FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو  مرثیہ

               ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

جدید اُردو مرثیہ

(چند حقائق، چند معروضات)

            شعر و ادب میں ایسے واقعات زیادہ اہم قرار پاتے ہیں جو انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ واقعۂ کربلا محض ایک تخئیلی داستان نہیں بلکہ اس واقعے میں معاشرت کرنے کے اعلیٰ اقدار مل جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ دوسرے تاریخی واقعات کی بہ نسبت واقعۂ کربلا نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حق گوئی، مظلومیت اور تمرّد کے خلاف جہاد کرنا، یہ ایسے اعلیٰ اقدار ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ معاشروں کو متاثر کیا بلکہ اس کے اثرات ادب و شعر پر بھی مرتسم ہوئے۔ (۱) یہی سبب ہے کہ اعلیٰ قدروں کی ترویج کے لئے کربلا کو استعارہ بنایا گیا (۲) اور ان استعاروں اور تلازموں سے نہایت عمدہ اور کارگر شہ پارے تخلیق کئے گئے۔ (۳، ۴)

            معروف و غیر معروف ناقدین، محققین اور دانشوروں کی جانب سے بالعموم یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ واقعۂ کربلا نے مختلف اصنافِ شعر و ادب کو متاثر کیا، بطور ثبوت غزل، داستان، افسانہ، مثنوی، ناول، نظم، ناولٹ، سفر نامہ، رپورتاژ اور دیگر اصناف میں سے چیدہ چیدہ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعۂ کربلا نے محض شعر و ادب ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ اُردو شاعری کو متعدد اصناف سے مالا مال بھی کیا۔ آپ سلام، نوحہ اور مرثیہ کا بغور مطالعہ فرمائیے اور اس سوال کا کھوج لگائیے کہ کیا واقعہ کربلا کے بغیر ان اصناف کا ظہور میں آنا ممکن تھا؟؟ صنفِ مرثیہ وہ ممتاز صنف ہے، جس کا خمیر اسی برصغیر میں تیار ہوا اور یہی وہ صنف ہے کہ جس میں اُردو کے بیشتر اصناف کے محاسن کا جوہر مل جاتا ہے۔ (۵) اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے کی صنف کو برصغیر پاک و ہند سے جو خصوصیت ہے وہ کسی دوسری صنف کو حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ سلام و نوحہ بھی صنفِ مرثیہ کی توسیع ہیں۔

            مرثیہ، سلام اور نوحے کے اصناف ہر عہد میں اس لئے مقبولِ خاص و عام رہے کہ ان میں زندگی کی اعلیٰ قدریں پیش کی جاتی رہیں اور اسی سبب سے ان کے ذریعے اعلیٰ تر معاشرتی رویّے ظاہر ہوئے۔ آج بھی مذکورہ اصناف میں واقعۂ کربلا کے حوالے سے زندگی بسر کرنے کے بہترین تصورات مل جائیں گے۔ (۶) واقعۂ کربلا کا یہ فیضان ہے کہ ا س نے ایک سطح پر تو انسان کا تعلق خدا سے اور دوسری سطح پر انسان کا تعلق اعلیٰ تر معاشرتی اقدار سے جوڑ دیا ہے۔ عصرِ حاضر میں ایسے شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، جو ان اصناف کے حوالے سے معاشرے میں مثبت اقدار کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔

            لکھنو برصغیر کی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا مرکز تھا، یہی سبب ہے کہ جملہ فنونِ لطیفہ یہاں اوجِ کمال تک پہنچے۔ نثر ہو یا شاعری، یہاں کے تخلیق کاروں نے ہر میدان میں اپنی صناعانہ تخلیقی ہنر مندیوں کا ثبوت دیا۔ فن کے اظہار کے لئے نئے نئے راستے تلاش کئے جانے لگے۔ (۷) خارجیت اور ڈرامائی عناصر کے امتزاج سے لکھنؤ میں ایک منفرد شعری فضا تشکیل پانے لگی۔ (۸) اسی صورتِ حال میں خارجیت، ڈرامائی عناصر اور واقعۂ کربلا کے مثلث نے صنفِ مرثیہ کا تخلیق نامہ مرتب کیا۔ برصغیر کی سرزمین کا طرزِ احساس اور اس کے تہذیبی اثرات نیز عرب کے تاریخی واقعات و عوامل انیس و دبیر کے مرثیوں میں یکجا ہو کر فن کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ان دونوں حضرات نے مرثیے کے تخلیقی امکانات کو وسیع کیا(۹) اور اپنے بہترین افکار کو اپنے متنوع اسالیب میں پیش کر کے ہر عہد کے شعراء کو متاثر کیا۔ (۱۰) تا اینکہ یہ سلسلہ آج بھی جار ی ہے۔ انیس و دبیر نے برصغیر کے تہذیبی عناصر کو جس طرح اپنے مرثیوں میں محفوظ کیا تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ان کے مرثیوں کے مطالعے سے ہم آج بھی برصغیر کی اسلامی تہذیب و ثقافت کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ (۱۱)

            بیسویں صدی میں ہندوستانی معاشرت پر طرح طرح کے بین الاقوامی سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ انیس و دبیر کا لکھنؤ زوال آمادہ تھا اور عظیم تہذیبی روایات دم توڑ رہی تھیں۔ تاہم بقول سیّد عاشور کاظمی :

‘‘۱۸۵۷ء کے بعد اودھ کی تہذیب کو مٹانے کی کوششوں کے باوجود لکھنو گہوارۂ علم و ادب تھا … میر انیس کا شہر لکھنو، رثائی ادب کا شہر لکھنو، تہذیبِ سیادت کا شہر لکھنو، وہ شہر جو دماغ وضع کرتا تھا۔ وہ شہر جو پتھروں کو دل بنا دیتا تھا۔ (۱۲)

دانش مند کہتے ہیں کہ جب چراغ بجھنے لگتا ہے تو اس کی لَو تیز ہو جاتی ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال لکھنو میں بھی تھی کہ زوال آمادگی کے باوجود یہاں متداولہ علوم و فنون ترقی کر رہے تھے اور یہاں کی چمک دمک نوواردان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔

            بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مختلف تاریخی، سیاسی، سماجی اور معاشی اسباب کی بنا پر برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں شکست و ریخت کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے۔ اس حوالے سے پہلے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی رائے ملاحظہ فرمائیے

‘‘…انگریز حاکم ہندوستان کی محکوم اور ‘‘وحشی’’ رعایا کو زیادہ سے زیادہ ‘‘متمدّن’’ بنانا چاہتے تھے تاکہ ان کا معیار زندگی اعلیٰ سطح پر آ جائے اور نتیجتاً وہ ان اشیائے تجارت کی کھپت کر سکیں جو انگلستان کی ملوں میں تیار ہوتی ہیں۔ ‘‘(۱۳)

            اس معاشرتی بے کلی اور ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ پورے معاشرے میں اب کیا ہو گا …؟؟؟ کے اندیشے پائے جانے لگے۔ اس صورت حال نے دوسرے دوائر کی طرح ادب کے دائرے کو بھی متاثر کیا۔ سر سید نے تہذیب الاخلاق کے اجرا سے اپنے تئیں معاشرے کو سدھار لیا جبکہ حالی نے مسدس مد و جزرِ اسلام لکھ کر تہذیب الاخلاق کی منظوم شرح کر کے سرسید سے حق دوستی ادا کر دیا۔ (۱۴) آپ اس دور کے شعر و ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گومگو اور پژ مردہ صورت حال کے سبب سے شعر و ادب میں ایک طرف تو مایوسی، اضمحلال اور تھکن کا لہجہ ظاہر ہوا اور دوسرے رخ پر اس کے ردِ عمل میں ایک تند و تیز، گھمبیر اور دبنگ لہجہ معرضِ وجود میں آ گیا۔ ان دونوں لہجوں کا مطالعہ کیجئے تو یہ ایک ہی جیسے حالات کا نتیجہ ثابت ہوں گے۔ اس زمانے میں سیاسی اور معاشی صورت حال کی وجہ سے شعر و ادب میں بھی ایک زبردست مزاحمت اور احتجاج کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی(۱۵)۔ بیشتر اصناف اپنا اپنا چولا بدل رہے تھے۔ چنانچہ مرثیے نے بھی عصری مسائل کو جذب کیا۔ (۱۶)یہی سبب ہے کہ بیسویں صدی کے بیشتر مسائل آپ کو اس زمانے کے مرثیوں میں ضرور ملیں گے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ہلال نقوی کی رائے بھی ملاحظہ فرما لیجئے :

‘‘… بیسویں صدی میں مرثیے کا نیا سفر برصغیر کے اس زوال پذیر معاشرے کی دہلیز سے شروع ہوتا ہے جس میں فیوڈل سسٹم کے نئے جال بنے جا رہے تھے اور انگریزوں کی حاکمیت اس خطے میں اپنے نظام فکر کے بیج بو رہی تھی۔ (۱۷)’’

            بیسویں صدی کا سورج نئے نظریات و میلانات لے کر طلوع ہوا اور خصوصاً مغربی اصناف کے حوالے سے اُردو اصناف میں جدید افکار و نظریات کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا۔ (۱۸) مغربی تہذیب نے اپنی رنگارنگی کی وجہ سے اہلِ مشرق کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ سوچ اور فکر کے مروجہ معیارات تبدیل ہونے لگے۔ پرانے پیمانے بوسیدہ قرار دیئے گئے اور اب نئے شعری پیمانوں میں جدید شراب کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ شعر و ادب کا تعلق فرد سے زیادہ معاشرے سے جوڑا جانے لگا اور اجتماعی لب و لہجہ کو اہمیت ملی۔ (۱۹) نتیجتاً قومی اور ملی شاعری کو عروج حاصل ہوا اور مذہبی مرثیوں کی جگہ قومی اور شخصی مرثیوں نے لے لی، اقبالؔ، نظم طباطبائی، صفی لکھنوی، ریاض خیرآبادی، اثر لکھنوی اور چکبست لکھنوی وغیرہ نے قومی اور ملی مرثیوں کے ذریعے ملت کو بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ (۲۰) اس طرح مرثیے کا رشتہ قومی شاعری سے جڑ گیا۔ بعض ناقدین نے اس منظر نامے کے حوالے سے سطحی بنیاد پر یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ اس عہد میں ‘‘مذہبی مرثیہ’’ کو زوال آ گیا تھا (۲۱) مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ (۲۲) اگر آپ بنظر غائر دیکھیں تو قومی اور ملی مرثیے بھی دراصل اسی روایتی مرثیے کا ایک جدید رُوپ ہیں۔ اب اس حوالے سے صرف دو بند ملاحظہ فرمائیے اور مذہبی مرثیے کا اثر شخصی اور ملی مرثیہ پر ملاحظہ کیجئے؎

علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور

دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم

صحبت مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں

پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

(علامہ اقبالؔ)

یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا

رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا

یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا

دلوں میں آ کے یہ ارمان جا نہیں سکتا

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے

نہ لیں بہشت بھی ہم ‘‘ہوم رول’’ کے بدلے

(چکبستؔ لکھنوی)

            بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پوری دنیا میں عموماً اور مختلف اسباب کی بناء پر ہندوستان میں خصوصاً اجتماعی شعور بیدار ہو رہا تھا۔ ایسے لائحہ عمل مرتب کئے جا رہے تھے، جن سے معاشرتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکیں۔ (۲۳) اس حوالے سے مظلوم دیسی عوام کے اوپر کئے گئے مظالم کو مختلف سطحوں پر پیش کر کے سامراجی استبداد اور ظالمانہ حیثیت کو خوب اُبھارا جا رہا تھا۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد عوام الناس میں ایک انقلابی رجحان پیدا کرنے کے لئے واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا جانے لگا تھا۔ (۲۴) اس روّیے کو مرثیہ گو شعراء بھی محسوس کر رہے تھے۔ (۲۵)دولہا صاحب عروج کے مرثیے کا یہ شعر اس عہد کے بدلتے ہوئے رجحانات و میلانات کی نمائندگی کرتا ہے؎

ظلمت کدے میں ہوں پہ تجلی پسند ہوں

میں ہوں عروجؔ کیوں نہ ترقی پسند ہوں

            اس سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورتِ حال کا اُردو مرثیے کی ہئیت پر تو زیادہ اثر نہ ہو سکا لیکن موضوعات اور مواد کے اعتبار سے اس میں دُور رس تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ خاص طور پر شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے بعد کے حالات و واقعات کو بطورِ خاص مرثیوں میں جگہ دی جانے لگی اور پیغامِ امام عالی مقام کی تشہیر ہی اس کا بنیادی موضوع قرار پایا۔ (۲۶) اس سلسلے میں آلِ رضا، نجم آفندی، نسیم امروہوی، جمیل مظہری، علی سردار جعفری اور جوش ملیح آبادی نے جس طرح مرثیے کو مقصدی لے عطا کی اور اس صنف کو جدید عصری تقاضوں کے عین مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، اس کی جتنی بھی مدح کی جائے کم ہے۔ آلِ رضا اور جمیل مظہری نے مرثیے کے مزاج و مذاق میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ (۲۷) جوش نے انفرادی طور پر مرثیے کو رولانے کی بجائے جگانے کا ہتھیار بنایا۔ (۲۸) نسیم امروہوی نے زبان و بیان کی نزاکتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مرثیے میں ہئیت کے کامیاب تجربے کئے۔ (۲۹) اس طرح ان قد آور مرثیہ نگاروں کی کاوشوں کے نتیجے میں مرثیے کو ایک مرتبہ پھر عروج حاصل ہوا اور فنی و فکری ہر لحاظ سے یہ صنف دوسرے وقیع اصناف کے مقابل آن کھڑی ہوئی۔ ان معروف مرثیہ نگاروں کے درج ذیل بندوں کا مطالعہ کیجئے اور دیکھیئے کہ اس زمانے میں مرثیہ کس طرح اپنے اندر عصری شعور کے سبب تبدیلی پیدا کر رہا تھا؎

اہلِ زمیں کی چاند ستاروں پہ ہے نظر

ممکن ہے کامیاب رہے چاند کا سفر

ہیں اپنی اپنی فکر میں ہر قوم کے بشر

مردانِ حق پرست کا جانا ہوا اگر

عباسؑ نامور کا علم لے کے جائیں گے

ہم چاند پر حسینؑ کا غم لے کے جائیں گے

(نجم آفندی)

اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ

اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ

کیوں چُپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ

تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو

لازم ہے کہ ہر فرد حسینؑ ابنِ علیؑ ہو

(جوشؔ ملیح آبادی)

حضرت نے کہا کہ رونے والو!

اب چپ رہو دل ذرا سنبھالو

اشکوں کا وفور ہو تو ٹالو

ہمت سے یہ بارِ غم اُٹھا لو

پیغامِ مشیّت آ گیا ہے

ہنگامِ وصیّت آ گیا ہے

(نسیم ؔ امروہوی)

            ان جدید مرثیہ نگاروں کا لگایا ہوا تخم ثمر دار ہوا اور بہت سے ایسے مرثیہ نگار ظاہر ہوئے جنہوں نے اپنے افکار عالیات کے ذریعے اس صنف کو مالا مال کیا۔ یہی سبب ہے کہ اس دور میں ہر قابلِ قدر شاعر نے صنفِ مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔ ان شعراء میں قمر ؔ جلالوی، شوکتؔ تھانوی، علامہ محسن اعظم گڑھی، ڈاکٹر یاور عباسؔ، راجہؔ صاحب محمود آباد، عزمؔ جونپوری، رئیسؔ امروہوی، راغبؔ مراد آبادی، ڈاکٹر صفدرؔ حسین، کرار نوریؔ اور فیض احمد فیضؔ کے اسمائے گرامی بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

            موجودہ دور ذہنی و فکری انتشار کا دور ہے۔ جب معاشرے میں منتشر قوتیں فروغ پا رہی ہوں تو انسان اپنے اندر سمٹنا شروع کر دیتا ہے۔ چیزوں میں اختصار کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اور اصنافِ شعر بھی مختصر سے مختصر ترین ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی مسائل، سماجی حالات اور اندرونی بے چینیاں بھی انسان کو بے کل کر دیتی ہیں۔ اب قارئین ان اصنافِ ادب و شعر کو اہمیت دیتے ہیں، جو ان کے عصری مسائل سے ہم آہنگ ہوں اور ان کے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر سکیں۔ مرثیہ بھی ان عمرانی حالات سے دوچار ہوا مگر اپنے مزاج کے سبب اس صنف نے جلد ہی عمرانی تقاضوں کو سمجھا اور اپنے اندر تبدیلیوں کی اجازت دے دی۔ (۳۰) نتیجتاً موجودہ مرثیہ نگاروں نے مرثیے میں جدید نفسیاتی، سماجی اور سیاسی مسائل کو نہ صرف یہ کہ پیش کیا بلکہ ان کے حل کے لئے نسخے بھی تجویز فرمائے۔ عہدِ جدید میں صباؔ اکبر آبادی، شاہدؔ نقوی، سہیلؔ بنارسی، شائقؔ زیدی، ساحر لکھنوی ؔ، ڈاکٹر عاصی کرنالی، خیال امروہوی، مظفر نقوی، سردارؔ نقوی، ظہوؔ جارچوی، وحیدالحسنؔ ہاشمی، سیفؔ زلفی، عبدالرؤف عروجؔ، افسر عباسؔ زیدی، ظفر شاربؔ، اثرؔ ترابی، حسن عسکریؔ کاظمی، اثرؔ جلیلی، سید فیضیؔ، ہلالؔ نقوی، امیدؔ فاضلی، قسیم ؔ امروہوی، اسیرؔ فیض آبادی، شیداؔ حسن زیدی، میر رضیؔ میر، عارفؔ امام، احمد نویدؔ، کوثرؔ امروہوی، عرفی ہاشمی، علی رضا کاظمی، حشمت علی قنبر، طاہر ناصر علی وغیرہ کے مرثیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان شعراء نے فنی اور فکری سطح پر مرثیے کو عہد جدید سے پیوست کر دیا ہے۔ (۳۱) بیسویں صدی کے آخر میں جس شاعر نے مرثیے میں فکر انگیز اور اجتہادی تبدیلیاں کیں اور اسے مقبولِ خاص و عام بنایا (۳۲) وہ قیصرؔ بارہوی تھے۔ انہوں نے مرثیے کو واقعۂ کربلا کی خیرہ کر دینے والی روشنی میں ایک عالی شان فتح کا نقارہ بنا دیا ہے؎

کربلا جس کی بلندی ہے وہ مینارہ ہے

مرثیہ سب سے بڑی فتح کا نقارہ ہے

            عصرِ حاضر کے انحطاط پذیر معاشرے میں اخلاقی قدروں کی آبیاری کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ مخرب اخلاق رسوم و رواج نے لوگوں کو ذہنی طور پر ماؤف بلکہ مفلوج کر دیا ہے۔ افراد معاشرے اور معاشرہ فرد سے لاتعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ صورتِ حال ہمارے دور میں اِس لیے مزید لائق توجہ ہو گئی ہے کہ اب عوام الناس کا ادب اور ادیبوں سے اعتبار اُٹھتا جا رہا ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہمارا شعر و ادب معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے لہٰذا اس کا مطالعہ اپنے قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔ اس طرزِ احساس کا اثر ہمارے مرثیہ نگاروں پر بھی ہوا ہے۔ ایک جدید مرثیہ نگار کے درج ذیل پانچ بندوں کا مطالعہ فرمائیے اور بدلتے ہوئے ادبی حالات اور قوانین کا ذہنی بصیرت و بصارت سے تجزیہ فرمائیے :

سائنس کا ادیب نے دیکھا جو ارتقا

ٹیکنالوجی کو اپنا مقابل سمجھ لیا

یوں کشمکش کی زد میں ادب کا سفر ہوا

آندھی سے شب کی جنگ ہوئی بجھ گیا دیا

کل جو ادب تھا ابرِ گہر بار کی طرح

اب بانجھ ہے لُٹے ہوئے بازار کی طرح

بتلائیں جو ہیں آج کی دنیا سے بے خبر

وہ کیا ہے جس کو کہتے ہیں تخلیق کا سفر

ہٹ جائے راستے سے تو یوں ہے وہ راہبر

جس طرح کور چشم کی سورج پہ ہو نظر

اِک داغ ہے وہ دامنِ افکار کے لیے

تخلیق جس ادب کی ہو بازار کے لیے

دلچسپ کس قدر ہے تماشائے زندگی

راہِ عمل سے کٹ کے کہاں جائے زندگی

ایسے ادب سے خود کو جو بہلائے زندگی

عبرت کے مدفنوں میں نظر آئے زندگی

کیا زندگی کا ایسے ادب سے نباہ ہو

فٹ پاتھ جس کی آخری آرام گاہ ہو

ایسا ادب کہ جس میں پیامِ عمل نہ ہو

دامن میں مسئلے ہوں مگر ان کا حل نہ ہو

تاریک جس کی آج ہو، تابندہ کل نہ ہو

کس طرح اس کی تاک میں دیوِ اجل نہ ہو

اس زیست کو اجل کی ضرورت شدید ہے

کاہل کی موت قوم کے حق میں مفید ہے

جب منزلِ عمل سے ہوا دُور یہ ادب

ہر زاویے سے ہو گیا مقہور یہ ادب

بھٹکے ہوئے شعور کا منشور یہ ادب

اُجرت عذابِ زیست ہے مزدور یہ ادب

اُجڑا ہوا ہے مصر کے بازار کی طرح

تاریک ہے یزید کے کردار کی طرح

(سیّد عرفی ہاشمی)

            دانش مندوں کا کہنا ہے کہ اب یہ وسیع و عریض دنیا گلوبل ولیج اور گلوبل ہٹ سے سمٹتی ہوئی آنکھ کی پتلی میں سما گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے ادب اور خصوصاً مرثیے کو بین الاقوامی صورتِ حال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اب ہماری زندگی کا مدار تبدیل ہو رہا ہے۔ اخلاقیات کی سرحدیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ معیشت کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقیوں نے انسانی ذہن کے معیارات کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ آئیے ایک نوخیز مرثیہ نگار کے خیالات سے آپ کو آگاہ کر دوں :

‘‘اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ عالمی ادب، پاکستانی ادب اور پاکستانی ادب میں رثائی ادب کے قارئین کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے۔ مجھے اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ ہمارے تہذیبی تشخص کی بنیاد اب شعر و ادب پر نہیں بلکہ معیشت اور ٹیکنالوجی پر استوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرف بین الاقوامی، قومی اور علاقائی کلچر اور دوسری جانب شخصیت کو تشکیل دینے والے بنیادی رجحانات کے پیچھے بھی یہی دو عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔ نوّے فیصد سے زیادہ افراد پہلے ہی اس بات پر قائل ہیں کہ معیشت و ٹیکنالوجی سے تعلق خاطر نہ رکھنے پر انہیں سماجی حیثیت اور مادی فوائد کے حصول میں شدید رکاوٹیں درپیش ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ پاکستانی ادب اور پاکستانی ادب میں رثائی ادب کس کے لیے تخلیق کیا جائے؟ ‘‘ادب برائے زندگی’’ کا فلسفہ اچھا ہے مگر روزمرہ کاروبارِ حیات میں کہیں اس کی عملی شکل نظر نہیں آتی۔ ‘‘ادب برائے ادب’’ کا نظریہ بھی مشکل سے دوچار ہے کہ قارئین آپ کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور نئی نسل ان کے اس عمل کو احسن گردان رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں ہم ‘‘ادب برائے ادیب ‘‘کے نظریے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ‘‘(۳۳)

اس صورتِ حال میں ہمارے سامنے مرثیہ کا مستقبل کیا ہے؟؟؟ کیا ہم محض انیس و دبیر یا کلاسیکی مرثیوں کے ذخیرہ کی بنیاد پر اکیسویں صدی کا سفر مکمل کر کے بائیسویں صدی میں عزت و احترام سے داخل ہو جائیں گے؟؟ یا ہمیں صنف مرثیہ کے مزاج و مذاق میں شعوری طور پر کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی؟؟ اس سلسلے میں میرا واضح اور دو ٹوک مؤقف یہ ہے کہ ہمیں اجداد کے ورثے کا تحفظ کرتے ہوئے مرثیے میں جدید موضوعات کو ضرور شامل کرنا چاہیے اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مرثیے کی ہم عصر اصناف میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بغور دیکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ اُمید ہے کہ ناقدین، محققین اور دانش جُو حضرات ان تجاویز پر غور فرمائیں گے۔

۱۔ مرثیے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور اس میں ایسے موضوعات کو بطورِ خاص شامل کیا جائے جو اکیسویں صدی بلکہ بائیسویں صدی کے عین مطابق ہوں۔

۲۔ جدید اور قدیم مرثیوں کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے اور مرثیوں کے متون کی صحت کا بطور خاص خیال رکھا جائے تاکہ یہ عظیم ورثہ تلف ہونے سے محفوظ ہو جائے اور درست متن قارئین تک پہنچ سکے۔

۳۔ مرثیہ کے تحفظ اور فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ مرثیہ اور مرثیہ نگاروں کے نام سے ویب سائیٹ بنائی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے مستفید ہوں۔

۴۔ میڈیا کے ذریعہ سامعین اور ناظرین کو مرثیہ کی افادیت سے آگاہ کیا جائے اور مرثیوں میں موجود جدید رویوں کو اُجاگر کیا جائے۔

۵۔ مرثیہ کے حوالے سے تعلیمی درس گاہوں اور خصوصاً یونیورسٹیوں میں، مذاکرے، سیمینارز اور سمپوزیم کا اہتمام کیا جائے۔

۶۔ معروف محققین، ناقدین اور دانشوروں سے استدعا کی جائے کہ وہ اس صنف کے حوالے سے اپنے گراں قدر خیالات تحریری شکل میں پیش فرمائیں۔

۷۔ مرثیہ کا مشرقی و مغربی اصناف سے موازنہ کیا جائے اور اس کے اختصاصی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔

۸۔ نصاب سازی کے وقت مرثیوں کے مختلف اجزا شامل کیے جائیں اور ایم۔ اے کی سطح پر مکمل مرثیے کا مطالعہ لازم قرار دیا جائے۔

۹۔ مرثیہ کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان کے تشفی بخش جوابات مرتب کیے جائیں۔

۱۰۔ مرثیہ کو صرف مسدس کی ہیئت کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اسے مرثیہ نگار پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی پسند کی ہیئت اختیار کرے۔

۱۱۔ مرثیہ کو زندہ رکھنے کے لیے نئے سامعین اور نئے قارئین پیدا کرنے کے لیے جست و خیز کی جائے۔

۱۲۔ جدید ذہن کے حامل نوجوان شعرا کو صنفِ مرثیہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ اب اس قدیم صنف کو تازہ لہو کی بے حد ضرورت ہے۔

۱۳۔ ایسی محافل اور مجالس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے جس میں صرف اور صرف کلاسیکی اور جدید مرثیے پڑھے جائیں تاکہ سامعین میں مرثیے کی سماعت کا ذوق بیدار ہو جائے۔

۱۴۔ مرثیہ خوانی کے فن کو تر و تازہ رکھنے کے لیے بزرگوں کی ہدایات کی روشنی میں نوجوانوں کو آمادہ کرنا چاہیے۔

۱۵۔ معروف مرثیہ نگاروں کو جدید موضوعات یا صورتِ حالات دے کر ان سے مرثیہ لکھنے کی استدعا کی جائے تاکہ موضوعاتی مرثیوں کو فروغ حاصل ہو۔

۱۶۔ معروف مرثیہ نگاروں کے نام سے ایوارڈز کا اجرا کیا جائے۔ عصرِ حاضر کے بزرگ مرثیہ نگاروں کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کیا جائے اور ان کی ہر ممکن دلجوئی کی جائے۔

۱۷۔ مرثیہ کو کسی فرقے یا مذہبی گروہ سے متعلق نہ کیا جائے بلکہ ہر مذہب اور مسلک کے شاعروں کو اس صنف کی جانب متوجہ کیا جائے۔

۱۸۔ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعرا کو بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی مادری یا قومی زبان میں مرثیے لکھیں۔

۱۹۔ اُردو کے معروف و مقبول مرثیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع کیے جائیں تاکہ دوسری زبانوں سے آشنا لوگ بھی اس صنف سے کماحقہ، استفادہ کر سکیں۔

۲۰۔ حکومت پر زور دیا جائے کہ وہ صنفِ مرثیہ کے لیے علیحدہ سرکاری ایوارڈ کا اعلان کرے۔ اہم مرثیہ نگاروں کے نام سے ٹکٹ جاری کرے اور بڑی بڑی شاہراہوں کے نام اہم مرثیہ نگاروں کے ناموں سے منسوب کرے۔

۲۱۔ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں انیس اور دبیر کے نام سے چیئرز کا اعلان کیا جائے تاکہ وہاں کے طلبہ و طالبات بھی مرثیہ نگاروں سے آگاہ ہو سکیں۔

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں مرثیہ زندہ رہے گا؟؟ اس کا سادہ اور آسان جواب تو یہ ہے کہ جب تک حق و باطل کی آویزش جاری رہے گی اس صنف کا ارتقائی سفر اسی آب و تاب سے جاری رہے گا۔ اگر بنظرِ غائر دیکھیں تو صنفِ مرثیہ میں مزاج اور ہئیت کے اعتبار سے اتنی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ وہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ صنفِ مرثیہ کا مستقبل انتہائی روشن اور تابناک ہے۔ اب چلتے چلتے حضرتِ قیصر بارہوی کے مرثیے ’عظمتِ فن‘ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے :

پڑھ لیجیے عبارتِ ایوانِ مرثیہ

تزئینِ قصرِ علم ہیں ارکانِ مرثیہ

قائل ہوئے صفات نگارانِ مرثیہ

صورت گرِ ادب ہے دبستانِ مرثیہ

بے داغ زندگی کی طلب مرثیے میں ہے

انسانیت کا سارا ادب مرثیے میں ہے

٭٭٭

 

               حواشی

(۱)       مجتبیٰ حسین،  پروفیسر ’’مرثیہ اور عہد جدید‘‘ مشمولہ جدید مرثیہ نگاری از سید وحیدالحسن ہاشمی ‘ لاہور‘ مکتبہ تعمیر انسانیت‘ ۱۹۶۷ء ‘ص ۱۸۴

(۲)      گوپی چند نارنگ، سانحہ کربلا بطور شعر ی استعارہ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء، ص ۲۰

(۳)     محمد حسن، ڈاکٹر ’’ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ‘‘ سہ ماہی ’’رثائی ادب‘‘ کراچی، اپریل ۲۰۰۲ء، ص ۱۱

(۴)     سلیم اختر‘ ڈاکٹر ’’وحیدالحسن ہاشمی کے مرثیے‘‘ مشمولہ ’’العطش ‘‘ (جلد سوم)، لاہور، الحبیب پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳۵

(۵)     خواجہ محمد زکریا‘ ڈاکٹر، قدیم نظمیں، لاہور، بک ورلڈ، ۱۹۶۴ء، ص ۲۷۱

(۶)         سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۸ء، ۳۷

(۷)     صفدر حسین، سید، ڈاکٹر، مرثیہ بعدانیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ء، ص ۲۳۔

(۸)     عابد علی عابدؔ (دیباچہ)، موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ، لاہور، مجلس ترقی ادب، سن۔ ن، ص ۶۔

(۹)      احتشام حسین (مقدمہ)، مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، لکھنؤ : نسیم بکڈپو، ۱۹۵۹ء، ص ۷

(۱۰) شجاعت علی سندیلوی، تعارفِ مرثیہ، الہ آباد، ادارہ انیس اردو، ۱۹۵۹ء، ص ۴۴۔

(۱۱)     سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص ۳۷۔

(۱۲)    عاشور کاظمی، سید اردو مرثیے کا سفر دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء، ص ۶۰۰۔

(۱۳) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور : پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء، ص ۲۲۔

(۱۴)    عبداللہ، سید، ڈاکٹر، وجہی سے عبدالحق تک، لاہور : خیابان ادب، ۱۹۷۷ء، (طبع دوم)، ص ۱۱۵

(۱۵)    احراز نقوی، ڈاکٹر، انیس ایک مطالعہ، لاہور : مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۸۲ء، ص ۲۳

(۱۶)    محمد حسن، ڈاکٹر، ‘’ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ’‘ مشمولہ رثائی ادب، کراچی، اپریل ۲۰۰۲ء، ص ۲۳

(۱۷)    ہلال نقوی، ڈاکٹر ‘’بیسویں صدی اور جدید مرثیہ’‘ کراچی، محمدی ٹرسٹ، ۱۹۹۴ء، ص ۷

(۱۸)    طاہر حسین کاظمی، ڈاکٹر، اُردو مرثیہ میر انیس کے بعد، دہلی : ایرانین آرٹ پرنٹرز،

            ۱۹۹۷ء، ص ۱۰۵

(۱۹)     احراز نقوی، ڈاکٹر، جدید فنِ مرثیہ نگاری، مرتبہ : وحیدالحسن ہاشمی، لاہور، مکتبہ تعمیر ادب،

            ۱۹۶۷ء، ص ۲۱۲

(۲۰) محمد رضا کاظمی، جدید اُردو مرثیہ، کراچی، مکتبہ ادب ۱۹۸۱ء، ص ۱۳۔

(۲۱)    شجاعت علی سندیلوی، تعارف مرثیہ، الہ آباد، ادارہ انیس اُردو، ۱۹۵۹ء، ص ۷۰

(۲۲) اسد اریب، ڈاکٹر، اُردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۸۴۔ ۸۹

(۲۳) حامد حسن قادری، مختصر تاریخ مرثیہ گوئی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۶۴ء، ص ۱۰۰

(۲۴) شجاعت علی سندیلوی، تعارفِ مرثیہ، الہ آباد، ادارۂ انیس اُردو، ۱۹۵۹ء، ص ۸۶

(۲۵)   محمد رضا کاظمی، جدید اُردو مرثیہ کراچی : مکتبۂ ادب، ۱۹۸۱ء، ص ۸۶

(۲۶)   ضمیر اختر نقوی (مرتب)، جو ش کے مرثیے، کراچی، ادارۂ فیض ادب، ۱۹۸۰ء، ص ۲۲

(۲۷)   کرار حسین، پروفیسر (پیش لفظ)، مراثی آلِ رضا، کراچی، خراسان اسلامک ریسرچ سنٹر، ۱۹۸۱ء، ص ‘’م،

(۲۸)   عاشور کاظمی، سید اُردو مرثیے کا سفر دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء، ص ۴۵۴

(۲۹)    اسد اریب، ڈاکٹر، اردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور، کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۱۰۱

(۳۰)   صفدر حسین، سید، ڈاکٹر، مرثیہ بعد انیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ء، ص ۱۷۴

(۳۱)    اسد اریب، ڈاکٹر، اُردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۸۵

(۳۲) ہلال نقوی، ڈاکٹر (مقدمہ)، لہو لہو کہکشاں، کراچی، ادارہ تقدیس قلم، ۱۹۸۹ء، ص ۲۹

(۳۳) عرفی ہاشمی، بُجھے چراغوں کی روشنی (مرثیے)، لاہور: الحسن پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء، ص ۹

٭٭٭

 

مرثیے اور قصیدے کی مشترک جہتوں کا جائزہ

            انسانی حیات متنوّع جذبات  احساسات سے مملو ہے۔ ان جذبات میں سے دو جذبے یعنی جذبۂ الم و جذبۂ طرب ایسے ہیں جن پر انسانی زندگی گردش کر رہی ہے۔ یہ دونوں جذبے کبھی معاشرتی و تہذیبی صورتِ حالات کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور کبھی ان کی نمود ذاتی شخصیت کے حوالے سے ہوتی ہے تاہم یہ دونوں جذبات و احساسات اپنے اظہار کے لیے خود ہی پیرایۂ اظہار تلاش کر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے جذبۂ غم کے شاعرانہ اظہار کی صورت صنف مرثیہ ہے اور احساسِ طرب کے اظہار کی شکل صنف قصیدہ قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ دونوں جذبے اگرچہ اپنے طور پر نہایت اہم اور گراں قدر ہیں تاہم بعض اوقات کسی جذبے کی فراوانی دوسرے جذبے کو منظر سے ہٹا دیتی ہے۔ پامال جذبہ اپنی کارفرمائی بہرحال جاری رکھتا ہے اور اس کے اثرات بھی محسوس و غیر محسوس طریقے پر مرتسم ہوتے رہتے ہیں بعض مقامات پر یہ دونوں جذبے اس طرح توازن سے انسانی زندگی میں سرایت کر جاتے ہیں کہ غم و طرب کی تمیز مشکل ہو جاتی ہے۔ یہی حالت ان دونوں اصنافِ سخن کی بھی ہے کہ بعض مقامات پر مرثیے اور قصیدے کی مماثلتیں چشم بینا کو متحیر و مستعجب کر دیتی ہیں۔

            اودھ کی تہذیب کا خمیر طربیاتی عناصر کی فراوانی سے اٹھا، تاہم اس تہذیب پر ہندوستان کی عظیم تہذیبی روایت کا سایہ پرتو فگن تھا بقول ڈاکٹر صفدر حسین :

’’اودھ کی تہذیب بھی ہندوستان کی اس عظیم تہذیب کا عکس تھی جس نے کبھی دلی میں عروج پایا تھا لیکن اب دلی ماند پڑ رہی تھی اور لکھنؤ عروج پر تھا۔ اس کے علاوہ نئے ماحول میں قدیم تہذیب بعض مقامی، معاشی اور نفسیاتی اثرات کی وجہ سے قدرے منفرد اور چمک دار صورت اختیار کر گئی تھی۔ ‘‘

            اودھ سے ملحقہ علاقوں اور خصوصاً لکھنؤ میں سیاسی استحکام، معاشی اطمینان اور ذہنی سکون کی وجہ سے طربیہ عناصر فروغ پا رہے تھے اور سوز کو اصنافِ سخن میں ساز بنایا جا رہا تھا۔ شاہ اودھ کی تقلید میں پورے لکھنؤ میں چھوٹے بڑے درباروں کی کثرت تھی اور نوابین کے اردگرد عوام الناس کا ایک جمِ غفیر رہتا تھا جن کا مطمحِ نظر فقط اپنے مالک کی خوشنودی ہوتا تھا۔ مقربین کی جائز و ناجائز مدح و ستائش ممدوح میں عطا و نوازش کی صفت مزید اُجاگر کر دیتی تھی۔ اسی بخشش اور جودوسخا کی عملی صورت تھی کہ لکھنؤ کے ہر فرد کی زبان پر یہ جملہ جاری ہو گیا کہ :

’’جس کو نہ دے مولا، اس کو دے آصف الدولہ‘‘

اسی طرح نواب غازی الدین حیدر کا اربابِ نشاط سے یہ کہنا کہ :

’’جب تک میں زندہ ہوں جتنا تمہاری قسمت میں ہے لے لو، سمیٹ لو۔ ‘‘ ان طلب گاروں کی آتشِ شوقِ طلب کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ اب ایسی صورت میں اور طربیاتی ماحول میں قصیدے کا عروج نہ پانا اور مرثیے کا بامِ عروج تک پہنچ جانا محلِ نظر ہے۔ ناقدین کو اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ عیش و نشاط اور درباری ماحول کے باوجود لکھنؤ میں قصیدے کو عروج کیوں نہ حاصل ہو سکا…؟؟

            انسانی زندگی غم و مسرت کے جذبات سے پُر ہے۔ جدید نفسیات دانوں نے اس بات کا کھوج لگایا ہے کہ اعلیٰ ترین انسان وہ ہے جس کی زندگی میں غم و طرب کے جذبات و احساسات توازن سے ہوں۔ اس اعتبار سے ان ناقدین نے انسانی زندگی کو ایک سکے کی مانند قرار دیا ہے جس کے ایک رُخ پر جذبۂ غم اور دوسرے پر جذبۂ طرب کی چھاپ ہے۔ اسی بات کو خواجہ میر درد نے شاعرانہ پیرائے میں یوں بیان کیا ہے :

دلِ پُر چاک سے گلِ خنداں

شادی و غم جہاں میں توام ہے

حقیقت تو یہ ہے کہ اعلیٰ انسان کی طرح اعلیٰ ترین تہذیب بھی اپنے اندر ایک ہی وقت میں جذبۂ طرب اور جذبۂ غم سموئے ہوئے ہوتی ہے۔ انگلستان اور لکھنؤ کی اعلیٰ تہذیبوں کا مطالعہ کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ انگلستان میں اعلیٰ ترین المیہ اور طربیہ ڈرامے ایک ہی عہد میں تخلیق ہوئے۔ اسی طرح لکھنؤ میں مرثیہ (المیہ) اور ریختی (طربیہ) ایک ہی عہد میں اپنے فنی کمال تک پہنچے۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ المیہ اور طربیہ احساسات کسی بھی تہذیب کی تشکیل کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ گویا لکھنوی تہذیب و معاشرت کے طربیاتی ماحول میں با اعتبار ہونے والی احساس الم کی نمائندہ صنفِ  سخن ’’مرثیہ‘‘ کو ہم وہاں کی تہذیبی علامت اور اخلاقی ضرورت قرار دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے رام بابو سکسینہ کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیے :

’’…مرثیے میں اس حقیقی شاعری کا پرتو ہے جو اعلیٰ جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے۔ اس کی ادب آموزی ایسے وقت میں جب دنیائے شاعری عیش پسند درباروں کی خوشامد اور تتبع میں نہایت ادنیٰ اور رکیک جذبات کے دلدل میں پھنسی ہوئی تھی، قابل صد ہزار آفرین ہے۔ ‘‘

            مرثیے میں دیگر اصناف کے محاسن کی موجودگی کے پیش نظر بیشتر ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ مرثیہ ایک مرکب صنف سخن ہے۔ اسی رویے کو شبلی نعمانی نے انیس کے حوالے سے بیان کیا ہے :

’’…میر انیس کا کلام شاعری کی تمام اصناف کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے… ان کے کلام میں شاعری کی جس قدر اصناف پائی جاتی ہیں اور کسی کے کلام میں نہیں پائی جاتیں۔ ‘‘

            ان محاسن کی موجودگی کی وجہ سے ناقدین نے مرثیہ کا موازنہ و تقابل دیگر مغربی و مشرقی اصناف سے کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح مرثیے کی ذاتی حیثیت متاثر ہونے کا امکان ہے۔ مرثیے کا جن دیگر اصناف سے موازنہ کیا گیا ہے ان میں ’’قصیدہ‘‘ سرفہرست ہے۔ اس سلسلے میں ناقدین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مرثیہ اپنے مزاج کے اعتبار سے قصیدہ ہے۔ اب ذیل میں ناقدین کی آرا کی روشنی میں مرثیے اور قصیدے کی مماثلتوں کے حوالے سے چند معروضات پیش خدمت ہیں۔

            اُردو شاعری کی تاریخ میں قصیدہ اور مرثیہ دو قدیم اصنافِ سخن ہیں۔ جنوبی ہند کے شعرا کے دواوین کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں اصناف شعرا کے نزدیک معتبر رہے ہیں۔ اس عہد کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس کے دیوان میں بادشاہِ وقت کا قصیدہ اور اہلِ بیتؑ ِ رسالت کی مدح میں مرثیہ موجود نہ ہو۔ اس اعتبار سے ’’مدح‘‘ کا عنصر قصیدے اور مرثیے میں مشترک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی سوچ نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ مرنے والے متوفی کی مدح مرثیہ اور زندہ شخص کی مدح قصیدہ ہے لہٰذا یہ دونوں اصناف مزاجاً دراصل ایک ہیں۔ یہ روّیہ یہاں تک اہم ہو گیا کہ حالی جیسے صاحب علم و بصیرت نے بھی مقدمہ شعرو شاعری میں مرثیہ کو قصیدے کے ذیل میں پیش کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے بھی یہی دلیل پیش کی کہ قصیدہ اور مرثیہ میں مدح کا عنصر مشترک ہے۔ حالی رقمطراز ہیں :

’’مرثیہ پر بھی اس لحاظ سے کہ اس میں زیادہ تر شخص متوفی کے محامد و فضائل ہوتے ہیں ، مدح کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زندوں کی تعریف کو قصیدہ بولتے ہیں اور مردوں کی تعریف کو جس میں تاسّف اور افسوس بھی شامل ہوتا ہے مرثیہ کہتے ہیں۔ عرب کی قدیم شاعری میں قصائد اور مرثیے ایسے سچے اور صحیح حالات و واقعات پر مشتمل ہوتے تھے کہ ان سے متوفی کی مختصر لائف استنباط ہو سکتی تھی۔ ‘‘

            حالی اور دیگر ناقدین کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ’’مدح‘‘ کا عنصر مشترک ہونے کی وجہ سے قصیدہ اور مرثیہ ایک ہی صنف کہلانے کے لائق ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا رقمطراز ہیں :

’’…مدح کا عنصر بھی دونوں اصناف میں مشترک ہے۔ مدح کے حصے میں قصیدہ گو شاعر عموماً ممدوح کے عدل، شان و شکوہ اور بہادری کی تعریف کیا کرتے ہیں اور اس ضمن میں ممدوح کی تلوار اور گھوڑے کی تعریف بھی آ جاتی ہے۔ مرثیہ گو شاعر بھی حضرت امام حسینؑ اور ان کے رفقا کی بہادری اور تلوار اور گھوڑے وغیرہ کا ذکر تفصیل سے کرتے ہیں۔ ‘‘

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مدح کے عناصر کی موجودگی کے نتیجہ میں ہر صنف قصیدے کی ذیل میں آ جاتی ہے تو غزل، جس میں محبوب کی مدح سرائی جزوِ لاینفک ہے، قصیدہ کیوں نہیں …؟؟ حقیقت یہ ہے کہ اصل مسئلہ مدح کا نہیں اس کی نوعیت اور طریقۂ پیشکش کا ہے۔ بلاشبہ قصیدہ نگار مدح سرائی کرتے وقت اعلیٰ ترین اقتدار پیشِ نظر رکھتا ہے۔ وہ قصیدے میں کسی مخصوص شخص کی مدح سرائی نہیں کرتا بلکہ وہ اس شخص کو اعلیٰ اقدار کا مظہر سمجھتے ہوئے قدری زندگی کو پیش کرتا ہے لہٰذا مولانا حالی کا یہ اعتراض کہ قصیدہ محض کسی شخص کی خوشامد ہوتا ہے، محلِ نظر ہے۔ (۱۲) اس کے علاوہ قصیدے سے حاصل ہونے والا انعام و اکرام اعلیٰ فن کی سرپرستی کہا جا سکتا ہے نہ کہ خوشامد کا نتیجہ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قصیدہ گو شاعر اپنے اعلیٰ شعری ہنر کا اظہار کرتا ہے اور ممدوح شاعر کو انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے زندگی کے اعلیٰ رویوں کا اعتراف کرتا ہے۔ مرثیہ نگار بھی اپنے مرثیوں میں اعلیٰ ترین اخلاقی روّیوں کی پیشکش ہی کرتا ہے مگر اس کے پس منظر میں تاریخ کی ایک عظیم مذہبی روایت کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔ یہی پس منظر دونوں کے انداز مدح سرائی میں بھی فرق کا موجب بنتا ہے۔

            اب ذیل میں مرثیے اور قصیدے کے چند مدحیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور خود دیکھیں کہ دونوں کی نوعیتوں میں کس قدر فرق ہے اور مدح کے پیش کرنے میں قصیدہ نگار اور مرثیہ گو میں کیا فرق نمایاں ہوتا ہے :

تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن

نام شاہنشہِ بلند مقام

قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ

مظہرِ ذوالجلال والاکرام

شہسوارِ طریقۂ انصاف

نو بہارِ حدیقۂ اسلام

جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز

جس کا ہر قول معنیِ الہام

بزم میں میزبانِ قیصر و جم

رزم میں اوستادِ رستم و سام

(اقتباس: قصیدہ بہادر شاہ کی مدح میں ، غالب)

یعنی نواب فلک رتبہ شجاع الدولہ

قائم اس کا رہے تا حشر یونہی جاہ و جلال

یہ تمنائے جبیں بدر بھی ہوتا ہے بلال

بسکہ یاں سجدے کے مشتاق ہیں اربابِ کمال

یہ وہ در ہے کہ یہاں آ کے بہم پہنچا دے

رتبہ بال ہما پر مگس بے پر و بال

(اقتباس : قصیدہ در مدح شجاع الدولہ، سودا)

بچوں میں سبز رنگ کوئی تھا کوئی صبیح

شیریں سخن، لبوں پہ نمک، رنگتیں ملیح،

چاٹیں لبوں کو، ان کی جو باتیں سنیں فصیح

مُردوں کو دم میں زندہ کریں صورتِ مسیحؑ

جد و پدر کی طرح جری ہیں ، دلیر ہیں

بچے ہیں یوں ، پہ غیظ جب آئے تو شیر ہیں

(حضرت عون و محمد کی مدح۔ انیس)

تیغ و ترنج اگر ہوں ہلال اور آفتاب

سرکاؤں چہرۂ علی اکبرؑ سے پھر نقاب

حوریں گلوں کو کاٹ کے تڑپیں رہے نہ تاب

گر دیکھتیں وہ حسن ملیح اور وہ شباب

پریاں تو ان کے سائے کا پیچھا نہ چھوڑتیں

دامن کبھی جنابِ زلیخا نہ چھوڑتیں

(حضرت علی اکبرؑ کی مدح۔ انیس)

            قصیدے اور مرثیے کی ایک مماثلت ناقدین نے یہ تلاش کی ہے کہ دونوں اصناف سخن کے اجزا ایک جیسے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ مرثیے کے اجزا قصیدے کے اجزا سے مستعار لیے گئے ہیں۔ ناقدین کا یہ کہنا بھی محلِ نظر ہے کہ میر ضمیر جس وقت مرثیہ کے اجزا متعین کر رہے تھے اس وقت ان کے پیشِ نظر صرف قصیدے کی صنف تھی۔ گویا مرثیہ کی تشکیل قصیدے کی مرہونِ منت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

’’… مرثیے میں ’’سراپا‘‘ تو خیر قصیدے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے لیکن تلوار کی تعریف، گھوڑے کی تعریف اور اہلبیتؑ کی دوسری صفات کا بیان بھی اسلوبِ قصیدہ ہی کے دائرے میں آتا ہے۔ ‘‘

’’… مرثیے کا چہرہ قصیدے کی تشبیب کی طرح سے ہے۔ جس طرح قصیدے کی تشبیب میں کبھی مناظرِ فطرت بیان کیے جاتے ہیں کبھی فخریہ مضامین آ جاتے ہیں ، کبھی اخلاقی خیالات سے آغاز ہوتا ہے، اسی طرح مرثیے میں بھی عام طور پر ایسے ہی تمہید یہ مضامین ہوتے ہیں۔ ‘‘

            مندرجہ بالا پیش کردہ نظریہ پر بحث سے قبل ضروری ہے کہ ہم قصیدے اور مرثیے کے اجزا آپ کی خدمت میں پیش کر دیں۔

اجزائے قصیدہ:

            (۱)  تشبیب یا نسیب

            (۲)  گریز یا مخلص

            (۳)   مدح

(۴)   دعا یا خاتمہ

اجزائے مرثیہ :

            (۱)  تمہید (چہرہ)

            (۲)  سراپا

            (۳)  رخصت

            (۴)  آمد

 (۵)  رجز

 (۶)  واقعاتِ جنگ

            (۷)  شہادت

            (۸)  بین

            (۹)  دعا

            آپ دونوں اصناف کے اجزا کا مطالعہ کیجیے اور بتائیے کہ تمہید، سراپا اور دعا کے علاوہ مرثیے کا کون سا جزو قصیدے سے ماخوذ قرار دیا جا سکتا ہے؟؟ حقیقت یہ ہے کہ مرثیہ قصیدے کی توسیعی شکل ہے، لہٰذا مرثیے میں اس صنف کے اجزا کی شمولیت حیران کن نہیں بلکہ رجز، واقعات جنگ، شہادت اور بین کے اجزا نے یہ بات ثابت کی ہے کہ قصیدے کی نسبت مرثیے میں موضوعات سمیٹنے اور پیش کرنے کی زیادہ اہلیت ہے۔ اس کے علاوہ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ضمیر نے مرثیے کے اجزا متعین کرتے وقت محض قصیدے کے اجزا کو پیش نظر رکھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرثیے میں ’’بہاریہ‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘ کے اضافے کے وقت نواب مرزا عروج اور پیارے صاحب رشید کے پیشِ  نظر کون سے قصائد تھے؟؟ حقیقت یہ ہے کہ مرثیے نے قصیدے کے ہموار راستے پر اپنی عمارت تعمیر کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مرثیہ قصیدے کی نسبت زیادہ مقبول ہو گیا اور حالی کو کہنا پڑا کہ ہمارے قصائد کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے البتہ ہمارے شعرا نے مرثیے میں ایک خاص قسم کی نمایاں ترقی کی ہے۔ بہرحال مرثیہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد صنف ہے اور کسی دوسری صنف سے اس کو نتھی کرنا درست نہیں ہے بقول ڈاکٹر احسن فاروقی :

’’… جب ہم اُردو شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے ادب کی سب سے زیادہ انوکھی Originalصنف مرثیہ ہے… مرثیہ ایسی صنف ہے جسے ہم نے اس کی موجودہ صورت میں کسی دوسری قوم یا اس کے ادب سے نہیں لیا بلکہ جس کی اردو ہی میں بنیاد پڑی اور اسی زبان میں نشوونما پا کر وہ درجۂ کمال کو پہنچا۔ ‘‘

            ناقدین کا اصرار ہے کہ قصیدے اور مرثیے دونوں میں کسی نہ کسی ممدوح کی توصیف کی جاتی ہے اس لیے مقصد کے اعتبار سے یہ دونوں اصناف یکساں ہیں۔ جہاں تک قصیدے اور مرثیے میں ممدوح کی موجودگی کا ذکر ہے ابھی اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ قصیدہ گویا مرثیہ نگار اعلیٰ ترین اقدار کی گفتگو کرتا ہے۔ وہ اپنے ممدوح میں ہر وہ خوبی دیکھنا چاہتا ہے جو اعلیٰ ترین اقدار کی مظہر ہو۔ اس اعتبار سے ممدوح بھی اعلیٰ ترین اقدار کا نمائندہ بن کر قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔ مرثیے اور قصیدے کے ممدوح میں فرق یہ ہے کہ مرثیے کا ممدوح بعض دیگر رجحانات و تصورات کی وجہ سے فوراً قابلِ قبول ہو جاتا ہے جبکہ قصیدے کے ممدوح کو ذہنِ انسانی ذرا تاخیر سے قبول کرتا ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں …؟؟ درحقیقت مرثیے کے ممدوح کی حیثیت عام انسان سے قدرے بالا تر سمجھی جاتی ہے اور مذہبی حوالے سے اسے بالعموم قابلِ تقلید بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ قصیدے کے ممدوح کو اس قسم کا تقدس حاصل نہیں ہوتا جو مرثیے کے ممدوح کے لیے مختص ہے۔ ذیل کے اقتباسات کا مطالعہ کیجیے تو قصیدے اور مرثیے کے ممدوح کا ایک واضح فرق آپ کے سامنے آ جائے گا:

یوں کرسی زر پر ہے تری جلوہ نمائی

جس طرح کہ مصحف ہو سرِ رحلِ طلائی

رکھتا ہے تو وہ دستِ سخا سامنے جس کے

ہے بحر بھی کشتی بکف از بہرِ گدائی

گمرہ کو ہدایت جو ترے راہ پہ لا دے

رہ زن بھی اگر ہو تو کرے راہ نمائی

خورشید سے افزوں ہو نشاں سجدے کا روشن

گر چرخ کرے در کی ترے ناصیہ سائی

عکسِ رُخِ روشن سے ترے جوں یدِ بیضا

کرتا ہے کف آئینہ اعجاز نمائی

(اقتباس۔ در مدح بہادر شاہ ظفر=ذوق)

یعنی وہ شاہ سلیماں کہ شکوہ سے اس کے

نیّرِ حشمت و اقبال کو ہے چمکاہٹ

جشنِ شاہانہ ہے اور ہیں امرا حاضرِ وقت

اس کے مجرے کو کھڑے فوجوں کے ہیں غٹ کے غٹ

بزم ایسی ہی مرتب ہے کہ سبحان اللہ

جس میں اقسام تماشا کا ہوا ہے جمگھٹ

(اقتباس۔ در مدح شہزادہ سلیمان شکوہ =انشا)

نعرے سے تیرے ہووے ہیبت کا چاک سینہ

دل پر دلاوری کے وہ تیغ حیدری ہو

تیرے سوا جہاں میں کون آج ہے توانا

جو دل کے ناتواں کو دیتا تونگری ہو

جاروب کش ہے تیرے مشکوئے خسروی کا

زیبا ہے ماہ کو گر، فرمانِ مہتری ہو

خورشید نذر لائے جب افسر شعاع سے

منشور افسری پر توقیع خاوری ہو

لائیں پئے سواری، تو سن کر جب سجا کر

صورت میں ہووے پتلی، پرواز میں پری ہو

(اقتباس۔ در مدح اکبر شاہ ثانی =ذوق)

            مندرجہ بالا اقتباس کی روشنی میں آپ کے سامنے قصیدے کے ممدوح کی ایک خاص شبیہ ابھری ہو گی۔ اب ملاحظہ فرمائیے کہ مرثیے کا ممدوح کس طرح اپنی شخصیت میں سحر آفرینی پیدا کر کے قاری کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور قاری خودبخود اس کی تقلید کے لیے بے چین ہو جاتا ہے :

میں ہوں سردارِ شبابِ چمنِ خلدِ بریں

میں ہوں خالق کی قسم دوشِ محمدؐ کا مکیں

میں ہوں انگشترِ  پیغمبرِؐ خاتم کا نگیں

مجھ سے روشن ہے فلک مجھ سے منور ہے زمیں

ابھی نظروں سے نہاں نور جو میرا ہو جائے

محفلِ عالم امکاں میں اندھیرا ہو جائے

حرؑ نے دیکھا کہ چلے آتے ہیں پیدل شبیرؑ

دوڑ کر چوم لیے پائے سرِ عرشِ سریر

شہؑ نے چھاتی سے لگا کر کہا ’’اے با توقیر!‘‘

میں نے بخشی، مرے اللہ نے بخشی تقصیر

میں رضامند ہوں ، کس واسطے مضطر ہے تو

مجھ کو عباسِؑ دلاور کے برابر ہے تو

(اقتباسات مراثی انیس)

            مرثیے اور قصیدے کی ایک مماثلت ناقدین نے ’’مبالغہ‘‘ قرار دی ہے۔ ان کے خیال میں مرثیہ اور قصیدہ میں شاعر مبالغہ کو یکساں طور پر استعمال کرتا ہے، اس لیے قصیدہ اور مرثیہ صنف کے اعتبار سے ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔

            ہندوستان پر سیاسی گرفت کے بعد انگریزوں نے اپنے استعماری ہتھکنڈوں سے ہندوستانیوں کی جسمانی قوت پر تو قبضہ کر لیا لیکن وہ ان کی تخیٔلی سطح کو فتح نہ کر سکے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لکھنو کے فوجیوں کے ہاتھوں سے چھینی جانے والی تلواریں انیس کے مرثیوں میں زیادہ آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگیں۔ اُردو شاعری کی تخیلاتی پرواز سے انگریزی حکومت کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ جب تک شاعری میں تخیلاتی تلواریں چلتی رہیں گی اس وقت تک یہ امکان باقی رہے گا کہ واقعاتی دنیا میں انہی تلواروں کا استعمال کیا جائے۔ نظم جدید کی فطرت نگاری نے تخیل کو چھوڑا اور واقعیت اور گرد و پیش کے مناظر سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ محمد حسین آزاد اپنے تخیل سے قطعی طور پر آزاد نہ ہو سکے اور انہوں نے ایک درجہ نیچے اتر کر تمثیل کے انداز میں نئے رویوں سے سمجھوتہ کر لیا مگر حالی نے خود کو واقعیت سے وابستہ کر کے امرِ واقعہ کو شاعری کہنے لگے، سرسید اور ان کے رفقا اپنی تمام تر علمی قابلیت اور ذہنی بصیرت کے باوجود اس نکتے کو فراموش کر گئے کہ تخیل اور حقیقت دونوں کی حیثیت مسلّم ہے۔ بہرحال کچھ تو نئے علوم کی خیرہ کر دینے والی روشنی اور کچھ جدّت سے لگاؤ کے سبب سے ان لوگوں نے ہر اس شے کے خلاف لکھنا شروع کر دیا جو تخیل کے لیے مفید ہو سکتی تھی لہٰذا حالی نے تخیل کے اساسی رکن مبالغہ کو جھوٹ کے ہم معنی قرار دے کر شعرا کو مبالغے سے پرہیز کا مشورہ دیا۔ ملاحظہ فرمائیے :

’’… دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ شعر میں جہاں تک ممکن ہو حقیقت اور راستی کا سررشتہ ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے… زمانے کا اقتضا یہ ہے کہ جھوٹ، مبالغہ، بہتان، افتراء صریح، خوشامد، ادعائے بے معنی، تعلیِ بے جا، الزامِ لایعنی، شکوہ بے محل اور اسی قسم کی باتیں جو صدق و راستی کے منافی ہیں اور شاعری کے قوام میں داخل ہو گئی ہیں ، ان سے جہاں تک ممکن ہو قاطبۃً احتراز کیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری شاعری میں خلفائے عباسیہ کے زمانے سے لے کر آج تک جھوٹ او مبالغہ برابر ترقی کرتا چلا آیا ہے اور شاعری کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کو شاعری کا زیور سمجھا گیا ہے، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جب سے ہماری شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ داخل ہوا اسی وقت سے اس کا تنزل شروع ہوا۔ ‘‘

            حالی نے مبالغہ کی جس طرح مذمت کی ہے وہ قابل ستائش نہیں۔ شاعری میں مبالغہ کی حیثیت اساسی ہے۔ مبالغہ کسی شے کو ایک قدری حیثیت سے اٹھا کر دوسری قدری حیثیت میں لے جانے کا نام ہے گویا کسی شے کو جب ہم ایک سطح سے دوسری سطح تک لے جائیں تو مبالغہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر شے کو ادنیٰ سطح سے اعلیٰ سطح تک لے جائیں تو یہ اس کی تعریف ہو گی اور یہی مرثیہ اور قصیدے کا اسلوب ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی شے کو اعلیٰ سطح سے ادنیٰ سطح پر لے آئیں تو اس صورت میں بھی مبالغہ پیدا ہو گا مگر یہاں مبالغے کا مقصد تعریف کے بجائے تعریض ہو گا اور اس صورت میں طنز پیدا ہو گا جو ہجویہ قصائد کا اسلوب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شاعر قصیدہ لکھ کر شکوہ بے محل پیدا کرتا ہے تو اس میں غلطی شاعر کی ہے یا مبالغہ کی؟؟ دوسری بات یہ کہ حالی بے چارے اس بات کو فراموش کر گئے کہ طنز بھی تو مبالغہ ہی سے جنم لیتا ہے۔ جو عوام الناس کی اصلاح کے لیے مفید بھی ہے اور کارگر بھی … اب حالی سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا کوئی ایسی چیز جو قوم کو راہِ راست پر لا سکتی ہو، قوم کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شاعر تخیل کے بغیر اور تخیل مبالغے کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بات صرف قصیدے یا مرثیے ہی کی نہیں ہر صنفِ سخن میں شاعر مبالغہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے اور بلاشبہ مبالغہ سے بات میں حسن اور رعنائی پیدا ہو جاتی ہے۔ میرؔ کی غزل کا یہ معروف شعر ملاحظہ فرمایے اور بتائیے کہ کیا اس میں مبالغہ کے استعمال نے حسن پیدا نہیں کیا؟

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

ماحصل یہ ہے کہ حالی کسی بھی سبب سے مبالغے کی مذمت کریں مبالغہ کے بغیر شاعری حالی کی غزلوں کی طرح بے لطف و بے مزا ہو جائے گی۔

            مرثیے اور قصیدے دونوں اصنافِ سخن میں سخت شاعرانہ کاوشوں اور فنی ریاضتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعر میں یہ استعداد بھی ہونی چاہیے کہ وہ شعر کی تاثیر اور حسن میں اضافے کرنے والے عناصر سے باخبر رہے۔ مبالغہ شاعرانہ حسن پیدا کرنے کا ایک نہایت کامیاب گر ہے۔ اس لیے ہر ہوشیار شاعر اپنے کلام میں حسن و لطافت پیدا کرنے کے لیے مبالغہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ اس اعتبار سے شبلی نعمانی کا یہ کہنا کہ انیس نے زمانے کے اقتضا اور مجبوری کے تحت اپنی شاعری میں مبالغہ استعمال کیا، قابلِ قبول نہیں ، شبلی نعمانی فرماتے ہیں :

’’… میر انیس کے زمانے میں مبالغہ کمال کی حد کو پہنچ چکا تھا اور یہ حالت ہو گئی تھی کہ جب مبالغہ میں انتہا درجہ کا استبعاد نہیں ہوتا تھا، سامعین کو مزا نہیں آتا تھا مجبوراً میر صاحب نے بھی وہی روش اختیار کی۔ ‘‘

            حقیقت یہ ہے کہ انیس یا دیگر مرثیہ نگاروں نے جہاں مبالغے سے کام لیا ہے وہاں اپنی فنی مہارت کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔ قصیدہ نگار بھی مبالغے سے کام لیتا ہے مگر اس کا بھرم قائم نہیں رہ پاتا۔ اگرچہ قصیدہ اور مرثیہ دونوں مبالغے کے جوہر سے مالا مال ہوتے ہیں تاہم ان میں جو فرق ہوتا ہے وہ ان مثالوں سے ظاہر ہو جائے گا :

چشم بد دور خسروانہ شکوہ

لوحش اللہ، عارفانہ کلام

جانثاروں میں تیرے قیصرِ روم

جرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام

وارثِ ملک جانتے ہیں تجھے

ایرج و تور و خسرو و بہرام

زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے

گیو و گو درز و بیزن و ربام

(اقتباس۔ قصیدہ در مدح بہادر شاہ ظفر، غالب)

کرتا ہے تری نذر سدا نقدِ سعادت

ہے مشتریِ چرخ کی کیا نیک کمائی

اک مرغ ہوا کیا ہے کہ سیمرغ نہ چھوڑے

گر سو بہوا ہووے تیرا تیر ہوائی

ہر کوہ اگر کوہِ صفا ہو تو عجب کیا

ہو فیض رساں جب ترے باطن کی صفائی

ہو بلکہ صفا ایسی دلِ سنگ صنم میں

ہر بت میں کرے صورتِ حق جلوہ نمائی

(اقتباس: درِ مدح بہادر شاہ ظفر، ذوق)

وہ لُو وہ آفتاب کی حدّت و تاب و تب

کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثالِ شب

خود نہرِ علقمہ کے بھی سوکھے ہوئے تھے لب

خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب

سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے

سایہ کنویں میں اترا تھا پانی کی چاہ سے

شیر اٹھتے تھے نہ خوف کے مارے کچھار سے

آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے

آئینہ مہر کا تھا مکدّر غبار سے

گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے

گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر

بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر

(اقتباسات مراثیِ انیس)

            بعض مماثلتوں کی موجودگی کے باوجود مرثیے اور قصیدے میں تاثر اور نتائج کا واضح فرق موجود ہوتا ہے۔ تاثرات و نتائج کا یہ فرق معاشرے کی مروجہ اقدار کے سبب سے ہو یا اصناف کے مزاج و اسالیب سے، ناقدین کی یہ بات بہرحال مسلّم ہے کہ ’’اشعار کا فرقِ مراتب صرف اثر کی کمی اور زیادتی پر منحصر ہے۔ ‘‘

            لکھنؤ میں طربیہ عناصر کی خوب آبیاری ہوتی تھی تاہم محرم کا چاند دیکھتے ہی اہلِ لکھنؤ اپنی زندگی اور معمولات میں یکسر تبدیلی لے آتے تھے۔ طربیہ ماحول پر حزنیہ عناصر کا قبضہ ہو جاتا تھا اور پوری فضا حزن و ملال کی کیفیت میں ڈوب جاتی تھی۔ محرم کی رسومات کا آغاز ہو جاتا تھا جوچالیس روز تک جاری رہتی تھیں۔

            مرثیہ کا براہ راست تعلق محرم کی رسومات سے ہے اور یہ ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو رسومات اور فن کے تعلق کو واضح کرتی ہے۔ لکھنؤ کی تہذیبی فضا میں المیہ اور طربیہ دونوں اقسام کے جذبوں کی پیشکش کے لیے دو مختلف اصناف سخن کا استعمال کیا گیا ایک مرثیہ اور دوسرے ریختی۔ کیونکہ مرثیے کا تعلق محرم کی رسومات سے ہے اس لیے اس کی تمام فضا المیاتی صورت حالات سے رنگی ہوتی ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد حسن :

’’… محمد علی شاہ اور امجد علی شاہ کے دورِ حکومت میں دربار شعر و شباب کی رنگینیوں سے زیادہ مذہبی پرہیزگاری کی طرف رجوع رہا اور اس خشک علمی فضا کی مدد سے اس دور میں مرثیہ نے غزل پر فتح پائی۔ محرم اور دوسری اثنا عشری رسوم پوری شان و شوکت سے اس سے بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ منائی گئیں … مذہب اور اس کے فرائض و رسوم کی ادائیگی میں مرثیہ خوانی اور دوسرے عناصر نے جگہ پائی جس سے یہ گریہ و ماتم بے روح اور خشک طور پر مذہبی ہونے کے بجائے ایک زندہ اور شاداب تقریب بن گیا۔ ‘‘

            اگرچہ پورے مرثیے میں ایسے ٹکڑے بھی موجود ہوتے ہیں جو ممدوح کی مدح اور اس کے فضائل سے متعلق ہوتے ہیں اور وہ بھی جن میں فطرت کی اعلیٰ ترین عکاسی ہوتی ہے، اس کے باوجود مجموعی تاثر المیاتی ہی ہوتا ہے۔ مرثیے کو جو عروج لکھنؤ میں ملا اس میں اُردو کے روایتی اصنافِ سخن نے مل جل کر رنگ بھرے۔ غزل، قصیدہ، مثنوی وغیرہ کا جوہر مرثیے میں شامل ہوا۔ بقول ڈاکٹر محمد حسن :

’’…مرثیے نے اپنے میں مثنوی کی سادگی اور قصیدے کا شکوہ جذب کر لیا اور چونکہ داستان کی رنگارنگی اور ہمہ گیری ان عناصر کو اپنے اندر سمو سکتی تھی اس لیے مرثیہ ان نئے شاعرانہ جوہروں کے امتزاج سے زیادہ شاداب اور شاندار ہو گیا۔ ‘‘

اس طرح جو مرثیہ اُردو میں پیدا ہوا وہ اپنے رنگ خاص کے با وصف خالص اودھ تہذیب کی دین ہے۔ اسی نکتہ کو پروفیسر اعجاز حسین نے بھی پیش کیا ہے، رقم طراز ہیں :

’’مرثیہ چونکہ ایک مسلسل نظم ہے اور اس میں وسعت اور تنوع کی بھی کمی نہیں ، اسے اجزائے ترکیبی کے مختلف عنوانات کا فائدہ بھی حاصل ہے، اس لیے اس میں دیگر اصناف سخن مثلاً غزل، قصیدہ، مثنوی وغیرہ کی بعض خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ ہر خصوصیت کو مذہب نے ایک دوسرے انداز سے پیش کر دیا ہے۔ حسن  و عشق کی روداد میں بھی یہاں تقدس و روحانیت کا غلبہ ہے۔ ‘‘

            بہرحال یہ شاعری کا فریضہ ہو یا صنف سخن کی ضرورت اسی تقدس اور روحانیت نے مرثیہ کو معراجِ کمال بخشا۔ بیشتر مرثیہ نگاروں نے اس حزنیہ طرزِ  احساس کی مدح سرائی بھی کی ہے اور حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے :

مہلت جو اجل دے تو غنیمت اسے جانو

آمادہ ہو رونے پہ سعادت اسے جانو

آنسو نکل آئیں تو عبادت اسے جانو

ایذا بھی ہو مجلس میں تو راحت اسے جانو

فاقے کیے ہیں دھوپ میں لب تشنہ رہے ہیں

آقاؑ نے تمہارے لیے کیا ظلم سہے ہیں (انیس)

اس کے ساتھ ساتھ شعرائے مرثیہ نے اس خاص حزنیہ ماحول کے خاتمے کو نہایت غم انگیز قرار دیا ہے :

اے ماتمیو! شاہ کا ماتم ہوا آخر

روئے نہ دبیر، آہ محرم ہوا آخر

لو چہلمِ سلطانِ دو عالمؑ ہوا آخر

غم رہ گیا پر غم کا وہ موسم ہوا آخر

سر کھول دو اور پھاڑو گریبانوں کو اپنے

اے مومنو! رخصت کرو مہمانوں کو اپنے

(دبیر)

اس کے برعکس قصیدے میں شاعر کو ایک طربیہ ماحول پیش کرنا ہوتا ہے۔ حالات کیسے ہی برے کیوں نہ ہوں قصیدہ نگار اس میں سے طربیہ عناصر ڈھونڈ لیتا ہے۔ یہی قصیدہ نگار کا شاعرانہ ہنر ہے، بقول ڈاکٹر ابواللیث صدیقی :

’’…ممدوح حقیر فقیر پر تقصیر ہی کیوں نہ ہو اس کی مدح میں جو قصیدے کہے جاتے ہیں ، ان کے الفاظ اور تراکیب پر شکوہ، تشبیہات اور استعارات پر زور اور شعر کے تیور بڑے تیکھے ہوتے ہیں۔ ‘‘

            میری گفتگو اس نکتے پر آ کر تمام ہوئی کہ مرثیے اور قصیدے کی یہ مشترک جہتیں و مماثلتیں اور فن کے مابین فرق دراصل ان اصناف کے المیاتی و طربیاتی طرزِ احساس کی وجہ  سے قائم ہے۔ ابھی آپ نے مرثیے کے دو بند پڑھے۔ اب چلتے چلتے قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے اور طربیہ اور المیہ احساسات کا فرق دیکھیے :

تجھ کو خبر نہیں کیا ہے دورِ شاہ اکبر

رفعت سے پست جس کی شان سکندری ہو

ہے فکر کیا جب ایسا فیاض ہو جہاں میں

اور دل کا اس کے مقصد خود بندہ پروری ہو

مثلِ سحاب جا کر باندھے ہوا فلک پر

جس پر کہ اس کی چشم الطاف سرسری ہو

(اقتباس، قصیدہ در مدح اکبر شاہ ثانی =ذوق)

شاہ کے آگے دھرا ہے آئینہ

اب مآلِ سعی اسکندر کھلا

ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے

اب فریب طغرل و سنجر کھلا

ہو سکے کیا مدح ہاں اک نام ہے

دفتر مدح جہاں داور کھلا

فکر اچھی پر ستائش ناتمام

عجز اعجاز ستائش گر کھلا

جانتا ہوں ہے خط لوحِ ازل

تم پہ اے خاقانِ نام آور کھلا

تم کرو صاحب قرانی جب تلک

ہے طلسم روز و شب کا در کھلا

(اقتباس، قصیدہ بہادر شاہ کی مدح میں =غالب)

            درج بالا نکات کا ماحصل یہ ہے کہ قصیدہ اور مرثیہ ہمارے معروف کلاسیکی اصناف ہیں جو اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے جداگانہ صفات رکھتے ہیں۔ یہ اصناف بعض یکساں مماثلتیں رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے مزاجاً جدا ہیں۔ عصرِ حاضر میں قصیدہ اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے تاہم مرثیہ آج بھی تر و تازہ ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مرثیے نے اپنے وجود میں بنیادی تبدیلیاں کر لی ہیں اور خود کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ قصیدہ اپنی بنیادی حیثیت کو بحال نہیں رکھ سکا۔ نہ دربار رہے نہ درباری شاعری لہٰذا قصیدہ رو بہ زوال ہو گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کلاسیکی اصناف کا مطالعہ ایک مرتبہ پھر عمیق نگاہی سے کریں اور ان کی عظمت و حیثیت کا بارِ دگر تعین کریں۔

٭٭٭

 

اُردو منقبت کی روایت

اور سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبت نگاری کی خصوصیات

            اس کائناتِ رنگ و بو میں ایسی شخصیات قابلِ توصیف اور لائق تقلید ہوتی ہیں جو حق و صداقت کا عملی نمونہ بن جائیں۔ حق تو یہ ہے کہ ایسی عصمت مآب شخصیات ہی افراد کی کردار سازی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح عوام الناس ان پاکیزہ نفوس کی تقلید کر کے اپنی فطری آلائشوں کو پاک کرتے ہیں اور دنیا اور آخرت کے لیے مثالی زندگی کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آپ عالمی ادب کا مطالعہ کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں حق و صداقت کی علمبردار شخصیتوں کے لیے ہمیشہ تحسینی کلمات ہی ملتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر قوم اپنے مذہبی معتقدات کو اہمیت دیتی ہے اور اعتقادات کی مضبوطی صرف نظریات ہی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کچھ نفوس بھی درکار ہوتے ہیں۔ کسی بھی فرد کی ذات یا شخصیت کی تعمیر و تہذیب میں یہی نفوس طاہرہ ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

            اُردو شاعری کی روایت میں مذہبی شخصیات کے کارناموں کا ذکر بطریقِ  احسن ملتا ہے۔ نعت کی ایک مضبوط اور توانا روایت ہماری شاعری کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔ اسی طرح عمائدین ملت، فاتحین اور شہدائے ملت کے لیے منظومات کا ایک سلسلہ بھی ہماری شعری روایت کا حصہ ہے۔ سلاطین، ولیوں اور بادشاہوں کے قصائد بھی ہماری شاعری کا اہم جزو ہیں۔ اسی طرح سیدالشہدا امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں کی کربلا کے میدان میں بے مثال قربانیوں کو ’’سلام‘‘ کی شکل میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ محمدؐ و آلِ محمدؑ کے خانوادے کے اکابرین اور ان سے منسلک احباب کی مدح سرائی کے لیے ’’مناقب‘‘ کی صنف کا سہارا لیا جاتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ مختلف اصناف کے ذریعہ مقدس و برگزیدہ شخصیات کو اُردو شاعری میں محض اس لیے جگہ دی جاتی رہی ہے کہ اس صورت میں ’’قوم‘‘ کی ’’تعمیر نو‘‘ ہو سکے۔

            سیّد وحیدالحسن ہاشمی نے مقدس شخصیات کے محاسن اُجاگر کرنے کے لیے نعت، سلام، قصائد، نظم اور منقبت کا سہارا لیا ہے۔ دوسری اصناف کی نسبت منقبت میں ان کے طبعی جوہر کھل کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوسری اصناف کی نسبت انہیں یہ صنف کیوں پسند ہے؟ اس کا بنیادی سبب تو یہ ہے کہ اس صنف میں موضوع کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے خانوادے کے کسی بھی فرد یا پہلو پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ وحید ہاشمی ایک پر تجمل اسلوب کے حامل شاعر ہیں اور ان کا مزاج قصیدے کے لیے موزوں ترین ہے۔ قصیدے کا یہی انداز جب منقبت کے روپ میں اُجاگر ہوتا ہے تو زیادہ با وقعت اور پر لطف ہو جاتا ہے۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی منقبتوں کو زادِ آخرت سمجھتے ہیں اور ان کا واضح موقف یہ ہے کہ ان کے یہی اشعار روز جزا ان کی شفاعت کا سبب بنیں گے۔ سب سے پہلے سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبت نگاری کے حوالے سے خود ان کی رائے دیکھ لیجیے۔ وہ اپنی کتاب ’’معصومینؑ ‘‘ میں رقم طراز ہیں  :

’’——–

میں نے ان منقبتوں میں زبان سے زیادہ خیال کو اہمیت دی ہے۔ اسی طرح صنائع بدائع سے بھی حتی الامکان گریز کیا ہے۔ منقبت کے لئے جذبۂ صادق اور گہری عقیدت درکار ہے۔ میری عقیدت اور میرے جذبات جہاں تک مجھے لے گئے، میں نے ان کی عکاسی کر دی ہے۔ عقیدت کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور محبت کو فن کی ترازو پر تولنا میرے نزدیک بڑا مشکل کام ہے، لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ فنّی لوازمات کہیں مجروح نہ ہوں ، مگر میں بھی ایک بشر ہوں اور ہر بشر معصوم نہیں ہوتا۔

جس امر کا میں نے زیادہ خیال رکھا ہے وہ زبان کی سادگی ہے۔ جہاں تک ہو سکا عربی اور فارسی ترکیبوں سے گریز کیا ہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں سادہ زبان استعمال کی گئی ہے تاکہ محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے اوصاف اور ان کا پیغام عوام تک پہنچ سکے۔ اس میں کچھ میری عادت اور کچھ عوام الناس کے معیارِ سماعت کا دخل ہے۔ میری کوشش رہی ہے کہ تو ارد سے جہاں تک ہو سکے بچا جائے۔ طرحی منقبت کے علاوہ ساری زمینیں میری ہیں۔ میرا کلام سُن کر اگر کسی صاحب نے میری زمین پر طبع آزمائی کی ہے تو یہ ان کی سعادت مندی ہے۔

میں نے یہ تمام منقبتیں نہ مالی منفعت اور نہ شہرت کے لئے کہی ہیں ان کا مقصدِ  وحید یہ تھا کہ کچھ ثواب مل جائے اور کچھ قارئین کو حاصل ہو۔ مدحتِ محمدؐ و آلِ محمدؑ ایک ایسا خزانہ ہے، جو ہمیشہ بھرا رہتا ہے جو شخص خلوصِ  دل سے کوشش کرے اُسے اس خزانے سے بہت کچھ عطا ہو جاتا ہے۔

——–‘‘

            سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں کی اہم ترین خصوصیت ان کی اہلِ بیت کے خانوادے سے ’’والہانہ عقیدت‘‘ ہے۔ وہ محض حضور اکرم ؐ اور ان کی آلؑ سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ اس فرد سے بھی عقیدت رکھتے ہیں جو ان سے منسلک ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ

کس طرح اہلِ بیتؑ کا گھر چھوڑ دیں وحیدؔ

پل کر بڑے ہوئے ہیں یہیں کے نمک سے ہم

عقیدت کے اظہار کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک سطح پر انسان محض رسماً اپنی عقیدت کا اعلان کرتا ہے۔ دوسری سطح وہ ہے جہاں انسان دل سے کسی فرد کی توقیر تو کرے لیکن اس کا عمل اس کی فکر کا ہمنوا نہ ہو۔ عقیدت کی بہترین صورت اس وقت سامنے آتی ہے جب انسان کے رگ و پے میں ممدوح کی محبت لہو بن کر گردش کرنے لگے۔ وحیدالحسن ہاشمی کے خیال میں محمد ؐ و آلِ  محمدؑ کے عاشق کو نہ صرف دل میں ان کی محبت کی شمع روشن کرنا چاہیے بلکہ اس کے عمل سے بھی ان حضرات کی مہک آنا چاہیے یعنی وحید ہاشمی کے نزدیک باکمال عاشق وہ ہوتا ہے جو فطری اور عملی ہر سطح پر اپنے محبوب کا آئینہ ہو۔ ان کا واضح موقف یہ ہے کہ

تم میری عقیدت کو نجف میں کہیں ڈھونڈو

وہ میرا محلہ ہے وہیں میری گلی ہے

سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے منقبتی اشعار بحرِ  عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں عقیدت کی تپش بھی ہوتی ہے اور مودّت کی مہک بھی۔ آپ ان کے درج ذیل اشعار دیکھیے کہ اُن میں محمد ؐ و آلِ  محمدؑ سے والہانہ عقیدت کے کیسے کیسے نادر گہر ملتے ہیں :

ہو نہ جاگزیں جب تک اُلفتِ علیؑ دل میں

طے یہاں سے محشر کا راستہ نہیں ہوتا

……

علیؑ کی دید کا غل ہو تو اِک جہان، رُکے

سنے جو نام تو جاتی ہوئی یہ جان، رُکے

……

چلے تو ہو سوئے فردوس چھوڑ کر دنیا

علیؑ کے عشق کا دریا بھی درمیان میں ہے

……

بندگانِ حق کو دینِ حق پیمبرؐ سے ملا

دین کو مشکل کشا اللہ کے گھر سے ملا

……

ہو گا نہ کم علیؑ کی شجاعت کا تذکرہ

تاریخ چپ رہے گی تو خیبر بتائے گا

……

تفسیر کسی غیر سے کیوں پوچھنے جاؤں

قرآن تو مجھ کو درِ حیدرؑ سے ملا ہے

……

میں ان پہ جان دے کے لحد تک تو آ گیا

اب اس کے بعد میرا نہیں ان کا کام ہے

……

مریمؑ کا فاطمہؑ سے بھلا کیا مقابلہ

مریم تو عابدہ ہیں عبادت ہیں فاطمہؑ

……

نبیؐ کی سیرت و کردار ہیں حسینؑ و حسنؑ

سوال ایک تھا دنیا کا، دو جواب آئے

……

وفا در در بھٹکتی پھر رہی تھی صحن عالم میں

ہوئی تکمیل جب عباسؑ کی دہلیز پر آئی

……

تمام عُمر علیؑ کو یہی رہی حسرت

کہ ذوالفقار کے آگے کوئی جوان رُکے

……

کہیں یہی تو نہیں خلقتِ علیؑ کا سبب

اِک آئینہ بھی ہو اوصافِ انبیاء کے لیے

……

کس کس کو لاؤں مدحِ شہؑ ذی وقار میں

لفظوں کی ایک فوج کھڑی ہے قطار میں

            سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں تاریخی حقائق کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں تاہم ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ان واقعات کو شعری پیرائے میں بیان کر دیتے ہیں۔ تاریخی واقعات کو منظوم کرنا کوئی دشوار عمل نہیں ہوتا لیکن کسی تاریخی سچائی اور واقعاتی صداقت کو شعری اسلوب میں اُجاگر کرنا ایک دشوار عمل ہوتا ہے اگر وحید ہاشمی چاہتے تو ان تاریخی موضوعات پر نظمیں بھی تخلیق کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر واقعہ کو ایک شاعر کی آنکھ سے دیکھا اور اس میں شعری جاذبیت پیدا کر کے منقبت کا شعر بنا دیا ہے۔

            ان کی منقبتوں میں واقعۂ شب ہجرت، واقعۂ غدیر خم، شعب ابی طالب میں محصوری، واقعۂ عقدِ نبیؐ، حضرتِ خدیجہؑ کی والہانہ امداد، واقعۂ شبِ  ہجرت، جوفِ کعبہ میں ولادت حضرت علیؑ کا واقعہ، واقعۂ جنگِ خیبر و خندق، نزول ذوالفقار کا قصہ، قصۂ صلح حدیبیہ، قصۂ باغِ فدک، واقعۂ حدیثِ کسائ، کعبہ میں دوشِ نبیؐ پر حضرت علیؑ کی بُت شکنی کا واقعہ، درِ زہراؑ پر ستارے کے اُترنے کا واقعہ، واقعۂ مباہلہ، صلحِ امام حسنؑ کا واقعہ، فطرس کو بال و پر ملنے کا واقعہ، واقعۂ رجعتِ خورشید اور اسی قبیل کے دیگر واقعات کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں لیکن آپ درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے کہ ان میں کسی مقام پر بھی شعریت کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ وہ وصف خاص ہے جو خاص وحید ہاشمی کے لیے وقف ہے۔

آ نہیں سکتے پیمبرؐ تک پیمبرؐ کے عدو

ان کی نظروں میں تھا اِک لشکر ابوطالبؑ کا نام

……

ہم اس لیے تعظیم خدیجہؑ کے ہیں قائل

ایمان سے وابستہ ہے عرفانِ خدیجہؑ

……

یہ بھی اِک فخر ہے علیؑ کے لیے

تیغ نازل ہوئی انہی کے لیے

……

عزت یہ کہ آئے ہیں اسی در پہ فرشتے

رفعت یہ کہ اُترا ہے ستارہ اسی گھر میں

            سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں صرف اظہارِ عقیدت اور بیانِ مودّت ہی نہیں بلکہ ان میں عصری حقائق کی پیش کش بھی ملتی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی بھی قسم کی شاعری میں عصری حسّیت اور معاشرتی رویوں کی نگہداری نہیں ہو گی تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتی۔ وحید ہاشمی نے اپنی منقبتوں میں جہاں محمد ؐ و آلِ  محمدؑ کی مدح سرائی کی ہے اور ان کے کمالات و معجزات بیان کیے ہیں وہاں انہوں نے ان کے طرزِ عمل اور اسوۂ حسنہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ آپ ان کی منقبت کے درج ذیل تین اشعار ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ وہ کس طرح آلِ نبیؐ کو زمانے کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں  :

ذرا پکار کے آفت میں کوئی دیکھے تو

ہر اِک بلا سے بچاتا ہے نامِ آلِ نبیؑ

تمہارے بس میں نہیں ہے حصولِ امن و اماں

یہاں نہ لاؤ گے جب تک نظامِ آلِ نبیؑ

ڈروں وحیدؔ میں کیوں گردشِ زمانہ سے

مری نگاہ میں ہے صبح و شامِ آلِ نبیؑ

            سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے نزدیک معاشرتی خرابیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آلِ محمدؐ کا صالح نظام نافذ کیا جائے۔ جو لوگ اس نظام الٰہی یا مرکز نورانی سے دور ہو جاتے ہیں عمر بھر کی روسیاہی اور ظلمتِ

 شب ان کا نصیب بن جاتی ہے اور زمانے سے ان کا نام و نشان ہی نہیں سلسلۂ نسب بھی مٹ جاتا ہے۔ وحید ہاشمی اسوۂ اہلبیتؑ کو کامیابی و کامرانی کا قرینہ سمجھتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر عصرِ حاضر میں ہم سب مل کر اپنے ذہنوں میں بسے ہوئے جھوٹے خداؤں کے بتوں کو مسمار کر دیں تو آج بھی دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ آپ ان کی مختلف منقبتوں کے درج ذیل اشعار دیکھیے کہ انہوں نے ہمارے معاشرے کے کن عیوب کی نشاندہی کی ہے اور ان کی اصلاح کا کیا طریقہ وضع کیا ہے۔

ہزاروں ظلم کے طوفاں ڈبو نہیں سکتے

ہماری کشتی کا موجود ناخدا ہے ابھی

……

اختلافاتِ فروعی کی کوئی بات نہیں

غم تو اس بات کا ہے بک گئے سستے کتنے

……

یہ تو تاریخ سے پوچھو وہی بتلائے گی

چھوڑ کر ان کا عمل دہر میں بھٹکے کتنے

            سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے کلام میں ’’جوش و جذبہ‘‘ کثرت سے ملتا ہے۔ ان کے ہاں جوش سطحی الفاظ یا دھواں دھار خیالات کے باعث پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ وہ جوش ہے جو خلوص کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ شاعر دو طرح سے اپنے اشعار میں جوش پیدا کر سکتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ جوشیلے، متحرک اور زور آور الفاظ استعمال کر کے اپنے قاری کے اندر جوش و خروش پیدا کر دے۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ حق و صداقت کی گرم جوشی کا سہارا لے کر اپنے خیالات کو زیادہ زورآور بنائے تاکہ اس کا قاری اس کے جذبے کی حدّت سے اپنے اندر جوش و خروش محسوس کرے۔ وحید ہاشمی کی منقبتوں میں جذبات و صداقت کی حدِّت رواں دواں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وحید ہاشمی اپنے قاری کے اندر ایسا جوش و جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اعلیٰ اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے کام آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے دل کی صداقت اگر قاری کے دل و دماغ کو معطر کر دے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی خوبی نہیں ہو سکتی۔

            آپ وحید ہاشمی کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ فرمائیے کہ انہوں نے کس طرح اپنے منقبتی اشعار میں جوش و جذبہ پیدا کیا ہے  :

ہاتھ میں میرے علیؑ کے عشق کی پتوار ہے

اب سمندر میں بھی میں ڈوبوں تو بیڑا پار ہے

……

جو فاطمہ زہراؑ کی اطاعت نہ کرے گا

مر جائے گا جنت کی زیارت نہ کرے گا

            سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں سادگی اور سلاست کے باوجود صنائع بدائع کا برمحل استعمال ان کی ہنر مندی پر دال ہے۔ ان کی شاعری دراصل دل کی آواز ہے اور اس میں سے نکلی صدائیں ہشت پہلو نگینہ ہوتی ہیں جس میں تشبیہات و استعارات کی چمک دمک بھی ہتی ہے اور تراکیب و مرکبات کی جدّت بھی۔  سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی ہنر مندی یہ ہے کہ انہوں نے صنائع بدائع کو اپنی منقبتوں کا حُسن و زیور بنایا ہے۔ مقصد و منتہیٰ نہیں۔ آپ ان کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ فرمائیے اور ان کی صناعانہ ہنر مندیوں کی داد دیجیے۔

حرم کی گود میں اس طرح بو ترابؑ آئے

نبیؐ کے قلب پہ جیسے کوئی کتاب آئے

                                                                        (تشبیہ)

قرطاس و قلم ان کے اشارے کے ہیں پابند

دنیا میں یہی باعثِ تخلیق ادب ہیں

(صنعت مراعاۃ النظیر)

            اس معروضے کے آغاز میں راقم الحروف نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ عصمت مآب اور پاکیزہ اوصاف شخصیات ہی اقوام و افراد کی کردار سازی کی اہل ہو سکتی ہیں۔ سیّد وحیدالحسن ہاشمی نے اپنی منقبتوں کے ذریعہ یہ بات ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ محمدؐ و آلِ محمدؑ و ہ عظیم المرتبت نفوس ہیں جو کائنات کی ہر چیز کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ وحیدالحسن ہاشمی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے استدلال، تفکر اور شاعرانہ ہنر مندیوں سے اپنی منقبتوں کو دورِ جدید سے منسلک کر دیا ہے۔ اب ان کی منقبتوں کے مطالعہ کے بعد بلا خوف و  تردد کہا جا سکتا ہے کہ عصرِ حاضر میں وحید ہاشمی نے اس صنف کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے اور جب تک صنف منقبت زندہ ہے سیّد وحیدالحسن ہاشمی کا نام زندہ و پائندہ رہے گا۔ تاہم وحید الحسن ہاشمی ہر صاحبِ دل سے یہی کہہ رہے ہیں کہ   ؎

اس قدر زمانے میں مرتضیٰؑ کے احساں ہیں

لاکھ منقبت کہئے حق ادا نہیں ہوتا

٭٭٭

ماخذ: عکاس  انٹر نیشنل کتابی سلسلہ اسلام آباد، ترتیب: ارشد خالد، امین خیال

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید