FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

غزل درخت

 افتخار راغب

 

 

انتساب

اپنے والدین

محترم محمد ابراہیم صاحب

اور

محترمہ انوری خاتون

کے نام

 

 

 

تعارفی خاکہ

قلمی نام :     افتخار راغبؔ

پورا نام :   افتخار عالم راغبؔ

والد کا نام:    شیح محمد ابراہیم

تاریخِ پیدایش :   ۳۱ مارچ ۱۹۷۳ء بروز ہفتہ

آبائی وطن:   نرائن پور، میر گنج، گوپال گنج، بہار، ہندوستان

تعلیم: ٭( B. Tech. in Civil Engg.) بی ٹیک (سوِل انجنئیرنگ) از جامعہ ملّیہ اسلامیہ، دہلی، (۱۹۹۸ء)

 ٭ انٹر میڈیٹ آف سائنس از کالج آف کامرس۔ پٹنہ، بہار (۱۹۹۱ء)

 ٭میٹرک   از مولوی اسماعیل میموریل اردو ہائی اسکول، نبی گنج، میر گنج، سیوان، بہار (۱۹۸۹ء)

مجموعۂ کلام :  ۱ ؎ ’’لفظوں میں احساس‘‘ ( ۲۰۰۴ ء اور ۲۰۱۱ء میں ) ( ہندی : ۲۰۰۶ء میں )

    ۲ ؎ ’’ خیال چہرہ ‘‘ (۲۰۰۷ء میں )

   ۳ ؎ ’’ غزل درخت‘‘ ( ۲۰۱۴ء میں )

ادبی تنظیموں سے وابستگی : ٭ بزمِ اردو قطر ( جنرل سیکریٹری : ۲۰۱۰ء سے تا حال، رکن: ۱۹۹۹ء سے)

    ٭ حلقہ ادبِ اسلامی قطر ( جنرل سکریٹری : ۲۰۱۰ء سے تا حال، رکن : ۱۹۹۹ء سے)

      ٭ گزرگاہِ خیال اردو فورم، قطر (نائب صدر )

اعزاز ات :  ۱؎  جگرؔ مراد آبادی سمّان (۲۰۰۷ء)(بھارتیہ ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، بہار)

   ۲؎   ویر کونْور سنگھ ایوارڈ (۲۰۱۰ء)(انڈین ایسوسی ایشن فار بہار اینڈ جھارکھنڈ قطر )

            ۳؎  اعزازی سند (۲۰۰۷ء) (انجمن ترقی اردو گوپال گنج،بہار)

قطر میں قیام:  ۶/ مارچ ۱۹۹۹ء سے تا حال

ملازمت    :     Arab Engineering Bureau

                 P.O.Box:1148, Doha-Qatar

موجودہ پتہ  : P. O. Box: 11671, Doha, Qatar

مستقل پتہ  :   مقام: نرائن پور، پوسٹ : میر گنج، ضلع: گوپال گنج، بہار

موبائیل نمبر :  00974  55707870(قطر)۔   9931969250 (ہندوستان)

ای میل    :  iftekhar_raghib@hotmail.com iftekhar.raghib@gmail.com ;

 

اَیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس کی آواز ہے یہ؟

                   کلیم احمد عاجزؔ

 چونکا دینے والی باتیں نہ ہوں تو دل کی بند راہیں بند کی بند رہیں۔ آنکھیں دیکھتی ہیں یا کان سنتے ہیں تو دل کی کیچلی اتر جاتی ہے، زندگی تر و تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ اکثر خواب سے بیداری کا سبب بن جاتا ہے۔ دل کے اندر تخلیق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ میرے ساتھ ایسے واقعات اکثر ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ اور ہر بار میری تھکی ہوئی زندگی انگڑائی لے کر تازہ دم ہو گئی۔ ابھی کچھ دنوں پہلے میں واشنگٹن میں تھا تو عمرہ کے لیے جانے کی بڑی تیز طلب ہوئی۔ مگر عمرہ کا ویزا مجھے ہندوستان ہی میں لینا چاہئے تھا۔ یہ نہیں ہو سکا اور مایوسی اور امید کے ساتھ سعودی سفارت خانے میں حاضر ہوا۔ وہاں ایک چونکا دینے والی بات ہوئی کہ میرے ایک دوست مدثر صدیقی مل گئے جو سفارت خانے میں قانونی مشیر تھے۔ بولے ویزا میں دلوا دوں گا۔ ایک میڈیکلسرٹیفکیٹ لے آؤ۔ سفارت سے وابستہ ایک امریکن لیڈی ڈاکٹر ہے وہی سرٹیفکیٹ دیتی ہے۔ میں اس امریکن لیڈی ڈاکٹر کے آفس میں پہونچا اور سرٹیفکیٹ کی درخواست دے کر دوسرے کمرہ میں منتظر تھا۔ تھوڑی دیر بعد پکار ہوئی۔ میں گیا تو لیڈی ڈاکٹر اپنے ٹیبل پر میری درخواست پر جھکی ہوئی میرا نام زور سے پڑھ رہی تھی۔

’’کلیم احمد عزیز‘‘۔

 میری زبان سے اردو میں نکل گیا ’’کلیم احمد عزیز نہیں کلیم احمد عاجزؔ‘‘

میں ہمیشہ ایک ہی لباس میں رہتا ہوں شیروانی پاجامہ ٹوپی۔ خواہ امریکہ ہو، کنیڈا ہو، انگلینڈ ہو، عرب ہو۔

امریکن لیڈی ڈاکٹر نے چونک کر سر اٹھایا اور بولی ’’آپ کون؟‘‘

ارے یہ امریکن ڈاکٹرنی اردو میں بول رہی ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے کہا ’’ہندوستان کے پٹنہ شہر کا رہنے والا ہوں ‘‘۔ وہ بولی’’ ارے آپ پٹنہ کے رہنے والے ہیں ؟ میں پٹنہ کے ہولی فیملی اسپتال میں دس سال رہ چکی ہوں۔ میں نے وہیں اردو سیکھی یہ بہت پیاری زبان ہے‘‘۔

اب بتائیے، اس سے زیادہ چونکنے والی بات میرے لیے اور کیا ہو سکتی ہے؟ تقدیر پر اور اردو زبان پر میرا ایمان تازہ ہو گیا۔

ابھی میں قطر سے واپس آ رہا ہوں۔ میرے ایک میزبان جو دربھنگہ کے ہیں، ندوۃ العلماء سے فارغ عبدالرحمٰن فریدؔ صاحب، مجھے لے کر مسجد ظہر کی نماز میں پہنچے۔ وہاں ایک عرب رومال اور توپ میں ملبوس میرے قریب آیا۔’’ السلام علیکم کیسا مزاج ہے؟ بتائیے‘‘۔ بہر حال میں نے گرم جوشی سے معانقہ کیا۔ میرے میزبان نے فرمایا ’’یہ اردو کچھ بولتے ہیں اور بولنا چاہتے ہیں اور سیکھنا چاہتے ہیں ‘‘۔

مشاعرہ گاہ میں غزل خوانی ہونے لگی تو ایک جوان کی غزل سن کر پھر میں چونکا۔ ’’ارے یہ اکیسویں صدی میں اُنیسویں صدی کی زبان میں یہ نوجوان غزل پڑھ رہا ہے؟ یہ جرأت اور یہ صلاحیت اس جدیدیت کے دور میں کیسے ہوئی!‘‘

میں ہندوستان، عرب، امریکہ، کنیڈا انگلینڈ میں ہندوستانی پاکستانی شعراء کو برابر سنتا رہتا ہوں۔ ان جوانوں کا مزاج ایک خاص ذوق،نہج اور نظریہ کا پرورش یافتہ ہے اسی نہج اور نظریہ کا ترجمان ان کا کلام ہوتا ہے۔ وہ ایک خاص سر چشمے سے کسبِ فیض کرتے ہیں اور اسی سرچشمہ کومستقبل کی شاعری اور ادب کا آدرش سمجھتے ہیں۔ میں اُن کا حوصلہ بڑھاتا ہوں گھٹاتا نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آنے والے زمانے یہ کام کر دیں گے۔ اُن کو اپنی ناکامی کا احساس ہو گا۔ ابھی تو چڑھتا شباب ہے۔ تو میں افتخار راغبؔ صاحب کا کلام سن کر چونکا کہ اس عہد میں یہ آواز، یہ لہجہ اور یہ تیوَر اور یہ کلاسیکل اسلوب اس جوان کے ذوقِ شعر میں کیسے داخل ہو گیا؟

اکیسویں صدی کے نقارہ خانے میں یہ طوطی کی آواز کیسے سما گئی؟ یہ ہمت اسے کیسے ہوئی، کون سا اعتماد اسے اس دور میں سہارا دے رہا ہے۔ میں نے سمجھا کہ یہ سہارا خارجی نہیں داخلی ہے۔ یہ اعتماد  اس کی روح میں مسند نشیں ہے کہ اردو کا یہ اصلی لہجہ اور تیور ہے یہی دوامی ہے یہی جاودانی ہے۔ چالو لہجہ کرتب ہے پینترہ ہے وقتی ہے اور ہنگامی ہے۔ مگر یہ لہجہ اور تیور بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے کلاسیکل دور کے مطالعوں میں ڈوبنا پڑتا ہے اور ڈوب کر نکلنا پڑتا ہے۔ ڈوبنا کون چاہتا ہے سطح پر تیرناسب چاہتے ہیں۔ لیکن تیرنے سے گوہر کہاں ملتا ہے۔

میرؔ نے صدیوں پہلے کہا تھا اور آج تک رٹ رہے ہیں اور جھوم رہے ہیں      ؎

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا

کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا

میں بھٹکتا رہا کسی کے لیے

اور کوئی ڈھونڈھتا رہا مجھ کو

(راغبؔ)

چین اک پل نہیں مجھے راغبؔ

ہو گیا ہے نہ جانے کیا مجھ کو

(راغبؔ)

اب کس کے دل میں کرب ہے۔ اب یہ باتیں کون بولتا ہے۔ ایسی باتیں بولنی لوگ شروع کر دیں گے تو پھر بہار آ جائے گی۔ لوگ گلے ملنے لگیں گے۔ آنکھوں میں چمک بڑھ جائے گی اور دل کا رقص عام ہو جائے گا      ؎

جڑ گیا شیشہ بھروسے کا مگر

رہ گئے ہیں بال کچھ باریک سے

بے سبب راغبؔ تڑپ اٹھتا ہے دل

دل کو سمجھانا پڑے گا ’ٹھیک سے‘

یہ ’’ ٹھیک سے‘‘ ہزاروں سال کے بعد آتا ہے۔ نرگس کو بہت رونا پڑتا ہے    ؎

میں اپنے بدن میں بے ٹھکانہ

مل جائے مجھے پناہ کوئی

قدامت سے جدیدیت تک کا سفر ایسی چابکدستی سے کرنا ہر شخص کے بس کا نہیں۔ کہ

 ’’جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا‘‘

میں سب کی بھلائی چاہتا ہوں

ہے میرا بھی خیر خواہ کوئی

سو سال پہلے بادشاہ نواب کے مکان میں ہفت روزہ مشاعرہ ہو رہا تھا۔ شادؔ کے شاگرد بیتابؔ عظیم آبادی نے ایک طرح پر یہ شعر پڑھ دیا    ؎

سبیلِ ساقیِ کوثر نثار ہے جاری

پکار ہے کہ کوئی بادہ خوار باقی ہے؟

سب نے اس طرح پر اپنی غزلیں چاک کر دیں کہ اس شعر کے بعد اس طرح پر کون غزل پڑھے گا۔

’’پکار ہے کہ کوئی بادہ خوار باقی ہے؟‘‘ ’’ہے میر ا بھی خیر خواہ کوئی‘‘ دونوں ایک قبیلے کے ہیں۔ اور  ’’ کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست‘‘

اک صورت اتارنا غزل میں

لفظوں کا پسینہ چھوٹ جانا

کس درجہ سرور بخش تھا وہ

اُس کوچے میں جھوٹ موٹ جانا

آج تک مصحفیؔ کا یہ شعر لوگ پڑھتے ہیں اور جھومتے رہتے ہیں      ؎

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

کبھی اِس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا

میں نے بہت سے شعر راغبؔ کے انتخاب کئے ہیں مگر ان پر لکھنا مری فرصت کے اوقات سے باہر کی بات ہے۔

افتخار راغبؔ کے متعلق میں ایک بات اور کہہ دوں۔ وہ بات اب شاید نو جوانوں میں کسی پر صادق آتی ہو۔ وہ یہ کہ ان میں فطری جوہرِ شاعری ہے۔ وہ شاعری پر محنت کریں نہ کریں اگر شغل ہی جاری رکھیں گے تو ان کے سامنے کشادہ اور افتادہ راہیں خود بخود نمایاں ہوتی رہیں گی۔ انھیں فطری طور پر زبان و بیان اور اسلوب پر گرفت نظر آتی ہے۔ یہ بہت خوش نصیبی کی بات ہے۔ وہ ہمیں کم سخن نظر آئے۔ کم سخنی کی ایک اہم شناخت اس بات کی ہے کہ وہ با محل باتوں پر قابو دے دیتی ہے بے محل باتیں اس سے چھنٹ جاتی ہیں۔ کم سخنی باتوں کو اندر اندر تولتی پرکھتی چھانٹی رہتی ہے اور اپنے اندر کی فنّی بھٹّی میں ڈالتی رہتی ہے۔ اسے پکاتی اور پختہ بناتی رہتی ہے۔ جب محل اور موقع آتا ہے تو بول دیتی ہے اور وہ بات با وضع با محل تراشیدہ اور سڈول بن کر سامنے آ جاتی ہے۔

یہ بالکل معمولی اشعار ہیں ان میں خیال اور تجربے کی گہرائی نہیں ہے۔ لیکن یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ یہ قافلہ نہیں ہے پیش خیمہ ہے۔ قافلہ تو پیچھے آ رہا ہے    ؎

انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو

الجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو

کچھ تو رہے اسلاف کی تہذیب کی خوش بو

ٹوپی ہی لگا لیجیے دستار نہیں تو

یہ بولی ایک بہت ذہین بچے کی ہے۔گفتار کا یہ اسلوب کلاسیکل ہے جو اب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔

 ایک غزل ہی سن لیجیے۔ لگتا ایسا ہے کہ بے محنت نکل آئی ہے لیکن یہ بے محنت نہیں نکلی ہے۔اس محنت میں کچھ اور عوامل لگ گئے ہیں جن کا شاعر کو خود پتہ نہیں ہے۔

کہا کہ آپ کو یوں ہی گمان ایسا ہے

وہ بولے جی نہیں سچ مچ جہان ایسا ہے

کہا کہ آئیے بس جائیے مرے دل میں

وہ بولے آپ کے دل کا مکان ایسا ہے؟

کہا کہ پھولوں میں کیا خوب دل ربائی ہے

وہ بولے کیوں نہ ہو جب باغبان ایسا ہے

کہا کہ آپ کے جیسا کوئی حسین نہیں

وہ بولے آپ کو یوں ہی گمان ایسا ہے

کہا کہ آپ کے آنچل سی کوئی چیز ہے کیا

وہ بولے تاروں بھرا آسمان ایسا ہے

کہا کہ آپ تو راغبؔ کو بھی بھلا بیٹھے

وہ بولے وقت ہی نا مہربان ایسا ہے

بہت سے اشعار میرے انتخاب میں رہ گئے ہیں۔ اب فرصت نہیں ہے۔

راغبؔ کی آواز چوٹ کھائے ہوئے دل کی آواز نہیں ہے مگر

’’جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد‘‘

کلیم احمد عاجزؔ

۳۱/ دسمبر ۲۰۰۹ء

پٹنہ، بہار

نوٹ : یہ مضمون محترم کلیم احمد عاجرؔ صاحب نے ۴ سال قبل میرے پہلے اور دوسرے مجموعۂ کلام ’’لفظوں میں       احساس‘‘ اور ’’خیال چہرہ‘‘ کو دیکھنے کے بعد تحریر فرمایا تھا جو  ماہنامہ ’’پیش رفت‘‘  دہلی،  سہ ماہی  ’’حسنِ خیال‘‘ دوحہ اور ہفت روزہ ’’سیاست مڈل ایسٹ‘‘ دوحہ میں شائع ہو چکا ہے۔(افتخار راغبؔ)

٭٭٭

 

ایک البیلا فطری شاعر۔افتخار راغبؔ

                   پروفیسر احمد سجاد

کئی مطبوعہ مجموعہ کلام کے شاعر افتخار راغبؔ پیشہ کے اعتبار سے ایک سول انجینئر، ذوق کے اعتبار سے فطری شاعر اور فکر کے اعتبار سے تعمیر پسند تخلیق کار ہیں۔ اس وقت ان کا نیا مجموعہ ’’غزل درخت‘‘ راقم الحروف کے پیش نظر ہے جس میں تقریباً ستر غزلیں ہیں۔

فطرت میں جو سادگی و بے ریائی کے ساتھ حسن آفرینی ہوتی ہے وہی خصوصیات ایک فطری شاعر کے یہاں پائی جاتی ہیں،افتخار راغب ؔکی خوش نصیبی کہ وہ ان خوبیوں سے متصف ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پوری شاعری سہل ممتنع کی شاعری ہے۔ صاف، سادہ، سلیس و فصیح مگر معنیٰ خیز اور فکر انگیز۔ اس لیے بہت آسان اور دلکش ہوتے ہوئے بھی جملہ تہداریوں پر عبور حاصل کرنا مشکل ہے۔ ہوا اور پانی کس قدر سہل الحصول ہیں مگر انہیں اپنی مٹھی میں قابو کرنا ناممکن ہوتا ہے یہی حال راغبؔ کی شاعری کا ہے کہ ہر شعر دل کو چھو تو لیتا ہے مگر اس کی چوپہل کیفیات کو قابو میں کرنا مشکل ہے۔

راغبؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کی ذہنی کیفیات کی بہترین عکاس ہے، جس کا ہر شعر مختلف جذبات اور مختلف مشاہدات کا عکاس ہوتا ہے۔ چنانچہ راغبؔ چوٹ کھائے ہوئے دل اور نیرنگیِ زمانہ کے مختلف نشیب و فراز اور اپنے فکر و نظر کے مختلف تجربات و مشاہدات کو اس سادہ و سبک انداز میں پیش کر دیتے ہیں کہ قاری کچھ دیر تک حیرت زدہ سا رہ جاتا ہے۔ کیفیات عشق و محبت غزل کا ہمیشہ سے محبوب موضوع رہے ہیں۔ راغبؔ ؔ کا انداز دیکھیے    ؎

محبت کی ہوا جب دل میں پہلی بار چلتی ہے

نہ پوچھو کس قدر ہر سانس ناہموار چلتی ہے

ہر اک ذرہ مہکتا ہے وہاں مشک ختن جیسا

ہوا ان کی گلی میں کتنی خوش بو دار چلتی ہے

چین اک پل نہیں مجھے راغبؔ

ہو گیا ہے نہ جانے کیا مجھ کو

بے سبب راغبؔ تڑپ اٹھتا ہے دل

دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے

غالبؔ نے شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا تھا کہ ع ’’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔ راغبؔ کے اس طرح کے اشعار پر عصر حاضر کے میر،ؔکلیم احمد عاجزؔ نے لکھا ہے کہ’’ یہ ’ٹھیک سے‘ ہزاروں سال کے بعد آتا ہے،نرگس کو بہت رونا پڑتا ہے‘‘(بحوالہ ہفتہ وار سیاست مڈل ایسٹ ایڈیشن،قطر مورخہ ۱۳ ؍ اگست ۲۰۱۳؁ء۔ ص۱۲)۔راغبؔ کو دور جدید کا کلاسیکی شاعر کہنا بھی مبالغہ نہ ہو گا    ؎

میں اپنے بدن میں بے ٹھکانہ

مل جائے مجھے پناہ کوئی

کے بارے میں کلیم احمد عاجزؔ کا تاثر یہ ہے کہ ’’قدامت سے جدیدیت تک کا سفر ایسی چابکدستی سے کرنا ہر شخص کے بس کا نہیں کہ ع جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا‘‘۔موصوف نے راغبؔ کے اس شعر    ؎

میں سب کی بھلائی چاہتا ہوں

ہے میرا بھی خیر خواہ کوئی

کو سوسال پہلے شادؔ کے شاگرد،بیتاب ؔعظیم آبادی کے اس شعر کا ہم پلہ قرار دیا جسے سن کے سب نے اس طرح پر اپنی غزلیں چاک کر دیں کہ اس شعر کے بعد اس طرح پر کون غزل پڑھے گا      ؎

سبیل ساقی کوثر نثار ہے جاری

پکار ہے کہ کوئی بادہ خوار باقی ہے؟ (بیتابؔ)

’’پکار ہے کہ کوئی بادہ خوار باقی ہے؟‘‘ اور ’’ہے میرا بھی خیر خواہ کوئی‘‘ دونوں ایک قبیلے کے ہیں اور ع :کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ مانیست‘‘۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ راغبؔ قدیم کلاسیکی انداز ہی کے شاعر ہیں، ان کے کلام میں ان کی زندگی، دور زمانہ کی نیرنگیوں کی مختلف جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ جس غزل کے دو اشعار آغاز میں پیش ہوئے ہیں اسی غزل میں شاعر نے بڑی سادگی کے ساتھ اس متضاد حقیقت کا بھی اظہار کیا ہے کہ کہیں کچی سڑکوں پہ آج بھی بیل گاڑی چلتی ہے تو کہیں سورج کی کرنوں سے موٹر کار چلائی جا رہی ہے۔ اپنے ماحول میں عمل اور رد عمل کا یہ حال ہے کہ ’’ادھر میں سر اٹھاتا ہوں ادھر تلوار چلتی ہے‘‘۔ان کی فکری صلاحیت اور فنی سلامتی بھی دیکھیے کہ انھوں نے اسی غزل کے ایک شعر میں ’’اخلاق و کردار‘‘ کے مقابلہ میں ’’ شوخیِ گفتار‘‘ کو حقیر تر دکھایا ہے۔ لہذا شاعر کی کم سخنی اور محتاط بیانی کو ان کی سست روی پر محمول نہ کیا جائے۔ کیونکہ شاعر کی فکر ’’روشنی رفتار چلتی ہے‘‘۔ یہیں پر ان کے پیشہ ورانہ مہارت کو تخلیقی رنگ و آہنگ میں دیکھنا ہو تو یہ شعر ملاحظہ فرمایئے    ؎

یہ کیا نقشے میں تم نے ہر طرف شیشہ دکھایا ہے

مرے بھائی یہاں بس اینٹ کی دیوار چلتی ہے

قدیم و جدید اور ماضی و حال کا یہ سنگم دراصل ان کی سلامتیِ فکر ونظر کا حاصل ہے۔ راغبؔ روایت کی اندھی تقلید کے اگر ایک طرف مخالف ہیں تو دوسری طرف ماضی کی صحت مند قدروں سے اپنی آنکھیں روشن بھی کرتے ہیں    ؎

آنسو بہت بہے مگر آنکھیں چمک اٹھیں

ماضی کو اپنے دیکھا جو ہم نے پلٹ کے آج

راغبؔ کا تعمیری نقطۂ نظر ہی وہ بنیادی پتھر ہے جو ان کے فکر و نظر کو ہر حال اور ہر بیان میں متوازن رکھتا ہے۔ وہ حقائق حیات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ    ؎

زندگی کا عظیم مقصد ہے

یہ کسی گلستاں کی سیر نہیں

اسی لیے وہ ہرسخنور کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ    ؎

ہر سخنور کو چاہیے راغبؔ

بے تکی واہ واہ سے بچنا

دوچار دن کی عزّت و شہرت کے واسطے

کچھ لوگ بیچ دیتے ہیں ایمان بے دریغ

ان کے اشعار میں جا بجا قرآنی حقائق بڑے شاعرانہ انداز میں آ گئے ہیں۔ وہ زندگیِ بعد موت پر ایمان رکھتے ہیں اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’پھر اٹھایا جاؤں گا مٹی میں مل جانے کے بعد ‘‘نیز اخلاقی قدروں کے معاملے میں قرآنی تمثیلوں کو بھی بڑی خوبی سے نظم کر دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو یہ شعر    ؎

کیا بتاؤں کر کے میری غیبتیں

نوش فرماتے ہیں کچھ احباب کیا

اب ’’اذ الشمس کورت(جب سورج کو لپیٹ دیا جائے گا۔ سورہ ۸۱،تکویر) کا شاعرانہ اظہار دیکھیے    ؎

ساری کرنیں وہی لپیٹے گا

جس نے بخشی حیات سورج کو

ان کے علاوہ وہ اسلامی و قرآنی اخلاقیات کے معروفات و منکرات کو اپنے تخلیقی اظہار کا موضوع بنانے میں بھی نہیں جھجکتے لطف یہ ہے کہ اس اظہار میں وہ فنی طریق کار کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ قرآن و حدیث کے محض ایک ایک بیان پر یہاں اکتفا کیا جاتا ہے    ؎

خدا کے حکم پہ جھک جائے دل فرشتوں سا

نہ ہو غرور تو شاید اگر مگر بھی نہ ہو

تلبیس ابلیس کے پورے واقعے کو شاعر نے محض ’’اگر مگر‘‘سے جس طرح مؤثر بنایا ہے یہ زبان و بیان پر ان کی قادرالکلامی کا واضح ثبوت ہے۔ اب ایک حدیث کا شاعرانہ اظہار بھی قابل توجہ ہے    ؎

قضا کا وقت ہو یا سامنے قیامت ہو

لگا سکیں تو لگا دیجیے شجر پھر بھی

اسی لیے راغبؔ کبر و ریا کے مقابلے میں خاکساری اور فتنہ پروری و عیاری کے مقابلے میں اخلاص و ایثار کی قدروں کے فروغ کو جا بجا بڑے حسین اور مؤثر انداز میں شعری جامہ پہناتے ہیں۔ سب کی مثالیں پیش کرنا طول عمل ہو گا۔صرف ایک شعر ملاحظہ ہو    ؎

کیا پتا عظمت انکسار

خود نماؤ تمہیں کیا پتا

ایک خاص بات جو تعمیر پسند فنکاروں کے یہاں تقریباً قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ ہے ہر حال میں ان کا رجائی انداز بیان۔ حالات خواہ کیسے ہی ناگفتہ بہ ہو جاتے ہوں ایک خدا پرست تخلیق کار خود کو بالکل مایوس و نامراد کبھی نہیں محسوس کرتا کہ اس کا ایمان ’’ان اللّٰہ مع الصابرین اور لاتقنطو من الرحمتہ اللہ‘‘ پر ہوتا ہے۔ کیونکہ اقبال ؔ کے لفظوں میں ’’امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں ‘‘۔ اب راغبؔ سے سنیے    ؎

تری ساری بخشش و فضل پر میں سراپا شکر وسپاس ہوں

مرے دل میں صبر و قرار ہے مجھے ہو گا رنج و ملال کیا

نہیں غلام جو تیرے سوا کسی کے ہم

ہمارے دل میں کسی دوسرے کا ڈر بھی نہ ہو

جذبۂ شعر و سخن سوز محبت کے طفیل

حوصلے گرمیِ افکارسے مل جاتے ہیں

غالبؔ نے کبھی کہا تھا کہ’’ نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلہ کی پروا‘‘ اب راغبؔ سے سنیے    ؎

مرکوز توجہ ہے فقط کام پہ راغبؔ

انعام سے واقف نہ میں اکرام سے واقف

اس رجائیت کا یہ مطلب نہیں کہ درد و غم، مہاجرت کے کرب اور آلام روزگار سے شاعر غیر متاثر ہے۔ شاعر کا اصل کمال یہ ہے کہ مذکورہ تمام تلخ حقائق کے باوجود اس نے اعتدال و توازن کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ شاعر نے رزق حلال کے لیے اپنے دیس کی مٹی اور اس کی سوندھی سوندھی خو ش بو سے دور صحرا نوردی اور دھوپ کی شدت کو جس طرح مجبوراً گوارہ کیا ہے اس لیے خود کو ’’شاعر مہجر‘‘ سے تعبیر کیا تو کبھی اپنے کو ’’گملے میں لگے پھول‘‘سے تشبیہ دی اور خود کو’’ ٹوٹے ہوئے پتے کی حکایت‘‘ سے منسوب کیا ہے    ؎

کیا پتا ٹوٹے پتوں کا کرب

اے ہواؤ تمہیں کیا پتا

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اڑا کر

ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے

ان تمام حقائق کے باوجود شاعر کی سلامتیِ فکر اور حسنِ بیان میں کہیں انتہا پسندی نہیں آتی۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ان کی سلامت روی اور شگفتہ بیانی میں تلخیِ ایام نے ان کی شیریں گفتاری میں اضافہ کیا، فکر میں بلندی اور نظر میں گہرائی و گیرائی بخشی، لہذا تعلّی کا یہ شعر مبنی بر حقیقت ثابت ہوا    ؎

تو ہے سخن کا تاج محل اے مری غزل

کیا داد کوئی دے ترے نقش و نگار کی

سچ تو یہ ہے کہ راغبؔ کے اس ’’تاج محل کے نقش و نگار‘‘ کا تجزیہ و تحلیل بذات خود ایک اہم موضوع ہے جس پر ناقد ین و محققین ادب کو یکسوئی سے غور و فکر کرنا چاہئے۔ راغبؔ نے اپنے فکر عمیق اور خیال بلند کو جا بجا جس سادگی و بے تکلفی سے اشارے کنایوں اور باتوں باتوں میں پیش کیا ہے۔اس نے ان کی شاعری کو ان کے معاصرین کی شاعری سے ممتاز و منفرد بنا دیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں    ؎

لفظوں میں ترے حسن کی تنویر بسا لوں

اے کاش کہ اشعار کی توقیر بڑھا لوں

خوش بو سے تراشوں میں ترے حسن کا پیکر

رنگوں سے گلوں کے تری تصویر بنا لوں

اس خوش رنگی و خوش بیانی کے ساتھ یہ عزم بالجزم بھی بہتوں کے لیے قابل رشک ہے      ؎

ظالم سے لڑوں گا میں قلم ہاتھ میں لے کر

دشمن کی یہ کوشش ہے کہ شمشیر اٹھا لوں

راغبؔ عام فہم اور آسان ترین الفاظ کو اپنے خون جگر میں ڈبو کر ایسے سیاق و سباق میں الٹ پلٹ کے پیش کرتے ہیں کہ ان کی معنویت تہدار اور دہ چند ہو جاتی ہے۔ یہاں دو اشعار میں ’خبر‘ اور قبلہ و قبیلہ کے سیاق میں ان کی معنی آفرینی پر غور کیا جائے      ؎

کیا جانے کیا ہو رد عمل کچھ خبر نہیں

جائے گی جب خبر مری اس بے خبر کے پاس

سادگی سے مری نہ جانے کیوں

خوف و دہشت میں مبتلا ہے وہ

یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست لوگ

قبلہ بنے ہوئے تھے قبیلہ پرست لوگ

الفاظ کے توڑ پھوڑ اور ہفوات گو جدّت پسندوں کے برعکس شاعر الفاظ و معانی کے اٹوٹ رشتے پر یقین کامل رکھتا ہے     ؎

اشعار میں اب جدّت آئے گی نظر ان کو

اب ربط نہیں کوئی الفاظ و معانی میں

چشم پوشی حال کے احوال سے

چاہتے ہو حال مستقبل میں فرق

حسب موقع آسان فارسی ترکیبوں کو حسین انداز میں استعمال کرنے کا راغبؔ گر جانتے ہیں مثلاً ’’برگِ آوارہ، پر نور، شعلہ ادا، پابندِ ماہ وسال، وفا محل، رسمِ زندگی، فروغِ امن و اماں، عہد نظارہ، اندازِ ستم، فتنۂ اشتباہ، کاسہ بدست، قبیلہ پرست، زینتِ زنداں، کج ادا، دلِ خوش فہم، کم سخن، فکر دامن گیر وغیرہ‘‘۔ مگر ان سادہ فارسی ترکیبوں سے زیادہ راغبؔ کے یہاں ہندی کے سادے سلونے الفاظ کی کثرت پائی جاتی ہے مثلاًسمے،اُدے،سکھ، چین، ککہرا، لہرا، اکہرا،پیت،دوشی، ہل جانا، دل وارا کرنا، نرم چارہ، کھنکنا، ننھا دیپ، دکھاوا، جیتے جی، سورج مکھی وغیرہ۔ اسی طرح کم کم ہی سہی مگر انگریزی کے بعض عام فہم الفاظ بھی اس طرح استعمال کیے گئے ہیں کہ ان کی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ان تمام خدا داد صلاحیتوں کے باوجود ہر بڑے شاعر کی طرح راغبؔ بھی اپنے اظہار میں گھٹن اور تنگی محسوس کرتے ہیں۔ غالب نے اگر یہ کہا تھا کہ ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے ‘‘ تو راغبؔ یہ کہتے ہیں کہ      ؎

پیکرِ شعر میں ہر جذبہ نہیں ڈھل پاتا

کچھ نئے لفظ دے یا چھین لے گویائی بھی

لب و لہجہ اور سامنے کے سادہ الفاظ کے برمحل استعمال سے معنی خیزی کا گر راغبؔ خوب جانتے ہیں    ؎

تم سے مجھ کو آپ تم کہنے لگو

دوستی وہ دن نہ دکھلائے کبھی

دائرہ در دائرہ تقسیم سب

اپنا اپنا سب کو ہے سرکل پسند

لہذا کم ظرفوں پر ان کا یہ طنز غلط نہیں کہ    ؎

کم نہیں زعم انہیں اپنی سخن دانی کا

گفتگو کے بھی جو آداب سے ناواقف ہیں

شاعر کے خیال میں غزل میں دلکشی و دلبری سے زیادہ ’’تازگی‘‘ کی ضرورت ہے۔ اور یہ تازگی موقوف ہے کسی بڑی مقصدِ حیات پر مگراس بات کو غزل کا شاعر کھلے ڈلے انداز میں نہیں بلکہ ایمائی انداز میں پیش کرتا ہے    ؎

غزل کے جسم میں آئیں جو آپ جاں بن کر

ہر ایک شعر چمک اٹھے کہکشاں بن کر

راغبؔ عام فہم محاوروں سے معنی آفرینی کا فن جانتے ہیں مثلاً ہاتھ پاؤں ہلانا، نظر بچانا، آر پار کی جنگ، پیچھے بھاگنا، ہوا دینا، آگ پانی میں لگانا، بات بڑھانا وغیرہ۔صنعت تضاد کے ذریعہ فکر و نظر کو حسین و موثر بنانے کا فن عہد قدیم سے جاری ہے، راغبؔ ا پنے کلام میں اس بند کو بڑی چابکدستی اور کثرت سے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ قاری محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا      ؎

خوش ہونا وہ تیرا جیتنے پر

دانستہ وہ میرا ہار جانا

میں سب کا ہوں افتخار راغبؔ

اک گل نے ہے مجھ کو خار جانا

یہاں ہار نے، جیتنے اور گل و خار کے علاوہ اپنے نام ’’افتخار‘‘ کو بھی ذو معنی انداز میں استعمال کر کے شاعر نے اس سادہ سے شعر میں معنویت کی ایک اور تہہ کا اضافہ کر دیا ہے۔ شاعر الفاظ و معانی کے تعلقات میں ’’چرب زبانی‘‘ کا مخالف مگر جدّت آفرینی کا قائل ہے۔ اب تغزل کا یہ خوبصورت سا شعر دیکھیے اور الفاظ کی جادوگری کا اندازہ کیجیے    ؎

اُس پر ہی نہ جانے کیوں ہم جان لٹا بیٹھے

معلوم نہیں کیا تھا اس دشمنِ جانی میں

سادہ لوحی ہے کہ بے مہری کہاں کھلتا ہے

دل میں رہ کر دلِ بے تاب سے ناواقف ہیں

خود کو کرتی رہی قربان درختوں پہ ہوا

سبز شاخوں کو کبھی توڑ کے اترائی بھی

دکھائے ان کا وہ چہرہ جو ہے پس چہرہ

نگاہ وقت کو ایسی ہے روشنی درکار

نہ فرق پاؤ گے کچھ میری خاکساری میں

زمین بن کے ملو تم کہ آسماں بن کر

خاکساری کی یہ ادا کہ آسمان والوں کو بھی ’’تم‘‘سے خطاب کر کے لطف و معنویت کو دوبالا کر دیا گیا۔میرؔ کی زمین اور انداز میں یہ غزل نقل نہیں اصل کا لطف دینے والی ہے    ؎

کیسے کہیے دل میں بس کر دل کا جو اس نے حال کیا

جب دل چاہا دل کو سنوارا جب چاہا پامال کیا

میں اپنے سکھ چین کا دشمن، کس کو دوشی ٹھیراؤں

اک ظلمی سے پیٖت لگا کر دل کو خستہ حال کیا

        زبان و بیان کی قادر الکلامی اور لب و لہجہ کی دلربائی کا کمال وہاں دکھائی دیتا ہے جہاں شاعر نے غزل میں بھی مکالماتی انداز بیان اختیار کیا ہے    ؎

وہ کہتے ہیں کہ آنکھوں میں مری تصویر کس کی ہے؟

میں کہتا ہوں کہ روشن اس قدر تقدیر کس کی ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ کس نے آپ کو روکا ہے جانے سے

میں کہتا ہوں کہ میرے پانو میں زنجیر کس کی ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ہے انسان تو اک خاک کا پتلا

میں کہتا ہوں پر اتنی عظمت و توقیر کس کی ہے؟

اسی انداز کی ایک اور غزل کے چند انمول اشعار بھی قابل توجہ ہیں    ؎

کہا کہ آپ کو یوں ہی گمان ایسا ہے

وہ بولے جی نہیں سچ مچ جہان ایسا ہے

کہا کہ آیئے بس جایئے مرے دل میں

وہ بولے آپ کے دل کا مکان ایسا ہے؟

کہا کہ پھولوں میں کیا خوب دل ربائی ہے

وہ بولے کیوں نہ ہو جب باغبان ایسا ہے

        اس معصومانہ مگر دلکش انداز بیان میں شاعر کی فکری پختگی اور خدا پرستانہ روش جا بجا بڑے فطری انداز میں جھلکی پڑتی ہے۔ ایک طرف خاک کے پتلے کو عظمت و توقیر بخشنے والے کی یاد تو دوسری طرف پھولوں کو رنگ و روغن دینے والے باغبان کی عطا۔الفاظ کی چوپہل حقیقت کے ساتھ بحور و قوافی پر بھی فنکار کی ماہرانہ گرفت قابل توجہ ہے۔ متعدد غزلوں میں جو ترنم اور نغمگی پائی جاتی ہے انہیں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا   ؎

ترا مشورہ ہے بجا مگر میں رکھوں گا اپنا خیال کیا

مرا دل کسی پہ ہے آ گیا مرا حال ہو گا بحال کیا

تری خوش بو مرے شعروں میں بسا کرتی ہے

شاعری قرض محبت کا ادا کرتی ہے

ہاتھ رکھا تھا ہمارے دل پر اس نے ایک بار

کچھ نہیں معلوم جب سے دل ہمارا ہے کہاں۔ وغیرہ

کلیم احمد عاجزؔ کی طرح کوئی شخص بھی افتخار راغبؔ کے کلام کو پہلی بار سن کے یقیناً چونک اٹھے گا۔ اور ان کی اس بات کی تائید کرے گا کہ ’’ان میں فطری جوہر شاعری ہے‘‘۔ اِنھیں فطری طور پر زبان و بیان اور اسلوب پر گرفت نظر آتی ہے اور یہ بہت خوش نصیبی کی بات ہے‘‘۔مگر فکرو فن اور زبان و بیان کی اتنی ساری خوبیوں کی بنیادی وجہ چوٹ کھائے ہوئے دل کی آواز ہے۔ یہیں پر مجھے کلیم احمد عاجزؔ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کہ ’’راغبؔ کی آواز چوٹ کھائے ہوئے دل کی آواز نہیں ہے‘‘۔ ویسے وہ ’’جمال ہم نشیں درمن اثر کرد‘‘ کے ضرور قائل ہیں۔ مگر یہ اک کمتر درجے کی بات ہے۔جس شاعر نے اتنی کم عمری میں متعدد مجموعہ ہائے کلام شائع کرا کے اہل نظر سے داد و تحسین حاصل کی ہو اور جو سہل ممتنع میں ایسے ایسے فنی جواہر پارے چمکانے پر قادر ہو کہ قاری بھی دل کو تھام تھام لے ایسا عام شاعروں کے بس کا نہیں۔ آخر میں چند متفرق اشعار پر اکتفا کیا جا رہا ہے   ؎

بے سہارا نہ سمجھ لے دنیا

نرم چارا نہ سمجھ لے دنیا

اپنی پلکوں سے اٹھاؤں تجھ کو

میں تو آنکھوں میں بساؤں تجھ کو

روٹھنا مت کہ منانا نہیں آتا مجھ کو

پیار آتا ہے، جتانا نہیں آتا مجھ کو

ترا چہرہ ہے دل کے آئینے میں

بہت محفوظ ہے تو حافظے میں

مت مجھے مہر و مہہ دیجیے

چلنے پھرنے کو رہ دیجیے

آئینے کے ہیں وہ روبرو

اُن کو میری نگہ دیجیے

پروفیسر احمد سجاد

رانچی، جھارکھنڈ

٭٭٭

 

دعوتِ کیف

                   ڈاکٹر فیصل حنیف

بر صغیر کی خوش قسمتی ہے کہ اس سرزمین کو اردو شاعری کی نسبت سے ایسے عالی دماغ صاحبانِ کمال و فن میسر آ گئے جن کی وجہ سے عالمی ادب میں بر صغیر کا مقام قابلِ رشک ہو گیا اور زبانوں میں اردو زبان کی قدر بڑھ گئی اور اس کی توقیر میں اضافہ ہو گیا۔ شاعری کی فسوں گری کے اس سفر میں ولیؔ کی جمال پرستی اور ٹھیٹھ زبان،آبروؔ کی وسعت خیالی، شاہ حاتمؔ کی شستگی اور جامعیت، خان آرزوؔ کی استادی، جانِ جاناں مظہرؔ کی زبان آوری، سوداؔ کی زبان سازی، میرؔ کا سوز، درد ؔ کا اختصار اور بلاغت، نظیرؔ کی مقامیت اور عوامیت، جرأتؔ و انشاؔ کی شوخی اور معاملہ بندی، مصحفیؔ کی قادر الکلامی، ناسخؔ کی اصلاحِ زبان، آتشؔ کی مرصع سازی، شاہ نصیرؔ کی سنگلاخ زمینیں اور مشکل قافیوں میں زور آوری، غالبؔ کی پہلو داری، معنی و نکتہ آفرینی، روایت شکنی اور شاعرانہ عظمت، ذوقؔ کی دقیقہ سنجی اور محاورہ بندی، مومنؔ کا طرب و نشاط، ظفرؔ کا دھیما پن اور رعایتِ لفظی، انیسؔ و دبیرؔ کا ایجاز و کمالِ بلاغت، اور آنکھوں میں فرات بھر دینے والے مرثیے، داغؔ کی فصاحت، امیرؔ کی شائستگی اور سنجیدگی، حالیؔ کی لطافت اور شیرینی، شادؔکی ندرت افکاری، اکبرؔ کی ظرافت اور زبان و بیان کا چٹخارہ، ریاضؔ کی شوخی اور بانکپن، جلیلؔ کی صاف اور مستند زبان، حسرتؔ کی آسان بیانی اور گنگناہٹ، اقبالؔ کی گہرائی، آفاقیت اور عالمگیری، فانیؔ کا حزن و یاس، عزیزؔ و ثاقبؔ کی روایت پسندی، یگانہؔ کی انفرادیت اورجائز تعلّی، اصغرؔ کی جنبشِ تحیر کا سکوت، جگرؔ کے تغزل کی بے ساختگی اور روانی، فراقؔ کی رموزِ حسن و عشق سے واقفیت اور نئے میلانات، جوشؔ کا شکوہِ الفاظ، حفیظؔ کی نغمگی، اخترؔ شیرانی کی رومانویت، مخدومؔ کے ابرِ گوہر بار قلم کی روانی، راشدؔ اور میٖرا جی کا تخیل اور وسعت، مجازؔ کی حلاوتِ زبان، فیضؔ کی موسیقیت، مجروحؔ کی نغز گوئی، مجید امجدؔ کے ہئیت کے تجربے اور اظہار کی پختگی، اختر الایمان کی قوتِ ایجاد اور طرفگیِ خیالات، ساحرؔ کی نازک خیالی اور بے باکی، ناصرؔ کی اداسی، سلاست اور ٹھہراؤ، اور جونؔ کی جدت طرازی، کی جلوہ گری گیسوئے اردو کو شانے سے بے نیاز کرتی دکھائی دیتی ہے۔

چونکہ سماجی اور فکری پس منظر مسلسل ارتقا کے عمل سے گزر رہا ہے اور زبان و ادب پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس لیے آسمانِ خوش لہجگی پر موجود ولیؔ دکنی سے جونؔ ایلیا تک، اَن گنت روشن ستاروں کی موجودگی میں بھی بابِ سخن کھلا ہے اور کھلا رہے گا۔ لیکن اس باب میں داخل ہونے والوں اور اسے مزید وا کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس دور میں شاعر تو ہزاروں ہیں لیکن شاعری کم ملتی ہے۔ سب کچھ تجارتی ہو چکا ہے۔ ایسا نہیں کہ اچھے شاعر بالکل ناپید ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت گھٹ چکی ہے۔ کسی بھی زمانہ میں ایسا نہیں ہوا کہ سبھی شاعر اچھا لکھتے ہوں یا کسی ایک شاعر کا سارا کلام اچھا ہو، تاہم فرق یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اچھے شاعروں اور شاعروں کا تناسب منفی انداز میں مختلف ہوتا گیا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ شاعری کے زوال کا دور ہے کیوں کہ شاعری میں جو کہا جا سکتا تھا کہا جا چکا ہے۔ اور اب ضرورت شاعری کے زوال کا نوحہ پڑھنے کی ہے۔ اگرچہ یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن مکمل درست نہیں۔ کیوں کہ شاعری میں کہنے کو بہت کچھ باقی ہے، تخیل، جدّت اور خیال آفرینی کی حد اب تک طے نہیں ہوئی۔ شاعری میں نیا پن، معنویت اور چاشنی کئی طرح سے لائی جا سکتی ہے۔

یہ مضمون بابِ سخن وا کرنے والے بادۂ شاعری سے سرشار ایسے ہی ایک شاعر کا بیان ہے جس کو شعر سے ایسی مناسبت ہے کہ اس کی نہ صرف ادبی بلکہ ذاتی زندگی کا خاکہ صرف ایک لفظ ’شاعری‘ میں کھینچا جا سکتا ہے     ؎

مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر

شہر میں کھولی ہے حالیؔ نے دکاں سب سے الگ

تخلیق کارِ کلامِ دل پذیر، علمبردارِ توازنِ لفظ و معنی، بدرِ آسمانِ شعر و سخنِ قطر، افتخار راغبؔ کی شاعری خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے مندرجہ بالا شعر کی تفسیر ہے۔ میں ایسا سمجھتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں شاعری کی ’دکانیں ‘ تو بے شمار ہیں لیکن ایک ایسی ’دکان‘ جو سب سے الگ ہو، کی باز یافت اگر چہ نا ممکن نہیں پر بے حد مشکل ضرور ہے۔ ہمارے نزدیک شاعری وہی ہے جو پڑھنے والے کی حسِ لطافت اور حسِ جمالیات کو چھو کر اس کی روح کو تازہ کر دے۔ ’’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ‘‘ کی کیفیت اگر شعر سے پیدا نہ ہو سکے تو وہ فقط قافیہ پیمائی ہے۔ وہ دفع الوقتی کا مشغلہ تو ہو سکتا ہے لیکن اسے شاعری کہنا مناسب نہ ہو گا۔ قافیہ پیمائی کے اس دور میں جہاں اردو شاعری کا حال دگرگوں ہے، قطر میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے شاعر افتخار راغبؔ نے ہزار محنت سے کئی منزلیں کاٹ کر مالِ نایاب کی ایک الگ دکانِ سخن کھولی ہے۔ لطفِ زبان، سادگی و سلاست، معنویت، عمدہ تخیّل، مضامین کی نزاکت اور ان کا حسن، نیا پن، صحت مندانہ رویہ، حسنِ بیان، اعتدال، حقیقت پسندی اور عمدہ فلسفہ راغبؔ کے کلام کی چند ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے راغبؔ کو اپنے بہت سے معاصرین پر فوقیت حاصل ہے۔ اس مضمون کا عنوان ’’دعوتِ کیف‘‘ اسی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ ہم اس مضمون میں راغبؔ کی شاعری کی خصوصیات واضح کرنے کے بعد راغبؔ کی ’’غزل درخت‘‘ دکان کے سرمایۂ سرور کی کنجیاں بھرپور حظ اٹھانے کے لیے آپ کے حوالے کر دیں گے۔

آج جب کہ یہ ریٖت چل پڑی ہے کہ شاعر اپنی شاعری کے باب میں اپنی رائے، آشنائی کی راہ سے دوسروں کی زبان سے کہلوا کر اپنی کتاب کی زینت بنا لیتے ہیں۔ ان دیباچوں اور تبصروں کی خوبی ہے کہ یہ ’برعکس نہند نام زنگی کافور‘ کے مصداق ہوتے ہیں اور اگر آپ ان میں شاعر کا نام بدل کر کسی دوسرے شاعر کا نام لکھ دیں تو بھی مضمون اتنا ہی کھرا اور کار گر ہوتا ہے۔ راغبؔ کی ایک اضافی اور نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ سرگشتۂ ریٖت نہیں اور ایسی ہر بات جس میں غلط اور بے جا خود نمائی کا پہلو ہو، سے کوسوں دور ہے۔ یہی فرق کہ راغبؔ نے خود کو اس قبیح رسم کے سانچے میں نہ ڈھلنے دیا، اس کو ایک خالص فنکار کے طور پر مزید منفرد بناتا ہے۔ وگرنہ اس دور میں اچھے شاعر اگرچہ کم، پر ہیں تو سہی، تاہم اس بندِ گراں کو توڑنے کا وصف، اور اسلوبِ سخن میں فرق کی بات کچھ یوں ہے کہ    ؎

ہیں وفادار اور بھی، لیکن

ہے مری جاں وفا وفا میں فرق

 شاعری کے موضوع اور افتخار راغبؔ کی شاعری پر ہم نے اِسی کتاب میں بزبانِ انگریزی ایک مضمون لکھا ہے، ہماری کوشش ہو گی کہ جہاں تک ممکن ہو اِس مضمون میں، انگریزی کے مضمون کی باتوں کا اعادہ نہ کیا جائے۔

اردو زبان میں شاعر بننے کے لیے کس شرط کی ضرورت ہے، اس کے بارے میں الطاف حسین حالی ؔ سے سنیے۔ حالیؔ اپنی کتاب ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں لکھتے ہیں ’’ہمارے ملک میں فی زمانہ شاعری کے لیے صرف ایک شرط یعنی موزوں طبع ہونا درکار ہے۔ جو شخص چند سیدھی سادی متعارف بحروں میں کلام موزوں کر سکتا ہے گویا اس کے شاعر بننے کے لیے کوئی حالتِ منتظرہ باقی نہیں رہتی۔ معمولی مضامین، معمولی تشبیہوں اور استعاروں کا کسی قدر ذخیرہ اس کے لیے موجود ہی ہے۔ جس کو صدیوں سے لوگ دہراتے چلے آتے ہیں اور اتفاق سے وہ طبع بھی ہے اب اس کے لیے اور کیا چاہیے مگر فی الحقیقت شعر کا پایہ اس سے بہ مراتب بلند تر ہے‘‘۔

شعر کو اچھا شعر بنانے کی صورت شعر میں ان خصوصیات کا پیدا کرنا ہے جن کی موجودگی سے ایک شعر اچھا شعر بن جاتا ہے۔ شعر اور اس کی ماہیت کے بارے میں مختلف نقادانِ فن نے مختلف آراء دی ہیں۔ علامہ ذوقیؔ مظفر نگری اپنی کتاب’تسنیمِ فصاحت و العروض‘ میں اچھے شعر کی تعریف کے باب میں لکھتے ہیں ’’اچھا شعر وہ ہے جو آفاقی اقدار کا حامل ہو اور موضوع و فن کے حسین امتزاج کا نتیجہ ہو جس میں جلال و جمال بھی صوری و معنوی ہم آہنگی بھی اور وسعت و رفعت بھی ہو۔ اچھے شعر میں مقصدیت ضروری ہے۔ جو روح کو بیداری اور قلب و نظر کو زندگی بخشے وہی اچھا شعر ہے۔ اچھا شعر دل و دماغ پر فوراً اثر کرتا ہے۔ اچھے شعر میں اشاریت و ایمائیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اچھے شعر میں زبان تندرست اور فکر کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔‘‘

اچھے شعر کی تعریف میں کئی اور خصوصیات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی شعر کو اچھا بنانے کے لیے از بس لازمی ہیں۔ حالیؔ نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں اچھا شعر کیا ہوتا ہے کے موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے اور اچھے شعر کی جو خوبیاں بیان کی ہیں وہ آج بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی اُس زمانہ میں تھیں۔ اگر کسی شعر میں سادگی، سلاست، اصلیت اور واقعیت، جوش، جدت، اثر پذیری، آفاقیت، اسلوب ہو وہ یقینی طور پر اچھا شعر ہو گا۔ ان خوبیوں کی عدم موجودگی میں شعر کی اہمیت اور خوبصورتی کم ہو جائے گی۔

ان خوبیوں کو پیمانہ بنا کر، راغبؔ کے کلام کو پرکھا جائے تو راغبؔ کی کتاب ’غزل درخت‘ میں سرو سے سر سبز مصرعے اور گل سے رنگیں تر شعر کثیر تعداد میں ملیں گے۔’غزل درخت‘ سے پہلے ان کی دو کتابیں ’خیال چہرہ‘ اور ’لفظوں میں احساس‘ منظر عام پر آ چکی ہیں۔ راغبؔ کے کلام میں، ان کی زبان آوری اور معجز بیانی کی بدولت آج کے زبان و ادب کے انحطاط کے دور میں زبانِ اردو کی درخشانی صورتِ مہرِ نیم روز کھل کر سامنے آتی ہے۔ افتخار راغبؔ دبستان قطر کے نمائندہ شاعر اور زبان و بیان کے اعتبار سے اپنے اکثر ہم عصر شعراء کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔ راغبؔ کا شعر بہت ہی نکھرا اور رواں ہوتا ہے۔ ان کا رنگِ شعر ایک ایسی خاص ادا رکھتا ہے کہ وہ اِس دبستان میں تنہا معلوم ہوتے ہیں۔ شاعری میں زبان و بیان پر انھیں قدرت ہے اور شعری عیوب و محاسن پر گہری نظر۔ عروض کے ماہر ہیں۔ راغبؔ کے کلام میں اچھا شعر ڈھونڈھنا نہیں پڑتا۔حسنِ لطافت سے مالا مال دو شعر سنیے    ؎

کیسے بنے گا حلقۂ سالم خلوص کا

جب جھک رہا ہے آپ کا پرکار اِک طرف

شہرِ ہوَس میں مہر و وفا کے ستار کا

اِک تار اِک طرف ہے تو اِک تار اک طرف

راغبؔ غزل کا شاعر ہے اور اپنی ہر غزل میں خاص اور منتخب نوکِ الفاظ سے نبضِ رنگ و بو کو چھوتے ہوئے مختلف اقسام کے نقوش کی تخلیق سے ایک پورے ماحول کو ترتیب دیتا ہے۔ غزل پر یہ الزام کہ اس میں وحدتِ تاثر کا التزام نہیں ہوتا، بے معنی ہے۔ غزل کی یہ خوبی کہ اس کے مختلف اشعار میں معنوی اور منطقی اعتبار سے ربط نہیں، جب کہ نفسیاتی اور جذباتی تسلسل نمایاں ہوتا ہے، اِس کو نظم اور دیگر اصناف سے ممتاز کرتی ہے۔ اِس لیے غزل گو شاعر کے لیے ایک خاص فکر اور رنگ کو رواج دینا ضروری نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی کسی ایک انداز کے لیے دوسرے انداز کو ترک کرنا۔ غزل میں اس کی بھرپور گنجایش ہے کہ ہر شعر ایک الگ رنگ سے لکھا جا سکتا ہے۔ یہی تو غزل کی خوبی ہے کہ شاعر چاہے تو اس میں قوسِ قزح کے سارے رنگ ایک ساتھ بھر دے۔ بلکہ لطف تو تبھی ہے کہ ایک شعر میں حسن و عشق کی چاشنی ہو تو دوسرے میں گہرا فلسفہ، کہیں موت کی تلخیوں کا ذکر ہو تو کہیں زیست کی راحتوں کا۔ کہیں محبوب پر چوٹ ہو تو کہیں غلامِ بے دام بننے کی پیش کش۔ کہیں زلفِ عنبر بیز کا ذکر ہو تو کہیں عشقِ حقیقی کی بات ہو۔ کہیں اک خال پہ سمرقند و بخارا قربان کر دیا جائے تو کہیں واسوخت۔ کہیں مزاح کی کھنک ہو اور کہیں طنز کے تیروں کی برسات۔ کہیں حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہو تو کہیں تلمیحات کو شعر میں سمویا ہو۔ کہیں جنون کو حکمت کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور کہیں حکیم بن کر جنون پہ فقرے کسے جائیں۔ کہیں ہجر کی تکلیفیں اور کہیں وصل کے بعد کی بیزاری، کہیں شمیمِ سنبل و نسریں کو چکھنے کی دعوت تو کہیں رگ و پے میں اترتے غمِ دہر کے زہر کا ذائقہ۔ کہیں قلبِ فطرت کے دھڑکنے کی صدا تو کہیں رنگ و روشنی کا پر شور ہنگامہ، کہیں نیم بیداری میں موج کا بہنا تو کہیں برگِ گل پر شبنم کے گرنے کی آواز۔

قصہ مختصر، نگاہِ شوق کو چشم حیراں میں جا دینے والے فنکار کے لیے ’ظرفِ تنگنائے غزل ‘ تنگ نہیں۔ افتخار راغبؔ ایسا ہی ایک فنکار اور قادر الکلام غزل گو شاعر ہے جس کی زبان میں فصاحت، سادگی، خلوص اور کلام میں سچائی، ضبط، ٹھہراؤ اور وسعتِ شعر و سخن سے ازلی مناسبت کی غماز ہیں۔

کسی بھی فنکار کے لیے کلام میں تاثیر کے واسطے مشاہدہ اور مجاہدہ کی گہرائی کا بدرجۂ اتم موجود ہونا لازم ہے۔ پونے دو سو برس قبل خاقانیِ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا    ؎

فراقِ خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک

الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جدا

آج کا شاعر، افتخار راغبؔ، بھرپور تازگی اور جدّت طرازی سے لکھتا ہے     ؎

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر

ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے

پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے

گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے

راغبؔ کی شاعری بیک وقت جذبات اور تصورات کی شاعری ہے۔ جس طرح فقط تصور جذبے کی خلا کو پر نہیں کر سکتا اسی طرح جذبوں کا بیان تصور کے بغیر بے کیف معلوم ہوتا ہے۔ تصور کی تہہ میں اگر جذبے کی کارفرمائی تجربے اور مشاہدے میں گندھی ہوئی ہو تو اس طرح کے اشعار تخلیق ہوتے ہیں۔

خالص شاعری میں محبت کا مطلب صرف محبت کا شعور نہیں بلکہ محبوب کی دلربائی، آغوشِ تمنا میں مچلنے کی امنگ، اس کے خیال سے پیدا ہونے والے سرور اور دل کی کیفیت بیان کرنے کا شعور ہے۔ اس قبیل کے چند شعر دیکھیے اور بے خودی اور نشاط کی لطیف آمیزش محسوس کیجیے    ؎

بس ایک ہی محور پہ یہ دل گھوم رہا ہے

آنکھیں ہیں کہ بس ایک در و بام سے واقف

آپ اب ہم سے ہماری خیریت مت پوچھیے

آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دل جانے کے بعد

اس طرح حیران ہیں سب دیکھ کر راغبؔ مجھے

جیسے کوئی آ گیا ہو مستقل جانے کے بعد

ہاتھ رکھّا تھا ہمارے دل پر اس نے ایک بار

کچھ نہیں معلوم جب سے دل ہمارا ہے کہاں

معنویت سے بھرپور،غضب کی روانی لیے ہوئے ایک خیال انگیز شعر سنیے جو راغبؔ کے شاعرانہ کمال کی دلیل ہے۔ بلحاظِ مضمون اور بلحاظِ زبان بے مثل شعر ہے۔ صرف یہ ایک شعر راغبؔ کی استادی منوانے کے لیے کافی ہے     ؎

دامن کا ہے جو حال وہی دوستی کا ہے

پیوند کیا لگائے کوئی چاک چاک میں

دامن اور چاک کا مضمون اگرچہ فرسودہ ہے جسے مختلف شاعروں نے سینکڑوں بار باندھا ہے، لیکن بندش کی خوبصورتی اور دلکش اسلوب نے راغبؔ کے اس شعر کو ایک انوکھا اور حافظے میں جم جانے والا شعر بنا دیا ہے۔ راغبؔ نے پرانے مضمون کو نہ صرف نئے رنگ سے باندھا ہے بلکہ اس مضمون کو اپنے نرالے انداز سے نیا پن اور تازگی بھی بخشی ہے۔ الفاظ کی نشست ایسی ہے کہ اس شعر کی داد تو راغبؔ کو میرؔ سے بھی مل جاتی۔ دوست سے شوق کی بات اور تعلقات کی نوعیت فرطِ الم سے بیان کرنے کا طریقہ ملاحظہ طلب ہے۔ شکایت لحن کے سانچے میں اس مہارت سے ڈھلی ہے کہ نغمۂ شیریں معلوم ہوتی ہے۔ ہر لفظ موسیقیت میں ایسا رچا ہوا ہے کہ شعر جانِ تغزّل بن کر امامِ شعر و سخن میرؔ کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے    ؎

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے

دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

نئے انداز میں روایتی اور غیر روایتی مضامین کہنے میں راغبؔ کی جبینِ شاعری پر کوئی شکن نہیں آئی بلکہ اچھے شاعر کے تیور اور ایسی جگمگاہٹ پیدا ہو گئی ہے جو پہلوئے شب میں ماہِ درخشاں کے آنے سے ہوتی ہے۔ نرمی، سلاست، روانی، حلاوت، حسنِ بندش، اور نغمگی سے بھرپور ذیل کے اشعار نفسِ شاعری کے لحاظ سے راغبؔ کو ایک خاص مقام عطا کرتے ہیں    ؎

جس نے روایتوں کی قبا تار تار کی

کہتے ہیں اس نے راہ نئی اختیار کی

ساعت کو پہلے عمر سے تقسیم کر دیا

پھر تیرے انتظار کی ساعت شمار کی

اِک صورت اتارنا غزل میں

لفظوں کا پسینہ چھوٹ جانا

کس درجہ سرور بخش تھا وہ

اُس کوچے میں جھوٹ موٹ جانا

ایک خاص آہنگ کا شعر جہاں نغمگی میں تحت النغمہ سمویا ہوا ہے اور صنعت تکرار کے ساتھ حسنِ اتصال بھی۔ کیا نرم نرم الفاظ میں شکوہ کیا اور اپنی کیفیت بیان کی ہے    ؎

کیسے کہیے دل میں بس کر دل کا جو اس نے حال کیا

جب دل چاہا دل کو سنوارا جب چاہا پامال کیا

امّیدیں بھی نادم نادم، شرمندہ شرمندہ لفظ

کس بے درد سے آس لگائی، کس بیری سے سوال کیا

میں نے کب مانگا ہے تجھ سے تری چاہت کا ثبوت

گر محبت نہیں مجھ سے تو شکایت کیسی

راغبؔ کی شاعری ایک شاعر کی سلجھی ہوئی طبیعت کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شاعرانہ انفرادیت کا ثبوت بھی ہے۔ اکثر سیدھی سادی بات خاص طرزِ بیان کی بے ساختگی سے شعر کا قالب اختیار کرتی ہے کہ پڑھنے والا ایک شستہ اور نپے تلے لہجے میں حقیقت اور سچائی کو اپنے تجربے اور مشاہدے سے جوڑ کر محسوس کرتا ہے اور عش عش کر اٹھتا ہے    ؎

حقیقت کھل کے تیری سامنے جس دن سے آئی ہے

دکھاوا سب تیری ہمدردیاں معلوم ہوتی ہیں

تمھارا مشورہ لگتا ہے جیسے حکم صادر ہے

تمھاری التجائیں دھمکیاں معلوم ہوتی ہیں

جب زندگی کا تجربہ گہرا ہو جائے اور مزاج کی تلملاہٹ باقی رہے تو سچے اور کھرے شعر وجود میں آتے ہیں جن میں ہیجان کے بجائے ضبط اور تجربے کی بدلتی نوعیت کی وجہ سے لب و لہجے میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ راغبؔ کے ایک خاص انداز اور تیور کے شعر سنیے۔ان شعروں میں الفاظ کیا جمائے ہیں گویا موتی پرو دیے ہیں    ؎

جڑ گیا شیشہ بھروسے کا مگر

رہ گئے ہیں بال کچھ باریک سے

بے سبب راغبؔ تڑپ اٹھتا ہے دل

دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے

ہمیں معلوم ہے دہرائیے مت

نہیں ہوتی کبھی تاخیر یوں ہی

جنوں کے ساتھ بے باکی کو میری

عطا کر دی گئی زنجیر یوں ہی

راغبؔ کی شاعری اور اس کے شاعرانہ ارتقا، شاعر کی پہلی کتاب ’لفظوں میں احساس‘ سے لے کر تیسرے شعری مجموعے ’غزل درخت‘ تک، کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ راغبؔ عام طرزِ بیان اور طرزِ احساس کا شاعر نہیں۔ راغبؔ کے کلام کا بڑا حصہ خاص طرزِ نگارش اور نفسِ شاعری کی وجہ سے منفرد ہے۔ ان کے کلام میں ایک ایسا ہلکا سا سوز ہوتا ہے جو شاید غریب الوطنی کی دین ہے۔ ان کے قلم کی سحر آفرینی اور کلام کی روانی یہ بتاتی ہے کہ شاعری کا جذبہ ان کی فطرت میں ہے۔ راغبؔ کے ہاں مناسب حد تک جوش کا پہلو ہے جو شعروں کو خوبصورت بنا دیتا ہے    ؎

ہوتی ہی رہتی ہے اشعار کی بارش راغبؔ

موسمِ ہجر کی مجھ پر ہے عنایت کیسی

 ’’قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا ‘‘۔راغبؔ کی کتاب ’غزل درخت‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس مضمون میں نقل کئے ہوئے اشعار کو دیکھ کر یہ قیاس کرنا مشکل نہ ہو گا کہ کتاب کیسی ہے۔ اس کو الٹ پلٹ کر ہی آپ جان جائیں گے راغبؔ کی شاعری میں کہیں بھی غیر حقیقی اور غیر واقعی انداز کو دخل نہیں۔ شاعر نے اپنے جذبات، حالات، احساسات اور کیفیات کو دل نشیں لہجے میں زندگی سے مطابقت پیدا کر کے رقم کیا ہے۔ اس لیے اشعار کا انتخاب کلام میں صرف موسمِ ہجر کی عنایت نہیں بلکہ ہجر کے سوز اور وصال کی حلاوت کا امتزاج ہے۔ کلام میں گہرائی کے ساتھ ساتھ سادگی، حسنِ بیان اور عام جذبات کی ترجمانی موجود ہے اور اس واسطے اکثر اشعار پڑھنے والے کے دل میں سیدھا ترازو ہو کر دل و دماغ کے لیے فرحت و سرور کا باعث ہوں گے اور ہر خاص و عام سے تصدیق و تسلیم کی سند حاصل کریں گے۔

ڈاکٹر فیصل حنیف

بانی و صدر۔ گزرگاہِ خیال اردو فورم،دوحہ۔ قطر

۲۵/ اکتوبر ۲۰۱۳ء

٭٭٭

 

افتخار راغبؔ :فطرت دوست شاعر

                    ڈاکٹر مولا بخش

افتخار راغبؔ اردو غزل کی طویل روایت اور تاریخ کے صفحات پر اپنی سی لکیر کھینچنے والے ان شعرا کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ۹۰کی دہائی میں ابھرے۔افتخار راغبؔ شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والے ان فنکاروں کی صف میں ہیں جو بنیادی طور پر سائنس کے مضامین سے وابستہ ہیں یعنی ایک انجینیر ہیں اور جن کا پیشہ ادب نہیں ہے۔کسی بھی زبان کے شعر و ادب کے فروغ کے امکانات اسی نوع کے فنکاروں سے روشن ہوتے ہیں۔مجھے ایسے شعرا اور فنکاروں سے بے پناہ عقیدت ہے جو راست طور سے اپنی زبان کو روزی روٹی کا ذریعہ نہ بناتے ہوئے اور دوسرے شعبوں میں کام کرتے ہوئے اپنی زبان،قوم اور ملک نیز اپنی ثقافت اور اپنی جڑوں سے جڑے رہنے کا دیوانہ وار فکر کرتے ہیں۔افتخار راغبؔ دیار غیر یعنی قطر میں ایسے ہی چند دیوانوں کے ساتھ اپنے وطن سے دور چراغ شعر کو جلانے اور اردو کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ان کے علاوہ اور بھی کئی اردو کے پروانوں نے قطر کو اردو کا  گہوارہ بنا دیا ہے اور ان جملہ نوجوانوں اور بزرگوں کے دکھ درد کو سمیٹتے ہوئے افتخار راغبؔ نے کہا ہے      ؎

اک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں

ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں

کسی قاری کو اگر یہ معلوم نہ ہو کہ یہ شعر بیرون ملک میں رہنے والے ایک شاعر نے کہا ہے تب بھی یہ شعر غزل کی عشقیہ روایت کا حصہ بننے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔معرکۂ کربلا یا کسی دوسری جنگ میں ایک جیالا جب میدان میں اپنے کنبے سے گلے ملنے کے بعد اترتا ہے تو یہ شعر اس سیا ق کو بھی سامنے لاتا ہے۔نیز یہ شعر اس امر پر بھی دال ہے کہ دنیا میں نقل مکانی بہ وجہ مجبوری یا جبریہ صورت میں ذریعہ معاش کی خاطر یا کسی سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے انسانوں کا ایک ایسا المیہ بن چکا ہے کہ اپنے وطن اور وطن کے لوگوں،رشتے داروں،بھائی،بہن،بیوی،گاؤں کے قریب بہتی ہوئی ندی،ہرے بھرے درخت،دوست احباب کو چھوڑ کر دور دیس جانا، ان سے بچھڑنا کسی محاذ پر جانے کے برابر ہو گیا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لیے راغبؔ نے اپنے ذاتی کرب کے حوالے سے کہا ہے کہ    ؎

میں زندگی کر رہا ہوں راغبؔ

کہ داستاں سے گزر رہا ہوں

کر رہے ہو تم سفر سوئے بہشت

دیکھنا دنیا ہے بھائی بیچ میں

اتفاقات سے زیادہ ہیں

اختلافات بال بچوں سے

ہمیشہ غبارِ سفر کی طرح

جہاں چاہا اس نے اڑایا ہمیں

مذکورہ بالا اشعار ان ہزاروں انسانوں کی داستان بن جاتے ہیں جو مہجری دکھ کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔بڑے معمولی سے لب و لہجے میں یا یہ کہیے کہ سہل ممتنع میں یہ کہنے کی سعی کی گئی ہے کہ موجودہ صورتحال میں انسانوں کا زندگی کرنا اور ہزاروں سال پہلے کی داستانوں میں مذکور مہمات اور دشوار طلب راستوں سے ہوتے ہوئے منزل تک پہنچنے کی کہانی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔یعنی پہلے شعر میں زندگی کے برابر داستان کو رکھنا مناسبت لفظی کے ذریعے دونوں کے درمیان کے فرق کے ختم ہونے کا مژدہ سنایا گیا ہے۔دوسرے شعر میں مستعمل لفظ ’دنیا‘ اپنے خاندان یا بیوی بچے کا استعارہ معلوم ہوتا ہے اور لفظ ’بہشت ‘پردیس کا استعارہ۔یعنی پردیس میں جانے والے لوگ اور بہشت میں جانے والے لوگ دونوں یہ مان لیتے ہیں کہ اب اس کے بعد زندگی کا کوئی جھمیلہ نہیں ہو گا۔اب سارے مسئلے تقریباً حل ہو گئے۔شعر کا راوی اسی طرح کی خوش فہمی کے تالاب میں ایک بڑا سا پتھر اچھالتا ہے۔پیٹرو ڈالر کی خواہش میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بیرون ملک میں گزارنے والے لوگو ں سے پوچھیے کہ ان کی اپنی سی زندگی کا باہر جانے کی وجہ سے کیا حال ہوا۔دنیا کے بیچ میں ہونے سے مراد شاید اس امر کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ صرف پیسہ کما لینے سے ہی دنیا داری کے سارے مسئلوں کا حل ممکن نہیں ہے۔قصہ مختصر یہ کہ یہ سارے اشعار ہمیں بہت سی کہانیوں کی یاد دلاتے ہیں۔اس موضوع پر باضابطہ اردو میں غضنفر کا ناول ’’شوراب‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس ناول کے بعد دوسرا ناول احمد صغیر کا ’’ایک بوند اجالا‘‘ منظر عام پر آیا ہے۔

اپنے گاؤں یا اپنے ملک سے بچھڑنے کا اور دیار غیر میں اپنی زندگی کے شب و روز خرچ کر دینے کا ملال ایسا ملال ہے جس کی ترجمانی افتخار راغبؔ نے مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے کی ہے   ؎

میں سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں

میں پھر اسکول جانا چاہتا ہوں

ہوا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

رہا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں

واپس جانے کے سب رستے میں نے خود مسدود کیے

کشتی اور پتوار جلا کر میں نے خود کو روکا ہے

فون اور ای میل میں راغبؔ ہے وہ لذت کہاں

لطف تھا جو دیکھنے میں نامہ بر کا راستہ

ساعت کو پہلے عمر سے تقسیم کر دیا

پھر تیرے انتظار کی ساعت شمار کی

افتخار راغبؔ اور ان جیسے دیگر شعرا جنھیں زندگی کے بہت سے مسئلوں کے ساتھ ساتھ مہجری دکھ کا بھی سامنا ہے، ان کے تخلیقی مزاج کی تشکیل میں اس دکھ کا رول بہت اہم ہے۔ لیکن ان کے اس ذاتی دکھ کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر مسائل جب تک غزل کے قالب میں بطور مضمون نہیں آتے،ان کی شاعری کا کینوس محدود ہو کر رہ جائے گا۔افتخار راغبؔ نے مذکورہ امور کا خیال رکھا ہے۔مثلاً پہلے شعر میں کہ جس میں بڑی سادگی سے ایک عجیب و غریب تمنا کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ عامل پھر سے اسکول جانا چاہتا ہے۔سامنے کا استعارہ ہے کہ وہ پھر سے بچہ بن جانا چاہتا ہے۔ایسا خیال اپنے وطن سے دور بیرون وطن میں رہنے والے شاعر کے مہجری دکھ کی دین ہو سکتاہے لیکن یہ ہر انسان کی مشترکہ تمنا ہے۔اسی طرح افتخار راغبؔ نے پرانی ثقافتی قدروں اور نئی ثقافتی قدروں کا موازنہ نامہ بر اور فون اور ای-میل سے کیا ہے۔شعر پڑھتے ہی غالب کے خطوط کے حوالوں پر مبنی اشعار یاد آ جاتے ہیں یا اردو میں اس نوع کے اشعار کی جو روایت رہی ہے اس کی طرف قاری کا ذہن چلا جاتا ہے۔اسی طرح جس شعر میں واپس جانے کے سارے راستوں کو مسدود بتایا گیا ہے اور شعر کا راوی یا عامل اپنی کشتی اور کشتی کی پتوار کو خود ہی جلا کر خود کو پردیس میں روکنے کا مژدہ سنارہا ہے۔اس شعر کو پڑھنے کے ساتھ ہی ہماری تاریخ کا وہ لمحہ سامنے آ جاتا ہے کہ جہاں طارق بن زیاد نے اندلس کو فتح کرنے کے لیے دریائے احمر کو پار کر لینے کے بعد اپنی کشتی جلا دی تھی۔کیا عجیب المیہ ہے کہ ہمعصر ثقافت سے وابستہ ایک شخص کے لیے پردیس میں بال بچوں کی خاطر،چند روپیے کمانے کے لیے اسی طرح اپنی کشتی کو جلا کر خود کو روکنا پڑتا ہے۔ پرانی اور نئی ثقافت،پرانے اور نئے زمانے کا یہ تضاد اس شعر سے قاری کو مضبوطی کے ساتھ جوڑتا ہے۔اسی طرح سے افتخار راغبؔ کی غزلوں میں ایک ایسا کردار ابھرتا ہے جو فطرت اور ماحول دوستی میں حد درجہ یقین رکھتا ہے۔افتخار راغبؔ کے یہاں فطرت سے لگاؤ یا ماحول دوستی کی آرزوئیں بھی کہیں نہ کہیں ان کے مہجری دکھ کے سیاق سے ابھری ہیں۔مذکورہ بالا اشعار کے ایک شعر میں کہ جہاں شعر کا کردار ہوا بن جانے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے، یہ دراصل انسان کا فطرت کی ایک ناگزیر طاقت کے ساتھ ہونے کی حسین تمنا یا رومان کہا جا سکتا ہے۔یعنی یہاں ایک ایسے انسان کی تمنا کی جا رہی ہے جسے کسی قسم کی پابندی کا غلام نہیں بنایا جا سکے۔ وہ یوں کہ ہجر غزل کے ہر شاعر کا دکھ ہے اور اس شاعر کا تو بڑا دکھ ہے جو بیرون وطن میں ہو۔اس نوع کا ایک زندہ اور انتہائی معنی آفریں شعر مذکورہ بالا اشعار کا آخری شعر ہے۔شعر میں شاعر افتخار راغبؔ کا سائنسی مضمون اور علم الحساب کے طالب علم ہونے کے تجربات کا فنی اظہار ہوا ہے۔کہا ہے کہ کسی شخص کی اگر عمر ستر سال کی ہے تو اس کے ایک ایک لمحے سے اس کی تقسیم کریں اور پھر اس میں جتنے دن،مہینے اور سال عاشق نے معشوق کا انتظار کیا ہے اس حساب سے اگر اس کو شمار کریں تو کل ملا کر عقل و ہوش میں آنے کے بعد اور ذی شعور ہونے کے بعد عاشق کی ساری عمر انتظار کی عمر ہی بن جاتی ہے۔شعر میں بہت ہی بلیغ قسم کا مبالغہ علم الحساب کے استعارے میں برتا گیا ہے جس سے عاشق کے انتظار کی صعوبتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ کیفیت کا بہت ہی عمدہ شعر ہے اور اس شعر کا محرک بلا مبالغہ افتخار راغبؔ کی غزلوں میں عاشق کے کردار کا مہجری دکھ ہے لیکن یہ ذاتی دکھ بڑی خوبصورتی سے آفاقی دکھ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

ویسے بھی غزل میں عشقیہ مضامین مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔افتخار راغبؔ کی غزلوں میں اکیسویں صدی کے عاشق اور معشوق اپنے خاص ڈھب میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جس سے متعلق اشعار گزشتہ صفحے پر آپ نے ملاحظہ فرمائے۔کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیں      ؎

ڈائری لے کے مری چپکے سے

اپنی تصویر بنا دی اس نے

مجھ کو چھوکر ذرا بتاؤ مجھے

میں ہوں موجود یا نہیں موجود

عجیب سانحہ واقع ہوا وصال کے بعد

بدن سے روح کا رشتہ بھی اب بحال نہیں

وہ کہتے ہیں کہ کس نے آپ کو روکا ہے جانے سے

میں کہتا ہوں کہ میرے پاؤں میں زنجیر کس کی ہے

نامہ بر اپنا بلا کاہے سبک گام کہ اب

خط ہمیں برق کی رفتار سے مل جاتے ہیں

(غزل درخت،افتخار راغبؔ)

اِک صورت اُتارنا غزل میں

لفظوں کا پسینہ چھوٹ جانا

تیرے چہرے پہ کوئی داغ نہیں

کیسے کہہ دوں کہ ماہتاب ہے تو

(خیال چہرہ،افتخار راغبؔ)

 ایک شاعر کیونکر اپنے ذاتی دکھ کے حوالے سے اجتماعی مسئلے کو سامنے لاتا ہے۔اس کی مثال مذکورہ بالا اشعار ہیں۔آپ کی توجہ فقط مذکورہ بالا اشعار کے دوسرے شعر پر مبذول کرنا چاہتا ہوں جہاں مکر شاعرانہ کا بڑا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔جس میں کہا ہے کہ مجھ کو چھو کر بتاؤں کہ میں موجود ہوں یا نا موجود۔موجود اور نا موجود جیسے الفاظ ہمیں اس گمبھیر فلسفے کی طرف بھی لے جاتے ہیں جہاں اکثر یہ سوال لاینحل بن جاتا ہے کہ اس کائنات میں انسان موجود ہے یا نہیں ؟یا وجود صرف اللہ کی ذات کے لیے ہی مختص ہے۔یہ سب اپنی جگہ پر یہاں اسی فلسفے کا استحصال کرتے ہوئے ایک عاشق اس محبوب کو جسے عاشق کو دیکھنا گوارا نہیں ہے، اس سے وہ بڑی چالاکی سے اس بات کا التماس کرتا ہے کہ محبوب اسے صرف ایک بار چھو کر بتا دے اور دیکھ لے کہ وہ موجود ہے کہ نہیں ؟اب جب محبوب اسے چھو ہی لے گا تو پھر سارے مسئلے کا حل سامنے آ جائے گا۔مومنؔ اس نوع کے اشعار کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اب افتخار راغبؔ کے کچھ ایسے اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں تہذیبی و ثقافتی تغیرات کے حوالے موجود ہیں     ؎

دیں سیاست سے پاک ہو جائے

اور سیاست میں دیں کی خوشبو ہو

گئے وہ دن کہ گھروں میں بڑے خلوص کے ساتھ

بس ایک چراغ سے جلتے تھے جب سبھی کے چراغ

اقبال نے کہا تھا ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ یہی شعر افتخار راغبؔ کے مذکورہ بالا شعر کا تحت متن ہے لیکن بات یہاں دوسری کہی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فی زمانہ دین میں صرف سیاست ہی سیاست ہے اور سیاست ایسی ہو گئی ہے کہ جہاں سے دین کا پرندہ اڑ چکا ہے۔دوسرے شعر میں گاؤں میں آئی ثقافتی تبدیلی کو نشان زد کیا ہے۔اب گاؤں میں بھی اجتماعیت پسندی کا رواج ختم ہو گیا ہے۔کوئی کسی سے آپسی رشتہ نہیں رکھتا ہے۔اگر غور سے دیکھیے تو ان جملہ مباحث میں ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ افتخار راغبؔ فطرت کے معصوم کردار کی واپسی اور اس کے تحفظ کے تئیں حد درجہ حساس اور بے دار نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں استعاروں اور تشبیہو ں کو ایک عاشق کے ہجر کی صعوبت بھرے لمحات کی تصویر کشی کے لیے استعمال کرتے ہیں جن میں ماحولیاتی تغیر و تبدیلی یا منظر کشی کا سیاق ہوتا ہے۔مثلاً    ؎

جس درجہ ہجر رت میں آنکھیں برس رہی ہیں

غزلیں بھی اُگ رہی ہیں برسات کے مطابق

اپنی آب و ہوا کی فکر کرو

ہم پرندوں کے ہیں بسیرے سَو

ایک سرسبز شاخ کی طرح ہم

اُلفت کے شجر سے کٹ کے روئے

دنیا میں ہم پیڑ لگانا بھول گئے

جنت کے باغات کی باتیں کرتے ہیں

(لفظوں میں احساس،افتخار راغبؔ)

نہ دلکشی کی تمنا نہ دل بری درکار

غزل درخت کو ہر دم ہے تازگی درکار

ایسے پودے ہیں کہ واقف نہیں شادابی سے

ایسی ندیاں ہیں کہ سیلاب سے ناواقف ہیں

اپنے پتوں سے درختوں کو شکایت کیسی

ساتھ جب چھوڑ دیا ہے تو وضاحت کیسی

کوئی آ کر ایک کنکر پھینک دے

چاہتا ہے اور یہ تالاب کیا

آب و ہوا کی آنکھوں میں کیوں اشک آ گئے

شاید کوئی درخت ہرا کاٹنے لگا

سبزے سے جسم و جاں کو میسّر ہے تازگی

قائم ہے پیڑ پودوں سے زینت زمین کی

چاہوں کہ ہمیشہ میں زمانے کی دعا لوں

سوچوں کہ درختوں کی طرح خود کو بنا لوں

کیا حشر اس زمین کا ہو گا نہ پوچھیے

بڑھتی رہی جو یوں ہی تمازت زمین کی

(غزل درخت،افتخار راغبؔ)

آپ نے مذکورہ بالا اشعار پر اگر غور کیا ہے تو آپ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان اشعار کا راوی انسان اور اس کے دکھ کے متوازی فطرت کے دکھ کو رکھ کر دونوں کے زوال اور دکھ کو یکساں طور پر قاری کے سامنے رکھتا ہے۔پہلے شعر میں اس درجہ ہجر رت میں آنکھوں کا برسنا مجاز مرسل ہے،بارش کی طرف اشارہ ہے اور اس موسم میں غزل کا اگنا اور پودوں کا اگنا دونوں ایک ہی جیسا عمل قرار دیا گیا ہے۔یہ رویہ افتخار راغبؔ کے یہاں فطرت کو صرف تشبیہ اور استعارے کے طور پر برتنے کا عمل معلوم نہیں ہوتا ہے بلکہ فطرت اور انسان کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کرنے کا رویہ سامنے لاتا ہے۔دوسرے شعر میں انسانوں کے اس گروہ پر طنز ہے جس نے ثقافتی اور تہذیبی ترقی کے نام پر فطرت کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ پرندے انسانوں پر ہنس رہے ہیں۔یہ کہہ کر کہ ہمارے لیے کوئی ایک گھر نہیں، کوئی ایک جگہ نہیں اور تم تو بس ایک ہی جگہ کے ہو کے رہ جاتے ہو۔اگر تمہارے یہاں ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوئی تو تمہاری خیر نہیں ہمارے لیے تو سو بسیرے ہیں۔تیسرے شعر میں ایک دم سامنے کا ماحولیاتی سلوگن ہے۔کمال یہ ہے کہ شاعر نے اپنے محبوب سے بچھڑنے کی تشبیہ اس شاخ سے دی ہے جسے کوئی انسان بڑی بے دردی سے پیڑ سے کاٹ کر نیچے زمین پر گرا دیتا ہے اور اسے ایک ذرا بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس نے ایک پیڑ کی شاخ کو نہیں بلکہ کسی انسان کے بازو کو کاٹ کر پھینک دیا ہے، یا یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی نے ایک عاشق کو اس کے معشوق سے ہمیشہ کے لیے الگ کر دیا ہے۔چوتھے شعر میں واشگاف طنز ہے۔ہماری دینی زندگی میں اس امر پر توجہ کم دی جا رہی ہے کہ ہمارے حضورؐ نے بچے، بوڑھے،عورت اور پیڑ کے سلسلے میں اکثر کیا ارشاد فرمایا ہے۔اسلام میں پیڑوں کو کاٹنے کے سلسلے میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔یہی نہیں ہمیں پیڑ لگانے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔

افتخار راغبؔ جس ملک کے شاعر ہیں اسے دنیا اساطیری ملک کے حوالے سے جانتی ہے۔ہندوستانی تہذیب کا یہ خاصہ ہے کہ یہاں کسی بھی ایسی تہذیبی اور ثقافتی ترقی کو پسند نہیں کیا جاتا جس میں فطرت کے مظاہر کو روندنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ہندوستانی ذہن بنیادی طور پر فطرت پسند اور ماحول دوست رہا ہے۔صدیوں کی اساطیری سوچ افتخار راغبؔ کے اشعار میں عود کر سامنے آ گئی ہے۔ ان کے پہلے مجموعے سے لے کر حالیہ مجموعہ ’غزل درخت ‘میں اس نوع کے اشعار کی تعداد (جس میں ماحولیاتی آلودگی اور اس کے تحفظ کی فکر مندی کا خوبصورت غزلیہ اظہار ہوا ہے)سب سے زیادہ ہے۔ان کے یہاں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ’شجر‘ ہے۔اس بہانے شجر کی اساطیر ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور ہم غور کرنے لگتے ہیں کہ ہماری دنیا ہماری خود غرضیوں کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ہمارے لیڈر ان اساطیری ذہن کی طرف ہمیں نہیں لے جاتے تب ہمارے شاعر یا ادیب ہماری اس برباد دنیا کی طرف ہمارا دھیان بٹاتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ہندی اساطیر میں پیڑ پودوں کو افراد خاندان سمجھا جاتا ہے۔یہ سبھی کو معلوم ہے کہ جب راون نے سیتا کو ہر لیا تھا تو اس بات کا غم صرف رام ہی کو نہیں ہوا تھا بلکہ وہاں کے درختوں اور پودوں نے بھی سیتا ہرن کے بعدسیتا کا ماتم کیا تھا۔ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ پاروتی دیودار کے درخت اور اپنے بیٹے گنیش میں کوئی فرق نہیں سمجھتی تھیں بلکہ اسے اپنا دوسرا بیٹا کہا کرتی تھیں۔وہ دیودار کے درختوں کو پانی دیتے وقت بچے کو دودھ پلانے کے احساس سے دو چار ہو جاتی تھیں۔ہمیں معلوم ہے کہ ہندوستان میں درختوں کے درمیان آپس میں شادی کا بھی رواج رہا ہے۔ہمارے یہاں بہت سے درخت پراسرار حیثیت رکھتے ہیں۔بہت سے درخت بودھی درخت مانے گئے ہیں۔اشوک کے درخت کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔تلسی کا درخت دھتورے کا پودا اور رکرچی کا پھول سب کی اپنی جگہ بڑی متبرک حیثیت ہے۔معراج میں جاتے ہوئے ہمارے رسول ﷺ کو جہاں جبرئیل ؑ نے چھوڑا تھا اس جگہ ہمارے تصور سے پرے ایک درخت سدرت المنتہیٰ کا ذکر آتا ہے۔یہ موقع نہیں کہ ان پر تفصیل سے گفتگو کی جائے صرف اس بات کا احساس دلانا ہے کہ شاعری یا ادب میں اساطیری سوچ غیر شعوری طور پر کسی فن پارے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔

مذکورہ بالا حوالوں کے پیش نظر اگر آپ ایک بار مذکورہ بالا ان اشعار پرنگاہ ڈالیں جو افتخار راغبؔ کے تازہ مجموعے ’غزل درخت‘سے ماخوذ ہیں تو اندازہ ہو گا کہ یہ شاعر کس درجہ صدیوں کی اس اساطیری سوچ کی ترجمانی کرتا نظر آ رہا ہے۔ مثلاً مذکورہ بالا پہلے شعر میں غزل درخت کی ترکیب آئی ہے جس کی تازگی کی تمنا کی گئی ہے۔کیا غزل کا استعارہ درخت ہے یا درخت کا استعارہ غزل۔کہیں یہ کہنے کی کوشش تو نہیں کی گئی ہے کہ غزل بحیثیت ایک فن انسانی سماج کا ایک اجتماعی شعور ہے اور درخت پوری کائنات میں انسان کا ازلی دوست۔ یعنی دونوں ایک ہی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ افتخار نے اپنی شاعری کے اس مجموعے کا عنوان ہی’ غزل درخت ‘رکھا ہے۔دوسرے شعر میں استعاراتی انداز میں ایسے پودوں کا ذکر کیا گیا ہے جن پر شادابی کبھی نہیں آتی اور ایسی ندیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں سیلاب نہیں آتا۔اس کی وجہ ثقافتی ترقی کے نام پر انسانوں کا فطرت سے چھیڑ چھاڑ ہے لیکن یہ چھیڑ چھاڑ آج کی دنیا میں انسانوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی کی جا رہی ہے۔ تیسرے شعر میں پھر وہی غزل کی شعریات میں جدائی کے درد کے مضمون کو فطرت کے استعارے میں بیان کیا گیا ہے۔یعنی پیڑ سے پتوں کا الگ ہونا اور قرینہ یہ ہے کہ یہاں راغبؔ نے یہ کہنے کی سعی کی ہے کہ درخت یہ چاہتا ہے کہ پتے پیڑ سے الگ ہو جائیں یا درخت خود ہی جب پتوں کو الگ کر دیتا ہے تو پھر اسے پتوں سے شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے۔گویا کہ اشارہ محبوب کی طرف ہے کہ جب محبوب نے عاشق کو خود الگ کر دیا ہو تو پھر پلٹ کر اس کے الگ ہو جانے کے بعد شکایت کے کیا معنی یا وضاحت کے کیا معنی؟اسی طرح چوتھے شعر میں تالاب کی خواہش کا ذکر،پانچویں شعر میں درخت کو کٹتے دیکھ آب و ہوا کی آنکھو ں میں آنسو آنے کے حسیاتی پیکر کے ذریعے اس عمل کو جرم کی طرح تصور کرنا اور چھٹے شعر میں ہریالی کو زمین کی زینت گرداننا ایک سائنسی حقیقت ہے۔ساتویں شعر کے مصرعۂ ثانی میں اپنے کو درخت میں تبدیل کر دینے کی آرزو یا درختوں کی طرح بنا لینے کی آرزو اور وہ اس لیے کہ دنیا کا ہر انسان چلچلاتی دھوپ میں کھڑے مسافروں کی دعا لیتے ہیں۔آٹھویں شعر میں زمین کے درجۂ حرارت میں اضافے کی فکر مندی ظاہر کی گئی ہے۔ ان جملہ اشعار پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ افتخار راغبؔ نے ایک ایسے موضوع پر اپنی شاعری کو استوار کیا ہے جہاں شعریت کی گنجائشیں بہت کم نکلیں گی۔تاہم انہوں نے اس مضمون کو بھی غزلیہ شعریات کا حصہ بڑی خوبصورتی سے بنایا ہے۔اس کی ایک زندہ مثال ان کا ایک بہت ہی تہہ دار معنی والا شعر ہے    ؎

کھلکھلاکر ہنس رہے ہیں ہم پہ یہ گملے کے پھول

کس سے پوچھیں کیا بتائیں گھر ہمارا ہے کہاں

اس شعر پر گھنٹوں گفتگو کی جا سکتی ہے۔زندگی کی تعریف بہت مشکل ہے۔ہم کب، ہم کہاں سے،کیوں اور کیسے اس دنیا میں آئے اور کس طرف جائیں گے اس کا جواب ہمارے پاس نہیں۔ان سوالات کو ایک نئے استعارے میں افتخار راغبؔ نے فطرت کے مشاہدے اور عمیق مطالعے کی روشنی میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔یہ شعر نہیں کہانی ہے۔انسان کی مجبوری کی،لاچاری کی۔ایک شخص بال بچوں کی خاطر پردیس کی خاک چھان رہا ہے۔اس کی نظر گملے میں سجے کچھ پھولوں پر جاتی ہے۔پھولوں کو یہ گمان ہے کہ وہ اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں اور اس بھٹکتے ہوئے پردیسی پر ہنس رہے ہیں۔دلیل کے مصرعے میں متکلم وہ پردیسی ہے جو انہیں ہنستے ہوئے دیکھ کر کچھ گہرے سوالوں پر غور کرنے لگتا ہے اور وہ یہ کہ کیا اس کا گھر وہی ہے جہاں سے وہ چل کر اس پردیس کی خاک چھان رہا ہے اور روزی روٹی کی فکر نے اسے اپنے بال بچوں سے الگ کر دیا ہے۔دیس اور بدیس کا تعین اتنا آسان نہیں۔صوفیا تو اپنے گھر یعنی اس دنیا کو ہی بدیس مان کر چلتے ہیں اور عقبیٰ کو اپنا دیس۔افتخار راغبؔ نے اس سلسلے میں ایک تہہ دار شعر کہا ہے      ؎

اس لفافے میں بند ہوں راغبؔ

جس پہ نام اور پتہ نہیں موجود

اس کے اس سوال سے گملے میں اگے پھولوں پر بھی طنز کے چھینٹے پڑتے ہیں جنہیں یہ خبر ہی نہیں ہے کہ جسے وہ اپنی جڑ سمجھ رہے ہیں اسے کسی انسان نے مصنوعی طور پر خلق کیا ہے؟ ان کی اصلی جڑیں گملے میں نہیں کہیں اور ہیں۔وہ چمن،وہ جنگل جہاں ان کے آباؤ اجداد ہیں،یہ گملا تو ان کے لیے بھی ایک بدیس ہے جسے انہوں نے غلطی سے اپنا دیار سمجھ لیا ہے۔ اب یہاں ایسا لگتا ہے کہ انسان اور پودے یا فطرت کے دیگر مظاہر اپنے اصلی مقدر کو تج کر ایک ہی جیسے ہو گئے ہیں۔فطرت کی موت ہو گئی ہے اور انسان نرے ثقافتی انسان میں تبدیل ہو گیا ہے اور اپنی جڑوں کو بھلا دیا ہے۔جیسے یہ گملے کے پھول پردیسی پر تو ہنس رہے ہیں اور خود پر غور نہیں کر رہے ہیں کہ وہ کیونکر انسانوں کے اشارے پر ایک چھوٹے سے گملے میں اگنے اور پھلنے پھولنے پر مجبور ہیں اور جسے وہ اپنی آزادی سمجھ رہے ہیں۔افتخار راغبؔ نے اس شعر میں اور بھی بہت کچھ کہنے کی سعی کی ہے جسے ذہین قاری محسوس کر سکے گا۔افتخار راغبؔ کی حمدیہ غزل میں بھی پیڑ پودے اور پھول کا ہی ذکر ملتا ہے۔

اخیر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ افتخار راغبؔ جن کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں،غزل کی شعریات سے کماحقہ واقف نظر آتے ہیں اور غزل کی غزل کہنے کے بجائے اپنی غزل کہتے ہیں۔معاصر اردو غزل میں افتخار راغبؔ کے ذکر کے بغیر کوئی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔

ڈاکٹر مولا بخش

 صدر شعبۂ اردو،دیال سنگھ کالج

 دہلی یونیورسٹی،دہلی

٭٭٭

 

تہِ دل سے

طالب علمی کے زمانے میں جب احساسات و جذبات کی کلیاں دل میں چٹکنے لگیں اور دل شعر و شاعری کی طرف راغب ہوا تو ہر شاعر کی طرح اپنی شاعری کو کتابی شکل میں دیکھنے کا خواب بھی آنکھوں میں روشن ہوا۔ احساسات کو لفظوں میں پرونے کا سلسلہ جب آگے بڑھا تو اس خواب کی تعبیر ’’لفظوں میں احساس‘‘ کی صورت میں نمودار ہوئی۔ اہلِ دل ا ور اہلِ نظر کی حوصلہ افزائیوں نے اور ہمت بڑھائی اور خیالات کو چہرہ عطا کرنے کی سعی میں اور تیزی آئی تو دوسرا مجموعۂ غزلیات ’’خیال چہرہ‘‘ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔شاعری کے آغاز ہی سے طبیعت کا میلان غزل کی طرف رہا۔ جذبۂ شعر و سخن نے غزل کا جو پودا لگایا تھا وہ دھیرے دھیرے درخت بنتا ہوا محسوس ہوا۔ لہٰذا ’’خیال چہرہ‘‘ میں یہ اکلوتا شعر وارد ہوا جو کتاب کے آغاز میں شامل ہے    ؎

کوئی شرارتی بچّوں سا انتظار میں ہے

غزل درخت پہ کب برگ و بار آئیں گے

’’غزل درخت‘‘ پراس طرح کے برگ و بار آنا تو شاید اب بھی باقی ہے جس کا انتظار کوئی شرارتی بچّوں کی طرح کر رہا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ’’غزل درخت ‘‘ ایک سر سبز و شاداب درخت کے مانند وجود میں آ چکا ہے اور آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یقین ہے جو بھی اس درخت کو بغور دیکھے گا کیف و سرور سے سرشار ہوئے بغیر اور کچھ برگ و بار حاصل کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔

’’غزل درخت‘‘ میں کل ۷۲ غزلیں شامل ہیں جن میں دو دو طرحی حمدیہ اور نعتیہ غزلوں کے علاوہ کل ۳۶ طرحی اور ۳۶ غیر طرحی غزلیں شامل ہیں۔ بعض غیر طرحی غزلوں میں منفرد ردیف و قافیے کے استعمال سے غزلیں کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب کہ چند ایک غزلوں کو چھوڑ کر تمام طرحی غزلیں قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم ’بزمِ اردو قطر ‘ کی طرحی نشستوں کے لیے کہی گئی ہیں جو برسوں سے طرحی مشاعرے منعقد کرنے اور منفرد طرز کے مصرعِ طرح دینے کے لیے معروف ہے۔ میں نے اپنی بساط بھر طرحی غزلوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر غزل کے نیچے طرحی یا غیر طرحی کی نشاندہی کر دی گئی ہے تاکہ قارئین فیصلہ کر سکیں کہ یہ کاوش کس حد تک کامیاب ہوئی ہے ساتھ ہی یہ بھی درج کر دیا گیا ہے کہ یہ غزل کب کہی گئی ہے۔ ’’لفظوں میں احساس‘‘ اور ’’خیال چہرہ‘‘ کی طرح ’’غزل درخت‘‘ میں بھی عام قاری کی سہولت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ایک بحر میں کہی گئی تمام غزلوں کو ایک جگہ رکھا گیا ہے۔

اس مجموعے میں عالی جناب کلیم احمد عاجزؔ صاحب کا ایک مضمون شامل ہے جو آپ نے ۲۰۰۹ء میں ناچیز کی پہلی اور دوسری کتاب کو دیکھنے کے بعد تحریر فرمایا تھا۔ آپ نے جن الفاظ میں اظہارِ خیال کیا ہے اس کے لیے میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ ساتھ ہی ذرّہ نوازی اور نیک تمناؤں کے لیے عالی جناب کا انتہائی شکرگزار ہوں۔ پروفیسر احمد سجّاد اور ڈاکٹر مولا بخش صاحبان کی تحریروں سے بھی کتاب کے وقار میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کے لیے تہِ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔ قطر میں ابھرتے ہوئے نوجوان تنقید نگار ڈاکٹر فیصل حنیف نے پہلی بار کسی شعری مجموعہ کے لیے بیک وقت اردو اور انگریزی میں نہ صرف قابلِ تحسین مضامین تحریر کیے ہیں بلکہ کتاب کے وقار کو دو چند کر دیا ہے۔ڈاکٹر حنیف ہمیشہ اشعار پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں اور ان کے لیے یہ اہم نہیں ہوتا کہ شعر کس کا ہے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کہ شعر کیسا ہے۔ میں ان کا بے حد سپاس گزار ہوں کہ انھوں نے میری شاعری پر حوصلہ بخش اظہارِ خیال فرمایا۔

یوں تو ڈاکٹر ظفرؔ کمالی صاحب میرے اشعار پر نہایت مفید مشورے عنایت کر کے بہتر بنانے کی طرف ہمیشہ ہی توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ لیکن کتاب کے مسودے پر جس خلوص کے ساتھ مشورہ دے کر متعدد اشعار کو تبدیل کرنے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اس کے لیے خصوصی طور پر شکر گزار ہوں۔ اس کے باوجود اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کی وجہ صرف میری کم علمی ہے۔ امجد علی سروَر ؔ صاحب کے علاوہ عبدالرحمن فریدؔ ندوی، مظفر نایابؔ، اشفاق دیشمکھ، محبوب الٰہی،فیروز خان اور غفران صدیقی جیسے مخلص دوستوں کے مفید مشوروں اور حوصلہ افزائیوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا خود پر لازم سمجھتا ہوں۔ قطر کی تمام ادبی تنظیموں اور ان کے ذمہ داران اور سامعین کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس شعری سفر میں میرے ساتھ تعاون کیا اور میری ہمت بڑھائی۔ عرشیہ پبلی کیشنز کے مینیجر ہمارے دوست اظہار احمد ندیم کا بھی شکریہ جنھوں نے کتاب کو نہ صرف شائع کیا بلکہ خوب صورت سرِ ورق بھی ڈیزائن کر کے کتاب کو مزید دلکش بنا دیا۔ محترم انتظار نعیمؔ، خورشید اکبرؔ، غضنفرؔ، کوثرؔ مظہری، سلیم خان، اسلم جاویداں اور مشتاق صدف ؔ جیسے مخلصین کا بھی ممنون ہوں جو ہمیشہ میری ہمت افزائی کرتے اور رہنمائی فرماتے ہیں۔

اپنے والدین، اہلیہ، بھائیوں  (اظہار اور ذوالفقار)، بچوں (عادل، شاغل، مدیحہ اور واصل)، تمام رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی شکریہ جن کی محبتیں اور دعائیں ہمیشہ دست و بازو بن کر میرے ساتھ رہتی ہیں۔ آخر میں تمام قارئین کا شکریہ جنھوں نے کتاب کا استقبال کیا ہے اور ناقدینِ فن و تبصرہ نگاران کا بھی شکریہ جو کتاب پر کچھ لکھنے کی زحمت اٹھائیں گے اور ان مخلصین کا بھی جو میری خامیوں کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کا موقع عطا فرمائیں گے۔ ’’غزل درخت‘‘ سے ایک شعر حاضرِ خدمت کر کے آپ کو پوری کتاب پڑھنے کی دعوت دے کر اجازت چاہوں گا    ؎

نہ دل کشی کی تمنّا نہ دلبری درکار

غزل درخت کو ہر دم ہے تازگی درکار

افتخار راغبؔ

دوحہ قطر، ۴ نومبر ۲۰۱۳ء بروز اتوار

٭٭٭

 

میں کیا کروں کہ ہے اردو مِری زباں راغبؔؔ

معاف کرنا جو لہجہ مِرا کرخت نہیں

 

                   حمدیہ غزل

کس نے غنچوں کو نازکی بخشی

سنگ کو کس نے پختگی بخشی

کس نے بخشی زباں کو گویائی

کس نے آنکھوں کو روشنی بخشی

کس کے بس میں تھی آتشِ نمرود

کس نے صبر و سلامتی بخشی

کس نے پرواز کا ہنر بخشا

کس نے فہمِ شناوری بخشی

ابر سے آب کس نے برسا کر

مردہ مٹّی کو زندگی بخشی

کون آب و ہوا کا مالک ہے

کس نے پودوں کو تازگی بخشی

پنکھ کس نے دیے پرندوں کو

کس نے پھولوں کو پنکھڑی بخشی

پیڑ پودے اُگائے ہیں کس نے

کس  نے  دھرتی  کو  دل کشی  بخشی

کون خالق ہے سب زبانوں کا

کس نے اردو کو چاشنی بخشی

کس نے ایمان کی نمو کے لیے

علم و حکمت کی روشنی بخشی

کس نے اشرف بنایا انساں کو

کس نے خاکی کو برتری بخشی

کس نے بخشا ہمیں قلم راغبؔؔ

کس نے تنویرِ آگہی بخشی

اگست  ۲۰۱۱ء ؁  طرحی

 

                   حمدیہ غزل

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات

مرکزِ حمد و ثنا ہے تیری ذات

ساری  دنیا  کا  ہے  پالن ہار  تُو

محورِ ارض و سما ہے تیری ذات

تیرے ہی رحم و کرم کی آس ہے

مالکِ یومِ جزا ہے تیری ذات

ہاتھ پھیلائے کوئی کس کے حضور

رب ہے تُو حاجت روا ہے تیری ذات

تُو ہی واقف ہے دلوں کے حال سے

منبعِ نورِ ہدیٰ ہے تیری ذات

ہے اگر کچھ تو ہے بس تیری عطا

کچھ نہیں تو آسرا ہے تیری ذات

کار سازی تیری ہر ذرّے میں ہے

ہر جگہ جلوہ نما ہے تیری ذات

مشکلیں راغبؔؔ کی بھی آسان کر

اے خدا! مشکل کشا ہے تیری ذات

ستمبر۲۰۰۷ء  ؁  طرحی

ؑ

                   نعتیہ غزل

نور کا چشمہ رواں ہے آپؐ سے

دل کی دنیا ضو فشاں ہے آپؐ سے

جس قدر رونق یہاں ہے آپؐ سے

اُس قدر زینت وہاں ہے آپؐ سے

آپؐ کی تعلیم سے جگ مگ ہے جگ

’’رونقِ بزمِ جہاں ہے آپؐ سے‘‘

ساری مخلوقات میں آقاؐ مِرے

کوئی بھی افضل کہاں ہے آپؐ سے

امنِ  عالم  کے  علَم بردار  آپؐ

ہر طرف امن و اماں ہے آپؐ سے

بخت پر نازاں ہے طیبہ کی زمیں

کیوں نہ ہو؟ جنّت نشاں ہے آپؐ سے

عظمتِ اسلام، توقیرِ بشر

ساری دنیا پر عیاں ہے آپؐ سے

آپؐ ہی سے بانگِ حق ارفع ہوئی

قائم و دائم اذاں ہے آپؐ سے

ہر گھڑی لب پر درودوں کی مٹھاس

منسلک دل کی زباں ہے آپؐ سے

ہو مقدر میں شفاعت آپؐ کی

قلبِ راغبؔؔ خوش گماں ہے آپؐ سے

فروری ۲۰۱۳ء ؁  طرحی

 

 ؑ

                   نعتیہ غزل

نور الہدیٰ مبشّر و طٰہٰ حضورؐ ہیں

گویا کلامِ پاک سراپا حضورؐ ہیں

چارہ گرو  عبث  نہ  کرو  وقت  رائگاں

یہ درد وہ ہے جس کا مُداوا  حضورؐؐ ہیں

دنیائے آخرت جو ہماری سنوار دے

وہ مشعلِ ہدایتِ دنیا حضورؐ ہیں

کس طرح بیڑا پار لگائے گا کوئی اور

جب ناخدائے کشتیِ عقبیٰ حضورؐؐ ہیں

فردوس کو بھی رشک ہے طیبہ کے بخت پر

کیوں کر نہ ہو کہ شاہِ مدینہ حضورؐ ہیں

دشمن سے بھی ہے رحم و کرم کا معاملہ

خیرالبشر ہیں فاتحِ مکّہ حضورؐ ہیں

اک بار دیکھ لیں اُنھیں دنیائے خواب میں

آنکھوں کی پتلیوں کی تمنّا حضورؐؐ ہیں

ہر آسرے کا آسرا ہے ربِّ دو جہاں

’’ہر آرزو کی آرزو تنہا حضورؐ ہیں ‘‘

راغبؔؔ رکھیں گے لاج وہ اپنے غلام کی

محشر میں مومنوں کا سہارا حضورؐ ہیں

مارچ ۲۰۰۹ء ؁  طرحی

 

 ؑ

اندازِ ستم اُن کا نہایت ہی الگ ہے

گزری ہے جو دل پر وہ قیامت ہی الگ ہے

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر

ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے

پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے

گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے

جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اُتنا ہے خمیدہ

پھل دار  درختوں  کی  طبیعت  ہی  الگ  ہے

باہر سے تو لگتا ہے کہ شاداب ہے گلشن

اندر سے ہر اِک پیڑ کی حالت ہی الگ ہے

ہر ایک غزل تجھ سے ہی منسوب ہے میری

انداز مِرا تیری بدولت ہی الگ ہے

کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغبؔؔ

اس دور میں مفہومِ شرافت ہی الگ ہے

جنوری ۲۰۱۰ء ؁  طرحی

 

چاہوں کہ ہمیشہ میں زمانے کی دعا لوں

سوچوں کہ درختوں کی طرح خود کو بنا لوں

اے میری جھجک ساتھ مِرا چھوڑ دے ورنہ

ڈر ہے کہ کسی روز تجھے مار نہ ڈالوں

کس روز نظر آئے گا تعبیر کا جگنو

کب تک میں تِرے خواب کو آنکھوں میں سنبھالوں

کیا درد کی لذّت سے شناسائی ہوئی ہے

ہر درد کو جی چاہے کہ سینے سے لگا لوں

جو موجبِ نقصان کسی کے لیے ٹھہرے

مر جاؤں مگر ایسا کوئی شوق نہ پالوں

کس طرح اُمنڈتے ہوئے جذبات کو روکوں

راغبؔؔ دلِ خوش فہم کو کس طرح سنبھالوں

مئی ۲۰۱۰ء ؁  طرحی

جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف

دل اُن کا نہیں گردشِ ایّام سے واقف

بس ایک ہی محور پہ یہ دل گھوم رہا ہے

آنکھیں ہیں کہ بس ایک در و بام سے واقف

بے گانے پہ پھینکے گا بھلا سنگ کوئی کیوں

کچھ لوگ یقینا ہیں مِرے نام سے واقف

ہے کون جو واقف نہیں ناسازیِ دل سے

دل کس کا نہیں حسرتِ ناکام سے واقف

مرکوز توجّہ ہے فقط کام پہ راغبؔؔ

انعام سے واقف نہ میں اکرام سے واقف

 جولائی ۲۰۰۹ء   طرحی

لفظوں میں تِرے حسن کی تنویر بسا لوں

اے کاش کہ اشعار کی توقیر بڑھا لوں

خوش بو  سے  تراشوں  میں  ترے  حسن  کا  پیکر

رنگوں سے گلوں کے تِری تصویر بنا لوں

وہ خواب دے مجھ کو جو مِری نیند اُڑا دے

وہ عزم کہ ہر خواب کی تعبیر چُرا لوں

ظالم سے لڑوں گا میں قلم ہاتھ میں لے کر

دشمن کی یہ کوشش ہے کہ شمشیر اُٹھا لوں

کس طرح ملاقات کی نکلے کوئی صورت

کس طرح میں سوئی ہوئی تقدیر جگا لوں

جب دل سے نکلتا ہی نہیں خوف تو راغبؔؔ

کیا گردن و پا میں پڑی زنجیر نکالوں

مئی ۲۰۱۰ء   طرحی

 

یوں اپنی بھول کی میں سزا کاٹنے لگا

جس کو گلے لگایا گلا کاٹنے لگا

اب کے عجیب طرح کی بارش ہوئی یہاں

سیلِ وفا بھی راہِ وفا کاٹنے لگا

کس کشمکش میں تھا کہ میں دیوارِ عشق پر

لکھّا پہ لکھ کے نام تِرا کاٹنے لگا

اپنی جفا پہ پھوٹ کے رونا پڑا اُسے

جس وقت وہ بھی فصلِ جفا کاٹنے لگا

آب و ہوا کی آنکھوں میں کیوں اشک آ گئے

شاید کوئی درخت ہرا کاٹنے لگا

راغبؔؔ نہ پوچھ اُس کے بھروسے کی خستگی

جو شخص لکھ کے حرفِ وفا کاٹنے لگا

جولائی ۲۰۱۳ء ؁  غیر طرحی

 

یک طرفہ  اعتبار  ملانے  کو  خاک  میں

موقع پرست لوگ تھے موقع کی تاک میں

دونوں کے درمیان لگا فاصلہ بہت

آیا نظر کبھی جو تکلّف تپاک میں

کب آپ نے خوشی کا جلایا کوئی چراغ

کب  روشنی  ہوئی  دلِ  اندوہ ناک  میں

کبر و ریا کا رُعب زمیں دوز ہو گیا

آیا نہ کوئی فرق شرافت کی دھاک میں

دامن کا ہے جو حال وہی دوستی کا ہے

پیوند کیا لگائے کوئی چاک چاک میں

غیروں کی بے رُخی کا گلہ کیا کرے کوئی

دم کر دیا ہے اپنے ہی لوگوں نے ناک میں

جولائی ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں

غم سے تِرے نجات نہیں چاہتا تھا میں

کب چاہتا تھا تیری عنایت کی بارشیں

شادابیِ حیات نہیں چاہتا تھا میں

مجھ سے تو اے بہشت نظر یوں نظر نہ پھیر

کیا تجھ کو تا حیات نہیں چاہتا تھا میں

میں چاہتا تھا تم سے نہ جیتوں کبھی مگر

کھا جاؤں خود سے مات نہیں چاہتا تھا میں

گزری ہے دل پہ کیسی قیامت میں کیا کہوں

نفرت کی کائنات نہیں چاہتا تھا میں

کیا حال اب ہے تیرے تعاقب میں اے حیات

تُو یوں ہی آئے ہات نہیں چاہتا تھا میں

میں چاہتا تھا راہ میں کچھ مشکلیں مگر

ہر ہر قدم پہ گھات نہیں چاہتا تھا میں

راغبؔؔ وہ میری فکر میں خود کو بھی بھول جائیں

ایسی تو کوئی بات نہیں چاہتا تھا میں

مئی  ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

دنیا ہے ہم سے بر سرِ پیکار اِک طرف

ہم اپنے حال سے بھی ہیں بیزار اِک طرف

قصرِ انا میں وہ کہیں محصور ہو نہ جائیں

ہر دن اُٹھا رہے ہیں جو دیوار اِک طرف

جو اُن کا کام ہے وہ مبارک اُنھیں مگر

کرتا رہوں میں راستہ ہموار اِک طرف

ہنگامہ اِک طرف ہے کہ آنکھیں ہی پھوڑ دو

عریانیت کا گرم ہے بازار اِک طرف

اِک سمت دھر رہے ہیں وہ الزام بے دریغ

دُہرا رہے ہیں حاشیہ بردار اِک طرف

کیسے بنے گا حلقۂ سالم خلوص کا

جب جھک رہا ہے آپ کا پرکار اِک طرف

شہرِ ہوَس میں مہر و وفا کے ستار کا

اِک تار اِک طرف ہے تو اِک تار اِک طرف

بے غور و فکر آپ بھی اخباروں کی طرح

اُنگلی اُٹھا رہے ہیں لگاتار اِک طرف

منزل کی جستجو میں ہے اِک سمت کارواں

مطلب  پرست  قافلہ سالار  اِک  طرف

خالی جگہ کہاں ہے کہ دل میں نکالیے

’’گنجایشِ عداوتِ اغیار اِک طرف‘‘

وہ اِک طرف حیا کا ہیں پتلا بنے ہوئے

راغبؔؔ نہیں ہے جرأتِ اظہار اِک طرف

دسمبر ۲۰۱۲ء  طرحی

 

پھر ضد پہ اَڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

طوفاں سے لڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

توسیع ہو رہی ہے رہِ اعتبار کی

رستے میں پڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

خوفِ ہَوا سے یا کہ بصد شوق و اضطراب

ماتھا رگڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

اکڑے ہوئے درختوں کے انجام سے بھی کچھ

عبرت پکڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

شاخوں نے اتنا ڈال دیا بارِ اعتبار

جڑ سے اُکھڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

راغبؔؔ یہ لگ رہا ہے کہ ٹوٹے گی کوئی شاخ

پھر سے اکڑ رہا ہے شجر اعتبار کا

جولائی ۲۰۱۳ء  غیر   طرحی

 

خاکی کے دل میں ہو گی ہی الفت زمین کی

لیکن بنا دے وحشی نہ چاہت زمین کی

مٹّی کے اِس بدن پہ میں اِتراؤں کس طرح

لوٹا کے لوٹنا ہے امانت زمین کی

پیوندِ خاک ہو گئے کتنے زمیندار

مٹھّی میں جن کی بند تھی دولت زمین کی

مل جائے اُس زمین میں اے کاش اپنی خاک

کہتے ہیں جس زمین کو جنّت زمین کی

سبزے سے جسم و جاں کو میسّر ہے تازگی

قائم ہے پیڑ پودوں سے زینت زمین کی

ایسا نہ ہو کہ خاک سے نسبت ہے اس لیے

بے جا لگوں میں کرنے حمایت زمین کی

یارب ہمارے پانو زمیں پر رہیں سدا

شامل رہے سرِشت میں نکہت زمین کی

ایسی دھواں دھواں ہے فضا گھُٹ رہا ہے دم

دیکھو بگڑ نہ جائے طبیعت زمین کی

کیا حشر اِس زمین کا ہو گا نہ پوچھیے

بڑھتی رہی جو یوں ہی تمازت زمین کی

راغبؔؔ رہے گا کچھ بھی نہ قائم زمین پر

گھٹ بڑھ گئی اگر کبھی طاقت زمین کی

نومبر ۲۰۱۲ء  طرحی

 

پہلے لٹا دے ان پہ دل و جان بے دریغ

پھر سوچ مت اٹھائے جا نقصان بے دریغ

مٹ جائے ایک دن نہ ہر اِک آرزو کہیں

اِس طرح مت نکالیے ارمان بے دریغ

لے لو قسم نہ نکلے گی اُف بھی زبان سے

کر دو تباہ مجھ کو مِری جان بے دریغ

رکھیے مِرے حضور ادائیں سنبھال کر

اِن پر لٹا نہ دوں میں کہیں جان بے دریغ

بخشیں گے کب بھلا مجھے تیری گلی کے لوگ

سب پر لگا رہے ہیں وہ بہتان بے دریغ

دو چار دن کی عزّت و شہرت کے واسطے

کچھ لوگ بیچ دیتے ہیں ایمان بے دریغ

ستمبر ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

توڑا ستم رَوِش سے بہت اُس نے ہٹ کے آج

دل نے مقابلہ بھی کیا خوب ڈٹ کے آج

آنسو بہت بہے مگر آنکھیں چمک اُٹھیں

ماضی کو اپنے دیکھا جو ہم نے پلٹ کے آج

اپنی مثال آپ تھی جو قوم زور میں

کم زور کتنی ہو گئی ٹکڑوں میں بٹ کے آج

دیتے تھے کل فریب جو اوروں کو بے دریغ

خدشات جانے کیوں ہیں انھیں چھل کپٹ کے آج

ممکن نہیں مصافحہ پر ہیں تو روبرو

اِک آئینے میں آ گئی دنیا سمٹ کے آج

شیریں لبوں تک آپ کے آئے نہ جو کبھی

بہلا رہا ہوں دل انھیں لفظوں کو رٹ کے آج

شاید کبھی دُکھایا ہے میں نے بڑوں کا دل

یوں ہی نہیں جواب ملا ہے پلٹ کے آج

چھوڑا اُسے کہیں کا نہ کبر و غرور نے

پھرتا ہے کیسا گردِ ملامت میں اَٹ کے آج

راغبؔؔ تڑپتے دل کو ملا کس قدر سکون

برسوں کے بعد رویا جو خود سے لپٹ کے آج

ستمبر ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

اِس طرح تھا اندھیروں کا مارا ہوا نصیب

سورج ہوا نصیب نہ تارا ہوا نصیب

کیسا فلک نصیب ہمارا ہوا نصیب

’’چلمن سے اُس پری کا نظارا ہوا نصیب‘‘

آخر کو غرق ہو گیا آنکھوں کی جھیٖل میں

پلکوں کا تیری گرچہ سہارا ہوا نصیب

تم اپنے ہاتھ پانو ہلاتے نہ تھے کبھی

اب مت کہو کہ ہم کو خسارا ہوا نصیب

آنکھیں مِری چمک اُٹھیں چہرہ دمک اُٹھا

چاہت کا جب کسی کی اشارا ہوا نصیب

وہ کتنے خوش نصیب ہیں جن کو نصیب ہے

دستِ کرم سے تیرے سنوارا ہوا نصیب

روشن ہے جس کے دم سے ہر اک گوشۂ حیات

اک ایسا روشنی کا منارا ہوا نصیب

راغبؔؔ کے اعتماد کا عالم ہی اور ہے

جس دن سے اعتماد تمھارا ہوا نصیب

جون ۲۰۱۲ء  طرحی

 

جس نے روایتوں کی قبا تار تار کی

کہتے ہیں اُس نے راہ نئی اختیار کی

گلشن میں بڑھ گئی ہے اگرچہ انارکی

اُمّیٖد ہم کو پھر بھی ہے فصلِ بہار کی

کر دی ہے اُس نے اب تو مظالم کی انتہا

چھڑ جائے اب نہ جنگ کہیں آر پار کی

شامل کریں اِسے بھی اساسی حقوق میں

ہر ایک زندگی کو ضرورت ہے پیار کی

تُو ہے سخن کا تاج محل اے مِری غزل

کیا داد کوئی دے تِرے نقش و نگار کی

ساعت کو پہلے عمر سے تقسیم کر دیا

پھر تیرے انتظار کی ساعت شمار کی

آہ و فغاں سے ہلنے لگی ساری کائنات

کھُلتی نہیں ہے آنکھ مگر پہرے دار کی

دیتا نہیں ہے دل ہی مِرا ساتھ کیا کروں

میں نے تو بھول جانے کی کوشش ہزار کی

اے زندگی میں مر گیا اس امتحان میں

ممکن بھی تو نہ تھی کوئی صورت فرار کی

جنوری ۲۰۱۱ء  طرحی

 

یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست لوگ

قبلہ  بنے  ہوئے  تھے  قبیلہ پرست  لوگ

لگتا تھا چھو گیا تھا اُنھیں مستیوں کا جنّ

اِس طرح اپنے آپ میں رہتے تھے مست لوگ

کیا خوب ہر طرف ہے ترقّی کی دھوم دھام

کشکول تھامے ملک ہے کاسہ بدست لوگ

سر پر ہے سائباں کی طرح دھوپ کا شجر

آرام  کر  رہے  ہیں  ابھی  فاقہ مست  لوگ

یوں ہی رہیں گے حرص و ہوَس کے اگر اسیر

کھائیں گے اپنے آپ سے یوں ہی شکست لوگ

جولائی ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

تھے صورتِ سوال سبھی اُس کے گھر کے پاس

گویا ہر اِک جواب تھا دیوار و در کے پاس

کیا جانے کیا ہو ردِّ عمل کچھ خبر نہیں

جائے گی جب خبر مِری اُس بے خبر کے پاس

دنیا کی تیز آنکھوں سے بچنا محال ہے

دل میں تجھے چھپاؤں کہ رکھّوں جگر کے پاس

ناقدریِ خلوص و محبّت سے کر گریز

رختِ سفر یہی ہے تِرے ہم سفر کے پاس

راہِ وفا میں جان لڑانے کا وقت ہے

یا رب یہ امتحاں بھی دکھا دوں میں کر کے پاس

ظاہر کی نذر ہو گیا باطن کا حسن کیا

یا وہ نظر نہیں رہی اہلِ نظر کے پاس

اس  کی  ستم ظریفی  کی  کیا  دے  کوئی  مثال

ہر بات کا جواز ہے اس فتنہ گر کے پاس

سورج کے سامنے کہیں جلتا ہے کوئی دیپ

اُگتا ہے کوئی پیڑ تناور شجر کے پاس

کوشش تو کر رہا ہے وہ اپنی بساط بھر

مانا کہ روشنی نہیں راغبؔؔ قمر کے پاس

اپریل ۲۰۱۰ء  طرحی

 

تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں

مرجھانے لگے پودے کیوں عہدِ جوانی میں

تنکا ہوں کہ بہہ جاؤں برسات کے پانی میں

قائم ہوں چٹانوں سا دریا کی روانی میں

اُس پر ہی نہ جانے کیوں ہم جان لُٹا بیٹھے

معلوم نہیں کیا تھا اُس دشمنِ جانی میں

اشعار میں اب جدّت آئے گی نظر ان کو

اب ربط نہیں کوئی الفاظ و معانی میں

اُن کے بھی فسانے میں کردار مِرا روشن

گم گشتہ  نہیں  ہوں  میں  اپنی  ہی  کہانی  میں

بیدار بھی رہنے کا ہے دور یہی راغبؔؔ

غفلت کی خماری بھی چڑھتی ہے جوانی میں

جون ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

اُس نے الفت کی یوں لگائی آگ

لگ گئی دل میں کیمیائی آگ

بچ کے رہنے میں ہی بھلائی ہے

خواہ اپنی ہو یا پرائی آگ

تیز بارش، ہوا، ٹھِٹھرتے دل

کچّی لکڑی، دِیا سلائی، آگ

جل گیا سب مگر دھواں نہ اُٹھا

اُس نے کچھ اِس طرح لگائی آگ

خوب ہوتا محوِ رقص دھواں

خوب کرتی ہے خود نمائی آگ

یاد آئے وہ وادیِ ایمن

دے کہیں دور جب دکھائی آگ

دشت میں آس کی کرن چمکی

کر دے شاید کہ رہ نمائی آگ

آگ آئے نہ اُس کے آگے کیوں

عمر بھر جس نے ہے کمائی آگ

آج بھی اپنی انتہا پر ہے

دل کے اندر وہ ابتدائی آگ

اس کی فطرت ہے جب یہی راغبؔؔ

کیوں  دِکھائے  نہ  کج ادائی  آگ

 ستمبر  ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

کیا سمجھتی ہے رات سورج کو

کیا بتائیں یہ بات سورج کو

اتنی گرمی ہے دیکھیے کس میں

کون دیتا ہے مات سورج کو

جانے کس روز ملنے والی ہے

شعلگی سے نجات سورج کو

آخری سانس تک لٹانی ہے

روشنی شش جہات سورج کو

ہم کو حاصل حواس کی دنیا

دھوپ کی کائنات سورج کو

کیسے حاصل ہو دو گھڑی آرام

کب میسر ہے رات سورج کو

فائدہ کچھ نہیں بتا کر بھی

رات کے حادثات سورج کو

ساری کرنیں وہی لپیٹے گا

جس نے بخشی حیات سورج کو

فیض پہنچا سکے گا کیا راغبؔؔ

چاند کا التفات سورج کو

جولائی ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

زخم پر زخم دے رہا ہے وہ

وہ نہیں چارہ گر تو کیا ہے وہ

درد سے پہلے لگ رہا تھا مجھے

دردِ دل کی مِرے دوا ہے وہ

چاروں جانب بنامِ امن و اماں

کس قدر ظلم ڈھا رہا ہے وہ

سادگی سے مِری نہ جانے کیوں

خوف و دہشت میں مبتلا ہے وہ

میں ہوں روشن چراغ اُس کے لیے

اور مِرے واسطے ہَوا ہے وہ

جون ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

میرے خامے کو وہ سیاہی دے

ذہن و دل کو جو خوش نگاہی دے

اب کوئی فیصلہ سنا ہی دے

مت جزا دے مجھے سزا ہی دے

ختم وابستگی نہ کر مجھ سے

میں ہوں دشمن تو بد دعا ہی دے

مت بتا مجھ کو راہ منزل کی

پانو رکھنے کو راستا ہی دے

مجرموں کو بھی جو نصیب نہ تھی

وہ سزا آج بے گناہی دے

کیا بتاؤں، یہ دل ہی جانے ہے

دُکھ جو اپنوں کی خیر خواہی دے

دیکھ کیا کیا کمال کرتا ہوں

تُو مجھے صرف حوصلہ ہی دے

سب  طرف دار  جب  اُسی  کے  ہیں

کون حق میں مِرے گواہی دے

کس کے آنگن میں چاند اُترا ہے

’’اب تو اے دل اُسے بھلا ہی دے‘‘

یہ محبت کی آگ ہے راغبؔؔ

دے سکے تو اِسے ہَوا ہی دے

جون ۲۰۰۸ء  طرحی

 

کس سے پوچھوں کسے پتا ہے یہ

پیار ہے یا فقط ادا ہے یہ

نونہالوں کا سر کچلتے ہو

ظلم کی حد نہیں تو کیا ہے یہ

مخملیں فرش اور پھول کہاں

راست بازی  کا  راستا  ہے  یہ

دار پر مجھ کو لا کے چھوڑے گا

حق نوائی  کا  جو  نشا  ہے  یہ

شر پرستوں سے خیر کی امّید

بے وقوفی نہیں تو کیا ہے یہ

سب کو اپنی پڑی ہے بس راغبؔؔ

ساری دنیا کو کیا ہُوا ہے یہ

جون ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

شر پسندوں  کی  راہ  سے  بچنا

جس قدر ہو گناہ سے بچنا

جو نہ ٹوکے تمھاری لغزش پر

ایسے  ہر  خیر خواہ  سے  بچنا

خود  پسندوں  کی  ہم رکابی  سے

خود غرَض سربراہ سے بچنا

اے ستارو کہیں پھرو لیکن

قربِ غارِ سیاہ سے بچنا

ساتھ دینا کبھی نہ ظالم کا

بے سہاروں کی آہ سے بچنا

مجھ کو لگتا ہے غیر ممکن ہے

دوستوں کی نگاہ سے بچنا

ہر  سخن ور  کو  چاہیے  راغبؔؔ

بے تکی واہ واہ سے بچنا

اگست ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

جس میں مکر و دغا نہیں موجود

شاید ایسی فضا نہیں موجود

مجھ کو چھُو کر ذرا بتاؤ مجھے

میں ہوں موجود یا نہیں موجود

کون خاکی ہے اس قبیلے میں

کس میں کبر و ریا نہیں موجود

اُن سے رشتہ بحال رکھنے کا

دل تو ہے حوصلہ نہیں موجود

اُس کے کبر و غرور کا اب بھی

ہے غبارہ ہَوا نہیں موجود

خود شناسی  کی  ہے  کمی  ورنہ

’’ذات میں اپنی کیا نہیں موجود‘‘

اُس لفافے میں بند ہوں راغبؔؔ

جس پہ نام اور پتہ نہیں موجود

مئی ۲۰۱۲ء  طرحی

 

دشمنوں سے بھی مجھ کو بَیر نہیں

تم تو اپنے ہو کوئی غیر نہیں

ساتھ رہنا بھی غیر ممکن ہے

رہ بھی سکتے تِرے بغیر نہیں

زندگی کا عظیم مقصد ہے

یہ کسی گلستاں کی سَیر نہیں

اتنے بُت ہیں کہ کس طرح کہیے

دل ہمارا حرم ہے دَیر نہیں

جھوٹ پر جھوٹ اے خُدا کب تک

کیسے کہہ دوں کہ میں بخیر نہیں

آج پھر ہو گئی بڑی تاخیر

آج پھر لگ رہا ہے خیر نہیں

مئی ۲۰۰۹ء  غیر طرحی

 

دیکھ آتا ہے وہ سمے کہ نہیں

فاصلہ ہو رہا ہے طے کہ نہیں

مسکراہٹ کو دیکھ کر میری

دل کسی کا اُداس ہے کہ نہیں

میری چاہت کے ڈوبتے سورج

پھر سے ہو گا تِرا اُدے کہ نہیں

اپنے توشے میں دیکھتے رہیے

کار آمد ہے کوئی شے کہ نہیں

جائزہ پے بہ پے ضروری ہے

باہمی اتّفاق ہے کہ نہیں

جتنے  بھی  خود پسند  ہیں  راغبؔؔ

آپ کہتے ہیں اپنی جَے کہ نہیں

جولائی ۲۰۰۷ء  غیر طرحی

 

سچ کبھی ہو گا تمھارا خواب کیا

مان جائے گا دلِ بے تاب کیا

کیا بتاؤں کر کے میری غیبتیں

نوش فرماتے ہیں کچھ احباب کیا

زہر اِس درجہ ہَوا میں گھول کر

چاہتے ہو بارشِ تیزاب کیا

آپ بھی بے چین رہتے ہیں بہت

چبھ گیا آنکھوں میں کوئی خواب کیا

پانی اُترے تب نہ یہ دیکھے کوئی

ساتھ اپنے لے گیا سیلاب کیا

لے گئے شاخیں بھی پھل کے ساتھ لوگ

پھر سے ہو گا یہ شجر شاداب کیا

پیش آتے ہیں ادب سے آپ کب

آپ سے سیکھے کوئی آداب کیا

کوئی آکر ایک کنکر پھینک دے

چاہتا ہے اور یہ تالاب کیا

پوچھیے جوہر شناسوں سے کبھی

در حقیقت چیز ہے یہ آب کیا

لغزشوں پر ٹوک بیٹھا تھا اُنھیں

اور ناراضی کے ہیں اسباب کیا

کہہ دیا کہنا تھا جو راغبؔؔ مجھے

دیکھ فرماتے ہیں اب احباب کیا

مئی ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

گر نہ ظالم کو ترَس آئے کبھی

غم سے میرا دل نہ گھبرائے کبھی

تم سے مجھ کو آپ تم کہنے لگو

دوستی وہ دن نہ دکھلائے کبھی

یاد آتے ہی تِری چاہے یہ دل

خود کو پھر تاریخ دُہرائے کبھی

زُلف سے آئے سدا بوئے وفا

چاند سا چہرہ نہ گہنائے کبھی

ایسی بے شرمی کا موسم آ گیا

دل یہ چاہے کوئی شرمائے کبھی

میری کچھ نادانیاں گِنوا کے وہ

طنز کے کچھ تیر برسائے کبھی

دم کبھی بے لوث خدمت کا بھرے

اور احسانات گِنوائے کبھی

سر کے بل جاؤں میں اُن کے سامنے

اُن کو میری یاد تو آئے کبھی

جتنی بھی راغبؔؔ ستم کی لُو چلے

صبر کا پودا نہ مُرجھائے کبھی

جون ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

آ گیا ہے دل کو اِک قاتل پسند

کیا کہوں اب کیا کرے ہے دل پسند

جس قدر بھی ہو بظاہر اختلاف

سوچ میں یکساں ہیں سب باطل پسند

آج آئی ہے انھیں بسمل کی یاد

ایک مدّت سے تھے جو قاتل پسند

خاک سے جس کی کوئی نسبت نہیں

خاک آئے اُس کو بوئے گِل پسند

کیوں کنارے سے ہے اب چپکی ہوئی

اپنی کشتی تو نہ تھی ساحل پسند

دوستوں کے وار کا کرنا شمار

مشغلہ اب اور کیا ہو دل پسند

ہر  طرف  ہے  خود پسندی  کا  حصار

سب کو آئے اپنی ہی محفل پسند

دائرہ در دائرہ تقسیم سب

اپنا اپنا سب کو ہے سرکل پسند

عشق کا ہرگز نہ وہ بیڑا اُٹھائے

جس  کا  راغبؔؔ  دل  نہیں  مشکل پسند

جون ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

پڑ گیا چڑیوں کی بھی محفل میں فرق

ڈال دیتی ہیں ہوائیں دل میں فرق

راستہ بھی مختلف ہے سمت بھی

کیوں نہ واقع ہو بھلا منزل میں فرق

میرے آنے یا نہ آنے سے حضور

کیا پڑے گا آپ کی محفل میں فرق

کبر سے اور عاجزی سے ہے عیاں

فطرتِ آتش، سرشتِ گِل میں فرق

دوسروں کو پیسنا اچھّا نہیں

کچھ نہ کچھ پڑتا ہے بے شک سِل میں فرق

غور سے دیکھو بہ چشمِ دل کبھی

صاف ظاہر ہے حق و باطل میں فرق

چشم پوشی  حال  کے  احوال  سے

چاہتے ہو حالِ مستقبل میں فرق

کب  ہوا  گریہ  سے  راغبؔ ؔ  غم غلط

مسکرانے سے پڑا مشکل میں فرق

جنوری ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

چاہتوں کا سلسلہ ہے مستقل

سبز موسم کرب کا ہے مستقل

کیا بتاؤں دل میں کس کی یاد کا

ایک کانٹا چبھ رہا ہے مستقل

بڑھ رہا ہے مستقل قحطِ شجر

زہر آلودہ فضا ہے مستقل

راہِ الفت میں کہاں آسانیاں

پُر خطر یہ راستہ ہے مستقل

آ گئی ہے فصلِ آزادی مگر

خوف کا پودا ہرا ہے مستقل

دشمنی کے سب دریچے بند ہیں

دوستی کا در کھلا ہے مستقل

عشق کے اِک ٹمٹماتے دیپ نے

دل کو روشن کر رکھا ہے مستقل

ایک موسم کی کسک ہے دل میں دفن

میٹھا میٹھا درد سا ہے مستقل

 ذہن و دل کی وادیِ پُر امن میں

گونجتی کس کی صدا ہے مستقل

دیکھ کر رسمِ وفا اس دور کی

شرمگیں حرفِ وفا ہے مستقل

غم کسی کا ہو گیا راغبؔؔ نصیب

ورنہ اِس دنیا میں کیا ہے مستقل

  اگست ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

دردِ دل مجبور ٹھہرا کس قدر

نالۂ دل پر ہے پہرا کس قدر

کس قدر آساں محبت کی زباں

ہے کٹھن اس کا ککہرا کس قدر

چھیڑتا رہتا ہے احساسات کو

نغمۂ اُلفت کا لہرا کس قدر

حق نوائی کر کے حضرت دیکھیے

بولنا دشوار ٹھہرا کس قدر

شدّتِ احساسِ فرقت کے طفیل

ہو گیا لہجہ اکہرا کس قدر

چیخ  جب  نکلی  کسی  کم زور  کی

ہو گیا قانون بہرا کس قدر

تیز بارش ہو تو کچھ معلوم ہو

رنگِ اُلفت ہے یہ گہرا کس قدر

بھر گیا ہر زخم راغبؔؔ آخرش

ہے زباں کا زخم گہرا کس قدر

جولائی ۲۰۰۸ء  غیر طرحی

 

پھر اُٹھایا جاؤں گا مٹی میں مِل جانے کے بعد

گرچہ ہوں سہما ہوا بنیاد ہِل جانے کے بعد

آپ اب ہم سے ہماری خیریت مت پوچھیے

آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دِل جانے کے بعد

سخت جانی  کی  بدولت  اب  بھی  ہم  ہیں  تازہ دم

خشک ہو جاتے ہیں ورنہ پیڑ ہِل جانے کے بعد

خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے

گُل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھِل جانے کے بعد

فکر لاحق ہے ہمیشہ مثلِ تُخمِ ناتواں

حشر کیا ہو گا درونِ آب و گِل جانے کے بعد

اس طرح حیران ہیں سب دیکھ کر راغبؔؔ مجھے

جیسے کوئی آ گیا ہو مستقل جانے کے بعد

دسمبر ۲۰۱۱ء  طرحی

 

آپ سے رہ کر الگ ممکن گزارا ہے کہاں

گھُٹ کے مرنے کے سوا اب کوئی چارا ہے کہاں

ہاتھ رکھّا تھا ہمارے دل پر اُس نے ایک بار

کچھ نہیں معلوم جب سے دل ہمارا ہے کہاں

اہلِ دل کو کیوں نظر آتی نہیں اُس کی چمک

اے محبت تیری قسمت کا ستارا ہے کہاں

کھِل کھِلا کر ہنس رہے ہیں ہم پہ یہ گملے کے پھول

کس سے پوچھیں کیا بتائیں گھر ہمارا ہے کہاں

تم کو کیا معلوم کیسی آگ میں جلتا ہوں میں

دل  کسی  شعلہ ادا  پر  تم  نے   وار ا  ہے  کہاں

اُن کے دم سے کس قدر پُر نور ہے دنیاے دل

اُن کے جیسا روشنی کا استعارا ہے کہاں

برگِ آوارہ ہوں راغبؔؔ در بہ در پھرتا ہوں میں

میرے جیسا مضطرب اور غم کا مارا ہے کہاں

اکتوبر ۲۰۱۲ء ؁  طرحی

 

بے سہارا نہ سمجھ لے دنیا

نرم چارا نہ سمجھ لے دنیا

یوں ہی غمگین رہے ہم تو کہیں

غم ہمارا نہ سمجھ لے دنیا

تیز چلنے سے بہت ڈرتا ہوں

ٹوٹا تارا نہ سمجھ لے دنیا

کس کا چہرہ مِرے اشعار میں ہے

استعارا نہ سمجھ لے دنیا

مجھ کو ڈر ہے کہ بنا پرکھے مجھے

سنگ خارا نہ سمجھ لے دنیا

اُس طرف سے جو ملا ہے راغبؔؔ

وہ اشارا نہ سمجھ لے دنیا

جون ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

اُس نے لوگوں سے سنا ایسا کیا

اے خدا میں نے کہا ایسا کیا

ذہن قابو میں نہ دل بس میں ہے

کیا کہوں آج ہُوا ایسا کیا

محوِ حیرت ہیں مسلسل آنکھیں

اُس نے آنکھوں سے کہا ایسا کیا

اُن کے ایوان میں سچ بول دیا

اور کہتے ہو کیا ایسا کیا

میری بے چینی سے اندازہ کر

اُن کے انداز میں تھا ایسا کیا

جس پہ مرتا ہے تُو اتنا راغبؔ

اُس میں آخر ہے بتا ایسا کیا

دسمبر ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

خوب شعلوں کو ہوا دی اُس نے

آگ پانی میں لگا دی اُس نے

ڈائری لے کے مِری چپکے سے

اپنی تصویر بنا دی اُس نے

کس کے دم سے ہے قیامت برپا

کس کو لکھّا ہے فسادی اُس نے

دل ہُوا اور پریشان مِرا

جب کبھی دل سے دعا دی اُس نے

وجۂ بے خوابی بتا کر مجھ کو

نیند میری بھی اُڑا دی اُس نے

راہ ہموار کہاں ہو پائی

پھر سے دیوار اُٹھا دی اُس نے

ہر طرف ایک ہی افسانہ ہے

کیسی پھیری ہے منادی اُس نے

اس کو لگتا ہے بہا کر آنسو

پیٖت کی ریٖت نبھا دی اُس نے

میں نے اِک بات کہی تھی راغبؔ

بے سبب بات بڑھا دی اُس نے

اپریل ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

اپنی پلکوں سے اُٹھاؤں تجھ کو

میں تو آنکھوں میں بساؤں تجھ کو

تیری لغزش پہ تجھے ٹوک دیا

کیا کروں کیسے مناؤں تجھ کو

لن ترانی  نہیں  اچھّی  اتنی

نشّہ اُترے تو بتاؤں تجھ کو

برہمی اور نہیں سہنی مجھے

اب نہ آئینہ دکھاؤں تجھ کو

خود فریبی میں نہیں تُو خود میں

کس طرح تجھ سے ملاؤں تجھ کو

پھول زخموں کے نہ مرجھائیں کبھی

میں کبھی بھول نہ پاؤں تجھ کو

تُو  ہے  دل بر  بھی  ستم  پیشہ  بھی

دل کے کیا زخم دکھاؤں تجھ کو

میں بھی غیروں پہ عنایت کر کے

تیری ہی طرح ستاؤں تجھ کو

زخم پر زخم دیا ہے تُو نے

کیا کرم تیرے گناؤں تجھ کو

اپریل ۲۰۱۱ء  غیر طرحی

 

لطف دیتا ہے ستم پر ترا نازاں ہونا

کاش آئے نہ کبھی تجھ کو پشیماں ہونا

باعثِ رنج نہ ہو جائے یہ شاداں ہونا

اُن کی جانب سے تو باقی ہے ابھی ہاں ہونا

موت سے مل کے گلے سیکھ لو فرحاں ہونا

’’عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‘‘

میرا دل کہتا ہے روشن ہے مِرا مستقبل

چھوڑ دو حال پہ تم میرے پریشاں ہونا

پھڑپھڑاتے ہیں کہ ہو جائے رہائی حاصل

کون چاہے گا بھلا زینتِ زنداں ہونا

ایسا لگتا ہے کہ بستی ہے مِری جاں تجھ میں

مجھ سے برگشتہ کسی دم نہ مِری جاں ہونا

چاہیے معنی و مفہوم کی نیرنگی بھی

صرف کافی نہیں الفاظ کا چسپاں ہونا

ان کا اندازِ ستم بھی کبھی دیکھو راغبؔؔ

پھر مِرے حال پر انگشت بدنداں ہونا

اگست ۲۰۱۲ء  طرحی

 

سامنے آ گئی اِک روز یہ سچّائی بھی

دشمنِ جاں یہ سماعت بھی ہے بینائی بھی

پیکرِ شعر میں ہر جذبہ نہیں ڈھل پاتا

کچھ نئے لفظ دے یا چھین لے گویائی بھی

حسبِ معمول تجھے دیکھ کے دل شاد ہُوا

خواب ٹوٹا تو طبیعت مِری گھبرائی بھی

کس قدر خوف تمھیں تھا مِری بے تابی سے

دیکھ لی تم نے مِرے دل کی شکیبائی بھی

خود کو کرتی رہی قربان درختوں پہ ہَوا

سبز شاخوں کو کبھی توڑ کے اِترائی بھی

کم نہیں بے کس و مفلس کی مدد سے راغبؔؔ

پیڑ  پودوں  کی  نگہ داشت  بھی  سینچائی  بھی

اپریل ۲۰۱۲ء  طرحی

 

درمیاں ابر کے ہیں آب سے نا واقف ہیں

ہم کہ بے مہریِ احباب سے نا واقف ہیں

ایسے پودے ہیں کہ واقف نہیں شادابی سے

ایسی ندیاں ہیں کہ سیلاب سے نا واقف ہیں

ایسے بھی گُل ہیں جو واقف نہیں رنگ و بو سے

ایسی آنکھیں بھی ہیں جو خواب سے نا واقف ہیں

جسم کو اپنے سمجھتے ہیں حسیں تاج محل

اور وہ بارشِ تیزاب سے نا واقف ہیں

کم نہیں زعم اُنھیں اپنی سخن دانی کا

گفتگو کے بھی جو آداب سے نا واقف ہیں

جب سے دیکھا ہے تصوّر میں تمھارا چہرہ

ایسا لگتا ہے کہ مہتاب سے نا واقف ہیں

اُن کو اندازہ ہو کیسے مِری غرقابی کا

جو تِری آنکھوں کے گرداب سے نا واقف ہیں

چوٹ لگتی ہے تو اب درد کہاں ہوتا ہے

رنج ہوتا ہے کہ احباب سے نا واقف ہیں

اس کی آغوش میں پلتی ہے ہماری عقبیٰ

آپ جس عالمِ اسباب سے نا واقف ہیں

سادہ لوحی ہے کہ بے مہری کہاں کھُلتا ہے

دل میں رہ کر دلِ بے تاب سے نا واقف ہیں

کچھ تقاضا بھی ہے حالات کا ایسا اے دل

’’کچھ تو ہم رونے کے آداب سے نا واقف ہیں ‘‘

اُن کا چہرہ ہے پُر اسرار صحیفہ راغبؔؔ

حفظ ہم کر کے بھی ہر باب سے نا واقف ہیں

 اکتوبر ۲۰۱۱ء  طرحی

 

زندگی تجھ کو یہ سوجھی ہے شرارت کیسی

دیکھ گزری ہے مِرے دل پہ قیامت کیسی

اپنے پتّوں سے درختوں کو شکایت کیسی

’’ساتھ جب چھوڑ دیا ہے تو وضاحت کیسی‘‘

مجھ سے مت پوچھ مِری جان مِرے دل سے پوچھ

میں نے فرقت میں اُٹھائی ہے اذیّت کیسی

کوئی کب تک کرے برداشت، زباں بند رکھے

ہو گئی ہے گل و گل زار کی حالت کیسی

درد  خوش بو  سے  معطّر  ہے  مِری  دل دنیا

تیری الفت نے بدل دی مِری قسمت کیسی

دوڑتے پھرتے ہیں صحرا میں بگولوں کی طرح

کیا بتائیں کہ ہماری ہے طبیعت کیسی

لوگ ظاہر پہ بھی کر لیں گے بھروسا پھر بھی

دیکھ لیں آپ کہ ہے آپ کی نیّت کیسی

میں نے کب مانگا ہے تجھ سے تِری چاہت کا ثبوت

گر محبّت نہیں مجھ سے تو شکایت کیسی

جی رہا ہوں تِری یادوں کے سہارے لیکن

رفتہ رفتہ مِری اب ہو گئی حالت کیسی

ہوتی ہی رہتی ہے اشعار کی بارش راغبؔؔ

موسمِ ہجر کی مجھ پر ہے عنایت کیسی

دسمبر ۲۰۱۰ء  طرحی

 

تیری خوش بو مِرے شعروں میں بسا کرتی ہے

شاعری قرض محبت کا ادا کرتی ہے

سو جتن کر کے سنبھالوں گا وفائیں تیری

سانس کی ڈور جہاں تک بھی وفا کرتی ہے

بھول جاتا ہوں میں سب اپنی ضروت مندی

تیری چاہت مجھے مجھ سے بھی جدا کرتی ہے

جب کبھی دل سے تجھے یاد کیا کرتا ہوں

’’میرے سینے میں کوئی سانس چبھا کرتی ہے‘‘

ایک وحشت ہے کہ جینے نہیں دیتی راغبؔؔ

اِک محبت ہے کہ جینے کی دعا کرتی ہے

دسمبر ۲۰۰۹ء  طرحی

 

ڈالر و درہم و دینار سے مل جاتے ہیں

اب  تو  غم خوار  بھی  بازار  سے  مل  جاتے  ہیں

وہ سمجھتے ہیں بہت تیز کھلاڑی خود کو

جن  کو  رستے  بڑے  ہم وار  سے  مل  جاتے  ہیں

وجہِ افسردگیِ دیدہ و دل مت پوچھو

سو بہانے مجھے اخبار سے مل جاتے ہیں

نامہ  بر  اپنا  بلا  کا  ہے  سبک گام  کہ  اب

خط ہمیں برق کی رفتار سے مل جاتے ہیں

جذبۂ شعر و سخن سوزِ محبت کے طفیل

حوصلے گرمیِ افکار سے مل جاتے ہیں

سارے احوال سنا دیتی ہیں آنکھیں راغبؔؔ

بھید سب چہرہ و رُخسار سے مل جاتے ہیں

اپریل ۲۰۰۸ء  طرحی

 

بیان کرنے کی طاقت نہیں ہنر بھی نہیں

نہیں طویل یہ قصّہ تو مختصر بھی نہیں

ہمارے ہاتھوں وہ ہم کو تباہ کرتے ہیں

یہ اور بات کہ اس کی ہمیں خبر بھی نہیں

ہر اِک یقین کی بنیاد شک پہ رکھتا ہے

سو اعتماد اُسے اپنے آپ پر بھی نہیں

نہ جانے اب بھی وہ برسا رہے ہیں پتھّر کیوں

ہماری شاخ پہ اب تو کوئی ثمر بھی نہیں

فساد و فتنہ ہے جن کی سرشت میں راغبؔؔ

سکوں سے بیٹھنے والے وہ اپنے گھر بھی نہیں

مئی۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

وہ میری آنکھوں میں پنہاں ہے خواب کے مانند

حقیقتاً ہے جو دل کش سراب کے مانند

نہیں پتا اُنھیں شاید ہَوا کی فطرت کا

سوار ہیں جو ہَوا پر حباب کے مانند

دیارِ  حسن  میں  پھرتا  ہوں  میں  سوال بدست

جواب چاہیے اِک لاجواب کے مانند

اُسی کے زیرِ اثر اب بھی ہیں مِرے جذبات

ہُوا تھا برپا جو اِک انقلاب کے مانند

بہ حسن و خوبی وہ ڈھلتے ہیں سارے سانچوں میں

وہ لوگ جن کی طبیعت ہے آب کے مانند

فریفتہ ہوں کسی کی میں صاف گوئی پر

مزاج جس کا ہے علمِ حساب کے مانند

مارچ ۲۰۱۳ء  طرحی

 

درونِ چشم ہے روشن کوئی جھلک اُس کی

کہ محوِ رقص نگاہوں میں ہے چمک اُس کی

یہ بات آئی سمجھ میں نہ آج تک اُس کی

غزل درخت  سے  آتی  ہے  کیوں  مہک  اُس  کی

وہ  عطر بیز  رہے  شاخِ  یاسمن  کی  طرح

لبھائے دل کو ہمیشہ چمک دمک اُس کی

جو درد تیری محبّت کا دل میں اٹھتا ہے

میں چاہتا ہوں کہ ہردم رہے کسک اُس کی

یہ جستجو کہ کہیں اُس کا کچھ سُراغ ملے

یہ آرزو کہ نظر آئے اک جھلک اُس کی

مِرے خلاف جو سازش رچی ہے اپنوں نے

خدا کرے نہ لگے غیر کو بھنک اُس کی

ذرا سی بات ہو جب باعثِ حسد راغبؔؔ

سناؤں کس کو میں باتیں لہک لہک اُس کی

اگست ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

روٹھنا مت کہ منانا نہیں آتا مجھ کو

پیار آتا ہے جتانا نہیں آتا مجھ کو

آسماں سر پر اُٹھانا نہیں آتا مجھ کو

بات بے وجہ بڑھانا نہیں آتا مجھ کو

غیر ممکن ہے مِرا جھوٹ نہ پکڑا جائے

غیر کی طرح بہانہ نہیں آتا مجھ کو

کس طرح خود کو خسارے سے بچاؤں آخر

کوئی اندازِ زمانہ نہیں آتا مجھ کو

موت کے وقت بھی آئے گا بلاوا راغبؔؔ

بن بلائے کہیں جانا نہیں آتا مجھ کو

جنوری ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

نمی سے آنکھوں کی سرسبز اپنا حال تو کر

شکستہ حال  اُمیدوں  کی  دیکھ  بھال  تو  کر

تڑپ رہے ہوں کہیں تجھ سے بھی زیادہ وہ

نکال راہ کوئی، رابطہ بحال تو کر

کسے ہے خواہشِ آسودگی محبت میں

نواز کر مجھے جینا مِرا محال تو کر

چلا ہے جس سے پرکھنے صداقتِ احباب

تُو اپنے آپ سے پہلے وہی سوال تو کر

تڑپ تڑپ کے نہ مر جاؤں تیری فرقت میں

میں افتخارؔ ہوں تیرا، سو کچھ خیال تو کر

جون ۲۰۱۱ء  طرحی

 

عیاں ہے اُن کی حقیقت ہر ایک پر پھر بھی

وہ ڈھا رہے ہیں ستم پر ستم مگر پھر بھی

ہمیں یہ ضد کہ جلائیں گے ہم چراغِ وفا

ہوا اگرچہ موافق نہیں مگر پھر بھی

قضا کا وقت ہو یا سامنے قیامت ہو

لگا سکیں تو لگا دیجیے شجر پھر بھی

کہیں سے بھی نہیں ملتی مجھے خبر تیری

ہزار خود کو میں رکھتا ہوں با خبر پھر بھی

تمھاری راہ تکوں گا میں آخری دم تک

میں جانتا ہوں نہ آؤ گے تم اِدھر پھر بھی

معاشرے کی بھی اصلاح کی کرو کوشش

ہوا کی زد میں نہیں ہے تمھارا گھر پھر بھی

قفس سے اُڑنے کی کوشش تو کر رہا ہے پرند

نہیں ہے سامنے کوئی رہِ مفر پھر بھی

ہم اُن کی بات پہ کر لیتے ہیں یقیں راغبؔؔ

ہمیں یقیں ہے کہ جائیں گے وہ مُکر پھر بھی

جون ۲۰۱۱ء  طرحی

 

کسی پہ تم کو بھروسا اب اِس قدر بھی نہ ہو

وہ تم پہ تیٖر چلائے تمھیں خبر بھی نہ ہو

میں جانتا ہوں کہ سب ان کی ہی عنایت ہے

میں چاہتا ہوں کہ الزام ان کے سر بھی نہ ہو

خدا کے حکم پہ جھک جائے دل فرشتوں سا

نہ ہو غرور تو شاید اگر مگر بھی نہ ہو

درونِ دل جو بکھیرے غبارِ بے مہری

گماں کا ایسے کبھی قلب سے گزر بھی نہ ہو

کسی کی زُلفِ پریشاں سے دل پریشاں ہے

کسی کی زُلف نہ ہو سر تو دردِ سر بھی نہ ہو

یہ بات خود کو میں سمجھا رہا ہوں برسوں سے

ہو خاکساری مگر باعثِ ضرر بھی نہ ہو

نہیں غلام جو تیرے سوا کسی کے ہم

ہمارے دل میں کسی دوسرے کا ڈر بھی نہ ہو

چراغ کتنے بجھے کتنے آشیاں اُجڑے

’’ہوائے تُند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو‘‘

غمِ فراق میں جب تڑپے دل اِدھر راغبؔؔ

خدا کرے کسی کروٹ سکوں اُدھر بھی نہ ہو

اپریل ۲۰۱۱ء  طرحی

 

نہ  دل کشی  کی  تمنّا  نہ  دل بری  درکار

غزل درخت  کو  ہر دم  ہے  تازگی  درکار

دِکھائے اُن کا وہ چہرہ جو ہے پسِ چہرہ

نگاہِ وقت کو ایسی ہے روشنی درکار

دل و دماغ کو بخشی تھی جس نے یکسوئی

وہی خمارِ محبت ہے آج بھی درکار

کہیں بھی ظلم و ستم کو نہ سر اُٹھانے دو

زمین پر ہے اگر امن و آشتی درکار

فروغِ امن و اماں پر ہو جو فدا راغبؔؔ

شعور و فکر کو ایسی ہے آگہی درکار

اگست ۲۰۰۸ء  طرحی

 

تعلّقات نبھانا کوئی محال نہیں

تمھارا ذہن ہی مائل بہ اعتدال نہیں

زمین دوز  ہوئے  کتنے  آسمان وجود

تِرے غرور کا سورج بھی لازوال نہیں

حصارِ دوست میں گزری تمام عمر مگر

تمھاری  طرح  ملا  کوئی  ہم خیال  نہیں

عجیب سانحہ واقع ہوا وصال کے بعد

بدن سے رُوح کا رشتہ بھی اب بحال نہیں

دبا ہُوا ہوں میں اِس طرح تیرے احساں سے

زباں سے اُف بھی نکالوں مِری مجال نہیں

نظر نہ آئی کسی کو مِری بیابانی

عیاں کسی پہ مِری تشنگی کا حال نہیں

تِرا غرور بھی رسوا ہوا سرِ بازار

تِری جفا کا بھی اچھّا کوئی مآل نہیں

تجھے پتا ہے کہ میں کتنا چاہتا ہوں تجھے

یہ اور بات کہ تجھ کو مِرا خیال نہیں

کمال یہ ہے کہ سب سے نظر ملا کے چلو

’’نظر بچا کے گزرنا کوئی کمال نہیں ‘‘

ہے خود کشی کی طرح رسمِ زندگی راغبؔؔ

یہ لگ رہا ہے کہ جینا بھی اب حلال نہیں

نومبر۲۰۰۷ء  طرحی

 

غزل کے جسم میں آئیں جو آپ جاں بن کر

ہر ایک شعر چمک اُٹھّے کہکشاں بن کر

سلگ رہا ہے بدن آتشِ گرانی میں

نکل رہی ہے ہر اِک آرزو دھواں بن کر

ہمیشہ  یوں  ہی  تِری  مصلحت پرست  نظر

جنوں کے پانو میں الجھے گی بیڑیاں بن کر

بہت گراں انھیں گزری وہ ایک بات مِری

کہی تھی میں نے جو اِک بار بے زباں بن کر

نہ جانے کیوں ترے آتے ہی دوڑ جاتی ہے

خوشی کی لہر رگِ جاں میں بجلیاں بن کر

نہ فرق پاؤ گے کچھ میری خاکساری میں

زمین بن کے ملو تم کہ آسماں بن کر

کھنکنا چاہے ہمیشہ ہمارا دل راغبؔؔ

کسی  کے  ہاتھوں  کی  خوش رنگ  چوڑیاں  بن  کر

اکتوبر ۲۰۰۷ء  طرحی

 

محبت آ گئی کس مرحلے میں

دماغ و دل نہیں ہیں رابطے میں

ضروری تو نہیں پھولے پھلے بھی

شجر اچھا لگے جو دیکھنے میں

عنایت جس پہ ہو جاتی ہے اُن کی

وہی ہے در حقیقت فائدے میں

مشیروں  میں  نہیں  ہے  خیر خواہی

خدایا خیر و برکت مشورے میں

تمھارا مشغلہ تم کو مبارک

رہو ہر تذکرے میں تبصرے میں

کہانی سے کئی سطریں ہیں غائب

کئی فقرے ہیں لکھّے حاشیے میں

اگر اچھّا تعلق چاہتے ہو

بھلائی ڈھونڈنا اِک دوسرے میں

رواں ہے کارواں کس حکمراں کا

ہزاروں کہکشاں ہیں قافلے میں

اُلٹ کر آئینہ رکھتا ہوں لیکن

’’اُلٹ جاتی ہے صورت آئینے میں ‘‘

نہیں آساں زمیں کی طرح راغبؔؔ

گزر کرنا سدا اِک دائرے میں

جون ۲۰۰۹ء  طرحی

 

اندھیرے میں چلا کر تیر یوں ہی

بیاں مت کیجیے تفسیر یوں ہی

اُنھیں بنیاد کی حاجت کہاں ہے

محل ہو جائے گا تعمیر یوں ہی

ہمیں معلوم ہے دُہرائیے مت

نہیں ہوتی کبھی تاخیر یوں ہی

جنوں  کے  ساتھ  بے باکی  کو  میری

عطا کر دی گئی زنجیر یوں ہی

سبق سیکھو مِری تصویر سے کچھ

بدل دیں گے وہ ہر تصویر یوں ہی

مِرے خوابوں میں دل چسپی ہے کس کو

سناؤں کس کو میں تعبیر یوں ہی

کہاں کرتے ہیں وہ یوں ہی عنایت

چلاتے ہیں کہاں وہ تیر یوں ہی

کوئی یوں ہی خفا ہے مجھ سے راغبؔؔ

سو  دل  بھی  ہے  مِرا  دل گیر  یوں  ہی

اپریل ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

تِرا چہرہ ہے دل کے آئینے میں

بہت محفوظ ہے تُو حافظے میں

غزل کہنا کسی جانِ غزل پر

گھِرے رہنا ردیف و قافیے میں

زباں کے زخم کا بھرنا ہے مشکل

بہت محتاط رہنا بولنے میں

کسی کے مسکرا کر دیکھنے سے

ہوا دل مبتلا کس حادثے میں

تِری بے التفاتی کہہ رہی ہے

تغیّر ہے نظر کے زاویے میں

مقابل  ہے  کوئی  آئینہ صورت

’’اُلٹ جاتی ہے صورت آئینے میں ‘‘

محبت کا وہ ننھا دیپ راغبؔؔ

بہت روشن ہے دل کے طاقچے میں

جون ۲۰۰۹ء  طرحی

 

نہ عزّت ٹوٹے پتّوں کی

نہ شہرت ٹوٹے پتّوں کی

شجر سے مت کبھی کہنا

حکایت ٹوٹے پتّوں کی

ہواؤں کو پسند آئی

رفاقت ٹوٹے پتّوں کی

بہت مشکل سمجھنا ہے

طبیعت ٹوٹے پتّوں کی

حقیقت میں نہیں کوئی

حقیقت ٹوٹے پتّوں کی

کہاں سے دل میں در آئی

محبت ٹوٹے پتّوں کی

اپاہج پیڑ کیا کرتے

حمایت ٹوٹے پتّوں کی

نہیں سنتا کوئی راغبؔؔ

شکایت ٹوٹے پتّوں کی

اگست ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

محبت کی ہوا جب دل میں پہلی بار چلتی ہے

نہ پوچھو کس قدر ہر سانس نا ہموار چلتی ہے

ہر اِک ذرّہ مہکتا ہے وہاں مشکِ خُتن جیسا

ہوا  اُن  کی  گلی  میں  کتنی  خوشبو دار  چلتی  ہے

اگر ممکن ہو تو آ کر کسی دن تم ہی سمجھا دو

مِری  مرضی  کہاں  دل  پر  مِرے  دل دار  چلتی  ہے

کہیں  چلتی  ہے  اب  بھی  بیل گاڑی  کچّی  سڑکوں  پر

کہیں  سورج  کی  کرنوں  سے  بھی  موٹر کار  چلتی  ہے

یہ کیا نقشے میں تم نے ہر طرف شیشہ دکھایا ہے

مِرے بھائی یہاں بس اینٹ کی دیوار چلتی ہے

کسے معلوم کس جانب سے اُن کی روشنی چمکے

سو ہر جانب نگاہِ طالبِ دیدار چلتی ہے

توّجہ دیجیے اخلاق اور کردار پر اپنے

کہاں ہر ایک دل پر شوخیِ گفتار چلتی ہے

عمل کا دیکھیے ردِّ عمل سے کیا تعلق ہے

’’اِدھر میں سر اُٹھاتا ہوں اُدھر تلوار چلتی ہے‘‘

بظاہر سُست آتے ہیں نظر دنیا کو ہم راغبؔؔ

ہماری  فکر  لیکن  روشنی  رفتار  چلتی  ہے

نومبر ۲۰۱۰ء  طرحی

 

توجّہ میں تری تبدیلیاں معلوم ہوتی ہیں

مجھے گھٹتی ہوئی اب دوریاں معلوم ہوتی ہیں

درختوں پر کچھ ایسا آندھیوں نے قہر ڈھایا ہے

ہواؤں سے خفا سب پتّیاں معلوم ہوتی ہیں

عجب یلغار ہے چاروں ہی جانب سے اُجالوں کی

فنا ہوتی ہوئی پرچھائیاں معلوم ہوتی ہیں

تکبّر کرنے والو کھول کر آنکھیں ذرا دیکھو

خمیدہ کب شجر کی ٹہنیاں معلوم ہوتی ہیں

حقیقت کھُل کے تیری سامنے جس دن سے آئی ہے

دکھاوا سب تِری ہمدردیاں معلوم ہوتی ہیں

جو سچ پوچھو تو ساری تیسری دنیا کی سرکاریں

کسی  کے  ہاتھ  کی  کٹھ پُتلیاں  معلوم  ہوتی  ہیں

تمھارا مشورہ لگتا ہے جیسے حکم صادر ہے

تمھاری التجائیں دھمکیاں معلوم ہوتی ہیں

ہمیں تو آپ بھی اپنی خبر ہوتی نہیں راغبؔؔ

ہماری سب اُنھیں سرگرمیاں معلوم ہوتی ہیں

مارچ ۲۰۱۰ء  طرحی

 

وہ کہتے ہیں کہ آنکھوں میں مِری تصویر کس کی ہے

میں کہتا ہوں کہ روشن اِس قدر تقدیر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ کس نے آپ کو روکا ہے جانے سے

میں کہتا ہوں کہ میرے پانو میں زنجیر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ ہے انسان تو اِک خاک کا پُتلا

میں کہتا ہوں پر اتنی عظمت و توقیر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ دل میں آپ نے کس کو بسایا ہے

میں کہتا ہوں کہ یہ دنیائے دل جاگیر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ کس نے جا بجا لکھّا ہے میرا نام

میں کہتا ہوں شکستہ اِس قدر تحریر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سا سامع نہیں دیکھا

میں کہتا ہوں کہ اتنی پُر کشش تقریر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں تِرے شعروں میں ہے شوخی قیامت کی

میں کہتا ہوں خیال و فکر میں تنویر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ ہم ہیں دشمنانِ امن کے دشمن

میں کہتا ہوں کہ اُن کے ہاتھ میں شمشیر کس کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ راغبؔؔ تم نہیں رکھتے خیال اپنا

میں کہتا  ہوں کہ ہر دم فکر دامن گیر کس کی ہے

مئی ۲۰۰۸ء  غیر طرحی

 

تقدیرِ وفا سنوار جانا

یا جیتے جی مجھ کو مار جانا

میں سب کی نگاہ میں تھا سرمہ

آنکھوں نے تری غبار جانا

خوش ہونا وہ تیرا جیتنے پر

دانستہ وہ میرا ہار جانا

وہ سوچوں کا منجمد سا ہونا

دل پر سے وہ اختیار جانا

مت  نازاں  بدن لباس  پر  ہو

اِک دن ہے اسے اتار جانا

کب چھوڑے گا میرا ذہن آخر

اک نکتے پہ بار بار جانا

میں سب کا ہوں افتخار راغبؔؔ

اک گل نے ہے مجھ کو خار جانا

اکتوبر ۲۰۰۷ء  غیر طرحی

 

تِرا مشورہ ہے بجا مگر میں رکھوں گا اپنا خیال کیا

مِرا دل کسی پہ ہے آ گیا مِرا حال ہو گا بحال کیا

کوئی تیٖر دل میں اتار دو کسی روز جان سے مار دو

کوئی مجھ پہ اتنا ستم کرے کسی اور کی ہے مجال کیا

تِرے دل میں کون سی بات ہے مجھے کیا خبر مِرے کم سخن

مِرے کج ادا مجھے کیا پتا تِرے ذہن میں ہے سوال کیا

کہاں عقل کو یہ شعور ہے کہ جنوں کی بات سمجھ سکے

کسی روز عشق سے پوچھیے کہ بلا ہے حسن و جمال کیا

میں جنوں کی حد سے گزر گیا تو خرد نے سب سے یہی کہا

جسے اپنی کوئی خبر نہیں اُسے دوسروں کا خیال کیا

مِرے خیر خواہوں کو ہے گلہ کہ میں کن کا شکر گزار ہوں

مجھے دشمنوں سے بھنک لگی مِرے دوستوں کی تھی چال کیا

تِری ساری بخشش و فضل پر میں سراپا شکر و سپاس ہوں

مِرے دل میں صبر و قرار ہے مجھے ہو گا رنج و ملال کیا

اکتوبر ۲۰۱۰ء  طرحی

 

دل کے گھاؤ تمھیں کیا پتا

مسکراؤ تمھیں کیا پتا

کیا پتا ٹوٹے پتّوں کا کرب

اے ہواؤ تمھیں کیا پتا

کتنا میٹھا ہے توبہ کا پھل

پارساؤ تمھیں کیا پتا

کیا ہے مفہومِ حرفِ وفا

بے وفاؤ تمھیں کیا پتا

کیا پتا عظمتِ انکسار

خود نماؤ تمھیں کیا پتا

کیوں چھڑکتا ہے کوئی نمک

میرے گھاؤ تمھیں کیا پتا

کس کے دم سے ہیں یہ رونقیں

تم نہ جاؤ تمھیں کیا پتا

شہرِ مہر و وفا کا چلن

کج اداؤ تمھیں کیا پتا

بزم آرائی کی زحمتیں

ہم نواؤ تمھیں کیا پتا

کیا کہا وہ ہیں میرے خلاف

جاؤ جاؤ تمھیں کیا پتا

جولائی ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

مت مجھے مہر و مہ دیجیے

چلنے پھرنے کو رہ دیجیے

کون ہے پاسدارِ وفا

کس کو دل میں جگہ دیجیے

کس طرف آپ کا ہے جھکاؤ

صاف لفظوں میں کہہ دیجیے

کیجیے اور فکرِ اماں

اور ظالم کو شہ دیجیے

اُتنا ہوتا ہے وہ بے حجاب

جھوٹ کو جتنی تہہ دیجیے

آئینے کے ہیں وہ رُو برُو

اُن کو میری نگہ دیجیے

ہر طرف رنگ و روغن کی دھوم

کس کو حرفِ سیہ دیجیے

اپریل ۲۰۰۹ء  غیر طرحی

 

نظر آئے خوش کُن شجر دھوپ کا

شجر مانگتے ہیں ثمر دھوپ کا

نہ طے ہو گا شب میں سفر دھوپ کا

ہے رستہ بہت پُر خطر دھوپ کا

مِرے دل کو بچپن میں لُو لگ گئی

سو گھر کر گیا دل میں ڈر دھوپ کا

پئے تندرستی و آسودگی

شجر کو ہے درکار گھر دھوپ کا

سبھی پیڑ پودے لہکنے لگے

رُخِ  خندہ زن  دیکھ  کر  دھوپ  کا

کرو ذکر صحرا نوردی کا بھی

تعارف کراؤ اگر دھوپ کا

نہیں آنے والے مرادوں کے دن

چلو کھٹکھٹاتے ہیں در دھوپ کا

تخیّل میں ہے ایک سورج مُکھی

عیاں ہے غزل پر اثر دھوپ کا

نکھر آیا راغبؔؔ درختوں کا رنگ

نہ پوچھو تعلق شجر دھوپ کا

جولائی ۲۰۱۳ء  غیر طرحی

 

جب سے ٹوٹ پڑا ہے مجھ پر سنّاٹا

اندر حشر ہے برپا باہر سنّاٹا

سنّاٹا ٹوٹے گا کس کی آہٹ سے

کون بکھیر گیا ہے یکسر سنّاٹا

میری حالت کا احساس تجھے ہو جائے

برسے اگر یوں تیرے اوپر سنّاٹا

ہر جانب ہے جانے کیسی محرومی

بکھرا ہے آنکھوں کے اندر سنّاٹا

تم کیا بچھڑے ساری شوخی ختم ہوئی

آوازے کستا ہے مجھ پر سنّاٹا

ہنگامے کے بعد ہوا ایسا عالم

دستک دینے نکلا گھر گھر سنّاٹا

سنّاٹوں کے شہر میں آ پہنچے راغبؔؔ

اور کہاں ہم جاتے لے کر سنّاٹا

جنوری ۲۰۱۲ء  غیر طرحی

 

کیسے کہیے دل میں بس کر دل کا جو اُس نے حال کیا

جب دل چاہا دل کو سنوارا جب چاہا پامال کیا

میں اپنے سُکھ چین کا دشمن، کس کو دوشی ٹھیراؤں

اِک ظلمی سے پیٖت لگا کر دل کو خستہ حال کیا

اُمّیدیں بھی نادم نادم، شرمندہ شرمندہ لفظ

کس بے درد سے آس لگائی، کس بیری سے سوال کیا

جذبۂ الفت اور اصولوں کے ہاتھوں مجبور تھے ہم

سب اندیشے طاق پہ رکھ کر اُن سے ربط بحال کیا

بوڑھا باپ بس اتنا کہہ کر خاموشی سے بیٹھ گیا

اِک دن آگے آ کے رہے گا جو تم نے اے لال کیا

تیری نفرت کو بھی میں نے کب نفرت سے دیکھا ہے

تیری طرف سے جو کچھ آیا اُس کا استقبال کیا

شرط کی زنجیروں میں کس کر رکھّا رشتے ناتوں کو

پیار بھرے جذبات کا تم نے کتنا استحصال کیا

جیسے اس کے آ جانے سے مٹ جائے گا راوَن راج

’’اِک جابر کا مجبوروں نے ایسے استقبال کیا‘‘

اب بھی وہ ناراض ہیں راغبؔؔ یا ہے کوئی اور ہی بات

میرے پاس ہی لوٹ کے آیا جو نامہ ارسال کیا

جون ۲۰۱۳ء  طرحی

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید