FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

چاند گیس پیپر

 

محمد اشفاق ایاز

کتاب ’چاند کی گود میں‘ سے

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

اقتباس

 

اپریل ۱۹۹۰ء کے چاند میں ایک سوالنامہ شائع ہوا ہے ’’جنگلی کتب خانہ دھر پکڑی کے ناشرین نے اس کے عواقب و عوامل پر اس قدر غور کیا کہ قسمتِ عوام پر بے زار و قطار رونا آ گیا۔ سنبھلے تو عقل آئی کہ مفاد عامہ میں ضروری ہے۔ اس کا گیس پیپر شائع کر وا دیا جائے تاکہ چکورانِ چاند المعروف عاریان عقل کو اس کے حل میں چنداں مشکل و مصائب کا سامنا بزور قلم نہ کرنا پڑے۔ تو عاریان عقل و خرد پیارے چکوران چاند! اگر آپ اس پر چہ کو حل کرنا چاہیں تو ہمارے اس گیس پیپر سے جلد اور ضرور فائدہ اٹھائیں۔ دیری کی صورت میں خدشہ ہے کہ تاویلات و تفصیلات گیس بن کر اڑ جائیں گے۔ اور یہ گیس اس گیس سے کہیں زیادہ خطر ناک ہو گی جو پریشر ککر کی سیٹی والی گیس کی طرح پیٹ سے نکلتی ہے مگر کام اس کا بھی ان نازنینوں، حسینوں، مہ جبینوں جیسا ہے۔ جن کا نام تو نور پری ہوتا ہے مگر کام اندھیر نگری سے ہوتے ہیں۔

تو لیجئے صاحبان قاطع شعور، رنڈوے ضرور، لڑنے پر مجبور گیس پیپر حاضر ہے۔ اگر کسی نقطے کی مزید وضاحت کی خواہش من میں ابھرے تو اس گیس پیپر کے ساتھ کسی صفحے پر جنگلی درندے۔ معاف کیجئے جنگلی پیرکی تصویر دی گئی ہے۔ اسے کاٹ کر نیچے حوالۂ جنازۂ شرافت لکھ کر ہمیں روانہ کیجئے۔ ہم آپ کو متعلقہ سوال کی وضاحت بھیج دیں گے اور ہاں یہ ضرور لکھئے کہ آپ لڑکا ہیں یا لڑکی۔ کیونکہ دونوں صنفوں کے لئے الگ الگ میٹریل رکھا گیا ہے۔

سوال نمبر ۱:۔ چنگیز خان یا ہلاکو خان کی رحم دلی کے کوئی سے دو واقعات بیان کریں؟

چنگیز خان اور ہلاکو خان ہماری تاریخ کے وہ محسن ہیں جنہیں آئندہ آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہ کر سکیں گی۔ اس کا اندازہ ان دونوں مدبرین کے مزاروں پر آنے والے روزانہ زائرین کی تعدد دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان دونوں نے غریب گھرانوں میں آنکھ کھولی یہی وجہ ہے کہ ان کے دل میں غریبوں کے لئے بے انتہا ہمدردی موجود تھی۔ انہوں نے رات دن، غریب سدھار تحریک پر کام کیا اور اسی نیک جذبے کے تحت انہوں نے انسانی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے مراکز تخفیف تعداد انسانی قائم کئے تھے۔ جہاں انسانی آبادی کو کم کرنے کا پورا پورا بندوبست تھا۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان میں ایک بات مشترک تھی کہ ان دونوں کو بچوں اور نو جوانوں سے پیار تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بوڑھے بار بار سرکاری ملازمت میں توسیع کراتے رہیں اور نوجوانوں کے لئے ترقی کی راہیں مسدود ہو جائیں۔ اس لئے انہوں نے ڈھلتی عمر کے تمام انسانوں کو آخری آرام گاہوں میں بھیج دیا تاکہ وہ کسی بھی دنیاوی بکھیڑے اور پریشانی میں مبتلا نہ ہوں اور قیامت تک کا باقی عرصہ آرام و سکون سے گزار سکیں۔ چنگیز خان نے اپنی رحمدلی، صلہ فہمی اور غریب پروری کی لاکھوں داستانیں رقم کی ہیں تو ہلاکو خان بھی کسی طور پر پیچھے نہیں رہا، باتیں اتنی ہیں کہ طویل داستانیں بن سکتی ہیں لیکن چونکہ صرف دو واقعات کا حوالہ دینا مقصود ہے اس لیئے بات صرف دو واقعات تک محدود رکھی جائے گی۔

واقعہ نمبر ۱: جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ ان دونوں کو غریبوں سے حد درجہ پیار تھا اس لئے انہوں نے ہر کام غریبوں کی بھلائی کے لئے کیا۔ ٹی وی کے اشتہارات اور ریڈیو پر مسلسل اعلانات سے متاثر ہو کر ہلاکو خان اور چنگیز خان کو ڈر پیدا ہو گیا کہ آبادی میں اضافہ ملک کے غریبوں کی جان لے لے گا، بے روزگاری پھیلے گی، معیشت تباہ ہو گی اور افراطِ زر میں اضافہ ہو گا۔ مہنگائی بڑھے گی تو ایسی صورت میں غریبوں کا کیا بنے گا؟ ہلاکو خان اور چنگیز خان نے صرف انسانی جذبے اور قوتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کی بھر پور کوشش کی کہ انسانی آبادی میں کسی طور اضافہ نہ ہونے پائے جب بھی کوئی نیا بچہ پیدا ہوتا اسی وقت ایک بوڑھے کو ملک عدم بھیج دیا جاتا۔ اس طرح ایک دن میں جتنے نئے بچے پیدا ہوتے اتنے بوڑھوں کو اگلے جہان روانہ کر دیا جاتا۔ آبادی میں توازن برقرار رکھنے کی اس سے اعلیٰ مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان نے اپنے مقابل دشمنوں کے لاکھوں افراد کو شہر خموشاں جا بسایا۔ مگر دیکھا جائے تو یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ در اصل وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان انسانوں کو عام شہروں میں بسا کر نئے آنے والوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ یا مشکل پیدا کی جائے۔ اس طرح چنگیز خان اور ہلاکو خان نے ہر قدم پر اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے کام کئے۔

واقعہ نمبر ۲: ہلاکو خان اور چنگیز خان علاج بالمثل پر مکمل یقین رکھتے تھے ان کا خیال تھا کہ بعض ادویات جن کے تجربات چوہوں اور دوسرے جانوروں پر کئے جاتے ہیں۔ اکثر اوقات انسانوں کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوتی ہیں اس لئے انہوں نے عوام میں اعلان کرایا کہ ادویات کی جانچ پڑتال کے لئے انسانوں پر ہی تجربات کئے جائیں گے۔ جب ہلاکو خان اور چنگیز خان نے انسانی رضا کاروں کی اپیل کی تو اپنے اَن داتاؤں اور عظیم المرتبت بادشاہوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں انسانوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ جن پر ہلاکو خان اور چنگیز خان کے سائنس دانوں نے اپنے تجربات کئے۔ انسانی خدمت کی یہ اعلیٰ ترین مثال ہے جو تاریخ میں کسی اور جگہ نہیں ملتی۔

ہلاکو اور چنگیز خان کے سائنس دانوں نے طبی شعبے میں حیرت انگیز تجربات کئے اور دلخراش ایجادات کیں۔ آج جو بھی طبی فارماکوپیا اور اناٹومی پر کتابیں نظر آتی ہیں ان سب کا ماخذ ہلاکو خان اور چنگیز خان ہے۔ ان کے سائنس دانوں نے انسانی جسموں پر ایسے ایسے تجربات کئے کہ سائنس ابھی تک محوِ حیرت ہے۔ انہوں نے تیز دھار آلوں سے آنکھیں نکال کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ انسانی آنکھ کی ساخت اور عمل کیا ہے۔ یہ کہ ایک آنکھ جسم سے الگ ہو کر کتنی دیر زندہ رہ سکتی ہے۔ انہوں نے ہزاروں افراد کے اعضاء کاٹ کر دیکھا کہ انسان ان کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انسانی خدمت کی اس سے بڑھ کر مثالیں قائم ہیں۔ مثلاً زندہ انسان کا دل نکال کر اس کا مشاہدہ کرنا اور بائی پاس آپریشن کے لئے تجربات کرنا، پیٹ سے انتڑیاں اور معدہ نکال کر افعال اور امراض کا تجزیہ کرنا، کان، ناک، ہونٹ علیحدہ کر کے ان کے افعال و کردار پر کام کرنا، شہ رگ کاٹ کر دوران خون اور فشارِ خون کا مطالعہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ہلاکو خان اور چنگیز خان نے طب کو اتنی ترقی دی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ دوسری طرف سائنس دانوں نے آنکھ اور ناک کاٹ کاٹ کر اتنے تجربات کئے کہ راڈار اور لا سلکی نظام وجود میں آ گیا۔ پھر قربان جائیے ان لاکھوں جان نثارانِ لیڈران پر جنہوں نے صرف ایک اشارے، ایک آواز، ایک اپیل پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ ہلاکو خان اور چنگیز خان کے دور میں مذہبی ترقی عروج پر تھی۔ لوگوں کا راسخ عقیدہ تھا کہ دنیا عارضی اور اس کی چمک چند روزہ ہے۔ اس لئے اگر ان کی جان سے کسی دوسرے کی جان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو کیوں نہ اس مستقبل کی جان پر آج کی جان، جان آفریں کے سپرد کر دی جائے۔ ہلاکو خان اور چنگیز خان کی دیگر رحمدلی کی مثالوں میں اعلیٰ جمالیاتی ذوق بھی شامل ہے۔ یہ دونوں جہاں جہاں گئے۔ انہوں نے جمالیاتی ذوق کی عمدہ مثالیں پیش کیں۔ جہاں انہیں کوئی شہر بے ڈھنگا یا بغیر کسی نقشے کے تعمیر شدہ دکھائی دیا۔ انہوں نے فوراً گرا دینے کا حکم دیا۔ انہوں نے سرکاری خرچ پر ہزاروں شہروں کے مکانات گرا دیئے تاکہ کسی انسان کو ان کی غلط تعمیر سے نقصان نہ پہنچے۔ انہوں نے لاکھوں کتابوں کو محض غلط جلد بندی اور ناقص پرنٹنگ کی وجہ سے سمندر میں بہا دیا یا احتراماً جلا دیا تا کہ ان کے اوراق بکھر کر بے ادبی کا موجب نہ بنیں۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان میں کتابوں سے خاص انسیت اور عقیدت پائی جاتی تھی وہ چاہتے تھے کہ کتابیں عمدہ کاغذ پر نفیس کتابت عمدہ طباعت اور بہترین جلد بندی کا شاہکار ہوں۔ ان میں پروف کی غلطی نہ ہو اسی وجہ سے انہوں نے اس معیار پر پورا نہ اترنے والی لاکھوں کتابوں کو شاہی خرچہ پہ جلا دیا۔

جس طرح ہر دور میں نیک کام کے وارث آتے رہتے ہیں اسی طرح چنگیز خان اور ہلاکو خان نے خدمت خلق اور عوامی بہبود کی جو شمع روشن کی تھی اس کو تاباں رکھنے کے لئے بیسویں صدی میں ایک اور مذہبی مبلغ پیدا ہوا جو نہ صرف ہلاکو خان اور چنگیز خان کا حقیقی وارث ثابت ہوا بلکہ اس نے ان سے بھی دو قدم آگے نیک کام کئے اس نے جرمنی میں علاج بالمثل کو ترقی دینے کے لئے گرانقدر تجربات کئے۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے اس حقیقی وارث کا نام ہٹلر تھا۔ اس کا دل انسانی جذبے انسانی احترام اور انسانی خدمت سے اس قدر معمور تھا کہ کسی پل چین سے نہ بیٹھ سکتا تھا۔ کسی انسان کو ذرا سی تکلیف پہنچتے دیکھتا تو پہروں روتا رہتا جب اس نے دیکھا کہ کچھ ہمسایہ ملکوں میں انسانی اور اخلاقی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے تو وہ ان غاصب حکمرانوں کو سبق سکھانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ ہٹلر عوام میں اس قدر مقبول تھا کہ اس کی ایک آواز پر کروڑوں انسان لبیک کہتے ہوئے قربان ہونے نکل کھڑے ہوئے۔ ہٹلر نے اپنے سائنس دانوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ طب میں ترقی کے نئے نئے دروازے وا کریں۔ اس کی اس خواہش پر عمل کرتے ہوئے سائنس دانوں نے ایسی گیس ایجاد کی جو آپریشن کے وقت مریض کو بے ہوش کرنے کے کام آتی ہے تصور کیجئے اگر یہ گیس ایجاد نہ ہوتی تو ہسپتالوں میں کروڑوں انسان درد کی شدت سے آپریشن ٹیبل پر ہی دم توڑ دیتے۔ ہٹلر چاہتا تھا کہ اس گیس کو ہسپتالوں میں استعمال سے پہلے اس کے کامیاب تجربات کئے جائیں۔ اس نے اخبارات میں یہ اشتہار دیا کہ ایک گیس پر تجربہ کے لئے چند انسانوں کی ضرورت ہے ہٹلر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف اس کے ہزاروں ہم وطن بلکہ لاکھوں یہودیوں نے گیس کے تجربہ کے لئے اپنے نام رضا کارانہ طور پر پیش کئے۔ اتنی بڑی تعداد پر الگ الگ تجربات کرنا مشکل تھا۔ اس لئے ہٹلر کے سائنس دانوں نے اجتماعی تجربات کیے۔ اس کے لئے وہ ہزاروں انسانوں کو کمروں میں بند کر کے ان پر گیس چھوڑتے اور رد عمل نوٹ کرتے۔ اگرچہ اس عمل میں ہزاروں یہودی رضا کار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن گیس کا تجربہ کامیاب رہا۔ ہٹلر نے ہومیوپیتھی کو اس قدر فروغ دیا کہ اب جرمنی کو ہی ہومیوپیتھی کا اصل وطن قرار دیا جا رہا ہے۔ ہومیوپیتھی کی عالمگیر افادیت کے پیش نظر اب اس طریقۂ علاج کے لئے پاکستان میں بھی تجربات کیے جا رہے ہیں۔ تاہم ابھی صرف دو شہروں یعنی کراچی اور حیدر آباد تک محدود ہے جبکہ عوام کی خواہش ہے کہ اس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا جائے۔ حیدر آباد اور کراچی میں ابھی کام ابتدائی مرحلے میں ہے۔ جس میں وقتی ضروریات کے پیش نظر اضافہ کر دیا جائے گا۔ ان دونوں شہروں میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کی عالمگیر تعلیمات کی روشنی میں یہ تجربات کیے جا رہے ہیں کہ انسانی جسم پر کلاشنکوف کی گولی کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ اگر ڈرل مشین سے کھو پڑی میں سوراخ کر دیا جائے تو انسانی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کی صلاحیت میں کیونکر اضافہ ہوتا ہے۔ پنڈلی کی ہڈی، بازوؤں کی ہڈی میں سوراخ کر دیا جائے تو ہڈی کے بڑھنے کی رفتار کیا ہوتی ہے۔ اگر کسی کی ٹانگیں یا بازو توڑ دیا جائے تو اسے دوبارہ جڑنے میں کتنا عرصہ لگتا ہے۔ لاش کو بوری میں بند کر کے کسی گٹر، کوڑے دان یا ویران جگہ پر پھینکا جائے تو ماحولیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کراچی اور حیدر آباد میں ان رضا کاروں کا اردو نام ’’معصوم‘‘ ہے۔ یہاں تجربات کے لئے ہزاروں نوجوانوں بالخصوص یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ اس جذبہ ملی اور انسانی خدمت کے پیش نظر اب لاہور کے نوجوانوں میں بھی ہلچل ہو رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے یونیورسٹی میں تجرباتی سامان (کلاشنکوف وغیرہ) اکٹھا کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ دیگر کالج کے طلباء بھی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے طبی شعبہ میں انقلاب لانے کے لئے لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔

سوال نمبر ۲: سلطان راہی اور مصطفی قریشی نے ملک کے نوجوانوں میں پنجابی فلموں کے ذریعے جو جذبہ حب الوطنی پیدا کیا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں؟

ہمارے ملک کے عظیم راہنماؤں جناب غلام مصطفے ٰ قریشی اور جناب سلطان راہی صاحبان نے نوجوانوں میں جذبۂ حب الوطنی بیدار کرنے کے لئے جو اہم کردار ادا کیا ہے وہ بے نظیر ہے۔ اس بے نظیر (مثال) کے صدقے ملک کا ہر نو جوان ہر وقت ملک پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار پھرتا ہے اور اپنے علاقے کی نگہداشت میں اس قدر سرگرداں ہے کہ کسی بھی بیرونی مداخلت کار کا فوراً پتہ لگا لیتا ہے۔ جونہی ایسا ہوتا ہے وہ آگے بڑھ کر مداخلت کار سے پوچھتا ہے ’’نواں آیاں ایں سوہنیا‘‘۔ اور پھر اس پر ہومیوپیتھی کے مذکورہ بالا تجربات شروع کر دیتا ہے۔

…….

ماخذ: کتاب ’چاند کی گود میں‘

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

ای پب فائل

کنڈل فائل