فہرست مضامین
آنکھ بھر اندھیرا
ابرار احمد
پیشکش: تصنیف حیدر
ڈاؤن لوڈ کریں
دو لفظ
ابرار احمد، جدید اردو نظم کی ایک بہت اہم آواز ہیں۔ ان کے یہاں نظم کی بنت کے بہت اچھے اور انوکھے طریقے ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات زندگی میں مختلف راستوں سے در آنے والے گہرے جذبوں اور رویوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی نظم پڑھتے وقت اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس متن کی تخلیق کے لیئے نظم کے خالص رومانوی مزاج اور دنیا کے غیر جمالیاتی، سفاک اور کثیف رویوں کو آپس میں گوندھ کر دیکھنے کا فن آنا چاہیئے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انسان کے گہرے دکھ اور عشق کے لا متناہی سکھ کو انہوں نے کئی مقامات پر مدغم کر دیا ہے۔ مجھے وہ اپنے اسلوب، اپنے لہجے، اپنے شعری رویے سے اس عہد کے ایک اہم نظم نگار کے طور پر ہمیشہ یاد رہتے ہیں، اور شاید اردو شاعری کی تاریخ بھی انہیں ان یا ایسے ہی اور مختلف اوصاف کی بنیاد پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔
تصنیف حیدر
آنکھ بھر اندھیرا
چمکتی ہیں آنکھیں
بہت خوب صورت ہے بچہ
وہ جن بازوؤں میں
مچلتا ہے، لو دے رہے ہیں
چہکنے لگے ہیں پرندے
درختوں میں پتے بھی ہلنے لگے ہیں
کہ لہراتے رنگوں میں
عورت کے اندر سے بہتی ہوئی روشنی میں
دمکنے لگی ہے یہ دنیا
وہ بچہ اسے دیکھے جاتا ہے
ہنستے، ہمکتے ہوئے
اس کی جانب لپکنے کو تیار
عورت بھی کچھ
زیر لب گنگنانے لگی ہے
لجاتے ہوئے
کسی سر خوشی میں
بڑھاتا ہے وہ ہاتھ اپنے
تو بچہ اچانک پلٹتا ہے
اور ماں کے سینے میں چھپتا ہے
عورت سڑک پار کرتی ہے
تیزی سے، گھبرا کے
چلتی چلی جا رہی ہے
ادھر کوئی دیوار گرتی ہے
شاعر کے دل میں
وہیں بیٹھ جاتا ہے
اور جوڑتا ہے یہ منظر
اندھیرے سے بھرتی ہوئی آنکھ میں!
٭٭٭
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
دریچے سے لگی آنکھیں، پلٹتی ہیں
پلٹ کر لوٹ آتی ہیں
رسوئی میں اندھیرا ہے
کوئی برتن کہیں بجتا نہیں ہے
کھلا رہتا ہے دروازہ
نشستوں پر گرے پتے بتاتے ہیں
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
یہ کل کی بات ہے آتش دہکتی تھی
سلگتی کیتلی کی بھاپ سے چہرے دمکتے تھے
لڑھکتے قہقہے، ٹکرا کے دیواروں سے ہم پر لوٹ آتے تھے
کہیں خوابوں کی تلچھٹ کے نشے میں چور ہو کر
دن کی گلیوں سے گزرتے تھے
کبھی آنکھوں میں خالی پن کے ڈورے کھینچ کر
تکتے تھے اس دنیا کے چہرے کو
کدھر کو کھو گئے
ماچس بجاتے، گیت گاتے دل زدہ ساتھی
نہ جانے کون سی سمتوں سے ہنستے، گنگناتے آ دھمکتے تھے
کہیں افسوس کی تانیں لیے
افسوں کی گہری نغمگی لے کر
کدھر کو عازم ہجر مسلسل ہیں
کہاں سوئے پڑے ہیں خواب کی بیمار جکڑن میں
کہولت ہے یا بیماری
سہولت ہے کہ دشواری
در و دیوار کو تکتے ہیں
اور گرتے پلستر، نم زدہ اینٹوں کی سیلن میں
کہیں تحلیل ہوتے جا رہے ہیں
وہ روز عید ہو، چھٹی کا یا پھر کام کا دن ہو
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
کوئی آسیب ہے شاید
جو دیواروں سے اپنی ہانپتی تاریکیاں لے کر پڑا رہتا ہے قدموں میں کسی منحوس لذت کی طرح
بستر سے اٹھنے ہی نہیں دیتا
نہ جانے کیا ہوا ہے
رونقیں آنے نہیں دیتیں کہ ویرانی نے گھیرا ڈال رکھا ہے
کہ گہری دھند ہے اطراف میں پھیلی ہی
کوئی آشوب زر ہے یا کشاکش زندگی کی ہے
کہ سیل عمر کا کوئی تھپیڑا ہے
کسی کے گھر کوئی آتا نہیں ہے
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
٭٭٭
روشنی میرے اندر ہے
عجب خواب تھا!
جو تری نرم آنکھوں سے بہتا چلا جا رہا تھا
کہیں نیند کے ایک جھونکے کی صورت بہت نیلا پانی تھا
پانی—-جسے میں نے سوچا بہت تھا
زمیں پر مگر پہلے دیکھا نہیں تھا
——
وہاں چار سو غیر آبادیاں تھیں، قدامت کے آثار تھے
ریت پر پاؤں دھنستے گئے تھے
وہیں پر پڑے ہیں!
وہ مہکار تھی، جیسے شالاط
اطراف میں بال کھولے ہوئے پھر رہی ہو
وہی خواب تھا جس نے امجد کو اپنی پکڑ میں لیا–
وہ مٹی میں مٹی یہ کب جانتا تھا
ہوا کا کوئی بھی ٹھکانا نہیں ہے
وہ اگلے دیاروں کو مہکانے کب کی نکل بھی چکی ہے—–
وہ ہر رات لکھنے کو خط سوچتا
اجنبی، بے نشاں منزلوں کی طرف پھینک دیتا
وہ لفظوں کے پیکر بناتے ہوئے، روز جیتا رہا، روز مرتا رہا
وہ بھاگا اندھیرے کے پیچھے
زمیں آسماں کے کناروں تلک تیز سایکل چلائی
اور آخر کو لوٹا کہ دندانے ٹوٹے پڑے تھے
وہ جیمی ہو کوئی کہ شالاط ہو
واقعہ ہو کہ ہو خواب کوئی
اسے دیکھتی ہیں جو آنکھیں، وہی جانتی ہیں
وہی دل سمجھتا ہے اس بھید کو
جس کے اسرار کو عمر بھر جھیلتا ہے
مگر غیر ممکن سا یہ خواب میرا
ہے میرے زمانے کا پرتو
کسی مختلف وقت کے دائرے میں رکا یہ شبستان
مرے گرد پھیلا ہوا ہے—
ادھر سے ادھر سر کو ٹکرا رہا ہوں
میں بکھری ہوئی نیند میں
بہت دور تک بے اماں تیرگی ہے
مگر یوں بھی ہے
میں اسی میں چمکتا ہوا راستہ دیکھتا ہوں
سو ٹھہرا رہوں گا نواح محبت میں—–
ترے خواب کو طاق میں رکھ کے دیکھا کروں گا
اسے اپنی وحشت سے ڈھانپے رہوں گا
کہ جینا غضب ہے
اسی رنگ شب میں اگر روشنی ہے
تو وہ میرے اندر ہے
باہر نہیں ہے
٭٭٭
(شالاط، مجید امجد کے حوالے سے)
وہ کیا تم تھے
وہ کیا تم تھے
تڑپتی ریت پر رقصاں
کہیں پر چاندنی کے گھومتے آکاش پر
نخوت سے اپنے پاؤں دھرتے
کہیں راتوں کی خاموشی میں
صبحوں کی طراوت میں
سہ پہروں اور شاموں کی تہوں سے جھانکتی آنکھیں
مجھے یوں دیکھتیں، جیسے نہیں پھر دیکھ پائیں گی کبھی بھی
وہ تنہا، خواب سے لب ریز آنکھیں
جو ان اطراف سے باہر نکالی جا رہی تھیں
اور جن میں ایک ہی آنسو لرزتا تھا
وہ کیا تم تھے؟
جو میلوں بھاگتے جاتے تھے تپتی تلملاتی دھوپ میں
اک سائے کو ہمراہ کرنے کو
کہ جس کی آنکھ اس دنیا کے ہر چہرے کی جانب
دشمنی سے دیکھتی، غصے سے غراتی رہی تھی
بدن پر مار کے دھبے، نہیں تھے چھین پائے
جس کے ہونٹوں پر مچلتے گیت کے لفظوں کی یورش کو—-
کسی اک دور افتادہ مکاں کی ممٹیوں پر
کہیں پر ادھ کھلی کھڑکی کے پیچھے
کہیں بارش بھری راتوں کی تنہائی میں بپھری
تیز آندھی کے تعاقب میں
کہیں دیوار پر چلتے ہوئے
دیوانگی کی دل زدہ چیخوں میں بھر کر نام میرا
آسمانوں کے کناروں کو الٹ دیتے ہوئے تم تھے!
جو زخموں کا لہو پی کر نشے میں گنگناتے تھے
جدائی اور مجبوری کی لہروں پر لہکتے جھومتے———–
زمانے بھر کے ظالم ہاتھ بے بس تھے تمھاری چیخ کو قیدی بنانے میں
تمھارے دل سے اک دھبہ مٹانے میں
وہ کیا میں تھا؟
جسے یہ زعم تھا، دنیا میں کوئی
اس کی خاطر مر بھی سکتا ہے
جو گزرے وقت کے زخموں کو سہتا
گم شدہ نغموں کی تانوں سے الجھتا
اپنے دل میں آنسوؤں کے س سیل میں گرتا چلا جاتا
زمیں پر چلنے والے گھاؤ تکتا تھا،مگر پھر ہنس بھی دیتا تھا
کہ
دنیا ملنے جلنے کا بکھیڑا ہے
کوئی آزار ہے ہر جان کو آیا ہوا—
ازل سے تا ابد ہنسنے کا، رونے کا قرینہ ہے
ہے روداد فریب آرزو ملنا، بچھڑنا بھی
مگر دل میں جسے بسنا ہو، بس جاتا ہے
جس کو ساتھ رکھنا ہو
اسے مٹی میں مل جانے تلک کوئی ٹھکانہ مل ہی جاتا ہے
کہیں خوابوں کے پچھواڑے، کہیں یادوں کے مدفن میں——
بکھرتے جا رہے تھے وقت کے آنسو
دنوں سے دن نکلتے جا رہے تھے
ہر اک جانب کہیں مٹی سی اڑتی تھی
گھنی گلیوں سے جگمگ شاہ راہوں تک
کسی کے نام کی مٹی
فنا ہے زندگی کا دوسرا پرتو
مقدر ہے ہر اک جذبے، ہر اک افتاد کا
فراموشی ہے دستور محبت بھی—–فراموشی
مگر پھر بھی
اگر یہ ہے تمہارا سچ
تو وہ کیا تھا؟؟
٭٭٭
یہ شام بکھر جائے گی
ہمیں معلوم ہے
یہ شام بکھر جائے گی
اور یہ رنگ
کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے
یہ زمیں دیکھتی رہ جائے گی
قدموں کے نشاں
اور یہ قافلہ
ہستی کی گزر گاہوں سے
کسی انجان جزیرے کو نکل جائے گا
جس جگہ آج
تماشائے طلب سے ہے جوان
محفل رنگ و مستی
کل یہاں، ماتم یک شہر نگاراں ہو گا
آج جن رستوں پہ
موہوم تمنا کے کے درختوں کے تلے
ہم رکا کرتے ہیں
ہنستے ہیں
گزر جاتے ہیں
ان پہ ٹوٹے ہوئے پتوں میں ہوا ٹھہرے گی
آج جس موڑ پہ، ہم تم سے ملا کرتے ہیں
اس پہ کیا جانیے
کل کون رکے گا آ کر
آج اس شور میں شامل ہے
جن آوازوں کی دل دوز مہک
کل یہ مہکار اتر جائے گی
خوابوں میں کہیں
گھومتے گھومتے تھک جائیں گے
ہم— فراموش زمانے کے ستاروں کی طرح
ارض موجود کی سرحد پہ
بکھر جائیں گے
اور کچھ دیر، ہماری آواز
تم سنو گے تو ٹھہر جاؤ گے
دو گھڑی
رک کے گزر جاؤ گے، چلتے چلتے
اور سہمے ہوئے چوباروں میں
انہی رستوں، انہی بازاروں میں
ہنسنے والوں کے
نئے قافلے آ جائیں گے!
٭٭٭
حرف گماں
رقص تھا میرے چار سو
دھول ہے ہر طرف رواں
نکلے تھے خواب صبح میں
آ گئیں شب کی بستیاں
گردش بے اماں میں ہیں
بڑھتے، بکھرتے کارواں
سیل وصال و ہجر میں
بندش ماہ و سال ہے
خوں میں ہے عمر کی گرہ
سانس میں وقت کی تھکن
دل جو رہا تمہارا گھر
مسکن آرزو بھی تھا
گھر میں مکیں رہا کہاں
اور مکیں کو گھر کہاں
لوح فلک ہو یا زمیں
دائمی کیا رہا یہاں
اسم فنا پذیر میں
حرف گماں رہا کہاں؟
٭٭٭
کسی موہوم کی مہک
دھند ہے، دھند میں ہاتھوں کا پتا چلتا نہیں
لمس کوئی مرے کاندھے پہ دھرا رہتا ہے
سر گراں پھرتی ہے، چکراتی ہے
ایک انجان مہک
میرے ہر خواب کی راہداری میں
گنگناہٹ سی کوئی
ساتھ اپنے لیے پھرتی ہے مجھے
کتنی راتوں سے گزرتا ہوں
اس اک رات کی سرشاری میں
جس نے مجھ پر کبھی
اسرار طلب کھولنا ہے
تیر کوئی مرے پہلو میں اترنا ہے کہیں
اک پرندہ ہے جسے
میرے ہونٹوں پہ کبھی بولنا ہے
ایک بادل ہےجسے، میری جلتی ہوئی مٹی پہ
برسنا ہے کہیں
ایک دیوار ہے جس سے میں نے
اپنے اس گھومتے سر کو
کبھی ٹکرانا ہے
تو تکلّم میرا، لکنت میری
تو میری تشنہ لبی میری لگن
تو زمیں پر مرے ہونے کا سبب میرا گمان
تو وہ اک نغمۂ نو
جس کو ترستی ہے سماعت میری
تو وہ لمحہ جو مرے بس میں نہیں
میں جو رنجیدہ ہوں، تو رنج مرا
تو مرے دل کی دکھن، میری تھکن
میں تیری سمت ہما وقت رواں
دھند ہے
دھند میں رستے کا پتا چلتا نہیں
آنکھ بھرتی ہے، چھلک جاتی ہے
ڈھونڈتا ہوں تجھے اس بے سر و سامانی میں
ڈوبتا اور ابھرتا چلا جاتا ہوں
میں دن رات کی طغیانی میں
تو مرے پاس نہیں، دور نہیں
تو وہ معلوم جو معلوم نہیں
اے کہ وہ تو!
کسی موہوم ستارے کی طرح
کہیں موجود اگر ہے بھی
تو موجود نہیں
٭٭٭
کسی انتظار کی جانب
ازل سے چلتے رہے ہیں مگر کھڑے ہیں وہیں
دیار دیدہ و دل میں وہی دھندلکا ہے
اسی زمیں پہ قدم، سر پہ آسماں ہے وہی
کہیں پہ دور کہیں ہم کو جا کے ملنا تھا
کسی خیال سے، اک خواب خوش نما کی طرف
نکلتے جانا تھا ٹوٹے ہوئے خمار کے ساتھ
نہ جانے کیا تھا جسے ڈھونڈنے نکلنا تھا
رہ وجود میں اڑتے ہوئے غبار کے ساتھ
رہے اسیر در و بام زندگی ہر دم
وہی جو خستہ تھے معمول روز و شب کی طرح
بس ایک چاک پہ ہم گھومتے، اُدھڑتے رہے
سو اب خرام کریں راہ معذرت پہ کہیں
تھکن سے بیٹھ رہیں کنج عافیت میں کہیں
کہیں سے توڑ دیں دیوار ایستادہ کو
جدھر کو جا نہیں پاے، ادھر نکل جائیں
جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا
جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں
جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب
کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب!
٭٭٭
ایک چہرہ
میرے ماتھے کی چمک میں ہے
کسی اور زمانے کی جھلک
میرے ہونٹوں پہ لرزتے ہیں
کسی اور ہی دل کے نغمے
میرے کاندھے پہ چہکتے ہیں
کسی اور زمیں کے پنچھی
دور افتادہ کسی بستی میں
بادلوں میں کہیں
برفیلی ہواؤں سے لرزتے ہوئے دروازوں میں
یاد کرتا ہے مجھے
ایک چہرہ کوئی میرے جیسا
یا پھر آنکھیں ہیں کوئی، گہرے سمندر جیسی
جن میں بہتا چلا جاتا ہے، وہ چہرہ
کسی ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح
یا وہ چہرہ ہے کہیں مٹی میں
پاس آتا ہے، بلاتا ہے مجھے
مجھ سے ملتا ہے نہ ملنے کی طرح
کسی آئندہ زمانے کی تھکن کی مانند
عہد رفتہ کی جھلک کی صورت
جانے اس چہرے کی پہچان ہے کیا
جانے اس کا یا مرا نام ہے کیا؟؟
٭٭٭
رات آتی ہے
رات آتی ہے
دریچوں میں، گزر گاہوں میں
شہر پر شور کے دروازوں میں
اور آنکھوں کے نہاں خانوں میں
جیسے خوابوں کا دھواں اڑتا ہے
رات آتی ہے تو نیندوں میں کہیں
دیکھے، ان دیکھے دیے جلتے ہیں
کسی مدفون زمانے کے کناروں سے ابھر آتی ہے
چہرہ خاک پہ جھک آتی ہے، سایہ بن کر
خواب موجود کی تعبیر گزشتہ بن کر
رات آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں
کتنے دِن بیت گئے، کتنی رتیں ہیں باقی
اس سے ملنے کی، بچھڑ جانے کی
دل میں اب کیسے نشاں جلتے ہیں
آنکھ میں کتنے مناظر ہیں
ابھی تک زندہ
کیا کسی یاد کی مٹی ابھی اڑتی ہے
کہیں سانسوں میں؟
کیسے امکان ہیں، کیسے دکھ ہیں
عمر دو روزہ میں
کیا کچھ نہیں کر پاے ہیں ہم
گریہ کرتی ہوئی آوازوں کا مسکن ہے یہ رات!
نیند اڑتی ہے تو ہم کہتے ہیں
اے سیاہ پوش بتا!
ختم ہو پاے گا کب
تنگی کون و مکاں میں یہ بھٹکنے کا سفر
رات ہنستی ہے، رلاتی ہے ہمیں
ہم یہ کہتے ہیں کہ اے رات، ستاروں بھری رات!
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جلیں گے کب تک
کب تلک ہم کو میسّر ہے ابھی
ہم کلامی کی یہ فرصت، یہ خموشی، یہ سکوں
کب تلک خواب جنوں؟
دل میں موہوم ابد کی یہ صدائیں کب تک
کف افسوس ملیں گے کب تک؟
رات بڑھتی ہے، لبھاتی ہے ہمیں
اور کوئی لوری سناتی ہے ہمیں
اور ہم
میلے تکیوں میں، لحافوں میں دبک جاتے ہیں
بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں
٭٭٭
مجھے جانے دو
شام کو پرندے، درختوں پر
اور مسافر
کسی سرائے میں اترتے ہیں
آنسو— آنکھوں کو
اور یادیں— دلوں کو چھوڑ دیتی ہیں
گھر سے نکلنے والا ایک دن لوٹا دیا جاتا ہے
مچھلیاں— اپنے اصل پانیوں کو واپس جاتی ہیں
ریت پر پھینک کر تماشا مت دیکھو
مجھے جانے دو–
ماربل کے چکنے فرش
پہیوں اور رفتار کے چکر سے
خوش حالی اور آسائش کے دھوکے سے
ٹھوس لکڑی کی میخوں لگی قید
آہنی دروازوں
کشادہ سڑکوں پر نپی تلی
چہل قدمیوں سے—
رات بھر
میں دیے جلاتا ہوں، ان قبروں پر
جو میرے دل میں
بنتی جا رہی ہیں
اور دن بھر
آنکھوں میں چراغ لیے
ایک ایسی رات میں پھرتا رہتا ہوں
جس کے کنارے معدوم نہیں ہوتے
میں دیکھتا نہیں ہوں
ہنستا روتا نہیں
کام، کام نہیں
فراغت، فراغت نہیں
میں، میں نہیں
کوئی سایہ ہے
جو میرے ساتھ گھبرایا پھرتا ہے
تارکول کی سڑکوں پر
تیز جلتی روشنیوں
لوگوں اور موٹروں سے بھری
شاہراہوں پر—
دور کہیں ہوا چلتی ہے
پتوں کو اڑاتی ہوئی
سرد چولہے کے پاس
لالٹین کی لو تھرتھراتی ہے
کھڑکیاں کھلنے
اور بند ہونے کی آوازیں آتی ہیں
کسی اور آسمان پر بجلی چمکتی ہے
جو نہ جانے کن زمینوں کو روشن کرتی
کن دلوں کو ڈراتی ہے
ایک جانی، انجانی بارش
مجھے اپنی جانب بلاتی ہے
مسلسل، لگاتار، موسلا دھار——
کسی اور طرف کے لوگوں کی جانب
کہیں اور کی اینٹوں کی ہمیشگی کی طرف
ان دروازوں تک
جو میری دستک کے انتظار میں ہیں
مجھے جانے دو
٭٭٭
چہل قدمی کرتے ہوئے
کہیں کوئی بستی ہے
خود رو جھاڑیوں اور پھولوں سے بھری
جہاں بارش
بے آرام نہیں کرتی
چھینٹے نہیں اڑاتی
صرف مہکتی ہے—
مٹی سے لپے گھروں میں
ہوا شور کرتی
آوازیں سوئی رہتی ہیں
کوئی سرسراہٹوں بھرا جنگل ہے
پگڈنڈیوں اور درختوں کے درمیان
انجان پانیوں کی جانب، نہریں بہتی ہیں
اور راستے کہیں نہیں جاتے
پرندوں کی چہکاریں، لا متناہی عرصے کے لیے
پتوں کو مرتعش کر دیتی ہیں
دنیا سے الگ
کہیں ایک باغ ہے
غیر حتمی دوری پر
سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا
کہیں کوئی آواز ہے
بے نہایت چپ کے عقب میں
بے خال و خد، الوہی، گھمبیر
کہیں کوئی دن ہے
بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا
اور کوئی رات ہے
اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ہمراہ
جس میں مجھے داخل ہو جانا ہے
یونہی چہل قدمی کرتے ہوئے
اور بجھے آتش دان کے پاس
بیٹھ جانا ہے
تمھارے مرجھائے چہرے کی چاندنی میں
کسی مٹیالی دیوار سے
ٹیک لگا کر
٭٭٭
میرے پاس کیا کچھ نہیں
میرے پاس
راتوں کی تاریکی میں کھلنے والے پھول ہیں اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی روشنی ہے اور بینائی—-
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے اور یاد—-
میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ
میں آسمان کو اوڑھ کر چلتا اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں ابدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
جنگل جھومتے، بادل برستے، مور ناچتے ہیں
میرے سینے میں ایک سمندر نے پناہ لے رکھی ہے
میں اپنی آگ میں جلتا، اپنی بارشوں میں نہاتا ہوں
میری آنکھوں میں
ایک گرتے ہوئے شہر کا ملبہ ہے ایک مستقل انتظار
اور آنسو
اور ان آنسوؤں سے پھول کھلتے
تالاب بنتے ہیں
جن میں پرندے نہاتے ہیں
ہنستے اور خواب دیکھتے ہیں
میری آواز میں بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس، بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر
تیار کیا گیا ہے
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لیے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لیے کچھ باتیں—–
میں رد کیے جانے کی خفت سے آشنا ہوں
اور پذیرائی کی دل نشیں مسکراہٹ سے بھرا رہتا ہوں
میرے پاس
ایک عاشق کی وارفتگی، در گزر اور بے نیازی ہے
تمھاری اس دنیا میں میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے
وقت
اور تم پر اختیار کے سوا—-
٭٭٭
بہت یاد آتے ہیں
چھوٹے ہو جانے والے کپڑے،
فراموش کردہ تعلق
اور پرانی چوٹوں کے نشان-
—-اولین قرب کی سرشاری،
سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوئے ،ریتلے میدان
پہلے پہل کی چاندنی میں—-
ڈھولک کی سنگت میں گائے ہوئے کچھ گیت
اور نیم تاریک رہداریوں میں جگمگاتے لمس
دوستوں کی ڈینگیں
فراغت اور قہقہوں سے لدی کرسیاں
کھیل کے میدان
تنور پر پانی کا چھڑکاؤ
گندم کی خوشبو اور مہربان آنکھیں
بہت یاد آتے ہیں
دسویں کے تعزیے
مٹی اور عرق گلاب سے مہکے سیاہ لباس
مستقبل کے دھندلے خاکے
رخصت کی ماتمی شام
کہیں کہیں جلتے اداس لیمپ،
سر پٹختی ہوا میں ہلتے ہوئے
اور رات کی بھاری خامشی میں دور ہوتی ہوئی ٹاپوں کی آواز
بہت یاد آتے ہیں
بڑھے ہوئے بال،
منکوں کی مالا،
سر منڈل کی تان
پرانی کتابیں
وقت بے وقت کیے ہوئے غلط فیصلے
پہلے سفر کی صعوبت
دریا کے پل پر پھنسی ٹریفک اور ریل کی سیٹی
وادی کا سینہ چیرتی ہوئی—
کچھ مکان اور دروازے–
– اور جب یہ دروازے بند ہوئے
آہستہ آہستہ اترتے ہوئے اضمحلال کی دھند میں—
بہت یاد آتے ہیں
دور کے آسمان اور پرندے–
ایک ان دیکھی دنیا–
اور اس پر بنا ہوا
عشق پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا
چھوٹی سرخ اینٹوں والا گھر—
آتش دان کے پاس کیتلی سے اٹھتی بھاپ
چمپی مخروطی انگلیاں
مضراب کو چھیڑتی ہوئیں
ایک روشن جسم آنکھیں ملتا ہوا—–
یادوں اور خوابوں کے یہ چھوٹے چھوٹے دیے—
جلتے اور بجھتے رہتے ہیں—
بجھتے اور جلتے رہتے ہیں—
اس روشنیوں بھرے شہر کی سرد مہر، تاریک رات میں!!!
٭٭٭
ہم ملیں گے
جب ہم ملتے ہیں
ہمارے درمیان کچھ نہ کچھ آ جاتا ہے
مصلحت، مصروفیت، رفتار
اہداف یا عمر
خواہش کی آلودگی
یا پاکیزگی کی بساند
دیواریں، فاصلے، کاہلی یا تھکاوٹ
ملنے کے باوجود
کوئی کبھی کسی کو مل نہیں پایا
دنیا ایک ایسا جنگل ہے
جس میں سے گزرنے کا راستہ
ملاقات کی پتھریلی، نا ہموار گھاٹی سے ہو کر جاتا ہے
ان پتھروں کے زخم سہلاتے
ہم گزر جاتے ہیں تنہا
ہم دمی کا واہمہ لیے
کانٹوں، جھاڑیوں، پھولوں اور وحشت کی
دل دھلاتی آوازوں کے بیچ میں سے
خاک کی
اپنی اپنی کمیں گاہوں کی طرف
ملنا، اذیت بھری خوشی ہے
اور نہ ملنا، خوشی بھری اذیت
سو ہم بھی ملیں گے دوست!
کسی اور آسمان کے نیچے
خاک سے اٹے ہوئے کسی ان دیکھے دیار میں
اجنبی رہایش گاہوں کے درمیان
موسلا دھار بارش میں
کسی موڑ پر
لیمپ کی زرد روشنی کے نیچے
ٹین کی چھتوں کے مسلسل شور میں
اور نہیں مل پائیں گے
ہمیشہ کی طرح!
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید