر میں لگا رہا۔ اتنی ’’ باؤلنگ‘‘ کروا کر مجھے محسوس ہوا کہ میں جانے کب کا سلیکٹ ہو چکا ہوں، پر سلیکٹر نے کچھ لڑکے سلیکٹ کر کے مجھے اگلے دِن پھر سلیکشن راؤنڈ کے لئے بلا لیا۔ میں سمجھ گیا سلیکٹر کے ذہن کو کہ وہ میرے ذہن کو سمجھ گیا ہے۔ میں نے تو اُس کی جان چھوڑنی نہیں اور اُس نے میرے لئے یہ طریقہ رائج کیا ہے کہ جس دِن تک سلیکشن ہونی ہے اِسے باؤلنگ ٹیسٹ کے لیے بلاتے جاؤ کیونکہ اگر اِس کو باؤلنگ میں بھی آؤٹ کیا تو اِس نے تو ’’ جینٹی روڈ‘‘ بن کر سامنے آ جانا ہے یعنی کہے گا کہ آپ مجھے ’’ فیلڈنگ ‘‘میں موقع دیں اور تو اور اُس کا خیال تھا کہیں میں ایمپائرنگ کا ٹیسٹ نہ اُسے دینا شروع کر دوں۔ اور اِس کے لئے بھی ایک واضح مثال علیم ڈار کی۔ اگلے دِن میں بہت تھکا ہوا تھا پچھلے دِن سارا دِن سلیکٹر نے باؤلنگ پر جو لگائے رکھا۔ وہ مجھے سلیکٹ نہیں کر رہا تھا۔ ٹیسٹ میچ کھلا رہا تھا، اور مجھے عبدالرزاق یا محمد سمیع سمجھ رہا تھا کہ جتنی مرضی ’’اورز‘‘ کروائی جاؤ نہ اِس نے بولنا ہے نہ تھکنا، پتہ نہیں یہ دونوں باؤلر کیا چیز ہیں ؟ تھکتے ہی نہیں، ہاں سگریٹ نہیں پیتے ہوں گے۔ اِس طرح سے تو ایک آدھ باؤلر ایسے بھی ہیں۔ جو پیتے ہی صرف سگریٹ ہوں گے۔ تھکے ہی رہتے ہیں۔ اُن کو سگریٹ لے بیٹھی، محمد عامر کو نوبال اور آصف کو تو وینا ملک ہی اور مجھے یہ سلیکٹر لے بیٹھا تھا۔ صبح امی جان نے اُٹھایا تو میں نے کہا:، میں نے نہیں جانا سلیکشن کے لیے۔ کیونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میں سلیکٹ ہو چکا ہوں صرف اِس سلیکشن کے اختتام تک باؤلنگ کروانے کے لیے۔ اُدھر سے اباجی کی گرجتی ہوئی آواز آئی کہ کیوں نہیں جانا؟ میں فوراً اُٹھ کھڑا ہوا کہ جی کس نے نہیں جانا؟ میں تو نہا کربس نکل ہی پڑا ہوں اور پھر اپنے ایک دوست کے ہمراہ سٹیڈیم پہنچا۔ آج سلیکٹر صاحب نے ہر چیز سفید رنگ کی پہنی ہوئی تھی۔ مجھے لگا ایمپائر کی جگہ کوئی ’’بغلا‘‘ کھڑا ہے کیونکہ وہ تھے بھی کافی سمارٹ اور جتنے دِن سے میں آ رہا تھا جو کچھ بھی سفید پہنیں ٹوپی کالی ہی ہوتی۔ تھوڑا سا آگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ سلیکٹر ہی تھے آج بغلے بغلے(بدلے بدلے )محسوس ہو رہے تھے۔ گیند تھما دی مجھے اور میں پھر شروع ہو گیا، سارا دِن باؤلنگ کرواتا رہا۔ سارا دِن بیٹنگ کرواتے تو یقین کریں میں انہیں ناشتہ بھی کرواتا وہ بھی پولی کے پایوں کا یا حفیظ پوری ہاؤس سے پوڑیاں۔ آج مجھ سے کچھ ’’وائڈ‘‘ بھی زیادہ جار ہے تھے جو کہ میرے حق میں جا رہے تھے۔ کیونکہ شام کو سیشن کے اختتام پر سلیکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ بھئی آپ سلیکٹ نہیں ہوئے۔ میرا دِل کیا کہ انہیں گلے لگا لوں کہ آپ کا بے حد شکریہ۔ کہیں کل پھر سارا دِن باؤلنگ کے لیے نہ بلا لینا۔
٭٭٭
فیس بُکی شاعر
محمد ایوب صابر
کتابی چہرہ شاعر سے مراد لمبوترا چہرہ نہیں بلکہ فیس بُک شاعر ہے۔ آجکل شاعر بننے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ فیس بُک پر اپنی آئی ڈی بنا لیں اِس کے بعد آپ خود کو شعراء کی فہرست میں شمار کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ میرے ایک دوست کو کسی نے بتایا کہ فیس بک پر آئی ڈی ہونا زبان و بیان کے علم سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ وہ کہنے لگا پھر تو میں بھی شاعر بن سکتا ہوں کیونکہ زبان و بیان پر عبور حاصل کرنا منہ زور گھوڑے پر سواری کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے برعکس فیس بک پر آئی ڈی بنانے میں پانچ منٹ درکار ہیں۔ میں آپ کو فیس بُک شاعر بننے کا آسان اور مکمل طریقہ بتا دیتا ہوں۔ آپ میل ہوں یا فی میل لیکن فیس بُک آئی ڈی بنانے کے لئے ’’ای میل‘‘ ایڈریس ہونا ضروری ہے کیونکہ فیس بُک تو ای میل کے پیٹ سے جنم لیتا ہے۔ اس لئے ای میل موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شاعری کے پہلے پائدان پر پاؤں رکھ لیا گیا ہے۔ اب چہرے پر ’’اقبالی سنجیدگی‘‘طاری کر کے ایک عدد تصویر بنا لیں اگر پس منظر میں کتابوں کی الماری نظر آ رہی ہو تو شاعر ذرا رعب دار ہو جاتا ہے۔
اب فیس بُک سے شعراء تلاش کر کے ان کو اپنی فرینڈز لسٹ میں شامل کرنا شروع کر دیں۔ صاحبو! شعراء سے زیادہ شاعرات کا آپ کی فرینڈز لِسٹ میں ہونا آپ کی شہرت کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ ہاں اپنی لِسٹ پر پرائیویسی لگانا مت بھولیں ورنہ آپ کا ہی کو ئی دوست آپ کے نئے دوستوں کو ورغلا کر اپنی لِسٹ میں شامل کر سکتا ہے۔ اس طرح دوستوں کو کھلی چھوٹ دینے سے وہ آوارہ کبوتر کی طرح کسی کی بھی منڈیر پر بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کے کمپیوٹر میں فوٹو شاپ پروگرام ہے تو اس کی مدد سے اداس سی خوبصورت لڑکی کی خیالی تصویر اپنی نظم یا غزل کے پس منظر میں ڈیزائن کر کے دوستوں کو ٹیگ کرنا شروع کر دیں پھر دیکھیئے کس طرح کمنٹس آتے ہیں اور لوگ کس قدر آپ کی شاعری کے حق میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ یہ سب آپ کی غزل یا نظم سے زیادہ اس حسین تصویر کا کمال ہو گا جو آپ شاعری کو سپورٹ کرنے کے لئے ڈیزائن کریں گے۔ اگر آپ نے دوستوں کو شاعری ٹیگ کر دی اور اس کے باوجود کچھ بے قدرے لوگ گرمجوشی سے کمنٹس کرنے کی بجائے خود کو آپ کی شاعری سے لا تعلق رکھنے پر بضد ہوں تو بھی آپ ہمت نہ ہاریں، اب چاٹ بکس میں جا کر اُن کے دماغ چاٹیں، یہاں تک کہ وہ آپ کی شاعری کو سندِ پسندیدگی عطا کرنے کا اعتراف کر لیں۔ وہ دن دور نہیں جب آپ کی یہی بے سروپا شاعری سخنِ پائیدار کا درجہ حاصل کر لے گی۔
مجھے فیس بُک کرتا دھرتا مارک زکر برگ سے ایک شکایت ہے کہ وہ خود تو دنیا کے دس امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گئے لیکن اپنے صارفین کو پانچ ہزار فیس بُک فرینڈز میں صرف پچاس لوگوں کو پوسٹ ٹیگ کرنے کی سہولت پر ٹرخا دیتے ہے۔ اب پانچ ہزار دوستوں سے پہلے پچاس خوش نصیبوں کے نام تلاش کرنا کابینہ تشکیل دینے سے بھی مشکل مرحلہ ہے۔ فیس بک پر شاعر جب پچاس فرینڈز کو اپنی شاعری ٹیگ کر لیتا ہے تو فیس بُک کی جانب سے ’’انتہائے ٹیگ‘‘ کا ہتھوڑا سر پر برستا ہے۔ اُس وقت ایک لمحے کو دل چاہتا ہے کہ ہم اپنی فیس بُک آئی ڈی بند کر دیں یا پھر کسی نہ کسی کا سر پھوڑ دیں۔ اِن سب مشکلات کے باوجود بھی ’’فیس بُکی ‘‘ شاعر ہونا کسی اعزاز کے کم نہیں۔
ایک زمانہ تھا جب برسوں کسی استاد شاعر کے حقے کی چِلم تازہ کرنے اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کے بعد مصرعہ سیدھا کرنے کے فن سے آشنائی حاصل ہوتی تھی۔ علمِ عروض کے لئے برسوں استاد کی تابعداری میں گزارنے پڑتے تھے اس کے بعد بمشکل ہی یہ علم ہاتھ آتا تھا۔ اب اتنے جھنجھٹ کون پالے ؟ خود کو ہی استاد سمجھتے ہوئے اپنی شاعری فیس بُک پر اپ لوڈ کر لیں، پھر دیکھیں کس طرح دھڑا دھڑ کمنٹس کی موسلادھار بارش ہوتی ہے۔ مشاعرے میں شاعر اکثر چہک چہک کر شعر سناتا ہے تاکہ داد کے ڈونگرے اس پر بھی برس پڑیں۔ مشاعرے میں جانے سے پہلے کتنی مشقت سے خود کو عام انسان سے شاعر کے قالب میں ڈھالنا پڑتا ہے کیونکہ شاعر وہ جو حُلیے سے ہی پہچانا جائے لیکن فیس بُک پر اتنی تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف آپ کو کمپیوٹر کا تھوڑا سا نالج ہونا چاہیے پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کے اور شہرت کے درمیان حائل ہونے کی غلطی نہیں کرے گی۔ ماضی میں کسی بھی شاعر کے لئے بین الاقوامی سطح پر قارئین کو اپنی شاعری سے متاثر یا متاثرہ کرنا فرہاد کی طرح دودھ کی نہر کھودنے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا مگر فیس بُک نے کام آسان کر دیا ہے۔
ہمارا یک دوست شاعر ’’اداس ٹوبہ ٹیک سِنگی ‘‘، شہر کے دور افتادہ گاؤں میں رہتا ہے۔ آج تک اُس نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بڑا شہر نہیں دیکھا، اس کے باوجود لندن، پیرس، نیویارک اور ٹورانٹو میں قیام پذیر اردو دان طبقہ اس کی دسترس میں ہے۔ وہ فخر سے کہتا ہے کہ پوری دنیا ہی میرے حلقۂ احباب میں شامل ہے۔ سحر انصاری، امجد اسلام امجد، راحت اندوری اور عطاء الحق قاسمی کو اپنے مقرب دوستوں کی فہرست میں شامل سمجھتا ہے۔ گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں کو بتاتا ہے کہ آج سحرؔ انصاری اور راحتؔ اندوری نے اس کی شاعری نہ صرف پڑھی ہے بلکہ اسے پسند( like)بھی کیا ہے، گویا اب وہ نالائق شاعر نہیں رہا کیونکہ اُردو کے نامور شعراء نے اسے لائق کر دیا ہے۔
ایک زمانے میں ہر وقت پڑھائی میں مشغول رہنے والے شخص کے لئے ’’کتابی کیڑے ‘‘ کا لقب استعمال ہوتا تھا۔ آج کل کتابیں تو لائبریریوں میں قید ہو کر دیمک کے کیڑوں کی خوراک بن رہی ہیں اس لئے اِن دنوں کتابی کیڑے نے فیس بُک کیڑے کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ کئی دفعہ تو ماں باپ اپنے فیس بُک کے دیوانے بچے کے کمرے آتے ہیں اور وہاں کا منظر دیکھ کر حیرانی کے عالم میں کہتے ہیں، دیکھو! کچھ دیر پہلے یہ فیس بُک پر مصروف تھا، اب بُک پر سر رکھ کر سو گیا ہے۔ آجکل بہت سے لوگ صرف اس لئے وقت پر دفتر آتے ہیں تاکہ فیس بُک پر منتظر خواتین و حضرات سے بذریعہ چیٹنگ ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہو سکے۔ فیس بُک صارفین اپنی اوقات سے بڑھ کر اپنے اوقات فیس بُک پر صرف کرتے ہیں۔
بعض منچلے کسی ماڈل یا اداکارہ کی تصویر لگا کر اپنی آئی ڈی بناتے ہیں۔ اِن کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ پروفائل فوٹو جس قدر جاذبِ نظر ہو، اسی قدر دوسروں سے دوستی کرنے میں آسانی ہوتی ہے، گویا وہ اپنی پروفائل فوٹو کو چڑیاں پھانسنے کے لئے جال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کافی عرصے تک ایک خاتون سے بلا ناغہ گفتگو کرتے رہے۔ ایک سال کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ مذکورہ خاتون در اصل کوئی مرد تھا جو خاتون کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے دوست کو بیوقوف بنا رہا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فیس بُک دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا تیز ترین ذریعہ ہے، اس کے باوجود فیس بُک کے منفی اثرات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ فیس بُک انتظامیہ نے اسے مزید دلچسپ بنانے کے لئے کال کی سہولت بھی مہیا کر دی ہے تاکہ لوگ فیس بُک کے سحر میں مزید مبتلا ہو جائیں۔ اُف یاد آیا، مجھے تو خود اس وقت فیس بُک پر لاگ اِن ہونا تھا، ہائے میں تو چلا۔ ۔ ۔
٭٭٭
رمضان روزے اور شیطان
محمد اشفاق ایاز
بزرگوں سے سنا تھا کہ رمضان میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ میاں لچھن کا کہنا ہے کہ بھلا شیطان کو قید کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو اپنے تربیت یافتہ بندے پیچھے چھوڑ کر کب کا پہاڑوں کی غاروں میں بسیرا کئے ہوئے ہے۔ اسے اب دنیا کے بکھیڑوں میں دخل اندازی کی اتنی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ادھر رمضان آیا، ادھر شیطان کے حواری میدان عمل میں ایسا آئے کہ گرو کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ مجال ہے جو پتہ چلے کہ شیطان ہمارے درمیان موجود نہیں۔
بازار میں جائیں تو جو چیز پہلے پچاس روپے کلو تھی اب اسی نوے بلکہ سو روپے میں بھی دستیاب نہیں۔ مسجدوں میں جوتیاں معمول کے مطابق چوری ہوتی ہیں۔ دن کے وقت ہوٹل باقاعدگی سے کھلتے ہیں۔ کاروبار رشوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چوکوں، چوراہوں، سڑکوں، گلیوں اور گھروں میں پہلے پیار سے اور پھر ’’چالان‘‘ کی وعید سے ’’عیدی ‘‘ وصولی شروع ہو جاتی ہے۔ مسجد میں آنے والی افطاری کا بڑا اور معیاری حصہ مولوی صاحب کے لئے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ گھروں میں افطاری کے نام پر پکنے والے کھانے کی بڑی بڑی پلیٹیں انہی گھروں میں چلی جاتی ہیں جہاں پہلے ہی کھابے تیار ہو رہے ہوتے ہیں اور ’’ اللہ کے نام پر بی بی جی‘‘ کی صدائیں لگانے والے مستحقین حسرت بھری نظروں سے پلیٹوں اور ٹرے کو ایک گھر سے دوسرے گھر سفر کرتا ہوا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اب اس میں تو میاں لچھن کو کہیں شیطان کی مداخلت نظر نہیں آتی۔
اب دیکھئے ناں، رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور معذوروں پر مشتمل بھکاریوں کی فوج ظفر موج شہروں میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ اب شیطان تو انہیں نہیں بھیجتا۔ نہ وہ ان سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ دوسری طرف دیکھئے رمضان المبارک سے کئی ماہ قبل ضروری اشیائے خورد و نوش کولڈ سٹوروں یا گوداموں میں جمع ہونے لگتی ہیں۔ اور رمضان کے دوران آہستہ آہستہ بازاروں میں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔ اب یہ کولڈ سٹورز اور گودام شیطان کے تو نہیں۔ نہ شیطان چینی کھاتا ہے، نہ آٹا یا پھل۔ اس کی بلا سے بازار میں مہنگی بکے یا سستی۔ اب اس اضافی آمدنی سے ہمارے تاجر اور سیٹھ عمرے اور حج کرتے ہیں۔ شیطان تو حج پر نہیں جاتا۔ اسے تو وہاں صدیوں سے سنگسار کیا جا رہا ہے۔ پھر وہ بھلا ان مقامات پر کیوں جائے گا۔ ہمارے کچھ تاجر دوست رمضان کو ’’سیزن‘‘ کا مہینہ کہتے ہیں۔ جو وہ اس ایک ماہ میں کماتے ہیں، وہ باقی کے گیارہ مہینوں میں نہیں کما پاتے۔
دفتروں میں روزوں کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ’’صاحب‘‘ روزے کے احترام میں دفتر سے جلد اٹھ جاتے ہیں۔ خواہ وہاں سے سیدھا کسی ’’محفل‘‘ میں چلے جائیں۔ اور ان کے اہلکار پہلے ’’افطاری‘‘ اور عید کے قریب ’’عیدی‘‘ کی وصولی ثواب کا کام سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔ نہ دینے والا ہچکچاتا ہے اور نہ وصول کرنے والا شرمندہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کام ’’امداد باہمی‘‘ کے اصول پرسرانجام دیا جاتا ہے۔ اب شیطان کونہ افطاری کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ عیدی کی وہ بھلا کسی کو ایسا کرنے پر کیوں اکسائے گا۔ سب خطا آنکھوں کی ہو تو کیوں سزا پائے دل۔ ہم نے وہ دن بھی دیکھے جب میاں لچھن گھر سے روزہ رکھ کر دفتر آتے تھے۔ دوپہر کے وقت قریبی خفیہ کینٹین سے کھانا کھا کر اور سیگریٹ کا کوٹا پورا کر کے تین چار منٹ دھوپ میں کھڑے ہو جاتے۔ تاکہ کھانا کھانے سے جو آ جاتی ہے چہرے پہ رونق، اس میں کمی ہو۔ جب وہ چھٹی کر کے گھر واپس جاتے تو ایک روزہ دارشکل کے ساتھ داخل ہوتے۔
ایک دن میاں لچھن افطاری کے وقت مسجد میں گئے۔ وہاں انواع و اقسام کے کھانے اور پھل دیکھ کر جی چاہا کہ سب کچھ لوٹ کر گھر لے جائیں۔ تھوڑی دیر بعد انہیں بھی شاپر بند افطاری پیش کی گئی۔ ایک کھجور اور شربت کے دو گلاس سے افطاری کے بعد انہوں نے بقیہ شاپر کو احتیاط سے مسجد کی الماری میں رکھ دیا تاکہ بقیہ نماز کے بعد گھر لے جا سکیں۔ میاں لچھن حفاظتی نقطہ نظر سے الماری کے قریب ہی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ ایک بچہ انہیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ اور بس اسی تاک میں تھا۔ جونہی نماز شروع ہوئی، وہ بچہ اٹھا اور الماری سے شاپر نکال کر چلتا بنا۔ میاں لچھن بچے کی اس دیدہ دلیری پر نماز بھول گئے۔ قریب تھا کہ نماز چھوڑ کر اس کی گردن توڑ دیتے۔ لیکن کچھ مصلحتیں آڑے آ گئیں۔ اور اپنا مال ’’افطاری‘‘ بڑی بے دردی بلکہ دیدہ دلیری سے اپنے سامنے جاتا دیکھ کر بھی چپ ہو رہے۔ بقیہ نماز میں دماغ اور نظروں کے سامنے شاپر ہی گھومتا رہا۔
دوسرے دن میاں لچھن قمیض کے نیچے بڑی بڑی جیبوں والی صدری پہن کر افطاری کے لئے مسجد گئے۔ حسب روایت مسجد کے صحن میں مال افطاری سے لبریز شاپر انہیں ملا تو فوراً اندر چلے گئے اور چند ہی لمحوں میں سب صدری کی جیبوں میں ڈال کر باہر آ گئے۔ اب ایک دوسری بچے نے جو کسی ماہر جیب تراش خاندان کا معلوم ہوتا تھا میاں لچھن کی استادی دیکھ لی۔ اور دل ہی دل میں کہا ’’استادیاں اور ہمارے ساتھ‘‘۔ جونہی میاں لچھن ہر قسم کے خوف سے آزاد نماز کے لئے کھڑے ہوئے، استاد بچے نے قمیض کے اندر بھی استادی دکھا دی۔ میاں لچھن کا مال افطاری، مال غنیمت بن کر لمبی جیب سے پھسل کر میاں لچھن کے عین قدموں میں آن گرا۔ اس سے پہلے کہ میاں لچھن صورتحال کو سمجھتے۔ وہ بچہ مال غنیمت لوٹ کر جا چکا تھا۔
تیسرے دن میاں لچھن نے مال کو جیبوں میں ڈالا۔ اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ہاتھ اس طرح باندھے گویا جیبوں کو سختی سے بھینچ رکھا ہو۔ اب ایک اور بچہ میاں لچھن کی جیبوں کو ایک چیلنج سمجھتے ہوئے، ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ پہلی رکعت خیریت سے مکمل ہو گئی۔ میاں لچھن سمجھے آج جیبوں پر ہاتھ رکھنے کی ترکیب کامیاب رہی اور خطرہ ٹل گیا۔ مگر اصل میں بڑے استاد کا ہونہار چیلہ اس تاک میں تھا کہ میاں لچھن کی جیبیں کس حالت میں زیادہ آزاد ہوتی ہیں۔ دوسری رکعت کے پہلے ہی سجدے میں جب میاں لچھن کے ہاتھ جیبوں سے ہٹے تو وہ اپنے وزن سے نیچے لٹک گئیں۔ بچے نے کہنیوں اور پیٹ کے درمیان سے ایسے واردات کی جیسے جنگلی بھیڑیا کسی بڑے جانور کی بغل سے گوشت نکالتا ہے۔ میاں لچھن سجدے میں کسمسائے لیکن۔ ۔ ۔ بچہ مع مال غنیمت جا چکا تھا۔ میاں لچھن کی زبان پر بے اختیار موٹی سی گالی آ گئی۔ میاں لچھن کی شکست فاتحانہ کی ہیٹ ٹرک مکمل ہو چکی تھی۔ رمضان ابھی باقی تھا لیکن ان میں مزید بے عزتی کی گنجائش نہ رہی تھی۔ نماز کے بعد مسجد پر الوداعی نظر ڈالی۔ اور گھر آ گئے۔ اس کے بعد انہیں عید کی نماز کے لئے ہی مسجد کی طرف جاتے دیکھا گیا۔
اب ہر شخص میاں لچھن کی طرح جلد ہار مان لینے والا نہیں ہوتا۔ وہ افطاری وصول کرتے ہی مال کی قسم اور نوعیت کے لحاظ سے ترجیحات کا تعین کر لیتے ہیں۔ کس مال کو مسجد میں ہی ختم کرنا ہے۔ کونسا گھر جا سکتا ہے یا گھر لے جایا جا سکتا ہے۔ شربت بھی ہو، چاول بھی ہوں، کھجوریں اور سموسے بھی ہوں تو وہ یوں کریں گے کہ شربت سے پیٹ بھر لیا۔ تھوڑے سے چاول بھی کھا لئے۔ پھل کٹا ہوا ہو تو وہیں کھا لیں گے۔ اور باقی جو بچا وہ احتیاط سے شاپروں میں تقسیم کر کے گھر لے جائیں گے۔ بعض تو احتیاط سے شاپر گھر سے لے کر آتے ہیں۔ اب بتاؤ بھلا یہ باتیں انہیں شیطان سمجھاتا ہے ؟۔ یہ ماشا ء اللہ خود سمجھدار ہیں۔ انہیں شیطان کی رہنمائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
اب ایک اور سنو۔ جن کے گھر میں بچے زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ سب بچوں کو ایک ہی مسجد میں نہیں بھیجتے ہیں۔ صاحب خانہ ذرا دور کی مسجد میں جائیں گے۔ اور بچے ٹکڑیوں میں تقسیم ہو کر مختلف مساجد میں چلے جائیں گے۔ بعد میں جب سب اکٹھے ہو کر اپنی اپنی کامیابی کی داستانیں سناتے ہیں۔ تو صاحب خانہ خوش بھی ہوتے ہیں اور انہیں اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں بہت سی گُر کی باتیں بھی بتاتے ہیں۔ اس میں چھینی جھپٹی سے لے کر جھوٹ موٹ کا رونا بھی شامل ہوتا ہے۔ زیادہ اولاد کا فائدہ رمضان کے مہینے میں ہی نظر آتا ہے۔ پھر ہر روز ہر مسجد میں ’’عید ‘‘ نہیں ہوتی۔ بعض اوقات مال کی رسد بہت کم ہوتی ہے۔ اگر یہ صورتحال ہو تو بچے فوراً دوسری مسجد کا رخ کر لیتے ہیں۔ بچے یہ خبر بھی رکھتے ہیں کہ کس گھر میں دیگ پک رہی ہے اور وہ کس مسجد میں جائے گی۔
رمضان میں مسجد کے علاوہ بھی افطار پارٹیاں ہوتی ہیں۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے تو کیا انہیں شیطان کہتا ہے کہ ایسی ہڑبونگ مچاؤَ، بھئی وہ تو خود ایسی بھیڑ بھڑکے سے دور بھاگتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس کلاس میں شاگرد زیادہ ہوں وہاں استاد بھی جانے سے گھبراتا ہے۔ ایسی بعض افطار پارٹیوں میں روزہ کھلنے سے پہلے ہی میز اشیائے افطاری سے خالی ہو چکے ہوتے ہیں۔ بڑے لیڈر تقریر کرتے رہ جاتے ہیں اور کارکن جو خاص نیت اور ارادے سے گئے ہوتے ہیں وہ در اصل حالت جہاد میں ہوتے ہیں۔ وہ جس تیز رفتاری اور مہارت سے اپنے ٹارگٹ پر پہنچتے اور اپنا مشن پورا کرتے ہیں۔ اگر انہیں کسی دشمن ملک میں خاص مشن پر بھیجا جائے تو کامیاب لوٹیں گے۔
٭٭٭
خدارا !دورانِ سحری و افطار لوڈ شیڈنگ کیجئے
سید سعید بدر
ابھی کل ہی کی بات ہے ہمارے دوست ’’ب‘‘ المعروف شاہ صاحب ہانپتے کانپتے تشریف لائے اور بیٹھتے ساتھ ہی میز پر سے جگ اٹھا کر سامنے پڑے گلاس میں پانی انڈیلا اور غٹا غٹ پی گئے ہم ارے ارے ہی کرتے رہ گئے لیکن انہوں نے ہماری طرف دھیان ہی نہ دیا جب خوب سیر ہو چکے تو کہنے لگے ’’ آپ غالباً کچھ پوچھ رہے تھے ؟‘‘
ہم نے کہا ’’ جناب پوچھنا کیا؟ بس یہ بتا رہے تھے کہ ماہ رمضان ہے اور آپ ہمارے سامنے پانی پی رہے ہیں۔ کیا روزہ نہیں رکھا؟‘‘
انہوں نے ہماری بات اتنی ہی توجہ سے سنی جتنی کہ زرداری صاحب، نواز شریف صاحب کی سنتے ہیں پھر نہایت اطمینان سے بولے ’’ میں بھول گیا تھا، لیکن یہ بتاؤ کہ تم ماہ رمضان، دن کے وقت اپنے سامنے پانی سے بھرا جگ رکھ کر کیا افطاری کے لئے مچھلیاں پکڑ رہے تھے ؟‘‘
اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی حالت میں کوئی شریف انسان کیا کر سکتا ہے ؟ سو ہم نے بھی شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے عزت سادات بچانے کے لئیے خاموشی اختیار کر لی۔
شاہ صاحب کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتے رہے اور ہم بھی جواب میں ادھر ادھر دیکھتے رہے مگر صرف اتنی احتیاط کی کہ وہ اس طرف دیکھتے تو ہم اُس طرف دیکھنے لگ جاتے، وہ ہماری نگاہ کی سیدھ میں کچھ تلاش کرتے تو ہم الٹ میں یعنی مخالف سمت دیکھنے لگ جاتے۔ کافی دیر ’’لک لک‘‘ کا یہ کھیل چلتا رہا پھر ہم نے سامنے سے ایک کامن پن اٹھالی انہوں نے بھی ایسا ہی کیا، ہم بلا وجہ پن کان میں گھمانے لگے انہوں نے بھی پن والا ہاتھ اوپر کیا کان تک لے کر گئے لیکن نہ جانے کیا سوچ کر دانت کریدنے لگ گئے۔ کافی دیر ہم دونوں اپنے اپنے کاموں میں اس طرح مگن رہے جس طرح امریکا ڈاکٹر عافیہ پر جھوٹے الزامات لگانے اور ان کے خلاف جھوٹے ثبوت تیار کرنے میں مگن ہے آخر جب اس سے بھی تھک گئے تو ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگ گئے۔
شاہ صاحب نے ہماری جانب دیکھا ہم نے ان کی جانب دیکھا، انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا ’’کچھ سنا تم نے ؟‘‘
’’جی ہاں ! ایک ٹھنڈی آہ کی آواز۔ ۔ ۔ یا پھر کسی سانس کے مریض کی آخری سانسوں میں سے ایک سانس کی آواز تھی‘‘ ہم نے سوچتے ہوئے ادب سے جواب دیا لیکن شاید انہیں ہمارا جواب پسند نہ آیا لہذا سیخ پا ہو کر چلائے ’’رمضان کے آغاز میں حکومت کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ اب سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی‘‘
ہم نے یہ سن کر خوشی کا اظہار کیا ’’ اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟ عوام کو کچھ تو سہولت ہو گی۔ ‘‘
لیکن انہوں نے ہماری بات سے اتفاق نہ کیا کہنے لگے ’’لگتا ہے آج کل سیاست سے کچھ دور دور ہو‘‘
اب کے ہم نے ان کی بات سے اتفاق نہ کیا کیونکہ ہمارے خیال میں آج کل ہی تو ہم (گھریلو) سیاست میں ’’اِن‘‘ ہیں، بھلا کونسا فساد ہے جس میں ہمارا ہاتھ نہیں ؟ لیکن وہ مصر رہے کہ ہم سیاست کی الف بے بھی نہیں جانتے آخر ہمیں ان کی مانتے ہی بنی کہنے لگے ’’کیا تم ہمارے حکمرانوں کی عادتوں سے واقف نہیں ہو؟ واللہ! دنیا کے سب سے ذہین حکمران ہمارے پاس ہیں۔ ذرا غور کرو پہلے سولہ سے بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اب اعلان کیا گیا کہ سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی‘‘
’’بالکل یہی تو فائدے کے بات ہے ‘‘ ہم فوراً چلائے۔
شاہ صاحب نے غصے سے ہماری جانب دیکھا اور کہنے لگے
’’پہلے مجھے اپنی بات پوری کر لینے دو‘‘
ہم نے بھی کہہ دیا کہ چلیں آپ اپنی بات پوری کر لیں ہم کونسا کسی مشاعرے میں بیٹھے ہیں جو اپنی اپنی سنانے کے چکر میں پڑیں۔
شاہ صاحب پھر سے کہنے لگے ’’حکومت نے وعدہ کیا کہ سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی لیکن یہ وعدہ تو نہیں کیا کہ دن کے باقی اوقات بھی بجلی کی سپلائی جاری رہے گی۔ اب سحر اور افطار کا وقت تو بمشکل دو گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام کے وقت لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی لیکن باقی بائیس گھنٹے کی کوئی گارنٹی نہیں اس طرح تو حکومت سولہ سے بڑھا کر بائیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھی کر سکتی ہے اور اب تو ذمہ داروں کے یہ بیانات بھی آن دی ریکارڈ آ چکے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کو نہیں روکا جا سکتا، مطلب دو گھنٹے کی بھی ضمانت نہیں رہی۔ ۔ ۔ ‘‘
شاہ صاحب تو چلے گئے لیکن ہم واقعی پریشان ہو گئے کہ روزہ تو دن کے وقت ہوتا ہے اور اس وقت اگر بجلی کی سپلائی معطل رہی تو روزہ داروں کا کیا حال ہو گا؟؟؟ گرمی بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ۔ ۔ پسینہ بھی خوب بہے گا اور پیاس بھی خوب لگے گی۔ لیکن جب لائٹ ہی نہ ہو تو عین ممکن ہے پانی بھی نہ ملے اور نہ ہی افطاری کا سامان تیار ہو سکے، حبس بھی اپنے عروج پر ہے لوگ نمازِ تراویح کیسے ادا کریں گے ؟ اور امام بھی آخر کتنی بلند آواز سے بول سکتا ہے وہ بھی انسان ہے مرغا تو نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اور لائٹ نہ ہونے کا مطلب لاؤڈسپیکر بھی جام!
ہمارے دوست ’’ب‘‘ المعروف شاہ صاحب نے ہمیں مشورہ دیا ہے کہ ہم ایک انجمن قائم کریں جس کے تحت ملک بھر میں سیمینار کروائے جائیں اور ایک بل منظور کروانے کی کوشش کی جائے جس کی رو سے حکومت وقت یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے کہ آئندہ سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ ہو گی لیکن دوران روزہ بجلی کی سپلائی جاری رہے گی تاکہ روزہ دار کسی بھی قسم کی مشکلات کا شکار نہ ہوں۔
امید ہے آپ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ ویسے تو ہمیں یہ بھی امید ہے کہ جب تک یہ بل منظور ہو گا تب تک رمضان ختم ہو چکا ہو گا۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بکرا عید (جس پر اس مرتبہ مہنگائی کی وجہ سے مرغا ذبح کرنے کے زیادہ چانس نظر آ رہے ہیں ) بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہو گی۔ بہر حال پھر بھی آپ امید کا دامن تھامے رکھیں کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔ جبکہ امید کا تا حال معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کس پر قائم ہے، قائم بھی ہے یا اب تک دم توڑ چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ اللہ ہماری مردہ امیدوں کو جنت میں جگہ عطا فرمائے (آمین)
٭٭٭
بڑھاپا اور جرم قبول کرنا آسان نہیں
مرزا یاسین بیگ
بڑھاپا پوچھ کر آتا ہے نہ دھکے دینے سے جاتا ہے۔ یہ مشرق میں مرض اور مغرب میں زندگی سے انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ہے۔ بڑھاپے میں دانت جانے لگتے ہیں اور دانائی آنے لگتی ہے۔ اولاد اور اعضاء جواب دینے لگتے ہیں۔ بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے۔ خوراک اور صحت آدھی رہ جاتی ہے۔ نظر اور بال بھی کم ہونے لگتے ہیں۔ بڑھاپا آتا ہے تو مرتے دَم تک ساتھ نبھاتا ہے۔
بڑھاپے کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حسین لڑکیاں ’’انکل‘‘ کہہ کر پکارنے لگتی ہیں۔ ہاتھ میں رعشہ یا چھڑی آ جاتی ہے۔ شوگر کا حساب پل پل رکھنا پڑتا ہے۔ میٹھی نظر ڈالنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چہرے پر چشمہ اور جھریاں جگہ پانے لگتی ہیں۔ بال اچانک کالے سے گورے ہونے لگتے ہیں۔ گھٹنوں اور دل میں درد رہنے لگتا ہے۔
انسان دو چیزیں مشکل سے قبول کرتا ہے۔ اپنا جرم اور اپنا بڑھاپا۔ ہمارا بچپن دوسروں کی دلجوئی اور خوشی کے لیے ہوتا ہے، جوانی صرف اپنے لئیے ہوتی ہے اور بڑھاپا ڈاکٹروں کے لیے۔ جب بار بار الل?ہ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگے تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ بڑھاپے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ بے ضرر ہوتے جا رہے ہیں، اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں انکل کہہ کر پکارنے لگیں تو تردد سے کام نہ لیں، تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لئے سیٹی بجائیں کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں۔ بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے تواِس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان کی تربیت اور اپنی لائف انشورنس پر پورا دھیان دیا ہے۔
’ ’مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘‘ یہ ایک نہیں ہزاروں بوڑھوں کا قول ہے۔ بوڑھا ہونا الگ چیز ہے اور بوڑھا دکھائی دینا الگ۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہوتا ہے۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں، اس کے لیے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا نہ چل پاتی اگر بوڑھے ہونے کا رواج نہ ہوتا۔ بوڑھے ہونے کے بہت سے فائدے اور کافی سارے نقصانات ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں سوائے سیاست دان کے۔ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندا بالکل مندا ہوتا ہے۔ بوڑھوں کو بندی اور خاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔
عورتیں بوڑھی تو ہوتی ہیں مگر ان کی عمر اکثر جوانی والی ہی رہتی ہے۔ مغربی عورت اپنی عمر چھپاتی ہے نہ جسم۔ پاکستان میں جو عورت اپنی عمر پینتیس سال بتاتی ہے وہ پچاس سال کی دکھائی دیتی ہے، کینیڈا میں جو پچپن سال بتاتی ہے وہ دیکھنے میں پینتیس کی لگتی ہے۔ پاکستانی آمدنی چھپانے میں اور چینی عمر چھپانے میں نمبر ایک ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق آج کی دنیا میں پانچ سال کی عمر کے بچے کم اور ساٹھ سال سے زائد عمر کے بوڑھے زیادہ ہیں۔ اگلے پانچ سالوں میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے بوڑھوں کی تعداد ایک ارب ہو جائے گی اور ان میں سے اسّی فیصد ترقی یافتہ ممالک میں ہوں گے۔ ہم خوش ہیں کہ ہم اس وقت بوڑھے ہوں گے جب بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ کسرت کی عادت کی وجہ سے کینیڈا میں بزرگوں کی کثرت ہو گئی ہے۔
دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ہے۔ اس میں آپ کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے : بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعد۔ زیادہ بوڑھے ہو کر مرنا، اپنے آپ کو رنج پہچانا ہے۔ ہر بچے کے اندر ایک بوڑھا چھپا ہوتا ہے بشرطیکہ وہ عمر لمبی پائے۔ کیا باکمال دور ہے یہ آغازِ بڑھاپا بھی۔ بچپن میں ہم ٹیسٹ دیا کرتے یا ٹیسٹ دیکھا کرتے تھے، اب ڈاکٹر ہمارے لیئے ٹیسٹ لکھ رہا ہے۔ ہمارا تو ہر عمر رسیدہ کو یہی پیغام ہے کہ دنیا سے انجوائے کرو قبل اس کے کہ دنیا تم سے انجوائے کرے۔
٭٭٭
سنگین خان کا سفر نامۂ لاہور
میم سین بٹ
امارا نام سنگین خان اے اور امارا مخالفین ام کو پیٹھ پیچھے رنگین خان بھی بولتا اے مگر ام سچا بات کا کبھی برا نئیں مناتا، ام کراچی کے علاقہ سہراب گوٹھ اور امارا خاندان پیشا ور کے پہاڑپورہ محلے میں رہتا اے مگر امارا آبائی علاقہ پڑانگ چارسدہ اے، اودھر اب بھی امارا قبیلہ رہتا اے، تیس سال پہلے امارا ماں باپ مرضی سے شادی کر کے پیشا ور بھاگ آیا تھا علاقے میں امارے ماموں نے امارا دادا اور اس کا بھائی مار ڈالا تھا، بدلے میں امارے چا چا نے امارا نانا اور ماما قتل کر دیا تھا اب تک دونوں طرف چالیس لوگ قتل ہو چکا اے، ماں کے قبیلے نے زیادہ لوگ مارا آخر غیرت بھی کوئی چیز ہوتا اے۔
ایک دفعہ ام نے غیرت میں آ کے اپنے باپ پر بندوق تان لیا تھا ’’خوچہ بتاؤ تم نے امارا ماں کو اغوا کر کے شادی کیوں کیا؟
اس پر امارا باپ بولا تھا ’’یارا ! ام نے تمھارا ماں کو نئیں بلکہ اس نے ام کو اغوا کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
اس کا یہ بات سن کر ہم ٹھنڈا ہو گیا تھا اور ماں کو کچھ نہ کہا تھا ہمارا غیرت ام کو عورت ذات پر ہاتھ اٹھانے کا اجازت نئیں دیتا امارا معاشرے میں لڑکیاں محفوظ رہتا اے۔ ۔ ۔ !
یہ آٹھ دس سال پہلے کا بات اے ام میٹرک میں فیل ہونے کے بعد پیشاور اور کوہاٹ کے درمیان ٹرک چلایا کرتا تھا ایک روز ام مال لے کر جاتے ہوئے درہ آدم خیل کے گاؤں ٹنڈی میں چائے پینے رکا تو ہوٹل کا بیرا لڑکا ام کو اچھا لگا اس کا عمر بارہ تیرہ سال تھا ام نے کمسن خان کو بولا ’’ یارا تم ہوٹل کا نوکری چھوڑ کر امارا کلینر بن جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
اس نے انکار کر دیا جس پر ام کو بڑا غصہ آیا مگر برداشت کر گیا اور نسوار کا چٹکی لے کر آگے چلا گیا، کوہاٹ سے واپس پیش اور جاتے ہوئے ام نے کمسن خان کو پستول دکھا کر ہوٹل سے اغوا کر لیا مگر امارا بدقسمتی کہ وہ تیسرے دن پیش اور سے بھاگ کر درہ آدم خیل واپس پہنچ گیا اور پھر اس کا ہوٹل مالک نے امارے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروا دیا ام گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے دوست لکڑ خان کے پاس لہور بھاگ گیا۔
لکڑ خان کا گھر لہور کے علاقے موزنگ میں تھا، گھر کے ساتھ ہی اس کے باپ کا ٹال تھا مگر لکڑ خان نے مین بازار میں نان روٹی کا تندور لگا رکھا تھا ام نے بی صبح اور شام کا وقت تندور پر نان روٹیاں لگانا اور دن کا وقت آوارہ گردیاں کرنا شروع کر دیا، لہور کا زیادہ تر نوجوان بڑا خوبصورت ہوتا اے جب وہ انگریز کا لباس پہن کر جا رہا ہوتا اے تو دیکھ کر اور بھی پیارا لگتا اے، جی چاہتا اے کہ بس اس کو جاتا ہوا دیکھتا ر ہو اور سب گھڑیوں کا سوئی ٹوٹ جائے۔ ۔ ۔ !
امارا تندور پر ایک چھوٹا سا لڑکی روٹی لینے آیا کرتا تھا ام نے ایک روز اس سے پوچھ لیا ’’اے لڑکی تمھارا کوئی بھائی روٹی لینے کیوں نئیں آتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
وہ لڑکی بولا تھا ’’ میرا تو کوئی بھائی ای نئیں اے۔ ۔ ۔ !
یہ سن کر زندگی میں دوسرا بار امارا آنکھوں میں آنسو آ گیا تھا بے چاری کا کوئی بھائی ای نئیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
لاہور کا لوگ باہر سے آنے والوں کا بہوت عزت کرتا اے اور اپنے لوگوں کا ٹانگ کھینچتا رہتا اے، ام نے ان جیسا میزبان دوسراکوئی نئیں دیکھا اودھر کا پڑھا لکھا لوگ ماں کا زبان تک نئیں بولتا، زیادہ لوگ قومی زبان اردو اور بین الاقوامی زبان انگریزی میں بات کرتا اے، یاد آیا لہور میں ایک بازار کا نام اردو بازار بھی تھا ام نے ایک دکاندار سے پوچھا تھا ’’ یارا ایدھر پشتو بازار بھی اے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اس نے ام سے بولا ’’ ہال بازار یا لنڈا بازار چلا جاؤ۔ ۔ ۔ !‘‘
لہور کا ہر بازار میں پٹھانوں کا خشک میوہ، چائے پتی وغیرہ کا دکان مل جاتا اے، لکشمی چوک میں تو کریانے کا دکان بھی پٹھان بھائی کا تھا، اودھر دو تین پٹھان بھائی موچی بی تھا ام اس سے نسوار خریدا کرتا تھا، موزنگ اڈہ میں پٹھانوں کا ہوٹل بڑا مشہور تھا ام اکثر پشتو فلم اور گانا دیکھنے اس ہوٹل پر جایا کرتا تھا اودھر ٹی وی پر پشتو چینل لگا رہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ !
ایک روز ام انارکلی میں گھوم پھر رہا تھا کہ امارا چائے پینے کو جی چاہا مگر اتوار کا وجہ سے سب ہوٹل بند تھا نیلا گنبد کے راستے موزنگ واپس جاتے ہوئے مال روڈ کے قرب ایک ہوٹل کھلا ہوا دیکھ کر ام اندر چلا گیا، کافی لوگ بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا جن میں بوڑھا، جوان سب شامل تھا بچہ لوگ اور عورت نئیں تھا، بیرا امارا لئے چائے لایا تو ام نے اس سے پوچھا ’’یارا یہ کون لوگ اے ؟‘‘
اس نے بتایا ’’یہ شاعر لوگ اے، چائے کم پیتا اے اور باتیں زیادہ کرتا اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘
ام نے زور سے بابا خوشحال خان خٹک کا ایک پشتو شعر پڑھ دیا، سب لوگ غصے سے امارا طرف دیکھنے لگا اس شعر کا مطلب اے کہ کسی کے کانوں تک میرا تلوار کا جھنکار پہنچ چکا اے اب وہ خواب میں بھی لرزتا ہوا چارپائی سے گر پڑتا اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
کچھ دیر بعد بوڑھا لوگ اودھر ای بیٹھا رہا مگر نوجوان لوگ اٹھ کر اوپر جانے لگا ام بھی بیرے کو پیسے دے کر ان کے پیچھے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا کچھ دیر بعد ایک شاعر نے کاغذ پر لکھا ہوا چند شعر پڑھنا شروع کر دیا مگر کسی نے اس کو داد نہ دیا بلکہ شعر میں کیڑے نکالنا شروع کر دیا شاعر بیچارہ کچھ نہ بولا اور اپنے خلاف دوسروں کا بات سنتا رہا ام کو بڑا عجیب لگا اور غصہ آ نے لگا جب آٹھواں مخالف بولنے لگا تو ام نے اس کو گردن سے پکڑ لیا اس پرسب لوگ اٹھ کھڑا ہوا ہنگامہ ہو گیا اور ام کو دھکے دے کر سیڑھیوں سے اتار دیا گیا ام نے نیچے آ کر ان لوگوں کو پشتو میں تڑاخ تڑاخ گالیاں دیا اور چائے گھر سے باہر نکل کر موزنگ چل دیا۔
ایک روز ام ریگل چوک سے گزر رہا تھا کہ ایک دکان پر گلابوں کے پھولوں نے امارا قدم روک لیا اودھر اور بی رنگ برنگ کا پھول پڑا تھا جن سے دکان والاگلدستہ بنا رہا تھا مگر ام کو پھولوں میں صرف گلاب پسند اے ام نے دکان سے ایک گلاب کا پھول اٹھا کر کان پر سجا لیا اور آگے بڑھ گیا دکان دار ام کو بس گھورتا ای رہ گیا، ٹیمپل والے روڈ سے گزرتے ہوئے سینما گھر کے گیٹ سے نکلنے والا ایک لڑکا ام سے ٹکرا گیا ام نے اس سے پوچھا ’’اوئے تم فلم دیکھ کر آیا اے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
وہ بولا ’’ ایدھر انگریزی فلم مشین گرل عرف میرا جوانی گرم مصالحہ لگا ہوا اے، ام پنجابی فلم ماکھا گوجر دیکھنے ایبٹ روڈ جا رہا اے !‘‘
ام نے پوچھا ’’ یہ ماکھا گوجر کون تھا یارا۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اس نے بولا ’’ وہ بدمعاش، ڈاکو اور کرائے کا قاتل تھا اس نے پچاس ڈاکے مارا اوردس قتل کیا، مخبری پر ہیروں کی منڈی سے پکڑا گیا اور چار دن بعد راوی کنارے جعلی پولیس مقابلہ میں مارا گیا تھا !‘‘
ام کو بڑا حیرانی ہوا کہ پنجابیوں کا فلمی ہیرو کس قسم کا لوگ ہوتا اے ؟پھر لہور میں ام نے کئی پنجابی فلمیں دیکھا یہ پچیس فیصد پشتو فلموں جیسا ہوتا تھا خاص طور پر اس کا موٹا تازہ ہیروئین اور اس کا ڈانس دیکھ کر پشتو فلموں کا کمی پورا ہو جاتا تھا فرق صرف اتنا ہوتا تھا کہ پنجابی فلموں کا ہیروئین زیادہ تر کیمرے کی طرف منہ کئے رکھتا تھا !
ایک روز ام چڑیا گھر کا سیر کر کے موزنگ اڈہ جا رہا تھا کہ راستہ میں گنگا رام ہسپتال والا چوک میں ایک لڑکا فٹ پاتھ پر پیٹ پکڑے بیٹھا نظر آیا ام نے اس سے پوچھا ’’خوچہ کیا ہوا ؟‘‘
وہ بڑی مشکل سے بولا ’’ ہائے درد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘
ام نے پوچھا ’’ درد زہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
وہ پیٹ چھوڑ کر ام کو غصے سے گھورتا ہوا اپنے بوٹ کا تسمہ کھولنے لگا ام اس کا ارادہ سمجھ گیا اور صفانوالہ چوک کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
اِن دنوں امریکہ میں بلڈنگ تباہ ہوا تو دنیا میں عرب اور پٹھان مسلمانوں کا شامت آ گیا، خود کش دھماکوں کے بعد لہور میں بی پٹھانوں کا پکڑ دھکڑ شروع ہو گیا تو ام واپس اپنے علاقے میں چلا گیا مگر اودھر لہور سے بی زیادہ سختی تھا ام کو رشتہ داروں کے پاس کراچی بھیج دیا گیا اب ام کراچی میں اومنی بس چلاتا اے اور لہور کو یاد کرتا رہتا اے، جب کبھی ام کو لہور بہوت زیادہ یاد آتا اے تو ام زور زور سے آواز لگانا شروع کر دیتا اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہور لہور اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہورلہوراے۔ ۔ ۔ لہور لہور اے۔ ۔ ۔ ۔ لہور لہور اے !‘‘
٭٭٭
رکشہ
فہد خان
ایک تو ہم کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔ اب اسی رکشے کو دیکھ لیں۔ مذاق اڑاتے ہیں ہم ان کا۔ پھٹیچر کہتے ہیں۔ ارے عام رکشے تو عام ہوتے ہیں ہم تو سپر ایشیاء کے ٹُک ٹُک کو بھی ساری عمر وہ مقام نہ دیں گے جو اس کا بنتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے مصباح ٹُک ٹُک کو ہم نے کبھی بھی وہ مقام نہیں دیا جس کا وہ حق دار ہے۔ ذرا سوچئے اس دن کیا ہو گا جب آپ اپنے گھر سے باہر نکلیں اور آپ کو رکشہ نہ ملے گا؟پھر چندھیائی ہوئی آنکھوں سے کسی رجلِ رشید کا انتظار کریں گی، جو جنت کی سواری لا کر آپ کے سامنے بریک مار کر کہے : پین! کتھے جانا اے ؟
خدا دشمنوں کو بھی وہ وقت نہ دکھلائے۔
اب رولز رائس، بی ایم ڈبلیو، ، لینڈ کروزر کے فوٹو تو ہمارے نائیوں نے دکانوں میں ایسے لگائے ہوتے ہیں جیسے والدین کی تصاویر لگائی جاتی ہیں۔ حالاں کہ رکشہ میڈ ان پاکستان ہے۔ ہمیں اپنی بے غیرتیوں کے ساتھ ساتھ اپنی مصنوعات پر بھی فخر ہونا چاہیے۔ کبھی سوچا آپ نے بی ایم ڈبلیو پر ہم کیوں فخر کرتے ہیں۔ حالاں کہ ایم بی ڈبلیو ’’بھیک مانگنے والا‘‘ کا مخفف ہے ؟ وجہ وہی ہے۔ ۔ انگریزی ذہنی غلامی!
یہ رکشہ تو سڑک کا ہیلی کاپٹر ہوتا ہے۔ اللہ قسم! ایک تو دونوں کی شکل ملتی جلتی ہوتی ہے۔ دوسرا دونوں کا شور بھی یکساں ہوتا ہے۔ تیسرا جیسے ہیلی کاپٹر فضا میں آزاد پنچھی کی مانند جہاں من کرے ادھر مڑ جاتا ہے بالکل ویسے رکشہ بھی سڑک پر چلتے چلتے اچانک ہی کہیں مڑ جاتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی وَڑ بھی جاتا ہے۔ ۔ چاہے اس کی لپیٹ میں کوئی گل بدن آ جائے یا پہئے تلے کوئی کتے کا بچہ۔
جس کو ہو جان و دل عزیز اُس کی گلی میں آئے کیوں ؟
کبھی ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں اتنی مماثلت ہے تو یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس میں بھی نصیبو لعل کے گانے ضرور چلتے ہوں گے۔
ایک رکشے والے سے میں نے پوچھا کہ بھئی تم یہ کان پھاڑ گانے کیوں چلائے رکھتے ہو۔ تو کہنے لگا صاحب اپنے رکشے کی آواز تو علی ظفر جیسی ہے ناں۔ ۔ ۔ ایک دم نائز پالیوشن۔ ہاں یوں اونچے گانے لگا کر ہمیں اس پالوشن سے اگر نجات مل جاتی ہے تو آپ کا کیا جاتا ہے ؟ ایک تو ایک توآپ پڑھے لکھ لوگ اعتراض بہت کرتے ہیں !
کسی زمانے میں رکشوں میں میٹر نصب کیے جاتے تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ بھوک کے مارے رکشہ والوں نے میٹر کھا لیے۔ اس دن سے ان کو بھوک کا ایسا چسکا لگا ہے کہ ایمان کو بھی بیچ کھاتے ہیں۔
کبھی آپ نے غور کیا کہ کہ رکشے کو گھریلو سواری کا درجہ حاصل کیوں نہ ہو سکا؟ خوب صورت ہے، پائیدار ہے، ہارن بھی بجتا ہے، جدھر لے جائیں چلا جاتا ہے۔ گدھوں کی طرح گھاس بھی نہیں کھاتا۔ سڑک کے بیچ میں لید بھی نہیں کرتا۔ میٹرنٹی لیو بھی نہیں مانگتا۔ اچھی اچھی گاڑیوں کی کنی کاٹ کر اپنی راہ لیتا ہے۔ کبھی کبھار زیادہ مستی چڑھے تو پچھلے دو پہیوں پر اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے جیسا گھوڑے کو ایڑ لگائی ہو۔ لیکن یہ کوئی غلط بات تو نہیں۔ ہم لوگ کبھی اس بات پر کسی گھوڑے کو دوش تو نہیں دیتے !
موٹر سائیکل پر ہمارے یہاں فیملیز کس طرح سوار ہوتی ہیں۔ ۔ آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا۔ دو بچے ٹینکی پر سوار ہیں، ایک خالہ قدوس کے حجم والی بیوی پیچھے بیٹھی ہے۔ چھریرے بدن کا ایک جوان موٹر سائیکل اڑائے لے جا رہا ہے۔ بیگم نے ہاتھ کمر کے پیچھے سا آگے لا کر ناف میں انگلی گھسوڑ رکھی ہے۔ تاکہ سند رہے، اور اگر خاوند کی نظر ادھر ادھر پڑے تو بوقتِ عجلت کام آئے۔ دوسرے ہاتھ سے ایک بچے کو سنبھالا ہوا ہے۔ اور راستے کے جھٹکوں پر پوری فیملی ایک دم اور اچھلتی ہے۔ یہ کرتب دکھانا۔ ۔ اور وہ بھی بلا پیسوں کے کتنا خطرناک کام ہے۔ کاش کہ ذرا عقل استعمال کرتے ہوئے ایک رکشہ لے لیا جائے۔ میاں آگے رکشہ لیے جا رہے ہیں اور پچھلی سیٹ پر بیگم بچوں کو تھامے بیٹھی ہیں۔ کوئی غم نہ غصہ۔ ۔ ۔ بس اڑاؤ رکشہ!
رکشہ سٹیٹس کو کے خاتمے کی علامت ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے کہ ایک تو میری ایمان کو کچھ نہیں ہو گا دوسرا ایک دن میرے ملک سے ساری سٹیٹس کو کی علامت گاڑیاں ختم ہو جائیں گی اور ان کی جگہ رکشے لے لیں گے۔
جب تخت اچھالے جائیں گے
اور رکشے سنبھالے جائیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
رکشہ تو صدیوں سے مقبول سواری ہے۔ سکندرِاعظم نے ملتان کا محاصرہ ختم کر کے رکشوں پر واپسی کی تھی۔ راجا پورس کو بھی اسی وجہ سے شکست ہوئی کہ اس کی فوج اور وہ خود ہاتھی پر لدا ہوتا تھا جب کہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سکندر رکشے میں سفر کرتا آیا تھا۔ اور پھر آگے جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ جہلم کے قریب سفر کرتے کرتے ایک جگہ سکند کے رکشے ’’پیلا فورس‘‘ نے ذرا اپنی اگلی ٹانگیں اوپر اٹھائیں تو پچھلی باڈی نے زمیں کو ذرا کھرچ دیا۔ یوں دنیا کی نمک کی سب سے بڑی کان کھیوڑہ دریافت ہوئی۔ ۔ رائٹ برادران نے جب اڑنے والے جہاز کا کامیاب تجربہ کر لیا تو اگلے دن نیو یارک ٹائمز میں آخری صفحے پر ایک آٹھ کالمی خبر چھپی تھی کہ اٹلی کے رہائشی دو بھائیوں نے اڑنے والا رکشہ ایجاد کر لیا ہے۔
رکشہ والوں کا گانے کا ذوق بھی نہایت پختہ ہوتا ہے۔ یہ آج کل کی پود کے گانے والوں کے گانے سنتے ہی نہیں۔ ۔ ان کے کانوں کو آج بھی ملکہ ترنم نور جہاں، فریدہ خانم، آشا، لتا یا نصیبو لعل طراوت بخشتی ہیں۔ آپ صبح صبح رکشے میں سوار ہوں رکشے والے نے قوالی لگائی ہوئی ہے۔ یہ کوئی عام قوالی نہیں ایک دم ’’تھالی‘‘ مافق ہے۔ قوال کچھ کچھ دیر بعد اردو، عربی کی کڑاہی میں فارسی کا لہسن ڈالتا ہے اور پھر اسے انگریزی کا تڑکا دیتا ہے۔ جونہی سورج ابھرتا ہے رکشے والوں کی بے حیائی کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ گانے لگ جاتے ہیں۔ شروع ہوتا ہے۔
’’آندا تیرے لئی او! ریشمی رومال
تے اتے تیرا ناں کڑھیا!‘‘
بعد میں مختلف گلوکاروں کے بعد جب رکشے والا سواری کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے تو خود بخود فطرت اسے ’’گجرا وے۔ ۔ ۔ وے گجرا ا۔ ۔ ۔ا وے !! ‘‘ سننے پر مجبور کر دیتی ہے۔
رکشہ ہوادار سواری ہے۔ آپ اس میں بیٹھ کر موسم کا مزہ لے سکتے ہیں۔ موسم کے عین مطابق۔ ۔ ۔ سردیوں میں سرد، گرمیوں میں گرم۔
چھوٹے شہروں میں تو رکشہ ہی محبت کی کشتی کا ناخدا ہوتا ہے۔ نویں دسویں کے بچے، جن کی مسیں بھیگنا شروع ہوئی ہوتی ہیں، سائیکلوں پر رکشوں کے پیچھے جا رہے ہوتے ہیں۔ اس امید پر کہ شاید آج وہ مسکرا کر دیکھ لے۔ شاید آج جب میں پرچی پر فون نمبر لکھ کر پھینکوں تو وہ کیچ کر لے۔ ان کو گھر پر اپنے ابا کے آنے کی اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی گلی کی نکڑ سے نمودار ہوتے رکشے کو دیکھ کر ہوتی ہے۔
شروع شروع میں رکشوں کا رنگ ٹیکسیوں کے وزن پر پیلا رکھا گیا تھا۔ بعد میں انگریزوں سے آزادی کے نشان کے طور پر، نیلے، اودے، ہرے، گلابی ہر رنگ کے رکشے نظر آنے لگے ہیں۔ ویسے بھی کلر میں کیا رکھا ہے۔ گلاب سیاہ ہو تو بھی گلاب ہی ہوتا ہے !
نئے رکشے کو کیسے سجایا جاتا ہے ؟۔ چھت پر اگلی اور پچھلی طرف جھالر لگائی جاتی ہے۔ ایکسلریٹر کے ساتھ کالی کالی پٹیاں باندھی جاتی ہیں جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ یوں ناچتی ہیں جیسے کاجل کوٹھا والے بابا جی! بریک اور گیئر کو خوب صورت اور چمک دار ’’موزے ‘‘ پہنائے جاتے ہیں، یوں ایک رکشہ تیار ہوتا ہے۔ ہمارا یہ رکشہ اس طرح چمک رہا ہوتا ہے جیسے شادی والے دن دلہن۔ ۔ ۔ ہاں کچھ سال بیتتے ہیں، زمانے کا پہیہ گھومتا ہے، اور پھر رکشہ یوں ہو جاتا ہے جیسے ولیمے والے دن دلہا۔
رکشہ لسی کی مانند ہے۔ لسی میں جتنا پانی ملا دو ’’لسیّت ‘‘ ختم ہونے کو نہیں آتی اور رکشہ میں جتنی سواریاں بٹھا دو رکشہ کی ’’رکشگیت‘‘ قائم رہتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ایک رکشے میں اتنے مسافر سفر کر سکتے ہیں جتنے ریل کی دو بو گیوں میں۔ لیکن اس بات میں تھوڑا مبالغہ لگتا ہے۔
اوپر ایک لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ۔ ’’رکشگیت‘‘۔ رکشگیت ایک کیفیت کا نام ہے۔ ۔ یہ کیفیت بعض گاڑیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ بعض سیاست دان بھی رکشے ہوتے ہیں۔ بعض گلوکار بھی رکشے ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ آئینے کے سامنے جائیں اور آپ کو اپنے عکس کے بجائے ایک رکشہ نظر آئے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی ہونے والی بیوی کی شکل رکشے سے ملتی جلتی ہو۔ ہو سکتا ہے آپ اس تحریر کو پڑھنے والا رکشہ ہو۔ ہو سکتا ہے اس تحریر کو لکھنے والا رکشہ ہو۔ اگلا سی سی بھی رکشہ ہو سکتا ہے۔ ( ہونے کو موجودہ بھی ہو سکتا ہے )۔ ہو سکتا ہے ہمارا اگلا وزیرِ اعظم رکشا ہو۔ ہونے کو تو کوئی بھی رکشا ہو سکتا ہے۔ کل کلاں کسی کا نام اکرم ولد رکشا بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کہاں تک روک سکتے ہیں کسی کو؟
ہر گھر سے رکشہ نکلے گا
تم کتنے رکشے روکو گے ؟
ویسے مجھے ایک شکایت آج کل کے عاشقوں سے بھی ہے۔ آپ اپنی محبوبہ کو جانو، میری موٹو، گوریے، شونو، شویٹو، جانی، جگری کہتے ہیں۔ ۔ رکشہ کیوں نہیں کہتے ؟ اتنا کیوٹ تو ہوتا ہے !
آخر میں ایک شعر کے ساتھ اختتام :
خدا تجھے کسی رکشے سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
٭٭٭
کمینے کی کار
راشد حمزہ
کمینے کی کار اگرچہ دنیا کا آٹھواں یا نواں عجوبہ تو نہیں تھا مگر اس کا عجوبہ ہونے سے انکار کرنا بھی کوئی عقلمندی نہیں تھا۔ اسے دیکھ کر عجوبے بھی تعجب کا اظہار کرنے لگتے تھے۔ یہ عجوبہ کار اُسے طویل مدت پر محیط خاصی محنت کے بعد وراثت میں ملی تھی۔ اس کار سے متصل کمینے کی ایک گھریلو روایت بھی موجود تھی اور وہ یہ تھی کہ ’’کار خاندان میں اس شخص کو بطورِسزا وراثت میں منتقل کی جاتی ہے جو پڑھائی میں غبی، کام میں کاہل اور سر سے پھرا ہوا ہو۔ ‘‘
اِس کار کو حاصل کرنے کے لیے کمینے کو سخت مشقت سے پُر محنت کرنی پڑی تھی، اس کی خواہش کار کا حصول نہیں تھا، وہ تو محض خود کو اس سے زیادہ سزا سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا، اس کی محنت کا یہ دورانیہ گیارہ سال پر محیط تھا، صرف گیارہ سال اس نے میٹرک پاس کرنے میں لگائے، میٹرک کے امتحان میں کمینہ نیچے کی طرف سے پہلے نمبر پر آئے تھے یعنی خراب پوزیشن میں اُن سے کوئی آگے نہیں تھا، آخری پوزیشن حاصل کرنے کے لئے کمینے کو اتنی ہی کٹھن محنت کرنے پڑی جو ایک لائق فائق طالب علم پہلی پوزیشن کے لئے کرتا ہے، کمینے کا پاس ہو جانا جہاں سب کے لئے حیران کن تھا وہاں خاندان والوں کے لئے باعثِ فخر بھی تھا۔ خاندان میں کئی دِنوں تک اس کے پاس ہونے کا جشن منایا جاتا رہا، دور دور کی رشتہ دار مبارک باد دینے ایسے آتے رہے جیسے برسوں سے اجڑے گھر کے چمن میں نئی زندگی کا پود ا اُگا ہو۔
کمینے کے پاپا فخر سے سر اونچا کر کے جشن میں شریک ہونے والوں کو کہتے کہ ’’ میرا بیٹا میٹرک پاس ہو گیا ہے۔ ‘‘ کمینے کے پاس ہونے سے متعلق کمینے کے پاپا کے خیالات اس زمانے کے تھے جس زمانے میٹرک میں فیل ہو جانا بھی بڑی سعادت اور کرامت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ چُونکہ کمینے نے اپنی کامیابی سے تمام ناقدین کے منہ بند کر کے اُن کو حیرت اور استعجاب میں مبتلا کر دیا تھا، اِس وجہ سے کمینے کے پاپا نے بھی متذکرہ عجوبہ کار وراثت میں منتقل کر کے کمینے کو تعجب میں مبتلا کر دیا۔ در اصل اس کے پاپا کو خوش فہمی ہوئی تھی کہ اس کار کی کمپنی سے تنگ آ کر کمینہ اگلے سال کے لئے جی بھر کر محنت کرے گا اور اس کار سے چھٹکارا پالے گا مگر بعد میں سب کچھ مختلف ہوا۔
میٹرک کے بعد کمینے کو شہر کے اس کالج میں بہت مشکل سے داخلہ مل گیا جس میں شہر سے گنے چنے نہایت خاص کمینے اور خالص نالائق اکھٹے ہو جاتے تھے۔ اگر اس کالج کو آوارہ گردوں کی آماجگاہ قرار دیا جائے تو بعید از انصاف نہیں ہو گا۔ کمینے کو جب داخلہ مل گیا تو کسی طرح اس نے کار کو بھی ہاسٹل منتقل کر ہی دیا۔ کار کے ہاسٹل منتقلی کے بعد کولیگ کو تو جیسے دلچسپ موضوع بحث مل گیا، کمینے کو دیکھ کر ہر دو آپس میں کھسر پھسر کرتے، کوئی اسے کباڑئے کا ستم رسیدہ ٹین کا ڈبہ کہتا تھا توساتھ ہی کمینے کو نہایت ہی بد ذوق کہا جاتا تھا، کوئی اس کو عجوبہ سمجھتا تھا تو کوئی کار کی حالت دیکھ کر کمینے کو ولی سمجھنے لگتا اور سوچتا کہ کار کا مالک ہونے کے باوجود کمینے کے اب تک ہاتھ پیر سلامت ہیں تو کیوں ہیں اور ہیں تو کیسے ہیں۔ یوں کمینے نے کالج کے ابتدائی ایّام میں ہی قرب و جوار کی بھرپور توجہ حاصل کر لی۔ زمانۂ طالبعلمی میں بڑا خبط یہی سر پر سوار رہتا ہے کہ کسی طرح کولیگز کی توجہ حاصل کی جائے۔ چھت پر چڑھ کر ایسے ناچیں کہ انگ انگ سے مستی نکلنے لگے یا ایسا گائیں کہ سب سحرزدہ ہو جائیں۔ کمینے کو اتنی با مشقت محنت نہ کرنے کے باوجود خاصی توجہ حاصل ہو گئی۔ سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ کمینے کی شہرت کا ستارہ چمکنے لگا۔
یوں تو کمینے کی کار میں خامیاں ہی خامیاں تھیں مگر چند ایک خوبیاں بھی تھیں۔ صورت تو کسی قبر رسیدہ خواجہ سرا کی سی تھی۔ کہیں پر پتھروں کے نشان تھے تو کہیں پر لاتوں کے، پچھلی سیٹ کی دائیں طرف کے شیشے پر گوبر کے اپلے کا نشان نمایاں نظر آ رہا تھا، اگلی سیٹ کے نام پر لکڑی کی دو تپائیاں رکھی گئی تھیں، جس کے ساتھ کیلوں کے ذریعے تکیے منسلک کیے گئے تھے۔ پچھلی سیٹ لکڑی کے ایک تختے سے بنی ہوئی تھی، ہیڈ لائٹس کی ضرورت پورا کرنے کے لئے کار میں ایک ٹارچ لائٹ رکھا گیا تھا۔
کار میں بیٹھ کر گننا مشکل ہو جاتا کہ اس چھوٹی سی کار میں کمپنی کے مشینی ہاتھوں کے تیار کردہ چیزیں کتنی ہیں اور کمینے کے اپنے ہاتھوں کی بنی ہوئی کتنی ہیں۔ کار سٹارٹ ہونے میں خاص نخرے دکھاتی یا شاید اپنی ذاتی صحت کی وجہ سے وہ ایسی حرکتوں پر مجبور تھی، کبھی کبھی بغیر ایندھن سٹارٹ ہو جاتی، اکثر ان حالات کا سامنا بھی ہوتا کہ ہم کار کے اردگرد کھڑے کار کی ایندھن ختم ہونے کے انتظار میں ہوتے۔
کار کی عادتیں سرپھری محبوبہ کی طرح تھیں، کبھی یونہی منہ بناتی اور کھڑی رہتی جب ضرورت رہتی سٹارٹ نہیں ہوتی جب ضرورت نہیں رہتی تو با آسانی سٹارٹ ہو جاتی۔ ایک دفعہ تو حد ہی ہو گئی، جس کی وجہ سے وارڈن کو ہاسٹل میں خصوصی نوٹس لگانا پڑا تھا۔ نوٹس میں لکھا تھا کہ ’’کمینے کی کار ہمارے کالج کی نشانی بن گئی ہے تو اس وجہ سے ہاسٹل میں اُن کو کھڑے کرنے کے لئے ایک خاص جگہ مقر ر کی گئی ہے تاکہ کار کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین کو زیارت کرنے میں آسانی ہو، اس لئے ہاسٹل میں مقیم تمام طالب علموں کو نوٹس ہذا کے ذریعے مطلع کیا جاتا ہے کہ کار کی خصلتوں اور حرکتوں کے متعلق خاص جان کاری کمینے سے حاصل کی جائے بصورت دیگر کسی نقصان کی ذمہ داری کار پر نہیں ہو گی۔ ‘‘ ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دن کار کو نجانے کیا سوجھی کہ جب سامنے ہاسٹل کا باورچی گزر رہا تھا تو سٹارٹ ہو گئی اور ٹکر مار دی تھی جس کی وجہ سے باورچی زخمی ہو گیا تھا۔
کار کو سڑک کی ہوا خوری سے پہلے کمینہ سڑک کا جائزہ لیتا تھا، اگر رش کم ہوتا تو کار کو صاف ہوا کھلائی جاتی، رش کے متعلق کمینے کا خیال تھا کہ یہ کار کی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے، حالاں کہ کمینے کا یہ خیال نہایت غیر معقول تھا کیونکہ جب یہ عجوبہ کار خود ہی ماحول پر بری طرح اثرانداز ہو رہی تھی تو پھر ایسے میں ماحول پر بدگمانی کرنا تو بہت بے ایمانی کی بات تھی۔ ویسے بھی جب وہ سڑک پر آ نکلتی تو لوگ اور گاڑیاں ایسے غائب ہو جاتیں جیسے بلی کو دیکھ کر چوہے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔
کار سے ہر قسم آواز نکلتی تھی، سوائے ہارن کی، اور ہارن کی ضرورت بھی کیا تھی، جب وہ سڑک پر آ موجود ہوتی تو سو گز لمبا دھواں پیچھے چھوڑ جاتی جن سے پیچھے والوں کو سو گز پہلے سے محتاط ہونا پڑتا۔ اسی طرح سو گز آگے اس کے سپئیر پارٹس کی گڑگڑاہٹ اور طرح طرح کی جناتی چیخ و پکار اس کی آمد کی اعلان یوں کرتی جاتی تھی جیسے کسی بادشاہ کی آمد پر باخبر، با ملاحظہ، ہوشیار کے آوازے لگائے جاتے ہیں۔
کار کی سب سے منفرد خامی یہ تھی کہ اس کی سمت کا صحیح تعین کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ آگے چلتے چلتے کبھی پیچھے کی طرف چلتی، کبھی آگے کی طرف چلنے کے لیے ریورس گئیر لگانا پڑتا۔ سمت کا تعین کرنے کے لئے کمینے نے کار کی پچھلی طرف ایک ہڈی آویزاں کر رکھی تھی، جب بھی ہم سڑک پر نکلتے کہیں سے کوئی کتا آ کر اس کا پیچھا کرنا شروع کرتا۔ اگر کتا ہمارے سامنے آ رہا ہوتا تو کمینہ کہتا کہ ہم ریورس میں جا رہے ہیں۔ اگر کتا کا کے پیچھے سے اس کی ریکی کرتا نظر آتا تو کمینہ کہتا کہ ہم منزلِ مقصود کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
کمینے کی کار میں ایک بار سفر بھی سفر کرنا ہر کولیگ کی خواہش تھی لیکن اس خواہش کے راستے میں کمینے نے خاص اصول بنا رکھے تھے کہ سفر کی خواہش رکھنے والا پہلے کمینے سے اجازت نامہ فارم لے، اُس پر اُن کے والدین کے دستخطوں کا ہونا امرِ لازم قرار دیا گیا تھا۔ جو خوش قسمت فام پر متعلقہ دستخط کروا کر لاتا، وہی کار میں سفر کرنے کا اہل ہوتا۔ فارم میں کچھ اس طرح لکھا گیا تھا ’’آپ کا فرزندِ ارجمند میری کار میں سفر کرنے کی خواہش رکھتا ہے، حادثے اگر چہ من جانبِ اللہ ہوتے ہیں مگر پھر بھی لوگ میری کار کو دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ کچھ حادثات جیسے میری طرف سے رونما ہو جاتے ہیں، آپ کا بیٹا اگر میری کار میں سفر کرے گا اور خدانخواستہ اس دوران کوئی حادثہ رونما ہو گیا تو میں آپ کے بیٹے کو بالکل ذمہ دار نہیں ٹھہراؤں گا اور نہ آپ سے ایسی توقع رکھوں گا، اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو اس اجازت نامہ پر دستخط فرما دیجئے۔ ‘‘
کمینے کی کار کی وجہ سے کالج کو قرب و جوار میں بہت شہرت ملی۔ بہت سارے لوگ اس کالج کو کمینے اور اس کی کار کے حوالے سے جاننے لگے اور ان کے نام ہی سے تعارف کرتے۔ کالج کے معلمین اگر چہ کمینے کی تعلیمی کار کردگی کی وجہ سے خوش نہیں تھے مگر وہ اپنی کار کی شہرت کی وجہ سے سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ کولیگ انتہائی عقیدت کے ساتھ کار کی زیارت کے لئے کالج سے ہاسٹل کا رخ کرتے۔ جب کار اپنے عروج کی انتہاء پر پہنچی تو بہت زیادہ نگاہیں کار کی طرف اٹھنے لگیں تو ان میں سے کی بد نگاہی بھی تھی۔ ایک دن کمینہ تفریحِ طبع کے لئے کار کو کالج گراؤنڈ کی سیر کرا رہا تھا، اُس کے ساتھ چند دوست بھی اُس کے ہمراہ تھے۔ کالج گراؤنڈ کے دو چکر مکمل ہوئے تھے اور تیسرا شروع ہونے جا رہا تھا کہ کہیں سے پرنسپل صاحب آ دھمکے۔ کمینہ حواس باختہ ہو گیا۔ پرنسپل صاحب کار کے بالکل راستے میں آ گئے تھے، کمینے نے بہت بار بریک دبایا مگر ہر بار کار اپنی عادت کے مطلب اپنی سپیڈ بڑھاتی چلی گئی یوں لاکھ کوشش کے باوجود کار نے پرنسپل کے پچھواڑے میں زور دار ٹکر ماری۔ پرنسپل صاحب مکمل شہادت سے تو بچ گئے البتہ اُن کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ اس حادثے کے بعد کمینے کو کالج سے برخاست کر دیا گیا اور کار کو کمینے کے خاندان کے بڑوں کے حوالے کر کے تلف کرنے کی ہدایت کی گئی۔
٭٭٭
عشق کل اور آج
مدثر عباس
آج کل کے جدید دور نے پیار محبت کو کھلونا بنا کے رکھ دیا ہے نہایت آسانی سے موبائل یا فیس بک کے ذریعے لیلیٰ ڈھونڈنا پھر چند روپوں کا بیلنس ہوا کر کے وصال تک پہنچنا پھر اولاد نرینہ کی شکل میں وصولی اس ساری کہانی میں نہ کوئی ایکشن نہ تھرل ہاں البتہ بعض اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان موبائل پہ جس لڑکی کو اپنے خوابوں کی پری سمجھ رہا ہوتا ہے وہ پری نہیں بلکہ ایک لڑکا ہوتا ہے جس کا تعلق پیسے بٹور گروپ سے ہوتا ہے جو عاشق کو ملاقات کے جھانسے دے کر اس کے پیسوں کو ہوا کر دیتا ہے۔
پرانا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا لڑکیاں تو شرم کرتی ہی تھیں لڑکے بھی شرمساری میں پیچھے نہ تھے۔ اس زمانے میں کسی عاشق سے عشق و معشوقہ کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو شرم سے عاشق صاحب اپنے سولہ دانتوں کو دوسرے تقریباً سولہ دانتوں سے لگا کر ہونٹوں سے چھپا لیتے تھے معشوقہ کا انتخاب اور اس کی طرف سے کبوتر کے منہ میں رضا مندی کا خط بھی کافی وقت مانگتا تھا اور آج کا نوجوان کیا سمجھے کہ ایک کو دعوت عشق دی تو جیسے اس کی رال بہہ جائے ایسا نہیں تھا عاشق تیر کو ہدف تک پہچانے کے لیے ایک سائنسی اصطلاح کام میں لاتا تھا مشاہدہ کافی مشاہدات اور مایوسیوں کے بعد جا کر چھیمو کہیں سے مانتی عاشق اتنا حساس ہوتا تھا کہ اگر معشوقہ نے لسی نہ دی تو فوراً دکھی اشعار پڑھنا شروع ہو جاتا اب گاؤں میں میر و غالب سے آشنائی کم ہوتی تھی اس لیے ایسے موقعوں پہ عاشق حضرات پنجابی دوہڑے ماہیے گا لیا کرتے تھے۔
پھر خط کتابت کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا فیس بک تو تھی نہیں کہ آناً فاناً دل کی بات دل تک پہنچ جائے۔ اس کارِ خیر کے لیے کبوتر کی خدمات لی جاتی تھیں۔ پیغام رسانی کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عاشق جو بھی کبوتر لاتا وہ کچھ دن بعد اڑ جاتا۔ اس زمانے میں خصوصاً دیہات میں معاشقہ کم ہی ہوتا تھا جس کی بنیادی وجہ دیہات میں کالجوں کا نہ ہونا تھا۔ اور اگر کر کرا کے کوئی معاشقہ منطقی انجام کو پہنچتا بھی تو پہلے والی چاشنی کھو دیتا۔ کیونکہ دیہات میں لوگ مال مویشی رکھتے تھے اور اللہ کے فضل سے لوگوں کی اولاد بھی زیادہ ہوتی تھی۔ معشوقہ کے لیے یہ بات بہت ناگوار ہوتی تھی کہ عشق تو ایک سے کیا سزا سب سے کیوں ملے ؟ اس لیے یہ معاشقہ ارینج میرج میں بدل جاتا۔ زمانہ اگرچہ بدل گیا ہے لیکن دو چیزیں نہیں بدلیں ایک معشوقہ کی یہ خواہش کہ عاشق کا خاندان چھوٹا ہو اور دوسری عاشق کی یہ خواہش کہ سالیاں زیادہ ہوں تا کہ بوقت ضرورت اِن سے بھرپور استفاددہ کیا جائے۔
٭٭٭
مجھے میرے شاگردوں سے بچاؤ
سید ممتاز علی بخاری
میرے سامنے خط کا کھلا لفافہ پڑا ہوا تھا اور خط میرے ہاتھوں میں تھا۔ یہ خط مجھے گاؤں سے میرے والد محترم نے بھیجا تھا۔ میں نے خط کی تحریر کو تین چار بار پڑھا اور پھر اسے اس لفافے میں دال دیا جس میں اس نے گاؤں سے سفر طے کر کے شہر آیا تھا۔ پھر اسے گوند سے چپکا کر میز کے اس دراز میں ڈال دیا جس میں پہلے ہی ایک درجن سے زائد خطوط موجود تھے۔ دراز کو مقفل کر کے میں نے زورسے میز کو مکہ مارا اور پھر بڑبڑاتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر کے ایک سرد آہ لی اور پھر سوچوں میں گم ہو گیا۔
یقیناً آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح مجھے یہی مشورہ دیں گے کہ مجھے اپنے گھر والوں کی بات مان لینی چاہیے اور باغیانہ روش ترک کر دینی چاہیے۔ آپ کا خیال ہو گا کہ میں بھی ان ہزاروں طلباء میں سے ہوں گا جو اپنے گھر کے دیہاتی ماحول سے بھاگ کر شہر کی رونقوں میں کھو گیا ہوں۔ مجھے میرے گھر والے واپس آنے پر اصرار کر رہے ہیں اور مجھے شہر کی روشنیاں بھا گئی ہیں۔ یا پھر یہ کہ گھر والوں سے ناراض ہو کر میں نے شہر کو جائے پناہ سمجھ لیا ہے۔ اگر آپ یہ نہیں سوچ رہے تو پھر یقیناً آپ بھی مجھے اس حالت میں دیکھ کر وہی سوچ رہے ہوں گے جو مجھے پہلے پہل اس حالت میں دیکھ کر میرے دوست صفدر نے سوچا تھا۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے والدِ محترم میری شادی کسی بوڑھی جاگیر دارنی سے کروانا چاہ رہے ہوں گے اور مجھے شہر کی کوئی چنچل اور ماڈرن لڑکی سے عشق وغیرہ ہو گیا ہے۔ صفدر نے تو مجھے اپنے تئیں اس بات کے لیے رضامند کرنے کے واسطے اپنی کوششیں بھی شروع کر دی تھیں۔ اس ضمن میں اس نے کئی علما ء اور مساجد کے پیش اماموں سے دو شادیوں کے حق میں کئی فتوے بھی لے آیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے اس جاگیردارنی سے بھی شادی کر لینی چاہیے اور محبوبہ کو بھی میں اپنے ہاتھ سے جانے نہ دوں۔
آپ کے یہ سارے خدشات بالکل بے جا اور بے بنیاد ہیں۔ نہ ہی میں شہر کی رنگینیوں میں کھویا ہوں اور نہ ہی اپنے دیہات کی خالص آب و ہوا، کھیتوں کے دلفریب نظارے اور اپنے رشتہ داروں کے بے لوث تعلق کو بھول پایا ہوں۔ جہاں تک عشق کی بات ہے تو آپ کے باقی اندازوں کی طرح یہ بھی درست نہیں اور جب صفدر کو بھی میرے اصل مسئلے کا علم ہوا تو پھر اس دن کے بعد اس نے کبھی میری اس حالت کو سدھارنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہ مسئلہ تھا ہی کچھ ایسا۔ بات کچھ یوں ہے کہ میرے والدِ محترم کا پیشہ معلمی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آبائی پیشے کو اپناؤں یعنی پڑھنے پڑھانے کے عمل کو۔ ۔ ۔ !!!
میرے کئی دوست احباب ایسے ہیں جو اپنے سے ایک کلاس جونئیر لڑکوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ ٹیوشن بہت فائدہ مند کام ہے۔ اس کے دو فوائد ہیں۔ ایک تو انسان دوسرے شخص کا باپ(بمعنی روحانی باپ)بن جاتا ہے اور دوسرا کچھ پیسے بھی ہاتھ آ جاتے ہیں۔ آج کل کے دور میں اس سے زیادہ منافع بخش کاروبار کوئی نہیں۔ یہ وہ واحد کاروبار ہے جس میں رات دن چوگنی ترقی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود میں استاد بننے پر راضی کیوں نہیں۔ یقیناً آپ بھی وہ وجہ جاننے کے لیے بے تاب ہوں گے جس کی وجہ سے میں اتنے سنہرے موقعے کو ہاتھوں سے یوں جانے دے رہا ہوں جس طرح لوگ ہاتھوں سے میل کو جانے دیتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ صرف اتنی ہے کہ میں بے شمار اساتذہ کو اپنے شاگردوں کے سامنے (زانوئے تلمذ طے کیے )شرمسار ہوتے دیکھا ہے۔ نئی نسل کے شریر بچے ان کے پیچ و خم کس دیتے ہیں اور خدا کی پناہ۔ ۔ ۔ !!! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک استاد کو ناک سے زمین پر لکیریں بھی کھینچتے دیکھا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے مظلوم مخلوق ’’شوہر‘‘ ہوتا ہے لیکن اگر غیر جانبداری سے ملاحظہ کیا جائے تو اکیسویں صدی میں شوہروں سے بھی مظلوم آج کا استاد ہے جو کسی زمانے میں روحانی باپ بھی مانا جاتا تھا۔ اس پر مستزاد ’’مار نہیں پیار ‘‘کا نعرہ جس نے استاد کے رہے سہے رعب و دبدبے کو بھی شاگردوں کے قلب و ذہن سے نکال دیا۔ میرے کچھ دوست ان دنوں مظلوم اساتذہ کی ایک انجمن بنانے کے چکروں میں ہیں۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دوسروں کو ٹھوکر لگتے دیکھ کر سبق سیکھوں اور خود کو مجروح ہونے سے بچاؤں۔ شاید اسی وجہ سے آج تک میرا سر، گردن اور دل سلامت ہیں۔
میں پہلے آپ کے سامنے اپنے چند احباب کے ساتھ ان کے شاگردوں کے روا رکھے گئے رویوں کو بیان کروں گا پھر آپ سے مشورہ طلب کروں گا کہ مجھے استاد بننا چاہئیے یا نہیں۔
میرے ایک دوست ہیں جن کا اسم گرامی ’’اشرف خان‘‘ ہے۔ ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ نہایت سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ اپنی عزت بچانے کی خاطر بچوں پر رعب جمانے کی بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن آخرکار کہیں نہ کہیں ان کا ’’ہاسا‘‘نکل جاتا ہے۔ بچوں کو سمجھانے کے لیے نہایت دلچسپ اور آسان طریقے استعمال کرتے ہیں لیکن اکثر اوقات یہی طریقے ان کے گلے کا طوق بن جاتے ہیں۔ ایک دفعہ میرے پاس تشریف لائے تو مین نے ان کے شب و روز کا احوال دریافت کیا۔ پوچھنے ہی کی دیر تھی۔ آنکھوں میں آنسوؤں کا دریائے نیل لیے کچھ یوں گویا ہوئے : بھئی اس سے تو بہتر تھا کہ میں بھیک مانگتا۔ میں نے وجہ پوچھی تو رونی صورت بنا کر بولے :یار کیا بتاؤں۔ یہ غالباً پچھلے ماہ کی بات ہے۔ میں کلاس میں گیا اور جاتے ہیں میں نے پڑھانے کے لیے کتاب کھولی۔ ابھی ایک پیراگراف بھی پورا نہیں پڑھایا تھا کہ اچانک کہیں سے ایک کنکر آ کر کتاب پر گر پڑا۔ میں نے سکول کی چھت کی طرف دیکھا جہاں سے مٹی کے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ میں نے کتاب پر دوبارہ نظر کی تو اچانک ایک اور کنکر کہیں سے میرے سینے پر آ لگا۔ میں نے اس حرکت کا منبع دریافت کرنے کی کوشش کی اور ایک بچے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ میں نے اس کی تھوڑی سرزنش کی اور اسے کلاس کے سامنے کھڑا رہنے کا حکم دیا اور دوبارہ پڑھانے لگا۔ ابھی میں نے ایک جملہ ہی پڑھا کہ ایک بار پھر اسی حرکت کا اعادہ ہوا۔ میں نے نئے کھلاڑی کو بھی پکڑ لیا اور سرزنش کے بعد کلاس کے سامنے بلیک بورڈ کے ساتھ دوسرے لڑکے کے ہمراہ کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ وہ بھی وہاں کھڑا ہو گیا۔ میں سکون کی سانس لیتے ہوئے دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہوا۔ اتنی دیر میں ایک اور کھلاڑی میدان میں اتر چکا تھا۔ رفتہ رفتہ بلیک بورڈ کے ساتھ کھڑے لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر ایک وقت آیا کہ کلاس کے بنچ خالی تھے اور بلیک بورڈ کے سامنے والی دیوار بھری ہوئی۔ ۔ ۔ اب ایسے میں میں انہیں کیا پڑھاتا۔ لڑکوں نے پتا نہیں کہاں سے یہ حرکت سیکھی اب میں روزانہ ان کی اس مشقِ ستم کا نشانہ بنتا ہوں۔
ارسلان شاہ تو شاگرد کے نام سے ہی بھاگتے ہیں۔ موصوف کو ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیے تقریباً تین سال بعد کالج میں ملازمت ملی۔ تین چار سال تک انہوں نے بڑی مشکلوں سے کچھ جمع پونجی اکٹھی کی تاکہ وہ رشتۂ ازدواج میں منتقل ہو سکیں۔ ۔ ان دنوں جب ان کی شادی کے دن مقر ر ہونے والے تھے کہ ان کا ایک، لاڈلے طالب علم ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بہن ہسپتال میں ایڈ مٹ ہے اسے کینسر ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ اس کے علاج کے لیے چار پانچ لاکھ چاہیں۔ اب میں ادھار مانگ رہا ہوں اگر کچھ ہو سکے آپ میری مدد فرما دیں۔ انہوں نے اپنی جمع پونجی بنک سے نکالی اور اس کے حوالے کر دی۔ چند دن بعد ان کو اطلاع ملی کہ جس لڑکی سے ان کی شادی ہونے والی تھی، ان کے اس جواب کے بعد کہ اگلے سال شادی کروں گا، اس کی شادی ایک اور لڑکے سے ہو رہی ہے۔ جب انہوں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہی ان کا لاڈلا طالب علم ان کی منگیتر سے شادی کر رہا ہے۔
لو جی! میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو باہر میرے والد محترم بنفسِ نفیس کھڑے نظر آئے۔
٭٭٭
عقل نیفے میں
گوہر رحمٰن گہرؔ مردانوی
جب کسی کی نالائقی پر ہرزہ سرائی کرنا مقصود ہو توہم اکثر یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں کہ ’’ فلاں کی عقل گھاس چرنے گئی ہے ‘‘ یا ’’ آپ کے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے ‘‘ تو لیجیے جناب میرا تخلیق کردہ ایک نیا اور تازہ ترین محاورہ بھی سن لیجیے کہ ’’فلاں عقل نیفے میں اڑس کر آتا ہے۔ ‘‘اب آپ دوسرے محاوروں کی طرح اس کا پس منظر جاننے کے لیے بے تاب ہو رہے ہوں گے تو وضاحت کرنے کے لئے مجھے اپنی آپ بیتی بلکہ ’’دِن بیتی‘‘ سنانی پڑے گی لہذا کان کھڑے کر لیجئے اور بالکل خرگوش بن کر اور آنکھیں تحریر پر مرکوز کر کے، بالکل ایک بھوکے کی طرح جو صرف خوان پر نظریں جمائے شّڑپ شڑپ کھاتا ہے، سننے اور پڑھنے کے لئے ہمہ تن خرگوش اور دیمک بن جائیے۔
صاحبو! وقوعہ (واقعہ)کچھ یوں ہوا کہ امسال گیارہویں، بارہویں کے سالانہ امتحان کے لیے ناچیز کو معاونِ ممتحن (انویجیلیٹر) کے طور پر ایک سنٹر بھیجا گیا۔ سنٹر کا نام شجرِ ممنوعہ جان لیجئے کیوں کہ افشائے راز نقصِ امن کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے اس لیے جو کہا جائے سچ کہا جائے گا اور کنایتاً کہا جائے گا۔ کردار بھی فرضی ہوں گے اس لئے معذرت بہ وجہِ مصلحت۔
جب ادائیگیِ فرض کے سلسلے میں ہم نے امتحانی ہال میں قدم رنجہ فرمایا، وہ بھی طوفانی رفتار سے کیونکہ سنٹر بہت دور تھا اور مابدولت کی گاڑی، اگرچہ ماشاء اللہ انجر پنجر ہے مگر اس دن کمال دکھا گئی کہ اپنی فریادی وجود سے مجھے وقت پر ہال بلا حیل و حجت پہنچا دیا لیکن ہال کا حال دیکھ کر کان کی لویں تپنے لگیں اس پر مستزاد یہ کہ حبس اور گرمی نے سفر میں بھی خاصا تپا دیا تھا۔ تمام راستے حسد کی اسی آگ میں جلتے بھنتے کاٹی تھی کہ ہم اساتذہ بھی کس قدر مسکین اور مظلوم مخلوق ہیں کہ جنہیں طبقۂ کمی کمین میں شمار کیا جاتا ہے، بہت تیر ماریں بھی توسیدھی سادی گھریلو قسم کی گاڑی کے ہی متحمل ہو سکتے ہیں، ائر کنڈیشنڈ گاڑیاں تو صرف اُنہیں کی تشریف کا بوجھ اٹھاتی ہیں جو نقل بہ وزن عقل نیفوں میں لے کر آتے ہیں، پاس ہوتے ہیں اور افسر بن جاتے ہیں جبکہ ہم استادتو محض ’’کتابی دیمک‘‘ کی جُگت بن کر رہ جاتے ہیں۔
اپنا دماغ ویسے بھی پشتونی ہے اور اُس پر موسم کی گرم مزاجی نے اسے اور بھی دو آتشہ کر دیا تھا، اس لیے فی الفور سرچ اپریشن شروع کر دیا۔ اِتنے دہشت گرد پکڑے کہ میرے کمرے والوں میں ایک بھی نواز شریف نہ نکلا کہ جو لیک ہو کر بھی مقتدر رہے، گویا تمام علمی موت کے ہرکارے تھے اور مستزاد اس پر یہ کہ پرچہ بھی اسلامیات کا تھا۔ ظالم کے بچے نقلیں بھی قابل اعتراض جگہوں میں رکھ کر مار رہے تھے۔
ہماری رگِ معلمیت پھڑک اٹھی اور ہم لگے جھاڑ پلانے کہ اے No جوانانِ پاکستان و تاریک فریبی مستقبل پاکستان پوکٹ یعنی بھیجے عقل پر اس عدم اعتماد اور پاکٹ جو کہ آپ جیسے عقل دانوں نے تصنیف کیے ہیں ہوں گے پر بھروسۂ کامیابی سے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ماشاء اللہ وطن عزیز مستقبل کے گھامڑوں سے پھٹ پڑے گا اور داعیانِ اسلام جلد ہی شریعت کو غیر شرعی قرار دینے پر اتفاق رائے حاصل کر لیں گے کیونکہ دین کی اتنی سمجھ آ گئی اور اِتنا سہل بنا لیا گیا ہے کہ اب قرآنی آیات کو نیفوں، جرابوں اور بوٹوں جیسی جگہوں میں بھر کر عقل ماری جا رہی ہے۔ تف ہے نئی نسل تم پرجوناموس رسالت و قرآن کے داعی ہو کر خود کتنی آسانی سے بے حرمتی کر جاتے جا رہے ہو اور ڈکار بھی نہیں لیتے !‘‘
وہ پوتڑوں کے بگڑے ہوئے نواب تھے، میری تقریر کا اثر کیا لیتے، الٹا ایک بوری نقل کھنگالنے کے بعد بھی جانے کہاں سے مزید پرچیاں برآمد ہوئیں۔
ہمارے ہال میں اچھی بات یہ تھی کہ بیرونی مداخلت سے پاک تھا ورنہ نعوذ باللہ قران پارہ بہ پارہ ہوا میں اُڑتا ہوا اُن ملیچھ مسلوں کی جھولیوں میں گرتا رہتا۔
حد تو یہ ہوئی کہ پہلے پرچے کے بعد کسی خانوادے کے بہی خواہ اس گوہرِ گمنام کو ڈھونڈتے ڈھانڈتے مابدولت کے غریب خانے میں ٹو ڈیو سے قدم رنجہ عطا فرما گئے اور حوالہ بھی دیا تو ہماری مسجد کے معلم کا، اب بھلا آپ کے اس غریب گوہر کو زبانی ہاں کیے بغیر کیا چارہ تھا سو اس بلا کو ٹالنے کے لیے ہاں کرنا پڑی یعنی سسٹم کا حصہ بننے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا مجبوری ہو گئی اگرچہ عملاً ایسا کرنا میرے لیے کار دارد تھا کیونکہ میرا تعلیم معیار اگرچہ کچھ ایسا بلند پایہ تو نہیں مگر ان نیفوں والے عقل دانوں سے کم از کم پاک اور بے داغ ضرور ہے۔
خدا خدا کر کے یہ امتحانی بلا بغیر کسی ناخوشگواریت کے سر سے ٹلی اور میں نے توبہ کر لی کہ آئندہ ان جھمیلوں میں قطعاً نہ پڑوں گا کیونکہ ہمارے ہاں کی ایک لابی بھی ان کو شہ دے رہی ہے اور خوب طعام قیام اور اوپر کی آمدنی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔
٭٭٭
اختلافی موڑ
بغدادی نژاد رازی
مشہور لاطینی مقولہ ہے :
’’آج کرے سو کل کر، کل کرے سو پرسوں ‘‘ یعنی ’’کل کا کام آج نہیں کرو، ہو سکتا ہے کل وہ کام کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ‘‘
یہ مشہورِ زمانہ قول ہے اٹھارہویں صدی کے مفکر عظیم ’’ولیم کامچور‘‘ کا۔
ہم کوئی جگ سے نرالے تو نہیں تھے لوگو
ہم پر بھی عہدِ جوانی کا عذاب اُترا تھا
ذکر ہے ہمارے زمانہ سٹوڈنٹی کا۔ ۔ ۔
ایک دن جب ہم کینٹین میں ’’چکن رول‘‘ کھا رہے تھے، اِسی دوران ہم نے میں نے اپنی ’’ہم کھاؤ‘‘ سے از راہ تفنن پوچھا کہ ’’ اے پیاری! ذرا یہ تو بتاؤ کہ تمہارے کتنے بھائی ہیں، تاکہ ممکنہ ہنگامی حالات کے پیش نظر سیکیورٹی ریڈ الرٹ رکھی جا سکے ‘‘
جواب آیا ’’ ویسے تو پانچ ہیں لیکن ایک ہڈ حرام ہے ‘‘
جواب میرے لئے کافی حیران کن تھا ’’ہیں جی کل تک تو چار تھے، آج پانچ؟ اور ہڈ حرام؟‘‘
’’ہاں جی، وہ کام شام کوئی کرتا نہیں اور غذائی اشیاء سے اللہ واسطے کا بیر رکھتا ہے، یعنی دشمن اناج کا، اس کی خصلت خاص ہے کہ اگر کوئی نوعِ انسانی برابر سے گزر رہا ہو تو فوراً سوچے کہ یہ بندہ میرے کس کام آ سکتا اور کچھ نہیں تو پینے کو پانی ہی مانگ لیتا ہے اور اگر اس سے کوئی کام کہہ دو ولڈز موسٹ لائٹسٹ ٹوپی المعروف ٹھنڈی ٹوپی کرا دیتا ہے ‘‘
اس کی قینچی کی طرح کی زبان قچ قچ چلے جا رہی تھی اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیسی ناہنجار اور ندیدی بہن ہے کہ ’’چکن رول‘‘ سامنے ہونے کے باوجود اپنے جیتے جی مردار بھائی کا گوشت کھا رہی ہے، تھوڑے بہت ہڈ حرام تو سبھی ہوتے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتہ ہی کی تو بات ہے جب میں نے دنبہ کے بال کاٹنے کے لیے امی کی قینچی کی بلی چڑھا دی تھی، وہ دن اور آج کا دن روز امی کو بولتا ہوں کہ اس میں کیا، بس کل لادوں گا آپ کو نئی قینچی، مگر کوئی سمجھے تب ناں۔ ۔ ۔
حسان صاحب کو ہی دیکھ لو، ایک مہینہ سے بولا ہوا ہے کہ ہو جائے گا آپ کا کام، اخباری کالم ہی تو جمع کرنے ہیں پچھلے دو سال کے، اس میں کیا، ایک دن بیٹھوں گا اور کام مکمل، مگر نہیں، جب بھی ملتے ہیں وہی سوال پھر ان سے اچھے تو اجمل چچا ہی ہوئے، بیچارے کو سال پہلے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہاں بنوا دوں گا آپ کے بچہ کا ڈومیسائل، اس میں کیا، بس جس دن جانا ہوا ڈی سی آفس کی طرف فارم لے آؤں گا، پر کر کے، سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے تصدیق کروا کے جمع کروا دوں گا، اس میں کیا، درد دل کے واسطے ہی تو پیدا کیا انسان کو، جب بھی ملتے ہیں پوچھتے ہیں ہاں بئی وہ میرا کام کر رہے ہو ناں ؟ اور میں جھٹ سے ہامی ہنکار دیتا ہوں، اس میں کیا، کر دیں گے
بات یہ بندے کو اپنے بھی سو کام ہوتے، اب یہ جو ناخن اتنے بڑے بڑے ہوئے ہوے یں، یہ نہ کاٹوں میں ؟ ہفتہ بھر سے نہایا بھی نہیں، وقت ہی کہاں ملتا ہے، اب اگر اپنی بیس سالہ زندگی میں کوئی بندہ لاکھ دو لاکھ مرتبہ کسی سے پانی مانگ کے پی لے تو وہ کاہل ہو گیا؟ اور جو اس کام کو کروانے پر اِتنی رکعتوں کا ثواب اُسے دیا ہوا ہوتا ہے، اُس کا کوئی مذکور نہیں ؟ ہوتا ہے کچھ لوگوں میں، نہیں اچھا لگتا کوئی کام، اگر میں خود سے کھانا گرم کر کے نہیں کھاتا تو ’’سستی مارا‘‘ ہو گیا، اگر سو پچاس اسائمنٹ کسی دوست سے بنوا لئے تو لائق ہو گیا؟ اتنے ہڈ حرام تو سبھی ہوتے ہیں۔
اس کی قینچی کی طرح کی زبان مستقل چل رہی تھی، لیکن اب مجھ سے رہا نہ گیا، بات کاٹتے ہوئے بولا کہ اے پیاری! ذرا یہ تو بتا کہ تیری زبان ہے کہ آغا جان والا ڈرامہ، کیوں اپنے بھائی کی غیبتیں کئے جاتی ہے، کیا اس چکن رول سے ترا پیٹ نہ بھرتا تھا کہ تو اپنے مردار بھائی کی بوٹیاں نوچ نوچ کھا رہی ہے، اور یہ نام کیا ہے تیرے بھائی کا؟
نہ جانے کس بات کا غصہ تھا، تنک کر بولی ’’ رازی‘‘ اور چلتی بنی۔
ظالم نے اتنی مہلت بھی نہ دی کہ کہے دیتے ’’ویٹر! باجی سے ان کا بل لے لینا!‘‘
٭٭٭
جنریٹر
سید ظفر کاظمی
جنریٹر ایک ایسا لفظ ہے جسے آج کل سنتے ہی ایک خوشگوار تصور ذہن میں ابھرتا ہے، چلتے ہوئے پنکھے، جلتے ہوئے بلب اور کولر کی ٹھنڈی ہواؤں کا تصور۔ ۔ ۔
لیکن ہر آدمی ہمارے ہاں جنریٹر نہیں خرید سکتا۔ جنریٹروں کی چار قسمیں ہیں
چھوٹا جنریٹر
درمیانہ جنریٹر
بڑا جنریٹر
اور بہت بڑا جنریٹر
ہم جیسے تو چھوٹے اور درمیانے تک ہی رہتے ہیں کیونکہ آخری اقسام تو اتفاق فونڈری والے ہی لگا سکتے ہیں۔
اِس دفعہ جب گرمی کے آنے کا اشارہ ملا تو جی چاھا کہ عذاب سے بچنے کے لئے ایک عدد جنریٹر لے لیا جائے، دوست احباب نے مشورہ دیا کہ درمیانہ بہتر ہے، بہت چھوٹے کو تو خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ چل رہا ہے کہ نہیں۔ پس ہم درمیانہ جنریٹر خریدنے راولپنڈی سٹی صدر روڈ پر ایک کارپوریشن میں پہنچ گئے۔ وہاں کے مالک نے روداد سنی اور ہمارے لئے یاھاما شوٹا کا سات کے وی کا جنریٹر منتخب کیا۔ ہم اسے دیکھتے ہی ڈر گئے کہ اس کے لئے گیس اور اِتنا پٹرول کہاں سے لائیں گے لیکن دوکاندار نے اس کی اتنی خصوصیات بیان کیں کہ وہ جنریٹر ہمیں بہت پیارا بلکہ راج دُلارا لگنے لگا۔
خرید کر گھر لائے تو سب سے پہلا مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ اسے کہاں رکھا جائے تاکہ اہل خانہ اور محلہ اس کے شور سے محفوظ رہیں، آخر لنگر خانہ ایک ایسی جگہ نظر آئے جہاں اِسے رکھا جا سکتا تھا۔ لنگر خانے کا فرش کچا رکھا جاتا ہے اور اس میں رہنے والے مرغے اور مرغی نے اس کو مزید نرم کیا ہوا ہے۔ مکینک صاحب نے کہا کہ ابھی اسے یہیں رکھتے ہیں، اگر اس کے ٹائر نیچے بھی ہو جائیں تو زمین میں تو اوپر کا حصہ محفوظ اور ٹھنڈا رہے گا۔ تجویز پسند آئی اور جنریڑ کو نہایت ادب و احترام سے لنگر خانے کے وسط میں بنے پڑے ستون کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ پہلے دو گھنٹے چلا کر پھر اس کا تیل تبدیل کیا، آواز کچھ زیادہ تھی لیکن مکینک بولے جوں جوں چلے گا ٹھیک ہو جائے گا۔ مزید چوبیس گھنٹے اسے پیٹرول پر چلا کر گھر کے کچھ پنکھوں اور بلبوں کا بوجھ ڈالا گیا، جس کا نتیجہ اچھا تھا اور یقین ہو گیا کہ یہ ایک دن اے سی بھی چلائے گا۔
نیاز تو ہم نے جنریٹر چلانے سے پہلے ہی منگوا کر کھا لی تھی۔ آخر جب اس کو رننگ کے بعد گیس پر چلایا گیا اور اے سی سے جوڑا گیا تو کچھ عجیب سی آوازیں آئیں، اے سی چل تو پڑا لیکن ہوا گرم تھی۔ مکینک سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو وہ بولا ’’ فکر نہ کریں چلے گا!‘‘ لیکن بہت کچھ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ مشین یاماھا کم اور شوٹا زیادہ ہے۔ جنریٹر کے شور کو پہلے پہل مرغے اور مرغی نے بھی ناپسند کیا لیکن اب جب وہ سٹارٹ ہوا تو کچھ دور بیٹھ کر مسکراتے رہتے ہیں۔ جنریٹر ابھی تک متحرک ہے اور اے سی اور ہم ساکن ہیں۔ اب ارادہ ہے کہ ایک کولر سرگودھے والا بنوایا جائے اور باقی زندگی ٹھنڈ میں گزاری جائے۔
٭٭٭
مولویریا کے مریض
حسیب احمد حسیب
ویسے تو حضرت انسان کو اس دنیا میں تشریف لاتے ہی بہت سے امراض کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے قدیم مرض ہوس تھا کہ جس نے بھائی کا قتل بھائی کے ہاتھوں کروایا سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان بے چارا ہوس کا مارا سب سے پہلے جس مرض میں مبتلا ہوا وہ ایک نفسیاتی مرض تھا۔
اب ان نفسیاتی امراض کا بھی کیا کہنا۔ ۔ ۔ یہ دماغ سے شروع ہو کر شرم گاہ تک آتے ہیں اور انسان کو کہاں کہاں ذلیل کرواتے ہیں مت پوچھئے۔ اب اگر بات مت پوچھنے کی آ ہی گئی ہے تو آپ کو ایک قصہ سناتے ہیں۔
قدیم زمانے کا قصہ ہے ایک صاحب اپنے ایک دوست کے ہاں ملنے تشریف لے گئے قریب پہنچے تو دیکھا رش لگا ہوا ہے اور لوگ باگ ٹکٹ لے کر لائن میں کھڑے ہیں کسی نہ کسی طرح اندر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں ان کے دوست موصوف راجہ اندر بنے بیٹھے ہیں اور کوئی تماشا دکھلا رہے ہیں اور لوگ ہیں کہ نوٹوں کی بارش کیے جا رہے ہیں تماشا بھی کیا تھا ایک عجیب منظر تھا کہ ایک دس انچ کا گھوڑا پھدکتا پھر رہا ہے۔
جب تماشا ختم ہوا تو دوست سے پوچھا میاں یہ کیا معاملہ ہے دوست کہنے لگا کیونکہ تم پرانے یار ہو بلکہ یار غار ہو اسلئے تمکو بتلاتا ہوں سنو گھنے جنگل میں اونچی پہاڑی پر ایک بزرگ رہتے ہیں یوں تو وہ ہمیشہ حالت استغراق میں ہوتے ہیں لیکن ان کی خدمت میں چلے جاؤ جس دن بھی نظرِ کرم ہوئی آنکھیں کھولیں گے اور خواہش دریافت کریں گے، من مانگی مراد ملے گی۔ ۔ ۔
مرتا کیا نہ کرتا بے چارا غم کا مارا چلا، جنگل کی اور، اور چڑھا پہاڑی پر۔ ۔ ۔ کیا دیکھتا ہے ایک بزرگ سیاہ توت جن کے عجیب تھے کرتوت، بیٹھے ہیں دھونی رمائے، پیر پھیلائے، موقع غنیمت جان، لگا ان کی خدمت میں، دن گزرے راتیں گزریں گزرے ماہ و سال اور پھر ہوا ایک دن عجب کمال، کھولیں بابے نے آنکھیں اور پوچھا مانگو کیا مانگتے ہیں۔ ۔ ۔
’’بس بابا ہیروں سے بھری بوری مل جاوے تو قسمت کا سکندر کہلاؤں۔ ‘‘
بابا نے آنکھیں بند کیں پھر کھولیں پھر بند کیں پھر کھولیں اور پھر ان کی آنکھیں بولیں۔ ۔ ۔
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
سوالی تھے ہاں سوالی تھے ہاں ہاں سوالی تھے
ترکت تا ترکت تا تا تا دھم۔ ۔ ۔ ‘‘
اور پھر بابا جی مجرا ختم کرتے ہی گویا ہوئے :
’’جا بچہ جو مانگا ہے ملے گا بلکہ دس گنا ملے گا جا بھاگ بھاگ یہاں سے بھاگ۔ ‘‘
بھاگم بھاگ گھر پہنچتے تو کیا دیکھتے ہیں صحن میں قطار اندر قطار بوریاں لگی ہیں، لپکے اور جھپک کر ایک بوری کھولی اور پھر دیکھتے چلے گئے دیکھتے ہی چلے گئے۔ ۔ ۔
کھیروں سے بھری بوری منہ چڑا رہی تھی۔
بکتے جھکتے پہنچے دوست کے پاس اور لگے پوچھنے ’’میاں یہ کیا بدتمیزی ہے، مانگے تھے ہیرے اور مل گئے کھیرے؟‘‘
دوست سٹپٹا کر بولا۔ ۔ ۔ ’’ اور ایک بات تو میں بتانا ہی بھول گیا، بابا اونچا سنتے ہیں۔ ‘‘
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اِس قصے کا کہانی سے کیا تعلق ہے۔ ۔ ۔ چلئے اس کو سمجھنے کے لیے ایک اور قصہ سنیں۔ ۔ ۔
ایک بار ایک قوم بڑی ذلالت میں پھنسی پڑی تھی اور اس ذلت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ نکلتا تھا کسی نہ کہا کہ فلاں گاؤں چلے جاؤ، وہاں ایک لال بجھکڑ ملے گا جو وہ بولے وہی کرنا بس اسی میں تمہاری خلاصی ہے۔ ۔ ۔
ایک وفد تیار کیا گیا اور وہ وفد روانہ ہوا۔ لال بجھکڑ کی تلاش میں منزلیں مارتا ہوا جب وہ وفد اس بستی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لمبا سا بانس زمین میں گڑا ہے اور اس بانس پر اپنی تشریف رکھے ایک بابا چڑھا ہے۔ منہ اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ بابا کے سر پر ایک الو بیٹھا سوچ میں غرق ہے، گلے سے ایک اچھا دھاری ناگن لپٹی ہوئی ہے گود میں ایک لنگور ہے کہ جس نے دونوں کان پکڑے ہوئے ہیں لال بھجکڑ کے، زلفیں لہراتی ہوئی زمین تک آتی ہیں جن پے چلتی ہوئی جنویں نیچے اوپر آتی جاتی ہیں اس عجیب منظر کا دیکھنا تھا کہ گرے قدموں میں اور لگے فریاد کرنے۔ ۔ ۔
لال بجھکڑ نے نکالی پوٹلی سے نسوار اور نسوار لگاتے ہی گویا ہوا ’’دیکھو میرے بچو ! تمھارے مسئلے کا بس ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ’’لال بتی ‘‘۔ ۔ ۔ بستی کے باہر جانے والے راستے پر کھڑے ہو جاؤ اور جیسے ہی لال بتی نظر آوے اس کا پیچھا کرنا۔ ‘‘
مرتے کیا نہ کرتے نکلے بستی سے باہر اور لگے لال بتی کی تلاش میں، دوپہر گزری شام آئی شام گزری رات نے پر پھیلائے ابھی شب آدھی ہی ڈھلی تھی کہ عجیب سی آواز آئی۔ ۔ ۔ ’’گر رڑ گر رڑ گڑ گڑ گڑ گھوں گھوں ‘‘ اور چمکی ایک بتی لال، ہوا کمال تو ڈالو دھمال۔
لو جی شروع ہوا لال بتی کا تعاقب، ایک جانب لال بتی کی ’’گھر رڑ گھر رڑ‘‘ دوسری جانب گھوڑوں کی دگڑ دگڑ۔ ۔ ۔
صبح کا سورج طلوع ہوا تو کیا دیکھتے ہیں کہ گلاب خان کے ٹرک کی لال بتی اُن کا منہ چڑا رہی ہے اور ٹرک شریف کے پچھواڑے پر لکھا ہے ’’جلنے والے کا منہ کالا۔ ‘‘
مرتے کیا نہ کرتے بکتے جھکتے پہنچے لال بجھکڑ کی بستی میں اور دیں اسے استعفی کدال اسٹائل کی گالیاں، دوسری جانب سے لال بجھکڑ چیخا ’’بس بس بس۔ ۔ ۔ میرے پیارے الو کے پٹھو !۔ ۔ ۔ بس۔ ۔ ۔ اسی لال بتی میں تمھارے لیے سبق تھا، تمہاری قوم کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ ایک طرف ظلمتِ شب ہے کہ ختم ہی نہ ہووے ہے اور دوسری جانب لال بتی۔ ۔ تو لگا دو قوم کو لال بتی کے پیچھے۔ ‘‘
تو ہم بات کر رہے تھے ’’مولویریا‘‘ کی۔ ۔ ۔ اجی یہ کوئی ملیریا نہیں، نہ ہی یہ کوئی لویریا(LOVERIA) ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ہے ’’ لال بتی‘‘ المعروف مولویریا۔ ۔ ۔ دور جدید کی یہ بیماری در اصل اس مریل قوم کے لیے دوا۔ ۔ ۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جو لوگوں کو آنکھوں کا نہیں، عقل کا اندھا بنا دیتی ہے۔ یہ بیماری آتی نہیں بلکہ طاری کی جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں جب طوفان آتا ہے تو شتر مرغ ریت میں منہ دے کر سمجھتا ہے کہ بچ جاوے گا اور ہماری قوم جب طوفان آتا ہے تو آنکھوں میں دھول جھونک کر سمجھتی ہے کہ بچ جاوے گی۔ مولویریا در اصل ایک وائرس ہے جیسے ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا دکھائی دیتا ہے ایسے ہی مولویریا کے شکار کو ہر مولوی برا دکھائی دیتا۔
ایک مولویریا کے مریض کا نفسیاتی ٹیسٹ :
سوال تمہارا نام کیا ہے ؟
جواب اوے مولوی۔
سوال کیا کرتے ہو ؟
جواب ابے گدھے میں نہیں کرتا مولوی کرتا ہے۔
سوال سوال مولوی کیا کرتا ہے ؟
جواب ابے تو مولوی ہے کیا۔ ۔ ۔ ہاں ہاں تو مولوی ہے، ابے سالے ھا ھا ھشش ش
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولویریا ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی معقول آدمی پر کبھی بھی طاری ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ سنیے مولویریا کے ایک انٹلیک چول مریض سے گفتگو:
پروفیسر چورن چترویدی صاحب آپ عالمی سیاست کی تاریخ کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ؟
’’ہمم ہمم ہم۔ ۔ ۔ دیکھئے سیاست کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ کی سیاست پرانی ہے، تاریخ میں سیاست اُس وقت داخل ہوئی کہ جب سیاست میں تاریخ داخل ہوئی جب تاریخ اور سیاست پاس سے بلکہ آس پاس سے گزریں تو اُس وقت وہ دونوں ایک دوسرے سے واقف نہیں تھیں۔ ۔ ۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے سیاست سے چھیڑ خانی شروع کی اب سیاست بھی کچھ ایسی دودھ کی دھلی تو نہ تھی تو سیاست نے بھی کچھ اوچھی حرکتیں ضرور کی ہوں گی۔ ۔ ۔
اچان مولویریا کا دورا پڑتا ہے :
اور میں تمہیں بتلاؤں کہ اس سیاست کی تاریخ اور تاریخ کی سیاست کی ماں بہن کس نے ایک کی جب سے یہ مولوی اس تاریخ میں گھسا سیاست کی میا تو اسی وقت مری۔ ۔ ۔ اور ہاں تو بھی مجھے مولوی ہی لگتا ہے۔ ۔ ۔ ابے سالے ۔ ۔ ۔ ۔ ھا ھا ھا ھا ھش ھش ھشش شش ش۔ ۔ ۔
اور اب لگتا ہے پوری قوم کو اس مولویریا وائرس میں مبتلا کر کے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔
ہر سوال کا ایک جواب۔ ۔ ۔ مولوی
گامے کی لڑکی کیوں بھاگی۔ ۔ ۔ مولوی
گھمن کے ہاں اولاد کیوں نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ مولوی
رمضان سے پہلے پندرہ روپے کلو پھکنے والے آلو پچاس روپے کے کیسے ہوئے۔ ۔ ۔ مولوی
شریف پولٹری والے کی ٹنڈ کیسے نکلی۔ ۔ ۔ مولوی
نسوار خان کی شادی کیسے ٹوٹی۔ ۔ ۔ مولوی
میری پجمیا کا ناڑا کون لے بھاگا۔ ۔ ۔ مولوی
اُس کی چنریا میں داغ کیسے لاگا۔ ۔ ۔ مولوی
ملا ملا کر دی نی میں آپے ملا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو ملا، ہیر نہ آکھو کوئی
ملا میں وچّ میں ملے وچّ، ہور خیال نہ کوئی
میں نہیں اوہ آپ ہے، اپنی آپ کرے دلجوئی
ملا ملا کر دی نی میں آپے ملا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو ملا، ہیر نہ آکھو کوئی
ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو، موڈھے بھورا لوئی
بلھا ہیر سلیٹی ویکھو، کتھے جا کھلوئی
ملا ملا کر دی نی میں آپے ملا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو ملا، ہیر نہ آکھو کوئی
٭٭٭
غزلیات
ڈاکٹر مظہرؔعباس رضوی
چینی تمام شُد، کبھی آٹا تمام شُد
چخ چخ سے بیوی کی، ہوا بھیجا تمام شُد
گھِس گھِس کے پہلے ہو گیا جُوتا تمام شُد
عاشق ہے اب تو سارے کا سارا تمام شُد
منہ میٹھا کرنا ٹھیک نہیں بعدِ مرگ تو
کیوں فاتحہ پہ کرتا ہے حلوہ تمام شُد
وہ گُل کھلائے دوسری بیوی نے الاماں
ہونے نہ پایا تھا ابھی سہرا تمام شُد
یہ اے بی سی کے وائروسوں کا عمل نہیں
ہے تیری بے رخی سے کلیجہ تمام شُد
ڈسپینسر کی توند تو پھیلے ہے رات دن
پڑھ پڑھ کے ڈاکٹر ہے بچارہ تمام شُد
حرص وہوس کے گھوڑے کو دے دیں ذرا لگام
اس مُلک کو کریں نہ خدارا تمام شُد
منظوم کر کے اس کو ظرافت کے نام پر
کر دیتے ہیں وہ حُسنِ لطیفہ تمام شُد
ہم تو کھڑے رہے کئی گھنٹے قطار میں
جب باری آئی بولا وہ، ’’سودا تمام شُد‘‘
مظہرؔ جلوس نکلے گا ہر دم عوام کا
ہو گا نہ ملک میں کبھی جلسہ تمام شُد
٭٭
بنام مہدی حسنؔ ہی، سہی رسائی تو ہے
غزل ہماری انہیں یوں پسند آئی تو ہے
کہا لجا کے یہ اک نوے سالہ بوڑھے نے
انہوں نے بات ہماری کہیں چلائی تو ہے
جو منہ دھُلا تو مری بات کا یقین کیا
فریبِ حُسن پہ تم نے بھی منہ کی کھائی تو ہے
سلام ہے نہ دعا ہے، کہ گھر میں آتے ہی
سوال ہوتا ہے بس یہ کہ وائی۔ فائی تو ہے ؟
’’پناما لیکس‘‘ میں اپنا نہیں ہے نام جناب
سو اس طرح ہمیں کچھ زعمِ پارسائی تو ہے
ہمیں تو خالی صفحہ پر بھی مل گئے نمبر
یہ ممتحن نے لکھا کچھ نہ ہو صفائی تو ہے
تمہارے ہاتھ سے مَس ہو کے آئی ہے مِس کال
ہماری یاد چلو جس طرح ہو آئی تو ہے
یہ اور بات کہ احباب کچھ مُکر جائیں
وگرنہ عشق میں سب نے ہی مار کھائی تو ہے
گریں نہ ہم سخن آرائی کے اکھاڑے میں
غزل میں دیکھئے عارفؔ کی، ٹانگ اڑائی تو ہے
٭٭٭
تنویر پھولؔ
جری ابنِ جری ہوں، وہ سدا اعلان کرتا ہے
بڑا رُستم بنا پھرتا ہے پر چوہوں سے ڈرتا ہے
وہ گنجا ہے، لگاتا تیل ہے، رکھتا ہے کنگھا بھی
ہمیشہ آئنے کے سامنے گھنٹوں سنورتا ہے !
نظر آتی غریبوں کو ہے ایسے خواب میں روٹی
کہ جیسے چودھویں کا چاند بادل سے اُبھرتا ہے
لگا کر گوند کُرسی سے چپک جاتا ہے یوں لیڈر
اُتارے کھینچ کر پبلک تو مشکل سے اُترتا ہے
جو گھُس جاتا ہے بھوکا خر ہماری کشتِ دولت میں
دولتّی جھاڑ کر وہ جلدی جلدی فصل چرتا ہے
خزانہ لُوٹ کر وہ منتقل کرتا رہے باہر
غَرَض اس کو نہیں ہے، کوئی جیتا ہے کہ مرتا ہے
حقیقت ہے، کہا خرگوش نے یہ ننھی بکری سے
لگا کر غازۂ خوں، شیر کا چہرہ نکھرتا ہے !
اگر باہر ملیں کُتّے، وہ بھیگی بلی بن جائے
مثالِ ضیغمِ صحرا وہ گھر میں ہی بپھرتا ہے
کہا یہ پھولؔ نے، اے پھول گوبھی کے !تری قسمت!
مِری بیگم کے ہاتھوں پکنے سے پہلے بکھرتا ہے
٭٭
لے گئی بچوں کو بھی، ہم کو اکیلا کر دیا
کیوں ضعیفی میں ہمیں بیگم نے تنہا کر دیا
ہو گیا بے کار جس نے جام اس کا پی لیا
عشق وہ ہے جس نے غالبؔ کو نکما کر دیا
ہم سے بھی ہے دوستی، دشمن سے بھی ہے دوستی
دوستی میں یار! کیوں گڑبڑ گھٹالا کر دیا
آئی وہ میکے سے جلدی، ہم کو تنہا جان کر
جب نظر آئی پڑوسن، حشر برپا کر دیا
ہم تو سمجھے تھے، نگاہِ ناز ہے اپنی طرف
بھیں گی آنکھوں نے تمھاری ، ہائے ! یہ کیا کر دیا
موٹے چوہے کی طرح تھا وہ رقیبِ رُو سیاہ
تم نے جب اُس کو بلایا، ہم نے بلوہ کر دیا
اِک قصائی نے بتایا اپنا گُر ہنستے ہوئے
گوشت پر روغن لگایا، اُس کو تازہ کر دیا
شیخ جی چمچے چُرا کر نکلے شادی ہال سے
گیٹ پر پکڑے گئے، درباں نے رُسوا کر دیا
سُن لیا بیگم نے، اب تو سر سے اُڑ جائیں گے بال
پھولؔ! اُس نے آج اظہارِ تمنا کر دیا
٭٭٭
عبدالحکیم ناصفؔ
گاگاکے ناچ ناچ کے ٹھمکے لگاؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
دُنیا کے غم کو آج دھُوئیں میں اُڑاؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
اِِس امن کے سُرور میں کِس سے ہو اِختلاف، دُشمن کلیجہ کھائے تَو کر دو اُسے معاف
کُچھ نہ ملے تَو شوق سے گُٹکا چباؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
کل کا مرے تَو آج ہی مر جائے یہ غریب، اِس کے نصیب بَد ہیں مگر ہم ہیں خوش نصیب
رُپّیا گھٹاؤ قیمتِ ڈالر بڑھاؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
اپنے ضمیر کی نہ کبھی سُننا کوئی بات، رِشوت، فریب، جھوٹ سے سرشار ہے حیات
صدیوں سے چل رہا ہے یہاں مُک مُکاؤدوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
قانون کا نہ رکھنا کبھی دِل میں خوف تم، اِنصاف بھی متاع کی جھنکار میں ہے گُم
پھنس جاؤ تُم کبھی تو کرو بھاؤ تاؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
وائن، منی بلیک کی پیدا کرو سکت، خود چل کے پاس آئیں گی ’’اعیانِ مملکت‘‘
خود بھی پیو اِنھیں بھی شرابیں پِلاؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
تُم بھی مگرمچھوں کی رکھو سامنے مثال، یعنی غمِ عوام میں تُم بھی رہو نِڈھال
تُم بھی اِسی مِزاج کے آنسو بہاؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
منڈی ہے مال و زر کی یہاں بیچ دو سبھی، مِلتی ہے زِندگی میں ’’فضیلت‘‘ کبھی کبھی
اِیماں کے بھی جو دام لگیں بیچ کھاؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
جب مُفلسی کے، بے حسی کے لگ رہے ہَوں گھاؤ، خود قہقہے لگاؤ زمانے کو بھی ہنساؤ
ناصفؔ کے ساتھ ساتھ یہی گُنگُناؤ دوست! دھن دھن تنک تناک دھنا دھن تنک تنک
٭٭
عِلم و فن کے چہرۂ رنگین اِنٹرنیٹ پر
دیکھتے ہیں آپ کیا کیا ’’سین‘‘ اِنٹرنیٹ پر
لُطف کا جویا ہے ہر شوقین اِنٹرنیٹ پر
دِین اِنٹرنیٹ پر بے دِین اِنٹرنیٹ پر
رُوس محروموں کی محرومی کا کرتا ہے عِلاج
صنعتیں دِکھلا رہا ہے چین اِنٹرنیٹ پر
لے رہی ہے ’’باتھ سی سایِڈ‘‘ پہ ’’لیڈی ٹاپ لیس‘‘
دیکھئے یہ پیکرِ نمکین اِنٹرنیٹ پر
مست ہو کر پھن پھُلائے رقص میں ہیں شیش ناگ
جو گیوں کی سُن رہے بِین اِنٹرنیٹ پر
قصرِ سُلطانی کا گنبد کیا ہے اور کیسی چٹان
ٹِک گیا اِقبالؔ کا شاہین اِنٹرنیٹ پر
ایسا لگتا ہے کہ کیفے میں صلیبی جنگ ہے
روز مِلتے ہیں صلاح الدّین اِنٹرنیٹ پر
پائے مرداں آج کل اُٹھتے نہیں سُوئے حبیب
پا گئے کیا صورتِ تسکین اِنٹرنیٹ پر
یا اِلٰہی! کون سا گنجینۂ گوہر کھلا؟
شا ہ اِنٹرنیٹ پر، مِسکین اِنٹرنیٹ پر
دیکھ کر چِینی ترقّی نُکتہ چیں ’’نیویارک‘‘ ہے
دیکھتا ہوں ابروئے پُرچین اِنٹرنیٹ پر
دِن میں وہ ماہِ لقا مِلتی نہیں اُن کو مگر
رات کو ہوتے ہیں شمس الدّین اِنٹرنیٹ پر
اُس کا رُخ میں نے ہٹا کر اپنا چہرہ رَکھ دِیا
شاہ رُخ کی ہو گئی تضمین اِنٹرنیٹ پر
آ ہنی ہاتھوں میں ہے اوجِ ثرّیا آجکل
آئرن کے ساتھ ہے پروین اِنٹرنیٹ پر
شاعری ناصفؔ کی ہے مانا کہ ساری ’’نان سینس‘‘
’’نال‘‘ اُس کے ’’نَس‘‘ گئی نسرین اِنٹرنیٹ پر
٭٭٭
عتیق الرّحمٰن صفیؔ
فکرِ روشن نہ تازہ زمیں ہے میاں
تیرے اشعار میں کچھ نہیں ہے میاں
آج سے سال ہا سال پہلے تلک
تھا جہاں پر تُو اب بھی وہیں ہے میاں
ہے تری ہی وہ اِک فیس بک آئی ڈی
جو کہ عاشق تری نازنیں ہے میاں
خود کو جس شہر کا ہے بتاتا ہمیں
کب وہاں کا کوئی تُو مکیں ہے میاں
تجھ کو جس شعر پر داد سب سے ملی
اِک وہی شعر تیرا نہیں ہے میاں
تو مکینک بڑا ہی زبردست ہے
سب کو اِس بات پر فُل یقیں ہے میاں
پانچ اشعار میں ہیں فقط دو ترے
وہ بھی تو کچھ نہیں آفریں ہے میاں
اک بجا بات پر بزمِ تنقید میں
کس ڈھٹائی سے تُو نکتہ چیں ہے میاں
آئنہ ہی تجھے تو دکھایا ہے بس
کیوں چڑھانے لگا آستیں ہے میاں
تیرے اوصاف اُسی کو نظر آئیں گے
پاس جس کے بھی اِک خورد بیں ہے میاں
کیا کہوں میں تری جدّتِ شعر پر
شاعری بھی یہاں شرمگیں ہے میاں
چھوڑ دے شاعری تُو کوئی کام کر
مشورہ اِک یہی بہتریں ہے میاں
٭٭٭
ڈاکٹر عزیزؔ فیصل
یہ خرابی ہے مرے عہد کے دلداروں میں
خود کو رکھتے ہیں سدا مالی طلبگاروں میں
تو کبھی پونڈ، کبھی یورو، کبھی ڈالر ہے
تو ہے مقبول اِنہیں ناموں سے بنکاروں میں
ظلم تو یہ ہے کہ ناکارہ تریں چھوٹے لوگ
دندناتے ہوئے پھرتے ہیں بڑی کاروں میں
سونگھنے والوں کو قسمت سے ملا کرتے ہیں
پھول جرثومے تری زلف کی مہکاروں میں
سب ترے نام سے کرتے ہیں دل و جان سے پیار
ذکر کرتے ہیں کیلنڈر ترا اتواروں میں
ایک دم کتنے لٹر تو نے کمی کر دی ہے
شربت دید کی محدود سی مقداروں میں
ڈھیر کچرے کا جو گوری نے بنا رکھا ہے
خط پڑے ہوں گے مرے بھی انہیں انباروں میں
مولوی دیکھ کے پاگل نے کہا ہنستے ہوئے
یہ بھی شامل ہے محبت کے گنہ گاروں میں
ایک نقاد نے لکھ کر یہ مجھے بتلایا
کتنی اغلاط ہیں فیصلؔ ترے ’’اشعاروں ‘‘ میں
٭٭
وہ اُدھر سے اِدھر نہیں آتی
سیٹ کو چھوڑ کر نہیں آتی
خواب میں جب وہ ملنے آئے تو
لے کے کیوں چارجر نہیں آتی
وہ بھی ہیں ناقدین شعر، جنہیں
شاعری شعر بھر نہیں آتی
سینئراہلیہ بھی گھر پر ہے
’’پر طبیعت ادھر نہیں آتی‘‘
کتنے بچے کھڑے ہیں کوچے میں
کیوں نظر اک مدر نہیں آتی
عقد ثانی، نکاح ثالث کی
’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘
ڈھونڈتے ہیں وہ پن حسینہ کا
جن کو ہتھنی نظر نہیں آتی
گو کہ اردو میں اب وہ ایم فل ہے
اس کو اُردو مگر نہیں آتی
٭٭٭
نویدؔ صدیقی
ہیلپر سے اس کے پوچھ نہ ایڈوائزر سے پوچھ
کاٹا ہے کیا قسائی نے خود جان ور سے پوچھ
جا کر کہاں رکے گا یہ مہنگائی کا سفر
چارہ کچھ اس کا جا کے کسی چارہ گر سے پوچھ
پوچھو نہ مجھ سے تھانے میں گزری ہے کیسے رات
"تفصیلِ واردات مری چشمِ تر سے پوچھ”
اوزان اور عروض سے بھرتا نہیں ہے پیٹ
آتا نہیں یقین تو شاعر کے گھر سے پوچھ
وہ بھی ہے اپنی بیٹی کی مانند بدمزاج
احوال ساس کا کبھی اپنے سسر سے پوچھ
٭٭
جتنا اونچا کوئی منصب دار ہے
معاف کیجئے ! اُتنا ناہنجار ہے
کیا کروں تم سے حکومت کا بیاں
ہائے توبہ! ہائے استغفار ہے
ہے کنواری زندگی بھی رائے گاں
راہ شادی کی بھی ناہموار ہے
سنسنی۔ افواہ، موٹی سرخیاں
بس یہی کچھ آج کا اخبار ہے
کام اس کا دفعتاً ہو جائے گا
جو بڑے صاحب کا واقف کار ہے
وہ نہیں رکھتا خود اپنی سوچ تک
وہ فقط بیگم کا پیروکار ہے
بیٹھتا ہے رات بھر ایف بی پہ وہ
لوگ کہتے ہیں کہ شب بیدار ہے
کر کے میرے گال پر تھپڑرسید
یار بولا ’’پیار کا اظہار ہے ‘‘
ربط ہے دس لڑکیوں سے ایک ساتھ
پھر بھی لڑکا صاحبِ کردار ہے
٭٭٭
امجد علی راجاؔ
مفلسی کے دور میں کھایا جو اک گھر کا نمک
عمر اس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک
باس کی کالی سی بیٹی بن گئی زوجہ مری
لے گیا آغوشِ الفت میں مجھے کالا نمک
میرے آنے کی خوشی میں وہ تو پاگل ہو گئی
ڈال دی سالن میں چینی، کھیر میں ڈالا نمک
لنچ پر مجھ کو بلا کر، چل پڑی غیروں کے ساتھ
اس طرح ظالم نے زخموں پر مرے چھڑکا نمک
سالیوں نے سامنے رکھ دی تھی ’’مصری‘‘ کی پلیٹ
شرم کے مارے وہ دلہا کھا گیا سارا نمک
ہے فشارِ خون بڑھنے کا سبب بیگم مری
اس لئے بیگم کا میں نے نام ہے رکھا نمک
اس کو دے دے کر صدائیں دکھ گیا میرا گلہ
خود نہ آیا پر غراروں کے لئے بھیجا نمک
فرق بیگم اور محبوبہ میں ہے نمکین سا
اک طرف پھانکا ہو جیسے، اک طرف چکھا نمک
عاشقوں کو قدر اس کی آ گئی پھینٹی کے بعد
جب ٹکوروں کے لئے زخموں پہ تھا رکھا نمک
٭٭
اکیلے تم نہیں جس کی دھلائی ہوتی رہتی ہے
سبھی کی اپنی بیگم سے لڑائی ہوتی رہتی ہے
کرپشن جرم ہے میرا، یقیناً چھوٹ جاؤں گا
ہمارے ملک میں یہ کاروائی ہوتی رہتی ہے
وہ عمرہ ہو کہ حج، سرکار کے خرچے پہ کرتے ہیں
کہ یوں دونوں جہانوں کی کمائی ہوتی رہتی ہے
کبھی مہنگائی کی زد میں کبھی بیگم کے نرغے میں
مسلسل اپنی جیبوں کی صفائی ہوتی رہتی ہے
خدا جانے خزانے کیا چھپے ہیں روڈ کے نیچے
بھرائی ہوتی رہتی ہے، کھدائی ہوتی رہتی ہے
کہاں اک سیلری میں کار، کوٹھی، بیویاں دو دو
خدا کا شکر اوپر کی کمائی ہوتی رہتی ہے
میں ہر بچے کی پیدائش پہ منہ میٹھا کراتا ہوں
سو ہر دسویں مہینے میں مٹھائی ہوتی رہتی ہے
٭٭٭
ہاشم علی خان ہمدمؔ
سیلفیاں روز بناتے ہو غضب کرتے ہو
اور پھر سب کو دکھاتے ہو غضب کرتے ہو
دھن چھپاتے ہو کہیں دور جو پانامہ میں
کمپنی آف دکھاتے ہو غضب کرتے ہو
کیمرہ رکھتے ہو فوکس مرے سرداروں پر
بس مجھے آنکھ دکھاتے ہو غضب کرتے ہو
یہ ولیمہ نہیں چہلم کی دعا ہے صاحب
اس قدر شوق سے کھاتے ہو غضب کرتے ہو
رات بھر شہر میں بجلی نہیں ہوتی پھر بھی
بتیاں گھر کی بجھاتے ہو غضب کرتے ہو
دھول دھپا تو محبت میں کسی کا حق ہے
ناز بیگم کے اٹھاتے ہو غضب کرتے ہو
چھیڑ بیٹھے ہو پڑوسن کو تو بھگتو بچو
جان کیوں اپنی چھڑاتے ہو غضب کرتے ہو
سب کو چوزے کی طرح قید رکھا ہے جس نے
اس کو چوہے سے ڈراتے ہو غضب کرتے ہو
"پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ”
ناک مودی پہ چڑھاتے ہو غضب کرتے ہو
دوستی غیر سے رکھتے ہو بتاتے بھی نہیں
بے وقوف ہم کو بناتے ہو غضب کرتے ہو
اتنے ممنون سے بیٹھے ہو سرِ محفل تم
بات سنتے نہ سناتے ہو غضب کرتے ہو
سونے سے بھر کے سیاست کی تجوری اپنی
لوہے پہ آنسو بہاتے ہو غضب کرتے ہو
ایک بھی رول پہ جب خود ہی نہیں چل سکتے
اتنے قانون بناتے ہو غضب کرتے ہو
ایک دو تین نہیں چار سے آگے بڑھ کر
پنچ غزلہ بھی سناتے ہو غضب کرتے ہو
نیوز چینل پہ حسینوں کو بلا کر ہمدمؔ
میڈیا وار کراتے ہو غضب کرتے ہو
٭٭
ہاتھ آئے نہ خواب کی چڑیا
اُڑ گئی کیا جناب کی چڑیا
میں چڑا ہوں غریب نوکر کا
اور وہ ہے نواب کی چڑیا
پھاڑ ڈالا کلام بلے نے
رو رہی ہے کتاب کی چڑیا
گھر سے نکلی ہے چھوڑ کر پردہ
ہو گئی ہے وہ جاب کی چڑیا
ایک ٹہنی پہ ٹھہرتی ہی نہیں
چشمِ خانہ خراب کی چڑیا
فیس بکئے حسین سیلفی میں
ڈھونڈتے ہیں سراب کی چڑیا
سب رسیلا کلام سنتے ہیں
کون دیکھے نصاب کی چڑیا
حسرتِ دید ہے ندیدوں کو
کب کھلے گی نقاب کی چڑیا
رنگ نکھرا سفید بالوں کا
اڑ گئی ہے خضاب کی چڑیا
چہچہانے لگے چڑے ہمدمؔ
موج میں ہے شباب کی چڑیا
٭٭٭
عرفان قادرؔ
پہلے آنکھوں میں ہیں شہتیر چھُپایا کرتے
پھر اُسی لکڑی سے مسواک بنایا کرتے
جِسم گر اُس کا ذرا سا متوازِن ہوتا
اُس کے چلنے سے یوں بھونچال نہ آیا کرتے
فرش سے نوٹ وہ چپکا ہوا ہو سکتا ہے
ہر گری چیز نہیں یونہی اٹھایا کرتے
عین ممکن ہے کہ مُکّے اُنھیں دو چار پڑیں
رہ میں لڑتے ہؤوں کو ہیں جو چھڑایا کرتے
ٹیکس ہر بار لگا دیتے ہیں پبلک پہ نیا
ہیں نئی طرز سے جیبوں کا صفایا کرتے
ٹوپی پہنے ہوئے ہر شخص کو مُلّا نہ سمجھ
اس بہانے سے ہیں کُچھ گنج چھپایا کرتے
کوئی لیلیٰ سے کہے، رُخ سے اُٹھائے نہ نقاب
اس طرح سے نہیں مجنوں کو ڈرایا کرتے
کتنی اسراف سے نفرت وہ کیا کرتے ہیں !
عید کے عید ہیں جو لوگ نہایا کرتے
پیڑ اشعار میں ہی کام نہیں آتے فقط
راہگیروں کو بھی ہیں دھوپ میں سایا کرتے
٭٭
چپکے ہوئے ہیں ایسے کرپشن کے ساتھ ساتھ
جیسے کہ بو گیاں کسی انجن کے ساتھ ساتھ
دانتوں کو وہ سنوار لے گا خود ہی دیکھ کر
تحفے میں دے دو آئینہ، منجن کے ساتھ ساتھ
جانا پڑے گا چھوڑ کے اِس میزبان کو
شلجم بھی لے کے آیا ہے بینگن کے ساتھ ساتھ
سر میں جوؤں کا ہونا تو ثابت نہیں ہوا
دیکھی مگر ہیں آٹھ نو گردن کے ساتھ ساتھ
پھیلی ہوئی جہان میں ہیں رشتے داریاں
سسرال چین میں بھی ہیں اُردن کے ساتھ ساتھ
بیگم کی مار سے دے خدا سب کو ہی پناہ
اٹھتی ہیں لہریں درد کی سُوجن کے ساتھ ساتھ
حضرت! مشاعرے میں کبھی تو بُلائیے
سُن لیں گے تھوڑے شعر بھی بھوجن کے ساتھ ساتھ
مجنوں کو ہم نے پارک میں دیکھا تھا شام کو
کرتا تھا واک ’’لیلیِٰ چھ من‘‘ کے ساتھ ساتھ
ٹیکسی کے پیچھے بھاگ کے، کرتا بچت مزید
آیا ہوا جو دوڑتا ویگن کے ساتھ ساتھ
جب واسطہ پڑا تو یہ کل ہم نے کہہ دیا
درزی بھی جھوٹے ہوتے ہیں درزن کے ساتھ ساتھ
٭٭٭
مسعودؔ قاضی
دھڑک اُٹھے کسی پر دل لڑکپن میں تو واویلا
بڑھاپے میں اضافہ ہو جو دھڑکن میں تو واویلا
غبن وہ قوم و مِلّت کا کریں تو ان کو کرنے دو
اگر پکڑے اُنہیں کوئی کرپشن میں تو واویلا
گنیں گر خوبیاں بیگم کی ہم دن رات کافی نئیں
جو دیکھیں ایک بھی خوبی پڑوسن میں تو واویلا
وہ زلفیں جو کبھی شادی سے پہلے زلفِ عنبر تھیں
نظر آئیں جو اب اک آدھ سالن میں تو واویلا
سہیلی ایک جو بیگم کو جان و دل سے پیاری ہے
بدل جائے سہیلی وہ جو سوتن میں تو واویلا
رقم جائز، ناجائز گھر میں لے کر آئیے قاضی
کمی آئی اگر بیگم کے فیشن میں تو واویلا
٭٭٭
احمد علی برقی اعظمی
ملتا نہیں گر اس سے چلا جائے مجھے کیا
ہے کام اگر مجھ سے تو پھر آئے مجھے کیا
میں جیت گیا فضلِ خدا سے یہ الیکشن
مرتا ہے اگر کوئی تو، مر جائے مجھے کیا
ہے فکر مجھے اپنی کرے فکر وہ اپنی
خوش فہمی سے دل اپنا وہ بہلائے مجھے کیا
اب تک جو ہوا خرچ کمانا ہے مجھے وہ
روئے کوئی یا گائے کہ چلائے مجھے کیا
میں کم نہیں دشنام طرازی میں ہوں اس سے
کہہ دو کہ وہ منہ میرا نہ کُھلوائے مجھے کیا
میں قوم کا رہبر ہوں جو چاہوں وہ کروں گا
یہ طرزِ عمل اس کو نہ بھائے تو مجھے کیا
فرصت مجھے جب ہو گی تو میں اس سے ملوں گا
گر وقت نہیں اس کو چلا جائے مجھے کیا
حق میرے عزیزوں کا ہے پنشن پہ زیادہ
وہ جرم ضعیفی کی سزا پائے مجھے کیا
٭٭٭
روبینہ شاہین بیناؔ
سیلفیوں میں بٹا ہوا بھیجا
ایک چہرہ بنا ٹھنا بھیجا
پہلے بھیجا میاں کو تھانے میں
اور پھر ناشتہ بنا بھیجا
پھول گوبھی کا وہ بھی شاپر میں
ہائے کھڑکی سے اس نے کیا بھیجا
ہر ولیمے کے بعد پیٹو نے
سب کو کھانا بچا کھچا بھیجا
وہ بھٹکتا رہا سمندر میں
آن پیپر جو کوریا بھیجا
پہلوئے زوجہ میں جو دیکھا اُسے
اس کی ماں نے اسے بلا بھیجا
یوں فرائی کڑاہی میں کر کے
حسن برگر جلا بھنا بھیجا
واپڈائی ہوا تو اپنے گھر
روشنی کے لئے دیا بھیجا
بھیجنی تو ردیف تھی بیناؔ
ایک شاعر نے قافیہ بھیجا
٭٭
سجا کے پشتو میں اُردو زبان بیٹھے ہیں
چلے بھی آؤ کہ محفل میں خان بیٹھے ہیں
وہی تو آ کے بگاڑیں گے میچ کا نقشہ
پویلین میں جو لالے کی جان بیٹھے ہیں
ہمیں گمان ہوا ہے صغیر ہونے کا
ہماری سیٹ کے پیچھے پٹھان بیٹھے ہیں
پڑی ہے مار وہ بیگم سے اف مرے اللہ
وہ آج غلطی سے اماں کی مان بیٹھے ہیں
بڑھا کے بال پہنتے ہیں کان میں بالی
عجب جوان ہیں بن کر زنان بیٹھے ہیں
چڑھائے رکھتے ہو چشموں کو اپنے سر پہ یونہی
سو یہ پکڑ کے ترے دونوں کان بیٹھے ہیں
وہ اِک غزل کا بہانہ بنا کے پھر بیناؔ
سنانے کے لئے پورا دیوان بیٹھے ہیں
٭٭٭
شاہین فصیح رباؔنی
چھرّے جا کر گرے کبوتر پر
فیر مارا تھا اس نے تیتر پر
پاؤں پھسلا تھا بس کی سیڑھی سے
اور چڑھ دوڑے وہ ڈریور پر
شام کو دے پلیٹِ بریانی
دن گزارا ہے ایک برگر پر
شیر نے تینوں حصے چھین لیے
گو ہوئی ڈیل تھی برابر کی
ہاتھ تسنیم بھی نہیں آئی
اس کی نظریں لگی تھیں کوثر پر
میٹرو بس، ٹرین اورنج است
کیجیے اب سفر نہ خچر پر
ایسے استاد ہیں کئی شعراء
دیویں اصلاح سادہ پیپر پر
بدلہ لیتے ہیں سنگدل سے فصیحؔ
نام لکھتے ہیں اس کا پتھر پر
٭٭٭
محمد قمر شہزاد آسیؔ
کوچۂ یار میں جب بھی کبھی جاؤں ماموں
آئے ہر گھر سے ہی آواز یہ ’’ماموں ‘‘ ’’ماموں ‘‘
کہہ رہا ہے تو کہے سارا ہی گاؤں ماموں
بس نہ معشوق کے بچوں سے کہاؤں ماموں
مجھ کو جی جان سے منظور ہے رشتہ لیکن
اُس بلیو چشم کو میں کیسے مناؤں ماموں
حُور کے روپ میں لنگور چھپے ہیں جو بھی
بینڈ ’’ایف۔ بی‘‘ پہ نہ کیوں اُن کا بجاؤں ماموں
بعد برسوں کے گئی ہے مری بیگم میکے
آج دل کھول کے میں ناچتا جاؤں ماموں
خواب خوش کُن ہے نئے عقد کا لیکن پہلے
پہلی والی سے تو جاں اپنی چھڑاؤں ماموں
راہ میں روڑے جو اٹکاتا ہے ظالم سالا
اپنے بچوں کا قمرؔ اُس کو بناؤں ماموں
٭٭٭
احمد علویؔ
شعر پڑھنے کے لیے طوعاً و کرہاً آ گیا
آپ کی بزمِ سخن میں احتراماً آ گیا
ایک جھٹکے میں ہی پھر ساری اکڑ ہو جائے گی
دل سہیلی پہ جو بیگم اتفاقاً آ گیا
شیروانی کو چبایا تھا یہی بکری تھی وہ
اس لئے بریانی کھانے انتقاماً آ گیا
دیکھ کر خونخوار کتوں کو میں اُن کے گیٹ پر
چھوڑ کر ان کی گلی کو احتجاجاً آ گیا
فخر کی فے کاٹ کر کاتب نے مجھ کو خر کیا
فرق اپنی شخصیت میں اتفاقاً آ گیا
کانوینٹ میں ہم پڑھے انگریز کی اولاد ہیں
لفظ اُردو گفتگو میں اصطلاحاً آ گیا
عالموں کا فن ہے یہ دانشوروں کا کام ہے
شعر کہنے کا ہنر ہم کو مذاقاً آ گیا
کچھ اضافہ کیجئے شعراء کے دسترخوان میں
مطلع کرنے یہ علویؔ اطلاعاً آ گیا
٭٭٭
عاجز سجادؔ
دو چار میرے ہاتھ سے گر پھڑکیاں نہیں
ایسی تمھارے شہر میں تو لڑکیاں نہیں
گھر چور منہ اُٹھا کے جو سیدھا ہی آ گیا
معلوم تھا اُسے بھی کہ گھر کھڑکیاں نہیں
صوفہ ہے چارپائی ہے بستر بھی ہے مگر
اِس گھر میں بیٹھنے کو فقط کرسیاں نہیں
جگتیں کرو جی مار کٹائی بھی تم کرو
پر گدگدی، شرارتیں اور مستیاں نہیں
یہ طنز اور مزاح بھی دیتا نہیں مزہ
گر پیٹ میں پڑی ہوئی کچھ روٹیاں نہیں
بچپن میں ہم شریر تھے، ہوتی تھیں مستیاں
دن رات کی لڑائی نہیں پھرتیاں نہیں
چھت سے اُسے وہ تاڑنا ہوتا تھا رات دِن
اِس عمر میں وہ سیٹیاں وہ تالیاں نہیں
کچھ تو عذاب سے ملی ہم کو نجات بھی
سالی فقط ہے ایک مری سالیاں نہیں
٭٭٭
اقبال شانہؔ
محبت میں تمھاری میں اگر اندھا نہیں ہوتا
ہمارے درمیاں قائم کبھی رشتہ نہیں ہوتا
بتائیں کیا کوئی ذی ہوش کرتا آپ سے شادی
خدانخواستہ جو میں اگر پیدا نہیں ہوتا
حکیموں کو وہ لے آئے ہیں یارو میری میت پر
دوا دارو سے تو مردہ کبھی زندہ نہیں ہوتا
ہمیں نے پمفلٹ بانٹے ہیں رسوائی کے خود اپنے
وگرنہ عشق کا اپنے کبھی چرچا نہیں ہوتا
زبردستی مجھے لایا گیا ہے تیری محفل میں
میں سیدھی طرح تیری بزم میں آیا نہیں ہوتا
محبت میں یہ مانا ہم نے ہوتے ہیں کئی اندھے
مگر یہ عشق تو ہرگز کبھی اندھا نہیں ہوتا
ہمیشہ منہ چڑانے کی ملی تم کو سزا ورنہ
تمھارا خوبصورت منہ کبھی ٹیڑھا نہیں ہوتا
عجب منطق ہے اور پھر موج بھی سب سے جدا اپنی
اُدھر جاتے ہیں شانہؔ جس طرف رستہ نہیں ہوتا
٭٭
(انٹر نیشنل غزل)
نہیں ثانی مرا جغرافیہ میں
بلوچستان ہے کمبوڈیا میں
بہت جس کو تلاشا انڈیا میں
ملا وہ ہم کو انڈونیشیا میں
محبت ہو گئی رومانیہ میں
ہوا ہے عقد موریطانیہ میں
خدا کا شکر ہے بچے کی اُن کی
ولادت ہو گئی ہسپانیہ میں
شمالی کوریا میں جب میں پہنچا
وہ جا بیٹھا جنوبی کوریا میں
ہمارے بیچ خطِ استواء ہے
میں انگولا میں وہ منگولیا میں
وہ پاکستان مین رہتا ہے آدھا
اور آدھا رہ گیا برطانیہ میں
ہماری ذات گویا بٹ گئی ہے
عرب میں جسم ہے جاں انڈیا میں
تڑپتا ہوں میں کولمبو میں یارو
مرا محبوب ہے کولمبیا میں
تمھارے عاشقوں نے جانِ جاناں
بہت مارا مجھے بلغاریہ میں
وہ کرکٹ کے دوانے ہو گئے ہیں
نظر آتے ہیں اکثر شارجہ میں
اجازت ہو تو مینڈک پیش کر دوں
بہت کھائے ہیں میں نے چائنا میں
میں اِک ’’حبشن‘‘ پہ شانہؔ مر مٹا ہوں
ملی تھی مجھ کو وہ تنزانیہ میں
٭٭٭
نورؔ جمشید پوری
روٹیاں خود ہی پکاتے ہو غضب کرتے ہو
اور بیگم کو کھلاتے ہو غضب کرتے ہو
مل گئے جب سے سسر جی کو وزارت دیکھو
ناز بیگم کے اٹھاتے ہو غضب کرتے ہو
تم سیاست کے لئے خود ہی وطن میں اپنے
مفلسی اور بڑھاتے ہو غضب کرتے ہو
کیسے بیٹے ہو کہ بیگم کی خوشی کی خاطر
دل کو تم ماں کے دکھاتے ہو غضب کرتے ہو
چاندنی رات میں تم بیٹھ کے پہلو میں مرے
مجھ کو غزلیں ہی سناتے ہو غضب کرتے ہو
اپنے احباب کو تم شعر سنانے کے لئے
محفلیں گھر میں جماتے ہو غضب کرتے ہو
شب کی تنہائی میں تم سب سے بچا کر نظریں
چاند کا نور چراتے ہو غضب کرتے ہو
٭٭٭
خادم حسین مجاہدؔ
پیار سے جب مجھے پکارتا ہے
دل پہ ڈاکہ سا گویا مارتا ہے
کھیل ہے یہ عجب محبت کا
جو بھی کھیلے ضرور ہارتا ہے
تیرے سینڈل میں ہے کوئی تریاق
بگڑے تیور کو یہ سنوارتا ہے
میرے جغرافیہ نے بتلایا
کیپیٹل مصر کا جکارتہ ہے
کل یہ بے نقط کی سنائے گا
تیرے صدقے جو اب اُتارتا ہے
وقت ہے ایک بازیگر خادمؔ
کیسے حالات سے گزارتا ہے
٭٭٭
سیّد فہیم الدین
جنابِ شیخ کا جو عقدِ ثانی کا ارادہ ہے
سبب یہ ہے کہ دل میں قوم کا غم کچھ زیادہ ہے
ہماری قوم کے سب ’’نر‘‘ وہیں کو دوڑ پڑتے ہیں
شبہ جس سمت ہو جائے یہاں پر صنفِ مادہ ہے
ہمیں اکیسویں میں بھی غلامی راس آئے گی
ہماری قوم کے پیشِ نظر منزل نہ جادہ ہے
بھلا اب کوئی کیا سمجھے خباثت بے بہا اپنی
کہ اِن کپڑوں کے اوپر اِک شرافت کا لبادہ ہے
بظاہر لال مرچیں لے کے آئے ہم فہیم اُن سے
کھلا یہ راز اس میں بھی تو لکڑی کا برادہ ہے
٭٭
ڈراموں میں بھی اب ہونے لگی تشہیر مجنوں کی
کہاں پر کھینچ کر لے آئی ہے تقدیر مجنوں کی
تو کیا اب راگ لیلیٰ کو سنائے گا اکیلے میں
چرا لی ہے کسی ظالم نے جو تقریر مجنوں کی
جنابِ خر سے کچھ ملتی ہوئی صورت نظر آئی
کسی نے بھیج دی لیلیٰ کو جو تصویر مجنوں کی
لو ماموں کہہ رہے ہیں ہم کو اب لیلیٰ کے بھی بچے
یہ کیسے موڑ پر لے آئی ہے تاخیر مجنوں کی
لگی ہے تازہ فیشن کی ہوا اس کو فہیم ایسی
کہ لیلیٰ بھی نظر آئی ہے اب تو ’’ویر‘‘ مجنوں کی
٭٭٭
نوید ظفرؔ کیانی
سوال اُن سے جب کیا کمال کر کے رہ گئے
جواب میں ہمیں سے وہ سوال کر کے رہ گئے
وہ ریٹ تھے کہ ہوٹلنگ کا شوق ماند پڑ گیا
ہمارے جیسے تو فقط خلال کر کے رہ گئے
جو ناکے پر پولیس کے جوان تھے چٹان تھے
اِنہیں جو مرغ بھی ملا حلال کر کے رہ گئے
چلے گئے تھے گورنمنٹ ہسپتال بھول کر
غریب تھے چنانچہ انتقال کر کے رہ گئے
عبادتیں نہ کر سکے ہیں خانۂ خدا میں بھی
ہم اپنی جوتیوں کی دیکھ بھال کر کے رہ گئے
جنابِ قیس کو خراب ہونا ہی تھا عشق میں
وہ عقد کا ہے کو پئے وصال کر کے رہ گئے
جو ڈاکٹر کو دستخط کے واسطے کہا گیا
جناب اپنے پاؤں استعمال کر کے رہ گئے
یوں لیڈرانِ قوم لوٹتے ہیں ملک و قوم کو
لٹیروں ڈاکوؤں کا استحصال کر کے رہ گئے
جو ہم کو ناچ تگنی کا نچاتے آئے ہیں ظفرؔ
ہم اُن کی بزمِ ناز میں دھمال کر کے رہ گئے
٭٭
گدھے کو شیر سمجھنے سے کون باز کرے
’’جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے ‘‘
وہ میڈیا جو سدا سے بلیک میلر ہے
ستم تو یہ ہے وہی غلغلۂ ’’لاز‘‘ کرے
ہماری زوجہ کو میک اَپ کا شوق ہے بے حد
سو اُن کا کام وہی ہے جو رنگساز کرے
جو مسجدوں میں سدا جوتیاں چرانے گیا
کہاں پہ جا کے وہ دستِ دعا دراز کرے
یہ قوم حالیؔ و اقبالؔ سے بھی کیا پائے
کلام جس کا ملے نذرِ صوت و ساز کرے
عوام نام کی اے رینگتی ہوئی مخلوق
خدا تجھے کبھی عزت سے سرفراز کرے
میں چاپلوسی کے فن سے نا آشنا ٹھہرا
کروں وہ کس طرح جو حاجی گل نواز کرے
فدائی بخت میں ہو بوزنہ سدھایا ہوا
تو اپنے حُسن پہ کیونکر نہ کوئی ناز کرے
بہت سے ایسے بھی شاعر ہیں جن کا بیت و سخن
وہی کرے جو سدا کاٹنے پہ پیاز کرے
٭٭٭
قسطوں قسط
واٹر پمپ مارکیٹ
پروفیسر ڈاکٹر ظفر مجیب انوار حمیدی
صحتِ عامہ سے متعلق واٹر پمپ پر ستّر کی دہائی سے یوکے اسکوائر کے ساتھ (جہاں اب لطیف اسکوائر ) اور انارکلی مارکیٹ ہے، کے ای ایس سی کے ٹرانسفارمر کے ساتھ ایک ’’ عتیق کلینک ‘‘ ہوا کرتا تھا، اس طرح کچھ آگے جا کر چنوں کے بھاڑ کے ساتھ ’’محسن کلینک ‘‘ ہوا کرتا (محسن کلینک اس سے پہلے ساٹھ کی دہائی میں جہاں اب ٹمبر مارکیٹ ہے وہاں چاول ڈپو کے ساتھ ہوتا، اس کے بعد بھاڑ کے برابر اور پھر چالیس سال پہلے اسی لائن میں آگے جا کر موجودہ مقام پر منتقل ہوا۔ اُدھر یوکے اسکوائر کے ساتھ ’’یوسف پلازہ ‘‘ کے معروف فلیٹس ہیں، اُن کے عقب میں ’’اشتیاق ہڈی جوڑ کلینک‘‘، ’’ڈاکٹر صغیر کلینک ‘‘ اور مین روڈ ’’لبِ سُپر ہائی وے ‘‘ انچولی پر ’’ہائی وے کلینک ‘‘ ہوا کرتا، اس لائن میں ’’ گولا والا ‘‘ اور ’’ خواجہ حسن نظامی اسکول ‘‘ (پرائیویٹ ) اسکول تھے، اُن ہی پلاٹوں پر بہت بعد میں ’’مامجی ہڈیوں کا اسپتال ‘‘ قائم ہوا جو آج موجودہ شکل ’’مامجی اسپتال‘‘ واٹر پمپ کے نام سے مشہور ہے اور تقریباً ۳۶۰۰ مربع گز کے رقبے پر واقع ہے۔ آج سے تیس چالیس برس پہلے یہ شفا خانے اپنی ابتدائی شکل میں تھے اور رہے نام اللہ کا، شِفا مِن جانبِ اللہ ہی ہوا کرتی۔ ’’ہائی وے کلینک ‘‘ (انچولی) بالمقابل یوسف پلازہ بڑا اسپتال تھا، بعد میں اس لائن میں آگے ’’فیڈرل کلینک ‘‘، ’’ زہرہ اسپتال‘‘ اور اِکّا دُکّا اسپتال قائم ہوئے لیکن جو بات ’’ ہائی وے کلینک ‘‘ کی رہی وہ کسی اسپتال کی نہ تھی۔
واٹر پمپ مارکیٹ کے مشہور معالج
سب سے مقبول ترین جنرل فزیشن تو ڈاکٹر محمد مُحسن (خیر سے نوّے کے ہو رہے ہیں، اُردو ادب کو کئی مزاحیہ کتب دے چکے ہیں، روزناموں اور جرائد کا بھی مقبول نام رہے ہیں، اب بھی کبھی کبھار اخبارات ڈاکٹر محمد محسن کی کتابوں سے مضامین شائع کرتے رہتے ہیں۔ ہفت روزوں میں ڈاکٹر صاحب طبّی مسائل کا جواب بھی دیا کرتے )۔ اس کے بعد ڈاکٹر عتیق (سرکاری معالج تھے، کبھی کلینک کیا کرتے اور کبھی نہیں )۔ ڈاکٹر سعود ( معروف معالج، واٹر پمپ مارکیٹ کے اُس عقبی حصے میں کلینک کرتے جو اب امام بارگاہ دستگیر ٹی گراؤنڈ کے سامنے کا علاقہ ہے۔ ڈاکٹر صغیر (یوسف پلازہ کے نیچے دکانوں میں کلینک تھی)، ڈاکٹر عارف (ڈاکٹر محسن کے ساتھ پریکٹس کرتے )، ڈاکٹر فرحت اللہ خان (ڈاکٹر محسن صاحب کے ساتھ ہی پریکٹس کی )، ہومیو ڈاکٹر شہناز محسن ( ڈاکٹر محمد محسن کی اہلیہ )، ڈاکٹر عبد السلام (ہومیو ڈاکٹر جو ڈاکٹر محسن کے ساتھ ہی اُن کی کلینک کے ایک کمرے میں پریکٹس کرتے )۔ مزے کی بات یہ کہ ڈاکٹر محسن نے اپنے شفا خانے کے پلاٹ پر تین منزلہ شفا خانہ قائم کر کے ہر کمرہ کسی نہ کسی ایسے معالج کو بغیر کسی کرائے یا پیشگی رقم کے دیا تھا جو اپنے ابتدائی عملی دور سے گزر رہا تھا، ان معالجوں میں آج کے بڑے بڑے نام ہیں، اگر میں ایک دو نام بتا بھی دوں تو کئی ایک تو ناراض ہو جائیں گے کہ جو آج سرکاری میڈیکل جامعات کے رجسٹرار بھی ہیں، اُنھوں نے بھی اپنا ابتدائی سفر ’’محسن کلینک ‘‘ سے شروع کیا تھا۔ ایک تو ڈاکٹر مشہود صاحب (آئی اسپیشلسٹ )، ڈاکٹر فرحت اللہ خان(امریکا)، ڈاکٹر عارف (کناڈا )، ڈاکٹر شمع ( سول)، ڈاکٹر تصور حسین ( میمن اسپتال)، پروفیسرڈاکٹر فاروق مامجی، ڈاکٹر فاروق احمد، ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر عزیر ( کناڈا ڈینٹل سرجن)، ڈاکٹر اویس ( ماہرِ قلب، امریکا) و بے شمار نام جنہوں نے پچاس برسوں میں محسن کلینک سے استفادہ کیا اور اب ماشا اللہ ’’سیٹل‘‘ ہیں، اسی طرح ’’محسن کلینک ‘‘ ادیبوں، شاعروں اور دیگر پڑھی لکھی شخصیات کا گڑھ بھی رہا، اکثر اُس کی چھت پر شامیانہ لگا کر، قناعتیں گاڑ، کئی ادبی پروگرام منعقد کئے جاتے۔ روزنامہ ’’امت ‘‘ نیا نیا نکلا تھا، اُس کے مدیر جناب معین کمالی اور وجیہہ صدیقی بھی آ جاتے، ساتھ ’’ بی ایڈ کالج ‘‘ بلاک ۱۶ سے پروفیسر غفران و دیگر ماہرینِ تعلیم بھی تشریف لاتے، معراج الدین عباسی ( پی ٹی وی کے انجینئر، بعد میں پروڈیوسر ہوئے )، قاسم جلالی، ماہنامہ سیپ کے ’’نسیم درانی‘‘، سہ ماہی روشنائی کے ’’احمد زین العابدین ‘‘، کئی پروفیسرز، اس کالرز، سب کے نام میرے ذہن میں بھی نہیں آ رہے ہیں، وہ سب محسن کلینک میں آتے اور ڈاکٹر صاحب کے دوستوں میں شامل ہو جاتے، صبا اکرام ( انڈیا سے رسالہ شب خُون اُنہیں کے توسط سے ہم لوگوں تک پہنچتا )، مُسلم شمیم صاحب، جان ایلیا، اور بہت سارے بڑے بڑے نام، گلنار آفریں، شبیہ الحسن شبیہ، تنویر پھول، ابنِ آس، مظہر یوسف زئی علیگ و دیگر۔ مجیب ظفر انوار حمیدی (ہاہاہا، کہہ سکتے ہیں آپ مشہور ناموں کے حوالوں سے )، محمود شام صاحب۔ ’’تکبیر ‘‘ کے مولانا صلاح الدین اور بڑے بڑے اس کالرز، شفیع عقیل صاحب، یہ سب ’’محسن کلینک ‘‘ میں تشریف لاتے رہے، علاج کے لئے بھی اور ڈاکٹر محسن کی دوستی کی وجہ سے بھی۔ ڈاکٹر محسن صاحب کی شخصیت پر تو شکور پٹھان صاحب ہی کچھ لکھیں گے، مَیں نے تو صرف رسید دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کلینک پر میں ۱۹۷۶ء میں پہلی مرتبہ بحیثیت مریض گیا اور پھر ڈاکٹر صاحب میری اُردو کہانیوں کا بھی علاج کرتے رہے، اُس زمانے میں تعلیم و تربیت، نونہال، پھول پرچوں کا عروج تھا، اخبار جہاں کے بچوں کا صفحہ، حریت کا شمع زیدی صاحبہ کا ’’بچوں کا حریت ‘‘ وغیرہ، سب پر ڈاکٹر محمد محسن صاحب مجھ سے لکھواتے رہے اور کہانیوں کی نوک پلک سنوارتے رہتے۔ طریقہ یوں ہوتا کہ کلینک پر مریضوں کا دس بجے صبح سے شام پانچ چھ بجے تک تانتا بندھا رہتا، ڈاکٹر صاحب دو گھنٹوں بعد تازہ دم ہو کر نماز و کچھ کھانے سے فراغت پا کر شام سات یا رات آٹھ سے دو بجے تک پھر کلینک کرتے۔ اس دوران میں اُن کی کرسی کیسامنے بیٹھا مختلف ملکی اور غیر ملکی بچوں کی کتابیں، بڑوں کی کتابیں اور رسائل دیکھتا رہتا، لکھتا رہتا اور ڈاکٹر صاحب سے مشورہ لیتا رہتا، اُس وقت کہاں تھے یہ موبائل، کمپیوٹر، انٹر نیٹ ؟ سب کچھ کاغذات پر لکھا پڑتا اور واٹر پمپ کی فرید اسکوائر پر واقع اکلوتی فوٹو اسٹیٹ کی دُکان ’’ فرید فوٹو اسٹیٹ ‘‘ کی باوا آدم کے زمانے کی فوٹو مشینوں پر دس پیسے، بیس پیسے یا تیس پیسے میں فوٹو کاپی نکلوانا پڑتی، پاؤڈر فوٹو کاپی کی لذت سے بھی لکھنے والے بعد میں آشنا ہوئے ورنہ پہلے غریب طالب علم اور اہلِ قلم کاربن پیپر پر مسودہ کی نقل رکھ لیا کرتے۔ ’’نوٹس ‘‘ کو فوٹو کاپیوں کا بخار وبائی صورت اختیار نہیں کیا تھا، جامعات تک کے طالب علم قلمی نوٹس کتابوں کی مدد سے تیار کرتے۔ ڈاکٹر محسن طالب علموں کی تعلیم میں بھی خُوب دلچسپی لیا کرتے، ڈاکٹر عارف، ڈاکٹر فرحت، ابن آس، ڈاکٹر سلام، پروفیسر مجیب ظفر انوار، ڈاکٹر شمع، ڈاکٹر تصور حسین، ڈکٹر فاروق مامجی، و دیگر، ان ’’پڑھے لکھے لوگوں ‘‘ کو کتابیں ڈاکٹر صاحب ہی فراہم کیا کرتے۔
زمانہ بدلا تو گویا سب کچھ بدل گیا، ’’ محسن کلینک ‘‘ آج بھی واٹر پمپ میں ہے، آج کل ڈاکٹر محسن خاصے ضعیف ہو چکے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی ’’ تشخیص ‘‘ میں بھی غضب کا نکھار آتا جا رہا ہے۔ مَیں نے ڈاکٹر صاحب سے ضد کر کے اُنھیں ’’بزمِ سائنسی ادب ‘‘ ( زیر انتظام :پروفیسر عظمت علی خان ) ساتھ جانے پر مجبور کیا، جس ادبی پروگرام میں جاتا، ڈاکٹر محسن صاحب سے اس لئے ساتھ چلنے کی ضد کرتا کہ اُنی آرام دہ کار میں سفر ہوتا اور ڈاکٹر صاحب کو لوگ دیکھ بھی لیا کرتے کہ : ’’ اچھا یہ ہیں ڈاکٹر محمد محسن !‘‘ ڈاکٹر صاحب تقریبات سے دُور رہنے والے افراد میں سے تھے، مضامین کے ساتھ اپنی تصا یر بھی شائع نہ کرواتے۔ خیال کرتے کے ہمارا فرنٹ، سائڈ، ترچھے رُک سے لیا گیا پوز اچھا نہیں آتا، باقی سارے اچھے آتے ہیں، ہاہاہاہا، ہاہاہاہا۔ ۔ ۔ ’’فرید پبلشرز ‘‘ کے کتب میلے تو بہت بعد میں لگنا شروع ہوئے ماہِ رمضان میں (اُن کا اپنا مزا تھا )۔ بے شمار یادیں ہیں سال دو سال مضمون کیا کتاب بن جائے ’’واٹر پمپ کے اُس خاص ماحول سے متعلق۔ ‘‘
محسن کلینک کے پلیٹ فارم پر کئی کمپاؤنڈر لڑکوں نے بھی طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا، اُن میں ڈاکٹر نظام اور ڈاکٹر شعیب بھی شامل ہیں، ڈاکٹر متین نے ہومیو پیتھک پڑھی، خود میں نے ’’انصاری ہومیو کالج ‘‘سے ڈی ایچ ایم ایس ۱۹۹۱ء میں کیا، پریکٹس ’’ محسن کلینک ‘‘ میں کی لیکن اپنا کلینک کبھی نہ کیا، مجھے انسانی جانوں سے دن دیہاڑے اپنے علم کے ذریعہ کھیلتے ڈر لگتا ہے، تاہم کچھ کم خطرناک و جان لیوا پیشہ اختیار کیا یعنی اسکول و کالج میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔
واٹر پمپ مارکیٹ کے مشہور میڈیکل اسٹور
کئی میڈیکل اسٹور تھے، یوسف پلازہ کے نیچے ’’بھائی بھائی میڈیکل اور جنرل اسٹور ‘‘ (اب بند ہو گیا )، یوکے اسکوائر واٹر پمپ کے عقب میں ’’ہلال میڈیکل اسٹور ‘‘، یوکے اسکوائر کے فلیٹوں کے نیچے ہی ’’ہلال میڈیکوز‘‘، محسن کلینک کے سامنے ’’ سلام میڈیکل اسٹور ‘‘، ساتھ ساتھ واٹر پمپ کی مشہور ’’ادویہ ہول سیل مارکیٹ ‘‘ میں ’’پرنس فارما ‘‘، ’’بابر میڈیکل‘‘ وغیرہ۔ مامجی اور ہائی وے اسپتالوں کے میڈیکل اسٹور ’’مامجی میڈیکوز ‘‘ اور ’’ ہائی وے میڈیکل سنٹر ‘‘ چوبیس گھنٹے کھلا کرتے، اب اگلی قسط میں آپ کو واٹر پمپ مارکیٹ کے اسکولوں کے بارے میں بتائیں گے۔ فی الحال اجازت، دن بھر تو وقت ملتا نہیں۔ محترمہ حمیرا اطہر سے لکھنے کا وعدہ کر کے پھنس چکا ہوں ہاہاہا۔ ۔ ۔ ۔ اب رات چار بجے اُٹھ جاتا ہوں، کمپوزنگ کرتا ہوں، اس بہانے ’’تہجد ‘‘ کا اعزاز بھی اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے اور فجر پڑھ کر کچھ چہل قدمی کرتا ہوں، ناشتہ کھانا کر کے کالج کی راہ لی، شام کو واپسی ہوئی، انتہائی تھک جاتا ہوں، عشاء پڑھ اور کھانا کھا سو رہتا ہوں، وقت یہی ملتا ہے۔ آج کل بلدیاتی صوبائی الیکشنوں کا بھی موسم ہے، اُس کی سرکاری ذمہ داریوں میں بھی دن گزر جاتا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ فیڈرل بی ایریا کا وہ وسیع علاقہ جو ’’واٹر پمپ ‘‘ کہلاتا ہے، وہاں مَیں نے اپنی زندگی کے چالیس سے زائد سال گزارے اور تقریباً بیس برسوں سے ایک ویرانے میں پڑا ہوں جسے لوگ ’’گلبرگ ‘‘ کہا کرتے ہیں۔
٭٭٭
سفر وسیلۂ ظفر
جیون میں ایک بار
محمد خلیل الرحمٰن
یوں تو دلشاد بیگم کا دعوت نامہ، ’’ جیون میں ایک بار آنا سنگاپور‘‘ ہمیں کافی عرصے سے دعوتِ گناہ دے رہا تھا، لیکن جس بات نے ہمارے جذبۂ شوق پر مہمیز کا کام دیا وہ کچھ اور تھی۔ ہوا یوں کہ ہم شب و روز کی یکسانیت سے تنگ آ گئے۔ ڈاکٹروں اور طبیبوں کو دکھایا، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
تو علاج کے لیے قدیمی حکما کے نسخوں کو ٹٹولا۔ کرنل شفیق الرحمٰن دور کی کوڑی لائے۔
’’ تم اس جمود کو توڑتے کیوں نہیں۔ صبح اٹھ کر رات کا کھانا کھایا کرو، پھر قیلولہ کرو۔ سہہ پہر کو دفتر جاؤ، وہاں غسل کرو اور اور سنگل روٹی کا ناشتہ۔ حجام سے شیو کرواؤ اور حجام کا شیو خود کرو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
یہ بھی کر دیکھا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آخر کار تنگ آ کر دو ہفتہ کی چھٹی کے لیے درخواست داغ دی۔ جواب آیا۔ ’’ آپ کی چھٹی کی درخواست نامنظور کی جاتی ہے، اس لیے کہ کمپنی اس عرصے میں آپ کو تربیت کے لیے سنگاپور بھیج رہی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
کوئی جل گیا، کسی نے دعا دی۔ زادِ سفر کا مرحلہ درپیش ہوا تو دوستوں سے مشورہ لیا۔ سیر کے لیے فلاں فلاں جگہیں ہیں۔ خرید و فروخت کے لیے فلاں فلاں، اور کھانے کے لیے فلاں فلاں ریسٹورینٹ۔ اور مساج کے لیے فلاں فلاں سنٹر۔ اور دیکھو، آرچرڈ روڈ سے کچھ مت خریدنا، اور نہ ہی اپنے ہوٹل کے مساج سنٹر سے مساج کروانا، یہ دونوں جگہیں مہنگی ہیں۔ فلاں اسٹریٹ سے بچنا، وہاں رات گیے وہ لوگ اپنا بازار لگاتے ہیں جو ہیوں میں نہ شیوں میں۔
ایک صاحب کہنے لگے، ’’ سنگاپور سے مساج ضرور کروا کے آنا‘‘۔ ’’ اور دیکھو! ‘‘ انھوں نے تاکیداً کہا، ’’ واپسی پر جھوٹ نہ کہنا کہ مساج کروا آئے ہو۔ مجھے اس کے تمام لوازمات معلوم ہیں۔ ‘‘
بھاگے بھاگے ایک اور دوست کے پاس پہنچے اور ’’ مساج کے لوازمات ‘‘ معلوم کیے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
بڑی ردّ و قدح کے بعد، جس زاد سفر کا اہتمام کیا وہ یہ تھا۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس وزن بیس کلو اور ساتھ سفری بیگ میں کچھ کپڑے وغیرہ۔
ضروری کارروائیوں کے بعد پروانہ اور پرِ پرواز ہمیں عطا کر دیے گئے۔ اور یوں ہم اسلام آباد سے سنگاپور کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ راستہ میں ایک کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو ہم نے اس نحوست کے تدارک کے لیے پہلے پشاور جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں بھی خالہ خالو ہمارے قریب ترین رشتہ دار تھے۔ ( یہاں ہمارا مقصد اسلام آباد میں رہتے ہوئے مکانی فاصلہ کی قربت ہے )۔
پشاور پہنچے تو خالہ اور خالو ہمیں دیکھ کر کھل اٹھے۔ یہ آج سے کوئی بیس بائیس برس اُدھر، اُن دنوں کا ذکر ہے جب آتش بھی جوان تھا اور ہم بھی۔ پہلی پہلی نوکری ملی تھی اور اس سلسلے میں ہم اسلام آباد میں، اپنے گھر، کراچی اور اپنے خاندان سے دور کالے پانی کی سزا کاٹ رہے تھے۔ راول جھیل کے اسی کالے پانی میں اپنی گاڑی دھونے کے لیے کبھی کبھی جایا کرتے۔ خیر صاحب خالہ خالو نے دیکھا، حال چال دریافت کیے، تو ہم پھٹ پڑے۔ فوراً اگل دیا کہ ہم سنگاپور جا رہے ہیں۔ خالو نے حیران ہو کر ہمیں دیکھا اور پھر ہمارے زادِ سفر کی جانب نگاہ کی،کہنے لگے۔ ’’ اور میاں۔ تمہارا باقی سامان کہاں ہے۔ ‘‘ ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ہمیں۔ مشوروں کے اس سوٹ کیس کے بارے میں انھیں کیسے بتلاتے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے تو کیا، البتہ سنگاپور کی بے پردہ بیبیوں کے نام آتے تھے، اور پھر یہ مشورے گردن زدنی تو نہیں البتہ قابلِ گرفت ضرور تھے، اور ان پر’’ صرف بالغان کے لیے ‘‘ کا ٹیگ لگانا پڑا تھا، اور اس محفل میں ان کا تذکرہ مخرّبِ اخلاق ضرور گردانا جاتا۔
خیر صاحب، خالو جان ہمارے اس مختصر زادِ راہ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔ کہنے لگے، ’’ اور ایک ہماری بیٹی صاحبہ ہیں، کہ وہ جب دو ہفتوں کے لیے آسٹریلیا گئیں تو تین سوٹ کیس ان کے ساتھ گئے اور پانچ سوٹ کیس واپس آئے۔ ‘‘
کراچی پہنچے تو کراچی ائر پورٹ پر ہمارے ساتھ دو حادثے پیش آئے۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس اور پیمانۂ صبر، دونوں ہی کھوئے گئے اور چودھری صاحب ہمارے ہم سفر بنا دئیے گئے۔
کراچی پہنچ کر ایک دن کا آرام ملا تو کشاں کشاں گھر پہنچے اور گھر والوں کو یہ مژدہ جاں فزاء سنایا کہ ہم سنگاپور جا رہے ہیں۔ گھر والوں نے دعا دی۔
’’ شکر ہے کہ اب تمہیں سنگاپور کی نوکری ملی۔ جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو اسی طرح چہرہ بھی دکھاؤ‘‘۔
’’چہرہ تو ہم تین ہفتے بعد ہی دکھا دیں گے۔ تین ہفتے کا تربیتی کورس ہے سنگاپور میں، کوئی مستقل نوکری تو نہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں کوئی مستقل نوکری تھوڑا ہی تھی، چند ہفتے کی تربیت بھگتا کر واپس لوٹے تھے۔‘‘
بہرحال یہ خوشخبری بھی اپنی جگہ خوب تھی۔ سنگاپور کا تین ہفتے کا سفر۔ سب خوش ہوئے اور اگلے روز خوشی خوشی ہمیں رخصت کیا۔ ہمارے سنگاپور کے سفر کے لیے کمپنی کی جانب سے تھائی ائر کی فلائیٹ پہلے ہی سے بک تھی۔ جہاز پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اک غولِ بیابانی ہے جو ہمیں اڑائے لیے چلا ہے۔ ذکر ان پری وشوں کا اور پھر بیاں اپنا۔ کیا کیا بتائیں اور کہاں تک سنائیں۔ ہم اور چودھری صاحب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ان پری وشوں کی بلائیں لیا کیے۔ جانے کب جہاز اڑا اور جانے کب بنکاک ائر پورٹ پر پہنچ گیا۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔
ائر پورٹ پر امیگریشن کاونٹر سے فارغ ہوئے تو رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ اب اگلی دوپہر دو بجے تک کے لیے ہم فارغ تھے۔ فوراً انفارمیشن سے رجوع کیا اور ان کے مشورے سے رات کے لیے ایک ہوٹل پسند کر لیا اور وہیں پر اگلے دن صبح ایک عدد ٹوور کا انتظام بھی کر لیا۔ ٹیکسی پکڑ کر ہوٹل پہنچے، اور کمرے میں جا کر اگلی صبح تک یوں انٹا غفیل ہوئے کہ اگلی صبح ناشتے کے لیے بڑی مشکل سے آنکھ کھلی۔ فوراً تیار ہو کر لاونج میں پہنچے، ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہمیں ٹوور گائڈ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ ٹوور گائڈ کو دیکھا تو باچھیں کھل گئیں، یہ ایک خوبصورت سی خاتون تھیں۔ ان خوبصورت خاتون کی معیت میں تو ہم کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہو جاتے، یہ تو پھر بھی بنکاک کے مشہور بدھ عبادت گاہوں کا ٹوور تھا۔ آج سے کم و بیش بیس سال پہلے کا بنکاک ویسے تو یوں بھی بہت خوبصورت تھا، لیکن ان خوبصورت عبادت گاہوں نے تو اسے چار چاند لگا دیے تھے۔ ان تین گھنٹوں میں ہم نے چار عبادت گاہوں کا دورہ کیا جن میں گولڈن ٹمپل اور ٹمپل آف ریکلائیننگ بدھا بہت خوب تھے۔ بدھا کے یہ سنہری مجسمے جو ان عبادت گاہوں میں تھے، بہت بلند و بالا تھے لیکن ہم ان کا موازنہ لاہور میوزیم میں رکھے ہوئے اس مجسمے سے کر رہے تھے جس میں بدھا کو درخت کے نیچے تپسیا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ چھوٹا سا مجسمہ اپنی خوبصورتی اور صناعی کا یقیناً ایک اعلی نمونہ ہے، اور بنکاک کے ان عبادت گاہوں میں بنائے ہوئے یہ عالی شان مجسمے اس کے سامنے ہیچ تھے۔ ادھر چھوٹے چھوٹے مجسموں کی شکل میں بدھا کی زندگی کے حالات بھی منقش کیے گیے تھے۔ ایک طرف تو انسانی کاری گری کے یہ اعلیٰ نمو نے تھے اور دوسری طرف انسان تھے جو اپنے ہی بنائے ہوئے ان مجسموں کی عبادت کر رہے تھے۔ کتنا بڑا ظلم تھا اس انسان کے ساتھ، جو انھیں انسانیت سکھانے اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ان کے پاس آیا اور ان ظالم لوگوں نے اس کی ہی پوجا شروع کر دی۔
ظلم کی اس داستان میں جو ظلم ہمارے ساتھ ہوا وہ بھی ساتھ ساتھ بیان کرتے چلیں۔ جب ہم سنگاپور کا سفر ختم کر کے واپس پاکستان پہنچے اور یار دوستوں نے اس سفر کا حال دریافت کیا اور سن کر اس پر تبصرے کیے تو ہمیں حقیقتِ حال کا ادراک ہوا۔ دراصل کمپنی والے نوجوان لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق انھیں بنکاک میں ایک دن کا حضر عطا فرمایا کرتے تھے، تاکہ نوجوان اپنے دل کی تسلی کر لیں۔ ہم اور آگے بڑھے اور اس ہوٹل کا تذکرہ کیا جہاں پر ہم نے رات قیام کیا تھا، تو سننے والوں نے سر پیٹ لیا۔ یہی تو وہ علاقہ تھا جہاں پر ہم کچھ ‘دل پشوری ‘کر سکتے تھے۔
خیر صاحب، ولے بخیر گزشت۔ بنکاک کی سیر سے فارغ ہوئے تو فوراً ہوٹل کا حساب بیباق کیا اور ائر پورٹ کی جانب دوڑ لگائی تاکہ سنگاپور کی جانب عازمِ سفر ہو سکیں۔ باقی سفر جو نسبتاً مختصر تھا آرام سے گزر گیا اور ہم سنگاپور ائر پورٹ پر اتر گئے۔ ائر پورٹ پر پاسپورٹ اور امیگریشن کی لائن میں لگے ہوئے نہایت انہماک سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک ایک با وردی آفیسر نے ہمیں لائن سے علیحدہ ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے ساتھ لے کر ایک جانب کو چل دیا۔ ہم حیران تھے کہ یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے، کیوں اس آفیسر نے ہمیں ساتھ لے لیا ہے۔ ابھی ہم اس سے پوچھنے کے لیے اپنی انگریزی کو آواز دے ہی رہے تھے کہ وہ ہمیں لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے ایک اور آفیسر کے سامنے ایک پٹھان بھائی بیٹھے تھے، یہ بھائی صاحب پشتو اور ٹوٹی پھوٹی اردو کے علاوہ اور کچھ نہ جانتے تھے اور یہاں سنگاپور میں کپڑا خریدنے آئے تھے۔ ۔ ہم نے فوراً مترجم کے فرائض سنبھال لیے اور ان حضرت سے ان کے بارے میں پوچھ پوچھ کر آفیسر حضرات کو بتانے لگے۔ یہ مسئلہ حل ہوا تو ہم پھر اپنی لائن میں جا کر لگ گئے اور اس طرح سنگاپور کا ایک ماہ کا ویزہ لگوا کر ہی دم لیا۔ ادھر چودھری صاحب ہم سے پہلے ہی فارغ ہو کر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے فارغ ہونے پر وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑے، ہم دونوں نے اپنا سامان سنبھالا اور ٹیکسی کی لائن میں کھڑے ہو گئے۔ نہایت اعلیٰ درجے کی گاڑیوں کو ٹیکسی کے طور پر کھڑے دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ کہیں ہم وی وی آئی پی یعنی کوئی بہت ہی اعلیٰ شخصیت تو نہیں ہو گئے ؟ اپنے بازو پر زور سے چٹکی لی تو درد کی شدید لہر اور ‘سی‘ کی اپنی ہی آواز نے ہمیں جتلا دیا کہ ہم خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ سنگاپور کی ٹیکسی میں سفر کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنی اُسی افلاطونی انگریزی کو آواز دی جس کے ذریعے ابھی ابھی ہم ایک معرکۂ عظیم طے کر کے آرہے تھے اور بھاؤ تاؤ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ خدا جانے یہ ٹیکسی ڈرائیور ہمارے ہوٹل کی جانب جانا چاہتا ہو یا اس کا ارادہ کسی اور جانب کا ہے ؟ کیا جانیے وہ منھ پھاڑ کر کتنے پیسے مانگے ؟ کیا ہمیں کوئی سستی ٹیکسی مل سکتی ہے ؟ ہم ابھی اسی ادھیڑ بُن میں تھے کہ ٹیکسی ڈرائیور نے بھاؤ کیا اور نہ تاؤ، بلکہ یوں کہیے کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور نہایت ادب سے ہمارا سامان ڈِکی میں رکھا، ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور میٹر پر لگے ایک بٹن کو دبا کر چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔
اور صاحبو! یوں ہم ’ اپر بوکے تیما روڈ‘ پر واقع ’ نووٹیل آرکڈ اِن‘ نامی ایک نہایت عالیشان ہوٹل میں پدھارے۔ بکنگ کلرک مصروف تھا۔ اس نے نہایت ادب سے ہمیں ایک میز کی جانب بلایا اور ہمیں بٹھا کر ایک سنگاپوری حور کو آواز دی، وہ حسن کی دیوی فوراً ہماری جانب لپکی اور اپنی ایک ٹانگ لبادے سے نکال، کاغذ پینسل سنبھال، ہمارا آرڈر لینے کے لیے تیار ہو گئی۔ ہم نے کنکھیوں سے اس شمشیرِ برہنہ کی جانب دیکھتے ہوئے اک شانِ بے نیازی کے ساتھ آرینج جوس کا حکم صادر فرمایا۔ چودھری صاحب نے بھی کنکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے ‘وہی وہی‘ کی آواز نکالی۔ حسنِ بے پروا نے فوراً اپنے کاغذ پر کچھ لکھا اور اسے لپیٹتی ہوئی آگے چل دی۔ ہم یوں چونکے گویا ابھی ابھی ہماری آنکھ کھلی ہو۔ ہم نے چونک کر چاروں جانب دیکھا۔ ہمارے اطراف رنگ و نور کی اک عجیب دنیا پھیلی ہوئی تھی۔ تو یہ سنگاپور ہے، ہم نے ترنگ میں آ کر سوچا۔
ہم نے آرینج جوس کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے چیک اِن کیا اور اپنے اپنے کمرے میں جا کر ڈھیر ہو گئے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد جب ہوش ٹھکانے لگے اور رات کی بے آرامی کا کچھ مداوا ہوا تو دوپہر کے کھانے کا خیال دل کو ستانے لگا۔ ہوٹل کا کھانا بہت مہنگا پڑتا لہٰذا دونوں دوست ہوٹل سے نکلے اور کسی سستے ریسٹورینٹ کی تلاش شروع کی۔ دور دور تک ایسے کسی ریسٹورینٹ کا پتہ نہ چلا تو تھک ہار کر واپس ہوئے ہی تھے کہ ایک اسٹور پر نظر پڑی۔ چودھری صاحب نے مسکرا کر ہمیں معنی خیز نظروں سے دیکھا گویا کہہ رہے ہوں، ’’ اب دیکھو ! میں کیا کرتا ہوں۔ ‘‘، ایک عدد ڈبل روٹی خریدی اور ہمیں لیے ہوئے اپنے کمرے کی جانب آ گئے۔ کمرے میں پہنچ کر دروازہ لاک کیا اور اپنے سوٹ کیس میں سے ایک عدد بجلی کی ہیٹنگ راڈ برآمد کی، اسے قریب ترین بجلی کے ساکٹ میں لگا کر اس کا سرا ایک پانی کے برتن میں ڈال دیا۔ پانی گرم ہونا شروع ہوا، اتنے میں انھوں نے اپنے سوٹ کیس سے ‘ احمد‘ کا کوفتوں کے سالن کا سربند کین نکالا، اسے پانی میں رکھ کر خوب گرم کیا اور اسے کھول کر پلیٹ میں ڈال دیا۔ اس طرح ہم نے اس دوپہر اپنی بھوک مٹائی اور سیر کے لیے نکل پڑے۔ آج اتوار تھا اور ہم نے سن رکھا تھا کہ سنگاپور میں ایک جگہ ‘ لٹل انڈیا‘ نامی بھی ہے جہاں ہندوستانی کھانوں کے سستے ریسٹورینٹ موجود ہیں نیز یہ کہ وہاں پر دکانیں اتوار کے دن بھی کھلی رہتی ہیں۔
بس کے ذریعے سرنگون روڈ کے اسٹاپ پر اترے تو کچھ اور ہی سماں تھا۔ ہر طرف سجی سجائی ہندوستانی طرز کی دکانیں موجود تھیں جن میں قسم قسم کی ہندوستانی اشیاء فروخت کے لیے موجود تھیں۔ کہیں زرق برق بھڑکیلی، بنارسی ہندوستانی ساڑھیاں اور دیگر ہندوستانی کپڑے، کہیں سونے اور چاندی کے جڑاؤ زیور۔ کہیں ہندوستانی موسیقی پر مبنی کیسٹ اور سی ڈیاں۔ اور ان دکانوں کے درمیان خالص ہندوستانی کھانے سرو کرتے ریسٹورینٹ۔ کہیں روا ڈوسا اور مسالہ ڈوسا، کہیں اڈلی وڑہ، کہیں تھالی ریسٹورینٹ، جہاں پر آپ کی پسند کے مطابق اسٹیل کی تھالی میں یا کیلے کے پتے پر کھانا دیا جاتا ہے۔ کہیں صرف ویجیٹیرین یعنی سبزیوں والے کھانے، کہیں بسم اللہ بریانی۔ کہیں ہندوستانی مٹھائیاں۔ چوک سے چلنا شروع کیا تو ایک جگہ ’مصطفے ٰ اینڈ شمس الدین‘ کی دکان نظر آئی۔ یہ ان کی سب سے پرانی دکان ہے۔ نظارہ کرتے چلے تو لطف آ گیا۔ یوں تو اس سڑک کا نام سرنگون روڈ ہے لیکن اطراف میں چونکہ ہر طرف ہندوستانی آباد ہیں اور ان ہی کی دکانیں نظر آتی ہیں، لہٰذا اسے لٹل انڈیا یعنی‘ چھوٹا ہندوستان‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بازار یونہی پھیلتا ہوا اگلے چوک تک پہنچتا ہے جہاں پر اُس زمانے میں سرنگون پلازہ میں مصطفے ٰ اینڈ شمس الدین کا بڑا اسٹور ہوتا تھا، اب اس جگہ، اس سے بھی بڑا مصطفے ٰ سنٹر ہے۔ مصطفے ٰ سنٹر اب ایک بہت بڑا ملٹی اسٹوری ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے جہاں ضروریاتِ زندگی کی تقریباً ہر چیز ملتی ہے۔ آجکل، جب سے زمین دوز ٹرین ( جسے مقامی لوگ ایم آر ٹی یعنی ماس ریپڈ ٹرانزٹ کہتے ہیں ) چلی ہے اس کے دو اسٹیشن سرنگون روڈ پر ہیں۔ ایک بکے تیما روڈ اور سرنگون روڈ کے سنگم پر اور دوسرا مصطفے ٰ سنٹر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر۔ سرنگون روڈ پر چلتے ہوئے راستے میں ایک ہندو مندر اور مصطفے ٰ سنٹر کے عین سامنے انگولیا مسجد واقع ہے،بھی نظر آتے ہیں۔ اتوار کو تو یوں لگتا ہے گویا سڑک پر ایک جلوس چل رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے زیادہ تر اسی علاقے میں پہنچ کر کھانا کھاتے ہیں اور اپنی زیادہ تر خریداری یہیں سے کرتے ہیں۔ بسم اللہ ریسٹورینٹ میں ایک بزرگ ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، ان سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ ’مصطفے ٰ بھائی‘ ہندوستان سے آئے تو شروع میں ایک ٹھیلا لگاتے تھے، ایک صاحب اپنی دکان بیچ کر ہندوستان جا رہے تھے۔ مصطفے ٰ بھائی نے ان سے دکان خرید لی۔ اللہ نے برکت دی اور کاروبار اتنا بڑھا کہ اب ماشاء اللہ مصطفے ٰ سنٹر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے اور روزانہ ہزاروں خریدار خریداری کے لیے آتے ہیں اور لاکھوں کی خریداری کرتے ہیں۔
وہیں سے کٹ مارا اور سیدھے ہاتھ کی طرف ہولیے۔ چلتے چلتے راستے میں عرب اسٹریٹ نظر آئی، دیکھ کر دل خوش ہوا، وہیں سے نظر گھمائی تو دل پہلو میں رکتا ہوا سا محسوس ہوا۔ نظروں کے سامنے ایک انتہائی خوبصورت مسجد موجود تھی۔ تیز تیز چلتے ہوئے اس مسجد تک پہنچے۔ اس خوبصورت اور عالی شان مسجد کا نام ’’ مجدی سلطان‘‘ ہے۔ مسجد باہر سے جتنی خوبصورت نظر آتی ہے، اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ اندر جا کر دو رکعت نمازِ عصر قصر پڑھی، کچھ تصویریں اندر باہر سے کھینچیں اور پھر عرب اسٹریٹ پر نظر کی تو یہاں کئی ملائین مسلم ریسٹورینٹ دکھائی دیئے جو انڈا پراٹھا قسم کی کوئی چیز بنا رہے تھے۔ اس ڈش کا نام مرطباق ہے۔ چائے کے ساتھ مرطباق کھایا۔ بہت لذیذ تھا۔ واپس اسی راستے سے لوٹے اور سرنگون روڈ پہنچے اور دیر تک وہاں ٹہل لگاتے رہے۔
راستے میں ایک جگہ ایک ریسٹورینٹ پر’’ عظمی ہوٹل‘‘ لکھا ہوا دیکھا تو قسمت آزمانے کا خیال آیا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر کسی بھی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے پہلے حلال وغیرہ سے متعلق پوچھ لیا کرتے تھے۔ یہاں بھی خیال آیا کہ پہلے دل کی تسلی کر لی جائے اس لیے اسی عظمی ہوٹل کے کاونٹر پر جا کر ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں حلال کھانا ملتا ہے۔ کرتا پائجامہ میں ملبوس ایک مولانا کاونٹر پر کھڑے تھے، برا مان کر بولے۔
’’عظمی ہوٹل نام ہے، سب کام کرنے والے یہاں مسلمان ہیں اور یہاں پر ہر کھانا حلال ہے۔ ‘‘
دل کو تسلی ہوئی تو ہم نے رات کا کھانا وہیں سے کھایا اور بس میں بیٹھ کر ہوٹل واپس لوٹ گئے۔ دروازے سے اندر آتے ہی کئی کارڈوں پر نظر پڑی جو دروازے کے نیچے سے کمرے میں ڈالے گئے تھے۔ یہ کارڈ مختلف مساج سنٹرز سے متعلق تھے۔ انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈالا اور کمرے میں ادھر ادھر نظر ڈالی۔ کمرے میں موجود ریفریجریٹر کے قریب بجلی کی کیتلی اور ساتھ ہی ایک طشت میں دو عدد چائے اور دو عدد کافی کا انتظام تھا جو ہوٹل کی جانب سے مفت تھا۔ مزے سے چائے بنا کر پی، آنے والے کل کی تیاری کر کے بستر پر لیٹ گئے اور ٹیلیویژن سے دل بہلانے لگے۔ چیک اِن کے ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے ایک خط ہمیں مل چکا تھا کہ اگلے روز ایک بس ہمیں ہوٹل کی لابی سے لیکر ٹریننگ سنٹر تک لے جائے گی، لہٰذا اس طرف سے اطمینان تھا۔ سفر کی تھکن اب تک محسوس ہو رہی تھی اس لیے لیٹے تو اگلے ہی لمحے گہری نیند نے ہمیں آ دبوچا۔ جانے کب تک سوتے رہے۔ اچانک ٹیلومین کی مسلسل گھنٹی کی آواز سے بیدار ہوئے۔ کچھ دیر تک تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ ہم کہاں ہیں اور اس وقت کے بجے ہیں۔ حواس باختہ سے لیٹے رہے۔ بارے کچھ سکون ملا تو رسیور اٹھا کر ’’ ہیلو!‘‘ کہا۔
کسی خاتون کی میٹھی سی آواز سنائی دی۔ وہ انگریزی میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ آپ نے ہمیں بلایا؟
ہمارے حواس دوبارہ گم ہو گئے۔ بڑی مشکل سے انھیں پھر سے مجتمع کیا اور نہایت تلخ لہجے میں جواب دیا۔ جی نہیں۔ ہم نے آپ کو کال کیا نہ بلایا۔ اور رسیور کریڈل پر پٹخ کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر اٹھے، حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر ٹیلیویژن کو بند کیا۔ لائٹ بند کی اور کافی دیر تک دھڑکتے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔
سنگا پور کے شب و روز
گلی صبح جب ہم نہا دھوکر تیار ہو چکے تو ہوٹل کے ریسٹورینٹ میں ناشتے کے لیے پہنچے۔ چودھری صاحب بھی ابھی کچھ ہی دیر پہلے پہنچے تھے۔ ہم دونوں نے ایک اچھی سے میز تلاش کی جہاں سے ہر طرف نظر رکھ سکتے، اور اس پر براجمان ہو کر دہن و نظر کا ناشتہ شروع کیا۔ لذتِ کام و دہن کے ساتھ ساتھ لذت ذہن و نظر کا بھی وافر مقدار میں انتظام ہو تو کیا کہنے۔ ہوٹل دنیا بھر کے سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستان سے باہر کی حوریں اعضا ء کی فی البدیہہ شاعری میں درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، ہنسنا بولنا سب شاعرانہ انداز میں ہوتا ہے۔ ہائے ! نہ ہوئے ہم نقاد، ورنہ کیسے کیسے بخیے اُدھیڑ تے۔ اِدھر چودھری صاحب نے ہمیں ایک فارمولے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ ناشتہ ہوٹل کی جانب سے فری ہے اور ساتھ ہی یہاں پر حلال اشیا ( صرف ناشتے کے لیے ) وافر مقدار میں موجود ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ڈٹ کر ناشتہ کریں، خدا جانے دوپہر کے کھانے کے لیے کچھ میسر آئے نہ آئے۔ تجویز چونکہ معقول تھی اس لیے ہم نے جلدی جلدی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا، لیکن دو انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ ڈبل روٹی کے صرف دو ہی سلائیس کھا سکے البتہ آرینج جوس کے ساتھ خوب دشمنی نبھائی اور کئی گلاس بغیر ڈکار لیے ہضم کر گئے۔ ادھر چودھری صاحب بات کے پکے نکلے اور انھوں نے ناشتے کے لیے موجود تمام اشیاء کے ساتھ خوب انصاف کیا۔
دورانِ ناشتہ وہ ترنگ میں آ کر کچھ اور کھُلے اور بتایا کہ کل رات انھوں نے ایک مساج سنٹر فون بھی کھڑکایا تھا اور بھاؤ تاؤ وغیرہ کے تمام مراحل بحسن و خوبی سر کر لیے تھے۔ ہم نے انھیں معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے ان سے سوال کیا’’ ذرا بتانا تو! اپنے کمرے کا کیا نمبر تم نے انھیں لکھوایا تھا؟‘‘ اب تو وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے لہٰذا شرماتے ہوئے اعتراف کیا کہ انھوں نے ہمارے کمرے کا ہی نمبر لکھوا دیا تھا۔ البتہ اس بات نے ان کی حیرت اور خوشی کو دوبالا کر دیا کہ ان کی فون کال کا نتیجہ اتنی جلد نکل آیا تھا۔ اب انھوں نے راز دارانہ انداز میں ہمیں تاکید کی کہ آئندہ اگر فون آیا تو ہم انھیں بلا لائیں اور ان کی بات کروا دیں۔
ناشتے سے فارغ ہوئے تو پتہ چلا کہ کرائے کی ایک ویگن ہمیں ٹریننگ سینٹر تک چھوڑنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ اور اس طرح ایک نہایت خشک قسم کی تربیت کا آغاز ہوا، جو ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر سہہ پہر پانچ بجے تک جاری رہتی۔ سوائے اس کے کہ یہی تربیت ہمارے سنگاپور آنے اور اس سفر نامے کے لکھنے کا سبب بنی تھی کوئی اور قابلِ ذکر بات اس میں نہیں تھی جس کا ذکر کر کے ہم اپنے قارئین کو بور کر سکیں۔ ہاں البتہ ایک واقعہ ایسا بھی گزرا جس کا ذکر کیے بغیر آگے بڑھ جانا نری زیادتی ہو گی۔ ایک دن ہم اپنے ٹریننگ سنٹر میں اپنی معمول کی تربیتی سر گرمیوں میں مصروف تھے کہ اچانک ہماری تجربہ گاہ میں بہار آ گئی۔ ایک خوبصورت سی چینی نژاد سنگاپوری حسینہ اس خشک ماحول میں چودھویں کے چاند کی مانند طلوع ہوئی۔ ہم حیران تھے کہ
الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
ہم نے مشینوں پر خاک ڈالی اور اِس حسن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اُس کے گرد جمع ہو گئے۔ اس حسینہ نے اطمینان کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا چپٹا بکس میز پر رکھ دیا اور اسے کھول کر ہمارے معائنے کے لیے پیش کر دیا۔ اس بکس میں قسم قسم کی خوبصورت گھڑیاں موجود تھیں۔ ہم نے گھڑیاں دیکھیں تو میکانیکی انداز میں پیچھے ہٹ گئے۔ یہ گھڑیاں یقیناً قیمتی ہوں گی، اور ہم انھیں خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ چند لمحے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ دیکھتے رہنے کے بعد وہ حسینہ ہنس پڑی۔ ہمیں اس کے یکایک ہنسنے کی وجہ تو بعد میں پتہ چلی لیکن اُس وقت اس کے ہنسنے کا یہ انداز بہت پیارا لگا۔ ہم نے بھی جواباً مسکرا کے اس کو دیکھا اور منتظر رہے کہ دیکھیں دستِ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ پتہ چلا کہ یہ سب گھڑیاں نقلی تھیں۔ پھر کیا تھا۔ ہم سب ہم جماعت اس قیمتی مجموعے پر ٹوٹ پڑے اور سب دوستوں کی طرح ہم نے بھی دو گھڑیاں مول لے لیں۔ وہاں بھاؤ، تاؤ کیا کرتے، جو اس نے کہا مان لیا اور فوراً جیب سے پرس نکال کر مطلوبہ ڈالر اس کے ہاتھ میں تھما دیے۔
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
یہ وہ زمانہ تھا جب نقلی گھڑیاں ابھی نئی نئی آئی تھیں، لہٰذا ایک انوکھی شے سمجھ کر ہم خرید لائے اور گھر والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو شو کیسوں میں سجی گھڑیوں کو گھنٹوں تکا کرتے لیکن خریدنے کی سکت اپنے اندر نہ پاتے تھے۔ اب جو یہ نقلی گھڑیاں ہاتھ آئیں تو گویا وارے نیارے ہو گئے۔ خیر صاحب یہ تھی ہماری ٹریننگ کی داستان۔ شام کو تربیتی مرکز سے نکلتے، سرکاری ویگن ہمیں سیدھے ہوٹل لے جاتی، جہاں پر ہم اپنا بیگ کمرے میں پھینکنے کے بعد فوراً ہوٹل سے باہر نکل جاتے، رات دس گیارہ بجے تک سڑکوں اور شاپنگ سنٹرز کے چکر لگاتے اور جب تھک کر چور ہو جاتے تو واپس ہوٹل کی راہ لیتے۔ ہفتے کے اختتامیے ( ویک اینڈز) ہم نے مشہور سیر گاہوں کی سیر کے لیے مخصوص کر دیے تھے۔
سنگا پور استوائی خطے میں واقع ہے لہٰذا اس کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ بارشیں خوب ہوتی ہیں۔ دن کا اوسط درجہ حرارت تقریباً تیس درجے سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ ہر یا لی خوب ہے۔ سال کے بارہ مہینے آپ ایک عدد ٹی شرٹ میں گزارہ کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ہر روز ایک ہی ٹی شرٹ نہ ہو۔ یہاں آپ کو گرم کپڑوں کی بالکل ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ یہاں پر گرمی کی وجہ سے تمام دفاتر، زیادہ تر شاپنگ سنٹر اور ہوٹل وغیرہ ائر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں، جسے یہاں ائر کون کہا جاتا ہے، کسی بھی بلڈنگ کے اندر آپ کو گرم سوئٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے لہٰذا حفظ، ماتقدم کے طور پر سنگاپور آتے ہوئے ایک عدد سوئٹر ضرور رکھ لینی چاہیے۔
سنگاپور میں کئی قومیتوں اور رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں۔ سب سے زیادہ چینی نژاد ہیں جو آبادی کا تقریباً پچھتر فیصد ہیں۔ باقی پچیس فیصد میں ملایئن، ہندوستانی، پاکستانی، سری لنکن عرب وغیرہ ہیں۔ بڑے مذاہب میں بدھ ازم، ہندومت، اسلام اور عیسائیت ہیں جن کے عبادت خانے بھی نظر آتے ہیں۔ حکومت کا انداز جمہوری ہے لیکن کسی بھی شخص کو دوسرے کے مذہب پر تنقید کا حق نہیں ہے۔ ملک میں سیاحت ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاحوں کی دلچسپی کی ہر شے وہاں موجود ہے اور سستی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاح سنگاپور آئیں اور زرِ مبادلہ کمایا جا سکے۔ پورا سنگاپور ایک بہترین تفریح گاہ، ایک سیاحتی مرکز اور ایک بہت بڑا اور اعلیٰ درجے کا بازار ہے۔ ابھی حال ہی میں ( ۲۰۱۰) سنگاپور کے تفریحی جزیرے سینٹوسا آئی لینڈ میں بھی ایک عدد کسینو بنایا گیا ہے جہاں پر سیاحوں کا داخلہ مفت ہے جبکہ سنگاپوری شہریوں کیلیے داخلہ فیس ہی ایک سو ڈالر ہے۔
سنگاپور کا جو انداز سب سے پہلے آنکھوں کو بھاتا ہے وہ یہاں کی صفائی ستھرائی ہے۔ ہمیں تو سنگاپور یورپ سے بھی زیادہ صاف و شفاف نظر آیا، جس کی تائید ہمارے جرمن انسٹرکٹر نے بھی کی۔ صاف، شفاف، چمکتی ہوئی سڑکیں، عمارتیں اور پارک دل کو بھاتے ہیں۔ سنگاپوری شہریوں کے بقول ان کا ملک ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے، جس پر وہ بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ یہاں پر کوڑا کرکٹ پھیلانے پر سخت سزا اور جرمانے کا رواج ہے۔ یہ جرمانہ ۵۰ سے ۵۰۰ ڈالر تک ہو سکتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے کے متعلق سوچا جہاں پر اس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر ہمارا ایمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، لیکن اس صفائی سے مراد ہم گھر کی صفائی لیتے ہیں اور اس کا اطلاق اپنے گھر کی دہلیز سے باہر نہیں کرتے۔ ہمارے گھر سے باہر دراصل ہماری ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ ہم نے پہلے دن کے اختتام پر اپنی قمیص کی کالر کی حالت دیکھنی چاہی، وہ بالکل صاف تھی۔ اسی طرح ان تین ہفتوں میں ہمیں اپنے جوتوں پر پالش کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، وہ اسی طرح چمکتے ہوئے ہی ملے، جس طرح پہلے روز نظر آئے تھے۔ اب جب ۲۰۱۰ میں، اتنے سالوں بعد ہم دوبارہ سنگاپور پہنچے تو پتا چلا کہ سگریٹ اور چیونگم پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دراصل ایم آر ٹی کے چلنے کے بعد ایک مرتبہ سنا کہ کسی نے چیونگم کو چبا کر ٹرین کے آٹو میٹک دروازے میں چپکا دیا تھا جو دروازہ کھلنے میں تاخیر کا سبب بنا، لہٰذا چیونگم کے خلاف یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ سگریٹ سنگاپور میں بہت مہنگی ہے، البتہ چنگی ائر پورٹ کے انٹر نیشنل لاونج میں سستی۔ دفتروں، شاپنگ سنٹرز اور بس اسٹاپوں، ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر سگریٹ نوشی کی سختی سے ممانعت ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کو بھی وہ آلودگی تصور کرتے ہیں۔
لاہور سے ہمارے ایک سینئر انجینیر نے ایک صاحب کا نام اور ٹیلیفون نمبر دیا تھا کہ ان سے رابطہ قائم کر کے سلام کہہ دینا۔ ہم نے انھیں کال کیا اور اپنے لاہوری دوست کا سلام و پیغام پہنچایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیں لینے کے لیے ہوٹل آ گئے۔ یہ صاحب پاکستانی تھے لیکن ایک سنگاپوری حور پر دل ہار بیٹھے تھے۔ اب اس سے شادی رچا کر گزشتہ سالہا سال سے سنگاپوری شہریت اختیار کر کے یہیں بس گئے تھے۔ اب تو ان کا ایک جوان بیٹا بھی تھا۔ انھوں نے ہمیں اپنے گاڑی میں بٹھایا اور ایک لمبی ڈرائیو پر نکل گئے۔ ہائی وے پر پہنچے اور ہمیں سنگاپور سے متعلق بتاتے ہوئے سنگاپور کی ہوائی سیر کروائی۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں کے قوانین بہت سخت ہیں اور غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے بیٹے نے کہیں اپنی یونیورسٹی کے کسی اخبار میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں ایک مضمون لکھ مارا تھا۔ اس کی پاداش میں اسے مسجد کمیٹی کی اپنی رکنیت سے مستعفی ہو جانا پڑا تھا۔ صحیح یا غلط، ان کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ کسی کی بھی مخالفت نہیں کرنی چاہے۔ اس ملٹی ایتھنک ملٹی ریشیل قسم کے ملک کے لیے یہی پالیسی بہتر ہے ورنہ ہر روز کوئی نہ کوئی گروہ جذبات میں آ کر اور مشتعل ہو کر ہنگامہ آرائی پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ اس دنیا میں بہت سی باتیں غلط ہو رہی ہیں، لیکن ان کی وجہ سے ہم جوش میں آ کر اپنے ہی سکون کو کیوں غارت کر لیں۔ ان صاحب نے ہمیں گھر لے جا کر چائے وغیرہ پلوائی اور پھر ہوٹل چھوڑ دیا۔
ان دنوں ہم ہوٹل سے باہر نکلتے تو زیادہ تر بس میں سفر کرتے تھے، اس لیے کہ ٹیکسی مہنگی پڑتی تھی اور ایم آر ٹی ابھی بنی نہیں تھی۔ سنگاپور میں آج تک ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیں۔ ہم بس اسٹاپ پر آ کر کھڑے ہو جاتے اور ڈبل ڈیکر کا انتظار کرتے اور جوں ہی ڈبل ڈیکر بس میسر آتی، فوراً اس میں سوار ہو کر اوپر کی منزل کی جانب لپکتے۔ اوپر جا کر وہاں سے سنگاپور کا نظارہ کرتے تھے، یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ہمیں اپنے بچپن میں کراچی کی سڑکوں پر چلتی ہوئی ڈبل ڈیکر بسوں کا بھی ہلکا سا دھیان ہے۔ ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا۔ اسی یاد کو تازہ کرنے کے لیے ہم نے سنگاپور کی ڈبل ڈیکر میں خوب سفر کیا اور خوب مزے لے لے کر کیا۔ اس زمانے میں انڈر گراونڈ ٹرین کی تیاری اور سرنگوں کی تعمیر چپکے چپکے کی جا رہی تھی، البتہ کہیں کہیں اس کے اسٹیشن ابر تے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس بارے میں مقامی لوگوں سے خاصا سننے کو مل جاتا تھا۔ ۱۹۹۵ ء میں جب ہم تیسری بار سنگاپور پہنچے تو یہی انڈر گراونڈ ٹرین بن کر تیار ہو چکی تھی اور اس نے اپنا کام بھی شروع کر دیا تھا لیکن ہمیں اسے دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کا اتفاق ۲۰۱۰ء میں ہوا۔
ہم نے سنگاپور پہنچتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کاغذ پینسل سنبھال کر بیٹھ گئے اور ایک مکمل بجٹ بنا لیا کہ ہمیں جو زرِ مبادلہ دیا گیا تھا، اس میں سے ہمارا اصل حصہ کتنا ہے اور کس قدر رقم ہمیں واپس لوٹا دینی ہے۔ پھر اپنے حصے میں سے ہم نے ہوٹل اور ٹیکسی کا حساب علیحدہ کر لیا تاکہ کھانے کے لیے اپنی ذاتی رقم کا اندازہ ہو سکے۔ ذاتی یوں کہ اسی میں سے ہم کچھ رقم پس انداز کر سکتے تھے اور اپنی ذاتی خریداری کر سکتے تھے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو اسی طرح ہم نے اپنے کھانے میں سے کافی رقم پس انداز کی تھی اور ایک عدد کمپیوٹر خریدا تھا۔ یہاں سے بھی ہم نے ایک عدد کمپیوٹر خریدنے کا پروگرام بنا لیا۔ سنگاپور میں یوں تو ساری دنیا کی طرح اچھے ریسٹورینٹ کافی مہنگے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے یہاں پر جگہ جگہ کھانے کے سستے اسٹال لگائے گئے ہیں۔ جہاں پر درمیان میں ایک مناسب بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کیا گیا ہے اور چاروں جانب کھانے کے اسٹال ہیں جہاں سے کھانے والے اپنی مرضی کی اشیاء خرید کر کھاتے ہیں۔ یہاں پر بیرے ( ویٹرز) نہیں ہوتے بلکہ لوگ خود اپنی مدد آپ( سیلف سروس) کے تحت اپنا کھانا خود ہی اپنی میز تک لے آتے ہیں۔ یہ بندوبست فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹوں یعنی میکڈانلڈ اور کے ایف سی سے بھی سستا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جگہ جگہ انڈین مسلمانوں یا ملاین مسلمانوں کے حلال کھانے کے ڈھابے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہماری دو عدد ترکیبیں ایسی تھیں جو ہماری بچت میں سراسر اضافے کا باعث تھیں۔ پہلی ڈٹ کر ناشتہ کرنا اور دوسری چودھری صاحب کے لائے ہوئے فوڈ کینز سے فائدہ اٹھانا۔ پہلی ترکیب پر ہم سے زیادہ چودھری صاحب عمل کر پاتے تھے اور دوسری ترکیب پر عمل پیرا ہونے میں ہم چودھری صاحب کے شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔
ہماری دوسری لسٹ خریداری کی تھی۔ اس دوسری لسٹ میں سرِ فہرست تو جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا ایک عدد کلون کمپیوٹر تھا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپیوٹر مول لے آئے تھے۔ ادھر کچھ ماہ سے آئی بی ایم کلون کمپیوٹر عام ہو گئے تھے اور سستے ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ میں تھے۔ باقی اشیاء کا دارومدار اس بات پر تھا کہ کمپیوٹر خریدنے کے بعد ہمارے پاس کتنی رقم بچ رہتی ہے۔ اس میں ہمارے اپنے کپڑوں کے علاوہ گھر والوں کے لیے کچھ تحفے تحائف وغیرہ شامل تھے۔ روزانہ رات کو سونے سے پہلے ہم ان دونوں لسٹوں کو بلا ناغہ اپڈیٹ کر لیتے تھے۔ تاکہ ہر وقت ہمیں اپنی جیب کی حیثیت کا احساس رہے اور ہم اپنے بجٹ سے زیادہ خرچ نہ کر سکیں
چل چل چنبیلی باغ میں
سنگاپور میں ہماری تربیت جاری رہی اور آخر کار جمعہ کا دن بھی آ گیا۔ اس روز ہم الارم بجنے سے کوئی پانچ منٹ پہلے ہی بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پطرس بخاری صاحب کی طرح غسل خانے میں دیر تک چل چل چنبیلی باغ میں گاتے رہے۔ آج جمعہ تھا یعنی اب سے کچھ ہی گھنٹے میں ہفتے کا اختتامیہ شروع ہو رہا تھا۔ پاکستان میں چونکہ ہفتہ وار چھٹی کا صرف ایک ہی دن معین ہوتا ہے لہٰذا وہاں پر لوگ جمعے کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر ہم نے یہ رمز جانا تھا۔ جمعہ کی صبح ہی سے وہاں پر لوگوں کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ ٹی جی آئی ایف۔ کلاس روم میں پہنچتے ہی ہم نے بورڈ پر چاک سے ٹی جی آئی ایف لکھ دیا۔ جو لوگ صاحبِ کشف تھے فوراً سمجھ گئے۔ ہمارے انسٹرکٹر صاحب بھی جو جرمن تھے اور ’گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو تھے ‘، مسکرا دیئے۔ اور بورڈ پر اس کے سامنے پورا جملہ لکھ مارا۔
تھینک گاڈ اِٹس فرائیڈے یعنی اللہ کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔
خیر صاحب! آج ایک گھنٹہ پہلے چھٹی ہونی تھی۔ نہیں بتا سکتے کہ کس طرح انگاروں پر یہ وقت گزارا۔ چھٹی ہوتے ہی، فائل وغیرہ کو بغل میں داب، ویگن میں آن بیٹھے اور آن کی آن میں ہوٹل پہنچ گئے۔ ابھی سہہ پہر کی دھوپ ڈھلنا شروع ہوئی تھی۔ کمرے میں پہنچے تو آج نوٹ کیا کہ پردے کھنچے ہوئے تھے اور شیشے میں سے سہہ پہر کی تیز روشنی کمرے میں آ رہی تھی۔
ہم نے کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ ہمارا کمرہ ہوٹل کی دسویں منزل پر تھا اور یہاں سے ہمیں چھٹی منزل پر بنا ہوا سوئمنگ پول صاف نظر آ رہا تھا۔ اس وقت اس سوئمنگ پول میں دو عدد جل پریاں دو صورت حرام مردوں کے ساتھ چہلیں لگا رہی تھیں۔ بقول چچا غالب
جنوں کی دستگیری کس سے ہو، گر ہو نہ عریانی
دل تو چاہا کہ یہیں سے چھلانگ مار کر سوئمنگ پول کے اندر پہنچ جائیں، لیکن کیا کرتے، ہمارے سامان میں سوئمنگ کاسٹیوم نہیں تھا۔ کان پکڑ کر باہر نکال دیے جاتے۔ ہم نے فوراً اپنی خریداری لسٹ میں سوئمنگ کاسٹیوم کا اضافہ کیا اور تنتناتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئے۔ چودھری صاحب کو بتایا تو وہ ابھی اسی وقت سوئمنگ پول کی طرف جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ بڑی مشکل سے انھیں راضی کیا کہ بھائی جان آپ تو تیرنا بھی نہیں جانتے۔ کیا آپ پول کے باہر اپنے پورے کپڑوں میں بیٹھے تماشا کرنا چاہیں گے ؟ خود بھی تماشا بنیں گے اور ہمیں بھی پول نکالا دلوائیں گے۔
طے پایا کہ آج کا باقی دن کمپیوٹر کی خریداری پر لگایا جائے اور کل بروز ہفتہ ژورونگ برڈ پارک جا کر رنگ برنگے پرندوں سے جی بہلائیں گے۔ اس زمانے میں سم لم اسکوائر ابھی نہیں بنا تھا۔ الیکٹرانکس کی تمام اشیاء سم لم ٹاور سے یا پھر کمپیوٹر کی قبیل کی اشیاء نارتھ برج روڈ پر واقع فونان سنٹر سے مل سکتی ہیں۔ پہلے بس میں بیٹھ کر بوکے تیما روڈ اور سرنگوں روڈ کے سنگم پر واقع سم لم ٹاور پہنچے اور مارکیٹ کا جائزہ لیا۔ پھر فونان سنٹر پہنچ کر ایک دکاندار سے بھاؤ تاؤ شروع کیا۔
پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں دکان پر پہنچ کر دکاندار سے کہا تھا کہ ایک کموڈور کمپیوٹر چاہئے اور اس نے شیلف سے ایک عدد سیل بند ڈبہ نکال دیا تھا جسے لے کر خوشی خوشی ہوٹل آ گئے تھے۔ یہاں پر جب ہم نے دکاندار سے کہا کہہ ہمیں ایک کمپیوٹر درکار ہے تو وہ پہلے تو حیران ہو کر ہمیں دیکھنے لگا، گویا ہم نے کوئی عجیب بات کہہ دی ہو۔ بولا
’’ کس قسم کا کمپیوٹر چاہیے آپ کو؟‘‘
ہم نے کہا ’’ جیسا ایک کمپیوٹر ہوتا ہے۔ ویسا ہی چاہیے۔ ‘‘
بولا’’ کچھ جزئیات کی تفصیل ہے آپ کے پاس۔ ‘‘
ہم نے کہا’’ کمپیوٹر ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو بجلی سے چلتا ہے اور آٹو میٹک ہوتا ہے۔ ‘‘
وہ ناہنجار اب بھی نہ سمجھا، بولا’’ وہ سب تو مجھے پتہ ہے لیکن آپ کو پروسسر کون سا چاہیے۔ ریم کون سی اور کتنی چاہیے۔ فلاپی ڈسک ڈرائیو کتنی درکار ہیں۔ مانیٹر کون سا چاہیے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بھی بہت سی تفصیل تھی جو ہمیں اب یاد نہیں ہے۔
اس بار ہم اس کی بات نہیں سمجھے۔ لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا اور طے پایا کہ وہ جاہل شخص ہمارے لیے ایک عدد کلون آئی بی ایم پی سی ایکس ٹی بنا دے گا، جس کی جزئیات کی تفصیل اس نے ایک کاغذ پر ہمیں لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ ہم نے اسے پیسوں کی نقد ادائیگی کر دی اور مال کے طالب ہوئے، بولا۔ ’’ کمپیوٹر آپ کو ایک ہفتے بعد ملے گا۔ اس عرصے میں میں اسے آپ کے لیے اسمبل کروں گا اور پورا ہفتہ اپنی دکان پر اسے ٹسٹ کروں گا۔ ‘‘
ہم نے کہا ’’ یہ عجب کہی تم نے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ہاتھ کے ہاتھ دکان سے کمپیوٹر لے آئے تھے۔‘‘
لیکن صاحب ہماری ایک نہ چلی۔ اس ناہنجار نے ہماری باتوں کو سمجھنے سے صاف انکار کر دیا اور ہم ناکام و نامراد وہاں سے واپس مڑے، اگلے ہفتے تک انتظار کی کوفت اٹھانے کے لیے۔
خیر صاحب، اس بڑے کام سے فارغ ہوئے تو پھر چائنا ٹاون سیر کی سوجھی۔ نارتھ برج روڈ سے ہوتے ہوئے چائنا ٹاون پہنچے۔ لٹل انڈیا کی طرح چائنا ٹاؤن کا بھی اپنا ایک نرالا انداز ہے۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی چائنیز دکانیں کھلی ہیں۔ کہیں چائنیز جڑی بوٹیاں بک رہی ہیں تو کہیں چائنیز کھانوں کے اسٹال ہیں۔ چائینیز کھانوں کی ناقابلِ برداشت بو سے دماغ پکا جاتا ہے۔ دکانوں میں سجاوٹ کا چائنیز سامان بک رہا ہے، اس لئے کہ سنگاپور میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی تہوار منایا جا رہا ہوتا ہے۔ چائنیز نئے سال کے موقعے پر تو چائنا ٹاؤن کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے اور یہ سجاوٹ دیدنی ہوتی ہے۔ ہم چونکہ جولائی میں سنگاپور پہنچے تھے اور اگست میں سنگاپور کا قومی دن منایا جانا طے تھا، لہٰذا آجکل اس تہوار کی خوشی میں سجاوٹ کی جا رہی تھی۔ اس زمانے کا ایک مشہور گیت جو ہمیں بہت پسند آیا تھا وہ تھا ’’ وی آر سنگاپور‘‘ یعنی ہم سنگاپور ہیں۔ ہمیں یہ گیت اتنا پسند آیا کہ ہم نے اس گیت پر مشتمل ایک عدد کیسٹ خرید لیا اور وطن واپس پہنچ کر اکثر اسے سنا کرتے اور سنگاپور کی یادیں تازہ کرتے تھے۔
وی آر سنگاپور
سنگاپورینز
سنگاپور آور ہوم لینڈ
اٹس ہیئر دیٹ وی بیلونگ
آل آف اس یونایئٹڈ
ون پیپل مارچنگ آن
ان انگریزی الفاظ کے لفظی ترجمہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ان جذبات و احساسات کی ترجمانی کی جائے تو امجد حسین کا گایا ہوا مندرجہ ذیل پاکستانی نغمہ بن جاتا ہے۔
ہم زندہ قوم ہیں
پایندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان
ہم سب کا پاکستان، پاکستان، پاکستان
ہم سب کا پاکستان
چائنا ٹاون میں رات کے وقت چھوٹی چھوٹی دکانوں کا ایک بازار سجتا ہے جو سیاحوں کی خاص دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ اس میں چھوٹی بڑی یادگاری چیزیں وغیرہ رکھی ہوتی ہیں اور سستے داموں فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ رات گئے تک ہم اس بازار میں آوارہ گردی کرتے رہے آخر کار تھک ہار کر ہوٹل پہنچے۔
ہفتے کے روز صبح سویرے، یعنی دس بجے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور مفت ناشتہ کو یقینی بناتے ہوئے ساڑھے دس بجے سے پہلے ہی ریسٹورینٹ میں داخل ہو گئے۔ اگر پانچ منٹ اور دیر سے اٹھتے تو ہمیں اس کی پاداش میں ناشتے کے لیے کچھ سنگاپوری ڈالر خرچ کرنے پڑ ہی جاتے۔ ناشتے کے فوراً بعد ہم نے چودھری صاحب کی معیت میں بس پکڑی اور اپر بوکے تیما روڈ پر شمال کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ سنگاپور باغوں، پارکوں اور تفریح گاہوں کا شہر ہے۔ مشہور باغوں میں زولوجیکل گارڈن، بوٹانیکل گارڈن، چائنیز اور جاپانیز گارڈن ژورونگ برڈ پارک اور جزیرہ سینتوسا شامل ہیں۔ برڈ پارک میں رنگ برنگ کے خوشنما پرندے اپنی شان دکھا رہے ہوتے ہیں۔
برڈ پارک پہنچے تو دیکھا کہ سامنے ہی ایک ٹرینر اپنے سدھائے ہوئے اژدھے کو لیے ہوئے ایک عجیب شو دکھا رہا تھا۔ وہ اپنا اژدھا اطمینان کے ساتھ سیاح کے گلے میں ڈال دیتا اور اس کی تصویریں کھینچ کر اس سے پیسے وصول کر لیتا۔ بہادر تو ہم بچپن سے ہی ہیں، اس دن اپنی بہادری کو آزمانے کا خیال آیا تو خم ٹھونک کر اژدھے والے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس ناہنجار نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، اور اپنا خوفناک اژدھا اٹھا کر ہمارے گلے میں ڈال دیا۔ یہ شاید ہماری زندگی کا بد ترین دن تھا۔ واہ میاں یہ بھی خوب رہی۔ بلی کی بلا طویلے کر سر۔ ہمیں تو اس وقت صحیح محاورہ تک یاد نہیں آ رہا تھا۔ خدا جانے کتنے گھنٹے وہ بلا ہمارے گلے سے لپٹی رہی اور وہ ناہنجار سپیرا مختلف پوز بنا بنا کر ہماری تصویریں کھینچتا رہا۔ ادھر چودھری صاحب بھی مختلف زاویوں سے ہمیں دیکھ دیکھ کر ہماری اس بے بسی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ ہمیں جتنی دعائیں یاد تھیں، ہم نے وہ سب دل ہی دل میں دہرانا شروع کر دیں۔ آخر کار خدا خدا کر کے اس مصیبت سے نجات ملی اور سپیرے نے اس خطرناک ترین اژدھے کو ہمارے گلے سے نکالا تو ہم نے یوں زندہ بچ جانے پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا، جوں توں کر کے کانپتے ہاتھوں سے اپنا پرس نکالا اور منہ مانگے ڈالر اس موذی کی نظر کیے۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں وہ دوبارہ اس اژدھے کو ہمارے گلے نہ منڈھ دے۔ اب چودھری صاحب کی باری تھی لیکن وہ اس مشکل صورتِ حال میں پھنسنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوئے اور بھاگ کر سپیرے کی پہنچ سے دور جا کھڑے ہوئے۔
آگے بڑھے تو شہباز کے شو کا وقت ہو چلا تھا۔ ایک کھلی جگہ پر لوگ شہباز کے ٹرینر کو گھیرے کھڑے تھے۔ اس نے لوگوں کو دور ایک اونچے درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر بنا یا ہوا شہباز کا بسیرا دکھایا اور اعلان کیا کہ شہباز اس کی آواز پر لپکتا ہوا اس کے پاس آئے گا اور اس کے ہاتھ سے گوشت کی بوٹی لے جائے گا۔ اور یوں ہی ہوا۔ وقتِ مقررہ پر شہباز کے گھر کا دروازہ کھولا گیا، ٹرینر نے اسے پکارا اور وہ ایک اونچی اڑان لے کر جھپٹتا ہوا آیا اور ٹرینر کے ہاتھ سے گوشت کا پارچہ لے اڑا۔ پھر جب وہ اس پارچے کو اطمینان سے کھا چکا تو ایک لمبی اڑان لے کر دوبارہ اپنے ٹرینز کے کندھے پر آ بیٹھا اور داد سمیٹی۔ ہم نے بھی ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل کر خوب دل کھول کر اس پرندے کو اور اس کے ٹرینر کو سراہا۔ ہمیں علامہ اقبال کا شعر یاد آ گیا جو انھوں نے شاید ہمارے سنگاپور کے اس سفر میں شہباز کے اس مظاہرے کے لیے ہی لکھا تھا۔
جھپٹنا، پلٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
سنگاپور آ کر نقلی رنگین پرندے تو بہت دیکھے تھے، یہاں پر آ کر ہم نے جی بھر کے اصلی رنگین پرندے دیکھے۔ جب یہاں سے خوب دل بھر گیا تو ہم نے روانگی کا پروگرام بنایا اور وہاں سے نکل کر سیدھے جزیرے کی دوسری جانب، چائنا ٹاون کے قریب دریائے سنگاپور کے کنارے پہنچے۔ نارتھ برج روڈ اور ساؤتھ برج روڈ کے سنگم پر دریا کے اوپر ایک نہایت خوبصورت پل بنایا گیا ہے اور اسی پل کی مناسبت سے ان دونوں سڑکوں کا نام رکھا گیا ہے۔ وہیں سے ہم پیدل چلتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں پر سر اسٹیمفورڈ ریفلز نے پہلی مرتبہ سنگاپور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ یہاں اب حکومت نے سر ریفلز کا ایک قد آدم مجسمہ کھڑا کر دیا ہے جو اس واقعے کی یاد دلاتا ہے۔
اب سے سینکڑوں سال پہلے جب علاقے میں ملاکا کی اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا اور وہ علاقے کی ایک قابلِ ذکر تجارتی منڈی بن گیا، تو سنگاپور اس سلطنت کا ایک حصہ بنا، بالآخر ۱۵۱۱ ء میں ملاکا پرتگیزیوں کے ہاتھوں فتح ہوا تو سنگاپور اس کی عملداری سے نکل کر جوہور بھارو کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ ۱۸۱۹ء میں سر ٹامس اسٹیمفورڈ بنگلے ریفلز نے اس جزیرے پر اتر کر اسے برطانوی عملداری میں دیدیا۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد اسے ۱۹۴۹ میں محدود خود مختاری دی گئی۔ پھر جب ۱۹۶۵ ء میں برطانوی حکومت نے اس علاقے کو چھوڑا اور ملائشیا آزاد ہوا تو اسے بھی ملائشیا سے الگ کر کے ایک الگ ریاست کی شکل دیدی گئی۔
یہاں سے چلے تو مرلائن پارک پہنچے جہاں پر سنگاپور دریا کے دہانے پر مر لائن کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جس کا سر شیر کا اور دھڑ مچھلی کا ہے۔ یہ سنگاپور کا قومی نشان ہے۔ کچھ دیر تو ہم اس مجسمے کے منھ سے ابلتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہے اور پھر ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔
ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے
ہم سنگاپور کیا گئے، ہماری دیکھا دیکھی رجب علی بیگ سرور صاحب بھی ہمارے پیچھے سنگاپور ہولیے اور اس کا سارا حال اپنی کتاب فسانہ عجائب میں لکھنؤ اور سرزمینِ ختن کے خیالی شہر، فسحت آباد کے نام سے لکھ مارا۔ لکھتے ہیں :۔
’’ عجب شہرِ گلزار ہے، ہر گلی کوچہ دلچسپ باغ و بہار ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر با وضع قطع دار ہے۔ دو رویہ بازار کس انداز کا ہے۔ ہر دکان میں سرمایہ ناز و نیاز کا ہے۔ ہر چند ہر محلے میں جہاں کا ساز و سامان مہیا ہے پر ( ڈائی نے سٹی ہوٹل) سے ( ویسما ایٹریا، لکی پلازہ) اور (سنگاپورہ پلازہ ) تک، کہ صراطِ مستقیم ہے، ( اور آرچرڈ روڈ) کہلاتی ہے کیا جلسہ ہے۔ ‘‘
آگے لکھتے ہیں :۔
’’ باشندے یہاں کے ذکی، فہیم، عقل کی تیز اگر دیدہ انصاف اور نظرِ غور سے اس شہر کو دیکھے تو جہان کے دید کی حسرت نہ رہے۔ آنکھ بند کرے (شعر، سرور صاحب سے معذرت کے ساتھ)
سنا! رضواں بھی جس کا خوشہ چیں ہے
وہ (سنگا پور ہی) کی سر زمیں ہے
آگے ذرا برسات کا حال سنئیے :۔
’’برسات کا اگر موسم ہے، شہر کا یہ عالم ہے، ادھر مینہ برسا، پانی جا بجا بہہ گیا، گلی کوچہ صاف رہ گیا، ساون بھادوں میں زردوزی جوتا پہن کر پھرے، کیچڑ تو کیا مٹی نہ بھرے۔ فصل بہار کی صنعت، پروردگار کی قدرت، رضوان جن کا شائق، دیکھنے کے لائق۔ روز عیش باغ میں تماشے کا میلہ، ہر وقت چین کا جلسہ‘‘ (فسانہ عجائب از رجب علی بیگ سرور)
بھائی ! ہم باز آئے اپنی منظر کشی سے، آئندہ جب کبھی سنگاپور ی جلوہ حُسن کے متعلق لکھنا ہو تو کہہ دیں گے، دیکھئے فسانہ عجائب، صفحہ فلاں۔
مزید برآں کچھ، اسی قسم کا ظلم ہمارے ساتھ جناب قمر علی عباسی صاحب نے بھی روا رکھا۔ انھوں نے تو ہماری دیکھا دیکھی سنگاپور کا سفر نامہ تک لکھ ڈالا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے اِن دونوں شخصیات کو علم ہو چکا تھا کہ ہم سنگاپور کا ایک عجائب روزگار سفر نامہ لکھنے والے ہیں۔
ہائے سنگاپور، وائے سنگاپور
بھاڑ میں جائے سنگاپور
سنگاپور جو سرزمینِ ماوراء الہند یعنی شرق الہند میں ملائشیاء کے جنوب میں ایک جزیرہ ہے، ۱ ڈگری ۲۰ منٹ شمال طول البلد اور ۱۰۳ ڈگری ۵۰ منٹ عرض البلد مشرق میں واقع ہے اور خط استوا سے کوئی ۱۳۷ کلو میٹر کے فاصلے پر آبنائے ملاکا کے دہانے پر ہونے کی وجہ سے مشرق و مغرب کے درمیان ایک اہم بندرگاہ ہے۔ اس کا نام سنگاپور کیسے پڑا، اس کے بارے میں بھی ایک لوک داستان بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے ایک شہزادے کا دل ایک جل پری پر آ گیا اور اس نے اس جل پری سے شادی رچا لی اور ہنسی خوشی رہنے لگا۔ اس کے تین بیٹے ہوئے جو جوانمردی اور بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ منجھلے بیٹے نیلا اُتّم نے ایک دن سمندر پار ایک جزیرے کو دیکھا تو اس کی جستجو میں ایک بحری جہاز لے کر نکلا۔ سمندر میں طوفان آ گیا اور اس کا جہاز ڈوبنے لگا۔ شہزادے نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور کنارے پہنچا۔ یہاں پہنچتے ہی اس نے ایک عجیب جانور دیکھا جو در حقیقت ایک شیر تھا۔ اس نے جزیرے کو اپنی مملکت میں شامل کیا اور اس پہلے نظارے کی یاد میں اس جزیرے کا نام سنگا پورا یعنی شیر کا شہر رکھ دیا۔ اہلِ سنگاپور آج بھی اس شہزادے کو نہیں بھولے اور اس کی یاد میں مرلائن کو سنگاپور کا قومی نشان قرار دیا جس کا سر شیر کا اور دھڑ اس جل پری کے بیٹے کی یاد میں مچھلی کا ہے۔
یہی کچھ وہ اسمال ٹاک یعنی گپ شپ تھی جسے روا رکھتے ہوئے ہم نے اس شام برمی بجرے پر قدم رنجہ فرمایا اور چار گھنٹے کے اس حسین و رنگین سفر میں جاری رکھا جس کی منزل واپس سنگاپور ہاربر تھی۔ چار گھنٹے کا یہ کروز جس میں ایک عدد شاندار قسم کا ڈنر یعنی طعامِ شبینہ بھی شامل تھا، ہماری کمپنی کی جانب سے ہم مہمانانِ گرامی قدر کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ ہم گنتی کے جو چند مسلمان اس میں شامل تھے،ہمارے لیے علیحدہ حلال کھانے کا انتظام تھا۔ بحری بجرہ بین الاقوامی مہمانوں یعنی سیاحوں سے بھرا ہوا تھا، لہٰذا ہم سمندر اور اس کے قدرتی جزیروں کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ، ابنِ صفی کے قول کے مطابق انسانی جزیروں کی سیر سے بھی بدرجہ اتم لطف اندوز ہو رہے تھے۔
’’ اور کیا جناب!۔ ۔ ۔ اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر میں کیا رکھا ہے۔ خواہ وہ پہلی صدی عیسوی ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ یہ جھیل اور اس کے ساحل بھی لاکھوں سال پرانے ہیں۔ میں تو آپ کو وہ نایاب جزیرے دکھاؤں گا، جو آج ہیں کل نہ ہوں گے یا اگر ہوں گے بھی تو اس قابل نہ رہ جائیں گے کہ ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا کیا جا سکے !‘‘ ( پوائینٹ نمبر بارہ۔ عمران سیریز۔ از ابنِ صفی)
۱۸۱۹ ء میں سر اسٹیمفورڈ رئفلز یہاں پہنچے تو اس وقت جزیرے کی آبادی صرف چند نفوس پر مشتمل تھی۔ سر اسٹیمفورڈ ریفلز کے جزیرے پر قدم رکھتے ہی یہ شہر سلطان آف جوہر بھارو کی عملداری میں ہونے کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی منڈی کے طور پر جانا گیا۔ چاروں طرف سے لوگ اس کی جانب امڈ پڑے اور آج ( ۱۹۸۵ء ) اس کی آبادی پچیس لاکھ ہے۔
ہم نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ ٹوور گائڈ ہمیں اپنے پبلک ایڈریس سسٹم پر ارد گرد پھیلے ہوئے جزیروں کا جغرافیہ اور سنگاپور کی تاریخ سے آگاہی دلوا رہا تھا۔ تاریخ، جغرافیہ اور معاشرتی علوم میں ہم ویسے ہی کچے اور کورے رہے ہیں اس لیے ہم نے اس کی ان خرافات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے اڑا دیا۔ ان جزیروں کا حال ہم گائڈ کتابوں میں پڑھ ہی لیں گے۔ یہ وقت تو ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا تھا جو اس سمے ہمارے چاروں اُور پھیلے ہوئے تھے۔ سبحان تیری قدرت۔ ہم نے اپنی یادوں کی پٹاری کھولی تو اس میں اس شام کی یاد ان الفاظ کے ساتھ محفوظ تھی۔ ’’سنگاپور کی ایک شام جو بہتر انداز میں بسر ہوئی۔ ‘‘
اگلے دن ہمارے سب ہم جماعتوں نے استاد صاحب کے ساتھ ملکر تفریح کرنے کا پروگرام بنایا اور کلاس ختم ہوتے ہی دو ٹیکسیاں پکڑ کر سیدھے آرچرڈ روڈ پہنچ گئے۔ آرچرڈ روڈ سنگاپور کا سب سے بڑا خریداری کا علاقہ ہے۔ فرحت اللہ بیگ صاحب کی لکھی ہوئی تعریف ہم پہلے ہی پیش کر چکے ہیں۔ سمجھ لیجے کہ یہ بازار سنگاپور کا طارق روڈ یا لبرٹی ہے۔ اہالیانِ کراچی اور لاہور سمجھ گئے ہوں گے، دوسرے علاقوں کے مکین اپنے علاقائی ماحول کے مطابق کچھ اور تصور کر لیں۔ چونکہ اس پہلے دن ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل کے قریب ٹیکسی سے اتر کر پیدل آوارہ گردی کا آغاز کیا تھا، لہٰذا اس کے بعد ہمارے لیے آرچرڈ روڈ اسی نکتے سے شروع ہوتی تھی۔ پیدل ٹہلتے ہوئے چلے تو راستے میں آنے والے کئی شاپنگ سنٹر دیکھ ڈالے۔ ان دنوں لکی پلازا کا بڑا چرچا تھا، لہٰذا وہاں پہنچے اور زیادہ توجہ کے ساتھ دکانوں کا معائنہ شروع کیا۔ اکٹھے آٹھ لوگ کسی بھی دکان میں گھستے تو دکاندار سٹپٹا جاتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ کس کی طرف توجہ کریں اور کس کی نگرانی کریں۔ ایک دکاندار تو اس قدر گھبرایا کہ ہر ایک کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ جب کافی دیر تک ادھر ادھر اشیاء کا بغور معاینہ کرنے کے باوجود بھی ہم میں سے کسی نے کسی شے کو خریدنے کا عندیہ نہ دیا تو وہ کچھ مشتعل سا نظر آنے لگا۔ ہم چونکہ اپنی کالی رنگت کی بناء پر ویسے ہی سب کی توجہ کا مرکز تھے، اس کے غصے کا محور بھی بن گئے اور اس نے ہمیں دیکھ کر ایک نعرہ مستانہ بلند کیا’’ ہے یو؟‘‘ یعنی’’ ارے تم! کیا چاہیے تمہیں ؟‘‘ ہم غریبِ شہر کیا کہتے، ٹُک اسے دیکھا کیے، لیکن گورے استاد نے دکاندار کو تسلی دی کہ ہم سب اکٹھے ہیں اور سب ہی غیر ملکی ہیں۔ اس بات پر اسے کچھ تسلی ہوئی لیکن پھر جب یہ دیکھا کہ سب ہی بناء خریداری کیے دکان سے باہر جا رہے ہیں تو اس کا موڈ پھر بگڑ گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب ہم نے کسی سنگاپوری شہری کو اس طرح خراب موڈ میں دیکھا، ورنہ ہمیشہ سب ہی ہمیں خوش اخلاقی سے ملے۔
جس زمانے کا یہ قصہ ہے اس دور میں سنگاپور میں بھاؤ تاؤ کرنے کا بہت زیادہ رواج تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، اگر آپ دکاندار کی بتائی ہوئی قیمت پر بھروسا کر کے خریداری کر لیتے، تو گویا آپ لٹ چکے ہوتے۔ فارمولا یہ بتایا گیا کہ دکاندار جتنی قیمت بتائے، آپ اس کی آدھی قیمت سے بحث کا آغاز کریں۔ پھر جہاں پر بات بن جائے، وہیں بات ختم کر کے پیسے ادا کر دیں۔ بھاؤ تاؤ کا طریقہ بھی مخصوص تھا۔ دکاندار جس قیمت پر آپ سے بھاؤ تاؤ شروع کرنا چاہتا، وہی قیمت کیلکولیٹر پر لکھ کر آپ کے سامنے کر دیتا۔ آپ اپنی من پسند قیمت اسی کیلکولیٹر پر لکھ کر اس کے سامنے رکھ دیتے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ جو قیمت آپ کے نزدیک مناسب ہوتی اس پر پہنچ کر آپ اپنے بٹوے سے پیسے نکالتے جنھیں دیکھتے ہی دکاندار رام ہو جاتا اور آپ سے پیسے پکڑ کر خریدی ہوئی شے آپ کے حوالے کر دیتا۔ آرچرڈ روڈ اور خاص طور پر لکی پلازا اس قسم کی خریداری کے لیے مشہور تھے۔ سرنوسن روڈ پر مصطفے ٰ سنٹر میں البتہ ہر شے پر قیمت لکھی ہوئی تھی اور دھوکے کے امکانات کم تھے۔ لہٰذا ہم نے اصولی طور پر، طے کر رکھا تھا کہ اپنی تمام خریداری مصطفے ٰ سنٹر ہی سے کی جائے گی علاوہ معدودے چند اشیاء کے، جن میں کمپیوٹر سرِ فہرست تھا۔ (ایک ہفتے بعد فونان سنٹر سے ہمارا خریدا ہوا کمپیوٹر ہمارے حوالے کر دیا گیا تھا اور ہم اسے اپنے ہوٹل کے کمرے میں تختہ مشق بنائے ہوئے تھے )۔
واپسی پر سڑک پار کر کے دوسری جانب ہو گئے اور ویسما ایٹریا سمیت اس طرف کے تمام خریداری مرکز دیکھ ڈالے اور ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔ اگلی مرتبہ جب ہم اور چودھری صاحب اکیلے دکیلے ہی آرچرڈ روڈ پہنچے تو اس مرتبہ ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل سے دوسری جانب اس کاٹس روڈ پر چلنا شروع کیا اور تیسری بلڈنگ اس کاٹ سنٹر کے تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک صاف ستھرے فوڈ سنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور مزے لے لے کر پیلی کھچڑی کے ساتھ حلال سالن تناول کیا اور اس کا لطف اٹھایا۔ اس سے آگے چلے تو فار ایسٹ پلازا نے ہمارا راستہ روکا اور ہمیں چہل قدمی کی دعوت دی۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ایم آر ٹی ابھی نہیں بنی تھی۔ بعد میں جب ہم ۲۰۱۰ء میں سنگاپور پہنچے تو آرچرڈ روڈ کے اسٹیشن پر اتر کر ان سب جگہوں کو تلاش کرتے رہے جہاں کبھی ہم نے وقت گزارا تھا۔ اس کاٹ سنٹر کی یہ عمارت غائب تھی اور ساتھ ہی یہ فوڈ سنٹر بھی۔ لکی پلازا اتنا دلکش نہ لگا جتنا کبھی لگا تھا، کیوں کہ راستے میں دونوں اطراف کئی ایک خوبصورت شاپنگ سنٹرز بن چکے تھے۔ خاص طور پر سنگاپورا پلازا جو آرچرڈ روڈ کی تقریباً دوسری جانب‘ دھوبی گھاٹ‘ نامی ایم آر ٹی جنکشن کے اوپر بنایا گیا ہے بہت خوبصورت اور با رونق ہے۔
۲۰۱۰ء میں ہم چوتھی مرتبہ سنگاپور پہنچے تو پچھلی دفعہ سے زیادہ سنگین واردات ہمارے ساتھ ہو چکی تھی۔ اس مرتبہ خان صاحب ہمارے ہمسفر تھے۔ اس مرتبہ ہم کسی بھی تفریحی مقام کی سیر کو نہ نکل سکے، اس لیے کہ خان صاحب کو تربیتی مرکز سے ہوٹل واپسی کے بعد کہیں اور جانے کے لیے آمادہ کرنا کار ِ دارد تھا۔ ہم لاکھ انھیں مناتے کہ بھائی کہیں تو نکل چلو، لیکن وہ اپنے کمرے میں، لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے، اپنی محبوبہ سے چیٹ یعنی ہوائی پینگیں بڑھایا کرتے۔ ہم چونکہ اس بار چائنا ٹاؤن کے ایک ہوٹل فوراما سٹی سنٹر میں ٹھرے تھے، لہٰذا ہر روز رات کا کھانا کھانے کے لیے انھیں سرنگون روڈ کھینچ کر لے جاتے۔ کھانا ختم کرتے ہی، وہ ہمیں ٹرین اسٹیشن کی جانب اور ہم انھیں شاپنگ سنٹر کی جانب کھینچتے۔ زیادہ تر جیت ان کی ہی ہوتی کیونکہ وہ ہم سے درخواست بھی کر رہے ہوتے تھے کہ ’وہ اپنی محبوبہ دلنواز کو انتظار کرتا چھوڑ آئے ہیں اور واپس پہنچ کر اس کے غصے کو برداشت کرنے اور اسے منانے کا خوشگوار کام بھی انھی کو سر انجام دینا ہے ‘۔
پاکستان واپس آ کر ہم نے ہمجولیوں میں ان کی شکایت کی کہ خان صاحب کا تو سنگاپور میں ایک ہی مشن تھا۔ اپنی محبوبہ دلنواز سے باتیں۔ ساتھی کہنے لگے ’’ بھئی! ہم نے تو انھیں ایک بالکل ہی مختلف مشن پر بھیجا تھا۔ خدا جانے وہ اس مقصد و مدعا میں کامیاب ہو پائے یا نہیں۔ ‘‘
ہم نے حیران ہو کر پوچھا ’’ وہ کیا مشن تھا؟‘‘
جواب ملا’’ ان کا مشن اپنے ’ٹی اے۔ ڈی اے ‘ کے پیسے مکمل طور پر بچا کر، کھانے کے لیے آپ کے ’ٹی اے۔ ڈی اے ‘ پر انحصارِ کلی تھا۔ ‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ ہم ہنس دیے۔ ہم چپ رہے۔ کچھ اس کا سبب چپ تھا، کچھ اس کا سبب باتیں۔
خیر صاحب ولے بخیر گزشت۔ جن جگہوں کو ہم پچھلی مرتبہ دیکھ نہ پائے تھے، وہ ان دیکھی ہی رہ گئیں اور جن مقامات کو ایک مرتبہ دیکھ چکے تھے، انھیں دوسری بار دیکھنے کی ہوس رہ گئی۔ ان چند جگہوں میں خاص طور پر سینتوسا آئی لینڈ بھی شامل ہے۔
اگلے اتوار ہم اور چودھری صاحب جلد ہی اٹھ کر تیار ہو گئے اور مفت ناشتے کے فوائد حاصل کرتے ہوئے ٹیکسی پکڑ کر کوہِ فیبر پہنچ گئے۔ وہاں سے ان دنوں سینتوسا آئی لینڈ کے لیے کیبل کار روانہ ہوتی تھی۔ ہم نے فوراً ٹکٹ کٹایا اور کیبل کار میں بیٹھ کر فضائی نظارے کے مزے لیتے ہوئے سینتوسا جزیرے پر اتر گئے۔ آج کل مرینہ مال سے اس جزیرے کے لیے چھوٹی ٹرین چلتی ہے جو سمندر پر بنے ہوئے ایک پل سے گزرتی ہے۔ ۔ سینتوسا سنگاپور مین جزیرے کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جسے سیاحوں اور سیر کے رسیا افراد کے لیے ایک مکمل تفریحی مقام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ گویا موجودہ دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے , ۲۰۱۰۔ ء میں اس جزیرے میں دو دلچسپیوں کا اور اضافہ کیا گیا جن میں سے ایک یونیورسل اسٹوڈیو کا ڈسپلئے اور فن سنٹر اور دوسرا ایک عدد کسینو ہے۔ کسینو کی یہ خوبی بیان کی جاتی ہے کہ یہاں پر سیاحوں کے لیے داخلہ بالکل مفت اور مقامی شہریوں کے لیے سو ڈالر داخلہ فیس کے ساتھ ہے۔ اگر یہ کسینو اس زمانے میں بھی موجود ہوتا تو ہمارے چودھری صاحب لازمی اس کی سیر کرتے اور ہمیں ‘مجبوراً ‘ ان کا ساتھ دینا ہی پڑتا۔ سب سے پہلے ہم نے یہاں پر بنایا ہوا میوزیم دیکھا اوراس کے مظاہر میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔
آئی لینڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مفت مونو ریل چلتی ہے۔ لہٰذا ہم دونوں اس سہولت کا خوب فائدہ اٹھاتے رہے اور اس ریل میں بیٹھ کر بار بار مفت سیر کا لطف اٹھایا۔ ایک جگہ سمندر کے کنارے پیڈل بوٹ نظر آئی تو چودھری صاحب مچل گئے۔ ہم نے مونو ریل کے قریبی اسٹیشن پر اتر کر وہاں سے دوڑ لگائی اور ایک ایک پیڈل بوٹ کرائے پر لے کر تقریباً دو گھنٹے تک پیڈل مارتے رہے۔ عجیب واہیات سواری ہے۔ اس وقت کچھ احساس نہیں ہوتا، بعد میں خوب پتا چلتا ہے۔ دو گھنٹے گزار کر اس سے اترے تو اگلے دو دن تک لنگڑاتے رہے اور اس گھڑی کو کوستے رہے جب چودھری صاحب کو پیڈل بوٹس نظر آئی تھیں۔ جھٹپٹے کے وقت تک اسی طرح مختلف تفریحات میں مشغول رہے۔ اندھیرا پھیلنے لگا تو ٹکٹ لیکر میوزیکل فاؤنٹین کے چھوٹے سے اسٹیڈیم میں جا بیٹھے۔ درمیان میں ایک تالاب میں کئی فوارے پانی اچھال رہے تھے۔ اندھیرا چھا گیا تو شو شروع ہوا۔ مختلف رنگوں کی روشنیاں میدان میں رقص کرنے لگیں، بہترین ساؤنڈ سسٹم پر موسیقی شروع ہوئی تو رنگ و نور کا ایک طوفان آ گیا اور تمام فوارے اور رنگ برنگی روشنیاں اس موسیقی کی تال پر رقص کرتے ہوئے پانی سے کھیلتے رہے۔ ہم اس اسٹیڈیم میں موجود تمام تماشائیوں کے ہمراہ دم بخود اس حسین نظارے کو دیکھتے رہے۔ کوئی ایک گھنٹے کے اس شو میں انھوں نے کئی انگریزی، چائنیز اور ہندوستانی گانوں کی تال پر رقص کیا اور داد سمیٹی۔ آخر میں جب انڈین فلم قربانی کا مشہور یہ گانا چھیڑا گیا
’’ قربانی، قربانی، قربانی
اللہ کو پیاری ہے قربانی‘‘
تو فواروں، رقص و موسیقی او ر روشنی کے اس طوفان میں ہم بھی جھوم اٹھے۔ گانا، موسیقی، رنگ و نور اور فواروں کا رقص اپنے عروج پر پہنچ کر یکبارگی تھم گیا، لیکن ناظرین کی تالیاں اگلے دس منٹ تک فضا ء کو گرماتی رہیں۔ واقعی یہ ایک ایسا نظارہ تھا جو ہمیں مدتوں یاد رہے گا۔
اب تو سنا ہے کہ انڈر واٹر ورلڈ کے نام سے ایک اور مظہر وجود میں آ چکا ہے لیکن ہماری ۲۰۱۰ء کی سیر کے پروگرام میں خان صاحب کی محبوبہ آڑے آئیں اور ہم اس جزیرے کو دوبارہ نہیں دیکھ سکے۔ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے
ہم نے بارہا خان صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ سنگاپور سے واپسی تک اپنی محبوبہ دلنواز کو خدا حافظ کہہ دیں کہ واپسی پر تمہارے لیے ٹافیاں لے کر آئیں گے، لیکن وہ نہ مانے۔
آخری دن ہم اپنی شاپنگ لسٹ سنبھال کر مصطفے ٰ اور شمس الدین پہنچ گئے اور بشمول ایک عدد بڑے سوٹ کیس، تمام اشیاء وہیں سے بازار سے با رعائت خریدیں اور خوش خوش سنگاپور سے وطن واپس لوٹے۔
کراچی ائر پورٹ پر کسٹم آفیسر نے ہمارا سوٹ کیس اور اس کے ساتھ کمپیوٹر اور مانیٹر کے دو ڈبے دیکھے تو بظاہر گھبرا کر اور بباطن خوش ہوتے ہوئے سوال کیا۔ ’’ کیا کیا خرید لیا بھائی جان؟‘‘
ہم نے سوالیہ انداز میں ان کی جانب دیکھا تو وہ اور زیادہ خوش ہو گئے۔ مرغا پھنس گیا، انھوں نے شاید یہ سوچ کر ہمارا سامان کھلوا لیا، لیکن اسے دیکھتے ہی ان کا منہ بن گیا اور انھوں نے مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے ہمیں جانے کا اشارہ کر دیا۔ ادھر کئی کھیپیے لائن میں موجود تھے جن پر آفیسر صاحب کی نظر کرم ٹھہر گئی۔
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی۔
٭٭٭
ولایتی زعفران
اِس طرح تو ہوتا ہے
بی۔سی۔لیز / نوید ظفر کیانی
تیسرا ایکٹ
چوکے ہی چوکے(قطعات)
تنویر پھولؔ
ارمغانِ ابتسام
ہنساؤ، ہنسو، قہقہے بھی لگاؤ
نیا آ گیا ’’ارمغانِ تبسم‘‘
پڑھا جب اِسے، گدگدی ہو رہی ہے
رگوں میں رواں کاروانِ تبسم
پیر جی
باغی مرید بولا، عجب ہیں یہ پیر جی!
بارِ مریدی ہم سے اُٹھایا نہ جائے گا
غصے میں اُن کی آنکھیں ہیں شعلے اگل رہی
’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘
الیکشن
شرمندہ ہم ہیں تجھ سے، پیارے وطن کے پرچم!
ہیں دیکھتے تماشا، اہلِ جہاں ہمارا
ہوتا ہے جب الیکشن، چُنتے ہیں ڈاکوؤں کو
’’سو بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا ‘‘
پانامہ لیکس
ہے بے وقوف قوم مگر اتنی بھی نہیں !
کہتا نہیں ہے کوئی بھی باتیں یہ بے سبب
ہے لیڈروں کے پیٹ میں گڑبڑ مچی ہوئی
’’پانامہ لیکس‘‘ بن گیا ’’پاجامہ لیکس‘‘ اب
ساقی
پیٹ اپنا خراب ہے ساقی!
ہم نے کھایا کباب ہے ساقی!
تو نے ہے مے میں کیا ملاوٹ کی؟
کس لئے آب آب ہے ساقی؟
الیکشن
ایمان چلا جائے تو عزت نہیں رہتی
حیرت کو بھی پھر تو کوئی حیرت نہیں رہتی
جو قوم شب و روز بنے فول مزے سے
اس کو یکم اپریل کی حاجت نہیں رہتی
٭٭٭
ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی
خالد عرفان کے نام
کوششیں آپ بھی کر لیجئے جتنی چاہے
پر چلیں گے نہ کبھی چین کے جاپان کے فین
داد کے جھونکوں سے گرمی یہاں کم ہوتی ہے
اب تو کام آتے ہیں بس خالدِ عرفان کے
آپریشن تھیٹر میں
’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ‘‘
مریضِ سرجری کے لب پہ تھے یہ افسانے
یہ ڈاکٹر ہیں کہ ڈاکو تمیز مشکل ہے
’’نقاب پوش پھریں ہیں پہن کے دستانے ‘‘
پری
ہمت بندھائی اُس نے بڑھے اپنے حوصلے
تعریفِ حُسن کرنے ہم اُس کے قریں چلے
اچھائی کا مگر وہ زمانہ کہاں رہا
ہم نے کہا پری تو وہ بولی ’’پرے پرے ‘‘
گیس
ماہرِ امراضِ معدہ ایک دن کہنے لگا
جس کو دیکھو گیس کے آزار میں ہے مبتلا
مُلک میں ہے گیس کی قِلّت کا چرچا ان دنوں
استفادہ کیوں نہیں کرتا کوئی ان سے بھلا
کمربستہ
کروں کیا منکشف اب آپ پر یہ راز سربستہ
کلاس اوّل میں اِک من کا اُٹھاتا تھا پسر بستہ
جھکی اس کی کمر، بھاری تھا اس کا اسقدر بستہ
مرا بچہ ہوا تعلیم پر ایسے کمربستہ
میں
انا پرستی کی حد ہو گئی کہ اب ہم لوگ
کسی کو جانتے ہیں اور نہ کچھ سمجھتے ہیں
ہے گرچہ صورتِ انساں، صدا ہے بکری کی
جسے بھی دیکھو وہی کر رہا ہے ’’ میَں میَں میَں ‘‘
زردہ
ہے لت پڑی ہوئی کہ کروں ایک کو میں دو
دولت کا شوق ہے میں کماتا ہوں اِس لئے
میٹھے کا کوئی شوق نہیں ہے مجھے جناب
زردہ میں زر ہے دس دفعہ، کھاتا ہوں اِس لئے
٭٭٭
امجدؔ علی راجا
پہلے اور بعد میں
ایک سے پاگل تھے دونوں میں نے پوچھا کون ہیں ؟
ڈاکٹر بولا ہوا یہ حال بربادی کے بعد
ایک مجنوں ہو گیا جب ’’ش‘‘ کی شادی ہوئی
ایک دیوانہ ہوا ہے ’’ش‘‘ سے شادی کے بعد
اچھا شوہر
جی جان سے بیوی کی جو خدمت نہیں کرتا
سسرال میں اس کی کوئی عزت نہیں کرتا
شوہر وہی اچھا ہے زمانے کی نظر میں
’’جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا‘‘
وہ
اس کی عادت سی ہے لڑکوں سے شرارت کرنا
اس نے ویسے ہی کہیں آنکھ لڑائی ہو گی
چھوڑ دے گی وہ کسی اور کی خاطر مجھ کو
’’یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی‘‘
دھو کے کھائیے
عقل بڑھ جاتی ہے دھوکے کھانے سے انسان کی
صاحبِ دولت ہوں یا مزدور، دھوکے کھائیے
فلسفہ گہرا ہے اس کا عقل کی یہ بات ہے
سیب ہو، امرود یا انگور دھو کے کھائیے
۔ ۔ ۔ تو کیا نام نہ ہو گا
قائم ہے کرپشن کے طفیل اپنی حکومت
میرٹ پہ کسی طور کوئی کام نہ ہو گا
لعنت بھی اگر قوم سے ملتی ہے تو کیا غم
’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘
٭٭٭
انجینئر عتیقؔ الرّحمٰن
سیاست
غرض کا کھیل کھیلا جا رہا ہے
کسی کو پھر دھکیلا جا رہا ہے
سیاست کی کوئی تو انتہا ہو
لگا جو ہاتھ پیلا جا رہا ہے
آزادیِ صحافت
ہے ملک میں اس وقت کرپشن، بڑی لعنت
آزاد صحافت ہے کرپشن سے حفاظت
چھڑنا ہے ترقی کا اگر تم کو یہ زینہ
لازم ہے کرو ملک میں آزاد صحافت
٭٭٭
شاہینؔ فصیح ربّانی
ضرورت
روپ بہروپ کی ضرورت ہے
جوس کی، سوپ کی ضرورت ہے
آپ تو گوری چمڑی والے ہیں
آپ کو دھوپ کی ضرورت ہے
٭٭٭
احمدؔ علوی
اب
اب ہیں وصال یار کے کتنے ہی راستے
ہم نیٹ پر ہیں شب کو شبستاں کئیے ہوئے
اب دور وہ نہیں رہا علوی تمام رات
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئیے ہوئے
انجم عثمانی
قد کے بونے ہو بھوٹانی لگتے ہو
جانے کس کس کی نادانی لگتے ہو
اے ٹی ایم بتاتے ہو خاتونوں کو
سو فی صد انجم عثمانی لگتا ہو
٭٭٭
مزاحچے
سوال نامے کا کمال
صداقت حسین ساجد
وہ شہر کا مشہورہسپتال تھاجس کے استقبالیہ پر ایک نرس سفید کپڑے پہنے بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کافی دیر سے بے کار بیٹھی تھی، اس لیے اس پر سستی طاری تھی اور وہ بار بار جمائیاں لے رہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ بڑ بڑا بھی رہی تھی۔
’’اُف خدایا! یہ بوریت تو مجھے پاگل کر دے گی۔ ۔ ۔ اب تک کوئی بھی ایسا نہیں آیا جسے پاگل کتے نے کاٹا ہو۔ ۔ ۔ اگر کوئی آ جاتا، تو میں کم سے کم اس سے باتیں ہی کر لیتی۔ ۔ ۔ میری سہیلی کی ملازمت کتنی دل چسپ ہے کہ صبح سے رات گئے تک مریضوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ۔ ۔ ایک میں ہوں کہ اتنے بڑے شہر کے اتنے مشہورہسپتال میں بیٹھی بور ہو رہی ہوں۔ ۔ ۔ ابھی تک کسی پاگل کتے نے کسی انسان کو نہیں کاٹا ہے۔ ‘‘
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ایک شخص تیزی سے اندر داخل ہوا اور اس کی طرف بڑھا۔
’’’مس! بات یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’جی۔ ۔ ۔ جی! فرمائیے۔ ۔ ۔ کیا بات ہے ؟ ‘‘
’’ کل میں ایک دوست کے گھر گیا تھا۔ ‘‘
’’تو اس میں کیا خاص بات ہے ؟۔ ۔ ۔ لوگ اپنے دوستوں کے گھر جاتے ہی رہتے ہیں۔ ‘‘
’’میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ایک کتا پال رکھا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اچھا! تو میں اب سمجھی کہ اس کتے نے آپ کو کاٹ لیا ہے۔ ۔ ۔ لیجیے ! یہ سوال نامہ پر کر دیں۔ ‘‘
یہ کہہ کر نرس نے میز کے دراز میں سے ایک کافی لمبا سا فارم نکالا۔ یہ فارم کئی صفحوں پر مشتمل تھا۔ اِتنا بڑا فارم دیکھ کر اس شخص کے چھکے چھوٹ گئے۔
’’اف! اگر میں یہ فارم مکمل کرنے بیٹھ گیا، تو مجھے دفتر سے دیر ہو جائے گی۔ ۔ ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ مجھے صرف ایک ٹیکا لگا کر فارغ کر دیں ؟‘‘
’’جی نہیں۔ ۔ ۔ یہ ممکن نہیں۔ ۔ ۔ آپ اپنا نام بتائیے ؟ ‘‘
’’نعیم شامی ‘‘
’’مسٹر نعیم! آپ کو کس نے کاٹا ہے ؟ ‘‘
’’ٹامی نے !‘‘
’’یہ آپ کے کسی رشتے دار کا نام ہے ؟ ‘‘
’’ نرس! تمیز سے بات کریں۔ ۔ ۔ ٹامی کتا ہے اور میں اشرف المخلوق یعنی انسان ہوں۔ ‘‘
’’ سوری! آپ مجھے انسان ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ ۔ ۔ اصل میں شامی اور ٹامی ملتے جلتے نام ہیں ناں ! اس لیے غلطی ہو گئی ہے۔ ۔ ۔ اچھا! یہ بتائیے کہ آپ کا پیشہ کیا ہے ؟‘‘
’’منیجر۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ کس کمپنی میں ؟ ‘‘
’’ نیشنل بنک میں ‘‘
’’ کون سا بنک؟ ‘‘
’’ نیشنل بنک‘‘
’’کیا۔ ۔ ۔ کون سا بنک؟ ‘‘
’’ نیشنل بنک‘‘
’’نیشنل۔ ۔ ۔ کیا؟‘‘
’’ نیشنل بنک۔ ۔ ۔ نیشنل بنک۔ ۔ ۔ نیشنل بنک۔ ۔ ۔ نیشنل بنک۔ ۔ ۔ ‘‘ نعیم شامی جھلا کر چیخ پڑا۔
’’ ہاں۔ ۔ ۔ تو مسٹر شامی! آپ کو میرے سوالوں کی سمجھ آ رہی ہے ؟ ‘‘
’’ ہاں۔ ۔ ۔ لیکن کیا آپ میرے جوابات کو سمجھ رہی ہیں ؟ ‘‘
’’ نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ تو اس کے باوجود بھی آپ لکھتی جا رہی ہیں ؟‘‘
’’آپ کو اس بارے میں ذرا بھر بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ صرف میرے سوالوں کا جواب دیجیے۔ ۔ ۔ اِس پہلے بھی آپ کو کسی جانور نے کاٹا تھا؟ ‘‘
’’ اگر میرا جواب ہاں میں ہو، تو پھر؟‘‘
’’ یہ بتائیے ! کس نے کاٹا تھا؟‘‘
’’ مجھے کھٹمل کاٹتے رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ میں ان کی بات نہیں کر رہی۔ ۔ ۔ کسی جانور نے آپ کو کبھی کاٹا ہے ؟ ‘‘
’’ نہیں !‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘
’’ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ اُنھیں میرا ذائقہ پسند نہ آیا ہو۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ انھیں بھوک ہی نہ لگی ہو!!‘‘
’’ اچھا! یہ بتائیے۔ ۔ ۔ آپ کی بہنیں ہیں ؟ ‘‘
’’ نہیں !‘‘
’’ بھائی؟ ‘‘
’نہیں !!‘‘
’’ کیا انھیں کبھی کسی نے نہیں کاٹا؟ ‘‘
’’ کیا فضول سوال ہے۔ ۔ ۔ جب بہن بھائی ہیں ہی نہیں، تو انھیں کاٹتاکون؟ ‘‘
’’ دیکھئے ! آپ میرے سوالوں کے جواب بد تمیزی سے دے رہے ہیں۔ ۔ ۔ اگر آپ نے اپنا رویہ نہ بدلا، تو مجھے مجبوراًہسپتال کے ملازموں کو زحمت دینا پڑے گی کہ وہ آپ کو آ کر رسیوں سے باندھ دیں گے۔ ۔ ۔ کیا آپ کے والدین کو کسی نے کاٹا تھا؟‘‘
’’ اوہ۔ ۔ ۔ میرے خدایا! ان کو کاٹنے کی ہمت کون کر سکتا تھا؟‘‘
’’میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ ۔ ۔ شاید ان کے کسی دوست۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ دوستوں کے بارے میں آپ کا اندازہ درست نہیں ‘‘
’’ میں کہتی ہوں کہ میرے سوالوں کے جواب دیں۔ ۔ ۔ آپ کو کس جانور نے کاٹا ہے ؟ ‘‘
’’ ایک پلے نے۔ ۔ ۔ میں یہ بات پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ ‘‘
’’سرکاری زبان میں پلے نام کوئی جانور موجود نہیں !‘‘
’’ اوہ۔ ۔ ۔ اسے کتا کہہ لو۔ ۔ ۔ پلا، کتے کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ وہ نر تھا یا مادہ؟ ‘‘
’’ کتیا! ‘‘
’’ یہ کیا بکواس ہے ؟ تمیز سے بات کرو۔ ‘‘
’’ میں کتیا کو کتا کیسے کہوں ؟ وہ کتیا ہی تھی۔ ‘‘
’’ اوہ۔ ۔ ۔ تم پاگل ہو۔ ۔ ۔ دیوانے ہو۔ ۔ ۔ مجھے ملازم بلانے ہی پڑیں گے !‘‘
’’ پاگل تم آپ ہو۔ ۔ ۔ تم کسی دیوانے کتے کی کاٹی ہوئی معلوم ہوتی ہو۔ ‘‘
’’ بکواس مت کرو۔ ۔ ۔ میں یہاں تین سال سے کام کر رہی ہوں اور آج تک مجھے کسی نے نہیں کاٹا۔ ‘‘
نعیم شامی نرس کی طرف تیزی سے بڑھا اور وحشت بھرے لہجے میں سرگوشی کرنے لگا۔
’’ اگر تمھیں آج تک کسی نے نہیں کاٹا، تو آج میں ضرور کاٹوں گا۔ ۔ ۔ تم پر لعنت ہو!!‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اس پر جھپٹا۔ اس کے منہ سے غرانے کی آوازیں نکلنے لگیں۔
نرس چلاتے ہوئے وہاں سے نکل بھاگی۔
’’ اوہ۔ ۔ ۔ اوہ! اس پر پاگل کتے کا اثر جلد ہو گیا ہے۔ ‘‘
نعیم شامی جنون کے عالم میں کمرے میں موجود ہر چیز کو توڑنے پھوڑنے لگا۔ میز کرسی الٹ دی، کاغذات پھاڑ ڈالے اور پھر وہ باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد نرس نے کمرے میں جھانکا، تو اسے ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی دکھائی دی۔
’’ شکر ہے۔ ۔ ۔ وہ بھاگ گیا۔ ۔ ۔ مجھے یہی امید تھی۔ ۔ ۔ اب وہ بازاروں میں دیوانوں کی مانند وہاں موجود لوگوں کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہو گا اور دکانوں کا سامان توڑ پھوڑ چکا ہو گا۔ ‘‘
پھر اس نے تیزی سے ٹیلی فون کا ریسیور اٹھایا اور ایک نمبر ملایا۔ جب رابطہ ہوا، تو تیزی سے کہنے لگی۔
’’ ہیلو۔ ۔ ۔ ہیلو۔ ۔ ۔ ایمبولینس سروس پلیز! سنیے۔ ۔ ۔ یہ ہنگامی صورت حال ہے۔ ۔ ۔ ایک دیوانے کتے نے ایک آدمی کو کاٹ لیا ہے اور اب وہ شخص بازار کی طرف بھاگ گیا ہے۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ! وہ لوگوں کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ۔ ۔ کیا۔ ۔ ۔ ؟ جی نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ وہ مجھے کیسے کاٹ سکتا تھا؟ نہیں۔ ۔ ۔ جی! یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔ ۔ ۔ ہم لوگ ایسے مریضوں سے نبٹنے کا طریقہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ۔ ۔ آپ کو معلوم ہے ناں۔ ۔ ۔ ! ہم تو تربیت یافتہ نرسیں ہیں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ! ہم تو انھیں پانچ منٹ میں پاگل بنا کر کمرے سے نکل کر بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ! آپ کو معلوم ہے ناں۔ ۔ ۔ ! اس کام کے لیے تو ایک عدد سوال نامہ ہی بہت ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
٭٭٭
سویا ہوا محل
ابنِ منیب
گاؤں والے سخت تنگ آ چکے تھے۔ ڈاکو دن دیہاڑے آتے اور کسی کو بھی لُوٹ کر چلتے بنتے۔ مریض کلینک کے باہر ’’بند ہے ‘‘ کا بورڈ دیکھ کر واپس چلے آتے۔ بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ سرکاری اہلکار کٹائی کے وقت گاؤں آتے اور شاہی حکمنامہ دکھا کر دو تہائی فصلیں قبضے میں کر لیتے۔ اگر کبھی کچھ لوگ ہمت کر کے اِن سے مشکل حالات کی شکایت کرتے تو یہ اہلکار اُنہیں ایک بار پھر شاہی حکمنامہ دکھا کر کہتے کہ وہ صرف لگان اکھٹی کرنے پر مامور ہے۔ اِن اہلکاروں کی نقل و حرکت اور اِن کا کام بھی عجیب تھے۔ نہ جانے کہاں سے عین کٹائی کے وقت یہ گاؤں پہنچ جاتے اور پھر اگلی کٹائی تک دوبارہ نظر نہ آتے۔ لگان میں لی ہوئی فصلوں کو بیل گاڑیوں پر لاد کر گاؤں کے قریبی دریا تک لے جاتے اور وہاں بڑے بڑے لکڑی کے جڑے ہوئے تختوں پر رکھ کر دریا کے بہاؤ پر روانہ کر دیتے۔ یہ دریا آگے کہاں تک جاتا تھا، گاؤں والوں کو ٹھیک طرح سے معلوم نہیں تھا۔ کچھ بوڑھوں کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنی جوانی میں اِس دریا کے ساتھ ساتھ کئی دن تک سفر کیا ہے۔ اور یہ کہ گاؤں سے کم از کم پانچ دن کی مسافت پر یہ دریا چار چھوٹے دریاؤں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور وہ دریا کہاں جاتے ہیں ؟ یہ جاننے کی کوشش کسی نے کبھی نہیں کی تھی۔ صرف اتنا کہا جاتا تھا کہ اِن چار دریاؤں پر ایک طلسماتی اور قدرے خوفناک سی دھُند چھائی رہتی ہے۔ چوپال میں جب کبھی اِن دریاؤں کا ذکر آتا تو گاؤں کا دیوانہ اچانک ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ناچنے لگتا۔ طرح طرح کے منہ بناتا اور ا انگوٹھا بند کر کے ہاتھ کی چار اُنگلیاں ہوا میں لہراتا۔ پھر ایک ایک انگلی بند کرتا اور کچھ عجیب سے الفاظ بکتا، جیسے دریاؤں کے نام گِنوا رہا ہو۔
’’سوئٹزرلینڈ، لندن، دبی، ڈیفینس‘‘
گاؤں والوں کو یقین تھا کہ یہ نام اُس کے مفلوج ذہن کی پیداوار ہیں اور بالکل بے معنی ہیں۔ دیوانہ تو خیر دیوانہ تھا، مگر اب حالات کے ہاتھوں گاؤں والے بھی پاگل ہوتے جا رہے تھے۔ بالآخر پنچائت نے طے کیا کہ گاؤں کے پانچ نوجوانوں کو بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے گا۔ مگر یہ کام اِتنا آسان نہیں تھا۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ تو یہ تھا کہ اُن میں سے کسی نے بھی دارالحکومت اور بادشاہ کا محل نہیں دیکھے تھے۔ پھر اُنہیں اِس بات کا بھی ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ دربار میں اپنی شکایات کیسے پیش کی جاتی ہیں، یا پیش کی بھی جا سکتی ہیں یا نہیں ؟ (گاؤں میں رعایا کے حقوق کے بارے میں کبھی بات ہوئی ہی نہیں تھی۔ اور جس دور میں کچھ عرصے تک گاؤں کا اسکول چلتا رہا تھا وہاں بچوں کو طوطا مینا کی کہانیاں ہی پڑھائی جاتی تھیں، جنہیں بچے لفظ بہ لفظ یاد کر لیتے اور بغیر توجہ دیئے لفظ بہ لفظ سُنا دیتے )۔ چار و ناچار اُنھوں نے گاؤں کے نجومی سے راستے کا اندازہ لگوایا اور نوجوانوں کو اِس راستے پر روانہ کر دیا۔ نجومی نے اُنہیں دو اہم نشانیاں بتائی تھیں، چار دریا اور دو رنگا پہاڑ۔ سفر کے پہلے حصے میں اُنہیں دریا کے ساتھ ساتھ گاؤں سے مغرب کی طرف چلتے جانا تھا۔ جب چار یا پانچ دن کی مسافت کے بعد دریا چھوٹے چھوٹے چار دریاؤں میں تقسیم ہوتا نظر آئے تو اُنہیں عین بائیں یعنی جنوب کی جانب مُڑ کر ناک کی سیدھ میں سفر کرنا تھا، یہاں تک کہ اُنہیں دو رنگا پہاڑ نظر آ جائے۔ نجومی کا دعویٰ تھا کہ پہاڑ سے آگے اُنہیں محل کا راستہ خود مل جائے گا۔ اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ چار دریاؤں کے پھوٹنے کے مقام پر نوجوان بائیں مُڑے اور مزید تین دِن کے سفر کے بعد دو رنگے پہاڑ تک پہنچ گئے۔ یہ وسیع و عریض پہاڑ بھی ایک عجیب معمہ تھا۔ جس جانب سے وہ اِس تک پہنچے تھے وہ بالکل بنجر اور ویران تھی۔ جبکہ اِسکا عقبی رُخ (جو پوری طرح چوٹی پر چڑھ کر نظر آتا تھا) کسی عظیم الشان باغ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پہاڑکے اِس رُخ پر موجود خوبصورت درخت اور بُوٹے پہاڑ کے دامن پر ختم نہیں ہوتے تھے بلکہ تاحدِ نگاہ ایک جنت نظیر میدان میں پھیلے ہوئے تھے۔ اِسی سرسبز میدان میں پہاڑ سے بہت دُور بادلوں اور دُھند میں گھِرے ہوئے بلند و بالا میناروں کی ہلکی سی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ یہی بادشاہ کا محل تھا۔ نوجوان اِن میناروں کی جانب سفر کرتے ہوئے بالآخر محل کے قریب پہنچ گئے۔ اب اُنہیں پورا محل اپنی مکمل شان و شوکت میں نظر آ رہا تھا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اُنہیں ایک مشکل درپیش تھی۔ محل کے چاروں طرف ایک گہری خندق کُھدی ہوئی تھی جس میں نصف گہرائی تک پانی چل رہا تھا۔ اِس خندق پر ایک ہی پُل تھا جو محل کے بڑے دروازے تک جاتا تھا۔ پُل کا داخلی کنارہ ایک بھاری زنجیر سے بند کر دیا گیا تھا اور اِس کی ایک جانب ایستادہ ایک قدرے چَوڑی اور قدِ آدم سے اونچی سنگِ مرمر کی سِل پر شاہی حکمنامہ درج تھا ’’یہاں سے آگے جانا منع ہے۔ بادشاہ سلامت اور اُن کے وزیر پانچ سال کے لئے سو رہے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی مشکل درپیش ہے تو بالکل فکر نہ کریں، پانچ سال بعد بادشاہ سلامت خود آپ کے گھر پر حاضر ہو کر آپ کی داد رسی کریں گے۔ ‘‘
٭٭٭
چمچے اسٹیل کے
حنیف سیّد
پاگل ہے دنیا۔ دنیا نہیں، تومیں۔ میں نہیں، تو وہ، یعنی کہ میری بیوی، رجنی۔ ہم تینوں میں، ہے ضرور کوئی پاگل۔ تینوں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ توفلاسفرز کا کہنا ہے اور ڈاکٹرز کا بھی ’’دنیا کا ہر شخص پاگل ہے۔ کوئی کم تو کوئی زیادہ۔ ‘‘
میں نے جب اپنے الیکشن کی کنویسنگ میں ڈائس پر کہا ’’امریکا وغیرہ تو چاند پر پہنچے، ہماری سرکاربنی، تو سورج پرجائیں گے، ہم۔ وہاں بھی جیون ہے۔ ‘‘ اتنا کہنا تھا کہ ٹماٹروں کی بارش ہونے لگی اور مجھ کو دُم دبا کر بھاگنا پڑا، ڈائس سے۔
بس اُسی دِن سے سمجھ گیا کہ دنیا پاگل ہے۔ ۔ ۔ اور جاہل بھی۔ اِس کو اتنا تک نہیں پتا کہ سورج پربھی جیون ہے۔ اگر ہم سمندرمیں نہ اُترے ہوتے، تو کیا تصور کر سکتے تھے کہ پانی کے اندر بھی جیون ہو سکتا ہے اور اگر پانی کے اندر جیون ہو سکتا ہے، ہوا میں جیون ہو سکتا ہے، مٹّی کے اندر جیون ہو سکتا ہے تو آگ میں کیوں نہیں ؟ یعنی کہ سورج میں۔ اور پھر لغت تو چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ آتش پرستوں کے آتش کدوں میں چوہوں جیسی شکل کے کیڑے پائے جاتے ہیں جِن کو سمندرکہتے ہیں جو صرف آگ کھاتے ہیں اور آگ سے باہر نکلنے پر مر جاتے ہیں۔ اِس کے متعلق حالیؔ نے بھی کہا ہے :
آگ سے جب ہوا سمندر دور
اُس کے جینے کا پھر نہیں مقدور
جب اُن چھوٹے چھوٹے آتش کدوں میں سمندرہیں توسورج میں تو کروڑوں برسوں سے آگ دہک رہی ہے، وہاں نہ جانے کتنے طرح کے جیو دھاری ہوں گے اور آکسیجن توہے ہی وہاں۔ کیوں کہ آکسیجن کے بِنا آگ ہونا ممکن نہیں، آکسیجن ہے جہاں، جیون ہے وہاں۔ بس اُسی روز سے لوگ پاگل کہنے لگے مجھ کو اور میری بیوی نے لاکھوں ووٹوں سے مجھ کو ہرا کر الیکشن نکال لیا۔ حالانکہ پاگل تووہ تھی، پوری طرح۔ اَب سے نہیں، بچپن سے۔
جب مجھے زیادہ تر لوگ پاگل کہنے لگے، تو مجھے خود پر شک ہوا اور میں فوراً پی۔ جی۔ آئی۔ جا پہنچا۔ پہلے تو نیروسرجن اور مریضوں کے درمیان کی گفتگو سنتا رہا۔ جب میرا نمبرآیا، تومیں نے نیرو سرجن سے فلاسفرزاورڈاکٹرز والی بات دُہرا دی۔
’’تو کیا، میں بھی پاگل ہوں۔ ؟‘‘ نیروسرجن سنجیدہ ہو گیا۔
’’جی ہاں۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘میں نے وثوق سے جواب دیا۔
’’وہ کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘اُس کے تیور چڑھ گئے۔
’’میں دیکھ رہا ہوں، آپ مریضوں سے، مریضوں کے اِستر کی بات نہ کر کے ، اپنے استرکی بات کر رہے ہیں :جب کہ ڈاکٹرز کو لازم ہے، کہ وہ مریض اور مرض کو ملحوظ رکھتے ہوئے مریضوں کے استرکی بات کرے۔ ‘‘بات چونکہ سچ تھی، لہٰذا بنا حرکت مجھے گھورنے لگا وہ۔ ۔ ۔ جیسے ہارٹ فیل ہو گیا ہو، اُس کا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو، ہر شخص تھوڑا بہت پاگل ضرور ہوتا ہے، میں بھی ہوں۔ ‘‘اُس نے کمپیوٹر پر کچھ فیڈ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے سوچا ’’میں پاگل تو ہوں، لیکن نہیں کے برابر، یعنی کہ دنیا اور رجنی کی بہ نسبت، بہت کم۔ ‘‘ اب رجنی اورساری دنیا کا علاج کروانا تو میرے بس کا تھا نہیں۔ ہاں، میں ضرور تھوڑے بہت علاج کا مستحق تھا۔ لہٰذا خود کو تھوڑا بہت پاگل سمجھ کر پی۔ جی۔ آئی۔ سے اپنے ہی شہر کے نیروسرجن کے پاس آ گیا۔
جب میں نے ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نمستے کیا۔ پہلے تو اُس نے اپنا چہرہ اُٹھاکر مجھے غورسے دیکھا، پھر کھڑے ہو کر نمستے کا جواب دیتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر مجھ سے میرے آنے کاسبب دریافت کیا۔
’’ڈاکٹر کے پاس مریض ہی آتا ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔
پہلے تواُس نے میری بات ہنسی میں اُڑا دی، پھر میری تواضع کے واسطے اپنے ملازم کو آواز دی، کیوں کہ میں معمولی انسان تو تھا، نہیں، بلکہ ایک پرائم منسٹر کا شوہر تھا۔ بہرحال میری ضد پر ڈاکٹر صاحب نے دوچارسوالات کرنے کے بعد مجھ کو میرے بالکل ٹھیک ہونے کا یقین دِلا دیا، پھر میرا ذہن رجنی کی جانب لپکا، لیکن بے سود۔ کیونکہ اُس کے الیکشن جیتتے ہی میں نے اُسے پاگل ڈکلیئر کر کے مقدمہ کر دیا تھا، کیونکہ ہم دونوں ساتھ ساتھ کھیلے اور پڑھے بھی تھے۔ میں نے ایم۔ ایس۔ سی۔ کر لیا تھا اور وہ آٹھویں کلاس میں فیل ہو گئی تھی۔
وہ اکثر پاگل پن کی حرکتیں کرتی تھی، مثلاً ایک بار ہم دونوں کے بچپن میں یوں ہوا کہ جب اُس نے کنویں میں جھانکتے ہوئے کہا: ’’ارے۔ ۔ ۔ ! کنویں میں ہاتھی۔ ۔ ۔ !‘‘ اس کے کہنے پر جیسے ہی میں نے کنویں میں جھانکا، اُس نے دھکّا دے دیا اور اُچھل اُچھل کر تالیاں بجاتی ہوئی بھاگ لی۔ یہ کہو کہ پانی کم تھا ورنہ اُسی روز میرا کام تمام ہو جاتا۔
ایک بار ہم دونوں نے کھیل کھیل میں گھروندے بنائے۔ جب اُس کے گھروندے سے میرا گھروندا بہتر بنا، تو وہ میرا گھروندا بگاڑ کر بھاگ لی۔
ایک باراُس کی ماں نے میرے لیے کھیر بھیجی، جیسے ہی میں نے پہلا چمچہ مُنہ میں رکھا، تو نمک ہی نمک، وہ بڑے اہتمام سے ڈھانپ کر لائی تھی۔ اِس طرح کبھی برتنوں میں اینٹ پتھر نکلتے تو کبھی اُچھلتے ہوئے مینڈک۔ ایسی حرکتوں پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتی وہ، اور میں ہکّا بکّا رہ کراُس کو تکتا رہ جاتا۔
وہ کبھی کسی کی ہانڈی میں نمک جھونک آتی، تو کبھی مرچ۔ موقع دیکھ کر عورتوں کے مجمع میں گھُس جاتی۔ کبھی کسی کے نیچے پانی سے بھیگا کپڑا رکھ دیتی، تو کبھی دو عورتوں کی چوٹیاں باندھ دیتی، کبھی کسی کے بیٹھنے کے مقام پر چُپکے سے پان کی پیک اُگل دیتی۔ اِن سب حرکتوں کے بعد خوب اُچھل اُچھل کر تالیاں بجاتی، اورہنستی ہنساتی نکل جاتی۔
محلّے کے شاطرسے شاطر کُتّے، اُس کو دیکھتے ہی دُم دبا کر بھاگ لیتے۔ اگر کبھی کسی سوتے ہوئے کُتّے پراُس کی نظر پڑ جاتی، توفوراًاُس کی پچھلی ٹانگیں پکڑتی، گھماتی اور پھینک دیتی۔ پھر تو دور دور تک قیوں قیوں کی آوازیں ہی سنائی پڑتیں۔
چڑیاں، اُس کو دیکھتے ہی اُڑ جاتیں، کبھی کوئی چڑیا، اُس کو دیکھنے میں چوک جاتی، تب تواُس کا نشانہ نہ چوکتا، غلیل میں غُلّہ لگایا اور چڑیا نیچے۔
کبھی کوئی بکری یا بکرا نظر آیا، کان پکڑا اوراوراُس کی پیٹھ پر۔ جہاں کسی دھوبی نے اپنا گدھا باندھنے کی چوک کی، اُس نے فوراً اُس کی دُم میں ٹوٹا پیپا باندھ دیا۔
لڑکوں کی گلّی ڈنڈے میں، وہ شامل۔ کبڈّی میں، اُس کو دخل۔ کرکٹ میں، چوکے چھکے۔ تیراکی، میں وہ ماہر۔ پتنگ بازی میں تو لڑکوں کواُس کا ہُچکا ہی تھامتے بنتا، ورنہ ڈور توڑی، اور پتنگ چھوڑ دی۔
پان، ہر وقت چبائے رہتی وہ۔ لڑکوں کا نئے کپڑے پہن کر نکلنا محال تھا۔ جہاں کوئی چوکا، پیک کپڑوں پر۔
ماسٹر صاحب، اُس کواسکول کے دروازے پر دیکھتے ہی، ڈنڈا سنبھال لیتے، ورنہ اسکول کے بچّوں کی کتابوں پر چیل کوّے بنا ڈالتی۔
رکشے والوں نے محلّے میں آنا بند کر دیا تھا۔ کبھی کوئی آ نکلا، تواُس کے رکشے کے پہیّے کی تیلیوں میں ڈنڈا۔ سائکل والے تودورسے ہی دیکھ کر اُتر لیتے۔
راستہ چلتے کسی کو مُنہ چڑایا، کسی کے لتّی ماری اورکسی کو دھکا دے دیا۔ لوگوں نے اُس کی گلی سے نکلنا بند کر دیا تھا۔ وہ اکثر دیوار پر لٹکی رہتی۔ کوئی بھولے سے اُدھر آ گیا فوراً ٹوپی اُتار کر زنّاٹے دار ٹیپ جانے دی۔
خوانچے والا، جیسے ہی گلی سے گزرا، مال غائب۔ پھر تو خوب اُچھل اُچھل کر سارا مال بچّوں کو بانٹ بانٹ کر کھاتی کھلاتی۔
شیرخواراکثراُس کی گود میں کھیلتے کھیلتے اُس کے چٹکی لینے سے چیخ پڑتے ، سمجھ دار بچّے تواُس کو دیکھتے ہی اپنی ماؤں کو بلبلا کر چمٹ جاتے۔ جس گلی میں نکل جاتی کہرام مچ جاتا۔ بچّے، اپنے گھروں میں سہم جاتے۔ لوگوں کے گھروں کے پیڑ پودے نوچ ڈالتی، بھگائی جاتی۔
پڑوسن تھی وہ میری، اور کچھ کچھ دور کی رشتے داری کے ساتھ ٹھیکرے کی منگیتر بھی۔ حالاں کہ میں اُس کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرتا رہا، لیکن ماں کے آگے ایک نہ چلی اور میری ماں، اُس اکلوتی کو دولت کی رانی کے ناتے بیاہ لائیں۔ دولت کا انبار تو میرے یہاں بھی تھا، لیکن وہ ہر معاملے میں مجھ سے سِواتھی۔ پہلی ہی رات میں اُس نے مجھ کو ناکوں چنے چبوا دِیے۔ اُس نے کہا ’’آدمی اور عورت برابر کا درجہ رکھتے ہیں، میاں۔ تم بھی میرے جیسے کپڑے اور زیورات پہن کرسنگارکرو۔ !‘‘ میں نے انکار کیا تووہ چیخنے لگی۔ مجھے اپنی عزت بچانی تھی، لہٰذا اُس نے جو کہا:مجھے سب کرنا پڑا۔ حالاں کہ صبح ہوتے ہی میں نے اپنی ماں سے احتجاج کیا، کہ میں اُس سے نباہ نہ کر سکوں گا، لیکن اُن کی گھڑکی نے میری زبان میں تالا ڈال دیا، آخر کار ماں کو ایک دن کہنا پڑا: ’’تھی تو پاگل، لیکن میں سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گی، اب ٹھیک نہ ہوئی ، تو تیری قسمت۔ چراغ جلانے اور خاندان چلانے کو دو بیٹے تو ہو گئے۔ گھر میں کام کاج کے لیے ہیں تو چار چار نوکرانیاں سمجھ لے ایک پاگل پڑی ہے، گھر میں۔ خدا نے دُکان اِسی لیے تو دِیے ہیں ، ایک سے سُن اوردوسرے سے نکال۔ اِسی میں عافیت ہے، تیری۔ اُس کے والد خود نہ لڑ کر اب کے تجھ کو اُتاریں گے، الیکشن میں۔ ‘‘
جب الیکشن آیا تو آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے تال ٹھوک کر میرے مقابل اُتر آئی وہ۔ میرے خاندان کے علاوہ اُس کے والدین نے بھی بہت سمجھایا، لیکن رہی کتے کی دم، آدم کی پسلی، یعنی کہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی۔ یہ میں خوب جانتا تھا کہ جیتوں گا میں ہی الیکشن، کیوں کہ اُس کے والد میرے ہی سپورٹرتھے۔ میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ اُس کے جیتنے سے میری عزت سرِعام نیلام ہو جائے گی، کیوں کہ میری بیوی پاگل ہے۔ حالاں کہ جب سے بیاہ کر گھر لایا، کوئی کسرنہ چھوڑی اُس کے علاج میں، لیکن اُس کا پاگل پن، دِن دُونا، رات چوگنا بڑھتا گیا، بھرشٹاچار کی طرح۔ آتنک واد کی مانند۔
آخرکاراُس نے اپنی گاڑی سنبھالی اور کنویسنگ کو نکل پڑی۔ میرے پاس پانچ کی پانچ ہی رہیں، گاڑیاں۔ اُس کی مدد کوتیس چالیس گاڑیاں اور ہو لیں۔
میں الیکشن کی تقریر میں، سورج پرجیون ہونے کی بات کرتا، توٹماٹربرستے۔ وہ کچھ بھی کہتی، تو لاد دی جاتی پھولوں سے، تالیوں کے ساتھ۔ کہنے کواُس نے چھوڑا ہی کیا تھا، وہ وہ باتیں کہیں، کہ جِن کے سرنہ پیر، مگر تالیوں کی گونج نے دوسری پارٹیوں کے دِل دہلا دِیے۔ اُس نے کہا : ’’ زمین کوآسمان پرلے جاؤں گی۔ ‘‘تب تالیاں، ’’عورتوں کو مردوں کا اور مردوں کو عورتوں کالباس پہنواؤں گی۔ ‘‘تب تالیاں : ’’کسی عورت کو بچّے پیدا کرنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے گی۔ بچّے، ٹیسٹ ٹیوب میں تیار ہوں گے یا پھر امپورٹ کیے جائیں گے۔ اور اُن کی پرورش مرد کریں گے۔ ‘‘تب تالیاں : ’’جھاڑو برتن سے لے کر کھانا بنانے تک کے گھرکے سارے کام، مردوں کو کرنا پڑیں گے۔ ‘‘تب تالیاں : ’’مچھلیوں کو پیڑوں پر اور پرندوں کو پانی میں رہنا پڑے گا۔ ‘‘تب تالیاں : ’’ہر شخص دن کی گرمی میں نہیں بل کہ رات کے ٹھنڈے موسم میں کام کرے گا۔ ‘‘تب تالیاں : ’’سڑکوں اور ٹرین کی پٹریوں میں اربوں کا خرچ آتا ہے، اُن کی جگہ نہریں کھدوائی جائیں گی، جن میں کشتیاں چلیں گی۔ ‘‘تب تالیاں : ’’اَب کوئی دُلھن بیاہ کر دُولھے کے یہاں نہیں جائے گی، بل کہ دُولھے کو دُلھن کے یہاں آنا پڑے گا۔ ‘‘تب تالیاں : ’’ہر شخص کو اُڑنے والی مشین دی جائے گی۔ ‘‘تب تالیاں : ’’اب جانوروں کے بیاہ بھی کیے جائیں گے، کیوں کہ بچّوں کی پیدایش کے بعد، نر آزاد گھومتے ہیں۔ بچّے، بے چاری ماداؤں کوہی پالنے ہوتے ہیں۔ اب مادائیں، صرف دودھ پلائیں گی اور اُن کی خوراک، نر مہیّا کرائیں گے۔ ‘‘تب تالیاں : ’’ ہر جیو دھاری کو جینے کا حق ہے یعنی کہ مچھر اور مکھّی کو اَب مارا نہیں جائے گا۔ ‘‘تب تالیاں : ’’اب تعلیم کی ضرورت نہیں، صرف انگوٹھا لگا کر پرکھوں کی تہذیب کو برقرار رکھا جائے گا۔ ‘‘تب تالیاں۔ تالیاں بجانے کا انداز بھی نرالا تھا، اُس کا۔ بات کہی اور خود تالیاں بجاتے ہوئے لوگوں سے کہا: ’’بجاؤ تالیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘پھرتوایسی بجیں تالیاں کہ پرندے ترس گئے پیڑوں پر بیٹھنے کے لیے۔
اُس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کہا : ’’ اگر میں الیکشن جیت گیا تو زمین کے نارتھ پول کے نگیٹو اور ساؤتھ پول کے پازِیٹوکرنٹ کو فریکوانسی میں تبدیل کرا کر بنا تاروں کی الیکٹرک عوام کو فری فراہم کراؤں گا۔ میرے خیال سے جب خلاء میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور زمین کے دونوں پولوں کے نگیٹو، پازیٹوکرنٹ، اُس نمی میں فلو ہو کرآپس میں ٹکراتے ہیں : تب تیز چمک کے ساتھ دھماکہ ہوتا ہے، جس کو سائنس داں بادلوں کی رگڑ سے پیدا ہونے والی بجلی کہتے ہیں۔ ‘‘ میری اِس دلیل کو سراہنے کے بجائے انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش کی گئی، مجھ پر۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ جب میں نے اپنی ذہانت کا لوہا منوانے کے لیے آسمانی اِندر دھنک کو زمین پرسیکڑوں گانو والوں کے درمیان دھوپ میں نمی پیدا کر کے دکھا یا، تب بھی ٹماٹروں اور انڈوں کی بارش کے ساتھ جادوگر کے خطاب سے نوازا گیا، میں۔
حالات یہاں تک پہنچ گئے، کہ میرے زیادہ تردوست مجھ سے ٹوٹ کراُس سے جا ملے اور آگے بات یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے بولنے کی جگہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں انڈوں، ڈنڈوں اور ٹماٹروں کا انتظام ہو جاتا، پھر مجھ میں کہاں ہمّت کہ وہاں پہنچ پاتا۔ جب کہ اُس کے ابّو نے اُس کو پاگل ڈکلیئر کر دیا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ کوسات سو دس ووٹ ملے اوراُس کو پانچ لاکھ، تریپن ہزار، چار سو، انتیس۔ میرے ساتھ ساتھ سبھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ سونے پرسُہاگا یہ کہ ایک پارٹی نے اپنے میں شامل کر کے پرائم منسٹربنا دیا، اُس کو۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اُس پر کیا گیا مقدمہ بھی ہار گیا۔ اَب تو میں شرمندگی کے باعث مکان کے اندر اور وہ بڑے بڑے نیتاؤں کے درمیان ، مکان کے باہر۔ پھرجیسے کہ جنتاسے اُس نے وعدے کیے تھے :ایوان کی توثیق حاصل کر کے یکے بعد دیگرے اُن کا نفاذ بھی شروع کر دیا۔ پانی، سرسے اُوپر ہوتا دیکھ کر میں بھڑک گیا۔ انجام یہ ہوا کہ مجھے پاگل قرار دے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھونس دیا، اس نے۔ حویلی کے باہر ہنگامے ہوتے رہے اور میں قید خانے میں اپنی قسمت کو روتا رہا۔ کھانا پانی مل جاتا، وہ بھی وقت بے وقت۔ باہر کیا ہو رہا ہے اُس سے پوری طرح بے خبر رہتا۔ ہاں، کبھی کبھار کوئی ملازم رحم کھا کر اخبار ڈال جاتا۔ اخبار میں اُس کے احمقانہ رویّے پڑھ کر من ہی من کڑھتا، میں۔ لیکن پبلک، اُس کوبڑی گرم جوشی سے سراہتی، تالیاں بجاتی۔
میری ماں، جب کبھی میرے قید خانے کی جانب آ جاتی، میں اُس کے کیے کا رونا روتا۔ کسی طرح اِس کا اُس کو علم ہوا، تو میری ماں کو بھی مجھ سے الگ ایک کمرے میں ٹھونس دیا، اُس نے۔ اُس کے والد نے احتجاج کیا تو اُن کا بھی میرے جیسا حشر ہوا۔ ایک روز، جینز شرٹ پہنے، ایک ملازمہ مجھ کو شلوار جمپر تھما گئی، جو مجھ کو پہننا پڑا۔ تھوڑی دیر بعدساڑی بلاؤز پہنے ایک فوٹو گرافر میرا فوٹو لے گیا۔ دوسرے روز اخبار میں اپنی ماں کو نیکر شرٹ اورخسر کو اِسکرٹ ٹاپ میں دیکھ کرہنسی آئی، اور رونا بھی۔ ساڑی بلاؤز، شلوار کرتے، اسکرٹ ٹاپ میں بڑے بڑے حاکموں کے درمیان اُس کو جینز شرٹ میں دیکھ کر بچپن سے اَب تک کے اُس کے پاگل پن کے سارے کارنامے یاد آ گئے اور میں خون کے آنسوروتارہا۔
دن گزرتے گئے اوراُس کے پاگل پن کی حرکتیں بڑھتی گئیں ، جن کو دنیا والے گرم جوشی سے سراہتے رہے۔
ایک روز اچانک خبر ملی کہ اُس کا پلین کریش ہوا، اوراُس کی موت ہو گئی۔ دوسرے دِن اخبار میں تھا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق :وہ پوری طرح پاگل تھی۔ میں یہ فیصلہ کرنے سے آج بھی قاصر ہوں کہ آخر پاگل تھا کون؟میں، وہ یا کہ چمچے اسٹیل کے۔ ۔ ۔ ؟
٭٭٭
دوسرا خط
م۔ ص۔ ایمن
ابرار دفتر جانے کے لیئے لوکل ٹرین کے انتظار میں سٹیشن پر سیمنٹ کی نشست پر بیٹھے تھے کہ عین ان کے سامنے ایک اجنبی آ کھڑا ہوا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کاغذ کا عام سا ایک صفحہ تھا اور دوسرے ہاتھ میں قلم!۔ ان سے مخاطب ہوا ’’ جناب مجھے خط لکھ دیں گے ؟‘‘
ابرار مسکرائے ’’لکھ تو دوں گا لیکن پورا خط نہیں لکھ پاؤں گا۔ ۔ ۔ گاڑی آ گئی تو چلا جاؤں گا‘‘
وہ اطمینان سے بولا ’’ ایک دو باتیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی۔ گاڑی کے آتے آتے۔ آپ لکھ لیں گے ‘‘
’’اچھا لاؤ ‘‘ابرار نے بلاتاخیراس سے کاغذ قلم لے لیے اور سمٹ کر سیمنٹ کی بنی کرسی پراسے بیٹھنے کی جگہ دی۔ اس نے لکھوانا شروع کیا
پیارے بیٹے رحمت جان نور چشم عبدالمتین
سدا خوش رہو
بیٹے ! لوگ کہتے ہیں کراچی میں بہت کام ہے۔ آج تین ہفتے ہو گئے ہیں مجھے کراچی آئے ہوئے اور کوئی کام نہیں ملا۔ ۔ ۔ بھینس بیچ کر میں جو پیسے ساتھ لایا تھا، بے روزگاری میں وہ بھی خرچ کر دیئے ہیں۔ اب صرف واپسی کے کرائے کے پیسے ہی بچے ہیں اور اگر میں کچھ دن اور یہاں رہا تو واپسی کا کرایہ بھی نہیں بچے گا۔ سب خرچ ہو جائیں گے۔ سوچا تھا کہ کراچی سے کما کر لاؤں گا اور اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کروں گا۔ دنیا دیکھے گی۔ ۔ ابھی سٹیشن پر ٹکٹ کروانے آیا ہوں۔ جمعے کے دن گاؤں پہنچ جاؤں گا اور آ کر وہیں اپنا کام کروں گا۔ ۔ ۔ تمام پڑھنے سننے والوں کو درجہ بدرجہ سلام۔
از طرف تمہارے ابو
مستری الف دین
خط مکمل ہوا تومستری الف دین نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر دیا کہ اس پر وہ پتہ بھی لکھ دے۔ لگتا تھا کہ مستری الف دین گھر سے پوری تیاری کر کے آیا ہے جو پتہ اس نے بتایا، ابرار نے لفافے پر لکھ کر اس کے حوالے کر دیا۔ اس دوران اس نے خط کوتہ کر لیا تھا۔
ابرار نے پوچھا ’’تم کس قسم کے مستری ہو ؟ ‘‘
’’ میں راج مستری ہوں۔ گاؤں میں کام کرتا رہا ہوں لیکن وہاں کام کم ملتا ہے جو لوگ کام کرواتے ہیں وہ بھی ادھار کر دیتے ہیں پریشان ہو کر اس شہر کا رخ کیا تھا لیکن یہاں آ کر تو پریشانی میں اضافہ ہی ہوا ‘‘ مستری الف دین بے حد مایوس دکھائی دے رہا تھا، ابرار کو اس پر ترس آ گیا۔
دور سے۔ ۔ ۔ ۔ آتی ہوئی لوکل ٹرین کے آثار نمودار ہوئے۔ اگلے چند منٹوں میں وہ قریب آ جاتی۔
ابرار نے کہا ’’تم جمعہ کے دن گاؤں جاؤ گے !۔ تمہارے پاس ابھی تین دن ہیں۔ ۔ کل کی ایک دیہاڑی لگا کر میرا ایک چھوٹا سا کام تو کر دو ‘‘
’’جی فرمائیے ! ‘‘ مستری الف دین ہمہ تن گوش ہو گیا(عموماً ’’چھوٹے سے کام‘‘ کا سن کر مستری آتے نہیں ہیں )
ابرار بولے ’’ حکومت نے گلیاں پکی کروائی ہیں۔ اس سے میرے گھر کے سامنے گلی اونچی ہو گئی ہے اور میرا صحن گلی سے تقریباً چھ انچ نیچا ہو گیا ہے۔ بارش ہوتی ہے یا گلی میں کسی کا گٹر بند ہوتا ہے تو گلی کا پانی میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ ۔ مہمان آتے ہیں تو ان کا سر چوکھٹ سے ٹکراتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ گلی کا دروازہ گلی سے کم از کم ایک فٹ اونچا کروا دوں تاکہ اس پریشانی سے نجات مل جائے ‘‘
مستری جلدی سے بولا۔ ’’ٹھیک ہے صاحب ! یہ کام ہو جائے گا ‘‘
’’ابھی تو میں ڈیوٹی پر جا رہا ہوں۔ شام کو چار بجے والی گاڑی سے واپس آؤں گا۔ تم یہیں میرا انتظار کرنا۔ یہاں سے میرا گھر پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے، میرے ساتھ۔ ۔ میرے گھر چلنا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے صاحب !۔ ۔ ۔ آپ میرا ایک کام اور کر دیں ‘‘ مستری الف دین نے جلدی سے کھڑے ہو کر جیب سے ایک کاغذ اور نکالا اور کہا ’’مجھے ایک دوسرا خط لکھ دیں۔ ‘‘
ابرار حیران ہو گئے۔ ’’ ابھی تو تم نے خط لکھوایا ہے ‘‘
’’اسے چھوڑیں صاحب ! اب دوسراخط لکھ دیں۔ گاڑی بھی آ رہی ہے۔ ‘‘
ابرار نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے الف دین کے کہنے پردوسرا خط لکھنا شروع کیا۔
پیارے بیٹے !رحمت جاں نور چشم عبدالمتین
سدا خوش رہو !
تین ہفتے کراچی میں بے روزگار رہنے کے بعد آج مجھے کام مل گیا ہے۔ اب میں چھ ماہ تک گھر نہیں آ سکوں گا اور ان شا ء اللہ چھ مہینے بعد آ کر دھوم دھام سے تمہاری شادی کرواؤں گا۔ دنیا دیکھے گی۔ ۔ گھر کا۔ ۔ اور ماں کا اچھی طرح خیال رکھنا۔ ۔ تمام پڑھنے سننے والوں کو درجہ بدرجہ سلام۔ ۔ ۔ خدا حافظ‘‘
از طرف تمہارے ابو
مستری الف دین
ابرار نے دوسرا خط لکھ دیا تھا۔ الف دین کے بشاش چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی پریشانی ختم ہو گئی ہے لیکن وہ اس سے بے خبر تھا کہ اس کی پریشانی ابرار میں منتقل ہو گئی ہے۔
گاڑی سٹیشن کی حدود میں داخل ہو گئی تھی پلیٹ فارم پر ہلچل پیدا ہو گئی۔ جا بجا بیٹھے ہوئے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انگڑائیاں لے رہے تھے۔ ابرار بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’یار مستری ! ‘‘انہوں نے الجھن دور کرنے کے لیے کہہ ہی دیا ’’ابھی تو تم نے خط لکھوایا ہے کہ تم ٹکٹ کروانے سٹیشن آئے ہو اور جمعے کے دن گھر پہنچ جاؤ گے اور اب لکھوایا ہے کہ تم چھ مہینے بعد آؤ گے میرا تو خیال ہے کہ میرے گھر کا گلی والا دروازہ ہی تو اونچا کرنا ہے ایک دن میں بھی یہ کام ہو سکتا ہے ؟‘‘
مستری الف دین مسکرایا ’’آپ کا یہ کام ایک ہی دن میں ہو گا جناب۔ ۔ ۔ ۔ ! لیکن ’’ مجھے ‘‘ کام مل جائے گا۔ ابھی تو کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کام جانتا ہوں۔ جب آپ کا کام کر رہا ہوں گا۔ ۔ وہ بھی گلی میں تو آپ کے محلہ دار۔ ۔ پڑوسی۔ ۔ آنے جانے والے دیکھیں گے۔ ان کے گھر بھی تو گلی سے نیچے ہو گئے ہوں گے انہیں بھی کوئی نہ کوئی کام یاد آ جائے گا۔ ۔ اس طرح آپ کے محلے میں ہی مجھے کام ملتا چلا جائے گا ‘‘
’’اچھا اچھا ! ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ ابرار کی سمجھ میں یہ بات آ گئی وہ مطمئن سے ہو گئے
گاڑی آ گئی۔ ابرار چلے گئے۔ الف دین شاداں و فرحان سٹیشن پر ٹہلتا رہا۔ اسے ’’چھ مہینے کا ‘‘ کام مل گیا تھا۔
ابرار کسی محکمے میں کلرک تھے۔ ان کا گھر سٹیشن سے قریب ہی تھا صبح بذریعہ لوکل ٹرین دفتر جاتے اور شام کو واپس آتے۔ آج جب وہ واپس آئے توسٹیشن پر حسب وعدہ مستری الف دین ان کا منتظر تھا۔ ابرار اسے اپنے ساتھ گھر لے گئے۔
جیسا ابرار نے بتایا تھا، اس کے گھر کا دروازہ زمین میں دھنسا ہوا معلوم ہو رہا تھا اور صاف دکھائی دیتا تھا کہ بارش اور گلی کے بند گٹروں کا پانی لامحالہ گھر میں داخل ہوتا ہو گا۔
ابرار کا مکان چھوٹے چھوٹے دو کمروں پر مشتمل تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی برآمدہ تھا پھر چھوٹا سا صحن !۔ صحن کا ایک حصہ باورچی خانے، غسل خانے اور ’تیسرے خانے ‘ میں بٹا ہوا تھا۔
ابرار نے مستری الف دین کو برآمدے میں بچھی ایک چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود مونڈھا کھینچ کر اس کے سامنے بیٹھ گئے۔
اُنہوں نے اپنی بیگم کو بتا دیا تھا کہ گلی کا دروازہ اونچا کروانے کے لیئے وہ ایک مستری کو ساتھ لائے ہیں۔ ان کی بیگم اس کے لیئے چائے بنانے باورچی خانے میں مصروف ہو گئی، آخر کو وہ ان کے گھر ’’ پہلی بار‘‘ آیا تھا۔
مستری نے طائرانہ مگر ’’ فاتحانہ ‘‘انداز میں مکان کا جائزہ لیا۔ بولا ’’ٹھیک ہے صاحب ! میں کل سے آ جاؤں گا۔ ۔ ۔ آپ کل گھر پر ہوں گے یا دفتر جائیں گے ؟ ‘‘
’ ’کل سے آ جاؤں گا ‘‘سن کر ابرار چونک اٹھے۔ پھر اپنے فہم کا قصور سمجھ کرسر جھٹک دیا ’’نہیں ! میں نے دفتر سے ایک دن کی چھٹی لے لی ہے تاکہ تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مہیا کر دوں کیونکہ تم یہاں اجنبی ہو‘‘ ابرار نے کہا
’’بس تو آپ آج ہی ایک سو بلاک، دو بوری سیمنٹ اور ایک سوزوکی ریت منگوا لیں تاکہ کل وقت ضائع نہ ہو اور صبح ہی صبح کام شروع کر دیا جائے۔ ‘‘
’’سو بلاک ؟۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ابرار حیران ہو گئے ’ ’بھئی وہ کس لیے ؟ ‘‘
’’سو بلاک تو کم ہیں صاحب !۔ ۔ ‘‘ وہ صحن کی دائیں بائیں دیواروں کو دیکھتے ہوئے بولا ’’تین سو بلاک تو بعد میں منگوانا پڑیں گے ‘‘
’’تین اور ایک۔ ۔ ۔ چار سو بلاک ؟ ‘‘ ابرار بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔
’’اس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ۔ کیونکہ میں نے آپ کا کمرہ اندر سے نہیں دیکھا اس لیئے کمرے کا حساب ہی نہیں لگایا ‘‘
’’اوہ یار !کمرے کو چھوڑو! صرف یہ دروازہ اونچا کر دو۔ بس !‘‘ انہیں قدرے اطمینان ہو گیا کہ یہ میرا کمرہ بھی اونچا کرنے لگا تھا۔
’’اسی دروازے کے لیئے سو بلاک منگوا رہا ہوں صاحب ! ‘‘
’’مجھے سمجھاؤ۔ ’’ابرار نے وضاحت چاہی ’’مجھے بتاؤ۔ ۔ تم سو بلاک بلکہ تین سو بلاک لگاؤ گے کہاں ؟۔ ۔ مکان تو سارا بنا ہوا ہے ‘‘
’’صاحب ! پہلے تو۔ ۔ ۔ یہ دروازہ نکلے گا۔ ۔ ۔ اوپر سے دیوار کاٹی جائے گی۔ ۔ ۔ دروازہ ایک فُٹ اونچا کر کے لگایا جائے گا۔ ۔ ۔ اس طرح صحن دروازے سے ڈیڑھ فیٹ نیچے ہو جائے گا۔ ۔ ۔ اسے اونچا کرنے کے لیے صحن میں ملبہ ڈالا جائے گا۔ ۔ تب صحن اور برآمدے کا فرش اونچا ہو گا۔ ۔ ۔ ڈیڑھ فٹ فرش اونچا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ تو برآمدے کی چھت بھی ڈیڑھ فٹ نیچی ہو جائے گی۔ پھر آپ کہیں گے کہ دیواروں پر دو دو ردّے لگا دو دو ردّے لگانے کے لیئے برآمدے کی یہ چھت اتارنا پڑے گی۔ ۔ ۔ ۔ ردّے لگا کر چھت پھر ڈلے گی۔ ۔ جو ردّے لگیں گے ان پر پلستر بھی ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ برآمدے کا فرش اونچا ہوا۔ ۔ تو کمروں کا فرش نیچا ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ کمروں کے دروازے۔ ۔ ۔ جو اب چھ فٹ دکھائی دے رہے ہیں۔ ۔ ۔ چار فٹ کی کھڑکی دکھائی دیں گے۔ ۔ ۔ اور یہ کھڑکیاں۔ ۔ جو اب زمین سے ڈھائی فٹ اونچی ہیں۔ ۔ زمین کے برابر ہو جائیں گی۔ ۔ آپ کہیں گے کہ یہ دروازے اور کھڑکیاں بھی اونچے کر دو۔ ۔ ۔ کمروں کے دروازے اور کھڑکیاں اونچے کیے تو کمروں کا فرش بھی اونچا کرنا پڑے گا۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ تو کمروں میں دویا تین سیڑھیاں بنانا پڑیں گی۔ ۔ اور۔ ۔ کمروں میں دن میں بھی اندھیرا رہے گا۔ ۔ کمروں کا فرش اونچا کیا تو چھت کا پنکھا سر سے ٹکرائے گا۔ ۔ ۔ آپ کہیں گے کہ کمروں کی چھت بھی اونچی کر دو۔ ۔ ۔ چھت اونچی کرنے کے لیے کمروں کی بھی چھت اتارنا پڑے گی۔ ۔ ۔ ۔ گلی کی دیوار پر دو دو ردّے لگے تھے۔ ۔ ۔ کمروں کی دیوار پر چار نہیں تو تین تین ردّے لگانا ہی پڑیں گے۔ ۔ ۔ کیونکہ تین ردوں سے دو فٹ اونچائی بنتی ہے۔ ۔ ۔ پھر کمروں کی چھت پڑے گی۔ ۔ پھر ان ردّوں پر پلاستر بھی ہو گا۔ ‘‘
’’اوہ!۔ ۔ ‘‘ابرار صاحب کرا ہے ’’ اس کا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ہمیں یہ مکان خالی کرنا پڑے گا ‘‘
’’بالکل !۔ ۔ ۔ ‘‘ مستری نے فوراً تائید کی۔ ’’آپ کو کچھ دن کے لیئے مکان خالی کرنا پڑے گا تب ہی یہ کام جلدی ہو گا‘‘
’’نہیں بھائی !۔ ۔ میری اتنی گنجائش نہیں ہے۔ ۔ میں تھوڑے سے پیسے جمع کر لوں پھر یہ سب کرواؤں گا ‘‘ ابرار نے گویا فیصلہ کر لیا۔ ان کے ذہن میں مستری کے ’’دوسرے خط ‘‘کے الفاظ گونج اٹھے تھے۔ وہ کہنا تو یہ چاہتے تھے ’کہ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے تمہارے بیٹے کی شادی تو چھ ماہ بعد ہو گی ‘۔ لیکن نہ کہہ سکے۔
’’یہ تو صاحب میں نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ کو یہ ساراکام کروانا پڑے گا۔ کب کرواتے ہیں ؟ آپ کی مرضی۔ ۔ ‘‘
’’نہیں بھئی ابھی نہیں۔ میں نے صرف ایک دن کی چھٹی لی ہے اور ایک دن میں یہ سب نہیں ہو سکتا فی الحال رہنے ہی دو۔ ۔ ۔ ‘‘
اس دوران بیگم ابرار چائے بنا کر لے آئی تھیں۔ انہوں نے سن لیا کہ ابرار گلی کا دروازہ اونچا کروانے کا ’’فی الحال ‘‘ارادہ نہیں رکھتے، بولیں ’’باقی کام کروائیں یا نہ کروائیں۔ ۔ ۔ گلی کا دروازہ ضرور اونچا کروا دیں۔ ۔ ۔ ۔ ایک ہی دن کا تو کام ہے۔ سچ! گلی میں کسی کا بھی گٹر بند ہو! پریشان ہم ہوتے ہیں ‘‘
’’بیگم ! یہ کام ایک دن کا نہیں ہے۔ ۔ پورے چھ مہینے کا ہے۔ چھ مہینے کا۔ ۔ ۔ میں نے بھی یہی سمجھ کر دفتر سے ایک دن کی چھٹی لی تھی لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘انہوں نے بے چارگی سے مستری کی طرف دیکھتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’اتنا سا کام بھی چھ مہینے میں ہو گا ؟‘‘بیگم بھی سن کر حیران ہوئیں۔
ابرار مونڈھے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کمرے کی جانب جاتے ہوئے بیگم سے بولے ’’تم یہاں آؤ !‘‘
کمرے میں پہنچ کر وہ بولے ’’بیگم ! یہ مستری گاؤں سے آیا ہوا ہے۔ جمعے کوواپس جا رہا تھا۔ ۔ یہ مجھے سٹیشن پر ملا تھا میرے اس کام کے لیئے اس نے چھ مہینے کی ایکسٹینشن لی ہے اور ’’مجھے ‘‘ ٹینشن میں مبتلا کر دیا ہے ‘‘
بیگم حیران ہو کر بولیں ’’گاؤں سے آیا ہے ؟۔ ۔ جب ہی تو یہ اناڑی مستری اس کام کو چھ مہینے میں کرے گا۔ ‘‘
’’نہیں بیگم !۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘وہ سرگوشی سے بولے۔ ’’ یہ اناڑی نہیں ہے۔ ۔ ۔ بڑا خطرناک آدمی ہے۔ ‘‘ ابرار کے ذہن سے اس کا ’’دوسرا خط ‘‘ہنوز چپکا ہوا تھا ’’ یقین کرو !سٹیشن پر اس نے اپنے بیٹے کو خط لکھوایا اور مجھ سے ہی لکھوایا کہ اسے کراچی آئے ہوئے تین ہفتے ہو گئے ہیں اور ابھی تک بے روزگار ہے۔ ۔ جمعہ کے دن واپس آ رہا ہے۔ مجھے اس پر ترس آ گیا اور میں نے سوچا کہ اس بے چارے سے کچھ کام کروا لوں اس کی بھی ایک آدھ دیہاڑی لگ جائے گی اور میرا گلی کا دروازہ بھی اونچا ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس نے جب سنا کہ مجھے گلی کا دروازہ اونچا کروانا ہے تو ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں اس نے ’’ چھ مہینے کا‘‘ منصوبہ بنا لیا۔ یہ چھ مہینے تک میرے گھر کام کرے گا بیگم !۔ ۔ ۔ اور چھ مہینے بعد گاؤں جا کر اپنے بیٹے کی دھوم دھام سے شادی کرے گا۔ ۔ وہ بھی میرے پیسے سے ؟ ‘‘
اور پھر ابرار نے بیگم کو تفصیل بتائی کہ وہ ان چھ مہینوں میں کیا کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
نا گاہ ان کی نظر کمرے کے پچھلے روشن دانوں پر پڑی۔ بولے ’’ ابھی تواس نے کمرہ اندر سے دیکھا ہی نہیں ہے۔ ۔ ۔ اس کا حساب تو بعد میں لگائے گا۔ ۔ ۔ اس کے تو روشن دان بھی اونچے کرے گا۔ ۔ ۔ یہ الماری۔ ۔ ۔ ۔ یہ الماری جو دیوار کے اندر بنی ہے یہ بھی دو فٹ زمین میں دھنس جائے گی یہ بھی اونچی ہو گی ‘‘ وہ کہتے گئے اور ان کا دل ڈوبتا گیا ’’ ابھی ہماری چھت فرش سے دس فٹ اونچی ہے۔ ۔ فرش دو فٹ اونچا ہو گیا تو چارپائی پر کھڑے ہو کر ہم چھت کو ہاتھ لگاس کیں گے۔ ۔ ہمیں کمروں کی دیواروں پر چار چار ردے لگوانا پڑیں گے۔ کیونکہ مستری بتا رہا ہے کہ تین ردوں سے دو فٹ اونچائی بنتی ہے۔ ‘‘
بیگم نے یہ سب سنا تو وہ بھی پریشان ہو گئیں بولیں ’’سنتے آئے ہیں کہ مستری کسی گھر میں گھس جائے تو بڑی مشکل سے نکلتا ہے لیکن یہ تو ’ہمیں ‘گھر سے نکالنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے ‘‘چند لمحے سوچ کر بولیں ’’یہ سچ مچ پینڈو مستری ہے۔ ۔ یہ پینڈو مستری نہ ہوتا۔ ۔ شہر کا سمجھ دار، چالباز مستری ہوتا تو اپنا تجربہ بتا کر یوں ہمیں ہوشیار نہ کرتا۔ اپنا کام شروع کر دیتا۔ ‘‘
’’بیگم !۔ ۔ کہتا تو وہ ٹھیک ہے۔ ۔ پینڈو نہ ہوتا شہری ہوتا۔ الف دین نہ ہوتا۔ کوئی بے دین ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیا کریں یہ کام تو کروانا ہی پڑے گا۔ ۔ ۔ آج نہیں تو کل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
کمرے سے باہر آئے۔ ان کی نظر کچن کی جانب اٹھ گئی۔ ۔ وہ ساکت ہو گئے۔ ۔ انہوں نے اسے مستری کی نظر سے دیکھا۔ ان کے دل پر ایک گھونسا سالگا ’’یہ بھی نیچا ہو جائے گا۔ ۔ غسل خانے اور تیسرے خانے سے ہوتے ہوئے ان کی نظریں الف دین پر ٹک گئیں۔ ۔ ۔ انہیں الف دین سے خوف آنے لگا تھا۔ ۔
اس پینڈو مستری نے سیکنڈوں میں چھ مہینے کی منصوبہ بندی کر لی لیکن ابرار سارا دن میں بھی فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ چھ مہینے کا کام ایک دیہاڑی میں کیسے کروایا جائے۔ بالآخر انہوں نے چھ ماہ بعد عبدالمتین کی شادی دھوم دھام سے کروانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
پلکیں جھکی جھکی سی، قدم تھکے تھکے سے وہ الف دین کے قریب آئے۔ اس سے الوداعی مصافحہ کیا اور شکست خوردہ لہجے میں بولے ’’ٹھیک ہے مستری !۔ ۔ ۔ کل سے۔ ۔ ۔ آ جانا ‘‘
٭٭٭
انشائیہ
چھیڑ خوباں سے چلی جائے ۔۔۔
اقبال حسن آزاد
مرزا غالب ؔ نے فرمایا ہے:
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
وصل اور حسرت کے تعلق سے اتنا عمدہ شعر میری نظروں سے نہیں گزرا۔لیکن اس شعر کا کلیدی لفظ دراصل ’’چھیڑ ‘‘ ہے۔ چھیڑ خانی کرنا عاشقوں کا محبوب مشغلہ ہے اور جو معشوق عاشق کی چھیڑ چھاڑ سے لطف اندوز ہونے کا مادہ نہیں رکھتا اسے معشوق بننے کا کو ئی حق نہیں۔یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ معشوق بنانے کے لیے کسی کو زہرہ جبیں ،ماہ جبیں ،ماہ پارہ،مہ ناز،یا یوں کہے کہ کسی سراپا ناز کی کوئی ضرورت نہیں۔معشوق تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔اردو کے مشہور شاعر آبروؔ کا ایک شعر ہے:
زبس ہم کو نہایت شوق ہے امرد پرستی کا
جہاں جاویں وہاں دو چار کو ہم تاک رکھتے ہیں
ایک اور شاعر تھے قمرالدین احمد قمرؔ۔فرماتے ہیں:
لوطیوں میں شہرہ آفاق ہوں
بچہ بازی میں نہایت طاق ہوں
اشرف الدین علی خاں پیام ؔکا شعر ہے:
دلی کے کج کلاہ لڑکوں نے
کام عشاق کا تمام کیا
اُسی دور کے ایک اور شاعر تھے جو مضمونؔ تخلص فرمایا کرتے تھے۔انھوں نے اس مضمون کو کس خوبی کے ساتھ مندرجہ بالا شعر میں ادا کیا ہے ۔ملاحظہ فرمائیے
میکدے میں گر سراسر فعلِ نا معقول ہے
مدرسہ دیکھا وہاں بھی فاعل و مفعول ہے
میر تقی میر کا معشوق کوئی کمسن لونڈا تھا جس کے سبزہء خط پر میر فدا ہو گئے تھے۔موصوف کا رنگ سخن ملاحظہ فرمائیے:
باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا
لفظ فدا پر مشہور آرٹسٹ فدا حسین بھی یاد آ جاتے ہیں جو اپنی پر پوتی کی عمر کی ہیروئینوں پر بڑی آسانی سے فدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن سچ پوچھئے تو اصل عشق ، عشق حقیقی ہے مرزا شوق لکھنوی نے اپنی مشہور مثنوی ’’بہار عشق ‘‘طبع دوم کے آخر میں’’ ترغیب عشق حقیقی،، کا عنوان قائم کر کے اپنی تمام فحش نگاری کا جو ۸۱۹ اشعار کا احاطہ کرتی ہے،صرف ۲۳ اشعار میں کفارہ ادا کر دیا ہے۔چند شعر حسب ذیل ہیں
سب یہ دنیا سرائے فانی ہے
عشق معبود جاودانی ہے
عشق اللہ کا جو مائل ہو
ترک دنیا کرے تو حاصل ہو
کوئی الفت نہ بے وفا سے کرے
عشق کرنا ہو تو خدا سے کرے
چار دن کی یہ زندگانی ہے
جو ہے اس کے سوا سو فانی ہے
کیسی سچی بات کہی ہے شاعر نے۔جب چار دن کی زندگانی ہے اور دنیا سرائے فانی ہے تو پھر یہ سارے جھگڑے رگڑے کس لیے۔ہاں ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ میں کوئی قباحت نہیں۔چھیڑ چھاڑ دراصل زندگی کا حسن ہے ور نہ یہ زندگی کسی بیوہ کی طرح اداس اور غمگین ہو کر رہ جائے گی۔ کہتے ہیں
افسردہ دل کند افسردہ انجمنی را
ذرا غور فرمائیے،اگر کوئی شخص اپنے چہرے پر ہمہ وقت سنجیدگی کا غلاف اوڑھے رہے تو کیا ہوگا۔ اول تو وہ شخص وقت سے پہلے بوڑھا دکھائی دینے لگے گا اور دوئم یہ کہ وہ جس محفل میں رونق افروز ہوگا وہاں سنجیدگی کی ایسی دبیز دھند چھا جائے گی کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔شاید اسی لیے غالب جیسے ذہین شاعر نے خود کو اور اوروں کو ہمہ وقت شگفتہ شاداب رکھنے کے لیے ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ سے اپنی تکلیف دہ زندگی کو جینے کے قابل بنا یا۔غالباً اسی نسخہ میں غالب کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ غالب کے دل میں اپنے معشوق کے لب لعلیں کو چومنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اس ستم پیشہ نے بجائے ان کی دلی مراد پوری کرنے کے انھیں ٹھینگا دکھا دیا۔ غالب نے کہا
غنچہ ٔ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسہ کو پوچھتا ہوں منھ سے مجھے بتا کہ یوں
اس پر معشوق اور برہم ہوا اور اس نے انھیں گالیاں دینی شروع کر دیں۔غالب بھلا کب پیچھے رہنے والے تھے۔فوراً کہا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
گالیاں تو دراصل غالب ہی کو پڑی تھیں مگر انھوں نے آجکل کے شرم سے عاری سیاست دانوں کی طرح رقیب کے کندھے پر بندوق چلا دی۔ معشوق ان کی اس چالاکی کو سمجھ گیا اور اس نے ان کا منھ چڑا دیا۔غالب نے اب کے فرمایا:
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
جب اس پر بھی پتھر دل نہ پگھلا تب مجبور ہو کر موصوف نے فرمایا:
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
ہم عصروں،ہم جماعتوں اور ہم سایوں کے درمیان چھیڑ چھاڑ کا معاملہ بہت قدیمی ہے۔میرے ایک عزیز دوست کرائے کے مکان میں مقیم تھے اور اپنے ہم سائے کی چھیڑ چھاڑ سے عاجز تھے۔معاملہ یہ تھا کہ موصوف جب کسی نئی خادمہ کو بحال کرتے ان کا پڑوسی کسی شنی کی طرح اس پر اپنا منگل گرہ ڈال دیتا ۔اب ہوتا یہ کہ چند روز تو پڑوسی صاحب حالات کا جائزہ لیتے اور پھر اس ملازمہ کو ورغلا کر اپنے یہاں کام پر لگا دیتے۔جب یہ سلسلہ دراز ہونے لگا تو تنگ آکر میرے دوست نے اپنا مکان بدل لیا۔
چھیڑ چھاڑ کی روایت اردو ادب میں بھی بہت پرانی ہے ۔اس ادبی چھیڑ چھاڑ کو معاصرانہ چشمک کہا جاتا ہے۔ اول اول غالب نے مشکل پسندی کو راہ دی اور اپنے اشعار پر اسرار کے ایسے دبیز پردے ڈال دیے کہ ان کے مفہوم تک عام لوگوں کی رسائی نہ ہو سکی اور ان پر یہ کہہ کر چوٹ کی گئی کہ:
کلام میر سمجھے اور کلام میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
لہذا ان پر مشکل پسندی کا الزام آ گیا۔بعد میں انھوں نے سادہ اور آسان زبان میں اشعار کہنے شروع کیے۔ ذوق ،غالب کے ہم عصر تھے۔انھوں نے غالب کو چھیڑنے کے لیے فرمایا:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
غالبؔ بھلا کب چوکنے والے تھے۔وہ موقع کی تلاش میں رہے اور جب بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹے کی شادی پر ان سے سہرا لکھنے کی فرمائش کی تو انھوں نے ایک شاندار سہرا لکھا اور مقطع میں فرمایا:
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں اِس سہرے سے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا
بہادر شاہ سمجھ گئے کہ اشارہ ان کے استاد ذوق کی طرف ہے۔ چنانچہ ان کے حکم پر ذ و ق نے بھی ایک سہرا لکھا اور مقطع میں فرمایا:
جس کو دعویٰ ہے سخن کا یہ سنا دے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
اُردو ادب کے دو اہم مرثیہ گو شاعروں انیس اور دبیر کی چشمک بھی مشہور ہے ۔ پورا لکھنؤ دو حصوں میں منقسم تھے۔آدھے انیسیئے تھے اور آدھے دبیریئے۔انیس کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ دبیر ان کے مضامین چرا لیتے ہیں۔چنانچہ ایک دفعہ انھوں نے کہا:
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
مندرجہ بالا شعر میں انیس نے کھلم کھلا دبیر پر سرقہ کا الزام لگایا مگر دبیر کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ انھوں نے انیس کے خلاف کو ئی محاذ نہیں کھولا بلکہ یہ کہہ کر رہ گئے کہ:
اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے
انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے
انیس بھلا کب پیچھے ہٹنے والے تھے۔فوراً جواب دیا:
انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے
دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے
انشاء اور مصحفی کی چشمک بھی مشہور ہے۔انیس اور دبیر کی طرح ان دو شاعروں کے شاگرد بھی دو گروپ میں بنٹے ہوئے تھے۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ دونوں شاعروں میں کسی بات پر ٹھن گئی۔انشاء نے ایک ہزل لکھی جس کے ٹیپ کا بند تھا:
لڑتے بھڑتے جا رہے ہیں مصحفی اور مصحفن
اس کے بعد ان کے شاگردوں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں ایک گڈا اور ایک گڑیا لیا اور سڑک پر جلوس بنا کر نکلے۔وہ گڈے اور گڑیے کو آپس میں لڑاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ،:
لڑتے بھڑتے جا رہے ہیں مصحفی اور مصحفن
لڑتے بھڑتے جا رہے ہیں مصحفی اور مصحفن
جب مصحفی اور ان کے شاگردوں کو اس فوج ظفر موج کی آمد کی خبر ملی تو یہ لوگ بھی آلات ِ حرب و ضرب سے لیس ہو کر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ چنانچہ جب انشاء اور ان کے شاگرد مصحفی کے در دولت پر پہنچے تو ان کے گلوں میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور انھیں شربت پیش کیا گیا ۔پھر سب آپس میں گلے گلے ملے تو سارا گلہ جاتا رہا۔
چھیڑ چھاڑ کا اصل لطف تو دور حاضر کے نیتا لوگ اُٹھاتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ مختلف پارٹیوں کے لیڈر اسمبلی اور پارلیامنٹ میں ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔کبھی کبھی یہ چھیڑ چھاڑ خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے اور مار پیٹ کی نوبت آ جاتی ہے ۔اسمبلی میں جوتے چلتے ہیں اور پارلیامنٹ میں کرسیاں۔مگر جب یہ لوگ کسی پارٹی میں شریک ہوتے ہیں تو ہم نوالہ ہم پیالہ ،ہم مشرب ،ہمدم اور ہمراز دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا راز اسی حکمت عملی میں مضمر ہے۔
ادبی چھیڑ چھاڑ سے انتشار پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک صحت مند روایت قائم ہوتی ہے۔ مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دونوں فریق اپنے اپنے قلم کا جوہر دکھانے میں جُٹ جاتے ہیں اور اس طرح زبان و ادب میں گرانقدر اضافہ ہوتا ہے ۔اگر مولانا الطاف حسین حالی کی ’’مسدس حالی ،، کو اُبالی ہوئی کھچڑی نہ کہا جاتا اور اس کے جواب میں ’’مسدس بد حالی‘‘ نہ لکھی جاتی تو تو حالی اپنی اس تصنیف پر نظر ثانی نہیں کرتے اور اس صورت میں یہ کتاب ایک شاہکار بن کر نہیں اُبھر پاتی۔ لیکن یہ مسابقت کبھی کبھی مضحکہ خیز صورت اختیار کر جاتی ہے اور اس لطیفے کی طرح ہو جاتی ہے جہاں ایک بچہ ہنستا چہکتا گھر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی ماں سے کہتا ہے ۔۔۔۔۔’’ممی !ممی!!میں دوڑ میں فرسٹ آیا۔،،ماں نے پوچھا:
’’ریس میں کتنے بچے تھے؟،،بچے نے جواب دیا:
’’میں اکیلا ہی دوڑ رہا تھا۔،،
پس ثابت ہوا کہ جب تک دو یا اس سے زیادہ فریق نہ ہونگے کھیل میں مزا نہیں آئے گا۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ بازار میں کسی چیز کی ایک دکان چل نکلتی ہے تو اس کے بغل میں اسی چیز کی دوسری دکان کھل جاتی ہے۔کسی شہر میں اگر ایک ادبی فورم قائم ہوتا ہے تو فوراً ایک اور ادبی ادارے کا قیام بھی عمل میں آ جاتا ہے۔اسی طرح کسی جگہ سے ایک اردو کا رسالہ جاری ہوتا ہے تو اس کے شانہ بشانہ دوسرا رسالہ بھی شائع ہونے لگتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہو تو وہ اکیلا رسالہ بہت جلد بور ہو کر بند ہو جاتا ہے۔ تو بھائی میرے! زندگی کا اصل لطف چھیڑ چھاڑ ہی میں پوشیدہ ہے شرط یہ کہ یہ صحت مند چھیڑ چھاڑ ہو اور اس میں کسی کی کردار کشی ،غیبت ،عیب جوئی وغیرہ کی کوشش نہ ہو ۔
٭٭٭
قلم اور کالم
یہ وسائلِ تبسم
نسرین سید
ریاض، سعودی عرب سے طویل سفرطے کرتی ہوئی ایک حسین کتاب کینیڈا پہنچی ہے۔ یہ کتاب محترم شوکت جمال نے از راہِ لطف و کرم ڈھیر سارے ریال خرچ کر کے ارسال فرمائی ہے۔ کتاب دیکھ کر دل واقعی باغ باغ ہو گیا۔ اس سے پہلے، ان کی دو کتابیں سال ۲۰۰۰ء میں ’’دیوانچہ‘‘ اور سال ۲۰۰۳ء میں ’’ شوخ بیانی ‘‘ اہلِ ذوق قارئین کی سیرابی طبع کا باعث بن چکی ہیں۔ مزاح پر ان کی یہ تیسری کتاب ہے۔ کتاب کیا ہے، پھلجھڑیوں کا حسین گلدستہ ہے۔ کتاب کا نام ’’ یہ وسائلِ تبسم‘‘ بار بار مجھے غالب کے مصرع ’’ یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیان غالبؔ‘‘ کی یاد دلاتا رہا۔
آپ میری تائید کریں گے کہ کتاب کا نام اس سے بہتر ہو بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ کتاب میں شوکت جمال صاحب نے تبسم کے جو وسائل بہم پہنچائے ہیں، وہ یقیناً‘‘ ہمیشہ اپنے قارئین کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے رہیں گے۔ کتاب کے لیے بڑا سائز انتخاب کیا گیا ہے اور اس کا سرورق نہایت دل کش ہے۔ کتاب کی جلد اتنی مضبوط ہے کہ بار بار پڑھنے پر بھی اس کا بال بیکا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو ریشمی کاغذ استعمال کیا گیا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ کتاب کی اشاعت میں کافی فراخ دلی اور بہت سی محبت سے کام لیا گیا ہے۔
کتاب کے شروع میں جن محترم و موقر دوستوں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے، ان میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر معین قریشی، اطہر شاہ خان، ڈاکٹر اقبال واجد، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، نورین طلعت عروبہ اور کلیم چغتائی شامل ہیں۔
کتاب کو شایع کرنے کا جو جواز محترم مصنف نے پیش لفظ میں تحریر فرمایا ہے، اس سے کم از کم میں تو پوری طرح متفق ہوں۔ فرماتے ہیں ’’ متعدد نئی غزلیں، قطعات اور نظمیں میرے دل و دماغ کے کونوں کھدروں سے نکل کر میرے کمپیوٹر میں محفوظ ہو چکی تھیں چنانچہ ان سب کو جمع کر کے کاغذی پیرہن میں ملبوس کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ویسے بھی کمپیوٹر کا کیا بھروسہ، ایک چھوٹا سا وائرس کسی بھی وقت حملہ آور ہو کرسارے کیے کرائے پر پانی پھیر سکتا ہے ‘‘
میں ان کی اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ شاید ہی کوئی چیز کتاب کی نعم البدل قرار دی جا سکے۔ سونے سے قبل کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کرنا، اس کے بعد نشانی کے طور پر اس صفحے پر ریشمی ڈوری رکھنا (اگرچہ کچھ لوگ صفحہ موڑنا، بہتر سمجھتے ہیں ) اور پھر اگلی شب وہیں سے مطالعہ کا آغاز کرنا بہت پر لطف ہوتا ہے۔
شستہ مزاح لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ محترم شوکت جمال کی افتاد طبع نے اس خارزار رستے میں ان کی بے حد مدد کی ہے۔ وہ زندگی میں پیش آنے والی مختلف سچویشنز کا تجزیہ اپنے ہلکے پھلکے انداز میں ایسے کرتے ہیں کہ آپ ان کا حظ اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ منتخب شاعری میں سے انتخاب کرنا بذاتِ خود ایک مشکل کام ہے۔ تاہم اپنی پسند کے چند گلہائے ظرافت قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کرتی ہوں۔
دور ہے مہنگائی کا اس ملک میں تو کیا ہوا
اس گرانی کے سبب ہرگز نہ رونا چاہیے
اپنا بسکٹ نرم کرنا ہو تو اے اہلِ وطن
دوسروں کی چائے میں اس کو ڈبونا چاہیے
سڑک پار کرتے ہوئے آج شب
جو جاں سے گئے سب کو کر کے ملول
وہی تھے جنہوں نے لکھی تھی کتاب
’’سڑک پار کرنے کے زریں اصول‘‘
ٹکنولوجی کی ہمارے دور میں
اب کہاں تک ہے رسائی، دیکھ لی
میرے موبائل میں ہے تصویرِ یار
’’ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘‘
محفل میں وہ بھی آئے، دیکھو مگر یہ قسمت
پہنے ہوئے نہیں تھا میں چشمۂ بصارت
سوچا زباں سے کہہ دوں میں حالِ دل ہی، لیکن
لائے نہیں تھے اس دن وہ آلۂ سماعت
سویرا ہوتے ہی شاعر پہ یہ ستم ٹوٹا
پولیس لے گئی تھانے، اسے وہاں کوٹا
کہا کہ مال بر آمد کرا، ابھی فوراً‘‘
سُنا ہے رات کو تُو نے مشاعرہ لوٹا
دل ہے پتھر، دماگ میں بُھس ہے
میرا ماسوک بھی عجب ٹھُس ہے
مجھ سے سو گج پرے ہی رہتا ہے
اور گیروں کے بیچ میں کھُس ہے
ذکر غیروں کا اگر تم نے نہ چھیڑا ہوتا
وصل کی رات کا یوں غرق نہ بیڑا ہوتا
اس لیے مل کے میں آیا ہوں اسی کے گھر میں
اپنے گھر اس کو بلاتا تو بکھیڑا ہوتا
یاد آنے لگے پھر کام ضروری تم کو
قبل آنے کے، ہر اک کام نبیڑا ہوتا
جو نقشِ نا پائیدار اترا تو میں نے دیکھا
دلہن کا چہرا، سنگار اترا تو میں نے دیکھا
لکھا تھا بوتل پہ الکحل ہے، شراب ہے یہ
مگر یہ لیبل، خمار اترا تو میں نے دیکھا
جذبۂ الفت کو اپنے میں نے جب سچا کہا
مسکرا کر اس نے مجھ کو عقل کا کچا کہا
کس طرح آگے بڑھاتا بات، جب اس شوخ نے
میرے اظہارِ محبت پر فقط ’’اچھا‘‘ کہا
جب کہا اس نے ’’آ‘‘ تو آیا تھا
جب وہ بولا ’’نکل‘‘ نکل آیا
بنتے دیکھا جو داد کو بیداد
لے کے اپنی غزل نکل آیا
گفتگو اُن سے ہماری ہے یہی، شادی کے بعد
’’آپ کا جو حکم ہو‘‘ یا ’’آپ جو چاہیں جناب‘‘
سوچوں میں عقدِ ثانی کے کھویا ہوا ہوں میں
بیگم سمجھ رہی ہیں کہ سویا ہوا ہوں میں
اس باغ و بہار کتاب کی اشاعت پر محترم شوکت جمال صاحب کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے ایک بار پھر ان کی نوازش کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
٭٭٭
e شیطان
سلیم فاروقی
صاحبو! کہتے ہیں انسان عموماً رواں رویہ (Status Quo) کو پسند کرتا ہے، تبدیلی کو ذرا مشکل سے ہی قبول کرتا ہے۔ اگر آپ کو ہماری بات کا اعتبار نہیں ہے تو اپنے بود و باش میں ایک معمولی سی تبدیلی لا کر دیکھیں، آپ کو ہماری بات بہت اچھی طرح سمجھ آ جائے گی۔ مثلاً اگر آپ عموماً شہری علاقوں کے رہنے والوں کی طرح پینٹ پہنتے ہیں اور کبھی کبھار (یا اکثر جمعہ کے دن ) شلوار قمیض ہی پہنتے ہیں لیکن ذرا دو چار دن اپنے دفتر یا کاروبار پر شیر وانی پہن کر جا ئیے، یا اگر آپ عموماً شلوار قمیض پر واسکٹ یا شیر وانی پہننے کے عادی ہیں تو کچھ دن تھری پیس سوٹ میں دفتر جا کر دیکھیں، پھر آپ کو کیا کیا سننے کو ملتی ہے، اس سے آپ ہمارے اس کلیہ پر یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اگر کسی کا محض گواہی سے ہی کام چل جاتا ہو تو وہ محترم طاہر مسعود سے احوالِ واقعی سن لے۔
ویسے ہمارا ذاتی تجر بہ بھی یہی ہے گذشتہ دنوں موسم کی سختی سے گھبرا کر ہم نے اپنی زلف ہائے دراز کو عملاً دراز میں بند کیا اور اپنے بالوں کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی مانند ہلکا پھلکا کروا لیا۔ اس کے بعد ہم سے ہر کوئی اس چوک کا پتہ پوچھ رہا ہے جہاں ہماری حجامت بنی۔ دوسری جانب ہمارے چند دوست ہم سے یہ پوچھتا تھا کہ چار گرہ زلف دراز میں سے دو گرہ گذر جانے کی وجہ پوچھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری حجامت سے سوائے ہمارے بینکر اور حجام کے کسی کو کوئی مثبت یا منفی فرق نہیں پڑتا۔
قارئین کرام ! یہ بھی کوئی نیا رویہ نہیں ہے۔ ہم تاریخ کا سر سری مطالعہ کریں یا عمیق، ہمیں اس قسم کے واقعات جا بجا ملتے ہیں جن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عموماً لوگ کسی بھی تبدیلی کو ذرا مشکل سے ہی قبول کر تے ہیں اور جب بات سائنسی اور یا کسی قسم کی ایجاد کی آ جائے تو یہ صورتحال اور بھی زیادہ عجیب ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی سائنس دان یہ کہہ دے کے سو رج زمین کے گرد نہیں گھوم رہا ہے بلکہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو یہ بات عوام میں اس قدر نا پسندیدہ ہوتی ہے کہ اس بیچارے سائنس دان کو قید حیات سے ہی جان چھٹکارا مل جاتا ہے۔
چلیں چھوڑیں ہم کہاں آپ کو تاریخ اور سائنس کی پر پیچ گلیوں میں گھماتے رہیں گے اور آپ بھی ہمارے ساتھ ساتھ گھومتے رہیں گے اور پھر بعد میں شکوہ کریں گے کے اتنا گھما دینے کے بعد تو دودھ سے مکھن اور لسی علیحدہ علیحدہ ہو جاتے ہیں آپ کی لمبی چوڑی تمہید سے اصل بات بھی نہ نکل سکی۔ لہٰذا ہم تاریخ اور سائنس کی گلیوں سے گھومتے ہیں ان چیزوں کی طرف جن کے گواہ آپ میں سے اکثر لوگ خود ہوں گے۔ عوام کی طرف سے ان چیزوں کو فوری صرف مسترد کر دینا صحیح تھا یا غلط، یہ تو وقت نے ثابت کر ہی دیا کے مسترد کر دینے کے باوجود عوام ان کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئی لیکن ہمارا آپ سے صرف ایک سوال ہے کہ عوام نے ان ایجادات پر جو الزام لگائے کیا وہ غلط تھے ؟ عوام نے ان کو جو شیطانی ڈبہ کہا تھا کیا یہ الزام غلط تھا ؟ ہمیں یقین ہے کہ آپ بھی اس موقع پر وہی دلیل دیں گے جو ہم بھی اپنے مخا لفین کو زچ کرنے کے لئے دیا کرتے ہیں، یعنی یہ کہ کوئی بھی ایجاد خود صحیح یا غلط نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا استعمال صحیح یا غلط ہوا کرتا ہے۔ تو پھر ہمارا سوال یہ ہے کہ خود کش بمبار کی جیکٹ میں فٹ بم سے لے کر ایٹم بم تک کوئی ایسا بم بتا دیں جس کا استعمال سود مند بھی ہو۔ لیکن شاید ہم پھر اپنے موضوع سے ہٹ جائیں گے ہمارا سوال یہ نہیں ہے کہ کسی بھی چیز کی ایجاد سود مند ہے یا نہیں بلکہ ہمارا سوال یہ ہے کہ کسی چیز کی ایجاد پر اٹھنے والے اعتراضات کیا واقعی غلط ہوتے ہیں، کیا وہ واقعی بالکل بے وزن ہوتے ہیں ؟
مثلاً ٹی وی ریڈیو کی ایجاد پر جب یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ شیطانی ڈبے ہیں تو کیا وہ اعتراض بالکل ہی بے وزن تھے یا یہ اعتراض کرنے والے اپنی دور اندیشی کی وجہ سے ان کے دور رس اثرات کا تو اندازہ لگانے میں کسی حد تک کامیاب رہے لیکن اپنی کم مائے گی کی وجہ سے اپنا ما فی الضمیر صحیح انداز میں پیش نہ کر سکے۔ کیا آج ان کا یہ الزام صحیح نہیں ہو رہا ہے ؟ کچھ دیر کے لئے اپنے ملک ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلی بے چینی اور بد امنی پر ایک نظر دوڑائیں اور ہمارے اس سوال کا جواب دیں کہ کیا اس بے چینی اور بد امنی کے پھیلاؤ میں زیادہ حصہ اسی ٹی وی اور ریڈیو کا نہیں ہے ؟ پہلے دنیا بھر کے ٹی وی، ریڈیو ( اس کو ہم اختصاراً میڈیا کہہ لیں ) نے عراق پر عظیم تباہی والے ہتھیاروں کا الزام عائد کیا اور اتنا اتنا عائد کیا کے پوری دنیا اس کو سچ ماننے ہر مجبور ہو گئی پھر دنیا بھر کی فوجوں نے مل کر عراق کا پورا پہاڑ کھود ڈالا اور اندر سے ایک مرا ہوا چوہا بھی بر آمد نہ کر سکے۔ 9/11 کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پاکستان کا بیڑہ غرق کر دیا اور نکلا کیا ؟ صرف اسامہ بن لادن کی ایک مشکوک نعش۔ ۔ ۔ جس کا عینی شاہد بھی وہی ہے جو خود مدعی اور منصف بھی بنا ہے اور خود ہی ثواب بھی الٹا لے رہا ہے۔ کیا اب بھی آپ یہ نہیں مانیں گے کہ اس کو شیطانی ڈبہ کہنے والے کچھ زیادہ غلط نہیں تھے ؟
آج ہم اپنے مولویوں پر الزام دھرتے ہیں کہ انہوں نے تو لاؤڈ اسپیکر کو بھی ابتدائی طور پر یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ اس میں شیطان بولتا ہے لیکن جب مولویوں نے لاؤڈ اسپیکر کے مائیک کی طاقت دیکھی تو انہوں نے اسی مائیک کو ایسا پکڑا کے آج ہمارے ملک کی ہر ہر گلی میں دو چار مولوی یہ مائیک پکڑے بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک حد تک تو ہم بھی ان معترضین سے اتفاق کریں گے کے کئی بار لاؤڈ اسپیکر کا اتنا غلط استعمال ہوتا ہے کے اہل محلہ کی بیماری آزاری کا خیال کئے بغیر ہی لوگوں کی نیندیں اور آرام میں خلل پیدا کیا جاتا ہے۔ آج اگر ہم پرانے زمانے کے مولویوں کے اس اعتراض کو اگر یوں بیان کریں کہ مائیک میں شیطان بولتا ہے تو کیا یہ دعویٰ غلط ہو گا ؟اگر ہم یہ کہیں کے مائیک پر صادر کئے جاتے غیر مسلم کے الزامات اور فتوے در اصل شیطان کی ہی بولی تو ہے تو یقیناً ہماری ہاں میں ہاں ملانے کو پوری سول سوسائٹی، تمام اعتدال پسند اور ترقی پسندوں سمیت تمام ہی لوگ ہماری پشت پناہی کے لئے موجود ہوں گے۔ جب ہم یہ کہیں مائیک سے بٹنے والا ’’ملک دشمن‘‘ اور ’’ غدار‘‘ کا سرٹیفیکیٹ بھی تو در اصل شیطان ہی کی بولی ہے تو کتنے لوگ ہماری ہاں میں ہاں ملانے کو تیا رہوں گے ؟ اس کی گواہی آپ کا دل ہی دے گا کیا یہ بھی مائیک کے شیطان ہونے کے لئے کافی نہیں ہے کہ جب کسی ٹی وی کے ٹاک شو کا مائیک اتفاقاً ہمارے پاس آ جائے تو ہم پر اس ملک کی اتنی محبت غالب آ جاتی ہے کہ ہم اپنی جان بھی اپنے ملک کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں، لیکن جب واپس گھر میں آتے ہیں تو سب سے پہلا شکایتی فون اپنے کیبل آپریٹر کو ہی کرتے ہیں کے میرے گھر کا کنکشن چیک کرو اسٹار پلس ٹھیک طریقے سے نہیں آ رہا ہے یا تم نے اچھا بھلا سونی ٹی وی کو ۱۲ نمبر پر سیٹ کیا ہوا تھا یہ آج اچانک ۱۹ نمبر پر کیوں کر دیا ؟ کیا تم کو اندازہ ہے تمہاری اسی حرکت سے مجھے کتنی ذہنی کوفت ہوتی ہے ؟
کیا خیال ہے آپ کا اگر ہم آج کے اس eمیل، eٹکٹ، eبینکنگ اور eفائلنگ کے اس دور میں ہم اِس مائک کو مائک کی بجائے ’’e شیطان‘‘ کہنے میں حق بجانب ہوں گے ؟؟؟
٭٭٭
کتاب میلے میں حُسن کے ٹھیلے اور گردن میں سریا
نسیم سحر
نیشنل بک فاؤنڈیشن کا سجایا ہؤ اسالانہ سہ روزہ کتاب میلہ جس خوبصورتی سے آغاز ہوا تھا اسی کے ساتھ اختتامی تقریب تک پہنچا۔ شاعر نے تو کہا تھا ’’آتے ہوئے اذاں ہوئی، جاتے ہوئے نماز‘‘، مگر یہاں آتے ہوئے بھی تقریر ہوئی اور جاتے ہوئے بھی۔ آتے ہوئے یعنی افتتاحی تقریر صدر مملکت جناب ممنون حسین نے فرمائی جبکہ اختتامی تقریر وفاقی وزیر جناب عرفان صدیقی نے کی جنہوں نے یہ عہدہ قبول کرنے کے بعد سے ہمیں اپنے انتہائی عمدہ مسجع و مقفیٰ نثر پاروں سے یکسر محروم کر دیا ہے ورنہ سچ یہ ہے کہ ہم ان کے کالم پڑھ کر ان کی اردو دانی کی بے حد داد دیا کرتے تھے۔ کاش وہ سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے بھی کالم لکھتے رہیں، جیسے ہمارے کچھ اور دوست باقاعدگی سے کر رہے ہیں۔ تو خیر، بات ہو رہی تھی صدر ممنون حسین کی تقریر کی، جو اس لحاظ سے ’’قندِ مکرّر کا درجہ حاصل کر گئی کہ وہی تقریر انہوں نے ادیبوں کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ میں بھی کی جس میں شاید ’’چنیدہ ادیبوں ‘‘ ہی کی شرکت ہو سکی کہ راولپنڈی اسلام آباد کے بیشتر سینئیر ادیب اس سرکاری لنگر سے محروم ہی رہے۔ ہم تو خیر کسی گنتی میں آتے ہی نہیں کہ اسی دوپہر کو کتاب میلے کے شرکاء کے لئے مہیّا کئے جانے والے لنچ میں بھی شرکت کا شرف طعام گاہ پر ڈیوٹی دینے والے ایک بدتمیز سیکورٹی گارڈ کی وجہ سے حاصل نہ ہو سکا کیونکہ اس وقت عزت مآب عرفان صدیقی صاحب بھی اندر کھانا تناول فرما رہے تھے اور ان کی سیکورٹی پر ہم جیسے سینکڑوں ادیبوں کے خالی معدوں کو قربان کیا جا سکتا تھا۔
صدر ممنون حسین نے اپنی تقریر میں کیا کہا اور جناب عرفان صدیقی نے کیا کہا، یہ جاننے کے لئے پچھلے سال اور اس سے پچھلے سال ہونے والے ایسے ہی کتاب میلوں کی تقاریر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ البتّہ اِس سال اپنی تقریر کے دوران صدر ممنون حسین لکھی ہوئی تقریر سے قدرے ہٹ کر کرپشن اور دیگر کئی مسائل پر کچھ ایسی باتیں بھی کہہ گئے جنہیں یار لوگ نون لیگ کی حکومت کے خلاف کہہ رہے ہیں، حالانکہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ ابھی کچھ دن پیشتر پی ٹی وی کے چیئرمین جناب عطاء الحق قاسمی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی میں اپنے اختیارات کے بارے میں بڑی معنی خیز بات کہہ گئے کہ ’’میرے اختیارات وہی ہیں جو صدر مملکت ممنون حسین کے ہیں ‘‘۔ اب یہ اندازہ پڑھنے والا خود لگا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات بہت زیادہ ہونے کی بات کی تھی یا صدر ممنون حسین کے اختیاراتِ بے اختیارانہ کی بات کہی تھی۔ ہماری خوش فہمی ہے کہ ہم صدر ممنون حسین کے اختیارات کو عطاء الحق قاسمی کے اختیارات جتنا نہیں سمجھ رہے بلکہ عطاء الحق قاسمی کے اختیارات کو صدر مملکت کے اختیارات جتنا سمجھ رہے ہیں۔ اور اِس کی دلیل میں ان کے جاری کردہ فرمان کا حوالہ دیتے ہیں جس کے تحت ایک مرتبہ پھر پی ٹی وی کی نیوز کاسٹرز کے لئے دوپٹہ اوڑھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ (یہاں ’’کی نیوز کاسٹرز ‘‘ کے الفاظ ہیں، مرد نیوز کاسٹرز پر ایسی کوئی پابندی نہیں !)۔
یارو، پی ٹی وی کی نیوز کاسٹرز پر ایسی پابندیاں لگ گئیں، اچھا ہوا، مگر خدا کا شکر ہے کہ کتاب میلے میں شریک خواتین پر ایسی کوئی پابندی نہیں تھی جن میں سے کئی خواتین (کچھ دو اور تین نمبر شاعرات سمیت) تو باقاعدہ حسن کے ٹھیلے کی طرح سج دھج اور بن ٹھن کر میلے میں شریک ہوئی تھیں اور جو کسی بھی معروف ادیب و شاعر کے ساتھ اپنی سیلفیاں بنوانے میں اِتنی زیادہ مصروف تھیں کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ کون سے ہال یا کمرے میں کون سا ادبی پروگرام چل رہا ہے۔ یہاں فلمسٹار ریما خان کا ذکر ان کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ان کی ادب نوازی اور ادبی ذوق کے حوالے سے بھی ضروری ہے جو کچھ ایونٹس میں عطاء الحق قاسمی کے ساتھ سٹیج پر بڑے طمطراق سے جلوہ افروز تھیں، اور کتاب خوانی میں انہوں نے جس روانی اور عمدہ تلفظ کے ساتھ جناب عطاء الحق قاسمی کی ایک تحریر پڑھی اس نے تحریر کا لطف دوبالا کر دیا۔ کتاب میں سے یہ چھپی ہوئی پوری تحریر پڑھتے ہوئے انہیں جو لفظ بہت مشکل لگا اور جس پر وہ بری طرح اٹک گئیں اور جس پر مردِ بحران محبوب ظفر فوراً ان کی مدد کو آئے وہ ’’برادرم‘‘ تھا !قارئین اس لفظ کی گہرائی میں جتنا اتریں گے اتنا ہی ریما کی اس پر اٹکنے کی ادا پر لطف اندوز ہوں گے۔
جناب عطاء الحق قاسمی نے اس کتاب خوانی کے سیشن میں جو مضمون اپنی کلیات میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھا وہ اپنی جگہ خاصے کی چیز تھا کہ یہ ایک ریٹائرڈ طوائف کی طرف سے اپنی بیٹی کو لکھا گیا ایک خط تھا جو کہ ’’ورکنگ طوائف‘‘ تھی۔ اس کے ایک ایک جملے پر سامعین نے جس طرح داد دی اس سے اس شہپارے کی عمدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ البتّہ ہمارے ایک ساتھی کو اعتراض تھا کہ ریما خان کو سامنے بٹھا کر ایسا مضمون نہیں پڑھنا چاہئے تھا۔
کتاب خوانی کے اس سیشن میں شرکت کر کے اور بعد میں بھی ہم پر جناب عطاء الحق قاسمی کے ایک اور وصف کا واضح طور پر انکشاف بھی ہؤا کہ پی ٹی وی کا چیئرمین بننے کے باوجود اُن کی گردن میں سریا پڑنے کی کوئی علامات دکھائی نہیں دیں۔ سیشن کے دوران وہ اپنے بائیں طرف بیٹھے ہوئے صاحبِ صدر کو مسلسل نظرانداز کر کے اپنی دائیں طرف بیٹھی ہوئی ریما خان کی طرف ہی جھک جھک کر باتیں کرتے رہے، ظاہر ہے اگر گردن میں سریا ہوتا تو وہ اتنا کیسے جھک سکتے تھے ؟ اور سیشن میں شرکت کے بعد انہوں نے جس طریقے سے ہماری طرف بڑھ کر معانقہ کیا اس سے تو ہمارا یہ یقین مزید محکم ہو گیا کہ واقعی ان کی گردن میں ہر گز سریا نہیں ہے۔
٭٭٭
یومِ تکبیر کا ہیرو
کے ایم خالد
اُسے بچپن سے ہی مشہور ہونے کی خواہش تھی اپنی اس خواہش کے احترام میں وہ کچھ نہ کچھ نیا کرتا رہتا تھا لیکن وہ دن نہیں آ رہا تھا کہ جب اس کا نام پوری دنیا میں گونجے۔ ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پٹھو گرم کھیل رہا تھا کہ ساتھ والی گلی کے بچوں کی ٹولی نعرہ تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ادھر سے گزری وہ بھی اس ٹولی میں شامل ہو گیا۔ اسے پتہ چلا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر دیئے ہیں ایک جذبہ تھا جو گلی محلوں میں جاگ اٹھا تھا قومی ترانے جذبات کو بڑھاوا دے رہے تھے اور وہ انہی ٹولیوں کے ساتھ نعرہ تکبیر کے نعرہ کا جواب دیتا۔ حکومت نے ایٹمی دھماکوں کے دن کو ایک قومی نام دینے کا سوچا اخبارات ریڈیو، ٹی وی پر حکومت کی طرف سے پوری قوم کو اس دن کے نام کے انعامی مقابلے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا اس کے باپ نے اپنے آٹھ سال کے بیٹے سے پوچھا ’’ تمہارے خیال میں اس دن کا کیا نام ہونا چاہئے۔ ۔ ؟‘‘ اس نے اپنے دیدے گھمائے اور کہا ’’پٹاخے ‘‘
’’او نیں کاکے۔ ۔ ! پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے ہیں اس دن کا نام رکھنا ہے ہو سکتا ہے تمہارا رکھا ہوا نام حکومت کو پسند آ جائے تم دنوں میں پوری دنیا میں مشہور ہو جاؤ گے ‘‘۔
’’ پاکستانی دھماکے، کیسا رہے گا۔ ۔ ۔ ؟‘‘۔
’’اچھا جو تم نعرہ لگا رہے تھے وہی نام نہ رکھ دیں ‘‘۔
’’ نعرہ تکبیر ‘‘اس نے حیرانی سے کہا
’’نہیں یوم تکبیر ‘‘۔
اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی یوں گردن ہلائی جیسے سمجھ گیا ہو۔ یوں یوم تکبیر فائنل کر کے خط بھیج دیا گیا اب انتظار تھا اس کے جواب کا گلی کے ڈاکیے نے اس گلی سے ہی گزرنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ روزانہ جواب دے دے کر زچ آ گیا تھا لیکن وہ بھی دھن کا پکا تھا کسی نہ کسی گلی میں ڈاکیے کو پکڑ ہی لیتا تھا اور پھر ڈاکیا ہوتا اور اس کا پروگرام ہوتا ’’جوابدہ ‘‘۔
اب تو اس کا پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا تھا اور پھر ایک دن ڈاکیا اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا ایک خط تھا جو حکومت کی طرف سے تھا ڈاکیے نے اسے شاباش دے کر اس سے پانچ روپے کا نوٹ شاباشی میں لیا تھا اس کے ابا نے خط پڑھ کر اسے بتایا کہ حکومت نے اس کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے پاکستان کے ایٹمی دن کا نام یوم تکبیر رکھا اب جلد ہی حکومت اسے انعام و اکرام سے نوازنے کے اسلام آباد بلائے گی پھر ایک دن اس نے خبر نامے میں یہ خبر دیکھی کہ ایک رنگ ساز کو یوم تکبیر کا نام رکھنے پر ایک لاکھ روپے حکومت کی طرف سے دیئے گئے ہیں۔ اس نے اپنے ابا سے گلو گیر لہجے میں کہا ’’یہ بیمانچی ہے، نام میں نے رکھا اور انعام کسی اور کو دے دیا ‘‘۔
’’کاکے۔ ۔ ! تمہارا انعام انہوں اپنے پاس رکھ لیا ہے کیونکہ تم ابھی چھوٹے ہو جب تم بڑھے ہو جاؤ گے وہ تمہیں تمہارا انعام واپس کر دیں گے ‘‘۔
’’میں اس شخص سے اپنا انعام واپس لوں گا ‘‘۔
’’ او یار، اس شخص سے نہیں حکومت سے۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے کسی دن حکومت ایک خط لکھ کر تمہیں اسلام آباد بلا لے بس تم ذرا اپنے ڈاکیے پر نظر رکھو‘‘۔
اس نے ڈاکیے پر نظر رکھنی شروع کر دی اس روز روز کی تھانیداری پوچھ گچھ سے ڈاکیا اس کے علاقے سے اپنا تبادلہ کروا گیا اور پھر تو یوں جیسے تبادلوں کی لائن ہی لگ گئی ہو آخر محکمہ ڈاک کو ایک جوان سال ڈاکیا تعینات کرتے ہوئے اس کی تعیناتی کے احکامات میں یہ لکھنا پڑا کہ تمہاری ریٹائرمنٹ تک تمہاری ڈیوٹی اسی علاقے میں رہے گی۔
یہ بات اس کے ساتھ ہی جوان ہوئی کہ حکومت نے اس بتایا ہوا نام تو رکھ لیا لیکن اس کے عوض کچھ نہیں دیا اب وہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی کہ یوم تکبیر کا نام رکھنے والے سینکڑوں میں ہیں، قرعہ اندازی میں نام صرف رنگساز کا ہی نکلا تھا جسے حکومت نے انعامی رقم دی باقی سب کو سرٹیفیکیٹ دے دیئے گئے تھے وہ سر پر جناح کیپ رکھے اپنے ’’حق ‘‘ کی خاطر کوشش کر رہا ہے اب اس کا ٹارگٹ انعامی رقم نہیں بلکہ پاکستان کے قومی ہیروز کی فہرست میں نام اور ایک سرکاری ملازمت ہے جس کے لئے تعلیم اس نے دیار غیر سے لی ہے۔ اپنے ’’حق‘‘ کے اس سفر وہ شمالی علاقہ جات میں بھی ہو تو پھر بھی گھر فون کر کے ضرور پوچھ لیتا ہے کہ ڈاکیا کوئی سرکاری خط تو لے کر نہیں آیا۔
اس کی آنکھ کسی کھٹکے سے کھلی تھی کمرے میں زیرو بلب کی نیلگوں روشنی پھیلی ہوئی تھی اس نے آنکھیں ملتے ہوئے دیکھا کوئی جناح کیپ پہنے کھڑا تھا وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا اس کے منہ سے نکلا ’’ او جناح صاحب خود تشریف لائے ہیں، دیکھیں جناح صاحب آپ کے دیس میں میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ‘‘۔
’’ میں تمہارا رفیق ہوں دوست، تمہارا ضمیر تمہارا بوجھ ہلکا کرنے آیا ہوں ‘‘۔
’’ تم جانتے ہو مجھے تمہاری ضرورت نہیں کیوں تنگ کرنے آ جاتے ہو۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
’’میں تمہیں اصل بات بتاتا ہوں بات در اصل یہ ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’تو یوں نہیں مانے گا ‘‘۔ اس نے بیڈسے اتر کر الماری کھول کر اس میں سے ایک لمبی سرنج اورٹیکہ نکالا تھا۔
’’اچھا چلا جاتا ہوں ‘‘۔ ضمیر نے گھبرائے ہوئے جناح کیپ اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا ’’پہلے ہی ٹیکے سے ایک مہینے بعد کچھ اوسان بحال ہوئے تھے ‘‘۔
اس کی آنکھ کیوں کھلی اسے کچھ یاد نہیں تھا وہ شاید سوتے وقت بلب بند کرنا بھول گیا تھا کمرے میں تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی جناح کیپ اس کے سر پر تھی جو وہ رات بغیر اتارے سو گیا تھا کمرے میں ضمیر کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
٭٭٭
عقرب ادیب شاعر اور صحافی دانشور
میم سین بٹ
عقرب برج رکھنے والے ادیب، شاعر اور صحافی دانشور بڑے متلون مزاج اور بے حد جذباتی ہوتے ہیں یہ جلد غصے میں آ جاتے ہیں اور محض ذرا سی بات پر مشتعل ہو کر فوراً مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں چونکہ بڑے گرم مزاج بلکہ گرم دماغ ہوتے ہیں اور ان کا موافق رنگ سرخ جبکہ نشان بچھو ہوتا ہے اس لئے ان سے ذرا بچ کر رہنا چاہیے کیونکہ یہ پیدائشی طور پر ہائی بلڈ پریشر کے مریض سمجھے جاتے ہیں، بحث و تکرار سے ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور پھر یہ بیحد غضبناک ہو جاتے ہیں اپنی تخلیقات پر تنقید تو بالکل ہی برداشت نہیں کر سکتے اور اگر کوئی یہ غلطی کر بیٹھے تو پھر اسے فوراً مزا چکھا دیتے ہیں۔ یہ جسمانی طور پر مضبوط اور عموماً بھاری بھرکم جثے کے حامل ہوتے ہیں ہر معاملے میں بالا دست رہنا پسند کرتے ہیں اور اکثر لڑ بھڑ کر اس میں کامیاب رہتے ہیں انہیں شکست کسی بھی قسم کی پسند نہیں۔
دشمن کی طرح بیماری سے بھی نہیں گھبراتے اور اپنی اپنی مضبوط قوت ارادی کے باعث بیماری کو بھی شکست فاش دے دیتے ہیں، چھوٹی موٹی بیماریاں خود بھی ان سے دور رہتی ہیں ڈاکٹرز اور حکیموں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، کھانا ان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے بڑے خوش خوراک ہوتے ہیں ڈٹ کر کھاتے ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں جس کے باعث عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر یہ دمہ اور تبخیر معدہ جیسے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں بلکہ یہ بیماریاں جلد ہی انہیں عمر کے آخری حصے میں پہنچا دیتی ہیں ویسے یہ اپنی عمر سے بہت چھوٹے نظر آتے ہیں آپ انہیں برخوردار سمجھ کر ملیں گے مگر بعد میں آپ کو اس انکشاف پر سخت شرمندگی کا احساس ہو گا کہ آپ تو خود ان کے برخورداروں کے ہم عمر ہیں۔
بیشتر عقرب دانشور بڑے ہی خودپسند اور خود دار ہوتے ہیں کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کرتے، شدت پسند طبعیت کے باعث میانہ روی کے قائل نہیں ہوتے، دوستی اور دشمنی میں بہت آگے تک چلے جاتے ہیں، دشمن ہی نہیں کسی قسم کا اختلاف رائے رکھنے والے دوستوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔ ان میں برداشت کا مادہ بہت کم بلکہ برائے نام ہی پایا جاتا ہے کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے بدزبانی میں تو کوئی دانشور ان کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتا چونکہ یہ بڑے منہ پھٹ نقاد ہوتے ہیں اس لئے ادبی مخالفین ہی نہیں قریبی احباب بھی ان سے محتاط بلکہ کسی حد تک خائف رہتے ہیں اپنی زبان درازی کی بدولت یہ اکثر نقصان بھی اٹھاتے ہیں لیکن انہیں اپنے نفع و نقصان کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اپنی بدزبانی پر قابو پانے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ اگر کوشش بھی کریں تو اس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کی زبان ان کے قابو سے باہر ہوتی ہے۔
ہمیشہ پسندیدہ لوگوں میں گھرے رہنا پسندکرتے ہیں اورناپسندیدہ لوگوں کو اپنے قریب ہی نہیں پھٹکنے دیتے قدرے بلکہ بہت زیادہ مغرور بھی ہوتے ہیں دوسروں کی کوئی کوئی پرواہ نہیں کرتے البتہ خود کو نظر انداز کیا جانا برداشت نہیں کر سکتے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹ جاتے ہیں خواہ ان کا موقف غلط ہی کیوں نہ ہو اور اکثر ان کا موقف غلط ہی ہوتا ہے، اگر کسی محاذ پر ڈٹ جائیں تو انہیں ان کے مقام سے ہٹانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے، دیگر دانشوروں کے برعکس لڑائی جھگڑے سے نہیں گھبراتے دوسروں کو لڑتے جھگڑتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اپنی خوشی کی خاطر دوسروں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں۔ بڑے شکی مزاج بلکہ حد سے زیادہ وہمی ہوتے ہیں کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتے ہر کسی کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اپنے معاملات کو راز میں رکھنے کے عادی ہوتے ہیں دل کی بات اور ارادوں کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے، بڑے ہی تجسس پسند ہوتے ہیں اوراسرار و رموز میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں، جاسوسی ناول شوق سے پڑھتے ہیں، یہ پرکشش شخصیت کے مالک ہوتے ہیں دوسروں کو بہت جلد اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں اور جو متوجہ نہیں ہوتے انہیں خود بھی نظر انداز کر دیتے ہیں، شو باز اور شوقین مزاج بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ادب کے ساتھ ساتھ شوبز اور سیاسی معاملات میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں ادبی، سیاسی اور ثقافتی موضوعات پر گھنٹوں بول سکتے ہیں بلکہ ہر وقت بولتے ہی رہتے ہیں اور دوسروں کی کم سنتے ہیں انہیں پیدائشی دانشور قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ تیز تیز بولتے اور تیز تیز ہی چلتے ہیں اس کے باوجود ان کے لیے وقت پر کہیں پہنچنا اور وعدہ نبھانا بیحد مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے ان کے وعدے پر اعتبار کرنے والے ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہتے ہیں، عقرب افراد یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتے ہیں اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتے رہتے ہیں، یہ حاسد بھی بڑے اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں حسد کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے کسی کو خود سے آگے نکلتے نہیں دیکھ سکتے اور جو کوئی ان سے آگے نکلنے کی کوشش کرے اسے منہ کے بل گرا دیتے ہیں، زبانی کلامی تو جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں مگر اپنے عملی اقدامات کے ذریعے آمریت پسندی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں در اصل یہ برج ہی آمروں کا سمجھا جاتا ہے دنیا کے مشہور سابق فوجی اور سول آمر حکمرانوں ہٹلر، ڈیگال، سکندر مرزا، صدام حسین، مارگریٹ تھیچر، اندرا گاندھی کے علاوہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا برج بھی عقرب ہی تھا۔
عقرب دانشور زندگی گزارنے کے لیے اپنے راستے خود چنتے ہیں، اپنے اصول اور ضابطے وغیرہ بھی خود بناتے ہیں دوسروں کے اصولوں یا مشوروں کو اہمیت نہیں دیتے اور جو کوئی انہیں زبردستی مشورہ دینے کی غلطی کر بیٹھے وہ پھر ساری عمر پچھتاتا رہتا ہے اور اس کے بعد کسی کو مفت مشورہ دینے کی جرات نہیں کرتا، جھگڑا لو طبعیت کی وجہ سے عقرب افراد کے لیے کسی کی ماتحتی میں کام کرنا بیحد مشکل ہوتا ہے کیونکہ اپنے کام پرکسی قسم کی نگرانی اور ضابطوں کی پابندی بالکل برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے کاموں میں دوسروں کی مدد طلب کرتے ہیں چونکہ غصہ ہر وقت عینک کی طرح ان کی ناک پر رکھا رہتا ہے لہٰذا صرف وہی لوگ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ گزارا کر سکتے ہیں جو انہیں غصہ نہ دلائیں، عقرب ادیب، شاعر، دانشور زیادہ تر درس و تدریس، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور دیگر تحریر و تحقیق کے شعبوں سے منسلک ہوتے ہیں اورجس کسی پروفیسر، ادیب، شاعر، ڈرامہ نویس، نقاد، محقق، کالم نگار اور صحافی کو آپ شکی، وہمی، جلد باز، بدمزاج، انتہا پسند، خود غرض، ضدی، ہٹ دھرم اور مطلق العنان پائیں تو سمجھ لیں کہ اس کا برج ضرور عقرب ہو گا۔
٭٭٭
نظمالوجی
سی ایل آئی
شہاب ظفر
فون اُٹھایا تو وہ بولی
’’میرے دلبر! میرے ساجن!!‘‘
(کون ہے یہ بیہودہ لڑکی
ختم ہوا نہ جس کا بچپن)
’’شغل ہے میرا کالیں کرنا
مل گیا نمبر آپ کا فوراً
آن بسو تم من کے اندر
سُونا ہے یہ دل کا آنگن‘‘
’’نمبر دو پھر بات کروں گا
پیش ابھی ہے کچھ مجھے الجھن‘‘
’’لگتی ہوں میں اِتنی بھولی
اچھا ہے ون۔ وے کمنی کیشن
پھنس جاؤں گی دے کر نمبر
کٹوا دو گے میرا کنکشن‘‘
کیسے میں اُس کو بتلاتا
پھنس تو گئیں تم جان کی دشمن
کیونکہ میں نے لگا رکھی تھی
کالرز لائن آئی ڈینٹی فکیشن
٭٭
شوہر اور جانور
شوہر و جانور میں تعلق بلا کا ہے
اِک ہے زباں دراز تو اِک بے نوا سا ہے
جنگلی بھی شوہر ہوتے ہیں اور پالتو سے بھی
کچھ جانور ہیں کام کے کچھ فالتو سے بھی
کچھ animals سے تو بظاہر یہ ہلکا ہے
گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ملکہ ہے
بیوی کبھی مطالبہ جو مہر کا کرے
گیدڑ کی طرح شوہر بھی رُخ شہر کا کرے
بیوی اور ماں کے بیچ میں فٹبال بن گیا
دھوبی کا کتا جس طرح گھر کا نہ گھاٹ کا
کچھوے کی طرح جاتا ہے سسرال کی طرف
خرگوش بن کے لپکے حسیں مال کی طرف
شوہر کے گھر نہ چاہیئے بیگم کو خیر کیا؟
دریا میں رہ کے رکھے مگرمچھ سے بیر کیا؟
ڈھلتے ہی شام گھر سے تو بھاگا کرے ہے وہ
الّو کی طرح رات کو جاگا کرے ہے وہ
سالے سے اور سالیوں سے بھی ملتا ملاتا ہے
ساس اور سسر کے سامنے وہ منمناتا ہے
سرگرمیوں پہ اس کی جو بیوی کو شک گیا
چوہے کی طرح پھرتی سے بِل میں دُبک گیا
شوہر کے پاس گُر تو ستانے کے اور ہیں
کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں
شوہر کو ایک پہلو پہ یوں بیٹھنا پڑا
سیدھی ہے اس کی کون سی کل دیکھنا پڑا
شوہر کی بیگمات ہوں قسمت سے دو یا تین
اُن کو بجانی بھینس کے آگے ہے پھر تو بین
ویسے تو اس پہ غصہ کئی بار آ گیا
بلی کی طرح پھر بھی کبھی پیار آ گیا
شاپنگ کا گر پلان میاں نے بدل دیا
چیونٹی سمجھ کے بیوی نے پل میں مسل دیا
اس کو تم اپنے ڈھب سے یونہی ہانکتے رہو
کھوتے کی طرح اس پہ وزن لادتے رہو
اِن خصلتوں کے بعد بھی respect ہی نہیں
قانون میں تو شوہری کا act ہی نہیں
بہبودِ شوہراں کوئی اسکیم تو بنے
اِن کے حقوق کی کوئی تنظیم تو بنے
٭٭٭
محمد خلیل الرّحمٰن
طفلِ شیر خواب کا جواب
تو نے موبائیل جو چھینا ہے تو چلاتا ہوں میں
یوں تجھے اپنے تئیں نامہرباں سمجھا ہوں میں
کیوں رُلاتا ہے مجھے تو بار بار اے نوجواں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
آہ ! کیوں مجھ کو رُلانے سے تجھے یوں پیار ہے
کھیلنا کیا تیرے موبائیل سے اِک آزار ہے ؟
گیند ہے میری کہاں، چینی کی بلی ہے کدھر؟
وہ ذرا سا جانور، ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر
ہاں ! کھلونوں میں یونہی مصروف میرا دِل رہے
اور ہمیشہ ہاتھ میں تیرے یہ موبائیل رہے
کھیلتا رہتا ہے موبائیل سے اپنے ہر گھڑی
اور ایسے کھیل میں اب تجھ کو میری کیا پڑی
آج تک ہر شے کو میرے واسطے لاتا رہا
میری خاطر اپنے دِل کو یونہی بہلاتا رہا
آج تجھ کو ایک موبائیل میسر آ گیا
آرزوؤں پر تری اِک خواب بن کر چھا گیا
چھا گیا ہر خواب پر مثلِ غبارِ آرزو
آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرارِ آرزو
ہاتھ کی جنبش میں، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے
دیکھنے والا ہر اک اس حسن کا گرویدہ ہے
ہاتھ میں لے لوں، بگڑ کر مجھ سے چلاتا ہے تو
چھینتا ہے مجھ سے فوراً، اور من جاتا ہے تو
آہ اس عادت میں ہم آہنگ ہے تو بھی مرا
میں تلوّن آشنا، تو بھی تلوّن آشنا
تیری آنکھوں کو لبھا لیتا ہے حسنِ ظاہری
کم نہیں کچھ میری نادانی سے نادانی تری
میری صورت گاہ خنداں، گاہ گریاں تو بھی ہے
دیکھنے کو نوجواں ہے، طفلِ ناداں تو بھی ہے
٭٭٭
ڈاکٹر مظہر عباس رضوی
موٹر سائکل
نہ موٹر کار جیسی ہے نہ ہے یہ سائیکل جیسی
یہ موٹر سائیکل ہے صرف موٹر سائیکل جیسی
بُلند و پَست یکجا کر کے کیا صورت نکالی ہے
مِڈّل طبقے کی یہ گویا مخنث اِک سواری ہے
غرور و کِبر و نَخوت سے نہ کوئی واسطہ اِس کا
فقط بیچارگی کا، عجز کا ہے راستہ اِس کا
جگہ کم ہے مگر دل کی فراخی کا یہ عالم ہے
لدی ہے فیملی پوری سفر کا شوق پیہم ہے
میاں بیوی اور ان کے چار بچے اسطرح لٹکیں
دکھاتے ہوں تماشا جیسے ’’جوکر‘‘ کوئی کرتب میں
یہ موٹر سائکل صورت نئی ہے گھڑ سواری کی
ہے جس کی ہارس پاؤر ایک سو بیس اسَپِِ تازی کی
سفر میں دھول کھاتی ہے، بہت مٹی اُڑاتی ہے
سواروں کا بہت عمدہ یہ میک اپ بھی کراتی ہے
سنواریں زلف کو کیسے نہیں کچھ اختیار اپنا
اُڑاتی ہے یہ بال ایسے لگے شاعر سوار اِس کا
سفر کے ساتھ اِتنی دُور تک گردِ سفر جائے
کہ موٹر سائکل والے سے آئینہ بھی ڈر جائے
اٹی ہے دھول چہرے پر کہ ویرانی نہیں جاتی
کہ اب تو شکل بھی خود اپنی پہچانی نہیں جاتی
غرض مجنوں کی صورت سوئے دفتر ایسے جاتے ہیں
کہ بچے دیکھ کر ہنستے ہیں اور سیٹی بجاتے ہیں
مگر بچّوں کی سیٹی سے بھلا ہو خوف کیوں ہم کو
سپاہی کو اگر دیکھیں تو سِٹّی گم ہماری ہو
چمک اٹھے پولس والوں کا چہرہ دیکھ کر ہم کو
پھڑک اٹھے رگِ رشوت تو چلائیں رکو، ٹھہرو
پجارو پہ نہیں چلتا ہے بس، یوں خوار بیٹھے ہیں
پکڑنے کو ہمیں ہر دم مگر تیار بیٹھے ہیں
بہانے سو طرح کے پاس ان کے ہیں مفر کب ہے
بِنا چالان ہر گز کوئی بھی بخشش نہیں اب ہے
وہ سو کے نوٹ پہ قائد کو دیکھیں تو سلامی دیں
اور اس کے بعد ہی ہم کو نویدِ خوش خرامی دیں
ہر اک چورا ہے ہر اک موڑ پہ نذرانہ دیتے ہیں
یہ ماہانہ نہیں بھتّہ کہ ہم روزانہ دیتے ہیں
بنایا ہم کو موٹر سائیکل نے دید کے قابل
دیا جرمانہ عیدی کا رہے کب عید کے قابل
سُبک رفتار موٹر سائیکل ہے غرغراتی ہے
خراماں گامزن ہو کوئی یہ ’’ ہورَن‘‘ بجاتی ہے
بڑی مشہور ہیں ہر سمت دہشت گردیاں اس کی
پولس والے بھی کانپیں دیکھ لیں گر پھرتیاں اس کی
کیا ہے جرم موٹر سائیکل پہ کیونکہ مجرم نے
لگی پابندی ’’ڈبلِنگ‘‘ پہ کیا انصاف ظالم نے
نہ پکڑا جا سکا ملزم تو موٹر سائیکل مجرم
ہوئی برباد سب نیکی گُنہ بس ہو گیا لازم
عجب منطق یہاں پر ہے مضر ہر چیز اب ٹھہری
لگے گی کل سے قدغن دیکھنا چاقو چھری پر بھی
ڈبل پہ جب سے پابندی لگی ہم ہو گئے تنہا
خدا ہو حامی و ناصر غریبوں کی سواری کا
٭٭٭
عابی مکھنوی
بابا لندن میں دل نہیں لگتا
’’بابا لندن میں دل نہیں لگتا‘‘
ڈیڈی پیرس بھی اب نہیں بھاتا
جتنے ساحل ہیں چھان مارے ہیں
مہنگے ہوٹل بھی بور کرتے ہیں
گوری پریاں عذاب لگتی ہیں
بابا بچپن کے دِن وہ اچھے تھے
دِل بہلتا تھا جب کھلونوں سے
اُف جوانی میں ایسی اُکتاہٹ !!
کیا کروں کیسے دِل کو بہلاؤں !!
مُنے ایسی بھی کیا ہے مایوسی !!
بیٹا جُگ جُگ جیے یہ پیارا وطن
سوہنی دھرتی کو رب رکھے آباد
پیشہ باقی رہے سیاست کا !!
تیرے بابا کے اِک اشارے پر !!
کُتے بِلے کروڑ نکلیں گے
اُن کو آپس میں پھر لڑائیں گے
چھوڑو مغرب میں کچھ نہیں رکھا
جب کبھی دِل تِرا یہ اُکتائے !!
آؤ کھیلو غریب لوگوں سے
اپنا دھندہ یہی ہے جانِ پِدر !!
آؤ بیچو غریب لوگوں کو !!
٭٭٭
احمد علوی
ساتویں شیروانی
پانچویں دلہن میاں گھر لائے سہرا باندھ کر
بے وقوفی پر نہیں شرمائے سہرا باندھ کر
گھر کے اندر جیسے ہی دلہن نئی داخل ہوئی
چار برقعوں پر اچانک ہی نظر اس کی پڑی
دیکھ کر برقعوں کو غصّے میں چھبیلی ہو گئی
گھونگھٹ اٹھنے سے ہی پہلے لال پیلی ہو گئی
ہو بیاں ان چار برقعوں کی کہانی مختصر
چار برقعے جو ٹنگے ہیں شان سے دیوار پر
پوچھا دلہن نے بتاؤ چار برقعے کس کے ہیں
اتنے دلکش ریشمی رنگدار برقعے کس کے ہیں
دست بستہ ہو کے شوہر نے دیا اس کو جواب
اے شریکِ زندگی اے آفتاب و ماہتاب
ایک ہے رضیہ کا برقعہ دوسرا مہناز کا
تیسرا شبنم کا ہے اور چوتھا ہے ممتاز کا
ہو گئیں اللہ کو پیاری میری چاروں بیویاں
وہ بچاری قبر میں ہیں صرف برقعے ہیں یہاں
پانچویں برقعے کا ہے ان کھونٹیوں کو انتظار
پانچواں برقعہ تمہارا ہی ٹنگے گا اب کی بار
بولی دلہن آپ کو شاید نہیں ہے یہ خبر
اب کے یہ برقعہ نہیں ! ہے شیروانی داؤ پر
چار برقعے ٹانگ کر ہی اتنا اتراتے ہیں آپ
بیویوں کو اپنی قبرستان پہنچاتے ہیں آپ
جو بیاہ کر لائے ہو اس بار شرمیلی دلہن
آپ کی اس شیروانی کو بنا دے گی کفن
سابقہ مرحوم شوہر کی نشانی ٹانگ کر
آپ کے گھر آئی ہوں چھ شیروانی ٹانگ کر
ختم برقعے کی نہیں ! ہو گی کہانی آپ کی
ساتویں نمبر پہ ہے یہ شیروانی آپ کی
٭٭٭
عبدالحکیم ناصف
الل ٹپ
گھر میں مرے اِک طُرفہ تماشا ہے اَلل ٹَپ
ہر دوسرا ، ہر تیسرا بکتا ہے اَلل ٹَپ
میں نے تو یہ سمجھا مرا بیٹا ہے اَلل ٹَپ
بیٹا یہ سمجھتا ہے کہا بّا ہے اَلل ٹَپ
تائی نے بتایا ترا تایا ہے اَلل ٹَپ
چَچّی نے کہا چونک کے چچّا ہے اَلل ٹَپ
دادی کا ہے اِصرار کہ دادا ہے اَلل ٹَپ
نانی نے کہا زَور سے نا نا ہے اَلل ٹَپ
مامی تھی بضد لِکھ ترا ماما ہے اَلل ٹَپ
ماموں نے جُگت دی مرا بھانجا ہے اَلل ٹَپ
پھُپّھا کے لیے جاننا چاہا تھا ذراسا
پھپّھو نے کہا پُورے کا پُورا ہے اَلل ٹَپ
مردوں پہ جو آفت تھی طِلسم اس کا یوں ٹُوٹا
خالو نے بتایا تری خالہ ہے اَلل ٹَپ
خالہ کی مُمانی کی مُمانی کی ہے خالہ
بیگم سے مرا دُور کا رِشتہ ہے اَلل ٹَپ
پاپا ہی کا یہ ظرف ہے کہ مجھ کو سر بزم
بولے ابے ! تُو اُلّو کا پَٹّھا ہے اَلل ٹَپ
کہتی تھی بہو ساس تَوہے نک چڑھی کھوسٹ
اور سُسر مرا نک کٹا بڈّھا ہے اَلل ٹَپ
صد شُکر بہن میری ہے سسرال میں رانی
بہنوئی مرا رِشوتی رَاجا ہے اَلل ٹَپ
بنگال کے جادُو کی ہے مُوجد مری بھابھی
تَبلیغی، نمازی مرا بھیّا ہے اَلل ٹَپ
ہیں میری بھتیجی کے کئی دوست مخیّر
کنگلی کی محبّت میں بھتیجا ہے اَلل ٹَپ
سالی کی میں ہُوں زُلفِ گِرہ گیر پہ قُربان
وہ ’’وِگ‘‘ زدہ ہم زُلف کا بچّہ ہے اَلل ٹَپ
سسرال میں ہے ہائے ! سُلج میری ’’کرینہ‘‘
اور ’ ’سیف علی خان‘‘ تو سالا ہے الل ٹٹَپ
سسرال میں اُٹھتے ہیں مری ساس کے شعلے
جھُلسا ہُوا فُٹ پاتھ پہ سسرا ہے اَلل ٹَپ
جائے تو غُلام اور نہ جائے تَوہے مغرور
سسرال سے داماد کا رِشتہ ہے اَلل ٹَپ
شادی پہ دُلہن دیکھ کے چِلّا کے میں رویا
مجذوب دُلہن کو مری بولا ’’ہے اَلل ٹَپ‘‘
دُلہا ہے الل ٹَپ تجھے دُلہنیا مُبارک
مولا جِسے دیتا ہے تو دیتا ہے اَلل ٹَپ
’’سی ویو‘‘ کا نظارہ ہے مری جَل پری سمدھن
سَمد ھی تَو سمندر میں ’ ’منوڑہ‘‘ ہے اَلل ٹَپ
ناصِفؔ یہ الل ٹَپ مجھے آیا ہے خیال آج
دنیا ہے یہاں آوے کا آوا ہے اَلل ٹَپ
٭٭
ماڈرن دعا
ہاتھ بس مُجھ کو تھماتی ہے ’’ حمیرا‘‘ میری
لب تلک آئے کبھی کاش ’’تمنّا‘‘ میری
زندگی ’’شمعِ کمرشل‘‘ ہو ’’رِموور کلچر‘‘
صاف ’’ کترینہ‘‘ کروڑوں میں مِلے ہر دِلبر
’’نازیہ ‘‘زُلف کے سائے میں سُلائے مُجھ کو
’’شازیہ‘‘ آ کے ہر اِک صبح جگائے مُجھ کو
میری ’’جُگنو‘‘ کا بہت نرم کلیجا ہو جائے
’’روشنی‘‘ مُجھ پہ فریفتہ ہو ’’اُجالا‘‘ ہو جائے
میرے اللہ! لُگائی سے بچانا مُجھ کو
نیک ’’ نسرینوں ‘‘ کی راہوں پہ چلا نا مُجھ کو
زندگی ’’سیف علی خاں ‘‘کی ہو صُورت یارَب!
مُجھ کو مِل جائے ’’کرینہ‘‘ کی رفاقت یارَب!
ہو مرا کام حمیدہ کی حمایت کرنا
اور ’’بلقیس و زرینہ‘‘ سے محبّت کرنا
گوری محبوبہ کے بھائی سے بچانا مُجھ کو
کالے شیشوں لگی کاروں میں گھُمانا مُجھ کو
ہو ’’ڈرگ مافیہ‘‘ کا ’’ڈان‘‘ مرا پیارا سسر
ہیروئن ساتھ میں لے جاؤں بِلا خوف و خطر
فِکر ناصفؔ کی بڑھاپے میں عُقابی کرنا
اب جوانی ہے مزید اِس کو گُلابی کرنا
٭٭٭
شوکت جمال
عقیقے کا گوشت
سنا جب یہ کہ گھر میں گوشت آیا ہے عقیقے کا
خیال آیا کہ اس صدقے کا مصرف ہو سلیقے کا
جو پوچھا ہم نے بیگم سے کہو کیا کیا پکانا ہے
وہ بولیں، ہاں، مگر پہلے مجھے بھی کچھ بتانا ہے
کہا میں نے کہ چھوڑو تم ابھی بیکار کے قصّے
کہ قسمت سے ملا کرتے ہیں چھوٹے گوشت کے حصّے
کڑاہی گوشت پہلے تو بنا لو آج تم بیگم
ضروری تو نہیں کہ اس مبارک دن پکے شلجم
ہیں جتنی پسلیاں ان کی تو یخنی ہی بنا لینا
پئیں گے سردیوں میں ہم، ابھی اُس کو جما دینا
ہو تازہ گوشت تو بنتا ہے اِسٹو لاجواب اس کا
مسالہ اس قدر ڈالو، نہ ہو خانہ خراب اس کا
بنا لو تم اگر چاہو تو تھوڑا سا ’’مٹن ہنٹر‘‘
ڈبل روٹی میں رکھ کے کھاس کیں ابّا مہینے بھر
کہا بیگم نے فرمائش تو سر آنکھوں پہ میرے ہے
مگر میری بھی سن لیتے، مجھے بھی فکر گھیرے ہے
جو کاٹی بات بیگم نے تو غصّے سے انہیں روکا
اڑائی ٹانگ کیوں تم نے، مجھے پھر کس لئے ٹوکا؟
نہیں ہو گا ہدایت پر اگر میری عمل بیگم
تو ہاتھ آیا ہوا بکرا بھی جائے گا نکل بیگم
ہے پالک گوشت سے رغبت؟ چلو وہ بھی بنا لو تم
مگر ایسا نہ ہو مرچیں کھڑی اُس میں نہ ڈالو تم
بھنا ہو گوشت دیسی گھی میں اور میتھی قصوری ہو
جو کھانے کے لئے بیٹھیں، تو روٹی بھی تنوری ہو
ٹماٹر گوشت کے سالن میں گاڑھا شوربہ بھی ہو
مٹر آلو ڈلیں، تیکھا سا اس کا ذائقہ بھی ہو
بنا لیتا ہوں میں خود ہی ذرا سا قورمہ شاہی
پلاؤ بھی، کہ خوشبو سے رکے جاتا ہوا راہی
ارادہ اس طرح باندھا خود اپنی میزبانی کا
خیال آیا نہ اک پل شیخ چلّی کی کہانی کا
پلاؤ میں مرے جیسے کوئی کنکر نکل آیا
دبا تھا اُن کے دل میں جو، وہ سب باہر نکل آیا
زمیں تھرّا رہی تھی اور فضا میں ایک ہلچل تھی
جو اپنی اہلیہ کے ہاتھ میں دیکھا تو چپّل تھی
گرج کر مجھ سے وہ بولیں، ابھی میکے میں جاتی ہوں
مگر پہلے تمہارے سر سے میں جِن کو بھگاتی ہوں
یہ ہڈّی اور بوٹی کا محل میں ہی گراؤں گی
سنو یا مت سنو لیکن یہ تم سے کہہ کے جاؤں گی
نہ حسرت کوئی نکلے گی، نہ کوئی چاؤ نکلے گا
جو گوشت آیا ہے، تَولو گے تو آدھا پاؤ نکلے گا
٭٭٭
عامر ؔراہداری
بینگن
(وصی شاہ / مجید امجد سے معذرت کے ساتھ)
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا بینگن ہوتا
تُو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
دستِ نازک سے مرے جسم کو چھیلا کرتی
اور پھر چاؤ سے کٹ کر مجھے دھویا کرتی
پھر کسی پیارے سے کُکُر میں تو رکھتی مجھ کو
ہلکی سی آنچ میں چولہے پہ چڑھاتی مجھ کو
میں اِسی آنچ میں جا کر ذرا پک سا جاتا
پھر مجھے کانچ کے پیالے میں تُو ڈالا کرتی
اور پھر پہلے نوالے میں ہی نگلا کرتی
میں ترے ہونٹوں سے ہو کر ترے اندر جاتا
پھر ترے پیٹ میں جا کر تجھے گُد گُد کرتا
رات کو جب بھی تُو نیندوں کے سفر پر جاتی
میں ترے پیٹ کی آنتوں کو مروڑا کرتا
اور تُو درد کی شدت سے دھل سی جاتی
رات بھر پھر میں ترے ساتھ ہی جاگا کرتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سی الجھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا بینگن ہوتا
٭٭٭
انجینئر عتیق الرحمٰن
بینگن
بیوی ہے بہت موٹی تو خود بھی ہے پہلوان
اِک فوج ظفر موج بھی لایا ہے یہ مہمان
بچوں نے مچایا ہے مرے گھر میں وہ کہرام
جنات بھی بھاگے ہوئے پھرتے ہیں پریشان
رنگین ہیں، دیوار ہو یا فرش ہو گھر کا
ہیں ان کے عجب مشغلے کھاتے ہیں بہت پان
مہمانوں کی وہ بھوک کہ انجام نہیں ہے
جب مرغ اُڑا لیتے ہیں کھاتے ہیں مرے کان
قبضہ ہے کچن پہ نہیں معلوم یہ کب تک
بیٹھا ہوں پریشان کہ کب چھوٹے مری جان
ٹھہریں گے مہینہ مرے گھر دنگلی مہمان
یہ سوچ کے ہوتے ہیں خطا میرے بھی اوسان
٭٭٭
غضنفر علی
رجعتِ قہقہری
جانوں کہہ کہہ کے تھک گیا ہوں میں
میں نے مانا سنک گیا ہوں میں
تیرے رخسار کی تمازت پر
تیرے ہونٹوں کی ہر شرارت پر
تیرے تن کے سڈول ہونے پر
باقی سب کے ببول ہونے پر
تیری آنکھوں کی مہربانی پر
تیری اِس نوجوان نانی پر
جو لکھا آج تک وہ جعلی تھا
میں تو سنکا ہوا موالی تھا
آ تجھے آج شیشہ دکھلاؤں
آئینہ کیا ہے تجھ کو بتلاؤں
ترے رخسار ہیں تکونے سے
ہونٹ ہیں دونوں تیرے بھونڈے سے
رنگ تیرا تو پھیکا پھیکا ہے
اِس سے اچھا تو پھینی کھجلہ ہے
تیری آواز صور جیسی ہے
تیری فیگر فضول ایسی ہے
تجھ سے اچھی تو وہ بشیراں ہے
جس پہ فیصل عزیزؔ شیداں ہے
٭٭٭
شہباز چوہان
پلے پڑ گئی ہے
درد و غم کی ماری پلے پڑ گئی ہے
محبوبہ دُکھیاری پلے پڑ گئی ہے
پہلے اُس نے سونپے اپنے کام مجھے
پھر گھر کے بھی سب دے دیئے آلام مجھے
ہولی ہولی ساری پلے پڑ گئی ہے
بھائی بہنیں امّاں ابّا، ساروں نے
میری کلّی جیب کو لبھّا ساروں نے
میرے دنیا ساری پلے پڑ گئی ہے
راحت کا کوئی دن نہیں آیا بھائی جی
کبھی کمیٹی کبھی کرایہ بھائی جی
میرے ہر ذمہ داری پلے پڑ گئی ہے
درد کو اکثر کرتی ہے وہmention بھی
acidity بھی ہے hypa tension بھی
میرے عجب بیماری پلے پڑ گئی ہے
اِن دنوں ہیں جاری رپھڑے جانو جی
سب کو لے کر دو نہ کپڑے جانو جی
جان سے مشکل بھاری پلے پڑ گئی ہے
جھِجکے جھُجکے شرمائے نہ کھنگے ہے
ہر اِک شے میں دسواں حصّہ منگے ہے
وہ مثلِ زرداری پلے پڑ گئی ہے
٭٭٭
ڈاکٹر سعید اقبال سعدیؔ
ڈرائیورانہ انتباہ
ایک شادی تن کی گاڑی کے لئے پٹرول ہے
دوسری شادی ڈرائیور کے لئے چھترول ہے
ایک تو رکھے گی فِٹ سوچوں کے انجن آپ کے
دوسری کر دے گی ڈھیلے رنگ پسٹن آپ کے
ایک ہو گی تو بریکیں روک لیں گی ایکسیڈینٹ
دوسری ڈالے گی اکثر آپ کے چہرے پہ ڈینٹ
جب ہوئی پہلی سے کچھ انڈرسٹینڈنگ آپ کی
دوسری کر دے گی منٹوں میں ٹیوننگ آپ کی
ایک فِٹ رکھے گی اے سی اور ہیٹر آپ کا
دوسری آ کر گھما ڈالے گی میٹر آپ کا
ایک تو چمکا کے رکھے گی بڑا رنگ آپ کا
دوسری کر دے گی آ کر قافیہ تنگ آپ کا
ایک شادی کر کے گاڑی جو چلاتے ہیں سمارٹ
دوسری شادی سے ہو جاتے ہیں وہ دھکا سٹارٹ
ایک گاڑی آٹو میٹک ریس جیسا دے مزا
دوسری سے وھیل، فلٹر، گیئر کا حافظ خدا
عین ممکن ہے کہ وہ ہیڈ لائٹیں ہی توڑ دے
کھا کے گرمی آپ کی وہ دونوں آنکھیں پھوڑ دے
یہ بھی ممکن ہے وہ گاڑی کے اُڑا ڈالے فیوز
اگلے دِن دو کالمی ہو آپ کی اپنی نیوز
ایک بیوی کی وفا کا سارا حصہ آپ کا
دوسری کر دے گی اک دِن پاک قصہ آپ کا
٭٭٭
کتابی چہرے
دانائے ڈانس
خانزادہ خان
فلمی دنیا سے زیادہ لگاؤ نہ ہونے کے باعث ہمیں یش چوپڑہ کی پیدائش اور موت دونوں کا پتہ ایک ہی وقت میں لگا۔ ہمیں اپنی لاعلمی کے باعث کوئی معلوم نہ تھا کہ اس دنیائے آب و گل کی سات ارب کی مخلوقِ خدا میں یش چوپڑا نام کا کوئی ’’دانائے ڈانس‘‘ یا ’’دانائے رومانس‘‘ بھی ہے، حالانکہ جس روز ہمیں یش چوپڑہ کی موت کی خبر ملی تب تک موصوف رومان بھرے پورے اسی سال کھڑکا چکے تھے۔ سید ضمیر جعفری نے شاید ایسے ہی بڈھے کے لئے کہا ہے کہ:
آخری سانس کے آنے تک
برسے گا اور گرجے گا
یہ بڈھا اوّل درجے کا
سید ضمیر جعفری مرحوم کے کالم ’’ضمیر حاضر، ضمیر غائب‘‘ کے عنوان سے چھپا کرتے تھے۔ گویا حاضر اور غائب کو ہم اگر انگریزی کے یس (YES) اور نو (NO) سے تعبیر کریں تو پھر اس وزن میں مسٹر یش چوپڑہ کو یس چوپڑہ اور نو چوپڑہ کہہ کر چوپڑہ حاضر اور چوپڑہ غائب بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہیروئن کے ننگے پینڈے پر ’’چھمکاں ‘‘ مارنے والے اور اُنہیں مسلسل گھوڑیوں کی طرح نچانے والے یش چوپڑہ کی موت ڈیں گی بخار سے ہوئی۔ بخار کو ہندی میں تاپ بھی کہتے ہیں۔ ہندی میں ایک کہاوت بھی ہے کہ ’’تاپ ہوا تو باپ موٗا‘‘ یعنی تاپ یا بخار موت کا بہانہ بنا۔ باپ کی مناسبت سے ایک کہاوت یاد آئی کہ ’’کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے ‘‘یوں بولی ووڈ کی فلم انڈسٹری کے سر سے ایک یش چوپڑہ کے اُٹھ جانے سے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ اپنی کامیابی کے سو باپوں سے نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں باپوں سے یکلخت محروم ہو گئی ہے۔ میڈیا کا کوئی نامور جغادری ہو یا نچلے درجے کا یاہرچرن داس، سب یہ دھائی دیتے نظر آتے ہیں کہ ؎
دِگر دانائے ’’ڈانس‘‘ آید نہ نا آید
نہ جانے کتنی صدیوں تک فلمی ہیروئنیں کسی اور چوپڑے کے انتظار میں خود کو بناتے سنوارتے اور چوپڑتے ہوئے کانی اور گنجی ہوتی چلی جائیں گی۔ ہندوؤں کے عقیدۂ تناسخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یش چوپڑہ کے متعلق یہ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ دوسرے جنم میں ہاتھ میں لال لگام لئے دوبارہ برآمد ہوں اور بوڑھی گھوڑیوں کو لال لگام دے کر نچاتے ہوئے دوسرے جنم لے جائیں۔
رقص و سرور کے رومان پرور مناظر فلمانے والے یش چوپڑہ نے اپنی نظروں کے سامنے کئی فلمی حسیناؤں پر جوانی آتے اور پھر حُسن و رعنائی کا سورج ڈھلتے دیکھا تھا کیونکہ یش چوپڑہ نے رومان پرور ماحول کی سیاحی میں دوچار برس نہیں بلکہ پوری نصف صدی راج کیا ہے، گویا :
اِس بولی ووڈ کے بوس و کنار میں جو بھی دستِ چوپڑا ہے
وہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں
سچی بات ہے کہ اگر یش چوپڑہ کو ڈیں گی مچھر نہ کاٹتاتو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ اسّی سالہ جوان چکاچوند کر دینے والی فلمی دنیا چھوڑ کر دوسری دنیا سفر کر جائے گا لیکن میڈیا اور فلمی ستاروں نے جس انداز سے یش چوپڑہ کو یاد کیا ہے اس انداز کو قتیل شفائی کے اشعار میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
وہ دل سے کبھی دور نہیں ہوتا ہے
مر جائے تو دھڑکن میں مکیں ہوتا ہے
جو شخص حسینوں میں جیا کرتا ہے
اُس شخص کا مرنابھی حسیں ہوتا ہے
جس ڈیں گی مچھر نے یش چوپڑہ کو کاٹا اس مچھر کی حماقت پر حیرانی ہوتی ہے کہ اُس کمبخت نے دھماچوکڑی کرتی کسی ہیروئن کو کیوں نہ کاٹا حالانکہ وہ کاٹے جانے کے لئے کہیں زیادہ دعوتِ نظّارہ اور حدودِ اربعہ رکھتی تھیں۔ لگتا ہے کہس مچھر کا تعلق رقیبوں کے قبیلے یا ولن کے خاندان سے تھا، یہ بھی ممکن ہے کہ یش چوپڑہ مچھر بھگانے والی کوئی دوا جسم پر چوپڑنا بھول گئے ہوں جبکہ ہیروئنوں نے تو مساج وغیرہ کے ذریعے طرح طرح کے لوشن چوپڑوائے ہوتے ہیں کہ مچھر بھی امان مانگتے ہوئے یہ کہتے ہیں۔ ؎
ترا حُسن فتنۂ دہر ہے، ترا رنگ آگ کی لہر ہے
تری انکھڑیوں میں جو زہر ہے وہ بلا ہے ظلم ہے قہر ہے
یش چوپڑہ کی بے نوٹس موت نے نہ صرف بولی ووڈ کی فلم انڈسٹری کو ہی نہیں بلکہ امن کی آشا تک کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے ملک کی کچھ اداکارائیں بھی انڈیا جا کر رومانیت کی جدتوں سے روشناس ہوا کرتی تھیں ؎
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
ابھی تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
یش چوپڑہ جیسی شخصیات خود رو پھولوں کی مانند ہوا کرتی ہیں اور یہ شخصیات جمہوری معاشروں کی دین ہوتی ہیں، جس طرح مورتیوں کے کئی چہرے ہوتے ہیں، اِسی طرح ہندوستانی حکومت کے جمہوری چہرے کا ایک رنگ یش چوپڑہ جیسے لوگوں کے روپ میں جلوہ فگن ہے۔ آزادی سے قبل یہ ماسک صرف برہمن اور بنئیوں نے پہن رکھا تھا ؎
جو بنیا جتنا زیادہ ہنس کے بولتا ہے
اُتنا ہی کم تولتا ہے
بنئے اور برہمن کا مشترکہ چہرہ اس وقت بولی ووڈ کے پاس ہے۔ ہندوستانی معاشرے کے بحرِ ہند کا ہر صدف معاشرے کی سطح پر آ کر منہ کھولتا ہے تو وہ بولی ووڈ کے قطرۂ نیساں ہی کا طلبگار ہوتا ہے۔ اگر وہ بولی ووڈ کے ابرِ نیساں سے محروم ہو جائے تو پھر بقیہ عمر وہ اس معاشرے میں حلقہ صد کام نہنگ کا سامنا کر کے گزارتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہندوستانی آزادی اور جمہوریت کا جو مزہ بولی ووڈ نے اُٹھایا ہے، شاید ہی کسی اور طبقے کو اس کا عشرِ عشیر بھ ملا ہو۔
ہندو سنیاسیوں کا خیال ہے کہ بڑھاپا ساٹھ سال کی عمر میں جنم پاتا ہے اور آدمی جب ستر سال کا ہو جائے تو بڑھاپا دس سال کا ہو کر شوخیاں کرتا ہے اور جب آدمی اسّی سال کا ہو جائے تو بڑھاپا بیس سال کا ہو کر دھما چوکڑی اور اچھل کود کرتا ہے۔ ابھی یش چوپڑہ کے بڑھاپے کے اچھل کود کے دن شروع ہی ہوئے تھے کہ وہ دھما چوکڑی کرتی ہیروئنوں کو داغ مفارقت دے گئے لیکن اُن کا فن کڑاج پاتا رہے گا۔
ایسا کچھ کر گیا آج یش چوپڑہ
کرے گا زمانہ عش عش چوپڑہ
پریان کا سے لے کر قطرینہ تک سب
بعد تیرے اب ٹیں ٹیں فش چوپڑہ
دانائے ڈانس آئے گا نہ اب تجھ سا کوئی
فلموں میں رہے گا بہت رش چوپڑہ
ڈینگی تجھے کبھی بھی نہ کاٹ سکتا
کاش تو نے کی ہوتی مالش چوپڑہ
تجھ سا نہ پھر کوئی آئے گا کبھی
ہنس مکھ چوپڑہ لش پش چوپڑہ
٭٭٭
مرزا یاسین بیگ
آؤ ڈاکٹر خالد سہیل کو ڈھونڈیں
ڈاکٹر خالد سہیل کی تحریر کردہ کتابوں کی طویل فہرست دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دو سو سال سے متواتر لکھ رہے ہیں مگر جب انھیں اپنے سامنے دیکھتا ہوں تو ان کی عمر ایک کتابچے جتنی لگتی ہے۔ آج کل لوگوں کے اندر جتنا زہر بھرا ہے، خالد سہیل کے اندر اُتنا علم بھرا ہے۔ یہ مرد ہو کر عورت سے زیادہ بے صبرے ہیں۔ عورت نو ماہ میں بچہ جنتی ہے، یہ چھ ماہ میں ہی کتاب جنتے ہیں اور اکثر جڑواں بھی۔ کوئی بھی بچہ ماں کے پیٹ سے پڑھ لکھ کر پیدا نہیں ہوتا مگر ان کی ہر کتاب پڑھی لکھی ہوتی ہے اور پیدا ہوتے ہی قدردان اسے گود لے لیتے ہیں۔ ان کی لائبریری میں اگر ان کی کتابوں کی طرف سے دیکھنا شروع کیا جائے تو کسی اور کی لکھی کتاب تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ جہاں آپ ان کی آخری کتاب تک پہنچتے ہیں، ایک اور نئی کتاب شائع ہو جاتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دن بھر بلکہ رات گئے تک تو ہم سب کے ساتھ ہوتے ہیں پھر اتنی کتابیں کیسے لکھ لیتے ہیں ؟ یہی شک ان کی ڈیٹنگ کی طرف بھی جاتا ہے۔ یہ شہر کا واحد آدمی ہے جو سیل فون نہیں رکھتا مگر قیاس آرائیوں کے مطابق کئی گرل فرینڈز رکھتا ہے۔
خالد سہیل نے شاعری سے لے کر افسانے، ناولٹ، نظمیں، مضامین، انٹرویوز، مزاح، تحقیق غرض یہ کہ ہر صنف کو پرکھا ہے یہاں تک صنفِ نازک کو بھی۔ ان کے رومانی افسانوں کی عورت اکثر ان کی اپنی محبوبہ ہوتی تھی۔ ہر رومانس کے بعد ایک افسانہ لکھنا ان کی ہابی تھی۔ اسی لئے رومانس میں ٹھہرے رہنا یہ ادبی بددیانتی سمجھتے تھے۔
بطور ثبوت میں ان ہی کا ایک قطعہ پیش کر دیتا ہوں :
جام چھلکے ہیں میرے ذہن کے میخانوں میں
خواہشیں سلگیں مرے قلب کے تہہ خانوں میں
تیرے ہر رنگ نے یوں گھیر لیا ہے مجھ کو
اِک دھنک پھیل رہی ہے میرے افسانوں میں
پچھلے چند سالوں سے ان کے افسانوں میں کمی آئی ہے وجہ آپ خود سمجھ لیں۔ میں تو خوش ہوں ڈاکٹر صاحب میں ٹھہراؤ آ گیا ہے، اب ہم افسانے لکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد سہیل کی سماجیات، سیاسیات اور نفسیات پر لکھی گئی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ پاکستان، ہندوستان سمیت دنیا بھر میں اِن کے ہزاروں پڑھنے والے موجود ہیں۔ بعضے ایسے بھی ہیں جو انھیں چومنے کی خواہش میں ان کی کتابوں کا بوسہ لیتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں خالد سہیل سے کہتا ہوں کہ آپ کے پاس ای میل کی کمی ہے نہ فیمیل کی۔ ان کی تحریر میں ایسی کشش ہے کہ اکثر لوگ انھیں پڑھ کر اپنے دقیانوسی نظریات سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو اور تحریر علم کی بھوک بڑھا دیتی ہے۔ جو ایک بار اُنہیں پڑھ لے، اُنہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے، چاہے شادی شدہ ہو یا مولوی۔
خالد سہیل شاعر اور ادیب ہونے کے باوجود بہت آرگنائزڈ اور وقت کے پابند ہیں۔ کبھی اپنے مریض کو اپنا شعر نہیں سناتے، نہ ہی کسی دوست کو مفت کی دوا یا دعا دیتے ہیں۔ ہر ادبی تقریب میں ایسے جاتے ہیں جیسے اپنے کلینک پر جا رہے ہوں مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ غزل کی جگہ دوا کی پرچی پڑھ دی۔ اتنے صحت مند ماہرِ نفسیات ہیں کہ بھیڑ میں بھی اپنے مریض اور قاری کو پہچان لیتے ہیں۔ ’’انسان دوست‘‘ ایسے کہ ہر نظرئیے اور نظر آنے والی شئے کو گلے لگانے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔
خالد سہیل نے ہر کام کیا ہے سوائے شادی کے۔ شاید انھوں نے میرا مقولہ سن لیا ہے کہ جس گھر میں نکاح داخل ہو جائے وہاں محبوبائیں آنا بند ہو جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھیں اب تک ہر عورت اچھی لگتی ہے۔ ایک بیوی کی کمی دور کرنے کے لیے انھیں ہر روز بیڈ پر لیٹے لیٹے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنی پڑتی ہے۔ حقوقِ زوجیت ادا کرنا ہو تو قلم لے کر کچھ نہ کچھ لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ خالد سہیل نے دنیا کا ہر حق ادا کیا ہے سوائے حق مہر کے۔ یہ واحد مرد ہیں جو بیوی نہ رکھتے ہوئے بھی انتہائی سنجیدہ ہیں۔ بال بچوں میں سے صرف بال کی پرورش کی۔ ان کی ایک خوبی خدا کا ذکر کئے بغیر پوری نہیں ہوتی اور وہ ہے ان کی خدا ترسی۔ اِتنے خدا ترس ہیں کہ جنھیں لکھنا بھی نہیں آتا، ان کے لئے اچھا اچھا لکھ کر دے دیتے ہیں۔ برا بھلا کہنے میں عار محسوس کرتے ہیں یعنی برا نہیں کہہ پاتے صرف بھلا بھلا کہہ دیتے ہیں۔
کہنے کو تو ڈاکٹر صاحب ’’سنگل‘‘ ہیں مگر کسی بھی محفل میں سنگل نظر نہیں آتے۔ لوگ انھیں ایسے گھیرے رہتے جیسے آج ہی شادی کروا کر چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس موضوع اور مریض کی کوئی کمی نہیں۔ موضوع اور مرض کو برتنا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے، بائیں ہاتھ کو کم ہی زحمت دیتے ہیں۔ کپڑے نفیس پہنتے ہیں اور اکثر خود ہی پہنتے ہیں۔ کسی نے مشہور کر دیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کچھوے پسند ہیں بس اس دن سے جس مریض کو پیار آیا وہ ایک مصنوعی کچھوے کا تحفہ دے گیا۔ اب یہ حال کہ کلینک میں ہر طرف مریض نظر آتے ہیں یا کچھوے اور ڈاکٹر صاحب دونوں سے خوش ہیں۔
ڈاکٹر صاحب پچھلے چند سالوں سے اردو میں کم اور انگریزی میں زیادہ لکھنے لگے ہیں۔ سنا ہے اُردو اس پر کافی بگڑی ہے۔ یہ پہلی زبان ہے جو ڈاکٹر صاحب پر بگڑی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جیسے بلند مرتبت ادیب اگر اُردو کو چھوڑ جائیں گے تو اُردو پر تو بگاڑ ہی آئے گا۔ امید کی جاتی ہے ڈاکٹر صاحب اُردو کا دامن ویسے ہی پکڑے رہیں گے جیسے اُنھوں نے بیٹی ڈیوس کا ہاتھ تھاما ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک شانے سے اُردو اور دوسرے شانے سے انگریزی لگی ہو تو ادب اور قاری ان پر زیادہ ناز کرے گا۔
ڈاکٹر خالد سہیل کو ہم دیکھ تو سکتے ہیں مگر انھیں ڈھونڈ نہیں سکتے۔ ان کی شخصیت کے جز تو مل جاتے ہیں مگر ان کی تلاش ختم نہیں ہوتی۔ وہ ادیب تو ادیب انسان ہونے کی بھی عمدہ مثال ہیں۔ ایسے لوگ بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ان کی نظروں میں رہتا ہوں۔
٭٭٭
ارمان یوسف
ہمارے فقیر اللہ صاحب
(کھٹی میٹھی یادیں)
حاجی بشیر حسین ملغانی(سابق ہیڈماسٹر ہائی سکول تھیم والا) شیخ محمد حنیف اور فقیراللہ صاحب کے تذکرے اس وقت سے سننے کو ملتے جب ہم نے سکول کا رخ بھی نہیں کیا تھا اور ان صاحبان کا ذکر خیر بشیر احمد(مڑھی شریف والی سرکار ) غلام گبول، عابد شریف، قاسم سیال اور بڑے بھائی اجمل تبسم سے سنا کرتے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب آتش بھی جوان تو کیا بلکہ ابھی لڑکا سا تھا اور بشیر احمد کے والد گرامی استاد حافظ عبدالعزیز صاحب کے ہاں قرآن شریف حفظ کر رہا تھا۔ آتش تو خیر اب بھی لڑکا ہی ہے۔ دنیا والے چاہے ہماری ایک سو پچاسویں سالگرہ کی تیاری کر رہے ہوں مگر اس سے کیا؟ اب سارے زمانے کی مانیں یا اس ایک دل کی جو اب بھی پھڑک پھڑک کے دھڑک کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ جذبے جوان ہوں تو حالات کی ستم ظریفی کے باوجود بڑھتی عمر کے سا تھ ساتھ آدمی جوان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب آپ بھی کہیں اس عمر میں بھی ’’جوانی‘‘ کے جوش میں آ کر لنگوٹ کس کے ہیڈ پنجند یا چناب پہ نہانے چل نکلیں، یہ آپ کی آخری ڈبکی ثابت ہو اور ہم لندن میں بیٹھے بیٹھے ہی امنِ عامہ میں خلل ڈالنے کے الزام میں دھر لئے جائیں۔ الطاف بھائی پہ تو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مقدمات چل ہی رہے ہیں، ارمان بھائی پر بھی شروع ہو جائیں۔ آجکل طہٰ قریشی صاحب بھی پاکستان گئے ہوئے ہیں، ایسے میں ہماری ضمانت کون کرائے گا؟
سب نے کہا پہلے حفظ کر لو سکول بعد میں پڑھ لینا، وجہ یہ بتائی کہ آخرت میں حافظِ قرآن کو ستر آدمیوں کو جنت میں لے جانے کا خصوصی اختیار حاصل ہو گا(حاسدین آج ہی سے دل سے ہمارا احترام کرنا شروع کر دیں ورنہ جنت سے چھٹی اور اگر آپ کو بھی اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت میں داخلے پہ ذرا بھی شبہ ہو تو دو دو ہزار میں آج ہی ٹکٹیں بک کرا لیجئے (روپے نہیں دو دو ہزار پاؤنڈ) نیز موت کے منتظر اور بے صبرے گنہگاروں کے لئے خصوصی پیکج اور آن لائن بیعت کی سہولت بھی دستیاب ہے البتہ لنگر شریف کی توقع ہر گز نہ کیجئے گا کمپنی پہلے ہی خسارے میں جا رہی ہے ) محض سترہی؟ تعداد بہت کم تھی۔ ہم نے ایک سو ستر کی شرط کے ساتھ فرشتوں سے مذاکرات شروع کر دئیے اور یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ ہمارا مطالبہ نہ مانا گیا تو ’’دیوانِ غالب‘‘ کو حفظ کرنا شروع کر دیں گے۔ تیس سیپاروں کی جگہ شراب و کباب کی کھلے عام دعوت دینے والی غالب و سعدی کی تیس غزلیں ہی سہی، پھر چاہے ایک سو ستر کو ساتھ ہی لے ڈوبے کہ ’’ہمہ یاراں دوزخ‘‘ مگر فرشتوں سے مذاکرات کامیاب ہو گئے اور یوں ہم حافظ محمد یوسف بن کے ہائی سکول تھیم والا آن پہنچے جہاں جاوید اختر صاحب، صدیق صاحب، ہدایت اللہ صاحب، اکبر صاحب، ملک محمد حسین، علامہ غلام عباس اور عارف صاحب سے عربی، انگریزی اور سائنسی مضامین پڑھا کرتے۔ ایسے میں بشیر ملغانی صاحب، شیخ صاحب اور فقیر اللہ صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان حضرات کی محنت، جد و جہد اور نیک نیتی کی بدولت سکول کا معیار اس قدر بلند تھا کہ پنجاب بھر سے سیاسی اور سرکاری عمائدین کے بچے بھی یہاں پڑھنے پر فخر محسوس کرتے۔ بشیر صاحب تو امتحانوں کے دوران اکثر روزے سے ہوتے اور بچوں کی کامیابی کے لئے محنت کے ساتھ ساتھ دعا گو بھی رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر سال میٹرک بورڈ میں اس سکول کی پوزیشن لازمی قرار پاتی۔ کسی نے سچ میں جہالت کے اندھیروں کو علم کے چراغ سے روشن کرنے والی شخصیت کو دیکھنا ہو تو بشیر صاحب سے جا ملے جنہوں نے تمام عمر شمع کی مانند گزار دی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اچھی صحت دے۔ شیخ حنیف صاحب تو پہلے ہی جہانِ فانی سے رخصت ہوئے جبکہ فقیر اللہ صاحب بھی اسی سال ۲۸ جنوری کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ ۱۹۴۶ء میں علی پور کے ایک نواحی قصبے میں ایک علم دوست خاندان میں پیدا ہوئے، ایک مقامی ورنی کولر(انگلش میڈیم)سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ایف اے کرنے کے بعد دوست احباب اور چند رشتے داروں کے توسط سے پہلے چنگی انسپکٹر اور پھر محکمہ بار دانہ میں تعینات ہوئے مگر چند دنوں بعد ہی تنخواہ لئے بغیر دونوں محکموں کے خیر باد کہا۔ وجہ؟ وجہ نہیں بیماری کہئے، رشوت خوری اوراقربا پروری کا سرطان جو آج پورے معاشرے کو چاٹ چکا ہے۔ مگر آپ کو حرام کا ایک لقمہ بھی گوارا نہ تھا۔ یار لوگوں نے علی الاعلان کہا کہ برخوردار کسی اور کام کے تو ہیں نہیں ’استاد‘ہی لگوا دیجئے۔ یوں آپ درس و تدریس اور علم و حکمت والے پیغمبرانہ شعبے میں آئے اور اسی میں عمر گزار دی۔ ۱۹۸۵ءمیں تھہیم والا میں آئے اور یہی سے ۲۰۰۶ءمیں ریٹائرڈ ہوئے۔ محنت، سچی لگن اور تعلیم سے محبت کے بل بوتے پرسکول کے تعلیمی معیار کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ آپ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اور بارہا صوبائی ایوارڈ بھی ملے۔ ریٹائرڈمنٹ کے آخری سال بھی اپنے سکول کی دو پوزیشنیں پکی کر لیں۔ الطاف حسین گبول اور ساجد مجید نے بالترتیب پہلی اور تیسری پوزیشن لی، اب سنا ہے استادِ محترم کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اسی ہی سکول میں پڑھا رہے ہیں۔ آپ سے بھلا کیا پردہ، یہ دونوں جوان بھی اپنے ہی محلے کے ہیں۔ یوں تو اپنی پوزیشن بھی پکی تھی مگر دو حادثات ہو گئے، ایک تو ہم نے میٹرک ۲۰۰۴ء ہی میں کر لیا تھا، دوسرا یہ کہ ان دنوں خدا معلوم پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ والوں کو کیا ہو گیا تھا کہ ہماری ہر کتاب پہ گلابوں سا ایک حسین چہرہ چھاپ دیا کرتے تھے جو پڑھنے نہیں دیتا تھا، یوں اسی سال ہی میٹرک میں پاس اور محبت میں ناکام ہو گئے تھے، صرف سکول بھر میں اول پوزیشن لی، خالد مجید نے ’’ شہیدِ محبت‘‘ کا خطاب دے کر بورڈ میں پوزیشن نہ لینے کا غم بھی کسی حد تک کم کر دیا تھا۔
ان کے صاحبزادے سلیم اختر صاحب کے بقول ہمیشہ حلال کھانے کی تلقین کرتے رہے اور خود بھی عمر بھر اسی پر کار بند رہے، ۱۹۸۹ء میں والد گرامی کی وفات کے بعد سے آخری روز تک بلا ناغہ ان کی قبر پر فاتحہ کے لئے جاتے رہے۔ با وضو رہتے اور کثرت سے درود شریف پڑھا کرتے۔
بس اتنا ہی؟صدارتی ایوارڈ؟احترام کرنے والے ہزاروں شاگرد؟تابع فرمان اولاد؟ محبت کا دم بھرنے والے دوست؟۔ ۔ ان سب سے بڑھ کر ان کا خاتمہ با الخیر!زندگی کے آخری روز رات گئے تک گھر والوں سے باتیں کرتے رہیں، اگلے روز معمول کے مطابق اخبار گردانی کی، شوگر چیک کی اور معمول کے مطابق ہی نماز ظہر کا وضو کیا اور مصلے پہ جا کھڑے ہوئے، حالتِ قیام ہی میں روح پرواز کر گئی۔
اِس آخری نماز، اس آخری قیام، اس آخری سجدے کا ذرا موازنہ کیجئے !دنیا بھر کے قارونوں کے خزانے تو مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ دولتِ دنیا کی وقعت ہی کیا کہ آنکھ ملا سکے۔ عمر بھر کی ریاضتیں اور عبادتیں بھی اس آخری سجدے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ سورج کو چراغ دکھانا محاورتاً کہا جاتا ہے مگر یہاں تو سورج بھی منہ چھپائے پھرتا ہے، جسے سر شام ہی ڈوب جانا ہو وہ ابدی چراغ کا سامنا کیسے کرے ؟
رزقِ حلال، ایمانداری اور والدین کی خدمت ہی ان کی زندگی کا سادہ سا اصول تھے، وفات کے بعد والد گرامی کی قبر کے پاس ہی علی پور میں دفن ہوئے، ان کی قبر پہ جانانصیب میں نہ بھی ہو تو فاتحہ پڑھ لیجئے، کارِ ثواب ہے۔
٭٭٭
نیرنگِ خیال
شاہ جی
یہ اُن بھلے دنوں کی بات ہے جب مولوی نے شہر اقتدار میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ دفتر میں مولوی کی نشست ملک صاحب اور چوہدری کے ساتھ تھی۔ شاہ جی ان کے بالکل عقب والی کرسی پر سویا کرتے تھے اور جب کبھی جاگ رہے ہوتے تو فرماتے تھے کہ یہ لوگ میرے عقب میں بیٹھتے ہیں۔ بات ان کی یوں بھی درست تھی کہ شاہ جی خود تو کم ہی بیٹھا کرتے تھے۔ زیادہ تر میز کو تکیہ بنائے فون کو کسی حسینہ کا ہاتھ سمجھ کر تھامے محوِ استراحت ہوتے تھے۔ آخر ہم سے رہا نہ گیا اور شاہ جی سے ایک دِن پوچھ ہی بیٹھے کہ فون کو اتنی محبت سے پکڑ کر کیوں سوتے ہیں۔ کیا کسی کے لوٹ آنے کا امکان باقی ہے۔ اس پر شاہ جی نے صرف ہنسنے پر اکتفا کیا۔ یوں بھی ہمارے درمیان ایسی کوئی بے تکلفی نہ تھی کہ شاہ جی ہماری اس بات کا جواب دیتے یا جواباً ہم پر کوئی فقرہ کستے۔ اب یہ سوال اس لیے نہیں پوچھتے کہ بے تکلفی کے سبب شاہ جی اصل بات ہی نہ بتا دیں۔ پہلی چند ملاقاتوں میں ہم شاہ جی کو مکہ پلٹ حاجی سمجھتے رہے۔ وجہ یہ کہ ہم نے اِتنا منڈھا ہوا سر حاجیوں اور عمرہ کر کے پلٹنے والوں کا ہی دیکھا تھا۔ لیکن مہینوں بعد بھی بالوں کی طوالت میں اضافہ نہ ہوا تو ہم سمجھ گئے کہ یہ حاجی پلٹ حلیہ ڈھونگ ہے۔ در حقیقت شاہ جی ایک پلٹے ہوئے حاجی تھے جس کا ادراک ہمیں مدت کی آشنائی کے بعد ہوا۔ شاہ جی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی عادات کا تذکرہ ہو تو سامع فوراً کہتا ہے کہ بالکل ایسا ہی ایک دوست میرا بھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب شاہ جی سے تعارف ہوا تو ہم نے بھی یہی کہا کہ شاہ جی آپ جیسا ایک دوست ہمارا بھی ہے۔
شاہ جی کے قد و قامت کی مثال عمران سیریز کے "جوانا” سے دی جا سکتی ہے۔ لحیم شحیم، جتنا لمبا، اتنا چوڑا۔ ایک دن اپنی دونوں کلائیوں کو اکھٹا جوڑ کر فرمانے لگے آج میں نے ایک لڑکی دیکھی جس کی کمر قریباً میری ان کلائیوں جتنی ہو گی۔ اس پر مولوی نے برجستہ کہا۔ شاہ جی مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کو موٹی عورتیں پسند ہیں۔ مولوی کا فرمانا اپنی جگہ بالکل بجا تھا۔ شاہ جی کی کلائی کی گولائی ایک عام آدمی کی ران جتنی تھی۔ اس پر دونوں کلائیاں ملا لی جائیں تو کمر کسی پنجابی ہیروئن ہی کی بنتی ہے۔ ہمارے ذہن میں مشہور زمانہ گانے کے بول رقص کرنے لگے۔ پٹ ۲۸ کڑی دا، ۸۷ ویٹ کڑی دا۔ مردوں سے بات کرتے وقت چشمہ اتار دیا کرتے تھے۔ اور صنف مخالف سے بات کرتے وقت چشمہ اتار کر شیشے صاف کر کے دوبارہ لگا لیتے تھے۔ پتا نہیں اس میں کیا رمز تھی۔ ہاں یہ بات ہمیں ضرور معلوم تھی کہ بغیر چشمے کے شاہ جی کوئی ساڑھے تین سینٹی میٹر تک دیکھ لیتے ہیں۔ پاس کھڑا دوست ان کو دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن ہمالہ پر کھڑے ہو کر کراچی ساحل پر پھرتی لڑکیاں دیکھ لیا کرتے تھے۔ ان کی اس دور بیں نگاہ اور حرکات کے سبب ہمیں محسوس ہوتا کہ شفیق الرحمن کا کردار "شیطان” تحاریر کی دنیا سے نکل کر مجسم ہو گیا ہے۔
ایک دن ہم، مولوی اور شاہ جی جب جمعہ نماز کے لیے نکلے تو راہ میں شاہ جی کو پتا نہیں کیا سوجھی۔ مولوی کو چھیڑتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر یہ بڑا ساکھمبا آپ کے سر پر گر پڑے تو آپ اور چھوٹے ہو کر کوہ قاف سے درآمد شدہ لگیں گے۔ اس پر ہم نے کہا کہ اگر یہی کھمبا آپ کے سر پر گر پڑے تو آپ چھوٹے ہو کر عام انسان لگیں گے۔ شاہ جی نے مسکراتے ہوئے دستِ شفقت راقم کے کاندھے پر رکھا، جس کا اثر راقم الحروف نے ایڑی تک محسوس کیا۔
شاہ جی کے قدو قامت کا اندازہ ان کے چہرے مہرے سے نہیں ہو پاتا تھا۔ اور اس کا وہ بہت ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ ایک دن مجلسِ یاراں میں اپنی دلیری کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔
میں شمالی علاقہ جات سے واپس آ رہا تھا۔ راستے میں ایک موٹر سائیکل والے نے انتہائی فضول انداز میں بائیک سڑک پر لہرایا جس کی وجہ سے گاڑی نے ہلکی سی تھپکی اس موٹر سائیکل کو دے دی۔ میں نے دیکھا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو نہ گاڑی آہستہ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی رکا۔ لیکن اس موٹر سائیکل سوار نے دیکھا کہ ایک "لڑکا بالا” گاڑی اڑائے لے جا رہا ہے سو فوراً گاڑی کے پیچھے اپنا موٹر سائیکل لگا لیا۔ شاہ جی کے منہ سے اپنے لیے "لڑکا بالا” کے الفاظ سن کر تمام سامعین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لیکن شاہ جی نے سب کو نظرانداز کر کے اپنی بات جاری رکھی۔ لڑائی بھڑائی سے میں یوں بھاگتا ہوں جیسے سپین میں لوگ بھینسے کے آگے بھاگتے ہیں۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اس سے جان کیسے چھڑاؤں۔ خیر آگے ایک ہوٹل پر جب میں نے گاڑی روکی تو وہ فوراً میرے دروازے والی طرف آ گیا۔ میں سکون سے نیچے اتر کر جب اس کے سامنے کھڑا ہوا تو اس کے چہرے کی رنگت ہی بدل گئی۔ اس غریب کو ایسی ہی مایوسی ہوئی جیسی کسی لڑکی کا نمبر سمجھ کر ملانے والے آوارہ اور بدقماش لڑکے کو لڑکے کی آواز سننے پر ہوتی ہے۔ اور وہ گھبرا کر کہتا ہے۔ "جی فلاں سے بات ہو سکتی ہے۔ "اس کا سر بمشکل میرے سینے تک پہنچ رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ "جی فرمائیے !” تو اس کی زبان بھی لڑکھڑا گئی اور کہنے لگا کہ "دیکھیے ! ہمارا بھی سڑک پر حق ہے۔ ” میں نے کہا تم اتنی دور مجھے بس یہی بات بتانے آئے ہو تو وہ بیچارہ دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ آخر میں نے اس کو ایک عدد ہلکا سا دھکا دیا اور اندر کی جانب چلا آیا۔ شاہ جی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس دن انہوں نے شکرانے کے کتنے نفل پڑھے تھے۔
کھیلوں کے بیحد شوقین تھے۔ اکثر ان کا نعرہ ہوتا تھا۔ "کھیڈاں نہ کھیڈن داں گے۔ ۔ ۔ ۔ ” بقیہ احباب علم و عمل کی محاورہ فہمی پر چھوڑ رہا ہوں۔ کئی ایک تو دبے دبے لفظوں میں کہہ بھی دیتے کہ آپ تو کھیل لیتے ہیں۔ انہی دنوں میں شاہ جی کو فوس بال (گڈویوں والا فٹبال) کھیلنے کا شوق ہو گیا۔ عالم یہ تھا کہ شاہ جی کے ہاتھ بال آ جاتی تو اتنی زور سے شاٹ مارتے کہ بال مخالف سمت کی دیوار سے ٹکرا کر اپنے ہی گول میں جا چھپتی تھی۔ کئی بار تو گیند نے باہر آنے سے انکار کر دیا کہ جناب یہ آدمی بہت زور سے مارتا ہے۔ دیکھنے والوں کا یہ بھی فرمانا تھا کہ ایک آدھے فٹبالر کی ٹانگ توڑ دی ہے۔ اگر وہ راڈ سے بندھے نہ ہوتے تو یقیناً باہر آ جاتے۔ اس پر ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر ہو بندھے ہونے کی وجہ سے باہر نہیں آ سکتے تھے تو دل میں گالیاں ضرور دیتے ہوں گے۔ اچھے کھلاڑی کو اپنا پارٹنر بناتے اور جیتنے کی صورت میں خود رقص ابلیسی فرماتے۔
ایک دن مجھ گناہ گار سے فرمانے لگے کہ آئیں فوس بال کھیلتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ جہاں شاہ جی ایک قدم اٹھاتے میں چار پانچ قدم اٹھاتا۔ لیکن بندہ بشر تھا۔ سو کوتاہی ہو گئی اور جب فوس بال کی میز تک پہنچا تو شاہ جی میرے سے ایک قدم آگے ہو گئے۔ وہاں پر ایک بہتر کھلاڑی پہلے سے کسی پارٹنر کی راہ تک رہا تھا۔ فوراً اس کے ساتھ ہاتھ ملا کر مجھے کہنے لگے۔ آپ نے دیر کر دی۔ محفل یاراں میں جب شاہ جی کی اس بے رخی کا تذکرہ کیا تو مولوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ہم پریشان ہو گئے۔ الٰہی خیر۔ اے مولوی! بتا تو سہی ماجرا کیا ہے۔ اے شخص تو رو کیوں رہا ہے۔ چشم فلک نے ایسا کون سا منظر دکھلا دیا کہ آج سربزم تیری آنکھ چھلک گئی۔ اس پر وہ مرد بیقرار، پیکر زہد و انکسار یوں گویا ہوا۔
تمہارا یہ واقعہ سن کر مجھے ایک شام کا قصہ یاد آ گیا ہے۔ ہاں وہ شام ہی تھی۔ عام سی شام تھی لیکن پھر ایسی بات ہوئی کہ وہ شام بہت خاص بن گئی۔ آہ! اس کو یاد کر کر کے میرا کلیجہ چھلنی ہوا جاتا ہے۔ سنو اے نادان دوستو! تمہیں میں اپنی سادگی اور شاہ جی کی چالاکی کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ یہ شخص جسے دنیا شاہ جی کے نام سے جانتی ہے میرے پاس آیا۔ میں ایک دفتری کام میں غرق تھا۔ اس پر آدھے سامعین کی آنکھوں میں حیرت عود کر آئی۔ مولوی نے مجلسی حیرانی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔ اس نے مجھے کہا کہ آؤ نیچے جا کر فوس بال کھیلتے ہیں۔ میں اس قدر مصروف تھا کہ میں نے اسے اشارے سے منع کیا۔ لیکن اس نے میرے اشارے کو ایک طرف کرتے ہوئے کہا کہ خبردار! دفتر میں اس قسم کے اشارے کرنا اخلاقی گراوٹ کی نشانی ہے۔ میں خود بھی سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے اشارہ کیا کیا ہے۔ اس نے جب مجھے تذبذب کے عالم میں دیکھا تو کہنے لگا کہ آئیں۔ فوس بال کھیلنے سے طبیعت تروتازہ ہو جائے گی۔ واپس آ کر کام کر لیجیے گا۔ میں جو کافی دیر سے دفتری الجھن کا سرا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے اس کی بات میں صداقت نظر آئی۔ میں اس کے ساتھ کھیلنے کی جگہ تک جا پہنچا۔ وہاں پہلے ہی دو ٹیمیں آپس میں کھیل رہی تھیں۔ ہم ان کا کھیل دیکھنے لگے۔ باتوں باتوں میں شاہ جی نے تگڑی والی ٹیم کو چیلنچ مار دیا۔ اور کہنے لگے کہ اگر خدانخواستہ تم لوگ اس ٹیم سے جیت گئے تو پھر ہم دیکھنا تمہارا کیا حشر کریں گے۔ میں شاہ جی کے اس چیلنج پر حیران ہو رہا تھا کہ میری کھیلنے کی صلاحیت جاننے کے باوجود وہ اس ٹیم کو چیلنج کیسے دے رہے ہیں۔ اتنی دیر میں ایک اور اچھا کھلاڑی وہاں آن پہنچا۔ تگڑی ٹیم کے جیتنے کے بعد جب میں نے شاہ جی کے ساتھ میز سنبھالنے کی کوشش کی تو یہ مجھے کہنے لگے کہ مولوی۔ یار ذرا چیلنج لگا ہوا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس اچھے کھلاڑی کے ساتھ کھیل لوں۔ شاہ جی اس حرکت کا تگڑی ٹیم کو بھی اتنا دکھ ہوا کہ وہ اسی دکھ میں ہار گئے۔
مولوی کا واقعہ ختم ہونے پر ہم نے دیکھا کہ وہاں اور بہت سارے لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ پس منظر میں چلتی موسیقی کسی فلمی تھیم کی طرح ماحول پر اثرانداز ہو رہی تھی۔
ایک ہم ہی نہیں
جسے دیکھو یہاں
وہی آنکھ ہے نم
ایک طرف سے ہلکی سی آواز آئی۔ ٹیبل ٹینس پر میرے ساتھ بھی یہی ہوا جبکہ دوسری جانب سے یہی صدا بلئیرڈ کے نام سے سنائی دی اور پھر باقی آوازیں ہچکیوں میں دب گئیں۔
بجھتا کہاں بھڑک گیا رونے سے سوز غم
سب کے چہروں پر ایک ہی کہانی لکھی ہوئی تھی۔ ادھر ہمارا وہ حال تھا کہ:
میرا اس کا غم سانجھا تھا
میں اس کو کیسے بہلاتا
جبکہ شاہ جی کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔
نوٹ اِس خاکے کے تمام کردار تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی ’’سو فیصد‘‘ مشابہت محض اتفاقیہ ہو گی۔
٭٭٭
محمد امین
عبدالحکیم ناصفؔ۔ ایک عہد ساز مزاح نگار
ہماری بچپن ہی سے یہ بالغانہ رائے رہی ہے کہ ہمارے سرکاری ٹیلیویژن سے ’’تا‘‘ کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ اس کے لئے خاصے مجاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یا تو بندہ مکھن لگانے اور پروڈیوسروں کی مٹھی چاپی میں اُستاد ہو یا پھر اپنے فن میں اُستاد ہو۔ اگرچہ آج کل چند ایک خواتین کی پی ٹی وی میں جلوہ آرائیاں دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ضمن میں ایک اور خصوصیت بھی درکار ہے جس کے لئے تمام مرد حضرات طبی لحاظ سے اَن فِٹ ہیں۔
کچھ عرصہ قبل پی ٹی وی سے ایک کمپئر نے انتہائی شوخ و شنگ اور چہکتی ہوئی زندہ آواز کے ساتھ جلوہ آرائی دکھانی شروع کی۔ یہ کمپئر نہ صرف کامیڈی پروگراموں میں نظر آنے لگا بلکہ مزاحیہ شاعری میں بھی خاصے وکھرے ٹائپ کی آواز ثابت ہوا۔ اِن کا نام دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میں ان کے قطعات بہت عرصہ قبل ملک کے ایک مؤقر اخبار میں پڑھ چکا ہوں۔ اُن کے قطعات میں اس قدر چلبلاہٹ اور چاشنی ہوا کرتی تھی کہ پڑھ کر لطف آ جاتا تھا۔
اُسی زمانے میں اُردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر ایک کتاب بھی شائع ہوئی تھی، جس میں اُس دور کے تمام قابلِ ذکر مزاحیہ شعراء کا انتخاب شامل تھا۔ اُس میں بھی اِن صاحب کا نام شامل تھا۔ اُس وقت میں سوچتا تھا کہ یہ محترم کوئی خاصی بزرگانہ اور بھاری بھرکم علمی و ادبی شخصیت ہوں گے لیکن ٹیلیویژن پر اِن پر نظر پڑی تو خاصی حیرانی ہوئی۔ اپنے لڑکپن میں جن صاحب کے قطعات ایک قومی اخبار میں پڑھتا رہا ہوں وہ میرے اپنے بڑھاپے میں اِس قدر پُر شباب و شاداب شخصیت کے مالک ہوں گے، یقین نہیں آتا۔ لگتا ہے کہ یا تو وقت ہی نے کچھ ہیرا پھیری کی تھی یا پھر یہی صاحب کچھ اُس طرح کی کوئی چیز ہوں گے جس کا تذکرہ غلام عباس نے اپنے افسانے ’’بہروپیا‘‘ میں کیا تھا۔ غضب خدا کا، فدوی تو دیکھتے ہی دیکھتے بزرگانہ عمر کی قلانچیں بھرتا ہوا پچاس کے پیٹھے میں پہنچ گیا ہے، نہ صرف اس عمر سے فلرٹ کر رہا ہے بلکہ چہرے مہرے سے بھی ایسا نظر آ رہا ہے کہ بقول اطہر شاہ خان جیدی کے ’’ محبوبہ کے بزرگ کہنے ‘‘کے خطرہ سے دوچار ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہے اور یہ صاحب ہیں کہ اس طویل عرصے بعد بھی اس قدر ترو تازہ نظر آ رہے ہیں کہ پنجابی فلموں میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچیں تو کوالیفائی کر لیں گے۔
عبدالحکیم ناصف نے اُسی برس پیدا ہونا مناسب سمجھا جب یہ مابدولت دنیا میں رونے دھونے کے لئے وارد ہوئے۔ ۳؍ اکتوبر ۱۹۶۴ء بروز ہفتہ اُن کی پیدائش کا دِن ہے۔ وہ پاکستان کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا تعلق اجمیر شریف سے تھا۔ شاعری میں شرفِ تلمّذ استاد واجدؔ سعیدی مرحوم سے حاصل ہوا۔ ابتدا میں بہاریہ شاعری کی طرف طبیعت راغب رہی تاہم بعد ازاں اُن کی شگفتہ طبیعت رنگ لانے لگی اور ان کے اشعار میں غیر محسوس طریقے سے ہلکا پھلکا مزاح کا رنگ بھی جھلکنے لگا۔ طبیعت و تخلیق میں اس ظریفانہ انداز اور رنگوں کی دھنک دیکھ کر اُن کے شاعر شناس استاد نے ناصف کو اسی مسکراتی اور چمچماتی روش پر گامزن ہونے کا حکم صادر فرما یا۔ اس سلسلے میں استاد انورؔ بریلوی اور عنایتؔ علی خان نے بھی اِن پر بھرپور توجہ دی۔ تاہم ان کی طنز و مزاح کی لطیف حسّیات کو خالد عرفان نے مزید مہمیز کیا۔
ظرافت وہ فطری حِس ہے جو اپنی تخلیق کے لیے بھرپور سنجیدگی اور مسلسل فکری مشاہدے کا مطالبہ کرتی ہے اور اگر یہ صلاحیت کسی شاعر کو عطا ہو تو اس کا اظہار بے حد مشکل یوں بھی ہو جاتا ہے کہ نثر میں مزاح نگار کو جو آزادی اپنے فکر و خیال کو فوراً سے پیشتر احاطۂ تحریر میں لانے کی حاصل ہوتی ہے، مزاحیہ شاعر اس آسانی سے محروم ہوتا ہے۔ ممکن ہے اس تخیّلاتی اور تخلیقی جد و جہد میں مرکزی طنزیہ یا مزاحیہ خیال ہی رفو چکّر ہو جائے یا بحر کی تنگ، دشوار اور بند گلی اس کے سُبک رفتار ’’لونگ وہیکل‘‘ کا سفر ہی روک دے۔ لہذا یہ کہنا یقیناً حق بجانب ہے کہ شاعری میں مزاح نگاری ’’سُوئی سے ناقہ‘‘ گزارنے کے کٹھن ترین عمل کے مترادف ہے۔ عبدالحکیم ناصف نے اس صنف اور عمل میں انتہائی مشّاقی اور شب و روز کی مسلسل مشقوں سے کمال حاصل کیا ہے۔
کراچی منتقلی کے بعد عبدالحکیم ناصف نے اُردو کے ایک کثیر الاشاعت اخبار میں حالاتِ حاضرہ پر قطعہ نگاری کا آغاز کیا اور بہت جلد اہلِ ادب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ عبدالحکیم ناصف کے برجستہ اور چونکا دینے والے کلام اور ادائیگی کے منفرد انداز نے ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ بہت جلد عوامی پذیرائی بھی حاصل کی۔ بعد ازاں پنجاب اور پاکستان کے دیگر شہروں میں ڈاکٹر انعام الحق جاویدنے انھیں متعارف کرایا اور ناصفؔ کا شمار پاکستان کے ’’ ٹاپ فائیو ‘‘ بڑے مزاحیہ شعراء میں ہونے لگا۔ اب وہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مشاعروں میں مدعو کیے جاتے ہیں۔
عبدالحکیم ناصف کے قہقہہ آور اور فکر انگیز کلام اور مشاعروں میں اس کی دلآویز اور منفرد ’’پیشکش‘‘ انھیں ایک بھرپور عوامی شاعر بناتی ہے۔ ان کے کلام کا ’’کینوس‘‘ کائناتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی طرح عبدالحکیم ناصفؔ عوام اور خواص کے ہر ہر معاملہ اور مسئلہ کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ اسی باعث ناصفؔ کا ہمہ گیر شعری طنز و مزاح نہ صرف مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت ہے بلکہ مطالعہ کے دوران بھی قارئین بھرپور لطف اٹھانے کے ساتھ طنزو مزاح سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔
حیرانی کی بات ہے کہ اِس قدر پُر گو اور عوامی مقبولیت کے حامل شاعر ہونے کے باوجود اب تک اُن کا کوئی مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا ہے تاہم اب سُنا ہے کہ اُن کا طنز و مزاح پر مبنی ایک مجموعہِ کلام ’’ چھَٹی ہُوئی حِس ‘ ‘ اشاعتی تکمیل کے مراحل میں ہے اور بہت جلد ہمارے ہاتھوں میں ہو گا۔ اللہ اُنہیں مزید ترقی دے۔
٭٭٭
سہ ماہی کی کتاب
میجر عاطف مرزا
قلم آرائیاں یا قلمِ آرائیاں
’’چاند‘‘، ’’اخبارِ جہاں ‘‘، ’’آداب عرض‘‘، ’’پیغام‘‘، ’’تعلیم و تربیت‘‘ اور جانے کون کون سے رسالے، میگزین پڑھے، کوئی ایک بھی تو خادم حسین مجاہدؔ کے شر سے محفوظ نہیں نظر آیا۔ میری دلچسپی اس لیے بھی بڑھی کہ تعلق کے خانے میں سرگودھا لکھا تھا۔ میں نے پھر بھی تلاش کرنا مناسب نہ جانا۔ ایک بار میں ’’غالب لائبریری، سرگودھا‘‘ کے ریڈنگ روم میں بیٹھا تھا وہاں میری ملاقات میرے ایک کلاس فیلو سے ہوئی جو پچھلے دو برس سے میرے ساتھ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں پڑھ رہا تھا۔ ، مگر ہم ایک دوسرے کے نام سے شناسانہ ہو سکے تھے۔ اُس روز نام سے بھی پردہ اُٹھ گیا۔ یہی حضرت خادم حسین مجاہدؔ صاحب تھے، جناب چھپے رہے تھے پہلے، ویسے میں اُس وقت اتنا مشہور ہوتا تو نیم پلیٹ لگا کر گھومتا مگر مجاہدؔ تھا کہ کوئی پروا ہی نہیں تھی، یعنی۔ ۔ ۔ ۔ (مناسب محاورہ یا ضرب المثل دستیاب نہیں لہٰذا۔ ۔ ۔ ۔ سے ہی گزارا کیجیے )۔
مجاہدؔ نے جب لکھنا شروع کیا تو بچوں کا ادب تخلیق کیا۔ پھول کلیاں، پیغام ڈائجسٹ، تعلیم و تربیت اور بچوں کے کئی اور رسالوں میں مجاہد کی کہانیاں چھپتی رہیں۔ پھر اس نے مزاح پر طبع آزمائی شروع کر دی۔ طبع آزمائی کیا تھی، اچھا خاصا بالغانہ انداز تھا۔ گویا ایک عرصے سے مزاح اندر اندر پک رہا تھا بالکل کسی آتش فشاں کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موقع ملا تو پھٹ پڑا اور کئی سنجیدہ سے سنجیدہ شخصیات کو اس مزاحیہ لاوے میں بہتے دیکھا گیا۔
طنز و مزاح لکھنا ایک دقیق فن ہے، جو مجاہد کو بے بہا ملا۔ لفظوں کے حصے بخرے، تلفظ میں ردّ و بدل، لہجے میں ترمیم کر کے ایک نیا لفظ بنا دینا یا اُس لفظ کے معانی و کیفیت کو بدلنا مجاھد کا خاصہ رہا ہے۔ ایک عام واقعے سے لے کر خاص بات تک کو اپنے مزاح کا حصہ بنا لینے میں مجاہدؔ کا کوئی ثانی نہیں (یہ بات ثانیؔ نے مجھے خود بتائی)۔ لیکن بظاہر جو بات آپ کو مزاح محسوس ہو گی در اصل اِس میں گہرا طنز یا درد چھپا ہوتا ہے۔
مجاہدؔ کم از کم ساڑھے تین عشروں سے مزاح کی لسی بنا رہا ہے، جسے وہ پہلے ’’ دست و گریبان‘‘ نامی پیمانے میں ڈال کر لوگوں کو پلا چکا ہے، اور پھر ’’ قلم آرائیاں ‘‘ کے نام سے اِس لسی کا دوسرا پیگ پیش کیا گیا۔ اب دیکھیں کہ کس کس پر اِس کا نشہ کتنا چڑھتا ہے۔
اردو میں اعراب مستعمل نہیں لہٰذا ’’ قلم آرائیاں ‘‘ کو ’’ قلمِ آرائیاں ‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے، اور حقیقتاً کئی دوستوں نے تو اِس پر اعتراض بھی کیا ہے کہ مجاہدؔ نے شیخ ہوتے ہوئے آرائیوں کا قلم کیسے حاصل کیا؟ دوسرا نکتۂ اعتراض یار لوگ یہ لگاتے پائے گئے ہیں کہ ’’ قلم آرائیاں ‘‘کرنل محمد خان کی ’’بزم آرئیاں ‘‘ کی پارٹ 2 لگتی ہے۔ ’’ بزم آرائیاں ‘‘چھپنے کے بعد کرنل صاحب کو ’’بزمِ آرئیاں گوجرانوالہ‘‘ کی طرف سے شکریے کا خط موصول ہوا تھا، لیکن ’’ قلم آرائیاں ‘‘ چھپنے کے بعد سے اب تک آرائیں برادری خاموش ہے، (نجانے کیوں ؟)
’’ قلم آرائیاں ‘‘ میں مجاہدؔ کا باریک بین مشاہدہ اور گہرا تجربہ کوٹ پیٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ایسے ایسے سچ لکھے گئے ہیں کہ خود سچ کو بھی خوف آنے لگا ہے۔ اِس کتاب کی تمام تحریریں مزاح کے نچلے درجے کے علاوہ ہر درجے پر فائز نظر آتی ہیں، کچھ صرف ہلکی سی مسکراہٹ کا باعث بنتی ہیں اور کچھ پر بے ساختہ قہقہہ برآمد ہوتا ہے جس کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ ریکٹر سکیل اِسے ریکارڈ کرنے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ پھکڑ پن پوری کتاب میں تلاش کرنے کے باوجود کہیں نہیں مل سکا اور یہی مجاہد کی کامیابی ہے۔ پوری کتاب کی 23تحریروں کی درجہ بندی ایک بہت مشکل کام ہے، ویسے بھی ہر پڑھنے والے کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے، لازمی نہیں کہ جس تحریر کو میں پہلے درجے پر رکھوں سب کو وہ پہلے پر ہی محسوس ہو، لہٰذا قارئین کی اپنی اپنی مرضی۔
مجاہدؔ نے اِس کتاب میں کئی راز بھی افشا کیے، کئی پردہ نشینوں کی نقاب کشائی کی اور تو اور اِس نے گھر کا بھیدی بن کر ادیب اور شاعر برادری کے ’’ٹریڈ سیکریٹس‘‘ بھی اوپن کر کے لنکا ڈھائی۔ اِس کے علاوہ مجاہدؔ کا ایک اور خطرناک انداز یہ ہے کہ وہ دنیائے مزاح کا کرائم رپورٹر بھی ہے۔ اُس کی یاد داشت غضب کی ہے ایک بار کچھ پڑھ لے تو بھولتا نہیں۔ کسی بھی تحریر کو مصدقہ اور مسلمہ دلائل کے ساتھ سرقہ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتا۔ ڈریے نہیں یہ کام وہ سب کے ساتھ نہیں کرتا، بس چور لکھاریوں کو مارک کر کے کسی کائیاں کرائم رپورٹر کی طرح چپکے چپکے ثبوت حاصل کرتا ہے، پھر ایک روز نعرۂ جہاد بلند کر دیتا ہے۔ اکثر چور لکھاریوں کو یہ کیفرِ کردار تک پہنچا چکا ہے۔
ویسے سرِ ورق کا تذکرہ تو پہلے ہونا تھا مگر پھر اندر کے مواد کے ساتھ اِس کا موازنہ کرنا صحت مند تصور نہ کیا جاتا۔ کتاب کے مجموعی تاثر کے مقابلے میں سرِورق بہت کمزور ہے، اِس کے علاوہ سرِورق پر چھپی ہوئی کارٹونی تصاویر کتاب کے نام ’’قلم آرائیاں ‘‘ اور اِس میں شامل تحریروں کی عکاسی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے سرِ ورق کی وجہ سے یہ کتاب مناسب مقام حاصل نہ کر سکے۔ اگر صرف مواد پر ہی نظر رکھی جائے تو بلاشبہ ایک قیمتی اور مزاح سے بھرپور کتاب ہے۔
شروع میں مجاہدؔبسیار نویس تھا مگر اب بسیار خور ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اِسے لکھنے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ اِس کے علاوہ غمِ دوراں اور معاشیات کے چکروں نے بھی اِس کے لکھنے کی رفتار کم کر دی ہے۔ لیکن اب جو بھی لکھتا ہے وہ اتنا وزن دار اور طاقتور ہوتا ہے کہ اِس کمی کی کمی پوری کر دیتا ہے۔
خلقِ خدا نے مجاہدؔ کے حق میں صفحہ نمبر۵سے ۱۰تک جو بیان بازی کی ہے وہ صد فی صد درست ہے، جو بھی حوالے انہوں نے پیش کیے ہیں وہ تمام مجاہد سے پوچھے بغیر لکھے گئے ہیں۔ ویسے تو مجاہدؔ نے مجھے بھی تبصرہ لکھنے کی دعوت نہیں دی، میں از راہِ ہمدردی یہ فریضہ سر انجام دے رہا ہوں (حقِ دوستی بھی تو ادا کرنا ہے نا)۔ آخر کو کل میری بھی تو کتاب آنی ہے نا۔ کوئی اور تبصرہ لکھے نہ لکھے مجاہدؔ کو تو لکھنا پڑے گا۔
آئیے مجاہدؔ کی تحریروں کا عکس ملاحظہ کریں :-
۱۔ پروفیسر وحشت پوری، آوارہ کو محدب عدسے کی مدد سے چیل کے گھونسلے میں ماس تلاش کرتے ہوئے ملے۔ یہ خبر سن کر اُنہوں نے آوارہ کو مبارک باد کے طور پر پدی کا شوربہ پلایا۔ آوارہ کو مزید مشق کے لیے سیر کا حکم دے کر خود نقار خانے میں طوطی کی آواز سننے چل دیے۔
(راز دارِ حیوانات۔ صفحہ 13)
(یہاں دیکھئے کہ مجاہدؔ نے کس خوبصورتی سے اردو محاوروں کی چٹنی بنائی اور اپنی تحریر کا الّو سیدھا کیا۔ )
۲۔ امیدوار ایک ایک کر کے اندر جاتے اور واپس آتے رہے فرق صرف یہ تھا کہ اندر جاتے ہوئے ان کی امید کی ٹیوب لائٹیں روشن ہوتیں اور واپسی پر ان کے پورے چہرے پر لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہوتی، نہ جانے اندر کیسے ’واپڈا‘ صفت لوگ بیٹھے تھے۔
چپراسی نے ایک امیدوار کو اندر بھیج کر سگریٹ نکالی تو مغرور فوراً اٹھا اور لائیٹر سے سگریٹ سلگانے کے بہانے اُسے ایک سرخ نوٹ کی جھلک دکھا کر سرگوشی کی۔
’’یار تم تو محرمِ رازِ درونِ خانہ ہو، اِس ظالم انٹرویو میں کامیابی کا کوئی گُر تو بتاؤ۔ ‘‘
’’بیس پچیس نیلے نوٹ اکٹھے کرو یا کوئی سفارش پیدا کرو۔ ‘‘اُس نے جوابی سرگوشی کی۔
’’میں کیسے سفارش پیدا کر سکتا ہوں میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔ ‘‘
’’ارے بھئی اسمبلی ہال چلے جاؤ اور کوئی سفارش گود لے لو، وہی سفارشوں کا میٹر نٹی ہوم ہے۔ ‘‘
(از قصابی تا نوابی۔ صفحہ ۲۴)
۳۔ شاعر دماغ رکھتے ہیں یا نہیں یہ قصہ بحث طلب ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دماغ کے بغیر کوئی شاعری کیسے کر سکتا ہے، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی دماغ کے ہوتے ہوئے شاعری کیوں کرے گا۔
(قلم قبیلہ۔ صفحہ ۴۴)
مولیاں تیرے روبرو رکھتے
تجھے ہر وقت بے وضو رکھتے
(آنجہانی شاعری۔ صفحہ۶۱)
۴۔ مجھے شکایت مل رہی ہے کہ رسائل کی پروف ریڈنگ آنکھیں بند کر کے کی جاتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ پچھلے ماہ ماہنامہ ’’آفت‘ ‘میں میرا ایک مضمون چھپا تھا جس کے چند جملے یوں تھے ’’اسلام آباد میں ایک گھر میں مغنی غزل گا رہا تھا جبکہ دوسرے میں ایک بیدار بخت مصلے پر کھڑا کہتا تھا، اے خدا! میں حاضر ہوں، اپنی تمام تر سیاہ کاریوں کے ساتھ۔ ‘ ‘لیکن کمپیوٹر کی فنکاری کے باعث یہ شائع کچھ یوں ہو گئے، ’’اسلام کے گھر میں ایک مفتی غزل گا رہا تھا جبکہ دوسرے میں بیزار بخت تسلے پر کھڑا بہتا تھا، اے خدا میں کافر ہوں اپنی تمام تر سیاہ گاڑیوں کے ساتھ۔ ‘‘ میں نے تو اپنا گردہ پیٹ لیا۔
(ادبی اجلاس۔ صفحہ۸۱)
۵۔ سوال نمبر ۳:- سکھ اور حجام میں کیا دشمنی ہے، تاریخی حوالوں سے وضاحت کریں، اگر اِن میں صلح ہو جائے تو مزید کتنے ہیئر کٹنگ سیلون کھولے جا سکتے ہیں ؟
(پرچہ گنج و حجامت۔ صفحہ۸۷)
۶۔ چوری در اصل مساوات اور برابری جیسے سنہری اصولوں کے نفاذ کی عملی کوشش ہے جس میں سرمایہ زیادہ دولت مند سے کم دولت مند کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ جو سماجی استحصال اور معاشی ناہمواریوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
(اقتباس از ’’چوری ایک معاشرتی ضرورت‘‘ از چورِ اعظم حضرت سارق رہزن آبادی)
(چور کی ڈائری۔ صفحہ۱۱۰)
یہ تمام حوالے پڑھنے کے بعد آپ لوگوں کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ خادم حسین مجاہدؔ در اصل ایک کامیاب اور بڑا مصنف ہے۔ ابھی تک اِس پر نقادوں کی نظر کانہ پڑنا اِس کی کمزوری نہیں بلکہ نقادوں کی اپنی کم نظری اور نالائقی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب بڑے بڑے نقاد اِس کی تحریوں پر تنقید کرنے کے لیے اِس سے ’’اِجازت‘‘ طلب کیا کریں گے۔ اور تو اور مجھے تو یہ بھی گمان ہو رہا ہے کہ مجاہدؔ کی اپنی کتابوں سے زیادہ اِس کی کتابوں پر نقادوں کی آراء پر مبنی کتابیں شائع ہوا کریں گی اورہر کتاب میں اِس کی کتابوں پر تنقید اور اُن کی تشریح کا دعویٰ بھی کیا جائے گا اور ہر نقاد مجاہدؔ کا قریب ترین دوست ہونے کادعویٰ بھی کرے گا اور۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ اور رر رر رر رر ر
٭٭٭
کے ایم خالد
خادم حسین مجاہد کی فنی زندگی
وہ ایک گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر تھی جب ایک پیدل ڈاکیے نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا میں نے دروازہ کھولا تو پسینے میں شرابور ڈاکیے نے ایک بنڈل میرے ہاتھ میں پکڑایا اور کہا ’’ آپ کے ایم خالد ہیں ‘‘ میں نے سر ہلا دیا اس نے ایک کاغذ پر خود ہی میرا نام لکھا اور کہا ’’ ایک گلاس پانی مل جائے گا ‘‘۔ میں اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ’’ کیا پیو گے۔ ۔ ۔ بوتل یا شربت ؟‘‘ اس نے پسینہ پونچھتے ہوئے ’’ اگر بوتل مل جائے پیپسی کی ٹھنڈی یخ تو کیا بات ہے ‘‘۔ تھوڑی دیر میں بوتل آ گئی اس نے بوتل کے دو تین گھونٹ ہی کئے میں نے اس سے پوچھا ’’یہ بنڈل کہاں سے آیا ہے ؟‘‘ اس نے بنڈل میرے ہاتھ سے لے کر کہا ’’ یہ بھابھڑا سرگودھا سے آیا ہے ‘‘۔ میں ہنستے ہوئے کہا ’’ آپ یہ پیکٹ لے کر سرگودھا سے آئے ہو تو کسی کورئیر کے ہاتھ بھیج دیتے ‘‘۔ ڈاکیا کھسیانا سا ہو گیا ’’ میں جناب کورئیر کمپنی سے ہوں، کمپنی ذرا ماٹھی ہے میری سائیکل پنکچر تھی اس لئے ویگن سے سٹاپ تک آیا اور وہاں سے پیدل آپ کے گھر، ٹی سی ایس نے بھی تو پارسل ہی پہچانا تھا ہم نے بھی پہنچا دیا ‘‘۔ اس نے مجھ سے یہ کہتے ہوئے اجازت چاہی کہ جناب اگر کہیں پارسل مناسب ریٹس یعنی سرکاری ڈاک سے بھی کم ریٹس پر تو ہماری کورئیر کمپنی کو ضرور یاد رکھئے گا۔
کتابوں کے بنڈل کو بڑے سلیقے سے ٹیپ کے ساتھ بند کیا گیا تھا ٹیپ اتری تواس میں دو کتابیں نکل کر مجھ سے دست و گریبان ہو گئیں ایک ’’قلم آرائیاں ‘‘ اور دوسری ’’دست و گریبان ‘‘یہ میرا خادم حسین مجاہد سے دوسرا تعارف تھا پہلا تعارف تو تیس روزہ ’’ چاند ‘‘ کے حوالے سے تھا جہاں ہمارا ’’ قلمی دشمنی‘‘ کا سلسلہ تو تھا کیونکہ ایک رائٹرز دوسرے رائٹرز سے بغض رکھنا ناممکنات سے نہیں تھا لیکن ہماری قلمی دوستی نہ جانے کیوں نہ ہو سکی حالانکہ خادم حسین مجاہد نے چاند کے سب دوستوں کو اپنی شادی کی ایک اجتماعی دعوت یوں دی جیسے کسی سیاسی جلسے کی دی جاتی ہے جس کا احوال بھی بعد میں کسی ’’ لفنگے ‘‘ نے ’’چاند ‘‘میں ’’شادی خادم حسین مجاہد کی ‘‘ کے نام سے شائع کروایا۔
میں پیکٹ پر دیئے ہوئے نمبر پر فون کیا تو ایک چہکتی ہوئی آواز سنائی دی میں نے کہا ’’جی خادم ‘‘فون والے نے خادم حسین مجاہد پکارا تو ایک زندگی سے بھر پور آواز سنائی دی ’’جی کون۔ ۔ ۔ ؟‘‘ میرے کے ایم خالد کہنے کی دیر تھی کہ بس مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا فون کسی خاتون کے ساتھ مل گیا جب وہ تقریباً ً بیس منٹ بعد شاید گلا کھنکھارنے کے لئے رکا تو میں نے موقع غنیمت جان کر اس کی کتاب بھجوانے کا شکریہ ادا کیا۔ جس پر اس نے دوبارہ سٹارٹ لیا جس میں مجھے پتہ چلا کہ ’’ بغض‘‘ صرف میری طرف نہیں چل رہا دوسری طرف بھی ایسا ہی حال ہے اس کی طویل گفتگو سے پتہ چلا کہ وہ بھی میری طنزو مزاح سے بھر پور تحریروں سے ’’نالاں ‘‘ ہے۔ اپنی گفتگو میں خادم حسین مجاہد نے مجھے پتے کی بات یہ بتائی کہ میرے بات ختم کرنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں آپ کسی لائیو شو کے اینکر کی طرح میری بات کاٹ کر اپنی بات کر سکتے ہیں۔
خادم حسین مجاہد کی طویل تحریروں کے طویل مطالعے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس نے شاید کسی استاد مزاح نگار کی تحریروں کو نہیں پڑھا کیونکہ اس کا ایک اپنا ہی اندازِ تحریر اور اسلوبِ بیاں ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قاری کے پسند کرنے یا نہ کرنے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ خادم حسین مجاہد کافی عرصہ ’’چاند ‘‘ میں چھائے رہے اور ’’احمقستانی اسمبلی ‘‘ کی ایسی بنیاد ڈالی کہ اپنی قومی اسمبلی کی لائیو کاروائی دیکھ کر نہ جانے کیوں خادم کی ’’اسمبلی ‘‘ ذہن میں گھوم جاتی ہے۔ خادم نے ہر وہ چیز لکھی جس کے بارے میں اسے تھوڑا سا بھی شک تھا کہ اس سے قاری کا ہاسا نکل سکتا ہے۔ خادم حسین مجاہد کی تحریروں کا صرف پاکستان ہی نہیں انڈیا بھی دیوانہ ہے وہاں کے ’’شگوفہ ‘‘ سمیت بہت سے رسائل میں ان کا مزاحیہ مواد شائع ہو چکا ہے۔ جب تک ’’چاند ‘‘ شائع ہوتا رہا وہ مزاح لکھتے رہے جب سے چاند بند ہوا ہے، ان میں وہ جوش و خروش باقی نہیں رہا۔
اُنہوں نے پاکستان کے فکاہیہ ادب پر یہ بہت بڑا ’’احسان ‘‘ کیا ہے کہ نفع نقصان کی پروا کئے بغیر انہوں نے اپنا طنز ومزاح کا ملغوبہ کتابی شکل میں شائع کر کے دوستوں تک پہنچا دیا ہے ان کی دو کتابیں اس وقت نہ صرف پبلشرز کے پاس تھوک تعداد میں موجود ہیں بلکہ ان کے اپنے پاس بھی پڑا سٹاک ’’گھن ‘‘ کے چکر میں ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے مسٹر گوگل انہیں مزاح نگاروں کی صف میں دکھاتی ہے۔ بلکہ ان کی کچھ کتابیں بین الاقوامی بک سٹالوں کے پاس بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی کتاب کی پی ڈی ایف فائلز بھی نیٹ ورک پر موجود ہیں تاکہ مستقبل میں اگر کو ئی مزاحیہ ادب کا طالب علم ان کی شخصیت پر کوئی مقالہ لکھنا چاہے تو اسے ’’بھابھڑا بازار ‘‘ کا رخ نہ کرنا پڑے۔
خادم حسین مجاہد کی ’’قلم آرائیاں ‘‘ میں شامل تحریروں ’’کہتی ہے خلق خدا ‘‘سے ’’راز دار حیوانات ‘‘، ’’قلم قبیلہ ‘‘، ’’آنجہانی شاعری ‘‘، ’’ادبی اجلاس ‘‘، ’’چور کی ڈائری ‘‘ اور ’’کھٹی میٹھی ‘‘ تک جو کاٹو سب ہی ’’لال ‘‘ہیں۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے کی بعد اگر کسی کے لبوں پر مسکان نہیں ابھری تو یاتو پھر اسے کسی نفسیات کی ڈاکٹر کی ضرورت ہے یا پھر وہ مسکرانا ہی نہیں چاہتا ہو گا کیونکہ جو سرٹیفیکٹ اسے ڈاکٹر وزیر آغا اور ضیا الحق قاسمی جیسی شخصیات نے دے دیا ہے اس کے بعد میری کچھ کہنے کی گنجائش نہیں بچتی۔
خادم حسین مجاہد نے اب تک جتنی تعلیم حاصل کر لی ہے اگر وہ لاہور، اسلام آباد یا کراچی میں ہوتے تو کسی چینل کے انٹرٹینمنٹ کی ہیڈ ہوتے یاکسی یونیورسٹی میں کسی فیکلٹی کے ڈین ہوتے لیکن انہیں کچھ ’’بھابھڑا ‘‘سے پیار ہی اتنا ہے کالے بالوں سے سفید ہوتے بالوں میں وہ وہیں طالب علم بچوں کے لئے ’’ڈائن ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔
’’قلم آرئیاں ‘‘میں ایک فقرہ جو کہ شاید آج کی ادبی دنیا کا سچ ہے :
’’وہ بیک وقت کوئی پچاس کے قریب علمی، ادبی، ثقافتی، سماجی اور معاشی تنظیموں کی مرکزی ذمہ داریاں اپنے سنگل سائز کندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں جو ڈھنگ سے کوئی جنازہ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ‘‘
( قیس صحرائی)
٭٭٭
نوید ظفرؔ کیانی
خادم حسین مجاہد کی مزاح نگاری
خادم حسین مجاہدؔ نے اور بہت سوں کی طرح اپنی کتاب ’’قلم آرائیاں ‘‘ کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے ’’مزاحیہ مضامین‘‘، میں اس طرح کی پیشانیوں کو قارئین کے لیے پریشانیاں سمجھتا ہوں۔ ایک دفعہ میرے ساتھ بھی ہاتھ ہو چکا ہے۔ کنگلے زمانے یعنی زمانۂ طالب علمی میں، میں ایک ایسی ہی کتاب خرید کر لایا تھا جس کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا ’’انشائیوں کا مجموعہ‘‘۔ بہت سے شاداب اور خوش باش انشائیہ نگاروں کے انشائیے پڑھ کر میں گمان کر بیٹھا تھا کہ یہ بھی کوئی ویسی ہی کتاب ہو گی جسے پڑھ کر میں دل پشوری کر سکوں گا لیکن باپ رے باپ، صفحۂ اوّل تا آخر، فلسفے اور ثقیل نگاری کے ایسے طوفانِ بدتمیزی سے سابقہ پڑا کہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اب کسی کتاب کے سرِ ورق پر کوئی اس قسم کا اعلان دیکھتا ہوں تو دوکاندار کی گھوریوں کی پرواہ کئے بغیر یہ اطمینان ضرور کر لیتا ہوں کہ واقعی درست لکھا گیا ہے یا سیاست بھگاری گئی ہے۔ خادم حسین مجاہد کو اپنی کتاب کے سرِ ورق پر ’’مزاحیہ مضامین‘‘ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی، سرِ ورق پر اُن کا نام ہی کافی تھا۔ خادم کے پہلو بہ پہلو مجاہد کا لفظ دیکھ کر پڑھنے والوں کو پتہ چل جاتا کہ واقعی یہ مزاحیہ مضامین کی کتاب ہے۔
’’قلم آرائیاں اور ’’دست و گریباں ‘‘ زندہ دلی کے مکمل نسخے ہیں جنہیں معاشرے کا کوئی بھی حکیم یا ڈاکٹر پورے تیقّن سے امراضِ قلب میں مبتلا اور قنوطیت کے شکار مریضوں پر آزما سکتا ہے، انشاء للہ اُسے کبھی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ شوخ بیانی، طنز و استہزا، بشاشت، ظرافت، رمز، ایجاز، مخول، ٹھٹھا، سخن چینی، نقطہ چینی، تفنّن کیا نہیں ہے اِن کتاب میں، لیکن یہ بات بھی دل پر ہاتھ رکھ کر تسلیم کرنی پڑے گی کہ اِن سب گھوڑوں کی لگامیں ہمیشہ اور ہر جگہ خادم حسین مجاہدؔ کے نہایت مضبوط ہاتھوں میں محسوس ہوتی رہی ہیں، اُن کی جانب سے ذراسی بھی ڈھیل کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اُن کی ظرافت میں بے سمتی بھی نہیں ہے۔ ہر تحریر ایک واضع پیغام دیتی نظر آتی ہے۔ واشگاف اور صحافت کی زبان میں ’’مبینہ طور پر‘‘، ہر تحریر میں فلیش لائٹ براہِ راست اور مکمل طور پر موضوع پر مرتکز ملتی ہے لیکن اس قدر سادگی میں بھی پُرکاری دیکھی جا سکتی ہے، ٹو دی پوائنٹ ہو کر بھی تحریر کے ہزارہا پہلو دانت نکالے نظر آتے ہیں، ضیا ء الحق قاسمی مرحوم نے اُن کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے :
’’وہ ایک خیال پر ایک تحریر نہیں لکھتے بلکہ ایک تحریر میں کئی خیال پیش کرتے ہیں۔ ‘‘
کہا جاتا ہے کہ مزاح لکھنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ اِس کے لئے ایک توخود لکھنے والی کی فطری خوش طبیعی کا عمل دخل ہوتا ہے اور دوسرا یہ بھی لازم ہے کہ اُس میں معاشرتی، معاشی، سیاسی، عمرانیاتی غرض یہ کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں موجود ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں سے مفاہمت کا جذبہ نہ ہو اور وہ اُس کو اُسی نظر سے دیکھتا ہے جیسے بیوی سوتن کو دیکھتی ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کامیاب مزاح نگاری کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ کسی وقوعے پر اپنی شدید ذاتی ناپسندیدگی کے باوجود اپنے شدید ردِ عمل کو قابو میں رکھ کر نہایت نفاست سے چٹکیاں لے کر موضوع سے انصاف کرے۔ ہمارے مجاہد کے لئے تو لگتا ہے کہ مزاح لکھنا خالہ جی کا گھر ہے۔ کسی بھی موضوع پر خامہ فرسائی کر رہا ہو، اس قدربیساختگی اور روانی سے چٹکلے چھوڑتا ہوا بہتا جاتا ہے کہ راوی کے بہاؤ کا سماں بندھ جاتا ہے۔ اُن کے نشتروں کی کاٹ اور تیزی کسی بھی موڑ پر کند نہیں لگتی۔
ہمارے دفتر میں تین افراد پر مشتمل ایک بھانڈ گروپ ہے جس کا کام بقول شخصے بلا انصاف تمام لوگوں کی لباس دری کرنا ہے۔ اِن تینوں بھانڈوں کو نقالی پر اس قدر عبور حاصل ہے کہ دیکھا چاہیئے۔ اہلِ مجلس کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیتے ہیں، اُن کی اِس قدر پُر لطف محفل سے کوئی بھی اُٹھ کر جانا نہیں چاہتا۔ محفل سے اُٹھ کر جانے کا مطلب ہے کہ محفل کا موضوع بننا یا ’’جگتوں کا نشانہ‘‘ بننا، جس کے لئے کسی کا بھی ظرف راضی نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس طرح وہ کچھ دیر قبل دوسروں کی ’’لباس دری‘‘ پر ہنستا رہا ہے، دوسرے بھی اُس کا ٹھٹھا اُڑانے میں اِسی خشوع و خضوع کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں پر تو خوب لطف اندوز ہوتا ہے لیکن جب خود اُس کی کمزوریوں کا مذاق اُڑایا جائے تو اُس کا موڈ آف ہو جاتا ہے۔ خادم حسین مجاہد اِس کا قطعاً قائل نہیں۔ وہ دوسروں کی طرح خود اپنے آپ پر بھی ہنسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ خود اپنی برادری ’’ادیبوں ‘‘ پر قلم آرائیاں میں ایک پورا مضمون ملتا ہے جو اُنہوں نے غالباً آئینے کے سامنے بیٹھ کر لکھا ہے۔ اپنی قلمکاریوں پر اس قدر نفاست سے خنجر آزمائی کی ہے جیسے اکبر الٰہ آبادی نے اپنے ایک شعر میں اپنے آپ کو لہولہان کیا ہے :
بھیا رنگ یہی ہے اچھا
ہم بھی کالے یار بھی کالا
’’قلم آرئیاں ‘‘ میں ایک مضمون قلم قبیلہ میں ’’ادیب‘‘ کی تعریف میں خادم حسین مجاہد لکھتا ہے :
’’خود کو جینئس سمجھنے والا ایک کھسکا ہوا انسان جو اس خوش فہمی کا شکار ہوتا ہے کہ معاشرے کو بذریعہ قلم سدھار لے گا لیکن یہ بیچارہ خود کو بھی ساری عمر سدھار نہیں سکتا۔ ‘‘
بہت سے مزاح نگاروں کا طریقۂ واردات ہی الفاظ سے کھیلنا ہے۔ وہ کسی بھی بات سے یوں بات نکالتے ہیں جیسے سیاستدان خیر کے کاموں سے بھی اپنی آف شور کمپنیوں کے لئے سرمایہ۔ محض اِسی ہتھیار کو استعمال کر کے بہت سے مزاح نگاروں نے خود کو مشفق خواجہ، یونس بٹ، انور مقصود، گلِ نوخیز اختر وغیرہ بنا ڈالا ہے۔ خادم کا ترکش بھی رعایت لفظی کے اِن تیروں سے خالی نہیں۔ وہ باتوں ہی باتوں میں انتہائی معصومیت سے ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ بندہ بیساختہ ہنس دیتا ہے۔ مثلاً اپنے ایک مضمون ’’انگریزی اور ہم دیسی‘‘ میں وہ یوں چٹکیاں بھرتے ہیں۔
مجھے ایک دفعہ ان کا انگریزی اردو مکس میسج ملا تو میں نے سر پیٹ لیا۔ لکھا تھا ’’ کل میری میرج marriage کی برتھ ڈے birthday ہے آپ کی دعاؤں کا ویٹweight کروں گا۔ ‘‘ شادی کی سالگرہ کا ترجمہ جو انہوں نے اینی ورسری کی بجائے برتھ ڈے (یوم پیدائش ) سے کیا اس کی صحیح داد تو کوئی انگریز ہی دے سکتا ہے۔ ہم تو حیران تھے کہ شادی کی پیدائش کا دن بھی ہوتا ہے اور پھر انتظار کرنے کے لئے weight واہ۔
الفاظ کے اُلٹ پھیر سے نئے مضحک و ظریفانہ مفہوم نکالنے کو پیروڈی یا تحریف کہا جاتا ہے۔ اُردو ادب میں مزاحیہ شاعروں نے کثرت سے تحریفیں لکھی ہیں لیکن ہماری نثر کا دامن بھی تحریف سے خالی نہیں۔ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، عطا الحق قاسمی، یونس بٹ وغیرہ نے تحریف نگاری کے کامیاب تجربے کئے ہیں۔ خادم حسین مجاہدؔ بھی اس میدان کا مجاہد ہے۔ اُن کی کتابوں قلم آرائیاں اور دست و گریبان میں جا بجا اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ’’قلم آرائیاں ‘‘ کی تحریر ’’ادبی اجلاس‘‘ اس سلسلے کا ایک عمدہ نمونہ ہے، جس کا ایک ابتدائی قاشہ پیشِ خدمت ہے۔
’’خواتین و حضرات! بزمِ ادب کے زیرِ انہدام اس یتیم الشان ادبی محفل میں بادل صحرائی بجلی پوری پورے زور سے کڑکتے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہنے کی جسارتِ عالیہ کی جسارت کر رہا ہے۔ امید ہے کہ آپ ہمیشہ کی طرح آج بھی کانوں میں روئی دے کر پُر امن طریقے سے تشریف فرما رہیں گے اور ہمیں ہماری حماقت کا احساس نہیں دلائیں گے۔ ‘‘
عموماً طنز و ظرافت کا استعمال ایک ساتھ ہوتا ہے اور اِن دونوں میں امتیاز نہیں برتا جاتا حالانکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ظرافت خالص مزاح ہوتا ہے جس سے پڑھنے والوں کو ہنسانا مقصود ہوتا ہے، اس میں کسی پر چوٹ نہیں کی جاتی جبکہ اس کے برخلاف طنز تیز اور چبھتے ہوئے خفتہ معنی رکھتا ہے لیکن اس میں ہجو کی طرح کثافت اور زہر بھرا ہوا نہیں ہوتا۔ اسے تنقید کی جڑواں بہن بھی کہا جا سکتا ہے، تاہم یہ اُس کی خاصی لڑاکا بہن ہوتی ہے اس لئے اس میں کاٹ اور بے اعتدالی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ خادم حسین مجاہد کے ہاں طنزیہ اندازِ فکر جا بجا ملتا ہے۔ اُن کی ایک تحریر ’’از نوابی تا قصابی‘‘ کی اختتامی سطوراس اسلوب کی ایک عمدہ مثال ہے۔
’’ آج ہمارا ایک عالیشان گھر ہے۔ ایک قصاب مارکیٹ ہے اور اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ بیسیویں گریڈ کے افسر ہم سے قرض لینے آتے ہیں۔ ہماری بیٹی کسٹم میں آفیسر ہے، ایک بیٹا پولیس میڈ ہے اور دوسرا ڈاکٹر ہے۔ یوں ہماری اولاد جدید بنیادوں پر ہمارے پیشے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ ‘‘
خادم کے مزاح میں ’’تفنّن‘‘ کے اسلوب کی بہت اعلیٰ شکل موجود ہے۔ اُنہوں نے بہت سے بزرگانِ سخن کے ساتھ چہلیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں اُن کا مضمون ’’مرزا غالب‘‘ بھی خاصے کی چیز ہے۔ اس میں وہ رقم طراز ہے۔
جب اُنہوں نے دیوان مرتب کیا تو اپنی رنگین جوانی کی سنگین شاعری کا بیشتر حصہ حذف کر دیا۔ اس کے باوجود ان کا چھوٹا سا دیوان دوسرے شاعروں کے بڑے بڑے دیوؤں کو ناک آؤٹ کر دیتا ہے، کیونکہ غالب کے معیار پر پرکھا جائے تو کئی لوگوں کے دیوان کے دیوان حذف کرنا پڑیں گے، مگر مرزا کا انکسار ملاحظہ فرمائیں کہ پورا اردو دیوان مومنؔ کے ایک شعر کے بدلے دینے کو تیار ہو گئے، وہ تو شکر ہے مومنؔ صاحب اس تبادلے پر راضی نہیں ہوئے ورنہ آج ہمیں غالبؔ کے بجائے مومنؔ کو چھیڑنا پڑتا اور پھر نجانے ہمارا کیا انجام ہوتا۔
خادم حسین مجاہد پیشے کے لحاظ سے ہی اُستاد نہیں، ادیب بھی بڑا اُستادقسم کا ہے۔ اپنی نصابی اوزار کو مزاح نگاری میں بھی کھینچ لانا اُنہیں کا بودا ہے۔ اپنے بالغ شاگردوں کے لئے نمونے کی عرضی نویسی، خطوط نویسی، معاشرے کے مختلف طبقات کے لئے امتحانی پرچے وضع کرنا اُنہیں کا کمال ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ اگر آپ بیک وقت قہقہہ، زیرِ لب تبسم، بدیہہ گوئی، موشگافیوں، ٹھٹھا بازیوں، چکلس، خندہِ استہزا اور اسی طرح کی دوسری ظرافت نگاریوں سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں خادم حسین مجاہدؔ کی کسی بھی تحریر کا مطالعہ آپ کی صحت کے لئے از حد مفید ہو گا۔
٭٭٭
خادم حسین مجاہد
شاعر
(قلم آرائیاں کے مضمون قلم قبیلہ کا ایک حصہ)
تعارف
کسی دِلی یا دماغی چوٹ کے باعث منہ اور قلم کے راستے کسی موزوں کلام اُگلنے والی توپ کو ’’شاعر‘‘ کہتے ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں اس کا وجود ثابت ہے اور یہ واحد پیداوار ہے جس کا کبھی قحط نہیں پڑا، ہمیشہ افراط ہی رہی ہے۔ سقوط غرناطہ مغلوں کے آخری دور اور عربوں کے زمانہ جاہلیت اور سکھوں کے آخری دنوں پر نظر دوڑائیں تو یہ بات ٹیوب لائٹ کی طرح روشن ہو جاتی ہے کہ جب بھی کوئی قوم تباہی کے دہانے پر پہنچی، اس میں شاعر حد سے زیادہ بڑھ گئے، جنہوں نے کار پردازانِ سلطنت کو شاعری پر لگا کر کاروبارِ سلطنت سے غافل کر دیا اور دشمنوں کا کام آسان کر دیا شاید یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے جنگ آزادی کے بعد دوسرے درباریوں کو تو پھانسی دے دی مگر مرزا غالبؔ اور دوسرے شاعروں کو انعامات سے نوازا۔
اسباب
کوئی انسان اچانک شاعر کیسے بن جاتا ہے، اِس بارے میں محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بہرحال اِن سب کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ دماغ چلنے کی طرح اس کے بھی کئی اسباب و عوامل ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ ہر انسان زندگی میں ایک بار شاعر ضرور بنتا ہے۔ جب وہ دل کا تبادلہ کرتا ہے، بعد میں بے شک بندہ بن جائے۔
پہچان
یوں تو اہلِ نظر شاعر کو دور سے اور ’’با ادب‘‘ گفتگو سے پہچان لیتے ہیں، پھر بھی آسانی کے لئے موٹی موٹی نشانیاں بتائے دیتا ہوں کہ شاعر بننے کے بعد یہ اپنے نام میں کسی عجیب و غریب لفظ کا اضافہ کر لیتا ہے جسے تخلص کا نام دیتا ہے۔ بعض دور اندیش شاعر بننے سے قبل ہی کوئی تخلص الاٹ کر لیتے ہیں مبادا کوئی دوسرا قبضہ نہ کر لے۔ یہ تخلص عموماً ایسا ہوتا ہے کہ پہلی بار سننے والا چونک اٹھتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک بھولا بھالا لڑکا جسے آپ عبدالرّشید کے نام سے جانتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ’’شیدا‘‘ کہہ کر سگریٹ بھی منگواتے ہیں، اچانک پتہ چلتا ہے کہ وہ عبدالرّشید اب بھولا بھالا شیدا نہیں رہا بلکہ عبدالرّشید آزردہؔ ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ لاکھ اس کی آزردگی کا سبب جاننے کی کوشش کریں، وہ وضاحت نہیں کرتا۔ کسی کے شاعر ہونے کی دوسری بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ جو کرے گا وہ کہے گا نہیں۔ یہ عملی زندگی میں انتہائی بے عمل ہونے کے باوجود شاعری میں بہت با عمل ہوتا ہے۔ اس کے ارادے خواہشات اور مقاصد عموماً ممکنات کی سرحد سے پار واقع ہوتے ہیں مگر جب قلم قرطاس اس اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ اس کو صحیح معنوں میں خنجر کی طرح استعمال کرتا ہے اور وہ کارنامے سر انجام دیتا ہے کہ بڑے بڑے سورما چیں بول جاتے ہیں، یہ چاہے تو آہ سے آندھی چلوا دے، جنگل جلا کر راکھ کر دے، پوری دنیا آنسوؤں کے سیلاب میں غرق کر دے اور اس میں تیراکی کرتا درِ محبوب تک پہنچ جائے۔ چاہے تو محبوب کا جلوہ دکھائے اور صور پھونک دے، محبوب کی جھلک دکھا دے اور مرتے ہوؤں کو قبر سے کھینچ لائے۔ موڈ میں آ جائے تو سمرقند و بخارا بادشاہ سے پوچھے بغیر محبوب کے ایک تل کے بدلے ہدیہ کر دے اور بعد میں سزائیں بھگتا پھرے۔ چاہے تو محبوب کی کمر یوں غائب کر دے جیسے ممبران اسمبلی سے شائستگی، دل چاہے تو محبوب کے ما تھے پر صرف ستارے ہی نہیں پورا نظام شمسی سجا دے اور چاہے تو محبوب کو باغ میں پھرا کے پھولوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دے۔ بڑے سے بڑا عالمی تنازعہ جب ایک شاعر کے سامنے آتا ہے تو وہ محض ایک شعر یا نظم میں حل ہو کر رہ جاتا ہے۔
حلیہ/عادات
پرانے زمانے میں شاعروں کا حلیہ خاندان والوں سے کم اور نفسیاتی مریضوں سے زیادہ ملتا تھا۔ مہینوں غسل خانوں، نائی اور آئینے کا منہ نہ دیکھتے تھے جس کی وجہ سے اِن کی داڑھی، مونچھوں اور سر کے بالوں میں خطِ علیحدگی کھینچنا کار دارد ہوتا تھا۔ وہ عموماً۔ ۔ ۔ ۔ دانت خراب کرنے کے لیے پان کی خدمات حاصل کرتے تھے اور میسر ہوتی تو انگور کی بیٹی سے بھی چھیڑ چھاڑ کر لیا کرتے تھے۔
آج کل شاعر۔ ۔ ۔ شاعر کم اور بیوروکریٹ زیادہ لگتے ہیں اکثر گورنمنٹ سروسزکے شوقین ہوتے ہیں کہا فسری کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت مشقِ سخن جاری رہے۔ یہ دانت، معدہ اور دل تباہ کرنے کے لئے سگریٹ، پائپ، کافی اور چائے کا استعمال تھوک کے حساب سے کرتے ہیں۔
معاشرتی مقام
معاشرے میں جو مقام شاعر کو حاصل ہے، اُسے معزز تو کیا، مقام بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اکثریت شاعر کو چور ڈاکو سے بھی زیادہ مشکوک سمجھتی ہے کیونکہ ان کے خیال میں چور ڈاکو پھر بھی اپنا کنبہ پالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور تو اور افلاطون نے بھی اپنی خیالی جمہوریہ Eutopia میں شاعروں کو فالتو مخلوق گردانتے ہوئے نمائندگی نہ دی۔
عمومی رویہ
شاعر عموماً ایک شریف جانور ہے۔ ۔ ۔ سوری انسان ہے اور اس کا مشقِ سخن کرنے کا عمل نہایت پر امن ہے۔ نقص امن کا مسئلہ تو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ شاعری سنانے پہ تُل جائے اور اُس وقت اسے شاعری سنانے سے روکنا کسی طوفان کو روکنے کی حماقت کرنے کے برابر ہے۔ یہ صورت حال اس وقت مزید گھمبیر ہو جاتی ہے جب شاعر نیا نیا ہو اور آس پاس کوئی مشاعرہ ہو اور نہ سامع۔ اس وقت اس کی حالت اس مرغی کی سی ہوتی ہے جس نے انڈہ دینا ہو اور اُسے مناسب جگہ نہ مل رہی ہو۔ اس وقت کچھ تو پتھروں کو غمِ دل سنا لیتے ہیں اور کچھ کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے۔
دماغ اور شاعری
شاعر دماغ رکھتے ہیں یا نہیں یہ قصہ بحث طلب ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دماغ کے بغیر کوئی شاعری کیسے کر سکتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی دماغ کے ہوتے ہوئے شاعری کیوں کرے گا۔
خوراک
شاعروں کی خوراک کے بارے میں بھی پہلوانوں کی طرح خاصی مبالغہ آرائی آمیز حکایات مشہور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاعروں کی خوراک محض ’’داد‘‘ ہے یعنی واہ واہ سبحان اللہ۔ اگر ایک شاعر سے آپ تین ٹائم اس کی شاعری سن کر واہ، واہ کہتے رہیں تو وہ لمبا عرصہ کھائے پئے بغیر زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر آپ اِسے دنیا جہان کی ہر چیز کھلا دیں اور داد نہ دیں تو وہ بھوکا رہے گا۔ اگر آپ کسی شاعر سے انتقام لینا چاہتے ہیں تو اکثر و بیشتر اُس کی شاعری سنتے رہا کریں لیکن اسے داد نہ دیں۔ کسی نہ کسی دن اُسے ضرور اختلاجِ قلب ہو جائے گا۔ ویسے ہم نے چند ایسے شاعروں کو دیکھا ہے جنہوں نے واہ واہ سبحان اللہ کی آوازوں کی کیسٹ ریکارڈ کی ہوئی ہے جنہیں وہ تنہائی میں داد کی بھوک مٹانے کے لئے سنتے ہیں۔
اقسام
دنیا میں ہر مخلوق لا تعداد اقسام میں پائی جاتی ہے شاعر بھی اس مستثنی نہیں مزاج، انداز اور طریقہ واردات میں اختلاف کے باوجود ان کی کئی اقسام ہیں۔ جن میں سے چند ایک کا حال آپ کی عبرت کے لئے دیا جا رہا ہے۔
نرا شاعر: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ سوائے شاعری کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ چونکہ اِسے اکثر و بیشتر فاقے سے لطف اندوز ہونا پڑتا ہے اِس لئے اس کی شاعری میں بلا کا سوز اور درد پایا جاتا ہے۔ یہ با آسانی کوئی بھی مشاعرہ لوٹ لیتا ہے لیکن محلے کے دوکاندار سے اُدھار تک نہیں لے سکتا۔ بعض اوقات اسے اپنی شاعری فروخت کرنی پڑتی ہے۔ اِن کی ازدواجی زندگی مرثیوں سے بھر پور ہوتی ہے۔ غالبؔ، اقبال ساجدؔ اور ساغرؔ صدیقی اِس قسم کے نمائندہ شاعر ہیں۔
عاشق کم شاعر: یہ عموماً بے روزگار ہوتے ہیں اور پارٹ ٹائم عشق سے ٹائم پاس کرتے ہیں۔ عشق کی منازل طے کرتے کرتے جب یہ رانجھے یا مجنوں کے انجام کے قریب پہنچتے ہیں تو ترقی کر کے شاعر بن جاتے ہیں۔ اِن کی شاعری عموماً بے وزن ہونے کے باوجود کلو گراموں میں ہوتی ہے۔ یہ نوکری یا چھوکریوں کے پلے پڑنے کے بعد تائب ہو جاتے ہیں اور ادب کو بخش دیتے ہیں۔
سمگلر شاعر: عام شاعروں کی طرح سمگلر شاعروں کے بھی کئی گروہ ہیں۔ اِن کا ایک گروہ کسی انتقال شدہ گمنام شاعر کے اہلِ خانہ سے اس کی شاعری ردی کے بھاؤ خرید کر صاحبِ دیوان بن جاتا ہے۔ دوسرا گروپ پرانے شعرا ء کی تلخیص اور الٹ پھیر سے کام چلاتا ہے۔ تیسرا گروہ کسی دوسری زبان کی شاعری سے خیالات اڑا کر اپنی زبان میں باندھ لیتا ہے۔ چوتھا اور آخری گروہ کسی لمبی جھنجھٹ میں پڑے بغیر شارٹ کٹ استعمال کرتا ہے اور کسی بھی ’’نرے شاعر‘‘ سے شاعری خرید لیتا ہے۔ اچھی سے اچھی غزل پندرہ بیس روپے میں مل جاتی ہے۔ اس چوتھے گروہ میں عموماً بیورو کریٹ اور سماجی شخصیات ہوتی ہیں جو اس طریقے سے خود کوُ ’’انٹی لیکچوئل‘‘ (INTELLECTUAL)ثابت کرتے ہیں۔
عظیم شاعر: اس گروہ کی عظمت میں ان کی دولتمندی، عہدے اور پریس پروری کے علاوہ ان کے کاسہ لیسوں کے خوشامدی مضامین کا بھی دخل ہوتا ہے۔ یہ اپنے تئیں غالبؔ سے کم عظیم نہیں ہوتے اور اسی زعم میں اساتذہ کے کلام پر خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔ وہ اُنہی کا پڑھتے اور اُنہی کا کھاتے ہیں۔ علاوہ ازاں ایسے عظیم شعراء ان خواتین شاعرات کی سر پرستی بھی فرماتے ہیں جو شاعری بیشک نہ کر سکتی ہوں لیکن شاعر بننا ضرور چاہتی ہوں۔ یہ ایسی شاعرات کے مجموعے اپنے خرچ اور مواد پر چھپوا کر اپنی عظمت کا ثبوت دیتے ہیں۔
سیاسی شاعر: اِن کے دو گروہ ساحرؔ، فیضؔ، جالبؔ اور شورشؔ جیسے شاعروں پر مشتمل ہے۔ یہ کلمۂ حق کسی جابر سلطان کے سامنے کہہ کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ عوامی ہے جو سیاسی جلسوں میں اپنا لوہا اور فولاد منواتا ہے۔ یہ کسی امیدوار یا پارٹی کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے جلسوں میں اس کے قصیدے اور مخالفین کی ہجو پڑھتے ہیں، یوں یہ عوامی شہرت کے ساتھ ساتھ شاعروں کے سب گروہوں سے زیادہ کماتے ہیں۔
موبائل شاعر: اِن کے بھی دو گروہ ہیں۔ پہلے گروہ والے شہر میں گلی گلی گھومتے ہیں۔ کہیں کسی شادی، منگنی، مہندی، ختنہ یا سالگرہ کی بھنک ملتی ہے تو وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ عموماً معززین کا لباس زیب تن کیے ہوتے ہیں، اس لیے تقریبات میں با آسانی گھس جاتے ہیں۔ پھر مہمانوں سے باتوں باتوں میں تقریب کے مرکزی کرداروں کے نام معلوم کر کے پہلے سے تیار شدہ سہرے اور دعا اُس میں فٹ کر لیتے ہیں۔ حاضرین کی بڑی تعداد تب تک انہیں ایک معزز مہمان ہی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ اچانک یہ بلائے ناگہانی کی طرح تقریب کے مرکزی کردار کے سر پر پہنچ کر اپنا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں اور تمام شرکا ء کا موڈ خراب کر دیتے ہیں۔ یہ تب تک چپ نہیں ہوتے جب تک پیسے یا کسی اور چیز سے اِن کا منہ بند نہیں کر دیا جاتا۔ دوسرا گروہ چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں کی صورت میں شاعری چھاپ کر بسوں اور تعلیمی اداروں میں گا گا کر فروخت کرتے ہیں۔
پینٹر شاعر: اکثر پینٹر شاعر شاعرانہ ذوق کے حامل ہوتے ہیں جس کا ثبوت وہ گاڑیوں کو پینٹ اور ڈیکوریٹ کرتے وقت دیتے ہیں۔ آپ نے اکثر بسوں، ویگنوں اور رکشوں کے پیچھے کبھی غالب ؔیا اقبالؔ کو بغل گیر ہوتے دیکھا ہو گا تو کبھی فیضؔ اور جوشؔ کو اور کبھی ایسے ذاتی اشعار بھی پڑھے ہوں گے جن کا ایک مصرعہ دوسرے مصرعے سے متفق نہیں ہوتا۔ یہ سب کارنامے اور شاہکار پینٹرز کے ہوتے ہیں۔ اگر ان پینٹرز کے ہتھے کوئی ہوائی جہاز بھی چڑھ گیا تو یہ وہاں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائیں گے اور شاعری کو نیا بین الاقوامی انداز دیں گے۔ پینٹر شاعر کی اتنی خدمات کے برعکس آج تک کسی ادبی جائزے میں ان کاُذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسی عوامی شاعری پر ان کو کوئی ایوارڈ دیا گیا ہے حالانکہ یہ لوگ تو اس قابل ہیں کہ ان پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کرنا چاہیے، لیکن یہ صابر شاکر لوگ ان تمام حق تلفیوں کے باوجود شکوہ کناں ہوئے بغیر اپنے فرائضِ منصبی نہایت دیانتداری، محنت اور مہارت سے انجام دے رہے ہیں اور شاعری میں نِت نئے تجربے کر رہے ہیں۔ ایک شنید یہ بھی ہے کہ آزاد شاعری کے موجد بھی یہی لوگ ہیں۔
آزاد شاعر: یہ آزادی پسند ہوتے ہیں۔ شاعری میں بھی کسی قسم کی پابندی کے قائل نہیں ہوتے۔ نثری عبارتوں کو اوپر تلے مبہم انداز میں لکھ کر آزاد شاعری کا نام دیتے ہیں اور لہو لگا کر شہیدوں میں ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِن کو بھی ابھی تک باقاعدہ شاعر تسلیم نہیں کیا گیا۔ بعض غضبناک بزرگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آزاد شاعری کرنے کا حق صرف اور صرف پابند شاعری کرنے والوں کو ہونا چاہیے، لیکن ان کے غضب کے باوجود مارکیٹ آزاد شاعری کے مجموعوں سے بھری پڑی ہے اور کوئی طوفان نہیں ٹوٹا۔ جہاں تک سیل کی بات ہے تو یہ بھی پابند شاعری کی طرح ردی میں سیل ہو رہی ہے۔ یوں نتیجے کے لحاظ سے ان میں زیادہ فرق نہیں۔
فوائد
’’نہیں ہے نکمی کوئی چیز زمانے میں ‘‘ کے مصداق شاعروں کے بھی کچھ فوائد ہیں۔
٭ شاعر کے حال سے کسی بھی وقت ٹنوں کے حساب سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭ شاعری سننے کے وعدے پر شاعر سے ہر کام کرا سکتے ہیں۔
٭ ضرورت کے وقت ان سے اپنی محبوبہ کا قصیدہ لکھوا کر اپنے درجات بلند کئے جا سکتے ہیں۔
٭ شادی کے مواقع پر سہرا لکھوایا جا سکتا ہے اور بیگم کے مرنے پر قطعۂ تاریخِ وفات بھی لکھوا کر لوح مزار سجائی جا سکتی ہے۔
٭ شاعر کی موجودگی میں گھر میں چوکیدار کی قطعاً ضرورت نہیں رہتی۔
٭شاعر گھر پر ہو تو کسی بھی وقت اس کے ردی جلا کر اور بیچ کر ہاتھ اور جیب گرم کیے جا سکتے ہیں۔
٭کسی بھی دشمن پر شاعر کو مسلّط کر کے اس سے بدلہ لے سکتے ہیں۔
٭ شاعروں کو ٹارچر سیلوں پر ملازمت دینے سے کم وقت میں آسانی سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
٭ ایک شاعر کو دوست بنا کر سب دوستوں پر رعب رکھا جا سکتا ہے۔
٭ضخیم شعری دیوان اچھے ہتھیار کا کام دے سکتا ہے۔
نقصانات
٭یہ گھر یا گھر سے باہر کا کوئی عملی کام نہ کر سکنے کے باعث والدین کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
٭ ان کے اشعار بعض اوقات خاندان کی لڑائی کا باعث بنتے ہیں۔
٭ شاعر کے رات دیر تلک جاگنے سے محلے والے مشکوک ہو جاتے ہیں۔
٭شاعر جہاں بھی رہتا ہے کباڑ خانہ قائم کر دیتا ہے۔
٭گھر میں موجود کوئی بھی صاف کاغذ، حساب کتاب کی کاپیاں حتیٰ کہ ٹوائلٹ کی دیواریں اور بستر کی چادریں بھی اس کے مشقِ سخن سے محفوظ نہیں ہوتیں
٭ شاعر اور اس کے دوستوں کو چائے پلا پلا کر گھر کا بجٹ غیر متوازن ہو جاتا ہے۔
٭ شاعر زیادہ تر تنگ دست رہتے ہیں اس لئے اوّل تو کوئی لڑکی ان سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوتی اور اگر شادی ہو جائے تو تمام عمر روتی ہے
٭ اگر آپ کے حلقۂ احباب میں کوئی شاعر ہے تو آپ کا موڈ ہو یا نہ ہو اس کی شاعری سے محظوظ ہونا پڑے گا۔
٭٭٭
قلم آرائیاں سے اقتباسات
متفرق
غلام جیلانی اصغر
خادم حسین مجاہدؔ ادب اور زندگی کی ناہمواریوں کو دیکھتے ہیں تو اپنے قلمی نشتر سے اِن ناسوروں کو آہستگی سے چھیڑ دیتے ہیں، اسطرح کہ فاسد مواد بہہ جاتا ہے۔ اِن کے عملِ جراحی میں ایک فطری نفاست اور تیزی ہے۔ اس عمل کے دوران وہ عموماً مریض کو اِس درجہ مبہوت کر دیتے ہیں کہ مریض کو نشتر کی جراحت تک محسوس نہیں ہوتی۔
ضیاء الحق قاسمی
خادم حسین مجاہد کی طنز میں گہری کاٹ پائی جاتی ہے۔ وہ تفصیل کے بجائے ایجاز و اختصار کو پسند کرتے ہیں۔ وہ ایک خیال پر ایک تحریر نہیں لکھتے بلکہ ایک تحریر میں کئی خیال پیش کرتے ہیں۔ وہ سماجی موضوعات کے ساتھ ادبی اور سیاسی معاملات کو بھی کامیابی کے ساتھ طنز و مزاح کا روپ دیتے ہیں، جس سے زبان و بیان پر اُن کے عبور اور وسیع مطالعے کا پتہ چلتا ہے۔ اِن کے ہاں ابنِ انشاء کی طرح نصابی تحریف (Parody) کے بعض عمدہ نمونے بھی ملتے ہیں جن میں انہوں نے اپنا ایک خاص رنگ پیدا کیا ہے۔ مزید ادبی اجلاس اور تنقیدی مضامین کی جو خوبصورت پیروڈی اُنہوں نے پیش کی ہے اس کی نظیر مشکل سے ہی ملے گی۔
ڈاکٹر وزیر آغا
خادم حسین مجاہد کی تحریروں میں تازگی اور گہرائی کے ساتھ ساتھ ایک چونکا دینے والا تیکھا پن ہے۔ اس کے ہاں واضح سماجی شعور پایا جاتا ہے۔ اس کی نظر اپنے ماحول کی ناہمواریوں پر مرکوز ہے۔ وہ ہمیں سماج کے ناسوروں لی طرف متوجہ کرنے کی برابر کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے طنز میں تفکر کا رنگ غالب ہے تو مزاح میں خیر خواہی کا، اسی لئے اِن کی تحریر کا ساختیاتی مطالعہ جہاں طنز و مزاح کی تمام جہتوں پر اس کی فنی مہارت کو ظاہر کرتا ہے وہاں پسِ ساختیاتی مطالعے میں ہمیں اپنے ہی معاشرے کی حقیقی تصریو اپنی تمام تر تلخیوں اور مضحکہ خیزیوں سمیت نظر آتی ہے۔ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ اس کا سامنا کریں یا آنکھیں بند کر لیں۔
امر بلال رانا
خادم حسین مجاہد نیم فلسفی، نیم ملا ہے (وضاحت کے لئے اس کی تصویر دیکھ لیں ) تحریریں لکھتے ہوئے اس کا لاشعور قیانے اور فلسفے کے زیرِ اثر جدلیاتی حقائق کو بھی تخلیق میں گھوٹ دیتا ہے، اِسی لئے اس کی تحریریں مسمریزم اور ہپناٹزم کے سے اثرات رکھتی ہیں جن کی ٹرانس سے کوئی بھی با ذوق اور زندہ دل نہیں نکل سکتا۔ یہ جانوروں کی نفسیات اور انسانوں کے بارے میں ان کے خیالات اِتنے وثوق سے بیان کرتا ہے کہ اس کے اشرف المخلوق ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔
رقیہ آرزو
خادم حسین مجاہد کی تحریریں اختصار اور جامعیت کا حسین امتزاج ہوتی ہیں۔ وہ قاری کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اس لئے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اِن کی تحریریں آئیڈیاز سے بھرپور اور پہلو دار ہوتی ہیں۔ ایک ایک جملے سے کئی کئی مطلب برآمد ہوتے ہیں۔ یہ صنفِ نازک کے موضوع پر بے حد احتیاط سے لکھتے ہیں۔ اِن سے شرمیلا مزاح نگار آج تک نہیں دیکھا گیا۔ یہ ایسے ایسے پرچے سیٹ کرتے ہیں کہ طلباء پریشان ہونے کے بجائے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔
صوفی فقیر محمد
سرگودھا میں ہنسی کی ہر سازش کے پیچھے کہیں نہ کہیں خادم حسین مجاہد کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رضوان ثاقب
معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کے خلاف خادم حسین مجاہد کا رویہ جارحانہ ہی نہیں، مجاہدانہ بھی ہوتا ہے۔ مسکراہٹیں تقسیم کرنے والا یہ فنکار جب قلمی جہاد پر نکلتا ہے تو مکروہ چہروں سے خوش نما نقاب نوچ لیتا ہے۔ یہ کوشش کے باوجود ظلم، استحصال، نا انصافی اور کرپشن سے اپنی نفرت چھپا نہیں سکتا کیونکہ یہ وہ مجاہد ہے جس کی اذان ملا کی اذان سے بہرحال مختلف ہوتی ہے۔
پروفیسر شیخ محمد اقبال
ابتدا سے ہی خادم حسین مجاہد کے قلم میں وہ پختگی ہے جو برسوں کی ریاضت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اب تو اس کا قلم مزید نکھر گیا ہے۔
ارشاد العصر جعفری
خادم حسین مجاہدؔ عوام میں سے ہے اِسی لئے اپنی تحریروں میں سیاست سے ’’امتیازی‘‘ سلوک کرتا ہے۔ سیاست کے نالے کی ’’بھل صفائی‘‘ کرتے ہوئے اس کے چہرے پر بڑی قاتل مسکراہٹ ہوتی ہے۔ نوجوان مزاح نگاروں میں اس جیسا بیباک ادیب اور کوئی نہیں۔
٭٭٭
لمرک
نوید ظفر کیانی
شکر گزاری
میرے چند اِک دوستوں کی بیویوں میں بات یہ اچھی نہیں
شوہروں کی تو اُنہیں اخبار بینی مطلقاً بھاتی نہیں
زہر لگنے لگتے ہیں شوہر اُنہیں
گمشدہ جب دیکھ لیں اخبار میں
شکر کرتا ہوں کہ بیگم آپ اُن میں سے کسی جیسی نہیں
٭٭
سودا نقد ہے
کیوں ہر بجٹ پر ہر کوئی اب دل پہ اپنے بات لے
تنخواہوں میں increase لے کر ٹیکسوں کی بہتات لے
ٹیکسوں کی جو بھرمار ہے
اس سے تو ہے یہ بات طے
ہے گورنمنٹ کی پالیسی اِس ہاتھ دے اُس ہات لے
٭٭
ایک ہی صف میں۔ ۔ ۔
زبانِ زوجہ کے نرغے میں ہے میاں کی پھبن
ہر ایک مردِ اکڑ خو بنا ہے بندۂ رن
سو کر سکا ہے کہاں
کبھی بھی چوں و چراں
جو حکم ہو گیا وہ نیڈفُل کیا ہے ڈن
سیاست
سرکاری دفتر میں کام کہاں کہ کوئی کیا کرے
ٹی وی چینلز کے اِن ٹاکنگ شوز کا مولا بھلا کرے
کارِ بیکاری ہے لیکن
دِن نہیں کٹنے پاتا اِس بِن
ایک سیاست ہے وہ چارہ جس کو ہر کوئی چرا کرے
٭٭
لوٹا ای اوئے۔ ۔ ۔
عبرت کہ دنیا میں کیسے کیسے نہلے ہیں دھلے
میری حالت پر و ہنس لے، جو جی چاہے سو کہہ لے
تھینک یو ویری ویری مچ
لیکن یہ بھی بات ہے سچ
میں بھی تھا بندے کا پُتر لیڈر بننے سے پہلے
٭٭٭
جستہ جستہ
عاشق اور خاوند
کامیاب عاشق وہ ہوتا ہے جو عشق میں ناکام ہو کیونکہ جو کامیاب ہو جائے وہ ’’عاشق‘‘ نہیں ’’خاوند‘‘ کہلاتا ہے۔ شادی سے پہلے وہ بڑھ کر محبوبہ کا ہاتھ پکڑتا ہے، اپنی محبت کے لئے، جبکہ شادی کے بعد وہ بڑھ کر بیوی کا ہاتھ پکڑتا ہے، اپنے بچاؤ کے لئے۔ جو شخص یہ کہے کہ اس کی بیوی نے کبھی اُس کی حکم عدولی نہیں کی، یہ وہ شخص ہے جس نے کبھی اپنی بیوی کو حکم ہی نہیں دیا۔ ویسے بھی محبوبہ میں سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ بندے کو اسے طلاق نہیں دینا پڑتی۔ عورت کا عشق مرد سے ہزار درجے بہتر ہے کیونکہ عورت کو عشق میں کامیابی کی صورت میں کسی عورت کے ساتھ شادی تو نہیں کرنی پڑتی۔
شیطانیاں از ڈاکٹر محمد یونس بٹ
٭٭
’’جن لوگوں کے اندر شاعری کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ شاعری کر کے اس صلاحیت کو زائل کر لیتے ہیں لیکن جن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی انہیں بھی تو بہرحال کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھیں، نثری شاعری کر لیں۔ اس میں کسی دوسرے کی گرہ سے کیا جاتا ہے۔ نثری شاعری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو پڑھنے کی عادت نہیں ہے، وہ اپنی اس عادت کے جواز میں شاعری کو پیش کر کے بہت خوش اسلوبی سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پڑھنے سے نہ پڑھنا بدرجہا بہتر ہے۔ ‘‘
شگفتہ بیانی یا آشفتہ بیانی از خامہ بگوش
٭٭
ادب کا بھاؤ
’’ادب کے معیار کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ کاغذ جو بازار میں سونے کے بھاؤ بکتا ہے، جب اس پر شاعری یا افسانہ چھپ جاتے ہیں تو ردی کے بھاؤ بھی نہیں بکتا‘‘
سوختنی نہ فروختنی از خامہ بگوش
٭٭
ایک بار تخلص بھوپالی مولانا علی میاں کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ ’’ حضرت آپ سعودی عرب تشریف لے جا رہے ہیں اس درمیان اگر میں مر جاؤں تو کتبے پر کیا لکھواؤں۔ مولانا نے مسکرا کر تخلص کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا ’’میرا خیال ہے آپ کتبے پر یہ لکھوائیے کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔ ‘‘
دہلی میں پیروڈی شاعری کا مشاعرہ تھا۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کے لیے پیش کیا گیا تو وہ انکسار سے بولے ’’حضور ! میں صدارت کا اہل کہاں ہوں ؟‘‘
اس پر کنور مہندر سنگھ نے فرمایا ’’مطمئن رہیں، آپ بھی صدر کی پیروڈی ہی ہیں۔ ‘‘
٭٭
وزیرِ قانون
بہت پرانا لطیفہ ہے۔ جب پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک افغانی مہاجر نے اپنا تعارف افغانستان کے ریلوے کے وزیر کے طور پر کرایا۔
مخاطب نے حیران ہو کر کہا ’’وہ کیسے ؟ افغانستان میں تو ریلوے ہے ہی نہیں۔ ‘‘
اس پر افغان مہاجر نے جواب دیا ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہی، آخر پاکستان میں وزیر قانون بھی تو ہوتا ہے۔ ‘‘
ماورائے عدالت پھینٹی ازعطاء الحق قاسمی
٭٭
لوٹا
لوٹا چاندی بھی ہے ، لوٹا سونا بھی ہے اور لوٹا ہیرا بھی ہے لیکن ایک لوٹا مٹی بھی کہ وہ مٹی ہی سے بنا ہوتا ہے۔ اور اس نے لوٹ کر اسی مٹی میں جانا ہوتا ہے۔ جو لوٹا اپنی مٹی سے تعلق نہیں توڑتا اس کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ اس کی خوشبو ہی منفرد ہوتی ہے۔ اس میں گرم تپتا ہوا پانی بھی ڈالیں تو کچھ لمحوں بعد وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ الغرض لوٹے کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے کہ لوٹا خیرِ کثیر ہوتا ہے۔ لوٹا صرف ووٹ ہی نہیں حوصلے بھی بڑھاتا ہے۔ بعض اوقات ایک لوٹا آنے سے کہانی کا رُخ ہی بدل جاتا ہے ، پانسے پلٹ جاتے ہیں۔ بہرکیف لوٹا اگر ایک گروہ کے لئے خوشی کا باعث ہے تو دوسروں کو چھوڑ کر آنا بھی شاید اس کے لئے دُکھ کا باعث نہ ہوتا ہو جن کو وہ چھوڑ کر آتا ہے ان کے لئے غم کا ایک کوہِ گراں بن جاتا ہے۔ لوٹے کی زندگی میں غم اور ندامت رچی بسی معلوم ہوتی ہے کہ لوٹا جتنا بھی با رعب ہو، اس کی آنکھیں پیچھے چھوڑ کر آنے والوں کا سامنا نہیں کر پاتیں۔ لیکن لوٹا تو لوٹا ہوتا ہے، وہ کیا کرے کہ اس کی اگر آنکھیں دو ہیں تو ٹوٹیاں بھی دو ہوتی ہیں۔ جو اسے نت نئی سمتوں کا تعین کرنے کے لئے بے تاب رکھتی ہیں۔
ہم تو یونہی چلتے رہیں گے
جلنے والے جلتے رہیں گے
یوسف عالمگیرین
٭٭
مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو اپنی بیٹی زیب النساء کے لیے استاد درکار تھا۔ یہ خبر سن کر ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بیسیوں قادر الکلام شاعر دہلی آ گئے کہ شاید قسمت یاوری کرے اور وہ شہزادی کے استاد مقر ر کر دیئے جائیں۔
ان ایام میں دہلی میں اس زمانہ کے نامور شاعر برہمن اور میر ناصر علی سرہندی بھی موجود تھے۔ نواب ذوالفقار علی خان، ناظمِ سرہند کی سفارش پر برہمن اور میر ناصر کو شاہی محل میں اورنگزیب کے روبرو پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے برہمن کو اپنا کلام سنانے کا حکم ہوا، برہمن نے تعمیلِ حکم میں جو غزل پڑھی، اس کا مقطع تھا۔
مرا دلیست بکفر آشنا کہ چندیں بار
بکعبہ بُردم و بازم برہمن آوردم
(میرا دل اسقدر کفر آشنا ہے کہ میں جب بھی کعبہ گیا، برہمن کا برہمن ہی واپس آیا۔ )
گو یہ محض شاعرانہ خیال تھا اور تخلص کی رعایت کے تحت کہا گیا تھا لیکن عالمگیر انتہائی پابند شرع اور سخت گیر بادشاہ تھا، اس کی تیوری چڑھ گئی اور وہ برہمن کی طرف سے منہ پھیر کے بیٹھ گیا۔
میر ناصر علی نے اس صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے اٹھ کر عرض کی کہ جہاں پناہ اگر برہمن مکہ جانے کے باوجود برہمن ہی رہتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، شیخ سعدی بھی تو یہی کہہ گئے ہیں۔ ۔
خرِ عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
(عیسیٰ کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے وہ جب واپس آئے گا، گدھے کا گدھا ہی ہو گا۔ )
عالمگیر یہ شعر سن کر خوش ہو گیا اور برہمن کو معاف کر دیا۔
٭٭
محمد علی بمقابلہ محمد علی
محمد علی باکسر ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے جس طرح کچھ سال قبل ہمارے اپنے فلمی اداکار محمد علی ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ یہ دونوں اپنے فن کے دھنی تھے اور بے حد اچھے انسان بھی تھے لیکن ایک بات ہمیں ماننی پڑے گی کہ محمد علی باکسر کو ہم فلمی اداکار محمد علی سے بہتر مسلمان سمجھتے رہے جس کی وجہ شاید ہمارے والے محمد علی کی فلمی دنیا سے وابستگی ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے دین میں فلموں میں کام کرنے پر پابندی ہے اور معاشرہ بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ ہاں البتہ پوری دنیا کے سامنے جانگھیا پہن کر کسی کو گھونسے مارنا ٹھیک ہے۔ بچپن میں محمد علی باکسر کے پوسٹر کمرے کی دیوار پر لگانے پر کوء پابندی نہیں تھی البتہ گھر میں محمد علی اداکار کے ذکر پر لوفر کا لقب ملنے میں دیر نہیں لگتی تھی اور اگر یہ غلطی اسکول میں ہو تی تو استاد کلاس روم سے نکال دیتے تھے۔ محمد علی باکسر ہمارے لئے ہمیشہ باعث افتخار رہے مگر محمد علی اداکار پاکستانی فلمیں دیکھنے والے "جاہل اور گنوار” تبقے سے تعلق رکھنے والوں سے منصوب کئے جاتے رہے۔ جہاں محمد علی باکسر کے حقیقت پر مبنی اور ناک منہ سے خون نکال دینے والے گھونسے ہم سراہتے رہی وہاں محمد علی اداکار کے جھوٹ موٹ کے مکّوں کو، جن سے "بھشوم – پا” کی آواز کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا تھا، مذاق کا نشانہ بناتے رہے۔ محمد علی باکسر جب بھی ہمارے ڈرائنگ روم میں آئے بغیر قمیض کے آئے اور ہم انہیں بہ خوشی برداشت کرتے رہے لیکن محمد علی اداکار کے گریبان کے کھلے ہوئے دو بٹن ہم سے گورا نہ ہو سکے۔ خیر۔ ۔ ۔ اب چونکہ دونوں محمد علی دنیا میں نہیں رہے اس لئے دونوں کی مغفرت کی دعا کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں محمد علیوں کو معاف کرے اور جنت میں اعلیٰ درجے عطا فرمائے۔ آمین
عظیم خواجہ
٭٭
مجھے ہنسنا ہنسانا پسند ہے لیکن کچھ لوگوں کا ہنسنا ہنسانا دیکھ کر مرثیہ گوئی کو جی چاہنے لگتا ہے۔ ایک صاحب ہیں جو کسی معمولی سی بات پر ہنستے ہیں اور پھر ہنستے چلے جاتے ہیں۔ اِن کا مخاطب انتظار کرتا ہے کہ ان کی ہنسی ختم ہو تو وہ آگے بات بڑھائے لیکن ان کے آدھے جملے پر یہ صاحب پھر سے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں اور اِتنا ہنستے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے جس پر وہ دھوتی کا پلو اوپر اُٹھا کر آنکھ صاف کرتے ہیں، دوسرے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہنسنا منع ہے از عطاء الحق قاسمی
٭٭
تمھیں یقین نہیں آئے گا، دو ہفتے ہونے کو آئے، ایک مظلوم صورت کلرک یہاں آیا اور مجھے اس کونے میں لے جا کر کچھ شرماتے، کچھ لجاتے ہوئے کہنے لگا کہ کرشن چندر ایم اے کی وہ کتاب چاہیئے جس میں ’’تیری ماں کے دودھ میں حکم کا اِکّا‘‘ والی گالی ہے۔ خیر، اسے جانے دو کہ اس بیچارے کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ گالی سامنے رکھ کر ہی اُس کی صورت بنائی گئی ہو مگر ان صاحب کو کیا کہو گے جو نئے نئے اُردو کے لیکچر ر مقر ر ہوئے ہیں۔ میرے واقف کار ہیں۔ اِسی مہینے کی پہلی تاریخ کو کالج سے پہلی تنخواہ وصول کر کے سیدھے یہاں آئے اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ پوچھنے لگے کہ صاحب آپ کے ہاں منٹو کی وہ کتاب بھی ہے جس میں ’’دھرن تختہ‘‘ کے معنیٰ ہوں ؟ اور ابھی پرسوں کا ذکر ہے، ایک محترمہ تشریف لائیں، سن یہی اٹھارہ انیس کا، نکلتا ہوا بدن، اپنی گڑیا کی چولی پہنے ہوئے تھیں۔ دونوں ہتھیلیوں کی رحل بنا کراس پر اپنا کتابی چہرہ رکھا اور لگیں کتابوں کو ٹکر ٹکر دیکھنے۔ اِسی جگہ جہاں تم کھڑے ہو۔ پھر دریافت کیا ’’کوئی ناول ہے ؟‘‘ میں نے راتوں کی نیند حرام کرنے والا ایک ناول پیش کیا۔ رحل پر سے بولیں ’’یہ نہیں، کوئی ایسا دلچسپ ناول دیجئے کہ رات کو پڑھتے ہی نیند آ جائے۔ ‘‘ میں نے ایک ایسا ہی غشی آور ناول نکال کر دیا۔ مگر وہ بھی نہیں جچا۔ در اصل اُنہیں کسی گہرے سبز گرد پوش والی کتاب کی تلاش تھی جو اُن کی خواب گار کے سرخ پردوں سے ’’میچ‘‘ ہو جائے۔ اس سخت معیار پر صرف ایک کتاب پوری اُتری۔ وہ تھی ’’استاد موٹر ڈرائیوری (منظوم)‘‘ جسے در اصل اُردو زبان میں خودکشی کی آسان ترکیبوں کا پہلا منظوم ہدایت نامہ کہنا چاہیئے۔
خاکم بدہن از مشتاق احمد یوسفی
٭٭
ہمارے ایک شاعر دوست نے کہا ’’میری ماں دعا مانگتی تھیں کہ میرا بیٹا شاعر نہ بنے ‘‘ عرض کی ’’آپ کا کلام پڑھ کر یقین ہوتا ہے کہ ماں کی دعا سیدھی عرش پر جاتی ہے۔ ‘‘
بٹ پارے از ڈاکٹر محمد یونس بٹ
٭٭
مشہور شاعر اختر شیرانی لاہور کے انارکلی بازار میں جوتوں کی مشہور دکان پر جوتے خریدنے گئے۔ دکان دار نے ان کے سامنے جوتوں کا ڈھیر لگا دیا۔ اختر شیرانی نے ایک ایک جوڑا دیکھا، مگر کوئی پسند نہیں آیا۔ قیمتوں پر بھی انہیں اعتراض تھا۔ دکان دار طنزیہ لہجے میں بولا ’’ اِتنے جوتے پڑے ہیں، آپ اب بھی مطمئن نہیں ہوئے ؟‘‘
اختر شیرانی ایک جوتا پہنتے ہوئے بولے ’’بارہ روپے لیتے ہو یا اُتاروں جوتا؟”
٭٭
ڈاکٹر تمہیں کوئی خاص شکایت نہیں، صرف آرام کی ضرورت ہے۔ مریضہ لیکن ڈاکٹر صاحب ذرا میری زبان تو دیکھیے۔
ڈاکٹر ہاں اس کو بھی آرام کی ضرورت ہے۔
(نوادر۔ مرزا محمد عسکری)
٭٭
چغلیاں
گدھا ایک ایسا جانور ہے جو پیٹھ پیچھے کھڑے ہو کر بولنے والوں کو لات مارتا ہے مگر سامنے کھڑے ہو کر بولا جائے تو خاموش کھڑا رہتا ہے۔
کہتے ہیں گناہ میں لذت ہوتی ہے اور یہ مشغلے گناہ بھی بڑا لذت آموز ہوتا ہے لوگ اسے اس شخص کی پرواہ تو چھوڑ دیجئے بلکہ منکر اور نکیر کی پرواہ تک چھوڑ دیتے ہیں اس کار مصروف میں ابن آدم سے زیادہ بنت حوا کافی آگے ہے اس لئے بیچاریاں کافی مصروف ہوتی ہیں۔ گھر کی مصروفیات نپٹانے کے بعد ایک دوسرے سے نپٹتی ہیں۔ اس نپٹا نپٹی میں کبھی کبھی جھپٹا جھپٹی اور جنگ محلہ اور جنگ پڑوسی برپا ہو جاتی ہے۔ ہتھیار تیز رفتار زبان جو پیٹھ پیچھے چلتی تھی اب آگے چلنے لگ جاتی ہے، یہ نوبت اس لئے آتی ہے کیونکہ اس میں کچھ ماہر جاسوسیت بھی ہوتی ہیں جو بجھانے سے زیادہ چنگاریاں سلگاتی ہیں۔
اس لپٹا جھپٹی سے نکل کر اس مرگِ فتن کا کا پوسٹ مارٹم کرے تو پتہ چلتا ہے کی جس میں حق گوئی کے وٹامن نہیں ہوتے یہ بیماری اس پر اثر کرتی ہے اور اس مرگ لاعلاج کا جب بے عزتی سے آپریشن نہیں ہوتا تب تک ختم نہیں ہوتی۔ کچھ لوگوں کے لا تعداد آپریشن کرنا ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ ناسور ختم نہیں ہوتا، بس زندگی آپریشن بھری ہو جاتی ہے الا یہ کہ سکرات میں جائے اور زبان خنجر خاموش ہو جائے۔
پیٹھ پیچھے از ارشاد سرگروہ
٭٭
منے میاں ہمارے پڑوسی ہیں اور اس نوخیز نسل کی کونپل ہیں جسے آگے چل کر پھول بننا ہے، پتہ نہیں گوبھی کا پھول یا گلاب کا۔ البتہ آثار بتاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ان کے عینک لگ جائے گی اور بال بڑھائے، سگریٹ پھونکتے ہوئے وہ چٹکی بجا کر، گل جھاڑتے ہوئے کہا کریں گے ’’بائی دی وے انکل، ہمارے ہاں سنسر اِتنا نیرو مائنڈڈ کیوں ہے ؟ ہم سنسر کی قید سے آزاد فلمیں کیوں نہیں بناتے۔ ماشا اللہ ہمارے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ بدر منیر ہے، مسرت شاہین ہے، منزہ شیخ ہے، سنیتا خان ہے، اِتنا سہم سہم کر، بچ بچ کر، مرغی چوزوں کی طرح دائیں بائیں دیکھ کر فلمیں بنانے کی کیا ضرورت ہے، آ جاؤ کلئر کٹ میدان میں !‘‘
اس طرح تو ہوتا ہے از اعتبار ساجد
٭٭
غلام گردش
ایک بار مرزا غالبؔ نواب فتح الملک بہادر سے ملنے ان کے یہاں گئے تو خدمت گاروں نے صاحب عالم کو اطلاع دی ’’مرزا نوشہ صاحب آ رہے ہیں۔ ‘‘
وہ کسی کام میں مشغول تھے اس لیے فوراً باہر نہ جا سکے۔ جبکہ مرزا صاحب کچھ دیر وہیں ٹہلتے رہے۔ اتنے میں صاحب عالم نے پکار کر ملازم سے پوچھا ’’ارے مرزا صاحب کہاں ہیں ؟‘‘
ان کی آواز جب غلام گردش میں ٹہلتے ہوئے مرزا صاحب کے کان میں آئی تو انہوں نے وہیں سے جواب دیا ’’غلام گردش میں ہے !‘‘
جوشؔ ملیح آبادی اور حفیظؔ جالندھری میں شروع ہی سے ادبی چپقلش چل رہی تھی۔ جوشؔ کے پاکستان آ جانے کے بعد تو چپقلش اور بھی بڑھ گئی۔ ایک مشاعرے میں جوش ؔ اور حفیظؔ دونوں کو شرکت کت لئے مدعو کیا گیا، لہذا منتظمین نے فیصلہ کیا کہ دونوں کی نشستیں ریل کے الگ الگ ڈبوں میں ہونی چاہئیں۔ ایک صاحب پوچھنے لگے ’’ کیا آپ کو خدشہ ہے کہ کہیں دونوں میں جھگڑا نہ ہو جائے ؟‘‘
ابھی منتظمین نے کوئی جواب بھی نہ دے پائے تھے کہ پاس کھڑے ابنِ انشا بولے ’’نہیں ! اندیشہ یہ ہے کہ کہیں دونوں میں صلح نہ ہو جائے۔ ‘‘
٭٭
ایک محفل میں مشہور صحافی احمد علی اور اُن کی اہلیہ ہاجرہ مسرور، ابراہیم جلیس اور بہت سے ادیب جمع تھے۔ اچانک ایک صاحب نے ابراہیم جلیس سے سوال کیا ’’یہ بتائیے کہ صحافت اور ادب میں کیا رشتہ ہے ؟‘‘
اِس پر ابراہیم جلیس مسکرائے، احمد علی اور ان کی اہلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’جو احمد علی اور ہاجرہ مسرور کا ہے۔ ‘‘
٭٭
ابراہیم جلیس کو جھوٹ بولنے کی بہت عادت تھی۔ ایک دِن حمید اختر نے جلیس سے کہا ’’میں نے زندگی میں بہت جھوٹے آدمی دیکھے ہیں مگر تم سے بڑا کوئی نہیں ملا۔ تمھاری نظر میں ایسا کوئی ہے جو اِس میدان میں تم سے آگے ہو؟‘‘
’’ہاں ہے !‘‘ ابراہیم جلیس نے جواب دیا۔
حمید اختر نے پوچھا ’’کون؟‘‘
’’میرے والد صاحب۔ ‘‘ ابراہیم جلیس نے کہا ’’میں بی۔ اے میں ایک نمبر سے پاس ہوا یعنی مارجن پر اور والد صاحب نے سارے حیدر آباد کی دعوت کر ڈالی کہ لڑکا یونیورسٹی میں ایک نمبر پر آیا ہے۔ ‘‘
٭٭
رفیق چوہدری کے افسانوں کا مجموعہ ’’محبتوں کے چراغ‘‘ شائع ہوا۔ اس پر دیباچہ ابراہیم جلیس نے لکھا تھا۔ مصنف اور دیباچہ نگار دونوں کو پاکستان سرکار نے فحاشی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ مقدمہ چلا اور دونوں کو تین تین ماہ قید اور تین ہزار جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ اس واقعہ کے بعد ابراہیم جلیس نے چوہدری رفیق سے کہا ’’آئندہ تم افسانے لکھنا بند کر دو اور میں دیباچے لکھنا تاکہ دوبارہ یہ دن دیکھنا نہ پڑے۔ ‘‘
٭٭
بیوی سے بحث مت کرو، جیت تم نہیں سکتے، چُپ وہ نہیں ہو سکتی۔
خادم حسین مجاہد از ’’ قلم آرائیاں ‘‘
٭٭
ہزارہ کے عالم مولانا عبدالرحیم ہزاروی نے اداکارہ ریما سے شادی کرنے کا پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ ’’مسجد میں طالبعلموں کو پڑھانے اور دیگر امور کے صرف آٹھ سو روپے ماہوار ملتے ہیں جس سے میرا گزارہ مشکل ہے، اگر ریما سے میری شادی ہو گئی تو اس کی آمدنی میری پوری زندگی کے لئے کافی ہو گی‘‘۔ مولانا نے کہا کہ ’’اگر لوگ مجھے پاگل کہیں تو بیشک کہیں، میں بہر حال ریما سے شادی کروں گا بلکہ کسی اور مولوی نے اگر میرا نکاح نہ پڑھایا تو میں خود اپنا نکاح پڑھوں گا۔ میرا یہ مشن ضرور کامیاب ہو گا اور شاید میں بھی فلمی دنیا کا ہیرو بن جاؤں۔ پہلی بیوی کو چار سال پہلے طلاق دے چکا ہوں کیونکہ وہ کالی تھی۔ آئندہ طلاق کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ میری آئندہ بیوی ریما ہو گی۔ ‘‘
آپ بھی شرمسار ہو از عطا الحق قاسمی
٭٭
منیر نیازی
اپنی زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے منیر نیازی نے کہا ’’ میں ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، کھاتا کم ہوں اور پیتا زیادہ ہوں۔ تقسیمِ ہند سے قبل نیوی میں بھرتی ہو گیا تھا۔ میری والدہ نے مجھے لکھا کہ انگریز کی فوج میں بھرتی ہو کر آدمی شہید نہیں ہوتا، لہذا وہاں سے بھاگ گیا۔
بات سے بات از انورؔ مسعود
٭٭
جدید خط ۔ ردی فروش کے نام
چٹخارا سینٹر
۳۸مئی ۲۰۰۰ء
محترم ادب فروش صاحب: السلام علیکم
پچھلے دِنوں ایک دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ سارا جدید اَدب بکسٹالوں سے زیادہ آپ کے پاس ملتا ہے اور اِن جدید اَدبی کتابوں کی یہ خاصیت ہے کہ اِن کا کاغذ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے۔ اَدب کی کوالٹی تو اِن کتابوں کے آپ کے پاس ہونے سے ہی ظاہر ہے تو محترم ایسی ۱۰۰ عدد کتب پیک کر کے بھجوا دیں جن کو پڑھنے کی غلطی کسی نے نہ کی ہو کیونکہ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اپنے گاہکوں کو اچھے سے اچھے کاغذ میں پکوڑے لپیٹ کر دوں۔
والسلام
طیفا پروپرائٹر، چٹخارا سینٹر
قلم آرائیاں از خادم حسین مجاہد
٭٭
علامہ اقبال اپنی یوم ولادت پہ مجھے خواب میں نظر آئے تھے اور نہایت پریشان تھے، مجھ سے کہنے لگے کہ یار تم لوگ یہ میری سالگرہیں منانا چھوڑو، بس اتنا کرو کہ کم از کم طوائفوں اور میراثیوں کو تو میرا کلام گانے سے روک دو۔ چھٹے ہوئے لچوں دلالوں منافقوں اور جانے مانے کنجروں کو تو میرے اشعار کے حوالے دینے سے اجتناب کرنے کو کہو۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یہ بات سن کر مجھے بھی نہ جانے کیا ہوا، اچانک زوردار تالی بجائی ایک ٹھمکا سا لگایا اور یہ کہتے ہوئے کیٹ واک کرتا ہوا ایک طرف کو چل دیا، ’’چھوڑو بھی جناب حکیم الامت جانی، رہے نا تم حکیم کے حکیم۔ ۔ ۔ تم تو اپنے کلام کی رائلٹی لینے سے کام رکھو بس۔ ۔ آجکل اسے ہی دانشوری کہتے ہیں۔
عارفیات از سید عارف مصطفیٰ
٭٭
عشق کا بھوت عقل پر پاؤں رکھ کر سوار ہوتا ہے۔
قلم آرائیاں از خادم حسین مجاہد
٭٭
کسی کا احمق ہونا ایک خدائی راز ہے جو بتدریج سب پہ کھل جاتا ہے سوائے اسی کے جو احمق ہو۔
عارفیات از سید عارف مصطفیٰ
٭٭
لڑکیاں بدلہ بھی بہت بُرا لیتی ہے۔ ۔ ۔
کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔ ۔ میرے مقابلے میں ایک لڑکی کھڑی تھی، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے پرس میں ایک نقلی چھپکلی رکھ دی۔ ۔ ۔ جب وہ تقریر کرنے ڈائس پر آئی اور تقریر والا کاغذ نکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ٹھیک ساڑھے چار سیکنڈ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئیں اور پھر اچانک پوری ذمہ داری سے غش کھا کر گر گئی۔ ۔ ۔
اِس بات کا بدلہ اس ظالم نے یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر راتوں رات، جہاں جہاں بھی ’’نامزد امیدوار‘‘ لکھا تھا، وہاں وہاں ’’نامزد‘‘ میں سے ’’ز‘‘ کا نقطہ اُڑا دیا۔ ۔ میں آج تک اس کی ’’سیاسی بصیرت‘‘ پر حیران ہوں۔
شیطانیاں از یونس بٹ
٭٭
شریف اداکارہ
ایک وقت تھا جب ’’شریف‘‘ اداکارہ فلمی دنیا میں پورے ۱۰۰۰ واٹ کے مرکری بلب کی طرح جگمگا رہی تھی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کے فلامنٹ کی طاقت کم ہوتی گئی تو اس نے وولٹیج پورے کرنے کے لئے جسمانی بجلی کا بھرپور استعمال شروع کر دیا، جس سے کئی منچلوں کے دِل شارٹ سرکٹ ہو کر جل گئے۔ بیشمار ہیروئنیں اس کے فیوز (fuse)ہونے کی دعائیں مانگتے مانگتے ایکسپائر (Expire) ہو کر بچوں کو کہانیاں سنانے پر مجبور ہو گئیں مگر شریف اداکارہ نے کسی نیوٹرل سے بندے کیساتھ تعلقات کی تاریں جوڑ کر زندگی کی ہائی سپیڈموٹر چلانے کی کوشش نہ کی۔ در اصل وہ اس ڈر سے فلم انڈسٹری سے کنکشن نہ کاٹ رہی تھی کہ بیرونی دنیا کی گرم ہوا اس کے ٹرانسسٹر نہ جلا دے حالانکہ پوری دنیا میں اس کے اِتنے پنکھے (Fans) موجود تھے کہ وہ گرمیوں میں فل ائر کنڈیشنڈ زندگی گزار سکتی تھی لیکن اس نے حُسن کا فیوز اُڑنے تک فلموں میں جلوؤں کی تھری فیز سپلائی جاری رکھی۔ ’’عجب آزاد عورت تھی۔ ‘‘
’’قلم آرائیاں ‘‘ از خادم حسین مجاہد
٭٭
’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘
’’بس لڑکیوں کی شادی کروا رہا ہوں۔ ‘‘
’’کیا کوئی میرج سینٹر۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’نہیں بھئی، تم سے بچھڑنے کے بعد سے فی سبیل اللہ یہ فرض سر انجام دے رہا ہوں۔ ‘‘
’’وہ کیسے ؟‘‘
’’ایک کلو میٹر کے دائرے میں جو لڑکی شادی کے قابل ہوتی ہے، اُس کے ساتھ شادی کا پروگرام بنانا شروع کر دیتا ہوں اور پھر اُس کی شادی ہو جاتی ہے۔ ‘‘
’’میں سمجھا نہیں، پاکستانی عوام کی طرح۔ ‘‘
’’ارے گھامڑ، جب ہمارے چرچے ہر زبان پر پہنچتے ہیں تو اُس کے گھر والے فوراً اُس کی شادی کر دیتے ہیں۔ ‘‘
’’یہ چرچے تمھارے والدین تک نہیں پہنچے کہ تمھارا بھی کریا کرم کر دیتے ؟‘‘
’’بالکل پہنچے، ایک دن شکایت وصول کرنے کے بعد ابو نے انتہائی جارحانہ انداز میں مجھے طلب کیا اور آہستہ سے بولے یار! لڑکی پٹائی کیسے تھی؟‘‘
’’ہیں ؟ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’میں نے کچھ جدید فارمولے اُن کو بتا دئیے۔ ‘‘
’’اوہ۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’محبو
بہ نمبر ۴۵ اب ہماری دوسری ممی ہے۔ ‘‘
قلم آرائیاں از خادم حسین مجاہد
٭٭
درختوں کی چھاؤں اور زلفوں کی چھاؤں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ درختوں کی چھاؤں میں سرِ عام بیٹھ سکتے ہیں۔
قلم آرائیاں از خادم حسین مجاہد
٭٭
دنیا کی تمام عورتوں سے اگر فرمائش کا عطر نکال لیں تو چاروں برِ اعظم ڈوب جائیں گے۔
قلم آرائیاں از خادم حسین مجاہد
٭٭٭
ڈرامہ مکمل
اِس طرح تو ہوتا ہے
بی۔ سی۔ لیز / نوید ظفر کیانی
۱۸۹۲ء
کردار
ڈک کمفرٹ: شادی شدہ لیکن اکیلا
میریگیل: ایک نامہربان دوست
الیگذینڈر مینڈر: کمفرٹ کا چچا۔ بد سے بدنام بُرا
ہیرس: کمفرٹ کا نوکر۔ ماٹھے شاہ
مسز مینڈر: کمفرٹ کی چچی۔ رانیوں جیسا نخرہ
ایڈتھ: کمفرٹ کی بیوی۔ وفا کی دیوی
سیلی: مسز مینڈر کی ملازمہ۔ کولہو کا بیل
پہلا ایکٹ
منظر: انتہائی نفاست سے سجائے گئے کمفرٹ کے ڈرائنگ روم کا منظر۔ کمفرٹ بڑے انہماک سے ایک خط کا مطالعہ کر رہا ہے۔
کمفرٹ:(ایک وقفہ کے بعد) اب میں کیا کروں۔ ۔ ۔ مینڈر چچا اپنے خط میں فرما رہے ہیں کہ وہ ایک دن میرے ساتھ گزارنے آ رہے ہیں۔ چار برس پہلے جب اُنہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھے اپنا وارث بنا رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ ہر برس پچیس سو ڈالر کی خطیر رقم مجھے دینا چاہتے ہیں تو میں نے کسی بھی قسم کے تعرض کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ ۔ ۔ بلکہ سچ پوچھیں تو میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے لیکن پھر اُنہوں نے یہ شرط لگا دی کہ وہ یہ رقم مجھے اس شرط پر دیں گے کہ میں کبھی شادی نہ کروں۔ ۔ ۔ یہ تو دودھ میں مینگنیاں ملا دینے کے مترادف ہوا۔ ۔ ۔ خیر یہ چار سال پہلے کا تذکرہ ہے، اُس وقت تو میرا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بھلا محبت کرنے میں بھی کوئی دیر لگتی ہے (اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) اور وہ بھی مجھ جیسے نوجوان کے لئے۔ ۔ ۔ ایڈتھ جیسی لڑکی سے، ظاہر ہے محبت کا انجام شادی ہی ہوا کرتی ہے چنانچہ ایک برس قبل جب میری ایڈتھ سے شادی ہوئی اُس وقت سے لے کر اب تک ایک پل بھی چین سے نہیں گزرا ہے، ہر لمحہ یہی خوف دامن گیر رہا ہے کہ کہیں اس کی خبر مینڈر چچا کو نہ ہو جائے۔ اب چچا جان یہاں آ رہے ہیں، میں نے جو شیڈول اپنی زندگی کا بنا رکھا تھا، اُنہوں نے آ کراُسے اتھل پتھل کر دینا ہے۔ اُنہیں ایڈتھ کا پتہ چل جائے گا اور پھر میرے مستقبل کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ ۔ ۔ اب کروں تو کیا کروں ؟ (دوبارہ خط پڑھنے لگتا ہے ) ۔ ۔ ۔ جمعرات تک پہنچ رہا ہوں۔ ۔ ۔ جمعرات؟؟ اور آج جمعرات ہی تو ہے۔ ۔ ۔ ’’ اور انشاء اللہ شام کی ٹرین سے واپس روانہ ہو جاؤں گا‘‘۔ ۔ ۔ شام کی ٹرین چار بجے روانہ ہوتی ہے (سوچتا ہے ) اب مجھے کرنا کیا چاہئیے ؟ اگر میں کسی طرح سے ایسے حالات پیدا کر دوں کہ ایڈتھ اور چچا جان کاسامنا ہی نہ ہو پائے۔ ۔ ۔ اگر میں چچا جان کے سامنے کسی چھڑے چھانٹ نوجوان کا کردار ادا کروں، صرف ایک دن کے لئے، تو بچاؤ ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ٹرائی تو کرنی چاہئیے مجھے۔ ۔ ۔ یہی بچاؤ کی واحد صورت ہے ورنہ۔ ۔ ۔ ورنہ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ میں اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتا، مجھے ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ ۔ ۔ لیکن اب اس ایڈتھ کا کیا کیا جائے ؟؟
(مسز کمفرٹ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی ہے )
مسز کمفرٹ: کیا آج تم میرے ساتھ نہیں جا رہے ہو؟
کمفرٹ: نہیں ایڈتھ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں آج مصروف ہوں !
مسز کمفرٹ: بظاہرلگ تو نہیں رہے ہو۔
کمفرٹ: آج کا دن میں نے اپنے کامیڈی ڈرامے کی نوک پلک سنوارنے کے لئے مختص کر رکھا ہے۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ کل اس کو جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔ مجھے آج بہت محنت کرنی پڑے گی، ڈرامے کے پہلے ایکٹ میں بہت سی تبدیلیاں کرنی ہیں۔ ۔ ۔ اس لئے مجھے اس وقت کچھ آرام کی ضرورت ہے۔
مسز کمفرٹ: افوہ۔ ۔ ۔ پھر تم اُسی ڈرامے کو لے کر بیٹھ رہو گے۔ ۔ ۔ میں پوچھتی ہوں کہ اگر بالفرض پہلا انعام تمہیں مل بھی گیا تو تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟؟
کمفرٹ: فائدہ۔ ۔ ۔ ارے میں راتوں رات مشہور ہو جاؤں گا۔
مسز کمفرٹ: اور اگر تم مشہور ہو بھی گئے تو پھر کیا ہو گا؟؟کیا اس سے تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ اپنی بیوی کو زیادہ وقت دے سکو۔ ۔ ۔ اُس کی خوشیوں کا پہلے سے زیادہ خیال رکھ سکو؟؟؟
کمفرٹ: نہیں، ہرگز نہیں کیونکہ تم تو جانتی ہی ہو کہ تمہیں خوش دیکھنا میری سب سے بڑی خواہش ہے۔ ۔ ۔ میرے لئے تمھارے ساتھ ڈرائیو پر جانا سارا دن کام کرنے سے زیادہ پُر کشش ہے لیکن کیا جائے، کام کام ہے۔
مسز کمفرٹ: لیکن تمہارے لئے تو تمہارا ڈرامہ ہی سب کچھ ہے !
کمفرٹ: ایسا بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ میں کسی عیاشی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا ہوں، یہ کام ہے اور خاصی مشقت والا کام۔ ۔ ۔ ہاہاہا۔ ۔ ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کھیل نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک کھیل ہے، بس اِسی قسم کے کام کی لت نے مجھے تمہاری نظروں میں ڈل قسم کا نوجوان بنا کر رکھ دیا ہے۔ ۔ ۔ لیکن تم نے بہت اچھا سوچا ہے کہ لمبی ڈرائیو پر نکلا جائے۔ ۔ ۔ بہت اچھا موسم ہے، میرا تو خیال ہے کہ تم قصبے میں چلی جاؤ اور آج کا خوشگوار دن اپنی ماں کے ساتھ گزار آؤ۔ ۔ ۔ باقی جیسی تمہاری مرضی!!
مسز کمفرٹ: نہیں ! اس طرح تو میرا آج کا سارا دن قصبے میں ہی گزر جائے گا۔ ۔ ۔ واپسی پر خاصی دیر ہو جائے گی!!
کمفرٹ: تو پھر کیا ہو گیا!
مسز کمفرٹ: پچھلا سارا ہفتہ بھی میں قصبے میں گزار چکی ہوں۔ ۔ ۔ نہیں ! بالکل بھی نہیں، تم میرے ساتھ چلو گے تو جاؤں گی!! آج اِتنی لمبی ڈرائیو پر نہیں جا سکتی!!
کمفرٹ: لیکن ایڈتھ ! میں تو چاہتا تھا کہ تم قصبے میں جاؤ تو میرا بھی ایک کام کر آؤ!!مجھے کچھ خالی پیپروں کی ضرورت تھی۔ ۔ ۔ بلکہ خاصی زیادہ ضرورت ہے اُن کی۔ ۔ ۔ اگر اور خالی پیپرز نہ ہوئے تو میرا خیال ہے کہ میں آج اپنا ڈرامہ ہی مکمل نہ کر پاؤں گا۔
مسز کمفرٹ: لیکن تمہارے پاس تو کافی پیپر پڑے ہوئے ہیں ( میز سے بہت سے پیپر اٹھا کر دکھاتی ہے )
کمفرٹ : (گڑبڑا کر) ہاں۔ ۔ ۔ لل۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ اسطرح کے پیپر نہیں۔ ۔ ۔ دوسرے چاہئیں !!
مسز کمفرٹ: کس طرح کے پیپر چاہئیں ؟
کمفرٹ: کسی بھی قسم کے۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ ایسا کرو کہ ہر سائز کا ایک ایک دستہ لے آؤ!
مسز کمفرٹ: لیکن ڈک! تم ہیرس سے بھی تو منگوا سکتے ہو۔ ۔ ۔ میں ہی کیوں ؟؟
کمفرٹ: نہیں۔ ۔ ۔ تمہیں ہو جو اس قسم کا کام کر سکتی ہو۔ ۔ ۔ ہیرس کو کیا پتہ۔ ۔ ۔ میری خواہش کہ تم آج ضرور قصبے میں جاؤ۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ۔ ۔ ۔ وہ (کنفیوز ہو جاتا ہے ) ایڈتھ! اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو میری خاطر۔ ۔ ۔ میری خاطر تم ضرور جانا ہو گا!!
مسز کمفرٹ: ٹھیک ہے، اگر تم یہی چاہتے ہو تو ضرور جاؤں گی۔ ۔ ۔ لیکن میں ٹرین پر جانا زیادہ مناسب سمجھتی ہوں، آج اس قدر لمبی ڈرائیو کا موڈ نہیں بن رہا ہے۔ ۔ ۔ کتنے پیپرز چاہئیں ؟
کمفرٹ: جتنے ہو سکے۔ ۔ ۔ مجھے بہت سے پیپرز کی ضرورت پڑے گی!!جتنی لا سکتی ہو، لے آؤ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) جتنے زیادہ پیپرز خریدے گی، اُتنی ہی دیر لگے گی۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بیچارہ۔ ۔ ۔ کتنا کنفیوز ہو رہا ہے، کام کی زیادتی نے اس کے اعصاب کو مضمحل کر کے رکھ دیا ہے !
کمفرٹ: (دستی گھڑی کو دیکھتے ہوئے ) نو بج چکے ہیں۔ ۔ ۔ تم اگر ابھی چل پڑو تو ٹرین پکڑ سکتی ہو۔ ۔ ۔ ٹھہرو میں تمہارے لئے بگھی کا انتظام کرتا ہوں (پکارتا ہے ) ہیرس! ہیرس!!
مسز کمفرٹ: لیکن ڈک۔ ۔ ۔ ٹرین تو ساڈھے نو بجے روانہ ہوتی ہے !!
کمفرٹ: تم۔ ۔ ۔ تم اُس وقت تک پہنچ جاؤ گی، اب دیر مت کرو (پکارتا ہے ) ہیرس!
مسز کمفرٹ: ابھی کافی وقت ہے۔ (کمرے سے نکل جاتی ہے )
کمفرٹ: (با آوازِ بلند پکارتا ہے ) ہیرس !!
(ہیرس کمرے میں داخل ہوتا ہے )
ہیرس: آپ نے بیل دی تھی جناب؟
کمفرٹ: ( غصیلے انداز میں ) میں نے بیل نہیں بجائی تھی بلکہ آدھے گھنٹے سے حلق تک بج بج کر تمہیں بلاتا رہا ہوں !!
ہیرس: حکم جناب؟
کمفرٹ: بگھی والے کو بلاؤ۔ ۔ ۔ فوراً !!
ہیرس: بہتر جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) حضورِ والا تو بڑے رنگوں میں ہیں آج۔ ۔ ۔
(ہیرس کمرے سے نکل جاتا ہے )
کمفرٹ: اگر ایڈتھ چچا جان کے آنے سے پہلے روانہ ہو جائے تو مزا آ جائے۔ ۔ ۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا (میز سے سکرپٹ کے کاغذات اٹھاتا ہے ) اور یہ سکرپٹ۔ ۔ ۔ ابھی بھی پورے دو ایکٹ ایسے ہیں جن میں خاصی کاٹ چھانٹ کی ضرورت ہے، اور وہ بھی آج رات تک۔ ۔ ۔ یہ چچا جان کو بھی آج ہی آنا تھا۔ ۔ ۔ مجھے بھلا اُن کی خاطر داری کی فراغت کہاں ملے گی، (ہنستا ہے ) خود ہی اپنے آپ کو اٹینڈ کرتے پھریں۔ ۔ ۔ خیر! اب موقع ملا ہے تو فائدہ اُٹھا لینا چاہئیے، بعد میں جانے کیا حالات ہوں (مطالعہ کی میز والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ) دیکھوں تو سہی، کیا کچھ کرنا ہے ؟ ہا۔ ۔ ۔ شکر ہے کہ پہلا ایکٹ تو مکمل ہے، اب دوسرے ایکٹ کو دیکھتے ہیں (قلم اٹھاتا ہے لیکن پھر ٹھہر جاتا ہے اور کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے ) بگھی کے پہیوں کی آواز؟ کہیں چچا جان تو نہیں آن ٹپکے ؟؟ (اُٹھتا ہے اور سٹیج کی پچھلی طرف کھڑکی سے باہر جھانکتا ہے ) خدا کی پناہ! یہ تو وہی ہیں !! یہ تانگا اسٹینڈ والوں کی بگھی ہی ہے۔ ۔ ۔ اب کیا کیا جائے ؟؟
مسز کمفرٹ: (کمرے کے باہر سے آواز دیتی ہے ) ڈِک!
کمفرٹ: (اسٹیج کی سیڑھیوں سے نیچے آتا ہے ) کیا بات ہے ڈئیر۔ ۔ ۔ جلد بازی کی ضرورت نہیں، ابھی کافی وقت ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا (کمرہ نمبر ایک کے دروازے کو مقفل کر دیتا ہے ) لو جی! پنچھی قید ہو گیا!!
(بیرونی دروازے سے مینڈر چچا داخل ہوتے ہیں )
مینڈر چچا: لو بھئی بھتیجے، ہم آ گئے !
کمفرٹ: آہا چچا جان، آپ کو دیکھ کر واقعی بہت خوشی ہو رہی ہے، ماشا اللہ اب تو آپ کی صحت بہت اچھی ہو گئی ہے۔
مینڈر چچا: بالکل، کبھی اتنی اچھی صحت نہیں رہی میری جیسی اب ہے۔ ۔ ۔ اب تمہیں سوچنا بھی نہیں چاہئیے کہ مجھ سے نجات پا سکو گے۔ ۔ ۔ کم از کم چند ایک برس تک تو بالکل بھی نہیں، میں جانتا ہوں کہ تم مدتوں سے اسی انتظار میں ہو، بڑے بدمعاش ہو تم!!
کمفرٹ: (شکایت بھرے انداز میں ) یہ کیا کہہ رہے ہیں چچا جان۔ ۔ ۔ اللہ نہ کرے !!
مینڈر چچا: ہا بھتیجے۔ ۔ ۔ اتنے برسوں بعد تمہاری شکل نظر آئی ہے۔ ۔ ۔ بہت خوشی ہو رہی ہے دیکھ کر، امید ہے کہ تم نے شادی وادی نہیں کی ہو گی۔ ۔ ۔ کیوں ؟
کمفرٹ: کیا کہا۔ ۔ ۔ شادی ؟ نہیں چچا جان۔ ۔ ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
مسز کمفرٹ : (اسٹیج کے باہر سے آواز دیتی ہے ) ڈِک!
(کمفرٹ زور زور سے کھانستا ہے )
مینڈر چچا: کسی نے تمہیں آواز دی ہے غالباً۔
کمفرٹ: (بوکھلاتے ہوئے انداز میں ) نن۔ ۔ نہیں چچا جان، یہ ہمسائیوں کا طوطا ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب میں کیا کروں کہ ان دونوں کا سامنا نہ ہو پائے (مینڈر چچا سے ) چچا جان آپ بہت تھک گئے ہوں گے، اتنا لبا سفر جو کیا ہے آپ نے (اُنہیں بازُو سے پکڑ کر) میرا خیال ہے کہ آپ کو کچھ دیر کے لئے آرام کرنا چاہئیے۔ (ڈرائینگ روم کی طرف لے جاتا ہے ) اِدھر تشریف لے چلیں !
مینڈر چچا: (ہچکچاتے ہوئے ) لیکن بھتیجے، مجھے قطعاً تھکاوٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے۔
کمفرٹ: (مکھن لگاتے ہوئے ) یقیناً آپ نوجوانوں سے بھی زیادہ تندرست ہیں، لیکن پھر بھی۔ ۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: (باہر سے پکارتی ہے ) ڈِک!
کمفرٹ: (بوکھلاتے ہوئے ) افوہ۔ ۔ ۔ یہ طوطا بھی ناں، بڑا ہی شریر ہے یہ۔ ۔ ۔ کیسا انسانوں جیسا بولتا ہے۔ ۔ ۔ ہے ناں چچاجان؟
مینڈر چچا: پنجرے میں بند ہے کیا؟
کمفرٹ: جی؟ جی ہاں !! محترمہ پنجرے میں بند ہے۔ ۔ ۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ طوطا پنجرے میں بند ہے۔ ۔ ۔ اس طرف کو چچا جان (اُنہیں کمرے میں دہکیل دیتا ہے اور درواز بند کر کے لقفل کر دیتا ہے ) لو جی یہ پنچھی بھی قید ہو گیا، اب میں ان کا کیا کروں، میرا خیال ہے کہ میں ایڈتھ سے پہلے نمٹوں اور کسی طرح اُسے نکال باہر کروں (کمرہ نمبر ایک کی طرف جاتا ہے اور نہایت احتیاط سے اس کا تالا کھولتا ہے ) ایڈتھ ڈارلنگ، تمھیں خاصی جلدی ہو گی (پکارتا ہے ) ہیرس، ہیرس (اسٹیج پر مسز کمفرٹ نمودار ہوتی ہے، روانگی کے لئے نیا لباس پہن رکھا ہے )۔
کمفرٹ: دیکھو کہیں ٹرین نہ چھوٹ جائے (دائیں جانب سے ہیرس داخل ہوتا ہے )۔
مسز کمفرٹ: لیکن ڈک، ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ کافی وقت ہے ٹرین کی روانگی میں !
کمفرٹ: اُس وقت کچھ ٹائم تھا لیکن اب نہیں بچا (ہیرس سے ) کیوں ہیرس، بگھی تیار ہے ؟
ہیرس: بگھی دروازے پر کھڑی ہے جناب!
کمفرٹ (تیزی سے ) وہی تو میں تم سے پوچھ رہا ہوں (مسز کمفرٹ سے ) اچھا ڈئیر، خدا حافظ! (کِس کرتا ہے ) میرا خیال ہے کہ تمھاری واپسی شام سے پہلے ممکن نہیں ہے، ظاہر ہے بھلا تم اتنی دور جا رہی ہو، شام سے پہلے کیسے لوٹ پاؤ گی(چچا مینڈر کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے )
مسز کمفرٹ: (چونکتے ہوئے ) ارے، یہ کیسی آواز تھی؟
کمفرٹ: (گھبرا کر) یہ۔ ۔ یہ غالباً کتّا ہے !
ہیرس: نہیں جناب، کتّا تو ابھی ابھی باہر گیا ہے، میرے سامنے۔
کمفرٹ: ابے چُپ رہ۔ ۔ ۔ یونہی اُول فُول بکے جاتا ہے، فضول میں اوور اسمارٹ بننے کی کوشش مت کرو (مسز کمفرٹ سے ) اللہ حافظ ایڈتھ (دوبارہ کِس کرتا ہے ) آج کا دن مزے سے اپنی ممی کے گھر گزارنا، اللہ حافظ (دروازہ نمبر ایک سے اُسے باہر نکال دیتا ہے، ہیرس بھی اُسی دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )
چچا مینڈر: (دروازے کوتھپتھپاتا ہوئے پکارتا ہے ) رچرڈ!
کمفرٹ: یہ کتّا تو بہت شور کر رہا ہے، شکر ہے ایڈتھ بروقت روانہ ہو گئی (دروازے کی چٹخنی کھولتا ہے ) کیا بات چچا جان، کیا ہوا؟ (چچا مینڈر اندر داخل ہوتا ہے ) کہیں آپ اپنے آپ کو لاک تو نہیں کر بیٹھے تھے غلطی سے ؟
چچا مینڈر : (تیز لہجے میں ) کیا کہا اپنے آپ کو لاک کر لیا تھا؟ ہرگز نہیں، یہ بھلا کیسے ممکن ہے، جب کہ لاک تو باہر کی جانب لگا ہوا ہے۔
کمفرٹ: (چابی کو انگلیوں پر گھماتے ہوئے ) افوہ، واقعی چٹخنی تو دروازے کے باہر لگی ہوئی ہے، لگتا ہے ہیرس نے غلطی سے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی تھی، نرا گدھا ہے وہ بھی۔ ۔ ۔ میں نے اُسے ہدایت کر رکھی ہے کہ دروازوں کو غیر ضروری طور پر کھلا نہ چھوڑا جائے، بس اُس نے اسی چکر میں دروازے کو مقفل کر دیا اور آپ اندر بند ہو گئے۔
چچا مینڈر: ٹھیک ہے تمھارے نوکر نے غلطی سے ایسا کر دیا ہے لیکن آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔
کمفرٹ: امید ہے کہ آئندہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
چچا مینڈر: تو کیا اِس بار ضرورتاً ایسا کیا تھا اُس نے ؟
کمفرٹ: ارے چچا جان، ہی ہی ہی ہی۔ ۔ ۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔
چچا مینڈر: (مشتبہ انداز میں ) اور بھتیجے ! میں نے کسی عورت کی آواز بھی سُنی تھی، کون تھی وہ؟
کمفرٹ: ارے چچا جان، وہ طوطا تھا۔
چچا مینڈر: لیکن طوطا اس کمرے میں نہیں ہے، وہ کوئی عورت ہی تھا، مجھے سو فیصدی یقین ہے، کوئی عورت کسی مرد سے باتیں کر رہی تھی۔
کمفرٹ: (گھبرائے ہوئے انداز میں ) اوہ اچھا وہ۔ ۔ ۔ وہ تو ساتھ والوں کی نوکرانی تھی جو ہیرس سے باتیں کر رہی تھی (بیچینی سے ) لیکن چچا جان آپ نے سنا تھا کہ کیا باتیں ہو رہی تھی؟
چچا مینڈر: نہیں۔ ۔ ۔ کچھ خاص نہیں سنا، ہاں البتہ میں نے کسی شخص کو خدا حافظ کہتے ضرور سنا تھا۔
کمفرٹ: جی جی۔ ۔ ۔ ہیرس اُس نوکرانی کو خدا حافظ کہہ رہا تھا، در اصل وہ گاؤں جا رہی تھی۔
چچا مینڈر: اور پھر کوئی کتے کی باتیں کر رہا تھا، کیا تم نے کوئی کتا بھی پال رکھا ہے ؟
کمفرٹ: جی جناب، کوئی درجن بھر!
چچا مینڈر: درجن بھر؟ اور طوطا تو تم نے خود ابھی ابھی کہا ہے کہ پال رکھا ہے۔ ۔ ۔ لگتا ہے کہ تمہیں گھرمیں چڑیا گھر بنانے کا بہت شوق ہے۔ ۔ ۔ کوئی اور جانور بھی رکھا ہوا ہے ؟
کمفرٹ: نہیں اور تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ جہاں تک شوقین مزاج ہونے کا تعلق ہے تو ایسا بھی نہیں ہے، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میری زندگی کتنی خاموش اور الگ تھلگ ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ تقریباًکسی ریٹائرڈ شخص کی زندگی گزار رہا ہوں، ایسے میں کسی نہ کسی سنگت کا ہونا از حد ضروری ہوتا ہے۔
چچا مینڈر: تمہارے بیان سے تو لگتا ہے کہ تم معیار سے زیادہ مقدار پر یقین رکھتے ہو۔ بہرحال مجھے خوشی اس امر کی ہو رہی ہے کہ تم نے اپنی سنگت کے لئے اُن جانور کا انتخاب کیا ہے جو فطری طور پر تو وحشی ہوتے ہیں لیکن انسانوں کے وفادار ہوتے ہیں اور اُن کے پاس کوئی عقل یا سوچ نہیں ہوتی۔ تمہیں یاد ہو گا کہ میں نے تمہیں ہمیشہ جانوروں کی اُس نسل سے خبردار رہنے کی ہدایت کی ہے جو حیرت انگیز طور پر فکری اور عقلی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے جانوروں کی نظروں میں ہم انسان لوگ وحشی ہوتے ہیں۔
کمفرٹ: ارے چچا جان، ایسا بھی نہیں ہے۔
چچا مینڈر: بہرحال یہ سچ ہے، اب تم اپنے ملازم کوہی لے لو (ہیرس سامنے والے دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے ) اپنی تمام تر حماقتوں کے باوجود وہ بہرحال بھرپور قوت۔ ۔ ۔
ہیرس: جناب کمفرٹ۔ ۔ ۔
کمفرٹ: (اُس کی طرف مڑتے ہوئے ) کیا ہے بے !
ہیرس: ایک صاحب۔ ۔ ۔
کمفرٹ: خاموش رہو!
ہیرس: ٹھیک ہے جناب لل۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔
کمفرٹ: میں کیا کہہ رہا ہوں ؟
ہیرس: وہ تو ٹھیک ہے جناب لل۔ ۔ لل۔ ۔ لیکن میریگل صاحب فرما رہے تھے کہ میں۔ ۔ ۔ ۔
کمفرٹ: میریگل۔ ۔ ۔ جارج میریگل؟
ہیرس: یہ تو مجھے پتہ نہیں ہے لیکن وہ ابھی ابھی تشریف۔ ۔ ۔
کمفرٹ: ابے پہلے کیوں نہیں بتایا؟
ہیرس: میں بتانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن۔ ۔ ۔
کمفرٹ: تم بھی بہت ماٹھی چیز ہو۔
ہیرس: جی جناب!
کمفرٹ: اب میریگل کو فوراً بلا لاؤ۔ ۔ ۔ اب یہ نہ پوچھ بیٹھناکہ کتنا فوراً؟ (ہیرس سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )
ہیرس: (چچامینڈر سے ) جارج میرا لنگوٹیا یار ہے، لیکن مدتوں سے میری اُس سے ملاقات نہیں ہو پائی ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک کچھ یاد کرتا ہے ) باپ رے باپ، میں تو بھول ہی گیا تھا، اُسے تو میری شادی کا علم ہے۔ ۔ ۔ کہیں چچا جان کے سامنے پھوٹ ہی نہ دے، میں تو تباہ ہو جاؤں گا (زوردار آواز میں ) چچا جان آپ نے آرام تو کیا ہی نہیں ہے، چلئے کچھ دیر مزید آرام کر لیجئے (اُنہیں بازو سے پکڑ لیتا ہے ) چلئے۔
چچا مینڈر: لیکن میں آرام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
کمفرٹ: تو پھرباہر کا ایک چکر لگا آئیں، بہت لطف آئے گا آپ کو۔ ۔ ۔ اس طرف کو چلئے (اُنہیں داہنی جانے لے جاتا ہے )
چچا مینڈر: نہیں رچرڈ، میں یہیں رہنا چاہتا ہوں (سامنے کے دروازے سے میریگیل داخل ہوتا ہے، جا بجا لباس پر کیچڑ کے چھینٹے ہیں )
میریگیل: آہا، ڈکی۔ ۔ ۔ میری یار، میرے جگر۔ ۔ ۔ مجھے از حد خوشی ہو رہی ہے تمہیں دیکھ کر ؎
وصالِ یار کی لذت بتا نہیں سکتا
کمفرٹ: ہاں یار، عرصہ دراز کے بعد تیری صورت نظر آئی ہے، سچ پوچھو تو ٹھنڈسی پڑ گئی ہے سینے میں۔
میریگیل: بالکل یار، کم از کم سال سے تو زیادہ عرصہ ہو گیا ہے تم سے ملے ہوئے، سچ بتاؤ، میری شکل بھی خاصی بدل گئی ہو گی؟
کمفرٹ: شکل تو خیر وہی ہے لیکن اس وقت تم زمین سے تازہ تازہ نکلے ہوئے آلو لگ رہے ہو۔
میریگیل: ہاہا ہاہا، مجھے پتہ تھا تم یہی کہو گے، یقین مانو یہ سارے کیچڑ کے دھبے میں تمہاری اَپروچ روڈ سے چنتا ہوا آیا ہوں۔ کیا بتاؤں کیسے سفر کر کے آیا ہوں اس راستے پر، ایمان سے تھکا مارا ہے کمبخت نے، سارا راستہ پیدل مارچ کرتے ہوئے کاٹا ہے، ڈپو میں ایک ہی بگھی تھی وہ بھی گاؤں کے کسی مشروٹ نے پہلے سے بُک کرا رکھی تھی ناچار اپنی دونوں ٹانگوں پر سوار ہو کر آنا پڑا ہے (چچا مینڈر کو دیکھتا ہے، منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے کہتا ہے ) لو جی، یہ بھی ٹپکے ہوئے ہیں (کمفرٹ سے ) آپ کی تعریف؟
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مارے گئے، اس سے تو چھٹکارا ممکن نہیں (چچا مینڈر سے ) چچا جان میں آپ سے اپنے ایک پرانے لنگوٹئیے سے تعارف کروانا چاہوں گا۔ ۔ ۔ یہ میریگیل ہیں !
میریگیل: آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ڈک کے خبطی چچا ہیں، مسٹر دولت خان ہوں گے صاف صاف۔
چچا مینڈر: (خفگی کے انداز میں ) میں نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا ہے۔
میریگیل: جی جناب، آپ کا بڑا پن ہے۔
چچا مینڈر: (پُر وقار انداز میں ) آپ نے جو ابھی ابھی مجھے طعنہ دیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہایت نامناسب ہے۔
میریگیل: اوہو، تو آپ نے سُن لیا کہ میں نے آپ کو ’’بوڑھا خبطی‘‘ کہا ہے۔ ۔ ۔ ارے اس پر ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، ہر بوڑھا آدمی اعصابی کمزوری کا شکار ہوتا ہے، آپ بھی اس خصوصیت سے مستثنیٰ نہیں !
چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خاصا کھُلا ڈھلا بندہ لگتا ہے۔
کمفرٹ: (میریگیل کو منظر سے ہٹانے کے لئے بہت بے چین ہے ) یار جارج! مجھے پتہ ہے کہ تم نے یہ کیچڑسے لتھڑے ہوئے کپڑے تبدیل کرنے ہوں گے۔ ۔ ۔ کیوں ؟
میریگیل: نہیں یار، ابھی تو تم سے اچھی طرح ہاتھ بھی نہیں ملائے ہیں (کمفرٹ کا ہا تھاپنے ہاتھ میں لے کر) میرا ارادہ کچھ عرصہ یہیں قیام کرنے کا ہے۔ ابھی تو میں اپنے ایک اور دیرینہ دوست سے ملنے جا رہا ہوں، ویسے یہاں چلت پھرت کرنا خاصا دشوار ہے میرے لئے، لیکن خیر، کچھ دِنوں میں عادی ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔ ہا، ڈکی۔ ۔ ۔ کتنا عرصہ ہو گیا ہے تم سے بات کئے ہوئے، لگتا ہے صدیاں بیت گئی ہیں۔ ۔ ۔ کیسے ہریل طوطے ہوا کرتے تھے تم شادی سے پہلے !!
کمفرٹ: ہاں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ شاید پہلے۔ ۔ ۔
چچا مینڈر: ہیں۔ ۔ ۔ شادی؟
(کمفرٹ بُری طرح کھانستا ہے )
میریگیل: زیادہ شرمانے کی ضرورت نہیں (اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے ) کہاں چھپا رکھا ہے تم نے بھابی کو؟میں تو ابھی تک اُنہیں دیکھ بھی نہیں پایا ہوں۔ ۔ ۔ تم نے منگنی کا اعلان کیا تھا تو میری پوسٹنگ ہندوستان میں ہو گئی تھی۔ میں اُنہیں دیکھے بغیر ہی ہندوستان چلا گیا تھا۔
(کمفرٹ دوبارہ کھانستا ہے )
میریگیل: اس قدر کھانسی۔ ۔ ۔ ۔ تم تو واقعی بوڑھے ہو گئے ہو ڈکی!
چچا مینڈر: کیوں جی میریگیل! یہ آپ کس کی شادی کی بات کر رہے ہیں ؟
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ میرا تو قصہ ہی بیباق ہو گیا۔
میریگیل: ظاہر ہے جناب! میں ڈک کی بات کر رہا ہوں۔ عجیب احمق شخص ہے یہ ڈک بھی۔ ۔ ۔ کالج میں بھونڈ مشہور تھا، کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اسے کسی لڑکی سے اِسقدر جذباتی انسیت ہو سکتی ہے کہ اُس سے شادی پر ہی تُل جائے، اس کی شادی کی خبر ہم سب دوستوں کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں تھی۔
چچا مینڈر: کیوں رچرڈ، تم نے اس بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایا؟ (سخت لہجے میں ) کہیں تم مجھے دھوکہ تو نہیں دیتے رہے ہو؟؟
کمفرٹ: اوہ چچا جان۔ ۔ ۔ اللہ کا نام لیں، میں بھلا ایسا کر سکتا ہوں ؟
چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) شادی کے ذکر سے تو یہ چڑ ہی گیا ہے (زور دار آواز میں ) کیوں ڈک؟ کیا نسبت برقرار نہیں رہ پائی تھی؟اس کا بھی وہی انجام ہوا تھا جو ایسی حماقتوں کا ہوتا ہے ؟
کمفرٹ: جج، جی چچا جان۔ ۔ ۔ کیسی نسبت اور کہاں کی شادی، جیسی طے پائی، ویسی فوراً ٹوٹ بھی گئی، قریباً چھ ماہ قبل کی بات ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے آنکھ مارتے ہوئے ) اُس وقت میں شادی شدہ تھا (میریگیل سے ) میرا خیال ہے کہ تمہیں اب اپنے کپڑے تبدیل کر لینے چاہئیں !!
میریگیل: وہ تو ٹھیک ہے یار لیکن میں تو کپڑے لایا ہی نہیں ! یہی کپڑے ہیں جو پہنے ہوئے ہیں !
کمفرٹ: میں تمہیں اپنے دئیے دیتا ہوں (پکارتا ہے ) ہیرس!
میریگیل: مجھے بہت افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ خصوصاً شادی والے ذکر پر!!
کمفرٹ: چھوڑو یار! لیکن اب مزید نہیں، ٹھیک ہے ناں !!
(ہیرس سامنے والے دروازے سے داخل ہوتا ہے )
کمفرٹ: (ہیرس سے ) ہیرس! محترم میریگیل کو میری خوابگاہ میں لے جاؤ۔ ۔ ۔ اور میریگیل! میرا خیال ہے کہ میرا ایک استری شدہ
سوٹ کرسی پر پڑا ہوا ہے، جب تک تمہارے کپڑے صاف نہیں ہو جاتے، تم وہی پہن لو!
ہیرس: ٹھیک ہے جناب! (ہیرس اور میریگیل داہنی طرف والے دروازہ نمبر۲ سے نکل جاتے ہیں )
چچا مینڈر: اب بتاؤ رچرڈ۔ ۔ ۔ تم نے مجھے اپنی اُس نسبت کے بارے میں کیوں نہیں بتایا تھا؟
کمفرٹ: (بوکھلائے ہوئے انداز میں ) در اصل چچا جان۔ ۔ ۔ مم،م میں بتانا چاہ رہا تھا آپ کو لیکن آپ اُس وقت گھر پر نہیں تھے، کہیں گئے ہوئے تھے !
چچا مینڈر: تو کیا بنا تھا اُس نسبت کا، ٹوٹ گئی تھی؟؟
کمفرٹ: جی۔ ۔ ۔ اور باہمی مشاورت سے۔ ۔ ۔ مم میں کچھ زیادہ ہی حساس تھا اس معاملے میں، سچوئشن ہی کچھ ایسی ہو گئی تھی۔
چچا مینڈر: مجھے خوشی ہوئی یہ بات سن کر۔ ۔ ۔ اور میں بتاؤں کہ بیوی کا کام کیا ہوتا ہے، صرف اور صرف مصیبتیں پیدا کرنا اور بس!
کمفرٹ: جی، جی، یہی احساس تھا ہماری علیحدگی کا!!
چچا مینڈر: آئندہ ایسی کسی حماقت میں ملوث مت ہونا، مجھے تمہاری شادی کے متعلق کوئی خبر نہیں آنی چاہئیے ورنہ۔ ۔ ۔
کمفرٹ : نہیں چچا جان، اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب سے میری نسبت ٹوٹی ہے، میں نے کسی دوسری خاتون کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔
چچا مینڈر: بہت اچھے بھتیجے، اب تم عقل کی بات کر رہے ہو۔ ۔ ۔ یہ اگلی ٹرین کب تک آئے گی یہاں ؟
کمفرٹ: (گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے ) پانچ منٹوں میں آنے والی ہے اگلی ٹرین!
چچا مینڈر: بس اسی ٹرین سے آ رہی ہے میری بیوی!
کمفرٹ: (حیرانی سے ) آپ کی بیوی؟ آپ کا مطلب ہے آنٹی کلی مینٹینا؟
چچا مینڈر: ظاہر ہے، تمہارا کیا خیال ہے، کتنی بیویاں ہیں میری؟؟
کمفرٹ: آپ نے اُن کی آمد کا تذکرہ نہیں کیا تھا!
چچا مینڈر: ہیں ؟ میں نے نہیں لکھا تھا اپنے خط میں اس بارے میں ؟ بھئی مہا غلطی ہو گئی مجھ سے، اُنہوں نے آنا تو میری والی ٹرین میں تھا لیکن پھر کسی کام سے ٹھہر گئیں کہ اگلی ٹرین میں آ جائیں گی۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ آج کا دن استقبالوں کی نذر ہی ہو جائے گا۔
چچا مینڈر: اب اِسی کو لے لو رچرڈ، تم نے یہ بات محسوس کی ہو گی اور اسی سے ضرور سبق سیکھا ہو گا کہ ہم میں ذرا سی غلط فہمی پیدا ہوئی تھی، اور اب تک ہم میں بات چیت بند ہے۔
کمفرٹ: اوہ۔ ۔ ۔ یہ تو بہت بُرا ہوا۔
چچا مینڈر: ارے نہیں بھتیجے، میرے حق میں تو بہت ہی اچھا ہوا ہے۔ تم شاید اسے میری عادت سمجھ رہے ہو لیکن جب عادت پختہ ہو جائے تو فطرت کا جزوِ لاینفک بن جاتا ہے، سمجھ رہے ہو ناں میری بات؟؟
کمفرٹ: جی چچا جان۔
چچا مینڈر: اور اگر تمہاری چچی، یعنی میری بیوی تم سے یہ کہے کہ تم اس شخص کو، یعنی مجھے جانتے ہو تو تم بخوشی کہہ سکتے ہو کہ نہیں جانتے۔
کمفرٹ: کیا مطلب ہے آپ کا، کیا میں بالکل ہی اجنبیت کا اظہار کر دوں ؟
چچا مینڈر: ارے نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ بس جب وہ پوچھے تو برأت کا اظہار کر دینا۔ ۔ ۔ وہ تمہارے جواب سے خوش ہو جائے گی اور یقین مانو اس سے میرے جذبات مجروح نہیں ہوں گے، میں خود جو تم سے ایسا کرنے کو کہہ رہا ہوں، یہی اُس کی فطرتِ ثانیہ کا تقاضہ بن گیا ہے۔ ہاں البتہ اگر تمہیں اس پر اعتراض ہے تو ہم یہ بیویوں والا باب ہی بند کر دیتے ہیں۔
کمفرٹ: یہ ٹھیک رہے گا چچا جان۔
چچا مینڈر: اور ہاں، وہ تمہارا طوطا، کریسوٹس نسل کا ہے، یا ایریتھیکس ہے وہ؟
کمفرٹ: (شش و پنج میں ) پتہ نہیں جناب، بس سیدھا سا دا ساہرے رنگ کا طوطا ہے، بولنے والا طوطا!!
چچا مینڈر: بہت جی چاہ رہا ہے اُسے دیکھنے کا۔
(ہیرس داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتا ہے )
کمفرٹ: (پریشان ہو کر) مم۔ ۔ ۔ معذرت چاہتا ہوں جناب۔ ۔ مم مگر۔ ۔ ۔
چچا مینڈر: اگر مگر مت کرو بھتیجے، تمہارا یہ بندہ اُسے لے آئے گا (ہیرس سے ) جیمز، طوطا اُٹھا لاؤ!!
ہیرس: (حیرانی سے ) کون سا طوطا جناب؟
چچا مینڈر: طوطا۔ ۔ ۔ طوئیں وا طو، طوئیں الف طا، طوطا۔ ۔ ۔
ہیرس: (کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کمفرٹ کی طرف دیکھ کر) میرا خیال ہے جناب کہ۔ ۔ ۔
کمفرٹ: (تیزی سے ) خیال۔ ۔ ۔ لو بھئی اب اِن کا بھی کوئی خیال ہونے لگا۔ ۔ ۔ ابے خیال ویال کو چھوڑ اور طوطے کو اٹھا کر لے آ۔ ۔ ۔
ہیرس: آپ کا مطلب ہے کہ لائبریری سے اُٹھا کر لے آؤں۔ ۔ ۔ وہ جو بھس بھرا طوطا ہے، اُون والا؟
کمفرٹ: کیا مطلب ہے تیرا۔ ۔ ۔ ابے ماٹھی سرکار! وہ جو اصلی پروں والا ہے وہ اُٹھا کے لا۔
ہیرس: (کچھ نہ سمجھتے ہوئے ) جج جی جناب
کمفرٹ: ابے جلدی بھاگ اور اُس کے بغیر منہ نہ دکھانا۔ ۔ ۔
ہیرس: جج جج جی جناب (سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )
چچا مینڈر: کیا تمہارے پاس ایک سے زیادہ طوطے ہیں ؟
کمفرٹ: جی ہاں۔ ۔ ۔ کوئی درجن بھر ہوں گے، دوسروں کو تو میں بھول ہی گیا ہوں۔
(میریگیل داخل ہوتا ہے، جوکروں والے کپڑے پہنے ہوئے ہیں )
میریگیل: کیا اس سے بہتر کپڑے نہیں تھے میرے لئے ؟
کمفرٹ: ارے، یہ کیا پہنا ہوا ہے تم نے ؟؟
میریگیل: کیا کہہ رہے ہو یار، تم نے کہا تھا کہ کرسی پر رکھے ہوئے کپڑے پہن لوں، کرسی پر تو یہی رکھے ہوئے تھے۔ تمہارا بندہ میرے کپڑے اُٹھا کر لے گیا، وہاں اِن کپڑوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ کچھ نہ پہننے سے تو بہرحال بہتر تھا کہ یہی کپڑے پہن لوں !
کمفرٹ: شکر ہے کہ تم نے کچھ بھی نہ پہننے کو ترجیع نہ دی، میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میں نے اس سوٹ کے بارے میں نہیں کہا تھا، یہ تو خول پارٹی میں پہننے کے لئے ہوتا ہے (قہقہہ لگاتا ہے ) یار، تم تو بالکل جوکر لگ رہے ہو اس میں۔
میریگیل: وہ تو لگنا ہی تھا، ظاہر ہے تم یہی چاہتے تھے کہ میں جوکر نظر آؤں۔
کمفرٹ: (بدستور ہنستے ہوئے )معاف کرنا یار۔ ۔ ۔ اب براہِ مہربانی ان کپڑوں کو اُتار ہی دو تو بہتر ہے۔
میریگیل: نہیں نہیں، مجھے اس میں بڑا مزا آ رہا ہے، دیکھو، دیکھو میں پھر جوان ہو گیا ہوں، (رقص کرنے کے انداز میں میز کے گرد ایک چکر لگاتا ہے، اُس کی نظر کارنس پر پڑی ہوئی مسز کمفرٹ کی تصویر پر پڑتی ہے، وہ رُک کر اُسے دیکھنے لگتا ہے )
چچا مینڈر: یہ انتہائی بچگانہ انداز سے نوجوان بننے کی کوشش کر رہا ہے، ذرا دیکھو تو سہی رچرڈ!
میریگیل: (تصویر کو دیکھتے ہوئے ) کیوں ڈِک، یہ کون ہے ؟ بڑی خوبصورت لڑکی ہے !!
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میری بیوی کی ہے اور کس کی ہے (بُری طرح کھانستا ہے اور پھر جلدی سے کہتا ہے ) تو میں آپ کو بتا رہا تھا چچا جان کہ مجھے طوطے پالنے کو بہت سے بھی کچھ زیادہ شوق ہے۔ ۔ ۔ بلکہ میں تو اُنہیں دوسرے تمام پالتو جانوروں پر ترجیع دیتا ہوں اور یہ جو سبز رنگ والے طوطے ہیں، یہ تو میرے فیورٹ ہیں۔ ۔ ۔ کتنے۔ ۔ ۔ کتنے سبز ہوتے ہیں واہ!
میریگیل: (سٹیج کے نچلے والے حصے میں کمفرٹ کی طرف آتا ہے، تصویر اب بھی اُس کے ہاتھ میں ہے ) کیا کہا تھا تم نے کون ہے یہ، کوئی رشتہ دار ہے یہ تمہاری؟
کمفرٹ: (جان بوجھ کر لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ) کیا؟ رشتہ دار؟؟ کیسا رشتہ دار؟؟ کس کا رشتہ دار؟؟
میریگیل: ارے یہی جو من موہنی سی لڑکی ہے (تصویر چچا مینڈر کو دکھاتا ہے اور کمفرٹ کو شرارت سے کمر پر ٹہوکا دیتا ہے ) خوبصورت ہے ناں ؟
کمفرٹ: (تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے ) ارے ! یہ کہاں سے ملی تمہیں ؟
میریگیل: کارنس سے اور کہاں سے، کون ہے یہ؟
کمفرٹ: (شش و پنج میں کہ کیا کہے ) یہ۔ ۔ ۔ اچھا اچھا یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ تو ملازمہ کی تصویر ہے، جی ہاں ہماری ملازمہ ہے یہ!!
میریگیل: ملازمہ؟ کیا بدنصیبی ہے، اتنی خوبصورت لڑکی اور ملازمہ، ارے یہ تو کسی شہزادی سے ہرگز ہرگز کم نہیں لگتی (تصویر چچا مینڈر کے حوالے کر دیتا ہے ) آپ خود ہی ایمان سے کہیں بزرگو، کیا یہ کسی شہزادی کی تصویر نہیں ہے ؟؟
چچا مینڈر: لیکن رچرڈ! ایک ملازمہ کی تصویر تمہارے نشست والے کمرے میں کیا کر رہی ہے، مجھے تو تمہارا ذوق قطعاً پسند نہیں آیا۔
کمفرٹ: مم مجھے نہیں پتہ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں یہ یہاں کیسے آ گئی، ہو نہ ہو یہ ہیرس کے کام ہیں، وہی اسے وہاں بھولے سے رکھ گیا ہو گا۔ یقیناً ملازمہ نے اُسے دی ہو گی اور وہ اسے یہاں چھوڑ گیا ہو گا، یہ جارج کچھ ایسا ہی بھلکڑ ہے !
چچا مینڈر: بہت ہی ماٹھا ہے یہ جارج بھی!
کمفرٹ: بالکل جناب، سو فیصد ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔
میریگیل: (تصویر پر نظر جمائے ہوئے ہے ) اس پری کا نام کیا ہے ڈکی؟
کمفرٹ: نن نام۔ ۔ ۔ سس، سیلی، جی ہاں سیلی نام ہے اس کا!
میریگیل: کیا مجھے دیدار کرا سکتے ہو اس کا؟ یار نکالو کہاں چھپا رکھا ہے یہ حُسن کا خزانہ!!
کمفرٹ: ناممکن!
میریگیل: نہیں یار بس ابھی کے ابھی، پلیز!
کمفرٹ: میں نے کہا ناں کہ اس وقت یہ ممکن نہیں۔ ۔ ۔ یہ قصبے میں گئی ہوئی ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) آج تو اتنے جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں کہ اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہوں گے۔
میریگیل: واپس کب لوٹے گی؟
کمفرٹ: (قدرے غصے سے ) ایسا لگ رہا ہے میریگیل کہ تم میری۔ ۔ ۔ میری، میری ملازمہ میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہو۔
میریگیل: بالکل، یہ چیز ہی کچھ ایسی لگ رہی ہے۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میں اس بدبخت سے ٹھیک ہی ڈر رہا تھا، ایک دو سوال اور کئے اس نے تو سارا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آ جائے گا۔
میریگیل: کیوں ڈک، تم نے بتایا نہیں کہ۔ ۔ ۔ ؟
کمفرٹ: (بات کاٹتے ہوئے ) نن نہیں اس تذکرے کو چھوڑیں، اس وقت مجھے ایک اور فوری مسئلہ درپیش ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی ایک اور جھوٹ کے لئے تیار ہو جائیں، واہ ! کیا شیطانی دماغ پایا ہے میں نے بھی، لیکن کیا کیا جائے اس مشروٹ کی بے لگام تیغ زنی سے بچنے کا اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں ہے، یہ شخص اُس وقت تک منہ بند نہ کرے گا جب تک بات کے موضوع کو ہی تبدیل نہ کر دیا جائے (با آوازِ بلند) میں آپ دونوں سے کچھ دیر کے لئے معذرت چاہتا ہوں، بس تھوڑی دیر بعد حاضر ہوتا ہوں۔
(سامنے کے دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتا ہے )
میریگیل: کیوں انکل جی! کیا یہ قابلِ افسوس بات نہیں ہے کہ اس قدر حسین لڑکی اپنی زندگی کو ملازمہ کی حیثیت سے برباد کر رہی ہے، آپ کیا کہتے ہیں اس معاملے میں ؟
چچا مینڈر: (قدرے تلخی سے ) میں اِس معاملے میں کچھ نہیں کہتا (اپنے کوٹ کی داہنی جیب سے اخبار نکالتا ہے اور کرسی پر دراز ہو کر پڑھنے لگ جاتا ہے )
میریگیل: مجھے پتہ تھا جناب کہ آپ یہی کہیں گے کہ آپ اس معاملے میں کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں، وہ تو میں خود بھی نہیں ہوں، لیکن ذرا سی دیر کے لئے یہی سوچ لیں کہ اس جیسی حسین و جمیل دوشیزہ ملازمہ کی حیثیت سے کیسے زندگی گزارتی ہو گی، کیسی کرب ناک زندگی ہو گی اس کی، یک و تنہا، جیسے صحرا میں کوئی اکیلا آدمی (جواب کا انتظار کرتا ہے ) ذرا اپنے آپ کو اس ملازمہ کی جگہ رکھ کر سوچیں، آپ کو پسند آئے گی ایسی زندگی؟ میرا مطلب ہے کہ آپ اس قسم کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں گے ؟ لطف اندوز ہونے سے میری مراد۔ ۔ ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ۔ ۔ ۔ (چچا مینڈر کی طرف دیکھتا ہے جو مطلقاً توجہ نہیں دیتے ہیں )
(منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میرا خیال ہے کہ اس وقت میرے بات کا کوئی مطلب نہیں نکل سکتا اس لئے کہ یہ موصوف تو مجھے قطعی طور پر نظر انداز کرنے کے چکر میں ہیں (کچھ توقف کے لئے چُپ چاپ کھڑا رہتا ہے پھر ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ) خاصا ماٹھا کر کے رکھ دیا ہے یہاں کی آب و ہوا نے بھی۔ ۔ ۔
(ہیرس سامنے والے دروازے سے داخل ہوتا ہے، اس کے پیچھے مسز مینڈر اور اس کی ملازمہ سیلی ہیں، ہیرس اعلان کرنے والے انداز میں کہتا ہے ) مادام کلی مینٹینامینڈر(چچا مینڈر چوکنے ہو جاتے ہیں لیکن بدستور اخبار پڑھتے رہتے ہیں، میریگیل اُٹھ کھڑا ہوتا ہے )
مسز مینڈر: (تقریباً چیختے ہوئے ) اوئی سارا۔ ۔ ۔ یہ کیا چیز ہے ؟
سیلی: کسی سرکس کا جوکر لگتا ہے مادام!
ہیرس: ہو سکتا ہے کہ میریگیل صاحب نے بھیس بھر رکھا ہو (ہیریگیل سے ) میں اِنہیں آپ کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا جناب!
میریگیل: بھیس بھرا ہوا ہے ؟ چل بے !! (مسز مینڈر سے جھک کر کہتا ہے ) میں جارج میریگیل ہوں مادام، آپ کا خادم!!
مسز مینڈر: میرے خادم۔ ۔ ۔ ہا ہا ہا ہا، تم بھلا میری کیا خدمت کر سکتے ہو؟
ہیرس: مادام، یہ کمفرٹ صاحب کے دوست جارج میریگیل ہیں (میریگیل سے ) معذرت جناب، میرا خیال تھا کہ شاید آپ نے خول پارٹی کے لئے بھیس بھرا ہوا ہے۔
مسز مینڈر: اوہ تو یہ کمفرٹ کا دوست ہے !
ہیرس: جی مادام، یہ کمفرٹ کے دیرینہ دوست ہیں۔
مسز مینڈر: سارا، کیا واقعی ہیرس نے یہی کہا ہے کہ یہ کمفرٹ کا دوست ہے ؟
سیلی: جی مادام، سنا تو میں نے بھی یہی ہے۔
مسز مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اگر یہ کمفرٹ کادوست ہے تو اس کا دشمن کیسا ہو گا ؟
(ہیرس سامنے والے دروازے سے ہنستا ہوا چلا جاتا ہے )
میریگیل: مادام، میں معذرت چاہتا ہوں اگر میری کسی بات سے آپ کویا آپ کی بیٹی کو کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو۔
مسز مینڈر: میری بیٹی؟ کون میری بیٹی؟۔ ۔ ۔ یہ میری فرانسیسی ملازمہ ہے۔
(سیلی آداب کہنے کے انداز میں جھکتی ہے، چچا مینڈر ہونٹ سکوڑ کر ہلکی سی سیٹی بجاتے ہیں )
مسز مینڈر: (قدرے غصے سے ) کیوں سارا ! یہ کون صاحب ہیں ؟
سیلی: پتہ نہیں مادام، مجھے تو سیٹی بجانے والا کوئی باگڑ بلا قسم کی چیز دکھائی دیتی ہے۔
(چچا مینڈر اپنی بے عزتی کے احساس پر سرخ پڑ جاتے ہیں اور سیٹی بجانا بند کر دیتے ہیں )
میریگیل: ارے آپ نہیں جانتیں ؟ یہ ڈِکی، میرا مطلب ہے کہ کمفرٹ کے چچا ہیں۔
مسز مینڈر: کیوں سارا؟ کیا اس نے کمفرٹ کا نام لیا ہے ؟
سیلی: سنا تو میں نے بھی یہی ہے مادام!
مسز مینڈر: مجھے تو یہ صاحب ایسے چمگادڑ دکھائی دیتے ہیں جو اپنے آپ کو عقاب کہہ رہے ہوں، لیکن میں دہوکہ نہیں کھا سکتی کیونکہ میں نے چمگادڑ کو دیکھا ہوا ہے (چچا مینڈر سے ) سُن رہے ہو تم؟
چچا مینڈر: جی جی، بالکل سُن رہا ہوں، ایک ایک لفظ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لیکن یہ کہہ کیا رہی ہے آخر؟
سیلی: چمگادڑ تو میں نے بھی دیکھ رکھا ہے مادام
میریگیل: اور میں نے بھی (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اس سے زیادہ عزت افزائی اِس بڈھے کی اور کیا ہو گی (مسز مینڈر سے ) میں آپ سے صاحب کا تعارف کرانا چاہوں گا مادام (چچا مینڈر بے چینی سے پہلو بدلتا ہے )
مسز مینڈر: خاموش! تم کیا جانتے ہوں ان کے بارے میں !!
میریگیل: نہیں مادام میں جانتا ہوں اِن۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: یہی ناں کہ یہ صاحب اور میں اجنبی ہیں ؟
میریگیل: جج جی مادام لل لیکن۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: اور میں چاہوں گی کہ ہم بدستور اجنبی ہی رہیں (چچا مینڈر سے ) سُن رہے ہیں اجنبی صاحب؟
میریگیل: معذرت خواہ ہوں مادام، میرا یہ مطلب نہیں تھا، میں آپ پر اِن بزرگوار کی واقفیت زبردستی تھوپنا نہیں چاہتا ہوں لیکن میں بس اِتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ صاحب بہت اچھے اخلاق و عادات کے مالک ہیں اور آپ ان کی معیت میں خوش رہیں گی۔ ۔ ۔ ۔ تاہم، جیسی آپ کی مرضی (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) عجیب گڑبڑ گھوٹالہ ہے بھئی ان خاتون کا مزاج بھی۔
مسز مینڈر: سارا۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے کہ یہ جو اجنبی صاحب ہیں یہ اپنے متعلق میرے خیالات سے بخوبی واقف ہوں گے، کیوں ؟
سیلی : اگر ان میں کامن سینس ہے تو یقیناً واقف ہوں گے مادام !
(چچا مینڈر دوبارہ ہونٹ سکوڑ کر سیٹی بجانا شروع کر دیتے ہیں )
مسز مینڈر: دیکھو، دیکھو، اس نامعلوم شے نے پھر شونکنا شروع کر دیا ہے ! میرے تو دست و پے میں چنگاریاں نکلنے لگتی ہیں یہ آواز سن کر!
سیلی : (چچا مینڈر سے ) کیوں جناب، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے سیٹی بجانے کے شوق کو کسی دوسرے خوشگوار لمحے کے لئے موقوف فرما دیں، یہ معزز خاتون احتجاج کر رہی ہیں۔
(چچا مینڈر سیٹی بجاتے رہتے ہیں، کمفرٹ سامنے والے دروازہ نمبر ۲ سے ظاہر ہوتا ہے )
کمفرٹ : آخاہ۔ ۔ ۔ محترم چچی جان! مزاج شریف؟
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ایں ؟ ڈک کی چچی ؟ یہ کیا گیم ہے بھئی!
کمفرٹ: مجھے امید ہے کہ آپ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ہو گا۔
مسز مینڈر: (کمفرٹ کو آغوش میں لیتے ہوئے ) کیا حال ہے بچے ! کتنا عرصہ ہو گیا ہے تمھیں دیکھے ہوئے !!
کمفرٹ: مجھے امید ہے کہ میرے دوست میریگل نے آپ کو خاصا محظوظ کیا ہو گا۔
مسز مینڈر: تمھارا دوست؟ کیا واقعی یہ تمھارا دوست ہے (سیلی سے ) کہیں میرے کان دھوکا تو نہیں دے رہے، میں نے ابھی ابھی رچرڈ کو کہتے سُنا ہے کہ یہ شخص۔ ۔ ۔ یہ سامنے والا شخص اس کا دوست ہے ؟
سیلی: جی مادام، آپ نے بالکل ٹھیک سُنا ہے، ماسٹر کمفرٹ نے اِنہیں دوست ہی کہا ہے۔
مسز مینڈر: ہائے رچرڈ، تمھارا معیار کتنا گر گیا ہے۔ ۔ ۔ ٹھیک کہا ہے کسی نے، ہر آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کیا اب تم سرکس کے جوکروں اور بازیگروں سے بھی دوستی کرنے لگے ہو؟
(کمفرٹ بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکتا ہے )
میریگل: لل۔ ۔ ۔ لیکن محترمہ مم۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔
کمفرٹ: نہیں چچی جان آپ غلط سمجھ رہی ہیں، محترم میریگل نہ تو سرکس کے جوکر ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے بازیگر، بلکہ خاصا معزز قسم کا خوش پوش، یار باش انسان ہے۔ ان کے کپڑوں پر کیچڑ لگ گیا تھا، چنانچہ اِنہیں اپنے کپڑے اتارنے پڑے، غلطی سے یہ میرے خول پارٹی والا لباس پہن گئے ہیں۔ ۔ ۔ خاصے مضحکہ خیز لگ رہے ہیں، ہیں ناں ؟
(کمفرٹ ہنستا ہے، چچا مینڈر بھی اُن کی ہنسی میں شریک ہو جاتا ہے )
چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ویسے سرکس کا جوکر قرار دینے والا آئیڈیا بُرا نہیں، بلکہ اس شخص کی شخصیت سے تو خاصا میل بھی کھاتا ہے یہ لقب۔ ۔ ۔ سرکس کا جوکر۔ ۔ ۔ ۔ ہاہاہاہا۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: (پُر وقار انداز میں ) حیرت ہے ڈک۔ ۔ ۔ تم کہہ رہے ہو کہ یہ شخص کوئی معزز شخص ہے، چلو مانا کہ ایسا ہی ہو گا، لیکن یہ کیسا معزز شخص ہے جس کے لباس پر کیچڑ لگا ہوا تھا۔ ۔ ۔ اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ تم نے اس قسم کا جوکروں والا لباس اپنے گھر میں کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟
(چچا مینڈر ہنستے ہیں )
مسز مینڈر: اور، رچرڈ، یہ کون شخص ہے ؟
کمفرٹ: یہ۔ ۔ ۔ کک۔ ۔ ۔ کیا آپ نہیں جانتی کہ یہ کون ہیں۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ (اچانک اُسے چچا مینڈر کا کہا یاد آ جاتا ہے ) نن۔ ۔ ۔ نہیں چچی جان، مجھے نہیں پتہ کہ یہ کون ہیں !
چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بال بال بچا ہے بچونگڑا۔ ۔ ۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ ڈک کہہ کیا رہا ہے ؟ باؤلا ہو گیا ہے کیا؟
مسز مینڈر: شکر ہے کہ تم نہیں جانتے اِسے۔ ۔ ۔ جب سے میں یہاں آئی ہوں، یہ میرا مذاق اُڑائے جا رہا ہے۔
کمفرٹ: ایں۔ ۔ ۔ مذاق اُڑا رہا ہے آپ کا؟
سیلی: جی جناب! جب سے ہم لوگ یہاں داخل ہوئے ہیں، یہ مالکن کو چڑائے جا رہے ہیں۔
مسز مینڈر: خاصی متنازعہ قسم کی شے ہے یہ۔ ۔ ۔ رچرڈ!اِسے کسی بھی طور یہاں سے چلتا کرو!
(چچا مینڈر سیٹی بجانے لگتے ہیں )
کمفرٹ: (انداز میں نخوت پیدا کرتے ہوئے زور سے ) کیوں محترم! آپ تشریف لے جائیں گے یہاں سے ؟ (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے عاجزی سے ) چچا جان! سٹنگ روم میں سگار کی نئی ورائٹی آپ کی منتظر ہے !!
چچا مینڈر: (اُٹھتے ہوئے ) مجھے سگار وگار کا کوئی شوق نہیں لیکن چلیں، یہاں سے جانے کا بہانہ ہی سہی!!
(سامنے والے دروازے سے نکل جاتا ہے )
کمفرٹ: (میریگل سے ) جارج۔ ۔ ۔ مجھے علم ہے کہ تمھیں سگار خاصے پسند ہیں !
میریگیل: ہاں ڈک، تمھاری معلومات میرے بارے میں بالکل صحیح ہیں، میں تو سگار کا دیوانہ ہوں اس لئے میں بھی چلا چچا مینڈر کے پاس!! (وہ بھی سامنے والے دروازے سے نکل جاتا ہے )
مسز مینڈر: (کمفرٹ کے گرد لاڈ سے اپنی بانہیں حمائل کرتے ہوئے ) آہ رچرڈ۔ ۔ ۔ میری زندگی تو افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔
سیلی: نہیں مادام۔ ۔ ۔ ایسا نہ کہیں !
مسز مینڈر: سارہ! تم میری سرپرست بننے کی کوشش مت کرو!!
سیلی: سوری مادام، میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا، میں کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ کمال کا صبر رکھتی ہیں۔
مسز مینڈر: بالکل درست کہا ہے سارہ تم نے، یہ میری شال اور ہیٹ پکڑنا۔ ۔ ۔ ۔
(دونوں چیزیں اُسے پکڑاتی ہے اور خود رونا شروع کر دیتی ہے )
مسز مینڈر: میری زندگی ایک سائے سے بندھی ہوئی ہے، ہر گزرتا لمحہ مجھ پر کوڑے برسا رہا ہے۔ ۔ ۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتے رچرڈ کہ مینڈر مجھ سے کیسا سلوک کر رہا ہے۔
کمفرٹ: یہ تو بہت بُرا ہوا۔ ۔ ۔ کیا آپ دونوں میں اکثر جھڑپ رہتی ہے۔
مسز مینڈر: (روتے ہوئے ) جھڑپ؟ ارے جھگڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ کہو!
سیلی: جناب! مادام صحیح فرما رہی ہیں، بہت زیادہ جھگڑے ہوتے ہیں دونوں میں، مادام صاحب سے ہر وقت لڑتی رہتی ہیں۔
مسز مینڈر: (درشتی سے ) سارا؟ میں کب لڑتی ہوں اُن سے ؟
سیلی: (جلدی سے ) جج، جی مادام! آپ ان سے جھگڑا نہیں کرتی ہیں، وہی آپ سے ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔
مسز مینڈر: (کمفرٹ کے گرد بازو حمائل کرتی ہیں اور اُس کے کندھے پر سر رکھ دیتی ہیں ) وہ مجھ سے اتنی بے اعتنائی برتتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنا یہ تھکا ماندہ سر کس کے کاندھے پر رکھوں !
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے خاصی پریکٹس کرتی رہی ہیں محترمہ اِس ایکٹ کے لئے !
مسز مینڈر: خود میرا شوہر بھی مجھے بوجھ سمجھتا ہے۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) محترمہ ہیں بھی تو خاصی وزنی۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: میں تو اُن کے نزدیک ملازمہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اِن محترمہ نے تو مجھے ہینگر ہی سمجھ لیا ہے۔
مسزمینڈر: تم شادی شدہ نہیں ہو ناں رچرڈ، ورنہ تم میرے دکھ کو با آسانی سمجھ جاتے۔
کمفرٹ: (چونک کر) ایں !کیا کہا؟ شادی شدہ؟؟شادی اور میں۔ ۔ ۔ ہاہاہاہا
(سامنے والے دروازے سے مسز کمفرٹ داخل ہوتی ہے )
مسز مینڈر : لیکن تم نے کبھی نہ کبھی شادی تو کرنی ہی ہے۔
(سامنے والے دروازے سے چچا مینڈر اور میریگیل بھی داخل ہوتے ہیں، میریگیل کے منہ میں سگار ہے )
کمفرٹ: لیکن چچی جان نہ تو میری شادی ہوئی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسی کسی حماقت کا ارادہ رکھتا ہوں۔
(مسز کمفرٹ چیخ پڑتی ہیں )
مسز مینڈر: (مڑ کر اُس کی طرف دیکھتی ہے ) کیوں رچرڈ، یہ کون عورت ہے ؟
کمفرٹ: (بوکھلائے ہوئے انداز میں ) اوہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ کون ہو سکتی ہیں، ہاں ہاں ارے یہ تو میری ملازمہ ہیں۔
(سامنے والے دروازے سے ہیرس داخل ہوتا ہے، صندوق اور بہت سے پیک سے لدا پھندا ہے، مسز کمفرٹ اس کے پیچھے جھکی ہوئی ہے )
پردہ گرتا ہے۔
٭٭٭
دوسرا ایکٹ
منظر : وہی منظر جو پہلے ایکٹ میں تھا، پیکٹ میز پر سلیقے سے رکھے جا چکے ہیں، ہیرس گرد جھاڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
ہیرس: (اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے ) میری تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا، مالک نے پہلے کبھی اِس طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا، کم از کم جب سے میں اُنہیں جانتا ہوں، پتہ نہیں اُن کے ذہن میں کیا پک رہا ہے ؟ بہرحال جو کچھ بھی ہے، اُن کے ذہن کا ہی کیا دھرا ہے۔ (سر کھجاتا ہے ) آج کل تو موصوف کچھ زیادہ ہی انہونیاں بکھیرتے پھرتے ہیں۔ اب اسی کو لے لیجئے، ہر بات کا ملبہ میرے سر ڈال دینا، اُن کاموں کا بھی جو میں نے نہیں کئے، اور طوطوں کے متعلق موشگافیاں کرنا اور مجھ سے تقاضہ کرنا کہ میں اُنہیں پکڑ کر بھی لاؤں اور یہ کہ جب تک میں اُسے پکڑ نہ لوں، اُنہیں شکل بھی نہ دکھاؤں، یہ تو بندے کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف ہوا۔ میں تو کبھی دوبارہ اُنہیں اپنی شکل نہیں دکھاتا اگر مادام کا معاملہ نہ ہوتا، اور ان پیکٹوں کو یہاں نہ پہچانا ہوتا (میز پر رکھے ہوئے پیکٹوں کو دیکھتا ہے ) ذرا دیکھئے تو سہی، میں یہ سبھی پیکٹ باہر سے اٹھا کر لایا ہوں اور یقین مانئے اِنہیں لانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا، لیکن ان میں ہے کیا؟ (جائزہ لیتا ہے )
(اسٹیج کے دروازہ نمبر دو سے کمفرٹ داخل ہوتا ہے )
کمفرٹ: (تیز آواز میں )ہیرس (ہیرس چونک کر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے ) اِن پیکٹوں کو ہاتھ مت لگانا!
ہیرس: نہیں جناب، میں تو صرف۔ ۔ ۔ آپ کب آئے ؟
کمفرٹ: تمھیں ہر قسم کی حماقت پر پرہیز کرنا چاہئیے (میز کی طرف جاتا ہے )
ہیرس: حماقت؟ کیسی حماقت جناب؟
کمفرٹ: (غصے سے ) نکل جاؤ کمرے سے !!
ہیرس: نہیں جناب، میں کوئی حماقت نہیں کر رہا تھا!
کمفرٹ: میں کیا کہہ رہا ہوں، کمرے سے نکل جاؤ!!
ہیرس: (آہستگی سے ) جی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میراخیال ہے کہ مالک کے اوپر والے خانے میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے ! (باہر کی جانب جانے لگتا ہے )
کمفرٹ: (پکارتا ہے ) ہیرس!
ہیرس: (رُکتے ہوئے ) جی جناب؟
کمفرٹ: (کرسی پر دراز ہوتے ہوئے ) تم غالباً یہ سوچ رہے ہو کہ میں کچھ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ آج میرا طرز عمل کچھ مناسب نہیں ہے ؟
ہیرس: لگ تو کچھ ایسا ہی رہا ہے، لیکن یقین مانئے جناب! میں ایسا سوچ نہیں رہا ہوں۔
کمفرٹ: (دہاڑتے ہوئے ) کیا؟
ہیرس: مم میرے کہنے کا مطلب ہے جناب کہ میں سوچنے والا کون ہوتا ہوں، آپ مالک ہیں جیسا چاہیں، کریں !
کمفرٹ: اچھا؟ تو جو چاہوں کر سکتا ہوں ؟؟
ہیرس : جی جناب!
کمفرٹ: (خشک لہجے میں ) اطلاع کا شکریہ!
ہیرس: (حیرانی سے ) جی جناب؟
کمفرٹ: میں نے کہا، تمھارا شکریہ!
ہیرس: جی، جی، جی جناب! (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) قسم لے لیں جو مجھے پتہ ہو کہ مالک شکریہ کس بات کا ادا کر رہے ہیں۔
کمفرٹ: شاید دو تین ایسی باتوں پر بھی میں نے تمھاری سرزنش کر ڈالی ہے جو تم سے سرزد ہی نہیں ہوئی تھیں۔
ہیرس: جی جناب، اب آپ نے یہ تذکرہ چھیڑ ہی دیا ہے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیجئیے کہ آپ نے دو تین ایسی باتوں کا بھی مجھ سے کہا ہے جس کے بارے میں میں ابھی تک کنفیوز ہوں کہ آپ کا مطلب کیا تھا؟
کمفرٹ: (پُر تفکر انداز میں ) ہاں کچھ باتیں ایسی تھیں تو، لیکن ان سے اغماز بھی تو برتا نہیں جا سکتا تھا۔
ہیرس: جی جناب (ہچکچاتے ہوئے ) مم۔ ۔ ۔ میں کیا پوچھ سکتا ہوں کہ وہ کون سا طوطا تھا جس کو میں نے پروں سے پکڑ کر آپ کی خدمت میں پیش کرنا تھا؟
کمفرٹ: اُس طوطے کا تذکرہ تو اب جانے ہی دو۔ ۔ ۔ وہ طوطا ایک نہایت اَوپری سچوئیشن کا حصہ تھا (پیسے دیتے ہوئے )یہ کچھ پیسے ہیں، رکھ لو!
ہیرس: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مالک تو واقعی سٹھیا گئے ہیں۔
کمفرٹ: اور یاد رکھنا کہ کسی سے بھی اس گفتگو کا تذکرہ نہیں کرنا ہے، کسی سے بھی، سمجھ گئے ناں، دوسرے کسی ملازم سے بھی نہیں، اب تم کمرے سے جا سکتے ہو۔
ہیرس: شکریہ جناب (کمرے سے نکل جاتا ہے )
کمفرٹ: خدا کی پناہ، کتنا کوڑھ مغز ہے یہ شخص بھی۔ ۔ ۔ یہ رہا میرا ڈرامہ، میں تو اِسے تقریباً بھول ہی بیٹھا تھا، ظاہر ہے دوسری ڈرامہ بازیوں سے فرصت ملتی تو اِس پر نظر جاتی، لیکن دوسرے ڈراموں نے تو میری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ جب سے میں نے اپنے ڈپلومیٹک کیرئر کا آغاز کیا ہے۔ ۔ ۔ میں اِس سلسلہ ہائے خرافات کو شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈپلومیسی کا نام دیئے دیتا ہوں، ویسے بھی ڈپلومیٹ لوگوں کا کام جھوٹ بولنا ہی تو ہے، کبھی دوسروں کے سامنے اور کبھی خود اپنے لوگوں سے۔ ۔ ۔ خیر، تو میں نے آج اِس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ اب وہ کسی سبیل کی صورت خود ہی جاری ہو گئے ہیں، بغیر میری مدد کے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُن جھوٹوں نے خود ہی مجھ سے خود کو کہلوایا تھا اور اس کثرت سے کہلوایا تھا کہ اب اُنہیں ٹھپنا دشوار ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ جھوٹ بولنا نہایت کمیں گی کا کام ہے لیکن ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ ویسے بھی جھوٹ بولنے میں کون سے میرے پیسے لگتے ہیں۔ اور اگر کسی دن مجھے ان کی قیمت ادا کرنی پڑی تو غضب ہو جائے گا کیونکہ اُس وقت تک ان کی مقدار اس قدر ہو جائے گی کہ الامان الحفیظ کیونکہ اس کا کھاتا مسلسل جاری و ساری ہے، کسی بڑے بیوپاری کے کاروباری کھاتے کی طرح۔ اب جب کہ ایڈتھ واپس لوٹ آئی ہے تو میرا پول بھی کھلنے کو ہے، کم از کم اُس کے ذہن میں تو بہت سے سوالات ہوں گے، لیکن یہ واپس اِتنی جلدی آ کیسے گئی ؟ظاہر ہے کہ اُس نے گاؤں سے اسٹشنری بھی خریدی ہو گی۔ لگتا ہے کہ اسٹشنری کی دکان والا کچھ ضرورت سے زیادہ ہی چست ہے۔ ۔ ۔ میں تو اس کی واپسی کے بعد اس سے کسی بارے میں کوئی بات نہیں کر سکا ہوں، موقع ہی نہیں مل سکا ہے مجھے اس کا، اور سچ پوچھیں تو مجھے ہمت بھی نہیں ہے اس کا سامنا کرنے کی (مسز کمفرٹ اسٹیج کے دروازہ نمبر ایک سے داخل ہوتی ہے اور داخلی دروازے کی جانب بڑھتی ہے )
کمفرٹ: (اُٹھتے ہوئے ) لو بھئی، وہ وقت بھی آن پہنچا، یا شیطان تیرا ہی سہارا (اس کے راستے میں آتے ہوئے ) اوہ ایڈتھ!
مسز کمفرٹ: (بے نیازی سے ) جی!
کمفرٹ: (اس کے ساتھ قدم ملاکر چلتے ہوئے ) میں صرف یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ کہ تم نے کیا ان کاغذ کے رموں کی ادائیگی کر دی تھی؟
مسز کمفرٹ: مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔
(باہر نکل جاتی ہے )
کمفرٹ: لو جی، اس عزت کی کسر تھی۔ ۔ ۔ (میز پر بیٹھ جاتا ہے ) ( ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے ) ہاہاہا، میرے ٹھینگے سے، ویسے مذاق اچھا کر لیتی ہے میری بیوی (پھیکے انداز میں دوبارہ ہنستا ہے ) ہاہاہا (قلم اٹھاتا ہے ) اب مجھے کچھ لکھنا وکھنا بھی چاہئیے (لکھنے لگتا ہے )
(میریگیل دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتا ہے، ابھی تک اُسی جوکروں والے لباس میں ہے )
کمفرٹ: (قلم کو دور پھینکتے ہوئے ) آخر لکھوں تو کیا لکھوں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا!
میریگیل: چھوڑو یار! مجھے پتہ ہے کتنے شیکسپئر ہو تم، اور ہاں، اِتنا شور شرابا مت کرو، تم اُنہیں جگا دو گے !
کمفرٹ: جگا دوں گا؟ کسے جگا دوں گا؟؟
میریگیل: اپنے چچا مینڈر کو اور کسے، میں ابھی ابھی اُنہیں سٹنگ روم میں چھوڑ آیا ہوں، ایسے سوئے پڑے ہیں گویا قیامت کو ہی اُٹھیں گے، اور اُن کے خراٹے، توبہ ہے بھئی! میں تو اُنہیں اپنا قصہ سُنا رہا تھا اور وہ سنتے سنتے سو گئے، حد ہو گئی!!
کمفرٹ: چچا جان کا یہ ردِ عمل فطری ہے، میں ہوتا تو میں بھی۔ ۔ ۔ ۔
میریگیل: ہاہاہا، بہت اچھا مذاق ہے یہ۔ ۔ ۔ یقین مانو میں اپنی زندگی کا انتہائی دلچسپ قصہ سنا رہا تھا۔ میں تو اُنہیں۔ ۔ ۔
کمفرٹ: (بات کاٹتے ہوئے ) معذرت خواہ ہوں جارج لیکن اس وقت میں بہت مصروف ہوں، تمھارے ان دلچسپ قصے کہانیوں کے لئے میرے پاس وقت نہیں، پھر کبھی سہی۔
میریگیل: میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔
کمفرٹ: کوئی طوطا کہانی نہیں جارج (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کہانیاں گھڑنے کی اجارہ داری تو صرف میرے پاس ہے اِن دنوں !
میریگیل: ٹھیک ہے یار، پھر کبھی سہی، لیکن میں تمھاری ملازمہ کے بارے میں ضرور پوچھنا چاہوں گا، تمھاری ملازمہ۔ ۔ ۔
کمفرٹ: (غصے سے ) گولی مارو ملازمہ کو!
میریگیل: گولی مار دوں، توبہ، میں تو یہ کہنا۔ ۔ ۔
کمفرٹ: تو پھر پھانسی پر چڑھا دو اُسے۔
میریگیل : کیوں یار، اِتنے تپ کیوں ہو جاتے ہو تم اس کے ذکر پر؟
کمفرٹ: کوئی بات نہیں یار (قدرے توقف سے ) اگر تم اُس کے بارے میں جاننا ہی چاہ رہے ہو تو تمھیں بتانا ہی پڑے گا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی ایک اور جھوٹ سننے کی تیاری پکڑ لیں ! (میریگیل سے ) وہ میری رشتہ دار ہے۔
میریگیل: افوہ، تو یہ وجہ ہے تمھاری اُس میں دلچسپیوں کی!
کمفرٹ: میری دلچسپیاں، میرے خیال میں تو مجھ سے زیادہ تم اس میں دلچسپی لے رہے ہو۔
میریگیل: لیکن اگر وہ تمھاری رشتہ دار ہے تو تم نے اُسے ملازمہ کیوں بنا رکھا ہے ؟
کمفرٹ: (ہچکچاتے ہوئے ) وہ میری ملازمہ نہیں ہے وہ تو میری۔ ۔ ۔
میریگیل: گھر کی نگران ہے ؟ یہی کہنا چاہتے ہو تم؟؟
کمفرٹ: (جلدی سے ) بالکل بالکل، وہ میری ہاؤس کیپر ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے پہلے کیوں نہ سوجھی یہ بات؟ (میریگیل سے ) بات در اصل یہ ہے کہ وہ غریب دنیا میں یک و تنہا رہ گئی تھی بس مجھے اس کے سوا کوئی چارہ نہ نظر آیا کہ اُسے سر چھپانے کے لئے اپنے گھر لے آؤں، در اصل میں تمھیں اس لئے بھی بتا رہا ہوں کہ اگر تم کو اُس کی گفتگو میں میرے حوالے سے کوئی ایسی بات دیکھو تو کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو جاؤ۔
میریگیل: بالکل کیوں نہیں، میں پہلے ہی جانتا تھا کہ وہ کوئی معمولی ملازمہ نہیں ہے، اوربرسبیلِ تذکرہ، تم بھی نرے چغد ہو اس معاملے میں، نہ جانے کتنے ہی عرصے سے اُس کے جذبات کو مجروح کرتے رہے ہو اُسے ملازمہ قرار دے کر، اس قسم کے رشتہ دار خاصے حساس ہوتے ہیں ان معاملات میں !
کمفرٹ: تم ٹھیک کہتے ہو یار، مجھ سے واقعی غلطی ہوتی رہی ہے (داخلی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ارے باپ رے، محترمہ بھی آن ٹپکیں، اب مجھے ان دونوں کو باہمی ٹاکرے سے دور رکھنا پڑے گا (میریگیل سے ) جارج، جلدی سے کہیں اوٹ میں ہو جاؤ (اُسے بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتا ہے ) اِدھر آ جاؤ، اس سکرین کے پیچھے !!
میریگیل: کیوں ؟ کیا ہوا؟؟
کمفرٹ: میری ہاؤس کیپر آ رہی ہے۔
میریگیل: تو پھر کیا ہوا، مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے اُس سے ملاقات پر۔ ۔ ۔
کمفرٹ: وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں اُس سے اپنے رویے کی معافی مانگوں اور میں یہ کام کسی دوسرے کی موجودگی میں نہیں کرنا چاہتا، جلدی کرو۔
(میریگیل کو اسٹیج کی سکرین کے پچھلی طرف دھکیل دیتا ہے، داخلی دروازے سے مسز کمفرٹ داخل ہوتی ہے، کمفرٹ میز پر جھک سا جاتا ہے اور دوسری سمت دیکھنے لگتا ہے )
مسزکمفرٹ: (کچھ توقف کے بعد آہستگی سے ) ڈِک!
کمفرٹ: مجھے ڈِک نہ کہو! تمھیں پتہ ہے کہ میں دوسروں کے سامنے ڈِک کہلوائے جانا پسند نہیں کرتا۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ جب کوئی دوسرا بھی موجود ہو۔
مسزکمفرٹ: لیکن کیوں ڈِک؟
کمفرٹ: پھر تم نے مجھے ڈِک کہا!
مسزکمفرٹ: تم جانتے ہو کہ میں دوسروں کے سامنے تمھیں ہمیشہ مسٹر کمفرٹ کہتی ہوں لیکن (چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے ) اس وقت تو یہاں کوئی دوسرا موجود نہیں !
کمفرٹ: (تیزی سے ) بالکل یہاں اور کوئی بھی نہیں (بوکھلا کر) کس نے کہا ہے کہ کوئی اور بھی یہاں موجود ہے ؟
مسزکمفرٹ: پلیز مجھے بتاؤ کہ کیا بات ہے ؟ مجھ سے ایسی کیا خطا سرزد ہو گئی کہ کہ تم ایسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہو، تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں ؟
کمفرٹ: بالکل! میں ٹھیک ٹھاک ہوں !! کوئی شک؟
مسزکمفرٹ: تو پھر تم مجھ سے ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو؟ تم نے مجھے ملازمہ کیوں کہا تھا؟
کمفرٹ: افوہ، وہ؟ وہ تو میری زبان سے غلطی سے نکل گیا تھا، زبان لڑکھڑا گئی تھی! میں معافی چاہتا ہوں۔
مسزکمفرٹ: کیا تم غلطی کے ازالہ کے طور پر مجھے کِس کر کے نہیں کہو گے کہ تمھیں اپنے گزشتہ رویے پرافسوس ہے اور یہ کہ تم مجھ سے از حد محبت کرتے ہو؟
کمفرٹ: (بُری طرح کھانستے ہوئے ) کیا؟ ارے نہیں ؟؟ ہرگز نہیں، میں ایسا نہیں کر سکتا!
مسزکمفرٹ: (روہانسی ہوئی آواز میں ) کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ڈک؟
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) جارج کیا سوچے گا (مسز کمفرٹ سے ) تمھیں اس قسم کے رویے کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم اس موضوع پر بارہا بات کر چکے ہیں اور تمھیں میرے احساسات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ میرے خیالات تمھارے بارے میں کتنے مثبت ہیں، اب اس وقت اس بات پر اصرار کرنا کہ میں تم سے ازسرِنو محبت کا اظہار کروں تو یہ نہ صرف یہ کہ بے معنی ہے بلکہ بڑی حد تک خاصا احمقانہ بھی ہے۔
مسزکمفرٹ: (روتے ہوئے ) مجھے نظر آ رہا ہے کہ تم مجھ سے بالکل بھی محبت نہیں کرتے۔ تم نے مجھے اسی لئے گھر سے دور بھیج دیا تھا تاکہ تم کسی دوسری عورت کے ساتھ وقت گزار سکو۔ کون ہے وہ؟ (مزید پُر جوش انداز میں ) تم میں اِتنی اخلاقی جرأت ہے کہ مجھے بتا سکو؟
کمفرٹ: تمھیں معلوم ہونا چاہئیے کہ میری محبت کون ہے۔
مسزکمفرٹ: تم اُس لڑکی کو بھول چکے ہو جس سے تم محبت کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ تم اُسے فراموش کر چکے ہو جس سے تم نے وعدہ کیا تھا کہ۔ ۔ ۔
کمفرٹ: میں نے اور کسی سے کوئی وعدہ شادہ نہیں کیا ہے، تم فضول باتیں کر رہی ہو۔
مسزکمفرٹ: تم نے بالکل وعدہ کیا تھا۔ ۔ ۔ تم نے کہا تھا کہ تم۔ ۔ ۔
کمفرٹ: وہی تو میں تمھیں بتانا چاہ رہا ہوں کہ وہ کون خاتون ہیں۔
مسزکمفرٹ: لیکن مجھے نہیں سننا۔
کمفرٹ: لیکن میں تمھیں بتانا چاہ۔ ۔ ۔
مسزکمفرٹ: میں تمھاری کوئی بات سننا نہیں چاہتی۔ (دائیں طرف کے دروازہ نمبر ایک کی جانب جاتی ہے )
کمفرٹ: تمھیں سننا پرے گا۔
مسزکمفرٹ: میں نہیں سننا چاہتی۔ (دروازے سے باہر نکل جاتی ہے اور اندر سے کنڈی لگا لیتی ہے )
میریگیل: (سکرین کے عقب سے نکلتے ہوئے ) چلی گئی، تم نے مجھے اوٹ میں کر کے بہت اچھا کیا تھا۔ ۔ ۔
کمفرٹ: (خشک لہجے میں ) ٹھیک ہے۔ ۔ ۔
میریگیل : خاتون کچھ غصے میں تھیں، تم نے اُنہیں ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ وہ ناراض ہو گئیں ؟
کمفرٹ: کوئی خاص بات نہیں، بس وہ بھی دوسری عورتوں کی طرح اپنی آئی پر آئی ہوئی ہے۔
میریگیل: ہا۔ ۔ ۔ یہی بات ہے کہ میں عورت ذات کو کبھی نہیں سمجھ سکا۔ ان کے جذبات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ کے ہی نہیں دیتا، لیکن یار۔ ۔ ۔ میرا تو خیال ہے کہ تم نے اُن خاتون سے خاصی بے اعتنائی برتی ہے، لگتا ہے کہ اُس نے تم سے خاصی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔
کمفرٹ: (بے اعتنائی سے ) یہ تمھارا خیال ہے۔
میریگیل: بالکل، لگتا تو کچھ ایسا ہی تھا۔
کمفرٹ: یہی تو مسئلہ ہے، مجھے اس بات پر قطعی کوئی اعتراض نہیں اگر اُس کے دل میں میرے بارے میں اچھے خیالات ہیں، بلکہ اُس کے یہ خیالات میرے نزدیک اُس کے اعلیٰ جمالیاتی ذوق کا مظاہرہ ہیں لیکن میں نہیں چاہتا ہوں کہ وہ اس امر کا اس قدر واشگاف انداز میں اظہار بھی کرے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کم از کم اس وقت تو بالکل نہیں۔
میریگیل: لیکن تم آخر اُس محترمہ کو اِتنی سپیس کیوں نہیں دیتے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکے۔ ممکن ہے کہ وہ بھی دوسری خواتین کی طرح شکی مزاج کی حامل ہو جب کہ دوسری طرف تمھارے بارے میں کچھ جذبات رکھتی ہو، اِسی زعم میں وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ کر بیٹھی ہو۔ ایسے میں دوسری خواتین میں تمھاری دلچسپیوں پر اُس کا چراغ پا ہو جانا بنتا ہے۔
کمفرٹ: لیکن میں کسی کا پابند نہیں اور نہ ہی دوسری عورتوں کے چکر میں رہتا ہوں۔ میں اس فطرت کا انسان نہیں۔
میریگیل: شاید تم سمجھتے ہو کہ تم ایسے نہیں ہو لیکن دوسرے کسی اور نقطہ نظر سے دیکھیں تو ممکن ہے کہ اُنہیں ایسا ہی نظر آتا ہو، یوں بھی تم پہلے بڑے ’’وہ‘‘ رہے ہو، مجھ سے چھپے ہوئے تو نہیں ہو تم۔
کمفرٹ: (قدرے طیش میں ) چھوڑو یار، میں اپنے معاملات تم سے بہتر جانتا ہوں۔
میریگیل: ممکن ہے، تمھیں جاننے بھی چاہئیں ویسے بھی۔ ۔ ۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کاش ایسا ہو سکتا (میریگیل سے ) اور تم بے سبب میرے ابا جی بننے کی کوشش بھی مت کرو۔
میریگیل: دیکھو دیکھو، یوں سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں، میرا کوئی غلط مطلب نہیں تھا۔
کمفرٹ: بہتر یہی ہے کہ ہم اس موضوع کو فی الفور موقوف کر دیں۔
میریگیل: ٹھیک ہے یار، اگر تم یہی چاہتے ہو تو یونہی ہی سہی۔
(ہیرس سامنے والے دروازے سے نمودار ہوتا ہے )
ہیرس: جناب، وہ آدمی کہہ رہا ہے کہ اُسے کب تک انتظار کرنے پڑے گا، آپ اُسے کب تک ادائیگی کر کے فارغ کریں گے ؟
کمفرٹ: کون آدمی؟
ہیرس: وہی آدمی جو کاغذوں کے رِم لے کر آیا تھا، وہ اُس وقت سے منتظر بیٹھا ہے۔
کمفرٹ: میں نے تو اُسے انتظار کرنے کا نہیں کہا تھا۔
ہیرس: میں نے بھی نہیں کہا تھا جناب۔
کمفرٹ: پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے، اُسے یہیں بھیج دو، لیکن نہیں، ذرا ٹھہرو، میں خود ہی جا کر اُس سے مل لیتا ہوں (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کہیں وہ نامعقول میریگیل کے سامنے میری بیوی کے بارے میں کچھ اُگل ہی نہ دے۔
(سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )
میریگیل: ہیرس، مسز مینڈر کہاں ہیں ؟
ہیرس: پتہ نہیں جناب، اپنے شوہر سے لڑ شڑ رہی ہوں گی کہیں۔
میریگیل: کس سے لڑ رہی ہوں گی؟
ہیرس: اپنے شوہر سے جناب، شاید آپ سمجھ رہے ہیں کہ مسز مینڈر صاحبہ کا کوئی خاوند نہیں ہے، نہیں جناب ایسا نہیں ہے، اُن کے بھی ایک شوہر ہیں۔
میریگیل: میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کہہ کیا رہے ہو۔
ہیرس: اس میں نہ سمجھنے والی کیا بات ہے جناب؟
میریگیل: کون ہیں اُن کے شوہر، ڈک تو نہیں۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ڈک کے چچا ہوں گے۔
ہیرس: ظاہر ہے جناب، وہ اُن کی چچی جان ہیں۔
میریگیل: تو پھر اُنہوں نے اپنا نام کیوں تبدیل کر لیا ہے ؟
ہیرس: (کھلکھلاہٹ کے ساتھ) جی جناب، اس بات پرتوبسا اوقات خود اُن کو بھی حیرت ہوتی ہے۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ہوں تو یہ بات ہے، اب مجھے کچھ کچھ اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ انہوں نے کمفرٹ کے بجائے مینڈر کا نام اپنے نام کے ساتھ کیوں لگا رکھا ہے، اب تو اُس خوبرو خادمہ سے ملنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے، وہی اس پر روشنی ڈالنے کی پوزیشن میں ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے (ہیرس سے ) میں اس گھر کی ہاؤس کیپر سے ملنا چاہتا ہوں۔
ہیرس: (حیرانی سے ) ہاؤس کیپر؟ یہاں کوئی ہاؤس کیپر نہیں ہے جناب۔ گھر کی نگرانی کا کام صرف اور صرف مسز کمفرٹ کا استحقاق ہے اور وہی یہ کام کرتی ہیں۔
میریگیل: مسز کمفرٹ؟ تمھارا مطلب اُن بوڑھی خاتون سے ہے ؟
ہیرس: اب میں تو ایسا نہیں کہہ سکتا جناب، ہاں البتہ مسٹر کمفرٹ اُنہیں از راہِ مذاق بوڑھی خاتون کہہ جایا کرتے ہیں (ہنستا ہے )
میریگیل: لیکن وہ تو مستقل یہاں نہیں رہتی ہوں گی۔
ہیرس: مستقل کی بھی آپ نے خوب کہی جناب، اُن کا تو زیادہ تر وقت یہیں گزرتا ہے، ہاں البتہ کبھی کبھار اُنہیں کہیں جانا پڑ جاتا ہے، قصبے میں بھی جا کر رہتی ہیں۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب معاملہ کچھ کچھ سمجھ میں آتا جا رہا ہے، دو چکیوں کا پسا ہمیشہ مصیبت میں رہتا ہے، اب کمفرٹ کا میٹر گھوما گھوما نہ رہے تو اور کیا ہو۔ دونوں خواتین میں گھمسان کا رن پڑتا ہو گا اور دونوں کا غصہ کمفرٹ پر اُترتا ہو گا (ہیرس سے ) وہ ملازمہ کہاں ہیں ؟ میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں۔
ہیرس: جی کیا کہا؟ ملازمہ جناب؟؟
میریگیل: (غصے سے ) ہاں، ملازمہ، اور یہ تم میری ہر بات پر منہ کیوں کھول لیتے ہو؟ میں سیلی کا تذکرہ کر رہا ہوں، یہی نام ہے غالباً اُس کا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) عجیب ہے یہ ملازم طبقہ بھی، ہر وقت ایک دوسرے سے جلتے رہتے ہیں۔
ہیرس: جب سے میں یہاں ہوں، کوئی سیلی نام کی ملازمہ نہیں ہے یہاں پر جناب۔
میریگیل: وہ ملازمہ ہے یا نہیں ہے، میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں، اس سے کہو کہ میں اُسے یاد کر رہا ہوں۔
ہیرس: جی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) حیرت ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ صاحب سیلی سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔
(ہیرس دروازہ نمبر ایک سے باہر نکل جاتا ہے )
میریگیل: بہت پرُاسرار، بہت ہی۔ ۔ ۔
(چچا مینڈر داہنی طرف والے دروازے سے داخل ہوتے ہیں )
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی ڈھلڑ شاہ چلے آ رہے ہیں منہ اُٹھائے ہوئے، لگتا تو یہ ہے کہ ابھی ابھی جاگے ہیں خوابِ غفلت سے (چچا مینڈر سے ) تو جناب، آخر آپ کامیاب ہو ہی گئے۔
چچا مینڈر: (تیزی سے ) کامیاب ہو گیا؟ کس کام میں کامیاب ہو گیا؟؟
میریگیل: چھت پھاڑنے کے کام میں، میں آپ کو اِسی مشقت پر لگا کر آیا تھا، آپ یقیناً کامیاب لوٹے ہوں گے۔
چچا مینڈر: پتہ نہیں تم کیا فضول باتیں کر رہے ہو۔ تم تو مجھے کمرے میں برانگیختہ چھوڑ آئے تھے، میری بات کو انتہائی بیہودہ انداز میں کاٹ کر۔
میریگیل: (ہنستا ہے ) ہا ہا ہا ہا، آپ نے بھی کیا خوب بات کہی ہے، میں آپ کی بات کاٹنے کا مرتکب ہوا تھا یا آپ نے میری گفتگو میں مداخلت کی تھی۔ آپ نے اِتنی زور سے خراٹے لینے شروع کر دئے تھے کہ مجھے اپنا قصہ روک دینا پڑا، اِتنا دلچسپ قصہ سُنا رہا تھا میں آپ کو۔
چچا مینڈر: کیا کہا؟ خراٹے لے رہا تھا؟؟ میں خراٹے نہیں لیتا ہوں، اس سے غلط بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
میریگیل: (طنزیہ انداز میں ) بجا کہا آپ نے جناب، آپ تو شاید سوئے بھی نہیں ہیں، اور آپ اس وقت سٹنگ روم سے بھی نہیں آ رہے ہیں، کیوں جناب، میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں ؟
چچا مینڈر: نہیں، بالکل نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ تم خود ہی پڑ کر سو رہے تھے۔
میریگیل: جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔ ۔ ۔ چہ خوب، گویا وہ جو خراٹے لے رہا تھا وہ ذات شریف میں بقلم خود تھا، یہ بھی لطیفہ ہو گیا، اگر وہ واقعی میں تھا تو میں تو اپنی شکل بھی دیکھنا پسندنہ کروں گا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کیونکہ ایسی بھیانک آواز سے تو ہر کوئی دہل کر رہ جائے (چچا مینڈر سے ) اب مجھے پتہ چلا کہ آپ کی بیوی آپ سے کیوں لڑتی رہتی ہیں۔
چچا مینڈر: (غصے سے ) تمھیں میرے ذاتی معاملات میں مداخلت کی جرأت کیسے ہوئی؟ مجھے تو لگتا ہے کہ تمھیں ان باتوں کا رتی بھر بھی تجربہ نہیں۔
میریگیل: آپ نے درست کہا، میں ابھی کنوارہ ہوں۔
چچا مینڈر: اوہ، تو یہ بات ہے تمھاری کج فہمی کی، کیا خوب کہا ہے کسی نے ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘ (دانت نکالتے ہوئے ) تو تم کنوارے ہو، کتنا بھلا لگتا ہے یہ لفظ، لیکن میاں، شادی شدہ لوگوں کی زندگی کے بارے میں رائے زنی نہیں کرنی چاہئیے، اس سلسلے میں میں تمھیں ایک کہانی سُناتا ہوں۔ (بیٹھ جاتا ہے )
میریگیل: آپ نے تو میری کہانی نہیں سُنی تھی۔
چچا مینڈر: تمھاری کہانی میں بے معنی مذاق اور ہنسی کے علاوہ کچھ نہ تھا جبکہ میں تمھیں گُر کی باتیں بتانے والا ہوں۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یقیناً اب سنجیدہ خان کے پوتے بھی شرما جائیں گے۔ (بیٹھ جاتا ہے )
چچا مینڈر: یہ کہانی ایک نہایت رنجیدہ اور سنجیدہ شخص کی ہے جس کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی۔
میریگیل: (منہ پر رکھے ہوئے رو مال پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کسی دردوں کی ماری ذی روح کی کہانی سنانے چلے ہیں بزرگوار۔
چچا مینڈر: بہت عرصہ گزرا (سوچتے ہوئے ) بھلا کتنا عرصہ گزرا ہو گا۔
میریگیل: کیا فرمایا ہے آپ نے کتنا عرصہ گزرا؟
چچا مینڈر: عرصے ورصے کو دفع کرو، بس یوں سمجھ لو کہ بہت عرصہ گزرا کہیں کوئی نوجوان ہوا کرتا تھا، یہی کوئی پینتیس چھتیس برس کا۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے، طنزاً) گویا کل کا بچہ ہوا۔
چچا مینڈر: اُس کی ملاقات ایک نوجوان اور خوبصورت بیوہ سے ہوئی۔
میریگیل: (بات کاٹتے ہوئے ) دونوں میں محبت ہو گئی ہو گی جس کا انجام شادی خانہ آبادی پر ہوا ہو گا اور اس کے بعد اُن دونوں نے اپنی بقیہ زندگی ہنسی خوشی گزار دی ہو گی اور ہمارے لئے سبق یہ ہوا کہ ہمیشہ بیواؤں کو خوش رکھو، تم خود بھی خوش رہو گے اور اللہ بھی تم سے خوش ہو گا، سب کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔
چچا مینڈر: (پُر وقار انداز میں ) براہِ مہربانی کہانی کے بیچ میں مداخلت مت کرو۔ ویسے تمھارا یہ اندازہ دُرست ہے کہ وہ نوجوان اُس بیوہ خاتون کے عشق میں بُری طرح مبتلا ہو گیا تھا۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) وہ رہ بھی کیسے سکتا تھا محبت میں مبتلا ہوئے بغیر۔
چچا مینڈر: اُس نوجوان بیوہ نے بھی اُس کی محبت کا جواب محبت سے دیا۔
میریگیل: کہانی کے پلاٹ کی وجہ سے مجبور ہو گی بیچاری۔
چچا مینڈر: (غصے سے ) تمھاری بے وقت مذاق کرنے کی بیہودہ عادت میرے صبر کا امتحان لے رہی ہے، پلیز مجھے کہانی کو اپنے انداز میں بیان کرنے کی اجازت دو گے تم؟
میریگیل: کیوں نہیں جناب، بے شک یہ آپ کی کہانی ہے، آپ ہی سنائیں۔
چچا مینڈر: تو میں کیا کہہ رہا تھا، ہاں یاد آیا، نوجوان کو اُس کی محبت کا جواب محبت سے ملا۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بیوہ یقیناً ریپبلک پارٹی کی رُکن ہو گی۔
چچا مینڈر: اُن دونوں کی شادی ہو گئی لیکن توقعات کے بالکل برعکس، اُن کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں تھی۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ غیر معمولی بات ہے اس قصے میں۔
چچا مینڈر: اُس کی بیوی ہر وقت اپنے خاوند کو غصہ دلانے میں مشغول رہتی تھی۔
میریگیل: ایسا تو ہونا ہی تھا، ہمیشہ خاتونِ خانہ کو ہی فساد کی جڑ ٹھہرایا جاتا ہے اس قسم کے معاملات میں۔
چچا مینڈر: جی جناب اور یہ محض الزام تراشی نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت تھی۔
میریگیل: (طنزیہ انداز میں ) ایسا تو ہونا ہی تھا۔
چچا مینڈر: در اصل اُس بیوہ کو جیسی توقعات اپنے مرحوم شوہر سے تھی وہی توقعات اپنے شوہر نمبر دو سے بھی وابستہ کر بیٹھی تھی۔
میریگیل: جبکہ اُس کے شوہر نمبر دو کے خیالات اس کے برعکس ہوں گے۔
چچا مینڈر: بالکل ٹھیک کہا تم نے، وہ ایک مختلف مزاج کا شخص تھا، وہ اُس خاتون کی ہر جائز و ناجائز بات پر آنکھ بند کر کے صاد کہنے کا عادی نہیں ہو سکا تھا۔
میریگیل: واقعی بہت دردیلی کہانی ہے۔
چچا مینڈر: (پُر جوش انداز میں ) برخوردار، یہ محض ایک کہانی نہیں ہے، اس ناکام زندگی کی کہانی کا جیتا جاگتا کردار میری صورت تمھارے سامنے موجود ہے (آہستگی اور متانت سے ) میں ہی تھا جس نے اُس بیوہ سے شادی کی تھی۔
میریگیل: آپ کی ظاہری وضع قطع کو دیکھتے ہوئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی زندگی کوئی اِتنی خوشگوار نہیں ہے۔
چچا مینڈر: بدترین کہو برخور دار لیکن اس کے باوجود میری زندگی کی زنبیل میں کچھ نہ کچھ خوشگوار لمحے موجود ہیں۔
میریگیل: ناممکن!
چچا مینڈر: ہماری ازدواجی معرکے عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ پھر جب جنگ کا خوفناک عقاب اپنے پر سمیٹ لیتا ہے اور امن کی سفید فاختہ ہماری زندگیوں پر پر افشاں ہو جاتی ہے تو ہماری زندگی کے خوشگوار لمحے لوٹ آتے ہیں اور میں بھی اِتنا ہی خوش ہو جاتا ہوں جتنے تم یا کوئی اور شخص ہو سکتا ہے۔
میریگیل: جناب، اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو میں اُس جنگ کے عقاب کا ٹینٹوا دبا دیتا اور امن کی فاختہ کو پنجرے میں ڈال دیتا، یوں وہ میری زندگی سے کبھی دور نہ ہو پاتی، عارضی طور پر بھی نہیں۔
چچا مینڈر: امن کی فاختہ کو پنجرے میں ڈال دیتے، یہ تو کچھ اچھی بات نہ ہوتی۔
میریگیل: ہو سکتا ہے کہ میں نے مثال غلط دے دی ہو، میں ان مسالوں وسالوں کے معاملے میں اِتنا اچھا نہیں۔
(دا ہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے مسز مینڈر اندر داخل ہوتی ہے )
چچا مینڈر: یہ پچھتاوا ساری زندگی میرا تعاقب کرتا رہا کہ میں نے وہ شادی کی ہی کیوں تھی، شاید اُس وقت میں نہایت احمق تھا۔
مسز مینڈر: اب بھی کچھ کم نہیں ہو۔
(چچا مینڈر اور میریگیل چونک جاتے ہیں )
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی پھر کسی عالمی جنگ کا احتمال ہونے چلا ہے، میں کوشش کرتا ہوں ٹالنے کی (مسز مینڈر سے ) مادام، ابھی آپ کے شوہر آپ ہی کا تذکرہ کر رہے تھے۔
مسز مینڈر: (خشک لہجے میں ) جی ہاں، میں سُن چکی ہوں۔
میریگیل: لیکن آپ کے انداز سے لگتا ہے کہ آپ کو کوئی غلط فہمی سی ہو گئی ہے، وہ آپ کا تذکرہ نہایت مثبت انداز میں کر رہے تھے۔
مسز مینڈر: مجھے اس کا اثبات ابھی تک ڈنک مار رہا ہے۔
میریگیل: یہ کہہ رہے تھے کہ اُسے اُس وقت کتنا افسوس ہوتا ہے جب میاں بیوی میں مسلسل لڑائی ہو رہی ہو۔
چچا مینڈر: میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
میریگیل: جج جی آ۔ ۔ ۔ آپ نے اِن الفاظ میں تو نہیں کہا تھا لیکن آپ کا مطلب کچھ ایسا ہی تھا۔
مسز مینڈر: نوجوان، تم بلاوجہ ان صاحب کی ترجمانی کرنے کی کوشش مت کرو، یہ جو کچھ کہہ رہے تھے وہ میں سُن چکی ہوں، میری سماعت ابھی اِتنی بھی کمزور نہیں ہوئی ہے اور مجھے کہہ لینے دو کہ حماقت کا اگر کوئی پیکر ہوتا تو وہ اِنہیں ذات شریف کی شکل میں ہوتا، اور یہ کہ اگر یہ اپنے آپ کو احمق کہہ رہے ہیں تو بالکل درست کہہ رہے ہیں، کم از کم اس حد تک اِن کا تجزیہ بالکل صحیح ہے۔
چچا مینڈر: بات یہ ہے برخوردار کہ یہ جو خاتون ہیں یہ احمق شناسی میں ایکسپرٹ ہیں۔
مسز مینڈر: جی بالکل، لیکن مجھے ایسا ہونا پڑا ہے، میرا پالا ہی جب آپ جیسوں سے پڑتا ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔
چچا مینڈر: بالکل، ان کا کام ہی اسی سے چلتا ہے۔
میریگیل: بزرگوار، میں استدعا کروں گا کہ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔
چچا مینڈر: میں ایک بار پھر یہ بات اعلانیہ کہہ رہا ہوں کہ میں اُس وقت دنیا کا احمق ترین شخص تھا جب میں نے شادی کا ارتکاب کیا تھا۔
مسز مینڈر: اور ہنوز افاقہ نہیں ہوا ہے۔
چچا مینڈر: ہاہاہا، گویا آپ ابھی تک۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ یہ خاتون ابھی تک اس کا حظ لے رہی ہیں۔
مسز مینڈر: میرا تو خیال ہے کہ یہ صاحب بھی اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ظاہر ہے کہ جب ایک تماشہ ہو رہا ہو تو تماشائی تو آئیں گے چاہے وہ خود اپنا ہی تماشہ کیوں نہ ہو، دلچسپ ہونا شرط ہے۔ ایسا تو کوئی نہیں ہے جو کسی ایسی بات پر ہنسے جو ہو ہی نہیں۔
چچا مینڈر: اب یہ خاتون خود کو ’’کوئی نہیں ‘‘ کہہ رہی ہیں، مجھے تو اس بات پر بھی ہنسی آ رہی ہے۔
مسز مینڈر: ان صاحب کو کوئی اور نقطہ سجھائی نہیں دے رہا، یونہی ہواؤں میں مکے مار رہے ہیں۔
چچا مینڈر: ہنسی والا تو یہی موضوع ہے فی الحال۔
(داخلی دروازے سے کمفرٹ داخل ہوتا ہے )
میریگیل: محترم، محترم، شانت ہو جائیے، عمل اور ردِ عمل کے اس معرکے میں خرابیاں ہی پیدا ہوں گی۔ (کمفرٹ کو دیکھ کر) یار ڈک، تمھیں کوشش کر کے اپنے چچا ، چچی کو شانت کرو، اِن دونوں میں اس وقت خاصی۔ ۔ ۔ خاصی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں ہیں۔
مسز مینڈر: تمھیں کس نے کہا تھا کہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرو؟
چچا مینڈر: اور تمھارا ہمارے معاملات سے کیا لینا دینا ہے ؟
میریگیل: خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ دونوں کسی ایک بات پر تو متفق ہوئے ہیں (کمفرٹ سے سرگوشی کرتے ہوئے ) یار ڈک، کسی طرح یہاں امن و امان قائم کرو۔
کمفرٹ: (میریگیل سے سرگوشی کرتے ہوئے ) ٹھیک ہے، تم اب کھسکو، میں یہاں امن کا پیغامبر بننے کی کوشش کرتا ہوں۔
میریگیل: (کمفرٹ سے سرگوشی کرتے ہوئے ) ٹھیک ہے ڈک، گڈ لک، میں اس دوران اپنے کپڑے تبدیل کئے لیتا ہوں، میرے اپنے کپڑے اب تک دھُل کر آ گئے ہوں گے، اس لباس نے تو مجھے نِکو بنا کر رکھ دیا ہے۔
(میریگیل داہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے نکل جاتا ہے )
کمفرٹ: چچاجان، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ سٹنگ روم چلے جائیں اور سگار سے لطف اندوز۔ ۔ ۔ ۔
چچا مینڈر: نہیں، میں نے وہاں نہیں جانا، میں تمھیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے تمباکو نوشی کا کوئی شوق نہیں، اور ویسے بھی میں اپنا بہت سا قیمتی وقت پہلے ہی اس کمرے میں برباد کر چکا ہوں۔
کمفرٹ: تو پھر کسی دوسری جگہ تشریف لے چلئے، کسی بھی کمرے میں (پشت پر موجود دروازوں کی طرف اشارہ کرتا ہے )
چچا مینڈر: نہیں، میں نے کہیں نہیں جانا، اور یہ تو سراسر علاقۂ غیر ہے۔
مسز مینڈر: رچرڈ، انہیں کہیں بھی بھیجنے کی ضرورت نہیں، میں خود اپنا قیمتی وقت یہاں پر ضائع کرنے کی قائل نہیں۔
کمفرٹ: اوہ چچی جان، میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا، مم۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: میں بخوشی جانے کو تیار ہوں رچرڈ، جہاں کی سکونت ناخوشگوار یادوں کا باعث بن جائے، وہاں سے کوچ ہی بہتر۔
(مسز مینڈر تن فن کر داہنی دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہے )
چچا مینڈر: یہ ڈائیلاگ میرے لئے بولا گیا تھا (پھیکے سے انداز میں ہنستا ہے )
کمفرٹ: (کچھ توقف کے بعد) چچا جان، کیا آپ کو خیال نہیں آتا کہ آپ دونوں میں یہ بے وجہ کی مسلسل لڑائیاں ضرورت سے زیادہ طوالت پکڑ جاتی ہیں۔
چچا مینڈر: میں بھلا ایسا کیوں نہیں سوچ رہا ہوں بھتیجے، یہ بات واقعی قابلِ افسوس ہے لیکن کیا کیا جائے، ہاں تمھارا یہ خیال کہ ہم میں تسلسل سے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، درست نہیں ہے۔ ہم میں جھڑپیں ہوتی ضرور ہیں لیکن کبھی کبھار، ہاں البتہ اس بار کی لڑائی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی ہے، پھر بھی، مجھے افسوس ہے کہ ایسا ہو رہا ہے، لیکن کیا کیا جا سکتا ہے ؟
کمفرٹ: اگر آپ کو بعد میں افسوس ہوتا ہے تو پھر آپ لڑتے ہی کیوں ہیں ؟
چچا مینڈر: مجھے لڑنے وڑنے کا شوق نہیں، میرا قطعاً کوئی قصور نہیں ہوتا۔
کمفرٹ: اوہ، تو ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے ؟
چچا مینڈر: ہاں، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
کمفرٹ: در اصل ہمارے اور آپ کے باوا آدم نے اماں حوا کو کوسنے کا فیشن نکالا تھا، بس تبھی سے عورتوں کو الزام دینے کا سلسلہ جاری ہے، مرد حضرات یہ سوچنا ہی گناہ سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہو سکتے ہیں۔
چچا مینڈر: تب پھر یہ باوا آدم کی غلطی ہے، میرا کیا قصور؟
کمفرٹ: آپ دونوں میاں بیوی یوں ایک دوسرے کو ملزم قرار دیتے ہیں جیسے یہ بھی کوئی کھیل ہو۔
چچا مینڈر: کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو لیکن مجھے بھی اپنی ہی بیوی کا دشمن بننے کا کوئی خاص شوق نہیں مگر۔ ۔ ۔
کمفرٹ: مگر یہ کہ آپ کو سمجھ میں نہیں آتا کہ معاملات کو درست کیسے کیا جائے ؟ یہی بات ہے ناں۔ ۔ ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں، نہایت آسان نسخہ ہے، سیدھے چچی جان کے پاس جائیے اور اُن سے کہئیے کہ جو کچھ ہوا اس پر آ پکو افسوس ہے، اب آپ۔ ۔ ۔
چچا مینڈر: ارے ! بھلا میں یہ کیسے کر سکتا ہوں۔
کمفرٹ: لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہی وہ واحد رستہ ہے جس سے آپ کا یہ بلاوجہ کا بنایا ہوا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
چچا مینڈر: تم تو اپنی چچی کے دشمن بن گئے ہو۔ ۔ ۔ ذرا تصور تو کرو کہ اگر میں نے اُس سے افسوس کا اظہار کر دیا تو وہ تحیر کے اس جھٹکے کو برداشت ہی نہ کر سکے گی اور لڑھک جائے گی۔
کمفرٹ: ارے نہیں چچا جان، اب ایسا بھی نہیں ہے، ہاں یہ کہا جس سکتا ہے کہ اُنہیں حیرانی ضرور ہو گی۔
چچا مینڈر: لیکن مجھے تو کچھ ایسا ہی خدشہ ہے۔
کمفرٹ: اُنہیں حیرت ضرور ہو گی لیکن یہ خوشگوار حیرت ہو گی۔ ۔ ۔ اب چھوڑیں بھی چچا جان، اُنہیں اس انبساط سے محروم نہ کریں، اُنہیں بتا دیں کہ اس جلتے ہوئے سورج کے نیچے کچھ بھی ہو سکتا ہے، کچھ بھی۔
چچا مینڈر: رچرڈ، میرے عزیز ترین بھتیجے، تم صحیح کہہ رہے ہو۔ واقعی ’’سوری‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جس میں پہاڑوں کا مردہ بھی دفن کیا جا سکتا ہے (اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ) ٹھیک ہے بھتیجے، میں یہ بھی کر گزروں گا۔ اِن معاملات میں تمھاری معاملہ فہمی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اب تمھیں بھی شادی کر لینی چاہیئے۔ مجھے یقین ہے کہ تم ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کی جملہ صلاحیت رکھتے ہو۔
کمفرٹ: (کچھ خوشی سے ) اچھا، آپ ایسا سوچتے ہیں۔
چچا مینڈر: لیکن تم ابھی شادی شدہ نہیں ہو۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تم اِن معاملات میں دوسرے رخ سے بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔ ہماری تو مت ہی ماری گئی ہے۔
(صدر دروازے سے سیلی داخل ہوتی ہے )
سیلی: جونہی میرا کام ختم ہوا، میں یہاں چلی آئی ہوں جناب۔
چچا مینڈر: (غصیلے انداز میں ) آپ کو کہا کس نے ہے کہ یہاں تشریف لانے کی زحمت بھی گوارا کیجئے۔ بہتر ہے کہ آپ جلد از جلد اپنا کام ختم کریں اور تشریف لے جائیں۔
سیلی: مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے، آپ کے مشورے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں (کمفرٹ سے ) مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ جو سرکس کے جوکر صاحب ہیں، اُنہوں نے مجھے بلایا ہے اور میرے منتظر ہیں۔
کمفرٹ: جی اُنہوں نے بلایا ہو گا اور یہ ماضیِ بعید کا تذکرہ ہے، فی الحال وہ یہاں تشریف نہیں رکھتے اس لئے آنسہ سیلی صاحبہ، آپ بھی تشریف لے جائیں۔
سیلی: میرا نال سیلی نہیں ہے جناب، فرانسیسی میں یہ لفظ ’’ساریئی‘‘ ہے، یہی میرا نام بھی ہے۔
کمفرٹ: مجھے مطلق جاننے کا شوق نہیں ہے کہ آپ کا نام فرانسیسی میں کیا ہے یا اسے چینی، جاپانی یا کسی اور زبان میں کیا کہتے ہیں۔ مجھے بس یہ پتہ ہے کہ میری اپنی زبان میں یہ ’’سیلی‘‘ ہے۔
(مسز میڈ داہنیر دروازہ نمبر۲ سے داخل ہوتی ہیں )
مسز مینڈر: سارہ، فٹافٹ جاؤ اور میرا بیگ پیک کرنا شروع کر دو!
سیلی: کیوں مادام، میرا تو خیال تھا کہ۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: اپنے خیالات کو اپنے پاس رہنے دو، اور جو میں نے کہا ہے وہ کرو، فٹافٹ، سُن رہی ہو ناں۔
سیلی: جی مادام! ( داہنیر دروازہ نمبر۲ سے چلی جاتی ہے )
چچا مینڈر: ارے بھئی کلیمنٹینا، کدھر کا ادارہ ہے، میرا تو خیال۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: (کاٹ کھانے والے انداز میں ) آپ ذرا زبان سنبھال کر بات کریں محترم، آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس قدر بے تکلفی کے ساتھ، مجھے میرے نام سے مخاطب کریں۔
چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر کمفرٹ سے ) اب کہو برخوردار، کون قصوروار ہے ؟
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے ) کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا کہ اس وقت چچی جان کا پارہ چڑھا ہوا ہے۔
چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر کمفرٹ سے ) یہ کوئی خلافِ معمول وقوعہ نہیں ہے۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے ) آپ چچی جان سے اُس وقت بات کیجئے گا جب وہ غصے میں نہ ہوں اور اطمینان سے آپ کی بات سُن سکیں۔
چچا مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر کمفرٹ سے ) ایسا منظر تو چشمِ فلک نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔
کمفرٹ: لیکن ابھی آپ اُن سے کچھ نہ فرمائیے ابھی وہ غصے میں ہیں (مسز مینڈر سے ) کیوں چچی جان، آپ اپنا سامان پیک کیوں کروانا چاہ رہی ہیں ؟ کہیں آپ کا جانے کا ارادہ تو نہیں بن رہا ؟
مسز مینڈر: (طنزیہ انداز میں ) ارے نہیں میاں، میں تو یہاں ساری زندگی گزارنے آئی ہوں۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خدا نہ کرے (منہ پر ہاتھ رکھ کر چچا مینڈر سے ) چچاجان، میرا خیال ہے کہ آپ کو فی الحال یہاں سے ٹل ہی جانا چاہئیے تا آنکہ طوفان کی شدت میں کمی آ جائے۔ چلیں میرے ساتھ، ہم پائیں باغ کو چلتے ہیں (مسز مینڈر سے ) چچی جان، میں ابھی چچا جان کو پائیں باغ دکھا کر لاتا ہوں۔
چچا مینڈر: جیسا تم کہو بھتیجے، لیکن ذرا ٹھہرو، میں اپنا ہیٹ لے کر ابھی آیا۔ (داہنی طرف والے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں )
مسز مینڈر: میرا خیال ہے کہ تمھارے چچا کے دماغ کو تھوڑی سے ٹھنڈی ہوا لگے گی تو اسے سکون ملے گا۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) راستے کا سائن بورڈ بننا اور ناراض جوڑوں کو امن کی راہ دکھانا آسان ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس معاملے میں سائن پوسٹ اپنی جگہ پر دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ امن کا راستہ سجھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ کاش کوئی خضرِ راہ مجھے بھی امن کا راستہ دکھا پائے تاکہ میری ازدواجی زندگی کو بھی امن کی منزل حاصل ہو سکے (چچا مینڈر داخل ہوتے ہیں ) (چچا مینڈر سے ) تو پھر چلیں چچا جان؟
(چچا مینڈر اور کمفرٹ داخلی دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں )
مسز مینڈر: نہیں، اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتا، اور ہونا بھی نہیں چاہئیے، میں کب تک یہاں ٹھہر کر اپنی بے عزتی کرواتی رہوں۔ ان کا سلوک تو اب مجھ سے شرمناک حد تک بدترین ہو چکا ہے۔ ہائے۔ ۔ ۔ اب مجھے بارن مرحوم کی قدر ہو رہی ہے، اُس نے تو شاید زندگی میں مجھ سے اس قسم کا سلوک کرنے کا سوچا بھی نہ ہو گا۔ ۔ ۔ اِنہیں دیکھو، ہر بات کا الزام مجھ ہی پر دھرے جاتے ہیں اور خود تو جیسے دودھ کے دھُلے ہوئے ہیں۔ اپنی غلطی ہو بھی تو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت نہیں رکھتے۔ ۔ ۔ ایک بار، صرف ایک بار مان جائیں کہ وہ غلطی پر ہیں تو میں اگلی پچھلی تمام باتیں بھول کر اُنہیں معاف کر دوں۔ ۔ ۔ اور اگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا تو میں تو زندگی بھر اُنہیں معاف نہیں کروں گی۔ (مسز کمفرٹ بائیں طرف والے دروازے نمبر ۲ سے نمودار ہوتی ہیں )
مسز کمفرٹ: (مسز مینڈر کی موجودگی کے احساس سے لاعلم ہیں ) مجھے اس سے بات کرنی ہی پڑے گی۔
مسز مینڈر : (تیز لہجے میں ) کس سے بات کرنا پڑے گی تمھیں ؟
مسز کمفرٹ: (چونک جاتی ہے، منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) تووہ والی عورت یہاں پر ہے۔
مسز مینڈر: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) سارہ اب تک میرا سامان پیک کر چکی ہو گی۔ (مسز کمفرٹ سے ) بھاگ کر اوپر جاؤ اور میری ملازمہ سے کہو کہ میں اُس سے ملنا چاہتی ہوں، جلدی سے !
مسز کمفرٹ: (پُر وقار انداز میں ) میں ہر ایرے غیرے کی اس قسم کی تحکمانہ باتوں کی عادی نہیں۔
مسز مینڈر: (طنزیہ انداز میں ) اچھا؟ ماشا اللہ!! (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ٹھہرو! ذرا اسے مزا چکھاتی ہوں (مسز کمفرٹ سے ) اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم مجھے جانتی ہو یا نہیں جانتی، جب تک میں یہاں کمفرٹ کے گھر میں ہوں تو۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: اور آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ یہاں اس گھر میں کس استحقاق کے تحت ہیں ؟
مسز مینڈر: استحقاق۔ ۔ ۔ خوب گویا اب تم میری انکوائری بھی کرو گی؟ میں ہر قسم کا استحقاق رکھتی ہوں، تم کون ہوتی ہو جواب طلبی کرنے والی؟
مسز کمفرٹ: (آہستگی سے ) میرا خیال ہے کہ مسٹر کمفرٹ نے مجھے یہ فریضہ سونپا ہے۔
مسز مینڈر: کیا کہا، کمفرٹ نے تمھیں یہ فریضہ سونپا ہے، غلط، بالکل غلط۔ ۔ ۔ فٹافٹ نیچے جاؤ اور تم سے جو کہا گیا ہے فوراً کرو، سُنتی ہو، میں کیا کہہ رہی ہوں ؟
مسز کمفرٹ: اور یہ آپ کس خوشی میں مجھ پر حکم چلا رہی ہیں ؟
مسز مینڈر: ظاہر ہے کمفرٹ نے مجھے اس کا کلی حق دیا ہے، میرا اُن سے قریبی تعلق ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) انتہائی قریبی بھی کہنا ناموزوں نہ ہو گا۔
مسز کمفرٹ: یہ آپ کا محض خیال ہے، آپ یہاں صرف اور صرف مسائل پیدا کرنے کے لئے آئی ہیں۔ ۔ ۔ اور یہ بات آپ خود بھی جانتی ہیں۔ آپ کمفرٹ کو مجھ سے چھیننا چاہتی ہیں لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ وہ صرف اور صرف مجھ سے محبت کرتے ہیں۔
مسز مینڈر: کیا کہا؟ محبت ؟؟ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ لڑکی تو بالکل ہی کھسکی ہوئی ہے (مسز کمفرٹ سے ) بس ! بہت ہو چکا!! میں کمفرٹ سے تمھاری شکایت کروں گی اور اُسے بتاؤں گی کہ تم اُس کے بارے میں کیا کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ غضب خدا کا، تم تو ساری حدود پھلانگنے پر تلی ہوئی ہو۔
مسز کمفرٹ: (پُر جوش انداز میں ) تم اب اس گھر میں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتی، نکل جاؤ یہاں سے، فوراً۔ ۔ ۔ (پکارتی ہے ) ہیرس!
مسز مینڈر: مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ ۔ ۔ تمھاری ہمت کہ تم مجھ سے اس لہجے میں بات کرو۔ ۔ ۔ تم، ایک معمولی ملازمہ، ایک انتہائی کم حیثیت عورت، ۔ ۔ ۔ میں ابھی تمھاری شکایت کرتی ہیں۔ ۔ ۔ میں دیکھتی ہوں کہ اس گھر سے کون جاتا ہے، تم یا میں۔ ۔ ۔ ابھی پتہ چل جائے گا۔ (داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے نکل جاتی ہے )
مسز کمفرٹ: اس عورت کو فوری طور پر یہاں سے چلے جانا چاہئیے (پکارتی ہے ) ہیرس!
(ہیرس صدر دروازے سے اندر داخل ہوتا ہے )
ہیرس: جی جناب۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے مادام!!
مسز کمفرٹ: مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں ؟
ہیرس: پائیں باغ میں ہیں وہ۔ ۔ ۔ ۔ گلاب کے تختے کے پاس، جی مادام، آخری وقت وہیں تھے وہ۔
مسز کمفرٹ: اُن سے جا کر کہو کہ میں اُن سے ابھی ملنا چاہتی ہوں۔
ہیرس: مالک بزرگوار کو پائیں باغ کی سیر کروا رہے ہیں اور ہر خوبصورت جگہ کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ وہ بلا تفریق ہر جگہ کو خوبصورت قرار دے رہے ہیں، میں نے تو کچھ ایسا ہی سُنا تھا۔
مسز کمفرٹ: تم سُن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں، میں اُن سے فوری طور پر ملنا چاہتی ہوں۔
ہیرس: جی جناب۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے مادام!! (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے لگتا ہے کہ آج پھر میاں بیوی میں کوئی جھڑپ ہونے والی ہے، اللہ خیر کرے۔ (صدر دروازے سے نکل جاتا ہے )
مسز کمفرٹ: ڈک کو اُس عورت کو نکال باہر کرنا پڑے گا ورنہ میں خود چلی جاؤں گی۔ ۔ ۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب اُسے مجھ سے محبت نہیں رہی؟اُسے میرے بجائے اُس دوسری عورت کی پرواہ ہے۔ مجھے تو وہ عورت زہر لگتی ہے۔ میں اپنی ساری زندگی میں کبھی اِتنی آزردہ خاطر نہیں ہوئی ہوں اور اگر واقعی واقعی وہ اُس چھنال میں دلچسپی رکھتا ہے تو میں اُس سے ہمیشہ کے لئے علیحدہ ہو جاؤں گی۔ ۔ ۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ (بے دم سی ہو کر صوفے پر گر جاتی ہے اور رونے لگتی ہے )
(سیلی داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتی ہے، ہاتھ میں بیگ ہے )
سیلی: (بیگ کو فرش پر پھینکتے ہوئے ) چلو خلاصی ہوئی، بیگ میں ہر شے ٹھونس دی ہے میں نے، میں تو، لگتا ہے پیدا ہی محترمہ کی خدمت کے لئے ہوئی ہوں، لحد سے محد تک۔ ۔ ۔ ہوں !! (مسز کمفرٹ پر نظر پڑتی ہے ) اور اس مریل مخلوق کو دیکھو، کرسی پر پڑی اینٹھ رہی ہے، کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی۔ ۔ ۔ یہ مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں ؟؟ (مسز کمفرٹ کا رونا دھونا رُک جاتا ہے ) اور یہ تم ٹسوے کس بات پر بہا رہی ہو؟ اتنی مسٹنڈی کاکی میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھی ہے۔ ۔ ۔ یہ مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں۔ ۔ ۔ ہیلو، میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔
مسز کمفرٹ: (آنکھیں پونچھتے ہوئے ) تمھیں مجھ سے اس انداز میں بات کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔
سیلی: جرأت کیسے ہوئی، ہاہا ہاہا، کیا بات ہے تمھاری بھی، تم نواب زادی سے تو جیسے کوئی عالی جناب کہے بغیر بات کرتا ہی نہ ہو گا، مجھے جرأت کیسے ہوئی، ابھی کچھ دیر میں تمھیں پتہ چلے گا کہ کتنے نو کا سو ہوتا ہے۔ ۔ ۔ بس کچھ دیر اور انتظار کرو۔
مسز کمفرٹ: (اُٹھتے ہوئے ) نکل جاؤ یہاں سے۔ ۔ ۔ فوراً۔ ۔ ۔
سیلی: ہاں ہاں جا رہی ہوں میں۔ ۔ ۔ لیکن تمھارے کہنے پر نہیں۔ ۔ ۔ خود اپنی مرضی اور بڑی خوشی سے چلی جاؤں گی کیونکہ مجھے تمھارا چہرہ دیکھنے کا کوئی خاص شوق نہیں۔
مسز کمفرٹ: میں کہتی ہوں دور ہو جاؤ۔
سیلی: مادام بخوبی جانتی ہیں کہ تمھاری اس گھر میں کیا حیثیت ہے۔ تم اس طرح کے میڈموں جیسے کپڑے منڈھ کر کوئی میڈم نہیں بن جاؤ گی۔ میں پوچھتی ہوں کہ تم ایسے کپڑے کیوں نہیں پہنتی جیسے دوسری ملازمائیں پہنتی ہیں۔ اب جو مادام نے کرنا ہے وہ کر گزریں گی۔
(داہنی طرف والے دروازے کی طرف بڑھتی ہے )
مسز کمفرٹ: تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
سیلی: (باہر سے آواز آتی ہے ) میرے راستے سے ہٹ جائیں جناب کلاؤن صاحب۔ ۔ ۔
(میریگیل اندر داخل ہوتا ہے، جوکروں کے بجائے اپنے مناسب والے لباس میں ہے )
میریگیل: (دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے ) انتہائی اجڈ اور گنوار قسم کی خاتون ہے یہ سیلی نام کی بلا بھی، کاش یہ فرانسیسی ہونے کے بجائے آئرش ہی ہو تی، کم از کم نصف تہذیب سے تو بہرہ مند ہوتی۔ ۔ ۔ اور کچھ اسمارٹ بھی۔ ۔ ۔ (مسز کمفرٹ پر نظر پڑتی ہے، بوکھلا جاتا ہے ) معذرت خواہ ہوں میں خاتون، مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ یہاں ہوں گی، ورنہ اس طرح نہ چلا آتا، میں ایک مرتبہ پھر معذرت چاہتا ہوں، میں مخل تو نہیں ہوا؟مم میں ڈک کو ڈھونڈھ رہا تھا، مم میرا مطلب ہے مسٹر کمفرٹ کو (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کس قدر نفیس خاتون لگ رہی ہیں یہ محترمہ بھی۔
مسز کمفرٹ: مسٹر کمفرٹ یہاں آنے ہی والے ہیں، میں آپ کا نام دریافت کر سکتی ہوں ؟
میریگیل: اوہ کیوں نہیں مادام (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) کس قدر نفیس اندازِ گفتگو ہے ان کا، یہ ڈک تو نرا گاؤدی ہے، کچھ سمجھتا ہی نہیں (ایک لمحے کو خاموشی چھا جاتی ہے )
مسز کمفرٹ: جی جناب، آپ کی تعریف؟
میریگیل: میریگیل مادام، مم میرا مطلب ہے جارج میریگیل۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: اوہ مسٹر میریگیل، میں نے آپ کا نام اکثر مسٹر کمفرٹ کی زبانی سُنا ہے، وہ اکثر آپ کا تذکرہ فرمایا کرتے ہیں۔ آپ اُن کے بہت پرانے دوست ہیں، یہی بات ہے ناں ؟
میریگیل: جج جی محترمہ، یہ امر میرے لئے باعث فخر ہے کہ آپ بھی مجھے جانتی ہیں۔
مسز کمفرٹ: (ہچکچاتے ہوئے ) تو محترم، اُن کے ایک دوست کی حیثیت سے کیا آپ نے یہ بات نوٹ نہیں کی کہ اُن کے طرزِ عمل میں کچھ تبدیلی آ گئی ہے، میرا مطلب ہے پہلے کے مقابلے میں، مم میرا مطلب ہے کہ کیا ضرورت سے زیادہ کام نے اُنہیں خاصا مضمحل نہیں کر دیا ہے ؟
میریگیل: جی بالکل، اس میں کوئی شک نہیں، آپ کا مشاہدہ بالکل ٹھیک ہے، وہ واقعی آج کل بہت مصروف ہو کر رہ گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہم دوستوں میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ کم از کم میں تو اِتنی محنت کا متحمل نہیں ہو سکتا(منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ڈک اگر میرے منہ سے ایسے الفاظ سنے تو خود کش بمبار کی طرح پھٹ پڑے لیکن خیر ہے، ایسی خوبصورت خاتون کے لئے تو میں اپنا قتل بھی معاف کر سکتا ہوں۔
مسز کمفرٹ: میرے بارے میں اُن کا رویہ عجیب سا ہو گیا ہے اِن دنوں، خصوصاً آج صبح سے تو خاصے عجیب انداز میں پیش آ رہے ہیں۔ پہلے کبھی ایسا سلوک نہیں کیا تھا اُنہوں نے مجھ سے، مم مجھے تو لگ رہا ہے کہ اُن کا میلان کسی دوسری۔ ۔ ۔ دوسرے مسئلے کی جانب ہو گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا، قطعاً نہیں ہو سکتا، وہ ایسا نہیں کر سکتے، وہ ایسے نہیں ہیں، اُن کے اعصاب پر بوجھ ہو گا زیادہ کام کا۔
میریگیل: جی مادام، آپ نے بالکل درست فرمایا ہے، وہ ہمیشہ سے محنتی رہے ہیں۔
مسز کمفرٹ: کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا، مم میرا مطلب ہے کہ کیا آپ نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ۔ ۔ ۔ کہ وہ کسی دوسری خاتون کی ضرورت سے کچھ زیادہ پرواہ کرنے لگے ہیں، مم میرا مطلب کہ اُن کی توجہ کسی دوسری خاتون کی طرف ہو گئی ہے، آپ میرا مطلب سمجھ رہے ہیں ناں ؟
میریگیل: نہیں ابھی تو ایسا کچھ نہیں ہے، ہاں البتہ آپ کو شاید علم نہیں ہے کہ مسٹر کمفرٹ بہت پہلے کسی سے بہت زیادہ محبت۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: کسی سے محبت کرتے تھے ؟ کس سے محبت کرتے تھے ؟؟
میریگیل: (جلدی سے ) اوہ، یہ بہت پرانی بات ہے لیکن اب وہ بظاہراُس حماقت کے حصار سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ابھی آج ہی اُنہوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ اب کسی بھی خاتون کی پرواہ نہیں کرتے، لیکن سچ پوچھیں تو مجھے یہ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ در حقیقت، میں اس معاملے کو خاصی اچھی طرح جانتا ہوں اور میں کسی بھی دوسرے فرد کی نسبت زیادہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ابھی تک اُن خاتون کے عشق میں گرفتار ہیں، پتہ نہیں کیوں، لیکن مجھے لگتا کچھ ایسا ہی ہے۔
مسز کمفرٹ: (تیزی سے ) یہ صحیح نہیں ہے جناب، مجھے اس پر رتی بھر بھی یقین نہیں، یہ بالکل جھوٹ کا پلندہ ہے۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خدا کی پناہ، میں بھی کیسا گدھا ہوں، کس سے کیسی بات کہہ رہا ہوں (مسز کمفرٹ سے ) جی بالکل آپ کا اندازہ بالکل درست ہے، واقعی اس بات میں کوئی سچائی نہیں، ساری کہانی ہی بے بنیاد مفروضوں پر گھڑی گئی ہے۔
(مسز مینڈر داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے اندر داخل ہوتی ہیں )
مسز مینڈر: تو تم نے میری ملازمہ کو بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ مسٹر کمفرٹ کہاں ہیں، کیوں ؟ تمھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میں خود اُنہیں تلاش کر لوں گی اور جب وہ مل جائیں گے تو تم دیکھنا، تمھیں اس گھر سے چلتا کر دیا جائے گا۔
(سامنے والے دروازے سے باہر نکل جاتی ہیں )
مسز کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ عورت تو پیر تسمہ پا بن کر رہ گئی ہے، جان ہی نہیں چھوڑتی (میریگیل سے ) ایک بات تو بتائیں جناب، یہ کون خاتون ہیں ؟
میریگیل: ارے آپ کو پتہ نہیں ہے، یہ مسز کمفرٹ ہیں۔
مسز کمفرٹ: مسز کمفرٹ؟ آپ مجھے دھوکے میں رکھنا چاہ رہے ہیں ؟
میریگیل: نہیں محترمہ، مجھے پتہ ہے کہ یہ خاتون مسز کمفرٹ ہیں۔
مسز کمفرٹ: لیکن یہ کیسے ممکن ہے، مسز کمفرٹ تو میں ہوں۔
میریگیل: (ہکا بکا ہو کر) آ آ آپ؟ آپ مسز کمفرٹ ہیں ؟؟مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ آپ بھی شادی شدہ ہیں !
(مسٹر کمفرٹ، مسٹر اور مسز مینڈر صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں )
مسز کمفرٹ: میں اپنی بات دھراتی ہوں جناب کہ میں ہی مسز کمفرٹ ہوں، مسٹر کمفرٹ کی منکوحہ۔
میریگیل: ڈک کی بیوی؟
مسز مینڈر: یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟
مسز کمفرٹ: (اُن سب کی طرف پلٹتے ہوئے )یہ سامنے مسٹر کمفرٹ کھڑے ہوئے ہیں اور میں، مسٹر کمفرٹ کی قانونی بیوی ہونے کی حیثیت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس عورت کو (مسز مینڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) فوری طور پر میرے گھر سے نکال باہر کیا جائے۔
(پردہ گرتا ہے )
٭٭٭
تیسرا ایکٹ
منظر: وہی جو پہلے اور دوسرے ایکٹ میں تھا۔
میریگیل: ( اسٹیج کے عین وسط میں ہے اور اخبار کا مطالعہ کر رہا ہے ) کوئی فائدہ نہیں (اخبار میز پر رکھ دیتا ہے ) میرے خیالات منتشر ہو کر رہ گئے ہیں، ایک بے چینی سی ہے جس نے میرے قویٰ معطل کر کے رکھ دئے ہیں۔ ۔ ۔ چلیں میں ایک اور کوشش کرتا ہوں، ممکن ہے کہ اس بار میں وہ سب کچھ بھولنے میں کامیاب ہو جاؤں اور اپنی توجہ کو مربوط کر سکوں (اخبار اٹھا لیا ہے اور اُسے آگے پیچھے سے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگتا ہے اور مطالعہ کی کوشش کرتا ہے ) نہیں، اب یہ مجھ سے نہیں ہونے والا، لگتا ہے کہ جیسے مجھے کبھی تازہ خبروں میں دلچسپی رہی ہی نہ ہو، اور تو اور، اب تو ریسلرز کی خبروں سے بھی جی اوب سا گیا ہے۔ ۔ ۔ اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ ڈِک کی بیوی؟؟ لیکن ڈک تو کہتا ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہے، کس کی بات پر یقین کیا جائے ؟ کچھ بھی ہو، خاتون کبھی بھی، کسی بھی حال میں غلطی پر نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ ممکن ہے کہ ڈک کے لئے اس شادی کو دوسروں کے سامنے مشتہر کرنے میں کسی قسم کے تحفظات لاحق ہوں، لیکن ایسا کیوں ہے، میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔ ( کسی خیال کے تحت چونک پڑتا ہے ) ارے باپ رے، اب میں سمجھا، ڈک اپنی ملازمہ سے شادی رچا بیٹھا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بات دوسروں کے سامنے تسلیم کرنے والی نہیں ہے چنانچہ ہینکیاں پینکیاں مارتا پھر رہا ہے، ویسے بھی اُس کے چچا خاصے پرانے خیالات کے مالک ہیں اور اِس قسم کی شادیوں کے تو سرے سے ہی خلاف ہیں اور یہ شادی کا وقوعہ بھی کوئی زیادہ پرانا نہیں لگتا کیونکہ ابھی ایک برس قبل کا ذکر ہے کہ اُس کی منگنی کسی دوسری خاتون سے ہوئی تھی۔ ۔ ۔ کیا بھلا سا نام تھا اُس کا؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں، اب نہیں یاد آنے والا اُس کا نام، بالکل ہی محو کر کر رہ گیا ہے دماغ سے۔ غالباً یہی ہوا ہو گا کہ اُس خاتون نے ڈک کی اپنی ملازمہ میں دلچسپی کی بابت سُن لیا ہو گا اور اُس نے خود ہی منگنی توڑ دی ہو گی، ظاہر ہے جانتے بوجھتے مکھی کون نگلتا ہے۔
(صدر دروازے سے ہیرس داخل ہوتا ہے )
ہیرس: سیلی سے آپ کی بات ہوئی جناب؟ میں نے اُسے آپ کی طرف بھیجا تھا۔
میریگیل: ہاں آں، میں اُس سے مل چکا ہوں، مسز کمفرٹ کہاں ہیں ؟
ہیرس: پتہ نہیں جناب، مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، ہاں البتہ اس بات کا مجھے پتہ ہے کہ وہ کمفرٹ صاحب سے سخت ناراض ہیں، اور اُن دونوں میں جھڑپ بھی ہوئی ہے۔
میریگیل: میں کمفرٹ صاحب کی چچی کی بات نہیں کر رہا ہوں۔
ہیرس: مجھے پتہ ہے کہ آپ اُن کی بات نہیں کر رہے ہیں، میں بھی اُن کی بات نہیں کر رہا ہوں۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ممکن ہے اسے ڈک کی شادی کے بارے میں علم ہی نہ ہو۔ یہ ڈک بہت کائیاں بندہ ہے، مجھے بھی اس معاملے میں ذرا احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑے گا (ہیرس سے ) میری مراد اُن کی ملازمہ سے تھی، میرا مطلب ہے سیلی سے۔
ہیرس: جی جناب، مجھے پتہ ہے کہ سیلی اُن کی ملازمہ ہے، آپ نے مسز کمفرٹ کہا تھا تو میں اُن کے بارے میں بات کرنے لگا تھا۔ اور میرا نہیں خیال کہ کمفرٹ صاحب کسی بھی صورت پسند فرمائیں گے کہ اُن کی بیوی کو ملازمہ سمجھا جائے، یہ میرا ذاتی خیال ہے جناب۔
میریگیل: ظاہر ہے، کون شخص پسند کرے گا کہ اُس کی بیوی کو ملازمہ سمجھا جائے۔
ہیرس: لیکن آپ نے کچھ ایسا ہی تاثر دیا ہے جناب، پہلے آپ نے پوچھا ہے کہ مسز کمفرٹ کہاں ہیں اور پھر کہا ہے کہ آپ سیلی کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اِسے تو اس بارے میں برابر بھی شبہ نہیں ہے، لگتا ہے کہ ڈک نے اس معاملے کو بہت زیادہ خفیہ رکھا ہوا ہے۔
ہیرس: اور سیلی تو مسز کمفرٹ کی جوتیوں سے بھی نہیں ملتی جناب۔
میریگیل: کس کی مسز سے ؟
ہیرس: جی جناب
میریگیل: تم کہہ کیا رہے ہو؟
ہیرس: جوتیوں سے جناب۔
میریگیل: نہیں، میں پوچھ رہا تھا کہ سیلی کس کی جوتیوں سے نہیں ملتی؟
ہیرس: مسز کمفرٹ کی جناب۔
میریگیل: تمھاری مراد اُن بوڑھی خاتون سے ہو گی۔
ہیرس: مسز کمفرٹ بوڑھی تو ہرگز نہیں ہیں جناب۔
میریگیل: خیر، یہ تو تمھارا نقطۂ نظر ہے۔
ہیرس: وہ نوجوان ہیں اور بہت خوبصورت ہیں۔
میریگیل: خوبصورت۔ ۔ ۔ خیر، یہ بھی تمھارا اپنا نقطۂ نظر ہے (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ہاہاہا، ذرا سوچئیے تو کہ کوئی ڈک کی چچی کو بھی نوجوان اور خوبصورت کہہ سکتا ہے (ہیرس سے ) بہرحال میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا اور اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو یہ تمھارا ذوقِ نظر ہے اور تمھارا ذوق نظر بھی قابلِ علاج ہے۔
ہیرس: لیکن جناب، اگر کمفرٹ صاحب کا خیال ہوتا کہ اُن کی بیوی خوبصورت نہیں ہیں تو وہ ہرگز ہرگز اُن سے شادی نہیں کرتا، وہ اس معاملے پر سمجھوتے کے قائل نہیں، وہ تو وہ، میں بھی ایسا نہیں سوچ پاتا۔
میریگیل: کیا کہہ سکتا ہوں میں، بس وہ بڈھا سٹھیا گیا ہو گا اگر اُس نے اُن خاتون میں کسی قسم کا حسن دریافت کر لیا ہو گا۔
ہیرس: بڈھا جناب؟
میریگیل: (جھنجھلاتے ہوئے ) ہاں ہاں، بڈھا، کیا تم بہرے ہو گئے ہو؟
ہیرس: آپ کہنا کیا چاہتے ہیں جناب؟
میریگیل: اور میں پوچھتا ہوں کہ تم کیا کہہ رہے ہو، انتہائی احمق اور ماٹھے ہو تم، کمفرٹ کا خیال بالکل ٹھیک ہے تمھارے بارے میں۔ ۔ ۔ حد ہو گئی، خود بھی الجھی الجھی باتیں کرتے ہو اور مجھے بھی چکرا کر رکھ دیتے ہو۔
ہیرس: جیسی آپ کی مرضی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے تو لگتا ہے کہ یہ صاحب سٹھیا گئے ہیں، بھلا یہ ہمارے کمفرٹ صاحب کو بڈھا کیسے کہہ رہے ہیں (میریگیل سے ) میں رچرڈ صاحب کے بارے میں بات کر رہا ہوں جناب۔
میریگیل: نہیں، تم رچرڈ کے بارے میں نہیں بلکہ تم کہہ رہے تھے کہ سیلی تو مسز کمفرٹ کی جوتیوں سے بھی نہیں ملتی۔
ہیرس: وہ واقعی ایسی ہی ہیں جناب۔
میریگیل: واہ بھئی واہ، ثابت کرتے ہو کہ تم اول تا آخر سکاٹ ہو، تمھیں پتہ بھی ہے کہ اُس کی بیوی کون ہے۔
ہیرس: بالکل جناب، مجھے تو ایک سال پہلے سے پتہ ہے کہ مسز کمفرٹ کون ہیں۔
میریگیل: ایک سال سے، لیکن وہ ایک سال سے تو نہیں ہیں یہاں پر؟
ہیرس: جی جناب، جب سے اُن کی منگنی ہوئی، اس بارے میں کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا، میں نے بھی اس معاملے کو ویسا ہی سیکرٹ رکھا ہے جیسا مس ایڈتھ نے !
میریگیل: مس ایڈتھ، کون مس ایڈتھ؟
ہیرس: میں مس ایڈتھ کی بات کر رہا ہوں جناب، مس ایڈتھ بارلے کی، اگرچہ اب تو اُن کو اس نام سے کم ہی لوگ پکارتے ہیں، ظاہر ہے کہ شادی کے بعد خواتین کے نام بدل جاتے ہیں۔
میریگیل: ایڈتھ بارلے، بالکل، اب یاد آیا، یہی وہ خاتون تھیں جس کے ساتھ ڈِک کی نسبت طے ہوئی تھی۔
ہیرس: بالکل جناب، میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں۔
ہیرس: لیکن ڈک توا ب شادی شدہ ہے۔ ۔ ۔ (کہتے کہتے رُک جاتا ہے )
ہیرس: ظاہر ہے جناب، میں یہ بھی بتا چکا ہوں آپ کو۔
میریگیل:(منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ہوں، تو ثابت ہوا کہ اس بندے کو ڈک کی شادی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں (ہیرس سے ) اور اب مسز کمفرٹ کہاں ہیں ؟
ہیرس: پتہ نہیں اس وقت کہاں ہیں وہ۔ کہیں آس پاس ہی ہوں گی، وہ زیادہ تر گھر میں ہی رہتی ہیں، سوائے اس وقت کے کہ جب اُنہیں اپنی والدہ سے ملنے کے لئے قصبے جانا پڑے اور یہ موقع ہفتے میں کم از کم ایک بار تو ضرور آتا ہے۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) مجھے ابھی اور اسی وقت کمفرٹ سے ملنا ہو گا اور اس بارے میں وضاحت طلب کرنی ہو گی، پتہ نہیں کیا گورکھ دھندہ پھیلاتا پھر رہا ہے یہ بندہ۔ (ہیرس سے ) کمفرٹ سے کہو کہ میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں، آج اُس سے دودو باتیں ہو ہی جائیں۔
ہیرس: جی جناب (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ اِنہیں دودو باتیں کرنے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔ (صدر دروازے سے باہر نکل جاتا ہے )۔
میریگیل:دودو بیویاں، ڈک ہمیشہ سے شوقین مزاج رہا ہے لیکن یہ تو حد ہی ہو گئی، یعنی کہ دو دو بیویاں اور وہ بھی ایک وقت میں، واہ بھئی واہ، اور اوپر سے موصوف اس امر کے بھی دعویدار ہیں کہ انہوں نے سرے سے شادی ہی نہیں کی، کہا کہنے ڈک کے واہ بھئی واہ۔
(مینڈر اور مسز مینڈر داہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتے ہیں )
مینڈر چچا: ٹھیک ہے کلیمنٹائن، مجھے تمھارا ہر مطالبہ منظور ہے۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ایک اور انہونی، مجھے مینڈر صاحب سے ڈک کے بارے میں بات کرنی ہی پڑے گی۔
مینڈر چچا: تم جو کچھ کہہ رہی ہو وہ بالکل ٹھیک ہے، کمفرٹ کو وضاحت پیش کرنی پڑے گی۔
میریگیل: اور آپ کے خیال میں، میں کیا کہہ رہا ہوں جناب؟
مینڈر چچا: (میریگیل پر نظر پڑتی ہے تو آواز میں غصیلا پن آ جاتا ہے ) بھلا تمھیں کیا حق ہے کہ تم اس معاملے میں کچھ سوچو مسٹر؟
میریگیل: (بوکھلاتے ہوئے )ح ح حق جناب، میرا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔
مینڈرچچا: حد ہو گئی۔
مسز مینڈر: بالکل، یہ تو حد ہو گئی۔
مینڈر چچا: کیا تم نے یہ اپنا فرض سمجھ لیا ہے کہ ہر شخص کے معاملے میں اپنی ٹانگ اَڑاتے پھرو۔ ۔ ۔ تم نے تو میرے اور میری بیوی کے درمیان بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے، آخر تم چاہتے کیا ہو۔
میریگیل: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، میں نے تو حتی ٰ المقدور کوشش کی ہے کہ آپ دونوں کے بیچ جو معاملات ہیں اُس میں بہتری پیدا کی جائے اور۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: بالکل نہیں، مُکے سے کبھی کیل نہیں ٹھونکی جا سکتی۔
مینڈر چچا: اور اگر ایسا کرو گے تو نہ صرف اپنے ہاتھ کا ستیاناس کرو گے بلکہ نکو بھی کہلاؤ گے۔
میریگیل: لیکن میں نے تو بڑی نیک نیتی سے۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: (بات کاٹتے ہوئے ) تمھاری نیک نیتی کو شہد لگا کر چاٹا جائے صاحبزادے ؟ تمھاری کوششوں کا کوئی نتیجہ نکلا؟
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ویسے ہے تو یہ سچ کہ میں بیکار ہوا میں تیر چلاتا رہا ہوں۔
مینڈرچچا: جب تک پانی کی گہرائی کا اندازہ نہ ہو، بندے کو ڈُبکی لگانے سے پرہیز ہی کرنا چاہیئے۔
میریگیل: آپ ٹھیک فرما رہے ہیں جناب۔
مینڈرچچا: (قدرے تیز لہجے میں )تب پھر آپ بھی حماقت فرمانے سے پرہیز فرمائیں محترم۔
میریگیل: ٹھیک ہے جناب، اب میں احتیاط کروں گا (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اِن لوگوں کو لڑتا مرتا دیکھوں گا تو رُخ موڑ کر گزر جاؤں گا، لیکن لگتا ہے کہ اِن دونوں میاں بیوی میں کوئی انہونا سا سمجھوتہ ہو چلا ہے (مینڈرچچا سے ) لیکن جناب، ایک معاملہ ایسا بھی ہے جس پر میں بات۔ ۔ ۔ ۔
مینڈرچچا: میرے پاس تصنعِ اوقات کے لئے وقت نہیں۔
میریگیل: اگر آپ کی بیوی ذرا سی دیر کے لئے یہاں سے تشریف لے جائیں تو میں۔ ۔ ۔
مینڈرچچا: میری بیوی چلی جائے۔ ۔ ۔ بھلا وہ کس خوشی میں ؟
مسز مینڈر: اب ہمیں کوئی سازشی جدا نہیں کر سکتا۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) واہ، کیا ڈائیلاگ مارا ہے بڑھیا نے، تو پھر ٹھیک ہے، میرے بھی ٹھیں گے سے، اگر یہ دونوں اِتنے ہی لیلیٰ مجنوں بنے ہوئے ہیں تو (مینڈر چچا سے ) مجھے آپ دونوں میاں بیوی میں اس قدر حسنِ اتفاق دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے لیکن۔ ۔ ۔
مینڈرچچا: میں اپنی بیوی سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتا۔
مسز مینڈر: (میریگیل کی طرف دیکھ کر، مسکراتے ہوئے ) اور اگر یہاں سے کسی کو کوچ کرنے کا شوق ہو رہا ہے تو وہ جا سکتا ہے۔ (کرسی پر بیٹھ جاتی ہے )
مینڈرچچا: بالکل، میری طرف سے پوری پوری اجازت ہے۔
(کمفرٹ اسٹیج کے داہنی طرف والے پہلے دروازے سے داخل ہوتا ہے )
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ایڈتھ تو مفاہمت پرکسی طوربھی آمادہ نہیں۔
میریگیل: ارے ڈک! شکر ہے تمھاری شکل تو نظر آئی، مجھے تم سے کسی۔ ۔ ۔ کسی موضوع پر بہت ضروری بات کرنی ہے۔
مینڈر چچا: بھتیجے، مجھے تمھارے قیمتی وقت سے چند لمحے درکار ہیں۔
کمفرٹ: واہ، میری تو بہت ضرورت پڑ گئی ہے دنیا والوں کو۔
میریگیل: بھتیجے، اگر تم میرے ساتھ سٹنگ روم میں چلو تو میں۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: نہیں رچرڈ، تم یہیں رکو۔
میریگیل: لیکن میں اِنہیں کافی دیر سے بلوا رہا ہوں اور میرا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: تم اپنے فضول خیالات کو رہنے دو میاں۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب آپ لوگ ہی کہئے کہ میں کیا کروں۔ ۔ ۔ چکرا کر رکھ دیا ہے اِن لوگوں نے !
مینڈر چچا: تمھارے چچا ہونے کی حیثیت سے میرا حق فائق ہے کہ تم میری بات پہلے سنو۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بہتر ہے کہ میں یہیں رہوں اور مقدور بھر کوشش کروں کہ طوفان ٹل جائے (مینڈر چچا سے ) چچا جان ٹھیک کہہ رہے ہیں، سب سے پہلے اِنہیں کو استحقاق حاصل ہے کہ مجھ سے ہر قسم کی باز پرس کریں، میں انہیں مطمئن کرنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔
مینڈر چچا: خوشی کی بات ہے کہ تمھیں اب بھی مراتب کا خیال ہے۔ سامنے بیٹھ جاؤ۔
کمفرٹ: میں یہیں ٹھیک ہوں۔
مینڈر چچا: میں کہہ رہا ہوں بیٹھ جاؤ۔ ( کرسی پر بیٹھ جاتا ہے )
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لگتا ہے کہ طوفان خاصا تیز رفتار ہے، مجھے اپنے قدم زمیں پر سختی سے گاڑنے ہوں گے۔
(مینڈر چچا کے داہینی والی کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے )
مینڈر چچا: بھتیجے، تمھیں اب تک ہونے والے تمام واقعات کی وضاحت پیش کرنی پڑے گی۔
کمفرٹ: جیسا آپ فرمائیں چچا جان، میں حاضر ہوں ہرخدمت کے لئے۔
مینڈر چچا:سوال تم نہیں میں کروں گا، اور سب سے پہلے تم سے اس امر کی وضاحت چاہوں گا کہ یہاں میری بیوی کی توہین کی گئی ہے، کیوں ؟
مسز مینڈر: توہین اور وہ بھی اِس گھر کی ایک معمولی ملازمہ نے۔
کمفرٹ: کیا؟۔ ۔ ۔ ناممکن!!
مینڈر چچا: تم کہنا کیا چاہتے ہو بھتیجے۔ ۔ ۔ ایسا ہی ہوا ہے اور میں تم سے اس کی وضاحت چاہتا ہوں۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) ارے یہ تو طوفانِ بادو باراں ہے (مینڈر چچا سے ) لیکن چچا جان، میں تو چچی جان کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مینڈر چچا: نہیں، تم نے ایسا ہی کیا ہے اور اگر تم نے خود نہیں بھی کیا ہے تو جو کچھ ہوا ہے تمھاری اجازت اور رضا مندی سے ہوا ہے، چنانچہ دونوں ایک ہی بات ہیں۔
مسز مینڈر: مطلب یہ کہ تمھیں نے اُس ملازمہ کو رکھا ہوا ہے۔
کمفرٹ: ہاں وہ ہے تو میری۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: اُسے فوراً سے پہلے چلتا کرو۔
کمفرٹ: لیکن چچا جان۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: تو تم اُسے برخواست کرنے سے انکار کر رہے ہو (مینڈر چچا سے علیحدگی میں ) لگتا ہے ہمارے شک میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے۔
مینڈر چچا: اور بھتیجے، ایک اور معاملہ بھی ہے۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی، اب تو یہ سیلاب سر سے گزرتا جا رہا ہے۔
مینڈر چچا: تم اپنی شادی سے متعلق میرے خیالات سے آگاہ ہی ہو، اب ذرا یہ تو بتاؤ کہ تمھاری ملازمہ یہ کیوں کہہ رہی تھی کہ وہ تمھاری بیوی ہے۔ ۔ ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟؟
کمفرٹ: لیکن میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا ہے ناں چچا جان۔
میریگیل: لیکن ڈک، تم جانتے ہو کہ۔ ۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: تم کون ہوتے میاں، ہماری باتوں میں مداخلت کرنے والے ؟ (کمفرٹ سے ) اُس ملازمہ نے جو کہا ہے تم اُس کی بات کرو۔
کمفرٹ: مم۔ ۔ ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں چچا جان، سوائے اس کے کہ وہ کچھ کھسکی ہوئی ہے۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) توبہ، یہ تو جھوٹوں کا سردار ہے۔
مینڈر چچا: تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ تم نے اُس خاتون سے شادی نہیں کی ہوئی ہے ؟
کمفرٹ: میں نے کسی بھی خاتون سے شادی نہیں کی ہوئی ہے۔
میریگیل: ڈک، تم کیسے بندے ہو، کس ڈھٹائی سے کھڑے ہوئے ہو جبکہ۔ ۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: (میریگیل سے، خشک لہجے میں )اپنے کام سے کام رکھو میاں (کرسی سے اٹھتے ہوئے ) تمھارا اس سے کیا تعلق کہ رچرڈ کھڑا ہوا ہے یا بیٹھا ہوا ہے، تمھاری بلا سے اگر میرے بھتیجے نے ایک چھوڑ دس ہزار عورتوں سے شادی رچا رکھی ہو۔
مسز مینڈر: اسے حق پہنچتا ہے کہ یہ جس سے چاہے شادی کرے۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: ہم سے پوچھے بغیر؟
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اس سے پہلے کہ میں اس طوفان میں کسی تنکے کی طرح بہہ جاؤں، مجھے حسب ماتقدم کے طور پر یہاں سے کھسک لینا چاہیئے (اٹھتا ہے ) (میریگیل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ) کیا بات ہے، تم مجھ سے اکیلے میں کیوں ملنا چاہتے تھے ؟
میریگیل: اگر تم برا نہ مناؤ تو ہم کچھ دیر کے لئے سٹنگ روم چلے چلتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ تمھارے چچا اور چچی میری یہاں موجودگی کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے۔
مسز مینڈر: اور یاد رکھو رچرڈ، تمھیں اُس ملازمہ کو نکال باہر کرناہو گا۔
مینڈر چچا: بالکل، میں قطعاً برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی میری بیوی کی توہین کرے اور اُسے اُس کی قرار واقعی سزا نہ دی جائے۔
کمفرٹ: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) خود اپنی بیوی کو ہی نکال باہر کروں ؟ اب میں کیا کروں ؟؟
(کمفرٹ اور میریگیل اسٹیج سے باہر نکل جاتے ہیں )
مسز مینڈر: میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا، اُس عورت نے واضح طور پر کہا تھا کہ رچرڈ اُس کا شوہر ہے، بھلا وہ کس برتے پر ایسا کہہ رہی تھی؟
مینڈر چچا: یہ معاملہ تو کچھ زیادہ ہی پُراسرار ہوتا جا رہا ہے۔ (کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ) لیکن رچرڈ بھی تو کہہ رہا ہے کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں، تم خود ہی سُن چکی ہو اور ظاہر ہے ہمیں ایک معموملی باورچن کے مقابلے میں اپنے بھتیجے کی بات پر یقین کرنا ہے۔ مجھے بھی یہ عورت کچھ کھسکی ہوئی سی لگ رہی ہے، کیا پتہ یہ عورت ہمارے بھتیجے پر ریجھ گئی ہو اور اس سے شادی کرنا چاہ رہی ہو اور اُس کی یہ خواہش اس کے لاشعور پر اس قدر حاوی ہو گئی ہو کہ وہ شعوری طور پر سچ مچ خود کو اُس کی بیوی سمجھ بیٹھی ہو۔
مسز مینڈر: لیکن اگر وہ ایسی ہی پاگل ہے تو رچرڈ اُس کو نکال باہر کرنے میں ہچکچاہٹ سے کیوں کام لے رہا ہے۔
مینڈرچچا: یہی بات تو سمجھ میں نہیں آ رہی ہے، بہرحال، میں دیکھوں گا کہ وہ عورت کس طرح اس گھر میں رہتی ہے۔ میں ہرگزبرداشت نہیں کروں گا کہ کوئی ایرا غیرا میری بیوی کی توہین کرتا پھرے۔
مسز مینڈر: ایرا غیرا۔ ۔ ۔ تو کیا تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ واقف کار لوگ میری توہین کر سکتے ہیں۔
مینڈرچچا: اوہ ہرگز نہیں، کبھی نہیں۔
مسز مینڈر: اور تم اب مجھ سے جھگڑا بھی نہیں کرو گے ؟
مینڈرچچا: نہیں آئندہ ایسانہیں ہو گا، لیکن ڈئر، یاد رکھو، تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
مسز مینڈر: کبھی کبھی ایک ہاتھ سے بھی بج جاتی ہے۔
مینڈرچچا: نہیں، اگر دوسرا بندہ نہ چاہے تو کوئی تنِ تنہا ہرگز نہیں لڑ سکتا۔
مسز مینڈر: لیکن کوئی تنِ تنہا لڑائی کا آغاز تو کر سکتا ہے۔
مینڈرچچا: ہاں یہ بھی سچ ہے، لیکن اب ماضی کو بھول جاؤ، میں تمھیں کوئی الزام تو نہیں دے رہا ہوں۔
مسز مینڈر: الزام اور مجھے، تمھارے پاس مجھے الزام دینے کو ہے ہی کیا؟
مینڈرچچا: میں تمھاری لڑائی جھگڑوں کے حوالے دے سکتا ہوں۔
مسز مینڈر: میرا کبھی کوئی قصور نہیں رہا ہے۔
مینڈرچچا: چھوڑو بھی کلیمنٹینہ، ہم دونوں ہی۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: صرف اپنی بات کرو۔
مینڈرچچا: تمھارا پارہ تو ایک دم ہی چڑھ جاتا ہے۔ تم سے تو کوئی عقل والی بات کرنا ہی فضول ہے۔
مسز مینڈر: بالکل، اور جب وہ تمھاری عقل والی بات ہو تو پھر تو کبھی بھی نہیں۔
مینڈرچچا: دیکھو کلیمنٹینہ، اب تم دوبارہ وہی کچھ شروع ۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: ہاں ہاں، کہو کہو، میں دوبارہ تم سے لڑنا چاہ رہی ہوں (طنزیہ انداز میں ) اور تم مجھ سے لڑنا ہی نہیں چاہ رہے، کیوں ؟ ہاہاہاہا، بات در اصل یہ ہے کہ تمھیں اپنے حواسوں پر کنڑول رہا ہی نہیں ہے۔
مینڈر چچا: (آہستگی سے ) تو اب میں کیا کہہ۔ ۔ ۔
مسز مینڈر: تمھیں جرأت کیسے ہوئی مجھ سے اس انداز میں بات کرنے کی (اُٹھتے ہوئے ) تم ایک ناسور ہو، ایک ایسا ناسور، جس کا پارہ ہمیشہ بانس پر چڑھا رہتا ہے، اس وقت بھی تمھاری آنکھیں شعلے اُگل رہی ہیں۔ تمھاری باتوں میں زہر گھلا رہتا ہے، تمھارے لہجے میں سانپ لوٹتے ہیں۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ (مینڈر چچا کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں ) خبردار جو مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی، ایک لفظ بھی مت نکالنا اپنی زہریلی زبان سے، میں نے تمھاری کوئی بات نہیں سننی۔ (سامنے والے دروازے کے کمرہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہے )
مینڈر چچا: اور سُنئے اور سر دھنئے، میری زبان زہریلی ہے، میرا پارہ بانس پر چڑھا رہتا ہے، لڑائی کا آغاز میں کرتا ہوں، میری آنکھیں شعلے اُگلتی ہیں، بھلا میری آنکھوں میں کسی قسم کا کوئی غصہ دکھائی دے رہا ہے، کتنے افسوس کی بات ہے، ابھی تو ہم میں اچھی خاصی ہم آہنگی پیدا ہوئی تھی اور محترمہ نے ایک منٹ میں لُٹیا ڈبو کر رکھ دی۔ اب کچھ بھی ہو جائے، میں نے کسی قسم کی لچک نہیں دکھانی، جب میرا اس معاملے میں کوئی قصور ہے ہی نہیں تو میں کیوں معذرتیں کرتا پھروں۔ (ڈرائنگ روم سے میریگیل اندر داخل ہوتا ہے )
میریگیل: (دورازے کی طرف منہ کر کے با ٓوازِ بلند) ٹھیک ہے ڈک، میرا اب اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، میں۔ ۔ ۔
کمفرٹ: (کمرے داخل ہوئے بغیر) تو پھر ٹانگ کیوں اڑاتے پھر رہے ہو؟
میریگیل: (دوبارہ دورازے کی طرف منہ کر کے با ٓوازِ بلند) تمھارا طرزِ عمل ہی کچھ اس قسم کا تھا، اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔
کمفرٹ: (کمرے داخل ہوئے بغیر) جب میں جانتا ہوں تو تم مجھے بتانا کیا چاہتے ہو؟
میریگیل: (خودکلامی کے انداز میں ) کتنا ڈھیٹ اور کمینہ بندہ ہے یہ ڈک بھی، ٹھیک ہے، اب میں بھی اسے ٹھیں گے پر رکھوں گا، ڈوبتا ہے تو ڈوبے، میری بلا سے۔
مینڈر چچا: رچرڈ نے تمھیں مدد کے لئے پکارا تھا؟
میریگیل: نہیں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، جب کسی بندے کا جھاکا عورتوں کے معاملے میں کھل جائے تو وہ دو شادیاں کرے یادس شادیاں، اُسے کون منع کر سکتا ہے، پھروہ کسی کی سنتا ہی کب ہے۔
مینڈر چچا: تم عجیب الجھی الجھی سی باتیں کر رہے ہو، کچھ عقل کو ہاتھ مارو۔
میریگیل: کاش میں ڈک کے کسی کام آ سکوں۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: یہ شادیوں سے تمھاری کیا مراد ہے ؟ رچرڈ کا اس سے کیا لینا دینا ہے ؟؟
میریگیل: سامنے کی بات ہے، ڈک انکار کر رہا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے جبکہ میرا دعویٰ ہے کہ اُس کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔
مینڈر چچا: ظاہر ہے اُس نے انکار ہی کرنا ہے، اُس نے جب شادی کی ہی نہیں تو بھلا وہ کیسے مانے کہ۔ ۔ ۔
میریگیل: ڈک نے نہ صرف اپنی ملازمہ سے شادی کر رکھی ہے بلکہ اُس کی ایک اور بیوی بھی ہے۔
مینڈر چچا: ہیں۔ ۔ ۔ کیا کہا؟ دو دو شادیاں۔ ۔ ۔ ناممکن (مینڈر چچا اُٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں )
میریگیل: یہ آپ کا خیال ہے، میں تو کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے بلکہ ایسا ہو بھی چکا ہے۔ اُس نے دو دو شادیاں رچا رکھی ہیں۔ اور مجھے اس پر پورا پورا یقین ہے۔ اب اگر کوئی سوال ہے تو یہ ہے کہ اُس نے اس سلسلے کو کس حد تک پہنچایا ہوا ہے، میرا مطلب ہے کہ کتنی شادیاں کر رکھی ہیں۔
مینڈر چچا: مجھے تو تمھاری کسی بات پر بھی یقین نہیں آ رہا، بھلا تم ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہو؟
میریگیل: پہلا ثبوت تو یہ ہے کہ اُس خاتون نے ایسا خود کہا ہے۔
مینڈر چچا: ایک ایسی عورت نے جو کھسکی ہوئی ہے۔
میریگیل: یہ آپ کا خیال ہے جناب، میں اُن خاتون سے بات چیت کر چکا ہوں اور میں نے اُن کے انداز سے اخذ کیا ہے کہ اس بات میں اس قدر صداقت ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
مینڈر چچا: بکواس۔ ۔ ۔ بھلا تم نے ایسا کیا سُن لیا ہے اُس عورت سے ؟
میریگیل: اِتنا کہ جو میرے شبے کی تصدیق کے لئے کافی تھا، اور جب سے میں نے ڈک کی باتیں سنیں تو میرا شک یقین میں بدل گیا ہے۔
مینڈر چچا: اور وہ کیا تھا؟
میریگیل: یہی جو میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ڈک نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔
مینڈر چچا: مجھے تمھاری باتوں پر رتی برابر بھی بھروسہ نہیں لیکن۔ ۔ ۔ (طنزیہ لہجے میں ) تمھاری معلومات اور مشاہدات دونوں عدیم المثال ہیں۔ اور وہ دوسری خاتون کون ہیں ؟
میریگیل: وہ لڑکی جس سے ایک برس قبل ڈک کی نسبت طے ہوئی تھی۔
مینڈر چچا: یہ کیسے ہو سکتا ہے، رچرڈ نے خود مجھے بتایا تھا کہ اُس کی تسبت جن خاتون سے طے ہوئی تھی وہ معاملہ کب کا ختم ہو چکا ہے، اب تو مجھے پورا یقین ہو گیا ہے کہ تمھارے شکوک و شبہات بالکل بے بنیاد ہیں۔
میریگیل: ٹھیک ہے ڈک نے ایسا ہی کہا ہو گا آپ سے لیکن کیا وہ جھوٹ نہیں بول سکتا؟
مینڈر چچا: (غصے سے ) خاموش ہو جاؤ، مجھ سے جھوٹ تم بول سکتے ہو لیکن رچرڈ، ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ اب تم ذرا یہ تو بتاؤ کہ اُس نے اگر یہ شادیاں کی ہوئی ہیں تو ہم سے چھپانے کی اُسے ضرورت ہی کیا ہے ؟
میریگیل: بظاہر تو کوئی وجہ نہیں لیکن کیا پتہ اُسے آپ کی طرف سے شدید ردِ عمل کا خطرہ ہو، اس لئے وہ اس سارے معاملے کو چھپانا چاہ رہا ہو۔
مینڈر چچا: میری جانب سے تو شدید ردِ عمل کا خطرہ اُسے ہونا بھی چاہیئے، وہ اس ضمن میں مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ ۔ ۔ تو کیا واقعی تم درست کہہ رہے ہو، میں اس کا پتہ لگا کر رہوں گا (صدر دروازے کی طرف جاتا ہے ) لیکن نہیں، تمھارے شبہات پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا، اس معاملے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے مزید ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ یہ ملازمہ کہاں ہے، سب سے پہلے میں اس سے ملنا چاہوں گا۔
میریگیل: آپ یہیں ٹھہریئے، میں اُسے آپ کی طرف بھیجتا ہوں، آپ خود دیکھیں گے کہ میرا دعویٰ کتنا درست ہے۔
مینڈر چچا: یہ تو ایک سکینڈل ہوا، صریحاً سکینڈل، یعنی کہ حد ہو گئی، لیکن نہیں، یہ محض شبہ ہی ہے، اس میں صداقت نہیں ہو سکتی، میرا دل کہتا ہے کہ یہ سب کسی قسم کی غلط فہمی کا شاخسانہ ہے۔ ۔ ۔ دو دو بیویاں، اگر ایسا ہے تو مجھے تو غریب رچرڈ پر ترس آ رہا ہے، کیا تماشہ ہوتا ہو گا جب وہ اُن دونوں بیویوں سے بیک وقت لڑائی کر رہا ہوتا ہو گا، یا، یا وہ دونوں اُس سے بھِڑ پڑتی ہوں گی، غضب کا طوفانی منظر دکھائی دیتا ہو گا۔
(مسز کمفرٹ دا ہنی والے دروازے نمبر ۱ سے داخل ہوتی ہیں، مینڈر چچا منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) لو جی، یہ ملازمہ تو حاضر ہو گئی پیشی کے لئے، ویسے دیکھنے میں تو یہ کچھ ایسی بھی بُری نہیں ہے۔ (مسز کمفرٹ سے، انتہائی نرم لہجے میں ) دیکھیں محترمہ، میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہ رہا ہوں (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) بہتر ہے کہ ابھی اِن خاتون سے پیار دُلار سے بات کی جائے۔
مسز کمفرٹ: آپ ہی مسٹر مینڈر ہیں، ڈک کے چچا؟
مینڈر چچا: جی بالکل، میں ہی ڈک کا چچا ہوں۔
مسز کمفرٹ: ڈک نے مجھے بتایا تھا کہ آپ ہمارے یہاں آئے ہوئے ہیں۔
مینڈر چچا: تم دونوں میں اِتنی بھی بے تکلفی نہ ہو گی کہ تم اُسے کمفرٹ صاحب کہنے کے بجائے ’’ڈک‘‘ کہہ کر پکارو۔
مسز کمفرٹ: افوہ، معذرت، میں بھول گئی، واقعی دوسروں کے سامنے مجھے اُنہیں کمفرٹ ہی کہنا چاہیئے تھا۔
مینڈر چچا: لیکن ایک ملازمہ کو تو اس امر کا استحقاق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مالک کو اُس کے سامنے بھی اُس کے نام سے پکارے۔
مسز کمفرٹ: میں ملازمہ نہیں ہوں بلکہ کمفرٹ کی بیوی ہوں۔ ۔ ۔ آپ مجھے ملازمہ کیوں سمجھ رہے ہیں، کیا کمفرٹ نے آپ سے کہا ہے کہ میں ملازمہ ہوں۔ ۔ ۔ میں یقیناً ملازمہ بن کر رہ جاؤں گی اگرکمفرٹ نے دوسرا بیاہ کر لیا ہو گا (رونے لگتی ہے )۔
مینڈر چچا: اچھا۔ ۔ ۔ اب روؤ تو نہیں۔ (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) اب میں کیا کروں، روتی ہوئی عورت اور غصیلی گھوڑی پر قابو پانا کسی خاص جادو ٹونے کامتقاضی ہے، جس سے کم از کم میں تو واقف نہیں۔ (مسز کمفرٹ سے ) رچرڈ کی کوئی بیوی نہیں، اس بات کی تو قسم کھائی جا سکتی ہے (پھر تیزی سے ) سوائے تمھارے، اگر تم ہو تو۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: (بھرائی ہوئی آواز میں ) لیکن اُس کی دوسری بیوی بھی ہے، مم، مم، میں جانتی ہوں کہ وہ۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) جب کسی خاتون کسی بات کو جاننے کا دعویٰ کرے تو اُس کو کوئی دوسری بات بتانا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
مسز کمفرٹ: وہ اسی گھر میں موجود ہے، میں ڈک اور اُسے بغلگیر ہوتے ہوئے دیکھ چکی ہوں۔
مینڈر چچا: کیا کہا، تم اُسے دیکھ چکی ہوں، یہاں، اس گھر میں، ناممکن، کیا تمھیں یقین ہے ؟
مسز کمفرٹ: جی، میں نے خود دیکھا تھا۔
مینڈر چچا: کیا تمھارے پاس کوئی ثبوت ہے کہ تم رچرڈ کی بیوی ہو، میرا مطلب ہے کوئی نکاح نامہ ہے تمھارے پاس؟
مسز کمفرٹ: جی ہاں، میرے کمرے میں پڑا ہوا ہے۔
مینڈر چچا: اور تم نے اُس نالائق کو کسی دوسری عورت سے بغلگیر ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا؟ کیا تمھیں یقین ہے کہ وہ کوئی عورت ہی تھی؟؟
مسز کمفرٹ: مجھے سو فیصد یقین ہے۔
مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میرا میٹر پھرکی کی طرح گھوم رہا ہے اور غصہ ضبط کی آخری حدودں کو چھو رہا ہے، میری آنکھیں تو بالکل انگارہ بن کر رہ گئی ہوں گی۔ ۔ ۔ رچرڈ رچرڈ رچرڈ، یہ تم نے کیا کیا، میرے اعتماد کو اس بری طرح دھچکا کیوں لگایا ہے تم نے ( مسز کمفرٹ سے ) سیلی، کیا تم جانتی ہو کہ۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: جی میرا نام ایڈتھ ہے۔
مینڈر چچا: ایڈتھ؟ اُس نے تو مجھے تمھارا نام سیلی بتایا تھا۔ ۔ ۔ ایک اور دھوکہ۔ ۔ ۔ ایڈتھ، کیا تم جانتی ہو کہ تمھارا شوہر کرتا کیا ہے، میرا مطلب ہے کہ اُس کی کمائی کا ذریعہ کیا ہے ؟
مسز کمفرٹ: فی الحال تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ اُس نے مجھے بتا رکھا ہے کہ آپ اُسے سالانہ خطیر رقم دیتے ہیں گھر کے خرچے کے لئے، کیا یہ درست ہے ؟
مینڈر چچا: ہاں، افسوس کہ یہ درست ہے، لیکن کیا تم جانتی ہو کہ یہ رقم اُسے کس شرط پر ملتی ہے ؟
مسز کمفرٹ: نہیں، مجھے کسی شرط کا علم نہیں۔
مینڈر چچا: شرط یہ تھی کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گا۔
مسز کمفرٹ: ایسی تو کوئی بات نہیں بتائی اُنہوں نے مجھے۔
مینڈر چچا: ظاہر ہے، وہ بتا بھی کیسے سکتا تھا، انتہائی مکآر ہے وہ۔ ۔ ۔ اگویا کہ ایک اور دھوکہ۔ ۔ ۔ دیکھ لو ایڈتھ، میرا اپنا بھتیجا مجھ سے کیسا سلوک کرتا رہا ہے، وہ بھی ایسا بھتیجا جس سے میں بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ میرے لئے ناقابل برداشت ہے یہ بات، خیر، جو اُس سے ہو سکا وہ اُس نے کیا، اب میری باری ہے۔ اُس نے جتنا میرے ٹین باندھنا تھا باندھ چکا، اب جو ٹین میں اُس کے باندھوں گا وہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔
مسز کمفرٹ: اوہ چچا جان، پلیزڈک کے ساتھ کچھ ایسا ویسا مت کیجئے گا، میں اب بھی اُسے اُسی قدر چاہتی ہوں جتنا پہلے چاہتی تھی، میری محبت کا کوئی رنگ پھیکا نہیں پڑا ہے، مجھے یقین ہے کہ اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں ہو گا، یہ سب اُس مکروہ اور مکار بڑھیاکا کیا دھرا ہے، اُسی نے اسے پٹیاں پڑھائی ہوں گی، اگر ڈک واقعی اُسے۔ ۔ ۔ اُسے۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: ڈک نے اُسے شہ دے رکھی ہو گی، کہاں ہے وہ، میں خود اُسے نکال باہر کروں گا۔
مسز کمفرٹ: (جذباتی ہو کر مینڈر چچا کا ہاتھ تھام لیتی ہے ) آپ بہت مہربان شخص ہیں، پلیز، ڈک کو کچھ مت کہئے گا۔
مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ تو بہت ہی پیاری بچی ہے (مسز کمفرٹ سے ) نہیں، میں اُسے معاف نہیں کر سکتا۔
(مسز مینڈر داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے کسی طوفان کی مانند داخل ہوتی ہیں )
مسز کمفرٹ: پلیز، میری خاطر۔
مینڈر چچا: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) میری بیوی کا کیا ردِ عمل ہو گا اگر وہ ہم دونوں کو اس حالت میں دیکھ لے (مسز کمفرٹ سے ) چلو، میں کوشش کروں گا کہ تمھاری خاطراُسے کچھ زیادہ سز انہ دوں لیکن ایک بار اُس کے ہوش ضرور اُڑاؤں گا، یہ تو طے ہے، بلکہ میں ابھی اُس کی خبر لیتا ہوں، وہ اس وقت سٹنگ روم میں ہے۔ (سٹنگ روم کی جانب جاتا ہے )
مسز کمفرٹ: اس سارے معاملے میں اُس کا کوئی قصور نہیں ہو گا، مجھے یقین ہے اس بات کا۔
مسز مینڈر: (پھنکارتے ہوئے ) لیکن تمھارا قصور تو بہرحال ہے، تم، تم۔ ۔ ۔ پتہ نہیں تمھیں ایسی کن شرائط پر یہاں رکھا گیا ہے لیکن میں تمھیں ہرگز ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دوں گی کہ تم اپنے آپ کو کمفرٹ کی بیوی کہو اور اُس کو بدنام کرتی پھرو۔ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسری عورت کے خصم پر ڈورے ڈالو اور اپنا مطلب نکلواؤ۔
مسز کمفرٹ: میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں تمھیں ابھی تک سمجھ نہیں پائی ہوں کہ تم ہو کیا شے، اور تمھیں مجھ سے اس انداز مین باتیں کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔
مسز مینڈر: سچی بات کرنے کی جرأت ہے مجھ میں۔
مسز کمفرٹ: تم جانتی ہو کہ تم جھوٹ بول رہی ہو، میں پھر تمھیں حکم دیتی ہوں فوراً یہاں سے چلتی بنو۔
مسز مینڈر: میں تمھاری بات کیوں مانوں ( کرسی پر بیٹھ جاتی ہے ) تم دیکھتی جاؤ کہ میں کرتی کیا ہوں، میں یہاں بیٹھی ہوئی ہوں اور اُس وقت تک بیٹھی رہوں گی جب تک میرا دل چاہے گا۔
مسز کمفرٹ: تو تم یہاں سے جانے سے انکار کر رہی ہو۔
مسز مینڈر: بالکل! میں صرف اُسی کی بات سنوں گی جس کے پاس اس بات اکاستحقاق ہو گا۔
مسز کمفرٹ: تو پھر ٹھیک ہے، تم میری بات نہیں مان رہی ہو تو پھر وہی تم سے آ کر نمٹ لے گا جو تمھیں یہاں سے اُٹھا کر باہر پھینکنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
(سٹنگ روم کی طرف چلی جاتی ہے )
مسز مینڈر: یہ تو واقعی بالکل ہی پاگل ہے (سٹنگ روم کے دروازے سے مسز کمفرٹ اور مینڈر چچا داخل ہوتے ہیں )
مینڈر چچا: (مسز کمفرٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ) کہاں ہے وہ؟
مسزکمفرٹ: (مینڈر چچا کی طرف دیکھتے ہوئے ) یہ سامنے بیٹھی ہوئی ہیں، کہہ رہی ہیں کہ میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔
مینڈر چچا : (بدستورمسز کمفرٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ) اچھا، ایسا کہہ رہی ہے وہ، اب نہیں کہہ سکے گی، میں ابھی اُسے نکال باہر کرتا ہوں۔ (مسز مینڈر سے، اُس کی طرف غور کئے بغیر) تم نے ان معزز خاتون کی بات ماننے سے انکارکیا ہے۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے، اب تم میرا حکم تو مانو گی، اس گھر سے فوراً اور ہمیشہ کے لئے نکل جاؤ اور اگر آئندہ تم نے یہاں آنے کی کوشش کی تو۔ ۔ ۔ (مسز مینڈر اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور مینڈر چچا کی نظر اُن پر پڑتی ہے )۔ ۔ ۔ مم میری بیوی۔ ۔ ۔
مسز مینڈر : (انتہائی نخوت کے ساتھ) ٹھیک ہے جناب، میں آپ کی بات مانے لیتی ہوں اور اس کمرے سے تو کیا اس گھر سے ہی چلی جاتی ہوں، ابھی اور اسی وقت، ہمیشہ کے لئے (داہنی طرف کے دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہیں، مینڈر چچا بے حال ہو کر کرسی پر گرتے ہیں اور دھنس کر رہ جاتے ہیں )
مینڈر چچا: (کراہتی ہوئی آواز میں ) میری بیوی۔
مسز کمفرٹ: ایں، آپ کی بیوی، خدا کی پناہ، یہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہو گئی۔
مینڈر چچا: اور مجھ سے کیسی غلطی سرزد ہو گئی۔
مسز کمفرٹ: مجھے تو بتایا گیا تھا کہ یہ مسز کمفرٹ ہیں، کمفرٹ کی بیوی۔
مینڈر چچا: ہائے، مین بھی کتنا بدنصیب بندہ ہوں، یہ تو گرینڈ کلائمکس ہوا، اب تک کئے گئے تمام جھگڑوں کا آخری انجام، وہ ہمیشہ کے لئے چلی گئی ہے (بے چینی سے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ) اُسے نہیں جانا چاہیئے، مجھے اُس سے بات کرنی پڑے گی۔ (تیزی سے دورازہ نمبر ۲ کی جانب لپکتا ہے لیکن پھر ٹھہر جاتا ہے ) لیکن اُسے میری بات پر ہرگز ہرگز یقین نہین آئے گا۔ ۔ ۔ اور وہ یقین کرے بھی تو کیوں، خود مجھے اپنی بات پر یقین نہیں آئے ایسے موقع پر۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: اوہ چچا جان، مجھے بہت افسوس ہے۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: افسوس تو مجھے بھی ہے لیکن اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں، تمھیں غلط اطلاع دی گئی تھی، خود مجھے دیکھنا چاہیئے تھا کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں، یونہی انھے واہ انٹ شنٹ بولتا گیا لیکن اب کیا ہو، تمھیں میری مدد کرنی ہو گی، چلو ہم دونوں چلتے ہیں اور اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید وہ سمجھ جائے۔
مسز کمفرٹ: لل لیکن چچا جان۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: (اُسے بائیں طرف والے دروازہ نمبر ۲ کی طرف دھکیلتے ہوئے ) تمھیں میرے ساتھ چلنا ہو گا میری بچی، اُسے میری بات پر یقین نہیں آئے گا۔ ۔ ۔ ۔ چلو (میریگیل صدر دروازے سے داخل ہوتا ہے )
میریگیل: سیلی ابھی آتی ہے۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: سیلی کو دفع کرو اور ہٹ جاؤ میرے راستے سے، فوراً (میریگیل کو ایک طرف دھکیلتا ہوا مسز کمفرٹ کو لیتا ہوا باہر نکل جاتا ہے )
میریگیل: یا وحشت، کیا بپتا پڑی ہے اِن بڑے میاں پر کہ اس قدرطوفانی انداز سے کوچ فرمایا ہے اُنہوں نے، ابھی تو سیلی سے گفتگو کرنے کے لئے بیقرار ہو رہے تھے۔ (صدر دروازے سے کمفرٹ داخل ہوتا ہے )
کمفرٹ: (مینڈر چچا کو نہ پا کر اطمینان کا سانس لیتا ہے ) ان لوگوں نے تو مجھے پاگل ہی کر کے رکھ دیا تھا اپنی لایعنی باتوں سے۔
میریگیل: میرا خیال ہے کہ وہ تمھارا ضمیر ہو گا جس نے تمھیں پاگل بنا رکھا ہو گا۔
کمفرٹ: ایں، بھلا وہ کس لئے ؟
میریگیل: یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ اب تک مر ہی چکا ہو۔
کمفرٹ: (خنک مزاجی سے ) میریگیل، تم اول درجے کے احمق ہو۔
میریگیل: (آہستگی سے ) شکریہ۔
کمفرٹ: تم نے مجھ سے اکیلے میں ملنے کا کہا تھا، اکیلے میں تم نے اس قدر واہیات باتیں کی ہیں کہ میرے سر میں درد ہو گیا ہے، کس احمق نے تمھیں بتایا ہے کہ میں نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔ اب تم نئی بجھارتیں لے کر بیٹھ گئے ہو، کوئی نیا لطیفہ گھڑ لیا ہے کیا تم نے، اگر ایسا ہے تو نہایت ماٹھا لطیفہ ہے یہ۔ ۔ ۔ میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔
میریگیل: لیکن ڈک، تم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ۔ ۔ ۔
کمفرٹ: کہ میری دو بیویاں ہیں۔ ۔ ۔ میں اس سے صریحاً انکار کروں گا، ارے بھئی جب ایسا ہے ہی نہیں تو میں کیوں نہ انکار کروں۔
میریگیل: ظاہر ہے تم نے تو ایسا ہی کہنا ہے۔
کمفرٹ: (غصے سے ) اور میں ایسا ہی کہتا رہوں گا، میں تمھاری اِن لایعنی باتوں سے ناکوں ناک آ چکا ہوں، اور یہ تم نے میری بیوی سے کیوں کہہ دیا تھا کہ۔ ۔ ۔
میریگیل: تو تم اقرار کرتے ہو کہ تمھاری کوئی بیوی بھی ہے۔
کمفرٹ: بالکل ہے، لیکن صرف ایک۔
میریگیل: لیکن تم تو اس سے بھی انکاری تھے۔
کمفرٹ: اس کی بھی ایک وجہ تھی جس کا تم سے دور کا بھی تعلق نہیں، در اصل میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے چچا کو میری شادی کی سُن گن ملے، وہ اس معاملے میں بہت حساس ہیں۔ اب جبکہ اُنہیں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے بلکہ ’’ سب کچھ ‘‘سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہو چکا ہے، کیونکہ تم نے اپنی حماقتوں سے اُنہیں یقین دلا دیا ہے کہ میں دو دو شادیوں کے جرم میں ملوث ہوں۔ اور یہ تم نے ایڈتھ سے کس خوشی میں کہہ دیا تھا کہ میں نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔
میریگیل: ایڈتھ؟ میری تو اُس سے ابھی تک ملاقات ہی نہیں ہوئی ہے۔
کمفرٹ: خیر یہ تو تم سچ نہیں بول رہے۔
میریگیل: نہیں میں واقعی سچ کہہ رہا ہوں ڈک، میں تو تمھاری دوسری والی بیوی سے ہی مل پایا ہوں اب تک، میرا مطلب تمھاری ملازمہ سے ہے۔
کمفرٹ: وہی تو ایڈتھ ہے، میں اُسے ملازمہ اس لئے کہا تھا تاکہ چچا جان کو پتہ نہ چل جائے کہ میں شادی شدہ ہوں۔
میریگیل: ارے۔ ۔ ۔ تب تو میں بالکل ہی گھامڑہوں۔
کمفرٹ: وہ تو تم ہو۔
میریگیل: اور میں نے تمھارے چچا جان سے بھی کہہ دیا تھا کہ تم نے دو دو شادیاں کر رکھی ہیں۔
کمفرٹ: تبھی میں کہوں کہ وہ ایسی الٹی اُلٹی باتیں کیوں کر رہے ہیں کیونکہ وہ تو اِتنے خر دماغ کبھی بھی نہ رہے تھے، تو یہ بھی تمھاری ہی کارستانی تھی (طنزیہ انداز میں ) میریگیل، میں تمھاری تمام تر خرافات پر تمھارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میریگیل: لیکن میں نے تمھاری ملازمہ کو، میرا مطلب ہے کہ تمھاری بیوی سے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ تمھاری ایک اور بیوی بھی ہے۔
کمفرٹ: تم نے اُس کے سامنے کسی خاتون کا حوالہ دیا تھا، پتہ نہیں کس خاتون کا۔ ۔ ۔ اور اُسے مسز کمفرٹ پکارا تھا۔
میریگیل: بالکل کہا تھا لیکن میرا ایسا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ تمھاری چچی ہیں، اُنہیں اُن کے خاندانی نام سے پکارا تھا۔
کمفرٹ: میری چچی؟، لیکن اس نام سے تو میری کوئی چچی نہیں ہیں، ارے کہیں تمھاری مراد کلیمنٹینہ چچی سے تو نہیں ؟
میریگیل: نہیں، میری مراد اُن خاتون سے ہیں جو خود کو مسز مینڈر کہتی ہیں۔
کمفرٹ: ظاہر ہے کہ اُنہوں نے خود کو مسز مینڈر ہی کہنا تھا، یہی اُن کا نام ہے۔
میریگیل: لیکن یہ اُن کا اصلی نام تو نہیں ہے ناں۔ ۔ ۔ میرا خیال تو تھا کہ وہ خاتون بیگم۔ ۔ ۔ خدا کی پناہ، میرا خیال تھا کہ اُن کے شوہر بھی تمھاری طرح کمفرٹ خاندان سے ہوں گے۔
کمفرٹ: تمھاری طرح کا چغد بھی زمانے نے کم ہی پیدا کیا ہو گا، تم بھی اپنی نوعیت کے ہی ایک ہو۔
میریگیل: تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھ سے تو واقعی عظیم حماقت سرزد ہو گئی ہے۔
کمفرٹ: عظیم سے بھی کچھ بڑھ کر۔ ۔ ۔
میریگیل: مجھے بہت افسوس ہے یار، مم، میں۔ ۔ ۔
کمفرٹ: اب میں تمھارے افسوس کا کون سا چورن بناؤں کہ جو اس معمّے کو ہضم کرنے میں میری مدد کرے۔ اب میں کیا کروں کہاں جاؤں، اب میری گزر اوقات کیسے ہو گی، چچا جان کے سالانہ الاؤنسز پر میری گزر بسر ہو رہی تھی اور وہ بھی اس شرط پر کہ میں شادی نہیں کروں گا، اب تو اس باب کو بھی ختم سمجھو۔
میریگیل: اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے کہ تمھارے چچا نے میرے بارے میں بالکل دُرست اندازہ لگایا تھا۔ میں واقعی تمھارے لئے اچھا دوست ثابت نہیں ہوا ہوں۔
کمفرٹ: تم میرے حق میں بہت بہتر ثابت ہوتے اگر ایک دانا دشمن ہوتے۔
میریگیل: ایسا نہ کہو ڈِک، کم از کم مجھے میری اپنی نظروں سے اِس قدر تو نہ گراؤ، میں پہلے ہی بہت شرمندہ ہوں۔
کمفرٹ: ہوئے تم دوست جس کے اُس کا دشمن آسماں کیوں ہو۔ ۔ ۔ تم نے تو مجھے تقریباً پاگل کر کے رکھ دیا ہے (میز پر دھرے ہوئے کاغذات پر نظر پڑتی ہے ) لو، اب اِسی کو دیکھ لو، میں نے تو اپنے کامیڈی کھیل کو اُدھورا ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ۔ ۔ بالکل ہی فراموش کر بیٹھا ہوں اِسے۔
میریگیل: تم نے کسے ادھورا چھوڑ رکھا ہے ؟
کمفرٹ: کامیڈی کھیل کو، میں ایک ڈرامہ تحریر کر رہا ہوں۔
میریگیل: (منہ پر ہاتھ رکھ کر حاضرین سے ) یہ تو واقعی باؤلا ہو چکا ہے۔
کمفرٹ: اس کھیل کو آج رات تک مکمل ہو جانا چاہیئے تھا لیکن اب کافی دیر ہو گئی ہے۔ اس کھیل کے دوران میری حقیقی زندگی میں اِتنی دخل اندازیاں ہو چکی ہیں کہ اسے مکمل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اگریہ کھیل کامیڈی کی جگہ ٹریجڈی کا ہوتا تو یقیناً میں اس میں اپنے حالات کا مسالہ ڈال لیتا اور اسے شاہکار قسم کا ٹریجڈی کھیل بنا دیتا، جس میں میرا اپناکردار بنیادی نوعیت کا ہوتا۔
میریگیل: یہ سارا کیا دھرا میرا ہے، اور مجھے اپنے کئے پر اس قدر شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میں بھی کسی ٹریجڈی کھیل کے کردار کی طرح زہر کھا کر مر جانا چاہتا ہوں۔
کمفرٹ: زہر۔ ۔ ۔ ہا، زہر، کیا اس گلاس میں بھی زہر بھرا ہوا ہے ؟ (میز سے پانی سے بھرا ہوا گلاس اُٹھاتا ہے، اسی اثناء میں سیلی سامنے والے دروازے سے اندر داخل ہوتی ہے ) (مزید پُر جوش انداز میں ) زہر، ایسے حالات اور ایسا زہر، واہ، کیا شاندار موت ہو گی، کتنا سکون ملے گا اسے پی کر، تمام دکھوں اور پریشانیوں سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ ۔ ۔ زہر، میں ابھی یہ سارا گلاس پی جاتا ہوں، غٹاغٹ۔ ۔ ۔ (سیلی کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے اور کمفرٹ کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ جاتا ہے )
سیلی: اُنہوں نے زہر پی لیا ہے (دوبارہ چیخ مارتی ہے ) قتل قتل، مدد مدد۔ ۔ ۔ (میریگیل سے ) ارے آپ مدد کیوں نہیں کرتے، کسی ستون کی طرح کھڑے ہوئے ہیں وہاں پر، کچھ کریں پلیز، مالکن کہاں ہیں، میں ابھی اُنہیں بتاتی ہوں جا کر۔ ۔ ۔ (سیلی داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے باہر نکل جاتی ہے )
میریگیل: یہ چغدسمجھتی ہے کہ تم نے زہر پی لیا ہے۔ (کمفرٹ گلاس اُٹھانے کے لئے جھکتا ہے )
(مسز کمفرٹ اور سیلی دروازہ نمبر ۲ سے داخل ہوتی ہیں )
سیلی: یہ رہے کمفرٹ صاحب جناب، سارا زہر پی لیا ہے اِنہوں نے۔
مسز کمفرٹ: (بھاگتی ہوئی کمفرٹ کی طرف جاتی ہے ) اوہ ڈک، یہ تم نے کیا کر دیا، کیوں کیا تم نے ایسا؟ یہ سب میرا قصور ہے ہے، میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔
کمفرٹ: لیکن ایڈتھ میں نے۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: بولنے کی کوشش مت کرو اس سے تم مزید متاثر ہو جاؤ گے، یہاں بیٹھ جاؤ، اس کرسی پر (اُسے کرسی کی طرف دھکیلتی ہے ) جلدی سے، کوئی پانی تو لا دے، جلدی سے۔ ۔ ۔
کمفرٹ: نہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے پانی کی، اب اور نہیں پینا میں نے پانی۔ ۔ ۔ میں بتا رہا ہوں کہ۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: تم مر جاؤ گے۔
کمفرٹ: نہیں، میں نے نہیں مرنا۔ ۔ ۔
مسز کمفرٹ: پلیز ڈک، میں تم سے تمھاری بھیک مانگتی ہوں، زندہ رہو، پلیز، میری خاطر۔ ۔ ۔
کمفرٹ: ایسی کوئی بات نہیں ہے ایڈتھ، میرا فی الحال مرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔ (اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے )
مسز کمفرٹ: اٹھو نہیں، پلیز اٹھو نہیں، اُس وقت تک مت اٹھو جب تک بالکل ٹھیک نہ ہو جاؤ (جھکتے ہوئے ) ڈک، پلیز مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔
کمفرٹ: معاف کر دوں، لیکن کیا کیا ہے تم نے ؟
مسز کمفرٹ: میں نے تمھیں بالکل غلط سمجھا، کتنی بے رحمی کا سلوک کیا ہے تمھارے ساتھ، تم پر شبہ کیا۔ ۔ ۔ تمھارے جیسے شخص پر شبہ، خدا کی پناہ، پلیز ڈک، مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔
کمفرٹ: نہیں ایڈتھ، تم نے توایساکچھ بھی نہیں کیا ہے جس کی تمھیں معافی مانگنی پڑے (داہنی طرف والے دروازہ نمبر ۲ سے مینڈر چچا اور مسز مینڈر اندر داخل ہوتے ہیں ) لل۔ ۔ ۔ لیکن کیا تم مجھے معاف کر دو گی؟
مسز کمفرٹ: آ آپپ نے کیا کیا ہے ؟
کمفرٹ: ہر وہ برا کام کیا ہے جو کر سکتا تھا۔ میں نے انتہائی بزدلی کا ثبوت دیا ہے، میں اِتنا بزدل تھا کہ چچا جان کو یہ بھی بتا نے کی ہمت نہیں کر پایا کہ تم میری بیوی ہو، ایسا نہیں ہے کہ مجھے تمھیں بیوی کہتے ہوئے کسی قسم کی کوئی شرمساری لاحق تھی، نہیں، ہرگز نہیں، مجھے صرف اور صرف چچا جان کے غصے کا خوف تھا، میں نہیں چاہتا تھا کہ اُنہیں پتہ چل جائے کہ میں شادی شدہ ہوں۔
مسز کمفرٹ: لیکن یہ سب میری خاطر ہی تو تھا۔
کمفرٹ: ہاں، تھا تو تمھاری خاطر ہی لیکن بہرحال میں نے بزدلی کا ثبوت تو دیا تھا، کاش میں تمھیں اُسی وقت سب کچھ بتا دیتا جب ہماری شادی ہوئی تھی۔
مسز کمفرٹ: چھوڑو بھی ڈِک، اب اِسے جانے بھی دو۔ اب تو سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے۔
کمفرٹ: ہاں ایڈتھ، اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ بس یہ ہے کہ اب مجھے کوئی ملازمت ڈھونڈنا ہو گی تاکہ میں تمھاری کفالت سے عہدہ برا ہو سکوں۔ شاید یہ ڈرامہ جو میں لکھ رہا ہوں، اس سے مجھے کچھ خاطر خواہ رقم مل جائے۔ اب مجھے توقع نہیں ہے کہ چچا جان۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: (آگے بڑھتے ہوئے ) نہیں رچرڈ، اب تمھیں مجھ سے کچھ نہیں ملنے والا۔ میں تمھیں اس بات کا الزام نہیں دے رہا ہوں کہ تم نے اس لڑکی سے شادی کیوں کی، یہ تو ہیرا ہے ہیرا۔ ۔ ۔ قسم سے، اگر تم نے اس سے شادی نہ کی ہوتی تو میں خود کر لیتا۔
مسز مینڈر: ارے !
مینڈر چچا: مم میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اگر میں تم جیسی نفیس خاتون سے پہلے اس سے ملا ہوتا تو۔ ۔ ۔ (کمفرٹ سے ) لیکن رچرڈ، مجھے تم سے شکایت ہے کہ تم اپنی بیوی پر قطعاً بھروسہ نہیں کرتے اور اس سے اپنے مسائل کا اشتراک نہیں کرتے۔ ۔ ۔ اور جہاں تک تمھاری اس بات کا تعلق ہے کہ اب تمھیں مجھ سے کسی قسم کی مالی امداد کی توقع نہیں رہی تو تم غلطی پر ہو، ہاتھ ملاؤ رچرڈ! (اُس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے ) میں تمھیں معاف کرتا ہوں، دل کی گہرائی سے معاف کرتا ہوں۔
کمفرٹ: جی۔ ۔ ۔ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟
مینڈر چچا: ہاں، ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن صرف اور صرف تمھاری بیوی کی خاطر۔
کمفرٹ: میں کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں، مجھے توقع نہیں تھی کہ۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: اگر معاملہ تمھارا ہوتا تو شاید میں تمھیں معاف نہیں کرتا۔
مسز مینڈر: تمھاری بیوی تمھارے لئے ایک رحمت سے کم نہیں رچرڈ!
کمفرٹ: مجھے پہلے ہی پتہ تھا اور اب تو ثابت بھی ہو گیا ہے۔
میریگیل: مسز مینڈر، میں سوچتا ہوں کہ۔ ۔ ۔
مینڈر چچا: میں تمھیں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں نوجوان، اور وہ یہ ہے کہ تم سوچا نہ کرو، کم از کم تمھاری حد تک یہ ایک بہت بُری عادت ہے۔ اور رچرڈ، یاد رکھو، ڈرامہ نویسی سے اِتنی رقم حاصل نہیں ہوتی کہ جس سے زندگی سہل انداز سے گزر سکے جبکہ میں چاہتا ہوں کہ تمھاری زندگی خوشیوں سے بھرپور ہو۔ تم اپنی خوشی اور طمانیت کے لئے ضرور ڈرامے لکھو لیکن جہاں تک مصارفِ حیات کا تعلق ہے تواس کے لئے تم اپنے اس چچا پر کُلی تکیہ کر سکتے ہو۔ میں ہر قدم پر تمھارے ساتھ ہوں۔ (کمفرٹ فرطِ انبساط سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے )
(پردہ گرتا ہے )۔