FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

اردو شاعری کا ایک انتخاب

 

 

                انتخاب: چوہدری لیاقت علی

 

 

 

جمال احسانی

 

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

 

جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں حائل تھا

وہ فاصلہ تو زمیں آسمان میں بھی نہ تھا

 

یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے

یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

 

ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو

نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا

 

جمالؔ پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ

اسے بھی یاد نہ تھا میرے دھیان میں بھی نہ تھا

 

 

ناصر کاظمی

 

غم ہے یا خوشی ہے تو

میری زندگی ہے تو

 

آفتوں کے دور میں

چین کی گھڑی ہے تو

 

میری رات کا چراغ

میری نیند بھی ہے تو

 

میں خزاں کی شام ہوں

رُت بہار کی ہے تو

 

دوستوں کے درمیاں

وجہ دوستی ہے تو

 

میری ساری عمر میں

ایک ہی کمی ہے تو

 

میں تو وہ نہیں رہا

ہاں مگر وہی ہے تو

 

ناصرؔ اس دیار میں

کتنا اجنبی ہے تو

 

 

 

خورشید رضوی

 

میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں

کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ نہیں

 

ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے

پہنچ رہی ہے وہاں تک مری صدا کہ نہیں

 

زباں پہ کچھ نہ سہی سن کے میرا حال تباہ

ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں

 

لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات

مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ ’’نہیں‘‘

 

پڑو نہ عشق میں خورشیدؔ ہم نہ کہتے تھے

تمھیں بتاؤ کہ جی کا زیاں ہوا کہ نہیں

 

 

 

نصیر ترابی

 

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے

یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے

 

دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے

نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے

 

تھی کبھی راہ جو ہم راہ گزر نے والی

اب حذر ہوتا ہے اس راہ سے آتے جاتے

 

شہرِ بے مہر کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا

اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے

 

 

ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی

غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے

 

اس کے کوچے میں بھی ہو راہ سے بے راہ نصیرؔ

اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے

 

ابن انشاء

 

شام غم کی سحر نہیں ہوتی

یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی

 

ہم نے سب سکھ جہاں کے دیکھے ہیں

بے کلی اس قدر نہیں ہوتی

 

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا

آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

 

چاند ہے کہکشاں ہیں تارے ہیں

کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

 

دوستو عشق ہے خطا لیکن

کیا خطا در گزر نہیں ہوتی

 

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

 

سعود عثمانی

 

ایک معیار مستقل رکھنا

درد شایانِ شانِ دل رکھنا

 

کتنی آساں ہے صبر کی تلقین

کتنا مشکل ہے دل پہ سل رکھنا

 

ہنستی بستی زمین جانتی ہے

سرخ لاوا درونِ گل رکھنا

 

منجمد جھیل! کیسا لگتا ہے

زخم اوپر سے مندمل رکھنا

 

ان درختوں سے میں نے سیکھا ہے

اپنے ہاتھوں پہ اپنا دل رکھنا

 

شاعری اور کاروبار سعودؔ

کانچ اور آنچ متصّل رکھنا

 

سیماب اکبر آبادی

 

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں

اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

 

صبر آ ہی جائے، گر ہو بسر ایک حال میں

امکاں اک اور ظلم ہے قید محال میں

 

تنگ آ کے توڑتا ہوں طلسمِ خیال کو

یا مطمئن کرو کہ تمھیں ہو خیال میں

 

بجلی گری اور آنچ نہ آئی کلیم پر

شاید ہنسی بھی آ گئی ان کو جلال میں

 

عمرِ دو روزہ واقعی خواب و خیال تھی

کچھ خواب میں گزر گئی باقی خیال میں

 

 

 

منیر نیازی

 

راستے کی تھکن

 

آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے

شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے

پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے

 

کتنے جتن کئے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے

چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے

گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے

 

 

 

اسلم کولسری

 

بھیگے شعر اگلتے، جیون بیت گیا

ٹھنڈی آگ میں جلتے، جیون بیت گیا

 

یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی

لیکن چلتے چلتے، جیون بیت گیا

 

ایک انوکھا سپنا دیکھا، نیند اڑی

آنکھیں ملتے ملتے، جیون بیت گیا

 

شام ڈھلے اس کو ندیا پر آنا تھا

سورج ڈھلتے ڈھلتے، جیون بیت گیا

 

آخر کس بہروپ کو اپنا روپ کہوں

اسلمؔ روپ بدلتے، جیون بیت گیا

 

 

 

عرفان صدیقی

 

بہت حسیں تھے ہرن دھیان بٹ گیا آخر

وہی ہوا کہ مرا تیر اُچٹ گیا آخر

 

ملی نہ جب کوئی راہ مفر تو کیا کرتا

میں ایک، سب کے مقابل میں ڈٹ گیا آخر

 

بس اک امید پہ ہم نے گزار دی اک عمر

بس ایک بوند سے کہسار کٹ گیا آخر

 

بچا رہا تھا میں شہ زور دشمنوں سے اسے

مگر وہ شخص مجھی سے لپٹ گیا آخر

 

 

کھلا کہ وہ بھی کچھ ایسا وفا پرست نہ تھا

چلو، یہ بوجھ بھی سینے سے ہٹ گیا آخر

 

ہمارے داغ چھپائیں روایتیں کب تک

لباس بھی تو پرانا تھا پھٹ گیا آخر

 

اسرار ناروی (ابن صفی)

 

کچھ تو تعلق، کچھ تو لگاؤ

میرے دشمن ہی کہلاؤ

 

دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے

کھیلو، توڑو، جی بہلاؤ

 

کل اغیار میں بیٹھے تھے تم

ہاں ہاں کوئی بات بناؤ

 

کون ہے ہم سا چاہنے والا

اتنا بھی اب دل نہ دکھاؤ

 

شب بھر کتنی راتیں گزریں

حضرت دل اب ہوش میں آؤ

 

 

 

طالب جوہری

 

گاؤں کے اک چھوٹے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا

لیکن اس کی یاد کا پودا برسوں تک شاداب رہا

 

اپنی ساری گم شدہ بھیڑیں جمع تو کیں چرواہے نے

ان بھیڑوں کے پیچھے پیچھے پورے دن بے تاب رہا

 

فصل خزاں کی شاخ سے لپٹا بیلے کا اک تنہا پھول

کچھ کلیوں کی یاد سمیٹے راتوں کو بے خواب رہا

 

بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں

اس سے بچھڑ کر دور چلے تو کوسوں تک سیلاب رہا

 

جسم نے اپنی عمر گزاری سندھ کے ریگستانوں میں

دل کم بخت بڑا ضدی تھا، آخر تک پنجاب رہا

 

 

 

 

احمد مشتاق

 

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں

 

خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں

گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں

 

یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں

یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں

 

یہ پانی خاموشی سے بہ رہا ہے

اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

 

جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں

انھیں پھر اپنے سینے سے لگائیں

 

چلو ایسا مکاں آباد کر لیں

جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں

 

منیر نیازی

 

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں

 

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو

بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

 

 

فیض احمد فیض

 

حسن مرہون جوشِ بادۂ ناز

عشق منت کشِ فسونِ نیاز

 

دل کا ہر تار لرزشِ پیہم

جاں کا ہر رشتہ وقفِ سوز و گداز

 

سوزشِ دردِ دل کسے معلوم!

کون جانے کسی کے عشق کا راز

 

میری خاموشیوں میں لرزاں ہے

میرے نالوں کی گم شدہ آواز

 

تو ہے اور اک تغافلِ پیہم

میں ہوں اور انتظار بے انداز

 

خوفِ ناکامیِ امید ہے فیض

ورنہ دل توڑ دے طلسمِ حجاز

 

میر تقی میر

 

مہر کی تجھ سے توقع تھی، ستم گر نکلا

موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

 

داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب

کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا

 

جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا

جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مرکر نکلا

 

دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ

جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

 

اشک تر، قطرۂ خوں، لخت جگر، پارۂ دل

ایک سے ایک عدو آنکھ سے بہتر نکلا

 

ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ

پر   ترا   نامہ تو اک   شوق   کا   دفتر نکلا

 

اجمل نیازی

 

اک شخص جزیرہ رازوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

اک گھر ہے تنہا یادوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

 

اک موسم ہرے پرندوں کا وہ سرد ہوا کا رزق ہوا

اک گلشن خالی پیڑوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

 

اک آنکھ ہے دریا آنکھوں کا ہر منظر اس میں ڈوب گیا

اک چہرہ صحرا چہروں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

 

اک خواب خزانہ نیندوں کا وہ ہم سب نے برباد کیا

اک نیند خرابہ خوابوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

 

اک لمحہ لاکھ زمانوں کا وہ مسکن ہے ویرانوں کا

اک عہد بکھرتے لمحوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

 

اک رستہ اس کے شہروں کا ہم اس کی دھول میں دھول ہوئے

اک شہر اس کی امیدوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

 

سلیم احمد

 

جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے

ہم سے وہ یار طرح دار نہ سمجھا جائے

 

اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے

تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے

 

اب جو ٹھہری ہے ملاقات تو اس شرط کے ساتھ

شوق کو در خورِ اظہار نہ سمجھا جائے

 

عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے

حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے

 

دل کے لینے سے سلیم اس کو نہیں ہے انکار

لیکن اس طرح کہ اقرار نہ   سمجھا جائے

 

 

غلام ہمدانی مصحفی

 

خواب تھا یا خیال تھا، کیا تھا

ہجر تھا یا وصال تھا، کیا تھا

 

میرے پہلو میں رات جا کرتا

ماہ تھا یا ہلال تھا، کیا تھا

 

چمکی بجلی سی پر نہ سمجھے ہم

حسن تھا یا جمال تھا، کیا تھا

 

 

جس کو ہم روز ہجر سمجھے تھے

ماہ تھا یا وہ سال تھا، کیا تھا

 

مصحفیؔ! شب جو چپ تو بیٹھا تھا

کیا   تجھے   کچھ   ملال   تھا،   کیا   تھا

 

 

شکیب جلالی

 

کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

 

ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے

کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی

 

درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ

کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی

 

چھُڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند

کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی

 

مکاں اور نہیں ہے، بدل گیا ہے مکیں

افق وہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی

 

فیصل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

 

عزیز حامد مدنی

 

ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کاسوں دور رہا

اس غم سے ہم اور بھی ہارے وہ بھی تو مجبور رہا

 

کال تھا اشکوں کا آنکھوں میں لیکن تیری یاد نہ پوچھ

کیا کیا موتی میں بھی فراہم کرنے پر مجبور رہا

 

وہ اور اتنا پریشاں خاطر ربط غیر کی بات نہیں

لیکن اس کے چپ رہنے سے دل کو وہم ضرور رہا

 

وقت کی بات ہے یاد آ جانا لیکن اس کی بات نہ پوچھ

یوں تو لاکھوں باتیں نکلیں تیرا ہی مذکور رہا

 

صبح سے چلتے چلتے آخر شام ہوئی اے آوارۂ دل

اب میں کس منزل میں پہنچا اب گھر کتنی دور رہا

 

 

 

مومن خاں مومن

 

صبر وحشت اثر نہ ہو جائے

کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے

 

اشک پیغام ہے عنان دل کش

نامہ بر راہ بر نہ ہو جائے

 

دیکھو مت دیکھو کہ یہ آئینہ

غش تمھیں دیکھ کر نہ ہو جائے

 

میرے تغیر رنگ کو مت دیکھ

تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے

 

مومنؔ ایماں قبول دل سے مجھے

وہ بت آزردہ گر نہ ہو جائے

 

 

 

 

قائم چاند پوری

 

شب جو دل بیقرار تھا کیا تھا

کسی کا انتظار تھا کیا تھا

 

چشم در پر تھی صبح تک شاید

کچھ کسی سے قرار تھا کیا تھا

 

مدتِ عمر جس کا نام ہے آہ

برق تھی یا شرار تھا کیا تھا

 

دیکھ مجھ کو جو بزم سے تو اٹھا

کچھ تمھیں مجھ سے عار تھا کیا تھا

 

رات قائمؔ تو اس مزاج پہ واں

سخت بے اختیار تھا کیا تھا

 

 

 

محسن بھوپالی

 

یوں ہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے

بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے

 

جو آنے والے ہیں موسم انھیں شمار میں رکھ

جو دن گزر گئے ان کو گنا نہیں کرتے

 

نہ دیکھا جان کے اس نے کوئی سبب ہو گا

اسی خیال سے ہم دل برا نہیں کرتے

 

وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فراق کہیں

خوشی کے لمحوں کو یوں بے مزا نہیں کرتے

 

 

منافقت پہ جنھیں اختیار حاصل ہے

وہ عرض کرتے ہیں تجھ سے گلہ نہیں کرتے

 

ہمارے قتل پہ محسنؔ یہ پیش و پس کیسی

ہم ایسے لوگ طلب خوں بہا نہیں کرتے

 

اسلم فرخی

 

زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا

وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا

 

خود اسے بھی نہیں معلوم ہے منزل اپنی

جانے والے سے نہ پوچھو وہ کدھر جائے گا

 

آج اندھیرا ہے تو کل کوئی چراغِ امید

مطلعِ وقت یہ سورج سا نکھر جائے گا

 

اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر دار و رسن

دل وہ دیوانہ کہ جائے گا مگر جائے گا

 

کوئی منزل نہیں باقی ہے مسافر کے لیے

اب کہیں اور نہیں جائے گا گھر جائے گا

 

ایک دن ایسا بھی قسمت سے ملے جب اسلمؔ

رقص کرتا ہوا محبوب نگر جائے گا

 

خواجہ حیدر علی آتش

 

تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا

ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا

 

رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا

گل و لالہ کو شرمایا تو ہوتا

 

چلے گا کبک کیا رفتار تیری

یہ اندازِ قدم پایا تو ہوتا

 

کہے جاتے وہ سنتے یا نہ سنتے

زباں تک حال دل آیا تو ہوتا

 

سمجھتا یا نہ اے آتشؔ سمجھتا

دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا

 

 

 

تہذیب حافی

 

یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے

میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے

 

میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا

مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے

 

بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا

تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے

 

بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا

بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے

 

میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر

یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے

 

 

 

پروین شاکر

 

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا اس پر ترا جمال بھی

سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو تھا ایسے دیکھتا

ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی

اس کو نہ پاسکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا

اب جو پلٹ کے دیکھئے، بات تھی کچھ محال بھی

مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر

ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں مرے لیے بھی ڈھال تھیں

اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی

شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا

موج ہوائے کوئے یار، کچھ تو مرا خیال بھی

 

محسن نقوی

 

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں

کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں

کیوں ترے درد کو دیں تہمتِ ویرانی ٔ دل

زلزلوں میں تو بھرے شہر بھی اُجڑ جاتے ہیں

موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے

ایسی رُت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

اب کوئی کیا میرے قدموں کے نشاں ڈھونڈھے گا

تیز آندھی میں تو خیمے بھی اُکھڑ جاتے ہیں

شغلِ اربابِ ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ

پتھروں میں کبھی آئینے بھی جڑ جاتے ہیں

شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی

کچھ دیے تُند ہواؤں میں بھی لڑ جاتے ہیں

وہ بھی کیا لوگ ہیں محسنؔ جو وفا کی خاطر!

خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں

 

 

محمد اقبال

 

زمانہ دیکھے گا جب مرے دِل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا

جو موجِ دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری

گُہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا

کوئی دل ایسا نظر نہ آیا، نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنّا

الٰہی تیرا جہان کیا ہے، نگارخانہ ہے آرزو کا

کھُلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسمِ ہوس سراپا

جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی، غبار تھا کوئے آرزو کا

اگر کوئی شے نہیں ہے پنہا، تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں

نگہ کو نظارے کی تمنّا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا

تمام مضموں مرے پُرانے، کلام میرا خطا سراپا

ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جو کا

جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں، تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے

مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا

 

 

 

قمر جلالوی

 

ختم، شب قصہ مختصر نہ ہوئی

شمع گل ہو گئی، سحر نہ ہوئی

 

روئی شبنم، جلا جو گھر میرا

پھول کی کم، مگر ہنسی نہ ہوئی

 

حشر میں بھی وہ کیا ملیں گے ہمیں

جب ملاقات عمر بھر نہ ہوئی

 

آئینہ دیکھ کے، یہ کیجئیے شُکر!

آپ کو، آپ کی نظر نہ ہوئی

 

سب تھے محفل میں اُن کے محوِ جمال

ایک کو، ایک کی خبر نہ ہوئی

 

سینکڑوں رات کے کیے وعدے

اُن کی رات آج تک قمرؔ نہ ہوئی

 

عزیز نبیل

 

معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا

دور گہرے پانیوں میں راستہ روشن ہوا

جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اُسے

اُس مکمّل روشنی سے جو ملا روشن ہوا

ایک وحشت دائرہ در دائرہ پھرتی رہی

ایک صحرا سلسلہ در سلسلہ روشن ہوا

مستقل اک بے یقینی، اک مسلسل انتظار

پھر اچانک ایک چہرہ جا بجا روشن ہوا

آج پھر جلنے لگے بیتے ہوئے کچھ خاص پل

آج پھر اک یاد کا آتش کدہ روشن ہوا

جانے کس عالم میں لکھّی یہ غزل تم نے نبیلؔ

خامشی بجھنے لگی، شہرِ صدا روشن ہوا

 

 

جمال احسانی

 

کبھی بھلا کے، کبھی اس کو یاد کر کے مجھے

جمالؔ قرض چکانے ہیں عمر بھر کے مجھے

 

ابھی تو منزل جاناں سے کوسوں دور ہوں میں

ابھی تو راستے ہیں یاد اپنے گھر کے مجھے

 

جو لکھتا پھرتا ہے دیوار و در پہ نام مرا

بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کر کے مجھے

 

محبتوں کی بلندی پہ ہے یقیں، تو کوئی

گلے لگائے مرے سطح پر اُتر کے مجھے

 

چراغ بن کے جلا جس کے واسطے اک عمر

چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

منڈیروں پر دیے سے جل اٹھے ہیں

اندھیروں میں، چلو ہم ڈوبتے ہیں

 

برابر ہے گھٹا برسے نہ برسے

کہ صحرا کی طرح ترسے ہوئے ہیں

 

بہت مشکل ہے کچھ کہنا یقیں سے

چمکتے ہیں کہ تارے کانپتے ہیں

 

جسے پتھر سمجھتا ہے زمانہ

ترے سودائیوں کو آئنے ہیں

 

مناسب ہے کہانی ختم کیجیے

اگرچہ قافیے ہی قافیے ہیں

 

ہمیں اسلمؔ نہ کچھ بھی راس آیا

ہمیشہ ٹھنڈے پانی سے جلے ہیں

 

 

سعود عثمانی

 

حوصلہ چھوڑ گئی راہ گزر آخرکار

رہ گیا ساتھ مسافر کے سفر آخرکار

کوہِ اسود نے بہت راستے روکے لیکن

شرق سے پھوٹ پڑا چشمہ ٔ زر آخرکار

اُس کے پتوں پہ لکیریں تھیں ہتھیلی جیسی

مدتوں سبز رہا پیڑ، مگر، آخرکار

تھم کے رہ جائے گی اک روز لہو کی گردش

ختم ہو جائے گا اندر بھی سفر آخرکار

جس نے اک عمر سے آواز جھلس رکھی تھی

آنکھ تک آ گیا وہ شعلۂ تر آخرکار

تم نہیں جانتے اس رنج کو ہم جانتے ہیں

راکھ کر جائے گا تم کو یہ شرر آخرکار

ٹوٹ جاتا ہے کسی شخص کے مانند سعودؔ

قیدِ تنہائی میں رہتا ہوا گھر آخرکار

 

 

نواب مصطفی خان شیفتہ

 

جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا

ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا

 

پروانہ بنا میرے جلانے کو وفادار

محفل میں کوئی شمع بدل جائے تو اچھا

 

کس چین سے نظارہ ہر دم ہو میسر

دل کوچۂ دشمن میں بہل جائے تو اچھا

 

تم غیر کے قابو سے نکل آؤ تو بہتر

حسرت یہ مرے دل کی نکل جائے تو اچھا

 

سوداز وہ کہتے ہیں، ہوا شیفتہؔ افسوس

تھا دوست ہمارا بھی، سنبھل جائے تو اچھا

 

 

 

انور شعور

 

ایسے دیکھا کہ دیکھا ہی نہ ہو

جیسے اُس کی مجھے پروا ہی نہ ہو

یہ سمجھتا ہے ہر آنے والا

میں نہ آؤں تو تماشا ہی نہ ہو

بعض گھر شہر میں ایسے دیکھے

جیسے اُن میں کوئی رہتا ہی نہ ہو

مجھ سے کترا کے بھلا کیوں جاتا

شاید اُس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو

رات ہر چاپ پہ آتا تھا خیال

اُٹھ کے دیکھوں، کوئی آیا ہی نہ ہو

کیسے چھوڑوں در و دیوار اپنے

کیا خبر لوٹ کے آنا ہی نہ ہو

یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے شعورؔ

کیا کہوں، جب کوئی سنتا ہی نہ ہو

 

سمپورن سنگھ گلزار

 

ایک نظم

 

کیسے چُپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں

جسم کی ٹھنڈی سی

تاریک سیہ قبر کے اندر

نہ کسی سانس کی آواز، نہ سسکی کوئی

نہ کوئی آہ، نہ جنبش، نہ ہی آہٹ کوئی

ایسے چُپ چاپ ہی مر جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں

اُن کو دفنا نے کی زحمت بھی اُٹھانا نہیں پڑتی!

 

 

 

 

 

 

نصیر ترابی

 

شبِ فراق بھی چہرہ نما گزرتی ہے

کبھی چراغ بکف بھی ہوا گزرتی ہے

 

نہ آئی ساعتِ جاناں کہ جس کو آنا تھا

اور ایک ساعتِ جاں بارہا گزرتی ہے

 

کھلا یہی کہ شکست آشنا بھی ہے کیا کیا

وہ اک نگہ جو نبرد آزما گزرتی ہے

 

ہم اہل ہجر کو صحرا ہی ایک رستہ تھا

اب اس طرف سے بھی خلق خدا گزرتی ہے

 

کبھی یہ حال کہ مل کر بھی جی نہ بھرتا تھا

اور اب بغیر سلام و دعا، گزرتی ہے

 

رفاقتوں کا یہ موسم بھی دیکھنا تھا نصیرؔ

ہماری عمر ہمی سے جدا گزرتی ہے

 

عرفان صدیقی

 

توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی

اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی

 

ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آ کر

شہر آباد کیا، نہرِ صبا جاری کی

 

ہم بھی کیا شے ہیں طبیعت ملی سیارہ شکار

اور تقدیر ملی آہوئے تاتاری کی

 

اتنا سادہ ہے مرا مایۂ خوبی کہ مجھے

کبھی عادت نہ رہی آئنہ برداری کی

 

مرے گم گشتہ غزالوں کا پتا پوچھتا ہے

فکر رکھتا ہے مسیحا مری بیماری کی

 

اس کے لہجے میں کوئی چیز تو شامل تھی کہ آج

دل پہ اس حرف عنایت نے گراں باری کی

 

 

 

ولی دکنی

 

دل کو لگتی ہے دل ربا کی ادا

جی میں بستی ہے خوش ادا کی ادا

 

حرف بے جا بجا ہے گر بولوں

دشمن ہوش ہے پیا کی ادا

 

نقش دیوار کیوں نہ ہو عاشق

حیرت افزا ہے بے وفا کی ادا

 

گل ہوئے غرق آب شبنم میں

دیکھ اس صاحب حیا کی ادا

 

اشک رنگیں میں غرق ہے نس دن

جن نے دیکھا ہے تجھ حِنا کی ادا

 

 

 

اختر شیرانی

 

سوز پھر چھیڑتا ہے روح کا ساز

ذرہ ذرہ ہے اک نوائے گداز

 

دل نے کھائے بہت فریب حجاز

اَہ! او فطرت بہانہ طراز!

 

قبر پر آیا ہے وہ پیکر ناز

عمر رفتہ کو دے کوئی آواز

 

زندگی کی حقیقت آہ نہ پوچھ

موت کی وادیوں میں اک آواز!

 

آہ! او عمر رفتہ، تنہا ہوں

موت کی گھائیوں سے دے آواز!

 

آج کہتے ہیں مرگیا اخترؔ

آہ وہ عشق پشہ شعر طراز

 

جگر مراد آبادی

 

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر، کبھی غنچہ و گل و خار پر

میں چمن میں چاہے جہاں رہوں، مرا حق ہے فصل بہار پر

 

جنھیں کہیے عشق کی وسعتیں، جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں

یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر

 

مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے

مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگاہ پر

 

عجب انقلاب زمانہ ہے، مرا مختصر سا فسانہ ہے

یہ ہی اب جو بار ہے دوش پر، یہی سر تھا زانوئے یار پر

 

میں رہین درد سہی، مگر مجھے اور چاہیے کیا جگر

غم یار ہے مرا شیفتہ، میں فریفتہ غم یار پر

 

 

 

فاطمہ حسن

 

 

ایک نظم

 

اتنی وحشت کہ محبت بھی سکوں دے نہ سکے

اتنی شدت کہ چٹختی ہو ہر اک رگ جیسے

وہ تلاطم ہے کہ آنکھوں سے امڈ آئے لہو

دل یہ لگتا ہے کہ جیسے کسی گرداب میں ہے

کیا کروں روؤں ہنسوں رقص کروں یا ماتم

 

 

 

 

 

ظفر اقبال

 

خوب ہے سلسلہ جرم و سزا، رہنے دے

اور کچھ دیر یہی حشر بپا رہنے دے

 

جادہ ٔ زخم نہ کر، تازہ ہوا آتی ہے

یہ دریچہ ہی کوئی روز کھلا رہنے دے

 

دل تو جو مانگتا ہے بس میں نہیں تیرے بھی

آنکھ جو چاہتی ہے جلوہ نما رہنے دے

 

مجھ سے ملنا ہے تو دل کھول کے ملنا ہو گا

یا ملاقات کی زحمت نہ اٹھا، رہنے دے

 

اسی ویرانے میں ہے گنج گراں مایہ ترا

دل کو پہچان، اسے یوں نہ گنوا، رہنے دے

 

کون سر بستہ اشاروں کو سمجھتا ہے ظفرؔ

قصہ درد کو پابند صدا رہنے دے

 

محمد رفیع سودا

 

وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

آیا تھا کیوں عدم سے کیا کر چلا جہاں میں

یہ مرگ و زیست تجھ بن آپس میں ہنستیاں ہیں

کیوں کر نہ ہو مسخر شیشہ سا دل ہمارا

اُس شخص کی نگاہیں پتھر میں دھنستیاں ہیں

لیتے ہیں چھین کر دل عاشق کا پل میں دیکھو

خوباں کی عاشقوں پر کیا پیش دستیاں ہیں

اس واسطے کہ ہیں یہ وحشی نکل نہ جاویں

آنکھوں کو میری مژگاں دونوں سے کستیاں ہیں

جب میں کہا یہ اس سے سودا سے اپنے مل کے

اس سال تو ہے ساقی اور مے پرستیاں ہیں

اُس نے کہا یہ مجھ سے، اب چھوڑ دُخت رز کو

پیری میں اے دوا نے یہ کون مستیاں ہیں

 

احمد ندیم قاسمی

 

ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے

وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی

میرے لب پر جو گلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں

صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر دور کو اس نے ابدیّت دے دی

یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب

زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا

تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

صرف اک حسرتِ اظہار کے پرتو ہیں ندیمؔ

میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے

 

تاجدار عادل

 

ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا

بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا

میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ

ستارہ میرا، سمندر نشان اس کا تھا

میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا

فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا

سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا

جنھیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا

پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی

مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا

ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں

کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا

 

 

 

ڈاکٹر شان الحق حقی

 

ہر چند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہیے

ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصور میں وہ راحت ہے کہ برسوں

بیٹھے یونہی اس وادی گل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسم میں وہ جادو ہے کہ پہروں

ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی

آنکھوں کی طرح دیدہ مے نوش میں رہیے

ہمت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر

کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے

جا کر کسی مینار خاموش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے

یا حلق یارانِ وفا کوش میں رہیے

 

اصغر گونڈوی

 

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے

قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

ہے عشق کہ محشر میں، یوں مست و خراماں ہے

دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے

ہے عشق کی شورش سے، رعنائی و زیبائی

جو خون اچھلتا ہے، وہ رنگِ گلستاں ہے

پھر گرمِ نوازش ہے، ضو مہرِ درخشاں کی

پھر قطر ۂ شبنم میں، ہنگامہ طوفاں ہے

اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں

جس نے تجھے دیکھا ہے، وہ دیدہ حیراں ہے

سو بار ترا دامن، ہاتھوں میں مرے آیا

جب آنکھ کھلی دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے

اصغرؔ سے ملے لیکن، اصغرؔ کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں، کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

 

حفیظ ہوشیار پوری

 

آج انھیں کچھ اِس طرح جی کھول کر دیکھا کئے

ایک ہی لمحے میں، جیسے عمر بھر دیکھا کئے

 

دل اگر بیتاب ہے، دل کا مقدر ہے یہی

جس قدر تھی ہم کو توفیقِ نظر دیکھا کئے

 

خود فروشانہ ادا تھی میری صورت دیکھنا

اپنے ہی جلوے، بہ اندازِ دگر دیکھا کئے

 

ناشناسِ غم فقط دادِ ہُنر دیتے رہے

ہم متاعِ غم کو کو رُسوائے ہُنر دیکھا کئے

 

دیکھنے کا اب یہ عالم ہے، کوئی ہو یا نہ ہو

ہم جدھر دیکھا کئے، پہروں اُدھر دیکھا کئے

 

حُسن کو دیکھا ہے ہم نے، حُسن کی خاطر حفیظؔ

ورنہ سب اپنا ہی معیارِ نظر دیکھا کئے

 

عدیم ہاشمی

 

تعلق توڑتا ہوں تو مکمل توڑ دیتا ہوں

میں جس کو چھوڑ دیتا ہوں، مکمل چھوڑ دیتا ہوں

 

محبت ہو کہ نفرت ہو، بھرا رہتا ہوں شدّت سے

جدھر سے آئے یہ دریا ادھر کو موڑ دیتا ہوں

 

یقیں رکھتا نہیں ہوں میں کسی کچے تعلق پر

جو دھاگہ ٹوٹنے والا ہو، اس کو توڑ دیتا ہوں

 

میرے دیکھے ہوئے سپنے، کہیں لہریں نہ لے جائیں

گھروندے ریت کے تعمیر کر کے پھوڑ دیتا ہوں

 

 

 

 

عبید اللہ علیم

 

گزرو نہ اس طرح، کہ تماشا نہیں ہوں میں

سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں

 

اک طبع رنگ رنگ تھی، سو نذرِ گل ہوئی

اب یہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں

 

تم نے بھی میرے ساتھ اُٹھائے ہیں دکھ بہت

خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں

 

پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے ناشناس دھوپ

سایوں کے درمیان ہوں میں، سایہ نہیں ہوں میں

 

جو کچھ بھی ہوں، میں اپنی ہی صورت میں ہوں علیمؔ

غالبؔ نہیں ہوں، میرؔ و یگانہ نہیں ہوں میں

 

 

جاوید اختر

 

جسم دمکتا، زلف گھنیری، رنگیں لب، آنکھیں جادو

سنگِ مرمر، اودا بادل، سرخ شفق، حیراں آہو

 

بھکشودانی، پیاسا پانی، دریا ساگر، جل گاگر

گلشن خوشبو، کوئل کوکو، مستی دارو، میں اور تُو

 

با نبی ناگن، چھایا آنگن، گھنگر و چھن چھن، آشا من

آنکھیں کاجل، پربت بادل، وہ زلفیں اور یہ بازو

 

راتیں مہکی، سانسیں دہکی، نظریں بہکی، رُت لہکی

پریم کھلونا، سپن سلونا، پھول بچھونا، وہ پہلو

 

تم سے دوری، یہ مجبوری، زخمِ کاری، بیداری

تنہا راتیں، سپنے کاتیں، خود سے باتیں میری خُو

 

 

پروین شاکر

 

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا

کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں

بدن کو ناؤ، لہو کو چناب کر دے گا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا، اور لاجواب کر دے گا

اَنا پرست ہے اِتنا کہ بات سے پہلے

وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

سکوتِ شہرِ سخن میں وہ پھول سا لہجہ

سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم

سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی

تمھاری یاد کے نامِ اِنتساب کر دے گا

 

خالد احمد

 

ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں

لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

 

حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر

بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں

 

ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے

وا کر سکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں

 

نوحے فصیلِ ضبط سے اونچے نہ ہوسکے

کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو نہ میں

 

جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی

برگشتہ آسمان سے گویا نہ تو نہ میں

 

 

 

ادا جعفری

 

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں

دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں

 

جلنا تو چراغوں کا مقدر ہے ازل سے

یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں

 

تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے

ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں

 

جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور

تاروں کی خنک چھاؤں میں وہ لوگ جلے ہیں

 

اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں

ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں

 

 

 

اختر ہوشیار پوری

 

عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا

خود اپنی جاں کا یہاں احتساب کس نے کیا

زمانہ مجھ سے شناسا نہ میں زمانے سے

میں سوچتا ہوں مرا انتخاب کس نے کیا

جو میں نہیں ہوں تو میرے بدن میں لرزہ کیا

جو وہ نہیں تھا تو مجھ سے خطاب کس نے کیا

میں اس طرح سے کہاں نادم اپنے آپ سے تھا

حضورِ ذات مجھے آب آب کس نے کیا

بہار آتی تو پت جھڑ بھی دیکھ لیتا میں

ابھی سے خواب کو تعبیرِ خواب کس نے کیا

دیئے جلا کے مجھے راستے میں چھوڑ گیا

وہ کون شخص تھا، مجھ کو خراب کس نے کیا

وہ ایک لفظ جو سنّاٹا بن کے گونجا تھا

اس ایک لفظ کو اخترؔ کتاب کس نے کیا

 

فیصل عجمی

 

یہ بھی نہیں کہ دستِ دعا تک نہیں گیا

میرا سوال خلقِ خدا تک نہیں گیا

 

پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا

خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا

 

مصلوب ہو رہا تھا مگر ہنس رہا تھا میں

آنکھوں میں اشک لے کے خدا تک نہیں گیا

 

جر برف گر رہی تھی مرے سر کے آس پاس

کیا لکھ رہی تھی، مجھ سے پڑھا تک نہیں گیا

 

فیصلؔ مکالمہ تھا ہواؤں کا پھول سے

وہ شور تھا کہ مجھ سے سنا تک نہیں گیا

 

 

شمیم نعمانی

 

انداز بیاں لاکھوں ہیں، افسانہ وہی ہے

ذرے ہیں وہی، جلوہ جانانہ وہی ہے

 

ہر بار بدل دیتا ہوں دامان تمنا

لیکن مرا انداز گدایانہ وہی ہے

 

نیت کے تقاضے مجھے جینے نہیں دیتے

پیمانہ وہی، گردش پیمانہ وہی ہے

 

ہر شمع نئے بھیس میں آتی ہے تو آئے

انداز جنوں کا وہی، پروانہ وہی ہے

 

 

 

 

 

امام بخش ناسخ

 

بامِ جاناں پر رسائی آج ہے

وصل کی شب بھی شبِ معراج ہے

 

ہے نگاہِ یار میرے داغ پر

یہ چراغ اب تیر کا آماج ہے

 

زرد ہے کیا تیرے آگے یاسمن

تھا جو ہیرا ان دنوں پکھراج ہے

 

کم نہ اے شیریں سمجھ پرویز سے

کوہکن کے سر کو تیشہ تاج ہے

 

کوئی دیوانہ بھی بے حاجت نہیں

دانہ زنجیر کا محتاج ہے

 

چل دلا اب یار پر قربان ہوں

کہتے ہیں سب عیدِ قرباں آج ہے

 

 

مظفر وارثی

 

شریکِ گل رہا آوارۂ صبا بھی رہا

اور اپنی ذات کے صحرا میں لا پتا بھی رہا

 

کیا طویل سفر میں نے راستوں کے بغیر

مگر غبار سے سارا بدن اٹا بھی رہا

 

ملے ہر ایک سے طعنے سلامتی کے مجھے

کسے خبر کہ میں اندر سے ٹوٹتا بھی رہا

 

سماعتوں کی ہے مقروض میری گویائی

سخن بلب بھی رہا تشنۂ صدا بھی رہا

 

کٹی ہے عمر مظفر عجب دوراہے پر

میں اپنے آپ سے خوش بھی رہا خفا بھی رہا

 

 

 

جمال احسانی

 

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی

 

آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے

ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی

 

اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا

پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی

 

ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب

آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے آدھی دولت چھاؤں کی

 

اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمالؔ

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

 

 

 

میراجی

 

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں

لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں

 

عمر ہے فانی، عمر ہے باقی، اس کی کچھ پروا نہیں

تو یہ کہہ دے، وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں

 

تجھ سے دوری، دوری کب تھی، پاس اور دور تو دھوکا ہیں

فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

 

دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، بھر پایا

عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں

 

پہلے تیرا دیوانہ تھا اب ہے اپنا دیوانہ

پاگل پن ہے ویسا ہی کچھ فرق نہیں دیوانے میں

 

خوشیاں آئیں؟ اچھا، آئیں مجھ کو کیا، احسان نہیں

سدھ بدھ ساری بھول گیا ہوں دکھ کے گیت سنانے میں

 

اعتبار ساجد

 

میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا

فیصلہ کن موڑ آ پہنچا ہے تم بھی سوچنا

 

سوچنا ممکن ہے کیسے اس جدائی کا علاج؟

حال ہم دونوں کا اِک جیسا ہے تم بھی سوچنا

 

پل تعلق کا شکستہ کیوں ہوا؟ سوچوں گا میں

دور نیچے ہجر کا دریا ہے تم بھی سوچنا

 

کس قدر برہم ہیں لہریں سوچ کر آتا ہے خوف

اور پانی کس قدر گہرا ہے تم بھی سوچنا

 

اپنے روز و شب گزر سکتے ہیں تنہا کس طرح

تجربہ میرا بھی یہ پہلا ہے تم بھی سوچنا

 

ہاں نہیں کے درمیانی راستے پر بیٹھ کر

کس کے حق میں کیا نہیں اچھا ہے تم بھی سوچنا

 

مجید امجد

 

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا!

میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا!

 

یہ تیرگی مسلسل میں ایک وقفہ نور

یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا!

 

جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق

الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا!

 

ہجوم رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی

بہار، نوحہ صد عندلیب، کیا کہنا!

 

ہزار قافلہ زندگی کی تیرہ شبی

یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا!

 

لرز گئی تری لو میرے ڈگمگانے سے

چراغِ گوشہ کوئے حبیب، کیا کہنا!

 

صوفی غلام مصطفی تبسم

 

ہزار گردشِ شام و سحر سے گزرے ہیں

وہ قافلے جو تری رہ گزر سے گزرے ہیں

 

ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز

ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں

 

ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقش پا کا گماں

قدم قدم پہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں

 

نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے رک جاؤں

نظر کے قافلے دیوار و در سے گزرے ہیں

 

کچھ اور پھیل گئیں درد کی کٹھن راہیں

غمِ فراق کے مارے جدھر سے گزرے ہیں

 

جہاں سرور میسر تھا جام و مئے کے بغیر

وہ مے کدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں

 

ن م راشد

 

زہرِ غم کی نگہِ دوست بھی تریاق نہیں

جا ترے درد کا درماں دلِ صد چاک نہیں

 

اف قیامت ہے انھیں بھی ہوسِ راہ گزار

جن کا اپنا کوئی ثانی تہِ افلاک نہیں

 

بحرِ صہبا کے شناور تو بہت ملتے ہیں

اشکِ خوں کا مگر اے دل کوئی پیر اک نہیں

 

آفتاب آج ہو اِک رند کے داماں سے طلوع

جب ستارہ کوئی موجود سرِ تاک نہیں

 

مجھ کو بخشا گیا وہ شعلہ ازل میں راشد

باد و بارانِ حوادث سے جو نمناک نہیں

 

 

 

نوشی گیلانی

 

اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمھارے بعد ہوا

اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا

 

یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی

وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا

 

اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے

اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا

 

وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا

اب اس سے فرق نہیں پڑتا نا شاد ہوا یا شاد ہوا

 

بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں

ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل کتنا بے داد ہوا

 

 

مصطفی زیدی

 

نگر نگر میلے کو گئے کون سُنے گا تیری پکار

اے دل، اے دیوانے دل! دیواروں سے سر دے مار

 

روح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی

آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار

 

اُس کے وار پہ شاید آج تجھ کو یاد آئے ہوں وہ دِن

اے نادان خلوص کہ جب وہ غافل تھا ہم ہُشیار

 

پل پل صدیاں بیت گئیں جانے کس دن بدلے گی

ایک تری آہستہ روی، ایک زمانے کی رفتار

 

پچھلی فصل میں جتنے بھی اہلِ جنوں تھے کام آئے

کون سجائے گا تیری مشق کا ساماں اب کی بار؟

 

صبح کے نکلے دیوانے اب کیا لَوٹ کے آئیں گے

ڈوب چلا ہے شہر میں دن، پھیل چلا ہے سایۂ دار

 

سعود عثمانی

 

عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارا کیا

کہ دل کو برف کیا ذہن کو شرارا کیا

 

مزاج درد کو سب لفظ بھی قبول نہ تھے

کسی کسی کو ترے غم کا استعارہ کیا

 

پھر اس کے اشک بھی اس کو ادا نہ کر پائے

وہ دکھ جو اس کے تبسم نے آشکارا کیا

 

کہ جیسے آنکھ کے لگتے ہی کھل گئیں آنکھیں

نگاہ جاں نے بہت دور تک نظارہ کیا

 

ہمیں بھی دیکھ کہ تجسیم نو سے گزرے ہیں

بدن کو شیشہ کیا، دل کو سنگ پارہ کیا

 

عجیب مزاج تھا تنہائی آشنا کہ سعودؔ

خود اپنا ساتھ بھی مشکل سے ہی گوارا کیا

 

اسلم کولسری

 

دیارِ ہجر میں خود کو تو اکثر بھول جاتا ہوں

تجھے بھی میں تیری یادوں میں کھو کر بھول جاتا ہوں

 

عجب دن تھے کہ برسوں ضربِ خوشبو یاد رہتی تھی

عجب دن ہیں کہ فوراً زخمِ خنجر بھول جاتا ہوں

 

گزر جاتا ہوں گھر کے سامنے سے بے خیالی میں

کبھی دفتر کے دروازے پہ دفتر بھول جاتا ہوں

 

اسی باعث بڑی چاہت سے ملتا ہوں کہ میں اکثر

جدا ہوتے ہی چہرہ، نام، پیکر بھول جاتا ہوں

 

مجھے پتھر کی صورت ہی سہی، زندہ تو رہنا ہے

سو، میں ہر واقعہ منظر بہ منظر بھول جاتا ہوں

 

وہ سب کچھ یاد رکھتا ہوں بھلانا جس کا بہتر ہو

مگر جو یاد رکھنا ہو سراسر بھول جاتا ہوں

 

 

ابن انشاء

 

سانحہ ہم پہ یہ پہلا ہے مری جاں کوئی؟

ایسے دامن سے ملاتا ہے گریباں کوئی؟

 

ہم نے اپنے کو بہت دیر سنبھالا ہوتا

آ ہی نکلے اگر آنسو سرِ مژگاں کوئی؟

 

ہم کسی سمت بھی نکلے ہوں وہیں جا نکلیں

ہم سے بھولی ہے رہِ کوچہ جاناں کوئی؟

 

اب تری یاد میں روئیں گے نہ حیراں ہوں گے

اُں سے پیماں ہے کوئی، دل سے ہے پیماں کوئی

 

بھیگی شاموں میں کھلے صحن میں تنہا تنہا

بیقرارانہ ہی دیکھا ہے خراماں کوئی

 

دوستو دوستو اس شخص کو جا کر سمجھاؤ

اپنے انشاؔ کے سنبھلنے کا بھی ساماں کوئی

 

ڈاکٹر اسلم انصاری

 

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں

حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی

تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر

اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں

بے نیازی سے سب ہی قریۂ جاں گزرے

دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا

تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

گل بہ ہر رنگ تبسم کا گنہگار رہا

زخم ہستی کا سوا اس کے مداوا ابھی نہیں

کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمیں

اس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں

کس کو نیرنگ ایام کی صورت دکھلائیں

رنگ اڑتا بھی نہیں نقش ٹھہرتا بھی نہیں

 

فراق گورکھپوری

 

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب، مگر پھر بھی

ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی

خوشا اشارہ پیہم، زہے سکوتِ نظر

دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی

جھپک رہی ہے زمان و مکان کی آنکھیں

مگر ہے قافلہ، آمادہ سفر پھر بھی

شبِ فراق سے آگے ہے آج میری نظر

کہ کٹ ہی جائے گی یہ شامِ بے سحر پھر بھی

خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور

یہی کہ تیری نظر ہے تِری نظر پھر بھی

غمِ فراق کے کشتوں کا حشر کیا ہو گا

یہ شامِ ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی

 

سلیم کوثر

 

میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کھُلا

وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کھُلا

وہ میرے ساتھ ہے اور مجھ سے ہمکلام بھی ہے

یہ ایک عمر کی تنہائیوں کے بعد کھُلا

میں کود بھی تیرے اندھیروں پہ منکشف نہ ہوا

ترا وجود بھی پرچھائیوں کے بعد کھُلا

عجب طلسمِ خموشی تھا گھر کا سناٹا

جو بام و دَر کی شناسائیوں کے بعد کھُلا

میں آب و خاک سے مانوس تھا، پر کیا کرتا

درِ قفس مری بینائیوں کے بعد کھُلا

مجھے یہ رنگ بہرحال جیتنی تھی، مگر

نیا محاذ ہی پسپائیوں کے بعد کھُلا

مجھے بھی تنگیِ آفاق کا گِلہ ہے سلیمؔ

یہ بھید مجھ پہ بھی گہرائیوں کے بعد کھُلا

 

خورشید رضوی

 

یہ جو ننگ تھے، یہ جو نام تھے، مجھے کھا گئے

یہ خیالِ پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے

کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی

وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے

میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں

یہ جو لوگ محوِ کلام تھے مجھے کھا گئے

وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی

یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے

وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا

تو وہی جو میرے غلام تھے، مجھے کھا گئے

میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا

پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے مجھے کھا گئے

جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں

یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے

 

خواجہ حیدر علی آتش

 

چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

یقین ہو گیا شبنم کو، آفتاب آیا

 

ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا

سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا

 

اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو

جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا

 

کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی

حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا

 

شبِ فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا

جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا

 

 

 

جوش ملیح آبادی

 

قسم ہے آپ کے ہر روز روٹھ جانے کی

کہ اب ہوس ہے اَجل کو گلے لگانے کی

 

وہاں سے ہے مری ہمت کی ابتدا واللہ

جو انتہا ہے ترے صبر آزمانے کی

 

پھُنکا ہوا ہے مرے آشیاں کا ہر تِنکا

فلک کو خُو ہے تو ہو بجلیاں گرانے کی

 

ہزار بار ہوئی گو مآلِ گل سے دوچار

کلی سے خو نہ گئی پھر بھی مسکرانے کی

 

مرے غرور کے ماتھے پر آ چلی ہے شکن

بدل رہی ہے تو بدلے ہوا زمانے کی

 

چراغِ دیر و حرم کب کے بجھ گئے اے جوش

ہنوز شمع ہے روشن شراب خانے کی

 

محمود شام

 

بس ایک اپنے ہی قدموں کی چاپ سنتا ہوں

میں کون ہوں کہ بھرے شہر میں بھی تنہا ہوں

 

جہاں میں جسم تھا تو نے وہاں تو ساتھ دیا

وہاں بھی آ کہ جہاں میں تمام سایا ہوں

 

وہ ایک موڑ بھی اس رہ پہ آئے گا کہ جہاں

ملا کے ہاتھ تو بولے گا میں تو چلتا ہوں

 

تری جدائی کا غم ہے نہ تیرے ملنے کا

میں اپنی آگ میں دن رات جلتا رہتا ہوں

 

 

مرے بغیر ہے ممکن کہاں تری تکمیل

مجھے پکار کہ میں ہی ترا کنارا ہوں

 

کبھی تو ڈوب سہی شام کے سمندر میں

کہ میں سدا ہی جواہر نکال لایا ہوں

 

عزیز نبیل

 

خامشی ٹوٹے گی، آواز کا پتّھر بھی تو ہو

جس قدر شور ہے اندر، کبھی باہر بھی تو ہو

مسکرانا کسے اچھّا نہیں لگتا یارب

مسکرانے کا کوئی لمحہ میسّر بھی تو ہو

بجھ چکے راستے، سنّاٹا ہوا، رات ڈھلی

لوٹ کر ہم بھی چلے جائیں مگر گھر بھی تو ہو

بزدلوں سے مَیں کوئی معرکہ جیتوں بھی تو کیا

کوئی لشکر مری ہمّت کے برابر بھی تو ہو

رات آئے گی، نئے خواب بھی اتریں گے ، مگر

نیند اور آنکھ کا رشتہ کبھی بہتر بھی تو ہو

چھوڑ کر خواب کا سیّارہ کہاں جاؤں نبیلؔ

کرّہ ء شب پہ کوئی جاگتا منظر بھی تو ہو

 

اسرار الحق مجاز

 

برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ

ہاں میری محبت کا جواب اور زیادہ

 

روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے

ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ

 

آوارہ و مجنوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ

ملنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ

 

اٹھیں گے ابھی اور بھی طوفاں مرے دل سے

دیکھوں گا ابھی عشق کے خواب اور زیادہ

 

 

ہو گی مری باتوں سے انھیں اور بھی حیرت

آئے گا انھیں مجھ سے حجاب اور زیادہ

 

اسے مطرب بیباک کوئی اور بھی نغمہ

اے ساقیِ فیاض شراب اور زیادہ

 

خلیل الرحمن اعظمی

 

بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا

نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا

 

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی

جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا

 

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی

کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا

 

ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر

نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا

 

ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائی

پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا

 

اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر

عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا

 

 

اسلم فرخی

 

یہ حکایت تمام کو پہنچی

زندگی اختتام کو پہنچی

رقص کرتی ہوئی نسیمِ سحر

صبح تیرے سلام کو پہنچی

روشنی ہو رہی ہے کچھ محسوس

کیا شب آخر تمام کو پہنچی

شب کو اکثر کلیدِ مے خانہ

شیخ عالی مقام کو پہنچی

شہر کب سے حصار درد میں ہے

یہ خبر اب عوام کو پہنچی

سب کا انجام ایک جیسا ہے

صبح روشن بھی شام کو پہنچی

موت بالکل قریب ہے شاید

صبح کو پہنچی شام کو پہنچی

 

 

ایوب خاور

 

طلسم اسم محبت ہے در پئے درِ دل

کوئی بتائے اب اس کا کرے تو کیا کرے دل

 

فسون جنبش مژگاں نہ پوچھیے سر راہ

پکارتے ہی رہے ہم ارے ارے ارے دل

 

پھر اس کے بعد ہمیں یہ بھی تو نہیں رہا یاد

نظر گری ہے کہاں کھو گیا کہاں زر دل

 

قدم قدم یہ ترا غم ہے خیمہ زن مری جاں

ہمک بھرے بھی تو آخر بتا کہاں بھرے دل

 

یہ کنج لب یہ خمار وصال اپنی جگہ

مگر جو ہجر مسلسل بپا ہے بر سر دل

 

یہ تو جو مہر پہ لب ہے تو کس لیے خاورؔ

یہ دیکھ کیا ہے تہ دل ہے اور کیا سر دل

 

زہرا نگاہ

 

وہ جو اک شکل مرے چار طرف بکھری تھی

میں نے جب غور سے دیکھا تو مری اپنی تھی

 

پھر اسیروں پہ کسی خواب نے جادو ڈالا

رات کچھ حلقۂ زنجیر میں خاموشی تھی

 

یوں تو آداب محبت میں سبھی جائز تھا

پھر بھی چپ رہنے میں اک شان دلآویزی تھی

 

رات بھر جاگنے والوں نے پس شمع زرد

صبح اک خواب کی صورت کی طرح دیکھی تھی

 

شورش شعر میں خاموش سی کیوں ہے زہراؔ

اچھا خاصا تو کبھی وہ بھی کہا کرتی تھی

 

 

 

محمد رفیع سودا

 

گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں

ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں

نہ دیکھا جو کچھ جام میں جم نے اپنے

سو یک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں

یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری

تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں

غرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب

تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

نوشتے کو میرے مٹاتے ہیں رو رو

ملائک جو لوح و قلم دیکھتے ہیں

مٹا جائے ہے حرف حرف آنسوؤں سے

جو نامہ اسے کر رقم دیکھتے ہیں

مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سوداؔ

اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں

 

اطہر نفیس

 

اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا

کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا

 

ایک سفر ہے وادیِ جاں میں تیرے درد ہجر کے ساتھ

تیرا درد ہجر جو بڑھ کر لذّت کیف وصال ہوا

 

راہ وفا میں جاں دینا ہی پیش روؤں کا شیوہ تھا

ہم نے جب سے جینا سیکھا جینا کار مثال ہوا

 

عشق فسانہ تھا جب تک اپنے بھی بہت افسانے تھے

عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا

 

راہ وفا دشوار بہت تھی تم کیوں میرے ساتھ آئے

پھول سا چہرہ کمہلایا اور رنگ حنا پامال ہوا

 

 

 

جمال احسانی

 

آنگن آنگن شمع خیال یار جلے

رات آئی اور لوگ ستارہ وار جلے

 

اس بستی کی رات بھی کتنی روشن ہے

بجھ جائیں گر دیپ تو پہرے دار جلے

 

دِن بھر گہرا سناٹا رہتا ہے مگر

شب بھر ایک چراغ پس دیوار جلے

 

کشتی سے یہ کس کا عکس اتر آیا

ماہی گیر کے ہاتھوں میں پتوار جلے

 

میں تنہا ہر پیڑ سے مل کر روؤں جمالؔ

چاند اکیلا دریا کے اس پار جلے

 

 

 

 

احمد راہی

 

تم تو کہتے تھے بہار آئی تو لوٹ آؤں گا

لوٹ آؤ مرے پردیسی، بہار آئی ہے

 

تیری یادوں نے مرے خوابوں کو مہکایا ہے

میرا ہر خواب ترا مہکایا ہوا سایا ہے

 

ہر تمنا مری سمٹی ہوئی انگڑائی ہے

لوٹ آؤ مرے پردیسی، بہار آئی ہے

 

کبھی تنہائی میں جب تیرا خیال آتا ہے

آپ ہی آپ یہ دل میرا دھڑک جاتا ہے

 

آپ ہی آپ کبھی آنکھ بھی شرمائی ہے

لوٹ آؤ مرے پردیسی، بہار آئی ہے

 

 

ڈاکٹر اسلم انصاری

 

شکستہ پا ہیں مگر پھر بھی چلتے جاتے ہیں

یہ کون لوگ ہیں، گر کر سنبھلتے جاتے ہیں

 

عجب نہیں کہ نظامِ جہاں بدل جائے

خیال و حرف کے رشتے بدلتے جاتے ہیں

 

کوئی بچا نہیں پاتا ہے اپنی ہستی کو

سبھی اسی کی تمنا میں ڈھلتے جاتے ہیں

 

بہت ہم کم ہیں جنھیں پاسِ حرمتِ گل ہے

وگرنہ لوگ تو اکثر مسلتے جاتے ہیں

 

جو چاہتے ہیں حریمِ بہار تک جانا

غبارِ رنگ کو چہروں پہ ملتے جاتے ہیں

 

نہیں ہے عشق و جنوں کو مبارزت کی طلب

کہ حادثاتِ جہاں خود ہی ٹلتے جاتے ہیں

 

اجمل سراج

 

ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں دم میں دم جیسے

ہمارے ساتھ ہوں دو چار بھی جو ہم جیسے

 

کسے دماغ جنوں کی مزاج پرسی کا

سنے گا کون گزرتی ہے شام غم جیسے

 

بھلا ہوا کہ ترا نقش یا نظر آیا

خرد کو راستہ سمجھے ہوئے تھے ہم جیسے

 

مری مثال تو ایسی ہے جیسے خواب کوئی

مرا وجود سمجھ لیجیے عدم جیسے

 

اب آپ خود ہی بتائیں یہ زندگی کیا ہے

کرم بھی اس نے کیے ہیں مگر ستم جیسے

 

 

 

خواجہ حیدر علی آتش

 

رخ و زلف پر جان کھویا کیا

اندھیرے اجالے میں رویا کیا

 

کہوں کیا ہوئی عمر کیوں کر بسر

میں جاگا کیا بخت سویا کیا

 

رہی سبز بے فکر کشت سخن

نہ جوتا کیا نہ میں بویا کیا

 

برہمن کو باتوں کی حسرت رہی

خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا

 

مرا غم کہ کھانے کا جس کو پڑا

وہ اشکوں سے ہاتھ اپنے دھویا کیا

 

زنخداں سے آتش محبت رہی

کنویں میں مجھے دل ڈبویا گیا

 

عرفان صدیقی

 

سخن میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں

یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں

 

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق میں تاب

سو ہم جواب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں

 

ذرا سی بات ہے دل میں اگر بیاں ہو جائے

تمام مسئلے اظہار حال ہی کے تو ہیں

 

یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں

ختن میں رہ کے بھی چشم غزال ہی کے تو ہیں

 

جسارت سخن شاعراں سے ڈرنا کیا

غریب مشغلۂ قیل و قال ہی کے تو ہیں

 

ہوا کی زد پہ ہمارا سفر ہے کتنی دیر

چراغ ہم کسی شام زوال ہی کے تو ہیں

 

احمد مشتاق

 

کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی

نہ کسی کا دامنِ چاک تھا نہ کسی کی طرفِ کلاہ تھی

 

کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے

نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمھاری زلف سیاہ تھی

 

دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گذر سکے

نہ حضر ہی راحت روح تھا نہ سفر میں رامش راہ تھی

 

مرے چار دانگ تھی جلوہ گر وہی لذت طلب سحر

مگر اک امید شکستہ پر کہ مثال درد سیاہ تھی

 

وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا

اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی

 

 

 

منیر نیازی

 

کچھ باتیں ان کہی رہنے دو

 

کچھ باتیں ان کہی رہنے دو

کچھ باتیں ان سنی رہنے دو

سب باتیں دل کہ کہہ دیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا

سب باتیں اس کی سن لیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا

اک اوجھل بے کلی رہنے دو

اک رنگیں ان بنی دنیا پر

اک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو

 

 

 

 

 

 

آنس معین

 

ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے

تمھاری یادوں کے ساتھ تنہا سفر کیا ہے

 

سنا ہے اس رُت کو دیکھ کر تم بھی رو پڑے تھے

سنا ہے بارش نے سنگ دل پر اثر کیا ہے

 

گھٹن بڑھی ہے تو پھر اسی کو صدائیں دی ہیں

کہ جس ہوا نے ہر اک شجر بے ثمر کیا ہے

 

ہے تیرے اندر بسی ہوئی ایک اور دنیا

مگر کبھی تو نے اتنا لمبا سفر کیا ہے؟

 

بہت سی آنکھوں میں تیرگی گھر بنا چکی ہے

بہت سی آنکھوں نے انتظار سحر کیا ہے

 

 

 

اسلم کولسری

 

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا

وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑ گیا

ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھُلتی

کبھی نہ ساتھ رہا جو، کبھی کا چھوڑ گیا

ہم اپنے کھیت کے ٹیلے رفو بھی کر لیتے

مگر وہ شخص تو دریا کا رخ ہی موڑ گیا

برس پڑے ہری شاخوں کے سبز پتے بھی

غزل میں ڈوبی ہوئی رُت کو یوں جھنجھوڑ گیا

وہ سی گیا، کہ یہ آنکھیں بھی زخم تھیں جیسے

یہ دل بھی جیسے کوئی آبلہ تھا، پھوڑ گیا

الجھ الجھ گئے منظر کہ اپنی پلکوں سے

وہ مہر زاد، شعاعیں سبھی مروڑ گیا

لہو کی لہر صدا کی طرح نکلتی ہے

مرے لبوں پہ عجیب سانحے نچوڑ گیا

 

امجد اسلام امجد

 

پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم

دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم

 

تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا

سورج کی بس ایک کرن سے گھٹ جاتا ہے دَم

 

رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!

شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تتلی کیسے رَم!

 

آنکھوں میں یہ پلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں،

دل کے چاند چراغ کی دیکھو، لَو نہ ہو مدھم

 

ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں

بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم!

 

 

 

حبیب جالب

 

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑا جائیں ہم

 

مدّت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے

آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم

 

شاید بقید زیست یہ ساعت نہ آ سکے

تم داستانِ شوق سنو اور سنائیں ہم

 

بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا

تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم

 

اُس کے بغیر آج بہت جی اُداس ہے

جالبؔ چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہم

 

 

 

شیخ ظہور الدین حاتم

 

جاتے ہوئے ادھر بھی وہ جانا نہ ہو گیا

آئینہ خانہ دل کا پری خانہ ہو گیا

 

لکھتا تھا سوزِ دل کا میں اس شمع رو کے تئیں

کاغذ بھی تاؤ کھا پر پروانہ ہو گیا

 

زنجیر زلف کی ترے حلقوں میں یک بیک

دل سا سیانہ دیکھتے دیوانہ ہو گیا

 

ایسا گرا میں اس کی نظر سے کہ بعدِ مرگ

میرے کبھو مزار تلک آ نہ ہو گیا

 

اس نا قدر شناس کی خدمت میں دوستاں

بدلا مری وفا کا جریمانہ ہو گیا

 

حاتمؔ کا دل تھا شیشہ کی مانند بزم میں

ساقی کے فیضِ دست سے پیمانہ ہو گیا

 

 

انور مسعود

 

بس یونہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں

آئینے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں

 

بیٹھئے، پیڑوں کی اُترن کا الاؤ تاپئے

برگ سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں

 

اپنی اپنی سب کی آنکھیں، اپنی اپنی خواہشیں

کس نظر میں جانے کیا جچتا ہے، کیا جچتا نہیں

 

چین کا دشمن ہوا اک مسئلہ، میری طرف

اس نے کل دیکھنا تھا کیوں اور آج کیوں دیکھا نہیں

 

اب جہاں لے جائے مجھ کو جلتی بجھتی آرزو

میں بھی اس جگنو کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں

 

کیسی کیسی پرسشیں انورؔ الاتی ہیں مجھے

کھیتیوں سے کیا کہوں میں ابر کیوں برسا نہیں

 

جگر مراد آبادی

 

محال تھا کہ میں آزاد دو جہاں ہوتا

بقید جسم نہ ہوتا بقید جاں ہوتا

 

یہ سب ہیں فیض اسی دم قدم کے اے بلبل

خزاں نہ تنکے اڑائی نہ آشیاں ہوتا

 

بھلا ہوا، ک نظر حیرتوں میں ڈوب گئی

کہاں کہاں نہ ترا حسن رائگاں ہوتا

 

صفات عشق کی تکمیل بھی ضروری تھی

جبیں پہ سجدہ بت کا اک نشاں ہوتا

 

 

گداز عشق کی اب شرح مختصر یہ ہے

وہ مہرباں جو نہ ہوتا، تو مہرباں ہوتا

 

تمام اٹھ گئے پردے تو اس سے کیا حاصل

مزا تو جب تھا کہ میں بھی نہ درمیاں ہوتا

 

اسرار ناروی (ابن صفی)

 

قفس کی داستاں ہے اور ہم ہیں

اشاروں کی زباں ہے اور ہم ہیں

 

کبھی دیکھا تھا ایسا بھی چراغاں

نشیمن کا دھواں ہے اور ہم ہیں

 

کرم ہے یہ بھی میر کارواں کا

غیار کارواں ہے اور ہم ہیں

 

شمار زخمہائے دل کہاں تک

حساب دوستاں ہے اور ہم ہیں

 

کہانی ختم ہوتی ہے نہ شب ہی

وہی معجز بیاں ہے اور ہم ہیں

 

 

 

سعود عثمانی

 

تو جا رہا تھا لوٹ کے مہمان کی طرح

بکھرا ہوا تھا دل ترے سامان کی طرح

 

کیسے کھینچے یہ تیر کہ یہ ہے تو میں بھی ہوں

پیوست ہے رگوں میں رگ جان کی طرح

 

اک نام فاصلوں پہ بھی ہے متصل بھی ہے

میری کتاب عمر کے عنوان کی طرح

 

اک چاپ سی تھی رات کہیں جاں کے آس پاس

دل نیم وا رہا درِ امکان کی طرح

 

جیسے تمام جسم میں مٹی سی بھر گئی

دکھ بے اماں تھا گرد کے طوفان کی طرح

 

شکیب جلالی

 

یادیں ہیں اپنے شہر، اہل سفر کے ساتھ

صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ

 

منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے

بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ

 

اک دن ملا تھا بام پہ، سورج کہیں جسے

الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کے ساتھ

 

اک یاد ہے کہ دامن دل چھوڑتی نہیں

اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

 

اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو

اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ

 

میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ

لکھتی ہے آسماں پہ غزل، آب زر کے ساتھ

 

پروین فنا سید

 

ہر سمت سکوت بولتا ہے

یہ کون سے جرم کی سزا ہے

 

ہیں پاؤں لہولہان لیکن

منزل کا پتا تو مل گیا ہے

 

اب لائے ہو مژدۂ بہاراں

جب پھول کا رنگ اڑ چکا ہے

 

زخموں کے دیے کی لو میں رقصاں

ارباب جنوں کا رت جگا ہے

 

اب تیرے سوا کسے پکاروں

تو میرے وجود کی صدا ہے

 

 

 

لیاقت علی عاصم

 

محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی

خوشبو دیے کی شام سے آگے نکل گئی

 

غافل نہ جانیے مجھے مصروف جنگ ہوں

اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی

 

تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں

یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی

 

مرنے کا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو

کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی

 

عاصمؔ وہ کوئی دوست نہیں تھا جو ٹھہرتا

دنیا تھی اپنے کام سے آگے نکل گئی

 

 

 

نصیر ترابی

بزم والو یہ بزم آرائی

تم ہی دیکھو مجھے تو نیند آئی

 

ناگہاں چونک اٹھا ہے سناٹا

دفعتاً بول اٹھی ہے تنہائی

 

بے سبب بھی ترا خیال آیا

بے ضرورت بھی آنکھ بھر آئی

 

میرے ہونے سے ایک رونق تھی

اب کسے پوچھتی ہے تنہائی

 

پھر وہی روز روز جشن کوئی

پھر وہی شا م شام تنہائی

 

کوئی افسون رقص ہے گویا

جسم ہے روح کا تماشائی

 

سنگ کے پیرہن میں رنگ ترنگ

زخم کی تہہ میں مسیحائی

 

ایک پر تو کمال جلوگیاں

ایک چہرہ ہزار رعنائی

 

شام ہوتے ہی یاں سے کوچ کرو

یاں چراغوں تلک ہے سچائی

 

گھر سے نکلو تو رزق ملتا ہے

ایک نعمت ہے آبلہ پائی

 

جانے والوں کا کچھ پتہ نہ چلا

بیچ رستے سے آس لوٹ آئی

 

عزیز نبیل

 

سنو مسافر! سرائے جاں کو تمہاری یادیں جلا چکی ہیں

محبّتوں کی حکایتیں اب یہاں سے ڈیرا اٹھا چکی ہیں

 

وہ شہرِ حیرت کا شاہزادہ گرفتِ ادراک میں نہیں ہے

اس ایک چہرے کی حیرتوں میں ہزار آنکھیں سما چکی ہیں

 

ہم اپنے سرپر گزشتہ دن کی تھکن اٹھائے بھٹک رہے ہیں

دیارِ شب! تیری خواب گاہیں تمام پردے گرا چکی ہیں

 

بدلتے موسم کی سلوٹوں میں دبی ہیں ہجرت کی داستانیں

وہ داستانیں جو سننے والوں کی نیند کب کی اڑا چکی ہیں

 

کہاں سے آئے تھے تیر ہم پر، طنابیں خیموں کی کس نے کاٹیں

گریز کرتی ہوائیں ہم کو تمام باتیں بتا چکی ہیں

 

دھوئیں کے بادل چھٹے تو ہم نے نبیلؔ دیکھا عجیب منظر

خموشیوں کی سلگتی چیخیں فضا کا سینہ جلا چکی ہیں

 

جمال احسانی

 

کچھ بھی تو ہمیں حسبِ تمنا نہ ملا

منزل تو بڑی بات ہے راستہ نہ ملا

 

اب ٹوٹ کے چاہیں تو کسے چاہیں ہم

تو جیسا ملا پھر کوئی ایسا نہ ملا

 

میں سب کو تو دکھ درد سنانے سے رہا

اک شخص ہے سو وہ کبھی تنہا نہ ملا

 

اس شہر پہ کیا ٹوٹ پڑی ہے آفت

اندر سے کوئی شخص بھی زندہ نہ ملا

 

دیوار کے گرنے سے زیادہ ہے یہ رنج

ملبا جو ہٹایا ہے تو سایہ نہ ملا

 

آتا ہے بہت یاد جمالؔ احسانی

تھا خوب بھلا شخص دوبارہ نہ ملا

 

غلام حسین ساجد

 

عشق کی دسترس میں کچھ بھی نہیں

جان من! میرے بس میں کچھ بھی نہیں

 

اک تری یاد کا تسلسل ہے

اور تار نفس میں کچھ بھی نہیں

 

راز دار بہار رفتہ نہ ہو

یوں تو اس خار و خس میں کچھ بھی نہیں

 

عشق پر اختیار ہے کس کا

فائدہ و پیش و پس میں کچھ بھی نہیں

 

کس لیے چل پڑا ہوں میں ساجدؔ

جب صدائے جرس میں کچھ بھی نہیں

 

 

 

اسلم کولسری

 

دل سلگنے لگا دعا بن کر

پھر وہ گزرا، مگر ہوا بن کر

مضمحل تھے مرے خیالوں میں

لفظ مر ہی گئے صدا بن کر

خود فریبی سی خود فریبی ہے

باہر آنا بہت بھلا بن کر

بوجھ صدیوں کا ڈال دیتے ہیں

ایک دو پل کا آسرا بن کر

اب کہاں تک، تمہی کہو، کوئی

ٹوٹ کے بنتا، ٹوٹتا بن کر

پتھروں میں بدل گئیں آنکھیں

کیا ملا دل کو آئینہ بن کر

بن پڑے گر، تو دیکھنا اسلمؔ

خود کبھی اپنا آشنا بن کر

 

 

چراغ حسن حسرت

 

اس طرح کر گیا دل کو مرے ویراں کوئی

نہ تمنا کوئی باقی ہے نہ ارماں کوئی

 

ہر کلی میں ہے ترے حسنِ دل آرا کی نمود

اب کے دامن ہی بچے گا نہ گریباں کوئی

 

مے چکاں لب نظر آوارہ نگاہیں گستاخ

یوں مرے پہلو سے اٹھا ہے غزل خواں کوئی

 

زلف برہم ہے دل آشفتہ صبا آوارہ

خواب ہستی سا نہیں خواب پریشاں کوئی

 

نغمۂ درد سے ہو جاتا ہے عالم معمور

اس طرح چھیڑتا ہے تار رگ جاں کوئی

 

 

 

نجیب احمد

 

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا

پار اترنا تھا مگر تجھ پہ بھروسہ بھی نہ تھا

 

زندگی ہاتھ نہ دے پائی مرے ہاتھوں میں

ساتھ جانا بھی نہ تھا ہاتھ چھڑانا بھی نہ تھا

 

جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں

واپس آیا تو مرا نقشِ کف پا بھی نہ تھا

 

غرق دنیا کے لیے دست دعا کیا اٹھتے

کوئی اس گھر میں دعا مانگنے والا بھی نہ تھا

 

ہر کوئی میرا خریدار نظر آیا مجھے

چاک پر میں نے ابھی خود کو ابھارا بھی نہ تھا

 

پھیلتا جاتا ہے ہر سانس رگ و پے میں نجیبؔ

ایک صحرا جو ابھی راہ میں آیا بھی نہ تھا

 

صبا اکبر آبادی

 

جب وہ پرسانِ حال ہوتا ہے

بات کرنا محال ہوتا ہے

کھو گیا جو ترے خیالوں میں

تجھے اُس کا خیال ہوتا ہے

وہیں اُن کے قدم نہیں پڑتے

دل جہاں پائمال ہوتا ہے

ایک لُطفِ خیال کا لمحہ

حاصلِ ماہ و سال ہوتا ہے

ہجر میں طولِ زندگی توبہ

موت کا جی نڈھال ہوتا ہے

اپنے ہی آشیاں کے تنکوں پر

برق کا احتمال ہوتا ہے

کبھی تم نے صباؔ سے پوچھا بھی

شبِ فرقت جو حال ہوتا ہے

 

احمد فراز

 

اُس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شبِ فراق

اے مرگِ ناگہاں! ترا آنا بہت ہوا

ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا

اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا

اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی

اس سے ذرا سا ربط بڑھانا بہت ہوا

اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہوسکا

مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا

کیا کیا نہ ہم خراب ہوئے ہیں مگر یہ دل

اے یادِ یار! تیرا ٹھکانا بہت ہوا

لو پھر ترے لبوں پہ اسی بے وفا کا ذکر

احمد فرازؔ! تجھ سے کہا ناں، بہت ہوا

 

اختر الایمان

 

نہ زہر خندہ لبوں پر، نہ آنکھ میں آنسو

نہ زخم ہائے دروں کو ہے جستجوئے مآل

نہ تیرگی کا تلاطم، نہ سیل رنگ و نور

نہ خار زار تمنا میں گمرہی کا خیال

نہ آتشِ گل و لالہ کا داغ سینے میں

نہ شورش غم پنہاں نہ آرزوئے وصال

نہ اشتیاق، نہ حیرت، نہ اضطراب، نہ سوگ

سکوت شام میں کھوئی ہوئی کہانی کا

طویل رات کی تنہائیاں نہیں بے رنگ

ابھی ہوا نہیں شاید لہو جوانی کا

حیات و موت کی حد میں ہیں ولولے چپ چاپ

گزر رہے ہیں دبے پاؤں قافلے چپ چاپ

 

 

 

نصیر ترابی

 

محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے

عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے

 

یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی

جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے

 

سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا

ترے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے

 

دمشق عشق میں دیوار و در کی حسرت کیا

مسافروں کو تو رہنا ہی گرد راہ میں ہے

 

تمام راستے جاتے ہیں ایک منزل تک

کہیں گئے بھی تو آنا اسی کی راہ میں ہے

 

وہ شہ سوار مری روشنیِ جاں ہے، نصیرؔ

نہ جو سپاہ سے باہر نہ جو سپاہ میں ہے

 

سعود عثمانی

 

نظام شام و سحر سے مفر بھی ہے کہ نہیں

فصیل درد مسلسل میں در بھی ہے کہ نہیں

 

سواد شام سے نور سحر کی منزل تک

سوائے درد کوئی ہمسفر بھی ہے کہ نہیں

 

تجھے یقیں نہ آئے تو میری آنکھ سے دیکھ

ترے جمال میں حُسن نظر بھی ہے کہ نہیں

 

میں ایک لمحہ کیف وصال مانگ تو لوں!

نہ جانے عمر مری اس قدر بھی ہے کہ نہیں

 

سُلگ رہا ہوں میں جس کے فراق میں کب سے

خبر نہیں ہے کہ اس کو خبر بھی ہے کہ نہیں

 

تری طرح کے کسی شخص کے انتظار میں ہوں

خبر نہیں یہ ترا انتظار ہے کہ نہیں

 

دانیال طریر

 

چیخنا ہے مجھے

 

چیخنا ہے مجھے

اس زمین پر

نہیں

آسماں میں

نہیں

ان وجودوں کی لا میں

خلا میں

مجھے چیخنا ہے

انا کی انا میں

مگر کس سزا میں

کہ جیون بتایا ہے اس کربلا میں

مجھے چیخنا ہے خلا میں

جہاں اپنی چیخیں میں خود ہی سنوں

فیصلہ خود کروں

ان وجودوں کو کیا میں جیوں یا مروں

 

 

مصطفیٰ زیدی

 

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجیے

کبھی کبھی تیرا غم ہی نہ ہو تو کیا کیجیے

 

ہماری راہ جدا ہے کہ ایسی راہوں پر

رواج نقش قدم ہی نہ ہو تو کیا کیجیے

 

ہمیں بھی بادہ گساری سے عار تھی لیکن

شراب ظرف سے کم ہی نہ ہو تو کیا کیجیے

 

تباہ ہونے کا ارماں سہی محبت میں

کسی کو خوئے ستم ہی نہ ہو تو کیا کیجیے

 

ہمارے شعر میں روٹی کا ذکر بھی ہو گا

کسی کسی کے شکم ہی نہ ہو تو کیا کیجیے

 

 

 

 

 

غلام محمد قاصر

 

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں

ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں

 

مکاں تو سطحِ دریا پر بنائے ہیں حبابوں نے

اثاثے گھر کے لیکن سب نے زیر آب رکھے ہیں

 

یہ کنکر ان سے پہلے ہاتھ پر لہریں بنالے گا

ہماری راہ میں چاہت نے جو تالاب رکھے ہیں

 

کناروں پر پہنچ کر تیرنے لگتی ہیں تصویریں

سمندر نے سفینے تو پس گرداب رکھے ہیں

 

ہمارے گھر کی بنیادوں کے پتھر کیا ہوئے آخر

کہیں طوفان کے ٹکڑے کہیں سیلاب رکھے ہیں

 

ترے آنے سے پہلے جن کو مرجھانے کی جلدی تھی

وہی پتے ہوائے ہجر نے شاداب رکھے ہیں

 

 

 

غلام ربانی تاباں

 

کمال بے خبری کو خبر سمجھتے ہیں

تری نگاہ کو جو معتبر سمجھتے ہیں

 

فروغ طور کی یوں تو ہزار تاویلیں

ہم اک چراغ سر رہ گزر سمجھتے ہیں

 

لب نگار کو زحمت نہ دو خدا کے لیے

ہم اہل شوق زبان نظر سمجھتے ہیں

 

جناب شیخ سمجھتے ہیں خوب رندوں کو

جناب شیخ کو ہم بھی مگر سمجھتے ہیں

 

وہ خاک سمجھیں گے راز گل و سمن تاباںؔ

جو رنگ و بو کو فریب نظر سمجھتے ہیں

 

 

 

 

 

 

توصیف تبسم

 

کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں

 

دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں

رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں

 

تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے

خود میں یہ موج سمولیں تو سمندر ہو جائیں

 

وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز

تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں

 

اپنی پلکوں سے جنھیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی

کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائے

 

جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے

خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں

 

 

محمود شام

 

اک سمندر شہر کو آغوش میں لیتا ہوا

اک سمندر تیرے میرے درمیاں پھیلا ہوا

 

ایک جنگل جس میں انساں کو درندوں سے ہے خوف

ایک جنگل جس میں انساں خود سے ہی سہما ہوا

 

ایک دریا جو بجھا دیتا ہے میدانوں کی پیاس

ایک دریا خواہشوں کی پیاس کا چڑھتا ہوا

 

ایک صحرا جس میں سناٹا بگولے اور سراب

ایک صحرا حسرتوں کی ریت بکھراتا ہوا

 

ایک موسم جو بدلتا ہے نظر کے پیرہن

ایک موسم مدتوں سے فکر پہ ٹھہرا ہوا

 

ایک گلشن ہے رتوں کے آنے جانے کا اسیر

ایک گلشن سب رتوں میں ذہن مہکاتا ہوا

 

 

 

امید فاضلی

 

اک ایسا مرحلۂ رہ گزر بھی آتا ہے

کوئی فصیل انا سے اتر بھی آتا ہے

تری تلاش میں جانے کہاں بھٹک جاؤں

سفر میں دشت بھی آتا ہے گھر بھی آتا ہے

تلاش سائے کی لائی جو دشت سے تو کھلا

عذاب صورت دیوار و در بھی آتا ہے

سکوں تو جب ہو کہ میں چھاؤں صحن میں دیکھوں

نظر تو ویسے گلی کا شجر بھی آتا ہے

بدن کی خاک سمیٹے ہوئے ہو کیا لوگو

سفر میں لمحۂ ترک سفر بھی آتا ہے

نظر پہ کس سے ملی ناگہاں کہ یاد آیا

اسی گلی میں کہیں میرا گھر بھی آتا ہے

لہو سے حرف تراشیں جو میری طرح امید

انھیں کے حصہ میں زخم ہنر بھی آتا ہے

 

 

 

شمس الرحمن فاروقی

 

ادھر سے دیکھیں تو اپنا مکان لگتا ہے

اک اور زاویے سے آسمان لگتا ہے

 

جو تم ہو پاس تو کہتا ہے مجھ کو چیر کے پھینک

وہ دل جو وقت دعا بے زبان لگتا ہے

 

شروع عشق میں سب زلف و خط سے ڈرتے ہیں

اخیر عمر میں ان ہی میں دھیان لگتا ہے

 

سرکنے لگتی ہے تب ہی قدم تلے سے زمین

جب اپنے ہاتھ میں سارا جہان لگتا ہے

 

دو چار گھاٹیاں اک دشت کچھ ندی نالے

بس اس کے بعد ہمارا مکان لگتا ہے

 

 

 

 

خورشید رضوی

 

پہچان

 

کہیں تم ملو تو

مسائل کو الجھا ہوا چھوڑ کر ہم

علائق کی زنجیر کو توڑ کر ہم

چلیں اور کنج چمن میں کہیں

سایۂ تاک میں بیٹھ کر

بھولے بسرے زمانوں کی باتیں کریں

اور اک دوسرے کے خدوخال میں

اپنے کھوئے ہوئے نقش پہچان کر

محو حیرت رہیں

اور نرگس کی صورت

وہیں جڑ پکڑ لیں

 

 

سلیم کوثر

 

کیا بتائیں فصل بے خوابی یہاں بوتا ہے کون

جب در و دیوار جلتے ہوں تو پھر ہوتا ہے کون

 

تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے

پھر پس دیوار زنداں رات بھر روتا ہے کون

 

بس تری بیچارگی ہم سے نہیں دیکھی گئی

ورنہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو یوں کھوتا ہے کون

 

کون یہ پاتال سے لے کر ابھرتا ہے مجھے

اتنی تہہ داری سے مجھ پر منکشف ہوتا ہے کون

 

کوئی بے ترتیبیِ کردار کی حد ہے سلیمؔ

داستاں کس کی ہے زیب داستاں ہوتا ہے کون

 

 

 

 

فراق گورکھپوری

 

شامِ غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا

خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

نکہتِ زلف پریشاں، داستانِ شامِ غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا

کچھ فضا، کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

عشقِ بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا

شوخیِ حسنِ کرشمہ ساز کی باتیں کرو

جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا، فراقؔ

آج اس عیسیٰ نفس، دم ساز کی باتیں کرو

 

 

 

 

مرزا اسداللہ خاں غالب

 

نکتہ چیں ہے، غم دل اُس کو سنائے نہ بنے

کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بُلاتا تو ہوں اُس کو مگر اے جذبۂ دل

اُس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے

کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے

کاش یوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بن آئے نہ رہے

تم کو چاہوں؟ کہ نہ آؤ تو بُلائے نہ بنے

بوجھ وہ سر سے گِرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے

کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

 

 

 

ناصر کاظمی

 

شعاع حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی

وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی

 

کسے ملیں کہاں جائیں کہ رات کالی ہے

وہ شکل ہی نہ رہی جو دیے جلاتی تھی

 

وہی تو دن تھے حقیقت میں عمر کا حاصل

خوشا وہ دن کہ ہمیں روز موت آتی تھی

 

ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا!

ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی تھی

 

اداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصرؔ

وہ نے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اڑاتی تھی

 

 

 

 

 

 

ابن انشاء

 

خواب ہی خواب تھا

 

خواب ہی خواب تھا، تصویریں ہی تصویریں تھیں

یہ ترا لطف، ترے مہر و محبت، لیکن

تیرے جانے سے یہ جینے کے بہانے بھی چلے

تجھ کو ہونا تھا کسی روز تو رخصت لیکن

اپنا جینا بھی کوئی دن ہے، ہمیشہ کا نہیں

تو نے کچھ روز تو دی زیست کی لذّت لیکن

پھر وہی دشت ہے، دیوانگیِ دل بھی وہی

پھر وہی شام، وہی پچھلے پہر کا رونا

اب تری دید، نہ وہ دور کی باتیں ہوں گی

 

 

 

امجد اسلام امجد

 

جو اُتر کے زینۂ شام سے، تری چشمِ خوش میں سما گئے

وہی جلتے بجھتے چراغ سے مرے بام و دَر کو سجا گئے

یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ

کہ جو لفظ میرے گماں میں تھے، وہ تری زباں پہ آ گئے!

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں، مری عمر بھر کا ریاض تھا

مرے درد کی تھی وہ داستاں، جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے

وہ چراغِ جاں، کبھی جس کو لَو، نہ کسی ہوا سے نِگوں ہوئی

تری بے وفائی کے وسوسے، اُسے چپکے چپکے بجھا گئے

وہ تھا چاند شامِ وصال کا، کہ تھا روپ تیرے جمال کا

مری روح سے مری آنکھ تک، کسی روشنی میں نہا گئے

مری عمر سے نہ سمٹ سکے، مرے دل میں اتنے سوال تھے

ترے پاس جتنے جواب تھے، تری اِک نگاہ میں آ گئے

 

 

 

 

 

واصف علی واصف

 

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا

مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا

 

شامل تو ہو گئے تھے سبھی اک جلوس میں

لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا

 

آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے

اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا

 

جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا

جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا

 

سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے

لیکن کسی سے پاؤں تلے راستہ نہ تھا

 

ذروں میں آفتاب نمایاں تھے جن دنوں

واصفؔ وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا

 

 

حسرت موہانی

 

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

الٰہی ترکِ اُلفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں

 

نہ چھیڑ اے ہمنشیں کیفیتِ صہبا کے افسانے

شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں

 

رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی

وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

 

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

 

حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی

تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

 

 

 

 

 

فیصل عجمی

 

خود اپنا ہاتھ جلاتا رہا چراغ سے میں

نیا چراغ بناتا رہا چراغ سے میں

 

وہ روشنی ہی مجھے واپسی میں کام آئی

جو چلتے چلتے گراتا رہا چراغ سے میں

 

وہ راستہ مجھے اپنی طرف بھی لے آیا

جو دوسروں کو دِکھاتا رہا چراغ سے میں

 

چلی گئی تھی سَحر در پہ دستکیں دے کر

مگر یہ بات چھپاتا رہا چراغ سے میں

 

چراغ بجھتے رہے روشنی گھٹائے بغیر

نئے چراغ جلاتا رہا چراغ سے میں

 

مجھے بھی شوق تھا جلنے کا دوسروں کی طرح

بڑھا کے ہاتھ ملاتا رہا چراغ سے میں

 

طالب جوہری

 

طواف کرتا ہے اک پرندہ صنوبروں کا

کہ تیز آندھی میں کیا بھروسہ ہے شہپروں کا

 

میں اپنی یادوں سے کوئی صورت تراش لوں گا

میں کس خوشی میں اٹھاؤں احسان پتھروں کا

 

دیار وحشت میں کوئی نقارہ بج رہا ہے

نواح دل سے قریب ہے کوچ لشکروں کا

 

زمین کے زخم دیکھتا ہوں تو سونچتا ہوں

گناہ یہ فوجیوں کا تھا یا سکندروں کا

 

وہ فتح مندی کا اک نشاں تھا کہاں گیا وہ

اسی علاقے میں ایک مینار تھا سروں کا

 

ہماری بستی کے غوطہ خوروں میں دم کہاں ہے

کہ موتیوں سے مزاج پوچھیں سمندروں کا

 

 

ٍ

 

دل دریا

 

صلح کے زمانے میں

مجھ کو ایسا لگتا ہے

وہ اگر بچھڑ جائے

صرف اتنا دکھ ہو گا

جتنا آنکھ کھلنے پر

خواب ٹوٹ جانے کا

۔۔۔۔۔۔

پر عجب تماشا ہے

وہ اگر کبھی مجھ سے

یونہی روٹھ جاتی ہے

کائنات کی ہر شے

ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے

 

 

سعود عثمانی

 

وہی ہے گیت، جزیرے میں جل پری وہی ہے

یہ خواب اب بھی وہی ہے، بعینہٖ وہی ہے

وہی ہے سبز سمندر میں نقرئی مٹی

جو بہہ رہی ہے تہ آب روشنی وہی ہے

وہی ہے شوخ ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی

سفید ریت پہ لہروں کی سمفنی وہی ہے

لرزتا دیکھ کے عکسِ زمردیں اپنا

گیاہ رنگ پہاڑی کی دلبری وہی ہے

اسی طرح ہے شب آبنوس فام کی لو

طلائی صبح کی پوشاک آتشی وہی ہے

ہر ایک رنج سے بے فکر پھوٹتے چشمے

جو مجھ میں پھول کھلا دے، تری ہنسی وہی ہے

کنار آب جھکے شاخچوں کی طرح سعودؔ

میں خوش ہوں اور مری آنکھ میں نمی وہی ہے

 

 

 

انور شعور

 

ہو گئے دن جنھیں بھلائے ہوئے

آج کل ہیں وہ یاد آئے ہوئے

اک اُسی شخص کا نہیں مذکور

ہم زمانے کے ہیں ستائے ہوئے

سونے آتے ہیں لوگ بستی میں

سارے دن کے تھکے تھکائے ہوئے

مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ

نظر آتے ہیں مسکرائے ہوئے

گو فلک پہ نہیں، پلک پہ سہی

دو ستارے ہیں جگمگائے ہوئے

الوداعی مقام تک آئے

ہم نظر سے ملائے ہوئے

اے شعورؔ اور کوئی بات کرو

ہیں یہ قصّے سنے سنائے ہوئے

 

 

 

ساحر لدھیانوی

 

یادِ رفتگاں

 

پھر وہ عزیز و اقربا

جو توڑ کر عہد وفا

احباب سے منہ موڑ کر

دنیا سے رشتہ توڑ کر

حدِّ افق سے اس طرف

رنگِ شفق کے اس طرف

اِک وادیِ خاموش کی

اِک عالمِ مدہوش کی

گہرائیوں میں سوگئے

تاریکیوں میں کھو گئے

ان کا تصور ناگہاں

لیتا ہے دل میں چٹکیاں

اور خون رلاتا ہے مجھے

بے کل بناتا ہے مجھے

 

 

امیر مینائی

 

اے ضبط! دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو

دل میں ہزار درد اُٹھے، آنکھ تر نہ ہو

مدّت میں شامِ وصل ہوئی ہے مجھے نصیب

دو چار سو برس تو الٰہی! سحر نہ ہو

اِک پھول ہے گلاب کا آج اُن کے ہاتھ میں

دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو

فرقت میں یاں سیاہ زمانہ ہے مجھ کو کیا

گردوں پہ آفتاب نہ ہو یا قمر نہ ہو

آنکھیں ملیں ہیں اشک بہانے کے واسطے

بیکار ہے صدف جو صدف میں گُہر نہ ہو

طولِ شب وصال ہو، مثلِ شبِ فراق

نکلے نہ آفتاب، الٰہی! سحر نہ ہو

 

 

 

 

 

نظیر اکبر آبادی

 

کل نظر آیا چمن میں اک عجب رشکِ چمن

گل رخ و گلگوں قبا و گلعذار و گلبدن

مہر طلعت، زُہرہ پیکر، مشتری رو، مہ جبیں

سیم بر، سیماب طبع و سیم ساق وسیم تن

تیر قد، نشتر نگہ، مژگاں سناں، ابرو کماں

برق تاز و رزم ساز و نیزہ باز و تیغ زن

زُلف و کاکل، خال و خط، چاروں کے یہ چاروں غلام

مشکِ تبت، مشکِ چیں، مشکِ خطا، مشکِ ختن

دوش و بر، دندان و لب، چاروں سے یہ چاروں خجل

نسترن، برگِ سمن، دُرِّ عدن، لعلِ یمن

مبتلا ایسے ہی خونخواروں کے ہوتے ہیں نظیر

بے قرار و دل فگار و خستہ حال و بے وطن

 

 

 

 

میر مہدی مجروح

 

نیچی نظروں کے وار آنے لگے

لو بس اب جان و دل ٹھکانے لگے

میری نظروں نے کیا کہا یا رب

کیوں وہ شرما کے مسکرانے لگے

جلوۂ یار نے کیا بیخود

ہم تو آتے ہی اُن کے جانے لگے

گر حقیقت نگر ہو چشم تو وہ

جلوہ ہر رنگ میں دکھانے لگے

بس یہی غایتِ تصوّر ہے

ہجر میں لطفِ وصل آنے لگے

اُس سراپا بہار کے جلوے

رنگ کچھ اور ہی دکھانے لگے

آج مجروحؔ ضبط کر نہ سکا

کیا کرے جبکہ جان جانے لگے

 

 

 

غلام محمد قاصر

 

رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا

چاند بھی ادھورا تھا میں بھی نامکمل تھا

 

آنکھ منڈیروں پر آرزو نہیں لرزی

اک چراغ کی لو سے اک چراغ اوجھل تھا

 

جا ملا ترے در کے گم شدہ زمانوں میں

میری عمر کا حاصل پیار کا جو اک پل تھا

 

کیوں سلگتی آوازیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں

دشت نارسائی میں دھوپ تھی نہ بادل تھا

 

دور تو نہ تھا اتنا خیمہ اس کے خوابوں کا

راستے میں اپنی ہی خواہشوں کا جنگل تھا

 

 

 

 

 

ظفر اقبال

 

نہ گماں رہنے دیا ہے نہ یقیں رہنے دیا

راستہ کوئی کھلا ہم نے نہیں رہنے دیا

اس نے ٹکڑوں میں بکھیرا ہوا تھا مجھ کو جہاں

جا اٹھایا ہے کہیں سے تو کہیں رہنے دیا

جا بجا اس میں بھی تیرے ہی نشاں تھے شامل

ہم نے اک نقش اگر اپنے تئیں رہنے دیا

اک محبت تھی جسے ظاہر نہ کیا ہم نے کبھی

اک خزانہ تھا جسے زیر زمیں رہنے دیا

خود تو باہر ہوئے ہم خانۂ دل سے لیکن

وہ کسی خواب میں تھا اس کو یہیں رہنے دیا

آسماں سے کبھی ہم نے بھی اتارا نہ اسے

اور اس نے بھی ہمیں خاک نشیں رہنے دیا

ہم نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو ظفرؔ

جو جہاں پر تھی پڑی اس کو وہیں رہنے دیا

 

 

 

باقی صدیقی

 

ندی کے اس پار کھڑا اک پیڑ اکیلا

دیکھ رہا ہے ان جانے لوگوں کا ریلا

 

یوں تیری انجان جوانی راہ میں آئی

جیسے تو بچپن سے میرے ساتھ نہ کھیلا

 

جنگل کے سناٹے سے کچھ نسبت تو ہے

شہر کے ہنگامے میں پھرتا کون اکیلا

 

پہلی آگ ابھی تک ہے رگ رگ میں باقی

سنتے ہیں کل پھر گاؤں میں ہو گا میلہ

 

 

 

 

 

 

 

 

نثار ناسک

 

مجھ کو بے خوابی کی ٹہنی پر سسکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

اپنی ہی بے دردیوں کو یوں مہکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

 

صورت مہتاب رہتا ہے مرے سر پر سفر کے ساتھ ساتھ

مجھ کو صحرا کی اداسی میں بھٹکتے رہتا ہے وہ

 

پیڑ کی صورت کھڑا رہتا ہے میری موج کی سرحد کے پاس

میرے سر پر دھوپ کے نیزے چمکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

 

رات تھک کر آن گرتا ہے مرے جلتے بدن کی آنچ پر

اپنے آنسو میرے گالوں پر ڈھلکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

 

میں وہ بوسیدہ سا پیراہن ہوں جو پہنا گیا تھا ایک بار

مجھ کو محرومی کی کھونٹی پر لٹکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

 

میری ہی مجبوریوں کے ذکر سے ناسکؔ رلاتا ہے مجھے

سامنے اپنے نئے جگنو دمکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

 

 

قابل اجمیری

 

مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں

اب تری یاد کے حوالے ہیں

 

زندگی کے حسین چہرے پر

غم نے کتنے حجاب ڈالے ہیں

 

کچھ غم زیست کا شکار ہوئے

کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں

 

رہ گزار حیات میں ہم نے

خود نئے راستے نکالے ہیں

 

اے شب غم ذرا سنبھال کے رکھ

ہم تری صبح کے اجالے ہیں

 

ذوق خود آگہی نے اے قابلؔ

کتنے بت خانے توڑ ڈالے ہیں

 

 

نظام شاہ نظام

 

حال اس شوخ سے اظہار کروں یا نہ کروں

کروں اظہار، تو تکرار کروں یا نہ کروں

وہ یہ کہتے ہیں کہ ہر دم نہیں آنا اچھا

دل بے تاب! میں اقرار کروں یا نہ کروں

یہ لگاوٹ، یہ کرشمہ،یہ ادا، یہ شوخی

تمہیں منصف ہو، تمہیں پیار کروں یا نہ کروں

حسرتیں دل میں بہت، رات ہے تھوڑی، یہ فکر

سوتے ہیں وہ، انہیں بیدار کروں یا نہ کروں

تمہیں دیکھوں بھی نہ میں، بات بھی تم سے نہ کروں

کچھ بھی تسکین دل زار کروں یا نہ کروں

تو بھی اس شوخ سے واقف ہے بتا کچھ تو نظام

مجھ سے دل مانگے تو انکار کروں یا نہ کروں

 

 

 

 

تہذیب حافی

 

اس ایک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں

جو دیکھتا ہوں میں وہ بھولتا نہیں

 

کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا

پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں

 

تری طرف چلے تو عمر کٹ گئی

یہ اور بات راستہ کٹا نہیں

 

اس اژدھے کی آنکھ پوچھتی رہی

کسی کو خوف آ رہا ہے یا نہیں

 

میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بے خبر

میں بجھ چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں

 

یہ عشق بھی عجب کہ ایک شخص سے

مجھے لگا کہ ہو گیا ہوا نہیں

 

مرزا محمد تقی ہوس

 

کیا مزا ہو جو کسی سے تجھے الفت ہو جائے

جی کڑھے فکر رہے میری سی حالت ہو جائے

 

تیرا بیمار دم نزع یہ مانگے تھا دعا

دیکھ لوں پھر اسے گر تھوڑی سی مہلت ہو جائے

 

جائیو مت تو صبا باغ سے زنداں کی طرف

مجھ کو ڈر ہے نہ اسیروں پہ قیامت ہو جائے

 

اے دل اک دن تو گزر کر طرف اہل قبور

تاکہ دیکھے سے انھوں کے تجھے عبرت ہو جائے

 

دیکھ تصویر کو مجنوں کی ہوسؔ رشک نہ کر

چاہیے عشق میں تیری بھی یہ صورت ہو جائے

 

 

 

 

 

ابھیشک شکلا

 

لہر کا خواب ہو کے دیکھتے ہیں

چل تہہ آب ہو کے دیکھتے ہیں

 

اس پہ اتنا یقین ہے ہم کو

اس کو بیتاب ہو کے دیکھتے ہیں

 

رات کو رات ہو کے جانا تھا

خواب کو خواب ہو کے دیکھتے ہیں

 

اپنی ارزانیوں کے صدقے ہم

خود کو نایاب ہو کے دیکھتے ہیں

 

ساحلوں کی نظر میں آنا ہے

پھر تو غرقاب ہو کے دیکھتے ہیں

 

وہ جو پایاب کہہ رہا تھا ہمیں

اس کو سیلاب ہو کے دیکھتے ہیں

 

 

 

صبا اکبر آبادی

 

جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

یہ اک ایسی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

ہمارے اور تمہارے واسطے میں اک نیا پن تھا

مگر دنیا پرانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

عیاں کر دی ہر اک پر ہم نے اپنی داستان دل

یہ کس کس سے چھپانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

جہاں دو دل ملے دنیا نے کانٹے بو دئیے اکثر

یہی سب کی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

محبت تم نے ہم نے ایک وقتی چیز سمجھی

محبت جاودانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

متاع حسن و الفت پر یقین کتنا تھا دونوں کو

یہاں ہر چیز فانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

ادائے کم نگاہی نے کیا رسوا محبت کو

یہ کس کی مہربانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

 

 

 

 

سرمد صہبائی

 

کون ہے کس نے پکارا ہے صدا کیسے ہوئی

یہ کرن تاریکیِ شب سے رہا کیسے ہوئی

 

ایک اک پل میں اتر کر سوچتا رہتا ہوں میں

نور کس کا ہے مرے خوں میں ضیا جیسے ہوئی

 

 

اس کے جانے کا یقیں تو ہے مگر الجھن میں ہوں

پھول کے ہاتھوں سے یہ خوش بو جدا کیسے ہوئی

 

وہ مچا ہے غل کہ برہم ہو گئی ہیں صورتیں

کون کس کس سے یہ پوچھے گا خطا کیسے ہوئی

 

جسم و جاں کا فاصلہ ہے حاصل گرد سفر

جستجوئے زندگی تیرا پتا کیسے ہوئی

 

ہنس دیا تھا سن کے وہ سرمدؔ بس اتنا یاد ہے

بات اس کے سامنے لیکن ادا کیسے ہوئی

 

 

عزیز نبیل

 

کچھ دیر تو دنیا مرے پہلو میں کھڑی تھی

پھر تیر بنی اور کلیجے میں گڑی تھی

آنکھوں کی فصیلوں سے لہو پھوٹ رہا تھا

خوابوں کے جزیرے میں کوئی لاش پڑی تھی

سب رنگ نکل آئے تھے تصویر سے باہر

تصویر وہی جو مرے چہرے پہ جڑی تھی

میں چاند ہتھیلی پہ لیے جھوم رہا تھا

اور ٹوٹتے تاروں کی ہر اک سمت جھڑی تھی

الفاظ کسی سائے میں دَم لینے لگے تھے

آواز کے صحرا میں ابھی دھوپ کڑی تھی

ہر شخص کے ہاتھوں میں تھا خود اُس کا گریباں

اک آگ تھی سانسوں میں، اذیّت کی گھڑی تھی

 

 

 

ابراہیم ذوق

 

جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا

ہے اپنا پنا مقدر جدا نصیب جدا

تری گلی سے نکلتے ہی اپنا دم نکلا

رہے ہے کیوں کہ گلستاں سے عندلیب جدا

ہے اور علم و ادب مکتب محبت میں

کہ ہے وہاں کا معلم جدا ادیب جدا

ہجوم اشک کے ہم راہ کیوں نہ ہو نالہ

کہ فوج سے نہیں ہوتا کبھی نقیب جدا

کیا حبیب کو مجھ سے جدا فلک نے مگر

نہ کرسکا مرے دل سے غم حبیب جدا

کریں جدائی کا کس کس کی رنج ہم اے ذوقؔ

کہ ہونے والے ہیں ہم سب سے عن قریب جدا

 

 

 

عرفان صدیقی

 

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے

 

اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال

میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے

 

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے

تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے

 

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر، یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

 

ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد

گھر کو چلتے ہیں کہ اب شام ہوا چاہتی ہے

 

ہم نے ان لفظوں کے پیچھے ہی چھپایا ہے تجھے

اور انھیں سے تری تصویر بنا چاہتی ہے

 

خواجہ میر درد

 

ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا

پر، اسے آہ! کچھ اثر نہ کیا

 

سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما

اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا

 

دیکھنے کو رہے ترستے ہم

نہ کیا رحم تو، نے پر نہ کیا

 

آپ سے ہم گزر گئے کب کے

کیا ہے، ظاہر میں گو سفر نہ کیا

 

کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ!

خانہ آباد! تو، نے گھر نہ کیا

 

سب کے جوہر نظر میں آئے دردؔ

بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا

 

 

ولی دکنی

 

ہوا ہے گرم توں جب آفتاب کے مانند

کیا ہے ہوش نے پرواز آب کے مانند

 

زمیں پہ کیوں نہ گریں اہل بزم جرعہ غن

تری نگہ میں ہے مستی شراب کے مانند

 

سجن کے غم سوں نکلتا ہے نالۂ بے تاب

ہر ایک رگ ستی تار رباب کے مانند

 

ترے فراق میں ہر آہ اے کماں ابرو

گئی ہے چرخ پہ تیر شہاب کے مانند

 

کیا ہے طرز تغافل نے شوخ کے جگ میں

ہر ایک چشم کوں تسخیر خواب کے مانند

 

گر آبرو کی ہے خواہش کسی کی نعمت پر

نہ کھول حرص کے دیدے کو تاب کی مانند

 

 

 

شاہ مبارک آبرو

 

کون یہ سلطنت مآب آتا

چشم خوبی کا جس رکاب آتا

 

یوں چند آوتا ہے خوباں بیچ

فوج کے بیچ جوں نواب آتا

 

جاں بلب انتظار کرتا ہوں

خوب تھا یار اگر شتاب آتا

 

شعلہ خوباں نہیں یوں لیا دل بانٹ

مے کشاں بیچ جوں کباب آتا

 

آبرو حال دل کا کیوں کے کہے

تیرے آگے کسے جواب آتا

 

 

 

 

مبارک عظیم آبادی

 

بیگانۂ وفا ترا شیوہ سہی اور ہے

اہل وفا کا طور طریقا ہی اور ہے

 

دیر و حرم کی راہ میں رکھتے نہیں قدم

ہم رہروانِ شوق کا رستہ ہی اور ہے

 

دل بے وفا کے ہاتھ نہ بیچے گا با وفا

تم سے نہیں بنے گا یہ سودا ہی اور ہے

 

اللہ دل نہ تم کو تڑپتا ہوا دکھائے

دیکھا نہ جائے گا یہ تماشا ہی اور ہے

 

ٹکڑے ہیں دل جگر کے مبارک کہ شعر ہیں

غزلوں کا آپ کو تو سفینہ ہی اور ہے

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے

اسے بھی دل سے رخصت کر دیا ہے

برائے نام تھا آرام، جس کو

غزل کہہ کر مصیبت کر دیا ہے

سمجھتے ہیں کہاں پتھر کسی کی

مگر اتمامِ حجت کر دیا ہے

گلی کوچوں میں جلتی روشنی نے

حسیں شاموں کو شامت کر دیا ہے

بصیرت ایک دولت ہی تھی آخر

سو دولت کو بصیرت کر دیا ہے

کئی ہمدم نکل آئے ہیں جب سے

زباں کو صرفِ غیبت کر دیا ہے

سخن کے باب میں بھی ہم نے اسلمؔ

جو کرنا تھا بہ عجلت کر دیا ہے

 

 

 

ابن انشاء

 

سب کو دل کے داغ دکھائے، ایک تجھی کو دکھا نہ سکے

تیرا دامن دُور نہیں تھا، ہاتھ ہمیں پھیلا نہ سکے

 

تو اے دوست کہاں لے آیا چہرہ یہ خورشیدِ مثال

سینے میں آباد کریں گے، آنکھوں میں تو سما نہ سکے

 

نا تجھ سے کچھ ہم کو نسبت، نا تجھ کو کچھ ہم سے کام

ہم کو یہ معلوم تھا لیکن دل کو یہ سمجھا نہ سکے

 

اب تجھ سے کس منہ سے کہہ دیں سات سمندر پار نہ جا

بیچ کی اک دیوار بھی ہم تو پھاند نہ پائے ڈھا نہ سکے

 

من پاپی کی اُجڑی کھیتی سوکھی کی سوکھی ہی رہی

اُمڈے بادل، گرجے بادل، بوندیں دو برسا نہ سکے

 

 

 

 

انور مسعود

 

اولٰئک ھم الغافلون

 

روز و شب کے میلے میں

غفلتوں کے مارے ہم

بس یہی سمجھتے ہیں

ہم نے جس کو دفنایا

بس اسی کو مرنا تھا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نصیر ترابی

 

یادش بخیر، شام دلآویز ہے بہت

دل بھی تپاں ہے، آنکھ بھی لبریز ہے بہت

 

ایسا تو ہو کہ بزم طرب ماجرا نہ ہو

غم کے لیے نشاط بھی مہمیز ہے بہت

 

احوال واقعی کو تکلم ہے کیا ضرور

اپنا سکوت ہی خبر آمیز ہے بہت

 

سر پر ہے، اک پہاڑ سی تنہائیوں کی رات

اور شام سے چراغ کی لو تیز ہے بہت

 

کیا ہم سے پوچھتے ہو شب و روز خیرگی

مدت ہوئی کہ شہر سے پرہیز ہے بہت

 

اب کیا سخن کا ذائقہ مذکور ہو نصیرؔ

کٹنے لگی زباں کہ نمک تیز ہے بہت

 

 

سعود عثمانی

 

کبھی سراب کرے گا، کبھی غبار کرے گا

یہ دشت جاں ہے میاں، یہ کہاں قرار کرے گا

 

ابھی یہ بیج کے مانند پھوٹتا ہوا دُکھ ہے

بہت دنوں میں کوئی شکل اختیار کرے گا

 

یہ خود پسند سا غم ہے، سو یہ امید بھی کم ہے

کہ اپنے بھید کبھی تجھ پر آشکار کرے گا

 

تمام عمر یہاں کس کا انتظار ہوا ہے

تمام عمر مرا کون انتظار کرے گا

 

نشے کی طرح محبت بھی ترک ہوتی نہیں ہے

جو ایک بار کرے گا، وہ بار بار کرے گا

 

 

 

 

 

جمال احسانی

 

نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا

 

نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے

اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا

 

جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا

نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا

 

پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا

یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا

 

عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا

اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارا کیا

 

ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمالؔ آنکھوں پر

کبھی خیال کبھی خواب پر گزارہ کیا

 

 

 

خورشید رضوی

 

گھول جا دن بھر کا حاصل اس دل بے تاب میں

ڈوب جا، اے ڈوبتے سورج مرے اعصاب میں

 

آنکھ میں ہر لحظہ تصویریں رواں رہنے لگیں

جم گیا ہے خواب سا اک، دیدۂ بے خواب میں

 

دل ہمارا شاخساروں سے، گلوں سے کم نہیں

اے صبا کی سوج لرزاں، کچھ ہمارے باب میں

 

ہاں اسی تدبیر سے شاید بنے تصویر دل

رنگ ہم نے آج کچھ، گھولے تو ہیں سیماب میں

 

دسترس ہے موج کی ساحل سے ساحل تک فقط

تہ کو جا پہنچے، اگر اُترے کوئی گرداب میں

 

پیش دل کچھ اور ہے پیش نظر کچھ اور ہے

ہم کھلی آنکھوں سے کیا کیا دیکھتے ہیں خواب میں

 

 

 

ناصر کاظمی

 

وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

 

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر

مرے لیے کوئی شایان التماس نہیں

 

ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے

مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

 

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے

اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں

 

گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل

سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں

 

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو کی آس نہیں

بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

 

 

مصطفیٰ زیدی

 

آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا

دل جس سے مل گیا وہ دو بارا نہیں ملا

 

ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے

اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا

 

آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور

خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا

 

قدموں کو شوق آبلہ پائی تو مل گیا

لیکن بہ ظرف وسعت صحرا نہیں ملا

 

مہر و وفا کے دشت نوردو! جواب دو

تم کو بھی وہ غزال ملایا نہیں ملا

 

کچے گھڑے نے جیت لی ندّی چڑھی ہوئی

مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا

 

 

محسن بھوپالی

 

بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا

چاہے جانے کے سبھی عیب وہ ہنر رکھتا تھا

 

لا تعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن

بے نیازانہ ہر اک دل میں گزر رکھتا تھا

 

اس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے

وہ الگ اپنا اک انداز نظر رکھتا تھا

 

بے یقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند

شب پرستوں سے بھی امید سحر رکھتا تھا

 

مشورے کرتے ہیں جو گھر کو سجانے کے لیے

ان سے کس طرح کہوں میں بھی تو گھر رکھتا تھا

 

اس کے ہر وار کو سہتا رہا ہنس کر محسنؔ

یہ تاثر نہ دیا میں بھی سپر رکھتا تھا

 

 

ایوب خاور

 

بجھنے لگے نظر تو پھر اس بار دیکھنا

دریا چڑھے تو ناؤ کی رفتار دیکھنا

اس آگہی کے آئینۂ خود مثال میں

خود اپنی ذات کو سر پیکار دیکھنا

ہونٹوں پہ آ کے جم سی گئی خواہش وصال

اس ان کہی پہ لذت انکار دیکھنا

ہم وہ وفا پرست تجھے دیکھنے کے بعد

اپنی طرف بھی صورت دیوار دیکھنا

یوں ہے کہ جب بچھڑنے لگیں دل سے دھڑکنیں

تب اس گلی میں صبح کے آثار دیکھنا

اب یہ دل و نگاہ کے بس میں نہیں رہا

ہر آئینے میں عکس رخ یار دیکھنا

ساحل کو موج لے گئی اور اس کو بادباں

خاورؔ اب اس کے بعد نہ اس پار دیکھنا

 

 

 

شاہد ذکی

 

بچھڑ گیا تھا کوئی خوابِ دلنشیں مجھ سے

بہت دنوں مری آنکھیں جدا رہیں مجھ سے

میں سانس تک نہیں لیتا پرائی خوشبو میں

جھجھک رہی ہے یونہی شاخِ یاسمیں مجھ سے

مرے گناہ کی مجھ کو سزا نہیں دیتا

مرا خدا کہیں ناراض تو نہیں مجھ سے

یہ شاہکار کسی ضد کا شاخسانہ ہے

الجھ رہا تھا بہت نقشِ اولین مجھ سے

میں تخت پر ہوں مگر ہوں تو خاک زادہ ہی

گریز کرتے ہیں کیوں بوریا نشین مجھ سے

اجڑ اجڑ کے بسے ہیں مرے در و دیوار

بچھڑ بچھڑ کے ملے ہیں مرے مکیں مجھ سے

محال ہے کہ تماشا تمام ہو شاہد

تماش بیں سے میں خوش ہوں تماش بین مجھ سے

 

اجمل سراج

 

تیرے سوا کسی کی تمنا کروں گا میں

ایسا کبھی ہوا ہے جو ایسا کروں گا میں

گو غم عزیز ہے مجھے تیرے فراق کا

پھر بھی اس امتحان کا شکوہ کروں گا میں

آنکھوں کو اشک و خوں بھی فراہم کروں گا میں

دل کے لیے بھی درد مہیا کروں گا میں

راحت بھی رنج، رنج بھی راحت ہو جب تو پھر

کیا اعتبار خواہش دنیا کروں گا میں

رکھا ہے کیا جہان میں یہ اور بات ہے

یہ اور بات ہے کہ تقاضا کروں گا میں

یہ رہ گزر کہ جائے قیام و قرار تھی

یعنی اب اس گلی سے بھی گزرا کروں گا میں

ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے

اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں

 

 

 

زبیر رضوی

 

تمام راستہ پھولوں بھرا تمھارا تھا

ہماری راہ میں بس نقش پا ہمارا تھا

 

وہ ایک لمحہ جسے تم نے چھو کے چھوڑ دیا

اس ایک لمحے میں کیف وصال سارا تھا

 

پھر اس کے بعد نگاہوں نے کچھ نہیں دیکھا

نہ جانے کون تھا جو سامنے سے گزرا تھا

 

اب اس کے نام پہ دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا

وہ جس کو ہم نے کبھی بے حساب چاہا تھا

 

وہ جس کو دیکھ تھا اکثر ہجوم یاراں میں

وہ ایک شخص بہت ان دنوں اکیلا تھا

 

تمام صوت و صدا چپ سے ہو گئے تھے زبیرؔ

وہ جب سکوت کے پتھر پہ گر کے ٹوٹا تھا

 

توصیف تبسم

 

سنو کوی توصیف تبسم اس دکھ سے کیا پاؤ گے

سپنے لکھتے لکھتے آخر خود سپنا ہو جاؤ گے

 

جلتی آنکھوں جوالا پھوٹے خوشبو گھل کر رنگ بنے

دکھ کے لاکھوں چہرے ہیں کس کس سے آنکھ ملاؤ گے

 

ہر کھڑکی میں پھول کھلے ہیں پیلے پیلے چہروں کے

کیسی سرسوں پھولی ہے کیا ایسے میں گھر جاؤ گے

 

اتنے رنگوں میں کیوں تم کو ایک رنگ من بھایا ہے

بھید یہ اپنے جی کا کیسے اوروں کو سمجھاؤ گے

 

اب تو سحر ہونے کو آئی اب تو گھر کو لوٹ چلو

چاند کے پیچھے پیچھے جتنا بھاگو گے گہناؤ گے

 

دل کی بازی ہار کے روئے ہو تو یہ بھی سن رکھو

اور ابھی تم پیار کرو گے اور ابھی پچھتاؤ گے

 

 

احمد مشتاق

 

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا

دلِ مشتاق ٹھہر جا وہی منظر آیا

 

میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں

کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

 

بجھ گئی رونق پروانہ تو محفل چمکی

سوگئے اہل تمنا تو ستم گر آیا

 

یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں

کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا

 

 

 

جمال احسانی

 

ہمیں بھلائی ہوئی داستاں میں چھوڑ آتے

کوئی دیا ہی اندھیرے مکاں میں چھوڑ آتے

 

بزرگ رحم تو کھاتے کہ تھا میں بے پر و بال

خود آتے مجھ کو مگر آشیاں میں چھوڑ آتے

 

کسی کو کار عبث سے نجات دلواتے

کسی کو سایہ ابر گماں میں چھوڑ آتے

 

میں بے نیاز گناہ و ثواب تو رہتا

مجھے عبادت شغلبتاں میں چھوڑ آتے

 

اب ایسی بے سرو سامانی مسافت کیا

تھکن بھی کیا سفر رائیگاں میں چھوڑ آتے

 

جمالؔ سہل طریقہ تھا جاں بچانے کا

ہم آتے اس کو کہیں درمیاں میں چھوڑ آتے

 

 

خورشید رضوی

 

دل تو اب یہ چاہتا ہے

 

دل تو اب یہ چاہتا ہے

رشتہ سب سے توڑ کے

دنیا سے منہ موڑ کے

جا نکلیں اُس اور

جہاں چلے نہ کوئی زور

کوئی نفی ہو اور نہ کوئی اثبات

دور دور تک دیے جلائیں

کھلتے پھول۔۔۔۔ اور راس رچائیں

جھومتے جھونکتے، دفیں بجاتے بات

اور مرے ٹھنڈے شانے پر

خوشبو ایسا نا دیدہ ہات

پاگل دل تو اب یہ چاہتا ہے

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

ہوائیں تیز ہیں، بجھتا دیا ہے

تمھارا نام پھر دل نے لیا ہے

ابھی کہتا ہوں میں تازہ غزل بھی

ابھی تو زہر کا ساغر پیا ہے

تبسم ۔۔۔۔۔۔ یہ غریبانہ تبسم

فقط رودادِ غم کا حاشیہ ہے

کوئی سویا ہوا صدمہ ہی جاگے

ہجومِ دوستاں ہے، تخلیہ ہے

پرو کر دیکھ لو کانٹے میں جگنو

کوئی اس شہر میں یوں بھی جیا ہے

ہوا ہے چاک جو لمحہ اچانک

تمھاری یاد نے آ کر سیا ہے

تمہی کہہ دو جو تم کہتے ہو اسلمؔ

غزل ہے یا غزل کا مرثیہ ہے؟

 

 

عزیز نبیل

 

دیوارِ انتظار پہ چپکا ہوا سا ہوں

اک اور ہی جہان میں پہنچا ہوا سا ہوں

طاری ہے اک عجیب تعطّل سا اِن دنوں

کمرے کے ایک کونے میں رکھّا ہوا سا ہوں

آنکھوں میں چبھ رہی ہیں مسافت کی کرچیاں

رستوں کے پھیلے جال میں الجھا ہوا سا ہوں

کس شہرِ احتیاط میں رہنا پڑا مجھے

مدّت سے اپنے آپ کو بھولا ہوا سا ہوں

کل جب اُسے ملا تو عجب دل کا حال تھا

جیسے کہ سارے داؤ ہی ہارا ہوا سا ہوں

کیا جانے کون روک رہا ہے مرے قدم

کس کی گلی کے موڑ پر ٹھہرا ہوا ساہوں

عرصہ ہوا نبیلؔ سے باتیں کئے ہوئے

عرصے سے زندگی تجھے کھویا ہوا سا ہوں

 

نصیر ترابی

 

آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہو گیا

چلتے رہے تو راستا اپنا سا ہو گیا

 

تھے آئینوں میں ہم تو کوئی دیکھتا نہ تھا

آئینہ کیا ہوئے کہ تماشا سا ہو گیا

 

گزرا تھا کب ادھر سے امیدوں کا یہ ہجوم

اتنے دیئے جلے کہ اندھیرا سا ہو گیا

 

یوں دل دہی کو دن بھی ہوا رات بھی ہوئی

گزری کہاں ہے عمر، گزارا سا ہو گیا

 

اچھا بہت لگا وہ ستاروں کا ٹوٹنا

رات اپنے جی کا بوجھ بھی ہلکا سا ہو گیا

 

ہر شام اک ملال کی عادت سی ہو گئی

ملنے کا انتظار بھی ملنا سا ہو گیا

 

 

انور مسعود

 

سوچنا روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا

یہ بھی کیا سانس کو تلوار بنائے رکھنا

 

راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے ابھی سے سن لو

ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا

 

کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا

کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا

 

کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری

نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا

 

اپنی پرچھائیں سے منہ موڑ نہ لینا انورؔ

تم اُسے آج بھی باتوں میں لگائے رکھنا

 

 

 

عرفان صدیقی

 

قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی

نظر دیئے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی

 

کچھ ایسی تیز نہ تھی اس کے انتظار کی آنچ

یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی

 

سروں کے پھول سرنوک نیزہ ہنستے رہے

یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی

 

ہتھیلیوں نے بچایا بہت چراغوں کو

مگر ہوا ہی عجب زاوئیے بدلتی رہی

 

دیار دل میں کبھی صبح کا گجر نہ بجا

بس ایک درد کی شب ساری عمر ڈھلتی رہی

 

میں اپنے وقت سے آگے نکل گیا ہوتا

مگر زمیں بھی مرے ساتھ ساتھ چلتی رہی

 

 

میر تقی میر

 

جب جنوں سے ہمیں توسل تھا

اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا

 

بسترا تھا چمن میں جوں بلبل

نالہ سرمایۂ توکل تھا

 

یک نگہ کو وفا نہ کی گویا

موسم گل صفیر بلبل تھا

 

اب تو دل کو نہ تاب ہے نہ قرار

یاد ایام جب تحمل تھا

 

جا پھنسا دام زلف میں آخر

دل نہایت ہی بے تامّل تھا

 

خوب دریافت جو کیا ہم نے

وقت خوش میر نکہت گل تھا

 

امجد اسلام امجد

 

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے

تمھیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

 

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشّے میں

تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

 

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے

نجانے ہم ہیں دوبارہ کہ یہ دو بارا ہے!

 

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں

ہر ایک حسن کسی حسن کا اشارہ ہے

 

نجانے کب تھا! کہاں تھا! مگر یہ لگتا ہے

یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

 

یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے، ہم تم!

مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے!

 

 

حبیب جالب

 

لوک گیتوں کا نگر یاد آیا

آج پردیس میں گھر یاد آیا

 

جب چلے آئے چمن زار سے ہم

التفاتِ گلِ تر یاد آیا

 

تیری بیگانہ نگاہی سرِ شام

یہ ستم تابہ سحر یاد آیا

 

ہم زمانے کا ستم بھول گئے

جب ترا لطفِ نظر یاد آیا

 

تو بھی مسرور تھا اس شب سربزم

اپنے شعروں کا اثر یاد آیا

 

پھر ہوا دردِ تمنا بیدار

پھر دل خاک بسر یاد آیا

 

ہم جسے بھول چکے تھے جالبؔ

پھر وہی راہ گزر یاد آیا

 

واصف علی واصف

 

وہ مرا ہم سفر ہو ممکن ہے

زندگی یوں بسر ہو ممکن ہے

 

ہم جسے تیرگی سمجھتے ہیں

وہ لباس سحر ہو ممکن ہے

 

میرے آنسو بھی خشک ہو جائیں

آنکھ اس کی بھی تر ہو ممکن ہے

 

دفعتاً وقت ہی بدل جائے

اتفاقاً نظر ہو ممکن ہے

 

میں نے کعبہ سمجھ لیا جس کو

وہ ترا سنگ در ہو ممکن ہے

 

اب کوئی آرزو نہیں باقی

یہ دعا کا اثر ہو ممکن ہے

 

مجھ کو اپنی خبر نہیں واصفؔ

تجھ کو میری خبر ہو ممکن ہے

 

مرزا اسداللہ خاں غالب

 

عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

 

جاتا ہوں داغِ حسرت ہستی لیے ہوئے

ہوں شمع کشتہ، در خورِ محفل نہیں رہا

 

وا، کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حُسن

غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

 

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

 

دل سے ہوا اے کِشتِ وفا مِٹ گئی کہ واں

حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا

 

بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا، مگر اسدؔ!

جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

 

 

محمد رفیع سودا

 

جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا

بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر

مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا

کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحم

یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ درگزر گنہ سے مرے

نہ ہو گا پھر کبھو اے تند خو ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے احوال دل پہ اے آنکھو

نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو ہوا سو ہوا

نہ کچھ ضرر ہوا شمشیر کا نہ ہاتھوں کا

مرے ہی سر پہ اے جلاد جو ہوا سو ہوا

دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سوداؔ

پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا

 

 

 

داغ دہلوی

 

تیری صورت کو دیکھتا ہوں میں

اس کی قدرت کو دیکھتا ہوں میں

وہ مصیبت سنی نہیں جاتی

جس مصیبت کو دیکھتا ہوں میں

دور بیٹھا ہوا سرِ محفل

رنگ صحبت کو دیکھتا ہوں میں

ہر مصیبت ہے بے مزا شب غم

آفت آفت کو دیکھتا ہوں میں

نہ محبت کو جانتے ہو تم

نہ مروت کو دیکھتا ہوں میں

کوئی دشمن کو یوں نہ دیکھے گا

جیسے قسمت کو دیکھتا ہوں میں

حشر میں داغؔ کوئی دوست نہیں

ساری خلقت کو دیکھتا ہوں میں

 

 

 

فیصل عجمی

 

دھند کے گہرے سمندر سے گزر آیا میں

سب نے دیکھا مجھے، خود کو بھی نظر آیا میں

ایک وادی تھی کہ خاموش تھی صدیوں سے مگر

اُس کو بھٹکی ہوئی آوازوں سے بھر آیا میں

موسمِ گل ہوں کہاں سیر کو آ نکلا ہوں

دیکھنا، ہو کے ابھی شہر بدر آیا میں

تیرے آنگن میں جو آتی تھی اسی دھوپ کے ساتھ

تجھ سے ملنے کے لیے شام و سحر آیا میں

ہو گئی رات، درندوں کی صدا آنے لگی

وہ مجھے کہہ کے گیا تھا کہ ٹھہر، آیا میں

واقعہ یہ ہے کہ سو بار ڈبویا تو نے

معجزہ یہ ہے کہ ہر بار ابھر آیا میں

اس نے اک خواب کی دوری سے پکارا تھا مجھے

راہ میں سات سمندر تھے، مگر آیا میں

 

 

صبا اکبر آبادی

 

غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی

شب کوئی بے سحر نہیں ہوتی

فرق ہے شمع و جلوہ میں ورنہ

روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی

یا مرا ظرفِ کیف بڑھ جاتا

یا شراب اِس قدر نہیں ہوتی

بات کیا ہے کہ بات بھی ہم سے

آپ کو دیکھ کر نہیں ہوتی

قدر کر بیقراریِ دل کی

یہ تڑپ عمر بھی نہیں ہوتی

اور گھر میں دھواں سا گھُٹتا ہے

دل جلا کر سحر نہیں ہوتی

بے ہُنر ہو صباؔ تمھیں ورنہ

کیسے قدرِ ہنر نہیں ہوتی

 

 

 

شاہ مبارک آبرو

 

دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت

گل ہوا ہے بہار کی صورت

کوئی گل رو نہیں تمھاری شکل

ہم نے دیکھیں ہزار کی صورت

تجھ گلی بیچ ہو گیا ہے دل

دیدۂ انتظار کی صورت

حسن کا ملک ہم نیں سیر کیا

کہیں دیکھی نہ پیار کی صورت

اس زمانے کی دوستی کے تئیں

کچھ نہیں اعتبار کی صورت

کچھ ٹھہرتی نہیں کہ کیا ہو گی

اس دل بے قرار کی صورت

آبرو دیکھ یار کا برو دوش

دل ہوا ہے کنار کی صورت

 

 

 

نظیر اکبر آبادی

 

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے

دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے

 

ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں لیکن

لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے

 

زخم اس تیغ نگہ کا مرے دل نے ہنس کر

اس مزے داری سے کھایا ہے کہ جی جانے ہے

 

بام پر چڑھ کے تماشے کو ہمیں حسن اپنا

اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانے ہے

 

اس کی فرقت میں ہمیں چرخ ستم گار نے آہ

یہ رلایا، یہ رلایا ہے کہ جی جانے ہے

 

رنج ملنے کے بہت دل نے سہے لیک نظیرؔ

یار بھی ایسا ملایا ہے کہ جی جانے ہے

 

 

اختر شمار

 

ذرا سی دیر تھی بس اک دیا جلانا تھا

اور اس کے بعد فقط آندھیوں کو آنا تھا

میں گھر کو پھونک رہا تھا بڑے یقین کے ساتھ

کہ تیری راہ میں پہلا قدم اٹھانا تھا

وگرنہ کون اٹھاتا یہ جسم و جاں کے عذاب

یہ زندگی تو محبت کا اک بہانہ تھا

یہ کون شخص مجھے کرچیوں میں بانٹ گیا

یہ آئنہ تو مرا آخری ٹھکانہ تھا

ملا تو ایسے کہ صدیوں کی آشنائی ہوا

تعارف اس سے بھی حالانکہ غائبانہ تھا

میں اپنی خاک میں رکھتا ہوں جس کو صدیوں سے

یہ روشنی بھی کبھی میرا آستانہ تھا

میں ہاتھ ہاتھوں میں اس کے نہ دے سکا تھا شمارؔ

وہ جس کی مٹھی میں لمحہ بڑا سہانا تھا

 

 

 

کشور ناہید

 

تجھ سے وعدہ عزیز تر رکھا

وحشتوں کو بھی اپنے گھر رکھا

اپنی بے چہرگی چھپانے کو

آئینے کو ادھر ادھر رکھا

اک ترا غم ہی اپنی دولت تھی

دل میں پوشیدہ بے خطر رکھا

آرزو نے کمال پہچانا

اور تعلق کو طاق پر رکھا

اس قدر تھا اداس موسم گل

ہم نے آب رواں پہ سر رکھا

اپنی وارفتگی چھپانے کو

شوق نے ہم کو در بہ در رکھا

کلمۂ شکر کہ محبت نے

ہم کو تمہید خواب پر رکھا

ان کو سمجھانے اپنا حرف سخن

آنسوؤں کو پیام پر رکھا

 

حفیظ جالندھری

 

ان کو جگر کی جستجو ان کی نظر کو کیا کروں

مجھ کو نظر کی آرزو اپنے جگر کو کیا کروں

رات ہی رات میں تمام طے ہوئے عمر کے مقام

ہو گئی زندگی کی شام اب میں سحر کو کیا کروں

وحشت دل فزوں تو ہے حال مرا زبوں تو ہے

عشق نہیں جنوں تو ہے اس کے اثر کو کیا کروں

فرش سے مطمئن نہیں پست ہے ناپسند ہے

عرش بہت بلند ہے ذوق نظر کو کیا کروں

ہائے کوئی دوا کرو ہائے کوئی دعا کرو

ہائے جگر میں درد ہے ہائے جگر کو کیا کروں

اہل نظر کوئی نہیں اس لیے خود پسند ہوں

آپ ہی دیکھتا ہوں میں اپنے ہنر کو کیا کروں

ترک تعلقات پر گر گئی برق التفات

راہ گزر میں مل گئے راہ گزر کو کیا کروں

 

 

 

باقی صدیقی

 

تم کب تھے قریب اتنے میں کب دور رہا ہوں

چھوڑو نہ کرو بات کہ میں تم سے خفا ہوں

رہنے دو کہ اب تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے

برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں

سو بار گرہ دے کے کسی آس نے جوڑا

سو بار میں دھاگے کی طرح ٹوٹ چکا ہوں

جائے گا جہاں تو مری آواز سنے گا

میں چور کی مانند ترے دل میں چھپا ہوں

اک نقطے پہ آ کر بھی ہم آہنگ نہیں ہیں

تو اپنا فسانہ ہے تو میں اپنی صدا ہوں

چھیڑو نہ ابھی شاخ شکستہ کا فسانہ

ٹھہرو میں ابھی رقص صبا دیکھ رہا ہوں

منزل کا پتا جس نے دیا تھا مجھے باقیؔ

اس شخص سے رستے میں کئی بار ملا ہوں

 

 

 

اسلم کولسری

 

زخم سہے، مزدوری کی

سانس کہانی پوری کی

 

جذبے کی ہر کونپل کو

آگ لگی مجبوری کی

 

چپ آیا۔۔۔۔ چپ لوٹ گیا

گویا بات ضروری کی

 

اس کا نام لبوں پر ہو

ساعت ہو منظوری کی

 

کتنے سورج بیت گئے

رُت نہ گئی بے نوری کی

 

پاس ہی کون تھا اسلمؔ جو

کریں شکایت دوری کی

 

 

صابر ظفر

 

واقف خود اپنی چشم گریزاں سے کون ہے

مانوس اب مرے دل ویراں سے کون ہے

کس کو خبر ہے کس گھڑی آنکھیں چھلک پڑیں

اب آشنا تہیۂ طوفاں سے کون ہے

دیکھیں جسے خلل ہے اسی کے دماغ میں

سرشار اب تصور جاناں سے کون

وہ ظلم شہر میں ہے کہ اندھیر ہے کوئی

وابستہ رسم جشن چراغاں سے کون ہے

دیکھو جسے وہی ہے گرفتار آرزو

اب دور اس نواح میں زنداں سے کون ہے

مقتل میں جس کو اپنے لہو سے جلایا تھا

پر نور اس ایک شمع فروزاں سے کون ہے

چہروں کی زردیوں سے ظفرؔ ہو موازنہ

نزدیک رنگ دشت و بیاباں سے کون ہے

 

 

 

سلیم کوثر

 

جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا

خود کو کبھی خوابوں کے حوالے نہیں کرنا

اِس عمر میں خوش فہمیاں اچھی نہیں ہوتیں

اِس عمر کو وعدوں کے حوالے نہیں کرنا

تم اصل سے بچھڑا ہوا اک خواب ہو شاید

اس خواب کو یادوں کے حوالے نہیں کرنا

اب اپنے ٹھکانے ہی پہ رہتا نہیں کوئی

پیغام پرندوں کے حوالے نہیں کرنا

دنیا بھی تو پاتال سے باہر کا سفر ہے

منزل کبھی رستوں کے حوالے نہیں کرنا

دیکھا نہیں اس فقر نے کیا کر دیا تم کو

اس فقر کو شاہوں کے حوالے نہیں کرنا

اِس معرکہ کہ عشق میں جو حال ہو میرا

لیکن مجھے لوگوں کے حوالے نہیں کرنا

 

 

 

مصطفی زیدی

 

ہار جیت

 

میری بن جانے پہ آمادہ ہے وہ جانِ حیات

جو کسی اور سے پیمانِ وفا رکھتی ہے

میری آغوش میں آنے کے لیے راضی ہے

جو کسی اور کو سینے میں چھپا رکھتی ہے

شاعری ہی نہیں کچھ باعث عزت مجھ کو

اور بہت کچھ حسد و رشک کے اسباب میں ہے

مجھ کو حاصل ہے وہ معیارِ شب و روز کہ جو

اُس کے محبوب کے ہاتھوں میں نہیں، خواب میں ہے

کون جیتے گا یہ بازی مجھے معلوم نہیں

زندگی میں مجھے کیا اور اُسے کیا مِل جائے گا

کاش وہ زینتِ آغوش کسی کی بن جائے

اور مجھے پیمانِ وفا مِل جائے

 

 

 

غلام ہمدانی مصحفی

 

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں

جاتی رہی ہے آہ سے تاثیر کیا کروں

شورِ جنوں ہوا ہے گلو گیر کیا کروں

ہے ٹوٹی جاتی پاؤں کی زنجیر کیا کروں

دل مانگتا ہے مجھ سے، مجھے بھی دیے بنی

اتنی سی چیز پر اسے دل گیر کیا کروں

بن دیکھے اس کے دل کو تسلی نہیں مرے

نقاش اس کی دل کو تسلی نہیں مرے

نقاش اس کی لے کے میں تصویر کیا کروں

اے یار دردِ دل کی مرے بات ہے کڈھب

مت پوچھو تم سے اس کی میں تقریر کیا کروں

پوچھا میں مصحفیؔ سے ہوا کیوں تو دربدر

بولا کہ یوں ہی تھی مری تقدیر کیا کروں

 

 

 

 

نوشی گیلانی

 

پلٹ کر پھر کبھی اُس نے پُکارا ہی نہیں ہے

وہ جس کی یاد سے دل کو کنارا ہی نہیں ہے

 

محبت کھیل ایسا تو نہیں ہم لَوٹ جائیں

کہ اِس میں جیت بھی ہو گی خسارا ہی نہیں ہے

 

کبھی وہ جگنوؤں کو مُٹھیوں میں قید کرنا

مگر اب تو ہمیں یہ سب گوارا ہی نہیں ہے

 

اب اس کے خال و خد کا ذکر کیا کرتے کسی سے

کہ ہم پر آج تک وہ آشکارا ہی نہیں ہے

 

یہ خواہش تھی کہ ہم کچھ دور تک تو ساتھ چلتے

ستاروں کا مگر کوئی اِشارا ہی نہیں ہے

 

بہت سے زخم کھانے دل نے آخر طے کیا ہے

تمھارے شہر میں اپنا گزارا ہی نہیں ہے

 

 

حزیں صدیقی

 

ترے خیال کی لَو میں جدھر جدھر جائیں

چراغ جل اٹھیں منظر نکھر نکھر جائیں

جو چاہتے ہیں سرِ منزلِ سحر جائیں

سکوتِ شام کی گہرائی میں اتر جائیں

وہ خاک زمزمۂ آگہی خریدیں گے

شکستِ ساز کی جھنکار سے جو ڈر جائیں

تلاشِ ذات نہ جانے ہمیں کہاں لے جائے

نہ جانے اپنے تعاقب میں ہم کدھر جائیں

میں اپنے بکھرے ہوئے خواب چن رہا ہوں ابھی

طلوعِ صبح کے لمحے ذرا ٹھہر جائیں

کہیں دکھائی نہ دے اور ہر جگہ موجود

’’یقیں نہ ہو تو ہم اہلِ شعور مر جائیں‘‘

ازل کا عہد ہے رشتہ بپا حزیں ورنہ

تعینات کی حد سے تو اب گزر جائیں

 

 

 

سمپورن سنگھ گلزار

 

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

آج پھر آپ کی کمی سی ہے

 

دفن کر دو ہمیں کہ سانس ملے

نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

 

کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں

برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

 

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر

اس کی عادت بھی آدمی سی ہے

 

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی

ایک تسلیم لازمی سی ہے

 

آئیے راستے الگ کر لیں

یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

 

 

ساغر صدیقی

 

حادثے کیا کیا تمھاری بے رُخی سے ہو گئے

ساری دنیا کے لیے ہم اجنبی سے ہو گئے

 

کچھ تمھارے گیسوؤں کی برہمی نے کر دیئے!

کچھ اندھیرے میرے گھر میں روشنی سے ہو گئے

 

بندہ پرور، کھُل گیا ہے آستانوں کا بھرم

آشنا کچھ لوگ رازِ بندگی سے ہو گئے

 

گردشِ دَوراں، زمانے کی نظر، آنکھوں کی نیند!

کتنے دشمن، ایک رسمِ دوستی سے ہو گئے

 

زندگی آگاہ تھی صیّاد کی تدبیر سے!

ہم، اسیرِ دامِ گل اپنی خوشی سے ہو گئے

 

ہر قدم ساغر! نظر آنے لگی ہیں منزلیں

مرحلے کچھ طے مِری آوارگی سے ہو گئے

 

 

عدیم ہاشمی

 

کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے

تیرے بھی دن گزر گئے، میرے بھی دن گزر گئے

تو بھی کچھ اور، اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہیں

جانے وہ تو کدھر گیا، جانے وہ ہم کدھر گئے

راہوں میں ملے تھے ہم، راہیں نصیب بن گئیں

تو بھی نہ اپنے گھر گیا، ہم بھی نہ اپنے گھر گئے

وہ بھی غبارِ خاک تھا، ہم بھی غبارِ خاک تھے

وہ بھی کہیں بکھر گیا، ہم بھی کہیں بھکر گئے

کوئی کنارِ آبِ جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں

کشتی کدھر چلی گئی، جانے کدھر بھنور گئے

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا

دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

اتنے قریب ہو گئے، اتنے قریب ہو گئے

وہ بھی عدیمؔ ڈر گیا، ہم بھی عدیمؔ ڈر گئے

 

 

 

صوفی غلام مصطفی تبسم

 

وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب

جو اس جگہ بھی نہ تُو مل سکے تو میرے نصیب

 

ترے خیال کا مسکن چمن چمن کا سفر

مری وفا کا نشیمن فقط دیارِ حبیب

 

نظر سے بچ کے ملے ہیں وہ بارہا مجھ سے

ہزار بار ہوا ہے یہ دل نظر کا رقیب

 

الجھ نہ جائیں کہیں اور دل کے افسانے

کہاں حدیثِ محبت، کہاں بیانِ خطیب

 

نہ جانے کونسی شے چشمِ غمگسار میں تھی

کہ جس کو دیکھ کے لرزاں ہوا ہے دستِ طبیب

 

ابھی فسردہ ہے ساقی ترا تبسمِؔ لب

کسی کی یاد کو لے آؤ میکدے کے قریب

 

مجید امجد

 

اِک عمر دل کی گھات سے تُجھ پر نگاہ کی

تُجھ پر، تِری نگاہ سے چھُپ کر نگاہ کی

 

رُوحوں میں جلتی آگ، خیالوں میں کھِلتے پھول

ساری صداقتیں کسی کافر نگاہ کی

 

جب بھی غمِ زمانہ سے آنکھیں ہوئیں دوچار

منہ پھیر کر تبسمِ دل پر نگاہ کی

 

باگیں کھنچیں، مسافتیں کڑکیں، فرس رُکے

ماضی کی رتھ سے کِس نے پَلٹ کر نگاہ کی

 

دونوں کا ربط ہے تِری موجِ خرام سے

لغزِش خیال کی ہو، کہ ٹھوکر نگاہ کی

 

 

عقیل عباس جعفری

 

گلوں کی تازگی، خوش بو ، ہنسی برائے فروخت

ہے اس چمن کی ہر اک چیز ہی برائے فروخت

 

سب ہی کے ماتھے پہ تختی لگی ہوئی ہے یہاں

کوئی برائے نمائش، کوئی برائے فروخت

 

وزیر و شاہ بکے سو بکے مگر اب کے

ہیں اسپ و فیل و پیادہ سب ہی برائے فروخت

 

بس ایک شام گزاری تھی اس کی یاد کے ساتھ

ہے اب وہ شام وہ اک یاد بھی برائے فروخت

 

پھر ایک موڑ کہانی میں آ گیا ایسا

تھا جس میں مرکزی کردار ہی برائے فروخت

 

 

اسلم فرخی

 

آگ سی لگ رہی ہے سینے میں

اب مزا کچھ نہیں ہے جینے میں

آخری کشمکش ہے یہ شاید

موج دریا میں اور سفینے میں

زندگی یوں گزر گئی جیسے

لڑکھڑاتا ہو کوئی زینے میں

دل کا احوال پوچھتے کیا ہو

خاک اڑتی ہے آبگینے میں

کتنے ساون گزر گئے لیکن

کوئی آیا نہ اس مہینے میں

سارے دل ایک سے نہیں ہوتے

فرق ہے کنکر اور نگینے میں

 

 

 

 

 

قمر جمیل

 

آج ستارے آنگن میں ہیں ان کو رخصت مت کرنا

شام سے میں بھی الجھن میں ہوں تم بھی غفلت مت کرنا

 

ہر آنگن میں دیئے جلانا ہر آنگن میں پھول کھلانا

اس بستی میں سب کچھ کرنا ہم سے محبت مت کرنا

 

اجنبی ملکوں اجنبی لوگوں میں آ کر معلوم ہوا

دیکھنا سارے ظلم وطن میں لیکن ہجرت مت کرنا

 

اس کی یاد میں دن بھیر رہنا آنسو روکے چپ سادھے

پھر بھی سب سے باتیں کرنا اس کی شکایت مت کرنا

 

 

 

 

کیفی اعظمی

 

آج سوچا تو آنسو بھر آئے

مدتیں ہو گئیں مسکرائے

 

ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا

ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے

 

رہ گئی زندگی درد بن کے

درد دل میں چھپائے چھپائے

 

دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں

یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے

 

 

 

 

 

 

 

احمد جاوید

 

ایک نظم

 

آخر کار میرے دوست

تم نے آنکھوں کی تجدید کا فیصلہ کر ہی ڈالا

ان دیکھے کی دید ایجاد کرنے کے لیے

تم نے کیسے دریافت کیا کہ چیزیں

ایک اصیل نگاہ کے قابل نہیں رہیں

یہ ساری کائنات ایک سپاٹ تصویر ہے

جس سے اتنی جگہ بھی نہیں بھری جاسکتی

جو تمھارے کینوس میں حلقہ موجود ہے

تم نے بہتر جانا کہ آنکھوں پر سے

کچھ پرتیں اتار دو

تاکہ وہ دیکھ لیں کیسے ایجاد کیا جاتا ہے

وہ منظر جہاں ہر شے نئے سرے سے

مشہور اور مصنوع اور موجود ہے

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

جب دل ہی نہیں باقی، وہ آتشِ پارا سا

کیوں رقص میں رہتا ہے پلکوں پہ شرارا سا

 

وہ موج ہمیں لے کر، گرداب میں جا نکلی

جس موج میں روشن تھا سرسبز کنارا سا

 

اک بام پہ، شام ڈھلے، رنگین چراغ جلے

کچھ دور اک پیڑ تلے، راگی تھکا ہارا سا

 

تارا سا بکھرتا ہے، آکاش سے یا کوئی

ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارا سا

 

تنکوں کی طرح ہر شب، تن من کو بہا لے جائے

اک برسوں سے بچھڑی ہوئی آواز کا دھارا سا

 

جیسے کوئی کم کم ہو، شاید وہی اسلمؔ ہو

اس راہ سے گزرا ہے اک ہجر کا مارا سا

 

حضرت ذہین شاہ تاجی

 

جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا

شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، میخانہ بن جا

مے بن کر، میخانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا

مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا

ہستی سے بیگانہ ہونا، مستی کا افسانہ بننا

اس ہونے سے، اس بننے سے، اچھا ہے دیوانہ بن جا

دیوانہ بن جانے سے بھی، دیوانہ ہونا اچھا ہے

دیوانہ ہونے سے اچھا، خاکِ درِ جانانہ بن جا

خاکِ درِ جانانہ کیا ہے، اہلِ دل کی آنکھ کا سُرمہ

شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نُورِ دلِ پروانہ بن جا

 

سیکھ ذہین کے دل سے جلنا، کاہے کو ہر شمع پہ جلنا

اپنی آگ میں خود جل جائے، تو ایسا پروانہ بن جا

 

 

خلیل الرحمن اعظمی

 

وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا

گھر میں کوئی آئے کہ نہ آئے ایک دیا سا جلتا تھا

یاد آتی ہیں وہ شامیں جب رسم و راہ کسی سے تھی

ہم بے چین سے ہونے لگتے جوں جوں یہ دن ڈھلتا تھا

ان گلیوں میں اب سنتے ہیں راتیں بھی سو جاتی ہیں

جن گلیوں میں ہم پھرتے تھے جہاں وہ چاند نکلتا تھا

وہ مانوس سلونے چہرے جانے اب کس حال میں ہیں

جن کو دیکھ کے خاک کا ذرہ ذرہ آنکھیں ملتا تھا

شاید اپنا پیار ہی جھوٹا تھا ورنہ دستور یہ تھا

مٹی میں جو بیچ بھی بویا جاتا تھا وہ پھلتا تھا

اب کے ایسے پت جھڑ آئی سوکھ گئی ڈالی ڈالی

ایسے ڈھنگ سے کوئی پودا کب پوشاک بدلتا تھا

دنیا بھر کی رام کہانی کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی

اپنی کہنے جب بیٹھے تو اک اک لفظ پگھلتا تھا

 

 

منیر نیازی

 

صدا بصحرا

 

چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور

وہ کہتی ہے کون

میں کہتا ہوں میں

کھولو یہ بھاری دروازہ

مجھ کو اندر آنے دو

اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پروین فنا سید

 

چوٹ نئی ہے لیکن زخم پرانا ہے

یہ چہرہ کتنا جانا پہچانا ہے

 

ساری بستی چپ کی دھند میں ڈوبی ہے

جس نے لب کھولے ہیں وہ دیوانہ ہے

 

آؤ اس سقراط کا استقبال کریں

جس نے زہر کے گھونٹ کو امرت جانا ہے

 

اک اک کر کے سب پنچھی دم توڑ گئے

بھری بہار میں بھی گلشن ویرانہ ہے

 

اپنا پڑاؤ دشت وفا بے آب و گیاہ

تم کو تو دو چار قدم ہی جانا ہے

 

کل تک چاہت کے آنچل میں لپٹا تھا

آج وہ لمحہ خواب ہے یا افسانہ ہے

 

 

تہذیب حافی

 

چہرہ دیکھیں تیرے ہونٹ اور پلکیں دیکھیں

دل پہ آنکھیں رکھیں تیری سانسیں دیکھیں

 

سرخ لبوں سے سبز دعائیں پھوٹی ہیں

پیلے پھولوں تم کو نیلی آنکھیں دیکھیں

 

سال ہونے کو آیا ہے وہ کب لوٹے گا

آؤ کھیت کی سیر کو نکلیں کونجیں دیکھیں

 

تھوڑی دیر میں جنگل ہم کو عاق کرے گا

برگد دیکھیں یا برگد کی شاخیں دیکھیں

 

میرے مالک آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں

ساتھ چلیں ہم اور دنیا کی آنکھیں دیکھیں

 

ہم تیرے ہونٹوں کی لرزش کب بھولے ہیں

پانی میں پتھر پھینکیں اور لہریں دیکھیں

 

 

 

اعزاز احمد آذر

 

درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے

بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے

 

نشاط منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجر سفر ہی دے دو

وہ رہ نورد رہ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے

 

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں

ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے

 

اب ایسے قصے سے فائدہ کیا کہ کون کتنا وفا نگر تھا

جب اس کی محفل سے آ گئے اور ساری باتیں ہی بھول آئے

 

وفا کی نگری لٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا

کسی کے حصے میں زخم آئے کسی کے حصے میں پھول آئے

 

بنام فصل بہار آذرؔ وہ زرد پتے ہی معتبر تھے

جو ہنس کے رزق خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول آئے

 

 

نصیر ترابی

 

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی

شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی

 

شہروں میں ایک شہر مرے رت جگوں کا شہر

کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہیں رہی

 

راہوں میں ایک راہ وہ گھر لوٹنے کی راہ

ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی

 

یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد

وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی

 

باتوں میں ایک بات تری چاہتوں کی بات

اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی

 

سناٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیرؔ

آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی

 

 

افتخار عارف

 

عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی

نئے سفر کے لیے راستہ نہ مانگے کوئی

 

بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں

عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی

 

تمام شہر مکرم بس ایک مجرم میں

سو میرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی

 

کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے

نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی

 

عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے

اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی

 

 

 

 

پروین شاکر

 

خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم

بچھڑ گیا تری صورت، بہار کا موسم

کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں

ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم

وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لَوٹ آئے

سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم

پیام آیا ہے پھر ایک سر و قامت کا

مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم

وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے

مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم

رفاقتوں کے نئے خواب خوشنما ہیں مگر

گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

وہ میرا نام لیے جائے اور میں اُس کا نام

لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم

ترے طریقِ محبت پہ بارہا سوچا

یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم

 

مومن خان مومن

 

دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے

فلسِ ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بیجاں ہوں گے

تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں

اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے

ہم نکالیں گے سُن اے موجِ ہوا، بل تیرا

اُس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے

چاک پردہ سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں

ایک میں کیا کہ سبھی چاکِ گریباں ہوں گے

 

 

 

عدیم ہاشمی

 

اسی ایک فرد کے واسطے مرے دل میں درد ہے کس لیے

میری زندگی کا مطالبہ وہی ایک فرد ہے کس لیے

 

تو جو شہر میں ہی مقیم ہے تو مسافرت کی فضا ہے کیوں

ترا کارواں جو نہیں گیا تو ہوا میں گرد ہے کس لیے

 

نہ جمال و حسن کی بزم ہے نہ جنون و عشق کا عزم ہے

سرِ دشت رقص میں ہر گھڑی کوئی باد گرد ہے کس لیے

 

جو لکھا ہے مرے نصیب میں کہیں تو نے پڑھ تو نہیں لیا

ترا ہاتھ سرد ہے کس لیے، ترا رنگ زرد ہے کس لیے

 

کوئی واسطہ جو نہیں رہا تری آنکھ میں یہ نمی ہے کیوں؟

مرے غم کی آگ کو دیکھ کر، تری آہ سرد ہے کس لیے؟

 

 

 

 

 

امام بخش ناسخ

 

مقابل آپ کی آنکھوں کے آہو ہو نہیں سکتا

انھیں کے آگے جادو گر سے جادو ہو نہیں سکتا

مری آنکھوں سے کیا نسبت کہ قطرہ آبِ نیساں کا

دُرِ نایاب ہوسکتا ہے آنسو ہو نہیں سکتا

بنا گو سجدہ گاہِ اہلِ ایماں طاق کعبے کا

مگر حاصل مقامِ طاق ابرو ہو نہیں سکتا

لہو سارے بدن کا کر دیا ہے خشک فرقت نے

مگر اے آہ تجھ سے خشک آنسو ہو نہیں سکتا

جو پہلو نشیں تو کر گیا پہلو تہی ہم سے

جدا پہلو سے دم بھر دردِ پہلو ہو نہیں سکتا

ہوا جو خود نما اس باغ میں جلدی فنا ہو گا

قیامِ رنگِ گل تا ہستیِ بو ہو نہیں سکتا

 

 

 

 

 

قمر جلالوی

 

مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی

کہ ہے نخلِ گل کا تو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

 

مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا

تِرے جام خالی نہ ہوسکے مِری چشمِ تر نہ بھری رہی

 

میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھے رات دن یہ خیال ہے

یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی

 

میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا

مری جب بھی در بدری رہی مری اب بھی در بدری رہی

 

یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا

وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی

 

شبِ وعدہ وہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا یہ چرخ سے

ترے تارے بھی گئے رائگاں تری چاندنی بھی دھری رہی

 

 

میراجی

 

غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں

غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں

 

کرنے اور کہنے کی باتیں، کس نے کہیں اور کس نے کیں

کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں

 

بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے

حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں

 

ایک ٹھکانا آگے آگے، پیچھے پیچھے مسافر ہے

چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے، منزل کا اعلان کریں

 

میر ملے تھے میراجی سے، باتوں سے ہم جان گئے

فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں

 

 

 

 

سرور بارہ بنکوی

 

تو کیا یہ طے ہے، کہ اب عمر بھر نہیں ملنا

تو پھر یہ عمر بھی کیوں، تم سے گر نہیں ملنا

یہ کون چُپکے سے تنہائیوں میں کہتا ہے

تِرے بغیر سُکوںعمر بھر نہیں ملنا

چلو زمانے کی خاطر یہ جبر بھی سہہ لیں

کہ اب مِلے تو کبھی ٹوٹ کر نہیں ملنا

رہِ وفا کے مُسافر کو کون سمجھائے

کہ اِس سفر میں کوئی ہمسفرنہیں ملنا

جُدا تو جب بھی ہوئے دِل کو یوں لگا جیسے

کہ اب گئے تو کبھی لوٹ کر نہیں ملنا

 

سراج الدین ظفر

 

ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے

میزانِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے

 

عکسِ جمالِ یار بھی کیا تھا، کہ دیر تک

آئینے قُمریوں کی طرح بولتے رہے

 

کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سُبو رہا

اسرار کتمِ راز میں پر تولتے رہے

 

پوچھو نہ کچھ کہ ہم سے غزالانِ بزمِ شب

کس شہرِ دلبری کی زباں بولتے رہے

 

سرمایہ ادب تھی ہماری غزل ظفر

اشعارِ نغز تھے، کہ گُہر رولتے رہے

 

 

 

ابھیشک شکلا

 

اب اختیار میں موجیں نہ یہ روانی ہے

میں بہہ رہا ہوں کہ میرا وجود پانی ہے

میں اور میری طرح تو بھی اک حقیقت ہے

پھر اس کے بعد جو بچتا ہے وہ کہانی ہے

ترے وجود میں کچھ ہے جو اس زمیں کا نہیں

ترے خیال کی رنگت بھی آسمانی ہے

ذرا بھی دخل نہیں اس میں ان ہواؤں کا

ہمیں تو مصلحتاً اپنی خاک اڑانی ہے

یہ خواب گاہ یہ آنکھیں یہ میرا عشق قدیم

ہر ایک چیز مری ذات میں پرانی ہے

وہ ایک دن جو تجھے سوچنے میں گزرا تھا

تمام عمر اسی دن کی ترجمانی ہے

ارادتاً تو کہیں کچھ نہیں ہوا لیکن

میں جی رہا ہوں یہ سانسوں کی خوش گمانی ہے

 

 

 

مبارک عظیم آبادی

 

اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی

یعنی کبھی کبھی کی ملاقات بھی گئی

 

کہتے ہیں وہ کہ جذبۂ دل اب فریب ہے

جب دل گیا تو دل کی کرامات بھی گئی

 

جو کچھ کیا وہ تو نے کیا اضطراب شوق

سو آفتیں بھی آئیں مری بات بھی گئی

 

دستار آپ کی جو ہوئی رہن میکدہ

توبہ ہماری قبلۂ حاجات بھی گئی

 

وعدے کی کون رات قیامت کا دن نہیں

آثار صبح کہتے ہیں یہ رات بھی گئی

 

مانا کہ دن سدھارے مبارکؔ شباب کے

رنگیں طبیعتوں سے ملاقات بھی گئی

 

 

ادا جعفری

 

ایک نظم

 

جیسے دریا کنارے

کوئی تشنہ لب

آج میرے خدا

میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں

میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب

میرے آنکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے

میرے حصے میں کچھ حرف ایسے بھی تھے

جو فقط لوح جاں پر لکھے رہ گئے

 

 

 

ایوب خاور

 

آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا

قطرۂ خوں پانیوں کے ساتھ رسوا ہو گیا

 

خاک کی چادر میں جسم و جاں سمٹتے ہی نہیں

اور زمیں کا رنگ بھی اب دھوپ جیسا ہو گیا

 

ایک اک کر کے مرے سب لفظ مٹی ہو گئے

اور اس مٹی میں دھنس کر میں زمیں کا ہو گیا

 

تجھ سے کیا بچھڑے کہ آنکھیں ریزہ ریزہ ہو گئیں

آئنہ ٹوٹا تو اک آئینہ خانہ ہو گیا

 

اے ہوائے وصل چل پھر سے گل ہجراں کھلا

سر اٹھا پھر اے نہال غم سویرا ہو گیا

 

اے جمال فن اسے مت رو کہ تن آساں تھا

تیری دنیاؤں کا خاورؔ صرف دنیا ہو گیا

 

 

 

ندا فاضلی

 

آج ذرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا

بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا

 

کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے

رنگ اڑائے پھول کھلائے چڑیوں کو آزاد کیا

 

بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں

چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا

 

بات بہت معمولی سی تھی الجھ گئی تکراروں میں

ایک ذرا سی ضد نے آخر دونوں کو برباد کیا

 

داناؤں کی بات نہ مانی کام آئی نادانی ہی

سنا ہوا کو پڑھا ندی کو موسم کو استاد کیا

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

ایک نظم

 

کسی بھی وقت

کسی سے

کوئی توقع بھی رکھو

کہ عین ممکن ہے

صبا چٹکتے شگوفوں کو راکھ کر جائے

پون چلے تو درختوں میں آگ لہرائے

گھٹا سلگتے بنوں کو لہو سے بھر جائے

پہاڑ رونے لگیں

بحر خشک ہونے لگیں

عجیب عہدِ پریشاں ہے، کچھ خیال رہے

کسی بھی وقت کوئی شخص روٹھ سکتا ہے

وفا کا رشتہ کسی وقت ٹوٹ سکتا ہے

 

 

 

حسرت موہانی

 

شوقِ مشتاق تھا صبر سے بیگانہ ہوا

جب سے مشہور ترے حُسن کا افسانہ ہوا

ایک ہی کام تو یہ عشق سے مردانہ ہوا

کہ ترے شیوۂ تُرکانہ کا دیوانہ ہوا

وصلِ جاناں نہ ہوا جان دیئے پر بھی نصیب

یعنی اس جنسِ گرامی کا یہ بیعانہ ہوا

بزمِ ساقی میں ہوئے سب یونہی سیرابِ سرور

مئے گلِ رنگ سے لبریز جو پیمانہ ہوا

حُسن جاناں کے تصور سے بڑھی زینتِ دل

مقدمِ شہہ سبب رونقِ کاشانہ ہوا

ہم فقیروں کی تواضع کو دعائیں دیجیے

کہ اسی سے تو مزاج آپ کا شاہانہ ہوا

پیروِ پیر مغاں تھا میں یہاں تک حسرتؔ

کہ فنا ہو کے بھی خاکِ رہِ مے خانہ ہوا

 

 

 

مرزا اسداللہ خاں غالب

 

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

 

دل آشُفتگاں خالِ کنج دہن کے

سُویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں

 

ترے سروِ قامت سے اِک قد آدم

قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

 

تماشا! کہ اے محوِ آئینہ داوری

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

 

سراغِ تفِ نالہ لے داغِ دل سے

کہ شبرو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

 

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

 

 

منیر نیازی

 

محبت اب نہیں ہو گی

 

ستارے جو مہکتے ہیں

کسی کی چشم حیراں میں

ملاقاتیں جو ہوتی ہیں

جمال ابرو باراں میں

یہ نا آباد وقتوں میں

دل ناشاد میں ہو گی

محبت اب نہیں ہو گی

یہ کچھ دن بعد میں ہو گی

گزر جائیں گے جب یہ دن

یہ ان کی یاد میں ہو گی

 

 

 

 

 

فیض احمد فیض

 

راز الفت چھپا کے دیکھ لیا

دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا

 

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

 

وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے

ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

 

آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے

سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا

 

فیض تکمیل غم بھی ہو نہ سکی

عشق کو آزما کے دیکھ لیا

 

 

 

 

انور مسعود

 

کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا

دھوپ میں پھرنا گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا

 

ساتھ اس کے کوئی منظر کوئی پس منظر نہ ہو

اس طرح میں چاہتا ہوں اس کو تنہا دیکھنا

 

رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا

کس سے پوچھیں خواب میں کیسا ہے دریا دیکھنا

 

اس گھڑی کچھ سوجھنے دے گی نہ یہ پاگل ہوا

اک ذرا آندھی گزر جائے تو حلیہ دیکھنا

 

کھل کے رو لینے کی فرصت پھر نہ اس کو مل سکی

آج پھر انورؔ ہنسے گا بے تماشا دیکھنا

 

 

 

 

 

عرفان صدیقی

 

خواب میں بھی میری زنجیر سفر کا جاگنا

آنکھ کیا لگنا کہ اک سودائے سر کا جاگنا

اگلے دن کیا ہونے والا تھا کہ اب تک یاد ہے

انتظار صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا

بستیوں سے شب نوردوں کا چلا جانا مگر

رات بھر اب بھی چراغ راہ گزر کا جاگنا

آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد

میرا سو جانا مرے دیوار و در کا جاگنا

پھر ہواؤں سے کسی امکان کی ملنا نوید

پھر لہو میں آرزوئے تازہ تر کا جاگنا

اس کا حرف مختصر بیداریوں کا سلسلہ

لفظ میں معنی کا، معنی میں اثر کا جاگنا

یک بیک ہر روشنی کا ڈوب جانا اور پھر

آسماں پر اک طلسم سیم و زر کا جاگنا

 

 

 

اختر شیرانی

 

وہ مرے دل کا حال کیا جانے!

سوز رنج و ملال کیا جانے!

 

صبر کو سب کمال کہتے ہیں

عاشقی یہ کمال کیا جانے

 

خون ہوتا ہے کس کی حسرت کا

میرا رنگیں جمال کیا جانے

 

وہ غریبوں کا حال کیوں پوچھے8نھ

وہ غریبوں کا حال کیا جانے

 

کھو گیا لہو جو دل تصور میں

وہ فراق و وصال کیا جانے

 

مر رہے ہیں فراق میں اخترؔ

وہ مگر اپنا حال کیا جانے

 

 

جگر مراد آبادی

 

جب ہر اک سورش غم ضبط فغاں تک پہنچے

پھر خدا جانے، یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے

 

آنکھ تک دل سے نہ آئے، نہ زباں تک پہنچے

بات جس کی ہے، اسی آفت جاں تک پہنچے

 

تو جہاں پر تھا بہت پہلے، وہیں آج بھی ہے

دیکھ، رندان خوش انفاس کہاں تک پہنچے

 

تو میرے حال پریشان پہ بہت طنز نہ کر

اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ، کہاں تک پہنچے

 

ان کا جو فرض ہے، وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

 

جلوے بیتاب تھے جو پردہ فطرت میں جگر

خود تڑپ کی مری چشم نگراں تک پہنچے

 

 

 

ظفر اقبال

 

خون کی ریتلی دیوار گر آئے نہ کہیں

دن مجھے توڑ کے باہر نکل آئے نہ کہیں

 

رات روشن ہے، مرے دل کا نظارا کر لو

صبح پڑ جائیں کسی ابر کے سائے نہ کہیں

 

عید نظارہ ہوئی تیز ہوا کے دم سے

دیکھ پائے نہ کہیں، پردہ گرائے نہ کہیں

 

آج تنہائی میں جو عہد کیئے ہیں خود سے

دل بہت سادہ ہے، جا اس کو بتائے نہ کہیں

 

دل کا دربان بنا بیٹھا ہوں اور دیکھتا ہوں

کوئی امید، کوئی خواب در آئے نہ کہیں

 

سبز جنگل سے گزرتا ہوا ڈرتا ہوں ظفر

پھر کوئی شاخ مجھے پاس بلائے نہ کہیں

 

 

 

فاطمہ حسن

 

کہنے کو اس سے عشق کی تفسیر ہے بہت

پڑھ لے تو صرف آنکھ کی تحریر ہے بہت

 

تحلیل کر کے شدت احساس، رنگ میں

بن جائے گر تو ایک ہی تصویر ہے بہت

 

دستک سے در کا فاصلہ ہے اعتماد کا

پر لوٹ جانے کو یہی تاخیر ہے بہت

 

بیٹھا رہا وہ پاس تو میں سوچتی رہی

خاموشیوں کی اپنی بھی تاثیر ہے بہت

 

تعمیر کر رہا ہے صحبت کا وہ حصار

میرے لیے خلوص کی زنجیر ہے بہت

 

میں اس سے اپنی بات کہوں، شعر لکھ سکوں

الفاظ دے وہ جن میں کہ تاثیر ہے بہت

 

 

مشفق خواجہ

 

کچھ اس طرح سے ترا غم دیے جلاتا تھا

کہ خاک دل کا ہر اک ذرہ جگمگاتا تھا

 

اسی لیے نہ کیا تلخیِ جہاں کا گلہ

ترا خیال پس پردہ مسکراتا تھا

 

نہ یاد رکھتا تھا مجھ کو نہ بھول جاتا تھا

کبھی کبھی وہ مجھے یوں بھی آزماتا تھا

 

ہر آئنہ تھا سراپا حجاب میرے لیے

میں اپنے آپ کو دیکھوں، نظر وہ آتا تھا

 

اداس کمرہ مہکتا تھا کس کی یادوں سے

وہ کون شخص تھا، کیا تھا، کہاں سے آتا تھا

 

چمکتے تھے درو دیوار آئنوں کی طرح

ان آئنوں میں کوئی عکس مسکراتا تھا

 

جاں نثار اختر

 

آتے کیا کیا یاد نظر جب پڑتی ان دالانوں پر

اس کا کاغذ چپکا دینا گھر کے روشن دانوں پر

 

شہر کے تپتے فٹ پاتھوں پر گاؤں کے موسم ساتھ چلیں

بوڑھے برگد ہاتھ سا رکھ دیں میرے جلتے شانوں پر

 

سستے داموں لے تو آئے لیکن دل تھا، بھر آیا

جانے کس کا نام کھدا تھا پیتل کے گلدانوں پر

 

اس کا کیا من بھید بتاؤں، اس کا کیا انداز کہوں

بات بھی میری سننا چاہے، ہاتھ بھی رکھے کانوں پر

 

شعر تو ان پر لکھے لیکن اوروں سے منسوب کیئے

ان کو کیا کیا غصہ آیا، نظموں کے عنوانوں پر

 

یارو اپنے عشق کے قصے یوں بھی کم مشہور نہیں

کل تو شاید ناول لکھے جائیں ان رومانوں پر

 

 

احمد مشتاق

 

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

 

جس کی سانسوں سے چمکتے تھے در و بام ترے

اے مکاں بول! کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے

 

اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

 

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بہت گئے

عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

 

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن

عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

 

 

 

 

سلیم احمد

 

ہمراہی

 

دو ہمراہی

سورج اور میں

شام کو منزل پر پہنچے

دونوں بہت تھکے ہوئے تھے

مٹی کے بستر میں سوئے

اگلی صبح کو سورج جاگا

مجھ کو سوتا چھوڑ کے

تنہا چلا گیا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

غلام ہمدانی مصحفیؔ

 

درمیاں میں نقاب کس دن تھا

میرے اس کے حجاب کس دن تھا

 

لطف کرتے تھے مجھ پہ تم ہر دم

جان من! یہ عتاب کس دن تھا

 

آہ جاتی تھی سعی سے لب تک

نالہ پا در رکاب کس دن تھا

 

حادثے ہوتے تھے زمانے میں

اس قدر انقلاب کس دن تھا

 

کون رویا ہے، گل کے چہرے پر

اس قدر آب و تاب کس دن تھا

 

مصحفیؔ! آج تو قیامت ہے

دل کو یہ اضطراب کس دن تھا

 

شکیب جلالی

 

گلے ملا نہ کبھی چاند، بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

 

ستارے سسکیاں بھرتے تھے، اوس روتی تھی

فسانۂ جگر لخت لخت ایسا تھا

 

ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا

 

یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک

کوئی نہ سہہ سکے، لہجہ کرخت ایسا تھا

 

کہاں کی سیر نہ کی توسن تخیل پر

ہمیں یہ تو بھی سلیمان کے تخت ایسا تھا

 

ادھر سے گزرا تھا ملک سخن اک شہزادہ

کوئی نہ جان سکا، ساز و رخت ایسا تھا

 

 

عزیز حامد مدنی

 

عشق کی اک بحث ردِّ ماہ تُو تک آئی ہے

ہم کناری کی شب نو گفتگو تک آئی ہے

 

تجھ سے مل کر مدتوں کے بعد دل ہے شاد کام

دل کی تنہائی دلیل آرزو تک آئی ہے

 

نیم وا آنکھوں میں پاکر اک سوال زندگی

عشق کی جرأت جو اب رو برو تک آئی ہے

 

بدگماں موج ہوا سے ہوں جو دستک دے گئی

کیا تلاش شہر میرے سادہ رو تک آئی ہے

 

کل جو جزر و مد میں غلطیاں تھی بہ ہنگام وصال

اب وہ موج ساعت رفتہ لہو تک آئی ہے

 

 

 

 

مومن خاں مومن

 

تم بھی رہنے لگے خفا صاحب

کہیں سایہ مرا پڑا صاحب

 

ہے یہ بندہ ہی بے وفا صاحب

غیر اور تم بھلے بھلا صاحب

 

کیوں الجھتے ہو جنبش لب سے

خیر ہے میں نے کیا کہا صاحب

 

دم آخر بھی تم نہیں آئے

بندگی اب کہ میں چلا صاحب

 

ستم آزاد ظلم جو رد جفا

جو کیا سو بھلا کیا صاحب

 

نام عشق بتاں نہ لو مومن

کیجیے بس خدا خدا صاحب

 

 

 

اسلم کولسری

 

اجنبیت کے نئے ذائقے بخشے اب کے

اس کے ہاتھوں میں تو پتھر بھی نہیں تھے اب کے

 

بستیوں پر کسی آسیب کا سایہ ہی سہی

جنگلوں میں بھی پرندے نہیں چہکے اب کے

 

گلی کوچوں میں بہت روشنیاں پھرتی ہیں

پھر بھی در بند ہوئے شام سے پہلے اب کے

 

کپکپانا تو سدا ہی سے تھی فطرت ان کی

لڑکھڑاتے ہوئے لگتے ہیں ستارے اب کے

ٹوٹنا اور کسی طور سمٹ بھی جانا

کیجئے کیا کہ ہوا لے اڑی ریزے اب کے

 

وقت نے ہاتھ ہی کچھ ایسا دکھایا اسلمؔ

آج تک جو نہیں سمجھے تھے وہ سمجھے اب کے

 

 

 

خواجہ میر درد

 

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے

اے عمر رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے؟

 

اے گل! تو رخت باندھ، اٹھاؤں میں آشیاں

گل چیں تجھے نہ دیکھ سکے، باغباں مجھے

 

رہتی ہے کوئی بن کیے میرے تئیں تمام

جوں شمع، چھوڑنے کی نہیں یہ زباں مجھے

 

پتھر تلے کا ہاتھ ہے، غفلت کے ہاتھ دل

سنگ گراں ہوئی ہے یہ خواب گراں مجھے

 

کچھ اور کنج غم کے سوا سوجھتا نہیں

آتا ہے یاد جب کہ وہ کنج دہاں مجھے

 

جاتا ہوں خوش دماغ جو سن کے اسے کبھو

بدلے ہے دونوں نظریں وہ، دیکھا جہاں مجھے

 

 

عرفان صدیقی

 

ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں

عجب درخت ہیں، دشت بلا میں زندہ ہیں

 

گزرنے والے جہازوں کو کیا خبر ہے کہ ہم

اسی جزیرۂ بے آشنا میں زندہ ہیں

 

گلی میں ختم ہوا قافلے کا شور، مگر

مسافروں کی صدائیں سرا میں زندہ ہیں

 

مجھے ہی کیوں ہو کسی اجنبی پکار کا خوف

سبھی تو دامن کوہ ندا میں زندہ ہیں

 

خدا کا شکر، ابھی میرے خواب ہیں آزاد

مرے سفر، مری زنجیر ہا میں زندہ ہیں

 

ہوائے کوچۂ نامہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

 

 

فیض احمد فیض

 

تری امید تر انتظار جب سے ہے

نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے

 

کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم

گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

 

ہوا ہے جب سے دل ناصبور بے قابو

کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

 

اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھلے

طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے

 

کہاں گے شب فرقت کے جاگنے والے

ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے

 

 

 

 

سعود عثمانی

 

حساب ترک تعلق تمام میں نے کیا

شروع اس نے کیا اختتام میں نے کیا

 

وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے

سو اس کا جشن بصد اہتمام میں نے کیا

 

بہت دنوں میں مرے گھر کی خامشی ٹوٹی

خود اپنے آپ سے اک دن کلام میں نے کیا

 

اس ایک ہجر نے ملوا دیا وصال سے بھی

کہ تو گیا تو محبت کو عام میں نے کیا

 

مزاج غم نے بہر طور مشغلے ڈھونڈے

کہ دل دکھا تو کوئی کام وام میں نے کیا

 

وہ آفتاب جو دل میں دہک رہا تھا سعود

اسے سپرد شفق آج شام میں نے کیا

 

 

 

امجد اسلام امجد

 

نہ رَبط ہے نہ معانی، کہیں تو کِس سے کہیں!

ہم اپنے غم کی کہانی، کہیں تو کِس سے کہیں!

 

سِلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ

یہ سوزِ دردِ نہانی، کہیں تو کِس سے کہیں!

 

نہیں ہے اہل جہاں کو خود اپنے غم سے فراغ

ہم اپنے دل کی گرانی، کہیں تو کِس سے کہیں!

 

پلٹ رہے ہیں پرندے، بہار سے پہلے

عجیب ہے یہ نشانی، کہیں تو کِس سے کہیں!

 

نئے سخن کی طلب گار ہے، نئی دنیا

وہ ایک بات پرانی، کہیں تو کِس سے کہیں

 

نہ کوئی سنتا ہے امجدؔ نہ مانتا ہے اِسے

حدیثِ شام جوانی، کہیں تو کِس سے کہیں

 

 

حسرت موہانی

 

لایا ہے دل پر کتنی خرابی!

اے یار تیرا حُسنِ شرابی

پیرہن اس کا ہے سادہ رنگیں

یا عکسِ مے سے شیشہ گلابی

عشرت کی شب کا وہ دورِ آخر

نورِ سحر کی وہ لا جوابی

اس نازنیں نے با وصفِ عصمت

کی وصل کی شب وہ بے حجابی

شوق اپنی بھولا گستاخ دستی

دل ساری شوخی حاضر جوابی

وہ روئے زیبا ہے جانِ خوبی

ہیں وصف جس کے سارے کتابی

اس قید غم پر قربان حسرت

عالی جنابی گردوں رکابی

 

 

 

فیصل عجمی

 

اس نے دیکھا جو مجھے عالم حیرانی میں

گر پڑا ہاتھ سے آئینہ پریشانی میں

 

آ گئے ہو تو برابر ہی میں خیمہ کر لو

میں تو رہتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں

 

اس قدر غور سے مت دیکھ بھنور کی جانب

تو بھی چکرا کے نہ گر جائے کہیں پانی میں

 

کبھی دیکھا ہی نہیں اس نے پریشاں مجھ کو

میں کہ رہتا ہوں سدا اپنی نگہبانی میں

 

وہ مرا دوست تھا دشمن تو نہیں تھا فیصلؔ

میں نے ہر بات بتا دی اسے نادانی میں

 

 

 

 

حفیظ جالندھری

 

اس شوخ نے نگاہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

ہم نے بھی آہ آہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

 

آیا نہ ان کو عہد ملاقات کا لحاظ

ہم نے بھی کوئی چاہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

 

دیکھا کئے ہماری طرف بزم غیر میں

تجدید رسم و راہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

 

تھا زندگی سے بڑھ کے ہمیں وضع کا خیال

جب عمر نے نباہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

 

خاموش ہو گئیں جو امنگیں شباب کی

پھر جرأت گناہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

 

مغرور تھا کمال سخن پر بہت حفیظؔ

ہم نے بھی واہ واہ نہ کی ہم بھی چپ رہے

 

 

صابر ظفر

 

یہاں جو پیڑ تھے اپنی جڑوں کو چھوڑ چکے

قدم جماتی ہوئی سب رتوں کو چھوڑ چکے

 

بھٹک رہے ہیں اب اڑتے ہوئے غبار کے ساتھ

مسافر اپنے سبھی راستوں کو چھوڑ چکے

 

نکل چکے ہیں ترے روز و شب سے اب آگے

دنوں کو چھوڑ چکے ہم شبوں کو چھوڑ چکے

 

نہ جانے کس لیے ہجرت پہ وہ ہوئے مجبور

پرندے اپنے سبھی گھونسلوں کو چھوڑ چکے

 

جو مر گئے انھیں زندان سے نکالیں گے

نہیں کہ اہل قفس قیدیوں کو چھوڑ چکے

 

اگرچہ ایسا نہیں لگ رہا ہے ایسا مگر

کہ راہی سارے ظفرؔ رہبروں کو چھوڑ چکے

 

 

تہذیب حافی

 

صحرا سے آنے والی ہواؤں میں ریت ہے

ہجرت کروں گا گاؤں سے گاؤں میں ریت ہے

 

اے قیس تیرے دشت کو اتنی دعائیں دیں

کچھ بھی نہیں ہے میری دعاؤں میں ریت ہے

 

صحرا سے ہو کے باغ میں آیا ہوں سیر کو

ہاتھوں میں پھول ہیں مرے پاؤں میں ریت ہے

 

مدت سے میری آنکھ میں اک خواب ہے مقیم

پانی میں پیڑ پیڑ کی چھاؤں میں ریت ہے

 

مجھ سا کوئی فقیر نہیں ہے کہ جس کے پاس

کشکول ریت کا ہے صداؤں میں ریت ہے

 

 

 

 

 

قمر جمیل

 

شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا

پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا

یار عجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے

شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا

ہاتھ میں سب کے جلد تھی جس کے عجیب رنگ تھے

جس پہ عجیب نام تھے اور کوئی ورق نہ تھا

جیسے عدم سے آئے ہوں لوگ عجیب طرح کے

جن کا لہو سفید تھا جنا کا کلیجہ شق نہ تھا

جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی گرن نہ تھی

جن کے عجیب درس تھے جن میں کوئی سبق نہ تھا

لوگ کٹے ہوئے ادھر لوگ پڑے ہوئے ادھر

جن کو کوئی الم نہ تھا جن کو کوئی قلق نہ تھا

کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات بھی

میرے لہو میں گرد تھی آئینۂ شفق نہ تھا

 

 

 

کیفی اعظمی

 

شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہو گا

کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہو گا

 

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا

جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہو گا

 

بانی جشن بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں

کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہو گا

 

بجلی کے تار یہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی

سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہو گا

 

اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے

ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہو گا

 

 

 

اطہر نفیس

 

سکوت شب سے اک نغمہ سنا ہے

وہی کانوں میں اب تک گونجتا ہے

 

غنیمت ہے کہ اپنے غمزدوں کو

وہ حسن خود نگر پہچانتا ہے

 

جسے کھو کر بہت مغموم ہوں میں

سنا ہے اس کا غم مجھ سے ہوا ہے

 

کچھ ایسے غم بھی ہیں جن سے ابھی تک

دل غم آشنا نا آشنا ہے

 

بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن

جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے

 

مجھے ہر آن کچھ بننا پڑے گا

مری ہر سانس میری ابتدا ہے

 

 

کشور ناہید

 

سلگتی ریت پہ آنکھیں بھی زیر پا رکھنا

نہیں ہے سہل ہوا سے مقابلہ رکھنا

اسے یہ زعم کہ آغوش گل بھی اس کی ہے

جو چاہتا ہے پرندوں کو بے نوا رکھنا

سبک نہ ہو یہ نگہ داریِ جنوں ہم سے

یہ دیکھنے کو اسے سامنے بٹھا رکھنا

بکھر نہ جانا جراحت نوازیِ شب پر

مشام جاں کو ابھی خواب آشنا رکھنا

تمام منظر جاں اس کی خواہشوں سے بنا

وہ خواب ہے تو اسے خواب میں سجا رکھنا

وہ بج بھی آیا بہت تیز بارشوں جیسا

وہ جس نے چاہا مجھے سرمئی گھٹا رکھنا

بس اک چراغ مسافت کا بوجھ سہہ لے گا

سخن کے بیچ طلب گاریِ وفا رکھنا

 

 

 

توصیف تبسم

 

میری صورت سایۂ دیوار و در میں کون ہے

اے جنوں میرے سوا یہ میرے گھر میں کون ہے

وہ تو کب کا اپنی منزل پر پہنچ کر سوچکا

چاند کیا جانے کہ راہ پر خطر میں کون ہے

میں تو اس صورت کا دیوانہ ہوں پر اے زندگی!

صورت یک عمر حائل سنگ و سر میں کون ہے

خاک چھنواتی ہے یہ راتوں کو کس کی جستجو

چاندنی کی طرح پھیلا دشت و در میں کون ہے

ایک چہرہ مستقل اشکوں کے آئینے میں ہے

کچھ بتا اے عمر غم آخر نظر میں کون ہے

پاؤں میں لپٹی ہوئی سب کے زنجیر انا

سب مسافر ہیں یہاں لیکن سفر میں کون ہے

نغمۂ جاں سننے والوں پہ تکلف تا بہ کے

ڈھا کے یہ دیوار بھی دیکھو کہ گھر میں کون ہے

 

 

 

 

پروین شاکر

 

پورا دکھ اور آدھا چاند

ہجر کی شب اور ایسا چاند

دن میں وحشت بہل گئی تھی

رات ہوئی تو نکلا چاند

یادوں کی آباد گلی میں

گھوم رہا ہے تنہا چاند

میری کروٹ پر جاگ اٹھے

نیند کا کتنا کچا چاند

میرے منہ کو کس حیرت سے

دیکھ رہا ہے بھولا چاند

اتنے گھنے بادل کے پیچھے

کتنا تنہا ہو گا چاند

آنسو روکے نور نہائے

دل دریا تن صحرا چاند

 

 

 

 

احمد جاوید

 

صبا دیکھ اک دن ادھر آن کر کے

یہ دل بھی پڑا ہے گلستان کر کے

 

یہی دل جو اک بوند ہے بحر غم کی

ڈبو دے گا سب شہر طوفان کر کے

 

اسے اب رقیبوں میں پاتے ہیں اکثر

رکھا جس کو خود سے بھی انجان کر کے

 

دکھا دیں گے اچھا اسی فصل گل میں

گریبان کو ہم گریبان کر کے

 

ہمارے تو اک گھر بھی ہے بھائی مجنوں

پڑے ہیں اسی کو بیابان کر کے

 

 

 

ظہور نظر

 

رو لیتے تھے ہنس لیتے تھے بس میں نہ تھا جب اپنا جی

تم نے ہمیں دیوانہ کہا ہے ایسی تو کوئی بات نہ تھی

 

اب یہ تمھارا کام کہ جانو ہم پروانے تھے یا دیپ

دن بیتا تو جلتے جلتے، جلتے جلتے رات کٹی

 

لے کے کتنے ہاتھ نہ جانے ان کے سجیلے دامن پر

کل تک تھے ہم چاک گریباں ان سے پوچھے آج کوئی

 

ہم ہیں مشعل والے پہلے ہم سے دو دو ہاتھ کرو

پھر بکھرا لینا اندھیارا نگر نگر بستی بستی!

 

تم ہو آگ تو ہم پانی ہیں تم ہو دھوپ تو ہم چھاؤں

اپنا تمھارا ساتھ ہی کیا ہم پر جا تم راجہ جی

 

گلی گلی میں خون کے دھبے ڈگر ڈگر یہ راکھ کے ڈھیر

جشن منانے والے یارو ایک نظر اس جانب بھی

 

شاد عظیم آبادی

 

کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا

مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا

ہائے وہ خود وارفتگی الجھے ہوئے سب سر کے بال

وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا

ہنستے ہنستے رو دیا کرتے تھے سب بے اختیار

اک نئی ترکیب کا درد اپنے افسانے میں تھا

سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا

کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

ہائے پروانے کا وہ جلنا وہ رونا شمع کا

میں نے روکا ورنہ کیا آنسو نکل آنے میں تھا

خود غرض دنیا کی حالت قابل عبرت تھی شادؔ

لطف ملنے کا نہ اپنے میں نہ بیگانے میں تھا

شادؔ کچھ پوچھو نہ مجھ سے میرے دل کے داغ کو

ٹمٹماتا سا چراغ اک اپنے ویرانے میں تھا

 

 

 

ندا فاضلی

 

کچھ دنوں تو شہر سارا اجنبی سا ہو گیا

پھر ہوا یوں وہ کسی کی میں کسی کا ہو گیا

 

عشق کر کے دیکھیے اپنا تو یہ ہے تجربہ

گھر محلہ شہر سب پہلے سے اچھا ہو گیا

 

قبر میں حق گوئی باہر منقبت قوالیاں

آدمی کا آدمی ہونا تماشا ہو گیا

 

وہ ہی مورت وہ ہی صورت وہ ہی قدرت کی طرح

اس کو جس نے جیسا سوچا وہ بھی ویسا ہو گیا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

صہبا اختر

 

کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تحریر کا

حال کس پتھر پہ لکھا ہے مری تقدیر کا

 

چاند اس کا آسماں اس کا سر شام وصال

جس پہ سایہ ہو تری زلف ستارہ گیر کا

 

کی نہ چشم شوق نے جنبش ہجوم رنگ میں

مجھ پہ طاری ہو گیا عالم تری تصویر کا

 

میں اسے سمجھوں نہ سمجھوں دل کو ہوتا ہے ضرور

لالہ و گل پر گماں اک اجنبی تحریر کا

 

چین سے دونوں نہیں اس عالم احساس میں

میں تری چپ کا ہوں زخمی تو مری تقریر کا

 

 

 

 

 

فیصل عجمی

 

رخت سفر ہے اس میں قرینہ بھی چاہیے

آنکھیں بھی چاہیے دل بینا بھی چاہیے

 

ان کی گلی میں ایک مہینہ گزار کر

کہنا کہ اور ایک مہینہ بھی چاہیے

 

مہکے گا ان کے در پہ کہ زخم دہن ہے یہ

واپس جب آؤ تو اسے سینا بھی چاہیے

 

رونا تو چاہیے ہے کہ دہلیز ان کی ہے

رونے کا رونے والوں قرینہ بھی چاہیے

 

دولت ملی ہے دل کی تو رکھو سنبھال کر

اس کے لیے دماغ بھی سینہ بھی چاہیے

 

 

 

ظفر اقبال

 

کچھ سبب ہی نہ بنے بات بڑھا دینے کا

کھیل کھیلا ہوا یہ اس کو بھلا دینے کا

اپنے ہی سامنے دیوار بنا بیٹھا ہوں

ہے یہ انجام اسے رستے سے ہٹا دینے کا

یونہی چپ چاپ گزر جائیے اِن گلیوں سے

یہاں کچھ اور ہی مطلب ہے صدا دینے کا

راستہ روکنا مقصد نہیں کچھ اور ہے یہ

درمیاں میں کوئی دیوار اٹھا دینے کا

اک ہنر پاس تھا اپنے سو نہیں اب وہ بھی

جو دکھائی نہیں دیتا ہے دکھا دینے کا

سب کو معلوم ہے اور حوصلہ رکھتا ہوں ابھی

اپنے لکھے ہوئے کو خود ہی مٹا دینے کا

ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کوئی پہلے ہی ظفرؔ

قصد کرتا ہوں جو فتنے کو جگا دینے کا

 

 

 

محسن بھوپالی

 

لفظ تو ہوں لب گفتار نہ رہنے پائے

اب سماعت پہ کوئی بار نہ رہنے پائے

 

کس طرح کے ہیں مکیں جن کی تگ و دو ہے یہی

در تو باقی رہیں دیوار نہ رہنے پائے

 

اس میں بھی پہلوئے تسکین نکل آتا ہے

ایک ہی صورت آزار نہ رہنے پائے

 

ذہن تا ذہن مہکتا ہی رہے زخم ہنر

فصل حرف و لب اظہار نہ رہنے پائے

 

اب کے موسم میں یہ معیار جنوں ٹھہرا ہے

سر سلامت رہیں دستار نہ رہنے پائے

 

کوئی درماں کہ ہوا چیخ رہی ہے محسنؔ

نخل ہستی پہ کوئی بار نہ رہنے پائے

 

 

رئیس امروہوی

 

میں جو تنہا رہ طلب میں چلا

ایک سایہ مرے عقب میں چلا

 

صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی

میں اکیلا سواد شب میں چلا

 

جب گھنے جنگلوں کی صف آئی

ایک تارا مرے عقب میں چلا

 

 

میں کبھی حیرت طلب میں رکا

اور کبھی شدت غضب میں چلا

 

نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں

اور کس شخص کی طلب میں چلا

 

 

 

 

شمس الرحمن فاروقی

 

مسل کر پھینک دوں آنکھیں تو کچھ تنویر ہو پیدا

جو دل کا خون کر ڈالوں تو پھر تاثیر ہو پیدا

 

اگر دریا کا منہ دیکھوں تو قید نقش حیرت ہوں

جو صحرا گھیر لے تو حلقۂ زنجیر ہو پیدا

 

سراسر سلسلہ پتھر کا چشم نم کے گھر میں ہے

کوئی اب خواب دیکھے بھی تو کیوں تعبیر ہو پیدا

 

میں ان خالی مناظر کی لکیروں میں نہ الجھوں تو

خطوط جسم سے ملتی کوئی تصویر ہو پیدا

 

لہو میں گھل گئے جو گل دوبارہ کھل بھی سکتے ہیں

جو میں چاہوں تو سینے پر نشان تیر ہو پیدا

 

 

 

 

 

ڈاکٹر اسلم فرخی

 

ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے

رستے میں کھڑے ہو گئے گھر کیوں نہیں جاتے

جس شہر میں گمراہی عزیزِ دل و جاں ہو

اس شہر ملامت میں خضر کیوں نہیں جاتے

توشہ نہیں کوئی نسیم سحری کا

بے راحلہ و زاد سفر کیوں نہیں جاتے

شاید کہ شناسا ہو کوئی بے ہنری کا

کیوں ڈرتے ہو بازار ہنر کیوں نہیں جاتے

ہر لحظہ ہے جو سر کے لیے اک نئی ٹھوکر

اس ذلت پر روز سے مر کیوں نہیں جاتے

ہم جس کے لیے زندہ ہیں با حال پریشاں

اب وہ بھی یہ کہتا ہے کہ مر کیوں نہیں جاتے

کیوں گوشۂ خلوت سے نکلتے نہیں اسلمؔ

بیٹھے ہیں جدھر لوگ ادھر کیوں نہیں جاتے

 

 

 

سعود عثمانی

 

عشق سامان بھی ہے بے سروسامانی بھی

اسی درویش کے قدموں میں ہے سلطانی بھی

 

ہم بھی ویسے نہ رہے دشت بھی ویسا نہ رہا

عمر کے ساتھ ہی ڈھلنے لگی ویرانی بھی

 

وہ جو برباد ہوئے تھے ترے ہاتھوں وہی لوگ

دم بخود دیکھ رہے ہیں تری حیرانی بھی

 

آخر اک روز اترنی ہے لبادوں کی طرح

تن ملبوس! یہ پہنی ہوئی عریانی بھی

 

یہ جو میں اتنی سہولت سے تجھے چاہتا ہوں

دوست اک عمر میں ملتی ہے یہ آسانی بھی

 

 

 

اسرار الحق مجاز

 

اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم

ہٹ کر چلے ہیں رہگزر کارواں سے ہم

کیونکر ہوا ہے فاش زمانہ یہ کیا کہیں

وہ راز دل جو کہہ نہ سکے راز داں سے ہم

ہمدم یہی ہے رہ گزر یار خوش خرام

گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم

کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھیے

الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم

ٹھکرا دیئے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے

گھبرا چکے تھے کشمکش امتحاں سے ہم

دیکھیں گے ہم بھی کون ہے سجدہ طراز شوق

لے سر اٹھا رہے ہیں ترے آستاں سے ہم

بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ

ڈرتے نہیں سیاست اہل جہاں سے ہم

 

 

 

شہریار

 

شہر جنوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا

مرنے کی خو نہیں رہی ہے جینے کا ڈھب بدل گیا

پل میں ہوا مٹا گئی سارے نقوش نور کے

دیکھا ذرا سی دیر میں منظرِ شب بدل گیا

میری پرانی عرض پر غور کیا نہ جائے گا

یوں ہے کہ اس کی بزم میں طرز طلب بدل گیا

ساعت خوب وصل کی آنی تھی آ نہیں سکی

وہ بھی تو وہ نہیں رہا میں بھی تو اب بدل گیا

دوری کی داستان میں یہ بھی کہیں پہ درج ہو

تشنہ لبی توہے وہی چشمۂ لب بدل گیا

میرے سوا ہر ایک سے دنیا یہ پوچھتی رہی

مجھ سا جو ایک شخص تھا پتھر میں کب بد ل گیا

 

 

 

اجمل سراج

 

گزر گئی ہے ابھی ساعت گزشتہ بھی

نظر اٹھا کہ گزر جائے گا یہ لمحہ بھی

 

بہت قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا

بہت قریب سے دیکھا ہے یہ تماشا بھی

 

وہ دن بھی تھے کہ تری خواب گیں نگاہوں سے

پکارتی تھی مجھے زندگی بھی دنیا بھی

 

جو بے ثباتیِ عالم یہ بحث تھی سر بزم

میں چپ رہا کہ مجھے یاد تھا وہ چہرا بھی

 

کبھی تو چاند بھی اترے گا دل کے آنگن میں

کبھی تو موج میں آئے گا یہ کنارا بھی

 

نکال دل سے گئے موسموں کی یاد اجملؔ

تری تلاش میں امروز بھی ہے فردا بھی

 

ثروت حسین

 

قندیلِ مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا

کچھ اس سے زیادہ ہے مرا خاک پہ ہونا

 

ہر صبح نکلنا کسی دیوارِ طرب سے

ہر شام کسی منزلِ غم ناک پہ ہونا

 

یا ایک ستارے کا گزرنا کسی در سے

یا ایک پیالے کا کسی چاک پہ ہونا

 

لَو دیتی ہے تصویر نہاں خانۂ دل میں

لازم نہیں اس پھول کا پوشاک پہ ہونا

 

لے آئے گا اک روز گل و برگ بھی ثروت

باراں کا مسلسل خس و خاشاک پہ ہونا

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

دل پُر خوں کو یادوں سے الجھتا چھوڑ دیتے ہیں

ہم اس وحشی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں

نہ جانے کب کوئی بھیگے ہوئے منظر میں آ نکلے

دیارِ اشک میں پلکیں جھپکنا چھوڑ دیتے ہیں

اسے بھی دیکھنا ہے اپنا معیارِ پذیرائی

چلا آئے تو کیا کہنا، تقاضا چھوڑ دیتے ہیں

غموں کی بھیڑ جب بھی قریۂ جاں کی طرف آئے

بلکتے خواب خاموشی سے رستہ چھوڑ دیتے ہیں

کسی کی یاد سے دل کو منور تک نہیں کرنا

اسی کا نام دنیا ہے، تو دنیا چھوڑ دیتے ہیں

ہمیں خوشبو کی صورت دشتِ ہستی سے گزرنا تھا

اچانک یوں ہوا، لیکن یہ قصہ چھوڑ دیتے ہیں

ذرا سے اشک میں چھپ کر ان آنکھوں میں نہیں رہنا

چلو اسلمؔ ہمی کوئے تمنا چھوڑ دیتے ہیں

 

 

 

مرزا اسداللہ خاں غالب

 

عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی

میری وحشت، تری شہرت ہی سہی

قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

میرے ہونے میں ہے کیا رُسوائی

اے! وہ مجلسِ نہیں خلوت ہی سہی!

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے

غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

بے نیازی تری عادت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ

گر نہیں وَصُل تو حسرت ہی سہی

 

 

 

 

سلیم کوثر

 

اس عالم حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا

کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

 

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا

ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا

 

اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں

ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کار ثواب نہیں ہوتا

 

مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن

کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا

 

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے

کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچا خواب نہیں ہوتا

 

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے

کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

 

 

 

اختر شمار

 

ترے بغیر مسافت کا غم کہاں کم ہے

مگر یہ دکھ کہ مری عمر رائیگاں کم ہے

 

مری نگاہ کی وسعت بھی اس میں شامل کر

مری زمین پہ تیرا یہ آسماں کم ہے

 

تجھے خبر بھی کہاں ہے مرے ارادوں کی

تو میری سوچتی آنکھوں کا راز داں کم ہے

 

اگرچہ شہر میں پھیلی کہانیاں ہیں بہت

کوئی بھی سننے سنانے کو داستاں کم ہے

 

نگاہ و دل پہ کھلی ہیں حقیقتیں کیسی

یہ دل اداس زیادہ ہے شادماں کم ہے

 

اب اس سے بڑھ کے بھی کوئی ہے پل صراط ابھی

میں جی رہا ہوں یہاں جیسے امتحاں کم ہے

 

 

منیر نیازی

 

وصال کی خواہش

 

کہہ بھی دے اب وہ سب باتیں

جو دل میں پوشیدہ ہیں

سارے روپ دکھا دے مجھ کو

جو اب تک نادیدہ ہیں

ایک ہی رات کے تارے ہیں

ہم دونوں اس کو جانتے ہیں

دوری اور مجبوری کیا ہے

اس کو بھی پہچانتے ہیں

کیوں پھر دونوں مل نہیں سکتے

کیوں یہ بندھن ٹوٹا ہے

یا کوئی کھوٹ ہے تیرے دل میں

یا میرا غم جھوٹا ہے

 

 

 

خلیل الرحمن اعظمی

 

میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں

سایہ سایہ پکارتا ہوں

سونا ہوں کرید کر تو دیکھو

مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں

لے مجھ کو سنبھال گردش وقت

ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں

یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی

دراصل میں غم سے آشنا ہوں

کیوں آب حیات کو میں ترسوں

میں زہر حیات پی چکا ہوں

تقدیر جنوں پہ چپ رہا میں

تعبیر جنوں پہ رو رہا ہوں

ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش

ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں

 

 

 

اطہر نفیس

 

کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا

ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا

 

ٹوٹ جاتے ہیں کبھی میرے کنارے مجھ میں

ڈوب جاتا ہے کبھی مجھ میں سمندر میرا

 

کسی صحرا میں بچھڑ جائیں گے سب یار مرے

کسی جنگل میں بھٹک جائے گا لشکر میرا

 

با وفا تھا تو مجھے پوچھنے والے بھی نہ تھے

بے وفا ہوں تو ہوا نام بھی گھر گھر میرا

 

کتنے ہنستے ہوئے موسم ابھی آتے لیکن

ایک ہی دھوپ نے کمھلا دیا منظر میر

 

 

غلام محمد قاصر

 

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے

کہاں تک میں دیکھوں یہ منظر اکیلے

گلی میں ہواؤں کی سرگوشیاں ہیں

گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے

نمائش ہزاروں نگاہوں نے دیکھی

مگر پھول پہلے سے بڑھ کر اکیلے

اب اک تیر بھی ہولیا ساتھ ورنہ

پرندہ چلا تھا سفر پر اکیلے

جو دیکھو تو اک لہر میں جا رہے ہیں

جو سوچو تو سارے شناور اکیلے

تری یاد کی برف باری کا موسم

سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے

زمانے سے قاصرؔ خفا تو نہیں ہیں

کہ دیکھے گئے ہیں وہ اکثر اکیلے

 

 

 

مرزا محمد تقی ہوس

 

دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے

لوگ کہتے ہیں کہ پھر فصل بہار آتی ہے

 

غش چلا آتا ہے اور آنکھ مندی جاتی ہے

ہم کو کیا کیا مری بے طاقتی دکھلاتی ہے

 

کیا سنا اس نے کہیں رخصت گل کا مذکور

عندلیب آج قفس میں پڑی چلاتی ہے

 

طائر روح کو پرواز کا ہر دم ہے خیال

قفس تن میں مری جان یہ گھبراتی ہے

 

دیکھ روتے مجھے ہنس ہنس کہے جانا ہر دم

جان سے مجھ کو تو تیری یہ ادا بھاتی ہے

 

بزم ہستی میں تو بیٹھا ہے ہوسؔ کیا غافل

کچھ جو کرنا ہے تو کر عمر چلی جاتی ہے

 

 

قابل اجمیری

 

دل دیوانہ عرض حال پر مائل تو کیا ہو گا

مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حال دل تو کیا ہو گا

 

ہمارا کیا ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے

مگر طوفان جا پہنچا لب ساحل تو کیا ہو گا

 

خرد کی رہبری نے تو ہمیں یہ دن دکھائے ہیں

جنوں ہو جائے گا جب رہبر منزل تو کیا ہو گا

 

کوئی پوچھے تو ساحل پر بھروسہ کرنے والوں سے

اگر طوفاں کی زد میں آ گیا ساحل تو کیا ہو گا

 

خود اس کی زندگی اب اس سے برہم ہوتی جاتی ہے

انھیں ہو گا بھی یاس خاطر قابلؔ تو کیا ہو گا

 

 

 

 

انور مسعود

 

شکوہ گردش حالات لیے پھرتا ہے

جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے

 

اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے

اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے

 

شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن

اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے

 

سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے

اپنے سائے کو بھی جو ساتھ لیے پھرتا ہے

 

آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن

آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے

 

پرتو مہر سے چاند کی جھلمل انورؔ

اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے

 

 

عرفان صدیقی

 

زوال شب میں کسی کی صدا نکل آئے

ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے

 

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو

عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

 

یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی

تمام شہر میں نخل دعا نکل آئے

 

بڑی گھٹن ہے، چراغوں کا کیا خیال کروں

اب اس طرف کوئی موج ہوا نکل آئے

 

خدا کرے صف سردادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

 

 

سعود عثمانی

 

چشم بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے

کیسا پت چھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے

مہلت عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت

اک ڈھلکے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے

کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ

ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے

لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک

دور سے دیکھو تو شہر بھنور لگتا ہے

وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ

دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے

ذہن کی جھیل سے یادوں کی دھنک پھوٹتی ہے

ایک میلا ہے جو ہر شام ادھر لگتا ہے

کوئی شوریدۂ جاں جسم کے اندر ہے سعودؔ

دل دھڑکتا ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے

 

 

 

شکیب جلالی

 

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

 

کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں

کہ اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت

 

نہ جانے رُت کا تصرّف تھا یا نظر کا فریب

کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت

 

ہوا کا رخ ہی اچانک بدل گیا ورنہ

مہک کے قافلے صحرا کی سمت آئے بہت

 

یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرہ

میں اپنے دشت سے گزرا تو بھید پائے بہت

 

 

شکیبؔ کیسی اڑان اب وہ پر ہی ٹوٹ گئے

کہ زیر دام جب آئے تھے پھڑپھڑائے بہت

 

 

 

سلیم احمد

 

کسی نے بھی مجھے سمجھا نہیں ہے

یہ شکوہ ہے کوئی دعویٰ نہیں ہے

 

تجھے چاہا ہے جس ساعت میں، میں نے

وہ ساری عمر ہے لمحہ نہیں ہے

 

ابھی ہوں ایک مبہم سا تصور

ابھی اُس نے مجھے سوچا نہیں ہے

 

سکوں اس راہ میں کیا ڈھونڈتے ہو

یہ صحرا ہے یہاں سایہ نہیں ہے

 

لکیروں میں چھپی ہیں صورتیں کچھ

مصور نے جنھیں دیکھا نہیں ہے

 

چلی ہے موج میں کاغذ کی کشتی

اسے دریا کا اندازہ نہیں ہے

 

 

منیر نیازی

 

اُن سے نین ملا کے دیکھو

یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو

 

دوری میں کیا بھید چھپا ہے

اس کا کھوج لگا کے دیکھو

 

کسی اکیلی شام کی چپ میں

گیت پرانے گا کے دیکھو

 

آج کی رات بہت کالی ہے

سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو

 

دل کا گھر سنسان پڑا ہے

دکھ کی دھوم مچا کے دیکھو

 

جاگ جاگ کر عمر کٹی ہے

نیند کے دوارے جا کے دیکھو

 

 

فیض احمد فیض

 

گرانی شب ہجراں دو چند کیا کرتے

علاج درد ترے دردمند کیا کرتے

 

وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے

یہ فرق دستِ عدو کے گزند کیا کرتے

 

جگہ جگہ پہ تھے ناصح تو کو بکو دلبر

اِنھیں پسند، اُنھیں ناپسند کیا کرتے

 

جنھیں خبر تھی کہ شرط نوا گری کیا ہے

وہ خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے

 

گلوئے عشق کو داد و رسن پہنچ نہ سکے

تو لوٹ آئے ترے سر بلند، کیا کرتے!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جاں نثار اختر

 

ساز وفا

 

ہنگام بزم شوق میں تھا کس کے واسطے

چھیڑا تھا میں نے ساز وفا کس کے واسطے

 

ہر ذی نفس میں بوئے محبت تھی پر فشاں

مہکی ہوئی تھی دل کی فضا کس کے واسطے

 

چھیڑا تھا کس نے قلب کی گہرائیوں میں ساز

تھی میری روح نغمہ سرا کس کے واسطے

 

کس کے لیے پسند تھی آوارگی مجھے

اس دل پہ اختیار نہ تھا کس کے واسطے

 

کس کے لیے عزیز تھے سجدے نماز کے

راتوں کو مانگتا تھا دعا کس کے واسطے

 

 

 

احمد مشتاق

 

ترا وجود ہی سب سے بڑی حقیقت ہے

تجھے بھلا نہیں سکتا یہی محبت ہے

 

گلہ نہیں ہے تری بے تعلقی سے مجھے

میں جانتا ہوں تجھے بھولنے کی عادت ہے

 

دل حزیں کو بڑی دیر میں ہوا معلوم

یہی کہ تیری محبت میری ضرورت ہے

 

مری طلب میں ہے ٹھنڈک گئے زمانوں کی

ترے لہو میں نئے موسموں کی حدت ہے

 

خود اپنی ذات کا جب تجزیہ کیا تو کھلا

ترے بغیر بھی جینے کی ایک صورت ہے

 

 

 

 

طالب جوہری

 

الفت کی رسم و راہ سے اتنا وہ بے پروا نہ تھا

کل اجنبی بن کر ملا، پہلے تو وہ ایسا نہ تھا

 

اس سال کے سیلاب سے سارے کگارے کٹ گئے

دریا کے پیچ و تاب کا ساحل کو اندازہ نہ تھا

 

جب قربتوں کی چھاؤں میں اترے حیا کے قافلے

بڑھتے قدم خود رک گئے آگے کوئی رستہ نہ تھا

 

پلکوں کی چھاگل توڑ کر رزق زمیں بنتے رہے

ان آنسوؤں کے واسطے ترک وطن اچھا نہ تھا

 

کیا جبر فطرت کا گلہ، جب عہد ہونا مہرباں

دریا میں باڑھ آئی وہاں، بادل جہاں برسا نہ تھا

 

طالب دریچہ ذہن کا جب ذات کے اندر کھلا

پلکیں ادھر جھک کر اٹھیں اور دور تک صحرا نہ تھا

 

 

جمال احسانی

 

نہ گزرتا تھا پر گزارا ہے

ہجر جو عمر بھر گزارا ہے

 

ان دنوں عشق سے معطل ہوں

نصف تنخواہ پر گزارا ہے

 

ایک پل کے لیے ملا تھا وہ

ایک پل عمر بھر گزارا ہے

 

تو نے دیکھا ہے صرف اور میں نے

موسم بے ثمر گزارا ہے

 

پیش محبوب آنکھ اٹھائی نہیں

کچھ گلہ بھی اگر گزارا ہے

 

عشق کے بیوپاروں کا جمالؔ

صرف نقصان پر گزارا ہے

 

اسلم کولسری

 

آرزوئے دوام کرتا ہوں

زندگی وقف عام کرتا ہوں

 

آپ سے اختلاف ہے، لیکن

آپ کا احترام کرتا ہوں

 

مجھ کو تقریب سے تعلق کیا

میں فقط اہتمام کرتا ہوں

 

درس و تدریس، عشق، مزدوری

جو بھی مل جائے کام، کرتا ہوں

 

ہاں مگر، برگِ زرد کی صورت

صبح کو میں بھی شام کرتا ہوں

 

وقت گزرے پہ آئے ہو اسلمؔ

خیر، کچھ انتظام کرتا ہوں

 

 

امجد اسلام امجد

 

مرنے کا ترے غم میں اِرادہ بھی نہیں ہے

ہے عشق مگر اتنا زیادہ بھی نہیں ہے

 

ہے یوں کہ عبارت کی زباں اور ہے کوئی

کاغذ مری تقدیر کا سادا بھی نہیں ہے

 

کیوں دیکھتے رہتے ہیں ستاروں کی طرف ہم!

جب اُن سے ملاقات کا وعدہ بھی نہیں ہے!

 

کیوں راہ کے منظر میں اُلجھ جاتی ہیں آنکھیں!

جب دل میں کوئی اور ارادہ بھی نہیں ہے!

 

کِس موڑ پہ لے آیا ہمیں ہجرِ مسلسل!

تا حدِّ نگہ وصل کا وعدہ بھی نہیں ہے

 

پتھر کی طرح سَرد ہے کیوں آنکھ کسی کی!

امجدؔ جو بچھڑنے کا ارادہ بھی نہیں ہے

 

 

مرزا اسداللہ خاں غالب

 

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

 

تجھ سے قسمت میں مِری، صورتِ قفلِ ابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہیں جدا ہو جانا

 

دل ہوا کشمکش چارۂ رحمت میں تمام

مٹ گیا گھسنے میں اِس عقدے کا وا ہو جانا

 

گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہَوَس

کیوں ہے گردِ رہِ جولانِ صبا ہو جانا

 

تاکہ تجھ پر کھلے اعجازِ ہوائے صیقل

دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا

 

بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالبؔ

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

 

 

تاجدار عادل

 

 

یہ درد وہ ہے کہ جس کا نسب نہیں کوئی

اداس ہوں تو بہت ہوں سبب نہیں کوئی

وہ جس میں یادوں کے روشن چراغ جلتے ہیں

بہت سی راتیں ہیں لیکن وہ شب نہیں کوئی

گواہ تھا جو ہماری تمہاری چاہت کا

شہر وہ اب بھی وہاں ہے اور اب نہیں کوئی

اسی امید پہ روشن ہے خواہشوں کا نگر

وہ آ بھی جائے پلٹ کر عجب نہیں کوئی

اسے سنا ہے کہ اب زندگی مبارک ہے

ہمیں بھی سارے جہاں سے طلب نہیں کوئی

 

 

 

 

 

ایوب خاور

 

نہ کوئی دن نہ کوئی رات انتظار کی ہے

کہ یہ جدائی بھروسے کی اعتبار کی ہے

 

جو خاک اڑی ہے مرے دکھ سمیٹ لیں گے اسے

جو بچھ گئی سر منظر وہ رہ گزار کی ہے

 

وہ وصل ہو کہ کھلے آئینے یہ عکس جمال

یہ آرزو ہے مگر بات اختیار کی ہے

 

اسی کا نام ہے وحشت سرائے جاں میں چراغ

اسی کے لمس میں دھڑکن دل فگار کی ہے

 

یہ کون تھا جو سر بام خود کو بھول گیا

یہ کس کا رقص تھا گردش یہ کس غبار کی ہے

 

یہ کون مجھ میں ہرے موسموں اترتا ہے

یہ کیسے رنگ ہیں خوشبو یہ کس دیار کی ہے

 

 

ظہور نظر

 

ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری

بس یہی غنیمت ہے تیرے بعد شب گزری

تیرے غم کی خوشبو سے جسم و جاں مہک اٹھے

سانس کی ہوا جب بھی چھو کے میرے لب گزری

ایک ساتھ رہ کر بھی دور ہی رہے ہم تم

دھوپ اور چھاؤں کی دوستی عجب گزری

جانے کیا ہوا ہم کو اب کے فصل گل میں بھی

برگ دل نہیں لرزا تیری یاد جب گزری

بے قرار بے کل ہے جاں سکوں کے صحرا میں

آج تک نہ دیکھی تھی یہ گھڑی جو اب گزری

بعد ترک الفت بھی یوں تو ہم جیے لیکن

وقت بے طرح بیتا عمر بے سبب گزری

کس طرح تراشو گے تہمت ہوس ہم پر

زندگی ہماری تو ساری بے طلب گزری

 

 

 

تہذیب حافی

 

اک ترا ہجر دائمی ہے مجھے

ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے

 

ایک سایہ مرے تعاقب میں

ایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

 

میری آنکھوں پہ دو مقدس ہاتھ

یہ اندھیرا بھی روشنی ہے مجھے

 

ان پرندوں سے بولنا سیکھا

پیڑ سے خامشی ملی ہے مجھے

 

میں اسے کب کا بھول بھال چکا

زندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھے

 

میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ہوں

پہلی بارش ہی آخری ہے مجھے

 

 

محمود شام

 

دل کا عجیب حال ہے تیری صدا کے بعد

جیسے کہ آسمان کا منظر گھٹا کے بعد

 

کیا کیا نقوش ہم نے ابھارے تھے ریت پر

باقی رہا نہ کوئی بھی وحشی ہوا کے بعد

 

بکھری ہوئی تھیں چار سو پھولوں کی پتیاں

گلشن سنور سنور گیا باد صدا کے بعد

 

اب تک فضا میں گونجتی ہے ایک نغمگی

سارا جہاں ہی رقص میں ہے اس صدا کے بعد

 

اب تک جلا رہی ہے ہمیں تہمتوں کی دھوپ

ہم تو اجاڑ ہو گئے فصل وفا کے بعد

 

یادیں کھلے کواڑ یہ مہکی ہوئی فضا

کون آ رہا ہے شام یہ ٹھنڈی ہوا کے بعد

 

 

توصیف تبسم

 

دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے

اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے

 

شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجیے

آنکھ کہتی ہے کہ تو نے ابھی دیکھا کیا ہے

 

ٹوٹ کر شاخ سے اک برگ خزاں آمادہ

سوچتا ہے کہ گزرتا ہوا جھونکا کیا ہے

 

کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھلتے ہیں

میرے دامن میں لہو ہے تو مہکتا کیا ہے

 

دل پہ قابو ہو تو ہم بھی سر محفل دیکھیں

وہ خم زلف ہے کیا صورت زیبا کیا ہے

 

ٹھہرو اور ایک نظر وقت کی تحریر پڑھو

ریگ ساحل پہ رم موج نے لکھا کیا ہے

 

 

اسلم کولسری

 

روٹھ کر نکلا تو وہ اس سمت آیا بھی نہیں

اور میں نے، عادتاً جا کر منایا بھی نہیں

 

آن بیٹھی ہے منڈیروں پر خزاں کی زرد لو

میں نے کوئی پیڑ آنگن میں اگایا بھی نہیں

 

پھر سلگتی انگلیاں کس طرح روشن ہو گئیں

اس نے میرا ہاتھ آنکھوں سے لگایا بھی نہیں

 

اپنی سوچوں کی بلندی اور وسعت کیا کروں

آسماں کا سائباں کیا، جس کا سایہ بھی نہیں

 

پھر گلی کوچوں سے مجھ کو خوف کیوں آنے لگا

جگمگاتا شہر ہے اسلمؔ، پرایا بھی نہیں

 

 

 

 

کشور ناہید

 

دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے

اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے

دل تھا شب زاد اسے کس کی رفاقت ملتی

خواب تعبیر سے چھپتا رہا پہلے پہلے

آنکھ آئنوں کی حیرت نہیں جاتی اب تک

ہجر کا گھاؤ بھی اس نے دیا پہلے پہلے

عمر آیندہ کے خوابوں کو پیاسا رکھا

فاصلہ پاؤں پکڑتا رہا پہلے پہلے

غم کا دریا مری آنکھوں میں سمٹ کر پوچھے

کون رو رو کے بچھڑتا رہا پہلے پہلے

اب جو آنکھیں ہوئیں صحرا تو کھلا ہر منظر

دل بھی وحشت کو ترستا رہا پہلے پہلے

میں تھی دیوار تو اب کس کا ہے سایہ تجھ پر

ایسا صحرا زدہ چہرا نہ تھا پہلے پہلے

 

 

 

اجمل سراج

 

دشوار ہے اس انجمن آرا کو سمجھنا

تنہا نہ کبھی تم دل تنہا کو سمجھنا

 

ہو جائے تو ہو جائے اضافہ غم دل میں

کیا عقل سے سودائے تمنا کو سمجھنا

 

اک لمحۂ حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

کچھ اور نہ اس تندیِ دریا کو سمجھنا

 

کچھ تیز ہواؤں نے بھی دشوار کیا ہے

قدموں کے نشانات سے صحرا کو سمجھنا

 

 

 

 

صہبا اختر

 

دہراؤں کیا فسانۂ خواب و خیال کو

گزرے کئی فراق کسی کے وصال کو

 

رشتہ بجز گمان نہ تھا زندگی سے کچھ

میں نے فقط قیاس کیا ماہ و سال کو

 

شاید وہ سنگ دل ہو کبھی مائل کرم

صورت نہ دے یقین کی اس احتمال کو

 

ترغیب کا ہے وسعت امکاں پہ انحصار

رم خوردگی سکھاتا ہے صحرا غزال کو

 

صہباؔ سدا بہار ہے یہ گلستان فن

ممکن نہیں زوال سخن کے کمال کو

 

 

 

 

قمر جمیل

 

غم جاناں کی خبر لاتی ہے

کوئی آواز اگر آتی ہے

 

جانے کس سمت ہوا کی زنجیر

کھینچ کر مجھ کو لیے جاتی ہے

 

کیسا عالم ہے کہ تنہائی بھی

در و دیوار سے ٹکراتی ہے

 

ناگہاں آئی تھی ہم پر بھی جمیلؔ

وہ قیامت جو گزر جاتی ہے

 

 

 

 

 

 

 

سمپورن سنگھ گلزار

 

رات بھر سرد ہوا چلتی رہی

 

رات بھر ہم نے الاؤ تاپا

میں نے ماضی سے کئی خشک سی شاخیں کاٹیں

تم نے بھی گزرے ہوئے لمحوں کے پتے توڑے

میں نے جیبوں سے نکالیں سبھی سوکھی نظمیں

تم نے بھی ہاتھوں سے مرجھائے ہوئے خط کھولے

اپنی ان آنکھوں سے میں نے کئی مانجے توڑے

اور ہاتھوں سے کئی باسی لکیریں پھینکیں

تم نے پلکوں پہ نمی سوکھ گئی تھی سو گرا دی

رات بھر جو بھی ملا اگتے بدن پر ہم کو

کاٹ کے ڈال دیا جلتے الاؤ میں اسے

رات بھر پھونکوں سے ہر لو کو جگائے رکھا

اور دو جسموں کے ایندھن کو جلائے رکھا

رات بھر بجھتے ہوئے رشتے کو تاپا ہم نے

 

 

 

سعود عثمانی

 

عجب قفس تھا، عجب خوش نوا پرندہ تھا

نہیں وہ دل نہیں، اِک دوسرا پرندہ تھا

کلام کرتا ہوا، پنکھ پھڑپھڑاتا ہوا

چراغِ بام تھا یا شام کا پرندہ تھا

ہر ایک جانتا تھا گرم پانیوں کا سراغ

سو جو بھی ڈار میں تھا رہنما پرندہ تھا

روپہلی جھیل کے پہلو میں تھی سیہ بندوق

اور ان کی سمت اترتا ہوا پرندہ تھا

پھر ایک ہُوک نے تنہائی دور کر دی مری

بہت قریب کوئی دل زدہ پرندہ تھا

عجیب حالت ہجرت تھی قبل ہجر سعودؔ

مرے وجود میں پر تولتا پرندہ تھا

 

 

 

 

 

نصیر ترابی

 

تم شہر آشنا ہو، تمہی یک دلاں کہو

اب کون مہرباں ہے کسے مہرباں کہو

 

اب ویسے محرمانِ سخن بھی نہیں رہے

اب دل کی کوئی بات کہو تو کہاں کہو

 

جو شب کبھی نہ آئی تھی وہ شب بھی آ گئی

شعلے کو اب چراغ کہو یا دھواں کہو

 

کل ایسا رن پڑے گا قیامت کہ دیکھنا

کل یہ زمیں کہے گی ’’مجھے آسماں کہو‘‘

 

اس زلف خم بہ خم کی پریشانیاں بجا

اس چشم یم بہ یم کی پشیمانیاں کہو

 

ہر لمحہ کوئی طعنۂ دل دوز ہے نصیرؔ

اور اس کو چاہو اور اسے جان جاں کہو

 

 

عرفان صدیقی

 

سنو، کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا

ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا

 

یہ سرخ پھول سا کیا کھِل رہا ہے نیزے پر

یہ کیا پرندہ ہے شاخ شجر پہ دارا ہوا

 

ابھی زمیں پہ نشاں تھے عذاب رفتہ کے

پھر آسمان پہ ظاہر وہی ستارہ ہوا

 

میں ڈر رہا تھا وہ خنجر نہ ہو چھپائے ہوئے

ردا ہٹی تو وہی زخم آشکارا ہوا

 

یہ موج موج کا اک ربط درمیاں ہی کہی

تو کیا ہوا میں اگر دوسرا کنارا ہوا

 

 

 

سلیم احمد

 

سوچ میں گم بیکراں پنہائیاں

عشق ہے اور ہجر کی تنہائیاں

 

رات کہتی ہے کہ کٹنے کی نہیں

درد کہتا ہے کرم فرمائیاں

 

بین کرتی ہے دریچوں میں ہوا

رقص کرتی ہیں سیہ پرچھائیاں

 

خامشی جیسے کوئی آہ طویل

سسکیاں لیتی ہوئی تنہائیاں

 

کون تو ہے؟ کون میں؟ کیسی وفا

حاصل سہتی ہیں کچھ رسوائیاں

 

یاد سے تیری سکوں یوں آ گیا

صبح دم جیسے چلیں پُروائیاں

 

 

مرزا اسداللہ خاں غالب

 

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

تجاہل پیشگی سے مدعا کیا

کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا

نوازِشہائے بیجا دیکھتا ہوں

شکایت ہائے رنگیں کا گِلا کیا

دل ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر

ہم اُس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

سُن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سُن

شکست قیمت دل کی صدا کیا

کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟

شکیبِ خاطر عاشق بھلا کیا

بلائے جاں ہے، غالبؔ اُس کی ہر بات

عبارت کیا، اشارت، ادا کیا!

 

 

 

محسن بھوپالی

 

بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن

ہیں تیرے خواب کی راتیں ترے خیال کے دن

 

ہر اک عمل کا وہ کیا کیا جواز رکھتا ہے

نہ بن پڑے گا جواب ایک بھی، سوال کے دن

 

عروج بخت مبارک مگر یہ دھیان رہے

انہی دنوں کے تعاقب میں ہیں زوال کے دن

 

گزر رہے ہیں کچھ اس طرح روز و شب اپنے

کہ جس طرح سے کٹیں شاخ بے نہال کے دن

 

شکایتیں بھی بہت ہیں حکاتیں بھی بہت

گزر نہ جائیں یوں ہی عہد بے مثال کے دن

 

وہ زندگی کو نیا موڑ دے گیا محسنؔ

یہی زوال کے دن ہیں مرے کمال کے دن

 

 

اسلم کولسری

 

دل میں جمنے لگا ہے خوں شاید

آج کی رات سو سکوں شاید

 

اس کا ملنا محال ہے، پھر بھی

اس طرف سے گزر چلوں، شاید!

 

اور تھوڑا سا زہر دے دیجے

اور تھوڑا سا جی اٹھوں شاید

 

پردۂ چشم جلنے لگتا ہے

ورنہ آنسو تو پونچھ لوں شاید

 

بے در و بام گھر بھی ہے اسلمؔ

محرمِ قصرِ بے ستوں شاید

 

 

 

 

جاوید اختر

 

میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا

وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا

برس کے کھُل گئے آ نسو، نتھر گئی ہے فضا

چمک رہا ہے سرِ شام درد کا تارا

کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا، اک امانت ہے

مری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا

جو پر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی

کُھلے تھے پر تو مرا آسمان تھا سارا

 

 

 

فراق گورکھپوری

 

رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی

وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی ،نہ ساتھ

مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی

فضا تبسّمِ صبح بہار تھی لیکن

پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی

کسی کی بزمِ طرب میں حیات بٹتی تھی

امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا

کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

شبِ فراقؔ اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد

کہوں یہ کیسے تیری یاد رات بھر آئی

 

 

 

سعود عثمانی

 

کمال ضبط کا یہ آخری ہنر بھی گیا

میں آج ٹوٹ کے رویا اور اس کے گھر بھی گیا

 

یہ دکھ ہے اس کا کوئی ایک ڈھب تو ہوتا نہیں

ابھی امڈ ہی رہا تھا کہ جی ٹھہر بھی گیا

 

یہ ایک پل، یہ مرا دل، یہ زرد رنگ کا پھول

ابھی کھلا بھی نہیں تھا، ابھی بکھر ہی گیا

 

عجیب غم تھا قبیلے کے حرف کار کا غم

کہ بے ثمر بھی گیا لفظ، بے اثر بھی گیا

 

یہ دست زاد بگولا، یہ رقص خو درویش

اگر میں ٹھہر گیا تو یہ ہم سفر بھی گیا

 

اگرچہ خلوت جاں سی اماں نہ تھی لیکن

سعودؔ زخم طلب دل، ادھر ادھر بھی گیا

 

 

عرفان صدیقی

 

رات اک شہر نے تازہ کئے منظر اپنے

نیند آنکھوں سے اڑی کھول کے شہپر اپنے

 

یہی ویرانہ بچا تھا تو خدا نے آخر

رکھ دیے دل میں مرے سات سمندر اپنے

 

روز وہ شخص صدا دے کے پلٹ جاتا ہے

میں بھی رہتا ہوں بہت جسم سے باہر اپنے

 

کس قدر پاس مروت ہے وفاداروں کو

مرے سینے میں چھپا رکھے ہیں خنجر اپنے

 

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک

مسند خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

 

 

جمال احسانی

 

مجھ کو وہ بھی بسا غنیمت تھا

اس سے جو رشتہ شکایت تھا

 

اب یہ عقدہ کھلا کہ اس کے لیے

میں محبت نہیں ضرورت تھا

 

تو نے احساس ہی نہ ہونے دیا

جو بھی کچھ تھا، تری بدولت تھا

 

وہ ہی تو ساعت جدائی تھی

وہ جو اک لمحہ رفاقت تھا

 

مجھ پہ اس چشم تر نے سہل کیا

ورنہ یہ عشق تو مصیبت تھا

 

میں نے وہ ہجر بھی گزارا ہے

جب ترا قرب بھی نہایت تھا

 

 

ایوب خاور

 

سفر میں فاصلوں کے ساتھ بادبان کھو دیا

اتر کے پانیوں میں ہم نے آسمان کھو دیا

یہی کہ ان نفس غبار ساعتوں کے درمیاں

ہوا نے گیت رہگزر نے ساربان کھو دیا

فراق منزلوں کا اک غبار تھا کہ جس گھڑی

چراغ شب نے اور دل نے مہمان کھو دیا

رتوں میں ایک رت یہاں شجر بھی کاٹنے کی تھی

پتا چلا جب اپنے گھر کا پاسبان کھو دیا

بچا لیا تھا خواب جو مسافتوں کی دھوپ سے

وہ ابر و باد منظروں کے درمیان کھو دیا

وہ نیند اپنے بیچنے کی راہ میں اجڑ گئی

اس آنکھ نے بھی معجزوں کا اک جہان کھو دیا

 

 

 

 

 

اختر شمار

 

ابھی دل میں گونجتی آہٹیں مرے ساتھ ہیں

تو نہیں ہے اور تری دھڑکنیں مرے ساتھ ہیں

 

تو نے ایک عمر کے بعد پوچھا ہے حالِ دل

وہی درد و غم وہی حسرتیں مرے ساتھ ہیں

 

ترے ساتھ گزرے حسین لمحوں کی شوخیاں

وہی رنگ و بو وہی رونقیں مرے ساتھ ہیں

 

مرے پاؤں میں ہیں زمین کی سبھی گردشیں

سبھی آسمان کی سازشیں مرے ساتھ ہیں

 

مرے ذہن میں ہیں محبتوں کے وہ رات دن

وہ اذیتیں وہ نوازشیں مرے ساتھ ہیں

 

جو بچھڑتے لمحوں شمارؔ تو نے کیے بہت

وہ تمام شکوے شکایتیں مرے ساتھ ہیں

 

 

قمر جمیل

 

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں

میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں

 

تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی

میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں

 

پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر

ایسے موسم بھی اٹھا رکھے ہیں آئینے میں

 

میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیلؔ

اور کچھ لوگ چھپا رکھے ہیں آئینے میں

 

 

 

اسلم کولسری

 

زلزلے کا خوف طاری ہے در و دیوار پر

جبکہ میں بیٹھا ہوا ہوں کانپتے مینار پر

 

ہاں اسی رستے میں ہے شہرِ نگارِ آرزو

آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر

 

پھر اڑا لائی ہوا، مجھ کو جلانے کے لیے

زرد پتے، چند سوکھی ٹہنیاں، دو چار پر

 

طائرِ تخیل کا سارا بدن آزاد ہے

صرف اک پتھر پڑا ہے شیشۂ منقار پر

 

وقت کا دریا تو ان آنکھوں سے ٹکراتا رہا

اپنے حصے میں نہ آیا لمحۂ دیدار۔۔۔۔پر

 

سارا پانی چھاگلوں سے آبلوں میں آ گیا

چلچلاتی دھوپ کے جلتے ہوئے اصرار پر

 

 

سعود عثمانی

 

سفر قیام مرا، خواب جستجو میری

بہت عجیب ہے دنیائے رنگ و بو میری

تجھے خبر بھی نہیں تجھ میں خاک ہونے تک

ہزار دشت سے گزری ہے آبجو میری

میں سبز شاخ ہوں اور خاک تک نہیں محدود

سمندروں کی تہوں میں بھی ہے نمو میری

میں اس خیال کو چھوتے ہوئے لرزتا ہوں

مگر یہ سچ ہے کہ منزل نہیں ہے تو میری

تلاش کرتی ہوئی آنکھ کی تلاش میں ہوں

کوئی تو شکل ہو دنیا میں ہو بہو میری

وہ نام لے کے میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا

کہ گھٹ کے رہ گئی آواز در گلو میری

ہوائے شب تجھے آئندگاں سے ملنا ہے

سو تیرے پاس امانت ہے گفتگو میری

 

 

 

 

پروین شاکر

 

جگا سکے نہ ترے لب لکیر ایسی تھی

ہمارے بخت کی ریکھا بھی میر ایسی تھی

یہ ہاتھ چومے گئے پھر بھی بے گلاب رہے

جو رت بھی آئی خزاں کی سفیر ایسی تھی

وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے

جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی

شہادتیں مرے حق میں تمام جاتی تھیں

مگر خموش تھے منصف نظیر ایسی تھی

پھر اس کے بعد نہ دیکھے وصال کے موسم

جدائیوں کی گھڑی چشم گیر ایسی تھی

کبھی نہ چاہنے والوں کا خوں بہا مانگا

نگار شہر سخن بے ضمیر ایسی تھی

 

 

 

غلام محمد قاصر

 

خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں

قیدی سب کچھ بھول گیا زنجیر سے پوچھتے ہیں

 

جام جم لایا ہے گھر گھر دنیا کے حالات

دل کی باتیں ہم تیری تصویر سے پوچھتے ہیں

 

دنیا کب کروٹ بدلے گی کب جاگیں گے شہر

کیسی باتیں سوئے ہوئے ضمیر سے پوچھتے ہیں

 

ہم سے نہ پوچھو کس جذبے نے تمھیں کیا ناکام

بادشاہ ایسی باتیں اپنے وزیر سے پوچھتے ہیں

 

عہد سے کون مکر جائے گا تاروں کو کیا علم

لکھی نہیں جو تو نے اس تحریر سے پوچھتے ہیں

 

 

 

 

انور مسعود

 

گھر

 

چھپے ہیں اشک دروازوں کے پیچھے

چھتوں نے سسکیاں ڈھانپی ہوئی ہیں

دکھوں کے گرد دیواریں چنی ہیں

بظاہر مختلف شکلیں ہیں سب کی

مگر اندر کے منظر ایک سے ہیں

بنی آدم کے گھر سب ایک سے ہیں

 

 

مصطفی زیدی

 

آخری بار مِلو

 

آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل

راکھ ہو جائیں، کوئی اور تقاضا نہ کریں

چاک وعدہ نہ سِلے، زخمِ تمنا نہ کھِلے

سانس ہموار رہے شمع کی لَو تک نہ ہلے

باتیں بس اتنی کہ لمحے انھیں آ کر گِن جائیں

آنکھ اٹھائے کوئی اُمید تو آنکھیں چھن جائیں

اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں

جس سے اِک اور ملاقات کی صورت نکلے

اب نہ ہیجان و جنوں کا، نہ حکایات کا وقت

اب نہ تجدید وفا کا، نہ شکایات کا وقت

لُٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ

اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیے

آج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھے

کل سے جو ہو گا اُسے کون سا رشتہ کہیے

پھر نہ دیکھیں گے کبھی عارض و رخسار، مِلو

ماتمی ہیں دمِ رخصت در و دیوار، ملو

پھر نہ ہم ہوں گے، نہ اقرار، ہ انکار، مِلو

آخری بار مِلو

 

عدیم ہاشمی

 

اسے تشبیہ کا دوں آسرا کیا

وہ خود اک چاند ہے پھر چاند سا کیا

قیامت ہو گیا چلنا بھی مجھ کو

پلٹ کر دیکھنا بھی تھا ترا کیا

بہت نزدیک آتے جا رہے ہو

بچھڑ جانے کا سودا کر لیا کیا

بڑے محتاط ہوتے جا رہے ہو

زمانے نے تمھیں سمجھا دیا کیا

تہی محسوس آنکھیں ہو رہی ہیں

نہ جانے آنسوؤں میں بہہ گیا کیا

کسے تکتے ہوئے پتھر ا گئے ہو

خلاؤں میں تمھارا کھو گیا کیا

بڑے رنگین سپنے آرہے ہیں

عدیمؔ اس نیند سے اب جاگنا کیا

 

 

 

 

عزیز نبیل

 

صبح جب رات کے زندان سے باہر آئی

روشنی سوچ کے ایوان سے باہر آئی

 

شامِ غم میں نے جو پوچھا مرا غمخوار ہے کون؟

اک غزل میرؔ کے دیوان سے باہر آئی

 

میں نے تھک ہار کے جب زادِ سفر کھولا ہے

ایک امّید بھی سامان سے باہر آئی

 

کس کے چہر ے کی چمک خود میں سمونے کے لیے

زندگی دیدۂ بے جان سے باہر آئی

 

میں نے کچھ رنگ ہواؤں میں اچھالے تھے نبیلؔ

اور تصویر تری، دھیان سے باہر آئی

 

سعود عثمانی

 

وہ دن گزر گئے، وہ کیفیت گزرتی نہیں

عجیب دھوپ ہے، دیوار سے اترتی نہیں

 

ہرے درخت سے لپٹی ہوئی یہ کاسنی بیل

اداس ہوتی ہے لیکن اداس کرتی نہیں

 

ہوائے درد! محبت کی تمکنت بھی تو دیکھ

کہ مشت خاک ہے لیکن کبھی بکھرتی نہیں

 

تو اس عذاب سے واقف نہیں کہ عشق کی آگ

تمام عمر جلا کر بھی راکھ کرتی نہیں

 

کوئی دلاسا ملا ہے تو رو دیا ہوں سعودؔ

یہ لمسی حرف نہ ہوتا تو آنکھ بھرتی نہیں

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

خیالِ خام تھا یا نقشِ معتبر، نہ کھُلا

دلوں پہ اس کا تبسم کھُلا۔ مگر نہ کھُلا

 

محیطِ چشمِ تمنا بھی تھا وہی۔۔۔۔۔ جس پر

کسی طرح بھی مرا نقطۂ نظر نہ کھُلا

 

عجیب وضع سے بے اعتباریاں پھیلیں

غریبِ شہر کی دستک پہ کوئی در نہ کھُلا

 

قدم قبول ہوئے راستوں کی دھول ہوئے

سفر تمام ہوا۔۔۔۔۔ مقصد سفر نہ کھُلا

 

بڑی طویل کہانی ہے دل کے بجھنے کی

کہ ایک شخص تھا اور۔۔۔۔۔ قصہ مختصر نہ کھُلا

 

متاعِ شب تھے سو اسلمؔ فگار آنکھوں کے

چراغ داغ ہوئے روزنِ سحر نہ کھُلا

 

احمد مشتاق

 

چھٹ گیا ابر، شفق کھل گئی، تارے نکلے

بند کمروں سے ترے درد کے مارے نکلے

 

شاخ پر پنکھڑیاں ہوں کہ پلک پر آنسو

تیرے دامن کی جھلک دیکھ کے سارے نکلے

 

تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے

تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے

 

تیرے ہونٹوں میری آنکھوں سے نہ بدلی دنیا

پھر وہی پھول کھلے پھر وہی تارے نکلے

 

رہ گئی لاج مری عرض وفا کی مشتاق

خامشی سے تری کیا کیا نہ اشارے نکلے

 

 

 

عرفان صدیقی

 

تب۔۔۔

 

تب بے کراں تھا آسماں

تب چاند روشن تھا بہت

سینے میں تھی جوئے رواں

آنکھوں میں جلتے تھے دئیے

زینے اترتی تھی ہوا

ماتھے پر اپنے لمس کا

صندل لگانے کے لئے

اور اب جو دیکھا دھیان سے

سب دشت چھوٹے کر دئیے

سب نقش دھندلے کر دئیے

سب رنگ پھیکے کر دئیے

سب خواب جھوٹے کر دئیے

یا وسعت زنجیر نے

یا چاند کی تسخیر نے

یا حسرت تعبیر نے

 

 

اقبال عظیم

 

گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں

مگر اِرادۂ اظہار زیرِ لب بھی نہیں

میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں

میں صاف گو ہوں، مگر اتنا بے ادب بھی نہیں

جفا کی طرح، مجھے ترکِ دوستی بھی قبول

ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو، اور اب بھی نہیں

گزر گیا وہ طلبگاریوں کا دَور بخیر

خدا کا شُکر، کہ اب فرصتِ طلب بھی نہیں

مزاجِ وقت سے تنگ آ چکا ہے میرا ضمیر

مِرے اصول بدل جائیں تو عجب بھی نہیں

?جواب دوں گا میں، کچھ مجھ سے پوچھ کر دیکھو

ابھی میں ہوش میں ہوں ایسا جاں بہ لب بھی نہیں

?حسب نسب کی جو پوچھو تو شجرہ پیش کروں

کتاب کوئی نہیں ہے، مِرا لقب بھی نہیں

 

 

 

منیر نیازی

 

رات فلک پر رنگ برنگ کی آگ کے گولے چھوٹے

پھر بارش وہ زور سے برسی مہک اٹھے گل بوٹے

اس کی آنکھ کے جادو کی ہر ایک کہانی سچی

میرے دل کے خوں ہونے کے سب افسانے جھوٹے

پہلے پہل تو جی نہ لگا پردیس کے ان لوگوں میں

رفتہ رفتہ اپنے ہی گھر سے سارے ناطے ٹوٹے

یہ تو سچ ہے سب نے مل کر دلجوئی بھی کی تھی

اپنی رسوائی کے مزے بھی سب یاروں نے لوٹے

میں جو منیر اک کمرے کی کھڑکی کے پاس سے گزرا

اس کی چق کی تیلیوں سے ریشم کے شگوفے پھوٹے

 

 

 

سلیم کوثر

 

کبھی موسم ساتھ نہیں دیتے، کبھی بیل منڈیر نہیں چڑھتی

لیکن یہاں وقت بدلنے میں ایسی دیر نہیں لگتی

 

کہیں اندر بزم سجائے ہوئے، کہیں باہر خود کو چھپائے ہوئے

ترے ذکر کا کام نہیں رکتا، تری یاد کی عمر نہیں ڈھلتی

 

اک خواب نما تمثیل کا دھندلا عکس ہے آئینہ خانے میں

وہ حسن دکھائی نہیں دیتا اور پھر بھی نگاہ نہیں ہٹتی

 

کئی صدیاں بیت گئیں مجھ میں، ترے قرب کی بے لذت رت میں

مرا جسم نماز کا عادی ہے، مری روح نماز نہیں پڑھتی

 

 

 

مسعود حسن شہاب دہلوی

 

رہ حیات کی   تنہائیوں کو   کیا کہیے

ہجوم شوق کی رسوائیوں کو کیا کہیے

 

مرے وجود کا بھی دور تک مقام نہیں

ترے خیال کی گہرائیوں کو کیا کہیے

 

غموں کی اوٹ سے بھی ہو سکیں نہ تر پلکیں

نہ برسے ابر تو پروائیوں کو کیا کہیے

 

شرار زیست کی اک جست ہے بہت لیکن

نفس کی مرحلہ پیمائیوں کو کیا کہیے

 

ترے جمال کو چھو کر نکل رہی ہے سحر

طلوع مہر کی رعنائیوں کو کیا کہیے

 

جمال احسانی

 

تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے

ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے

 

اس تاریک فضا میں میری ساری عمر

دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے

 

اپنے لیے جو شام بچا کر رکھی تھی

وہ تجھ سے عہد و پیمان میں گزری ہے

 

تجھ سے اکتا جانے کی اک ساعت

تیرے عشق ہی کے دوران میں گزری ہے

 

دیواروں کا شوق جہاں تھا سب کو جمال

عمر مری اس خاندان میں گزری ہے

 

 

خورشید رضوی

 

دل کو جانے۔۔۔۔۔

 

دل کو جانے یہ دھن کیا ہے

دنیا سے الگ ہو جانے کی

اپنے اندر کھو جانے کی

دل کو جانے یہ دھن کیا ہے

 

رستوں پہ کبھی چلتے پھرتے

لوگوں سے کبھی ملتے جلتے

چپکے سے کان میں کہتا ہے

جو کچھ ہے خواب ہے دھوکا ہے

چل دور کہیں تنہائی میں

میں اور تو مل کر سوچیں گے

تدبیر کوئی، ان خوابوں میں

تعبیر کوئی بو جانے کی

دل کو جانے یہ دھن کیا ہے

 

 

سعود عثمانی

 

بچپن میں مرے وقت رواں ایسا نہیں تھا

اس وقت یہ بوڑھا تو جواں ایسا نہیں تھا

 

کچھ کچھ مری مرضی کی تھی پہلے یہی دنیا

لوگ ایسے نہیں تھے، یہ جہاں ایسا نہیں تھا

 

تم نے مجھے دیکھا نہیں اس عشق سے پہلے

صحرا تو میں پہلے بھی تھا، ہاں ، ایسا نہیں تھا

 

اب سامنے ہے میرے ، مگر کیسے کہوں میں

تو جو مرے دل میں تھا میاں ، ایسا نہیں تھا

 

یہ لوگ مرا حال سمجھتے بھی ہیں ، پھر بھی

کہتے ہیں فلاں ابن فلاں ایسا نہیں تھا

 

 

 

 

اسلم کولسری

 

سوچ کی الجھی ہوئی جھاڑی کی جانب جو گئی

آس کی رنگین تتلی،خوں کا چھینٹا ہو گئی

 

اس کی خوشبو تھی؟ مری آواز تھی؟ کیا چیز تھی؟

جو دریچہ توڑ کر نکلی۔۔۔۔ فضا میں کھو گئی

 

آخرِ شب، دور کہساروں سے برفانی ہوا

شہر میں آئی۔ مرے کمرے میں آ کر سو گئی

 

چند چھلکوں اور اک بوڑھی بھکارن کے سوا

ریل گاڑی آخری منزل پر خالی ہو گئی

 

اس قدر میلا نہ تھا، جس پر کسی کا نام تھا

پھر بھی اسلمؔ آنکھ چھلکی۔۔۔۔۔ اور کاغذ دھو گئی

 

 

 

 

اسرار ناروی (ابن صفی)

 

راہ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں

چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں

تنہائی سی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں

چشم و لب و رخسار کی تہہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

ہم کو سہارے کیا راس آئیں اپنا سہارا ہیں ہم آپ

خود ہی صحرا خود ہی دوانے شمع نفس پروانے ہیں

بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا

اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں

 

 

نصیر ترابی

 

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی

 

نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ، نہ تیرا ملال

شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

 

محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا

شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

 

عداوتیں تھیں تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بیوفائی نہ تھی

 

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

 

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت

کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

 

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ

وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

٭٭٭

تشکر: چوہدری لیاقت علی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید