ڈاؤن لوڈ کریں
فہرست مضامین
اجنبی
انور جمال انور
عالیہ
کسی اداکارہ پر ڈائریکٹر کا دل آ بھی جائے تو وہ ظاہر نہیں ہونے دیتا فرعون کا فرعون ہی بنا رہتا ہے اور پروڈیوسر جس کے لاکھوں روپے لگے ہوتے ہیں۔۔۔
وہ تو کسی خونخوار بھیڑیے کی طرح سب کو دانت نکوس نکوس کر دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔ باقی میرے جیسے اسسٹنٹ اور کیمرہ مین وغیرہ جو بچتے ہیں تو ان بیچاروں کو سننے والا کوئی نہیں ہوتا لہذا صبر کا گھونٹ وہ خود بھی پیتے ہیں اور اداکارہ کو بھی نظریں بھر بھر کر تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔
عالیہ کا کردار ادا کرنے والی کو بار بار خفت کا سامنا کرنا پڑتا مگر پھر بھی وہ اپنی غیر سنجیدگی ترک کرنے کو تیار نہ تھی در اصل اس کا مزاج ہی ایسا تھا وہ کہتی تھی اگر میں ہنسوں گی نہیں تو مر جاؤں گی۔
جان بوجھ کر جملے غلط بولتی اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگتی یہاں تک کہ ہماری اپنی ہنسی چھوٹ جاتی۔
ایک بار ڈائیلاگ ڈیلیوری کے دوران اسے ڈکار آ گئی اور منہ سے عجیب آواز نکلی جسے سن کر پہلی بار ڈائریکٹر صاحب بھی ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے باہر بالکونی میں چلے گئے۔
’’بڑی کمپنی عورت ہو تم‘‘ جاتے جاتے یہ بھی کہہ گئے مگر غصے سے نہیں پیار سے۔
میں نے اندازہ لگایا کہ اس کے لبوں کی بے ساختہ ہنسی کمسنی کی سبب ہے اور کچھ نہیں۔۔ میں نے اندازہ لگایا کہ لا ابالی پن، چلبلاہٹ، طبیعت میں شوخی اور شرارت چڑھتی جوانی کے استعارے ہیں۔۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ابھی دنیا کا کوئی غم اسے چھو کر نہیں گزرا، کسی نے اس کے ساتھ دھوکا نہیں کیا، کسی دکھ نے اسے سنجیدہ ہونے پر مجبور نہیں کیا کسی محرومی نے ابھی تک اس پر اپنی پرچھائیں نہیں ڈالی۔۔۔
مگر ایک دن جب اس کے کردار کی کہانی دسویں قسط تک پہنچی جس میں اس کا یہ غم دکھانا تھا کہ نہ صرف وہ شادی شدہ ہے بلکہ اس کے دو بچے بھی ہیں جنہیں وہ گھر میں بند کر کے نوکری پہ آ جاتی ہے تاکہ انہیں پال سکے۔ رات کو گھر جاتی ہے تو بچے سو چکے ہوتے ہیں صبح جب وہ دو بارہ گھر سے روانہ ہونے لگتی ہے تو بچے دروازے تک اس کا پیچھا کر کے اسے چھوڑ کر نہ جانے کے لیے کہتے ہیں مگر وہ کٹھور دل کے ساتھ انہیں جھڑک کر چلی جاتی ہے۔ بعد میں راستے بھر اس کے آنسو نہیں رکتے۔
اس چنچل اداکارہ نے جب یہ سین مکمل کر کے دیا تو ہمارے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ اور وہ خود اس بری طرح روئی جیسے واقعی رو رہی ہو۔۔
میں اس مذکورہ ڈرامے کا اسسٹنٹ رائٹر تھا، ڈرامے کا یہ حصہ میرے ہی کہنے پر شوٹ کیا گیا، اس کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی۔
میں ڈیفنس کے جس فلیٹ میں میڈم کے ساتھ رہ رہا تھا اس کے بالکل سامنے والے فلیٹ میں اسی طرح کے دو بچے رہتے تھے۔ اسکرپٹ لکھنے کے دوران کھڑکی کے راستے میری نظر ان پر پڑتی رہتی تھی، وہ اسکول سے آ کر کھانا کھاتے، ہوم ورک کرتے پھر کمپیوٹر میں گیم وغیرہ کھیلتے، جب سب چیزوں سے دل بھر جاتا تو شاید انہیں ماں باپ کی یاد ستانے لگتی۔۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے آ لگتے اور گھنٹوں نیچے سڑک پر گزرنے والے لوگوں کو دیکھتے یا مجھے دیکھنے لگتے۔۔۔
کیا سوچتے ہوں گے میرے بارے میں۔۔۔ ؟ شاید یہ کہ یہ بھی کوئی ہماری طرح کا تنہا شخص ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی کاغذ پر سر جھکائے کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہتا ہے۔
لڑکے کی نسبت لڑکی مجھے زیادہ تکتی تھی ۔
وہ شاید بارہ سال کی تھی یا دس سال کی یا آٹھ کی، مجھے نہیں پتہ، مجھے لوگوں کی عمروں کا اندازہ نہیں ہوتا ۔
جب میں لکھتے لکھتے کچھ سوچنے لگتا تو کھڑکی سے باہر میری نظریں خلاؤں میں گھورنے لگتیں لیکن سامنے والوں کو لگتا میں انہیں گھور رہا ہوں۔
بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی آیا کو جب بھی موقع ملتا وہ شیشے کے آگے پردے گرا دیتی اور یوں ان کے کمرے کا سارا منظر اوجھل ہو جاتا۔ مگر زیادہ دیر نہیں گزرتی تھی جب لڑکی دو بارہ پردے اٹھا دیتی اور نیچے گلی میں جھانک کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر مطمئن ہو جاتی کہ وہ کسی قید خانے میں نہیں ہے، ایک رابطے والی کھڑکی نے اسے باہر کی دنیا سے جوڑ رکھا ہے۔
لڑکا جو شاید چھ سال کا تھا بہت ضدی اور لڑاکا تھا کبھی کبھی اپنی بڑی بہن پر بھی ہاتھ اٹھا دیتا یا اسے دھکا دے دیتا اور آیا سے تو اسے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ جو چیز ہاتھ لگتی اٹھا کر آیا کے منہ پر دے مارتا۔ بہن اسے روکتی رہ جاتی، کبھی کبھی منہ پر تھپڑ بھی جڑ دیتی جسے کھا کر عجیب سی نظروں سے وہ بہن کو گھورتا پھر رندھے گلے کے ساتھ اپنی شکل بگاڑ کر چیختا، ” امی کو آنے دو پھر بتاؤں گا ” اور اس کے بعد باقاعدہ منہ چھپا کر زور زور سے رونے لگتا۔
اس کی آنکھوں کا جھرنا دیکھ کر بہن اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی یا گلے سے لگانے لگتی مگر وہ اسے دھکا دے دیتا اور روئے چلا جاتا۔۔
پھر وہ لڑکی جب مدد طلب نظروں سے میری طرف دیکھتی تو اس کی اپنی آنکھوں میں آنسو تیرتے نظر آتے۔۔ ٹھیک اسی وقت میں اپنی کھڑکی کا پردہ گرا دیا کرتا۔۔ میرے جیسے حساس دل کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکوں۔۔
ایسے ہی ایک سین کے دوران میڈم کمرے میں آ گئیں۔۔۔ جانے کتنی دیر مجھے غور سے دیکھا میں تو ان بچوں کے غم میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ پوچھنے لگیں ’’کیا ہوا ہے تم کو عدنان‘‘؟
’’کچھ نہیں میڈم‘‘ جلدی سے اپنے آپ کو بحال کرنے لگا۔
میڈم واپس چلی گئیں کہا ایک کپ چائے بنا کر لاؤں۔ میں اٹھ کر کچن میں چلا گیا۔۔ الیکٹرک کیتلی میں ان کے لیے چائے تیار کی کپ لے کر ہشاش بشاش ان کے کمرے میں پہنچا مگر میری یہ اداکاری دھری کی دھری رہ گئی۔ میڈم چائے پیتے ہوئے ہمدردی جتانے لگیں ” تم ایسا کرو کچھ دنوں کے لیے گھر چلے جاؤ، تمہیں چھٹی کی ضرورت ہے جو کہ ہر انسان کو ہوتی ہے ”
نہیں نہیں میڈم۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں، آج رات مجھے وہ قسط بھی لکھنی ہے جس میں سائرہ بھاگ کے شادی کر لیتی ہے۔
بھاگ کے شادی کیا ہوتی ہے؟ میڈم خفا ہو گئیں۔۔۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ سائرہ اپنی پسند سے شادی کر رہی ہے۔
جی میڈم۔۔ مختصر جواب
ایک توقف کے بعد میڈم کی ہمدردی پھر جاگ گئی۔۔۔ یہ قسط میں لکھ دوں گی، تم گھر جاؤ آرام کرو، اپنے بیوی بچوں سے ملو۔۔
جی میڈم۔۔۔
میں اپنے کمرے میں واپس آ گیا مگر کافی دیر بعد بھی رخت سفر نہ باندھ سکا جانتا تھا میڈم آج والے ایپی سوڈ کو لکھ تو دیں گی مگر انہیں بہت زیادہ دقت پیش آئے گی، تمام سیاق و سباق کو دیکھنا پڑے گا ڈرامے سے متعلق وہ چھوٹے چھوٹے نوٹس بھی پڑھنے ہوں گے جو میں اپنی یاد دہانی کے لیے لکھتا رہتا ہوں۔۔ خیر یہ ٹیکنکل باتیں ہیں جو آپ نہیں سمجھ پائیں گے۔ آگے چلتے ہیں۔
میڈم کے حکم پر میں اپنے بیوی بچوں سے ملنے گھر آ گیا۔
کیا اپنے بچوں سے مل پاؤں گا؟ ایک خالی گھر سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہاں تو شیشے کی وہ کھڑکی بھی نہیں تھی جہاں سے میں ان دو بچوں پر نظر ڈال سکتا جن کی ماں صبح سویرے ہی نوکری پر نکل جاتی اور رات کو پتہ نہیں کب آتی تھی، باپ کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ یا تو وہ انتقال کر گیا تھا یا انہیں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
اب میری ان دونوں سے دوستی ہو گئی تھی جس کی ابتدا لڑکے نے کی تھی۔ ایک دن وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر منہ چڑانے لگا۔ بس پھر کیا تھا میں نے بھی الٹی سیدھی شکل بنا کر خوب خوب منہ چڑایا۔ لڑکی یہ منظر دیکھ کر خوب ہنسی پھر اپنے بھائی کو کھینچ کر لے گئی جو مسلسل میرے مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا۔۔
پھر اس طرح کے مقابلے اکثر ہونے لگے۔
اس طرح کم سے کم ہم تینوں خوش تو ہو جاتے تھے۔
لڑکی اشارے سے پوچھتی کہ میں کیا لکھتا رہتا ہوں مگر میرے سمجھانے پر اسے سمجھ نہ آتی شاید میرے اشاروں میں جان نہیں تھی۔۔ کبھی کبھی وہ کہتی ” بس کریں، کتنا لکھیں گے، اب آرام کر لیں (اشاروں میں)
میں کہتا۔ ایسا ممکن نہیں میری گڑیا رانی۔ کبھی وہ نیچے گلی کی طرف توجہ دلاتی ” وہاں دیکھیں کیا ہو رہا ہے ” میں دیکھتا کہ دو نوجوان آپس میں کسی بات پر جھگڑ رہے ہیں۔۔
میں محسوس کرنے لگا کہ وہ اتنی چھوٹی سی بچی میری فکر کر رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ میں اتنا زیادہ کام نہ کیا کروں، تھوڑا بہت باہر بھی جایا کروں کہیں چائے وائے پینے یا اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے، خود کو کمرے میں اس طرح بند نہ رکھا کروں۔
اف یہ لڑکیاں دوسروں کا اتنا خیال کیوں کرتی ہیں چھوٹی سی عمر سے ہی
وہ بہن کے روپ میں چھوٹے بھائی کی ایسے کئیر کر رہی تھی جیسے ماں ہو، میری طرف دیکھتی تو بیٹی کا روپ دھار لیتی اور مجھ میں اپنے کھوئے ہوئے باپ کو تلاش کر کے کف افسوس ملتی کہ کاش اس شخص کی کوئی خدمت کر سکتی مگر اتنی دور سے کیسے کرے۔۔ تاہم اس کی آنکھوں میں ایک بیٹی کا سارا پیار امڈ آتا اور وہ میری طرف اپنی پیاری سی مسکراہٹ پھینک دیتی جسے پا کر میں وقتی طور پر اپنے بچوں کو بھول جاتا۔ میری بیوی ناراض ہو کر میکے گئی ہوئی تھی، امید کرتا ہوں کہ ایک دن وہ واپس آ جائے گی۔ خیر یہ ایک دوسری کہانی ہے اور ایک تیسری کہانی میڈم کی ہے جو اس شوٹ کیے جانے والے ڈرامے کی اصل رائٹر ہے۔
یہ دو کہانیاں بعد میں کبھی لکھوں گا۔۔
اللہ اللہ کر کے جب یہ ڈرامہ شوٹ ہو کر اپنے اختتام کو پہنچا تو میں بھی فارغ ہو کر گھر آ گیا۔۔
کئی ہفتے بعد جب یونہی ایک دن میڈم سے ملنے گیا تھا تو واپسی پر سوچا ایک نظر اور ان بچوں کو دیکھ لوں پھر پتہ نہیں کب یہاں دوبارا آنا ہو۔۔
میڈم سے اجازت لے کر جب میں اس کمرے میں آیا اور شیشے کی کھڑکی سے پردہ اٹھایا تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات نے میری سانسیں روک لیں۔ دونوں بچے اپنی ماں کے ساتھ کھیل کود رہے تھے، مسکرا رہے تھے، ہنس رہے تھے، ماں سے لپٹ لپٹ جا رہے تھے اور پتہ ہے ان کی ماں کون تھی؟؟؟
وہی ہماری چنچل اداکارا عالیہ۔۔۔
2
سارے پیر منگل اور بدھ گنوانے کے بعد بھی مرادوں والیجمعرات کبھی نہ آئی۔
شام کو ٹیوشن کے بعد اسکول کے بڑے
سے آنگن میں طرح طرح کے کھیل کھیلنے والی سکھیاں معصومیت کے اتنے گہرے لبادے میں رہتی تھیں کہ ماسٹر جی سے متعلق انہیں میرے دل کی کیفیات پر کبھی اچھنبا نہیں ہوا اور ماسٹر جی اتنے اچھے تھے کہ ہمیں کھیلنے کودنے اور شورکرنے سے منع کرنے کی بجائے چپ چاپ اپنے کمرے میں بیٹھے موٹی موٹی کتابیں پڑھتے رہتے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ جونہیمغرب کی اذان ہوتی وہ ہمیں گھر جانے کی تلقین کرتے۔
۔ چلو سب اپنے اپنے گھر جاؤ۔ کس قدر شفقت بھری آواز ہوتی تھی ان کی۔ میں نے ماسٹر جی کو کبھی سر اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کی مگر ان کی آواز کے اتار چڑھاؤ
کو اپنے بند بند میں اتار لینا اور
پھر اس کے زیر اثر کسیدلفریب نشے میں ڈوبے رہناجیسے عادت سی بن چکی تھیکھیل کے دوران سکھیوں کی
نظریں بچا کر ماسٹر جی کے کمرے کی طرف جانا اورکھڑکی سے جھانک کر انہیں دیکھنے کی خواہش سے ڈر کربھاگ آنا بھی معمول تھا ۔ دل رفتہ رفتہ سکھیوں کے کھیل سے اچاٹ ہوتا گیا کبھیکبھی میں دور بیٹھی صرفانہیں دیکھتی رہتی اور کسینامعلوم محرومی کے احساسکی شدت سے روہانسی ہو جاتی ۔
اس دن بھی مغرب کیاذان کا وقت ہو رہا تھا پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹرہے تھے سورج دن بھر کیمسافت سے تھک چکا تھا اورمیری ہی طرح کسی کی آغوش
میں سمٹ کر سونا چاہتا تھا کہ ماسٹر جی نے سب کو بستے سمیٹ کر گھر جانے کا حکم دے دیا ۔
بے فکر لڑکیاں ہنستی کھلکھلاتی باہر جانے لگیں میں انکے پیچھے تھی ۔ کہ دفعتا ایک مقناطیسی کشش نے میرے پاؤں جکڑ لیے۔ میں اسکول سے باہر نہ جا سکی تو ایک درختکے پیچھے چھپ گئی ۔ کوئیاندازہ نہیں تھا کہ کتنی صدیوں بعد میں وہاں سے نکلی اورماسٹر جی کے کمرے میں جاپہنچی۔ ہوش تب آیا جب ماسٹرجی کی ڈانٹ سنائی دی ’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ ۔ مجھے بے اختیار رونا آ گیا میں دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر رونے لگی ۔ جانے کیوں رورہی تھی میں ۔ شاید یہ مان کر
کہ آنسوؤں کی بھی زبان ہوتیاور آنسو خود ہی سب کچھ کہہ دیا کرتے ہیں مگر ماسٹر جیخاموش دل کی گزارش نہ سنسکے انہوں نے بازو سے پکڑ کرکمرے سے باہر کر دیا اورپھر جوتے پہن کر مجھے گھرتک بھی چھوڑنے گئے ۔ اگلے روز سے اسکول کے آنگن میں ہماراکھیلنا کودنا بند کر دیا گیا
3
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ کمار سانو۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اس کے دل کی حقیقی ترجمانی کوئی کر سکتا تھا تو وہ یہی فنکار تھا۔
اس نے نیا ریکارڈ پلیئر خرید لیا جس کا ساؤنڈ اتنا زیادہ تھا کہ چوتھے محلے کی صائمہ تک بھی پہنچ جاتا، مگر فی الحال اسے اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک منزلہ عمارت میں اس کا کمرا چھت پر واقع تھا جہاں سے وہ جب بھی نیچے جھانکتا، نگاہوں کی مراد بر آتی۔
اس کی بھابھی جسے وہ، بھرجائی، کہتا تھا بڑے سے آنگن میں جھاڑو لگاتی یا برتن دھوتی یا بکریوں کو چارہ دیتی نظر آ جاتی اور اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا۔ وہ ریکارڈ پلیئر آن کرتا تو اس کا ترجمان کمار سانو اپنی مدھر آواز میں گانے لگتا،
نظر کے سامنے جگر کے پاس کوئی رہتا ہے، وہ ہو تم تم تم۔ اور جب جواب میں الکا یا سادھنا گاتی تو اسے لگتا یہ کوئی اور نہیں بھرجائی کے اپنے بول ہیں اور وہ بھی اسے اتنا ہی چاہتی ہے۔
حالانکہ یہ بات ابھی ثابت نہیں ہوئی تھی کہ وہ سچ میں اسے کوئی اہمیت دیتی ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور تھا کہ کمار سانو کی پکار پر اس کا ڈوپٹہ ڈھلک ڈھلک جاتا اور برتن دھوتے دھوتے یا جھاڑو لگاتے لگاتے اس کے سینے کے ابھار کھل کر سامنے آ جاتے۔
وہ چھت کی بلندی سے جب نیچے دیکھتا تو اکثر کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹ جاتا اور اف اف کی آوازیں نکالنے لگتا، یہ بھرجائی تو روز بہ روز نکھرتی جا رہی ہے، وہ سوچتا۔
حالانکہ وہ پکے رنگ کی تھی پہلے۔ جب بھائی اس کی ڈولی لے کر آیا تھا تب بھی وہ اسے کوئی خاص پسند نہیں آئی تھی اور شادی سے پہلے تک تو وہ اسے بالکل ہی بیکار لگتی تھی۔ پتہ نہیں ایک سال کے اندر اندر کیا ہوا تھا کہ اس نے خاص اداؤں کے ساتھ ساتھ اپنی جلد کو بھی تبدیل کر لیا تھا۔
سوال ’’کیا سانپ کی طرح کچھ خواتین بھی اپنی کینچلی تبدیل کر سکتی ہیں؟‘‘
جواب ’’پتہ نہیں۔ ‘‘
بھرجائی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر جب باہر گلی میں محلے کی عورتوں کے بیچ بیٹھتی تو کہتی ’’بہن۔۔ رب کسے نوں حسن نہ دیوے، سارے مرد پچھے پے جاندے نے۔ ‘‘
(بہن خدا کسی کو حسن نہ دے ورنہ سارے مرد پیچھے لگ جاتے ہیں)
کوئی حیران ہو کر پوچھتی ” ہائے بہنا کون تیرے پیچھے پڑا ہے تو بھرجائی فوراً اللہ توبہ کرتی ”ہائے ہائے میرے پچھے کون آوے گا میں اس دا منہ نہ توڑ دیاں۔ ‘‘
یہ نائنٹی سے ذرا پہلے کا دور تھا چنانچہ فراغت ہی فراغت تھی۔ دن کاٹے نہیں کٹتا تھا، صبح ہوتی تو دوپہر نہ ہوتی، کسی طرح دوپہر ہو جاتی تو شام نہ آ کر دیتی۔
شام کو گلی میں ایک طرف عورتوں تو دوسری طرف محلے کے بڑے بوڑھوں کی بیٹھک لگتی۔ ایک ایک چارپائی پر چار چار بزرگ بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتے، کھانستے اور نئی نسل کی بے راہ روی کا رونا روتے۔ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ زمانہ کروٹ بدل رہا ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کا موضوع سخن کچھ اور ہونے والا ہے۔
کلر ٹی وی مارکیٹوں میں آ چکا تھا۔ اب وی سی آر کی وبا پھیلنے والی تھی۔ عورت کی شرم و حیا پر باتیں کرنے والے یہی بزرگ کل کو چھپتے چھپاتے جب وی سی آر کرائے پر لائیں گے تو ان کی آنکھیں حلقوں سے باہر آ جائیں گی اور اگلے دن حقہ گڑگڑاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہیں گے ” اللہ معاف کرے، اے انگریز تے بڑے ہی بے غیرت نے۔ پھر وہ دیر تک انگریز کی گندی حرکتوں کا ذکر کیا کریں گے جو انہیں نیلی فلموں میں دیکھنے کو ملیں گی۔ اور جب وہ نظر اٹھا کر گلی کے دوسرے سرے پر خوش گپیاں کرتی مٹیاروں کو دیکھیں گے تو سوچیں گے یہ تو بڑی ہی پاک دامن بیبیاں ہیں، انہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں۔
بھرجائی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا ایک عاشق ہے اور وہ اس عاشق کو اتنا تڑپانے والی ہے اتنا تڑپانے والی ہے کہ وہ اس کے آگے ناک رگڑ دے گا اور دونوں ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیاں مانگے گا۔
کس بات پر معافیاں مانگے گا، یہ بھی اسے معلوم تھا۔
اسے تڑپانے کے لیے ہی وہ ہر وقت ہونٹوں پر سرخی لگائے رکھتی اور بڑے بڑے گلے والی قمیضیں پہنتی۔ اس کے ہونٹوں پر سرخی جچتی بھی بہت تھی۔ پیارے پیارے مکھڑے پر جیسے کسی نے گلاب کی دو سرخ پتیاں سجا دی ہوں۔
کمار سانو کا نیا آنے والا گیت بھی ان دو پتیوں کے بارے ہی تھا۔ یعنی
چوم لوں ہونٹ ترے دل کی یہی خواہش ہے
بات یہ میری نہیں پیار کی فرمائش ہے۔
جب اس گانے کی کیسٹ وہ خرید کر لایا تو اس نے تو اسے بجا بجا کر حد ہی کر دی اور بھرجائی کے سن سن کر کان پک گئے اور تنگ آ کر وہ چھت کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگی ’’لے بھائی تو آ کر چوم لے میرے ہونٹ اور جان چھوڑ۔ ‘‘
اس کے بعد مارکیٹ میں ایک اور کیسٹ آ گئی۔ کمار سانو چھا گیا تھا، نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا۔ اس نے ان کہے جذبات کو الفاظ دے دیے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کچھ ایک دوسرے کو کہنا چاہتے تھے وہ کمار سانو کی زبان سے کہہ ڈالتے۔ اسی گلوکار کی وجہ سے بھرجائی بھی مجبور ہو چکی تھی اور ایک دن جب وہ چھت والا اوپر سے اتر کر نیچے آیا اور زبردستی اس کے ہونٹ چوم کر بھاگ گیا تو وہ کچھ بھی نہ کر پائی، دیر تک ساکت ہو کر ایک مخملی کیفیت میں مبتلا رہی۔ نگاہوں سے محبت کرنے والے نے آج اسے آ کر چھو لیا تھا۔
’’اف اللہ‘‘ کیفیت ختم ہوتے ہی اسے خوف نے آ لیا، یہ میں کیا ظلم کرا بیٹھی ہوں اپنے ساتھ۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہونے لگی۔
منڈیر پر بیٹھا کالا کوا زور زور سے کائیں کائیں کرنے لگا۔ وہ سہم گئی کہ کہیں یہ کوا ہی نہ سب کو بتا دے۔
اس نے ہش، ہش، کر کے کوے کو اڑانے کی کوشش کی مگر وہ ڈٹا رہا اور پورے جسم کا زور لگا کر کائیں کائیں کرتا رہا جیسے اسے ڈانٹ رہا ہو۔ وہ دوڑ کر اپنے کمرے میں گئی اور دروازہ بند کر کے بستر پر گر گئی۔
رات کو وہ نیند میں تھی جب اس کے شوہر نے اسے چوما، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ بدن اس خوف سے لرز گیا تھا کہ کہیں یہ دیور نہ ہو۔ بچت ہو گئی کہ یہ وہ نہیں تھا بلکہ وہ تھا جس کا سچ مچ حق بنتا تھا۔ منہ ایک اور چومنے والے دو۔
سوال ’کیا یہ سلسلہ چلنا چاہئیے؟‘
جواب ’نہیں۔ ‘
وہ یہ سوچ کر دوبارہ سو گئی کہ صبح کسی ایک کو وہ ضرور سختی سے منع کر دے گی۔
صبح دونوں بھائی اٹھ کر کام پر چلے گئے۔ اسے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جبکہ مردود کوا صبح ہی صبح آن دھمکا۔ کائیں کائیں کائیں۔ وہ گھر سے باہر نکل گئی۔ کچر کچر باتیں کرنے والی محلے والیوں میں جا بیٹھی۔ تمام عورتیں جمیلہ کو اپنے جھرمٹ میں لیے اسے دلاسے تسلیاں دے رہی تھیں۔ جبکہ جمیلہ محض سر کو جھکائے ہوئے ناک کو سڑ سڑ کر رہی تھی۔ آج اس کے شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا تھا اور طلاق کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ قصور بیچاری کا صرف اتنا تھا کہ وہ سامنے والوں کے منڈے کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی پکڑی گئی تھی۔
’اے مرد ذات تے بہت ہی شکی ہوندی اے۔ ‘ عورتیں مرد ذات کی اس عادت پر بہت ہی نالاں نظر آئیں اور دیر تک لعنت ملامت کرتی رہیں۔
بھرجائی کا اپنا بھی ماتھا ٹھنکا تھا۔ جمیلہ کی یہ حالت دیکھ کر اسے اپنی بھی فکر پڑ گئی تھی۔ اس نے سبق سیکھا کہ کسی غیر کے آگے کبھی بھی ہنس ہنس کر باتیں نہیں کرنی۔۔ اس نے سوچا، غیر تو غیر اب وہ اپنے دیور کے سامنے بھی کبھی نہیں ہنسے گی۔
بھرجائی وہاں بیٹھی دیر تک خیالوں میں کھوئی رہی۔ بظاہر وہ محلے والیوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی مگر اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔
گلی میں بیٹھا ایک کتا زور سے بھونکا تو اسے ہوش آیا۔ کتا ایک بلی کے پیچھے بھاگا تھا۔ بلی اس طرف دوڑ گئی جس طرف بڑے بوڑھے اپنی بیٹھک جمائے ہوئے تھے۔ وہ اٹھی اور اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔
شام کو جب دیور گھر آیا اور آتے ہی اس نے کمار سانو کو بجانا شروع کیا تو وہ غصے سے پاؤں پٹختی چھت پر جا پہنچی۔
یہ دعا ہے میری رب سے تجھے عاشقوں میں سب سے میری عاشقی پسند آئے۔ میری عاشقی پسند آئے۔ کمار سانو کہہ رہا تھا مگر بھرجائی نے جاتے ہی ڈیک کا تار کھینچ دیا۔۔۔ وے تینوں شرم نئیں آندی۔۔۔ وہ پنجابی زبان میں صلواتیں سنانے لگی جس کا متن یہ تھا کہ یہ تم کیا بجاتے رہتے ہو فضول میں۔ اور یہ کیا حرکت کری تھی کل تم نے۔ اگر تمہارے بھائی کو پتہ لگ گیا تو کیا ہو گا کبھی سوچا ہے۔ اور جب میرا رشتہ لے کر میرے گھر والے آئے تھے تو اس وقت تم نے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت تمہیں میں اچھی نہیں لگتی تھی۔ اپنے آپ کو بڑا ہیرو سمجھتے تھے تم۔ اب تمہارے بھائی سے میرا بیاہ ہو گیا ہے تو مر رہے ہو۔ اب کیا فائدہ۔
پتہ نہیں بھرجائی ڈانٹ رہی تھی یا اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔ یہ تو سچ ہی تھا کہ اس کا رشتہ آیا تھا مگر انکار کے بعد وہی رشتہ دوسرے بھائی کے ساتھ طے ہو گیا تھا۔ وہ اس کی طرف سے ٹھکرا دی گئی تھی۔ اور یہ ٹھکرایا جانا وہ کبھی فراموش نہیں کر پائی تھی۔ اسے انتقام لینا تھا ایک ایسا انتقام جو مسلسل جاری رہے۔ اس کے لبوں کی لالی اس کی نکھری ہوئی جلد اور بے ڈوپٹہ سینے کے دونوں ادھ کھلے ابھار ہی در اصل اس کے انوکھے انتقام کی ایک شکل تھی۔
وہ پنجابی میں خوب ڈانٹ پلانے کے بعد نیچے اپنے کمرے میں آ گئی۔ اور پتہ نہیں کس وجہ سے رونے لگی۔
سوال ’کیا عورت کبھی سمجھ میں آ سکتی ہے؟‘
جواب ’نہیں‘
کمار سانو کا منہ بند ہو چکا تھا۔ اور دیور جی نے نہ رات کا کھانا کھایا نہ صبح کا۔ منہ اندھیرے ہی کہیں نکل گیا۔
بھرجائی کو فکر ستانے لگی۔ سوچا کاش اسے اس طرح ذلیل نہ کرتی۔ جب وہ دوپہر کو گھر آیا تو پوچھا کام پر کیوں نہیں گئے اور ناشتہ بھی نہیں کیا؟ وہ کچھ نہ بولا، چپ چاپ سیڑھیاں چڑھ گیا۔ اس کی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں۔ بھرجائی کے دل پر کوڑے پڑ گئے۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ رات بھر روتا رہا ہے۔ وہ بے چین ہو گئی، پریشان ہو گئی، چکی کے دو پاٹوں میں آ گئی۔ رشتوں کے تقاضے اپنی جگہ مگر اسے یہ بھی کب منظور تھا کہ کوئی اس کی وجہ سے کھانا پینا چھوڑ دے اور رو رو کر آنکھیں سجا لے۔
اس نے کھانا گرم کر کے اسے کھانے کو دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا، گردن لٹکائے ہونٹ کاٹتا رہا۔
’چل کھانا کھا لے۔۔ چھوڑ پرے۔۔۔ ‘
وہ نرمی سے کہنے لگی
وہ نہ مانا۔
’اچھا چل کھانا تو کھا‘ وہ زور دے کر کہنے لگی۔
’میں نہیں کھاؤں گا۔ ‘ آخرکار ایک پتلی سی آواز برآمد ہوئی۔
’کیوں نہیں کھائے گا؟ مرنا ہے تجھے؟‘
وہ منہ گھما کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔
’اچھا ادھر تو دیکھ۔ ‘ وہ لاڈ سے کہنے لگی۔
’مجھے نہیں دیکھنا۔ ‘
’دیکھ تو سہی۔ ‘ وہ یوں دیکھنے کو کہہ رہی تھی جیسے ابھی آنکھوں ہی آنکھوں سے سارے معاملات درست کر لے گی۔
’اچھا غلطی بھی تیری اور ناراض بھی تو ہو رہا ہے۔ چل میں تجھ سے معافی مانگ لیتی ہوں۔ ‘ بھرجائی نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ دیور جی کے ضبط کیے ہوئے آنسو چھلکنے لگے۔ وہ بے اختیار رو پڑا۔
بھرجائی کے دل پر ایک اور کوڑے کی ضرب لگی اور وہ ایکدم سے بھول گئی کہ اس کا شوہر کون ہے اور یہ اس کے سامنے کون ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
منڈیر پر چغل خور کوا کائیں کائیں ہی کرتا رہ گیا۔ اس کی ایک نہ چلی اور دور کھیتوں میں کسان نے نئے بیج بو دیے۔ اور باغوں میں اتنے پھول کھلے کہ مالی مالا مال ہو گیا۔
گلی کا کتا بلی کے پیچھے دوڑتا تو وہ بھاگ کر بابوں کی چارپائی کے نیچے چلی جاتی اور دور سے اسے منہ چڑاتی۔ محلے والیاں جمیلہ کا دکھ بانٹتیں اور بھرجائی کہیں اور ہی خیالوں میں کھوئی رہتی۔ یا کبھی کبھی کہتی ’’نی بھینا مرد جدوں پیار وچ انھا ہو جائے تے فیر کج نئیں ہو سکدا۔ ‘ (اے بہن مرد جب پیار میں اندھا ہو جائے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا)
کمار سانو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اب وہ روز شام کو اپنے سر بکھیرتا اور الکا منہ پھیرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دیتی۔ دونوں مل کر گنگناتے، پیار کے گیت گاتے۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے۔ پھر وہی ہاتھ بانہوں میں تبدیل ہو کر ایک دوسرے کو کھینچ لیتے۔ پھر دو پیاسے ہونٹ آگے بڑھتے اور ایک دوسرے کو اتنا چومتے اتنا چومتے کہ چہرہ لال کر دیتے یہاں تک کہ کالا کوا چیخ چیخ کر اپنا گلا سکھا لیتا اور بھرجائی ہنس کر کہتی ’’تو جل جل کے اور کالا ہو جا کوے۔ ‘‘
خوشی کے دن تھوڑے۔۔۔ یہ کائیں کائیں ایک دن ابا جی کے کانوں تک پہنچ گئی۔ انہوں نے بہو کو بلایا۔ حکم دیا کہ فوراً اپنے دیور کے لیے کڑی تلاش کر۔ کب تک وہ کنوارا رہے گا۔ اس کا بھی بیاہ کر دیتے ہیں تاکہ میں فارغ ہو جاؤں۔ ابا جی نے دو چار گھروں تک بھی رہنمائی کی کہ وہاں جا کے پتہ کر اور رشتے کی بات چلا
بھرجائی جانتی تھی کہ یہ دن ایک دن آنے والا ہے۔ مگر اتنی جلدی کیوں۔۔۔ دو چار سال اور نکل جاتے۔ اسے اتنا دیوانہ بنا دیتی کہ پھر وہ شادی کے قابل ہی نہ رہتا۔ ملنگ بن جاتا یا کسی مزار کا بابا یا مجنوں بن کر جنگل جنگل گھومتا۔ جس نے اسے بوجہ غرور ٹھکرایا تھا اس کی ایسی سزا تو بنتی تھی۔
پہلا ہی رشتہ اتنا اچھا تھا کہ اس نے سر توڑ کوشش کر کے منع کروا دیا۔ لڑکی حد سے زیادہ خوبصورت تھی۔ اتنی خوبصورت لڑکی کو وہ اگر دیورانی بنا کر لے آتی تو اس کی اپنی کیا ویلیو رہ جاتی۔ اسے تو ایسی لڑکی کی تلاش تھی جو اس سے کمتر ہو ہر معاملے میں۔
اباجی نے رشتہ ڈھونڈنے کا کام اسے سونپا ہوا تھا چنانچہ وہ اپنے مطلب کی دیورانی تلاش کرنے میں ضرورت سے زیادہ ہی کامیاب ہو گئی۔ یہ ایک بے کشش اور بڑی عمر کی کوئی عورت ٹائپ کنواری تھی۔
کمار سانو کا چہیتا گھوڑی چڑھ گیا اور اپنی خود کی دلہن لے آیا۔
بھرجائی بیاہ والے دن رونے دھونے کی بجائے مطمئن اور مسرور تھی۔ یقین رکھتی تھی کہ سہاگ رات کے بعد جو سورج طلوع ہو گا۔ وہ سب کچھ واپس بحال کر دے گا۔ پھر وہی کمار سانو کی آواز ہو گی اور وہی اس کا عاشق اس کے لیے جان قربان کرنے کو حاضر ہو جائے گا۔
مگر یہ کیا۔۔۔ ایک دن گزرا۔ دوسرا دن گزرا۔۔ تیسرا دن بھی چلا گیا مگر عاشق تو ایک منٹ کے لیے بھی اپنا کمرا چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔
اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ نصیب دشمناں کہیں طبیعت تو خراب نہیں۔ مگر پتہ چلا کہ بندہ ہشاش بشاش ہے۔ اسے اپنا کمرا بے حد پسند آ گیا ہے۔ کون بھرجائی۔ کس کی بھرجائی۔ کیسی بھرجائی۔ جب کعبے کا رخ ہی چینج ہو گیا۔ تو سجدوں کا رخ بھی کیوں نہ بدلے۔
وہ سب کچھ بھول چکا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے مڑ کر کمار سانو کی بھی خبر نہ لی۔ الکا حیران تھی کہ کوئی یوں بھی بدل سکتا ہے کیا آن کی آن میں۔
سوال ’کیا کوئی یوں بھی بدل سکتا ہے؟‘
جواب ’ہاں‘
کالا کوا اب کائیں کائیں کی بجائے زور زور سے ہنستا۔ اور بھرجائی کا جی بھر کے مذاق اڑاتا۔ ہتک محسوس کر کے وہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی۔
مہینوں انتظار کے باوجود عاشق اپنے پرانے موڈ میں واپس نہ آیا۔ اس کے ہونٹوں کی لپ اسٹک سوکھ سوکھ کر مٹی ہو گئی۔ بڑے گلے کی قمیضیں سکڑ کے چھوٹی ہو گئیں اور سینے کے ابھار دب کر کہیں سینے میں ہی گم ہو گئے۔۔ ایک دن گلی میں ریڑھی والا آیا اور پانچ روپے کلو کے حساب سے ساری کیسٹیں خرید کر لے گیا۔
کچر کچر باتیں گھماتی محلے والیاں اب بھرجائی کے معاملے کو لے بیٹھی تھیں، نجانے انہیں کس نے خبر دے ڈالی تھی کہ وہ اپنے دیور پر مرتی ہے۔ عورتیں دبی زبان میں اسے دلاسے دیتیں مگر وہ اپنے ہی خیالات میں کھوئی رہتی یا کبھی کبھی کہتی ’نی بھینا مرد صرف جسم دا بھکا ہوندا ای۔ ‘
(اے بہن مرد صرف جسم کا بھوکا ہوتا ہے)
٭٭٭
شراپتی ٹرین
اس پلیٹ فارم سے جو بھی ٹرین دو بج کر دس منٹ پر گزرتی ہے اسے شراپ لگ جاتا ہے، جس کے اثرات کم از کم سو کلومیٹر تک نہیں جاتے۔
سو کلو میٹر دور بھگوان کرشن جی کا مندر ہے جس کے پڑوس میں ہی ایک ولی اللہ کی درگاہ ہے۔ یہاں ہندو مسلم ایک طرح سے بھائی بھائی ہیں سو کبھی آپس میں دنگا فساد نہیں ہوتا۔
ٹرین اور ٹرین کے لوگ یہاں پہنچ کر شانت ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں بھاری یقین ہوتا ہے کہ ٹرین کے ساتھ چمٹے بھوت پریت اب ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
یہ چیز جسے ’’یقین‘‘ کہتے ہیں بڑے کام کی چیز ہوتی ہے، اسی میں معجزے، کرامات اور انہونیاں چھپی ہوتی ہیں۔ چنانچہ جسے جیسا یقین ہو قدرت اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتی ہے۔
کچھ لوگ مرنے کے بعد یقین ہی نہیں کرتے کہ وہ مر چکے ہیں، تو شاید وہی لوگ دنیا کے لیے بھوت پریت بن جاتے ہوں گے۔
میں ٹرین میں اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا مگر سُومیّا ابھی نہیں آئی تھی۔ براہ کرم آپ اس نام کی درست ادائیگی کیجیے گا اسے آپ سومیا somya نہ پڑھیے بلکہ یہ سُومیّا soo-mayya ہے۔
وہ میری دلہن ہے، بالکل نئی نویلی دلہن جسے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا تھا شادی کیے۔ اس کے ہاتھوں پر مہندی کا لال رنگ ابھی بھی اتنا ہی شدت سے چڑھتا ہے جتنا کہ کسی کنواری کے ہاتھوں پر۔
اگلے روز وہ لال رنگ کچھ سیاہی مائل سا ہو جاتا ہے پھر بتدریج سیاہی مائل سے ہوتے ہوتے دوبارہ لال اور پھر ہلکا نارنجی ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں جس ناری کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ جتنا کھل کے آئے اتنا ہی زیادہ اس کے دل میں پیار ہوتا ہے۔
سُومیّا کے من میں کسی کے لیے کتنا پیار ہو سکتا ہے یہ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہو گا۔ مگر وہ تھی کہاں؟
ابھی تک آئی کیوں نہیں؟
جب ہم دونوں ٹرین میں سوار ہو رہے تھے تو اس نے کہا تھا تم جا کر سیٹ پر بیٹھو، میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں۔ حالانکہ میں نے اسے کہا بھی تھا کہ جب ٹرین اسٹیشن پر کھڑی ہو تو واش روم استعمال نہیں کرتے۔
ٹرین ابھی بھی کھڑی تھی جبکہ یہ اسٹیشن ویران تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں کسی ڈائن کا بسیرا ہے اور وہ ڈائن ماؤں کے نوزائیدہ بچے چھین لیا کرتی ہے اور اگر کوئی ٹرین دو بج کر دس منٹ پر یہاں سے گزرے یا ٹھہر جائے تو اس میں گھس جاتی ہے۔
تاہم اس ڈائن کے بارے اطمینان بخش بات یہ تھی کہ کرشن جی کے مندر یا ولی اللہ کی درگاہ سے پہلے ہی وہ چھینا ہوا بچہ کسی نہ کسی خالی سیٹ پر یا کسی کی گود میں مل جایا کرتا۔
ٹرین کا وسل سنائی دیا۔ پہلا وسل جو خبردار کرتا ہے کہ فالتو لوگ ٹرین سے دور ہو جائیں اور جو کوئی مسافر باہر کھڑا ہے فوراً اندر آ جائے۔
سُومیّا ڈبے کے اندر آ گئی۔
اس نے مجھے دیکھ لیا اور میں نے اسے۔ وہ میری طرف بڑھنے لگی۔
یہ ڈبہ خالی خالی سا تھا۔ میرے سامنے والی سیٹ پر محض ایک نوجوان براجمان تھا اور اس کی مخالف سیٹ پر صرف ایک میں تھا، حالانکہ وہاں چار چار بندے بیٹھ سکتے تھے۔
سُومیّا آ رہی تھی۔ مجھے اس کے لیے جگہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ آ کر آرام سے میرے ساتھ بیٹھ سکتی تھی مگر جب وہ قریب آئی تو میں ایکدم سے تشویش میں مبتلا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی جھولی میں ایک نوزائیدہ بچہ تھا۔۔
یہ کون ہے؟ میں چلایا
وہ بولی۔ ’’چلاؤ تو مت، بچہ ڈر جائے گا۔ ‘‘
’’مگر۔۔ یہ۔۔ یہ۔۔ کس کا بچہ ہے؟‘‘
’’اپنا ہی ہے۔ ‘‘ وہ مسکرائی، ’’پچھلے ڈبے میں چھوٹی خالہ بیٹھی ہیں، انہوں نے اسے مجھے پکڑا دیا، بولنے لگیں ذرا میں اپنا سب سامان اچھی طرح سیٹوں کے نیچے ٹھونس لوں، جب تک تم اسے سنبھالو۔۔ ‘‘
سامنے سیٹ پر بیٹھا نوجوان ہماری باتیں سن رہا تھا
سُومیّا میری جگہ بیٹھ کر بچے کو سنبھالنے لگی۔ بچہ اوں آں کر کے ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا جیسے کسی انجان گود میں آ کر بے چین ہو رہا ہو۔
اور میں اس لیے بے چین ہو رہا تھا کہ کہیں سُمیّا کی بجائے میرے پاس ڈاٰئن تو نہیں آ گئی تھی۔ میں بار بار سُمیّا کا چہرہ تک رہا تھا، اور وہ نوجوان بھی بار بار اسے دیکھے جا رہا تھا۔۔ مگر وہ تو شاید اس لیے دیکھ رہا ہو کہ سُمیّا جیسی حسین لڑکی پہلے کبھی نہ دیکھی ہو گی۔
ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی۔
میں نے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ دور آکاش پر کالے بادلوں کے غول ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے جس کے نتیجے میں بجلیاں چمک چمک جاتیں۔ مگر ان کی گھن گرج سنائی نہ دے رہی تھی۔ شاید وہ بادل بہت دور تھے۔ سُمیّا بچے کو چومے جا رہی تھی۔ آخر کار وہ ننھا کسی اجنبی بو کی تاب نہ لاتے ہوئے پھٹ پڑا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔
’’ہائے میرا بچہ، ہائے میرا منا‘‘ سُمیّا بالکل ایک ماں کی طرح اسے چمکارنے لگی۔
نوجوان کو بچے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ بس سُمیّا کو دیکھے جا رہا تھا۔ حالانکہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید فرسٹ ائیر کا اسٹوڈنٹ ہے۔ سُمیّا کے آنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں کھویا ہوا تھا، جیسے کوئی سبق یاد کر رہا ہو۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی ایسا نوجوان ہے جو اپنا وقت کسی صورت ضائع نہیں کرتا۔ جہاں ذرا سا بھی موقع ملے کتاب کھول کر بیٹھ جایا کرتا ہے۔ اسے صرف ایک فکر ہے۔ اور وہ ہے مستقبل بنانے کی فکر۔ کچھ کر دکھانے کی فکر۔ وہ کامیاب ترین لوگوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتا تھا۔ اس لیے دنیا کے تماشوں سے دور صرف اور صرف محنت پر یقین رکھتا تھا۔ اس غریب کو کیا پتہ کہ زندگی کے کسی موڑ پر اچانک کوئی سُمیّا بھی ٹکرا سکتی ہے۔
سُمیّا بچے کو چپ کرا کرا کے تھک گئی مگر بچہ خاموش نہ ہوا۔ تنگ آ کر سُمیّا نے وہ حرکت کی جو صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔ اس نے اپنی قمیض اٹھائی اور بچے کا منہ چھاتی سے لگا لیا۔
بچے کا منہ بند اور نوجوان کا کھلے کا کھلے رہ گیا۔ پھر وہ نوجوان شرما گیا۔ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی بجلی کوند گئی تھی جو آکاش میں ٹکراتے بادلوں میں کہیں نہ تھی۔
نوجوان کیا سوچ رہا تھا۔ نہیں معلوم۔ میں تو بس اپنے بارے بتا سکتا تھا کہ جب میری آنکھوں میں پہلی بار سُمیّا نے بجلیاں چمکائی تھیں تو میں بس ایک ہی جملہ سوچ رہا تھا۔۔ کہ سُمیّا۔۔۔ تیرے بغیر نہیں جینا یار۔
اور اس جملے کے بعد سے کسی کتاب کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ پایا۔ تعلیم اور مستقبل کو پس پشت رکھ کر سُمیّا سے شادی کر لی۔
بچے کو اپنا گوہر مقصود نہ ملا تو وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر پھیر کر ایک بار پھر رونے لگا۔ اور ساتھ ہی سُمیّا بھی رونے لگی۔ مجھ سے کہنے لگی ’’میری چھاتیوں میں دودھ نہیں ہے۔ ‘‘
میں نے کہا ’’ہو بھی کیسے سکتا ہے، جاؤ اسے خالہ کو واپس کر آؤ۔ ‘‘
مگر وہ نہ مانی۔ بچے کو بہلانے میں لگی رہی۔ تنگ آ کر میں ہی اٹھ گیا۔ میرا ارادہ اس کی خالہ کو بلا کر لانے کا تھا۔
یہ ٹرین شراپتی تھی اور فی الحال اس کا شراپ ختم ہونے کو نہیں تھا۔ بھگوان جی کا مندر دور تھا۔ تاہم ٹرین فراٹے بھر رہی تھی۔
میں لمبے لمبے ڈگ بھر کر دوسرے ڈبے میں گیا وہاں چند لوگ بیٹھے تھے مگر خالہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میں اور آگے بڑھا۔ اس کے بعد والے ڈبے میں جا کر دیکھا۔
اور تب میں دیکھتا رہ گیا۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس ڈبے میں سامنے ایک سیٹ پر میری نئی نویلی اور شاید اوریجنل دلہن سُمیّا بیٹھی تھی۔ خالی گود۔ بغیر کسی بچے کے۔ وہ کھڑکی سے باہر کے نظاروں میں محو تھی۔
میں بے اختیار پکار اٹھا۔ سُمیّا۔۔
’’تت۔۔ تم یہاں ہو۔۔ تو وہاں وہ کون ہے؟‘‘
اس نے شور سن کر کھڑکی سے نظریں ہٹائیں اور میری طرف دیکھا۔۔ مگر پہچان نہ سکی۔ اجنبی نظروں سے ٹکر ٹکر تکنے لگی۔
میں نے پھر اسے پکارا، ’’سُمیّا۔۔ یہ کیا ماجرا ہے یار۔ چلو میرے ساتھ۔۔ ابھی چلو۔ ‘‘ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ تبھی پیچھے سے کسی نے میرا کالر پکڑ کر کھینچا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو اپنے سامنے ہو بہو میں ہی کھڑا تھا۔ اس بوگی میں موجود تمام لوگ ہماری طرف متوجہ ہو گئے۔ انہیں ایک جیسی شکل کے دو انسان نظر آ رہے تھے۔ پھر کسی نے اچانک صدا لگائی۔۔۔ بھوت۔۔ یہ بھوت ہے۔۔
لوگ مجھے دھکیل کے چلتی ٹرین کے دروازے تک لے گئے۔ پھر ایک زور دار دھکے کے ساتھ مجھے ہوا میں اچھال دیا گیا۔
میں ہوا میں تھا اور ٹرین میری آنکھوں کے سامنے سے بھاگتی ہوئی دور جا رہی تھی۔ وہ مجھ سے ڈر گئی تھی اور اس کے مسافر بھی ڈر گئے تھے حالانکہ میں کوئی بھوت ووت نہیں تھا۔ میں تو بس وہ تھا جسے اپنی موت کا اب تک یقین نہیں آیا تھا۔
میں تو بس وہ تھا جو ہر وقت کتابوں میں کھویا رہتا تھا۔ پھر ایک دن سُمیّا مجھ سے ٹکرا گئی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اتنی حسین اتنی حسین ہو گی کہ میں سب کچھ بھلا کر اسے اپنانے کے لیے کچھ بھی کر گزروں گا۔ میرا اب کوئی مستقبل تھا تو وہ سُمیّا تھی۔ پھر ایک دن ہم نے بھاگ کر شادی کر لی کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔ یہ شادی ہمارے لیے وہ جرم بن گئی جس کی سزا موت کے سوا اور کچھ نہ تھی کیونکہ سُمیّا کے خاندان میں غیرت کا لیول بہت ہائی تھا۔
ہمارے دوستوں نے ہمیں دور پار کے ایک چھوٹے سے شہر میں چھپا دیا تھا جہاں ہم ایک سال تک خیریت سے رہے۔ سُمیّا نے اس دوران ایک ننھا سا پھول بھی کھلا دیا تھا۔ ہمارا بچہ اتنا پیارا تھا کہ محض ایک نظر بھر کر اسے دیکھنے سے ہی ہماری سزا معاف ہو سکتی تھی۔ مگر جو لوگ ہمیں ڈھونڈ رہے تھے وہ نہایت ہی کٹھور نکلے۔ وہ سر پر آن پہنچے تھے۔ میں اور سُمیّا قریبی ریلوے اسٹیشن کی طرف بھاگے۔ دو بج کر دس منٹ پر ہم ایک ٹرین میں چھپے خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ٹرین چل پڑی تو میں نے سُمیّا کو تسلی دی ’’لگتا ہے ہم ان کی نظروں سے بچ گئے۔ ‘‘
سُمیّا چپ تھی مگر اس افراتفری کی وجہ سے بچہ بے تحاشا رو رہا تھا۔ میں نے کہا ’’اسے دودھ پلا دو۔ ‘‘
اس نے قمیض اوپر کر کے دودھ پلانے کی بہت کوشش کی، مگر دودھ آیا ہی نہیں۔ خوف کی شدت سے وہ خشک ہو چکا تھا۔
بچے کے رونے سے دیگر مسافر ناگواری محسوس کر رہے تھے۔ میں نے کہا ’’لاؤ اسے مجھے دے دو۔۔ ‘‘ وہ منے کو میری طرف بڑھانے لگی مگر پھر یکدم واپس کھینچ کر اسے بھینچ لیا۔۔ اس کی نگاہوں میں دوڑتا خوف موت کی سرخی بن گیا۔ میں سمجھ گیا کہ ہمیں موت کی سزا سنانے والوں کو اس نے دیکھ لیا ہے۔
’’ہائے میرا بچہ، ہائے میرا منا۔۔ ‘‘ وہ بلبلانے لگی۔ اور تبھی یک بہ یک میرے دل سے ایک شدید دعا نکلی۔ ’’ہئے بھگوان، ہمیں ان کے ہاتھ لگنے سے پہلے ہی موت دے دے۔ ہم نے جو غلطی کی تھی اس کے عوض ایک ایک لمحہ خوف میں گزرا تھا۔ ہمیں اس خوف سے اب مکتی دلا دے۔ ‘‘ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ لآ آف ایٹریکشن کا قانون فوری حرکت میں آ گیا اور بھاگتی دوڑتی ٹرین پٹری سے اتر گئی یا جانے اسے کیا حادثہ پیش آیا۔ سُمیّا کے ہاتھ سے بچہ چھوٹ کر جانے کہاں جا گرا۔ ہم دونوں اب ہر طرح کے خوف سے آزاد یعنی مر چکے تھے۔ اور ظاہر ہے ہمارا لاڈلا بھی کہاں بچا ہو گا۔ ہاتھ سے چھوٹ کر کہیں کھو جانے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ زندہ بچ گیا ہو گا۔ ایک ماہ کے بچے میں جان ہی کتنی ہوتی ہے۔ مگر یہ بات سُمیّا مانے تب نا۔
مجھے بھوت کہہ کر ٹرین سے باہر اچھال دیا گیا تھا۔ یہی سب یاد کرتے کرتے میں دھم سے زمین پر آن گرا۔۔ ٹرین گزر چکی تھی۔ قدموں کی چاپ نے سُمیّا کے آنے کی خبر دی۔ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا بالکل تمہاری ہی شکل کی کوئی تمہاری بہن بھی ہے؟‘‘
بولی ’’نہیں تو۔ ‘‘
’’پھر وہ کون تھی۔ اور وہاں بالکل میرے ہی جیسا ایک آدمی بھی تھا۔ ‘‘
وہ مجھے ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے بولی ’’جب ہم مر جاتے ہیں تو ہمارے جیسا ہی کوئی دوسرا پیدا ہو جاتا ہے۔ ‘‘
مگر کیا۔۔ میں نے نہایت دکھی دل سے پوچھا ’’کیا ان کا نصیب بھی ہمارے جیسا ہی ہوتا ہے؟‘‘
٭٭٭
ماسی
بزرگ نے فون کر کے بلایا تھا چنانچہ میں ان کے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر جا رہا تھا۔ بزرگ نے کہا تھا میں نے افسانہ مکمل کر لیا ہے آ کے لے جاؤ۔
وہ افسانہ نگار تھے۔ ہمارے پرچے میں ان کے افسانے باقاعدگی سے چھپتے تھے کیونکہ باقاعدگی سے وہ پیسے بھی دیا کرتے تھے۔ جب میں نے ان کے دروازے پر دستک دی تو سوچا یہ دو بڑے بڑے کمروں کے فلیٹ میں کتنے اکیلے اکیلے رہتے ہیں، کیوں نا کسی دن میں اپنی محبوبہ کو یہاں لے آؤں۔ کافی پرائیویسی میسر آ جائے گی۔ بزرگ کو کسی بہانے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے۔
میری محبوبہ بہت اچھی تھی۔ بیچاری مجھ سے شادی کے چکر میں ہر جگہ جانے کو تیار ہو جاتی تھی۔۔ ویسے ہم پارکوں، سینماؤں اور شاپنگ مالز کے علاوہ اب تک کہیں نہیں گئے۔ (کراچی میں جگہ کا مسئلہ تو ہے نا)
میں دروازے پر دستک دے چکا تھا اور ساتھ ہی محبوبہ کے بارے سوچ رہا تھا، ساتھ ہی اس کا گورا چٹا مکھڑا بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔ آہا۔۔ یہ کانوں کی بالیاں، یہ ہونٹوں کی سرخیاں، یہ رخسار، یہ چتون، یہ ناک نقشہ، انسان ہو یا پری ہو تم، مخاطب کون کر سکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے، میرے زیر مطالعہ شعر آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے تبھی اس نے سختی سے آنکھیں چار کرتے ہوئے پوچھا ’’کون ہو بھائی تم۔۔۔ بولتے کیوں نہیں‘‘
میں ہڑبڑا گیا، سٹپٹا گیا، لڑکھڑا گیا، غش کھا گیا، مزید بھی جو کچھ ایسے موقعوں پر ہوتا ہے وہ ہو گیا تو غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ بزرگ کا دروازہ کسی جوان نے کھولا ہے۔
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ ایں۔۔۔ وہ مجھے۔۔ ان سے ملنا ہے۔ ‘‘ میں بزرگ کا نام ہی سرے سے بھول گیا۔ تاہم وہ سمجھ گئی اور اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آ کر بولی ’’آ جائیں، وہ بلا رہے ہیں۔ ‘‘
میں اس کی قیادت میں اندر داخل ہوا۔ مگر وہ مزید کسی رہنمائی کی بجائے کچن میں گھس گئی۔
بزرگ نے بتایا وہ ماسی ہے، ابھی کام ختم کر کے چلی جائے گی، تم سناؤ۔
میں کیا سناتا، میری تو سٹی گم ہو چکی تھی، جسے محبوبہ بنا کے شادی کرنے جا رہا تھا وہ اچانک ماسی کے درجے پر چلی گئی تھی اور جو ماسی کے درجے پر یہاں نظر آئی تھی وہ محبوبہ سے بڑھ کر ہو چکی تھی۔ آخر یہ کیا چکر تھا؟ یہ کونسا دور تھا؟ کیا اس دور کے بارے میں پہلے کبھی پیشین گوئی ہوئی تھی کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب گھروں کی ماسیاں آسمان سے اتری حوریں ہوا کریں گی۔۔ مقدور میں ہوتا تو بزرگ سے پوچھتا کہ او لئیم، تو نے یہ گنج ہائے گراں مایہ کہاں سے اٹھایا ہے۔
بزرگ جس دوران افسانہ پڑھ کے سنا رہے تھے میری کن انکھیاں کچن میں جا کر اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔ پھر میں ہاتھ میں بزرگ کا افسانہ اور آنکھوں میں ماسی لیے لوٹ آیا۔
شام کو ایک بڑے اخبار کے مدیر کے پاس بیٹھا تھا۔ رہا نہ گیا تو اسے شریک راز کر لیا۔ مدیر مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میری دماغی حالت کنفرم مشکوک ہو چکی ہے۔ بولا ’’ابے تیرے یہ دن آ گئے ہیں کہ اب تو ماسیوں کے لیے خوار ہو رہا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا ’’ابے یار تو اسے ایک نظر دیکھے گا نا تو خود بولے گا۔۔ ‘‘
’’جا بھائی مجھے نہیں دیکھنا کسی ماسی واسی کو۔ ‘‘
’’یار دیکھ اسے ماسی مت کہہ کیونکہ ماسی کا نام آتے ہی کسی بوڑھی مائی کی یاد آتی ہے، تو سمجھ کہ وہ ’بے بی سٹر‘ ہے۔ ‘‘
المختصر کہ میں نے جیسے تیسے کر کے مدیر کو قائل کر ہی لیا زیادہ تفصیل میں جاؤں گا تو آپ کا وقت ضائع ہو گا، ممکن ہے آپ یہ داستان ہی چھوڑ کر اٹھ جائیں۔ تو آگے کہتا ہوں مدیر دو روز بعد میرے ساتھ چل پڑا۔ ہمیں تحقیق کرنا تھی کہ کوئی ماسی اتنی خوبصورت اتنی جوان کیسے ہو سکتی ہے۔ اگر وہ اتنی خوبصورت اور جوان ہے تو ماسی ہی کیوں ہے اور اگر وہ ماسی ہے تو اتنی خوبصورت کیوں ہے، اس طرح کی الٹ پھیر پہلے کبھی کیوں نہیں نظر آئی۔
مدیر اور بزرگ دونوں لنگوٹیا یار تھے چنانچہ کھل کے بحث کر کے اس گتھی کو سلجھا سکتے تھے
ہم فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے مگر آج دروازہ خود بزرگ نے کھولا۔ ماسی غائب تھی۔ ظاہر ہے وہ گھنٹے ڈیڑھ کے لیے آتی ہو گی۔ اسے کیا پتہ تھا کہ میں کہیں زیر بحث بنی ہوئی ہوں۔
ہم کافی دیر تک جب فالتو باتیں کر چکے تو مدیر نے بالآخر بزرگ کے کندھے پر ہاتھ مارا ’’ہاں بھئی، یہ ماسی کا کیا چکر ہے؟‘‘
’’کونسی ماسی؟‘‘ بزرگ سوچی پے گئے۔
’’وہی۔۔ وہ۔۔ اس دن۔۔ میں افسانہ لینے آیا تھا۔۔ تو۔۔۔ ‘‘ میں نے ہکلا کر یاد دلایا۔
’’اچھا۔۔۔ وہ۔۔ ہاں۔ وہ کوئی مجبور عورت ہے میں نے صفائی کے لیے رکھ لیا ہے۔ منتیں کر رہی تھی۔ ‘‘
’’تو آج کدھر ہے وہ؟‘‘ مدیر کا سوال
’’وہ تو جا چکی ہے۔ ‘‘ بزرگ کا جواب
’’او۔۔ ہو۔۔ ہم اتنی دور سے آئے تھے اس کے لیے۔ ‘‘
مدیر کے منہ سے نکل گیا
اور اب بزرگ مدیر کو ان نظروں سے دیکھ رہے تھے جن نظروں سے پہلے مدیر نے مجھے دیکھا تھا یعنی جیسے کہہ رہے ہوں، ’’ابے چریا ہو گیا ہے کیا کم از کم ماسی کو تو چھوڑ دیا کر۔ ‘‘
مدیر بھی گڑبڑا گیا۔ بے تکی وضاحت پیش کرنے لگا۔ ’’در اصل یہ بتا رہا تھا کہ وہ ماسی نہیں بی بی سٹر ہے۔ ’’اچھا میں اسے فون کر کے دیکھتا ہوں شاید آ جائے۔ ‘‘ بزرگ نے فون پر نمبر ملایا ’’ہیلو، ہاں۔۔۔ دیکھو بیٹا۔۔ وہ۔۔۔ کچھ مہمان آئے ہیں اور فریج میں کچھ ہے بھی نہیں۔۔۔ تم ایسا کرو تھوڑا سا ٹائم نکال کر آ جاؤ اور بریانی بنا دو۔۔۔۔ کیا۔۔۔ وہ (شوہر) گھر پہ نہیں ہیں ۔۔۔ تم بچے سنبھال رہی ہو ۔۔۔ ارے میرا بیٹا۔۔ بس تھوڑی دیر کے لیے آ جاؤ، چلو بس چائے بنا دینا۔۔ ‘‘
بچے اور شوہر وغیرہ کے ذکر پر میں تو مایوس ہوا ہی ہوا مگر مدیر کے بھی ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ شاید اس نے بھی دل میں ایک تصویر بنا لی تھی۔ میں نے تعریفیں جو اتنی کی تھیں۔
مگر جب ماسی نما بے بی سٹر از راہ کرم چائے بنانے کے لیے تشریف لے آئی تو ہم دونوں میں ہی اس نے نئی روح پھونک دی۔
گہرے سی گرین سوٹ میں اس کا چمکتا جھلکتا بدن، گورے گورے ہاتھ اور کلائیاں جن میں چوڑیاں بھری ہوئی۔ کانوں کی بالیاں اور ہونٹوں کی سرخیاں لیے عارض و کاکُل اور پلکیں بھی سی گرین کلر کی ’’اف، یہ ماسی اس قدر میچنگ کے ساتھ کیوں آئی ہے۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ وہ چائے بناتی، مدیر نے جلدی سے مجھے پانچ سو کا نوٹ پکڑایا اور کہا، ’’بھاگ کے جا اور سموسے وغیرہ لے آ۔ ‘‘
میں بھاگ کر گیا اور سموسے چپس رول جلیبیاں اور جانے کیا کیا لے کر آ گیا۔ ماسی نے پلیٹیں فراہم کیں۔ ہم نے وہ تمام اشیاء نکال کر میز پر سجا دیں۔
ہم ماسی کے سامنے مدیر اور نائب مدیر کی بجائے مکمل طور پر نوکر، غلام، چپڑاسی اور کمی کمین وغیرہ بن گئے تھے اوپر سے بزرگ کی زیر لب مسکراہٹ الگ ہماری عزت خراب کر رہی تھی۔ پھر جب چائے آ گئی تو مدیر نے کہا ’’آپ بھی بیٹھیے ناں۔۔ یہ سموسہ لیجئیے۔۔ یہ بسکٹ ہیں، یہ نمکو ۔۔ یہ اتنا سب، یہ بہت زیادہ ہے، ہم اکیلے نہیں کھا سکتے، ادھر آ جائیے، یہ اس والے صوفے پر بیٹھ جائیے۔ ‘‘
ماسی کے چہرے پر اپنے ہی معاملات کا تفکر پھیلا ہوا تھا۔ بولی، ’’نہیں مجھے جانا ہے، اب میں جاؤں نا انکل۔ ‘‘ بزرگ کو اس نے انکل کہا
بزرگ نے کہا، ’’بھئی یہ اتنا ضد کر رہے ہیں تو بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر‘‘
چار و ناچار وہ بیٹھ گئی۔ مگر صوفے پر نہیں، زمین پر۔
ملاحظہ ہو کہ ہم تین بندے صوفوں پر دراز تھے اور وہ زمین پر بیٹھ گئی۔ بالکل نوکرانیوں کی طرح۔
ہم اسے ماہِ تمام کہہ رہے تھے۔ ملکہ بلقیس سمجھ کر تخت پر بٹھانا چاہ رہے تھے مگر وہ ثابت کر رہی تھی کہ نہ صرف ماسی ہے بلکہ نہایت ہی بری ماسی ہے۔ اور اس وقت تو حد ہی ہو گئی جب اس نے اپنے پرس سے ایک خالی پلاسٹک کی تھیلی نکالی پھر اسے کھول کر بالکل بھکاریوں کی طرح کہا، ’’اگر یہ سموسے وغیرہ ضرورت سے زیادہ ہیں تو اس میں ڈال دیں۔ میرے بچے کھا لیں گے‘‘
٭٭٭
سر کٹا
آوارہ کتوں کا خوف ہی کیا کم تھا کہ اب ایک سر کٹا بھی بستی میں گھس آیا تھا۔
یہ بستی ویسے ہی بیس پچیس گھرانوں پر آباد تھی جہاں شام ڈھلتے ہی گھپ اندھیرا ہر شے پر یوں کالا رنگ چڑھا دیا کرتا کہ آدمی کو نہ بھی ڈرنا ہو تو ڈرے۔
گلی میں کھیلتے کودتے بچے اب شام سے پہلے ہی گھروں کو لوٹ آتے۔ سر کٹے انسان کو سب سے پہلے آصف نے دریافت کیا تھا یعنی دیکھا تھا۔ وہ ہم بچوں میں سب سے دراز قد اور طاقتور تھا۔ یوں سمجھیں ہمارا لیڈر تھا۔
آصف نے ہمیں بہت سے کمالات سکھائے تھے مثلاً ’’جادو‘‘ یعنی یہ جادو کہ ’’آپ ایک سے نو تک کے درمیان کوئی سی بھی رقم سوچ لیں، سوچ لیا؟ اب آپ نے جو بھی رقم سوچی ہے اتنی ہی رقم اپنے دوست کی بھی شامل کر لیں، دونوں کو جمع کر کے اس میں میرے بھی دس روپے ملا لیں۔۔۔ ٹھیک ہے؟ اب ٹوٹل رقم میں سے آدھی رقم فقیر کو دے دیں اور دوست کے جو پیسے شامل کیے تھے وہ اسے واپس کر دیں۔ اب میں جادو سے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ کے پاس پانچ روپے بچے ہیں۔
ہاہاہا۔۔ دیکھا۔ پانچ روپے ہی بچے ہیں ناں۔ ‘‘
میں اپنی جماعت کا سب سے ذہین طالب علم تھا اور اس وقت ہم سب چھٹی جماعت میں تھے۔ اس سے آپ ہماری عمروں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تاہم آصف تھوڑا سا بڑا تھا۔ اس کی وجہ اس کا پچھلی جماعتوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ فیل ہونا تھا۔
آصف نے مجھے کئی اور بھی جادو کی باتیں بتا رکھی تھیں، وہ خاص طور پر مجھے ہی انتخاب کرتا جب اسے کوئی دلچسپ بات بتانی ہوتی۔۔ اسکول میں ہمارا ساتھ تو رہتا ہی۔ مگر چھٹی کے بعد بھی ہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہو پاتے تھے۔ یہاں ’’ہم‘‘ سے مراد آصف ہی کو لیں۔ کہ مجھے تو گھر جانے کی جلدی ہوتی تھی مگر وہی مجھے بکری کے بچے کی طرح ادھر ادھر لیے لیے گھومتا۔
اسکول سے باہر آ کر سب سے پہلے تو ہم اس درخت کے پاس جاتے جس پر شہد کی مکھیوں نے بڑا سا چھتا بنایا ہوا تھا۔ ہم اسے پتھر مارتے اور جب مکھیوں کے غول پیچھے پڑتے تو اندھا دھند بھاگتے۔۔۔ دگڑ، دگڑ، دگڑ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہنستے جاتے۔۔۔ ہا ہا ہا۔ہی ہی ہی۔ جیسے کوئی بڑا کارنامہ کیا ہو۔
مکھیوں کو ریس میں ہرانے کے بعد جب پلٹ کر دیکھتے تو اسکول کی عمارت بہت دور نظر آتی۔ اب ہمارے چاروں طرف کھیت ہی کھیت ہوتے۔ ہرے بھرے کھیت، لہلہاتی فصلوں والے کھیت اور پگڈنڈیوں کی ٹیڑھی میڑھی لائنیں اور ان لائنوں کے کنارے کنارے سایہ دار درخت۔ ان درختوں کے نیچے ہر وقت ہوا چلتی رہتی، ٹھنڈی ٹھنڈی اور فرحت بخش خوشبو سے معطر ہوا۔
آصف کہتا تم تھک گئے ہو، کچھ دیر یہیں بیٹھ جاتے ہیں دیکھو تمہارا چہرہ لال ہو رہا ہے، مجھے معلوم تھا تیز دوڑنے کے سبب میری سانسیں پھول جاتی تھیں اور چہرے کا رنگ لال ہو جاتا۔ ہونٹ تو ہمیشہ ہی سرخ رہتے تھے۔۔۔ شاید مجھے بتانا چاہئیے کہ میں حد سے زیادہ پر کشش تھا ان دنوں۔
ہم کسی پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ جاتے، سامنے دور گلاب کے پودے نظر آتے جن کی ٹہنیوں پر آدھ کھلی کلیاں ہوا کے زیر اثر جھومتی ہوئی تبسم فرماتیں تو دل خوامخواہ کسی کا منہ چومنے کے لیے بیقرار ہو جاتا۔ ایسا آصف کا کہنا تھا۔ شاید انہی کلیوں کی حوصلہ افزائی سے ہمت پا کر ہی ایک دن اس نے مجھے اپنے قریب تر کرنے کی کوشش کی تھی اور میں نے اسے زور کا تھپڑ مار دیا تھا۔ اس مشینی تھپڑ کے پیچھے کسی قسم کا غصہ تو کارفرما نہیں تھا البتہ خوف حد سے بڑھا ہوا تھا۔ میں ڈر گیا تھا۔ میں تو وہ تھا جو کسی کی بھرپور نگاہ سے بھی کانپ جایا کرتا تھا۔
آصف مجھے بے یقینی سے تک رہا تھا۔ ایسا تھپڑ اگر وہ مجھے مارتا تو شاید میں مر ہی جاتا۔۔ میں کمزور تھا اس کے آگے۔۔ بہت کمزور۔ اسکول میں جس بچے سے بھی میرا جھگڑا ہوا اس سے ہمیشہ مار ہی کھائی۔ مگر آصف سے دوستی کے بعد اب کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ مجھ سے پنگا لے۔ مگر آج میری اور اس کی دوستی ناگہاں ٹوٹ گئی تھی۔ میں ڈبڈبائی آنکھوں سے گھر واپس آیا۔
اگلے روز وہی کلاس تھی، وہی سارے کلاس فیلو، وہی ہمارے غصہ ور استاد جی اور وہی کتابوں کے مشکل مشکل اسباق۔ بس ایک چیز معمول سے ہٹ کر تھی اور وہ یہ کہ میں اور آصف ایک دوسرے سے بہت دور بیٹھے تھے، یوں کہنا چاہئیے کہ میں ہی اس سے دور بیٹھا تھا کیونکہ وہ تو اپنے ہی ڈیسک پر تھا اور اس نے میرے لیے جگہ بھی بچا رکھی تھی۔
اس دن اسکول میں سب کو پتہ چل گیا کہ ہم ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے ہیں۔
اب میں اسکول سے چھٹی ہوتے ہی گھر واپس آ جاتا۔ گلاب کے پھولوں کا تو پتہ نہیں مگر شہد کی مکھیاں ہماری لڑائی سے کافی سکون میں تھیں۔ وحید اب میرا نیا دوست تھا، ہم دونوں ہمسائے تھے ایک ساتھ اب اسکول آتے اور جاتے پھر شام کو بڑے میدان میں جا کر گلی ڈنڈا کھیلتے۔۔۔ وحید میں بس ایک ہی بری عادت تھی، وہ راستہ چلتے ہوئے ہمیشہ ایک بازو میری گردن میں حمائل رکھتا اور اس۔ دلخراش۔ منظر کو دیکھ دیکھ کر آصف جل جل کر کوئلہ ہوتا جاتا۔
بڑے میدان میں بستی کے سارے ہی بچے شام کو جمع ہوتے تھے جو اتنا غل غپاڑہ کرتے کہ بس ہٹو بچو۔ یہ شور عموماً امرودوں کے باغ کی حفاظت کرنے والے کتوں کو پسند نہ آتا اور وہ اپنے لمبے لمبے دانت نکال کر ہم پر بھونکتے اور کاٹنے کو آتے۔
ان کتوں کا بھی ایک سردار تھا، وہ بھورے رنگ کا بھاری بھرکم کن کٹا کتا تھا جس کا ایک کان شاید کسی گھمسان کی رن میں شہید ہو چکا تھا۔ سب سے پہلے اسی کو غصہ آتا تھا پھر اس کی سربراہی میں دوسرے کتے بھی ہم پر حملہ آور ہو جاتے۔ اس ایک کان والے بھورے کتے کے خلاف ایک بار میں نے اور آصف نے منصوبہ بھی بنایا تھا کہ اسے کیوں نہ زہر دے کر مار دیا جائے مگر پھر یہ نہ معلوم ہو سکا کہ زہر ملتا کونسی دکان پر ہے۔
ان پاگل کتوں کا خوف اپنی جگہ مگر اب اس سر کٹے انسان نے تو گویا جان ہی نکال دی تھی، بچے بری طرح دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ اسے سب سے پہلے آصف نے دیکھا تھا۔
آصف نے اسے کہاں دیکھا تھا؟ کس وقت دیکھا تھا؟ اور کیوں دیکھا تھا؟ کیا واقعی اس کا سر نہیں تھا؟ تو پھر وہ زندہ کیسے تھا اور کیسے چل پھر رہا تھا؟ ان سب سوالوں کے جواب کے لیے مجھے مجبوراً اس سے ملنا پڑا۔
اس سے یعنی آصف سے۔۔۔ سر کٹے سے نہیں۔ حالانکہ سر کٹے کے پاس زیادہ بہتر جوابات ہو سکتے تھے۔
آصف بولا میں ایک شرط پر تمہیں اس شیطان کے بارے میں معلومات دے سکتا ہوں اور اس سے بچنے کے طریقے بھی بتا سکتا ہوں اور وہ شرط۔ یہ تھی وحید کا ساتھ چھوڑ کر ایک بار پھر اسے دوست بنا لوں۔
میں راضی ہو گیا کیونکہ کسی سر کٹے کا ہماری بستی میں آ نکلنا کوئی معمولی واقعہ تو نہیں تھا، اگر آصف نے اسے دیکھا تھا تو اس سے نجات بھی وہی دلا سکتا تھا۔ اس کی نانی اور بڑی پھپھو تعویذ گنڈے کیا کرتی تھیں۔
ہم بچوں کی ٹولی آصف کے ہمراہ چل پڑی۔ بڑے میدان کے دوسرے سرے پر ایک ویران گھر کے سامنے ہم کھڑے تھے۔۔۔ اس ویران مکان کے بارے میں پہلے ہی مشہور تھا کہ یہ آسیب زدہ ہے۔۔
سر کٹا یہیں ہے۔۔۔ آصف نے اعلان کیا، مگر ڈرنے کی بات نہیں۔۔۔ دن کے وقت وہ سو رہا ہوتا ہے، کیا تم میں سے کوئی اسے دیکھنا چاہے گا؟
ہم سب کے تو رونگٹے کھڑے تھے۔۔۔ تصور میں دیکھ سکتے تھے کہ ایک آدمی چپ چاپ سو رہا ہے اور اس کا سر غائب ہے۔
سب سے پہلے محمود پلٹ کر بھاگا۔ اس کے بعد ہم سب یوں دوڑے جیسے سر کٹے کی نیند پوری ہو چکی ہو اور اب اسے ایک عدد بچہ ناشتے کے لیے چاہئیے ہو۔
میں آصف کی بہادری اور معلومات کا سخت معترف ہو چکا تھا، ہم شہد کی مکھیوں کو ایک بار پھر چھیڑنے لگے اور جب دوڑتے دوڑتے نڈھال ہو جاتے تو گلاب کے پودوں کے نزدیک ہی کہیں کسی پیڑ کے سامنے گر جاتے، پھر دیر تک سر کٹے کے بارے میں بات کرتے، پھر گلاب کے پھول توڑ لاتے، انہیں سونگھتے اور سونگھتے سونگھتے بے قابو ہو کر ایک دوسرے کو چومنے لگتے۔۔
سر کٹا ہماری جان چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، بڑے میدان میں کھیلتے پا کر وہ کئی بار ہمارے پیچھے آیا۔ اس ویران مکان سے ایک ہیولہ سا نکلتے دکھائی دیتا۔ ظاہر ہے ان دنوں سردیاں تھیں، دھند ہر وقت چھائی رہتی تھی تو سر کٹا واضح طور پر کیسے نظر آتا۔
سوچتا ہوں ان دنوں ہم کتنے بے وقوف تھے کوئی بھی آسانی سے ہمیں الو بنا سکتا تھا، اور بھولپن ان دنوں ایسا کہ ہنسی آ جائے۔۔۔ ایک بھولے بادشاہ کا بیان سنو۔ کہہ رہا تھا میں نے ایک دن سر کٹے کو دیکھا۔ اس کی لال لال آنکھیں تھیں جس سے وہ گھور رہا تھا۔
بندہ پوچھے جب اس کا سر ہی نہیں تو آنکھیں کہاں سے آ گئیں۔۔۔ وہ بھی لال لال۔ ہم بچے بھی نا۔۔
بہرحال ان دنوں سر کٹے اور آصف کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور گلاب کے پھول روز بہ روز کھلتے جا رہے تھے۔۔۔ پیڑوں کے نیچے یخ بستہ ہوائیں چلتیں، ہمارے گرم کپڑے ان ہواؤں کو روکنے کیلئے ناکافی ہو جاتے تو مرتے کیا نہ کرتے ایک دوسرے سے چمٹ جاتے۔۔۔ اسکول سے گھر پہنچنے میں روز دیر ہو جاتی اور روز ابا سے مار پڑتی۔خیر ابا سے مار کھانے کے لیے اسکول سے لیٹ ہونا ضروری نہیں تھا اس کے لیے ہزار بہانے تھے، شفقت اور رحم جس چڑیا کا نام تھا وہ میرے گھر میں تو ہرگز نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے ابا نے کبھی گود میں لے کر پیار نہیں کیا تھا، بات بے بات وہ دھتکارتے اور مارتے۔۔۔
آصف کی نانی نے اسے ایک تعویذ پہنا دیا تھا جو سر کٹے کے علاوہ ہر طرح کی بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ آصف نے ایک دن ہم سب بچوں کو جمع کر کے کہا کہ تعویذ کو سب باری باری ہاتھ سے چھوئیں اور اسے سر کٹے کے مکان کے باہر زمین کھود کر دفنا دیں تاکہ وہ یہاں سے چلا جائے۔
ہم سب نے یہی کیا۔ تعویذ کو دفنا دیا اور انتظار کرنے لگے۔۔۔
کہتے ہیں جس چیز کی بہت زیادہ آرزو کی جائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسباب بنا دیتے ہیں۔
سر کٹے پر تعویذ کا تو کچھ بھی اثر نہ ہوا البتہ اللہ کریم نے بستی میں ایک نئے لڑکے۔۔۔ زلفی۔ کو بھیج دیا۔
زلفی شہری بابو تھا۔ کسی کے گھر مہمان آیا ہوا تھا۔ ہم بچوں کو حیران کرنے کے لیے اس کے پاس درجنوں آئٹم تھے۔ مثال کے طور پر کراٹے، ہائی جمپ، الٹی کلابازی اور ڈسکو ڈانس وغیرہ۔ ہمارے فرشتوں کو بھی ان چیزوں کا نہیں پتہ تھا۔ وہ ایک دن بڑے میدان میں آیا تو اس کا آصف سے پھڈا ہو گیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے زلفی نے آصف کو کھینچ کے کراٹے مارا اور اسے پچھاڑ دیا۔ آصف کی سب بہادری دھری کی دھری رہ گئی۔ وہ مٹی چاٹ رہا تھا۔
بچوں نے زلفی سے سر کٹے کی شکایت کی تو وہ قہقہہ مار کر ہنسا۔ کوئی سر کٹا نہیں ہوتا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ اگر کوئی ہے بھی تو میں اسے بھی کراٹے مار کر بھگا دوں گا۔ پھر وہ ہمیں لے کر بڑے میدان کے اس پار گیا اور آوازیں دینے لگا۔ اگر کوئی سر کٹا ہے تو باہر آئے اور مجھ سے مقابلہ کرے، وہ چیخ چیخ کر چیلنج کر رہا تھا۔ ہماری تو سانسیں رکی جا رہی تھیں۔
دیکھا کوئی سر کٹا نہیں ہے۔ یہ سب باتیں ہوتی ہیں، وہ ہمیں یقین دلا رہا تھا اور واقعی کافی دیر بعد بھی وہ بلا باہر نہ نکلی تو بچوں کو بڑی مایوسی ہوئی۔
ایک ہی دن میں بستی کی کایا پلٹ چکی تھی۔ بستی کا ہیرو زیرو اور ولن یعنی سر کٹا رفو چکر ہو چکا تھا۔ لے دے کر ایک بھورا کن کٹا کتا ہی بچا تھا اسے بھی زلفی نے ایسی زوردار کک ماری کہ وہ چیاؤں چیاؤں کرتا اپنا لاؤ لشکر لے کر بھاگ نکلا۔ اب میدان بالکل صاف تھا۔ سب بچوں نے زلفی کے ہاتھ پر ان دیکھی بیعت کر لی۔ اب وہ ہمارا نیا ہیرو تھا۔
پھر باغوں میں نئے پھول کھلنے لگے۔ شہد کی مکھیاں تازہ شہد کا ذائقہ متعارف کرانے لگیں اور درختوں کے سائے کسی نئے فرشتے کے پیار سے متاثر ہو کر مزید گہرے ہونے ہی والے تھے کہ میں نے دیکھا اگلے روز اسکول میں آصف کس طرح بالکل آخری کونے میں منہ لٹکائے بیٹھا ہے۔ مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر کوئی بھی جان سکتا تھا کہ وہ رات بھر روتا رہا ہے۔ خوامخواہ خود کو حقیر محسوس کر رہا تھا۔
یہ آصف وہ لڑکا تھا جس کے والدین بچپن میں ہی گزر گئے تھے۔ وہ مجھ سے کہا کرتا۔ تمہارے ابو بہت مارتے پیٹتے اور گالیاں دیتے ہیں تو کیا ہوا۔ وہ ہیں تو سہی۔
شاید وہ یہی سوچ کر رویا بھی ہو گا کہ آج اگر اس کے والد زندہ ہوتے تو وہ بھی شہر جا کر کراٹے سیکھ سکتا تھا۔
جب اسکول سے چھٹی ہوئی اور وہ مجھے نظرانداز کر کے جھکے سر اور دل شکستہ قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف جانے لگا تو میں دوڑ کر اس کے پیچھے گیا اور ساتھ ساتھ چلنے لگا،
کیا ہوا ہے تمہیں؟ میں نے اسے پکارا مگر وہ کچھ نہ بولا، شاید اب اس کے آنسو آنکھوں کی بجائے حلق میں گر رہے تھے اور میں محض ایک میٹھی مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سر کٹے کے نام پر مجھے بیوقوف بنانے والا خود کتنا بدھو ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ میں تو بہت پہلے سے جانتا ہوں کہ ایسی کوئی بلا صرف خیالوں میں ہوتی ہے۔
اور جہاں تک کراٹے کا سوال ہے تو ضروری تو نہیں کہ ہر شخص ہر چیز ہی سیکھے۔
٭٭٭
وہ لڑکی
وہ لڑکی جو مجھ سے واٹس ایپ پر بات کرتی ہے ایک شادی شدہ عورت ہے۔
میں اسے لڑکی اس لیے کہتا ہوں تاکہ مجھ میں موجود اس لڑکے کو کچھ نہ کچھ تسکین حاصل ہو جائے جو بچپن سے ہی کسی لڑکی سے خفیہ تعلقات کا متمنی تھا مگر کامیاب نہ ہو سکا یہاں تک کہ اس کی شادی اور بعد ازاں بچے بھی ہو گئے۔۔
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس لڑکی نے آج ایک بات لکھ کر بھیجی ہے اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں اس بات پر بہت غور سے غور کر رہا ہوں۔
اس نے کہا۔۔۔ سوری لکھا کہ۔۔ ایک پٹھان لڑکا ہے۔
کوئی بائس برس کا۔
ہمارے گھر کے سامنے اس کا مکان زیر تعمیر ہے۔
وہ اپنے مکان کی چابی رات کو ہمارے یہاں رکھوا کر صبح لینے آ جاتا ہے روز۔۔
تو میں نے لاپرواہی سے جواب میں لکھا۔۔ ٹھیک ہے اس میں کیا برائی ہے۔
اس نے ٹائپ کیا۔۔ وہ بہت ہینڈسم ہے۔۔۔ مجھے اچھا لگ گیا ہے۔۔
جواب میں میں کچھ لکھنے ہی لگا تھا کہ اچانک میرے اپنے دماغ کے کچھ طبق روشن ہو گئے۔۔
میں نے واٹس ایپ کو موبائل سمیت اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔۔
اس کے لکھے ہوئے الفاظ دل و دماغ میں بار بار گونجنے لگے۔
وہ مجھے اچھا لگ گیا ہے۔۔۔
وہ بہت ہینڈسم ہے۔۔۔
مجھے لگا۔ یوں تو کتنے ہی لوگ ہمیں اچھے لگ جاتے ہیں۔
مثلاً
جب میں صبح دفتر کے لیے نکلتا ہوں تو سامنے والے گھر کی ایک بہو کبھی کبھی دروازے پر جھاڑو دیتے ہوئے نظر آ جاتی ہے۔ وہ اتنی خوبصورت اتنی خوبصورت ہے کہ اگر میرے گھر میں ہوتی تو شہزادیوں کی طرح رکھتا۔۔ ملکہ عالیہ بنا کر اس کے چرن چھوتا۔ دیوی بنا کر اس کی پوجا کرتا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتا مگر افسوس وہ ایک ایسے گھر میں آئی جہاں اسے نوکرانی بنا کر رکھ دیا گیا۔۔
جب میں دفتر پہنچتا ہوں تو وہاں میرے ماتحت کام کرنے والی ایک لڑکی مجھے اچھی لگ جاتی ہے، اپنی شکل صورت کی وجہ سے نہیں بلکہ کام کی وجہ سے۔ وہ اتنی محنت، اتنی توجہ اور اتنا کام میں ڈوب کر کام کرتی ہے کہ مجھے اس پر بے اختیار پیار آ جاتا ہے۔ اور میں اس کا موازنہ اپنی بیوی سے کرنے لگتا ہوں جسے گھر کے روزمرہ کے معمولی کام بھی پہاڑ لگتے ہیں۔۔
دفتر سے واپسی پر گھر کا سودا سلف خریدنے کے لیے جب میں قریبی شاپنگ مال کا رخ کرتا ہوں تو وہاں کاونٹر پر بیٹھی دبلی پتلی لڑکی کی مستعدی پر حیران رہ جاتا ہوں۔ ادھر آپ نے اپنے سامان کی باسکٹ اس کی طرف بڑھائی ادھر اس نے کھٹ کھٹ بارکوڈ اسکین کرنا شروع کر دیے۔ اور ابھی آپ اس کی نازک انگلیوں اور نیل پالش کی چمک کا ملاحظہ کرنا شروع ہی کریں گے کہ آواز آئے گی۔ سر بائس سو دس روپے ہو گئے اور آپ ایک دم سے بوکھلا کر اپنا بٹوہ نکالنے لگیں گے۔
کوئی دن ایسا نہیں جب وہ مجھے پیاری نہ لگی ہو۔ اس کی آواز اتنی ملائم اتنی میٹھی ہوتی ہے کہ بس آپ سنتے ہی رہو۔۔ مگر افسوس سامان کی قیمت بتانے سے زیادہ وہ کچھ نہیں بولتی۔ میں سوچتا ہوں یہ بھی کیسا عجیب ظلم ہے جسے اپنی آواز کا جادو جگانا چاہیئے ایف ایم ریڈیو وغیرہ پر اسے بارکوڈ میں الجھا دیا گیا ہے، اگر وہ لڑکی بالی ووڈ کی فلم۔ tumhari sullu کی طرح ڈی جے ہوتی اور لائیو کالز لیا کرتی تو میں اسے ضرور فون کر کے کہتا کہ جو تم ہو وہ بس تم ہی ہو۔ تمہارے جیسا دوسرا کوئی نہیں۔۔
اب آگے میں اور کس کس کا ذکر کروں۔۔۔ اس طرح کے بہت سے لوگ ہیں جنہیں میں بس دور سے ہی خراج تحسین پیش کر دیا کرتا ہوں ان کی خوبصورتی کے عوض دعا کر دیا کرتا ہوں کہ اے اللہ اسے خوش رکھنا۔۔۔
کل یہی سب باتیں میں واٹس ایپ پر ٹائپ کرنے والا ہوں۔
کل، وہ لڑکی جو ایک شادی شدہ عورت ہے جب آن لائن آئے گی اور بتائے گی کہ وہ (بائس سالہ نوجوان) آج بھی چابی رکھوانے آیا تھا تو میں اس سے کہوں گا۔ دیکھو! اس کے لیے کبھی بھی پاگل مت ہونا، خدا کی زمین بہت بڑی ہے اور اس زمین پر ایسے ہزاروں لاکھوں اچھے انسان ہیں۔ مگر انہیں ان کے نصیب پر چلنے دو اور تم اپنے نصیب پر ہی چلتی رہو۔۔ کہ بس اسی میں بھلائی ہے۔
٭٭٭
شال
آسمان سے آتی چاند کی تیز روشنی اس کے کسی کام کی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ گلی میں قطار بنائے مکانوں کے بند دروازے گن سکتی، اس کے لیے یہ چاند اپنی کشش کھو چکا تھا۔ یا شاید وہ اپنی کشش چاند کے لیے کھو چکی تھی۔ اس نے گھروں کے بند دروازے گنے۔ ایک۔ دو۔ تین۔ چار۔ اور پانچواں اس کا اپنا دروازہ۔
اس بند دروازے کے پیچھے واقع اکلوتے کمرے میں اس کی بیٹی اپنے شوہر کا دل خوش کرنے میں مگن تھی۔
تم جلدی کر لو ناں۔۔۔ آج سردی بہت ہے اور بوڑھی ماں باہر گلی میں بیٹھی ہے۔۔۔ اس نے تصور میں اپنی بیٹی کی سرگوشی سنی اور مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
یقیناً وہ یہی کہہ رہی ہو گی۔ اس نے خود سے کہا۔ دنیا میں میرا خیال کرنے والا کوئی بچا ہے تو یہی ایک بیٹی ہے، بیٹے تو سارے شادی کر کے رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اس کا بڑا سا گھر بھی بیچ گئے۔۔۔
اماں تو اتنے بڑے گھر میں کیا کرے گی، تیرے لیے تو ایک کمرا ہی کافی ہے، گھر بیچنے سے ابا کی روح کو کچھ نہیں ہو گا تو ایسے ہی ان کے بارے میں فضول فکرمند ہوتی ہے۔۔۔ لڑکے اسے جھڑک دیتے۔۔۔ آخر کار گھر بک گیا۔۔ بیٹے ایک چھوٹا سا کمرا اس کے لیے چھوڑ گئے۔۔۔۔
آسمان پر چاند چمک رہا تھا اس کے برعکس بڑھیا کی آنکھیں بجھی بجھی تھیں جن میں رومانس کی کوئی ایک جھلک بھی نہیں تھی مگر اندر کمرے میں دو جوان جسم ایک بے حد رومان پرور ماحول میں بے حد گہری گہری سانسیں لے رہے تھے
تمہاری نوکری بہت بری ہے، کئی کئی ہفتے تم گھر نہیں آتے، بچے کتنا یاد کرتے ہیں تمہیں۔۔۔ جوان عورت نے اپنا آپ حوالے کر دینے کے بعد شکووں کی پٹاری کھول لی۔۔
مرد بولا۔ اچھا ہے کہ میں گھر سے دور رہتا ہوں، یہ ایک ہی کمرا ہے جس میں تم اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی ہو، میرے آنے سے انہیں پریشانی ہوتی ہے، دیکھ لو اتنی سردی میں بھی وہ باہر گلی میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔۔۔
تو کیا ہوا۔ ابھی تھوڑی دیر بعد ہم انہیں اندر بلا لیں گے۔۔۔ عورت نے جواب دیا۔ کیا کریں مجبوری ہے۔۔۔ جب تک قرضہ ادا نہیں ہو جاتا ہمیں اسی طرح گزارا کرنا پڑے گا۔
اس وقت قرضے کی یاد مت دلاؤ۔ مرد نے ناگواری سے کہا اور عورت کو بھینچ لیا۔
آسمان پر چاند اور زمین پر بڑھیا سردی سے تھر تھر کانپنے لگے تھے، آج وہ اپنی گرم شال اوڑھنا بھول گئی تھی، وہ شال کئی برس پہلے اس کا شوہر ایک مہنگی مارکیٹ سے لایا تھا
یہ شال وہ واحد چیز تھی جسے اس کے بوڑھے شوہر نے، , تحفہ,, کہہ کر اسے پیش کیا تھا۔ شاید اس لفظ سے وہ پہلے واقف نہیں تھا اس نے ضرور کسی کو تحفہ دیتے ہوئے دیکھا ہو گا اور تب اس نے سوچا ہو گا کہ وہ بھی اپنی بیوی کو کچھ دے گا۔ پوری زندگی گزر جانے کے بعد صرف ایک تحفہ۔۔ مگر پھر بھی اس تحفے کو پانے کے بعد اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا تھا۔ یوں جیسے اس کے جینے کا کوئی مقصد تھا تو وہ اس میں کامیاب ہو چکی تھی۔۔ وہ تحفہ۔۔ ایک اعتراف تھا۔۔۔ ایک دلی اعتراف اس کی خدمات کے عوض۔۔۔ ایک قیمتی انعام تھا۔ لاکھوں کروڑوں کا انعام۔ وہ تحفہ بتا رہا تھا کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہے۔ ان دونوں نے اچھی یا بری جیسی بھی زندگی گزاری تھی مگر بہر حال آخری عمر میں ایک دوسرے سے خوش تھے اور یہ سب سے اچھی بات تھی۔۔
چاند چمک رہا تھا مگر اس کی چاندنی اب بڑھیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی اور شاید بڑھیا بھی اپنی ذات میں بے معنی ہو چکی تھی۔۔
اپنے شوہر کے انتقال کے بعد پتہ نہیں میں کیوں زندہ ہوں۔۔۔ اس نے اداسی سے سوچا پھر اسے سہاگ رات سے اب تک کے سارے واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔۔۔
کمرے کی دیواریں یخ بستہ ہواؤں کے سامنے سینہ تانے کھڑی تھیں یہی وجہ تھی کہ اندر دو جسم بے لباس ہونے کے باوجود بے پرواہ تھے۔
قرضہ ادا ہوتے ہی ہم کم از کم تین کمروں کا گھر کرائے پر لیں گے۔۔۔ مرد نے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہوئے کہا
کیوں؟ تین کمرے کیوں؟ عورت نے حیرانی سے پوچھا
ایک کمرے میں ہم سوئیں گے دوسرے میں بچے اور تیسرے کمرے میں تمہاری بوڑھی ماں۔۔
کیا تم واقعی ایسا سوچ رہے ہو؟ عورت نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا
ہاں۔۔۔ مجھے ترس آتا ہے ان پر۔ اس نے کہا۔ کتنی محنت و مشقت سے انہوں نے اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کیا مگر آج ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں سوچو اگر ہماری اولاد نے بھی ایسا کیا تو کیا ہو گا۔۔۔۔
اچانک کمرے کا رومانی ماحول تفکرات سے اٹ گیا۔۔ اس کی بیوی نے بے چین ہو کر شوہر کے سینے سے سر اٹھایا اور تب اسے کھونٹی پر ٹنگی ہوئی ماں کی شال نظر آئی۔۔
ہائے اللہ! وہ چونکی۔ یہ کیا۔ اماں شال کے بغیر ہی باہر بیٹھی ہے، وہ بڑبڑائی۔۔۔
اس کے شوہر نے بھی شال کی طرف دیکھا اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ماں کو جلدی سے اندر بلاؤ۔ اس نے کپڑے پہنتے ہوئے کہا
تھوڑی دیر بعد دو گھبرائی آنکھوں اور ایک انعام میں ملی شال کے ساتھ عورت نے دروازہ کھولا
ماں اندر آ جاؤ۔۔۔۔ اس نے پکار کر کہا۔ یہ لو اپنی شال۔
بڑھیا نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ آگے بڑھی
ماں چلو۔۔ اس نے کاندھا ہلایا۔ مگر بڑھیا ایک طرف لڑھک گئی۔۔۔۔
وہ مر چکی تھی۔
٭٭٭
ایک کہانی دو ذائقے۔۔۔
پہلا ذائقہ
پارکنگ لاٹ میں گاڑی کھڑی کر کے جب میں واپس آیا تو وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی، اف یہ لڑکی اور اس کی شرارتیں، اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں، میں نے خود کلامی کی۔
ہم الہ دین پارک کے باہر کھڑے ہوئے تھے یعنی اب وہ نہیں تھی تو میں اکیلا وہاں کھڑا تھا۔ یہ کراچی کی ایک مشہور تفریح گاہ تھی
میں نے ادھر نظر دوڑائی جدھر پارک میں ٹکٹیں فروخت ہو رہی تھیں اور تبھی ہماری آنکھیں چار ہو گئیں
وہ کھلکھلا کر ہنسی اور ایک ستون کے پیچھے سے نکل آئی۔
یار تمہاری شرارتوں کو نظر نہ لگے۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں دعا مانگی
وہ بلیک کلر کے سوٹ میں تھی جس میں قیمتی ستارے اور نگ لگے ہوئے تھے، اس کا دوپٹہ ہوا میں خوشبوئیں بکھیرتا ہوا۔ گردن میں حمائل تھا اس کا چہرہ اور کھلی ہوئی بانہوں کا رنگ چاند کی طرح چمک رہا تھا
میں نے دو ٹکٹ لیے اور اس کے ساتھ پارک میں داخل ہو گیا۔
یہاں تفریح کا ہر سامان موجود تھا، چھوٹے بڑے جھولے، مصنوعی جھیل، کشتیاں۔۔۔ ہوا میں چلتی ہوئی چئیر لفٹ، کھانے پینے کی چیزیں، دہی بڑے، گول گپے، بن کباب، برگر اور پتہ نہیں کیا کیا
بہت سارے جھولے جھولنے اور بہت ساری چیزیں کھانے کے بعد بھی ہم ایک دوسرے کے قریب نہ ہو سکے، ہمارے درمیان ایک دیوار سی قائم رہی، اگرچہ دل چیخ رہا تھا کہ میں بے تکلفی سے اس کا ہاتھ تھام لوں۔مگر اتنی ہمت کہاں تھی پھر ایک خوف یہ بھی تھا کہ اگر اس نے ہاتھ جھٹک دیا تو کیا عزت رہ جائے گی۔ بزدل عاشقوں والا حال تھا میرا۔
پارک میں ایک جگہ رک کر میں نے سوال کیا۔۔ تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے؟
بھوت ! اس نے حیرانی سے پوچھا۔ اور حیرانی کے تاثر سے اس کی آنکھیں مزید خوبصورت لگنے لگیں
ہاں بھوت۔ وہ سامنے دیکھو، وہاں ایک بھوت بنگلہ ہے، چلو گی؟
چلو یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ اس نے ہامی بھری۔
میں نے بیس روپے کے دو ٹکٹ حاصل کیے اور ہم دونوں بھوت بنگلے میں داخل ہو گئے، وہاں کچھ مرد و خواتین اور بچے پہلے سے موجود تھے
بھوت بنگلے میں شو شروع ہوا تو لائٹیں آف کر دی گئیں، تاہم ایک زیرو پاور کا بلب اندھیرے سے لڑنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیا، پھر بیک گراؤنڈ میوزک سے ڈراؤنی آوازیں نشر ہونے لگیں
وہ آوازیں واقعی خوفناک تھیں، خود مجھے بھی تھوڑا تھوڑا ڈر لگنے لگا
پھر اندھیرے میں کوئی پرچھائیں سی لپکی اور اچانک ایک بھوت نکل کر سامنے آ گیا
خواتین اور بچے چیخ مار کر ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔۔ خود میرے ساتھ ایک وجود آ کے چپک گیا تھا۔
یار کیا ہو گیا ہے، میں نے اسے تسلی دی، یہ کوئی سچ مچ کا بھوت تھوڑی ہے۔۔۔ انسان ہے اس نے ماسک پہنا ہوا ہے بس۔
میرے سمجھانے پر اس نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں اور بھوت کی طرف دیکھا
ارے۔۔۔ بھوت کہاں ہے؟؟
میں نے بھی حیرت سے دیکھا، بھوت اچانک غائب ہو گیا تھا۔
عجیب طرح کی نظر بندی یا چالاکی تھی، کچھ کمال ملگجے اندھیرے کا بھی تھا
ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ شاید شو ختم ہو چکا ہے یکایک دو اطراف سے دو بھوت نکل کر سامنے آ گئے۔۔۔ وہ زور سے چلائی اور مجھ سے کسی بھوت ہی کی طرح چمٹ گئی۔
دو منٹ بعد شو ختم ہو گیا، میں اسے لے کر باہر نکلا
پاگل۔ اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات تھی، میں نے اسے پیار سے ڈانٹا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چلنے لگا۔
شادی کے بعد جب ہم دوبارہ الہ دین پارک میں آئے تو اسی جگہ رک کر میں نے کہا۔
یاد ہے یہ بھوت بنگلہ۔ ؟ پچھلی بار تم کتنا ڈر گئی تھیں، کتنی مشکلوں سے میں نے تمہیں سنبھالا تھا، یاد ہے نا وہ سب کچھ؟
آخری جملہ کہہ کر میں نے گویا سارے رومینٹک مناظر اسے دکھا دئیے
وہ مسکرانے لگی، کچھ جھینپ سی گئی
ایک بات بتاؤں۔۔۔ اس نے آنکھیں چمکا کر کہا
ہاں بتاؤ۔۔ میں نے شوق سے پوچھا
وہ بولی۔ اس دن مجھے کوئی ڈر، ور نہیں لگا تھا۔۔
دوسرا ذائقہ
ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کر کے جب میں واپس آیا تو وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی۔
اف یہ لڑکی اور اس کی شرارتیں، اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں، میں نے خود کلامی کی۔
ہم الہ دین پارک کے باہر کھڑے تھے، مطلب میں کھڑا تھا وہ کہیں چھپی ہوئی تھی، یہ کراچی کی ایک مشہور تفریح گاہ تھی، میں نے ادھر نظر دوڑائی جدھر پارک میں داخلے کی ٹکٹیں فروخت ہو رہی تھیں مگر ہماری آنکھیں چار نہ ہو سکیں، میں وہیں ایک سائیڈ میں بیٹھ گیا کہ جہاں کہیں ہو گی خود ہی آ جائے گی۔
اور وہی ہوا، تھوڑی دیر بعد کسی نے پیچھے سے آ کر چپت رسید کی،
میں نے پلٹ کے دیکھا تو وہی تھی۔
تم مجھے ڈھونڈ نہیں سکتے تھے کیا، وہ خفگی سے بولی، بیٹھے ہو مزے سے۔۔
یار تمہاری شرارتیں گئیں بھاڑ میں۔۔۔ میں نے چپت کا بہت برا منایا۔
وہ بلیک کلر کے سوٹ میں تھی جس میں ایک بھی قیمتی ستارہ یا نگ نہیں لگا ہوا تھا۔
اس کا دوپٹہ ہوا میں پسینے کی بدبو بکھیر رہا تھا، کیونکہ وہ دن بھر کی تھکی ہاری فیکٹری سے نکل کر میرے ساتھ ڈائریکٹ یہیں چلی آئی تھی۔
ہم دونوں ایک ہی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔۔۔
پارک میں تفریح کا ہر سامان موجود تھا، چھوٹے بڑے جھولے، مصنوعی جھیل، کشتیاں۔۔۔ ہوا میں چلتی ہوئی چئیر لفٹ، کھانے پینے کی چیزیں، دہی بڑے، گول گپے، بن کباب، برگر اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر ہم نے کوئی چیز نہیں کھائی، کیونکہ ابھی تنخواہ ملنے میں تین چار دن باقی تھے۔۔۔
میرا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں بے تکلفی سے اس کا ہاتھ پکڑ لوں مگر جیب میں پیسے نہ ہوں تو بندہ کس منہ سے ایسی حرکت کرے
پارک میں ایک جگہ رک کر میں نے اس سے پوچھا۔
بھوت دیکھو گی؟
بھوت ! وہ حیرانی سے بولی اور ایسی حیرانی سے بولی جیسے کہہ رہی ہو۔ تو اب تک میں کیا دیکھ رہی تھی۔
میں نے کہا، وہ سامنے دیکھو، وہاں ایک بھوت بنگلہ ہے، دس روپے ملاؤ دو ٹکٹیں لے کر آتا ہوں۔
بھوت بنگلے میں شو شروع ہوا تو لائٹیں آف کر دی گئیں اور بیک گراؤنڈ میوزک سے ڈراؤنی آوازیں نشر ہونے لگیں۔۔۔ پھر اندھیرے میں ایک پرچھائیں سی لپکی اور اچانک ایک بھوت نکل کر سامنے آ گیا۔
خواتین اور بچے چیخ مار کر ایک دوسرے سے لپٹ گئے، خود میں ایک وجود کے ساتھ چپک گیا، بعد میں جب اس نے تھپڑ رسید کیا تو پتہ چلا یہ کوئی دوسری عورت ہے۔۔۔
یار کیا ہو گیا ہے تمہیں، یہ کوئی سچ مچ کا بھوت تھوڑی ہے، انسان ہے، بس ماسک پہنا ہوا ہے، اس نے مجھے تسلی دی۔
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا، بھوت کہیں غائب ہو چکا تھا،
عجیب طرح کی نظر بندی یا چالاکی تھی، کچھ کمال ملگجے اندھیرے کا بھی تھا ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ شاید شو ختم ہو چکا ہے یکایک دو اطراف سے دو بھوت نکل کر سامنے آ گئے، میں زور سے چیخا اور کسی بھوت ہی کی طرح اس سے چمٹ گیا،
دو منٹ بعد شو ختم کر دیا گیا، ہم دونوں باہر نکلے
پاگل اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات تھی، اس نے مجھے پیار سے ڈانٹا۔
شادی کے بعد جب ہم دوبارہ الہ دین پارک میں آئے تو اسی جگہ رک کر میں نے پوچھا، یاد ہے یہ بھوت بنگلہ؟ پچھلی مرتبہ میں کتنا ڈر گیا تھا، کتنی مشکلوں سے سنبھالا تھا تم نے مجھے، یاد ہے نا وہ سب کچھ؟
آخری جملہ کہہ کر میں نے گویا سارے رومینٹک مناظر اسے دکھا دئیے
اس نے مجھے سخت حیرت سے دیکھا اور کہا، ایک بات بتاؤں۔۔
ہاں، بتاؤ بتاؤ، میں نے شوق سے پوچھا
وہ بولی، میں تو یہاں پہلی بار آپ کے ساتھ آئی ہوں،
اوہ مائی گاڈ۔ میں نے سر پیٹ لیا۔ کہ۔۔ پچھلی بار تو بانو تھی میرے ساتھ۔
٭٭٭
چھمک چھلو۔
مس مہ جبین جیسی مقدس ہستی کے بارے میں اتنا گھٹیا لفظ سنتے ہی میرے کانوں کے پردے پھٹ گئے اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، خدا کی پناہ کوئی شخص اتنا بھی لوفر ہو سکتا ہے کیا۔
ہمارے اسکول کے عین سامنے کریانے کی دکان والے کا بیٹا جو شاذ و نادر ہی دکان پر بیٹھتا تھا اس کے خیالات جان کر مجھے شدید دکھ ہوا۔۔ اس واقعے کی مثال یوں سمجھیں جیسے کسی نے برسوں کی ریاضت کے بعد خدا کا بت تراش لیا ہو۔۔۔ مگر ایک دن اچانک کوئی آ کر کہہ دے کہ جسے تم خدا سمجھ رہے تھے وہ شیطان ہے۔۔ کیا ایسے شخص کا منہ نہ نوچ لینا چاہئیے؟ میں اس کی دکان پر چار آنے والی
چیونگم خریدنے گیا تھا تبھی میں نے دیکھا کہ اس کی نگاہیں بار بار اسکول کے دروازے کی طرف اٹھ رہی ہیں پھر اس نے پیسے لے کر چیونگم میرے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ آج میری چھمک چھلو نظر نہیں آ رہی۔ میں کچھ نہ سمجھ پایا تو اس کا منہ تکنے لگا، اس نے پوچھا تمہاری استانی کیا آج اسکول نہیں آئی؟ پھر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا مس مہ جبین خوبصورت پرس کے ساتھ اسکول سے نکلیں اور اپنے گھر کی طرف جانے لگیں۔۔۔۔ ۔۔ آ گئی۔ دکاندار کے بیٹے نے خوشی سے نعرہ لگایا اور دو انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹی بجائی۔۔ میری ہتھیلی پر رکھی چیونگم زہر آلود ہو چکی تھی
اس وقت میں چھٹی کلاس میں تھا میرے دل میں اپنی مس کے لیے جتنا ادب احترام اور محبت تھی اس سے کہیں زیادہ نفرت مجھے دکاندار کے بیٹے سے ہو چکی تھی میں آتے جاتے ہوئے اسے نہ صرف کراہیت سے دیکھتا بلکہ دل ہی دل میں دعائیں بھی مانگتا کہ جس بائک پر وہ اسکول کے سامنے سے کرتب دکھاتا ہوا گزرتا ہے اسی بائک سے اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے اور اس کے ہاتھ پیر ٹوٹ جائیں۔۔ مجھے مس مہ جبین پر ترس آتا جو اسے دیکھ کر سہم جاتیں اور اپنے آپ میں سمٹ کر چلنے لگتیں۔۔۔ اور وہ کیوں نہ ایسا کرتیں۔ وہ ایک دیوی کی طرح جو تھیں۔ خدا نے ان کے وجود کو نہایت پاک صاف مٹی سے بنایا تھا۔۔ جب کلاس میں پڑھانے کے دوران کسی بات پر وہ مسکراتیں تو ان کے سفید موتیوں سے دانت یوں جھلملاتے جیسے سیاہ رات میں بہت سے ستارے ایک ساتھ جمع ہو گئے ہوں، ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں کیسی پاکیزہ چمک ہوتی تھی۔
اور وہ چمک جیسے ہی میری طرف آتی۔
میں جھک کر سجدہ ریز ہو جاتا۔
سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیسے اس پاک ہستی کو اس غلاظت کے ڈھیر میں پلے مکروہ جانور یعنی دکاندار کے بیٹے کے شر سے بچاؤں۔۔
اس کی دیدہ دلیری روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی اسکول سے چھٹی کے بعد جیسے ہی مہ جبین نکلتیں وہ ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا اور ہنس ہنس کر ان سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا۔ مہ جبین غصے سے اسے گھورتیں اور ہٹ جاو میرے راستے سے کہہ کر رخ بدل کر جانے لگتیں۔۔۔
میں بے بسی سے دور کھڑے ہو کر یہ
منظر دیکھتا اور روہانسا ہو جاتا۔
صبر و تحمل اور برداشت کی بھی
کوئی حد ہوتی ہے۔ میں نے فیصلہ کر
لیا کہ اب پرنسپل سے اس کی شکایت کروں گا۔۔
جب پرنسپل اپنی مخصوص سٹک سے بیچ سڑک پر اس شیطان کی پٹائی کریں گے تو جبھی وہ ستانے سے باز آئے گا۔
مگر ہوا یہ کہ جیسے ہی میں پرنسپل کے کمرے میں جانے کی کوشش کرتا پاوں منوں بھاری ہو جاتے اور دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگتا جیسے ابھی پسلیوں سے نکل آئے گا۔ پھر مجھے ایک اور ترکیب سوجھی۔ میں اپنے دوست مجو کے پاس گیا، اس کے پاس ایک بڑی سی غلیل تھی جس سے وہ اکثر چڑیوں کا شکار کیا کرتا تھا۔
منت خوشامد کر کے ایک دن کے لیے میں نے وہ غلیل حاصل کر لی اور ایک نسبتاً بڑے پتھر پر لمبی سی نوکیلی کیل باندھ کر تمام انتظامات مکمل کر لیے۔۔
اس دن میں اسکول سے غیر حاضر رہا کیونکہ ایک تو مجھے غلیل کی پریکٹس کرنی تھی دوسرا اس جگہ کا حساب کرنا تھا جہاں کھڑے ہو کر بھر پور طریقے سے اسے نشانہ بنا سکوں
مجھے یقین تھا کہ پتھر میں لگی کیل جیسے ہی اس خبیث کے جسم میں اترے گی وہ موٹر سائیکل سے گرے گا اور۔ ہلاک۔ ہو جائے گا۔
چھٹی کا وقت جوں جوں قریب آتا جا رہا تھا میری دھڑکنیں بے قابو ہوئی جا رہی تھیں۔۔ انتظار کا وہ لمحہ برسوں پر محیط ہو گیا یہاں تک کہ میں وہاں کھڑے کھڑے بوڑھا ہو گیا اور میرے جسم کے تمام بال سفید ہو گیے۔۔ مگر پھر اسکول سے چھٹی ہونے کی گھنٹی جیسے ہی بجنا شروع ہوئی خدا نے میرے بدن میں ایک نئی روح پھونک دی۔ میں نے غلیل کو اپنے ہاتھ میں کس کے پکڑ لیا ایک ایک کر کے تمام بچے گھروں کو رخصت ہونے لگے۔۔۔ اور اب سب سے آخر میں مہ جبین کو باہر آنا تھا۔ اف۔ کتنا پیارا نام تھا ان کا۔ مہ جبین۔ مہ جبین۔ رات دن میں اس نام کی مالا جپتا رہتا تھا۔
یکدم موٹر سایکل کی غراہٹ نے اس وحشی کے آنے کی اطلاع دی اور دوسری طرف اسکول کے گیٹ سے مہ جبین برآمد ہوئیں۔۔۔
آج صبح سے میں نے ان کو نہیں دیکھنا تھا۔ میری آنکھوں نے دیوانہ وار ان کا طواف کیا، جانے کیوں آج وہ خاص طور سے بنی سنوری لگ رہی تھیں اور انہوں نے اپنے نازک لبوں پر لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی۔
موٹر سایکل کی غراہٹ تیزی سے قریب آ رہی تھی میں نے غلیل کو کھینچ کر ایک بار اور اطمینان حاصل کیا کہ یہ سو فی صد درست کام کر رہی ہے یا نہیں۔
اس سور کے بچے نے مہ جبین کے بالکل قدموں میں بریک لگائی اور یقیناً کوئی غلیظ بات کی۔ میں نشانہ باندھ چکا تھا مگر مہ جبین غصے ہونے کے بجائے مسکرانے لگیں اور چمکتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ کر جانے کیا کیا کہنے لگیں۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اس کے ساتھ بائک پر بھی بیٹھ گئیں اور وہ دونوں ہنستے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے۔۔
٭٭٭
اے سی ڈی سی
اے سی ڈی سی نے جب ہماری دنیا میں قدم رکھا تو جیسے زندگی نے اپنا معیار بدل دیا۔ ہر چیز خوبصورت لگنے لگی۔ اس کا نام بھی تو ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہو ’اے، سی‘ یعنی اے لڑکے مجھے دیکھو۔
یہ ہماری دوسری ملاقات تھی جس میں میں اسے جی بھر کے دیکھ رہا تھا اور وہ ریکوئسٹ کر رہی تھی کہ اس نئی دنیا کی سیر اسے کراؤں۔۔ اس کی خواہش ویلڈ تھی اور ہمارے ہاں یہ خواہش ہر نو وارد کی ہوتی ہے۔
میں نے اسفالٹ کار کو بلایا جسے دیکھ کر وہ بہت حیران بھی ہوئی اور خوش بھی۔ کہنے لگی مجھے ایڈونچر پسند ہے مگر اس کار کو چلانا تو موت کو دعوت دینا ہوتا ہے۔
میں نے اس کے لیے دروازہ کھولا اور کہا یہ دعوت میں اکثر دیا کرتا ہوں۔ دوسرے لمحے میں ڈرائیونگ سیٹ پر اور وہ میرے برابر میں تھی، تیسرے لمحے کار ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
تمہاری پسندیدہ گیمز کون کون سی ہیں اے سی ڈی سی؟
میں گیمز نہیں کھیلتی۔
پھر وقت کیسے کاٹتی ہو؟
پکچرز ایڈٹ کرتی ہوں۔
اچھا۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟
ایک ایسی جگہ جو بالکل نئی ہے
کیا واقعی؟
ہاں۔
اور اس ہاں کے ساتھ ہی میں نے اسفالٹ میں لگے بریک کا بٹن دبا دیا۔ کار ایک سیکنڈ میں رک گئی
اس نے دیکھا سامنے گوگل کی دکان تھیں
ہم یہاں کیوں رکے ہیں؟
کچھ کھانے کی چیزیں لے آتا ہوں۔ میں نے شاپ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا
گوگل نے کاؤنٹر پر طرح طرح کی مٹھائیاں سجائی ہوئی تھیں
میں نے شاپ کیپر سے پوچھا لالی پاپ کے بعد ایک نئی مٹھائی تیار کر رہے تھے آپ لوگ؟
شاپ کیپر خوشدلی سے مسکرایا۔ بس وہ آخری مراحل میں ہے سر، یقیناً آپ ’کی لائم پائی‘ کی بات کر رہے ہیں۔
ہاں۔۔ چلیں۔۔ فی الحال۔ یہ کٹ کیٹ، جیلی بین، آئس کریم سینڈوچ اور جنجر بریڈ ہی پیک کر دیں، , میرے ساتھ اے سی ڈی سی ہے اور ہم سیر کے لیے نکلے ہیں۔
میں جانتا ہوں سر۔۔ شاپ کیپر نے مسکراہٹ کے تمام ریکارڈ توڑے اور مٹھائیاں پیک کر دیں۔
میں واپس اسفالٹ کی طرف آیا تو اسے دیکھ کر بری طرح چونکا۔ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ چہرے کے عضلات بری طرح کھنچ رہے تھے۔ آنکھیں باہر آ رہی تھیں۔
میں چلایا اے سی ڈی سی۔ کیا ہوا تمہیں؟
بھاگ جاؤ یہاں سے۔۔ جلدی۔ وہ گویا اپنے آپ سے لڑ رہی تھی
نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں۔۔۔
کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ بولتے ہوئے کراہ رہی تھی۔ بس چلے جاؤ
شاید مجھے ڈاکٹر ویب کو فون کرنا چاہیئے۔ میں اپنا سیل نکالنے کے لیے سیدھا ہوا۔ اسی دوران میری نظر گوگل کے شاپ کیپر پر پڑی جو تفکر سے اس تماشے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ایچ ڈی کیمرا بھی تھا
لعنت ہو۔۔۔ ہیلو ڈاکٹر ویب۔ کال ملتے ہی میں بولا تاہم لعنت ملامت کا ہدف ڈاکٹر نہیں تھا۔
رک جاؤ۔ اے سی ڈی سی نے پکارا۔۔ کال کاٹ دو۔ میں ٹھیک ہوں۔
میں نے پلٹ کر دیکھا اور ایک بار پھر حیران ہوا۔ اب وہ بالکل سپاٹ چہرہ لیے پر سکون اور ساکت حالت میں تھی جیسے اب دنیا کی ہر تکلیف اور جذبے سے مبرا ہو چکی ہو۔
مجھے شک ہوا کہ کسی غلط چیز پر ہاتھ ڈال بیٹھا ہوں۔ یہ لڑکی وہ نہیں جو نظر آتی ہے۔ اس کے اندر اور بھی بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔
بہرحال میں واپس ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کار آگے بڑھائی مگر گفتگو نہ بڑھا سکا۔ سوچنے لگا کہ میرا اگلا قدم کیا ہونا چاہیئے۔۔
وہ فضا جس میں رومانس کی خوشبو تھی۔ اب دیر تک واپس آتی نہیں لگ رہی تھی
بہتر ہے کہ ہم واپس چلے جائیں۔ میں نے مشورے کے لیے منہ کھولا اور اس کی طرف دیکھا
اور تب میں نے دیکھا کہ وہ میری ہی طرف دیکھ رہی ہے۔ کہنے لگی۔ جانتی ہوں تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ مگر آج کا دن شاید کبھی نہ آئے۔ اسے برباد نہ ہونے دینا۔
اس دن کو برباد نہ ہونے دینا۔ شاید یہ وہی جملہ تھا جس کی میں خود بھی خواہش کر رہا تھا
میں نے اسفالٹ کو ریس دی۔ آن کی آن میں ہم ایک باغ میں جا پہنچے۔ یہ باغ در اصل ایک لائیو وال پیپر تھا جس میں زمین پر تتلیاں اور آسمان پر اینگری برڈز اڑ رہے تھے۔
ہم ایک آبشار کنارے بیٹھ گئے۔ بھولنے کی کوشش کرنے لگے کہ تھوڑی دیر پہلے کیا ہوا تھا۔ یہ اس لیے کیونکہ ہماری دنیا ایسی ہی تھی۔ پلک جھپکتے ہی منظر اور چہرے بدل جایا کرتے تھے اس لیے خوشی کا جو بھی لمحہ میسر آ جائے غنیمت تھا۔
میں نے آئس کریم سینڈوچ کا پیکٹ کھولا۔ وہ جیلی بین کھانے لگی۔۔ وہ مسکراہٹیں بکھیر رہی تھی اور باتیں کر رہی تھی۔ میں اس کی طرف سے مطمئن ہو رہا تھا۔ مگر یہ طمانیت چند لمحوں کی مہمان ثابت ہوئی۔
دور سے آتی ’کیسپر سکائی‘ کی گاڑی نے اس زور سے خطرے کی گھنٹی بجائی کہ میں اچھل کر کھڑا ہو گیا
پرے ہو جاؤ۔ یہ انفیکٹڈ ہے۔ کیسپر سکائی نے آتے ہی چارج سنبھالا
تمہیں کیسے معلوم۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کیسپر سکائی بڑی مرد مار عورت تھی پھر بھی میں اس کے سامنے ڈٹ گیا
مجھے معلوم ہو چکا ہے۔۔ گوگل شاپ کیپر نے اس کے بگڑے چہرے کی تصویریں بھیجی تھیں۔ میں نے ’نوڈ بتیس‘ کو بلایا ہے۔ وہ اسے ختم کر دے گا اگر ضرورت پڑی۔
کیا۔۔۔ ؟۔۔ ایک اتنی پیاری چیز ختم کر دی جائے گی۔۔ ؟ میں چیخا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میرا احتجاج حلق میں گھٹ کر رہ گیا اور چیخ واپس کھینچنا پڑی۔
اے سی ڈی سی ایک مرتبہ پھر روپ بدل رہی تھی۔ اور اس بار اس کے منہ سے ٹروجن ہارس اور پائریٹس نامی کیڑے بھی باہر نکل رہے تھے۔ اف کتنی بھیانک ہو چکی تھی وہ۔ دیکھا تم نے۔ کیسپر سکائی نے مجھے دھکیل کر دور پھینکا اور اے سی ڈی سی کے اگلے ہوئے طرح طرح کے وائرس اٹھا اٹھا کر کھانے لگی۔ اسی دوران نوڈ بتیس بھی وہاں آ گیا۔ ہماری دنیا کے دیگر لوگ بھی وہاں پہنچ رہے تھے۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے ماری گئی۔۔ مجھے روتے دیکھ کر مائیکرو سوفٹ ورڈ نے تسلی دی۔ کہا۔ ایکسل۔ غم نہ کرو۔ ہماری دنیا جسے ونڈوز کہتے ہیں اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
٭٭٭
الرحمن الرحیم
وہ چلتے چلتے ٹھٹھک کر رک گیا، اس کا پہلا تاثر زائل ہو چکا تھا کہ کچھ نہیں ہے، دوسرے تاثر نے اس کے پاؤں جکڑ لیے کہ کچھ ہے۔۔۔ اس نے ایک ننھے سے ہاتھ کو بلند ہو کر گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ گھڑی میں صبح کے سات بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔۔۔ کیا میں اب بھی نیند میں ہوں؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ وہ رکا اور واپس مڑا، آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کچرے کے ڈھیر کی طرف آیا جس کے کنارے ایک بڑا سا سفید رنگ کا خون آلود شاپنگ بیگ رکھا ہوا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اس کے اندر جھانکا اور جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔ شاپنگ بیگ میں خون میں لت پت ایک بچہ آنکھیں بند کیے پڑا تھا وہ الٹے قدموں واپس بھاگا اور بہت دور جا کر رکا۔ وہاں سے پلٹ کر ایک بار پھر کچرے کی طرف دیکھنے لگا۔
اسے یک بہ یک ایسی بہت سی کہانیاں اور فلمیں یاد آ گئیں جو ناجائز بچوں کے متعلق تھیں۔۔ وہ اگلے کچھ پل میں سمجھ جاتا ہے کہ معاملہ ناجائز بچے کا ہی ہے۔ وہ بچہ رو کیوں نہیں رہا، کیا وہ مر چکا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا مگر اسے یاد آیا کہ اس نے بچے کے ننھے سے ہاتھ کو بلند ہوتے دیکھا تھا۔ گویا وہ زندہ ہے۔۔۔۔ وہ بچہ زندہ ہے تو اسے رونا چاہئیے۔۔۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کیونکہ اس کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ بچہ دنیا میں آتے ہی چلانا شروع کر دیتا ہے رو رو کر اپنے ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ یہ اپنے ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر رہا؟ کیا یہ نہیں ہے؟ ممکن ہے یہ اپنے ہونے پر شرمسار ہو یا اپنے وجود سے مکر چکا ہو۔ اس نے سوچا جس بچے کی ماں ہی اسے ٹھکرا دے وہ اپنے ہونے کا اعلان کر کے کیا کرے گا۔۔
یکدم اسے بچے پر ترس آ گیا اس نے ادھر ادھر دیکھا، دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ یہ کراچی کا وہ علاقہ تھا جہاں کے لوگ نو دس بجے سے پہلے سو کر نہیں اٹھتے تھے اور ابھی صرف سات بج کر بارہ منٹ ہوئے تھے۔ سورج ایک طرف سے سر نکال کر اسے سوالیہ نظروں سے تکنے لگا۔ اس نے ارادہ کیا کہ اس بچے کو شاپنگ بیگ سمیت اٹھا لے اور گھر لے جا کر نہلا دھلا کر اچھے اچھے کپڑے پہنائے۔۔۔۔
وہ دو چار قدم آگے بڑھا مگر رک گیا۔ اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے دس بچے ہیں جن کی حالت بھوکے ننگے کچرا چننے والوں جیسی ہو رہی ہے کیونکہ اس کی تنخواہ بہت قلیل تھی اتنی تنخواہ میں تو دو بچے بھی زیادہ تھے۔ مگر نہ تنخواہ دینے والوں کو ہی کبھی شرم آئی نہ اس نے نوکری چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے کا سوچا۔ بچے نے ایک بار پھر ہاتھ بلند کیا۔ وہ ننھا سا ہاتھ سفید رنگ کا تھا۔ یقیناً اس کی ماں بہت گوری چٹی ہو گی، جب وہ نو ماہ تک مادر رحم میں رہا ہو گا تو چپکے چپکے اس نے اپنی ماں کی ساری خوبصورتی اور ادائیں خود میں سمو لی ہوں گی۔ یہ سوچ کر کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو ماں اسے دیکھ کر کہے گی کہ میرے لعل تو تو بالکل مجھی پر گیا ہے رے۔۔۔ اور پھر وہ اس کے صدقے واری جائے گی، اس کی بلائیں لے گی، اسے سینے سے لگا کر بھینچ لے گی، اسے اپنی چھاتی کا دودھ پلائے گی۔۔
مگر۔۔۔ ایسا کچھ نہ ہوا تھا۔ بچے کا ہاتھ ایک بار پھر اٹھا اور گرا۔ کیا اس بچے کو بھوک لگی ہے اور وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر اپنی ماں کو بلا رہا ہے؟ اس نے سوچا۔ تب اسے بچے پر دوسری بار ترس آیا، وہ بھوک کے عذاب سے واقف تھا۔۔۔ اکثر وہ خود بھی بھوکا رہتا تھا۔
وہ ایک نئے عزم کے تحت آگے بڑھا مگر جلد ہی رک گیا اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے بچے کل رات سے بھوکے ہیں یہی وجہ تھی کہ وہ صبح صبح ہی اٹھ گیا تھا اور اب اپنے ایک دوست کے گھر ادھار مانگنے جا رہا تھا اس نے فریاد کی۔ اے خدا تو ان بچوں کو کیوں دنیا میں بھیجتا ہے جو بھوک سے بلکتے ہیں رات کو سونے نہیں دیتے یا پھر علی الصبح کچرے کے ڈھیر پر پائے جاتے ہیں۔۔۔ اس نے ناراض ہو کر خدا سے بہت سارے شکوے کیے اور واپسی کا ارادہ کیا مگر بچہ شاپنگ بیگ میں اس طرح کسمسایا جیسے اپنے زندہ بچ جانے کی آخری امید بھی کھو رہا ہو۔ اس بار اس کا ننھا سا ہاتھ بھی بلند نہیں ہوا۔۔۔ شاید ہر گزرنے والے پل کے ساتھ اس میں گلوکوز کی کمی واقع ہو رہی تھی اور اب اس میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ ہاتھ اٹھا کر کسی کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔۔۔
خود غرضی کہہ رہی تھی کہ اپنے بچے زیادہ اہم ہیں جو کل رات سے بھوکے ہیں، اسے فی الفور ان کے لیے ناشتے کا بندوبست کرنا چاہئیے اس نے تھیلی میں رکھے بچے سے منہ پھیر کر اپنا راستہ ناپنا چاہا مگر جیسے زمین نے اس کے پاوں پکڑ لیے ہوں۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکا۔ اس نے دیکھا آسمان پر چیلیں جمع ہو رہی ہیں اور بچہ ساکت ہو چکا ہے۔
دور کسی مسجد سے چندے کی اپیلیں شروع ہو چکی تھیں، گنتی کے چند نمازیوں کے لیے قیمتی قالین، سنگ مرمر کے وضو خانے ائیرکنڈیشن اور ہر طرح کی آرائش و زیبائش کے باوجود مولوی کا جی نہیں بھرا تھا اور جانے اب کس سلسلے میں مانگ رہا تھا، اسے بھوک سے بلکتے بچوں یا کچرے کے ڈھیر ہر چیلوں کا ناشتہ بن جانے والے بچے سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اچانک وہ ٹھٹھک کر اپنے خیالات سے باہر نکل آیا۔ اس نے جلدی سے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا، واقعی وہاں چیلیں گردش میں تھیں پھر اس نے غور سے تھیلی کی جانب دیکھا۔ تھیلی ساکت تھی۔ کیا بچہ واقعی مر چکا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور تب اس کا دل صدمے سے چور چور ہو گیا۔۔۔
جہاں دس بچے پل رہے تھے وہاں گیارہواں بھی شامل ہو جاتا تو کیا تھا، اس نے بالآخر خود کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ جی بھر کر لعنت ملامت کی اور مردہ قدموں سے اپنے راستے پر جانے لگا۔ آگے ایک موڑ مڑنے سے پہلے اس نے آخری بار پلٹ کر دیکھا اور تب وہ جتنی قوت سے بھاگ سکتا تھا کچرے کی سمت بھاگا۔۔ ننھے سے بچے کا اٹھا ہوا ہاتھ اسے اپنی طرف بلا رہا تھا۔۔۔
٭٭٭
تخلیق کا دیوتا
تخلیق کا دیوتا جب روٹھ جائے تو کبھی کبھی عمر گزر جاتی ہے مگر وہ مان کر نہیں دیتا۔
بہت پہلے ایک سینئیر کے کہے گئے الفاظ کانوں میں گونجے تو وہ پہلی بار حقیقی پریشانی میں مبتلا ہوا۔ اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ عارضی رکاوٹ ہے دور ہو جائے گی مگر گذشتہ دس دنوں کی سر توڑ کوشش کے باوجود وہ ایک لفظ بھی نہ لکھ سکا تھا۔ کیا تخلیق کا دیوتا واقعی روٹھ چکا ہے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ اگر ایسا ہوا تب تو وہ بھوکا مر جائے گا اس کا روزگار ہی قلم سے جڑا ہوا تھا۔ شاید غلطی اسی کی تھی، پچھلی کہانی کے پیسے وصول کرتے ہی اس نے قلم چھوڑ ریسٹ شروع کر دی تھی۔
ریسٹ کے نام پر جی بھر کے عیاشی کی۔ آئے دن اپنے دوستوں کو ٹی پارٹی یا ڈنر پہ مدعو کرتا۔ ان کے ساتھ شرابیں پیتا اور بتاتا کہ کیسے ایک عام سی کہانی میں اس نے دل کو چھو لینے والے تاثرات ڈالے کہ وہ لاکھوں میں فروخت ہوئی۔ اس کے دوستوں میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ تاہم برے دنوں میں یہ تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہو جاتی تھی۔ پتہ نہیں کیسے۔ پتہ نہیں کیسے۔
اب جبکہ اس کے پاس دوسری کہانی کا آرڈر تھا وہ ایک لفظ بھی نہیں لکھ پا رہا تھا۔ وہ کمرے میں اکیلا تھا، ٹیبل پر نئی کہانی کی پہلے سے لکھی ہوئی دو قسطیں پڑی تھیں۔۔۔ تیسری قسط وہ شروع ہی نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔ شاید اس لیے کہ تخلیق کا دیوتا اس سے روٹھ چکا تھا اسے ایک لفظ بھی عطا کرنے کیلیئے تیار نہیں تھا۔ اب کیا ہو گا؟۔۔۔
اس نے بے چین ہو کر ایل ایم سگریٹ کی نئی ڈبی کھولی بہت پہلے کہے گئے ایک سینئیر قلمکار دوست کے الفاظ ایک بار پھر اسے سنائی دیئے۔۔ تخلیق کے دیوتا کو منانے کے لیے ضروری ہے کہ خود کو بالکل خالص کر کے فطرت سے ہم آہنگ کر دیا جائے، تخلیق کا دیوتا سیاہ رات کے اندھیرے میں جگنو کی چمک میں کہیں ہوتا ہے۔۔۔ اسے پورے چاند سے دلچسپی ہے، وہ دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی کے بہاؤ کو تکتا ہے یا ساحل کی ٹھنڈی ریت پر چلنے والے پیروں کے نشان کا پیچھا کرتا ہے وہ باغ میں گلاب کے پھولوں کی خوشبو کے آس پاس ہی کہیں ملے گا۔ اس کے بہت سارے ٹھکانے ہیں۔۔ وہ محبت کے کئی ایک رویوں میں بھی پایا جاتا ہے۔۔
تیسری قسط وہ کیسے شروع کرے سوچ سوچ کر تھک گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ دوسری قسط میں اس نے ایک اہم کردار کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اب اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کہانی میں کچھ نہیں بچا۔ اس کردار کے مرتے ہی سب کچھ ختم ہو گیا۔
’اف! یہ کہانی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی۔‘ وہ آدھی رات کو چھت پر جا لیٹا اور غور و خوض کرنے لگا۔۔ دائیں طرف سے چلنے والی ہوا ٹھنڈی اور فرحت بخش تھی۔ اس کی نظریں دور ستاروں میں کہیں کھو گئیں۔۔
اگلے کئی روز تک وہ ستاروں کی اوٹ میں چھپے تخلیق کے دیوتا کو پکارتا رہا۔۔ مگر کہانی آگے نہ بڑھی۔۔۔
وہ جھنجھلا گیا کہ آخر اس نے اتنے اہم کردار کو مارا ہی کیوں۔۔ کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو پورے ایک گھر یا خاندان کو لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔۔ ان کے ختم ہوتے ہی کہانی بھی ختم ہو جاتی ہے۔۔ نہیں۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ ابھی صرف دو قسطیں ہوئی ہیں۔۔۔ اسے کم از کم بائیس قسطیں لکھنی ہیں۔۔ مگر کیسے۔۔ کہانی کو آگے لے جانے والا کردار تو مر چکا ہے۔۔
اس نے تخلیق کے دیوتا کو ایک بار پھر آواز دی۔۔۔۔کوئی جواب نہ آیا۔ روٹھا ہوا دیوتا اس کے گرد کہانی کا جال بننے سے قطعی انکاری تھا۔ وہ صوفے پر لیٹ کر خالی نگاہوں سے چھت کو تکنے لگا۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ کافی عرصے سے وہ رومانس اور خالص پن سے دور رہا ہے۔۔ اس کی ساتھی عورتیں پیار و محبت کے عملی مفہوم سے تو واقف تھیں مگر روحانیت اور سچائی سے کوسوں دور تھیں۔ وہ سراپا جسم تھیں ان میں روح نام کی کوئی شے نہ تھی۔ اور تب اچانک احساس ہوا کہ وہ خود بھی تو روح سے خالی تھا۔ اس نے بھی تو کسی سے سچی محبت نہیں کی تھی۔ نہ ہی سچے دل سے کبھی کسی کی مدد کی تھی۔ گھنٹوں وہ اسی انداز میں لیٹا اپنی حالت پر کڑھتا رہا۔ پاس والے فلیٹ میں کسی نے ایم پی تھری پلیئر آن کیا تو لتا کی سریلی آواز اپنا جادو جگانے لگی۔ اس نے سوچا کس قدر دل سے گاتی ہے یہ عورت۔ اور پھر یہ بھی سوچا کس قدر بے دلی سے لکھتا ہوں میں۔ وہ بھی کلاکار ہے۔ میں بھی کلاکار ہوں۔ میں اپنے پیشے سے اتنا بد دیانت کیوں ہوں۔ میں دل اور جان کی گہرائی سے کیوں نہیں لکھ سکتا۔
بے چین ہو کر وہ گھر سے نکلا اور سمندر کے کنارے آن بیٹھا۔ اس نے اپنا تعلق سمندر کی لہروں سے جوڑنا چاہا اور من ہی من میں ان سے باتیں کرنے لگا۔ ادھیڑ بن کے دوران ایک فقیرنی کی آواز سن کر وہ چونکا۔ یہ ایک چھوٹی سی آٹھ نو سالہ بچی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ تیسری قسط کہاں سے شروع کرے جبکہ کردار مر چکا ہے۔۔۔ بچی نے اس کی طرف انگلی اٹھائی۔ کہا۔ ایک روپیہ دے دو۔ اسے مداخلت بری لگی مگر وہ کسی قسم کی کرختگی نہیں چاہتا تھا۔۔ بچی خود سے دور کھڑی ہوئی ایک دوسری لڑکی کی طرف بھی پلٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔ دوسری لڑکی بھی میلی کچیلی سی تھی مگر عمر میں کافی بڑی تھی۔۔ اس نے دس دس کے دو نوٹ نکالے۔۔۔ کہا۔ ایک تم رکھ لو، ایک اسے دے دو۔ اور اب جاؤ یہاں سے۔۔ بچی نے ایک نوٹ تو لے لیا مگر دوسرے کے لیے تذبذب میں پڑ گئی۔ کہنے لگی۔ یہ بھی میں لے لوں؟۔۔۔۔ ۔ اس نے کہا۔ ہرگز نہیں۔ یہ اسے دو جا کر بولی۔ وہ نہیں لے گی۔ وہ حیران ہوا۔ پیسے نہیں لے گی تو کیا جان لے گی۔ بچی دونوں نوٹ لے کر بھاگ گئی وہ اٹھ کر ان کا پیچھا کرنے لگا کہ ممکن ہے کوئی نئی کہانی ہاتھ لگ جائے بڑی لڑکی واقعی کسی سے بھیک نہیں مانگ رہی تھی پھر دوسرے تیسرے چوتھے پانچویں اور چھٹے روز بعد وہ ان دونوں سے گھل مل گیا۔۔ بڑی لڑکی اندرون سندھ سے آئی تھی۔ اس کا باپ اچانک انتقال کر گیا تھا، ماں باپ کے مرنے کے بعد وہ یکہ و تنہا و بے یار و مددگار تھی۔ سوچتی تھی کہ جانے اب اسے کیا کرنا ہو گا۔ اس کی زندگی مصنف کی کہانی کی طرح رک چکی تھی۔۔
یک لخت اسے خیال آیا کہ لڑکی کی زندگی کو آگے لے کر چلنا چاہئیے تاکہ اسے دیکھ کر شاید وہ بھی اپنی تیسری قسط شروع کر سکے۔۔۔
چنانچہ وہ اسے اپنے فلیٹ میں لے گیا۔ اسے نہلا دھلا کر انسان بنایا۔ اسے اچھے اچھے کپڑے گفٹ دیے۔ کہا اگر تم دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتیں تو بے شک یہ بہت اچھی بات ہے میرے پاس ملازمت کرو۔ میری سیکرٹری بن جاؤ۔ تمہیں لکھنا پڑھنا میں سکھا دوں گا۔ اور سکھانے کے ساتھ ساتھ معقول تنخواہ بھی دوں گا۔ پہلی بار وہ مسکرائی۔ اب وہ خوش لگ رہی تھی۔ وہ رائٹر اس کے جینے کا سہارا جو بن گیا تھا۔ اب اس کی زندگی کا پہیہ چل سکتا تھا۔۔ اور وہ بھی با عزت طریقے سے۔۔ ۔ اور رائٹر اس لیے خوش تھا کہ اس نے بڑے دنوں بعد کسی کی سچی مدد کی تھی۔ اب تخلیق کا دیوتا بھی شاید خوش ہو جائے اور تیسری قسط کے لیے ڈھیروں ڈھیر الفاظ عنایت کر دے۔
اس رات وہ مطمئن ہو کر سویا مگر صبح اٹھتے ہی احساس ہوا کہ بستر میں اکیلا نہیں ہے کوئی اور بھی اس کے ساتھ ہے۔ اس نے گھبرا کر چادر کھینچی اور تب اس کی روح فنا ہو گئی۔ دھلی دھلائی مگر بالکل برہنہ حالت میں گلی کی ایک فقیری اس کے ساتھ سو رہی تھی۔
٭٭٭
ماخذ: فیس بک
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں