آہنگِ خاطر
فہرست مضامین
- انتساب
- آئینہ بندی
- حمد باری تعالیٰ
- نعت سرور کونینؐ
- غمِ حسین
- گیت
- چاہت روگ
- پریم نگر
- تجھ سے اعراض اب میرے بس میں نہیں
- جبرِ ضرورت
- باعثِ آشوب
- گیت
- بتیاں پیار کی
- حیرت کدہ
- تکمیل شوق
- نگارِ کشمیر
- مکالمہ
- گیت
- دَین
- واہ رِی دنیا
- محبت
- پریم کہانی
- پرنٹ
- صرف تُو
- خاتونِ خانہ سے
- اقبال کا شاہین
- تشنگی
- ستم ترکِ ستم بھی
- فیضِ ادب
- پِیتم سے
- کوئی تو میرا ساتھ دے
- شوقِ دو طرفہ
- تقاضا
- تکمیل حسرت
- نصائح
- خراجِ حُسن
- درشن دولت
- قربت کا قرض
- وجدِ تصور
- فصلِ بہار
- فیضِ اُلفت
- بپتا
- کہانی ہر زمانے کی
- افراتفری
- سوغات
- دیوانگی
- التماس
- قائد کے حضور
- وصیت
- فراق و وِصال
- امر محبت
- بھکارن سے
- سنتری
- رُوٹ مارچ
- شرمندگی
- خراجِ اُلفت
- حسرتِ خواب
- ارضِ بد قسمت
- مطلبی
- جوڑ
- پیت مایہ
- آوارگی
- مہنگی سانسیں
- وابستگی
- تسلسل
- بیزاری
- بندھن
- قطعہ
- اپنے بیٹے محمد کاوش کے نام
- لاشِ ہم نفس
- سوزِ سخن
- ہائیکو
- رازِ نمو
- احساسِ زیاں
- رابطہ
- جرم و سزا
- ادبی مسئلہ
- بے چینی
- سوزِ فطرت
- فریاد
- نالہ و شیون
- عظمت فن
- مقصود
- طوائف
- تفاوت
- اعزازِ دلبرؔ
- تحسین جسارت
- نقیب
- نیستی
- سپوت
- بیاد پروین شاکر
- ممنونیت
- معمولات
شبیر ناقدؔ
انتساب
والدہ محترمہ کے نام
روشن سب پر ماں کی عظمت
لاثانی ہے جس کی چاہت
میری ماں پھر میری ماں ہے
قدرت کی اک خاص عنایت
جس کا سپنا میرا سپنا
جس کا جیون میرا جیون
جس کی یادیں میری یادیں
جس کی رفعت میری رفعت
جس کی سوچیں میری سوچیں
جس کی عشرت میری عشرت
جس کی راحت میری راحت
جس کی چاہت میری چاہت
جس کی نفرت میری نفرت
جس کی باتیں میری باتیں
جس کی نیندیں میری نیندیں
جب نہیں میرا سپنا پورا
اِس کا بھی ہے خواب ادھورا
میرے لیے ہے باعث عزت
اِس کے قدموں میں ہے جنت
اِس کے احساں لامتناہی
اِس نے دی بے انت محبت
٭٭٭
آئینہ بندی
صانع لوح و قلم نے بہت خوبصورت کائنات تخلیق فرمائی جس میں حضرت انسان کو کلیدی کردار سونپا گیا۔ سبب یہ ہے کہ یہ نقد علم و دانش کا سہیم و امین ہے۔ قدرت نے اسے شعور و خرد کی دولتِ بے بدل عطا فرمائی ہے پھر اسے اظہار کے بہترین وسیلے مرحمت ہوئے ہیں ۔ نُطقِ مہذب نے اس میں اور زیادہ رنگ آمیزی کر دی ہے چنانچہ جب سے آغازِ حیات ہوا ہے اور بول چال کے سلسلے شروع ہوئے ہیں سخن وری کے مظاہر بھی منصۂ شہود پر آئے ہیں ۔
انسانی آبادی جوں جوں فروغ پذیر ہوتی چلی گئی زبان و بیان میں بھی تنوع پیدا ہوتا چلا گیا جس کے نتیجے میں مختلف بولیاں اور زبانیں معرضِ وجود میں آئیں جن میں سے بعض بہت پرانی ہیں جن کا وجود معرضِ خطر میں ہے۔ بعض ازمنۂ وسطیٰ سے تعلق رکھتی ہیں جن میں سے کچھ ہنوز پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہیں ۔ جہاں تک ہماری زبان اردو کا تعلق ہے یہ اگرچہ کثرتِ گفتار کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے تاہم اس کی عمر ابھی کچھ زیادہ نہیں ہوئی اگر ہم اسے جواں سال زبان قرار دیں تو بے جا نہ ہو گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ السنۂ عالم میں یہی واحد زبان ہے جس کا شباب مسلّم ہے۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں نگارِ اردو کی کرم فرمائی نہ ہومگر حیف صد حیف ہنوز اس شہنازِ ادب کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کا یہ استحقاق رکھتی ہے۔ انجمن اقوام متحدہ کی زبانوں میں اسے شامل نہیں کیا گیا اس کے حجم کے مطابق نشریاتی اداروں میں اسے نمائندگی حاصل نہیں ہوئی لیکن مایوسی کی کوئی بات نہیں مُحبانِ اُردو نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ان کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اورا ن کے جوش و خروش میں برکت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اردو کی نشوونما اہلِ دنیا کو ضرور مجبورِ انتخاب کر دے گی۔
ارضِ پاکستان کو جہاں یہ شرف حاصل ہے کہ یہ عالم اسلام کا نظریاتی محور ہے وہاں اسے یہ نازش بھی میسر ہے کہ اردو جیسی آفاقی زبان کا معین و محافظ ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اردو کا ابتدائی مولد و مسکن ہونے کے ناطے بھارت بھی سرکاری طورپر گلشنِ اُردو کی آبیاری میں پیش پیش ہوتا مگر وہاں اہلِ عصبیت کی چیرہ دستیاں اپنارنگ دکھاتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ یوں مجموعی طور پر اردو زبان وادب کے بے حد روشن امکانات پائے جاتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُردو نوازی میں افرنگ و امریکہ بھی پیچھے نہیں ۔
سر زمینِ پاک میں شعرأ و ادبأ کا ایک لشکرِ جرار ہے جو شعری و ادبی کاوشوں میں مصروف و منہمک ہے۔ کچھ لوگ نامور ہو چکے ہیں اور کچھ جادۂ ناموری پر مصروفِ سفر ہیں ۔ ایسے ہی اصحاب تگ و تاز میں شبیر ناقدؔ کا اسم گرامی قابلِ ذکر ہے۔ ہمارے ایک شاگرد نے انہیں ایک فطری شاعر قرار دیا ہے اور ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ منزل شعر و سخن کا ایک انتھک راہی ہے جو شبانہ روز مصروفِ کارہے۔ اگرچہ ان کا شعری سفر بہت طویل نہیں ہے لیکن ان کی تخلیقی رفتار حیران کن حد تک تندو تیز ہے۔
ان کی نگار شات کا مطالعہ کرنے والوں کو محسوس ہو گا کہ ان کا سخن سادگی کے رنگ کا حامل ہے مگر اس میں جذبے کی تاثیرکی فراوانی ہے۔ جگہ جگہ شاعر کا شعری شعور رنگ جماتا نظر آتا ہے وہ قدم بہ قدم اپنے تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ ایک حد تک وضع دار بھی ہیں مگر بے تکلفی انھیں بہت پسند ہے۔ ان کی لفظیات میں ایک ارتقاء کا عمل صاف دکھائی دیتا ہے۔ ان کی ترکیبات اپنے اندر ایک شانِ دلآویزی لئے ہوئے ہیں ، ان کی مستقل اور شعرو ادب کی عرق ریزی انھیں اپنے ہم عصروں سے کافی آگے لے گئی ہے۔ شعری کار گزاری میں محنت و ریاضت کے قائل ہیں ۔ ایک وقت تھا جب زیادہ ہندی الفاظ کا استعمال اردو میں عیب سمجھا جاتا تھا مگر آج کل تہذیبی تال میل اور نسلِ نو کی فیاضانہ رواداری نے اس بارے میں بھی مصالحت کا رویہ اختیار کیا ہے۔ چنانچہ فکرِ جدید کا نمائندہ ہونے کے ناطے شبیر ناقدؔ نے بھی اپنے فن میں بھی ہندی لفظیات کو بڑے قرینے سے برتا ہے۔
شاعر موصوف تکنیکی حوالے سے آسان بحروں کے قائل و مائل ہیں خصوصاً بحر متقارب ان کی پسندیدہ بحر ہے جسے انھوں نے بکثرت برتا ہے لیکن دیگر مفرد و مرکب بحور میں بھی کامیابی سے سخن سنجی کی ہے۔ شبیر ناقدؔ کے کلام میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس میں ہر صنف سخن کے نمونے نظر آئیں گے۔ غزل کے علاوہ گیت اور نظم کی سب ہئیتیں مثلاً مثنوی ثلاثی، قطعہ، بند مخمس، مسدس، مثمن اور مستزاد شامل ہیں ۔ انھوں نے خاصی متاثر کن آزاد نظمیں بھی لکھیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فراوانی سے غزلیں اور پابند نظمیں لکھنے کی وجہ سے ان کی آزاد نظموں میں بھی چلتے چلتے قافیہ و ردیف کا اہتمام پایا جاتا ہے۔ صنفی تنوع کے ساتھ ساتھ وسیع موضوعاتی تنوع بھی شبیر ناقدؔ کے ہاں مشاہدے میں آتا ہے جس میں حمد، نعت، منقبت اور مرثیہ کے رنگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ معاشرتی نظمیں بھی اپنی بہار دکھاتی نظر آتی ہیں اور کہیں ہلکا پھلکا مزاح بھی تبسم کی موجیں بکھیرتا نظر آتا ہے۔ شاعر ممدوح اپنی نظموں کو پورے منطقی انجام اور کلائمکس پر پہنچانے کا پختہ تجربہ رکھتے ہیں ۔ ہم شاعر اور قاری کے درمیان زیادہ دیر دیوار بننا مناسب نہیں سمجھتے لہٰذا ’’آہنگِ خاطر‘‘ جو آپ کی دسترس میں ہے، اسے زیرِ مطالعہ لائیے لیکن ذرا ٹھہرئیے ہمارا حاصلِ مطالعہ بھی ملاحظہ کرتے جائیے۔ امید ہے کہ پسند آئے گا اور کتاب پڑھنے کی رغبت اور بڑھ جائے گی۔
وہی سب کا مسجود سب اس کے ساجد
چمکتا جبیں میں اسے میں نے پایا (حمد باری تعالیٰ)
دنیا مرے قدموں میں ہے کونین کے والی
جس وقت سے میں آپ کا دیوانہ ہوا ہوں (نعت سرور کونین)
گل ثبات کھل اٹھے حسین کے وجود سے
ملا خراجِ دلنشیں جہانِ ہست و بود سے (غم حسین)
موج اڑانا کھانا پینا
اس کا نام نہیں ہے جینا
اپنے زخم تو سب سیتے ہیں
زخم اوروں کے بھی تم سینا
تم ہر اک کی خدمت کرنا
تم سب سے ہی الفت کرنا (نصائح)
محبت تو انمول ہے اک خزانہ
عوض اس کا کیوں مانگتا ہے زمانہ (خراج حسن)
فسانہ میرا سدا رہے گا
امر ترا تذکرہ رہے گا (وابستگی)
عذابِ چشم بن گیا
مشاہدوں کا کرب بھی
جو نین نیر نیر ہیں
جہاں میں ہم فقیر ہیں
اسی لئے حقیر ہیں (باعثِ آشوب)
تمھاری تمنا میں اے دلربا گردِ راہ بن گیا ہوں
تمھاری مسافت کی ساری تھکن حاصل عمر ٹھہری
میری سوچ کے زاویے، زاویے میں تمھی بس گئے ہو
(تجھ سے اعراض اب میرے بس میں نہیں )
اب غزلوں کے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں :
سخن پیار کے عہدِ نفرت میں لکھ کر
محبت کی رو میں بہے جا رہے ہیں
٭٭٭
میں کیسے بھلا ظلم ہونے سے روکوں
ہوئے ہاتھ برسوں سے میرے قلم ہیں
٭٭٭
اگرچہ یہ موجیں بھی سرکش بہت ہیں
انھیں ہے تو آخر کناروں سے نسبت
میں بیزار تقلید سے ہوں سراسر
نہیں مجھ کو روضوں مزاروں سے نسبت
٭٭٭
میرا غریب ہونا میرا قصور ٹھہرا
سوزِ سخن کا باعث میرا شعور ٹھہرا
٭٭٭
جب بھی تیرا ذکر ہوا ہے
آنکھ تیرے غم میں بھر آئی
٭٭٭
لمحہ لمحہ حلقہ ناقدؔ
جیون ہے زنجیر کی صورت
٭٭٭
مرض کوئی بھی پاس اس کے نہ پھٹکا
وہ کھیتوں میں جو ہل چلاتا رہا ہے
دعا ہے کہ خالقِ شعر شبیر ناقدؔ کو اور زیادہ حسن بیاں عطا فرمائے (ثم آمین)
ظہور احمد فاتحؔ
(فاتح منزل) تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان
آہنگِ خاطر پر ایک طائرانہ نظر
آہنگِ خاطر نوجوان مگر زرخیز ذہن رکھنے والے شاعر شبیر ناقدؔ کا شعری مجموعہ ہے جو اس کے تخلیقی اظہار اور اسلوبیاتی طرزِ احساس کا مظہر ہے۔ تونسہ علم و عرفان کی دولت سے مالا مال اور معمور ہے۔ شاہ سلیمان تونسویؒ جہاں عرفانیت کا گلشن منور کیا وہاں یہاں کے بسنے اور سانس لینے والوں نے ادبی لحاظ سے اسے نکھارنے اور سنوارنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ تقسیم سے پہلے اور اس کے بعد یہاں کے شعراء اور ادباء نے اپنی صلاحیتوں سے اس خطے کا نام روشن کیا اور لمحۂ موجود تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ جیساکہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ عرفان و آگہی کے اعتبار سے حضرت شاہ سلیمان تونسویؒ اس کی شناخت کا حوالہ بنے تو ادب اور شعر میں فکرؔ تونسوی اس کی پہچان کا وسیلہ بنے اور اب یہ ایک تناور درخت بن چکا ہے اور یہاں کے لکھنے والے اس چمن کی نہایت ہی فنکارانہ طریق سے آبیاری کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور ان کا رہوارِ قلم ہر دم تازہ دم ہے اور میں اسے شاہ سلیمان تونسویؒ کا فیض سمجھتا ہوں ۔ یوں تو کہا جاتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے مگر میرے نزدیک نام ہی میں سب کچھ ہے اور پھر تونسویؔ جہاں بھی ہو گا تونسویؔ ہی ہو گا۔ اس حوالے سے فکرؔ تونسوی،سرورؔ تونسوی، فدائے ادب تونسوی، کندل لال تونسوی، صالح محمد ادیبؔ تونسوی، استاد فیضؔ تونسوی، استاد فداؔتونسوی، سردار اللہ نواز خاں درانی، فرخؔ درانی، شریفؔ اشرف، رشیدؔ قیصرانی، دامنؔ اباسینی،جاوید احسنؔ، بربطؔ تونسوی، جاوید ملک قیصرانی، فاروق فیصلؔ اور ظہور احمد فاتحؔ کے علاوہ بہت سے نوجوان شاعر شامل ہیں جو میرے وطن عزیز کا نام روشن کر رہے ہیں اور میں انہیں آسمانِ ادب کے رخشندہ ستارے قرار دیتا ہوں اور اسے مبالغہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ تونسہ کی مٹی بڑی زرخیز بھی ہے اور یہاں کی ہوائیں ذہانتیں بکھیرتی ہیں اور یہاں کے ریگستان تخلیقی وسعتوں کا استعارہ ہیں اور یہاں کے پہاڑ عقل و دانش کے استعارے ہیں اور یہاں کے فاقہ کش لوگ اور وطن سے باہر تلاشِ روزگار میں پھرنے والے اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک اور دانائی کے چشمے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے۔ یوں دیکھیں تو جہاں ایک طرف دینی رجحانات کا چرچا ہے وہاں دوسری طرف ادب اور شاعری کا چلن بھی عام ہے۔ مجھے یہاں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ ظہور احمد فاتحؔ نے جو بصارت سے محروم ہیں مگر بے پناہ بصیرت کے مالک ہیں ادب کی آبیاری کے لیے ہمہ وقت مصروف ہیں اور نوجوان شعراء کی نہ صرف سرپرستی کرتے ہیں بلکہ ان کی ادبی تربیت کا وسیلہ بھی ہیں ۔ شبیر ناقدؔ اسی مکتب کے فیض یافتہ ہیں اور جو شعور اور آگہی ان کی غزلوں اور نظموں سے آشکار ہوتی ہے وہ اس کے تخلیقی جوہر کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کا پہلا مجموعہ’’ صلیبِ شعور‘‘ اپنے نام کے حوالے سے بھی موضوعات، مضامین اور اس کی سوچ و فکر کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کے ہاں فن کے جوپختگی ہے وہ اس کی محنت،ریاضت اور شاعری سے اس کی لگن کا پتہ دیتی ہے اور پھر یہ کہ اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر سب کچھ کہہ کر سچ اور جھوٹ کا نِتارا کیا ہے اور فیض کی نظم ’’بول‘‘کے منشور کو اپنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کی شاعری کا مطالعہ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کے ہاں عصری صداقتوں کے بیان اور عصری شعور کی ترجمانی بڑی فن کارانہ چابکدستی سے کی گئی ہے اور اس کے بیان کردہ لفظ،تراکیب ،تشبیہات،استعارے واضح انداز میں اپنا منفرد منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں ۔ اس کا خاص وصف ہے کہ اسے لفظوں کو برتنے کا بھرپورسلیقہ اور قرینہ آتا ہے اس نے محض جدیدیت کا سہارانہیں لیا بلکہ شاعری کی کلاسیکل روایت سے بھی ناطہ جوڑے رکھا ہے جس کی بدولت اس کی تخلیقی اظہاریت میں لفظ و معنی کے باہم اتصال سے ایک نیا جہانِ تخلیق آباد ہوا ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نے آسمان پر اپنی سیڑھیاں نہیں چڑھائیں بلکہ اپنی زمین سے رشتہ اُستوار رکھا ہے اور اپنی دھرتی کو کہ وہ جیسی بھی ہے اسے اپنی پہچان اور شناخت کا حوالہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں سطحیت کی بجائے آفاقیت ہے اور وہ نقد و شعر کی روایت سے جُڑا اور جَڑا ہوا نظر آتا ہے اور ایک خوبی جوا س کی نظموں میں موجود ہے وہ احتجاجی اور مدافعتی لب و لہجہ ہے اور یہ بات اس کے مزاج میں بھی داخل ہے اور میں سمجھتاہوں کہ ہمارے وسیب کے ساتھ سیاست اور سماج دونوں نے جو زیادتیاں کی ہیں اور جس طرح ہمیں اپنے حق سے محروم رکھا ہے اور پھر وسائل اپنے ہاتھ میں لے کر مسائل کا انبار ہمارے سامنے رکھ دیا ہے یا پھرجس معاشرتی اور سماجی جبر میں ہمیں اور ہمارے عوام کو جکڑا ہے شبیر ناقدؔ کا قلم پورے شعورو آگہی کے ساتھ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور ایسی قوتوں کو للکارتے ہوئے اُن کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرتا ہے وہ بڑی جرأت کے ساتھ اظہارِ خیال کرتا ہے اور پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ یہ جرأتِ رِندانہ اُسے اس کی دھرتی نے عطا کی ہے، وسیب کے بے بس اور بے کس لوگوں نے دی ہے۔ اس لیے کہ وہ کھلی آنکھ سے استحصالی قوتوں کو ان کے حقوق اپنے پاؤں تلے روندتے اور انہیں پامال کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ اس کی نظم ’’ستم ترک ستم‘‘ بھی اس رویے کی غمازی کرتی ہے :
کب سے میں جانِ جاناں تیر ے شہر میں
رہ رہا ہوں کسی اجنبی کی طرح
بچہ بچہ تیرے شہر پُرشور کا
ہاتھ میں سنگ تھامے ہے میرے لیے
اور میں ہوں کہ گم سم کسی سوچ میں
منتظر ہے نظر میری تیرے لیے
سامنے آہ تو بھی نظر کے نہیں
تیرے ہاتھوں میں اب کوئی پتھر نہیں
اسی طرح اس کی نظم’’ مہنگی سانسیں ‘‘دیکھئے:
دن را ت میں ہوں غمگیں
مجھ کو ستم ستائے
اک روگ بن گئی ہے
اب زندگی یہ میری
مہنگی بہت ہیں سانسیں
کیسے انہیں خریدوں ؟
٭٭
شبیر ناقدؔ کے اظہار کی یہ ایک سمت ہے تاہم دوسری بڑی سمت رومانی اور جمالیاتی رویوں کی ہے اور یہ طرزِ احساس’’آہنگِ خاطر‘‘میں چھایا ہوا لگتا ہے البتہ اس سے اس کے مشاہدے کی شدت کا اندازہ ہو جاتا ہے اس لیے بعض نظمیں وقتی صورتِ حال کو دیکھنے کے بعد وجود میں آئی ہیں اور کئی جگہ عمومیت بھی آگئی ہے اور یہی حال غزلوں کا بھی ہے تاہم جہاں شبیر ناقدؔ نے جم کر کہنے کی کوشش کی ہے اس کی دادنہ دینا ناانصافی کے مترادف ہے۔ میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ شبیر ناقدؔ کا یہ دوسرا مجموعہ اس قابل ہے کہ اسے پڑھا جائے اور اس پر غور کیا جائے اوراسے سراہا جائے۔ اس لیے بھی کہ میڈیا کے اس دور میں نظرانداز کئے جانے والے اس جیسے ادیبوں اور شاعروں کا دم غنیمت ہے کہ انہوں نے ادب کی شمع روشن کر رکھی ہے اور اپنے دل کی آگ سے اُسے بُجھنے نہیں دیتے بلکہ اس میں شدتِ احساس پیدا کر کے اپنے ہونے کا احساس بھی دلاتے ہیں اور اپنے ہونے کا جواز بھی پیدا کرتے ہیں ۔ اس پس منظر میں جہاں تک شبیر ناقدؔ کا تعلق ہے اُسے مطالعہ بھی جاری رکھنا چاہئے اور بھر پور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار بھی کرنا چاہئے اور اسے اپنی مختصر نظم:
راز نمو
فن بے انت سمندر
پہلے ڈوبو
پھر نکلو گے
پر مکمل عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مکمل یکسوئی اور انہماک کے ساتھ شعر کہنے کا مقدس فریضہ سر انجام دے کر اپنا آپ منوا سکے۔
میرے نزدیک ’’آہنگ خاطر‘‘ اس کا نقشِ ثانی ہے اور اس کی تخلیق کاری کا ثمر بھی ہے اور اس کے مطالعے کے بعد اس کے شاندار مستقبل کی بشارت دے سکتا ہوں ۔
ڈاکٹر طاہر تونسوی
تمغہ امتیاز
3 اپریل 2010ء
گھڑی دو گھڑی کا ہوں مہمان مجھ سے محبت نہ کر
رہے یاد جس کی کوئی میری ایسی ضیافت نہ کر
بہت چل بسے الفتوں کے سفر میں میرے ہمسفر
یہ ہستی اگر تجھ کو پیاری ہے پیارے تو چاہت نہ کر
حمد باری تعالیٰ
زمان و زمیں میں اسے میں نے پایا
مکان و مکیں میں اسے میں نے پایا
زمانہ اسی کا بنایا ہوا ہے
کہاں اور کہیں میں اسے میں نے پایا
اسی کے اوامر اسی کے نواہی
کہ ہاں میں نہیں میں اسے میں نے پایا
وہی سب کا مسجود سب اس کے ساجد
چمکتا جبیں میں اسے میں نے پایا
شکستہ ہیں تشکیک کے بند سارے
کہ ناقدؔ یقیں میں اسے میں نے پایا
نعت سرور کونینؐ
میں کاسئہ جاں لے کے سوئے طیبہ چلا ہوں
جاری ہے سفر میرا سدا محوِ دعا ہوں
دنیا میرے قدموں میں ہے کونین کے والی
جس وقت سے میں آپ کا دیوانہ ہوا ہوں
جھولی میری بھر جائے ہوں رحمت کا سوالی
از راہِ کرم پھول محبت کے عطا ہوں
مقبول ہوں اشعار میرے از رہِ شفقت
دنیا سے ہوں بیگانہ تیرے در کا گدا ہوں
حسرت ہے یہ ناقدؔ کہ ہو جب نزع کا عالم
اس وقت تیری نعت کے اشعار ادا ہوں
غمِ حسین
غمِ حسین کے بغیر زندگی فضول ہے
حسین مردِ حق نگر ہے نازشِ بتول ہے
حسین وہ ہے جس نے بہر حق خوشی سے جان دی
اِسی نے حق کو حق کہا اِسی نے حق کو شان دی
اِسی نے کربلا میں اپنے قلب و جاں لٹا دئیے
قرینے اس نے صبر کے رضا کے سب سکھا دئیے
گُلِ ثبات کھِل اٹھے حُسین کے وجود سے
ملا خراجِ دلنشیں جہانِ ہست و بود سے
اسی نے حق بتا دیا بنا یہ حق کا نامہ بر
حسیں نہ ہوتی زندگی جو یہ نہ ہوتا چارہ گر
مِری روح تم ہو مِری جان ہو تم
بصالت ہو قوت ہو ایمان ہو تم
ہے وابستہ میری جلالت تمھی سے
مِری رفعت و عظمت و شان ہو تم
صنم تم پہ نازاں نہ کیسے رہوں میں
مِری آرزو ہو مِرا مان ہو تم
تمھی سے ہے میری محبت کو نسبت
بقا ہو فنا ہو میری آن ہو تم
نہ خفگی ہے تم پر نہ کوئی ملامت
یہ امر مسلّم کہ انسان ہو تم
ہیں مربوط تم سے ہی میری مرادیں
مِری جستجو میرا ارمان ہو تم
ہیں کیوں پھول رخسار کے یوں فسُردہ
پشیمان ہو یا پریشان ہو تم
ملے تم تو فردوس گویا ملی ہے
صنم غیرت حور و غِلمان ہو تم
تمھارے بنا میں تو کچھ بھی نہ جانوں
مِری معرفت میرا وجدان ہو تم
مِری عیش و عشرت کو ہے تم سے نسبت
نشاط و مسرت کا سامان ہو تم
ہے ناقدؔ کو اب بھی وفا کی توقع
اُسے یہ یقیں ہے مسلمان ہو تم
٭٭٭
تِرے میکدے سے پیے جا رہے ہیں
جو تھے زخم دل کے سیے جا رہے ہیں
تمھاری محبت کے تحفے بہت ہیں
غزل پہ غزل ہم کہے جا رہے ہیں
کوئی ہم نفس ہے نہ ہے کوئی محرم
بصد یاس جگ سے چلے جا رہے ہیں
تِرا ذکر معمول اپنا ہے ساقی
تِرا چرچا ہر ُسو کئے جا رہے ہیں
مِری جان ہے تو ہمارا مسیحا
تِرا نام لے کر جیئے جا رہے ہیں
ملی ہے ہمیں جب سے خلوت کی دولت
تِری انجمن سے رہے جا رہے ہیں
تِرے کرب میں چین ایسا ہے جاناں
کہ ہنس ہنس کے ہر غم لیئے جا رہے ہیں
تِرے ہجر کی وارداتیں بہت ہیں
رقیبوں کے طعنے سنے جا رہے ہیں
مِرے دلربا اب مِری داستاں میں
نرالے مظالم سجے جا رہے ہیں
تِری ہر نزاکت پہ اے جانِ جاناں
فسانے نئے اب بُنے جا رہے ہیں
نشاناتِ پا راہِ اُلفت سے تیرے
خدا جانے کیوں اب مِٹے جا رہے ہیں
مِری زندگی رنج کی زندگی ہے
مسرت کے لمحے چُنے جا رہے ہیں
تِرے پیار میں ہم نے کیا کیا نہ پایا
حروفِ تشکر لکھے جا رہے ہیں
سخن پیار کے عہدِ نفرت میں لکھ کر
محبت کی رَو میں بہے جا رہے ہیں
تِرے پیار میں وہ جو روشن ہوئے تھے
دیئے رفتہ رفتہ بجھے جا رہے ہیں
مِری جاں تِری کج ادائی کے باعث
حریفوں کے حلقے ہنسے جا رہے ہیں
ملی ہے ہمیں دولتِ صبر ناقدؔ
خوشی سے ستم سب سہے جا رہے ہیں
٭٭٭
تِرا حُسن رُسوا ہے حجابوں کے اندر
ہوئی ماند تیری صباحت نقابوں کے اندر
تو قربت کی راحت سے محروم ہر دم رہی ہے
کٹی عمر تیری برہ کے عذابوں کے اندر
تصور تمھارا ہے رقصیدہ لفظوں کی صورت
تمھیں میں نے پایا ہے اکثر کتابوں کے اندر
امیدیں امنگیں سدا تم سے وابستہ میری
پڑھا میں نے تم کو ہے جاناں نصابوں کے اندر
میں قائل رہا ہوں تمھارے تقدس کا ناقدؔ
رفاقت تمھاری رہی ہے ثوابوں کے اندر
٭٭٭
مِری دسترس میں زمانے کے غم ہیں
جہاں بھر کے مجھ کو مہیا ستم ہیں
ہیں ناراض خوشیاں بھی ہستی سے میری
مگر کیا کروں میری قسمت الم ہیں
میں کیسے بھلا ظلم ہونے سے روکوں
ہوئے ہاتھ برسوں سے میرے قلم ہیں
مِرے پاس جیون کے عنواں ہیں سارے
ہوئے مجھ سے سارے فسانے رقم ہیں
مِرا سانس سکرات بن کے ہے گزرا
کیے زندگی نے یوں ناقدؔ کرم ہیں
مِری زیست کو ہے نظاروں سے نسبت
کئی خوبصورت سہاروں سے نسبت
اگرچہ یہ موجیں بھی سرکش بہت ہیں
انہیں ہے تو آخر کناروں سے نسبت
میں بیزار تقلید سے ہوں سراسر
نہیں مجھ کو روضوں مزاروں سے نسبت
ہنر میں مِرے ہیں حقائق فراواں
مِرے علم کو ہے ستاروں سے نسبت
خزاں کے کبھی گیت گاتا نہیں میں
ہے نغموں کو میرے بہاروں سے نسبت
ہیں سیارگاں گو سدا محوِ گردش
انہیں بھی ہے لیکن مداروں سے نسبت
کہاں معتبر ہے تِرا عشق ناقدؔ
کہ رکھتا ہے لاکھوں ہزاروں سے نسبت
گیت
تجھے پیار تا عمر کرتا رہوں گا
میں دم تیری چاہت کا بھرتا رہوں گا
تجھے پیار کرنا ہی جیون ہے میرا
ہوا جینا تجھ بن اجیرن ہے میرا
تِرے نام پہ جیتا مرتا رہوں گا
گرا دوں گا رستے کی دیواریں ساری
کروں گا محبت کی یوں پاسداری
میں کب تک زمانے سے ڈرتا رہوں گا
محبت کا غم میری راحت ہے ساجن
اسی میں مسرت ہے فرحت ہے ساجن
سدا مشکلوں سے گزرتا رہوں گا
ہے زینت زباں کی تِرا نام جاناں
یہی ہے وظیفہ یہی کام جاناں
تِرے نام کا ورد کرتا رہوں گا
چاہت روگ
مراسم نہ ہوتے محبت نہ ہوتی
غمِ ہجر کی پھر اذیت نہ ہوتی
سو ہستی سے اپنی شکایت نہ ہوتی
دکھوں کی سدا یوں رفاقت نہ ہوتی
ہمیں شوق نے ایسا رسوا کیا ہے
جو اپنا تھا وہ اجنبی ہو گیا ہے
اگر زندگی میں نہ یہ روگ لاتے
نہ بے چین ہوتے نہ آنسو بہاتے
کسی سنگدل سے نہ یوں دھوکہ کھاتے
سدا عیش پاتے سدا مسکراتے
یہ اخلاص بھی روگ ہے اک مسلسل
کہ رکھتا ہے دل میں بپا ایک ہلچل
کسی کو خدا یہ ستم نہ دکھائے
نہ یوں زندگی بھر کسی کو رُلائے
کوئی بھی نہ اُلفت کے صدمے اٹھائے
کسی کے مقدر میں یہ شب نہ آئے
کسی پہ نہ ٹوٹے یہ اُفتاد پیہم
کوئی بھی نہ دیکھے جدائی کا موسم
پریم نگر
یاد ہیں مجھ کو پریم نگر کی سب سوغاتیں
من ساگر میں موجیں ماریں اس کی راتیں
پل پل اترا کرتی تھیں من میں باراتیں
اس میں مجھ کو چین سکوں آرام ملا تھا
سکھ کا جام مسرت کا پیغام ملا تھا
کیا کیا تیرے ناطے اے گلفام ملا تھا
تجھ سے اعراض اب میرے بس میں نہیں
مِری جستجو جانِ جاں ہے تمھارے لیے
تمھارے لیے میں پھرا کُو بہ کُو ہوں
تمھاری تمنا میں اے دلربا گردِ راہ بن گیا ہوں
تمھاری مسافت کی ساری تھکن حاصلِ عمر ٹھہری
مِری سوچ کے زاویے،زاویے میں تمھی بس گئے ہو
تمھیں فکر کے ہر جزیرے میں پایا
ہر گھڑی ہر دقیقہ میرے سانس میں تم سمائے رہے ہو
مِری ذات سے تم الگ تو نہیں ہو
مِری جان تم سے اگر میں یہ پوچھوں
مِری ذات کا کوئی دھندلا تصور
تمھارے کسی گوشۂ دل میں ہے یا نہیں ہے
تمھی ہو جو کاشانۂ دل میں دن رات مسندنشیں ہو
تمھی لالہ رخ ہو تمھی ماہ جبیں ہو
زمانے میں تم سب سے بڑھ کر حسیں ہو
مِرے دل میں اب اک تمھارا تصور ہی باقی رہا ہے
تمھارا خیالِ حسیں صرف اب میرا ساقی رہا ہے
قسم ہے مجھے اپنے سچے سخن کی
تمھارے دہن کی
مِری معرفت میرا وجدان ہو تم
میرے من کے مجبوب مہمان ہو تم
دل و جان ہو تم
کروں تم سے اعراض ممکن نہیں
اب یہ بس میں نہیں اب یہ بس میں نہیں
جبرِ ضرورت
بدن میں مِرے جان باقی نہیں ہے
کروں کیسے جیون کے پورے تقاضے
مِری فکر نے مجھ کو بوڑھا کیا ہے
مجھے کام کرنا ہے بچوں کی خاطر
نہیں مِری قسمت میں راحت کی دولت
گھیسٹے ہوئے ہوں میں اک زندہ لاشہ
باعثِ آشوب
عذابِ چشم بن گیا
مشاہدوں کا کرب بھی
جو نین نیر نیر ہیں
جہاں میں ہم فقیر ہیں
اسی لیے حقیر ہیں
تمھاری دھن بھی پکی ہے ہماری دھن بھی پکی ہے
تمھاری پیت سچی ہے ہماری پیت سچی ہے
فقط اس نے نہیں چاہا اسے میں نے بھی چاہا ہے
قباحت پھر ہے اس میں کیا اگر قد میں وہ چھوٹی ہے
مِرا تم پر بھروسہ ہے مِرا ایمان ہے تم پر
یہ دنیا گرچہ کہتی ہے تو کب وعدے کی کچی ہے
یہی احساس رہتا ہے یہی خود سے میں کہتا ہوں
تجھے اس سے ہے کیوں الفت اگر اتنی وہ جھوٹی ہے
کیا تھا اپنی خوش دامن سے کل میں نے تیرا شکوہ
جواباً اس نے فرمایا سمجھ جائے گی بچی ہے
ہے مِرا مشورہ ناقدؔ کسی سے یو نہی مت اُلجھو
رہو امن و سکوں سے زندگی کم تر ہے تھوڑی ہے
٭٭٭
کوئی بھی تجھ سے بڑھ کر ہستی نہیں ہے پیاری
ساجن ہے تیری خاطر میں نے نظر اُتاری
بچھڑوں گا میں نہ تم سے وعدہ میرا اٹل ہے
دنیا کرے جفائیں یا مجھ پہ سنگ باری
کیسے ہو عہد و پیماں کیسی وفا کی قسمیں
پل کی خبر نہیں ہے سانسیں بھی ہیں اُدھاری
مجھ کو کرے پریشاں اس سے سدا ہوں نالاں
اک روگ بن گئی ہے تیری جفا شعاری
جس کو ہے تم نے چھوڑا اس کا کوئی نہیں تھا
اب یاد کیا کرے گی ناقدؔ ستم کی ماری
شب و روز تیرے فسانے لکھے ہیں
فسانے بہت ہی پرانے لکھے ہیں
مِری زندگی تیری چاہت میں گزری
غزل کیا لکھی تیرے گانے لکھے ہیں
مجھے وَصل کی یاد ہیں ساری راتیں
بہت حال تیرے بہانے لکھے ہیں
وہ مقبول ہوں یا نہ ہوں اس جہاں میں
ادب میں تو میں نے زمانے لکھے ہیں
گلہ ہم سے ناقدؔ رہا زندگی بھر
انھیں ہم نے جن کے ترانے لکھے ہیں
میرا غریب ہونا میرا قصور ٹھہرا
سوزِ سخن کا باعث میرا شعور ٹھہرا
تجھ کو ہوں یاد میں گر تیری عطا ہے مجھ پر
رکھا ہے یاد مجھ کو یہ بھی سرور ٹھہرا
دن رات جس کو چاہا جس سے وفائیں کی ہیں
افسوس تو یہی ہے مجھ سے وہ دور ٹھہرا
جس کی ہے مجھ سے اُلفت جو مہرباں ہے مجھ پر
ہے اور کب کسی کا میرا حضور ٹھہرا
درشن سے تیرے دائم میری رہی بصارت
دیدار تیرا ناقدؔ آنکھوں کا نور ٹھہرا
جبر کے بادل چھٹ جائیں گے
آخر چین سکوں پائیں گے
امن کا سورج بھی نکلے گا
خوشیوں کے بھی دن آئیں گے
غم پھر کوئی پاس نہ ہو گا
فرحت کا تحفہ لائیں گے
قربانی ہم نے دینی ہے
شوق سے مقتل بھی جائیں گے
ناقدؔ خوشحالی آئے گی
گیت مسرت کے گائیں گے
گیت
جدائی تِری اب گوارا نہیں ہے
کوئی تیری مانند پیارا نہیں ہے
مِری آرزو میری جاں تو ہے دلبر
مِرا شعر و حُسن و بیاں تو ہے دلبر
مِرا اور کوئی سہارا نہیں ہے
تجھے خلوتوں میں سدا یاد رکھا
تِری یاد سے دل کو آباد رکھا
کسی اور کو بھی پکارا نہیں ہے
ہیں نینوں سے میرے سدا نیر بہتے
زباں تھک گئی ہے سجن کہتے کہتے
تو کیوں مِرے ہاں جلوہ آرا نہیں ہے
جہاں مجھ پہ پیہم ستم ڈھا رہا ہے
مسلسل میرے پاس غم آ رہا ہے
مجھے تو نے بے موت مارا نہیں ہے!
بتیاں پیار کی
بالی جو ہے عمریا
قاتل جو ہے نظریا
میں جو رہا پریشاں
تم نے نہ لی خبریا
تم کو ہی میت سمجھا
تم کو ہی پیت جانا
ہو تم ہی میری راحت
وابستہ تم سے اُلفت
ہر دم یہی دعا ہے
قائم رہے یہ چاہت
تم سے ہے میرا جیون
ورنہ ہے سب اجیرن
تم میں وفا کہاں ہے
ہر دم جفا جواں ہے
تم سنگدل بہت ہو
جو ہر طرح عیاں ہے
محبوب خوبصورت
میری خطا محبت
حیرت کدہ
نہیں مجھ کو معلوم مِلّت کی نسبت
کسی آدمی کی جِبلّت کی نسبت
نہ غایت کی بابت نہ عِلّت کی نسبت
مِرے ذہن میں ہیں گماں ہر طرح کے
زمانے کے دیکھے سماں ہر طرح کے
نگاہوں سے گزرے جہاں ہر طرح کے
عجب راہ پر یہ زمانہ رواں ہے
نہ دیکھا کسی میں وفا کا نشاں ہے
نہ مہر و محبت کا جذبہ تپاں ہے
تکمیل شوق
’’پٹولہ‘‘ سے اک دن میں لاؤں گا تحفہ
بصد شوق گھر میں سجاؤں گا تحفہ
شب و روز پھر اس کی رکشا کروں گا
ہوا جس قدر اس کی سیوا کروں گا
سدا پیار اس کو میں کرتا رہوں گا
اسے دیکھ کر جیتا مرتا رہوں گا
اُسی کی رفاقت میں گزرے گا جیون
اُسی کی محبت میں سنورے گا جیون
وہی تو مِرے من کی سوغات ہو گی
وہی میرے ارماں کی بارات ہو گی
وہ دے گی یقیناً جوابِ محبت
کرے گی مکمل کتابِ محبت
نگارِ کشمیر
’’پٹولہ‘‘ میں جو رہتی ہے
مِرے من کی وہ شہزادی
اسے میں پیار کرتا ہوں
اسی کے دم سے جیتا ہوں
اسی دلبر پہ مرتا ہوں
وہی کرتی ہے دلداری
کہ جس سے دور ہوتی ہے
غم و حسرت کی بیماری
اُسے میں دیکھنا چاہوں
وہی ہے میری کمزوری
سدا وہ یاد آتی ہے
مِرے پہلو میں رہتی ہے
’’پٹولہ‘‘ کی مہارانی
مکالمہ
کون ہے جس سے تو کرتی ہے
ٹیلی فون پہ اکثر باتیں
کس سے تیری دلداری ہے
کون ہے تجھ کو جان سے پیارا
کس کو تو نے دل دے ڈالا
دل تو ہے انمول خزانہ
اس دولت کا پاس نہیں کیا
میں کرتی ہوں جس سے باتیں
وہ ہے نور مِری آنکھوں کا
وہ مجھ کو ہے جان سے پیارا
جس کو میں نے دل دے ڈالا
دل انمول خزانہ تب ہے
جب یہ دان کسی کو کر دیں
میرا دل انمول ہے اب بھی
میری دولت میری چاہت
چاہت میرا دین دھرم ہے
چاہت میرا پریم پرم ہے
پیار کی بارش میں من بھیگا اور سکوں پھر پاس نہ آیا
کیسے بھلاؤں تجھ کو جاناں ہر دھڑکن میں تجھ کو پایا
تو ہے چنچل شوخ حسینہ تو میرے سپنوں کی رانی
تو نے کی ہیں خوب جفائیں میں نے پھر بھی پیار نبھایا
تو نے غم بخشے ہیں مجھ کو کیسے بھلا سکتا ہوں تجھ کو
تیرے پیار میں بے کل ٹھہرا ہر دم گیت وفا کا گایا
ساجن میں ممنون ہوں تیرا تو نے کیا کیا کرم کیے ہیں
تو نے مجھ کو چاہت بخشی تو نے پیار کا ڈھنگ سکھایا
گو تو میرے پاس نہیں ہے گو میرا احساس نہیں ہے
ناقدؔ اپنے دل میں ہر دم خوب ہے پیار کا روگ لگایا
میں جدائی میں تیری تڑپتا رہا گیت لکھتا رہا
زندگی بھر تجھے پیار کرتا رہا گیت لکھتا رہا
سوزِ ہجراں میں جلتی رہی میری جاں کب ملا مہرباں
پاس اپنے تھیں میں بلاتا رہا گیت لکھتا رہا
ہر قدم پر ملیں مجھ کو ناکامیاں اور محرومیاں
تیری چاہت میں مَیں یونہی رُسوا رہا گیت لکھتا رہا
غم پہ غم روز و شب ہر کسی نے دیئے پھر بھی ہنس کر سہے
ضبط اپنے کو میں آزماتا رہا گیت لکھتا رہا
کی نہ ناقدؔ نے تیری شکایت کبھی اے مِری جل پری
میرے ہونٹوں پہ تیرا ہی چرچا رہا گیت لکھتا رہا
بے حد ظالم ہے تنہائی
تیری یاد میں نیند نہ آئی
قدر نہ کی میری اُلفت کی
ظالم نکلا تو ہرجائی
میں دُکھیارا سوچ رہا ہوں
کیوں تھی تجھ سے آنکھ لڑائی
میرے پیار کو کب سمجھو گے
کب ہو گی میری شنوائی
جب بھی تیرا ذکر ہوا ہے
آنکھ تِرے غم میں بھر آئی
دھڑکن تیرے نغمے گائے
جب سے پیار کی جوت جگائی
ہجر میں ایسا روگ لگا ہے
میں لگتا ہوں اک سودائی
کاش کسی دن ہو وہ پوری
دل نے جو ہے آس لگائی
ناقدؔ اور ہے کیا اس دل میں
ہر دم ان کی یاد سمائی
رہا جاہلوں کے میں زیرِ قیادت
بنی زندگی میری خاطر اذیت
مخالف رہی ہے سدا سے مشیت
مگر صبر مجھ کو رہا ہے ودیعت
گراں میری ہر دم رہی ہے طبیعت
نہ کر مجھ کو ناصح کوئی اب نصیحت
رہے زندگی میں گریزاں اسی سے
رکھو اپنے کاندھے پہ ناقدؔ کی میت
رستے ہیں مسدود ہمارے
حاکم ہیں نمرود ہمارے
نزع کے عالم میں زندہ ہیں
بچے نومولود ہمارے
شرک ہمارا دھرم ہے ، دیں ہے
لاکھوں ہیں معبود ہمارے
محرومی نے ہم کو مارا
کتنے تھے مقصود ہمارے
ہم سے کیا تسخیر ہو عالم
جذبے ہیں نابود ہمارے
ناقدؔ بہتر کیا سوچیں گے
ذہن جو ہیں محدود ہمارے
گیت
تِرے پیار کو ہم ترستے رہے ہیں
تِرے عشق میں ہم تڑپتے رہے ہیں
سدا ہم نے گرچہ وفائیں ہی کی ہیں
مگر تو نے ہم سے جفائیں ہی کی ہیں
تِرے ہجر میں ہم تو جلتے رہے ہیں
تِری یاد ہی ہم کو آتی رہی ہے
تِرے گیت کوئل بھی گاتی رہی ہے
سو نینوں سے ساون برستے رہے ہیں
اگر بخش دیتا تو قربت کے لمحے
تو مل جاتے ہم کو بھی راحت کے لمحے
یونہی دل میں ارماں مچلتے رہے ہیں
نہ کرتے اگر پیار تو غم نہ ہوتے
کہ سکھ بھی ہمارے کبھی کم نہ ہوتے
یہی سوچ کر آہیں بھرتے رہے ہیں
دَین
نہ میں نے اس کو کبھی بلایا
نہ وہ کبھی میرے پاس آیا
میں اس کو بالکل سمجھ نہ پایا
وہ میرے جیون میں روگ لایا
میں اس کو کیسے بھلا سکوں گا
یہ روگ دل کا مٹا سکوں گا
یہ دل کی دھرتی اُداس ہے اب
وہ دور ہے اب نہ پاس ہے اب
مجھے جدائی نہ راس ہے اب
شدید تر من کی پیاس ہے اب
یہ زخم دل کا ہوا ہے گہرا
ہے میرے دل پہ غموں کا پہرا
مجھے ہے اس کی وفا کی حسرت
جفائیں جس کی بنیں ہیں فطرت
اجڑ گئی جس سے میری الفت
مِرا مقدر یہ میری قسمت
بیاں ہوئی ہے مِری زبانی
مِری شکایت مِری کہانی
نہ کوئی آئے نہ کوئی جائے
اکیلا پن روز و شب ستائے
یہ دل کبھی بھی نہ چین پائے
یہ خود بھی روئے مجھے رُلائے
مجھے خدا نے جنون بخشا
اُسے ہے لطف و سکون بخشا
واہ رِی دنیا
میں پھرا ہوں دشت و بن قریہ بہ قریہ کُو بہ کُو
دل کو بہلاتا نہیں لیکن جہانِ رنگ و بُو
یہ تصنع کا جہاں یہ بارشیں آلام کی
داستانیں بن گئی ہیں بندۂ بدنام کی
میں گیا ہوں جس جگہ دیکھے ہیں چکر نوٹ کے
کچھ تھے منصب کے بھکاری کچھ تھے سائل ووٹ کے
رو رہا ہے ہر کوئی اپنے لیے اب جاوداں
کوئی روتا ہے کسی کے واسطے ہر دم یہاں
اس قدر چھائی ہوئی ہے آج ہر سُو بے کسی
خون کے آنسو رُلا دیتی ہے ناقدؔ بے بسی
محبت
زباں پر ہمیشہ ہو وِردِ محبت
یہی نغمۂ جاں یہی روحِ فطرت
محبت کے دم سے معطر فضا ہے
کسی کے نظر میں یہ جامِ قضا ہے
محبت کو قدرت کی سوغات مانو
اسے کامران کی بارات جانو
محبت کا پرچار کرتے رہو تم
اسی سے سدا پیار کرتے رہو تم
فلاح و ترقی کی ضامن ہے اُلفت
اسی میں ہے راحت اسی میں ہے عشرت
پریم کہانی
سن رے میرے دلبر جانی
میرے مَن کی پریم کہانی
تو نے میرا چین ہے چھینا
آج ہوا ہے دُوبھر جینا
درماندہ آشفتہ ہوں
قصہ اک ناپختہ ہوں
کرب سے میں دوچار ہوا ہوں
عشق میں یوں بیمار ہوا ہوں
لیکن یہ بھی ہے سچائی
تیرے باعث دنیا میری
دلکش اور حسین ہوئی ہے
من دھرتی رنگین ہوئی ہے
گو ہے کچھ کچھ جور و جفا بھی
خوب ہے لیکن حُسن و ادا بھی
لیکن کچھ کچھ عیاری ہے
مجھ میں پیار کی بیماری ہے
ہیں تیرے اوصاف ضروری
چاہت ہے میری مجبوری
ہم دونوں نے ساتھ نبھایا
لیکن قرب عمیق نہ پایا
تم سے نہیں ہے کوئی شکوہ
جو تقدیر میں تھا سو پایا
قدرت نے غم بخشے مجھ کو
حُسن عطا فرمایا تجھ کو
کاش رہے یہ جذبہ قائم
ہو یہ ہماری اُلفت دائم
جانِ وفا ہے دنیا فانی
لیکن عشق تو ہے لافانی
اس کی کیفیت یزدانی
دنیا بھر نے بات یہ مانی
پرنٹ
یہ حوا کی بیٹی کو کیا ہو گیا ہے
یہ آدم کے بیٹے کو کیا ہو گیا ہے
کہ یہ جنس کے سیل میں بہہ گئے ہیں
انھیں روگ کیسا برا لگ گیا ہے
تھی کچھ اور ہی وجہِ تخلیق ان کی
یہ نادان کس راہ پر چل پڑے ہیں
فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا
شرف آدمیت کا بخشا گیا تھا
مگر یہ زمانے میں مذموم ٹھہرے
کہ ذلت ہے ان کے مقدر میں شامل
جہاں کی امامت ملی تھی بشر کو
مگر اب یہ اس کے بھی قابل نہیں
یہ انسانیت کے شرف سے ہے عاری
ہیں اب لائقِ شرم حالات ان کے
خدایا یہ کیوں ننگِ انسانیت ہیں
گھڑی دو گھڑی کا ہوں مہمان مجھ سے محبت نہ کر
رہے یاد جس کی کوئی میری ایسی ضیافت نہ کر
سدا چاہتوں نے مجھے غم دئیے ہیں پریشاں کیا
بنے روگ جیون کا جو میری خاطر وہ الفت نہ کر
بہت چل بسے الفتوں کے سفر میں میرے ہمسفر
یہ ہستی اگر تجھ کو پیاری ہے پیارے تو چاہت نہ کر
مسرت کے لمحے سکنیت کی گھڑیاں مجھے بخش دے
کرم تیرا ہو گا کہ جیون کو میرے قیامت نہ کر
جو رُسوا کرے اور بدنام کر دے جہاں میں تجھے
نصیحت ہے ناقدؔ کوئی ایسی ہرگز شرارت نہ کر
مجھے بخش دو پیار کا کوئی پیکج
سو دل کو میرے بھی ملے پھر سے کوریج
طلب ہے مجھے اب کے تیری وفا کی
بہت میں نے کر لی وفا کی سٹوریج
فراواں مجھے غم عطا ہو گئے ہیں
سو کیسے کروں اب کے میں ان کو مینیج
خوشی کی کوئی انتہا بھی نہیں تھی
ملا جب میری جاں مجھے تیرا میسیج
تمھیں اس کی پرواہ بھی ہرگز نہیں ہے
ستم سے تیرے دل ہوا کتنا ڈیمیج
میں ناقدؔ تیرا ہوں تیرا ہی رہوں گا
نہیں فکر ہو یا نہ ہو تجھ سے میریج
ساون گزرا نیر کی صورت
سانس رواں ہے تیر کی صورت
فن میں اک پہچان ہے میری
میں جگ میں ہوں میر کی صورت
مجھ کو سمجھیں چاہنے والے
مست قلندر پیر کی صورت
ہے دن رات یہ کاوش میری
دیکھوں اپنی ہیر کی صورت
لمحہ لمحہ حلقہ ناقدؔ
جیون ہے زنجیر کی صورت
تیری خوشبو میرے اندر
کر گئی مجھ کو مست قلندر
مجھ پہ ہے احسان اُسی کا
بخشا جس نے سوچ سمندر
مجھ کو پل بھر چین کہاں ہے
جب سے اجڑا من کا مندر
سب کی ہنسی جو شخص اڑائے
وہ جوکر ہے یا پھر بندر
میں بے حال ہوا ہوں بے حد
ناقدؔ میرے غم کچھ کم کر
چاہے درشن
من کا درپن
تجھ پہ وارا
میں نے تن من
مجھ سے مت کر
اب کے ان بن
دل کی دھرتی
روشن روشن
روح بھی تیری
تیرا ہی تن
تجھ سے ناقدؔ
پختہ بندھن
صرف تُو
مِری یادوں میں باتوں میں
دنوں میں نیز راتوں میں
فقط تُو ہے فقط تُو ہے
مِری غزلوں میں نظموں میں
مِرے نوحوں میں نغموں میں
فقط تُو ہے فقط تُو ہے
مِرا جیون سہارا بھی
مِرا دلکش نظارا بھی
فقط تُو ہے فقط تُو ہے
جسے اِس دل نے چاہا ہے
تصور نے تراشا ہے
فقط تُو ہے فقط تُو ہے
جسے پا کر ہے سب پایا
جسے کھو کر بہت رویا
فقط تُو ہے فقط تُو ہے
مجھے جس نے کیا پاگل
مجھے جس نے کیا بے کل
فقط تُو ہے فقط تُو ہے
کیا جس نے ستم ہر دم
دیا جس نے ہے غم ہر دم
فقط تُو ہے فقط تُو ہے
خاتونِ خانہ سے
تجھے کاش آ جائے شوہر پرستی
سنور جائے گی کچھ نہ کچھ میری ہستی
اگر پاس ہو جائے تجھ کو وفا کا
رہے گا نہ یہ طرز تیری جفا کا
تو گھر اپنا پھر خُلد ساماں بنے گا
خلوص و کرم بھی فراواں رہے گا
کبھی نفرتیں پھر پِنپنے نہ پائیں
سکوں سے مزیّن ہوں گھر کی فضائیں
اگر گھر میں اُلفت کے فیضان ہوں گے
تو پورے تِرے میرے ارمان ہوں گے
چڑھیں گے محبت میں پروان بچے
بنیں گے وفادار انسان بچے
جو تو پوری کر دے تمنا یہ میری
بدل جائے گی پھر تو دنیا یہ میری
اقبال کا شاہین
زمیں میں ہے نہ آسمانوں میں ہے
جو جذبہ وَدیعت جوانوں میں ہے
نہ تھک کر زمیں پر گرے گا کبھی
کہ شاہین اونچی اڑانوں میں ہے
ہے پرواز پیہم تو دُھن بھی جواں
رواں جوش اس کا زمانوں میں ہے
شب و روز ہے محوِ پرواز یہ
سکوں کب اسے آشیانوں میں ہے
جہاں اس کی تسخیر کی رزمگاہ
سدا اس کا مسکن چٹانوں میں ہے
تشنگی
پیاسی مِری نگاہیں
پیاسے ہیں ہونٹ میرے
من بھی مِرا ہے پیاسا
پیاسی ہیں میری صبحیں
پیاسی ہیں میری شامیں
دن بھی ہیں میرے پیاسے
راتیں بھی میری پیاسی
میں ہوں ازل کا پیاسا
پیاسی ہے میری آشا
جنموں کی پیاس مجھ میں
جینے کی آس مجھ میں
کیوں ہے میرا مقدر
ہر وقت کی اُداسی
عنوانِ زندگی ہے
ہوں غم نگر کا باسی
ستم ترکِ ستم بھی
کب سے میں جانِ جاناں تیرے شہر میں
رہ رہا ہوں کسی اجنبی کی طرح
بچہ بچہ تیرے شہرِ پُر شور کا
ہاتھ میں سنگ تھامے ہے میرے لیے
اور میں ہوں کہ گم سُم کسی سوچ میں
منتظر ہے نظر میری تیرے لیے
سامنے آہ تُو بھی نظر کے نہیں
تیرے ہاتھوں میں اب کوئی پتھر نہیں ہے
بڑے سنگدل ہو بڑے بے وفا ہو
میں کہتا ہوں پھر بھی مِرے دلربا ہو
لبوں پہ تبسم بھلا کیسے مچلے
کہ جب ہر ستم اپنے اوپر رَوا ہو
تمھیں جانِ جاں میں سمجھنے نہ پایا
مِری سوچ سے جیسے تم ماورا ہو
اسی کو میں غمخوار سمجھوں گا اپنا
مِری ساتھ جو رنج و غم میں رہا ہو
سفینہ میرا ڈوبنے سے بچایا
مجھے یاد ہر دم مِرے ناخدا ہو
کسی سے بھی تیری شکایت نہیں کی
گنہگار ٹھہروں اگر کچھ کہا ہو
پتہ کچھ کرو اپنے آشُفتہ سر کا
وہ کوئے بُتاں میں مرا نہ پڑا ہو
میں ٹھہروں گا تا حشر ممنون تیرا
اگر قرب کا ایک لمحہ عطا ہو
یہ کوشش رہی ہے مِری زندگی بھر
مِرا یار مجھ سے نہ ہرگز خفا ہو
گرانی سی ہوتی ہے ناقدؔ پہ طاری
کسی کا اگر یار اُس سے جدا ہو
مِرے گیتوں کی رانی تو
مِری چاہت نشانی تو
تِرے دم سے میرا جیون
مِری دلکش جوانی تو
میں دیوانہ ہوں تیرا ہی
فقط مِری دیوانی تو
تو ہی تو ہے غزل میری
ہے میری ہر کہانی تو
ہے تو ہی خامشی میری
زبان و بے زبانی تو
سخن منسوب ہے تجھ سے
قلم کی ہے روانی تو
تو ناقدؔ میری چاہت ہے
ہے میری زندگانی تو
تیرا ہجر بے تاب رکھتا ہے کیوں پھر
میرا سوز سے من سُلگتا ہے کیوں پھر
اگر تجھ سے مجھ کو محبت نہیں ہے
تیری یاد میں دل تڑپتا ہے کیوں پھر
نہیں وَصل کی تو نے سوغات بخشی
تیرے قرب کو جی ترستا ہے کیوں پھر
اگر ہے میری واجبی سی محبت
تو چاہت کا غم مجھ کو ڈستا ہے کیوں پھر
اگر درد کا دل یہ رَسیا رہا ہے
تو ناقدؔ خوشی کو مچلتا ہے کیوں پھر
سب سے بہتر
ہے جو کمتر
من کیا شئے ہے
من ہے مندر
مت کر اپنا
سب کا غم کر
میری تو ہے
سوچ سمندر
وہ کیا سمجھے
جو ہے پتھر
آج کا انساں
جیسے بندر
رہنا ہے بس
تم نے مٹ کر
ناقدؔ کیا ہے
مست قلندر
پیام اپنا فقط ہے اُلفت
اسے نہیں رنگ و خوں سے نسبت
تیری جفا میں نہیں اذیت
کہ تیری فرقت ہے اک عنایت
میں شکر تیرا ادا کروں گا
مجھے جو حاصل ہو تیری قربت
میں اپنی دنیا کروں گا پیدا
کرے نہ کوئی میری حمایت
جہاں میں ناقدؔ وہ سرخرو ہے
ہے کام کی جس نے سمجھی عظمت
فیضِ ادب
کیا وقف بہرِ ادب میں نے جیون
ہوئی زیست سوچوں میں اپنی اجیرن
جلایا ہے بجلی نے میرا نشیمن
پڑا پالا ہر وقت بربادیوں سے
مجھے غم ملے اپنی محرومیوں سے
میں خائف نہیں اپنی ناکامیوں سے
مجھے ایک منزل کی نت جستجو ہے
یہی زندگی ہے یہی آرزو ہے
سماں کچھ بھیانک مِرے چار سُو ہے
مجھے بے کسی نے کہیں کا نہ چھوڑا
جہاں میں مجھے کر دیا اس نے رُسوا
نہ پل بھر کو لطف و سکوں میں نے پایا
پِیتم سے
من دھرتی کو پیاس ہے تیری
ساجن ہر دم آس ہے تیری
تجھ بن جیون اپنا برزخ
دنیا لگتی ہے اک دوزخ
تجھ بن وقت کٹے اب ایسے
پل صدیوں میں گزرے جیسے
سانس بھی رک رک کے آتا ہے
پل پل مجھ کو تڑپاتا ہے
تو میرے سپنوں میں آئی
تو نے میری نیند چرائی
ہرگز نہ بن تو ہرجائی
ہو گی چاہت میں رسوائی
تیرا آ جانا راحت ہے
دل کی خاطر اک عشرت ہے
تو نے کیسی آگ لگائی
جو اشکوں سے بجھ نہ پائی
ناقدؔ ہے اِک پریم پجاری
تو ہے اس کے پیار کی دیوی
کوئی تو میرا ساتھ دے
اندھیوں کے شور میں
بے حسی کے زور میں
کوئی تو میرا ساتھ دے
چلچلاتی دھوپ میں
بے کسی کے رُوپ میں
کوئی تو میرا ساتھ دے
تِیرگی کے جبر میں
زندگی کی قبر میں
کوئی تو میرا ساتھ دے
مفلسی کے قہر میں
نفرتوں کی لہر میں
کوئی تو میرا ساتھ دے
کٹھور دل سماج میں
منافقت کے راج میں
کوئی تو میرا ساتھ دے
حیات کے جھمیلوں میں
مصیبتوں کے میلوں میں
کوئی تو میرا ساتھ دے
غرض کے اس جہان میں
غموں کے درمیان میں
کوئی تو میرا ساتھ دے
شوقِ دو طرفہ
رہے پاس میرے حسینوں کا جھرمٹ
میں ہر وقت ان کی اداؤں سے کھیلوں
جو مجھ سے کبھی ماہ جبیں روٹھ جائیں
منایا کروں ان کو میں پیار سے
میں ہر دم اٹھاتا رہوں ناز اُن کے
کبھی روٹھ جاؤں جو میں مہ وشوں سے
محبت کے انداز میں وہ منائیں
بڑھے شوق دونوں طرف سے برابر
تقاضا
خواب میں اکثر وہ آتی ہے
بات یہ مجھ سے کہہ جاتی ہے
جاناں لوٹ کے کب آؤ گے
کب تک مجھ کو تڑپاؤ گے
تم بن میں بے چین بہت ہوں
تکمیل حسرت
نہیں میری قسمت میں دنیا کی حوریں
مجھے مولا بخشے گا عُقبیٰ میں حوریں
جہاں میں ہوں میں مہ جبینوں کو ترسا
یہ حسرت مِری ہو گی عُقبیٰ میں پوری
مجھے جانِ جاں بس وفا چاہیے
تِری شفقتِ بے بہا چاہیے
وفا تم سے ہوتی نہیں ہے اگر
مجھے پھر مِری جاں جفا چاہیے
مجھے اور کوئی بھی خواہش نہیں
تیرے پیار کی انتہا چاہیے
خلوص و مروت مِرے پاس ہے
تجھے ہمنشیں اور کیا چاہیے
جو ناقدؔ ہو دمساز ہر حال میں
مجھے ایسا اک ہمنوا چاہیے
کیسے تم سے پیت نبھائیں ؟
اپنا تجھ کو میت بنائیں
چین سکوں سے من عاری ہے
کیا ایسے میں گیت سنائیں ؟
پیار کی بازی کب مشکل ہے؟
دیکھو تم کو جیت دکھائیں
جو غافل ہیں اس منزل سے
ان کو پیار کی رِیت سکھائیں
ناقدؔ شاید غم ہلکے ہوں
آؤ سُر سنگیت بجائیں
تیرے ہجر نے مجھ کو پیہم رُلایا
مجھے اس نے ہر پل ہے بے حد ستایا
میری بات شب کو نہ تجھ سے ہوئی ہے
اسی فکر نے رات بھر ہے جگایا
مدد کی مجھے جب ضرورت ہوئی ہے
کسی کو نہ جُز تیرے میں نے بلایا
تیری یاد نے ایسا بے کل کیا ہے
سو خود کو بھی اب کے ہے میں نے بھلایا
جو ناقدؔ نہ دیکھا کبھی زندگی میں
تیرے پیار نے مجھ کو وہ دن دکھایا
نیا اب کوئی تجربہ نہ رہا
سوا موت کے راستہ نہ رہا
من و تُو میں کوئی نہیں فرق اب
سو اب درمیاں فاصلہ نہ رہا
سبھی رابطے منقطع ہو گئے
کوئی اُن سے اب رابطہ نہ رہا
بلاؤں اُسے کیسے میں پیار سے
میرا اُس سے اب واسطہ نہ رہا
میری آتما کو جو تسکین دے
کوئی ایسا اب سلسلہ نہ رہا
وہ ناقدؔ کو اب جانتا ہی نہیں
تعلق کوئی سابقہ نہ رہا
بھلا زندگی میں سکوں کیسے پاتے؟
کٹی عمر سانسوں کی قیمت چکاتے
اگر بخشتا ہم کو لمحے سکوں کے
تو ہم زندگی بھر تیرے گیت گاتے
علالت بدل جاتی میری شِفا میں
اگر جانِ جاں تم مِرے پاس آتے
رہے خود ہی محزون ہم زندگی بھر
کسی پہ ستم ہم بھلا کیسے ڈھاتے
اگر اِس کی قسمت میں خوشیاں نہیں تھیں
سو تحفے میں ناقدؔ کے پتھر ہی لاتے
نصائح
موج اڑانا کھانا پینا
اس کا نام نہیں ہے جینا
اپنے زخم تو سب سیتے ہیں
زخم اوروں کے بھی تم سینا
تم ہر اک کی خدمت کرنا
تم سب سے ہی الفت کرنا
من مستی میں گم سُم رہنا
کب ہے یہ جیون کا کہنا
کب زیبا ہے غصہ کرنا
جو کہنا ہو پیار سے کہنا
پریم پرم کو رِیت بنایا
پیت کو اپنا میت بنانا
پیار وفا کو تم اپنانا
ہر دم اس کے ہی گن گانا
دل نہ دُکھانا بھولے سے بھی
پیار سے پیش سبھی سے آنا
دنیا ہے اخلاص پہ قائم
مخلص تم بھی رہنا دائم
خراجِ حُسن
انھیں حُسنِ صورت عطا جو ہوا ہے
ہمارے لیے امتحاں بن گیا ہے
مگر ہم ہیں کچھ دان کرنے سے قاصر
سو وہ بھی ہیں احسان کرنے سے قاصر
محبت تو انمول ہے اک خزانہ
عوض اس کا کیوں مانگتا ہے زمانہ
ہوئی ہیں عطا ہم کو مجبوریاں بھی
صنم ہم کو دیتا ہے مہجوریاں بھی
نہ آئے سمجھ کیسے بیتے گا جیون
کشا کش میں یوں کیسے سنورے گا جیون
درشن دولت
مِرا تم سے ملنا ہے بے حد ضروری
سنا ہے کہ ہے تیرا جلوہ بھی طوری
ملے تیرے درشن سے جوبن جوانی
اگرچہ تِرا وِرد ہے لن ترانی
تجھے دیکھ کر ہم بھی جیتے رہیں گے
تِرے جلوے نینوں میں بھرتے رہیں گے
اگر تیرا دیدار حاصل رہے گا
تو دل عشق و الفت پہ مائل رہے گا
کبھی ہم کو خود سے نہ محروم کرنا
سو ایسا ہمارا نہ مقسوم کرنا
قربت کا قرض
سویرے سویرے
پری منہ اندھیرے
مِرے پاس آئی تھی خوشبو لگا کر
وہ زُلفیں سنوارے
حسیں رُخ نکھارے
رہی دیکھتی دیر تک میری جانب
ذرا دیر میں نے بھی حیرت سے دیکھا
گلے مل گئے دونوں صدیوں کے بچھڑے
لیے میں نے بوسے کئی بے خودی میں
کیا پیار اُس نے بھی مجھ سے لپٹ کر
رہی دیر تک ساتھ میرے وہ لیٹی
مِرے جسم کے ساتھ لپٹی رہی وہ
بجھاتی رہی بھوک اور پیاس اپنی
سناتی رہی پیار کے وہ فسانے
نئے اور پرانے
نہیں بھولنے والی اس کی وہ قربت
وجدِ تصور
ساقی نے آواز مجھے دی
تیرے لیے اِک جام دھرا ہے
میں جب پہنچا مے خانے میں
چشمِ تصور نے یہ دیکھا
جام بھی تیرا عکس لیے تھا
تیرے نشے میں جھوم رہے تھے
ساقی و صہبا ساغر و مینا
سب تھے تیری طلب میں رقصاں
تصور میں میرے مِرا مہ جبیں ہے
وہی ہے مسیحا وہی دلنشیں ہے
مہک سے مِرے دل کو جس نے نوازا
گل و لالہ و عنبر و یاسمیں ہے
نہ ہو پایا جب سے ملن تیرا میرا
ہے بے کل مِری جاں مِرا دل حزیں ہے
بھلا کیسے اعراض کر پاؤں تجھ سے
تِری ذات میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے
نہ تو بھی بھلا پائے گا مجھ کو ناقدؔ
مجھے تیری چاہت پہ کامل یقیں ہے
بزم میں جب بھی ساغر اُچھالا گیا
غم کو راحت کے سانچے میں ڈھالا گیا
مِرے ساقی ابھی سخت پیاسا تھا میں
میکدے سے مجھے کیوں نکالا گیا؟
کوئی تقصیر میری بتائے مجھے
کیوں سرِ میکدہ روند ڈالا گیا؟
تجھ میں پہلی سی وہ جاذبیت نہیں
سارا انداز تیرا نرالا گیا
کوئی پی کر جو بہکا سرِ میکدہ
پھر نہ ناقدؔ کسی سے سنبھالا گیا
ہمیں آزمانے کی کوشش ہے جاری
مسلسل ستانے کی کوشش ہے جاری
اثر غم کا ان کی طبیعت پہ طاری
انھیں اب ہنسانے کی کوشش ہے جاری
بہت دیر پالا زمانے نے ہم کو
مگر اب مٹانے کی کوشش ہے جاری
جو ہے امرِ حق وہ نہ پھیلے جہاں میں
یہی اب زمانے کی کوشش ہے جاری
بڑی دیر سے وہ سمائے ہیں دل میں
سو اب اٹھ کے جانے کی کوشش ہے جاری
کسی کا بھی جو عمر بھر ہو نہ پایا
اسے جاں بنانے کی کوشش ہے جاری
لکھے ہیں جو ان کی محبت میں نغمے
انھیں اب سنانے کی کوشش ہے جاری
جو احسان فرمائے ہیں اس نے مجھ پر
انھیں اب جتانے کی کوشش ہے جاری
مِری ذات سے تم ہو بے وجہ نالاں
بہانے بنانے کی کوشش ہے جاری
بہت شاعری ہم نے کر لی ہے ناقدؔ
مگر اب فسانے کی کوشش ہے جاری
کسی کی نہیں راس آئی غلامی
سدا دل پہ اپنی رہی حکمرانی
کبھی ساتھ اس نے نہیں چھوڑا میرا
میرے سنگ ہر دم رہی سر گرانی
کوئی بات میری سے نالاں نہ ہو گا
ودیعت ہوئی ہے مجھے خوش کلامی
میں نازاں رہوں جس کے باعث ہمیشہ
مجھے بخش دو کوئی ایسی نشانی
یقینا بہت محوِ حیرت رہو گے
جو دیکھو گے میرے قلم کی روانی
مِری جنگ ہے ظلمتوں سے ہی ناقدؔ
کہ میں بھی تو ہوں امن کا اک پیامی
مِرا سانس لینا مشقت سے بڑھ کر
مِرا زندہ رہنا قیامت سے بڑھ کر
مِری جان سمجھو اسے فضلِ ربی
نہیں کوئی نعمت محبت سے بڑھ کر
خلوص و مروت ہی دولت بڑی ہے
یہی چیز ہے ہر عبادت سے بڑھ کر
تِرے وصل کو میں ترستا رہا ہوں
ہے قربت تیری ہر ضیافت سے بڑھ کر
نہ سمجھو میرے شعر کو عامیانہ
مِرا ہر سخن ہے کرامت سے بڑھ کر
وہی جانتے ہیں جنھیں ہے مہیا
نہیں چیز کوئی فراست سے بڑھ کر
مشیت سے ہے دان مجھ کو ازل سے
نہیں ہے کوئی شئے جسارت سے بڑھ کر
یہی حشر کے روز محسوس ہو گا
نہیں کوئی حاجت شفاعت سے بڑھ کر
سبق ایک یہ بھی پڑھا زندگی میں
کہ ہے مصلحت بھی حقیقت سے بڑھ کر
اگر یہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
نہیں وصف کوئی بھی غیرت سے بڑھ کر
بہت احمقوں سے بھی پالا پڑا ہے
نہیں کوئی ذلت حماقت سے بڑھ کر
یہ مانا کہ ہر چیز کا اِک اثر ہے
نہیں کوئی جادو صباحت سے بڑھ کر
جو ہے مستحق تو اسے دان کر دے
تِرے پاس جو کچھ ہے حاجت سے بڑھ کر
جسے چاہے مالک عطا اُس کو کر دے
نہیں کوئی منصب امامت سے بڑھ کر
بہت خامیاں گرچہ کردار کی ہیں
نہیں عیب کوئی جہالت سے بڑھ کر
یہ ہے واقعہ کوئی مانے نہ مانے
نہیں کوئی خوبی جلالت سے بڑھ کر
بہت حسن والے ہیں دیکھے جہاں میں
کوئی بھی نہیں تیری صورت سے بڑھ کر
فصاحت کے پہلے بھی تھے کچھ فسانے
نہیں کوئی میری بلاغت سے بڑھ کر
ہیں پڑھنے کو گرچہ بہت سی کتابیں
نہیں کچھ سعادت تلاوت سے بڑھ کر
تِرے ہر کرم کا ہوں ممنون ناقدؔ
تِری ہر جفا ہے عنایت سے بڑھ کر
فصلِ بہار
جب فصل بہار کی آتی ہے
تو رنگ نئے دکھلاتی ہے
پھر گیت پون بھی گاتی ہے
بلبل کا دل بہلاتی ہے
میری آتما کو سہلاتی ہے
میرے سوز کو بھی سلگاتی ہے
یوں اَمرت رَس برساتی ہے
میرے من مندر کو بھاتی ہے
شاخوں سے پھول نکلتے ہیں
اشجار بھی رنگ بدلتے ہیں
پھر لوگ چمن کو چلتے ہیں
آلام کے سائے ڈھلتے ہیں
سینے میں گیت مچلتے ہیں
ہم خستہ حال سنبھلتے ہیں
فیضِ اُلفت
تِرے حسن میں بجلیاں میں نے پائیں
تِری بات میں تلخیاں میں نے پائیں
سجن تجھ میں ہر اک ادا میں نے پائی
جفا میں نے پائی وفا میں نے پائی
تجھی میں مجھے سب سماں مل گئے ہیں
محبت کے سارے نشاں مل گئے ہیں
اِسی واسطے پیار تجھ سے ہوا ہے
ملے ہیں اَلم اور سکوں کھو گیا ہے
تیرے پیار میں ہجر کو پا لیا ہے
اسی حال میں موت نے آ لیا ہے
بہ ایں حال الفت فسانہ بنی ہے
زمانے میں چاہت یگانہ بنی ہے
فسانے سے لوگوں نے پائی ہے راحت
جہاں میں ہوئی عام پھر جنسِ الفت
محبت کے دم سے زمانہ چلا ہے
خدا کا یہ سب کارخانہ چلا ہے
بپتا
حُسن کی دیوی یاد آتی ہے
دل میں ہلچل مچ جاتی ہے
پیار اس کا انمول نگینہ
بخشا تھا جیون کا قرینہ
جس کے وَصل نے راحت بخشی
اِک بے اَنت محبت بخشی
یہ سچ ہے اس کو نہیں پایا
من کو چاہت روگ لگایا
اس کی یادیں آج بھی دل میں
اس کی باتیں آج بھی دل میں
یادوں کا اِک رقص بپا ہے
جس کا نام خلوص وفا ہے
اس کے ہجر کا روگ ستائے
ہر پل میری نیند اڑائے
دُکھ افزوں ہیں سکھ کم پائے
دھڑکن اس کی یاد دلائے
ویراں میرے دل کی بستی
اس کی یادیں میری ہستی
چاہت ہے میری مجبوری
دل کی آس ہوئی نہ پوری
دُنیا والے پیار کے قاتل
کب یہ ظالم پیار کے قابل؟
یہ بیری ہیں پیار کے دشمن
میرے دل دلدار کے دشمن
یہ تو ہیں دوزخ کے قابل
یہ گستاخ فسادی جاہل
کہانی ہر زمانے کی
میرے جذبوں میں تو
اور خیالوں میں تو
میری سانسوں میں تو
اور نگاہوں میں تو
دل کی دھڑکن میں تو
تو ہی آتا ہے مجھ کو نظر چار سُو
میرے آنگن میں تو
اور نشیمن میں تو
گردشِ خوں میں تو
تو میری زندگی
تو میری آبرو
تو میری جستجو
پیار کی آبجُو
کوئی دنیا کا ڈر اور قسمت کا ڈر
میرے دل میں نہیں تیرے دل میں نہ ہو
تیری نظریں اٹھیں میرا آنگن سجے
ان کے جھکنے سے ہے چارسُو تیرگی
یہ فسانہ کوئی اجنبی تو نہیں
تجھ کو معلوم ہے مجھ کو معلوم ہے
افراتفری
ہرسُو خود کش بمب دھماکہ
ہر جانب ہے افراتفری
موت یہاں ہر گام پہ رقصاں
چین سکوں کا کال ہوا ہے
حال بہت بد حال ہوا ہے
بے چینی کی نذر ہے دھرتی
پُر آشوب سماں ہے سارا
جیتے جی اس غم نے مارا
ہر دم تیری یاد میں کھوؤں
عالم سوئے میں نہ سوؤں
دنیا حائل ہو جاتی ہے
بیج وفا کا جب بھی بوؤں
اور تو کوئی کام نہیں ہے
پل پل تیری یاد میں کھوؤں
میل دکھوں کا من درپن پر
کیسے میلے دل کو دھوؤں
ناقدؔ ہجر نے آنسوں بخشے
ان سے دامن دشت بھگوؤں
تجھ بن عید مناؤں کیسے؟
روٹھا من پرچاؤں کیسے؟
میرا دل ہے چین سے عاری
گیت خوشی کے گاؤں کیسے؟
مجھ کو بس اِک فکر یہی ہے
تجھ کو میت بناؤں کیسے؟
میں تو تیری یاد میں گم ہوں
کوئی بات بتاؤں کیسے؟
میں ہوں تیرے پیار میں بے کل
ناقدؔ حال سناؤں کیسے؟
سامنے اک محل ہے شیشوں کا
جس میں ہوتا ہے رقص پریوں کا
تیرا میرا ہوا ہے جو سنگم
ہے یہ سارا کمال راہوں کا
تیری میری شدید چاہت ہے
کام گو ہے یہ جان جوکھوں کا
مجھ کو جانا بُرا ہے دنیا نے
دوش سارا ہے اس میں آنکھوں کا
عارضی تو نہیں ہیں ہم ناقدؔ
ہے ہمارا فسانہ صدیوں کا
وفا کی پھر تلاش ہے
جگر بھی پاش پاش ہے
ہو ذکر کیا وجود کا؟
یہ چلتی پھرتی لاش ہے
تجھے ہے فکر پیار کی
مجھے غمِ معاش ہے
جہاں میں معتبر ہے وہ
یہاں جو بدقماش ہے
عجب ہے ناقدِؔ سخن
انوکھی بود و باش ہے
چہرے پہ میرے چھائی مدہم سی اک اداسی
رکھتی ہے مضمحل سا اپنی وفا شناسی
جگ کی قباحتوں سے مجھ کو بچا رہی ہے
اوڑھی ہوئی ہے میں نے تن من پہ ایک عبا سی
دنیا ہوئی ہے غافل احساس تک نہیں ہے
یارب ہوئی مسلط کیسی یہ بدحواسی
تسکیں ہوئی ہے غارت بے کل ہوا ہوں ہر پل
طرزِ جہاں ہے ایسا آتی ہے اب حیا سی
تیری ادائیں ظالم جَوبن تیرا قیامت
تیری وفا بھی جاناں بالکل تیری جفا سی
آ جا قریب میرے اتنا نہ اب ستا تُو
تکتی ہے راہ تیری میری نگاہ پیاسی
میرا قصور غربت ہے جُرم آگہی بھی
لگتی ہے زندگی بھی مجھ کو عجب سزا سی
موسم کی شدتوں سے محفوظ مجھ کو رکھے
مطلوب مجھ کو ناقدؔ ایسی ہے اک رِدا سی
سوغات
معصوم بھی ہو چالاک بھی ہو
دلکش بھی ہو بے باک بھی ہو
مِری جان بھی ہو ارمان بھی ہو
میری خوشیوں کا سامان بھی ہو
میں تم سے محبت کرتا ہوں
تمھیں دیکھ کے جیتا مرتا ہوں
میرے جیون کی سوغات ہو تم
میری خوشیوں کی بارات ہو تم
سو ذکر عبادت ہے میری
دیدار ریاضت ہے میری
دیوانگی
ہے ناراض مجھ سے جو تو میری رانی
بناں تیرے پھیکی ہے میری کہانی
ہے ناراضی تیری ادا دلبرانہ
محبت ہے یا اک نیا ہے فسانہ
خفا ہونا بھی تو تِری اک ادا ہے
خود تو بتا یہ وفا ہے جفا ہے
ہے کھونا مِرا بھی تو نقصان تیرا
مِری آرزو تُو میں ارمان تیرا
کبھی بھول کر ایسی غلطی نہ کرنا
محبت میں جینا محبت میں مرنا
التماس
خفا تم ہوئے تھے کئی سال بیتے
یہی سال میرے ہیں بدحال بیتے
یہ ڈر ہے جدائی میں گزرے نہ جیون
جو باقی ہیں سانسیں نہ ہوں وہ اجیرن
اگر ہجر تیرا مسلسل رہے گا
تو گھائل مِرا دل بھی ہر پل رہے گا
قیامت مِری اب کے تنہائی میری
مِرا روگ بھی ہے یہ رُسوائی میری
مجھے ہجر سے اب بچا میرے مولا
نہ ہو جائے جیون سزا میرے مولا
قائد کے حضور
تِری بدولت وطن بنا ہے عظیم قائد
یہ پاک دھرتی خدا اسے وہ دوام بخشے
کہ تا قیامت رہے یہ باقی
سبق دیا ہے یقین محکم کا تو نے ہم کو
سکھایا ہے اتحاد و اخلاص تو نے ہم کو
ہو درس تنظیم کا عمل کا ابھی ہے اَزبَر
تیری بدولت جواں ہیں جُز بے اٹل ارادے
دعا ہے زندہ رہے پیام اور نام تیرا
غریقِ رحمت رہے سدا تُو
وصیت
عین ممکن ہے جیون وفا نہ کرے
تجھ کو تلقین ’’کاوش‘‘ کی کرتا ہوں میں
اسے تم پڑھانا لکھانا سکھانا
اسے ایک محبوب انساں بنانا
یہ جو تلخیاں دیکھتا میں رہا ہوں
انھیں یہ نہ دیکھے کہیں بھی نہ دیکھے
سخن میرا بھی تو ہے اولاد میری
میرے بعد تم اس کا احساس رکھنا
میرے بعد ان کو نہ تکلیف پہنچے
انھیں ہر مصیبت سے تم دور رکھنا
دنیا میں گر اِن کو بے چینی ہو گی
تو برزخ میں بے کل میری رُوح ہو گی
سکوں ان کا ہے سکھ میری آتما کا
سدا تجھ سے ہم پیار کرتے رہیں گے
تِرے نام پر ہی جئیں گے مریں گے
چمن کی فضا بھاگ میں ہی نہیں ہے
مگر نالے بلبل کے پیہم سنیں گے
تقاضے وفا کے نبھائیں گے ہر دم
بھروسہ سدا تجھ پہ کرتے رہیں گے
ہمارا تکّلم تمھاری رضا ہے
سو جو تم کہو گے وہی ہم کہیں گے
اسے ہم شہادت سمجھتے ہیں اپنی
تِرے مِیت رہتے ہوئے ہی مریں گے
نہیں شرط لازم کہ تُو ہم سخن ہو
مگر ہم سدا سنگ تیرے رہیں گے
مشیت سے ناقدؔ جسارت ملی ہے
نہ ہم آمروں سے ذرا بھی ڈریں گے
سن ری میری مست جوانی
تُو ہے پاگل تُو دیوانی
کب تجھ سے اَن جانا ہوں میں
تُو ٹھہری جانی پہچانی
میں ہوں تیرے من کا راجہ
تُو میرے سپنوں کی رانی
تجھ کو بھول نہیں سکتا میں
تُو ہے میری پریم نشانی
پیار کا بہتا دریا ہے یہ
تیری آنکھ میں ہے جو پانی
تیرے دل میں ہے جو پنہاں
تجھ کو ہے وہ بات سنانی
قرب کا کوئی لمحہ بخشو
کب تم نے ہے بات یہ مانی؟
تجھ سے پیار رہے گا ہر دم
یہ میں نے ہے دل میں ٹھانی
میں نے ڈالی وَصل کی عرضی
لیکن تم نے بات نہ مانی
غم سانجھے ہیں اپنے ناقدؔ
سانجھی اپنی پیت کی بانی
صباحت کی ہے انتہا حُسن تیرا
قیامت کی ہے اک ادا حُسن تیرا
مجھے قرب بخشا نہیں تُو نے اپنا
سو ہے میری خاطر سزا حُسن تیرا
ہے جلوہ تیرا طُور کی اک تجلّی
کرے گا بھلا کیا وفا حُسن تیرا؟
میں کیا کیا بھلا وَصف اس کے بتاؤں
کہ پروانوں کی ہے قضا حُسن تیرا
نہیں اس کی قسمت میں درشن کی دولت
ہے ناقدؔ کی خاطر جفا حُسن تیرا
مجھے وقت نے دی ہے تھوڑی سی مہلت
نہ کر پایا پوری ادب کی میں خدمت
نہ ہے بینک بیلنس نہ کار کوٹھی
نہیں ہے مجھے دنیا داری سے رغبت
نہ دے پایا اچھا سا اک گھر اُسے میں
رہی میری بیگم کو ہر دم شکایت
پریشان ہر دم رہے میرے بچے
کہ قسمت نے بخشی نہیں ان کو راحت
مِری فکر ناقدؔ میرا جرم ٹھہری
بنی آگہی میری خاطر عقوبت
اثر درد و غم کا نہیں کچھ اکہرا
مِرے گرد ہالہ ستم کا ہے تہرا
نہیں مندمل ہونے کی کوئی صورت
ہوا اس قدر ہے مِرا زخم گہرا
ملے جس میں انصاف مظلوم کو بھی
ہو انصاف کا کوئی ایسا کٹہرا
بھلا ظلم کے سائے میں کیسے سوؤں ؟
مِرے چار سُو وحشتوں کا ہے پہرا
سدا اہلِ حق نے ہی قربانیاں دیں
ہے تاریخ کا باب ناقدؔ سنہرا
فراق و وِصال
جدا ہوئے یوں حبیب ہم سے
خفا ہوں جیسے نصیب ہم سے
کہ جیسے دنیا ہی کھو گئی ہو
بپا قیامت سی ہو گئی ہو
جو تم ملے ہو جہاں ملا ہے
محبتوں کا سماں ملا ہے
تمھارے دم سے ملی ہے راحت
تمھارے درشن میری مسرت
ہوئے ہیں منظر سبھی سہانے
میں بھول بیٹھا ہوں غم پرانے
تمھاری قربت ہے میری جنت
ہے تم سے وابستہ لطف و راحت
تمھاری چاہت ہی زندگی ہے
تمھاری اُلفت ہی عاشقی ہے
تمھاری اُلفت نشاط ساماں
ہوئی ہے جس سے خوشی فراواں
امر محبت
وہ دلبر بھی ہے اور کھلونا ہے میرا
وہ چاندی نہیں ہے وہ سونا ہے میرا
میسر ہیں اُس سے ہی جیون کی خوشیاں
اُسی کی بدولت ہوں شاداں و فرحاں
اُسی کی محبت ہے ہستی کی دولت
مجھے اُس سے نسبت اُسے مجھ سے نسبت
سدا اُس کی قربت رہے مجھ کو حاصل
رہے اُس کا دل بھی محبت پہ مائل
رہے کاش اس کی طلب من میں قائم
ابد تک رہے اپنا جذبہ یہ دائم
بھکارن سے
تقاضا تیرا مانگنے کا پرانا
نہ میں کوئی حاتم نہ میں کوئی داتا
ملا ہے تجھے مفت جو اِس جہاں سے
وہ پایا مشقت سے میں نے یہاں سے
تیری عزتِ نفس رخصت ہوئی ہے
فقط بھیک سے تجھ کو رغبت ہوئی ہے
جو پانا ہے کچھ کام کر کے ہی پا لے
کمانا عبادت کما کر ہی کھا لے
اگر کچھ ہے مطلوب تو مانگ ربّ سے
مناسب نہیں ہے کہ تُو مانگے سب سے
سو خوشحالی تجھ کو عطا وہ کرے گا
تیرے ساتھ دائم وفا وہ کرے گا
ستائیں گے تجھ کو نہ غم پھر جہاں کے
نہ حیراں کریں گے مسائل یہاں کے
کریں گے جہاں والے پھر تیری عزت
یوں ہو جائے گی تجھ کو عظمت سے نسبت
تیرے دور دُکھ ہوں گے سارے کے سارے
تیرے اس طرح ہوں گے وارے نیارے
مِری گفتگو کا برا مت منانا
مِرا کام تو تھا حقیقت بتانا
یہ تیرے لیے میرا حرفِ وفا ہے
تیری کایا پلٹے یہ ربّ سے دُعا ہے
بہت قیمتی ہے یہ تحفہ دُعا کا
ملے گا مجھے اجر اس اقتضا کا
نصیحت ہے میری کہ خوددار رہنا
خودی اور محنت ہے جیون کا گہنا
ملے گی تجھے اس طرح کامیابی
کہ قدرت کرے گی تیری ہمرکابی
تیری زندگی پُرمسرت رہے گی
جو شامل خدا کی عنایت رہے گی
سنتری
میں رکھوالا پاک وطن کا
قریہ و بَن کا کوہ و دَمن کا
سرما کی سردی میں جاگوں
گرما کی گرمی میں جاگوں
موت ہوں میں دشمن کی خاطر
اُس کے کٹر پن کی خاطر
دشمن مجھ سے دور رہے گا
پیہم وہ مجبور رہے گا
پاک وطن ہے میری عظمت
اس سے میری حشمت و شوکت
روشن دیس کا نام کروں گا
میں کچھ ایسے کام کروں گا
رُوٹ مارچ
مِرے ہمقدم نوجواں سب کے سب ہیں
رفاقت مجھے راستوں کی بہم ہے
مِری منزلیں بھی مِری ہمسفر ہیں
میسر مجھے ہے تیری ہمرکابی
شرمندگی
مجھے خواب میں کچھ حسینوں نے گھیرا
مِری جیب کی لی انھوں نے تلاشی
فقط جیب سے چند غزلیں ہی نکلیں
مجھے تھی ندامت کہ تھا بے وضاحت
انھیں بھی تھی اپنے کئے پہ ندامت
تِرے جھوٹے وعدے پہ ہر دم جئیں گے
شب و روز اشکوں کی مئے ہم پئیں گے
نئے گھاؤ لگتے ہیں دنیا میں ہر دم
سو ہم چاک زخموں کے کب تک سئیں گے
تِرے ساتھ ہر دم رفاقت رہے گی
تِری دوستی کی بدولت جئیں گے
ہماری ضیافت کو ٹھکرایا تُو نے
تِرے گھر کا ہم بھی نہ پانی پئیں گے
رفوگر ہے یوں مہرباں کہہ رہا ہے
سدا تیرا چاکِ گریباں سئیں گے
ہمارے مقدر میں مئے کب لکھی ہے
فقط اپنے اشکوں کو ناقدؔ پئیں گے
تیری زُلفوں کی بات ہوتی ہے
باتوں باتوں میں رات ہوتی ہے
جیت ہوتی ہے وہ حقیقت میں
جب محبت میں مات ہوتی ہے
راہِ اُلفت میں غم جو ملتا ہے
وہ خوشی کی بارات ہوتی ہے
موت ہوتی ہے جو شہیدوں کی
قوم کی وہ حیات ہوتی ہے
ایک باعث ہمارے جھگڑوں کا
ناقدؔ اپنی ہی ذات ہوتی ہے
مجھے اتنا نہ تڑپاؤ قریب آؤ
ستم اتنا نہ تم ڈھاؤ قریب آؤ
غمِ ہجراں ستاتا ہے رُلاتا ہے
ہیں فرقت کے کڑے گھاؤ قریب آؤ
تمھارے درد بانٹیں گے دل و جاں سے
کہیں جب کوئی دکھ پاؤ قریب آؤ
مِرے محبوب کی آمد کا امکاں ہے
بہارو تم بھی آ جاؤ قریب آؤ
سکوں ناقدؔ نہیں ہے زندگانی میں
قریب آؤ قریب آؤ قریب آؤ
یہ کاغذ کی کشتی یہ اشکوں کا پانی
یہ اس کے جھکولے یہ اس کی روانی
مجھے والہانہ محبت ہے اس سے
تِرا ہجر ہے پیت کی اک نشانی
زمانہ سمجھتا ہے برسات اِس کو
مِرے نیر جیسے ہوں بارش کا پانی
مجھے اُس نے اپنی حماقت سے کھویا
کوئی دشمنی تو نہیں تھی پرانی
کسی نے تمھیں یہ سنائی نہ ہو گی
تمھیں جو سنائی ہے میں نے کہانی
کسی بات کا ہو اثر کیسے ناقدؔ
زباں بھی مِری ہے بنی بے زبانی
مِرے دیس میں راج کرتی ہے غربت
یہاں سانس لینا بھی ہے اک اذیّت
غریبوں کو کیا چین حاصل یہاں ہو
مقدر میں اُن کے لکھی کب ہے راحت
ہمیشہ مجھے فاقہ مستی رہی ہے
سو فاقوں کی پائی ہے میں نے ضیافت
مِرے مہرباں حکمراں بھی نہیں ہیں
سدا ظلم کی یہ ہیں کرتے سیاست
مددگار جو ہو غریبوں کی ناقدؔ
مِرے ملک میں بھی ہو ایسی حکومت
خراجِ اُلفت
محبتوں کا خراج مہنگا
معاشقوں کا ہے تاج مہنگا
کسی سے ہرگز کرو نہ اُلفت
تمھیں اٹھانی پڑے گی ذلت
کسی کو چاہت نہ راس آئی
کسی نے مطلق خوشی نہ پائی
سب کو چاہت میں غم ملے ہیں
زمانے بھر کے اَلم ملے ہیں
کوئی سکوں سے بھی جی نہ پایا
پریم کا جس نے گیت گایا
حسرتِ خواب
سکوں اک پل نہیں پایا
کئی راتیں نہیں سویا
دنوں کو بھی میں جاگا ہوں
میں اب آرام چاہتا ہوں
مجھے سونے دیا جائے
مجھے کھونے دیا جائے
سکوں کرنے دیا جائے
مجھے جینے دیا جائے
یہی میری تمنا ہے
یہی میرا تقاضا ہے
ارضِ بد قسمت
حسیں تر مناظر کی جو سرزمیں تھی وہاں اب ملیں گے قیامت کے منظر
محبت فراواں تھی جن وادیوں میں وہاں اب نظر آئے وحشت کے منظر
وہ معصوم بچے وہ گل مامتا کے وہ مظلوم بوڑھے شہیدوں کے لاشے
سبھی پوچھتے ہیں خداوند عالم یہ کیوں بڑھتے جاتے ہیں دہشت کے منظر
دعا مانگتے ہیں مٹا دے خدایا ستم کے ، الم کے ، مظالم کے سائے
کبھی جیتے جی پھر نہ پیش نظر ہوں یہ محشر کے منظر اذیت کے منظر
جہاں دیس پردیس کے لوگ آتے تھے سیر و سیاحت کے ارمان لے کر
اسی گل زمیں میں دکھائی دیئے ہیں عجب بدنصیبی کے نکبت کے منظر
ہے کتنا ستمگر وہ جابر وہ قاہر وہ بے درد ظالم وہ خونی درندہ
دکھاتا ہے ناقدؔ جو ہم بے کسوں کو یہ سفاکیت بربریت کے منظر
مطلبی
تم کو مجھ سے پیار نہیں ہے
تم تو ہو اغراض کے بندے
مطلب کا ہے پیار تمھارا
جیسے کوئی پیاس بجھا کر
خالی شیشہ پھینک رہا ہو
جوڑ
تو محلوں کی ہے شہزادی
میرے پاس نہیں ہے کٹیا
تیرا میرا جوڑ کہاں ہے
تیرے مخمل کے بستر ہیں
میرے ہیں فٹ پاتھ بچھونے
تیرا میرا جوڑ کہاں ہے
تیرے پاس تو چین سکوں ہے
میرے پاس ہے غم کی دولت
تیرا میرا جوڑ کہاں ہے
پیت مایہ
پیار محبت اک سرمایہ
جس کا حاصل رنج بچھوڑا
ایک مسلسل بے چینی ہے
بے تابی ہے بے خوابی ہے
تیرے پیار میں ہم نے جاناں
دنیا بھر کے غم پائے ہیں
دکھ وافر سکھ کم پائے ہیں
آوارگی
کبھی اِس دیار میں گھومنا
کبھی اُس دیار میں گھومنا
مجھے اِس نگر سے بھی پیار ہے
مجھے اُس نگر سے بھی پیار ہے
کبھی اِس گلی میں جھانکنا
کبھی اُس گلی میں جھانکنا
مجھے اِس گلی سے بھی پیار ہے
مجھے اُس گلی سے بھی پیار ہے
میرا مشغلہ یہی رات دن
شب و روز میرا یہ شغل ہے
مہنگی سانسیں
دن رات میں ہوں غمگیں
مجھ کو ستم ستائے
اک روگ بن گئی ہے
اب زندگی یہ میری
مہنگی بہت ہیں سانسیں
کیسے انھیں خریدوں
مجھے تجھ سے محبت ہے
یہی میری عبادت ہے
تمھیں دن رات لکھتا ہوں
اگر سمجھو ریاضت ہے
غضب کی یہ جو آمد ہے
مسلسل اک اذیت ہے
خدا کو یاد رکھو تم
یہی یارو نصیحت ہے
سبھی سے گر مروت ہو
تو اس میں کیا قباحت ہے؟
مجھے تو بھول بیٹھا ہے
یہ ناقدؔ کیسی غفلت ہے؟
عجب موڑ پر لے کے آیا ہے جیون
تِری دوستی میں ہے بھلایا ہے جیون
تِرا پیار تو ہے میری زندگانی
تِرے عشق میں ہی سمایا ہے جیون
مِری عمر بھر کی ریاضت یہی ہے
جدائی میں تیری مٹایا ہے جیون
مِری جان تنہا تو میں کچھ نہیں تھا
ملے جو مجھے تم تو پایا ہے جیون
سکوں کے تصور سے عاری ہوں میں تو
سدا سوزِ جاں میں جلایا ہے جیون
بھلا کیسے میں اس کو بے سُود سمجھوں ؟
نظر میں میری ایک مایا ہے جیون
تجھے کیسے ناقدؔ فراموش کر دوں ؟
کہ خوشیاں تیرے ساتھ لایا ہے جیون
عداوت موسموں کی ہے
کدورت دوستوں کی ہے
مکاں میرا بھی کچا ہے
یہ رُت بھی بارشوں کی ہے
ستم گر ہو گی دنیا بھی
یہ بستی بے کسوں کی ہے
کسی نے کیا دیا مجھ کو؟
کہانی نفرتوں کی ہے
تیرا اس میں ہے کیا ناقدؔ؟
یہ دنیا احمقوں کی ہے
وابستگی
جہاں کہیں میری بات پہنچی
وہاں تمھارا بھی ذکر پہنچا
فسانہ میرا سدا رہے گا
امر تیرا تذکرہ رہے گا
میرے فسانے تیری بقا کے رہیں گے ضامن
منظم گفتگو میری
مسلّم جستجو میری
تجھے کیسے بھلاؤں میں ؟
کہ تُو ہے آرزو میری
مجھے اوروں سے کیا لینا؟
ہے بیوی خوبرو میری
کسی سے کیا تکلّم ہو؟
سنے جو بات تُو میری
جو ناقدؔ تو نے لکھی ہے
ہے بانی ہُو بہُو میری
تسلسل
دن رات جو لکھتا رہتا ہے
ممکن ہے تو پاگل ہو جائے
سب لوگ یہ کہتے ہیں مجھ کو
اس کام میں تو مر جائے گا
بیزاری
دنیا کے جھنجھٹوں سے بیزار ہو گیا ہوں
بڑھتے گئے مصائب راحت بھی کھو گیا ہوں
ہر پل خوشی کو ترسا اک پل سکوں نہ پایا
قسمت نے مجھ کو جگ میں ہر آن ہے رُلایا
سب ہیں غرض کے بندے بے مہر بے مروت
ہر وقت سر گرانی ہر آن ہے اذیت
جھوٹے ہیں یار اپنے سنسار سارا جھوٹا
عاری حقیقتوں سے ہے پیار سارا جھوٹا
گھُٹ گھُٹ کے میرا جینا اشکوں کو اپنے سینا
دن رات شَغل اپنا زخموں کے چاک سینا
بندھن
مُلک سے میرا روح کا ناتا
کیوں نہ ہو یہ جان سے پیارا؟
اس کے باعث اپنی بقا ہے
ایک یہی تو حرفِ وفا ہے
کاش رہے دائم یہ بندھن
اس سے ہے آراستہ جیون
قطعہ
کہاں تک لکھوں گا غموں کے فسانے؟
یہ قصے تو اب ہو گئے ہیں پرانے
مِری سوچ کو وُسعتوں سے ہے نسبت
سمائیں گے اس میں بہت سے زمانے
اپنے بیٹے محمد کاوش کے نام
ننھا ننھا پیارا پیارا
میرے من آکاش کا تارا
اس کی ادائیں اس کی جفائیں
اس کی لوں میں لاکھ بلائیں
من مندر میں ڈول رہا ہے
پیار کا امرت گھول رہا ہے
دانش سے کیا ہوں گی عاری؟
اس کی باتیں پیاری پیاری
بول بھی اس کے میٹھے میٹھے
سچے پیار اخلاص میں ڈوبے
کر کے باتیں پیاری پیاری
’’کاوش‘‘ کرتا ہے دلداری
ناقدؔ پیاری اِس کی عادت
ہے من موہنی اِس کی چاہت
لاشِ ہم نفس
کوئی میرا مسیحا ہو
کوئی تو ہو جو تنہائی کا ساتھی ہو
بدل دے آنسوؤں کو قہقہوں میں جو
مِرے دُکھ سکھ کا ساتھی ہو
سمیٹے غم جو سب میرے
جو روؤں میں تو وہ بھی ساتھ روئے
ہنسوں تو ہمنوا ہو جائے ہنسنے میں
مِری دنیا بدل ڈالے
سنوارے میرے جیون کو
جو بخشے رَتجگوں کو روپ خوابوں کا
کوئی ہو ہمسفر ایسا
کوئی ہو مہرباں ایسا
سوزِ سخن
میری مفلسی کا عالم
ابھی اِس سے بڑھ کے کیا ہو
سگریٹ کے پیکٹوں کے
پس پشت شعر لکھے
شاید سبب یہی ہے
سوزاں ہیں شعر میرے
ہائیکو
ظالم ہیں لوگ سارے
احساس تک نہیں ہے
کر کے ستم ہیں ہنستے
رابطوں پہ یقیں نہیں رکھتا
پاؤں تو ہیں زمیں نہیں رکھتا
سامنے جو کسی کے جھک جائے
میں تو ایسی جبیں نہیں رکھتا
اس کا ہر فعل منکرانہ ہے
لب پہ لیکن نہیں نہیں رکھتا
دل ہمارا ہے ایسا ویرانہ
کوئی باسی مکیں نہیں رکھتا
مجھ کو ناقدؔ جہاں جہاں چھوڑے
میں تو خود کو وہیں نہیں رکھتا
رازِ نمو
فن بے انت سمندر
پہلے ڈوبو
پھر نکلو گے
سدا ہے مجھے میری غربت نے مارا
اِسی دکھ نے مارا اذیت نے مارا
تِرا حُسن ہے طُور کی اک تجلّی
مجھے تیرے جلوؤں کی کثرت نے مارا
تِرے ہجر میں زندگی ہے گزاری
مجھے اس مسلسل عقوبت نے مارا
نہایت بڑا جُرم ہے یہ محبت
مجھے تو مِری اِس شرارت نے مارا
سدا مہ جبینوں کو ترسا ہوں میں بھی
مجھے حُسن والوں کی حسرت نے مارا
کسی غم سے ناقدؔ نہ تھا مرنے والا
اسے تو فقط رنجِ فرقت نے مارا
جیون میں رَتجگے ہیں
یادوں کے سلسلے ہیں
محسوس ہو رہا ہے
تم سے کہیں ملے ہیں
صدیوں کی خامشی ہے
جنموں سے لب سلے ہیں
خوشبو نہیں میسر
ویسے تو گل کھلے ہیں
کھائے ہیں زخم ناقدؔ
چاہت کے یہ صلے ہیں
شکوے ہیں دوستوں کے
قصے ہیں ماہ رُخوں کے
میرا سخن بھی کیا ہے
نقشے ہیں بے بسوں کے
دراصل گیت میرے
نغمے ہیں دل جلوں کے
اشعار میں سمائے
عِشوے ہیں مہ وشوں کے
من کا نگر ہے مندر
بت جس میں خواہشوں کے
خیمے لگے ہوئے ہیں
مسکن ہیں بے کسوں کے
میرے سخن میں ناقدؔ
نالے ہیں عاشقوں کے
احساسِ زیاں
من کی نَیا ڈول رہی ہے
بربادی پر تول رہی ہے
ہر دم ہے اک وحشت چھائی
اب کے کیسی شامت آئی؟
دل دھرتی ویران ہوئی ہے
بے چینی مہمان ہوئی ہے
چین سکوں کا پاس نہیں ہے
خوشیوں کا احساس نہیں ہے
کیسے ہو اب درد کا درماں ؟
ہر دم اپنا حال پریشاں
رابطہ
مت موبائل بزی رکھنا
ہم پھر تم کو کال کریں گے
پیار کی باتیں ہجر کے قصے
ہم سب کچھ ارسال کریں گے
یوں حال و احوال کریں گے
جرم و سزا
جس کے ہے من میں نفرت
دُور اس سے ربّ کی رحمت
جس کے ہے دل میں کینہ
سمجھو وہ ہے کمینہ
لالچ کی جس میں عادت
ربّ کی ہے اس پہ لعنت
انساں جو جھوٹ بولے
ایماں بھی اُس کا ڈولے
جو ہے شراب پیتا
کب ہے سکوں سے جیتا؟
جؤا جو شخص کھیلے
سو مشکلیں وہ جھیلے
غصے کی جس میں خُو ہے
کیا اُس کی اَبرو ہے؟
ادبی مسئلہ
ادب کی مخالف ہے بیوی مِری
مِری جیب پر بھی ہے قابض وہی
یہی مسئلہ ہے پریشاں کیئے
سو دیوان کیسے ہوں شائع مِرے؟
بے چینی
تم نے کہا تھا میں کل تم سے بات کروں گی
برسوں گزرے کل نہیں آیا
مجھ کو چین اک پل نہیں آیا
سوزِ فطرت
نہیں صرف اَفکار پُر سوز میرے
مِرا سوزِ دل شخصیت سے عیاں ہے
لگے میرا ہر اِک عمل شاعرانہ
مِری زندگی کی ادا شاعرانہ
میں حاوی سخن پہ
سخن مجھ پہ حاوی
سدا وقت مجھ کو گنواتا رہا ہے
کہ پیہم مجھے یہ رُلاتا رہا ہے
خوشی کی ہے سوغات بخشی جہاں کو
مگر دَہر مجھ کو مٹاتا رہا ہے
کیا گرچہ تیروں نے سینہ بھی چھلنی
نئے تیر پھر وہ بناتا رہا ہے
مرض کوئی بھی پاس اس کے نہ بھٹکا
وہ کھیتوں میں جو ہل چلاتا رہا ہے
جیا ہوں سدا جس کی خوشیوں کی خاطر
ستمگر وہ ناقدؔ ستاتا رہا ہے
فریاد
میری دھرتی کو کس کی نظر لگ گئی
ظلمتوں کا یہاں راج ہے چار سُو
چاروں جانب ہے بے چینیوں کا سماں
میرے مولا اسے پھر سے خوشحال کر
یہ بنے پھر سے گلزارِ امن و سکوں
مِری جستجو روشنی کے لیے ہے
تگ و دَو میری سب اسی کے لیے ہے
جہاں میں محبت کو تم عام کر دو
یہ پیغام سب کی خوشی کے لیے ہے
تعلق رہا ہے سدا سے رجا سے
مِری فکر تو دوستی کے لیے ہے
اَلم سے بھی مجھ کو نہیں کوئی نفرت
یہ اَمرت مِری زندگی کے لیے ہے
تعصب نہ رکھے کوئی من میں ناقدؔ
یہ سندیس بھی ہر کسی کے لیے ہے
نالہ و شیون
مِری زندگی رتجگوں سے مزین
مِرے مشغلے سوز ٹھہرے ہیں میرا
تھی صدیوں سے تاریخ کو میری خواہش
بجھائی ہے صدیوں کی اِک پیاس میں نے
بجھائی نہیں پیاس میری کسی نے
مِری زندگی ہے مسلسل سفر میں
سکوں کب میسر ہے وحشت نگر میں
کٹی ہیں مِری کرب میں ساری راتیں
اذیت ملی ہے مجھے تو سحر میں
کٹھن مرحلہ زندگانی کا تھا وہ
کٹا وقت جو بھی بدی سے مفر میں
سو میرے مقدر کا عالم تو دیکھو
ملی دھوپ مجھ کو جوارِ شجر میں
کسی کو بھی مخلص نہیں پایا میں نے
نہیں معتبر کوئی میری نظر میں
ہوئی زندگی نذر بے اختیاری
کمی رہ گئی کوئی شاید اثر میں
نہیں کارِ زارِ سخن کوئی آساں
مسائل ملے ہیں مجھے اس ڈگر میں
خاموشی سے گزرے نہ کی بات کوئی
ملے ہیں صنم کل مجھے رہگزر میں
میں کس دکھ کی ناقدؔ سناؤں کہانی؟
بسائے ہیں غم کتنے اپنے جگر میں
من میرا ایک مندر
سوچیں میری سمندر
شکوہ جہاں سے کیسا
یہ جگ تو ہے ستمگر
جذبوں کی کیا حقیقت
ہیں لوگ سارے پتھر
جانے نہ مجھ کو دنیا
سمجھے کوئی قلندر
فن کو ہے کس نے چھوڑا؟
ناقدؔ بھی چھوڑے کیونکر؟
آئی نہیں ہے راس کبھی زندگی مجھے
غم کا نہ کوئی غم نہ خوشی کی خوشی مجھے
مجھے کو ڈرائیں ہر پل یہ چار سُو اندھیرے
بخشی گئی ہے کیسی یہ تیرگی مجھے
منظر حسیں ہو کوئی روشن سحر ہو کوئی
ملتی ہے اس سے ہر دم اک تازگی مجھے
میں ہوں خزاں گزیدہ قسمت نہیں بہاریں
اے کاش ہو میسر صُحبت تِری مجھے
بھاگوں میں رتجگے ہیں ہر آن بے کلی ہے
رُسوا کیے ہوئے ہے غمِ عاشقی مجھے
جیون ہوا اَجیرن سانسیں سزا بنی ہیں
بے کل کئے ہے ناقدؔ مِری آگہی مجھے
عظمت فن
مجھے میرے مالک نے بخشی ہے قوت
کہ اظہار کی مجھ کو حاصل ہے طاقت
زباں کا معاون مجھے ہے بنایا
سخن کا بھی ہر گُر مجھے ہے سکھایا
مجھے فکر دی ہے جہاں سے نرالی
زمانہ جسے مانتا ہے مثالی
وَدیعت میری شاعری کو ہے نُدرت
کہ ملتی نہیں ہر بشر کو یہ قدرت
سو گائے گا اک دن میرے گُن زمانہ
اَمر میرا ہو گا جہاں میں فسانہ
مقصود
مِری آفرینش ادب کے لیے ہے لگے مجھ کو ایسا
مِرے روز و شب فکر و فن کے لیے ہیں
یہ جیون کی گھڑیاں سخن کے لیے ہیں
سوا اس کے کوئی نہیں اور مقصد
طوائف
مِری جان بے شک تو بے حد حسیں ہے
جہاں میں کوئی تیرے جیسا نہیں ہے
زمانے نے تجھ کو ستم یوں دئیے ہیں
تجھے اب مصائب پریشاں کیے ہیں
تجھے رزق تیرا بہت دور لایا
زمانے کا ہر دکھ ہے تو نے اٹھایا
ہے عصمت دری تو نے پیشہ بنایا
یہ چہرے پہ تو نے ہے کالک لگایا
بدن بیچتی ہے شب و روز اپنا
یہ بچپن میں تو نے نہ دیکھا تھا سپنا
تو مجبور شاید ہے قسمت سے اپنی
کماتی ہے ایسی تو ناپاک روزی
تفاوت
تو بے وفا ہے گرچہ
میں بے وفا نہیں ہوں
تجھ میں ہے بے حیائی
میں بے حیا نہیں ہوں
تجھ میں سمائی نفرت
مجھ میں وفورِ اُلفت
تو ہے بہت ہی جھوٹا
مجھ میں مگر سچائی
تجھ کو ملی برائی
مجھ کو ملی بھلائی
تجھ کو ملی امیری
مجھ کو ملی فقیری
تجھ کو ملا سکوں ہے
مجھ میں ہے بیقراری
تو ہے خوشی کی رانی
میری ہے آہ و زاری
تجھ کو خوشی سُلائے
مجھ کو ہے غم جگائے
اعزازِ دلبرؔ
(دلبر مولائی کے پس منظر میں لکھی گئی نظم)
ادب کی ہوئی ہے جو دلبر سے خدمت
اسے میں سمجھتا ہوں فن کی ریاضت
یہ تاریخ کا باب ہے اک سنہرا
کوئی اس طرح کام کرنے نہ پایا
ادب چاہے اُردو ہو یا ہو سریکی
ہے دونوں کو اس نے پذیرائی بخشی
سو پرچار دونوں کا اس نے کیا ہے
اسی سے فقط معرکہ سر ہوا ہے
جو شاعر تھے گمنام گوشے میں پہلے
نہ آئے تھے جو نام سننے میں پہلے
انھیں منظر عام پر ہے یہ لایا
ادب اک نیا اس نے خطے کو بخشا
سخن کی سدا اس نے کی ہے سورکھشا
رہے گی یہ زندہ جو کی اس نے سیوا
تحسین جسارت
( جسارت خیالی کے پس منظر میں لکھی گئی نظم)
ادب کا ہے خادم جسارت خیالی
ہے مشغول دائم جسارت خیالی
سخن کو نئی جہت اس نے عطا کی
ہنر سے ہمیشہ ہے اس نے وفا کی
ادب اس کا ہے فکرِ فردا کا حامل
شب و روز کی ہے ریاضت کا حاصل
ادب کی وہ قندیل اس نے جلائی
نئی راہ جس نے ہے سب کو دکھائی
ادب پہ ہے احسان اس کا نمایاں
جہاں میں ہے فیضان اس کا نمایاں
تو ہے میری چاہت گوری
میرے من کی راحت گوری
تو ہے میرے پیار کی دیوی
مت کر مجھ سے نفرت گوری
مجھ سے اب اعراض ہے کیسا
تو ہے میری قسمت گوری
رقص تیرا میری خلوت میں
تو ہے میری جلوت گوری
میرے پاس تو آ کے بیٹھے
کب تجھ کو ہے فرصت گوری؟
عشق میں کیا گزری ہے مجھ پر
حاصل ہو گی عبرت گوری
میں نے تجھ سے پیار کیا ہے
کیوں ہے تجھ کو حیرت گوری؟
تو نے دان کیے سکھ لمحے
تجھ سے میری عشرت گوری
وصل میسر ہو تو جانیں
قرب میں ہے کیا لذت گوری؟
تجھ کو سجایا میں نے دل میں
تو من موہنی مورت گوری
تو ہے میری جیون ریکھا
نیک ہے تیری سیرت گوری
میں ہوں تیرا پریم پجاری
مجھ سے کیسی وحشت گوری؟
تیرے دعوے سب جھوٹے ہیں
کب ہے پیار میں شدت گوری؟
مجھ کو فخر ہے تجھ پہ ہر دم
تو میری ہے قوت گوری
میرا ساتھ نبھا پائے گی
کیا ہے تجھ میں ہمت گوری؟
جو جلتے رہتے ہیں ہم سے
ان پہ بھیجو لعنت گوری
مہر وفا ہی سرمایا ہے
یہ ہے اصلی ثروت گوری
تیری ادائیں تیری جفائیں
پاس یہی ہے دولت گوری
جان سبھی کچھ پیار وفا کو
مت کر اس میں غفلت گوری
عشق کو اپنا رہبر کر لو
اصل میں ہے یہ نعمت گوری
بخشو مجھ کو مئے نینوں کی
پینے دو یہ امرت گوری
روٹھ کے جانا پھر نہ آنا
چھوڑ دو اب یہ عادت گوری
جان چھڑانا اب مشکل ہے
تجھ کو مجھ سے نسبت گوری
پیت کو اپنا سب کچھ سمجھو
پیار ہے ربّ کی رحمت گوری
یہ تو بتاؤ کیوں ہے تم کو؟
نفرت میں اب رغبت گوری
میری خواہش اور نہیں ہے
تُو ہی تو ہے حسرت گوری
تجھ سے پیار کا باعث یہ ہے
خوب ہے تیری صورت گوری
پیت نہیں ہے کھیل تماشا
سمجھو اس کی قیمت گوری
مت تم خوف کسی سے کھاؤ
پیار بھی تو ہے طاقت گوری
تجھ سے دور رہا ہوں بے حد
دان مجھے کر قربت گوری
میں اس میں خوش رہ سکتا
عشق تیرا ہے جنت گوری
اک ادنی سا بندہ ہوں میں
اونچی تیری شوکت گوری
صرف تجھے ہی چاہا میں نے
پیار کسی سے کر مت گوری
پاس میرے رسوائی ناقدؔ
تو رکھتی ہے عزت گوری
نقیب
میری بساط یہ ہے
ردّی کے کاغذوں پہ
لکھی ہیں میں نے غزلیں
فن کو جِلا ملا ہے
ہر حرف نقشِ احمر
ہر بات ہے دوامی
شاعر ہوں انقلابی
میرا سخن عوامی
نیستی
جیون اِک مٹی کی مورت
نہ کوئی ریکھا نہ کوئی آشا
نہ کوئی حسرت نہ کوئی سپنا
پیہم اپنا حال نراشا
سب بیگانے نہ کوئی اپنا
اُف بے موت پڑا ہے پردہ
سپوت
جب سب دنیا سو جاتی ہے
میں پھر جاگتا رہتا ہوں
اے دھرتی ماں بس تیرے لیے
جب دنیا چین میں ہوتی ہے
میں پھر بھی کرب میں رہتا ہوں
اے دھرتی ماں بس تیرے لیے
جب دشمن آگے بڑھتا ہے
میں دشمن سے لڑ پڑتا ہوں
اے دھرتی ماں بس تیرے لیے
جب خوف کے پہرے ہوتے ہیں
بے خوف رہا کرتا ہوں میں
اے دھرتی ماں بس تیرے لیے
بیاد پروین شاکر
خوشبو لے کر میری خاطر
پاس مرے چنبیلی آئی
اس کے نغمے من میں اُتریں
رقص کا اِک انداز ہے جن میں
بھول نہ پائیں اُس کی یادیں
مہک سے اس کی تن من مہکے
اس کی ہنسی ہے میری مسرت
اِک سرشاری اس کی بدولت
ممنونیت
(استاد محترم ابو الحسن واحد رضوی کے پس منظر میں لکھی گئی نظم)
یہ دن میرے غنیمت ہیں تِری صحبت میسر ہے
مجھے وِجدان بخشا ہے مجھے عرفان بخشا ہے
یہ سب فیاضی تیری ہے تِری ذرّہ نوازی ہے
تِرا ممنون ہوں بے حد خدا بھی تجھ سے راضی ہو
ادب میں تو معتبر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
مدام تیرا ہُنر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
سخن کو تو نے ہے جان بخشی زباں کو تو نے زبان بخشی
اَمر ہے تُو اور اَمر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
تو شاعروں میں عظیم شاعر ہے مرتبہ تیرا سب سے عالی
تو میرا نُورِ نظر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
ادب کی شمعیں رہیں گی روشن کلام تیرا رہے گا دائم
دلوں میں تُو جلوہ گر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
ہے تیرے دم سے وقار قائم تیری بدولت ہے شان میری
تِری ولاء میں سفر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
جہاں نہ مجھ کو مٹا سکے گا نہ کوئی مجھ کو بھلا سکے گا
تو ساتھ میرے اگر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
دعا ہے ناقدؔ کی سنگ تیرے اے مشفق و مہربان میرے
تو مثلِ شمس و قمر رہے گا ظہور فاتحؔ ظہور فاتحؔ
مِرے رتجگے کرب ٹھہرے ہیں میرا
مِرے چار سُو چھا رہا ہے اندھیرا
مجھے تُو نے چھوڑا تجھے میں نے چھوڑا
نہ ہے دوش تیرا نہ ہے دوش میرا
جہاں ظلم کی پاسداری ہو ہر دم
مِرا اس جہاں میں ہو کیسے بسیرا؟
اندھیرے مسلط ہیں شاموں پہ میری
نہیں میری قسمت میں شاید سویرا
ہوں محصور میں یوں مصائب میں ناقدؔ
کہ فوجوں نے جیسے ہو بستی کو گھیرا
مِرا ذہن شل ہے مگر لکھ رہا ہوں
تمھیں اپنا ذوقِ نظر لکھ رہا ہوں
تِرے دم سے قائم محبت کی دنیا
تجھے پیار کا اِک نگر لکھ رہا ہوں
جو تم نے ہے سونا تو سو جاؤ پھر تم
تمھیں اس سے کیا ہے اگر لکھ رہا ہوں
مجھے زندگی سے بھی ہے پیار اب کے
میں کب زندگی سے مفر لکھ رہا ہوں
نہیں تیرگی کا فسانہ یہ ناقدؔ
فقط ایک روشن سحر لکھ رہا ہوں
ستم کی انتہا تو ہو
نئی کوئی جفا تو ہو
وہ سمجھے پیار کے معنی
وہ میرا دلربا تو ہو
وفا ہوتی نہیں تجھ سے
کوئی عہدِ وفا تو ہو
سدا غم کا نشانہ ہوں
کوئی اب دوسرا تو ہو
اُسے تسلیم کر لوں گا
وہ ناقدؔ ماورا تو ہو
مہر و وفا کہاں ہے؟
بیداد کُن جہاں ہے
کیا ہے ہماری ہستی؟
غمگین داستاں ہے
پل بھر سکوں نہیں ہے
رنج و الم جواں ہے
کوئی کہے بھلا کیا؟
جگ بھی یہ بے زباں ہے
ناقدؔ یہی خوشی ہے
مجھ پر وہ مہرباں ہے
کوئی تو مجھ کو پڑھتا ہے
مجھے کوئی سمجھتا ہے
میں جب اُس سے دُعا مانگوں
وہ میری عرض سنتا ہے
میں ہوں نزدیک شہ رگ سے
یہی وہ مجھ سے کہتا ہے
رہا انمول جو کل تک
سرِ بازار بکتا ہے
اُسے شکوہ ہے کیوں ناقدؔ؟
میری نسبت سے لکھتا ہے
معمولات
ہر شام میری یوں ڈھلتی ہے
بس فکر کی چکی چلتی ہے
شب بھر لکھتا رہتا ہوں
ہر بات نئی میں کہتا ہوں
ہر صبح غزل سے ہوتی ہے
ہر بات کنول سے ہوتی ہے
دوپہر غموں کے سائے میں
سہ پہر جنوں کے سائے میں
دن میرا کچھ یوں کٹتا ہے
کب سر سے بوجھ اُترتا ہے؟
کب مجھ کو فرصت ملتی ہے؟
سو کیسے راحت ملتی ہے؟
مخدوش
یہ امکان میں ہے کہ رات آخری ہو
حقیقت میں میری یہ بات آخری ہو
مِرے حق میں ہے یہ ریاضت کروں میں
خدا کو کروں یاد محنت کروں میں
نہ پل کا بھروسہ نہ پل کی خبر ہے
مِرے چار سُو ایک وحشت نگر ہے
مِرے ذہن پر خوف چھایا ہے ایسا
جو راحت نہیں ہے سکوں پھر ہو کیسا
خدایا مٹا دے یہ دہشت کے سائے
کسی کو یہاں اب نہ کوئی رلائے
خالی ترازو
جو فن جانچنے کو لیے ساتھ پھرتے ہیں اتنے ترازو
مگر فن سے محروم بھی وہ لگے ہیں
نہیں ہے سخن سے انھیں کوئی نسبت
وہ فن کیا ہے جس میں ترفع نہیں ہے
ہُنر کیا ہے اطلاق سے جو ہے عاری
مگر یہ جو نقاد ناقدؔ ہیں اپنے
فقط پاس ان کے ہے خالی ترازو
اہلِ برزخ سے
وہاں جانے والو ہمیں کیا خبر ہے؟
شب و روز کیسے ہیں اب کے تمھارے؟
وہاں کیسا برتاؤ تم سے ہوا ہے؟
کبھی خواب میں آکے ہم کو بتاؤ
کہ جیون میں کیا ہم کو کرنا پڑے گا؟
سنور جائے تاکہ ہماری وہ دُنیا
رقاصہ
نغمے گا کر رقص دکھا کر
تُو نے دِل جیتا ہے سب کا
تیرے نغمے یاد رہیں گے
رقص بھی تیرا یاد رہے گا
یاد رہے گا تیرا جھومر
تیری پائل یاد رہے گی
تیرے گھنگرو یاد رہیں گے
اُن کی چھن چھن یاد رہے گی
تیرا گجرا یاد رہے گا
تیری چُنری یاد رہے گی
تیرا مجرا یاد رہے گا
یاد رہیں گے خوش کن لمحے
اشکِ رواں کو میرے تم نے ہے آب دی
مجھ پہ ہوئی عنایت ساری جناب کی
جتنی ملی ہے تجھ کو اس سے غرض نہ رکھ تو
ساقی پلا رہا ہے دل سے شراب پی
انسان خیر چاہے گو ہے خطا کا پُتلا
جیون میں اس کے شامل خیر و گناہ بھی
اُجڑی ہے میری دنیا تم تو ہو پُرمسرت
تم نے حیات اپنی ساری سنوار لی
میرے ہوئے نہ ہرگز تم کو سمجھ نہ پایا
خوشیاں بھی دی ہیں بخشے نیروں کے ہار بھی
ناقدؔ سمجھ غنیمت جتنا ملا ہے جیون
خوش ہو کے زندگی کا عرصہ گزار جی
مہک میں نے پائی نہیں ہے چمن سے
رہا ہوں میں محروم سر و سمن سے
مٹا دے مجھے موت کب ہے یہ ممکن؟
مٹے گا نہ فن میرا مرگِ بدن سے
ہیں افکار میرے تمھارے ہی مظہر
تمھاری ہے خوشبو زبان و دَہن سے
ہمیں جھوٹ سے کوئی نسبت ہو کیسے؟
صداقت عیاں ہے ہمارے سخن سے
سدا تیرگی سے رہی ہے بغاوت
سو ناقدؔ اجالا کیا فکر و فن سے
لکھا کیا کسی نے جو میں نے لکھا ہے؟
ہوا کیا کسی سے جو مجھ سے ہوا ہے؟
نفاست نزاکت فراست جسارت
مشیّت سے مجھ کو یہ سب کچھ ملا ہے
کسی کی بھی جو خیر خواہی نہ چاہے
وہی شخص ہی اس جہاں میں بُرا ہے
ملی جس کو قسمت سے آسانیاں ہیں
کہے گا وہ کیسے کہ جیون سزا ہے؟
یہ سب کچھ مِرا آپ کے سامنے ہے
یہ بدتر کہ بہتر بُرا یا بھلا ہے
نیا نام اپنا نیا کام اپنا
مگر ایک ناقدؔ بھی نظمی سنا ہے
رہے جیتے جی زندگی کو ترستے
سدا سے ہیں ہم روشنی کو ترستے
میسر نہیں آئی جن کو فراست
سُو وہ بھی ہیں اب آگہی کو ترستے
مفر اپنی ہستی سے بس میں جو ہوتا
تو ایسے نہ ہم خودکشی کو ترستے
ہمیں تو نے چاہت کے لائق نہ جانا
رہے ہم تِری دوستی کو ترستے
ستم تیرے ناقدؔ نہیں اپنی قسمت
ہیں برسوں سے ہم دشمنی کو ترستے
یہ دل مسکن خدا کا ہے
مکاں مہر و وفا کا ہے
مِری باتیں پسند آئیں
کرشمہ یہ صدا کا ہے
اُسے کیا خوف آئے گا؟
وہ بندہ کب حیا کا ہے؟
جو تیرا میرا جھگڑا ہے
قصور اس میں اَنا کا ہے
ڈرا ہے کل میرا بیٹا
سو دوش اس میں بلا کا ہے
شفا میں نے نہیں پائی
سبب سارا دوا کا ہے
بُرا کہنا نہ ناقدؔ کو
عجب بندہ خدا کا ہے
٭٭٭
تشکر: جلیل حیدر لاشاری جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید